Language: UR
خطبات ناصر خطبات جمعہ از جنوری ۱۹۷۵ء تا دسمبر ۱۹۷۶ء فرموده سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جلد ششم
ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خطبات ناصر خطبات جمعہ ، خطبات عیدین، خطبات نکاح ارشاد فرمودہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ (جلد ششم) Khutbaat-e-Nasir - Volume 6 Friday, Eid and Nikah Sermons delivered by Hazrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul-Masih III, may Allah have mercy on him.(Complete Set Volume 1-10) First edition published between 2005-2009 Present revised edition published in the UK, 2023 © Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in Turkey at: For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-701-3 (Vol.1-10)
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم عرض حال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ خطبات جمعہ و عیدین اور خطبات نکاح کچھ عرصہ قبل شائع کئے گئے تھے.یہ مجموعہ دس جلدوں پر مشتمل تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن کے دوبارہ شائع کرنے کی درخواست کی گئی اور عرض کیا گیا بعض خطبات ایسے ہیں جو قبل از میں شامل اشاعت نہیں ہو سکے تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے ایڈیشن کی اجازت فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ جو خطبات پہلے شامل اشاعت نہیں ہو سکے ان کو بھی شائع کر دیا جائے.تعمیل ارشاد میں میٹر ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا چنانچہ ۵۰ خطبات دستیاب ہوئے جو پہلے مجموعہ میں شامل نہیں ہیں.اسی طرح بعض خطبات کا خلاصہ شائع ہوا اور اب ان کا مکمل متن مل گیا ہے ان خطبات کو زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ درج کر دیا گیا.نیز آیات قرآنیہ کے حوالہ جات متن میں دیئے گئے اور خطبات کے مآخذ کا خطبہ کے آخر پر حوالہ درج کر دیا گیا ہے اور خطبات میں درج احادیث اور عربی تفاسیر کے حوالہ جات کو کتاب کے آخر پر درج کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.اس کی تیاری میں جن احباب کو شریک کار ہو کر خدمت کا موقع میسر ہوا اور سعادت پائی.اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف اپریل ۲۰۲۳ء
III بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ پیش لفظ سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ کی چھٹی جلد پیش خدمت ہے.یہ جلد ۱۹۷۵ ءاور ۱۹۷۶ء کے فرمودہ ۶۷ خطبات جمعہ پر مشتمل ہے.جن میں ۱۹۷۵ ء کے ۷ اور ۱۹۷۶ ء کے ۶ غیر مطبوعہ خطبات بھی شامل ہیں.جن مقدس وجودوں کو خدائے قادر مقام خلافت پر فائز کرنے کے لئے منتخب فرماتا ہے انہیں اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے نوازتا ہے.ان کی زبانِ مبارک سے حقائق و معارف اور دقائق و لطائف کے دریا بہا دیتا ہے.وو اس جلد میں مندرجہ ذیل خطبات جماعتی نقطہ نگاہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں.۱ ۳/ جنوری ۱۹۷۵ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے صد سالہ جو بلی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.پچھلا سال صد سالہ جو بلی تحریک کا پہلا سال تھا جماعت احمدیہ نے پہلی بار اشاعت اسلام کے بین الاقوامی منصوبوں کی ابتدا کی تھی.بعض ملکوں کو اکٹھا کر کے اُن میں تبلیغ اسلام اور اشاعتِ قرآن کریم کے منصوبے بنائے گئے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں نے انہیں کامیاب بھی کیا.گویا اشاعت اسلام کے عالمگیر اور بین الاقوامی منصوبے کی ابتدا گزشتہ سال یعنی ۱۹۷۳ ء کے جلسہ سالانہ پر ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں ایک عالمگیر بین الاقوامی مخالفت کی بھی ابتدا ہوئی اور ہونی بھی چاہیے تھی کیونکہ حاسدوں کا حسد ہمیں اللہ تعالیٰ کی
IV نگاہ میں پیار دیکھنے کے مواقع میسر کرتا ہے.“ ۲.۱۷ جنوری ۱۹۷۵ ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے انصار اللہ کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا :- ” پس انصار اللہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور تربیت کا پروگرام بنائیں اور ہر ایک کو معرفت کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں.ٹھیک ہے ہر ایک نے اپنی استعداد اور اپنی قوتوں کے مطابق اس معرفت کو حاصل کرنا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہمارا ہر بچہ جو اپنے دائرہ استعداد کے اندر اپنے کمال کو نہیں پہنچتا وہ مظلوم ہے اور ہمارے اوپر اس کی ذمہ داری آتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کو ادا کریں.اللہ تعالیٰ ہماری نوجوان نسل کو اور نئے آنے والوں کو یہ توفیق دے کہ 66 وہ اپنے مقام کو سمجھیں.“ ۳.۲۱ جنوری ۱۹۷۵ ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے گھوڑ دوڑ ٹورنا منٹ کے انعقاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.” ہم گھوڑوں میں دلچسپی اس لئے نہیں لے رہے کہ ہم گھوڑوں کی پرستش کرتے ہیں نہ اس لئے کہ ہم خدا کو چھوڑ کر یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو نظر انداز کر کے ہم گھوڑوں سے کوئی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.ہمیں گھوڑوں سے اس لئے پیار ہے کہ ہمارے محبوب آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گھوڑوں سے پیار تھا.تو ہم گھوڑوں کے غلام نہیں ہیں لیکن ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور اس غلامی پر ہم فخر کرتے ہیں اور گھوڑوں سے ہم اس لئے پیار کرتے ہیں کہ ہمارے محبوب آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں سے پیار کیا اور اپنے صحابہ میں اس پیار کو اتنا راسخ کیا جس کی مثال نہیں ملتی.“ ۴ ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے کشمیر کی آزادی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.آج ہماری پوری قوم متحد ہو کر ایک بہت بڑی نا انصافی اور ظلم کے خلاف احتجاج کر رہی ہے.یہ نا انصافی اس سمجھوتہ سے ہوئی ہے جسے اخبارات ”اندرا عبد اللہ مجھوتہ کا نام دے رہے ہیں.جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جموں وکشمیر کی ریاست بھارت یونین کا
V ایک حصہ ہے اور بھارتی دستور کی دفعہ ۲۷۰ کے مطابق اس خطہ میں حکومت قائم کی جائے گی..ہندوستان نے اس سمجھوتے کے ذریعہ کشمیر کے مستقل الحاق کا اعلان کیا ہے.اس اعلان کے نتیجہ میں اس خطہ میں بسنے والوں کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے کیونکہ ۱۹۴۷ء سے اُنہیں خود اختیاری کا جو حق دیا گیا تھا یا یوں کہنا چاہیے کہ اُن کا یہ حق تسلیم کیا گیا تھا، یہ اعلان اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے.“ ۵.۳/اکتوبر ۱۹۷۵ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے جماعت کو آئندہ پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.”اگلے پندرہ سال جن کے اوائل میں سے ہم گزررہے ہیں میرے اندازے کے مطابق غلبہ اسلام کی صدی کے لئے تیاری کے سال ہیں.جماعت احمدیہ کی پہلی صدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی سے مشابہت رکھتی ہے.مکی زندگی میں مسلمانوں اور اسلام کی مخالفت آہستہ آہستہ بڑھتی ہی چلی گئی تھی.اسی طرح میرے خیال میں اگلے پندرہ سال میں جو جماعت احمدیہ کی پہلی صدی کے اختتام کا زمانہ ہے دنیا ہمیں تکالیف پہنچانے اور مٹانے کی کوشش کرے گی.“.۷ رنومبر ۱۹۷۵ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے پاکستان کی جماعت کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:.عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ بیرونی ممالک کے سارے اخراجات بیرونی ممالک کی جماعتیں اٹھا لیں گی.جبکہ اس وقت وہ ایک دھیلہ بھی چندہ نہیں دے رہی تھیں.باہر کی جماعتوں کے اخلاص کو دیکھ کر مجھے تو خیال آیا کرتا ہے اور یہ جذ بہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم مرکزی جماعت ہیں، پاکستان ہمارا ملک ہے، پاکستان ہمارا مرکز ہے، پاکستان کی خوشحالی کے لئے ہم دعائیں کرتے ہیں اس کی دنیوی خوشحالی کے لئے ہم دعائیں کرنے والے ہیں.دوسرے لوگ بعد میں آ کے کہیں ہم سے آگے نہ نکل جائیں.“ ۷.۲۱ نومبر ۱۹۷۵ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے براڈ کاسٹنگ سٹیشن کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : - ایک براڈ کاسٹنگ سٹیشن جس کا میں نے اعلان کیا تھا کی اجازت ملی تھی لیکن اس
VI 66 اجازت میں بعض ٹیکنیکل نقائص تھے اس لئے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکے.اب ویسے وہاں کی حکومت بدل گئی ہے لیکن دنیا کے تغیرات ہمارے لئے ہیں ہمارے خلاف نہیں انشاء اللہ.اس لئے آج نہیں تو کل اجازت ملے گی اس کے اوپر بھی لاکھ دولاکھ پاؤنڈ ابتدا میں خرچ ہوگا تا کہ ہم ایک خاص علاقے کو اپنی آواز سے معمور کر دیں اور مہدی معہود کی آوازان کو پکارے کہ جَاءَ الْمَسِيحُ جَاءَ الْمَسِيحُ ۸.۵/ دسمبر ۱۹۷۵ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے اہل ربوہ کو صفائی اور پاکیزگی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:.یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ربوہ کے ماحول کو پاک کرو.پاکیزہ رہو.درخت لگاؤ یہ اپنے لئے نہیں ہے اس کے پیچھے یہ نیت ہے کہ جو باہر سے آنے والے ہیں وہ کچھ نمونہ تو دیکھیں.گوغریبانہ کوششیں ہوں لیکن غریبانہ کوششیں تو دیکھیں.پس وہ گندگی ، وہ جہالت اور وہ ظلمت جو دنیا کے دوسرے حصوں میں ہمیں نظر آتی ہیں وہ ربوہ میں نظر نہیں آنی چاہیے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور ہمیں اس کی توفیق ملے.آمین ۹ - ۹را پریل ۱۹۷۶ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے وقف عارضی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.وقف عارضی کے جو وفود باہر دوسری جگہوں پر جائیں وہاں بھی اور پھر واپس آ کر اپنے ہاں بھی یہ بات اچھی طرح دلوں میں گاڑ دیں کہ اسلام کو ہم نہیں چھوڑ سکتے.اپنی جانوں کو چھوڑ سکتے ہیں، اپنے مالوں کو چھوڑ سکتے ہیں ، اپنے بیوی بچوں کی گردنیں کٹوا سکتے ہیں لیکن اسلام کو نہیں چھوڑ سکتے.یہ ہو ہی نہیں سکتا، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کسی صورت میں بھی کوئی احمدی اپنے آپ کو اسلام سے دور نہیں کہہ سکتا، اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں کہہ سکتا.باقی اگر کوئی شخص ہمیں کا فر کہتا ہے تو یہ نئی بات نہیں ۸۰ اسی سال سے ہمیں کا فر کہا جا رہا ہے.66 ۱۰ - ۲۲ اکتوبر ۱۹۷۶ ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت ضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کی خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں :.”ہماری جو پچھلی تاریخ ہے اور جو تاریخ ہماری آگے اُبھری ہے اور جس کے متعلق
VII ہمیں بشارتیں دی گئی ہیں اور ہم علی وجہ البصیرت اُن پر ایمان لاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم عنقریب غلبہ اسلام کی صدی میں داخل ہونے والے ہیں اور یہ جو پندرہ سال اس صدی کے رہ گئے ہیں یہ اس لحاظ سے بڑے اہم ہیں کہ غلبہ اسلام کی صدی جو ہماری زندگی ، جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی ہے اور جو غلبہ اسلام کی صدی ہے اس کے لئے ہم نے تیاری کرنی ہے اور اس تیاری ہی کے سلسلہ میں دراصل میں یورپ اور امریکہ کے دورہ پر گیا تھا.“ ۱۱ - ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خا ضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کی نوید دیتے ہوئے فرماتے ہیں :.یں دنیا کے ہر مینار سے یہ آواز بلند کرنے کے لئے تیار ہوں کہ دنیا خدا تعالیٰ کے اس منصوبہ کو نا کام نہیں کرسکتی.دنیا کے سارے ایٹم بم اکٹھے ہو جائیں پھر بھی جو طاقتیں اس وقت گھمنڈ سے اپنی گردنیں اٹھائے ہوئے ہیں ہم ان کی خیر خواہی کے لئے ان کے دل جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ان کو جمع کر دیں گے یہ ہے ہمارا منصوبہ ، مارنے کا نہیں زندہ کرنے کا.قرآن کریم نے بڑا پیارا اعلان کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کی طرف آؤ اس پر لبیک کہو کہ وہ تمہیں اس لئے بلاتا ہے کہ لِمَا يُحِيكُم (الانفال:۲۵) 66 کہ وہ تمہیں زندہ کرے.“ الغرض حضرت خلیفۃ اصسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ بھی ہر پہلو سے انسانیت کی ضرورت ہیں.ان میں خدا تعالیٰ کی خاطر ہر جہت سے ترقیات کے لئے قربانی اور کامل اطاعت کی تیاری کے سامان ہیں.حضور انور کے دست مبارک سے لکھے ہوئے چند خطبات کے نوٹس کے نمونہ بھی بطور تبرک اس جلد میں دیئے جا رہے ہیں.والسلام سید عبدالحی ناظر اشاعت ۲۳/۶/۲۰۰۷
خطبات ناصر جلد ششم نمبر شمار 1 ۶ ۱۰ " IX فہرست خطبات جمعہ عنوان فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه 1 ۲۱ ۲۴ / جنوری ۱۹۷۵ء ۳۱ جلسہ سالانہ بہت بابرکت اور بشاشت میں اضافہ کا موجب ہے ۳/ جنوری ۱۹۷۵ء جماعت احمدیہ کے قیام کا اصل مقصد دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے ۱۰ جنوری ۱۹۷۵ء اسلام کی ابدی صداقتوں کو نئی نسل کے سامنے دہراتے چلے جائیں ۱۷ار جنوری ۱۹۷۵ ء کونئی ہم دنیا کے لئے ایک نمونہ بننے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ہم اس پختہ عقیدہ پر قائم ہیں کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ نبی ہیں ۳۱؍ جنوری ۱۹۷۵ء ۳۹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہم نے یقین کی دولت پائی ۷ فروری ۱۹۷۵ء ۴۵ جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ ایک زندہ جماعت ہے ۱۴ / فروری ۱۹۷۵ء ۵۱.قیامت تک کے لئے گھوڑوں کی پیشانیوں میں برکت رکھ دی گئی ہے ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء خدا تعالیٰ کی تقدیر کشمیریوں کو کشمیر کا حق دلائے گی ۶۱ ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء ۷۱ اللہ سے قطع تعلق موت ہے اور اس کے برعکس تعلق باللہ زندگی ہے ۷ / مارچ ۱۹۷۵ء زندگی اور موت کو پیدا کرنے والے رب کی ہر قسم کی برکتیں حاصل کریں ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء ۸۳ ۸۷ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کامل نور اور کامل بشر تھے ۲۸ / مارچ ۱۹۷۵ء ۱۰۵ ۱۳ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے ۱/۴ پریل ۱۹۷۵ ء ۱۱۳ ۱۴ انسان کو ہر دم اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی ضرورت ہے ۲۵ / جولائی ۱۹۷۵ء ۱۲۱ ۱۵ ۱۷ ۱۳۱ پاکستان اور اہل پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے دعائیں کرنے کی تلقین ۸/ اگست ۱۹۷۵ ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور غلبہ حق سے متعلق بعض اہم امور ۱۵ / اگست ۱۹۷۵ء ۱۳۳ حقیقی اسلام کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں ۲۲ اگست ۱۹۷۵ء ۱۳۷
خطبات ناصر جلد ششم عنوان نمبر شمار X فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۱۸ ہر احمدی بچہ اپنی ذہنی استعداد کی پوری مستعدی کے ساتھ نشو ونما کرتا رہے ۲۹ اگست ۱۹۷۵ء ۱۴۱ 19 ایمان باللہ سے متصف ہو کر قول و فعل سے دعوت الی اللہ کرتے چلے جائیں ۵ ستمبر ۱۹۷۵ء ۱۴۷ ۱۵۳ ۲۰ عند اللہ مسلمان وہ ہے جو اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دے ۱۹ ستمبر ۱۹۷۵ء ۳/اکتوبر ۱۹۷۵ء ۱۵۷ ۲۱ 7 ۲۲ ۲۳ ا جماعت احمدیہ کی پہلی صدی مکی زندگی سے مشابہت رکھتی ہے مستقبل کو سنوارنے کا طریق یہ ہے کہ اپنے اللہ کو یا د رکھو ۱۰ را کتوبر ۱۹۷۵ء ۱۶۳ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صداقت نے کبھی شکست نہیں کھائی ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۵ء ۱۶۷ ۲۴ ہر موحد کے لئے مسجد کا دروازہ کھلا ہے ۲۵ آج تحریک جدید ایک بہت بڑا درخت بن گئی ہے ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء ۱۷۳ ۷ رنومبر ۱۹۷۵ء ۱۸۹ ٢٠٣ ۲۶ رضا کارا اپنی خدمات جلسہ سالانہ کے لئے پیش کر کے نفلی ثواب حاصل کریں ۱۴ نومبر ۱۹۷۵ء ۲۷ صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ اسلام کو غالب کرنے کا منصوبہ ہے ۲۱ نومبر ۱۹۷۵ء ۲۸ قرآن کریم نے قرب الہی کے راستوں کو کھولتے چلے جانا ہے ۲۸ /نومبر ۱۹۷۵ء | ۲۳۱ ۳۰ ۲۱۷ ۲۳۹ ۲۹ اہل ربوہ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں ہر دم پیش نظر رکھیں ۵/ دسمبر ۱۹۷۵ء اسلام قیامت تک انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے ۱۲؍دسمبر ۱۹۷۵ء ۲۵۳ ہمارا ہر لمحہ خدا کے حضور دعائیں کرتے ہوئے گذرنا چاہیے ۱۹؍دسمبر ۱۹۷۵ء الہی سلسلوں کو چوکس اور بیدار رہ کر اخلاقی اور روحانی زندگی گزارنی چاہیے ۲۶ دسمبر ۱۹۷۵ ء ۲۶۵ ۲۸۱ ۲۹۱ ۳۳ جلسہ سالانہ کے بابرکت اور کامیاب ہونے پر ہمارے دل حمد سے معمور ہیں ۲ جنوری ۱۹۷۶ء ۳۴ خدا تعالیٰ پر کامل یقین رکھنا اور صراط مستقیم پر چلنا ضروری ہے ۹ جنوری ۱۹۷۶ء ۳۵ اجتماعی اور انفرادی لحاظ سے اپنا محاسبہ کریں اور اپنی کمزوریوں کو دور کریں ۱۶ جنوری ۱۹۷۶ء ۲۹۹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تجدید دین تمام بدعات کو مٹانے پر حاوی ہے ۲۳ / جنوری ۱۹۷۶ء ۳۰۳ ۳۷ خدا سے ایسی محبت پیدا کرو کہ کوئی اور ہستی قابل توجہ نہ رہے ۳۰/جنوری ۱۹۷۶ء ۳۱۵ احمدی کا کام ہر دوسرے شخص کے مقابلہ میں نمایاں طور پر ممتاز ہوتا ہے ۶ فروری ۱۹۷۶ء ۳۱۹ ۳۶
