Khutbat-eNasir Vol 7

Khutbat-eNasir Vol 7

خطباتِ ناصر (جلد 7 ۔1977ء، 1978ء)

Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات ناصر خطبات جمعہ از جنوری ۱۹۷۷ء تا دسمبر ۱۹۷۸ء تاد فرموده سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جلد ہفتم

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خطبات ناصر خطبات جمعہ ، خطبات عیدین، خطبات نکاح ارشاد فرمودہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی ( جلد ہفتم) Khutbaat-e-Nasir - Volume 7 Friday, Eid and Nikah Sermons delivered by Hazrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul-Masih III, may Allah have mercy on him.(Complete Set - Volume 1-10) First edition published between 2005-2009 Present revised edition published in the UK, 2023 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in Turkey at: For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-701-3 (Vol.1-10)

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الکریم عرض حال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ خطبات جمعہ و عیدین اور خطبات نکاح کچھ عرصہ قبل شائع کئے گئے تھے.یہ مجموعہ دس جلدوں پر مشتمل تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن کے دوبارہ شائع کرنے کی درخواست کی گئی اور عرض کیا گیا بعض خطبات ایسے ہیں جو قبل ازیں شامل اشاعت نہیں ہو سکے تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے ایڈیشن کی اجازت فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ جو خطبات پہلے شامل اشاعت نہیں ہو سکے ان کو بھی شائع کر دیا جائے.تعمیل ارشاد میں میٹر ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا چنانچہ ۵۰ خطبات دستیاب ہوئے جو ہے مجموعہ میں شامل نہیں ہیں.اسی طرح بعض خطبات کا خلاصہ شائع ہوا اور اب ان کا مکمل متن مل گیا ہے ان خطبات کو زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ درج کر دیا گیا.نیز آیات قرآنیہ کے حوالہ جات متن میں دیئے گئے اور خطبات کے مآخذ کا خطبہ کے آخر پر حوالہ درج کر دیا گیا ہے اور خطبات میں درج احادیث اور عربی تفاسیر کے حوالہ جات کو کتاب کے آخر پر درج کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.اس کی تیاری میں جن احباب کو شریک کار ہو کر خدمت کا موقع میسر ہوا اور سعادت پائی.اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف اپریل ۲۰۲۳ء

Page 4

Page 5

||| بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ میں لفظ سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ کی ساتویں جلد پیش خدمت ہے.یہ جلد ۱۹۷۷ ءاور ۱۹۷۸ء کے فرمودہ ۶۲ خطبات جمعہ پر مشتمل ہے جن میں ۱۹۷۷ ء کے چار اور ۱۹۷۸ء کے دس غیر مطبوعہ خطبات بھی شامل ہیں.جن مقدس وجودوں کو خدائے قادر مقام خلافت پر فائز کرنے کے لئے منتخب فرماتا ہے انہیں اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے نوازتا ہے.ان کی زبانِ مبارک سے حقائق و معارف اور دقائق و لطائف کے دریا بہا دیتا ہے.اس جلد میں مندرجہ ذیل خطبات جماعتی نقطہ نگاہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں.ا.۷ جنوری ۱۹۷۷ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.معلمین جو وقف جدید میں کام کرتے ہیں ان کا علمی معیار جامعہ احمدیہ سے پاس ہونے والے شاہدین سے بہت کم ہوتا ہے لیکن البی سلسلوں میں صرف علمی معیار ہی کوئی چیز نہیں ہوتا اس سے زیادہ اہم روحانی معیار ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے.دعاؤں کی عادت، خدائے واحد و یگانہ پر کامل توکل، اسلام کا فدائی ہونا ، نوع انسانی کی خدمت کی تڑپ دل میں پیدا ہونا اور اسی طرح کسی انسان کی جسمانی یا اخلاقی یا روحانی تکلیف کا نا قابل برداشت ہو جانا اصل چیز ہے.

Page 6

IV ۲ ۲۸ جنوری ۱۹۷۷ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے طالب علموں کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:.د میں طالب علموں سے خاص طور پر کہتا ہوں کہ چونکہ گرمیوں کی چھٹیاں آ رہی ہیں وہ ضرور وقف عارضی پر جائیں ان کا علم بڑھے گا.جہاں وہ جائیں گے وہاں کے لوگوں کے لئے انہیں نمونہ بنے کی کوشش کرنی پڑے گی اور اگر نوجوان ان کے لئے نمونہ بنیں گے تو ان پر بڑا اثر ہوگا کہ چھوٹی چھوٹی عمروں والے اس قسم کا کام کر رہے ہیں.ویسے ہم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں انہوں نے تو اپنی عمر کی طرف کبھی دیکھا ہی نہیں تھا.انہوں نے اپنی ذمہ داری کی طرف دیکھا تھا اور اتنے شاندار کام کئے اور اتنا اچھا نمونہ بنے ہمارے لئے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے.وہ بھی تو آخر نوجوان ہی تھا جس نے سندھ سے اسلام پر حملہ آوروں کو شکست دی اور وہ بھی تو نو جوان ہی تھا جس نے سپین میں عیسائیوں کے اسلام کو کمزور کرنے کے منصوبوں کو نا کام کر کے اسلام کی رحمتوں کو ان علاقوں میں پہنچایا.وہ کوئی بڑے بزرگ اور عمر رسیدہ لوگ تو نہیں تھے.“ ۳ ۲۸ جنوری ۱۹۷۷ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے زیر تربیت افراد کے متعلق فرمایا:.ایک شخص جو باہر سے آتا ہے احمدی ہوتا ہے اور احمدیت کو قبول کرتا ہے وہ تو صرف تربیت قبول کرنے کا اعلان کرتا ہے.بعض لوگ سمجھا کرتے ہیں کہ احمدیت میں آنے سے پہلے ہی اسے ولی اللہ بن جانا چاہیے تب اس کی بیعت کروانی چاہیے.اگر وہ احمدیت سے باہر ولی اللہ بن سکتا ہے تو پھر اسے احمدی ہونے کی ضرورت ہی کوئی نہیں.بیعت تو صرف اس بات کا اعلان ہے کہ وہ آج احمدیت کی تربیت قبول کرنے کے لئے تیار ہے.“ ۴ ۲۱ اکتوبر ۱۹۷۷ ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے جماعت کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:.اور ایک احمدی دماغ کو میں کہتا ہوں کہ کسی جگہ ٹھہر نا نہیں کیونکہ خدا نے کہا ہے کہ کوئی چیز بھی لے لو، خشخاش کا دانہ ہو یا ایٹم کا ذرہ اس کی تحقیق کسی جگہ ختم نہیں ہوتی.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے جو کچھ حاصل کرنا تھاوہ حاصل کر لیا ہے اور اب باقی کچھ نہیں رہا.“ ۵ ۲۴ مارچ ۱۹۷۸ ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے احمدی بچوں کی تربیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد چوتھی نسل کی پیدائش شروع ہو چکی ہے

Page 7

V اور اس کو سنبھالنا خاص طور پر ضروری ہے.خاص طور پر اس لئے کہ چوتھی نسل کے جو بچے پیدا ہو رہے ہیں جب وہ جوان ہوں گے یا جب ان میں سے بہت سے جوان ہوں گے تو اس وقت جماعت احمد یہ خدا کی راہ میں اپنی جدوجہد میں غلبہ اسلام کے لئے اپنی کوششوں میں ایک ایسے زمانہ میں داخل ہو چکی ہوگی جس کو ہمارے نزدیک غلبہ اسلام کا زمانہ کہا جانا چاہیے.جیسا کہ میں نے اعلان کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے اور ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں جو کہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے جماعت پر 66 نئی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں.“ ۲- ۱۹ جون ۱۹۷۸ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے لنڈن میں منعقد ہونے والی کسر صلیب کا نفرنس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.یہ جو ہماری کانفرنس ہوئی ہے یہ بھی اسی جہاد کا ایک حصہ ہے.یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ۲، ۳، ۴ جون کو ہماری کا نفرنس ہوئی اور ۵ رجون کو ساری دُنیائے عیسائیت نے اسلام کو قبول کر لینا ہے.یہ ایک اور قدم ہے جو آگے بڑھا ہے.امت محمدیہ نے تبلیغی میدان میں خدائی وعدوں کے مطابق جتنے قدم آگے بڑھائے ہیں اُن میں سے ہر قدم پر مخالفین کی زندگی میں ایک موافق اسلام حرکت پیدا ہوتی رہی ہے اور ان کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا جاتا رہا ہے.شروع سے آخر تک ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ آہستہ آہستہ عظیم تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں.یہ ایک بہت لمبا مضمون ہے اس کے لئے ساری صدیوں پر غور کرنا پڑے گا.“ ۷.۲۵ اگست ۱۹۷۸ ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.وئیں سمجھتا ہوں مجھ میں اور جماعت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ یہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.سب کا مقصد ایک ہے، ایک جہت ہے جس کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں.ایک مقصد ہے جس کے لئے ہم دعائیں کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضورا اپنی اپنی بساط کے مطابق قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور اخلاص اور وفا کا نمونہ دکھا رہے ہیں.پس خلیفہ وقت اور جماعت کو علیحدہ کیسے کیا جاسکتا ہے ساری جماعت اپنی جگہ دعائیں کر رہی ہے لیکن یہ جو ایک وجود ہے اس میں خلافت کا ایک بڑا ہی اہم مقام ہے اور یہ نہ خریدا جاسکتا ہے اور نہ چھینا جاسکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے.اسی سفر میں مجھ سے کسی نے پوچھا کہ خلافت سے پہلے

Page 8

VI کبھی آپ نے سوچا کہ خلیفہ بن جائیں گے میں نے کہا:."No sane person can aspire to this." کوئی عقلمند آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ اتی بڑی ذمہ داری ہے کوئی سوچے گا کیسے.“ - ۲۵/اگست ۱۹۷۸ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.” میری خلافت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرما یا لِدَاود انا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ اور یہ بتانے کے لئے کہ میں تیرے ساتھ ہوں خدا تعالی بڑا پیار کرنے والا ہے اس کے پیار کو حاصل کریں.خلافت کے بڑے تھوڑے عرصہ کے بعد...دفتر کے اوپر کمرے میں سنتوں کی نیت جب باندھی تو میرے سامنے خانہ کعبہ آ گیا یعنی کشفی حالت میں نہیں جس میں آنکھیں بند ہو جاتی ہیں بلکہ کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا یعنی نظارہ یہ دکھایا گیا کہ میرا رخ ایک Angle بائیں طرف اور میں نے سیدھا کر لیا منہ، خانہ کعبہ کی طرف اور نظارہ بند ہو گیا.میں نے سوچا کہ یہ تو نہیں خدا کا منشا کہ میں ہر دفعہ آ کر قبلہ ٹھیک کروایا کروں گا.مطلب یہ ہے کہ میں تمہارا منہ جس مقصد کے لئے تمہیں کھڑا کیا ہے اس سے ادھر اُدھر نہیں ہونے دوں گا.پس میرا یہ کام ہے کہ میں تمہیں شریعت سے استہزا نہ کرنے دوں.تمہاری مرضی ہے کہ جماعت مبائعین میں رہو یا چھوڑ کر چلے جاؤ.خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں میں کسی کی مُردہ کیڑے کی حیثیت بھی نہیں سمجھتا.خدا تعالیٰ خود میری راہنمائی کرتا ہے میں نے تم سے دین نہیں سیکھنا تم نے مجھ سے دین سیکھنا ہے.ہمیں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کی خلافت قائم رہے گی اور کوئی خلیفہ بھی ایسا نہیں آئے گا جو تمہیں شریعتِ اسلامیہ سے استہزا کرنے کی اجازت دے.“ -۹- ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے فضل عمر فاؤنڈیشن اور نصرت جہاں سکیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.د فضل عمر فاؤنڈیشن کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور اس کی جو معیاد تھی اس میں مالی قربانی دے کر حصہ لینے کی وہ غالباً تین سال کی تھی.اس کے بعد وہ ختم ہوگئی لیکن جو اموال جمع ہوئے تھے اور وہ جیسا کہ وہ مشروط کئے گئے تھے پہلے دن سے اُن کو کام پر لگایا جائے گا اور

Page 9

VII اُن کے منافع سے وہ کام کئے جائیں گے جن سے یہ منصوبہ چلایا جائے گا.چلتا رہے گا قیامت تک چلے گا.اس کے پانچ سال بعد نصرت جہاں آگے بڑھو کا منصوبہ بن گیا.جو منصو بہ مالی لحاظ سے پچاس ساٹھ لاکھ روپے پاکستانی سے شروع کیا گیا تھا اس کی آمد مغربی افریقہ میں جہاں کے لئے یہ منصوبہ تھا پانچ کروڑ سے اوپر نکل چکی ہے اور مجھے تو قطعا کوئی دلچسپی نہیں اس قسم کے روپے سے.خدا کا مال ہے اس کی راہ میں خرچ ہونا چاہیے.اتنی بڑی رقم کا ایک دھیلا بھی ان ممالک سے باہر نہیں نکالا گیا.یہ مقابلہ ہو گیا قریباً ڈیڑھ دو سو سال پہلے ان ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں عیسائی پادری داخل ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لے کر تمہارے پاس آئے ہیں اور ان کے پیچھے ان ممالک کی فوجیں وہاں داخل ہوئیں اور میں جب ۱۹۷۰ ء میں وہاں گیا ہوں تو میں نے ان سے باتیں کیں اور میں نے اُن سے کہا کہ یہ کہہ کے تو یہ آئے تھے کہ خداوند یسوع مسیح کے پیار کا پیغام تمہارے پاس لے کر آئے ہیں لیکن سارا کچھ ، پنجابی کا محاورہ ہے ”سب کچھ ہونج کے لے گیا سب کچھ لے گئے اور تمہاری کچھ چیز ہی نہیں چھوڑی.یعنی یہ ایک حقیقت ہے اور ان قوموں کو بھی پتا ہے کہ عیسائیت نے اُن کے ساتھ یہ کچھ کیا ہے.“ ۱۰.۱۳ نومبر ۱۹۷۸ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر مکانوں کی کمی کے مسئلہ اور وشغ مَحانَكَ کے سلسلہ میں فرمایا :.یہ مسئلہ تو ہم سے قیامت تک حل ہونے والا نہیں.بہت لمبا عرصہ گزرا جب سے مجھے ہوش آئی ہے اس وقت سے آج تک کسی جلسہ پر بھی میں نے یہ محسوس نہیں کیا کہ ہمیں مکانات کے لحاظ سے کوئی دقت نہیں.جب میں بطور رضا کا ر کام کر رہا تھا یا کوئی چھوٹی سی ذمہ داری مجھے ملی پھر افسر جلسہ سالانہ کے ماتحت کسی خاص حصے کی ذمہ داری ملی پھر میں نے افسر جلسہ سالانہ کا کام کیا پھر ساری جماعت کی ذمہ داری یعنی خلافت میرے سپرد ہوئی کسی جلسہ پر بھی یہ محسوس نہیں کیا کہ مہمانوں کے لئے مکان کافی ہیں.یہ تو وعدہ دیا گیا ہے کہ آپ جتنے مرضی مکان بنالیں وہ ناکافی ہیں.اگر آپ ربوہ شہر کی حدود پھیلاتے پھیلاتے کراچی تک پہنچادیں تب بھی یہ شہر چھوٹا ہی رہے گا کیونکہ وَشِعُ مَحانَكَ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جلسہ سالانہ

Page 10

VIII تمہیں ہر سال ہی وسعت کی طرف توجہ دلاتا رہے گا.“ ۱۱.۸ دسمبر ۱۹۷۸ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اطفال الاحمدیہ کو اُن کے مقام کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:.پس تم جو اطفال ہو تمہارے اوپر تو ہمیں بڑا حسن ظن ہے.تمہارے ساتھ بڑی امیدیں وابستہ ہیں.بالکل چھوٹے بچے اس وقت میرے مخاطب ہیں.میں علی وجہ البصیرت اس یقین پر ہوں کہ جب انشاء اللہ تم بڑے ہوئے اور تمہارے ذمے جماعت احمدیہ کے کام پڑے تو اس وقت جماعت آج کی تعداد سے بیبیوں گنا زیادہ ہوگی اور ان کی ہدایت کے کام.ان کو قرآن کریم کی صحیح تعلیم پیش کرنا، ان کو دینی علوم سکھانا، ان کی تربیت کرنا، ان کے لئے نمونہ بننا وغیرہ بڑی ذمہ وار یاں تم پر عائد ہوں گی.“ ۱۲ ۲۹ / دسمبر ۱۹۷۸ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے جماعت کے عقیدہ کا برملا اعلان کرتے ہوئی فرما یا:.”ہم اس بات کو لعنت سمجھتے ہیں کہ ہماری زبان یہ کہے کہ ہم مسلمان نہیں اور ہم نے خدا کو چھوڑ دیا ہے اور نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نہیں سمجھتے.یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ صداقت اور وہ نور جس سے ہم نے اپنی آنکھوں کا نور لیا اور اس نور سے دنیا کو منور پایا اس نور سے ہم علیحدہ ہو جائیں اور ظلمات میں بھٹکتے رہیں.یہ ہم ایک لحظہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے.مگر انسان کمزور ہے اور خدا تعالیٰ کے سہارے کے بغیر اور اس کے فضل کے بغیر خدا کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل نہیں کیا جاسکتا.الغرض حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ بھی ہر پہلو سے انسانیت کی ضرورت ہیں.ان میں خدا تعالیٰ کی خاطر ہر جہت سے ترقیات کے لئے قربانی اور کامل اطاعت کی تیاری کے سامان ہیں.۱۷/ مارچ ۲۰۰۹ء والسلام سید عبدالحی ناظر اشاعت

Page 11

خطبات ناصر جلد ہفتم نمبر شمار 1 ۴ ۶ ۹ ۱۳ IX فہرست خطبات جمعہ عنوان فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه جماعت کی وسعت کے پیش نظر وقف جدید کو معلمین چاہئیں ے جنوری ۱۹۷۷ء دعا ان افضال کو جذب کرنے کا بڑا ذریعہ ہے ۲۱ جنوری ۱۹۷۷ء 1 ۱۳ تحریک وقف عارضی تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقُوی کی تفسیر ہے ۲۸ / جنوری ۱۹۷۷ء ۲۱ اپنے نفس اور اپنے اہل کو بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچاتے رہو ۱۱ فروری ۱۹۷۷ء ۳۳ خشیت اللہ رکھتے ہوئے اپنی ہر چیز خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رہیں ۱۱ مارچ ۱۹۷۷ ء | ۴۱ اصلاح کے بعد سارے لوگ جہنم سے نکال لئے جائیں گے ۱۸ مارچ ۱۹۷۷ء ۴۷ احباب جماعت کو تین خاص دعاؤں کی تحریک ۲۵ / مارچ ۱۹۷۷ء | ۵۵ جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض ساری دنیا کو اطمینان اور سکھ پہنچانا ہے یکم را پریل ۱۹۷۷ء ۵۹ ۱/۸ پریل ۱۹۷۷ء ۶۹ جماعت احمد یہ پیار و محبت سے دلوں کو جیت رہی ہے ہر احمدی اپنے اندر حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ کا جذبہ رکھتا ہے ۱۵ ۱۷ پریل ۱۹۷۷ ء ۸۱ انسانی ضرورت کے تمام روحانی علوم قرآن میں ہیں ۲۲ را پریل ۱۹۷۷ء ۸۷ ۹۵ تقویٰ کے معنے ہیں شیطانی حملوں سے بچنا اور خدا تعالی کی پناہ ڈھونڈنا ۶ رمئی ۱۹۷۷ء حضرت سیدہ نواب مُبارکہ بیگم صاحبہ رضی الله عنها کا ذکر خیر ۲۷ مئی ۱۹۷۷ ء ۱۰۳ ۱۴ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت مولانا ابوالعطا صاحب کا ذکر خیر ۱۰رجون ۱۹۷۷ء ۱۵ قرآن کریم قیامت تک بنی نوع انسان کیلئے ہدایت ہے یکم جولائی ۱۹۷۷ ء ۱۱۹ نور آسمانی کے بغیر انسانی عقل صحیح راستوں پر نہیں چل سکتی ۱۵ جولائی ۱۹۷۷ء ۱۲۷ ۱۷ قرآن کریم کے اصول ایمانیہ یقین کامل کے درجہ پر پہنچے ہوئے ہیں ۲۹ جولائی ۱۹۷۷ء ۱۳۳

Page 12

خطبات ناصر جلد ہفتم نمبر شمار عنوان ✗ مشتمل ہے ۱۸ جماعت احمدیہ مخلصین کی بڑی بھاری اکثریت پر مشت فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۵ اگست ۱۹۷۷ء | ۱۴۳ ۱۹ رمضان المبارک ذکر الہی اور مستحقین کا خاص خیال رکھنے کا مہینہ ہے ۱۹ اگست ۱۹۷۷ء ۱۵۵ ۲۰ ایمان لانے والوں میں صدیقوں اور شہیدوں کے دو گروہ ہوتے ہیں ۲۶ اگست ۱۹۷۵ ء ۱۶۱ ۲۱ اللہ تعالیٰ نے انسان کی استعدادوں کی کامل نشو ونما کا سامان کیا ہے ۲ ستمبر ۱۹۷۷ء ۲۲ رمضان المبارک کا ہر دن ہی برکتوں اور رحمتوں والا ہے ۲۳ ۲۴ ور ستمبر ۱۹۷۷ء ۱۶۹ ۱۸۱ ۱۸۹ ہر کام کے انجام کا مدار قیومِ عالم کی رحمانیت اور رحیمیت ہے ارستمبر ۱۹۷۷ء رَحْمَةٌ لِلعلمين صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت نے دنیا کی ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے ۲۳ ستمبر ۱۹۷۷ء ۱۹۵ ۲۵ دین اسلام وہ صراط مستقیم ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہے ۳۰ ستمبر ۱۹۷۷ء ۲۰۵ اسلامی تعلیم حسن و احسان سے پر اور حقائق و معارف پر مشتمل ہے ۷۷ اکتوبر ۱۹۷۷ء ۲۱۵ پر انسان کو احکام الہی کی اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۱۴ / اکتوبر ۱۹۷۷ء ۲۲۷ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح اس کی صفات بھی بے مثل و مانند ہیں ۲۱ اکتوبر ۱۹۷۷ء | ۲۴۱ ۲۹ انسانی پیدائش کی طرح الہی سلسلے تدریجا ترقی کرتے ہیں ۲۸ اکتوبر ۱۹۷۷ء ۲۵۵ اللہ تعالیٰ بڑی عظیم - حي وقیوم اور متصرف بالا رادہ ہستی ہے ۴ رنومبر ۱۹۷۷ء اپنے نفس کے حقوق کی حفاظت کرنا ہر فرد کی اولین ذمہ داری ہے ۱۱ نومبر ۱۹۷۷ء ۲۷۹ ۲۶۹ ۲۹۱ ۳۲ خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرے گا ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء ۲۸۳ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارا ہر جلسہ پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ آتا ہے ۹؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اسلامی شریعت میں ہر شعبہ زندگی کے لئے بزرگی اور شرف کے سامان ہیں ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ۳۳ ۲۹۹ ۳۵ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ہر انسان کو خود کوشش کرنی پڑتی ہے ۲۳ دسمبر ۱۹۷۷ء ۳۰۵ ۳۶ ہزاروں روکوں کے باوجود ہمارا جلسہ بہت کامیاب رہا ۳۰ دسمبر ۱۹۷۷ء | ۳۱۱ ۳۷ جماعتی تحریکوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول ہے ۱۳ / جنوری ۱۹۷۸ء | ۳۲۱ ۳۸ قرآن کریم کے ہر حکم کی پیروی ہی اُسوہ رسول ہے / مارچ ۱۹۷۸ء | ۳۲۳

Page 13

خطبات ناصر جلد ہفتم نمبر شمار ۳۹ ۴۰ ۴۱ عنوان XI حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود زندگی بخش ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بطور محسن اعظم فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۱۰ مارچ ۱۹۷۸ء | ۳۲۹ ار مارچ ۱۹۷۸ء ۳۳۳ قرآن کریم کی ہر بھلائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی مل سکتی ہے ۲۴ مارچ ۱۹۷۸ء ۳۴۳ ۴۲ ذکر الہی بڑی مؤثر نیکی اور زیادہ قائل کرنے والی چیز ہے ۳۱ / مارچ ۱۹۷۸ء ۳۵۷ ۴۳ مبلغین کے لئے دعا کی تحریک ۴۴ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ ۴۵ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطالعہ کی تاکید ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۸ء ۳۶۳ ۵ رمئی ۱۹۷۸ء ۱۹ رمئی ۱۹۷۸ء ۳۷۷ ۴۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چودھویں صدی کے مجدد اور مجدد الف آخر بھی ہیں ۲۶ رمئی ۱۹۷۸ ء ۳۷۹ ۳۸۱ ۳۹۱ ۴۷ خدا تعالیٰ سے زندہ اور پختہ تعلق ہی انسان کی حقیقی زندگی ہے ۲ جون ۱۹۷۸ء ۴۸ اپنے حسن و احسان کے ذریعہ دین اسلام کا غلبہ تمام ادیان باطلہ پر مقدر ہے ۹ رجون ۱۹۷۸ء ۳۸۳ ۴۹ پوری دنیا کی اصلاح کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مامور کیا گیا ۱۶ رجون ۱۹۷۸ء ۵۰ اشتراکیت نے دعوی کیا تھا کہ وہ زمین و آسمان سے خدا کا نام مٹا دیں گے لے جولائی ۱۹۷۸ء ۱۳۹۵ ۱ صد سالہ جو بلی فنڈ کے ذریعہ سو زبانوں میں قرآن کریم کی اشاعت ہوگی ۱۴ ؍ جولائی ۱۹۷۸ ء ۳۹۹ ۵۲ اسلام نے مرد اور عورت میں کوئی فرق روا نہیں رکھا ۲۱ جولائی ۱۹۷۸ ء ۴۰۳ ۵۳ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کثرت سے مطالعہ کی تحریک ۴/اگست ۱۹۷۸ء ۴۰۷ ۵۴ خلافت اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ احمق ہوگا جو کہے کہ مجھے یہل جائے ۲۵ اگست ۱۹۷۸ ء ۴۰۹ ۵۵ ہر شخص اپنی نیت، کوشش اور استعداد کے مطابق ثمرہ حاصل کرتا ہے ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء ۴۲۷ ۵۶ مسیح کی صلیبی موت سے نجات‘ لندن میں کامیاب کانفرنس ۱۳ / اکتوبر ۱۹۷۸ء ۴۴۱ ۵۷ تحریک جدید کے نئے سال ۷۹.۱۹۷۸ء کا اعلان ۲۰ اکتوبر ۱۹۷۸ء ۴۵۹ دنیا کے زلزلے مومن کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کر سکتے ۲۷ اکتو بر ۱۹۷۸ء ۴۷۱ ۵۹ افراد جماعت کو جلسہ سالانہ کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی تاکید ۳/نومبر ۱۹۷۸ء ۴۸۳

Page 14

خطبات ناصر جلد ہفتم نمبر شمار عنوان XII فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم ہیں ۱۰ نومبر ۱۹۷۸ء ۴۹۳ ۱ توکل کے معنے یہ ہیں کہ صرف خدا تعالیٰ پر ہی بھروسہ کیا جائے ۱۷ /نومبر ۱۹۷۸ء | ۵۰۳ ۶۲ ہر احمدی ہر وقت خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے خیر کا طالب ہو ۲۴ /نومبر ۱۹۷۸ء | ۵۰۵ ۶۳ قرآن کریم کے بیان فرمودہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی تاکید یکم دسمبر ۱۹۷۸ء ۵۱۳ ۶۴ جلسہ پر آنے والے مہمانوں کو تکالیف سے بچائیں بہترین نمونہ بنیں ۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء ہمارے لئے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کافی ہیں خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو اپنی صفات کا مظہر بننے کے لئے پیدا کیا ہے ۲۲؍ دسمبر ۱۹۷۸ء ۵۳۷ ۶۷ آزادی ضمیر اور آزادی عقیدہ کے متعلق اسلام کی حسین تعلیم ۲۹ / دسمبر ۱۹۷۸ء ۵۴۷ ۵۲۱ ۱۵ / دسمبر ۱۹۷۸ء ۵۳۳

Page 15

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۷۷ء جماعت کی وسعت کے پیش نظر معلمین چاہئیں جو اس کی ضرورت پوری کرسکیں خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ /جنوری ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.وسے وقف جدید کے انیس سال ۱۹۷۶ ء کے آخر میں ختم ہو گئے اور یکم جنوری ۱۹۷۷ ء سے وقف جدید کا بیسواں سال شروع ہوتا ہے.اس سے قبل میں اس کے آغاز کا دعا کے ساتھ اعلان نہیں کر سکا.دراصل ہماری زندگی کا ہر مرحلہ دعا سے شروع ہوتا اور حمد و دعا پر ختم ہوتا ہے اور وہ مرحلہ اپنے دور میں دعاؤں کے ساتھ ہی کامیابی کی راہیں دیکھتا ہے.غرض آج میں وقف جدید کے بیسویں سال کا آغاز کرتا ہوں.جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ کی تقریر میں بھی دوستوں کو اختصار سے بتایا تھا وقف جدید کا قیام میں سمجھتا ہوں اس لئے کیا گیا تھا کہ ایک مسلمان کا جو کم سے کم دینی معیار ہے اس کو قائم رکھا جا سکے.اگر چہ معلمین جو وقف جدید میں کام کرتے ہیں ان کا علمی معیار جامعہ احمدیہ سے پاس ہونے والے شاہدین سے بہت کم ہوتا ہے لیکن الہی سلسلوں میں صرف علمی معیار ہی کوئی چیز نہیں ہوتا اس سے زیادہ اہم روحانی معیار ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے.دعاؤں کی عادت، خدائے واحد و یگانہ پر کامل تو گل ، اسلام کا فدائی ہونا، نوع انسانی کی خدمت کی تڑپ دل میں پیدا

Page 16

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۷۷ء ہونا اور اسی طرح کسی انسان کی جسمانی یا اخلاقی یا روحانی تکلیف کا نا قابل برداشت ہو جانا اصل چیز ہے.اس قسم کا احساس دل میں پیدا ہو جانا زیادہ اہم ہے علمی معیار سے.اس معیار کو ہم تقویٰ کا معیار کہہ سکتے ہیں.اس معیار کے پیدا کرنے کے لئے اور اس کے حصول کے لئے اور اس کے قیام کے لئے اور اس میں آگے بڑھنے کے لئے کسی ” جامعہ“ کی ضرورت نہیں ہے ہر مسلمان کو ہی اس میدان میں ہمیشہ کوشاں رہنا چاہیے کہ وہ آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے لیکن جن لوگوں پر دینی اور روحانی ذمہ داریاں زائد آپڑتی ہیں ان کو اس طرف زیادہ توجہ دینی ضروری ہو جاتی ہے.اس لئے ہمیں عملاً یہ نظر آتا ہے کہ جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل بعض شاہد ایسے ہیں کہ حصول علم کے بعد یعنی دینی علمی معیار کافی بلند ہو جانے کے بعد بھی وہ دوسرے کاموں میں لگ جاتے ہیں.یہاں بھی اور انڈونیشیا کے بھی بعض نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے اس معیار کو قائم کیا اور پھر وہ دوسرے کا موں میں لگ گئے جو شاہد دین کی خدمت پر ہی لگے رہے ان کا جب ہم موازنہ کرتے ہیں تو جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل وہ بھی ہیں کہ ان کی زندگی ہمہ وقت اسلام کی خدمت میں مصروف رہنے والی زندگی ہے اور قوم کو اُن پر فخر کرنا چاہیے کہ وہ بہتوں کی بھلائی کا سبب اور ذریعہ بنتے ہیں اور خدا کی نگاہ میں ان کی کوشش مقبول ہوتی ہے سعی مشکور ہوتی ہے کیونکہ ان کی کوشش کا نتیجہ ان کی کوشش سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو بھی اور دنیا کو بھی ملتا ہے.یہ ہماری نگاہ دیکھتی ہے اور کئی ایسے ہیں جو کوشش تو بظاہر دین کی راہ میں کر رہے ہیں لیکن بے شمر کوشش جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور ہیں وہ جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل.اس کے مقابلے میں جس نے شاید ایک سال دینی تعلیم لی وقف جدید کے ماتحت اور جسے ہماری اصطلاح میں معلم کہا جاتا ہے ان میں ایسے ہیں جو ان شاہدین سے بہتر کام کر رہے ہیں جنہوں نے جامعہ احمدیہ سے تعلیم حاصل کی اور انہوں نے ۶، ۷ سال لگائے اور ان پر بڑی محنت کی گئی ، خود انہوں نے بھی محنت کی لیکن ان کی کوشش بے نتیجہ ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ان کی سعی مشکور سعی نہیں ہوتی.ہماری جماعت میں صرف ان دو گروہوں کے درمیان ہی موازنہ اور روزمرہ کا ایسا مشاہدہ ہی نہیں جو کیا جا سکتا ہے بلکہ وہ لوگ جنہوں نے نہ جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی نہ

Page 17

خطبات ناصر جلد ہفتہ خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۷۷ء انہوں نے وقف جدید میں کم و بیش ایک سال تک تعلیم حاصل کی بلکہ اپنے طور پر ایک طرف انہوں نے تقویٰ میں آگے بڑھنے کی کوشش کی اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا کثرت سے مطالعہ کیا اور تدریس بھی کی اور انہوں نے لوگوں کو بھی کتب کے معانی بتانے کی کوشش کی وہ بعض دفعہ جامعہ کے فارغ التحصیل اچھے اچھے طلباء سے بھی آگے نکل جاتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں قبولیت کے حصول کے متعلق کہیں بھی ہمیں یہ شرط نظر نہیں آتی کہ جو جامعہ احمدیہ سے نکلے گا خدا تعالیٰ صرف اسے ہی قبول کرے گا اور نیکی کی دیگر کوششیں خدا کے حضور قبول نہیں کی جائیں گی.یہ کہیں نہیں لکھا ہوا اور نہ عقل اسے باور کرتی ہے.اصل چیز یہ ہے کہ اسلام کے مطابق زندگی گزاری جائے اور خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور جس وقت ہم خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے عرفان کا ذکر کرتے ہیں تو سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ روحانی ترقیات کا گویا ایک نہ ختم ہونے والا میدان اُن کے سامنے کھل گیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی ذات کو اور نہ صفات کو ہم محدود ہستیاں اپنے احاطہ میں لاسکتی ہیں.خدا تعالیٰ کی صفات کے غیر محدود جلوے انسان کی محدود کوشش بہر حال اپنے احاطہ میں نہیں لاسکی.اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے کا موقع دیا ہے اور جیسا کہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے اور حدیث میں بڑی وضاحت سے آیا ہے کہ جتنا جتنا کوئی خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو زیادہ پالیتا ہے اور ان کو ڈھونڈ لیتا ہے اور پہلے کی نسبت اس کے اور زیادہ قریب ہو جاتا ہے اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ ایک بہت ہی بہتر اور پہلے سے اچھے پیار کا جلوہ اس کے اوپر ظاہر کرتا ہے.یہ ایک ایسی کیفیت ہے جسے الفاظ بیان نہیں کر سکتے لیکن جو لوگ مشاہدہ کرتے ہیں اور اس کو محسوس کرتے ہیں اور جن کے تجربے میں یہ باتیں آتی ہیں وہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کے پیار اور رضا کے حصول کے لئے انسان جو کوشش کرتا ہے وہ کسی ایک مقام پر کھڑی نہیں ہو جاتی بلکہ ایک خاص مقام پر پہنچنے کے بعد ایک ارفع مقام اُسے نظر آتا ہے صرف اس دنیا میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد جنت یعنی اُخروی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر دن اور چونکہ وہاں کے دنوں کا تو ہم تصور نہیں کر سکتے کہ کیسے ہیں اس لئے کہنا

Page 18

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۷۷ء چاہیے ) ہر گھڑی ایک نیا دروازہ کھلتا ہے ترقیات کا جنتیوں کے لئے اور وہ خدا تعالیٰ کے حسن کو اور زیادہ حسین شکل میں دیکھتے ہیں.آنے والے دن پچھلے دن کے مقابلہ میں زیادہ حسین ہوتے ہیں اور ہم اپنے محاورہ میں کہہ سکتے ہیں کہ جنت میں اُن کا مقام کچھ اور بلند ہو جاتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کی رضا کو کچھ اور زیادہ حاصل کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حسن کے جلوے کچھ اور ہی شان کے ساتھ اُن کے او پر جلوہ گر ہوتے ہیں.پس یہ جو تقویٰ والا حصہ ہے یعنی روحانی ترقیات کا یہ ظاہری دینی معیار کے مقابلہ میں بہت زیادہ اہم ہے لیکن جو دینی معیار ہے اس کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.اس کے لئے بھی قوم کو ہمیشہ چوکس اور بیدار رہ کر کوشش کرنی پڑتی ہے کہ وہ صراط مستقیم پالینے کے بعد بے راہ رو نہ ہو جا ئیں.اسلام کی گزشتہ چودہ سو سال کی تاریخ میں یہ نظر آتا ہے کہ جگہ جگہ اور ملک ملک مسلمانوں میں بدعات پیدا ہو گئیں اور پھر اُن کو دُور کرنے کے لئے خدا نے اپنے نیک بندوں کو کھڑا کیا اور وہ کامیاب ہوئے.پھر کچھ عرصہ گزرا تو کسی اور طرف سے شیطان نے حملہ کیا اور نئی قسم کی بدعات پیدا ہو گئیں.تاریخ کا یہ حصہ ہمیں بتاتا ہے کہ امت محمدیہ کا زندہ رہنے والا حصہ (ایک حصہ ہمیشہ زندہ رہا ہے ) اور وہ وہ حصہ ہے جو ہمیشہ چوکس اور بیدار رہا ہے یعنی چودہ سو سال میں جہاں بدعات پیدا ہوئیں وہاں لاکھوں کروڑوں بزرگ بندے خدا سے پیار کرنے والے اور اس کے پیار کو حاصل کرنے والے بھی تو پیدا ہوئے.پس دریا کا ایک وہ دھارا ہے جو اپنے راستے سے ہٹا نہیں اور اپنے بہاؤ پر جارہا ہے اور وہ جس کی نہ گہرائی کا پتہ ہے اور نہ اس کی وسعتوں کا ہمیں علم حاصل ہوسکتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی ذات وصفات جسے تمثیلی زبان میں سمندر کہہ سکتے ہیں.وہ اس کے قریب ہو رہے ہیں اور صراط مستقیم پر بحیثیت امت مسلمہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں.غرض انہوں نے صراط مستقیم کو نہیں چھوڑا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے بدعات بھی پیدا ہوئیں اور عجیب و غریب بدعات پیدا ہوئیں.جس جگہ اسلام پھیلا وہاں کے پرانے مکینوں کی کچھ

Page 19

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۷۷ء بدعات بھی آہستہ آہستہ واپس اُن کے اندر لوٹ آئیں اس لئے مثلاً افریقہ کی تاریخ ہے جسے دنیا نے تو یہ کہا کہ یہ ظلمات میں گھرا ہوا خطہ ارض ہے مگر وہاں مسلمانوں کے اندر کچھ اس قسم کے نور نظر آتے ہیں کہ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ وہاں بھی مجددین اور اولیاء اللہ پیدا ہوئے مثلاً حضرت عثمان فودیؒ جن کا میں نے پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے قریباً سو سال پہلے ان کا زمانہ ہے.انہوں نے اعلان ہی یہ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ اپنے علاقے سے اُن بدعات کو دور کر دیں جنہوں نے اسلام کے چہرے کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے.اُن کو تکالیف بھی برداشت کرنی پڑیں.اُن کو لڑائیاں بھی لڑنی پڑیں.اُن کو ہلاک کرنے کے منصوبے بھی بنائے گئے لیکن جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص علاقے کا مجدد بنایا تھا اس میں وہ کامیاب ہوئے اور بدعات کو دُور کر دیا لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد پھر ان کے ماننے والوں میں بھی دوسری قسم کی بدعات پیدا ہوگئیں.ایک وقت آئے گا انشاء اللہ جب لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں علم رکھنے والے بھی اور صراط مستقیم پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بھی جماعت احمدیہ میں پیدا ہوں گے اور جوں جوں جماعت میں وسعت پیدا ہوتی جائے گی وہ کام کو سنبھالتے چلے جائیں گے لیکن اس وقت ہمارے شاہدین بھی ضرورت سے کم ہیں اور وقف جدید کے معلمین بھی تعداد سے کم ہیں اس لئے گزشتہ سال میں نے رضا کار معلمین کی ایک تحریک کی تھی.میں اس کام کے لئے اعزازی معلمین کی اصطلاح پسند نہیں کرتا ( ممکن ہے میری زبان سے غلطی سے نکل گیا ہو بہر حال مجھے یاد نہیں رہا) میری مراد رضا کار معلم ہیں یعنی وہ جو وقف جدید کے معلم ہیں جنہیں تھوڑا بہت معاوضہ بھی ملتا ہے اور وہ وقف جدید کے انتظام کے ماتحت کام کر رہے ہیں اُن کے علاوہ رضا کار معلمین کی ضرورت ہے.وقف جدید کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ان کی تحریک کی گئی تھی لیکن جماعت کو اس کام کی اہمیت بتانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ وہ منصوبہ یہ ہے کہ ہر گاؤں اور قصبہ اور آبادی کے کچھ لوگ یہاں مرکز میں آکر ٹھہریں اور چند ماہ میں اُن کو کچھ بنیادی باتیں بتائی جائیں اور چونکہ سارا دن انہوں نے یہی کام کرنا ہے اس لئے کچھ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا سہولت کے ساتھ مطالعہ کریں اور پھر وہ اپنے اپنے

Page 20

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۷۷ء گاؤں یا قصبہ یا آبادی میں جا کر دوستوں کے کم سے کم دینی معیار کو قائم کرنے کی کوشش کریں.جیسا کہ میں نے کہا ہے معلم بھی اور شاہد بھی.ان میں بہت اچھے بھی ہیں ، اچھے بھی ہیں اور بالکل نچلے درجے کے بھی ہیں.بعض کو فارغ بھی کرنا پڑتا ہے لیکن اُن کی بڑی مانگ ہے جس کا مطلب ہے کہ جماعت میں ضرورت کا احساس ہے کہ انہیں معلم چاہیے.جماعت میں ضرورت کا احساس موجود ہے کہ انہیں شاہد مبلغ چاہیے لیکن ضرورت کے اس احساس کے مطابق جتنا احساس ذمہ داری ہونا چاہیے وہ جماعت میں نہیں ہے.نہ شاہد کے لئے جامعہ احمدیہ میں اُتنے میٹرک پاس نوجوان آتے ہیں کہ وہ ہماری ضرورت پوری کر دیں اور نہ وقف جدید کو اتنے معلم ملتے ہیں کہ وقف جدید جو کام کر رہی ہے یعنی یہ کہ جو کم سے کم معیار ہے قوم کو اس سے نیچے نہ گرنے دیا جائے اس ضرورت کو پورا کر دیں اور جو انہی کا کام ایک اور رنگ میں کرنے والے رضا کار معلم ہیں اُن کے بارہ میں بھی ذمہ داری کا احساس نہیں.میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت اس طرف توجہ کرے تو ایک وقت میں سینکڑوں رضا کار معلم یہاں آجائیں.اس طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہیے ہر گاؤں اور ہر آبادی سے آنے چاہئیں.شہروں کو نسبتا زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے عام دیہات جو ہیں اُن میں سے ایک یا دو آدمی آجائیں.ایک وقت میں ایک آجائے پھر دو ہو جائیں پھر تین ہو جائیں.پانچ دس ایسے ہوں جن کو دینِ اسلام کے بنیادی اعتقادات اور ابتدائی اصول از بر یاد ہوں.کچھ احادیث ان کو یاد ہوں.قرآن کریم کے کچھ حصے ان کو یاد ہوں جو اخلاقی مسائل ہیں وہ اُن کو یاد ہوں اور ایک دو سال کے بعد پھر وہ دو تین مہینے کے لئے آجا ئیں تا کہ اُن کا علمی معیار اور بلند ہو جائے.جماعت کو جہاں ضرورت کا احساس ہے وہاں جماعت کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ اس کے مطابق اپنے اندر ذمہ داری کا احساس بھی پیدا کریں تا کہ ان کی ضرورت پوری ہو جائے.اگر ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا نہ ہو تو ضرورت کیسے پوری ہو جائے گی.مرکز کی طرف سے آٹے کے مجسمے بنا کر اُن کے پاس نہیں بھجوائے جاسکتے اور نہ پتھر کے بت اس کام کے لئے تراشے جاسکتے ہیں.بتوں کو اور غیر اللہ کے جو دوسرے مظاہر ہیں کسی رنگ میں لکڑی کے یا بتوں کے یا تو ہمات کے ، ان کو توڑنے کے لئے اور اُن کو جلانے کے لئے اسلام آیا اور اب

Page 21

خطبات ناصر جلد ہفتہ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۷۷ء اس زمانے میں اسلام کے اندر احمدیت قائم ہوئی ہے.اسلام کی تعلیم کو پھیلانے کے لئے انسان نے جو کام کرنا ہے وہ تو انسان ہی نے کرنا ہے.جو کام ایک جذ بہ رکھنے والے اور ایثار پیشہ اور خدا اور رسول سے محبت رکھنے والے دل نے کرنا ہے وہ تو ایسے دل نے ہی کام کرنا ہے.جس کام کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے، واقفیت کی ضرورت ہے وہ کام تعلیم اور واقفیت کے علاوہ ہو ہی نہیں سکتا اس کے لئے تو علم پھیلا نا پڑے گا.اعتقادات بتانے پڑیں گے.بعض ایسی باتیں ہیں جن کا حافظہ کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اور ان میں سے ایک نماز جنازہ ہے.زندگی اور موت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اس لئے ہر جگہ ایسے آدمی ہونے چاہئیں جو نماز جنازہ پڑھاسکیں.ہماری جماعت میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس قسم کی تعلیم کافی ہے لیکن جماعت سے باہر دنیا میں مسلمان پھیلے ہوئے ہیں.بعض دفعہ یہ اطلاع بھی آجاتی ہے کہ ایک آبادی کا جو معلم یا ملا ہے اُسے نماز جنازہ کے الفاظ کا بھی پتہ نہیں.یا نکاح کے لئے آیات ہیں کیونکہ ایک دوست نے بتایا کہ ایک جگہ ایک مولوی صاحب تھے ان کو نماز جنازہ میں جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ آتی تھی تو انہوں نے وہی دعا جو جنازہ میں پڑھی جاتی ہے پڑھ کر اعلان نکاح کر دیا.غرض جو نکاح کے وقت پڑھنا چاہیے اس کا بھی پتہ نہیں تھا.اس لئے اگر ہم نے جگ ہنسائی نہیں کروانی جس طرح اس وقت بہتوں کے چہرے پر ہنسی آگئی ہے کیونکہ بات ہی ایسی ہے، تو ہمیں یہ بات سوچنی پڑے گی اور اس قسم کی بنیادی باتیں یاد کرنی پڑیں گی.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ سود و سو سال کے بعد ہمارے متعلق بھی اس قسم کی باتیں مشہور ہونے لگ جائیں.بعض چیزیں ہر وقت ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہیں اُن سے متعلقہ مسائل یاد ہونے چاہئیں.مثلاً نکاح ہے، ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے صحت اور عمر دے تو اس کو یہ تجربہ بھی کرنا پڑتا ہے اور ایسے لوگ چاہئیں جو نکاح کے اعلان کے وقت اور اس جوڑ کے وقت جو بڑا اہم بھی ہے اور بڑا نازک بھی ہے دعاؤں کے ساتھ یہ اعلان کریں کہ یہ جوڑ قائم ہو گیا ہے لیکن اگر اعلان کرنے والے اس کی اہمیت ہی نہ سمجھیں اور اس مسئلہ ہی کو نہ جانیں تو پھر بہت سی برکات اور دعاؤں سے ایسے لوگ محروم ہو جا ئیں گے.یہ تو ہم پسند نہیں کرتے.

Page 22

خطبات ناصر جلد ہفتم Δ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۷۷ء وقف جدید کا سارا کام چلانے کے لئے پیسے کی بھی ضرورت ہے، تاہم پیسے کی اہمیت سب سے آخر میں ہے.اصل تو وہ دل ہے جس کے اندر خدا تعالیٰ کا پیار اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت شعلہ زن ہے.کئی دفعہ غیر پوچھتے ہیں کہ آپ کو اتنے پیسے کہاں سے آجاتے ہیں؟ میں اُن کو جواب دیا کرتا ہوں کہ ہماری دولت سکہ اور روپیہ وغیرہ نہیں ہے ہماری دولت تو وہ دل ہیں ، وہ مخلص دل جو منور سینوں کے اندر دھڑک رہے ہیں.پھر کسی اور جگہ ہمیں جانے کی ضرورت نہیں خدا کے در پر جانے کی ضرورت ہے.ہمارے لئے ایک ہی در ہے.خدا کرے کہ یہ منور سینے ہمیشہ جماعت کے اندر رہیں اور ان میں دھڑ کنے والے دل ہمیشہ ہی مخلص اور ایثار پیشہ دل بنے رہیں.غرض وقف جدید کے بجٹ میں بڑی تھوڑی رقم ہوتی ہے.جماعت یہ کوشش کرے کہ ان کی ضرورت پوری ہوتا کہ جو جماعت کی ضرورت ہے وہ پوری ہوا اور ضرورت کے احساس اور ذمہ داریوں کے فقدان کے نتیجہ میں جو خرابی پیدا ہو سکتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے اور محفوظ ر کھے.اس سلسلہ میں صرف وقف جدید نہیں بلکہ ساری جماعت کا یہ کام ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے رسائل شائع کرے.اول تو یہ ضروری ہے کہ ہمارے ہر بچے کو پڑھنا آتا ہو.اُردو کی عبارت پڑھنی آتی ہو.ویسے ہمارے بہت سے ایسے احمدی دوست ہیں جو اپنے دستخط بھی نہیں کر سکتے لیکن ہیں وہ عالم.اس لئے دوسری چیز ” پڑھنا آتا ہو کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ ”سننا بھی آتا ہو" یعنی دین کی باتیں سننے کا شوق پیدا ہو اور سنانے والے بھی موجود ہوں.مثلاً جو دوست ہماری مساجد میں خطبہ جمعہ سنتے رہتے ہیں ان کا علم دوسروں کی نسبت بہت بڑھ جاتا ہے کیونکہ مختلف مسائل کے متعلق باتیں ہوتی رہتی ہیں.پس بنیادی باتوں کے متعلق جو رسائل ہیں وہ بچوں کے ہاتھوں میں دیئے جائیں.ایسے رسائل کا کثرت سے شائع ہونا بھی بڑا ضروری ہے.ایک تو بنیادی علمی باتیں ہیں یا آئندہ کی خبریں ہیں یا روحانیت کے بلند مقام تک پہنچانے کے لئے جو کوشش ہے وہ تو اپنی جگہ بہت ضروری ہے مگر وہ تو انتہا ہے اور انتہا بہر حال بلند بھی ہے اور اہم بھی ہے ابتدا سے.لیکن اگر ابتدا ہی نہیں تو انتہا کا تصور ہی نہیں ہوسکتا.ابتدا سے دینی تعلیم کا خیال رکھنا

Page 23

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۷۷ء چاہیے یعنی جب بچہ سننے کے قابل ہوتا ہے اُس وقت سے دینی تعلیم سکھانا شروع کرنا چاہیے.میں نے اکثر دیکھا ہے اور بڑا نمایاں فرق محسوس کیا ہے مثلاً ایک خاندان ہے اُس کا بچہ جب سننے کے قابل ہوتا ہے یعنی بات سن کر سمجھ لیتا ہے تو والدین اُس کے کان میں نیکی کی باتیں ڈالتے ہیں.چنانچہ جن بچوں کے کانوں میں بچپن میں دین کی باتوں کی آواز پڑتی ہے وہ بڑے ہوکر اُن بچوں کے مقابلہ میں ہزار گنا ، لاکھ گنا بلکہ کروڑ گنا اچھے ہوتے ہیں جن کے ماں باپ کہتے ہیں بچہ آپ ہی پڑھ جائے گا آپ ہی سیکھ جائے گا اس لئے وہ اپنے بچوں کے کانوں میں کوئی نیکی کی بات نہیں ڈالتے.پس دوست اپنے بچوں میں سنے کی بھی خواہش پیدا کریں اور ان کو سنانے اور پڑھانے کی خود اپنے اندر بھی عادت پیدا کریں کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جو بیان سکھایا تھا وہ بنیادی علم ہے جس میں سارے علوم آ جاتے ہیں وہ اس زمانے میں ہر پہلو سے عروج کو پہنچ گیا ہے اس لئے اس زمانہ میں ترقی اسی آدمی کے مقدر میں ہے جو علم کی طرف توجہ کرتا ہے.میں اس وقت علمهُ البيان ( الرحمن : (۵) کی تفسیر میں تو نہیں جاؤں گا.یہ اپنی ذات میں ایک بڑا لمبا مضمون ہے.اس وقت میں بتا یہ رہا ہوں کہ وقف جدید نے جن چھوٹے چھوٹے دیہات میں معلم بھیجے ہیں وہاں جو دوسری ضروریات ہیں وہ بھی پوری ہونی چاہئیں.اُن کے پاس لٹریچر ہونا چاہیے.لوگوں کے اندر سننے کی اور خود اُن کو سنانے کی عادت ڈالنی چاہیے تا کہ وہ اسلام کی ابتدائی تعلیم کو بھولیں نہیں جو رضا کار معلم ہیں وہ بھی ہمیں ملنے چاہئیں.تین مہینے کا یہاں کورس ہے وہ یہاں تین مہینے رہیں.دینی کتب پڑھیں اور مسائل سیکھیں.اُن کو یا درکھیں.بعض باتیں ان کو یاد کروائی جائیں.ہماری کم سے کم جو ضرورت ہے وہ تو ہر جگہ بہر حال پوری ہو جانی چاہیے.اس میں تو کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فر مائے اور جو کچھ میں نے کہا ہے وہ دراصل وقف جدید کے بیسویں سال کے آغاز کا اعلان ہے.خدا کرے ہر نیا سال پہلے سال سے زیادہ برکتوں والا ہو ہمارے لئے بھی اور دنیا کے لئے بھی.آج صبح ہمارے ایک مخلص بزرگ اور بھائی محترم ملک غلام فرید صاحب کی وفات ہوگئی ہے

Page 24

خطبات ناصر جلد ہفتم 1.خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۷۷ء إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.ملک صاحب کی ساری زندگی ہی حقیقی جذبہ کے ساتھ گذری (جس کا میں نے ابھی ذکر کیا تھا) آپ نے غیر ممالک میں ہمارا جو تبلیغی پروگرام ہے اس میں بھی حصہ لیا.جرمنی میں بھی مبلغ رہے.انگلستان میں بھی رہے.جو تعلیم کی کوششیں ہیں جماعت کی اس میں بھی حصہ لیا.مجلس تعلیم میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کام کیا.ریویو آف ریلیجنز میں بھی بڑے لمبے عرصہ تک کام کرتے رہے اور پھر آخر میں بہت ہی اچھا سب سے اچھا کام کرنے کی توفیق ملی ویسے پہلے کام بھی اُسی سلسلہ میں تھے لیکن نمایاں ہو کر قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور قرآن کریم کے تفسیری نوٹ انگریزی میں تیار کرنے کا کام ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شروع میں اس غرض کے لئے ایک کمیٹی بنادی تھی جس کے ممبر محترم ملک صاحب بھی رہے ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے تین آدمیوں پر مشتمل کمیٹی بنی تھی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ، حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت ملک غلام فرید صاحب رضی اللہ عنہ تینوں کی ایک کمیٹی تھی جس نے انگریزی ترجمہ کا کام کیا اور جو مختصر تفسیری نوٹوں والا کام تھا اور کچھ ترجمہ کو Revise کرنے کا کام تھا اسے ملک صاحب مرحوم نے اپنی آخری عمر میں بڑی محنت کے ساتھ ایک ایک لفظ کی تحقیق کر کے مکمل کیا جو انگریزوں کے لئے بھی حیرانی کا باعث بنا یعنی اگر وہ غیر مسلم تھے اور انہوں نے قرآن کریم سیکھنے کی کوشش کی تو ان کے لئے بھی حیرانی کا باعث تھا اور باعث برکت تھا اُن احمدیوں کے لئے بھی جو قریباً ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کا ایک بڑا حصہ انگریزی دان بھی ہے.تفسیری نوٹ فٹ نوٹ کی شکل میں ہیں جس طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے تفسیر صغیر کے نوٹ اردو میں ہیں انہی کے اوپر بنیا د رکھ کر ملک صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ نے تفسیری نوٹ تیار کئے ہیں.الہی تقدیر تو اپنا کام کرتی ہے جو شخص اس دنیا میں آتا ہے اسے ایک دن جانا بھی ہوتا ہے.اسی لئے ہمیں کہا گیا ہے کہ جب ایک دن جانا ہی ہے اور ہمیشہ کی زندگی ہے جس کے اندر تمہیں داخل ہونا ہے تو اس کے لئے زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے.حضرت ملک غلام فرید صاحب رضی اللہ عنہ نے بڑی پیاری زندگی گزاری ہے.اُن میں دینی غیرت بھی بڑی تھی اور اطاعت بھی بڑی تھی یعنی خلافت کی اطاعت اور نظام جماعت کی

Page 25

خطبات ناصر جلد ہفتم 11 خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۷۷ء اطاعت.ایک چھوٹا سا واقعہ مجھے یاد آ گیا ہم قادیان میں خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام وقار عمل منا یا کرتے تھے.یہاں اس شکل میں اب وقار عمل نہیں ہوتے وہاں تقریباً سارے خدام اور انصار شامل ہوا کرتے تھے اور ان کے گرد رضا کار پہرہ دے رہے ہوتے تھے اور روایت یہ بن گئی تھی کہ ہر شخص وہاں آئے اور کوئی شخص اجازت کے بغیر اس علاقے سے باہر نہ نکلے.ایک دن کوئی ایک تہائی وقت گذرا تھا ایک رضا کار نے آکر مجھے کہا.( میں ان دنوں صدر مجلس خدام الاحمدیہ تھا ) کہ ملک غلام فرید صاحب آئے اور تھوڑی دیر بعد ہی چلے گئے ، میں نے ان کو روکا تو انہوں نے مجھے بازو سے پکڑ کر پرے دھکیل دیا اور چلے گئے.اس نے اپنی طرف سے شکایت کی.میں چونکہ ملک صاحب کو جانتا تھا اس لئے میں نے ان کی بات سن لی.میرا خیال تھا کہ میں خود ہی بات کرلوں گا اُن سے کہ کیا قصہ ہے.میں جانتا تھا کہ وہ بغیر اجازت کے اس طرح جانے والے نہیں.دوسری طرف ملک صاحب کو کسی نے کہہ دیا کہ شاید میں نے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے پاس اُن کی شکایت کر دی ہے اس لئے خلافت سے اُن کو جو پیار اور محبت تھی اس کی وجہ سے وہ سخت گھبرائے کہ یہ کیا ہو گیا ہے.چنانچہ اُن کا میرے پاس خط آ گیا کہ آپ نے کیوں میری شکایت کردی مجھ سے تو بات کر لینی تھی میں آپ کو اصل وجہ بتادیتا.خیر میں نے ان کو بتایا کہ میں نے کوئی شکایت نہیں کی.وہ کہنے لگے کہ بات یہ تھی کہ ریویو آف ریلیجنز“ کی اشاعت کے سلسلہ میں میں نے گاڑی پکڑنی تھی اسی دن جس دن وقاری عمل تھا لیکن مجھ سے یہ رہا نہ گیا اور میں نے کہا وقار عمل میں شامل ہونا ثواب کا موقع ہے تو میں تھوڑی دیر کے لئے آکر شامل ہو جاتا ہوں کیونکہ گاڑی کا جو وقت تھا اس سے پہلے مجھے تھوڑا اس وقت مل جاتا تھا کہ میں وقار عمل میں بھی شامل ہو جاؤں اور گاڑی بھی پکڑ لوں (غالباً وہ لاہور جا رہے تھے ) تو اس عرصہ کے لئے میں وقار عمل میں شامل ہوا اور مجھے جتنا وقت میسر تھا میں نے وقار عمل میں حصہ لیا اور اس کے بعد میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ میں اجازت لیتا.میں نے کہا کہ میں بعد میں بات کرلوں گا سوئیں چلا گیا.میں نے اُن سے کہا آپ نے بڑا اچھا کیا گو یہ ہے تو ایک چھوٹا سا واقعہ لیکن اس میں ان کو جو پیارا ور تعلق تھا خلافت سے وہ بھی ظاہر ہوتا ہے اور جو اُن کا تعلق تھا نظام جماعت سے وہ بھی ظاہر ہوتا ہے اور جو 66

Page 26

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۲ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۷۷ء اُن کا احساس تھا اپنی ذمہ داری کو نباہنے کا وقت پر ریویو شائع ہو جائے وہ بھی ظاہر ہوتا ہے اور جو تھوڑا سا وقت ایک نیکی کے کرنے کا ان کو ملا اور جسے وہ پورا ثواب سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ ثواب دے ہی دیتا ہے ایسے نیت والے آدمیوں کو تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ تین گھنٹے وقار عمل میں شامل نہیں ہو سکتے تو چلو ایک گھنٹہ ہی شامل ہو جائیں.پس ایک ایسا وجود ہم سے جدا ہوا ہے ایک تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور اُن کی جو اولاد ہے اور دوسرے عزیز واقارب جو وہ پیچھے چھوڑ گئے ہیں اُن پر بھی رحمت نازل کرتا رہے اور اُن کا بھی خاتمہ بالخیر کرے.ہم سب کا خاتمہ بالخیر کرے.اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے وجود کثرت سے جماعت میں پیدا ہوتے رہیں اخلاص کے لحاظ سے بھی علم کے لحاظ سے بھی اور ہر وقت فدائیت کے ساتھ خدمت اسلام کا جو جذ بہ ہے اُس لحاظ سے بھی اور ہماری علمی میدان کی جو ضرورتیں ہیں اللہ کرے کہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جوان ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہوں.ملک صاحب مرحوم کی نماز جنازہ عصر کی نماز کے بعد چار بجے بہشتی مقبرہ کے میدان میں پڑھی جائے گی.دوستوں کو چاہیے کہ احمدیت کے ایسے بزرگ اور فدائی کی نماز جنازہ میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوں.جہاں ہمیں اپنے لئے بھی دعا کا خاص موقع ملتا ہے اور جانے والے بھائی کے لئے بھی دعا کا خاص موقع ملتا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۵ / مارچ ۱۹۷۷ء صفحه ۲ تا ۵ )

Page 27

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۳ خطبہ جمعہ ۲۱؍جنوری ۱۹۷۷ء دعا ان افضال کو جذب کرنے کا بڑا ذریعہ ہے خطبه جمعه فرموده ۲۱ جنوری ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.وہ لوگ تو جو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی نہیں رکھتے اور دہر یہ ہیں.دعا کو نہ سمجھتے ہیں نہ اس کے قائل ہیں کیونکہ دعا تو ایک کامل ہستی سے جو قادر مطلق ہو اور تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہو اور کوئی چیز اس کے آگے انہونی نہ ہو کی جاتی ہے لیکن جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ دنیا اندھی، اندھیروں میں پلیسیئے کھا رہی ہے ، کروٹیں بدل رہی ہے ان کو دعا کا تصور ہی نہیں آسکتا.مگر وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں وہ بھی آگے مختلف گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں.ایک گروہ وہ ہے (جس کی اکثریت یہودیوں میں پائی جاتی ہے ) جو کہتے ہیں کہ اللہ ہے تو سہی، اس نے دنیا کو پیدا کیا اور انسان کو بھی پیدا کیا لیکن انسان کے ساتھ اس کا ذاتی تعلق نہیں ہو سکتا.وہ Impersonal God پر ایمان لاتے ہیں یعنی وہ انسان سے ذاتی تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس نے قانونِ قدرت بنایا ہے اور اس کے مطابق اس دنیا کو وہ چلا رہا ہے.اگر اللہ ہو اور اس نے اس جہان کو پیدا کیا ہو ، وہ خالق عالمین تو ہو ہر دو جہان کو خلق کرنے والا تو ہولیکن ایک قانون کے مطابق اپنی حکومت کو جاری رکھے اور کسی ہستی سے اس کا ذاتی تعلق نہ ہو تو کسی ہستی

Page 28

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۴ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۷۷ء کی طاقت میں یہ نہیں کہ وہ دعا کے ذریعے اس کے فضلوں اور اس کی عنایات کو جذب کر سکے.اس گروہ کا اثر یا اس خیال کا اثر یہودیوں سے باہر بھی نکلا اور بہت سے عیسائی بھی ایسے خدا کے قائل ہو گئے جو دعاؤں کو نہیں سنتا.اس قسم کی باتیں بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ انسان کوئی اتنا اہم تو نہیں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرے اور اس کی دعائیں قبول ہو جائیں.یہ تو درست ہے کہ انسان لاشے محض ہے لیکن اگر خدا نے اس کو اپنے قرب کے لئے پیدا کیا ہے تو قُرب کے دروازے کھولنے کے لئے ہمارے نزدیک ایک بڑا ذریعہ اس نے دعا کا بھی رکھا ہے.بہر حال عیسائیوں میں بھی اس قسم کے لوگ پیدا ہوئے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انسان سے ذاتی تعلق نہیں رکھتا اس لئے دعا کرنا یا نہ کرنا برابر ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.ممکن ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی کچھ ایسے لوگ ہوں لیکن مجھے ان کے متعلق کوئی خاص علم نہیں.اگر کوئی ہو گا تو اکا دُکا ہو گا کہ جو ان کے زیر اثر اس قسم کا خیال رکھتا ہو.لیکن ایک بڑا گروہ اسلام میں ایسا پیدا ہو گیا جس نے قانونِ قدرت یا قضاوقدر کی تفسیر اور اس کے معنے ایسے کر دیئے کہ جس سے وہ دعا کے اس معنی میں قائل نہیں رہے کہ انسان دعا کرے اور اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو سنے اور وہ متصرف بالا رادہ ہستی اپنی ظاہری قضا و قدر میں تبدیلیاں پیدا کرے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دعا بھی دیگر عبادات کی طرح محض ایک عبادت ہے اور اس کی قبولیت کے اس سے زیادہ معنی نہیں ہیں کہ دعا کرنے والے کو دوسری دنیا میں یا اس دنیا میں کوئی ثواب مل جائے.یہ نہیں کہ دعا اس معنی میں قبول ہوگی کہ جو مقصد ہے جسے دعا کرنے والا حاصل کرنا چاہتا ہے، عاجزی اور انکساری کے ساتھ اور دعا کی شرائط کے ساتھ وہ مقصد ا سے حاصل ہو جائے.اس قسم کے غلط معنی کرنے کے نتیجہ میں وہ مذہب جو نوع انسانی ایک زندہ اور پختہ تعلق اپنے ربّ سے پیدا کرنا چاہتا تھا اسی کے ماننے والوں نے یہ دروازہ مسلمانوں پر بند کر دیا یعنی ان پر جوان کے ہم خیال تھے لیکن ہمارا یہ مذہب نہیں ہے.دہر یہ بھی دعا کے اور اس معنی میں دعا کے کہ اس سے کوئی مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے اور جو چیز مانگی جائے وہ مل سکتی ہے، قائل نہیں ہیں.وہ یہ عقیدہ ہی نہیں رکھتے وہ خدا کو ہی نہیں مانتے اور

Page 29

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۵ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۷۷ء جو مانتے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور اُمت مسلمہ میں ایک حصہ ایسا پیدا ہو گیا جس نے کہا کہ دعا سے ثواب تو ملتا ہے لیکن وہ دعا کی قبولیت کے اس معنی میں قائل نہیں ہیں کہ مثلاً یہ دعا کی جائے کہ کوئی عزیز بیمار ہے، اللہ تعالیٰ فضل کرے اور اس کو صحت دے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ قضا و قدر ہے اگر اس کی صحت مقدر ہے تو ہو جائے گی لیکن دعا کے نتیجہ میں نہیں ہوگی اور اگر اس نے مرنا ہے تو مر جائے گا دعا اس کو فائدہ نہیں دے سکتی.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قضا و قدر کے متعلق صحیح مفہوم سکھایا ہے.اس لئے ہم یہ نہیں مانتے بلکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ تو درست ہے کہ انسان کے ساتھ خیر بھی اور شر بھی لگی ہوئی ہے لیکن یہ درست ہونے کے باوجود ہم عقیدہ یہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قضا وقدر کو اسباب کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے.یہ ہے قضا و قدر.یہ نہیں کہ اگر مقدر ہے تو تمہارا پیٹ بھر جائے گا روٹی کھاؤ یا نہ کھاؤ.اگر مقدر ہے تو تمہاری پیاس بجھ جائے گی پانی پیویا نہ پیو.اگر مقدر میں نہیں تو روٹی کھاؤ گے تب بھی بھوک لگی رہے گی ، پانی پیئو گے تب بھی پیاس لگی رہے گی.اگر مقدر ہے تو بیمار اچھا ہو جائے گا دوائی کے اثر کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور اگر مقدر نہیں ہے تو آدمی مرجائے گا پھر بھی دوائی کا کوئی فائدہ نہیں.اس قسم کی تقدیر کے ہم قائل نہیں.جولوگ قضا و قدر کو غلط معنی میں لیتے ہیں ان کو بھی یہاں پر آ کے سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا جواب دیں کیونکہ جہاں تک ظاہری اسباب کا سوال ہے وہ انکار نہیں کر سکتے.وہ یہ تو مانتے ہیں کہ قضا و قدر کے باوجود دوا میں اثر ہے، وہ یہ تو مانتے ہیں کہ قضا و قدر کے باوجود اغذیہ میں کھانے کی چیزوں میں یہ اثر ہے کہ وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں.محض قضا و قدر کا جو مسئلہ انہوں نے بنایا ہے اس کے نتیجہ میں پیٹ نہیں بھرا کرتے.یہ نہیں کہ جی اگر مقدر ہوگا تو بغیر کھانے کے پیٹ بھر جائے گا اور اگر مقدر نہیں ہوگا تو کھانے کے باوجود پیٹ نہیں بھرے گا.یہ تو نہیں.اس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.یہ خدا کی تقدیر ہے لیکن قضا و قدر کے باوجود وہ یہ نہیں مانتے کہ اگر مقدر ہے تو دوا کے ساتھ مریض اچھا ہو جائے گا اور اگر مقدر نہیں ہے تو اس کو دوا ہی میسر نہیں آئے گی بلکہ ان کی بھول بھلیاں ہیں وہ صحیح راستے پر نہیں آتے.

Page 30

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۶ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۷۷ء ہمارا یہ ایمان ہے کہ قضا و قدر کو خدا تعالیٰ نے اسباب کے ساتھ وابستہ کیا ہے.نظامِ اسباب میں ایک تو مستبب ہے اور ایک اس کا اثر ہے یعنی مؤثر اور متاثر ہونے والی چیزیں جس کو Cause and effect کہتے ہیں.اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے اپنی قضا و قدر کو باندھا ہے یہ عام قانون ہے.ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللهُ غَالِبٌ عَلی آمرہ ظاہری قوانین قدرت میں جو اسباب ہیں ان کے پیچھے اور بھی ہیں اور ہمیں نہیں پتہ کہ کتنے اسباب چل رہے ہوں گے ظاہر میں جو قوانین چل رہے ہیں بعض دفعہ ان کو اللہ تعالیٰ بدل دیتا ہے اور یہ بھی باطنی قوانین قدرت کے مطابق ہوتا ہے اور ظاہری سامان کا نتیجہ وہ نہیں نکلتا جو عام طور پر نکلا کرتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو بظاہر آگ کا کام یہ ہے کہ وہ ذریعہ ہے اور سبب ہے جلانے کا ، قضا و قدر میں یہ ہے کہ آگ جلائے گی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ عام قضا و قدر نہیں چلی بلکہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص قانون جو اس کی اپنی قضا و قدر پر تصرف کرنے والا تھا آ گیا.عام حالات میں (ٹھیک ہے کہ ) آگ ہمیشہ جلائے گی سوائے اس وقت کہ جب خدا تعالیٰ کہے کہ نہ جلا پھر وہ نہیں جلائے گی.خدا تعالیٰ نے جو قوانین قدرت بنائے جو قضا و قدر بنائی وہ خدا تعالیٰ پر تو حاکم نہیں بن جاتی.حکومت تو اللہ تعالیٰ ہی کی رہتی ہے، ان اسباب کے پیدا کرنے کے بعد بھی جیسا کہ ان اسباب کے پیدا کرنے سے پہلے بھی اسی کی حکومت تھی.اَلْحُكْمُ لِلهِ ازل اور ابد دونوں کو مستلزم ہے.میں نے بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ کی ذات تو بالائے زمان ومکاں ہے اور اس کا تصور ہماری عقل اور ہماری سمجھ نہیں کر سکتی.بہر حال الحُكْمُ لِلهِ حکم خدا ہی کا چلتا ہے لیکن کبھی خدا اپنے بندوں کو آزمانا چاہتا ہے، اس کا حکم چلتا ہے اور اس کے بڑے پیارے بندوں کا امتحان لیا جاتا ہے.اس عظیم ہستی کا بھی امتحان لیا گیا اور اس کو اور اس کے ساتھیوں کو ابتلا میں ڈالا گیا جس کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ ہر دو جہان اسی کی خاطر پیدا کئے گئے ہیں جس کی خاطر ہر دو جہان کو پیدا کیا گیا اسی کے خلاف مگی زندگی میں ہر دو جہان کو کر دیا گیا اور وہ ہمارے لئے اُسوہ ہے کہ ہم نے اپنے رب سے جو رشتہ اور تعلق قائم کیا ہے اس میں کبھی کمزوری نہیں آنے دیں گے.یہ تو ہمارا عقیدہ ہے اور ہمارا عزم ہے کہ ہم اس پر قائم رہیں گے اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم کبھی بھی اس کے

Page 31

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۷ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۷۷ء دامن کو اپنے ہاتھ سے چھوڑنے والے نہ ہوں.تاہم اس وقت میں دعا کی بات کرنا چاہتا ہوں.ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور جسمانی اسباب کو پیدا کیا اور ان کو قضا و قدر سے باندھ دیا اسی طرح روحانی اسباب بھی ہیں وہ لوگ جو جسمانی اسباب کا اور مساوی اسباب کا تو ذکر کرتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں، بیماری کی حالت میں دوائیں استعمال کرتے ہیں بھوک ہو تو کھانا کھاتے ہیں لیکن جو روحانی اسباب ہیں ان کے وہ منکر اور ان کی اہمیت سے غافل اور ان سے لاعلم ہیں ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں بلکہ ہم ظاہری سامانوں کو بھی اسی طرح خدائی تقدیر کے ساتھ بندھا ہوا پاتے ہیں جس طرح کہ روحانی سامانوں اور اسباب کو خدائی تقدیر کے ساتھ بندھا ہوا پاتے ہیں اور جو روحانی اسباب ہیں ان میں سے ایک بڑا سبب دعا ہے.ہم دعا پر ایمان لاتے ہیں.اس معنی میں کہ جب خدا تعالیٰ محض اپنے فضل اور اپنی رحمت سے اپنے بندوں کی دعا کو قبول کرتا ہے تو اس کا اثر اس سے زیادہ ہوتا ہے جتنا کہ مثلاً پیٹ بھر نے کے ظاہری سامان کا اثر ہوتا ہے کہ روٹی کھا کر ایک سیری حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ سیری جو غذا سے ہمیں حاصل ہوتی ہے اس کا تعلق اس دنیوی زندگی کے ساتھ ہے لیکن یہ سیری جو دعا کے ذریعے ہمیں حاصل ہوتی ہے اس کا تعلق اس زندگی کے ساتھ بھی ہے اور اُس زندگی کے ساتھ بھی.یہ عقیدہ رکھنا جو اسلام نے ہمیں سکھایا ہے بڑی برکات کا موجب ہے.اُمت محمدیہ کی تاریخ پر ہم نظر ڈالیں تو اللہ تعالیٰ کے جو فضل امت محمدیہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل نازل ہوئے ان فضلوں کو جذب کرنے والی ایک بہت بڑی چیز ، ایک بہت بڑا سبب ہمیں دعا نظر آتی ہے.دعا کے اثر سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور عرب والوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب عظیم بر پا کر دیا تھا.وہاں آپ کے پاس کوئی ظاہری سامان تو نہیں تھے لیکن اس روحانی ہتھیار کے ساتھ یعنی دعاؤں کے ساتھ جو آپ نے ان لوگوں کے لئے کیں اور نوع انسانی کے لئے کیں ان میں ایک زندگی پیدا کر دی.مُردہ لاشے تھے وہ جنہیں زندہ کہنا بھی زندگی کی تحقیر کرنا ہے ان لاشوں میں ایک زندگی پیدا کی ، ایسی زبر دست زندگی کہ دنیا نے اس قسم کی حیات،

Page 32

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۸ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۷۷ء اس قسم کی زندگی اپنی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی.لیکن چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اس لئے آپ کے بعد جو خدا تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے آئے ان کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے ملک ملک اور قریہ قریہ میں اسی قسم کے انقلاب بپاکئے.پس ہمارا تو کل اور ہمارا بھروسہ اور ہماری طاقت کس چیز میں ہے ( طاقت کے ساتھ میں کہتا ہوں کہ جسمانی طاقت نہیں ہے ).ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے اور ہمارا تو کل اللہ پر ہے اور ہماری طاقت ان دعاؤں میں لیٹی ہوئی ہے جو ہم عاجزی کے ساتھ اور انتہائی تضرع اور ابتہال کے ساتھ اپنے رب کے حضور کرتے ہیں اور پھر وہ اپنے فضل سے ان کو قبول کر لیتا ہے.انسان کی زندگی میں ، قوموں کی زندگی میں اور ملکوں کی زندگی میں بعض ایسے دن آتے ہیں کہ جب انہیں دعاؤں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر قوم اور ہر ملک جہاں انتخابات ہونے کا زمانہ آجائے تو ان کا وہ زمانہ بڑا نازک زمانہ ہوتا ہے اور اس زمانہ میں ایسے ملک کو ان دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے جو دعائیں کہ دعا پر یقین رکھنے والے گروہ کرتے ہیں.پس اب جبکہ انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے جماعت احمدیہ کے افراد کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس نازک دور میں جو انتخاب کا دور ہے ایسے سامان پیدا کرے کہ اس کے نتائج ملک اور قوم کے لئے مفید نکلیں اور وہی جانتا ہے کہ قوم اور ملک کے لئے کون سے نتائج مفید ہو سکتے ہیں.ہم اس کے عاجز بندے تو دو گھڑی بعد کی بھی خبر نہیں رکھتے ، دو سیکنڈ بعد کی بھی خبر نہیں رکھتے لیکن وہ تو عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے اس لئے بغیر کسی قسم کے تعصب اور غصہ کے، خالی الذہن ہوکر اور اس پیار میں شدت پیدا کر کے جو ہمارے دلوں میں اپنے ملک اور قوم کے لئے ہے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے خدا! انتخابات کا یہ زمانہ ہے انتخابات کے نتائج کو قوم کے لئے اور ملک کے لئے اور ہمارے لئے مفید بنا اور فتنہ اور فساد اور تنزل سے ہماری زندگیوں کو ( ہم بھی قوم کا ایک حصہ ہیں ) اور ہماری قوم کو اور ملک کو محفوظ رکھ.خدا کرے کہ ہمیں ایسی دعاؤں کی توفیق بھی ملے اور اللہ کرے کہ وہ اس قسم کی توفیق ہو کہ

Page 33

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۹ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۷۷ء وہ اسے قبول بھی کر لے اور ملک کے استحکام اور ملک کی ترقی اور ملک میں امن اور آشتی کا ماحول پیدا کرنے کے سامان پیدا ہو جائیں.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا کہ نماز جمعہ کے بعد میں مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.چند گھنٹے ہوئے یہ اطلاع ملی ہے کہ قادیان میں ان پر دل کا حملہ ہوا تھا.انہوں نے بڑی خدمات کی ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں اور خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں بلند درجات عطا فرمائے.“ (روز نامه الفضل ربوه ۲۶ فروری ۱۹۷۷ء صفحه ۲ تا ۴ ) 谢谢谢

Page 34

Page 35

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۱ خطبہ جمعہ ۲۸/جنوری ۱۹۷۷ء تحریک وقفِ عارضی تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى کی عملی تفسیر ہے خطبه جمعه فرموده ۲۸ /جنوری ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مجھے بتایا گیا ہے کہ وقف عارضی کی جو تحریک جاری کی گئی تھی اس کی طرف احباب جماعت اب اس قدر توجہ نہیں دے رہے جتنی شروع میں دی اور جتنی توجہ کی ضرورت ہے.تحریک وقف عارضی یہ ہے کہ احمدی دوست کم از کم پندرہ دن کے لئے ( دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک ) عارضی طور پر وقف کریں اور اپنے خرچ پر اُس جگہ جائیں جہاں اُن کو بھیجا جائے اور اپنے خرچ پر وہاں یہ ایام گزار ہیں.اس تحریک کے پیش نظر ذہن میں بہت سے مقاصد تھے.اول تو یہ کہ جماعت احمد یہ جسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں قائم کیا ہے اس کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ نوع انسانی کو محبت کے رشتوں میں باندھ کر اُمتِ واحدہ بنادیا جائے اسی لئے ہمارا جو سب سے بڑا اکٹھ یعنی جلسہ سالا نہ ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی اغراض بتاتے ہوئے ایک فائدہ یہ بھی بتایا ہے کہ دوست آپس میں ملیں اور واقفیت پیدا ہو اور جو اُخوت کا جذبہ ہے وہ اُبھرے اور وہ لوگ جو ایک دوسرے سے فاصلوں پر رہائش رکھتے ہیں وہ ذہنی اور قلبی طور پر ایک دوسرے کے قریب آجائیں.ان کا پیار بڑھے اور وہ آپس میں بھائی بھائی بن جائیں.

Page 36

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۲ خطبہ جمعہ ۲۸ / جنوری ۱۹۷۷ء چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر وقف عارضی کے ماتحت دوست ربوہ سے سیالکوٹ چلے جاتے ہیں.سیالکوٹ سے جھنگ آجاتے ہیں.لائلپور سے سرگودہا چلے جاتے ہیں.سرگودھا والے دوسرے اضلاع میں مختلف جگہوں پر چلے جاتے ہیں.غرض جہاں دفتر اپنی سمجھ کے مطابق ضروری سمجھتا ہے وقف عارضی کے وفود کو مختلف جگہوں پر بھیج دیتا ہے.یہ واقفین وفد کی شکل میں دو افراد پر مشتمل ہوتے ہیں.اس میں احمدی بہنیں بھی حصہ لیتی ہیں اور ان کو باہر صرف اس صورت میں بھجوایا جاتا ہے جب کہ وہ اپنے خاوندوں کے ساتھ یا والد کے ساتھ یا اپنے بھائی کے ساتھ باہر جاسکیں ورنہ ان سے اپنے ہی شہر یا قصبہ میں عورتوں کی تربیت وغیرہ کے کام لئے جاتے ہیں تا کہ بہنیں بہنوں سے خدا کی رضا کی خاطر حسن معاملہ اور پیار کے تعلقات قائم کریں اس صورت میں ایک حصہ رہ جاتا ہے لیکن جو دوسرے مقاصد ہیں ان میں وہ تھوڑا سا شامل ہوتی ہیں اور فائدہ اٹھاتی ہیں لیکن میرے خیال میں تحریک وقف عارضی میں سینکڑوں ایسی احمدی بہنیں شامل ہوتی ہیں جو باہر جاسکتی ہیں اس لیے کہ ان کے محرم انہیں ایام میں وقف کرنے والے تھے یعنی اُن کے خاوند یا ان کے باپ یا ان کے بھائی یا دوسرے قریبی رشتہ دار جو اسلامی اصطلاح میں محرم تھے.پس وقف عارضی کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ باہمی تعلقات بڑھیں اور وہ عظیم کام جو خدا تعالیٰ اس وقت جماعت احمد یہ سے لینا چاہتا ہے یعنی یہ کہ نوع انسانی کو ایک خاندان کی طرح بنا دیا جائے اس میں ہماری کوشش بھی شامل ہو ویسے تو یہ خدا کا آسمانوں پر فیصلہ ہے زمین پر تو وہ جاری ہو گا لیکن ہمیں ثواب پہنچانے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنے فضل اور رحمت سے ہمارے لئے بہت سی راہیں کھول دی ہیں قرآن کریم میں وحی کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اعلان کروایا گیا کہ بشر ہونے کے لحاظ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی دوسرے بشر میں کوئی فرق نہیں ، وقت آگیا ہے کہ انسان اس بنیادی حقیقت کو سمجھنے لگے اور وہ معاشرہ ہماری اس زمین پر قائم ہو جائے جسے اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.بہر حال وقف عارضی ایک حقیر سی کوشش ہے اپنے رب کے حضور جو پیش کی جاتی ہے اس امید اور یقین پر کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا اور اس کے نیک ثمرات پیدا ہوں گے.جانے والے بھی فائدہ اٹھائیں گے اور جہاں ان کو بھیجا جاتا ہے وہ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں گے.

Page 37

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۳ خطبہ جمعہ ۲۸ جنوری ۱۹۷۷ء تحریک وقف عارضی کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ وقف عارضی پر جاتے ہیں ان کو اپنے نفس کا بعض پہلوؤں سے محاسبہ کرنا پڑتا ہے.جانے سے قبل انہیں اپنی بعض کمزوریوں کی طرف توجہ ہو جاتی ہے اور دعاؤں کی طرف ان کی توجہ مائل ہو جاتی ہے یعنی وقف عارضی پر جانے کی جو تیاری ہے اس کا بڑا حصہ یہ ہے کہ وہ دعاؤں کی طرف متوجہ ہوتے اور اپنی دینی معلومات میں اضافہ کرتے یا انہیں تازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جانے سے پہلے کتب کا زیادہ مطالعہ کرتے ہیں اور کچھ کتب اپنے ساتھ لے جاتے ہیں.وہ سوچتے ہیں اور اپنی غفلتوں اور کمزوریوں پر نگاہ رکھتے ہوئے انہیں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ان کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ دوسری جگہ جائیں تو لوگوں کے لئے ایک نیک نمونہ بنیں ان کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں.چنانچہ ہمارے وقف عارضی کے وفود نے دعاؤں کی برکات سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.جب سے یہ تحریک جاری ہوئی ہے سینکڑوں خطوط ہمارے دفتر میں موجود ہوں گے کہ کس طرح دعاؤں کی ان کو تو فیق ملی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ پیار کا سلوک کیا.جہاں یہ وفود جاتے ہیں وہاں بھی لوگوں کو بڑا فائدہ پہنچتا ہے.ان کو بھی خواب غفلت سے بیدار ہونا پڑتا ہے.انہیں بھی اپنے بھائی کے ساتھ مل کر نیکی کی طرف زیادہ توجہ کرنی پڑتی ہے.کئی دوستوں نے تو جا کر تہجد کی نماز بھی پڑھانی شروع کر دی.جو احمدی نماز باجماعت میں غفلت برت رہے تھے ان کو اس طرف توجہ دلائی اور خدا کی مسجدوں کو معمور کر دیا.غرض عملی طور پر بہت سے فائدے پہنچے کیونکہ جو شخص وقف عارضی پر باہر سے آنے والا ہے وہ سارا دن یا دعا کر رہا ہوگا یا دین کی باتیں کر رہا ہوگا وہ عقائد کے متعلق باتیں کر رہا ہوگا یا خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے متعلق باتیں کر رہا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو دینی خزائن ہمارے ہاتھ میں رکھے ہیں وہ ان کے متعلق باتیں کر رہا ہو گا.قرآن کریم کی اس تفسیر اور نہایت ہی حسین تفسیر کے متعلق باتیں کر رہا ہو گا جو مہدی محمد کے طفیل ہمارے ہاتھ میں رکھی گئی ہے یعنی اس مہدی کی تفسیر جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور جنہوں نے جو کچھ بھی پایا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں پایا اور وہ سب کچھ پایا جس کی اس زمانہ میں ضرورت تھی اور اس لئے

Page 38

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۴ خطبہ جمعہ ۲۸ / جنوری ۱۹۷۷ء پایا کہ اس کی بشارتیں خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے دی تھیں.پس یہ جو آج کی قرآنی تفسیر ہے وہ بطونِ قرآنی اور روحانی علوم اور دینی باتیں ہیں جن کا تعلق اس زمانہ سے خاص طور پر ہے.بنیادی باتیں تو وہی ہیں کیونکہ تفصیل میں زمانہ بدلتا ہے بنیاد اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے.پس جن تفصیلی باتوں کی اور جن چھپے ہوئے بطون کی آج کے زمانہ کو ضرورت تھی مہدی علیہ السلام کو دیئے گئے اس لئے اب احباب جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ خود بھی علوم جدیدہ قرآنی سے واقفیت حاصل کریں اور اپنے ذہن میں ان باتوں کو تازہ رکھیں اور اپنے بھائیوں کو بھی بتاتے رہیں.یہ ذکر گھروں میں بھی ، مساجد میں بھی اور مجلسوں میں بھی ہوتا رہنا چاہیے.غرض وقف عارضی کے وفود ذہنی طور پر تیار ہو کر جاتے ہیں تا کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بن سکیں.جہاں تک اعتقادی باتوں کا تعلق ہے ان کا دہرانا بھی ضروری ہے.ہماری چودہ سو سالہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس میں غفلت کے نتیجہ میں کبھی ایک جگہ اور کبھی دوسری جگہ اسلامی عقائد میں بہت سی بدعات شامل ہو گئیں اور پھر وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو کھڑا کیا جن کو ہم مجدد اور مصلح کہتے ہیں.ولی اور مقربین خداوند کہتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے.ان کو کہا گیا کہ بدعات کو دور کرو اور اسلام کی خالص تعلیم کو پھر قائم کرو.جن باتوں کو لوگ بھول گئے ہیں وہ ان کو یاد کرواؤ اور صحیح، بچے اور حقیقی اسلام پر مسلمان کہلانے والوں کو قائم کرو.اس کی ہزار با مثالیں ہماری تاریخ میں پائی جاتی ہیں.پس ایک پہلو تو یہ ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت معنوی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم انتظام کیا ہے.اپنے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے اور اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ظاہر ہوتی ہے کیونکہ آپ رسول اور نبی ہیں قیامت تک کے مسائل کو حل کرنے والے اور اس شریعت کا ملہ کو لانے والے جس سے باہر کسی اور شریعت کی ضرورت نہیں اور جس کے بعد کسی اور قانون کی حاجت نہیں لیکن انسان بھول جاتا ہے وہ روحانی طور پر نیم مردہ یا مر جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل انسان کو زندہ کرنے کا انتظام کرتا ہے.جگہ جگہ اور زمانہ زمانہ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے اور اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں یہ انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ ہم غفلت کی نیند سو جائیں اور ہمیں کوئی جگانے والا آئے.ہم بدعات کا

Page 39

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۵ خطبہ جمعہ ۲۸ جنوری ۱۹۷۷ء شکار ہو جائیں اور حقیقی اسلام کو پیش کرنے کے لئے کسی کو ہمارے لئے کھڑا کیا جائے بلکہ ہمیں چوکس اور بیدار رہ کر حقیقی اسلام کی جو باتیں ہیں، قرآن کریم میں ذاتِ باری اور صفات باری کے متعلق ہمیں جو علم دیا گیا ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو بلند مرتبہ بتایا گیا ہے ، قرآن کریم کی جو عظیم شان ہمارے سامنے رکھی گئی ہے اس کو دہراتے رہنا چاہیے.قرآن کریم بڑی ہی عظیم کتاب ہے.ہم اس کے متعلق جتنا سوچتے ہیں اتنا ہی ہم اس کو بلند سے بلند تر پاتے ہیں اور اس کی خوبیوں کا اور اس کی گہرائی کا اور اس کی رفعت کا اور اس کی وسعت کا انسانی دماغ اندازہ نہیں کر سکتا.یہ خدا کا کلام ہے اس لئے غیر محدود برکات اور غیر محمد ود صفات کا حامل ہے اور غیر محدود بطون اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے.یہ انسان کا کام نہیں کہ اس کی حد بندی کرے لیکن انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ قرآن کریم کو مہجور نہ بنائے اور اس کی تعلیم کو نہ بھلائے کیونکہ یہ ایک ایسی بھول ہے جس سے نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور علاقے کے علاقے مردہ ہوجاتے ہیں.تب انہیں از سر نو زندہ کرنے کے لئے اور انہیں از سر نو انسانی شرف عطا کرنے کے لئے ایک دوسرا ذیلی نظام حرکت میں آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ذمہ جو کام ہے وہ ایک تسلسل کو چاہتا ہے.جو مصلح آتے ہیں وہ کلی طور پر تو نہیں لیکن ایک حد تک تسلسل ٹوٹنے کے بعد آتے ہیں.ہمارے سپر د جو کام ہے اسے مسلسل حرکت میں رہنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے.ہم کسی جگہ کھڑے نہیں ہو سکتے.پیچھے ہٹنے کا تو سوال ہی نہیں.اس لئے جہاں اور بہت سے نظام قائم کئے گئے مثلاً تحریک جدید ہے، وقف جدید ہے، وہاں وقف عارضی بھی ہے اور ہزار قسم کی کوششیں ہیں جو جماعت کے اندر جاری ہیں تا کہ جماعت اپنے مقام کو یادر کھے اور مقام یہ ہے کہ قرآن کریم کو دنیا میں پھیلانے کی ذمہ داری ان کے اوپر عائد ہوتی ہے مگر دوست اس بات کو نہ بھولیں کہ قرآن کریم کو پھیلانے کی جو ذمہ داری ہے وہ تقاضا کرتی ہے کہ قرآن کریم کو پھیلانے سے پہلے ہم خود اسے جاننے والے ہوں، اس کے علوم سے واقف ہوں.دوسروں کو یہ کہنے سے پہلے کہ بڑی حسین اور عجیب تعلیم ہے اس پر عمل کرو خود اس پر عمل کرنے والے ہوں.دوسروں کو یہ کہنے

Page 40

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۶ خطبہ جمعہ ۲۸ / جنوری ۱۹۷۷ء.سے پہلے کہ اپنے بتوں کو توڑو اور جلا دو، خود اپنے صحن سینہ کو ہر قسم کے بتوں سے پاک کرنا چاہیے.اس کے بغیر تو کوئی دوسرا آدمی ہماری بات نہیں مانتا.اگر ہزار بت خود ہمارے اندر ہی پل رہے ہوں اور ہمیں خدا سے دور لے جانے والے ہوں تو ہم تو حید خالص کو دنیا میں قائم ہی نہیں کر سکتے.پس تحریک وقف عارضی در اصل اصلاح نفس کے لئے ، اپنے محاسبہ کے لئے اور دوسروں کو اس طرف توجہ دلانے کے لئے جاری کی گئی تھی اور تعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة : ۳) کی عملی تفسیر کی شکل میں اسے جاری کیا گیا تھا.بڑا اچھا کام ہوا ہے.اب تک ۲۵ ہزار کے قریب وفود جاچکے ہیں اور یہ بڑا اچھا کام ہے.اللہ تعالیٰ جانے والوں کو اور ان سے فائدہ اٹھانے والوں کو ا پنی رحمتوں سے نوازے لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے ہماری ذمہ داری ایک قائم رہنے والے اور وسعت اختیار کرنے والے تسلسل کو چاہتی ہے.اس ذمہ داری میں عملاً ایک وسعت پیدا ہو رہی ہے.شروع میں جس وقت کسی زمانہ میں ایک ہزار احمدی تھا تو ایک ہزار آدمی کوسنبھالنے کی ذمہ داری تھی اور جس وقت وہ ایک کروڑ کے قریب پہنچ رہا ہے تو ایک کروڑ آدمی کو سنبھالنے کی ذمہ داری ہے.یہ اندرونی ذمہ داری ہے.اس حرکت میں شدت پیدا ہورہی ہے اور خدا کے فضل سے کامیابی ہو رہی ہے اور نظر آتا ہے کہ ہم اپنے مقصد کے بہت قریب آتے جا رہے ہیں.وہ وسعت ہماری ذمہ داریوں کو بہت بڑھا رہی ہے اور یہ ذمہ داری انسانوں کے کندھوں پر ، ان انسانوں کے کندھوں پر جنہوں نے خود کو مہدی علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بشارتیں تھیں کہ اسلام اس زمانہ میں غالب آئے گا مہدی علیہ السلام کے ساتھ وابستہ ہو کر یہ عہد کیا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لئے قربانیاں دیں گے اور اللہ کا فضل ہے کہ جماعت کا ایک بڑا حصہ ہر لحاظ سے قربانیاں دے رہا ہے.جہاں تک وقف عارضی کا تعلق ہے اس میں پندرہ دن ایک خاص شکل میں قربانیاں دینے کا سوال ہے (وقف عارضی تو ہم نے نام رکھ دیا ہے ) جانے والے بھی روحانی اور اخلاقی طور پر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جہاں ان کو بھیجا جاتا ہے وہ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں.ان کی طرف سے بھی مجھے غالباً ہزاروں خطوط وصول ہو چکے ہیں کہ انہیں وقف عارضی کے وفود کے آنے سے اور

Page 41

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۷ خطبہ جمعہ ۲۸ / جنوری ۱۹۷۷ء ان کے ساتھ ملاپ کرنے سے اور ان سے باتیں کرنے سے اور ان کا نمونہ دیکھ کر بہت فائدہ پہنچا ہے.پس اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا.اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اب بھی بہت سے دوستوں کی طرف سے وقف عارضی کے وعدے آ رہے ہیں لیکن اس تعداد میں نہیں آ رہے جس تعداد میں آنے چاہئیں.دوست اس طرف توجہ دیں.میں طالب علموں سے خاص طور پر کہتا ہوں کہ چونکہ گرمیوں کی چھٹیاں آرہی ہیں وہ ضرور وقف عارضی پر جائیں ان کا علم بڑھے گا.جہاں وہ جائیں گے وہاں کے لوگوں کے لئے انہیں نمونہ بننے کی کوشش کرنی پڑے گی اور اگر نو جوان ان کے لئے نمونہ بنیں گے تو ان پر بڑا اثر ہوگا کہ چھوٹی چھوٹی عمروں والے اس قسم کا کام کر رہے ہیں.ویسے ہم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں انہوں نے تو اپنی عمر کی طرف کبھی دیکھا ہی نہیں تھا.انہوں نے اپنی ذمہ داری کی طرف دیکھا تھا اور اتنے شاندار کام کئے اور اتنا اچھا نمونہ بنے ہمارے لئے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے.وہ بھی تو آخر نوجوان ہی تھا جس نے سندھ سے اسلام پر حملہ آوروں کو شکست دی اور وہ بھی تو نو جوان ہی تھا جس نے پین میں عیسائیوں کے اسلام کو کمزور کرنے کے منصوبوں کو نا کام کر کے اسلام کی رحمتوں کو ان علاقوں میں پہنچایا.وہ کوئی بڑے بزرگ اور عمر رسیدہ لوگ تو نہیں تھے.اس قسم کی باتیں ان کے منہ سے نکلتی تھیں اور اپنے رب پر اس قسم کا تو کل ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے.ہم تو اب سنتے بھی ہیں تو اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے مگر یہ امر واقعہ ہے کہ کم و بیش بارہ ہزار کی قیادت کرنے والے نوجوان نے اپنی کشتیوں کو سپین کے ساحل پر جلا دیا کہ ہم نے اب واپس جا کر کیا کرنا ہے ہم آگے جائیں گے.ہمارا خدا پر توکل ہے حالانکہ لاکھوں کی تعداد میں فوج مقابلہ پر تھی بلکہ سارا یورپ مقابلہ پر تھا کیونکہ وہ ایک دوسرے سے بدی کے معاملات میں تعاون کرتے تھے لیکن مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج نے ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا.سپین کی تاریخ میں پھر آگے جا کر اسی قسم کے اور کئی نظارے ہمیں نظر آتے ہیں.تاہم دوستوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم تاریخ کی چھان بین کرتے ہیں تو ہمیشہ اسلام کا دشمن اور مخالف ہی پہل کرتا ہوا نظر آتا ہے.مسلمان نے کبھی پہل

Page 42

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۸ خطبہ جمعہ ۲۸ / جنوری ۱۹۷۷ء نہیں کی.پہل شروع میں کسری کی زبردست طاقت نے کی ، قیصر کی زبردست طاقت نے کی ، پھر ان کا جو حشر ہوا وہ دنیا جانتی ہے.تاریخ انسانی اسے جانتی ہے.پس میں اپنے طالب علموں کو بتا یہ رہا ہوں کہ وہ لوگ چھوٹی چھوٹی عمر کے تھے لیکن انہوں نے بڑی بڑی قربانیاں دی.اس وقت جس قربانی کا مطالبہ تھا اب وہ مطالبہ نہیں ہے.اب مطالبہ کی شکل بدل گئی ہے لیکن قربانی کا مطالبہ اور اس کی اصل اور حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے اس وقت کی دنیا مذہبی مخالفت میں تلوار نہیں اٹھاتی الا مَا شَاءَ اللہ کہیں سر پھرے نظر آ جاتے ہیں.یہ زمین بہت وسیع اور پھیلی ہوئی ہے اس میں خال خال کوئی نظر آ جائے تو آجائے ورنہ عیسائی بھی اور دوسرے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کے نام پر قتل کرنا درست نہیں ہے کیونکہ بحیثیت انسان ،انسان نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا.تاہم کہیں کوئی سر پھرا اور جاہل انسان اس کے خلاف بھی نظر آ جاتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کہ ہم اس کی طرف توجہ دیں.اس لئے آج کا مطالبہ تلوار کے مقابلے میں آنے کا نہیں.آج کی قربانی اور مطالبہ یہ ہے کہ دوست اپنے علم میں جلا پیدا کریں اور اپنے عمل میں حسن پیدا کریں اور اپنے دل میں خدا کے لئے محبت ذاتی پیدا کریں اور خدا کی محبت ذاتی میں فنا ہو کر دنیا کے لئے ایک نمونہ بنیں.پہلوں نے خدا تعالیٰ پر جو تو گل کیا تھا اس کی شکل اور تھی اب ایک دوسری شکل میں احمدی اپنے اندر تو گل پیدا کریں.آخر گنتی کے چند آدمی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ شامل ہوئے تھے.خدا تعالیٰ پر ان لوگوں کو کتنا تو گل تھا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو جو بشارتیں دی ہیں وہ واقعہ ہی خدا تعالیٰ کی بشارتیں ہیں اور اسے اسلام کو غالب کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے.پھران کو یہ یقین بھی تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرنے پر قادر ہے.اب آج کا جونو جوان اس وقت میرے سامنے بیٹھا ہے، وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس وقت کے حالات کیا تھے.ساری دنیا ایک طرف تھی اور وہ چند آدمی ایک طرف.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک وقت میں دہلی تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ صرف بارہ آدمی تھے اور اب میرے جیسا عاجز انسان اور امریکہ کی کنونشن میں ایک ہزار آدمی.چند دنوں کے بعد گوٹن برگ کی مسجد کا افتتاح کیا تو وہاں بھی

Page 43

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۹ خطبہ جمعہ ۲۸ جنوری ۱۹۷۷ء ہزار سے اوپر.پس وہ جوا کیلا تھا ملک ملک میں ہزاروں بن گیا ، بعض جگہ لاکھوں بن گیا.غانا میں ۱۹۶۲ء میں ان کی حکومت کی جو مردم شماری کی رپورٹ تھی اس میں انہوں نے بالغ احمدی ایک لاکھ انہتر ہزار کے قریب بتائے تھے.بچے وغیرہ ملا کر آپ خود اندازہ لگا لیں کتنے ہوں گے؟ یہ ۱۹۶۲ء کی بات ہے.۱۹۷۰ء میں جب میں وہاں گیا تو اُن کا خیال تھا بالغ احمدی تین لاکھ ہو گئے ہیں.بہر حال اب تک اس سے کہیں زیادہ ہو گئے ہیں.ٹھیک ہے.جہاں ان میں بڑے مخلص، دعا گو اور سچی خوا ہیں دیکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے نظارے مشاہدہ کرنے والے بھی ہیں اور ان میں وہ بھی ہیں جو زیر تربیت ہیں.ایک شخص جو باہر سے آتا ہے احمدی ہوتا ہے اور احمدیت کو قبول کرتا ہے وہ تو صرف تربیت قبول کرنے کا اعلان کرتا ہے.بعض لوگ سمجھا کرتے ہیں کہ احمدیت میں آنے سے پہلے ہی اسے ولی اللہ بن جانا چاہیے تب اس کی بیعت کروانی چاہیے.اگر وہ احمدیت سے باہر ولی اللہ بن سکتا ہے تو پھر اسے احمدی ہونے کی ضرورت ہی کوئی نہیں.بیعت تو صرف اس بات کا اعلان ہے کہ وہ آج احمدیت کی تربیت قبول کرنے کے لئے تیار ہے.یہ گویا اس کا پہلا قدم ہوتا ہے پھر کوئی تو ہفتوں میں کوئی مہینوں میں، کوئی سالوں میں اور کوئی اس سے بھی لمبا عرصہ لے کر آہستہ آہستہ تربیت حاصل کرتا ہے اور ایک انقلاب عظیم اس کی زندگی میں بپا ہو جاتا ہے.بعض ٹوٹ بھی جاتے ہیں اور یہ استثنا تو شروع سے ساتھ لگا ہوا ہے لیکن میں بتا یہ رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کے نتیجہ میں اور آپ پر کثرت سے درود بھیجنے کی وجہ سے اور خدا تعالیٰ میں فنا ہونے کی توفیق پا کر خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اپنے ہزاروں بندوں میں سے مجھے اس کام کے لئے منتخب کیا ہے جب کہ میری حالت یہ تھی کہ میں تو اس بات کو پسند کرتا تھا کہ گوشتہ تنہائی میں رہوں اور گمنامی کی حالت میں زندگی کے دن گزار دوں لیکن مجھے خدا تعالیٰ نے کہا.اٹھ اور کھڑا ہو جا.میں تجھ سے اشاعت اسلام کا کام لینا چاہتا ہوں.میں تیرے ساتھ ہوں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے متعلق جو بشارتیں دی تھیں وہ تیرے ذریعہ اور تیری جماعت کے ذریعہ پوری ہوں گی.آپ کے اس دعویٰ پر چند آدمی آپ کے ساتھ ہو گئے.حقہ پانی ان کا بھی بند کیا گیا تھا

Page 44

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲۸ جنوری ۱۹۷۷ء لیکن ان کی بھی کیا شان تھی.میں سمجھتا ہوں ہر احمدی کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہونی چاہیے کہ جس مقام پر ہمارے برگزیدہ پہنچے تھے، ہم اس مقام سے نیچے نہیں رہیں گے باقی جتنی کوئی قربانی دے گا.خدا تعالیٰ کی اطاعت میں جتنا کوئی فنا ہو جائے گا اور جتنی کسی میں طاقت اور استعداد ہوگی اس کے مطابق خدا تعالیٰ اس کو روحانی انعام دیتا چلا جائے گا.جھولیاں بھر جائیں گی اور جگہ نہیں رہے گی.دینے والا کہے گا اور لو، لینے والے کہیں گے لیں تو رکھیں کہاں.آخر یہ جو کہا گیا تھا کہ مہدی اتنی دولت تقسیم کرے گا کہ لینے والا کوئی نہیں ہوگا اس کا یہی مطلب تھا کہ روحانی خزائن تقسیم کئے جائیں گے وہ تو مہدی علیہ السلام تقسیم کر گئے.خدا تعالیٰ کا جو وعدہ اور بشارت تھی وہ تو پوری ہوگئی لیکن بڑا ہی نا سمجھ ہے وہ احمدی جو اپنی جھولی اتنی بھی اپنے رب سے نہیں بھروا تا جتنی اس کی طاقت اور استعداد ہے اور جس کے مطابق وہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو سمیٹ سکتا ہے.پس میں احباب جماعت سے یہ کہتا ہوں کہ تم اٹھو اور خدا کی رحمتوں کو سمیٹو اور ہر راہ سے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.ہمارے بزرگوں نے خدا تعالیٰ پر جو تو گل کیا تھا اور اکیلی آواز کے گرد چند آدمی اکٹھے ہو گئے تھے اس سے کم تو کل ہمیں نہیں کرنا چاہیے اور اگر ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ کچھ خدا کی راہ میں پیش کر دیں جو ہمارے بزرگوں نے پیش کیا تھا تو خدا تعالیٰ ہمیں بھی وہی کچھ دے دے گا جو انہیں عطا کیا گیا تھا.اب تو زمانہ بدل گیا.اب تو سمجھنا آسان ہو گیا.اب تو تو گل کرنے کے لئے ہمارے اندر جرات پیدا ہو گئی حتی کہ ہمارے کمزور آدمی کے اندر بھی جرات پیدا ہوگئی.ان کے اندر تو کوئی مثال موجود نہیں تھی ہمارے پاس تو ہزاروں مثالیں موجود ہیں ان کے سامنے تو اپنے ملک کی مثال بھی نہیں تھی.ہمارے سامنے تو ملک ملک کی مثال ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق اسلام کو پھیلا رہا ہے.میرے پاس باہر سے خطوط اور تصویریں بھی آتی رہتی ہیں کہ جو مشرک تھے بتوں کو جلا رہے ہیں.افریقہ میں لوگ جن پتھروں کی پوجا کیا کرتے تھے اب آگ جلا کر ان کو اس میں پھینک رہے ہیں.وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھتے تھے یعنی غیر مسلم اور اسلام کے خلاف غلط پراپیگنڈا کیا جارہا تھا اب وہی لوگ

Page 45

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۱ خطبہ جمعہ ۲۸ / جنوری ۱۹۷۷ء گلیوں میں بلند آواز سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں.گویا ایک انقلاب بپا ہورہا ہے لیکن یہ ابھی اپنی انتہا کو نہیں پہنچا اور جب تک یہ انقلاب اپنی انتہا کو نہ پہنچ جائے یعنی اسلام دنیا میں غالب نہ آجائے اور دنیا کا ہر دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت نہ لیا جائے اس وقت تک ہر میدان میں جس قسم کی قربانی کا ہم سے مطالبہ کیا جاتا ہے اس پر لبیک کہنا ہمارے لئے ضروری ہے اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور عقل عطا کرے اور وہ ہمیں توفیق دے ایسے اعمال کی جن سے وہ راضی ہو جائے اور ہم اس کی رحمتوں کے وارث ٹھہریں.روزنامه الفضل ربوه ۱۲ فروری ۱۹۷۷ ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 46

Page 47

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۳ خطبہ جمعہ ۱۱ فروری ۱۹۷۷ء اپنے نفس اور اپنے اہل کو بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی آگ سے بچانے کی کوشش کرتے رہو خطبه جمعه فرموده ۱۱ فروری ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آٹھ دس دن کی بیماری کے بعد میں آج گھر سے نکلا ہوں.بیماری کا فلسفہ تو اسلام نے یہ بتایا ہے کہ وَ اِذَا مَرِضْتُ (الشعر آء: ۸۱) یعنی انسان خود اپنی غفلت اور بے پرواہی یا بعض دفعہ جان بوجھ کر بے احتیاطی کرنے کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ شفا کے سامان پیدا کرتا ہے فَهُوَ يَشْفِينِ انسان کے ساتھ جو داعی الی الشر لگا ہوا ہے اس کا ایک چھوٹا سا مظاہرہ یہ ہے کہ انسان بیمار ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم اور احادیث سے استدلال کر کے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ داعی الی الشر بھی لگا ہوا ہے اور داعی الی الخیر بھی لگا ہوا ہے یعنی بعض ایسی طاقتیں ہیں جو انسان کو شر کی طرف بلاتی ہیں جو انسان کو شیطان کی طرف کھینچ کر لے جانا چاہتی ہیں اور بعض ایسی قو تیں ہیں کہ جو انسان کو خیر اور بھلائی اور اللہ تعالیٰ کے مقرب کی طرف لے جانا چاہتی ہیں.میں نے بتایا ہے کہ بیماری بھی ایک چھوٹا سا شر ہے جسے داعی الی الشر پیدا کرتا ہے اور بہت سی نیکیاں ہیں جن سے آدمی محروم ہو جاتا ہے مثلاً نماز با جماعت

Page 48

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۴ خطبہ جمعہ ۱۱ فروری ۱۹۷۷ء ہی ہے.اگر انسان بیمار پڑا ہو تو مسجد میں آنا اس کے لئے فرض نہیں.شر کے معنی ہمیں قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتے ہیں کہ شیطان کی پیروی کرنا شر ہے اور روح القدس جو ہر انسان کی راہنمائی کے لئے انسان کے ساتھ ہے جیسا کہ شروع میں میں نے کہا کہ داعی الی الخیر کی قوت بھی انسان کو عطا ہوئی ہے تو روح القدس کی ہدایت اور راہنمائی میں اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو تلاش کرنا خیر ہے.شر جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور خیر اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جاتی ہے اور ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمُ (التَّحريم :-) اس میں دو حکم ہیں ایک قُوا أَنْفُسَكُم اور دوسرا قُوا أَهْلِيكُمْ اول اپنے نفس کو بچاؤ نار سے اور ان چیزوں سے جو دوزخ کی طرف اور اللہ تعالیٰ کے قہر کی جہنم کی طرف لے جانے والی ہیں.پہلے نفس کو جہنم سے بچانے کا حکم ہے اور اسلام میں جو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی ہے وہ اپنے نفس کو نارِ جہنم سے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچانے کی کوشش کو ہی دی گئی ہے.قُوا أَنْفُسَكُم اپنے نفسوں کو بچاؤ.دوسری جگہ فرما یا لَا يَضُرُّكُهُ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ (المائدة : ١٠٦) کہ اگر تم اپنے نفسوں کو شیطان کے حملوں سے بچا کر اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو اختیار کر کے اس کی رضا کو حاصل کرلو گے تو جو ایسا نہیں کرتے تم پر کیا فرق پڑتا ہے اُخروی زندگی میں یا اس زندگی میں، جہاں تک جنّت کے حصول کا اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کا تعلق ہے لیکن اسلام جہاں اس.بات پر بہت زور دیتا ہے کہ ہر انسان سب سے پہلے اپنے نفس کا ذمہ دار ہے اور اسے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر قسم کی انتہائی کوشش کرے وہاں اسلام نے ایک اجتماعی زندگی کا نقشہ بھی ہمارے سامنے کھینچا ہے اور وہ دوسرے حکم کے اندر آتا ہے کہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ یعنی اپنے اہل کو بھی نار سے بچانے کی کوشش کرو اور جہنم سے بچانے کی کوشش کرو.اہل میں رشتہ در رشتہ سارے ہی بنی نوع انسان شامل ہو جاتے ہیں.جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تمہارا باپ ایک ہے یعنی آدم.تم سب آدم کی نسل سے ہو.پس اہل کے جو وسیع معنی ہیں اس میں اجتماعی زندگی کا پورا نقشہ آجاتا ہے.ہمیں یہ حکم ہے کہ اپنی اجتماعی زندگی کو بھی نار سے بچاؤ.شیطان کی طرف لے جانی والی کچھ چیزیں

Page 49

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۵ خطبہ جمعہ ۱۱ / فروری ۱۹۷۷ء ایسی ہیں جن کا سب سے پہلے تعلق انسان کے نفس سے ہوتا ہے مثلاً ہوائے نفس ہے، حرص ہے، تکبر ہے، ریا ہے، دنیا داری ہے، ہوس مال و دولت و اقتدار ہے.قرآن کریم کی شریعت نے ان تمام چیزوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو نفس واحدہ کو یعنی انسان کے اپنے نفس کو گمراہ کرنے کے لئے ہمیں اپنی زندگی میں نظر آتی ہیں اور جن سے شیطان کام لے کر انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اجتماعی زندگی افراد کا مجموعہ ہے اور پھر مجموعہ خود ایک وحدت بنتی ہے.اجتماعی زندگی اس وحدت کا نام ہے اور اگر چہ یہ دوسرے نمبر پر ہے لیکن اس کی طرف توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اس لئے کہ نفس واحدہ کو ، خود انسان کے نفس کو جو حکم دیا گیا ہے تو اس کا تعلق بھی معاشرے سے ہے.اگر معاشرہ ناپاک ہوگا ، گندہ ہوگا ، خدا سے دور ہوگا تو انسان کے لئے خود اپنے نفس کی اصلاح کے سلسلہ میں مشکلات بڑھ جائیں گی.دوسرے اس کو جو احکام دیئے گئے ہیں ان میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ نوع انسانی کو خدا تعالیٰ کی طرف لے کر آنا اور ایسا معاشرہ پیدا کرنا کہ نوع انسانی خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے بعد اس مقام پر قائم رہے.پس یہ اجتماعی زندگی کی بھی ذمہ داری ہے اور بالواسطہ انفرادی زندگی کی بھی ذمہ داری ہے.اجتماعی زندگی کو شر سے اور نار سے محفوظ رکھنے کے لئے زیادہ توجہ کی ، زیادہ کوشش کی اور زیادہ بیداری کی ضرورت ہے اور ضرورت ہے اس بات کی کہ اس سلسلہ میں جہاں ہم اپنے لئے دعائیں کریں وہاں اجتماعی زندگی کے لئے بھی دعاؤں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.ہم یہ اعتقاد اور یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو مہدی بنا کر اس زمانہ میں ان تمام بشارتوں کا حامل قرار دیا ہے جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ مہدی کے زمانہ میں اُمت مسلمہ میں بڑی وسعت پیدا ہوگی اور اسلام ساری دنیا میں غالب آجائے گا اور بہت بھاری اکثریت انسانوں کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.یہ کام جو جماعت کے سپرد ہوا ہے یہ ایک دو دن کا نہیں یہ ایک دوسال کا نہیں.یہ ایک دونسلوں کا نہیں بلکہ یہ اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے.وسعت مکانی بھی اور وسعت زمانی بھی.بچے پیدا ہوتے ہیں ان کی صحیح تربیت ہونی چاہیے اور اسلام میں نئے داخل

Page 50

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۶ خطبہ جمعہ ۱۱ فروری ۱۹۷۷ء ہونے والے ہیں ان کی صحیح تربیت ہونی چاہیے.ہم تو جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے اسلام کے دائرہ سے باہر رہنے والوں میں سے کس کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے ہیں.لاکھوں کی تعداد میں ! ہمارے پاکستان میں رہنے والے نوجوانوں کی توجہ اس طرف کم جاتی ہے.افریقہ میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہوں نے عیسائیت اور بت پرستی چھوڑ کر اسلام کی صداقت قبول کی اور اسلام کے نور سے ان کے سینے منور ہوئے لیکن جب وہ اسلام کو قبول کرتے ہیں تو شروع میں اپنی اپنی استعداد اور ہمت اور توجہ کے مطابق کوئی جلدی جلدی تربیت حاصل کرتا ہے اور کوئی آہستہ آہستہ تربیت حاصل کرتا ہے.بات کرتے ہوئے جلدی تربیت حاصل کرنے والوں کی مثال یاد آ گئی.ابھی چند دن ہوئے مغربی افریقہ سے ہمارے ایک مبلغ صاحب کا میرے پاس خط آیا کہ ایک عیسائی مسلمان ہوا اور چند ہفتوں کے بعد جماعت احمدیہ نے وہاں کوئی جلسہ کیا تھا اس میں اس نے تقریر کی اور اسلام کا عیسائیت سے موازنہ اس رنگ میں کیا کہ عیسائیوں کے لئے حیرت کا باعث اور جماعت کے لئے انتہائی خوشی کا باعث بنا.اللہ تعالیٰ نے اسے عقل اور فراست اور سمجھ اور علم عطا کیا تھا اور توجہ اور محنت اور اسلام کے لئے دل میں پیار اور خدا تعالیٰ کے لئے شکر کے جذبات نے اس طرف توجہ دلائی کہ خدا تعالیٰ نے اندھیرے میں سے نکال کر مجھے نور میں داخل ہونے کی توفیق دی ہے.جس مذہب میں وہ پہلے تھا یعنی عیسائیت اس کے متعلق وہ پہلے سے کچھ جانتا ہو گا لیکن جس مذہب میں اور جس نور میں وہ داخل ہوا یعنی اسلام اس کے متعلق اس نے بڑی جلدی ، چند ہفتوں کے اندر ہی اتنا علم حاصل کر لیا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ ہم سب کے لئے بڑی خوشی کا باعث بنا کہ وہ تقریر میں کس طرح عیسائیت اور اسلام کے درمیان موازنہ اور مقابلہ کر رہا ہے.بتا میں یہ رہا ہوں کہ ہماری اجتماعی زندگی کی کچھ سرحدیں تو اندرونی ہیں کہ ہمارے بچے پیدا ہوتے ہیں ہمیں ان کی طرف پوری توجہ دینی چاہیے.وہ بڑے ہوتے ہیں.جس ماحول میں سے گذر کر وہ پرورش پارہے ہیں وہ بڑا گندا ماحول ہے.ہماری تعداد بہت کم ہے.اجتماعی زندگی کا ایک اثر فضا میں بھی پیدا ہو جاتا ہے اس قسم کی فضا تو ابھی ہم قائم نہیں کر سکتے

Page 51

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۷ خطبہ جمعہ ۱۱ فروری ۱۹۷۷ء کیونکہ ہماری تعداد کم ہے اور ہمارے وسائل کم ہیں.یہ تمام Handicaps (ہینڈی کیپس) ہیں، یہ تربیت کے راستے کی روکیں ہیں لیکن ان تمام اندرونی روکوں کے باوجود ہمارا فرض ہے اور ہماری کوشش ہونی چاہیے اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی نسلوں کو نسلاً بعد نسل سنبھالتے چلے جائیں اور پھر بیرونی سرحدیں ہیں.چھوٹی سی جماعت ہے جو بڑھ رہی ہے اور بڑھ رہی ہے کافی سرعت کے ساتھ.خدا تعالیٰ سے دعا کی گئی تھی کہ اک سے ہزار ہوویں اور اب تو اک سے ہزار ہوویں والے نہیں، اک سے لکھوکھا ہو گئے بلکہ ایک کروڑ سے زیادہ ہو گئے.وہ اکیلا تھا اور ایک صدی ابھی نہیں گزری کہ کروڑ سے زیادہ ساری دنیا میں تعداد ہو چکی ہے اور جماعت پھیلی ہوئی ہے.اگر ایک جگہ اتنی بڑی آبادی ہوتی تو ان کے لئے اپنا صحیح اسلامی معاشرہ قائم کرنا زیادہ آسان ہو جاتا اور رستے کی روکیں کم ہو تیں لیکن اس طرح بکھرے ہوئے ہیں کہ کہیں دو تین ہی خاندان ہیں.کہیں ان میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اور کہیں ان میں یہ شان نظر آتی ہے کہ افریقہ کے ایک شمال مشرقی ملک کے سربراہ مملکت West Africa (مغربی افریقہ ) کے ایک ملک کے دورے پر گئے.وہ جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اس میں قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ موجود تھا.وہاں بڑے بڑے ہوٹلوں میں سے قریباً ہر ہوٹل میں ہر کمرے میں قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ وہاں کی جماعتوں نے رکھ دیا ہے اور اس کا بڑا فائدہ ہے جس طرح کہ یہاں ہوا.چنانچہ سر براہ مملکت کے ساتھ جو دو چار آدمی ان کے ڈیلیکیشن کے تھے ان میں سے ایک نے قرآن کریم کا ترجمہ دیکھا اس پر ہمارے مشن کی مہر لگی ہوئی تھی اور ٹیلیفون نمبر تھا.انہوں نے مشن کو فون کیا کہ جماعت احمد یہ یہاں بھی قائم ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں قائم ہے اور بہت بڑی ہے.ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہنے لگے کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ جماعت اتنی پھیل گئی ہے.( میں تربیت کی بات کر رہا ہوں) وہ پھر ملے جماعت کے ساتھ ان کی ملاقاتیں ہوئیں.وہ کہنے لگے کہ ہمارے والد احمدی ہوئے تھے.وہاں وہ اکیلا خاندان ہے، ان کے ارد گرد کوئی جماعت نہیں.شاید ایک دو خاندان اور بھی ہیں لیکن ان کا آپس میں ملاپ کوئی نہیں ہے.اس ملک میں اکیلا ایک شخص احمدی ہوا وہ کہتے ہیں کہ ہم کئی بھائی اور بہنیں ہیں.مجھے صحیح یاد نہیں

Page 52

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۸ خطبہ جمعہ ۱۱ار فروری ۱۹۷۷ء ۱۹۴۰ ء یا ۱۹۴۲ء میں ان کے والد کی وفات ہوئی.وہ صاحب کہنے لگے کہ انہوں نے ہمارے اندر احمدیت اس مضبوطی کے ساتھ قائم کر دی ہے دنیا میں خواہ کچھ ہو جائے ہم بھائی اور بہنیں احمدیت کو نہیں چھوڑ سکتے لیکن ہمارا مرکز سے کوئی تعلق نہیں.خصوصاً والد کی وفات کے بعد ہم بالکل اس طرح ہو گئے ہیں جس طرح کہ احمدیت سے کٹ جاتے ہیں یہ ہمارا حال ہے لیکن یہ کہ ہم احمد بیت کو چھوڑ دیں اور اس کی صداقت جو ہمارے دلوں میں گڑ گئی ہے اس میں کوئی شبہ پیدا ہو جائے یہ نہیں ہوسکتا.اب اس ایک شخص نے ایسے ماحول میں کہ اس ملک کا ہر دوسرا شخص اس کے خلاف تھا اپنے گھر کے افراد میں ، اپنے خاندان کے افراد میں اس طرح احمدیت گا ڑ دی اور اس طرح ان کی تربیت کی.یہ نظارہ بھی ہمیں نظر آتا ہے اور یہ ممکن ہے اگر کہیں کوئی کمزوری ہے تو وہ ہماری اپنی کمزوری ہے.اتنی زبر دست اسلامی طاقت جو اس زمانہ میں ظاہر ہوئی ہے وہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ظاہر ہوئی ہے.عیسائی بات نہیں کرتے ، ڈرتے ہیں بات کرنے سے اور جو د ہر یہ ہیں وہ اب مجبور ہو گئے ہیں کہ ہمارے متعلق غور کریں اور سوچیں.ہم میں سے جو کمزور ہیں ان کو یہ خوف ہے کہ ہماری کمزوریاں احمدیت سے باہر سامنے آجائیں گی.بہر حال ایک چھوٹی سی جماعت ہے نہ ان کے پاس پیسہ، نہ ان کے پاس سیاسی اقتدار، نہ ان کے پاس تعداد، نہ ان کے پاس جتھہ، نہ ان کے پاس کوئی ملک، نہ ان کے پاس کوئی فوج، نہ ان کے پاس کوئی مادی ہتھیار اور نہ مادی ہتھیاروں میں ان کو کوئی دلچسپی نہ سیاست میں ان کو کوئی دلچسپی.آخر وہ کون سی طاقت ہے کہ ایک دنیا ڈرتی ہے کہ پتہ نہیں یہ کیا چیز ہیں.وہ طاقت ہے صحیح اور حقیقی اسلام کی طاقت ، جس نے آپ کو زمین سے اٹھا کر آسمانوں کی رفعتوں تک پہنچا دیا ہے اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا پر عمل کریں.اس میں دو حکم ہیں کہ اپنے نفسوں کا بھی محاسبہ کرتے رہا کرو اور اپنے معاشرہ میں بھی کبھی گند کو گھنے نہ دینا کیونکہ اس کے بغیر ہماری ذمہ داری ادا نہیں ہوسکتی.میں تو اس زمانے کی بات کروں گا.جماعت احمدیہ کی بات کروں گا.جو میرا عقیدہ ہے اس کی بات کروں گا.جماعت احمد یہ کی ذمہ داری اس کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی.سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ملک ملک میں احمدی

Page 53

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۹ خطبہ جمعہ ۱۱ فروری ۱۹۷۷ ء ہو جاتے ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ کمیونسٹ ملکوں میں سے تین ملک ایسے ہو گئے ہیں کہ جن کے اندراب پھر جان پیدا ہوئی ہے.ایک ملک تو ایسا تھا کہ جہاں احمدی ہوئے لیکن پھر ان کا کوئی تعلق نہیں رہا.اب پھر ہو گیا ہے دوسرے دو ملک ایسے ہیں جن میں مسلمانوں میں سے پہلی دفعہ احمدی ہوئے ہیں.جس دن وہاں جماعت قائم ہوئی اسی وقت مطالبہ آگیا کہ ہمارے بچوں کو سنبھالنے کے لئے ہماری زبانوں میں ہمیں قرآن کریم کا ترجمہ دو، ہمیں اسلام کی اخلاقیات پر یعنی اخلاقی تعلیم پر کتابیں دو، اسلام کی دوسری تعلیم کے متعلق ہماری زبانوں میں ہمیں کتا ہیں دو اور یہ فرقان ہے جو ہمیں عطا ہوا ہے یہ میرے اور آپ کے زور سے نہیں ہوا بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ہے کہ جو بشارتیں اس زمانہ کے متعلق آپ کو دی گئی تھیں عین ان بشارتوں کے مطابق مہدی آگئے اور دنیا میں انقلاب عظیم کی بنیا د رکھ دی گئی ایک ایسا انقلاب، اسلام کے حق میں اور توحید خالص کو قائم کرنے کے لئے جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لینا ہے جیسا کہ وعدہ دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے.ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوگی لیکن اس کے لئے ہمیں ثواب پہنچانے کی خاطر ہم پر کچھ ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں ان ذمہ داریوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے.خدا تعالیٰ سے دعاؤں کے ساتھ یہ توفیق حاصل کرو کہ تربیت کے اندرونی محاذ پہ بھی اور بیرونی محاذ پہ بھی تربیت کی جو ذمہ داری ہے اس کے نباہنے کی ہمیں تو فیق عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہم اور ہمارے بھائی اور ہماری آنے والی نسلیں حاصل کرنے والی ہوں.روزنامه الفضل ربوه ۳۰ / مارچ ۱۹۷۷ء صفحه ۲ تا ۴ )

Page 54

Page 55

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۱ خطبہ جمعہ ۱۱ / مارچ ۱۹۷۷ء خشیت اللہ رکھتے ہوئے خالص موحد بن کر اپنی ہر چیز خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رہیں خطبه جمعه فرموده ۱۱ مارچ ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.ا يَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ - نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لَّا يَشْعُرُونَ - إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ - وَ الَّذِينَ هُم بِأَيْتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ - وَالَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ - وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا أَتَوْا وَ قُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَجِعُونَ - أُولَبِكَ يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سُقُونَ - (المؤمنون: ۵۶ تا ۶۲) پھر حضور انور نے فرمایا:.اس دنیا میں مال و دولت ان لوگوں کو بھی دی جاتی ہے جن سے ہمارا رب ناراض ہوتا ہے اور انہیں بھی دی جاتی ہے جن پر ہمارے رب کی رحمتیں نازل ہورہی ہوتی ہیں.یہ آیات جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ان میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ کسی آدمی کو مال و دولت کا مل جانا یا اس کے پاس مال و دولت کی فراوانی یا اس کی نسل میں برکت کا پایا جانا

Page 56

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۲ خطبہ جمعہ ۱۱ مارچ ۱۹۷۷ء یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ کسی کی اولاد کو کثرت سے بڑھا رہا ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں نیکیاں کرنے والے ہیں اور گویا خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ وہ اور بڑھ چڑھ کر نیکیاں کریں بلکہ وہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرتے ہیں دولت کے غلط استعمال سے.وہ اپنے جتھے کے زور پر ظلم اور فساد بپا کرنا چاہتے ہیں.لوگوں کو تنگ کرتے ہیں اور بھلائی کی باتوں اور خیر خواہی کی را ہوں کو اختیار نہیں کرتے.پس کسی کے پاس محض مال کا ہونا یا کثرت سے دولت کا ہونا یا آبادی کا زیادہ ہونا جیسا کہ آج کل یورپین ممالک ہیں اور اسی طرح دہر یہ ممالک ہیں.ان کے پاس دولت بھی بڑی ہے اور جتھہ بھی بڑا ہے.بعض ممالک کی کل آبادی سے زیادہ تو ان کی فوجیں ہی ہیں.غرض محض دنیوی اموال اور نسل کی کثرت خدا تعالیٰ کے پیار کا نشان نہیں ہوتے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے پیار کا نشان یہ ہے کہ جہاں تک خدا تعالیٰ سے تعلق کا معاملہ ہے خفیہ اللہ ہونی چاہیے اور خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو راہِ راست پر قائم رکھنے یا صراطِ مستقیم کی طرف کھینچنے کے لئے جو آسمانی نشان ظاہر کرتا ہے اس کو سمجھنے کی توفیق کا پانا اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے.انسان کے دل میں کسی قسم کا شرک نہ ہو ، نہ وہ اپنے مال کو کچھ سمجھے اور نہ اپنے جتھے کو کچھ سمجھے اور نہ اپنے نفس کو کچھ سمجھے بلکہ جو کچھ بھی توفیق پائے اور جو کچھ بھی حاصل کرے اسے محض اللہ تعالیٰ کی عطا سمجھے اور اس کا فضل اور رحمت تصور کرے اور جو کچھ بھی اسے ملے اس کا فائدہ وہ دوسروں کو بھی پہنچانے والا ہو اور ڈرتا رہے کہ کہیں بظا ہر خیر کے یہ اعمال اور نیکی کی یہ باتیں ریا کے نتیجہ میں یا تکبر اور فخر کی وجہ سے اسے خدا سے دور لے جانے والی نہ بن جائیں.انسان ہر وقت اس بات کو یادر کھے کہ ایک دن اسے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نیکیاں مقبول ہونے کے قابل تھیں یا نہیں.فرمایا أُولئِكَ يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْراتِ یہ لوگ ہیں جو نیکیوں میں جلد جلد آگے بڑھنے والے ہیں محض مال کوئی چیز نہیں.نہ اس سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ چونکہ کسی شخص کے پاس کثرت سے دولت پائی جاتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے بڑا خوش ہے اور یہی حال کثرت نسل کا ہے جس کے نتیجہ میں ایک اقتدار پیدا ہوتا ہے.ہم نے اپنے ملک میں بھی دیکھا ہے بعض دیہاتی اور

Page 57

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۳ خطبہ جمعہ ۱۱ / مارچ ۱۹۷۷ء شہری خاندان اپنی خاندانی کثرت کے نتیجہ میں کمزور خاندانوں پر ظلم کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ آخر اولا د تو خدا ہی دیتا ہے اور خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ میرا کثرت بخشنایہ نہیں ظاہر کرتا کہ تم نے نیکیاں کیں اور میں نے انعام دیا بلکہ یہ بتاتا ہے کہ میں نے تمہارا امتحان لینا چاہا اگر تم امتحان میں ناکام ہو گے تو میرے فضلوں اور رحمتوں کو حاصل کرنے والے نہیں ہو گے بلکہ میرے غضب اور قہر کی تجلیات تم پر ظاہر ہوں گی لیکن اگر خَشْيَةُ اللہ رکھو گے اور خدا تعالیٰ کے نشانات پر ایمان لاؤ گے تو حقیقی نیکی کرنے والے بن جاؤ گے.آیات کا لفظ قرآن کریم میں متعدد جگہ استعمال ہوا ہے اور اپنے اندر بہت وسیع معانی رکھتا ہے.میں اس وسعت میں تو اس وقت نہیں جانا چاہتا کیونکہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں لمبا عرصہ مجھے انفیکشن رہی ہے اور اس کے علاج کے لئے ڈاکٹر بڑی تیز دوائیں دیتے ہیں.اس بیماری کی وجہ سے میں اب بھی کمزوری محسوس کر رہا ہوں.چونکہ دوائی چھوڑے ہوئے کچھ دن ہو گئے ہیں اور جسم کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہو رہی ہے اس لئے میں یہ خطرہ بھی محسوس کر رہا ہوں کہ انفیکشن پھر زیادہ نہ ہو گئی ہو.میں بھی دعا کرتا ہوں آپ بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے صحت سے رکھے.اس لئے میں اس وقت اس مضمون کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا.میں اپنے بھائیوں کو اس طرف توجہ دلا نا چاہتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت پر اتنا فضل اور اتنارحم کیا ہے ان ہر دو پہلوؤں کے لحاظ سے بھی جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے یعنی مال و دولت اور اولاد کی کثرت جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہا ما بتا یا گیا تھا کہ آپ کے ماننے والوں کے اموال میں اور ان کے نفوس میں کثرت بخشی جائے گی وہ پورا ہوا.چنانچہ اس وقت آپ کا ایک ایک صحابی بظاہر کمزور، دنیا کا دھتکارا ہوا تھا اور ان میں کوئی جسمانی طاقت نہیں تھی مگر پھر خدا تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالی کہ ایسے بیسیوں سینکڑوں صحابہ ہیں جن میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ کی راہ میں جسمانی طاقتوں کے خرچ کرنے کی توفیق ملی جس کے نتیجہ میں ہر ایک اپنے پیچھے سینکڑوں بچے بچیاں ، پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوا یعنی ان کے نفوس میں بھی بڑی کثرت سے برکت بخشی گئی.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے ہمارے بعض بزرگ ایسے بھی

Page 58

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۴ خطبہ جمعہ ۱۱ / مارچ ۱۹۷۷ء تھے جو پانچ پانچ روپے ماہوار گزارہ لینے والے تھے مگر آج ان کی اولاد ہزاروں روپے کما رہی ہے.ایک بزرگ کے متعلق تو مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ ان کے چار پانچ بچے تھے جو اپنے وقت میں دس دس ہزار روپے مہینہ کما رہے تھے لیکن یہ کثرت اولاد یا کثرتِ مال و دولت ہم پر ایک ذمہ داری ڈالتی ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں.ہم اپنے اموال کو بھی خدا کی رضا اور خوشنودی کے لئے خرچ کرنے والے ہوں اور اپنی اولادوں کی بھی اس طرح تربیت کرنے والے ہوں کہ وہ بنی نوع انسان کے لئے خیر و برکت کے سامان پیدا کرنے والی ہوں.دنیا کے لئے سکھ اور خوشحالی کے سامان پیدا کرنے والی ہوں.کسی کو دیکھ نہ پہنچانے والی ہوں.ان کے دل میں ہر وقت خَشْيَةُ اللہ رہے.اب ہماری زندگیوں میں جو پچھلے چند دن گزرے ہیں ان میں بعض دیہاتی دوست ملنے آتے تھے.مجھ سے باتیں کرتے تھے اور خوش تھے اس بات پر کہ وہ ہر روز خدا کے نشان دیکھتے ہیں.اس تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاؤں گا.وقت کی بھی تنگی ہے اور بعض تفاصیل بتانی بھی مناسب نہیں ہوتیں.سب سمجھتے ہیں.غرض یہ آیات یہ نشان اور اپنے رب کے پیار کی یہ علامتیں دیکھنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے.انہیں سمجھنا چاہیے ان سے اثر قبول کرنا چاہیے اور کثرت سے خدا کی تسبیح وتحمید کرنی چاہیے.دوستوں کو اپنے اموال خدا کی راہ میں اس کی رضا کے حصول کے لئے زیادہ بشاشت کے ساتھ خرچ کرنے چاہئیں اور اپنی اولادوں کی تربیت اس طرح کرنی چاہیے کہ احمدیوں کے گھروں میں ایسی نسل پیدا ہو جو خدا کے ہر بندہ کی خواہ اس کا مذہب اور عقیدہ کچھ ہی ہو یا کہیں کا رہنے والا ہو ر نگ اور نسل کے امتیاز کے بغیر بنی نوع انسان کی خیر خواہی کرنے والی ہوتا کہ دنیا میں انقلاب عظیم بپا ہو جائے.انقلاب مختلف شکلوں میں رونما ہوتے ہیں.بعض دفعہ نوع انسانی کی زندگی میں خونی انقلاب آتے رہے ہیں اور بعض انقلاب محبت کی فراوانی کے انقلاب آتے رہے ہیں جیسا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک انقلاب عظیم بپا ہوا اور وہ انقلاب عظیم بپا ہوا تھا نوع انسانی کی خیر خواہی کا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ جو دنیا نے انقلاب عظیم دیکھا کہ سارا

Page 59

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۵ خطبہ جمعہ ۱۱ / مارچ ۱۹۷۷ء بت پرست عرب مسلمان ہو گیا اور اس انقلاب نے وحشی اور درندہ صفت لوگوں کو انسان بنادیا.صرف انسان ہی نہیں باخدا اور خدا ترس انسان بنادیا.لوگوں کی بھلائی کے لئے ایک قوم پیدا کر دی.یہ کس بات کا نتیجہ تھا؟ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شبینہ دعا ئیں تھیں جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر آپ دنیا کے لئے کیا کرتے تھے.چنانچہ آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اُمتِ مسلمہ میں کئی بزرگ پیدا ہوئے جنہوں نے دعاؤں کے ذریعہ نوع انسانی کی خیر خواہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کی اور خدا تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو قبول کر کے غیر مسلموں کو اسلام کی آیات کے سمجھنے کی توفیق دی اور اس طرح اسلام صدیوں تک ملک ملک، علاقہ علاقہ میں پھیلتا رہا اور آج وہ زمانہ ہم تک پہنچ گیا اور آج تو ساری دنیا میں اسلام کو پھیلانے کا وقت ہے.یہ زمانہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا اور آپ نے اُمت محمدیہ کو بشارتیں دیں ، غلبہ اسلام کا زمانہ ہے.اس لئے جو احمدی اولاد ہے، احمدیوں کی جو نفری ، تعداد اور طاقت ہے اور ان کو جو دولت دی گئی ہے اس کا صرف ایک مصرف ہونا چاہیے کہ خدا کی خشیت رکھتے اور آیات کو دیکھتے ہوئے اور ہر قسم کے شرک اور فخر اور تکبر سے بچتے ہوئے محض مؤحد بن کر ، خالص موحد بن کر خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ اپنی ہر چیز قربان کرنے لئے ہر وقت تیار رہیں.یہ زمانہ صرف مال کی قربانی ہی نہیں مانگتا اوقات کی قربانی بھی مانگتا ہے، توجہ کی قربانی بھی مانگتا ہے.زمانہ یہ چاہتا ہے کہ انسان بجائے اس کے کہ ناولیں پڑھے وہ قرآن کریم پڑھے اور اس پر تدبر کرے.زمانہ یہ قربانی مانگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی جو تفسیر کی ہے انسان اس کو زیر مطالعہ رکھے.یہ عجیب علمی دولت ہے اور ایک ایسا خزانہ ہے جس کی دنیوی مال و دولت قیمت ادا نہیں کر سکتے.اس کی طرف ہر احمدی کو پوری توجہ دینی چاہیے.دوست نظام جماعت کے ماتحت چندے دیتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہی تو سب کچھ نہیں.اس میں بھی خدا تعالیٰ نے بڑی برکت ڈالی ہے اور احمدی کے دل کو بڑی وسعت عطا کی ہے.خدا کے فضل سے ہر سال پچھلے سال کی نسبت قدم آگے کی طرف بڑھا ہوا ہے.مالی قربانیوں میں تیزی ہے، پھیلاؤ ہے اور وسعت ہے کہ انسان حیران اور اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.

Page 60

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۶ خطبہ جمعہ ۱۱/ مارچ ۱۹۷۷ء اب پھر ایک مالی سال ختم ہو رہا ہے.مجھے یقین ہے کہ جماعت اس طرف بھی توجہ کرے گی.ہر جماعت اپنے اپنے بجٹ سے زیادہ قربانیاں کرے گی لیکن میں محض اس طرف توجہ نہیں دلانا چاہتا میں تو ان آیات قرآنیہ کی روشنی میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دل میں خشیت اللہ پیدا کرو.خشیت اللہ خشیت اللہ میں بھی فرق ہے اس میں بھی ایک تدریجی ترقی ہوتی ہے.ہر عالم میں ترقی ہوتی ہے ہر انسان کے تجربے اور علم میں ترقی ہوتی ہے.اسی طرح خشیت اللہ کے میدان میں بھی آگے سے آگے بڑھو.خدا تعالیٰ تمہیں آیات کو جذب کرنے کی زیادہ توفیق دے.خدا تعالیٰ اپنے نشان تم پر پہلے کی نسبت زیادہ نازل کرے اور ان نشانات کو دیکھ کر تمہیں پہلے سے زیادہ تسبیح اور تحمید کرنے کی توفیق ملے.خدا کرے کہ شرک کسی دروازے سے بھی تمہاری زندگیوں میں داخل نہ ہو اور جو کچھ خدا نے تمہیں دیا ہے اسے خدا کے لئے خدا کے بندوں کی خیر خواہی کے لئے تم خرچ کرو.خدا کرے ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ مارچ ۱۹۷۷ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 61

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۷ خطبہ جمعہ ۱۸ / مارچ ۱۹۷۷ء جہنم ایک اصلاحی ادارہ ہے، اصلاح کے بعد سارے لوگ وہاں سے نکال لئے جائیں گے خطبه جمعه فرمودہ ۱۸ مارچ ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی جو تفسیر اور شرح کی ہے اس کی روشنی میں ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جہنم ایک اصلاحی ادارہ ہے یعنی جو اس کے مستحق ٹھہرائے جائیں گے وہ ہمیشہ کے لئے اس میں نہیں رہیں گے بلکہ جوں جوں ان کی سزا پوری ہوتی جائے گی اور اصلاح مکمل ہوتی جائے گی وہ جہنم سے نکالے جائیں گے اور خدا انہیں اپنی جنت میں داخل کرے گا.اللہ محفوظ رکھے اگر ہم سوچیں تو جہنم کی تو ایک گھڑی بھی قابل برداشت نہیں ہے بہر حال یہ ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے.میں اس لئے اس بات سے اپنے خطبہ کو شروع کر رہا ہوں کہ چند دن ہوئے ایک دوست جو احمدی نہیں تھے مجھے ملنے آئے اور انہوں نے ایک بات یہ پوچھی کہ آپ احمدی لوگ یہ عقیدہ کیوں رکھتے ہیں کہ اصلاح کے بعد جہنم سے سارے لوگ نکال لئے جائیں گے اور یہ گویا ایک بہت بڑا اعتراض ان کے دماغ میں جماعتِ احمدیہ کے خلاف تھا.خیر میں نے انہیں اپنے رنگ میں

Page 62

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۸ خطبہ جمعہ ۱۸ / مارچ ۱۹۷۷ء سمجھایا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ جہنم کے دروازے ہوا سے ہلیں گے.جب کسی عمارت کی ضرورت نہ رہے تو ہمیں سمجھانے کے لئے تمثیلی زبان میں اس طرح بات کی جاتی ہے، نہ وہاں کوئی دربان ہوگا نہ تالے لگے ہوں گے کہ کوئی باہر نہ نکلے کیونکہ وہاں کوئی ہوگا ہی نہیں.سارے اپنی سزا بھگت کر اور اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر کے اور اصلاح ہو جانے کے بعد اس مقام کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی جنتوں میں داخل ہو چکے ہوں گے.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ انسان بڑے ہوں یا چھوٹے سب کو اس غرض سے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کریں اور خدا تعالیٰ کی عبادت کے نتیجہ میں اس کے عبد بن کر اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں.اگر ابدی جہنم کا تصور ہو ( جو ہمارے نزدیک غلط ہے ) تو یہ مقصد کہ ہر انسان کو ، ہر فرد واحد کو اس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا عبد بن کر اس کی رضا کو حاصل کرے یہ مقصد فوت ہو جاتا ہے.انسان نے بہر حال خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے اسی غرض کے لئے اسی مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ہے خواہ وہ ذاتی محبت کے نتیجہ میں اس دنیا میں خدا کی راہ میں قربانیاں کرنے والا ہو اور دنیا اس کی زندگی جو ایک جہنم بنا دے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے وہ خوشی اور بشاشت سے اس دنیوی جہنم کو قبول کرنے والا ہو خواہ وہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنے والا ہو اور خود اپنے لئے تکلیف کے سامان پیدا کرنے والا ہو، (جس کو دنیا تکلیف سمجھتی ہے وہ خود تو ایسا نہیں سمجھتا ) مثلاً راتوں کو اٹھ کے خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا، اسراف نہ کرنا، خدا تعالیٰ کے بندوں کی خیر خواہی میں تکالیف کا برداشت کرنا، جو مال وہ اپنے پر خرچ کر سکتا ہے اس مال حلال کو اپنے پہ خرچ نہ کرنا بلکہ اپنے بھائیوں پر خرچ کر دینا یا دنیا کی فلاح اور بہبود کے لئے اسے خرچ کرنا ، ان لوگوں کے لئے بھی اپنے دل میں تڑپ رکھنا اور سوز رکھنا کہ جن کا اس سے بظا ہر دور کا بھی واسطہ نہیں جیسا کہ ہر احمدی کا دل تکلیف برداشت کرتا ہے اگر امریکہ کا انسان تکلیف میں ہو اور اسے اس کا علم ہو جائے یا افریقہ کا انسان تکلیف میں ہو اور اس کا اسے علم ہو جائے.غرض کسی کو اس دنیا میں اس زندگی میں تکالیف کا ، عذاب کا ، دکھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس طرح پر انسان اپنے گناہ سے پاک اور

Page 63

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۹ خطبہ جمعہ ۱۸ / مارچ ۱۹۷۷ء صاف ہو کر مرنے کے بعد خدا تعالیٰ کے حضور چلا جاتا ہے اور اصل بات یہ ہے کہ خدا کی رحمت اس کو ڈھانک لیتی ہے کیونکہ اس کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر تو کوئی شخص جنت میں داخل.نہیں ہوتا.اور جولوگ خدا سے دوری اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معرفت انہیں حاصل نہیں، جس مقصد کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے اسے وہ پہچانتے نہیں، جن راہوں سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتا ہے ان راہوں سے وہ بے خبر ہیں اور ان کا وہ انجام نہیں ہوتا جس انجام کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے ان کی اصلاح کی خاطر اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا کیا ہے.استغفار کرنا چاہیے اور دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ کا ایک لحظہ، ایک گھڑی کا قہر بھی کسی کے مقدر میں نہ ہو.لیکن ایسے لوگ ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کی خاطر جہنم میں رکھتا ہے پھر جب ان کی اصلاح ہو جاتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتے ہیں کیونکہ گناہ کا اثر زائل ہو جانے والا ہے اور جو نیکیاں ہیں ان کا اثر دائم رہتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے ور نہ اس محدود زندگی میں انتہائی نیکیاں کرنے والے کی نیکیاں بھی اتنی تو نہیں ہوسکتیں کہ ابد الآباد تک کے لئے اللہ تعالیٰ اسے اپنی رضا کی جنتوں میں داخل رکھے.یہ تو اس کے فضل سے ہی ہوسکتا ہے اور اس کے فضل سے ہی ہوتا ہے.بہر حال جب گناہ صاف ہوجائیں تو ہر انسان کے اندر شرافت اور نیکی کی جو ایک جڑ ہے ظاہر ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کو ایسا بنا دیتا ہے کہ وہ اس کی جنتوں میں داخل ہو اور اس کے پیار سے حصہ لے.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا ہے کہ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) میری رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اس کی وسعت سے کوئی چیز باہر نہیں.پس انسان کے ساتھ، مخلوق کے ساتھ خدا تعالیٰ کا جو تعلق ہے وہ رحمت کی بنیاد پر ہے.اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں جن کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے ان میں سے بعض صفات ایسی بھی ہیں جن کا ناراضگی کے ساتھ تعلق ہے لیکن وہ بھی رحمت ہی کا حصہ ہیں کیونکہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی بہتوں کے لئے اصلاح کا نتیجہ پیدا کرتی ہے اور بہتوں کے لئے جو باقی رہ جاتے ہیں جن

Page 64

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۱۸ / مارچ ۱۹۷۷ء کے لئے اس دنیا میں نہیں کرتی ان کے لئے اُس دنیا میں اصلاح کا نتیجہ پیدا کرتی ہے اس واسطے وہ رحمت ہی کا ایک حصہ ہے.جس طرح بھیڑیں چرانے والا اس بھیڑ کو جو ادھر اُدھر ہو جاتی ہے ڈانٹ کی آواز نکال کر یا اپنی سوٹی دکھا کر اس راستے پر لے آتا ہے جس پر وہ اپنے گلے کو چرانا چاہتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ کے کامل مظہر تھے.ہر نبی اور مامور اور وہ نیک بندے جن سے اللہ تعالیٰ کام لیتا ہے وہ اس کی رحمت کے جلوے ہی ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں لیکن رحمت رحمت میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ایک رحمت وہ ہے جو صرف یہود کے قبائل کے لئے تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شکل میں دنیا پر ظاہر ہوئی.ایک رحمت وہ ہے جو دوسرے انبیاء کی شکل میں ظاہر ہوئی یعنی خدا تعالیٰ کی رحمت کا ایک محدود جلوہ انہوں نے جذب کیا اور وہ افریقہ میں بسنے والے انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کا موجب بنے اور انہوں نے ان کی خدمت کی اور ان کی خیر خواہی میں اپنی زندگی کو خرچ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جو اس علاقے کی خیر خواہی کے لئے تیار کی گئی تھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ ہیں.کسی ایک علاقے یا کسی ایک زمانے سے آپ کا تعلق نہیں.آپ کامل مظہر ہیں اس خدا کے جس کی رحمت کے احاطہ سے کوئی چیز باہر نہیں.آپ کی زندگی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عجیب عظمت والا یہ محسن اور صاحب رحمت انسان ہے کہ انسان تو انسان کتوں اور بلیوں کے لئے بھی رحمت کی تعلیم دینے والا ہے جن پرندوں کو انسان کی خدمت کے لئے اس غرض سے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ ذبح کئے جائیں یا شکار کئے جائیں اور انسان انہیں کھائے ان کے متعلق بھی رحمت کی تعلیم دی کہ دکھ دے کر ذبح نہیں کرنا اور شکار ضرورت سے زیادہ نہیں کرنا.دنیا میں ایسے شکار کرنے والے بھی پیدا ہوئے ہیں کہ اگر دس پرندوں کی ضرورت ہے تو وہ سینکڑوں بلکہ بعض دفعہ ہزاروں پرندے مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ ضرورت سے زیادہ نہیں مارنے کیونکہ تمہیں کھانے کی اجازت دی گئی ہے تمہیں تباہ کرنے اور ہلاک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی.خدا تعالیٰ نے تمہیں ایسی کوئی اجازت نہیں دی تم اس

Page 65

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۱ خطبہ جمعہ ۱۸ / مارچ ۱۹۷۷ء کے مجرم ہو گے اگر ایسا کرو گے.گھر میں پالتو مرغیاں ہوتی ہیں.آپ نے دیکھا ہوگا خصوصاً گاؤں میں کہ اگر کسی کے ہاں مہمان آجائے تو بعض دفعہ سارا گھر ہی دوڑا پھرتا ہے ایک مرغی کو پکڑنے کے لئے اچھا خاصہ ہنگامہ ہوتا ہے.بعض لوگوں کے گھر میں بندوق بھی ہوتی ہوگی جس سے وہ شکار کر سکتے ہیں لیکن حکم یہ دیا کہ پالتو جانور کو تیر سے یا کسی اور شکار کرنے والے ہتھیار سے ( وہ سب اس کے اندر آ جاتے ہیں) نہیں مارنا کیونکہ اگر مثلاً تیر کے ذریعہ اس کو بیس گز سے مارا تو ہیں گز چل کر اس کے پاس ذبح کرنے کے لئے پہنچنے میں نصف منٹ لگے گا اور یہ نصف منٹ اس جانور کو دکھ میں گزارنا پڑا.اس دکھ سے آپ نے اس کی حفاظت کی.آدھا منٹ ، بیس گز پر وہ آدھے منٹ میں پہنچ جائے گا.نصف منٹ بھی آپ نے اس جانور کو دکھ میں دیکھنا پسند نہیں کیا جس کے کھانے کی اجازت ہے.اس واسطے کہا کہ اس کو پکڑو اور ذبح کرو.ذبح کرتے وقت تو ایک سیکنڈ میں تکلیف کا احساس غائب ہو جاتا ہے جس طرح ہمیں ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے شاید تکلیف ہوتی ہی نہ ہو.پھر جو جانور نہیں مثلاً درخت ہیں ان کے اندر اپنا ایک زندگی کا احساس ہے ، ان کو بغیر ضرورت کے کاٹنے کی اجازت نہیں.اب ہم بعض دفعہ یہ حسین اور محسن تعلیم بھول جاتے ہیں.پس بغیر ضرورت کے درخت کاٹنے کی اجازت نہیں دی گئی.ہر چیز جمادات نباتات وغیرہ ہر ایک کے متعلق اسلام کی تعلیم ہے اور اس کے استعمال کو محدود کیا گیا ہے.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ہر چیز کو ہم نے انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے.اس حد تک اس کو استعمال کرنے کی اجازت ہے جس حد تک وہ خدمت کر رہی ہو.مثلاً اس وقت امریکہ اتنا امیر ملک ہے کہ بعض دفعہ اخباروں میں یہ آجاتا ہے کہ اس کی رکابیوں میں ، پلیٹوں میں بچا ہوا کھانا اتنا ہے کہ جو بڑے بڑے ملکوں کی ایک وقت کی غذا پوری کر دیتا ہے.اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی.اسلام نے یہ کہا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ اپنی پلیٹ میں اتنا ڈالو جتنا ختم کرلو.ایک لقمہ بھی سالن کا یا کسی اور کھانے والی چیز کا پلیٹ میں نہ بچے.اس واسطے کہ جو سالن پک گیا ہے اگر وہ بچ جائے گا تو کسی انسان کے کام آجائے گا.اس کی اجازت دی گئی ہے.سکھر لكم ما في السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ ( الجاثیۃ : ۱۴) میں لیکن ضیاع کی اجازت نہیں دی

Page 66

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۲ خطبہ جمعہ ۱۸ / مارچ ۱۹۷۷ء گئی.عرب میں بھی دستور تھا کہ ایک اونٹ کو ذبح کرنے کی ضرورت ہوتی تو بڑے فخر کے ساتھ دس ذبح کر دیتے صرف اپنی یہ شان ظاہر کرنے کے لئے کہ جی ہمارے پاس اتنی دولت ہے اونٹوں کی شکل میں ہمیں کوئی پرواہ ہی نہیں.اسلام نے اس سے بھی منع کیا ہے.پس یہ عظمت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ زندگی کے ہر پہلو کے متعلق آپ نے تعلیم دی.جن چیزوں کا تعلق بطور خادم انسان کے ساتھ تھا ان میں شکر گزار بندے ہونے کی حدود قائم کیں کہ اگر ان حدود سے باہر نکلو گے تو خدا تعالیٰ کے ناشکرے ہو گے.اسراف سے منع کیا.کھانے میں بھی اسراف سے منع کیا اور انسان کو طیب کی طرف توجہ دلائی.اس کا میرے مضمون سے براہ راست تعلق نہیں میں ویسے ہی بتا رہا ہوں.اُس وقت کھانے کا جو علم تھا وہ لوگ ان چیزوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے اب جو انسانی علم نے ترقی کی ہے تو ہمیں پتہ لگ رہا ہے کہ ہر انسان کے لئے اس کے جسم کے مناسب حال ایک غذا ہے.ایک تو انسان کی نوع کے لئے ایک مناسب حال غذا ہے اور جو مناسب حال نہیں اس سے منع کر دیا مثلاً سور نہ کھاؤ تمہارے مناسب حال نہیں لیکن جو نوعِ انسانی کے لئے مناسب حال غذا ہے اس کی آگے بے شمار قسمیں ہیں ان کے بارے میں بھی تعلیم دی اور ساتھ یہ تعلیم بھی دی کہ ضیاع نہیں کرنا، غلط استعمال نہیں کرنا کیونکہ اس میں دونوں طرف کا نقصان ہے.وہ چیز بھی ضائع جائے گی اور تمہاری صحت پر بھی اس کا بُرا اثر پڑے گا.ہر دو جہان کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت ہیں.محض انسان کے لئے نہیں بلکہ ہر دو جہان کے لئے آپ کا وجود رحمت ہے اور ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اور آپ کے سارے ارشادات کی ، جو کہ قرآن کریم کی تفسیر ہیں، ہم اتباع کرنے والے ہوں.خدا تعالیٰ کی محبت کو پانے کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے کے لئے ، اس کے قرب کے حصول کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُسوہ بنایا گیا ہے آپ کو بطور اُسوہ کے قائم کیا گیا ہے لیکن دنیا کی اکثریت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظمت سے ناواقف ہے اور ہمارے ایمان کے مطابق آج جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ یہ جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چل کر ، اس رحمت کا دنیا کے سامنے مظاہرہ کر کے،

Page 67

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۳ خطبہ جمعہ ۱۸ / مارچ ۱۹۷۷ء اس رحمت کو دنیا کے سامنے بیان کر کے، اس رحمت کے مطابق عمل کر کے دنیا کو اسلام کی طرف لے کر آئے ، یہ بڑی ذمہ داری ہے.کوئی بات بھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی معمولی اور غیر اہم نہیں مثلاً یہ عقیدہ جو کہ میں نے شروع میں بیان کیا تھا کہ ایک وقت میں جہنم بھی خالی ہو جائے گی یہ محض ایک فلسفیانہ عقیدہ نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے خدا تعالیٰ کی منشاء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیم لے کر آئے اس کی عظمت ظاہر ہوتی ہے.وہ اور ہوں گے مذاہب ! جنہوں نے اس حقیقت کو نہیں پہچانا لیکن ایک مسلمان جو قرآن کریم پر غور کرنے والا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے اُسوہ کو اپنی نظر کے سامنے رکھنے والا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ یہ صداقتیں بڑے گہرے اثر رکھنے والی ہیں اور ان کے بغیر ہم دنیا کو اس پاک اور مقدس نبی ، اس رَحْمَةٌ لِلعلمین کے جھنڈے تلے جمع نہیں کر سکتے.پس ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں ، ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں سب کا یہ فرض ہے کہ یہ باتیں دہراتے رہیں.ذکر کے حکم کے ماتحت ایک دوسرے کو یاد دہانی کرائیں اور ہمارے عالم ان چیزوں کو اپنی تقریروں میں بیان کریں اور ان پر مضمون لکھیں عمل اور جذبہ کے ساتھ.جہاں تک میرے دل کا جذبہ اور احساس ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی کا بھی جو یہاں پاکستان میں رہنے والا ہے یہی حال ہوگا.میں عام طور پر پاکستان میں ہی رہتا ہوں کبھی کبھی دورے پر باہر نکلتا ہوں.اگر کسی شخص کو افریقہ میں تکلیف پہنچ رہی ہو تو میرے دل میں ویسے ہی دکھ کا احساس پیدا ہوتا ہے جس طرح کہ میرے گھر کے کسی فرد کو تکلیف پہنچے تو ہوتا ہے.ان میں میں کوئی فرق نہیں محسوس کرتا.بیرونِ پاکستان سے اپنی تکالیف بیان کر کے ان کے لئے جولوگ دعاؤں کے خطوط لکھتے ہیں ان میں صرف احمدی مسلمان ہی نہیں ہوتے یا صرف دوسرے فرقوں کے مسلمان ہی نہیں ہوتے بلکہ ایک عیسائی بھی کہتا ہے کہ میں عیسائی ہوں مجھے یہ دکھ ہے، میں اس تکلیف میں مبتلا ہوں میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے دکھ کو دور کرے.چنانچہ میں خدا سے کہتا ہوں کہ اے خدا! نہ میں اسے جانتا ہوں نہ یہ مجھے جانتا ہے پر میری یہ خواہش ہے کہ یہ تجھے پہچان لے اس واسطے تو اس کے دکھ کو دور کرتا کہ اس طرح اس کو معلوم ہو کہ ایک متصرف بالا رادہ

Page 68

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۴ خطبہ جمعہ ۱۸ / مارچ ۱۹۷۷ء اور قادر مطلق ہستی ہے جس کی حکومت اس Universe (یونیورس ) اس عالمین میں قائم ہے اور اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور ساری دنیا میں اپنے نشانات ظاہر کر رہا ہے اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور عظمت دنیا کے دل میں بیٹھے.میں اور آپ ہم سب تو خادم ہیں، ادنیٰ خادم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے.لیکن ان ادنیٰ خادموں کے کندھوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ نوع انسان کا دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتا جائے اور اس طرح پر رَحْمَةٌ لِلعلمین کی حقیقت دنیا پر ظاہر ہو ساری دنیا یہ محسوس کرے کہ اس رحمت سے ہم فائدہ حاصل کر رہے ہیں ، اس نعمت سے ہمیں بہت سکھ پہنچ رہا ہے اور اس کی وجہ سے ہم بہت سے دکھوں سے نجات حاصل کر چکے ہیں.خدا کرے کہ ہم سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے اور خدا کے حضور سرخرو ہونے والے ہوں.روزنامه الفضل ربوه ۴ رمئی ۱۹۷۷ ء صفحه ۲ تا ۴ )

Page 69

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲۵ مارچ ۱۹۷۷ء احباب جماعت کو تین خاص دعاؤں کی تحریک خطبه جمعه فرموده ۲۵ / مارچ ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج پھر صبح سے مجھے شدید ضعف کی شکایت ہے.دوست دعا کریں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور صحت سے رکھے.بعض ضروری اور اہم باتوں کی طرف میں نے توجہ دلائی تھی اس لئے میں نماز پڑھانے کے لئے آ گیا ہوں.مختصر چند باتیں جماعت کے سامنے رکھوں گا.ہم جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں مخاطب کر کے یہ فرمایا ہے :.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : 111 ) یعنی نوع انسان کے سب افراد کی بھلائی کے لئے ، ان کی خیر خواہی کے لئے اور ان کی خدمت کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو.یہ بات کہ خیر کے لفظ کو قرآن کریم کن معنوں میں استعمال کرتا ہے.خود قرآن کریم ہی میں ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے لیکن اس تفصیل کی طرف تو میں اس وقت توجہ نہیں دلا سکتا کیونکہ میری طبیعت ٹھیک نہیں.میں مثال کے طور پر ایک دو باتیں بتا دیتا ہوں.ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کو بھی خیر کہا گیا ہے اور اپنے اعمال کو تقویٰ کی بنیادوں پر کھڑا کرنے کو بھی قرآن کریم نے خیر کہا ہے.گویا ہر مسلمان کا جو رشتہ دوسرے مسلمان

Page 70

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۶ خطبہ جمعہ ۲۵ مارچ ۱۹۷۷ء کے ساتھ ہو وہ دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھنے اور اس کے احکام کی بجا آوری میں ہونا چاہیے.اس ضمن میں اور بہت سی باتیں ہیں تفصیل کی بھی اور اصول کی بھی جنہیں قرآن کریم نے بیان کیا ہے.بہر حال اُمت مسلمہ کو بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے لئے ، ان کی بھلائی کے لئے اور ان کی خدمت کے لئے قائم کیا گیا ہے.یہ جو بھلائی کرنے کا عمل ہے یہ مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے.اصولی طور پر خیر پہنچانے کے متعلق احکام پر اس حد تک عمل کیا جا سکتا ہے جتنے کی توفیق ملے اور اس خیر اور اس بھلائی کی توفیق کے نتیجہ میں کسی ایک آدمی کو یا چند آدمیوں کو یا ایک محدود گروہ کو فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ اس سے زیادہ کی توفیق ہی نہیں ہوتی.مثلاً کسی کا اپنے مال میں اپنے بھائی کو حصہ دار بنانا.اب جتنا کسی کے پاس مال ہو گا اسی میں وہ دوسرے کو حصہ دار بنا سکتا ہے.جب ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار بھائی بھائی بنائے گئے تو انصار میں سے جس کے پاس جتنا مال تھا اس میں اپنے مہاجر بھائی کو برابر کا شریک کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے.یہ ٹھیک ہے کسی کے پاس مال تھوڑا تھا اور کسی کے پاس زیادہ تھا لیکن جتنا جتنا تھا وہ کہتے تھے آؤ ہم نصف نصف کر لیتے ہیں لیکن لینے والوں نے کہا کہ ہمیں تمہارا مال لینے کی ضرورت نہیں.بعض نے بڑی معمولی معمولی رقمیں قرض کے طور پر لے لیں انہوں نے کہا خدا تعالیٰ نے ہمیں صحت دی ہے، طاقت دی ہے، ہمت دی ہے اور پھر یہ بھی کہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے.الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِّنَ الْيَدِ السُّفلی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہر حال اچھا ہے تو ہم کیوں نچلے درجے کو قبول کریں ہم محنت کر کے کھائیں گے بھی اور کوشش کریں گے کہ اپنے بھائیوں کی مالی لحاظ سے مدد بھی کریں.غرض یہ مضمون بہت وسیع ہے اور یہ واقعات بڑے ایمان افروز ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی میں رونما ہوئے.میں بتا یہ رہا ہوں کہ مال میں شریک اپنے ضرورت مند بھائی کے لئے بھلائی کے سامان پیدا کرنا.یہ بھی خیر کا حصہ ہے لیکن محدود ہے.دنیا کے جو اموال ہیں اور دنیا کی جو طاقت ہے اور دنیا کے جو اوقات ہیں.یہ سارے محدود ہیں کیونکہ انسان کی زندگی محدود ہے لیکن خدا تعالیٰ کی طاقت غیر محدود ہے.وہ غیر محدود طاقتوں کا مالک ہے.اس لئے اس کی خیر کا عمل اپنی وسعت اور افادیت کے لحاظ

Page 71

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۷ خطبہ جمعہ ۲۵ مارچ ۱۹۷۷ء سے سب سے بڑا ہے اور غیر محدود ہے گویا ہر ایک بھلائی خدا سے مانگنے سے تعلق رکھتی ہے.انسان دعا کے ذریعہ بھلائی کے سامان پیدا کرتا ہے اپنے معاشرہ میں اور اس زندگی میں جسے وہ اس جہان میں گزار رہا ہے.خدا چاہے تو دعا کا اثر ساری دنیا کے انسانوں پر پڑسکتا ہے.اللہ کے لئے تو یہ چیز آسان ہے اس کے سامنے تو کوئی چیز انہونی نہیں.پس اگر دعا قبول ہو جائے تو ساری دنیا کی بھلائی کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.اس لئے آج میں پھر تاکید کے ساتھ جماعت کو دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کے انسان کے لئے بھلائی کے سامان پیدا کرے، ایسی بھلائی کے سامان جو اس دنیا میں بھی اس کے لئے بھلائی کے سامان ہوں اور مرنے کے بعد بھی اس کے لئے بھلائی کے سامان ہوں.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو لوگ پہچاننے لگیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حاصل کرنے کی وہ توفیق حاصل کریں.پھر دعا کریں دوست اپنے ملک کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شر اور فساد سے اسے محفوظ رکھے اور اس کے استحکام کے سامان پیدا کرے.اور پھر تیسرے نمبر پر دوست یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور جماعت کے کسی فرد سے بھی یہ غلطی نہ ہو کہ وہ کسی قسم کے شر اور فساد میں ملوث ہو اور یہ بھول جائے کہ خدا نے اس کو کہا ہے کہ تجھے ہم نے نوع انسان کی بھلائی کے لئے پیدا کیا ہے.انہیں دکھ دینے ، انہیں ستانے ، انہیں تکلیف میں ڈالنے کے لئے پیدا نہیں کیا.پس ان تین دعاؤں کے کرنے کی طرف اس وقت میں توجہ دلانا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے میری طبیعت ٹھیک نہیں میں کمزوری محسوس کر رہا ہوں اس لئے اسی پر اب میں اپنے مختصر سے خطبہ کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.(روز نامه الفضل ربوه ۴ رمئی ۱۹۷۷ء صفحه ۶،۵)

Page 72

Page 73

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۹ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۷۷ء جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض ساری دنیا کو اطمینان اور سکھ پہنچانا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.چند دن بیماری میں گزرے اور اب بیماری کا بقیہ ہے یعنی ضعف چل رہا ہے.صبح شدید سر درد شروع ہوگئی تھی جس کی وجہ سے اسپرین کھانی پڑی جو خود ضعف کرتی ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور صحت سے رکھے.آپ کو بھی خدا تعالیٰ ہمیشہ صحت سے رکھے.قرآن کریم میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے ذکر سے اعراض کرنے والے ہیں وہ تنگی کی اور بے چینی کی زندگی گزارتے ہیں.تاریخ کے بہت سے پہلو تو نظر سے اوجھل رہتے ہیں کیونکہ تاریخ منتخب مجموعہ واقعات کا نام ہے اور بہت سی چیزوں کو ، واقعات کو ، حقائق کو تاریخ دان چھوڑ دیتا ہے لیکن اگر ہم آج کی دنیا کا تجزیہ کریں، اس زمانے کی زندگی کا تجزیہ کریں جس میں ہم رہ رہے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہر طرف بے چینی اور بے اطمینانی پائی جاتی ہے.اخباروں میں اور ریڈیو پر آپ دوست بہت سے واقعات سنتے رہتے ہیں بعض ملکوں نے مہلک ہتھیار بنالئے لیکن پھر خوف پیدا ہوا اور ڈرے کہ اگر ان کا استعمال ہو گیا تو دنیا کے لئے بڑی خطر ناک قسم کی تباہی ہے.پھر کوشش شروع کی کہ ان مہلک ہتھیاروں کو محدود کر نے کا کوئی طریق

Page 74

خطبات ناصر جلد ہفتم ۶۰ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۷۷ء معلوم کیا جائے لیکن عظمند آدمی حیران ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ان مہلک ہتھیاروں کو محدود کرنے کا جو طریق سوچا جاتا ہے وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے دو پہلوان کشتی کر رہے ہوں اور ایک پہلو ان دوسرے کو پچھاڑنے کے لئے داؤ لگا رہا ہو یعنی نیت یہ نہیں ہے کہ واقعہ میں ان ہتھیاروں پر کوئی پابندی لگائی جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اپنے حریف کو ، اپنے مد مقابل کو کمزور کیا جائے.پھر جنہوں نے مہلک ہتھیاروں کے بنانے میں پہل کی اور آگے نکل گئے انہوں نے پیچھے رہنے والوں پر زور دینا شروع کیا کہ تم ان ہتھیاروں کو نہ بناؤ.اگر تم نے بنالئے تو دنیا ہلاک ہو جائے گی ( ہم نے بنائے تو دنیا ہلاک نہیں ہوگی ) نا معقول بات ہے.بہر حال میں اس وقت کوئی سیاسی تبصرہ تو نہیں کرنا چاہتا نہ میرا وہ مقصد ہے میں اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے ذکر سے اعراض کرے گا وہ مَعِيشَةً ضَنكًا (طه: ۱۲۵) میں گرفتار کیا جائے گا.بے اطمینانی کی زندگی بے چینی کی زندگی اسے میسر ہوگی.جب یہ ساری چیزیں سامنے آتی ہیں تو ہمیں اس عظیم اعلان کی صداقت اور عظمت کا احساس ہوتا ہے کہ کس طرح انسان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آج سے چودہ سو سال پہلے اس طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ اگر تم تسکین اور اطمینان کی زندگی چاہتے ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ کے ذکر کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور اگر تو جہ نہیں کرو گے تو تمہیں بے اطمینانی، بے چینی ، گھبراہٹ ،خوف اور وحشت کا سامنا کرنا پڑے گا اور نروس بریک ڈاؤن یعنی اعصاب پر بڑا دباؤ پڑے گا اپنی حرکات اور اعمال کے نتیجہ میں.اگر ہم نے ایک لفظ بولنا ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جہنم کی زندگی ہے تو وہ جہنم کی زندگی تمہارے مقدر میں ہو جائے گی.بداخلاقیاں ہیں جرائم ہیں ان کی کثرت ہے.میں امریکہ کے دورے پر گیا تو نیو یارک جو دنیا میں بہت بڑا اور عظیم شہر سمجھا جاتا ہے ساری دنیا کی تنظیم U.N.O (یو.این.او ) کا مرکز ہے اور بڑا ترقی یافتہ ہے.سومنزلہ سے بھی زیادہ منزلوں کے انہوں نے بلا کس بنالئے ہیں اور ظاہری مادی لحاظ سے بڑی ترقی کی ہے وہاں کا یہ حال ہے کہ مکرم مسعود جہلمی صاحب جو اس وقت نیو یارک میں مبلغ ہیں کہنے لگے (وہاں خدا کے فضل سے ہماری مسجد ہے اور مشن ہاؤس ہے ) کہ جب میں یہاں آیا تو مجھے جماعت نے کہا کہ