خطبات ناصر جلد ششم عنوان نمبر شمار XI فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۴۰ ۳۹ مسئلہ قضا و قدر کے متعلق اسلامی تعلیم کے بعض ابتدائی امور ۱۳ / فروری ۱۹۷۶ء ۳۳۱ دنیا اور کائنات کا ہر جز و اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کا مظہر ہے ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء ۳۴۳ اللہ تعالیٰ نے نظام قدرت میں قضا و قدر کو اسباب سے وابستہ کر دیا ہے ۵ / مارچ ۱۹۷۶ء اسلام نہایت ہی حسین اور عظیم شان والا مذہب ہے ا اللہ ۳۶۱ ۲۶ مارچ ۱۹۷۶ء ۳۷۱ ۴۳ جس نے اپنی استعداد کے مطابق خرچ کیا خدا نے اُس کے گھر کو فضلوں سے بھر دیا ۱/۲ پریل ۱۹۷۶ء ۳۸۱ ۴۴ قانون کو ہاتھ میں لینے کا تصور بھی ہمارے دل میں نہیں آنا چاہیے ۹ ا پریل ۱۹۷۶ء ۳۹۳ ۴۵ ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم قیامت تک کے لئے ہدایت نامہ ہے ۱۶ را پریل ۱۹۷۶ء ۴۰۷ غلبہ اسلام کی خاطر ہم انتہائی قربانیاں پیش کرتے رہیں گے ۲۳ را پریل ۱۹۷۶ء ۴۱۷ ۴۷ جس مہدی کی بشارت تھی وہ بانی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ پوری ہوگئی ۱/۳۰ پریل ۱۹۷۶ء ۴۲۹ کائنات کی ہر چیز جو انسان کو دی گئی ہے وہ اس ورلی زندگی کا سامان ہے ۷ رمئی ۱۹۷۶ ء ۴۴۳ ۴۹ جماعت احمد یہ ایسی جماعت ہے جس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا ہے ۴۸ ۵۱ اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کی راہیں معین کر دی ہیں ۱۴ رمئی ۱۹۷۶ء | ۴۵۳ ۲۱ مئی ۱۹۷۶ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے ۱۱ جون ۱۹۷۶ء ۵۲ جماعت احمد یہ قانون کے احترام کو ضروری سمجھتی ہے ۵۳ اسلام کا یہ ایک بنیادی حکم ہے کہ قانون کا احترام کرو ۵۴ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے جلوے غیر محدود ہیں ۴۶۱ ۴۷۱ ۱۲۵ جون ۱۹۷۶ء ۴۷۹ ۲ جولائی ۱۹۷۶ ء ۴۸۹ ۱۶؍ جولائی ۱۹۷۶ء ۴۹۹ ۵۵ جماعت احمدیہ غیر معمولی قربانیاں پیش کرنے والی جماعت ہے ۲۳ ؍ جولائی ۱۹۷۶ء ۵۱۳ خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اپنے اعمال پر صفات الہیہ کا رنگ چڑھائیں ۳۰؍جولائی ۱۹۷۶ء ۵۲۳ ۵۷ قرآن کریم کے احکام پر عمل کر کے ہم حقیقی فلاح سے ہمکنار ہو سکتے ہیں ۶ / اگست ۱۹۷۶ء ۵۲۹ ۵۸ اسلام ہمیں ایک ہمہ گیر اور اعلیٰ ترین ضابطہ ہدایت عطا کرتا ہے ۱۳ اگست ۱۹۷۶ء | ۵۳۳ حقیقی مسجد ایک نشان اور عظیم الشان پیغام کی حامل ہوتی ہے ۲۰ را گست ۱۹۷۶ء ۵۴۱ ۵۹
خطبات ناصر جلد ششم نمبر شمار ۶۰ عنوان XII فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه جماعت احمدیہ سلامتی اور امن کی تعلیم پر چلنے والی قانون کی پابند ہے ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء ۵۴۵ تحریک جدید کے تینتالیسویں تینتیسویں اور بارھویں سال کا اعلان ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۶ء ۵۷۹ جلسہ کے انتظامات بڑی وسعت رکھتے ہیں اس کے لئے بڑی تیاری کرنی پڑتی ہے ۵/ نومبر ۱۹۷۶ء اسلام نے ظاہری اور باطنی پاکیزگی کے متعلق خاص طور پر تاکید کی ہے ۱۹/ نومبر ۱۹۷۶ء ۶۰۳ ۶۴ جلسہ سالانہ پر احباب اپنے رب کے جلوے دیکھنے کھنچے چلے آتے ہیں ۳ دسمبر ۱۹۷۶ء ۶۵ حضرت خاتم الانبیاء ہمارے رسول قرآن عظیم ہماری کتاب اور اسلام ہمارامذہب ہے ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۶ء ۶۶ جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ترقی اور اس کی صفات کے مشاہدہ کا ذریعہ ہے ۱۷؍ دسمبر ۱۹۷۶ء قرآن کریم کا بے مثل ہونا خدا تعالیٰ کے وجود پر ایک زبردست دلیل ہے ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء ۵۹۱ ۶۱۱ ۶۱۷ ۶۲۳ ۶۲۷
1.تتبرکات خشه به جمه در مارچ 1975 مبارک انتزی پدیده املاک وھو علی گھر نئی قدم - الهری خلق الموت والحيرة ليلية وتم الكم الحق عمالا ٹموت وهو العزيز - درو الغفور (الملک) بہت برکت والی ہے وہ حسین ہستی جسکے قریض میں بادشاہت ہے اور وہ ہر ایک ارازہ کھے کے اجرا کہ تیر قادر ہے.ودهستی
جنے موت اور زندگی کو اور لائے پیدا کیا ہے کہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون احسن عمل کرنیوالا ہے اور وہ غالب اور بہت کٹنے والا ہے -۱ تبارک : ملک اور باد شادات کا حقیقی مالک میں مخصوص ہے رسیات کے کو جب ہر کات اور تقسیں اور حقیقی خیر کا وہ محہ مو اور صرف اس سے بیگم کی نشین حامل کیسی سکیں.z ير: - ھاتھ طاقت وا خه یاه بیده : اسکی طاقت اور قوت میں ہے اللہ اسکے اختیار میں رے زلفت ابی) القدرة والسلمان بالملك الحقوق الله الدائم لله زمایاه لمه اعلک ولہ الحمد فالملك حب الشئ المتصرف فيه بالحکم.چند تصرف حامل ہو اسکے منبسط و انتظام احکام کے اجراء کے ساتھ کرنا
4- الشئی ، جب چیپ غیر اللہ کے آئے اور ہو تو ایک معنی اعشیش کے ہوتے ہیں یعنی جو چاہا گیا.ارادہ کیا گیا.پشت القديرة اذا وصیت الله تعالی با فهي لفي العجزة عاجز نہیں حرف آتے ہی مقدرہ مطلق حاصل ہے کا پر لحاق ہے.ہر پہلو کے وہ فارغ -6 الموت : - اقوام العمرت بحب الواع الحبوة جوان - قوه نامیه (نشورنیا کی حوة ) انسان حیوان - بات بلکہ سب مخلوق ام کے مقابل پر نوع موت : - الثانی - زوال الطرق الماسة قوہ خاتمہ کے زوال کا نام فوت -3 الله له زوال القصة العاقلة وهي انهاله قادر مطلق ہے f سلام ات الحياة ، اندی تلا کر دینے والا
حزن ودختم خوش و نشانم زندگی حیوانی ہے 15 الخام المتعلم النوم کوئی حقیقت والموت توم ثقیل حقوق جیوانچیه کا زوال اور زیدن سے رقوم کا جدا ہو جانا حواره : زندگی این جوری زندگی میں اور روم کے ایتھال کا کام ہے حسبم العال -6- بعض اجزاء تحلیل پوش رہیے میں اور جسم کے چہرا ہونے رھتے ہیں.اور مرض أجزاء مرغ ان کی جگہ لیتے رہتے ہوئے - یہ عمل عورت اور زندگی کا عمل ہے فإن المبشر ما دام في الدنيا ریشتری بموت حزاً مجزا ديمترى الدستان في كل حالي من الشمال والنقض 7 - بگویم : خمس آزمائی تمہاری حقیقت ظاهر رون
2 5.خطبہ جمعہ کی 2017 کے ارج الملکی دوریه که نور جو انسان کا مل کر دیا گیا کسی اور مخلوق میں نہ تھا اعلان جس کا اتم اور اعلی احمد ارفع خرد محمد مصطفی احمد محبی ہم ذهنی حسب مراقب آنے کے قام ام رنگوں کو بھی آپ کامل نور بھی تھے.اسکے علی حکام کا اعتبار معارم تشیع پوست آپ کا ملی لیٹر تھی تھے.آپکی تاثیر کرسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام لین کامل نمونہ 6 - - کامل نور کامل بیشتر کا نتیجہ خدا سے انتہائی درجیہ یہ محبت کی و بیتا درته په بیا نوع بیمه دی چی انکی جان گداز پوری کو و کامل نور تھے.ہر ایک موت کا خزانہ.تحور معرفت آپ کو عطا کیا ہیں.صفات باری کے منظور اتم - جو اسکے ذریعہ سے نہیں پا نا محروم ازلی چن 08 اور کامل پر تھے - کامل - اسره و سرچشمہ ہر ایک فیض کا.وہ شخصی.جو بغیر اقرار اور افاضہ اسکے کسی
فضیلت کاطری کرتا ہے وہ افغان نہیں بلکہ ذرت شوطان ہے توحید حقیقی اس سے پائی زنده خدا کی شناخت اس کامل نھی.کامل از کے ذریع سے ملکی خدا کے حکامات اور مخاطبات کا شرف تھی جس سے ہم اللہ کا چہر دیکھتے مع اس بزرگ نجی کے دریچہ میر آن کو آخری وقت کی رہے کہ: رشتی بنے رسول نبی امی کی پیروین سے پائی ہے اور جو شخص چیزوی ہے.آ ریگا وہ بھی پاگئے.اور اسی سے قبولت اسی کو ملیگی کہ کوئی بات اسکے آگے انہونی نہیں کریگی.زندہ مقدار جو لوگوں سے پوشیدہ ہے اس کا خدا جوگے اور چھوٹے برا سیب اسکے پیروں کے نیچے کھلے اور روندے جائنگے وہ مراک مجمہ مبارک ہوگا اور الہی کوئی انکے ساتھ میں گئی
خطبات ناصر جلد ششم 1 خطبه جمعه ۳/ جنوری ۱۹۷۵ء اللہ تعالیٰ نے ہمارے جلسہ سالانہ کو بہت بابرکت اور جماعت کی بشاشت میں اضافہ کا موجب بنایا ہے خطبه جمعه فرموده ۳/ جنوری ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور رحمت سے ہمارے جلسہ سالانہ کو بہت بابرکت بنایا اور اسے جماعت احمدیہ کی بشاشت میں زیادتی کا موجب بنایا اور ہمارے فکروں کو دور کرنے کا ذریعہ بنایا اور آسمان سے بارش کے قطروں سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ رحمت کے آثار پیدا کئے اور اپنی بے شمار نعمتوں سے ہمیں نوازا.اس پر خدا کا جس قدر بھی شکر ادا کریں کم ہے.شکر ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر بندہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کرے ہر اُس رنگ میں جس میں شکر ادا کرنے کی ذمہ داری بندہ پر ڈالی گئی ہے تو پہلی نعمتوں سے زیادہ نعمتوں کے سامان پیدا نہیں ہوتے بلکہ پہلی نعمتوں کے ضیاع کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ضیاع سے محفوظ رکھے اور مزید نعمتوں کے سامان پیدا کرے اور ان کے شکر کی ہمیں تو فیق عطا کرے.ایک سال آیا اور گزر گیا ایک نئے سال میں ہم داخل ہورہے ہیں.مومن کا قدم ہمیشہ آگے پڑتا ہے وہ نہ پیچھے کی طرف دیکھتا ہے اور نہ ایک جگہ پر ٹھہرتا ہے.پچھلا سال کچھ تلخیاں لے کر آیا مگر بہت سے فضلوں، رحمتوں اور اللہ تعالی کے پیار کے سامان بھی لے کر آیا.خدا تعالیٰ کی جو
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۳/ جنوری ۱۹۷۵ء رحمتیں عالمگیر اور بین الاقوامی حیثیت کی تھیں اور بہت سے احمدیوں کی نظر سے بھی اوجھل تھیں، پچھلا سال انہیں نمایاں کر کے ہمارے سامنے لے کر آیا.پچھلا سال صد سالہ جو بلی تحریک کا پہلا سال تھا.جماعت احمدیہ نے پہلی بار اشاعت اسلام کے بین الاقوامی منصوبوں کی ابتدا کی تھی.بعض ملکوں کو اکٹھا کر کے اُن میں تبلیغ اسلام اور اشاعتِ قرآن کریم کے منصوبے بنائے گئے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں نے انہیں کامیاب بھی کیا.گویا اشاعت اسلام کے عالمگیر اور بین الاقوامی منصوبے کی ابتدا گزشتہ سال یعنی ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ پر ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں ایک عالمگیر بین الاقوامی مخالفت کی بھی ابتدا ہوئی اور ہونی بھی چاہیے تھی کیونکہ حاسدوں کا حسد ہمیں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پیار دیکھنے کے مواقع میٹر کرتا ہے.غرض صد سالہ جوبلی منصوبہ کی ابتدا ہو چکی ہے یہ اس منصوبہ کا دوسرا سال ہے.بالفاظ دیگر ایک اور سال ہے ہماری اور جماعت احمدیہ کی زندگی کا جس میں ہم داخل ہو رہے ہیں.انفرادی حیثیت سے ہم میں سے ہر شخص بچہ، جوان اور بوڑھا، مرد اور عورت اپنے بڑھاپے کی طرف حرکت کر رہا ہے مگر جماعتی حیثیت سے ہم ہر سال اپنی جوانی کی طرف اور اپنی کامیابیوں کی طرف حرکت کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک خاص مقصد کے لئے قائم کیا ہے.اس درخت کو ایک خاص قسم کے پھلوں کے لئے اور خاص قسم کی برکتوں کو بنی نوع انسان تک پہنچانے کے لئے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے کہ نوع انسانی سوائے استثنائی طور پر چند محروموں کے، اسلام کے اس درخت کے سایہ سے اور اس کے پھلوں سے فائدہ حاصل کرے گی لیکن آج کا زمانہ اس درخت کی نشو و نما کا زمانہ ہے.کچھ خوش نصیب لوگ ہیں جو اس کی شاخوں پر بسیرا کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں کہ مستقبل ان کو خدا کے پیار کے نتیجہ میں اس طرف لے آئے گا اور وہ اس کی شاخوں پر بسیرا کریں گے.ایک دن نوع انسانی ساری کی ساری اس درخت کی شاخوں پر بسیرا کر رہی ہوگی اور وہ منصوبہ جو آسمانوں پر بنایا گیا ہے اور جس کی بشارت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت محمدیہ کو دی تھی وہی منصوبہ کامیاب ہو گا اور دنیا اپنے پیدا کرنے والے رب کی معرفت حاصل کر چکی ہوگی اور اس کی رحمتوں سے حصہ لینے والی ہو
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۳/ جنوری ۱۹۷۵ء گی.یہ ذمہ داری جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.ہم خدا تعالیٰ کے شکر گزار بھی ہیں اور اس کے شکر کے ترانے بھی پڑھنے والے ہیں اور اس کے حضور عاجزانہ طور پر یہ دعا بھی کرنے والے ہیں کہ ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - کہ اے خدا! جو قوتیں اور استعداد میں انفرادی اور اجتماعی طور پر تو نے ہمیں دی ہیں ہم حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ اُن سے فائدہ اُٹھا ئیں لیکن ہم یہ احساس رکھتے ہیں کہ جب تک مزید قو تیں اور طاقتیں اجتماعی طور پر ہمیں نہیں ملیں گی ، اشاعت اسلام کا وہ عالمگیر منصو بہ جو ہمارے سپر د ہوا ہے اس کو ہم کامیاب نہیں کر سکتے.اس لئے خدا تعالیٰ سے استعانت کرتے اور اس کی مدد و نصرت کے ہم ہر آن طالب ہیں اور عاجزانہ دعاؤں میں اس نصرت کے حصول کے لئے لگے ہوئے ہیں اور یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ زندگی کے ہر مرحلہ میں اور اس اجتماعی جدو جہد کے ہر موڑ پر اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی کرنے والا ہو اور ہمیں راہ ہدایت اور صراط مستقیم دکھانے والا ہو اور جماعت کو اجتماعی طور پر بھی صراط مستقیم پر قائم رکھے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے خود ہمارا ہاتھ پکڑے اور ہمیں شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے لے جاتا چلا جائے.پس ہمارا ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا سال، برکتوں کا سال اور رحمتوں کا سال ہوتا ہے بلکہ ہمارا ہر سال پہلے سے زیادہ برکتوں، پہلے سے زیادہ رحمتوں اور پہلے سے زیادہ فضلوں کا سال ہوتا ہے اس لئے اس نئے سال کو بھی ہم ان عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ شروع کرتے ہیں کہ کہیں ہماری کوئی کمزوری ان برکتوں کے حصول کے راستہ میں حائل نہ ہو جائے بلکہ جیسا کہ پہلے ہوتا چلا آیا ہے اسی طرح اب بھی یہ نیا سال پہلے سے زیادہ رحمتوں، برکتوں اور فضلوں کو لانے والا ہو.اور تیسری بات یہ ہے کہ دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا کرتا ہوں.ایک عرب شاعر نے کہا ہے.عَيْنُ الرِّضَا عَنْ كُلِ عَيْبٍ كَلِيْلَةٌ كَمَا أَنَّ عَيْنَ السُّخْطِ تُبْدِي الْمَسَاوِيَا یہ شاعرانہ بیان ہے ایک حقیقت کا.شاعر کہتا ہے کہ انسان کو دنیوی لحاظ سے دو قسم کی
خطبات ناصر جلد ششم ۴ خطبہ جمعہ ۳/ جنوری ۱۹۷۵ء 66 آنکھیں دی گئی ہیں.ایک وہ آنکھ ہے جو د نیوی محبت اور پیار کی آنکھ ہے اور یہ آنکھ کوئی عیب نہیں دیکھتی یعنی جس آدمی سے پیار ہو اس میں کوئی عیب اور نقص نہیں دیکھتی.یہ اپنے محبوب کا محاسبہ نہیں کرتی.گلیلة“ کا لفظ گل “ سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں کہ چیز موجود تو ہے مگر آنکھ نے اُسے دیکھا نہیں.انسان کے ساتھ کمزوریاں لگی ہوئی ہیں لیکن پیار کی آنکھ ان کمزوریوں کو دیکھتی نہیں اور دوسری آنکھ ہے دشمنی اور غصے کی آنکھ اور یہ آنکھ عیب ہی عیب دیکھتی ہے کوئی خوبی نہیں دیکھتی.گویا ایک وہ آنکھ ہے جو خوبی ہی خوبی دیکھتی ہے اور کوئی عیب دیکھتی ہی نہیں اور دوسری وہ آنکھ ہے جو عیب ہی عیب دیکھتی ہے اور کوئی خوبی اُسے نظر نہیں آتی.یہ ہر دو آنکھیں حقیقت کی نگاہ نہیں ، حقیقت کو دیکھنے والی نہیں.یہ دنیا داروں کی نگاہیں ہیں یعنی ایک وہ نگاہ ہے جو عیب نہیں دیکھتی اور محاسبہ نہیں کر سکتی ( اور ترقیات کے دروازے بند کر دیتی ہے ) اور ایک وہ جو خوبی نہیں دیکھتی اور مایوس ہو جاتی ہے یا مایوس کر دیتی ہے.دد انسان کی ترقی کے لئے محاسبہ بڑا ضروری ہے.اس کے بغیر خدا تعالیٰ کے بندوں کا ہر قدم پہلے سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا.نیز زندگی کے مقاصد کے حصول کے لئے مایوسی سے بچنا بڑا ضروری ہے.جو شخص عیب ہی عیب دیکھتا ہے اور خوبی نہیں دیکھتا وہ ہلاک ہو گیا اور یہ نگاہ دو قسم کی ہوتی ہے، ایک اجتماعی زندگی پر نظر رکھنے والی اور دوسری اپنے نفس پر.ہر دو کے متعلق میں بات کر رہا ہوں.یہ ہر دو عیون ، یہ ہر دو آنکھیں یا نگا ہیں، ایک مومن کی نگاہ نہیں ہیں مومن کی جو نگاہ ہے وہ حق اور صداقت کو دیکھنے والی نگاہ ہے.یہ نگاہ جہاں انفرادی یا اجتماعی وجود میں بے شمار خوبیاں دیکھتی ہے وہاں اسی وجود میں جو غفلت یا خامی یا نقص ہوتا ہے اس پر بھی نگاہ ڈالتی ہے.اسی طرح یہ آنکھ جہاں ہزار ہا عیوب پاتی ہے وہاں خوبیوں کو نظر انداز نہیں کرتی اور ایسے لوگوں کی کوششوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں مایوسی کے سامان پیدا نہیں ہوتے.پس یہ جو حقیقت کو اور صداقت کو دیکھنے والی آنکھ ہوتی ہے جس کو ہم ٹور ایمان کہتے ہیں یا جسے مومن کی فراست کہا جاتا ہے، یہ آنکھ جہاں ہزار ہا خو بیوں کو دیکھتی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے
خطبات ناصر جلد ششم خطبه جمعه ۳/ جنوری ۱۹۷۵ء قبول کیا اور جن پر رحمتوں کا نزول ہوا وہاں یہ آنکھ کمزوریوں کو بھی دیکھتی ہے اُن کا جائزہ لیتی اور ان کا محاسبہ بھی کرتی ہے اور مستقبل میں ان کو دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتی اور ہر آنے والی گھڑی کو پہلے سے بہتر بنانے کے سامان پیدا کرتی ہے.اسی طرح جب یہ آنکھ اپنے نفس میں یا اجتماعی زندگی میں عیب سیکھتی ہے تو مایوسی پیدا نہیں کرتی بلکہ یہ اعلان کرتی ہے:.لا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ (الزمر : ۵۴) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا اُمید ہونے کی ضرورت نہیں.تم دیکھتے نہیں کہ جہاں اتنے عیب اکٹھے ہو گئے ہیں وہاں یہ خوبیاں بھی تو پائی جاتی ہیں اس لئے نگاہ مومنانہ یا مومنانہ فراست سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ اُن کے لئے بھی دعائیں کرے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے سامان مانگے جو اللہ تعالیٰ سے دور چلے گئے ہیں.یہ مومنانہ فراست کی نگاہ نہ ترقیات کے دروازے بند دیکھتی ہے اور نہ مایوسی کے حالات پیدا کرتی ہے بلکہ یہ وہ نگاہ ہے جو خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول میں وسعت پیدا کرتی ہے لیکن وہ جو خوبیوں کے ساتھ عیبوں کو دیکھنے والی اور عیبوں کو دور کرنے کے لئے کوشش کرنے والی ہے وہ آسمانوں سے نازل ہونے والے فضلوں میں رفعتیں بھی پیدا کرتی ہے کیونکہ وہ ایک جگہ کھڑی نہیں ہو جاتی اور یہ نہیں کہتی کہ جو کچھ حاصل ہونا تھا وہ سب کچھ حاصل ہو گیا.نیکی ہی نیکی ہے اور کوئی کمزوری نہیں.اگر کوئی کمزوری نہیں تو اس کا مطلب ہے اس سے زیادہ آگے ترقی نہیں ہو سکتی اگر کمزوری نظر آتی ہے اور اُسے دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے تبھی مزید ترقیات کا امکان ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل ہر آن پہلے سے زیادہ نازل ہونے کا امکان ہے.پس یہ آنکھ محاسبہ کرتی ہے.یہ آنکھ محروم کی محرومیوں کو دور کرنے کی کوشش ہے.انہی کوششوں میں ایک چھوٹا سا حصہ وقف جدید کا ہے.گذشتہ سال وقف جدید کے کام میں قریباً ۲۵ فیصد اضافہ ہوا ہے اور وہ بھی اتنے تلخی کے زمانہ میں جب کہ توجہ مرکز کی بھی اور جماعتوں کی بھی ایک حد تک بعض ایسے عارضی کاموں اور ضروریات کی طرف تھی جو بظاہر بڑی پریشان کرنے والی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھو کہ ان تمام باتوں کے باوجود ہماری اس چھوٹی سی کوشش میں بھی جس کا میں اس وقت ذکر کر رہا ہوں کم و بیش ۲۵ فیصد اضافہ ہوا.میں اس وقت
خطبات ناصر جلد ششم ۶ خطبه جمعه ۳/ جنوری ۱۹۷۵ء جماعت احمدیہ کے مالی جہاد کی بات کر رہا ہوں یعنی جماعت احمدیہ کی طرف سے جو مالی قربانی اور ایثار پیش کیا جا رہا ہے.اس کے پیش نظر وقف جدید کی مالی قربانیوں کی بات کر رہا ہوں.پچھلے سال کے مقابلہ میں اس سال وقف جدید کے خرچ میں ۲۵ فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن ہم نے یہاں رک تو نہیں جانا.۲۵ فیصد اضافہ کی نسبت پچھلے سال کے مقابلہ میں ہے.یہ نسبت ہماری اصل ضرورت کا تو شاید ہزارواں حصہ بھی نہیں ہے بلکہ شاید لا کھواں حصہ بھی نہیں ہے.پس جہاں ہم خوش ہیں کہ جماعت احمدیہ نے اس قسم کے حالات میں بھی اپنے کام کے ایک حصہ کو ۲۵ فیصد آگے بڑھانے کی توفیق پائی وہاں ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اس سے ہم راضی نہیں.ہماری نگاہ مومنانہ راضی نہیں.ہماری فراست راضی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سمندر موجزن ہیں.ہم اُن میں سے اپنی کوششوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں حصہ پاتے ہیں مگر اس میں بہت زیادہ حصہ ہمارے لئے قابل حصول ہے جس کے لئے ہمیں اپنی کوششوں کو بڑھانا ہے.اس لئے جہاں آج میں وقف جدید انجمن احمدیہ کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں وہاں میں جماعت احمدیہ کو اس طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی تد بیر کو اور تیز کرو اور اپنی دعاؤں کو اور زیادہ بڑھاؤ.تضرع اور عاجزی پیدا کرو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کرو تا کہ ہمیں وہ مقصد حاصل ہو جائے جس کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے ہماری دائیں طرف سے بھی ہمارے کانوں میں غیر اللہ کی آواز پڑتی ہے اور ہماری بائیں طرف سے بھی ہمارے کانوں میں (غیر اللہ کی ) آواز پڑتی ہے لیکن ہمیں حکم یہ ہے کہ نہ تم دائیں طرف سے آنے والی آوازوں کی طرف متوجہ ہو کر اپنے اوقات اور کوششوں کو ضائع کرو اور نہ اپنی بائیں طرف سے آنے والی آوازوں کی طرف متوجہ ہو کر اپنی کوششوں اور تذ بیروں کو ضائع کرو بلکہ خدا تعالیٰ نے تمہیں ایک سیدھی راہ بتائی ہے.شاہراہ غلبہ اسلام کی تمہیں معرفت عطا کی ہے اور تمہیں اس پر کھڑا کیا ہے اور تمہیں اپنے فضل سے اُس پر چلایا ہے تم سید ھے اس شاہراہ اسلام پر چلتے چلے جاؤ نہ دائیں طرف جھکو اور نہ بائیں طرف بھٹکو بلکہ سیدھے چلتے چلے جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو
خطبات ناصر جلد ششم خطبه جمعه ۳/ جنوری ۱۹۷۵ء حاصل کرتے چلے جاؤ.اس نئے سال میں بھی ہماری یہ انتہائی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں.حالات خواہ کچھ بھی ہوں وہ ہمارے راستے میں روک نہیں بنتے نہ وہ ہماری رفتار کو سست کرتے ہیں بلکہ جیسا کہ پہلے ہوتا چلا آیا ہے وہ ہماری رفتار کو اور تیز کرتے ہیں.خدا کرے کہ یہ آنے والا سال نہ صرف وقف جدید کی اس کوشش میں بلکہ جماعت احمدیہ کی ہر کوشش میں پہلے سے زیادہ برکت بخشے اور ہمارا ہر قدم پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو جذب کرنے والا ہو اور پہلے سے زیادہ اسلام کی ترقی کے سامان پیدا کرنے والا ہو.( آمین ) کھانسی پھر شروع ہوگئی ہے.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ بیماری سے محفوظ رکھے.(روز نامه الفضل ربوہ ۱۷ جنوری ۱۹۷۵ صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ششم ۹ خطبه جمعه ۱۰ جنوری ۱۹۷۵ء جماعت احمدیہ کے قیام کا اصل مقصد دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۰ جنوری ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے دنوں لمبی بیماری رہی اور جلسے کے موقع پر کام بہر حال کچھ زیادہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ابھی تک نقاہت باقی ہے.اللہ تعالیٰ فضل کرے یہ نقاہت بھی دور ہو جائے گی.انشاء اللہ.ایک لمبا منصو بہ ہوتا ہے مثلاً یہ ایک لمبا منصوبہ ہے جو جماعت کے سپرد کیا گیا ہے.ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کی بنیادی غرض یہ تھی کہ ساری دنیا میں اسلام غالب آئے.یہ ایک لمبا منصوبہ، بنیادی منصوبہ یا غرض یا مقصد مہدی علیہ السلام کا یا ان کی بعثت کا تھا.انسانی فطرت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جو منصوبہ یا کام ایک زمانہ پر پھیلا ہوا ہو، اُسے وہ مختلف حصوں میں بانٹ کر ایک ایک حصہ کی تعمیل کرتا ہوا اپنی آخری منزل تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے.یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے.انسانی جسم بھی درجہ بدرجہ اپنے کمال کو پہنچتا اور انسان کے اخلاقی اور روحانی قوی بھی درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی
خطبات ناصر جلد ششم 1.خطبه جمعه ۱۰ جنوری ۱۹۷۵ء منازل طے کرتے ہوئے اپنی انتہا کو پہنچتے ہیں.درجہ بدرجہ آگے بڑھنے کا ایک ایسا اصول ہے جو بنیادی ہے.خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوق کے ساتھ بھی اور انسان کے ساتھ بھی.ہماری زندگیوں کا اور جماعت احمدیہ کے قیام کا اصل مقصد یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کو غالب کیا جائے.اس منصوبے نے بھی درجہ بدرجہ ترقی کرنی تھی اور اس وقت تک یہ منصو بہ درجہ بدرجہ ترقی کرتا چلا آ رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس وقت جب آپ اکیلے تھے اس آواز کو بلند کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ میرے ذریعے سے امت محمدیہ میں ایک ایسی جماعت قائم کی جائے کہ جو اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر کے اسلام کو سب ادیان باطلہ پر غالب کرنے والی اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے والی ہو اور بنی نوع انسان کے دل اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جیتنے والی ہو.جس وقت یہ آواز اٹھائی گئی اس وقت آپ اکیلے تھے مگر پھر سینکڑوں بنے.پھر ہزاروں بنے.پھر لاکھوں بن گئے.پہلے محدود تھے مکانی لحاظ سے ہندوستان کے بعض ( تین یا چار ) محدود، مختصر اور چھوٹے چھوٹے علاقوں میں پھر ان علاقوں میں وسعت پیدا ہونی شروع ہوئی.پھر یہ جماعت پنجاب میں پھیلی.پھر ہندوستان میں پھیلی.پھر کہیں کہیں باہر کے ممالک میں جماعت احمدیہ میں لوگ داخل ہونا شروع ہوئے.پھر ملکوں ملکوں میں پھیل کر اپنی اجتماعی زندگی کے ایک خاص موڑ پر آج یہ جماعت پہنچ چکی ہے اور جیسا کہ میں احباب کو بتا چکا ہوں کہ یہ صدی ہماری تیاری کی صدی تھی اور انشاء اللہ ہماری زندگی کی دوسری صدی دنیا میں اسلام کے غالب ہو جانے کی صدی ہوگی اور اس کے لئے جو پندرہ سال ہماری زندگی کے پہلی صدی کے باقی رہ گئے ہیں.اس میں ہم نے تیاری کرنی ہے غلبہ اسلام کی صدی کے استقبال کی.یہ پندرہ سال جو ہیں اس کے لئے ہم نے ایک منصوبہ بنایا جو صد سالہ جو بلی فنڈ“ کے نام
خطبات ناصر جلد ششم 11 خطبہ جمعہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۷۵ء سے موسوم ہے.اس کے لئے جماعت نے مالی میدان میں بڑی قربانی دی جو حیران کن ہے اور شاید بعض کے لئے پریشان کن بھی ہے.بہر حال ایک عظیم قربانی دی.اس کے لئے ہمیں صرف مالی قربانیوں کی تو ضرورت نہیں.مالی قربانی بھی بڑی ضروری ہے کیونکہ دوسری قربانیوں کے نتائج نکالنے کے لئے اموال کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اس کے لئے ہمیں اگلی صدی کے شروع میں سینکڑوں ہزاروں مبلغین کی ضرورت پڑے گی اور ہزاروں مبلغین کا پیدا کر نا پندرہ سال کے اندر موجودہ نظام میں ممکن نہیں ہے.اس لئے اس کے متعلق ہمیں کچھ کرنا پڑے گا.پہلے بھی میں تحریک کرتا رہا ہوں وقف بعد ریٹائرمنٹ کی.وہ اپنی ایک تحریک ہے لیکن ضرورت کے موقع پر ممکن ہے ہزاروں درمیانی عمر کے احمدیوں کو اپنے دنیوی کام چھوڑ چھاڑ کے دین کی خاطر اسلام کے غلبہ کے لئے میدان میں اترنا پڑے.ایک لمبا وقف عارضی جو دو ہفتے کا نہیں شاید تین یا پانچ سال کا ہو یا جو چاہئیں اس سے زیادہ وقت دیں، ایسا وقف کرنا پڑے گا.اس کی تفاصیل ذہن میں آ رہی ہیں.وہ تو بعد میں کسی مناسب موقع پر میں انشاء اللہ جماعت کے سامنے رکھوں گا.بہر حال ان پندرہ سال میں غلبہ اسلام کی صدی کے استقبال کے لئے ہم نے جو کام کرنے ہیں وہ بھی درجہ بدرجہ ہمارے سامنے آئیں گے اور ہم درجہ بدرجہ اس صدی کی طرف حرکت کریں گے اپنی عاجزانہ کوششوں کے ساتھ ، اپنی مستانہ دعاؤں کے ساتھ کوششوں کو بابرکت کرنے کے سامان پیدا کرتے ہوئے.یہ جو پندرہ سال رہ گئے ہیں ان میں یہ سال جس میں ہم اب داخل ہورہے ہیں گو مارچ میں صد سالہ جو بلی کا سال شروع ہوتا ہے لیکن جلسہ کی وجہ سے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ پھیری ہے کہ جو ہمارے عقائد ہیں ان کا ہر چھوٹے بڑے کے لئے اور مردوزن کے لئے جانا ضروری ہے اور بار بار اُن کا درس ہونا چاہیے.میری جلسہ سالانہ کی ۲۸ تاریخ کی جو تقریر تھی، اُس میں میں نے مختصراً بعض مضامین کو لے کر جماعت کے سامنے رکھا تھا لیکن ہمارے صرف وہی عقائد تو نہیں ہیں.
خطبات ناصر جلد ششم ۱۲ خطبه جمعه ۱۰ / جنوری ۱۹۷۵ء اسلام نے جو عقائد ہمارے سامنے رکھے اُن میں بہت وسعت ہے.جیسا کہ ہم نے ان کو حضرت مہدی علیہ السلام کی استدلالی اور تفسیری تعلیم کی روشنی میں پہچانا، ان میں بڑی وسعت ہے مثلاً کسی وقت قضا و قدر بڑا الجھا ہوا مسئلہ تھا لیکن مہدی علیہ السلام نے اس کو اس طرح حل کر دیا اور اس کی وہ ساری می گنجلکیں نکال دیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کو الجھا ہوا کون کہتا تھا لیکن اگر ہم اس مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ بڑوں اور چھوٹوں ، مردوں اور عورتوں کے سامنے بیان نہ کرتے رہیں تو پھر الجھ جائے گا یا مثلاً جنت اور دوزخ کے متعلق اسلامی تعلیم جس میں حقیقی حسن پایا جاتا ہے.اس حسن کو جس رنگ میں حضرت مہدی علیہ السلام نے ہمارے سامنے رکھا اور وہ ہمارا عقیدہ بن گیا.اس کے متعلق ہر عمر اور سمجھ کے لحاظ سے جماعت کے سامنے ہمیں مسائل کو پیش کرنا پڑے گا.یا مثلاً مرنے کے بعد روح کی جو کیفیت یا کیفیات ہوتی ہیں اور جو دوسری زندگی ہے، اُخروی زندگی.یہ کس قسم کی ہے اور جنت ( بعد از قیامت ) اور اس سے پہلے کے برزخ کا زمانہ وغیر ہ اصطلاحیں استعمال ہو رہی تھیں اور ان کا مطلب اندھیروں میں چھپا ہوا تھا.اس کو اُس نور نے ظاہر کیا جو حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے حضرت نبی اکرم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کیا.اس نور کی روشنی میں ایک عجیب چیز ہمارے سامنے آگئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ سارے احمدی تو ان چیزوں کو اس رنگ میں ابھی جانتے نہیں دو وجہ سے.ایک تو جماعت چھوٹی ہے اور بڑھتی جارہی ہے.جو نئے ہمارے اندر آ رہے ہیں اُن کو سکھانا پڑے گا.جماعت چھوٹی ہے اور بڑھتی جارہی ہے اور جو بچے ہمارے جوان ہورہے ہیں اُن کو ہمیں سمجھانا پڑے گا.دو طرح وسعت پیدا ہو رہی ہے جماعت میں.اور ذکر ایک بڑی اہم ہدایت ہے.ہر وقت یہ چیزیں سامنے آنی چاہئیں.بڑے بڑے ماہر بھی اگر کچھ عرصہ اپنے مہارت والے کاموں سے علیحدہ رہیں تو انگریزی کا محاورہ ہے کہ "I am out of touch" کہ میں تو دیر سے اس چیز کو چھوڑ بیٹھا ہوں.اس وجہ سے میرے ذہن میں وہ پوری تفاصیل روشن ہو کر نہیں ہیں موجود.اس کو وہ تسلیم کرتے ہیں اور ہر عقلمند ، دیانت دار انسان کو تسلیم کرنا چاہیے.جس کا مطلب ہے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۳ خطبه جمعه ۱۰ / جنوری ۱۹۷۵ء کہ ہر وقت چوکس ہو کر ان باتوں کو بڑوں کے جنہوں نے ایک وقت میں سمجھا اُن کے سامنے بھی لانا چاہیے.پس یہ پہلا سال پندرہ سالہ کوشش کا پہلا زینہ ہے جس میں ہم نے اپنے عقائد سے خود کو اور اپنے بھائیوں کو اور بچوں کو ماؤں کو اور بیویوں کو اور بیٹیوں کو اُن سے آگاہ کرنا ہے اور اس کے لئے ہمیں بڑی محنت کر کے کتاب میں لکھنی پڑیں گی.اپنے تخیلات کے نتیجہ میں نہیں اور "Flight of Imagination" کے نتیجہ میں نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس رنگ میں روشنی ڈالی ہے اُس رنگ میں مدون کر کے اور اگر کہیں بچوں کی استعداد سے زیادہ علم ہو تو بچوں کو سمجھانے کے لئے بچوں والی زبان میں ان کو لا کر.اس قسم کی کتابیں ہمیں لکھنی پڑیں گی اور اس سال میں جس میں ہم داخل ہو گئے اس سال میں ہم صد سالہ جو بلی کے لحاظ سے عنقریب داخل ہونے والے ہیں، ہمیں دو باتیں کرنی پڑیں گی.اس سال کا ہمارا پروگرام یہ ہے ایک کتابیں تیار کرنا اور شائع کر دینا اور دوسرے ہر احمدی کے ہاتھ میں مختصر اصول سے متعلق ایک مختصر چھوٹی کتاب دے دینا ہے جسے وہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھے اور پڑھے اور آپس میں تبادلہ خیال کرے اور ایک دوسرے کو سمجھائے.اگلے سال جلسہ کے موقع پر انشاء اللہ تعالیٰ ہر آدمی اپنے بنیادی عقائد سے پوری طرح واقف ہو تا کہ وہ ان عقائد کی روشنی میں دوسروں سے تبادلہ خیال کر سکے.مختصراً میں نے بتایا تھا کہ اللہ کے متعلق ہمارا کیا عقیدہ ہے مثلاً ایک بات میں نے یہ بتائی تھی کچھ نئی باتیں بھی اللہ تعالیٰ نے جلسہ کے موقع پر سکھائیں اور بہت سے بڑے بڑے سمجھدار ہمارے سکالرز (Scholars) جو ہیں ، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ نے اس جلسہ سالانہ پر فلاں فلاں مسئلہ حل کر دیا لیکن اللہ تعالیٰ کے متعلق ہمارا صرف وہی ، اُس حد تک اس بیان میں محدود اصولی عقیدہ تو نہیں بلکہ بیسیوں شاید سینکٹروں اصولی باتیں ہیں جو ذات باری کے متعلق اس کے کامل اور پاک ہونے کی حیثیت سے جس کی وجہ سے ہم سُبحان اللہ کہتے ہیں اور اس کی ان صفات کی وجہ سے جن میں ہمیں اس کے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۴ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۷۵ء وجود میں ایک حُسن اور ایک احسان کا بہت زبر دست پہلو نظر آتا ہے جس کے نتیجہ میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی احتیاج رہتی ہے مثلاً جلسہ کے موقع پر خدا کی جو چار بنیادی صفات ہیں اُن کو تو میں نے نہیں لیا تھا.رب العالمین ، رحمان، رحیم، مالک یوم الدین یہ خدا تعالیٰ کی چار بنیادی صفات ہیں.جہاں تک اس کی مخلوق ، اس عالم اور Universe ( کائنات ) کا تعلق ہے.باقی خدا تعالیٰ کی جس قدر صفات ہیں ان کے متعلق نہ ہم کچھ کہہ سکتے ہیں نہ ہم میں اتنی طاقت ہے کہ ہم جان سکیں لیکن جن صفات کا ہمارے ساتھ تعلق ہے مخلوق کے ساتھ اور مخلوق میں سے ہم انسانوں کے ساتھ وہ قرآن کریم نے بیان کی ہیں، ان کی تفصیل ہمارے سامنے آنی چاہیے مثلاً جلسہ سالانہ پر میں نے یہ بات نہیں بتائی.وہاں میں مختصر کرنا چاہتا تھا.بڑی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم نے جو اللہ تعالیٰ کی صفات بتائیں ایک تو تفصیلی ہیں اور ایک ان صفات کا ذکر ہے جن صفات کا تعلق ہر دوسری صفت کے ساتھ ہے ان کی بنیاد کے اوپر.باقی صفات جو ہیں وہ اس بنیاد پر اُٹھیں مثلاً سورۃ الملک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری صفات میں تمہیں کوئی تضاد نہیں نظر آئے گا.یہ ساری صفات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس کا موازنہ و مقابلہ کر کے انسان کی سمجھ میں آتا ہے کہ صفات باری میں تضاد کوئی نہیں.یا اپنے نفس میں ایک بڑا دلچسپ اور بڑا اہم اور بڑا وسیع مضمون ہے لیکن اس بنیادی صفت کے مقابلے میں ایک ذمہ واری انسان کے اوپر آ کے پڑ جاتی ہے.خدا تعالیٰ نے کہا کہ میری صفات کا مظہر بنو ، وہی رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ.تو بنیادی صفت خدا تعالیٰ کی یہ ہوئی کہ اس کی صفات آپس میں تضاد نہیں رکھتیں اور بنیادی ذمہ واری انسان کی یہ ہوئی کہ اس کی زندگی کے اندر بھی کوئی تضاد نہیں پایا جانا چاہیے اور میں نے بڑا غور کیا اور میرا مشاہدہ یہ ہے کہ انسان کی ناکامیوں کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کی زندگی میں تضاد پایا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی اور اس صفت سے کہ خدا نے فرمایا کہ میری صفات میں تمہیں تضاد کبھی نظر نہیں آئے گا.ایک اس کے مقابلے میں انسان کی زندگی ہوتی ، ناکام ہو جاتی مثلاً یہ تضاد : ایک نوجوان ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۵ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۷۵ء بڑا اچھا ذہن دیا اور اس کی خواہش بھی ہے کہ میں اس ذہن کے ذریعہ دنیا کے چوٹی کے دماغوں میں اپنی لائن میں جو بھی میرا دائرہ ہے دلچسپی کا ذہنی لحاظ سے، اُس میں آسمان پر پہنچوں.اس کو خدا تعالیٰ نے یہ طاقت بھی دی اور اس کو پہچان بھی دی.اس نے اپنے نفس کو پہچانا اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی لیکن بدقسمتی سے اس نے گپیں مارنے والے دوست بنالئے.اب تضاد ہو گیا.ایک طرف اس کی صلاحیتیں ہیں جو اس کو آسمان تک لے جانا چاہتی ہیں دوسری طرف اس کو گپیں مارنے کی عادت ہے جو زمین کی طرف گھسیٹ رہی ہے.جہاں یہ تضاد پیدا ہوا نا کام ہو گیا.اس کی ساری صلاحیتیں جو ہیں وہ ضائع چلی جائیں گی.یہ جو خدا تعالیٰ کی ذات کا تصور ہے اللہ.اور اللہ خدا کا اسم جامد ہے اور قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ اس اسم کا یعنی اللہ کے معنے کیا ہیں.اللہ وہ ہے جو رب العالمین ہے.قرآن کریم کے شروع میں آیا ہے.اسی طرح اللہ وہ ہے جو اعلیٰ ہے.سبحان اللہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے یہ.جس کی کبریائی ہے بڑی عجیب.سارے قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے اللہ وہ ہے.اللہ وہ ہے.تو اللہ کی تعریف ہم خود نہیں کر سکتے ہیں.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جس کی ذات کی حقیقت جہاں تک انسان سمجھ سکتا تھا اور اس کی صفات کی حقیقت جہاں تک انسان کا دماغ پہنچ سکتا تھا قرآن کریم نے ہمیں بتائی اور اس پر کافی روشنی ڈالی.اسی طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو بڑی پیاری Personalities ، جو دو بنیادی جو ہر آپ کے قرآن کریم نے ہمیں بتائے جس کا میں نے ذکر بھی کیا.اتنی دوری رہی ہم سے کہ ہم کہیں کہ ہمارے لئے اسوۃ حسنہ کیسے بن گیا.بشر اور رسول قرآن نے کہا لیکن ہیں تمہارے لئے اُسوہ.وہ تم میں سے ایک بشر ہے.ایک بشر اگر اپنی استعداد کے کمال تک پہنچ سکتا ہے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ایک دوسرا بشر اپنے دائرہ استعداد کے اندر اپنے کمال کو کیوں نہ پہنچ سکتا.اس اسوہ کو تم Follow کرو.اس کے پیچھے چلو.اس کو اپنا ؤ اور اس کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ تو اپنے دائرہ استعداد میں تم بھی کمال کو پہنچ جاؤ.ہر بشر کی مشابہت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