Page 75

خطبات ناصر جلد ہفتم บ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۷۷ء دیکھنا تمہیں باہر اندھیرا نہ ہو روشنی روشنی میں واپس مشن ہاؤس آجا ناور نہ کسی گلی کے موڑ پر تم پر حملہ بھی ہوسکتا ہے.گو یا اتنی بے اطمینانی کی زندگی وہ لوگ گذار رہے ہیں.عورتیں باہر نکلیں تو ان کی عزبات خطرے میں ہے.اتنی کثرت سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں کہ اگر ان کی تعداد کو ہمارے ملک شائع کریں تو آپ لوگ حیران ہو جائیں لیکن ہمارے ملک میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ جب تک ہماری زندگی اس قسم کی نہیں ہوگی جیسی نیو یارک کی ہے اس وقت تک ہم ترقی یافتہ نہیں سمجھے جائیں گے، جب تک ہم اتنی چوریاں نہیں کرتے ، جب تک ہم اتنے ڈا کے نہیں مارتے ، جب تک ہم اتنی عرب میں نہیں لوٹتے ، جب تک ہم اتنی ڈکیتیاں نہیں کرتے اس وقت تک ہم مہذب نہیں سمجھے جائیں گے.یعنی مَعِيشَةً ضَنكًا بھی ہے اور اس کے بعض دوسرے پہلوؤں کو دیکھ کر غیر ترقی یافتہ قومیں اس کی طرف للچائی ہوئی نظریں بھی ڈالتی ہیں اور یہ خواہش رکھتی ہیں کہ اس قسم کے حالات ہمارے ہاں بھی پیدا ہو جائیں اور نام دیا جاتا ہے اس چیز کو آزادی کا.انسان کو غیر محدود آزادی تو نہیں دی گئی.مثلاً انسان کا دل ہے جو خدا تعالیٰ نے اس کی دھڑ کن وضع بنائی ہے اس کے مطابق دھڑکتا ہے اور ایک دن خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت خاموش ہوجاتا ہے.کسی کا دل اس میں آزاد نہیں ہے کہ کبھی اس کا ایک والو (Valve) بند ہو اور کھلتا رہے لگا تار اور کبھی دوسرا.ایک نظام خدا تعالیٰ کی قدرت نے قائم کیا ہے دل کے اندر اور اس کی شریانوں کے اندر، اس کے اعصاب کے اندر، اس کے پٹھوں کے اندر، اس کے خون کے دوران میں اور اس نظام کے ماتحت وہ کام کر رہا ہے.اس میں انسان آزاد نہیں ہے.انسان کو ایک محدود دائرے کے اندر اس لئے آزاد بنایا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو ہر دوسری مخلوق سے زیادہ حاصل کرنے والا ہو.اگر آزادی نہ ہوتی ، اگر وہ اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں ایثار اور قربانی پیش نہ کر رہا ہوتا، اگر وہ علی وجہ البصیرت خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت کا تعلق قائم کر کے اس کی صفات کی معرفت حاصل کرنے کے بعد تَخَلَقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ کا مظاہرہ نہ کر رہا ہوتا کہ اس کی صفات کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزارے تو ثواب کیسا.ثواب تو صرف انسان کے لئے مقدر ہے جیسا کہ نہ صرف اسلام میں بلکہ جب سے سلسلہ انبیاء شروع ہوا انسان کو یہی بتایا گیا

Page 76

خطبات ناصر جلد ہفتم ۶۲ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۷۷ء کہ ثواب مجھے ملے گا اس لئے کہ تجھے آزادی ہے، جہنم بھی صرف تیرے لئے پیدا کی گئی ہے اس لئے کہ تجھے آزادی ہے.اگر غلط راہ کو اختیار کرے گا تو جہنم میں چلا جائے گا اور اگر صراط مستقیم کو اختیار کرے گا، اگر خدا تعالیٰ کی رضا جوئی میں اپنی زندگی گزارے گا تو خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتیں تجھے حاصل ہو جائیں گی.یہ محدود اختیار ہے، اندھا اختیار نہیں سجا کھا اختیار ہے.جو یہ سمجھتے ہیں کہ اندھا اختیار ہے ان کے متعلق قرآن کریم نے اعلان کیا کہ اگر تم اس دنیا میں اس قسم کے اندھا پن کا مظاہرہ کرو گے کہ اعمی کا لفظ تمہارے اوپر اطلاق پائے تو اس زندگی میں بھی تمہیں اندھا ہی اٹھایا جائے گا.خدا تعالیٰ نے جو نعمتیں آنکھوں والوں کے لئے سجا کھوں کے لئے مقرر کی ہیں اس کے تم وارث نہیں بنو گے.پس محدود اختیار ہے اور محدود اختیار میں انسان کے لئے دو راستے کھلے ہیں ایک وہ راستہ ہے جو جہنم کی طرف لے جانے والا ہے اور ایک وہ راستہ ہے جو خدا تعالیٰ کی جنتوں کی طرف لے جانے والا ہے.جو راستہ خدا تعالیٰ کی جنتوں کی طرف لے جانے والا ہے وہ امن کا راستہ ، وہ سلامتی کا راستہ ، وہ اطمینان قلب کا راستہ، وہ تسکین قلب کا راستہ ہے.اسی واسطے مومن جو خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق رکھنے والا اور اس کی صفات کو سمجھنے والا ہے وہ جانتا ہے کہ الا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَبِنُ الْقُلُوبُ (الرعد: ۲۹) ذکر الله کے نتیجہ میں اطمینان قلب حاصل ہوسکتا ہے اور مومن اسے حاصل کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی جماعتوں پر کشائش اور فراخی اور خوشی اور دنیوی اعتبار سے مسرتوں کے دن بھی آتے ہیں اس وقت بھی وہ ہنس رہے ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی جماعتوں پر امتحان کے دن بھی آتے ہیں، آزمائش میں سے بھی ان کو گذرنا پڑتا ہے اور وہ خدا کے لئے اس آزمائش کو مسکراتے چہروں کے ساتھ سہہ جاتے ہیں اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتے ہیں.یہ آزمائش دنیا کی نگاہ میں سختی کے دن ہیں لیکن مومن کی نگاہ میں خدا تعالیٰ کے قرب کو زیادہ حاصل کرنے کا زمانہ ہے اور خدا تعالیٰ کے قرب کو زیادہ حاصل کرتا ہے مومن.66 الا بذكرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ لغت عربی ذکر کے معنی کرتے ہوئے یہ بیان کرتی ہے کہ ذکر زبان سے بھی ہوتا ہے اور دل کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے.زبان سے ذکر کر نے کے لئے

Page 77

خطبات ناصر جلد ہفتم ۶۳ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۷۷ء ہمیں کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا ورد کرو، خدا تعالیٰ کی تقدیس کرو تحمید کرو، اس کی حمد کرو.اسے ہر نقص سے پاک قرار دو.زبان کے ساتھ اقرار کرو، اپنے نفس کے سامنے بھی اور دنیا کے سامنے بھی کہ جس اللہ پر ہم ایمان لائے ہیں وہ قدوس ذات ہے.وہ ہر قسم کے نقص اور عیب اور کمزوری اور برائی سے پاک ذات ہے.کسی قسم کی کمزوری اور برائی ہمارے اللہ کی طرف منسوب ہی نہیں ہوسکتی اور ہر قسم کی تعریف کا سر چشمہ بھی وہی ہے یعنی جہاں کہیں کسی اور میں ہمیں کوئی تعریف کے قابل چیز نظر آتی ہے اس کا سر چشمہ اور منبع خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور تمام محامد کا مرجع اس کی ذات ہے.ہر حمد خدا تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحة : ٢) ہم یہ ورد بھی کرتے ہیں لیکن یہ جو ورد ہے یہ انسان کی محدودزندگی میں مزید حد بندیوں کے اندر بندھا ہوا ہے مثلاً ایک استاد ہے وہ کلاس میں لیکچر دے رہا ہے اس وقت وہ سُبْطنَ اللَّهِ اور الْحَمْدُ لِلَّهِ کا ور د نہیں کر سکتا لیکن اس کے دماغ کا ایک پہلو ایسا ہے جو اس محدود زندگی میں اس قسم کی حدود کے اندر بندھا ہوا نہیں اور وہ ہے ذکر بالقلب یعنی دل کے ساتھ ، اپنی فراست کے ساتھ ، اپنے ذہن کے ساتھ ، اپنے مائنڈ (Mind) کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ذکر میں لگے رہنا اور اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ذات کو پہچانا اور اس کی صفات کی معرفت رکھنا اور خدا تعالیٰ سے ایک ذاتی تعلق کو قائم کرنا ، خدا تعالیٰ سے یہ تعلق بغیر کسی ایسی وجہ کے رکھنا جس کا تعلق مادی نعمتوں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی انسان پر بے شمار مادی نعمتیں ہیں لیکن ان واسطوں کے ساتھ نہیں بلکہ بلا واسطہ تعلق قائم کرنا.امام راغب کو خدا تعالیٰ نے بڑا بزرگ دل اور بڑا صاحب فراست دماغ دیا تھا.انہوں نے ایک جگہ ذکر کے سلسلہ میں عربی کے معنی بتاتے ہوئے بنی اسرائیل اور امت محمدیہ میں مقابلہ کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو یہ کہا گیا کہ میری نعمتوں کو یاد کرو اور میرا ذکر کرو اور امت محمدیہ کو کہا گیا کہ میرا ذکر کرو وہاں نعمتوں کا کوئی ذکر نہیں بلکہ کہا گیا ہے کہ میرا ذکر کرو میں تمہیں اس کا بدلہ دوں گا اور یہ امت محمدیہ کی خصوصیت ہے.ذاتی تعلق تو پہلوں نے بھی اپنے ربّ سے رکھا لیکن جس رنگ میں اُمت محمدیہ کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اپنے پیارے رب سے ذاتی تعلق رکھنے کی توفیق ملی وہ پہلی امتوں کو نہیں ملی.خدا سے ذاتی تعلق

Page 78

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۶۴ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۷۷ء کے لحاظ سے اُمت محمدیہ اور پہلی امتوں میں ایک بہت بڑا فرقان تمیز پیدا کرنے والا ہے کہ کچھ ہو جائے ، زمین و آسمان تہ و بالا ہو جائیں، دنیا کے لحاظ سے زندگی اجیرن بن جائے یعنی لوگ یہ سمجھیں کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ تکلیف میں گزرنے والا ہے جیسا کہ شعب ابی طالب میں کم و بیش اڑھائی سال تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو اس طرح قید میں رکھا گیا کہ باہر سے کھانے پینے کا سامان بھی نہیں جاسکا.خدا تعالیٰ نے ایسا سامان تو پیدا کیا گو تاریخ نے ہمیں نہیں بتایا کہ وہ کیا سامان تھا لیکن بہر حال ایسا سامان پیدا کیا کہ ان کو بھوکا نہیں مارا، مگر انتہائی تنگی کے زمانہ میں سے وہ گذرے لیکن ان کے چہروں کی مسکراہٹیں تو نہیں چھینی گئی تھیں ، اس زمانہ میں انہوں نے اپنے رب سے اپنا تعلق تو قطع نہیں کر لیا تھا.اس کو کہتے ہیں تعلق ذاتی ، خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت کا تعلق رکھنا اور یہ قلب کے ساتھ ہے.انسان کا دل سوچتا ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات پرغور کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے جو اس جہان کو پیدا کیا اس عالمین کو پیدا کیا اس کے مختلف پہلوؤں پر جب انسان نظر رکھتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے اور کہتا ہے علی وجہ البصیرت کہتا ہے کہ میرے رب نے کسی چیز کو بے مقصد نہیں پیدا کیا.- يَذْكُرُونَ اللهَ فِيمَا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبُحْنَكَ (ال عمران: ۱۹۲) کہ تو پاک ذات ہے تو نے کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی.مومنوں پر الہی سلسلوں پر جو ابتلا آتے ہیں وہ بھی بے مقصد نہیں وہ ان کو مارنے کچلنے اور ہلاک کرنے کے لئے تو نہیں آیا کرتے ، وہ ان کی شان ظاہر کرنے کے لئے وہ ان کی روحانی ترقیات کے لئے ، وہ خدا تعالیٰ کے پیار کے زیادہ حصول کے سامان پیدا کرنے کے لئے آیا کرتے ہیں.وہ بے مقصد نہیں ہیں ان کا مقصد ہے اور بڑا عظیم مقصد ہے.بڑا حسین مقصد ہے.بڑا پیارا مقصد ہے.مومن یہ سوچے گا کہ ایٹم کی طاقت بے مقصد نہیں ہے اور خدا تعالیٰ نے مقصد اصولی طور پر قرآن کریم میں یہ بتایا ہے کہ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) که بلا استثناء ہر چیز کو انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.ایٹم کی طاقت کا بھی یہی مقصد ہے لیکن جنہوں نے ایٹم کی طاقت کو نکالا وہ اس کا استعمال

Page 79

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۷۷ء کچھ حد تک صحیح بھی کر رہے ہیں اور بہت حد تک غلط بھی کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں.ایسے مہلک ہتھیار بنالئے ہیں.ایک مومن کا دماغ کہے گا کہ ایٹم کا یہ مقصد تو نہیں کہ جو چیز انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے وہ اس کی گردن اڑا دے وہ تو انسان کے فائدے کے لئے ہی استعمال ہونی چاہیے لیکن جو خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتے جو خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت نہیں رکھتے جو اللہ تعالیٰ کو پہچانتے نہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق نہیں وہ بہکتے ہیں اور دنیا کے لئے تکلیف کا اور دُکھ کا سامان پیدا کرنے میں کوئی حجاب اور جھجک نہیں محسوس کرتے.ان میں سے بعض کو دوسروں کو تکلیف پہنچانے میں لذت محسوس ہوتی ہے اور ایک وہ تھا ہمارا آقا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء :(۴) نیکی بجالانے کی ذمہ داری تو ہر فرد واحد کی تھی مگر وہ ایمان اور عمل صالح نہیں بجالا رہے تھے اور ان کے لئے اور ان کی فلاح کے لئے راتوں کو تڑپ رہا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم.یہ تو ذکر اللہ کے نتیجے میں ایک عظیم مثال ہے جس سے بڑی اور زیادہ شان والی اور کہیں نہیں ملتی.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لئے اُسوہ بنایا گیا ہے.آپ کا رنگ ہمیں اپنی زندگی اور اپنے اعمال پر چڑھانا ضروری ہے.اس واسطے اُمت محمدیہ کی بھی یہ صفت ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنا چاہیں ان کی یہ صفت کہ وہ کسی کا ذرا سا دکھ بھی برداشت نہیں کر سکتے.میں نے سوچا کئی دفعہ سوچا اور میں نے بیان بھی کیا کہ مکی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو رد وسائے مکہ نے کتنا دکھ پہنچایا.بھوکوں مارنے کی انتہائی کوشش کی.اللہ تعالیٰ نے نہیں مرنے دیا یہ تو اس کی شان تھی لیکن انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی.پھر خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے جو اُسوہ رکھا تھا اس کو نمایاں کر کے ہمارے سامنے لانے کے لئے اور ان کو بتانے کے لئے کہ خدا کے بندے اور بتوں کے پجاری میں فرق ہے ان کے اوپر قحط کا زمانہ وارد کیا.انہوں نے پیغام بھیجا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جن کو شعب ابی طالب میں قید کر دیا گیا تھا اور کھانے کے سب راستے بند کر دئے گئے تھے کہ اپنے بھائیوں کو بھوکا دیکھنا پسند کرو گے؟ ہم آخر تمہارے بھائی ہیں.ہمارے اوپر قحط کا زمانہ ہے.جہاں تک میں نے سوچا اور جہاں تک میر اعلم ہے آپ نے ایک سیکنڈ بھی دیر نہیں کی ان کی

Page 80

خطبات ناصر جلد ہفتم ۶۶ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۷۷ء اس تکلیف کو دور کرنے میں.یہ درست ہے کہ مدینے میں سامان اکٹھا کرنے اور پھر مکہ تک پہنچانے کے لئے تو وقت کی ضرورت تھی لیکن اسی وقت اس نظام کی ابتدا کر دی جس نے ان لوگوں کی ، بھوکا مارنے والوں کی ، بھوک کو دور کرنے اور تکلیف کو دور کرنے کے سامان کرنے تھے.جو شخص خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے.اس کے لئے چین اور سکون اور اطمینان کی زندگی مقدر ہو جاتی ہے.ہم صرف اپنے لئے سکھ نہیں چاہتے بلکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ساری دنیا کو اطمینان اور سکھ پہنچانے کے لئے جماعت احمدیہ کا قیام کیا گیا ہے.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک طرف تو خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہیں.اس معنی میں کہ ہمارے دل بھی ذکر کر رہے ہوں اور ہماری زبانوں پر بھی اس کا ذکر ہو.اس معنی میں کہ ہمارا ذاتی تعلق اپنے رب کریم سے ہو.اس معنی میں کہ ہم اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق اس کی صفات اور اس کے اسمائے حسنہ کا عرفان رکھنے والے ہوں.ہمیں ان اسماء کی معرفت حاصل ہو ان کے مطابق ہم اپنی زندگیاں ڈھالنے والے ہوں.وہ رنگ ہم اپنے اعمال پر چڑھانے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کے، محض انسان نہیں، خدا تعالیٰ کی مخلوق کے سکھ اور چین کا انتظام کرنے والے ہوں.اس لئے جماعت کو کثرت سے خدا تعالیٰ کے ذکر میں ، دل کے ذکر میں بھی اور زبان کے ذکر میں بھی مشغول رہنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی آجاتا ہے دعا کرنا.انسان اپنے زور سے نہ خود اپنے لئے کچھ حاصل کر سکتا ہے نہ دنیا کے لئے کچھ حاصل کر سکتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے بندوں کو اس کی توفیق عطا نہ کرے ایسا نہیں ہو سکتا.پس کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے سکھ اور چین اور ان کی بھلائی اور خیر خواہی اور ان کے دکھ کو دور کرنے کے سامان پیدا کرے اور خدا تعالیٰ ہماری مجلسوں کو بھی ایسا بنا دے کہ ان کے نتائج اس عالمین کی بھلائی کے لئے نکلیں اور ظاہر ہوں.اب آج ہی کچھ وقت کے بعد مشاورت ہوگی.اس میں ہم بیٹھیں گے ہم سوچیں گے.ہم مشورہ کریں گے.ہم غور کریں گے ہمارے سامنے اپنے ملک کی احمد یہ جماعت کا مثلاً بجٹ آئے گا.مالی قربانیاں آئیں گی.اب تو ساری دنیا میں جماعت ہائے احمد یہ پھیل چکی ہیں ان کا پیار کا

Page 81

خطبات ناصر جلد ہفتم ۶۷ خطبہ جمعہ تکیم اپریل ۱۹۷۷ء تعلق ان کا محبت کا تعلق ان کا اخوت کا تعلق پاکستان میں بسنے والے احمدی بھائیوں سے بھی ہے.اس موقع پر کہیں سے وہ خود نمائندہ بن کر آجاتے ہیں.کہیں سے آسکتے ہیں اور پہنچ سکتے ہیں کہیں سے نہیں پہنچ سکتے.وہ اپنے اپنے ملک کے بجٹ بھیجتے ہیں اور وہ مجموعی بجٹ ہمارے ملک سے اب خدا کے فضل سے آگے نکل گیا ہے اور نکلنا بھی چاہیے کیونکہ دنیا کی آبادی کا ایک بڑا مختصر سا حصہ پاکستان میں آباد ہے اور بہت زیادہ حصہ پاکستان سے باہر ساری دنیا میں آباد ہے.انشاء اللہ تعالیٰ جب دنیا کی اکثریت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی تو دنیا کا رنگ ہی بدل جائے گا اور ہمارا رنگ بھی بدل جائے گا.پھر اور قسم کی ذمہ داریاں ہوگی.پھر اور قسم کے کام ہوں گے جو کرنے ہوں گے لیکن بہر حال یہ تبدیلیاں جو زمانے کے ساتھ ساتھ آتی رہتی ہیں وہ بنیادی چیز کو تبدیل نہیں کرتیں اور وہ بنیادی چیز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت کا تعلق قائم کر کے اس کے ذکر میں مشغول رہنا اور اس سے خیر اور برکت چاہنا اور اس کی برکت اور رحمت کو حاصل کرنا اسی کی توفیق اور اسی کے فضل کے ساتھ.اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ایسے سامان پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ ہماری مشاورت کو بھی دنیا کی خیر کے لئے بنا دے اور اس کے نتیجے ایسے نکلیں کہ دنیا کے دُکھ دور ہوں اور دنیا کو سکھ پہلے سے زیادہ حاصل ہونے لگیں.(روز نامه الفضل ربوه ۱۱ رمئی ۷ ۱۹۷ ء صفحه ۲ تا ۵ )

Page 82

Page 83

خطبات ناصر جلد ہفتم ۶۹ خطبہ جمعہ ۱/۸ پریل ۱۹۷۷ء جماعت احمدیہ مولا بس“ کا نعرہ لگاتے ہوئے فرمائی:.پیار ومحبت سے دلوں کو جیت رہی ہے خطبه جمعه فرموده ۸ را پریل ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ان آیات کریمہ کی تلاوت وَمَا أُوتِيتُم مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَ ابْقَى أَفَلَا تَعْقِلُونَ - اَفَمَنْ وَعَدْنَهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَا قِيْهِ كَمَنْ مَّتَعَنْهُ مَتَاعَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ.(القصص: ۲۱ ، ۶۲) پھر حضور انور نے فرمایا:.اس دنیا میں انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتا ہے اور یہ عطا ایک خاص مقصد کے لئے انسان پر نازل ہوتی ہے.انسان کا ذہن ہے، انسان کی طاقت ہے، انسان کی استعداد ہے ، اخلاقی طاقتیں اور روحانی قوتیں ہیں جو انسان کو دی گئی ہیں.غرضیکہ انسان کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ ایک خاص مقصد کی خاطر ا سے ملا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان دو آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے فرمایا ہے انسان میں سے دو گروہ بن جاتے ہیں.ایک وہ گروہ ہے کہ جو کچھ انہیں ملتا ہے اسے وہ صرف مَتَاعُ الْحَيوة

Page 84

خطبات ناصر جلد ہفتم ۷۰ خطبہ جمعہ ۱/۸ پریل ۱۹۷۷ ء الدُّنْيَا وَزِينَتُها سمجھتے ہیں اور اس سے آگے نہیں بڑھتے.خدا نے جو د نیوی سامان دیئے ہیں ان کا استعمال محض دنیا کے لئے اور دنیا کی اغراض کی خاطر کیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی عطا کو دنیا کی زینت کے لئے سمجھا جاتا ہے.اسی کی طرف دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعَا (الكهف : ۱۰۵) پھر فرمایا ایک دوسرا گروہ ہے جو عقل رکھتا ہے اور اس کا استعمال کرتا ہے اس گروہ کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے فرمایا اَفَلَا تَعْقِلُونَ یہ لوگ عقل سے کام کیوں نہیں لیتے لیکن عقل سے کام لینے والوں کا بھی ایک گروہ ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں جو کچھ انسان کو ملا وہ اس لئے ہے کہ وہ اپنے وجود اور اس کی طاقتوں کی نشو و نما اس طرح کرے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا سچا، حقیقی اور پختہ تعلق قائم ہو جائے.یہی تعلق ہے جس کے نتیجہ میں اس دنیا کے بعد بھی حسین جنتوں کا وعدہ دیا گیا ہے اور یہی تعلق ہے جس کے نتیجہ میں اس دنیا میں بطور جزا کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بدلہ ملتا ہے.فرمایا وَمَا عِنْدَ اللهِ خَیرُ اور وہ بدلہ خیر اور بھلائی ہوتی ہے.وہ دکھوں کی طرف، وہ جہنم کی طرف اور وہ خدا تعالیٰ کے غضب کی طرف لے جانے والی چیز نہیں ہوتی بلکہ خیر محض ہوتی ہے، خدا کا عطیہ ہوتی ہے اور صرف اس دنیا میں ختم نہیں ہو جاتی.خدا تعالیٰ انسان کو اس کے نیک اعمال کے نتیجہ میں اور اس کی جو قربانیاں اور ایثار ہے اور خدا کے لئے محبت ذاتی کی انسان کے دل میں جو تڑپ ہوتی ہے اس کے نتیجہ میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ خیر بھی ہے وابقی اور باقی رہنے والی چیز بھی ہے یعنی اس دنیوی زندگی پر موت آجانے کے بعد وہ ختم نہیں ہو جاتی بلکہ باقی رہتی ہے انسان کو ایک نئی زندگی ایک جنتی زندگی ملتی ہے اور اس میں وہ ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتا اور اس کی رضا سے انتہائی مسرتوں کو پاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ گروہ جو خدا تعالیٰ کے لئے خدا ہی کی عطا کردہ دنیوی چیز میں خرچ کرتا ہے، وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور ملے گا.فرمایا وَعْدًا حَسَنًا بڑا حسین وعدہ ہے وہ حسین بھی ہے اور پورا ہونے والا بھی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لا.يُخْلِفُ الْمِیعاد خدا کے جو وعدے اور وعید ہیں ہر دو مشروط ہیں اور ہر دوا اپنی شرائط کے ساتھ

Page 85

خطبات ناصر جلد ہفتہ اے خطبہ جمعہ ۱/۸ پریل ۱۹۷۷ ء پورے ہوتے ہیں.اسی لئے انسان کو خاتمہ بالخیر کی دعا کی تحریک کی گئی ہے.خَيْرُ وَ اَبھی ہی کے الفاظ کے بعد خدا تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے، تم سمجھتے کیوں نہیں کہ تمہاری پیدائش کی غرض کیا ہے، تم سمجھتے کیوں نہیں کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے وہ اسی مقصد کے حصول کے لئے تمہیں ملا ہے.قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ خدا نے فرمایا:.خَيْرٌ وَ ابْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمُ يَتَوَكَّلُونَ (الشوری: ۳۷) فرمایا خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اس کی ہدایت کی روشنی میں جو لوگ اپنے اموال کو اور اپنی طاقتوں کو اپنی قوتوں اور استعدادوں کو اور اپنی اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے اور خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق خدا دا د قوتوں کی نشو و نما کرتے ہیں وہ عقل سے کام لینے والے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ یعنی انہوں نے اپنی انتہائی کوشش کی خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول میں مگر نتائج کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر چھوڑ دیا.دراصل ایمان کے معنے عقیدہ کا ایمان اور زبان سے اس کا اقرار اور اس کے مطابق عمل کرنا یہ سب چیزیں لغت عربی کے مطابق لفظ ایمان میں شامل ہیں.تو جو شخص ایمان لاتا اور مومنانہ زندگی گزارتا ہے اور اس کے دل میں پاکیزگی پائی جاتی ہے اور کھوٹ نہیں اور ملاوٹ نہیں اور نفاق نہیں اور فساد نہیں ہوتا اور اعمال صالحہ بجالاتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہی کافی نہیں ، جب تک خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے خاتمہ بالخیر نہ کرے اور اپنے فضل اور رحمت سے جنتوں کے سامان.نہ پیدا کرے محض اعمال کوئی چیز نہیں.غرض جب خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کی ترقیات کے لئے آسمانی ہدایت بھیجی جاتی ہے تو دنیا دو گروہوں میں بٹ جاتی ہے.تاریخ بتاتی ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور قرآن کریم جیسی عظیم ہدایت انسان کے ہاتھ میں دی گئی تو آپ کی اس عظمت وشان کے باوجود پھر بھی سارے ہی انسان ایسے نہیں تھے جنہوں نے آپ کو قبول کیا اور قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق زندگیاں گزارنے لگے.یہ تو بڑا لمبا مضمون ہے جو بڑی وضاحت سے بیان ہوا

Page 86

خطبات ناصر جلد ہفتم ۷۲ خطبہ جمعہ ۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۷ء ہے کہ اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے اور انسان کی کوشش کو قبول کر لیتا ہے یعنی انسان کی بعض چھوٹی چھوٹی کوششیں ہیں جو مقبول ہو کر انسانی مغفرت کا باعث بن جاتی اور اس کی ترقیات کا زینہ ٹھہرتی ہیں اور بعض دفعہ انسان کی ذراذراسی لغزش اسے خدا تعالیٰ کے دربار سے دھتکار کر پرے پھینک دیتی ہے.یہ ساری باتیں قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں.قرآن کریم ہمارے لئے کامل ہدایت ہے اس کے بعد ہمیں کسی اور ہدایت کی ضرورت باقی نہیں رہتی.پس انسانوں کی دو جماعتیں یا دو گروہ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر کیا ہے.ایک وہ گروہ ہے جن کو متاع زندگی اور زینت حیات خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی اور انہوں نے یہ سمجھا کہ گویا وہ اس کے حقدار تھے ، اس دنیا میں مزے لوٹنے کے لئے انہیں یہ چیزیں عطا کی گئی ہیں اور مزہ لوٹنا بھی کیا جس کا انجام تبا ہی ہے.دنیا کی خوشیاں اور عیش اس دنیا میں بھی انسان کی تباہی کا باعث بنتے ہیں مثلاً جسمانی طاقتیں ہیں.دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو عارضی لذتوں کی خاطر خداداد طاقتوں کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے اس دنیا کی بقیہ زندگی میں نہایت مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا ان کی صحت ایسی گر جاتی ہے کہ اس دنیوی زندگی کا بھی کوئی لطف ان کے لئے باقی نہیں رہتا.اس لئے اصل مسرت اور لذت تو وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کی روشنی یعنی قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہوتی ہے.وہی سرور حقیقی سرور ہے اس دنیوی زندگی میں بھی اور وہی سرور اُخروی زندگی میں ایک اور شکل میں انسان کے وجود کو اور اس کی روح کو ملے گا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بعض لوگ عقل سے کام نہیں لیتے.وہ سوچتے نہیں کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ ہے جسے خدا تعالیٰ نے باطل تو نہیں بنایا تھا.انسانی زندگی کا کوئی مقصد ہونا چاہیے.اس کی کوئی غرض ہونی چاہیے انسانی پیدائش کا کوئی مقصد ہونا چاہیے.چنانچہ انسان کو مخاطب کر کے یہ اعلان کر دیا گیا کہ ہر دو جہان کی ہر چیز بلا استثناء اس کی خدمت پر لگا دی گئی ہے.کتنا بڑا مقام ہے جو انسان کو دیا گیا ہے.وہ اپنی ماں کے پیٹ سے تو یہ چیزیں لے کر نہیں آتا یہ خدا تعالیٰ کی عطا ہے.یہ اس کی رحمت ہے حتی کہ اس نے ان ستاروں کو بھی جن کی روشنی ابھی ہم تک نہیں پہنچی انسان کی خدمت پر لگا رکھا ہے.سائنس سے تعلق رکھنے والے

Page 87

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۷۳ خطبہ جمعہ ۸ ا پریل ۱۹۷۷ ء ردوود لوگ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ایسے ستارے بھی ہیں جن کی روشنی ابھی ہم تک نہیں پہنچی اور ایسے ستارے بھی ہیں جن کی روشنی پچھلے پندرہ ہیں سال میں ہماری دنیا تک پہلی بار پہنچی ہے ان سب کو خدا نے ہماری خدمت پر لگایا ہوا ہے چنانچہ صحیح جہت کی طرف سائنس کی ہر ترقی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مخلوق خدا انسان کی ایک نئی شکل میں خدمت کر رہی ہے.ہر Scientific Discovery (سائنسی انکشاف) سے پتہ لگتا ہے کہ کتنا عظیم اعلان تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا تھا:.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) لیکن پھر بھی ان سائنسدانوں میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے اور اس دنیا کے متاع اور اس کی زینت کو کافی سمجھتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اس دنیوی متاع اور اس کی زینت کے نتیجہ میں اُخروی متاع کے سامان پیدا کرنے کے لئے اور اُخروی زندگی کے حسن کے حصول کے لئے کوشش کرتے ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (الكهف: ۱۰۵) دنیوی عیش و آرام میں پڑ جاتے ہیں جو کہ وقتی ہے اور اس میں حقیقی لذت بھی نہیں مگر پھر بھی ایسے لوگ اپنا سب کچھ دنیوی لذتوں کی خاطر برباد کر دیتے ہیں اور خدا سے دُوری کی راہیں ان کو خدا کے غضب کی جہنم کی طرف لے جاتی ہیں لیکن وہ لوگ بھی ہیں جو عقل رکھتے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اور اس شریعت پر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے ہاتھ میں دی ہے، ایمان لائے ہیں اور جن کی زندگیاں اسلام کی خاطر ہیں.ان کی زندگی کا ہر لمحہ اس کوشش میں صرف ہوتا ہے کہ جو بھوکی اور پیاسی دنیا ہے اور خدا اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دوری کی زندگی گزار رہی ہے، وہ اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس لوٹ کر آئے چنانچہ اس غرض کے لئے دوست دعا ئیں کر رہے ہیں کوشش کر رہے ہیں اور اموال کی قربانی دے رہے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اس قسم کا گروہ دنیا میں پیدا ہوگا.قرآن کریم نے جب یہ کہا تو قرآن کریم کے نزول کے بعد بھی ان دو گروہوں کا ذکر اس کے اندر آ سکتا ہے.ماضی کا تو حوالہ اس میں نہیں دیا گیا ویسے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر نبی کے وقت ایسا ہی ہوتا آیا ہے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی بلندشان کے باوجود اور قرآن کریم کی کامل اور

Page 88

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۷۴ خطبہ جمعہ ۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۷ء مکمل شریعت و ہدایت کے باوجود کچھ لوگ عقل سے کام نہیں لیں گے اور وہ شیطان کی طرف دوڑیں گے.بجائے اس کے کہ خدائے رحمان کی طرف ان کی حرکت ہوا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے مطابق ان کے قدم زمین پر پڑیں وہ شیطان کے گروہ کی طرف چلیں گے لیکن ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو ایسا نہیں ہو گا.وہ ایسے لوگ ہوں گے جو عقل رکھتے ہوں گے، جو ایمان رکھتے ہوں گے، جو خدا تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوں گے، جو سب کچھ کرنے کے بعد بھی یہ سمجھتے ہوں گے کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا.جو آخری چیز ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے جس کے نتیجہ میں انسان چھوٹا ہو یا بڑا خدا کی رضا کی جنتوں میں داخل ہوتا ہے.یہ گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر اب تک اُمت مسلمہ میں پیدا ہوتا رہا ہے.ایسے لوگوں نے بڑی قربانیاں دیں اور انہوں نے اپنی زندگیاں بڑی فراست سے گزاریں اور خدا کی رضا اور اس کے پیار کو حاصل کرنے اور دنیا کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کے لئے انتھک کوشش کی تا کہ ساری دنیا اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی رضا کو حاصل کرے.شروع سے ہی ایسا گروہ چلا آ رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو بڑی کثرت سے ہمیں نظر آتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں کی ، انہوں نے اپنے آراموں کی کوئی پرواہ نہیں کی ، انہوں نے اپنے عزیزوں کی ، اپنے رشتہ داروں کی اور دوستوں کی کوئی پرواہ نہیں کی.صرف ایک ہی ہستی تھی جس پر وہ مر مٹے تھے اور ایک ہی نعرہ تھا جو ان کی زبان سے نکلتا تھا اور وہ تھا مولا بس.اللہ مل جائے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک انگوٹھی کے اوپر بھی مولا بس کندہ ہے.آپ کی تین انگوٹھیاں تھیں جو بعد میں تین بیٹوں کو ورثے میں ملیں.ان میں سے ایک الیس الله يكان عبد کا والی انگوٹھی ہے جو تین دفعہ قرعہ اندازی کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے وراثت میں ملی تھی لیکن جب ان کو اللہ تعالیٰ نے خلعت خلافت عطا کیا تو آپ نے سمجھا کہ یہ اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی ( جو اس وقت میں نے پہن رکھی ہے ) خاندانی ورثے میں نہیں جانی چاہیے بلکہ خلافت

Page 89

خطبات ناصر جلد ہفتم ۷۵ خطبہ جمعہ ۱/۸ اپریل ۱۹۷۷ ء میں چلنی چاہیے.چنانچہ یہ انگوٹھی خلافت ثالثہ کے قیام پر مجھے دی گئی.اب ضمنا یہ بات آگئی ہے تو میں سب کو سنا دیتا ہوں تا کہ اس کے بارہ میں اگلی نسلوں کے لئے آپ سب کی گواہی رہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہی انگوٹھی جو اس وقت میری انگلی میں ہے اور جس پر میں نے کپڑا چڑھایا ہوا ہے ہماری محترمہ آپا صدیقہ صاحبہ کو دی اور یہ کہا کہ میری وفات کے بعد جو بھی خلیفہ منتخب ہو یہ اس کی ہوگی اور اس کے بعد جو خلیفہ ہو اس کی ہوگی.جب تک یہ سلسلہ خلافت جماعت مومنین میں قائم رہے یہ انگوٹھی ایک خلافت سے دوسری خلافت کی طرف منتقل ہوگی.ایک بڑے بیٹے سے دوسرے بیٹے کی طرف منتقل نہیں ہوگی.چنانچہ انتخاب خلافت کے بعد اس وصیت کے ساتھ ہماری محترمہ آپا صدیقہ صاحبہ نے یہ انگوٹھی مجھے دی.ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ انگوٹھی پہنی ہوئی تھی ، آپ نے کسی کام کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کا نگ ڈھیلا تھا وہ گر گیا.آپ نے جب دیکھا کہ نگ جس کے اوپر الیس الله بکاف عبد کا کندہ ہے گم ہو گیا ہے تو کچھ دیر کے لئے آپ کو بڑی پریشانی اٹھانی پڑی.سب کام چھوڑ کر اور چھڑوا کر گھر کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک ڈھونڈ مارا مگر انگوٹھی کا نگینہ نہ ملا.بڑی پریشانی ہوئی اور گھنٹے دو گھنٹے کے بعد کسی کام کے لئے پھر جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب میں نگ پڑا ہوا تھا جس کو گھر میں تلاش کر رہے تھے.اس لئے میں نے یہ سمجھا کہ میں یہ خطرہ کیوں مول لوں ، عاجز انسان ہوں اس کے اوپر کپڑا چڑھوائے رکھتا ہوں تا کہ نگ اپنی جگہ پر قائم رہے اور اس کے گرنے کا خطرہ نہ رہے.اگر چہ وہ اس وقت ہل نہیں رہا لیکن میں یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا.میں بتا یہ رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک انگوٹھی پر ”مولا بس“ کندہ ہے.اس حقیقت کو جب ایک مسلمان پہچان لیتا ہے تو پھر اس کے لئے دنیا کے اموال میں ، دنیا کی قوتوں اور استعدادوں میں، دنیا کی ذہانتوں اور فراستوں میں کوئی کشش نہیں ہوتی.وہ سمجھتا ہے مولا بس اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے.یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو شروع میں ایک لمبے عرصہ تک دکھ سہنے پڑے، ان کو دھوپ میں لٹایا گیا ، ان پر پتھر رکھے گئے اور جس طرح بھی ممکن تھا ان کو تکالیف دی گئیں لیکن انہوں نے انتہائی ثبات قدم کا نمونہ دکھایا کیونکہ ان کو خدا کا یہ حکم تھا

Page 90

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۷۶ خطبہ جمعہ ۱/۸ پریل ۱۹۷۷ء کہ جو خدا نے کہا ہے وہ تم نے کرنا ہے.پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ نے کہا:.أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (الحج:۴۰) کہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین پر ظلم کی انتہا ہو گئی ہے اس لئے ان کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ ظلم کا مقابلہ کریں.تب انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کے پاس سیف ہندی یا زنگ آلود معمولی سی تلوار ہے ( ہندوستان کی بنی ہوئی تلوار میں بہت مشہور تھیں ، بڑے اچھے لو ہے اور بڑی تیز دھار والی تھیں ) غرض دنیا کی بہترین تلوار کفر کے ہاتھ میں تھی اور مسلمانوں کے ہاتھ میں زنگ آلود تلوار میں تھیں جن پر دندانے پڑے ہوئے تھے اور کچھ تو مانگی ہوئی تھیں.انہوں نے کہا.مولا بس.چنانچہ ٹوٹی ہوئی تلوار میں لے کر ننگے پاؤں لڑنے کے لئے چلے گئے کیونکہ خدا نے کہا تھالڑ و.مارنے اور ہلاک کرنے کے لئے نہیں بلکہ عرب میں امن اور آشتی پیدا کرنے کے لئے.یہ دفاعی جنگ تھی ظلم کو مٹانے اور جنگوں کا خاتمہ کرنے کے لئے اور پھر فتح مکہ کے موقع پر تھوڑے سے ہتھیار استعمال ہوئے مگر جنگوں کا خاتمہ ہو گیا.چنانچہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ظاہر ہوئی کہ عمر بھر کے جو 99111 ویری اور دشمن تھے ان کو لا تثریب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کا نعرہ لگا کر خدا تعالیٰ کی رحمت کی جنتوں کی طرف دھکیل دیا.جو لوگ اسلام کے دشمن تھے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے اور مسلمانوں کے دشمن تھے ان کے کانوں میں جب اس نعرہ کی آواز آئی تو وہ جا کر اسلام لے آئے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بن گئے.پس حقیقت یہی ہے کہ مولا بس.اور آج کی دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ایک ایسی جماعت ہے جو یہ کہتی ہے کہ ہم بھی ان لوگوں کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں.ہماری زندگی بھی اسی بنیاد پر استوار ہے کہ مولا بس.ہماری روح کی بھی یہی آواز ہے.خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ سے اتنا پیار کرتا ہے کہ سوائے اس گروہ کے جنہوں نے بہت قربانیاں دیں.ان کے ساتھ تو ہم مقابلہ نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے بڑا مقام حاصل کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اور آپ سے تربیت حاصل کر کے.لیکن وعدہ دیا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی صحبت اور روحانی تربیت جو ہے وہ بہت بڑے پیمانے پر اور ایک شان کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ

Page 91

خطبات ناصر جلد ہفتہ LL خطبہ جمعہ ۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۷ء علیہ وسلم ہی کی تربیت اور آپ کے روحانی فیوض کے نتیجہ میں اس جماعت کو بھی ملے گی جو جماعت مہدی پر ایمان لائے گی اور ليُظهِرةُ عَلَى الدِّينِ كُله (الصف:۱۰) میں جو وعدہ دیا گیا تھا پیار کے ساتھ اور اسلامی تعلیم کے حسن کے نتیجہ میں ساری دنیا کے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رب کریم کے لئے جیتے جائیں گے.چنانچہ اس زمانہ میں جماعت احمدیہ مولا بس کا نعرہ لگاتے ہوئے، ہر چیز کو بھلاتے ہوئے ، ہر ایک سے پیار کرتے ہوئے کسی سے دشمنی کئے بغیر ، محبت اور پیار اور خدمت کے نتیجہ میں ساری دنیا کے دل اسلام کے لئے جیت رہی ہے.اس وقت یہ جماعت جس کے افراد بڑی کثرت سے اور بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے ایمانوں پر قائم ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے ہیں اور جس میں نئے داخل ہونے والے اور نئی پرورش پانے والی انگلی نسل کا ایک بڑا حصہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والا ہے.میں اس وقت کمزوریاں دور کرنے پر مضمون بیان نہیں کر رہا بلکہ وہ چیز جو نمایاں ہوکر دنیا کے سامنے ہے اور جس وجہ سے ہے وہ آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں.ہر سال اپنے مسائل لے کر آتا ہے.ہر سال کی اپنی Problems ہیں.ایک سال آیا اس کو ہم ۱۹۷۴ ء کا سال کہتے ہیں اس کے اپنے حالات تھے.اب یہ ۷۷ - ۱۹۷۶ء کا سال ہے اس کے اپنے مسائل ہیں.یہ مہنگائی کا زمانہ ہے، یہ مہنگائی کا سال ہے لیکن ۱۹۷۴ء کے حالات کی اس جماعت نے کوئی پرواہ نہیں کی اور ہر قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا.دوستوں نے دعائیں کیں.اپنے وقت عزیز کو دنیا کے حصول پر خرچ کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اپنی خیر خواہی اور بھلائی کے لئے بھی دعائیں کیں اور ان لوگوں کے لئے بھی دعائیں جو خود کو جماعت احمدیہ کا دشمن سمجھتے تھے.کسی سے کوئی گلہ نہیں تھا.کسی سے کوئی شکوہ نہیں تھا.کسی سے کوئی غصہ نہیں تھا.کسی سے نفرت کا اظہار نہیں تھا.دوست دعاؤں میں لگے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ مخالفین سلسلہ کے لئے بھی خیر اور بھلائی کے سامان پیدا کرے اور خدا کے اس پیار کو جو ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ رہے ہیں ، وہ بھی دیکھنے لگیں.غرض ان قربانیوں کا ایک حصّہ مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْیا یعنی کا ایک حصہ دنیوی دولت ہے.

Page 92

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۷ء چنانچہ اس زمانہ میں احباب نے پہلے سے زیادہ اموال کی قربانی خدا کے حضور دے دی.ہر سال ہمارا قدم آگے بڑھ رہا ہے.ہر سال یکم مئی ضرور آتی ہے یعنی جب نیا مالی سال چڑھتا ہے تو پہلا مالی سال ۱٫۳۰ پریل کو ختم ہو جاتا ہے.یہ تو ہر سال ہوگا جب تک زمین اور سورج کا یہ چکر چل رہا ہے اور انسان اس کرہ ارض پر آباد ہے اس حساب سے ہرسال گزرے گا اور ایک نیا سال چڑھے گا.ہرسال ہمارے لئے خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نتیجہ میں ہم عاجز بندوں کی کسی خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض الہی فضلوں کے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ ترقیات کا سال ہوتا ہے.پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کا سال ہوتا ہے.پہلے سے زیادہ خدا کی راہ میں ایثار اور قربانی پیش کرنے کا سال ہوتا ہے.ہر نقطہ نگاہ سے جس میں ایک نقطہ نگاہ مالی قربانی ہے.اب پھر موجودہ مالی سال کا یہ آخری مہینہ ہے جب مالی سال ختم ہونے کو ہوتا ہے تو اس کے چند ہفتے پہلے میں ذکر کے حکم کے ماتحت جماعت کو اس طرف توجہ دلا یا کرتا ہوں کہ ایک مالی سال ختم ہو رہا ہے جو سال ختم ہو رہا ہے اس کی ذمہ داریاں اسی سال میں نباہ دو.اس کے قرضے اگلے سال تک لے کر نہ جاؤ ورنہ قرضے بڑھتے جائیں گے اور ان کی ادائیگی میں تکلیف ہوگی.اس طرح بعض دفعہ انسان خدا تعالیٰ سے دور چلا جاتا ہے اور پھر پیار اور بشاشت سے قربانی نہیں کر سکتا.میں امید رکھتا ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ جماعت جو ہر آن خدا کے پیار کو حاصل کرنے والی ہے وہ اپنی اس سال کی مالی قربانیوں کی ذمہ داریوں کو نباہے گی.اس کا قدم آگے ہی آگے جائے گا.ان کا قدم نہ ایک جگہ کھڑا ہوگا اور نہ پیچھے ہٹے گا.ہم اللہ تعالیٰ پر تو گل رکھتے ہیں اور اسی کے احسان اور رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ امیدیں ہم اپنے نفس سے بھی باندھتے ہیں ورنہ تو یہ نفس بڑا کمزور ہے اور جماعت سے بھی باندھتے ہیں.اگر چہ جماعت احمد یہ د نیوی نقطۂ نگاہ سے اور مالی اعتبار سے کمزور ہے اور ہر لحاظ سے دھتکاری ہوئی ہے لیکن اس کا تعلق اس ہستی سے ہے جس کا حکم ہر دو جہان پر چلتا ہے.وہ ہم سے اپنے پیار کا سلوک کر رہا ہے اور ہمیں تو تھکن بھی محسوس نہیں ہوتی.ایسا لگتا ہے کہ جس طرح ایک چھوٹا بچہ جس کو ابھی چلنا نہ آیا ہو اس کو اس کا پیار کرنے والا باپ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا ہے اسی طرح باپ سے

Page 93

خطبات ناصر جلد ہفتم ۷۹ خطبہ جمعہ ۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۷ء زیادہ پیار کرنے والا ہمارا رب کریم ہماری انگلی پکڑتا ہے اور اپنی رحمت اور فضل سے ہمارا قدم آگے بڑھا دیتا ہے.خدا کرے ہماری ہر آنے والی نسل خدا تعالیٰ کے اس پیار کو پانے والی اور خدا تعالیٰ کے اس نشان کو دنیا کے سامنے ظاہر کرنے والی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۲۷ جولائی ۱۹۷۷ء صفحہ ۲ تا ۵ )

Page 94

Page 95

خطبات ناصر جلد ہفتم ΔΙ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۷۷ء ہر احمدی اپنے اندر حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ کا جذبہ رکھتا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۵ را پریل ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس دنیا میں ہم جو بھی کام کرتے ہیں وہ یا تو اپنے لئے ہوتا ہے یا کسی اور کے لئے ہوتا ہے اور اگر اپنے لئے ہوتا ہے تو ضروری نہیں کہ اس کا نتیجہ صحیح نکلے اور اگر غیر کے لئے ہوتا ہے تو بہت سے ایسے کام ہیں جو انسان دوسروں کے لئے کرتا ہے اور اس کا اپنا کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن ایک ایسی ہستی ہے کہ جس کے لئے انسان کام ہی نہیں کر سکتا.اس ہستی کے علاوہ انسان اس دنیا میں ہر دوسرے کے لئے کام کر سکتا ہے اور کرتا رہتا ہے.کوئی کسی کے لئے کام کر رہا ہے اور کوئی کسی کے لئے کر رہا ہے لیکن ایک ہستی ایسی ہے جس کے لئے انسان کام ہی نہیں کرسکتا کیونکہ اسے اس کی احتیاج ہی نہیں.وہ ہستی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو غنِی عَنِ الْعَلَمِينَ (آل عمران : ۹۸) ہے اور اس کی شان یہ ہے کہ جو شخص اس کی رضا کے لئے کام کرتا ہے خواہ وہ بظاہر اپنے لئے کر رہا ہو یا کسی دوسرے کے لئے کر رہا ہو ہر کام جو خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے اور اس کے حکم کے ماتحت انسان کرتا ہے اس کا نتیجہ اس کا اجر اور اس کا ثواب اس کو بھی ملتا ہے حالانکہ وہ کام کر رہا ہوتا ہے کسی دوسرے کا جس کے ساتھ دنیوی لحاظ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن جہاں تک اللہ تعالیٰ

Page 96

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۸۲ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۷۷ ء کی ذات کا تعلق ہے وہ اس کو اجر اور ثواب دیتا ہے کیونکہ اس نے وہ کام خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کیا.فرمایا:.مَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ (العنكبوت: ( خدا تعالیٰ کے ساتھ جب کاموں کا تعلق ہو تو ہر شخص جو بھی کوشش کرتا ہے وہ اپنے نفس کے لئے کر رہا ہوتا ہے خواہ وہ کسی بیمار کی عیادت کر رہا ہو، خواہ وہ کسی دشمن کے لئے دعا کر رہا ہو، خواہ پاکستان میں رہنے والا ایک احمدی مسلمان افریقہ کے کسی علاقے کی کسی تکلیف کو دور کرنے کے لئے بے چین ہو اور متضرعانہ دعاؤں میں لگا ہوا ہو، خواہ وہ سیلاب کے زمانہ میں ان لوگوں کے لئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال رہا ہو جن کا بظاہر دنیوی لحاظ سے اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اگر کسی جگہ زلزلے آتے ہیں تو خدا کو خوش کرنے کے لئے اس کے بندوں کی خدمت کرنے کے لئے خواہ وہ دنیا کے کسی علاقے میں ہوں ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مال کی قربانی دے رہا ہو جیسا کہ حکومتیں حکومتوں کی سطح پر ایک دوسرے کی مدد کرتی رہتی ہیں.اگر خدا کے لئے یہ کام کیا گیا ہے تو بظا ہر کوئی تعلق نہیں ہے اس کی ذات کا ان کاموں کے ساتھ یعنی اپنی ذات کے لئے اس نے یہ کام نہیں کئے لیکن چونکہ اس نے اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کے لئے کام کئے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ اجر دے دیتا ہے.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں اور مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھاتے ہیں یعنی ایسی راہیں، ایسے طریق اور ایسے صراط مستقیم پر چلاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی طرف جانے والا ہے.ایسے لوگ محسن ہیں کیونکہ وہ اپنے افعال کو جہاں تک خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا سوال ہے اپنے کمال تک پہنچانے والے ہیں، وہ اپنی کوشش کو اپنے کمال تک پہنچانے والے ہیں ، وہ اپنی نیتوں کی پاکیزگی کو اپنے کمال تک پہنچانے والے ہیں، وہ اپنی دعاؤں کو اپنے کمال تک پہنچانے والے ہیں.وہ محسن ہیں اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہوتا ہے کہ اللہ اپنی خوشنودی اور اپنی رضا کی راہیں ان پر کھولتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتے ہیں.پس جہاں تک انسان کا انسان کے کام آنے کا تعلق ہے انسان بہت سے ایسے کام کرتا ہے

Page 97

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۸۳ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۷۷ء جن کا نہ براہ راست اور نہ بالواسطہ اس کی ذات کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.وہ ایک کام کرتا ہے، کام کرنا اس کا فعل ہے لیکن اس کا فائدہ کسی دوسرے انسان کو پہنچ رہا ہوتا ہے لیکن جہاں تک خدا کے ایک عارف بندہ کا سوال ہے اس کا ہر کام جو وہ کرتا ہے اس میں وہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِینَ ہے اور دوسرے یہ کہ جب تقویٰ کی بنیادوں پر کام کیا گیا ہو اور بظاہر دنیوی اصول کے مطابق اس کے نفس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو تب بھی خدا تعالیٰ اس کو ثواب دیتا ہے.گویا انسان کا کوئی فعل اپنے اس نتیجہ کے بغیر نہیں رہتا کہ اس کو اس کا بدلہ ملے اور وہ اس کا ثواب پائے.غرض خدا ایک بڑی ہی عظیم ہستی ہے ، وہ بڑی پیار کرنے والی ہستی ہے، وہ بڑے احسان کرنے والی ہستی ہے اور بڑی رحمتوں سے نواز نے والی ہستی ہے.دنیا دار تو کام کروا کے بھی ناشکرے بن جاتے ہیں مگر ہمارا رب جسے کام کی احتیاج بھی نہیں لیکن اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے جو کام کیا جاتا ہے اس پر اس کا اسی طرح رد عمل ہوتا ہے جس طرح کہ گویا اس نے خدا کے لئے کام کیا ہے.وہ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِینَ ہے لیکن اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ جب میں ننگا ہوتا ہوں تو بعض لوگ مجھے کپڑے دیتے ہیں.میں بھوکا ہوتا ہوں تو میری بھوک کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ دراصل مخلوق خدا کی بھلائی کی طرف اشارہ ہے.زید یا بکر کا ہر وہ کام جو خدا کی مخلوق کے کسی حصے سے تعلق رکھتا اور ان کی بھلائی کی خاطر کیا جاتا ہے اسلامی تعلیم کے مطابق خدا تعالیٰ انسان کو اس کی جزا دے گا.پس ایک تو انسان انسان کا تعلق ہے جس میں ایک مومن انسان سمجھتا ہے لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا (الدھر : ۱۰).مومن اپنے بھائی کا کام کرتا ہے مگر اس کے دل کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ وہ نہ جزا چاہتا ہے اور نہ یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کا احسان مند ہواورشکر کے کلمات کہے.بعض لوگ کسی کے شکر گزار ہو جاتے ہیں بعض نہیں ہوتے لیکن خدا کے پیارے بندہ کو اس سے کیا تعلق؟ کیونکہ اس نے تو خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے اس کی رضا کے حصول کے لئے اس کی رحمتوں کو پانے کے لئے ہر کام کرنا ہے.

Page 98

خطبات ناصر جلد ہفتم ۸۴ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۷۷ء غرض قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی بڑی عظیم الشان ہستی ہے.وہ مالک بھی ہے، بادشاہ بھی ہے.اس کا ئنات پر اسی کا حکم چلتا ہے.تم اس کی خاطر ، اس کی رضا کے حصول کے لئے اس کے بتائے ہوئے طریقوں اور تقویٰ کی بنیادوں پر جو کام کرو گے تو وہ تمہیں اس کا بدلہ دے گا خواہ تمہارا وہ فعل ایک ایسے شخص کی بھلائی کے لئے ہے جو تمہارا دشمن ہے اور خود کو تمہارا دشمن سمجھتا ہے.بعض دفعہ دوسرے سے تعلق رکھنے والے کام حالات کے مطابق اہم بن جاتے ہیں مثلاً جو حالات اس وقت ہمارے ملک کے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ہم عام طور پر اپنی دعاؤں میں اپنے ملک کو اور اہل ملک کو یا در کھتے ہیں.ہم ان کی بھلائی کے لئے دعائیں کرتے ہیں.ہم اپنے ملک کے استحکام کے لئے دعائیں کرتے ہیں.میں احباب جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں.ہر احمدی اپنے اندر حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ کا جذبہ رکھتا ہے اور خدا کو خوش کرنے کے لئے وہ اپنے ملک سے پیار کرتا ہے لیکن جہاں تک موجودہ نازک دور کا تعلق ہے ہمارے ملک اور اہل ملک کے حالات ہماری دعاؤں کو خاص طور پر بلا رہے ہیں.ہمارا ملک اور ہمارے اہل ملک ، ہمارے بھائی اور اس ملک کے باشندے زبانِ حال سے ہمیں پکار رہے ہیں کہ ہم ان کے لئے دعا کریں.اس وقت جس دور میں سے ہم گزر رہے ہیں اور ملک کے جو حالات ہیں قوموں پر ایسے دور آیا کرتے ہیں.ایسے حالات میں ہر وہ آدمی جو اپنے ملک سے پیار کرنے والا صاحب شعور اور فراست ہے، وہ پریشان ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی اور پاکستان یہ تقاضا کر رہا ہے کہ جسے خدا نے اقتدار دیا ہے وہ اپنے اقتدار کو، حالات کو معمول پر لانے اور ملک کے استحکام کے لئے استعمال کرے.جو لوگ سیاستدان ہیں اور سیاست میں پڑے ہوئے ہیں وہ اپنی سیاست کو ملک کے استحکام کے لئے اور امن کے قیام اور فساد کو دور کرنے کے لئے خرچ کریں لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے نہ تو یہ صاحب اقتدار ہے اور نہ سیاست سے دلچسپی لینے والی جماعت ہے البتہ ہمارے پاس ایک زبر دست ہتھیار ہے اور وہ دعا کا ہتھیار ہے.پس موجودہ دور جس میں سے ہمارا ملک گزر رہا ہے ہمیں اپنے ملک اور اہل ملک کے لئے

Page 99

خطبات ناصر جلد ہفتم ۸۵ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۷۷ ء خاص طور پر دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ملک میں امن کے حالات پیدا کر دے اور ملک کے لئے استحکام کے قیام کے حالات پیدا کر دے.میں اپنے دوستوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اپنی پوری توجہ کے ساتھ اور پوری تضرع کے ساتھ ملک کے لئے دعا کریں اور دعا کو اپنے کمال تک پہنچا ئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۵ رستمبر ۱۹۷۷ء صفحه ۲، ۳)

Page 100

Page 101

خطبات ناصر جلد ہفتم AL خطبہ جمعہ ۲۲ را پریل ۱۹۷۷ء انسانی ضرورت کے تمام روحانی علوم قرآن میں ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۲ ۱۷ پریل ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس زمانہ میں دنیا علوم ظاہری میں بہت ترقی کر گئی ہے.پچھلی دو ایک صدیوں میں تو ہزاروں ہزار بلکہ چھوٹی بڑی ملا کر اس سے بھی زیادہ شاید لاکھوں نئی تحقیقات ہوئی ہیں سائنس کے میدان میں بھی اور جو غیر سائنسی علوم ہیں مثلاً سیاست ہے، معاشرہ ہے، تاریخ ہے ان میں بھی.جہاں تک دنیوی علوم کا اور ظاہری علوم کا تعلق ہے خواہ وہ سائنس کے میدان سے تعلق رکھتے ہوں یا غیر سائنسی میدان سے ، خواہ ان کا تعلق تحقیق سے ہو یا پرانی باتوں کو ذہن میں رکھنے اور یاد کرنے سے ہو جیسا کہ سکول اور کالج وغیرہ میں زیادہ تر جو حاصل شدہ چیز ہے اسے سکھایا جاتا ہے اور اس سے واقفیت پیدا کی جاتی ہے، بہر حال ظاہری علوم خواہ تحقیق سے تعلق رکھنے والے ہیں خواہ تحقیق سے تعلق رکھنے والے نہیں، خواہ سائنس سے تعلق رکھنے والے ہیں خواہ سائنس سے تعلق رکھنے والے نہیں ، ان تمام ظاہری علوم میں اور روحانی علوم اور قرآنی علوم میں بنیادی فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ قرآن کریم کے جو علوم ہیں ان کے حصول کے لئے ایک شرط ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے ایسے علوم کے سیکھنے والوں کے لئے اسی شرط کے ساتھ اس کے استعمال کو بھی باندھ دیا ہے اور

Page 102

خطبات ناصر جلد ہفتم ٨٨ خطبہ جمعہ ۲۲ را پریل ۱۹۷۷ء وہ شرط ہے تقویٰ کی شرط ، تزکیہ نفس یعنی نفس کی پاکیزگی اور طہارت کی شرط.ظاہری علوم میں تقویٰ کی شرط نہیں ہے چنانچہ بہت سے ، ظاہری علوم میں بڑی دسترس رکھنے والے لوگ بھی ہمیں فسق و فجور میں مبتلا نظر آتے ہیں اور وہ قومیں جنہوں نے دنیوی علوم میں بڑی ترقی کی ہے ان کا تو بہت بُرا حال ہے.جو دوست اخبار پڑھتے ہیں رسالے دیکھتے ہیں اور دنیا کا علم رکھتے ہیں ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ اتنا گند ہے اتنا فسق اور فجور ہے ان قوموں کی زندگی میں کہ اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ حصول علم ظاہری میں تقوی شرط نہیں.صرف یہ نہیں کہ گندگی سے اور نجاست سے اور فسق اور فجور سے اور درندگی سے انہوں نے خود کو نہیں بچایا بلکہ دُکھوں کے سامان پیدا کئے اور بھلائی کے سامانوں کو مٹانے کی کوشش کی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لاکھوں انسانوں کی جانیں تلف کر دی گئیں.اس صدی میں یہ جولڑائیاں ہوئی ہیں یعنی دو عالمگیر جنگیں آدمی سوچتا ہے تو جنگ کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ کیوں انسان لڑے اور حیران ہوتا ہے کہ وہ انسان لڑ پڑے جو خود کو علوم ظاہری کا بادشاہ سمجھتے تھے اور خود کو روشن خیال“ قرار دیتے تھے اور بڑا سمجھدار گردانتے تھے.وہ اس طرح گھتم گتھا ہو گئے کہ ( جوان تو خیر جنگ میں مارا جاتا ہے ) نہ انہوں نے بوڑھوں کے بڑھاپے کا خیال رکھا ان کو مار دیا ، نہ انہوں نے ان کا خیال رکھا جو ظاہری طور پر دین سے تعلق رکھنے والے تھے یعنی پادری وغیرہ ان کو قتل کر دیا.نہ عورت سے شرم آئی بڑی کثرت سے عورتوں کو مارا گیا.ہتھیا رہی اس قسم کے استعمال کر رہے تھے.بچے قتل کئے گئے اور دنیوی علوم کے لحاظ سے وہ بڑے دانا تھے.پس جیسا کہ حصول علم ظاہری کے لئے تقویٰ شرط نہیں ہے اسی طرح ظاہری علوم کے استعمال کے لئے بھی تقویٰ شرط نہیں ہے یعنی جو لوگ تقویٰ سے بے نیاز ہیں وہ صرف یہ نہیں کہ علم کے حصول یا تحقیق میں تقویٰ سے کام نہیں لیتے بلکہ جو کچھ وہ علم کے میدان میں حاصل کرتے ہیں اس کا استعمال ایسے رنگ میں کرتے ہیں کہ وہ نوع انسانی کی بہبود کی بجائے ان کی ہلاکت کے سامان پیدا کر دیتا ہے.قرآن کریم کے جو علوم ہیں جو روحانی علوم ہیں ان کے ساتھ تقویٰ کی شرط ہے.تقویٰ کے بغیر قرآنی علوم قرآنی اسرار، روحانی اسرار انسان حاصل نہیں کر سکتا.تقویٰ کے معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ

Page 103

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۸۹ خطبہ جمعہ ۲۲ ۱٫ پریل ۱۹۷۷ء سے خوف کھاتے ہوئے اس کی پناہ میں آجانا اور خدا تعالیٰ کے احکام کا جوا اپنی گردن پر رکھ لینا.تمام اوامر الہی اور نواہی کی پابندی کرنا اور اپنے نفس کو خدا کے لئے مار کر اسی سے ایک نئی زندگی کا پالینا یہ سب تقومی اور اس کے نتائج ہیں.قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :۸۰) کہ جب تک تزکیۂ نفس نہ ہو علوم قرآنی حاصل نہیں ہو سکتے.اگر تکبر ہے، اگر انانیت ہے، اگر فخر کی مرض ہے اسی طرح اور بہت سی بداخلاقیوں میں انسان ملوث ہو جاتا ہے، اگر وہ ہیں تو اپنے ہزار وعدوں کے باوجود بھی کوئی شخص قرآن کریم کے اعلان کے مطابق قرآن کریم کے علوم کو حاصل نہیں کرسکتا.باقی مثلاً حدیث ہے میں نے آپ کو اکثر بتا یا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد قرآن کریم کی تفسیر ہے تو یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تفسیر کی ہے اور کتابوں میں چھپ گئی ہے اس کے پڑھنے کے لئے تقویٰ کی شرط نہیں ہے.مارگولیتھ جو بڑا متعصب معاند اسلام تھا آکسفورڈ میں بھی پڑھاتا رہا ہے اس نے اسلام کے متعلق بڑی ظالمانہ اور مفسدا نہ کتابیں لکھی ہیں.ایک دفعہ اس نے یہ دعویٰ کیا کہ مسند احمد بن حنبل (جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا ایک مجموعہ ہے اور حدیث کی ایک بہت بڑی کتاب ہے ) اس کے خیال میں اس کے زمانہ میں سوائے اس کے کسی اور نے شروع سے آخر تک نہیں پڑھی اور وہ بڑا فخر کرتا تھا اس پر.پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس کی توفیق دی اور احمدیوں میں سے بھی بہت سے لوگ پیدا ہو گئے جنہوں نے شروع سے آخر تک اس کتاب کو پڑھا.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن کریم کی جو تفسیر کی گئی اور چھپ گئی جہاں تک اس کا تعلق ہے اس کے لئے تقویٰ کی شرط نہیں ہے البتہ اس کے اسرار کا علم حاصل کرنے اور اس کی روح پالینے کے لئے تقویٰ کی شرط ہے.قرآن کریم کے روحانی علوم جو انسان کی زندگی میں ایک عظیم انقلابی تبدیلی پیدا کر دیتے ہیں.اپنے اپنے زمانہ میں خدا تعالیٰ کے محبوب بندوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور تزکیۂ نفس کے بعد جو خدا تعالیٰ کے فضل سے انہیں حاصل ہوا یہ علوم حاصل کئے.تقویٰ کی بنیادوں پر یہ علوم حاصل کئے گئے اور جہاں تک استعمال کا تعلق ہے

Page 104

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۱/۲۲ پریل ۱۹۷۷ء تقویٰ کے بندھنوں میں ان کو باندھا گیا اور دنیا کی بھلائی اور خیر خواہی کے سامان پیدا کئے گئے.جہاں تک دنیوی علوم کا تعلق ہے وہ میری اس تمہید کے بعد دوحصوں میں بٹ جائیں گے.ایک ایسے دنیوی علوم کا حصول اور ان کا استعمال جو تقویٰ کی بنیادوں پر نہیں اور ایک ایسے دنیوی علوم کا حصول اور ان کا استعمال جو تقویٰ کی بنیادوں کے اوپر قائم ہے.انسان کی حقیقی فلاح اور خیر کے لئے وہی علوم ہیں ، وہی تحقیق ہے، وہی Discoveries (ڈس کو ریز ) ہیں.دست قدرت نے جو پیدا کیا اس کے نئے رموز کا حاصل کرنا ہے جو تقویٰ کے ساتھ بندھا ہوا ہے.جس وقت انسان زیادہ بہک جائے تو کہتا ہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے ہم خود ہی اپنے کام سنبھال لیں گے.سب سے زیادہ علم تو میں نے بتایا ہے کہ اس دنیا کے انسان نے حاصل کیا اور سب سے زیادہ ہلاکت کے سامان اس دنیا کے انسان نے پیدا کئے ، سب سے زیادہ تعداد میں انسانوں کو اس دنیا کے انسان نے ہلاک کیا.انہوں نے جاپان میں جو دو اٹامک بم گرائے تھے امریکہ کی بڑی مہذب دنیا نے جو اس وقت دنیوی علوم میں دنیا کی راہبر ہے اور قیادت ان کے ہاتھ میں ہے انہوں نے ایک بم سے سارا شہر تباہ کر دیا، بچے بوڑھے دودھ پیتے بچے بھی اور بوڑھی عورتیں بھی ان میں شامل تھیں، کئی لاکھ آدمی کو آن واحد میں تباہ کر دیا لیکن جب انسان خدا تعالیٰ کے احکام اور اس کے نواہی کے نیچے خود کو کر لیتا ہے تو ہر فعل سے پہلے اسے سوچنا پڑتا ہے کہ یہ کام میرے رب کو ناراض کرنے والا تو نہیں.پھر حقیقی تقویٰ اسے نور عطا کرتا ہے.وَيَجْعَلُ تَكُمْ نُورًا تمشُونَ بِه (الحدید: ۲۹) کہ تمہیں ایسا نور عطا کیا جائے گا جو تمہاری ساری راہوں پر حاوی ہوگا.تمہارے اقوال پر بھی حاوی ہوگا، تمہارے افعال پر بھی حاوی ہوگا، تمہارے حواس پر بھی حاوی ہوگا اور خدا تعالیٰ نے جو قو تیں اور استعدادیں تمہیں عطا کی ہیں ان پر بھی حاوی ہوگا.پس تقویٰ سے ایک تو علوم زیادہ ملتے ہیں، ظاہر ہے، کیونکہ ایک تو علوم کا وہ مجموعہ ہے جس میں روحانی علوم شامل نہیں اور ایک علوم کا وہ مجموعہ ہے جس میں ظاہری دنیوی علوم بھی شامل ہیں اور روحانی اور اخلاقی علوم بھی شامل ہیں یعنی قرآن کریم کے علوم جو تقوی کی بنیاد پر تزکیۂ نفس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے انسان حاصل کرتا ہے.پھر ان کا استعمال ہے.میں نے یورپ اور امریکہ

Page 105

خطبات ناصر جلد ہفتم ۹۱ خطبه جمعه ۲۲ ۱٫ پریل ۱۹۷۷ء کو بھی بتا یا کہ تم اپنے حقوق کے لئے لڑتے ہو، سٹرائیکس کرتے ہو.میں انہیں سمجھا تا رہا ہوں کہ تمہارا مزدور اپنے حقوق کے لئے سٹرائیکس کرتا ہے لیکن اس کو یہ پتہ نہیں کہ اس کے حقوق ہیں کیا ؟ عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ اپنے حقوق کو پہچانتا نہیں اور اپنے حقوق کے لئے کوشش اور جد و جہد کر رہا ہے.اسلام نے اس کے جو حقوق ہمیں قرآن کریم میں بتائے ہیں وہاں تک تو انسانی دماغ نہ پہنچ سکتا تھا نہ پہنچا.اب ہمارے بتانے کے بعد اسی کے مطابق کہیں کہیں سے کوئی ایسی آواز اور وہ بھی جس طرح اندھیروں میں سے اٹھی ہوئی آواز ہوتی ہے ) آنی شروع ہوئی ہے.قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوتیں اور استعداد میں عطا کی ہیں.ان استعدادوں کے چار گروہ ہیں.جسمانی طاقتیں اس کو دی گئی ہیں، ذہنی طاقتیں اسے عطا کی گئی ہیں ، اخلاقی قوتوں سے اللہ تعالیٰ نے اسے نوازا ہے اور پھر روحانیت کے میدان میں آگے بڑھنے کی بڑی قابلیت اس کو عطا کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اس انسان کی جتنی قوتیں اور استعدادیں ہیں ان کی کامل نشو و نما کے لئے جن مادی اور غیر مادی اشیاء کی ضرورت ہے وہ اسے ملیں اور جب وہ پوری طرح نشو و نما حاصل کر لے ایک وقت بلوغت کا آجا تا ہے، اگر چہ ترقی تو پھر بھی ہوتی رہتی ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ اس کی کامل نشو و نما ہو گئی ہے تو کامل نشوونما کے مقام پر کھڑے رہنے کے لئے اسے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسے ملنی چاہیے.میں بتایہ رہا ہوں کہ قرآنی علوم اور روحانی علوم کے لئے تقویٰ کی شرط ہے.ظاہری علوم خواہ تحقیق سے تعلق رکھتے ہوں یا نقلی علوم ہوں مثلاً یہ کہ بخاری شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی کس طرح تفسیر فرمائی ہے یا محی الدین ابن عربی نے اسلامی موضوعات پر کیا لکھا ہے یہ نقلی علوم ہیں جو ان کو پڑھے گا خواہ وہ دہریہ ہو یا عیسائی ہو یا یہودی ہو یا بدھ مذہب سے تعلق رکھتا ہو یا سنا تنی ہو ، جو بھی ان کتابوں کو پڑھے گا اگر اس کو خدا نے حافظہ دیا ہے اور علوم کے سمجھنے کی طاقت دی ہے تو وہ سمجھ جائے گا کہ فلاں نے یہ کہا لیکن اسلام کی اصطلاح میں یہ علم ہے ہی نہیں.ہمارے بزرگوں نے علم کے معنی یہ کر دیئے ہیں کہ علم اس روشنی کو کہتے ہیں ( تقویٰ کے نتیجہ میں جو روشنی ملتی ہے وہ انسان کی ساری را ہوں کو منور کر دیتی ہے ) چنانچہ علم کے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ علم

Page 106

خطبات ناصر جلد ہفتم ۹۲ خطبہ جمعہ ۱/۲۲ پریل ۱۹۷۷ء اس روشنی کو کہتے ہیں کہ جب وہ انسان کو حاصل ہو جائے تو وہ اس روشنی کے نتیجہ میں اپنے مسائل حل کرتا ہے اور کہیں اس کے لئے اپنے نفس سے بھی اور دوسروں سے بھی خفت اٹھانے کا موقع پیدا نہیں ہوتا.جب تک علوم ظاہری علوم روحانی کے ساتھ باندھ نہ دیئے جائیں جیسا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء ہے اس وقت تک نوع انسانی چین کی زندگی نہیں گزار سکتی.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا ، وہ بھی نہیں کر سکتے جو اس وقت علوم ظاہری میں ظاہری مادی آسمانوں کی بلند یوں تک پہنچے ہوئے ہیں ، جنہوں نے چاند پر کمند ڈال دی اور دوسرے ستاروں کے گرد جا کر چکر لگالئے ان کو بھی قائل کیا جا سکتا ہے اور میں انہیں قائل کرتا رہا ہوں کہ تم نے باوجود اس کے کہ اتنا کچھ حاصل کر لیا اپنے مسائل حل کرنے میں تم نا کام رہے ہو.دنیا چین کا سانس اسی وقت لے گی جب د نیوی علوم قرآن کریم کے علوم کے ماتحت ہو کر اس کے ساتھ بندھ کر قرآنی اور روحانی علوم کی روشنی میں استعمال کئے جائیں گے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے جماعت احمدیہ کو بشارت دی گئی ہے اس بندھن کے بعد ، دنیوی علوم جب روحانی علوم کی اطاعت کریں گے تو اس اطاعت کے بعد ایسا معاشرہ پیدا ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جماعت روحانیت کی وجہ سے اور تقویٰ کے نور کی وجہ سے دنیوی علوم میں بھی اس قدر ترقی کرے گی کہ دنیا کے بڑے بڑے عالموں کا منہ بند کر دے گی اور ان علوم کے میدانوں میں احمدی دماغ اس قسم کی حقیقتیں دریافت کرے گا اور Discover (ڈس کور ) کرے گا کہ ان کے اپنے میدانوں کی جو غلطیاں ہیں وہ ان پر ظاہر کرے گا جیسا کہ ایک حد تک یہ کام شروع ہو گیا ہے لیکن یہ اپنے وقت پر ہوگا بہر حال اگر دنیا نے ، اگر انسان نے سکھ اور چین کا سانس لینا ہے تو ظاہری علوم کو روحانی علوم کے ماتحت کرنا پڑے گا.سارے روحانی علوم جو انسان کو درکار ہیں وہ قرآن کریم کے اندر اللہ تعالیٰ نے رکھے ہوئے ہیں.قرآن کریم کی ہر آیت کے بے شمار بطون ہیں ان میں یہ علوم رکھے ہوئے ہیں.ان روحانی علوم کو اور قرآنی علوم کو حاصل کرنے کے لئے کتاب مکنون میں سے ان کو باہر نکالنے کے

Page 107

خطبات ناصر جلد ہفتم ۹۳ خطبہ جمعہ ۱/۲۲ پریل ۱۹۷۷ء لئے لا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی رُو سے تزکیہ نفس کی ضرورت ہے اس کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا.پس جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ تزکیۂ نفس کی طرف توجہ کرے اور ہر آن خدا تعالیٰ سے لرزاں اور ترساں رہتے ہوئے اس بات کا خیال رکھے کہ اس کی زندگی کا کوئی لمحہ قرآن کریم کی ہدایت اور قرآن کریم کے اوامر اور نواہی کے خلاف نہ ہو بلکہ جس چیز سے روکا گیا ہے ہمارا ہر لمحہ اس سے رکنے والا ہو اور جس چیز کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ہماری زندگی کا ہر لمحہ اس کے مطابق اعمال بجالانے والا ہو.اس کے نتیجہ میں وہ علوم عطا کئے جائیں گے جو علی وجہ البصیرت ہوں گے اور ایک روشنی اپنے ساتھ رکھیں گے جو اعمال اور افعال کی راہوں کو واضح اور منور کرنے والے ہوں گے اور جو خرابیاں علوم ظاہری کی بد استعمالی کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں وہ خرابیاں دور ہوں گی اور انسان کو سکھ اور آرام اور چین ملے گا.انسان کی خیر خواہی آج ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق دے اور اپنے فضل سے ہمیں وہ علوم عطا کرے جو تقویٰ کی شرط کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں یعنی قرآنی علوم اور روحانی اسرار اور ہمیں یہ توفیق دے کہ دنیوی علوم کو بھی ان کے تابع اور ماتحت کر کے ہم انسان کی بھلائی کے سامان پیدا کرنے والے ہوں.(روز نامه الفضل ربوه ۲ / جون ۱۹۷۷ ء صفحه ۲ تا ۴ )

Page 108

Page 109

خطبات ناصر جلد ہفتم g ۹۵ خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۷۷ء تقویٰ کے معنے ہیں شیطانی حملوں سے بچنا اور خدا تعالیٰ کی پناہ ڈھونڈنا خطبه جمعه فرموده ۶ رمئی ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کئی ہفتوں سے چھوٹی موٹی بیماری ساتھ لگی رہتی ہے جس کے نتیجہ میں ضعف دُور ہی نہیں ہو چکتا اور اس کی وجہ سے کام پر اثر پڑ رہا ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کامل صحت دے اور کام کرنے کی توفیق دے اور جس غرض کے لئے اس نے ہمیں پیدا کیا اور زندہ رکھا ہے اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہمیں انتہائی کوشش اور مجاہدہ کی توفیق عطا کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (الاعراف : ٣٦) ج اسی طرح فرما یا کہ تم خدا کے محتاج ہو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے.اَنْتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (فاطر : ۱۲) انسان کا شیطان اس پر دو طرفہ حملہ کرتا ہے.اس کا ایک حملہ تو اس رنگ میں ہوتا ہے کہ وہ انسان کو جھوٹے وعدے دے کر بدیوں، برائیوں اور گناہوں کی طرف بلاتا ہے اور دوسرا حملہ اس کا یہ ہے کہ وہ نیکیوں سے روکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قُرب کی راہوں کو خدا کے بندوں پر مسدود کرنے کی کوشش کرتا ہے.تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ ان ہر دو حملوں سے حفاظت کے لئے اور خود کو بچانے کے لئے انسان خدا تعالیٰ کی پناہ ڈھونڈے.یہ بھی کہ شیطان کا

Page 110

خطبات ناصر جلد ہفتم ۹۶ خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۷۷ء یہ وار کہ وہ انسان کو گناہ پر ، بدی پر ، دوسروں کو دکھ پہنچانے پر جو اکساتا ہے خدا تعالیٰ مدد کو آئے اور ڈھال بنے اور شیطان کے اس قسم کے حملوں میں شیطان نا کام ہو اور خدا تعالیٰ کی ڈھال اس کے نیک بندے کو شیطانی حملوں سے محفوظ کر دے اور پھر دوسری طرف سے شیطان یہ حملہ کرتا ہے کہ انسان نیکیاں نہ کرے یا نیکیوں میں سستی دکھائے یعنی جتنی نیکی کر سکتا ہے اتنی نہ کرے اور تَخَلَقُوا بِأَخْلَاقِ الله کے ماتحت اچھے اخلاق اس میں پیدا نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اس پر نہ چڑھے ہر انسان کے شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے.چنانچہ اس محاذ پر خدا تعالیٰ کو ڈھال بنانے کا یہ مطلب ہے کہ اے خدا! تیری راہ میں قدم بڑھانے کے راستے میں شیطان جو روک ڈالے، نیکیوں سے روکے، حُسنِ سلوک سے رو کے انسان تیری رحمت اور رضا کے حصول کے لئے تیرے ساتھ صدق وصفا کا جو تعلق پیدا کرتا ہے اس کے رستے میں روک بنے ، تیرے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کا جو حکم دیا گیا ہے اس کے رستے میں وہ روک بنے غرضیکہ ہر قسم کی نیکیوں کی راہوں میں جو شیطان روک بنے ہمیں اس کے اس قسم کے حملوں سے بچا اور خود ہمارے لئے ڈھال بن جا.تقویٰ کے یہ دونوں معنی ہیں.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام نے جو احکام اوامر ونواہی دیئے ہیں ان میں سے ہر حکم پر جو انسان نے عمل کرنا ہے اس کی بنیاد تقویٰ پر ہے.تمام بدیوں سے چھٹکارا اس وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب تقویٰ کی راہوں کو اختیار کیا جائے اور نیکیاں اسی وقت کی جاسکتی ہیں جب تقویٰ انسان کے روحانی وجود کی زینت بنے.ہر حکم کے ساتھ تقویٰ ضروری ہے.کوئی حکم جو برائی سے رو کنے والا ہو یا اچھائی پر ابھارنے والا ہو وہ انسان بجا نہیں لاسکتا جب تک وہ تقویٰ کی راہ کو اختیار نہ کرے.اسی واسطے جب انسان بظاہر نیکی کر رہا ہو اور بظاہر تقویٰ کا مظاہرہ کر رہا ہو اس وقت بھی اگر حقیقی تقویٰ نہیں ہے تو وہ نیکی نہیں رہتی مثلاً صدقہ ہے، صدقات دینا نیکی کا کام ہے ( صدقہ کے مختلف معانی ہیں میں اس وقت ان معانی میں نہیں جاؤں گا ) بظاہر یہ نیک کام ہے لیکن اگر اس کے ساتھ تقویٰ نہیں، اگر صدقات بجالانے والا متقی نہیں ، اگر وہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار نہیں کرتا اور تقویٰ کی شرائط کو پورا نہیں کرتا تو صدقات نیکی نہیں رہتے.

Page 111

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۷۷ء لا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُمُ بِالْمَن وَالأذى (البقرة :(۲۶۵) اگر صدقات بھی ہیں اور من اور اڈی بھی ہے تو پھر وہ نیکی نہیں رہیں گے اس لئے تقویٰ ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ ’ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے“ اگر کسی نیکی کی جڑ اور اس کی اصل اور اس کی بنیا د تقو می نہیں تو وہ نیکی نہیں ہے.پس خدا تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں ہمیں سینکڑوں احکام دیئے ہیں کہ یہ نہ کرو یہ کر وحقیقی متقی وہ ہے جو ان تمام احکام کو تقویٰ کے اصول پر بجالا رہا ہو، نہ کرنے والے احکام کو بھی اور کرنے والے احکام کو بھی.جو شخص ایسا نہیں وہ کامل متقی نہیں اور اگر کوئی شخص دو ایک باتیں ایسی کرنے والا ہو جو بظاہر نیکی ہوں اور باقی نہیں تو وہ متقی نہیں کہلائے گا.مثلاً ایک وقت میں بعض علاقے نو آبادیات کہلاتے تھے غیر ممالک نے ان پر قبضہ کیا ہوا تھا اور ظاہر یہ کر رہے تھے کہ ہم ان کی بڑی خیر خواہی کرتے ہیں اور ان کی ترقیات کے منصوبے بناتے ہیں.انگریزوں کی بھی نو آبادیات تھیں، فرانسیسیوں کی بھی ، ہالینڈ کی بھی ، جرمنی کی بھی اور بیلجیئم کی بھی تھیں.پھر ان کی آپس میں لڑائیاں ہوئیں کوئی پیچھے چلے گئے اور کوئی آگے آگئے.میں مثال کے طور پر صرف ایک خُلق کو لیتا ہوں جو بڑا بنیادی خُلق ہے.وہ بنیادی خلق یہ ہے کہ دیانت کے اصول کو اپنا نا چاہیے.بددیانتی کے نتیجہ میں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.نہ خدا ملتا ہے نہ دنیا ملتی ہے.دنیا کی کوئی قوم جو بددیانت بن جائے کوئی قوم جو دیانت کے اعلیٰ معیار پر اپنے آپ کو نہ پہنچائے وہ ترقی کر ہی نہیں سکتی.تنزل کر سکتی ہے ترقی نہیں کر سکتی.اب یہ جو غیر ممالک کے حاکم تھے جہاں تک ان کے اپنے ملک کا تعلق ہوتا تھا وہ انتہائی طور پر دیانتدار تھے.کوئی جرمن اپنے ملک سے بدیانتی نہیں کر رہ ہوتا کوئی ہالینڈ کا باشندہ اپنے ملک سے بددیانتی نہیں کر رہا ہوتا.کو ئی میبینیم کا باشندہ اپنے ملک سے بددیانتی نہیں کر رہا ہوتا لیکن ان کے ماتحت جو نو آبادیات تھیں وہاں کے ملکوں کے ساتھ وہ انتہائی طور پر بددیانت تھے.چنانچہ جب میں ۱۹۷۰ء میں باہر گیا تو پہلا ملک جہاں میں گیاوہ نائیجیریا تھا.میں بڑا حیران ہوا کہ قدرتی دولت کے لحاظ سے اتنا امیر ملک ہے لیکن عوام غریب ہیں.

Page 112

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۹۸ خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۷۷ء میرے دماغ میں یہ فقرہ آیا کہ خدا نے تمہیں سب کچھ دیا تھا اور محروم کرنے والے نے تمہیں ہر ایک چیز سے محروم کر دیا.وہاں کے جوسر براہ مملکت تھے ان سے بھی میں نے یہ بات کہی تو انہوں نے اسی وقت کہا یعنی ان کے دماغ میں بھی یہی اثر تھا.کہنے لگے ,How true you are.How True you are یعنی کیسی سچی بات آپ کہہ رہے ہیں لیکن وہ قوم جو باہر سے آکر ان پر حاکم بنی تھی وہ اپنے ملک میں بڑی دیانتدار تھی.ہر پہلو میں ہر شعبۂ زندگی میں وہ اپنے ملک میں دیانتدار تھی.جب کپڑا بناتے تھے تو جو کہتے تھے کہ اس چیز کا یہ کپڑا بنا ہوا ہے وہی ہوتا تھا.اگر کہتے تھے کہ اتنے موٹے دھاگے کا بنا ہوا ہے تو اتنے ہی موٹے دھاگے کا ہوتا تھا.دوسری اشیاء جو وہ بنا رہے تھے اور باہر بھیج رہے تھے وہ بڑی دیانتداری کے ساتھ بھیج رہے تھے.جہاں تک معاملات کا تعلق تھا اپنے باہمی معاملات اور تعلقات میں وہ بڑے دیانتدار تھے لیکن اسی وقت میں جب کہ وہ اپنے لئے دیانتدار تھے.غیروں کے لئے بددیانت تھے.پس جو لوگ احکام الہی یا جو انسانی فطرت کے تقاضے ہیں.ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.ان میں سے بعض کو پورا کریں اور بعض کو نہ کریں تو وہ حقیقی متقی نہیں.حقیقی متقی بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے تمام احکام کو تقویٰ کے اصول پر بجالا رہا ہو یا ہماری دنیوی زندگی میں جو ایک جد و جہد، ایک مجاہدہ جاری ہے اگر وہ خلوص نیت کے ساتھ اور انتہائی کوشش کے ساتھ تقویٰ کے میدانوں میں آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہو تو اس کو بھی ہم متقی کہیں گے کیونکہ اگر چہ وہ اپنی استعداد کے انتہائی معیار پر اور ارفع معیار پر ابھی نہیں پہنچا لیکن اپنی استعداد کے ارفع معیار تک پہنچنے کے لئے حتی الوسع پوری کوشش کر رہا ہے لیکن اگر ایک شخص مالی معاملات میں دیانتدار ہے لیکن اپنے ملکوں میں بھی جہاں تک عورت کی عزت کا سوال ہے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا تو اس کو ہم متقی نہیں کہیں گے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان یا تو اللہ کے فضل سے اپنی استعداد کی انتہا تک پہنچ جائے اور پھر اسے قائم رکھنے کی خدا تعالیٰ سے توفیق پارہا ہو ایسا شخص حقیقی متقی ہے.یا متقی وہ بھی ہے جو اس غرض اور اس مقصد کے حصول کے لئے اپنی کوشش میں لگا ہوا ہے، جو ٹھو کر کھاتا ہو اور پھر کھڑا ہو کر شیطان کی طرف نہ دوڑتا ہو بلکہ اپنے خدا کی طرف

Page 113

خطبات ناصر جلد ہفتم ۹۹ خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۷۷ء دوڑ رہا ہو.استغفار اور تو بہ کا یہی مفہوم ہے.انسان غلطی کرتا ہے.اس کے اندر بشری کمزوریاں پائی جاتی ہیں.پھر جتنا جتنا وہ تقویٰ کی رفعتوں میں بلند ہوتا چلا جاتا ہے بار یک بار یک چیز میں جو عوام کے لے گناہ نہیں ہوتیں اس شخص کے لئے گناہ بن جاتی ہیں.یہ ایک علیحدہ مضمون ہے جو عارف تر ہے.وہ تر ساں تر ہے.سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت اس کے دل میں پائی جاتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو عام استعداد کا مالک ہے اس پر کوئی الزام ہے.اسی واسطے میں نے کہا تھا کہ حقیقی متقی وہ ہے جو اپنی استعداد کے لحاظ سے یا تو اپنے کمال کو پہنچ چکا ہو یا اپنی استعداد کے لحاظ سے اپنے کمال کے حصول کے لئے کوشش کر رہا ہو.ان لوگوں کے متعلق جو ہر پہلو سے خدا کا خوف رکھتے ہیں اور ہر پہلو سے خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والے ہیں اور یا تو اپنی استعداد کے کمال کو قریباً پہنچ چکے ہیں ( ہمارے علم اور تجربہ کے مطابق کمال بھی بڑھتا جاتا ہے ) اور یا اس کے حصول کے لئے کوشاں ہیں اور اس میں سستی نہیں دکھا رہے ان کے متعلق یہ ہے فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کہ یہ جو حقیقی متقی ہیں ان کو نہ پچھلا کوئی غم رہتا ہے اور نہ آگے کی کوئی فکر رہتی ہے یعنی جو غلطیاں انسان سے ہو چکی ہوتی ہیں خدا تعالیٰ کے پیار کی آواز کہتی ہے کہ میری ستاری نے انہیں ڈھانپ لیا.جس کو خدا تعالیٰ کی یہ آواز پہنچ رہی ہو کہ خدا کی ستاری نے اسے ڈھانپ لیا اسے تو پھر کوئی غم اور فکر باقی نہیں رہتا اور جسے یہ وعدہ دیا گیا ہو کہ ہم تمہاری انگلی پکڑ کر تمہیں آگے ہی آگے لے جائیں گے اس کو بھی کوئی فکر نہیں ہے.وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ (الاعراف: ۱۹۷) متقیوں میں سے ایک گروہ اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہوتا ہے اور پھر کوشش کرتا ہے کہ کمال سے نیچے نہ گرے.بعض لوگ کمال تک پہنچنے کے بعد بھی گر جاتے ہیں.ایسی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں قرآن کریم میں بھی ان کا ذکر ہے لیکن جو گروہ کمال کو پہنچا ہوا ہے اور کمال پر رہنے کی کوشش کر رہا ہے ان کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتے ہیں ، خدا تعالیٰ ان کے کان بن جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں ، خدا تعالیٰ ان کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ کام کرتے ہیں ، خدا تعالیٰ ان کے پاؤں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں یعنی ان کی ہر حرکت اور سکون اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق اور اس

Page 114

خطبات ناصر جلد ہفتم 1++ خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۷۷ء کی رضا کے سائے میں اور اس کی برکتوں کو حاصل کرنے والی بن جاتی ہے.ہر انسان کی یہ خواہش ہونی چاہیے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی کی یہ خواہش ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس قسم کا پیار کا سلوک اس کے ساتھ ہو.ہر احمدی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ متقی بننے کے لئے انتہائی کوشش کر رہا ہو اور شیطان کی آواز کو سننے والا نہ ہو.اسلام نے جو نیکیاں ہمیں بتائی ہیں وہ آگے پھر دوحصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں.ایک حقوق اللہ ہیں جن کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ایک حقوق العباد ہیں جن کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے.فَمَنِ اتَّقَى وَ أَصْلَحَ کہا گیا ہے.صالح کے معنی عربی لغت میں یہ بتائے گئے ہیں کہ الْقَائِمُ بِالْحُقُوقِ وَالْوَاجِبَاتِ جو بھی حقوق اور واجبات کسی انسان پر ہیں ان کو قائم کرنے والا یعنی وہ ان کی ادائیگی میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتا اور اپنی ذمہ داریوں کو پوری توجہ کے ساتھ اور پوری ہمت کے ساتھ پورا کرتا ہے.ان حقوق میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ہیں اور ان حقوق میں بندوں کے حقوق بھی ہیں کہ بندوں کے ساتھ مروت سے پیش آؤ ، ان سے حسن سلوک کرو، ان کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرو.وغیرہ وغیرہ.( صلاح کے معنی فساد سے الٹ ہیں ) فساد کو مٹانے کی کوشش کرو، فساد کی آگ کو اور زیادہ بھڑ کانے کی کوشش نہ کرو.یہ متقی کا کام ہے، یہ ایک احمدی کا کام ہے اور جس وقت وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس وقت اس کو جو صلہ ملتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا پیار اور اس کی محبت ہے، بہت بڑا صلہ ہے.اس کے مقابلے میں تو ہر دو جہان قربان کئے جاسکتے ہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے جذبہ بھی دیا ہے اور عقل و فراست بھی دی ہے.بنیادی جذ بہ ،جس کے پیچھے دوسرے سب جذبات چلتے ہیں ، خدا تعالیٰ کے ساتھ ذاتی محبت کا جذبہ ہے.محبت بھی ایک جذبہ ہے لیکن خدا تعالیٰ کے ساتھ ذاتی محبت کے جذبہ کے نیچے باقی سارے جذبات آجاتے ہیں ور جو شخص اپنے رب کریم سے ذاتی محبت رکھتا ہو اس کے اندر کوئی ایسا جذ بہ نہیں پایا جائے گا جو اس محبت کے مخالف ہو.جس طرح خدا تعالیٰ رَبُّ العلمین ہے اور اس نے ہر چیز کو انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کا وہ بندہ بھی ہر انسان کی خدمت کرنا اپنے لئے ضروری

Page 115

خطبات ناصر جلد ہفتم 1+1 خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۷۷ ء سمجھتا ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو فراست بھی دی ہے اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ٣٦) نور فراست خدا سے خدا کا بندہ بھی حاصل کرتا ہے لیکن یہ نہیں ہے کہ ایک مومن کے اعمال محض فراست کی بنیادوں پر قائم ہوتے ہیں.نہیں بلکہ وہ نور وفراست اور جذ بہ ہر دو کے امتزاج پر قائم ہوتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے فراست، وہ جسے ہم نور فر است کہہ سکتے ہیں جو اللهُ نُورُ السمواتِ وَالْأَرْضِ سے انسان حاصل کرتا ہے اور جذبہ وہ جو اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت کے جذبہ کے ماتحت ہو، جب یہ دونوں مل جاتے ہیں تو عقل کام کرتی ہے.بعض لوگ محض جذباتی فیصلے کرتے ہیں اور فساد پیدا کر دیتے ہیں اور بعض لوگ محض عقل کے روکھے سوکھے فیصلے کرتے ہیں اور بہتوں کے لئے تنگی اور دم گھٹنے کے سامان پیدا کر دیتے ہیں.انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ کہاں سے آگیا ہے مجھ سے سانس بھی ٹھیک طرح نہیں لی جاتی.اس قسم کے فیصلے ہو جاتے ہیں.ہمیں اُمت مسلمہ کو اسلام میں یہ کہا گیا ہے کہ تم اپنے فیصلے نور فراست اور جذبہ کا جوحسین امتزاج ہے اس کی بنیاد پر کیا کرو کیونکہ نور فراست یعنی اللہ تعالیٰ کے نور اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا جو پیار کا تعلق ہے اس کی بنیاد پر جو فیصلہ ہوگا اس سے بہتر کوئی فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا.ایسے فیصلے ہمیں اپنی زندگیوں میں کرنے چاہئیں اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.ہم خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں.قرآن کریم میں انتُمُ الْفُقَرَاء إِلَی اللہ کا اعلان کیا گیا ہے اور اللہ ہی الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ہے اس لئے یہ سمجھنا کہ اپنی کوشش سے ہم تقویٰ کے تقاضوں کو پورا کرلیں گے، اپنی کوشش سے ہم نور فراست کو حاصل کر لیں گے یا خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت کے جذ بہ کو ایسا بھڑ کا ئیں گے کہ ہر خس و خاشاک کی طرح جل کر راکھ ہو جائے گا اور ختم ہو جائے گا اور ہمارے لئے کسی دُکھ اور کسی ضرر اور کسی عذاب کا موجب نہیں بنے گا یہ غلط ہے.حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ کے بغیر کوئی نیکی ممکن نہیں، کسی گناہ کو چھوڑ نا ممکن نہیں اور تقویٰ کا حصول سوائے (۱) اس احساس کے کہ ہم خدا کے محتاج ہیں خدا ہمارا محتاج نہیں اور (۲) دعائیں کر کے خدا تعالیٰ سے تو فیق پانے کے اور کسی طرح ممکن نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقائق زندگی کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو

Page 116

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۷۷ء مقبول کرے اور ہماری سعی کو مشکور کرے یعنی ان پر ہمیں اس طرح کے بدلے دے جس طرح انسان انسان کا شکر گزار ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ تو غنی ہے اس میں شک نہیں لیکن جب بندہ اس کی طرف جھکتا ہے تو خدا کہتا ہے کہ میں جو تمام قدرتوں کا مالک ہوں میں نے ہر چیز اس بندے کے لئے پیدا کر دی لیکن یہ بندہ جو اپنے اندر ہزار کمزوریاں رکھتا ہے ہر چیز کوٹھکرا کر میری طرف آیا.چنانچہ وہ اس کا بدلہ دیتا ہے، بدلہ دیتا ہے اپنے پیار سے اور پیار کے نتیجہ میں جو کچھ بھی مل سکتا ہے وہ پھر اس بندے کو مل جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ اس دنیا سے فساد کو دور کرے اور انسان کے لئے امن کے حالات پیدا کرے.روزنامه الفضل ربوه ۱۴ / جولائی ۱۹۷۷ء صفحہ ۲ تا ۵ )

Page 117

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۰۳ خطبہ جمعہ ۲۷ رمئی ۱۹۷۷ء حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا بہت خادمانہ اور بلند مقام کی حامل تھیں خطبہ جمعہ فرموده ۲۷ رمئی ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ الزمر کی درج ذیل تین آیات کی تلاوت فرمائی:.اليسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَ يُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ وَ مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ - وَمَنْ يَهْدِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلَّ أَلَيْسَ اللهُ بِعَزِيزِ ذِي انْتِقَامٍ - وَلَبِنْ ط سَالَتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَ اللهُ قُلْ أَفَرَعَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ وو اللهِ اِنْ اَرَادَنِي اللهُ بِضُرٍ هَلْ هُنَّ كَشِفْتُ ضُرَّةٍ اَوْ اَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكَّلُونَ.(الزمر : ۳۷ تا ۳۹ ) پھر حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کہ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں کا مفہوم اور اس کے معنی بیان کئے.پچھلے ایک خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ یہ انگوٹھی جو میں نے پہنی ہوئی ہے اور جس کے اوپر الیس اللهُ بِكَافٍ عبد الکھا ہوا ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی انگوٹھی ہے.آپ کے والد کی وفات پر آپ کو الہام ہوا تھا کہ الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ اسی زمانہ میں جس پر

Page 118

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۰۴ خطبہ جمعہ ۲۷ رمئی ۱۹۷۷ء ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے آپ نے یہ نگینہ بنوایا اور اس پر یہ عبارت لکھوائی اور یہ انگوٹھی تیار کروائی.اب یہ انگوٹھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت راشدہ احمدیہ کو دے دی ہے، بجائے اس کے کہ اسے اپنے خاندان میں رکھتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس الہام کے بعد میں نے ان گنت بار اللہ تعالیٰ کے نشان ، جو اس وعدہ کو پورا کرنے والے تھے ، اپنی زندگی میں دیکھے جو وعدے اس فقرے کے اندر مضمر ہیں ان آیات میں ان کا ذکر کیا گیا ہے.اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عبد میں تین مفہوم پائے جاتے ہیں.ایک تو یہ کہ یہ سوال ہے.سوال کے طور پر پوچھا گیا ہے کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں؟ پھر بہت سے سوال ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں باوجود اس کے کہ فقرہ سوالیہ ہوتا ہے ایک بنیادی حقیقت کا بیان بھی ہوتا ہے مثلاً روزمرہ دنیا میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر کسی باپ کا بیٹا اس کا کہنا نہ مانتا ہو اور وہ اس کو اپنا حق ، جو باپ کا بیٹے پر ہوتا ہے یاد دلانا چاہے تو کہتا ہے کہ کیا میں تمہارا باپ نہیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ یہ پوچھتا ہے کہ بتاؤ تم میرے بیٹے ہو یا نہیں بلکہ مطلب حقیقت بیان کرنا ہوتا ہے اور سوالیہ فقرے میں اس حقیقت کو بیان کیا جاتا ہے اس کی ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں.میں نے ایک موٹی سی مثال دے دی ہے تاکہ ہمارے بچے اور نوجوان بھی سمجھ لیں.تیسرے یہ فقرہ جواب کا مطالبہ کرتا ہے.ہر سوال جواب کا مطالبہ کرتا ہے.چنانچہ جب پوچھا گیا ہے تو مخاطب کو بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافی تو ہے مگر کیا وہ بھی واقعی خدا تعالیٰ کو کافی سمجھتا ہے.اس تیسرے مفہوم کو لے کر یہ آیتیں آگے مضمون کو اٹھاتی ہیں.فرما یا کہ جب نوع انسانی سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں تو انسان دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں ایک وہ جو تسلیم کرتے ہیں اور اعتقادر کھتے ہیں اور ان کی روح کی یہ آواز ہوتی ہے کہ خدا ہی ہمارے لئے کافی ہے کسی اور چیز کی ہمیں ضرورت نہیں ، مولا بس.اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس حقیقت کو نہیں سمجھتے.کبھی وہ بتوں کی طرف جاتے ہیں، کبھی وہ مال و دولت سے مرعوب ہوتے ہیں اور کبھی وہ خدا کو بھول کر ایک ایسے شخص کی طرف جھکتے ہیں جس

Page 119

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۰۵ خطبہ جمعہ ۲۷ مئی ۱۹۷۷ء کا اپنے علاقہ میں بڑا اثر اور اقتدار ہو وغیرہ وغیرہ.وہ لوگ غیر اللہ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اليسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کا عملاً یہ جواب دیتے ہیں کہ نہیں محض اللہ ہمارے لئے کافی نہیں بلکہ ماسوا اللہ کی بھی ہمیں ضرورت ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک گروہ ایسا ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ مجھے ماسوا اللہ کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے اللہ ہی اللہ ہے اور اللہ ہی میرے لئے کافی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ يُخَوفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو کافی نہیں سمجھتے وہ تجھے ماسوا اللہ سے ڈراتے ہیں، ان کا خوف پیدا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی تعلق رکھو ورنہ تمہیں تکلیف ہوگی ، ورنہ تمہیں نقصان پہنچے گا، ورنہ تمہیں پریشانی اٹھانی پڑے گی.ان کے نزدیک محض اللہ کافی نہیں ہے.وہ خوف دلاتے ہیں ان کا جو الَّذِینَ مِنْ دُونِہ ہیں.مِن دُونِہ کے فقرے میں جو بت تراشے جاتے اور پوجے جاتے ہیں اور خدا کے شریک ٹھہرائے جاتے ہیں وہ بھی آجاتے ہیں اور اس کے اندر وہ بھی آجاتے ہیں جو خدا کے شریک تو نہیں ٹھہرائے جاتے لیکن ان کو خدا کے علاوہ احتیاج پورا کرنے والا سمجھا جاتا ہے اور انسان اپنے آپ کو ان کا محتاج سمجھتا ہے.وَ يُخَوَفُونَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُونِهِ عملاً ایک ایسا گروہ ہے جو الیسَ اللهُ بِكَافٍ عبدہ کے جواب میں کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں یہ کہتے ہیں کہ نہیں کافی نہیں اور نہ صرف یہ کہ وہ خود اس بات پر عمل کرنے والے ہیں وہ دوسروں کو بھی ڈراتے ہیں اور دھمکاتے ہیں اور تلقین کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف خدا نہیں بلکہ یہ چیزیں بھی ہیں کچھ ان کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَنْ يُضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ کہ وہ لوگ جو يُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِہ کے مصداق ہیں وہ ضال ہیں، وہ صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں، وہ دھتکارے ہوئے لوگ ہیں اور جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں دھتکارا جائے وہ ہدایت پر قائم نہیں ہوتا اور نہ اس صورت میں اسے کوئی ہدایت پر قائم رکھ سکتا ہے یا یہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ صراط مستقیم کی طرف لے جانے والا اور صراط مستقیم پر اور ہدایت پر قائم ہے.وَمَنْ يَهْدِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ تُضِل اور وہ لوگ جو اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کے جواب میں ان ڈرانے والوں کے خوف سے ڈرتے نہیں ان کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے

Page 120

خطبات ناصر جلد ہفتم 1+4 خطبہ جمعہ ۲۷ رمئی ۱۹۷۷ء وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہدایت یافتہ ہیں اور جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہدایت یافتہ ہوں ساری دنیا انہیں کا فراور ضال کہتی رہے اور مضال بناتی رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہدایت یافتہ ہے حقیقتا وہی ہدایت یافتہ ہے عقلاً بھی اور شریعت کی رو سے بھی.پھر فرما یا اليْسَ اللهُ بِعَزِيزِ ذِی انتقام یعنی محض یہ نہیں کہ انسانوں کا ایک گروہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہدایت سے دور پڑ گیا اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ضال اور مضل ہو گیا اور دوسرے گروہ کو خدا تعالیٰ نے ہدایت یافتہ پایا اور ہدایت یافتہ قرار دیا.محض یہاں بات ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اليْسَ اللهُ بِعَزِيزِ ذِى انتقام خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جو گمراہ ٹھہرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جو ہدایت یافتہ ٹھہرتے ہیں ان سب کے اعمال کا نتیجہ نکلتا ہے.جو گمراہ ٹھہر تے ہیں ان کو ان کی بداعمالیوں کا بدلہ ملتا ہے اور جو ہدایت یافتہ ٹھہرتے ہیں ان کو ان کے اعمال صالحہ کا ثواب ملتا ہے کیونکہ اليْسَ اللهُ بِعَزِيزِ ذی انتقام کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ عزیز بھی ہے اور ذی انتقام بھی ہے.عزیز کے معنی ہیں اس طرح پر غالب کہ کوئی اس پر غالب نہ آسکے اور اپنی چلانے والا اور لا يُعْجِزُةُ اَحَدٌ اس کو کوئی عاجز کرنے والا نہ ہو، اس کو عزیز کہتے ہیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے بندے بن جاتے ہیں اور مجھے ہی کافی سمجھتے ہیں ان کو میں ثواب دیتا ہوں ان کو میں جزا دیتا ہوں.ان کے لئے میں نے جنتیں بنائی ہیں اور جن کو میں گمراہ ٹھہراتا ہوں ان کو میں 6116 سزا دیتا ہوں کیونکہ میں ذی انتقام ہوں ان کی اصلاح کے لئے میر ا غضب بھڑکتا ہے.پھر اگلی آیت میں عزیز اور ذی انتقام کی تشریح اور تفسیر آئی ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا اللہ ہے اور جو خالق ہے وہی مالک ہے.اس نے جو کائنات جو عالمین اور ہر دو جہان پیدا کئے ہیں ان پر اس کی حکومت چلتی ہے اس لئے وہی عزیز بھی ہوسکتا ہے اور وہی ذی انتقام بھی بن سکتا ہے.پس بتاؤ تو سہی کہ مَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللهِ کہ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اِن اَرَادَ نِي اللهُ بِضُر اگر اللہ تعالیٰ ضرر پہنچانے کا ارادہ کرے تو هَلْ هُنَّ كَشِفْتُ ضُرة کیا وہ لوگ جو خالق نہیں اور جن کا حکم اس کائنات میں چلتا نہیں ، جو مالک نہیں اور متصرف بالا رادہ نہیں ، جن کے احاطہ اقتدار میں کوئی چیز بھی نہیں تو کیا جب اللہ جو خالق اور مالک ہے اور جس کے احاطہ اقتدار میں

Page 121

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۰۷ خطبہ جمعہ ۲۷ رمئی ۱۹۷۷ء ہر چیز ہے اگر کسی کو ضرر پہنچانا چا ہے، اگر کسی کو سزا دینا چاہے، اگر کسی کی بداعمالیوں کا نتیجہ اسے چکھانا چاہے، اگر اس پر اپنا غضب بھڑکا نا چاہے اور اپنے دست انتقام سے گرفت کرنا چاہے تو یہ لوگ جن کو تم پکارتے ہو خدا تعالیٰ کو عاجز کر دیں گے؟ اس کو جو عزیز بھی ہے اور ذی انتقام بھی ہے وہ اس ضرر اور نقصان کو دور نہیں کر سکتے اور اگر مَنْ يَهْدِ اللهُ فَمَا لَهُ مِن قُضِلّ کے مصداق گروہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا ارادہ کرے تو هَلُ هُنَّ مُسکت رَحْمَتِ؟ کیا تم اس رحمت کو روک سکتے ہو.خدا تعالیٰ کی رحمت اس کے نیک بندوں پر نازل ہوتی ہے جس طرح کہ اس کا غضب اس کے بندوں کی اصلاح کے لئے آسمان سے اترتا ہے اور ان کے لئے اس زندگی میں بڑی سخت جہنم پیدا کر دیتا ہے.رحمت کی بے شمار قسمیں ہیں کیونکہ ہماری زندگی کے بھی بے شمار پہلو ہیں.مثلاً علم اور فراست میں زیادتی ہے، نور کا حاصل ہونا ہے جس کے متعلق وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ نور تمہارے آگے آگے چلے گا اور تمہاری راہنمائی کرے گا.اموال میں برکت ہے، اولاد میں برکت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میرے ماننے والے وہ برکتیں لیں گے جو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل کی ہیں.جن گھروں میں وہ رہ رہے ہوں گے ان کو خدا تعالیٰ برکتوں سے معمور کر دے گا اور جس چیز کو وہ ہاتھ لگائیں گے وہ برکتوں والی ہو جائے گی لیکن یہ ماننے والوں کے لئے ہے، ریاء اور تکبر جن کے اندر نہ ہو اور الیسَ اللهُ بِكَافٍ عبده پر عمل کرنے والے ہوں.مولا جس کے بعد تو پھر اپنا نفس بھی باقی نہیں رہتا.میں نے بتایا ہے کہ پھر کوئی چیز بھی باقی نہیں رہتی.مِن دُونِے میں جو چیز بھی شامل ہے اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَ اس کی نفی چاہتا ہے.الیسَ اللهُ بِكَافٍ عبده جو ایک سوال بھی تھا اور ایک حقیقت بھی تھی اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہی دیا جو خدا تعالیٰ کے پاک بندے دیتے ہیں جس کا آگے ابھی ذکر آتا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ ان گنت دفعہ یہ الہام خدا نے میرے لئے پورا کیا اور اس کو نشان بنایا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ضرر پہنچانے والے پیدا ہوئے تو خدا تعالیٰ نے حسب وعدہ آیات قرآنیہ اس ضرر کو دور کر دیا اور جہاں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی ضرورت

Page 122

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲۷ رمئی ۱۹۷۷ء تھی اس نے ہر قسم کی رحمت مہیا کر دی.ایک شعر ہے کہ رحمت کا نزول اس طرح ہے کہ ے تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے ہر لحظہ خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہورہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام پر ایمان لاکر ، قرآن کریم پر ایمان لا کر، اللہ تعالیٰ پر ایمان لاکر، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اللہ کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس اللہ پر ایمان لا کر اور الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَ میں جو سوال کیا گیا تھا اس کا صحیح جواب دے کر ان نعمتوں کو حاصل کیا.ہر شخص جو اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کے مفہوم کو سمجھتا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے وہ بھی اسی طرح شہر سے بچایا جاتا ہے اور رحمتوں کے دروازے اس پر کھولے جاتے ہیں.اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدہ کا تیسرا مفہوم یعنی یہ جو سوال ہے کہ کیا تمہارے لئے خدا کافی نہیں ہے اس کا جواب ان آیات کے آخر میں بیان ہوا ہے اور وہ یہ ہے قُل حَسْبِيَ الله کہہ دے مجھے اللہ کافی ہے.حسبی الله کے معنی ہی یہ ہیں کہ مجھے اللہ کافی ہے.وہاں کہا تھا انیس الله بكاف عبده کہ کیا اللہ کافی نہیں تو یہاں کہا کہ تو کہہ دے کہ اللہ میرے لئے کافی ہے.یہ اس کا جواب ہے حسبی اللہ یعنی اللہ کافی ہے کہنا محض زبان کا کام نہیں بلکہ انسان کے وجود کا کام ہے.یہ جواب دینا کہ حسبي الله یہ نہیں کہ زبان پر ہو اور انسان غیر اللہ کی طرف جھک جائے اور ان سے تو قعات رکھنے لگ جائے اور ان سے امیدیں باندھنے لگ جائے اور ان سے سہارا لینے لگ جائے اور کچھ خدا کو دے اور کچھ غیر اللہ کو دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر کچھ خدا کو دو گے اور کچھ غیر کو دو گے تو خدا کہے گا کہ جو مجھے دیتے ہو وہ بھی تمہارے منہ پر مارا جاتا ہے، لے جاؤ سے مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے.خدا تعالیٰ کو تو انسان کی احتیاج نہیں انْتُمُ الْفُقَرَاء إِلى اللهِ (فاطر : ۱۶) ہم ہیں اللہ تعالیٰ کے محتاج ، ہم فقیر ہیں اور محتاج ہیں اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہر رحمت سے حصہ عطا کرے.عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكَّلُونَ یہاں الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کا جواب حسبی الله کے بعد پھر اسی معنی میں دیا ہے کہ تو گل کرنے والوں کے لئے ایک ہی دروازہ ہے، ایک ہی وجود ہے، ایک ہی ہستی ہے جس

Page 123

خطبات ناصر جلد ہفتم 1+9 خطبہ جمعہ ۲۷ رمئی ۱۹۷۷ء پر وہ تو گل کر سکتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے باقی کسی پر توکل نہیں کر سکتے.انسان کو زندگی میں بہت سے جھٹکے لگتے ہیں لیکن ایک مومن کی صدا اور اس کا اعلان یہی ہے کہ حسبى الله میرے لئے اللہ کافی ہے.میں نے بتایا تھا کہ ایک موقع پر جب ہم بظاہر تکلیف میں ڈالے گئے تھے تو وہاں بڑا لطف آیا.اس وقت ایک شخص کو میں نے یہی کہا تھا کہ تجھ سے جو کوئی بات کرے تو یہی کہا کر کہ مولا بس.میرے لئے اللہ ہی کافی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اس کو اس تکلیف سے نجات دے دی.میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک یہ ہے کہ بعض دفعہ ذہن میں کوئی مضمون آتا ہے، بعض دفعہ جماعتی لحاظ سے ضرورت ہوتی ہے اور میں اس پر خطبہ دیتا ہوں.بعض دفعہ ادارے مجھے تو جہ دلاتے ہیں کبھی انصار اللہ بھی خدام الاحمدیہ کبھی تحریک جدید، کبھی وقف جدید، کبھی صدر انجمن احمد یہ اور اسی طرح کبھی دوسرے ادارے وقف عارضی وغیرہ کہ اس امر کے متعلق یاد دہانی کروادیں اور کبھی خود دماغ میں کوئی مضمون آتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ بیان کر دوں لیکن بسا اوقات خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ دستور ہے، بڑا پیارا اور پیار کرنے والا ربّ ہے اور اکثر میرے خطبے ایسے ہیں کہ جمعہ والے دن صبح جب میں تلاوت کرتا ہوں تو تلاوت کرتے ہوئے میری آنکھ کو کوئی آیت قرآنی پکڑتی ہے اور پھر مجھے آگے نہیں ملنے دیتی.پھر میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں.پھر میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا منشا یہی ہے کہ میں اس آیت پر خطبہ دوں.پھر میں سوچتا ہوں اور لغت دیکھتا ہوں، تیاری کرنی ہوتی ہے کیونکہ تفسیر کرنا بڑی ذمہ داری کا کام ہے اور سب سے بوجھل دن میں سمجھتا ہوں کہ سب خلفاء پر یہی آتا ہوگا.میرا تو یہی تجربہ ہے کہ جمعہ کا دن بڑا بوجھل دن ہے.اتنی ذمہ داری ہے جمعہ کا خطبہ دینا، اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ انسان استغفار کرتا ہے، بے حد استغفار کرتا ہے اور دعائیں کرتا ہے، خدا تعالیٰ پھر رحم کرتا ہے.پچھلے جمعہ کے دن میں تلاوت کر رہا تھا تو یہ آیتیں سامنے آ گئیں اور ان آیتوں نے میری آنکھ کو پکڑا اور مجبور کیا کہ میں ان پر غور کروں.پھر میں نے غور کیا اور مجھے بڑا لطف آیا کیونکہ ان میں الیسَ اللهُ بِكَافٍ عبده کی بڑی عجیب تفسیر بیان کی گئی ہے.درجہ بدرجہ اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے آگے چلا یا ہے اور پھر قُل حَسْبِيَ اللهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكَّلُونَ پر اسے ختم کیا ہے.اس میں بہت حسین

Page 124

خطبات ناصر جلد ہفتہ 11+ خطبہ جمعہ ۲۷ مئی ۱۹۷۷ء جوڑ ملائے ہوئے ہیں اور پھر تین دن کے بعد ہماری پھوپی جان کی وفات ہوگئی تو میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے وقت سے پہلے ہوشیار کر دیا تھا کہ جماعت احمد یہ بت پرست نہیں ہے.قدردان ہے، ناشکری نہیں بلکہ شکر گزار ہے لیکن بت پرست نہیں ہے.ہر الہی سلسلے کا ایک ہی مقام ہے اور اُمت مسلمہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کا بھی یہی مقام ہے کہ اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ اور حَسْبِيَ اللهُ کہ خدا ہی ہمارے لئے کافی ہے.بڑا عجیب، بڑا بلند اور بڑا خادمانہ مقام تھا حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ہماری پھوپھی کا.بے حد دعائیں کرنے والی اور بہت ہی تسلی دینے والی تھیں.لوگ دعا کے لئے کثرت سے خط لکھتے تھے اور ان کے لئے باقاعدگی کے ساتھ دعائیں کرتی تھیں اور ان کو تسلی دیتی تھیں اور بالکل بے نفس تھیں.مجھے علم ہے کہ کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ان کا ہزارواں حصہ بھی سچی خوا ہیں نہیں دیکھیں اور ان کو ولی اللہ بننے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور انہوں نے ہزار گنا زیادہ سچی خوا ہیں دیکھیں لیکن کوئی خیال ہی نہیں.یہ کوئی اپنا ہنر تو نہیں نا، اگر خدا تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنی رحمت سے نوازتا اور اس سے پیار کرتا ہے اور اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور رویا اور کشوف کے ذریعے اس کو آئندہ ہونے والی باتوں کی اطلاع دیتا ہے تو یہ محض اس کا فضل ہے.آپ کو بڑے کھلے رؤیا ہوتے تھے اور بچپن کے زمانہ سے ہی ہوتے تھے.میں نے جب بعض دوستوں سے آپ کی چند ایک خوابوں کا ذکر کیا تو میرا خیال تھا کہ شاید آپ کی یہ خوا میں چھپی نہیں ہیں لیکن بعد میں پتہ لگا کہ چھپ گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ عادت تھی کہ آپ سب کو کہتے تھے کہ دعائیں کرو.جب آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع ملنی شروع ہوئی کہ آپ کے کوچ کا وقت قریب ہے تو اس وقت بھی آپ کہتے تھے کہ خدا سے دعا ئیں کرو.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی عمر اس وقت کم و بیش دس گیارہ سال کی تھی ان کو بھی کہا کہ دعا ئیں کرو تو آپ نے بہت ہی واضح خواب دیکھی جو تعبیر طلب بھی تھی اور خود ان کو بھی پتہ نہیں لگا ہوگا کہ اس کا مطلب کیا ہے.چنانچہ ایک دن آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ چوبارہ پر گئی ہیں اور وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب

Page 125

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲۷ رمئی ۱۹۷۷ء میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابوبکر ہوں.آپ نے یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنائی تو آپ نے کہا کہ یہ خواب اپنی اماں کو نہ سنانا.( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۳۱) اپنے رنگ میں پیار کے ساتھ حضرت اُم المومنین کو آپ نے اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ میرا وقت قریب ہے.حضرت اُم المومنین کا مقام تو بہت بلند تھا.اسی طرح ایک دن آپ نے خواب دیکھی کہ مولوی عبد الکریم صاحب دروازے کے پاس آئے اور مجھے کہا بی بی جاؤ ابا سے کہو کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صحابہ تشریف لے آئے ہیں آپ کو بلاتے ہیں.میں او پر گئی اور دیکھا کہ پلنگ پر بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت تیزی سے لکھ رہے ہیں اور ایک خاص کیفیت آپ کے چہرہ پر ہے.پرنور اور پر جوش.میں نے کہا کہ ابا مولوی عبد الکریم کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں.آپ نے لکھتے لکھتے نظر اٹھائی اور مجھے کہا کہ جاؤ کہو.“ یہ مضمون ختم ہوا اور میں آیا“.(اس وقت آپ ”پیغام صلح لکھ رہے تھے ).غرض اس قسم کی بڑی روشن خوا میں دیکھنے والی تھیں اور بالکل بے نفس تھیں اس واسطے کہ الیس اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ کا جو مقام ہے اس میں نفس باقی نہیں رہتا اور اگر نفس کا کوئی مقام باقی رہے تو اکیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَه باقی نہیں رہتا.اسی واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ساری تا بیر کر کے اور انتہائی تدابیر کر کے سمجھو کہ ہم نے کچھ نہیں کیا اور سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر کے سمجھو کہ ہم نے کوئی قربانی نہیں دی.جب تک دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کر کے تدبیر کو باشمر نہ بنایا جا سکے اس وقت تک تد بیر لا یعنی ہے اور جب تک دعا کے ساتھ اس کی رحمت کو جذب کر کے اپنے اعمال کو مقبول نہ بنایا جا سکے یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ ان کو قبول بھی کر لے (اصل تو یہی چیز ہے ) اس وقت تک ان پر کوئی ثمرہ پیدا نہیں ہوتا.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ ایک نمونہ تھیں مردوزن کے لئے اور بڑا اچھا نمونہ تھیں.ہم

Page 126

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۱۲ خطبہ جمعہ ۲۷ رمئی ۱۹۷۷ء خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے ہیں ہر احمدی عورت اور ہر احمدی مرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اس نمونہ کے پیچھے چلے اور بے لوث رنگ میں خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کی طرف توجہ دے اور خدا کی مخلوق کی خدمت میں لگا رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ سے قبل حضور نے فرمایا:.66 ا بھی بڑی کمزوری چل رہی ہے.ایک مہینہ ہو گیا ہے.“ (روز نامه الفضل ربو ه ۲۰ جولائی ۱۹۷۷ ء صفحه ۲ تا ۵ )

Page 127

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۱۳ خطبہ جمعہ ۱۰ جون ۱۹۷۷ء حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور مکرم ابوالعطا صاحب کی زندگیاں ہمارے لئے ایک نمونہ ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۰ جون ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل دو آیات کی تلاوت فرمائی:.وَ مَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقِيضُ لَهُ شَيْطئًا فَهُوَ لَهُ قَرِينَ - وَإِنَّهُمُ ليَصُدُّ ونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ..(الزخرف: ۳۸،۳۷) پھر حضور انور نے فرمایا:.چند سال کی بات ہے کہ مجھے گرمیوں میں دو ایک سال متواتر گرمی کی تکلیف ہو جاتی رہی جس کو انگریزی میں Heat Stroke (ہیٹ سٹروک ) یعنی گرمی لگ جانا کہتے ہیں اور وہ با قاعدہ بیماری کی شکل میں تھی جس میں بخار ہو جاتا ہے اور بڑی سخت تکلیف ہوتی ہے، بے چینی اور سر درد ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب گرمی کے ایام میں گرمی میری بیماری بن جاتی ہے.پنے کمرے میں میں کام کرتا ہوں، ساری ڈاک دیکھتا ہوں ، ملاقاتیں کرتا ہوں، مطالعہ کرتا ہوں ، دعائیں کرتا ہوں، جو میرے کام اور فرائض ہیں وہ میں ادا کرتا ہوں لیکن گرمی میں باہر نکلنے سے مجھے شدید تکلیف ہو جاتی ہے چکر آنے لگ جاتے ہیں اور بے چینی پیدا ہو جاتی ہے.میں دعا

Page 128

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۱۴ خطبہ جمعہ ۱۰ / جون ۱۹۷۷ء کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ میں سے ہر ایک کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے اور اپنی امان میں رکھے اور آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہر قسم کی تکلیف سے بچائے اور کام کرنے کی اور اپنے حضور مقبول سعی کی توفیق عطا کرے.ہمارے لئے دوصد مے اوپر نیچے آئے.پہلے حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ ہماری محترمہ پھوپھی جان کی وفات ہوئی اور پھر چند دن کے بعد محترم ابوالعطا صاحب کی وفات ہوئی.آپ سب مردوزن اور چھوٹے بڑے اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ ہم بت پرست نہیں ہیں.ہم خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لاتے ہیں اس خدا پر جس نے خود کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر کیا اور آپ کے طفیل دنیا نے اس قادرانہ اور متصرفانہ عمل کرنے والے اور فیصلہ کرنے والے کی قدرتوں کے جلووں کا مشاہدہ کیا.ہم اس قادر و توانا خدا پر ایمان لاتے ہیں اور اسی پر ہمارا تو گل اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے.اس قسم کی ہستیاں اس قسم کے وجود ہمارے لئے نمونہ بنتے ہیں اور بنیادی چیز جس میں وہ ہمارے لئے نمونہ بنتے ہیں یہ ہے کہ وہ خدائے رحمن سے منہ موڑنے والے نہیں ہوتے.جو دو آیات میں نے ابھی پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص رحمن کے ذکر سے منہ موڑ لے اس پر ہم شیطان مستولی کرتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور ہدایت اور صداقت اور سچائی کی راہوں سے اسے روکتا ہے لیکن وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہے.بات یہ ہے کہ جہاں تک ہدایت یافتہ ہونے یا نجات یافتہ ہونے کا تعلق ہے یہ صفت رحیمیت کے طفیل نہیں بلکہ صفت رحمانیت کا اس سے واسطہ ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی بزرگ ہستی سے بھی جب سوال کیا گیا تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ اپنے عمل سے نہیں بلکہ خدا کی رحمت سے اور اس کے فضل سے میں اس کی جنتوں میں داخل ہوں گا.رحیمیت کا تعلق ہمارے اعمال سے ہے اور رحمانیت کا تعلق اس واقع سے ہے کہ ہم خواہ کتنی ہی بڑی چیز خدا کے حضور پیش کر دیں خدا تعالیٰ جو خالق گل اور مالک گل اور غنی ہے اس کو تو اس چیز کی کوئی پرواہ نہیں ہے.اگر وہ چاہے تو اپنی رحمانیت سے اسے قبول کر لے اور اگر چاہے تو اپنی رحمانیت کا جلوہ نہ دکھائے اور اسے رد کر دے.

Page 129

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۱۵ خطبہ جمعہ ۱۰ / جون ۱۹۷۷ء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو سارے جہان کے لئے اور قیامت تک کے لئے ایک نمونہ ہیں کہ کس طرح آپ رحمن خدا کی پرستش کرنے والے اور اپنی ساری توجہ اور سارے اعمال کو اس کی طرف پھیرنے والے تھے.پھر آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اُمت محمدیہ میں کروڑوں خدا کے بندے پیدا ہوئے جنہوں نے خدائے رحمن کو پہچانا اور اس کی عظمت رحمانیت کے نتیجہ میں اپنی بے کسی کا احساس ان کے دلوں میں پیدا ہوا اور انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں.ہم اسی وقت کچھ بنتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ جو بغیر عمل اور استحقاق کے اپنی رحمت سے نواز نے والا ہے اپنی رحمت سے نواز دے.اس لحاظ سے ہمارے زندہ رہنے والے بزرگ بھی اور ہمارے جانے والے بھائی بھی اور بہنیں بھی اور بزرگ مائیں اور پھوپھیاں بھی (جو بھی جسمانی اور روحانی رشتے ہم ان سے رکھتے ہیں) ہمارے لئے نمونہ بنتے ہیں وہ ہمارے لئے پرستش کی جگہ نہیں بنتے.محترمہ پھوپھی جان حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے جب آپ کی عمر کم و بیش دس سال تھی اس وقت لکھا کہ میری یہ بچی بہت خوا میں دیکھتی ہے اور کثرت سے وہ خواہیں سچی نکلتی ہیں.اب آپ خود سوچیں کہ یہ رحمانیت ہی کا جلوہ ہے نا.ایک ایسی بچی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شہادت ہے جس پر شاید ابھی نماز بھی فرض نہیں ہوئی تھی اور روزے تو فرض ہی نہیں ہوئے حج کا سوال ہی نہیں اور زکوۃ کا بھی کوئی سوال نہیں اور خدا تعالیٰ کا اس سے سلوک یہ ہے کہ وہ کثرت سے اسے اپنی قدرت کے نظارے دکھاتا ہے اور رویائے صادقہ سے نوازتا ہے.میں نے سوچا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ کثرت سے خوا میں سچی نکلتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ خوا ہیں، کثرت سے نہیں بلکہ قلت سے، ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جو بچپنے کے خیالات کی وجہ سے آجاتی ہیں لیکن خدائے رحمن کا یہ جلوہ کس عبادت کے نتیجہ میں ہے، کس قربانی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے اپنا یہ جلوہ دکھایا کہ اس عمر میں کثرت سے سچی خوا ہیں دیکھنے والی بن گئیں اور پھر ساری عمر خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ پیار اور محبت اور فضل اور رحمت کا سلوک کیا اور انہوں نے کبھی بھی ان چیزوں کو اپنی کسی خوبی کا نتیجہ نہیں سمجھا بلکہ خدا تعالیٰ کے ہر فضل کے بعد جو احساس

Page 130

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۱۶ خطبہ جمعہ ۱۰ / جون ۱۹۷۷ء ان کے دل میں پیدا ہوا وہ یہی تھا کہ یہ میری کسی خوبی کا نتیجہ نہیں محض خدا تعالیٰ کی عطا ہے.میں ہر دو کے متعلق بات کر رہا ہوں یعنی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور ابوالعطا صاحب کے متعلق.ان کے رونگٹے رونگٹے سے یہ آواز نکلی کہ لا فَخُر - اپنی طرف سے کوئی چیز ہو تو آدمی فخر بھی کرتا ہے کہ میں نے یہ کیا اس واسطے مجھے اس پر فخر ہے لیکن جب یہ ہو کہ میں نے کچھ نہیں کیا تھا اور خدا نے اپنا فضل کر دیا تو پھر فخر کس بات کا.اس کے متعلق تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا ز بر دست اُسوہ ہے.بہت سی حدیثوں میں آتا ہے کہ خدا نے مجھے یہ دیا وَلا فَخْرَ خدا نے مجھ پر یہ عطا کی وَلَا فَخْرَ خدا تعالیٰ نے مجھے اس رحمت سے نو از اولا فَخْرَ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ کہلوا دیا اور یہ حقیقت ہے.پس سب سے حسین اور سب سے بزرگ اُسوہ تو ہمارے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے لیکن آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں امت محمدیہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بے حد فضلوں اور رحمتوں سے نوازا ہے اور جس کو نوازا ہے رحمانیت کے جلووں سے نوازا ہے اور جیسا کہ ان آیات قرآنیہ سے ہمیں پتہ لگتا ہے ان کو نوازا ہے جنہوں نے خدائے رحمن سے منہ نہیں موڑا.قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ جس نے خدائے رحیم سے منہ موڑا اس کے ساتھ شیطان لگایا جاتا ہے بلکہ جس نے خدائے رحمن سے منہ موڑا اس کے ساتھ شیطان لگایا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ ان کو نوازتا ہے جن کی زبانوں پر سب کچھ کرنے کے بعد بھی خدا کا ہی ذکر ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی لئے فرمایا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد سمجھو کہ تم نے کچھ نہیں کیا اور جو پایا خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے جلووں کے نتیجہ میں پایا اور اس کے فضل سے تمہیں ملا تمہارا اس میں کوئی دخل نہیں ہے.میں نے بڑا سوچا ہے عقلاً بھی نہیں بنتا لیکن شرعاً اور اسلامی ہدایت کے مطابق تو بالکل نہیں بنتا.جانے والے چلے گئے ہم سے جدا ہو گئے.جہاں تک صدمے کا تعلق ہے وہ بھی انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے لیکن سوائے بعض رشتوں کے تین دن تک ہی سوگ منانے کا حکم ہے، زیادہ سے زیادہ آپ تین دن تک سوگ منا سکتے ہیں اور اس پر بھی پابندیاں ہیں.سوگ بھی خدائے رحمن کو یاد کرتے ہوئے منانا ہے پیٹنا نہیں ، غلط قسم کے الفاظ منہ سے نہیں نکالنے، زمانے کو

Page 131

خطبات ناصر جلد ہفتم 116 خطبہ جمعہ ۱۰ / جون ۱۹۷۷ء کوسنانہیں وغیرہ وغیرہ بہت سی چیزیں ہیں اور اس کے بعد پھر یہ کہیں کہ حسبنا اللہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے، وہ اللہ جو رحمن ہے جس سے ایک لحظہ کے لئے بھی اگر ہم منہ موڑ لیں تو ہمارے لئے ہلاکت کا باعث ہے کیونکہ پھر شیطان ہم پر سوار ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ تو بھی کچھ ہے.قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا کہ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اندر کوئی ایسی بات ہے کہ خدا تعالیٰ بھی ہمیں دنیوی عرب تیں اور دولتیں دینے پر مجبور ہو گیا ہے.دونوں جانے والوں کی زندگیاں ہمارے لئے ایک نمونہ ہیں.ابوالعطا صاحب نے بھی بالکل نوجوانی کی عمر سے ہی خدا تعالیٰ کی راہ میں خدمت شروع کی اور آپ ایک بے نفس انسان تھے اور نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے جیسا کہ میں نے بتایا ہے دس سال کی عمر میں خدا تعالیٰ کی رحمت کے نشان دیکھے اور پھر ساری عمر دیکھتی رہیں.کب سے دیکھنے شروع کئے اس کا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد میں ذکر نہیں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو روایت کی تاریخ ہے اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر قریباً دس سال کی تھی.یہ ۱۹۰۷ ء کی روایت ہے کہ آپ نے کہا کہ میری یہ بچی بہت خوا میں دیکھتی ہے اور کثرت سے وہ سچی نکلتی ہیں.یہ بھی رحمانیت کا جلوہ ہے اور میں شاہد ہوں ، ان کی زندگی کو بڑے قریب سے دیکھنے والا ، اور ہر و شخص شاہد ہے جس کا واسطہ ان سے پڑا کہ رحمن خدا سے انہوں نے کبھی منہ نہیں موڑا یعنی اپنے آپ کو کبھی کچھ نہیں سمجھا.جو کچھ پایا یہی سمجھا کہ خدا کا فضل تھا کہ پایا نہ کہ میری کسی خوبی کی وجہ سے مجھے ملا.اس نمونے پر اس اُسوہ پر ، جو چھوٹے چھوٹے نمونے ہر زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں اگر ہم قائم ہو جا ئیں تو تبھی ہمیں ہدایت ملتی ہے اور بڑا اور عظیم نمونہ تو ایک ہی ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا.کوئی شخص یہ کہہ کر ہدایت نہیں پاسکتا کہ میں رحیمیت کا قائل ہوں.وہ بھی رحمت کا ایک جلوہ ہے لیکن اس کے پیچھے بھی رحمانیت ہی جلوہ گر ہو رہی ہے.یا یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں یہ کرتا ہوں یا وہ کرتا ہوں اس واسطے مجھے کچھ مل گیا ، یہ بات غلط ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں کبر اور غرور سے محفوظ رکھے.اگر آپ نے ہدایت پر قائم رہنا ہے تو قرآن کریم کہتا ہے کہ خدائے رحمن سے منہ نہ موڑ و

Page 132

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۱۸ خطبہ جمعہ ۱۰ / جون ۱۹۷۷ء اگر خدانخواستہ کسی نے خدائے رحمن سے منہ موڑ لیا تو پھر ہلاکت ہے، پھر شیطان اس کی روح پر قابض ہو جاتا ہے، پھر وہ شیطان کے تصرف میں آجاتا ہے، پھر وہ شیطان کی رعایا بن جاتا ہے.بچپن میں کہانیاں سنا کرتے تھے کہ ایک شخص نے اپنی روح دنیوی دولتوں اور عزتوں کی خاطر شیطان کے پاس بیچ دی.وہ تو ایک کہانی تھی مگر اس وقت بڑی سبق آموز کہانیاں ہوا کرتی تھیں.پس جانے والوں کے لئے دعائیں کریں.اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے اور رحمانیت کے جلوے ہمیں دکھائے اور ہمارے دل میں سوائے رحمٰن خدا کے اور کسی کا پیار نہ ہو یعنی اپنے نفس کا یا اس کے کسی پہلو کا کوئی تصور ہمارے دل میں نہ ہو صرف رحمن خدا کا جو بے عمل فیضان کرنے اور بلا استحقاق دینے والا ہے ہمارے دل میں پیار ہو.جہاں تک خدا تعالیٰ کا تعلق ہے ہمارے سارے اعمال مل کر بھی کوئی عمل بنتا ہے؟ اس کے مقابلے میں ، اس کی عظمت کے مقابلے میں اور اس کے جلال کے مقابلے میں اور اس کی کبریائی کے مقابلے میں ہمارے اعمال کوئی چیز نہیں اور اس کو ان کی ضرورت نہیں وہ غنی ہے.پس خدا کرے کہ ہمیں یہ توفیق ملے کہ جانے والوں کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے ہم ان کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں اور دنیا کی بھلائی کے لئے اور اپنے لئے یہ دعائیں کرنے والے ہوں کہ ہماری توجہ اور ہمارا منہ ہمیشہ خدائے رحمن کی طرف لگا ر ہے اور شیطان کا کبھی بھی ہم پر تسلط نہ ہوا اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے ہم اپنی اپنی استعداد کے مطابق حصہ لینے والے ہوں اور جب جائیں تو جو موجود ہوں ان کے لئے ہم نمونہ ہوں ان کے لئے عبرت کا مقام نہ بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا کرے.روزنامه الفضل ربو ۲۹۰ جون ۷ ۱۹۷ ء صفحه ۲ تا ۴ )

Page 133

خطبات ناصر جلد ہفتم ١١٩ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۷۷ء قرآن کریم ایسی کتاب ہے جو قیامت تک بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے نازل کی گئی خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات اور ان کا ترجمہ پڑھ کر سنایا:.هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ أَيتَ مُحْكَمْتَ هُنَّ أُمُّ الْكِتَبِ وَ أَخَرُ مُتَشْبِهُنَّ فَلَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَةَ إِلَّا اللهُ وَالرُّسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ أَمَنَّا بِهِ كُل مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَكَرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ - رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا مج وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ـ (ال عمران : ٩،٨) ترجمہ:.وہی ہے جس نے تجھ پر ایک کامل کتاب نازل کی ہے جس کی بعض آیتیں تو محکم آیتیں ہیں جو اس کتاب کی جڑ ہیں اور کچھ اور ہیں جو متشابہ ہیں.پس جن لوگوں کے دلوں میں کبھی ہے وہ تو فتنہ کی غرض سے اور اس کتاب کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لئے ان آیات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو اس کتاب میں سے متشابہ ہیں حالانکہ اس کی تاویل اور تفسیر کو سوائے اللہ کے اور علم میں کامل دستگاہ رکھنے والوں کے کہ جو کہتے ہیں کہ ہم اس کلام پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کہتے

Page 134

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۲۰ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۷۷ء ہیں کہ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہی ہے کوئی نہیں جانتا اور عقلمندوں کے سوا کوئی بھی نصیحت حاصل نہیں کرتا.اے ہمارے رب تو ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو حج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت کے سامان عطا کر یقیناً تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے.پھر حضور نے فرمایا:.جیسا کہ ہم احمدی جانتے ہیں قرآن کریم کے بے شمار بطون ہیں اور اس وجہ سے قرآنِ عظیم کی بڑی شان ہے.میں نے ان آیات میں سے ۹ باتیں منتخب کی ہیں جن کے متعلق میں مختصراً کچھ بیان کروں گا.دوست جانتے ہیں کہ گرمی مجھے بہت تکلیف دیتی ہے.جب میں گھر سے چلا ہوں تو مجھے شدید سر درد شروع ہو چکی تھی لیکن چونکہ کچھ نافعے پہلے ہی ہو گئے ہیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ میں آجاؤں اور اختصار کے ساتھ ان باتوں کو بیان کروں.جو دو آیات میں نے پڑھی ہیں ان میں سے پہلی کے ساتھ آٹھ باتوں کا تعلق ہے اور پھر آگے دعا ہے.پہلی بات جو اس آیت سے ہمیں پتہ لگتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ ایک کامل کتاب نازل کی جارہی ہے اور اس کی دلیل یہ دی کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں ایت محکمت بھی ہیں اور ایت متشبھت بھی ہیں.اس میں قرآن کریم کے کمال کی دلیل دی گئی ہے.ایک تو اس میں ایسی آیات ہیں کہ جو ابدی صداقتوں پر مشتمل ہیں.ایسی آیات ہیں کہ ظاہری طور پر ان کے دو معنی نہیں ہو سکتے بلکہ ان کے ایک ہی معنی ہو سکتے ہیں اور وہ کھلی کھلی صداقتیں ہیں مثلاً خدا تعالیٰ کے متعلق جو قرآن کریم نے کہا کہ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ (الاخلاص : ٢) یہ ایک ابدی صداقت ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق بنیادی چیز ہے کہ خدا ایک ایسی ہستی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں.اب اس کی تاویل نہیں ہوسکتی.خدا ایک ہے.یہ حقیقت ہے.پس اس میں ابدی صداقتیں بھی بیان ہوئی ہیں اور دوسرے اس میں وہ باتیں بھی بیان ہوئی ہیں جن کے ان ابدی صداقتوں کی روشنی میں مختلف معانی ہو سکتے ہیں.بہت سے صحیح معانی ہیں جن کے اوپر ابدی صداقتوں کی روشنی پڑتی ہے اور وہ ان کو منور کر رہی ہوتی ہے.ایک معنی بھی درست اور دوسرا بھی درست اور تیسرا بھی درست اور ہزارواں بھی درست اور شاید لاکھواں بھی درست کیونکہ

Page 135

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۲۱ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۷۷ ء خدا تعالیٰ کے جلوے بے شمار ہیں اور یہ اسی کا کلام ہے اس کے اندر بھی اس کے بے شمار جلوے چھپے ہوئے ہیں اور بے شمار اسرار روحانی اس کے اندر پائے جاتے ہیں جو اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں.اسی طرح پیشگوئیاں ہیں اگر قرآن کریم ایک کامل کتاب نہ ہوتی اور اس کا تعلق قیامت تک پیدا ہونے والے انسان سے نہ ہوتا تو اس میں ایسی پیشنگوئیاں بھی نہ ہوتیں جن کا تعلق قیامت تک کے انسان سے ہے اور جن کا تعلق بعد میں آنے والے زمانوں سے ہے اور جیسا کہ قرآن کریم نے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نے ، خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے ہمیں بتایا ہے ساری ہی پیشنگوئیاں اپنے اندر اخفاء کا کچھ پہلو رکھتی ہیں.متشابہات کے بھی یہی معنی ہیں اور اس زمانہ کے حالات، چودھویں صدی کے حالات جو پہلی صدیوں سے مختلف ہیں اس زمانہ کے لئے قرآن کریم کی تفسیر ایسی ہے جس کا تعلق اس زمانہ سے ہے لیکن یہ تفسیر ابدی صداقتوں کی روشنی میں ہوگی اور آیات محکمات سے باہر نہیں جاسکتی بلکہ وہ Determine کرتی ہیں.وہ معین کرتی ہیں که کونسی تاویل یا تفسیر کسی آیت کی درست ہے اور کونسی نہیں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک کامل کتاب ہے جو نوع انسانی کو دی گئی ہے اور ہمیشہ کے لئے ان کی راہنمائی کرے گی.کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ انھیں قرآن کے علاوہ کسی اور ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت پیش آئے.قرآن کریم نے آئندہ کی خبریں دی ہیں اور ہر صدی کے متعلق قرآنِ کریم میں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں جو اپنے وقتوں پر ظاہر ہوتی ہیں.مثلاً چاند اور سورج گرہن ہونے کی پیش گوئی تیرہ سوسال کے بعد جا کر پوری ہوئی.اب اگر انسان پر قرآن کریم کی حکومت تیرہ سوسال پر پھیلی ہوئی نہیں تھی تو قرآن کریم میں تیرہ سو سال کے بعد پوری ہونے والی کسی پیشگوئی کی ضرورت نہیں تھی اور اگر قرآن کریم کی حکومت قیامت تک پھیلی ہوئی نہیں ہے تو قیامت تک کی پیشگوئیاں اس میں نہیں ہوں گی لیکن قیامت تک پھیلی ہوئی پیشگوئیاں اس میں موجود ہیں.قرآن کریم کے نزول پر ، اس کامل کتاب کے نزول پر اب قریباً چودہ سو سال گزر چکے ہیں.اس کا ماضی بھی عملاً یہ بتا تا ہے کہ مستقبل میں بھی خدا تعالیٰ اس کے ذریعہ سے انسان کے ساتھ یہی سلوک کرے گا کہ نئی سے نئی

Page 136

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۲۲ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۷۷ء باتیں قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق ظہور میں آئیں گی اور پیشگوئیاں پوری ہوں گی، جب نئے مسائل پیدا ہوں گے قرآن کریم کی نئی تفسیر خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو سکھائے گا، اپنے مقربین اور اپنے محبوب بندوں کو اور پھر وہ ان مسائل کو حل کریں گے.پس قرآن کریم میں ایت محکمت کے علاوہ ایت متشبهت کا پایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے.خدا کہتا ہے کہ یہ ایسی مکمل اور کامل کتا ہے جس میں متشبھت بھی پائی جاتی ہیں اس معنی میں کہ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَةَ إِلَّا اللهُ وَالرُّسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ أَمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رہنا.اس معنی میں جو متشابہات تھیں، جو قرآن کریم کی عظمت بیان کرنے والی اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعتوں کی طرف اشارہ کرنے والی تھیں منافق انہی متشابہات کی غلط تاویل سے فائدہ اٹھاتا ہے اور جو دنیا کی روشنی کے ذرائع تھے منافق ان کے ذریعے خود اپنے آپ کو بھی اندھیروں میں لے جاتا ہے اور دوسروں کو بھی اندھیروں کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے اور جو مومن ہے وہ ایسا نہیں کرتا لیکن قرآن کریم نے متشبهت سے پہلے محکمت کہا ہے کیونکہ پہلے تو اس کی عظمت ہے یعنی ایک کامل کتاب ہونا اور اس کا مدلل ہونا اور ابدی صداقتوں پر اس کا مشتمل ہونا.پس دوسری بات یہ ہے کہ قرآن عظیم میں ایت محکمت پائی جاتی ہیں جن میں کوئی استعارہ نہیں اور جو کسی تاویل کی محتاج نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مُحْكَمت کے معنی ہیں کہ جن میں کوئی استعارہ نہیں پایا جا تا اور جو کسی تاویل کی محتاج نہیں ہیں.میں نے کہا تھا کہ اس کے اندر ابدی صداقتیں ہیں اور بینات ہیں.بَيِّنت ، مُحْكَمت ہیں.ایک ظاہر چیز ہے جس میں کوئی چھپی ہوئی بات نہیں.قرآن کریم نے کہا ہے کہ میں ایک ایسی کتاب ہوں جو بالکل مبین “ ہوں، ظاہر ہوں اور کوئی چیز مجھ میں چھپی ہوئی نہیں ہے، وہ ان آیات دو ،، محکمات کے متعلق ہی کہا گیا ہے.یا وہ تفاسیر قرآنی جوان متشابہات سے تعلق رکھتی ہیں جن کا تعلق ماضی سے تھا جس وقت وہ واقع ہو گیا تو وہ مبین “ کے اندر شامل ہو گئیں.ددو ،، تیسری بات ہمیں یہ پتنگتی ہے کہ قرآن عظیم میں ایت متشبھت میں بھی ہیں جو تاویل کی محتاج ہیں.ان متشبهت کی بہت سی باتیں بعض استعارات کے پردہ میں محجوب ہیں اور اپنے

Page 137

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۲۳ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۷۷ء اپنے وقت پر آکر کھلتی ہیں اور جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا یہ قرآن کریم کی عظمت ہے، بہت بڑی عظمت ! کہ وہ ایک ایسا کلام ہے جس نے قیامت تک کے لئے انسان کی بہتری کے سامان کر دیئے.ہر صدی کا ، ہر زمانے کا، ہر علاقے کا ، ہر ملک کا انسان قرآن کریم کا محتاج اور اس کی احتیاج سے وہ کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتا.جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں مُتشبھت میں پیشگوئیاں بھی ہیں اور متشبھت میں قرآن کریم کی وہ تفسیر بھی ہے جو زمانہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہے لیکن وہ ابدی صداقتوں کی روشنی میں ہے اس سے باہر نہیں اور ابدی صداقتوں کی ضد نہیں ہے بلکہ ان کی تائید کرنے والی ہے.یہ ایک لمبا مضمون ہے میں مختصر کروں گا.یہ تین باتیں ہو گئیں.چوتھی بات ہمیں یہ پتنگتی ہے کہ قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے لیکن پھر بھی جن کے دلوں میں کجی اور نفاق ہے وہ ان آیات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو متشابہ ہیں.یہ ان آیات سے پتہ لگتا ہے ایک تو وہ ان آیات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو متشابہ ہیں اور محکمات کی طرف نظر ہی نہیں اٹھا کر دیکھتے یعنی جو چیز واضح ہے، قطعی ہے، جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں اس کو تو چھوڑ دیتے ہیں اور جس میں تاویل ہوسکتی ہے، جس کے ایک سے زائد معنی ہو سکتے ہیں، جس کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو تب خدا تعالیٰ خود وہ معانی سکھاتا ہے وہ ان متشابہات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور پھر یہ کہ ان کے پیچھے پڑ کر ایک ایسی تاویل کرتے ہیں جو غلط ہوتی ہے.وہ حقیقت سے دور لے جانے والی ہے.آیات محکمات سے پرے لے جانے والی ، اس کی ضد اور اس سے متضاد ایک تفسیر اور تاویل کر دیتے ہیں اور ان کا جوا رادہ ہوتا ہے، ان کی جو نیت ہوتی ہے وہ بھی شیطانی ہوتی ہے.ابتغاء الْفِتْنَةِ ، وہ فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، آیات قرآنیہ کے معانی کو ان کی حقیقت سے دور لے جاتے ہیں اور آیات محکمات کی ضد میں ان سے متضاد ایک معنی کر رہے ہوتے ہیں اور نیت ان کی ہوتی ہے فتنہ پیدا کرنا اور دعویٰ ان کا یہ ہوتا ہے کہ ہم تو صالحین کا گروہ ہیں ہم تو مصلح ہیں ، ہم تو اصلاح چاہتے ہیں.پانچویں بات اس آیت سے یہ پتہ لگی کہ ایت محکمت کی تفسیر اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا

Page 138

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۲۴ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۷۷ء مَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَةُ إِلَّا الله - خدا نے اعلان کر دیا کہ متشابہات کی تفسیر خدا کے سوا اور کوئی جانتا ہی نہیں.کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں اپنی عقل یا فراست سے قرآن کریم کی آیت متشبهت یعنی متشابہ آیات کی تفسیر کر سکتا ہوں.کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ مَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَةُ إِلَّا الله سوائے خدا تعالیٰ کے ان کی تاویل کوئی نہیں جانتا.لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انسانوں میں سے وہ گروہ جو میرے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے وہ گروہ جو علم میں کامل دستگاہ رکھنے والا ہے.الرسخُونَ فِي الْعِلْمِ بطونِ قرآنی کو جانتے ہیں.یہ اعلان کیا خدا تعالیٰ نے کہ اللہ کے سوا کوئی جانتا نہیں اور جو علم میں کامل دستگاہ رکھنے والے ہیں وہ بطونِ قرآنی کو جانتے ہیں.اور ساتویں بات ہمیں یہ پتہ لگی کہ وہ اس لئے جانتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ اسرار روحانی سیکھتے ہیں.وہ اس کلام پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ محل من عِندِ ربنا اور ان کا یہ اعلان ہوتا ہے کہ ہم اپنی طرف سے تفسیر نہیں کر رہے بلکہ ان ایت مُتشبهت کی تفسیر خدا تعالیٰ ہمیں سکھاتا ہے اور تب ہم بتاتے ہیں.کوئی انسان اپنی طاقت سے اپنے زور سے اپنی فراست اور اپنی عقل سے ایت متشبهت کی صحیح تفسیر بیان ہی نہیں کرسکتا.اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے اوپر نازل ہو اور خدا تعالیٰ کی رحمت کے نتیجہ میں وہ یہ تفسیر سیکھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں وہ راسِخُ فِي الْعِلْمِ بن جائے.خدا تعالیٰ سے علم حاصل کرنے کے لئے قرآن پر کامل ایمان ضروری ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن کامل نہیں وہ شخص اللہ تعالیٰ سے تفسیر سیکھ ہی نہیں سکتا.امنا بِہ ہم اس کلام پر ایمان لائے.ہم ایمان لائے کہ یہ کامل کتاب ہے اور اس بات پر بھی ایمان لائے کہ حا مِنْ عِنْدِ ربنا یعنی جو ایت محکمت ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور جو ایت مُتشبِھت ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور وہ ذات وہ ہستی جس کی ذات اور صفات میں کوئی تضاد نہیں پایا جا تا اس کے کلام میں بھی کوئی تضاد نہیں پایا جاتا.اس بات پر وہ ایمان لاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کو ایسے معانی سکھاتا ہے جو قرآن کریم کے دوسرے حصوں سے متضاد نہیں.وہ تفسیر نہ ایت محکمت سے متضاد ہے اور نہ ایک متشبهت کے ان دیگر معانی سے متضاد ہے جو اللہ تعالیٰ نے

Page 139

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۲۵ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۷۷ء اس کو یا کسی اور کو اس زمانہ میں یا کسی اور زمانہ میں سکھائے کیونکہ اس کی ذات میں اور اس کے علم میں تضاد نہیں ہے اور اس کی سکھائی ہوئی تعلیم میں بھی تضاد پیدا نہیں ہوسکتا.جس کو یہ چیز مل گئی ، خدا تعالیٰ کی رحمت جس کی معلم بن گئی اس کو کامیابی کی ہر کلید مل گئی.آج صبح میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا.میں نے دیکھا کہ ایک چھپی ہوئی کتاب میرے سامنے پڑی ہے اس کا جو سر ورق ہے یعنی پہلا صفحہ جس پر نام لکھا ہوتا ہے اس کا اوپر کا حصہ تو میری نظر نے نہیں پکڑا لیکن اس کے نیچے فارسی کا ایک بڑا عجیب شعر ہے وہ شعر مجھے بھول گیا لیکن اس کے بعض الفاظ مجھے یاد ہیں اور مفہوم پوری طرح یاد ہے.وہ شعر نوریست سے شروع ہوتا ہے اور پہلا مصرع ختم بھی نوریست پر ہوتا ہے.پہلے مصرع کے معنی یہ ہیں کہ نور تو وہ نور ہے جو ایسے شخص کو ملے جو اپنے نفس پر ، اپنی ذات پر ایک موت وارد کرتا ہے اور فنا فی اللہ ہو جاتا ہے وہ نور ، نہ کہ سعی بسیار، کلید کامرانی ہے یہ دوسرے مصرعے میں ہے.دوسرے مصرعے کے شروع میں سعی بسیار اور آخر میں کلید کامرانی“ ہے.انسانی تدابیر اور انتہائی کوشش کامیابی کی چابی نہیں ، کامیابی کی چابی یہ ہے کہ اپنے اوپر ایک موت وارد کر لینے کے بعد ، فنافی اللہ ہو جانے کے بعد انسان کو ایک نور عطا ہو جائے.پھر وہ جس میدان میں بھی قدم اٹھاتا ہے کامیابی اس کے قدم چومتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے.اس آیت کے معاً بعد جو دوسری آیت ہے یعنی ربنا لا تزغ قُلُوبَنَا اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ دیکھو اتنی عظیم کتاب اتنی شاندار کتاب اتنی وسعتوں والی کتاب کہ جس کی حکومت بعثت نبوی سے اور نزولِ قرآن سے لے کر قیامت تک پھیلی ہوئی ہے سج دل لوگ اس کو بھی اپنی اور دوسروں کی (جس پر ان کا اثر ہوتا ہے) ہلاکت کا باعث بنا دیتے ہیں.خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو علم حاصل کیا جائے اس کے سوا باقی ہر چیز متشابہ نہیں بلکہ مشتبہ ہے اور بلندیوں کی طرف لے جانے والی نہیں بلکہ گہرائیوں میں گرانے والی ہے.اور یہاں جو ذ کر ہے کہ جن کے دلوں میں بھی ہے، وہ وہ لوگ نہیں ہیں جو اسلام پر ایمان ہی نہیں لائے بلکہ ایمان لانے کے بعد کبھی پیدا ہوئی اور یا پھر ان کی سابق کبھی دور نہیں ہوئی ، دونوں شکلیں ہوتی ہیں.اتنی عظیم کتاب ہے اور وہ ان کے دلوں کی

Page 140

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۲۶ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۷۷ء کبھی دور نہیں کر سکی ان کی شامت اعمال کی وجہ سے، ان کی بدقسمتی کی وجہ سے ، ان کی ذہنی بیماری کی وجہ سے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے زور سے صراط مستقیم پر بھی نہیں چل سکتے اور کبھی سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتے بلکہ اس کے لئے بھی دعا کی ضرورت ہے.اس واسطے نفاق سے اور دل کی کجی سے محفوظ رہنے کے لئے یہ دعا کیا کرو کہ رَبَّنَا لَا تُزِعُ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو ، ساری جماعت کو جو قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں اس ایمان کے بعد سج دل نہ بنادے اور قرب کی راہیں دکھانے کے بعد اپنے سے پرے نہ دھتکار دے اور جس رحمت اور پیار کے لئے اس نے اسلام کے اندر اس جماعت کو پیدا کیا ہے وہ پیار ہم سب کو حاصل ہو.آمین.روز نامه الفضل ربوہ ۱۷ اگست ۱۹۷۷ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 141

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۲۷ خطبہ جمعہ ۱۵ / جولائی ۱۹۷۷ ء جب تک نور آسمانی انسانی عقل کے ساتھ شامل نہ ہو وہ صحیح راستوں پر نہیں چل سکتی خطبہ جمعہ فرموده ۱۵ جولائی ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مجھے جس دانت میں تکلیف تھی اس کا اوپر کا حصہ تو دندان ساز ڈاکٹر شفیق صاحب نے نکال دیا تھا لیکن اس کی جڑیں ابھی اندر ہیں اور اس کی وجہ سے ابھی اپنا ڈ نچر لگا نہیں سکتا.گو زیادہ تکلیف تو نہیں لیکن تکلیف کا کچھ احساس ہوتا ہے.گرمی بھی مجھے تکلیف دیتی ہے جب تک گرمی ہے یہ تکلیف ساتھ لگی ہوئی ہے.میں اس وقت دوستوں کو مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انسان کو جو بہت سی عطا یا بخشی ہیں ان میں ایک عقل انسانی بھی ہے اور اس کی طرف قرآن کریم نے بار بار انسان کو توجہ دلائی ہے کہ عقل سے کام لو یا کہا ہے کہ یہ بڑی معقول باتیں ہیں جو تمہارے سامنے پیش کی جاتی ہیں تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ؟ لیکن خالی عقل انسان کے لئے کافی نہیں.جب تک عقل کے ساتھ الہام کی روشنی شامل نہ ہو اور خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق انسانی عقل کی ہدایت اور راہنمائی نہ کر رہا ہو اس وقت تک عقل بہت سی غلطیاں بھی کرتی ہے.یہ بے خطا نہیں خطائیں کرتی ہے.انسان کی عقل حیران ہوتی ہے کہ انسانی عقل کس طرح اپنے مقام سے گرتی ہے اور

Page 142

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۲۸ خطبہ جمعہ ۱۵ / جولائی ۱۹۷۷ء انسانوں کے لئے اطمینان و سکون خوشی و خوشحالی کے سامان پیدا کرنے کی بجائے یہی عقل بے اطمینانی ، بدحالی اور پریشانیوں کے سامان پیدا کر دیتی ہے.چنانچہ ہمارا یہ زمانہ جو مہذب دنیا کا زمانہ کہلاتا ہے جب ہم اس پر نگاہ ڈالتے ہیں اور یورپ و امریکہ کو دیکھتے ہیں یا دوسرے ممالک جو بڑے مہذب کہلاتے ہیں ان کا مطالعہ کرتے ہیں تو اگر چہ سارے نہیں لیکن ان کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا پایا جاتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ عقل محض انسان کے لئے کافی ہے.انہیں خدا کی ، خدائی راہنمائی اور خدائی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے.کچھ ہمارے ملک میں بھی یہ اثر ان کی نقل کرتے ہوئے آ گیا ہے جب ہم ان عظمند کہلانے والے ممالک کے حالات اور ان کی عقل کے فیصلوں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی عقل کی ہزاروں فحش غلطیاں ہمارے سامنے آتی ہیں اور بڑے مضحکہ خیز تضاد عقل، عقل کے درمیان پائے جاتے ہیں.معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ان کی عقل کے فیصلے جنہوں نے انسانوں کو دکھ پہنچا یاوہ ہمارے علم اور مشاہدہ میں آتے ہیں اور ان کی اتنی مثالیں ہیں کہ جب میں دورے پر پریس کانفرنس میں باتیں کرتا ہوں یا ان کے جو سکالرز ہیں اور محقق ہیں ان سے باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے تو ان کو میں اس طرف توجہ دلا تا ہوں کہ تمہاری عقل نا کام ہوگئی اور تمہاری عقل نے تمہیں وہ فائدہ نہیں پہنچایا جو تم سمجھتے تھے کہ تمہاری عقل فائدہ پہنچائے گی اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ عقل سے کام لیتے ہوئے اس عَلامُ الْغُيُوبِ ہستی کی طرف توجہ کرو جس کی ہدایت کے بغیر انسان کی عقلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں بلکہ دکھ پہنچانے کا سبب بن جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون پر بھی بڑی بسط سے لکھا ہے کہ اگر خدا سے دوری ہو اور اللہ تعالیٰ کا الہام عقل کے ساتھ نہ ہو تو عقل میں یہ یہ خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.سب سے اہم خطا اور نہایت خطرناک خطا کہ جس سے بڑھ کر کوئی اور خطا سوچی نہیں جاسکتی وہ یہ ہے کہ عقل مند کہلانے کے باوجود وہ خدا کو نہیں پہچانتے اور اس میں شک نہیں کہ اس سے بڑی غلطی اور خطا کوئی اور ہوہی نہیں سکتی کہ عقلمند انسان بھی ہو اور خدا تعالیٰ کا انکار بھی کر دے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 143

خطبات ناصر جلد ہفتم فرماتے ہیں.۱۲۹ گر خرد پاک از خطا بودے ہر خرد مند با خدا بودے خطبہ جمعہ ۱۵ / جولائی ۱۹۷۷ ء یعنی اگر عقل خطا سے پاک ہوتی تو دنیا کا ہر عقل مند انسان با خدا ہوتا لیکن ہمیں تو یہ نظر آتا ہے کہ عقل مند کہلانے والے خدا سے دور چلے گئے اور خدا سے دوری میں وہ اپنی بڑائی محسوس کر رہے ہیں.اس سے اگلے شعر میں آپ نے فرمایا ہے کہ سہو ونسیان اور خطا سے پاک تو وہی ذات ہے جو علام الغیوب ہے اور عالم الاشیاء ہے انسان تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا.انسانی پیدائش کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ انسان خدا تعالیٰ کا عبد بنے اور انسان کو عقل اس لئے دی گئی تھی کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہدایت پا کر دنیا میں خدا تعالیٰ کے قرب کی جنت اس طرح قائم کرے کہ انسان بحیثیت انسان سکھ اور چین کا سانس لے لیکن انسانی عقل سے اس سے بڑی خطا اور کوئی نہیں ہوئی کہ انسان نے نہ اپنے لئے بھلائی حاصل کی اور نہ نوع انسانی کے لئے دنیوی لحاظ سے بھلائی کے سامان پیدا کئے.میں نے بتایا ہے کہ میں عقل کی خرابی کی سینکڑوں باتیں گنوا سکتا ہوں بغیر غور کئے یعنی مجھے وہ باتیں از بر ہیں جب مطالعہ کرتا ہوں تو وہ میرے سامنے آجاتی ہیں.ان میں سے مثلاً میں ایک بات کو لیتا ہوں.جب پہلی عالمگیر جنگ ہوئی تو بعض قوموں نے شکست کھائی اور بعض نے فتح حاصل کی.جنگ کا فیصلہ ہوا تو لیگ آف نیشنز بنائی گئی اور کہا گیا کہ اس سے انسان کے امن کا سامان پیدا کر دیا ہے.ایک طرف لوگ بنی نوع انسان کے لئے خصوصاً یورپ میں بسنے والے انسان کے لئے امن اور آشتی اور خوشحالی کے سامان پیدا کرنے کے لئے لیگ آف نیشنز کا سوچ رہے تھے اور کہتے تھے کہ دنیا پر بھی اس کا اثر پڑے گا اور انسان کے دکھوں کا علاج ہوگا.دنیا میں بسنے والے انسان کو تو چھوڑ و خود یورپ میں ایک طرف اس دعوئی کے ساتھ لیگ آف نیشنز کو قائم کیا گیا اور دوسری طرف یورپین ممالک کے حصے بخرے کچھ اس طور پر لوگوں کی عقلوں نے کئے کہ امن قائم ہو ہی نہیں سکتا تھا جس کے نتیجہ میں دوسری عالمگیر جنگ کی بنیاد پڑی لیکن ہمیشہ کے امن

Page 144

خطبات ناصر جلد ہفتم کے قیام کے لئے کوئی نتیجہ نہ نکلا.الله.خطبہ جمعہ ۱۵ / جولائی ۱۹۷۷ ء پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے یورپ نے، امریکہ نے اور روس نے اور انگلستان اور دوسرے مہذب کہلانے والے ممالک نے جس جس میدانِ زندگی میں ترقی کی ہر میدان میں چونکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم نہیں رکھا اور یہ بنیادی خطا ہے جو ان کی عقل سے سرزد ہوئی یعنی خدا تعالیٰ سے دُوری پیدا ہو گئی جس کے نتیجہ میں اُن کی عقلوں نے ہر میدان میں اتنی مخش غلطیاں کیں اور اتنا تضاد ان کی عقلوں میں پیدا ہو گیا کہ وہ ایک مصیبت بن گیا.کوئی خرابی آج ظاہر ہوئی کوئی دس سال بعد جا کر ظاہر ہوئی کوئی پندرہ سال کے بعد اور کوئی بیس سال کے بعد ظاہر ہوئی.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو آئندہ کسی موقع پر تفصیل میں جا کر دس پندرہ مثالیں دے کر بتاؤں گا کہ انسانی عقل نے انسان کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا سامان پیدا کئے جب انسانی عقل خدا تعالیٰ سے دور جا کر اس کی روشنی سے محروم ہو گئی.اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ (النور : ۳۶) خدا تعالیٰ جو آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس نے عقل کے لئے ایک نور کے حصول کا راستہ بتایا تھا اور وہ یہ کہ اللہ کا قرب حاصل کرو.اس کے ساتھ ذاتی تعلق کو قائم کرو.اس سے محبت ذاتیہ کے نتیجہ میں اپنی زندگیوں پر ایک فاوار د کرو.نور کے حصول کی اس راہ کو انہوں نے اپنے اوپر بند کر لیا اور محض اپنی عقل پر بھروسہ کرتے ہوئے بھلائی کی بجائے دکھوں کے سامان پیدا کر لئے.ہم لوگ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں ہمارے لئے قرآن کریم نے کھول کر بیان کر دیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے نور کو حاصل کرنے کے بعد عقل کا صحیح استعمال کیا جا سکتا ہے اور جس کے بغیر عقل صحیح نتائج پیدا نہیں کر سکتی اس لئے ہمیں قرآن کریم پر تدبر کرنا چاہیے، قرآن کریم کو غور سے پڑھنا چاہیے.جن باتوں کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ انسان کی صحیح عقل اس نتیجہ پر پہنچے گی اس کوعلی وجہ البصیرت سمجھنا چاہیے کہ واقعی وہ اس نتیجہ پر پہنچتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.ماضی میں جائیں تو ایک وقت میں جب مسلمان اپنے عروج کو پہنچے ہوئے تھے تو قطع نظر

Page 145

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۳۱ خطبہ جمعہ ۱۵ جولائی ۱۹۷۷ء اس کے کہ کوئی شخص عیسائی تھا یا مسلمان تھا، اُمت مسلمہ میں انسان کی عقل نے ہر ایک کی خوشحالی کے سامان پیدا کر دیئے تھے اور اتنا حسین معاشرہ پیدا کر دیا تھا کہ آج کی بہکی ہوئی عقل حیران ہو جاتی ہے یہ سوچ کر کہ اچھا! اس قسم کے سامان بھی عقل پیدا کرسکتی ہے.غرض ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ محض عقل خطا سے بہر حال خالی نہیں خطا بھی اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور جب خطا ہے تو صحیح کام کرنے کے لئے کوئی ذریعہ ہونا چاہیے اور چونکہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز کے زوجین پیدا کئے ہیں اس لئے عقل کا بھی ایک اور ساتھی ہے.جب یہ دونوں مل جاتے ہیں یعنی نور آسمانی عقل کے ساتھ ملتا ہے تو پھر عقل صحیح راستوں پر کام کرتی ہے اور صحیح نتائج پیدا کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سمجھ عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کے صحیح نتائج نکالنے کے سامان عطا کرے.谢谢谢 روزنامه الفضل ربوہ ۱۲؍ دسمبر ۱۹۷۷ء صفحه ۲، ۳)

Page 146

Page 147

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۳۳ خطبہ جمعہ ۲۹ / جولائی ۱۹۷۷ء قرآن کریم کے اصول ایمانیہ ثابت محقق اور فی ذاتہ یقین کامل کے درجہ پر پہنچے ہوئے ہیں خطبہ جمعہ فرموده ۲۹ جولائی ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ریلوے کا پھاٹک بند ہو گیا تھا اس لئے کچھ دیر رکنا پڑا.آپ کو بھی تکلیف ہوئی اور مجھے بھی آپ کی تکلیف کی وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑی.قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے.اس نے اپنے کمال کا خود اعلان کیا ہے چنانچہ ہمارے رب کریم نے فرمایا :.اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدة : ٤ ) علم دین کو مرتبہ کمال تک پہنچادیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی پر ہر قسم کی نعمتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں لیکن ان نعمتوں سے حصہ پانے والے امت محمدیہ کے ایمان دار لوگ ہیں.ہر انسان ان نعمتوں سے خدا تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور قرآنی تعلیم پر عمل پیرا ہوکر ہی حصہ پاسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:." ( قرآن ) اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کا تاج لا زوال اپنے سر پر رکھتا ہے اور

Page 148

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۳۴ خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۷۷ء تبيانا لكُل شَيْءٍ (النحل: ٩٠) کے وسیع اور مرصع تخت پر جلوہ افروز ہے.“ قرآن کریم ہی نے اپنے کمال کے متعلق بتایا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ نے فرما یا اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم تو اس سے کیا مراد ہے کس قسم کا کمال یا کس قسم کے کمالات اس میں پائے جاتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.الَم تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ - تُؤْتِي اكْلَهَا كُل حِيْنِ بِاِذْنِ رَبَّهَا ـ (ابرهیم : ۲۶،۲۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں قرآن کریم کی یہ آیت قرآن کریم کے کمال کے تین پہلوؤں کو ظاہر کرتی ہے اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو قولِ ثابت عطا کرتا ہے یعنی ایسا قول عطا کرتا ہے جو ثابت شدہ ہے اور مدلل ہے اور جس کے متعلق دلائل دیئے گئے ہیں اور انسان کو ثابت قدم رکھتا ہے.اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ ثبات قدم کے لئے تعلیم کا مدلل ہونا ضروری ہے.تعلیم اپنی ذات میں ہزار دلائل رکھے اگر وہ ہماری سمجھ میں نہ آئیں، اگر ہم ان کا مطالعہ نہ کریں اور اگر ہماری ان سے واقفیت نہ ہو، اگر ہم ان کا علم نہ رکھیں تو ہم ثابت قدمی نہیں دکھا سکتے اس لئے خدا تعالیٰ نے ثابت قدم رہنے کا طریقہ قرآن کریم کی تعلیم بتایا ہے.گویا قرآن کریم کے پاک اور مقدس کلام کا کمال ان آیات میں تین باتوں پر موقوف قرار دیا گیا ہے.اول یہ کہ اس کے اصول ایمانیہ ثابت اور محقق اور فی حدذاتہ یقین کامل کے درجے پر پہنچے ہوئے ہوں اور اس کی دوسری شق یہ ہے کہ فطرت انسانی اس کو قبول کرتی ہو.مذہب اور ایمان کے جو اصول ہیں ان کی بنیادی غرض یہ ہے کہ خدائے واحد ویگانہ کے ساتھ انسان کا ایک تعلق قائم ہو جائے اسی لئے کلمہ لا إِلهَ إِلَّا الله اصول ایمانیہ کی بنیاد ہے.چونکہ ایمان کے سارے اصول خدائے واحد و یگانہ کی طرف لے جانے والے ہیں اور توحید باری تعالیٰ فی ذاتہ محقق ہے اور یہ جو کائنات ہے جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ ماننا پڑتا ہے اور ہم اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہیں جیسا کہ آج کے سائنسدانوں کا ایک حصہ اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے کہ اس کائنات کی پیدائش کو