خطبات ناصر جلد ششم ۱۶ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۷۵ء سے اس معنی میں ممکن ہوگی.یہ درست ہے کہ جو استعداد یں اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھیں وہ کسی اور انسان کو نہ دیں.اور نہ خدا تعالیٰ ہمیں یہ بتاتا ہے، ہمارانہیں یہ خدا تعالیٰ کہتا ہے.نہ کسی اور کوملیں گی لیکن ہر انسان کے لئے اس خوشی کا امکان پیدا کر دیا اسلام نے کہ تمہیں تمہارا جو بھی دائرہ استعداد ہے، جس قسم کی جتنی طاقتوں کی تمہیں صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں ، تم اپنے دائرہ استعداد اور صلاحیتوں کے دائرہ کے اندر کمال تک پہنچ سکتے ہو جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دائرہ استعداد کے اندر اپنے کمال کو پہنچ گئے.تمہارے لئے یہ امکان ہے اور یہ مشابہت بن جاتی ہے کہ وہ بشر ہوتے ہوئے اپنے کمال کو پہنچ گئے.ایک زید اور بکر اور عمر اور میں اور تم جو ہیں وہ اپنے اپنے دائرہ کے اندر اپنے کمال کو پہنچ سکتے ہیں.یہ امکان پیدا کر دیا اور بشر کی مشابہت پیدا کر دی.دوسری طرف دوسرا بنیادی پہلو سامنے رکھا.دو ہی بنیادی پہلو ہیں جو ابھی تک میرے ذہن میں ہیں واللہ اعلم.وہ نور کا ہے اور اس میں اس پہلو کے لحاظ سے انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کے نور کے حصول کا امکان پیدا کر دیا.اللہ تعالیٰ سے کامل نور لائے.کامل نور جو لائے گا اُسی کے لئے ممکن ہے کہ انسان کے سارے اندھیروں کو وہ دور کر دے.جو خود کامل نور لے کر نہیں آیا وہ دوسروں کے اندھیروں کو کیسے دور کر سکتا ہے.اسی لئے ہمارا عقیدہ ہے کہ جو پہلے انبیاء شریعت لانے والے یا شریعت کو قائم کرنے والے گزرے بہت گزرے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامل نو ر نہیں ملا تھا جو نور محمدی تھا اس کا ایک حصہ ان کو ملا تھا.اس لئے وہ ایک حد تک اپنے زمانہ اور حالات کے لحاظ سے اور قوموں کے لحاظ سے جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے، ایک حد تک انسان کے اندھیروں کو دور کر سکے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور کامل بن کر ، سراج منیر بن کر آئے اور اس وجہ سے آپ کے ذریعہ سے یہ ممکن ہوا کہ انسان کے سارے اندھیروں کو قرآن کریم کی شریعت اور تعلیم کی رو سے اور اس کے نتیجہ میں دور کر دیا.یہ ہزاروں لاکھوں پہلو ہیں.کچھ اصول بتائے جائیں گے.کچھ آپ آپس میں باتیں
خطبات ناصر جلد ششم ۱۷ خطبه جمعه ۱۰ / جنوری ۱۹۷۵ء کرتے ہوئے سوچتے ہوئے وہ پہلو آپ کے سامنے آئیں گے.آپ کو پتہ لگے گا کتنا عظیم ہے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اور کس قدر عظیم شریعت اور ہدایت ہے جو آپ لے کر آئے اور قرآن کریم جس نے اپنے اندر ہر اندھیرے کو دور کرنے کا سامان اور نور لپیٹا ہوا ہے وہ اندھیرے جو انسانوں کے بہکانے کا موجب بن گئے یا بن رہے ہیں اور وہ اندھیرے بھی جو آئندہ کبھی انسان کی ٹھوکر کا باعث بن سکتے ہیں اور بہکنے کا باعث بن سکتے ہیں ان اندھیروں کے دور کرنے کا سامان بھی قرآن کریم کے اندر موجود ہے.بہر حال اس سال کا پروگرام ہے یعنی ہمارا صد سالہ جو بلی کا جو منصوبہ ہے جس کا اب پہلا سال گزر چکا ہے اور اب پندرہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چودہ سال باقی رہ گئے ہیں کیونکہ پچھلا ایک سال تو ہم نے گزار دیا ہے اور پہلا سال تھا مالی میدان میں وعدوں کا اور حصے کے پورا کرنے کا.اس میں کام ہوا اور وہ مکمل ہو گیا.اس کام میں جماعت میں ایک حرکت پیدا ہوگئی اور دوستوں نے وعدے کرنے میں کمال کر دیا.میں نے بتایا ہمارے لئے حمد کے سامان پیدا کئے اور حیرانی کے سامان پیدا کئے.خدا تعالیٰ نے اتنی طاقت دی کہ حیرانی کے نتیجہ میں ہی حمد جو ہے وہ جوش مارتی ہے اور بعض کے لئے پریشانی تھی کہ یہ کیا ہو گیا.اتنی طاقتور ہوگئی جماعت.ہمارا دوسرا سال اب مارچ سے شروع ہوگا اور اس کے بعد چودہ سال باقی رہ جائیں گے تو ان پندرہ سال میں سے پہلا سال مالی میدان میں تیاری کرنے کا تھا.دوسرا سال علمی میدان میں تیاری کا ہے کہ جو ہدایت اور جونور اور جو روشنی اللہ تعالیٰ نے اسلام میں ہمارے لئے رکھی.جسے ہم نے مہدی علیہ السلام کے ذریعہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل حاصل کیا ہے.وہ روشنی کہیں ہماری آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے.اس لئے تم پکے ہو جاؤ خود بھی اور پکے کرو اپنی نسلوں کو بھی اور اُن کو بھی جو ہمارے اندر شامل ہو رہے ہیں.اس کے لئے فوری کام شروع ہونا چاہیے کچھ میری بھی خواہشات ہیں اور ارادے ہیں.ان کے لئے میں بھی دعا کر رہا ہوں.آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ کچھ میں بھی
خطبات ناصر جلد ششم ۱۸ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۷۵ء لکھوں جماعت کے لئے بنیادی طور پر، بڑی دیر سے میرا ارادہ تھا.کچھ کام کیا ہے لیکن دوسرے کاموں کی وجہ سے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاسکی.میرا خیال تھا کہ نوجوانوں کے لئے مختصراً یہ عقائد جو ہیں اس کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات اکٹھے کر کے جہاں کہیں اپنی طرف سے اس کی وضاحت کرنی ہو وہ کر کے ایک چھوٹی سی کتاب جو ہر وقت ان کے پاس رہے اور ہر وقت وہ پڑھتے رہیں اور ہم دیکھتے رہیں کہ وہ پڑھتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے اگر توفیق دی تو اس کی میں کوشش کروں گا لیکن وہ تو ایک چھوٹی سی بنیاد ہو گی لیکن اس سے آگے ہمیں جانا چاہیے.ابھی ہمیں دس پندرہ کتا میں لکھنی پڑیں گی.لیکن وہ بہت زیادہ بڑی بھی نہیں ہونی چاہئیں اور بہت زیادہ چھوٹی بھی نہیں ہونی چاہئیں.مختصراً اختصار کے ساتھ اور وضاحت کے ساتھ ان کو تیار کرنا چاہیے.اس کے لئے بڑی محنت کی ضرورت پڑے گی.بہت کچھ دیکھنا پڑے گا.لیکن یہ جو اس سال کا منصوبہ ہے یہ صرف ہمارے عقائد سے تعلق رکھتا ہے یعنی اس میں مناظرانہ رنگ نہیں کہ اس کے مقابلہ میں فلاں کا عقیدہ کیا ہے، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے ایک صداقت تک پہنچا دیا.ہم چاہتے ہیں کہ وہ صداقت ہماری نظروں سے غائب نہ ہو جائے اور ہماری زندگیوں سے دور نہ چلی جائے.کہیں ہم نا کام نہ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی ناکامیوں سے محفوظ رکھے.اس کے لئے ناظر اصلاح وارشاد اور وکیل التبشیر پر مشتمل دو آدمیوں کی میں کمیٹی اس وقت بنادیتا ہوں اور باقی وہ مجھ سے مشورہ کر لیں اور اس کام کو فوری طور پر وہ شروع کر دیں.فوری طور سے میری مراد ہے کل سے شروع کر دیں اور یہ کوشش ہونی چاہیے کہ دو تین مہینے کے اندر کوئی چیز آجائے.پھر اور.پھر اس سال کے اندر ہم اپنے اس مقصد کو حاصل کر لیں اور اس کے بعد اسی سال کچھ ہم کریں گے لیکن اس کے تراجم کے متعلق اس وقت میرے ذہن میں کوئی منصو بہ نہیں.اللہ تعالیٰ خود سمجھ عطا کر دے گا اپنے موقع پر.لیکن بہر حال ہم نے ساری دنیا کی زبانوں میں پھر
خطبات ناصر جلد ششم ۱۹ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۷۵ء ان عقائد کی اشاعت کرنی ہے اور یہ بھی ہم نے انتخاب کرنا ہے کہ شروع میں غیر زبانوں کے لئے ہمیں بہر حال مختصر جو تین چار سو صفحہ کی اس سائز کی جس کا مطلب ہے سو دو سو صفحہ کی کوئی کتاب ہو جس کے ہم ترجمے کرتے چلے جائیں.پھر تفاصیل باہر والوں کے لئے ہم بعد میں دے سکتے ہیں.بہر حال یہ اس کے ساتھ ہی ہے ایک دوسرا پہلو ہے صرف اردو میں تو نہیں.ساری دنیا میں اگر احمدی پھیل چکے ہیں تو ساری دنیا کی ضرورت پیدا ہو چکی ہے.یہ نہیں کہ ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہیں.اس وقت آج یہ ایک حقیقت ہے.دنیا میں انسان کی زندگی کی حقیقت ہے کہ ساری دنیا کی زبانوں میں مہدی علیہ السلام نے جس رنگ میں اسلام کی روشنی دنیا میں پھیلانی چاہی ان زبانوں میں لٹریچر تیار ہونا چاہیے.بہر حال اس طرف بھی ہم نے توجہ دینی ہے لیکن اس سال ہم نے یہ اپنے لئے اردو میں ضرور کر دینا ہے انشاء اللہ، اللہ کی توفیق سے.اور پھر تراجم کی طرف ہم نے متوجہ ہونا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی بھی توفیق دے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ششم ۲۱ خطبہ جمعہ ۱۷ / جنوری ۱۹۷۵ء اسلام کی ابدی صداقتوں کو نئی نسل کے سامنے دہراتے چلے جائیں تا وہ آئندہ ذمہ داریوں کو نباہنے کے قابل ہو جائے خطبه جمعه فرموده ۱۷ جنوری ۱۹۷۵ ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت جماعت احمد یہ ایک نہایت ہی اہم اور نازک تربیتی دور میں داخل ہو چکی ہے.مخالفت نے اس وقت جو رنگ اختیار کیا ہے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم تربیت پر بہت زور دیں.تربیت کی ذمہ داری بچوں پر نہیں ڈالی جاسکتی اور نہ نو جوانوں پر ڈالی جاسکتی ہے.یہ کام بڑوں کا ہے یعنی عمر میں اور تجربے میں ثقہ اور سلجھی ہوئی طبیعتوں والے انصار کا یہ فرض ہے کہ وہ تربیت کی طرف توجہ دیں.چنانچہ آج میں اپنے انصار بھائیوں سے اسی سلسلہ میں مخاطب ہو رہا ہوں.الہی سلسلے یا اُمت محمدیہ کے اندر وہ آخری الہی سلسلہ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں قائم کیا گیا، اس سے پہلے کے الہی سلسلے تنزل کرتے ہوئے نئے سلسلوں کی شکل اختیار کرتے چلے گئے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ جو امت بنائی گئی اس میں مختلف ادوار میں اور مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلحین اور محمد دین پیدا کئے گئے.جنہوں نے اپنے اپنے علاقوں اور زمانوں میں دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کی ذمہ داری نباہی
خطبات ناصر جلد ششم ۲۲ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۷۵ء اور اس طرح یہ شمعیں نسلاً بعد نسل روشن ہوتی رہیں اور اسلام اپنی خالص اور صحیح شکل میں دنیا کے سامنے آتا رہا یہاں تک کہ مہدی علیہ السلام کا زمانہ آ گیا اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے اولیاء اللہ کو بھی بتایا ہے اور اُنہوں نے اپنی کتب میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ مہدی علیہ السلام کا نور قیامت تک ممتد ہو گا جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک ایک کے بعد دوسری نسل کی تربیت ضروری ہے تاکہ وہ نور جو اسلام کا نور ہے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ہے جسے دنیا نے مہدی علیہ السلام کے ذریعہ دیکھا وہ اپنی پوری چمک اور روشنی کے ساتھ قائم رہے ہمارے دلوں میں بھی اور ہمارے اعمال میں بھی ، ہماری کوششوں میں بھی اور ہماری زندگی کے ہر پہلو میں بھی تا کہ جس غرض کے لئے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے تھے، وہ غرض پوری ہوتی رہے اور ہر انسان ہمارے محبوب آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اپنے رب کی معرفت بھی حاصل کرے اور اس کی رحمتوں کا بھی حصہ دار بنے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے پہلے انبیاء کے سلسلوں میں تنزل واقع ہوا اور پھر نئے انبیاء مبعوث ہوئے یا اُمت محمدیہ میں محمد دین ، مصلحین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنے والوں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والوں نے اپنے اپنے وقتوں میں اسلام کے نور کو اور وہ جو سراج منیر تھا اس کی روشنی کو از سر نو قائم کیا تو پھر اس میں تنزل اور تبدیلی جو واقع ہوئی.وہ کیوں؟ وہ اس لئے کہ آئندہ نسلوں کو سنبھالا نہیں گیا اور اُن کی تربیت نہیں کی گئی.انہوں نے اپنی آنکھوں سے جن حقائق کو اور جن صداقتوں کو اور جن انوار کو اور جن رحمتوں کو دیکھا تھا ، آنے والی نسلوں کی آنکھوں سے وہ چیز میں اوجھل ہوگئیں اس لئے وہ صراط مستقیم سے بھٹک گئیں.پس ہماری جماعت کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو صداقتیں کامل اور مکمل شکل میں قرآن عظیم میں پائی جاتی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ایک کامل نبی جو خاتم تھا تمام روحانی کمالات کا اس کے ذریعہ ہمیں عطا ہوئی ہیں، ہم انتہائی کوشش کریں کہ یہ صداقتیں اور یہ انوار اور یہ حقائق اور یہ برکات اور یہ رحمتیں جماعت احمدیہ کی ایک نسل کے بعد دوسری نسل حاصل کرتی چلی جائے.اگلے چودہ سال کا زمانہ میرے نزدیک تربیت پر بہت زور دینے کا زمانہ ہے جس میں ہزاروں ہزار احمدیوں کو تربیت
خطبات ناصر جلد ششم ۲۳ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۷۵ء یافتہ ہونا چاہیے اور پھر اس کے بعد جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتا یا ہے غلبہ اسلام کی صدی کا ہم نے استقبال کرنا ہے.بہر حال تربیت ساتھ لگی ہوئی ہے لیکن بعض اوقات تربیت پر زیادہ زور دینا پڑتا ہے اور بعض اوقات اعمال کی طرف زیادہ توجہ کرنی پڑتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہوتی رہتی ہے کیونکہ اپنے اندر اسلام کو قائم رکھنے اور شریعت محمدیہ کے انوار کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے اور مستانہ وار جہاد کرنا پڑتا ہے.بہر حال یہ زمانہ تربیت کا زمانہ ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ عمل نہیں کرنا.تربیت کا زمانہ اس معنے میں مراد ہے کہ اس وقت تربیت کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل بھی ان ذمہ داریوں کو نباہنے کے قابل ہو کر ہمارے شانہ بشانہ کھڑی ہو جائے اور اس لحاظ سے بھی کہ انشاء اللہ بڑی وسعت پیدا ہو گی اور بہت زیادہ تعداد میں مربیوں کی ضرورت پڑے گی.ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہیے کیونکہ ہماری کامیابی کے لئے مرتیوں کا ہونا ضروری ہے.ضرورت کے وقت مربیوں کا میتر آنا یہ بھی اس وقت کا ایک اہم تقاضا ہے.پس اگر ہم خود اپنے نفوس کی اصلاح کر لیں اور اگر ہم یہ کوشش کریں کہ ہمارا ماحول تربیت یافتہ اور اصلاح یافتہ ہو جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر وقت اُن صداقتوں کو جو اسلامی عقائد میں پائی جاتی ہیں اور اُن حقیقتوں کو جنہیں قرآنی شریعت نے ہمارے سامنے رکھا ہے اُن کو خود سمجھیں اور اُن کے مطابق اپنی زندگی گزار دیں اور اپنی چھوٹی نسلوں کو ، نو جوانوں کو اور نئے آنے والوں کو بھی اسلامی تعلیمات کی صداقتوں اور قرآنی حقائق سے آگاہ کریں بلکہ ان صداقتوں کو حفظ کرا دیں اور اُن کی زندگی کا جزو بنا دیں.تب ہم خود کو جماعتی اجتماعی لحاظ سے اس قابل بنا سکیں گے کہ جو ذمہ داری اگلے تیرہ چودہ سال میں ہم پر پڑنے والی ہے ہم اُسے نباہ سکیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکیں اور اس کی خوشنودی کو پاسکیں.جو صداقت مثلاً اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کے متعلق اسلام نے ہمیں بتائی ہے، وہ تو ایک عجیب اور حسین تعلیم ہے.بہت سی حقیقتیں ہیں جو ہم کو بتائی گئی ہیں.اُن کے عرفان اور معرفت کو قرآن کے ذریعہ ہم نے حاصل کیا مگر انسان یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کی
خطبات ناصر جلد ششم ۲۴ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۷۵ء ایک نسل کے بعد دوسری نسل نے یہ صداقتیں بھلا دیں اور اُن کی طرف توجہ نہیں دی.یہ کیسے ممکن ہوا؟ لیکن جب ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عملاً یہ ممکن ہو گیا.اللہ تعالیٰ کو ماننے والے عملاً بہت سی بدعات کا شکار ہو گئے اور یہ آج کی بات نہیں.پچھلے چودہ سو سال میں ہزاروں لاکھوں مصلحین نے یہی اعلان کیا کہ صداقتیں تمہیں دی گئیں.آسمان سے نور تمہارے او پر نازل ہوا پھر بھی تم اندھیروں میں جا چھپے اور وہ صداقتیں تم سے اوجھل ہو گئیں اور وہ معرفت اور عرفان جا تا رہا.وہ محبت اور وہ عشق کا ماحول قائم نہ رہا.ایک طرف اتنی عظیم صداقتیں ہیں.اتنا عظیم محسن ہے اور دوسری طرف اُن کا نظر سے اوجھل ہو جانا بھی ایک ایسا واقعہ ہے کہ انسانی عقل اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار تو نہیں لیکن انسان کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایسا واقعہ ہو گیا.اس لئے یہ بڑے خطرے کی بات ہے کہ ہم جو بڑے ہیں ہم جو انصار اللہ کہلاتے ہیں.ہم اگر اپنے کام سے غافل ہو گئے اور اگر ہم نے اپنی ذمہ داریاں نہ نبا ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جو بعد میں آنے والی نسل ہے یا جو ان کے بعد آنے والی نسل ہے وہ کمزوری دکھائے اور اللہ تعالیٰ کے قہر کا مورد بن جائے حالانکہ اُن کو اس لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو پائیں.خدا تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ تو پورا ہوگا.ہمیں اپنی اور اپنے بچوں کی اور اپنی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے.اس لئے میں انصار اللہ کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ہر جگہ جہاں ایک یا ایک سے زائد انصار پائے جاتے ہیں تربیتی ماحول پیدا کریں اور اپنے گھروں میں، اپنی مساجد میں، اپنے ڈیروں میں اور اپنی بیٹھکوں میں ان باتوں کو دُہرائیں.اس شکل میں اور اس تفصیل کے ساتھ جو مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے رکھی ہیں اور یہ کوشش کریں کہ اس معرفت کے حصول کے بعد دوسروں کو بھی معرفت سکھائیں.معرفت ایک تو خود اپنے لئے اُنس اور لگاؤ اور پیار پیدا کرتی ہے یعنی اعلی تعلیم خود اپنے حسن کی طرف کھینچتی ہے لیکن وہ تو ایک ذریعہ ہے، منزل تو نہیں وہ تو ایک راہ ہے خدا تعالیٰ کا پیار دلوں میں پیدا کرنے کے لئے.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو صداقتیں پیش کی ہیں قرآن کریم نے جو ہدا یتیں دی ہیں، وہ ہر ایک کے سامنے حاضر رہنی چاہئیں.قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور
خطبات ناصر جلد ششم ۲۵ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۷۵ ء صفات کے متعلق ہمیں جو کچھ بتایا گیا ہے، وہ ہمیں بھول نہیں جانا چاہیے.اسلام کی شرک سے مبرا تعلیم کے ہوتے ہوئے بعض لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں.اسی قسم کی اور بھی بہت سی بدعات ہیں جو مسلمانوں کے اندر گھس آئی ہیں.انسان اپنے مالک اور اپنے خالق اور اپنے رب کریم اور اپنے خدائے رحمان ، رحیم اور مالک یوم الدین کو بھول جاتا ہے اور راہِ ہدایت سے بھٹک جا تا ہے.یہ بڑے فکر کی بات ہے.پہلوں نے جو غلطی کی ، جماعت احمدیہ کو اس غلطی سے محفوظ رہنا چاہیے اسے محفوظ رکھنا چاہیے.آنے والی نسلوں کے سامنے ایک تربیتی پروگرام کے ماتحت اسلام کی ابدی صداقتوں کو دہراتے چلے جانا چاہیے تا کہ وہ غلطی سے محفوظ رہیں.بڑی دیر ہو گئی انصار اللہ سے میں نے باتیں نہیں کیں.بدلے ہوئے حالات کے تقاضے بھی بڑے اہم ہو گئے ہیں.ہم ایک نازک دور میں داخل ہو گئے ہیں اس لئے انصار اللہ کو چاہیے کہ وہ با قاعدہ ایک منصوبہ بنا ئیں.اس منصوبہ کی تکمیل پر بے شک مہینہ دو مہینے لگا ئیں لیکن ایک جامع منصوبہ تیار ہو.اگر ایک خاندان احمدی ہے تو اس ایک خاندان تک بھی قرآن عظیم کی عظیم صداقتیں پہنچ جائیں.آپس میں تبادلہ خیالات کریں.باتیں کریں اور سوچیں پہلوں نے اسلامی صداقتوں سے جو کچھ حاصل کیا اس کے متعلق غور کریں اور ان باتوں کو اتنادُ ہرا ئیں ، اتنا دہرائیں کہ وہ ذہن کا ایک حصہ بن جائیں، انسانی دماغ کا ایک جزو بن جائیں اور کوئی رخنہ باقی نہ رہے کہ جس کے ذریعہ شیطانی وساوس انسان کے دماغ میں داخل ہو سکیں.امید ہے انصار اللہ اس اہم امر کی طرف توجہ کریں گے اور کوئی ٹھوس پروگرام بنانے سے پہلے مجھ سے مشورہ بھی کر لیں گے.میں نے ہدایت دی تھی کہ کچھ کتابوں پر مشتمل لٹریچر شائع ہونا چاہیے.کتابوں میں لٹریچر پڑا رہے تو یہ تو کوئی چیز نہیں، اسے سامنے آنا چاہیے.اس کے متعلق تبادلہ خیالات کرنا چاہیے.باتیں کرنا اور ایک دوسرے سے پوچھنا ضروری ہے کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کریں تو بعض پہلو جہالت کی وجہ یا نا سمجھی کی وجہ سے یا شرم کی وجہ سے بعض دفعہ چھپے رہتے ہیں اور وہ بچوں اور نئے آنے والوں کے سامنے واضح ہو کر نہیں آتے.اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کتابوں کو پڑھنے کی ایک رو پیدا کر دینی چاہیے.ایسی کتابیں ہوں جنہیں احباب ہر وقت
خطبات ناصر جلد ششم ۲۶ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۷۵ء اٹھتے بیٹھتے مطالعہ میں رکھیں.آپس میں باتیں کریں.کسی مسئلہ کو لے کر سوچیں کہ اس کی کیا برکتیں ہیں.پہلوں نے اس سے کیا حاصل کیا.ہم اس سے کیوں محروم ہیں ؟ اس کے لئے ہمیں کس طرح کوشش کرنی چاہیے.کس قسم کا پیار ہمیں اپنے دلوں میں پیدا کرنا چاہیے؟ ہمیں کسی قسم کا تعلق اپنے رب سے اور اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیدا کرنا چاہیے.کس رنگ میں آپ ہمارے لئے اُسوہ ہیں؟ کس طرح ہمیں اس اُسوہ کو اختیار کرنا چاہیے.کون سی راہ ہے جس پر چل کر اور کون سا طریق ہے جس پر گامزن ہو کر اُس نور سے حصہ لے سکتے ہیں اور اس سے اپنے سینوں کو اور اپنے ماحول کو اور اپنے خاندانوں کو منور کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ.پس ان باتوں کو یاد رکھنا چاہیے، بھول نہیں جانا چاہیے.انسان اپنی آنکھوں سے بھی علم حاصل کرتا ہے.کانوں سے بھی علم حاصل کرتا ہے اور ناک سے بھی علم حاصل کرتا ہے.بعض اور جستیں ہیں ، اُن سے بھی علم حاصل کرتا ہے مثلاً وہ اپنی زبان سے بھی علم حاصل کرتا ہے.زبان سے صرف کھانے والی چیزوں کا ذائقہ ہی نہیں حاصل کیا جاتا.کیا انسان خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے زبان سے لذت نہیں حاصل کرتا ؟ یقیناً حاصل کرتا ہے اس لئے محض کھانے کی لذت نہیں جو زبان سے حاصل ہوتی ہے بلکہ روحانی لذتیں بھی ہیں جو زبان سے ہمیں حاصل ہوتی ہیں.مثلاً دعا ہے دعا زبان سے کی جاتی ہے ہم خدا سے دعا کرتے ہیں اور اس سے ہمیں ایک قسم کی لذت حاصل ہوتی ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا ایک دفعہ میرے دماغ میں عجیب خیال پیدا ہوا.میں نے خدا سے یہ دعا کی کہ اے خدا! کھانا پینا یا اس قسم کی اور ہزاروں چیزیں ہیں جن کے ذریعہ ہم لذت حاصل کرتے ہیں لیکن ان مادی ذرائع کے علاوہ خود اپنی رحمت سے ایسا سامان پیدا کر کہ میں ایک لذت حاصل کروں.عجیب دعا تھی جو میرے دل سے نکلی لیکن اللہ تعالیٰ نے اُسی وقت اس دعا کو قبول کیا اور ۲۴ گھنٹے تک سر سے پاؤں تک میرا جسم سرور حاصل کرتارہا.یہ روحانی طور پر زبان کی لذت نہیں تو اور کیا ہے.ہم دعائیں کرتے ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ ہم پر اپنے فضلوں کو نازل کرتا ہے.آخر دعا ہم زبان سے کرتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان کا کام صرف چسکے" کا ہے کہ کھایا اور مزہ اُٹھالیا.مادی چیزوں
خطبات ناصر جلد ششم ۲۷ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۷۵ء سے حظ اٹھانے کے لئے ہی زبان پیدا نہیں کی گئی.وہ بھی ضروری ہے کیونکہ زندگی اور اس کے قیام کے لئے کھانا پینا بھی ضروری ہے لیکن زبان کی لذت صرف یہی نہیں یہ بھی ایک چھوٹا سا حصہ ہے اس لذت کا جو زبان کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اصل لذت وہ ہے جو انسان ذکر الہی سے حاصل کرتا ہے.اسی طرح کان ہے.دنیا بہک گئی.سماع ایک محاورہ بن گیا.عجیب لوگ ہیں کہ صرف گانے سن کر لذت حاصل کرتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کی آواز جب کان میں پڑتی ہے تو جو لذت کان کے ذریعہ انسان حاصل کرتا ہے اس کا کروڑواں حصہ بھی انسان گانے سن کر حاصل نہیں کر سکتا.ایک وہ لذت ہے جو وقتی اور چند منٹ کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور ایک وہ لذت ہے جو انسان کی زندگی کو بدل دیتی ہے یعنی پیار کی آواز.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں.آپ نے جس رنگ میں اور جس طور پر خدا تعالیٰ کی آواز کو سنا اور جو لذت آپ نے محسوس کی اُس کا آپ نے کئی جگہوں پر ذکر کیا ہے اس کو بچوں کے سامنے آنا چاہیے.شاعر کی جو آواز گانے کے ذریعہ آتی ہے یہ قابل التفات اس لئے بھی نہیں کہ شاعر تو بہک جاتا ہے ایک مصرع میں ایک مضمون ہوتا ہے تو اگلے مصرع میں اس سے الٹ مضمون ہوتا ہے.ایک شعر میں شمال کا مضمون تھا تو دوسرے میں جنوب کا شروع ہو گیا.گویا شاعرانہ تخیل کے اندر ہمیں بالکل متضاد اور ایک دوسرے سے بعد رکھنے والے مضامین نظر آتے ہیں لیکن ایک وہ آواز ہے جو کان کے ذریعہ ہمیں لذت دیتی ہے اور اس آواز میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ یہ عارضی ہوتی ہے بلکہ مستقل طور پر ہمیشہ کے لئے ہے جب تک انسان اپنے مقام پر قائم رہے یہ آواز لذت پیدا کرتی رہتی ہے.اسی طرح مثلاً ناک ہے وہ صرف خوشبو سونگھنے والا یا بد بومحسوس کرنے والا آلہ تو نہیں ہے انسان ناک سے بہت سی روحانی چیزیں سونگھتا ہے.میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ناک کہتا ہے کہ یہ چیز ہے یا یہ چیز نہیں ہے تو جیسا کہ یہ محاورہ بھی ہے کہ میں یہ Smell کرتا ہوں مثلاً دوسروں کی روحانی خوبیاں ہیں سوائے روحانی انسان کے دوسرے نے ابھی تک اس کو سمجھا ہی نہیں لیکن صرف خوشبو سونگھنے یا بد بو سونگھ کر اس سے بچنے کے لئے تو انسان کو ناک نہیں دیا گیا بلکہ اس کے بہت سے روحانی فوائد ہیں.ہماری جتنی حسیں ہیں ان کی افادیت صرف مادی پہلوؤں
خطبات ناصر جلد ششم ۲۸ خطبہ جمعہ ۱۷ / جنوری ۱۹۷۵ء تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کا اصل فائدہ یہ ہے کہ وہ ہمارے لئے روحانی طور پر لذت اور سرور کے سامان پیدا کرتی رہیں.غرض خدا تعالیٰ کا جو پیار ہے وہ ایک راستہ سے تو ہم تک نہیں پہنچا وہ تو ہر راستہ سے ہم تک پہنچتا ہے.بد بخت ہے وہ انسان جس کو ہر راہ سے پیار نہیں ملا اور اس سے بھی بد بخت ہے وہ نوجوان جواحمدیت میں پیدا ہوا اور خدا کے پیار سے محروم رہا.اس کی ذمہ داری انصار اللہ پر ہے.پس انصار اللہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور تربیت کا پروگرام بنا ئیں اور ہر ایک کو معرفت کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں.ٹھیک ہے ہر ایک نے اپنی استعداد اور اپنی قوتوں کے مطابق اس معرفت کو حاصل کرنا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہمارا ہر بچہ جو اپنے دائرہ استعداد کے اندر اپنے کمال کو نہیں پہنچتا وہ مظلوم ہے اور ہمارے اوپر اس کی ذمہ داری آتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کو ادا کریں.اللہ تعالیٰ ہماری نوجوان نسل کو اور نئے آنے والوں کو یہ توفیق دے کہ وہ اپنے مقام کو سمجھیں جس طرح ایک اہلنے والی دیگ جس کے اُبلنے میں کچھ وقت لگتا ہے ایک دیگ جو اُبل رہی ہے وہ بعض دفعہ آدھے گھنٹہ میں یا گھنٹے میں اس درجہ حرارت کو پہنچتی ہے لیکن اُس اُبلتی ہوئی دیگ میں دو قطرے ٹھنڈے پانی کے ڈالو تو ایک سیکنڈ میں اُبلنے لگتی ہے.اسی طرح ہمارے اندر بھی خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کی اتنی گرمی ہونی چاہیے کہ اس کے مقابلے میں اُبلتے ہوئے پانی کی کوئی گرمی نہ ہو.باہر سے آنے والے ہمارے اندر شامل ہوتے ہیں یا ہماری جو نوجوان نسل ہے جب وہ بڑی ہو کر اپنی ذہنی اور روحانی بلوغت کو پہنچتی ہے تو جس طرح ایک سیکنڈ یا اس کے ہزارویں حصے میں ٹھنڈے پانی کا قطرہ ابلنے لگتا ہے (جو ابلتی دیگ میں ڈالا جائے ) اور حرارت کے بلند درجے کو پہنچ جاتا ہے اسی طرح یہ بھی خدا کی محبت اور پیار میں انتہائی طور پر گداز ہو جائیں.پس ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دو کو توفیق دے انصار اللہ کو بھی کہ وہ تربیت کی ذمہ داری کو نباہ سکیں اور نو جوانوں کو بھی کہ وہ اس تربیت کو قبول کر لیں اور سارے کے سارے بلا استثناء اس مقام تک پہنچ جائیں کہ وہ ہر پہلو سے معرفت الہی اور عرفانِ باری کو حاصل کر چکے ہوں اور وہ اس
خطبات ناصر جلد ششم ۲۹ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۷۵ء بات کے قابل ہو گئے ہوں کہ جب غلبہ اسلام کی اس عالمگیر اور ہمہ گیر جدو جہد میں وسعتیں پیدا ہوں اور اس وقت ہزاروں مربیوں کی ضرورت ہو تو ہزاروں لاکھوں مربی موجود ہوں تا کہ دنیا کو سنبھالا جاسکے اور نوع انسانی کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کیا جاسکے.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ششم ۳۱ خطبه جمعه ۲۴ / جنوری ۱۹۷۵ء ہم خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر کے دنیا کے لئے ایک نمونہ بننے کے لئے پیدا ہوئے ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۴ جنوری ۱۹۷۵ بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:.فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ رَّبِّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُه عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ - (الانعام : ۱۴۸) پھر حضور انور نے فرمایا:.میں نے بتایا تھا کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مہدی معہود علیہ السلام کی وساطت سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فیض پہنچا ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کا عرفان نصیب ہوا.ہماری ہر دم یہ کوشش رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی رہے اور ہم کبھی اس کی ناراضگی مول لینے والے نہ بنیں.قرآن عظیم نے ہمیں بہت سی تعلیمات دی ہیں.ہمیں بار بارا اور کھول کھول کر بتایا ہے کہ بدیوں ، بداعمالیوں اور گناہوں سے بچ کر ہی ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہ سکتے ہیں.اسی طرح بہت سی ایسی تعلیمات بھی دی ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اللہ تعالیٰ کے پیار، اس کی محبت
خطبات ناصر جلد ششم اور اس کی رضا کو حاصل کر سکتے ہیں.۳۲ خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۷۵ء میں نے چھوٹی سی آیت جو ابھی تلاوت کی ہے، اس میں ہر دو پہلوؤں کے متعلق ہمیں ایک بات بتائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے رسول! اگر نوع انسان میں سے ایک گروہ تیری تکذیب کرے اور تصدیق نہ کرے تو اس سے تیری بعثت کے مقصد پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ تیرے ماننے والے بھی موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمتوں کے مورد ہیں.یہ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ ایک لفظ استعمال ہوتا ہے اور اس کے متضاد معنے بھی وہاں موجود ہوتے ہیں.اس لفظ کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ اس کے دوسرے معنوں کو بھی مدنظر رکھا جائے.پس اگر چہ اس آیہ کریمہ میں فَإِنْ كَذَبُوكَ کہا ہے لیکن کذب اور صدق عربی زبان میں ایک دوسرے کے مقابلے میں استعمال ہوتے ہیں.کذب کے معنے ہیں جھٹلانا اور کذب کے معنے ہیں جھوٹ کی طرف منسوب کرنا.یہ قولاً بھی ہے اور اعتقاداً بھی.یعنی وہ اعتقاد جس کے نتیجہ میں عمل پیدا ہوتا ہے اس معنی میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں اور جیسا کہ میں ابھی بتاؤں گا اس آیت میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ ہر دو پر حاوی ہے یعنی کذب کے ساتھ صدق کے معنے بھی مضمر ہیں یعنی اپنے قول سے بھی تصدیق کرنا اور اعتقاد بھی ایسا ہی پختہ رکھنا کہ جس کے نتیجہ میں عمل پیدا ہوتا ہے.پس جہاں یہ بیان ہوا کہ نوع انسان میں سے جن کی طرف قرآن عظیم جیسی کامل اور مکمل کتاب نازل ہوئی اور یہی وہ کامل اور مکمل شریعت ہے جسے انسان کامل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے مگر ان لوگوں کا ایک حصہ اسے جھوٹ کی طرف منسوب کرتا ہے اور چونکہ لوگ اسے جھوٹ سمجھتے ہیں اس لئے کہتے ہیں ہم اس پر عمل نہیں کریں گے.فرمایا ایک دوسرا گروہ ہے جو تصدیق کرتا ہے قول سے بھی کہ خدا تعالیٰ کا ایک سچا اور کامل رہبر ہماری طرف آ گیا اور دل سے بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں اور قرآنی ہدایات کے مطابق اعمال بجالاتے ہیں.چونکہ یہ دوسرا گروہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رحمت کا تعلق ہوتا ہے اس لئے جو اُن کی جز اتھی اُسے پہلے بیان کر دیا اور فرمایا :.فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ رَّبِّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ.
خطبات ناصر جلد ششم ۳۳ خطبه جمعه ۲۴ / جنوری ۱۹۷۵ء جیسا کہ میں نے بتایا ہے عربی محاورہ خود لفظ کے معنی اور مفہوم کو متعین کرتا ہے.اس لحاظ سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اے رسول! وہ لوگ جو تکذیب نہیں کرتے بلکہ تصدیق کرتے ہیں وہ لوگ جو صدق دل سے تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تیری شریعت کو حقیقتا سچی اور کامل ہدایت سمجھتے ہیں اُن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سلوک ہوتا ہے اور اُن کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ ہے لیکن وہ دوسر ا گر وہ جو تکذیب کرتا ہے اور اسلام کو سچا دین نہیں سمجھتا اور چونکہ سچا نہیں سمجھتا اس لئے اس پر عمل بھی نہیں کرتا تو مکذبین کے اس گروہ کو یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ވ لا يُرَدُّ بَأْسُه عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ کہ جو لوگ مجرم ہیں اور بدی اور بدعملی سے چھٹے ہوئے ہیں.اُن سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹلایا نہیں جاسکتا.انہیں خدا کا عذاب بہر حال چکھنا پڑتا ہے.جیسا کہ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہاں مکذبین کے ساتھ مصدقین کا بھی ذکر کیا گیا ہے وہاں مجرم کا لفظ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ منکر کافر کے ساتھ مفسد منافق کا بھی ذکر ہے.ور نہ یہ کہا جاتا کہ لَا يُرَدُّ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ مگر قرآن کریم نے ایسا نہیں کہا.عربی زبان میں مجرم ایسے شخص کو کہتے ہیں جو مکر وہ اعمال بجالاتا ہے.جو آدمی کا فرمنکر ہے اُس کے برے اعمال اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ وہ زبان سے بھی اور اعتقاد او عملاً بھی شریعت محمدیہ پر ایمان نہیں رکھتا.لیکن ایک گروہ وہ ہے جو قولاً یہ کہتا ہے اور جس کی زبان یہ تسلیم کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آپ پر اللہ تعالیٰ کی کامل شریعت قرآن کریم کی شکل میں نازل ہوئی ہے لیکن وہ اس پر دلی اعتقاد نہیں رکھتا اس لئے وہ فسق و فجور میں مبتلا ہوتا اور شریعت کے احکام کو پیٹھ پیچھے پھینک دیتا ہے.پس لا يُرَدُّ بَاسُه عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ میں وہ مکذب بھی شامل ہے جو نہ زبان سے تصدیق کرتا ہے اور نہ دل سے اس پر اعتقاد رکھتا ہے اور اس میں مکذبین کا وہ گروہ بھی شامل ہے جو زبان سے تو تصدیق کرتا ہے لیکن دل سے تکذیب کرتا ہے اور فسق و فجور میں مبتلا رہتا ہے اور یہ منافق کا کام ہے چونکہ ایک کافر کے قول اور اس کے فعل میں تضاد نہیں ہوتا.مکذب کا فر اور منکر.