Page 149

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۳۵ خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۷۷ء محض اتفاق نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ ماننا پڑتا ہے کہ کوئی مد بر بالا رادہ ہستی ہے جس نے یہ کائنات تخلیق کی ہے، اس کا ارادہ اور حکم اس میں چلتا ہے.غرض ساری کائنات کا اس اصول کے ساتھ بندھا ہوا ہونا اور ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ کائنات کی ہر چیز کو انسان کے لئے مسخر کیا گیا ہے.ہر چیز انسان کی خدمت پر لگا دی گئی ہے.یہ خود اپنی ذات میں متصرف بالا رادہ ہستی کے وجود پر ایک بڑی زبر دست دلیل ہے یعنی اس کا ئنات میں کوئی انتشار نہیں پایا جاتا.مخلوقات کی اتنی تعداد ہے کہ انسان کا ذہن اپنے تصور میں بھی وہ تعداد نہیں لاسکتا انسان کی سب گنتیاں ختم ہو جاتی ہیں.کائنات کی ہر چیز انسان کی خدمت پر لگا دی گئی ہے، انسان کے لئے اس کی تسخیر ہے یعنی کائنات کی ہر چیز کو خدا کا حکم ہے کہ اس نے انسان کی خدمت کرنی ہے.پس جب ہم کائنات پر غور کرتے ہیں تو لا إله إلا الله جو ہمارے ایمان کی بنیاد ہے وہ ثابت ہو جاتی ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام یہ مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے یہ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں.یعنی یہ کوئی اتفاق نہیں کہ ایسا ہو گیا ہو.اب تو سائنسدانوں نے اتفاق کو سائنس بنادیا ہے.اس علم کو مدون کر دیا ہے اور اس کا نام انہوں نے سائنس آف چانس رکھا ہے.دس پندرہ سال ہوئے مجھے ایک چھوٹی سی کتاب ملی تھی سائنس آف چانس پر.میں نے اس کا مطالعہ کیا تھا.اب یہ علم آگے بڑھ گیا ہوگا لیکن جو بعد کی کتب ہیں وہ میرے مطالعہ میں نہیں آئیں.جس مختصر سی کتاب کا میں ذکر کر رہا ہوں اور جونئی نئی آئی تھی اس کے مطالعہ سے مجھے معلوم ہوا کہ سائنس آف چانس کے نتیجہ میں چوٹی کے سائنسدانوں کا ایک گروہ اس بات کی طرف آ گیا تھا کہ انہیں بھی ماننا پڑے گا کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے جو اس کا پیدا کرنے والا ہے.کوئی مد بر بالا رادہ ہستی ہے جو اس دنیا کو پیدا کرنے والی ہے.یہ کائنات خود بخو دا تفاقیہ طور پر اور بے مقصد معرض وجود میں نہیں آگئی کیونکہ اتنے چانسز (Chances) اتنے اتفاقات اکٹھے ہو ہی نہیں سکتے خصوصاً جب یہ بات ہمارے سامنے ہو کہ یہ سارے اتفاقات ( جن کو دہر یہ لوگ اتفاقات کہتے ہیں ) اکٹھے

Page 150

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۳۶ خطبہ جمعہ ۲۹ جولائی ۱۹۷۷ء ہو جائیں انسان کی خدمت کے لئے.صرف اربوں کھربوں کی بات نہیں بلکہ اگر ان کو آپس میں ضرب دی جائے تب بھی ان کی تعداد زیادہ بنتی ہے.بہر حال سائنسدانوں اور دانشوروں کا ایک طبقہ اس کا ئنات کو دیکھ کر اس طور سوچنے لگ گیا ہے کہ اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہے.انسان فطرت صحیحہ رکھتا ہے اس کے سامنے جب یہ چیز آتی ہے تو وہ اس بات کو ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہم ان سب چیزوں کو اتفاق نہیں کہہ سکتے ضرور کوئی مد بر بالا رادہ ہستی ہے جس نے اس کا ئنات کو پیدا کیا ہے.اب میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ پڑھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:.وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی یہ تمام مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے یہ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں بلکہ اس کا ایک موجد اور صانع ہے جس کے لئے یہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمان بھی ہو اور رحیم بھی ہو اور قادر مطلق بھی ہو اور واحد لاشریک بھی ہو اور ازلی ابدی بھی ہو اور مدبر بالا رادہ بھی ہو اور مستجمع جمیع صفات کا ملہ بھی ہو اور وحی کو نازل کرنے والا بھی ہو.یہ اقتباس اپنے اندر ایک وسیع مضمون رکھتا ہے.اس وسعت میں تو اس وقت نہیں جاؤں گا کسی اور موقع پر بیان کیا جاسکتا ہے.قرآن کریم کے کمال کی دوسری بات یہ بتائی گئی کہ فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ ایک تو یہ کہ اصولِ ایمانیہ لا إلهَ إلا الله ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جس سے کوئی سعید فطرت انسان انکار نہیں کرسکتا.انسان کی فطرت کے اندر بھی یہ بات پائی جاتی ہے اور اس کا ئنات کا مطالعہ کرنے سے بھی مدلل طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ منتشر نہیں.مثلاً ستارے ہیں ان میں کوئی مشرق کی طرف چل رہا ہوتا ہے اور کوئی مغرب کی طرف چل رہا ہوتا ہے مگر ان کو بھی ہر دوسری چیز کی طرح بعض معین نسبتوں میں باندھا گیا ہے.دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کا وہ قانون جو اس کا ئنات میں نافذ ہے اور قانونِ قدرت جو اس عالم میں کام کر رہا ہے جب ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام پاک قانون قدرت کے ساتھ موافقت رکھتا ہے اور یہ بڑا لطیف مضمون ہے کہ خدا کا کلام اور خدا کا فعل اور خدا کے فعل کے نتیجہ میں انسانی فطرت جس کے لئے یہ کائنات بنائی گئی ہے ان تینوں میں

Page 151

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۳۷ خطبہ جمعہ ۲۹ جولائی ۱۹۷۷ء ایک بڑا مضبوط رشتہ قائم ہے.غرض اس کائنات میں جو قانون نافذ ہے اس کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کی نشو ونما کرے یعنی کائنات کی ہر چیز کو ( مختلف اور بے شمار مخلوقات ہیں ان میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اس نے اس طرح پر انسانی فطرت کی نشوونما کرنی ہے اور اس طرح ان کے کام آنا ہے.استعدادوں کو تقویت دینے والا اور وسعت دینے والا اور اس کمال کو پہنچانے والا یہ قانون قدرت خدا تعالیٰ نے بنایا ہے اور اس قانون قدرت کے عمل کے نتیجہ میں انسانی فطرت انسانی قوی یا فطرت انسانی کے قومی اور اس کی استعدادوں میں ایک تقویت پیدا ہورہی ہے.کمال کی طرف ان کی حرکت ہے اور آدم کی نسل کے انسان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اپنی فطری استعداد کو کمال تک پہنچا دیا تھا اس لئے انسان کی ہدایت کے لئے قرآن کریم نازل ہوا.قرآن کریم ہی کے بعض حصے اس تعلیم پر مشتمل ہیں جو پہلوں کو دی گئی تھی.گو یا خود قرآن کریم کی تعلیم کے بعض حصے ہی مختلف انبیاء کے وقتوں میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آئے ان کی فطری نشو و نما کے لئے کام کر رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسانی فطرت کی استعدادا اپنے کمال کو پہنچ چکی تھی اس لئے پورا قرآن کریم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.ایک طرف قوانین قدرت جو کائنات میں نافذ تھے ان کو مسخر کیا گیا انسان کی نشو ونما کے لئے اور اس کی بقا کے لئے اور اس کی قوتوں کی حفاظت کے لئے اور اس کی قوتوں میں جان پیدا کرنے کے لئے اور دوسری طرف انسان کو ایسی فطرت دی گئی اور ایسی استعداد دی گئی کہ ایک طرف وہ قوانین قدرت کے نتیجہ میں کائنات سے استفادہ کر رہی تھی.اس سے خدمت لے رہی تھی اور دوسری طرف کلام پاک پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ قرب کےحصول کے لئے کوشش کر رہی تھی.خدا تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ قرب کے حصول کے لئے کوشش کر رہی تھی.پس فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ کا ایک کمال تو یہ ہے کہ قانون قدرت کلام پاک کی تعلیم کا مؤید ہے اور اس کے کمال کو ظاہر کرنے والا ہے کیونکہ قانون قدرت کا کمال اور کلام پاک کا جو کمال ہے وہ ایک دوسرے کی عظمت کو ثابت کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ کا فضل اس کلام کے ساتھ مل کر ایک عجیب

Page 152

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۳۸ خطبہ جمعہ ۲۹ / جولائی ۱۹۷۷ء شان اس کی صفات کے جلووں کی انسان کے سامنے لے کر آتا ہے.فَرْعُهَا فِي السَّمَاء کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ تعلیم آسمان کی رفعتوں تک پہنچ گئی یعنی اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے ابھی اشارہ کیا تھا قرآن کریم سے پہلے جو تعلیمیں آئیں مختلف انبیاء کی طرف ، ان کے متعلق ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ وہ مختص القوم اور مختص الزمان تھیں یعنی ہر نبی ایک خاص قوم کی طرف ایک خاص زمانہ میں آیا اور اس وجہ سے ان کی تعلیمات مجمل بھی تھیں اور ناقص بھی تھیں اس لئے کہ ابھی اس زمانے میں اس نبی کی جو امت تھی اس کی پوری نشو و نما نہیں ہوئی تھی یعنی جو پہلے نبی گزرے ہیں ان میں سے ہر ایک نبی کی استعداد ابھی کمال کو نہیں پہنچی تھی مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جو تعلیم تھی اس میں عام افادہ کی قوت نہیں پائی جاتی تھی کہ ساری دنیا کے انسان کے لئے وہ راہنمائی اور ہدایت کا باعث بن سکے اور یہی حال دوسرے انبیاء کا بھی تھا لیکن جب قرآن کریم نازل ہوا تو اس وقت انسان کی استعداد میں بحیثیت انسان اپنے کمال کو پہنچ چکی تھیں اور قرآن کریم مختص القوم اور مختص الزمان کی حیثیت سے نہیں بلکہ تمام قوموں اور تمام زمانوں کے لئے تعلیم اور ہدایت لے کر دنیا کی طرف آیا.تعلیم کے لحاظ سے کامل تعلیم اور اثر کے لحاظ سے کامل تکمیل لے کر آیا یعنی اس نے انسان کی جو تربیت کرنی تھی اور اس کی تکمیل کرنی تھی وہ بھی کمال کی تھی.غرض قرآن کریم تمام قوموں اور تمام زمانوں کی تعلیم اور تکمیل کے لئے آیا اور ایسے زمانہ میں آیا جب کہ انسان کی استعداد میں اپنے کمال کو پہنچ چکی تھیں.ایک طرف انسان کی استعداد اپنے کمال کو پہنچ چکی تھی اور دوسری طرف زمین بھی گناہ اور بدکاری اور مخلوق پرستی سے بھر گئی تھی اور اس کے لئے اصلاح عظیم کی ضرورت تھی.انسان کی استعدا د قر آنی تعلیم کی حامل ہو سکتی تھی مگر وہ خدا سے اتنی دور جا پڑی تھی کہ گو یاز مین پر ایک فساد عظیم بپا ہو چکا تھا.اس فساد عظیم کو دور کر نے کے لئے ایک عظیم تعلیم کی ضرورت تھی.ایک کامل اور مکمل ہدایت کی ضرورت تھی.اس کے بغیر وہ فساد دور نہیں ہو سکتا تھا.ساری دنیا میں فساد پھیلا ہوا تھا.انسان کے دل میں اپنے پیدا کرنے والے رب سے دوری اور بیزاری پائی جاتی تھی ، گویا مشرق میں بھی اور مغرب میں بھی ، شمال میں

Page 153

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۳۹ خطبہ جمعہ ۲۹ / جولائی ۱۹۷۷ء بھی اور جنوب میں بھی فساد برپا تھا.اس لئے دنیا میں فساد مٹانے اور انسانی استعداد کو روحانی میدانوں میں آگے سے آگے بڑھنے اور روحانی رفعتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے کامل ہدایت کی ضرورت تھی پہلی ہدایتیں اس کے لئے کافی نہ تھیں.پس قرآن کریم کی کامل ہدایت آگئی جس سے انسانی استعداد کی کامل نشو ونما ہوئی اور دنیا سے فساد کا سد باب بھی ہو گیا.اگر چہ پہلی تعلیمیں بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی تھیں لیکن کامل تعلیم قرآن کریم کی تعلیم ہے جو ہر لحاظ سے مکمل ہے.خدا تعالیٰ نے اس کا نام اسلام رکھا اور اس طرح وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المآئدۃ: ۴ ) کا اعلان کر دیا گیا.تیسرا کمال کلام پاک کا یہ ہے کہ تُؤْحَ اكْلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِإِذْنِ رَبَّهَا قرآنی تعلیم ہر وقت اور ہر آن اور ہر ایک کو اپنا پھل دیتی ہے.بِاِذْنِ رَبّبھا میں بنیادی حقیقت کا اظہار بھی کر دیا کہ انسان کی ساری کوشش اور تدبیر بے نتیجہ ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال نہ ہو لیکن انسان کی کامل تدبیر اور کامل کوشش نا ممکن تھی خدا کی راہ میں اگر قرآن کریم نہ ہوتا کیونکہ یہ کامل ہدایت پر مشتمل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہاری طرف کامل ہدایت بھیج دی گئی ہے.اس پر عمل کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے تم اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق پوری کوشش کرو لیکن یہ نہ بھولنا کہ خدا تعالیٰ کی رضا خدا کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں.اسی کے فضل اور رحمت سے خدا کا پیارا نسان کو ملتا ہے.ہے.توى اكْلَهَا كُل حِينٍ میں جس پھل کا ذکر ہے وہ دراصل لقاء باری ہے.خدا کی لقا اور اس کا قرب اس تعلیم کا پھل ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لے کر آج تک اُمت محمدیہ میں لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے اس کامل تعلیم کا پھل کھایا اور اس سے ان کی روح نے زندگی اور تازگی اور تقویت پائی یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بنے اور انہیں لقاء الہی حاصل ہوئی.لقا کے ساتھ بہت سے لوازمات ہیں جن کا ذکر قرآن کریم ہی میں بہت سی جگہوں پر آیا ہے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِم و

Page 154

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۴۰ خطبہ جمعہ ۲۹ / جولائی ۱۹۷۷ء المليكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم السجدة : ٣١) اس کے علاوہ بھی اور بہت سی آیات ہیں جن میں لقاء باری تعالیٰ کا ذکر آیا ہے.اس لقا کے بہت سے لوازمات بھی ہیں جن کو ہم (۱) برکات سماویہ بھی کہتے ہیں اور (۲) مکالمات الہیہ بھی کہتے ہیں ہم ان کو (۳) قبولیتیں بھی کہتے ہیں اور (۴) خوارق بھی کہتے ہیں.امت محمدیہ میں یہ پھل یعنی خدا تعالیٰ کا قرب اور پیار اس کثرت سے انسان کو ملا ہے کہ اس کا شمار بھی مشکل ہے اور لقا کے جولوازمات تھے ان میں لوگ کثرت سے حصہ دار بنے مگر بِاِذْنِ رَبَّهَا یعنی اللہ تعالیٰ کے اذن کے ساتھ گویا قرآن عظیم کے نزول کے ساتھ لوگوں کی ربوبیت تامہ کا سامان ہو گیا.چنانچہ جب ہم کائنات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کی نشو ونما ہوتی ہے مثلاً گندم ہے میں نے پہلے بھی بتایا تھا آج کی گندم اور آج سے پانچ ہزار سال پہلے کی گندم میں فرق ہے اس لئے کہ اب تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ ستاروں کی روشنی اجناس کی نشو ونما پر اثر ڈالتی ہے اور تحقیق سے یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ پچھلے پانچ ہزار سال میں شاید ہزاروں نئے ستاروں کی روشنی اس زمین پر پہنچی.پانچ ہزار سال پہلے جتنے ستاروں کی روشنی گندم کی پرورش کیا کرتی تھی اس سے کئی ہزار زیادہ ستارے آگئے آسمانوں پر، گندم اور دیگر غذاؤں کی پرورش کرنے کے لئے یعنی انسان کی جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی اور روحانی نشو ونما کے لئے کیونکہ غذا کا گہرا اثر انسانی ذہن ، اخلاق اور روحانیت پر پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح انسان کی غذائیں اس کے جسم پر اور اس کے ذہن پر اور اس کے اخلاق پر اور اس کی روحانیت پر اثر انداز ہوتی ہیں ان میں بھی نشوونما ہو کر اجناس کے بیج میں بھی ایک کمال پیدا ہوا ہے اور انسان کی قوتوں اور استعدادوں کو اس معنی میں بھی ترقی ملی ہے اسے خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہوا ہے.دنیا کے ہر حصے نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل یہ فیض پایا.قرآن کریم جیسی عظیم ہدایت ان کو ملی.قرآن کریم کی محبت دلوں میں ڈالی گئی.قرآن کریم کا عشق لوگوں کی روح کے اندر پیدا کیا گیا.قرآن کریم کا اتنا پیار کہ

Page 155

خطبات ناصر جلد ہفتم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.۱۴۱ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے خطبہ جمعہ ۲۹ / جولائی ۱۹۷۷ء یہ ایک عاشق دل کی پکار ہے کیونکہ جو انسان عقل رکھتا ہے اور فراست رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے اور خدا سے پیار کا حصول چاہتا ہے اور لقا چاہتا ہے اور رضوان باری چاہتا ہے اسے معلوم ہے کہ خدا کو پانے کے سارے راستے قرآن میں بیان کر دیئے گئے ہیں اور ان پر چل کر ہی اللہ تعالیٰ کو حاصل کیا جاسکتا ہے.پس الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کی رو سے قرآن کریم کی تعلیم تین کمالات کا مجموعہ ہے.اصول ایمانیہ کے لحاظ سے اَصلُهَا ثابت اور اس کے کمال کے لحاظ سے فَرْعُهَا فِي السَّمَاء اور اس کے شیریں ثمرات کی رو سے تُولّى اكلَهَا كُل حِينٍ بِإِذْنِ رَبَّهَا لیکن یہ تیسری چیز یعنی تویی أكلَهَا كُل حِينٍ بِاِذْنِ رَبّهَا میں انسان کی کوشش کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے.آج کل آموں کا موسم ہے، اگر کہیں نہایت اعلیٰ درجہ کا یہ پھل پڑا ہو مثلاً کسی نے اپنے گھر کی میز پر رکھا ہو اور وہ اسے نہ کھائے تو اس کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.پس اگر چہ یہ پھل بہت اچھا ہوتا ہے اور خوشبودار ہوتا ہے اور بڑا میٹھا اور لذت والا ہوتا ہے.ہر قسم کی بیماری سے پاک ہوتا ہے، انسان کی پوری نشو ونما کی خصوصیت رکھتا ہے لیکن یہ فائدہ تبھی دے سکتا ہے جب صاحب خانہ اس کو کھائے بھی.اگر وہ نہ کھائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.پس توتي احلھا میں یہ بتایا گیا ہے کہ پھل تیار ہے اور تمہارے سامنے رکھا ہوا ہے مگر باذن ربها کی رو سے تم خدا سے دعا کرو کہ تمہیں اس کے صحیح استعمال کی توفیق بھی ملے اور اس پھل کا جو بہترین نتیجہ انسان کے حق میں نکل سکتا ہے یعنی لقاء باری ، وہ بھی تمہیں حاصل ہو جائے.خدا کرے کہ ہم سب کے حق میں یہ باتیں پوری ہوں.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ ستمبر ۱۹۷۷ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 156

Page 157

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۴۳ خطبہ جمعہ ٫۵اگست ۱۹۷۷ء جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلصین کی بڑی بھاری اکثریت پر مشتمل ہے خطبه جمعه فرموده ۵ را گست ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَ أَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إلى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كفِرُونَ - اَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذْكُرُونَ (التوبة: ۱۲۶،۱۲۵) پھر حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم کے شروع میں ہی سورہ بقرۃ کی ابتدا قرآن کریم کی عظمت بیان کرنے کے بعد اس بات سے ہوئی ہے کہ اس عظیم کتاب کے بعد انسان تین گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے.ایک وہ جو صدق دل اور اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والے ہیں اور خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت کے نتیجہ میں اسلامی تعلیم کے ہر حکم پر عمل کرنے والے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور وہ اس کی رضا کی جنتوں کے وارث بنیں.ہدایت پائیں اور ایسی کامیابی ان کو ملے جس سے بڑھ کر کوئی کامیابی تصور میں نہیں آسکتی دوسرا وہ گروہ ہے جو انکار کرنے والا ہے اور

Page 158

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۴۴ خطبه جمعه ۵ /اگست ۱۹۷۷ء تیسرا وہ گروہ ہے جو منافقوں کا ہے جیسا کہ فرمایا:.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ - (البقرة:9) یہ جو منافقوں کا گروہ ہے اس کے متعلق میں نے شروع میں جو آیات تلاوت کی ہیں ان سے پہلی آیت میں سورتیں نازل ہونے کا ذکر ہے اور پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ وہ لوگ جن کے دل میں بیماری ہے اس سورۃ نے ان کے پہلے گناہ پر اور گناہ چڑھا دیئے یہاں تک کہ وہ ایسی حالت میں مریں گے کہ وہ کافر ہوں گے.کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ان کی ہر سال میں ایک دفعہ یا دو دفعہ آزمائش کی جاتی ہے پھر بھی وہ تو بہ نہیں کرتے اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب کوئی ابتلا یا آزمائش آتی ہے تو وہ انسان کو ننگا کر کے دکھا دیتی ہے اس وقت وہ مرض جو دل میں ہوتی ہے اپنا پورا اثر کر کے انسان کو ہلاک کر دیتی ہے.پھر فرمایا کہ ،، فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ایسے ہی لوگوں کے لئے فرمایا.اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ 66 نفاق اور ریا کاری کی زندگی لعنتی زندگی ہے.یہ چھپ نہیں سکتی.آخر ظاہر ہوکر رہتی ہے.اُمت محمدیہ کو یہ بشارت ملی اور اللہ تعالیٰ نے جو اپنی بات کا پکا ہے ان کے حق میں ان کو پورا کیا کہ بے انتہا آسمانی برکات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل آپ کے دامن سے وابستہ ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیں لیکن جو منافق ہے اسے یہ بات پسند نہیں.اس لئے جس وقت برکات کا نزول ہوتا ہے، جس وقت قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے اور ایمان کی آزمائش ہوتی ہے کیونکہ آزمائش کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوا کرتے ہیں محض ایمان کا دعوی کرنے سے تو اللہ تعالیٰ کے فضل نازل نہیں ہوتے ، پس جب ایمان کی آزمائش ہوتی ہے تو جو منافق ہے جس کے دل میں مرض ہے اس کا وہ مرض ننگا ہو کر سامنے آجاتا ہے.یہ تو درست ہے کہ بہت سے ایسے بھی

Page 159

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۴۵ خطبہ جمعہ ٫۵اگست ۱۹۷۷ء ہوتے ہیں جن کی کسی نیکی یا خیر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے لئے تو بہ کے دروازوں کو کھولتا ہے اور انہیں تو فیق عطا کرتا ہے کہ وہ غلط راہ کو چھوڑ کر اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کی طرف واپس آئیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اس آزمائش اور ابتلا کے وقت میں ان کا گند ظاہر ہوجاتا ہے اور ان کا مرض کم ہونے کی بجائے اور بھی بڑھ جاتا ہے اور اس طرح پر وہ یا تو اسلام کو چھوڑ دیتے ہیں اور یا ان کی اسلام کے خلاف جو خفیہ سازش ہوتی ہے وہ خفیہ نہ رہنے کی وجہ سے اپنے اثر کو زائل کر دیتی ہے.سورہ بقرہ میں منافقوں کے متعلق جو آیات ہیں ان میں بہت سی باتیں بیان ہوئی ہیں.پہلی تو یہ ہے اور یہیں سے یہ آیات شروع ہوتی ہیں وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ.اس آیت سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ مومن یا ایمان کا دعویٰ کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں.ایک وہ جو احکام ظاہری کی بجا آوری کرتے ہیں اور ان کے اندر صداقت کی روح نہیں ہوتی وہ احکام ظاہری کی بجا آوری کرتے ہیں اور اس پر ناز کرتے ہیں اور ان کی زندگی میں تصنع اور نمائش اور ریا کا بڑا دخل ہوتا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن کریم کی اصطلاح میں منافق کہا جاتا ہے لیکن دوسرے وہ لوگ ہیں جن کی روح میں صفائی اور سادگی اور جن کی عقل میں بڑی تیز روشنی ہوتی ہے.وہ صاحب فراست ہوتے ہیں اور وہ سست اعتقاد لوگوں کی طرح نہیں ہوتے ان کی اپنے رب سے ذاتی محبت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے کارخیر میں کوئی تصنع نہیں ہوتا.عشق میں تو انسان مست ہوتا ہے تصنع کرنے والا نہیں ہوتا.نمائش کس کے سامنے ! جس کے لئے وہ کام کر رہے ہوتے ہیں ، جس کے لئے وہ قربانیاں دے رہے ہوتے ہیں، جس کے لئے وہ اسلامی تعلیم پر عمل کر رہے ہوتے ہیں وہ تو علام الغیوب ہے پھر نمائش کی کیا ضرورت ہے نمائش کی ضرورت تو انہی کو ہوتی ہے جو خدا سے بھٹک کر کسی اور کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور جو دلوں کو جاننے والا ہے.اس کے سامنے ریا چل ہی نہیں سکتی.پس ذاتی محبت کے نتیجہ میں ان کے کاموں میں کوئی تصنع نہیں ، کوئی نمائش نہیں، کوئی ریا نہیں.ایک یہ گروہ ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اور اپنے دعوئی میں سچا ہے تو یہ آیت مومن مخلص اور مومن ایمان کا دعویٰ کرنے والے منافق کے درمیان

Page 160

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۴۶ خطبہ جمعہ ۵ /اگست ۱۹۷۷ء فرق کر کے دکھا رہی ہے.منافق اپنے آپ کو مومن تو کہتا ہے.مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنین ایمان کا دعوی بھی ہے اور مومن بھی نہیں کیونکہ احکام ظاہری اس دعویٰ کے نتیجہ میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت کا فقدان ہے.تصنع اور نمائش اور ریا اس میں پائی جاتی ہے.احادیث میں منافقوں کی جو بہت سی علامات بتائی گئی ہیں وہ قرآن کریم کی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے بتائی گئی ہیں.دوسری چیز ہمیں یہ پسی لگتی ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان نہیں ہوتا.کہتے ہیں کہ خدا پر ایمان لاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو عَلَامُ الْغُيُوبِ نہیں سمجھتے يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا.دھو کہ خدا کو وہی دینا چاہتا ہے جو سمجھتا ہے کہ خدا دھو کے میں آسکتا ہے تو ان کے ایمان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ بظا ہر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں لیکن اپنی چالا کیوں سے وہ یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اور خدا کے صاحب فراست بندوں کے ساتھ دھوکا بازی سے کام لے رہے ہیں.تیسری چیز یہ بیان ہوئی ہے کہ ان کے اعمال کے نتیجہ میں ان کے دل کا نفاق ہر آن بڑھنے والی بیماری بن جاتا ہے اور توبہ کا دروازہ ان لوگوں پر بند ہو جاتا ہے.چوتھی بات ان آیات میں یہ بتائی گئی ہے کہ وہ جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں اور چونکہ وہ ہر چیز میں جھوٹ بولنے والے ہیں اس لئے وہ اللہ کی نگاہ میں اس کے عذاب کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور پانچویں یہ کہ وہ فتنہ اور فساد پیدا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ فساد کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ کفر اور شرک ، اور بد عقیدگی پھیلا کر فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں.ایمان کا دعوی ہے اور پھیلا رہے ہوتے ہیں کفر اور شرک ، اور قرآن کریم پر ایمان کا دعویٰ ہے اور قرآنی تعلیم کے خلاف جو بد عقیدگی ہے اس کا پرچار کر رہے ہوتے ہیں اور ان کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ ہم مصلح ہیں یہ نمائش ہے نا) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مصلح نہیں بلکہ مفسد ہیں اور وہ بد عقیدگی کو پھیلا کر فساد پیدا کرتے ہیں.اسلام کی عظیم جدو جہد کے ساتھ منافق لگا ہوا ہے اور اس وجہ سے ہماری جماعت میں بھی منافق ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے ایک خطبہ میں بتایا تھا منافق متشابہات کو پکڑ کر بد عقیدگی

Page 161

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۴۷ خطبہ جمعہ ٫۵اگست ۱۹۷۷ء.پھیلاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں ، آپ کے ارشادات میں بعض بڑی واضح ہدایتیں ہیں.بینات ہیں.تفسیر قرآنی کے حصے ہیں لیکن اس کی بجائے وہ متشابہات والا حصہ لے لیتے ہیں اور مِنْهُ ايْتُ مُحْكَمْتُ هُنَّ أُم الكتب ( ال عمران: ۸) جو اسلامی تعلیم کی جڑ ہے اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم میں متشابہات کا پایا جانا قرآن کریم کی عظمت کی دلیل ہے.یہ بات اس کے نقص کی طرف اشارہ نہیں کرتی کیونکہ قرآن کریم میں جو اللہ کا کلام ہے معانی کے لحاظ سے اس میں ہزار ہا بطون بلکہ بے شمار اور ان گنت بطون پائے جاتے ہیں یہ تو خدا کا کلام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو چیز قدرت خداوندی کے ہاتھ سے خلق ہوئی ہے اس کی صفات بھی غیر محدود ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا ہزاروں سال سے علم میں ترقی کرتی چلی آرہی ہے اور محققین اور سائنسدانوں میں سے جو سمجھدار اور عقلمند ہیں وہ کھل کر یہ بیان کرتے ہیں کہ اتنی ترقی کے باوجود ہم ایسے ہی ہیں جیسے سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر ہم پانی کے متعلق کوئی بات کر رہے ہوں اور جو اصل سمندر ہے ، اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ اور پوری گہرائی کے ساتھ اور اپنے پورے فوائد کے ساتھ اس کے مقابلے میں ہمارا علم بہت محدود ہے.پس متشابہات جن کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے مَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَةُ إِلَّا اللهُ (ال عمران:۸) اگر یہ نہ ہوتے ، اگر قرآن کریم میں فقط آیات و محکمات ہی ہوتیں تولَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ۸۰) قرآن کریم کا دعوی نہ ہوتا یعنی یہ کہ اُمت محمدیہ میں ایسے مطہرین پیدا ہوں گے جو اپنے اپنے زمانہ اور علاقہ کی ضرورتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اسرار روحانی سیکھ کر آگے لوگوں کو بتا ئیں گے.غرض منافق بد عقیدگی پھیلاتا ہے اور متشابہات کے غلط معانی کر کے اور ان کو حقیقت سے دور لے جا کر فتنہ پیدا کرتا ہے.اگر تاریخ کی مثالیں دی جائیں تو مضمون بہت لمبا ہو جائے گا.پھر سورۃ بقرہ کی ان آیات میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ متکبر ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اور مصلح ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور جب انہیں کہا جائے کہ دیکھو جو حقیقتا مخلص اور مومن ہیں تم بھی اسی طرح کے ایمان کا اظہار کرو، تکبر اور ریا وغیرہ تمہاری زندگی میں کیوں آگئے

Page 162

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۴۸ خطبہ جمعہ ٫۵اگست ۱۹۷۷ء ، ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو سارے بے وقوف ہیں گویا اپنے تکبر کے نتیجہ میں وہ جماعت مخلصین کو بیوقوف اور احمق سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا عقلمند اور بہت بلند سمجھتے ہیں اور مصلح سمجھتے ہیں اور ان کو لیڈر بننے کا شوق ہوتا ہے اور جماعت مومنین کو وہ بڑی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے ساتھ استہزا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ میں جو انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے گروہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ اپنی کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے اور اپنی شان میں اُمت محمدیہ میں دو گروہ ہیں.ایک وہ جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت حاصل کی اور صحابہ کا گروہ کہلایا اور دوسرے وہ جو وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: ۴) کے ماتحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بالواسطہ تربیت یافتہ ہیں.ان دونوں گروہوں میں بڑی کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والے بے نفس وجود ہیں جن کے متعلق یہ ظاہر ہی نہیں ہوتا کہ ان کے دل میں اپنے رب کے ساتھ کتنا پیار اور عشق ہے.مجھے اپنے مقام کے لحاظ سے احمدیوں سے بہت واسطہ پڑتا ہے.ایسا اخلاص ہے ان میں اور اتنا ٹچھپ کر ان کے مخلصانہ کارنامے ہیں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے، میرے سامنے تو وہ بیان کر دیتے ہیں.یہ گروہ ساری دنیا میں ہی پھیلا ہوا ہے.کینیڈا کے ایک دوست مجھے خط لکھتے رہتے ہیں.میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ اتنی مالی قربانی دینے والے ہیں.میں نے وہاں بات کی تھی کہ مجھے پتہ لگنا چاہیے کہ تم قربانیاں کیا دیتے ہو؟ تو انہوں نے میرے یہاں آنے کے بعد پچھلے سال مجھے خط لکھا کہ آپ نے کہا ہے اس لئے میں بتا تا ہوں کہ میں یہ قربانی دے رہا ہوں ورنہ کسی کو پتہ نہیں تھا سوائے لینے والوں کے، ان کو بھی خیال نہیں ہوتا ہو گا.غرض مُنْعَمُ عَلَيْهِمْ کے گروہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایک تو صحابہ کا گروہ ہے جنہوں نے براہ راست اور بلا واسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت حاصل کی اور ایک وَ اخَرِيْنَ مِنْهُم والا گروہ ہے یعنی مہدی معہود کی جماعت جن کی تربیت خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اپنے ایک بروز کے واسطہ کے ذریعہ اور یہ جماعت ایسی ہے جس کے اندرا اپنی اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق بڑی کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ.

Page 163

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۴۹ خطبہ جمعہ ۵ /اگست ۱۹۷۷ء سے پیار کرنے والے اور خدا تعالیٰ سے انعام حاصل کرنے والے پائے جاتے ہیں.ہزاروں لاکھوں افراد جماعت احمدیہ میں سچی خوا نہیں دیکھنے والے ہیں کہ خدا کی شان نظر آتی ہے.کچھ مجھے دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں کیونکہ بعض خوا میں مطالبہ کرتی ہیں کہ دعائیں کی جائیں اور کچھ اس لئے لکھتے ہیں کہ الْمُؤْمِنُ يَرى وَيُری لۀ.بعض دفعہ خواب دیکھنے والے کو اس کی تعبیر سمجھ نہیں آتی اس واسطے وہ مجھے لکھتے ہیں کہ یہ خواب دیکھی ہے ہمیں تو سمجھ نہیں آرہی کہ اس کی کیا تعبیر ہے.مثلاً خدا تعالیٰ کا ایک فضل جماعت پر اس طرح ہے کہ ایک غیر ملک کے دوست نے ایک خواب دیکھی جس کی تعبیر ان کو سمجھ نہیں آئی انہوں نے میرے سامنے بیان کی.میں نام نہیں لوں گا کہ کس ملک کے متعلق تھی.میں نے ان کی خواب سن کر پوچھا کہ فلاں علاقے میں یہ زبان بولی جاتی ہے؟ تو انہوں نے حیران ہو کر میرا منہ دیکھا کیونکہ بظاہر مجھے نہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ اس علاقے میں وہ زبان بولی جاتی ہے تو وہ کہنے لگے ہاں.میں نے کہا کہ پھر تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اس علاقے میں جلد احمدیت پھیلے گی.غرض بڑی کثرت سے خوابیں دیکھتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مجھے علم ہے کہ کوئی دو دن کے بعد پوری ہوئی کوئی دوسال کے بعد پوری ہوئی کوئی پانچ سال کے بعد پوری ہوئی.خدا اپنی شان دکھاتا ہے.ہمیں تو پل بھر کی خبر نہیں جو خواب کل کی خبر بھی دے اور پوری ہو جائے وہ سوائے خدا کے اور کوئی نہیں بتا سکتا کیونکہ علام الغیوب صرف اسی کی ذات ہے اور وہی بتا تا ہے.اس زمانہ کے متعلق پہلوں نے کہا ہے کہ اس وقت بچے بھی نبوت کریں گے یعنی لغوی معنی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر واقعات کی اطلاع دیں گے.اب بچے نے ارسطو کی فلاسفی تو نہیں بتانی ابھی اس کا ایسا دماغ ہی نہیں.۱۹۷۴ء میں جو ملاقاتیں ہوتی تھیں ان میں بچے بھی بڑی کثرت سے آتے تھے.میں ان سے پوچھتا رہا ہوں تو ہر چھوٹا سا گروہ سو دوسو کی جماعت جو مجھے ملتی تھی اس سے بچوں میں سے اکثر ہاتھ اٹھا دیتے تھے کہ جی ہاں ہم نے سچی خوا میں دیکھی ہیں.اس وقت بڑا مزا آتا تھا کہ ہزار ہا سال پہلے مہدی کی جماعت کے متعلق جو خبر دی گئی تھی اس میں یہ بتایا گیا تھا لیکن آج منافق یہ کہتا ہے عملاً بعض منافقوں نے کہا.مجھے رپورٹ ملی ہے کہ وہ

Page 164

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۵۰ خطبہ جمعہ ٫۵اگست ۱۹۷۷ء کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت خدا سے بالکل دور ہوگئی اور خدا کا اس سے کوئی تعلق نہیں رہا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ جس کا مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی بعثت کے مقصد میں ناکام ہو گئے ( نَعُوذُ بِاللہ ).آپ کو تو خدا نے یہ کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو یہ بشارت دی گئی تھی کہ آپ کے ذریعہ بنی نوع انسان کو امت واحدہ یعنی ایک اُمت بنادیا جائے گا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک روحانی فرزند کی حیثیت سے ایک خادم کی حیثیت سے تمہارے ذریعہ سے اس زمانہ میں پوری کریں گے.قرآن کریم میں یہ آیا ہے کہ امت واحدة بنادیا جائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو پیشگوئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بشارت دی گئی ہے اس کے متعلق پہلوں نے بھی کہا ہے کہ یہ مہدی کے زمانہ میں ہوگا کیونکہ پہلے حالات ایسے تھے کہ اُمتِ واحدۃ بن ہی نہیں سکتے تھے.ایک دوسرے سے واقفیت نہیں تھی.بہت سی آبادیاں ایسی تھیں جو ایک دوسرے کو جانتی بھی نہیں تھیں.امریکہ کے بسنے والوں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ یورپ میں کوئی انسان بس رہا ہے یا نہیں اور یورپ والے جب ایک حد تک ترقی بھی کر گئے تھے تب بھی ان کو پتہ نہیں تھا کہ امریکہ میں آبادیاں ہیں.ان کے ساتھ کوئی ملاپ وغیرہ نہیں تھا.پھر خدا نے دنیا میں ملاپ کے سامان پیدا کئے.ہوائی جہاز آ گئے اور جو سالوں کے فاصلے تھے وہ گھنٹوں کے اندر طے ہونے شروع ہو گئے.مطبع خانے، چھاپہ خانے بن گئے.کتا بیں چھپنے لگ گئیں اور پھر کتابوں کے پہنچانے کے سامان پیدا ہو گئے وغیرہ وغیرہ.ہزار ہا ایسی چیزیں پیدا ہو گئیں کہ جو انسان کو مادی لحاظ سے اکٹھا کرنے والی تھیں اور اس وقت خدا تعالیٰ نے اپنے اس روحانی منصوبے کے سامان پیدا کر دیئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے انسان بحیثیت نوع انسانی جمع ہو جائے گا اور یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د کیا گیا ہے، مہدی معہوڈ کے سپر د کیا گیا ہے اور منافق کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ آپ اپنی بعثت کے مقصد میں نا کام ہو گئے اور جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ سے بالکل دور ہوگئی.جہاں خدا تعالیٰ کا فضل زیادہ ہو وہاں نفاق بھی سر اٹھاتا ہے.یہ یاد رکھو اب مثلاً امریکہ ہے وہ بڑی دیر سے دور پڑا ہوا تھا وہاں ہر چیز سوئی ہوئی تھی.میں نے جب وہاں کا دورہ کیا تو

Page 165

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۵۱ خطبہ جمعہ ٫۵اگست ۱۹۷۷ء میں نے انہیں جگایا.میں نے ان کو سمجھایا.میں نے پیار سے ان کو بتایا کہ تمہاری یہ ذمہ داریاں ہیں ان کی طرف توجہ دو اور ان کے اندر ایک زندگی کی روح پیدا ہوئی.میں نے ان کے لئے جو سات سالہ منصوبہ بنا یا تھا اس کے ساتویں حصہ کی بجائے ایک سال میں اس کا قریباً تیسرا حصّہ پورا ہو گیا.پھر میں نے کہا تھا اور اس کے لئے وہ کوشش کر رہے ہیں کہ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کم از کم دس لاکھ کی تعداد میں امریکہ میں تم اگلے دس سال کے اندر پھیلاؤ.یہ کام بھی انہوں نے بڑے زوروشور سے شروع کیا ہے.ایک زندگی ان کے اندر پیدا ہوگئی ہے اور زندگی کے پیدا ہوتے ہی وہاں سے بھی ایک منافق نے یہاں سرکلر لیٹر بھیج دیا جس میں ایک یہ استہزاء کیا ہے جیسا کہ ذکر آتا ہے کہ ہم تو استہزاء کر رہے تھے کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کے مبلغین کے متعلق کہہ دیا ہے کہ یہ بھی تجدید دین کا کام کر رہے ہیں اور استہزائیہ رنگ میں لکھا.میں نے تو نہیں کہا میرے خدا نے کہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مہدی کے وقت میں فدائین کی ، خدا کے پیاروں کی ایک جماعت دی جائے گی اور وہ تو ملی ہے.تمہارے نفاق یا تمہاری اس قسم کی فتنہ پردازیوں سے حقائق تو نہیں چھپائے جاسکتے.وہ جماعت اپنا کام کر رہی ہے اور منافق اپنا کام کر رہا ہے.خدا تعالیٰ کے بندوں کے لئے ایک یہ بھی تازیانہ ہوتا ہے کہ اونگھو نہیں.ست نہ بنو بلکہ اپنے کام میں لگے رہو تیزی کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ.پھر منافق کہتے ہیں کہ جی ہم مصلح ہیں.تم مصلح کیسے بن گئے؟ مصلح تو وہ ہوتا ہے جسے خدا مصلح بنائے اور خدا نے تو کہا ہے کہ لَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ (النجم : ۳۳) اور یہ بھی کہا ہے تم یہ بھی نہ کہو کہ ہم اپنے زور سے جنت میں چلے جائیں گے.یہ کلیہ بنا دیا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کہا کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم اپنے زور سے خدا کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ گے.خدا کے فضل، محض خدا کے فضل سے تم جنت میں جاسکتے ہو.اپنے زور سے، اپنے کسی عمل سے، اپنی کسی کار خیر سے تم جنت میں نہیں جاسکتے اور یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن جہاں مومن عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے خدا کے لئے ایثار بھی کرتا ہے اور عاجزی اور تواضع کی راہوں کو بھی اختیار کرتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ اس کے لئے رفعتوں کے سامان بھی پیدا کرتا ہے.اپنے تقرب کے سامان بھی پیدا کرتا ہے.

Page 166

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۵۲ خطبہ جمعہ ٫۵اگست ۱۹۷۷ء اپنی رحمتوں سے بھی نوازتا ہے.منعم علیہ گروہ میں بھی شامل کرتا ہے.ہر صلاحیت کا پیمانہ بڑی کثرت کے ساتھ اس زمانہ میں بھر گیا ہے جیسا کہ کہا گیا تھا کہ مہدی بڑی کثرت سے روحانی خزائن دے گا.خزا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں اور تقسیم کرنے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خادم ہیں، ایک روحانی فرزند ہیں اور کہا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خزانے اس کثرت سے تقسیم کئے جائیں گے کہ لوگ لینے سے انکار کریں گے یعنی ان کی صلاحیتوں کا جو پیمانہ ہے وہ بھر جائے گا پھر ان میں لینے کی گنجائش ہی نہیں ہو گی.لیں گے کہاں سے؟ منافق ایک فتنہ اس طرح پیدا کرتا ہے کہ جی جماعت ختم ہوگئی اب اگلی صدی کا مجد د آ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے فرمایا ہے ، اس کے متعلق میں علیحدہ نوٹ تیار کر رہا ہوں کسی وقت آپ کے سامنے آجائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے صرف صدی کا مجدد نہیں بنایا بلکہ دنیا کی زندگی کے جو ایک ہزار سال باقی رہ گئے ہیں دنیا کی زندگی کے اس ہزار سال کے لئے مجھے مجدد بنایا ہے اور امام آخر الزماں بنایا ہے اور میں اس سلسلہ خلافت کا آخری خلیفہ ہوں جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے وَ اِذَا الرُّسُلُ اقتت (المرسلات : ۱۲ ) میرے آنے کے ساتھ وہ ساری تعداد پوری ہوگئی اور پتہ لگ گیا کہ کتنوں نے آنا تھا ( بہت سے حوالے ہیں پھر تفصیل کے ساتھ بتا ئیں گے ) منسوب ہوتے ہو تم جماعت احمدیہ کی طرف اور جس نے مہدویت کا دعویٰ کیا اس کا دعویٰ تو یہ ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے آخری ہزار سال کے لئے خلیفہ بنادیا اور اس دنیا کی ہمارے آدم کے ابناء کی جو عمر رہ گئی ہے اس کے لئے محجد د بنادیا اور تم اس کی طرف منسوب ہونے والے کہتے ہو کہ جماعت ختم ہوگئی اب اگلی صدی کا مجدد آ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کی عمر کے بارہ میں بڑی بحث کی ہے کہ پہلوں نے یہ کہا.قرآن کریم میں یہ ہے.سورہ عصر سے خدا تعالیٰ نے مجھے یہ سمجھایا اور آپ نے حوالے دے کر ثابت کیا ہے کہ اب دنیا کا ایک ہزار سال باقی رہ گیا ہے اور اس ہزار سال کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مجدد بنادیا ہے.یہ عظیم مجد دجس کو ایک ہزار سال کے لئے اُمت محمدیہ کا مجدد بنایا گیا كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ ( النور : ۵۶) کے ماتحت آخری خلیفہ اور مسیح موعود

Page 167

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۵۳ خطبہ جمعہ ٫۵اگست ۱۹۷۷ء بنا یا گیا جس کے سپرد نوع انسانی کو اُمتِ واحدہ بنانا کیا گیا اور آپ نے بتایا ہے کہ اُمتِ واحدة بنانے پر تین سوسال سے زیادہ زمانہ نہیں لگے گا اور جیسا کہ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ میرے نزدیک تو ہماری کامیابی کا زمانہ جسے قریباً آخری کامیابی کہنا چاہیے وہ دوسری صدی ہے جس کے لئے صد سالہ جو بلی فنڈ بھی قائم ہوا اور صد سالہ جو بلی کا منصوبہ بھی تیار ہو رہا ہے جس صدی کا ہم نے استقبال کرنا ہے، اسلام کے غلبہ کی صدی! پس اسلام کے غلبہ کی صدی نوع انسانی کے اُمتِ واحدة بن جانے کی صدی آرہی ہے تو یہ ساری پیشگوئیاں اور یہ سارے مقاصد ختم ہو گئے اور ایک منافق کی بڑ کی طرف ایک مومن کان دھرے گا ؟ یہ تو ویسے ہی نہیں ہوسکتا.میں بھی جانتا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کہ جماعت کس قسم کی ہے لیکن ان کے لئے دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ان کے لئے تو بہ کا دروازہ بند نہ کرے کیونکہ بہت سے منافقوں کو خدا تعالیٰ نے تو بہ کی توفیق دی اور پھر انہوں نے قربانیاں دیں بلکہ بہت سے کافروں کو تو بہ کی توفیق دی اور انہوں نے قربانیاں دیں.بتا میں یہ رہا ہوں کہ جس وقت خدا تعالیٰ ترقیات کے خاص جلوے ظاہر کرتا ہے اور اپنی صفات کے جلوے ظاہر کر کے جماعت کے لئے ترقیات کے سامان پیدا کرتا ہے تو اس وقت مفسد گروہ کے افراد کے اندر بھی ایک زندگی کی حرکت پیدا ہوتی ہے.میں نے جو پہلی آیات پڑھی ہیں ان میں اسی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا أَمَنَا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيطِيْنِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ (البقرة : ۱۵) کہ جب وہ مومنوں کے سامنے جاتے ہیں تو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں إِذَا لَقُوا الَّذِينَ امَنُوا قَالُوا آمَنَّا کا صرف یہ مطلب نہیں کہ زبان سے کہتے ہیں بلکہ احکام کی ظاہری پابندی بھی کر لیتے ہیں مثلاً مسجد میں آکر نماز پڑھ لیں گے ( یہ بھی اپنے ایمان کا اظہار ہے ) تھوڑی سی مالی قربانی ہے تو اس میں شامل ہو جائیں گے.ظاہری طور پر روزہ رکھ لیں گے لیکن روح ان کے اندر نہیں ہوگی اور جب وہ شیاطین کے پاس، مفسدین کے سرداروں کے پاس، نفاق کے سرداروں کے پاس جائیں گے تو کہیں گے کہ ہم تو مذاق کر رہے تھے ہم تو اصل میں تمہارے ساتھ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اس سے یہ نتیجہ

Page 168

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۵۴ خطبہ جمعہ ٫۵اگست ۱۹۷۷ء نکالا ہے کہ جب تک کوئی پورے طور پر قرآن مجید پر عمل نہیں کرتا تب تک وہ پورا پورا اسلام میں داخل بھی نہیں ہو سکتا.پس دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں پورا پورا اسلام میں داخل کرے اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نفاق کے فتنہ سے ہمیں محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ منعم علیہ گروہ میں ہمیں شامل کرے اور منعم علیہ گروہ میں شامل کرنے کے بعد کسی قسم کا تکبر اور نمائش اور ریا ہمارے اندر پیدا نہ ہو کہ ہم اس کے قرب کے حصول کے بعد پھر دھتکارے جائیں اور پرے پھینک دیئے جائیں بلکہ خدا تعالیٰ کا پیار ایک دفعہ حاصل کرنے کے بعد ساری زندگی ہمیں خدا کا پیار ملتا ر ہے.ساری زندگی اس دنیا کی زندگی میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ ہم سے راضی رہے اور اس کے پیار کے جلوے ہماری زندگیوں میں ظاہر ہوتے رہیں.روزنامه الفضل ربوہ یکم جون ۱۹۷۸ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 169

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۵۵ خطبہ جمعہ ۱۹ اگست ۱۹۷۷ء رمضان المبارک دعائیں کرنے ، نوافل ادا کرنے ، ذکر الہی اور مستحقین کا خاص خیال رکھنے کا مہینہ ہے خطبه جمعه فرموده ۱۹ اگست ۷ ۱۹۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ البقرۃ آیت ۱۸۶ کا درج ذیل حصہ تلاوت فرما یا :.شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ بَيِّنَةٍ مِّنَ الْهُدَى وَ الْفُرْقَانِ.(البقرة : ١٨٦) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ماہ رمضان بہت سی برکتیں لے کر آتا ہے اور بہت سی برکتیں لے کر آ گیا ہے.اس ماہ میں صرف روزے ہی رکھنے کا حکم نہیں ، گو اس کی بڑی عبادت تو اس طریق پر روزہ رکھنا ہے جس طرح اسلام نے بتایا ہے لیکن قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ روزے رکھنے کے علاوہ یہ ماہ دعائیں کرنے کا ہے ، نوافل ادا کرنے کا ہے ، ذکر الہی سے اپنے اوقات کو معمور کرنے کا ہے نیز یہ مستحقین کا خاص طور پر خیال رکھنے کا مہینہ ہے اور اگر انسان غور کرے تو یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو بڑے اور چھوٹے کو ایک مقام پر لا کر کھڑا کر دیتا ہے اور برابر کر دیتا ہے.دن کے وقت بھوکا رہنے اور رات کے اوقات میں خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکنے کے لحاظ سے چھوٹے اور بڑے

Page 170

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۱۹ اگست ۱۹۷۷ء کی کوئی تمیز نہیں رہتی ان میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کی عظمت قرآن کریم میں بیان کی ہے.اس ماہ کی ایک عظمت یہ بھی ہے کہ احادیث میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ماہ رمضان میں جتنا قرآن کریم اس وقت تک نازل ہو چکا ہوتا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس کا دور کیا کرتے تھے.حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی کے لانے والے فرشتہ ہیں.وہی قرآن کریم کی وحی کو لے کر آتے تھے، آیت یا اس کے ٹکڑوں کی شکل میں جیسا کہ وحی نازل ہوتی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں وہ میرے ساتھ قرآن کریم کا دور بھی کرتے ہیں ( ہماری جماعت میں خصوصاً مرکز میں قرآن کریم کا درس ہوتا ہے اس میں دوستوں کو شامل ہونا چاہیے ).قرآن کریم کی اپنی ایک عظمت ہے اور بڑی ہی عظمت ہے.اس آیت میں جو میں نے ابھی تلاوت کی ہے یہ بتایا گیا ہے کہ تین باتیں قرآن کریم کی عظمت کو ثابت کرنے والی ہیں.ایک تو یہ کہ ھدی للناس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آیت کے اس ٹکڑا کی بہت سی تفسیریں کی ہیں.ایک تفسیر آپ نے یہ کی ہے کہ ھدی للناس کا مطلب یہ ہے کہ جو ہدایت لوگ بھول چکے تھے اسے دوبارہ پیش کرنے والا.ہدایت تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے آنی شروع ہوئی اور بہت سی شریعتیں نازل ہوئیں لیکن وہ امتیں جن کی طرف مختلف اوقات میں شریعتیں نازل ہوئیں.ایک وقت گزرنے کے بعد ان کی زندگی میں روحانی طور پر دو تبدیلیاں آئیں.ایک تو یہ کہ روحانی طور پر ارتقاء کے کچھ مدارج وہ طے کر چکے تھے اور روحانی طور پر زیادہ بوجھ کو اُٹھانے کے قابل ہو چکے تھے اور دوسری تبدیلی یہ آئی کہ جو شریعت ان پر نازل ہوئی تھی اس کو بھی بہت حد تک وہ بھول گئے اور بہت سی بدعات اس میں شامل ہو گئیں.پس قرآن کریم نے وہ بنیادی صداقتیں جو پہلی شریعتوں کے اندر پائی جاتی تھیں لیکن پہلی شریعتوں کے مخاطب انہیں بھول چکے تھے وہ ہدایتیں پھر لوگوں کو سکھائیں اور انسان کو ان سے متعارف کرایا.یه هدی للناس کے ایک معنی ہیں.وَبَيِّنَةٍ مِّنَ الْهُدی دوسری بات جو قرآن کریم کی عظمت کو ثابت کرتی ہے یہ ہے کہ پہلی

Page 171

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۵۷ خطبہ جمعہ ۱۹ اگست ۱۹۷۷ء شریعتوں اور ہدایتوں میں جو باتیں اور جو صداقتیں مجمل طور پر پائی جاتی تھیں قرآن کریم نے ان کے اجمال کو ڈور کیا اور پوری حقیقت کھول کر انسان کے سامنے رکھ دی اور تیسری بات یہ ہے کہ وَالْفُرْقَانِ.چونکہ پوری کتاب اور کامل ہدایت جو قرآن میں نازل کی گئی وہ پہلی شریعتوں اور ہدایتوں میں نہیں تھی اس لئے وقت گذرنے پر ان کے اندر اختلاف پیدا ہوا اور چونکہ زمانہ زمانہ کی ہدایت اور ملک ملک کی ہدایت میں فرق تھا اس لئے بنیادی طور پر جو مذہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی طرف بھیجا گیا تھا اس کے اندر ایک اختلاف پیدا ہو گیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کچھ کہا، آپ نے کہا کہ اگر کوئی تجھے تھپڑ لگاتا ہے تو تُو بھی اسے تھپڑ لگا اور حضرت عیسی علیہ السلام نے کچھ اور کہا، انہوں نے کہا کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ لگا تا ہے تو تو دوسرا گال بھی آگے رکھ دے.پس ہدایت میں اور تعلیم میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھی فرق پیدا ہو گیا اور اختلاف پیدا ہو گیا لیکن یہ اختلاف تب پیدا ہوا جب یہود نے حضرت مسیح کے ماننے سے انکار کر دیا اور بدلے ہوئے حالات کے مطابق ان کی اصلاح کے لئے جو حکم نازل ہوا تھا کہ نرمی اختیار کرو تمہارے اندر سختی زیادہ پیدا ہو چکی ہے.چونکہ انہوں نے حضرت مسیح کو نہیں مانا اس لئے ان کی اس تعلیم کو بھی نہیں مانا اور پہلی تعلیم جو جزو اور غیر مکمل تھی، جو حقیقی تعلیم کا ایک حصہ تھی اس پر قائم رہے اور حقیقی تعلیم کا جو دوسرا حصہ حضرت مسیح لے کر آئے تھے اس کو ماننے سے انکار کیا اور اس طرح اختلاف پیدا ہو گیا.انہوں نے کہا کہ تم خدا تعالیٰ کی طرف سے کیسے ہو سکتے ہو جب کہ پہلی شریعتوں سے اس قسم کے اختلاف کرنے والے ہو حالانکہ انسانی فطرت بھی اپنی ترقی یافتہ حالت میں پہلی شریعتوں کے ساتھ پورے طور پر اتفاق نہیں کر سکتی تھی.اس واسطے تیسری بات قرآن کریم میں یہ پائی جاتی ہے کہ اس نے حق و باطل میں کھلا فرق کر کے ان میں تمیز پیدا کر کے تمام پہلی ہدایتوں کے ماننے والوں میں جو اختلاف پیدا ہو گئے تھے ان کو دور کرنے کا سامان پیدا کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی شکل میں ایک کامل اور مکمل شریعت انسان کے ہاتھ میں دے دی گئی.ان تینوں باتوں کی تفسیر تو لمبی ہے لیکن میں نے مختصراً ان کی طرف اشارے کر کے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے.

Page 172

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۵۸ خطبہ جمعہ ۱۹ اگست ۱۹۷۷ء جب کامل شریعت آگئی اور اس نے فرقان ہونے کا دعویٰ کیا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ (البقرة : ۱۸۷) اس کی ایک تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمائی ہے کہ جب خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے یہ پوچھیں کہ اس شریعت پر ہم ایمان لے آئے ہیں اب ہمارے اور پہلوں کے درمیان قرآن کریم نے کیا فرق، کیا تمیز پیدا کی ہے، ہم میں اور پہلی شریعتوں کے ماننے والوں میں شریعت اسلامیہ نے کیا امتیاز پیدا کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ دیا فانی قریب کہ پہلوں کو دیکھو وہ میرے قرب سے محروم ہو چکے ہیں میرے دربار سے دھتکارے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اور آپ کو اُسوہ بنا کر اور قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر کے تمہارا یہ مقام ہے کہ تم ان کی طرح دور اور مہجور نہیں ہو بلکہ میرے مقرب ہو فَإِنِّي قَرِيب تم میں اور تمہارے غیر میں امتیاز یہ ہے کہ میں مسلمان کے قریب ہوں‘ أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ اور جب وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں اور اپنے الہام کے ذریعے اس قبولیت کی بہتوں کو بشارت دیتا ہوں لیکن یہ شرط اپنی جگہ قائم ہے کہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي بشر طیکہ تم میرے حکم کو قبول کرو اور اپنے ایمان پر حقیقی طور پر ثابت قدم رہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دعا نتیجہ ہے ایک اور چیز کا اور وہ سلسلہ چلتا ہے فضل سے.اصل یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لا تا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شناخت کرتا ہے تو اس میں اور ایک غیر مسلم میں جو امتیاز پیدا کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کر کے وہ معرفت حاصل کرتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی صحیح شناخت کرتا ہے، اس کی عظمت اس کے دل میں بیٹھتی ہے اور اس کی کبریائی اور اس کے جلال سے وہ آشنا ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک ہی وقت میں ایک ہی ہستی اللہ کے متعلق اس کے دل میں محبت اور خوف پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.یہ ایک لمبا مضمون ہے کہ کس طرح فضل کے نتیجے میں مقبول دعا کا دروازہ کھلتا ہے.اس کے متعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک لمبا حوالہ پڑھ کر سنادیتا

Page 173

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۵۹ خطبہ جمعہ ۱۹ اگست ۱۹۷۷ء ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :.ہاں یہ سچ ہے کہ معرفت حاصل نہیں ہوسکتی جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور نہ مفید ہوسکتی ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور فضل کے ذریعہ سے معرفت آتی ہے تب معرفت کے ذریعہ سے حق بینی اور حق جوئی کا ایک دروازہ کھلتا ہے اور پھر بار بار فضل سے ہی وہ دروازہ کھلا رہتا ہے اور بند نہیں ہوتا.غرض معرفت فضل کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے اور پھر فضل کے ذریعہ سے ہی باقی رہتی ہے.فضل معرفت کو نہایت مصفی اور روشن کر دیتا ہے اور حجابوں کو درمیان سے اُٹھا دیتا ہے اور نفس امارہ کے گردوغبار کو دور کر دیتا ہے اور روح کو قوت اور زندگی بخشتا ہے اور نفس اتارہ کو امارگی کے زندان سے نکالتا ہے اور بدخواہشوں کی پلیدی سے پاک کرتا ہے اور نفسانی جذبات کے تند سیلاب سے باہر لاتا ہے تب انسان میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی گندی زندگی سے طبعاً بیزار ہو جاتا ہے کہ بعد اس کے پہلی حرکت جو فضل کے ذریعہ سے روح میں پیدا ہوتی ہے وہ دعا ہے.یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں ( خدا کے فضل اور معرفت کے بغیر جو دعا کرنے والے ہیں آپ نے ان کو مخاطب کیا ہے کہ یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں ) اور تمام نماز دعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں کیونکہ وہ دعا جومعرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے، وہ فنا کرنے والی چیز ہے، وہ گداز کرنے والی آگ ہے، وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے، وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے وہ ایک تندرسیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے.ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہوجاتا ہے.مبارک وہ قیدی کے جو دعا کرتے ہیں تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے.مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں ست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے.1 یعنی ہوائے نفس کے زندان میں رہنے والے جیسا کہ اوپر ذکر آیا تھا.ے یعنی روحانی آنکھ سے.

Page 174

خطبات ناصر جلد ہفتم 17.خطبہ جمعہ ۱۹ اگست ۱۹۷۷ء مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے.مبارک تم جبکہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھریوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا.وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم ، حیا والا ، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے.پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا.دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو.خدا کے لئے ہار اختیار کرلو اور شکست کو قبول کرلوتا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ.دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی.دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے.دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے.پس اس ماہ میں خاص طور پر دعائیں کرتے رہنا چاہیے.یہ بنیادی دعا بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کبر و اباء اور فخر وریاء سے معصوم دعائیں کرنے کی توفیق عطا کرے اور ان دعاؤں کو قبول کرے اور دعا کے ذریعہ سے ایک مومن مسلم کو جو نعمتیں ملنے کا وعدہ دیا گیا ہے اس قسم کی دعاؤں کی توفیق عطا کرے اور ہمیں ہمیشہ ایمان کے صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اپنی رضا کی جنتوں کا ہمیں ہمیشہ وارث بنائے رکھے.66 روز نامه الفضل ربوه ۱۳ ستمبر ۱۹۷۷ ، صفحه ۲ تا ۴) 谢谢谢

Page 175

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲۶ اگست ۱۹۷۷ء ایمان لانے والوں میں صدیقوں اور شہیدوں کے دو گروہ ہوتے ہیں خطبه جمعه فرمود ه ۲۶ /اگست ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَمَا لَكُمْ لا تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُم إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ - هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِةِ أَيْتِ بَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ وَ إِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ - (الحديد : ٩ ١٠) وَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَ رُسُلِةٍ أُولَبِكَ هُمُ الصَّدِيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَ نُورُهُمْ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا أُولَبِكَ اَصْحَبُ الْجَحِيمِ (الحديد : ٢٠) اس کے بعد ان آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے فرمایا:.یہ سورۃ حدید کی آیات ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ حقیقت یہ ہے وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُم کہ اللہ کا رسول تم کو صرف اس لئے بلاتا ہے لِتُؤْمِنُوا بِرَتِّكُم کہ تم اپنے رب پر ایمان لاؤ اور اگر تم مومن ہو تو خدا تم سے ایک وعدہ لے چکا ہے.هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِ ایتٍ بَيِّنت وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندے پر کھلے کھلے نشان

Page 176

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۶۲ خطبہ جمعہ ۲۶ را گست ۱۹۷۷ ء نازل کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان نشانات کے ذریعہ سے تم کو اندھیروں میں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے اور اللہ یقیناً بہت شفقت سے کام لینے والا اور بار بار کرم کرنے والا ہے اور جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہداء کا درجہ پانے والے ہیں.ان کو ان کا پورا پورا اجر ملے گا اور اسی طرح ان کا نور ان کو ملے گا اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلا یا وہ دوزخی ہوں گے.حضور انور نے فرمایا:.قرآن کریم کے الفاظ کے جو معانی کئے گئے ہیں ان کی رُو سے لفظ ایمان تین باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے.دل تصدیق کرے، زبان اس کا اعلان کرے اور انسان کا عمل گواہی دے کہ واقعہ میں اس کا دل ایمان لایا ہے اور صداقت کی تصدیق کرتا ہے.پس ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اس کا پہلا اور حقیقی تعلق دل کے ساتھ ہے اور دنیا کی کوئی طاقت کسی دل میں ایمان کو داخل نہیں کر سکتی نیز دنیا کی کوئی طاقت کسی دل سے ایمان کو نکال نہیں سکتی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے پیار نے اور آپ کے سلوک نے (اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کے نتیجہ میں جو آپ سے ہو رہا تھا اور جس کا دیکھنے والی آنکھ مشاہدہ کر رہی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے دلوں کو اس طرح جیتا کہ صداقت دلوں میں گڑ گئی.میں نے جو یہ کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت دل سے ایمان کو نکال نہیں سکتی اگر واقعی دل میں ایمان ہو اور اس کی مثال صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ہے.وہ کون سی مصیبت تھی جس سے وہ دو چار نہ ہوئے ، وہ کون سی ایذا تھی جو ان کو نہیں پہنچائی گئی، اتنے دکھ دیئے گئے اور اتنی تکلیفیں پہنچائی گئیں کہ آج بھی جب ہم سوچتے ہیں تو ہمارے رو نگے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن وہ صداقت جو ان کے دلوں میں داخل ہو چکی تھی ہر قسم کے دکھ اور ایذا رسانی اور ابتلا نے بھی اس صداقت کو ان کے دلوں سے نہیں نکالا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو بہت دکھ دیا گیا مگر وہ ثابت قدم رہے.اس سے بہتر مثال انسان کی مذہبی تاریخ میں ہمیں اور کہیں بھی نہیں ملتی.

Page 177

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۶۳ خطبہ جمعہ ۲۶ اگست ۱۹۷۷ء پس ایمان دل سے شروع ہوتا ہے اسی لئے قرآن کریم نے بار بار بتایا ہے کہ مخالفین کے حربے اس وجہ سے بھی ناکام ہو جاتے ہیں کہ دلوں پر ان کا اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کے تکلیف پہنچانے اور ایذا رسانی کے منصوبے مومنین کے لئے ایک قسم کی جنتوں کے دروازے کھولنے کا موجب بن جاتے ہیں.غرض دل سے ایمان شروع ہوتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ زبان اس کا اقرار کرے.حقیقت یہ ہے کہ ایمان باللہ کا محبت الہی اور عشق الہی سے بڑا گہرا تعلق ہے یعنی محض یہ نہیں کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر اس کی ذات اور صفات کی معرفت کے نتیجہ میں ایمان لا یا بلکہ اس کے حسن اور اس کے احسان کو دیکھ کر اس کے ساتھ ایک محبت اور ایک عشق پیدا ہوتا ہے اور جب عشق کا اور محبت کا جذبہ دلوں میں پیدا ہو جائے تو زبانوں پر بہر حال اس کا اظہار ہوتا ہے اور وہ اظہار بے تکلف ہوتا ہے.اس واسطے جب ایمان دلوں میں داخل ہو جائے تو زبان اس کا اقرار کرتی ہے اور پھر محض اقرار کو وہ انسان کافی نہیں سمجھتا بلکہ اپنے اعمال سے اس بات کی - تصدیق کرتا ہے کہ واقعہ میں اس کے دل کے اندر ایمان داخل ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا لَكُمْ لا تُؤْمِنُونَ بِاللہ نہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ رسول تمہیں اس طرف بلا رہا ہے کہ جس خدا نے تمہیں پیدا کیا جو تمہارا رب ہے اس پر ایمان لاؤ.صَوَرَكُمْ فَاحْسَنَ صُوَرَكُمْ (المؤمن : ۶۵) وه خدا جس نے تمہیں وجود دیا اور تمہارے اندر بہترین صلاحیتیں پیدا کیں اور جس کا منشاء یہ ہے کہ وہ صلاحیتیں نشو و نما پائیں تا کہ جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور جس مقصد کے حصول کے لئے اسے یہ استعدادیں اور صلاحیتیں دی گئی ہیں وہ مقصد پورا ہو یعنی انسان کا ذاتی تعلق ، محبت ذاتی اور پیار اور عشق کا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ پیدا ہو جائے.وَقَد أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ اگر تم ایمان لاؤ اور ایمان کے حقائق پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ تم سے مطالبہ کیا جارہا ہے وہ تمہاری فطرت کے عین مطابق ہے.اسی غرض کے لئے تمہاری فطرت کو پیدا کیا گیا تھا اور فطرت کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے اور ان کی نشوونما کی خاطر خدا تعالیٰ اپنے بندے پر ایت بینت یعنی کھلے کھلے نشان نازل کرتا ہے اور

Page 178

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۶۴ خطبہ جمعہ ۲۶ اگست ۱۹۷۷ء خدا کا حقیقی بندہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی عظمت اور جلال کے لحاظ سے اور اپنے کمال کو پہنچ جانے کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور باقی تمام رسول جو پہلے گزرے اور وہ تمام مقربین الہی جو بعد میں آئے وہ اس عبد کامل کی ظلمیت میں عبد بنے جو کہ عبودیت کے اعلیٰ اور ارفع اور کامل مقام پر کھڑا ہے.پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی پہلوں نے بھی آیات بینات حاصل کیں اور بعد میں آنے والے بھی محمد ہی کی عظمت اور جلال کو ظاہر کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے کھلے کھلے نشان پانے والے بنے اور یہ نشان اس لئے ظاہر ہوئے کہ جو شیطانی ظلمات انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں ان سے انسان کو پاک کیا جائے اور جس نور کی خاطر اسے پیدا کیا گیا ہے وہ نوران بندوں کو ، ان مخلص مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو کیونکہ إِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رحیم اللہ تعالیٰ کی صفت شفقت کرنا اور بار بار رحم کرنا ہے.پہلے یہ کہا تھا کہ مَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللهِ کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے پھر چند آیات کے بعد یہ کہا گیا ہے وَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَ رُسُلہے کہ جو خدا پر اور اس کے رسل پر ایمان لاتے ہیں ( تمام رسل اس بات میں شامل ہیں خواہ وہ شریعت لانے والے رسل تھے یا شریعت کی پیروی کرانے کے لئے آنے والے رسل تھے ) اولبِكَ هُمُ الصّدِيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ - ان مومنوں میں صدیقوں کا گروہ بھی ہے اور شہداء کا گروہ بھی ہے.لَهُمْ أَجْرُهُمُ ان کے اعمال کا اجر اور ثواب اللہ تعالیٰ انہیں دے گا وَ نُورھم اور ان کی قابلیت اور صلاحیت اور استعداد کے مطابق ان کا نور بھی انہیں عطا کیا جائے گا تا کہ وہ اپنے اعمال صالحہ میں ترقی کریں اور پہلے سے زیادہ اجر حاصل کریں لیکن وَ الَّذِينَ كَفَرُوا وہ ناشکرے انسان جو خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کا شکر ادا نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ نے جو استعداد میں قرب الہی کے لئے دی ہیں ان کا انکار کرتے اور ان کی ناشکری کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں ان کی سزا ان کے اپنے عمل کی وجہ سے وہ دوزخ ہے کہ جو خدا تعالیٰ سے دوری اور خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر کی علامت ہے.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جتنے بھی رسول ہیں ان پر ایمان لانے والوں میں دو گروہ

Page 179

خطبات ناصر جلد ہفتہ ܬܪܙ خطبہ جمعہ ۲۶ راگست ۱۹۷۷ء ضرور پائے جاتے ہیں ایک صدیقوں کا گروہ اور دوسرے شہداء کا گروہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صدیق اور شہید کے جو معنے کئے ہیں وہ میں اس وقت پڑھ کر سناؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.صدیق وہ ہوتا ہے جس کو سچائیوں کا کامل طور پر علم بھی ہو اور پھر کامل اور طبعی طور پر ان پر قائم بھی ہو.مثلاً اس کو ان معارف کی حقیقت معلوم ہو کہ وحدانیت باری تعالیٰ کیا شے ہے اور اس کی اطاعت کیا شے اور محبت باری عزاسمہ کیا شے اور شرک سے کس مرتبہ اخلاص پر مخلصی حاصل ہوسکتی ہے اور عبودیت کی کیا حقیقت ہے اور اخلاص کی حقیقت کیا اور تو بہ کی حقیقت کیا اور صبر اور توکل اور رضا اور محویت اور فنا اور صدق اور وفا اور تواضع اور سخا اور ابتہال اور دعا اور عفو اور حیا اور دیانت اور امانت اور اتقاء وغیرہ اخلاق فاضلہ کی کیا کیا حقیقتیں ہیں.پھر ماسوا اس کے ان تمام صفات فاضلہ پر قائم بھی ہو.پھر آپ تریاق القلوب ہی میں فرماتے ہیں.وو صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کو معلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں اور اس صدیق کے صدق پر گواہی دیں.پھر الحکم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات میں سے ایک ارشاد کی ڈائری یہ ہے:.صدیق کے کمال کے حصول کا فلسفہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری اور ناداری کو دیکھ کر اپنی طاقت اور حیثیت کے موافق اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے اور صدق اختیار کرتا اور جھوٹ کوترک کر دیتا ہے اور ہر قسم کے رجس اور پلیدی سے جو جھوٹ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے دور بھاگتا ہے اور عہد کر لیتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا نہ جھوٹی گواہی دوں گا اور جذبہ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹی کلام نہ کروں گا.نہ لغوطور پر نہ کسب خیر کے لیے نہ دفع شر کے لیے یعنی کسی رنگ اور حالت میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا جب اس حد تک وعدہ

Page 180

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲۶ راگست ۱۹۷۷ء މ ވ ވ کرتا ہے تو گویا اِيَّاكَ نَعْبُدُ پر وہ ایک خاص عمل کرتا ہے اور وہ عمل اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ سے آگے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہے خواہ یہ اس کے منہ سے نکلے یا نہ نکلے لیکن اللہ تعالیٰ جو مبدء الفیوض اور صدق اور راستی کا چشمہ ہے اس کو ضرور مدد دے گا اور صداقت کے اعلیٰ اصول اور حقائق اس پر کھول دے گا جیسے یہ قاعدہ کی بات ہے کہ کوئی تاجر جو اچھے اصولوں پر چلتا ہے اور راستبازی اور دیانتداری کو ہاتھ سے نہیں دیتا اگر وہ ایک پیسہ سے تجارت کرے اللہ تعالیٰ اسے ایک پیسہ کے لاکھوں لاکھ روپیہ دیتا ہے.اسی طرح پر جب عام طور پر انسان راستی اور راست بازی سے محبت کرتا ہے اور صدق کو اپنا شعار بنالیتا ہے تو وہی راستی اس عظیم الشان صدق کو کھینچ لاتی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھا دیتی ہے اور وہ صدق مجسم قرآن کریم ہے اور وہ صدق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے ( کیونکہ آپ نے اپنی زندگی میں قرآن کریم کی ہدایت پر سچا اور پورا عمل کر کے ہمارے لئے ایک کامل اُسوہ پیش کیا ایسا ہی خدا تعالیٰ کے مامور ومرسل حق اور صدق ہوتے ہیں پس وہ اس صدق تک پہنچ جاتے ہیں تب ان کی آنکھ کھلتی ہے اور ایک خاص بصیرت ملتی ہے جس سے معارف قرآنی کھلنے لگتے ہیں.میں اس بات کے ماننے کے واسطے کبھی طیار نہیں ہوں کہ وہ شخص جو صدق سے محبت نہیں رکھتا اور راست بازی کو اپنا شعار نہیں بنا تا وہ قرآن کریم کے معارف کو سمجھ بھی سکے اس واسطے کہ اس کے قلب کو مناسبت ہی نہیں یہ تو صدق کا چشمہ ہے اس سے وہی پی سکتا ہے جس کو صدق سے محبت ہو.پھر آپ فرماتے ہیں:.صدیق وہ ہوتے ہیں جو صدق سے پیار کرتے ہیں سب سے بڑا صدق لا الهَ إلا الله ہے اور پھر دوسرا صدق مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہے وہ صدق کی تمام راہوں سے پیار کرتے ہیں اور صدق ہی چاہتے ہیں....صدیق عملی طور پر صدق سے پیار کرتا اور کذب

Page 181

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۶۷ خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۷۷ء سے پر ہیز کرتا ہے.1166 شہید کے متعلق آپ فرماتے ہیں :.مرتبہ شہادت سے وہ مرتبہ مراد ہے جبکہ انسان اپنی قوتِ ایمان سے اس قدر اپنے خدا اور روز جزا پر یقین کر لیتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے.تب اس یقین کی برکت سے اعمالِ صالحہ کی مرارت اور تلخی دور ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہر ایک قضا و قدر باعث موافقت کے شہد کی طرح دل میں نازل ہوتی اور تمام صحن سینہ کو حلاوت سے بھر دیتی ہے اور ہر ایک ایلام انعام کے رنگ میں دکھائی دیتا ہے.سوشہید اس شخص کو کہا جاتا ہے جو قوتِ ایمانی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہو اور اس کے تلخ قضا و قدر سے شہد شیریں کی طرح لذت اُٹھاتا ہے اور اسی معنے کی رُو سے شہید کہلاتا ہے اور یہ مرتبہ کامل مومن کے لئے بطور نشان کے ہے.پھر آپ فرماتے ہیں:.عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا یا دریا میں ڈوب گیا و با میں مرگیا وغیرہ مگر میں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفا کرنا اور اسی حد تک اس کو محد و درکھنا مومن کی شان سے بعید ہے.شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتا ہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کرسکتا.وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہتا ہے یہاں تک کہ اگر محض خدا تعالیٰ کے لئے اس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اس کو ملتا ہے اور وہ بدوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کئے اپنا سر رکھ دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ بار بار مجھے زندگی ملے اور بار باراس کو اللہ کی راہ میں دوں.ایک ایسی لذت اور سروران کی روح میں ہوتا ہے کہ ہر تلوار جو ان کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب جو ان کو پیس ڈالے ان کو پہنچتی ہے وہ ان کو ایک نئی زندگی ، نئی مسرت اور تازگی عطا کرتی ہے.یہ ہیں شہید کے معنی.

Page 182

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۶۸ خطبہ جمعہ ۲۶ اگست ۱۹۷۷ء یہ ماہ رمضان ہے، دعاؤں کا مہینہ، قبولیت دعا کا مہینہ.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ان کو بھی صدیق اور شہید کا مقام عطا کرے.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۱/۳ کتوبر ۱۹۷۷ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 183

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۶۹ خطبہ جمعہ ۲ ستمبر ۱۹۷۷ء اللہ تعالیٰ نے انسان کی استعدادوں کی کامل نشو و نما اور ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کا سامان کیا ہے خطبه جمعه فرموده ۲ ستمبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِى فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَرَ - وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَابِبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيلَ وَالنَّهَارَ - وَاتْكُم مِّنْ كُلِّ مَا سالتُمُوهُ وَ اِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا ۖ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَدُوهُ كَفَّارٌ - ج (ابرهیم : ۳۳ تا ۳۵) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا - وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا - هُوَ الَّذِى ط يُصَلِّى عَلَيْكُمْ وَ مَلَكَتْهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا - (الاحزاب : ۴۲ تا ۴۴) پھر حضور انور نے فرمایا:.یہ بتانے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے اور ان کو انسان کی خدمت پر لگایا ہے اور یہ بتانے کے بعد کہ دو بنیادی اشیاء پیدا کی گئی ہیں ایک پانی اور ایک روشنی ، پانی سے

Page 184

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۷۰ خطبہ جمعہ ۲؍ستمبر ۱۹۷۷ء زندگی کا قیام ہوتا ہے اور روشنی سے ترقیات کے دروازے کھلتے ہیں، پھر اس مضمون پر قرآن کریم نے مختلف جگہوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی مگر اس تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاؤں گا.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے آسمان اور زمین کو تمہارے لئے پیدا کیا ہے اور اس میں پانی پیدا کیا ہے جس سے پھل پیدا ہوتے ہیں جس میں اور بہت سے فوائد ہیں جو انسان اٹھاتا ہے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا، نور کو پیدا کیا ، روشنی کو پیدا کیا ، دن کو پیدا کیا اور رات کو پیدا کیا اور اس طرح اس نے تمہاری ترقیات کے دروازے کھولے.یہ بتانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاشْكُم مِّنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ تم نے جو بھی مانگا میں نے تمہیں دے دیا اور اس قدر احسان ہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے احسانوں کو گن نہیں سکتے.مانگنے کے دو پہلو ہیں ایک وہ مانگنا ہے جو دعا کے ذریعہ سے مانگا جاتا ہے اور ایک وہ مانگنا ہے جو احتیاج کے نتیجہ میں مانگا جاتا ہے سول کے معنے حاجت کے ہیں.دعا بھی دراصل انسان اپنی ضرورت کے لئے خدا سے مانگتا ہے اور دعا ئیں بھی قبول ہوتی ہیں بلکہ ایک لحاظ سے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہر وہ دعا جو شرائط کے ساتھ کی جائے وہ قبول ہوتی ہے.کبھی اس طرح کہ جو چیز خدا سے مانگی جائے اور وہ اس کی بھلائی میں ہوتی ہے اور اسے مل جاتی ہے.کبھی اس طرح بھی ہوتا ہے کہ جس طرح ایک بچہ آگ پر ہاتھ مارتا ہے اور اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی ماں اس کے ہاتھ کو روک لیتی ہے اسی طرح نادان انسان خدا سے وہ چیز مانگتا ہے جو اس کے لئے خیر و برکت کا موجب نہیں بن سکتی اس لئے خدا تعالیٰ اس کی بجائے کوئی اور چیز جو اس کی بھلائی کے لئے ہوتی ہے اسے عطا کر دیتا ہے.بعض نادان یہ سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی لیکن خدا تعالیٰ تو بڑا رحیم ہے وہ انسان پر رحم کرنے والا ہے اور انسان کی دعاؤں کو ایک رنگ میں یا دوسرے رنگ میں سننے والا ہے.پس انسان جو بھی شرائط کے ساتھ اور حقیقی معنے میں دعا کرتا ہے وہ قبول ہوتی ہے لیکن یہاں جو وسیع مضمون بیان ہوا ہے وہ نمایاں ہوتا ہے.دوسرے پہلو سے کہ اللہ تعالیٰ ہر حاجت پوری کرتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو ہر قسم کی طاقتیں دے کر پیدا کیا گیا ہے.میں پہلے بھی

Page 185

خطبات ناصر جلد ہفتہ خطبہ جمعہ ۲ ستمبر ۱۹۷۷ء کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو بنیادی طور پر چار قسم کی طاقتیں دی گئی ہیں.جسمانی طاقتیں ہیں جو دنیا والوں کی زندگی میں نمایاں ہوتی ہیں مثلاً مکہ بازی میں، باکسنگ میں کشتی میں یا مختلف دوسری کھیلوں میں یا زور آزمائی میں پاکشتی رانی میں وغیرہ وغیرہ.جسمانی طاقتوں کے ہزار مظاہرے ہیں.جسمانی طاقتیں جوصحابہ رضوان اللہ علیہم کی زندگیوں میں ظاہر ہوئیں وہ عجیب طاقت کا مظاہرہ تھا.اس زمانے میں کسرای اور قیصر کی جو بڑی بادشاہتیں تھیں ان کے مقابلہ میں مٹھی بھر مسلمانوں کولڑنا پڑا حالانکہ دشمنان اسلام کے پاس دنیا کی دولتیں تھیں اور کھانے کی ہر قسم کی اشیاء ان کو میٹر تھیں لیکن اس کے باوجودمسلمانوں نے جس جسمانی طاقت کا مظاہرہ کیا ( میں جسمانی طاقت کی بات کر رہا ہوں ) وہ نہ کسریٰ کی فوجوں نے کیا اور نہ قیصر کی فوجوں نے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں کسری کے خلاف جنگ میں چودہ ہزار فوج کا کبھی اسی ہزار کی فوج سے مقابلہ ہوتا تھا اور کبھی ایک لاکھ سے.ایک لاکھ فوج جب مقابلہ میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کی تعداد اوسطاً پانچ چھ گنا زیادہ تھی اگر دن میں نو گھنٹے لڑائی ہوئی ہو تو اس کا مطلب ہے ہر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد مسلمان فوج کے سامنے ایرانیوں کی تازہ دم فوج مقابلہ پر آگئی کیونکہ تلواروں کی لڑائی ہوتی تھی.ایک کے مقابلے میں ایک ہی آدمی آتا تھا چنانچہ ایرانی اپنی اگلی صفوں کو پیچھے ہٹالے جاتے تھے اور تازہ دم فوج آگے لے آتے تھے.پھر ڈیڑھ گھنٹے بعد ان صفوں کو پیچھے ہٹالے جاتے تھے اور تازہ دم فوج آگے آجاتی تھیں.غرض مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمن کی تعداد پانچ چھ گنا زیادہ تھی.کم و بیش نو گھنٹے روزانہ کی جنگ میں پانچ چھ دفعہ کسری کی فوجوں کی اگلی صفیں پیچھے ہٹ جاتی تھیں اور تازہ دم فوج آگے آجاتی تھی پھر اگلی صفیں پیچھے ہٹ جاتی تھیں اور ان کی جگہ تازہ دم فوج لے لیتی تھی یعنی ان کا کوئی سپاہی ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ نہیں لڑتا تھا اور مسلمان نو گھنٹے تک لڑ رہا ہوتا تھا گویا وہ پانچ چھ گنا زیادہ جسمانی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہوتا تھا.اگر کوئی شخص ایک سوٹی لے کر اسے ہلا نا شروع کر دے تو آدھے گھنٹے کے بعد اس کا بازوشل ہو جائے گالیکن وہاں مسلمانوں کی ذات اور ذاتی زندگی کا سوال نہیں تھا بلکہ اسلام کی زندگی کا سوال تھا، اسلام کے استحکام کا سوال

Page 186

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۷۲ خطبہ جمعہ ۲ ستمبر ۱۹۷۷ء تھا، اسلام کی خاطر قربانیاں دینے کا سوال تھا اس لئے انہوں نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق اپنے جسموں کی جو تربیت کی تھی اور جسمانی طاقتوں کی نشوونما کی تھی اس کا اس طرح مظاہرہ کیا کہ انسانی عقل دنگ رہ گئی.مسلمان سپاہی کو نو گھنٹے لگا تار اس فوج کے ساتھ لڑنا پڑا جو ہر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ایک تازہ دم سپاہی سامنے لے آتی تھی اور اس کے باوجود مسلمانوں کو کوئی کوفت نہ ہوتی تھی پھر دو دن کے بعد بعض دفعہ تین دن کے بعد دوسری لڑائی ہوتی تھی اور مسلمان سپاہی وہی ہوتے تھے جو پہلے دن سے لڑ رہے ہوتے تھے.ان میں بھی کچھ زخمی اور کچھ شہید ہو جاتے تھے.اگر چہ زخمی ہوتے تھے، تھکے ہوتے تھے لیکن دشمن کے سامنے سینہ سپر رہتے تھے حالانکہ ان کے مقابلہ میں کسری کی لاکھ کی لاکھ فوج پیچھے ہٹ جاتی تھی اور پھر ایک نئے کور کمانڈر کی ماتحتی میں ایک تازہ دم فوج سامنے آجاتی تھی اور کچھ دنوں کے بعد پھر اسی قسم کی لڑائی ہوتی تھی.پس عجیب شان ہے صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت پائی اور اپنی جسمانی طاقتوں کو خدا اور خدا کے دین کی ضرورتوں کے لئے نشو ونما دے کر عظیم الشان قربانیوں کا مظاہرہ کیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو ذہنی طاقتیں عطا کی ہیں.اخلاقی طاقتیں اور صلاحیتیں اور استعداد میں عطا کی ہیں اور روحانی قوتیں، صلاحیتیں اور استعداد میں عطا کی ہیں.بنیادی طور پر یہ چار مختلف قسم کی صلاحیتیں اور استعدادیں ہیں جو خدا تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں.ہر طاقت اپنی نشو ونما کے ہر مرحلہ میں خدا سے کچھ مانگتی ہے مثلاً جسمانی طاقت کو لے لیتے ہیں.ایک بچہ ہے جس کا پیدائش کے بعد خدا سے پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ ماں اسے دودھ دے اس کے لئے ماں کا دودھ پینا ضروری ہوتا ہے.ویسے دودھ تو دودھ پینے والے بڑے ہو کر بھی پیتے ہیں، اونٹ کا بھی ، بھینس کا بھی اور گائے کا بھی اور بکری کا بھی اور بھیڑ کا بھی اور بعض جگہ ضرورت پڑے تو گھوڑے کا دودھ بھی پینے والے پی لیتے ہیں گو کم پیا جاتا ہے لیکن دنیا گھوڑے کا دودھ بھی پیتی ہے لیکن بچے کی پیدائش کے بعد بچے کا اپنے خدا سے یہ سوال ہوتا ہے اور اس کی یہ حاجت ہوتی ہے کہ اس کی پیدائش کے بعد اس کی صحیح نشو و نماماں کے دودھ سے ہو سکتی ہے بھینس کے دودھ سے

Page 187

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۷۳ خطبہ جمعہ ۲ ستمبر ۱۹۷۷ء نہیں ہو سکتی اس لئے وہ اسے عطا کیا جائے چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس کے لئے ماں کا دودھ پیدا کر دیا.پھر وہ بڑا ہوتا ہے اور درجہ بدرجہ اس کی خوراک بدلتی جاتی ہے اور اس کے طریقے بدلتے جاتے ہیں.امریکہ میں ڈاکٹروں نے بڑی ریسرچ کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ۱۸ سال تک کھانے کے لحاظ سے انسان نو عمر یعنی چھوٹی عمر کا سمجھا جانا چاہیے.خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہے که ۱۸ سال تک جسمانی ضرورت کے مطابق احتیاج کا اظہار ہوتا ہے یعنی بچہ کہتا ہے میں نے یہ کھانا ہے اور یہ نہیں کھانا یا اتنی مقدار میں دو اور اتنی بار دو تین گھنٹے یا چھ گھنٹے کے بعد دینے کا سوال پیدا نہیں ہوتا.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ کئی والدین اپنے ایسے بچے کے ساتھ ملاقات کے لئے آجاتے ہیں جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ جی ہمارا بچہ کھاتا کچھ نہیں.میں نے بیسیوں دفعہ ان سے کہا ہے کہ یہ تو کھانے کو تیار ہے تم اسے کھلانے کے لئے تیار نہیں اور پھر جب میں نے پوچھا کہ کیا مانگتا ہے جو آپ نہیں دیتے تو ایک دفعہ ایک بچے کے باپ نے کہا کہ یہ مونگ پھلی کھانا چاہتا ہے اور ہم مونگ پھلی کھانے نہیں دیتے کہ گلا خراب ہو جائے گا.ایک اور نے کہا کہ اُس کا بچہ بھنے ہوئے چنے کھانا چاہتا ہے اور وہ اُسے بھنے ہوئے چنے نہیں دیتے کہ اس کا پیٹ خراب ہو جائے گا.حالانکہ بھنے ہوئے چنے جو اُس بچے کی احتیاج ہے اور جن کے کھانے کی اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے وہ اس کو ملنے چاہئیں یہ تو سائنس کا اصول ہے لیکن خدا یہ کہتا ہے کہ جو اسے احتیاج پیدا ہوتی ہے یعنی چنے کھانے کی میں نے اس کے لئے چنے پیدا کئے ہیں اور جو مونگ پھلی کی احتیاج پیدا ہوتی ہے اس کے لئے میں نے مونگ پھلی پیدا کی ہے.یہ سوال ہے احتیاج کا.یعنی جو حاجت ہے وہ زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ اے خدا! مجھے یہ دے اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ہر فرد کی ہر حاجت کو پورا ہونے کا سامان پیدا کر دیا گیا ہے.ویسے فرد فرد کی حاجت میں بھی فرق ہے جیسا کہ میں نے ابھی بچوں کی طبیعتوں کا اختلاف بتایا ہے کہ کوئی مونگ پھلی کھانا چاہتا ہے اور کوئی بھنے ہوئے چنے.اسی طرح ہر فرد کی جسمانی طور پر بھی، ذہنی طور پر بھی ، اخلاقی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی حاجات مختلف ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی ہر

Page 188

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۷۴ خطبہ جمعہ ۲ ستمبر ۱۹۷۷ء حاجت جو وہ زبان حال سے سوال کر رہی ہے وہ پوری کر دی گئی ہے تا کہ اسے جو طاقتیں عطا کی گئی ہیں ان کی صحیح نشوونما ہو سکے.قرآن کریم نے جو نتیجہ نکالا ہے ہماری عقل بھی وہی نتیجہ نکالتی ہے اور وہ یہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میرے احسان گننا چاہو تو تم نہیں گن سکتے.اب تم خود سوچ لو کہ بچپن سے لے کر مرتے دم تک اور پھر اس کے بعد کی زندگی میں بھی خدا تعالیٰ کے بے شمار احسان ہیں جو انسان پر بارش کی طرح نازل ہوتے رہتے ہیں لیکن اس دنیا کی زندگی کو لے لیتے ہیں.انسان کی صحیح ضرورت اور احتیاج کو پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے سامان پیدا کر رکھے ہیں یعنی جو انسانی خواہش ہے یا زبان حال کا سوال ہے اور جس چیز کا انسان کی فطرت تقاضا کر رہی ہوتی ہے اور جو انسان کی نشو ونما کے لئے ضروری ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے پیدا کرنے کے سامان کر رکھے ہیں.یہ بڑا وسیع مضمون ہے اور بڑا زبردست مضمون ہے.اس کے اندر اسلام کی برتری کا معجزا نہ ثبوت ہے کہ جو چیز تم مانگتے ہو، جس چیز کی بھی تمہیں سچی حاجت اور ضرورت ہے خدا تعالیٰ نے وہ چیز تمہارے لئے پیدا کر دی ہے.میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے کہ انسان کو چار بنیادی قوتیں اور استعداد میں اور صلاحیتیں دی گئی ہیں.ہر قوت کی بنیادی طور پر بے شمار احتیا جیں اور ضرورتیں ہیں اور ہر ضرورت زبان حال سے اپنے رب سے تقاضا کرتی ہے کہ اسے فلاں مرحلے پر فلاں چیز کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو چیز اسے چاہیے وہ میں نے پیدا کر دی ہے یہ ہے عظمت ہمارے ربّ کریم کی.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے احسانوں کو گن نہیں سکتے.مگر اس کے باوجود ناشکرے انسان کی یہ حالت ہے کہ جو چیز جس غرض کے لئے پیدا کی گئی وہاں استعمال کرنے کی بجائے اس کا غلط استعمال کرتا ہے یعنی وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَحِلَّهِ ( يَا فِي غَيْرِ مَوْضِعِهِ ) ظلم کے معنے ہی یہ ہیں کہ کسی چیز کا غلط استعمال کیا جائے.کسی چیز کا جو محل ہے اس جگہ کی بجائے کسی اور جگہ پر غلط استعمال ظلم ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو قو تیں اور استعداد یں دیں اور ان کو پورا کرنے کے سامان دیئے وہ ان کو چھوڑ دیتا ہے اور ظلم کرنے لگ جاتا ہے یعنی ایک چیز جس غرض کے لئے

Page 189

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۷۵ خطبہ جمعہ ۲ ستمبر ۱۹۷۷ء بنائی گئی اس غرض کے لئے وہ اس کا استعمال نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء جو انسان کی احتیا جوں کو پورا کرنے کے لئے پیدا کی گئی تھیں ان کا بے محل اور غلط استعمال کرنے لگ جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو جہاں طاقتیں دیں وہاں ان طاقتوں کی نشوونما کا اصول بھی بتایا اور نہ ختم ہونے والی ترقیات کے دروازے انسان پر کھولے گئے ہیں کیونکہ اس زندگی کے بعد ایک ایسی زندگی عطا کی جانے والی ہے جو ختم نہیں ہوتی اور وہاں بھی ترقیات ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ ہر روز مومن جنت میں پہلے مقام سے بالا تر مقام پر ہو گا.غرض دنیا میں جو چیزیں پیدا کی گئی ہیں ان کے صحیح استعمال کے لئے ہدایت بھی ملنی چاہیے تھی.یہ پہلو تو خالی نہیں رہ سکتا تھا اس لئے خدا نے اصول مقرر کر دیئے.پس خدا تعالیٰ نے انسان کی احتیاج کو پورا کرنے کے لئے بے شمار چیزیں پیدا کیں.خدا نے ہر شخص کی ضرورت پوری کر دی.کوئی ایسی ضرورت باقی نہیں رہی کہ جس کے متعلق بندہ یہ کہے کہ اے خدا! تو نے میری جسمانی یا ذہنی یا اخلاقی یا روحانی نشو ونما کے لئے میری یہ خواہش یا یہ Urge (ارج) یا یہ احتیاج یا یہ ضرورت تھی اس کو پورا کرنے کے لئے کوئی سامان نہیں پیدا کیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنی سعی سے کچھ نہیں کر سکتا اسے آسمانی ہدایت کی ضرورت ہے اور اب انسان کو جب کہ وہ اپنے کمال تک پہنچنے کے قریب پہنچا ہوا تھا اسلام میں کامل ہدایت ملی ہے.اسلام ایک زبر دست مذہب ہے، ایک کامل شریعت ہے اور ایک زبر دست تعلیم ہے.اسلام نے تمام چیزوں کے صحیح استعمال کے لئے انسان کو ہدایت دی ہے کہ اس طرح عمل کرو گے اور اشیاء کو اس طرح استعمال کرو گے تب تم صحیح طریقے پر فائدہ اٹھا سکو گے ورنہ ضرورت اپنی جگہ پر رہے گی ضرورت کے پورا کرنے کے سامان اپنی جگہ پر رہیں گے لیکن تم اپنی نالائقیوں کی وجہ سے پھر بھی اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکو گے اور دنیا میں فساد پیدا کرو گے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِى النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (الروم : ۴۲) کہ جو انسان کے ہاتھوں نے غلط اور ناجائز طور پر کما یا اور گناہ

Page 190

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲؍ستمبر ۱۹۷۷ء کئے اور خدا تعالیٰ کی عطا کا غلط استعمال کیا اس سے فساد اور ظلم پیدا ہو گیا.مثلاً ایٹم بم ہے.یہ ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کی بھلائی میں بھی خرچ ہو سکتی ہے.ایک دہر یہ انسان بھی یہ کہتا ہے کہ سائنس کے لحاظ سے یہ ممکن ہے کہ انسان کی بھلائی کے لئے اسے خرچ کیا جائے اور ہونا بھی ایسے ہی چاہیے لیکن انسان کا دماغ بہک گیا اور عملاً کچھ فائدے اٹھائے اور بہت سارے نقصانات کے سامان پیدا کر دیئے اور بر و بحر میں اس کی وجہ سے ایک فساد پیدا ہو گیا.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دنیا میں جو چیزیں پیدا کی گئی ہیں ان کے صحیح استعمال کے لئے اسلام میں راہنمائی موجود ہے اگر میرے عطایا سے پورا فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اسلام پر پورا عمل کرنا ہو گا.عقل بھی یہی کہتی ہے کہ جو پوراعمل نہیں کرتا وہ پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتا.مثلاً جوشخص پانی سے پورا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ اپنی پیاس بجھانے کے لئے ایک گھونٹ پر اکتفا نہیں کرسکتا اس کو اپنی پیاس بجھانے کے لئے پورا ( کافی ) پانی استعمال کرنا پڑتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم دنیا کی چیزوں سے پورا فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اسلام پر پورا پورا عمل کرو.اگر تم پورا پورا عمل نہیں کرو گے اور وہ طریق اختیار نہیں کرو گے جو اسلام نے تمہیں بتایا ہے تو پھر تم پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتے.اسلام پر پورا عمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی طاقتوں اور قوتوں اور استعدادوں کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیں اور کہیں کہ اے ہمارے رب! تو نے ہمیں جو قو تیں اور صلاحیتیں دی ہیں ہم تیری منشا کے مطابق اور تیری تعلیم کی روشنی میں اور اسلام جونور دنیا کی طرف لے کر آیا ہے اس نور تلے چل کر ان کی نشو و نما کریں گے اور اس سے باہر نہیں جائیں گے.غرض اسلام کو پورے طور پر سمجھنا اور اس پر عمل کرنا حصول مقصد کے لئے اور ہماری جو قو تیں اور استعدادیں ہیں ان کی کمال نشو ونما کے لئے ضروری ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، اسلام کے متعلق فرماتے ہیں:.اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی گردن خدا کے آگے قربانی کے بکرے کی طرح رکھ دینا اور اپنے تمام ارادوں سے کھوئے جانا اور خدا کے ارادہ اور رضا میں محو ہو جانا اور خدا میں گم ہو کر ایک موت اپنے پر وارد کر لینا اور اس کی محبت ذاتی سے پورا رنگ حاصل کر کے

Page 191

خطبات ناصر جلد ہفتم 122 خطبہ جمعہ ۲ ستمبر ۱۹۷۷ء محض محبت کے جوش سے اس کی اطاعت کرنانہ کسی اور بنا پر اور ایسی آنکھیں حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ دیکھتی ہوں اور ایسے کان حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ سنتے ہوں اور ایسا دل پیدا کرنا جو سراسر اس کی طرف جھکا ہوا ہو اور ایسی زبان حاصل کرنا جو اس کے بلائے بولتی ہو.یہ وہ مقام ہے جس پر تمام سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور انسانی قومی اپنے ذمہ کا تمام کام کر چکتے ہیں اور پورے طور پر انسان کی نفسانیت پر موت وارد ہو جاتی ہے تب خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے زندہ کلام اور چمکتے ہوئے نوروں کے ساتھ دوبارہ اس کو زندگی بخشتی ہے اور وہ خدا کے لذیذ کلام سے مشرف ہوتا ہے اور وہ دقیق در دقیق نور جس کو عقلیں دریافت نہیں کر سکتیں اور آنکھیں اس کی گنہ تک نہیں پہنچتیں وہ خود انسان کے دل سے نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے نَحْنُ اَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ( ق : ۱۷) یعنی ہم اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہیں پس ایسا ہی وہ اپنے قرب سے فانی انسان کو مشرف کرتا ہے.تب وہ وقت آتا ہے کہ نابینائی دور ہو کر آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور انسان اپنے خدا کو ان نئی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی آواز سنتا ہے اور اس کی نور کی چادر کے اندر اپنے تئیں لپٹا ہوا پاتا ہے تب مذہب کی غرض ختم ہو جاتی ہے اور انسان اپنے خدا کے مشاہدہ سے سفلی زندگی کا گندہ چولہ اپنے وجود پر سے پھینک دیتا ہے اور ایک نور کا پیراہن پہن لیتا ہے اور نہ صرف وعدہ کے طور پر اور نہ فقط آخرت کے انتظار میں خدا کے دیدار اور بہشت کا منتظر رہتا ہے بلکہ اسی جگہ اور اسی دنیا میں دیدار اور گفتار اور جنت کی نعمتوں کو پالیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ( حم السجدة : ۳۱) یعنی جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا وہ خدا ہے جو جامع صفات کا ملہ ہے جس کی ذات اور صفات میں اور کوئی شریک نہیں اور یہ کہہ کر پھر وہ استقامت اختیار کرتے ہیں اور کتنے ہی زلزلے آویں اور بلائیں نازل ہوں اور موت کا سامنا ہو ان کے ایمان اور صدق میں فرق نہیں آتا ان پر فرشتے اترتے ہیں اور خدا ان

Page 192

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲ ستمبر ۱۹۷۷ء سے ہمکلام ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ تم بلاؤں سے اور خوفناک دشمنوں سے مت ڈرو اور نہ گزشتہ مصیبتوں سے غمگین ہو.میں تمہارے ساتھ ہوں اور میں اسی دنیا میں تمہیں بہشت دیتا ہوں جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا.پس تم اس سے خوش ہو.اب واضح ہو کہ یہ باتیں بغیر شہادت کے نہیں اور یہ ایسے وعدے نہیں کہ جو پورے نہیں ہوئے بلکہ ہزاروں اہلِ دل مذہب اسلام میں اس روحانی بہشت کا مزہ چکھ چکے ہیں.درحقیقت اسلام وہ مذہب ہے جس کے سچے پیروؤں کو خدا تعالیٰ نے تمام گزشتہ راستبازوں کا وارث ٹھہرایا ہے اور ان کی متفرق نعمتیں اس اُمتِ مرحومہ کو عطا کر دی ہیں اور اس نے اس دعا کو قبول کر لیا ہے جو قرآن شریف میں آپ سکھلا ئی تھی اور وہ یہ ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحة: ۷،۶) ہمیں وہ راہ دکھلا جو ان راستبازوں کی راہ ہے جن پر تو نے ہر ایک انعام اکرام کیا ہے یعنی جنہوں نے تجھ سے ہر ایک قسم کی برکتیں پائی ہیں اور تیرے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہوئے ہیں اور تجھ سے دعاؤں کی قبولیتیں حاصل کی ہیں اور تیری نصرت اور مدد اور راہ نمائی ان کے شامل حال ہوئی ہے اور ان لوگوں کی راہوں سے ہمیں بچا جن پر تیرا غضب ہے اور جو تیری راہ کو چھوڑ کر اور اور راہوں کی طرف چلے گئے ہیں.یہ وہ دعا ہے جو نماز میں پانچ وقت پڑھی جاتی ہے اور یہ بتلا رہی ہے کہ اندھا ہونے کی حالت میں دنیا کی زندگی بھی ایک جہنم ہے اور پھر مرنا بھی ایک جہنم ہے اور درحقیقت خدا کا سچا تابع اور واقعی نجات پانے والا وہی ہوسکتا ہے جو خدا کو پہچان لے اور اس کی ہستی پر کامل ایمان لے آوے اور وہی ہے جو گناہ کو چھوڑ سکتا ہے اور خدا کی محبت میں محو ہو سکتا ہے.پس اسلام دنیا میں اس لئے آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی حاصل کرنے کے لئے انسان پورے طور پر اسلام کے احکام کی پابندی کرے اور کوشش کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک فقرہ میں یہ کہا تھا کہ انسان اپنی طاقت سے یہ نہیں کر سکتا اس کے لئے دعا کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرتی ہے اور اس کے لئے اس نور 66

Page 193

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۷۹ خطبہ جمعہ ۲ ستمبر ۱۹۷۷ء.کی ضرورت ہے جو مقبول دعاؤں کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے اور انسانی زندگی کے اندھیروں کو دور کر کے اسے ایک نور عطا کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: - يَايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا.اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیا کرو.وَسَبْحُوهُ بُكْرَةً و اصيلا اور صبح و شام اس کی تسبیح میں لگے رہو.هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمْ یہ ایک بڑا ز بر دست وعدہ ہے اگر آپ اس کی قدر پہچا نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم میرے ذکر میں مشغول رہو گے اور صبح و شام میری تسبیح کرو گے اور تمہارے دلوں کے اندر اسلام حقیقی معنوں میں داخل ہو جائے گا تو هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمْ خدا تعالیٰ کی رحمتیں تم پر نازل ہوں گی.وَ مَلیکتہ اور خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی دعا میں تمہارے ساتھ ہوں گی.اللہ تعالیٰ کی رحمتیں تم پر نازل ہوں گی.اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی طرف سے تمہارے لئے دعائیں مانگی جائیں گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر قسم کے ظلمات سے تمہیں نکال لیا جائے گا اور ایک نور تمہیں عطا کیا جائے گا.وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا ایسے ایمانداروں کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے والے اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والے اور اسلام کو سمجھنے والے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے لوگ ہیں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے معاملہ کیا کرتا ہے.یہ رمضان کا مہینہ دعاؤں کا مہینہ ہے.پس دوست دعائیں کریں کہ جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے ہم اس کے مطابق عمل کرنے والے ہوں.اسلام کے مطابق زندگی گزار کر خدا تعالیٰ سے ہم یہ توفیق پائیں کہ اس کا نور ہمیں مل جائے جس کے نتیجہ میں ہماری زندگیوں سے ہر قسم کے اندھیرے اور ظلمتیں دور ہو جائیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ /نومبر ۱۹۷۷ ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 194

Page 195

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۸۱ خطبہ جمعہ ۹؍ستمبر ۱۹۷۷ء رمضان المبارک کا ہر دن ہی برکتوں اور رحمتوں والا ہے خطبه جمعه فرموده ۹ رستمبر ۱۹۷۷ ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.وَ مَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيّضُ لَهُ شَيْطئًا فَهُوَ لَهُ قَرِينَ - وَإِنَّهُمُ لَيَصُدُّ ونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ.(الزخرف:۳۸،۳۷) اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَنُ فَانْسُهُمْ ذِكْرَ اللهِ أُولَبِكَ حِزْبُ الشَّيْطِنِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ 1299 الشيطن هُمُ الْخَسِرُونَ - (المجادلة:٢٠) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا - وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا - هُوَ الَّذِي يُصَلَّى عَلَيْكُمْ وَمَلَيكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا - تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلامٌ وَاَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا - (الاحزاب : ۴۲ تا ۴۵) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.وقت آتا ہے اور چلا جاتا ہے کسی کا انتظار نہیں کرتا الا ماشاء اللہ.رمضان کا بھی یہی حال ہے.رمضان آیا بہت سی برکتیں لے کر آیا بہت سی عبادات کو اس نے اپنے اندر سمیٹا ہوا ہوتا ہے.

Page 196

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۸۲ خطبہ جمعہ ۹؍ستمبر ۱۹۷۷ء شھر رمضان کا ہر دن ہی برکتوں والا دن ہے.رحمتوں والا دن ہے لیکن رمضان میں جو جمعے آتے ہیں وہ خاص طور پر زیادہ برکتیں اور رحمتیں لے کر آتے ہیں کیونکہ جمعہ کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ اس دن بھی انسان کے لئے ایک گھڑی ایسی آتی ہے ایک ساعت ایسی آتی ہے کہ جب دعا خاص طور پر قبول ہوتی ہے.ہم اس کے یہ معنی بھی کر سکتے ہیں کہ جمعہ کے دن جب خدا کا ایک بندہ خدا کے حضور عاجزی اور ابتہال کے ساتھ دعا کرتا اور دعا کو انتہا تک پہنچا تا ہے تو اس کی تضرع کی انتہا وہ وقت ہے جو اس شخص کے لئے قبولیت دعا کا وقت بن جاتا ہے.رمضان کے مہینے کے متعلق یہ بھی آتا ہے کہ ان دنوں میں شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے اور باندھ دیا جاتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ ماہ رمضان میں ہماری زندگی کے لمحات کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا جاتا ہے.رمضان کی ایک عبادت روزہ ہے پھر نوافل ہیں.عام آدمیوں کے لئے رمضان میں رات کے پہلے وقت میں تراویح کا انتظام ہوتا ہے.تہجد کا اصل وقت تو رات کا پچھلا پہر ہے لیکن ہر شخص کے لئے نہ یہ مکن ہے اور نہ ہر شخص اتنا تربیت یافتہ ہوتا ہے کہ وہ پچھلے پہر خدا کے حضور نوافل ادا کرنے کے لئے جاگے اور اس وقت میں کہ جو صفائی کا وقت ہے جب دماغ بھی صاف ہوتا ہے اور روح سے بھی بہت سی کدورتیں غائب ہو جاتی ہیں وہ عبادت کرے اس لئے دور خلافت اولی میں یہ تراویح رائج ہوئیں.اصل میں تو یہ عبادت انفرادی ہے.بہر حال یہ ایک عبادت ہے جو رمضان میں ادا کی جاتی ہے.بقیہ گیارہ مہینے میں تو تراویح کا انتظام نہیں ہوتا.پھر کہا گیا ہے کہ اپنے بھائیوں کا خیال رکھو ان کے لئے اپنے اموال خرچ کرو.انسان ان کے لئے زیادہ دعائیں کرتا ہے.نیز تسبیح و تحمید کے لئے اسے زیادہ وقت ملتا ہے.غرض رمضان میں بہت سی عبادتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں اور ہمارے وقت کو ان عبادات نے اس طرح گھیرا ہوا ہوتا ہے کہ شیطان کے لئے اس وقت کے اندر داخل ہونا ممکن نہیں رہتا.رمضان میں شیطان کو زنجیر ڈالی جاتی ہے لیکن اصل میں جو زنجیر ڈالی جاتی ہے اس کا ذکر ان آیات میں آیا ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہیں.ان میں سے بعض آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ کیا چیز شیطان کو باندھتی ہے.یہ جو رمضان کا آخری جمعہ ہے اس کے متعلق کچھ غلط تصورات بھی پائے جاتے ہیں اور

Page 197

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۸۳ خطبہ جمعہ ۹ رستمبر ۱۹۷۷ء بہت سے صحیح تصورات بھی ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں بدعات سے محفوظ رکھے تاہم جو حقیقت ہے وہ حقیقت ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ رمضان کے مہینے کا آخری جمعہ رمضان کے مہینے کا آخری جمعہ ہوتا ہے اس کے بعد رمضان میں تو کوئی اور جمعہ نہیں ہوتا.یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے کہ کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا.یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رمضان کے سارے جمعوں میں ہی ( جیسا کہ رمضان کے علاوہ باقی جمعوں میں بھی) ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندوں کی دعاؤں کو خاص طور پر قبول کرتا ہے اور اس طرح یہ ہمارے لئے عید بھی بن جاتے ہیں.جمعہ ہمارے لئے عید کا دن بھی ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو مسلمان جمعہ والے دن چھٹی کرتے ہیں ان کو باقی دنوں کی نسبت جمعہ کے دن زیادہ ذکر الہی کرنے کی توفیق ملتی ہے.ہفتہ اتوار، پیر منگل بدھ اور جمعرات کے دن نوکر پیشہ لوگ اپنی نوکری پر بہت سا وقت گزارتے ہیں جو تجارت پیشہ لوگ ہیں وہ اپنی تجارت میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں اور جن کے دوسرے کاروبار ہیں ان کو سارا تو نہیں لیکن بہت سا وقت رمضان میں بھی اس طرف خرچ کرنا پڑتا ہے لیکن اگر جمعہ چھٹی کا دن ہو تو جمعہ کی تیاری اور جمعہ کی دعاؤں میں وقت گزرتا ہے.قرآن کریم کی زیادہ تلاوت کرنے کا موقع ملتا ہے جو بڑی برکتوں کا موجب ہے.سارے جمعے ہی بہت سی برکتیں لے کر آتے ہیں اور خاص طور پر شھر رمضان میں جمعہ والے دن دوسرے ایام کے مقابلہ میں انسان زیادہ ذکر الہی کر سکتا ہے، بہت سے کرتے ہیں اور سب کو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے.رمضان کا آخری جمعہ اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ اس کے بعد پھر اس سال کے رمضان کا کوئی اور جمعہ نہیں آئے گا.اگلے رمضان میں پھر جمعے آئیں گے لیکن اس سال کے رمضان میں اور کوئی جمعہ نہیں آئے گا اور جمعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ دعا کے قبول ہونے کی ایک گھڑی اس میں بھی آتی ہے اور اس دن زیادہ ذکر الہی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكرِ الرَّحْمَنِ نُقَيْضُ لَهُ شَيْطنا جو شخص رحمن خدا کے ذکر سے منہ موڑتا ہے اس پر ایک شیطان مستولی کر دیا جاتا ہے.فَهُوَ لَهُ قرین اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور شیاطین انسان کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں اور باوجود اس کے کہ شیطان ان کو خدا کی راہ سے روک رہے

Page 198

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۸۴ خطبہ جمعہ ۹؍ستمبر ۱۹۷۷ء ہوتے ہیں یہ لوگ جن کا قرین شیطان ہوتا ہے سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے ہدایت یافتہ ہیں يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّیطن.میں نے پہلے جو آیت پڑھی ہے اس میں یہ کہا گیا تھا کہ جو شخص ذکر رحمن سے منہ موڑتا ہے اس پر ہم شیطان مستولی کر دیتے ہیں جو اس کا قرین بن جاتا ہے اور جس کا قرین شیطان بنتا ہے اس پر وہ آہستہ آہستہ اثر انداز ہوتا ہے اور پھر اس اثر سے اِسْتَحوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَنُ شیطان ان پر غالب آجاتا ہے.فَانسُهُمْ ذَكَرَ اللهِ پہلے تو ان پر کچھ گھڑیاں ذکر کی اور کچھ غفلت کی آتی تھیں اب آہستہ آہستہ غفلت بڑھتی جاتی ہے اور ذکر کم ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ذکر غائب ہوجاتا ہے اور غفلت ہی غفلت طاری رہتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ أُولَبِكَ حِزْبُ الشَّيطن پس وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتے اس کے ذکر سے منہ موڑتے ہیں پہلے شیطان ان کا قرین بنایا جاتا ہے پھر شیطان اپنی کوشش اور اپنے عمل سے ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ وہ ان کو خدا تعالیٰ کی طرف جانے والی راہوں سے روک دیتا ہے اور ان کو اس دھوکے میں ڈالتا ہے کہ وہ بڑے ہدایت یافتہ ہیں.پھر شیطان ان پر غالب آجاتا ہے.اِسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطن اور پھر وہ کلی طور پر ذکر اللہ سے غافل ہو جاتے ہیں اور حزب الشیطن یعنی شیطان کا گروہ بن جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یا درکھو اور اچھی طرح سن لو کہ إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَنِ هُمُ الْخَسِرُونَ شَیطان کا گروہ ہی گھاٹا پانے والا ہے.اس سے ہمیں پتہ لگا کہ رمضان میں شیطان جو باندھا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے مضبوط دھاگوں سے باندھا جاتا ہے اور اگر خدا تعالیٰ کا ذکر رمضان کے بعد کے ایام میں بھی جاری رہے اور باقی گیارہ مہینے جو رمضان کے بعد اگلے رمضان تک ہیں ان میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر میں اسی طرح مشغول رہے جس طرح کہ وہ رمضان میں مشغول رہتا تھا تو گیارہ کے گیارہ مہینے اس کا شیطان بندھا ہوا ہو گا.اس کو حدیث کے محاورہ میں کہا جاتا ہے کہ شیطان مسلمان ہو گیا پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم شیطان سے مخلصی پانا چاہتے ہو خلاصی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے کہ وہ رستے اپنے لئے مہیا کر وجن میں شیطان کو جکڑا جا سکتا ہے اور شیطان خدا تعالیٰ کے ذکر سے جکڑا جاتا ہے اور جب یہ تدبیر نہیں کی جاتی ،

Page 199

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۸۵ خطبہ جمعہ ۹ ستمبر ۱۹۷۷ء جب ذکر اللہ کے ذریعہ سے شیطان کو باندھنے کی کوشش نہیں کی جاتی تو اس وقت شیطان حملہ کرتا ہے اور پھر شیطان اپنا اثر ڈالنا شروع کرتا ہے پھر یہ اثر بڑھتا چلا جاتا ہے پھر انسان ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے پھر وہ حزب الشیطن میں سے بن جاتا ہے اور پھر وہ حقیقی اور ہمیشہ کا گھاٹا پانے والا بن جاتا ہے.توفیق رمضان کا یہ آخری جمعہ ایک لحاظ سے بڑا اہم ہے کیونکہ یہ انسان کو آخری موقع دیتا ہے کہ وہ اس جمعہ میں یہ دعا کرے کہ اے خدا جس طرح تو نے رمضان کے مہینے میں ہمیں اپنے ذکر کی توفیق دی تھی ایسا کر کہ گیارہ کے گیارہ مہینے جو اگلے رمضان سے پہلے آنے والے ہیں ان میں بھی ہمیں اسی طرح تیرے ذکر کی توفیق ملتی رہے اور اس طرح ہمارا شیطان مسلمان ہو جائے ، بندھ جائے ، اس کی Mischief ( مس چیف ) اور اس کی شرارت جاتی رہے.ذکر اللہ کے ساتھ جس وعدے کو باندھا گیا ہے وہ صرف رمضان کے متعلق نہیں.رمضان میں انسان مقبول دعاؤں کی پاتا ہے اور رمضان کی مقبول دعائیں سارے رمضان ہی میں ہیں لیکن خاص طور پر رمضان کے جمعوں میں ہیں اور مقبول دعا کا آخری موقع آخری جمعہ کے دن ہے تو جب رمضان کی مقبول دعاؤں کے نتیجہ میں انسان ذکر اللہ کی ، ذكراً كَثيرا والے ذکر اللہ کی توفیق پاتا ہے، کثرت سے خدا تعالیٰ کا ذکر کرنے کی توفیق پاتا ہے تو اس کا شیطان مسلمان ہو جاتا ہے اور باندھ دیا جاتا ہے پھر اس کی شرارت اثر انداز نہیں ہوسکتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا کہ صبح شام اس کی تسبیح کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا که هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَیكُم تم اس کی رحمتوں کے وارث بنو گے اور اس کے ملائکہ تمہارے لئے دعائیں کریں گے جس کے نتیجہ میں تمہارے اندھیرے دور کر دیئے جائیں گے اور تمہارے لئے نور کے سامان پیدا ہو جا ئیں گے.اللہ تعالیٰ مومنوں کی کوششوں اور ان کی جدو جہد اور مجاہدہ کو ضائع نہیں کرتا.وہ تو مومنوں کے لئے بڑا رحیم ہے.ان کے اعمال کا بدلہ دیتا ہے اور جو خامیاں رہ جاتی ہیں نیک نیتی سے جو اعمال کئے جائیں ان کے اندر بھی بشری کمزوریاں رہ جاتی ہیں ان کو وہ اپنی مغفرت کی چادر کے نیچے ڈھانک دیتا

Page 200

خطبات ناصر جلد ہفتم JAY خطبہ جمعہ ۹؍ستمبر ۱۹۷۷ء ہے.تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَونَهُ سَلم ان کی آخری کامیابی یہ ہے کہ ان کو سلامتی کی شکل میں دعا کا تحفہ ملے گا یعنی ہمیشہ کی زندگی میں وہ خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہوں گے.وَأَعَدَّ لَهُم وو اجرًا كَرِيماً ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے بڑا عزت والا بدلہ تیار کیا ہے.اس عزت والے بدلہ کے لئے جو ان کے لئے تیار کیا گیا ہے ذکر اللہ کی ، ذكرًا كَثِیرًا کی ضرورت ہے اور اسی کے نتیجہ میں انسان ہدایت پاتا ہے نہ یہ کہ شیطان انسان کو صراط مستقیم سے پرے بھی لے جائے اور وہ یہ سمجھتا رہے اور اس وہم میں مبتلا رہے کہ میں ہدایت یافتہ ہوں.پس ضروری ہے کہ شیطان قرین نہ ہو بلکہ شیطان مسلمان ہو جائے اور انسان حزب الشیطان کی بجائے حزب الرحمن یعنی رحمن خدا کے گروہ میں داخل ہو جائے.رحمن جو بغیر ہمارے عمل کے بھی ہم پر رحم کرنے والا ہے جب اس کی رحمانیت اس کی رحیمیت کے ساتھ شامل ہو تو پھر انسان کو ایک ایسا بدلہ ملتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے ان آیات میں اجر کریم فرمایا ہے.غرض آخری جمعہ کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ یہ رمضان کے مہینہ میں آخری جمعہ ہے جس کے بعد اس رمضان میں اور کوئی جمعہ نہیں اور جمعہ وہ دن ہے جس میں خاص طور پر دعاؤں کی قبولیت کا وعدہ دیا گیا ہے اور ہمیں یہ کہا گیا کہ اس جمعہ میں تم اس معرفت کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ شیطان کو ذکر اللہ کے رسوں کے ساتھ باندھا جاتا ہے اور اسی سے رمضان میں شیطان کو باندھا گیا ہے کیونکہ اس میں ایسے مواقع بہم پہنچائے گئے ہیں کہ انسان کثرت سے خدا تعالیٰ کا ذکر کرتا اور اس کے ذکر میں مشغول رہتا ہے.پس یہ آخری جمعہ ماہِ رمضان میں آخری موقعہ ہے جب قبولیت دعا کی حالت میسر آتی ہے.یہ موقعہ ہے کہ تم خدا سے یہ دعا کرو کہ اے خدا ! جس طرح تو ان دنوں میں ذکر اللہ کی ادائیگی کے سامان پیدا کرتا ہے اسی طرح صرف رمضان میں ہی نہیں اور رمضان کے جمعوں میں ہی نہیں بلکہ سارا سال تو ہمیں یہ توفیق عطا کر کہ ہم ہر وقت تیرے ذکر میں مشغول رہنے والے ہوں.ذکر اللہ بڑا ستا سودا ہے.بارہ مہینے انسان روزے نہیں رکھ سکتا اس کا جسم برداشت ہی نہیں کر سکتا.بعض صحابہ نے رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا.بارہ مہینے عبادات کے لئے بھی اتنا وقت نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس نے حسنات دنیا کے لئے بھی وقت

Page 201

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۸۷ خطبہ جمعہ ۹ رستمبر ۱۹۷۷ء خرچ کرنا ہے.اگر وہ خدا کا مومن بندہ ہے تو حسنات دنیا بھی خدا تعالیٰ نے اسی کے لئے پیدا کی ہیں.اسی طرح ہر دوسری عبادت میں نسبتاً تھوڑی یا بہت کمی ہو جاتی ہے.روزہ کے لحاظ سے تو واضح ہے کہ پوری کمی ہو جاتی ہے کیونکہ اس مہینے کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں میں کوئی فرض روزہ نہیں ہے اور کثرت سے نفلی روزے رکھنے کی عام طور پر لوگ کم ہی توفیق پاتے ہیں.بہر حال سارا سال روزے نہیں رکھ سکتے ، یہ ناممکنات میں سے ہے لیکن خدا تعالیٰ کا ذکر آپ ہر وقت کر سکتے ہیں.یہ عادت ڈالنے والی بات ہے.اگر آج آپ عہد کریں تو سارا سال آپ خدا کے ذکر میں مشغول رہیں گے.جمعہ پر مسجد میں آنے کے لئے آپ اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اگر آپ سارا راستہ خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے رہے تو نہ آپ کا کوئی وقت خرچ ہوا نہ آپ کا کوئی پیسہ خرچ ہوا نہ آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں کوئی جسمانی تکلیف اٹھانی پڑی،صرف اپنی روح اور اپنی توجہ کو آپ نے خدا تعالیٰ کے لئے صرف کیا.جب آپ یہاں سے واپس جائیں گے تو خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہیں.سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ پڑھتے رہیں نیز ذکر کے متعلق عربی کے اور بہت سے فقرے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھ کر اس کا ذکر کیا کرو.قرآن کریم میں بھی کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی صفات توحید کے ساتھ شامل کر کے بیان کی گئی ہیں.لَا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (ال عمران : ۷) اور بہت سی آیات میں ان کا ذکر ہے.کبھی صفت پہلے آجاتی ہے اور کبھی بعد میں آتی ہے.لَا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (البقرة : ۲۵۶) صرف خدائے واحد و یگانہ ہے جس کی یہ صفت ہے وہ ربّ ہے، وہ حتی ہے، وہ قیوم ہے.ان صفات کے معانی میں تو میں اس وقت نہیں جاؤں گا یہ بڑالمسبا مضمون ہے اور بڑا حسین اور لطیف مضمون ہے اس پر غور کر کے بڑا لطف آتا ہے.میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ سارا سال آپ خدا تعالیٰ کا اتنا ہی ذکر کر سکتے ہیں جتنا کہ رمضان میں کر سکتے ہیں کیونکہ اس پر وقت خرچ نہیں ہوتا ، اس پر توجہ اور عادت خرچ ہوتی ہے یعنی عادت ڈالنی پڑتی ہے اور توجہ خرچ کرنی پڑتی ہے.

Page 202

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۸۸ خطبہ جمعہ ۹؍ستمبر ۱۹۷۷ء پس یہ آخری جمعہ ہے.جمعہ جو خاص طور پر قبولیت دعا کا دن ہے یہ اس رمضان کا آخری موقعہ ہے کہ آپ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسی طرح ذکر اللہ کی تو فیق عطا کرتا چلا جائے جس طرح کہ اس رمضان میں اس کے فضل سے ہم نے اس کے ذکر کی توفیق پائی اور اس کے نتیجے میں ہم ان فضلوں اور رحمتوں اور رضا کی ان جنتوں کے وارث ہوں جن کا وعدہ اس نے اپنا ذکر کرنے کے نتیجہ میں انسان سے کیا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۱۱ / اکتوبر۱۹۷۷ء صفحه ۲ تا ۴ )

Page 203

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۸۹ خطبہ جمعہ ۱۶ ستمبر ۱۹۷۷ء ہر کام چھوٹا ہو یا بڑا اس کے انجام کا مدار قیوم عالم کی رحمانیت اور رحیمیت ہے خطبه جمعه فرموده ۱۶ رستمبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسان روزانہ ہی مختلف قسم کے کام کرتا ہے مگر جہاں تک علم حاصل کرنے کا تعلق ہے گو انسان ساری عمر ہی علم سیکھتا رہتا ہے لیکن علم سیکھنے کی ایک عمر ہے یعنی کم عمر کے بچے اور نوجوان د نیوی علوم بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں اور دینی علم بھی ان کو سکھایا جارہا ہوتا ہے.پس علم سیکھنا بھی ایک کام ہے.ہوائی جہاز اڑانا بھی ایک کام ہے.ہل چلانا بھی ایک کام ہے.ہزار ہا قسم کے مختلف کام ہیں جو انسان کرتا ہے اور سارا دن ہی کام کرنے میں گزر جاتا ہے الا ماشاء اللہ.بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سکتے بیٹھے رہنے کے عادی ہوتے ہیں لیکن عام طور پر انسان کو کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے اور وہ لوگ جو دعاؤں میں اپنا وقت گزارنے والے ہیں دعا بھی ایک کام ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تدبیر دعا ہے اور دعا تد بیر ہے.پس بیسیوں بلکہ سینکڑوں کام ہیں جو ہم روزانہ کرتے ہوں گے.کوئی کام چھوٹا ہوتا ہے اور کوئی کام بڑا ہوتا ہے.کوئی کام کم اہمیت کا ہوتا ہے اور کوئی کام زیادہ اہمیت کا ہوتا ہے.انسانی زندگی ایک مسلسل عمل اور جدو جہد کا نام ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع میں ہمیں سکھایا ہے کہ ہر عمل سے

Page 204

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۹۰ خطبہ جمعہ ۱۶ رستمبر ۱۹۷۷ء پہلے وہ چھوٹا ہو یا بڑا اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنی چاہیے.دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مدد فرمائے اور جو کام کرنا ہے وہ برکتوں والا ہوا چھے نتائج نکلیں.اس میں انسان کامیاب ہو جائے اور بعض کام بڑے ذی شان ہوتے ہیں ان کے لئے خصوصاً زیادہ دعا ئیں کرنی پڑتی ہیں.چھوٹے بچوں اور بڑوں کو بھی سمجھانے کے لئے میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں.انسان کھانا کھاتا ہے یہ بھی اس کا ایک عمل ہے مگر یہ عمل ہے ہمارے دانتوں کا.یہ عمل ہے ہماری زبان کا.یہ عمل ہے ہمارے ہونٹوں کا.مُنہ کا سارا حصہ لقے کو ایک چکر دے رہا ہوتا ہے اور انسان کے دانت اسے چبا رہے ہوتے ہیں.پھر وہ غذا معدے میں جاتی ہے وہاں اُس پر ایک عمل ہوتا ہے پھر وہ انتڑیوں میں پہنچتی ہے وہاں ایک اور عمل ہوتا ہے.غرض انسان کھانا کھانے سے ایک عمل کی ابتداء کرتا ہے تو اس کے لئے بھی خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کی ہدایت دی گئی ہے لیکن سب سے اہم کام قرآن کریم سیکھنا ہے اور اس کے علوم حاصل کرنے ہیں اور قرآن کریم کے اسرار سے واقفیت پیدا کرنی ہے اور قرآن کریم پر عمل کرنے کی توفیق اپنے رب سے چاہتی ہے.چنانچہ قرآن کریم کو شروع کیا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ سے.خدائے رحمان اور خدائے رحیم سے یہ دعا مانگی گئی ہے کہ وہ اپنی رحمانیت کے نتیجہ میں بھی اور رحیمیت کے نتیجہ میں بھی ہمیں قرآن کریم سیکھنے اور اس پر ایسا عمل کرنے کی توفیق دے جس کے اچھے نتا ئج نکلیں.رحمانیت کے معنی ہیں بغیر عمل کے رحمت کرنے والا.انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو دماغ دیا ہے وہ گوفر دفرد کے لحاظ سے مختلف استعدادوں والا ہے لیکن ہر قسم کے دماغ کے لئے قرآن کریم میں تعلیم موجود ہے.پیدائش کے وقت بچے کے سر میں دماغ ہوتا ہے اس سے اس کا تعلق ہوتا ہے مگر یہ اس کے کس عمل کا نتیجہ ہے؟ ظاہر ہے اس کے کسی عمل کا نتیجہ نہیں ہے.ہم جو گندم کھاتے ہیں یا دوسرے اناج کھاتے ہیں ان کے اگانے کے لئے زمین ہے.ہماری پیدائش سے بھی خدا جانے کتنا زمانہ پہلے اس کی پیدائش ہو چکی تھی.ہر دو جہاں کا ایک نظام ہے جو آہستہ آہستہ Develop ہوا ہے اور ارتقائی مدارج سے گزرتے ہوئے اس مقام تک پہنچا کہ زمین انسانی زندگی کو برداشت کرنے لگی اور انسان کی ترقیات کے سامان پیدا کرنے لگی.یہ سب رحمانیت

Page 205

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۹۱ خطبہ جمعہ ۱۶ رستمبر ۱۹۷۷ء کے فیض ہیں انسان کے عمل کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کی رحمت بارش کی طرح اس کے اوپر برس رہی ہے.پھر رحیمیت ہے.انسان کام کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کا نتیجہ نکالتا ہے لیکن بیبیوں آدمی کام کرتے ہیں مگر بے نتیجہ ہوتے ہیں.مثلاً مشہور ہے کہ بعض لوگ مٹی کو ہاتھ لگا ئیں تو وہ سونا بن جاتی ہے اور بعض لوگ سونے کو ہاتھ لگا ئیں تو وہ مٹی بن جاتا ہے کیونکہ ان کے کام میں برکت نہیں ہوتی.برکت تو آسمان سے آتی ہے.چنانچہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اور کامل شریعت کے نزول کے بعد قرآن کریم کی تلاوت جو انسانی زندگی کا سب سے اہم کام ہے اسے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ سے شروع کیا.خدا تعالیٰ سے مدد چاہی قرآن کریم سیکھنے کی ، اسے سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت تھی اس کے لئے دعا مانگی.آج کا فلسفی بیوقوفی سے جاہلانہ طور پر بہت سے اعتراض کرتا ہے.اس تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاؤں گا میں اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک لمبا حوالہ پڑھ کر دوستوں کو بتا نا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ جو ہدایت کی ہے کہ ہر عمل خصوصاً ذی شان اعمال میں سے کوئی عمل کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ سے مدد طلب کیا کرو تا کہ انسان اپنی کوششوں میں نا کام نہ ہو جائے ، اس لئے دوست اس حوالے کو غور سے سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.پس صادق آدمی جس کے رُوح میں کسی قسم کے غرور اور عجب نے جگہ نہیں پکڑی اور جو اپنے کمزور اور بیچ اور بے حقیقت وجود پر خوب واقف ہے اور اپنے تئیں کسی کام کے انجام دینے کے لائق نہیں پاتا اور اپنے نفس میں کچھ قوت اور طاقت نہیں دیکھتا جب کسی کام کو شروع کرتا ہے تو بلاتصنع اس کی کمزور روح آسمانی قوت کی خواستگار ہوتی ہے اور ہر وقت اس کو خدا کی مقتدر ہستی اپنے سارے کمال و جلال کے ساتھ نظر آتی ہے اور اس کی رحمانیت اور رحیمیت ہر ایک کام کے انجام کے لئے مدار دکھلائی دیتی ہے.پس وہ بلا ساختہ اپنا ناقص اور ناکارہ زور ظاہر کرنے سے پہلے بسم اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ کی دعا سے امداد الہی چاہتا ہے.پس اس انکسار اور فروتنی کی وجہ سے اس لائق ہو جاتا ہے کہ خدا کی قوت سے

Page 206

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۹۲ خطبہ جمعہ ۱۶ رستمبر ۱۹۷۷ء قوت اور خدا کی طاقت سے طاقت اور خدا کے علم سے علم پاوے اور اپنی مرادات میں کامیابی حاصل کرے.اس بات کے ثبوت کے واسطے کسی منطق یا فلسفہ کے دلائل پر از تکلف درکار نہیں ہیں بلکہ ہر یک انسان کی رُوح میں اس کے سمجھنے کی استعداد موجود ہے اور عارف صادق کے اپنے ذاتی تجارب اس کی صحت پر بہ تواتر شہادت دیتے ہیں.بندہ کا خدا سے امداد چاہنا کوئی ایسا امر نہیں ہے جو صرف بے ہو دہ اور بناوٹ ہو یا جوصرف بے اصل خیالات پر مبنی ہو اور کوئی معقول نتیجہ اس پر مترتب نہ ہو بلکہ خداوند کریم کہ جو فی الحقیقت قیوم عالم ہے اور جس کے سہارے پر سچ مچ اس عالم کی کشتی چل رہی ہے اس کی عادت قدیمہ کے رو سے یہ صداقت قدیم سے چلی آتی ہے کہ جو لوگ اپنے تئیں حقیر اور ذلیل سمجھ کر اپنے کاموں میں اس کا سہارا طلب کرتے ہیں اور اس کے نام سے اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں تو وہ ان کو اپنا سہارا دیتا ہے.جب وہ ٹھیک ٹھیک اپنی عاجزی اور عبودیت سے رو بخدا ہو جاتے ہیں تو اُس کی تائید میں ان کے شامل حال ہو جاتی ہیں.غرض ہر ایک شاندار کام کے شروع میں اس مبدء فیوض کے نام سے مدد چاہنا کہ جو رحمان و رحیم ہے ایک نہایت ادب اور عبودیت اور نیستی اور فقر کا طریقہ ہے اور ایسا ضروری طریقہ ہے کہ جس سے توحید فی الاعمال کا پہلا زینہ شروع ہوتا ہے جس کے التزام سے انسان بچوں کی سی عاجزی اختیار کر کے ان نخوتوں سے پاک ہو جاتا ہے کہ جو دنیا کے مغرور دانشمندوں کے دلوں میں بھری ہوتی ہیں اور پھر اپنی کمزوری اور امداد الہی پر یقین کامل کر کے اس معرفت سے حصہ پالیتا ہے کہ جو خاص اہل اللہ کو دی جاتی ہے اور بلا شبہ جس قدر انسان اس طریقہ کو لازم پکڑتا ہے جس قدر اس پر عمل کرنا اپنا فرض ٹھہرالیتا ہے.جس قدر اس کے چھوڑنے میں اپنی ہلاکت دیکھتا ہے اسی قدر اس کی توحید صاف ہوتی ہے اور اسی قدر تعجب اور خود بینی کی آلائشوں سے پاک ہوتا جاتا ہے اور اسی قدر تکلف اور بناوٹ کی سیاہی اس کے چہرہ پر سے اٹھ جاتی ہے اور سادگی اور بھولا پن کا نور اس کے منہ پر چمکنے لگتا ہے.پس یہ وہ صداقت ہے کہ جو رفتہ رفتہ انسان کو فنافی اللہ کے مرتبہ تک پہنچاتی ہے.

Page 207

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۹۳ خطبہ جمعہ ۱۶ ستمبر ۱۹۷۷ء یہاں تک کہ وہ دیکھتا ہے کہ میرا کچھ بھی اپنا نہیں بلکہ سب کچھ میں خدا سے پاتا ہوں.جہاں کہیں یہ طریق کسی نے اختیار کیا وہیں تو حید کی خوشبو پہلی دفعہ میں ہی اس کو پہنچنے لگتی ہے اور دل اور دماغ کا معطر ہونا شروع ہوتا جاتا ہے بشرطیکہ قوت شامہ میں کچھ فساد نہ ہو.غرض اس صداقت کے التزام میں طالب صادق کو اپنے پیچ اور بے حقیقت ہونے کا اقرار کرنا پڑتا ہے اور اللہ جل شانہ کے متصرف مطلق اور مبدء فیوض ہونے پر شہادت دینی پڑتی ہے اور یہ دونوں ایسے امر ہیں کہ جو حق کے طالبوں کا مقصود ہے اور مرتبہ فنا کے حاصل کرنے کے لئے ایک ضروری شرط ہے.اس ضروری شرط کے سمجھنے کے لئے یہی مثال کافی ہے کہ بارش اگر چہ عالمگیر ہومگر تا ہم اس پر پڑتی ہے کہ جو بارش کے موقعہ پر آ کھڑا ہوتا ہے.اسی طرح جو لوگ طلب کرتے ہیں وہی پاتے ہیں اور جو ڈھونڈتے ہیں انہیں کو ملتا ہے.جو لوگ کسی کام کے شروع کرنے کے وقت اپنے ہنر یا عقل یا طاقت پر بھروسہ رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ پر بھروسہ نہیں رکھتے وہ اُس ذات قادر مطلق کا کہ جو اپنی قیومی کے ساتھ تمام عالم پر محیط ہے کچھ قدر شناخت نہیں کرتے اور ان کا ایمان اس خشک ٹہنی کی طرح ہوتا ہے کہ جس کو اپنے شاداب اور سرسبز درخت سے کچھ علاقہ نہیں رہا اور جو ایسی خشک ہو گئی ہے کہ اپنے درخت کی تازگی اور پھول اور پھل سے کچھ بھی حصہ حاصل نہیں کر سکتی صرف ظاہری جوڑ ہے جو ذراسی جنبش ہوا سے یا کسی اور شخص کے ہلانے سے ٹوٹ سکتا ہے.پس ایسا ہی خشک فلسفیوں کا ایمان ہے کہ جو قیومِ عالم کے سہارے پر نظر نہیں رکھتے اور اُس مبدء فیوض کو جس کا نام اللہ ہے ہر ایک طرفۃ العین کے لئے اور ہر حال میں اپنا محتاج الیہ قرار نہیں دیتے.پس یہ لوگ حقیقی توحید سے ایسے دور پڑے ہوئے ہیں جیسے نور سے ظلمت دُور ہے.انہیں یہ سمجھ ہی نہیں کہ اپنے تئیں بیچ اور لاشے سمجھ کر قادر مطلق کی طاقت عظمی کے نیچے آپڑ نا عبودیت کے مراتب کی آخری حد ہے اور توحید کا انتہائی مقام ہے جس سے فنا اتم کا چشمہ جوش مارتا ہے اور انسان اپنے نفس اور اس کے ارادوں سے بالکل کھویا جاتا ہے اور سچے دل سے خدا کے تصرف پر ایمان لاتا ہے.اس جگہ اُن خشک فلسفیوں کے اس مقولہ

Page 208

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۹۴ خطبہ جمعہ ۱۶ رستمبر ۱۹۷۷ء 1066 کو بھی کچھ چیز نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو کہتے ہیں کہ کسی کام کے شروع کرنے میں استمداد الہی کی کیا حاجت ہے.خدا نے ہماری فطرت میں پہلے سے طاقتیں ڈال رکھی ہیں پس اُن طاقتوں کے ہوتے ہوئے پھر دوبارہ خدا سے طاقت مانگا تحصیل حاصل ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ بے شک یہ بات سچ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے بعض افعال کے بجالانے کے لئے کچھ کچھ ہم کو طاقتیں بھی دی ہیں مگر پھر بھی اس قیوم عالم کی حکومت ہمارے سر پر سے دور نہیں ہوئی اور وہ ہم سے الگ نہیں ہوا اور اپنے سہارے سے ہم کو جدا کرنا نہیں چاہا اور اپنے فیوض غیر متناہی سے ہم کو محروم کر نا روا نہیں رکھا.جو کچھ ہم کو اس نے دیا ہے وہ ایک امر محدود ہے اور جو کچھ اس سے مانگا جاتا ہے اس کی نہایت نہیں.پس اگر تو ہم نے وہیں ٹھہرنا ہو جہاں تک ہماری اپنی طاقت ہمیں اپنی ہزار کمزوریوں اور غلطیوں کے باوجود پہنچا سکتی ہے تو ایک فلسفی خوش ہو سکتا ہے لیکن یہ خوشی اسے ہی مبارک ہو.خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ جسے یہ بصیرت عطا کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو غیر متناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے، وہ محدود پر مطمئن نہیں رہ سکتا اس لئے وہ کام میں تدبیر کے وقت بھی اور دعا کے وقت بھی خدا تعالیٰ سے جو مانگتا ہے وہ غیر متناہی اور غیر محدود ہوتا ہے اور ہر اس انسان کو جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مہدی کی جماعت کی طرف منسوب ہوتا ہے اس غیر محدود کی طرف نگاہ رکھنی چاہیے اور خدا سے بے انتہا مانگنا چاہیے اور اس کے لئے ہر کام سے پہلے اس کی مدد حاصل کرنی چاہیے.اس کی برکت لینی چاہیے اور اس کی دعا سے اپنے کاموں کو شروع کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ سے ہماری یہ دعا ہے کہ وہ ہمارے تھوڑے کو بہت کر دے اور ہمارے کم کو زیادہ کر دے اور ہماری کمزوری کو طاقت بنادے اور ہماری غفلت کو بیداری میں تبدیل کر دے.خدا کرے کہ خدا کے ایک نیک اور صادق اور خدا کی معرفت رکھنے والے بندہ کے جو اعمال ہوتے ہیں اس کے مطابق ہم سے اعمال سرزد ہوں.روزنامه الفضل ربوه ۲۴/اکتوبر ۱۹۷۷ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 209

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۹۵ خطبہ جمعہ ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۷۷ء رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت نے دنیا کی ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۳ ر ستمبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَحمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف:۱۵۷) کہ میری رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.نیز ہر چیز جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی اور جس کا اس کی ربوبیت نے اور اس کی رحمت نے احاطہ کیا ہوا ہے وہ انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے اور انسانِ کامل کو پیدا کرنا مقصود تھا یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو.چونکہ ہر چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے اس لئے اَسْبَغَ عَلَيْكُم نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (القمن: ۲۱) کہ ظاہر و باطن کی نعمتیں بڑی کثرت کے ساتھ انسان پر نازل ہوتی ہیں اور وہ گئی نہیں جاسکتیں.دوسری جگہ آیا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے.اس رحمت کو ظاہر کرنے کے لئے اور ایسے سامان پیدا کرنے کے لئے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ان وسیع رحمتوں کا عرفان حاصل کرے ایک ایسی ہستی ایک ایسا انسان پیدا کیا گیا جس کو کامل استعداد میں دی گئیں جو پورے طور پر نشو و نما حاصل کر چکی تھیں.وہ انسان کی طرف بھیجا گیا تا کہ انسان کو بتایا جائے کہ جب خدا کا کوئی بندہ خدا کا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ سلوک یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز جو خدا نے پیدا کی ہے وہ اسی کی ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی

Page 210

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۹۶ خطبہ جمعہ ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۷۷ء اتنی رحمتیں اور اتنے فضل اور انعام اس بندے پر نازل ہوتے ہیں کہ جن کا حد وشمار نہیں.اسی غرض کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا گیا اور کہا گیا کہ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء : ۱۰۸) ہم نے تجھے عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.یہ فقرہ تو بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے معانی نے بھی دنیا کی ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام پہچاننے کے لئے اور آپ کی عظمت اور آپ کے جلال کو جاننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے ذہن میں یہ بات حاضر ہو کہ آپ کس معنی میں اور کن کے لئے رحمت ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی شکل میں جو تعلیم آپ کے ذریعہ انسان کو دی جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں وہ عجیب کتاب نظر آتی ہے جسے ہم قرآنِ عظیم کہتے ہیں یا ہم قرآن کریم کہتے ہیں یا ہم قرآن مجید کہتے ہیں.ہر بات جس کی انسان کو ضرورت تھی، جس کے نتیجہ میں انسان نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا علم حاصل کرنا تھا اور ان سے حصہ لینا تھا، وہ راہیں جن پر چل کر انسان نے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا تھا وہ سب اس عظیم کتاب میں بیان ہوگئی ہیں.قرآن کریم نے جو یہ کہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمينَ بنا کر بھیجا گیا ہے.مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ یہ کس معنی میں ہے کیونکہ اصل مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمتوں اور اس کی عظیم صفات کا اس کی کبریائی اور جلال اور عظمت کا عرفان دیا جائے اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں یہ علم ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس معنی میں رحمت ہو کر آئے.قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت اس کی دوصفات کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے، ایک اس کی رحمانیت ہے اور دوسرے اس کی رحیمیت ہے.خدا رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے.اس کی رحمان ہونے کی صفت کا ربوبیت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.دنیا کی ہر چیز جس کو پیدا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پرورش کرتا ہے اور ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ وہ انسان کے لئے فائدہ مند بن جائے کیونکہ ہر چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم اور آپ کا وجود بے جان چیزوں کے لئے بھی رحمت ہے.ایک تو جاندار چیزیں ہیں جن میں چوپائے بھی ہیں، پرندے بھی ہیں، چرند بھی ہیں اور انسان بھی ہیں اور ایک بے جان

Page 211

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۹۷ خطبہ جمعہ ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۷۷ء چیزیں ہیں مثلاً ستارے ہیں، ہیلیکسیز (Galaxies) ہیں ، درخت ہیں، پانی ہے، اجناس ہیں وغیرہ وغیرہ بے شمار چیزیں ہیں.قرآن کریم کی تعلیم نے بے جان چیزوں کے حقوق کو بھی بیان کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی اس ہدایت کے ذریعہ سے ان حقوق کی حفاظت بھی کی گئی ہے.پس آپ کی رحمت بھی خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی وسعتوں کے ماتحت ہے.انسان خدا تعالیٰ کی وسعتوں کو تو نہیں پہنچ سکتا لیکن اپنے کمال کو پہنچا ہوا انسان جتنا کامل بن سکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کمال کو حاصل کیا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت نے ہر چیز کا حق بتایا بھی اور اس کی حفاظت بھی کی.بنیادی طور پر قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہر چیز کا یہ حق ہے کہ جس غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے اس کا استعمال نہ کیا جائے.ہر مخلوق کا یہ حق اسلام نے قائم کیا ہے اور اسلامی تعلیم نے اس کی حفاظت کی ہے.مثلاً فرمایا لا تُسْرِفُوا (الاعراف: ۳۲) اسراف نہ کرو.اسراف کے معنی ہی خدا تعالیٰ کے قانون کی حدود سے تجاوز کرنا ہیں.پس اس کے یہی معنی بنتے ہیں کہ ہر چیز کے متعلق خدا تعالیٰ نے کچھ قانون بنائے ہیں ان کی پیدائش کی کوئی غرض بیان کی ہے.اس کے خلاف تم نے اس کو استعمال نہیں کرنا.انسان جب بہکتا ہے اور بسا اوقات بہکتا اس وقت زیادہ ہے جب وہ علم کے میدان میں اور تحقیق کے میدان میں کافی آگے نکل چکا ہو تو وہ دنیا کے لئے عذاب اور ہلاکت کے سامان پیدا کر دیتا ہے جیسا کہ ایٹم کی طاقت کا غلط استعمال ہمیں بتارہا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اشیا کے لئے بھی رحمت ہیں کیونکہ آپ ایک ایسی تعلیم لے کر آئے جس نے انسان کو یہ بتایا کہ دیکھو یہ اشیاء خاص غرض کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور ان اغراض کے لئے ہی ان کا استعمال ہونا چاہیے اور جو قوانین ان کو Govern ( گورن) کرنے والے ہیں ان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے.اس کے بعد ہم جانداروں کو لیتے ہیں.یہ ایسی عظیم کتاب ہے کہ اس نے جانداروں کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور ان کی حفاظت بھی کی ہے.بعض جاندار ایسے ہیں کہ جن کی افادیت ان کی غذائیت میں نہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لئے نہیں پیدا کیا کہ انسان ان کو کھائے.مثلاً

Page 212

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۱۹۸ خطبہ جمعہ ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۷۷ء سور ہے یا درندے ہیں.پس خدا تعالیٰ نے ، اسلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے ہمیں کہا کہ ایسے جاندار جن کی افادیت ان کے کھانے میں نہیں بلکہ اور چیزوں میں ہے تو جس غرض کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے اس غرض کے لئے ان کو استعمال کرو.( یہ بڑا لمبا مضمون ہے سانپوں کے متعلق مکھیوں کے متعلق اسی طرح دیگر چیزوں کے متعلق بہت گفتگو کی جاسکتی ہے تھوڑی بہت میں بھی کر سکتا ہوں لیکن اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا.) اسلامی تعلیم یہ ہے کہ خدا کے قانون کو توڑنا نہیں، حدود سے تجاوز نہیں کرنا، اسراف نہیں کرنا.اسی طرح جو چیزیں انسان کے کھانے کے لئے بنائیں ان کے متعلق بھی کہا کہ اسراف نہیں کرنا.کھانے کے لحاظ سے اسراف کئی طور پر ہوسکتا ہے، جسم کی ضرورت سے زیادہ کھانا بھی اسراف ہے.( جسم کی ضرورت سے کم کھانا بھی منع ہے لیکن زیادہ کھانا اسراف اور ضیاع ہے.) اور ایک اسراف اس طور پر ہوتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہوئے اغذیہ یعنی غذاؤں میں سے بعض کو اپنی غفلت اور نالائقی کی وجہ سے اور بے پرواہی کی وجہ سے ضائع کر دے اور تلف کر دے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی پلیٹ میں اتنا ہی سالن ڈالا کرو کہ ایک لقمے کا سالن بھی ضائع نہ ہو.کھانے والی چیزوں میں میں نے جو سالن کی مثال لی ہے یہ غیر جاندار چیزوں پر بھی اطلاق پاتی ہے لیکن گائے کا گوشت ہے، اونٹ کا گوشت ہے، دنبے کا گوشت ہے ان کا بھی سالن پکتا ہے.پھر کہا کہ جنگلوں میں جو آزاد جانور رہتے ہیں تم محض شوقیہ ان کا شکار نہ کیا کرو کہ تمہیں ضرورت تو نہیں ، شکار کرو اور پھر پھینک دو اس سے منع کیا.کہا کہ جتنے کی ضرورت ہے اتنا شکار کرو کیونکہ وہ پیدا ہی انسانی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کئے گئے ہیں.پھر جو پالے ہوئے جانور ہیں مرغیاں اور دوسری چیزیں ہیں ان کو دکھ دینے سے آپ نے بڑی سختی سے منع کیا.ہر جاندار کے متعلق کہا کہ ان کی تکلیف کو دور کرنا ہے، جانداروں کے متعلق ، غیر انسان کے متعلق یہ تعلیم دی.کتے اور بلی تک کے متعلق کہہ دیا کہ ان کا خیال رکھنا بڑے ثواب کا کام ہے.گھر کے پالتو جانوروں کے متعلق کہا کہ ذبح کرتے وقت بھی اس بات کا خیال رکھو کہ ان کو تکلیف نہ ہو کم سے کم تکلیف میں ان کی جان نکلے کیونکہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ انسان ان کو کھائے اسی لئے ان کو پیدا کیا

Page 213

خطبات ناصر جلد ہفتم ۱۹۹ 69 خطبہ جمعہ ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۷۷ء گیا ہے لیکن ان کو تکلیف پہنچا کر تو انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.غرض اس معنی میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ ہیں.پھر انسان ہے، بنی نوع انسان ان میں کافر بھی ہیں اور مومن بھی ہیں.خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا تعلق کا فر سے بھی ہے اور اس کے جلوے کا فر دیکھتا ہے اور اس کی رحمانیت کا تعلق مومن سے بھی ہے اور اس کے جلوے مومن دیکھتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ کی حیثیت سے رحمانیت کے بھی مظہر کامل ہیں.چنانچہ اسلامی تعلیم ایک غیر مومن کے (جو ابھی اسلام نہیں لایا ) حقوق کو قائم بھی کرتی ہے اور ان کی حفاظت بھی کرتی ہے.میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے کہ اس وقت کی مہذب دنیا کا مزدور اپنے حقوق کے حصول کے لئے جد و جہد تو کر رہا ہے لیکن اسے اپنے حقوق کا علم نہیں نہیں جانتا میرا حق ہے کیا ؟ یہ قرآنی ہدایت کا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ہے کہ آپ نے انسان کو بتایا کہ تیرا حق کیا ہے اور پھر تعلیم دی کہ یہ حقوق بہر حال ادا ہونے چاہئیں لیکن انسان صرف مزدور کی حیثیت میں تو اس دنیا میں زندگی نہیں گزارتا.یہ ایک ایسا جاندار ہے جو گہرے جذبات رکھتا ہے.چنانچہ انسان مومن ہو یا کافر اس کے جذبات کا خیال رکھا اور ان میں کوئی تفریق پیدا نہیں کی.بعض دوسرے مذاہب نے بعض باتوں میں تفریق کی ہے لیکن اسلام نے انسان انسان میں کوئی تفریق پیدا نہیں کی.جہاں تک انسانی جذبات کا تعلق ہے مومن اور کافر میں فرق نہیں.انسانی جذبات برابر ہیں ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے خواہ مخواہ طعن و تشنیع نہ کی جائے.ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ بلا وجہ اس کے فضول القاب نہ رکھے جائیں، برے نام نہ رکھے جائیں.خدا تعالیٰ نے یہ قید لگائے بغیر کہ وہ مسلمان ہے یا کافر یہ کہا کہ انسان کے بڑے بڑے نام نہیں رکھنے.بڑے نام رکھنے سے اور طعن و تشنیع کرنے سے منع کیا.خواہ کوئی مومن کے نام رکھے تب بھی برا اور اسلامی تعلیم کے خلاف اور کافر کے نام رکھے تب بھی برا اور بیسیوں مثالیں ہیں.لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمُ اور لَا تَنَابَزُوا بِالْاَلْقَابِ (الحجرات : ۱۲) کے علاوہ فرمایا وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ (الحج: ۳۱) کہ جھوٹ نہیں بولنا.یہ نہیں کہا کہ مسلمان کے خلاف جھوٹ نہیں بولنا بلکہ اسلام نے کہا کہ کسی کے خلاف بھی جھوٹ نہیں بولنا اور ہر ایک کے حق میں اور

Page 214

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۰۰ خطبہ جمعہ ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۷۷ء ہر ایک کے متعلق سچی بات کہنی ہے، جھوٹ ہرگز نہیں بولنا.پھر اسلام نے کہا کہ وَمَنْ يَكْسِبُ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيَّا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَ إِثْمًا مُّبِينًا (النساء : ۱۱۳) کسی انسان پر بہتان نہیں باندھنا.اسلام نے یہ نہیں کہا کہ کسی مسلمان پر بہتان نہیں باندھنا بلکہ کہا کہ یہ کسی انسان پر بہتان نہیں باندھنا.انسان کے حقوق کی حفاظت کی کہ اس نے جو قصور نہیں کئے خواہ مخواہ اس پر بہتان لگا کر یہ نہ کہا جائے کہ اس نے یہ قصور کیا ہے یا گناہ کیا ہے.پھر اسلام کہتا ہے کہ انصاف پر قائم رہتے ہوئے سچی گواہی دینی ہے.كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ (النساء : ۱۳۶) اسلام یہ نہیں کہتا کہ مسلمان کے حق میں سچی گواہی دینی ہے اور کافر کے خلاف بے شک جھوٹی گواہی دے دو.اسلام کی یہ تعلیم نہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ ہیں مومن اور کا فرسب کے حقوق کی حفاظت کی ہے.پھر اسلام کہتا ہے کہ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى اَلا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدة : 9 ) اسلام کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ عدل اور انصاف کو قائم رکھنا ہے.اسلام یہ نہیں کہتا کہ اگر کوئی غیر مومن ہے اور غیر مسلم ہے تو اس پر ظلم کرنا جائز ہے بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ جتنا ایک مسلمان پر ظلم کرنا برا ہے اتنا ہی غیر مسلم پر ظلم کرنا بُرا ہے اور خدا تعالیٰ کو نا پسندیدہ ہے اور گناہ ہے اور خدا تعالیٰ کے غضب کو مول لینے والی بات ہے.قف بعض مذاہب کی طرح اسلام یہ نہیں کہتا کہ مومن یا مسلمان سے سود نہ لے، اسلام یہ کہتا ہے کہ کسی سے بھی سود نہ لے خواہ وہ عیسائی ہو یا یہودی ہو یا ہندو ہو یا سکھ ہو یا کوئی بد مذہب ہو، کمیونسٹ ہو.شود کسی سے بھی نہیں لینا.میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا میں ہر چیز کی چھوٹی چھوٹی مثالیں دے رہا ہوں.جس وقت بعض قو میں کسی علاقہ پر غالب آجاتی ہیں تو وہ یہ بھی کیا کرتی ہیں کہ شود کے ذریعہ سے استحصال دولت کرتی ہیں تو اسلام نے یہ نہیں کہا کہ شود کے ذریعہ سے دولت سمیٹنے کے لئے غیروں کو نشانہ نہ بناؤ بلکہ یہ کہا کہ کسی سے بھی سود نہیں لینا.پھر اسلام یہ نہیں کہتا کہ مسلمان کو گالی نہیں دینی بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ غیر مسلم کو بھی جو اسلام پر ایمان نہیں لا یا اس کو بھی

Page 215

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۷۷ء گالی نہیں دینی ، ان کے خداؤں کو بھی گالی نہیں دینی.شرک ہے یہ اتنا بڑا ظلم ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ ان کے بتوں کو بھی گالی نہیں دینی.پس اسلام نے انسان کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور انسان کے حقوق کی حفاظت بھی کی ہے.میں نے چند مثالیں دی ہیں ورنہ سارا قرآن کریم اس سے بھرا ہوا ہے.میں جب ۱۹۶۷ ء میں لندن گیا تو ایک جگہ کچھ غیر مسلم اکٹھے ہوئے تھے اور مجھے وہاں تقریر کرنی پڑی.میں نے سوچا کہ ان کو یہی باتیں بتاؤں.چنانچہ میں نے ۱۰،۸ با تیں لیں اور ان کو بتایا کہ تم اگر چہ اسلام پر ایمان نہیں لاتے مگر اسلام پھر بھی تمہارے جذبات کی اور تمہارے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور ان کو مثالیں دے کر بتایا.اسلامی تعلیم بہر حال مؤثر ہے اور اس کا ان پر اثر ہوا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے جان چیزوں کے لئے بھی رَحْمَةٌ لِلعلمین ہیں اور جانداروں کے لئے بھی اور کافروں کے لئے بھی رَحْمَةٌ لِلعلمین ہیں اور مومنوں کے لئے بھی.اب ہم انسانی حقوق سے آگے بڑھ کر اور بلند ہو کر روحانی حقوق میں داخل ہوتے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روحانی میدانوں میں انسان کے لئے اس قدر روحانی ترقیات کے دروازے کھولے ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں.روحانی ترقیات میں پہلی بات جو انسان کا دماغ سوچتا ہے مثلاً اگر کسی عیسائی یا ہندو کو اسلام کی صداقت سمجھ آ جائے تو پہلی بات وہ یہ سوچے گا کہ پچاس سال میری عمر ہو گئی میں بتوں کو پوجتا رہا ، شرک کرتا رہا، کبیرہ گناہ میں نے کئے ، لوگوں کے میں نے حقوق مارے، انسانوں پر ظلم کئے، بداخلاقیاں کیں ، غلط طریق سے مال اکٹھے کئے ،شود کے ذریعہ سے پیسہ سمیٹا، اس قدر گناہ ہیں کہ ان کا کوئی شمار نہیں.گناہوں کی یہ گٹھڑیاں اٹھا کر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤں تو میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا ؟ مومن کا ، ایمان لانے والے کا پہلا سوال زبان حال سے یہی ہے.چنانچہ اعلان کر دیا قل يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر : ۵۴) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے لئے رحمت بن کر آئے ہیں اس لئے تمہیں کوئی خوف نہیں ہے.اگر تم ایمان لے آؤ، سچی تو بہ کر لو، اگر تم یہ عہد کر لو کہ آئندہ ان گناہوں کو ترک کر دو گے اور اسلام کی بتائی ہوئی

Page 216

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۷۷ء نیکیوں پر قائم ہو جاؤ گے تو تمہارے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے.دوسرا خیال جو ایمان لانے والے انسان کے دماغ میں آسکتا ہے اور آنا چاہیے اور میں سمجھتا ہوں کہ روحانی ترقیات کے لئے بڑا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ میں انسان ہوں کمزور انسان ہوں ، بشری کمزوریاں میرے ساتھ لگی ہوئی ہیں.کوشش کے باوجود بھی غفلت اور سستی کے لمحات بھی میری زندگی میں آئیں گے، کچھ گناہ مجھ سے سرزد ہو جا ئیں گے، کچھ نیکیاں مجھ سے چھوٹ جائیں گی تو میرا حشر کیا ہو گا.کیا ایمان لانے کے بعد بھی مجھے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا ؟ خدا تعالیٰ نے اسی جگہ یہ اعلان کر دیا کہ اگر تم نیک نیتی سے اور پوری توجہ کے ساتھ نیکیوں پر قائم ہو گے تو تمہاری نیکیاں اپنی جگہ پر ہوں گی لیکن تمہاری جو غلطیاں اور گناہ اور قصور ہیں وہ اللہ تعالیٰ سب معاف کر دے گا اور اپنی مغفرت کی چادر میں تمہیں لپیٹ لے گا.اس لحاظ سے بھی ایک مومن کے لئے آپ رحمت بن کر آئے.تیسرا سوال جو ایک سمجھ دار انسانی دماغ سوچے گا یہ ہے کہ اگر میں اسلام لے آؤں تو مجھے کیا ملے گا؟ یہ بڑا ضروری سوال ہے انسانی فراست اور انسانی عقل یہ سوال کرتی ہے کہ اگر میں اسلام لے آؤں.اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤں.اگر میں قرآن کریم کو سچی کتاب سمجھ لوں اور اس پر عمل کروں تو مجھے ملے گا کیا؟ اس کے لئے خدا تعالیٰ نے رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ کو ہمارے لئے اسوہ بنا يا لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَ ذكر الله كثيرا (الاحزاب : ۲۲) اور یہ اعلان کر دیا کہ میں نے ایک مثال سامنے رکھ دی ہے یہ ہے ہمارا بندہ ، ہر لحاظ سے ہمارا ، کامل اور مکمل انسان ! جس نے اپنی ساری روحانی استعدادوں کی کامل نشو نما پانے کی ہمارے فضل سے توفیق پائی ہے، یہ تمہارے سامنے کامل نمونہ ہے.ان كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) تم اس کی اتباع کرو تو تمہیں تمہاری استعدادوں کے مطابق وہی کچھ مل جائے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی استعدادوں کے مطابق خدا سے ملا.اس کو ہم محاورہ میں کہتے ہیں کہ اتنا ملنا کہ Overflow (اوورفلو ) کر جائے.برتن چھلک جائے.اتنا ہو کہ جھولی میں نہ سما سکے.خدا تعالی تو اتنا دیتا ہے کہ اگر انسان صحیح

Page 217

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۰۳ خطبہ جمعہ ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۷۷ء راستہ پر گامزن ہو تو اس کی استعداد کے مطابق اس کو سب کچھ مل جاتا ہے اور کوئی کمی نہیں رہتی.یہ تو اصول ہے نا.ملتا کیا ہے؟ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کے مطابق جو سب کچھ ملتا ہے وہ سب کچھ ہے کیا ؟ پہلے تو کہا کہ سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے، پھر فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میں رحمت ہیں کہ اگر انسان آپ کی اتباع کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا عشق اسے بخشا جائے گا اور معرفتِ الہی کے بعد خدا تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کی جائے گی اور اس کے نتیجہ میں اسی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ غیر اللہ سے کامل رہائی حاصل ہو جائے گی اور جو تکیہ کیا جاتا ہے کسی شے پر یا کسی انسان پر یا کسی جتھے پر یا کسی سیاسی اقتدار پر یا کسی حکومت پر یا کسی بین الاقوامی تنظیم پر اس کا کوئی سوال نہیں رہے گا بلکہ غیر اللہ سے پوری رہائی مل جائے گی کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کا عشق انسان کے دل میں پیدا ہو جائے گا.تو محبت اور عشق کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ غیر اللہ سے رہائی حاصل ہو جائے گی اور دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خدا تعالیٰ کو پہچاننے کے بعد، خدا تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے بعد ، اس کی محبت دل میں پیدا ہو جانے کے بعد انسان گناہوں سے نجات حاصل کر لے گا، گناہ پر جرات نہیں کرے گا.ہمارا دماغ ہمیں یہ پوچھتا ہے کہ ہمیں اور کیا ملے گا ؟ خدا کہتا ہے کہ تمہیں اس دنیا میں جنت مل جائے گی.محض جنت نہیں بلکہ اس دنیا میں تمہیں پاک زندگی اور جنت ملے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے تم نکالے جاؤ گے اور روحانی زندگی تمہیں بخشی جائے گی.پس اس معنی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین ہیں.ہر شے کے حقوق کی تعیین کی اور ان کی حفاظت کا سامان کیا.ہر شے کے حقوق کی جب تعیین کی اور ان کی حفاظت کی تو ان کے لئے رحمت بن گئے.ہر جاندار کے حقوق کی تعیین کی اور ان کے حقوق کی حفاظت کی اور ہر جاندار کے لئے آپ رحمت بن گئے.پھر کا فرو مومن ہر انسان کے حقوق کی تعیین کی اور ان کی حفاظت کی.مسلمان کے غصے سے بھی غیر مسلم کو بچایا، ایک مسلمان کے ہاتھ کے ظلم سے بھی ایک غیر مسلم کو بچایا اور کہا کہ اگر تم میری اتباع کرنا چاہتے ہو تو تم عدل اور انصاف کو نہیں چھوڑو گے.اس لحاظ سے آپ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ ہیں.پھر جولوگ اسلام لائے ، جو مسلمان ہو گئے ، جن کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ تھا اور

Page 218

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۰۴ خطبہ جمعہ ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۷۷ء جنہوں نے آپ کی اتباع کی ان کو خدا کی درگاہ تک پہنچادیا اور ان کو ہر چیز مل گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو تیرے عاشق بندے ہیں ان کو تو دنیا کی ہر چیز دے دیتا ہے لیکن جب تو انہیں مل جائے تو دنیا کی ہر چیز کی انہیں کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے تو ہی ان کے لئے کافی ہے.غرض خدا تعالیٰ نے اس معنی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مومن کے لئے بھی رحمت بنایا.یہ بڑا وسیع مضمون ہے قرآن کریم میں یہی مضمون بیان ہوا ہے کہ کس طرح کس رنگ میں اور کس کے لئے آپ رحمت بنے.میں نے چند مثالیں دے کر آپ کو بتا یا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کا بلند اور ارفع مقام ہے.اتنا احسان ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم غریب عاجز بندوں پر جو کہ اپنی اپنی استعداد اور سمجھ کے مطابق آپ کی پیروی کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کرنے والے ہیں کہ ہمارا نفس ہمیں کہتا ہے اور ہماری روح ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم کثرت کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا کریں اور وہ بھی کافی نہیں ہوگا.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ - 谢谢谢 روزنامه الفضل ربوه ۱۰ نومبر ۱۹۷۷ ء صفحه ۲ تا ۵ )

Page 219

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۰۵ خطبہ جمعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۷۷ء دین اسلام وہ صراط مستقیم ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہے خدا تعالیٰ اور اس کے بعد خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے خطبه جمعه فرموده ۳۰ ستمبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :.يايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانَ مِنْ رَّبِّكُمْ وَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا - فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيْدُ خِلْهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَ يَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمَا.(النساء : ۱۷۶،۱۷۵) پھر ان آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے لوگو! قرآن ایک برہان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تم کو ملی ہے اور ایک کھلا کھلا نور ہے جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے.پس جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اس کے ذریعہ سے اپنا بچاؤ کیا ہے انہیں وہ ضرور اپنی ایک بڑی رحمت اور بڑے فضل میں داخل کرے گا اور انہیں اپنی طرف لے جانے والی ایک سیدھی راہ دکھلائے گا.پھر حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم جو اسلامی شریعت کی حامل کتاب ہے وہ ایک برہان ہے اور ایک نور ہے.

Page 220

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۰۶ خطبہ جمعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۷۷ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے دل سے تصدیق بھی کر رہا ہو ، جرأت سے اظہار بھی کر رہا ہو اور اپنے ان عقائد پر اپنے اعمال صالحہ سے مہر بھی لگا رہا ہو اور پھر وہ یہ سمجھتا ہو کہ اتنا کافی نہیں ہے بلکہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی مدد اور اس کی رحمت اور اس کے فضل کی ضرورت ہے.واعتصموا بے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ذریعہ سے ، دعاؤں کے ساتھ اپنے بچاؤ کا اپنی حفاظت کا سامان کرے تا کہ اس کے عقائد کے اندر شیطانی وسوسے داخل نہ ہوسکیں اس کے اعمال کے اندر کوئی شیطانی کیڑاگھن کی طرح نہ لگا ہوا ہو اور دلیری اور جرات کے ساتھ اظہار کی اسے اللہ تعالیٰ سے توفیق ملتی رہے.وَاعْتَصَمُوا بِہ میں جو حفاظت کا ذکر ہے عربی کے لحاظ سے اس کے یہ معنی کئے گئے ہیں کہ وہ یہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ہماری استعدادوں میں نور پیدا کر کے، ہمارے جسم اور نفس کو فضائل سے مزین کر کے، اپنی نصرت ہمارے شامل حال کر کے ہمیں ثبات قدم عطا فرما کر ہم پر آسمانی سکینت نازل فرما کر ، ہمارے قلب و ذہن کو شیطانی وساوس سے بچا کر ہمیں اپنی اطاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں نیکیوں اور اعمالِ صالحہ بجالانے کی توفیق عطا کر کے ہماری حفاظت کرے.یہ عصمت کے معنی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم صحیح عقائد رکھتے ہوگے اور اعمالِ صالحہ بجالاتے ہوگے اور دلیری سے اپنے ایمان پر قائم ہو گے اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کو اور اس کی عصمت کو حاصل کرنے والے ہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور اس کے فضل تم پر نازل ہوں گے اور تمہیں ایک ایسی راہ دکھائے گا جو سیدھی اس کی طرف لے جانے والی ہے، صراط مستقیم ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتی ہے اور اس کے بعد خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے.یہ صراط مستقیم جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہے یہ دین اسلام ہے.اسی لئے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے دین کو کامل کر دیا اور اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کو بھیج کر ، اسلامی تعلیم اور ہدایت کو بھیج کر میں خوش ہوں اور تمہارے لئے دین کے طور پر میں نے اسلام کو پسند کیا ہے.جب ہم اسلام پر یعنی قرآن کریم کی جو تعلیم ہے قرآن کریم کی جو ہدایت ہے قرآن کریم کا جو تفصیلی بیان ہے اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اسلام میں مندرجہ ذیل

Page 221

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۰۷ خطبہ جمعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۷۷ء خصوصیات نظر آتی ہیں ان خصوصیات کو ہم تین گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.پہلے نمبر پر اسلامی تعلیم ، ہدایت اور شریعت کی وہ خصوصیات ہیں جن کا تعلق عرفان باری تعالیٰ کے ساتھ ہے.اسلام ایک ایسا مذہب اور ایک ایسی کامل تعلیم ہے جس نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت عطا کی ہے اور کھول کر بتایا ہے کہ اسلام کو بھیجنے والا اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے اور اپنی صفات کے لحاظ سے کس قسم کا وجود ہے، بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے.توحید باری تعالیٰ کے متعلق ، اس کے قادر ہونے کے متعلق، اس کے عزیز اور حکیم ہونے کے متعلق ، اس کی سزا اور اس کی رحمت وغیرہ کے متعلق ایک جامع بیان ہمیں قرآن کریم نے دیا ہے اور جب ہم قرآن کریم کے اس بیان پر غور کرتے ہیں اور اس تعلیم کو مد نظر رکھتے ہیں کہ اس عظیم ہستی، اس صاحب عظمت و جلال ہستی کے ساتھ ہم عاجز بندے ہوتے ہوئےکیسے اپنا تعلق قائم کرسکتے ہیں تو ہمارے لئے وہ صراط مستقیم کھلتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہے.اسلامی تعلیم ہدایت و شریعت کی خصوصیات کا دوسرا حصہ انسانوں کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے.اس میں سب سے پہلے تو انسان کا اپنا نفس ہے اور سب سے مقدم اس کا اپنا نفس ہے.جہاں تک ہدایت پانے اور خدا تعالیٰ کے قہر سے محفوظ ہو جانے کا تعلق ہے ہر ایک کو اپنی فکر کرنی چاہیے.اس فکر کے بعد پھر اپنے ساتھیوں کی اپنے ہمسایوں کی اپنے خاندان کی اور دوسروں کی فکر کرنی چاہیے.جو شخص خود دوزخ میں جارہا ہو وہ دوسروں کو جنت کی طرف تو نہیں لے جاسکتا.بڑی مفصل تعلیم اور بڑی حسین تعلیم ہمیں اسلام نے دی ہے اور ہمارے حقوق کو قائم کیا ہے.مثلاً قرآن کریم نے ایک جگہ فرما یا لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيتُم (المائدة : ۱۰۶) کہ ہدایت پانے کے لحاظ سے تمہارا نفس تمہیں ہر دوسرے پر مقدم ہونا چاہیے.پہلے اپنے نفس کی فکر کرو اس کے بعد پھر دوسروں کی فکر کرنا.یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے ورنہ قرآن کریم نے ہر شخص کے حقوق قائم کرنے کے بعد ان کی حفاظت کا سامان کیا ہے تو خصوصیات کے اس دوسرے گروہ میں نمبر ایک انسان کا اپنا نفس ہے.دوسرے نمبر پر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اسلام نے عام طور پر انسانی چال چلن کے بارہ میں جو

Page 222

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۰۸ خطبہ جمعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۷۷ء تعلیم دی ہے وہ نہایت حسین تعلیم ہے، ایسی کہ اسلام سے پہلے نہ کسی مذہب نے ایسی تعلیم دی اور نہ کسی فلاسفر اور حکیم نے ایک حد تک حکمت کی گہرائیوں میں جانے کے باوجود اس قسم کی تعلیم دنیا کے سامنے رکھی.عجیب تعلیم ہے، بڑی عظیم تعلیم ہے عام انسانی چال چلن کے متعلق کہ ایک انسان کا چال چلن کس قسم کا ہونا چاہیے.تیسری خصوصیت اسلام میں یہ ہے کہ کوئی ایسی تعلیم اس میں نظر نہیں آتی جو انسانی حقوق کے باہمی رشتہ کو توڑتی ہو بلکہ انسانی حقوق کے باہمی رشتہ کو جوڑنے والی تعلیم ہے، ان کو پختہ کرنے والی تعلیم ہے، ان میں پیار پیدا کرنے والی تعلیم ہے، ان میں حسن پیدا کرنے والی تعلیم ہے.خصوصیات کے اس گروپ میں سے چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو انسان کو دیوثی کی طرف کھینچتی ہو یا د یوٹی اس کو مستلزم ہو بلکہ رذائل سے بچانے والی ، گندگی سے ہے.نجات دلانے والی اور عزت کے مقام پر کھڑا کرنے والی تعلیم ہے جو برائیوں سے روکتی.ایک کامل تعلیم منہیات کے متعلق نہ کر کے متعلق ہمیں اسلام میں نظر آتی ہے.پانچویں خصوصیت اسلامی تعلیم میں ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اس میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو فطرتی حیا اور شرم کے مخالف ہو.انسان کی فطرت میں شرم اور حیا ہے لیکن دنیا اپنی عادتوں کی وجہ سے یا دنیا اپنے ماحول کی وجہ سے بدقسمتی سے اس فطرتی حیا اور شرم کے مخالف عادات اپنے اندر پیدا کر لیتی اور ذلت کا چولہ پہن لیتی ہے اور فطرتی حیا اور شرم کو مار دیتی اور کچل دیتی ہے اور اس کا کوئی ذرہ بھی باقی نہیں رہنے دیتی لیکن اسلام میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو فطرتی حیا اور شرم کے مخالف ہو بلکہ اسلام کی ساری تعلیم فطرتی حیا اور شرم کے عین مطابق اور فطرتی حیا اور شرم کی تکمیل کے لئے صراط مستقیم دکھانے والی ہے.چھٹی خصوصیت اسلام میں یہ ہے کہ اس میں کوئی ایسی نہیں جو خدا تعالیٰ کے عام قانونِ قدرت کے مخالف پڑی ہو.قوانینِ قدرت اور انسانی فطرت میں ، انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو قو تیں اور استعدادیں اور صلاحیتیں رکھی ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں ہے کوئی مخالفت نہیں ہے.قانونِ قدرت اور انسانی فطرت میں اسلام نے کامل مطابقت پیدا کی ہے اور اس کی بنیاد یہ رکھی کہ

Page 223

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۰۹ خطبہ جمعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۷۷ء خدا تعالیٰ نے اسلام میں ہمیں یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو وہ تمام طاقتیں دے دی ہیں جو اس کی تکمیل کے لئے ضروری تھیں.تکمیل اسلام میں دو معنی میں استعمال ہوئی ہے ایک نوع انسانی کی تکمیل ، اس کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا تقرب حاصل کرے اور خدا تعالیٰ کے پیار کی جنتوں میں داخل ہو اور دوسرے ہر فرد واحد کی تکمیل، ہر فرد کا دائرہ استعداد دوسرے سے مختلف ہے.غرض ہر فرد کی تکمیل بھی کی اور نوع انسانی کی تکمیل بھی کی یعنی اسلام نے فطرت انسانی کی تکمیل کی اور فطرتِ انسانی کی تکمیل کرنے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجود بطور اسوہ کے ہمارے سامنے پیش کر دیا.ساتویں خصوصیت اسلام کی تعلیم میں یہ ہے کہ اس میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جس کی پابندی کرنا ممکن ہی نہ ہو یا جس کے نتیجہ میں خطرات کا امکان ہو مثلاً ہمیں پانچ وقت مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن انسانی زندگی میں بیماری کی بعض ایسی حالتیں ہوتی ہیں کہ مسجد میں جا کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو اسلام نے یہ نہیں کہا کہ بیمار ہو یا تندرست ہر حال میں مسجد میں جا کر نماز ادا کرو بلکہ فرمایا کہ اگر بیمار ہو تو اپنے گھر میں نماز پڑھ لیا کرو.پھر ہمیں حکم دیا کہ نماز اس طریق سے پڑھا کرو.اس میں قیام ہے، اس میں رکوع ہے، اس میں سجدہ ہے، اس میں قعدہ ہے، نماز میں اٹھنے بیٹھنے کی ایک ظاہری شکل ہے لیکن اسلام نے یہ نہیں کہا کہ ہر صورت میں تم ایسا کرو ورنہ گناہگار ہو جاؤ گے بلکہ اگر کوئی ایسی بیماری ہے کہ انسان گھر میں بھی کھڑا نہیں ہوسکتا اور اس طرح رکوع نہیں کر سکتا جیسے ہم مسجد میں نماز پڑھتے وقت کرتے ہیں تو اس کو اجازت دی کہ تو بیٹھ کر نماز پڑھ لیا کر جس میں قیام کی شکل بھی بدل گئی اور رکوع کی شکل بھی بدل گئی.دِينُ اللهِ يُسر خدا تعالیٰ نے دینِ اسلام میں کوئی ایسی پابندی نہیں لگائی اور کوئی ایسی جبری تعلیم نہیں دی جو انسان کے لئے بحیثیت انسان ممکن نہیں ہے یا کسی فرد کے لئے بعض حالات میں ممکن نہ رہے اور اس کے لئے کوئی دوسرا جواز نہ پیدا کیا گیا ہو.پھر ایک تو یہ ہے کہ ممکن ہی نہیں اور ایک یہ ہے کہ اس میں خطرات کا امکان ہے.مثلاً ایک بیمار ہے ڈاکٹر ا سے کہتا ہے کہ تیرے لئے ان دواؤں کا استعمال ضروری ہے یہ اس کا طبی مشورہ ہے اور ڈاکٹر کہتا ہے کہ اگر تو یہ دوائیں

Page 224

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۱۰ خطبہ جمعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۷۷ء استعمال کرے گا تو لمبا عرصہ بھوکا رہنا تیرے لئے جسمانی طور پر خطرات کا باعث ہے، بعض دفعہ ایسے حالات میں موت بھی واقع ہو جاتی ہے تو اسلام نے یہ نہیں کہا کہ رمضان آجائے تو ایسی حالت میں بھی روزہ رکھ بلکہ اس کو اجازت دی کہ اگر خطرات ہوں تو پھر تیرے لئے سہولت ہے.اس وقت میں مختصر طور پر مثال دے کر بتا رہا ہوں کہ میرا آج کا خطبہ ایک لمبے مضمون کی تمہید ہے اس کے بعد پھر میں ایک دو تین کر کے خصوصیات لوں گا اور انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے، اس نے زندگی دی تو پھر ان کی تفصیل میں جاؤں گا.غرض اسلام کے اندر کوئی ایسی تعلیم نہیں جس کی پابندی غیر ممکن ہو یا جس کے نتیجہ میں خطرات کا امکان ہو.یہ اسلام کی خصوصیت ہے.اور آٹھویں خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی تعلیم اور ہدایت سے کوئی ایسی تعلیم باہر نہیں رہی اور ترک نہیں کی گئی جو ہر قسم کے مفاسد کو روکنے کے لئے ضروری تھی یعنی کوئی ایسی بات کہ اگر اس کا حکم نہ دیا جائے تو انسانی معاشرہ کے اندر یا انسان کی ذاتی زندگی کے اندر یا اس کی گھریلو زندگی کے اندر یا اس کی خاندانی زندگی کے اندر مفاسد پیدا ہو سکتے تھے یا اس کے ماحول کے اندر پیدا ہو سکتے تھے یا اس کے ملک کے اندر پیدا ہو سکتے تھے یا بین الاقوامی رشتوں کے اندر پیدا ہو سکتے تھے اس سے باہر نہیں رہی.اسلامی ہدایت سے کوئی ایسی تعلیم باہر نہیں رہی جو ہر قسم کے مفاسد کو روکنے کے لئے ضروری تھی اور کوئی ایسی تعلیم اسلام سے باہر نہیں رہی جس کے باہر رہنے سے کوئی چھوٹا یا بڑا فساد پیدا ہوسکتا تھا بلکہ ہر قسم کے شر اور فساد کوروکنے کی تعلیم اسلام کے اندر پائی جاتی ہے.یہ اسلامی تعلیم کی آٹھویں خصوصیت ہے.اور نو میں خصوصیت یہ ہے کہ اسلام ایسے احکام سکھلاتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کو عظیم الشان محسن قرار دے کر اس کے ساتھ رشتہ محبت کو محکم کرتے ہیں اور اس طرح پر اسلام انسان کو تاریکی سے نور کی طرف لے کر جاتا ہے اور اس طرح پر اسلام انسان کو غفلت سے حضور کی طرف کھینچتا ہے.تمام ایسے احکام اور ایسی تعلیمات جو خدا تعالیٰ کا پیار انسان کے دل میں پیدا کرنے والی ہو سکتی تھیں وہ قرآن کریم میں بیان کر دیں اور اس طرح پر اسلامی تعلیم نے ایک انسان کے لئے یہ ممکن بنا دیا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کریم کے ساتھ ذاتی محبت کا رشتہ قائم کرے.

Page 225

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۱۱ خطبہ جمعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۷۷ء محبت دو طرح سے ہی پیدا ہوتی ہے حسن سے یا احسان سے.سوائے خدا کے اور کوئی حسنِ کامل نہیں یا اس کے بعد انسانوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسین نمونہ ہمارے لئے کامل ہے تا ہم حسن جس شکل میں بھی انسان کے سامنے آئے مثلاً گلاب کا پھول سامنے آتا ہے تو انسان کے دل میں اس کے لئے ایک کشش پیدا ہوتی ہے پسندیدگی اور محبت پیدا ہوتی ہے یا احسان انسان کے دل میں پیار پیدا کرتا ہے.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے قرآن کریم نے اس تفصیل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حسن کو اور اس کے احسان کو بیان کیا ہے اور اس وسعت کے ساتھ اور اس حسن کے ساتھ اس حسن اور احسان کو بیان کیا ہے کہ اس تعلیم کو جاننے کے بعد ایک خوش قسمت انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کے ساتھ ذاتی محبت کا رشتہ قائم کرنے میں غفلت برتے.اسلام کی خصوصیات کا تیسرا حصہ، پہلا حصہ تعلیم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات سے تعلق رکھتا تھا، اور یہ تیسرا حصہ خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے اور اس کے قادرانہ تصرف ہماری زندگیوں میں نظر آنے کے متعلق قرآن کریم کی اسلامی تعلیم کے بارہ میں ہے اور یہ اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ اسلام کا خدا فرضی خدا نہیں کہ بعض منطقی دلائل سن کر کوئی شخص ایمان لایا کہ کوئی خدا ہے.ایسا خدا اسلام کا خدا نہیں ہے.اسلام کا خدا فرضی خدا نہیں ہے جو محض قصوں اور کہانیوں کے سہارے سے مانا جاتا ہو.یہ نہیں ہے کہ محض عقلی دلائل یا محض پرانے قصے ہوں کہ فلاں وقت میں یوں ہوا اور فلاں وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنی عظمت کا یا اپنی زندگی کا یہ جلوہ ظاہر کیا اور آج میری زندگی میں خاموشی.پس اسلام کا خدا فرضی خدا نہیں ہے اور اسے کسی قصے یا کہانی کے سہارے کی ضرورت نہیں.پہلی بات یہ تھی کہ ہمارا خدا فرضی خدا نہیں ہے.دوسری چیز یہ ہے کہ اسلام کا خدا ایک زندہ خدا ہے.ہم اسے محض اپنی خوش عقیدگی کی وجہ سے قبول نہیں کرتے بلکہ اس لئے قبول کرتے ہیں کہ اس زندہ خدا کی زندہ قدرتیں ہماری زندگی کے اندر جلوہ دکھاتی ہیں اور اس کی زندہ طاقتوں کو ہم اپنے حواس سے محسوس کرتے ہیں.ہم اپنے جسمانی حواس سے بھی محسوس کرتے ہیں اور ہم

Page 226

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۱۲ خطبہ جمعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۷۷ء اپنے روحانی حواس سے بھی محسوس کرتے ہیں.مختلف قسم کے حواس جو خدا تعالیٰ نے انسان کو دیئے ہیں ان کے ذریعے وہ ہمیں اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے.یہ ہے اسلام کا خدا! ایک زندہ خدا، زندہ طاقتوں والا خدا ! جس کی زندگی کی علامات ہماری اپنی زندگیوں میں ظاہر ہوتی ہیں.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا بعض دفعہ انسان نا سمجھی کی باتیں کہہ دیتا ہے.خدا سے پیارے رنگ میں ایک چیز مانگتا ہے اور پھر خدا دے بھی دیتا ہے.ایک دن میں نے خدا تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اے خدا! تو نے جسم کی جسمانی لذت کے لئے بہت سی چیزیں پیدا کی ہیں آدمی اچھا کھانا کھا رہا ہو تو وہ ایک لذت محسوس کرتا ہے.اچھے نظارے دیکھ کر ایک لذت محسوس کر رہا ہوتا ہے.بے شمار چیزیں ہیں.میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ تیرے عام قانونِ قدرت کے مطابق جو انسان کو اچھی لگنے والی چیزیں ہیں جو اس کی طبیعت میں اور اس کی روح میں سرور پیدا کرتی ہیں ان کے بغیر مجھے تو سرور اور لذت دے اور چند منٹ نہیں گزرے تھے کہ میرا سارا جسم سر سے لے کر پاؤں تک ایک خاص قسم کی لذت اور سرور محسوس کرنے لگ گیا اور قریباً چوبیس گھنٹے تک یہی حالت رہی.یہ بظاہر چھوٹی سی بات ہے لیکن بڑی عظیم بات بھی ہے.پس ہمارے خدا کے سامنے کوئی چیز انہونی نہیں ہے.وہ زندہ خدا، زندہ قدرتوں والا خدا ہے.اس کی زندگی کی علامات ہمیں اپنے وجود کے اند ر نظر آتی ہیں.زندہ خدا کی زندہ قدرتوں کے نظارے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہم اس کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں.خدا تو غنی ہے ،صد ہے، اس کو کسی کی احتیاج نہیں نہ کسی انسان کی نہ سارے انسانوں کی اور نہ بحیثیت مجموعی ساری کائنات کی.اس کو تو کوئی احتیاج نہیں لیکن ہمیں اس کی احتیاج ہے.ہمیں ہر آن اس حی وقیوم خدا کی زندہ اور پیاری تجلیات کی ضرورت ہے اور احتیاج ہے.اسی واسطے میں نے اپنے خطبے کے شروع میں جو آیات پڑھی تھیں ان میں بتایا تھا کہ وَاعْتَصَمُوا بِاللهِ پس دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر کے اس کی زندہ قدرتوں کی تجلیات اپنی زندگیوں میں دیکھنے کے لئے جدو جہد کریں.اس کے لئے مجاہدہ کریں.اس کے لئے قربانیاں دیں.اس کی ناراضگی سے بچنے والے ہوں.اس کی خوشنودی کو حاصل کرنے والے

Page 227

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۱۳ خطبہ جمعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۷۷ء ہوں.خدا کرے کہ ہم سارے کے سارے اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق رکھنے والے بن جائیں.آخر میں حضور انور نے فرمایا:.جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ اس مضمون کا ڈھانچہ ہے یا عنوانات سمجھ لیں جس کی تفصیل خدا کی توفیق سے انشاء اللہ میں آگے بیان کروں گا.روزنامه الفضل ربوه ۴؍ دسمبر ۱۹۷۷ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 228

Page 229

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۱۵ خطبہ جمعہ کے را کتوبر۱۹۷۷ء اسلامی تعلیم حسن و احسان سے پر اور حقائق و معارف پر مشتمل ہے خطبه جمعه فرموده ۷ اکتوبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ خطبہ جمعہ میں میں نے دین اسلام کی چند خصوصیات کا ذکر کیا تھا اور مختصراً بتایا تھا کہ ان میں سے ہر خصوصیت کے متعلق آئندہ خطبات جمعہ میں اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ میں نسبتاً تفصیل سے کچھ کہوں گا.میں نے دین اسلام کی جو خصوصیات بیان کی تھیں ان میں پہلی خصوصیت یہ بتائی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اسلام نے ہمیں ایک کامل تعلیم دی ہے.ایک مکمل بیان خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق قرآن کریم ہمارے سامنے پیش کرتا ہے.خدا کی ذات کے متعلق ہم بات یہاں سے شروع کریں گے کہ وہ اللہ ہے اور قرآن کریم کی اصطلاح میں اللہ اسم ذات ہے.قرآن کریم میں بیسیوں جگہ بلکہ شاید سینکڑوں جگہ آپ دیکھیں گے کہ اللہ وہ ہے جو عزیز ہے ”اللہ “ وہ ہے جو حکیم ہے.و علی هذا القياس - فرما يا لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ الله اَلْحَقِّ ہے.الْقَيُّومُ ہے.الْمَلِكُ ہے.الْقُدُّوسُ ہے.السلمُ ہے.غرض بہت سی صفات ہیں جن سے اللہ متصف بتایا گیا ہے کہ اللہ یہ ہے اور اللہ کی یہ صفات ہیں.

Page 230

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۱۶ خطبہ جمعہ کے را کتوبر۱۹۷۷ ء پس اللہ اسم ذات ہے اور اللہ ان تمام صفات حسنہ کا موصوف ہے جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں.جب ہم اللہ کہتے ہیں تو ہمارے یعنی قرآن کریم پڑھنے والوں کے ذہن میں وہ تمام صفات آجاتی ہیں جو اس کے لئے بطور وصف کے ہیں.دوسری بات یہ ہے اور یہ ایک انتہائی بنیادی بات ہے کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اور میرے کسی خطبہ میں بھی اس کا ذکر آیا تھا کہ ایمان کے جتنے اصول ہیں ان کا بنیادی اصل یہی ہے کہ لا الهَ إِلَّا اللهُ اللہ ایک ہے.کلمہ طیبہ میں یہی اعلان ہے کہ اللہ ایک ہے اپنی ذات میں بھی اور اپنی صفات میں بھی.اس وقت میں اللہ کی ذات کی بات کروں گا.اللہ کی صفات کے بارہ میں انشاء اللہ اگلے کسی خطبہ میں بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.کوئی ذات اس کی ذات جیسی نہیں ہے.شرکت چار قسم کی ہوسکتی ہے لیکن سورۃ اخلاص میں ان چاروں قسم کی شرکت کی نفی کی گئی ہے یعنی کسی کا کسی کی ذات میں شریک ہونے کا انحصار چار باتوں پر ہے اور سورۃ اخلاص میں ہر بات کی نفی کی گئی ہے.اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے.اللہ ایک ہے.دو یا تین یا چار یا پچاس یا سو یا ہزا ر الہ نہیں.بت پرستوں نے اللہ کے بے شمار شریک بنالئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت خانہ کعبہ میں کفار نے بہت سے بت بٹھا رکھے تھے.غرض ایک تو یہ بت پرست ہیں جنہوں نے اللہ کو ایک نہیں سمجھا اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے تین خدا بنالئے اور بعض ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ایک کو بھی نہیں مانا لیکن اسلام کہتا ہے اللہ ہے اور وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے.عدد کے لحاظ سے وہ ایک ہے اور مرتبہ کے لحاظ سے اللہ کا کوئی ہم پلہ اور ہم مرتبہ نہیں ہے.واجب الوجوب ہونے میں ایسی چیز یا کوئی ایسا انسان یا جاندار یا فرشتہ یا جن یا جو مرضی کہ لو غرض کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو واجب الوجوب ہو یعنی جس کا ہونا ضروری ہو.اللہ کے سوا ہر چیز اپنی ذات کے لحاظ سے ہلاک ہونے والی ہے اور كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَإِنِ (الرحمن: ۲۷) کے اعلان کے نیچے آتی ہے.پس مرتبہ وجوب میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اور اسی کے اندر آتا ہے محتاج الیہ ہونا

Page 231

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۱۷ خطبہ جمعہ کے را کتوبر۱۹۷۷ ء اور اس میں بھی خدا تعالیٰ کا جو بے نیاز ہے کوئی شریک نہیں ہے یعنی خدا تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز کسی غیر کی احتیاج رکھتی ہے.صرف خدا تعالیٰ ایک ایسی ہستی ہے جس کو کسی چیز کی احتیاج نہیں اور ہر چیز خدا تعالیٰ کی احتیاج رکھتی ہے مگر خدا تعالیٰ مرتبہ وجوب میں اکیلا ہے اور اکیلا ہی اس خصوصیت کا حامل ہے اور اس میں منفرد اور یگانہ ہے.وہ صمد اور غنی ہے اسے کسی کی احتیاج نہیں ، ہر دوسرے کو اس کی احتیاج ہے.تیسرا شریک خاندانی ہوا کرتا ہے.خاندان کے مختلف افراد ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں.پس رشتے کے لحاظ سے اور حسب نسب کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے.فرما یا کم يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ (الاخلاص :(۴) نہ اس کو کسی نے جنا اور نہ اس کا آگے کوئی بیٹا ہے وہ واجب الوجوب ہے وہ ازلی ہے وہ ابدی ہے اور اسے کسی چیز کی احتیاج نہیں.باپ ہونا بھی احتیاج بتا تا ہے اور بیٹا پیدا کرنا بھی احتیاج ثابت کرتا ہے.چوتھے یہ کہ وہ اپنے کام کے لحاظ سے واحد لاشریک ہے اس کے فعل میں کوئی اس کی برابری نہیں کر سکتا.باعتبار فعل بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں.وہ ایک ہے، احد ہے، مرتبہ وجوب میں اور اس لحاظ سے کہ کسی کی اسے احتیاج نہیں اور ہر دوسرے کو اس کی احتیاج ہے.اس کا کوئی شریک نہیں اور نسبت کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اپنے فعل کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے.جب ہم صفات باری کے بارے میں بات کریں گے تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ جن صفات میں بظاہر انسان کی بعض صفات یا اس کے افعال کی خدا تعالیٰ کے افعال کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے وہ بھی حقیقی مشابہت نہیں ہے.ہر دو میں بنیادی فرق ہے لیکن وہ تو بعد کی بات ہے، اس وقت تو میں یہ بتا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اسلامی تعلیم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا ایک ہے، کسی جہت اور کسی طور پر کوئی اس کا شریک نہیں ہے.پھر اسلام ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو تمام تعریفوں کی مستحق ہے فرمایا

Page 232

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۱۸ خطبہ جمعہ کے را کتوبر۱۹۷۷ ء الْحَمدُ لِلَّهِ (الفاتحة : ۲) اور اللہ وہ ذات ہے جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے فرمایا کہ الْأَسْمَاءِ الْحُسْتَى (طه: 9) اور اللہ وہ ذات ہے جو تمام فیوض کا مبدا ہے فرما یا رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُل شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) کسی کی تعریف اس کی خوبی کی بنا پر کی جاتی ہے یا اس کے احسان کی بنا پر کی جاتی ہے.اللہ تمام صفات حسنہ اور اچھے اوصاف کا مالک ہے اور حقیقتا وہی اس کا مستحق ہے.ان اوصاف کی کچھ جھلکیاں تشبیہی طور پر انسان کو بھی ملیں.بعض جگہ دوسروں میں بھی اس کا پر تو نظر آتا ہے لیکن حقیقی طور پر الأَسْمَاءُ الْحُسْنٰی کا سزاوار اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور وہی سب تعریفوں کا مستحق ہے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کی ذات پاک اور قدوس ہے.وہ تمام رذائل اور عیوب اور نقائص س منزہ ہے.اس کی تمام صفات اس کی ذات کے مناسب حال ہیں.اللہ تعالیٰ کی جو عظمت اور جلال اور کبریائی ہے اس کے مناسب حال تمام صفات حسنہ اس کے اندر پائی جاتی ہیں.اس کی ذات اور صفات میں کوئی تضاد نہیں.( یہ ایک بار یک فلسفیانہ مسئلہ ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا.غرض خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں کوئی تضاد نہیں ہے.جس طرح وہ کامل ہے اسی طرح اس کی صفات بھی کامل ہیں اور جس طرح اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں اسی طرح اس کی صفات میں بھی کوئی شریک نہیں.پھر اسلام نے ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی ابدی ہے.ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی.میں یہ بتادوں کہ زمانہ کے متعلق جب ہم کوئی لفظ استعمال کرتے ہیں یا کوئی بات کرتے ہیں تو ہم اپنے قائم کردہ معیار کے مطابق بات کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ ازلی ابدی ہے اور وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.فرمایا يَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَالِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن: ۲۸) اللہ تعالیٰ پر کبھی موت اور فن طاری نہیں ہو سکتی اور ایسے ہی ادنی درجہ کا نعطل حواس بھی اس کے لئے جائز نہیں.آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب طلباء کلاس میں بیٹھے ہوتے ہیں تو اگر کسی طالب علم کا دماغ تھکا ہوا ہو یا وہ لا پرواہ ہو تو اگر ایک لمحہ کے لئے اس کی توجہ اپنے استاد کی باتیں سننے سے ہٹ جائے تو پھر اسے یہ پتہ نہیں لگتا کہ استاد کیا کہہ رہا ہے مگر اللہ تعالیٰ تعطل حواس کے نقص سے منزہ ہے.خدا تعالیٰ کی صفات میں ایک لمحہ کے ہزارویں حصہ میں تعطل حواس نہیں پایا جاتا.یہ ممکن ہی

Page 233

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۱۹ خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر۱۹۷۷ء نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی وقت تعطل حواس پیدا ہو جائے.اللہ تعالیٰ ازلی و ابدی ہے وہ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ہے.وہ اپنی ذات سے زندہ ہے.وہ کامل حیات کا مالک ہے اور اپنی ذات سے قائم ہے.اس کے قیام میں بھی کمال پایا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ہستی نہیں جو اپنی ذات میں زندہ ہو اور اپنی ذات سے قائم رہ سکتی ہو.اس لئے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خدا کی ذات بزرگ و مقدس ہے.ضعف اور ناتوانی اس کی طرف منسوب ہی نہیں کی جاسکتی.اس کی ساری صفات اپنے کمال پر پہنچی ہوئی ہیں.اس کی ذات اور صفات میں تھوڑا سا ضعف اور نقصان بھی نہیں پایا جا تا.اسی طرح اسلام نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات غیر محدود ہے.اس مضمون کا یہ حصہ ذرا دقیق ہے آپ اسے غور سے سنیں.خدا آپ کو سمجھنے کی توفیق دے.) کائنات محدود ہے یعنی خدا تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ تو محدود ہے.محض انفرادی حیثیت ہی میں نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی یہ کائنات محدود ہے لیکن اس کا ئنات کا صانع یعنی خدا تعالی غیر محدود ہے.اس لئے جہاں اس کی صفات کے جلوے کائنات میں ظاہر ہوتے ہیں، قرآن کریم کی اصطلاح میں انہیں تشبیہی صفات کہا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی جو تنزیہی صفات ہیں وہ وراء الوراء مقام رکھتی ہیں.ہم عاجز بندے اس کو سمجھ نہیں سکتے وہ ہماری عقل سے بالا ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے عرش کو مخلوق کہنا اور اس بحث میں پڑنا غلط ہے.عرش اس وراء الوراء مقام کا نام ہے جس میں خدا تعالیٰ کی تنزیہی صفات جلوہ گر ہوتی ہیں لیکن جہاں تک کا ئنات کا تعلق ہے اس میں انسان کوشش کرتا ہے اور سائنس اور تحقیق اور خدا داد علم کے ذریعہ ترقی کرتا ہے.انسان کی یہ ترقی خدا تعالیٰ کی تشبیہی صفات کے پر تو کے نتیجہ میں ہوتی ہے.کائنات سے پرے خدا تعالیٰ کا جو بھی مقام ہے وہ انسانی عقل سے پرے ہے ہم اس کا تصور نہیں کر سکتے ،مگر جہاں تک کائنات کا سوال ہے اس میں اللهُ نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) آسمان اور زمین میں کائنات کے ہر حصے میں خدا تعالیٰ ہی کا نور جلوہ گر ہے اور ہر مخلوق میں ہمیں خدا ہی کے چہرے کی چمک نظر آتی ہے.اس کے بغیر سب تاریکی اور ظلمت ہے.ہر چیز نور خدا تعالیٰ کی ذات سے ہی لیتی ہے.

Page 234

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۲۰ خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر۱۹۷۷ء پس یہ جو کائنات ہے اور جو ماوراء کا ئنات ہے اس کا ہم ہلکا سامبہم سا تصور ذہن میں لائیں تب ہمیں کچھ شعور حاصل ہو سکتا ہے.اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کس معنی میں غیر محدود ہے یہ ہمیں اسلام نے بتایا ہے کہ خدا کی ذات قطعی طور پر غیر محدود ہے اس کی حد بست نہیں کی جاسکتی.وہ کائنات کے ہر حصہ میں ہر وقت اسی طرح موجود ہے جس طرح وقتی طور پر ایکسرے کی شعاعیں انسان کے جسم کے بعض حصوں میں جہاں سورج کی روشنی نہیں جاسکتی وہاں موجود ہوتی ہیں.پس اصل نور جو ہے وہ خدا کا ہے.میں نے قرآن کریم میں لفظ ” نور“ پر بڑا غور کیا ہے.نور خدا ہی کا ہے دوسری چیزوں کے لئے جب ہم نور کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہ مجازی معنے میں کرتے ہیں.حقیقی معنے میں نور اللہ ہی کا ہے.مثلاً خدا کے نور میں اور ایکسرے کی شعاعوں میں غیر محدود فاصلے ہیں یعنی اتنی کثیف ہے ایکسرے کی شعاع خدا تعالیٰ کے نور کے مقابلے میں کہ اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا.سورج ہے اس کی روشنی اندر نہیں آرہی.اس کو دیواروں نے روک لیا ہے.ایکسرے کی شعاعیں ایک حد تک جسم کے اندر داخل بھی ہو گئیں اور بہت سی چیزیں جو دوسری روشنی کی شعاعوں کو روکتی ہیں وہ نہ رہیں لیکن خدا تعالیٰ کا نور ہر چیز میں سرایت بھی کر رہا ہے اور اس سے جدا بھی ہے.اس سے ایک اور بڑا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے اس کے متعلق میں آگے بیان کروں گا.پس اصل نور خدا کا نور ہے اور کائنات بھی اسی نور سے معمور ہے اور کائنات کا کوئی ذرہ بلکہ اس ذرہ کا اربواں حصہ بھی اس سے خالی نہیں اور جو ماوراء کا ئنات ہے وہ بھی خدا کے نور سے معمور ہے.پس ایک لحاظ سے خدا تعالیٰ قریب ہے.جیسا کہ فرمایا کہ اللهُ نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ اور پھر فرما یا نَحْنُ أَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ( 3 : ۱۷) اور بہت سی آیات ہیں جو بتاتی ہیں کہ خدا تعالیٰ انسان کے کتنا قریب ہے گویا خدا تعالیٰ کا جو نور ہے اس کا کائنات کے ہر ذرہ سے ایک پختہ تعلق ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ تعلق قائم نہ رہے اور جہاں وہ تعلق نہ رہے وہاں فنا آجاتی ہے.وہ چیز جو خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرے وہ قائم نہیں رہ سکتی.جب اس کا ئنات پر فنا آتی ہے چھوٹے پیمانے پر بھی اور بڑے پیمانے پر بھی تو وہ فنا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نور کا تعلق اس سے

Page 235

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۲۱ خطبہ جمعہ کے را کتوبر۱۹۷۷ ء قطع کر لیتا ہے تب اس چیز پر فنا آجاتی ہے لیکن اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کی رو سے انسان میں بھی خدا تعالیٰ اپنے نور کے ساتھ موجود ہے.پس اس لحاظ سے انسان کے ساتھ اس کا بہت گہرا تعلق ہے پاکیزگی اور طہارت کے ذریعہ.اس کے باوجود انسان کی جو مادی ترکیب ہے اور اس کا جو مادی وجود ہے وہ اپنی ہیئت کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے نور سے اتنا دور ہے اور اتنے فاصلے پر ہے کہ اس کو پھلانگنا نہ انسان کی کسی طاقت کا کام ہے اور نہ اس کی عقل کا کام ہے، آپس میں بہت زیادہ بعد ہے.قرب ہے تو ایسا کہ کوئی ذرہ بھی خدا کے نور سے خالی نہیں کیونکہ اللهُ نُورُ السَّبُواتِ وَالْأَرْضِ اور بعد ہے تو اتنا کہ انسان کی کیا مجال جو یہ کہے کہ میں خدا ہوں اس سے ملتا جلتا ہوں.چنانچہ الله نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ سے ایک بد خیال پیدا ہو گیا لوگوں نے یہ سمجھا کہ پھر انسان عین اللہ بن گیا یا خدا کا وجود مخلوق کا عین بن گیا.اس قسم کی لغو اور غلط اور فلسفیانہ بحثیں ہمارے درمیان آگئی ہیں حالانکہ ایسا سمجھنا غلط ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی جو اصلی شکل ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ہے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی ذات غیب الغیب اور وراء الوراء اور نہایت مخفی واقع ہوئی ہے.اللہ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ذات غیب الغیب ، وراء الوراء اور نہایت مخفی ہے ایسی مخفی کہ خالق اور مخلوق میں فرق کرنے کے لئے جتنے الفاظ بھی استعمال کر لئے جائیں کم ہیں بہر حال اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ تم اس دھوکے میں نہ رہنا کہ چونکہ اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ہے اس لئے انسان خدا بن گیا یا خدا انسان میں حلول کر گیا ہے.اس قسم کے غلط خیال بعض لوگوں نے اپنا لئے ہیں جو درحقیقت گمراہی کا نتیجہ ہیں.پھر ایک اور مسئلہ بیچ میں پیدا ہو گیا کہ جب خدا غیب الغیب ہے اور وراء الوراء اور نہایت مخفی ذات ہے تو ہماری عقل اور ہماری سمجھ تو اس کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتی پھر ہم اس کی معرفت کیسے.حاصل کریں؟ تو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ وہ ہے تو وراء الوراء اور غیب الغیب اور نہایت مخفی ، اتنا مخفی که لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ (الانعام : ۱۰۴) تمہارے حواس اس کو حاصل نہیں کر سکتے تم اس کو سمجھ نہیں سکتے.تم اس کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے جب تک خود خدا تعالیٰ اپنے موجود ہونے کو اپنے

Page 236

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۲۲ خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر۱۹۷۷ء کلام سے ظاہر نہ کرے جیسا کہ اس نے اپنے کام سے ظاہر کیا ہے لیکن انسان کو چونکہ معرفت الہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس بعد کو جو خالق اور مخلوق کے درمیان ہمیں نظر آتا ہے، اپنے کلام یعنی مکالمہ ومخاطبہ سے پاتا ہے اور پھر اس کے مکالمہ و مخاطبہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے آسمانی نشان ہیں اور زندہ تجلیات ہیں جن کو اپنے بندوں کے حق میں ظاہر کرتا ہے اور پیش خبریاں ہیں جو اپنے بندوں کو وقت سے پہلے بتاتا ہے.تب انسان اللہ تعالیٰ کی زبر دست قدرت کا ہاتھ اپنی زندگی میں دیکھتا ہے اور پھر یہ فاصلے جو خالق اور مخلوق کے درمیان واقع ہیں وہ معرفت الہی کے حصول کے لئے سکڑ جاتے ہیں اور انسان خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:.وو " بے شک وہ اب بھی ڈھونڈنے والوں کو الہی چشمہ سے مالا مال کرنے کو تیار ہے جیسا کہ پہلے تھا.اس کے بغیر نہ سچی توحید قائم ہوسکتی ہے اور نہ یقینی طور پر خدا تعالیٰ کی ہستی کا انسان قائل ہوسکتا ہے.“ پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ مخلوق کے ساتھ شدید تعلق رکھنے کے باوجود یعنی ہر ایک جان کی جان ، ہر ہستی کا سہارا اور ہر ہستی کو قائم رکھنے کے باوجود وہ الگ ہے.وہ الْحَيُّ الْقَيُّومُ درووو ہے.الحی کے معنے نیست سے ہست کرنے اور القیوم کے معنی اس کو قائم رکھنے والی ہستی کے ہوتے ہیں.وہ الحی ہے انسان کو زندگی دیتا ہے.وہ الْقَيُّومُ ہے اس کی زندگی کو قائم رکھتا ہے اور اس میں ایک پہلو تو اللہ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا اس کی مخلوق سے.اَلْقَيُّومُ کی رو سے وہ سہارا بنتا ہے ہر ایک چیز کا ، تب وہ قائم رہتی ہے لیکن اس تعلق کے باوجود وہ کیس کیثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری:۱۲) بھی ہے اور استَوٰی عَلَی الْعَرْشِ (الاعراف:۵۵) بھی ہے.وہ سب سے برتر اور تمام مخلوق سے وراء الوراء بھی ہے اور تقدس کے مقام پر جلوہ گر ہے اور اس طرح الگ کا الگ بھی رہا، وہ انسان کے ساتھ مل بھی گیا.اس نے انسان کے ساتھ تعلق بھی قائم کیا.انسان نے اس کے پیار کی باتیں بھی سنیں.انسان نے اس کی قدرت کے زبردست ہاتھ کے کرشمے بھی دیکھے.گویا وہ دور ہونے کے باوجود انسان کے قریب بھی آ گیا.انسان کیا ہے؟ خدا کی ایک عاجز

Page 237

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۲۳ خطبہ جمعہ سے را کتوبر۱۹۷۷ء مخلوق ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے عاجز بندے سے شدید تعلق بھی قائم کر لیا.وہ اپنے بندے کی جان کی جان بھی بن گیا اور اس کی ہستی کا سہارا بھی بن گیا.اس کے باوجود وہ الگ کا الگ بھی رہا اور مخلوق کے ساتھ مخلوط نہیں ہوا اور اس کا ئنات میں سب کچھ پیدا کر کے پھر بھی وہ مخلوق کا عین نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں اکیلا اور حقیقی تقدس اور توحید کے مقام پر جلوہ افروز ہے.غرض قرآن کریم نے ذات باری تعالیٰ کے متعلق ہمیں بڑی واضح تعلیم دی ہے.اس کا ایک حصہ اس وقت میں نے مختصراً بیان کیا ہے لیکن جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اس سے ہم آسانی کے ساتھ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق شرح وبسط کے ساتھ تعلیم دیتا ہے، اسلام کے سوا دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کو تمام رذائل سے اور عیوب سے اور نقائص سے منزہ بتا تا ہو اور اس کو تمام محامد کا ملہ سے متصف بیان کرتا ہو.یہ شرف صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے خدا تعالیٰ کو ہر عیب اور نقص سے پاک اور ہر خوبی کا جامع قرار دیا ہے اور اسے ذات وصفات میں منفر د ثابت کیا ہے جب کہ دوسرے مذا ہب نے خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے سمجھنے میں بہت ٹھوکریں کھائی ہیں.برصغیر ہند و پاک میں ہندو بڑی کثرت سے رہتے ہیں انہوں نے خدا تعالیٰ کے تصور کے ساتھ اتنی زیادتی کی ہے کہ کوئی حد نہیں.کئی دیوتا بنالئے اور دیوتا بناتے ہوئے شرک کے بڑے گند میں چلے گئے.عیسائی ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں انہوں نے تثلیث کا مسئلہ بنالیا اور ایک عاجز انسان جو اپنی تمام کمزوریوں کے ساتھ اس دنیا میں پیدا ہوا تھا اسے انہوں نے خدا بنالیا.پس تمام مذاہب کو اس بات میں ہمارا چیلنج ہے کہ اسلام سے باہر جتنے مذاہب ہیں وہ توحید حقیقی کی معرفت اور اس کے اظہار کے بارہ میں اسلام سے موازنہ کر دیکھیں انہیں ماننا پڑے گا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اللہ کی ذات کو تمام عیوب اور نقائص اور کمزوریوں اور کوتاہیوں سے پاک اور منزہ ثابت کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور اسے تمام صفات حسنہ سے متصف قرار دیا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق واضح تعلیم دی گئی ہے.یہی سچی تعلیم ہے ، یہی ہماری ضرورتوں کو پورا کرتی ہے اور یہی وہ تعلیم ہے جو ہمیں

Page 238

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۲۴ خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر۱۹۷۷ء گمراہیوں سے بچاتی ہے.بعض بے وقوف فلسفی یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ اپنی صفات میں اتنا کامل ہے تو کیا وہ اپنے جیسے اور خدا نہیں پیدا کر سکتا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق یوں سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک ایسا وجود ہے جو کسی دوسرے کی طرف سے مخلوق نہیں بلکہ ازلی اور ابدی طور پر اپنی طرف سے آپ ہی ظہور پذیر ہے اور خدا ہونے کے یہی معنے ہیں کہ وہ ایسا ہو.جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آیا خدا اپنی مثل بنانے پر قادر ہے یا نہیں تو اس کی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تشریح کی ہے.ویسے یہ ایک موٹی بات ہے کہ اگر اللہ کو جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں اور ہم تسلیم کرتے ہیں اور ہماری فطرت اور عقل تسلیم کرتی ہے ازلی ہونا چاہیے یعنی ہمیشہ سے ہونا چاہیے تو اگر اللہ اپنے جیسا کوئی اور بنالے تو وہ از لی تو نہیں ہوگا اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ عقلاً وہ اپنے جیسا کوئی اور خدا نہیں بنا سکتا کیونکہ جس کو بھی وہ بنائے گا بقول معترضین وہ ازلی نہیں ہو سکتا.وہ تو پھر اس وقت سے ہو گا جس وقت سے خدا نے اسے بنایا ہے.اس مسئلہ میں تفصیل میں جائے بغیر ایک عام فہم دلیل ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ اسلام ایک فلسفہ نہیں ہے.اسلام بے مقصد حقائق کا ئنات بیان نہیں کرتا.اسلام کی تعلیم بڑی گہری تعلیم ہے اور بڑی وسعتیں رکھنے والی تعلیم ہے اور بڑی حسین تعلیم ہے اور بڑا حسن رکھنے والی تعلیم ہے اور بڑا احسان کرنے والی تعلیم ہے.پس اسلامی تعلیم جوحسن و احسان سے پر اور حقائق و معارف پر مشتمل ہے، اس لئے دی گئی ہے کہ انسان اس سے فائدہ اٹھائے.دنیا میں کامیاب اور عاقبت میں سرخرو ہو.پس خدا تعالیٰ نے اپنی ذات اور صفات کے متعلق قرآن عظیم میں جو کچھ ہمیں سکھایا ہے اور جو بھی تعلیم دی ہے وہ اس لئے دی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں، خدا کی عظمت اور جلال کے سایہ میں اپنی زندگیاں گزاریں اور ہر آن لرزاں و ترساں رہیں اور ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہیں کہ خدا تعالیٰ جو عظیم ہستی ہے.بڑی حسین ہستی ہے.بڑا پیار کرنے والی ہستی ہے.بڑی دیتا لو ہستی ہے اور بہت بخشش کرنے والی ہستی ہے اس کے ساتھ ہمارا زندہ تعلق پیدا ہو جائے تا کہ جس مقصد کے لئے

Page 239

خطبات ناصر جلد ہفتہ ہمیں پیدا کیا گیا ہے، وہ پورا ہو.۲۲۵ خطبہ جمعہ کے را کتوبر۱۹۷۷ء ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے والے اور اللہ تعالیٰ سے بے شمار نعماء کو پانے والے اور اس کی رحمتوں کے وارث بننے والے ہوں.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۲۱ جولائی ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 240

Page 241

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۲۷ خطبہ جمعہ ۱۴ /اکتوبر ۱۹۷۷ء اسلامی تعلیم کی رو سے انسان کو احکام الہی کی اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۴ را کتوبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قبل اس کے کہ میں آج کا خطبہ شروع کروں میں یہ بتا دیتا ہوں کہ میں نے جو سلسلہ مضامین شروع کیا تھا آج اس سے ہٹ کر کچھ کہنا چاہتا ہوں.ہماری یہ کائنات جو ہر دو جہاں پر مشتمل ہے اور جسے انگریزی میں یو نیورس (Universe) کہا جاتا ہے اس کی زندگی اور بقا کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.ویسے تو خدا جانے اس کی مخلوقات میں اور کتنی کا ئنات ہیں لیکن ہم جب کائنات یا ہر دو جہاں کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے جو کائنات مراد ہے اس کی اور ہر دوسری کائنات کی زندگی کا دارو مدار اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے اور اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات جلوہ گر ہیں.خدائی صفات کے جلوے غیر محدود ہیں.بایں ہمہ ان میں کوئی تضاد نہیں یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا کی بعض صفات اس کی بعض اور صفات کے مخالف کام کر رہی ہوں یا کسی ایک صفت کے بعض جلوے اسی صفت کے بعض دوسرے جلووں سے متضاد ہوں.ہر چیز خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں میں بندھ کر ایک بنی ہوئی ہے.ساری کائنات کا آپس میں تعلق ہے اور بڑا گہرا تعلق ہے.غرض خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں میں ر

Page 242

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۲۸ خطبہ جمعہ ۱۴ /اکتوبر۱۹۷۷ء ہمیں کوئی تضاد نظر نہیں آتا.سورۃ ملک کے شروع میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اس کے علاوہ بھی قرآن کریم نے متعد دجگہ اس کا ذکر کیا ہے.جب ہم اس کائنات پر مجموعی نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ کائنات دوحصوں میں منقسم نظر آتی ہے.ایک حصہ تو وہ ہے جو انسان کے علاوہ کائنات کی ہر چیز پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ خود انسان سے تعلق رکھتا ہے، گویا ایک حصے کا تعلق انسان سے ہے اور دوسرے حصہ کا تعلق انسان کے علاوہ دیگر مخلوقات سے ہے.انسان کے علاوہ ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے اس اصول سے باندھا ہے کہ اسے جو کہا جائے گا وہ ویسا ہی کرے گی.انسان کے علاوہ کسی چیز کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کر سکے.اُسے جو کہا جاتا ہے یا اس کے لئے جو امر صادر ہوتا ہے اس کے مطابق اس کا فعل ہوتا ہے اور چونکہ وہ حکم ماننے والی اشیاء ہیں اس لئے ان کے متعلق ترقی یا تنزل کا سوال عقلاً بھی پیدا نہیں ہوتا یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جہاں تک خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے کا سوال ہے یہ درخت جو ہمیں نظر آتے ہیں یا یہ دریا جن میں پانی بہتا ہے یہ اور اسی قسم کی دوسری چیزیں خدا کے ساتھ تعلق رکھنے میں ترقی بھی کر سکتی ہیں یا تنزل بھی کر سکتی ہیں.یہ عقلاً نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ان کا تعلق اپنے پیدا کرنے والے رب سے یہی ہے کہ ان کو جو حکم ملے گا وہ اسے بجالائیں گے.کائنات کا دوسرا حصہ انسان سے تعلق رکھتا ہے.انسان کو اپنی زندگی اور وجود کے ایک خاص دائرے میں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرے اور چاہے تو ان کی اطاعت نہ کرے لیکن انسان کے علاوہ کائنات کی دوسری قسم کو یہ اختیار نہیں دیا گیا وه تو يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحریم: ۷) کی رو سے وہی کچھ کرتے ہیں جس کا خدا ان کو حکم دیتا ہے اور ان کو حکم یہ ہے کہ تم نے انسان کی خدمت کرنی ہے یعنی خدا تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو بلا استثنا اصولی طور پر یہ حکم دے رکھا ہے کہ اس نے انسان کی خدمت کرنی ہے.گو خدمت کی شکلیں مختلف بن جاتی ہیں لیکن کائنات کی ہر شے اصولی طور پر انسان کی کسی نہ کسی خدمت پر مامور ہے.جہاں تک انسان کا تعلق ہے اس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو اللہ تعالیٰ کے احکام کی

Page 243

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۲۹ خطبہ جمعہ ۱۴ را کتوبر۱۹۷۷ء اطاعت کرے اور چاہے تو اطاعت نہ کرے لیکن اس اختیار کے باوجود خدا تعالیٰ نے انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اس کے حصول کے لئے جو بہترین صلاحیتیں اور استعدادیں ممکن ہو سکتی تھیں وہ جب انسان کی فطرت کے اندر رکھ دی گئی ہیں.جہاں انسان کے علاوہ دوسری اشیاء کو یہ حکم ہے کہ وہ انسان کی خدمت کریں وہاں انسان کو بنیادی طور پر یہ طاقت دی گئی ہے کہ وہ کائنات کی ہر شے سے خدمت لے گویا کائنات کی ہر چیز کو انسان کی خدمت پر لگا دیا گیا ہے.غرض خدا تعالیٰ نے انسان کو یہ قوت عطا کی ہے کہ وہ کائنات کی ہر چیز سے خدمت لے سکے لیکن کامل طاقتیں دینے کے بعد ہر انسان کے ساتھ ایک طرف داعی الی الخیر اور دوسری طرف داعی الی الشر لگا دیا اور یہ ایک نظام ہے جو خدا تعالیٰ نے انسان کے اندر قائم کر دیا ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو فطرت صحیحہ کاملہ عطا کی اور پھر جس غرض کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے اس کو پورا کرنے کی اسے طاقت بخشی لیکن اس کے ساتھ داعی الی الخیر اور داعی الی الشر بھی لگا دیا.داعی الی الخیر کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرو اور داعی الی الشر کہتا ہے اطاعت نہ کرو.اب یہ انسان کی عقل وفراست پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو داعی الی الخیر کی آواز سنے اور اپنی فطرت صحیحہ کے مطابق خدا تعالیٰ کی اطاعت میں اپنے اعمال بجالائے اور اگر چاہے تو داعی الی الشر کی آواز پر کان دھرے اور خدا تعالیٰ کی اطاعت سے باہر نکل جائے.پھر ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ بعض بیرونی طاقتیں داعی الی الخیر کے ساتھ بھی ملتی ہیں اور داعی الی الشر کے ساتھ بھی رابطہ پیدا کرتی ہیں یعنی انسان کے اندر نیکی اور بدی کی جو آواز ہے اس پر بعض بیرونی طاقتیں اثر ڈالنا چاہتی ہیں.اگر داعی الی الخیر کے ساتھ کوئی بیرونی اثرات نہ مل سکتے تو تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المآئدة: ۳) نہ کہا جاتا اور اگر داعی الی الشر کے ساتھ باہر کا اثر شامل نہ ہو سکتا اور یہ ممکن نہ ہوتا تو شیطان کی ذریت، جس کا قرآن کریم نے مختلف پیرایوں میں ذکر کیا ہے اس کا کوئی سوال باقی نہ رہتا.غرض ہر انسان کے اندر داعی الی الخیر اور داعی الی الشر کی دو اندرونی طاقتیں ہیں لیکن ان پر باہر سے اثر انداز ہونے والی بھی کچھ طاقتیں ہیں.جیسا کہ اسلام نے ہمیں بتایا ہے انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرنے یا نہ کرنے

Page 244

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۳۰ خطبہ جمعہ ۱۴ /اکتوبر ۱۹۷۷ء کا اختیار اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اس کائنات میں اپنی صلاحیتوں کی صحیح نشو ونما کر کے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے.قرب الہی کے حصول کے لئے غیر محدود ترقیات کے راستوں پر چلے اور تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ الله کے نتیجہ میں ہر انسان اپنے دائرہ استعداد میں خدا تعالیٰ سے وصال حاصل کرے کیونکہ قرب الہی کا حصول ہی انسانی زندگی کا اصل مقصد ہے.قرآن کریم نے بیسیوں جگہ مختلف پیرایوں میں ان بنیادی حقیقتوں پر روشنی ڈالی ہے.اگر یہ بات درست ہے اور جیسا کہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ درست ہے تو پھر غیر اللہ کی طرف سے انسان پر جبر روا رکھنا عقلاً نا جائز ہے.انسان پر جبر کر نا خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ، اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی.جب خدائے علیم وخبیر نے انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ اعمال کا بجالا نا اس کی مرضی پر منحصر ہے چاہے تو وہ اپنی مرضی سے اپنے داعی الی الخیر کی آواز سنے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں زندگی گزارے اور چاہے تو وہ اپنے داعی الی الشر کی آواز پر کان دھرے اور ا پنی فطرت کے تقاضوں کے خلاف خدا تعالیٰ سے دوری اور مہجوری کی راہوں کو اختیار کرے.جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ اختیار دیا ہے تو اللہ کے علاوہ دنیا میں اور کون سی طاقت ہے جو انسان سے یہ اختیار چھینے کا حق رکھتی ہو.ظاہر ہے کوئی طاقت حق نہیں رکھتی.ہر انسان نے خود اپنے متعلق یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ قرب الہی کی راہوں کو اختیار کرے گا یا شیطان کے ورغلانے میں آکر صراط مستقیم سے بھٹک جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کو بھی یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اس معاملے میں یعنی انسان کے اس اختیار میں دخل دیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جو اختیار عطا کیا ہے اسے کوئی نہیں چھین سکتا.انسان کو یہ اختیار اس لئے دیا گیا ہے کہ اس کا ئنات میں صرف انسان ہی ایک ایسی ہستی ہے جس کے لئے غیر محدود ترقیات کے دروازے کھولے گئے ہیں اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں انسان کے علاوہ ہر شے کے لئے نہ چھوٹی اور نہ بڑی کسی قسم کی اخلاقی اور روحانی ترقی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس نے تو حکم ماننا ہے ترقی کرنے یا نہ کرنے کا سوال تب پیدا ہوتا ہے کہ حکم مانا ہے یا نہیں

Page 245

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۳۱ خطبہ جمعہ ۱۴ را کتوبر۱۹۷۷ء مانا.جس چیز کے متعلق یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ حکم عدولی بھی کر سکتی ہے یا اس نے اپنی مرضی سے حکم ماننا ہے تو اس کے لئے ثواب کے میدانوں میں کوئی ترقیات نہیں.خدا تعالیٰ نے صرف انسان پر یہ فضل کیا ہے کہ وہ اپنی خداداد طاقتوں سے کام لے کر روحانی ترقیات کر سکتا ہے اور ابدی جنتوں کا وارث بن سکتا ہے اور دراصل یہی وہ نکتہ ہے جس پر آج میں زور دینا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا انسان پر یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے انسان پر فضل اور رحم کرتے ہوئے اسے قرب الہی کی راہیں دکھا ئیں اور وصالِ الہی کے دروازے اس پر کھولے اور بے شمار نعمتیں اس پر نازل کیں حالانکہ انسان ہے کیا.بس ایک ذرہ ناچیز ہے.انسان جب خدا تعالیٰ کے ان احسانوں پر غور کرتا ہے تو وہ حیران ہو جاتا ہے کہ اس کی ہستی ہی کیا ہے اور وہ ہے کیا چیز.لیکن خدا تعالیٰ کتنا پیار کرنے والا ہے.اس نے انسان کو غیر محدود ترقیات سے نوازا.اسلام کے سارے احکام جو او امر اور نواہی پر مشتمل ہیں، انسان کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ہیں.یعنی نواہی ہیں تو منزل سے بچنے کے لئے اور اوامر ہیں تو ترقیات کرنے کے لئے دیئے گئے ہیں.ہماری یہ دنیا عمل کی دنیا ہے اور اس جہان کی زندگی کے ساتھ امتحان لگا ہوا ہے اس میں نیکی اور بدی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے لیکن بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ شاید اگلے جہان میں عمل کوئی نہیں ہوگا ، ترقیات کوئی نہیں ہوں گی قرب کے میدانوں میں، بس یہاں سے جو کچھ حاصل کیا اس کے بدلے میں انسان کو ایک ایسی جنت مل جائے گی جس کے اندر کوئی تغیر اور ترقی نہیں ، ایسا نہیں ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ہر صبح کو خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا ( پتہ نہیں وہاں کا دن کیسے ہوگا اور رات کیسی ہمیں تو سمجھانے کے لئے یہ بتایا گیا ہے) کہ ہر صبح جنتیوں کو ایک ترقی یافتہ منزل کی طرف نشاندہی کی جائے گی اور وہ وہاں پہنچ جائیں گے.پس گو وہاں بھی عمل ہے لیکن وہ عمل نہیں جس کے ساتھ ابتلا اور امتحان لگا ہوا ہوتا ہے.وہاں جو عمل ہے وہ خدا تعالیٰ کی معرفت کے نتیجہ میں صحیح رنگ اور صحیح معنے میں خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنا ہے.اس دنیا میں بھی تو سب سے اعلیٰ اور سب سے احسن اور سب سے اچھا عمل ذکر الہی میں مشغول رہنا ہی ہے باقی ساری چیز میں اسی کے نیچے آجاتی ہیں.اس جہان کی جو نیکیاں ہیں وہ بھی دراصل ذکر الہی ہی کے زمرہ میں آتی

Page 246

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۳۲ خطبہ جمعہ ۱۴ /اکتوبر۱۹۷۷ء ہیں.یہ ایک الگ مضمون ہے اس کی طرف صرف اشارہ ہی کیا جاسکتا ہے.ہماری دعا ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو رضائے الہی کی جنتوں میں لے جائے.جنت میں امتحان تو نہیں ہوگا لیکن وہ زندگی بے عملی کی پھیکی اور روکھی سوکھی زندگی نہیں ہے کہ گویا وہاں انسان نے کرنا ہی کچھ نہیں بلکہ وہاں بھی ایک عمل ہے اور وہاں بھی ترقیات کے دروازے ہیں اور وہاں بھی آگے بڑھنا ہے اور خدا تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ انعام کو پانا اور اس کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جانا ہے.پس جب ہم اس کائنات پر نظر ڈالتے ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں غور کرتے ہیں تو یہ شکل سامنے آتی ہے اور اس سے یہ لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر انسان آزاد ہے اپنے اعتقاد میں بھی اور آزاد ہے اپنے عمل میں بھی.وہ عقیدہ جس کا اعلان کسی کی زبان سے زبردستی کروایا جائے وہ نیکی نہیں ہے اور نہ کسی کا یہ حق ہے کہ وہ ایسا کر وائے.اسی طرح وہ عمل صالح جو گردن پر تلوار رکھ کر کروایا جائے وہ بھی نیکی نہیں.نیکی وہی ہے اور وہی عمل خدا کو پیارا ہے جس میں احکام الہی کی اطاعت مد نظر ہو.خدا کے نزدیک ایک اچھا عقیدہ وہی ہے جسے انسان اپنی مرضی سے اختیار کرتا ہے.اسلامی تعلیم کے مطابق عقیدہ صحیحہ یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی اطاعت کرے اور اس کے مطابق اپنی زندگی میں اعمال بجالائے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مذہبی آزادی یعنی ایمان لانے یا نہ لانے کے اس اختیار کا جو خدا نے انسان کو دیا ہے متعد دجگہ ذکر کیا ہے.اس وقت میں دو آیات کولوں گا.اول.اللہ تعالیٰ سورۃ کہف میں فرماتا ہے :.وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّلِمِينَ نَارًا اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا (الكهف : ٣٠) اے رسول ! تو لوگوں کو کہہ دے کہ یہ تو حقیقت ہے کہ قرآن کریم اور اسلامی تعلیم حق وصداقت پر مبنی ہے جو تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے.یہ ایک ایسی صداقت ہے جس سے اگر چہ انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن کسی انسان پر کوئی زبردستی نہیں ہے فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ جو آدمی چاہے اپنی

Page 247

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۳۳ خطبہ جمعہ ۱۴ /اکتوبر۱۹۷۷ء مرضی سے ایمان لائے ، اپنی مرضی سے اپنے ایمان کا اعلان کرے وَ مَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ اور جو چاہے اپنی مرضی سے ایمان لانے سے انکار کرے اور کفر کی راہ کو اختیار کرے.مگر کسی کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلظَّلِمِينَ نَارًا اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِ قُهَا خدا تعالیٰ نے ظالموں کے لئے جو فطرت انسانی کی صلاحیتوں کو بے موقع اور بے محل خرچ کرتے ہیں ( ظلم کے معنے کسی کام کو بے موقع ومحل کرنے کے ہیں) اور فطرت صحیحہ کے مطابق عمل نہیں کرتے ، داعی الی الخیر کی آواز کو نہیں سنتے ان کے لئے ایک ایسی آگ تیار کی گئی ہے جس کی چار دیواری نے ان کو گھیرا ہوا ہے.فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِن کے متعلق قرآن کریم میں کئی اور جگہوں پر بھی اعلان ہوا ہے مثلاً یہی کہ اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ وَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ ( حم السجدة : ٣١) جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور مَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ کے مطابق وہ اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہیں اور پھر ایمان پر استقامت اختیار کرتے ہیں فرشتے خدا تعالیٰ کی بشارتیں لے کر یعنی خدا تعالیٰ کے پیار کے پیغام لے کر ان پر نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں جب خدا سے تمہارا تعلق ہے تو پھر اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا تمہیں کسی کا خوف نہیں ہونا چاہیے اور نہ کسی کا حزن.تم سے جو غلطیاں ہوئیں وہ معاف ہو گئیں.وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ تم خوش ہو جاؤ کہ خدا نے اپنی پیار کی جس جنت کا وعدہ کیا تھا خدا کی نگاہ میں تم اس کے مستحق ہو گئے.پس گفتگو کے موقع پر ایک دوسرے کو آرام سے سمجھانا اور الہی بشارتوں کو یاد دلانا اور ایمان صحیح اور اعمالِ صالحہ کے نتیجہ میں انسان کے لئے جو انعامات مقدر ہیں ان کا ذکر کرنا اور خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو بیان کرنا یہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی شخص نہیں مانتا تو اس سے زبر دستی کوئی نہیں کرنی.انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ قرب الہی کو حاصل کرے تا کہ اسے کامل اطمینان نصیب ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفجر : ۲۹،۲۸) اس میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے انسان کو احسن تقویم کی صورت میں پیدا کیا

Page 248

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۳۴ خطبہ جمعہ ۱۴ /اکتوبر۱۹۷۷ء گیا ہے اس لئے انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسے جو قو تیں اور استعداد میں دی گئی ہیں وہ ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہو.خدا تعالیٰ کا وصل اسے نصیب ہو.چنانچہ سورۃ فجر کی ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب تک انسان کو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل نہ ہو اور خدا تعالیٰ کا پیار نہ ملے اس وقت تک اسے اطمینان کامل بھی نصیب نہیں ہوتا چنا نچہ تم دیکھ لو آج دنیا میں جس طرف بھی نظر دوڑاؤ تمہیں کامل اطمینان کا فقدان نظر آئے گا.امریکہ میں بھی اور روس میں بھی.لوگوں نے دنیا تو بہت اکٹھی کر لی لیکن دل کا اطمینان ان کو حاصل نہیں.میں انگلستان میں پڑھتا رہا ہوں.میں وہاں کھل کر کہتا تھا کہ اطمینان قلب تمہیں اسلام کے سوا کہیں نہیں مل سکتا.جو طالب علم میرے ساتھ بے تکلف تھے وہ کہا کرتے تھے کہ انہیں سب کچھ مل گیا لیکن اطمینان قلب نہیں ملا.اب بھی میں جب کبھی باہر کے ملکوں کے دورے پر جاتا ہوں سب لوگ یہی کہتے ہیں کہ دنیا مل گئی ، دولت مل گئی ، سائنسی تحقیقات کے میدان میں ترقی کر لی (اور نالائقیوں کی وجہ سے ان کے غلط استعمال پر بھی جرات مل گئی ) لیکن ان کو اطمینان قلب نصیب نہیں ہوا.کیسے نصیب ہوتا جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس آواز کو نہیں سنتے جو قرآن کریم کے ذریعہ بلند کی جاتی ہے.پس یا د رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے وصل کے بغیر انسان کو کامل اطمینان نہیں مل سکتا اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے لیکن فطرت کی تمام صلاحیتوں کی کامل نشو ونما اور پھر صحیح استعمال ہی کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کیا کرتا ہے.غرض قرآن کریم نے یہ اعلان کیا.فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ اور یہ بھی اعلان کیا فَا مِنُوا خَيْرًا لَّكُمْ یعنی تمہیں اختیار تو ہے کہ تمہاری مرضی ہو تو ایمان لاؤ اور مرضی ہو تو نہ لاؤ لیکن یہ بھی تمہیں بتادیا جاتا ہے کہ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم ایمان لے آؤ.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَا مِنُوا خَيْرًا تَكُمْ (النساء : ۱۷۱) خدا تعالی کی طرف سے رسول حق لے کر تو آ گیا ہے تمہیں اجازت بھی دے دی گئی.تمہاری مرضی ہے ایمان لاؤ یا نہ لاؤ لیکن تمہیں یہ بتا دینا ضروری ہے فَا مِنُوا خَيْرًا لكُم تم ایمان لاؤ گے تو اس میں تمہاری اپنی بھلائی ہے.غرض خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو بڑے پیار سے سمجھاتا

Page 249

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۳۵ خطبہ جمعہ ۱۴ /اکتوبر۱۹۷۷ء ہے کہ بنیادی طور پر مذہبی آزادی تو ہے لیکن حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ انسان خدا اور اس کے رسول پر ایمان لا کر اعمال صالحہ بجالائے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں.مذہبی آزادی کے بارہ میں اس وقت میں صرف دو آیات کی تشریح کروں گا.پہلی تو سورۃ کہف کی آیت ہے جس کے متعلق میں مختصراً بتا چکا ہوں.اب میں دوسری آیت کو لیتا ہوں اور وہ سورۃ یونس کی یہ آیت ہے:.قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ (یونس : ١٠٩) اے رسول! لوگوں سے کہہ دو کہ تمہارے رب کی طرف سے ایک کامل صداقت نازل ہوگئی ہے.چونکہ پہلے مخاطب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور پھر آپ کے متبعین ہیں، قرآن کریم کی ہدایت چونکہ قیامت تک ہے اس لئے یہ حکم آپ کی وساطت سے آپ کے متبعین اور پھر سب انسانوں کو قیامت تک کے لئے ملا ہے فرما یا :.قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُم تمہارے رب کی طرف سے ایک کامل صداقت نازل ہو گئی ہے.فَمَنِ اهْتَدی اب جو شخص اپنی مرضی سے اس کی بتائی ہوئی ہدایت کو اختیار کرتا ہے فائما يَهْتَدِى لِنَفْسِه تو وہ اپنی جان کے فائدہ ہی کے لئے ہدایت کو اختیار کرتا ہے.گویا انسان کو اس بات کی آزادی ہے کہ مرضی ہو تو ہدایت کو اختیار کرلے اور اگر وہ اختیار نہ کرنا چاہے تو اس پر خدا اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی جبر نہیں البتہ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا جوشخص اس راه سے بھٹک جائے تو اس کے بھٹکنے کا وبال اسی کی جان پر ہے اس لئے ہر انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ خوب سوچ لے اور پھر کوئی فیصلہ کرے.غرض خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان کروایا کہ اے لوگو تمہیں مذہبی طور پر آزادی ہے.تم نے اپنا فیصلہ خود کرنا ہے کہ ہدایت کی راہ پر چلنا ہے یا گمراہی کو اختیار کرنا ہے.میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں، میں تمہارا وکیل نہیں ہوں ، میرے اوپر تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں ہے.

Page 250

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۳۶ خطبہ جمعہ ۱۴ /اکتوبر ۱۹۷۷ء اسی مضمون کو ایک دوسری جگہ بیان کیا.فرمایا:.إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ - (القصص: ۵۷) اے رسول ! جس کو تو پسند کرے اس کو ہدایت نہیں دے سکتا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ کسی کو ہدایت دے یا نہ دے.یہ الگ طور پر ایک لمبا مضمون بن جاتا ہے اس کی تفصیل میں تو اس وقت نہیں جاؤں گا.جو شخص ہدایت پانے کی کوشش کرتا ہے یعنی ایمان لاتا ہے اور پھر اس کے مطابق عمل بھی بجالاتا ہے تو اگر چہ بشری کمزوریاں انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے.ویسے یا د رکھنا چاہیے کہ جب تک دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب نہ کیا جائے اس وقت تک حقیقی کامیابی نصیب نہیں ہوتی اور بظاہر صحیح عقیدہ کے باوجود انسان کے اعمال صالحہ رد کر دیئے جاتے ہیں اور وہ عند اللہ قبول نہیں ہوتے.ان کے بیچ میں کوئی گندی چیز آجاتی ہے اور چونکہ خدا تعالی کی ذات پاک ہے وہ کہتا ہے میں ایسے عمل کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.اس لئے ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ تم اچھے عمل کرنے کے بعد دعا سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کرو تا کہ تمہارا ایمان خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہو جائے.فرمایا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ خدا تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے آخری فیصلہ اسی کے اختیار میں ہے کیونکہ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت یافتہ ہے اور کون نہیں ہے.کسی شخص کے اعمال واقعی قبول ہو جائیں گے اور اس کی بشری کمزوریوں کو معاف کر دیا جائے گا اور وہ ہدایت یافتہ گروہ میں آجائے گا.پھر اسی مضمون کو ایک اور جگہ بیان کیا.فرمایا:.ليْسَ عَلَيْكَ هُدبُهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ (البقرة: ۲۷۳) اے رسول ! لوگوں کو ہدایت کی راہ پر لانا تیرے ذمہ نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت کی راہ پر لے آتا ہے.قرآن کریم کی یہ بھی ایک عجیب شان ہے.ہم اپنے ایک خاص مضمون کے لئے آیات قرآنیہ سے ایک ایک فقرہ اٹھاتے ہیں تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شاید تکرا ر ہے اور ایک ہی بات کو دہرایا گیا ہے.بات دہرائی نہیں جاتی بلکہ ایک نئے پیرا یہ میں ایک نئی بات بتائی جاتی ہے.

Page 251

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۳۷ خطبہ جمعہ ۱۴ را کتوبر۱۹۷۷ء سورۃ بقرۃ کی آیت کے اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے رسول ! ہدایت دینا تیرا کام نہیں ہے یہ خدا کا کام ہے وہ جس کے اعمال قبول کرے گا اسے ہدایت یافتہ گروہ میں شامل کر دے گا.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں انسان کے ساتھ داعی الی الخیر لگا ہوا ہے یعنی انسان کی فطرت کی وہ آواز جو اسے نیکی کرنے پر ابھارتی ہے لیکن صرف یہی نہیں بلکہ تعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة: ۳) کی رو سے بیرونی اثرات کا بھی دخل ہے.چنانچہ اس مضمون کو زیادہ واضح طور پر ذیل کی آیہ کریمہ میں بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.ادع إلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (النحل : ١٢٦) اے رسول ! لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ذریعہ اپنے رب کی راہ کی طرف بلا.کوئی سختی نہیں کرنی.لفظی سختی بھی نہیں کرنی سوائے اس کے کہ کسی کی بھلائی مدنظر ہو کیونکہ ان رَبِّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِین یہ تو اللہ کوعلم ہے کہ واقع میں وہ کون شخص ہے جس نے پورے طور پر داعی الی الشر کی بات مان کر خدا تعالیٰ کی راہ سے دوری اختیار کرلی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے جن کے اعمال اور مجاہدہ اور کوششوں کو قبول کرتا ہے جو ہدایت کے راستوں میں کی جاتی ہیں تو بعض جگہ سخت الفاظ بولے جاتے ہیں لیکن ان میں غصے کا اظہار نہیں ہوتا.آخر ہر سخت کلمہ غصے کے نتیجہ میں تو نہیں بولا جاتا.مثلاً ہمارا اپنا تجربہ ہے، سمجھ دار ماں باپ بھی جانتے ہیں کہ گھروں میں ڈیڑھ دو سال کا بچہ جو کچھ کچھ بات سمجھتا ہے اس کو اگر غصے والی شکل بنا کر کسی بات سے منع کریں تو وہ رونے لگ جائے گا اور وہی فقرہ مسکراتے ہوئے کہیں تو وہ بھی مسکرانے لگ جائے گا.پس خدا تعالیٰ اور اس کے بندے اس معنی میں غضب کا اظہار نہیں کرتے جس معنے میں ایک مغضوب الغضب انسان غضب کا اظہار کیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی اپنے لئے غضب کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں بھی دراصل اس کی رحمت کا ہی کوئی نہ کوئی پہلو بیان ہوا

Page 252

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۳۸ خطبہ جمعہ ۱۴ را کتوبر۱۹۷۷ء ہے اور اس میں بھی مخاطب کی بھلائی ہی مقصود ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا:.فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ (الشوری: ۴۱) کہ اگر اصلاح کی توقع ہو تو معاف کر دینا بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو کہ بڑا ڈھیٹ آدمی ہے جب تک کوئی تھوڑی سی سختی نہ کی جائے گی اس کو سمجھ نہیں آئے گی اور اس کا دماغ درست نہیں ہوگا اور وہ ظلم پر قائم رہے گا تو اس کی بھلائی کے لئے تم سختی کرو مگر اپنے غصے کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ اس کی اصلاح کی خاطر.پھر ایک اور جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.وَ كَذَبَ بِهِ قَوْمُ (الانعام : ۶۷) ایک رنگ میں یہ بیان ہمارے جذبات کی تاروں کو چھیڑتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بڑی ہدایت لے کر آئے لیکن قوم نے اس پیغام کی تکذیب کر دی اور اسے جھوٹا قرار دے دیا حالانکہ هُوَ الْحَقُّ یہ تو ایک صداقت ہے یہ تو ایک سچائی ہے لیکن فرمایا:.قُلْ تَسْتُ عَلَيْكُمْ ہوگیل اے رسول ! تم ان سے کہہ دو.میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.یہ فیصلہ بہر حال تم نے کرنا ہے کہ آیا تم اپنی مرضی سے ایمان کا اظہار کرو گے اور ہدایت کی راہوں کو اختیار کرو گے اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قرب کی تلاش کرو گے یا تم کفر کا اعلان کرو گے اور خدا تعالیٰ سے دوری کی راہوں کو اختیار کرو گے.میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.خدا تعالیٰ نے میرے اوپر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی کہ میں تم پر جبر کر کے زبردستی کے طور پر کسی مادی طاقت کے ذریعہ تمہارے اس اختیار کو چھین کر جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے تمہیں ہدایت کی راہوں کی طرف لاؤں.قرآن کریم سے تو یہ مسئلہ صاف ہے کوئی شخص کسی کو نہ تو ز بر دستی مومن بنا سکتا ہے اور نہ کسی کو زبردستی کا فر بنا سکتا ہے اس لئے کہ ہدایت کے راستوں پر جس آدمی کی جدو جہد عنداللہ مقبول ہوگئی وہی مومن ہوتا ہے.پس جہاں تک ایمانیات کا تعلق ہے قبول کرنا یا نہ کر نا بندے کا کام نہیں یہ خدا کا کام ہے.ایک شخص کہتا ہے میں خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں اور بڑا ہی کمزور انسان ہوں.میں خدا تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت پر ایمان لاتا ہوں.میں مومن ہوں اور اپنی طرف سے اپنی بساط

Page 253

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۳۹ خطبہ جمعہ ۱۴ /اکتوبر۱۹۷۷ء کے مطابق بڑی عاجزی کے ساتھ جتنی بھی تجھے طاقت ہے میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو ایسی صورت میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اسے یہ کہے کہ نہیں! تو ایمان نہیں لا یا اور یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ تو کافر ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کرتے ہیں کہ میں کسی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم کافر ہو تو اب جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں کہتا ہوں تم کا فر ہو وہ گویا اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا بناتا ہے.پس اللہ تعالیٰ ایسے دماغ کو عقل اور سمجھ عطا کرے.ہمارا کام غصہ کرنا نہیں ہمارا کام دعائیں کرنا اور پیار سے سمجھانا ہے.دوستوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلام کی اس تعلیم کی روشنی میں جسے میں نے مختصراً ابھی بیان کیا ہے دو دعا ئیں خاص طور پر کریں.ایک یہ دعا کریں کہ اے خدا! اگر چہ تو نے ہم عاجز بندوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ چاہیں تو ایمان لائیں اور چاہیں تو کفر کی راہوں کو اختیار کریں لیکن اے خدا! ہم تجھ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ تو ہمیں اس بات کی توفیق عطا کر کہ ہم ہمیشہ ہی ہدایت کی راہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں اور دوسری یہ دعا کریں کہ جو لوگ اس وقت قرآن کریم کی صداقتوں کو سمجھ نہیں رہے وہ سمجھنے لگ جائیں.اس وقت یورپ ، امریکہ، افریقہ، روس، چین اور جزائر میں ایک بہت بڑی دنیا ایسی ہے جو قرآن کریم کی ہدایت سے دور ہے.ہم کوئی چیز ز بر دستی تو ان پر ٹھونس نہیں سکتے نہ ہی وہ قو میں جو د نیوی لحاظ سے آزاد ہیں کسی زبر دستی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.اے خدا ! دلوں کو پھیرنا تیرے اختیار میں ہے.جیسا کہ حدیث میں تمثیلی زبان میں بیان ہوا ہے کہ انسان کا دل خدا تعالیٰ کی دو انگلیوں میں ہوتا ہے وہ دائیں طرف حرکت دے تو زاویہ اور بن جاتا ہے اور بائیں طرف حرکت دے تو زاویہ اور بن جاتا ہے.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں ایسی حرکت پیدا ہو کہ اس کے نتیجہ میں ایسا زاویہ بن جائے کہ یہ بھٹکی ہوئی روحیں خدا تعالیٰ کو شناخت کرنے لگیں اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کر لیں اور ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.اللھم آمین ! روزنامه الفضل ربوه ۱۴ رمئی ۱۹۷۸ء صفحه ۲ تا ۶ ) 谢谢谢

Page 254

Page 255

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۴۱ خطبہ جمعہ ۲۱ /اکتوبر ۱۹۷۷ء اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح اس کی صفات بھی بے مثل و مانند ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۱ /اکتوبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پہلے تو میں جلسہ سالانہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.جلسہ سالا نہ قریب آرہا ہے جلسہ کے متعلق بہت سے کام ربوہ والوں نے کرنے ہوتے ہیں اور بہت سے کام ایسے ہیں جو ربوہ میں کئے جاتے ہیں لیکن ان کو کرنے والے احمدی ربوہ میں بھی رہتے ہیں اور بہت سے احمدی باہر بھی رہنے والے ہیں مثلاً ایک ایسا کام یہ ہے کہ جگہ کی تنگی کے نتیجہ میں مہمان خانے بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی.جگہ کی تنگی اس وجہ سے خصوصاً شدید ہوگئی کہ ہمارے تعلیمی ادارے جو جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کے بہت سے مہمانوں کو اپنے اندر سما لیتے تھے اور وہاں ان کا انتظام ہوتا تھا قومیائے جانے کے بعد متعلقہ افسران نے خدا جانے کس مصلحت کی بنا پر اس غرض کے لئے ان تعلیمی اداروں کی عمارات دینے سے انکار کر دیا، اس لئے جماعت نے جلسہ کے لئے مہمان خانے بنانے شروع کئے.ان میں سے کچھ ہمارے مغرب کی طرف بھی ہیں کچھ مہمان خانے بن چکے ہیں کچھ بن رہے ہیں اپنے وقت پر تیار ہو جائیں گے لیکن مجھے لجنہ اماءاللہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ میں احمدی مستورات کو اس طرف متوجہ کروں کہ لجنہ جلسہ کے لئے مستورات کے استعمال کی

Page 256

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۴۲ خطبہ جمعہ ۲۱ /اکتوبر ۱۹۷۷ء خاطر جو مہمان خانہ تیار کروا رہی ہے اس کا خرچ پہلے اندازے سے بڑھ گیا ہے کیونکہ بہت سی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے اس لئے وہ اس مہمان خانہ کو مکمل کرنے میں کچھ تنگی محسوس کر رہی ہیں.پس میں احمدی مستورات سے کہوں گا کہ یہ کام انہوں نے کرنا ہے اگر یہ جلسے سے پہلے اور جب.ہو جائے تو باہر سے آنے والی بہنوں کے لئے بہت سی سہولت کا سامان پیدا ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ نے احمدی کے دل میں بڑی وسعت پیدا کی ہے.ہمارا خیال تھا کہ چونکہ بہت بڑا مسقف حصہ تعلیمی اداروں کے نہ ملنے کی وجہ سے جلسہ سالانہ کو میسر نہیں ہوگا اس لئے تنگی پیدا ہوگی ب پہلے سال یہ حالات پیدا ہوئے تو میں نے ربوہ والوں سے کہا کہ تم بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مہدی کی طرف منسوب ہونے والے ہو اور جو باہر سے مہمان آرہے ہیں وہ بھی مہدی اور مسیح علیہ السلام کے مہمان ہیں ان کو اپنے سینہ سے لگاؤ ، اپنے گھروں میں ان کو جگہ دو، ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے.چنانچہ بہت بھاری اکثریت نے اللہ تعالیٰ سے یہ توفیق پائی کہ وہ اسی کی رضا کے لئے ان مہمانوں کو اپنے گھروں میں ٹھہرائیں اور ہمیں کوئی خاص دقت محسوس نہیں ہوئی لیکن جیسا کہ دوست جانتے ہیں ہر سال مہمانوں کی تعداد میں جلسہ سالانہ کی حاضری میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے اس لئے ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ جلسہ جو آ رہا ہے اس میں شامل ہونے والوں کی تعداد گزشتہ سال سے زیادہ ہوگی اور جگہ کی زیادہ ضرورت ہوگی.جتنی جگہ بنائی جاسکتی ہے بنادیں اور پھر جتنے مہمان اپنے گھروں میں سمائے جا سکتے ہیں سائیں.خدا تعالیٰ آپ کو بھی کوفت اور خفت سے محفوظ رکھے اور آنے والوں کو بھی تکلیف سے بچائے اور آپ ہر دو کے لئے یعنی یہاں کے رہنے والوں کے لئے بھی اور باہر سے آنے والوں کے لئے بھی اپنی رحمتوں اور برکتوں کے سامان پیدا کرے.میں نے جو سلسلہ مضمون شروع کیا تھا اب میں اس کے ایک حصہ کی طرف آتا ہوں.دو خطبے میں نے دیئے ہیں پہلا تو اصولی تھا بہت سی باتیں اسلامی تعلیم کے متعلق میں نے بتائی تھیں اور پھر خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق اسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے وہ مختصراً بیان کی تھی.جہاں تک خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کا تعلق ہے انسان مختصر ہی کچھ کہ سکتا، کچھ سن سکتا اور کچھ مجھ سکتا ہے

Page 257

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۴۳ خطبہ جمعہ ۲۱ اکتوبر۱۹۷۷ء کیونکہ خدا تعالیٰ کی ذات غیر محدود ہے اور انسان ہر جہت اور ہر پہلو سے حدود میں جکڑا ہوا ہے.اس کی طاقتیں بھی محدود، اس کی عقل بھی محدود، اس کی فراست بھی محدود اور اس کی زندگی بھی محدود.وہ اپنی چھوٹی سی زندگی میں خواہ ۷۰-۸۰ سال کی ہو تب بھی خدا تعالیٰ کے متعلق سب کچھ کیسے جان سکتا ہے جو کہ غیر محدود ہے اپنی ذات میں بھی اور جو غیر محدود ہے اپنی صفات میں بھی اور آج میں اسی کے متعلق مضمون شروع کر رہا ہوں.صفات باری کے متعلق جو دو چار باتیں میں کہوں گا ان میں سے پہلی بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی ذات کی طرح اس کی صفات بھی بے مثل و مانند ہیں یعنی نہ اس کی ذات کی کوئی مثل ہے اور نہ کسی اور وجود میں اس جیسی صفات یا کوئی ایک صفت ہمیں نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں بھی بے مثل و مانند ہے.جب ہم اسلامی تعلیم کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی دو قسم کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے ایک کو تنزیہی صفات کہا گیا ہے اور ان میں خدا تعالیٰ کے بے مثل و مانند ہونے میں کسی کو بھی شبہ نہیں نہ کمزور دماغ والے کو اور نہ اسے جس کے دماغ میں شیطان وسوسہ ڈالے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جو ان جلووں سے تعلق رکھتی ہیں کہ جہاں مخلوق کا کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے وہ تنزیہی صفات ہیں وہ خدا ہی کی ہیں اور خدا ہی انہیں بہتر جانتا ہے.ہمیں اس کے متعلق اشارے مل جاتے ہیں لیکن اس کی کنہ کو انسان نہیں سمجھ سکتا اور حقیقت یہ ہے کہ دوسری قسم کی صفات کی کنہ کو بھی جاننا مشکل ہے.بہر حال تنزیہی صفات کے بارہ میں کسی شبہ اور شک یا وسو سے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ ان میں خدا تعالیٰ بے مثل و مانند ہے.دوسری قسم کی صفات کو ہم اسلامی تعلیم کی روشنی میں تشبیہی صفات کہتے ہیں.وہ صفات اس وجہ سے تشبیبی ہیں کہ انسان کے اندر بھی ان صفات سے ملتی جلتی صفات پائی جاتی ہیں اس لئے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا اور اس کو یہ قوت دی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنی صفات پر چڑھائے اور اسے یہ ہدایت کی گئی کہ تَخَلَقُوا بِأَخْلَاقِ اللهِ خدا تعالیٰ کی صفات کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزارو.اس واسطے ہمیں نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ بینا ہے، دیکھتا ہے،

Page 258

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۴۴ خطبه جمعه ۲۱/اکتوبر ۱۹۷۷ء بصیر ہے اور انسان بھی دیکھتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی سنتا ہے اور انسان بھی سنتا ہے.خدا تعالیٰ رحیم ہے اور انسان کو بھی خدا تعالیٰ نے رحم کرنے کی قوت اور طاقت عطا کی ہے.خدا تعالیٰ بھی کریم ہے اور انسان کو بھی خدا تعالیٰ نے کریم ہونے کی قوت اور طاقت عطا کی ہے.خدا تعالی خالق ہے اس نے کن کے ساتھ کا ئنات کو پیدا کر دیا اور انسان کو بھی اس نے یہ طاقت دی ہے کہ وہ تجزیہ کے ذریعے یا جوڑ کر نئی چیزیں نکالے جن کو وہ نئے استعمال میں لائے.مثلاً بہت سی دوائیاں اس نے بنائیں گووہ شاید اتنی مفید نہ ہوں جتنی کہ اپنی اصل شکل میں جس طرح کہ خدا نے ان کو پیدا کیا ہے مفید ہیں لیکن بہر حال انسان ان سے فائدہ اٹھاتا ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ افیم ہے، طب یونانی نے اس کو اپنی اصل شکل میں، قدرتی شکل میں، جس میں کہ خدا نے اس کو پیدا کیا ہے اپنے نسخوں میں بڑی کثرت سے استعمال کیا انسان نے اس کا تجزیہ کیا اور جو میرا آخری علم ہے وہ یہ ہے کہ چھتیں اجزا اس میں سے نکالے گئے ہیں اور اس کے بعد اور نکل آئے ہوں گے اور مختلف اجزا کو مختلف مقاصد کے حصول کے لئے انسان نے استعمال کیا.کوئی کسی بیماری کے علاج کے لئے استعمال کیا کوئی کسی بیماری کے علاج کے لئے.انسان نے جوڑ توڑ کے ساتھ چیزیں بنائیں.ایک تو ہے تجزیہ کرنا اور ایک ہے چیزوں کو جمع کرنا.ان دونوں سے وہ خلق کرتا ہے.غرض ایک ملتی جلتی چیز انسان کے اندر بھی پائی جاتی ہے.پس ایسی صفات جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ایسے رنگ میں انسان پر جلوہ گر ہوئیں کہ وہ ان کو اپنا لے، ان کا رنگ اپنے اوپر چڑھالے اور تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ کی ہدایت پر عمل کر سکے اس قسم کی صفات باری کو شیبی صفات کہا جاتا ہے.لیکن جب ہم غور کرتے ہیں تو تشیبہی صفات میں سے بھی کوئی صفت ایسی نہیں کہ انسان اس صفت میں خدا تعالیٰ کی مثل اور مانند بن جائے.بہت سی صفات ہیں سب میں تو میں اس وقت نہیں جاسکتا کچھ مثالیں دوں گا تا کہ آپ سمجھ جائیں.میں نے بتایا تھا کہ انسان کو حواس دیئے گئے بہت کچھ سیکھنے کے لئے اور ان میں سے ایک سننا ہے.ہمارے سارے تعلیمی ادارے شنوائی کی جس پر ہی چل رہے ہیں اور ترقی کر رہے ہیں.استاد لیکچر دیتا ہے اور شاگر دسنتا ہے اور خدا تعالیٰ بھی سنتا ہے ، وہ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے اور ہم پر رحم کرتا ہے اور ہماری دعاؤں کو قبول

Page 259

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۴۵ خطبہ جمعہ ۲۱ /اکتوبر ۱۹۷۷ء کرتا ہے.پس خدا تعالیٰ میں بھی سننے کی صفت اور شنوائی کی صفت ہے اور انسان میں بھی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی شنوائی کی صفت اور انسان کی شنوائی کی صفت میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ دونوں سنتے ہیں اس لئے اس صفت میں انسان خدا کے برابر ہو گیا، خدا کا شریک بن گیا.نہیں.خدا کی شنوائی کی صفت بھی بے مثل و مانند ہے.اس لئے کہ ایک تو انسان کو شنوائی کے لئے کانوں کی ضرورت ہے یعنی اس کے اپنے جسم میں ایک ایسا آلہ ہونا چاہیے جو سن سکے اور دوسرے اس کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے.صوتی لہریں جو ہوا میں آتی ہیں ان کے بغیر وہ سن نہیں سکتا خواہ کان موجود ہوں تب بھی نہیں سن سکتا اور تیسرے اس لئے کہ وہ محدود ہے، کئی لحاظ سے محدود ہے.مثلاً میں یہاں بول رہا ہوں یہ بظاہر چھوٹی سی مسجد ہے لیکن اگر لاؤڈ سپیکر نہ ہو تو جو دور بیٹھے ہوئے ہیں ان کے کان میری آواز نہیں سنیں گے.فاصلہ حد بندی کر رہا ہے.اب میں یہاں بول رہا ہوں لیکن اس لاؤڈ سپیکر کے باوجود میری آواز چنیوٹ نہیں سن رہا ، میری آواز لا ہور نہیں سن رہا، میری آواز راولپنڈی نہیں سن رہا، پشاور نہیں سن رہا ، کراچی نہیں سن رہا.پس فاصلوں کی ایک حد بندی ہے.صوتی لہر میں ایک خاص قسم کی طاقت ہو تب انسان سن سکتا ہے.پس ایک تو انسان محتاج ہے کان کا، دوسرے وہ محتاج ہے ہوا کا اور تیسرے یہ کہ پھر بھی اس کی شنوائی محدود ہے لیکن خدا تعالیٰ کی شنوائی نہ کان کی محتاج ہے، نہ ہوا کی محتاج ہے، نہ کسی اور چیز کی محتاج ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور غیر محدود ہے.اتنی وسیع کائنات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض آیات قرآنیہ سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس یو نیورس (Universe) کے، اس کائنات کے اور اجرام میں بھی انسان سے ملتی جلتی آبادی پائی جاتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور شعور دیا ہے اور صاحب اختیار بنایا ہے.اتنی بڑی کائنات کہ جس کے کناروں سے بھی ہم اپنے علم کے لحاظ سے آگے نہیں بڑھے اس ساری کائنات میں جو بھی آواز ہو خدا تعالیٰ اس کو سنتا ہے لیکن نہ اس کے کان ہیں کیونکہ جسم ہی نہیں ہے اور نہ وہ ہوا کا محتاج ہے اور نہ اس کی سننے کی یہ طاقت یہ صفت محدود ہے بلکہ اس کی سننے کی صفت غیر محدود ہے، اس کی کوئی حد ہی نہیں.پس خدا تعالیٰ کی شنوائی اور انسان کی شنوائی کچھ ملتی ضرور ہیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسانی صفت خدا تعالیٰ کی صفت کی

Page 260

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۴۶ خطبہ جمعہ ۲۱ /اکتوبر۱۹۷۷ء مثل بن گئی اور خدا تعالیٰ کی صفت کی مانند بن گئی.پھر انسان کی بینائی ہے.انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے لیکن دیکھنے کے لئے صرف آنکھ کی ضرورت نہیں بلکہ وہ روشنی کا بھی محتاج ہے.آنکھ کے ہوتے ہوئے بھی اگر بالکل اندھیری کوٹھڑی ہو اور ذرا بھی روشنی نہ ہو تو وہ دیکھ نہیں سکتا اور پھر اس کی نظر محدود ہے، کئی لحاظ سے محدود ہے لیکن یہاں پھر میں فاصلے کی مثال دے دیتا ہوں.کچھ فاصلے کے بعد انسان کی نظر دیکھ نہیں سکتی بالکل صحیح اور صحتمند نظر بھی نہیں دیکھ سکتی.پس انسان کی نظر محدود ہے.وہ روشنی کی محتاج ہے، آنکھ کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے لیکن خدا تعالیٰ بغیر جسمانی آنکھوں کے دیکھتا ہے اور اس کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے.اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ (النور : ۳۶) اور اس کی نظر غیر محدود ہے.اسی طرح انسان کی بعض ایسی صفات ہیں جن سے وہ علم حاصل کرتا ہے.انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محدود ہے.یہ معلم کوئی دوسرا انسان بھی ہوسکتا ہے، یہ معلم واقعات بھی ہو سکتے ہیں، یہ معلم ماحول بھی ہو سکتا ہے، یہ معلم سائنس کی لیبارٹری میں سائنس کا آپر یٹس بھی ہوسکتا ہے.بہر حال انسان علم کے حصول کے لئے کسی معلم کا محتاج ہے اور اس کے باوجود محدود ہے.انسان غیر محدود علم حاصل نہیں کر سکتا مگر اللہ تعالیٰ کا علم کسی جہت سے بھی کسی معلم کا محتاج نہیں ہے اور بائیں ہمہ وہ غیر محدود ہے.اس لحاظ سے خدا کے علیم ہونے اور انسان کے بھی عالم ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے.کچھ مشابہت کے باوجود ہم نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ اپنی صفات میں بے مثل و مانند نہیں بلکہ اس کے باوجود خدا تعالیٰ اپنی صفات میں بے مثل و مانند ہے.اسی طرح انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور وقت کی محتاج ہے لیکن خدا تعالیٰ کی پیدا کرنے کی قدرت نہ مادہ کی محتاج ہے اور نہ وقت کی محتاج ہے.انسان موٹر بناتا ہے، ہوائی جہاز بناتا ہے، آٹا پینے کی مشین بناتا ہے، کپڑا بننے کے کارخانے بناتا ہے وغیرہ وغیرہ ہزاروں چیزیں ہیں جن میں خلق کا ایک پہلو آ جاتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا وہ توڑنے اور تجزیہ کرنے سے یا جوڑنے سے چیزیں بناتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی صفت خلق مادہ کی محتاج نہیں اور غیر محدود ہے.خلق کے بھی مختلف جلوے ہیں.کچھ حصے کے متعلق شاید آگے بھی ذکر آئے اس

Page 261

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۴۷ خطبہ جمعہ ۲۱/اکتوبر ۱۹۷۷ء کے غیر محدود جلوے ہیں.خدا تعالیٰ کی ہر صفت کے غیر محد و دجلوے ہیں.غرض خدا تعالیٰ کی تمام صفات کا یہی حال ہے کہ وہ بے مثل و مانند ہیں.بعض مذاہب میں یہ غلط تصور پیدا ہو گئے کہ بعض صفتوں میں انسان خدا تعالیٰ کی مثل بن جاتا ہے یہ غلط ہے ، عقلاً بھی غلط ہے.یا یہ تصور پایا جاتا ہے کہ بعض صفات میں خدا تعالیٰ ناقص ہے وہ تبھی انسان کی مثل بن سکتا ہے اگر وہ ناقص ہو.میں ناقص ہونے کو لے لیتا ہوں.اگر ایک صفت میں بھی اللہ تعالیٰ کو ناقص سمجھا جائے تو امکان پیدا ہو گیا کہ ہر صفت میں ہی وہ ناقص ہوسکتا ہے اور اگر یہ امکان پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی توحید قائم نہیں رہ سکتی اور یہ حقیقت کہ وہ اپنی ذات اور اپنی صفات میں واحد ویگا نہ ہے اس کی بنیاد ختم ہو جاتی ہے.پس خدا تعالیٰ اپنی کسی ایک صفت میں بھی کسی جہت سے بھی ناقص نہیں ہے.وہ واحد و یگانہ ہے جیسا اپنی ذات میں ویسا ہی اپنی صفات میں بھی ، اپنے افعال میں بھی اور اپنی قدرتوں میں بھی.میں نے صفات باری تعالیٰ سے تعلق رکھنے والی چند ایک باتیں ہی اس وقت کے لئے منتخب کی ہیں.پہلی بات میں نے یہ بتائی کہ خدا تعالیٰ اپنی صفات میں بے مثل و مانند ہے.اس کے بعد دوسری بات میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اس کی قدرت غیر محدودہ سے وابستہ ہے یعنی ایک تو وہ بے مثل و مانند ہے اور دوسرے اس کی قدرتیں غیر محدود ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو قانون کے طور پر کسی حد کے اندر گھیر لینا انسان کا کام نہیں یہ ناممکنات میں سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا شناسی کے لئے ایک بہت زبردست بنیاد یہ ہے کہ خدائے ذوالجلال کی قدرتیں بے انتہا سمجھی جائیں.اسلامی تعلیم سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی جو غیر محدود قدرتیں ہیں ازلی ابدی طور پر خدا تعالیٰ ان کے جلوے دکھا رہا ہے اور ان ازلی ابدی صفات کے مطابق وہ اپنا کام کر رہا ہے.خدا تعالیٰ کی یہ صفات ہر مخلوق ارضی و سماوی پر موثر ہورہی ہیں اور مخلوقات پر جو اثر پیدا ہوگا اس کو ہم عربی میں آثار الصفات بھی کہہ سکتے ہیں یعنی صفات کا جواثر پیدا ہوا.آثار الصفات یعنی خدا تعالیٰ کے متعلق یہ حقیقت کہ وہ ہمیشہ اپنی ازلی ابدی صفات کے

Page 262

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۴۸ خطبہ جمعہ ۲۱ /اکتوبر ۱۹۷۷ء موافق کام کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی غیر محدود صفات کے جلوے مخلوق ارضی و سماوی پر یعنی کل کائنات پر مؤثر ہو رہے ہیں.ساری مخلوق پر اثر انداز ہور ہے ہیں.ان آثار الصفات کا نام سنت اللہ یا قانونِ قدرت ہے یعنی خدا تعالیٰ کی صفات جو ساری مخلوق پر اثر انداز ہورہی ہیں یہ خدا تعالیٰ کی صفات کے آثار ہیں.اسی کو ہم سنت اللہ یا قانونِ قدرت کہہ سکتے ہیں.خدا تعالیٰ کی صفات میں کوئی تضاد نہیں.پس ایک طرف تو اس کی صفات کے غیر محدود جلوے اس کی ساری مخلوقات پر اثر انداز ہور ہے اور دوسری طرف ہر چیز اپنے اندر ایک ایسی خاصیت رکھتی ہے کہ جس سے وہ خدا تعالیٰ کی غیر متناہی قدرتوں سے اثر پذیر ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی.خدا تعالیٰ کا یہ فعل کہ اس کی غیر محدود قدرتوں کے جلوے اس کی مخلوق پر اثر انداز ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا اپنی مخلوق کو ایسا بنادینا کہ اس کی مخلوق خدا تعالیٰ کے بے شمار جلووں سے اثر قبول کرتی رہے.زمین وآسمان میں جو چیز بھی ہے وہ خدا تعالیٰ کی غیر متناہی قدرتوں سے اثر پذیر ہوتی ہے، پہلے ہوتی رہی اور آئندہ ہوتی رہے گی.اس سے عقلاً یہ نتیجہ نکلا کہ اشیاء کے جو خواص ہیں، چیزوں کی جو خاصیتیں ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں یعنی انسان ان کا احاطہ نہیں کر سکتا.ان میں بے شمار خواص پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے بے شمار جلووں سے خدائی صفات کے غیر محدود جلووں سے انہوں نے اثر قبول کیا ہے پس ان کی خاصیتیں بے شمار ہو گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خواہ ہم ان پر اطلاع پائیں یا نہ پائیں لیکن ہیں وہ بے شمار.آج کل سائنس میں بہت تحقیق ہو رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خشخاش کا دانہ لے لو.اس پر جتنی تحقیق ہو چکی ہے اس سے کہیں زیادہ خشخاش کے دانے کے اندر خواص ہیں کیونکہ ہر چیز میں بے شمار خواص ہیں.چنانچہ عرصے عرصے کے بعد انسانی تحقیق اور علم کے میدان میں اس کی کوشش کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ یہ ہے جیسا کہ میں نے پہلے افیم کی مثال دی تھی کہ ایک وقت میں افیم ایک چیز سمجھی جاتی تھی پھر سائنسدانوں نے تجزیہ کیا.پھر انہوں نے کہا کہ اس کے اندر چودہ است ہیں.یہ بھی میں نے ایک دفعہ پڑھا تھا کہ افیم میں چودہ ست پائے جاتے ہیں پھر ان کو تسلی ہو گئی اور مزید تحقیق اور ریسرچ انہوں نے چھوڑ دی.پھر کچھ عرصے کے بعد سائنسدانوں نے کہا کہ کچھ

Page 263

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۴۹ خطبہ جمعہ ۲۱/اکتوبر ۱۹۷۷ء اور تحقیق کرنی چاہیے.پھر انہوں نے اور تحقیق شروع کی.پھر انہوں نے کہا کہ انہیں ست ہیں.یہ میں مثال دے رہا ہوں.پھر جس طرح جانور جگالی کرتا ہے انہوں نے کہا کہ اچھا اب اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اب اُنیس ست بن گئے.پھر کچھ عرصے کے بعد نوجوان سائنسدان میدان میں آئے انہوں نے کہا کہ پہلوں نے ریسرچ کی تھی ہم کیوں پیچھے رہیں.پھر انہوں نے ریسرچ کی اور انہوں نے کہا کہ چھپیں، ستائیس ست ہیں.پھر اس پر تسلی پکڑ لی اور کچھ عرصہ ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی.پھر ایک نئی نسل پیچھے سے آ گئی نوجوان سائنسدانوں کی ، اس نے کہا میں کیوں پیچھے رہوں پھر اس نے ایک نئی ہمت اور عزم کے ساتھ ریسرچ شروع کی اور پھر اس نے کہا کہ افیم میں چھتیس کے قریب ست ہیں.میرے آخری علم کے مطابق یہی ہے اس کے بعد اور بہت سی ریسرچ ہوئی ہے جس کا مجھے پتہ نہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کے غیر محدود جلوے اس کی ساری مخلوقات پر ہر وقت ظاہر ہورہے ہیں اور ہر مخلوق کو خدا تعالیٰ نے یہ خاصیت دی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے جلووں سے اثر قبول کرے اس لئے خواص اشیاء غیر محدود ہیں اور آدمی ان کی حد بندی نہیں کرسکتا.پس بڑا عظیم علم ہے جو ایک مسلمان کو بنیادی طور پر دیا گیا تھا تا کہ وہ اپنی علمی تحقیق میں کسی جگہ کھڑا نہ ہو جائے لیکن ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم کھڑے ہو گئے اور پیچھے رہ گئے.ایک وقت میں سپین کی مسلمان یونیورسٹیاں یورپ کے بڑے بڑے علماء کو اپنی طرف کھینچ لینے کی توفیق پاتی تھیں اور وہاں بڑی عمر کے اور اپنی دنیا کے مانے ہوئے سکالرز اور محقق مزید علوم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے.اگر مسلمان آگے بڑھتے رہتے تو ہمیشہ یہی کیفیت رہتی لیکن خدا کی یہی مصلحت تھی روک پیدا ہو گئی.لیکن اب اسلام کی ترقی کا نیا دور شروع ہوا ہے اور ایک احمدی دماغ کو میں کہتا ہوں کہ کسی جگہ ٹھہر نا نہیں کیونکہ خدا نے کہا ہے کہ کوئی چیز بھی لے لو، خشخاش کا دانہ ہو یا ایٹم کا ذرہ اس کی تحقیق کسی جگہ ختم نہیں ہوتی.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ حاصل کر لیا ہے اور اب باقی کچھ نہیں رہا صرف پھوک رہ گیا ہے.پھوک کوئی نہیں ہے کیونکہ مثلاً سائنٹیفک ریسرچ کا تحقیق کا جو دس سالہ زمانہ تھا ان دس سالوں میں پتہ نہیں خدا تعالیٰ کی

Page 264

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۵۰ خطبہ جمعہ ۲۱ /اکتوبر ۱۹۷۷ء صفات کے کتنے نئے جلووں کو ان اشیاء نے جذب کیا اور ان کی ہیئت پہلے سے مختلف ہو گئی.ان حقائق کے بیان سے ایک اور نتیجہ نکلتا ہے بڑا ز بر دست نتیجہ.وہ یہ کہ چونکہ خدا تعالیٰ اپنی صفات کا ملہ کے ساتھ غیر محدود اور غیر متناہی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کی ان صفات کے غیر محدود جلوے خدا تعالیٰ کی مخلوق پر ہورہے ہیں اور ان جلووں سے ایک اثر پیدا ہوتا ہے اور یہی منشاء رتی ہے اور مخلوق کو یہ خاصیت دی گئی ہے کہ وہ اس اثر کو قبول کرے اس لئے انسان بڑا ہی نادان ہوگا اگر وہ یہ دعویٰ کرے کہ آثار الصفات کو یعنی غیر محدود جلووں کے نتیجہ میں جو مخلوق کی غیر محدود خاصیتیں رکھنے والی چیزیں ہیں ان کو اپنے تجربے یا اپنی عقل یا اپنے مشاہدہ کے اندر باندھا جا سکتا ہے اور محدود کیا جا سکتا ہے.اس واسطے قوانین قدرت محدود نہیں ہیں ( میں نے پہلے بتایا تھا کہ آثار الصفات کا نام ہی سنت اللہ اور قانونِ قدرت ہے ) اور نہ ہمارا تجربہ ان کی حد بندی کر سکتا ہے جیسا کہ خود ہمارے تجربے نے بتایا ہے کہ وہ نہیں کر سکتا مثلاً آج سے سو سال پہلے جتنی ریسرچ ہوئی ہے اس ریسرچ نے اس تحقیق نے ہر قدم پر ہمیں بتایا ہے کہ ہماری تحقیق حد بندی نہیں کر سکتی.ہمارا فہم اس کی حد بندی نہیں کر سکتا.جن کی آنکھیں کھلی ہیں ان کو ہر روز کوئی نہ کوئی نئی چیز خدا کی قدرت کے اندر نظر آتی ہے اور مشاہدہ ان کو بتا تا ہے کہ وہ حد بندی نہیں کرسکتا اور یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ جو قوانین قدرت ہمیں معلوم ہیں بس وہی ہیں ان سے بڑھ کر اور کوئی نہیں کیونکہ اگر آثار الصفات کا نام ہی سنت اللہ اور قوانین قدرت ہے تو قوانین قدرت بھی غیر محدود ہیں اور انسان ان کا احاطہ نہیں کر سکتا.میں نے ابھی بتایا ہے کہ ہمارا مشاہدہ بھی ان کا احاطہ نہیں کر سکتا.ہماری بہت سی تحقیق مشاہدہ کے نتیجہ میں ہے یعنی لیبارٹریز وغیرہ میں نہیں بلکہ بس ایک چیز سامنے آگئی اور اس نے ایک سبق دے دیا مثلاً میں نے ایک مضمون پڑھا کہ امریکہ میں ایک شخص تھا اس کا صرف ایک باغ تھا.کافی بڑا باغ تھا اور بڑے پیسے کماتا تھا.اسی پر اس کا گزارا تھا اور گزارے کی کوئی اور چیز اس کے پاس نہیں تھی.موسم بہار میں جب پتے نکلے اور درخت پھل سے لد گئے تو اس نے دیکھا کہ ”تیلا یعنی پتوں وغیرہ کو کھانے والے اور نقصان پہنچانے والے کیڑے نے اس کے باغ پر شدید قسم کا حملہ کیا ہے.وہ بڑا سخت پریشان ہوا کہ

Page 265

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۵۱ خطبه جمعه ۲۱/اکتوبر ۱۹۷۷ء میری تو روزی ہی یہ ہے اگر سارا پھل مر گیا تو میں کھاؤں گا کہاں سے؟ تب اس کے دماغ میں یہ بات آئی کہ میں اپنے باغ میں جا کر پھروں اور دیکھوں کہ کوئی جڑی بوٹی ایسی بھی ہے جس پر اس بیماری نے ، اس کیڑے نے حملہ نہیں کیا تو اس کے اپنے باغ میں ہی اس کو ایسی جڑی بوٹیاں مل گئیں جن پر اس تیلے نے اس کیڑے نے حملہ نہیں کیا تھا.چنانچہ اس نے ان کو اکھیڑا ، ان کا جوشاندہ بنایا اور اس کا سپرے کیا اور سارا کیڑا مر گیا.اب یہ پہلی دفعہ اس کے مشاہدے نے اس کو بتایا جو سمجھتا تھا کہ کیڑے مار دوائیاں جو بن سکتی تھیں بن گئیں ، اب اور کچھ نہیں ہوسکتا.یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے کہ جہاں انسانی دماغ ٹھہرا ہوا تھا.مشاہدے نے اس کو دھکا دے کر آگے بڑھا دیا.جہاں تم ٹھہرے ہو وہ انتہا نہیں آگے بھی دروازہ کھلا ہے، پھر آگے دروازہ کھلا ہے.انسان نے اپنی پیدائش سے ، ہوش سنبھالنے کے بعد سے اس وقت تک پتہ نہیں کتنے غیر محدود مشاہدات کئے یعنی ہم ان کی حد بندی نہیں کر سکتے.ویسے تو انسان محدود ہے لیکن بے شمار مشاہدات ہیں ہم ان کو شمار میں نہیں لا سکتے.اس واسطے ہم کسی جگہ ٹھہر نہیں سکتے.خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے بہت بڑا علمی میدان کھول دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ والسلام فرماتے ہیں کہ ہم ایسے خدا کو نہیں مانتے جس کی قدرتیں صرف ہماری عقل اور قیاس تک محدود ہیں اور آگے کچھ نہیں بلکہ ہم اس خدا کو مانتے ہیں جس کی قدرتیں اس کی ذات کی طرح غیر محدود اور نا پیدا کنار اور غیر متناہی ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرنے سے ہمیں ایک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بغیر ان امور کے جو اس کی شان کے مخالف ہیں یا اس کے وعدوں کے برخلاف ہیں وہ ہر بات پر قادر ہے.خدا تعالیٰ تو اپنے وعدہ کا پکا ہے اس لئے اگر کوئی یہ پوچھے کہ کیا خدا تعالیٰ اپنا وعدہ تو ڑ سکتا ہے تو یہ سوال پوچھنے والے کی حماقت ہے خدا تعالیٰ کی شان میں تو کوئی فرق نہیں آئے گا وہ اپنے وعدے نہیں تو ڑا کرتا.آپ فرماتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ اس معنی میں قادر نہ ہوتا کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے تو پھر ہم اس سے کیا امید رکھ سکتے.ہم جو ہر موقع پر اور ہر ضرورت کے وقت اور ہر تکلیف میں اور ہر بھلائی اور خیر کے پانے کے لئے اس کے آگے جھکتے اور اس سے دعائیں کرتے ہیں تو اس کی بنیاد یہی امید ہے کہ

Page 266

خطبات ناصر جلد ہفتم کوئی چیز اس کے آگے انہونی نہیں.۲۵۲ خطبہ جمعہ ۲۱/اکتوبر ۱۹۷۷ء ہماری دعاؤں کی قبولیت اس بات پر موقوف ہے کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے مثلاً ایک بیمار ہے اس کے لئے ہم دعا کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ مادی ذرات میں بھی تبدیلی پیدا کر سکتا ہے اور نئی قو تیں اور طاقتیں دے سکتا ہے اور روح میں بھی نئی قوتیں اور طاقتیں پیدا کرسکتا ہے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کے لئے دعائیں کر کے اس اُمت کے اندر ایک عظیم روحانی انقلاب پیدا کر دیا ہے، یہ ان کی روح کے اندر ہی تھا.پس وہ ذرات میں نئی قو تیں پیدا کر سکتا ہے وہ ہر چیز کر سکتا ہے جو اس کی عظمت اور ارفع شان کے خلاف نہ ہو اور اسی وجہ سے وہ دعاؤں کو قبول کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ایک شخص بیمار ہو جاتا ہے پھر بڑے بڑے ماہر آتے ہیں اور اس کا علاج کرتے ہیں اس کو دوائیاں دیتے ہیں لیکن اس کو آرام نہیں آتا.یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے دو حکم آسمان سے نازل ہوتے ہیں ایک تو خدا تعالیٰ دوا کو کہتا ہے کہ اس پر اثر نہ کر اور ایک اس بیمار کے جسم کے ذرات کو حکم دیتا ہے کہ اس اثر کو قبول نہ کرو اور وہ علاج میں لگا رہتا ہے.دو ہفتے گزرے، دو مہینے گزرے اور آرام نہیں آ رہا.پھر خدا کا ایک بندہ خدا کے حضور جھکتا ہے اور اس بیمار کے لئے دعا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول کر کے ایک طرف دوا کو حکم دیتا ہے کہ اب اس کے لئے مؤثر بن جا اور دوسری طرف بیمار کے جسم کے ذروں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اس اثر کو تم قبول کرو چنانچہ وہی دوائیں جو ہفتوں یا مہینوں سے بے اثر ثابت ہو رہی تھیں ان کے اندر ایک اثر پیدا ہو جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ کی صفات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.ہماری روحانی بھلائی کے لئے ایک اور صفت کا پہچاننا بھی ضروری تھا اب میں اس کو لیتا ہوں.میں نے کہا تھا کہ میں مختصراً یہ مضمون بیان کروں گا کیونکہ خدا تعالیٰ کی غیر محدود صفات کے متعلق تو غیر محدود بیان چاہیے.نہ آپ کی عمر غیر محدود کہ سن سکیں نہ میری یا کسی اور کی عمر اتنی لمبی کہ وہ سناتا چلا جائے.خدا تعالیٰ کے جلوے تو غیر محدود ہیں وہ بڑی شان والا ہے.وہ صفت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ مالک ہے ہر چیز کا مالک اللہ ہے.وہ ہمارے جسموں کا بھی مالک ہے وہ ہماری جان کا

Page 267

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۵۳ خطبہ جمعہ ۲۱/اکتوبر ۱۹۷۷ء بھی مالک ہے، وہ ہماری قوتوں اور طاقتوں اور صلاحیتوں کا بھی مالک ہے، وہ ہماری اولاد کا بھی مالک ہے.ہمارے پاس جو دولت ہے پیسے اور دوسرے اموال وغیرہ ہیں ان کا بھی مالک ہے.اصل مالک حقیقی مالک وہی ہے اور ہمارا کچھ نہیں.خدا تعالیٰ کی مالک ہونے کی صفت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارا کچھ نہیں اور چونکہ خدا تعالیٰ مالک ہے اس لئے انسان کو یہ جاننا چاہیے کہ اس کے مقابل پر تمام حقوق سلب ہو جاتے ہیں.مالک جو ہوا تو اس کے مقابل پر حق کیا، یعنی خدا تعالیٰ کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا لڑکا تھا تو نے کیوں چھین لیا یا میرا روپیہ تھا تو نے کیوں ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ وہ ضائع ہو جائے یا میراجسم تھا اس کو مفلوج کیوں کر دیا.کچھ بھی میرا انہیں سب اسی کا ہے.یہ ہے مالک ہونے کے معنی.اس صفت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ پڑھ کر آج کے خطبہ کو میں ختم کروں گا.آپ فرماتے ہیں:.انسان نے جو اپنے مالک حقیقی کے مقابل پر اپنا نام بندہ رکھا یا اور إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا الَيْهِ رجِعُونَ (البقرۃ: ۱۵۷) کا اقرار کیا یعنی ہمارا مال، جان، بدن، اولا دسب خدا کی ملک ہے تو اس اقرار کے بعد اس کا کوئی حق نہ رہا جس کا وہ خدا سے مطالبہ کرے.اسی وجہ سے وہ لوگ جو درحقیقت عارف ہیں باوجود صدہا مجاہدات اور عبادات اور خیرات کے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کے رحم پر چھوڑتے ہیں اور اپنے اعمال کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتے اور کوئی دعویٰ نہیں کرتے کہ ہمارا کوئی حق ہے یا ہم کوئی حق بجالائے ہیں کیونکہ در حقیقت نیک وہی ہے جس کی توفیق سے کوئی انسان نیکی کر سکتا ہے اور وہ صرف خدا ہے.پس انسان کسی اپنی ذاتی لیاقت اور ہنر کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے انصاف کا مطالبہ ہر گز نہیں کر سکتا.قرآن شریف کی رو سے خدا کے کام سب مالکا نہ ہیں.دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو حقیقی عرفان عطا کرے تا کہ ہم عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں.روزنامه الفضل ربوہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۷۷ء صفحہ ۲ تا ۷ )

Page 268

Page 269

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۵۵ خطبہ جمعہ ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۷ء انسانی پیدائش کی طرح الہی سلسلے تدریجا ترقی کرتے ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۸ /اکتوبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے تدریج کا اصول جاری کر رکھا ہے.خدا تعالیٰ اپنی حکمت کا ملہ سے ایک چھوٹی سی چیز کو پیدا کرتا ہے اور پھر وہ اپنی صفات کے جلووں کے ذریعہ اس کو بتدریج بڑھاتا ہے یعنی ہر چیز کو آہستہ آہستہ وہ شکل دی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتی ہے.انسان کی پیدائش کے متعلق قرآن کریم نے بتایا ہے کہ اسے نطفہ سے پیدا کیا گیا ہے.وہ رحم مادر میں مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے بچہ بنتا ہے اور پیدائش کے وقت اس بچے کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ سب جانتے ہیں.پھر وہی بچہ بڑا ہو کر آسمان کے ستاروں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے.چاند کے اوپر بھی اس کا پاؤں لگ جاتا ہے لیکن پیدائش کے وقت اس کی جو حالت ہوتی ہے اس میں بتدریج ترقی ہوتی ہے اور اس کی قوتیں آہستہ آہستہ نشو نما پاتی ہیں اور ہر انسان اپنی استعداد کے مطابق اپنے کمال کی طرف حرکت کرتے ہوئے ترقی کر رہا ہوتا ہے.اگر وہ خوش قسمت ہو اور اس کی تدبیر مقبول ہو اور اللہ تعالیٰ اسے ہدایت پر قائم رکھے تو وہ اپنے دائرہ استعداد میں بالآخر کمال کو پہنچ جاتا ہے.

Page 270

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۵۶ خطبہ جمعہ ۲۸ ا کتوبر۱۹۷۷ء اللہ تعالیٰ نے سورۃ دھر میں فرمایا ہے کہ ایک چھوٹا سا قطرہ ہے جس سے بچے کی پیدائش شروع ہوتی ہے.اس قطرہ میں بھی وہ سارے قومی موجود ہوتے ہیں جن کی نشو ونما حاصل کرنے کے بعد انسانی وجود ایک مکمل شکل اختیار کرتا ہے اور ترقی کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ ایک چوٹی کے معروف و مشہور سائنسدان کی صورت میں دنیا کے سامنے ظاہر ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ أَمَشَاجِ نَبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (الدهر :۳) فرمایا انسان کی پیدائش ایک ایسے نطفے سے ہوتی ہے جس میں مختلف قو تیں ملی ہوئی ہوتی ہیں.پھر جب وہ نشوونما کے مختلف مدارج سے گزر جاتا ہے تو اسے دو بنیادی طاقتیں دی جاتی ہیں ایک مشاہدہ کی قوت یعنی بینائی اور ایک دوسروں سے سیکھنے کی قوت.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کو سمیع اور بصیر بنایا ہے.وہ ان خدا دا د قوتوں کے ذریعہ دوسروں کے تجربوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيلَ (الدھر: ۴) ہم نے انسان کو ہدایت کا راستہ دکھا دیا ہے، یعنی اس کے مناسب حال جو راہ تھی وہ اس کو دکھا دی ہے اور اس کے مقصدِ حیات کو پورا کرنے والی اور اس کو خدا کی طرف لے جانے والی اور خدا تک پہنچانے والی جو ہدا یت ہے وہ اس کو دے دی ہے.اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے.چنانچہ جب ہم انسان کی طاقتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہدایت کی وہ راہ جو اس کی جسمانی قوتوں کی نشو و نما کے لئے ضروری تھی وہ اس کو مل گئی ہے اور اگر انسان اس پر چلے تو وہ مضبوط سے مضبوط جسم والا انسان بن سکتا ہے اور انسان کی جسمانی طاقتیں اپنے کمال کو پہنچ سکتی ہیں.غرض قرآن کریم نے انسان کی دوسری طاقتوں کے علاوہ اس کی جسمانی طاقتوں کی حفاظت کے لئے اور ان طاقتوں کی نشوونما کے لئے بھی ہدایت دی ہے.پھر نواہی یعنی برے کاموں سے روکنے والے احکام ہیں جو انسان کو تباہی اور ہلاکت سے بچاتے ہیں مثلاً انسان کی جسمانی طاقتوں کے لئے کھانا ایک ضروری چیز ہے لیکن بہت سی چیزیں کھانے سے منع کر دیا اور جو حلال چیزیں تھیں اور جن کے استعمال کی اجازت دی تھی ان کے متعلق بھی یہ کہا کہ دیکھو انسان انسان کی طبیعت میں فرق ہے.بعض حلال

Page 271

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۵۷ خطبہ جمعہ ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۷ء چیزیں بعض انسانوں کے موافق آئیں گی بعض کے موافق نہیں آئیں گی اس لئے صرف حلال ہی نہیں طبیب کھایا کرو.تم یہ دیکھا کرو کہ تمہیں کون سی چیز موافق ہے، وہ کون سا کھانا ہے جو تمہاری طاقت کو قائم رکھنے والا ہے اور جس کے نتیجہ میں تم اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح نباہ سکتے ہو.آج کی دنیا بڑا فخر کرتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ غذا میں توازن (Balance) کا اصول انہوں نے معلوم کیا ہے حالانکہ قرآن کریم نے یہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز میں توازن کا اصول قائم کیا ہے اس لئے فرما یا :.الا تَطْغَوا في الميزان (الرحمن: ۹) فرمایا یہ خیال رکھنا کہ کسی شعبہ زندگی میں بھی اس توازن کے اصول کی خلاف ورزی سرزد نہ ہو کیونکہ اس سے تمہیں تکلیف پہنچے گی.غرض انسان کی جسمانی طاقتوں کی حفاظت کے لئے اور ان کی صحیح اور کامل نشو و نما کے لئے جس ہدایت کی ضرورت تھی وہ انسان کو دے دی گئی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو ذہنی قوتیں بھی عطا کی ہیں.خدا تعالیٰ نے انسان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ علم حاصل کرتا ہے اور علم کے میدانوں میں ترقیات کرتا ہے.وہ اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی انقلاب ہائے عظیم پیدا کرتا رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ انسان کو ذہنی قو تیں دی گئی ہیں بلکہ اس کو بے راہ روی اور بھٹکنے سے بچانے کے لئے بھی اسے تعلیم دی گئی ہے اور وہ راہیں بھی بتادی گئی ہیں جن پر چل کر وہ حقائق اشیاء تک پہنچ سکتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں یہ دعا بھی سکھلائی گئی ہے.رَبِّ أَرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ کہ اے میرے رب ! مجھے حقائق اشیاء معلوم کرنے کی توفیق عطا فرما.بعض دفعہ احمدی نوجوان طالب علم مجھ سے ملنے کے لئے آتے ہیں تو میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ دیکھو قرآن کریم نے ہر علم کے متعلق بنیادی اصول بتا دیئے ہیں اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ہر علم کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کریں.ایک دفعہ حساب کے ایم ایس سی کے احمدی طلباء کا ایک گروپ ملاقات کے لئے آیا.میں نے ان سے کہا تم حساب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہو لیکن کیا تمہیں معلوم ہے حساب کے ماہرین نے یہ کہا ہے کہ حساب کی بنیاد چند

Page 272

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۵۸ خطبہ جمعہ ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۷ء مفروضات پر ہے یعنی انہوں نے بعض باتیں خود ہی فرض کر لی ہیں.اگر وہ بنیاد بیچ میں سے نکال دی جائے تو علم حساب کی عمارت زمین پر گر پڑتی ہے لیکن اسلام نے یہ نہیں کہا کہ حساب کی بنیاد مفروضات پر ہے.اسلام نے یہ کہا ہے کہ حساب کی بنیاد حقائق اشیاء پر ہے.ویسے یہ ایک لمبا مضمون ہے ایک دو فقروں میں ہی اشارہ کر سکتا ہوں.قرآن کریم نے کہا ہے کہ مکان اور زمان کے لحاظ سے ایک نسبت قائم ہے اور ان نسبتوں پر حساب کے علم کی بنیاد ہے مثلاً ایک آدمی آج سے پندرہ سال پہلے پیدا ہوا اور ایک پچاس سال پہلے پیدا ہوا.یہ زمانہ کے لحاظ سے نسبتیں ہیں اور ایک مکان کے لحاظ سے نسبت ہے مثلاً یہ کہ زمین سورج سے اتنی دور ہے اور اس رفتار سے حرکت کر رہی ہے.پس قرآن کریم کا یہ کہنا کہ حساب کی بنیاد زمانی اور مکانی نسبتوں پر رکھی گئی ہے، ایک عظیم حکمت پر مبنی ہے.پچھلے دنوں کچھ غیر احمدی طلباء ملنے کے لئے آئے.وہ سوشیالوجی کے طالب علم تھے.ان سے بھی میں نے سوال کیا کہ بتاؤ تمہارے علم کی بنیاد کس چیز پر ہے؟ ان میں سے ایک لڑکا گھبرا گیا.پھر میں نے بتایا کہ دیکھو آج کی مہذب دنیا نے معاشرہ کے موضوع پر کتابیں لکھی ہیں.انہوں نے اس علم کو مدون کیا اور اسے ایک سائنس اور علم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے لیکن وہ بھی اس سوال کا صحیح جواب نہیں دے سکتے.اس کا صحیح جواب اسلام نے دیا ہے.چنانچہ میں نے ان کو تفصیل سے سمجھایا اور بتایا کہ خواہ دنیا کا کوئی علم ہو قرآن کریم نے ہر علم کے متعلق بنیادی ہدایت دی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے فرما یا إِنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيلَ ہم نے انسان کو اس کی ذہنی طاقتوں کے مناسب حال ہدایت دے دی ہے اسی طرح اخلاقی طاقتیں ہیں.انسان کو اخلاقی صلاحیتیں دی گئی ہیں ان کے متعلق قرآن کریم میں بڑی تفصیل سے ہدایت پائی جاتی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.قرآن کریم اخلاقیات سے بھرا پڑا ہے.اخلاق کی حفاظت کیسے کرنی ہے اور ان کو ترقی کیسے دینی ہے، حسن معاملہ کیا ہے.غرض اخلاقیات کے جملہ پہلوؤں سے متعلق قرآن کریم میں تفصیل سے

Page 273

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۵۹ خطبه جمعه ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۷ء ہدایت دی گئی ہے.یہ ایک کامل کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمارے ہاتھ میں دی گئی ہے.اس میں اخلاقیات یعنی حسن معاملہ کے متعلق ایک کامل ہدایت موجود ہے.اسی طرح روحانی استعدادیں ہیں.قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے انسان کی روحانی حالتوں کو بیان کیا ہے اور روحانی ترقی کے حصول کے طریق بھی بتائے اور ان طریق کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہلاکتوں کا بھی ذکر کیا اور ان کی وجوہات کی طرف بھی اشارہ کیا.ایک جگہ فرمایا کہ بعض لوگوں کو ہم اونچا کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ آخُلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: ۱۷۷) زمین کی طرف جھک جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے روحانی رفعتوں کے حصول کے جو سامان پیدا کئے ہیں ان سے وہ خود اپنے آپ کو محروم کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ساری ہدا یتیں تو دے دیں لیکن یہ ہدا یتیں دینے کے بعد اما شَاكِراً وَ اِمَا كَفُورًا (الدھر: ۴) انسان کو یہ اختیار ہے کہ خواہ وہ ہدایت کی راہ پر چل کر شکر گزار بندہ بنے یا گمراہی کی راہوں پر چلتے ہوئے ناشکری کرے.خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کو مختلف قو تیں اور طاقتیں ، صلاحیتیں اور استعدادیں عطا کیں اور ان قوتوں اور صلاحیتوں کو نشو ونما دینے اور ان کو ہلاکت سے بچانے کی ہدایت دی.گو یا ہدایت اور گمراہی کے دونوں راستوں کی نشاندہی کرنے کے بعد فرمایا : - اما شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا اے انسان! ہم تجھے صاحب اختیار بناتے ہیں اگر تو چاہے تو خدا کا شکر گزار بندہ بن اور جو تجھے کہا گیا ہے اس کے مطابق عمل کر اور خدا تعالیٰ سے انعام پا اور اگر چاہے تو ناشکری کر اور ان ہدایتوں کا نافرمان بن اور نافرمانی کے نتیجہ میں اس دنیا میں بھی گھاٹا تیرے نصیب میں ہوگا اور اُخروی زندگی میں خدا تعالیٰ کے قہر کے عذاب میں تجھے جلنا پڑے گا.غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے مختلف مدارج میں سے گزار کر ترقی دی.پس ہماری زندگی میں بھی اور ہر دوسری چیز کی زندگی میں بھی تدریجی اصول چل رہا ہے یہاں تک کہ پتھروں میں بھی تدریج کا اصول کارفرما ہے.ہر چیز آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا.اس کو قو تیں اور صلاحیتیں دیں.ان کی حفاظت کے سامان پیدا کئے.ان کی نشو و نما کے لئے ہدایت دی.مگر یہ سب کچھ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا

Page 274

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۶۰ خطبہ جمعہ ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۷ء ہے إما شاكرا و اما كَفُورًا اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ میری ہدایت کے مطابق عمل کرو اور انعام پاؤ یا اطاعت نہ کرو.نافرمانی کرو اور ناشکرے بن جاؤ اور خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے نعماء کے حصول کے جو سامان پیدا کئے تھے ان کی طرف تم توجہ نہ کرو اور اس کے نتیجہ میں محرومی، مہجوری اور خدا سے دوری کی زندگی گزارو.الہی جماعتیں شکر گزار بندوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور یہ جو تدریج کا اصول ہے اس سے وہ اچھی طرح واقف ہوتی ہیں.چنانچہ دیکھ لیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آہستہ آہستہ ترقی ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ نے مسلمانوں کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی رفعتوں تک پہنچا دیا تھا.وعدہ تو ان کو یہ دیا گیا تھا کہ جب تم میں سے خدا کا کوئی بندہ تواضع اور انکساری کی راہوں کو اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو ساتویں آسمان تک پہنچا دے گا یعنی اُمت محمدیہ کو انتہائی بلندیوں تک پہنچنے کا وعدہ دیا گیا ہے.چنانچہ مسلمانوں نے انتہائی ترقی کی لیکن اس میں تدریج کا اصول کارفرما رہا.تدریج کے اصول میں ہر دوسرا دور پہلے سے زیادہ بڑا بھی ہوتا ہے اور بڑا کٹھن اور مشکل بھی ہوتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دیکھ لیں.اپنی بعثت کے ابتدائی ایام میں آپ خود بھی اپنے صحابہ کے ساتھ چھپ چھپ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے.یہ کمزوری کا زمانہ ہے پھر ترقی ہوئی اور مسلمانوں نے کھل کر نمازیں پڑھنی شروع کیں.گو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو نہایت بلند تھا لیکن آپ اپنے صحابہ کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا چاہتے تھے حالانکہ آپ تو اس وقت بھی خانہ کعبہ میں جا کر نمازیں ادا کر لیتے تھے لیکن جہاں تک باجماعت نماز کا تعلق ہے صحابہ کی روحانی نشوونما میں ابھی اتنی طاقت نہیں پیدا ہوئی تھی کہ وہ کھل کر نماز پڑھتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ وہ اپنے صحابہ کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں اس لئے آپ بھی ان کے ساتھ نماز با جماعت چھپ کر پڑھتے تھے.پھر ایک زمانہ ایسا تھا جس میں نماز فرض ہی نہیں تھی.پھر ایسا زمانہ تھا جس میں روزے ابھی فرض ہی نہیں تھے.پھر ایک ایسا زمانہ تھا جس میں زکوۃ فرض ہی نہیں تھی.پھر ایک ایسا زمانہ تھا جس میں شراب حرام ہی نہیں تھی مگر جب آہستہ آہستہ مسلمان نماز پڑھنے ، روزے رکھنے اور زکوۃ دینے

Page 275

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۶۱ خطبہ جمعہ ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۷ء کے قابل ہو گئے تو ان کی ادائیگی بطور فرض لازمی قرار دی گئی.چنانچہ وہ لوگ جو زمین پر بھی زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے وہ ترقی کرتے کرتے اخلاقی اور روحانی طور پر آسمانی وجود بن گئے.خدا تعالیٰ نے دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ میں دے دی.انہوں نے کسی قسم کا استحصال کئے بغیر بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت کا ایک ایسا عجیب نمونہ دکھایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ الہی سلسلے اپنی قربانیوں کو آہستہ آہستہ بڑھاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں.ان کی زندگی میں پہلو بہ پہلو ایک تدریجی عمل کارفرما ہوتا ہے یعنی ان کی جتنی بڑی قربانی ہوگی جتنا بڑا ایثار ہوگا جتنی زیادہ فدائیت ہوگی اور خدا کی راہ میں انسان جتنی زیادہ فنائیت اپنے اوپر طاری کرے گا اسی کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے انعام مل رہے ہوں گے.اب اس زمانہ میں مہدی اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آگئے اور ایک چھوٹی سی جماعت آپ کے گرد جمع ہوگئی.آپ ایسے زمانہ میں آئے جب خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئے کسی کو ایک پیسہ دینے کی بھی عادت نہیں تھی.چنانچہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے ان کی مالی قربانی دونی، چونی اور اٹھتی تھی لیکن یہ دونی، چوٹی اور ٹھنی کی قربانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ نظر آرہا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پہلے مقام سے نکل کر ایک درجہ آگے بڑھ گئے ہیں اور ان کے اندر ایک انقلابی حرکت پیدا ہوگئی ہے.چنانچہ اس بات کو دنیا پر واضح کرنے کے لئے کہ کس طرح انقلابی مدارج طے کرنے والی ایک جماعت پیدا ہو گئی ہے آپ نے شروع میں دونی، چونی اور اٹھتی دینے والوں کے نام اپنی کتب میں لکھ دیئے کہ یہ وہ مخلصین ہیں جنہوں نے دونی دی یا چونی دی یا ٹھٹی دی تا کہ ایک تو قیامت تک مخلصین احمدیت ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں اس لئے کہ انہوں نے ابتدائی زمانہ میں خدا کی راہ میں قربانیوں کی بنیاد ڈالی اور قربانی کرنے والی جماعتوں کے لئے ایک نمونہ بننے کی توفیق پائی اور دوسرے یہ کہ آنے والی نسلوں کو پتہ لگے کہ جماعت احمد یہ کس طرح ایک چھوٹی سی - قربانی سے چلی تھی لیکن مختلف مدارج طے کرتی ہوئی اب وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے.

Page 276

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۶۲ خطبہ جمعہ ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۷ء پس جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے الہی سلسلے کی ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہے.ویسے صرف مالی قربانی ہی نہیں.خدا تعالیٰ ہم سے ہر قسم کی قربانی مانگتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة : ٤ ) کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے وہ میری راہ میں تمہیں واپس کرنا پڑے گا.مثلاً ہمارا وقت ہے، ہماری دولت ہے، ہماری اولاد ہے اور ہمارے جذبات ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں اور ان کو خدا کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے.جماعت احمدیہ اس قسم کی قربانیوں کی مثال آپ ہے.مثلاً جذبات کی قربانی کو لے لیں.۱۹۷۴ء میں خدا تعالیٰ نے جماعت سے جذبات کی کتنی بڑی قربانی لی مگر اس نے اپنے فضل سے انعام بھی بہت بڑا دیا.ہم اس کے فضلوں کا شمار نہیں کر سکتے.بہر حال مالی قربانی چونکہ حساب کے اندر بندھ جاتی ہے اس لئے اس کا بار بار ذکر ہوتا رہتا ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کے وہ لوگ جو دو آنے ، چار آنے چندہ دینے والے تھے ان کی اس قربانی کے مقابلہ میں ان پر جو فضل نازل ہوئے اس کی کوئی نسبت ہی نہیں.میں ایک شخص کو ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں دونی، چونی دینے والوں میں سے تھے.خدا تعالیٰ نے ان کو اولا د دی.ان کے چار پانچ لڑکے مشرقی افریقہ چلے گئے.ان کا باپ جو خدا کی راہ میں چار آنے دینے والا تھا خدا تعالیٰ اس قربانی کے نتیجہ میں ان کو چار چار، چھ چھ بلکہ آٹھ آٹھ ہزار روپیہ ہر مہینہ واپس کر رہا تھا.خدا تعالیٰ ہر دو جہاں کا مالک ہے وہ قرضے اپنے پاس نہیں رکھا کرتا.وہ اس دنیا میں بھی انعام دیتا ہے اور جو اخروی زندگی میں ملنے والے انعام ہیں ان کا تو کوئی شمار ہی نہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ تھا کہ تیرے ماننے والوں کے اموال میں برکت دوں گا.اس قسم کی اور بہت سی بشارتیں ہیں لیکن میں اس وقت ان کا ذکر نہیں کر رہا.میں اس وقت بتا یہ رہا ہوں کہ جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کی روح کس طرح پیدا کی گئی.جب آہستہ آہستہ خدا کی راہ میں پیسہ خرچ کرنے کی عادت پڑگئی تو پھر جماعت کے اندر لازمی چندے آگئے.پھر وصیت آگئی دسویں حصے کی اور اگر کوئی چاہے تو ۱٫۳ تک وصیت کر سکتا ہے.چنانچہ اس میں بڑی بڑی قربانی دینے والے لوگ پیدا ہو گئے.پھر وصیت کا ۱/۱۰ دینے والوں

Page 277

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۶۳ خطبہ جمعہ ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۷ء سے کہا گیا کہ جو غیر لازمی چندے ہیں یا نیم لازمی چندے ہیں وہ بھی دو.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کا آغاز کر دیا اور اس کے لئے لازمی چندوں کے لئے مالی قربانی کی تحریک فرمائی جولا زمی چندوں کے علاوہ تھی یعنی جو لازمی چندہ جات تھے مثلاً چندہ عام ہے.چندہ وصیت ہے.یہ اصل اور لازمی چندہ جات ہیں لیکن بعض دوسرے چندے بھی ہیں جن کے متعلق جماعت نے فیصلہ کیا ہوا ہے اور وہ بھی گو یا لازمی چندے ہیں.ان کے علاوہ جماعت نے نہایت بشاشت سے تحریک جدید کے چندے دینے شروع کر دیئے.۱۹۳۴ء کی بات ہے.اس وقت بھی کئی ایک دوستوں نے کہا اور کئی اب بھی مجھے لکھ دیتے ہیں کہ سارے چندوں کو اکٹھا کر کے ایک مڈ کے اندر لے آئیں.ایسے لوگوں کے لئے میں دعا کرتا ہوں.وہ ان مختلف چندوں کی روح کو نہیں پہچانتے.ہمارا ہر قدم پہلے سے آگے بڑھنا چاہیے.ایک جگہ کھڑے ہوئے اور ہلاک ہوئے.یہ الہی سلسلوں کا اصول ہے، الہی سلسلوں پر جتنے بھی تنزل کے زمانے آتے ہیں وہ کھڑے ہو کر ہی آئے ہیں.ایک جگہ کھڑے ہو جانا تو الہی سلسلہ کے لئے موت کے مترادف ہے.اسی لئے یہ الہی جماعت دعاؤں کے نتیجہ میں کوشش اور تدبیر کے ذریعہ ہر سال پہلے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے جب تبلیغ اسلام کا یہ بہت بڑا منصوبہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے دماغ میں ڈالا تھا تو اس وقت حال یہ تھا کہ گو غیر ممالک میں پہلے بھی کچھ مبلغ گئے ہوئے تھے لیکن جتنے مبلغ تحریک جدید کے اس وسیع اور عظیم الشان منصوبہ کے ماتحت بھجوائے جاتے ہیں اتنے مبلغ باہر جانے شروع نہیں ہوئے تھے.اس وقت بیرون ملک نئے نئے احمدیوں کا وہی حال تھا جو شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے والوں کا تھا.بیرونی ممالک میں قبولِ اسلام کرنے والوں کی ابھی کما حقہ تربیت نہیں ہو پائی تھی.صرف اتنا ہوسکا تھا کہ وہ پہلے بے نماز تھے اب انہوں نے نمازیں پڑھنی شروع کر دیں یا وہ لوگ جو پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتے تھے اب انہوں نے آپ پر درود پڑھنا شروع کر دیا.بت پرستوں میں سے مسلمان ہوئے تو انہوں نے لا اله الا اللہ کا نعرہ بلند کر دیا لیکن مالی قربانیوں کی طرف نہ وہ آئے تھے اور نہ ان

Page 278

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۶۴ خطبہ جمعہ ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۷ء پر زور دیا جا رہا تھا.چنانچہ میں نے ایک دفعہ تحریک جدید کے ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۴ء تک کے دس سالوں کے چندے کا ریکار ڈ اکٹھا کروایا تو مجھے پتہ لگا کہ اس عرصہ میں جو دراصل غیر ملکیوں کے لئے تربیت کا زمانہ ہے ہمارے رجسٹروں میں ان کا کوئی چندہ درج نہیں ہے اور اب یہ حال ہے کہ ایک خط وہاں سے آجاتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ فلاں جگہ یا فلاں علاقے میں ہمارا جلسہ تھا اور وہاں پانچ لاکھ روپے چندہ جمع ہو گیا.یہ ایک علاقے کا چندہ ہوتا ہے.میں ملک کی بات نہیں کر رہا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاکستان کے تحریک جدید کے چندے کے مقابلے میں غیر ممالک کا چندہ آٹھ دس گنا زیادہ ہو چکا ہے کیونکہ بیرونی جماعتیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کے اندر قربانی کی بڑی روح پائی جاتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے.جماعت احمد یہ تو ایک غریب جماعت ہے.دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت ہے.لوگ اس کو بُرا بھلا کہنے میں ثواب سمجھتے ہیں.کوئی سیاسی اقتدار نہیں اور نہ اس کو سیاست سے کوئی دلچسپی ہے.دنیا کی نگاہ میں اس جماعت کی کوئی عزت نہیں.اس بات کا اعلان کرنے میں ہمیں کوئی شرم نہیں کہ دنیا کی نگاہ میں ہمارے لئے کوئی عزت نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خدائے قادر و توانا کی نگاہ میں ہمارے لئے عزت ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ مغربی افریقہ میں خدا تعالیٰ نے اس غریب اور دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت کو اسلام کی تبلیغ کی بھر پور توفیق دی.میرا اندازہ ہے کہ پانچ لاکھ سے زیادہ عیسائیت اور بت پرستی کو چھوڑ کر لا الهَ إلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھتے ہوئے اسلام میں داخل ہو چکے ہیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِكَ - ۱۹۷۱ ء کی مردم شماری کی رو سے صرف ایک ملک میں پونے دو لاکھ احمدی تھے.یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے.اللہ تعالیٰ نومسلموں کے ایمانوں کو بڑھانے کے لئے نشان دکھا تا ہے.ان کی دعاؤں کو سنتا ہے.ان کو وقت سے پہلے خوابوں کے ذریعہ اطلاع دیتا ہے.مرکز سے ان کا تعلق مضبوط کرنے کے لئے بالکل ان ہونی چیزیں ان کے لئے ایک زندہ حقیقت بن کر سامنے آتی ہیں.وہ دعا کے لئے لکھتے ہیں.خدائے قادر و توانا اپنی قدرت کا معجزانہ نشان ان کو دکھا کر مرکز سلسلہ کے ساتھ ان کے تعلق کو مضبوط کرتا ہے.ابھی چند ہفتے ہوئے مجھے ایک دوست کا

Page 279

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۶۵ خطبہ جمعہ ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۷ء خط آیا.مجھے تو یاد نہیں تھا کیونکہ اس قسم کے خط تو آتے ہی رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ بڑے نشان دکھانے والا ہے وہ بغیر حساب کے دیتا ہے.اس کے فضلوں کا حساب کون کر سکتا ہے.غرض اس دوست نے لکھا کہ ایک سال ہوا میں نے آپ کو یہ لکھا تھا کہ میرے ہاں اولا د نہیں اور سب ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ تمہاری اس بیوی سے بچہ ہو ہی نہیں سکتا.بڑے علاج کروائے لیکن کوئی علاج کارگر نہیں ہوا.اب ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے کہ اس بیوی سے بچہ نہیں ہوسکتا اور اب میں آپ کو یہ خوشخبری سنا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بچہ دے دیا ہے.پس یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا نشان ہے.اس میں نہ میری کوئی بزرگی ہے اور نہ جماعت کی یہ تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ہمارے حق میں اپنی قدرت کا نشان دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے یہ دراصل اسی منصوبے کی کڑیاں ہیں.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں بھی ایمان کو مضبوط کرتا ہے اور ان کے اندر ایثار اور قربانی کے جذبات پیدا کرتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے نشان دیکھ کر اس کی وحدانیت کے قائل ہو جاتے ہیں.ان کے دل کی وحشت دور ہو جاتی ہے.اسلام کے حسن و احسان کے گرویدہ ہو کر حُسن معاملہ میں بہت ترقی کر جاتے ہیں.پس تحریک جدید ایک الہی تحریک ہے جس کے بڑے خوشکن نتائج سامنے آرہے ہیں.اس کے اجراء کے وقت شاید ایک لاکھ روپے کی مالی قربانی دینے کا اعلان کیا گیا تھا اور یہ اس وقت کی بہت بڑی قربانی تھی لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل دیکھو کہ نصرت جہاں کے ماتحت ہمارے جو ڈاکٹر مغربی افریقہ میں گئے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اتنی برکت ڈالی کہ اڑھائی کروڑ سے بھی زیادہ آمد ہوئی جو انہی لوگوں پر خرچ ہو گئی کیونکہ وہاں جو آمد پیدا ہوتی ہے اس کا ایک دھیلا بھی باہر نہیں نکالا جاتا ، نہ اور کوئی خرچ کرتا ہے.وہ ان عوام پر خرچ ہو جاتی ہے جن کی خدمت کی غرض سے ہمارے ڈاکٹر گئے ہوئے ہیں.غرض یہی تحریک جدید جس کا آغاز ایک لاکھ کی مالی قربانی سے ہوا تھا اس کے ذریعہ بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ایسے لوگ حلقہ

Page 280

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۶۶ خطبہ جمعہ ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۷ء بگوش اسلام ہو چکے ہیں جو بڑی بڑی قربانیاں دے رہے ہیں.وہ مبلغین کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ انہیں کتا بیں مہیا کریں.چنانچہ غانا نے لکھا کہ وہ باہر سے کتا ہیں منگوا نہیں سکتے کیونکہ وہاں فارن ایکھینچ کی کمی ہے اس لئے انہیں اجازت دیں کہ وہ اپنے ملک میں دس ہزار کی تعداد میں قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ شائع کر دیں.میں نے ان کو اجازت دے دی ہے، اب وہ شائع کر رہے ہیں.امریکہ میں بھی جماعت بڑی ترقی کر رہی ہے.عیسائیت کے ساتھ جن لوگوں کو پیار تھا مگر ایک انسان کو خدا بنانے کی وجہ سے شرک کرتے تھے ان میں سے کئی لوگ جماعت احمدیہ کی حقیر کوششوں کے نتیجہ میں مسلمان ہو چکے ہیں اور ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا بڑا پیار پیدا کر دیا ہے.چار جلدوں پر مشتمل انگریزی تفسیر قرآن کریم وہاں اکثر دوستوں کے پاس موجود ہے.پچھلے سال جب میں امریکہ گیا تو ایک دوست نے کہا کہ وہ تفسیر خریدنا چاہتے ہیں مگر ملتی نہیں.دراصل ان کو علم نہیں تھا.میں نے جب پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ ۲۰ یا ۲۴ سیٹ پڑے ہوئے تھے.میں نے ان سے کہا تمہارا تو کام بن گیا لیکن میں نے متعلقہ دفتر سے کہا ہے کہ وہ انگریزی تفسیر دوبارہ شائع کرے.پھر جب پولینڈ میں احمدیت گئی تو ساتھ ہی مطالبہ بھی ہو گیا کہ انہیں اسلام کا لٹریچر دیا جائے.دو مہینے ہوئے ہمارے ایک مبلغ بعض اشتراکی ممالک میں گئے جہاں مسلمان بھی بستے ہیں مثلاً البانین بولنے والا علاقہ جس میں مسلمان بھی بستے ہیں اور وہ دوملکوں میں بٹا ہوا ہے تو انہوں نے بھی مطالبہ کر دیا کہ ان کے پاس البانین زبان میں قرآن کریم کا کوئی ترجمہ نہیں ان کو تر جمہ کر کے دیا جائے.پس کام تو بہت ہیں جو کرنے والے ہیں اور ہماری ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں اس لئے پچھلے سال جب میں نے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا تھا تو میں نے یہ کہا تھا کہ اگر چہ بیرونی ملکوں کی اکثر جماعتیں مالی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی ہیں لیکن تحریک جدید کی جو یہاں کی ضرورتیں ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے بجٹ میں اضافہ کی ضرورت ہے.چنانچہ تحریک جدید کے ۴۲ ویں سال میں بجٹ نو لاکھ پندرہ ہزار روپے کا تھا میں نے کہا تھا کہ یہ تو کافی نہیں ہے اس لئے پچھلے سال میں نے ٹارگٹ دیا تھا پندرہ لاکھ روپے کا اور کہا تھا کہ اگر جماعت پندرہ لاکھ روپے جمع

Page 281

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۶۷ خطبہ جمعہ ۲۸ ا کتوبر۱۹۷۷ء کر دے تو تحریک جدید کی ضروریات پوری ہو جائیں گی.تحریک جدید نے ساری جماعتوں کا حساب کر کے ہر ایک کو لکھا کہ وہ اپنے اپنے مجموعی بجٹ تحریک جدید میں ۴۴ فیصد زائد کر دیں تو پندرہ لاکھ روپے کا یہ ٹارگٹ پورا ہو جائے گا.چنانچہ خدا کی اس پیاری جماعت نے یہ ٹارگٹ قریباً پورا کر دیا ہے.تھوڑا سا فرق رہ گیا ہے اور ہمیں پتہ ہے کس جگہ تھوڑی سی کمزوری ہوئی ہے.غرض پندرہ لاکھ بجائے چودہ لاکھ چونتیس ہزار روپے کے وعدے دفتر کے پاس آچکے ہیں.جہاں تک شہروں کا تعلق ہے دفتر کی رپورٹ کے مطابق قریباً سارے شہروں نے اپنا ٹارگٹ پورا کر دیا ہے.استثنائی طور پر شائد ہی کوئی شہر ہوگا جو پیچھے رہ گیا ہو گا ورنہ شہروں کی بہت بڑی اکثریت نے نہ صرف اپنا ٹارگٹ پورا کیا ہے بلکہ وہ اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں لیکن دیہی علاقوں میں سے بعض علاقے ایسے ہیں جنہوں نے اپنا ٹارگٹ پورا نہیں کیا.اس کے نتیجہ میں متعلقہ ضلع کی ساری جماعتوں پر اثر پڑتا ہے تاہم اتنے بڑے بجٹ میں ۶۶ ہزار روپے کی کمی کوئی ایسی نہیں ہے جو قابل فکر ہو یا ہمیں تنگ کرے لیکن بہر حال شرم تو آتی ہے کہ ٹارگٹ پورا کرنے میں صرف ۶۶ ہزار روپے کی کمی کی وجہ سے بعض دیہاتی جماعتیں پیچھے رہ گئیں کیونکہ اپریل کے آخر تک ادا ئیگی ہوتی ہے یعنی تحریک جدید کا اعلان ہم اس موسم میں کرتے ہیں لیکن وصولی اپریل کے آخر تک ہوتی رہتی ہے، اس لئے وہ لوگ جو پیچھے رہ گئے ہیں اگر وہ ہمت کریں تو سال رواں میں ۶۶ ہزار روپے کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں، اس طرح نہ صرف یہ ٹارگٹ پورا ہو جائے گا بلکہ امید ہے کہ انشاء اللہ اگلے سال بجٹ تحریک جدید اس ٹارگٹ سے بھی آگے نکل جائے گا اور جو یہاں کی ضرورتیں ہیں وہ پوری ہو جائیں گی.کچھ یہاں کی ضرورتیں ہیں جو پوری نہیں ہوسکیں.دنیوی اقتدار رکھنے والے بعض لوگوں کی طرف سے بعض روکیں اشاعت کتب کے سلسلہ میں ہمارے راستے میں پیدا کر دی جاتی ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان روکوں کو دور کر دے.خدمت اسلام کا جو کام جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہو رہا ہے اگر کوئی شخص اپنی نا سمجھی کی وجہ سے اس میں روک بنتا ہے تو ہماری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر گرفت نہ کرے بلکہ اس کی اصلاح کر دے اور جس طرح ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کو بارش کے قطروں سے زیادہ آسمان سے

Page 282

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۶۸ خطبه جمعه ۲۸ ا کتوبر۱۹۷۷ء نازل ہوتا دیکھتے ہیں انفرادی و اجتماعی ہر دو لحاظ سے اسی طرح وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے وارث بنیں.ہماری تو ہمیشہ یہی دعا رہتی ہے.پس آج میں تحریک جدید کے (اس کے تین دفتر ہیں ) دفتر اول کے ۴۴ ویں سال.دفتر دوم کے ۳۴ ویں سال اور دفتر سوم کے ۱۳ ویں سال کا اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے یقین ہے کہ ۶۶ ہزار روپے کی جو کمی ہے وہ اسی سال پوری ہو جائے گی.نہ صرف یہ کی پوری ہوگی بلکہ اگلے سال انشاء اللہ اس سے بھی زیادہ وصولی ہوگی.تحریک جدید کا بھی فرض ہے کہ وہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں.اسلام کی تبلیغ سے متعلق نئے ذرائع سوچیں اور نئی تدابیر بروئے کار لائیں تا کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله (الصف:۱۰ ) کا خدائی وعدہ جلد جلد پورا ہو.حضرت مہدی علیہ السلام کی جماعت کے ذریعہ اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے اور نوع انسانی کو اُمتِ واحدہ بنادیا جائے.ٹھیک ہے اس پر کچھ وقت تو لگے گا اور بتایا بھی یہی گیا ہے کہ وقت لگے گا لیکن ہر دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر ہماری زندگیوں میں یہ سارا وعدہ پورا نہیں ہوتا تو اس کا بہت سا ا حصہ تو ہماری زندگیوں میں پورا ہو جائے تاکہ ہم بھی ان وعدوں اور بشارتوں کے پورا ہونے سے روحانی فیض اٹھانے والوں میں شامل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام کے غلبہ اور بنی نوع انسان کے امتِ واحدہ بنانے کےجلد تر سامان پیدا کر دے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 283

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۶۹ خطبہ جمعہ ۴ رنومبر ۱۹۷۷ء اللہ تعالی بڑی عظیم.حتی وقیوم اور متصرف بالا رادہ ہستی ہے خطبه جمعه فرموده ۴ رنومبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے دو دن بیماری میں گزرے.مجھے دانت کی تکلیف تھی چنانچہ بدھ کو دانتوں کے ڈاکٹر قاضی شفیق صاحب نے ان کا معائنہ کیا اور انہیں ٹھیک کیا لیکن اس کے بعد بدھ کی دو پہر سے لے کر جمعرات کی صبح تک دانت میں شدید درد ہوئی اور ساری رات میں نے جاگ کر بڑی تکلیف میں گزاری.جمعرات ملاقات کا دن ہوتا ہے اس دن تکلیف تو کم ہوگئی تھی لیکن ضعف تھا مگر میں نے ملاقاتیں کیں اور صحت کا خیال نہیں رکھا اور اس کے بعد اتنا شدید ضعف ہوا کہ کل سے میں اس ضعف میں پڑا ہوں اس لئے اس وقت اپنی صحت کے مطابق میں ایک مختصر سا خطبہ دوں گا.چونکہ آج خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہے اور یہ جمعہ، ہفتہ، اتوار خدام کے دن ہیں اس لئے ان کو خصوصاً اور ساری جماعت کو جن تک میری آواز ایک آدھ دن میں پہنچ جائے عموماً میں چند ایک باتیں کہنا چاہتا ہوں کیونکہ کچھ باتوں کا تعلق ان دنوں سے ہے.میں ان کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام نے ہمیں جس اللہ کی معرفت عطا کی ہے وہ اَلْحَيَّ الْقَيُّوم اور متصرف بالا رادہ ہستی ہے یعنی وہ اپنی ذات میں زندہ ہے اور ہر زندہ اس کے واسطہ سے اور اس کے حکم سے زندہ ہے اور وہ

Page 284

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۷۰ خطبہ جمعہ ۴ رنومبر ۱۹۷۷ء اپنی ذات میں قائم ہے اور اپنی مخلوق کا سہارا ہے اور ان کی جان کی جان ہے.یہ ساری کائنات ، یہ Universe (یونیورس)، یہ عالمین اللہ تعالیٰ کے سہارے سے قائم ہیں.اگر ایک لحظہ کے لئے بھی خدا تعالیٰ کا سہارا اس عالمین کو اس کائنات کو حاصل نہ رہے تو لازمی طور پر ہلاکت اس کا نتیجہ ہوگا اور کچھ بھی باقی نہیں رہے گا اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے خدا تعالیٰ نے انسان کو عقل اور سمجھ اور روحانی فراست عطا کی ہے اور اسے آزادی بھی دی ہے.اسے یہ بھی کہا ہے کہ میرے ساتھ تعلق کے بغیر تم زندہ نہیں رہ سکتے اور میری قیومیت کے بغیر تم قائم نہیں رہ سکتے لیکن یہ بھی کہا کہ بعض باتوں میں تمہیں اجازت بھی دی جاتی ہے کہ چاہو تو میرے ساتھ تعلق پیدا کر کے اپنے قیام کا انتظام کرو اور چاہو تو مجھ سے جدا ہو کر اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کرو.اخلاقی میدان میں اور روحانی میدان میں اور جسمانی میدان میں بھی ایک حد تک اسے آزادی دی ہے مثلاً خود کشی کا تصور جسم کو ہلاک کر دینے کا تصور صرف انسان کے ساتھ وابستہ ہے.دوسرے جاندار خودکشی نہیں کرتے یعنی اپنے ارادے سے اپنے مرنے کا فیصلہ نہیں کرتے ، یہ نہیں کہتے کہ اب ہم اپنے آپ کو مار دیتے ہیں صرف انسان کو یہ اجازت دی گئی ہے.اسی لیے میں نے کہا ہے کہ جہاں تک اس کی جسمانی زندگی کا سوال ہے ایک حد تک اس کو آزادی دی گئی ہے لیکن جہاں تک اس کی روح کی بقا کا سوال ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت باقی رہے گی لیکن قابل فکر بات یہ ہے کہ وہ دوزخ میں کچھ عرصہ گزار کر یا شروع سے ہی خدا کی جنتوں میں داخل ہو کر باقی رہے گی.غرض خدا تعالیٰ اس کائنات کا قیوم ہے اس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی اور ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ اس کے سہارے کو ڈھونڈیں.فرمایا نَبِی عِبادِی انّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الحجر :۵۰) لوگوں کو یہ بتا دو کہ میں غفور اور رحیم ہوں اور دوسری جگہ فرمایا وَ إِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمُ (النحل : ۱۹) غفور اور رحیم جو دوصفات باری ہیں اس آیت میں ان کی تفسیر کی ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم پر نعمتوں کی انتہا کر دی ہے.بے شمار نعمتیں تمہارے لئے پیدا کی ہیں لیکن جب تک تم خود ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرو گے ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور تم اپنے زور سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تمہاری کوششیں اور تمہاری تدبیریں بے نتیجہ ہیں جب تک

Page 285

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۷۱ خطبہ جمعہ ۴ رنومبر ۱۹۷۷ء خدا تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رحیمیت تمہارے شامل حال نہ ہو اور تمہاری تدبیر کی کوتاہیوں کمزوریوں کو اس کی مغفرت کی چادر ڈھانپ نہ لے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تمہاری کوششوں کا نتیجہ نہ نکالے.یہی اعلان پہلی آیت میں ہے کہ نبی عِبادِی أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ لوگوں کو بتاؤ کہ غفور اور رحیم میں ہی ہوں اور جس دائرہ کے اندر تم صاحب اختیار ہوا گر اس دائرہ میں تم اپنی فلاح اور بہبود چاہتے ہو، اگر اس دائرہ میں تم خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ لینا چاہتے ہو، اس کی رضا پانا چاہتے ہو اور اس کی جنتوں میں داخل ہونا چاہتے ہو تو غفور اور رحیم خدا سے تعلق پیدا کرو اور ان صفات کا واسطہ دے کر اس سے دعائیں کرو کیونکہ اس کے بغیر انسان کی کوشش بے نتیجہ رہ جاتی ہے اور بے شمر ہو جاتی ہے.یہ جو میں نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحیمیت اور اس کی مغفرت سے مدد حاصل کرو.اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا: - قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: ۷۸) کہ اگر تم دعا کے ذریعے خدا تعالیٰ کی مغفرت اور رحیمیت اور خدا تعالیٰ کی دوسری صفات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ تمہاری کیا پرواہ کرے گا.دعا ہی ہے جو خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کرتی ہے.اگر تم بندہ ہونے کے باوجود اس سے دعا نہیں کرو گے اور اس کی پر واہ نہیں کرو گے تو وہ تو غنی اور حمید ہے وہ غنی ہوتے ہوئے تمہاری کیا پرواہ کرے گا اس کو تو تمہاری حاجت نہیں تمہیں اس کی احتیاج ہے.خدام الاحمدیہ کا جو اجتماع آج سے شروع ہو رہا ہے یہ غالباً تین سال کے وقفہ کے بعد چوتھے سال کا اجتماع ہے.تین سال تک حکومت وقت کی طرف سے خدام الاحمدیہ کو اجتماع کرنے کی اجازت نہیں ملتی رہی اس لئے اس چوتھے سال میں جس انتظامیہ یا حکومت نے ہمیں اجتماع کرنے کی اجازت دی ہے ہم ان کے ممنون ہیں اور ان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے خدام احمدیت کو خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی اجازت دی اور ہم ان کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ ہی صحیح معنی میں نیکیاں کرنے کی توفیق دیتا رہے تاکہ وہ حسین معاشرہ جو اسلام ساری دنیا میں پیدا کرنا چاہتا ہے ہمارے ملک میں بھی پیدا ہو جائے.اس اجتماع کو میں ذکر الہی اور دعاؤں کا اجتماع قرار دیتا ہوں اور آپ کو یہ ہدایت دیتا ہوں کہ اس اجتماع کے دوران آپ اللہ تعالیٰ کا

Page 286

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۷۲ خطبہ جمعہ ۴ رنومبر ۱۹۷۷ء زیادہ سے زیادہ ذکر کریں اور زیادہ سے زیادہ اس کے حضور عاجزی اور تضرع کے ساتھ جھکیں اور اس کی رحمتوں کے حصول کی کوشش کریں.بعض ظاہری چیزیں اس اجتماع میں نہیں ہوں گی صرف اس اجتماع کے لئے یہ ہدایت ہے.ایک تو جھنڈے کا معاملہ ہے ویسے بھی یہ قانو نا مشتبہ تھا کہ جھنڈا لہرایا جائے یا نہ لہرایا جائے تو میں نے یہ ہدایت دی ہے کہ جھنڈا نہ لہراؤ اجتماع پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا.پھر خدام کا اپنی عمر کے لحاظ سے یہ جسمانی طاقت کا زمانہ اور جوش کا زمانہ ہوتا ہے اور وہ اس میں نعرے بھی خوب لگاتے ہیں لیکن میں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ اس اجتماع میں کوئی نعرہ نہیں لگایا جائے گا بلکہ خاموشی کے ساتھ تقاریر سنیں اور ذکر الہی کرتے رہیں.تقریر سنتے ہوئے ذکر الہی کرنا مشکل نہیں، غیر ممکن نہیں بلکہ ممکن ہے اور آسان ہے کیونکہ جب آپ کے کان نیکی کی باتیں اور اسلام کی تعلیم کے مختلف حصوں کی تشریح اور تفسیر ٹن رہے ہوں گے اگر اس وقت آپ کی زبان سُبْحَانَ اللهِ ، اَلْحَمدُ لِله اور اللہ اکبر کا ورد کرتی رہے یا ہمارے محبوب رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتی رہے تو اس سے آپ کے سماع پر، تقریر کے سننے پر کوئی اثر نہیں پڑتا.تھوڑی سی عادت ڈالنی پڑے گی.بہتوں کو عادت ہوتی ہے چنانچہ ایسے لوگ بھی میں نے دیکھے ہیں اور میرے علم میں ہیں کہ جو ہر وقت ہی ذکر الہی میں مشغول رہتے ہیں.چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ذکر الہی کرتے رہتے ہیں.سوتے ہوئے اس لئے کہ وہ آخری لمحہ جو بیداری اور نیند کے درمیان کا ہوتا ہے اگر اس وقت تک کوئی خدا تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے نیند کے لمحات بھی اسی ذکر میں شمار ہو جاتے ہیں کیونکہ جو اس نے چھوڑا وہ نیت سے نہیں چھوڑا بلکہ مجبوراً چھوڑا جب اسے نیند آ گئی تو اس کی زبان ذکرِ الہی سے خاموش ہو گئی لیکن اس کی روح کی آواز تو ذکر الہی کر رہی ہے.اس کے جسم اور روح نے مل کر جو کام شروع کیا تھا اس کی روح نے اسے جاری رکھا ہے اور اس کی روح کی آواز بہر حال ذکر الہی کر رہی ہے.دو ہدایتیں دینے کے بعد میں پھر پہلے مضمون کو دہراتا ہوں.اللہ تعالیٰ بڑی عظیم ہستی ہے اور وہ متصرف بالا رادہ ہے.اتنی بڑی کائنات ہے اس کا ایک چھوٹا سا حصہ لے لیں مثلاً درخت ہیں.درختوں کے پتے جھڑتے ہیں بعض درختوں کے تو سال میں ایک دفعہ ایک وقت میں جھڑ

Page 287

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۷۳ خطبہ جمعہ ۴ رنومبر ۱۹۷۷ء جاتے ہیں بعض کے خزاں میں بعض کے بہار میں اور بعض کے سارا سال جھڑتے رہتے ہیں اور سال کے دوران پرانے پتے جھڑ کر نئے پتے نکل آتے ہیں.ربوہ میں جو درخت اُگے ہوئے ہیں آپ ان کے پتوں کا بھی شمار نہیں کر سکتے.گنتی کرنے لگیں تو آپ کو مصیبت پڑ جائے اور جو اس کا ئنات میں درخت اُگے ہوئے ہیں، میں زمین نہیں کہہ رہا اس کا ئنات میں جو درخت اُگے ہوئے ہیں ان کے پتوں کا شمار کیسے ہو سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں وہ عظیم ہستی ہوں کہ کوئی پتا اپنے درخت سے نہیں گرتا جب تک وہ میرے علم میں اور میرے حکم سے نہ ہو.پس بڑی عظیم ذات ہے خدا تعالیٰ کی جس کے ساتھ اسلام نے ہمارا تعارف کروایا ہے.اگر ہم اس کی تھوڑی سی معرفت بھی رکھتے ہوں تو ہم ایک لمحہ کے لئے بھی اس بات کو نہ بھولیں کہ وہ ہی وہ ہے، مولا بس، باقی ہر چیز بیچ ہے ہمارے اپنے نفسوں سمیت.پس اگر ہم نے کچھ حاصل کرنا ہے تو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اور خدا تعالیٰ کے احکام کی اتباع کر کے اور اس کے حکموں کو مان کر جن چیزوں کو وہ کہتا ہے نہ کرو ان کو چھوڑ کر اور جن کو وہ کہتا ہے کروان میں اس کی اطاعت بجالا کر ہم کچھ حاصل کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا (الكهف : ١١١) پس جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اور اسی زندگی میں خدا تعالیٰ کا وصال اسے حاصل ہو جائے تو وہ ایسے اعمال بجالائے جن میں فساد کا کوئی شائبہ نہ ہو، فساد کی کوئی ملونی ان کے اندر نہ ہو ( یہ عَمَلًا صَالِحًا کے معنے ہیں ) اور اس کے اعمال میں شرک کا کوئی حصہ نہ ہو.شرک صرف موٹا موٹا شرک ہی تو نہیں بلکہ انسان کے صحن سینہ میں ہزار بت بعض دفعہ جمع ہو جاتے ہیں.اپنے نفس کو ان بتوں سے بچانا اور اپنے سینہ کو ان بتوں سے پاک کرنا اور اپنے خیالات کو شرک سے پاک رکھنا، اپنے اعمال کو شرک سے پاک کرنا ، اپنے ماحول کو شرک سے پاک کرنا، اپنی دنیا کو شرک سے پاک کرنا اور ہر لحاظ سے لا يُشْرِكُ پر عمل کرنا ضروری ہے اور اگر ایسا ہو تو پھر اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی لقا انسان کو حاصل ہو جاتی ہے اور یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے.اگر چہ ہمارے بچوں کی عمریں چھوٹی ہیں ، اطفال بھی اجتماع کے لئے آئے ہوئے ہیں اور

Page 288

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۷۴ خطبہ جمعہ ۴ رنومبر ۱۹۷۷ء وہ تو زیادہ گہرائیوں میں پہنچ بھی نہیں سکتے لیکن جہاں تک اور جس گہرائی تک ان کا ذہن نہیں پہنچ سکتا ان حقائق کو ان کی زبان تو ادا کر سکتی ہے.قرآن کریم نے جو تعلیم ہمیں دی ہے اور اس کی جو تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اس میں تو ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وقت زندگی اس دنیوی شکل میں شروع ہوتی ہے یعنی پیدائش کے وقت ، اس وقت سے ہی خدا تعالیٰ کا نام بچے کے کان میں پڑنا چاہیے.بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ یہ ایک بلا وجہ رسم ہے جس کا کوئی اثر نہیں لیکن اب پچھلے چند سال کے اندر یہ تحقیق ہوئی ہے کہ بچے کے کان میں پیدائش کے پہلے دن ، اپنی عمر سنیلیٹی ) کے پہلے دن جو آواز میں پڑتی ہیں وہ اس کی طبیعت پر اور اس کی Personality ( پر پر اثر انداز ہوتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے اور احادیث نے جو عظیم علم ہمیں عطا کئے تھے ان کی تائید خود انسان بھی اپنی تحقیق کے ذریعے کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے یہ تحقیق کی ہے.ٹھیک ہے تم نے بھی تحقیق کی ہے لیکن ہمیں تو بتانے والے نے یعنی محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے بہت پہلے یہ باتیں بتادی تھیں.یہ درست ہے کہ اطفال کا دماغ ان گہرائیوں میں نہیں جا سکتا جس کو ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت کہتے ہیں.آٹھ سال نو سال، دس سال کے بچے بھی ہیں لیکن آٹھ ، نو ، دس سال کا بچہ زبان سے خدا تعالیٰ کا ذکر تو کر سکتا ہے.وہ سُبْحَانَ اللهِ تو کہہ سکتا.سکتا ہے، وہ لا إله إلا الله تو کہہ سکتا ہے.میرا ایک پوتا ہے لقمان سلمہ اللہ تعالیٰ کا بچہ وہ پونے دو سال کا ہے ہم اس کو سکھاتے رہتے ہیں اور وہ حَسْبِيَ رَبِّي جَلَّ اللهُ اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کہنے لگ گیا ہے اور اس کی عمر پونے دو سال ہے.یہ درست ہے کہ اس کو نہیں پتہ کہ میں کیا کہہ رہا ہوں لیکن آج نہیں پتہ کل اس کو پتہ لگ جائے گا اور وہ سوچے گا کہ مجھ پر کتنا احسان کیا تھا احسان کرنے والے نے کہ ابھی مجھے سمجھے بھی نہیں تھی اور اس رستے کی نشاندہی کر دی تھی جس رستے پر چل کر انسان خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کرتا ہے.اسی واسطے ہم کہتے ہیں کہ جن علاقوں میں یا جن گھرانوں میں بے احتیاطی سے بچوں کو گالیاں دینے کی عادت پڑ جاتی ہے ان کو گالیوں سے منع کریں.بچہ بعض دفعہ ایک گندی سی گالی دے دیتا ہے اور اس کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ اس کے معنے کیا ہیں لیکن صرف اس وجہ سے تو ماں باپ کی براءت نہیں ہو جاتی کہ بچے نے گندی گالی دی مگر اس کو

Page 289

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۷۵ خطبہ جمعہ ۴ رنومبر ۱۹۷۷ء پتہ نہیں.اس کو آج نہیں پتا، کل تو پتا لگ جائے گا اور پھر گندی گالی دینے کی عادت تو پڑ جائے گی.ایسی عادتیں نہیں ڈالنی چاہئیں اور جو اچھی باتیں ہیں ان کی عادت ڈالنی چاہیے.خدا تعالیٰ کا نام اللہ بچے کی زبان پر آجائے وہ لا الہ الا الله کہنے لگ جائے ، وہ اپنی توتلی زبان میں کہے گا اور کئی تو بڑی عمر میں بھی توتلی زبان استعمال کرتے رہے.حضرت بلال أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کہتے تھے وہ ش“ نہیں بول سکتے تھے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے خدا تعالیٰ کا نام تو ان کی زبان پر آ گیا.پس اطفال گہرائیوں میں جائے بغیر ذکر الہی کر سکتے ہیں بشرطیکہ خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی تنظیم اس کی یاد دہانی کراتی رہے اور اس کے لئے میں یہ کہتا ہوں کہ جب جلسہ ہو رہا ہو تو ہر تقریر کے بعد میری یہ ہدایت بطور یاد دہانی بتا دی جائے کہ ہمارا یہ اجتماع ذکر الہی اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنے کی خصوصیت رکھتا ہے، ہمیشہ ہی ہماری زندگی میں یہ خصوصیت ہونی چاہیے لیکن اس اجتماع کی یہ خصوصیت ہے کہ ذکر الہی میں مشغول رہیں اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کرتے ہوئے جھکے رہیں.بہتوں کو دعا کا نہیں پتا ہوتا کہ کیا دعائیں کریں اس واسطے میں مختصر بتا دوں کہ دعا اپنے نفس سے شروع ہونی چاہیے.آپ میں سے ہر ایک یہ دعا کرے کہ اے خدا! تو مجھے اپنی رحمت سے نواز اور میرے اوپر اپنے فضل نازل کر اور مجھے توفیق دے کہ تو نے مجھے جو قو تیں عطا کی ہیں میں ان کی صحیح نشود نما کر کے تیری رضا کو حاصل کر سکوں اور بدی سے مجھے ہمیشہ محفوظ رکھ اور مجھے تو ایسی طاقت دے کہ شیطان کبھی مجھ پر کامیاب حملہ نہ کر سکے اور مجھے تو دنیا کا خیر خواہ بنا دے.کسی کو میرے ہاتھ یا میری زبان یا میرے جوارح سے تکلیف اور ایذا نہ پہنچے.ہر ایک کی خیر خواہی میرے دل میں ہو.دنیا میں امن کا ماحول پیدا کرنے کے لئے میری زندگی کے لمحات خرچ ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق انسان کے دل میں پیدا کرنے کی میں ہمیشہ کوشش کرتا رہوں اور وہ حسن اور وہ احسان جس کے جلوے میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اپنی زندگی میں دیکھے ہیں وہ میں آگے دوسروں تک پہنچانے کے قابل ہو جاؤں.خدا تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنے والا ہوں.