خطبات ناصر جلد ششم ۳۴ خطبه جمعه ۲۴ ؍ جنوری ۱۹۷۵ء زبان سے بھی صداقت کا انکار کرتا ہے اور پھر اسی کے مطابق اس کے عقائد اور اعمال بھی ہوتے ہیں کیونکہ خود تضاد بھی انسانی زندگی کا ایک بہت بڑا گناہ ہے.اس لئے کافر کا تضاد کے گناہ سے بچنا اُسے یہ فائدہ دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ایک وجہ بغاوت و فساد کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لئے جہنم کا سب سے نچلا درجہ مقرر نہیں کرتا لیکن جو آدمی منافق ہے وہ زبان سے تو کہتا ہے میں ایمان لا یا مگر دلی اعتقاد کے فقدان کی وجہ سے اس کے فسق و فجور میں مبتلا ہونا بتاتا ہے کہ وہ ایمان نہیں لا یا اور ریا کے طور پر بظاہر کچھ نیک اعمال بھی بجالاتا ہے لیکن حقیقی نیکی اس سے اتنی ہی دور ہوتی ہے جتنی زمین آسمان سے دور ہے.اس لئے اس آیت سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ یہ تضاد والا جو گناہ ہے اس کو خدا تعالیٰ نے نظر انداز نہیں کیا.چنانچہ إِنَّ الْمُنْفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء : ۱۴۶) کو اس آیت کے ساتھ ملا کر معنی کریں تو ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ اگر چہ منافق آدمی مکذب منکر اور کافر کے ساتھ اعتقادا اور عملاً شامل ہوتا ہے لیکن ایک زائد گناہ وہ یہ کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں تضاد پایا جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے کہ تضاد نہ پایا جائے.ایک شخص باغی ہے وہ کھلم کھلا کہتا ہے کہ میں ایمان نہیں لاتا اور ایک وہ ہے جو کہتا ہے میں ایمان لاتا ہوں یعنی صرف زبان سے ایمان لاتا ہے مگر نہ اس کا اعتقاد ایمان کے مطابق ہوتا ہے اور نہ اس کے اعمال ایمان کے مطابق ہوتے ہیں.پس منافق کا ایک گناہ منکر اور کافر سے زیادہ ہوتا ہے باقی گناہ برابر ہوتے ہیں اس لئے فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ کی سمجھ آگئی کہ کیوں منافقین کو زیادہ سزا دی گئی ہے.ویسے تو ہم قرآن کریم کی ہر آیت پر ایمان لاتے ہیں چاہے اس کی ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن عظیم کو ایک حکمت والی کتاب بنایا ہے اس لئے وہ ساتھ ساتھ سمجھاتا اور دلیل بھی دیتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ رَبُّكُم ذُو رَحْمَةٍ واسعة میں یہی مضمون بیان فرمایا ہے که رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَی ءٍ (الاعراف: ۱۵۷) اور اس طرح بتایا ہے کہ میں (اللہ ) رحمت واسعہ کا مالک ہوں.اگر چہ یہ درست ہے اور یقیناً درست ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا جلوہ اللہ پر ایمان لانے والے، اس سے تعلق رکھنے والے، اس پر جاں نثار کرنے والے اور اس کے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۵ خطبه جمعه ۲۴ / جنوری ۱۹۷۵ء فدائیوں پر ظاہر ہوتا ہے اور وہ جلوہ دنیا پر یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارا رب ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ ہے لیکن باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ ہے نوع انسانی کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ قہار بھی ہے.انسان پر اس کا غضب بھی بھڑکتا ہے اگر کوئی شخص خود کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا اہل بنالے تو وہ خواہ زبان سے انکار کرے اور اس کے مطابق ہی وہ کا فرومنکر کہلائے خواہ زبان سے اقرار کرے لیکن دلی اعتقاد نہ رکھے اور دلی اعتقاد کے نتیجہ میں جو مخلصانہ اعمال سرزد ہوتے ہیں وہ اس سے سرزد نہ ہو رہے ہوں تو اس سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا.اس میں بڑی سخت وارننگ اور تنبیہ ہے اُن کے لئے بھی جو منکر اور کافر ہیں اور اُن کے لئے بھی جو بظاہر خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی جماعت میں ، امت محمدیہ میں شامل ہوتے ہیں لیکن اُن کا اقرار محض زبان کا ہوتا ہے.یہ اقرار دل اور دوسرے جوارح اور عمل کا نہیں ہوتا.مثلاً اعتقاد جو اُن کے زبانی اقرار سے تضا درکھتا ہے یا عمل جو ہے وہ زبانی دعوی سے مختلف ہے تو زبانی دعووں سے کوئی شخص خدا تعالیٰ کا پیار حاصل نہیں کر سکتا بلکہ وہ اس زمرہ میں شامل ہو جاتا ہے جس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے.غرض جو لوگ کھلم کھلا انکار کرتے ہیں وہ تو واضح ہیں لیکن ہر وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا اور اُس نے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنی زندگی اُس شریعت اور ہدایت کے مطابق گزارے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی یعنی قرآن کریم کو لائحہ عمل بنائے گا.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلحائے امت کے جس سلسلہ کی ہمیں اطلاع دی ہے اور جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ برگزیدہ اور صالحین کے ساتھ رہو گے تو اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرو گے.چنانچہ وہ شخص بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ صالحین کے ساتھ رہے گا.اسی طرح جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہدی علیہ السلام کے آنے کی پیشگوئی فرمائی اور اس کا یہ دعوی ہے کہ میں نے مہدی علیہ السلام کو پہچانا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہدی کو سلام بھیجا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اُسے یعنی مہدی معہود کو جو سلامتی
خطبات ناصر جلد ششم ۳۶ خطبه جمعه ۲۴ / جنوری ۱۹۷۵ء پہنچی تھی اُس میں حصہ دار ہونے کی کوشش کی.صرف اُس کے لئے نہیں بلکہ ساری جماعت کے لئے بڑے خوف کا مقام ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنی غفلت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے اُن فضلوں سے محروم ہو جائے جو جماعت احمدیہ پر نازل ہوتے ہیں.ویسے جان بوجھ کر تو کوئی احمدی ایسا نہیں کرتا سوائے اس کے کہ کوئی منافق ہو لیکن میں اس وقت منافق کی بات نہیں کر رہا، میں اُن لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں وارننگ دی ہے اور جن کو تنبیہ کی گئی ہے کہ دیکھو قول و فعل میں تضاد بڑے خوف کا مقام ہے.اگر تمہارے قول اور تمہارے فعل اور تمہارے اعتقاد میں تضاد ہوا بایں ہمہ کہ تم نے دعوی یہ کیا کہ ہم ایمان لائے.ہم نے تصدیق کی.لیکن اگر تمہارا اعتقاد اس سے مختلف ہوا یا تمہارے اعمال اس سے مختلف ہوئے تو یہ نہ بھولنا کہ لا يُرَدُّ بَأْسُه عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ تم مجرم بن جاؤ گے اور مجرم اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہوتے ہیں.قرآن کریم تمہیں یہ بتا دیتا ہے کہ یہ عذاب ہے اس سے تم بچ نہیں سکتے اس کو ٹالا نہیں جا سکتا.اس لئے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ جس معنی میں اسلامی اصطلاح میں تصدیق کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہ تکذیب کے مقابلہ میں ہے اس معنی میں ہم مصدق ہوں گے.زبان سے بھی تصدیق کرنے والے اور اس کے مطابق عملی اعتقاد رکھنے والے ہوں گے.دراصل اعتقاد صحیحہ منبع بنتا ہے اعمال صالحہ کا.پس اگر ہمارے اعمال صالحہ ہوں گے تو ہم اپنی زندگیوں میں خدا تعالیٰ کو ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ پائیں گے.لیکن اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو خواہ ہمارا دعوی یہ ہو کہ ہم مصدق ہیں ہمارا مقام مصدق کا مقام نہیں ہوگا بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کے قہر کے نیچے آجائیں گے.لیکن ایک احمدی جو منافق نہیں ہے ویسے الہی سلسلوں میں منافقوں کا سلسلہ بھی ساتھ لگا ہوا ہے لیکن وہ تو استثناء ہیں اور جو استثناء ہے وہ قاعدہ کو ثابت کرتا ہے.الہی سلسلوں میں بہت بھاری اکثریت مخلصین کی ہوتی ہے.میرے خیال میں منافق کا وجود تو شاید ہزار میں.ایک بھی نہیں ہو گا شاید دس ہزار میں ایک بھی نہیں ہو گا لیکن جو شخص منافق نہیں ہے یعنی اُن لوگوں کی طرح نہیں ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے زبان سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اس کے مطابق اعتقاد نہیں رکھتے اور نہ عمل کرنے کے لئے تیار ہیں سوائے ریا اور دکھاوے کے عمل کے.منافق
خطبات ناصر جلد ششم ۳۷ خطبه جمعه ۲۴ / جنوری ۱۹۷۵ء کے تو سارے اعمال ہی دکھاوے کے ہوتے ہیں کیونکہ جب وہ دل سے اعتقاد ہی نہیں رکھتا اور اس کا ایمان صحیح ہے ہی نہیں تو اس کا جو مومنانہ عمل ہوگا وہ ریا اور دکھاوے کا عمل ہوگا.وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا عمل نہیں ہوگا لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے کہ انسان صداقت کے پہچان لینے کے بعد بھی بشری کمزوری یا غفلت کے نتیجہ میں ایک ایسا کام کر لیتا ہے جو ایک مومن اور مصدق کا عمل نہیں ہوتا بلکہ ایک منافق کا عمل ہوتا ہے.پس نفاق سے بچنے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں.اس سے بچنے کے لئے مجاہدہ کرنا چاہیے اور بڑی کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نفاق سے محفوظ رکھے.یاد رکھیں ہم خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر کے دنیا کے لئے ایک نمونہ بننے کی خاطر پیدا ہوئے ہیں.ہماری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے اس نمونے اور روحانی خوبصورتی کے نتیجہ میں دنیا میں اسلام کو سر بلند کر سکیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ رَحْمَةٌ لِلعلمین تھے اس لئے جب آپ کا سایہ انسان پر پڑتا ہے تب اس میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے.اس خوبصورتی اور اس احسان کے نتیجہ میں کہ انسان جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑتا ہے تو آپ کی قوتِ احسان انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے.خدا کرے آپ کے اس حسن و احسان اور آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کے نتیجہ میں ہم اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور ہمارا مقصد یہی ہے کہ ہم نے نوع انسان کے دل جیت کر اپنے محبوب آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے ہیں.انشاء اللہ.وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ.(روز نامه الفضل ربوه ۱۲ را پریل ۱۹۷۵ ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ششم ۳۹ خطبہ جمعہ ۳۱ / جنوری ۱۹۷۵ء جماعت احمد یہ اس پختہ عقیدہ پر قائم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ نبی ہیں خطبه جمعه فرموده ۳۱ جنوری ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین ہیں اور اب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرے آپ کی کامل اتباع کرے اور آپ کے اسوۂ حسنہ کو اپنائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بے سود ہے وہ زندگی جو نفع رساں نہیں اور لا حاصل ہے وہ حیات جو فیض سے خالی ہے.دراصل اس عالمین میں دو ہی زندگیاں قابل تعریف ہیں ایک تو اللہ تعالیٰ کی زندگی ، اُس آلکی کی حیات ہے جو منبع ہے ہر خیر کا اور جس کی طرف سب تعریفیں لوٹتی ہیں اور جس کے ذریعہ ہر وجود باقی رہتا ہے اور دوسری قابل تعریف زندگی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جن کے طفیل انسان نے اپنے رب کو اس کی تمام عظمتوں کے ساتھ اور اس کے تمام محسن کے ساتھ اور اُس کے حسن و احسان کی تمام قوتوں کے ساتھ پہچانا.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری زندگی قرآن کریم کی ہدایت و شریعت پر عمل پیرا ہو کر ہمیں اللہ تعالیٰ کا عرفان بخشا.اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیدائش مقصود نہ ہوتی تو پھر یہ کائنات ہی پیدا نہ کی جاتی.اس سے ہم
خطبات ناصر جلد ششم خطبه جمعه ۳۱ / جنوری ۱۹۷۵ء اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پہلوں اور پچھلوں ہر دو کو نفع پہنچانے والی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت دنیا پر ، کائنات پر حاوی ہے.آپ کی رحمت کی کوئی حد نہیں اور نہ ہی یہ کسی جگہ ٹھہرتی ہے بلکہ زمان و مکان کے لحاظ سے علتِ غائی ہونے کی وجہ سے پہلوں پر بھی آپ ہی کے طفیل فیوض نازل ہوئے اور بعد میں آنے والوں نے بھی جو کچھ پا یا وہ بھی آپ ہی کی ذات کا کرشمہ ہے کیونکہ اگر آپ کے متعلق یہ کہنا درست ہے اور یقیناً درست ہے.لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ تو روحانی طور پر بھی جو فیوض نظر آتے ہیں وہ آپ ہی کے طفیل حاصل ہوتے رہے ہیں آپ کے بغیر نہیں مل سکتے.دوسرے مادی فیوض ہیں چونکہ آپ کی وجہ سے اس کائنات نے خدا تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت کے بھی جلوے دیکھے اس لئے وہ فیوض بھی ہر مخلوق کو حاصل ہوتے ہیں.ان کا دائرہ ہر جاندار اور ہر انسان تک ممتد ہے مگر روحانی فیوض آپ کے ماننے والوں پر نازل ہوتے ہیں.اسی طرح جو علمی فیوض ہیں وہ بھی ہر انسان پر ہوتے ہیں.آپ جو تعلیم لائے تھے اُس میں بھی ہر انسان شریک ہے.سب ہی اس کے مخاطب ہیں کیونکہ آپ کی ذات میں بخل نہیں اور نہ ہی اس تعلیم میں بخل ہوسکتا ہے جو آپ پر نازل ہوئی چنا نچہ دیکھ لیں آپ کو جنگیں لڑنی پڑیں مخالفوں نے آپ کو بہت دُکھ دیئے آپ کے ماننے والوں کو شہید کیا.اموال لوٹے لیکن جس وقت بھی آپ کو یا آپ کے ماننے والوں کو کہیں دُکھ نظر آیا تو آپ نے اور آپ کے صحابہ نے دکھ کو دور کرنے کی انتہائی کوشش کی جہاں بھی انسان کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا پایا ہے وہاں دنیوی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی زندگی کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کی اور جہاں بھی جہالت کے اندھیروں کو دیکھا وہاں ان اندھیروں کو نور میں تبدیل کرنے کی سعی کی گئی.چنانچہ پین میں جب مسلمان گئے تو وہ مظلوم انسانیت ہی کی مدد کے لئے گئے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اُس علاقے میں اللہ تعالیٰ اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پھیل گیا.یہ نور دو جہتوں میں نمایاں طور پر ہمیں نظر آتا ہے.ایک علمی میدان میں اور دوسرے اخلاقی اور روحانی میدان میں.سپین میں مسلمانوں نے علمی میدان میں جو عظیم الشان ترقی کی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات ناصر جلد ششم خطبه جمعه ۳۱ / جنوری ۱۹۷۵ء کی رحمت کے نتیجہ میں اور اس ابدی حیات کی وجہ سے تھی جو بعد میں آنے والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے عطا ہوئی جس کا اُس وقت کی دنیا بالخصوص عیسائی دنیا مقابلہ نہ کرسکی کیونکہ یہ وہی مقابلہ تھا جو نور کو ظلمات سے ہو سکتا ہے.مسلمانوں نے دنیوی علوم کو رائج کرنے کے لئے کئی تعلیمی ادارے، کئی یو نیورسٹیاں قائم کیں جن میں بہت سے بڑے بڑے پادری داخل ہوتے تھے اور وہاں مروّجہ علوم حاصل کرتے تھے.غرض مسلمانوں نے بخل سے کام نہیں لیا کیونکہ بخل خدا تعالیٰ کی صفات سے تضاد رکھتا ہے اس لئے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا اور نہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوسکتا ہے کیونکہ آپ رحمۃ للعالمین بن کر دنیا کی طرف آئے تھے.آپ کے صحابہ بھی آپ کے رنگ میں رنگین تھے اس لئے اُن مومنین کی طرف بھی بخل منسوب نہیں ہو سکتا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنالیا اور خیر ہی خیر بن کر دنیا کی اس طرح خدمت کی کہ انسان کی آنکھ نے وہ جذ بہ کسی زمانہ میں اور کسی قوم میں نہیں دیکھا.افریقہ جس پر اب پھر تنزل کا زمانہ ہے اور بہت سے لوگوں نے اسلام کو چھوڑ بھی دیا ہے اور اب اندھیروں اور ظلمات کا علاقہ بنا ہوا ہے اس میں اس زمانہ میں بھی جب کہ راہیں قریباً مسدود تھیں لوگوں کو دین واحد پر اکٹھا کرنے کے لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمان دور دُور تک پہنچے اور اُنہوں نے افریقہ میں بسنے والوں کے اندھیرے دور کئے.اُن کی ترقیات کے سامان پیدا کئے اور اُن کے دُکھوں کو سکھ سے بدل دیا.اُنہیں دین ودنیا کے علوم سکھائے اور اُن کا اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق قائم کیا جو انسان کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی ہر جہت اور ہر لحاظ سے نفع مند اور فیض رساں زندگی ہے.آپ کا یہ فیض آپ کی قائم رہنے والی روحانی حیات ہے جس کے نتیجہ میں پچھلے چودہ سوسال میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں نے آپ کے فیض سے بہرہ ور ہوتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے ربّ کریم سے ایک زندہ تعلق پیدا کیا.خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا.یہ دروازہ آج بند نہیں اور نہ قیامت تک کبھی بند ہوگا.