Page 290

خطبات ناصر جلد ہفتہ خطبہ جمعہ ۴ رنومبر ۱۹۷۷ء شرک کی ملونی سے ہمیشہ بچار ہوں.ظلم سے ہمیشہ بچار ہوں ( شرک بھی ظلم عظیم ہے ) غرض اپنے لئے دعائیں کرو اور پھر اپنے خاندان کے لئے دعائیں کرو.پھر جماعت کے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جس غرض کے لئے پیدا کیا ہے اس غرض کو پورا کرنے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی وہ اسے تو فیق عطا کرے.اور وہ مقصد یہ ہے کہ تو حید ساری دنیا میں پھیل جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق آپ کی محبت ہر انسان کے دل میں گاڑ دی جائے اور اسلامی تعلیم جو حسین معاشرہ دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے جس میں کسی پر ظلم تصور میں بھی نہیں آتا اور وہ معاشرہ ساری دنیا میں قائم ہو جائے.پھر دعا کرو کہ ہمارے ملک میں بھی امن اور آشتی کے حالات پیدا ہوں اور قائم رہیں اور ایک دوسرے سے پیار پیدا ہو اور ہمارے ملک کو خدا تعالیٰ طاقتور بنا دے اور اسے استحکام عطا کرے اور دنیا کے مظالم سے اسے محفوظ رکھے اور دنیا پر احسان کرنے کی ہمارے ملک کو بھی توفیق عطا کرے اور دنیا کے فساد میں کبھی ہمارا ملک ملوث نہ ہو بلکہ ہمیشہ صلاح اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنے والا ہو اور خدا تعالیٰ کی رحمتیں ہمارے ملک پر بحیثیت ملک بھی نازل ہوں.اس کے علاوہ جو آپ کے دماغ میں ہیں وہ اپنی زبان میں دعائیں کریں اور کثرت سے ذکر الہی کریں.ہزاروں بار سُبْحَانَ اللهِ ، اَلْحَمْدُ لِلهِ اللهُ أَكْبَرُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اور خدا تعالیٰ کی دوسری صفات کا ذکر کریں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بلا مبالغہ حسن اعظم ہیں.اتنا احسان انسانیت پر نہ کسی اور نے کیا ہے اور نہ ہمارے تصور میں آسکتا ہے.آپ ہر پہلو سے احسان کر گئے.پس آپ پر کثرت سے درود بھیجنا چاہیے.ہم آپ کو کیا بدلہ دے سکتے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہم پر احسان کئے ہیں ہم تو ان کا کوئی بدلہ نہیں دے سکتے لیکن ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ اے خدا! ہم کمزور ہیں اور ہم بدلہ نہیں دے سکتے تو ہماری طرف سے بدلہ دے اور آپ کے مقام کو بلند تر کرتا چلا جا.خدا تعالیٰ ہمیں اپنے مقام کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور جو ہدایتیں دی جاتی ہیں خدا تعالیٰ ہمیں

Page 291

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۷۷ خطبہ جمعہ ۴ رنومبر ۱۹۷۷ء ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے اور خدا تعالیٰ ہمیں اپنی معرفت کی توفیق عطا کرے.یہ تو فیق عطا کرے کہ ہم اس کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل کر سکیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے انتہا درود بھیجنے کی توفیق عطا کرے اور خدا کرے کہ وہ ہمیں صحیح مسلمان بنائے ، ایسا مسلمان جو اسلام کے سارے احکام بجالانے والا ہو اور ہمیں ہر ایک کی فلاح و بہبود کی سکیمیں سوچنے والا اور ان پر عمل کرنے والا بنا دے اور دنیا کے دکھوں کو دور کرنے کا ہمیں آلہ اور ذریعہ بنادے اور دنیا میں کوئی دکھ باقی نہ رہے، کوئی پریشانی باقی نہ رہے سوائے اس پریشانی کے جو اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اشخاص یا جماعتوں پر بطور امتحان کے ڈالتا ہے.وہ پریشانیاں تو انسان کی اور جماعتوں کی ترقیات کا ذریعہ ہیں لیکن انسان انسان کے ہاتھ سے دکھ نہ اٹھائے بلکہ انسان انسان سے پیار کرنا سیکھ جائے وہ پیار جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دلوں میں انسان کے لئے پیدا کیا ہے.آمین.(روز نامه الفضل ربو ه۹ را پریل ۱۹۷۸ء صفحه ۲ تا ۵ )

Page 292

Page 293

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۷۹ خطبہ جمعہ ۱۱/ نومبر ۱۹۷۷ء اپنے نفس کے حقوق کی حفاظت کرنا ہر فرد کی اولین ذمہ داری ہے خطبه جمعه فرموده ۱۱ نومبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دین اسلام کی عظمت بیان کرتے ہوئے میں نے خطبات کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا.آج اس سلسلہ کا غالباً یہ چوتھا خطبہ ہے جو مختصراً ہو گا.میں چاہتا تھا کہ آج تفصیل سے یہ بتاؤں کہ انسان کے نفس کے متعلق اسلام نے کس قدر حسین اور پر حکمت تعلیم دی ہے لیکن چونکہ کل سے مجھے انفلوئنزا کی شکایت ہوگئی ہے جس کی وجہ سے سر درد کی بھی تکلیف ہے.اس وقت تو کم ہے لیکن بعض دفعہ زیادہ ہو جاتی ہے اور کچھ بخارسا بھی محسوس کر رہا ہوں اس لئے اس عنوان کی ابتدا میں کردوں گا.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو بعد میں کسی وقت اس کو تفصیل سے بیان کروں گا.قرآن عظیم کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے نفس کے متعلق فرمایا ہے :.وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ ہر شخص کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس کے جو حقوق مقرر کئے ہیں وہ خود یہ دیکھے کہ اس کو اپنے نفس کے وہ حقوق مل رہے ہیں یا نہیں.اس بنا پر پھر آگے جب ہم اسلامی تعلیم کو دیکھتے ہیں اور اس کی وسعتوں میں جاتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس رنگ میں صرف اسلام ایک ایسا مذہب

Page 294

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۸۰ خطبہ جمعہ ۱۱/ نومبر ۱۹۷۷ء ہے جس نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہر نفس کے اپنے کچھ حقوق ہیں اور ہر فرد کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان حقوق کی حفاظت کرے جن کو خدا تعالیٰ نے انسان کے نفس کے سلسلہ میں قائم کیا ہے.دین اور مذہب اور اعتقاد اور ایمان کے متعلق قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے :.لَا يَضُرُّكُم مَنْ ضَلَّ إذَا اهْتَدَيْتُمُ (المائدة: ۱۰۲) کہ ہدایت پر قائم رہنے کی ذمہ داری ہر نفس کی اپنی ہے.اسلام نے دوسرے کو ہدایت کا راستہ دکھانے کے لئے خود گمراہ ہو جانے کی اجازت نہیں دی.پس اس سلسلہ میں پہلا فرض یہ ہے کہ انسان خود ہدایت پر قائم رہے اور پھر جو دوسرے عنوانوں کے ماتحت فرائض ہیں وہ آئیں گے مثلاً انسان کے جسمانی قوی ہیں ان کی حفاظت کے لئے جو حق قائم کیا گیا ہے وہ کھانے سے متعلق ہے.فرمایا کھانا کھاؤ مگر طیب کھاؤ.طیب کا لفظ عربی میں بڑے لطیف معنے پیدا کرتا ہے.مختصراً میں اس وقت یہ کہوں گا کہ مناسب حال کھانا کھایا جائے مگر اس کی بہت لمبی تفصیل ہے اور یہ طیب کا لفظ ہی بتا رہا ہے کہ جسمانی قوتوں کی نشو و نما کی غرض یہ ہے کہ انسان پھرا اپنی ذہنی ، اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشو و نما میں ترقی کرتا چلا جائے.یہ ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے اور ساری چیزیں اس سلسلہ میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھ جاتی ہیں.بہر حال اسلام نے نفس کے حقوق قائم کئے ہیں اور جو بھی حقوق قائم کئے ہیں وہ بڑے ہی حسین اور بڑے ہی کامل ہیں یعنی کامل نشو و نما کے لئے جن حقوق کو قائم کرنے کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو قائم کر دیا ہے اور ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی اجتماعی زندگی کی ترقی کا انحصار ہر نفس کی ارتقائی زندگی کی حفاظت اور اس کی نشو و نما پر ہے.اس سلسلہ میں جو تعلیم ہمیں دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں تک نفس کے حقوق کی حفاظت کا تعلق ہے میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ایک تو یہ کہا گیا ہے کہ تمہارے اوپر دوسرے کی ذمہ داری نہیں ہے.تم دوسروں کے وکیل نہیں ہو اور دوسرے یہ کہا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے کے سامنے جواب دہ نہیں.پس ان بنیادی باتوں سے نفس کے حقوق شروع ہوتے ہیں اور پھر بڑی خوبصورت اور حسین اور کامل وسعتوں میں پھیلتے چلے جاتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے میری طبیعت ٹھیک نہیں.نزلہ اور کھانسی اور بخار کی کیفیت ہے اس لئے آج میں چند منٹ کے اس خطبہ پر اکتفا

Page 295

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۸۱ خطبہ جمعہ ۱۱/ نومبر ۱۹۷۷ء کرتا ہوں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور توفیق دے کہ میں یہ سارا مضمون مکمل کرسکوں کیونکہ قرآن کریم کے مطالعہ سے پتا لگتا ہے کہ اس کے بعض پہلو بڑے دلچسپ ہیں.دلچسپ اس معنی میں بھی کہ بہت سی ایسی باتیں بھی سامنے آجائیں گی کہ جو شاید دوستوں نے پہلے نہ سنی ہوں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 296

Page 297

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۸۳ خطبہ جمعہ ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرے گا خطبه جمعه فرموده ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہمارا جلسہ سالانہ قریب آرہا ہے قریباً ایک ماہ باقی رہ گیا ہے.آج پچیس نومبر ہے اگلے ماہ کی چھپیں تاریخ سے جلسہ شروع ہو رہا ہے.اس سلسلہ میں میں چند ایک باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.پہلا مسئلہ تو مہمانوں کا ہے لیکن دراصل یہ کوئی مسئلہ نہیں یعنی آنے والوں کے متعلق میں کیا یاد دہانی کراؤں جبکہ خود احمدی مرد بھی اور عورتیں بھی اور بچے بھی شوق اور محبت سے مست ہو کر ربوہ کی طرف بھاگتے ہیں اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی چلی آ رہی ہے اور اللہ پر توکل رکھتے ہوئے اور اس سے امید رکھتے ہوئے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس سال پہلے سال کی نسبت زیادہ مہمان آئیں گے.اللہ تعالیٰ آنے والوں کو بھی اور یہاں کے مکینوں کو بھی جلسہ کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے.جلسہ سالانہ کا دوسرا مسئلہ مکانوں کا ہے چونکہ ہر سال مہمانوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے اس لئے ان کے ٹھہرانے کی زیادہ گنجائش ہونی چاہیے.جب تک تعلیمی ادارے قومیائے نہیں

Page 298

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۸۴ خطبہ جمعہ ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء گئے تھے ہماری تعلیمی عمارتیں جلسہ کے مہمانوں کے لئے استعمال ہوتی تھیں اور قومیائے جانے کے بعد بھی غالباً ایک سال یا زائد عرصہ تک استعمال ہوتی رہی ہیں اور پھر کہا گیا کہ نہیں یہ عمارتیں جو جماعت احمدیہ سے لی گئی ہیں اور جن کی مالیت آج کے حساب سے غالباً سات آٹھ کروڑ روپے ہے ہم چند دن کے لئے بھی جماعت کو استعمال کے لئے نہیں دے سکتے.یہ یکدم ایک نیا مسئلہ اور نئی الجھن پیدا ہوگئی ، لیکن باہر سے جو تنگی پیدا کی جاتی ہے اندر کی فراخی اس تنگی کے بداثرات کو دور کر دیتی ہے.میں نے اہل ربوہ سے کہا تھا کہ اگر یہ عمارتیں نہیں ملتیں تو تمہارے دلوں میں تو اتنی گنجائش ہونی چاہیے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کو ٹھہر اسکو.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا، اللہ تعالیٰ نے بڑا رحم کیا اور اہل ربوہ نے ہمارے لئے مہمانوں کے ٹھہرانے کا کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہونے دیا اور ان کو اپنے گھروں میں جذب کر لیا.اس سال دونئی چیزیں پیدا ہوگئی ہیں ایک ہمارے شہر میں اور ایک ہمارے ملک میں.ہمارے شہر میں جلسہ سالانہ کے لئے کچھ رہائش گا ہیں تعمیر ہوئی ہیں اگر چہ ان کی گنجائش زیادہ نہیں لیکن کچھ رہائش گا ہیں جلسہ کے مہمانوں کے لئے تیار ہوگئی ہیں.تھوڑی سی پچھلے سال بھی تھیں لیکن زیادہ تر اس سال تعمیر ہوئی ہیں.مستورات کے لئے بھی رہائش گاہیں بنی ہیں اور مردوں کے لئے بھی لیکن ان رہائش گاہوں میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ وہ ان مہمانوں کو اپنے اندر ٹھر اسکیں جو اس سے قبل درسگاہوں میں ٹھہرائے جاتے تھے اس لئے اگر یہی حالت رہی تو اس تنگی کو آپ کے سینے کی فراخی نے دور کرنا ہے.آپ کے مکانوں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی برکات سے بھی معمور کر دے.دوسری نئی چیز یہ پیدا ہوئی ہے کہ پچھلے سال ہمارے ملک میں جو حکومت تھی وہ تبدیل ہو چکی ہے اور ایک نئی حکومت آگئی ہے.اس نئی حکومت نے جماعت کو کچھ سہولتیں دی ہیں.میں نے اس سے پہلے بھی ان کا شکریہ ادا کیا تھا کہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع کئی سال کے وقفہ کے بعد منعقد ہوا.ہم امید رکھتے ہیں کہ اس سال یہ نئی حکومت ہمارے جلسہ کے مہمانوں کی رہائش کے لئے وہ عمارتیں جو ہم سے قومیائی گئی ہیں ہمیں دے دے گی لیکن بہر حال یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے ہم نے نہیں کرنا.

Page 299

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۸۵ خطبہ جمعہ ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کو رہائش کی تنگی نہیں آنے دیں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.تیسری بات جلسہ کے لئے رضا کار میزبانوں کے متعلق ہے.جلسہ کا جو اپنا انتظام ہے، اس کا جو دفتر ہے اس میں تو میرے خیال میں دو چار آدمیوں سے زیادہ کا رکن کام نہیں کرتے اور دو چار آدمی ایک لاکھ کے قریب مہمانوں کی مہمان نوازی تو نہیں کر سکتے.یہ بھی خدا تعالیٰ نے بہت برکتوں کے سامان پیدا کئے ہیں کہ غالباً جب سے ہمارا جلسہ شروع ہوا ہے احمدی خدا تعالیٰ سے رضا کارانہ خدمت کی توفیق پاتے رہے ہیں اور پاتے ہیں اور پاتے رہیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.جب میں چھوٹا تھا ، اتنا چھوٹا کہ اپنی عمر کے لحاظ سے ابھی کام کرنے کے قابل نہیں تھا اور میں ساری دنیا کو کام کرتے دیکھتا تھا تو میرے بچپنے کے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ مجھے بھی کام کرنا چاہیے.بہت سے بچے میں نے دیکھے ہیں کہ وہ شوق سے کام پر چلے جاتے ہیں حالانکہ ان کی عمر ا جازت نہیں دے رہی ہوتی لیکن جو ذہین منتظم ہے وہ ان کو ایسے کام پر لگا دیتا ہے کہ بچے بھی خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارا بھی کچھ حصہ ہو گیا.چنانچہ مجھے ہمارے ماموں حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ساتھ رکھ لیتے تھے اور دفتر میں بٹھا لیتے تھے کبھی کہیں بھیج دیا کہ جاؤ یہ خط دے آؤ کبھی کہا کہ فلاں چیز دیکھ آؤ.اس قسم کا کام مجھ سے لے لیتے تھے اور میں بھی خوش ہو جاتا تھا اور جلسہ سالانہ کا کام کرنا بڑی برکتوں کا باعث ہے.پہلے قادیان میں جلسہ ہوتا تھا اور قادیان کی آبادی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی پھر وہ ہمیں چھوڑنا پڑا.پھر ایک سال لاہور میں جلسہ ہوا اور اس کے بعد یہاں آکر خیمے لگائے ، پھر کچے مکان بنے اور اب تو یہ ماشاء اللہ اچھا خاصا بڑا اور خوبصورت قصبہ بن گیا ہے لیکن جس سرعت کے ساتھ جلسہ کے مہمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس سرعت کے ساتھ ہمارے بچوں کی تعداد نہیں بڑھ رہی اور زیادہ تر انہی میں سے ہم نے رضا کار لینے ہوتے ہیں.اس لئے اب کچھ عرصہ سے رضا کار کارکن دوحصوں میں بٹ گئے ہیں ایک وہ رضا کا رجور بوہ جلسہ کے نظام کو پیش کرتا ہے اور دوسرے وہ رضا کار جو باہر کی جماعتوں سے لئے جاتے ہیں.پہلے میں ربوہ والوں کو کہنا چاہتا

Page 300

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۸۶ خطبہ جمعہ ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء ہوں کہ اصل ذمہ داری تو آپ کی ہے باہر سے آنے والے مہمانوں میں سے جو خود کو رضا کار کے طور پر پیش کرتے ہیں ان کی ذمہ داری تو نہیں ہے.آپ کو خدا تعالیٰ نے مرکز سلسلہ میں جگہ دی آپ یہاں رہتے ہیں اور دینی اور دنیوی برکات حاصل کرتے ہیں.پس آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ کی اولاد باہر سے آنے والوں کی خدمت کرے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے مہمانوں کی تعداد بہت بڑھ رہی ہے اور اگر ربوہ کے سارے رضا کا ر آ بھی جائیں تب بھی وہ کافی نہیں ہوں گے لیکن پورے آتے بھی نہیں.اس لئے میں آپ سے کہتا ہوں کہ جس حد تک ممکن ہو آپ اپنے بچوں اور عزیزوں کو جلسہ کے کام کے لئے پیش کریں اور پھر دیکھیں کہ وہ کام کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی برکتوں کو حاصل کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے کچھ رضا کار باہر کی جماعتوں سے بھی لئے جاتے ہیں اور اس کا ایک انتظام ہے وہ با قاعدہ وہاں کی جماعتی تنظیم کے ماتحت آتے ہیں یہ نہیں کہ خود ہی آکر یہاں نام لکھوا دیں.تو اس تنظیم کے ماتحت جتنے رضا کا رجلسہ کے نظام کو ملنے چاہئیں وہ بہر حال انہیں ملنے چاہئیں تا کہ نظام کے اندر کوئی خرابی پیدا نہ ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کو جو یہاں خدا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے کے لئے آتے ہیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے.ایک اور بات یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ مسکراتے رہنا چاہیے.میں نے کئی دفعہ یاد دہانی کروائی ہے اور ۱۹۷۴ ء سے جماعت نے اس کی طرف بڑی توجہ دی ہے اور اس سے بہت برکتیں حاصل کی ہیں.مسکراہٹ چہرے پر کئی بواعث سے آتی ہے، بہت سی وجوہ ہیں جن سے آدمی کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے.لطیفوں کے بارہ میں فلاسفر دماغ نے بہت موٹی موٹی کتابیں لکھی ہیں.میرے پاس بھی ایک کتاب تھی، کسی بچے نے لے کر وہ خود ہی نہ رکھ لی ہو اس کا نام تھا Enjoyment of Laughter ( اینجوئمنٹ آف لافٹر ) اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ وجوہ ہیں یہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے انسان کے وجود میں گدگدی ہوتی ہے اور چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے.مسکراہٹوں کے جو د نیوی بواعث ہیں ان کے اندر کوئی گہرائی نہیں نہ ان میں کوئی وسعت ہے اور وہ عارضی ہیں اور بعض دفعہ ان کا اخلاق سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ انسان کے جسم کو

Page 301

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۸۷ خطبہ جمعہ ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جب بعض خاص قسم کی باتیں اس کے سامنے آتی ہیں تو وہ ہنس پڑتا ہے اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے.یہ مسکراہٹیں تو آنی جانی ہیں.جس طرح یہ دنیا آنی جانی ہے اور اس کے اموال آنے جانے ہیں اس کی مسکراہٹیں اور اس کی خوشیاں بھی آنی جانی ہیں،اس لئے کوئی عقلمند آپ کو یہ نہیں کہے گا کہ کسی دنیوی وجہ سے جو مسکراہٹ ہے وہ ہمیشہ آپ کے چہرے پر رہنی چاہیے.یہ دنیا کیا اور اس کی مسکراہٹیں کیا لیکن بہت سی خوشیاں ایسی ہیں جن کا سر چشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کا پیار ہے اور اس کی بشارتیں ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خوش ہوا اور خوشی سے اچھلو کہ غلبہ اسلام کے دن آگئے ہیں.( میں آپ کے الفاظ نہیں لے رہا بلکہ میرے ذہن میں مفہوم ہے ) اب جس شخص کی مسکراہٹ اس وجہ سے ہے کہ غلبہ اسلام کے دن آگئے ہیں اس کی مسکراہٹ کو تو کوئی دنیوی طاقت نہیں چھین سکتی کیونکہ جب خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرے گا تو خدا تعالیٰ کے منصوبے کو تو دنیا کی کوئی طاقت نا کام نہیں کر سکتی اور جب اللہ تعالیٰ کی منشا نے ہماری مسکراہٹوں کو غلبہ اسلام کے ساتھ باندھ دیا ہے تو ہم مسکرائیں گے اور ہر حالت میں مسکرائیں گے.دنیا مسکراہٹوں کے بعض عجیب نظارے دیکھتی ہے.بعض نو جوان بچیوں کے بارے میں مجھے علم ہے خود ہمارے گھر میں ایک واقعہ ہوا کہ پلوٹھی کا بچہ پیدائش کے ساتھ ہی مر گیا.میں نے سوچا کہ جب ڈاکٹر اجازت دے گا تو میں جا کر بچی کو تسلی دوں گا لیکن جب میں کمرے میں داخل ہوا تو وہ مسکرا رہی تھی اور مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اتنا صبر اور تحمل.خدا کی چیز تھی اس نے لے لی.جیسا کہ میں ماضی قریب میں بتا چکا ہوں کہ غلبہ اسلام کے لئے خدا تعالیٰ نے چھوٹوں اور بڑوں کو کہا ہے کہ تم اپنی جان نہیں بلکہ اپنی زندگی کو قربان کرو، زندگی کے ہر لمحے کو قربان کرو تو وہ ان چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کی کیا پرواہ کرتے ہیں.پس جو رضا کا رجلسہ پر کام کر رہے ہوں پہلے میں ان کو کہتا ہوں کہ آپ ہنستے مسکراتے اور بشاشت والے چہروں کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کریں اور ربوہ والوں کو کہتا ہوں کہ چہروں پر تیوریاں نہ چڑھیں بالکل ہشاش بشاش رہ کر جس قسم کی

Page 302

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۸۸ خطبہ جمعہ ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء خدمت بھی آپ کر سکتے ہیں کریں.جو رضا کا رنہیں ہوتے ان کو بھی بہت سی خدمتیں کرنی پڑتی ہیں.پس آپ ان مہمانوں کا ہنستے چہروں کے ساتھ اور مسکراہٹوں کے ساتھ استقبال کریں اور مسکراہٹوں کے ساتھ ان کی خدمت کریں اور مسکراہٹوں کے ساتھ ان کو الوداع کریں اور جو باہر سے آنے والے ہیں وہ کیوں ان مسکراہٹوں میں آپ سے پیچھے رہیں.ان کی مسکراہٹیں بھی اور ان کی خوشیاں بھی تو غلبہ اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں.اس لئے آنے والے بھی مسکرا ئیں اور یہاں کے مکین بھی مسکرائیں اور ایک دوسرے کو مسکرا کر سلام کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ پر اور تقویٰ پر تعاون کرنے والے ہوں.ایک اور بات یہ ہے کہ آج کے بعد چار جمعے آئیں گے.جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے.پس ربوہ کے محلے یہ انتظام کریں کہ کم از کم ہر جمعہ کو (اس کے علاوہ اور دنوں میں بھی عصر کے بعد ہوسکتا ہے ) محلوں کی صفائی کی طرف خصوصی توجہ دیں اور کانچ کوچ کر اسے بالکل صاف ستھرا شہر بنا دیں.یہاں کوئی گند اور کوئی ایڈ اسٹرکوں پر نظر نہیں آنی چاہیے.اس میں ایک عارضی چیز بھی ہوتی ہے مثلاً اب مالٹے وغیرہ کا موسم ہے اور جلسہ پر کئی لاکھ سنگترہ اور مالٹا کھایا جاتا ہے.بعض لوگ بے احتیاطی سے چھلکا سڑک پر پھینک دیتے ہیں یہ نہیں کرنا ، ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ ان کے لئے جگہیں مقرر ہوں.دکاندار جو بیچتے ہیں وہ ذمہ وار ہیں کہ اگر کوئی وہاں کھائے تو وہیں کوئی ایسی جگہ ہونی چاہیے جس میں وہ چھلکے پھینکتے جائیں مثلاً پرانی ردی ٹوکریاں وغیرہ ہوں.بہر حال صفائی ہونی چاہیے اور سڑکوں پر کوئی گند نظر نہیں آنا چاہیے.گلیوں میں کوئی گند نظر نہیں آنا چاہیے.نالیوں میں کوئی گند نظر نہیں آنا چاہیے.اگر جلسے کی برکت سے آپ اس برکت کو بھی حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں تو بہت سے دوست ملیر یا اور پیچش سے بھی بچ جائیں گے اور ان کو دنیوی برکت بھی مل جائے گی.اور سب سے آخری اور سب سے ضروری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے منصوبے اور ہماری تدبیریں اور کوششیں تبھی کامیاب ہو سکتی ہیں جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہمارے شامل حال ہو.اس لئے بے حد دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کی مدد کو

Page 303

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۸۹ خطبہ جمعہ ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء آئے اور اس کے فرشتے آسمانوں سے نازل ہو کر آپ کی حفاظت کرنے والے ہوں اور آپ کو ہر دنیوی شر سے اور ہر شیطانی وسوسے سے بچانے والے ہوں اور خیر اور برکت کے ساتھ یہ جلسہ منعقد ہو اور خیر اور برکت کے ساتھ آنے والے آئیں اور پھر جانے والے جائیں اور اس کی برکتوں اور رحمتوں کا دیر پا اثر ہو اور یہ ایک ایسا درخت ثابت ہو جس کے پھل ہمیشہ ہی ہمیں ملتے رہیں اور ہمارے لئے دنیوی حسنات اور اُخروی حسنات کے سامان پیدا کرتے رہیں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.دعاؤں پر زور دے کر یہ سب کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں.اپنی طاقت پر بھروسہ نہ کریں کہ انسان کی طاقت کوئی حقیقت نہیں رکھتی جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شاملِ حال نہ ہو.خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہم سب کے شامل حال ہو.( آمین ) از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 304

Page 305

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۹۱ خطبہ جمعہ ۹؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارا ہر جلسہ پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ آتا ہے خطبه جمعه فرموده ۹ / دسمبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قریباً دس دن ہوئے پچھلے جمعہ سے دو دن پہلے بدھ کے روز مجھے انفلوئنزہ کا دوسر احملہ ہوا.جمعرات کو اس کے آثار ظاہر ہو چکے تھے لیکن چونکہ اس جمعرات کے متعلق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جلسہ سالانہ سے پہلے عام ملاقاتیں صرف اس روز ہوں گی اور اس کے بعد نہیں ہوں گی اور اطلاعات تھیں کہ بہت سے دوست باہر سے آرہے ہیں اس لئے میں نے خیال کیا کہ جو دوست تشریف لائیں گے ان کو تکلیف نہ ہو اس لئے ملاقات کر لینی چاہیے.چنانچہ سینکڑوں کی تعداد میں ملاقات کرنے والے تشریف لائے ہوئے تھے اور اڑھائی بجے تک میں اس بیماری اور کمزوری میں ملاقات کرتا رہا.ملاقات تو ہوگئی لیکن انفلوئنزہ کا جوش بڑھ گیا اور بیماری تیز ہوگئی اور پھر سات، آٹھ دن لیٹ کر گزارنے پڑے.اب فرق ہے بیماری کافی حد تک دور ہو چکی ہے تاہم اس کا کچھ اثر باقی ہے اور جلسہ سالانہ آ گیا ہے اور جلسے کی ذمہ داریاں بڑی اہم ہوتی ہیں.میں تو جب ان ذمہ داریوں کے متعلق سوچتا ہوں اور اپنی کمزوریوں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے ایک ہی چارہ نظر آتا ہے اور دراصل ہر کام میں ہمارے لئے وہی ایک چارہ ہے اور وہ دعا ہے جو ہم کرتے ہیں

Page 306

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۹۲ خطبہ جمعہ ۹؍ دسمبر ۱۹۷۷ء کہ اللہ تعالیٰ کمزور اور نا تواں انسان کی کمزوریوں کو اپنی طاقت سے دور کر دے اور جو ذمہ داریاں کندھوں پر ڈالی گئی ہیں ان کو نباہنے کی توفیق عطا کرے.آپ دوست بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی صحت دے اور صحت سے رکھے اور ہماری جو ذمہ داریاں ہیں خصوصاً جو جلسہ سالانہ کے ایام سے تعلق رکھتی ہیں ان کو ہم خدا تعالیٰ کی مرضی اور اس کے منشا کے مطابق پورا کرنے کے قابل ہو جائیں اور ہماری کوششوں کو وہ قبول کر لے اور ہم سے راضی ہو جائے.میں نے جو پچھلا خطبہ دیا تھا غالباً دو ہفتے ہوئے اس میں میں نے جلسہ سالانہ کے متعلق ہی کچھ باتیں بتائی تھیں.کچھ عام اصولی باتیں تھیں اور کچھ تفصیلی اور عملی با تیں تھیں.آج میں پھر جلسہ سالانہ کے متعلق ہی بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں اور بعض باتوں کے متعلق ذرا زیادہ تفصیل.بتانا چاہتا ہوں.جس وقت تعلیمی ادارے قومیائے گئے تو وہ جلسہ سالانہ کے لئے میٹر نہ رہے.قومیائ جانے کے بعد بھی غالباً ایک دو سال جلسہ کو ملتے رہے لیکن جس وقت وہ میٹر نہ رہے تو قریباً اشتی ہزار مربع فٹ کا رقبہ جلسہ کے استعمال سے باہر نکل گیا اور اسی ہزار مربع فٹ بہت بڑا رقبہ ہے.چنانچہ اس وقت بڑی گھبراہٹ بھی تھی اور بڑی دعا کی تو فیق بھی ملی.میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ربوہ کو یہ توفیق دی کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کو اپنے سینے میں جگہ دی اور اپنے گھروں کو ان کے لئے کھول دیا.ہر امتحان بڑی عاجزانہ دعاؤں کا ایک موقع بھی فراہم کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اہل ربوہ کو جزا عطا فرمائے.غرض اس وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ اتنی ہزار مربع فٹ کے مقابلہ میں کوئی اور رقبہ بننا چاہیے کیونکہ ہماری تعداد میں تو ہر سال اضافہ ہوتا ہے.چنانچہ جلسہ سالانہ کے لئے کچھ مہمان خانے تیار کئے گئے جن کو مختلف اضلاع بنوار ہے ہیں.مالی قربانی تو پہلے ہی وہ جماعتیں دے رہی ہیں اس کے ساتھ یہ ایک زائد مالی قربانی آگئی اس لئے یہ رقوم آہستہ آہستہ ہی وہ اضلاع دیں گے.فی الحال رقم کا کچھ حصہ بطور قرض ان اضلاع کو دیا گیا ہے یعنی جو مہمان خانے بن رہے تھے ان کی جتنی آمد ہوئی تھی اس ( پر ) لاکھ دولاکھ روپی زائد خرچ کیا گیا اور لاکھوں روپیہ مختلف اضلاع سے اس کام کے لئے جمع بھی کیا تو اسی ہزار مربع فٹ

Page 307

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۹۳ خطبہ جمعہ ۹؍ دسمبر ۱۹۷۷ء کے قریب جو جگہ کی کمی واقع ہو گئی تھی اس میں سے ہم اس وقت تک صرف چالیس ہزار مربع فٹ کی کمی ان مہمان خانوں کے نتیجہ میں دور کر سکے ہیں.وقت کے ساتھ ضرورت بڑھ رہی ہے لیکن اگر اسی کو لیا جائے تو باقی ۴۰ ہزار مربع فٹ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بہر حال ربوہ کے مکینوں نے انتظام کرنا ہے اور ربوہ کے مکانوں نے اس کے لئے گنجائش نکالنی ہے.پچھلے سال مستورات بہت بڑی تعداد میں اپنے واقف کاروں اور اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں ٹھہر گئی تھیں اور اس طرح مستورات کی رہائش گاہوں میں جو بہت زیادہ کمی واقع ہو گئی تھی اس کمی کا احساس نہیں ہوا.وہ ٹھہر گئیں اور ٹھہرانے والوں نے ٹھہرالیا اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق دی اور وہی جزا بھی دے.اس دفعہ مستورات کی قیام گا ہیں یعنی جلسہ سالانہ کا مہمان خانہ پچاس فی صد سے زیادہ بن گیا ہے لیکن اس کے علاوہ یہ انتظام بھی کیا گیا ہے کہ دارالضیافت کا ایک حصہ مستورات کے ٹھہرنے کے لئے علیحدہ کر دیا جائے تاکہ ہماری بہنوں اور ہمای بزرگ مستورات کو تکلیف نہ ہو.پہلے سارے حصے میں مرد ہی ٹھہرتے رہے ہیں لیکن اس کا ایک حصہ آسانی سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے اور اس حصے میں جو مرد ٹھہرتے تھے ان کے لئے کوئی اور انتظام کیا جائے گا.بہر حال الرِّجَالُ قَوَمُونَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء : ۳۵) عورتوں کا خیال رکھنے کی ذمہ داری خدا تعالیٰ نے مردوں پر ڈالی ہے اور ہمارے بھائی بشاشت کے ساتھ اس ذمہ داری کو باہیں گے اور احمدی مرد احمدی مستورات کے لئے بشاشت کے ساتھ جگہ خالی کر دیں گے.ویسے تو انتظامی لحاظ سے وہ جگہ خالی ہو ہی جائے گی یہ بشاشت ہی ہے جو ان کو ثواب کا مستحق ٹھہرا دیتی ہے.تعلیمی ادارے جو گورنمنٹ نے بغیر معاوضہ دیئے اپنی تحویل میں لئے تھے ان کے متعلق ابھی آخری فیصلہ حکومتی ادارہ تعلیم کی طرف سے نہیں ہوا.یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیکی کی توفیق عطا کرے اور وہ ان اداروں کو اس استعمال کے لئے دے دیں.پھر ہر قسم کی سہولت پیدا ہو جائے گی اور ہماری بڑھتی ہوئی ضروریات پوری ہو جائیں گی لیکن اگر ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ توفیق نہ ملے تو ہمیں تو بہر حال خدا تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ ہم اس کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں کرتے ہیں ، اپنی کسی خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو

Page 308

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۹۴ خطبہ جمعہ ۹؍ دسمبر ۱۹۷۷ء یہ بشارت دی تھی کہ میں تجھے ایک ایسی جماعت دوں گا جو میری راہ میں ہر قسم کی قربانیاں کرنے والی ہوگی.یہ الہام اور یہ بشارت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی گئی تھی ہم ہر آن اسے پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت آگے ہی آگے بڑھتی چلی جارہی ہے.پس جہاں تک اجتماعی رہائش گاہوں کا سوال ہے (ویسے تو ہر گھر میں مہمان ٹھہرتے ہیں ) قریباً نصف مسقف حصہ جلسہ سالانہ کے مہمان خانوں کے نتیجہ میں ہمیں مل چکا ہے اور مستورات کے لئے رہائش کا مزید انتظام کیا گیا ہے اور مردوں کی جگہ کچھ کم کر دی گئی ہے.پھر کچھ خیموں کا انتظام کیا گیا ہے.سردی میں خیمے کی رہائش بہت مشکل ہوتی ہے اور بہت سی ضروریات پوری نہیں ہوتیں لیکن بہر حال آنے والے احمدی کو یہ قربانی دینی پڑے گی.دنیا تو دنیا کی خاطر بہت لمبا عرصہ خیموں میں رہ جاتی ہے اگر ہم پانچ دس دن خیموں میں رہ جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا.شروع شروع میں یہ علاقہ جس کو اب ربوہ کا شہر کہتے ہیں بنجر پڑا ہوا تھا اور اس میں کچھ بھی نہیں تھا.پھر یہاں آنے کے بعد جلسہ سالانہ کے لئے عجیب و غریب Huts (ہٹس ) بنائی گئیں کچی دیواروں کی اور ان کے اوپر ایسا پھوس پڑا ہوا تھا کہ ہر وقت یہ خطرہ رہتا تھا کہ اگر خدانخواستہ ذراسی بے احتیاطی ہو گئی تو اس علاقے کی ساری چھتیں جل کر راکھ ہو جائیں گی لیکن اس وقت اس حالت میں بھی خدا تعالیٰ کے فرشتے ہماری حفاظت کرتے رہے اور ہم اپنے رب کریم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ اب اس حالت میں بھی وہ ہماری حفاظت کرتے رہیں گے.ہمارا جلسہ جماعت کی ترقی کی ایک تاریخی علامت بھی ہے.آپ کو یاد نہیں ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے آخری جلسے میں کتنے آدمی شامل ہوئے تھے.صرف سات سو مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے آخری جلسے میں شریک ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خوشی کا اظہار فرمایا تھا کہ جلسے پر بہت مہمان آگئے ہیں اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے.ہر حرکت شروع میں چھوٹی ہوتی ہے اور اس کا پہلے سے آگے بڑھنا بھی اسی نسبت سے ہوتا ہے مثلاً اگر پچاس کی بجائے سو آدمی آگئے تو دگنے ہو گئے لیکن

Page 309

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۹۵ خطبہ جمعہ ۹؍ دسمبر ۱۹۷۷ء زیادتی تو صرف پچاس کی ہوئی.اسی طرح اگر سو کی بجائے ڈیڑھ سو آ گئے تو ڈیڑھ گنا ہو گئے لیکن زیادتی صرف پچاس کی ہوئی پھر آہستہ آہستہ وہ بڑھتے ہیں.ہمارا پچھلے سال کے جلسے کا انداز ہ اس سات سو کے مقابلے میں سوالاکھ کی حاضری کا ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ احمدی جلسہ کی برکات سے حصہ لینے کے لئے ہر سال ہی زیادہ تعداد میں جلسہ میں شریک ہوتے ہیں اور ہر سال ہی ہمیں یعنی آنے والوں کو بھی اور یہاں کے مکینوں کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ حقیری قربانی کا موقع ملتا ہے.ہماری قربانیاں تو ہیں ہی حقیر.خدا تعالیٰ جو خالق کائنات ہے اور ہر چیز کا مالک ہے اس کے حضور ہم کتنا بھی کیوں نہ پیش کر دیں سب کچھ اسی کی ملکیت ہے اور جو ہم پیش کر رہے ہیں وہ بھی اسی کی ملکیت ہے.پس ہم نے کیا پیش کیا؟ لیکن یہ اس کی ذرہ نوازی ہے کہ وہ ان ذروں کو جو تمثیلی زبان میں اس کی جوتی کے ذرے بن جاتے ہیں آسمانوں کی رفعتیں عطا کر دیتا ہے.ہمارا اس پر کوئی حق تو نہیں ہے.مالک اور خالق پر کسی کا کیا حق !لیکن وہ رب مہربان ہم پر مہربانی کرتا ہے اور ان حقیر قربانیوں کے مقابلے میں ہمیں ابدی جنتوں کی بشارت دے دیتا ہے بشرطیکہ ہمارے دل میں کوئی کھوٹ اور بھی نہ ہو.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو کھوٹ اور کجی سے بچائے.اس جلسہ پر بھی اہل ربوہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان سنبھالنے پڑیں گے.اس سلسلہ میں جو چیز میں نے پہلے خطبہ میں نہیں کہی تھی وہ اب میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں.وہ یہ ہے کہ ایک وہ آنے والے ہیں جن کی کسی خاندان سے دوستی یا رشتہ داری ہوتی ہے اور وہ ان کو لکھتے ہیں کہ آپ ہمارے لئے جگہ بنا ئیں اور وہ کوئی غسل خانہ خالی کر کے یا کوئی کمرہ خالی کر کے یا کسی برآمدہ میں انتظام کر کے ان کے لئے جگہ بنا دیتے ہیں اور کچھ ایسے آنے والے ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آتے ہیں لیکن ان کو اپنی کوشش کے نتیجہ میں اس قسم کی چھوٹی موٹی جگہ بھی نہیں ملتی اور نہ مل سکتی ہے.اس کے لئے اہل ربوہ کو تحریک کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مکانوں کا کچھ حصہ جلسہ سالانہ کے نظام کے ماتحت کر دیں تا کہ وہ لوگ جو اپنی کوشش کے نتیجہ میں کوئی جگہ حاصل نہیں کر سکے ان کے لئے بھی جگہ کا انتظام ہو جائے.میں نے کئی دفعہ مثالیں دے کر بتایا

Page 310

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۲۹۶ خطبہ جمعہ ۹؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہے کہ آنے والے محلات کا مطالبہ نہیں کرتے ان کو تو اگر آپ حسب ضرورت ایک غسل خانہ بھی خالی کر دیتے ہیں تو وہ بڑے ممنون ہوتے ہیں.وہ پہلے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس کی حمد کرتے ہیں کہ اس نے ان کے لئے یہ سامان پیدا کر دیا اور پھر اس کے بندوں کے شکر گزار ہوتے ہیں جنہوں نے ان کی اعانت کی اور ان کے لئے سامان پیدا کیا.پس چھوٹا کمرہ یا بڑا کمرہ جو بھی آپ جلسہ سالانہ کے انتظام کو دے سکتے ہوں ضرور دیں تا کہ جماعت احمد یہ کا معاشرہ کہ سارے انسان ایک معاشرہ میں ایک ہی ماحول میں برابر کے انسان بن کر رہیں قائم ہو اور گوہ قلبی طور پر تو رہتے ہیں لیکن جلسہ سالانہ کے موقع پر اس کا عملی مظاہرہ ہو جائے.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں اور سینکڑوں دفعہ پہلے کہہ چکا ہوں اور جب تک زندہ ہوں کہتا چلا جاؤں گا وہ یہ ہے کہ ہمارا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اور اس کے پیار اور اپنے حق میں اس کی قدرتوں کے ظاہر ہونے پر ہے اور اس کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے سوائے دعا کے اور کوئی ذریعہ نہیں ہے.وہ عاجزانہ دعا جوانسان کے دل سے اس وقت نکلتی ہے جب وہ اپنی معرفت حاصل کرتا ہے کہ میں کیا چیز ہوں ایک ناکارہ انسان ،ایک کمزور انسان ، ایک کم طاقت انسان ہر لحاظ سے ناتواں انسان اور پھر اپنی ساری کمزوریوں کو محسوس کرتے ہوئے وہ اس کے آگے جھکتا ہے جو سب طاقتوں کا مالک ہے اور اس سے کہتا ہے کہ میں جو ہوں وہ میں جانتا ہوں مگر اے ہمارے رب جو تو ہے وہ بھی میں جانتا ہوں کہ تیرے آگے کوئی چیز انہونی نہیں ہے.پس تو ہمارے لئے سہولت کے اور آرام کے اور خوشی کے اور خوشحالی کے سامان پیدا کر دے.اتنا بڑا جلسہ ہے اور اس قسم کی غریب جماعت ہر سال اس میں سے گزرتی ہے لیکن وہ اپنی کسی خوبی یا اپنی کسی تدبیر کے نتیجہ میں اس میں سے کامیابی سے نہیں گزرتی بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ ہمارا ہر جلسہ ہی پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے زیادہ لے کر آتا ہے اور آسمان سے خدا تعالیٰ کی رحمتیں ہر لحاظ سے پہلے سے زیادہ برس رہی ہوتی ہیں، نئی نسل خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ لے رہی ہوتی ہے، نئے احمدی

Page 311

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۹۷ خطبہ جمعہ ۹؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہونے والے جو پہلی دفعہ اس جلسہ میں آتے ہیں اس کی برکات میں شریک ہوتے ہیں اور وہ پرانے جو خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول سے تھک نہیں جاتے خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کرتے ہیں.ایسے بھی بد قسمت ہیں جو تھک جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے پرے ہٹ جاتے ہیں لیکن وہ جو خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کرتے کرتے تھکان اور کوفت محسوس نہیں کرتے بلکہ ان کے دل میں یہ تڑپ ہوتی ہے کہ ہم دعاؤں کے ذریعہ اس کی رحمتوں کو جذب کر کے پہلے سے زیادہ اس کے پیار کو حاصل کریں گے وہ پہلے سے زیادہ ہی اس کے پیار کو حاصل کرتے ہیں اور خدا کرے کہ یہ جلسہ بھی ہمارے لئے پہلے تمام جلسوں سے زیادہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کا موجب ہو.پس بہت دعائیں کریں خصوصاً ان ایام میں بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ خیر و برکت کے ساتھ یہ جلسہ لائے اور خیر و برکت کے ساتھ جلسہ رہے اور جلسہ گزرے اور ہم پر بھی اس کی رحمتیں نازل ہوں اور آنے والوں پر بھی نازل ہوں اور دنیا کے لئے بھی یہ جلسہ رحمت اور خیر اور برکت کا باعث بنے.(آمین ) از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 312

Page 313

خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۹۹ خطبہ جمعہ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اسلامی شریعت ایک کامل شریعت ہے جس میں ہر شعبہ زندگی کے لئے بزرگی اور شرف کے سامان ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۶ / دسمبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت کریمہ پڑھی:.لَقَد أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَبا فِيهِ ذِكْرُكُمُ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (الانبياء : ١١) اسلامی شریعت ایک کامل شریعت ہے اس میں انسان کے لئے کسی قسم کی تنگی اور حرج نہیں ہے بلکہ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ یہ شریعت ہر پہلو سے تمہارے لئے بزرگی اور شرف کے سامان پیدا کرتی ہے.اسلامی شریعت جہاں روحانی ترقیات پر روشنی ڈالتی ہے اور ان کے حصول کے لئے ہدایت دیتی اور نصیحت کرتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی جو دنیوی نعماء ہیں ان سے بھی انسان کو محروم نہیں کرتی اور اس کے لئے ہمیں یہ دعا سکھائی.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة :۲۰۲) دنیا کی حسنات کے لئے کوشش کرنے کا بھی حکم ہے.ہماری دعا تد بیر اور تدبیر دعا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم شریعت کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق حسنات دنیا کے حصول کی کوشش کرو لیکن صرف اپنی کوششوں پر بھروسہ نہ رکھو بلکہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات کی ہدایت دے اور پھر ایسے طریقوں سے تمہیں وہ دنیوی حسنات عطا کرے جو تم

Page 314

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۰۰ خطبہ جمعہ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۷ء پر خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں کھولنے والی ہوں اور خدا سے دور لے جانے والی نہ ہوں.پس تم دعا کرو کہ حقیقی معنے میں جو حسنات ہیں وہ تمہیں ملیں یعنی محض کوشش اور تدبیر ہی نہ کرو بلکہ دعا بھی کرو.چنانچہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے الفاظ میں خدا نے خود ہی دعا بھی سکھا دی اور چونکہ دنیا کی اس مختصر سی زندگی کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی اُخروی زندگی ملنی ہے اس لئے ساتھ ہی فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً اُخروی حسنات کے ملنے کا بھی ذکر کر دیا اور پھر وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کے الفاظ میں اخروی زندگی کی تکالیف سے بچنے کا بھی ذکر ہے.بہر حال جب ہم دنیوی لحاظ سے سوچتے ہیں تو اسلامی تعلیم ہمارے لئے دنیوی حسنات اور شرف اور بزرگی کے سامان پیدا کرتی ہے بشرطیکہ انسان کی تدابیر دعاؤں کی بنیاد پر استوار ہوں.دنیوی حسنات میں سے مثلاً تجارت ہے.اسلام میں تجارت کے جو اصول بتائے گئے ہیں ان پر عمل پیرا ہو کر تجارتیں کامیابی سے چلتی ہیں.اگر چہ کامیابی کی سب سے بڑی ضمانت تو دعا ہے لیکن اس کے جو دوسرے اصول بتائے گئے ہیں ان کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے.مثلاً دیانت داری ہے اسلام نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ لین دین میں دیانت داری سے کام لو اور کوئی کھوٹ نہ ہو نہ طبیعت میں کھوٹ ہوا اور نہ مال میں تو اس سے تجارت خوب چہکتی ہے.چنانچہ دنیا کی تجارت کی تاریخ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں تجارت میں وہی افراد اور قومیں کامیاب نظر آتی ہیں جن کی ساکھ قائم تھی.وہ جو کچھ کہتے تھے اس کے مطابق مال سپلائی کرتے تھے لیکن اگر یہ ساکھ نہ ہو تو تجارت چل نہیں سکتی.مثلاً چند دن ہوئے اخبار میں یہ خبر آئی تھی کہ فیصل آباد میں حکومت نے مسالے بنانے والی ایک کمپنی پر چھاپہ مارا تو اخبار کے کہنے کے مطابق انہیں پتا لگا کہ ایک من ہلدی میں صرف تین سیر ہلدی ہے اور باقی گند ڈالا ہوا ہے.پس یہ جو تجارتی بددیانتی ہے اور اشیاء خوردنی میں کھوٹ کی ملاوٹ ہے اس سے تجارت چمکتی نہیں.اسی لئے جن خطوں میں تجارتی لحاظ سے بددیانت دماغ ہیں ان کی تجارت کا گراف اس طرح بنتا ہے کہ شروع میں وہ بڑی دیانتداری کے ساتھ اچھی طرح گا ہکوں کو دیتے ہیں لیکن جب ان کی تجارت چمک اٹھتی ہے تو پھر وہ دھوکا دہی کے ذریعہ سے پیسے کمانے لگتے ہیں.نتیجہ یہ

Page 315

خطبات ناصر جلد ہفتم ٣٠١ خطبہ جمعہ ۱۶ / دسمبر ۱۹۷۷ء ہوتا ہے کہ پھر وہ دیوالیہ ہو جاتے ہیں کیونکہ جب لوگوں کو پتہ لگتا ہے کہ مثلاً ہلدی کے علاوہ اس میں مضر صحت چیزیں بھی پڑی ہوئی ہیں تو لوگ ایسا مال نہیں خریدیں گے.آج کی دنیا میں ترقیات کا ایک بہت بڑا حصہ بین الاقوامی تجارت سے وابستہ ہے اور بین الاقوامی تجارت صرف ساکھ پر قائم ہے مثلاً یہاں کا آدمی انگلستان سے مال منگواتا ہے اور انگلستان والا پاکستان سے مال منگواتا ہے یا اس سے بھی دور دراز کے علاقے ہیں وہاں سے سامان آتا اور جاتا ہے.اگر اس میں دیانتداری سے کام نہیں لیا جائے گا تو شاید عارضی طور پر کچھ فائدہ ہو جائے لیکن انجام کار پریشانیاں اٹھانی پڑیں گی.انکوائریاں ہوں گی.مقدمے چلیں گے.پس مستقل کامیابی اس قسم کی بددیانت تجارت میں ہمیں نظر نہیں آتی.تجارت کے لئے فراست کی بھی ضرورت ہے اور یہ تو ہے ہی اللہ کی عطا اور دعا ہی سے مل سکتی ہے یا دعا سے قائم رہ سکتی ہے.ایک بزرگ صحابی جو کسی زمانے میں مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں پیٹ پر پتھر باندھ کر پھرتے تھے مگر بعد میں ان کے اموال میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت ڈال دی اور وہ اسی کتاب کی وجہ سے تھی جسے خدا تعالیٰ نے نازل کیا اور فرمایا فِيهِ ذِكْرُكُم اس میں تمہاری بزرگی اور شرف کے سامان رکھے گئے ہیں.پس صحابہ رضوان اللہ علیہم کو جو بزرگی اور عزت حاصل ہوئی تھی وہ اس کتاب کے ذریعہ ملی تھی.انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اور خدا سے برکات حاصل کر کے تجارت میں بھی فراست پائی تھی چنانچہ اس بزرگ صحابی کے متعلق آتا ہے کہ جب مدینہ میں اموال آئے اور وہاں بڑی دولت جمع ہوگئی اور تجارت کی ایک بہت بڑی منڈی بن گئی تو اس منڈی میں ایک صبح کو کچھ تجار ایک لاکھ اونٹ لے کر آگئے تو انہوں نے جا کر سودا کر لیا.ان کے دوست ایک اور صحابی نے کہا میں باہر گیا ہوا تھا میں نے ان اونٹوں کو باہر دیکھا تھا لیکن چونکہ اس بات کی اجازت نہیں کہ منڈی میں آئے بغیر سودے ہوں اس لئے میں نے ان سے کوئی بات نہیں کی لیکن میری نیت یہ تھی کہ جب یہ اونٹ منڈی میں آجائیں گے تو میں خریدوں گا لیکن تم پہلے پہنچ گئے اس لئے تم نے خرید لئے.انہوں نے کہا کہ اب تم لے لو.کہا کس دام پر.بولے جس دام میں میں نے لئے ہیں سوائے اس کے کہ ان کی نکیلیں مجھے دے دو.

Page 316

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۷ء تو اگر ایک تکمیل کی قیمت ایک روپیہ ہو تو چند منٹوں میں ان کو ایک لاکھ روپے کا فائدہ ہو گیا.اگر نکیل اٹھتنی سمجھ لی جائے تب بھی پچاس ہزار روپے کا فائدہ ہو گیا.پس جو خدا داد فراست ہے اس کا اثر دنیوی مال و دولت کی تجارت میں بھی نظر آتا ہے.اس كا في الدُّنْيَا حَسَنَةً کے ساتھ تعلق ہے.تاریخ اسلام میں ہمیں اس قسم کی کئی مثالیں ملتی جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی تجارت بھی خوب چھمکی اور اسی طرح ہر دوسری چیز میں بھی جو دنیوی حسنات میں شامل ہے انہوں نے بہت ترقی کی.مثلاً زراعت ہے اس میں مسلمانوں نے بہت ترقی کی.سپین میں مسلمانوں نے بڑی ترقی کی اگر چہ مسلمانوں کو وہ ملک چھوڑنا پڑا اور اس وقت ان پر بڑا ظلم ہوا لیکن اپنے زمانہ حکومت میں انہوں نے درختوں پر بعض ایسے پیوند کئے جو حیرت انگیز تھے.انہوں نے بادام وغیرہ کے درختوں پر گلاب کا کامیاب پیوند کیا چنانچہ جس طرح آڑو اور بادام کے بڑے بڑے درخت ہوتے ہیں اسی طرح وہاں گلاب کے درخت تھے جن پر گلاب کے پھول لگتے تھے.غرض شجر کاری اور پھول اگانے اور ترکاریاں وغیرہ لگانے کے میدان میں مسلمانوں نے جو ترقی کی اس کو دیکھ کر اب بھی دنیا حیران رہ جاتی ہے.یہ بھی ایک حیرت انگیز د نیوی حسنہ ہے جو اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں مسلمانوں کو نصیب ہوئی.غرناطہ میں الحمراء نامی ایک بہت ہی خوبصورت محل ہے جسے ایک مسلمان بادشاہ نے تعمیر کر وایا تھا.بعد میں بعض دوسرے مسلمان بادشاہوں نے اس میں بعض حصے بڑھائے بھی تھے.یہ وہی محل ہے جس کی دیواروں پر لا غَالِبَ إِلَّا اللهُ الْحُكْمُ لِلَّهِ - اَلْقُدْرَةُ لِلَّهِ - اَلْعِزَّةُ لِلَّهِ وغیرہ خدا تعالیٰ کی بلندشان کے کلمات بڑی خوبصورتی کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں.یہ کیوں لکھے گئے تھے.یہ بھی ایک عظیم واقعہ ہے لیکن اس وقت وہ میرے مضمون سے تعلق نہیں رکھتا.یہ محل ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے جہاں پانی کا کوئی چشمہ نہیں تھا اور چونکہ درختوں اور پھولوں اور سبزے میں خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے جلوے نظر آتے ہیں اس لئے انہوں نے وہاں باغ لگانا تھا اس کے بغیر ان کے لئے محل بے معنی تھا اور کوئی چشمہ وہاں تھا نہیں تو انہوں نے پانی کا ایک

Page 317

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۰۳ خطبہ جمعہ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۷ء حیرت انگیز انتظام کیا.اس پہاڑ سے چند میل پر ایک وادی ہے جس میں سے گزر کر دوسری طرف بہت اونچے پہاڑ ہیں جو ہر وقت برف سے ڈھکے رہتے ہیں.میں نے خودان کو دیکھا ہے محل میں کھڑے ہوں تو وہ سامنے نظر آتے ہیں.جس وقت میں گیا ہوں گرمیوں کے دن تھے اور گرمیوں میں بھی برف سے ڈھکے ہوئے تھے.برف کا نچلا حصہ جب پگھلتا ہے تو کچھ تو برفانی نالوں کی شکل میں بہنے لگتا ہے اور کچھ زمین کے اندر جا کر زمین دوز نہریں بن جاتی ہیں جن کو ہم چشمے کہتے ہیں.چنانچہ اس وقت کے مسلمان انجینئروں نے برف پوش پہاڑوں سے کوئی چشمہ پکڑا اور اس پہاڑ کے اوپر لے آئے جہاں بادشاہ نے محل تعمیر کروانا تھا اور یہ انتظام اب تک قائم ہے.میں نے دیکھا ہے کہ ایک اچھا خاصا راجباہ ہے جس میں پانی بہ رہا ہوتا ہے.اگر پانی میسر نہ آتا تو وہاں نہ کوئی درخت اُگ سکتا تھا نہ گھاس اگ سکتی تھی.نہ سبزیاں اُگ سکتی تھیں اور نہ پھول اُگ سکتے تھے اور انہوں نے یہ انتظام کیسے کیا آج کا سائنسدان بھی اسے دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے اور اسے یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی کہ مسلمانوں نے پہاڑ کی چوٹی پر پانی کس طرح پہنچا دیا.چنانچہ لوگ اس کو چھیڑتے نہیں کیونکہ ان کو خطرہ ہے کہ اگر انہوں نے اس کو چھیڑا تو یہ نہ ہو کہ پھر پانی آنا ہی بند ہو جائے.پس یہ ربّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کی دعا کی برکت ہے جو مسلمانوں کو سکھائی گئی اور یہ اسی دعا کا نتیجہ ہے کہ مسلمان ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر معجزانہ طور پر پانی لے گئے جس میں خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک عجیب نظارہ ہے.پس اسلامی تعلیم کے اندر ہمارے لئے ہر شعبہ زندگی میں بزرگی اور شرف کے سامان رکھے گئے ہیں.یہ کوئی چٹی نہیں ہے اور نہ اس میں ہمارے لئے کوئی حرج ہے بلکہ اس میں ہمارے لئے رحمت کے سامان ہیں.فارسی کا محاورہ ہے کسب کمال گن که عزیز جهان شوی“ کمال حاصل کرو گے تب تمہاری بزرگی قائم ہوگی.جہاں تک انسانی جسم کا تعلق ہے اس کو مضبوط کرنے اور مضبوط رکھنے کے لئے پر حکمت اصولوں سے اسلامی تعلیم بھری پڑی ہے.ہر گناہ کسی نہ کسی طریقے پر ہمارے جسم کو بھی کمزور کر رہا ہے اور بہت سے گناہ تو ایسے بھی ہیں جن کا انسان کے جسمانی قومی پر بہت گہرا اور گندہ اثر پڑتا ہے.قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بتایا ہے کہ وہ

Page 318

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۰۴ خطبہ جمعہ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۷ء الْقَوِيُّ الْأَمِينُ یعنی جسمانی طور پر مضبوط اور اخلاقی لحاظ سے امین تھے.جسمانی طاقت کا اگر چہ روحانی بزرگی کے ساتھ براہ راست تو کوئی تعلق نہیں ہے لیکن بالواسطہ تعلق ضرور ہے اس لئے اسلام نے جسمانی لحاظ سے بھی ہماری بزرگی اور شرف کے سامان پیدا کئے اور ہمیں ذلت ورسوائی سے بچانے کی تعلیم دی ہے.پس اسلامی تعلیم بڑی عظیم تعلیم ہے.اس کے اندر ہمارے لئے بزرگی اور شرف کے سامان ہیں اس لئے قرآن کریم کو غور سے پڑھنا چاہیے اور یہ عزم اور عہد کرنا چاہیے کہ ہم ہر شعبہ زندگی میں اس بزرگی کو حاصل کریں گے جو ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے مقدر کی ہے اور جس کے لئے خدا تعالیٰ نے اسلام جیسے کامل مذہب اور قرآن جیسی عظیم شریعت کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے.ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں دنیوی بزرگی اور شرف کو بھی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۲۷ مارچ ۱۹۷۸ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 319

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۰۵ خطبہ جمعہ ۲۳؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ہر انسان کو خود کوشش کرنی پڑتی ہے خطبه جمعه فرموده ۲۳ دسمبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.يَايُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَيُلْقِيهِ - (الانشقاق :) پھر حضور انور نے فرمایا:.اس مختصر سی آیت میں جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے بہت سی باتیں بیان ہوئی ہیں.اول یہ کہ انسان کو وصال الہی کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے یعنی جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہے اسے خود کوشش کرنی پڑتی ہے اور پورا زور لگا کر کرنی پڑتی ہے.گویا جب انسان اللہ تعالیٰ سے وصال اور اس کی رحمتوں کو حاصل کرنے کے لئے پوری کوشش کرے گا تب اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے اسے نوازے گا اور اپنی لقاء یعنی رضاء اور ملاقات کے سامان اس کے لئے پیدا کرے گا.دوسرے یہ کہ کوشش کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان آزاد ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کے لئے کوئی شخص کسی دوسرے کے لئے کوشش نہیں کر سکتا ، اگر کوئی کرے گا بھی تو ایسی کوشش بے نتیجہ ہوگی.اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.غرض اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پانے

Page 320

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲۳؍ دسمبر ۱۹۷۷ء کے لئے ہر انسان کو خود کوشش کرنی پڑتی ہے کسی دوسرے کی کوشش کام نہیں آسکتی.تیسرے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص خدا کے حضور عاجزا نہ جھکتا ہے اور قرب الہی کو پانے کے لئے ہدایت کی راہوں کو اختیار کرتا ہے اور خدا سے قریب سے قریب تر ہونے کی جد و جہد کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی قدرت ، عظمت اور جلال غیر اللہ کو اس بات سے منع کرتے ہیں کہ وہ انسان کو اس کی کوشش سے باز رکھے یا اس کی کوشش کو ناکام بنادے یعنی یہ اعلان کرے کہ اس کی کوشش ناکام ہوگی.ویسے شیطان اور اس کا گروہ انسان کے دل میں وسوسے ڈالتے رہتے ہیں لیکن میں اس وقت شیطانی طاقتوں کی بات نہیں کر رہا، میں تو یہ بتارہا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف کوئی شخص بلند ہورہا ہو.وہ خدا کی راہ میں آگے بڑھ رہا ہو تو کسی اور کو یہ طاقت نہیں کہ وہ اس کی ، ٹانگ پکڑ کر پیچھے کھینچ لے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو طاغوتی طاقتیں ہیں خدا کے بندوں پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور ان کا کوئی حربہ کارگر نہیں ہوتا.وہ اپنے منصوبہ میں کامیاب نہیں ہوتیں.چوتھے اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ اپنی سی کوشش کر دکھائے.بات یہ ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجز بندہ جو کچھ بھی پیش کرتا ہے اس کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں اور جو تھوڑا بہت وہ پیش کرتا ہے وہ اس کی ملکیت ہی نہیں.مالک تو اللہ ہے اور انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ بطور امانت کے ہے.اگر انسان کو یہ کہا جاتا کہ وہ خدا کی عظمتوں کے مطابق کوشش کرے یا اگر یہ کہا جاتا کہ خدائی جلال کے مدنظر جتنی طاقت خرچ ہونی چاہیے ہر انسان لقائے الہی کے لئے اتنی طاقت خرچ کرے تو کوئی ایک انسان بھی خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل نہ کر سکتا.اس لئے کہا یہ گیا ہے کہ اے انسان! (انسانوں ، میں سے ہر فر د مخاطب ہے ) تو اپنے دائرہ استعداد کے اندر جتنی کوشش کر سکتا ہے اتنی کوشش تجھے کرنی پڑے گی تب خدا کا قرب تجھے حاصل ہوگا اور تیرے لئے وصل اور لقائے الہی کے سامان پیدا ہوں گے.اگر تیری طاقتیں خدا اور غیر اللہ میں بٹ جائیں گی ، اگر تو کچھ خدا کے حضور پیش کرے گا اور کچھ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کے سامنے پیش کرے گا ، اگر تیرا سب کچھ خدا کے

Page 321

۳۰۷ خطبہ جمعہ ۲۳؍ دسمبر ۱۹۷۷ء خطبات ناصر جلد ہفتم لئے نہ ہوگا تو پھر گویا تو نے اپنی خداداد طاقت اور استعداد کے مطابق اپنا پورا زور نہیں لگایا اس لئے تیری تھوڑی سی کوشش گادح الی ربک کے مطابق نہیں ہوگی اور تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل نہیں کر سکے گا.پس ایک طرف فرمایا انسان کمزور ہے یعنی اس کے ساتھ بہت سی ایسی چیزیں لگی ہوئی ہیں جن کو بشری کمزوریاں کہتے ہیں اور جن کے نتیجہ میں انسان سے غفلتیں ہو جاتی ہیں مگر اس کے با وجود فر ما یا کہ اگر انسان کی نیت پوری کوشش کرنے کی ہوگی اور وہ اپنی خامیوں کو دور کرنے کی بھی پوری کوشش کرے گا تب اس سے اگر کبھی کبھی غلطیاں، کوتاہیاں، گناہ ، کمزوریاں یا سستیاں سرزد ہو جا ئیں گی تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت ان کے اثرات کو دور کر دے گی.یعنی انسان کی جتنی طاقت ہے اگر اس کے مطابق اس کی کوشش ہوگی اور بغیر فساد کے ہوگی اور خلوص نیت کے ہوگی اور خدا تعالیٰ کی محبت ہوگی اور خدا کی محبت کے حصول اور اس کی رضا کے لئے ہوگی تو با وجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی تو کوئی قیمت ہی نہیں.یہ ساری کائنات ہی خدا تعالیٰ کے پیار کے ایک لمحہ پر قربان.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے انسان! جب تو اپنی سی کوشش کرے گا تو تیری کوشش کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا پیار تجھے مل جائے گا لیکن پھر تجھے اللہ کے سوا ہر دوسری ہستی کو چھوڑنا پڑے گا.فرمایا ہم تجھے یہ بشارت دیتے ہیں کہ جب تو کوشش کر رہا ہو گا تو دنیا کے اعلان یا ہم سے دور لے جانے کی دنیا کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی.ہاں اگر تو بد قسمتی سے خود ہی ان کی طرف مائل ہو جائے تو اس کا تو خود ذمہ دار ہے لیکن اگر تو خود مائل نہیں، اگر تو گادح إلى رَبِّكَ كَدْحًا کی رُو سے پورا زور لگا رہا ہے تو پھر باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے اس کی عظمت اور اس کی قدرت کے لحاظ سے جو کوشش ہونی چاہیے تیری طرف سے اتنی کوشش نہیں ہوتی لیکن چونکہ تجھے خدا ہی نے یہ استعداد یں دی تھیں اور لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: ۲۸۷) کی رو سے تیری استعداد سے زیادہ تجھ سے مطالبہ نہیں کیا جاتا اس لئے تیرے تھوڑے کو قبول کیا جائے گا.تیرے اخلاص کی وجہ سے، تیری انتہائی جدوجہد کی وجہ سے، تیرے جذبہ کی وجہ سے، تیری محبت کی وجہ سے.تیری اس کوشش کے نتیجہ میں کہ تو خدا تعالیٰ کی محبت میں فانی ہونا چاہتا ہے اور تو اپنا سب کچھ

Page 322

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۰۸ خطبہ جمعہ ۲۳؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اس کے حضور پیش کر دینا چاہتا ہے تجھے ایک ایسا موتی مل جائے گا جو انمول ہے، دنیا میں اس کی کوئی قیمت نہیں.پس ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے وصل اور لقاء سے محروم ہو تو تم خود ذمہ دار ہو کوئی اور اس کا ذمہ دار نہیں ہے کیونکہ کسی اور کو یہ طاقت نہیں دی گئی کہ وہ خدا کی محبت اور تمہارے درمیان حائل ہو سکے.کسی کو یہ طاقت نہیں دی گئی کہ خدا تعالیٰ تم سے پیار کرنا چاہے اور وہ اس میں روک بن سکے.خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی طاقتیں جو کچھ کرسکتی ہیں وہ یہی ہے کہ تمہاری کوشش کو کمزور کر دیں لیکن یہ تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی کوشش کو کمزور نہ ہونے دو.تم خدا تک پہنچنے کے لئے پورا زور لگاؤ.خدا کی راہ میں قربانیاں دو اور اس کے دین کی خدمت کرو.تم خدا کی مخلوق کے ساتھ خیر خواہی کا سلوک کرو.بنی نوع انسان سے ہمدردی کرو.ان کی خدمت کرو.ان کے حقوق ان کو دو کہ یہ ایک بنیادی چیز ہے.اگر تم اپنی طرف سے اپنے دائرہ استعداد کے اندر انتہائی کوشش کرو گے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں خدا تعالیٰ کے پیار سے محروم نہیں کر سکتی.پس ایک طرف بشارت بڑی عظیم ہے مگر دوسری طرف ذمہ داری بھی بڑی عظیم ہے.ہر فرد کی اپنی ذمہ داری ہے وہ کسی دوسرے پر الزام نہیں دھر سکتا کہ فلاں کی وجہ سے اسے خدا کا پیار نہیں ملا.اگر اسے خدا کا پیار نہیں ملا تو اس کی کسی اپنی کوتاہی کی وجہ سے نہیں ملا کیونکہ خدا کے پیار اور اس کے پیار کے درمیان جیسا کہ میں نے کہا ہے کسی اور کی طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے.خدا پیار کرنا چاہے اور غیر اللہ میں سے کوئی ہستی اس پیار میں روک بن جائے.اس کا ئنات میں خدا نے انسان کو عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اگر وہ خدا کا عبد بن جائے تو وہ ساری برکتیں اسے مل جاتی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے اور اگر وہ ایسا نہ بنے یعنی عبادالرحمن میں شامل نہ ہو تو اس کا وہ خود ذمہ دار ہے کسی اور پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی اور نہ کی اور کو مجرم قرارد یا جا سکتا ہے.اگر کسی کا جرم ہے تو اس نے نقصان اٹھانا ہے اور اگر کسی نے کچھ پانا ہے تو اس نے پانا ہے.لا يَضُرُكُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمُ (المائدة : ١٠٦) ہدایت پر اس نے خود قائم رہنا ہے.ساری دنیا بھی اگر خدا سے دور ہو جاتی ہے اور ایک فرد واحد خدا کے حضور روحانی رفعتوں کو حاصل کر رہا

Page 323

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲۳؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہے تو ساری دنیا کی دوری اس کے راستے میں حائل نہیں ہوسکتی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی کو دیکھ لو دعویٰ نبوت سے پہلے بھی آپ خدا کے حضور جو گریہ وزاری اور عبادتیں کرتے رہے وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت حقیقی معنے میں خدا تعالیٰ کا ایک ہی عبادت گزار بندہ تھا آپ کے سوا ساری دنیا غفلت میں پڑی ہوئی تھی.کوئی تکبر میں پڑا ہوا تھا.کوئی اباء اور استکبار ا میں پڑا ہوا تھا.کوئی خدا کے خلاف بغاوت میں لگا ہوا تھا صرف وہی ایک بندہ تھا جو خدا کے حضور جھکا ہوا تھا.پھر اس وقت جب کہ ہر انسان خدا سے دور تھا ، خدا نے اسی ایک بندے سے پیار کیا اور اتنا پیار کیا کہ کسی اور انسان کے حق میں نظر نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے اتنا پیار کیا ہو یا کسی اور انسان کو خدا تعالیٰ کا اتنا پیار ملا ہو یا خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنی نعمتیں ملی ہوں یا اتنی عزت قائم ہوئی ہو جتنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوئی.پس وہ جوا کیلا تھا کروڑوں کروڑ لوگ اس پر درود بھیجنے والے پیدا ہو گئے اور قیامت تک پیدا ہوتے چلے جائیں گے.غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان خود اپنا ذمہ دار ہے.کسی انسان کو خدا تعالیٰ کے پیار سے روکنے کی کوئی اور انسان طاقت نہیں رکھتا.اسے اگر پیار ملتا ہے تو إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فلقیہ کے مطابق ملتا ہے اور اگر وہ خدا کے پیار سے محروم رہتا ہے تو اس محرومی کی ذمہ داری اس کے اپنے نفس پر ہے کسی اور پر نہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میدان میں دنیا کے لئے جو اسوۂ حسنہ قائم کیا ہے ہم اسے پہچانیں اور اس پر عمل کریں تا کہ آپ کے روحانی فیوض ہمیں حاصل ہوں آپ کی برکت سے ہم بھی خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں اور ہم اپنی کسی کمزوری یا غفلت کے نتیجہ میں دوری اور مہجوری کی راہوں کو اختیار کرنے والے نہ ہوں بلکہ قرب الہی کے راستوں پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۶ فروری ۱۹۷۸ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 324

Page 325

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۱۱ خطبہ جمعہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۷۷ء ہزاروں روکوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا جلسہ بہت کامیاب رہا خطبه جمعه فرموده ۳۰ دسمبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت تلاوت فرمائی:.وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ وَكَفَى بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا - (الفرقان : ۵۹) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ اس ہستی پر تو گل کرنا چاہیے اور اسی کو اپنا سہارا بنانا چاہیے کہ جوحی ہے اور جس پر موت وارد نہیں ہوتی.اگر ایسی ہستیاں ہوں جن پر موت وارد ہوسکتی ہے اور ان پر کوئی شخص تو گل کرے تو کہا نہیں جاسکتا کہ اس کے کام کرنے سے پہلے ہی ان پر موت وارد ہو جائے.اس لئے ایسی ہستی پر توکل کرنا چاہیے کہ جو الحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ ہے جو زندہ ہے اور رود زندگی بخش ہے.الکی کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ وہ ہستی خود ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور دوسرے یہ کہ اس کے حی ہونے کی صفت کا اگر جلوہ نہ ہو اور اس کا حکم نہ ہو تو کوئی اور وجود زندہ نہیں رہ سکتا.پس جس کے سہارے سے ہم زندہ ہیں اور وہ زندہ ہستی جس پر کبھی موت نہیں آسکتی اسی پر ہمیں

Page 326

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۱۲ خطبہ جمعہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۷۷ء تو گل رکھنا چاہیے اور اسی کو سہارا بنانا چاہیے.وَسَبِّحْ بِحَمدِہ اور وہ ذات تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے.کوئی حقیقی خوبی نہیں جو خدا تعالیٰ میں موجود نہ ہو اور کوئی نقص نہیں جو خدا تعالیٰ میں پایا جاتا ہو.ہر عیب اور نقص اور کمزوری سے وہ پاک ہے اور وہ اس بات سے بھی پاک ہے کہ صفاتِ حسنہ میں سے کوئی صفت ایسی ہو جو اس میں نہ پائی جائے.وہی ہستی ہے جو تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے اور وہی ہستی ہے جو ہر عیب سے پاک ہے.وہ مقدس ذات ہے تمام تعریفیں اسی کی ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتی ہیں اور اگر کہیں بھی واقعہ میں اور حقیقی طور پر کوئی ایسی خوبی نظر آئے جو تعریف کے قابل ہو تو وہ بھی اسی کی عطا ہے اور و کفی به بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا اگر کہیں کوئی کمزوری یا عیب یا کبھی نظر آئے تو اسی کی ذات ہے جو اس کو دور کر سکتی ہے اور وہ عَلَامُ الْغُيُوبِ خدا ہی جانتا ہے کہ کون اور کتنا کوئی شخص گناہ میں ملوث ہو گیا ہے.الزام تراشی تو انسان انسان پر کرتے ہی رہتے ہیں اور عیب جوئی بھی کرتے ہیں لیکن عیب ہے بھی یا نہیں اور گناہ ہے بھی یا نہیں اس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کسی کو نہیں ہوسکتا کیونکہ گناہ وہی ہے جو خدا کو نا پسند ہے اور نیکی وہی ہے جو اس کی نگاہ میں نیکی ہے اور جو چیز خدا کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہے اس سے اسی سے پناہ مانگی جاسکتی ہے اور جو چیز خدا کی نگاہ میں گناہ ہے اسی کی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ سکتی ہے.ہم ہمیشہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں.اس جلسہ کے موقع پر بھی جماعت نے اس پر تو گل کیا.ہزار روکیں موجود تھیں اور ہزار روکوں کا خطرہ بھی تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کیا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے جماعت کو اس قدر تعداد میں خدا کی رضا کے لئے اور اس کی باتیں سننے کے لئے تا کہ نفوس کی اصلاح ہو اس جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق دی.مستورات کا اندازہ ہے کہ پچاس ہزار سے زیادہ مستورات جلسہ میں شریک ہوئیں اور عام اندازہ ہے کہ جلسہ میں شمولیت کرنے والوں کی تعداد بشمولیت احباب ربوہ ایک لاکھ چالیس ہزار اور پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی.گویا ڈیڑھ لاکھ کے قریب تعداد پہنچ گئی ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس سے

Page 327

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۱۳ خطبہ جمعہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۷۷ء بہت سی باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں.جب تعداد زیادہ ہوگئی تو یہ خطرہ بھی زیادہ ہو گیا کہ کچھ غفلتیں ہوئی ہوں گی، کچھ مستیاں ہوئی ہوں گی، کچھ تکالیف پہنچی ہوں گی ، کچھ شکایتیں پیدا ہوئی ہوں گی.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انہیں دُور کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی ہے جو ان کے بداثرات سے افرادکو اور جماعت کو بچاسکتا ہے.ایک چیز جو نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ مکانیت کی کمی ہے.مزید تعمیر ہونی چاہیے.کچھ مہمان خانے خاص طور پر جلسہ سالانہ کے لئے بن رہے ہیں.کچھ جلسہ سے پہلے بن چکے تھے کچھ باقی رہتے تھے وہ اگر مکمل بھی ہو جائیں تب بھی ہماری ضرورت پوری نہیں ہو سکتی وہ ضرورت جسے اجتماعی رہائش گا ہیں پورا کیا کرتی ہیں.اس کے علاوہ دوست یہاں مکان بناتے رہتے ہیں.اگلے جلسہ سالانہ تک انشاء اللہ اور مکان بنیں گے اللہ تعالیٰ ان مکانوں میں بھی برکت دے.اس سے کچھ کمی اور پوری ہو جائے گی مگر پھر بھی اس دوڑ میں کہ مکان زیادہ بنتے ہیں یا مہمان زیادہ آتے ہیں مہمانوں نے ہی جیتنا ہے.یہی ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ مکان کی تنگی رہے گی.مکان اگر مکانیت کے لحاظ سے دُگنے ہو جا ئیں تو مہمان دُگنے سے زیادہ ہو جائیں گے یعنی تین لاکھ سے آگے نکل جائیں گے.یہ تو ایک نہ سمجھ آنے والا معجزہ ہے.میں افسر جلسہ سالانہ بھی رہا ہوں اور اب بھی میرے پاس دن میں کئی بار رپورٹیں آتی ہیں لیکن ہمیں کچھ پتا نہیں لگتا کہ اتنی بڑی مخلوق سماتی کہاں ہے خدا تعالیٰ ہی انتظام کرتا ہے ورنہ اگر ہم کاغذ پر اندازے لگا ئیں تو اتنی بڑی مخلوق ربوہ کے اندر نہیں سماسکتی مگر سماتی ہے.تکلیف بھی اٹھاتے ہیں ،سردی نے بھی تکلیف دی ہوگی ، بے آرامی نے بھی تکلیف دی ہو گی لیکن وہ سما جاتے ہیں اور بشاشت کے ساتھ اور مسکراتے چہروں کے ساتھ جماعت کا ہر مرد و عورت جلسہ سالانہ میں تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے اور اپنے رب پر توکل کرتا ہے.ہر ایسی تکلیف کی بہتر جزا اسے مل جائے گی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے.جلسہ گاہ قریباً بھر گئی تھی اس لئے یہ بھی فکر کرنی چاہیے کہ اس کو ہم کس طرح اور کس حد تک بڑھا کر کتنے سالوں تک گزارہ کر سکتے ہیں خصوصاً زنانہ جلسہ گاہ میں بڑی تکلیف ہوگئی ہے.ان

Page 328

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۱۴ خطبہ جمعہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۷۷ء کے مناسب حال بظاہر ایک ہی جگہ ہے اور وہ ہے لجنہ ہال کے ساتھ کی جگہ جو کہ کافی بڑا رقبہ ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہاں تل رکھنے کی بھی جگہ باقی نہیں رہی تھی اور ہماری ہزار ہا بہنیں اس جلسہ گاہ سے باہر تھیں.جلسہ کے ایام میں ہی مجھے شکایت کے طور پر یہ اطلاع دی گئی ہے کہ تین ہزار سے زیادہ مستورات مردانہ جلسہ گاہ کی سیڑھیوں یعنی گیلریوں کے پیچھے بیٹھی ہوئی جلسہ سن رہی ہیں اور لکھنے والے نے لکھا تھا کہ یہ انتظام کرنا چاہیے کہ وہ اپنی جلسہ گاہ میں جائیں.اب ان کو یہ تو نہیں معلوم تھا کہ اس انتظام سے پہلے کہ وہ عورتیں اپنی جلسہ گاہ میں جائیں یہ انتظام کرنا پڑے گا کہ ان کی جلسہ گاہ ان عورتوں کو سمیٹنے کے قابل بھی ہو.اگر وہاں بیٹھنے کی گنجائش ہی نہیں ہوگی تو وہ وہاں سمائیں گی کیسے.ایک وقت میں میرا خیال تھا کہ پندرہ ، بیس ایکڑ زمین لے کر سٹیڈیم بنادیا جائے اور اگر حالات معمول پر رہتے تو وہ بن جاتا اور جلسے پر بھی کام آتا اور باقی سارا سال بھی اس سے مختلف کام لئے جا سکتے تھے مثلاً ورزشی مقابلے وغیرہ اور ہم باہر سے بھی کھلاڑیوں کو یہاں بلاتے تاکہ وہ بھی کچھ دیکھتے اور اسلام کے متعلق کچھ سنتے لیکن پھر حالات ایسے ہو گئے کہ ہمیں یقین ہو گیا کہ اگر ہم نے یہاں سٹیڈیم بنایا تو ہمارے تعلیمی اداروں کی طرح اسے بھی حکومت قبضہ میں لے لے گی ( تعلیمی اداروں کا قومیائے جانے سے پہلے ہی ہمیں خطرہ پیدا ہو گیا تھا ) اور پھر یہ خطرہ تھا کہ جس طرح اب تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو دس دن کے لئے بھی رہائش کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی پھر وہ کہہ دیں کہ جی یہ جو تم نے پندرہ بیس لاکھ روپیہ خرچ کر کے سٹیڈیم بنایا ہے ہم تمہیں اس میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے اس لئے اس طرف توجہ نہیں کی گئی اور یہ منصوبہ چھوڑنا پڑا.ضرورت تو بہر حال اللہ تعالیٰ نے پوری کرنی ہے لیکن کام ہمارے ہاتھ سے کروانا ہے.ہم نے اس بارہ میں سوچ کر اور غور کر کے اور اپنی فراست سے کام لے کر کوئی تدبیر کرنی ہے کیونکہ اسباب کی یہ دنیا تد بیر کا مطالبہ کرتی ہے.پس اگر کسی کے ذہن میں کوئی تجویز آئے تو وہ ضرور مجھے لکھیں اور ہم اسی طرح ایک دوسرے سے مشورہ کر کے آگے بڑھنے کی تدابیر کیا کرتے ہیں.مردانہ جلسہ گاہ میں تو ہم غالباً پانچ سات سال تک کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لیں گے لیکن زنانہ جلسہ گاہ کے متعلق مجھے بڑی فکر پیدا ہوگئی ہے

Page 329

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۱۵ خطبہ جمعہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۷۷ء صدرانجمن احمد یہ کو چاہیے کہ وہ ابھی سے غور کرے کہ آئندہ سال زنانہ جلسہ گاہ کس جگہ رکھی جائے گی تا کہ ہماری بہنوں کو تکلیف نہ ہو.اس دفعہ ہمیں چوتھا لنگر خانہ کھولنا پڑا.میں کئی سال تک لنگر کا کام کرتا رہا ہوں.میرا تجربہ یہ ہے کہ اگر اس نے ٹھیک طرح سے کام کرنا ہے تو ایک لنگر پر بیس پچیس ہزار سے زیادہ مہمانوں کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے.ہمیں پچیس ہزار کس کا کھانا ، روٹی بھی اور سالن بھی ، اس میں پکا یا جائے تو کوئی تکلیف نہیں ہوتی آرام سے سارا کام ہو جاتا ہے.لنگر خانہ نمبر ایک جو دارالصدر میں ہے اس پر تئیس ہزار کس کا بوجھ پڑتا ہے.اس حلقہ میں شاید زیادہ آدمی ٹھہر تے ہیں مجھے خیال آیا تھا کہ اس کے ایک حصے میں بھی ایک چھوٹا سالنگر اور بنادیا جائے.بہر حال اس دفعہ ہم نے چوتھالنگر بنایا ہے مجبوری تھی.منتظمین نے کہا کہ اس کی ضرورت ہے.میں نے ان کو اجازت دی کہ ٹھیک ہے بناؤ.خیال یہ تھا کہ وہاں سوئی گیس آجائے گی اور روٹی پکانے میں بہت سہولت ہو جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں بیدار اور ہوشیار اور اپنی طرف مائل رکھنا چاہتا ہے اس لئے سوئی گیس وہاں نہیں آئی جن لوگوں کی کوششوں کے نتیجہ میں سوئی گیس ہمیں نہیں ملی ہم ان کے بھی ممنون ہیں کہ ان کی ان کوششوں کے نتیجہ میں ہمیں اس سلسلہ میں مزید دعائیں کرنے کا موقع مل گیا اور ہم اس سلسلہ میں بھی پہلے سے زیادہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے ہم نے مانگا اور اس کا ہم نے دامن پکڑا اور کہا کہ اے ہمارے رب یہ تیرا سلسلہ ہے اور تیرے کام ہیں ہم تو تیرے نالائق مزدور ہی ہیں.تو خدا اپنے مہمانوں کی بہتری کا انتظام کر دے.بہتری کا انتظام دو طرح سے ہوتا ہے.ایک تو مادی سہولتوں کے ذریعہ سے اور دوسرے قلبی اطمینان کے ذریعہ سے.جن دنوں نانبائی تنوروں میں روٹی پکا یا کرتے تھے اس زمانہ میں ایک دفعہ وہ آپس میں لڑ پڑے اور ان کے دو دھڑے بن گئے اور لڑائی کی وجہ سے انہوں نے سٹرائیک کر دی اور کچھ عرصہ کے لئے روٹی نہیں پکائی.صبح کی نماز سے پہلے افسر جلسہ سالانہ نے مجھے اس کی اطلاع کر دی.میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ خلیفہ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.چنانچہ میں نے فجر کی نماز پر دوستوں سے کہا کہ یہ واقعہ ہو گیا ہے اور آج جلسہ ہے.

Page 330

خطبات ناصر جلد ہفتم ٣١٦ خطبہ جمعہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۷۷ء یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک کی بجائے دو روٹیاں کھانے کی خاطر جلسہ کے اوقات بدل دیں یا آج کا جلسہ ملتوی کر دیں بلکہ ہم سب ایک ایک روٹی کھائیں گے.جن کے گھروں میں روٹی پکتی ہے وہ بھی ایک روٹی کھائیں گے اور جن کو لنگر سے ملتی ہے وہ بھی ایک روٹی کھائیں گے اور میں نے کہا کہ گھروں میں جو روٹیاں بچیں وہ لنگر کو بھیج دو.خدا کی عجیب شان اس جماعت میں نظر آتی ہے سب نے ایک ایک روٹی کھائی.وہ وقت گزر گیا لیکن مجھے پتالگا کہ ہزاروں آدمیوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہو کہ کھانے کی کمی کے نتیجہ میں جلسہ میں کوئی بدنظمی پیدا ہوگی تو یہ تو نہیں ہوسکتا مگر اب ہم پریکٹس کرتے ہیں اور سارے جلسہ کے دوران ہی ہم ایک ایک روٹی کھائیں گے.چنانچہ پھر روٹی پکنی شروع ہوگئی لیکن بہتوں نے کہا کہ ہم ایک ہی روٹی کھا ئیں گے اور بہت سے گھر والوں نے کہا کہ گواب ضرورت تو نہیں ہے مگر ہم ثواب سے کیوں محروم رہیں ہم اب بھی روٹیاں پکا کر انتظام جلسہ کو بھیجیں گے.دعا کریں کہ روک جلد دور ہو جائے اور ہمارا چوتھا لنگر بھی سوئی گیس استعمال کرنے لگے.منتظمین سے میں کہتا ہوں کہ وہ روٹی پکانے کی مشینوں کے متعلق سکیم بنائیں اور مجھے بتا ئیں کہ کتنی اور مشینیں چاہئیں تا کہ اگلے جلسہ سالانہ تک وہ مشینیں بن جائیں.پہلی مشینیں بہت سستی بن گئی ہیں.ہمارے احمدی انجینئر زکو اللہ تعالیٰ جزا دے انہوں نے اس سلسلہ میں بڑا کام کیا ہے اور بہت آرام ہو گیا ہے.تنوروں میں اس قدر تعداد میں روٹی پکانا بہت مشکل تھا.ہمارے بہت سے مہمان ایسے ہوتے ہیں جو باہر سے کھانا کھا لیتے ہیں.مثلاً کسی نے دو پہر کا کھانا بازار سے کھالیا، کسی نے شام کا بازار سے کھا لیا.ایک چکر ہوتا ہے اور میرا اندازہ ہے کہ ایک تہائی مهمان باری باری اس چکر میں باہر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں اور دو تہائی مہمانوں کا بارلنگر پر ہوتا ہے.چنانچہ اگر ڈیڑھ لاکھ مہمان ہوں تو ایک لاکھ کا کھانالنگر میں پچکے گا اور عام طریق پر نان بائیوں کے لئے ایک لاکھ آدمی کی روٹی پکانا بہت مشکل ہے، وہ یہ کر ہی نہیں سکتے.چنانچہ اگر خدا تعالیٰ وقت پر ہمارے ہاتھ سے یہ انتظام نہ کروا دیتا کہ مشینیں لگ جائیں تو جلسہ سالانہ کی روٹی نہیں پک سکتی تھی.

Page 331

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۱۷ خطبہ جمعہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۷۷ء تجربہ اور روایات میں جن کو Traditions (ٹریڈیشنز ) کہتے ہیں میں بڑی برکت ہے.روایت کا مطلب ہے کہ جو اچھی چیز سیکھ لی اسے بھولو نہ.دو چیزیں مسلسل چلتی ہیں ایک تو یہ کہ جو اچھی چیز انسان ایک دفعہ سیکھ لے اُسے بھولنا نہیں چاہیے اور دوسرے یہ کہ جو اچھی چیزیں وہ سیکھ چکا ہے ان کو کافی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ مزید اچھی چیزیں سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے.زمانے کے ساتھ ساتھ انتظام میں تبدیلی پیدا ہو چکی ہے، بہت سی سہولتیں پیدا ہوگئی ہیں اور جماعت میں خدا تعالیٰ نے کچھ روایتیں پیدا کر دی ہیں جن پر جماعت چل رہی ہے، تاہم روٹی کے سلسلہ میں ایک دقت ہے اور اس سال بھی اس بارہ میں میرے پاس شکایتیں پہنچی ہیں.جب بہت بڑی تعداد میں روٹی پکے گی تو اس پر بہر حال کچھ وقت لگے گا اور تقسیم سے کچھ دیر پہلے روٹی پکانی پڑے گی.چنانچہ جو روٹی آپ کو شام سات یا آٹھ بجے ملتی ہے اس کا ایک حصہ تین بجے پک چکا ہوتا ہے.غالباً دو اور تین بجے کے درمیان کسی وقت یہ مشینیں چلاتے ہیں.چنانچہ روٹی کسی قدر باسی ہو جاتی ہے اور پھر ان کو اوپر نیچے رکھتے ہیں تو ان میں سے جو بھاپ نکلتی ہے اس کی وجہ سے ان میں نرمی آ جاتی ہے اور شکایت یہ پیدا ہوتی ہے کہ روٹی کچی ہے حالانکہ روٹی کچی نہیں ہوتی.اگر وہی روٹی ان کو اسی وقت گرم گرم مل جاتی تو وہ کہتے کہ کمال ہو گیا ہے، اتنی اعلیٰ درجے کی روٹی پک رہی ہے کہ کوئی حد نہیں.لیکن روٹی اوپر نیچے تھوں میں پڑی رہتی ہے اور بھاپ کی وجہ سے نرم ہو جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچی ہے حالانکہ وہ کچی نہیں ہوتی.لیکن بہر حال اصل چیز تو احساس ہے اس لئے کوئی ایسا انتظام کرنا پڑے گا کہ روٹی میں آٹے کے علاوہ کچھ اور صحت مند اجزاء بھی ڈالے جائیں جن سے روٹی جلد خراب نہ ہو.دنیا ایسا کر رہی ہے اور مجھے امید ہے کہ ۵ - ۱۰ سال تک ہمارے ہاں بھی اس کا انتظام ہو جائے گا اور پھر یہ شکایت باقی نہیں رہے گی تاہم اس وقت شکایت ہے اور ہمیں افسوس ہوتا ہے کیونکہ اگر کسی کو تکلیف ہو تو اس کے لئے ہمارے دل میں بھی تکلیف پیدا ہوتی ہے.اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے.جلسہ سالانہ پر رضا کار کافی تعداد میں آجاتے ہیں اور پھر وہ کافی تعداد میں اپنے دوسرے کاموں میں بھی مشغول ہو جاتے ہیں.لجنہ کی طرف سے ایک رپورٹ یہ تھی کہ بہت سی رضا کار

Page 332

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۱۸ خطبہ جمعہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۷۷ء بچیاں غیر حاضر ر ہیں لیکن کام پھر بھی پوری طرح تسلی بخش ہو گیا.کام تو ہو جاتے ہیں یہ خدا کے کام ہیں.چنانچہ کام ہو جانے کی وجہ سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی.مگر پھر بھی ہمیں یہ تکلیف پہنچی کہ جو بچیاں غیر حاضر رہیں وہ ثواب سے محروم ہو گئیں اور اسی طرح جو بچے یا جوان یا بڑے ڈیوٹی سے غیر حاضر رہے وہ ثواب سے محروم ہو گئے.ہماری خواہش ہے کہ انہیں بھی ثواب ملے اور ر وہ بھی باقیوں کے ساتھ ثواب پانے میں شریک ہوں.جو چیز ہمیشہ رہنے والی ہے وہ ہے وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ که حى و قيوم خدا جو زندہ ہے اور زندگی بخش ہے جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور جس میں کوئی عیب نہیں ہمیں اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اسی سے دعائیں مانگنی چاہئیں اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے ہمیں اسی کی طرف جانا چاہیے کیونکہ سوائے اس کے اور کوئی ہستی نہیں جانتی کہ گناہ کس نے اور کتنا کیا.دوسرے تو عیب لگانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور الزام تراشی کرتے ہیں مگر گناہ کا حقیقی علم سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں ہے کیونکہ گناہ ہے ہی یہ چیز کہ اس کی نظر سے انسان گر جائے اور کسی کو کیا پتا کہ خدا کی نظر سے کون گرا اور کتنا گرا اور کتنی ناراضگی پیدا ہوئی.اس واسطے جو کمیاں رہ گئیں، جو کوتاہیاں ہو گئیں ہم سے یعنی آنے والوں سے بھی اور یہاں کے مکینوں سے بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کو دور کرے اور کمزوری کی جگہ طاقت پیدا کرے اور وقتی طور پر جو کمزوری ہوگئی ہے اس کے بداثرات سے جماعت کو محفوظ رکھے.خدا کرے کہ اس کی رضا ہمیشہ جماعت کو حاصل رہے.خدا تعالیٰ کی ذات تمام صفات حسنہ سے متصف اور بے عیب اور پاک اور مقدس ذات ہے.ہر تعریف اسی کی طرف رجوع کرتی ہے کیونکہ کوئی قابل تعریف کام کیا ہی نہیں جاسکتا جب تک اللہ تعالیٰ اس کام کی توفیق نہ عطا کرے.پس جب خدا تعالیٰ کی توفیق ہی سے قابل تعریف اعمال بجالائے گئے تو ہمیں خدا تعالیٰ ہی کی حمد کرنی چاہیے نہ یہ کہ انسان خود اپنے پہ فخر کرنے لگے اور اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگے.پس خدا تعالیٰ کی حمد کرنی چاہیے اور کثرت سے کرنی چاہیے.مثلاً اس جلسہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے جو فضل جماعت پر نازل ہوئے اور اس کی رحمتیں بارش کی طرح آسمانوں سے برسیں ، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اگلے جلسہ تک اسی کے متعلق خدا تعالیٰ کا شکر کرتے رہیں اور

Page 333

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۱۹ خطبہ جمعہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اس کی تعریف کرتے رہیں تب بھی شکر کا اور تعریف کا اور حمد کا حق ادا نہیں ہو گا لیکن پھر یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ یہ نہیں کہتا کہ میرا پورا شکر ادا کرو اور جتنا تم پر میرا حق واجب ہے اس کے مطابق میری حمد کرو بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ جتنی تم میں طاقت ہے اس کے مطابق کر دو اور میں اسی ادھورے کو پورا سمجھ لوں گا یہ خدا کی شان ہے.پس ہمیں خدا تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کی حمد کرتے رہنا چاہیے کہ اس نے بڑا فضل کیا اور جلسہ بہت کا میاب رہا اور اس لحاظ سے بھی بہت کامیاب رہا کہ ہمارے وہ دوست بھی جن کا جماعت سے تعلق نہیں ہے بہت کثرت سے اس جلسہ میں شمولیت کے لئے تشریف لائے.ایک ضلع تو سب سے آگے نکل گیا اس ضلع سے آنے والوں کی جو معلوم تعداد ہے وہ ڈیڑھ ہزا ر ہے.ساری جماعت تو مجھ سے مل بھی نہیں سکتی اور نہ ہی اتنا وقت ہوتا ہے لیکن جو تھوڑے سے مل سکتے ہیں ان سے ملاقاتوں کے دوران پتا لگتا تھا کہ کراچی سے لے کر پشاور تک بڑی کثرت سے ایسے دوست آئے جن کا ابھی جماعت سے تعلق نہیں ہے.ان لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ دیکھیں اور سنیں کہ جماعت کیا ہے اور اس کے عقائد کیا ہیں؟ اور جماعت کے متعلق اپنے فیصلوں کا انحصار محض شنید پر نہ رکھیں بلکہ دید بھی اس میں شامل ہو اور پھر شنید بھی غیر کی نہیں بلکہ اپنے کانوں سے ہماری زبانوں سے نکلے ہوئے الفاظ سنیں اور پھر فیصلہ کریں کہ ہمارے عقائد کیا ہیں اور کیا وہ ان سے متفق ہیں یا نہیں ہیں.یہ فیصلہ تو انہوں نے ہی کرنا ہے لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ پیار اور محبت کے ساتھ ساری دنیا ہماری باتوں کو سنے اور پھر جو فیصلہ کرنا ہے کرے.پس ان کا یہ حق ہے کہ وہ ہماری باتیں سنیں اور ہمارا یہ حق ہے کہ ہم اپنی باتیں انہیں سنائیں ورنہ اگر کوئی غلط فہمیاں پیدا ہوں اور ان کی وجہ سے دنیا میں کوئی گناہ پیدا ہو تو ہم ذمہ دار ہیں.میں اس وقت ساری دنیا کی نہیں اس کرہ ارض کی بات کر رہا ہوں اگر اس میں کوئی خرابی پیدا ہو اور ہم اسے دور کرنے کی کوشش نہ کریں تو ہم ذمہ دار ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس گناہ سے بھی محفوظ رکھے.پس کثرت سے خدا تعالیٰ کی تسبیح کریں اور تحمید کریں اور اس کی قدوسیت اور اس کی پاکیزگی اور اس کی عظمت اور اس کے جلال اور اس کی رفعت اور اس کے علو اور اس کی شان کو

Page 334

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۲۰ خطبہ جمعہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۷۷ء اپنے سامنے رکھیں اور سوچتے سمجھتے ہوئے علی وجہ البصیرت ، دل سے یہ اقرار کریں کہ ہمارا خدا بڑی عظمتوں والا ہے بڑی شان والا ہے تمام صفات حسنہ سے متصف اور ہر عیب سے پاک ہے اور جب بھی سہارے کی ضرورت پڑے تو اسی پر توکل کرنا چاہیے کسی اور کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے اور جب اس کے فضل نازل ہوں تو اسی کی تعریف کرنی چاہیے کیونکہ کوئی اور وجود حقیقی تعریف اور حمد کا مستحق نہیں ہے اور جب اس کے حقوق کی ادائیگی میں اور اس کے مقرر کردہ نوع انسانی کے حقوق کی ادائیگی میں اور اس کی مخلوق کی ادائیگی میں کوئی کمی رہ جائے تو اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے کیونکہ وہ کمی سے غافل نہیں اور وہی ہر قسم کی کمیوں کو دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے کسی اور میں وہ طاقت نہیں.خدا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا کرے کہ ان ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کر نے کے نتیجہ میں ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی رضا اور آسمانوں سے نازل ہونے والی اس کی برکتیں اور اس کے فرشتے ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں اور اگر ہمارا ہاتھ کبھی غلط حرکت کی طرف مائل ہو تو فرشتے کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کو پکڑ لے اور اسے روک دے اور اگر کوئی ہمارے دل میں وسوسہ پیدا کرنے کی کوشش کرے تو فرشتے ہمارے سینہ و دل کے گرد حصار بنائیں اور اسے اس کے اندر گھسنے نہ دیں.غرض اس کی ہر قسم کی رحمتیں ہمیں ملیں اور ان رحمتوں کے حصول پر ہمیں اس کی صحیح اور حقیقی حمد کی توفیق بھی عطا ہو.اللهم آمین.روزنامه الفضل ربوه مورخه ۱۰ردسمبر ۱۹۷۸ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 335

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۲۱ خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۷۸ء جماعتی تحریکوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول ہے خطبه جمعه فرموده ۱۳ / جنوری ۱۹۷۸ ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضور انور نے خطبہ جمعہ میں تحریک وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان فرمایا.حضور نے فرمایا:.انسان اسی ذات پر صحیح معنوں میں میں اور پورے اطمینان کے ساتھ تو گل کر سکتا ہے جو عزیز بھی ہو اور رحیم بھی.یعنی ہر شے پر قادر بھی ہو اور پھر اپنی عظیم قدرت سے اپنے بندوں پر بار بار رحم کرنے والا بھی ہو.انسان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اس امر کا محتاج ہے کہ وہ بار بار تو بہ اور استغفار کے ذریعہ اپنے رب کی طرف جھکے اور اس کا یہ جھکنا محض زبان سے نہ بلکہ عمل سے بھی ہو یعنی قرآن کریم نے جو احکام دیئے ہیں ہمارے اعمال ان کے مطابق ہوں مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرما يا وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ اس میں اموال کو اور پھر اپنے اوقات کو خدا کی راہ میں خرچ کرنا بھی مراد ہے اور اس بارہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا عظیم نمونہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے.حضور نے فرما یا ہماری جماعت میں جتنی تحریکیں بھی کی جاتی ہیں ان سب کا مقصد اللہ تعالیٰ

Page 336

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۲۲ خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۷۸ء کی معرفت کا حصول اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنا ہے انہی تحریکوں میں سے ایک تحریک وقف جدید بھی ہے جس کے نئے سال کے آغاز کا میں آج اعلان کرتا ہوں.اس تحریک کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہماری جماعتوں میں ہر جگہ ایسے معلم موجود ہوں جو روز مرہ کی باتوں میں قرآن کریم کے احکام بتائیں اور لوگوں کی تربیت کریں.حضور نے فرما یا وقف جدید کے معلم ہمیں مناسب تعداد میں نہیں مل رہے ہمیں ایسے بہت سے مخلص احمدی معلم ملنے چاہئیں جن کے دل میں قرآنی احکام پر عمل کرنے اور کرانے کی تڑپ ہو اور پھر ان معلمین کے اخراجات پورا کرنے کے لئے ہمیں چندہ بھی دینا چاہیے.اس چندہ کا ایک حصہ میں نے احمدی بچوں اور بچیوں کی تربیت کی غرض سے ان کے ذمہ لگایا تھا.میں چاہتا ہوں کہ کوئی احمدی بچہ اور بچی ایسی نہ رہے جو اپنی خوشی سے رضا کارانہ طور پر اپنے جیب خرچ میں سے تھوڑی بہت رقم بچا کر اس تحریک میں پیش نہ کرے.ان کے علاوہ بڑوں کو بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق چندہ وقف جدید میں ضرور حصہ لینا چاہیے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اموال میں بڑی برکت ڈالے آپ کی قربانی کو قبول کرے اور اس کے فضلوں کے آپ وارث بنیں.آمین ( روزنامه الفضل ربوه مورخہ ۱۴ جنوری ۱۹۷۸ ء صفحه او۶ )

Page 337

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۲۳ خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۷۸ء قرآن کریم کے ہر حکم کی پیروی ہی اُسوہ رسول ہے خطبه جمعه فرموده ۳ / مارچ ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یکے بعد دیگرے کئی بیماریاں مجھ پر وارد ہو ئیں اور انہوں نے مجھے گھر میں قید کئے رکھا.پہلے انفلوائنزہ ہوا.پھر پنڈلی پر، پنڈلی کی ہڈی کے سامنے بظاہر معمولی سا زخم آیا لیکن اس میں انفیکشن ہوگئی اور زہر پیدا ہو گیا جو پھیلنا شروع ہو گیا اور اس سے پریشانی ہوئی.ڈاکٹروں نے بڑی سخت دوائیاں دیں اور مجھے لٹا دیا.مجھے خون میں شکر کی بھی تکلیف ہے.عام طور پر شکر ٹھیک رہتی ہے میں تھوڑی سی دوائی کھاتا ہوں لیکن چونکہ لیٹنے کے نتیجہ میں ورزش نہیں ہوتی اور شکر جسم کے کام نہیں آتی اس لئے بیماری زیادہ ہو جاتی ہے.چنانچہ ایک تکلیف درمیان میں یہ بھی آگئی اور اس کی وجہ سے دوائی کی مقدار کچھ زیادہ کرنی پڑی.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے زخم کو تو بالکل آرام ہے اور خون کی شکر میں بھی کافی فرق پڑ گیا ہے الحمد للہ.لیکن اس کے بعد پھر اس سردی کا تیسرا انفلوائنزہ کا حملہ ہوا جو کہ بہت سخت تھا.اس کا اثر سینے پر زیادہ ہے.بلغم اور اس کی دوسری علامتیں موجود ہیں گلے اور ناک پر بھی اثر رہا ہے اب بیماری میں کچھ افاقہ ہے تاہم پورا افاقہ نہیں.لیکن چونکہ آپ سے ملے بہت دیر ہو گئی تھی اس لئے اس تکلیف کے باوجود آج میں زور لگا کر

Page 338

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۲۴ خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۷۸ء جمعہ کے لئے آ گیا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ جس طرح میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں آپ بھی میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور کام کرنے کی توفیق عطا کرے، ویسے اللہ تعالیٰ کا بڑا افضل ہے کہ جب زیادہ ذمہ واری کا کام ہوتا ہے تو اسی کا فضل مجھے پوری صحت اور تندرستی عطا کر دیتا ہے.جلسہ سالانہ سے پہلے بھی مجھ پر انفلوائنزہ کا حملہ ہوا تھا اور وہ بھی کافی سخت تھا لیکن جلسہ کے ایام میں اور آٹھ دس دن بعد تک اتنی اچھی صحت رہی کہ جس کو ہم پوری صحت کہہ سکتے ہیں.جلسے کی بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور جلسے کے موقع پر بڑا وقت دینا پڑتا ہے اور خدا تعالیٰ نے سارے کام اپنے فضل سے نباہنے کی توفیق عطا کی.گزشتہ جلسہ کے دنوں میں میں نے دیکھا کہ مجھے بلاناغہ ہمیں گھنٹے روازنہ کام کرنا پڑتا تھا اور میری اوسط نیند چار گھنٹے سے زیادہ نہیں تھی اس سے کم ہی رہی لیکن اس کے باوجود مجھے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ خدا نے مجھے طاقت دی ہے اور صحت دی ہے اور جو کچھ خدا نے دیا ہے وہ اس کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے.بہر حال انسان خودا اپنی ہی کسی غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں بیمار ہو جاتا ہے مثلاً جیسا کہ میں نے بتایا ہے مجھے معمولی سا زخم تھا شام کے وقت گھر میں ہی چوٹ لگ گئی تھی.میں نے سوچا کہ صبح کے وقت دوائی لگالیں گے مگر اس کو جو بارہ گھنٹے دے دیئے اس میں زہر اور انفیکشن پیدا ہوگئی.اگر شام کو ہی کوئی علاج ہو جاتا تو شاید یہ تکلیف نہ اٹھانی پڑتی.بہر حال اپنی غلطی کا خمیازہ بھگتا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تکلیف سے آرام ہے.آج میں مختصر ا دوستوں کو یاد دہانی کے طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ انسانی زندگی میں ایک انقلاب عظیم آ گیا ہے اور اسے بے حد بشارتیں بھی دی گئی ہیں اور اس پر ذمہ داریاں بھی ڈالی گئی ہیں.سب سے بڑی بشارت ہمیں یہ دی گئی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر سکتا ہے اور قیامت تک آنے والی نسلیں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے مواقع رکھتی ہیں اور ذمہ داری یہ ڈالی گئی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں یاد دہانی کرائی گئی کہ ہر برکت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی مل سکتی ہے.كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اور کوئی برکت خواہ چھوٹی ہو یا بڑی

Page 339

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۲۵ خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۷۸ء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے در سے منہ موڑ کر اور آپ کے مقابلے میں کھڑا ہو کر اور آپ کے خلاف نشوز کی راہ اور استکبار کی راہ اور خودی کی راہ کو اختیار کر کے نہیں مل سکتی.اب جو کچھ مل سکتا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی مل سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمتہ للعالمین ہیں ان کی ذات ہمارے اور ہمارے رب کے درمیان کھڑی ہوگئی ہے بلکہ ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے ذریعے اور آپ کے اُسوہ کے طفیل انسان پر اپنے رب تک پہنچنے کے لئے اور وصال باری کے لئے ایک بہت بڑی شاہراہ کھولی گئی ہے اور جو تنگ راہیں پہلے زمانوں میں تھیں انہیں کشادہ کر دیا گیا ہے اور جو عام راستے تھے انہیں شاہرا ہیں بنا دیا گیا ہے.قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے کہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو تو تم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر لو گے.اور جنہوں نے چوبیس گھنٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیا اور آپ کی زندگی کا مشاہدہ کیا انہوں نے اسوۂ رسول کے متعلق ہمیں یہ بتایا کہ گانَ خُلُقُهُ الْقُرْآن قرآن کریم کے ہر حکم کی پیروی اسوۂ رسول ہے.آپ کا اسوہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو کہا وہ آپ نے کر دکھایا.آپ نے انسان کو دو باتیں بتائیں ایک تو یہ کہ میری پیروی کرتے ہوئے تمہیں بھی قرآن کریم کے ہر حکم کی اتباع کرنی پڑے گی اور دوسرے یہ کہ یہ انسان کے لئے کوئی ناممکن بات نہیں ہے بلکہ انسان کو اس کی طاقت دی گئی ہے.جو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف لے کر آئے وہ دین فطرت ہے.پس یہ دین اور جو فطرت انسان کو دی گئی ہے وہ فطرت اور جو قوانین عالمین کام کر رہے ہیں جن کو ہم قانون قدرت بھی کہتے ہیں یا صوفیاء اور عارفین کی اصطلاح میں جنہیں ہم خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں کا نام دیتے ہیں یہ سب ایک ہی چیز سے وابستہ ہیں.یہ ایک ایسا طقی Whole ( ہول) ہے جس کے اندر کوئی رخنہ نہیں اور اس کی وجہ سے انسان کو فطری طور پر یہ طاقت ملی ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر سکے.قرآن کریم نے ایک طرف تو یہ زور دیا کہ قرآن کریم کے تمام احکام کو مشعل راہ بناؤ اور ان پر عمل کرو جس طرح کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر عمل کیا اور دوسری طرف اس بات پر زور دیا کہ

Page 340

خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۷۸ء خطبات ناصر جلد ہفتم لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ( البقرة : ۲۸۷ ) کہ اس اعلان کے ذریعہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا.غرض خدا تعالیٰ کا پیار اُمت محمدیہ میں جس طرح پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو ملتا رہا اسی طرح آج بھی مل رہا ہے اور قیامت تک ملتا رہے گا.کوئی فلسفہ فلسفیانہ دلائل کے ذریعہ اور کوئی سائنس سائنسی تحقیق کے نتیجہ میں اور کوئی مذہبی خیال اپنے خیالات کی وجہ سے اس دروازے کو بند نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ نے اپنے پیار کا ایک بہت بڑا سمند ر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں نوع انسانی کے لئے ممکن بنادیا ہے.پس اسے پانا ممکن ہے اور اگر ہم خود اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو کوئی ہمیں اس سے باز نہیں رکھ سکتا لا يَضُرُكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ (المآئدة : ۱۰۲) مگر یہ درست ہے کہ ہر انسان نے اپنے لئے کوشش کرنی ہے لیکن یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ کا پیار پہلے ملتا تھا اب نہیں مل سکتا یہ غلط ہے.خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کی خاطر تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا اور اس وجہ سے کہ نوع انسانی خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی راتیں خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ چیخ و پکار میں گزریں، یہ دعائیں کرتے ہوئے کہ اے خدا! نوع انسانی پر رحم کر اور اپنے پیار کے دروازے پرکھول اور اس پیار کے حصول کے امکان کا اعلان فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : ٣٢) میں کیا گیا ہے اور پھر قرآن کریم نے اعلان کیا کہ ہمارا پیدا کرنے والا رب بے کس اور قدرتوں سے عاری نہیں بلکہ بڑی قدرتوں والا ہے اور وہ گونگا نہیں بلکہ بولتا ہے اور وہ اپنی صفات کے ہزار جلووں سے اپنے پیار کا اظہار کرتا ہے.کسی انسان کا یہ خیال کرنا کہ انسان انسان سے پیار کرے تو وہ اپنے پیار کا اظہار کرتا ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ کسی سے پیار کرے تو وہ خاموش بیٹھا ر ہے گا اور اپنے پیار کا اظہار نہیں کرے گا.یہ بات ہماری سمجھ میں تو نہیں آتی.جن کی سمجھ میں یہ غلط بات آتی ہو ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی سمجھ عطا کرے.پس حقیقت یہ ہے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر کے اپنی زندگی خوشیوں سے بھر سکتے ہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بھی کہا ہے اور یہ بھی آپ کا اُسوہ ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی یہ سمجھو کہ جنت کے دروازے خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں کھل سکتے.اپنے زور سے ان پر

Page 341

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۲۷ خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۷۸ء تو کوئی فرشتوں کو ہاتھ مار کر پرے ہٹا کر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا.جب تک خدا تعالیٰ کا فضل کسی پر اپنی رضا کی جنتوں کے دروازے نہ کھولے کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا.پس ہر احمدی کی یہ خواہش ہونی چاہیے اور ہم میں سے ہر ایک کی یہ دعا ہے کہ جس وصل الہی اور محبت الہی کے حصول کا امکان ہمیں بتایا گیا ہے اور جس کی ہمیں بشارت دی گئی ہے اور جو عظیم نعمت ہمارے لئے مقدر کی گئی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا کرے کہ ہم اپنی فطرتی استعدادوں کے مطابق خدا تعالیٰ کے اس پیار کو حاصل کریں اور اپنی زندگی کے مقصد کو پالیں اور وہ لوگ جو اسلام سے دور ہیں اور جو سمجھ نہیں رہے اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ عطا کرے اور ہمیں یہ توفیق عطا کرے کہ ہم اسلام کے پیغام کو اس رنگ میں ان تک پہنچا سکیں کہ وہ اسے سمجھیں اور ہمارے ساتھ شامل ہوکر خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے بنیں اور اس کی وحدانیت کے ترانے گانے والے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے ہو جا ئیں.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 342

Page 343

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۲۹ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۸ء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود زندگی بخش ہے خطبه جمعه فرمود ه ۱۰ مارچ ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم چھوٹی چھوٹی بہت واضح مثالیں دے کر بڑے وسیع اور گہرے مطالب بیان کر جاتا ہے.قرآن کریم میں آیا ہے کہ اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہو سکتے.ایک کو کچھ نظر ہی نہیں آرہا اور دوسرا انسان کو جو دیکھنے کی طاقت دی گئی ہے اس کے مطابق سب کچھ دیکھتا ہے.اندھیرا اور نور برابر نہیں ہو سکتے.اندھیرا ہو تو آنکھیں بھی کام نہیں کرتیں اور آنکھیں ہوں تو نور کی ضرورت رہتی ہے.سایہ اور دھوپ کی تپش برابر نہیں ہو سکتے.ایک راحت بخش سایہ ہے اور دوسری تمازت دینے والی دھوپ ہے جس سے آدمی گھبراتا ہے اور اس کا جسم اس سے تکلیف اٹھاتا ہے.پھر فرمایا مردہ اور زندہ برابر نہیں ہو سکتے.ایک بے جان لا شہ ہے اور دوسرا ز ندگی رکھنے والا وجود ہے جو دنیوی لحاظ سے ستاروں پر بھی کمند ڈالتا ہے اور روحانی لحاظ سے اپنے ربّ کریم کے قرب کی راہوں کو تلاش کر کے اس وصال کو حاصل کرتا ہے.پس زندہ اور مردہ برابر نہیں ہو سکتے.دوسری جگہ فرمایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اس لئے بلاتے ہیں کہ تمہیں زندہ کریں.آپ کا وجود زندگی بخش ہے اور زندگی بھی آپ نے وہ بخشی کہ جو آپ سے پہلے کسی نبی

Page 344

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۳۰ خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۷۸ء نے اپنے ماننے والوں کو نہ بخشی تھی.جو نبی پہلے آئے وہ انسان کو انسانِ کامل کا عکس بنانے کے قابل نہ تھے مگر جب انسان کامل آیا اور اس نے زندہ کیا تو جنہوں نے اس کے اُسوہ کی پیروی کی اور اس کی لائی ہوئی ہدایت پر عمل کیا اور اپنی زندگی کو اس نور سے منور کیا تو اپنی اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق ان میں بھی انسان کامل کی شبیہ پیدا ہو گئی.یہ زندگی جو انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرتا ہے طہارت اور پاکیزگی کی بنیادوں پر قائم ہے.قرآن کریم کی ساری تعلیم ہی انسان کو پاک اور مطہر بناتی ہے اور اصولی طور پر یہ تعلیم انسان کو پاک دل بناتی ہے، پاک زبان بناتی اور پاک اعمال بناتی ہے اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں عزت کے حصول کے لئے ان تینوں قسم کی پاکیزگیوں کی ضرورت ہے یعنی دل بھی پاک ہو زبان بھی پاک ہو اور انسان کے اعمال بھی صالح اور پاک ہوں اور انہی چیزوں کی تعلیم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو دی.جب یہ تینوں طہارتیں اکٹھی ہو جائیں تو وہ جو تمام عرب توں کا سرچشمہ ہے إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (يونس: ۶۶) اس سے انسان عزت حاصل کرتا ہے کیونکہ وہ پاک ہے اور جب انسان کو پاکیزگی مل جائے تو اس کی نگاہ میں انسان معزز بن جاتا ہے اور اس عزبات میں جو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے حاصل کی جاسکتی ہے اور اس عزت میں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ذرائع سے حاصل کی جاسکتی ہے زمین اور آسمان کا فرق ہے.دنیا کی کوئی عزت بھی انسان سے وفا نہیں کرتی.اس زندگی میں بھی نہیں کرتی اور مرنے کے بعد تو بہر حال و فانہیں کرتی لیکن جس عزت کا سامان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کے لئے کیا ہے اس پر کبھی زوال نہیں.وہ ابدی عزت ہے، اس دنیا میں بھی عزت اور مرنے کے بعد بھی عربات اور فرد کے لئے بھی عزت اور نوع انسانی کے لئے بھی عزت.اتباع محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے باہر جو زندگی ہے اس میں سے تو اس طرح بد بو آتی ہے جس طرح مردہ لاشے سے ہمیں تعفن کی بدبو آتی ہے اور ہمیں سے میری مراد انسان ہیں.کہتے ہیں کہ ہم ترقی کر گئے ہیں لیکن چین کسی کو نصیب نہیں ہے.کبھی طاقت کے ڈراوے ہیں کبھی ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم کے اشارے ہیں، کبھی دنیوی ذرائع سے حاصل کردہ اموال کی نمائش ہے،

Page 345

خطبات ناصر جلد ہفتہ خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۷۸ء کبھی قرضے روک کر دکھ کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں اور کبھی قرضے دے کر دکھ کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں.غرض جس طرح ایک مردہ لاشہ سے تعفن کی بدبو آتی ہے اسی طرح اس دنیوی زندگی سے بھی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق کے بغیر زندہ ہے ہمیں تعفن کی بدبو آتی ہے وہ زندگی زندگی نہیں.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے جیسا کہ میں نے بتایا دل پاک ، زبان پاک اور عمل پاک ہوئے.ایک ایسی زندگی ملی انسان کو، اسے ایک ایسا انسان بنادیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اسے کہا کہ خدا کی کسی مخلوق کو بھی تیرے ہاتھ سے دکھ نہ پہنچے، خدا کی کسی جذ بہ رکھنے والی مخلوق کو تیری زبان سے جذباتی اذیت نہ پہنچے اور تو کسی کے لئے بھی بدی اور شرارت اور دشمنی کا خیال اپنے دل میں نہ رکھ.یہ زندگی ہے جو خدا کی نگاہ میں عزت کی زندگی ہے اور ہر سمجھ دار انسان کی نگاہ میں بھی یہ عزت کی زندگی ہے.اسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو قائم رکھنے کے لئے گزشتہ چودہ سو سال میں اسلام میں جو بزرگ آتے رہے اور اب ایک عظیم انسان جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عکس کامل کے طور پر مبعوث ہوئے یعنی مہدی علیہ السلام انہوں نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرو اور جلا ؤ سب کمندوں کو.جب خدا تعالیٰ مل جائے تو پھر اور کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.پس ہمیں علی وجہ البصیرت ان چیزوں کو سمجھ کر اور ان کی عظمت کو جانتے ہوئے اور ان کے فوائد کو پہچانتے ہوئے اور بنی نوع انسان کی نجات اس میں سمجھتے ہوئے ان راہوں کو اختیار کرنا چاہیے تا کہ خدمت کی جو ذمہ واریاں ہم پر ڈالی گئی ہیں ہم ان کو نباہنے والے ہوں.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 346

Page 347

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۳۳ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۷۸ء حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بطور محسن اعظم خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ مارچ ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک محسن اعظم کی حیثیت میں دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ مخلوقات خصوصاً انسانوں کے محسن اعظم ہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کن احسانوں کی وجہ سے آپ احسان کی ان رفعتوں کو پہنچے.حقیقت یہ ہے کہ تمام احسانوں کا حقیقی سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لیکن انسان دو طرح سے خدا تعالیٰ کے فضلوں سے دوسروں کو اور خود اپنے آپ کو بھی محروم کر دیتا ہے.ایک تو دُنیوی لحاظ سے یعنی جو حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں انسان ان حقوق کو پامال کرتا اور ایک دوسرے کا استحصال کر کے اپنی نوع کے دوسرے افراد کو خدا تعالیٰ کے احسانوں، اس کے فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں سے محروم کرنے کی سعی کرتا ہے.چنانچہ بنی نوع انسان کو اس ظلم سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انبیاء کا ایک سلسلہ قائم کیا.دوسرے اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت بڑے فضلوں کا وارث بنایا ہے.انسان کے اندر دینی قوتیں اور صلاحیتیں رکھی ہیں جن سے کام لے کر وہ نہ صرف دنیوی لحاظ سے بلکہ روحانی طور پر

Page 348

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۳۴ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۷۸ء بھی بے انتہا ترقیات کر سکتا ہے لیکن انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اس پہلو کو بھول جاتا ہے.بعض لوگ تو خدا ہی کے منکر ہو جاتے ہیں اور بعض خدا کے منکر تو نہیں ہوتے لیکن وہ اس بات سے انکار کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پیار کا تعلق قائم کرتا ہے.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میں انسانیت کے محسن اعظم ہیں کہ ایک تو آپ نے جس رنگ میں اور جس طور پر اور جس حد تک انسان کو دوسرے انسانوں کے ظلم سے بچایا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کی ہے، آپ سے پہلے کے انبیاء کی شریعتوں میں وہ چیز نظر نہیں آتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے نتیجہ میں قرآن کریم کی شریعت کے دائرہ میں آکر انسان ہر قسم کے ظلم وستم اور استحصال سے بچ جاتا ہے اور اس کے حقوق پامال نہیں ہوتے.یہ دنیوی لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی نوع انسان پر ایک عظیم احسان ہے اور اس احسان میں مومن اور کا فرسب شامل ہیں کیونکہ آپ نے جب حقوق انسانی کی حفاظت کی تو اس میں مومن اور کافر کا خیال نہیں رکھا بلکہ ہر انسان کے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے تھے، ان کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی اُمت کو اس کی تعلیم اور ہدایت دی اور وصیت کی کہ ہر انسان کے حقوق کا خیال رکھا جائے.دوسرے آپ کا روحانی لحاظ سے احسان عظیم ہے.آپ نے امت محمدیہ پر آسمانی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے کھولے کہ اس سے قبل کسی نبی نے اپنی اُمت کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے وہ دروازے نہیں کھولے تھے.ہمارا یہ اعلان کوئی جذباتی اعلان نہیں بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہماری عقل اس کی تائید کرتی ہے.ہمارے پاس عقلی دلائل موجود ہیں.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی صداقت میں آسمانی نشانات نازل ہوتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو یہ وعدہ دیا ہے کہ جو شخص تو حید الہی پر پورے طور پر اور حقیقی معنے میں قائم ہو جائے گا اور پھر استقامت سے اس راہ کو اختیار کرے گا اور اس کے پاؤں میں کوئی لغزش نہیں آئے گی.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ (حم السجدۃ: ۳۱) اس پر فرشتوں کا نزول ہوگا.یہ ایک عظیم وعدہ ہے.گویا قرآن عظیم نے قَالُوا رَبُّنَا اللهُ (حم السجدة : ۳۱)

Page 349

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۳۵ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۷۸ء کہنے والوں کو فرشتوں کے نزول کی بشارت دی ہے جو بڑی وسعت کے ساتھ امت محمدیہ میں پوری ہوئی.کروڑوں لوگ ایسے پیدا ہوئے جن پر فرشتوں کا نزول ہوا.غرض جس قسم کی عظیم بشارتیں اُمّتِ محمدیہ کو ملی ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اور آپ کی سنت کی اتباع کے نتیجہ میں انسان پر اللہ تعالیٰ کے جو فضل اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں انسان انہیں دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو اس قسم کی بشارتیں ملی ہیں کہ پہلے انبیاء بھی اُمت محمدیہ کا اس چیز میں مقابلہ اس لئے نہیں کر سکتے کہ ان کے پاس قرآن عظیم جیسی کامل اور مکمل شریعت اور ہدایت نہیں تھی.پھر فرما یا اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم السجدة: ٣١) اُمت محمدیہ کے دل سے خوف و حزن کو بالکل مٹادیا ہے.اب جس شخص کے پہلو میں خدا تعالیٰ کا فرشتہ ہو اور وہ اسے سہارا دے رہا ہو اور اسے تسلی دے رہا ہو کہ غم نہ کرو تو اگر چہ دنیا دار خدا کے نیک بندوں کو تکالیف پہنچاتے ہیں، اس سے انکار نہیں لیکن دنیا کی تکالیف میں بھی ان کے چہروں پر بشاشت کھیل رہی ہوتی ہے.ان کے دلوں میں اطمینان ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو محسوس کرنے والوں کے لئے عجیب رنگ رکھتی ہے.یہ بشاشت اور اطمینان حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم احسان کا نتیجہ ہے ور نہ گھر سے تو کچھ نہیں لائے.اس میں کسی انسان کی اپنی تو کوئی خوبی نہیں.فرمایا ابشروا اور فرشتے ان کو بشارت دیتے ہیں بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ لوگ جنت کے دو معنے کیا کرتے ہیں.ایک یہ کہ جنت سے مراد صرف وہ جنت ہے جو مرنے کے بعد ملتی ہے اور ایک یہ کہ جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے واضح ہوتا ہے اس دنیا میں بھی انسان کے لئے جنت پیدا کی جاتی ہے.مگر جہاں تک مرنے کے بعد کی جنت کا تعلق ہے اس کی کیفیت کا تو کسی کو علم نہیں ہے.حدیث میں آتا ہے کہ وہ ایک ایسی جنت ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی محسوس کرنے والے نے اُسے محسوس کیا.میں اس وقت بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ایک جنت ہے جو مرنے کے بعد نیکو کار بندوں کو ملتی ہے اور یہ جنت یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ہے.تاہم یہ بات یقینی ہے کہ جنت کی بشارت جنت میں نہیں ملتی.جنت کی بشارت کا تعلق مستقبل

Page 350

خطبات ناصر جلد ہفتہ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۷۸ء کے ساتھ ہے.اس لئے ماننا پڑا کہ امت محمدیہ پر فرشتے اس دنیوی زندگی میں نازل ہوں گے چاہے وہ صرف مرنے کے بعد کی جنت کی بشارت دینے کے لئے آئیں تب بھی یہ اعتراض نہیں پڑسکتا کہ جب آپ اس دنیا کی جنت کو بھی جنت کہتے ہیں تو یہ بشارت پھر اس دنیا کی جنت کے اندر مل گئی.اعتراض اس لئے بھی نہیں ہو سکتا کہ اس دنیا کی جنت اور اخروی دنیا کی جنت میں ایک بنیادی فرق ہے.اس دنیا کی جنت میں جو گیا وہ باہر نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ ابدی جنت ہے لیکن اس دنیا کی جنت کے ساتھ بہت سے ابتلا بھی لگے ہوئے ہیں.بلعم باعور بننے کا بھی خطرہ رہتا ہے.خدا تعالیٰ بعض لوگوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر لے جانا چاہتا ہے لیکن وہ زمین کے اوپر گر جاتے ہیں.اس لئے اس دنیا کی جنت میں ایک یقینی تسلسل نہیں بلکہ ہر آن سہارے کی ضرورت ہے.اس جنت میں یہ تو بشارت ملے گی کہ کل کو تمہارے لئے ایک اور ترقی ہے لیکن جب جنت کی بشارت مل چکی یعنی جنت میں چلے گئے تو وہاں سے نکلنے کا کوئی خطرہ نہیں مگر اس دنیا کی جنت سے نکلنے کا بھی خطرہ ہے.اس لئے بار بار بشارتیں ملتی ہیں اور تسلی ملتی ہے.خدا تعالیٰ بار بار رحم کرنے والا ہے.وہ تو اب ہے اس دنیا کی لغزشوں پر جب انسان نادم ہوتا ہے اور توبہ واستغفار کرتا ہے تو وہ بار بار تو بہ کو قبول کرنے والا ہے لیکن اس قسم کی لغزش یا اس قسم کی پریشانی کا احساس یا اس قسم کی تو بہ واستغفار جو اس دنیا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اخروی جنت میں ان چیزوں کا کوئی تصور نہیں ہے.دراصل اس دنیا میں متواتر جنت کی بشارت ملتے رہنا اطمینان قلب کے لئے ضروری ہے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی یہ کہنا پڑا تھا کہ اس لئے پوچھ رہا ہوں لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي (البقرة: ۲۶۱) تا کہ میرے دل کو اور اطمینان حاصل ہو.پس جو آدمی اس جنت میں چلا گیا جس میں سے نکلنے کا امکان ہی نہیں اس کا اطمینان اس بات میں تو ہو گیا کہ ایک ایسی جنت مل گئی جس کے اندر کوئی شبہ نہیں.قرآن کریم اور احادیث سے پتا لگتا ہے کہ جو مرنے کے بعد کی زندگی ہے وہ اس پانی کی طرح نہیں جو ایک جگہ پھنس جاتا ہے نشیب کے اندر اور اس میں بد بو اور تعفن پیدا ہو جاتا ہے بلکہ اس دنیا کی حرکت اور عمل کی جو زندگی ہے اس سے کہیں زیادہ حرکت ہے اور ایک عمل ہے اور ایک فعل ہے اس دنیا کی جنت میں لیکن وہ جنت کے اندر کا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 351

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۳۷ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۷۸ء فرمایا ہے کہ ہر روز صبح جنتیوں کو ایک نیا مقام مل جائے گا یعنی ان کو جنت کے اندر ایک مقام سے بڑھ کر دوسرا مقام اس سے اوپر کا مقام اس سے اوپر کا مقام پھر اس سے اوپر کا مقام غیر منتہی مقام اس لئے ملیں گے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کا مقام جنت کا مقام ہے.تو چونکہ خدا تعالیٰ کی ذات اور انسان کے درمیان غیر متناہی بعد ہے اور ایک نہ ختم ہونے والا فاصلہ ہے.اس لئے انسان خدا تعالیٰ سے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جائے تب بھی آگے بڑھنے کی گنجائش ہے.اللہ تعالیٰ کا اور متحرب مل سکتا ہے اور قرب مل سکتا ہے اس کا اور زیادہ پیار ملتا ہے اور زیادہ پیار ملتا ہے.اللہ تعالیٰ چونکہ غیر محدود ہے اس لئے اس کا پیار بھی غیر محدود ہے.پس حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معنی میں ایک عظیم احسان کیا ہے بنی نوع انسان پر ایک طرف اور اُمت محمدیہ پر دوسری طرف.بنی نوع انسان پر اس رنگ میں کہ جو خدا تعالیٰ نے نوع انسانی کے حقوق قائم کئے تھے ان کی حفاظت ایسے رنگ میں کی کہ آپ سے پہلے کسی نے نہیں کی.ہم نے پہلوں کی شریعتوں کو بھی پڑھا ہے قرآن کریم پر بھی غور کیا ہے.قرآن کریم کے سوا کسی الہامی کتاب یا فرد بشر نے نوع انسانی کے کسی فرد کے حقوق کی نگرانی نہیں کی.یہ صرف اسلام نے کی ہے اور یہی وہ احسان عظیم ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت پر کیا ہے اور اسی وجہ سے آپ بنی نوع انسان کے محسن اعظم ہیں.آپ کے اُسوہ حسنہ پر عمل کرنا، یہ میرا اور آپ کا کام ہے لیکن جہاں تک اس احسان کا تعلق ہے یہ اپنی ذات میں عظیم اور بے مثل ہے.جہاں تک اس شریعت کا تعلق ہے قرآن عظیم کی شریعت ایک کامل شریعت ہے جس میں حقوق انسانی کی حفاظت کے لئے کامل ہدایت موجود ہے.غیر ممالک کے دوروں میں بڑے بڑے فلاسفروں سے میری باتیں ہوتی رہی ہیں.وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے حقوق کیا ہیں.چنانچہ جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ اسلام نے انسان کا یہ یہ حق قائم کیا ہے تو وہ حیران بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی ہوتے ہیں.ان کے چہروں پر بشاشت آجاتی ہے.بعض تو بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں کہ پھر تو اسلام ہی عظیم مذہب ہے جس نے اس رنگ میں انسانی حقوق قائم کر دیئے اور ان کی حفاظت کا سامان پیدا کر دیا.

Page 352

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۳۸ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۷۸ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا احسان عظیم یہ کیا ہے کہ امت محمدیہ پر فرشتوں کے نزول کا ایک ایسا دروازہ کھول دیا ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی فلسفہ اور کوئی ازم اور کوئی دلیل بند نہیں کر سکتی اس لئے کہ جو فلسفہ اور دلیل ہے وہ فلسفہ اور دلیل کے مقابلے میں ٹھہرا کرتی ہے چاہے وہ اپنی کچھ غلط شکل ہی بنالے اور عزت قائم کر لے لیکن خدائی فعل کے مقابلے میں دنیا کی ساری دلیلیں ختم ہو جاتی ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اُمت محمدیہ میں کروڑوں انسان اس بات پر گواہ ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ کے احسان عظیم کے نتیجہ میں ان پر فرشتوں کا نزول ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمتیں ان کے شامل حال ہوئیں.اس بارہ میں کسی ایک آدمی کی گواہی نہیں یا دو کی گواہی نہیں یا چار کی گواہی نہیں یا دس کی گواہی نہیں ، کروڑوں انسانوں کی یہ گواہی ہے کہ ان پر فرشتوں کا نزول ہوا.انہوں نے خدا تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا.خدا تعالیٰ نے ان کے ساتھ دوستی کی.انہوں نے خدا تعالیٰ کے ساتھ دوستی کی وہ مقر بین الہی بن گئے ، وہ اولیاء اللہ بن گئے ، وہ قطب بن گئے ، وہ صدیق بن گئے.پس ان کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے البتہ اس کے پیار کے اظہار کے مختلف طریقے ہیں.کوئی بھی دو آدمی ایسے نہیں ملیں گے جن سے خدا کے پیار کا ایک جیسا اظہار ہوا ہو کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن : ٣٠) یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو مقربینِ الہی کی زندگیوں سے عیاں ہے.ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں نہیں تو ہزاروں ایسے آدمی ہیں جنہیں فرشتے بشارتیں دیتے ہیں.ان میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی ہیں.ان میں بڑے بھی ہیں اور چھوٹے بھی ہیں.ان میں جوان بھی ہیں اور بچے بھی ہیں اور وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے ان پر اپنے فضل کے دروازے کھولتا اور انہیں آئندہ کی خبریں دیتا ہے.کسی زمیندار کے بچے کو یہ بتانے کے لئے کہ دیکھو میں تم سے ذاتی تعلق رکھتا ہوں اور بڑے ہو کر میرے اس تعلق کو بڑھاتے چلے جانا، بعض دفعہ سچی خواب دکھاتا ہے.اب آٹھ دس سال کا ایک بچہ ہے جسے اس عمر میں قرآن کریم حفظ بھی نہیں ہو سکتا.گو بعض بچے چھوٹی عمر میں بھی حفظ کر لیتے ہیں لیکن اکثر

Page 353

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۳۹ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۷۸ء بچے نہیں کر سکتے.ان کو قرآن کریم کے معنے نہیں آتے لیکن وہ خدا تعالیٰ کے بندے ہیں.خدا تعالیٰ ان سے پیار کرتا ہے اور اس پیار کو بڑھانا چاہتا ہے اس لئے اس پیار کے نتیجہ میں ان کو یہ خبر دیتا ہے.مثلاً زمیندار کا بچہ ہے تو اسے یہ بتاتا ہے کہ تمہارے گھر میں جو بھینس بندھی ہوئی ہے اور بچہ دینے والی ہے وہ کئی دے گی یا کٹا دے گی.اب یہ ہے تو ذراسی بات لیکن ہے بڑی پیاری بات.اس لئے کہ آپ کوئی ایسا آدمی لا دیں جو یہ کہے کہ میں بتادوں گا کہ کٹی ہوگی یا کٹا ہوگا کیونکہ کل کی بات کا تو کسی کو پتا نہیں.تیریکا لگانا اور چیز ہے.لوگ گپیں مارتے رہتے ہیں لیکن ایک بات کا وثوق کے ساتھ کہنا اور پھر اس کا پورا ہوجانا، یہ اصل چیز ہے جو خدا تعالیٰ کے پیار پر دلالت کرتی ہے.بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں کیوں نہ ہوں مگر وہ فی الحقیقت خدا کے پیار کا پتا دیتی ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا ۱۹۷۴ ء میں ہمارے ایک دوست کو رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ نے ایک دن تہجد اور صبح کام پر جانے کے درمیان تین باتیں بتا ئیں جن کا تعلق مستقبل کے ساتھ تھا.چنا نچہ دو باتیں اسی وقت ایک گھنٹے کے اندر اندر پوری ہو گئیں اور ان کو یقین ہو گیا کہ جس خدا نے دو باتیں پوری کر دی ہیں تیسری بات بھی اسی خدا نے بتائی ہے اس لئے وہ بھی اپنے وقت پر پوری ہو جائے گی اور اب وہ بھی پوری ہو چکی ہے.پس ایسے ہزار ہا آدمی ہیں جن کو سچی خوا ہیں آتی ہیں.وہ بالکل غریب سے لوگ ہیں.انہیں بزرگی کا کوئی دعوی نہیں.پس اللہ تعالیٰ کا پیار ہے، جوان کے دل میں موجزن ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، اس سے دعائیں کرتے ہیں، اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں خدا کی راہ میں قربانیاں دیتے ہیں مالی بھی اور جانی بھی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتے ہیں.آپ پر برکات سے درود بھیجتے ہیں.جس حد تک ان کو حالات اجازت دیتے ہیں اور ان کی استعداد میں ہے وہ قرآن کریم پر غور کرتے ہیں.بہر حال اصل چیز تو یہی ہے کہ ان کے دل میں خدا تعالیٰ کا پیار ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ محبت انہوں نے قائم کیا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں ان پر فرشتوں کے نزول کا دروازہ کھلا ہوا ہے.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان عظیم کی برکت ہے اور یہ ایک فضل الہی ہے جو کبھی بند نہیں ہوگا.اب تک میں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ تو ہے تمہید میرے آج کے اس خطبے کی ، اصل بات

Page 354

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۴۰ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۷۸ء جو میں بتانا چاہتا ہوں وہ ہے تو بڑی اہم لیکن میں اسے اس وقت مختصراً بیان کروں گا.چند دن ہوئے مجھے خیال آیا کہ ہمارے گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چوتھی نسل کا ایک بچہ ہے جو ماشاء اللہ بڑا ذہین ہے.چند دن پہلے اس کی عمر دو سال کی ہوئی ہے.جس دن اس کی عمر دو سال کی ہوئی تو مجھے خیال آیا کہ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد ہوتی ہے ہمیں چاہیے کہ ہم چوتھی نسل کو ہر لحاظ سے اس قابل بنائیں کہ وہ مہدی علیہ السلام کی جماعت کا ایک جاں نثار فرد بن جائے اور وہ مہدی علیہ السلام کی جماعت کے فرد کی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل ہو.علمی لحاظ سے بھی اور عملی لحاظ سے بھی.میں نے اس بات کا مختصر ساذ کر پچھلے دنوں دوستوں سے ملاقات میں بھی کیا تھا.پس ہر نسل کو سنبھالنا ضروری ہے کیونکہ جو کام ہمارے سپرد ہے وہ تین سوسال میں اپنی انتہا کو پہنچے گا اور غلبہ اسلام کی صدی جو ہماری زندگی کی دوسری صدی ہے اس کے شروع ہونے میں اب بارہ تیرہ سال رہ گئے ہیں.اب اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے دنیا میں بڑے انقلابی حالات پیدا ہور ہے ہیں.پس جو بچہ آج دو سال کا ہے یہ جب غلبہ اسلام کی صدی شروع ہوگی تو پندرہ سولہ سال کا ہو گا اس لئے جو اس وقت بچے ہیں ان کو سنبھالنا ضروری ہے.بہت سے بچے مجھ سے ملتے رہتے ہیں.باہر سے بھی دوست ملاقات کے لئے آتے ہیں اور بعض دوست بچوں کو بھی ساتھ لے آتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کو بہت ذہین بچے دے رہا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے.جماعت احمدیہ کو اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے.جس قوم کو خداذ ہن نہ دے وہ تو گویا جہالت کی نذر ہو کر ہلاک ہوگئی.قوم جاہل رہے گی تو وہ ترقی کر ہی نہیں سکتی.جس قوم کو خدا ذہن دے اور وہ اس کو سنبھال نہ سکے تو وہ بڑی بد قسمت قوم ہے اس لئے کہ میرے نزدیک سب سے قیمتی عطا بچوں کا اچھا ذہن ہے.اس قیمتی عطیہ کو نہ سنبھالنا بہت بڑی بد قسمتی ہے لیکن جس قوم کو خدا تعالیٰ ذہین بچے دے اور بچپن ہی سے ان کو سنبھالا جائے اس قوم کو اپنے مقصد کے حصول میں کوئی شبہ باقی رہتا ہی نہیں کیونکہ ایک طرف خدا تعالیٰ کی عطا بتا رہی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو کدھر لے جانا چاہتا ہے.دوسری طرف جماعت کو اس بات کی توفیق دینا کہ خدا تعالیٰ نے جو عطا کی ہے اور جو ذہن دیا ہے بچوں کی پیدائش کے

Page 355

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۴۱ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۷۸ء ذریعہ، اس کی ناشکری نہیں کی گئی بلکہ ان کی قدر کی گئی ان کو ہر لحاظ سے سنبھالا گیا اور اس قابل بنایا گیا کہ وہ دنیا میں اسلام کو پھیلائیں اپنے علم سے بھی اور عملی نمونوں سے بھی.پس جہاں تک احمدیت کے مقصد کا تعلق ہے یہ تو بہر حال حاصل ہونا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مقصد اس گروہ یا اس نسل یا اگلی نسل یا اس علاقے کے لوگوں کے ذریعے حاصل ہوگا یا کسی اور ملک یا علاقہ کے لوگوں کے ذریعہ حاصل ہوگا جو خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنے والے ہوں گے.دیکھنا یہ ہے کہ جس قوم میں یا جس علاقے میں مہدی علیہ السلام پیدا ہوئے اور ان کے ماننے والوں کو اتنی بڑی نعمت ملی اور ان پر خدا تعالیٰ نے بہت بڑا احسان کیا ، وہ اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح پورا کرتے ہیں.یہ ان کا پہلا فرض ہی نہیں بلکہ ان کا یہ حق ہے.فرض کی بات تو بعد میں آئے گی ، ان کا یہ حق ہے کہ وہ دنیا کے لئے ایک اُسوہ اور نمونہ بنیں اور دنیا کے سچے معنوں میں خادم بنیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا کو پہنچانے میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں اور ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ سامنے رکھیں.دیکھو آپ کی کتنی بلندشان ہے کہ نہ صرف آپ اپنے ماننے والوں کے لئے محسن اعظم ہیں بلکہ ان کے لئے بھی محسن اعظم ہیں جو آپ کو نہیں مانتے.آپ کے احسانات کا دائرہ مومن اور کا فرسب پر وسیع ہے.دنیا آپ کے احسانات کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.پس ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اس حقیقت کے سمجھنے کی تو فیق عطا کرے اور وہ ہمیں اس بات کی بھی توفیق دے کہ ہم اپنے بچوں کی صحیح نگہداشت کر سکیں.ان کو صیح تعلیم دے سکیں.ان کی عمدہ تربیت کر سکیں.اللہ تعالیٰ انہیں نیک دل دے اور ان کے دلوں کی نیکی کو ہمیشہ قائم رکھے.ان کو دین دے اور اس پر ہر حال میں استقامت بخشے.اللہ تعالیٰ ان کو پیار دے جو کبھی مٹنے والا نہ ہو بلکہ ہمیشہ ترقی کرنے والا ہو اور وہ خدا تعالیٰ سے محبت اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مستانہ وار ہم سے بھی آگے بڑھتے ہوئے دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانے والے ہوں.اللھم آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 356

Page 357

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۴۳ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء قرآن کریم کی ہر بھلائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی مل سکتی ہے خطبه جمعه فرموده ۲۴ مارچ ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلامی تعلیم محض ایک فلسفہ نہیں ہے بلکہ اس کی غرض یہ ہے کہ انسان اس پر عمل کر کے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرے.اسلامی تعلیم کا تعلق انسانی زندگی کے ہر شعبہ اور ہر پہلو سے ہے.اجتماعی زندگی کی اجتماعی ذمہ داریوں سے بھی اس کا تعلق ہے اور فرد فرد کے حقوق بھی یہ بیان کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے جو حقوق انسان پر ہیں ان پر بھی یہ روشنی ڈالتی ہے.یہ تعلیم اللہ تعالیٰ کے حسن کو ظاہر کرتی اور اس کے احسان کو جو اس نے اپنی مخلوق پر کئے ہیں بیان کر کے خدا تعالیٰ کی ذاتی محبت انسان کے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے.یہ کامل اور مکمل تعلیم ہے اسی لئے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُهُ فِي الْقُرْآنِ کہ ہر قسم کی بھلائی قرآن کریم میں پائی جاتی ہے لیکن صرف کتاب میں تعلیم کا ہونا انسان کے لئے کافی نہیں ہے جب تک کہ اس پر عمل کرنے والا ایک کامل نمونہ انسان کے سامنے نہ ہو.اس لئے کہا كُل بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ کہ قرآن کریم خیر تو ہے لیکن اس کی ہر خیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی حاصل کی جاسکتی ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر قسم کے ادوار میں سے

Page 358

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۴۴ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء گزری.آپ غریب بھی رہے اور آپ محکوم بھی رہے اور آپ کے قدموں میں دنیا کی دولتوں کے انبار بھی جمع ہوئے اور آپ بادشاہ بھی بنے.مختلف انسانوں کی زندگیاں ہمارے سامنے آتی ہیں آپ ہر پہلو سے ان کے لئے ایک نمونہ بنے.اس کی تفصیل میں جانا تو مشکل ہے لمبا مضمون ہے.آپ کا جاگنا ، آپ کا سونا، آپ کا اٹھنا ، آپ کا بیٹھنا ، آپ کا خدا تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہنا اور آپ کا انسان کی خدمت میں محور بنا، آپ کا خدا تعالیٰ کی محبت میں تڑپنا اور آپ کا انسان کے دکھوں کو دور کرنے کے لئے اذیت اور تکلیف اٹھا نا غرض کس کس بات کا ذکر کریں آپ ہر پہلو سے ہماری زندگیوں کے لئے ایک کامل نمونہ ہیں اور ہر خیر قرآن کریم سے ہی ملتی ہے.قرآن کریم سے باہر کوئی خیر ہمیں نظر نہیں آتی.ہم نے بڑا غور کیا اور بالآخر ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ نیکی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو استعداد میں اور صلاحیتیں ہر فرد کو دی ہیں ان کی صحیح نشو ونما ہو.اس نشو ونما کے لئے ایک تو فرد کی اپنی کوشش ہے لیکن قرآن کریم سے ہمیں پتا لگتا ہے فرد کی اپنی کوشش ہی کافی نہیں اگر وہ کافی ہوتی تو تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى (المآئدة : ۳) کا حکم نہ دیا جاتا.پس چونکہ فرد کی اپنی کوشش کافی نہیں اس لئے کہا گیا کہ پر اور تقویٰ میں آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کرو.انسان کو جو صلاحیتیں دی گئی ہیں ان کی معراج ، ان کا آخری نقطہ جو بلندیوں کی طرف ختم ہوتا ہے وہ انسان کا روحانی ارتقاء ہے جو کہ خدا تعالیٰ کے قرب پر منتج ہوتا ہے اور جس کے نتیجے میں اسے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے.اس لئے ہر قسم کی صلاحیتیں جن میں روحانی صلاحیتیں بھی شامل ہیں اور باقی قوتیں اور استعدادیں جن کا تعلق انسان کے جسم کے ساتھ ہے یا اس کے ذہن اور فراست کے ساتھ ہے یا اس کے اخلاق کے ساتھ ہے وہ سب روحانی نشو ونما کے لئے مد اور معاون ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ محض فرد فرد کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ اجتماعی ذمہ داری بھی ہے اور ہماری جماعت کی اجتماعی ذمہ داری یا ہماری جماعتی ذمہ داری محض یہ نہیں ہے کہ ہم چندے ادا کریں اور بس.بلکہ چندے تو ہم کسی غرض کے حصول کے لئے خدا کی راہ میں دیتے ہیں.چندے یعنی اپنے مال کے کچھ حصے ہم خدا کی راہ میں اس لئے دیتے ہیں کہ ہمیں جو کہا گیا ہے کہ بچوں کی تربیت کا خیال

Page 359

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۴۵ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء رکھو اس اجتماعی ذمہ داری کے نباہنے میں خرچ بھی آئے گا اس میں ہم حصہ لیں تا کہ کمزوری نہ پیدا ہو جائے.میں نے پچھلے خطبہ میں کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد چوتھی نسل کی پیدائش شروع ہو چکی ہے اور اس کو سنبھالنا خاص طور پر ضروری ہے.خاص طور پر اس لئے کہ چوتھی نسل کے جو بچے پیدا ہورہے ہیں جب وہ جوان ہوں گے یا جب ان میں سے بہت سے جوان ہوں گے ( کیونکہ ہر نسل کے بچے آگے پیچھے پیدا ہوتے ہیں ) تو اس وقت جماعت احمدیہ خدا کی راہ میں اپنی جدو جہد میں اور غلبہ اسلام کے لئے اپنی کوششوں میں ایک ایسے زمانہ میں داخل ہو چکی ہوگی جس کو ہمارے نزدیک غلبہ اسلام کا زمانہ کہا جانا چاہیے.جیسا کہ میں نے اعلان کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے اور ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں جو کہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے جماعت پرنئی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں اور پہلے سے بھاری ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں اور پہلے سے زیادہ وسیع ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں.ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے جب غلبہ اسلام شروع ہو جائے گا اور ہم امید رکھتے ہیں اور ہم دعائیں کرتے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ جماعت کی زندگی کی دوسری صدی کے اندر (جس کے شروع ہونے میں اب دس گیارہ سال رہ گئے ہیں ) اسلام دنیا کے اکثر حصوں میں غالب آجائے گا.غالب آنے کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام کی حکومتیں قائم ہو جائیں گی بلکہ غالب آنے کے یہ معنی ہیں کہ اسلام بنی نوع انسان کے دلوں کو موہ لے گا اور بنی نوع انسان کی اکثریت اسی طرح خدا تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے لگے گی جس طرح کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ آج احمدیوں کی بڑی بھاری اکثریت خدا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والی ہے.پس جب یہ نئے داخل ہونے والے اسلام کے اندر داخل ہوں گے تو وہ کہیں گے کہ ہمیں اسلام سکھاؤ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے عملی زندگی میں اسلام کے نمونے پیش کرو.اس وقت جو آج زندہ ہیں ان میں سے خدا جانے کون زندہ ہو گا اور کون نہیں ہو گا لیکن بڑی بھاری اکثریت میں وہ لوگ ہوں گے جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں چوتھی نسل سے ہے.پس

Page 360

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۴۶ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء اس نسل کو سنبھالنا خاص طور پر ضروری ہے.اس میں ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کی چوتھی نسل ہے اور ایک جماعت کی چوتھی نسل ہے اور میں اس بات پر غور کر رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ جماعت کے لحاظ سے چوتھی نسل میں جو کہ جماعت کی ذمہ داری بن گئی ہے وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے آبا و اجدا دتین نسلوں تک جماعت کی مخالفت کرتے رہے اور چوتھی نسل جماعت میں داخل ہوگئی.ایسے لوگ ہر روز داخل ہو رہے ہیں.آپ کے سامنے ہر روز کی تصویر نہیں آتی میرے سامنے تو آتی ہے کہ جو لوگ آج احمدیت میں داخل ہورہے ہیں یا کل ہفتہ والے دن داخل ہوں گے یا پرسوں اتوار کے دن داخل ہوں گے ان کے آبا و اجداد تو احمدی نہیں تھے.ان میں سے بعض سخت مخالفت کرنے والے تھے، بعض بے تعلق رہنے والے تھے اور ان کو کوئی توجہ نہیں تھی ، بعض سمجھتے تھے کہ حقیر سی جماعت ہے ہمیں اس کی طرف توجہ کرنے کی کیا ضرورت ہے وغیرہ بہر حال ان کا اس مہم میں کوئی حصہ نہیں تھا لیکن خدا تعالیٰ اپنے رحم کے نتیجہ میں ان کو اس طرف لے آیا اور وہ اس بات کی طرف متوجہ ہوئے کہ یہ زمانہ اسلام کے غلبہ کا ہے، اس زمانہ میں اصلاح کی ضرورت ہے، اس زمانہ میں دیانت اور امانت کو قائم کرنے کی ضرورت ہے، اس زمانہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی ضرورت ہے اور اس زمانہ میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے دنیا میں عملاً اسلام کو پیش کرنے کی ضرورت ہے.چنانچہ وہ جماعت میں داخل ہو گئے.یورپ وغیرہ میں جب ہم اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہیں تو بسا اوقات یہ سوال کر دیا جاتا ہے کہ تعلیم تو بہت اچھی ہے لیکن ہمیں یہ بتائیں کہ اس پر عمل کہاں ہو رہا ہے اس سوال کا جواب میری اور آپ کی زبان نے نہیں دینا بلکہ اس کا جواب میرے اور آپ کے عمل نے دینا ہے.جس زمانہ میں ہم عنقریب داخل ہو رہے ہیں اس میں ہم امید رکھتے ہیں کہ غیر مسلم دنیا کثرت سے اسلام کی طرف متوجہ ہو کر اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائے گی.وہ لوگ نمونے کا اور دلائل کا اور آسمانی نشانوں کا مطالبہ کریں گے وہ پوچھیں گے کہ اسلام لا کر ہمیں کیا حاصل ہوگا ؟ ان کو خدا کا پیار حاصل ہوگا اور سب سے بڑی چیز تو یہی ہے.وہ کہیں گے کہ اگر خدا کا پیار حاصل ہوتا ہے تو

Page 361

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۴۷ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء ایک تو ہمیں دکھاؤ کہ تمہیں کس طرح حاصل ہوا اور دوسرے پھر ہمارے لئے بھی اس کے دروازے کھلنے چاہئیں.دروازہ کھولنا تو میرا کام نہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن مشاہدہ کرنا میرا اور آپ کا کام ہے اور ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ عیسائیوں میں سے اور کمیونسٹوں میں سے جولوگ عیسائیت اور کمیونزم کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتوں اور برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیئے اور وہ سچی خوا ہیں دیکھنے لگے اور ان کو الہام ہونے شروع ہوئے اور خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے انہوں نے اپنی زندگیوں میں دیکھے اور ایک زندہ خدا سے تعلق انہوں نے اپنی زندگیوں میں محسوس کیا.جو لوگ اب آئیں گے وہ یہ نہیں کہیں گے کہ ہم ایک کلب کو چھوڑ کر دوسرے کلب میں داخل ہونا چاہتے ہیں بلکہ وہ کہیں گے کہ ہم ایک نظام زندگی کو ( جس سے کہ ہم تنگ آئے ہوئے ہیں ) چھوڑ کرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام زندگی میں داخل ہونا چاہتے ہیں.ہمیں بتاؤ کہ وہ نظام کیا ہے، ہمیں اس کی تعلیم دو، ہمارے سامنے اس کے نمونے پیش کرو.یہ جو اجتماعی ذمہ داری ہے اس پر پیسہ خرچ ہو گا.ان لوگوں کے لئے نئی کتا بیں چھپنی چاہئیں کیونکہ دنیا کے موجودہ حالات کو مد نظر رکھ کر احمدیوں کی چوتھی نسل کو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد جو چوتھی نسل احمدیت میں داخل ہورہی ہے اس کو ہم نے علم دینا ہے.ان کو ہم نے قرآن کریم کے حقائق بتانے ہیں.ان کو ہم نے قرآن کریم کے حسن سے آشنا کرنا ہے، ان کے سامنے ہم نے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو پیش کرنا ہے اور ان کی ہم نے تربیت کرنی ہے.یہ امر تربیت چاہتا ہے کہ عبادت میں وقت گزارو، خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کرو اور اس کی کبریائی کا اعلان کرو، اسی کو سب کچھ سمجھو اور اسی کے لئے ہو جاؤ.اپنی ساری زندگی اس کے حضور پیش کر دو.کچھ اس کے سامنے اور کچھ شیطان کے سامنے پیش نہ کرو تقسیم نہ کرو اور اپنی زندگی کے حصے بخرے نہ بناؤ بلکہ سب کچھ خدا کے سامنے پیش کرو اور پھر خدا سے سب کچھ لے لو.اس اجتماعی کوشش کے لئے پیسے کی ضرورت ہے اور جماعت خدا کے فضل سے بڑی قربانی کرتی ہے.جماعت میں نئے داخل ہونے والوں کو یا جماعت میں نئے جوان ہونے والوں کو شاید سمجھ نہ آ رہی ہو کہ جماعت کتنی بڑی قربانی دے رہی ہے اور کیوں دے رہی ہے مگر ہمیں تو سمجھ آرہی ہے لیکن جو جماعت سے باہر ہیں ان کو تو

Page 362

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۴۸ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء بالکل سمجھ نہیں آرہی.وہ تو ہمیں پاگل سمجھتے ہوں گے لیکن خدا تعالیٰ ہمیں پاگل نہیں سمجھتا.پیار اور جنون دونوں کو دنیوی محاورہ میں بعض دفعہ ایک ہی چیز قرار دے دیا جاتا ہے چنانچہ دنیا کہتی ہے جنون مگر خدا کہتا ہے مجھ سے پیار.پس اس غرض سے کہ اگلی نسلیں بھی خدا تعالیٰ سے ویسا ہی پیار کرنے لگیں جیسا کہ انہیں کرنا چاہیے اور پھر خدا سے پیار کر کے وہ اپنے زمانہ کے بوجھوں کو برداشت کرنے کے لئے اس سے طاقت حاصل کرنے والے بنیں ان کی تربیت کی ضرورت ہے.طاقت ہم اپنے گھر میں نہیں پیدا کر سکتے جب تک خدا جو تمام طاقتوں کا سر چشمہ اور منبع ہے ہمیں طاقت عطا نہ کرے ہم میں طاقت پیدا نہیں ہو سکتی.دین کی راہ میں قربانی کی طاقت اموال سے نہیں پیدا ہوتی.جب کفار مکہ نے اسلام کو مٹانے کے لئے مدینہ پر چڑھائیاں کرنی شروع کیں اور اسلام کے خلاف مستقل طور پر اعلانِ جنگ کردیا تو جو بدر کے میدان کی طرف ۳۱۳ مسلمان گئے تھے ان کے پاس اپنی کیا طاقت تھی ؟ ننگے پاؤں پہنے کو کپڑ انہیں ، کند اور ٹوٹی ہوئی تلوار ہیں، کیا وہ طاقت تھی ان کی؟ اپنی طرف سے تو وہ وہی طاقت پیدا کر سکے تھے نا.لیکن ان کو جو خدا نے طاقت دی تھی وہ یہ تھی کہ وہ جو سیوف ہندی پر ناز کرنے والے تھے ان کو انہوں نے شکست دے دی.سیف ہندی یعنی ہندوستان کی تلوار اس وقت وہاں بڑی مشہور تھی اور بڑی مقبول تھی بہت اعلیٰ درجے کی بنی ہوتی ہے اور اس کی بڑی کاٹ ہے اور بڑی ضرب ہے اور بڑا مقابلہ کرتی ہے اور لڑائی میں بڑی قابل اعتماد ہے جب تلوار میں ٹکراتی ہیں تو وہ ٹوٹتی نہیں لیکن ان ٹوٹی ہوئی تلواروں نے ان کو توڑ دیا.یہ معجزہ اس طاقت نے نہیں دکھایا تھا جو طاقت ان غریبوں نے ٹوٹی ہوئی تلوار میں اکٹھی کر کے جمع کی تھی بلکہ یہ معجزہ اس طاقت نے دکھایا تھا جو خدا نے ان کو اپنے حضور سے دی تھی اور کہا تھا کہ میں تمہاری ٹوٹی ہوئی تلواروں کو کامیاب کر دوں گا اور غلبہ دے دوں گا اور کفار کی تلوار باوجودد نیوی لحاظ سے زیادہ طاقتور ہونے کے ناکام ہو جائے گی.لیکن تلوار یا ایٹم بم تو بڑی ذیلی سی چیزیں ہیں.اصل چیز تو انسانی فراست ہے.چنانچہ وہ جو کسری کے تعلیمی اداروں میں پڑھے ہوئے بڑے تعلیم یافتہ لوگ تھے اور جو قیصر کے علاقوں کی درسگاہوں میں اور بڑے بڑے لاٹ پادریوں سے پڑھے ہوئے لوگ تھے جب وہ مقابلہ پر

Page 363

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۴۹ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء آئے تو وہ مسلمانوں سے بات نہیں کر سکتے تھے اور اب بھی غریب احمدیوں سے جو اپنے آپ کو بیچ اور نا چیز اور لاشے سمجھتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ خدا سے اس کے فضل ما نگتے ہیں اور اس سے فراست مانگتے ہیں اور اس سے نور علم مانگتے ہیں.دلائل کے لحاظ سے کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.بہیں ہیں ، پچھیں چھپیں اور تیس تیس سال کے نوجوان باہر نکلتے ہیں، جب وہ یہاں پھر رہے ہوتے ہیں تو مجھے کئی دفعہ خیال آیا کہ ربوہ کے لوگ نہیں سمجھتے کہ ان کی قدر کیا ہے لیکن جب وہ افریقہ میں جاتے ہیں تو بڑے بڑے فلسفی اور بڑے بڑے عالم ان کے مقابلے میں آتے ہوئے گھبراتے ہیں اور ان سے بات کرتے ہوئے ان کی جان نکلتی ہے.پس اصل چیز یہ ہے کہ علم کی تلوار کے اندر اتنی تیزی ہو کہ کوئی اور علمی تلوار مقابل پر نہ ٹھہر سکے اور عملی نمونہ ایسا ہو کہ جو ہر ایک کا دل موہ لینے والا ہو کیونکہ جوشخص اسلام لاتا ہے وہ اپنی زندگی چھوڑ کر اسلام لاتا ہے.اگر ایک شخص پچاس سال کی عمر میں اسلام لاتا ہے تو اس نے جس پچاس سالہ زندگی میں وقت گزارا وہ تو ختم ہوگئی ، اس کو تو ایک نئی زندگی ملے گی ، اس کو تو ایک نئی روح ملے گی جس سے اس کی شکل بدل جاتی ہے، چہرے کے آثار بدل جاتے ہیں.ہر ہفتے دوست مجھے ملنے کے لئے آتے رہتے ہیں.بعض دوست جو ابھی احمدی نہیں ہوئے دوسری تیسری دفعہ بھی آتے ہیں.چنانچہ کسی کو مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اب یہ احمدی ہو گئے ہیں بلکہ ان کے چہرے کی تبدیلی خود مجھے بتادیتی ہے کہ اب وہ احمدی ہو گئے ہیں.خدا تعالیٰ کو پانے کے بعد ایک نور فراست ان کے چہروں پر چپکنے لگ جاتا ہے اور ایک اطمینان ان کو نصیب ہوتا ہے.خدا کے بندے کے پاس جو اطمینانِ قلب ہے وہ دنیا کے امیر ترین انسان کے پاس بھی نہیں اور وہ دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور اور صاحب اقتدار انسان کے پاس بھی نہیں.ان کی دوستیں تو ان کے لئے وبال جان اور ان کا اقتدار ان کے لئے وبالِ جان ہیں.مگر خدا کا ایک بندہ معمولی کپڑوں میں ملبوس ہے، کوئی اس کو پہچا نتا بھی نہیں سوائے اس کے رب کے اور اس کا دل مطمئن ہے.اس کے چہرے پر ایمان کی بشاشت ہے اور ایک طمانیت ہے اور اس کو کوئی فکر نہیں.دنیا اسے پینے میں لگی ہوئی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی حمد کے نعرے لگانے کی سوچ رہا ہوتا ہے.عجیب قوم بنادیتا ہے خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی.