خطبات ناصر جلد ششم ۴۲ خطبه جمعه ۳۱ / جنوری ۱۹۷۵ء قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران:۳۲) کی رو سے ہر وہ شخص جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی تلاش میں نکلے گا وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو پالے گا اور اس کی زندگی اندھیروں سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے نور میں داخل ہو جائے گی پھر اُس کی زندگی ایک منور زندگی، ایک مسرور زندگی ، ایک کامل زندگی اور ایک نفع بخش زندگی بن جائے گی.اُمت محمدیہ میں بعض ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جو یہ سمجھتے رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی عطا نہیں ہوئی تھی اور آپ کے ذریعہ سے فیوض اور برکات اور رحمتیں حاصل نہیں کی جاسکتیں.جماعتِ احمدیہ کا یہ عقیدہ نہیں جماعت احمد یہ تو اس پختہ عقیدہ پر قائم ہے کہ ہمارے پیارے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ نبی ہیں.آپ کی زندگی کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کی نگاہوں میں دھتکاری ہوئی اس جماعت میں ہزار ہا خدا کے ایسے بندے پیدا ہوتے رہے ہیں، اب بھی ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات سے حصہ لیتے ہیں اور جن کی زندگیوں میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہوتی رہی ہے اور ایک قسم کی مردنی جو دوسروں میں نظر آتی ہے، اس سے نجات حاصل کی.ہم نے ایک ایسی زندگی پائی جو حقیقی زندگی ہے یعنی وہ زندگی جو خدا تعالیٰ سے ایک پیار اور زندہ تعلق پیدا کرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے.چنانچہ اس پیارے اور زندہ تعلق کو پانے کے بعد ، خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے بعد، خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت حاصل ہو جانے کے بعد ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان کے دریافت کر لینے کے بعد اور پھر اس عظمت اور اس شان اور اس حسن اور اس احسان سے عملاً اپنی زندگیوں میں ایک تبدیلی محسوس کر لینے کے بعد انسان ایک طرف تو اپنے خدا کے ذکر میں ہمیشہ محور ہنے والا بن جاتا ہے اور دوسری طرف اس کی زبان پر ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا درود جاری رہتا ہے.ایسی صورت میں پھر دنیا اور دنیا داروں کی اُسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی.اگر ہم اس کا ئنات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اصل میں دو ہی زندگیاں نظر آتی ہیں.ایک
خطبات ناصر جلد ششم ۴۳ خطبہ جمعہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۷۵ء اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے جس نے اس کا ئنات کو پیدا کیا اور اس کی ہر چیز میں بے شمار صفات پیدا کیں اور مخلوق میں سے ہر چیز کو انسان کا خادم بنا دیا، وہی خدا، ہمارا محبوب اللہ جس نے انسان کو انفرادی طور پر بھی اور نوع کے لحاظ سے بھی اتنی طاقت دی کہ وہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ خدام سے خدمت لے سکے.یہ وہی قادر ہستی ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے بے نظیر وجود اور صفات باری کے مظہر اتم کو ہمارے لئے اسوہ حسنہ بنایا.آپ کے اسوہ پر چل کر اور آپ کی زندگی کا مطالعہ کر کے ہم نے کامیابیوں اور کامرانیوں کو حاصل کیا.یہ آپ کا عظیم الشان نمونہ ہی ہے جس کی اتباع کر کے اور جس کی غلامی میں آکر اور آپ کے خادم بن کر ہم نے اپنے ربّ کریم کا پیار حاصل کیا.یہی حقیقی کامیابی ہے جس کے بعد ہمیں نہ کسی چیز کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ کسی اور کی طرف توجہ کرنے کی کوئی حاجت باقی رہتی ہے.پس حقیقتا یہی دوزندگیاں ہیں جو عظیم شان رکھتی ہیں باقی ہر زندگی انہی کے طفیل ہے ایک اللہ جل شانہ کی حیات ہے جو منبع ہے ہر حیات کا اور ایک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے جو ریعہ ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کا.آپ کا وجود اس کائنات کے لئے سراپا رحمت ہے.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی کمال ہے کہ انسان کے لئے ایسے سامان پیدا کئے گئے کہ وہ اپنے مجاہدہ کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے قابل ہوا اور اُسے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا اس لئے ہماری زبانوں پر ہمیشہ خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے جاری رہنے چاہئیں.اسی طرح ہماری زبانوں پر ہمیشہ درود جاری رہنا چاہیے.محسن انسانیت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہیے.آپ نے بنی نوع انسان سے جو پیار کیا ہے اس کو زندہ رکھنے کی کوشش ہمیشہ جاری رہنی چاہیے تا کہ اس پیار کے نتیجہ میں جو ہمارے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے موجزن ہے ہمیں اللہ تعالیٰ کا پیار بھی حاصل ہو جائے.خدا کرے کہ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا ہو.روزنامه الفضل ربوه ۸ فروری ۱۹۷۵ ، صفحه ۱ ، ۲)
خطبات ناصر جلد ششم ۴۵ خطبہ جمعہ ۷ رفروری ۱۹۷۵ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جو بڑی دولت ہم نے پائی وہ یقین کی دولت ہے خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ رفروری ۱۹۷۵ء بمقام کوٹھی صاحبزادہ مرز امنیر احمد صاحب.جہلم تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک مختصر سا اقتباس پڑھوں گا.آپ فرماتے ہیں:.گناہ یقین پر غالب نہیں ہوسکتا....اور یقین کی دیوار میں آسمان تک ہیں.شیطان اُن پر چڑھ نہیں سکتا.ہر ایک جو پاک ہوا وہ یقین سے پاک ہوا.یقین دُکھ اُٹھانے کی قوت دیتا ہے یہاں تک کہ ایک بادشاہ کو تخت سے اُتارتا ہے اور فقیری جامہ پہناتا ہے.یقین ہر ایک دُکھ کو سہل کر دیتا ہے یقین خدا کو دکھاتا ہے اور ہر ایک کفارہ جھوٹا ہے اور ہر ایک فدیہ باطل ہے اور ہر ایک پاکیزگی یقین کی راہ سے آتی ہے.وہ چیز جو گناہ سے چھڑاتی اور خدا تک پہنچاتی اور فرشتوں سے بھی صدق اور ثبات میں آگے بڑھا دیتی ہے وہ یقین ہے.ہر ایک مذہب جو یقین کا سامان پیش نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے.“ گذشتہ عرصہ میں بہت سے مہینے ایسے گزرے جو بڑی پریشانیوں کے مہینے تھے اور فساد کے مہینے تھے اور ظلم سہنے کے مہینے تھے اور ظلم کو برداشت کے ساتھ اور مسکراتے چہروں کے ساتھ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۶ خطبہ جمعہ ۷ رفروری ۱۹۷۵ء برداشت کرنے کے مہینے تھے اور جو چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں حاصل ہوئی اُس کو ظاہر کرنے کے مہینے تھے یعنی یقین کی اس دولت کو ظاہر کرنے کے مہینے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہم نے پائی اور یہ بڑی دولت ہے جو ہم نے پائی اور وہ یہی یقین کی دولت تھی جو ہمیں ملی.یقین اس بات پر کہ اللہ ہے یقین اس بات پر کہ قرآن عظیم ایک نہایت ہی حسین شریعت اور ایک کامل اور مکمل ہدایت ہے.یقین اس بات پر کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے محسن اعظم ہیں اور آپ کا مقام اس کا ئنات میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو اس کائنات کو پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی.پھر تو خدا تعالیٰ کی خلق کے جلوے بھی کسی اور رنگ میں ظاہر ہوتے.خدا تعالیٰ خالق ہے اور اس کی یہ صفت کبھی معطل نہیں ہوتی لیکن یہ کائنات جو ہماری کائنات ہے اور جس کے ساتھ ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رَبُّ الْعَلَمِينَ “ کہہ کر بیان کیا ہے اور جس کی تفسیر خود قرآن کریم نے یہ کی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ ہیں آپ کو صرف انسانوں کے لئے رحمت نہیں کہا گیا بلکہ رَحْمَةُ العلمین کہا گیا ہے یہ ایک بڑا وسیع مضمون ہے اور یہ بہت سوچنے اور بڑی گہرائیوں میں جانے کا مسئلہ ہے.ہرایک آدمی کو اپنی اپنی سمجھ اور استعداد کے مطابق اس کے متعلق سوچنا چاہیے.پھر یقین اس بات پر کہ خدا تعالیٰ نے جو وعدے دیئے وہ پورے ہو کر رہتے ہیں اور یقین اس بات پر کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں آپ کی روحانی اولاد میں سے ایک مہدی، ایک بطل جلیل اور آپ کا سب سے زیادہ محبوب بیٹا روحانی لحاظ سے پیدا ہو گا اور وہ ایک جماعت پیدا کرے گا اور اس جماعت کو اللہ تعالیٰ یہ یقین عطا کرے گا کہ وہ اس بشارت کو بھی دوسری بشارتوں کی طرح سچا سمجھے اور غلبہ اسلام کے لئے دنیا میں ایک عظیم اور ایک حسین نمونہ قربانیوں کا اور ایثار کا پیش کرے.اسی طرح یقین اس بات پر کہ جہاں دنیا میں ایک فساد عظیم بپا ہو چکا.جہاں اُمت مسلمہ کو اس قسم کے فساد کا سامنا کرنا پڑا وہ فساد عظیم کہیں بھی اس سے بڑھ کر نہ قرآن کریم
خطبات ناصر جلد ششم ۴۷ خطبہ جمعہ ۷ رفروری ۱۹۷۵ء میں نہ حدیث میں اور نہ کسی اور جگہ ہمیں نظر آتا ہے کہ ایسا فساد دنیا میں پیدا ہو گا اور یقین اس بات پر کہ اس فساد کو دور کرنے کے لئے جماعت احمد یہ قائم کی گئی ہے.ہمارا یہ یقین ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے ہم جب اس یقین پر قائم ہیں کہ ہم نے فساد کو دور کر کے العالمین کے لئے سکھ اور آرام کو پیدا کرنا ہے تو یہ یقین اس وجہ سے ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کوئی تعویذ نہیں ہے.یہ کوئی شوکیس میں سجانے والی چیز نہیں ہے قرآنی ہدایت عمل کرنے کے لئے ہمارے ہاتھ میں دی گئی ہے.قرآن کریم پر اگر ہم نے عمل نہیں کرنا اور اس سے ہم نے فیض حاصل نہیں کرنا تو پھر قرآن کریم کا کوئی فائدہ نہیں.قرآن کریم نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس کا خلاصہ دو فقروں میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو حقوق قرآن کریم نے بیان کئے ہیں، بندوں کو وہ ادا کرنے چاہئیں اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بندوں کے جو حقوق مقرر کئے ہیں ان کی ادائیگی کا بندوں کو خیال رکھنا چاہیے.ان حقوق میں ایک «خُلق ہے جس نے بہت سی باتوں کا احاطہ کیا ہوا ہے ایک اور ”حق“ ایک دوسرے سے ہمدردی کرنا ہے اسی لئے دنیا حیران تھی مگر وہ تو یقین نہیں رکھتی لیکن ہم تو اس یقین پر قائم تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو نوع انسانی کی بہبود کے لئے اور دنیا کو خیر پہنچانے کے لئے پیدا کیا ہے.اسی یقین کا نتیجہ ہے کہ ہم دُکھوں اور پریشانیوں میں بھی مسکرا رہے تھے کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اللہ تعالیٰ کو اپنے منصوبوں میں نا کام کرنے والی نہیں ہے اور ہمیں اس بات پر بھی یقین تھا کہ ہم اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ نوع انسانی کی خدمت کریں.بعض لوگ کہتے تھے کہ ہم مان ہی نہیں سکتے کہ جن حالات میں سے جماعت گزررہی ہے اُن میں بھی وہ مسکراتے چہروں کے ساتھ خدمت کے لئے ہر دم ہر آن تیار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ لکھا ہے آپ کی عبارت کا مفہوم میں اپنے الفاظ میں بیان کر رہا ہوں اس میں آپ نے مجھے اور احباب جماعت کو یہ تعلیم دی ہے کہ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۸ خطبہ جمعہ ۷ رفروری ۱۹۷۵ء تمہارا جوا شد ترین دشمن ہے اگر تم اس کے لئے دعا نہیں کرتے تو آپ فرماتے ہیں کہ مجھے تمہارے ایمان کے متعلق شبہ ہے پس یہ مقام ہے جماعت احمدیہ کا اور جب تک کوئی جماعت یا کوئی فرد اپنے مقام کو نہ پہچانے اُس وقت تک وہ اُن برکات اور فیوض اور رحمتوں کا وارث نہیں ہوا کرتا جو اس مقام کے لئے مختص ہوتی ہیں.پس اس وقت میں احباب جماعت کو مختصراً جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ بڑی اہم ہے کیونکہ ہمارا آج کا ماحول اس کا تقاضا کر رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ احباب اپنے مقام کو پہچانیں اور پورے یقین کے ساتھ اپنے مقام کو پہچا نہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کو ایک جماعت دوں گا جو اس روحانی فرزند کے ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور آپ کی برکات کی وارث ہوگی اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم پر چلنے والی ہوگی اور آپس میں محبت اور پیار کرنے والی ہو گی میں پھر کہتا ہوں کیونکہ میرے سامنے بعض دوست ایسے بھی ہیں جو اس حقیقت پر یقین نہیں رکھتے کہ مہدی معہود کی جماعت آپس میں محبت اور پیار کرنے والی جماعت ہوگی.جو لوگ آپس میں محبت اور پیار نہیں کرتے وہ خدا کی نگاہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل نہیں.صرف دُکھ اٹھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہونا تو بڑی بدقسمتی کے مترادف ہے بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ دکھ اٹھانے کے لئے انسان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی طرف منسوب ہو جائے لیکن جو ذمہ داریاں ہیں اُن کو ادا نہ کرے اور اس مقام پر کھڑے ہونے سے جوسکھ اور جو سرور اور جو لذت اور جو فیوض اور جو رحمتیں حاصل ہوسکتی ہیں اُن سے وہ اپنے آپ کو محروم کرے.پس احباب جماعت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس محرومی سے بچائے.اللہ تعالیٰ ہمارے ذریعہ دنیا میں بشاشت اور سکھ کا جو ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے اس کی تو فیق عطا ہو.ہم اللہ تعالیٰ کی منشا اور اسی کی توفیق سے وہی بشاشت جو ہمیں دی گئی ہے نوع انسانی کے لئے ویسی ہی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۹ خطبہ جمعہ ۷ رفروری ۱۹۷۵ء بشاشت کے حالات پیدا کرنے والے بن جائیں.اللہ تعالیٰ سے ہمیں دعا کرتے رہنا چاہیے اُس کی قوت اور اس کی توفیق کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوسکتا وہی ہمارا مددگار ہے.روزنامه الفضل ربوه ۸ / مارچ ۱۹۷۵ء صفحه ۲، ۳)
خطبات ناصر جلد ششم ۵۱ خطبه جمعه ۱۴ فروری ۱۹۷۵ء جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ ایک زندہ جماعت ہے خطبه جمعه فرموده ۱۴ فروری ۱۹۷۵ ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جماعتی نظام کے مالی سال کے ساڑھے نو ماہ گذر چکے ہیں اور اڑھائی ماہ کے قریب باقی رہ گئے ہیں چونکہ گزرے ہوئے مہینوں میں جماعت کی توجہ بہت سے ایسے کاموں کی طرف مبذول رہی ہے جو معمول کے مطابق نہیں تھے ، اس لئے جو مالی قربانی معمول کے مطابق ہوتی ہے یعنی صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ کی ادائیگی اس کی طرف پوری توجہ نہیں دی جاسکی.جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ ایک زندہ جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر مخلص احمدی سلسلہ احمدیہ کی جو آمد ہے، اس کے متعلق بھی اور خرچ کے متعلق بھی دلچسپی لیتا ہے اور اس کے متعلق سوچتا ہے اور سلسلہ کے اموال پر نگاہ رکھتا اور اُن کا محاسبہ کرتا ہے اور اُسے جہاں کہیں بھی کوئی خامی نظر آئے تو خلیفہ وقت کو اس کی اطلاع بھی دیتا ہے.صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ جماعت احمدیہ کے نمائندے مجلس شوریٰ میں غور کے بعد پاس کرتے ہیں.وہ خرچ کی مدیں قائم کرتے اور اُن کے متعلق رقمیں تجویز کرتے ہیں.جہاں تک خرچ کا سوال ہے وہ تو بندھ جاتا ہے مثلاً نظارت اصلاح وارشاد ہے اس میں اتنے مبلغ اور معلم
خطبات ناصر جلد ششم ۵۲ خطبه جمعه ۱۴ فروری ۱۹۷۵ء کام کر رہے ہیں اور یہ اُن کی تنخواہیں ہیں، تنخواہیں تو نہیں گزارے کہنا چاہیے جو اُن کو دیئے جا رہے ہیں یہ خرچ نظارت کی مد میں مقرر ہو جائے گا لیکن جو آمد ہے وہ مجوزہ ہوتی ہے یعنی ایک تجویز ہوتی ہے جو شوری میں غور کے بعد پاس کر دی جاتی ہے.جماعت احمدیہ کی زندگی کا یہ ثبوت ہے اور اُس کا یہ طریق رہا ہے کہ جو خرچ بندھے ہوئے ہوتے ہیں اُن میں بہت سی وجوہات کی بنا پر بعض دفعہ کمی ہو جاتی ہے لیکن جو مجوزہ آمد ہے اور بندھی ہوئی نہیں ہے.بندھی ہوئی آمد کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص جو نوکر ہے اس کی تنخواہ بندھی ہوئی ہے لیکن جماعت کی آمد تجویز کردہ ہے، بندھی ہوئی نہیں ہے.جو بندھی ہوئی چیز نہیں ہے یعنی مجوزہ آمد ہے اس کے متعلق جماعت احمد یہ سالہا سال سے شاید پندرہ بیس سال سے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ سے یہ خیال رکھتی چلی آرہی ہے کہ تجویز کردہ آمد سے زیادہ آمد ہوتا کہ کام رکیں نہیں اور نظام سلسلہ کو تکلیف نہ ہو اور یہ سالہا سال سے ہوتا چلا آ رہا ہے مثلاً تیس لاکھ کی جو مجوزہ آمد شوری نے پاس کی اس کے مقابلہ میں ساڑھے تیس لاکھ اصل آمد ہو گئی یا مثلاً شوریٰ نے پینتیس لاکھ کی مجوزہ آمد کا بجٹ پاس کیا اور اس کے مقابلے میں چھتیس لاکھ کی رقم جمع ہوگئی کیونکہ یہ جماعت ایک زندہ جماعت ہے اور چوکس رہ کر یہ دیکھتی رہتی ہے کہ جو اخراجات ہیں وہ تو بندھے ہوئے ہیں یہ تو نہیں ہوسکتا کہ چھ ماہ کے بعد دس مبلغوں کو فارغ کر دیا جائے گا یا مثلاً جب تعلیمی ادارے ہمارے پاس تھے تو سکولوں کے استادوں کو فارغ کر دیا جائے گا مبلغ تو بہر حال رہیں گے.اسی طرح اشاعت لٹریچر ہے.کتب رسالے اور پمفلٹس وغیرہ چھپتے ہیں.ہم انہیں اپنی بساط کے مطابق چھاپتے ہیں ،ضرورت اور مانگ کے مطابق تو نہیں چھاپ سکتے لیکن بہر حال شوری اپنی بساط کے مطابق فیصلہ کرتی ہے کہ یہ یہ کام ہو گا.پس جماعتِ احمد یہ چونکہ ایک زندہ جماعت ہے اس لئے یہ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ جو بندھے ہوئے اخرجات ہیں اور جو کم نہیں ہو سکتے ، اُن کو پورا کرنے کے لئے جو مجوزہ آمد ہے اس سے زیادہ آمد ہوتا کہ کسی وقت بھی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے کاموں میں سستی نہ پیدا ہو اور کام کو نقصان نہ پہنچے لیکن جس سال میں سے ہم گزر رہے ہیں یا اس سال کا جو حصہ گزر چکا ہے اور جو