Page 364

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۵۰ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء میں بتارہا تھا کہ چوتھی نسل کو ہر پہلو سے سنبھالنا ہے اور پھر تبلیغ کے لئے مبلغ تیار کرنے ہیں وغیرہ اور اس کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے لیکن پیسہ اصل مقصد نہیں ہے بلکہ یہ ہماری دوسری زیادہ اہم ذمہ داریوں کو نباہنے کا ایک ذریعہ ہے.یہ بات میں احمدیوں کو بھی بتارہا ہوں اس لئے کہ بعض دفعہ یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے پورا چندہ دے دیا ہے اور اب ہمیں مسجدوں میں جا کر نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں رہی.ایسے کمزور بھی ہوتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ جی ہم نے پیسوں کی قربانی کر دی ہے لیکن پیسوں کی قربانی نہیں بلکہ تمہارے نفسوں کی قربانی چاہیے.اپنے نفسوں کو خدا کے حضور پیش کر دو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام کی تعریف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور رضا کارانہ طور پر اپنی گردن اس طرح رکھ دینا جس طرح بکرے کی گردن قصائی جبراً اپنے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس کے گلے پر چھری پھیر دیتا ہے.وہاں تو جبر ہو رہا ہے لیکن یہاں انسان رضا کارانہ طور پر اپنی گردن خدا کے حضور پیش کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھریوں سے ذبح کرنے کے لئے نہیں بھیجا اور مارنے کے لئے نہیں مبعوث کیا بلکہ جیسا کہ قرآن کریم نے دنیا کے ہر گوشے میں اعلان کر دیا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو زندہ کرنے کے لئے آئے ہیں.زندگی کے اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے مادی ذرائع کی بھی ضرورت ہے اس کے بغیر تو یہ کام نہیں ہو سکتا.ہمارے مبلغ باہر جاتے ہیں ان کے کرایوں پر خرچ ہوتا ہے میرے خیال میں اس پر کئی لاکھ روپیہ خرچ ہو جاتا ہے.مبلغوں کو تیار کرنے کے لئے اور ان کے ریفریشر کورسز کے لئے رقم کی ضرورت ہے.پھر لنگر خانہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انگر خانے کی اہمیت پر اور اس کی افادیت پر بڑا زور دیا ہے اور جو بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے وہی حق ہے.اس کی بڑی ضرورت ہے.قادیان میں جماعت پر غربت کا ایک ایسا زمانہ تھا کہ یہ بات میرے حافظے میں ہے اور جب میں بچہ تھا تو بعض مشاورتوں میں میرے کانوں نے یہ بحث سنی کہ کارکنوں کو پانچ پانچ ، چھ چھ مہینے سے تنخواہ نہیں ملی کچھ فکر کرو.لیکن اب اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ اخراجات پہلے سے شاید بیس گنا زیادہ ہو گئے ہیں

Page 365

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۵۱ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء یا پچاس گنازیادہ ہو گئے ہیں مگر ایک رات بھی یہ فکر نہیں رہی کہ پیسہ نہیں ہے یا کارکنوں کو تنخواہ نہیں ملے گی وغیرہ بلکہ خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے.میرے خیال میں لنگر خانہ پر بشمولیت جلسہ سالانہ کے مہمان ۱۰ ، ۱۵ لاکھ روپیہ سال کا خرچ ہوتا ہوگا اور ہونا چاہیے.اب ہم پیسے بچانے کے لئے یہ تو نہیں کر سکتے کہ جو دوست جمعہ پر باہر سے آتے ہیں اور لنگر کے مہمان ہوتے ہیں یا جو جمعرات کو عام ملاقات کے لئے آتے ہیں اور ان میں ہمارے وہ دوست بھی ہوتے ہیں جو ابھی احمدی نہیں ہوئے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ربوہ دیکھنے کے لئے اور باتیں سننے کے لئے آجاتے ہیں یا جمعرات کی ملاقات کے لئے دوست بدھ والے دن بھی آجاتے ہیں سوسو، دو دو سو آدمی آ جاتا ہے.ان کو ہم کہیں کہ جی ہم تمہیں لنگر میں روٹی نہیں دے سکتے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے.میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ خدا نے پیسے دے دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے.ہمیں تو پتا ہی نہیں لگا کہ کب اور کس طرح اس نے پیسے دے دیئے.میں نے اپنے بچپن کا بتایا ہے کہ خود میرے کانوں نے مشاورت میں یہ بحث سنی ہے کہ پانچ پانچ ، چھ چھ مہینے ہو گئے ہیں کہ کارکنوں کو تنخواہ نہیں مل سکی اور وہ قرض پر زندہ ہیں.اب خدا نے وہ ساری فکریں دور کر دیں لیکن اس لئے تو دور نہیں کیں کہ ہم آرام سے سوجائیں بلکہ اس لئے دور کی ہیں کہ ہم اپنی توجہ کو دوسرے زیادہ ضروری کاموں کی طرف پھیر دیں اور غلبہ اسلام کی مہم کے اندر ایک تیزی اور شدت پیدا کریں.غرض پیسہ ایک ذیلی چیز ہے.یہ نمبر ایک نہیں ہے بلکہ میرے خیال میں یہ سب سے آخر میں ہے بہر حال ہر ضروری کام کے لئے کسی نہ کسی رنگ میں پیسے کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کے لئے جماعت کی شوری ایک بجٹ منظور کرتی ہے اور پیسہ تقسیم ہو جاتا ہے.کئی خرچ بجٹ سے زیادہ ہو جاتے ہیں اور کئی خرچ بچ جاتے ہیں.میں نے غالباً پہلے کسی خطبہ میں اس کے متعلق نہیں بتایا اب بتا دیتا ہوں کیونکہ جماعت کو بھی پتا لگنا چاہیے.ایک وقت میں میں نے دیکھا ( اس وقت میں غالباً صدر صدر انجمن احمد یہ تھا ) کہ جن شعبوں میں پیسہ بچ جاتا ہے وہ سال کے آخر میں بلا ضرورت ہی اسے خرچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پیسے بچے ہوئے ہیں آؤ ان کو خرچ کر دیں اور جن

Page 366

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۵۲ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء شعبوں کا خرچ زیادہ ہو جاتا تھا وہ بہر حال مزید رقم مانگتے تھے.اس واسطے ایک طریقہ یہ رائج کروایا کہ ہر تین مہینے کے بعد تین مہینے کی نسبت سے جو خرچ بچا ہوا ہے وہ اس شعبے سے نکال لو اور ایک ریز رو بنایا کہ اس میں داخل کر دو.خصوصاً تنخواہوں وغیرہ میں بچت ہو جاتی ہے کہ کوئی آدمی چلا گیا یا کسی نے بغیر تنخواہ کے چھٹی لے لی یا کوئی آسامی خالی پڑی رہی وغیرہ پہلے یہ شکل بنتی تھی کہ بجٹ سے اتنا زیادہ خرچ ہو گیا اور مشاورت میں رپورٹ ہوتی تھی کہ بجٹ مثلاً دس لاکھ کا بنایا تھا اور خرچ بارہ لاکھ ہو گیا (ویسے اب تو بجٹ تحریک جدید کو ملا کر ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ گیا ہے ) غرض اُس وقت بڑی مشکل پڑتی تھی اور جس وقت سے یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ان کا ریز رو بنادو اس سال کے بعد سے میرے خیال میں ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ مشاورت کے بنائے ہوئے بجٹ سے مجموعی طور پر خرچ زیادہ ہوا ہو کیونکہ جس شعبے نے کم خرچ کیا اور اسی لئے کم خرچ کیا کہ اس کو ضرورت نہیں تھی یہ نہیں کہ اس کی ضرورت کو مد نظر نہیں رکھا گیا اس سے زائد روپیہ لے کر ریزرو میں ڈال دیا اور جس نے زیادہ خرچ کیا اس ریز رو میں سے اس کو دے دیا اور اس طرح بغیر کسی تکلیف کے بجٹ کے اندر اندر سارا کام ہو جاتا ہے.شوریٰ ہر سال کچھ زائد آمد کا بجٹ بناتی ہے اور جماعت پر جتنا حسن ظن مجلس شورای بجٹ آمد بناتے ہوئے کرتی ہے اس سے زیادہ آمد جماعت پیدا کر دیتی ہے.خدا تعالیٰ کا بڑا فضل ہے.جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پیسہ ضائع نہ ہو.جب میں کالج میں تھا تو اس وقت حضرت صاحب ( حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ) نے مجھے بلڈنگ کے بعض حصوں کے لئے بعض افراد سے چندہ لینے کی بھی اجازت دی تھی.میں سب کو یہی سمجھاتا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں پیسہ بہت دیا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک پیسہ بھی ضائع کرنے کے لئے نہیں دیا.اس واسطے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ایک پیسہ، ایک دھیلہ بھی ضائع نہ ہو بلکہ جو پیسہ ملا ہے اس کا صحیح مصرف ہونا چاہیے.ایک دفعہ میں یہاں سے گاڑی میں جارہا تھا تو اس میں کچھ پڑھے لکھے اچھے عہدیدار بیٹھے ہوئے تھے ، میں سٹیشن سے سوار ہوا.جب گاڑی چلی تو وہ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ یہ بڑے امیر لوگ ہیں یہ دیکھو انہوں نے یہ بنادیا.سکول آیا

Page 367

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۵۳ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء تو کہنے لگے کہ انہوں نے اتنابڑ اسکول بنادیا ہے بڑی امیر جماعت ہے، وہاں سے ہمارے دفاتر اور ہسپتال تو نظر نہیں آتے ، پھر کالج آیا تو کہنے لگے اتنا بڑا کالج بنادیا بہت امیر لوگ ہیں.جس وقت ربوہ کی دولت و امارت پر ان کی تنقید ختم ہوئی تو میں نے انہیں کہا کہ میں یہاں رہتا ہوں اور احمدی ہوں.ہم واقعی بہت امیر ہیں لیکن ہماری دولت روپیہ نہیں ہے، ہماری دولت وہ رحمتیں ہیں جو ہم خدا سے وصول کرتے ہیں اور وہ برکت ہے جو خدا ہمارے پیسے میں ڈالتا ہے.میں نے پرانے کالج کی بلڈنگ بنوائی تو وہ ستا زمانہ تھا، اس زمانے میں قریباً پندرہ روپے فٹ کے حساب سے عام عمارت بنتی تھی اور کالج کی عمارت کی تو دیوار میں اونچی تھیں اور چھتیں اور قسم کی تھیں اس پر زیادہ خرچ ہونا چاہیے تھا لیکن میں خود یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ ہمارا سارا خرچ ۶ ، ۷ روپے فٹ کے درمیان آیا.خدا نے اتنی برکت ڈال دی.ہمیں یعنی احمدیوں میں جو منتظم ہیں ان کو خرچ کرتے وقت دیکھنا پڑتا ہے اور میرے علاوہ جواب منتظم ہیں ان کو دیکھنا چاہیے مثلاً جب میں افسر جلسہ سالا نہ تھا تو ہم نے اپنی ضرورت کی چیزوں کا با قاعدہ چارٹ بنا کر یہ ذہن میں رکھا ہوا تھا کہ فلاں چیز سال میں فلاں موسم میں سب سے سستی ہے.مثلاً آلو کی برداشت ۲۰،۱۸ دسمبر سے شروع ہوتی ہے اور سب سے سستا آلوان دنوں میں ہوتا ہے.کارکنوں کو بعض دفعہ تکلیف بھی ہوتی تھی مگر میں آدمی بھیجتا تھا اور کہتا تھا کہ سب سے سستا لینا ہے جاؤ فی الحال ایک وقت کا لے کر آؤ.پھر جاؤ اور پھر دوسرے وقت کا لے کر آؤ.اس طرح ہم سامان اکٹھا کرتے تھے اور ہم نے پتا نہیں کیوں بڑا لمبا عرصہ یعنی میں نے اپنا افسر جلسہ سالانہ کا قریباً سارا زمانہ خالص گھی استعمال کیا ہے، بناسپتی نہیں استعمال کیا اور خالص گھی سرگودھا کی منڈی میں جب سب سے سستا آتا تھا اس وقت ہم لے لیتے تھے.اسی طرح جس وقت مئی میں گندم کی پیداوار آتی تھی تو اس وقت گندم خرید کر سٹور کر لیتے تھے اس سے بڑا فرق پڑ جاتا ہے.جس وقت ایک جنس سال میں سب سے سستی ہے اس وقت اس کو خرید کر سٹور کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے اس کی طرف توجہ کریں اور یہ برکت ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ عقل اور فراست دی ہے کہ خدا کے مال کو ضائع نہیں ہونے دینا اس لئے جو سستے ترین زمانے میں چیز ملاتی

Page 368

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۵۴ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء ہے وہ خریدو اور اس کو استعمال کرو اور اس کو ضائع نہ کرو.کچھ تو ضائع ہو جاتی ہے مثلاً روٹی ٹوٹ جاتی ہے تو بعض لوگ اسے باسی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ باسی نہیں ہوتی.پھر لاکھ آدمیوں کے لئے یا اسی ہزار آدمیوں کے لئے روٹی پکتی ہے اور اوپر نیچے پڑی رہنے کی وجہ سے اپنی بھاپ سے نرم ہو جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ کچی ہے حالانکہ اس کے بعض حصے کالے بھی ہوئے ہوتے ہیں لیکن انگلیوں کا اور زبان کا بھی احساس یہ ہوتا ہے کہ کچی ہے.اب کوئی ترکیب دنیا سوچے گی تو سب سے پہلے انشاء اللہ ہم اس کو استعمال کر لیں گے.بہر حال بہترین گندم سستے ترین زمانے میں خریدیں یہ برکت والی چیزیں ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی برکت تو اس مال میں آئے گی نا جو آپ اس کے حضور پیش کریں گے اگر آپ اس کے حضور پیش ہی نہیں کریں گے تو وہ برکت کہاں جا کر اپنا ٹھکانہ بنائے گی.پس جہاں تک دولت کا سوال ہے اور خدا کے مال کے خرچ کا سوال ہے خدا کا مال ہوگا تو تبھی مال کے خرچ میں برکت پیدا ہوگی.اس سال کے ختم ہونے میں ایک مہینہ اور کچھ دن باقی رہ گئے ہیں اور نسبتی آمد خدا تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سال کی نسبت بہت زیادہ فرق سے اچھی ہے لیکن یاد کرانا میری ذمہ داری ہے اور آپ پر کامل حسنِ ظن رکھنا بھی میری ذمہ داری ہے.اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میری جماعت ہے، اس لئے میں آپ پر بدظنی نہیں کرتا اور نہ اس کی ضرورت ہے.جماعت اتنی اچھی ہے کہ اس کو بس یا د کرانا ہی کافی ہے اور میں اپنے ثواب کی خاطر آپ کو یاد کر رہا ہوں کہ اس سال کی آمد کو سال کے ختم ہونے میں جو ایک مہینہ اور چند دن رہ گئے ہیں اس کے اندر پورا کریں تا کہ ہماری جواصل ذمہ داریاں ہیں ان کو ہم پورا کر سکیں یعنی کتابوں کی اشاعت ،مبلغوں کی تیاری ، بچوں کی تربیت ، بڑوں کے ریفریشر کورسز ، دار الضیافت اور ربوہ میں آنے والوں کی خدمت.ربوہ کی فضا میں بھی بڑی برکت ہے.دنیا دار کو تو یہ بات سمجھ نہیں آتی مگر سچی بات ہم نے یہی پائی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے کہ خدا کے بندوں کے جن دیواروں کو ہاتھ لگ جائیں خدا تعالیٰ ان میں بھی برکت رکھ دیتا ہے اور جو کپڑے وہ پہن لیں خدا تعالیٰ ان میں برکت رکھ دیتا ہے اور ربوہ جو جماعت کا مرکز ہے اس کی ہوا میں بھی برکت ہے، اس کی گلیوں میں بھی برکت ہے، اس کی

Page 369

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۵۵ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۸ء دیواروں میں بھی برکت ہے، اس کی سورج کی شعاعوں میں بھی دوسری جگہوں سے زیادہ برکت ہے.اسی واسطے ہم کہتے ہیں کہ یہاں آؤ اور ہماری باتیں سنو.کوئی چوری چھپے کی چیز تو نہیں ہے جو بات کرتے ہیں دلیل سے کرتے ہیں اور اپنی طرف سے تو کچھ نہیں بنایا جو خدا نے کہا اور جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر کی اسی کو ہم آگے پہنچا دیتے ہیں.کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، جو سمجھے اس کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمتوں سے بہت نوازے اور جو نہ سمجھے اس کے لئے بھی دعا کرتے ہیں.عجیب قوم ہے جماعت احمدیہ، جو ہم سے غصے ہوتا ہے اس کے لئے بھی ہم دعا کرتے ہیں اور جو پیار سے گلے لگنے کے لئے آگے بڑھتا ہے اس کے لئے بھی دعا کرتے ہیں.ہم دونوں کی خیر خواہی کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کے لئے خیر کے اور خوشحالی کے اور برکتوں کے سامان پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں کو اپنی ذمہ داریاں نباہنے کی توفیق عطا کرے.谢谢谢 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 370

Page 371

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۵۷ خطبه جمعه ۳۱ / مارچ ۱۹۷۸ء ذکر الہی بڑی مؤثر نیکی اور زیادہ قائل کرنے والی چیز ہے خطبه جمعه فرموده ۳۱ / مارچ ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے دل اطمینان پکڑتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.يَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ آنَابَ (الرعد: ۲۸) خدا تعالیٰ ہدایت کی راہیں اُن لوگوں پر کھولتا ہے جو اُس کی طرف جھکتے ہیں اور اُس سے تعلق قائم کرتے ہیں.الَّذِینَ آمَنُوا جو لوگ دل سے ایمان لاتے ہیں اور زبان سے اس کا اقرار کرتے ہیں اور ایمان کے مطابق عمل کر رہے ہوتے ہیں.وَتَطْمَين قُلُوبُهُم بِذِكْرِ الله (الرعد: ۲۹) اور اُن کی ساری کی ساری زندگی ثابت کرتی ہے کہ اُن کے دل خدا تعالیٰ کے ذکر سے مطمئن ہیں.الا بذکرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد : ٢٩) اور حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے انسانی قلوب اطمینان اور تسکین خوشی اور مسرت کی کیفیت محسوس کرتے ہیں.دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں اور لوگوں کے ایسے گروہ ہیں جو ڈ نیوی لحاظ سے بہت ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں لیکن جب ہم ان کی زندگیوں پر غور کرتے ہیں تو اُن کی انفرادی اور

Page 372

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۵۸ خطبه جمعه ۳۱ / مارچ ۱۹۷۸ء اجتماعی زندگی میں ہمیں اطمینان کا فقدان نظر آتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ انہیں دنیا سے بہت کچھ ملا لیکن ان کو اطمینان قلب حاصل نہیں ہوا اور وہ اس کی تلاش میں ہیں.اگر انسان سوچے تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہی انسان کو مطمئن کر سکتی ہے اور اس کے دل میں اطمینان پیدا کر سکتی ہے.انسان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے تسکین قلب حاصل ہوسکتی ہے.ایک دوسری جگہ انسانی زندگی پر نماز اور نماز با جماعت کے اثرات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ لَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ (العنکبوت : ۴۲) یہ جو خدا تعالیٰ کا ذکر ہے سب سے بڑی اور سب سے زیادہ مؤثر نیکی ہے.خدا تعالیٰ کا ذکر سب سے زیادہ قائل کرنے والی چیز ہے.خدا سے دوری کی لعنت سے بچانے والی چیز ہے.”ذکر“ کے معنے ہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا.اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے جو انعامات نازل ہوتے ہیں ہم اُن پر غور کریں.ہم اپنی بے کسی کو سامنے رکھیں اور اس کی نعمتوں پر توجہ دیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل کیا ہے.ہماری زندگی کی کوئی ایک بھی ساعت ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہم پر نازل نہ ہورہی ہو.ایک یا دو رحمتوں کا سوال نہیں بلکہ ہر آن اور ہر گھڑی اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہم پر نازل ہورہی ہیں اور میں یہ جو کہتا ہوں کہ ہر گھڑی اور ہر آن بے شمار رحمتیں نازل ہو رہی ہیں تو اس میں میں کوئی مبالغہ نہیں کر رہا.یہ ایک حقیقت ہے جس کی وسعتوں کا ہمارے الفاظ احاطہ نہیں کر سکتے حقیقت اس سے بھی زیادہ ہے جتنی ہم بیان کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں.مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ ( الجاثية : ۱۴) فرمایا اس کائنات کی ہر شے کو انسان کی خدمت پر لگا دیا ہے اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہے ہر شے بلا استثنا انسان کی خدمت پر لگی ہوئی ہے.دنیا کی ہر چیز کی زندگی کا ہر پہلو خدا تعالیٰ کے حکم کا محتاج ہے.مثلاً درختوں میں سے ان درختوں کو لیں ، جو پت جھڑ کرتے ہیں.پت جھڑ کرنے والے درختوں میں سے ان کو لیں جو موسم خزاں میں پت جھڑ کرتے ہیں.موسم خزاں میں پت جھڑ کرنے والوں میں سے صرف شیشم کے درخت کو لیں.شیشم کے درختوں میں سے صرف ایک شیشم کے درخت کو لیس اس

Page 373

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۵۹ خطبه جمعه ۳۱ / مارچ ۱۹۷۸ء ایک درخت کے اوپر جو پتے ہیں ان کا گننا بھی مشکل ہے اور ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر درخت کے پتے خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہ اپنی ٹہنی پر قائم رہ سکتے ہیں نہ اس ٹہنی کو چھوڑ کر گرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہر درخت کے ہر پتے پر نازل ہو رہا ہے اور یہ اس لئے نازل ہو رہا ہے کہ وہ درخت نشو و نما پا کر انسان کی خدمت کر سکے.پس خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے تو غیر محدود ہیں.خدا تعالیٰ کی ایک ساعت کے جلوے بھی ہماری عقل کے احاطہ سے باہر ہیں.خدا تعالیٰ کی صفات کے غیر محد و دجلوے کائنات کی ہر چیز پر اس لئے ظاہر ہورہے ہیں کہ وہ انسان کی خدمت کے لئے تیار ہو سکے.ہر چیز کے اندر یہ اہلیت پیدا ہو سکے کہ وہ انسان کی خدمت کرے اور اگر وہ جلوہ انسان پر ظاہر ہو تو یہ انسان کے فائدہ کے لئے ہوتا ہے مثلاً انسانی نوع کی بجائے ایک فرد کو لے لیں میں بھی خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں.میں اپنے آپ کو لے لیتا ہوں میری زندگی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے.جس طرح آپ میں سے ہر ایک کی زندگی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے اسی طرح میری زندگی بھی دوحصوں میں بٹی ہوئی ہے.ایک میرا جسم ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت ہے اور ایک میری روحانی قوتیں اور استعدادیں ہیں اور وہ يَهْدِى إِلَيْهِ مَنْ آنَابَ کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی محتاج ہیں جب تک ہم اس کی طرف نہ جھکیں ہم ہدایت نہیں پاسکتے.میں چونکہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں اس لئے مادی حصے یعنی مادی جسم کو لیتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان بھی ایک کائنات ہے اور اس کا ئنات کے ایک چھوٹے سے حصے کو لے کر میں اپنی بات آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.مثلاً میری انگلی ہے میرا دماغ اس کو حکم دیتا ہے یہ حکم میرے دماغ سے میری انگلی تک اعصاب(Nerves) کے ذریعہ پہنچتا ہے اور یہ کوئی لمبی رسیاں نہیں ہوتیں بلکہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں جن کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے.جس وقت دماغ حکم دیتا ہے اس وقت خدا تعالیٰ کی قدرت کا جلوہ اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ ہر فاصلے کے درمیان کیمیاوی اجزا کا ایک پل بن جاتا ہے.جب دو فا صلے آپس میں پل کے ذریعہ مل جاتے ہیں تو حکم آگے چلا جاتا ہے، پھر آگے چلا جاتا ہے، پھر آگے چلا جاتا ہے.گویا ایک لمحہ کے ہزارویں حصے میں دماغ کا حکم بڑی

Page 374

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبه جمعه ۳۱ / مارچ ۱۹۷۸ء تیزی کے ساتھ یہ فاصلے طے کر لیتا ہے، گویا ایک لمحہ کے ہزارویں حصے میں کیمیاوی اجزا پر مشتمل کوئی چیز پیدا ہوتی ہے اور اس طرح دماغ کا حکم انگلی تک پہنچ جاتا ہے.سائنس دانوں نے تحقیق کی ہے کہ جس وقت دماغ کا حکم اس پل پر سے گزر جائے تو اگر فوری طور پر خدا تعالیٰ کا دوسرا حکم نازل ہو کر کیمیاوی پل کو وہاں سے ہٹا نہ دے تو اسی وقت انسان کی موت واقع ہو جائے مثلاً ایک مکا باز ہے ( میں تو مکے باز نہیں میں تو پیار کرنے کے لئے پیدا ہوا ہوں ) بہر حال مکا باز با کسنگ کرتا ہے وہ اپنی طرف سے تو اپنے حریف کو زور زور سے مکے مار رہا ہوتا ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس مکے کا حکم دماغ سے چل کر ہاتھ تک ہزار ہا موتوں میں سے گذرا تب جا کر وہ اپنا مکا لگانے میں کامیاب ہوا.پہلے ہم محاورہ کے طور پر یہ کہتے تھے کہ ایک ساعت کا بھی اعتبار نہیں لیکن اب یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ ساعت کے ایک ہزارویں حصے کا بھی اعتبار نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے جب کسی انسان کی جان لینی ہوتی ہے تو اسے فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑتی.سائنس کی نئی تحقیق کے مطابق وہ پل کو کہے گا اپنی جگہ پر کھڑارہ اور پل کے وجود کا قیام انسانی زندگی کا اختتام ثابت ہوگا.پس خدا تعالیٰ کے یہ بے شمار احکامات ہیں جن کو اسلامی اصطلاح میں ہم حکم بھی کہتے ہیں اور امر بھی کہتے ہیں اور وحی بھی کہتے ہیں.یہ احکامات باری تعالیٰ جو بے شمار اور غیر محدود ہیں اس کائنات کی ہر چیز پر اس لئے نازل ہو رہے ہیں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کا منشا ہے ہر چیز انسان کی خدمت کرے.خدا تعالیٰ اپنے احکام کے ذریعہ انسان کی ایسے رنگ میں پرورش کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء سے خدمت لے سکے یہ ایک چھوٹا سا دائرہ ہے جس میں انسان کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے، بعض دفعہ وہ ابا اور استکبار سے کام لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے دور چلا جاتا ہے.خدا تعالیٰ سے اس کی یہ دوری محض روحانی دوری ہے کیونکہ انسانی جسم تو دور جاہی نہیں سکتا.انسان کے اعصاب تو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اے خدا! تو پل بنا یا نہ بنا حکم خود بخود جسم کے مختلف حصوں میں چلا جائے گا یا وہاں سے ان پلوں کو ہٹا یا نہ ہٹا ہم زندہ رہیں گے، جسم کا کوئی حصہ یہ نہیں کہہ سکتا.خدا تعالیٰ کا حکم تو بہر حال جاری ہے لیکن وہ وحی ،

Page 375

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۶۱ خطبه جمعه ۳۱ / مارچ ۱۹۷۸ء حکم یا امر اور ہدایت جو روحانی زندگی کی نعمتوں کے حصول کے لئے ہے خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کو پانے سے جس کا تعلق ہے اس میں انسان کو آزادی دی گئی ہے تا کہ دوسری دنیا کے انعامات کے جو مختلف حصے ہیں وہ اسے زیادہ سے زیادہ مل سکیں.دوسری مخلوق مثلاً فرشتوں کے متعلق یہی کہا گیا ہے کہ جو کہا جاتا ہے وہ کرتے ہیں کیونکہ ان کی بناوٹ ہی ایسی ہے اس لئے ان کی کوئی خوبی نہیں اس لئے ان کے لئے کوئی ثواب نہیں ، کوئی انعام نہیں کوئی جزا اور سزا نہیں لیکن انسان کے لئے جزا سزا ہے مگر ہے ایک چھوٹے سے دائرہ میں جس کا تعلق اس کی روحانیت کے ساتھ ہے.میں احباب جماعت کو بتایہ رہا ہوں کہ ہماری زندگی کے ہرلمحہ میں ہر جہت سے خدا تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں اس لئے ہماری زندگی کا کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو خدا تعالیٰ کی یاد سے خالی ہو یا ذکر الہی سے معمور نہ ہو.کوئی نا سمجھ اپنی جہالت میں جو مرضی کہہ دے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسلام نے ہمیں بتا دیا ہے اور قرآن کریم نے کھول کر ہم پر واضح کر دیا ہے اس لئے کوئی عقلمند انسان اس علم کے باوجود یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ انسان کے لئے ایک لمحہ بھی خدا تعالیٰ کے ذکر سے خالی رہنے کا کوئی جواز ہے، قطعاً کوئی جواز نہیں بلکہ انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی یاد میں گزرنے کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کی نعماء کا بدلہ اور شکر ادا نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اپنی محدود طاقتوں کے ساتھ غیر محدود نعمتوں کا شکر کیسے ادا کر سکتا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے کہا جتنی تمہیں طاقت دی ہے اس سے زیادہ تم پر بوجھ نہیں ڈالوں گا لیکن اس نے یہ ضرور کہا کہ جتنی طاقت دی ہے اتنا بوجھ برداشت کر لینا تا کہ میری رضا کی جنتوں میں داخل ہو سکو.پس ہم پر دو ذمہ داریاں ہیں.ہم سے مراد افرادِ جماعت احمد یہ ہیں جن کو میں نصیحت کرنے کا حق رکھتا ہوں اور مجاز ہوں.ایک ذمہ داری یہ ہے کہ ہماری زندگی کا کوئی لمحہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خالی نہ ہو.دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زندگی کا ہر لمحہ معمور رکھنے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل میں یہ شدید تڑپ ہونی

Page 376

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۶۲ خطبه جمعه ۳۱ / مارچ ۱۹۷۸ء چاہیے کہ انسانیت جو اسلام سے دور پڑی ہوئی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے خدا تعالیٰ کی ہدایت وہی پائے گا جو اس کی طرف جھکے گا.اس لئے یہ دعا ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق عطا کرے وہ بھی انابت الی اللہ کی توفیق پائیں اور اس کے بدلے میں خدا تعالیٰ ان کی ہدایت کے سامان پیدا کرے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت پر عظیم احسان کئے ہیں.آپ نے انسان کو خدا سے ملا دیا.خدا کرے بنی نوع انسان آپ کے ان احسانوں کو سمجھیں اور آپ پر درود بھیجنے لگیں اور لوگ اپنی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہمیشہ معمور رکھیں.مجلس مشاورت کے ان دو چار دنوں میں ہمارے یہاں جس قسم کی مصروفیت رہے گی اس میں اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خاص طور پر معمور رکھیں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری ہر سوچ اور فکر کو راہ راست دکھائے.ہمارے لئے نور سے معمور ماحول پیدا کرے اور ہدایت کے سامان عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہمارے فیصلوں میں برکت ڈالے اور رحمتوں سے نوازے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۱۱/جون ۱۹۷۸ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 377

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۶۳ خطبه جمعه ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۸ء مبلغین کے لئے دعا کی تحریک خطبه جمعه فرموده ۲۸ را پریل ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گذشتہ شام سے مجھے بخار کی کیفیت ہے اور سر میں اور سارے جسم میں درد ہے لیکن میں اپنے ان مبلغین کے لئے جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں دعا کی تحریک کرنا چاہتا تھا اس لئے میں یہاں آ گیا ہوں اور جس قدر خدا نے مجھے توفیق دی میں آپ کو بتاؤں گا کہ کس طرح ہمارے مبلغین دنیا کے سب براعظموں میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو پھیلانے کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور بزرگی کو قائم کرنے کے لئے تکالیف برداشت کر کے کام کر رہے ہیں.مغربی افریقہ میں بھی کام کر رہے ہیں اور مشرقی افریقہ میں بھی کام کر رہے ہیں ، امریکہ میں بھی کام کر رہے ہیں ، کینیڈا میں بھی کام کر رہے ہیں.جنوبی امریکہ میں مشن کھولا گیا تھا لیکن پھر وہ بند ہو گیا.اب میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ جلد دوبارہ کھل جائے گا، پھر وہ انگلستان اور یورپ کے ممالک میں کام کر رہے ہیں اور جزائر میں کام کر رہے ہیں.ہمارے مبلغین انتہائی کم گزارہ لے کر اور تنگی کی زندگی گزار کر اسلام کی روشنی کو دنیا میں پھیلانے کا کام کر رہے ہیں.وہ خود بھی خوش ہیں کہ ان کا رب کریم ان سے پیار کرتا اور اپنی معجزانہ طاقتوں کے جلوے انہیں دکھاتا ہے اور ہم بھی خوش ہیں

Page 378

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۶۴ خطبه جمعه ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۸ء کہ خدا تعالیٰ نے جماعت کو ایسے نوجوان آدمی اور ایسے نوجوان دل دیئے ہیں کہ جو ان تکالیف کی پرواہ نہیں کرتے اور اشاعت اسلام کے لئے ہر دم اور ہر آن دنیا کے ہر علاقہ میں کوشاں ہیں.صداقت اصولی طور پر اور بنیادی لحاظ سے کسی جبر اور طاقت کی محتاج نہیں ہے لیکن انسان پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس نے یہ سمجھا (اور اب بھی دنیا کے بعض خطوں میں بعض انسان یہ سمجھتے ہیں ) کہ طاقت کے بل بوتے پر صداقت کو دبایا جا سکتا یا مغلوب کیا جا سکتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مادی طاقت نے اس نور کو بجھانے کی کوشش کی جس نے کہ اپنے وقت پر ساری دنیا کو اپنی نورانی شعاعوں کی لپیٹ میں لے لینا تھا.وہ نور جو یورپ میں بھی پہنچا ، افریقہ کے صحراؤں میں بھی پہنچا، جزائر میں بھی پہنچا اور ایران سے نکلتا ہوا افغانستان کے اوپر کے حصوں سے ( جو کہ اب روس کے حصے بن گئے ہیں ) ہوتا ہوا اور بعض دوسرے راستوں سے گزر کر چین.تک بھی پہنچا.اس وقت کی قریباً ساری معروف دنیا تک وہ پہنچا.اسلام کو جس وقت طاقت نہیں ملی تھی اس وقت اپنی کمزوری کی حالت میں بھی وہ اپنے نور کے ذریعہ سے دلوں کو جیتنے والا بنا اور جب ایک وقت میں اس کو طاقت مل گئی تب بھی اس نے دین کے معاملہ میں جبر اور زور اور طاقت سے کام نہیں لیا بلکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اسلامی تعلیم میں بتایا ہے اس کے ماننے والوں نے محبت اور پیار کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ اور حج قاطعہ کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ اور بے لوث خدمت کے ساتھ اور غیر کی زندگی میں خدا تعالیٰ کی طاقتوں کے معجزے دکھا کر علاقوں کے علاقے اسلام کے لئے جیتے.یہ اس وقت کی بات ہے جب دنیا اپنی جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے صداقت کے مقابلہ میں طاقت کا استعمال صحیح اور درست سمجھتی تھی لیکن اب تو دنیا کو بھی یہ سمجھ آگئی ہے (الا ماشاء اللہ بعض علاقوں کو چھوڑ کر ) کہ مذہب کے معاملے میں جبر کا تصور نامعقول ہے کیونکہ مذہب کا تعلق دل سے ہے اور مادی طاقت دلوں پر حکومت نہیں کیا کرتی.مادی طاقتوں کے بھی فائدے ہیں اسی لئے خدا تعالیٰ نے مادی طاقتوں کو بھی پیدا کیا ہے لیکن وہ فائدہ مذہب کا پھیلانا نہیں ہے.کوئی طاقتور ہو یا کمزور اور مسکین ہو وہ دل جو اسلام سے نا آشنا ہیں ان کو خدمت خلق کے ذریعے اور اسلام کے حسن کے جلوے دکھا کر اور اس کے احسان کی قوتوں کا مظاہرہ

Page 379

خطبات ناصر جلد ہفتم کر کے جیتا جاتا ہے.۳۶۵ خطبه جمعه ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۸ء ہم تو ایک غریب جماعت ہیں اور ایک مسکین جماعت ہیں اور ایک عاجز جماعت ہیں اور ایک ایسی جماعت ہیں جس کو اقتدار حاصل نہیں اور ایک ایسی جماعت ہیں جس کو اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں ، ایک ایسی جماعت ہیں جو مالی لحاظ سے غریب ہے اور ایک ایسی جماعت ہیں جس کو اموال دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں جہاں تک کہ مذہب کا سوال ہے، ایک ایسی جماعت ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور فضل اور رحمت سے ایک آگ بھڑک رہی ہے.لَعَلّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء : ۴) جو ہمارے پیارے اور محبوب آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی کیفیت تھی اسی کیفیت کے مطابق ہم نے خدا تعالیٰ کا جو پیار اور اس کی جو نعمتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل کیں وہ دنیا جو ان نعمتوں سے محروم ہے وہ بھی ہماری طرح ان نعمتوں کو حاصل کرنے والی ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار اور محبت کا تعلق رکھنے والی ہو.اسی لئے ہمارے بہت سے نوجوان اور کچھ بڑی عمر کے دوست بھی باہر گئے ہیں اور باہر جاتے ہیں اور تبلیغ کے کاموں میں مشغول ہیں اور یہی نہیں کہ پاکستان کے احمدی غیر ممالک میں تبلیغ کر رہے ہیں بلکہ غیر ممالک میں بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگیاں وقف کرنے والے لوگ پیدا ہو چکے ہیں.ان میں سے بہت سے تو اس وقت اپنے اپنے ملکوں میں کام کر رہے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کو خدا تعالیٰ دوسرے ممالک میں کام کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے جیسا کہ عبدالوہاب بن آدم ہیں.وہ احمدی ہوئے ، پھر انہوں نے وقف کیا ، پھر وہ یہاں آئے اور جامعہ احمدیہ میں شاہد کیا ، پھر وہ اپنے ملک غانا میں گئے اور پاکستانی امیر کے ماتحت انہوں نے وہاں تبلیغ کی پھر وہ انگلستان میں بھیجے گئے اور انگلستان جا کر اس افریقن نے جس کا دل اور سینہ نور سے بھرا ہوا تھا سفید فام باشندوں کو اسلام کی تبلیغ کی.اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو بڑا ہی پیارا بنایا ہے.وہ مسکراتے ہوئے اسلام کی خوبیاں دوسروں کے سامنے رکھتا تھا اور اب وہ اپنے ہی ملک میں واپس جا کر کام کر رہے ہیں اور ممکن ہے کہ ایک دو سال تک ان کو افریقہ کے کسی اور ملک میں یا امریکہ میں بھجوادیا جائے اور وہ وہاں جا کر کام کریں گے.پس صرف ہمارا ہی ملک واقفین زندگی پیدا نہیں کر رہا بلکہ

Page 380

خطبات ناصر جلد ہفتم ٣٦٦ خطبه جمعه ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۸ء غیر ممالک بھی پیدا کر رہے ہیں.ہمارے انگلستان کے مبلغ آرچرڈ صاحب انہوں نے تعلیم حاصل کی اور وہ با قاعدہ واقف زندگی مبلغ کے طور پر کام کر رہے ہیں.اس کے علاوہ رضا کارانہ طور پر کام کرنے والوں میں تو اس وقت میرے خیال میں درجنوں ممالک شامل ہو چکے ہیں.وہ لوگ عملاً واقفین زندگی ہیں لیکن جماعت سے گزارہ نہیں لیتے.وہ ساتھ اور بھی کام کرتے ہیں لیکن گھنٹے ، گھنٹے، ۸ گھنٹے روزانہ تبلیغ اسلام کا کام کر رہے ہیں.ہمارے ان بھائیوں کا کام ایک رنگ میں فرض کفایہ سمجھا جا سکتا ہے لیکن اصل میں تو یہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی روشنی کو دنیا میں پھیلائے لیکن چونکہ سب لوگ نہیں کر سکتے اس لئے قرآن کریم نے کہا ہے کہ کچھ لوگ مرکز میں آیا کرو اور دین سیکھا کرو اور پھر اپنے علاقوں میں جا کر دین کو پھیلاؤ.ہمارے یہ بھائی جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دے کر خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف اور جو را ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معین کی ہیں جن پر آپ کے اسوہ کے نقش قدم ہمیں نظر آتے ہیں ، جو راہیں خدا تعالیٰ کی محبت اور رضا کی طرف لے جانے والی ہیں ان راہوں کی طرف غیر مسلموں کو پیار اور محبت کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ اور دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ لانے والے ہیں ان کا ہم پر یہ واجب حق ہے کہ ہم ان کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہیں.ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے لیکن ان تھوڑوں اور کمزوروں اور غریبوں اور بے کسوں اور بے سہاروں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ حیرت انگیز طور پر ایک انقلاب عظیم بپا کر رہا ہے لیکن وہ نہ میری کسی خوبی کا نتیجہ ہے نہ آپ کی اور نہ ان مبلغین کی وہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے.لیکن بہر حال یہ مبلغ نمایاں ہوکر اور ممتاز حیثیت میں ایک واقف زندگی کے طور پر غیر ممالک میں کام کرتے ہیں پھر کچھ عرصہ کے لئے یہاں آجاتے ہیں پھر دو چار مہینے کی چھٹی گزار کر یہاں کام کرتے ہیں اور پھر وہ مختلف ممالک میں بھیج دیئے جاتے ہیں.اس کے علاوہ یہاں بھی واقفین زندگی ہیں جو کہ اصلاح اور تربیت کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ اپنی رحمت کے سایہ میں رکھے اور روح القدس سے ان کی مددکرتا رہے اور وہ خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی حفاظت میں رہیں اور ہر شر سے خدا تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے اور ہر خیر کے

Page 381

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۶۷ خطبه جمعه ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۸ء دروازے ان پر کھولے.جماعت احمدیہ کے قیام کے بعد ساری دنیا میں جو اشاعت اسلام کے لئے ایک جہاد اور ایک مجاہدہ شروع ہے اس میں بعض پروگرام بعض خصوصی اوصاف کے حامل بھی ہوتے ہیں مثلاً غا نا میں جوان کے سارے ملک کے یا کسی ریجن کے سالانہ جلسے ہوتے ہیں ان کی حیثیت روزانہ کی تبلیغ سے مختلف ہے.اسی طرح امام وقت باہر جا کر اپنے رنگ میں جو تبلیغ کرتے اور لوگوں سے ملتے اور ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتے اور اسلام کی پیاری تعلیم ان کے سامنے رکھتے ہیں اس کا اپنا ایک رنگ ہے.پھر بعض ایسے مواقع پیدا ہوتے ہیں کہ کوئی واقعہ ہوتا تو کسی ایک ملک میں ہے لیکن اپنے اثر کے لحاظ سے اور اپنے جذب کے لحاظ سے اس کا تعلق ساری دنیا سے ہوتا ہے.مثلاً ۲، ۱۳ اور ۴ / جون کو لندن میں ایک کانفرنس ہورہی ہے جس میں قرآن عظیم کی تعلیم کی صداقت پر خود عیسائی مصنفین بھی مقالے پڑھیں گے.بڑے بڑے عیسائی مصنفین نے تحقیق کر کے کتابیں لکھی ہیں کہ قرآن کریم کا بیان سچا ہے.میں اس کی تفصیل میں تو نہیں جاؤں گا تاہم بڑی ریسرچ ہوئی ہے.قرآن کریم نے اعلان کیا تھا مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبّه لَهُمُ (النساء : ۱۵۸) که حضرت مسیح کے مخالفین انہیں قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے نہ انہیں صلیب پر مارنے میں کامیاب ہوئے.اب عیسائیوں کی طرف سے درجنوں ایسی کتابیں لکھی جاچکی ہیں جو کہ انہوں نے بڑی محنت اور کاوش کے بعد تحقیق کر کے شائع کی ہیں اور ان میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے مخالف ان کو قتل کرنے میں یا صلیب پر ان کی جان لینے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ وہ صلیب سے بچ گئے.قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق امت محمدیہ کو جو تعلیم دی تھی اس کی مخالفت اور وں نے بھی کی تھی لیکن سب سے زیادہ مخالفت عیسائیوں نے کی تھی.ان کے اپنے کچھ عقائد تھے جن کی روشنی میں انہوں نے مخالفت کی لیکن جیسا کہ ہمیں کہا گیا تھا کہ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله (الصف:۱۰) میں جو بشارت دی گئی ہے اس کا تعلق آخری زمانہ سے ہے، وہ آخری زمانہ جو مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے اور اس آخری زمانہ میں اسلام کا مذہب ساری دنیا میں پھیل جائے گا چنانچہ اس زمانہ میں نئی سے نئی تحقیق ہو کر وہ حقائق جو

Page 382

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۶۸ خطبه جمعه ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۸ء حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی سے تعلق رکھنے والے اور ان کی وفات سے تعلق رکھنے والے ہیں ( ہر انسان آخر مرتا ہے.ان پر بھی ایک وقت میں موت آئی ) وہ حقائق کھل کر سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں.تاہم اس کا یہ نتیجہ تو نکلنا چاہئے تھا اور نکلا کہ وہ مفکرین جنہوں نے ایسی کتابیں لکھیں اور جو ابھی تک عیسائی ہیں ان کو بھی عیسائی دنیا نے پسند نہیں کیا اور بعض کو تکالیف پہنچانے کی کوشش بھی کی.یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے کوئی ایسی بات نہیں لیکن یہ کانفرنس جو ۱۲، ۱۳، ۴ رجون کو ہو رہی ہے جب اس کا ذکر اخباروں میں آنا شروع ہوا تو اس کی اچھی خاصی مخالفت شروع ہو گئی ہے اور یہ خوشی کی بات ہے اگر مخالفت نہ ہوتی تو ہم پریشان ہوتے کہ کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کوشش کو قبول نہیں کیا.غرض بعض طرف سے بڑے غصے کا اظہار ہورہا ہے لیکن غصہ اپنی ذات میں بے جا ہے.میں نے بڑا سوچا مجھے تو کبھی غصے کی کوئی معقول دلیل نظر نہیں آئی.جس چیز کو تمہیں عقلی دلائل کے ساتھ یا آسمانی نشانوں کے ساتھ یا معجزانہ قبولیت دعا کے ذریعہ سے صحیح ثابت کرنا چاہئے اس کے مقابلہ میں محض غصہ دکھا دینا تو کسی چیز کو سچ ثابت نہیں کرتا.بہر حال ہمارا کام غصہ کرنا نہیں.جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دلائل کے ساتھ اور پیار کے ساتھ اور دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی متصرفانہ اور معجزانہ طاقتوں کا ثبوت دے کر خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت انسان کے دل میں بٹھانے کی کوشش کریں اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اور متضرعانہ گریہ وزاری کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کے دامن کو پکڑ کر اس سے چمٹ کر اس سے یہ کہیں کہ اے خدا ! تیری توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے قیام کے لئے جو کچھ ہم کر رہے ہیں ہماری ان حقیر کوششوں میں برکت ڈال اور ہماری کوششوں کے مقابلہ میں اتنے عظیم نتائج نکال کہ دیکھنے والے کو کوشش اور نتیجے کا آپس میں کوئی تعلق نظر نہ آئے.پس آپ دعائیں کریں مبلغین کے لئے چاہے ان کا تعلق پاکستان سے ہے یا دوسرے ممالک سے ہے، جو ملک ملک اور علاقہ علاقہ اور ریجن ریجن میں دینِ اسلام کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دے رہے ہیں.خدا تعالیٰ کے حضور اس کو قربانی کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے لیکن بہر حال وہ خدا تعالیٰ کے حضور کچھ پیش کر رہے ہیں، خدا تعالیٰ ان کی اس پیشکش کو خواہ وہ کتنی

Page 383

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۶۹ خطبه جمعه ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۸ء ہی حقیر کیوں نہ ہو قبول کرے اور ان کو ثواب دے اور جس غرض کے لئے وہ کوشش اور جہاد کیا گیا ہے یعنی وحدانیت باری کے قیام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے اس کے ویسے نتائج نکالے جیسا کہ وہ عاجز دل چاہتے ہیں کہ نکلیں.اور دعائیں کریں کہ یہ کا نفرنس جو لندن میں ۱۲، ۱۳، ۴ / جون کو ہو رہی ہے خدا کرے کہ خیر کے ساتھ اور ہر قسم کی برکتوں کے ساتھ اور صلح کے ساتھ اور امن کے ساتھ اور پاکیزہ ماحول میں یہ کانفرنس ہو اور کامیاب ہو اور اس کے نتیجہ میں اس صداقت کو جو صداقت ہے اور صداقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا وہ انسان جو اسے ابھی تک نہیں سمجھ رہے وہ سمجھے لگیں اور اسے نہ سمجھنے کی وجہ سے دنیا کے معاشرہ میں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں وہ خرابیاں دنیا کے معاشرہ سے دور ہو جا ئیں اور تمام بنی نوع انسان ایک خاندان کی حیثیت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر ایک نہایت حسین معاشرہ میں خوشحال زندگی گزار نے لگ جائیں اور ہر قسم کا دکھ اور تکلیف اور درد دنیا سے مٹ جائے اور ہر قسم کی لعنت سے انسان آزاد ہو جائے.اللهم آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 384

Page 385

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۷۸ء رَحْمَةٌ لِلْعَلَمينَ خطبه جمعه فرموده ۵ رمئی ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوست جانتے ہیں مجھے چونکہ ایک دو دفعہ بڑے زور اور شدت سے ہیٹ سٹروک (Heat Stroke) یعنی گرمی لگنے کی تکلیف ہو گئی تھی اس لئے اب گرمی مجھے بہت تکلیف دیتی ہے.کل بہت گرمی پڑ رہی تھی اور ملاقاتیں بھی تھیں اور اس گرمی میں مجھے کچھ وقت ملاقاتیں کرنی پڑیں چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے ساری رات دوران سر کی تکلیف رہی.اس بیماری میں ہر چیز گھومتی معلوم ہوتی ہے.اس وقت بھی اتنی شدت سے تو نہیں تاہم ابھی کچھ تکلیف باقی ہے لیکن اس جمعہ سے میں غیر حاضر نہیں رہنا چاہتا تھا اس لئے یہاں آ گیا ہوں.مختصراً میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑے عظیم الشان اعلان کئے ہیں.ایک تو یہ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود تمام عالمین کے لئے ، تمام کائنات کے لئے رحمت بنایا گیا ہے اور دوسرے یہ کہا کہ آپ کی رسالت كَافَةً لِلنَّاس کے لئے ہے وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا ونَذِيرًا (سبا: ۲۹ ) ساری کی ساری نوع انسانی کے لئے آپ رسول ، بشیر اور نذیر ہوکر مبعوث

Page 386

خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۷۸ء خطبات ناصر جلد ہفتم ہوئے ہیں.دو مختلف سورتوں میں یہ آیتیں ہیں اور ہر دو جگہ اس اعلان کے بعد کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے لئے ، کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اور یہ کہ آپ کی رسالت كافةً لِلنَّاس کے لئے ہے یہودی اور عیسائی اور بدھ مذہب والے اور ہر قوم اور ہر علاقہ کے لوگ اور ہر زمانہ میں پیدا ہونے والے انسان، غرضیکہ آپ کی بعثت کے بعد سے قیامت تک کی ہر نسل آپ کی رسالت کے ماتحت ہے.دونوں جگہ اس اعلان کے بعد آگے ایک وعدے کا ذکر ہے.رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ کے بعد فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ جو وعدہ تم سے کیا گیا ہے وہ کب پورا ہوگا.وَاِنْ اَدرِی ا قَرِيبٌ أَم بَعِيدٌ مَا تُوعَدُونَ (الانبیاء :۱۱۰) رسول بھی بشر ہوتا ہے اور رَحْمَةٌ لِلعلمین بھی بشر ہیں وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے علم نہ ہو کہ وہ وعدہ جس کا ذکر کیا گیا ہے کب پورا ہوگا اور جب كافة للناس کہا تو وہاں یہ بتایا کہ ترقیات کی پہلی تین صدیوں کے بعد جب ایک ہزار سال گذر جائے گا تو اس وعدہ کے پورا ہونے کا زمانہ آجائے گا یعنی چودھویں صدی سے اس وعدہ کے پورا ہونے کا زمانہ شروع ہوگا.پس رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ اور كافة للناس میں ایک وعدہ ہے.ویسے صرف نحو کے لحاظ سے وہاں وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً للعلمین اور وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلا كَافَةُ لِلنَّاسِ ہے یعنی منصوب ہے لیکن جب ہم اس کو الگ بولیں تو کہیں گے کہ آپ رَحْمَةُ لِلْعَلَمِينَ ہیں اور كَافَةً لِلنَّاس کی طرف آپ کی بعثت ہوئی.ان آیات میں یہ وعدہ نہیں کہ آپ مبعوث تو ہوئے ہیں نوع انسانی کی طرف لیکن نوع انسانی کبھی بھی آپ کو قبول نہیں کرے گی.یہ وعدہ نہیں ہے بلکہ وعدہ یہ ہے کہ نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو قبول کرے گی اور سارے کے سارے انسان سوائے چند ایک استثناء کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے.جب وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ بتایا گیا تو پہلی تین صدیوں کا ذکر چھوڑ دیا گیا کیونکہ پہلی تین صدیاں ترقیات کی صدیاں تھیں ان میں اسلام بڑھتا چلا جارہا تھا اسلام عرب میں کامیاب ہوا پھر عرب سے باہر نکلا پھر افریقہ کے براعظم پر چھا گیا ، صرف کامیاب ہی نہیں ہوا بلکہ چھا گیا، پھر وہاں سے نکلا اور ایک طرف سپین کے رستے سے یورپ میں داخل ہوا اور قریباً

Page 387

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۷۳ خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۷۸ء سارے پین کو اپنی رحمت کے احاطہ میں لے لیا اور دوسری طرف ایک وقت میں ترکی کی طرف سے یورپ کے اندر گیا اور ان کے دل جیتتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا.یہاں تک کہ پولینڈ کے دل جیت کر پولینڈ سے پرے جو سمندر ہے اس کے کناروں تک پہنچ گیا اور پھر ماسکو جو آجکل کمیونزم کا دارالخلافہ ہے ابھی ماضی قریب میں ہی تیمور کے زمانے میں یہ اس کی سلطنت کے ایک صوبے کا دارالخلافہ تھا.تیمور کا اطلاعات دینے کا نظام بہت تیز رفتار تھا بادشاہ کو گھوڑوں پر بڑی جلدی ان علاقوں کی خبریں آجاتی تھیں.پھر اسلام چین کی طرف بڑھا تو اس کے اندر گھس گیا.غرض کہ وہ ترقی کرتا چلا جارہا تھا حتی کہ تین صدیوں کے بعد یہ ترقی رُک گئی اور تنزل کا دور شروع ہو گیا.ترقی کے زمانہ میں نظر آ رہا تھا کہ معروف دنیا میں ، معلوم خطہ ہائے ارض میں اسلام بڑھتا چلا جا رہا ہے اور رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ اور كَافَةُ لِلنَّاسِ میں جو بشارت دی گئی تھی اور جو وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا ہوتا نظر آتا ہے لیکن اس کے بعد تنزل آنا شروع ہو گیا.یہ تنزل بھی اس قسم کا نہیں ہے جو دوسروں پر آتا ہے اسلام پر کبھی ویسا تنزل نہیں آیا لیکن بہر حال وہ ترقی رک گئی اور ایک تنزل آنا شروع ہوا.سپین کی حکومت ختم ہو گئی اور وہ ملک مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور مسلمان جو پولینڈ تک آگے گئے ہوئے تھے وہ علاقے ان کے ہاتھ سے نکل گئے اور اب ترکی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو یورپ کے براعظم کے اندر ہے باقی ملک ادھر ہے اور تاشقند اور دوسرے بڑے بڑے علماء پیدا کرنے والے جو علاقے تھے وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے.چین میں بھی حکومت نہیں رہی.پس ایک قسم کا تنزل ہے گو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ اس قسم کا زوال نہیں جیسا کہ دوسری قوموں اور دوسری اُمتوں پر آیا بلکہ اس زمانے میں بھی مسلمان میں روشنی اور جان نظر آتی ہے لیکن حالات کے لحاظ سے ہم اس کو تنزل کا زمانہ کہنے پر مجبور ہیں.دوسری چیز جو ذہن میں آئی تھی پھر رہ گئی وہ یہ ہے کہ اس وقت اسلام ساری دنیا میں پھیل ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ ہمارے ان علاقوں کے انسان کو دنیا کے بہت سے حصے معلوم ہی نہیں تھے مثلاً امریکہ ہے، نیوزی لینڈ ہے، آسٹریلیا ہے، یہ Unknown (غیر معلوم ) علاقے تھے اور انسان کو ان علاقوں کے جغرافیہ کا ہی پتا نہیں تھا وہاں کی آبادیوں کا ہی پتا نہیں تھا.پس اگر اس

Page 388

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۷۴ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۸ء وقت سارے کے سارے انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جاتے اور ہم سمجھتے کہ جمع ہو گئے ہیں تب بھی ساری کی ساری نوع انسانی اسلام کے جھنڈے تلے جمع نہ ہوتی کیونکہ ایسے علاقے تھے ، انسان سے آباد علاقے جن کا ہمیں علم ہی نہیں تھا اور وہاں اسلام کی تعلیم پہنچ ہی نہیں سکتی تھی کیونکہ ان علاقوں اور ان اقوام کو ہم جانتے ہی نہیں تھے.مثلاً فجی آئی لینڈ کی جو پرانی آبادیاں ہیں انہوں نے اس زمانے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہی نہیں سنا تھا.اب ہمارا وہاں مشن ہے اور اللہ کے فضل سے اس پرانی قوم میں سے بھی (جو کہ قریباً چودھویں صدی میں ہی سامنے آئی ہے ) مسلمان ہونے شروع ہو گئے ہیں.غرض ہر دو جگہ پر یعنی جہاں رَحْمَةٌ لِلعالمین کہا وہاں بھی اور جہاں كَافةً لِلنَّاسِ کہا وہاں بھی ایک وعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایک جگہ کہا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کب پورا ہوگا.یہاں قرآن کریم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فکر کی کیفیت بیان کی ہے اور پھر دوسری جگہ خدا تعالیٰ نے خود بتایا کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ چودھویں صدی سے اس وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ شروع ہو جائے گا.اب ہم اس زمانہ میں ہیں اور آج کے زمانہ کے مسلمان پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اس لئے کہ جتنی بڑی بشارتیں کسی اُمت کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس اُمت کے رسول کے ذریعہ سے ملتی ہیں (اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم الانبیاء اور افضل الرسل ہیں ) اتنی ہی بڑی ذمہ واریاں بھی ان پر ڈالی جاتی ہیں اور اتناہی یہ احساس بھی پیدا کیا جاتا ہے کہ انسان اپنے نفس میں اور اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور اس کے اندر کوئی زور نہیں اور نہ کوئی طاقت ہے کہ وہ خدائی امداد اور نصرت کے بغیر اپنے زور سے قربانیاں کر کے ان وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جائے.انسان کو تو یہ کہا گیا ہے کہ جتنی تجھ میں طاقت ہے وہ کر دے اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہے، اس کی نصرت اور اس کی امداد سے ہوتا ہے.پس اس زمانہ میں یہ وعدہ ہے کہ نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر عملاً انسان کے سامنے یہ تصویر پیش کرے گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَحْمَةٌ لِلْعلمین ہیں.اعتقاداً نہیں بلکہ عملاً یہ تصویر پیش کرے گی کیونکہ الا ماشاء اللہ چند ایک استثناؤں کے علاوہ ساری دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان

Page 389

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۷۵ خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۷۸ء لیا اور آپ پر ایمان لا کر آپ کے روحانی فیوض سے حصہ لیا.یہ دعاؤں کے نتیجہ میں ہوگا اور اس دعا کے نتیجہ میں جو اس دل سے نکلی تھی جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعرآء :۴) اور دنیا کے سامنے عملاً یہ نقشہ آ جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک قوم کسی ایک علاقے کسی ایک ملک یا کسی ایک نسل کے لئے رسول نہیں ہیں بلکہ حافة للناس کی طرف آپ کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اور یہ عملاً ثابت ہو جائے گا کیونکہ انسانوں کی بھاری اکثریت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آئے گی اور خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو جائے گا.گو وہ اس شکل میں بیان نہیں ہوا لیکن وہ اپنے معنی کے لحاظ سے اس میں بیان ہو چکا ہے جیسا کہ میں نے کہا ہے ان دونوں آیتوں کے بعد آگے ایک وعدے کا ذکر ہے اور پھر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ وہ وعدہ کب پورا ہوگا اور پھر ایک جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ چودھویں صدی میں اس وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ آجائے گا.پس اس زمانہ میں ہم پر بڑی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں.اس کے لئے ہم کوشش کرتے ہیں لیکن ہماری کوششیں حقیر ہیں.اس کے لئے سب سے بڑی تدبیر یہ ہے کہ ہم اس سے زیادہ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھک کر جتنا کہ انسان کبھی اس کے آستانہ پر جھکا ہو.عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد کے طالب ہوں اور اس کی مددکو پائیں.اللہ تعالیٰ ہم پر فضل کرے.ہم اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں اور ایک کوشش وہ کا نفرنس بھی ہے جس کے متعلق میں نے پچھلے جمعہ میں بتایا تھا کہ وہ لندن میں ہو رہی ہے.اس کا بڑا چر چاہے اور عیسائیت کے بعض حصوں میں بڑا ہنگامہ ہے.سورۃ کہف کے شروع میں ہے کہ ان لوگوں نے بغیر دلیل کے اور بغیر معقولیت کے خدا تعالیٰ کا بیٹا بنالیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس مذہب کو دلائل کے ساتھ توڑا جائے گا اور نا کام کیا جائے گا لیکن وہ لمبا مضمون ہے اور بڑی پیشگوئیاں ہیں کہ کیا حالات پیدا ہوں گے کس طرح یہ قومیں ترقی کریں گی اور کس طرح پگھلیں گی ( دعاؤں کے ساتھ ہی یہ پگھلیں گی ) اور کس طرح یہ مجبور ہو کر اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف واپس لوٹیں گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور آپ کے احسان کی معرفت حاصل کریں گی اور پھر ساری دنیا ایک خاندان

Page 390

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۸ء بن جائے گی.بڑی پیشگوئیاں ہیں اور آج جب کہ دنیا کی ساری طاقتیں اور دنیا کے سارے اموال اور دنیا کی ساری کوششیں اور تدابیر ہمیں اسلام کو مٹانے پر بروئے کار نظر آتی ہیں وہاں ہمیں خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی نظر آتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ تم قربانیوں کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ میری مدد اور نصرت حاصل کرنے کے بعد ہی دنیا میں یہ انقلابی تغیر پیدا کر سکو گے کہ وہ جن کی شکست ، ڈنڈے یا ایٹم بم کے ساتھ نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ ، آج ناممکنات میں سے نظر آتی ہے چودھویں صدی سے وہ زمانہ شروع ہو گیا ہے کہ جب یہ ممکن بن جائے گی اور وہ جو خواب میں بھی اپنی شکست کا تصور نہیں کر سکتے وہ دلائل کے ساتھ عملاً اپنی شکست تسلیم کر کے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف واپس لوٹیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے لیکن دعاؤں کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ.پس آپ بہت دعائیں کریں، ہمارے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ سفر اور حضر میں میرا اور میرے رفقاء کا حافظ و ناصر ہو اور اللہ تعالیٰ آپ کا بھی ہر آن اور ہر لحظہ حافظ و ناصر ہو اور ہر شر سے آپ کو محفوظ رکھے اور ہر بیماری سے آپ کو بچائے اور ہر تکلیف اور دکھ آپ کا دور کرے اور آپ کو تو فیق عطا کرے کہ آپ اپنے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی مقبول دعا ئیں کرنے والے ہوں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 391

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۸ء کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطالعہ کی تاکید خطبه جمعه فرموده ۱۹ رمئی ۱۹۷۸ء بمقام مسجد نور فرینکفرٹ جرمنی ( خطبہ کا مکمل متن دستیاب نہیں ہو سکا جس قدر تفصیل دستیاب ہو سکی وہ درج کر دی گئی ہے.) حضور انور نے مسجد نور فرینکفرٹ میں نماز جمعہ پڑھائی اور ایک بصیرت افروز خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو ایک گھنٹے تک جاری رہا.آپ نے خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ اور آپ کے مقام پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور جماعت کو یہ نصیحت فرمائی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا کثرت سے مطالعہ کرتے رہیں تا کہ اُن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام واضح رہے اور وہ کسی وسوسے کا شکار نہ ہوں.فرینکفرٹ اور اس کے نواحی علاقوں کے علاوہ بعض دور دراز شہروں سے بھی کثیر تعداد میں احمدی احباب اور مستورات نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کی اور حضور کے ارشادات سے مستفید ہوئے.(روز نامه الفضل ربوه ۵ رجون ۱۹۷۸ صفحه ۶)

Page 392

Page 393

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبه جمعه ۲۶ مئی ۱۹۷۸ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام چودھویں صدی کے مجدد اور مجددالف آخر بھی ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۶ رمئی ۱۹۷۸ء بمقام فرینکفرٹ.جرمنی (خلاصه خطبه ) b حضور کے فرینکفرٹ میں قیام کا تیسرا جمعہ تھا.حضور ۲ بجے مقررہ وقت پر مسجد میں تشریف لائے.مسلسل کام کرتے رہنے کی وجہ سے طبیعت میں ضعف تھا لیکن اس کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ نے ایک نہایت بصیرت افروز خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو پون گھنٹے تک جاری رہا.آپ نے آیت کریمہ:.هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ أَيتَ مُحْكَمْتَ هُنَّ أُمُّ الْكِتَبِ وَ أَخَرُ مُتَشْبِهُنَّ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَة إِلا الله وَالرَّسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ أَمَنَا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبَّنَا - (ال عمران : ۸) کی تشریح کرتے ہوئے تفصیل سے بتایا کہ محکمات سے الگ کر کے متشابہات کی پیروی وہی لوگ کرتے ہیں جن کا مقصد جماعت میں فتنہ پیدا کرنا ہوتا ہے ورنہ محکمات اصل اور متشابہات ان کی فرع ہوتی ہیں اور ان میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ہوتا اگر کوئی بظاہر تقضا دلگتا بھی ہے تو وہ محکمات اور متشابہات کے باہمی تعلق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.

Page 394

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبه جمعه ۲۶ مئی ۱۹۷۸ء آپ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوئی اور مقام کو بڑی وضاحت سے بیان کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ آپ مہدی، مسیح موعود اور امام آخر الزمان ہیں.آپ چودھویں صدی کے بھی مجدد ہیں اور مجددالف آخر بھی ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید و نصرت فرمائی.اللہ تعالیٰ کے الہام و کلام کی روشنی میں اپنے دعوی کی بار بار وضاحت کی اس لئے عقلاً بھی آپ کے کلام میں تضاد کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے احباب کو نصیحت فرمائی کہ وہ راسخ فی العلم بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرتے رہیں کیونکہ یہ ایسے روحانی خزائن ہیں کہ جو انسان کی روحانی ترقی اور ہر قسم کے فتنہ اور وسوسہ سے بچنے کا ذریعہ ہیں.حضور کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے اس روز بھی کثیر تعداد میں احباب و خواتین تشریف لائے ہوئے تھے.روزنامه الفضل ربوه ۱۰ جون ۱۹۷۸ء صفحه ۲)

Page 395

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۸۱ خطبہ جمعہ ۲؍جون ۱۹۷۸ء خدا تعالیٰ سے زندہ اور پختہ تعلق ہی انسان کی حقیقی زندگی ہے خطبه جمعه فرموده ۲ جون ۱۹۷۸ ء بمقام مسجد فضل لندن ) (خلاصه خطبه ) سیدنا حضرت خلیفہ السیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد فضل لندن میں ساڑھے بارہ بجے نماز جمعہ پڑھائی اور نماز سے قبل ایک مختصر سے خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا آج چونکہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں یہاں سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس شروع ہو رہی ہے اس لئے میں چند منٹ کے خطبہ پر اکتفا کروں گا.آپ نے فرمایا دوستوں سے میں صرف یہی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اس بات کو ہمیشہ یادرکھیں کہ انسان کو اپنی طرف سے انتہائی طور پر کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ ایک تو وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پاکیزہ وجود بن جائے کیونکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے وہ مطہرین کو پسند کرتا ہے اور ان سے پیار کرتا ہے، دوسرے یہ کہ انسان کی حقیقی زندگی خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ اور پختہ تعلق پر استوار ہونی چاہیے اور چونکہ یہ تعلق خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اس لئے دعا کو اپنی عادت اور شعار بنالینا چاہیے ورنہ اس کے بغیر تو انسانی زندگی کا کوئی لطف نہیں.

Page 396

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۸۲ خطبہ جمعہ ۲؍جون ۱۹۷۸ء حضور نے نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کر کے پڑھائی نمازوں سے فارغ ہو کر احباب کامن ویلتھ انسٹی ٹیوٹ میں جوق در جوق پہنچنے لگے.دیکھتے ہی دیکھتے ہال کچھا کھچ بھر گیا ایک ہی مقام پر ایک ہی چھت کے نیچے مشرق و مغرب، جنوب و شمال سے ہر مذہب وملت اور ملک وقوم کے لوگ جمع تھے.اس لحاظ سے یہ کانفرنس جہاں شرق و غرب کے ہر رنگ ونسل کا ایک حسین امتزاج پیش کرتی تھی وہاں خدا کے اس برگزیدہ مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کی صداقت کی ایک زبردست دلیل بھی تھی جس نے اس وقت غلبہ اسلام کی شمع جلائی تھی جب کہ آپ کی آواز اپنے گاؤں میں بھی کوئی نہیں سنتا تھا مگر بعد میں نہ صرف وہی گاؤں مرجع خلائق بنا بلکہ اب ہزاروں میل دور تثلیث کے بت کدوں میں آپ کے ماننے والوں کا اتنا بڑا ہجوم دیکھ کر ہر احمدی کی زبان اللہ تعالیٰ کی حمد سے تر اور روح خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز تھی.اسلام نسلی اور جغرافیائی امتیاز سے بالا جس حسین و مربوط معاشرہ کے قیام کا دعوی کرتا ہے اس میں بین الاقوامی کا نفرنس نے اس کی شاندار جھلک دکھانے کا ایک عمدہ موقع فراہم کر دیا.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - روزنامه الفضل ربوه ۲۴؍جون ۱۹۷۸ء صفحه ۵،۱) 谢谢谢

Page 397

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۸۳ خطبہ جمعہ ۹؍جون ۱۹۷۸ء اپنے حسن و احسان کے ذریعہ دینِ اسلام کا غلبہ تمام ادیان باطلہ پر مقدر ہے خطبه جمعه فرمود ۹۰ / جون ۱۹۷۸ء بمقام مسجد فضل.لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے.وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ١٠٨) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (التوبة : ٣٣) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے لئے رحمت ہیں اور آپ کا دین باقی ادیان پر غالب آئے گا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کے پہلے دن ہی سے عالمین کے لئے بطور رحمت کے ہیں اور قیامت تک بطور رحمت کے ہیں اور پہلے دن سے ہی یہ مقدر تھا کہ دینِ اسلام تمام ادیان باطلہ پر اپنے حسن و احسان کے ذریعہ سے غالب آئے گا لیکن یہ ایک دن کا کام نہیں تھا یہ صدیوں کا کام تھا چنانچہ پہلے دن سے ہی ایک عظیم مجاہدہ کی ابتدا ہوئی اور یہ مجاہدہ پھیلاؤ میں بڑھتا چلا گیا اور اس کی ترقی کی حرکت میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی اور پیار کے ساتھ اور دلائل قاطعہ کے ساتھ اور حج ساطعہ کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ اور قبولیت دعا کے نشانوں کے ساتھ

Page 398

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۸۴ خطبہ جمعہ ۹/جون ۱۹۷۸ء دنیا کے دل میں آہستہ آہستہ ایک انقلاب پیدا کرتا رہا.ایک نسل کے بعد دوسری نسل یہ ذمہ داری اٹھاتی رہی اور اس مہم کو آگے بڑھاتی رہی.آخر تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد اس مہدی کا ظہور ہوا جس کے متعلق تمام بزرگوں نے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِم کی رُو سے کہا ہے کہ دینِ اسلام کے کامل غلبہ کا زمانہ مہدی کا زمانہ ہے لیکن وہ جو ایک جدو جہد تھی اور غلبہ اسلام کے لئے قربانی اور ایثار پیش کرنے کی مہم تھی وہ تو پہلے دن سے جاری ہو چکی تھی اور آگے ہی آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی جس نے مہدی معہود کے ذریعہ اپنی انتہا کو پہنچنا تھا.اس لئے ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ مہدی علیہ السلام کے ذریعہ اس زمانہ میں تمام ادیانِ باطلہ کے خلاف علمی لحاظ سے ایسا مواد جمع کر دیا جائے گا کہ دوسرے مذاہب کے پیرو اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.ان میں عیسائیت بھی ہے ان میں بدھ مت بھی ہے پارسیوں کا زرتشتی مذہب بھی ہے اور ہندو مذہب بھی ہے ، آریہ اس کا ایک فرقہ ہے جو اسلام کی مخالفت میں بڑی تیزی سے اُبھرا.علاوہ ازیں میری فکر کے مطابق لوگوں کے وہ نظریات بھی اس میں آجاتے ہیں جو مذہب تو نہیں لیکن ازم کہلاتے ہیں یعنی وہ خیالات جن کے ذریعہ کوئی فلسفہ یا انسانی معاشرہ یا کوئی تمدن قائم ہوتا ہے مثلاً اشتراکیت ہے یا سوشلزم ہے اور اسی طرح آئے دن دوسرے بہت سے ازم ہیں جو اُبھرتے اور مٹتے چلے آرہے ہیں.اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اسلام اشتراکیت پر غالب نہیں آئے گا یا سوشلزم پر غالب نہیں آئے گا یا دوسرے نظریات پر غالب نہیں آئے گا بلکہ ہر وہ مذہب اور نظریہ یا دنیوی فلسفہ جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اسلام اُس پر بھی غالب آئے گا.جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور آپ کی تحریرات پڑھتے ہیں یا آپ کے ملفوظات ہمارے زیر مطالعہ آتے ہیں اور اُن پر غور کرتے ہیں تو ہم اِس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ پہلوں نے جو یہ کہا تھا کہ مہدی کے زمانہ میں اسلام ادیان باطلہ اور ہر قسم کے از مز (Isms) پر غالب آئے گا وہ درست کہا تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام تفسیر قرآن اور آسمانی نشانات اور دعاؤں کی قبولیت میں اتناز بر دست مواد ملتا ہے کہ

Page 399

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۸۵ خطبہ جمعہ ۹/جون ۱۹۷۸ء عقلِ انسانی یہ بات سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ وعدہ کا دن یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ وعدہ کا زمانہ آچکا ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ایک دن کا کام نہیں اس کے لئے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے.جہاں تک عیسائیت کا سوال ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دنیائے عیسائیت نے بڑے زبر دست نشان دیکھے.امریکہ میں ڈاکٹر ڈوئی تھا اس کے بڑے دعوے تھے.وہ بڑی شان کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہدی کے خلاف اٹھا تھا اور بڑی ذلّت کے ساتھ اُس نے شکست کھائی تھی اور اُس وقت کے اخبارات اس عظیم نشان سے بھرے پڑے ہیں.پھر خود ہندوستان میں عیسائیوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مناظرہ ہوا جس میں دلائل کے ساتھ اور بڑے عظیم علم کلام کے ذریعہ اسلامی تعلیم کی برتری ثابت ہوئی.یہ آتھم کے ساتھ مناظرہ ہوا تھا جو جنگ مقدس کے نام سے چھپا ہے.پھر نشانوں کی دُنیا میں جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو اُن کے دشمنوں نے صلیب پر لٹکا کر مار دینا چاہا لیکن وہ ناکام ہوئے ، اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے اس مسیح کے خلاف بھی عیسائی دنیا نے سازشیں کیں کہ کسی طرح وہ پھانسی چڑھ جائیں چنانچہ آپ کے خلاف مقدمے بنائے گئے ، ہر قسم کی جھوٹی گواہیاں پیش کی گئیں.حکومت عیسائیوں کی تھی ، گواہیاں عیسائیوں کی تھیں، ان گواہیوں کو مضبوط کرنے والی کچھ اور گواہیاں بھی تھیں.حالات سازگار نہیں تھے لیکن خدا اپنے وعدوں کا سچا ہے جیسا کہ اُس نے کہا تھا ویسا ہی اُس نے کر دکھایا کہ لوگ تیرے ساتھ نہیں ہوں گے لیکن میں تیرے ساتھ کھڑا ہوں گا اور تجھے دشمنوں کی ہر بد تد بیر سے بچاؤں گا.اب یہ جو ڈوئی کا واقعہ ہے یا جو علمی لحاظ سے عیسائیوں کے ساتھ ہندوستان میں مناظرہ ہوا تھا اور اس سے اسلام کی برتری ثابت ہوئی یہ تو اسلام کی ساۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے ہر صدی میں اسلام کے حق میں اسلام کے دشمنوں کے ساتھ بحث کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے وقت وقت کے اولیاء کو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہونے والے اور آپ کے جاں نثاروں کو روحانی علوم سکھائے اور اُنہوں نے مخالف اسلام

Page 400

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۹؍جون ۱۹۷۸ء طاقتوں کا علمی میدان میں مقابلہ کیا.اُنہوں نے مخالف اسلام طاقتوں کا مقابلہ کیا آسمانی نشانوں میں، دعاؤں کی قبولیت میں.اُنہوں نے بڑے نشان دکھائے انسانی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے.کچھ نشان انسان نے یادر کھے اور کچھ کو انسان بھول گیا.یہ تو درست ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ انسانی تاریخ معمور ہے اس قسم کے علمی نشانوں سے اور آسمانی نشانوں سے اور ان نشانوں سے بھی جن کو ہم قبولیت دعا کا نشان کہتے ہیں.پس ایک مسلسل حرکت ہے جس میں ضعف تو آیا لیکن وہ حرکت بند نہیں ہوئی جو اسلام کو غالب کرنے کے لئے پہلے دن سے شروع ہو چکی تھی اور یہ جاری رہی یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آ گیا.آپ کی زندگی ایک عظیم مجاہد اسلام کی زندگی ہے.آپ کا جو عمل تھا وہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند اور آپ کے ایک عظیم محبوب کا عمل تھا.خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور جلال کو قائم کرنے کے لئے آپ کو جو نشانات دیئے وہ ہر میدان میں عظیم تھے لیکن وہ پہلی جو حرکت تھی اور تحریک جاری ہوئی تھی اسلام کے غلبہ کے لئے اور جس کے اثرات آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے تھے اُن سے وہ کٹی ہوئی نہیں تھی بلکہ اس جدو جہد کے تسلسل میں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک سے شروع ہوئی تھی.شاید کسی نے یہ خیال کیا ہو کہ اتنا بڑا واقعہ ہو گیا ڈوئی کے ساتھ اور عیسائیت کو اس قدر عظیم شکست ہو گئی اب شاید کوئی فوری انقلابی تبدیلی ظاہر میں نظر آنے والی پیدا ہو جائے عیسائی دنیا میں لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ مقدر یہ ہے اور پہلے سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ یہ جہاد جاری رہے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ ابھی تین صدیاں نہیں گزریں گی یعنی تین صدیاں حتمی ہیں ان کے اندر اندر ہو سکتا ہے ڈیڑھ صدی میں اور ہو سکتا ہے دو صدیاں لگ جائیں، اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّه کا یہ اعلان اپنی پوری شان کے ساتھ دُنیا کے سامنے عملاً ایک صداقت کی شکل اختیار کر جائے گا اور واقعہ میں اسلام دُنیا کے ہر خطہ میں اور دُنیا کے ہر مذہب

Page 401

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۸۷ خطبہ جمعہ ۹/جون ۱۹۷۸ء پر غالب آئے گا اور دنیا میں اسلام ہی اسلام ہو گا اور ایک ہی خدا ہو گا جس کی پرستش کی جائے گی اور ایک ہی پیشوا ہو گا محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس کی عظمت اور جلال کے ترانے گائے جائیں گے.یہ جو ہماری کانفرنس ہوئی ہے یہ بھی اسی جہاد کا ایک حصہ ہے.یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ۳/۲/ ۴ جون کو ہماری کانفرنس ہوئی اور ۵/ جون کو ساری دنیائے عیسائیت نے اسلام کو قبول کر لینا ہے.یہ ایک اور قدم ہے جو آگے بڑھا ہے.امت محمدیہ نے تبلیغی میدان میں خدائی وعدوں کے مطابق جتنے قدم آگے بڑھائے ہیں اُن میں سے ہر قدم پر مخالفین کی زندگی میں ایک موافق اسلام حرکت پیدا ہوتی رہی ہے اور ان کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا جاتا رہا ہے.شروع سے آخر تک ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ آہستہ آہستہ عظیم تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں.یہ ایک بہت لمبا مضمون ہے اس کے لئے ساری صدیوں پر غور کرنا پڑے گا.ہم جب اپنے زمانہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اسلام نے عیسائیوں کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب اور تبدیلی پیدا کر دی ہے.ایسے ہی جیسے کسی چیز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جائے اسی طرح غیر مذاہب کی حالت ہو گئی ہے لیکن ابھی یہ وقت نہیں آیا کہ ہم آرام کریں اور سمجھ لیں کہ جو کام ہم نے کرنا تھا وہ کر لیا ہے.ابھی ہماری کئی نسلوں کو خدا اور خدا کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربانیاں دینی پڑیں گی.ابھی کئی میدانوں میں ہمیں ادیان باطلہ کا مقابلہ کرنا پڑے گا دلائل کے ساتھ بھی اور آسمانی نشانوں کے ساتھ بھی اور قبولیت دعا کے ساتھ بھی.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض Challenges ( چیلنجز ) کو مسیحی دنیا کے سامنے دہرایا تھا.یہ ۱۹۶۷ء کی بات ہے ابھی تک اُنہوں نے چیلنج قبول نہیں کیا.تین سال ہوئے ڈنمارک کے ایک صحافی ربوہ آئے تو اُن سے میری بات ہوئی تھی.کہنے لگے پادری کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے بڑی سختی کی تھی.میں نے کہا میں نے سختی تو کوئی نہیں کی تھی.میں نے تو اُن کو یہ کہا تھا کہ آؤ مقابلہ کر لو.خدا تعالیٰ آپ ہی فیصلہ کر دے گا کہ وہ کس کے ساتھ ہے اور کس کے ساتھ نہیں ہے.وہ کہنے لگا اچھا یہ بات ہے میں جا کر اُن کی خبر لیتا ہوں.یہ تو مجھے علم نہیں کہ اُس نے خبر لی یا نہیں لی لیکن اس کے دماغ پر یہ اثر ضرور تھا کہ اس کو سختی نہیں کہا کرتے.

Page 402

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۸۸ خطبہ جمعہ ۹؍جون ۱۹۷۸ء پس ہم تو عیسائیوں سے کہتے ہیں ہمارے ساتھ محبت کے ساتھ اور آشتی کے ساتھ اور صلح کی فضا میں تبادلۂ خیال کرو.جہاں تک مذہب کا سوال ہے اس کا تعلق انسان کے دل اور دماغ کے ہے.ساتھ ہے جسے انگریزی میں Heart اور Mind کہتے ہیں ان کے ساتھ مذہب کا تعلق.انسان دوسرے کا دل جیتتا ہے پیار کے ساتھ اور Mind جیتا ہے دلائل اور نشانات کے ساتھ.پس اسلام میں حسن واحسان بھی بڑا ہے اور اس کی تعلیم میں صداقت اور شوکت بھی بڑی ہے اور اس کی صداقت کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں کے جو نشان ظاہر کرتا ہے اس کی عظمت کے سامنے تو کوئی دوسری چیز بھہر نہیں سکتی.غرض ایک قدم ہم نے اور اُٹھایا.ہماری نسل جو آج زندہ ہے اور جوان ہے اور ذمہ داریوں کو اُٹھائے ہوئے ہے ان کو پتا نہیں اس میدان میں کتنے اور قدم اٹھانے پڑیں گے.اس کے بعد پھر دوسری نسل آجائے گی اور پھر اگلی نسل آجائے گی.میں نے کئی دفعہ پہلے بھی کہا ہے کہ میرے اندازہ کے مطابق جماعت احمدیہ کی جو دوسری صدی ہے جو غلبہ اسلام کی صدی ہے یعنی ہماری جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی میں وہ تمام وعدے جو غلبہ اسلام کے لئے کئے گئے تھے وہ انشاء اللہ پورے ہوں گے اور وہ عظیم مجاہدہ جو بعثت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شروع ہوا تھا وہ اپنے انتہائی عروج کو پہنچ جائے گا اور اسلام ہر طرف پھیل جائے گا لیکن یہ سمجھنا کہ جون کی پانچ تاریخ ہمارے لئے سو جانے کا دن تھا صحیح نہیں وہ ہمارے لئے سو جانے کا دن نہیں تھا.۳/۲ اور ۴ جون کو ہماری کانفرنس تھی اور پانچ کو پھر ہمارے لئے مجاہدہ کا دن ہے آرام کا دن نہیں تھا.سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے سکھ اور آرام اور چین کا وہ دن ہو گا جب دُنیا کی بڑی بھاری اکثریت کے دل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جیت لئے جائیں گے اور دُنیا کے ہر گھر پر توحید کا جھنڈا لہرا رہا ہوگا.پس تم دعائیں کرو اور اپنے مقام کو پہچانو اور جو ذمہ داریاں ہیں اُن کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی کے دن گزارو اور عاجزی سے خدا سے یہ دعا کرو کہ وہ آپ کو بھی اور مجھے بھی اپنی رضا کی

Page 403

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۸۹ خطبہ جمعہ ۹/جون ۱۹۷۸ء راہوں پر چلائے ، ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرمائے اور جتنی بھی قربانیاں ہیں اُن میں بے شمار گنا زیادہ برکت ڈال دے تا کہ ہم کامیابی کا دن دیکھنے والے ہوں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوہ ۶ جولائی ۱۹۷۸ء صفحہ ۲ تا ۴)

Page 404

Page 405

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۹۱ خطبہ جمعہ ۱۶/جون ۱۹۷۸ء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی میں پوری دنیا کی اصلاح کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مامور کیا گیا خطبه جمعه فرموده ۱۶ جون ۱۹۷۸ء بمقام مسجد فضل - لندن (خلاصہ خطبہ ) حضور انور نے ایک بصیرت افروز خطبہ جمعہ ارشاد فر ما یا جو قریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا.حضور انور کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے مقامی اور غیر ملکی وفود کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی کثیر تعداد میں تشریف لائے ہوئے تھے.حضور انور نے خطبہ جمعہ کے آغاز میں اگلے ماہ افریقہ کے لہی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے دوستوں کو دعا کی تحریک کی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس دورہ کو ان ملکوں کے لئے ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنائے اور ہر قدم پر روح القدس سے تائید و نصرت فرمائے.(آمین) آپ نے فرمایا اُمت محمدیہ میں اولیاء اور محمد دین کا جو سلسلہ جاری رہا ہے اس میں یہ قدر مشترک ہے کہ بے شک انہوں نے اپنے اپنے حلقہ میں زبر دست جہاد کیا لیکن اُن کی کوششوں کا دائرہ کسی خاص شہر یا ملک تک محدود ہو تا رہا ہے.بنی نوع انسان کی ہمہ گیر اصلاح کا کام اُن کے ذمہ نہیں تھا وہ تو صرف نوع انسانی کے کسی نہ کسی ایک حصے کی اصلاح پر مامور ہوتے تھے.یہ شرف صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کو حاصل ہوا ہے کہ رحمتہ للعالمین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 406

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۹۲ خطبہ جمعہ ۱۶ /جون ۱۹۷۸ء کی کامل پیروی میں آپ کا مشن عالمگیر اور آپ کی تبلیغی کوششوں کا دائرہ ساری دنیا پر پھیلا ہوا ہے.چنانچہ آپ نے بھی جب بھی انسان کو مخاطب کیا ہے کسی خاص طبقہ کے لوگوں کی بجائے تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کیا ہے.حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے چند اقتباسات پڑھ کر سنائے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کے تمام لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے خدا دانی اور خدارسی پر زور دیا ہے اور دنیا پرستی کو چھوڑ کر نیکی اور تقویٰ اور بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی ہے.آپ نے فرمایا:.انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرے اور بشری کمزوریوں کے دور ہونے کے لئے ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ر ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو کیونکہ خدا تعالیٰ چاہے تو انسان کے سارے گناہ بخش سکتا ہے.پس انسان کو چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے دعا کے ذریعہ سے اور اس کو راضی رکھنے کی کوشش کرے اس کا ہو کر اور اس میں کھوئے جاکر اور اپنی تمام طاقتوں اور قوتوں پر صفات الہیہ کا رنگ چڑھا کر.اگر انسان کو خدامل جائے تو پھر اسے دنیا کی کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی.پس اصل چیز خدا کا پیار ہے اگر یہ انسان کو حاصل نہ ہو تو اس کے اعمال خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں کسی کام کے نہیں.اس لئے میں جماعت کے ہر فرد سے یہ کہتا ہوں کہ تم خدا کے ہو جاؤ اور شرک کی ہر راہ سے مجتنب رہو.اپنے دل میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار پیدا کرو کیونکہ آپ کا وجود حسن واحسان میں یکتا اور علم وعمل میں کامل ہے.جب تک آپ کا پیار دل میں پیدا نہ ہو اور آپ کی عظمت اور جلالت شان کا احساس نہ ہو اس وقت تک ہم اسلامی احکام پر کماحقہ عمل نہیں کر سکتے.حضور انور نے فرمایا اس وقت جماعت احمدیہ کے افراد پر بہت بڑی ذمہ داری ہے.انسان اور شیطان کے درمیان وہ آخری جنگ جس کے متعلق پہلے نوشتوں میں بھی خبر دی گئی ہے وہ اس وقت لڑی جارہی ہے اور یہ وہی جنگ ہے جس میں فتح یاب ہو کر ہم نے دنیا میں تو حید حقیقی کو قائم کرنا ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کو دنیا کے کونے کونے میں اجاگر کرنا ہے اور بنی نوع انسان کے لئے حقیقی امن اور خوشحالی کے سامان پیدا کرنے ہیں لیکن یہ

Page 407

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۹۳ خطبہ جمعہ ۱۶ /جون ۱۹۷۸ء ایک دن کا کام نہیں ہے اس کے لئے برسوں ہمیں نسلاً بعد نسل قربانیاں دے کر اور عادتوں کو بدل کر اور گند سے نکل کر اور گندی عادتوں کو چھوڑ کر اور نیکی کا لبادہ پہن کر اور خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اعمال پر چڑھا کر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار میں فنا ہو کر یہ جنگ جیتنی ہے.اس لئے جماعت اپنے اندروہ فرقان پیدا کرے جو الہی سلسلوں کا طرہ امتیاز ہے تاکہ دنیا خود بخود اسلام کی طرف کھینچی چلی آئے.حضور نے آخر میں فرما یا جماعت احمدیہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس کا مقام کیا ہے اور وہ کون سی ذمہ داریاں ہیں جو اس پر ڈالی گئی ہیں.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ اس نے جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کی مہم کے لئے چن لیا ہے.اس انعام پر جماعت خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو اپنے درخت وجود کی شاخیں قرار دیا ہے اور بشارتیں دی ہیں کہ جماعت کے لوگ جو صدق و وفا کا نمونہ بن جائیں گے وہ جس چیز کو ہاتھ لگا ئیں گے خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا.چنانچہ ہزاروں لاکھوں احمدی اس بات کے گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان سے پیار کیا اور اُن کے وجود کو اپنی برکتوں اور رحمتوں کا نشان بنادیا.حضور نے فرمایا میں احباب جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خدا کے اس پیار کو اور اس کے احسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرنے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری کتابوں کو خود بھی پڑھیں اور اپنی اولادوں کو بھی پڑھائیں کیونکہ آپ کی کتابوں میں وہ سب علوم بیج کے طور پر یا تفصیلی رنگ میں موجود ہیں جو ہمارے ذہنوں میں نور فراست پیدا کرتے ہیں اور ہمیں اس لائق بنا دیتے ہیں کہ الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا دنیا کو قائل کر سکیں کہ تمہاری نجات اور بھلائی اور خوشحالی کے سامان صرف اور صرف اسلام میں ہیں اور کہیں نہیں.روزنامه الفضل ربوہ ۶ جولائی ۱۹۷۸ء صفحہ ۱، ۸)

Page 408

Page 409

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۹۵ خطبہ جمعہ ۷ / جولائی ۱۹۷۸ء اشتراکیت کا دعویٰ تھا کہ وہ زمین سے خدا کے نام کو اور آسمان سے اس کے وجود کو مٹا دیں گے خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ جولائی ۱۹۷۸ء بمقام مسجد فضل.لندن تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.خطبہ جمعہ کے آغاز میں حضور اقدس نے اپنے دورہ افریقہ کے سلسلہ میں پیدا ہونے والی بعض مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے احباب سے فرمایا کہ وہ دعا کریں اگر اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں یہ سفر خیر و برکت کا موجب ہے تو اپنے فضل سے اس کے سامان پیدا کر دے اور اگر اس کی حکمت کا ملہ اور سفر کو پسند نہ کرتی ہو تو ہمارے جانے میں رکاوٹ پیدا ہو جائے.آپ نے فرمایا موجودہ زمانہ میں سب سے بڑا د باؤ اسلام پر اسلام کے دشمنوں خاص طور پراشترا کی دہریت اور عیسائیت کی طرف سے یہ پڑ رہا ہے کہ کچھ نرمی کا طریق تم اختیا کرو اور کچھ ہم اختیار کرتے ہیں.آپ نے فرما یا اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے اسلام کو مداہنت کی یہ پیشکش بتاتی ہے کہ ان کی دنیوی طاقت کو بزوال ہے ورنہ جہاں تک اشتراکیت کا تعلق ہے وہ لوگ تو یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ وہ زمین سے خدا کے نام کو اور آسمان سے اس کے وجود کو مٹادیں گے اور اب ان کا یہ حال ہے کہ وہ مسلمان ملکوں سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے لگے ہیں.اسی طرح نو آبادیاتی طاقت

Page 410

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۹۶ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۸ء کے بل بوتے پر عیسائیت بھی دنیا کے ایک بڑے حصے پر چھا گئی اور ہر قسم کے ناجائز ذرائع کو استعمال کر کے اور لالچ دے کر بڑا عروج حاصل کر لیا یہاں تک کہ عیسائی پادری یہ دعوے کرنے لگے کہ ہندوستان میں کوئی مسلمان ڈھونڈنے سے نہ ملے گا بلکہ وہ دن دور نہیں جب مکہ اور مدینہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرانے لگے گا اور افریقہ تو گویا ان کے قدموں میں ہے.ایسے زمانہ میں تو ان کو مسلمانوں کے ساتھ مداہنت کا خیال نہ آیا لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے روحانی علوم سیکھ کر عیسائیت کے خلاف ایک زبر دست علم کلام پیدا کر دیا اور عیسائی اس کی تاب نہ لا سکے تو پھر وہ مداہنت پر اُتر آئے کہ کچھ تم نرمی کرو کچھ ہم نرمی کرتے ہیں جو ہو گیا سو ہو گیا.نہ تم عیسائیوں کو مسلمان بناؤ نہ ہم مسلمانوں کو عیسائی بناتے ہیں.فرمایا: یہ تو مداہنت یا منافقت ہے جو ان کے عقائد کی کمزوری پر دلالت کرتی ہے.حضور اقدس نے قرآن کریم کی سورہ قلم کی بعض ابتدائی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے تفصیل سے بتایا کہ دشمنانِ اسلام کی طرف سے اس قسم کی پیشکش در اصل ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے.جس کا ظہور اسلام کی پہلی تین صدیوں میں بھی ہوتا رہا اور اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں کا سر صلیب کے زمانہ میں بھی ہو نا مقدر تھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی میں دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ سے، آسمانی نشانوں اور قبولیتِ دعا کے اعجاز سے عیسائی عقائد کا سارا تار و پود بکھیر کو رکھ دیا تو عیسائیوں نے شور مچا دیا.حالانکہ یہ امر واقعہ ہے جس کے اظہار سے ناراض ہونے کی بجائے عیسائیوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے تھی.آپ نے فرمایا:.عیسائیوں کا یہ کہنا کہ ہم مسلمان ان کے جذبات کا خیال رکھیں بالفاظ دیگر ہم ان کے اس عقیدہ سے چشم پوشی کریں کہ گویا حضرت مسیح علیہ السلام خدا تعالیٰ کی خدائی میں شریک تھے ہم ایک لمحہ کے لئے بھی یہ سوچ نہیں سکتے.کیونکہ الوہیت مسیح کا عقیدہ ہمارے ایمان کے خلاف ہے ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نہ تو خدا تھے اور نہ ان میں خدا نے حلول کیا تھا.وہ عام انسانوں کی

Page 411

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۳۹۷ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۸ء طرح ایک انسان تھے البتہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی تھے اس سے زیادہ کچھ نہ تھے.حضور نے فرمایا:.اسلام ایک سچا مذ ہب ہے اور اس کی تعلیم حق و حکمت پر مشتمل دنیا کے لئے سراپا رحمت و برکت ہے.اس لئے اسلام کی طرف سے کسی مذہب کے ساتھ مداہنت اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اسلام کا تو یہ دعوی ہے کہ وہ دنیا کے دل جیتے گا اور جب دنیا کے دل جیت لئے جائیں گے.تو لوگ اپنے غلط عقائد کو خود بخود چھوڑ دیں گے اور اسلام کے آب حیات سے نئی زندگی پائیں گے.حضور اقدس نے آخر میں فرمایا :.دنیا کے دل جیتنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ایک زبردست روحانی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے.اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم روشن دلائل اور حج قاطعہ کے ساتھ ، دعاؤں کی قبولیت اور آسمانی نشانوں کے ساتھ ، اخلاق فاضلہ اور نیک نمونہ کے ساتھ ، ایمان کامل اور یقین محکم کے ساتھ اور پیار و محبت کے خلق عظیم کے ساتھ اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیں.و باللہ التوفیق.حضور نے نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کر کے پڑھائی اور پھر مکرمہ اختر النساء ہمشیرہ صاحبہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ محترمہ محمودہ آصفه صاحبہ (بنت حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ، ہمشیرہ مکرم داؤد احمد گزار صاحب ساؤتھ ہال لندن اور محترمہ حنیفہ بیگم صاحبہ ہمشیرہ مکرم محمد شریف صاحب اشرف لندن کی نماز جنازہ غائب پڑھائی.مرحومات پاکستان میں انتقال کر گئی تھیں.(روز نامه الفضل ربوہ ۱۹ / جولائی ۱۹۷۸ ء صفحہ ۵،۲)

Page 412

Page 413

خطبات ناصر جلد ہفتم ۳۹۹ خطبہ جمعہ ۱۴ / جولائی ۱۹۷۸ ء صد سالہ جو بلی فنڈ کے ذریعہ نو زبانوں میں قرآن کریم کی اشاعت ہوگی خطبه جمعه فرموده ۱۴ جولائی ۱۹۷۸ء بمقام مسجد فضل.لندن تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.حضور نے نصرت جہاں ریز روفنڈ کی الہی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے جماعت کی قربانیوں کو نوازا اور بے حساب نفع عطا فرمایا.اللہ تعالیٰ نے احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھ میں غیر معمولی شفا بخشی اور احمد یہ کلینکس اور ہسپتال آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گئے لیکن نصرت جہاں سکیم تمہید ہے صد سالہ جو بلی منصوبہ کی جس کا ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا گیا تھا اور جس کے ذریعے سو زبانوں میں قرآن کریم کی اشاعت اور اسلام کی عالمگیر دعوت و تبلیغ کا ایک جامع منصوبہ زیر تکمیل ہے یہ وہ اہم منصوبہ ہے جس کے ذریعے ہم نے دنیا کو اس جہالت سے نکالنا ہے جس میں وہ روحانی طور پر پھنسی ہوئی ہے اور اس گند سے بچانا ہے جس میں وہ اخلاقی طور پر گری ہوئی ہے.ہم نے اس ہمہ گیر منصوبہ کے ذریعہ دنیا کو خالق و مالک خدا کے قدموں میں لا جمع کرنے کا عزم کر رکھا ہے.ہم اس یقین کام پر قائم ہیں کہ گو یہ باتیں اس وقت دنیا کو انہونی معلوم ہوتی ہیں لیکن چونکہ یہ خدانی وعدے ہیں اس لئے اپنے اپنے وقت پر انشاء اللہ پورے ہو کر رہیں گے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایمان کے تقاضے

Page 414

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۰۰ خطبہ جمعہ ۱۴ / جولائی ۱۹۷۸ء پورے کریں اور اپنی سی کوشش کر دکھا ئیں.فتح کا دارو مدار اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر ہے.خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے ذریعہ اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا.لیکن غلبہ اسلام کی اس عظیم الشان کامیابی کے لئے ہمیں اپنے اندر وہی یقین اور قربانی کی روح پیدا کرنے چاہیے جو صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرہ امتیاز تھا.آپ نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خوشخبری دی ہے کہ ابھی تین صدیاں پوری نہیں ہوں گی کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا.جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی جو عنقریب شروع ہونے والی ہے اس کے استقبال کے لئے صد سالہ جو بلی فنڈ کا اجرا کیا گیا ہے.یہ در حقیقت غلبہ اسلام کی صدی ہے جس میں اسلام اپنے عروج کو پہنچ جائے گا لیکن اس کے لئے ہمیں نسلاً بعد نسل قربانیاں دینی پڑیں گی.صد سالہ جو بلی فنڈ بھی انہی قربانیوں کا ایک اہم حصہ ہے.اس منصوبہ کے تحت قرآن کریم کی وسیع پیمانے پر دوسری زبانوں اور ملکوں میں اشاعت کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں تبلیغی مراکز اور مطبع خانے قائم کرنے ہیں.گوا سلام کے عالمگیر غلبہ کی ذمہ داری ہے اس کا سارا بوجھ تو ہم نہیں اُٹھا سکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں جتنی طاقت دی ہے اتنی قربانی دینے سے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے.حضرت صاحب نے انگلستان کے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.انگلستان کی جماعت نے صد سالہ جو بلی فنڈ میں بڑے اخلاص کے ساتھ اور بڑے پیار کے ساتھ اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اچھی خاصی رقم کے وعدے کئے تھے لیکن حصہ رسدی ہر سال جو رقم آنی چاہیے اتنی نہیں آرہی.دوستوں کو چاہیے کہ وہ میرے پاکستان جانے سے پہلے پہلے اپنے بقایا جات ادا کر کے کمی کو پورا کر دیں اور اس بات کو ہمیشہ یادرکھیں کہ دینِ اسلام کی سر بلندی کے لئے مال خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی غیر معمولی برکتوں سے نوازتا ہے.حضور نے ۱۹۷۴ء کے کئی ایمان افروز واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے لئے قربانیاں دینے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عزت بھی بخشی اور دولت بھی عطا کی.

Page 415

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۰۱ خطبہ جمعہ ۱۴ / جولائی ۱۹۷۸ء آخر میں حضور نے فرمایا:.مجھے امید ہے انگلستان کی جماعت اسی جذبہ اور اخلاص کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو ادا کرے گی جس کے ساتھ اس نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا.وَبِاللهِ التَّوْفِیق.(روز نامه الفضل ربوہ یکم اگست ۱۹۷۸ء صفحه ۲)

Page 416

Page 417

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۰۳ خطبہ جمعہ ۲۱؍جولائی ۱۹۷۸ء اسلام نے مرد اور عورت میں کوئی فرق روا نہیں رکھا خطبه جمعه فرموده ۲۱ / جولائی ۱۹۷۸ء بمقام مسجد فضل.لندن تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.حضور نے نماز جمعہ مسجد فضل لندن میں پڑھائی اور ایک نہایت ہی ضروری اور اہم موضوع یعنی میاں بیوی کے تعلقات اور ان کے دوررس اثرات پر بصیرت افروز پیرایہ میں روشنی ڈالی.“ حضور نے فرمایا:.اسلام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جہاں تک دینی اور روحانی ترقیات کا سوال ہے اس نے مرد اور عورت میں کوئی فرق روا نہیں رکھا.رضائے الہی کے حصول کے دروازے جس طرح مردوں پر کھلے ہیں اسی طرح عورتوں پر بھی کھلے ہیں.البتہ یہ صحیح ہے کہ دونوں کی ذمہ داریاں مختلف اور دائرہ ہائے کار الگ الگ ہیں.اسلامی تاریخ میں ایسی کئی مسلمان خواتین کا ذکر کیا گیا ہے جو مقتربات الہیہ مستجاب الدعوات اور اسلام کا بہترین نمونہ تھیں.ان کے دل میں خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے کا ویسے ہی جذبہ کار فرما تھا جیسے مردوں کے دلوں میں تھا.خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے میں وہ مردوں سے پیچھے نہیں رہتی تھیں بلکہ بعض دفعہ تو وہ بہت سے مردوں سے بھی آگے نکل جاتی تھیں.

Page 418

خطبات ناصر جلد ہفتم حضور نے فرمایا:.۴۰۴ خطبہ جمعہ ۲۱؍جولائی ۱۹۷۸ء اس کا ئنات میں نر اور مادہ کا نظام قائم ہے.انسان کے اندر بھی یہ نظام ازدواجی رشتے کی صورت میں قائم ہے.قرآن کریم نے اس رشتے کو کھیتی سے تعبیر کیا ہے.مرد کی حیثیت اس کھیتی میں ایک اچھے پیج کی ہے یعنی اچھی کھیتی تبھی پیدا ہوتی ہے جب بیچ اچھا ہو اور کھیتی کے حقوق پورے کئے جائیں.عورت کو معاشرہ میں اس کا صحیح مقام حاصل کرنے کے لئے اسے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس کو مہیا کی جائے تا کہ وہ ایک اچھی ماں بن سکے.اس کے دامن تربیت میں بچے عمدہ تربیت پائیں اور با اخلاق انسان بنیں.حضور نے فرمایا:.قوام ہونے کی حیثیت میں مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ باہر نکل جائے اور اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کما کر لائے.عورت کا کام گھر سنبھالنا اور بچوں کی تعلیم و تربیت کرنا ہے.جس کے لئے اسے خود دین کا علم ہونا ضروری ہے.اگر وہ خود دیندار اور شائستہ مزاج نہ رکھتی ہوگی تو اولاد کی کما حقہ تربیت نہ کر سکے گی.غرض میاں بیوی کی ذمہ داریوں اور ان سے بطریق احسن عہدہ برآ ہونے کے لئے اسلام نے واضح تعلیم دی ہے.اسی طرح هُنَّ لِبَاسٌ تَكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ کہہ کر ایک دوسرے کی عزت اور احترام ، تقدس اور وقار قائم کرنے کی تعلیم دی گئی ہے جس طرح لباس انسان کے ستر کو ڈھانپ دیتا ہے اور اس کی زینت کا باعث بنتا ہے اسی طرح خاوند اور بیوی کا رشتہ بھی ایک دوسرے کی کمزوریوں کو ڈھانپنے اور ان کی زینت کو بڑھانے اور عزت اور وقار کو قائم کرنے کا ذریعہ ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بہترین مرد وہ ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے اور اس کے حقوق پورے کرتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان عزت اور احترام کا جو مرتبہ مرد کو دیا ہے ویسا ہی درجہ عورت کو بھی دیا ہے.عورت کی عزت اور احترام کرنا مرد کی ذمہ داری ہے اسی طرح بیوی کا یہ فرض ہے کہ وہ بھی مرد کی عزت اور احترام کرے اور یک رنگ اور یک جان ہو کر زندگی گزاریں تاکہ ان کے ماحول میں سکون اور اطمینان اور خوشحالی پیدا ہو اور ان کے بچوں پر بھی اچھا اثر

Page 419

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۰۵ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۸ء پڑے.وہ اچھی عادتیں اختیار کریں.نیک تربیت حاصل کر کے اسلامی معاشرہ کا بہترین وجود ثابت ہوں.حضور نے فرمایا:.اگر کبھی میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے اور تلخی راہ پا جائے تو اسلام نے ابتدائی طور پر اس کے تدارک کے لئے یہ حکم دیا ہے کہ میاں اور بیوی دونوں کی طرف سے ایک ایک ثالث مقرر کیا جائے جو دونوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں.اس پر بھی اگر حالات نہ سدھر میں اور نباہ ممکن نہ رہے تو پھر طلاق یا خلع کا حق دیا ہے جسے نہایت حزم واحتیاط اور عزت و آبرو کے ساتھ استعمال کرنے کی تلقین کی گئی ہے.حضور نے خطبہ کے آخر میں فرمایا:.بیرونِ ملک خصوصاً انگلستان میں جماعت کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بعض ازدواجی تنازعات کے پیش نظر میں چاہتا ہوں کہ انگلستان میں بھی قضاء کا مستقل محکمہ قائم کر دیا جائے.جس طرح مرکز سلسلہ کا محکمہ براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت کام کرتا ہے اسی طرح یہاں بھی وہ براہِ راست خلیفہ وقت کے ماتحت کام کرے.میں یہاں کے کسی دوست کو قاضی مقرر کر دوں گا تا کہ احباب جماعت اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے فیصلے پیار اور محبت سے طے کر لیا کریں اور ازدواجی معاملات میں بھی اسلامی تعلیم پر عمل پیرارہ کر اسلامی معاشرہ کا ایک عمدہ نمونہ بن جائیں.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ / اگست ۱۹۷۸ء صفحه ۲)

Page 420

Page 421

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۰۷ خطبه جمعه ۴ را گست ۱۹۷۸ء کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کثرت سے مطالعہ کی تحریک خطبه جمعه فرموده ۴ راگست ۱۹۷۸ء بمقام مسجد نصرت جہاں.کوپن ہیگن (خلاصہ خطبہ ) ۴/اگست کو حضور انور نے صبح سے دو بجے تک دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائے اور پھر ساڑھے تین بجے مسجد نصرت جہاں میں نماز جمعہ پڑھائی اور نماز سے قبل ایک بصیرت افروز خطبہ ارشاد فرمایا جو نصف گھنٹے تک جاری رہا.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ خصوصاً احمدیت کی نوجوان نسل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحیح مقام کو پہچانے اور اس کے لئے آپ کی کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرتے رہنے کی نصیحت فرمائی.حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے بعض اقتباسات پڑھ کر سنائے جن میں آپ نے فرمایا ہے کہ میں آخری مسیح ہوں ، امام آخر الزمان ہوں، مجددالف آخر ہوں یعنی آخری ہزار سال کی تجدید کا کام میرے سپرد کیا گیا ہے.حضور انور نے بڑی وضاحت سے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام امت محمدیہ میں اس لحاظ سے ممتاز اور منفرد ہے کہ صرف آپ کی بشارت دی گئی تھی اور آپ کو نبی اللہ کے نام سے پکارا گیا تھا اور آپ کو حکم اور عدل ٹھہرایا گیا تھا.آپ کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ اسلام کو ساری

Page 422

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۰۸ خطبه جمعه ۴/اگست ۱۹۷۸ء دنیا میں غالب کیا جائے.اب اگر چہ آپ سے تعلق رکھنے والے آپ کی وساطت سے اور آر کے ظل کے طور پر تجدید دین کا کام کرنے والے کئی ہو سکتے ہیں لیکن اب نہ کوئی نیا امام آئے گا اور نہ اس سلسلہ میں نیا مجدد آئے گا.ہم سب کا یہ فرض ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا مقام بیان فرمایا ہے ہم اس سے سرِ مو انحراف نہ کریں ہمارے زمانے کا امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بنا دیا گیا ہے اب جو شخص کسی اور امام کی تلاش میں ہے وہ غلطی خوردہ ہے.اس نے دراصل مسیح موعود کے مقام کو سمجھا نہیں اور آپ کے مرتبہ کو پہچانا نہیں.مقامی احباب (پاکستانی اور ڈینش) کے علاوہ ناروے گوٹن برگ اور مالمو سے بھی کئی دوست حضور کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے تشریف لائے.(روز نامه الفضل ربوه ۱۲ رستمبر ۱۹۷۸ء صفحه ۵،۲)

Page 423

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۰۹ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء خلافت اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ احمق ہوگا جو کہے کہ مجھے بیل جائے خطبه جمعه فرموده ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء بمقام مسجد فضل - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہم ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہو چکے ہیں.یہ مہینہ بہت سی عبادات کا مجموعہ ہے.اس میں روزے رکھے جاتے ہیں، قرآن کریم کی غیر معمولی طور پر کثرت سے تلاوت کی جاتی ہے صدقہ و خیرات کا حکم ہے.یہ بھی ہدایت ہے کہ اپنے نفسوں کا اخلاقی لحاظ سے محاسبہ کیا جائے.اسلام نے حُسنِ اخلاق کی جو تعلیم دی ہے اس کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے اور دعاؤں پر بہت زور دینا چاہیے.قرآن کریم کی یہ بھی شان ہے کہ وہ بنیادی اصول ایسی جگہ بیان کر دیتا ہے جہاں اس کے پہلے مضمون کے ساتھ خاص تعلق ہو.گو وہ مضمون ماقبل کے ساتھ بندھا ہوا تو نہ ہولیکن اس کا خاص تعلق ہو.رمضان کے ساتھ دعا کا ذکر کر دیا.فرمایا :.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : ۱۸۷) اب دعا صرف رمضان کے مہینے میں ہی تو نہیں کرنی ہوتی لیکن رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی عبادات کو اکٹھا کر کے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ انسان اگر چاہے تو خاص طور پر

Page 424

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۱۰ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء اپنے رب کریم کی طرف زیادہ خشوع و خضوع اور ابتہال کے ساتھ متوجہ ہونے کے مواقع پاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اُس کی دعائیں عام حالات کی نسبت کثرت سے خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہوسکتی ہیں اگر دل میں اخلاص ہو اور کوئی کبھی اور فساد نہ ہولیکن ویسے یہ ایک عام اصول ہے خدا تعالیٰ کے ساتھ تو ہر آن اور ہر گھڑی ہر شئے کا تعلق ہے اور خدا سے زندہ تعلق قائم کرنا یہ ایک مسلمان کا فرض ہے.خدا تعالیٰ کی خدائی تو اپنا کام کر رہی ہے خواہ انسان اس کی طرف متوجہ ہو یا نہ ہو اس کے جسم میں ہزار ہا تغیر اللہ تعالیٰ کے براہ راست حکم سے پیدا ہور ہے ہیں.سائنسدان کہتے ہیں کہ ہمارا دماغ جب جسم کے کسی حصہ کو حکم بھیجتا ہے کہ یہ کام کرے تو Nerves (نروز ) کے ذریعہ وہ حکم چلتا ہے اور نر و مختلف ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں.ایک لمبی رہتی نہیں ہے جو دماغ کھینچ لیتا ہے بلکہ مختلف ٹکڑے ہیں جن کے درمیان فاصلہ ہے جب تک وہ فاصلہ Bridge ( برج) نہ ہو، پل نہ بنے تو وہ حکم آگے نہیں چل سکتا اور ایک خاص کیمیاوی مادہ ہے جو آگے برج کرتا ہے.پس ہر حکم جو دماغ سے جاری ہوتا ہے وہ اپنی جگہ پہنچنے تک ایسے سینکڑوں پلوں پر سے گزر کر پہنچتا ہے جو خاص اس حکم کو پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ پیدا کئے جاتے ہیں اور سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ جب دماغ کا یہ حکم آگے نکل جائے اور پل کو کراس (Cross) کرلے تو اگر وہ کیمیاوی مادہ اسی طرح رہے تو اسی وقت انسان کی موت واقع ہو جائے.اس لئے جس وقت وہ حکم اس پل کو عبور کرتا ہے اسی وقت خدا تعالیٰ کا دوسرا حکم آجاتا ہے اور اس کیمیاوی مادہ کو تبدیل کر دیتا ہے.یہ تو ایک مثال ہے تم جسم کے کسی حصے کو لے لو وہ خدائی سے آزاد نہیں لیکن عام حالات میں انسان کو ایک آزادی دی اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف حالات پیدا کئے صرف انسان ہی محدود دائرہ میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر سکتا ہے مثلاً مادی جسم ہے وہ اسی طرح خدا تعالیٰ کے احکام کو سنتا ہے اور اُس کی وحی کو سنتا ہے اور اس کے مطابق کام کرتا ہے جس طرح درخت اور اس کے پتے ، جاندار، نباتات اور جمادات غرضیکہ ہر چیز پر خدا تعالیٰ کا حکم جاری ہوتا ہے.جس طرح فرشتوں کے متعلق آتا ہے.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُوْنَ (التحریم:۷) خدا کا حکم آتا ہے اور اُن کے لئے خدا تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری کے سوا

Page 425

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۱۱ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء کوئی اور چارہ کا ر نہیں ہوتا، اسی طرح انسان کا جسم جو اعمال بجالاتا ہے آزادانہ اعمال کے علاوہ یعنی وہ اعمال جو انسان اپنی مرضی سے بجالاتا ہے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے یا ابا اور استکبار کی راہوں کو اختیار کر کے دونوں راستے اس کے لئے کھلے ہیں.خدا تعالیٰ کے حکم کو تسلیم کرنے سے انسان کو جو جزا ملتی ہے اور اس کی روح کو ابدی جنتوں کا جو وعدہ دیا گیا ہے وہ بڑا زبر دست ہے پس ہر وقت ہی دعا کی ضرورت ہے لیکن قبولیت دعا کے سامان رمضان میں زیادہ اکٹھے کر دیئے گئے ہیں اس لئے یہ مضمون جو مستقل حیثیت رکھتا ہے اور بڑا اہم ہے وہ رمضان کے دوو ذکر کے ساتھ قرآن کریم میں بیان کر دیا گیا ہے.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اگر میرے بندے میرے متعلق پوچھیں یعنی قرب الہی کے حصول کا خیال آئے کہ وہ کس طرح اپنے رب سے تعلقات پیدا کر سکتے ہیں تو ان سے کہہ دو میں تم سے دور تو نہیں ہوں.اُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ.میرے قُرب کی علامت اور نشان یہ ہے کہ میں دعاؤں کو سنتا ہوں اور دعا سننے کے بعد یہ اطلاع دیتا ہوں کہ میں نے دعا کو قبول کر لیا ہے.اجیب میں محض اجابت یعنی قبول کرنا ہی نہیں بلکہ بسا اوقات اس کی اطلاع دینا بھی شامل ہوتا ہے.یہ اطلاع یا تو عملاً ہوتی ہے اور یا لفظ بھی.رؤیا اور کشوف کے ذریعہ یا الہام کے ذریعہ بھی ہوتی ہے.دعا کرنے والے کے روحانی مقام اور ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا سلوک ہوتا ہے یہ لمبی تفصیل ہے اس میں اس وقت جانے کا وقت نہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں کی دعا کے نتیجہ میں پیار اور قبولیت کی کیفیت تب پیدا ہوگی جب وہ میر احکم مانیں گے اور مجھ پر ایمان لائیں گے اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کریں گے اور میری نازل کردہ ہدایت پر قائم ہو جا ئیں گے تا کہ جس غرض کے لئے میں نے انسان کو پیدا کیا ہے وہ غرض پوری ہو.دعا کے سلسلہ میں یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ ہر انسان دعا اپنے لئے بھی کرتا ہے اور دوسرے فرد کے لئے بھی کرتا ہے اس سلسلہ میں جیسا کہ پہلے اُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کے ترجمہ میں میں بتا چکا ہوں خدا تعالیٰ بتاتا بھی ہے انسان اپنے لئے بھی دعا کرتا ہے.دوسرے فرد کے لئے بھی دعا کرتا ہے.حدیث میں آتا ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں يَرٰی وَيُرى لَهُ

Page 426

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۱۲ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء کہ اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کو خواب کے ذریعہ اطلاع دیتا ہے اور دوسرا آدمی اس کے لئے دعا کر رہا ہو تو اسے بھی اطلاع دیتا ہے کہ اس کے دوست یا بزرگ یا بھائی یا بیٹے یا خلیفہ وقت کے متعلق دعا قبول ہو گئی ہے اور دعا اجتماعی بھی ہے.اجتماعی دعا بعض حالات میں اور بعض زمانوں میں بہت ضروری ہو جاتی ہے اور اگر انسان انفرادی دعائیں اجتمائی دعا پر قربان کر دے تو میری یہ ذاتی رائے ہے اور جو تاریخ میں نے پڑھی ہے اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ پھر اپنے لئے نہیں بھی دعا کر رہا ہوتا تب بھی اس کی دعا قبول کر لی جاتی ہے کیونکہ وہ خدا کی مخلوق کے لئے دعائیں کر رہا ہوتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آپ نے عرب میں ایک عظیم روحانی انقلاب بپا کر دیا.عرب وحشی اور درندہ صفت تھے عمل کرنا تو در کنار اُن کو حسنِ اخلاق کا علم ہی نہیں تھا.کتوں اور سؤروں کی طرح وحشیانہ زندگی گزار رہے تھے لیکن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قوم کی زندگی کے اندر ایک انقلاب عظیم بپا ہو گیا.آپ فرماتے ہیں تمہیں پتا ہے یہ انقلاب کیوں پیدا ہوا یہ ایک فانی فی اللہ کی راتوں کی عاجزانہ دعاؤں کا نتیجہ تھا.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب سے اتنی دعائیں کیں، پہلے عرب کے لئے اور پھر سب بنی نوع انسان کے لئے ( کیونکہ اسلام کا پیغام ساری دنیا میں پہنچنا تھا) کہ ایک انقلاب عظیم بپا ہو گیا ایسا انقلاب جسے آج کی دنیا بھی سمجھنے سے قاصر ہے حالانکہ سائنس بہت ترقی کر چکی ہے.اسی جگہ میں نے پہلے بھی ایک موقع پر بتایا تھا کہ ایک امریکی رسالہ میں مضمون چھپا کہ بچپن سے یا جوانی کی عمر میں جو عادت پڑ جائے تو بڑے ہو کر وہ عادت چھوٹا نہیں کرتی.ہماری ایک احمدی بہن نے اس رسالہ کو خط لکھا کہ تمہاری یہ بات غلط ہے کہ عادت چھوٹا نہیں کرتی.عادتیں لچھٹ جاتی ہیں اُس نے مثال دی کہ مسلمانوں پر شراب بڑی دیر کے بعد حرام ہوئی تیرہ سالہ مکی زندگی میں شراب حرام نہیں تھی مدنی زندگی میں بھی ایک عرصہ تک شراب حرام نہیں تھی.ایک رات دوستوں کی مجلس لگی ہوئی تھی وہ شراب پی رہے تھے اور شراب میں مست تھے کہ اسی حال میں اُن

Page 427

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۱۳ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء کے کان میں یہ آواز آئی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شراب ممنوع قرار دے دی ہے تو صاحب خانہ جس کے کمرے میں یہ مجلس لگی ہوئی تھی اور بہت سے شراب کے مٹکے سامنے رکھے ہوئے تھے وہ کھڑا ہوا اور مٹکوں کو توڑنے لگا تو ایک دوست نے کہا ہمارے ساتھ کسی نے شرارت نہ کی ہو پہلے پتا تو کر لو کہ واقع میں خدا تعالیٰ کی طرف سے شراب ممنوع قرار دے دی گئی ہے اور یہ اعلان واقع میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیا جارہا ہے لیکن اس نے کہا پہلے مٹکے توڑوں گا بعد میں جا کر پوچھوں گا کہ یہ واقع میں صحیح ہے یا غلط.اس احمدی خاتون نے یہ واقعہ لکھ کر پوچھا تم کیسے کہتے ہو کہ عادتیں نہیں بدلتیں.ایک آواز نے ان لوگوں کی عادتیں بدل دیں.شراب میں مست رہنے والے تھے ( پہلے انہوں نے اور بہت سی عادتیں چھوڑی تھیں.اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ) لیکن حرمت شراب کا بڑا نمایاں واقعہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ ایک آواز نے ان کی برسوں کی شراب کی عادت کو بدل دیا.اسی طرح اسلام سے قبل لوگ بڑے شغف کے ساتھ جو کھیلتے تھے.قرآن کریم نے بھی اس کا ذکر کیا ہے لیکن قرآن کریم نے کہا بند ! تو وہ بند ہو گیا.ساری عمر کی ورثے میں لی ہوئی عادتیں اسلام نے بدل دیں.اس زمانہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی.اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذمہ یہ فرض لگایا کہ اسلام کو دنیا میں غالب کیا جائے.ایک وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مناظرے بھی کئے اور بہتوں نے آپ سے مباہلے بھی کئے اور اس کا انجام بھی دیکھا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ نے کہا جو حجت تھی وہ میں نے پوری کر دی.اب دعائیں کرو کہ جس طرح پہلے زمانہ میں ایک انقلاب عظیم اُس دنیا میں دعاؤں کے نتیجہ میں بپا ہوا تھا اس دنیا میں بھی ویسا ہی ایک انقلاب عظیم دعاؤں کے نتیجہ میں پیدا ہو جائے.پس یہ رمضان کا مہینہ اور خاص طور پر آخری عشرہ بڑی اہمیت رکھتا ہے اس میں بعض احمدی مسلمان بھی اعتکاف بیٹھتے ہیں ان دنوں اجتماعی دعا ئیں بھی بہت کریں ان مغربی قوموں کے لئے دعائیں کریں ان کی عادتیں تو دعاؤں ہی سے بدل سکتی ہیں.یہ لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے.ہم ان کو

Page 428

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۱۴ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء بڑا سمجھاتے ہیں سمجھیں بھی تب بھی نہیں مانتے یعنی عجیب ان کے دماغ ہو گئے ہیں.ان کو ایسی گندی عادتیں پڑ گئی ہیں کہ گند سوچنا اور گندہ کام کرنا ان کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے.جب ہم ان کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہیں تو کبھی کوئی یہ کہ دیتا ہے کہ آپ نے اتنی دیر کیوں کر دی اسلام کی اتنی اچھی تعلیم بتانے میں ، جب ہم اور بھی زیادہ گند میں دھنس گئے تب آپ یہ تعلیم لے کر آگئے.کوئی یہ کہہ دیتا ہے اسلام کی اتنی اچھی اور حسین تعلیم ہے آپ اسے ہمارے عوام تک کیوں نہیں پہنچاتے ؟ پس کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ لیکن خود کہنے والے بھی اپنی عادتوں کو بدلنے کے لئے تیار نہیں.وہ اپنی جگہ پر کھڑے ہیں ان کو خدا تعالیٰ کی قدرت ہی بدل سکتی ہے.اس لئے میں جماعت کو تو جہ دلاتا ہوں کہ ساری دنیا کے انسان کے لئے دعائیں کریں.خصوصاً اُن کے لئے دعائیں کریں جو گندی زیست کی خوگر اور نام نہاد تہذیب نو کی حامل قو میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی زندگیوں میں انقلاب بپا کرنے کے سامان پیدا کرے اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کو پہچانیں اور جس خدائے واحد و یگانہ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس کی معرفت حاصل کریں اور خدا کے پیار کے دروازے ان قوموں پر بھی اسی طرح کھلیں جس طرح ہزاروں لاکھوں احمدیوں پر کھلے ہیں.ایک اور دعا ہے جماعت کی میں نے یورپ میں بھی کہا.۱۹۶۷ء میں کوپن ہیگن میں پادری اور کچھ اور دوست بارہ حواریوں کی تعداد میں مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے ان سے بھی میں نے کہا تھا کہ میں سمجھتا ہوں مجھ میں اور جماعت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ یہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.سب کا مقصد ایک ہے، ایک جہت ہے جس کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں ایک مقصد ہے جس کے لئے ہم دعائیں کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی اپنی بساط کے مطابق قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور اخلاص اور وفا کا نمونہ دکھا رہے ہیں.پس خلیفہ وقت اور جماعت کو علیحدہ کیسے کیا جاسکتا ہے ساری جماعت اپنی جگہ دعائیں کر رہی ہے لیکن یہ جو ایک وجود ہے اس میں خلافت کا ایک بڑا ہی اہم مقام ہے اور یہ نہ خریدا جا سکتا ہے اور نہ چھینا جا سکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے.اسی سفر میں مجھ سے کسی نے پوچھا کہ خلافت سے پہلے کبھی آپ نے سوچا

Page 429

خطبات ناصر جلد ہفتم کہ خلیفہ بن جائیں گے میں نے کہا :.۴۱۵ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء "No sane person can aspire to this." کوئی عقلمند آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے کوئی سوچے گا کیسے.کوئی احمق ہی ہوگا، پاگل ہو گا جو یہ کہے گا کہ مجھے یہ ذمہ داری مل جائے.خلافت کے متعلق یہ جاننا چاہیے کہ بعض بیوقوف دماغ یہ سمجھتے ہیں کہ مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جہنم میں سے ہر آدمی کا جب علاج ہو جائے گا تو باہر نکل آئے گا خدا کی پرستش کے مطابق جو سزا ہے وہ مل چکی ہوگی تو جہنم خالی ہو جائے گی.جب جہنم خالی ہو جائے گی تو وہاں تمثیلی زبان میں نہ دروازے بند ہوں گے نہ پہرہ دار ہوں گے اور ہوا جہنم کے دروازوں کو ہلا رہی ہو گی.وہ کھلے ہوں گے آگ ختم ہو چکی ہوگی کوئی بھی نہیں ہوگا اس میں.بعض بیوقوف یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا در بار بھی نعوذ باللہ اسی طرح اس کی حمد وثنا کرنے والوں سے خالی ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے دربار میں تو ہر وقت ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اور استعداد کے مطابق اس کو پہچاننے والے، اس کے آگے جھکے ہوئے ، اس کی حمد کرنے والے، اس کی تسبیح کرنے والے اور اس کے قرب کو حاصل کرنے کی تڑپ رکھنے والے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی پیارا شعر فرمایا ہے.یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار ہزاروں لاکھوں آدمی، خدا کے بندے خدا کے دربار میں حاضر رہتے ہیں.کوئی ایک آدمی یہ سمجھے کہ خدا مجبور ہو گیا میں اکیلا اس کے دربار میں تھا اور اس نے مثلاً میں اپنی مثال لیتا ہوں، اگر میں یہ سمجھوں کہ میں اکیلا ہی تھا اور خدا مجبور ہوا مجھے خلیفہ مقرر کرنے کے لئے یعنی مجھے پکڑلے اور خلیفہ مقرر کر دے تو میرے جیسا پاگل دنیا میں اور کوئی نہیں ہوسکتا.اس بھرے دربار میں سے خدا نے اپنی مرضی چلائی.ہم تو اس وقت ( یعنی انتخاب خلافتِ ثالثہ کے وقت ) آنکھیں نیچی کئے ہوئے اپنے غم میں اور اپنی فکروں میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن یہ سمجھنا کہ جس آدمی کو خدا تعالیٰ کسی کام

Page 430

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء کے لئے چنے دنیا کا کوئی انسان یا منصوبہ خدا تعالیٰ کے اس انتخاب کو غلط کر سکتا ہے تو یہ غلط ہے کیونکہ دینے والا تو وہی خدا ہے.عقل ہے، سمجھ ہے، ہمت ہے ، خدا کے در کے علاوہ آپ کون سی چیز کہاں سے لے کر آتے ہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا بوڑھا آدمی اور بے چین روح.آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنا پیار تھا کہ بیان نہیں ہو سکتا.ان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو پتا لگتا ہے کہ ان کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنا پیار تھا کہ آپ کے بعد ایک گھڑی زندہ رہنا ان کے لئے مشکل تھا لیکن جب خدا تعالیٰ نے اُن کو خلافت کے لئے چنا تو سارا عرب مرتد ہو گیا.مگر خدا تعالیٰ کا وہ شیر جسے خدا نے خلافت کے لئے منتخب کیا تھا ، اس نے کہا میں ان مرتدین کی سرکوبی بھی کروں گا اور جو فوج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر بھجوانے کے لئے تیار کی تھی وہ بھی نہیں روکوں گا خواہ مدینہ کے اندر مسلمانوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں میں وہ حکم نہیں بدلوں گا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی فراست اور ان کے فعل میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ بعد میں ایک موقع پر خالد بن ولید نے کمک مانگی اور لکھا کہ میرے پاس چودہ ہزار فوج ہے اور یہی ہر میدان میں کسرای کی ساٹھ ستر بلکہ اسی لاکھ تازہ دم فوج کے ساتھ لڑیں گے اور ہر تیسرے چوتھے دن لڑائی ہوگی ہمارے پاس چودہ ہزار فوج ہے ان میں سے بھی کچھ شہید ہو جائیں گے کچھ زخمی ہو جائیں گے اس لئے کمک بھیجیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کی کمک بھیج دی.یہ دیکھ کر صحابہ پیٹ اُٹھے.صحابہ کا اپنا مقام تھا خلیفہ وقت کا اپنا مقام تھا.صحابہ نے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں.خالد بن ولید نے تفصیل سے خط لکھا ہے کہ ایسے حالات ہیں اور آپ ایک آدمی کی کمک بھیج رہے ہیں.آرام سے ان کو کہ دیا کہ جس فوج میں اس جیسا آدمی ہو جسے میں کمک کے طور پر بھیج رہا ہوں وہ فوج شکست نہیں کھایا کرتی.چنانچہ پہلے ہی معرکہ میں کسری کے جرنیل نے غداری کی جو عام طور پر دنیوی طاقتیں نہیں کیا کرتیں لیکن اس دن اس نالائق نے غداری کی اور Plan کیا کہ وہ خالد بن ولید کو مقابلہ کے لئے بلائے اور پھر چار پانچ آدمی آئیں اور ان کو قتل کر دیں.اُس نے پہلے نیزہ بازی کی پھر تلوار کی جنگ کی اور پھر اس نے کہا آؤ کشتی کرلو.چنانچہ دونوں گھوڑے

Page 431

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۱۷ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء سے نیچے اتر گئے.کسری کا بھی بڑا طاقتور اور تجربہ کار جرنیل تھا اس نے کشتی میں طاقتور پہلوان کی طرح خالد کی باہوں (بازو) کو پکڑ لیا اور اپنے اُن آدمیوں کو جو اس نے در پردہ تیار کئے ہوئے تھے اشارہ کیا کہ اس حالت میں حملہ کر کے خالد کی گردن اڑا دیں.عین اس وقت یہ ایک آدمی کی کمک جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھجوائی تھی یہ گھوڑے پر سوار تھے انہوں نے فوراً بھانپ لیا کہ غداری ہوگئی ہے.وہ کہتے ہیں کہ کسی اور سے مشورہ کرنے یا کسی اور کو ساتھ چلنے کے لئے کہنے کا وقت ہی نہیں تھا.انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور فوراً وہاں پہنچے جہاں وہ تین، چار ماتحت جرنیل اس غداری میں حصہ لینے یعنی خالد بن ولید کو قتل کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے.انہوں نے ایک ایک کو قتل کیا اور جب قتل کر لیا ان تین یا چار کو یا جتنے بھی تھے، تو ( یہ ہے مسلمان کی شان اور اس کی جسے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے منتخب کیا تھا کہ ! کسرای کے غدار جرنیل کی باہیں بھی تو جکڑی ہوئی تھیں) اسے کہنے لگے اب تم اپنی Duel لڑو اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر واپس آگئے حالانکہ اس کو قتل کر سکتے تھے لیکن یہ مسلمان کی شان کے خلاف تھا کہ اس نے جو غداری کی ہے اس کو اس رنگ میں سزا بھی دیں لیکن ایسا نہیں کیا تا کہ کل کو اسلام پر الزام نہ آجائے.یہ مقام ہے خلافت کا.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں جن کو خلیفہ بناؤں گا اور یہ یادرکھیں خصوصاً نئی نسل کہ انتخاب ہوتا ہے لیکن خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بعض لوگوں نے جو بعد میں الگ ہو گئے تھے ان میں سے کسی نے کہا کہ ہم نے خلیفہ منتخب کیا ہے آپ نے فرمایا میں تمہارے انتخاب خلافت پر تھوکتا بھی نہیں ہوں مجھے جس نے خلیفہ بنانا تھا اس نے بنا دیا.میری خلافت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاما فرمایا.لِدَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ اور یہ بتانے کے لئے کہ میں تیرے ساتھ ہوں خدا تعالی بڑا پیار کرنے والا ہے اس کے پیار کو حاصل کریں.بالکل شروع خلافت کے زمانہ کی بات ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا جب وصال ہوا تو میں ٹی آئی کالج میں پرنسپل تھا.کالج لاج میں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہا کرتا تھا.میں وہاں آیا میری طبیعت پر بڑا بار تھا کہ میں آپا صدیقہ ام متین صاحبہ کو یا

Page 432

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۱۸ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء مہر آپا کو یا ہماری تیسری والدہ تھیں ان کو Disturb کروں اپنی رہائش کے لئے لیکن میرے پرائیویٹ سیکرٹری کا دفتر وہاں تھا.وہیں سارے کام کرنے پڑتے تھے.چنانچہ دفتر کے اوپر دو تین کمرے تھے اُن ہی میں ہم ٹکے رہے اس وقت تک جب تک کہ سہولت کے ساتھ سب کا دوسری جگہ انتظام نہیں ہو گیا.خلافت کے بڑے تھوڑے عرصہ کے بعد غالباً ۱۹۶۶ء میں نومبر کی بات ہے ظہر کی نماز پڑھانے کے بعد میں واپس آیا اور دفتر کے اوپر کمرے میں سنتوں کی نیت جب باندھی تو میرے سامنے خانہ کعبہ آ گیا یعنی کشفی حالت میں نہیں جس میں آنکھیں بند ہو جاتی ہیں بلکہ کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا یعنی نظارہ یہ دکھایا گیا کہ میرا رخ ایک Angle بائیں طرف اور میں نے سیدھا کر لیا منہ، خانہ کعبہ کی طرف اور نظارہ بند ہو گیا.میں نے سوچا کہ یہ تو نہیں خدا کا منشا کہ میں ہر دفعہ ( ہمارے مکان قبلہ رخ نہیں بنے ہوئے اپنا خود ہی ایک اندازہ کرنا پڑتا ہے ) آ کر قبلہ ٹھیک کروایا کروں گا.مطلب یہ ہے کہ میں تمہارا منہ جس مقصد کے لئے تمہیں کھڑا کیا ہے اس سے ادھر اُدھر نہیں ہونے دوں گا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے خدا تعالیٰ اس جماعت کے جو چھوٹے چھوٹے شعبے ہیں ان کے لئے بڑی غیرت دکھاتا ہے.ابھی میرے (دوبارہ سفر یورپ پر ) جانے سے پہلے اُس خاندان کا ایک آدمی آیا جس کے بارہ میں میں بتایا کرتا ہوں کہ اُن کا بڑا ہوشیار لڑ کا تھا Top کے نمبر لئے میٹرک میں.ہمارا کالج لاہور میں تھا.اس کے والد کو میں ذاتی طور پر جانتا تھاوہ لڑکا ہمارے کالج میں داخل ہو گیا میں نے بڑے پیار سے اُسے داخل کیا.وہ میرے دوست کا بچہ تھا جو سیالکوٹ کے ایک گاؤں کے رہنے والے اور زمیندار تھے.اس کے چند رشتہ دار غیر مبائع تھے انہوں نے لڑکے کے باپ کا دماغ خراب کیا.اس سے کہنے لگے اتنا ہوشیار بچہ سپیرئر سروسز Superior Services کے Competition میں یہ پاس ہونے والا.کہیں D.C لگے گا.تم نے یہ کیا ظلم کیا اپنے بچے کو جا کر احمدیوں کے کالج میں داخل کروا دیا.جس وقت یہ انٹرویو میں جائے گا لوگوں کو یہ پتا لگے گا یہ ٹی آئی کالج میں رہا ہے اس کو لیں گے نہیں اور یہ دنیوی طور پر ترقی نہیں کر سکے گا.چنانچہ وہ میرے پاس آ گیا میں خالی پرنسپل نہیں تھا اس کا دوست بھی تھا.میرے دل میں اس کے بچے کے

Page 433

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء لئے بڑا پیار تھا میں نے اس کو پندرہ بیس منٹ تک سمجھایا کہ اپنی جان پر ظلم نہ کرو.خدا تعالیٰ بڑی غیرت رکھتا ہے جماعت احمدیہ اور اس کے اداروں کے لئے تمہیں سزامل جائے گی.خیر وہ سمجھ گیا اور چلا گیا.پھر انہوں نے بھڑ کا یا پھر میرے پاس آ گیا پھر میں نے سمجھایا پھر چلا گیا.پھر تیسری دفعہ جب آیا تو میں نے سمجھا اس کے باپ کو ٹھوکر نہ لگ جائے.میں نے کہا ٹھیک ہے میں دستخط کر دیتا ہوں مگر تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ یہ لڑکا جس کے متعلق تم یہ خواب دیکھ رہے ہو کہ وہ سپیرئر سروسز کے امتحان میں پاس ہو کر ڈی سی بنے گا یہ ایف اے بھی نہیں پاس کر سکے گا.اس نے مائیگریشن فارم پر کیا ہوا تھا اتنے اچھے نمبر تھے کہ ٹی آئی کالج سے گورنمنٹ کالج اسے بڑی خوشی سے لے لیتا.چنانچہ میں نے اس کے فارم پر دستخط کئے اور وہ اسے لے کر چلے گئے.پھر مجھے شرم کے مارے ملا بھی نہیں.کوئی چار پانچ سال کے بعد مجھے ایک خط آیا جو شروع یہاں سے ہوتا تھا کہ میں آپ کو اپنا تعارف کروا دوں.میں وہ لڑکا ہوں جس کے مائیگریشن فارم پر آپ نے دستخط کئے تو مجھے اور میرے باپ سے کہا تھا کہ میں ایف اے بھی نہیں پاس کرسکوں گا اور چار پانچ سال کا زمانہ ہو گیا ہے اور میں واقعی ایف اے پاس نہیں کر سکا.پھر وہ تجارت میں لگ گیا اب پھر مجھے یہاں ایک خط آیا جو اسی سفر میں ملا جو اس کے بیٹے کا تھا اور اس نے بھی تعارف یہ کہہ کر کروایا کہ میں اس کا بیٹا ہوں جس کو آپ نے یہ کہا تھا کہ تو ایف اے پاس نہیں کر سکے گا.پس خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ایک کالج اور اس کے ایک پرنسپل کے لئے اتنی غیرت دکھاتا ہے تو خلیفہ وقت کے لئے کتنی غیرت دکھائے گا.آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں ہمارے ایک زمیندار پرانے احمدی ہیں مجھے دو تین دفعہ انہوں نے کہا کہ میں تو اپنے بچوں کو سمجھا تا ہوں کہ دیکھو! نبوت کے زمانہ میں میں نے دیکھا اگر کوئی غلطی ہو تو معاف ہو جاتی ہے لیکن جو خلافت کے خلاف کھڑا ہوتا ہے اسے میں نے ہمیشہ گرتے ہی دیکھا ہے پنپتے نہیں دیکھا.پھر لوگوں کی عجیب عجیب حرکتیں سامنے آتی ہیں وہ دنیا کی خاطر شریعت اسلامیہ بنانے لگ جاتے ہیں.قرآن کریم میں بعض احکام تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور بعض اصول بیان کر دیئے گئے ہیں.مثلاً فرمایا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشورى: ۴۱)

Page 434

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۲۰ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن کریم کی شان دیکھو کسی عیسائی نے اعتراض کیا تھا کہ ایک طرف تفصیل بیان کر دی اور دوسری طرف یہ کہہ دیا کہ جتنا جرم ہو اس کے مطابق سزا ملے گی.آپ نے فرمایا اگر کوئی اندھا کسی کی آنکھ نکال دے تو تم اس کا بدلہ کس طرح لو گے اگر یہ ہوتا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ تو آنکھ ہے ہی نہیں جس سے آپ نے بدلہ لینا ہے اس لئے فرما یا جزوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا - بعض بنیادی چیزیں ہیں.آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ دین جس پر میں تمہارے لئے راضی ہوا.دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ (النَّور : ۵۶) اس کو مضبوطی کے ساتھ قائم کرنے کا ذریعہ خلافت کو بناؤں گا اور تمہارے خوف کو خلافت کی برکتیں دور کریں گی.میرا اصل مضمون اس وقت دعا کا ہے یہ باتیں میں ضمناً بتا رہا ہوں.سینکڑوں بعض دفعہ ہزاروں سال کے اندر ایسی پریشانیاں ہیں کہ جو خلیفہ وقت کی دعاؤں سے معجزانہ طور پر دور ہو جاتی ہیں.کئی ایک کا میں ذکر کر چکا ہوں.پریشانیاں آتی رہتی ہیں میں تو خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ ہوں.وَلَا فَخْرَ.میرے لئے تو فخر کی بات نہیں خدا تعالیٰ میرے ذریعہ مومنین کی جماعت کے خوف کو بدلتا ہے تو یہ اس کی شان ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ نے آپ کی اُمت میں اس قسم کے سامان پیدا کر دیئے.میں تو خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ ہوں میں یاد بھی نہیں رکھتا میں نے ایسے کوئی رجسٹر بھی نہیں بنائے ہوئے میں بھول جاتا ہوں.کئی دفعہ لوگ آکر بتاتے ہیں کہ جی آپ نے اپنی فلاں خواب بتائی تھی اور وہ پوری ہو گئی ہے اور مجھے وہ خواب یا د بھی نہیں ہوتی.میری یہ عادت ہے.میرے ساتھ خدا کا یہ سلوک ہے میں کہا کرتا ہوں کہ میں پانی کے کنارے کھڑا ہوں مجھے سٹور کرنے کی ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ مجھے دیئے چلے جاتا ہے اس قسم کے نشان بھی دکھلاتا ہے اور بڑی کثرت کے ساتھ دکھلاتا ہے.یه مسئله دوست اچھی طرح سے یادر کھیں کہ تمکین دین یعنی وہ دین جسے خدا تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کے لئے پسند کیا اس کو مستحکم طور پر قائم کرنا یہ خلافت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے اور یہ ایک بنیادی اصول ہے اور اس کے مقابلہ میں جزئیات نہیں پیش کی جاسکتیں.مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی

Page 435

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۲۱ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء خلافت گزرگئی.اس خلافت میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جنہوں نے آپ سے تربیت حاصل کی تھی بڑی کثرت سے پائے جاتے تھے اور پھر اسلام پھیلنا شروع ہوا اور عرب سے بھی باہر نکل گیا.کم تربیت یافتہ لوگ اسلام میں داخل ہو گئے ان میں سے بعض نے جزئیات میں اپنی مرضی چلانی شروع کر دی مثلاً قرآن کریم نے کہا ہے کہ تیسری طلاق بائن ہے یعنی اس کے باوجو درجوع نہیں ہو سکتا جس طرح پہلی دو طلاقوں میں ہو سکتا ہے اور یہ تین طلاقیں جن میں تیسری بائن ہو جاتی ہے یہ ایک معین وقفہ کے بعد ہونی چاہئیں جو کم سے کم وقفہ ہے اس کا قرآن کریم میں ذکر ہے یہ ایک فقہی مسئلہ ہے اس کی تفصیل میں میں نہیں جانا چاہتا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگوں نے یہی کرنا شروع کر دیا کہ تین طلاقیں اکٹھی کہہ دیں اور جس وقت معاملہ قاضی کے پاس گیا تو کہہ دیا کہ شرع تو یہ کہتی ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی ہو ہی نہیں سکتیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں سے فرمایا میں تمہیں شرع سے مذاق نہیں کرنے دوں گا اور استہز انہیں کرنے دوں گا.آپ نے ایسے لوگوں سے کہا تم تین کہو گے میں تین کہہ دوں گا.بائن کر دوں گا.صحابہ موجود تھے.ان میں سے کسی نے نہیں کہا کہ شریعت موجود ہے آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں اس لئے کہ شریعت کا بڑا اور بنیادی حکم یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ سے استہز ا نہیں کرنے دیا جائے گا اور طلاق کے سلسلہ میں ہی ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اس کے احکام کو استہزا کا نشانہ نہ بناؤ.آیت کے اسی جزو کے ماتحت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فتویٰ دیا تھا.جہاں تک خلع اور طلاق کا تعلق ہے اگر کوئی خاوند صرف مہر کی ادائیگی سے بچنے کے لئے عورت کو تنگ کرتا ہے کہ وہ خلع لے لے اور سمجھتا ہے کہ اس طرح اس کو مہر نہیں دینا پڑے گا تو وہ بڑا احمق ہے اسے جماعت چھوڑ دینی چاہیے.میں تمہیں شریعت اسلامیہ سے استہز ا نہیں کرنے دوں گا جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہیں کرنے دیا تھا اور اس اصول کے ماتحت کوئی خلیفہ پہلے خلیفہ کے فیصلوں کا پابند نہیں یہ بھی دوست اچھی طرح سے سن لیں.اس نے اپنے حالات کے مطابق شریعت اسلامیہ کے وقار اور عزت اور احترام کو قائم کرنا ہوتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ فیصلہ کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہیں کیا تھا وہ پابند نہیں تھے.کوئی کھڑا ہو جا تا اور

Page 436

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۲۲ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء کہتا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے تو کبھی نہیں فرمایا تھا کہ اگر کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا ہے تو میں تین ہی قرار دوں گا آپ کون ہو گئے کہنے والے نہ کسی اور خلیفہ کو یہ کہا جاسکتا ہے.خلافت کا کام ہے شریعت اسلامیہ کے احترام کو قائم کرنا.قرآن کریم سے یہ ثابت ہے اور طلاق کے سلسلہ میں قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام کو استہزا کا ذریعہ نہ بناؤ سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۲۷ سے یہ مضمون شروع ہوتا ہے اسے ہر کوئی پڑھ سکتا ہے میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا دیر ہو جائے گی.پس میرا یہ کام ہے کہ میں تمہیں شریعت سے استہزا نہ کرنے دوں.تمہاری مرضی ہے کہ جماعت مبائعین میں رہو یا چھوڑ کر چلے جاؤ.خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں میں کسی کی مردہ کیڑے کی حیثیت بھی نہیں سمجھتا.خدا تعالیٰ خود میری راہنمائی کرتا ہے میں نے تم سے دین نہیں سیکھنا تم نے مجھ سے دین سیکھنا ہے.خلافت کے متعلق تو قرآن نے اعلان کر دیا ہے اسی آیت استخلاف میں کہ یہ ہم نے Institute ) منصب ) اس لئے بنایا ہے کہ دین کو محکم کریں اور تمہاری پریشانیاں دور کریں.جب پریشانی کا وقت آتا ہے تو تم میرے پاس آجاتے ہو اور جب ہزار دو ہزار پاؤنڈ بچانے کا وقت آتا ہے تو تم شریعت اسلامیہ سے استہزا کرنے لگتے ہو ایسا نہیں ہوگا.باقی یہ ٹھیک ہے کہ آپ یہاں الگ تھلگ تھے چھوٹی سی جماعت تھی اس قسم کے معاملے ربوہ چلے جاتے تھے لیکن یہاں کی جماعت کے نوجوانوں کو عام معاملات اور دینی مسائل کا پتا ہونا چاہیے مثلاً طلاق کے مسئلہ کو لے لیں اس سلسلہ میں اسلام نے جو تعلیم دی ہے اور قرآن کریم نے اس کے متعلق جو ارشاد فرمایا ہے اس کا پتا ہونا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ لوگ تعدد ازدواج پر اعتراض کرتے ہیں.آپ نے فرمایا اس میں اعتراض کرنے کی کیا بات ہے.مجھ سے بھی پوچھا تھا اسی یورپ کے دورے میں کہ اسلام تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے میں اس اعتراض کو سمجھ گیا تھا میں نے کہا دیکھو! بات سنو !! جس دوسری لڑکی سے ایک شخص شادی کرنا چاہتا ہے جس کو دوسری بیوی بنانا چاہتا ہے اگر اس کو اعتراض نہ ہو تو تمہیں کیا اعتراض ہے.اس کو تو پتا ہے کہ میں دوسری بیوی بن رہی ہوں اور وہ اعتراض نہیں کرتی تو تم کیوں اعتراض

Page 437

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۲۳ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء کرتی ہو.یہ تو نا معقول بات ہے.باقی رہا معاملہ پہلی بیوی کا تو شریعت کہتی ہے کہ تم اس سے پوچھو اور بتاؤ کہ میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں اس سے اجازت لینا ضروری نہیں لیکن اس کا یہ اختیار ہے کہ یا تو یہ کہہ دے کہ ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ رہوں گی ، دوسری شادی کی تمہیں ضرورت ہے یہ تمہارا حق ہے اس لئے تم بے شک دوسری شادی کرو میں روک نہیں بنتی مثلاً حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کی پہلی بیوی سے کوئی بچہ نہیں تھا جب دوسری بیوی کا سوال پیدا ہوا تو پہلی بیوی نے کہا بڑے شوق سے دوسری شادی کریں.چنانچہ دوسری بیوی کے بچوں کو اتنے پیار سے پالا کہ باہر سے آنے والا شخص یہ پہچان ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ پہلی بیوی کے بچے ہیں یا دوسری بیوی کے اور اگر وہ کہے کہ میں نہیں رہنا چاہتی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ لکھا ہے وہ طلاق لے لے اور دوسری جگہ لکھا ہے کہ وہ خلع لے لے.قرآن کریم کے محاورہ میں یہ ہے ہی طلاق.قرآن کریم کے محاورہ میں ضلع نہیں لیکن طلاق کے جو دو Aspects تھے دو پہلو تھے کہ ایک طلاق وہ ہے جو خاوند اپنی مرضی سے دیتا ہے اور دوسری طلاق وہ طلاق ہے جو بیوی اپنی مرضی سے حاصل کرتی ہے اس لئے انہوں نے مضمون کو سہل بنانے کے لئے خلع کا لفظ بنا لیا یعنی علیحدگی ، لیکن قرآنی محاورہ میں یہ طلاق ہی ہے.ضلع کا لفظ مجھے تو قرآن کریم میں کہیں نظر نہیں آیا لیکن دو پہلو نظر آئے ہیں اور عقل ہمیں یہ بتاتی ہے اس لئے اگر فقہاء نے اپنی ایک اصطلاح وضع کر لی ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ، بڑا اچھا کیا لیکن دراصل اس کے اوپر طلاق کے قوانین لگیں گے لیکن اگر حالات ایسے ہوں کہ خاوند کا کوئی جرم یا کوئی ایسی ذمہ داری جو اس نے نباہی نہ ہوا ایسا کوئی کیس نہ ہو تو پھر بیوی اپنے شوق سے کہ میں اس طرح علیحدہ ہو رہی ہوں اس لئے مجھے بے شک مہر بھی نہ دو اور جو دے چکے ہو اس میں سے بھی کچھ چیزیں واپس لے لو.قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے بیوی اپنی مرضی سے واپس کر سکتی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شادی شدہ عورت آئی اُس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اپنے خاوند کے پاس نہیں رہ سکتی.آپ نے فرمایا اس کے اندر تم نے کوئی اخلاقی سقم دیکھا ہے.کہنے لگی بالکل نہیں بڑا با اخلاق انسان ہے.آپ نے فرمایا کیا تمہیں تنگ کرتا ہے.کہنے لگی

Page 438

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۲۴ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء بالکل تنگ نہیں کرتا لیکن میرا دل اس سے نہیں لگتا، میں نہیں کھاتا.ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے.آپ نے اس کو طلاق دلوا دی.اب یہ جدائی جو ہے یہ اور قسم کی جدائی ہے اگر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو یہ کہتے کہ پھر تم اس کو اس حالت میں کہ اخلاقاً اچھا ہےتمہارےساتھ اچھا سلوک کرتا ہے پھر دل نہیں ملے تمہارے تو تم اس کا مہر چھوڑ دو اور بھی جو کچھ لیا ہے وہ واپس کر دو تو یہ اور چیز ہو جائے گی لیکن یہ سمجھنا کہ بیوی کا خون چوس کر اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچا کر ہم دنیا کی دولت کما لیں گے اور جماعت احمدیہ کا خلیفہ اس کی اجازت دے دے گا تو یہ بڑی حماقت ہوگی اس کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے.باقی میں اب اصل مضمون کی طرف آجاتا ہوں اور وہ ہے دعا.میں ہر نماز میں قریباً آپ سب کے لئے دعائیں کرتا ہوں سارے بیماروں کے لئے دعائیں کرتا ہوں سارے طالب علموں کے لئے دعائیں کرتا ہوں.سارے پریشان حالوں کے لئے دعائیں کرتا ہوں.جو تنگی میں ہیں ان کی فراخی کے لئے دعائیں کرتا ہوں یہ میرا کام ہے میں آپ پر احسان نہیں جتانا چاہتا.خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے دل میں آپ کا پیار سمندر کی طرح موجیں مار رہا ہے.خدا نے بنی نوع انسان کا پیار میرے دل میں پیدا کیا ہے.یہ جو میں دورے پر جاتا ہوں اور پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتا ہوں تو اُن سے میں یہی کہتا ہوں کہ تمہاری محبت میرے دل میں ہے وہ مجھے تمہارے پاس لے آتی ہے.تم کدھر جا رہے ہو تم اپنی اصلاح کرو اور اپنے خلق کی طرف رجوع کرو تا کہ اس کی ناراضگی سے بچ جاؤ اور خدا سے دوری کے نتیجہ میں جو ہلاکت آتی ہے اس سے بچ جاؤ اور اکثر احباب بھی دعائیں کرتے ہیں.مجھے شرم آ جاتی ہے بعض لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے تو اپنی ساری دعا ئیں آپ کے لئے وقف کی ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کی وہ ساری دعائیں قبول کرے جو اس وجہ سے وہ نہیں کر سکے اور ان کو کرنی چاہئیں تھی خدا تعالیٰ تو علام الغیوب ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہمارا خدا اتنا پیار کرنے والا خدا ہے کہ ایک عارف جب خدا تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے اور دعائیں کرتا ہے کسی چیز کے حصول کے لئے تو اس کی عارفانہ کوشش ہوتی ہے اور ایک دہر یہ سائنسدان ہے جو خدا کو مانتا نہیں اور ریسرچ میں ایک جگہ اٹک جاتا ہے جب وہ اٹک

Page 439

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۲۵ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء جاتا ہے تو وہ Groping ( ٹوہ لگانا) کر رہا ہوتا ہے کبھی ادھر کی سوچتا ہے کبھی ادھر کی کبھی اس سے مشورہ لیتا ہے کبھی اس سے اور کبھی کچھ کرتا ہے اور کبھی کچھ.آپ نے فرمایا اس اندھیرے میں جو ہاتھ پاؤں مار رہا ہے خدا اُس کو کہتا ہے چلو میں نے دعا سمجھ لیا اور کام پورا کر دیتا ہے اور اسی لئے جو بڑے بڑے سائنسدان ہیں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ جہاں ہم اٹک جاتے ہیں وہاں کوئی غیبی طاقت جسے وہ پہچانتے نہیں یا جس کو پہچاننے سے وہ انکار کر رہے ہیں اُس غیبی طاقت کی طرف سے انہیں روشنی مل جاتی ہے.پس بڑا پیار کرنے والا ہے ہمارا خدا.یہ بڑا پیارا مہینہ ہے رمضان کا.اس مہینے میں دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں لیکن دعا میں نیتوں میں اخلاص ہو فساد نہ ہو.دنیا کی بھلائی کے لئے دعائیں کریں جس گند میں یہ لوگ پھنسے ہوئے ہیں اس میں سے بغیر دعا کے نہیں نکل سکتے.اُن کی عقل مان لیتی ہے لیکن ان کی عادتیں اس وقت ماننے سے انکار کر رہی ہیں جو بات کہو مانتے چلے جاتے ہیں یعنی پادریوں سے بھی بات کرو تو ایک خاص وقت تک ہر دلیل مان لیتے ہیں اور جس وقت اس کا نتیجہ نکالتے ہیں تو پھر اُن کو ہوش آتا ہے کہ او ہو ہم سے کیا غلطی ہوگئی وہ دلائل مان گئے ہیں کہ جو اس طرف لے جارہے تھے کہ عیسائیت کی تعلیم درست نہیں ہے بہر حال اس وقت انسان کی بڑی قابل رحم حالت ہے.میں نے ان کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ تم اگر خدائے خالق و مالک کی طرف نہ لوٹے تو ہلاک ہو جاؤ گے.تو مجھے سے ایک صحافی پوچھنے لگے کہ آپ ہم سے پرامید ہیں یا نا امید ہیں.میں نے کہا نا امید تو میں ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت دی ہے کہ دنیا کی اکثریت اسلام میں داخل ہو جائے گی مگر سوال صرف یہ ہے کہ تم چپیریں کھا کر اسلام کے اندر داخل ہوتے ہو یا خدا کے پیار سے داخل ہوتے ہو.حضرت اقدس مسیح موعو علیہ السلام نے فرمایا ہے آخری ہزار سال تو بہر حال خدا اور اس کے مسیح کا ہے اور صلاح کا اور تقویٰ کا اور خیر کا اور برکت کا ہے.آخر یہ اگلا ہزار سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور کسی نے زندہ تو رہنا نہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جدا ہو گئے

Page 440

خطبات ناصر جلد ہفتہ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۸ء تو اور کس نے زندہ رہنا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اور نہ کسی کے دل میں ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش پیدا ہوئی نہ اپنے رہنے کی خواہش کبھی پیدا ہوسکتی ہے یعنی اگر کسی انسان کو زندہ رہنا چاہیے تھا تو وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے وہ وفات پاگئے تو اب ہم کیا سوچیں اور کیا خواہشات رکھیں لیکن ہمیں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کی خلافت قائم رہے گی اور کوئی خلیفہ بھی ایسا نہیں آئے گا جو تمہیں شریعت اسلامیہ سے استہزا کرنے کی اجازت دے دے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پھر تو گو یا خلافت ختم ہوگئی.تو یہ بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقامِ خلافت سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور خلافت سے جو برکات وابستہ ہیں اُن کو حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے.جماعت احمدیہ کے بچے ہیں.بچے تو بڑے پیارے ہوتے ہیں.مجھے ویسے ہی بچوں سے بڑا پیار ہے.جب امتحان آئیں تو وہ مجھے دعا کے بہت خط لکھتے ہیں کئی لکھتے ہیں کہ تیاری کوئی نہیں دعا کریں کامیاب ہو جائیں پھر اگر خدا تعالیٰ اُن کے حق میں دعاؤں کو قبول کر لے تو پھر بڑے پیار کے خط آتے ہیں کہ مجھے تو پاس ہونے کی امید نہ تھی ہمیں سیکنڈ ڈویژن مل گئی یا ہمیں سیکنڈ ڈویژن سے او پر نمبر لینے کی امید نہیں تھیں ہمیں فرسٹ ڈویژن کے نمبر مل گئے.اللہ تعالیٰ بڑا پیار کرنے والا ہے.وہ تو بڑا دیا لو ہے اس کے خزانے تو کبھی خالی نہیں ہوتے تمہارے خزانے خالی ہو جاتے ہیں اس لئے تم اس کا دامن نہ چھوڑ واسی میں تمہاری بھلائی اور خوشحالی کے سامان ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس مسئلہ کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ اپنی رضا کی جنتوں میں ہمیشہ آپ کو رکھے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ ، صفحه ۵ تا ۱۲) 谢谢谢

Page 441

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۲۷ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء ہر شخص اپنی نیت ، کوشش اور استعداد کے مطابق ثمرہ حاصل کرتا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۵ رستمبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد فضل - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ ( البلد : ۵) کہ ہم نے انسان کو رہین محنت بنایا ہے." في كبد “ کے معنے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر صغیر میں رہین محنت کے کئے ہیں وہی معنے میں اس وقت لے رہا ہوں یعنی انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنی محنت کا رہین ہے.اس سے بہت سی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.محنت اس وقت ہی ہو سکتی ہے جب محنت کرنے کی قوتیں اور استعداد میں بھی ہوں.بعض بچے لاتوں کی کمزوری لے کر پیدا ہوتے ہیں.کئی ایسے بچے ہیں میرے پاس بھی خطوط آتے رہتے ہیں کہ تین ، چار سال کا بچہ ہے وہ ٹھیک طرح کھڑا ہی نہیں ہو سکتا.اب ایسا بچہ دوڑنے کی استعداد نہیں رکھتا تو دوڑ کے میدان میں محنت کر کے انعام حاصل نہیں کر سکتا اس لئے کہ دوڑنے کی طاقت ہی اس کے اندر موجود نہیں تو رہین محنت انسان کو بنایا ہے.یہ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بھی فرمایا کہ انسان کو بہت سی قوتیں اور طاقتیں عطا کی گئی ہیں جن کو وہ استعمال کر سکتا ہے.پھر جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ انسان کو ر بین محنت بنایا ہے تو اس میں اس طرف

Page 442

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۲۸ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ کس غرض کے لئے محنت کی جاتی ہے.آخر انسان کوئی کام کرتا ہے تو کوئی مقصود بھی سامنے ہونا چاہیے.تو خدا تعالیٰ نے اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ اُس نے انسان کے سامنے زندگی گزارنے کا منصوبہ بھی پیش کیا ہے کہ وہ کن اغراض کے لئے اپنی قوتوں اور استعدادوں کو استعمال کریں.ان مقاصد کے لئے تیسرا اشارہ اس طرف ہے کہ محنت کرنے کی طاقتیں بھی ہیں اور مقاصد بھی ہمارے سامنے رکھے گئے ہیں یعنی جو خدا داد قو تیں اور استعدادیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو مقصد ہمارے سامنے رکھا ہے اس مقصد کے لئے جب ہم کوشش کریں گے تو حاصل کیا ہوگا ؟ ہمیں کیا ملے گا ؟ تو دنیا میں جو مقابلہ ہے اس میں ہر شخص کو انعام نہیں ملتا لیکن یہاں اعلان کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئے یہ بھی اشارہ کیا کہ جب تم ہماری قوتوں اور استعدادوں کو ہمارے بتائے ہوئے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرو گے اور بہت محنت کرو گے تو تمہیں تمہاری قوتوں اور استعدادوں اور تمہاری محنتوں کا نتیجہ اور پھل اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت کی صورت میں ملے گا.یہ ایسا مقابلہ ہے جس میں اول.دوم سوم کو انعام نہیں ملتا.ہر شخص اپنی نیت کے مطابق اور اپنی کوشش کے مطابق اور اپنی استعداد کے مطابق ثمرہ حاصل کرتا ہے اور پھل پاتا ہے.پھر آگے اسی سورۃ میں بتایا ہے کہ ایک بات کا خیال رکھیں ! دنیا کے مقابلے میں بددیانتی بھی ہو سکتی ہے مثلاً ابھی یہاں بھی شور مچا ہوا ہے کہ اتھلیٹ ڈرگز (Drugs) استعمال کر رہے ہیں جس کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں اور یہ کھیل کے میدان میں بددیانتی کے مترادف ہے.اول اور دوم آنے کا مقابلہ ہے اور بددیانتی سے حصول انعام کی کوشش کی جارہی ہے.تو اللہ تعالیٰ اسی سورۃ میں فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے اندرونے کو جاننے والا کوئی نہیں خدا تعالیٰ کی ذات سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں اس لئے بددیانتی کر کے خوشامدانہ طریقے پر لوگوں کو خوش کرنے کے لئے جو نیک اعمال بجالاؤ گے اس کا پھل تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ملے گا.خدا کہے گا کہ جن کی خاطر تم نے یہ کوششیں کی ہیں اُن سے جا کر یہ انعام لینے کی کوشش کرو میرے گھر میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے.پس" في كبد “ میں ان ساری باتوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے یہاں کہا گیا ہے کہ رہین محنت ،

Page 443

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۲۹ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء اسلام کی اصطلاح میں جو آخری چیز اس سلسلہ میں میں بتانا چاہتا ہوں ابتدائی تمہید میں وہ یہ ہے کہ مادی ذرائع سے جو تدبیر کی جاتی ہے صرف اسی کا نام محنت نہیں ہے یعنی اسلامی اصطلاح میں صرف اسی کو محنت نہیں کہتے.دنیا میں تو اسی کو محنت کہتے ہیں مثلاً کھلاڑی ہیں وہ دوڑ وں میں آگے نکلنا چاہتے ہیں.وہ ورزشیں کرتے ہیں.ضرورت کے مطابق ان کو غذا دی جاتی ہے.ان کے کوچ (Coach) خیال رکھتے ہیں کہ وہ وقت ضائع نہ کریں اور وقت کو ایسا خرچ کریں کہ جو دوڑ کی قابلیت ہے اس پر اثر انداز ہو وغیرہ وغیرہ.یہ ساری امدادی تدبیریں ہیں جو وہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں اسلامی اصطلاح یہ بتاتی ہے کہ جب قرآن کریم یا جو اسلامی لٹریچر قرآن کریم کی تفسیر میں ہے وہ محنت کا ذکر کرے تو اس کے معنے دونوں کے ہیں یعنی مادی تد بیر بھی اور دعا بھی یعنی دونوں چیزیں علیحدہ علیحدہ نمایاں حیثیت رکھنے کے باوجود پھر بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں.پس جب قرآن کریم نے کہا: - لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَد کہ انسان کو اس کی محنت کے مطابق پھل ملے گا تو اس میں یہ بھی بتایا کہ اس کی محنت میں محض پچھلی رات دو دو گھنٹے عبادت کرنا نہیں بلکہ نیک نیتی سے عبادت کرنا.دوسروں پر رعب ڈالنے کے لئے یا دکھاوے کی عبادت نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا کا ایک بندہ خدا تعالیٰ سے اس قسم کے تعلقات کو اس طرح چھپاتا ہے جس طرح میاں بیوی اپنے تعلقات کو چھپاتے ہیں اور اُن کو پر دے میں رکھتے ہیں اور کسی نے شاید لطیفہ ہی بنایا ہوگا کہ ایک شخص تھا وہ رات کے وقت بڑی آہ وزاری کیا کرتا تھا.اس کا ایک مرید تھا اس نے ایک دن خیال کیا کہ میں بھی ان نوافل کی عبادت میں تضرع اور ابتہال میں شامل ہوں اور اپنے پیر کے ساتھ میں بھی نفل پڑھوں تو وہ مہمان ٹھہرا ہوا تھا.اس نے سوچا کہ اگر کمرہ کا دروازہ بند ہوا تو مشکل ہے اگر کھلا ہوا تو کوشش کروں گا وہ تو نماز میں اتنے مشغول ہوں گے کہ ان کو پتا بھی نہیں لگنا کہ اُن کے ساتھ جا کر کوئی کھڑا ہو گیا ہے.وہ دبے پاؤں چپ کر کے آیا.دروازہ کھلا تھا.کھول کر اندر دیکھا تو پیر صاحب تو خراٹے لے رہے تھے اور ٹیپ ریکارڈر گریہ وزاری کر رہا تھا.پس یہ چالاکیاں دنیا میں چل سکتی ہیں مگر

Page 444

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۳۰ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء اس سورۃ البلد میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں دیکھنے والا کوئی نہیں.تمہارے ساتھ جس کا تعلق ہے اس کو تو اونگھ بھی نہیں آتی.نیند اور خراٹے لینے کا تو کوئی سوال بھی نہیں.اس کی نگاہ سے تم کیسے بچ جاؤ گے اور تمہاری چالاکیاں اس کے سامنے کیسے چلیں گی؟ اور جیسا کہ میں اب بتا رہا ہوں ، محنت میں مادی تدابیر ساری شامل ہیں اور دعا شامل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے جس کا میں اب حوالہ دے رہا ہوں کہ تدبیر کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ وہ اسی " وو في كبد “ کی تفسیر ہے اور دعا کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ تب تمہیں بہترین بدلہ ملے گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض مختصر اور بعض بہت سی لمبی احادیث ہیں جن میں اس بات کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے.بعض لوگ آہستہ آہستہ ظاہر کی طرف جھک جاتے ہیں جو بڑا آسان کام ہے اور جو باطن ہے اور جس کا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے اور جس کا تعلق انسان کی اپنی نیک نیتی کے ساتھ ہے اور جس کا تعلق خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت کے ساتھ ہے اور جس کا تعلق انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہے اُس کو وہ بھول جاتے ہیں.تو بات یہی سچ ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا اعلان بھی ہے.خدا تعالیٰ کا ئنات کا مالک ہے.ہم نے اپنی زندگی میں تجربہ بھی یہی کیا ہے.ہمارا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی باتیں ہی سچی ہوتی ہیں.باقی یہ دنیا تو آدھا سچ بولتی ہے اور آدھا جھوٹ بولتی ہے.جب تک کوئی شخص نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ انتہائی کوشش نہ کرے خدا تعالیٰ کے راستے میں اور یہ کوشش محض تدبیر سے نہ ہو بلکہ دعائیں بھی اسی طرح اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہوں جب تک یہ حالت نہ ہو اس وقت تک اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق جو بہترین بدلہ کسی کومل سکتا ہے وہ اسے نہیں مل سکتا.اگر کہیں یہ خامی ہوگی تو کچھ مل جائے گا.خدا تعالیٰ بڑا غفار بھی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے ہاں چالاکیاں نہیں چلا کرتیں.اب میں اس تمہید کے بعد کچھ ذمہ داریوں کی طرف آتا ہوں لیکن آپ ان باتوں کو ذہن میں رکھیں جو میں نے رہین محنت کے بارہ میں بتائی ہیں.شروع خلافت میں فضل عمر فاؤنڈیشن کا ایک منصوبہ تیار کیا گیا تھا.دراصل جو بلی فنڈ کا جو

Page 445

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۳۱ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء منصوبہ تھا وہ ایک پل کا کام دیتا ہے خلافت ثانیہ اور خلافت ثالثہ کے درمیان.یہ نہ سمجھیں کہ خلافت کے بدلنے کے ساتھ کوئی نئی کوشش ہوتی ہے.تسلسل ہے جس کے اندر کوئی روک نہیں.جس میں یہ ڈر نہیں کہ ٹوٹ گیا اور نئے سرے سے آگیا ہے.ایک جگہ ٹھہر کر نئے سرے سے حرکت نہیں ہوتی.ایک مسلسل حرکت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ شروع ہوئی ہے وہی حرکت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تسلسل کے ساتھ آگے سے آگے Momentum gain کر کے بڑھ رہی ہے لیکن بعض چیزوں کو نمایاں کرنے کے لئے یہ فضل عمر فاؤنڈیشن کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور اس کی جو معیاد تھی اس میں مالی قربانی دے کر حصہ لینے کی وہ غالباً تین سال کی تھی.اس کے بعد وہ ختم ہو گئی لیکن جو اموال جمع ہوئے تھے اور وہ جیسا کہ وہ مشروط کئے گئے تھے پہلے دن سے اُن کو کام پر لگایا جائے گا اور اُن کے منافع سے و کام کئے جائیں گے جن سے یہ منصوبہ چلایا جائے گا.چلتا رہے گا.قیامت تک چلے گا.اس کے پانچ سال بعد نصرت جہاں آگے بڑھو کا منصو بہ بن گیا.نصرت جہاں آگے بڑھو کا جو منصوبہ ہے وہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کا پیارا گر کسی کو حاصل ہو تو میں نے ابھی اشارہ کیا تھا Momentum gain کرتی ہے حرکت، تو پانچ سال کے بعد اتنی قربانیاں اور دینے والے اور فضل عمر فاؤنڈیشن میں زائد چندہ دینے والے یعنی جو لازمی چندے ہیں یا تحریک کے چندے یا اور بہت سارے چندے ہیں.جماعت بڑی مالی قربانی دیتی ہے.پھر چند سال کے بعد نصرت جہاں کے چندے شامل ہو گئے ۱۹۷۰ ء میں اور اس کی مالی قربانی کی معیاد تین سال تھی اور کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ سٹرلنگ کہا گیا تھا کہ وہاں خرچ کرو.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ایک لاکھ پاؤنڈ سٹرلنگ کی جگہ دواڑھائی لاکھ پاؤنڈسٹرلنگ کی رقم ساری دنیا میں جمع ہوگئی اس وقت تک.بعض ملکوں سے تو باہر نہیں نکلی وہ اُن کے اپنے ملکوں میں ہے.بعض جگہ سے باہر نکلی اور اس میں کچھ رقم پڑی ہوئی ہے.اس میں یہ اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق منصوبہ شروع کیا گیا تھا.اتنی برکت خدا نے ڈالی ہے کہ جو منصو بہ مالی لحاظ سے پچاس ساٹھ لاکھ روپے پاکستانی سے شروع کیا گیا تھا اس کی آمد مغربی افریقہ میں جہاں کے لئے یہ منصوبہ تھا پانچ کروڑ سے اوپر نکل چکی ہے

Page 446

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۳۲ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء اور مجھے تو قطعاً کوئی دلچسپی نہیں اس قسم کے روپے سے.خدا کا مال ہے اس کی راہ میں خرچ ہونا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی ذاتی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے اور اس کے خادم ہیں.اس کا ایک بڑا عجیب اثر وہاں یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ کی ایسی حکمت تھی اس کا منصوبہ تھا بڑا عجیب جو میرے ذہن میں ڈالا گیا کہ اتنی بڑی رقم کا ایک دھیلا بھی ان ممالک سے باہر نہیں نکالا گیا.یہ مقابلہ ہو گیا قریباً ڈیڑھ دو سو سال پہلے ان ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں عیسائی پادری داخل ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لے کر تمہارے پاس آئے ہیں اور ان کے پیچھے ان ممالک کی فوجیں وہاں داخل ہوئیں اور میں جب ۱۹۷۰ء میں وہاں گیا ہوں تو میں نے ان سے باتیں کیں اور میں نے اُن سے کہا کہ یہ کہ کے تو یہ آئے تھے کہ خداوند یسوع مسیح کے پیار کا پیغام تمہارے پاس لے کر آئے ہیں لیکن سارا کچھ، پنجابی کا محاورہ ہے سب کچھ ہو نج کے لے گیا سب کچھ لے گئے اور تمہاری کچھ چیز ہی نہیں چھوڑی.یعنی یہ ایک حقیقت ہے اور ان قوموں کو بھی پتا ہے کہ عیسائیت نے اُن کے ساتھ یہ کچھ کیا ہے.سب سے پہلے میں نائیجیریا میں گیا تھا دو تین دن میں میری طبیعت پر یہ اثر تھا.میں نے ایک دوست سے کہا میری طبیعت پر تو یہ اثر ہے کہ.You had all.You are deprived of all خدا تعالیٰ نے تمہیں سب کچھ دیا تھا اور تمہیں سب کچھ سے محروم کر دیا گیا.دو دن کے بعد اُس وقت یعقو بو گوون سر براہ مملکت سے میری ملاقات تھی تو اُن کو میں نے کہا کہ ایک دوست سے میری بات ہوئی ہے اس کا حوالہ دے کر میری طبیعت پر یہ اثر تھا اور میں نے یہ کہا تو ان پر فوری رد عمل یہ ظاہر ہوا کہ کہنے لگے.How true you are! How true you are ان سب کو پتا تھا اور ہم شروع سے گئے ہوئے ہیں لیکن اس قسم کی آمد جو ہے ان ملکوں میں وہ نہیں ہوئی لیکن جماعت احمد یہ تو پچاس سال سے بعض علاقوں میں کام کر رہی ہے ان کو اس وقت بھی میں نے کہا ہم تمہارے ملکوں میں آئے ہم اپنے ملک سے پیسے لائے اور تمہارے اوپر خرچ کئے.تعلیم کے اوپر خرچ ہونے شروع ہو گئے تھے.تربیت کے اوپر، اسلامی تعلیم دینے کے اوپر یہ ساری رقم

Page 447

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۳۳ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء خرچ ہو رہی تھی.ہمارے آدمی کام کر رہے تھے.ایک دھیلا تمہارے پاس سے لے کر نہیں گئے لیکن وہ تو چھپی ہوئی چیزیں تھیں.اب جو بات کھل کر سامنے آ گئی پانچ کروڑ سے زیادہ رقم وہاں کا بہت بڑا حصہ اٹھانوے فیصد اس کا حصہ وہاں کے جو کلینکس (Clinics) ہیں اُن میں ڈاکٹروں کے ہاتھ میں خدا نے شفار کھی اور ان کے ذریعہ سے یہ مال دیا اور ایک دھیلا وہاں سے باہر نہیں نکالا گیا اور اب بھی باہر سے وہاں جاتا ہے جو خریدنا چاہتے ہیں جراحی کے آلات وغیرہ یا ادویہ وغیرہ یا آپریشن ٹیبل وغیرہ.کچھ چیزیں ایسی ہیں جو یہاں سے بھجوانی پڑتی ہیں اور اس مد میں سے جاتا ہے.بس اتناہی رہ گیا ہے کہ اگلے دس سال میں یہ جو آسمانی نالہ تھا ۱۹۷۰ء میں جاری ہوا یہ ایک اور بڑے دریا کے اندر مل جائے گا.یہ میں بتا چکا ہوں میرے ذہن میں جو منصوبہ ہے وہ یہی ہے کہ یہ ایک حصہ بن جائے گا صد سالہ جو بلی فنڈ کا یعنی صد سالہ جو بلی فنڈ کا تو ہم کہہ جاتے ہیں لیکن صد سالہ جوبلی منصوبہ کا حصہ بن جائے گا.فنڈ تو اس منصوبہ کا ایک حصہ ہے اور اتنی برکت خدا تعالیٰ نے اس میں دی اور اتنا یہ کام ہورہا ہے لیکن لَقَد خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ.یہ جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس اعلان کے مطابق اور اس کی روح کے مطابق جس کا ابھی میں نے ایک دو چار کر کے بتایا ہے.یہ روح ہے اس آیت کے اندر جس کا اعلان کیا گیا ہے اس کے مطابق خدا تعالیٰ کے حضور انتہائی تدبیر اور انتہائی دعائیں پیش کرتے چلے جاؤ.ایک نسل کے بعد دوسری نسل اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل خدا تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کو حاصل کرتے چلے جاؤ.بہت دور رس وہ چھوٹی سی سکیم تھی اس وقت تو کسی کو بھی پتا نہیں تھا.مجھے بھی پتا نہیں تھا.غیب کا علم تو ہمیں حاصل نہیں ہوتا کہ کیا شکل بنے گی.ایک چھوٹا سا پھول جس طرح گلاب کا نکلتا ہے یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ زندہ بھی رہے گا یا نہیں.پھر جس وقت ایک پتی کے بعد دوسری پتی کھلتی ہے اور بیسیوں بعض کی اس سے بھی زیادہ پتیاں نہایت خوبصورت پھول بن جاتا ہے ویسا پھول بن گیا لیکن یہ جو مٹی کے ذروں سے پھول بنے ہوئے ہوتے ہیں ان پر بڑی جلدی موت آجاتی ہے لیکن جو خدا تعالیٰ کی برکتوں کے پھول قوموں کی زندگی کے اندر کھلتے ہیں ان کا قوموں پر انحصار ہے کہ وہ مرجھا جائیں گے یا تر و تازہ رہیں گے.ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں یہ میں آپ کو

Page 448

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۳۴ خطبه جمعه ۱۵رستمبر ۱۹۷۸ء کہہ رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی ان نعمتوں کے یہ جو حسین گلاب کے پھول ہمیں اپنی زندگی میں نظر آتے ہیں ان کو ترو تازہ رکھنے کے لئے اسی طرح اخلاص کے ساتھ قربانیاں دو.دعائیں کرو خدا تعالیٰ کے حضور.رزق بھی اسی کا ہے، دولت بھی اسی کی ہے اور خزانے بھی اسی کے ہیں.سارا جہان اسی کا ہے کسی کا قرضہ وہ رکھتا نہیں.میرا مضمون یہ نہیں اس لئے میں اس مضمون میں نہیں جاؤں گا.کئی دفعہ پہلے بھی بتا چکا ہوں زندگی رہی تو آگے بھی بتا تا رہوں گا کہ خدا تعالیٰ کسی کے قرضے نہیں رکھا کرتا لیکن جہاں تک اب پہنچا ہوں یعنی کتنے دن گزرے نصرت جہاں کو.اعلان کیا تھا میں نے ۱۹۷۰ ء میں قریباً آٹھ سال ہو گئے اور اعلان یہ تھا کہ پیسے دو.اعلان یہ تھا کہ زندگیاں وقف کرو، استاد بھی اور ڈاکٹر بھی اور کام کی ابتدا عملاً دو سال کے بعد ہوئی تھی.تو پانچ ، چھ سال کے اندر ایک بڑا انقلاب آگیا ہے ان علاقوں میں اور بڑی قدر پیدا ہوئی ہے.جماعت کا بڑا اثر ہے اور اب تو ہمارے لئے وہاں یہ مشکل پڑ گئی ہے کہ جو ہمسایہ ممالک ہیں وہاں سے بڑے امیر لکھ پتی لوگ علاج کے لئے ہمارے کلینکس میں آجاتے ہیں یعنی جہاں جہاں ہمارے کلینکس کھولے گئے ہیں وہاں آ جاتے ہیں اور بعض ممالک نے احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے کہ تم ہمسایہ ممالک کے مریضوں کا کیوں علاج کرتے ہو اس کا مطلب ہے کہ جتنی مثلاً Indoor کے لئے تیس چار پائیوں کا انتظام ہے تو اگر دس غیر ممالک کو دے دیں تو اس کا مطلب ہے کہ جو اس ہمارے ملک کے Indoor مریض ہیں ان کو یہ چار پائیاں نہیں ملیں گی ، یہ بھی سامنے آ گئی بات.اللہ تعالیٰ اس کا بھی سامان پیدا کرے گا.یہ صحیح ہے کہ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اس ملک کا کوئی مریض جس کو Indoor مریض کے طور پر داخل کرنا چاہیے اس کے لئے بہر حال چار پائی چاہیے اور اس کو انکار نہیں کرنا چاہیے.اس کے لئے کمرے اور تیار کریں.خدا نے پیسے دیئے ہیں خدا کے پیسے اسی کی راہ میں خرچ کرنے ہیں.پیارا فقرہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہہ گئے ہیں سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے ہم نے اپنے گھر سے تو کچھ خرچ نہیں کرنا، ضرورت ہے خرچ کرو.خدا تعالیٰ ضرورتوں کو

Page 449

خطبات ناصر جلد ہفتم پورا کرنے والا ہے.۴۳۵ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء میں آپ کو یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ وہ جو ۱۹۷۰ء میں منصوبہ شروع کیا گیا تھا وہ بہت ہی دور رس نتائج کا حامل ہے اور آگے اور انشاء اللہ پھیلے گا اور اس کی برکات ظاہر ہوں گی لیکن وہ بہر حال اس لحاظ سے مختصر تھا کہ چھ ملکوں کے ساتھ اس کا تعلق تھا.پھر تین سالوں کے بعد ۱۹۷۳ء میں صد سالہ جو بلی آگئی اور فضل عمر فاؤنڈیشن میں جماعت نے جو زائد چندے دیئے اس سے دُگنے سے بھی زیادہ نصرت جہاں سکیم میں انہوں نے چندے دیئے اور جب یہ سکیم آئی اور اس کا میں نے اعلان کیا تو شاید میں نے اعلان تو کیا تھا اڑھائی کروڑ کا اور جماعت نے وعدے دے دیئے دس کروڑ کے قریب.بعض جگہ کمی بھی ہے لیکن مجھے کوئی فکر نہیں ہے.جب جماعت نے وعدہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ مخلصین کی اس جماعت کو وعدہ پورا کرنے کی توفیق بھی ضرور دے دے گا.جماعت کے دوستوں کے بچے بڑے ہوں گے وہ کمائیں گے دس گیارہ سال میں نہ کمانے والے بچے کمانے والوں کی صف میں آجائیں گے.اس وقت جو ڈاکٹری اور انجینئر نگ کی آخری کلاس میں ہیں وہ اگلے سال کمانے لگیں گے.جن لوگوں نے وعدے نہیں لکھوائے وہ آگے اور وعدے لکھوائیں گے اور یہ تو چلے گا انشاء اللہ.اس وقت بھی قریباً ڈیڑھ کروڑ کے قریب جمع ہو چکا ہے.اس لحاظ سے انشاء اللہ دس کروڑ روپے جمع ہو جائیں گے.یہ صد سالہ جوبلی منصوبہ ) اپنی وسعت اور پھیلاؤ میں ایک بہت بڑا منصوبہ ہے اور اس کے لئے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ قو میں تیار کی گئی ہیں تمہاری آواز پر لبیک کہہ کر اسلام میں داخل ہونے کے لئے.یہ قو میں جو داخل ہونے کے لئے تیار کی گئی ہیں ان کو سبق دینے والے، ان کو قرآن پڑھانے والے بھی تو ہزاروں کی تعداد میں ضرورت ہے.اس کے لئے ضروری نہیں ہوگا کہ واقف زندگی ہی ہو اس معنی میں کہ جامعہ احمدیہ میں پڑھا ہوا ہو کیونکہ میں ذاتی طور پر بیسیوں احمدی افراد کو جانتا ہوں جو جامعہ کے پڑھے ہوئے تو نہیں لیکن اُن سے اچھی تبلیغ کرنے والے اور اُن سے زیادہ وقت دینے والے ہیں جماعت کے کاموں کی خاطر.اس لئے یہ تو ذہنیت ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ.رہین محنت ہے انسان،

Page 450

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۳۶ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء فرد بھی اور گروہ بھی اور جماعتیں بھی.جماعت اپنی محنت میں کمی نہ آنے دے اور اپنے اخلاص میں کمی نہ آنے دے.اپنی دعاؤں میں کمی نہ آنے دے.اللہ تعالیٰ دنیوی لحاظ سے بھی اُن کو بہت برکتیں دے گا.اب بھی بڑی دی ہیں.ناشکرے نہ بنو شکر کرو اور زیادہ دے گا اور دین کا کام بھی ہو گا اس کے لئے تیار ہو جاؤ.پس یہ جو ( صد سالہ جوبلی ) کا تیسرا منصوبہ چل رہا ہے دوسرے اس کی شاخیں ہیں.اس میں بعض خامیاں بھی کام کے لحاظ سے ہمیں نظر آتی ہیں.مثلاً ہم نے سو زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنا ہے.جو ترجمے ہمارے پاس ہوئے ہوئے ہیں اُن کی نظر ثانی کے لئے ہمیں ماہر احمدی نہیں مل رہے.مثلاً رشین ٹرانسلیشن ہے، سپینش ہے، اٹالین ہے، پر چوگیز ہے لیکن کسی غیر مسلم دھر یہ یا عیسائی نے جو ترجمہ کیا ہے اس کے چھاپنے کی ذمہ داری جماعت کیسے لے لے جب تک یہ تسلی نہ ہو کہ یہ ترجمہ صحیح بھی ہے یا نہیں.دوست دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں کہ ظاہری طور پر جو تد بیر ہے خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالے.ہر سہ منصوبوں میں برکت کے لئے دعا ئیں کریں کثرت کے ساتھ یہ جو صد سالہ جوبلی منصوبہ ہے اس کے لئے دعائیں کریں.یہ اگلی صدی کے استقبال کا منصوبہ ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ انگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے اور جس وقت ظاہر میں تلواروں کی لڑائی تھی یا جب بندوقوں کی لڑائی تھی یا ایٹم کی جنگ ہوتی تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ Climax پر وہ پہنچتی ہے اور سر دھڑ کی بازی لگا دینی ہوتی ہے اس وقت تبھی نتیجہ حق میں نکلتا ہے.پتا نہیں آپ تاریخ پڑھتے ہیں یا نہیں واٹر لو کی جو جنگ انگلستان نے لڑی وہ دنیا کی خاطر لڑی خدا کی خاطر نہیں لڑی.اپنے خداوند یسوع مسیح کی خاطر بھی نہیں لڑی کیونکہ دونوں طرف یسوع کے ماننے والے تھے لیکن وہ جو جیتی ہے جنگ لارڈ ولنگٹن نے آخری تین گھنٹوں میں.تین گھنٹے پہلے وہ جنگ ہار رہا تھا.مگر اس کے دماغ میں ایک تدبیر آئی ہوئی تھی اور اس وقت اس کی یہ حالت تھی کہ دس پندرہ میل کے محاذ پر جہاں وہ لڑائی لڑی گئی ایک محاذ سے ڈویژن کمانڈر کا قاصد آیا ( گھوڑوں پر آتے تھے.یہ جو امیر بنے ہوئے ہیں ان کے بچوں میں سے اور لارڈز کے بیٹوں نے جنگوں میں بڑی جانیں دی ہیں خاص طور پر واٹرلو کے میدان میں ).قاصد آیا اور

Page 451

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۳۷ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء لنگٹن کو کہنے لگا کہ ہمارا کمانڈر کہتا ہے کہ ہماری ساری فوج یعنی ڈویژن کے ستر اسی فیصد فوجی مارے گئے ہیں اور تھوڑے سے رہ گئے ہیں، لڑائی جاری رکھیں یا ہتھیار ڈال دیں.ولنگٹن نے اس سے پوچھا کہ تم کیا کہتے ہو اور تمہارا کمانڈرکیا کہتا ہے.اس نے کہا ہم کہتے ہیں کہ لڑائی جاری رکھیں گے.اس نے کہا میں بھی یہی کہتا ہوں اور آخری تین گھنٹے میں وہ جیت گئے اس لئے کہ اُن آخری تین گھنٹوں میں اُس نے اپنا منصوبہ جو خدا نے اس کے دل میں ڈالا تھا وہ کامیاب ہو گیا.اُس نے آخری بازی لگا دی تھی یہ خیال کر کے کہ شکست نہیں کھانی ، بہر حال جیتنا ہے.یہ صدی جس کے لئے میں کہتا ہوں کہ استقبال کرو غلبہ اسلام کی صدی ہے، بڑی بشارتیں ہیں اور جتنی بڑی بشارتیں ہوں اتنی بڑی قربانی دینی پڑتی ہے اور اتنا ہی لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كبد انسان رہین محنت ہوتا ہے.اس بشارت کو پورا کرنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارتیں ملی تھیں.اس کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ حضرت موسی کی قوم کی طرح کہہ دیتے جاتو اور تیرا خدا جا کر لڑے ہم تو یہاں آرام سے بیٹھے ہیں.جس نے بشارت دی ہے وہ خود ہی اس کو پوری کرے گا.وہ تو نالائق تھے ، غیر تربیت یافتہ تھے مگر یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ سے تربیت یافتہ تھے.ٹوٹی ہوئی تلواریں ننگے پاؤں جسم کو ڈھانکنے کے لئے کپڑے نہیں.زرہ بکتر تو علیحدہ رہی ان کی یہ حالت تھی کہ کسی کے پاس تلوار ہے تو نیزہ نہیں کسی کے پاس نیزہ ہے تو تلوار نہیں.آواز آتی تھی چل پڑتے تھے.دعائیں کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر تو گل رکھتے تھے.پس یہ جس کو میں کہتا ہوں دوسری صدی یہ غلبہ اسلام کی صدی ہے اس میں ایسے حالات پیدا ہور ہے ہیں کہ آپ کو بھڑکتی ہوئی آگ میں سے گزر کر اس صدی کا استقبال کرنا پڑے گا.یہ اچھی طرح یا درکھیں لیکن میرا دل تو مطمئن ہے اس لئے کہ میں یقین رکھتا ہوں اور علی وجہ البصیرت ہر جگہ یہ اعلان کر سکتا ہوں تلوار کے نیچے بھی اور ایٹم بم کے سامنے بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا کے پیارے اور بچے امتی نبی تھے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی عاشق اور خادم تھے.اس آگ میں سے تو ہمیں گزرنا پڑے گا لیکن مجھے یہ تسلی ہے

Page 452

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۳۸ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسی روحانی فرزند نے جس کو اس زمانے کی روحانی جنگ کی کمان دی گئی ہے اُس نے کہا آگ سے ہمیں مت ڈراؤ.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.اس لئے آگ تو بھڑکائی جائے گی صرف پاکستان میں نہیں دوسری جگہوں میں بھی یہ بھڑ کے گی لیکن جو آگ سے ڈریں گے نہیں ، جو لوگ تدبیر کو انتہا تک پہنچاتے ہوئے اور دعاؤں کو انتہا تک پہنچاتے ہوئے خدا تعالیٰ پر کامل تو گل رکھتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں گے اسلام کے غلبہ کی خوشی کو وہ حاصل کریں گے اور اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو سکتی ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آ گیا ہے.پس دعائیں کریں.تدبیر بھی کریں لیکن دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.ساری دنیا کے لئے دعائیں کریں.جماعت کے سارے کاموں کے لئے دعائیں کریں.جماعت کے سارے منصوبوں کے لئے دعائیں کریں اور اس خاکسار کے لئے بھی دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ مجھے انتہائی کام کی توفیق عطا کرے اور میرے سپر د جو ایک کام یہ ہے کہ میں آپ کے لئے قیادت بہم پہنچاؤں یعنی اُسوہ آپ کے لئے بنوں.یہ قربانیاں ہیں یہ دو اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی توفیق سے مثلاً ۱۹۷۴ء میں جماعت کا کوئی شخص ایسا نہیں جو ان دنوں میں اتنی راتیں جاگا ہو جتنی میں جاگا ہوں، ہو نہیں سکتا.میرے ارد گر د بھی لوگ تھے.ایک پارٹی سو جاتی تھی اور ایک جاگ رہی ہوتی تھی اور ہر جاگنے والی پارٹی بعض دفعہ ہر آدھے گھنٹے کے بعد مجھے جگا دیتی تھی کہ فلاں جگہ سے فون آگیا ، وہاں گڑ بڑ ہو گئی.فلاں جگہ سے فون آ گیا وہاں یہ ہو گیا وغیرہ وغیرہ.وَلا فَخْر اور اس میں میں کوئی فخر نہیں کرتا کیونکہ میں بڑا عا جز انسان ہوں.خدا تعالیٰ بڑی شان اور قدرتوں والا ہے.وہ ایک ذرہ سے بھی کام لے سکتا ہے اور لیتا ہے.آپ اس کی قدرتوں کو پہچانیں اور اپنی ذات پر بھروسہ نہ رکھیں اور میرے لئے دعا بھی کریں.آج بھی مجھے ایک اور دوا کی ضرورت ہے.میرے اوپر کے تین چار دانت ٹوٹ گئے اور ان کی جڑیں اندر رہ گئی ہیں.آج پروگرام ہے ان کو نکالا جائے لیکن مسوڑھوں میں کچھ سوزش بھی ہے.کل شام سے مجھے اینٹی بائیوٹک بھی ڈاکٹر ولی شاہ صاحب نے دینی شروع کی ہے.اس کی وجہ سے مجھے سر میں بھی

Page 453

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۳۹ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء کچھ دردتھا.آج صبح سے ہو رہی ہے لیکن بہر حال خدا نے توفیق دے دی یہاں آنے کی اور آپ سے باتیں کرنے کی.پس آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور سہولت کے ساتھ بغیر کسی الجھن کے پیدا ہوئے یہ دانتوں کی جڑیں نکل جائیں اور دوسری جو ظاہری تد بیر دانتوں کی ہوتی ہے وہ ہو جائے.جزاکم اللہ تعالیٰ.میں آپ کا بڑا ممنون ہوں گا آپ دعا کریں گے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 454

Page 455

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۴۱ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء وو مسیح کی صلیبی موت سے نجات لندن میں کامیاب کانفرنس خطبه جمعه فرموده ۱۳ اکتوبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اپنی خلافت کے زمانہ میں سب سے لمبے عرصہ تک غیر حاضر رہنے کے بعد آج میں پھر آپ میں کھڑا ہوں اور خطبہ دے رہا ہوں اور بہت خوش ہوں.اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی فضل کیا اور اللہ تعالیٰ یہاں بھی بڑے فضل کرتا ہے.یہ عرصہ جو وہاں گزرا اس کا قریباً آخری ایک ماہ بیماری کا حصہ تھا.پہلے میں مختصراً اس کا ذکر کر دیتا ہوں.میرے دانتوں میں پچھلے سال سے یہ تکلیف شروع ہوگئی تھی کہ اوپر سے دانت ٹوٹ جا تا تھا اور اس کی جڑ مسوڑھے کے اندر رہ جاتی تھی.اوپر کے جبڑے میں پہلے ایک دانت ٹوٹا ، پھر دوسرا ٹوٹا ، پھر تیسرا، پھر چوتھا، پھر پانچواں.غرض پانچ دانت ایسے تھے جن کی جڑیں اندر پھنسی ہوئی تھیں اور اوپر سے دانت ٹوٹ گئے تھے.ڈاکٹروں نے یہ کیا کہ پہلے Impression (امپریشن) وغیرہ لے کر ایک عارضی Denture (ڈ پینچر ) سا بنایا اور پھر ایک وقت میں سارے جبڑے میں پچیس تیس ٹیکے لگا کر سارے دانت نکال دیئے.جو دو دانت نہیں ٹوٹے ہوئے تھے وہ بھی نکال دیئے اور اس طرح خدا تعالیٰ نے آئندہ کی تکلیف سے بچالیا لیکن اس وقت کچھ تکلیف

Page 456

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۴۲ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء ہوئی.نکالتے وقت تو زیادہ تکلیف نہیں ہوئی اور اگر تکلیف یا در دوغیرہ ہو بھی تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے ہمیں اس کی برداشت ہے لیکن اس کے بعد ساری رات خون آتارہا.رات کے دس اور گیارہ بجے کے درمیان انہوں نے میرے دانت نکالے تھے پھر اس کے بعد مسوڑھوں میں ورم اور زخم کی تکلیف ہوگئی جو عارضی Denture (ڈینجر ) بنا تھا وہ ٹیکنیشن نے صحیح نہیں بنا یا تھا اس لئے کبھی دائیں طرف زخم ہو جاتا تھا کبھی بائیں طرف زخم ہو جا تا تھا.رات دن یہ کیفیت رہی.شروع میں دو دن تو میں کسی قسم کا کھانا بھی نہیں کھا سکا چائے یا دودھ کی ایک پیالی پیتا رہا.پھر ہم نے سوچا کہ زیادہ لمبا عرصہ تو آدمی بھوکا نہیں رہ سکتا اس لئے کوئی اس قسم کا طبی پر ہیزی شور بہ ہونا چاہیے جس میں Proteins ( پروٹینز ) بھی شامل ہوں لیکن ہوشور بہ کیونکہ میں کچھ بھی چبانہیں سکتا تھا.اس حد تک کہ اگر پکے ہوئے چاول بھی دانتوں کے نیچے آجائیں تو ان سے بھی مجھے درد ہوتی تھی اور وہ بھی میں نہیں چبا سکتا تھا.اس کے بعد میرے وہاں سے روانہ ہونے سے پانچ چھ دن پہلے پیر والے دن ۲ / تاریخ کو انہوں نے میرے منہ میں دوسرا مستقل ڈینچر لگا یا ( یہاں کی تو ہر چیز ہی عارضی ہے لیکن اس کو مستقل کہہ دیتے ہیں ) چھ مہینے تک یہ ڈینجر رہے گا اس کے بعد پھر بدلنا پڑے گا.منہ کو اس کی عادت پڑنے اور اس کو منہ کی عادت پڑنے میں بھی کچھ وقت لگے گا.وہاں پر تین چار دفعہ جہاں جہاں خرابی تھی اور جس جگہ سے دباؤ ڈال رہا تھا اس جگہ سے اس کو ٹھیک کروایا تھا چنانچہ اب قریباً ٹھیک ہو گیا ہے لیکن ابھی یہ احساس باقی ہے کہ منہ میں ایک غیر چیز پڑی ہوئی ہے امید ہے کہ پانچ دس دن کے بعد انشاء اللہ وہ بھی دور ہو جائے گا.بہر حال تکلیف آئی اور خدا کے فضل سے گزرگئی اور اللہ تعالیٰ نے رحم کیا کہ کوئی اور الجھن پیدا نہیں ہوئی اور نیا ڈیچر لے کر میں آپ کے پاس یہاں پہنچ گیا ہوں اور آج خطبہ دے رہا ہوں.تاہم یہ تو معمولی چیز تھی دعا کریں، میں بھی آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ صحت والی اور کام کرنے والی زندگی عطا کرے.میرے اس دورے کے دو حصے ہیں.ایک کا تعلق تو اس کانفرنس کے ساتھ ہے جو وہاں ہوئی اور جس کا عنوان تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیبی موت سے بچائے گئے تھے اور دوسرا حصہ

Page 457

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۴۳ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء وہ ہے جو میں نے بعد میں یورپ کا دورہ کیا اور اسلام کی تعلیم ان لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی.یہ جو کا نفرنس ہوئی اس میں یہ انتظام بھی کیا گیا تھا کہ بولنے والی 16mm Movie لی جائے.بعد میں اسے Super 8mm بنایا جو یہاں بھی دکھائی جاسکتی ہے.وہ تیار ہوگئی ہے اور یہاں پہنچ جائے گی وہاں تو میں نے دیکھی ہے اچھی خاصی ہے آپ بھی اسے دیکھ لیں گے.۴/۳/۲ /جون کو یہ کا نفرنس تھی اور اس سے پہلے انگلستان کے اخبارات نے بھی اور یورپ کے بعض اخبارات نے بھی بہت کچھ لکھا.پھر جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں جو صحافی آئے ہوئے تھے انہوں نے ڈیلی ٹیلیگراف میں پانچ چھ صفحے کا ایک نوٹ دیا اور یہ اخبار دس لاکھ سے بھی زیادہ تعداد میں چھپتا ہے مجھے صحیح یاد نہیں ممکن ہے کہ پندرہ یا بیس لاکھ چھپتا ہولیکن بہر حال دس لاکھ سے زیادہ چھپتا ہے جیسا کہ ان کی عادت ہے انہوں نے اس میں کچھ اپنی بھی چلائی لیکن ہماری بھی بہت سی باتیں وہ لکھ گئے ہیں.غرض اس رنگ کا پرا پیگینڈا اور اشاعت وہاں ہوئی کہ انگلستان کے چرچ کو کچھ پریشانی سی لاحق ہو گئی.چنانچہ انہوں نے کانفرنس سے قریباً دس دن پہلے اپنی طرف سے ایک Release ( ریلیز ) ایک خبر اخبارات کو بھجوائی اور اس کے نیچے یہ نوٹ دیا کہ اسے فلاں تاریخ سے پہلے شائع نہ کیا جائے.غالباً ۳۰ رمئی یا یکم جون کی تاریخ تھی اور وہ ریلیز ہمارے مشن کو بھی بھیجوا دی.میں نے اس کا جواب تیار کیا.کا نفرنس میں میں نے بھی ایک چھوٹا سا مضمون پڑھا تھا.اپنے مضمون کے بعد میں نے ان کی ریلیز پڑھ کر سنوا دی اور پھر اس کا جواب خود میں نے پڑھ کر سنایا.ایک تو ان کا خط تھا اور اس کے نیچے ان کی ریلیز تھی.وہ دو علیحدہ علیحدہ کاغذوں پر تھے اور یہی دستور ہے.خط میں لکھا تھا کہ ہم Open Dialogue کرنا چاہتے ہیں یعنی کھلی بات چیت ہو.ہر ایک کو پتا ہو کہ کیا تبادلۂ خیال ہوا ہے اور اسی خط کے اندر کے حصے میں تھا کہ Unpublicised Dialogue ہونی چاہیے یعنی ایسا تبادلۂ خیال جس کی اشاعت نہ ہو.Open اور Unpublicised تو ویسے ہی متضاد چیز میں ہوگئیں.میں نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ یہ تو ساری دنیا کے ساتھ تعلق رکھنے والا معاملہ ہے اس کی اشاعت ہونی چاہیے اور صرف انگلستان میں ہی کیوں.میں نے دنیا کے مختلف حصوں کے نام لے کر کہا کہ

Page 458

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۴۴ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء ہم ہر جگہ تبادلۂ خیالات کرنے کو تیار ہیں اور صرف انگلستان کی کونسل آف چرچز سے ہی کیوں ، ہم کیتھولکس سے بھی تبادلۂ خیال کرنے کو تیار ہیں.دنیا کو پتا لگنا چاہیے کہ وہ عقائد جو غلط طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے اور وہ واقعات جو حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے.میں نے اس کا وہاں اعلان کیا اور یہ اخباروں میں بھی آگیا اور پھر انہی صاحب کو جن کے دستخط سے کونسل آف چرچز کی طرف سے دعوت نامہ ملا تھا وہاں کے مشنری انچارج عزیز بشیر رفیق صاحب کی طرف سے خط گیا کہ ہمارے امام نے آپ کا دعوت نامہ قبول کر لیا ہے اور وہ اس قسم کی بحث یا تبادلۂ خیال کا انتظام کریں گے لیکن بڑا لمبا عرصہ گذر گیا اس کا کوئی جواب نہیں آیا.کانفرنس کے آخری دن ۱۴ جون کو میں نے یہ اعلان کیا تھا پھر ان کو ایک یاد دہانی کروائی گئی اور اس یاد دہانی کا جواب دس پندرہ دن کے بعد ایک اور دستخط سے یہ آیا کہ ان صاحب نے جن کے دستخط سے دعوت نامہ آیا تھا مجھے یہ کہا ہے کہ میں ان کی طرف سے آپ کو یہ جواب لکھ دوں کہ چونکہ انہیں اسلام کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں اس لئے آپ نے جو پوائنٹس ، جو نکات اٹھائے ہیں ان کے متعلق جب تک وہ ان پادریوں سے مشورہ نہ کرلیں جو اسلام کے متعلق معلومات رکھتے ہیں اس وقت تک وہ جواب نہیں دے سکتے ان سے مشورہ کرنے کے بعد آپ کو جواب دیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں جماعت پھیلی ہوئی ہے.ساری دنیا میں ہمارے جو مبلغ ہیں انہیں میں نے لکھا کہ چونکہ دعوت کے جواب میں میں نے کیتھولکس کو بھی شامل کیا ہے اس لئے آپ بڑے پیار کے ساتھ انہیں تبادلۂ خیال کے لئے بلائیں.اپنے جواب میں بھی میں نے لکھا تھا کہ پیار کے ساتھ اور امن قائم رکھتے ہوئے اس قسم کے تبادلۂ خیالات ہونے چاہئیں.چنانچہ کیتھولک بشپس کو بھی دنیا کے مختلف حصوں میں لکھا گیا اور ان کا رد عمل یہ تھا کہ اکثر نے جواب ہی نہیں دیا جنہوں نے جواب دیا ان میں سے ایک جاپان کے کیتھولک بشپ ہیں ، ایک برلن کے کیتھولک بشپ ہیں اور بعض اور ہیں جن کے علاقوں کے نام مجھے یاد نہیں.انہوں نے صاف طور پر لکھ دیا کہ مسیح کی خدائی ہمارا پختہ عقیدہ ہے اس لئے اس معاملہ پر ہم آپ سے کسی قسم کی بات

Page 459

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۴۵ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں.عقل ہمیں یہ کہتی ہے کہ تبادلۂ خیال کرنے کی ضرورت اسی وقت پڑتی ہے جب دو گروہوں کے پختہ عقائد میں تضاد پایا جائے یا اختلاف پایا جائے.اگر ساری دنیا ایک عقیدے پر متفق ہو جائے تو تبادلۂ خیال کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اپنے جواب میں بھی میں نے یہی کہا تھا کہ تمہارا پختہ عقیدہ یہ ہے کہ تین خدا ہیں اور مسیح ان میں سے ایک ہے اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خدا کی وحدانیت اس عالمین کی بنیاد ہے.اب یہ دو متضاد عقائد ہیں.پس ہمارا مذ ہبی اختلاف ہو گیا.ہمیں پیار کے ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کو دلائل دے کر سمجھانا چاہیے لیکن اس کا جواب یہ دیا کہ چونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے اس لئے ہم بحث نہیں کرتے.بہر حال انہوں نے اس طرح چھٹکارا حاصل کر لیا اور میرا یہ خیال نہیں کہ کونسل آف چرچر بھی اس بات پر آمادہ ہو.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ اس وقت کی دنیا میں تھوڑے بہت عقل کے تقاضے بھی مانے جانے لگ گئے ہیں یعنی دنیا کہتی ہے کہ ہمیں عقل کے کچھ نہ کچھ تقاضے تو پورے کرنے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات کھول کر بیان کی ہے وہ یہ کہ بعض باتیں بالائے عقل ہوتی ہیں اور ہم انہیں مانتے ہیں.مثلاً خدا تعالیٰ کی صفات کا اور ان صفات کے جلووں کا احاطہ کر لینا عقل کی طاقت میں نہیں ہے بلکہ یہ بات بالائے عقل ہے اور بعض باتیں خلاف عقل ہوتی ہیں ،عقل کہتی ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا.پس یہ دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں مثلاً یہ کہنا کہ یہ تین انگلیاں تین بھی ہیں اور ایک بھی ہے یہ خلاف عقل ہے بالائے عقل نہیں ہے.میں یہ جب کہتا ہوں کہ وہ تبادلۂ خیال نہیں کریں گے تو یہ اس لئے کہتا ہوں کہ آج کی دنیا میں عقل نے یہ منوالیا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو میری بھی مانو اور اگر وہ عقل کی ما نہیں تو انہیں اپنے عقائد چھوڑنے پڑتے ہیں اور ان لوگوں کو اپنی کمزوری کا بے حد احساس پیدا ہو چکا ہے.اب میں وقت اور مکان ہر دو کے لحاظ سے تھوڑی سی چھلانگ لگا کر آپ کو سٹاک ہالم جو سویڈن کا دارالحکومت ہے لے جاؤں گا.۴ رجون کو تبادلۂ خیال والی بات شروع ہوئی تھی اور یہ جولائی کے آخر کی بات ہے کہ میں سٹاک ہالم میں تھا تو وہاں پریس کانفرنس میں ایک پادری

Page 460

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۴۶ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء صاحب بھی تشریف لے آئے.ہمیں یہ پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ کسی عیسائی اخبار سے اُن کا تعلق تھا یا نہیں تھا وہ آئے تھے.آئیں تشریف رکھیں باتیں ہوں گی.میری یہ عادت ہے کہ میں پریس کانفرنس میں سوائے اسلام کی باتوں کے اور کوئی بات نہیں کرتا.سیاست کی بات میں اس لئے نہیں کرتا کہ نہ میں سیاسی آدمی ہوں اور نہ جماعت احمدیہ کو سیاست سے کوئی غرض ہے اور وہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی سیاسی بات شروع ہو جائے تا کہ اگر اخبار میں کچھ دینا چاہیں تو جو سیاسی باتیں ہوں ان کا ذکر کر دیں اور اسلام کے متعلق کچھ بھی نہ لکھیں اور میں نہیں چاہتا کہ ان کو ایسا کرنے دیا جائے.جب میں صرف اسلام کی بات کروں گا تو یا تو وہ کچھ بھی نہیں لکھیں گے اور اگر لکھیں گے تو اسلام کے متعلق ہی لکھیں گے.میں نے باتیں شروع کر دیں.جس طرح دینی تعلیم دینے کے لئے ہمارا جامعہ احمدیہ ہے اسی طرح ان کی اپنی یو نیورسٹیاں ہیں جہاں وہ پادریوں کو مذہبی تعلیم دیتے ہیں.وہ پادری صاحب کہنے لگے کہ میں وہاں کا گریجوایٹ ہوں یعنی بہت تعلیم یافتہ پادری تھے.مجھے خود ہی پوچھنے لگے کہ آپ کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے صلیب سے زندہ اتارے گئے ، آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے.میں نے بتایا ہے نا کہ میں سوائے اسلام کے اور کوئی بات ہی نہیں کرتا.انہوں نے خود ہی بات چھیڑ دی.میں نے انہیں کہا کہ مجھ سے دلائل مت پوچھو حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری تمہیں پہلے ہی کافی دلائل دے چکے ہیں.میں نے کہا کہ حواریوں کا یہ بیان ہے کہ صلیب پر چڑھائے جانے کے کئی دن بعد حضرت مسیح پیدل ان کے ہم سفر ہوئے کئی میل کا سفر کیا ، تھک گئے اور تھکاوٹ کے آثار دیکھ کر حواریوں نے کہا کہ آگے نہ جائیں بلکہ رات ہمارے ساتھ گزاریں اور آرام کریں.اس سفر میں وہ بھوک سے اتنے نڈھال ہو گئے کہ مانگ کر ان سے کھانا کھایا اور انجیل کہتی ہے کہ حواریوں نے مچھلی اور شہد ان کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے وہ کھایا.غرض پیدل چلے تھک گئے ، بھوک لگی کھانا کھایا ، رات وہاں سوئے.کیا وہ خدا تھے؟ اور یہ صلیب پر چڑھائے جانے کے کئی روز بعد کا واقعہ ہے اور یہ انجیل میں لکھا ہے اور حواریوں نے اسے بیان کیا ہے تو اس کے جواب میں مجھے کہنے لگا کہ او ہو آپ تو بات ہی نہیں سمجھتے.بات یہ تھی کہ وہ

Page 461

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۴۷ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء اپنی مرضی سے کبھی روح بن جاتے تھے اور کبھی مادی جسم میں حلول کر جاتے تھے.میں نے کہا کہ یہ کوئی Theatrical Performance یعنی کوئی تماشا تو نہ تھا.میں نے کہا کہ اگر تماشا دکھانا تھا تو انہی کو کیوں دکھایا تمہیں آکر کیوں نہیں دکھایا.دو ہزار سال سے ایسا کرتے آتے کہ اپنی مرضی سے کبھی روحانی جسم اختیار کر لیتے اور کبھی مادی جسم اختیار کر لیتے.خیر اس پر وہ چپ ہو گیا پھر میں نے اس سے کہا کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ایک طرف تو تم انہیں خدا کہتے ہو اور دوسری طرف تمہارے بہت سے فرقے یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے خدائی کے باوجود تین دن اور تین راتیں جہنم میں گزاریں Hell میں گزاریں.پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہHell تھی کہاں جہاں انہوں نے تین دن رات گزارے؟ اگر وہ کوئی اور جواب دیتے تو میں اس کے لئے تیار تھا اور میرے ذہن میں تھا کہ وہ کوئی اور جواب دیں گے مگر میرے اس سوال پر کہ وہ Hell کہاں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ.Hell is Down Down Down کہ Hell نیچے نیچے ہے.جب انہوں نے یہ جواب دیا تو میں نے اپنی مٹھی آگے کی اور کہا کہ فرض کرو یہ کرہ ارض ہے اور ہم یہاں ہیں.تم کہتے ہو کہ Hell is Down Down Down اور نیچے یہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ ہے تو کیا حضرت مسیح علیہ السلام نے تین دن رات جہنم میں امریکہ میں گزارے تھے تو جواب دیا کہ ممکن ہے وہیں گزارے ہوں.ان کی یونیورسٹی کا گریجوایٹ اس قسم کے جواب دے رہا ہے.اس سے میں سمجھ گیا کہ اس وقت یہ لوگ بڑے پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو گیا.خود ہی دعوت دے دی اور کیتھولکس کے متعلق تو مجھے پتا تھا پندرہ بیس سال سے علم ہے کہ انہوں نے کیتھولکس کو یہ کہا ہوا ہے کہ نہ کسی احمدی سے بات کرو اور نہ کسی سے کوئی کتاب لے کر پڑھو.ان سے بات ہی نہیں کرنی.لندن کے اخبارات پر چرچ نے بہت دباؤ ڈالا.پریس ریلیز سے پہلے انہوں نے کافی لکھا تھا.ڈیلی ٹیلیگراف نے تو اپنے رنگین سنڈے ایڈیشن میں ایک لمبا چوڑا مضمون لکھ دیا اور اس میں ہمارے عقائد بھی پوری طرح بتا دیئے ، کچھ عیسائیوں کے عقائد بھی بتا دیئے.آگے سمجھنے والے خود ہی فیصلہ کریں گے.دیگر اخبارات نے بھی لکھا لیکن اس پریس ریلیز کے بعد لندن کے

Page 462

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۴۸ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء اخبارات نے کچھ نہیں لکھا.بعض لوگوں نے اسے محسوس بھی کیا لیکن ہمیں اس سے کیا کہ کوئی لکھتا ہے یا نہیں ہم نے تو اسلام کی صداقت کے اظہار کے لئے تدبیر کرنی ہے اور اس کے نتائج نکالنا نہ میرا نہ تیرا کسی کا کام نہیں.خدا تعالیٰ بغیر ہماری تدبیر کے بھی نتائج نکالتا ہے.خدا تعالیٰ کا اس زمانے میں یہ منصوبہ ہے کہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے گا ہم تو ثواب حاصل کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی غریبانہ طاقت کے مطابق کوئی کام کر دیتے ہیں اور وہ اپنے فضل سے اسے قبول بھی کرتا ہے اور نتائج بھی نکالتا ہے لیکن لندن کے علاوہ انگلستان کے اخباروں نے چار چار صفحے بھی لکھے، سپلیمنٹ نکالے، چھوٹے نوٹ بھی لکھے.نیز باہر والوں نے بھی نوٹ لکھے.وہاں انگریزوں کی ایک ایجنسی ہے جس کا کام اخبارات وغیرہ میں خبریں شائع کرانا اور اعداد ا کٹھے کرنا ہے.ان کی رپورٹ یہ تھی کہ اس وقت تک ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے چودہ کروڑ انسانوں تک وہ آواز پہنچ چکی ہے جو ہم پہنچانا چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے اور اس میں وہ اخبار شامل نہیں ہیں جو مثلاً افریقہ میں چھپے اور جن کے تراشے ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں.نائیجیریا میں عیسائیوں کے ایک اخبار نے چار صفحے کا ضمیمہ دیا.اسی طرح ساؤتھ امریکہ کے ایک اخبار میں بھی نوٹ شائع ہوا ہے جس کی خبر ابھی صرف ایک شخص کو آئی ہے.ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس کا تراشہ بھی مل جائے اسی طرح جاپان کے کئی اخباروں نے نوٹ دیئے اور ان میں خط و کتابت بھی شائع ہوئی.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے چھوٹی سی جماعت ہے ہماری تو کوئی طاقت ہی نہیں.لا فخر ہی ہے اپنی طاقت پر گھمنڈ نہیں.جب لندن میں یہ بات ہوئی تو عطاء المجیب صاحب نے جو جاپان میں ہمارے مبلغ ہیں اخبار میں یہ ساری تفصیل دے دی کہ انہوں نے دعوت دی اور یہ جواب ہے اور ہمارے عقائد یہ ہیں کہ مسیح صلیب سے زندہ اتارے گئے تھے اور مرہم عیسی کا بھی ذکر کیا.یعنی اس پر اپنا ایک چھوٹا سا نوٹ دے دیا.بعد میں کسی نے اس کی تائید میں بھی لکھا لیکن بہت سے لوگوں نے غصے میں لکھا کہ غلط عقائد ہیں اور تم شائع کر رہے ہو.اخبار کے اندر اچھی خاصی بحث شروع ہوگئی.پہلے ان کا خط شائع ہوا پھر اس کا جواب دیا

Page 463

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۴۹ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء گیا پھر اخبار نے ان کو کہا کہ جواب دینا ہے تو دے دو.چنانچہ انہوں نے جواب دیا.جب اسی طرح دو چار دفعہ ہو چکا تو اخبار نے یہ فیصلہ کیا کہ اب اس بحث کو بند کرنا چاہیے کافی لمبی ہوگئی ہے لیکن انہوں نے عطاء المجیب کو کہا کہ ہم اس بحث کو بند کر رہے ہیں اب تم نے جو لکھنا ہے وہ ہمیں بھیج دووہ ہم شائع کریں گے اور اس کے نیچے لکھ دیں گے کہ آئندہ اس بارہ میں ہم کچھ شائع نہیں کریں گے یعنی اخبار نے پھر ہمیں موقع دے دیا.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ہمارا تو کوئی زور نہیں چلتا اور ابھی نیا مشن ہے اور اس کی کوئی ایسی آواز بھی نہیں مگر خدا تعالیٰ کو تو اس کی تدبیر میں کوئی انسان نا کام نہیں کرسکتا.اس کا نفرنس کا اثر باہر کی جماعتوں پر بڑا خوشکن ہوا ہے.میرے کہے بغیر سارے امریکہ کی مجلس عاملہ نے جو وہیں کے باشندوں پر مشتمل.اپنے سر جوڑے اپنی میٹنگ کی اور یہ فیصلہ کیا کہ یہ جو بہت بڑا پراپیگنڈا ہو گیا ہے، دنیا گند کے اندر پھنسی ہوئی ہے اس لئے اب یہ بار بار ہونا چاہیے اور دنیا کے کانوں تک یہ آواز بار بار جانی چاہیے.اس لئے دو ۲ سال کے بعد امریکہ کی جماعتیں اس قسم کی کانفرنس امریکہ میں کروائیں اور اس سے پہلے انہوں نے اس سلسلے میں پراپیگنڈا کرنے کے لئے نمونے کے طور پر ایک اور چھوٹا سا منصوبہ بنایا ہے تو انشاء اللہ دو ۲ سال کے بعد وہاں بھی کا نفرنس ہو جائے گی.امریکہ کا قومی مزاج بھی اور وہاں کے اخبارات اور ریڈیو اور ٹیلیویژن کا مزاج بھی انگلستان اور Continent کے مزاج سے مختلف ہے.وہ چرچ کا دباؤ جلدی قبول نہیں کرتے.اگر Lobbying زیادہ ہو جائے تو قبول کر لیتے ہیں لیکن اتنی جلدی قبول نہیں کرتے جتنی جلدی مثلاً میرے خیال میں لندن کے اخباروں نے کیا.اگر چہ وہ اس سے انکار کرتے ہیں لیکن ان کے چپ رہنے کی کوئی اور وجہ نہیں تھی.میں جب ۱۹۷۶ ء میں نیو یارک گیا تو وہاں پریس کا نفرنس میں ایک T.V (ٹی وی ) والے بھی آئے ہوئے تھے.وہاں T.V (ٹی وی) پرائیویٹ ہے وہ اپنے پیسے کماتے ہیں اور بڑے پیسے کماتے ہیں ان کے نرخ بہت زیادہ ہیں، ایک منٹ کے دو ہزار ڈالر یعنی ہیں ہزار روپیہ لیتے ہیں.خیر وہ پریس کانفرنس میں آئے اور T.V (ٹی وی) کے لئے

Page 464

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۵۰ خطبه جمعه ۱/۱۳ کتوبر ۱۹۷۸ء تصویریں بھی لیتے رہے اور ان کی ٹیم کا انچارج جو پڑھا لکھا آدمی تھا گفتگو بھی کرتا رہا اور اس رات کو یا شاید اگلی رات کو انہوں نے آدھے گھنٹے کی T.V (ٹی وی ) دکھا دی.گویا ساٹھ ہزار ڈالر یعنی چھ لاکھ روپیہ کی.اگر ہم ان کو کہتے کہ اتنی دیر دکھاؤ تو وہ کہتے کہ چھ لاکھ روپیہ نکالوتب دکھا ئیں گے.پس خدا نے یہ تدبیر کر دی اور وہاں کے اخباروں نے بڑے لمبے نوٹ دیئے.میں تو آرام آرام سے اور پیار کے ساتھ اسلامی تعلیم ان کو بتا تا ہوں اور اسلامی تعلیم میں آپ یا درکھیں بڑا ہی حسن ہے اور بڑی ہی قوتِ احسان ہے.ان کو سمجھانا چاہیے کہ دیکھو کس طرح قرآن کریم کی شریعت تم پر احسان کر رہی ہے.خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمہاری بھلائی اور تمہاری شرافت کا اور ساری دنیا کو زمین سے اٹھا کر آسمانوں تک لے جانے کا جو منصوبہ بنایا ہے اس کے اندر یہ یہ باتیں پائی جاتی ہیں.اتنا اثر ہوتا ہے ان پر کہ آپ احمدی بھی یہاں گھر بیٹھے اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.ان سے جا کر باتیں کریں تو تب پتا لگتا ہے.ابھی میں مختصر کچھ باتیں بتاؤں گا پھر اگلے خطبوں میں جتنا وقت ملے گا بتا تا جاؤں گا.اس وقت میں ایک حصّہ بتا رہا ہوں جس کا تعلق کا نفرنس کے ساتھ ہے.اس کانفرنس میں سب سے آخر میں میں نے بولنا تھا اور میرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ سوائے دعا کے اور میں کچھ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اگر اس کو ایک کتاب کہیں تو کتاب کے بہت سے باب ہوتے ہیں اور مجھ سے پہلے کسی نہ کسی مقرر نے ان ابواب کے عنوان کے ماتحت چھوٹے سے چھوٹے مضمون کو بھی تفصیل سے بیان کر دیا تھا.آخر میں میری باری تھی میں نے بڑی دعا کی ، بڑی دعا کی ، دعا کی توفیق بھی خدا تعالیٰ دیتا ہے.دعا یہاں سے شروع ہوئی کہ دماغ کھلتا ہی نہیں تھا بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے.دماغ بند تھا کئی کئی گھنٹے لگاؤں لیکن ایک لفظ بھی نہ لکھا جائے اور نہ لکھوایا جاسکے.کچھ سمجھ نہ آئے کہ کیا معاملہ ہے خدا تعالیٰ نے دعائیں کروانی تھیں آخر وہ وقت بھی آیا کہ خدا تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول کر لیا.چنانچہ ایک دن ایک منٹ میں خدا تعالیٰ نے دماغ کھول دیا.پہلے میں فرینکفرٹ میں قریباً بیس بائیس دن رہا تھا وہاں بھی دماغ نہیں کھل رہا تھا.میں نوٹ لکھتا تھا لکھواتا تھا لیکن تسلی نہیں ہوتی تھی آخر جب خدائے عزیز وکریم کا فضل نازل ہوا اور میں

Page 465

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۵۱ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء نے مضمون مسلسل لکھوانا شروع کر دیا اور خدا نے بڑا فضل کیا کہ وہ ایسا مضمون ہو گیا جس قسم کا میں خدا کے فضل سے امید رکھتا تھا کہ مجھے عطا ہو جائے گا.اس سلسلہ میں ایک بات خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہی کفن مسیح کے متعلق عیسائی دنیا میں بحث چل پڑی تھی.ویسے تو یہ دیر سے کفن دکھا رہے ہیں لیکن انیسویں صدی میں بھی انہوں نے دو تین دفعہ اس کی زیارت کروائی اور ستر ستر اتنی اتنی لاکھ آدمی ہر زیارت پر وہاں گئے اور انہوں نے زیارت کی اور اخباروں میں اس کا چرچا ہوا.سب کچھ ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائی عقائد کے متعلق اتنا مواد اکٹھا کرنے کے باوجود کہ یہ عقائد مسیح کی شان کے خلاف ہیں، یہ عقائد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے خلاف ہیں ، یہ انسانی عقل کے خلاف ہیں، یہ بنیادی حقائق عالمین کے خلاف ہیں ، آپ نے کفن مسیح کا کہیں نام بھی نہیں لیا.میں فرینکفرٹ میں ہی تھا کہ خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالا کہ اس کو بالکل اہمیت نہیں دینی.آج کل اسے بہت اہمیت دی جارہی ہے اور ہمارے بعض مضمون نگاروں نے بھی وہاں دی لیکن میری آخر میں باری تھی.میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ جہاں تک ہے Shroud of Turin یعنی اس کفن مسیح کا تعلق ہے جو انہوں نے ٹیورن میں رکھا ہوا.ہمارے نزدیک اسے کوئی اہمیت نہیں دینی چاہیے اس لئے کہ اگر یہ محفوظ نہ رہتا اور مرورِ زمانہ اس کی یاد بھی انسان کے دماغ سے مٹادیتا تب بھی ان دلائل پر جو ہمارے پاس موجود ہیں کوئی اثر نہ پڑتا لیکن اصل میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو اہمیت نہیں دی اور آپ کے نائب یعنی خلیفہ وقت کو بھی نہیں دینی چاہیے.چنانچہ میں نے کہا کہ لوگ اسے بھول ہی جاتے اور چودہ فٹ لمبی یہ چادر جو ہے اگر تباہ ہو جاتی تو کیا فرق پڑنا تھا.ہمارے پاس بڑے زبر دست دلائل موجود ہیں یہ معاملہ تو چرچ کو طے کرنا چاہیے کہ اگر یہ بناوٹ تھی تو انہوں نے اس پر ماننے والوں کے اربوں روپے کیوں خرچ کروا دیے کہ جو اس کو مقدس سمجھتے ہوئے دنیا کے کونے کونے سے اس کی زیارت کرنے کے لئے آئے اور اگر یہ واقعی اصلی ہے تو ایک اور دلیل مل جائے گی اور ہمارے پاس تو ہزاروں دلائل پہلے سے موجود ہیں اس

Page 466

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۵۲ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء کی کوئی ایسی اہمیت نہیں.جب ہماری اس کا نفرنس کا چرچا ہوا جو ہم ۴/۳/۲ / جون کو کر رہے تھے تو اس سے پہلے چرچ کا یہ اعلان شائع ہو چکا تھا کہ مئی کے شروع میں سائنسدان کفن مسیح کا سائنسی تجزیہ کریں گے اور معلومات حاصل کریں گے ، تصویریں لیں گے ، اس کی عمر معلوم کریں گے.ان کو خدا تعالیٰ کے ایک نئے قانون کا پتا لگا ہے جس سے عمر معلوم ہو جاتی ہے اور وہ تجربہ قریباً قریباً بتادیتا کہ اس پر ساڑھے انیس سو اور ساڑھے ہیں سو سال کے درمیان زمانہ گزر چکا ہے.چرچ نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ یہ تحقیق ہوگی لیکن جس وقت ہماری اس کا نفرنس کا چرچا ہوا تو اعلان ہو گیا کہ وہ غیر معین عرصہ کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے اور تو کیا تیار تھے، سائنسدان تیار تھے.انہوں نے اس کے لئے انتظام کیا ہوا تھا اور پیسے خرچ کئے ہوئے تھے.امریکہ کی ائر فورس کے سائنسدان بھی آ رہے تھے کیونکہ ائر فورس کے لئے بہت سی نئی ایجادات ہوئی ہیں جن کو انہوں نے یہاں استعمال کرنا تھا.غرض چوٹی کے ماہرین سائنسی تحقیق کے لئے آرہے تھے اور انہوں نے آرام سے کہہ دیا کہ وہ نہیں ہوگی.ہم نے کہا ایک تو اثر ہوا ان پر.میں نے یہ بھی سوچا کہ ممکن ہے کہ یہ بھی شرارت ہی کی ہو کہ ہم زور دیں کہ بس ہمارے دلائل کا سارا انحصار ہی ”کفن مسیح ، پر ہے اور وہ تو ان کے ہاتھ میں ہے وہ بعد میں کہہ دیں کہ وہ تو ہے ہی Fake اور مصنوعی اور بناوٹی چیز.کسی نے عیسائیت کے ساتھ دجل کیا ہے.یہ چادر تو اس وقت کی ہے ہی نہیں اور پھر وہ سمجھیں گے کہ ہمارے سارے دلائل ختم ہو جائیں گے.ہم نے کہا کہ ہم یہ دلیل ہی نہیں لیتے اور تھوڑے دلائل ہیں ! اب میرے آنے سے چند دن پہلے مجھے امریکہ سے ایک اقتباس آیا ہے جس میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اکتوبر میں (جبکہ کانفرنس کو کئی ماہ گزر چکے ہیں ) سائنسی تحقیق ہوگی لیکن اس کی شکل یہ ہوگی کہ وہ تجربہ کار بن ۱۴ کا) جو عمر معلوم کرنے کے لئے کرنا تھاوہ نہیں ہوگا اور بہانہ یہ کیا ہے کہ اس کی ٹیکنیک ابھی زیادہ اعلیٰ درجے کی نہیں ہے.ہم انتظار کرتے ہیں جب وہ پوری طرح Develop ہو جائے گی تو پھر یہ تجربہ کریں گے.اس کپڑے پر حضرت مسیح کی تصویر بھی آگئی ہے.حضرت مسیح کے چہرے پر بھی زخم تھے آپ اپنے زمانہ کے بڑے مظلوم انسان تھے.آپ

Page 467

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۵۳ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء کے سارے جسم پر مرہم لگانی پڑی تھی اور اس کی وجہ سے اس کپڑے پر آپ کے نقوش نیگیٹیو کی شکل میں آگئے ہیں چنانچہ اب لوگوں نے پہلی دفعہ حضرت مسیح کی اصل شکل دیکھی ہے.یونانی چرچ اور اٹیلین چرچ نے دو مختلف شکلیں بنائی ہوئی تھیں اور وہ دونوں غلط ثابت ہوئی ہیں.بہر حال انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ اکتوبر میں تحقیق ہو رہی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ کسی طرف سے ان پر دباؤ پڑا ہے کہ جماعت احمدیہ اتنا شور مچارہی ہے اور تم نے ان کو ایک اور ہتھیار دے دیا ہے کہ تم ڈر کے مارے کہتے ہو کہ ہم نے سائنسی تحقیق نہیں کروانی.یہ میرا خیال ہے صحیح ہے یا غلط اللہ بہتر جانتا ہے.اس دوسری سائنٹیفک تحقیق کے لئے کم و بیش پچاس سائنسدان آرہے ہیں.امریکن چوٹی کے ماہرین بھی آرہے ہیں.ساؤتھ امریکہ جو کہ پکا کیتھولک ہے وہاں کا ایک سائنسدان بھی انہوں نے شامل کر لیا ہے.ٹھیک ہے شامل کر لو لیکن اصل اعلان یہ ہے کہ ٹیورن میں وہ جو تحقیق کریں گے ، تصویریں لیں گے اور تجربے کریں گے اس کا نتیجہ تیس سال کے بعد بتایا جائے گا.تحقیق آج کر رہے ہو اور نتیجہ تیس سال کے بعد بتاؤ گےاس میں کیا حکمت ہے.بہر حال ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ اس طرح انہوں نے اپنی کمزوری کا اعلان کر دیا ہے.اگر تمہیں دلیری ہوتی تو تم کہتے کہ یہ بھی کر کے دیکھ لو.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر یہ فرمایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر سرینگر محلہ خانیار میں ہے.ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ نہ نہ اسے کھودنا نہ کہ ہمیں یہ وہم ہو کہ اگر اسے کھودا گیا تو اندر سے کچھ اور نکل آئے گا جیسے کہ لوگ اب یہاں تک پہنچے ہوئے ہیں کہ جب میں انگلستان میں تھا تو ہندوستان میں کسی نے یہ خبر چلا دی کہ وہ قبر کھودی گئی اور اندر سے گدھے کی قبر نکلی.یہ بات ہندوستان کے کسی اخبار میں چھپ گئی حالانکہ قبر بالکل نہیں کھودی گئی.پریس کانفرنس میں مجھ سے پوچھتے بھی رہے اور میں کہتا رہا ہوں که ضرور کھودنی چاہیے.ہم نے وہاں ریزولیوشن بھی پاس کیا تھا.اس کی تحقیق ہونی چاہیے.کھودنے کا یہ مطلب نہیں ہے وہ قبر کھودی جائے بلکہ وہاں جو ہمیں قبر نظر آتی ہے وہ مصنوعی حصہ ہے اصل قبر نیچے ہے.یہ پرانا طریق ہے کہ اصل قبر سے آٹھ دس فٹ اوپر ایک کمرے میں اسی شکل کی ایک

Page 468

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۵۴ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء مصنوعی قبر بنا دیتے تھے.یہ جو قبر ہے اس کی دیواروں پر جہاں چراغ رکھنے کے لئے جگہ بنی ہے وہ لکڑی کی صلیب ہے.کسی خانقاہ میں کسی مسلمان کی قبر پر صلیب بنا کر دیا نہیں رکھا جاتالیکن وہاں پرانی صلیب بنی ہوئی ہے اور اس پر دیے رکھے جاتے ہیں.یہ درست ہے کہ میں سوسال میں کئی دفعہ مرورِ زمانہ سے مقبرے کی عمارت مرمت طلب ہوئی ہوگی اور مرمتیں ہوئی ہوں گی ، اسلام سے پہلے بھی اور اسلام کے بعد بھی لیکن وہ صلیب کا نشان بتا رہا ہے کہ یہ کسی مسلمان کی قبر نہیں ہے.غرض یہ کانفرنس خدا کے فضل سے بڑی کامیاب رہی لیکن یہ نہیں کہ یہ کافی ہے بلکہ یہ ہم نے ایک اور قدم آگے بڑھایا ہے اور اس کے بعد بہت سے اور قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے.جب تک دنیا میں عیسائی موجود ہیں ان کو اسلام کی طرف لانا ان کی خیر خواہی کے لئے تا کہ وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کریں.ہماری یہ جدو جہد اور یہ جہاد تو جاری رہنا چاہیے اور جاری رہے گا.ابھی تو یورپ میں چند ایک لوگ ہی اسلام میں داخل ہوئے ہیں.ہم نے Census ( مردم شماری ) تو نہیں کر وایا لیکن مغربی افریقہ میں ہمارے جس قدر احمدی ہیں ان کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے میرا یہ اندازہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی کوششوں میں خدا نے برکت ڈالی اور ان کوششوں کے نتیجہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں.یہ میں ان کے بچوں وغیرہ کو شامل کر کے کہہ رہا ہوں.پانچ لاکھ بالغ مردمراد نہیں اور یہ عیسائیت کو ہلا دینے والی بات ہے.اس وجہ سے بھی وہ بڑے گھبرائے ہوئے ہیں.بعض بہت پڑھے لکھے لوگوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے.یورپ کے ایک حصے کو یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ اسلام کی تعلیم بہت حسین ہے.میں جب بھی غیر ممالک کے دورہ پر جاتا ہوں ان کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اسلام جو کچھ انہیں پیش کرتا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو ان کے پاس موجود ہے اور اس کے بغیر ہم ان کو اسلام کی طرف متوجہ ہی نہیں کر سکتے.پڑھے لکھے لوگ ہیں دنیوی علوم میں سائنس میں ترقی یافتہ ہیں، چاند پر اتر گئے ہیں آسمان کی خبر میں لاتے ہیں، مادی عیش و عشرت کے بے تحاشا سامان پیدا کر لئے ہیں اس لئے جب تک ہم ان کو اس بات کے

Page 469

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۵۵ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء سمجھانے میں کامیاب نہ ہو جائیں کہ اسلام جو چیز پیش کر رہا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو ان کے پاس ہے اس وقت تک وہ ہماری طرف توجہ ہی نہیں کریں گے وہ پاگل تو نہیں ہیں.ہم یہ سمجھتے ہیں ( ہمیں تو اپنے آپ سے ہی غرض ہے اس لئے آپ اپنی باتیں کیا کریں اوروں کی باتیں کرنا چھوڑ دیں) کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی جو تفسیر انسان کے ہاتھ میں دی ہے اسے چھوڑ کر ترقی یافتہ یورپ کو یہ سمجھایا ہی نہیں جاسکتا کہ جو کچھ ان کے سامنے پیش کیا جارہا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو ان کے پاس موجود ہے.اس بات کے لئے ان پر تنقید بھی کرنی پڑتی ہے.مثلاً فرینکفرٹ میں بڑی دلچسپ اور بہت لمبی ڈھائی تین گھنٹے کی پر یس کا نفرنس ہوئی تھی.پہلے تو میں نے ان کو کہا کہ کوئی سوال کر ولیکن وہ سب چپ ہو گئے پھر میں نے کہا کہ اچھا پہلے میں باتیں کرتا ہوں اور بعد میں تم سوال کرنا.میں نے انہیں کہا کہ یہ Modern Civilization ماڈرن سویلائزیشن ) جس پر تمہیں فخر ہے اور دنیا کے دوسرے خطوں میں بسنے والے بہت سے لوگ جو تمہارے ساتھ تعلق نہیں رکھتے تمہاری نقل کرنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں This Great Modern Civilization میں مجھے بہت سی بنیادی کمزوریاں نظر آتی ہیں ان میں سے تین چار کمزوریاں میں نے ان کو بتا ئیں.ایک کمزوری میں نے یہ بتائی کہ یہ سویلائز یشن ، تمہاری یہ تہذیب حاضر معاف کرنا نہیں جانتی.میں جرمنی میں بول رہا تھا انہوں نے دو جنگیں لڑی ہیں اور دونوں میں ہی ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے.میں نے کہا کہ تم نے دو جنگیں لڑی ہیں پہلی کو تو میں چھوڑتا ہوں دوسری جنگ عظیم کو لے لیں اس جنگ کے بعد تم پر بہت سا تاوان ڈالا گیا.تمہارے ملک میں چھاؤنیاں بنالیں.تمہیں غلام بنالیا، تمہیں حقارت سے دیکھا.اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ جنگ میں تم نے یعنی جرمنوں اور ان کے ساتھیوں نے Allies ( ایلائز ) سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو زیادہ تعداد میں قتل کیا یا انہوں نے تمہارے زیادہ آدمی مارے.جب جنگ ہو رہی تھی تو کسی ایک نے جیتنا تھا وہ جیت گئے اور تم ہار گئے لیکن تمہیں معاف نہیں کیا گیا اور یہ تمہاری تہذیب کی کمزوری ہے.اس کے برعکس دنیا میں یہ واقعہ بھی ہوا ہے کہ ایک شخص کو رڈ سائے مکہ نے تیرہ سال تک مکی زندگی میں اور پھر ہجرت کے بعد بھی ان کے

Page 470

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۵۶ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء پیچھے جا کر قریباً سات سال تک دکھ پہنچائے.متواتر ہیں سال تک انتہائی قسم کے مظالم ان کے خلاف کئے گئے.He had to face the worst type of persecution اور قریباً بیس سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کیا کہ آپ مگنے کی فصیلوں پر کھڑے تھے اور اہل مکہ جو ہیں سال تک مظالم ڈھاتے رہے تھے ان میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ میان سے اپنی تلواریں باہر نکال سکتے اور اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے اتنی طاقت دی ہوئی تھی کہ آپ جو چاہتے ان سے سلوک کر لیتے لیکن آپ نے جو سلوک ان سے کیا وہ یہ تھا کہ جاؤ تم سب کو معاف کیا میں یہ بتا رہا ہوں کہ اس طرح ہم اسلام کی خوبیاں ان لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں.چنانچہ میں نے دو چار اور باتیں ان کو بتا ئیں اور اس کے بعد پھر وہ سوال پوچھنے لگ گئے.سٹاک ہالم میں ایک صحافیہ پر یس کا نفرنس میں ذرا دیر سے آئی اور بیٹھتے ہی کہنے لگی کہ اسلام عورتوں کے متعلق کیا کہتا ہے.یورپ میں اسلام کے متعلق بڑا ز ہر پھیلایا ہوا ہے کہ اسلام عورت کو عزت اور احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، اس کے حقوق کو نہیں پہچانتا اور اس کے حقوق اسے نہیں دیتا وغیرہ یہ تو اسلام کے دشمنوں کا کام ہے وہ انہوں نے کیا.میں نے اسے کہا کہ چودہ سوسال پہلے قرآن کریم میں ان الفاظ میں اعلان کیا گیا ہے کہ عورت ہو یا مرد جو بھی اعمالِ صالحہ بجالائے گا اس کو ایک جیسا ثواب ملے گا.کہنے لگی مجھے تو قرآن کریم کی آیت دکھا ئیں.ہوٹل میں ہمارے کمرے کے پاس ہی پر یس کا نفرنس ہو رہی تھی.میں نے اپنے بیڈ روم سے قرآن کریم منگوایا اور اس کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور اس کا ترجمہ سنایا.کہنے لگی کہ مجھے اس کا ریفرنس نوٹ کروائیں کہ کس شورت کی کون سی آیت ہے.چنانچہ وہ اس نے نوٹ کیا.پھر میں نے ایک اور آیت اس کو بتائی اسے بھی نوٹ کیا.پھر وہ سوال کرتی رہی اور میں بتا تا رہا کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے.وہ جذباتی ہو رہی تھی لیکن میرے سامنے زیادہ نہیں ہوئی.جب ہم وہاں سے اٹھے اور وہ کمرے سے باہر نکلی تو وہ آنسوؤں سے رو رہی تھی اور ہمارے ایک ساتھی کو کہنے لگی کہ مجھے یہ بتاؤ کہ اتنی حسین تعلیم تمہارے پاس ہے اور تم اتنی دیر کے بعد ہمارے پاس کیوں پہنچے ہو تمہیں پہلے آنا چاہیے تھا.

Page 471

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۵۷ خطبه جمعه ۱/۱۳ کتوبر ۱۹۷۸ء ہزار میں سے شاید ایک آدمی ہو جس کو یہ احساس پیدا ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ کام تو شروع ہو گیا.یہ خدا تعالیٰ نے ایک تدبیر کی ہے اب وہ اس کی طرف متوجہ ہوں گے.وہ لوگ اپنے سے نالاں ہیں.ہر روز ایک حصہ اٹھتا ہے اور اپنی برائیاں بیان کر دیتا ہے.ایک دن ہمارے سامنے کھانے کے بارہ میں پروگرام آگیا کہ آدمی بیمار ہورہے ہیں اور مر رہے ہیں.اس نے بتایا کہ ہمیں غلط قسم کا کھانا دیا جا رہا ہے جو زہریلا ہے اور اس کی وجہ سے اتنے عرصہ میں بارہ ہزار آدمی مر چکا ہے اور پتا نہیں کتنا بیمار ہوا ہے ہمیں اس سلسلہ میں فکر کرنی چاہیے.میں ان کو بتا تارہا ہوں اور یہ پوائنٹ بھی ان کے سامنے لایا ہوں کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ قرآن کریم نے کھانے کے متعلق جو تعلیم دی ہے وہ اس پر عمل نہیں کر رہے اگر وہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کریں تو کھانے کی وجہ سے اس قسم کی بیماریاں اور اموات نہ ہوں.باقی جو انسان اس دنیا میں آیا ہے اس نے بہر حال اس دنیا سے جانا ہے یہ تو نہیں ہے کہ قیامت تک سب نے زندہ رہنا ہے لیکن تکلیفیں اٹھا کر اور بیماریوں سے اپنی زندگی کے دن گزار کر مرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان قرآن کریم کی تعلیم پر عمل نہیں کرتا.پھر ان قوموں میں دوسرے جھگڑے لڑائیاں اور Strikes ( سٹرائیکس ) وغیرہ بہت ہیں.میں ان کو کہتا رہا ہوں کہ عجیب بات ہے کہ مزدور اپنے حقوق کے حصول کے لئے سٹرائیک کرتا ہے لیکن اس مزدور کو یہ پتا نہیں کہ اس کے حقوق ہیں کیا جن کو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے.یہ ہمیں اسلام بتا تا ہے.اس طرح بات چھڑتی ہے.پھر ان کو بتاتے ہیں پھر وہ کہتے ہیں کہ اچھا! یہ حقوق ہیں.میں نے امریکہ میں ایک جگہ ان کو کہہ دیا کہ دیکھو تم میں سے کوئی شخص یہ جرات نہیں کرے گا کہ وہ یہ کہے کہ اسلام کی یہ تعلیم غلط ہے اور ہمارا دماغ اسے قبول نہیں کرتا.میں نے پہلے ان کو کہ دیا اور پھر میں نے کہا کہ اب میں تعلیم بتا تا ہوں اور سب نے اسلامی تعلیم کی عظمت کو تسلیم کیا.پس ان لوگوں کے دل میں ایک احساس پیدا ہوا ہے اور میرے دل میں اس کے ردعمل کے طور پر یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ بڑی اہم ذمہ داری ہے جو ہم پر ڈالی گئی ہے، بڑے کٹھن مراحل ہیں جن میں سے ہمیں گزرنا ہے.پس تم آرام طلب زندگیاں نہ گزارو.ساری دنیا کی ہدایت کی

Page 472

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۵۸ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۸ء ذمہ داری جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے اس کے لئے جو کچھ کر سکتے ہو وہ کر و.سارا کچھ نہیں کر سکتے ، یہ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں لیکن جو کچھ کر سکتے ہو وہ تو کرو.خدا نے یہ کہا ہے کہ جو کچھ کر سکتے ہو وہ کرو اور اگر وہ اس چیز کا ایک کروڑ واں حصہ ہوا جو مطلوبہ نتائج پیدا کرنے کے لئے ہونا چاہیے تو باقی سارا کچھ میں کروں گا اور اس سارے کا ثواب تمہیں دے دوں گا.خدا تعالیٰ نے اپنے لئے تو کوئی ثواب نہیں مقرر کیا ہوا وہ تو قادر مطلق اور خالق کل ہے ہر چیز اس کی ملکیت ہے اس نے کسی سے کیا لینا ہے وہ تو بڑی عظمت اور جلال والا ہے کرے گا وہ اور ثواب آپ کو دے دے گا اور یہ گھاٹے کا سودا تو نہیں ہے.غرض میرے دل میں یہ ردعمل پیدا ہوتا ہے اور اپنی کمزور یوں اور کوتاہیوں کو دیکھ کر بڑی گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے.دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ساری جماعت کو کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر ساری دنیا کے لئے دعائیں کرو.یہ لمبا مضمون ہے.میں انشاء اللہ اگلے خطبہ میں یا اس سے اگلے کسی خطبہ میں جب موقع ملا اسے بیان کروں گا لیکن اس وقت مختصراً یہ کہوں گا کہ ساری دنیا کے لئے دعائیں کرو، ہر ملک کے لئے دعائیں کرو اور اپنے ملک کے لئے خصوصیت سے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کے استحکام کے سامان پیدا کرے اور یہاں کے لوگ آپس میں اخوت اور بھائی چارے کے ماحول میں زندگی گزارنے والے ہوں اور جوحسین معاشرہ اسلام دنیا میں پیدا کرنا چاہتا ہے جہاں وہ یورپ میں دوسرے ممالک میں پیدا ہو گا وہاں ہمارے ملک میں بھی پیدا ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.( روزنامه الفضل ربوه جلسه سالا نہ نمبر ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۸ ء صفحہ ۷ تا ۱۴)

Page 473

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۵۹ خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۷۸ء تحریک جدید کے نئے سال ۱۹۷۸۷۹ء کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۲۰ /اکتوبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہر سال یکم نومبر سے تحریک جدید کا نیا سال شروع ہوتا ہے (وعدہ کے لحاظ سے ) اور ۱/۳۰ پریل کو ختم ہوتا ہے، (ادائیگیوں کے لحاظ سے ) چونکہ یکم نومبر سے پہلے میں عام طور پر نئے سال کا اعلان کر دیا کرتا ہوں اس لئے یہ جمعہ میں نے تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کے لئے منتخب کیا ہے جو یکم نومبر سے شروع ہوگا.پس آج میں تحریک جدید کے صف اول کے پینتالیسویں صف دوم کے پینتسویں اور صف سوم کے چودھویں سال کا اعلان کرتا ہوں.تحریک جدید کی ابتدا ۱۹۳۴ء میں ہوئی تھی.اس پر چوالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے.یہ بات بڑی اہم ہے اور بڑی نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ اس سارے عرصہ میں جماعت ہائے احمد یہ مرکزیہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا کی کہ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کی مہم کو چلانے کے لئے وہ مالی قربانی دیں.چنانچہ احباب نے اپنی ہر سال بڑھتی ہوئی طاقت کے مطابق خدا کے حضور عاجزانہ رنگ میں قربانی پیش کی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۲۳ / نومبر ۱۹۳۴ء کو جمعہ کے روز تحریک جدید کا اجرا

Page 474

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۶۰ خطبه جمعه ۱/۲۰ کتوبر ۱۹۷۸ء کیا تھا اور اس وقت ستائیس ہزار روپے کی ضرورت کا اعلان کیا تھا.آپ نے بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے کام کو وسیع کرنے کے لئے چندے کی تحریک کی اور اس کا نام ”تحریک جدید انجمن احمد یہ رکھا.چنانچہ بیرونی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کے کام میں وسعت پیدا کرنے کے لئے ۱۹۳۴ء کی ضرورت کے مطابق آپ نے رقم کا جو اندازہ لگا یاوہ کم و بیش ستائیس ہزار روپے کا تھا اور جماعت نے آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس غرض کے لئے جو چندہ اکٹھا کیا وہ کم و بیش ایک لاکھ روپے تھا.اس سے تحریک جدید کی ابتدا ہوئی لیکن جیسا کہ میں نے ابھی اشارہ کیا ہے ایک چیز بڑی نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے.جب میرے ذہن میں یہ خیال آیا اور یہ حقیقت میری آنکھوں کے سامنے آئی تو میرا دل خدا کی حمد سے بھر گیا کہ اس سارے عرصہ میں جب تک بیرونی جماعتیں بحیثیت مجموعی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جانے کے قابل نہ ہوئیں تحریک جدید کے منصوبہ کا بوجھ جماعت ہائے احمد یہ مرکزیہ نے اٹھایا.جب میں جماعت ہائے احمد یہ مرکز یہ کہتا ہوں تو اس سے میری مراد ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک سے پہلے کی ہندوستان کی جماعتیں اور پھر پاکستان کی جماعتیں ہیں یعنی ۱۹۴۷ ء تک وہ جماعتیں مراد ہیں جو ہندوستان میں بستی تھیں لیکن اس کے بعد ملک تقسیم ہوا اور پاکستان بن گیا تو جماعت احمدیہ کا مرکز پاکستان میں اس چھوٹے سے قصبہ میں قائم ہوا.اس کے بعد جماعت ہائے احمدیہ مرکزیہ سے تاریخی لحاظ سے اور زمانہ کے لحاظ سے وہ احمدی دوست مراد ہیں جن کی رہائش پاکستان میں ہے.پس تقسیم ملک سے پہلے جو ہندوستانی جماعتیں تھیں اور اس کے بعد پاکستانی جماعتیں ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کی بڑھتی ہوئی تبلیغی ضروریات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائیں اور مالی اور جانی قربانی پیش کریں.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس سارے عرصہ میں بیرونی ممالک میں جوں جوں ہمارا کام بڑھتا گیا اور پیسوں کے لحاظ سے ضرورت پڑی جو وہاں میسر نہیں آرہے تھے ، مرکز سے بھجوائے گئے اور اس چوالیس سال کے عرصہ میں ایک پیسہ بھی باہر سے مرکز کو وصول نہیں ہوا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مرکز سے تعلق رکھنے والے احمدیوں کے لئے دوسروں کے

Page 475

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۶۱ خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۷۸ء مقابلہ میں امتیاز پیدا کر دیا.مرکز نے بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے اخراجات کا بوجھ اٹھایا.صرف تحریک جدید ہی نہیں جماعت احمدیہ کی نوے سالہ زندگی میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ مرکز کو ضرورت پڑی ہو باہر سے روپیہ لینے کی یا باہر سے ہمارے پاس ایک دھیلا ہی آیا ہو.۱۹۷۴ء کے حالات ایسے تھے کہ بیرونی ممالک کی بہت سی جماعتوں نے مجھے لکھا کہ ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں، آپ ہمیں اجازت دیں ہم اپنے بھائیوں کی خبر گیری میں بھی شامل ہوں اور ان کے لئے پیسے اکٹھے کر کے مرکز کو بھجوائیں.میں نے کہا نہیں.جماعت ہائے احمد یہ مرکز یہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں گی ان کو تمہاری مالی امداد کی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے اور جماعت ہائے احمد یہ مرکزیہ کے لئے غیرت رکھتے ہوئے میں نے ان کو یہ جواب دیا تھا.خدا تعالیٰ نے فضل کیا.بہت سے لوگوں کو یہ پتا نہیں ہے کہ اس وقت جماعت نے کتنا خرچ کیا تھا.صرف ان لوگوں پر جو ان دنوں پریشان حال ربوہ میں اکٹھے ہو گئے تھے یا ان کا کچھ حصہ اپنے رشتہ داروں کے پاس چلا گیا تھا ان کے کھانے پینے کا انتظام مرکز کو کرنا پڑا جس پر تیرہ چودہ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے لیکن ایسے احباب کو غذائی ضروریات بہم پہنچانے کے لئے آپ نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا یا اور نہ آپ کی خاطر میں نے کسی کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلا یا.اللہ تعالیٰ جو علام الغیوب ہے اس نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ یہاں بھی میں نے کوئی تحریک نہیں کی تھی کہ جماعت پر اتنا بار پڑ گیا ہے جو لوگ مالدار ہیں جن کو نقصان نہیں پہنچا وہ اس غرض کے لئے پیسے دیں.غرض کوئی تحریک نہیں کی اور کسی کو پتا بھی نہیں لگا اور خدا تعالیٰ کے فضلوں نے جماعت کو جس کے متعلق لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ ختم ہوگئی خدا کے فرشتوں نے اسے اٹھا کر کہیں سے کہیں پہنچادیا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے.پس تحریک جدید پر غور کرتے ہوئے یہ چیز نمایاں طور پر میرے سامنے آئی اور اس کا میں غم اس وقت ذکر کر رہا ہوں اور میں اس بات کا اظہار کرنا چاہتا تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں.تحریک جدید کے اجرا کے بعد دنیا میں بڑی عظیم تبدیلیاں پیدا ہوئیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت کی حقیر کوشش کو غیر معمولی طور پر نوازا.آخر ایک لاکھ کی حیثیت ہی کیا ہے.میرے خیال میں

Page 476

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۶۲ خطبه جمعه ۱/۲۰ کتوبر ۱۹۷۸ء جرمنی کے تین مزدوروں کو ایک سال میں ایک لاکھ سے زیادہ اجرت ملتی ہے.غرض دنیا میں اتنی رقم کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اس میں برکت ڈالی اور باہر کی جماعتوں میں آہستہ آہستہ ایک تبدیلی رونما ہونے لگی.چنانچہ بیرونی ممالک کی جماعتیں مثلاً مغربی افریقہ کی جماعتیں جنہوں نے ۱۹۴۴ء تک ایک پیسہ بھی چندہ نہیں دیا تھا جو ہمارے رجسٹروں میں درج ہو یعنی با قاعدہ چندہ دینے والے اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے اور ان کی ضروریات دینیہ کا سارا بوجھ جماعت ہائے احمد یہ مرکز یہ اٹھا رہی تھیں اس لئے بھی کہ بیرونی ملکوں کی جماعتوں کی اس وقت تک کما حقہ، تربیت نہیں ہو پائی تھی.تبلیغی ضروریات کے لئے پیسہ باہر بھجوانے پر شروع میں کوئی پابندی نہیں تھی.چنانچہ جتنی ضرورت پڑتی تھی اتنا پیسہ ہم باہر بھجوا دیتے تھے لیکن پھر زرمبادلہ کے لحاظ سے ساری دنیا کے حالات بدلتے چلے گئے.صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں انگلستان، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک میں بھی حالات بدل گئے لیکن ان ممالک میں ابھی ایسی پابندی نہیں شاید صرف یہ چند ممالک ہی اب ایسے رہ گئے ہیں جنہوں نے اپنی کرنسی کو باہر لے جانے پر کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن اکثر ممالک ایسے ہیں جنہوں نے پابندی لگادی ہے اور وہ اپنے ملک کی اقتصادیات کی حفاظت کے لئے اگر پابندی لگائیں تو یہ ان کا حق بھی ہے اور اس کو ایسا کرنا بھی چاہیے.غرض ۱۹۳۴ء میں ہمیں تو اس بات کا علم نہیں تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو تو اس کا علم تھا اس لئے وہ لوگ جو ابتدا میں ایک دھیلا بھی خدا کی راہ میں دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھے وہ چندے دینے لگ گئے اور آج اکثر بیرونی ممالک تو ایسے بھی ہیں جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں.ان ممالک کے چندے اتنے ہو گئے ہیں کہ اپنی ساری ضروریات پوری کر کے بھی ان کے پاس دوسرے کاموں کے لئے مثلاً اشاعت کتب کے لئے ریز رو ہے جو ان کا اپنا ہے، اس میں سے وہ خود خرچ کرتے ہیں.صدر انجمن احمد یہ پاکستان کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں نہ انتظامی لحاظ سے تحریک جدید انجمن احمدیہ کا تعلق ہے.وہ خود اپنے بجٹ بناتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں.ایک عام نگرانی تحریک جدید بھی کرتی ہے اور خلیفہ وقت بھی کرتا ہے.وہ دیکھتا ہے، وہ سمجھا تا ہے،ضرورت بتا تا ہے، ان پر خرچ کرواتا ہے.پس جہاں تک پیسے کا سوال ہے وہ

Page 477

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۶۳ خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۷۸ء اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں لیکن چونکہ دنیا کے ہر ملک میں جماعت اتنی مضبوط نہیں ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑی ہو یہ بھی ایک حقیقت ہے اس لئے باوجود اس کے کہ پاکستان سے موجودہ حالات میں ان کی امداد کے لئے کوئی رقم باہر نہیں بھیجی جا سکتی اور نہ بھیجی جاتی ہے.دنیا میں ایسے ممالک پیدا ہو گئے ہیں کہ جو اپنی ضروریات سے زائد قربانی دے رہے ہیں اور پھر وہ ان ممالک کی بھی مدد کر رہے ہیں جو اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں یعنی جو کیفیت پہلے مرکز کی تھی وہ اب ان ممالک کی ہوگئی ہے اور اس طرح جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری ہورہی ہیں اور شاہراہ غلبہ اسلام پر ہماری حرکت روز بروز تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے.بیرونی ممالک کی ایسی جماعتیں جن کے مطالبات ہم نہیں پورا کر سکتے ملکی قانون کی وجہ سے وہاں ان ملکوں کی جماعتیں جہاں زرمبادلہ باہر بھجوانے کی ممانعت نہیں وہ ان کی ضرورت پورا کر رہی ہیں.میں اس وقت دو قسم کے اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھوں گا اور اس سے آپ کو اس کیفیت کا پتہ لگ جائے گا.میں نے بتایا ہے کہ ۱۹۴۴ ء تک ہندوستان سے باہر ساری دنیا میں کوئی چندہ جمع نہیں ہوا.بعض ایسے لوگ تو ہوں گے جو اپنے طور پر خرچ کرتے ہوں گے لیکن جس طرح ہم با قاعدہ چندہ دیتے ہیں اور وہ رجسٹروں پر چڑھتا ہے اور اس کا بجٹ بنتا ہے اس قسم کے چندے اکٹھے نہیں ہوئے.چنانچہ شروع میں بیرونی ممالک کی مجالس عاملہ کے پاس بھی کوئی پیسے اپنے نہیں ہوتے تھے.ان کو مرکز کی طرف سے بھجوائے جاتے تھے.کجا یہ حالت تھی اور کجا اب یہ حالت ہے کہ ان کی پچھلے سال کی آمد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ چالیس ہزار نو سوستر روپے تک پہنچ گئی ہے اور یہ ان کی اصل آمد ہے جو بطور چندہ جمع ہوئی ہے اور اس میں وہ رقم شامل نہیں ہے جو سکولوں کی فیس کے طور پر آتی ہے مثلاً صرف غانا میں ہمارے درجنوں سکول ہیں ان سے فیسیں بھی وصول ہوتی ہیں.گو بہت سے سکولوں پر ہم خرچ بھی کرتے ہیں اور بعض کی فیسوں کی آمد بھی کم ہے لیکن فیسوں کی مجموعی آمد بھی اگر ان کے چندے میں شامل کر لی جائے تو ان کے چندے کی رقم بہت بڑھ جاتی ہے مگر اس وقت میرا یہ مضمون نہیں.میں اس وقت یہ بتا رہا ہوں کہ وہ ساری جماعت ہائے احمد یہ بیرون مرکز یعنی جو ہمارا ملک ہے جہاں ہمارا مرکز ہے اس سے باہر کی ساری جماعتیں جو ۱۹۴۴ء تک

Page 478

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۶۴ خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۷۸ء کوئی چندہ نہیں دیتی تھیں ۱۹۴۴ء کے بعد چونتیس سال کے عرصہ میں ان کی چندوں کی آمد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے سے تجاوز کر گئی ہے.یہ ان کی اپنی آمد ہے.وہی چندہ وصول کرتے ہیں اور رجسٹروں میں درج کرتے ہیں ان کی اپنی مجالس عاملہ ہیں جو آمد وخرچ پر غور کرتے ہیں.وہ مرکز سے مشورہ ضرور لیتے ہیں.مرکز ان کو مشورہ ضرور دیتا ہے لیکن وہ صاحب اختیار ہیں وہ جس طرح چاہتے ہیں دین کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اکثر ایسے ممالک ہیں یہاں سے روپیہ باہر لے جانے کی اجازت نہیں، اس لئے وہاں سے ایک دھیلا باہر نہیں جاسکتا مثلاً مغربی افریقہ کے ممالک ہیں جن کی میں ابھی مثال دوں گا وہ قانونا باہر پیسہ بھیج ہی نہیں سکتے.پس ۱۹۴۴ء میں بیرونی ممالک کی جماعتیں محتاج تھیں مرکز کی امداد کی لیکن آج نہ صرف وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی ہیں بلکہ اگر ملکی قانون ان کی اجازت دیتا ہو تو مثلاً غانا کی جماعت ہے وہ شاید ایک اور مشن کو سنبھال لیتے لیکن چونکہ قانون اجازت نہیں دیتا اس لئے وہ کتابیں شائع کر رہے ہیں.انہوں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ شائع کرنے کا پروگرام بنایا ہے.پس غانا کی جماعت ایک مثالی ہے.اس کی پچھلے سال کی اصل آمد ستائیس لاکھ نو ہزار پانچ سو تیس روپے ہوئی حالانکہ ۱۹۴۴ء تک ایک دھیلا بھی آمد نہ تھی.غانا کے مقابلہ میں تحریک جدید انجمن احمدیہ کی گزشتہ سال کی آمد تیرہ لاکھ روپے تھی جبکہ غا نا ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کی آبادی بھی زیادہ نہیں لیکن وہاں جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ان کے چندے پاکستان کی نسبت دو گنا ہو گئے ہیں وہ چونکہ پیسے باہر نہیں بھیج سکتے اس لئے اپنے ملک ہی میں خرچ کرتے ہیں.ان کو کوئی تنگی نہیں ہے.ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ باہر کی جماعتوں کی مدد کریں لیکن ان کا ملکی قانون ان کو اجازت نہیں دیتا اس لئے وہ مدد نہیں کر سکتے.یہ تو میں نے غانا کی مثال دی ہے.پھر سیرالیون ہے، نائیجیریا ہے، گیمبیا ہے، آئیوری کوسٹ ہے، لائبیریا ہے.کہیں تھوڑی جماعت ہے کہیں زیادہ جماعت ہے کہیں ضرورت کم ہے اور کہیں زیادہ ہے لیکن وہ سبھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں.جس طرح درخت کی جڑ جب مضبوط ہو جاتی

Page 479

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبه جمعه ۱/۲۰ کتوبر ۱۹۷۸ء ہے اور تنا بھی موٹا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اپنی جڑوں پر قائم ہوجاتا ہے اور پھر اس کی زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں رہتی.اسی طرح ان ممالک کی جماعتوں کو مالی لحاظ سے بیرونی مدد کی ضرورت نہیں رہی.اسلام کے عالمگیر غلبہ کی مہم تو اللہ تعالیٰ نے ایک منصوبہ بنایا ہے جس میں ساری دنیا کو باندھ دیا ہے.انگلستان کی جماعت ہے یہ دوسرے ملکوں کی جماعتوں کو حسب ضرورت روپے بھیجتی ہے اور اس طرح تبلیغ اسلام کا سارا کام اپنی اپنی جگہ پر ہو رہا ہے.پس اس عرصہ میں مرکز کے پاس بیرونی جماعتوں کی طرف سے کسی وقت بھی جماعت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک دھیلا نہیں آیا.اس کے برعکس جماعت ہائے احمد یہ مرکز یہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ جب تک ملکی قانون نے باہر روپیہ بھجوانا منوع قرار نہیں دے دیا اس وقت تک مرکز باہر کی جماعتوں کی مدد کرتا رہا اور یہ بیرونی ملکوں کی جماعتوں پر بڑا احسان تھا.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی احسن جزا دے اور آپ کی نسلوں کو بھی.آپ کے عزم کو پختہ کرے.آپ کی ہمتوں کو بلند کرے اور تقویٰ کو مقبول بنائے اور اعمال کو صالح بنائے آپ خود بھی اور آپ کی آنے والی نسلیں بھی اس تحریک کے مجاہد، مسکین اور خدا کے عاجز بندے بنیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے انقلاب عظیم کی بشارت دی ہے اور جن کے ذریعہ سے گو چھوٹی سی جماعت ہے لیکن خدا تعالیٰ انقلاب عظیم بپا کر رہا ہے جیسا کہ صرف ایک بات بتا رہی ہے کہ ۱۹۳۴ ء بلکہ ۱۹۴۴ء کے بعد کتنا عظیم انقلاب بپا ہو گیا کہ وہ لوگ جو اسلام کے نام پر ایک دھیلا بھی دینے کے لئے تیار نہیں تھے ، ان کی مجموعی آمد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے تجاوز کر گئی اور تحریک جدید کی پچھلے سال کی آمد تیرہ لاکھ ہے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے مجموعی چندے بھی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ نہیں بنتے لیکن اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے وہ بیرونی ملکوں کی جماعتوں پر بھی بڑے فضل کرتا ہے.عشق الہی کا ایک ہی بندھن ہے اور وہ اس میں بندھے ہوئے ہیں.ایک مرکز ہے.ایک ان کا امام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک عاجز نائب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے برکتوں کا سامان اس کے ذریعہ سے بھی کرتا ہے اگر چہ پاکستان سے بیرونی ممالک کو روپیہ نہیں جاسکتا لیکن تحریک جدید کے بہت سے ایسے کام ہیں جن کا تعلق باہر سے ہے مثلاً باہر بھجوانے کے لئے مبلغ تیار کرنا.وہ

Page 480

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۶۶ خطبه جمعه ۱/۲۰ کتوبر ۱۹۷۸ء یہاں تیار ہوتے ہیں.پیسہ یہاں خرچ ہوتا ہے لیکن جب مبلغ بن جاتا ہے تو پھر اسے باہر بھجوایا جاتا ہے.اس کے کرایہ پر خرچ کرنا پڑتا ہے.مبلغین کے بیوی بچوں کے قیام کے اخراجات تحریک جدید کو برداشت کرنے پڑتے ہیں.جامعہ احمدیہ پر خرچ کرنا پڑتا ہے.بہت سے شعبے ہیں جن پر اخراجات کی تفصیل کھل کر مجلس شوری کے ذریعہ جماعت کے سامنے آجاتی ہے.جماعت احمدیہ میں کوئی راز نہیں ہے یہ تو ایک کھلی کتاب کی طرح ہے.اسی طرح ہماری زندگیاں بھی کھلی ہیں اور کوئی چھپانے والی چیز نہیں.خدا کی راہ میں قربانی دے رہے ہیں.بشاشت سے دیتے ہیں.مسکراتے ہوئے دیتے ہیں اور جب ضرورت پڑے تو مسکراتے ہوئے جانیں بھی دے دیتے ہیں لیکن اس وقت نہ کسی سے کوئی جان مانگ رہا ہے اور نہ جان دینے کا وقت ہے.خدا تعالیٰ سے پیار کرنے کا اور اس سے دعائیں کرنے کا وقت ہے اس لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نوازے اور جو یہاں کی ضرورتیں ہیں جن کا تعلق باہر سے ہے اور جن کا اثر بیرونی ممالک کی فلاح و بہبود سے ہے ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی جماعت ہائے احمد یہ مرکز یہ کو تو فیق عطا کرے اور آپ جو وعدے کریں وہ اس ضرورت کے مطابق ہوں اور اس کی ضرورت خلیفہ وقت بتا تا ہے.میں نے پچھے سال تحریک جدید کا ٹارگٹ پندرہ لاکھ روپے دیا تھا.اس سال میں اسے بدلنا نہیں چاہتا وہی رہے گا.میں دیکھوں گا آپ خود رضا کارانہ طور پر اس سے کتنا آگے بڑھ جاتے ہیں.پھر اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ سوچیں گے کہ اس میں کیا تبدیلی کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے ہم بنی نوع انسان کے دوو خادم کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے ہوں اور قرآن کریم نے یہ عظیم اعلان كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( ال عمران : ۱۱۱) کے الفاظ میں کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی قوتوں کے طفیل ایک ایسی اُمت کو قائم کیا ہے جو الناس ، یعنی بنی نوع انسان کے لئے بہترین امت ہے لوگوں کی خیر خواہ اور ان کے لئے دعائیں کرنے والی ہے.وہ لوگوں کی خدمت کرنے والی اور ان کی جہالت کو علم میں اور ان کے اندھیروں کو نور میں تبدیل کرنے والی ہے.

Page 481

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۶۷ خطبه جمعه ۱/۲۰ کتوبر ۱۹۷۸ء میری دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے خادم بنائے.ہمیں افسر بنے کی کوئی خواہش نہیں.ہم خادم اچھے ، ہم خادم رہنے میں خوش ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ کا پیار چاہیے.اللہ تعالیٰ کا پیار اس سے پیار کرنے اور اس کے بندوں سے پیار کرنے کے نتیجہ میں ملتا ہے.پس خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں تو فیق عطا کرے کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ اور پورے دل کے ساتھ اور روح کی پوری طاقت کے ساتھ اس سے پیار کرنے لگیں.ہم اس کے بندوں سے بھی پیار کریں اور ان کی بے لوث خدمت کرنے والے ہوں اور اس کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں.اب خدمت کا ذکر آیا تو چونکہ آج مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع ہو رہا ہے.اس لئے اس کے متعلق بھی میں کچھ مختصراً کہنا چاہتا ہوں.جماعت احمدیہ کا مسلک یہ ہے اور اس کی روایت یہ ہے کہ یہ قانون کی پابند جماعت ہے.جماعت احمد یہ تو پچھلی نوے سالہ تاریخ میں یہ نظر آتا ہے کہ جماعت احمد یہ لکی انتظامیہ سے بشاشت کے ساتھ تعاون کرنے والی جماعت ہے.انتظامیہ کی اپنی ضرورتیں اور دشواریاں ہوتی ہیں اور جماعت ان کو بجھتی ہے چنانچہ پچھلے سے پچھلے سال بعض حالات کی وجہ سے حکومت وقت نے ہمیں خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی اجازت نہیں دی تھی تو ہم نے اجتماع نہیں کیا تھا.ہم تو سیاسی جماعت نہیں اس لئے سیاسی فیصلے کرنا ہمارا کام نہیں یہ سیاست دانوں کا کام ہے یا ان لوگوں کا کام ہے جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے.انہوں نے کہا ملکی حالات ایسے ہیں آپ کو اجتماع منعقد نہیں کرنا چاہیے.ہم نے کہا ٹھیک ہے.ہم تو اپنے دلوں میں ملک کی بہبود اور استحکام کی خواہش رکھتے ہیں.نہیں اجتماع کرتے.پچھلے سال بعض پابندیوں کے ساتھ اجازت دی گئی تھی تو ہم نے اس کے مطابق اجتماع منعقد کیا تھا.امسال ۲۱ / اگست کو خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے لئے درخواست دے دی گئی تھی کیونکہ اجازت کا معاملہ بہت سے مراحل میں سے گزرنا ہوتا ہے.حکام نے اپنی Formalities پوری کرنی ہوتی ہیں.معاملہ پولیس کے پاس جاتا ہے اور انہیں بہر حال لمبی کا رروائی کرنی پڑتی ہے اس لئے ان کو وقت ملنا چاہیے.یہ تو ہم امید نہیں رکھتے کہ ہم صبح درخواست دیں اور وہ شام کو

Page 482

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۶۸ خطبه جمعه ۱/۲۰ کتوبر ۱۹۷۸ء فیصلہ کر دیں.ان کو اتنی عجلت میں فیصلہ کرنا بھی نہیں چاہیے.ان کا جو طریق ہے اور قانون کا جو تقاضا ہے اس کے مطابق ان کو کام کرنا چاہیے.چنانچہ اس بات کا خیال رکھتے ہوئے ۲۱ /اگست کو درخواست دے دی گئی کہ ان تاریخوں میں خدام الاحمدیہ دار النصر میں باہر کھلی جگہ میں اپنا اجتماع منعقد کرنا چاہتی ہے.اجتماع منعقد کرنے اور لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے کی اجازت دی جائے.چنانچه درخواست چلی گئی.متعلقہ حکام نے اس پر غور کیا ہوگا ، ہر جگہ سے رائے لی ہوگی ،مشورے کئے ہوں گے اور ستمبر کے آخر میں گویا ایک مہینہ دس دن کے بعد انہوں نے اجازت دے دی.ہم بڑے خوش ہوئے.ویسے تو خدام الاحمدیہ اپنے انتظامات پہلے کر لیتی ہے لیکن کئی دن پہلے اجازت مل جانے سے اجتماع کا انتظام بڑی تسلی اور بشاشت سے عمل میں آیا.بعض دفعہ ہمیں یہ بھی شکایت پیدا ہو جاتی تھی کہ بالکل آخری وقت میں اجازت دی جاتی جس کی وجہ سے کئی کام نہیں ہو سکتے تھے یا ہوتے تھے تو بڑی بددلی سے ہوتے تھے لیکن اس دفعہ قریباً انیس، ہیں دن پہلے اجازت ملنے سے انتظامات کرنے کا خاصا موقع مل گیا.چنانچہ آج پروگرام کے مطابق تین بجے بعد دو پہر انشاء اللہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع شروع ہو رہا ہے.ایک بات آپ سے بھی میں کہنا چاہتا ہوں.ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور ہمارا یہ اجتماع دنیوی اغراض یا سیاسی اغراض کے لئے ہے ہی نہیں اور اس بات کا ہر ایک کو علم ہے لیکن میں آپ کو پکا کرنا چاہتا ہوں.مجلس خدام الاحمدیہ میں کچھ لوگ منتظمین ہیں.کچھ مقررین ہیں ان کی بڑی ذمہ داری ہے.کوئی سیاسی بات نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہمارے خدام کوئی سیاسی بات کرتے ہیں لیکن پھر بھی میں کہتا ہوں کہ نہیں ہونی چاہیے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ آج کی دنیا دوسروں کے متعلق تو حسنِ ظن رکھتی ہے لیکن ہمارے متعلق ایسا نہیں کرتی اس لئے خواہ مخواہ ان کو گنہگار کرنے کے لئے ہم بدظنی کے مواقع کیوں پیدا کریں.اس لئے تم پوری طرح محتاط رہوتا کہ کسی کو بدظنی کا کوئی موقع نہ ملے.پس کوئی ایسی بات منہ سے نہیں نکلنی چاہیے کہ جو کھینچا تانی کے بعد بدظنی پیدا کر کے قابلِ اعتراض بن جائے.قرآن کریم کی تعلیم اتنی وسیع ہے کہ ہماری عمریں اور ہماری نسلوں کی عمریں تفسیر قرآن بیان کرتے ہوئے ختم ہو جا ئیں تب بھی قرآنی علوم ختم نہیں

Page 483

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۶۹ خطبه جمعه ۱/۲۰ کتوبر ۱۹۷۸ء ہوتے.یہ تو نہیں کہ ہماری جھولیاں خالی ہوگئیں تو ہم ادھر کہیں سیاست کے اوپر اور ادھر کہیں دنیوی اغراض کے اوپر ہاتھ ماریں اور مٹھیاں بھر کر اپنی جھولیوں میں ڈالیں.ہماری جھولیاں خدا تعالیٰ کے فضل سے قرآنی انوار سے بھری ہوئی ہیں ان جھولیوں میں سے نکالو.قرآن کی باتیں کرو ، اخلاقی باتیں کرو، دینی باتیں کرو ، تربیتی باتیں کرو، آج کی دنیا کی جو دینی ضرورت ہے اس کے متعلق باتیں کرو، پیار کی باتیں کرو، فساد کی باتیں نہ کرو.کوئی احمدی فساد کی باتیں کرتا ہی نہیں لیکن پھر میں کہتا ہوں قرآن کریم نے بار بار کہا ہے، مجھے بھی حکم دیا ہے، آپ کو بھی حکم دیا ہے که بار بار قرآن کریم پڑھا کرو.بار بار قرآن کریم ہمیں یہ کہتا ہے میں بھی کہوں گا کوئی ایسی بات نہ ہو جو اصلاح خلق ، ہمدردی خلق اور خیر خواہی خلق کے خلاف ہو.ساری دنیا کے دل پیار سے جیتنے کا جب میں باہر دورے پر جاتا ہوں دنیا میں اعلان کرتا ہوں.تم اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو، اس کے مطابق اپنی زبانوں کو استعمال کرو، اس کے مطابق اپنے اعضاء سے کام لو.خدام میرے نہایت ہی پیارے بھائی اور بچے ہیں وہ اس بات کو یا درکھیں کہ ہر چیز ہمیں اپنے رب کریم سے ملتی ہے اس لئے اس کی طرف جھکے رہو.خصوصاً ان ایام میں کیونکہ اجتماعی زندگی میں بعض حالات انسانی نفس میں Iritation ( جھنجھلا ہٹ ) پیدا کرتے ہیں اور اس وقت انسان کی سوچ بھی غیر محتاط ہو جاتی ہے.بعض دفعہ انسان غیر محتاط رنگ میں بولنے لگتا ہے اس لئے خدا کی طرف جھکے رہو تا کہ اپنے نفس کو بھول جاؤ اور خدا تعالیٰ کے ذکر میں اپنے لمحات کو گزارو اور دعائیں کرتے رہو.دعائیں کرو دنیا کے لئے اور دعائیں کرو اپنے ملک اور اس کے استحکام کے لئے.اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر فضل نازل کرے اور اسے مضبوط بنائے اور اس کے دشمنوں کے شر سے ہمارے پیارے ملک کو محفوظ رکھے اور ہمیں ترقیات دے اور ہمارے لئے اگر اندھیرے ہیں جہاں بھی ہیں اور جو بھی ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان اندھیروں کو دور کرے اور ان کی بجائے نور کے سامان پیدا کر دے اور وہ حسن جو اسلام دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے وہ یہاں نظر آئے خصوصاً ہماری زندگیوں میں.پھر دعائیں کریں جماعت کے لئے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر شر سے محفوظ

Page 484

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۷۰ خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۷۸ء رکھے اور اپنے فضلوں کے سایہ میں رکھے اور اپنی رحمتوں سے نوازے اور فرشتوں کی مدد اس کے شامل حال رہے اور اس کو ہر قسم کی دینی و دنیوی برکات اور خیر نصیب ہو.آپ اپنے لئے بھی دعا کریں، دوسروں کے لئے بھی دعائیں کریں اور خاکسار کے لئے بھی دعائیں کریں.پھر یہ دعا بھی کریں کہ ان دو تین دنوں میں جب کہ بیرون ربوہ سے بھی خدام اور اطفال آئے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ آپ میں سے ہر ایک کو وہ حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے جو آپ کے دل کی خواہش اور مراد ہے اور بہت سے بچے ہیں شاید ان کی خواہش وہاں تک نہ پہنچے جہاں ہماری پہنچتی ہے.پس میں یہی کہوں گا کہ خدا کرے کہ آپ وہ کچھ پائیں جس کی خواہش آپ کے لئے ہم اپنے دلوں میں پاتے ہیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۴؍ دسمبر ۱۹۷۸ء صفحه ۲ تا ۵ )

Page 485

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۷۱ خطبہ جمعہ ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۸ء دنیا کے زلزلے مومن کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کر سکتے خطبه جمعه فرموده ۲۷ /اکتوبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَ جَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ b وَ انْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ أُولَبِكَ هُمُ الصّدِقُونَ - قُلْ اَتُعَلِمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ - يَمُنُونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لَا تَهُنُوا عَلَى إِسْلَامَكُم بَلِ اللهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَيكُمْ لِلإِيمَانِ إِنْ كُنْتُم صُدِقِينَ.(الحجرات: ۱۲ تا ۱۸) پھر حضور انور نے فرمایا:.ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومن وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یعنی اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق عطا کرتا ہے اور ابتدائی ہدایت انہیں نصیب ہوتی ہے اور اسلام کے متعلق انہوں نے تھوڑا بہت جو کچھ سمجھا ہوتا ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کر کے ہدایت کی راہ میں ترقی کرتے ہیں اور ترقی کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں.ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا

Page 486

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۷۲ خطبه جمعه ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۸ء پھر کوئی شک وشبہ ان کے دل میں باقی نہیں رہتا.خدا تعالیٰ انہیں ہر معاملہ میں بصیرت عطا کرتا ہے.جس وقت انسان ایمان لاتا ہے تو قرآن کریم ہی نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ شیطان اپنی سی کوشش شروع کر دیتا ہے بہکانے اور وسو سے پیدا کرنے کی.شیطان کے یہ وساوس اور اس کی یہ کوشش ایمان کی ہر سہ جہات سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ ایمان کے معنے کئے گئے ہیں زبان سے اقرار کرنا.دل سے یقین کرنا اور عمل سے یہ ثابت کرنا کہ جو دل میں بات ہے وہ پکی اور یقینی ہے.چنانچہ شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنی زبان سے جو اقرار کرتا ہے اس میں روکیں ڈالے.بہت سے لوگوں کے لئے وہ ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ ایمان ہوتے ہوئے بھی ان کے لئے ایمان کا اقرار کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں ٹھو کرلگتی ہے اور وہ اسلام لانے کے بعد اسلام کو چھوڑ دیتے ہیں جیسا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع زمانہ میں ہوا جب کہ عرب بڑی کثرت کے ساتھ ارتداد اختیار کر گئے تھے.انہوں نے زبان سے بھی اسلام کا انکار کیا اور ان کے دلوں میں بھی ایمان باقی نہ رہا.پس ہمیں قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اپنی کوشش میں یہ وار بھی کرتا ہے کہ بعض دفعہ جب آدمی مسلمان ہوتا ہے اور اقرار کرتا ہے میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اس اللہ پر ایمان لاتا ہے جس کی ذات اور صفات کے متعلق قرآن کریم نے تفصیل سے بیان کیا ہے تو شیطان انسان کے دل میں شبہات پیدا کرتا ہے تا کہ اس سے ایمانی کمزوری سرزد ہو.وَ رَسُولِہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ اقرار بھی کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا افضل ترین اور اکمل ترین مقام جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے حسن اعظم کی حیثیت سے، انسان کامل کی حیثیت سے ، ایک کامل اور مکمل اور قیامت تک قائم رہنے والی شریعت لانے والے نبی کی حیثیت سے ، اس مقام کو میں پہچانتا ہوں.آپ بنی نوع انسان کے محسن اعظم ہیں.میں آپ کے احسانوں کو پہچانتا ہوں اور ان کی معرفت رکھتا ہوں.آپ کی ذات وصفات اور آپ کے حسن و احسان

Page 487

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۷۳ خطبه جمعه ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۸ء کے نتیجہ میں میرے دل میں آپ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جو کہا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے تمہاری عملی زندگی میں اُسوۂ حسنہ ہیں اس اُسوہ کے مطابق انسان اپنی زندگی گزارنے کا اقرار کرتا ہے اور پھر وہ عملاً اسی کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتا ہے.ایمان کا دوسرا حصّہ دلی یقین سے تعلق رکھتا ہے یعنی دل میں ایمان کا پختگی کے ساتھ گڑا ہوا ہونا.شیطان انسانی دل میں بھی وسوسہ ڈالتا ہے وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈالے اور ایمان کی جڑوں کو جو انسان کے دل اور دماغ میں ہوتی ہیں اُن کو ہلا دے.عمل میں کمزوری پیدا ہو جائے اور دل میں شبہات پیدا ہو جا ئیں.اس میں وہ بعض دفعہ کامیاب بھی ہو جاتا ہے جیسا کہ ارتداد کے وقت میں ہوا.یہ ایک ایسی مثال ہے جو ایمان کے تینوں حصوں پر حاوی ہے.پس ثُمَّ لَم يَرْتَابُوا میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہدایت کے حصول کے بعد انسان دین کے میدان میں جتنا کچھ حاصل کرتا ہے اس کے مطابق جب وہ عمل کرتا ہے تو هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : ٣) کی رو سے گویا وہ تقویٰ کی راہوں کو سمجھتا اور ان پر کار بند ہوتا ہے.قرآن کریم اس کے لئے ہدایت اور تقویٰ میں اور زیادہ ترقی کے سامان پیدا کر دیتا ہے.انسان کے دل پر جب شیطان کا یہ وار ہوتا ہے تو انسان پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر رحم کرتے ہوئے اس کی حقیر کوششوں کو قبول کرتا ہے اور اسے بصیرت عطا کرتا ہے.اسے عزم دیتا ہے.اس کو ثبات قدم عطا کرتا ہے.ایمان اس کے دل میں اتنی پختگی کے ساتھ گڑ جاتا ہے کہ شیطان کے حملے ناکام ہو جاتے ہیں.ایمان کا تیسرا حصہ انسانی عمل سے تعلق رکھتا ہے.اس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى الى (الانعام : ۵۱) کے مطابق جو کام کر کے دکھا دیا ہے تم اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو اس کے اوپر بھی شیطان حملہ کرتا ہے.کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھلا دیتا ہے.کبھی انسان کے عمل میں کمزوری پیدا کر دیتا

Page 488

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۷۴ خطبه جمعه ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۸ء ہے.کبھی دنیا کی لالچ کو نیکیوں کی راہ میں حائل کر دیتا ہے.کبھی اولاد کی محبت دین کے راستوں کو تنگ کر دیتی ہے اور دین سے فرار کی راہوں کو کشادہ کر دیتی ہے.بہر حال بے شمار طریقے ہیں جو شیطان استعمال کرتا ہے لیکن مومن تو خدا تعالیٰ سے طاقت حاصل کرتا ہے.وہ راہیں ہزار ہوں یا لاکھوں جن سے شیطان حملہ آور ہوتا ہے مومن اس کا مقابلہ کرتا ہے اور اُسے شکست دیتا ہے اور 66 ثُمَّ لَم يَرْتَابُوا کے مقام پر پہنچ جاتا ہے.پھر اس میں یہ جرات پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ مسلمان ہونے کا اقرار کرے.اس کے دل میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.نہ اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے اور نہ اس کے عمل میں کوئی کمزوری پیدا ہوتی ہے.پھر فرمایا وَ جَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللہ مومن یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہے وہ خدا کا ہے اور اس کی راہ میں ہر چیز کو قربان کر دیتے ہیں یا اسی کی اجازت سے استعمال کرتے ہیں اور ہر وقت قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.خدا تعالیٰ یہ قربانی ہر وقت ہر انسان سے تو نہیں مانگتا لیکن کبھی مانگتا بھی ہے لیکن جب مومن خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے ثُمَّ لَم يَرْتَابُوا کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو اس کے بعد پھر جتنا ہو سکتا ہے وہ خدا کی راہ میں دے دیتے ہیں لیکن نیت یہ ہوتی ہے کہ اگر سب کچھ چلا جائے گا تب بھی خدا کو نہیں چھوڑیں گے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہیں چھٹے گا.ہم نے قادیان کو چھوڑا.اس وقت ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ ہم دیکھتے تھے ہمارے دین کی راہوں میں اس قسم کی رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں کہ ہم اس جگہ مرکزیت کے لحاظ سے اپنی ذمہ داریوں کو نباہ نہیں سکتے اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جیسا کہ پہلے بتایا بھی گیا تھا ہجرت کی اور ربوہ میں آبسے.اُسوۂ نبوی بھی یہی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور اپنے متبعین کے دین کی حفاظت کے لئے مکہ جیسے شہر کو چھوڑ دیا تھا جہاں خانہ کعبہ تھا جو ساری دنیا کو ایک کرنے کے لحاظ سے مرکزی نقطہ تھا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ آپ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے لیکن اپنے دین کو نہیں چھوڑا آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے اپنی ساری جائیدادیں، ساری رشتہ داریاں اور سارے تعلقات اور ایسوسی ایشنز کو چھوڑ دیا اور آرام سے مدینہ چلے - گئے اور

Page 489

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۷۵ خطبه جمعه ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۸ء جب مکہ کو چھوڑا تو پھر دنیوی ناطہ سے چھوڑ ہی دیا.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ جب مکہ فتح ہو گیا تو مسلمان اپنی جائیدادیں واپس لے سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں لیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس مدینہ چلے گئے.اگر حالات ایسے ہو جائیں تو اس اُسوہ پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے.اصل چیز یہ ہے کہ ایمان کے معاملہ میں کوئی شک اور شبہ نہیں ہوتا.مومن کو بصیرت حاصل ہوتی ہے اور ثبات حاصل ہوتا ہے اور استقامت حاصل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے فرشتوں کی حمایت اور نصرت حاصل ہوتی ہے.مومن اپنے ایمان پر ایسے پختہ ہوتے ہیں کہ دنیا کے زلزلے ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں پیدا کر سکتے ، ان کو ہلا نہیں سکتے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں یہ فرمایا ہے :.قُلْ اتَّعَلَّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُم b وَاللهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِیم یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر نفس اپنے متعلق سب سے زیادہ علم رکھتا ہے مثلاً انسانی خیالات ہیں.بہت سے انسانی خیالات صحیح ہوتے ہیں.انسان کے دل میں جوش اور قربانی کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ شبہ والے خیالات بھی پیدا ہوتے ہیں.کمزوری والے بھی پیدا ہوتے ہیں.ڈر والے بھی پیدا ہوتے ہیں.عملاً بعض دفعہ انسان ڈرتا نہیں لیکن اس کے دماغ میں آتا ہے اب کیا ہوگا.کئی لوگوں کو یہ خیال آجاتا ہے اب کیا ہو گا لیکن مومن اس کو ظاہر نہیں ہونے دیتا.وہ خود تو جانتا ہے کہ اس کے دماغ میں یہ خیال آیا تھا.انسان کے دل کے اندر بعض دفعہ وسوسہ پیدا ہوتا ہے خواہ معمولی سا ہوتا ہے لیکن وہ کسی کو بتا تا نہیں.وہ اپنے ایمان پر پختگی سے قائم رہتا ہے لیکن وسوسہ تو پیدا ہوتا ہے.مومن اس کو جھٹک دیتا ہے.دل سے نکال کر پرے پھینک دیتا ہے.اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کے دل میں یہ کیفیت پیدا ہوئی تھی جس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس نے نجات حاصل کر لی.انسان سے بعض دفعہ بہت سی کمزوریاں سرزد ہو جاتی ہیں اور وہ ظاہر نہیں ہوتیں تو کوئی شخص بھی دوسرے کے متعلق علم نہیں رکھتا جتنا خود انسان اپنے متعلق علم رکھتا ہے.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی سمجھدار آدمی انکار نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے باوجود اس کے کہ تم میں سے ہر ایک شخص اپنے متعلق سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے العَلِمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُم

Page 490

خطبات ناصر جلد ہفتہ خطبہ جمعہ ۲۷/اکتوبر ۱۹۷۸ء مگر جہاں تک خدا کا سوال ہے کیا تم خدا کو بتاؤ گے اپنے دین کے متعلق کہ تم بڑے پکے مسلمان اور دیندار ہو؟ گوردوسرے لوگوں کی نسبت تمہارا اپنی ذات کے متعلق علم زیادہ ہے اس لحاظ سے تم اعلم ہو.اپنے نفوس کو زیادہ جاننے والے ہو لیکن جہاں تک خدا تعالیٰ کا تعلق ہے تم نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ کی نسبت تم اپنے نفس کو زیادہ جانتے ہو.تمہارے ظاہر و باطن کو اللہ تم سے بھی زیادہ جانتا ہے.میں نے ایک دفعہ خطبہ جمعہ دیا تھا میں سمجھتا ہوں اخبار الفضل اسے دوبارہ شائع کرے.میں نے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے حوالے سے بتایا تھا کہ کس طرح ہر آسمان پر ایسے فرشتے ہیں جن کا تعلق لوگوں کو مثلاً پہلے آسمان تک لے جا کر خدا کے حضور پیش کرنا ہوتا ہے.بعض لوگوں کے متعلق ایسے فرشتوں کو بھی غلط نہی ہوتی ہے کہ ان کے بڑے اچھے اعمال ہیں لیکن خدا تعالیٰ فرشتوں سے کہتا ہے ان کے منہ پر مارو ان کے اعمال کیونکہ ان کے اندر ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں جنہیں خدا تعالیٰ قبول نہیں کرنا چاہتا اور فرشتوں سے کہتا ہے ایسے اعمال کو اٹھا کر باہر پھینک دو.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم میں سے ہر شخص اپنے متعلق بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس کی دینی حالت کیا ہے حالانکہ ہر شخص اپنے متعلق سب سے زیادہ جانتا ہے تو جن لوگوں کے متعلق تم اپنے نفس کی نسبت کم جانتے ہو ان کی دینی حالت کے متعلق کس طرح فتوی دے سکتے ہو؟ پس کوئی شخص دوسرے کے متعلق فتویٰ دے ہی نہیں سکتا کہ اس کی ایمانی کیفیت کیسی ہے، خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.غرض ان آیات میں بڑا عجیب مضمون بیان ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتُعَلِمُونَ اللهَ دینکم کیا تم اپنے نفس کے متعلق ، اپنے دین کے متعلق خدا کو بتا سکتے ہو؟ جب ایسا نہیں کر سکتے تو پھر تم دوسروں کے متعلق کیسے بتا سکتے ہو کہ ان کی دینی حالت کیا ہے.آیا ان کے اعمال کو خدا نے قبول کر لیا.ان کے دل کی حالت کو پکے مسلمان کی حالت کے مطابق پایا اور اس کے اقرار میں کوئی بناوٹ اور کوئی تصنع نہیں پایا.پس تم دوسرے آدمی کے متعلق کیسے کہہ سکتے ہو جب کہ پنے متعلق بھی نہیں کہہ سکتے.وَاللهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

Page 491

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۷۷ خطبه جمعه ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۸ء آسمانوں اور زمین کی کوئی چیز خدا تعالیٰ کے علم کامل سے پوشیدہ نہیں وہ ہر چیز کو جانتا ہے ( مگر تم نہیں جانتے ).اسی تسلسل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فرمایا يَمنُونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لَا تَسُنُوا عَلَى إسلامكم بعض لوگ تم پر اپنے اسلام کا احسان جتلاتے ہیں.ایسے گروہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں تو نہیں ملتے.قرآن کریم کی شریعت تو قیامت تک ممتد ہے اس لئے ایسے لوگ قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے جو اپنے اپنے وقت میں یہ احسان جتاتے رہیں گے کہ ہم قربانی کرتے ہیں.ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں فدائیت اور ایثار کے نمونے پیش کرتے ہیں.تم کس پر احسان جتاتے ہو خدا پر تو احسان نہیں جتایا جاسکتا کیونکہ تم نے جو کچھ اس کے حضور پیش کیا ہے وہ اس نے تو تمہیں دیا تھا اسی میں سے تم نے واپس کیا تم نے خدا پر کیا احسان کیا ہے.اگر کسی اور کی خاطر کیا ہے تو وہ تمہاری کوئی نیکی نہیں.وہ اسلام نہیں پھر تو وہ خوشامد ہوگی.پھر تو وہ ریا کاری ہوگی.پھر تو وہ دنیا داری ہوگی.وہ تقویٰ اور طہارت تو نہیں ہوگی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر یہ بات سچ ہے کہ واقع میں تم پکے اور سچے اور حقیقی مسلمان ہو اور خدا تعالیٰ نے تمہیں آنْ هَد لكُم لِلْإِيمَانِ ایمان کی راہوں کی طرف ہدایت دی ہے تو یہ تو خدا کا تم پر احسان ہے.تمہارا تو خدا پر کوئی احسان نہیں اور پھر اس سے اگلی آیت میں وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا تعمَلُونَ پر اس سارے مضمون کو ختم کیا ہے فرمایا جو تم عمل کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح واقف ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے متعلق حکم لگانا انسان کا کام ہی نہیں وہ تو مالک ہے جس کو چاہے بخش دے جس کو چاہے نہ بخشے یہ میرا اور تمہارا کام ہی نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض اصول اور اپنی سنت اللہ کے طور پر بعض چیزیں بتائی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں بَصِيرٌ بِمَا تعملون ہوں تم جو بھی عمل کرتے ہو ان کی اچھائی اور برائی ان کا ظاہر اور باطن مجھ سے پوشیدہ نہیں یہ میں نے فیصلہ کرنا ہے کہ کون مومن ہے اور کون کا فرتم نے یہ فیصلہ نہیں کرنا.مثلاً جہاں تک جزا وسزا کا تعلق ہے جب ہم مرنے کے بعد اٹھیں گے اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں فیصلے ہوں گے تو پھر وہاں پتا لگ جائے گا کہ کون مومن ہے اور کون کا فر ؟ کیونکہ کسی کے ایمان اور کفر کا فیصلہ تو

Page 492

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۷۸ خطبه جمعه ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۸ء خدا نے کرنا ہے اپنے زور پر تو کسی نے نہ جنت میں جانا ہے اور نہ کسی نے جنت میں جانے سے کسی دوسرے کو روکنا ہے یا پھر بعض اصول ہیں جو قرآن کریم نے بتائے ہیں مثلاً یہ کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود خدا تعالیٰ بتا دیتا تھا کہ یہ منافق ہے.بعض لوگوں کے متعلق خدا تعالیٰ بتادیتا تھا کہ یہ ہیں تو منافق مگر ابھی کسی کو بتاؤ نہیں.کسی کے متعلق خدا تعالی بتا دیتا تھا کہ یہ جنتی ہے اس کا انجام بخیر ہو گا لیکن اسے بتاؤ نہیں ، اس کو چلنے دو اسی طرح.پس یہ تو خدا تعالیٰ کی شان ہے بندوں کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.دو باتیں خاص طور پر ایسی ہیں جن کی طرف میں اس وقت احباب جماعت کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں.ایک تو یہ ہے کہ قُلْ اَتُعَلَّمُونَ اللهَ بِدِینِکھ کی رو سے کوئی شخص اپنے دین یا اپنی بزرگی اور طہارت کے متعلق خدا تعالیٰ سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ میں ایسا ہوں نالائقی کے متعلق تو لوگ کہا ہی نہیں کرتے بزرگی کے متعلق بھی کوئی نہیں کہہ سکتا.ہم نے تو خدا تعالیٰ کو نہیں بتانا کہ ہم تیرے پیارے ہیں.پیار تو خدا نے دینا ہے اور ہم اسے بتائیں کہ ہم تیرے پیارے ہیں اور کوئی شخص دوسرے کے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے کسی پیارے یا ولی کو الہاماً کچھ بتایا ہو اور یہ اس وقت میرے مضمون کا حصہ نہیں.دوسرے یہ کہ جماعت احمدیہ کے لئے یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ وہ ثُمَّ لَم يَرْتَابُوا کے مقام کو حاصل کرے.دوستوں کے دل میں ایمان کے بارہ میں کوئی شک اور شبہ باقی نہ رہے اور دلیری کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کریں اور اس بات کا برملا اقرار کریں کہ وہ خدا پر ایمان لاتے ہیں.میں تو جیسا کہ خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق قرآن کریم نے بیان کیا ہے اس پرایمان لاتا ہوں اور اس خطبے میں بھی اعلان کر رہا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہم اتنی قسمیں کھانے کے لئے تیار ہیں جتنی خدا تعالیٰ کی صفات اور اس کی تجلیات ہیں اور اگر دوست یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام پر ایمان لاتے ہیں تو اس کا دلیری کے ساتھ اقرار کریں اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نہیں ، خدا کے شریک بھی ہیں اور خدائے واحد و یگانہ پر ایمان نہیں لاتے تو پھر اپنے اسلام کا بالکل اقرار نہ کریں ، جھوٹ نہ بولیں ، نہ لوگوں کے سامنے جھوٹ بولیں اور نہ خدا کے سامنے.

Page 493

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۷۹ خطبه جمعه ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۸ء پھر میں یہ بھی ایمان رکھتا ہوں اور میرا یہ عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں سے افضل اور ارفع ہیں.ہر ایک رسول جو آپ سے پہلے گزرا اس پر بھی احسان کرنے والے ہیں.انہوں نے بھی جو کچھ پایا وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے پایا تھا خدا اور ان کے درمیان کوئی اور وسیلہ یا شفیع نہیں بنا تھا یا اپنی قوت قدسیہ سے برکتیں دینے والا کوئی نہیں تھا سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے.آپ عظیم انسان ہیں.آپ انسان کامل ہیں.آپ دنیا کے محسن اعظم ہیں.آپ اتنا حسن رکھنے والے ہیں اپنے اعمال میں، اپنی زندگی میں، اپنے رہن سہن میں، اپنے معاشرہ میں کہ کسی ماں نے ویسا بچہ جنا اور نہ جن سکتی ہے یہ میرا ایمان ہے اور میں اس کا برملا اظہار کرتا ہوں باقی دنیا جو مجھتی ہے اس کے متعلق کہتی رہے مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اگر کوئی صاحب میرے خرچ پر میرے پاس تحقیق کرنے کے لئے آئیں اور ایک سال تک رہیں اور سال بھر مجھے فحش گالیاں دیتے رہیں تب بھی میں مسکراتا رہوں گا اور مجھے کوئی پروانہیں ہوگی.لوگ گالیاں دیتے ہیں تو دیتے رہیں جس چیز کی مجھے فکر ہے وہ یہ ہے کہ میرا خدا مجھ سے ناراض نہ ہو جائے اور پھر فرماتے ہیں : میں اس یقین پر قائم ہوں کہ اگر میں ذرہ بھر بھی اپنے خدا کا انکار کروں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام میں نے پہچانا ہے اور جس کی معرفت اور عرفان حاصل کیا ہے اس کا انکار کروں تو میرا رب ناراض ہو جائے گا.پس اگر آپ کے دل کی بھی یہی کیفیت ہے تو آپ کس سے ڈرتے ہیں آپ اپنے ایمان کا برملا اظہار کریں.دنیا کو ہم کچھ نہیں کہتے.ساری عیسائی دنیا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتی رہی ہے ایسا تو دنیا میں ہوتا چلا آیا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں اسلام نے ساری دنیا پر غالب آنا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس منصوبہ کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے مہدی کو پیدا کر دیا اور ہمیں اس پر ایمان لانے کی توفیق عطا کی.یہ ایک حقیقت ہے ہم اس حقیقت سے فرار کیسے اختیار کر لیں.پس یہ جو آیات میں نے اس وقت پڑھی ہیں ان میں اس مضمون کا تسلسل ہے اور یہ ایک بڑا لطیف مضمون ہے جو بیان ہوا ہے.ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ مومن کون ہوتا ہے؟ فرمایا

Page 494

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۸۰ خطبه جمعه ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۸ء مومن وہ ہے جو اللہ کی معرفت حاصل کرے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارفع مقام کو پہچانے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کی راہ پر چلتے ہوئے اس مقام تک پہنچ جائے کہ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا اس کے دل میں کوئی شک اور شبہ باقی نہ رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے تفصیل سے بتایا ہے شیطان کے سارے حربے اور ہر سہ قسم کے وسوسے ناکام ہوں یعنی انسان کا خدا اور اس کے رسول پر جو ایمان ہوتا ہے جس کا وہ زبان سے اقرار کرتا ہے دل میں اس کے بارہ میں یقین ہوتا ہے اور عمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ جو بات اس کے دل میں ہے وہ سچی ہے، اس میں کمزوری پیدا کرنے کے لئے شیطان حملے کرتا ہے وہ حملے ناکام ہو جائیں اور پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ کے مزید فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے علی وجہ البصیرت خدا تعالیٰ کے حضور ہر چیز پیش کر دی جائے.پھر وَ جَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللہ کی رُو سے انسان یہ عہد کرتا ہے کہ اے خدا! ہر چیز تیری ہے جسے ہم تیرے حضور پیش کر دیں گے.پھر وہ کبھی کروڑ میں سے ایک پیسہ مانگ لیتا ہے اور کہتا ہے باقی تم اپنے پاس رکھ لو اور کبھی وہ پانچ ہزار میں سے پانچ ہزار لے جاتا ہے.ایک شخص کا ایک ہی مکان ہے اسے جلا دیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ - رَضِيْتُ بِاللهِ رَبِّ.مکان جل جانے کی وجہ سے اپنے رب کو تو نہیں چھوڑتا.ایسے موقع پر مومن کہتے ہیں ہم اپنے رب پر راضی ہیں.پھر فرما يا أوليكَ هُمُ الصّدِقُونَ جو لوگ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں صادق ہوتے ہیں ان کی علامت یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی ہوتے ہیں.پھر اس شبہ کا ازالہ کیا کہ محض ظاہری اعمال کافی نہیں.قُلْ اَتُعَلِمُونَ اللهَ بدِينِكُم خدا کو میں نے اپنے دین کے معاملہ میں کچھ نہیں بتا نا وہ تو عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے بتانا ہے کہ وہ مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے.قُلْ اتَّعَلَّمُونَ اللهَ بدِینکم کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ میں اپنے متعلق بھی نہیں بتا سکتا کیونکہ خدا مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے.اس کے علم کا کوئی اندازہ ہی نہیں.میرے علم کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں.وہ علام الغیوب ہے.آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اس کو جاننے والا ہے اور ہر چیز

Page 495

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۸۱ خطبه جمعه ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۸ء کا علم رکھنے والا ہے.کیا میں اس خدا کو بتاؤں گا جو عَلامُ الْغُيُوبِ ہے لیکن میں نے اس سے یہ علم حاصل کرنا ہے کہ وہ مجھ سے پیار کرتا بھی ہے یا نہیں یا پیار کرتا ہے تو کتنا پیار کرتا ہے.میں نے بتایا تھا شروع خلافت میں خدا تعالیٰ نے مجھے یہ سبق دینا تھا کہ میں ہر موقع پر تیری ہدایت کا سامان پیدا کروں گا.چنانچہ ایک دن ظہر کی نماز کے بعد گھر میں آکر میں نے سنتوں کی ادائیگی شروع کی تو عین عالم بیداری میں میرے سامنے خانہ کعبہ آ گیا اور میں نے دیکھا کہ میرا منہ کوئی ایک شوت کے برابر بائیں طرف ہے.خانہ کعبہ کی سیدھ میں نہیں ہوں.چنانچہ میں نے اپنا منہ ٹھیک کرلیا اور نظارہ بدل گیا.میں نے سوچا تو میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ خانہ کعبہ تو ہزار ہا میں کے فاصلے پر واقع ہے.بالکل چھوٹی سی جگہ ہے اس کی طرف ہر نمازی کا منہ ہو، یہ بات محل نظر ہے کہ لوگوں کا منہ عین اس کی طرف ہوتا ہو گا لیکن صرف جہت قبلہ کا خیال رکھا جاتا ہے ابھی تک ایسا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا جس سے ہم پتا کر سکیں کہ نمازی کا منہ عین خانہ کعبہ کی طرف ہے.غرض میں سمجھ گیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بڑے پیار سے یہ بشارت دی ہے کہ جس مقصود کے لئے تجھے نائب اور خلیفہ مقرر کیا گیا ہے اس مقصود کے حصول میں اگر تو غلطی کرے گا تو میں خود تجھے سیدھا راستہ دکھا دوں گا.مجھے اس سے بڑا لطف آیا اور میں نے خدا تعالیٰ کی بڑی حمد کی.پس یہ تو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتانا ہے کہ وہ ہم سے کتنا پیار کرتا ہے.میں نے بتایا ہے کہ ہماری جماعت میں کوئی گھرانہ ایسا نہیں ہوگا جسے خدا تعالیٰ نے اپنے پیار کے جلوے نہ دکھائے ہوں حتی کہ بچوں کو بھی معمولی باتوں کے متعلق سچی خوا ہیں آتی ہیں.غیب کا علم تو صرف خدا جانتا ہے.بات معمولی ہو یا بڑی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.جب تک کوئی بات غیب میں ہے اس کا علم سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جان سکتا.جس عورت نے کل بچہ جننا ہے اس کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ لڑکی ہوگی یا لڑکا.جس آدمی کی بھینس نے پرسوں بچہ دینا ہے اس کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کٹا دینا ہے یا کئی“.یہ تو خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے.پس بچوں کو ان کی عقل کے مطابق اور بڑوں کو ان کی سمجھ کے مطابق خدا تعالیٰ اپنے پیار کے جلوے دکھاتا ہے.غرض یہ خدا ہے جو اس قدر پیار کرتا ہے.کیا تم اس کو چھوڑ کر یہ اعلان کر دو گے کہ تم خدائے واحد و یگانہ

Page 496

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۸۲ خطبه جمعه ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۸ء پر ایمان نہیں لاتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر ہماری ہزار جانیں نہیں لاکھوں بلکہ کروڑوں جانیں فدا ہوں ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں.پس نہ ہم خدا کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ سکتے ہیں مگر اس کے لئے بھی ہمارے پاس اپنی کوئی طاقت نہیں.اپنی قوت پر ہم بھروسہ نہیں کر سکتے.احباب دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہر احمدی کو یہ طاقت عطا کرے جو تعلق اس کا اللہ کے ساتھ پیدا ہو گیا ہے اس کے اندر کبھی کوئی کمزوری نہ آئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان کے جلوے دیکھ کر آپ کی جو محبت ہمارے دلوں میں پیدا ہوئی ہے، وہ سرد نہ ہو بلکہ آپ کی محبت کی آگ اور بھی زیادہ بھڑکتی رہے.خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر اور اس سے قوت حاصل کئے بغیر ہم ایسا نہیں کر سکتے اسی لئے ہر نعمت جو آسمان سے نازل ہوتی ہے اسے دیکھ کر انسان کی زبان سے یہی نکلتا ہے وَلَا فَخْرَ اس میں انسان کے لئے کوئی فخر کا مقام نہیں کیونکہ یہ دینے والے خدا نے دیا جو بڑی عظمتوں والا اور بڑی شان والا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ / جولائی ۱۹۷۹ ء صفحہ ۲ تا ۶ ) 谢谢谢

Page 497

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۸۳ خطبہ جمعہ ۳/نومبر ۱۹۷۸ء افراد جماعت کو جلسہ سالانہ کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی تاکید خطبه جمعه فرموده ۳ /نومبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا جلسہ سالانہ قریب آگیا ہے.کچھ انتظامات تو ایسے ہیں جو منتظمین جلسہ کو سارا سال ہی کرنے پڑتے ہیں.جب ایک جلسہ ختم ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی آئندہ جلسے کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے.کچھ انتظامات ایسے ہیں جن کا تعلق اہلِ ربوہ اور ربوہ سے باہر کی جماعتوں سے ہے.جہاں تک اہل ربوہ کا تعلق ہے بعض انتظامات ایسے ہیں جن کی طرف ربوہ کے مکینوں کو کافی عرصہ پہلے توجہ دینی چاہیے اور وہ دیتے ہیں اور کافی عرصہ پہلے ان کو اس طرف توجہ دلائی بھی جاتی ہے اور کچھ انتظامات کی طرف باہر کی جماعتوں کو کافی عرصہ پہلے توجہ دلائی جاتی ہے تا کہ وقت پر کام ہو جائیں اور تکلیف نہ ہو.جن باتوں کا تعلق اہل ربوہ سے ہے ان میں پہلے نمبر پر صفائی اور طہارت اور ایسی فضا کا پیدا کرنا ہے جس میں کسی قسم کا گند نہ ہو اور یہ ربوہ کے مکینوں کی ذمہ داری ہے.اگر غور سے دیکھا جائے تو صفائی ہمارے سارے ہی حواس سے تعلق رکھنے والی چیز ہے.مثلاً لمس سے اور چھونے سے تعلق رکھنے والی صفائی یہ ہے کہ جن راہوں پر ہمارے بھائیوں نے جو باہر سے جلسہ سالانہ میں

Page 498

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۸۴ خطبه جمعه ۳/ نومبر ۱۹۷۸ء شرکت کے لئے آئیں گے چلنا ہے ان راستوں کو صاف کیا جائے.ان کے گڑھوں کو پر کیا جائے.جو غیر ہموار جگہیں ہیں ان کو ہموار کیا جائے تاکہ انہیں ٹھوکر نہ لگے.یہ شہر کی صفائی کا حصہ ہے اور اس کا تعلق لمس سے ہے.پھر صفائی کا تعلق ناک سے بھی ہے.ربوہ میں سڑکوں پر یا راستوں پر یا ایسی جگہوں پر جن کے قریب سے ہم نے گزرنا ہے یا ہمارے بھائیوں نے گزرنا ہے ایسی گندگی نہ ہو کہ جس سے بد بو اٹھ رہی ہو اور ہمارے ناک کراہت محسوس کریں اور باہر سے آنے والے سوچیں کہ اہل ربوہ کو کیا ہو گیا ہے ان سے اتنا نہیں ہوسکا کہ ہمارے آنے سے پہلے اپنے اس پاک شہر کو اس لحاظ سے بھی پاک کر دیتے.آپ پر خواہ مخواہ بدنامی کا ایک داغ لگ جاتا ہے.پس صفائی کا ایک یہ حصہ بھی ہے.پہلا حصہ تھا مس سے تعلق رکھنے والی صفائی.ناہموار جگہوں کو ہموار کر دیں.راہوں کو ایسا بنا دیں کہ کسی کو ٹھوکر نہ لگے اور تکلیف نہ ہوکسی کو موچ نہ آئے اور دوسرے یہ ہے کہ ہمارے ناک بھی ربوہ کو صاف پائیں.پھر ایک صفائی یہ ہے کہ ہماری آنکھیں بھی ربوہ کو، ربوہ کی سڑکوں کو اور سڑکوں کے گرد جو جھاڑیاں اور درخت ہیں ان کو صاف دیکھیں.اس صفائی کا تعلق دیکھنے سے ہے.کئی جگہ کانٹے دار جھاڑیاں اس طرح اگی ہوئی ہوتی ہیں کہ چلنے والے کو بے خیالی میں چھ سکتی ہیں.یہ لمس سے تعلق رکھنے والی صفائی کا فقدان ہے لیکن وہ آنکھ کو بھی بری لگتی ہیں کہ یہ کیا ہے، چند گھنٹے کا وقارعمل جس چیز کو صاف کر سکتا تھا اس میں غفلت اور سستی برتی گئی ہے.ایک صفائی کا تعلق کا نوں سے ہے.قرآن کریم نے ہمیشہ ہی اس قسم کی صفائی کو قائم رکھنے پر زور دیا ہے لیکن خصوصاً اجتماعات کے موقع پر کہا ہے کہ دیکھو اس قسم کا گند بھی فضا میں نہ ہو.فضا میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آواز کی لہریں ہماری فضا میں چکر لگارہی ہوتی ہیں.چنانچہ کہا کہ Public Places ( پبلک پلیسز ( میں جن میں سڑکیں بھی ہیں اور سڑکوں کے علاوہ بعض اور مقامات بھی ہوتے ہیں جہاں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں وہاں رفت نہیں ہونا چاہیے، بخش کلامی نہیں ہونی چاہیے.ایسی بات نہیں ہونی چاہیے جو اچھی نہ لگے اور قبیح ہو.آگے اس کے کئی درجے ہیں بعض ایسی باتیں ہیں کہ اگر دوست گھر کے اندر بیٹھے ہوئے آپس میں ہنسی مذاق کر لیں تو وہ

Page 499

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۸۵ خطبه جمعه ۳/ نومبر ۱۹۷۸ء قابل اعتراض نہیں ہوتیں لیکن اگر وہی چیز سڑکوں پر کی جائے تو وہ قابل اعتراض ہو جاتی ہے.بعض ایسی باتیں ہیں کہ اگر مردوں میں ہو رہی ہوں تو اتنی زیادہ قابلِ اعتراض نہیں ہوتیں لیکن اگر کوئی بہن وہاں سے گذر رہی ہو اور اس کے کانوں میں بھی وہ آواز پڑ جائے تو وہ بات بڑی سخت قابلِ اعتراض ہو جاتی ہے کہ تم نے اپنی بہنوں کا خیال نہیں رکھا اور اپنی زبانوں کو قابو میں نہیں رکھا.پس خاص طور پر یہ کہا گیا ہے کہ اپنے ماحول کی فضا کو جس میں Sound Waves ( ساؤنڈ ویوز ) یعنی صوتی لہریں ہر وقت چل رہی ہیں صاف رکھو.جب ہم بولتے ہیں تو آواز کی لہریں چلتی ہیں ان میں گندگی نہیں ہونی چاہیے.وہ بھی صاف ہونی چاہئیں.پھر ایک مرکب گندگی یہ ہے کہ کوئی لڑ پڑے.اس میں آواز بھی آئے گی اور دیکھنے والا اور پاس سے گزرنے والا بھی بڑی کراہت محسوس کرے گا کہ جو بھائی بنیان مرصوص بنائے گئے ہیں ان کا آپس میں جھگڑا ہو رہا ہے اور ہو بھی پبلک پلیس (Public Place) پر رہا ہے.اجتماعات میں اس قسم کے واقعات ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے کیونکہ بڑے اجتماعات میں بعض دفعہ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے میں سستی ہو جاتی ہے لیکن بعض بڑے اچھے نمونے ہیں.میں جلسے کے متعلق ہی بتا دیتا ہوں.چھوٹی سی بات ہے لیکن بڑی بات بھی ہے.قادیان کا واقعہ ہے میں اس وقت بہت چھوٹا تھا تاہم ابھی تک وہ نظارہ میرے سامنے ہے.میں اتنا چھوٹا تھا کہ میرے ذمے کوئی کام نہیں لگایا جاسکتا تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ماموں حضرت میر محمد الحق صاحب جن کو ہم بھی ماموں کہتے تھے افسر جلسہ سالانہ تھے.وہ مجھے اپنے دفتر میں بلا لیتے تھے تا کہ مجھے کام کی عادت پیدا ہو اور جماعت کے کاموں سے پیار پیدا ہو اور کہتے تھے کہ فلاں جگہ چلے جاؤ یہ پتا کر کے آؤ یا یہ خط پہنچا دو اس قسم کے چھوٹے موٹے کام وہ مجھ سے لیا کرتے تھے.ایک دن شام کو ان کے اندازے کے مطابق مہمان کھانے سے فارغ ہو چکے تھے مجھے کہا کہ ذرا فلاں کمروں میں دیکھ کر آؤ کہ ان سب نے کھانا کھالیا ہے اور آرام سے ہیں کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں.مدرسہ احمدیہ کے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے آپ میں سے تو بہت سے ایسے ہیں جن کو پتا نہیں کہ مدرسہ احمدیہ کی شکل کیا تھی اور اس کے کمرے کس قسم کے تھے

Page 500

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۸۶ خطبه جمعه ۳/ نومبر ۱۹۷۸ء بہر حال مجھے مصروف رکھنے کے لئے اور میری تربیت کے لئے مجھے کہا تھا کہ میں دو چار کمرے دیکھوں.سردیوں کے دن تھے اور وہاں سردی زیادہ پڑا کرتی تھی.جلسے کے ایام میں رضا کاروں کو ، کام کرنے والوں کو دو ایک بار چائے ملا کرتی تھی.میں جب وہاں گیا تو ایک دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا اور میرے آگے آگے ہی ایک چھوٹی عمر کا رضا کار چائے کا ایک آبخورہ لے کر کمرے میں داخل ہوا.اتفاقاً اس کمرے میں ایک مہمان کو بخار چڑھا ہوا تھا اس نے کہا کہ تم میرے لئے چائے لے کر آئے ہو اور مجھے بہت لطف آیا کہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس نے کہا کہ ہاں میں آپ کے لئے چائے لے کر آیا ہوں اور اس کو چائے پیش کر دی.اگر وہ اتنا بھی کہہ دیتا کہ نہیں یہ تو میرے لئے تھی آپ پی لیں تب بھی وہ میرے نزدیک ایک جدال والی صورت بن جاتی.بعض کے نزدیک نہیں بنتی ہوگی لیکن میری حساس طبیعت اس کو بھی یہی سمجھتی ہے کہ اس نے جھگڑا کیا مگر اس نے کوئی جھگڑا نہیں کیا.غرض اجتماعات میں بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو دوسروں کو تکلیف دے سکتی ہیں.کوشش یہ ہونی چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچے اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ چھوٹی بات ہو یا بڑی اگر تکلیف پہنچے تو آدمی اسے برداشت کر جائے.جھگڑا نہیں کرنا.اخلاقی لحاظ سے یہ پاکیزگی، یہ طہارت ، یہ صفائی ہماری فضا میں ہونی چاہیے.گندگی سے پاک اور مطہر فضا ہونی چاہیے.اس سلسلہ میں کچھ کام وقار عمل کے ذریعے کرنے کے ہیں اور کچھ کام سمجھانے کے ہیں.چھوٹے بچوں کے دماغ میں بار بار یہ بات آنی چاہیے کہ یہ جماعت ہے اور یہ جماعت کا مقام ہے.ایک بہت بڑا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور جلسہ سالانہ اس کے مطابق ایک چھوٹا سا مظاہرہ ہے اس کے اندر وہ خوبیاں اور وہ صفات پائی جانی چاہئیں جن کی طرف قرآن کریم نے ایک آئیڈیل ہمارے سامنے رکھ کر ہمیں توجہ دلائی ہے کہ اپنے اندر یہ صفات پیدا کرو.را کرو.جلسہ کے لئے رضا کارانہ کاموں میں سے ایک تو وقار عمل ہے.اس کا انتظام زیادہ تر خدام الاحمدیہ کے سپرد ہے اور کام میں انصار بھی اور اطفال بھی شامل ہوتے ہیں.اس کے لئے ابھی سے دیکھیں اور مختلف قسم کی ظاہری صفائی جو ہونی چاہیے ابھی سے اس کی طرف توجہ دیں.جس وقت جلسہ شروع

Page 501

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۸۷ خطبه جمعه ۳/ نومبر ۱۹۷۸ء ہو تو ہمارا یہ شہر ربوہ جو ہمارا مرکز ہے یہ ایک غریب اور مسکین دلہن کی طرح صاف و شفاف ہو.نمائش کی ہمیں ضرورت نہیں لیکن جس طرح ایک دیہاتی دلہن ہوتی ہے نہائی دھوئی صاف کپڑوں میں ملبوس اور اپنے حال پر راضی اور جو کچھ خدا نے اسے دیا ہے اس پر خوش اسی طرح ربوہ کو صاف کر دیں.شو تو نہ ہم کر سکتے ہیں اور نہ ہمیں کرنے کی خواہش ہے لیکن ایک چمکتا ہوا چہرہ اور منور دل اور صاف گلیاں اور پاک اور مطہر فضا باہر سے آنے والے، اپنے بھی اور دوسرے بھی محسوس کریں.دوسری چیز رضا کار ہیں جلسہ سالانہ کا یہ عجیب مقام ہے کہ سوائے ان کاموں کے جو رضا کارانہ طور پر ہو ہی نہیں سکتے باقی تمام کام رضا کارانہ طور پر سرانجام پاتے ہیں.مثلاً نانبائی کا کام ہمارا جامعہ احمدیہ کا طالب علم تو نہیں کر سکتا.اس کے لئے مزدور ہیں وہ بھی ہمارے بھائی ہیں اور وہ بڑا کام کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزا دے لیکن اتنے بڑے اجتماع کے نظام کا بہت بھاری حصہ رضا کارانہ طریق پر چلتا ہے.دنیا اتنی آگے نکل گئی ہے مگر ہمارے جلسے کو دیکھ کر وہ بہت حیران ہوتے ہیں اور اگر ان کو حقیقت بتائی جائے تو وہ مان ہی نہیں سکتے.مجھے یاد ہے بہت دیر کی بات ہے.پارٹیشن کے بعد جب یہاں لنگر ا پنی وسعت کے لحاظ سے ابھی آدھے بھی نہیں ہوتے تھے اور مہمان آدھے کے قریب ہوتے ہوں گے تو ایک دفعہ انگلستان سے ایک عورت مہمان کے طور پر آئی.وہ جہاں ٹھہری ہوئی تھی ان کو کہنے لگی کہ اگر میں نے واپس جا کر کہا کہ میں یہ دیکھ کر آئی ہوں کہ اتنے مہمانوں کو ایک وقت میں کھانا کھلا دیا جاتا ہے (اس وقت تیس، چالیس ہزار کے درمیان مہمان تھے ) اور کوئی بدنظمی نہیں ہوتی تو جن سے میں یہ باتیں کروں گی جو کہ میں نے خود دیکھی ہوں گی تو وہ سمجھیں گے کہ میں وہاں سے پاگل ہو کر واپس آئی ہوں ، یہ ہو ہی نہیں سکتا.بہر حال اس کے لئے رضا کار چاہئیں لیکن مخلص مستعد پیار سے کام کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی اس نعمت کو سمجھنے والے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو خدمت کا موقع دیا ہے اور اس عظیم جلسے کی ذمہ داری کو جو اپنی اپنی عمر کے لحاظ سے ان کے سپرد کی جائے وہ ادا کرنے والے ہوں.اب جلسے میں بہت وسعت پیدا ہو چکی ہے.پہلے قادیان میں تو میرے خیال میں ایک رضا کار بھی باہر

Page 502

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۸۸ خطبه جمعه ۳/ نومبر ۱۹۷۸ء سے نہیں لیا جا تا تھا اب کچھ عرصہ سے ربوہ میں لئے جا رہے ہیں.مجھے افسر صاحب جلسہ سالانہ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ بیرونی جماعتوں سے یعنی ربوہ سے باہر پاکستان میں بسنے والی جماعتوں سے پانچ سو کے قریب رضا کار چاہئیں.میں کہوں گا کہ اگر پانچ سو اور چھ سو کے درمیان رضا کارمل جائیں تو وہ امید کرتے ہیں کہ ان کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور پھر کوئی تکلیف نہیں ہوگی.یہ کوئی بڑی تعداد نہیں ہے لیکن جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جو کام کرنے والے باہر سے آئیں وہ موزوں آدمی ہوں.باہر والوں کو اس قسم کی تربیت نہیں ہوتی جیسی ربوہ میں رہنے والوں کو ہے.باہر سے جو آئیں گے ان میں سے کچھ تو وہ ہوں گے جو پچھلے سال بھی رضا کار بن کر آئے تھے وہ تو تربیت یافتہ ہیں ان کی فکر نہیں اور جو پہلی دفعہ آئیں گے ان میں کمزور بھی ہوں گے، ناسمجھ بھی ہوں گے، نا تجربہ کا ر بھی ہوں گے اس واسطے امرا صاحبان اور خدام الاحمدیہ کے قائدین ہر دو مل کر ہر لحاظ سے اپنی تسلی کریں.صرف ان کی مستعدی کو اور ان کے اخلاص کو نہیں دیکھنا بلکہ جلسے کی ضرورت کے لحاظ سے جس قسم کے آدمی وہ سمجھتے ہیں کہ ضروری ہیں اس قسم کے آدمی بھیجیں.عام طور پر ہمارے امرا تو بہت سے جلسے دیکھ چکے ہیں اور ان کو پتا ہے ان کے دل میں کبھی شکایتیں بھی پیدا ہوئی ہوں گی جن کو وہ خدا کے لئے بھول گئے.بہر حال وہ تسلی کر کے بھیجیں کہ صحیح نو جوان ہو.صحیح سے میری مراد یہ ہے کہ جو جلسہ سالانہ کے کام کے لئے موزوں اور مناسب ہو اور یہ ضروری نہیں ہے کہ نو جوان ہی ہو بلکہ بہت سے ایسے کام ہیں جن میں بڑی عمر کے آدمی شاید زیادہ اچھا کام کر سکیں.کچھ نہ کچھ حصہ تو ثواب میں ان کو بھی ملنا چاہیے جن کو میں جوانوں کے جو ان کہا کرتا ہوں یعنی جن کا انصار اللہ کے ساتھ تعلق ہے.پس قابلِ اعتماد اور اپنے نفسوں پر قابورکھنے والے غصہ میں نہ آنے والے، پیار سے خدمت کرنے والے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق رکھنے والے اور آپ نے جو جماعت پیدا کی ہے اس کے نظام کے لئے ہر قسم کی تکلیف برداشت کر کے جماعت کے کام کو محض عمل کے ذریعہ نہیں بلکہ حسن عمل کے ذریعہ سرانجام دینے والے رضا کار ہمیں چاہئیں.باہر کی جماعتیں مہیا کریں گی.میں آج خطبہ میں ان کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں.

Page 503

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۸۹ خطبه جمعه ۳/ نومبر ۱۹۷۸ء جلسے کا تیسرا مسئلہ ہے مکان اور میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ مسئلہ تو ہم سے قیامت تک حل ہونے والا نہیں.بہت لمبا عرصہ گزرا جب سے مجھے ہوش آئی ہے اس وقت سے آج تک کسی جلسہ پر بھی میں نے یہ محسوس نہیں کیا کہ ہمیں مکانات کے لحاظ سے کوئی دقت نہیں.جب میں بطور رضا کا ر کام کر رہا تھا یا کوئی چھوٹی سی ذمہ داری مجھے ملی پھر افسر جلسہ سالانہ کے ماتحت کسی خاص حصے کی ذمہ داری ملی پھر میں نے افسر جلسہ سالانہ کا کام کیا پھر ساری جماعت کی ذمہ داری یعنی خلافت میرے سپرد ہوئی کسی جلسہ پر بھی یہ محسوس نہیں کیا کہ مہمانوں کے لئے مکان کافی ہیں.یہ تو وعدہ دیا گیا ہے کہ آپ جتنے مرضی مکان بنالیں وہ ناکافی ہیں.اگر آپ ربوہ شہر کی حدود پھیلاتے پھیلاتے کراچی تک پہنچادیں تب بھی یہ شہر چھوٹا ہی رہے گا کیونکہ وَشِغْ مَكَانَكَ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جلسہ سالا نہ تمہیں ہر سال ہی وسعت کی طرف توجہ دلاتا رہے گا.کچھ تو ہم نے جلسہ کے انتظام میں اپنی وقتی ضرورتوں کے لئے بہت سادہ سے کمرے بھی بنوائے ہیں لیکن اس کے با وجود ربوہ اور اہل ربوہ پر مکانوں کے لحاظ سے بوجھ پڑتا ہے.باہر سے آنے والے جن کے اپنے دوست یا رشتہ دار یہاں نہیں ہیں یا اپنا کوئی مکان یہاں نہیں ہے وہ اس بات کو نہیں سمجھتے لیکن یہ میرا خیال ہی نہیں بلکہ مجھے یقین ہے کہ ربوہ کا کوئی ایک مکان بھی ایسا نہیں ہے جس میں جلسہ سالانہ کے مہمان نہ ٹھہر تے ہوں.ربوہ ان دنوں میں بڑی ہمت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر رہا ہوتا ہے.مکانیت کے لحاظ سے ہمارے باہر سے آنے والے مہمان دوحصوں میں بٹ جاتے ہیں.ایک وہ ہیں جنہوں نے اپنے ٹھہرنے کا انتظام اپنے عزیزوں رشتہ داروں دوستوں اور واقفوں کے ہاں کیا ہوتا ہے یا دوستوں کے ہاں یا بعض دفعہ دوست ساتھ لے آتے ہیں کہ چلو میں ایک کمرے میں جا رہا ہوں وہاں چار مرد ہیں دو اور آ جاؤ کوئی فرق نہیں پڑتا.یا ہم دس ہیں پانچ اور آجاؤ کوئی فرق نہیں پڑتا.دوسرے وہ مہمان ہیں جن کا اس رنگ میں انتظام نہیں ہو سکتا اور نہیں ہوا اور وہ جلسہ سالانہ کے نظام کو کہتے ہیں کہ ہمارے ٹھہرنے کا انتظام کرو.جس وقت تک در سگا ہیں قومیائی نہیں گئی تھیں تو ان کی عمارتیں اس کام میں بھی آتی تھیں.جماعت نے پاکستان

Page 504

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۹۰ خطبه جمعه ۳/نومبر ۱۹۷۸ء کے معیار کے لحاظ سے کہیں زیادہ وسیع عمارتیں ربوہ میں تعلیمی اداروں کے لئے بنائی تھیں اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہماری جلسہ سالانہ کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے والی ہیں.اس کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ معاوضہ دیئے بغیر نو دس کروڑ روپے کی جائیداد حکومت نے آرام سے اپنے قبضہ میں لے لی.یہ بڑی رقم ہے اور خصوصاً ایک غریب جماعت کے لئے.اور اتنی بڑی کی جائیداد لے لی اور جب جلسہ کا وقت آیا اور ہم نے کہا کہ آٹھ دس دن کے لئے تو ہمیں استعمال کرنے دو تو کہہ دیا کہ نہیں یہ تو قومیائی گئی ہیں.تعلیمی اداروں میں گندم سٹور ہو کر وہاں ضائع ہو جاتی ہے اور اس میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے اس کے لئے تو تعلیمی اداروں کے کمرے استعمال ہو سکتے ہیں اور اگر نہیں ہو سکتے تو ایک انسان کے آرام کے لئے وہ کمرے استعمال نہیں ہو سکتے اور انسان بھی وہ جس کے پیسوں سے وہ عمارتیں بنی تھیں اور جس نے بڑی خوشی کے ساتھ وہ قوم کے سپر د کر دیں.قوم نے ایک منصوبہ بنایا تھا ہم نے کہا ٹھیک ہے تم انتظام چلاؤ.یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ قومیائے جانے کے بعد تعلیم کا معیار بلند ہوا ہے یا نیچے گرا ہے اس وقت یہ میرا مضمون نہیں ہے اور نہ میں اس بحث میں پڑنا چاہتا ہوں لیکن جنہوں نے اتنی بڑی جائیداد بنائی اور تعلیم پر اس قدر خرچ کیا ان کا کچھ خیال نہیں رکھا گیا.جماعت احمدیہ جیسی غریب جماعت نے سات سے دس کروڑ روپے کے قریب صرف ربوہ کے اندر تعلیم پر خرچ کیا اور جماعت احمدیہ کے بچوں کی تعلیم پر خرچ نہیں کیا بلکہ تعلیم پر خرچ کیا.میں پرنسپل رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کیونکہ میں ہی ذمہ دار تھا کہ پچاس فیصد سے زیادہ میں ان بچوں کو داخل کرتا تھا جن کا عقیدۂ جماعت احمد یہ سے تعلق نہیں ہوتا تھا اور تعلیمی لحاظ سے پچاس فیصد سے زیادہ ان بچوں کو رعایت دیتا تھا جن کا تعلق جماعت سے نہیں تھا ورنہ وہ پڑھ ہی نہیں سکتے تھے بیچارے غریبوں کے بچے جن کو ہمارے علاوہ اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا.غرض جماعت نے قوم کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے اور تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کے لئے اس قدر قربانی کی لیکن جب تعلیمی ادارے قومیائے گئے تو ہم بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ واقعہ ہو گیا.باقی جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے مہمانوں کی تعداد تو ہر سال بڑھتی ہے باوجود اس کے

Page 505

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۹۱ خطبه جمعه ۳/ نومبر ۱۹۷۸ء کہ بعض دفعہ جلسہ رو کا بھی گیا اور مختلف حوادث زمانہ سے بھی رکا ، حالات سے بھی رکا، پارٹیشن کی وجہ سے بھی ایک جلسہ رکا لیکن جماعت احمد یہ ایک عجیب قوم ہے میں نے تو کبھی رہائش کی فکر نہیں کی.میں نے کہا کہ اگر کوئی ایسا موقع آیا تو ہم اپنے گھر چھوڑ کر مسجد میں آجائیں گے اور اپنے گھر جلسہ کو دے دیں گے کہ ان میں مہمان ٹھہرادو اور اگر ایسی ضرورت پڑی تو ہم باہر ٹھہر جائیں گے.اگر دنیا کے نوجوان فوجی تربیت لینے والے سخت سردی میں کمبلوں میں آسمان کے نیچے اس سے زیادہ راتیں گزار سکتے ہیں جتنی ہمارے جلسے کی ہیں تو ہم بھی گزار سکتے ہیں.کوئی ایسی بات نہیں اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرنے والا ہے.بہر حال باوجود اس کے کہ میں یہ جانتا ہوں کہ جلسہ سالانہ پر ربوہ کا کوئی مکان بھی ایسا نہیں ہوتا جس میں مہمان نہ ٹھہر تے ہوں.پھر بھی میں آپ سے کہتا ہوں کہ جن کے کوئی دوست واقف اور رشتہ دار یہاں نہیں ہیں ان کے لئے بھی آپ کے دلوں میں محبت ہے اور ان کے دلوں میں بھی آپ کے لئے محبت ہے.ان کے آرام کے لئے ایک کمرہ یا دو کمرے، چھوٹا کمرہ یا بڑا کمرہ جتنے آپ دے سکتے ہیں وہ جلسہ کے انتظام کو دے دیں تا کہ ایسے لوگ جو اپنے طور پر انتظام نہیں کر سکتے اور وہ ہماری عام قیام گاہوں میں نہیں ٹھہر سکتے ان کی رہائش کا بھی انتظام کیا جا سکے.جلسہ پر بعض ایسے خاندان آتے ہیں جو جماعتی قیام گاہوں میں نہیں ٹھہر سکتے.مثلاً ضلع لاہور ٹھہرا ہوا ہے یا ضلع ساہیوال ٹھہرا ہوا ہے اور یا ضلع راولپنڈی ٹھہرا ہوا ہے یا جماعتی قیام گاہوں میں جگہ نہیں رہتی ان کو ہمیں باہر ٹھہرانا پڑتا ہے اور ان کے لئے یہ ضرورت ہے.آپ کو یہ کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کے نفوس اور اموال میں اور جن مکانوں میں آپ کی رہائش ہوگی ان میں برکت ڈالے گا تو اپنے مکانوں میں برکت ڈالنے کے لئے جن قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ آپ پیش کریں تا کہ آپ کے مکانوں میں بھی پہلے سے زیادہ برکتیں ہوں اور آپ کے مکانوں میں جو آپ کے بچے رہنے والے ہیں ان کے دل بھی صاف اور پاک اور مطہر بنیں.پس جلسہ آ رہا ہے جتنی ذمہ داریاں اہلِ ربوہ کی یا باہر والوں کی ہیں وہ ادا کریں اور ہمارا اصل بھر وسہ ہمارے رب پر ہے.پس دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں.

Page 506

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۹۲ خطبه جمعه ۳/ نومبر ۱۹۷۸ء دعا ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق نہیں کہہ سکتے کہ بس اب اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں بلکہ جتنی دعا کریں اتنی ہی کم ہے اور جتنے انعام اس کے بدلے میں آپ خدا سے پائیں اور اس کی برکات حاصل کریں اور اس کی رحمتیں آپ پر نازل ہوں اور اس کے فضل آپ کو ملیں وہ بھی کم ہیں، اس سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.یہ تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اے اللہ ! تیرے فضل کافی ہو گئے اب ہمیں اور فضلوں کی ضرورت نہیں.آپ کے دماغ میں کبھی ایسا خیال آیا ہے؟ سوائے پاگل کے کسی کے دماغ میں ایسا خیال نہیں آسکتا.حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے صاحب شریعت نبی جو تمام بنی اسرائیل کے لئے آئے تھے اور بڑا لمبازمانہ آپ کی شریعت کا رہا انہوں نے بھی دعا کی تھی کہ رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (القصص:۲۵) کہ تیری طرف سے جو خیر آئے میں ہمیشہ ہی اس کا محتاج اور فقیر رہوں گا اور یہی ایک حقیقت ہے.پس خیر اور برکت اور فضل اور رحمت اور خدا تعالیٰ کے نعماء کے حصول کے ذرائع کو اختیار کرو تا کہ تمہارے گھر اور تمہاری جھولیاں اور تمہارے سینے اور تمہارے دماغ اور تمہاری نسلیں خدا تعالیٰ کے نور سے بھر جائیں اور ان کے آگے اور ان کے دائیں ان کا نور چلے اور اتنا نور ہو جائے کہ وہ اس قابل ہو جائیں کہ وہ دنیا کی ہدایت کا سامان پیدا کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.آمین.روزنامه الفضل ربوہ ۱۷ار دسمبر ۱۹۷۸ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 507

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۹۳ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۸ء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۰ رنومبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ - هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَ و يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَ إِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ - ( الجمعة : ٢ ، ٣) اس کائنات کی ہر چیز کو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ہر چیز کے اندر اس نے غیر محدود صفات رکھی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو بہت کھول کر بیان کیا ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت سے پیدا ہوئی ہے اس کے خواص غیر محدود ہیں اور انسان ان کا احاطہ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ شخص کے ایک دانے کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے جو خواص رکھے ہیں انسان ان کا شمار بھی نہیں کر سکتا اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی غیر محدود صفات کے جلوے ہر آن اس کی مخلوقات پر ظاہر ہورہے ہیں اور ہر چیز جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے اس میں اس نے یہ بنیادی خاصیت رکھی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں سے اثر قبول کرتی ہے اور چونکہ

Page 508

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۹۴ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۸ء ہر چیز خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں سے اثر قبول کرتی ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے غیر محدود ہیں اس لئے اس کی پیدا کردہ ہر شے کے خواص بھی غیر محدود ہیں.ان آیات میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز لے لو وہ خدا تعالیٰ کی بزرگی اور اس کی پاکیزگی کو بیان کر رہی ہے اور سوائے اس کے کسی اور کی بادشاہت کو قبول نہیں کر رہی.خدا تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی وجود نہیں جس کی صفات کے جلووں کا اثر اس دنیا کی کسی بھی شے نے کسی رنگ میں بھی قبول کیا ہو، اگر قبول کیا ہے تو صرف خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں کا اثر قبول کیا ہے اس واسطے کہ وہی ان کا بادشاہ ہے.پھر بتایا کہ ہر چیز جو خدا نے پیدا کی ہے وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ خدا پاک ہے اور تمام خوبیوں کا مالک ہے اس لئے کہ جو چیزیں اس نے پیدا کی ہیں وہ جن اغراض کے لئے پیدا کی ہیں ان اغراض کو پورا کرنے کے لئے تمام خوبیاں اور تمام طاقتیں ان کے اندر پائی جاتی ہیں اس لئے جس منبع سے وہ نکلی ہیں اس کے متعلق بھی ماننا پڑے گا کہ وہ قدوس ہے کیونکہ اس کی پیدا کردہ مخلوق کے اندر یہ پاکیزگی پائی جاتی ہے کہ اس کا اثر بد نہیں بلکہ پاک ہے.قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی چیز کا بھی اس دنیا میں بدا ثر نہیں.ہم خود اس کے غلط استعمال سے نقصان اٹھا لیں تو یہ اور بات ہے یہ استعمال کرنے والے کی بدی ہے اس شے کی بدی نہیں.قرآن کریم کا اعلان یہ ہے کہ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴ ) یعنی بغیر استناد نیا کی ہر چیز کو انسان کی خدمت پر لگایا گیا ہے اگر انسان خود خدمت نہ لے یا غلط خدمت لے لے تو اس میں خادم کا تو قصور نہیں.”خشخاش‘ کا ایک دانہ اور ہمالیہ کا یہ پہاڑ اور سورج کا یہ خاندان ( جس میں سے ایک زمین بھی ہے جو سورج سے فائدہ اٹھا رہی ہے ) یہ سب کے سب انسان کی صحیح خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جو یہ دعویٰ کر سکے کہ کوئی چیز ایسی بھی ہے جو انسان کی خدمت کی اہلیت نہیں رکھتی اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے خواہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے انسان کو اس سے فائدہ نہیں ہوگا.اس لئے کہ ہم یہ ثابت کریں گے کہ خود دنیا نے تحقیق کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ جن چیزوں کے متعلق بعض لوگوں کو

Page 509

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۹۵ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۸ء یہ وہم تھا کہ وہ انسان کے فائدہ کے لئے نہیں ہیں ان میں بھی فوائد ہیں.مثلاً سانپ اور اس کا زہر ہے.بعض لوگ تو سانپ کا لفظ سن کر بھی چھلانگ لگا کر چار پائی پر چڑھ جاتے ہیں.اتنا ڈرتے ہیں اس سے لیکن سانپ کے زہر میں بھی انسان کے لئے بے شمار فوائد رکھے ہیں اور انسان نے تحقیق کر کے ان میں سے بعض فوائد کا علم بھی حاصل کیا ہے اور اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے.بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جن کو ایک وقت میں انسان اپنی جہالت کی وجہ سے قریباً لا علاج سمجھتا تھا اور اب طب کی اور شاخوں نے بھی اور ہومیو پیتھک نے بھی سانپ کے زہروں سے ایسی ادویہ بنائی ہیں جو ایسے مریضوں کو بہت فائدہ دیتی ہیں.اسی طرح لکھی ہے جو کہ ہر وقت تنگ کرتی ہے لیکن مکھی میں انسان کے لئے فائدہ ہے.ایک موٹا فائدہ جو ہر ایک کو سمجھ آ جائے گا یہ ہے کہ بعض بچے سوکھے“ کے مریض ہوتے ہیں اور بچپن سے نہ ہڈی بڑھ رہی ہوتی ہے اور نہ اس کے او پر گوشت ہوتا ہے اس کو پنجابی میں سوکھا“ کہتے ہیں.ایسے مریضوں کو اگر مکھی کسی چیز میں لپیٹ کر کھانے کے لئے دی جائے اور وہ اس کو ہضم کر لیں تو یہ سوکھے کی بیماری کا علاج ہے اور یہ تو ایک فائدہ ہے اس کے اندر اور بہت سے فوائد ہیں.پس تمام اشیاء خدا تعالیٰ کی صفات سے اثر قبول کر رہی ہیں اور جس غرض کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے (کہ وہ انسان کی خدمت کریں ) اس غرض کو وہ پورا کر رہی ہیں اور اس طرح یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ صرف بادشاہ ہی نہیں بلکہ قدوس بھی ہے کیونکہ دنیا کی تمام اشیاء جو بے حد و بے شمار ہیں ان کا اثر انسان پر نیک اور پاک اور مفید ہے گندہ اور مضر نہیں ہے.اس لئے جس چشمہ سے وہ نکلی ہیں اس پر بھی اعتراض نہیں کیا جا سکتا اپنے ان اثرات سے وہ یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ پاک ہے یہ ان کی زبان ہے.قرآن کریم نے دوسری جگہ کہا ہے کہ ہر چیز اس کی حمد کر رہی ہے اور اس کی تسبیح کر رہی ہے لیکن تم ان کی آواز کو نہیں سمجھ سکتے اور ایک آواز یہی ہے.پتا نہیں اور کتنی آواز میں خدا تعالیٰ نے ان کو دی ہیں.پس جیسا کہ خدائے قدوس نے کہا تھا تمام اشیاء انسان کی خدمت پر لگی ہوئی ہیں اور دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس سے انسان خدمت نہ لے سکے اور صحیح ذاتی خاندانی اور علاقائی خدمت اور بنی نوع انسان کی خوشحالی اور اس

Page 510

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۹۶ خطبه جمعه ۱۰ نومبر ۱۹۷۸ء کے اطمینان اور اس کی ترقیات کے لئے ان اشیاء کو کام میں نہ لگایا جاسکے.خدا تعالیٰ عزیز ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں کہ جو کام خدا تعالیٰ کرنا چاہے اس کے راستہ میں وہ روک بن سکے.ویسے تو قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کے ہزار ہا پہلو ہیں لیکن اس سلسلہ میں ایک پہلو جو بہت نمایاں ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کی صفات کے علاوہ کسی اور کا مثلاً شیطان کا اثر قبول کرے ایسی کوئی چیز نہیں ہے.انسان کو ایک تنگ دائرے میں خدا تعالیٰ نے آزادی دی ہے مگر اس کی حفاظت کے لئے اور اس کو خدا کی طرف واپس لانے کے لئے بڑا عظیم انتظام بھی کیا ہے.حکم اسی کا چلتا ہے اور اس یو نیورس میں اس عالمین میں اس کے جو احکام جاری ہیں جب ہم ان پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر حکم خواہ چھوٹا ہو یا بڑا وہ بڑی حکمتوں والا ہے.پس خدا تعالیٰ العزیز الحکیم ہے.یہ نہیں کہ وہ صرف عزیز ہے اور حکیم نہیں بلکہ وہ عزیز بھی ہے اور حکیم بھی ہے.دنیا کا یہ نقشہ پیش کر کے خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ يُسبّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ دنیا کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہی ہے اور اس کی بزرگی کو ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے.جو کچھ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا وہ اس کا فعل ہے.اس نے اپنی قدرتِ.کاملہ سے ان اشیاء کو پیدا کیا اور ان پر اپنی صفات کے جلوے ظاہر کئے اور ہر مخلوق میں، ہر شے میں جو اس نے پیدا کی اس نے بے حد و حساب خواص پیدا کر دیئے.زمانہ تو ہمارے ساتھ تعلق رکھتا ہے.خدا تعالیٰ تو بالائے زمانہ ہے جیسا کہ وہ لامکان ہے.سو سال پہلے گندم کے دانے میں جو خواص تھے ان سوسالوں کے اندر پتا نہیں ان میں کیا فرق پڑ گیا ہے اور صفات باری نے ان کے اندر کیا تبدیلی پیدا کر دی ہے.یہ علیحدہ مضمون ہے بہر حال یہاں خدا تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ اس کی صفات اس عالمین کی ہر شے میں نظر آ رہی ہیں اور ہر چیز یہ بتارہی ہے کہ بادشاہت خدا ہی کی ہے اور ہر چیز یہ ثابت کر رہی ہے کہ خدائے واحد و یگانہ کی بادشاہت بڑی پاکیزہ بادشاہت ہے اور یہ کہ خدا تعالیٰ عزیز ہے، غالب ہے کوئی اس کی بات کو رد نہیں کر سکتا (اور جو اس نے انسان

Page 511

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۴۹۷ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۸ء کو آزادی دی ہے وہ بھی اسی کے حکم اور منشا سے ہے ) اور یہ کہ اس کے احکام پر حکمت ہیں.یہاں پہنچ کر خدا نے عجیب اور شاندار جوڑ ملا دیا.اس کا ہر حکم اپنے اندر حکمتیں رکھتا ہے تو اس نے انسان کو جو آزادی دی اس میں بھی کوئی حکمت ہونی چاہیے.فرما یا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ کہ اگر انسان کو آزاد نہ بنایا جاتا اور اس کی حالت ویسی ہی ہوتی جیسی کہ ایک فاختہ کی ہے یا ایک باز کی ہے یا ایک درخت کی ہے یا ایک ہیرے کی ہے تو پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت نہیں تھی.پس خدا تعالیٰ نے جو یہ سارا کارخانہ بنایا اور اعلان کیا کہ یہ اس غرض سے بنایا ہے کہ وہ انسان کی خدمت کرے اس میں حکمت یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجود پیدا کرنا مقصود تھا.پس هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ میں بتایا کہ خدا تعالیٰ نے اپنی عظمت و شان اور اپنی بادشاہت اور اپنی قدوسیت کا اور اپنے عزیز اور حکیم ہونے کا یہ نشان ظاہر کیا کہ ایک اقی قوم جو پڑھ نہیں سکتے تھے اور دنیوی لحاظ سے بالکل جاہل تھے ان کے اندر ایک ایسا وجود پیدا کر دیا کہ جس کی قیمت دنیا جہان بھی نہیں ہے وہ سب سے زیادہ قیمتی وجود ہے.اس دوسری آیت میں پہلی آیت کے ساتھ ساتھ چلنے والے دو اور سلسلوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور دوسرے وہ کتاب جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے یعنی قرآن کریم.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس طرح کہ انسانوں میں سے صرف آپ ہی ہیں جو صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم ہیں.چنانچہ کوئی انسان ایسا نہیں جو خدا تعالیٰ کی ملک ہونے کی صفت کا اس شان کے ساتھ مظہر بنا ہو جیسے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنے.اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کی صفت ، ملک ہونے کی صفت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں اور آپ کی ذات میں اتم طور پر ظاہر ہوئی اور چمکی.پھر آپ کے وجود میں پاکیزگی کی بھی انتہا نہیں یعنی قدوس ہونے کی صفت کے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم ہیں اور آپ کی ساری زندگی پاک اور پاک کرنے والی ہے اور جب میں ساری زندگی کہتا ہوں تو میری مراد ہر دوزندگیوں سے ہے یعنی جسمانی زندگی بھی اور روحانی زندگی بھی جو کہ قیامت تک ممتد ہے

Page 512

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۹۸ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۸ء اور پاکیزگی کے لحاظ سے انسان پر جو مُردنی چھا جاتی ہے اور وہ مردہ ہو جاتا ہے آپ کی زندگی اس مردنی کو زندگی اور طاقت کے اندر تبدیل کرنے والی ہے اور جہاں تک انسان کے اخلاق اور انسان کے معاشرہ اور اس کے تمدن اور اس کی اقتصادیات اور اس کے علوم اور اس کی زندگی کے ہر شعبہ کا تعلق ہے.اگر انسان نے فلاح و بہبود کی زندگی گزارنی ہو تو حکم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی چلتا ہے.جو تعلیم آپ لے کر آئے اس سے پرے ہٹ کر انسان کو نہ کوئی سکھ اور چین نصیب ہوا نہ ہوسکتا ہے اس پر میں اپنے بیرونِ ملک کے دوروں میں بھی روشنی ڈال چکا ہوں عیسائیوں کو میں بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھاتا تھا کہ تمہاری عقلیں اور تمہارے مذاہب تمہارے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں.اگر تم اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہو تو وہ جس کو خدا نے صفتِ عزیز کا مظہر اتم بنایا ہے اس کے سائے تلے آ جاؤ.تمہاری ساری تکلیفیں دور ہو جائیں گی.ویسے ان کو سمجھانے کے لئے میں الفاظ ان کی عقل کے مطابق ہی استعمال کرتا ہوں اور آپ احمدیوں کی عقل ماشاء اللہ بہت بڑی ہے.آپ کو سمجھانے کے لئے آپ کی سمجھ کے مطابق الفاظ استعمال کرتا ہوں.جب میں ان سے بات کرتا ہوں تو وہ میری بات سمجھ جاتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ جب میں آپ سے بات کرتا ہوں تو آپ میری بات سمجھ جاتے ہیں.پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو بغیر حکمت کے ہو.ہر پہلو میں ہمیں حکمت نظر آتی ہے ورنہ اگر یہ حکمت نہ ہوتی ، اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی صفت حکیم کے مظہر اتم نہ ہوتے تو آپ امت محمدیہ کو جس کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے کبھی سنبھال ہی نہ سکتے.یہ فقرہ کہنا آسان ہے لیکن اس کا سمجھنا مشکل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ قیامت تک فیض رساں ہے اور اپنے اثر کے لحاظ سے اور اپنے فیوض کے لحاظ سے اس کا زمانہ قیامت تک ہے.محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ساری ہی صفات کے مظہر اتم ہیں لیکن یہاں قرآن کریم میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس میں چار بنیادی صفات کا ذکر کیا گیا ہے.آپ ان چاروں صفات کے بھی مظہر اتم ہیں.آپ کے وجود کی ہر حرکت اور ہر سکون نے یہ ثابت کیا کہ خدا تعالیٰ بڑا بزرگ، ہر عیب سے پاک، ہر نقص سے پاک اور تمام اسمائے حسنہ سے متصف ہے اور تمام تعریفیں اسی کی

Page 513

خطبات ناصر جلد ہفتم ۴۹۹ خطبه جمعه ۱۰ نومبر ۱۹۷۸ء طرف جاتی ہیں.يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ کا ثبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود نے اور آپ کی معمور الاوقات زندگی نے دیا ہے آپ نے بھر پور زندگی گزاری اور اس زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو یہ ثابت نہ کرتا ہو کہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ ان چاروں صفات کا مالک ہے جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے.يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ کے ثبوت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو دوسرا سلسلہ بیان کیا ہے وہ قرآن کریم ہے یعنی وہ تعلیم جو آپ لے کر آئے.چنا نچہ فرما یا یتلوا عَلَيْهِمْ التہ کہ وہ تعلیم خدا تعالیٰ کے احکام بتاتی ہے اور یہ اس کے ملک ہونے کے مقابلہ میں ہے.خدا تعالی بادشاہ ہے اور بادشاہ کے احکام جاری ہوتے ہیں اور قرآن کریم نے وہ تمام احکام الہی بیان کئے ہیں.دنیا کی پیدائش اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا قول ہے.بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ مذہب اور سائنس کی لڑائی ہے.ایک ہی ہستی کا قول اور اس کا فعل آپس میں کیسے لڑ سکتے ہیں؟ جو اس نے کیا اور جو اس نے کہا وہ متضاد ہو ہی نہیں سکتے.ایسا خیال کرنا بھی نا معقول بات ہے یہ کائنات جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی یہ اس کا فعل ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ کے فعل میں ہمیں اس کی یہ صفات نظر آتی ہیں کہ وہ بادشاہ ہے وہ قدوس ہے، وہ عزیز ہے اور غالب ہے اور وہ حکیم ہے اسی طرح قرآن کریم جو اس کا قول ہے اس میں بھی ہمیں یہ صفات نظر آتی ہیں.خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام احکام ایک کامل اور مکمل شریعت کے رنگ میں انسان کو دیئے گئے.خدا تعالیٰ کا حکم کا ئنات میں چلتا ہے.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل: ۵۱) جو خدا انہیں کہتا ہے وہی کرتے ہیں لیکن کائنات کا ایک حصہ جو آزاد رکھا گیا تھا اس کی ہدایت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کیا.اس نے انسان کو کہا کہ تیری مرضی ہے تو اس پر عمل کر اور تیری مرضی ہے تو نہ کر.لیکن اس کے لئے یہ کہنے کی ذرہ بھر گنجائش نہیں چھوڑی کہ اے خدا! جس طرح تو نے اس عالمین میں اپنے کامل حکم کے ساتھ خلق کا سلسلہ قائم کیا اور پیدائش کی اور اپنی صفات کے جلوے ان کے اندر رکھے.اسی طرح تو نے ہمارے لئے ایک کامل کتاب کیوں نہیں بھیجی بلکہ جب انسان اس کا حامل ہونے کے قابل ہو گیا تو ایک کامل کتاب اس کو دے دی گئی يَتْلُوا عَلَيْهِمْ الته اور جس طرح بادشاہ کے احکام ہوتے ہیں اسی

Page 514

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۰۰ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۸ء طرح انسان کی ہدایت کے لئے اس کی بہبود کے لئے اس کی دنیوی اور اخروی ہر دو قسم کی ترقیات کے لئے وہ تمام احکام جن کی ضرورت تھی کامل طور پر اس قرآنِ عظیم میں موجود ہیں جسے محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے.پس خدا تعالیٰ کی ملک ہونے کی صفت اس کے فعل میں بھی ظاہر ہوئی اور اس کے قول میں بھی ظاہر ہوئی اور یہاں قرآن کریم میں ، اس کے قول میں يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتِہ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی تمام صفات کے مظہر اتم ہیں.اور آپ کے علاوہ ہر انسان نے اپنی اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنی صفات میں پیدا کرنا ہے.اپنی استعداد سے زیادہ تو وہ نہیں کر سکتا.پس جب یہ کہا کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِهِ تو اس میں یہ اعلان کیا کہ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لے کر آئے ہیں اس میں تمہارے لئے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ تم اپنی استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کی ملک ہونے کی صفت کے زیادہ سے زیادہ مظہر بن سکتے ہو.پھر خدا تعالیٰ کی قدوس ہونے کی، پاکیزہ ہونے کی جو صفت ہے وہ یزکیھم میں ظاہر ہوئی.یہ تو موٹی بات ہے ہر ایک کو سمجھ آجائے گی کیونکہ یہ معنی کے لحاظ سے برابر ہیں.وہاں قدوس ہےاور یہاں یزکیھم ہے.یزکیھم میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ پاک ذات ہے اس تعلیم پر عمل کر کے تم بھی اپنی استعداد کے مطابق زیادہ سے زیادہ طہارت اور پاکیزگی حاصل کر سکتے ہو.اور وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب اور تم خدا تعالیٰ کی عزیز ہونے کی صفت کے مظہر اتم بن سکتے ہو.خدا تعالیٰ کے اس قول قرآن میں یہ سامان پیدا کیا گیا ہے.يُعدّمُهُمُ الْكِتب عزیز کے مقابلہ میں آیا ہے.پس خدا تعالیٰ جو غالب ہے تم اس کے مظہر اتم بن سکتے ہو.قرآن کریم میں ایک اور جگہ یہ مضمون بیان ہوا ہے جو بہتوں کو سمجھ آ جائے گا.چنانچہ فرمایا انتُمُ الْأَعْلُونَ (ال عمران : ۱۴۰) که تم ہی غالب رہو گے.یہ انتم الاعلون کیا بتا رہا ہے یہی کہ تم خدا تعالیٰ کی اس صفت کے مظہر بن سکتے ہو کہ وہ عزیز ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا.وہ عزیز اور غالب ہے اور کوئی

Page 515

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۰۱ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۸ء نہیں جو اس کے منصوبوں کو نا کام کر سکے.انتم الاعلون تم بھی یہ صفت اپنے اندر پیدا کر سکتے ہو کہ تم پر کوئی غالب نہ آئے اِن كُنْتُم مُّؤْمِنِين بشرطیکہ تم قرآن کریم کی ہدایت کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو.وَالْحِكمة یہ بھی لفظی طور پر خدا تعالیٰ کی صفت حکیم کی طرف اشارہ کرتا ہے.قرآن کریم کی شریعت انسان کو اس کی قوت اور استعداد کے مطابق خدائے حکیم کی صفت حکیم کا مظہر بنانے کے لئے دنیا کی طرف مبعوث ہوئی ہے.اس سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں اور بہت سی باتیں سامنے آتی ہیں ایک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فعل اور قول میں تضاد نہیں ہے اور مخالفت نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے.ایک تو عقلاً ان میں تضاد نہیں ہوسکتا اور دوسرے حقیقتا نہیں ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کے فعل میں اور اس کے قول قرآن کریم میں تضاد ہوتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم نہیں بن سکتے تھے.خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ میں یہ نشان دکھایا کہ آپ کا صفات باری کا مظہر اتم بن جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فعل اور اس کے قول میں کوئی تضاد نہیں ہے اور ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ تم شیطانی وساوس کو اپنے دل سے نکال کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو تو تم بھی اپنی قوت واستعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر بن جاؤ گے اور ہر وہ شخص جو قر آنی تعلیم پر عمل کر کے اور اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنتا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ سے فعل اور اس کے قول میں کوئی فرق نہیں ہے.کوئی تضاد نہیں ہے، کوئی اختلاف نہیں ہے.ایک اور بات جو نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے یہ ہے کہ انسان کی ہدایت کے لئے مرکزی نقطہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اس لئے یہ تخیل کہ پہلے بزرگ اور انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آزادرہ کر ہدایت یافتہ تھے میرے نزدیک درست نہیں.کوئی نبی جو آپ سے پہلے گزرا یا کوئی ولی یا صالح یا خدا تعالیٰ کا محبوب اور پیارا ایسا نہیں ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے علیحدہ ہو کر اور آزادانہ مستقل حیثیت میں ہدایت یافتہ ہوا ہو.انہی معنوں میں یہ کہا گیا ہے کہ آدم ابھی معرض وجود میں بھی نہیں آیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء کا مقام عطا کیا گیا تھا.

Page 516

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۰۲ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۸ء اسی طرح یہ ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انسان کو بھی اپنی استعداد کے مطابق قرآن کریم کی ہدایت کی ویسی ہی ضرورت تھی جیسی کہ بعد والوں کو ضرورت ہے اور اس سے یہ ثابت ہوا کہ چونکہ پہلوں کو قرآن کریم کا ایک حصہ دیا گیا تھا اس لئے پہلوں میں خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی اس قدر قوت و استعداد نہیں تھی جتنی قوت و استعداد اللہ تعالیٰ کے فضل نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اُمت مسلمہ میں پیدا کر دی اور بھی بہت سے نتائج نکلتے ہیں.آپ سوچ لیں.غرض ان آیات میں ایک بڑا عظیم مضمون بیان ہوا ہے جو کہ تین سلسلوں پر مشتمل ہے.میں نے وہ مختصراً بیان کر دیا ہے.میری خواہش یہی ہوتی ہے کہ میں اس طرح بیان کروں کہ آپ خود بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں اور سوچیں.خدا تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے اور آپ کی سوچ کا نتیجہ صحیح ہو اور اس ہدایت کے مطابق ہو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے لے کر آئے.( آمین ) روزنامه الفضل ربوه ۱۰ مئی ۱۹۷۹ ، صفحه ۲ تا ۶ )

Page 517

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۰۳ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۸ء تو گل کے معنے یہ ہیں کہ صرف خدا تعالیٰ پر ہی بھروسہ کیا جائے خطبه جمعه فرموده ۱۷ نومبر ۱۹۷۸ ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.حضور انور نے خطبہ جمعہ میں تو کل علی اللہ کی حقیقت اور اس کی اہمیت واضح فرمائی.حضور انور نے فرمایا:.ہمار خدا واحد و یگانہ ہے اور اس عالمین کی حقیقت واحدانیت پر ہی مبنی ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ زندہ ذاتی تعلق قائم کرے اور یہ تعلق قائم کرنے کی جو راہیں قرآن کریم نے بتائی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کیا جائے.حضور نے فرمایا:.تو گل کے معنے یہ ہیں کہ صرف خدا پر ہی بھروسہ کیا جائے اسے ہی کافی سمجھا جائے اور اس کے سوا اور کسی پر نگاہ نہ پڑے اور ہر غیر کو بھول کر صرف اسی پر بھروسہ رکھا جائے مگر تو گل کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ ہم کام کرنا چھوڑ دیں اور تدبیر سے بے نیاز ہو جائیں ایسا کرنا تو ایک رنگ کا شرک اور ناشکری ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت کے نتیجہ میں ہمیں بہت سی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتیں عطا فرمائی ہیں مگر ان قوتوں کو استعمال کرنے کے لئے ہمیں مادی چیزوں

Page 518

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۰۴ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۸ء کی احتیاج ہے مثلاً ہمیں بینائی عطا کی گئی اور آنکھ کو ہمارے جسم کا حصہ بنایا لیکن اسے استعمال کرنے کے لئے اس نے بیرونی طور پر روشنی بھی عطا فرمائی جس کے بغیر ہماری آنکھ دیکھ نہیں سکتی.اس کا ئنات کی ہر چیز کا ہماری کسی نہ کسی استعداد کے ساتھ تعلق ہے اور ان استعدادوں کو استعمال کرنے کے لئے مناسب تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے لیکن تو کل ہمیں یہ کہتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی یہ سمجھو کہ م نے کچھ نہیں کیا کیونکہ ہماری تدابیر کے نیک نتائج اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں نکل سکتے اور اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تمام تدابیر اختیار کرنے کے بعد پھر دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے طلب گار بنیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تدبیر دعا ہے اور دعا تدبیر ہے.جو شخص خدا کے سوا کسی اور پر بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے تو حید خالص کا یہ تقاضا ہے.کہ تدبیر کو بھی اور پھر دعا کو بھی انتہا تک پہنچا دیا جائے.حضور نے فرمایا:.ایک احمدی کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ دنیا خدا کی طرف رجوع کرے اور وہ اس کے حسن واحسان کے جلوے دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا تعالیٰ پر حقیقی معنوں میں تو گل کر کے اپنی تدابیر کو اور اپنی دعاؤں کو انتہا تک پہنچادیں.حقیقی تو کل کئے بغیر ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ حقیقی تعلق قائم نہیں کر سکتے.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک تو گل کے مقام پر قائم ہو جائے اور ہمارا اپنے رب کریم سے زندہ اور ذاتی تعلق قائم ہو جائے تا کہ ہم اپنے مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں.آمین (روز نامه الفضل ربوه ۱۸ /نومبر ۱۹۷۸ ء صفحه او۶ ) 谢谢谢

Page 519

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۸ء ہر احمدی ہر وقت خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے خیر کا طالب ہو خطبه جمعه فرموده ۲۴ نومبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.اِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَدُوعًا - إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا - وَ إِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا - إِلَّا المُصَلِّينَ - الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَابِرُونَ - (المعارج : ۲۰ تا ۲۴) اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں بے شمار صلاحیتیں ودیعت کی ہیں اور ہر وہ طاقت انسان کو دی گئی ہے جس سے وہ ہر دو جہان کی ہر چیز سے خدمت لے سکے لیکن خدا تعالیٰ نے انسان کو یہ طاقت بھی دی ہے کہ جہاں وہ اپنی طاقتوں کا صحیح استعمال کر سکتا ہے وہاں غلط استعمال بھی کر سکے اور باوجود اس کے کہ اگر وہ چاہے تو غلط راہوں کو اختیار کرسکتا ہے وہ اپنے رب کی رضا کی خاطر غلط را ہوں کو اختیار نہ کرے بلکہ صحیح راستوں پر چلے.صحیح راستے پر چلنا یہ ہے کہ جس غرض کے لئے کوئی طاقت دی گئی ہے اسی غرض کے لئے اسے خرچ کیا جائے.انسانی فطرت کی ہر صلاحیت خدا تعالیٰ نے انسان کی بھلائی کے لئے اسے دی ہے لیکن چونکہ اس نے خدا تعالیٰ سے بے انتہا نعمتوں کو حاصل کرنا تھا اور اپنے رب کریم کے انعامات پانے تھے اس لئے اسے ایک دائرہ کے اندر یہ اختیار دیا کہ وہ اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں کو اختیا ر کرے اس پر

Page 520

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۸ء کوئی جبر نہیں ہے کیونکہ ہماری عقل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو کام جبر کے نتیجہ میں کیا جائے اس پر کوئی انعام نہیں ملا کرتا.زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سزا سے بچ جاتا ہے مثلاً انسان کے علاوہ دنیا کی ہر چیز اور خود انسان کے جسم کے مختلف حصے بھی ہزاروں کام جبراً کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ جو حکم نازل کرتا ہے اس کے مطابق وہ کام کر رہے ہیں مگر انسان کو ایک خاص دائرہ میں آزادی دی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انسانی فطرت میں یہ جو چیز رکھی ہے کہ وہ چاہے تو نیکی کی راہ کو اختیار کرے اور چاہے تو نیکی کی راہ کو اختیار نہ کرے اور اسے جو آزادی دی ہے اس کی وجہ سے وہ هَلُوع ہے.هَلُوع کے معنی عربی زبان میں یہ بھی ہیں کہ جن نیکیوں پر صبر کی ضرورت تھی اس نے ان پر صبر نہیں کیا اور یہ بھی ہیں کہ جن عطایا کے صحیح استعمال سے اس نے اپنے خدا سے خیر حاصل کرنی تھی خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ان صلاحیتوں اور اس کے عطا کردہ انعامات کو ایسے طریق پر خرچ نہیں کیا کہ وہ خدا تعالیٰ کا انعام حاصل کر سکے.پس عربی زبان میں هَلُوع کے معنی صبر نہ کرنے والے کے بھی ہیں اور طلوع کے معنی یہ بھی ہیں کہ خدا کی طرف سے جو مال ملے اس کو جن بہت سی جگہوں پر دوسروں پر خرچ کرنے کا حکم ہے وہاں خرچ نہ کرنے والا اور حریص.اس کے لئے عربی کا ایک لفظ شح ہے یعنی ایک خاص معنی میں بخل کی بیماری میں مبتلا ہونا.عربی زبان کا یہ لفظ هَلُوع مبالغے کے صیغے کے ساتھ فاعل ہے اور اس کے اندر یہ دونوں معنی پائے جاتے ہیں اور ان دونوں معنوں کو دو اگلی آیات نے کھول کر بیان کیا ہے.چنانچہ فرمایا اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزْوعًا جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ان حالات میں اس پر صبر کر نالا زم ہوتا ہے.خدا کے بندے، خدا سے پیار کرنے والے تو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر چیز قربان کر کے بھی صبر اور استقامت اور پختگی کے ساتھ اپنی وفا پر قائم رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے دامن کو چھوڑتے نہیں لیکن بعض انسان ایسے ہیں جو فطرت کا غلط استعمال کرتے ہیں اور جہاں صبر کرنا چاہیے وہاں بے صبری سے کام لیتے ہیں اور جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان کے اوقات میں خواہ وہ کسی قسم کا ہو بشاشت قائم رکھتے ہوئے صبر سے کام لینا چاہیے وہاں صبر کا نمونہ نہیں دکھاتے یا اپنے بھائیوں کے لئے مال خرچ کر کے ان کی خاطر تکلیف اٹھا کر انہیں سکھ پہنچانے کے

Page 521

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۰۷ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۸ء لئے جو نیکیاں کرنی چاہئیں اس تکلیف کو وہ بھائی کی خاطر قبول نہیں کرتے اور اس پر صبر نہیں کرتے هَلُوع میں یہ معنی بھی آجاتے ہیں یعنی فطرت کے اندر نیکی کی جو صلاحیتیں ہیں ان سے وہ کام نہیں لیتے بلکہ ان کی طبیعتیں برائی کی طرف مائل ہوتی ہیں.إذَا مَسَّهُ الشَّرُ جَزُوعًا جب ان کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور بے صبرے ہو جاتے ہیں.وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا جب کوئی بھلائی ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچتی ہے، ان کے اموال میں خدا تعالیٰ برکت ڈالتا ہے، ان کی تجارتیں نفع مند ثابت ہوتی ہیں ، ان کی کھیتیاں زیادہ پیداوار دینی شروع کر دیتی ہیں، ان کے باغات کو اچھا اور زیادہ پھل لگتا ہے، اس دنیا میں ہزاروں قسم کی چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو عطا کی جاتی ہیں اس وقت انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ خدا کی خاطر اور اس کی رضا کے لئے اپنے اموال کو خرچ کرتا ہے.اور وَفِي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاريات :۲۰) کے مطابق یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے اس میں صرف ہم ہی حصہ دار نہیں بلکہ ہمارے سارے بھائی اس میں برابر کے شریک اور حصہ دار ہیں لیکن وہ لوگ اپنی فطرت کی اس صلاحیت کا صحیح استعمال کرنے کی بجائے حرص اور شخ سے کام لے کر اور بخل سے کام لے کر اپنے آپ کو نیکیوں سے محروم کر دیتے ہیں اس کی مثالیں آپ کو ہر جگہ مل جائیں گی لیکن اپنی بھیانک شکل میں.اس کی مثالیں ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو مومن نہیں لیکن جو لوگ کمزور ایمان والے ہیں یا جو ابھی زیر تربیت ہیں ان میں بھی آپ کو نظر آتی ہیں.ذراسی تکلیف پہنچی اور شور مچادیا ، جزع فزع شروع کر دی.کسی کی خاطر تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے ( یہ پہلو اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزْوعًا میں بھی آجاتا ہے ) اور جب خدا تعالیٰ نے انہیں دیا تو ان برکات میں ، ان نعمتوں میں، ان اموال میں ، جو خدا تعالیٰ نے ان کو دیئے اور سب کچھ دیا اور اسی نے دیا.اس میں وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی اور شریک نہیں ہے ، سارا ہم ہی سمیٹ کر رکھیں ، ہمارے پاس جو کچھ آیا ہے اس میں کسی اور کا حصہ نہ ہو.قرآن کریم نے پہلوں کی بہت سی مثالیں دے کر بھی ہمیں سمجھایا ہے لیکن یہاں پر اصولی طور پر بحث کی گئی ہے، کوئی مثال نہیں دی گئی.

Page 522

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۰۸ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۸ء بنیادی چیز جو یہاں ہمیں بتائی گئی ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی کی طاقتیں دیں اور اس کو یہ اختیار بھی دیا کہ ان کو نیکی کی راہوں پر خرچ کرنے کی بجائے بدی کی راہوں پر خرچ کرے لیکن وہ طاقتیں دی اس لئے گئی تھیں کہ وہ نیکی کی راہوں کو اختیار کرے.انسان کو ان فطری صلاحیتوں کے علاوہ اس مجموعے کے علاوہ بنیادی طور پر ایک اور چیز بھی دی گئی تھی اور وہ چیز تھی دعا کرنے کی طاقت اور سمجھ.طاقتیں خواہ کتنی ہی اچھی اور کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں مثلاً کسی کا ذہن کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو جب تک یہ دوسری چیز یعنی دعا کی طاقت شامل نہ ہو اس کا ذہن صحیح نشو و نما حاصل نہیں کر سکتا.پس یہاں یہ فرمایا کہ انسان بنیادی طور پر نیکی کی ساری صلاحیتیں رکھتا ہے اور بنیادی طور پر وہ صاحب اختیار بھی ہے لیکن اس کی وجہ سے اس میں بعض کمزور یاں پیدا ہو جاتی ہیں اس کو ہم بعض دفعہ تلوّن کے لفظ سے بیان کرتے ہیں اور میں نے ذرا تفصیل سے بیان کر دیا ہے کہ هَلُوع کے لفظ میں لغوی لحاظ سے دونوں معنی پائے جاتے ہیں کہ صبر کے وقت صبر نہ کرنا اور سخاوت کے وقت بخل سے کام لینا اور ان دونوں کو اگلی آیتوں میں کھول کر بیان کیا گیا ہے.اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جزوعا وہ بے صبری سے کام لیتا ہے اور هَلُوع ہے.وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا وہ حریص بن جاتا ہے اور بخیل بن جاتا ہے اور اس طرح پر وہ ھنوع ہے.ان آیتوں میں بھی بنیادی طور پر بڑا وسیع مضمون بیان ہوا ہے اور ساری طاقتوں کو یہ دو لفظ اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہیں لیکن اس وقت اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.اصل بات یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ تمہیں جو فطرتی طاقتیں دی گئی ہیں وہ خدا نے دی ہیں اور ان طاقتوں کے استعمال کے لئے ان طاقتوں کی نشو و نما کے لئے ، ان طاقتوں سے دنیا جہان کی نعمتیں اس زندگی میں بھی حاصل کرنے کے لئے اس نے ہر دو جہاں کی ہر چیز کوتمہارا خادم بنادیا ہے لیکن چونکہ تم صاحب اختیار بھی ہو چونکہ تمہیں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر تم اپنی بدقسمتی سے اپنے خدا سے پرے جانا چاہو تو جاسکتے ہو اس لئے ضروری تھا کہ تمہیں دعا کی طاقت بھی دی جاتی.چنانچہ فرما یا اِلَّا الْمُصَدِّينَ - پس دعا کے بغیر کوئی شخص اپنی فطری طاقتوں کا صحیح استعمال نہیں کر سکتا اور ایک وقت کی دعا

Page 523

خطبات ناصر جلد ہفتہ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۸ء نہیں، ایک دن کی دعا نہیں، ایک مہینے یا ایک سال کی دعا نہیں بلکہ عَلى صَلَاتِهِمْ دَابِسُونَ.جو لوگ دائمی طور پر اس نکتے کو سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہیں کریں گے اس وقت تک ہم اس قدر عظیم صلاحیتوں کے باوجود جو ہمیں دی گئی ہیں اور اس کے باوجود کہ دنیا کی ہر چیز کو ہمارا خادم بنایا گیا ہے خدا سے خیر اور بھلائی نہیں پاسکتے.پس ہماری زندگی کی بنیاد نیکی اور صلاح اور تقویٰ اور خیر کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے اور خدا بڑا پیار کرنے والا ہے.اس نے دعا کو مختلف چیزوں یا اوقات یامکان سے باندھ نہیں دیا کہ ان بندھنوں سے باہر دعا نہیں کی جاسکتی بلکہ دعا ہر وقت کی جاسکتی ہے اور ہر جگہ کی جاسکتی ہے سوائے مجبوری کے.پانچ وقت نماز با جماعت پڑھنے کا حکم ہے اس میں بھی دعا کی جاسکتی ہے.سنتیں اور نوافل گھروں میں پڑھتے ہوئے بھی دعا کی جاسکتی ہے.کھانا کھاتے ہے.ہوئے بھی دعا کی جاسکتی ہے اور کرنے کا حکم ہے.بسم اللہ کہ کر کھانا شروع کرو اور الْحَمْدُ لِلَّهِ پڑھتے رہو اور اس حمد پر ہی ختم کرو.کپڑے پہنتے ہوئے بھی دعا ہے، جوتی پہنتے ہوئے بھی دعا ہے اور اتارتے ہوئے بھی دعا ہے.غسل خانے میں جاتے ہوئے بھی دعا ہے اور وہاں سے نکلتے ہوئے بھی دعا ہے.کوئی پہلو ہماری زندگی کا ایسا نہیں، کوئی کام جو ہم چوبیس گھنٹے میں کرتے ہیں ایسا نہیں جس کے ساتھ دعا نہ ہو.کوئی نہ کوئی کام ہم ہر وقت کرتے ہیں ان کے ساتھ ایک تو وہ دعائیں ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمایاں طور پر ہمارے سامنے بیان کر کے کہا کہ ان اوقات میں دعا کرو اور اصل چیز تو یہ بتانا تھا کہ کوئی وقت تمہاری زندگی میں ایسا نہیں ہونا چاہیے، ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جس میں تم خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ نہ ہو کیونکہ اس کے بغیر سحر لَكُم مَّا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : (۱۴) کے باوجود، با وجود اس کے کہ ہر دو جہاں کی ہر چیز تمہاری خادم ہے اور اس کے باوجود کہ دنیا جہاں کی ہر چیز سے خدمت لینے کی طاقت تمہاری فطرت میں رکھی گئی ہے تم خیر اور بھلائی حاصل نہیں کر سکتے.پس ہر احمدی کو ہر وقت خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکے رہنا چاہیے اور اسی سے ہر وقت خیر مانگنی چاہیے.دعا کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ تم

Page 524

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۱۰ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۸ء خدا تعالیٰ سے یہ کہو کہ اے خدا! اگر تو چاہے تو دے دے.یہ بندے کا کام نہیں.بندے کا کام ہے مانگنا.اس نے کوئی زبر دستی تو نہیں لینا.اللہ جل شانہ تو بادشاہ ہے اس کی مرضی ہوگی تو دے گا.مرضی نہیں ہوگی تو نہیں دے گا لیکن شرطیں لگانا شوخی ہے اور بہت بُری حرکت ہے.مانگو ہر چیز اس سے مانگو.بڑی بھی مانگو اور جوتی کا تسمہ بھی مانگو.جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ جوتی کا تسمہ بھی اس سے مانگو تو یہی کہانا کہ ہر چیز اسی سے مانگو اور اس کے بغیر نیکی کا پہلو اور جنت کے حصول کا پہلو اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پالینے کا پہلو پیدا نہیں ہوتا.پس اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے دعائیں کرو.آپ کا پیسہ خرچ نہیں ہوتا، کوئی بار آپ پر نہیں پڑتا.دنیا کے جو کام آپ کر رہے ہیں کرتے رہیں لیکن کام کرتے ہوئے بھی آپ ذکر الہی میں مشغول رہیں.بڑی برکتیں آپ پر ، آپ کے گھروں پر ، آپ کے خاندانوں پر، آپ کے بچوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوں گی اگر آپ اپنی یہ عادت بنالیں.یہاں پر بھی اور بہت سی جگہوں پر یہ کھول کر بتایا گیا ہے کہ دعا کے بغیر ایک عارف کو زندگی میں کوئی مزہ نہیں مل سکتا.جو شخص خدا تعالیٰ کو پہچانتا ہے اس کی تو لذت اسی میں ہے کہ وہ ہر چیز خدا سے مانگے.کھائے تو سیری خدا سے مانگے.یہ نہیں کہ میں نے دو روٹیاں یا دس روٹیاں پیٹ میں ڈال لی ہیں اس لئے میری بھوک مر جائے گی.دس روٹیاں کھا کر وہ خود بھی مرسکتا ہے.صرف بھوک تو نہیں مرا کرتی.ایسے بھی بہت سے واقعات ہماری نظروں کے سامنے آتے ہیں.پس ہر کام جو آپ کرتے ہیں اس میں دعا مانگیں مثلاً وکیل ہے وہ وکالت کے کاموں میں دعا مانگے کہ اے خدا ! وکالت کے ساتھ بہت ساری خرابیاں لگی ہوئی ہیں تو ہمیں ان سے محفوظ رکھ اور ہمیشہ سچ بولنے کی اور قول سدید کہنے کی توفیق عطا کر.ڈاکٹر ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بڑا ظالم ہے وہ طبیب جو اپنے مریض کے لئے دعا نہیں کرتا.میں نے شروع میں بتایا تھا کہ ہماری زندگی کا ہر شعبہ اور ہم ہر وقت جو کام کرتے ہیں وہ بغیر دعا کے خطرے میں پڑ جاتا ہے.سوؤ تو دعا کرو، جاگو تو دعا کرو، لقمہ منہ میں ڈالو تو دعا کرو، بچوں کے منہ میں لقمہ ڈالو تو اونچی آواز میں دعا کرو تا کہ ان کو بھی عادت پڑے اور ان کو بھی بچپن سے یہ بات سمجھ آ جائے.

Page 525

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۱۱ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۸ء پس دعائیں کریں اتنی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر آپ کو اپنے اندر لپیٹ لے اور اس کے نتیجہ میں غیر اللہ کا ہر وار جو ہمارے لئے شر اور تکلیف کا باعث بن سکتا ہے اس سے خدا تعالیٰ کی رحمت ہمیں محفوظ کر لے.روزنامه الفضل ربوہ یکم مارچ ۱۹۷۹ صفحه ۲ تا ۴)

Page 526

Page 527

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۱۳ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۸ء قرآن کریم کے بیان فرمودہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی تاکید خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ - قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَدِّينَ - وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ - وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَابِضِينَ - وَكُنَّا نُكَذِبُ بِيَوْمِ الدِّينِ - حَتَّى أَثْنَا الْيَقِينُ - (المدثر: ۴۳ تا ۴۸) ان آیات سے پہلے جنتوں کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جنتی دوزخ میں جانے والوں سے سوال کریں گے ما سلككم في سقر تمہیں جہنم کی طرف کیا چیز لے گئی ؟ تو وہ جواب میں تین باتیں کہیں گے جن کا یہاں ذکر ہے اور وہ تینوں باتیں اصولی ہیں اور انسان کی ساری زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں.دوزخی جواب میں کہیں گے کہ وہ جہنمی اس لئے بنے کہ وہ صلوۃ ادا نہیں کرتے تھے اور دوسرے یہ کہ وہ مسکین کا خیال نہیں رکھتے تھے.وہ اُسے کھانا نہیں دیتے تھے اور تیسرے یہ کہ وہ اپنا وقت ضائع کیا کرتے تھے.مجلسوں میں بیٹھ کر بے حکمت باتیں کرتے رہتے تھے اور یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو وقت عطا کیا ہے اور زندگی دی ہے اس کی بڑی قیمت

Page 528

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۱۴ خطبه جمعه یکم دسمبر ۱۹۷۸ء ہے اس کی بڑی قدر کرنی چاہیے اور یہ سارے گناہ وہ اس لئے کرتے تھے کہ انہیں یقین تھا یہی ور لی زندگی ہے.موت کے ساتھ ان پر حقیقی فنا آجائے گی اور انہیں کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہونا پڑے گا اس لئے دلیری کے ساتھ وہ یہ باتیں کیا کرتے تھے.پہلی بات یہ ہے کہ وہ صلوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے.اس میں ایک تو وہ فرض نماز بھی آتی ہے جس کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو پانچ وقت مسجد میں اکٹھے ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور نماز ادا کی جائے اور خدا تعالیٰ کا ذکر کیا جائے کیونکہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: ۵۷) کی رو سے اللہ تعالیٰ نے اپنا عبد بننے کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے.پس جب خدا تعالیٰ نے انسان کو عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اور انسان کو پیدا کرنے کا یہی بنیادی مقصد ہے تو انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا عبد بنے.چنانچہ دوزخی یہ کہیں گے کہ انہیں پیدا کیا گیا تھا کہ وہ خدا کے عبد بنیں، اس سے تعلق پیدا کریں دعا کے ساتھ اور خدا کے حضور عاجزانہ جھک کر.لیکن خدا کا عبد بننے کی بجائے وہ اپنے نفس کا عبد بن گئے.شیطانی وساوس کا عبد بن گئے یا شیطان کے چیلے بن گئے.خدا تعالیٰ کی کوئی پرواہ نہیں کی ، اس کا کوئی خیال نہیں رکھا.خدا کے قُرب کی راہوں کو انہوں نے اختیار نہیں کیا.انہوں نے خدا سے تعلق پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی.اس کے لئے انہوں نے کوئی مجاہدہ نہیں کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خدا سے دور ہو گئے اور اس کے غضب اور قہر کی جہنم کے وارث بن گئے.پس پہلا بنیادی فرض انسان پر اس حق کی ادائیگی ہے جس کو ہم عام طور پر حقوق اللہ کہتے ہیں لیکن یہ بات ہمیں ہر وقت یاد رکھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ تو کسی کا محتاج نہیں، اسے کسی انسان یا کسی اور ہستی یا وجود کی احتیاج سرے سے ہے ہی نہیں، اس لئے کہ وہ کامل قدرتوں والا اور ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے.خدا جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا.اس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی طاقت نہیں.دنیا کی ہر چیز خدا کے مقابلے میں ایک مرے ہوئے کیڑے کی حیثیت نہیں رکھتی.پس جب ہم حقوق اللہ کی ادائیگی کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اگر ہم ان حقوق کو ادا نہیں کریں گے تو خدا کو نقصان پہنچے گا.خدا کوتو کوئی نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ وہ توغنی اور صمد ہے اسے کسی چیز کی

Page 529

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۱۵ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۸ء احتیاج نہیں.اس کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بندہ کو پیدا کیا تھا بندہ بننے کے لئے خدا تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے یہ خدا تعالیٰ کی مہربانی ہے.اس نے اپنے کلام میں فرمایا کہ یہ میرے حق ہیں تم ان کو ادا کیا کرو.دراصل یہ اس کے حقوق نہیں یہ تو ہمارے ہی حقوق بنتے ہیں تا کہ ہم اپنے مقصدِ حیات کو حاصل کر سکیں یعنی جو مقصود ہے وہ انسان کی خود اپنی ہی ذات سے تعلق رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا چونکہ تمہاری ذات نے اس مقصد کے حصول کے بعد میرے ساتھ تعلق پیدا کرنا ہے اس لئے میں اسے اپنا حق قرار دے دیتا ہوں.غرض پہلی بات دوزخیوں نے جواب میں یہ کہی کہ جب ان سے پوچھا گیا تمہیں کیا چیز جہنم کی طرف لے گئی تو جواب میں انہوں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے اپنا بندہ بننے کے لئے اور اپنے قُرب کی راہوں کو اختیار کرنے کے لئے اور اپنی صفات کا مظہر بننے کے لئے انہیں پیدا کیا تھا اور انتہائی مہربانی سے اسے خدا تعالیٰ نے اپنا حق قرار دیا تھا حالانکہ فائدہ سارے کا سارا اس کے بندہ کو ہے.خدا تعالیٰ کو تو کوئی فائدہ بندہ نہیں پہنچا سکتا.جو کچھ فائدہ پہنچتا ہے وہ خدا سے بندہ کو پہنچتا ہے لیکن اس قدر پیار کرنے والے خدا کی انہوں نے پرواہ نہیں کی اور قرب کی راہوں کو اختیار کرنے کی بجائے اس سے دوری کی راہوں کو اختیار کیا اور اس کا عبد بننے کی بجائے غیر اللہ کا عبد بننے کی کوشش کی اور آج وہ اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں اور انہیں جہنم کی سزا مل رہی ہے اور اصل جہنم تو یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا غضب اور اس کے قہر کی آگ کسی بدقسمت انسان پر بھڑ کے.اللہ تعالیٰ اس سے ہر ایک آدمی کو محفوظ رکھے.دوزخی دوسری بات یہ کہیں گے کہ جو دوسرے بندوں کے حقوق تھے وہ انہوں نے ادا نہیں کئے.مسکین کے معنے لغت عربی میں ایسے شخص کے بھی ہیں جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو بالکل کنگال ہو اور مسکین کے معنے ایسے شخص کے بھی ہوتے ہیں جس کے پاس کچھ تو ہو لیکن اتنا نہ ہو کہ جو اس کے اہل وعیال کے لئے کافی ہو سکے اور مسکین کے معنی ایسے شخص کے بھی ہوتے ہیں جسے دنیا ذلیل اور حقیر سمجھ رہی ہو.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا ہے کہ قرآن کریم کا نزول انسانی عزت اور شرف کے قیام کے لئے ہے تو دوزخیوں نے جواب میں کہا کہ قرآن کریم اس لئے آیا تھا

Page 530

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۱۶ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۸ء کہ انسان کی عزت اور اس کا شرف قائم کیا جائے اور اس کو نظر انداز کرنے کا مطلب تو یہ ہی ہوتا ہے کہ گویا انسان خود بھی ذلیل ہو جائے کیونکہ یہ تو ایک چکر ہے جو چلے گا.اگر زید بکر کی عزت نہیں کرے گا تو بکر زید کی بھی عزت نہیں کرے گا.بہر حال یہ اجتماعی زندگی سے تعلق رکھنے والے فلسفہ اور اخلاقیات کا ایک علیحدہ مضمون ہے.پس قرآن کریم کی ہدایت یہ بتا رہی تھی کہ خدا اپنے بندوں سے یہ چاہتا ہے کہ ہر انسان کی عزت اور شرف کو قائم کیا جائے اور قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس ساری کائنات کو سارے انسانوں کی بہبود اور فلاح کے لئے پیدا کیا گیا ہے مثلاً گندم ہے اسے ہم نے اس موسم میں بویا ہے یا کچھ بوئی جارہی ہے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اگر ہماری کوشش میں برکت ڈالے اور اس کے نتیجہ میں ہمارا ملک گندم میں خود کفیل ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ ہمارے ملک کے ایک حصے کے لئے خدا تعالیٰ نے وہ گندم پیدا کی ہے بلکہ اس میں پاکستان کے سارے شہری حق دار ہوں گے جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاريات :۲۰) پس دوزخیوں نے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز پر انسان کے لئے ، اس کی فلاح کے لئے ، اس کی بہبود کے لئے ، اس کی تکالیف کو دور کرنے کے لئے ، اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ، اس کی قوتوں کی نشوونما کے لئے اور اس کی ترقیات کے لئے پیدا کی تھی لیکن وہ غاصب بن گئے اور خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء میں جو غیر کا حق تھا اس کو بھی انہوں نے اپنا بنا لیا اور دوسرے لوگوں کو محروم کر دیا اور یہ خیال نہ کیا کہ اس دنیا میں انسان انسان میں فرق کرنے کی بہت سی حکمتیں ہیں جنہیں قرآن کریم نے دوسری جگہ بیان کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں یہ نظر آتا ہے کہ کچھ گندم پیدا کرنے والے اور کچھ گندم کے مالک بن جانے والے اور کچھ کپڑا بنانے والے اور ان کے مالک بن جانے والے اسلام کی تعلیم کے مطابق یہ سارے پھر بانٹ کے کھانے والے ہیں.غرض دوزخیوں سے سوال یہ تھا کہ تمہیں دوزخ کی طرف کیا چیز لے گئی تو انہوں نے کہا کہ انہیں دوزخ کی طرف لے جانے والی دوسری چیز یہ تھی کہ انہوں نے انسان کے حقوق غصب کئے

Page 531

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۱۷ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۸ء اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی برتی.دوزخیوں نے تیسری بات یہ کہی اور یہ دراصل پہلی دو باتوں کی بنیاد بنتی ہے کہ انہوں نے اپنے حقوق کا بھی خیال نہیں رکھا.خدا تعالیٰ نے انہیں زندگی دی، طاقتیں دیں،صحت دی، وقت دیا اور یہ چاہا کہ وہ معمور الاوقات رہیں.زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہ جائے اور اس کے ضیاع سے نقصان نہ پہنچے لیکن انہوں نے اپنے اوقات کو کار پر لگانے کی بجائے نَخُوضُ مَعَ الْخَابِضِينَ بے حکمت اور لغو باتوں پر خرچ کیا اور اس طرح اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کر کے خود اپنی Personality (شخصیت)، اپنے وجود، اپنی ہستی کو نقصان پہنچایا.اگر خدا تعالیٰ کی نعمت سے پورا فائدہ اٹھاتے تو خدا تعالیٰ کی راہ میں پوری قربانیاں دینے کے قابل ہو جاتے لیکن انہوں نے نہ خدا کا حق ادا کیا نہ انسان کا حق ادا کیا اور نہ ہی اپنے نفس کا حق ادا کیا اس لئے خدا تعالیٰ نے انہیں جہنم میں ڈال دیا.یہ وجہ بن گئی ان کے جہنم میں آنے کی.خدا تعالیٰ اسی سورۃ میں آخر میں فرماتا ہے.بیچ میں دوسری آیتیں ہیں میں ان کو چھوڑتا ہوں یہ ایک لمبا مضمون ہے.میں صرف ایک ٹکڑے کو لیتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةُ (عبس:۱۲) قرآن کریم ایک نصیحت ہے.فَمَنْ شَاءَ ذَكَر (عبس : ۱۳) جو چاہے نصیحت حاصل کرے ہر شخص آزاد ہے.یہ آزادی خدا تعالیٰ نے دی ہے.قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک کامل تعلیم اور کامل شریعت انسان کے ہاتھ میں دے دی ہے.انسان پر جبر نہیں کیا گیا یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ نہیں فرمایا کہ تیرے لئے اس کا انکار ممکن ہی نہیں بلکہ فرمایا تیرے لئے اس عظیم تعلیم کا انکار اور اس سے بے اعتنائی برتناممکن ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کسی شخص کو ہدایت دینا یا نہ دینا یہ خدا کا کام ہے.هُوَ اهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ (المدثر : ۵۷) خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں نیکی کی باتیں بھی بتا ئیں اور نیکی اور تقویٰ کی راہیں بھی انسان پر کھولیں اور ان دو چیزوں میں فرق ہے.مثلاً ایک ہے خرچ کرنا اور ایک ہے دوسروں پر خرچ کرو.اور ان کا حق ادا کرو.اور یہ حکم ہے لیکن کن راہوں پر چل کر صحیح خرچ ہوسکتا ہے یہ خدا تعالیٰ نے بتادیا ہے.تقویٰ کی راہوں کی تعیین بھی خدا تعالیٰ نے کر دی ہے اور اگر انسان اپنی بشری کمزوری کے نتیجہ میں بھٹک جائے تو مغفرت اور توبہ کے سامان بھی اس کے لئے پیدا کر دیئے گئے ہیں.اس

Page 532

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۱۸ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۸ء بیان کو تعلق باللہ پر ختم کیا.فرمایا خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنا، اس کے حقوق کی ادائیگی کرنا، انسانوں کا خیال رکھنا، ان کے حقوق کی ادائیگی کرنا، اپنے نفس کی طاقتوں کو ضائع نہ کرنا، خودا اپنے نفس کا خیال رکھنا، اپنے نفس کی صحیح نشو ونما کرنا، خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو اختیار کرنے کے قابل ہو جانا، یہ طاقت ہونا کہ انسان اپنے دائرہ استعداد کے اندر نیکیوں میں بڑھتا چلا جائے یہ سب کچھ اپنے زور کے ساتھ تو نہیں ہو سکتا.یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خدا تعالیٰ سے دعاؤں کے ذریعہ قوت اور طاقت حاصل نہ کی جائے کیونکہ خدائے قادر و تو ا نا جو تقویٰ والا ہے جس نے تقویٰ کی راہیں معین اور واضح کر دیں اسی سے ہدایت مانگنی ہے کہ اے خدا ! ہمیں بھٹکنے نہ دے اور جب انسان بھٹک جائے اور اس سے بشری کمزوری سرزد ہو جائے تو اس صورت میں صرف خدا کا دروازہ کھٹکھٹانا ہے کہ اے خدا! مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے.اس کے بغیر تو انسان کی نجات ممکن نہیں.پس جو لوگ جنت میں گئے ان کا بھی یہاں ذکر آ گیا یعنی جب دوزخیوں کا ذکر آ گیا کہ انہوں نے یہ کام نہیں کئے تو جنتیوں کا خود بخود آ گیا کہ انہوں نے یہ کام کئے لیکن انہوں نے اپنے زور کے ساتھ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل نہیں کیا.خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے نتیجہ ہی میں وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے قابل ہوئے.اس لئے انسان کو یہ چاہیے کہ جس مقصد کے لئے وہ پیدا ہوا ہے اس میں کامیاب ہونے کی وہ ہمیشہ کوشش کرتا رہے.خدا تعالیٰ کے حقوق جو خود خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کئے ہیں ان کی ادائیگی کی طرف متوجہ رہے.ہر انسان کی عزت اور شرف کا خیال رکھے اور ہر انسان کا حق ادا کرنے کے لئے بشاشت کے ساتھ ہر وقت تیار رہے اور اپنے نفس کو بھی کبھی نہ بھولے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَق کہ تیرے نفس کے بھی حقوق ہیں اور جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے جب تک کوئی شخص اپنے نفس کے حقوق ادا نہیں کرتا اور صحیح راہوں پر چل کر اپنے نفس کی نشو و نما نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ نے اسے جو قو تیں اور استعداد یں دی ہیں ان میں صحت مند نشو و نما نہیں ہوتی اس وقت تک نہ وہ خدا تعالیٰ کے حقوق ادا کر سکتا ہے اور نہ بندوں کے حقوق ادا کر سکتا ہے.

Page 533

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۱۹ خطبه جمعه یکم دسمبر ۱۹۷۸ء پس ہمیں ہمیشہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے ہمیں پیدا کیا ہے اس کو پورا کرنے کی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں تو فیق عطا کرے اور ہم صحیح معنوں میں خدا کے بندے بن جائیں.ہماری زندگی میں ہمارے ہر فعل میں خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے دنیا کو نظر آئیں اور ہمارے اعمال خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ اور مقبول ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنے پیار سے ان کی جزا ہمیں عطا فرمائے.( آمین ) (روز نامه الفضل ربوه ۱۴ /جنوری ۱۹۷۹ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 534

Page 535

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۲۱ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء جلسہ پر آنے والے مہمانوں کو نہ صرف تکالیف سے بچا ئیں بلکہ ان کے لئے بہترین نمونہ بنیں خطبه جمعه فرموده ۸ / دسمبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ایام جلسہ قریب آرہے ہیں اور اللہ کے فضل سے اس کی تیاری ہورہی ہے.میں نے اس سے پہلے بعض باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی جن میں سے ایک بات یہ تھی کہ جلسہ سے قبل سارے ربوہ کی صفائی ہو جانی چاہیے.سڑکوں کی گزرگاہوں کی اور ان جگہوں کی بھی جو گز رگا ہیں تو نہیں لیکن گزرگاہوں سے نظر آتی ہیں اور وہاں گند پڑا ہوا ہوتا ہے.اس کا کچھ حصہ تو کمیٹی سے تعلق رکھتا ہے لیکن ہمارا تعلق جماعتی لحاظ سے کمیٹی سے نہیں ہے اس لئے میں تو جماعت سے ہی کہوں گا کہ آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ ربوہ کی صفائی کریں اور کسی جگہ بھی گند دکھائی نہ دے، نہ آنکھ کو ، نہ ناک کو اور نہ پاؤں کی حس کو.میں نے کہا تھا کہ بعض دفعہ راستوں میں گڑھے پڑے ہوتے ہیں اور انسان کو رات کے اندھیرے میں یا کم روشنی میں ٹھیک طرح نظر نہیں آتا.گڑھے میں پاؤں پھسلتا اور موچ آجاتی ہے اور اس طرح بہت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.اس لئے جہاں تک انسان کے بس میں ہے خود ربوہ والوں کو بھی اور باہر سے آنے والے مہمانوں کو بھی ان تکالیف سے بچانا بہت ضروری ہے.ویسے تو ہم دعائیں کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دعائیں سنتا بھی ہے

Page 536

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۲۲ خطبه جمعه ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء کہ آنے والوں کو بھی اور یہاں کے مکینوں کو بھی نہ صرف جلسہ کے ایام میں بلکہ کبھی بھی کوئی تکلیف نہ پہنچے لیکن قدرت نے جو تدا بیر رکھی ہیں ان کو نظر انداز کرنا بھی اپنی طاقتوں کی ناشکری ہے اور خدا تعالیٰ نے جو احسان کیا ہے اس کی ناشکری ہے.اس سلسلہ میں قریباً سارے محلوں میں ہی کام ہوا ہے.کہیں بہت اچھا کام ہوا ہے کہیں اچھا ہوا ہے اور کہیں اس وقت تک نسبتا کمزور ہوا ہے.جنہوں نے اس وقت تک بہت اچھا کام کیا ہے ان سے میں کہوں گا کہ جلسہ سالانہ تک اس کام کے لئے جتنے ایام باقی رہ گئے ہیں انتظام کی ہدایت کے مطابق اس میں وہ اپنے اس بہت ہی اچھے معیار سے گریں نہ بلکہ ہمیشہ ہی اچھا کام کرتے رہیں اور جنہوں نے بہت اچھا کام نہیں کیا بلکہ اچھا کام ی نسبتا کمزور کام کیا ہے ان سے میں کہتا ہوں کہ ہمارے کان میں تو کام کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ آواز آتی ہے کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ (البقرة : ۱۴۹) پس نیکی کے کاموں میں کسی کو آگے بڑھنے دینا اور دل میں یہ خیال پیدا نہ ہونا کہ ہم کیوں پیچھے رہ گئے ہیں.یہ بھی ایک ایسی کمزوری ہے جسے خدا تعالیٰ پسند نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ تو اس چیز کو پسند کرتا ہے کہ اس کے سارے ہی بندے خیرات میں ، نیکیوں میں، بھلائی میں، دوسروں کے لئے مفید کاموں میں اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کی تلاش میں ہمیشہ ہی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں.میں نے خود دیکھا ہے کہ بعض دوڑوں میں مثلاً آدھے میل کی دوڑ میں یا ایک میل کی دوڑ میں بعض دفعہ اول پوزیشن پر آنے والا دوسری پوزیشن پر آنے والے سے سو گز آگے ہوتا ہے.بہت فاصلہ پیچھے چھوڑ کر اول دوم اور سوم آتے ہیں اور جو سوم بھی نہیں وہ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور ایسی دوڑ بھی دیکھی ہے کہ جس میں آخری وقت تک یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ ان میں سے کون آگے نکل آئے گا.وہ بالکل پہلو بہ پہلو دوڑ رہے ہوتے ہیں اور یہی شکل خدا تعالیٰ نیکیوں کے میدان میں آگے نکلنے کی دوڑ میں دیکھنا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہے لیکن انسان کی آنکھ یہ اندازہ نہ لگا سکے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کس نے آگے نکل جانا ہے اس طرح آگے پیچھے اور پہلو بہ پہلو ساتھ جڑے ہوئے آگے نکلنے کی

Page 537

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۲۳ خطبه جمعه ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء کوشش کرنی چاہیے اور ہر وقت آگے بڑھتے رہنا چاہیے.ہوسکتا ہے کہ جن کے متعلق یہ رپورٹ ہو کہ انہوں نے سستی دکھائی ان کو اس وقت تک کام کرنے کے لئے کوئی جائز عذر ہو لیکن کام کو ہمیشہ نظر انداز کرنے کے لئے میرے ذہن میں کوئی جائز عذر نہیں آتا.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک ہفتہ ایک جائز عذر ہو گیا.دو ہفتے کوئی جائز عذر ہو گیا لیکن ہمیشہ ہی عذ ی ہی عذر ہو اور وہ جائز ہوا سے میری عقل نہیں مانتی اور میرا خیال ہے کہ کسی کی عقل بھی نہیں مانتی.پس ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ اس وقت تک پیچھے رہنے والوں کے جو عذر تھے وہ جائز تھے لیکن یہ ہم تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ اس مہینے کی ۲۲ / تاریخ تک جو مزید کام کرنے کے اوقات ہیں ان میں بھی جائز عذر ان کو میسر آتے رہیں گے.ان کو تو زیادہ زور لگا کر، زیادہ وقت دے کر ، زیادہ توجہ سے، زیادہ ہمت کے ساتھ اور زیادہ دعاؤں کے ساتھ جو محلے آگے نکل چکے ہیں ان سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے.بہت سی جگہ گڑھوں کو پر کر دیا گیا ہے اور سڑکوں کو اور پگڈنڈیوں اور چھوٹے رستوں کو بھی ہموار کر دیا گیا ہے لیکن منتظمین کو کوشش کرنی چاہیے کہ سارے ہی راستوں کو ایسا ہموار کر دیا جائے کہ تدبیر کے لحاظ سے کسی کو کوئی دکھ پہنچنے کا اندیشہ باقی نہ رہے اور آپ بھی دعا کرتے ہیں اور آپ کو کرنی چاہیے اور میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت اور امان میں رکھے اور جسمانی تکلیفوں سے بھی محفوظ رکھے.دوسری بات جو میں آج کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ منتظمین جلسہ کا خیال ہے کہ اہل ربوہ ان کو مناسب اور پوری تعداد میں رضا کار نہیں دیں گے اور میرا یہ خیال ہے کہ اہل ربوہ منتظمین جلسہ کو پوری تعداد میں رضا کا ر دے دیں گے.یہ ہمارا اختلاف رائے ہو گیا ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کا عمل مجھے جھوٹا بناتا ہے یا ان کو غلط قرار دیتا ہے اس لئے آج میں اطفال اور خدام کو خصوصاً اور انصار کوعموماً مخاطب کرتا ہوں.پچھلی دفعہ جب میں نے کہا تھا کہ رضا کار دوتو ربوہ میرا مخاطب تھا یعنی ربوہ کے سارے مکین لیکن آج میں علیحدہ علیحدہ تنظیموں کو مخاطب کرتا ہوں کہ جتنے رضا کار ہمیں چاہئیں اتنے مل جانے چاہئیں.ایک زمانہ میری ہوش میں ایسا گزرا ہے اور مجھے وہ جلسے یاد

Page 538

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۲۴ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء ہیں کہ جب قادیان میں افسر جلسہ سالانہ کو پندرہ ہیں ہزار مہمانوں کا انتظام کرنا پڑتا تھا اور پچھلے سال کھانے کے لحاظ سے ہی نوے ہزار مہمانوں کا انتظام کرنا پڑا تھا.چنانچہ جن رضا کاروں کا تعلق لنگر خانوں میں کام کرنے سے ہے یا کھانا تقسیم کرنے سے یا کھانا کھلانے سے یا رہائش گاہوں کی نگرانی اور ان میں مہمان ٹھہرانے سے ہے ان کا کام بہت بڑھ گیا ہے.اگر ہمارے ذہن میں کسی سال مہمانوں کی تعداد پندرہ ہزار ہو تو اس کے مقابلے میں اب تعداد چھ گنا زیادہ ہوگئی ہے اس لئے چھ گنا زیادہ رضا کار ہمیں ملنے چاہئیں اور اگر ربوہ کے مکینوں کی تعداد رضا کاروں کے لحاظ سے اس زمانے کے مقابلہ میں چھ گنا نہیں بڑھی تو ربوہ کے رضا کاروں کی Efficiency یعنی اہلیت مجموعی طور پر چھ گنا زیادہ ہونی چاہیے ورنہ تو ہم کام نہیں سمیٹ سکتے.پس آپ پر دو جہتوں سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ایک تو یہ کہ تعداد کے لحاظ سے کمی نہ ہو اور دوسرے یہ کہ اگر تعداد پوری کرنی ممکن ہی نہ ہو، اگر ربوہ کے مکینوں کی تعداد اتنی نہیں بڑھی جتنے خدا کے فضل سے جلسہ پر آنے والے مہمان بڑھ گئے ہیں تو پھر تم یہ کوشش کرو کہ تمہارے کام کی کیفیت اور Efficiency مجموعی طور پر چھ گنا زیادہ ہو جائے کیونکہ اس وقت جتنی رضا کاروں کی مجموعی اہلیت تھی اس سے چھ گنا زیادہ تمہاری مجموعی کارکردگی ہو تو تب تم کام سنبھال سکتے ہو.جلسہ سالانہ پر کام کے لحاظ سے چھوٹے بچے دو طرح کے ہیں.ایک تو وہ چھوٹے بچے ہیں جن کو کام کرنے کی بہت خواہش ہوتی ہے مگر ابھی ان کی عمر نہیں ہے.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو لمبی عمریں دے اور ان کی یہ خواہش بھی پوری ہو کہ وہ جلسہ سالانہ کے کام میں عملاً تند ہی کے ساتھ حصہ لینے والے بنیں اور ایک وہ چھوٹے بچے ہیں جو بڑی مستعدی سے کام کر سکتے ہیں.اب تو کچھ بڑے بھی لگا لئے جاتے ہیں لیکن قادیان میں بعض کاموں میں خدام کی عمر کے نوجوان نہیں لگائے جاتے تھے.مثلاً تنوروں سے روٹیاں تقسیم کرنے والی جگہ تک پہنچانے کے لئے بڑے آدمی کی ضرورت نہیں.چھوٹا بچہ یہ کام کر سکتا ہے.وہ بڑے جتنا وزن نہیں اٹھا سکتا لیکن بڑے سے زیادہ چکر لگا سکتا ہے اور اس سے زیادہ تیز ہے.میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے

Page 539

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۲۵ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء کہ نو سال کا بچہ میں سال کے جوان سے زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے.بچے بہت تیز ہیں.بڑا دو چکر لگاتا ہے تو یہ تین چکر لگا لیتے ہیں اور اگر اس نے ایک تہائی وزن کم اٹھایا ہے تو ایک وقت کے اندر زیادہ چکر لگا کر بڑے کے برابر روٹیاں وہاں پہنچادی ہیں.پس تم جو اطفال ہو تمہارے او پر تو ہمیں بڑا حسن ظن ہے.تمہارے ساتھ بڑی امید میں وابستہ ہیں.بالکل چھوٹے بچے اس وقت میرے مخاطب ہیں.میں علی وجہ البصیرت اس یقین پر ہوں کہ جب انشاء اللہ تم بڑے ہوئے اور تمہارے ذمے جماعت احمدیہ کے کام پڑے تو اس وقت جماعت آج کی تعداد سے بیسیوں گنا زیادہ ہوگی اور ان کی ہدایت کے کام.ان کو قرآن کریم کی صحیح تعلیم پیش کرنا، ان کو دینی علوم سکھانا، ان کی تربیت کرنا ، ان کے لئے نمونہ بننا وغیرہ بڑی ذمہ وار یاں تم پر عائد ہوں گی.کچھ لوگ اپنی ذمہ داریوں کو سنبھالتے ہیں کچھ نہیں سنبھالتے لیکن جو ذمہ داریاں آج مجموعی طور پر نوجوانوں پر اور بڑوں پر پڑ رہی ہیں اس سے سو گنے زیادہ، دوسو گنے زیادہ بلکہ ہوسکتا ہے کہ خدا کرے ہزار گنے زیادہ ذمہ داریاں ہو جائیں.جماعت اتنی بڑھ جائے تو آسمانوں سے فرشتوں نے آکر یہ کام نہیں کرنے.یہ تو تدبیر کا نظام ہے اور آزادی کا نظام ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے کہا کہ دیکھ یہ ہدایت کی راہ ہے اور یہ ضلالت کی راہ ہے.تجھے میں اختیار دیتا ہوں کہ چاہے تو ہدایت کی راہ کو اختیار کر اور چاہے تو ضلالت کی راہ کو اختیار کر لیکن یہ میں بتا دیتا ہوں کہ اگر تو ضلالت کی راہ کو اختیار کرے گا تو خدا تعالیٰ کے غضب کی جہنم تجھے نصیب ہوگی اور اگر ہدایت کی راہ کو اختیار کرے گا تو خدا تعالیٰ کا پیار تجھے ملے گا اور تیرے دل کی کیفیت یہ ہو جائے گی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً بتایا گیا (اس میں مخاطب جماعت ہی ہے ) کہ جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو یہ کیفیت اس شخص کے دل کی ہوتی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ میں سارے کا سارا خدا کا ہو گیا ہوں اور پھر اس دلی کیفیت کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کے دین کے کام کرتا اور

Page 540

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۲۶ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء اس کے بندوں کی بھلائی کے کام کرتا ہے.غرض ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا اور ساری مخالفتوں اور روکوں کے باوجود جماعت تمہارے جوان ہونے تک عملاً اتنی بڑھ چکی ہوگی کہ بچو! آج تمہارا ذہن بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا جو تمہیں ذمہ داریاں اٹھانی پڑیں کیونکہ جتنی جماعت بڑھے گی اتنے ہی ان کے مربی زیادہ ہونے چاہئیں اور ان کے لئے نمونے بننے چاہئیں.جولوگ نئے آئیں گے ان کے لئے صرف قرآن کریم کا علم ہی کافی نہیں ہوگا وہ کہیں گے کہ ہم نئے آئے ہیں ہمیں نہیں پتا کہ ہم کس طرح ان ہدایتوں پر عمل کریں اور کس کے نمونہ کے پیچھے چلیں ہمیں نمونہ دو.ہمارا اصل آئیڈیل تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن ہم میں سے ہر شخص کو یہ حکم ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کر کے آپ کی اتباع کر کے، آپ کی پیروی کر کے، آپ کی طرح زندگی گزار کر تم دوسروں کے لئے نمونہ بنو.چنانچہ وہ لوگ کہیں گے کہ ہمیں نمونہ بن کر دکھاؤ.قرآن کریم کے متعلق آیا ہے پایدنی سَفَرَةٍ (عبس:۱۲) کہ دور دور سفر کر نے والوں کے ہاتھ میں بھی یہ کتاب ہے.یہ بڑی عظیم کتاب ہے.اس مضمون پر بہت سی آیات ہیں لیکن اس وقت میں ان کے متعلق تفصیلی طور پر کچھ نہیں کہنا چاہتا بلکہ صرف اسی ٹکڑے کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.یہ سفر کرنے والے دو قسم کے ہیں.ایک وہ لوگ ہیں جو تربیت اور علوم حاصل کرنے کے مراکز سے علم حاصل کرتے اور تربیت حاصل کرتے ہیں اور پھر لمبے سفر کر کے ہر جگہ پہنچتے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ کی اس تعلیم کو اس ہدایت کو جو بنی نوع انسان کے قیامت تک کے فائدے کے لئے آئی ہے ان تک پہنچا ئیں اور ایک وہ لمبے سفر کرنے والے ہیں جو ایسے مراکز میں پہنچتے ہیں جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے اور امت مسلمہ میں ایسے ہزار ہا ہزارہا مراکز تھے جو نہ ہم نے گئے اور نہ گنے جاسکتے ہیں، شاید تاریخ بھی بہت ساروں کو بھول چکی ہوگی.ہمارے جلسہ سالانہ کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس میں شمولیت کے لئے آتے ہیں مثلاً یہاں سے دس ہزار میل دور سے امریکن جلسہ پر آئیں گے اور

Page 541

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۲۷ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء ان کے کانوں میں خدا اور رسول کی باتیں پڑیں گی.وہ تقریریں سنتے ہیں ان کو سمجھ نہیں آتی لیکن میں حیران ہوں شاید آپ کو پتا نہیں کہ بعض دفعہ ۲۶ / تاریخ کی تقاریر کا علم ان لوگوں کو جو ہماری زبان نہیں جانتے عشاء کے وقت ہو چکا ہوتا ہے.اس قدر وہ کرید کرید کر پوچھتے ہیں کہ اس مقرر نے کیا کہا، اس نے کیا کہا، اس نے کیا کہا اور نوٹ لیتے ہیں اور کچھ یادر کھتے ہیں اور اس طرح وہ لوگ علم حاصل کرتے ہیں لیکن صرف علم حاصل کرنا ان کو اتنا فائدہ نہیں دے سکتا وہ بڑی تیز نگاہیں لے کر یہاں آتے ہیں اور وہ آپ کو دیکھتے ہیں کہ کیا آپ قرآنی تعلیم کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں یا نہیں؟ وہ آپ کے مردوں کو دیکھتے ہیں، بچوں کو بھی دیکھتے ہیں اور جوانوں کو بھی دیکھتے ہیں اور باہر سے جو عورتیں آتی ہیں وہ ربوہ کی عورتوں کو دیکھتی ہیں کہ تم ہمیں تعلیم دے رہے ہو قرآن سکھا رہے ہو خود بھی عمل کر رہے ہو یا نہیں؟ یہ نمونہ پیش کرنا بھی ربوہ کا کام ہے.مثلاً دکاندار ہیں ہم کب کہتے ہیں کہ تم دکانداری نہ کرو.اسلام نے روزی کمانے سے تو منع نہیں کیا لیکن اسلام نے روزی کمانے کے لئے ہدایتیں بھی دی ہیں ان ہدایتوں کی پابندی کرو.ذخیرہ اندوزی نہیں کرنی، منڈی میں آکر منڈی کے بھاؤ پر خرید و فروخت کرنی ہے، باہر کے بھاؤ پر نہیں کرنی وغیرہ.جولوگ سفر کر کے قرآن سیکھنے کے لئے آتے ہیں وہ بھی میرے نزدیک پایدنی سَفَرَةٍ میں شامل ہیں.میں ایک واقعہ بتا دوں.افریقہ میں سینیگال کے علاقہ میں ایک بزرگ گئے.وہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے آج کے نقشے سے مختلف تھا.انہوں نے جس قبیلے میں بھی اسلام کی تبلیغ کی وہاں سے دھتکارے گئے اور ان لوگوں نے آواز ہی نہیں سنی.جب ان کے دو تین سال اس طرح ضائع ہوئے یعنی کوشش بے نتیجہ نکلی، تکلیفیں اٹھا کر پھرے، ان وحشیوں میں ان کو مزاج کے مطابق کھانا بھی نہیں ملتا ہوگا لیکن ان کے دل میں درد تھا کہ میں ان کو تبلیغ کروں اور یہ مسلمان ہو جا ئیں اور اسلام کا نور انہیں حاصل ہو اور یہ خدا کا پیار پانے والے ہوں.پھر انہوں نے سوچا کہ اس بے نتیجہ کوشش سے اچھا تھا کہ میں کسی گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے رب کی عبادت کرتا اور اس کی رضا کو تلاش کرتا.اس علاقے میں دریائے سینیگال ایک بہت بڑا دریا ہے.اس کے اندر

Page 542

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۲۸ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء ایک کئی میل کا جزیرہ تھا یعنی دریا پھٹ کر اس کے دونوں طرف سے جارہا تھا اور درمیان میں جزیرہ تھا.چنانچہ انہوں نے کہا کہ یہ خاموش جگہ ہے یہاں چلتے ہیں.وہ وہاں چلے گئے اور ان کے ساتھ ان کے چالیس، پچاس مرید بھی تھے جو کہ اس علاقہ میں تبلیغ کے دوران تیار ہوئے تھے.انہوں نے وہاں جا کر گھاس پھونس کی جھونپڑیاں بنالیں اور مسجد بنالی.وہاں چھوٹی سی آبادی ہوگئی اور وہ دن رات خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہے.جس وقت انہوں نے وہاں اڈہ بنالیا تو وہ قبائل جوان کی آواز بھی سننے کے لئے تیار نہیں تھے ان کے نمائندے اس جزیرے میں آنے شروع ہو گئے اور وہ وہاں ٹھہرے کوئی چھ مہینے ٹھہرے، کوئی سال، کوئی ڈیڑھ سال اور انہوں نے قرآن کریم کی تعلیم ان سے سیکھی اور عملاً بھی سیکھا کہ عبادات کیسے کرنی ہیں.میں نے بتایا تھا کہ ۱۹۶۷ء میں جب کوپن ہیگن کی مسجد کا افتتاح ہوا تو تین سو کے قریب عیسائی ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہو گئے تھے.ان کو تو نہیں پتا تھا کہ رکوع کیسے کرنا ہے.جب ہم رکوع میں جاتے تھے تو وہ ادھر ادھر دیکھ لیتے تھے کہ کس طرح کرنا ہے.جب سجدے میں گئے تو ادھر ادھر دیکھ لیا کہ کیسے سجدہ کرنا ہے اس طرح انہوں نے نماز پڑھی.پس ایک تو نماز کا حکم ہے اور ایک نماز پڑھنے کا طریق ہے اور سنت نبوی ہے کہ کس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی.غرض انہوں نے عملاً بھی سیکھا اور پھر واپس جا کر اپنے قبائل میں تبلیغ کی اور وہ قبائل مسلمان ہو گئے یعنی جزیرے کے اندر ایک مرکز بن گیا ایک مدرسہ قائم ہو گیا.وہاں ان کو دعاؤں کا موقع بھی مل گیا اور دعاؤں کے نتیجے میں ان کی خواہشات کو خدا تعالیٰ نے پورا کیا اور وہ قبائل جن میں خود ان کا اپنا وجود پہنچ کر نا کام ہوا تھا وہاں ان کے شاگرد پہنچے انہی قبائل سے تعلق رکھنے والے ) اور وہاں اسلام پھیلا اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں وہ لوگ مسلمان ہو گئے.غرض باہر سے آنے والے یہاں صرف تقاریر نہیں سنتے یا علماء سے ہی گفتگو نہیں کرتے بلکہ وہ بڑی تیز نگاہیں لے کر آتے ہیں اور آپ کا مطالعہ کرتے ہیں.اس پر بھی آپ کو پورا اتر نا چاہیے اور آپ کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ آپ صحیح اسلام کا نمونہ ان کے سامنے پیش کرنے

Page 543

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۲۹ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء والے ہوں.ہمیشہ ہی دنیا کے سامنے پیش کرنے والے ہوں لیکن خصوصاً اجتماعات میں خواہ وہ ربوہ میں ہوں یا باہر ہوں.باہر سے آنے والے آنکھیں کھلی رکھ کر آتے ہیں آنکھیں بند کر کے نہیں آتے.وہ اس لئے یہاں آتے ہیں کہ وہ بینا ہیں ، دیکھنے کی قوت ، قوت بینائی اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے اور وہ اسے استعمال کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان کے سامنے اچھا نمونہ پیش کر سکیں.میں نے کہا تھا کہ جس حد تک ممکن ہو اپنے مکانوں کا ایک حصہ دیں خواہ وہ چھوٹا سا کمرہ ہی کیوں نہ ہو.اگر بڑا کمرہ دے سکتے ہیں تو بڑا دیں لیکن اگر بڑا نہیں دے سکتے تو چھوٹا کمرہ ہی دے دیں.میں جب افسر جلسہ سالانہ تھا تو ایک دفعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افتتاحی تقریر سن کر باہر نکلا.ان دنوں جامعہ نصرت کے میدان میں ہمارا جلسہ ہوا کرتا تھا.مجھے وقت مل گیا میں نے افتتاحی تقریر سنی اور جب تقریر اور دعا کے بعد میں باہر نکلا تو مجھے کراچی کے ایک دوست سڑک کی طرف سے آتے ہوئے ملے.انہوں نے ہاتھ میں سوٹ کیس پکڑا ہوا تھا اور بیوی ان کے ساتھ تھی.میری نگاہ ان پر پڑی تو میں سمجھ گیا کہ ان کا ابھی تک کوئی انتظام نہیں ہے پتا لینا چاہیے.میں نے کہا کہ آپ کا کہیں انتظام ہے؟ کوئی دوست کوئی واقف جس کو آپ نے لکھا ہو کہ میں ان کے ہاں ٹھہر رہا ہوں.کہنے لگے نہیں.میں نے کہا کہ آپ نے انتظام جلسہ کو لکھا ہے کہ آپ کا انتظام کیا جائے؟ کہنے لگے نہیں.میں نے کہا کہ کہاں ٹھہریں گے؟ کچھ پتا نہیں.میں نے کہا اچھا پھر میں انتظام کرتا ہوں.میرا تو فرض تھا ہمارے بہنوں بھائیوں کے گھروں کے پاس ہی وہ مجھے ملے تھے.میں ایک گھر میں گیا اور میں نے کہا کہ مجھے کوئی کمرہ دو.اس طرح ایک مہمان آ گیا ہے اور وہ لکھ پتی ہے.ایک ایک وقت میں وہ شخص پچاس پچاس ہزار روپے چندہ دیتا ہے.انہوں نے کہا کہ نہیں ، ہمارے تو سارے کمروں میں مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں.پھر دوسرے گھر میں گیا انہوں نے بھی کہا کہ ہمارے سارے کمروں میں مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں.ایک اور گھر میں گیا تو میری نظر ایک چھوٹے سے کمرے پر پڑی جس کو ہم کو لکی“ کہتے ہیں.

Page 544

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۳۰ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء بالکل چھوٹی سی تھی شاید غسل خانے کے لئے بنائی گئی تھی اور اس کے اندر گندم کی بوریاں پڑی ہوئی تھیں.میں نے کہا کہ مجھے مہمان کے لئے کمرہ چاہیے.انہوں نے کہا کہ کمرہ تو کوئی خالی نہیں ہے.میں نے کہا یہ کمرہ خالی ہے.گندم کی بوریاں میں باہر نکلوا دیتا ہوں اور وہاں یہ ٹھہریں گے.انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے.وہ لکھ پتی ، بڑا امیر ، بڑے آرام سے رہنے والا تھا لیکن وہ بڑی قربانی کر کے یہاں آتا ہے.امیر بھی اور غریب بھی دونوں ہی بڑی قربانی کر کے آتے ہیں.ان کے دل میں ایک جذبہ ہے وہ جذبہ دنیا کی محبت نہیں بلکہ جذبہ خدا کی محبت اور جذ بہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ہے جو ان کو یہاں لے کر آتا ہے.میں نے ان کو کہا کہ اس میں ٹھہر جائیں گے ، تو انہوں نے مجھے کہا کہ اس سے اچھی جگہ مجھے اور کونسی ملے گی.چنانچہ میں نے وہاں پرالی ڈلوادی اور وہ میاں بیوی وہاں ٹھہر گئے اور بہت ہی خوش تھے کہ ہمیں ٹھہرنے کے لئے اتنی اچھی جگہ مل گئی ہے.پس اس قسم کے لوگ آتے ہیں اور اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اگر آپ بڑے کمرے دے سکتے ہیں تو بڑے کمرے دیں.میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر بڑے کمرے دے سکتے ہیں تو تب بھی ایک چھوٹی سی کو کی دے دیں لیکن اگر بڑا کمرہ نہیں دے سکتے تو یہ خیال نہ کریں کہ یہ ایک چھوٹی سی کو لکی ہے ۶۶ کی جس کے اندر آپ کی گندم کی بوریاں پڑی ہوئی ہیں جنہیں آپ بغیر خراب کئے بغیر نقصان اٹھائے عارضی طور پر کسی اور جگہ چھپر وغیرہ کے نیچے رکھ سکتے ہیں تو اسے پیش کرنے سے شرما ئیں نہ.آنے والا مہمان جو بڑا امیر ہے وہ اس جگہ پر رہنے میں نہیں شرما تا تو آپ وہ کوٹھڑی دینے میں کیوں شرماتے ہیں.اس لئے وہ ضرور دیں تا کہ جہاں تک ممکن ہو سکے کسی کو جلسہ سالانہ پر تکلیف نہ پہنچے.باہر سے جو غیر ملکی آتے ہیں ان کو بعض چیزوں کی عادت ہوتی ہے مثلاً وہ خاص قسم کے غسل خانے استعمال کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے جماعت کو توفیق دی اور یہاں بہت سے گیسٹ ہاؤس بن گئے لیکن وہ کافی نہیں رہیں گے.شاید اس سال بھی کافی نہ رہیں.بہت سے غیر ملکیوں نے میرے پاس شکایت کی انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ نے غسل خانے بنا دئیے ورنہ ہمیں تکلیف

Page 545

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۳۱ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء ہوتی لیکن آپ ہمارے لئے چار پائیاں کیوں مہیا کرتے ہیں جس طرح باقی مہمان پرالی پرسو رہے ہوتے ہیں ہم بھی پرالی پر سوئیں گے اور دو سال کی بات ہے ایک دن میں وہاں گیا اور کمرے دیکھ رہا تھا تو ایک جگہ میں نے دیکھا کہ ایک غیر ملکی مہمان زمین پر بستر بچھا کر سویا ہوا ہے.اس کی طبیعت میں جوش آیا کہ یہ کیا کہ ہم چار پائی پر سوئیں اور خدا کی رضا کے حصول کے لئے جتنے بھی مہمان آرہے ہیں وہ بڑی خوشی اور بشاشت کے ساتھ زمین پر پرالی پر سو رہے ہیں لیکن بہر حال ہم نے ان کے لئے انتظام کرنا ہے کیونکہ ہمارے لئے یہ بھی سنت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس اگر کوئی ایسا مہمان آجا تا تھا جس کو پان کھانے کی عادت ہوتی تھی، ان دنوں میں جبکہ بٹالے تک گیارہ میل پیدل چلنا پڑتا تھا تو آپ اس کی اس عادت کی وجہ سے بٹالہ یا بعض دفعہ امرتسر آدمی بھیج کر پان منگوایا کرتے تھے کیونکہ جس حد تک ممکن ہومہمان کو ہر قسم کی تکلیف سے بچانا میزبان کا فرض ہے.مہمان اپنے جذبات کے ساتھ آتا ہے اور وہ بڑے پیارے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم جو یہاں کے رہنے والے ہیں ہمارے دلوں میں پیارے جذبات نہ ہوں.ہمارے دلوں میں بھی پیارے جذبات ہونے چاہیے.ان کے دل کا پیارا جذبہ یہ ہے کہ ہمیں پرالی پر لٹاؤ اور ہمارے دل کا پیارا جذ بہ یہ ہے کہ خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ساری دنیا کی مخالفتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جو مہمان یہاں آئے ہیں ہم ان کو جہاں تک ہمارے اختیار میں ہو ہر قسم کی تکالیف سے بچانے کی کوشش کریں.پس ان کے اپنے جذبے ہیں اور ہمارے اپنے جذبے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہی اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے اور ہم سب خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں.پس دس پندرہ دن جو باقی رہ گئے ہیں ان میں صفائی مکمل کر لیں اور بچو اور نو جوا نو اور بڑی عمر والو! جتنے رضا کار ہمیں چاہئیں اتنے ربوہ کو دینے چاہئیں لیکن اگر چاہئیں والا حصہ مثلاً بیس ہزار کا مطالبہ کرتا ہے تو یہاں میں ہزار کی تو آبادی ہی نہیں ہے پندرہ ہزار کی بھی آبادی نہیں اس لئے جو کمی رہ جائے وہ آپ زیادہ وقت دے کر زیادہ تو جہ دے کر اور زیادہ اہلیت کا مظاہرہ کر کے

Page 546

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۳۲ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۷۸ء پوری کریں کیونکہ یہ کام بہر حال خدا کی رضا کے حصول کے لئے اہل ربوہ نے کرنے ہیں لیکن لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: ۲۸۷) ہمارے ساتھ یہ وعدہ ہے اور بڑا پیارا وعدہ ہے کہ تم اپنی سی کوشش کر ڈالو اور جو کمی باقی رہ جائے گی وہ اللہ تعالیٰ خود پوری کر دے گا.اللہ تعالیٰ ہماری خامیوں کو ڈھانپ لے اور کمیوں کو پورا کر دے اور آنے والوں کی جھولیاں بھی اپنی رحمتوں اور برکتوں سے بھر دے اور ربوہ کے مکینوں کی جھولیاں بھی اپنی رحمتوں اور برکتوں سے بھر دے اور یہ کام جو ہمارے سپر د ہوا ہے کہ ساری دنیا میں ہم اسلام کو غالب کریں اس کے لئے ہماری حقیر کوششوں کو اللہ تعالیٰ قبول کرے اور اپنے منصوبہ کے مطابق ہماری حقیر کوششوں کا نتیجہ نکالے اور ہمارے بچوں کو توفیق دے کہ جوں جوں وہ بڑے ہوتے جائیں اپنی دینی اور روحانی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے ہوں اور انہیں ادا کرنے والے ہوں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 547

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۳۳ خطبہ جمعہ ۱۵/ دسمبر ۱۹۷۸ء ہمارے لئے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کافی ہیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ / دسمبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن کریم سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ اس انسان کے لئے جو اپنے رب کریم کی معرفت رکھتا ہے اللہ ہی کافی ہے کسی اور کی اسے ضرورت نہیں.جہاں تک انسان کا اپنے رب پر کامل تو کل کا تعلق ہے اس سلسلہ میں خدا تعالیٰ کی کامل عبودیت اختیار کرنی پڑتی ہے یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو فطری قومی دیئے ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوں اور انسان اپنی طاقت اور اپنے دائرہ استعداد کے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرے لیکن جب تک ہمارے سامنے کوئی نمونہ نہ ہوتا اس وقت تک ہمارے لئے خدا کی صفات کا مظہر بننا مشکل ہو جاتا اس لئے جہاں بنیادی حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارے لئے کافی ہے وہاں اس صداقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک کامل نمونہ کے بغیر انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ نہیں سکتا.اسے یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ کن راہوں کو اختیار کر کے اور کس طرح وہ اپنے ربّ کریم تک پہنچے.پس دوسری چیز جو ہمارے لئے ضروری ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہے اور اس

Page 548

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۳۴ خطبہ جمعہ ۱۵/ دسمبر ۱۹۷۸ء کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کامل اُسوہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمارے سامنے رکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب: ۲۲) یہ ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال اور آپ کی عظمت شان اور جب پہلے بزرگ انبیاء پر آپ کی شان کو ظاہر کیا گیا تو انہوں نے بھی آپ کے وجود میں خدا تعالیٰ کے کامل نور کو مشاہدہ کیا اور بہتوں نے کہا کہ اس کا آنا خدا کا آنا ہوگا.پس لقد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ کے مطابق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی شریعت کے ہر حکم پر احسن رنگ میں عمل پیرا ہوکر اور اپنی فطرت کی ہر قوت اور استعداد کو کامل نشو و نما دے کر اور اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ میں کامل طور پر فنا کر کے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایک ایسا بلند اور ارفع مقام پیدا کیا کہ آپ رہتی دنیا تک نوع انسانی کے لئے بطور شفیع کے قرار دیئے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شفاعت کے مضمون کو بڑے حسین پیرائے میں کھول کر بیان کیا ہے.یہ مضمون تو میں اپنے کسی آئندہ خطبہ میں انشاء اللہ اور اُسی کی توفیق سے بیان کروں گا.اس وقت میں مختصر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بطور اسوہ کے ہمارے لئے کافی ہیں کسی اور کے اُسوہ کی احباب جماعتِ احمدیہ کو ضرورت نہیں ہے.خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ان راہوں کو اختیار کرناضروری ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں اور ہر وہ راہ جو خدا تک پہنچاتی ہے اس پر ہمیں آج بھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نقش پا شبت نظر آتے ہیں.میں نے لندن میں غیر مسلم دنیا سے جو زیادہ تر عیسائی دنیا ہے، یہی کہا تھا کہ جن راہوں پر چل کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے اپنے خدا کے پیار کو حاصل کیا ان راہوں پر آپ کے نقش پا آج بھی نظر آتے ہیں.آپ کے نقش پا پر چلو تم خدا کے پیار کو حاصل کرلو گے.خدا تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل فطرت عطا کی تھی.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق بھی عطا کی کہ آپ اپنی اس کامل فطرت کی کامل نشو ونما کریں اور بنی نوع انسان

Page 549

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۳۵ خطبہ جمعہ ۱۵/ دسمبر ۱۹۷۸ء کے لئے ایک کامل اسوہ بن جائیں.آپ کا یہی کامل اور حسین اُسوہ دراصل آپ کے شفیع ہونے پر دلالت کرتا ہے.شفیع کے معنے یہ ہیں کہ ایک طرف خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کر کے صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم بن جانا اور دوسری طرف نوع انسانی کی ہمدردی کا اس قدر شدت کے ساتھ وجود میں موجزن ہونا کہ ہر قسم کی بھلائی اور خیر پہنچانے کی تڑپ کے نتیجہ میں ہر قسم کی خیر اور بھلائی پہنچادینے کی راہ کو کھول دینا، یہ دونوں قو تیں آپ کی زندگی اور ہستی کے دو پہلو ہیں جو آپ کے مقام شفاعت پر دلالت کرتے ہیں.خدا تعالیٰ سے سارے فیوض کو حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے عملاً حاصل کر بھی لینا اور ان تمام فیوض کو بنی نوع انسان کی طرف پہنچانے کی قابلیت رکھتے ہوئے ایک ایسا نمونہ دنیا کے سامنے رکھ دینا کہ خدا تعالیٰ کے پیار کو ہر دروازے سے حاصل کرنے کے لئے سہولت پیدا ہو جائے اور یہی وہ کامل نمونہ ہے جو صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں پایا جاتا ہے.پس پہلا پیار ہمارا اپنے رب کریم سے ہے اور پھر اس سے ہے جس نے ہمارے رب کی ہمیں راہیں دکھا ئیں یعنی محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.آپ نے اپنے رب سے اس قدر پیار کیا کہ کسی اور انسان نے اس قدر پیار کر کے خدا تعالیٰ کے اتنے نور کو حاصل نہیں کیا جتنا آپ نے کیا اور پھر اس نور کو آگے قیامت تک پہنچانے کے سامان بھی پیدا کر دیئے.غرض ہمارے لئے خدا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہی کافی ہیں.کسی اور کی ہمیں ضرورت نہیں.ہر احمدی کو ہر وقت یہ فکر رہنی چاہیے کہ کہیں اس کا قدم کسی ایسے راستے پر نہ جا پڑے جس پر مد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا نقش ہمیں نظر نہیں آتا اور اس طرح ہم خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے نہ بن جائیں بلکہ ہم ہمیشہ ان راہوں پر عمل کرنے والے ہوں جن راہوں کو اختیار کر کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی رضا اور پیار کو حاصل کیا تھا.اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.(آمین) (روز نامه الفضل ربوه ۲۶ را پریل ۱۹۷۹ء صفحه ۲، ۳) 谢谢谢

Page 550

Page 551

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۳۷ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۷۸ء خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو اپنا عہد اور اپنی صفات کا مظہر بننے کے لئے پیدا کیا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ جمعہ پر میں نے شفاعت کے متعلق ایک مختصر تمہیدی خطبہ دیا تھا جس میں میں نے بعض بنیادی باتوں کی طرف اشارہ کیا تھا.میرا خیال تھا کہ آج میں اس مضمون کو ختم کر دوں گا لیکن اس کے بعض حصے دقیق ہیں اور انہیں سمجھانے اور ان کی گہرائیوں، وسعتوں اور رفعتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے عام فہم الفاظ میں ادا کرنے پر شاید کچھ زیادہ وقت لگے اس لئے میں ذہنوں کو تیار کرنے کے لئے آج پھر تمہیدی خطبہ ہی دینا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے تو فیق عطا کی تو انشاء اللہ جنوری کے دوسرے خطبہ میں پھر اس مضمون کولوں گا اور اس وقت زیادہ تفصیل کے ساتھ شفاعت کی حقیقت اور اس کی اہمیت اور اس سلسلہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی عظمت اور آپ کے مقام پر جسے ہم مقام محمدیت کہتے ہیں روشنی ڈالوں گا.پہلی بات جو میں آج کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نہایت درجہ تقدس اور عظمت کے مرتبہ پر ہے.اس نے سب جہانوں کو پیدا کیا اور وہ ان کا خالق و مالک ہے.وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا.ازل اور ابد، یہ دولفظ زمانے کا جو مفہوم ہمارے ذہن میں ڈالتے ہیں وہ بھی

Page 552

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۳۸ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۷۸ء اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق صحیح تصویر پیش نہیں کرتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی ذات زمانہ سے بالا تر ہے اور زمانہ اس کی مٹھی میں اسی طرح ہے جس طرح کہ اس کی دوسری مخلوق لیکن ہم ایک دوسرے کو سمجھانے کے لئے ایسے محاورے استعمال کرتے ہیں جن کی ہماری زبان متحمل ہو سکتی ہے اور خدا تعالیٰ کی محض تشبیبی صفات ہی نہیں ہیں یعنی ایسی صفات جن کے متعلق انسان کو یہ کہا گیا ہے کہ تم ان صفات میں خدا تعالیٰ کا مظہر بنو، خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تشبیبی صفات کا مظہر بنے لیکن خدا تعالیٰ کی اس کے علاوہ اور بھی صفات ہیں جنہیں ہم اسلام کی اصطلاح میں تنزیہی صفات کہتے ہیں اور جہاں تک تنزیہی صفات کا تعلق ہے ان میں کوئی بھی خدا تعالیٰ کا مظہر نہیں بن سکتا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی تشبیہی صفات کے مظہر اتم تھے یعنی خدا تعالیٰ کی صفات کے عکس کامل تھے اور خدا تعالیٰ اسلام میں فرماتا ہے کہ میں نے جتنی طاقتیں انسان کو دی ہیں انسان اگر چاہے اور خلوص نیت سے کوشش کرے تو ان سب طاقتوں پر وہ خدا تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کا رنگ چڑھا سکتا ہے.اس وقت جو بات میں بتا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ہمیں بتایا اور جس عظمت اور جلال اور تقدس کی ہمیں معرفت عطا کی اس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نہایت درجہ تقدس اور عظمت اور جلال کے مرتبہ پر ہے.اس کے برعکس انسان نہایت درجہ ظلمت اور معصیت اور آلودگی کے گڑھے میں ہے اور جہاں تک انسان کی اس کمزوری اور خدا تعالیٰ کی اس عظمت کا تعلق بوجہ فقدان مناسبت اور بوجہ نہ ہو نے مشابہت کے انسانوں کا عام طبقہ اس لائق نہیں کہ وہ براہِ راست خدا تعالیٰ سے فیض پا کر مرتبہ نجات کا حاصل کر لے.مناسبت اور مشابہت کے اس فقدان کی وجہ سے باوجود اس کے کہ انسان کو وہ قو تیں اور استعدادیں دی گئی ہیں جن کے صحیح استعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ خدا کی رحمت اور اس کی مہربانی سے انسان کی صفات پر چڑھ جاتا ہے پھر بھی جہاں تک عوام کا تعلق ہے ان کے لئے بہت مشکل ہے کہ ان قوتوں اور استعدادوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ براہ راست خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کر سکیں اور اس کے فیض کو پاسکیں اور نجات حاصل کر سکیں.اگر یہ بات آپ کے ذہن میں آگئی ہے تو اگلی بات

Page 553

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۳۹ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۷۸ء بھی آپ کے ذہن میں آجائے گی.ایک طرف خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال اور اس کا تقدس نہایت درجہ پر ہے اور وہ نہایت درجہ بلند اور شان والا ہے یا جو لفظ بھی آپ کی زبان میں ہے وہ استعمال کرلیں اور اس کے مقابلہ میں انسان با وجود ایسی فطرت رکھنے کے کہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے اور اس کے فیض سے حصہ پاسکتا ہے اپنی نالائقیوں کی وجہ سے اور فقدانِ مناسبت اور مشابہت کی وجہ سے براہ راست خدا تعالیٰ سے فیض پانا اس کے لئے بہت مشکل ہے.وہ براہ راست نہیں پا سکتا اس لئے رحمت الہی نے یہ تقاضا فر مایا کہ نوع انسان اور اللہ تعالیٰ میں بعض افراد کا ملہ جو اپنی فطرت میں ایک خاص فضیلت رکھتے ہوں درمیانی واسطہ ہوں.اگر چه خدا تعالیٰ نے سب انسانوں کو ہی اپنا عبد بننے ، اپنی صفات کے جلوے ظاہر کرنے اور اپنے دائرہ استعداد میں اپنی صفات کا مظہر بننے کے لئے پیدا کیا ہے لیکن سب انسانوں کا دائرہ استعداد ایک جیسا نہیں ہے کسی کا دائرہ استعداد چھوٹا اور تنگ ہے اور کسی کا دائر ک استعداد بڑا اور بہت وسیع ہے.اس لئے انسانوں میں سے بعض ایسے وجود ہیں جو اپنی فطرت میں ایک خاص فضیلت رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ایسے انسانوں کو چنا اور ان کی قوت اور استعداد اور ان کی فطرتی طاقتوں اور ان کے دائرہ استعداد کے مطابق ان پر اپنی رحمتوں کو نازل کیا اور ان کی زندگی میں خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہمیں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں جیسے کہ انبیاء کا وجود ہے، اولیاء کا وجود ہے، قطب ہیں، مجددین وقت ہیں.اپنے اپنے دائرہ کے اندر انہوں نے خدا تعالیٰ کے فیوض کو زیادہ حاصل کیا اور خدا تعالیٰ کی رحمت کی بارش ان پر زیادہ برسی اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں ان پر زیادہ کھلیں اور خدا تعالیٰ کے وصال کو انہوں نے زیادہ شان کے ساتھ حاصل کیا.خدا تعالیٰ نے یہ انتظام کیا کہ اس قسم کی فطرت رکھنے والے افراد کاملہ کو وہ درمیان میں ایک واسطہ بنائے اور ان کی اتباع کر کے اور ان کی نقل کر کے اور ان کے نمونہ پر چل کر اور ان کی بتائی ہوئی اور ان کے وجود سے روشن شدہ راہوں کو اختیار کر کے انسان خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کریں اور اپنی زندگی کے مقصد کو پالیں.یہ لوگ جن کو دوسروں کی نسبت زیادہ کمال اور فضیلت حاصل ہے ان کو یہ فضیلت دو جہت

Page 554

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۴۰ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۷۸ء سے حاصل ہے.ایک اس جہت سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان صاحب فضیلت لوگوں مثلاً انبیاء وغیرہ کی فطرت کو ایسی صفات سے بڑا حصہ دیا کہ جن سے وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو دوسروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ حاصل کر سکیں.ان صفات کو ہمارے محاورہ میں صفات لا ہوتی بھی کہتے ہیں.ان لوگوں کی فطرت نے کچھ حصہ صفات لا ہوتی سے لیا اور کچھ حصہ ان کی فطرت میں یہ تھا کہ وہ فیض جو وہ خدا تعالیٰ سے حاصل کریں اس کو آگے نچلی طرف دوسرے بندوں تک بھی پہنچا ئیں جو کہ اپنے طور پر ان فیوض کو حاصل نہیں کر سکتے تھے.ان صفات کو صفات ناسوتی کہا جاتا ہے.ایسے انسان دوسروں سے ایک خاص امتیاز رکھتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کیونکہ وہ ایسے انسان ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے نبی بنایا.وہ دو جہت سے خاص امتیاز رکھتے ہیں.ایک اس جہت سے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں زیادہ قربانیاں دیں.اس سے زیادہ پیار کیا اور اس کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے زیادہ جدو جہد کی.ان کی روح پگھلی اور آستانہ الوہیت پر بہن نکلی اور خدا تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو اور ان کے ایثار کو دیکھ کر ان کو اپنے پیار سے حصہ وافر عطا کیا اور دوسرے اس جہت سے کہ جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے اس پیار کو حاصل کیا تو ان کے اندر ناسوتی صفات بھی پائی جاتی ہیں وہ اس بات پر ٹھہرے نہیں کہ الحمد للہ ہمیں اپنے خدا کا پیار مل گیا اور اس کی رضا کی جنتیں مل گئیں.ان کی تسلی نہیں ہوئی وہ یہاں ٹھہرے نہیں بلکہ ان کے دل میں ایک بڑی آگ لگی کہ جس طرح ہم نے خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے اس کی برکتوں اور رحمتوں کو پایا ہے ہمارے جیسے دوسرے بھائیوں کو بھی جو ہم سے کم طاقتوں اور استعدادوں والے ہیں خدا تعالیٰ کے اس پیار سے حصہ ملے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال ظاہر کرنے کے لئے جوش دیا گیا ہے.انہوں نے خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کی خود بھی معرفت حاصل کی اور ان کے دل میں یہ جوش پیدا ہوا کہ دوسرے بندے بھی خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال اور اس کی بزرگی اور اس کی پاکیزگی کا عرفان حاصل کریں.پس ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کا جلال اور عظمت ظاہر کرنے کے لئے ایک جوش دیا گیا ہے اور دوسری جہت سے ان کو یہ جوش بھی عطا کیا گیا ہے کہ وہ بنی نوع انسان سے ہمدردی کریں اور ان دونوں جوشوں میں ان میں دوسروں

Page 555

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۴۱ خطبہ جمعہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۸ء کی نسبت اتنا فرق ہے کہ وہ ایک ممتاز حیثیت اور فضیلت رکھنے والے ہیں.یہ بھی یادر کھنے والی بات ہے کہ وہ لوگ جو انسانوں میں سے ممتاز گروہ ہے ان کے بھی مختلف مراتب ہیں مثلاً انبیاء کو لے لیں.حضرت آدم سے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک کہتے ہیں کہ ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اس آدم کی نسل سے دنیا میں پیدا ہوئے.وہ سارے انبیاء ایک مرتبہ اور ایک فضیلت رکھنے والے اور ایک قسم کے کمالات رکھنے والے نہیں تھے بلکہ کوئی کم درجہ کے تھے اور کوئی بڑے درجہ کے فَضَّلْنَا بَعضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (البقرة : ۲۵۴) بعض بعض پر فضیلت رکھنے والے تھے اور بعض پر بعض دوسروں کو فضیلت تھی اور ان کا درجہ کم تھا اور آخر میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے جو تمام انبیاء سے بڑھ کر تھے اور ہر دولحاظ سے اکمل تھے یعنی خدا سے پیار کرنے میں بھی کوئی نبی آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور خدا کا پیار حاصل کرنے میں بھی کوئی نبی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا.جو پیار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب سے حاصل کیا اس کی جو تھوڑی سی جھلک ہم عاجز انسانوں کو نظر آتی ہے وہ بھی اتنی عظیم ہے کہ اگر سارے انبیاء کو اکٹھا کر دیا جائے تو ان میں بھی ہمیں وہ نظر نہیں آتی اور پھر جو لوگ آپ کے عکس کامل بنے وہ بھی بڑی عظمتوں والے تھے.بہر حال میں یہ بتا رہا ہوں کہ یہ جو ممتاز اشخاص ہیں ان کا بھی ایک مرتبہ نہیں ہے بلکہ فطرتی فضائل میں کوئی اعلیٰ درجہ پر ہے اور کوئی اس سے کم درجہ پر اور کوئی اس سے کم درجہ پر.لیکن نوع انسانی کے مقابلہ میں بہر حال یہ ایک ممتاز گروہ ہے جن کے دل میں ایک طرف خدا تعالیٰ کی محبت کا جوش بہت زیادہ پیدا ہوا اور دوسری طرف ان کے دل میں یہ جوش پیدا ہوا کہ دوسرے نوع انسان بھی (جن کے ساتھ پہلے انبیاء کا تعلق تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق نوع انسانی سے قیامت تک ہے ) خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے دیکھیں اور ان پر بھی خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال ظاہر ہو.یہ ہمدردی کا جوش ہے.ان کے دل میں ایک بے چینی پیدا ہوئی لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلَا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: ۴).یہ بخع کی حالت، یہ تڑپ ، یہ بے چینی ہر وقت ان کے دل میں اس وجہ سے ہے کہ دوسرے لوگ خدا تعالیٰ کے پیار سے محروم کیوں ہیں.ایک ہی تو نعمت ہے انسان کی اس زندگی میں اور وہ خدا تعالیٰ کا پیار ہے اور یہ لوگ

Page 556

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۴۲ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۷۸ء اس سے محروم ہیں.بہر حال یہ ممتاز گروہ بھی اپنے فطرتی فضائل میں برابر نہیں بلکہ ان میں سے کوئی اعلیٰ درجہ پر ہے اور کوئی اس سے کم اور کوئی اس سے کم.یہ دو جوش جن کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی انسان کی فطرت کا یہ تقاضا کہ اس کا تعلق اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ قائم ہو اور اس کی فطرت کا یہ تقاضا کہ وہ دوسروں سے ہمدردی کرنے والا ، ان کی خیر خواہی کرنے والا اور ان کی خدمت کرنے والا ہو ان کے متعلق قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدائش آدم کے وقت سے ہی یہ دو نمایاں خاصیتیں انسان کی فطرت میں پیدا کر دی تھیں.چنانچہ آدم کی پیدائش کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے.فَإِذَا سَوَّيْتُه وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحى (الحجر : ۳۰) خدا کہتا ہے کہ جب میں آدم میں اپنی روح پھونکوں یعنی آدم کی روح کو ایسا بناؤں کہ اس کے قومی پر میری صفات کا رنگ چڑھ سکے اور وہ میرا مظہر بن جائے اور جس حد تک نوع انسان مظہر صفات باری بن جائیں اس حد تک ان میں سے ہر ایک کی روح خدا تعالیٰ سے جو کہ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (النور : ۳۶) ہے مشابہت اختیار کرے.خدا تعالیٰ کے ساتھ یہ تعلق فطری ہے اور انسان کے دل میں اپنے رب کریم سے پیار پیدا کیا گیا ہے اور سب سے زیادہ پیار محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے کیا.اسواسطے انسانی فطرت کے لحاظ سے آپ کامل انسان ہیں.کسی اور انسان نے اپنے اس کمال کو ان رفعتوں تک نہیں پہنچایا جن رفعتوں تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یعنی خدا تعالیٰ کے پیار کو پہنچایا.یہ تو ہے بالا ہستی سے پیار، بالاترین هستی ، صاحب عظمت و جلال ہستی جس سے بڑی ہستی کوئی تصور میں نہیں آسکتی اس کے ساتھ محبت اور لگن اور پیار اور اس سے تعلق کے لئے طبیعتوں میں ایک Urge اور جوش اور دوسری طرف بنی نوع انسان سے ہمدردی ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ نے پہلے دن سے انسان کے اندر رکھی.انسان کی فطرت میں یہ پیدا کیا کہ اپنے بھائیوں کی ہمدردی تیرے دل میں ہونی چاہیے اور ہے یعنی اس کی فطرت میں یہ مادہ ہے کیونکہ فرمایا وَ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا (النساء :۲) کہ خدا تعالیٰ نے آدم کا جوڑا، اس کا ساتھی (اسے حوا کہہ لو ) آدم کے وجود سے پیدا کیا اس کا گوشت آدم کی ہڈی سے بنا.وہ ایک بن گئے اتنا تعلق ہے، یہ دوسرا تعلق ہے.پس اس

Page 557

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۴۳ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۷۸ء کے اندر اپنے ساتھی کے لئے انس اور ہمدردی اور پیار اور غمخواری پیدا کی اور ضرورتوں کے وقت ان کے کام آنا ان کی خدمت کرنا، بے لوث خدمت یہ چیز خلق آدم کے وقت خدا تعالیٰ نے فطرتِ انسانی کے اندر پیدا کی خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا.غرض خدا تعالیٰ نے پہلے دن سے ہی پیدائش آدم کے وقت سے ہی انسانی فطرت کو دو پہلوؤں سے خوبصورت بنایا.ایک اس پہلو سے کہ اس کی فطرت میں یہ رکھا کہ وہ اپنے مولیٰ سے اپنے رب سے پیار کرنے والا ہو.اپنی استعداد کے دائرہ کے اندر ترقی کرے اور اس پیار کو بڑھائے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرے.انسان تو بہر حال محدود ہے لیکن خدا تعالی غیر محدود ہے.خدا تعالیٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہیں ایسا مقام نہیں آ سکتا کہ ہم کہیں کہ انسان نے تو آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن خدا تعالیٰ اور زیادہ پیار نہیں دے سکا.یہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے خزانے تو غیر محدود ہیں.اس لئے کہا کہ جس حد تک تم اس کے پیار کو حاصل کرنے کی خلوص نیت کے ساتھ اور مقبول اعمال کے ساتھ کوشش کرتے چلے جاؤ گے اس حد تک خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتے چلے جاؤ گے.پھر دوسری طرف پہلے دن سے ، آدم کی خلق کے وقت سے اس میں یہ رکھا کہ وہ اپنے ساتھی سے پیار کرے.دو علیحدہ علیحدہ چیزوں کا ملاپ نہیں کیا ( جس طرح کہ اب یہاں بھی شروع ہو گیا ہے کہ امریکہ کے لڑکے اور پاکستان کی لڑکی کا ازدواجی رشتہ قائم ہو گیا) بلکہ آدم کے اپنے گوشت پوست سے عورت بنی اور پہلے دن سے ہی اس کی فطرت میں اپنے زوج، اپنے ساتھی ، اپنی بیوی کا پیار رکھا گیا ہے.اسی واسطے اسلام نے کہا ہے کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ جس نے فطرت کے اس پہلے تقاضے کو پورا نہیں کیا وہ دوسرے بنی نوع انسان کے ساتھ بھلائی اور نیکی کیسے کرے گا.یہ میں ضمنا بات کر رہا ہوں کہ بڑی ذمہ داری ہے انسان پر کہ اپنی بیویوں کے ساتھ بھلائی اور نیکی کرنی ہے ان کے لئے خیر کا موجب ہوتا ہے ان کو ستانا نہیں اور تنگ نہیں کرنا اور ان کے لئے کام کرنا ہے، اپنے لئے ان سے کام نہیں لینے.بہت سی بدعتیں دنیا میں پیدا ہو چکی ہیں ان سے بچنے کی طرف میں آپ کو تو جہ دلا رہا ہوں.ا اب میں ذرا مختصر کر کے اسے پھر دہراتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی

Page 558

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۴۴ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۷۸ء فطرت میں اپنے رب سے تعلق پیدا کیا کیونکہ اس میں اپنی روح پھونکی.اس کی فطرت کو ایسا بنایا کہ اس کی ساری استعداد یں اور طاقتیں خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھا سکتی ہیں اور پھر بنی نوع انسان کے ساتھ پیار کا تعلق فطرتی طور پر انسان کے اندر رکھا اور خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا لیکن اس دنیا میں مراتب اور استعدادوں کے دائروں میں بڑا فرق ہے.ہر شخص اپنا دائرہ استعداد لے کر اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے جیسا کہ وہ اپنی شکل لے کر پیدا ہوتا ہے اور انسانوں میں سے ایک ایسا گروہ ہے جن کو خدا تعالیٰ نے بہت وسیع دائرہ استعداد دیا ان کو اپنی قوتوں کی نشوونما کی توفیق عطا کی اور ان کے لئے سامان پیدا کئے اور پھر ان کو اپنی رحمتوں سے نوازا اور ان کو دوسروں کے لئے نمونہ بنایا.جب ہم کہتے ہیں کہ خدا اور بندے کے درمیان واسطہ ہے تو وہ واسطہ نمونہ ہے، یہ نہیں کہ کوئی ان کے نمونے پر عمل کرے یا نہ کرے انہوں نے انگلی پکڑی اور خدا تعالیٰ کے دربار تک پہنچا دیا.یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ سارے انبیاء اپنی قوموں کے لئے نمونہ بنے کہ دیکھو اس طرح میں نے اپنی ساری طاقتوں اور ساری استعدادوں کو خدا کے پیار کے لئے خرچ کیا ہے جن راہوں پر میں چلا ہوں ان پر تم بھی چلوتو خدا تعالیٰ کے پیار کو پالو گے.وہ اس پیار کو پاسکتے ہیں جو ان کے نبی نے پایا لیکن نبی نبی میں فرق ہے.شارع نبیوں میں بھی فرق ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کرنے والا خدا تعالیٰ کی اس محبت کو پاسکتا ہے جس محبت کو موسیٰ نے پایا لیکن موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنے والا خدا تعالیٰ کی اس محبت کو نہیں پاسکتا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پائی.اس لئے کہ جس نے موسیٰ کے نمونہ کو اختیار کیا اور ان کی اتباع کی وہ اس مقام سے آگے تو نہیں نکل سکتا جہاں تک موسیٰ پہنچے تھے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو خدا سے یہ خواہش کی تھی کہ مجھے وہ جلوہ دکھا دے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر تیرے پیار کا ہونے والا ہے تو خدا تعالیٰ نے اس سے ایک نچلا جلوہ دکھا یا تھا اور اس کی بھی ان کو برداشت نہیں تھی.چنانچہ قرآن کریم کہتا ہے کہ وَخَرِّ مُوسى صَعِقًا (الاعراف: ۱۴۴) لیکن اُمت محمدیہ پر یہ دروازہ کھولا گیا ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر اس پیار کو حاصل کر سکتے ہو جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے حاصل کیا.اتنا نہیں لیکن اس قسم کا

Page 559

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۴۵ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۷۸ء حاصل کر سکتے ہو.اتنا اس لئے نہیں کہ جتنا پیالہ ہو گا اتنی ہی چیز اس میں آئے گی جتنی استعداد ہوگی ، اس کے مطابق ہی خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہو گا لیکن کیفیت کے لحاظ سے جس قسم کا پیار محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے حاصل کیا اسی کیفیت کا پیار آپ کی ابتاع کرنے والا بھی اگر اس کے اعمال خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول ہو جائیں تو خدا تعالیٰ سے حاصل کر سکتا ہے.یہ معنی ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے.شفع جو شفاعت کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں اس جیسا ہو جانا، زوج بن جانا.پس جب خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کیا تو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ہو جائے گا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ اس سے پیار نہ کرے اور اس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہمیشہ ہی کامیاب ہے یہ نہیں کہ آپ کی کوئی شفاعت منظور ہو جائے گی اور کوئی منظور نہیں ہوگی بلکہ اس معنی کے لحاظ سے جو میں آپ کو بتارہا ہوں آپ کی ہر شفاعت منظور ہوگی کیونکہ ہر وہ شخص جو أسوة نبي اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے اور اس کے اعمال مقبول ہوتے ہیں اور اس کی صفات پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا رنگ چڑھ جاتا ہے جو کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ ہے تو جو شخص خدا کے قریب آگیا اور پاک ہو گیا اور مظہر بن گیا خدا تعالیٰ اس سے پیار کرے گا.یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا تعالیٰ کسی کو کہے کہ ہے تو تو پاک اور پاکیزہ اور تیرے اعمال مقبول بھی ہیں لیکن میں تجھ سے پیار نہیں کرتا ، ہماری عقل اسے نہیں مانتی.پس محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہر لحاظ سے اکمل اور کامل ہیں اور شفیع ہونے کے لحاظ سے بھی کامل ہیں اور آپ اُمت محمدیہ کو ایسے مقام تک لے گئے جہاں کوئی اور نبی نہیں لے جاسکتا.میں نے بالکل سادہ الفاظ میں آج اس مفہوم کو ادا کیا ہے.کچھ زیادہ گہرائی میں جا کر میں ایک اور خطبہ دینا چاہتا ہوں تا کہ شفاعت کے مسئلہ کا صحیح مفہوم سامنے آجائے کیونکہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شفاعت کا مطلب ہے کہ بس ہم نے یہ اعلان کر دیا کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور اب ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے اپنے اعمال کو درست کرنے کی ، ان پر محد صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ چڑھانے کی ، جن راہوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چلے ان راہوں پر چلنے کی اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اس قسم کا ایثار اور قربانی پیش کرنے کی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی.بس

Page 560

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۴۶ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۷۸ء صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ اور اس کے بعد عملی زندگی میں چاہے ہم شیطان کا رنگ ہی چڑھا لیں لیکن ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت مل جائے گی.یہ مسئلہ اسلام نے نہیں بیان کیا ہماری جماعت کو اسے سمجھنا چاہیے.یہ صحیح ہے کہ جس مقام ارفع تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت میں سے لاکھوں کروڑوں امتیوں کو لے گئے اس کے دروازے آج بھی کھلے ہیں اور قیامت تک کھلے رہیں گے.اور جو شخص محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلے گا، آپ کے اُسوہ کو اپنائے گا وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے گا.یہ درست ہے اور اس میں ایک رتی بھی شک کی گنجائش نہیں ہے لیکن جو شخص صرف یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہو گیا میں احمدی ہو گیا اور اس کے بعد مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں وہ غلط کہتا ہے کیونکہ لفظ شفاعت اپنے لغوی اور اصطلاحی ہر دو معنی میں ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ محمد کا نور تمہارے چہروں پر نظر آنا چاہیے تب خدا تعالیٰ تم سے پیار کرے گا ورنہ نہیں کرے گا.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے اور ہمیں ایسی توفیق عطا کرے کہ ہمارے چہروں پر بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی ایک جھلک، خواہ وہ ملکی سی جھلک ہی کیوں نہ ہو اس کی نگاہیں دیکھیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری کی جھلک ہمارے چہروں پر ہمارے خدا کو نظر نہ آئے اور اس طرح پر اس کے پیار کو ہم حاصل کرنے والے ہوں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 561

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۴۷ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء آزادی ضمیر اور آزادی عقیدہ کے متعلق اسلام کی حسین تعلیم خطبه جمعه فرموده ۲۹/ دسمبر ۱۹۷۸ء بمقام جلسہ گاہ مردانہ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے ہر دو جہان کو پیدا کیا ہے.ایک نقطۂ نگاہ سے یہ مخلوق دوحصوں میں بٹ جاتی ہے.ایک بڑا حصہ تو وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کی منشا کے مطابق اعمال بجالاتا ہے.اسے جو کچھ کہا جاتا ہے وہ اس کے مطابق کرتا ہے اور دوسرا حصہ وہ ہے جسے اختیار دیا گیا ہے کہ اگر چاہے تو اپنے خدا کی بات کو مانے اور اگر چاہے تو اپنے رب کی بات ماننے سے انکار کر دے.یہ دوسری قسم کی مخلوق انسان ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزادی دی گئی ہے.انسان کے علاوہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے.ہر چیز وہی کچھ کرتی ہے جس کا اللہ تعالیٰ اسے حکم دیتا ہے.فرشتوں کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل : ۵۱) اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کے مطابق وہ عمل کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لکھا ہے کہ اس تعریف کے لحاظ سے انسان کے علاوہ ہر چیز ہی فرشتہ ہے اس معنی میں کہ انہیں جو کچھ کہا جاتا ہے وہی کرتے ہیں.ہواؤں کو حکم ہوتا ہے وہ حکم مان رہی ہیں.درختوں کو حکم ہوتا ہے پتے گرادو ایک خاص موسم میں تو وہ پتے گرا دیتے ہیں.کھیتوں کو حکم ہوتا ہے کبھی یہ

Page 562

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۴۸ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء کہ اچھی فصلیں اگاؤ تو وہ اچھی فصلیں اگا دیتے ہیں.کبھی خدا کہتا ہے کہ میں اس خطہ ارض سے ناراض ہوں تو زمین میں فصلیں نہ اگنے سے وہاں قحط کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں.چنانچہ وہی زمین جو پہلے انسان کے کھانے کا سامان پیدا کر رہی تھی اب اس میں کچھ بھی نہیں اگتا اور لوگ قحط کا شکار ہو جاتے ہیں.اسلام دین فطرت ہے اس لئے جہاں تک انسان کا تعلق ہے انسانی زندگی میں جبر کا تصور خدا تعالیٰ کے اس منصوبے کے خلاف ہے جو اس کائنات کے بنانے میں پنہاں ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ اپنی بات انسان سے بھی جبر آمنوا تا تو ایک انسان اور جانور میں کوئی فرق نہ رہتا یا ایک انسان اور درخت یا انسان اور ایک پتھر میں کوئی فرق نہ رہتا.پس اسلام چونکہ فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے اس لئے وہ آزادی ضمیر اور آزادی عقیدہ کے متعلق ایک ایسی حسین تعلیم دیتا ہے جو دنیا کے لئے ایک بے مثال نمونہ ہے.دنیا میں صرف ایسے مذاہب ہی نہیں جو مذہب کے نام پر جبر کرتے ہیں یا جبر کو روا رکھتے ہیں بلکہ ایسے اِزم بھی ہیں یعنی بہت سے ایسے فلسفیانہ اصول و تصورات بھی ہیں جو آزادی ضمیر کے خلاف تعلیم دیتے ہیں.وہ جبر کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں لیکن اسلام مذہب کے نام پر جبر کرنے کی اجازت نہیں دیتا.اسلام نے اس سلسلہ میں ایک نمونہ قائم کیا ہے جو دوسروں کے لئے بھی قابل تقلید ہے اور اسلامی نمونہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان سے کہا دیکھو ! اسلام دین فطرت ہے.اسلام ایک ایسا دین ہے جو کامل کتاب کا حامل ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں ایک کامل کتاب آگئی.اس سے زیادہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے والی اور کوئی کتاب نہیں.اس سے زیادہ انسان پر احسان کرنے والی اور کوئی ہدایت نہیں.اس سے زیادہ انسان کو خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں دکھانے والی دنیا میں اور کوئی تعلیم نہیں.یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے قرب الہی کے سارے کے سارے دروازے انسان پر کھول دیئے ہیں لیکن اس کے باوجود خدا تعالیٰ کہتا ہے ہم اس اسلام کے تعلق میں بھی جبر روا نہیں رکھتے ، جبر کی تعلیم نہیں دیتے ، جبر کو درست تسلیم نہیں کرتے ، جبر کو برا سمجھتے ہیں اور آزادی ضمیر اور مذہبی آزادی کا

Page 563

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۴۹ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء اعلان کرتے ہیں اور آزادی ضمیر اور آزادی عقیدہ کی ضمانت دیتے ہیں.اس مضمون کے مختلف پہلو ہیں جو قرآن کریم کی تعلیم پر غور کرنے سے ہمارے سامنے آتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ یونس میں فرماتا ہے.قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ ( يونس: ۱۰۹) حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ اے رسول ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آگیا ہے.الحق یعنی کامل صداقت تمہارے سامنے پیش کر دی گئی ہے.اسلامی تعلیم کی شکل میں اور قرآن کریم کی شکل میں کامل ہدایت دے دی گئی ہے.پس اب جو کوئی شخص قرآن کریم کی بتائی ہوئی ہدایت کو اختیار کرے تو وہ اپنی جان ہی کے فائدہ کے لئے ہدایت کو اختیار کرتا ہے اور جو اس راہ سے بھٹک جائے تو اس کا بھٹکنا بھی اس کی جان پر ہی ایک وبال ہوگا اور خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے اے رسول ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.تم نے خود اپنے لئے بھلائی کا سامان پیدا کرنا ہے یا اپنے لئے خدا تعالیٰ کے قہر کا ا سامان پیدا کرنا ہے.غرض ہدایت سے کسی کا فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری نہیں ہے یہ ذمہ داری ہر نفس نے خود اٹھانی ہے.پس اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہدایت کی ہر راہ یعنی ہر وہ راہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہے، اس کی نشاندہی قرآن کریم میں کر دی گئی ہے.فرمایا الحق آگیا ہے اس پر چلنا اپنی مرضی سے یہ ہر انسان کا کام ہے یا اس راہ کو اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کرنا اپنی مرضی سے یہ بھی ہر انسان کا کام ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ کوئی ذمہ داری ہے اور نہ آپ اس سلسلہ میں کسی پر کوئی جبر کر یں گے.پھر سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.قف وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمُ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّلِمِينَ نَارًا اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا (الكهف :٣٠)

Page 564

خطبات ناصر جلد ہفتم خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء اور لوگوں کو کہہ دے کہ یہ سچائی اور صداقت کامل شکل میں تیرے رب کی طرف سے ہی نازل ہوئی ہے، پس جو چاہے اپنی مرضی سے اس پر ایمان لائے اور جو چاہے اپنی مرضی سے اس کا انکار کر دے.ہاں اس بات کو یا درکھو کہ اگر تم اپنے نفسوں پر ظلم کرو گے اور تمہاری فطرت کے ا جو تقاضے ہیں تم ان کو پورا نہیں کرو گے اور ان راستوں کو اختیار کرو گے جو تمہاری ترقی کی راہ میں روک بنتی ہیں اور تمہیں تنزل کی طرف لے جانے والی ہیں اور خدا سے دور لے جانے والی ہیں تو یقینا تمہیں خدا کا پیار اور اس کی جنتیں تو پھر نہیں ملیں گی.ایسی صورت میں ایک آگ تیار کی گئی ہے جس کی چار دیواری نے تمہیں گھیرا ہوا ہے.ان دو آیتوں میں مخاطب کیا گیا ہے ان لوگوں کو جن کے سامنے اسلام پہلی دفعہ پیش کیا گیا.اسلام آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی جو تبلیغ کی تو مخاطب غیر مسلم تھے اور ان غیر مسلموں سے یہ کہا گیا کہ اسلام ایک صداقت ہے.یہ ایک کامل ہدایت ہے.اسلام نے تمہارے سامنے وہ راہیں کھولی ہیں جو تمہیں خدا تعالیٰ تک پہنچانے والی ہیں.تمہارے فطرتی تقاضوں کو پورا کرنے والی ہیں اور تمہیں خدا کا عبد بنانے والی ہیں.اس دائرہ اسلام میں داخل ہونا یا نہ ہونا یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے.اگر تم دائرہ اسلام میں اعتقاداً اور دل کی تصدیق کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے اور اس کے مطابق عمل کرو گے تو اس میں تمہارا اپنا فائدہ ہے اور اگر تم ان راہوں کو اختیار نہیں کرو گے اور جو تمہاری بھلائی کی چیز ہے اس پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہو گے تو اس کا نقصان تمہیں پہنچے گا.اسلام کی بہترین تعلیم کو چھوڑ کر تم جن راہوں کو اختیار کرو گے وہ خدا سے دور لے جانے اور جہنم کی طرف پہنچانے والی ہیں.ہر شخص کو یہ بتایا گیا ہے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے سارے دروازے تمہارے اوپر کھول دیئے گئے ہیں اور ان دروازوں پر کوئی دربان مقرر نہیں کیا گیا جو تمہیں اندر جانے سے روکے.خود تم نے ہی اندر داخل ہونے کا فیصلہ کرنا ہے اور پھر بے روک ٹوک تم ان کے اندر داخل ہو سکتے ہو اور کوئی ایسی بیرونی طاقت نہیں جو تمہیں دھکے دے کر یا خنجر دکھا کر یا تمہارے سروں پر تلوار لہرا کر یا رائفلوں کا ڈراوا دے کر یا ایٹم اور ہائیڈ روجن بم کی دھمکی دے کر کہے کہ وہ دائرہ اسلام کے اندر داخل ہونے کی اجازت

Page 565

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۵۱ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء نہیں دیتی.ایسا ہر گز نہیں بلکہ اگر تم دائرہ اسلام کے اندر داخل ہو نا چا ہو، اسلام کو قبول کرنا چاہو اور اسلام کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھنا چاہو تو تمہیں کوئی روک نہیں سکتا اور اگر اسلام کو قبول نہ کرنا چاہو تو تم پر کوئی زبردستی نہیں کر سکتا.تمہیں کوئی زبر دستی مسلمان نہیں بنا سکتا.یہی اسلام کی حقیقی تعلیم ہے.ویسے تو غلطیاں کرنے والے ہزار غلطیاں کر جاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو ہدایت دی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو کسی شخص کو زبردستی مسلمان بنائے اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے ہر دو جہان کی پیدائش کا یہی مقصد ہے.اگر انسان کو آزادی نہ دی جائے تو اس کائنات کی پیدائش کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے.یہی مقصد تو انسان اور فرشتوں کے درمیان ما بہ الامتیاز ہے اور دوسرے ان آیات سے یہ بھی پتا لگتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو کسی کو اس کی مرضی کے خلاف دائرہ اسلام سے باہر نکال دے، جیسے یہ نہیں ہو سکتا کہ تم کہو ہم اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور کوئی شخص دروازہ روک کر کھڑا ہو جائے اور کہے نہیں! میں تمہیں مسلمان نہیں بنے دوں گا.یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ تم جتنا مرضی کہتے رہو کہ ہم مسلمان ہیں اور پورے اخلاص سے اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے رہو لیکن وہ کہے میں تمہیں دھکے دے کر دائرہ اسلام سے باہر نکال دوں گا.خدا تعالیٰ نے اسلامی تعلیم میں اور قرآنی ہدایت میں کسی کو اس کی اجازت ہی نہیں دی.خدا تعالیٰ اس قسم کے جبر کو نا پسند کرتا ہے.یہ عند اللہ نہایت ہی بُرا فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہے.اس لئے ان آیات میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ جو چاہے اپنی مرضی سے کھلے طور پر اپنے ایمان کا اعلان کرے اور جو چاہے اپنی مرضی سے یہ اعلان کرے کہ وہ اسلام کو نہیں مانتا یا اس کا انکار کرتا ہے.ہر دو لحاظ سے جبر نہیں کیا جاسکتا.نہ جبراً کسی غیر مسلم کو مسلمان بنایا جا سکتا ہے اور نہ جبراً کسی مسلمان کو غیر مسلم بنایا جاسکتا ہے.ایک شخص اسلام لے آیا وہ مسلمان بن گیا.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے بعد اس کے لئے دروازے کھلے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد اگر وہ چاہے تو پھر کفر اور انکار کر دے.کیا اس صورت میں تو جبر نہیں ہوگا.اسے یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ اسلام کی حقانیت کی تمہیں ایک دفعہ سمجھ آگئی.قرآن کریم کے نور سے تمہارا دل منور ہو گیا.اسلام کی حق وصداقت پر مشتمل تعلیم اور

Page 566

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۵۲ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء اس کے دلائل سن کر اور نشان دیکھ کر تم نے اسلام قبول کیا اب دائرہ اسلام سے باہر جانے کا دروازہ تم پر بند ہے.اس کا جواب خود قرآن کریم دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.وَذَ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَب لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كَفَارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ انْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة : ١١٠ ) اہل کتاب میں سے بہت سے لوگ بعد اس کے کہ حق ان پر خوب کھل چکا ہے، اس حسد کی وجہ سے جو ان کی اپنی ہی جانوں سے پیدا ہوا ہے چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لے آنے کے بعد تمہیں پھر کا فر بنا دیں.پس تم اس وقت تک کہ اللہ اپنے حکم کو نازل فرمائے انہیں معاف کرو اور ان سے درگزر کرو.اللہ یقیناً ہر ایک امر پر پورا پورا قادر ہے.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب لوگ مسلمان ہوں گے تو بعد کے زمانوں میں اور بہت سے علاقوں میں یہ واقع ہوگا کہ اہل کتاب میں سے ایک گروہ اپنے حسد کی وجہ سے یہ چاہے گا اور کوشش کرے گا کہ تم دائرہ اسلام سے باہر آجاؤ اور باوجود اس بات کے کہ اسلام کا نور اور صداقت تم پر ظاہر ہو چکی ہے تم ایمان لانے کے بعد اس کا انکار کر دو.یہاں یہ نہیں بتایا کہ تمہارا رد عمل کیا ہے یعنی تم ان اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی خواہش کے مطابق ایمان کا انکار کر رہے ہو یا نہیں.کھلے الفاظ میں یہ نہیں بتایا لیکن اس آیت کا جو اگلا حصہ ہے وہ یہ بتا رہا ہے کہ اہل کتاب زور لگا ئیں گے.تم نہیں مانو گے تو وہ جبر کریں گے کہ تمہیں اسلام سے باہر لے جائیں لیکن تم نے پھر بھی ان پر کسی قسم کا جبر نہیں کرنا بلکہ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا انہیں معاف کرو اور ان سے درگزر کرو.اللہ تعالیٰ یقیناً ہر ایک چیز پر پورا پورا قادر ہے وہ ان حالات کو بدل دے گا جیسا کہ شروع میں ہوا تھا.لوگوں نے تلوار کے زور سے اسلام کو مٹانا چاہا لیکن مسلمانوں کو یہی تلقین ہوتی رہی کہ تم نے تلوار کے مقابلے میں تلوار نہیں اٹھانی لیکن بعد میں ایک وقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان ہوا.أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِم لَقَدِيرٌ (الحج: ۴۰) فرما یا اب کفار کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا ہے اس لئے آزادی ضمیر اور آزادی عقیدہ کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کو

Page 567

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۵۳ خطبه جمعه ۲۹/ دسمبر ۱۹۷۸ء اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اس جور اور ظلم کے مقابلہ میں تلوار چلائیں یہاں تک کہ آزادی ضمیر اور آزادی عقیدہ پھر خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق انسانی زندگی اور انسانی معاشرہ میں قائم اور رائج ہو جائے.* سورۃ البقرۃ کی ایک دوسری آیت ہے جس میں کچھ تو یہی مضمون ہے اور کچھ زائد ہے.پہلی آیت میں تھا کہ یہ ان کی خواہش ہے یہاں یہ ہے.وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَ مَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمْتُ وَ هُوَ كَافِرُ فَأُولَبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ أُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ (البقرة : ۲۱۸) اور یہ لوگ ، اگر ان کی طاقت میں ہو تو تم سے لڑتے ہی چلے جائیں تا کہ تمہیں تمہارے دین سے پھرا دیں یعنی اگر ان میں طاقت ہو تو وہ تلوار کے زور سے تمہیں اسلام سے باہر نکالنے کی کوشش کریں لیکن تم اپنے شرح صدر سے یہ سمجھتے ہو کہ اسلام سچا ہے اور تم اس سے باہر نہیں نکلنا چاہتے ہو اور تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے یعنی تلوار سے ڈر کر یا دوسرے دنیوی دباؤ کی وجہ سے اس نے کہا اچھا میں اپنی مرضی سے اسلام چھوڑتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ تم میں سے جو شخص اپنی مرضی سے یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اسلام چھوڑتا ہے، یہ مرتد ہے.جس کے متعلق کوئی دوسرا یہ کہتا ہے کہ اس نے اسلام چھوڑ دیا اس کا تو ذکر ہی قرآن کریم میں کوئی نہیں.ایک جگہ بھی نہیں.قرآن کریم کہتا ہے جو شخص اپنی مرضی سے یہ اعلان کرے کہ وہ دین اسلام چھوڑتا ہے فیمت وَهُوَ كَافِر کفر پر اس کی طبعی موت آئے تو یہ وہ لوگ ہیں حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان کے اعمال روحانی لحاظ سے اکارت جائیں گے اور ایسے لوگ دوزخ کی آگ میں پڑنے والے ہیں.یعنی جو شخص ایمان لانے کے بعد اپنی مرضی سے ارتداد کو اختیار کرتا ہے تو اس کی سزا وہی ہے جو اس شخص کو ملے گی جو اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہونے سے انکار کرتا ہے اور شروع ہی سے اپنے کفر پر قائم رہتا ہے.اس کے علاوہ دنیوی طور پر انسان کے ہاتھوں سیاسی یا انتظامی کسی سزا کا اس جگہ ذکر نہیں اور نہ کسی اور جگہ ذکر ہے.میں نے قرآن کریم کی وہ ساری آیات لے لی ہیں جن میں ارتداد کا ذکر ہے.بعض آیات

Page 568

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۵۴ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء کے تو میں صرف ترجمے سنا دوں گا اور بعض آیات کی تفسیر بتاؤں گا تا کہ یہ مضمون پوری طرح آپ کے ذہن نشین ہو جائے.سورۃ محمد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَنُ سَوَلَ لَهُمْ وَ اَمَلىَ لَهُمُ (محمد: ۲۶) وہ لوگ جو ہدایت ظاہر ہونے پر پھر گئے شیطان نے ان کو ان کا عمل اچھا کر کے دکھایا ہے اور ان کو جھوٹی امیدیں دلائی ہیں.اس آیت میں بھی یہی بتایا ہے کہ جو شخص اپنی مرضی سے کسی کمزوری یا بدقسمتی کی وجہ سے یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اسلام سے ارتداد اختیار کرتا ہے اور اسلام کو چھوڑتا ہے اور خود اپنی مرضی سے اس کا اعلان کرتا ہے اور اسلام میں داخل ہونے کے بعد وہ خود دائرہ اسلام سے باہر نکل جاتا ہے حالانکہ وہ اسلام کو اچھی طرح سے سمجھ چکا تھا اور ہدایت اس پر ظاہر ہو چکی تھی لیکن شیطان نے ان کو ان کا عمل اچھا کر کے دکھایا اور ان کو جھوٹی امیدیں دلائیں جن پر بھروسہ کر کے دنیوی لالچ میں آکر لوگوں نے ارتداد کو اختیار کیا حالانکہ جو شخص شیطان کا کہا مان کر اسلام کو چھوڑتا ہے اور شیطان کی جھوٹی امیدوں پر اپنے اعمال کی بنیا د رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے کسی خیر کی امید نہیں رکھا کرتا.سورۃ مائدہ میں ہے:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لابِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِي (المائدة: ۵۵) اے ایماندارو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو وہ یا در کھے اللہ اس کی جگہ جلد ہی ایک ایسی قوم لے آئے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے.جو مومنوں پر شفقت کرنے والے ہوں گے اور کافروں کے مقابلہ پر سخت ہوں گے.کافروں کا اثر قبول کرنے کے لئے ان کی طبائع کبھی تیار نہ ہوں گی.وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور اپنے نفوس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے اپنی فطرت کو خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق اسلامی ہدایت

Page 569

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۵۵ خطبه جمعه ۲۹/ دسمبر ۱۹۷۸ء کی روشنی میں ڈھالنے والے ہوں گے اور کسی ملامت کرنے والی کی علامت سے نہیں ڈریں گے.صرف خدا تعالیٰ کی خشیت ان کے دلوں میں ہو گی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسے پسند کرتا ہے یہ فضل اسے دے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ وسعت بخشنے والا اور بہت جاننے والا ہے.پھر سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ اِيْمَانِةِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَبِنٌ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمُ (النَّحل : ۱۰۷) اس آیت سے پہلے یہ مضمون بیان ہوا کہ جو لوگ اللہ کے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے اللہ انہیں ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لئے دوزخ کا عذاب مقدر ہے اور پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ بھی اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کریں سوائے ان کے جنہیں کفر پر مجبور کیا گیا ہولیکن ان کا دل ایمان پر مطمئن ہو وہ گرفت میں نہ آئیں گے.ہاں وہ جنہوں نے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا ہو ان پر اللہ کا بہت بڑا غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب مقدر ہے.اس میں ایک تو یہ اعلان کیا گیا ہے کہ مذہب کا تعلق انسان کے دل اور سینہ کے ساتھ ہے کیونکہ کہا گیا وَ لكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا اور جس چیز کا دل کے ساتھ تعلق ہو دنیوی مادی طاقت اس دل کی اس کیفیت ، دل کے احساس اور جذبہ میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتی.عقلاً یہ ناممکن ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِہ.ایک شخص ہے وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا یا اس نے اسلام کی صداقت کے دلائل کو سمجھا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نشان دیکھے جن سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت عیاں ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس نے اپنی مرضی سے یہ اعلان کیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتا ہے اور وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہے کہ جن کے دل اس قسم کے اعلان پر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ وہ مجبور کر دیئے جاتے ہیں کہ وہ اس قسم کا اعلان کریں اور بعض کمزوریوں کے نتیجہ میں وہ اس قسم کا اعلان کرتے ہیں اور کمزوری کا اظہار کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدر فر ما یا جو شخص ایمان لانے کے بعد ا پنی مرضی سے یہ اعلان کرتا ہے کہ اس نے اللہ کا کفر کیا اس نے اُس خدائے واحد و یگانہ کا

Page 570

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۵۶ خطبه جمعه ۲۹/ دسمبر ۱۹۷۸ء انکار کیا جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل نبی کو بھیجا ہے اور اس کا اس بات پر شرح صدر ہو گیا یعنی اس حالت میں اپنی مرضی سے اعلان کیا کہ اس کا شرح صدر ہے اس بات پر کہ اسلام نعوذ باللہ سچا نہ ہب نہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے شخص پر جس نے ایمان لانے کے بعد اپنی مرضی سے ارتداد اختیار کیا خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوگا اور وہ غضب نازل ہوگا عذاب عظیم کی شکل میں اور عذاب عظیم کے متعلق جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں بعض شکلوں میں اللہ تعالیٰ کی گرفت اس دنیوی زندگی میں بھی ظاہر ہوتی ہے لیکن دنیوی اعمال کی اصل جزا اور سزا اُخروی زندگی سے تعلق رکھتی ہے.سورۃ بقرہ میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ مَاتُوا وَهُمْ كَفَّارٌ أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَ الْمَلَكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ - خَلِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفِّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظُرُونَ.(البقرة: ١٦٢، ١٦٣) جن لوگوں نے انکار کیا اور کفر ہی کی حالت میں مرگئے ایسے لوگوں پر یقینا اللہ کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کی قیامت کے دن لعنت ہے.وہ اس میں پڑے رہیں گے نہ تو ان پر سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں سانس لینے کی مہلت دی جائے گی.اسی طرح سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ - كَيْفَ يَهْدِى اللهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيْمَانِهِمْ وَ شَهِدُوا اَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَ جَاءَهُمُ الْبَيِّنَتُ ۖ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ - أُولَبِكَ جَزَا وَهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَكَةِ وَ النَّاسِ أَجْمَعِينَ - خَلِدِينَ فِيهَا ۚ لَا يُخَفِّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظُرُونَ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعدِ ذَلِكَ وَ أَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - (ال عمران : ۸۶ تا ۹۰) ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور پھر خدا کے رسول کی صداقت میں شہادتیں اور دلائل اور معجزات دیکھنے کے بعد انکار کر دیتے ہیں اور کفر کی راہوں کو اختیار کر لیتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُخروی زندگی میں عذاب ملے گا سوائے ان لوگوں کے جو اسی

Page 571

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۵۷ خطبه جمعه ۲۹/ دسمبر ۱۹۷۸ء دنیا میں تائب ہو جائیں، تو بہ کر لیں اور اصلاح کرلیں.پس اگر اس اعلان کے بعد کہ وہ مرتد ہوتے ہیں اور اسلام کو چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں اگر اس کی سزا قرآن کریم کی تعلیم میں قتل کرنا ہوتا تو پھر اِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَاَصْلَحُوا اُن کے پاس تو بہ اور اصلاح کا کوئی وقت ہی نہ ہوتا.یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ ایسے لوگوں کو اس زندگی میں مرتے دم تک یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ تو بہ کر لیں اور اصلاح کرلیں اور دائرہ اسلام میں واپس آجائیں اور اسلام کو دوبارہ قبول کر لیں اور خدا تعالیٰ سے مغفرت چاہیں.اگر ان کی دعا قبول ہو جائے تو پھر وہ خدا جو غَفُورٌ رَّحِیم ہے وہ ان کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گا اور ان کو معاف کر دے گا اور ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے گا اور ان کو پھر سے اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرے گا.اگر کوئی شخص ایمان لانے کے بعد کفر کی راہوں کو اختیار کرے اور اسے تو بہ اور اصلاح کا موقع نہ ملے یعنی اسے زندہ نہ رکھا جائے اور اسے یہ موقع نہ ہو کہ وہ اپنی مرضی سے تو بہ کرے اور اپنی مرضی سے وہ اصلاح کرے تو خدا تعالیٰ کے غفور رحیم ہونے کی صفت اس کے لئے گویا معطل ہوگئی.اس سے وہ فائدہ نہ اٹھا سکا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ أَمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا (النساء : ۱۳۸ ) اور جو لوگ ایمان لائے پھر انہوں نے انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا.پھر کفر میں اور بھی بڑھ گئے.اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کر سکتا اور نہ انہیں کوئی نجات کا راستہ دکھا سکتا ہے.اس آیت میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہو.اسلام کے دائرہ میں داخل ہونے کا ہر دروازہ ہر انسان کے لئے کھلا ہے اور اس آیت میں یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ ہر انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے جتنے بھی دروازے ہیں وہ ان میں سے جس دروازے میں سے چاہے باہر نکل جائے اور اپنے کفر کا اور ارتداد کا اعلان کر دے.جس طرح دائرہ اسلام کے اندر آنے کے لئے راہیں کھلی تھیں اسی طرح دائرہ اسلام سے باہر جانے کے دروازے بھی اس کے لئے کھلے ہیں.اب

Page 572

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۵۸ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ باہر چلا گیا تو کیا پھر اس کے لئے یہ ممکن ہے اور اسلامی تعلیم اس بات کی اسے اجازت دیتی ہے کہ وہ تو بہ کرے اور واپس اسلام کے اندر آجائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیوں نہیں.اگر وہ دوبارہ ایمان لانا چاہے تو کوئی روک نہیں.چنانچہ دوبارہ ایمان لانے کے بعد بھی وہ یہ اعلان کرے کہ وہ مرتد ہوتا ہے اور اسلام کو چھوڑتا ہے اور خدا اور اس کے رسول کا انکار کرتا ہے تو اس پر کوئی جبر نہیں.غرض ایک شخص ایمان لاتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ انکار کر دیتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد اسے دوبارہ ایمان لانے کی توفیق مل جاتی ہے اور وہ دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے دوبارہ ایمان لانے میں کوئی روک نہیں.دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے دروازے اس پراسی طرح کھلے ہیں جس طرح پہلے کھلے ہوئے تھے.پھر وہ سال دو سال تک مسلمان رہا اس کے بعد پھر اس کی بدبختی آئی اور دوسری بار مرتد ہو گیا اور خدا اور اس کے رسول کا انکار کیا.دوسری دفعہ اسلام سے باہر نکلنے کی بھی اسے اجازت ہے کوئی روک نہیں.کوئی جبر نہیں کیونکہ آزادی ضمیر بھی ہے اور آزادی عقیدہ بھی ہے.پھر جب وہ دوسری بار اسلام کا انکار کرتا ہے اور اسے تو بہ کرنے کی توفیق نہیں ملتی اور وہ کفر میں بڑھتا چلا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے لوگوں کی مغفرت نہیں ہو گی اور ان لوگوں کو نجات کی راہ نہیں ملے گی.ایسے لوگ روحانی کا میابی حاصل نہیں کر سکیں گے.پس اس آیت میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ ایک شخص ایمان لاتا ہے اورا اپنی مرضی سے یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اسلام کی صداقت کو تسلیم کرتا ہے.اسلام کا نور اس پر عیاں ہو جاتا ہے اور وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ خدا واقع میں واحد و یگانہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے عبد اور رسول ہیں.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے.اور کلمہ طیبہ مسلمان بنانے کے لئے کافی ہوتا ہے اور پھر قبل اس کے کہ اس کا خاتمہ بالخیر ہو یعنی اس کی موت ایمان کی حالت میں واقع ہو تم كَفَرُوا کی رو سے اس کی بدقسمتی ہے کہ اس نے اسلام کا انکار کر دیا اور جس دروازے سے وہ اسلام میں داخل ہوا تھا اسی دروازے سے وہ باہر نکل گیا کیونکہ اس کی آزادی دی گئی تھی اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آ گیا اور اس کے اوپر زمانے پر زمانہ

Page 573

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۵۹ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء گزرتا چلا گیا.ہفتوں کے بعد ہفتے ، مہینوں کے بعد مہینے اور سالوں کے بعد سال گزرتے چلے گئے لیکن قبل اس کے کہ اس کفر کی حالت میں اس کی موت واقع ہو جائے اللہ تعالیٰ نے اس کو تو بہ کی توفیق دی ثُمَّ امَنُوا پھر وہ اسلام میں داخل ہو گیا.جس دروازے سے وہ اسلام میں پہلے داخل ہوا تھا اور جس دروازے سے وہ اسلام سے باہر نکل گیا تھا اسی دروازے سے پھر وہ دوسری بار تو بہ کر کے اسلام میں داخل ہو گیا کیونکہ اسلام نے آزادی دی ہے.ایسا شخص اگر چاہے تو تو بہ کرے اور دوسری بار بھی اسلام میں داخل ہو جائے.پھر کچھ مہینے یا سال گزر گئے اور پھر اس کی بد بختی آڑے آئی اور قبل اس کے کہ اپنی دوسری دفعہ ایمان کی حالت جو خدا تعالیٰ نے اس کے لئے پیدا کی تھی خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے مرتے دم تک ایمان پر قائم رہتا اور ایمان پر اس کا خاتمہ ہوتا اس نے اسلام کے چھوڑنے کا اعلان کر دیا.ایسا کرنے میں اسے کوئی روک نہیں تھی.جس دروازے سے تم دو دفعہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور مسلمان بنے تھے ، وہ دروازہ اب بھی کھلا ہے.خدا تعالیٰ نے اس کے اوپر کوئی ایسے آدمی نہیں مقرر کئے جو اسے یہ کہیں کہ نہیں انہیں !! تم باہر نہیں نکل سکتے.کوئی روک نہیں بے شک تم باہر نکل جاؤ.چنانچہ اس نے اسلام چھوڑنے کا اعلان کر دیا اور پھر اس کو توبہ کی توفیق نہیں ملی اور نہ اصلاح کرنے کا موقع ملا اور بد بخت انسان پر کفر کی حالت میں موت وارد ہو گئی.پس ایسے لوگ جن کا خاتمہ بالخیر نہیں ہوتا بلکہ ان کی موت کفر کی حالت میں وارد ہوتی ہے تو ان کے لئے مغفرت کا کیا سوال ہے؟ اسی مضمون کو سورۃ آل عمران کی اس آیت میں بھی بیان فرمایا ہے :.ج إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا أَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَ أُولَبِكَ هُمُ الضَّالُونَ (ال عمران:۹۱) جو لوگ ایمان لانے کے بعد اپنی مرضی سے ارتداد کی راہوں کو اختیار کریں اور کفر کر میں خدائے واحد و یگانہ کا اور انکار کریں اللہ کے بزرگ ترین بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا.پھر تو بہ کی توفیق نہ پائیں اور اپنے کفر میں بڑھتے چلے جائیں اور ان کا اتمہ بالخیر نہ ہو بلکہ کفر پر ان کی موت وارد ہو، ان کی تو بہ قبول نہ ہوگی اور وہ گمراہ ہیں.

Page 574

خطبات ناصر جلد ہفتم پھر فرمایا:.ط خطبه جمعه ۲۹/ دسمبر ۱۹۷۸ء إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ مَاتُوا وَهُمْ كُفَارُ فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَ لَوِ افْتَدَى بِهِ أُولَبِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَصِرِينَ (آل عمران : ۹۲) جن لوگوں نے اسلام کا انکار کیا اور کفر کی راہوں کو اختیار کیا اور کفر کی حالت میں ان پر موت وارد ہوگئی یعنی جولوگ منکر ہو گئے اور کفر ہی کی حالت میں وہ مر بھی گئے ان میں سے کسی سے زمین بھر کے سونا بھی جسے وہ فدیہ کے طور پر پیش کریں ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، ایسے لوگوں کے لئے اخروی زندگی میں درد ناک عذاب مقدر ہے اور وہاں ان کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوگا.پس ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ تو بہ اس دنیوی زندگی کی تو بہ ہے جو خدا تعالیٰ کے رحم کے نتیجہ میں قبول ہوتی ہے.وہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ جس وقت موت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی تھی تو اس وقت کہہ دیا آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي أَمَنَتْ بِهِ بنوا اسراءيل (یونس : ۹۱) یہ تو ایمان نہیں اور نہ یہ تو بہ ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوئے اور کفر کی حالت میں ان پر موت وارد ہوگئی خاتمہ بالخیر نہیں ہوا.وہ کتنا ہی بڑا فدیہ دینا چاہیں تب بھی قبول نہیں ہوگا.وہ فدیہ نہیں دے سکتے.خدا تعالیٰ نے اس کی اہمیت بتانے کے لئے فرمایا ہے اگر یہ ساری زمین سونے کی ہوتی اور وہ اس کے مالک بھی ہوتے اور انہیں تو فیق بھی ہوتی کہ وہ فدیہ کے طور پر ساری زمین کا سونا دینے کے لئے تیار ہو جاتے تب بھی وہ جہنم کے عذاب سے بچ نہ سکتے.ان آیات سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اسلام نے آزادی ضمیر اور آزادی عقیدہ کی ضمانت دی ہے اور بڑے واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ جہاں تک ایمان کا تعلق ہے ہر فرد واحد خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہا کہ تم یہ اعلان کر دو! میں وکیل نہیں ہوں ، تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.ایمان کی ذمہ داری زید نے بکر کی نہیں اٹھانی بلکہ زید نے اپنے ایمان کی ذمہ داری اٹھانی ہے.بکر نے اپنے ایمان کی ذمہ داری اٹھانی ہے.اسی طرح نہ کسی شخص کو مجبور کر کے مسلمان بنایا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو جبراً اسلام سے خارج کیا جاسکتا ہے، نہ

Page 575

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۶۱ خطبه جمعه ۲۹/ دسمبر ۱۹۷۸ء کسی کو زبر دستی نماز پڑھائی جاسکتی ہے اور نہ کسی کو جبراً نماز سے روکا جاسکتا ہے.نہ کسی کو جبراً خدائے واحد و یگانہ کا ذکر کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی کو جبراً خدا تعالیٰ کے ذکر نہ کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ کا نام نہ لو.الله اكبر نہ کہو اور لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ نہ کہو.قرآن کریم نے جو دعائیں سکھائی ہیں وہ نہ پڑھو.غرض اسلام میں جبر ہے ہی نہیں.قرآن کریم میں کسی ایک جگہ کسی ایک آیت یا کسی ایک لفظ میں بھی ارتداد کی انسان کے ہاتھوں کوئی دنیوی سیاسی یا انتظامی سز ا نظر نہیں آتی ، البتہ ہماری تاریخ میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ ایک شخص ارتداد کا بھی مرتکب ہوا اور مسلمانوں کے قتل کا بھی مرتکب ہوا اور مسلح بغاوت کا بھی مرتکب ہوا تو اب جو شخص قاتل ہے اسے سزا میں قتل کیا جاتا ہے.ساری دنیا کا یہی قانون ہے؟ کہیں کہیں لوگوں نے کوشش کی تھی کہ یہ قانون نہ ہو لیکن ان کا قانون چلا نہیں.جہاں تک بغاوت کا تعلق ہے وہ تو مادی طاقت کے استعمال کے ساتھ پاش پاش ہی کی جاتی ہے.اگر ایسے واقعات ہوں کہ ایک شخص یا ایک گروہ ان تین گنا ہوں کا مرتکب ہوا ہو یعنی ارتداد کیا ہو اور ارتداد کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے یہ اعلان کیا ہو کہ وہ اسلام کو چھوڑتے ہیں اور انہوں نے اپنی تلواریں میان سے نکالی ہوں کہ وہ مسلمانوں کی گردنیں اڑائیں گے اور انہوں نے اپنی مرضی سے نہ کسی کے مجبور کرنے سے مسلمانوں کو قتل کیا ہو اور پھر تین جرم اکٹھے ہو گئے ہوں یعنی اگر ایسے شخص کو جو تین جرموں کا مرتکب ہوا ہے یہ سزا ملے کہ اسے قتل کے بدلہ میں قتل اور مسلح بغاوت کی سزا دی جائے یا اس کے خلاف چڑھائی کر کے تلوار استعمال کی جائے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ قرآن کریم نے اس لئے ان کو قتل کی سزا دلوائی کہ انہوں نے اسلام کا انکار کیا تھا اور وہ دائرہ اسلام سے باہر نکل گئے تھے.وہ تو واضح طور پر قتل کے مجرم بن گئے تھے اور ان کی سزا سوائے قتل کے اور تھی ہی نہیں.وہ ارتداد کرتے یا نہ کرتے ان کی سزا بہر حال قتل تھی یعنی ایسے لوگ اگر یہ اعلان نہ بھی کرتے کہ وہ اسلام کو چھوڑتے ہیں اور ارتداد اختیار کرتے ہیں اور عملا مسلح بغاوت کرتے یا وہ مسلمانوں کو قتل کرتے تو ان کی کیا سز تھی ؟ ظاہر

Page 576

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۶۲ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء ہے سوائے اس کے کہ اس جرم میں ان کو بھی قتل کیا جاتا اس کی اور کوئی سزا نہیں تھی.پس اگر وہ اسلام نہ چھوڑتے تب بھی ان کی یہی سزا تھی جب ان کو قتل یا مسلح بغاوت کی یہ سزا ملی تو اسے ارتداد کی سزا کیسے سمجھ لیا گیا.یہ تو تاریخی واقعات ہیں جن سے کسی کو مجال انکار نہیں.پس جہاں تک اس مضمون کے عقلی اور شرعی پہلو کا تعلق ہے قرآن کریم نے اسے کھول کر بیان کر دیا ہے اور قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے اس کے اندر کوئی نقص یا خامی نہیں ہے کہ جسے پورا کرنے کے لئے ہمیں کسی تاریخی واقعہ یا کسی ضعیف حدیث کا سہارا لینا پڑے.اس لئے کہ جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے، جماعت احمد یہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحیح فرمودات اور ارشادات قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد ایسا نہیں ہے جو قرآن کریم کے مخالف ہو یا اس کی ضد ہو یا قرآن کریم سے زائد ہمیں کچھ بتا رہا ہو یا (نعوذ باللہ ) قرآن کریم کے بعض حصوں میں کمی کر رہا ہو.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ کامل رسول تھے جنہوں نے قرآن کریم پر پورا عمل کر کے دنیا کے لئے ایک احسن نمونہ پیش کیا ان پر یہ اتہام لگانا کہ انہوں نے قرآن کریم کے بعض حصوں پر عمل نہیں کیا تھا بلکہ عمل نہ کرنے کی تلقین کی تھی اس سے بڑی گستاخی میرے خیال میں تو کوئی اور ہو نہیں سکتی.پس جہاں تک ہم احمدیوں کا تعلق ہے تمام احمدی اس بات کو اپنی گرہ میں باندھ لیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے وہ پیارے رسول ہیں جن کے متعلق یہ کہا گیا ہے.عشق محمد ربه گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے عاشق صادق تھے.آپ نے اپنے رب سے اتنا پیار کیا کہ گویا اپنے رب میں فنا ہو گئے اسی لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ صفات باری کے مظہر اتم تھے اور آپ قرآن کریم کی عظمت اور جلال کو جس طرح سمجھتے تھے وہ آپ کی زندگی سے عیاں ہے.قرآن کریم کا کوئی ایسا حکم نہیں جس پر آپ نے عمل کر کے نہ دکھایا ہو اور کوئی ایسی نہی نہیں جس سے آپ نے اجتناب نہ کیا ہو.

Page 577

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۶۳ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء پس آپ کی ذات قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کرنے والی ایک مقدس اور پاک اور مطہر ذات تھی.آپ نے اپنے وجود میں ایک کامل نمونہ پیش کیا.اس لئے ہم احمدی یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ آپ نے قرآن کریم کے خلاف کوئی ایسی بات کہہ دی ہو جو قرآن کریم میں ہمیں نہ ملے یا اس سے زائد ہو.نہ کوئی زائد بات ملتی ہے اور نہ خلاف.پس قرآن کریم میں آزادی ضمیر اور آزادی عقیدہ کی اتنی حسین تعلیم ہمیں دی گئی ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور جیسا کہ میں نے شروع میں بتا یا تھا یہ تعلیم نمونہ ہے دنیا کے دیگر مذاہب کے لئے بھی.اس وقت دنیا میں بہت سے مذاہب پائے جاتے ہیں.وہ جس شکل میں بھی ہیں ان کے لئے بھی اور ان مفکرین کے لئے بھی جنہوں نے اپنے اپنے Isms ( مکتب ہائے فکر ) پیدا کئے ہیں ان کے لئے اسلام ایک نمونہ ہے اور بتاتا ہے کہ دیکھو ضمیر اور عقیدہ کی آزادی انسانی زندگی کا بنیادی حق ہے اور اسی غرض کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے.اگر انسان اپنے ضمیر اور عقیدہ کے اظہار میں آزاد نہیں.اگر انسانوں کو دوسرے انسانوں نے بھیڑ اور بکری کی طرح دھکیل کر اسلام کے دائرہ کے اندر لانا ہے تو پھر خدائے واحد و یگانہ کی طرف سے کسی عمل کی کوئی جزا نہیں ہے.کیا تم خدا تعالیٰ کو مجبور کرو گے کہ تم بعض لوگوں سے جو منافقانہ اعمال کروار ہے ہو خدا مجبور ہو جائے اور ان کو اپنے پیار سے نو از نا شروع کر دے.زبر دستی کسی کو مسلمان بنا لیا اور یہ اس کو یقین دلایا کہ تیرے دل میں تو اسلام نہیں لیکن دکھاوے کی نمازیں پڑھا کرو خدا تمہیں جزا دے دے گا.یہ سمجھنا کہ علام الغیوب خدا کو ایسے شخص کے نفاق کا پتا ہی نہیں لگے گا.اس کی دلی حالت کا پتا ہی نہیں لگے گا.حالانکہ خدا تو کہتا ہے میں تمہارے دل کے پوشیدہ رازوں سے بھی واقف ہوں.اس کے متعلق یہ سمجھنا کہ نعوذ باللہ وہ ان باتوں سے ناواقف ہے، بہت بڑی جسارت ہے اور اگر اسے پتا ہوگا تو وہ جزا کیسے دے گا کیونکہ وہ تو ساری ریا ہے.اور اگر تم کسی کو زبردستی جس کے دل میں ایمان ہے اور شرح صدر ہے اور فدائیت ہے اور معرفت ہے اور عرفان صفات باری ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار ہے اور اس پیار سے مجبور ہو کر وہ خدا تعالیٰ کی بات مانتا ہے اور اس کی

Page 578

خطبات ناصر جلد ہفتہ ۵۶۴ خطبه جمعه ۲۹/ دسمبر ۱۹۷۸ء عبادت کرتا ہے تو تم ساری دنیا کی طاقتیں اکٹھی ہو کر کہو کہ ہم نے تمہیں اسلام سے باہر نکالا اور اب خدا تمہارے ساتھ پیار کا سلوک نہیں کرے گا اور تمہارے اعمال کی پیاری جزا نہیں دے گا تو خدا کو تم مجبور نہیں کر سکتے.جو لوگ نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ خدا کے حضور کچھ پیش کرنے والے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتے رہیں گے.دنیا جو مرضی کہتی رہے اور جو مرضی سمجھتی رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.پس دعا یہی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان سے بچائے.شیطان ہمارے دلوں میں کوئی وسوسہ نہ پیدا کر سکے اور ہمارے دلوں میں کھوٹ نہ پیدا ہو جائے.ہمارے اخلاص اور ہماری عبادات میں کہیں ریا اور نفاق نہ پیدا ہو جائے.اگر ہمارے دل خالصۂ خدا تعالیٰ کی محبت میں مگن ہیں اور ہم خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت رکھنے والے ہیں اور اگر ہم نماز اس لئے پڑھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ نماز پڑھو اور اگر ہم کھانا اس لئے کھاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کھانا کھاؤ اور اگر ہم اپنی بیویوں سے حسن سلوک اس لئے کرتے ہیں کہ خدا نے کہا کہ ان کے ساتھ تم نے حسن سلوک کرنا ہے فرمایا عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُونِ (النساء :۲۰) اس لئے کہ محبت سکھانے کا پہلا مدرسہ تمہارا اپنا گھر ہے اور اسی طرح اگر تمہارا ہر کام خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق چلنے کی شدید خواہش کے نتیجہ میں ہے اور ہر کام سے رکنا خدا تعالیٰ کی خشیت کے نتیجہ میں ہے تو ہم نے خدا ہی سے جزا پانی ہے.ہم نے خدائی جزا کے لئے کسی انسان کے سامنے کشکول نہیں کرنا کہ اس میں کچھ ڈال دو.پس دوست دعا کریں ہمیں اللہ تعالیٰ اپنے خالص نیک بندوں میں شامل کرے اور ہمیں ہمیشہ ہی اس راہ پر گامزن رکھے اور جن لوگوں کا ان آیات میں ذکر ہوا ہے کہ وہ ایمان لائے اور ہدایت ان پر ظاہر ہوگئی اور پھر اس کو چھوڑ کر چلے گئے اس گروہ میں ہم میں سے کوئی بھی کبھی شامل نہ ہو اور چونکہ ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ہم مسلمان ہیں.ہم نے کبھی ارتداد کا سوچا بھی نہیں.ہم اس بات کو لعنت سمجھتے ہیں کہ ہماری زبان یہ کہے کہ ہم مسلمان نہیں اور ہم نے خدا کو

Page 579

خطبات ناصر جلد ہفتہ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۸ء چھوڑ دیا ہے اور نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نہیں سمجھتے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ صداقت اور وہ نور جس سے ہم نے اپنی آنکھوں کا نور لیا اور اس نور سے دنیا کو منور پایا اس نور سے ہم علیحدہ ہو جائیں اور ظلمات میں بھٹکتے رہیں.یہ ہم ایک لحظہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے.مگر انسان کمزور ہے اور خدا تعالیٰ کے سہارے کے بغیر اور اس کے فضل کے بغیر خدا کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل نہیں کیا جاسکتا.اس لئے دوست دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کا حصار ہمیشہ احباب جماعت کے گرد رہے اور اس کے فرشتے انہیں بھٹکنے سے ہمیشہ بچاتے رہیں.دوستوں کو چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کریں جب کسی انسان کو خدا تعالیٰ کا پیارمل جاتا ہے تو پھر ا سے کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 580

Page 581

۵۶۷ خطبات ناصر جلد ہفتم نمبر شمار ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ حوالہ جات جلد ہفتم حوالہ جات الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۰۶ جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲۵ جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲۵ سورة البقرہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ۲ صفحه ۸۱ سورۃ البقرہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ۲ صفحه ۸۲ سورۃ البقرہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ۲ صفحه ۸۲ لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۲۲ و ۲۲۳ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۲۰ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۱۶ سورۃ النساء تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام جلد ۳ صفحه ۳۲۳، ۳۲۴ سورة النساء تفسير حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ۳ صفحه تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۲۱،۴۲۰ سورۃ النساء تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام جلد ۳ صفحه ۳۲۶، ۳۲۷ لیکچر لا ہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۶۰ تا ۱۶۲ براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۲۴ تا ۴۲۷ صفحہ نمبر ۱۳۴ ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۴۴ ۱۴۴ ۱۴۴ 17.۱۶۵ ۱۶۵ ۱۶۶ ۱۶۷ ۱۶۷ ۱۶۷ ۱۷۸ ۱۹۴ ۲۵۳ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳ 17

Page 582

Page 583

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۶۹ خطبات جمعہ فہرست خطبات جمعہ جو حضور انور نے ارشاد نہیں فرمائے.یا ارشاد فرمائے لیکن متن دستیاب نہیں ہوا.یا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا یا نہیں.نمبر شمار وہ خطبات جو جلد میں شامل نہیں اس کی وجہ تاریخ خطبہ 3 حوالہ ا حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۴ ؍ جنوری ۱۹۷۷ء الفضل ربوه ۱۸ جنوری ۱۹۷۷ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۴ فروری ۱۹۷۷ ء الفضل ربوہ کے فروری ۱۹۷۷ ، صفحہ ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۸ / فروری ۱۹۷۷ء الفضل ربو ۱۹ / فروری ۱۹۷۷ء صفحہ ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۵ فروری ۱۹۷۷ء الفضل ربوه ۲۶ فروری ۱۹۷۷ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۴ مارچ ۱۹۷۷ ء الفضل ربوه ۵/ مارچ ۱۹۷۷ء صفحہ ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۹ را پریل ۱۹۷۷ ء ا لفضل ربوه ۱/۳۰ پریل ۱۹۷۷ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۳ رمئی ۱۹۷۷ ء الفضل ربوہ ۱۴ رمئی ۱۹۷۷ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۰ مئی ۱۹۷۷ ء الفضل ربوہ ۲۱ رمئی ۱۹۷۷ ء صفحہ ۱ ۹ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا جون ۱۹۷۷ء الفضل ربوہ ۴ جون ۷ ۱۹۷ ء صفحہ ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۷ ارجون ۱۹۷۷ء الفضل ربوہ ۱۸ جون ۱۹۷۷ء صفحہ ۱ ۱۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۴ جون ۷ ۱۹۷ ء الفضل ربوه ۲۵ جون ۱۹۷۷ صفحه ۱ ریکارڈ سے تا حال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہو سکی ہے ۸؍ جولائی ۱۹۷۷ء ง 2 ۱۰ ۱۲ L ۱۳ ریکارڈ سے تا حال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہوسکی ہے ۲۲ جولائی ۱۹۷۷ء ۱۴ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۲ اگست ۱۹۷۷ ء الفضل ربوه ۱۳ اگست ۱۹۷۷ ء صفحه ۱ ۱۵ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۸/ نومبر ۱۹۷۷ ء الفضل ربوہ 19 نومبر ۱۹۷۷ صفحہ ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲ دسمبر ۱۹۷۷ء الفضل ربوہ ۳؍ دسمبر ۱۹۷۷ ء صفحہ ۱ ۱۷ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲ جنوری ۱۹۷۸ء الفضل ربوہ کے جنوری ۱۹۷۸ صفحه ۱ / ۱۸ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۰ جنوری ۱۹۷۸ء الفضل ربوده ۲۱ جنوری ۱۹۷۸ صفحه ۱

Page 584

خطبات ناصر جلد ہفتم ۵۷۰ نمبر شمار وہ خطبات جو جلد میں شامل نہیں اس کی وجہ تاریخ خطبہ ۲۳ حوالہ خطبات جمعہ ۱۹ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۷ / جنوری ۱۹۷۸ء الفضل ربوه ۲۸ جنوری ۱۹۷۸ء صفحه ۱ ۲۰ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۳ فروری ۱۹۷۸ء الفضل ربوه ۴ فروری ۱۹۷۸ صفحه ۱ ۲۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۰ / فروری ۱۹۷۸ء الفضل ربوه ۱۱ام فروری ۱۹۷۸ صفحه ۱ ۲۲ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۷ فروری ۱۹۷۸ء الفضل ربوه ۱۸ / فروری ۱۹۷۸ ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۴ فروری ۱۹۷۸ء الفضل ربوه ۲۵ فروری ۱۹۷۸ صفحه ۱ ریکارڈ سے تا حال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہوسکی ہے ۷ را پریل ۱۹۷۸ء ۲۵ ریکارڈ سے تاحال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہو سکی ہے ۱۴ / اپریل ۱۹۷۸ء ریکارڈ سے تا حال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہوسکی ہے ۲۱ را پریل ۱۹۷۸ء ۲۷ ریکارڈ سے تا حال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہو سکی ہے ۱۲ رمئی ۱۹۷۸ء ۲۸ خطبہ کا متن دستیاب نہیں ۲۴ ۲۶ ۳۰ ۳۲ ۲۳ جون ۱۹۷۸ ء الفضل ربوه ۲۷ جون ۱۹۷۸ ء صفحه ۱ ۲۹ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۳۰ جون ۱۹۷۸ء الفضل ربود ۵ جولائی ۱۹۷۸ صفحه ۱ ریکارڈ سے تاحال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہوسکی ہے ۲۸ جولائی ۱۹۷۸ ء | ریکارڈ سے تاحال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہوسکی ہے ۱۱/ اگست ۱۹۷۸ء ریکارڈ سے تا حال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہو سکی ہے ۱۸ / اگست ۱۹۷۸ء | ریکارڈ سے تا حال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہوسکی ہے یکم ستمبر ۱۹۷۸ء ریکارڈ سے تاحال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہو سکی ہے ۸ ستمبر ۱۹۷۸ء ۳۵ ریکارڈ سے تا حال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہوسکی ہے ۲۲ ستمبر ۱۹۷۸ء ریکارڈ سے تاحال خطبہ کی تفصیل دستیاب نہ ہو سکی ہے ۲۹ ستمبر ۱۹۷۸ء ریکارڈ سے تا حال خطہ کی تفصیل دستیاب نہ ہو سکی ہے ۶ اکتوبر ۱۹۷۸ء ۳۳ ۳۴ ۳۶ ۳۷

Page 584