خطبات ناصر جلد ششم ۵۳ خطبه جمعه ۱۴ رفروری ۱۹۷۵ء قریباً ساڑھے نو ماہ پر مشتمل ہے، اُس کا بڑا حصہ غیر معمولی حالات میں سے گزرا اور غیر معمولی اخراجات کا باعث بنا.جہاں تک نظام سلسلہ کے غیر معمولی اخراجات کا سوال تھا اس کے لئے کوئی تحریک نہیں کی گئی ، جماعت سے چندے نہیں لئے گئے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا غیر معمولی اخراجات مہیا ہوتے چلے گئے.جہاں تک احباب کے لٹے ہوئے سرمائے کی ذمہ واری کا تعلق ہے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں ، وہ نہ جماعت لیتی ہے اور نہ اُسے لینی چاہیے.اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جماعت کے ایک حصہ کا سرمایہ لٹ گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کے لئے پہلے سے زیادہ سرمائے کے سامان پیدا کر دیئے.بعض دفعہ وقتی طور پر جو ضرورتیں پیدا ہوتی ہیں اُن کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کیا ہے کہ دیر ہوئی کئی سال گزر گئے ہیں.میں نے یہ اعلان کیا تھا (امید ہے جماعتیں اس طرف توجہ کرتی ہوں گی ) کہ کوئی احمدی رات کو بھوکا نہ سوئے.چنانچہ روزمرہ کی جو ضرورتیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے پورا کرنے کا جماعت کے ذریعہ سے سامان پیدا کیا ہے.سامان تو اُسی نے پیدا کئے ہیں ہم تو گھر سے کچھ نہیں لائے نہ میں اور نہ آپ.غرض غیر معمولی حالات میں ھوکھہا روپیہ خرچ ہوا جس کے لئے کوئی اپیل نہیں کی گئی.اللہ تعالیٰ نے جماعت کے ذریعہ سبھی سامان پیدا کر دیئے لیکن جماعت کے علاوہ افراد کو بھی تو خرچ کرنے پڑے.افراد کے بھی اور بعض خاندانوں کے بھی غیر معمولی اخراجات ہو گئے اور اس کی طرف احباب جماعت کو توجہ دینی پڑی اور جو معمولی ذمہ داریاں تھیں، معمولی اس معنی میں نہیں جس میں عام طور پر کہا جاتا ہے بلکہ معمول کے مطابق جو ذمہ داریاں تھیں اُن سے نظر دوسری طرف پھیرنی پڑی اس لئے قربانیوں کی اس عظیم جدوجہد کے سلسلہ میں اس وقت مجھے کچھ فرق نظر آ رہا ہے لیکن میں اپنے رب کریم سے اُمید رکھتا ہوں کہ وہ جماعت کا قدم پیچھے نہیں ہٹنے دے گا اور نہ ایک جگہ کھڑا رہنے دے گا بلکہ آگے ہی آگے بڑھائے گا.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ ممکن ہے ہم تو اس کے عاجز بندے ہیں.بعض چیزیں جن کی طرف اس سلسلہ میں احباب جماعت کو توجہ دلانا ضروری ہے وہ بدلے ہوئے اقتصادی حالات سے تعلق رکھتی ہیں جماعت کے جو افراد مالی قربانیاں دیتے ہیں وہ مختلف
خطبات ناصر جلد ششم ۵۴ خطبه جمعه ۱۴ رفروری ۱۹۷۵ء قسموں میں بٹے ہوئے ہیں.پہلی قسم ملازمت پیشہ احباب کی ہے جن کی آمدنیاں بندھی ہوئی ہیں.دوسری قسم تجارت پیشہ احباب کی ہے جن کی آمدنی کا انحصار تجارت میں نفع پر ہوتا ہے نفع زیادہ بھی ہوتا ہے معمول کے مطابق بھی اور بعض دفعہ گھاٹے کا بھی امکان ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے.ہر سال بحیثیت مجموعی جماعت کے مالوں میں ہمیں بہت برکت نظر آتی ہے اور تختار احباب پہلے سے بڑھ چڑھ کر مالی قربانی میں حصہ لیتے ہیں ان کی آمد میں بھی فرق پڑا ہے پہلے آہستہ آہستہ پڑ رہا تھا لیکن اس سال قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے بہت نمایاں فرق پڑا ہے.قیمتیں بڑھ جانے کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ جن لوگوں کی بندھی ہوئی آمدنیاں ہوتی ہیں ، ان کو تکلیف ہوتی ہے مثلاً ایک شخص ملازم ہے اس کے گھر میں پانچ چھ افراد کھانے والے ہیں.تین سو روپے اس کی تنخواہ ہے گندم سترہ روپے من بکتی ہے.وہ نئے سال میں داخل ہوتا ہے تو گندم کی قیمت بڑھ کر پچیس روپے من ہو جاتی ہے بازار میں اُسے عملاً ( مختلف جگہوں کے متعلق مختلف رپورٹیں ہیں ) کہیں پینتیس روپے من ملتی ہے.کہیں چالیس روپے من، کہیں پینتالیس روپے اور کہیں پچاس رو پے من تک بک رہی ہے چنانچہ قیمت میں اس زیادتی کا تکلیف دہ اثر ملازمت پیشہ احباب پر پڑتا ہے لیکن اس تبدیلی سے جو افراط زر کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوتی اور بعض اور وجوہات بھی ہوتی ہیں، تجارت پیشہ احباب کی آمدنیاں بڑھ جاتی ہیں ایسے احباب زیادہ تر شہروں میں ہوتے ہیں.بہت سے شہر ہیں جہاں کی جماعتیں بڑی مالی قربانی دینے والی ہیں مثلاً کراچی ہے.کراچی کی جماعت بحیثیت مجموعی بڑی قربانی دیتی ہے وہاں زیادہ تر تجارت پیشہ احباب ہیں اور بہت سے ملازم بھی ہیں.ملازمین کی تو بندھی ہوئی تنخواہ ہوتی ہے.جماعت کی مجلس شوری نے جو فیصلہ کیا ہوتا ہے اس کے مطابق سولہواں حصہ ادا کرتے ہیں اس کے علاوہ بھی بعض دوسرے چندے ہوتے ہیں.غرض کراچی شہر کی جماعت بڑی قربانی دے رہی ہے.لاہور ایک لمبا عرصہ غفلت میں گزارنے کے بعد اب اُبھر آیا ہے الْحَمدُ للهِ.لاہور کی جماعت اب اپنے بجٹ کو پورا کر رہی ہے اسی طرح سرگودھا اور لائل پور کی جماعتیں ہیں گو یہ کراچی اور لاہور کی طرح بڑی بڑی جماعتیں تو نہیں مگر یہ بھی بڑی قربانی دینے والی جماعتیں ہیں.میں سرگودھا اور لائلپور شہر کی بات
خطبات ناصر جلد ششم ۵۵ خطبه جمعه ۱۴ فروری ۱۹۷۵ء کر رہا ہوں کیونکہ شہروں میں زیادہ تر تجارت پیشہ احباب ہوتے ہیں لیکن بعض شہر ایسے بھی ہیں جو سستی دکھا رہے ہیں پتہ نہیں کیوں؟ کچھ پتہ تو ہمیں بھی ہے اور وہ یہ کہ ان کے عہد یدارست ہوتے ہیں مثلاً لائلپور ہے یہاں کی جماعت کو مالی لحاظ سے بڑی تکلیف اٹھانی پڑی لیکن جہاں تک مجھے علم ہے اُن کی آمد کے بجٹ پر کوئی اثر نہیں پڑا اور یہ بڑی ہمت کی بات ہے کہ اتنی بڑی مظلوم قربانیاں دینے کے بعد اور اس قسم کی مظلومانہ زندگی گزارتے ہوئے بھی اُنہوں نے اپنے آپ کو مالی قربانی کے معیار سے گرنے نہیں دیا.اس کے مقابلہ میں سیالکوٹ شہر کی جماعت ہے شاید فسادات کے دنوں میں تھوڑی سی قربانی ان کو بھی دینی پڑی ہوا اور تھوڑا سا ظلم اُن کو بھی سہنا پڑا ہو لیکن لائلپور کے مقابلہ میں بہت کم.اس کے باوجود میں حیران ہو گیا جب مجھے یہ رپورٹ ملی کہ ابھی تک اُنہوں نے اپنے بجٹ کا صرف بارہ یا پندرہ فیصد اللہ کی راہ میں پیش کیا ہے.اس قسم کے بعض اور قصبے بھی ہوں گے اُن کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے انہیں باہمی مشورے کرنے چاہئیں.اپنے اپنے حصہ کا بجٹ پورا کرنے کا عزم کرنا چاہیے اُن کو اپنی ہمتوں کو بلند کرنے کے فیصلے کرنے چاہئیں.اُن کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہونا چاہیے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح حاصل کریں گے جس طرح لائل پور یا سرگودھا والے دوست حاصل کر رہے ہیں.چندہ دہندگان کی تیسری قسم زراعت پیشہ احباب کی ہے.ایسے اگر تفصیل میں جائیں تو شاید اور بھی بعض چھوٹی چھوٹی قسمیں بن جائیں گی لیکن چندہ دینے والوں کی موٹی موٹی تین قسمیں ہیں.ایک ملازمت پیشہ احباب ہیں جن کا میں نے ذکر کر دیا ہے دوسرے تجارت پیشہ احباب ہیں اس میں صنعت و حرفت بھی آجاتی ہے کیونکہ یہ بھی تجارتی اصول کے ساتھ بندھی ہوئی ہے تیسری قسم زمیندار احباب کی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری زمیندارہ جماعتیں زیادہ ہیں.جہاں ملازمت پیشہ آدمی کو پندرہ روپے من سے پچیس روپے من گندم ہو جائے تو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے وہاں زراعت پیشہ آدمی یعنی زمیندار کو فائدہ پہنچتا ہے.ویسے یہ بھی ٹھیک ہے کہ زمیندار کے کچھ اخراجات بڑھ جاتے ہیں لیکن اتنے نہیں بڑھتے جتنا کہ قیمت کے لحاظ سے اُسے فائدہ پہنچ جاتا ہے.اگر ہمارے ملک میں بڑی دیانتداری ہو اور کسی کو اپنے حقوق کے حصول میں
خطبات ناصر جلد ششم خطبه جمعه ۱۴ فروری ۱۹۷۵ء نا جائز رقمیں خرچ نہ کرنی پڑیں تو آمد کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے مجموعی حیثیت سے تو فرق بہر حال زیادہ ہے.اب اگلی فصل کے لئے سینتیس روپے من گندم کا اعلان کیا گیا تھا مگر اس وقت گو ہر جگہ تو نہیں لیکن بہت سی جگہوں پر گندم سینتیس روپے سے زیادہ قیمت پر بکنے لگ گئی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہمیں زمیندارہ جماعتوں کو مستعد بنانا پڑے گا اور انہیں یہ احساس دلانا پڑے گا کہ وہ زمیندارہ آمد سے اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کی ضرورتوں کو پورا کریں جو یکدم بڑھ گئی ہیں.ہمارے صدر انجمن احمدیہ کے جو کارکن ہیں واقف زندگی ہیں یا نیم واقف ہیں، اُن کو گزارے مل رہے ہیں.جو لوگ وقف نہیں کرتے اُن پر مجھے حیرت آتی ہے کہ تم گزارے لیتے ہو واقفین جتنے مگر وقف کرنے سے گریز کرتے ہو.بہر حال کارکنان کو گزارے ملتے ہیں مگراب گندم کی قیمت بڑھ گئی ، کپڑے کی قیمت بڑھ گئی ، گھی کی قیمت بڑھ گئی ، دودھ کی قیمت بڑھ گئی، لکڑی کی قیمت بڑھ گئی علی ھذا القیاس.چیزوں کی قیمت اتنی بڑھ گئی کہ گویا آسمان پر پہنچ گئی جس سے کارکنان کو بڑی تنگی اٹھانی پڑی.حکومت نے اپنے کارندوں وغیرہ کے لئے پچاس روپے ماہوار الاؤنس کے حساب سے چھ سوروپے سالانہ کا اضافہ کر دیا.اگر پچاس روپے من گندم ہو تو بارہ من گندم بنتی ہے جماعت نے اپنے کارکنان کے لئے اس الاؤنس کی بجائے ایک چوتھائی گندم کی رعایت دے رکھی ہے.گندم کی ضرورت کا یہ حصہ سلسلہ کی طرف سے دیا جاتا ہے اور باقی کے لئے قرض دیا جاتا ہے.اس سے اُن کو کافی مددمل جاتی تھی لیکن اب میرے سامنے جو حالات رکھے جا رہے ہیں اُن کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ ہم اپنے کارکنان کو ایک چوتھائی دے کر اُن کی جو کم سے کم ضرورتیں ہیں وہ پوری نہیں کر سکتے شاید ہمیں نصف گندم مفت دینی پڑے.اس طرح ایک کارکن کو پچاس روپے اضافہ الاؤنس کی نسبت اس کی گندم کی ضرورت کی ایک چوتھائی یا نصف رعایت کا اصول زیادہ معقول نظر آتا ہے.اس لئے کہ اگر پچاس روپے کا اضافہ کیا جائے تو ایک کارکن جس کی ابھی شادی نہیں ہوئی اور وہ اکیلا ہے تو قانون کہتا ہے کہ اسے بھی ہم پچاس روپے ماہوار کے حساب سے چھ سو روپے سالانہ دیں گے اور ایک ایسا کارکن جس کے
خطبات ناصر جلد ششم ۵۷ خطبه جمعه ۱۴ فروری ۱۹۷۵ء دس لواحقین ہیں گویا دس پیسٹ اس کی کمائی سے بھرتے ہیں یا بھر نے چاہئیں اس کو بھی چھ سو روپے سالا نہ دیں گے.قانون کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ وہ تو اندھا ہوتا ہے لیکن خدا کے سلسلے تو اندھے نہیں ہوتے.دس افراد کے خاندان کا مطلب یہ ہے کہ اس کو فی کس آدھ سیر روزانہ کے حساب سے سالانہ پنتالیس من گندم کی ضرورت ہوتی ہے.اکیلے آدمی کو ساڑھے چارمن کی ضرورت پڑتی ہے پینتالیس من میں سے ہم اپنے کارکن کو 11 من رعایت دیتے تھے اور اگر اگلے سال کے لئے نصف کر دیں تو یہ رعایت ۲۲ من بن جاتی ہے اور یہ چھ سوروپے سالانہ کی امداد کی نسبت بہت مناسب اور فائدہ مند ہے کیونکہ اس رعایت کے ذریعہ اُسے ۲ ہزار سے زائد کی گندم مل جائے گی.۳۷ روپے من کا حساب رکھا جائے تب بھی بہت فائدہ ہے.پس ایک تو جس کی جتنی ضرورت ہے اس اصول کے مطابق مدد دی جاتی ہے اور دوسرا اصول یہ ہے کہ ایک قانون بنا دیا جائے اور اس کے مطابق رعایت دی جایا کرے.کارکنان کو گندم کی رعایت تو ایک حصہ بن گیا ہے اس کے علاوہ موسم سرما کی امداد ہے کیونکہ گرمیوں کی نسبت موسم سرما زیادہ خرچ کرواتا ہے گرم کپڑے بنوانے پر زیادہ خرچ ہو جاتا ہے اس لئے کارکنان کو زائد رقمیں بھی دی جاتی ہیں.پس اس لحاظ سے خرچ اگلے مالی سال میں بہت بڑھ جائیں گے.ہوسکتا ہے کہ سائر والے حصہ کو چھوڑ کر صرف تنخواہوں والے حصہ میں ۱٫۴ کی بجائے نصف گندم دے کر مہنگائی کی وجہ سے ۴.۵ لاکھ روپے زائد خرچ کرنے پڑیں لیکن عام معمول کے مطابق ہر سال جو بجٹ بڑھتا ہے وہ سات آٹھ لاکھ روپے نہیں ہوتا بلکہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے کی بڑھوتی ہوتی ہے لیکن آئندہ سال کے لئے مہنگائی کی وجہ سے سال رواں کے بجٹ کے مقابلہ میں ممکن ہے چار پانچ لاکھ روپے زائد صرف کارکنان کو دینے پڑیں گے اور یہ خرچ ضروری ہے اس کو ہم دو طریق سے پورا کر سکتے ہیں ایک یہ کہ جماعت پہلے سے زیادہ مالی قربانیاں دے اور دوسرے یہ کہ ہم اپنے کارکنان کی تعداد پہلے سے کم کر دیں.ویسے ایک حصہ ایسا ہے جسے کم کیا بھی جا سکتا ہے مثلاً بہت سے دوست پنشن کی عمر کو پہنچ چکے ہوئے ہیں وہ کام کر رہے ہیں.اگر کارکنان کی تعداد کم کرنی پڑے تو پہلے اُن کو کم کرنا پڑے گا.پنشن پانے کی عمر والے اکثر دوست ایسے ہوتے
خطبات ناصر جلد ششم ۵۸ خطبه جمعه ۱۴ فروری ۱۹۷۵ء ہیں جن کے بچے نوکر ہو جاتے ہیں اور کمانے لگ جاتے ہیں اُن کے گھر کے اخراجات کم ہو جاتے ہیں کیونکہ اُن کے بچے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں.غرض بدلے ہوئے حالات میں افراط زر کی وجہ سے سال رواں پر بہر حال اثر پڑا.اس کے علاوہ جو ہنگامی حالات تھے اُن کا بھی سال رواں کے چندوں پر اثر پڑا.تاہم جماعت کا جو یہ اصول تھا کہ جو روزمرہ کی ضرورتیں ہیں وہ جماعت پورا کرے گی اس کی تو خدا تعالیٰ نے توفیق دی اور ہنگامی حالات میں بھی ضرورتیں پوری ہوئیں.چنانچہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں لکھوکھہا روپیران ضروریات پر خرچ کرنا پڑا اور اس کے لئے چندہ کی کوئی اپیل بھی نہیں کی گئی جو مہنگائی کا اثر پڑ سکتا تھا وہ اتنا نہیں پڑا جتنا باہر پڑ سکتا تھا کیونکہ نظام سلسلہ اپنے کا رکنان کو بعض سہولتیں دیتا ہے مثلاً گندم ہے کارکنان کی ضروریات کی ایک چوتھائی تو ویسے ہی مفت دی جاتی ہے اور تین چوتھائی کے لئے قرض دیا جاتا ہے.جو دوست گندم کے لئے قرض لیتے ہیں اور کہیں اور خرچ کر دیتے ہیں وہ تکلیف اُٹھاتے ہیں.اُن کو ہم وعظ ونصیحت بھی کرتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ بھی ہوتی ہے مگر پھر بھی کچھ لوگ اس نصیحت سے فائدہ نہیں اُٹھاتے.میں ایسے لوگوں سے کہوں گا کہ وہ اپنے آپ پر رحم کرتے ہوئے آئندہ گندم کی امداد کو گندم کی شکل میں رکھیں.جس آدمی کے گھر میں سال بھر کی گندم ہوتی ہے وہ سال بھر بھوکا نہیں رہتا اور ویسے بھی جو مرکز ہے اس میں رہنے والوں کو بڑا شکر گزار بندہ بن کر رہنا چاہیے.غیر ممالک سے ہمارے جو دوست جلسہ سالانہ پر یہاں آئے ہوئے تھے ان میں سے بعض ہندوستان بھی گئے واپسی پر وہ کہنے لگے کہ ہندوستان میں قادیان کے درویشوں میں جتنی بشاشت ہمیں نظر آئی اتنی کہیں بھی نظر نہیں آئی.اس اطمینان اور بشاشت کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ضرورتوں کا اس طرح خیال رکھا جاتا ہے کہ صرف آنکھیں بند کر کے یا اندھے قانون کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اُن کی جوضرورتیں ہوتی ہیں وہ پوری کی جاتی ہیں اور ضرورتوں کے مطابق ان سے سلوک کیا جاتا ہے اسی طرح اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں پاکستان میں ربوہ جتنا مسکراتا ہوا شہر ہمیں اور کہیں نظر نہیں آیا.ٹھیک ہے ہمیشہ مسکراتے رہنے کا میں نے آپ کو کہا بھی ہوا ہے اس لئے ہر وقت مسکرا یا کرو.
خطبات ناصر جلد ششم ۵۹ خطبه جمعه ۱۴ فروری ۱۹۷۵ء ہم تو اللہ کے بندے ہیں.جو شخص اللہ کا بندہ ہوتا ہے وہ مسکرائے گا نہیں تو اور کیا کرے گا.جو شخص واقعہ میں خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کا عرفان رکھتا ہے اور جس کو خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہے اُس کو تو خوشی ہی خوشی حاصل ہے وہ منہ نہیں بسورے گا اور نہ تیوریاں چڑھائے گا کیونکہ اس کی زندگی خدا کے لئے ہے اور خدا کا پیار اُس کے لئے ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا ہے سال رواں کے مالی بجٹ ختم ہونے میں صرف اڑھائی ماہ باقی رہ گئے ہیں.بجٹ پورا کرنے کے لئے سولہ سترہ لاکھ کی مزید رقم آنی چاہیے اس میں سے پانچ چھ لاکھ روپیہ تو آخری دس دنوں میں آجاتا ہے یہ عام طور پر جماعت کا قاعدہ اور طریق چلا آ رہا ہے.مالی سال ۱۰ رمئی کو بند کیا جاتا ہے کیونکہ اپریل کی تنخواہیں اور دیگر آمد نیاں یکم.۲.۳ رمئی کو ہوتی ہیں اس لئے ہم ہر سال چند دنوں کی گنجائش رکھتے ہیں.چنانچہ مئی کے شروع میں پانچ چھ لاکھ روپیہ آ جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یکم مئی سے پہلے پہلے گیارہ بارہ لاکھ کی جو کمی اس وقت نظر آرہی ہے وہ پوری ہونی چاہیے.اگر احباب جماعت اپنے رب کریم پر بھروسہ رکھیں گے تو وہ یاد رکھیں خدا ان کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا وہ انہیں مالی قربانی کی بھی توفیق دے گا.ایک جذ بہ اور ایک بشاشت کے ساتھ قربانی دینے کا سوال ہے وہ ہر احمدی کو دینی چاہیے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.خدا کرے ہمارا قدم ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھنے والا ہو، کسی جگہ ٹھہر نے والا نہ ہو جیسے اس کی رحمتیں پہلے نازل ہوتی رہی ہیں ویسے ہی اب بھی نازل ہوں.روز نامه الفضل ربوه ۱۳ / مارچ ۱۹۷۵ء صفحه ۲ تا ۵ )
خطبات ناصر جلد ششم บ خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء قیامت تک کے لئے گھوڑوں کی پیشانیوں میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھ دی ہے خطبه جمعه فرموده ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.دوو اَفَرَعَيْتُمُ النَّارَ الَّتِى تُوُرُونَ - وَاَنْتُمْ اَنْشَأْتُم شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ - نَحْنُ جَعَلْنَهَا تَذْكِرَةً وَمَتَاعًا لِلْمُقْوِينَ.(الواقعة : ۷۲ تا ۷۴) پھر حضور انور نے فرمایا:.گذشتہ برس یا شاید ایک سال سے زائد ہوا، میں نے اہلِ ربوہ سے کہا تھا کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں، کھلی جگہوں پر ، سڑکوں پر ، گھروں میں.اس سلسلہ میں کچھ کام تو ہوا ہے لیکن جس توجہ اور تندہی سے یہ کام ہونا چاہیے تھا اس طرح پر نہیں ہوا.اُس وقت کے لگے ہوئے کچھ درخت تو ہمیں یہاں آتے ہوئے بھی سڑک کے کناروں پر نظر آتے ہیں لیکن اتنے تو کافی نہیں کیونکہ سارے ملک میں یہ ہفتہ درخت لگانے کا منایا جا رہا ہے اور چونکہ ہمارے دل میں اپنے ملک کا پیار ہے اور اس کی خوش حالی کے لئے ہمارے دل میں تڑپ بھی ہے اور عملاً بھی ہم اس میں حصہ لیتے ہیں اور ملکوں کی خوش حالی کا مدار ایک حد تک جنگلات اور درختوں پر بھی ہوتا ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۶۲ خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء ہمارے ملک میں بلکہ میں کہوں گا کہ اس سارے علاقے میں درختوں کی طرف توجہ نہیں.یہاں حسنات دنیا کے لئے بھی وہ کوشش نہیں کی گئی جس کی طرف اسلام کی تعلیم ہمیں توجہ دلاتی ہے.اُخروی حسنات تو علیحدہ رہے چنانچہ حسنات دنیا میں سے ایک جنگلات کے حسنات ہیں فوائد ہیں.قرآن کریم نے درختوں کے بہت سے فوائد بھی بتائے اور قرآن کریم نے یہ بھی بتایا کہ ایک مسلمان کو درخت کو پالنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور بغیر ضرورت کے درختوں کو کاٹنا نہیں چاہیے نہ ضائع کرنا چاہیے بڑی سختی سے اسلامی تعلیم نے یہ حکم دیا ہے.پس اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر جہاں جہاں احمدی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ جنگلات اور درخت لگانے کی طرف توجہ دیں اور ربوہ کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ ایک تو ہم اپنے اس شہر کو خوبصورت بنانا چاہتے ہیں پھر سایہ دار بنانا چاہتے ہیں.اس وقت گرمیوں میں بڑی سخت تپش ہمیں تنگ کرتی ہے.اگر ہر گھر میں درخت ہوں تو اس تپش میں کمی بھی آجائے گی اور درخت لگانے کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ربوہ میں ہزار سے او پر گھر ہیں ان میں سے ہر ایک میں اتنی گنجائش آسانی سے نکل سکتی ہے اگر ہم گھروں میں نو سے لے کر بین آیا بائیں درخت تک لگا ئیں تو وہ آسانی سے پالے جا سکتے ہیں.تو جہ سے محنت کرنے کی بات ہے وقت پر پانی دینے کی بات ہے کھا د جو ہے وہ تو جو برتن آپ دھوتے ہیں یا اس قسم کی دوسری چیز میں ہیں اگر ان کا رُخ درختوں کی طرف پھیر دیا جائے تو وہ کھا د بن جاتی ہیں.ہمارے یہاں ربوہ کی مٹی میں گھر بڑا ہے اسی طرح اس مٹی میں اور بھی بہت سے کیمیاوی اجزا ہیں.بہت سے درخت یہاں ہوتے نہیں.کالج کے زمانہ میں، میں نے درخت لگانے کی بہت کوشش کی اور ہم لاہور سے تین سو کے قریب قسمیں مختلف درختوں اور Shrubs ( جھاڑیوں ) کی لے کر آئے تھے جن میں سے آٹھ یا دس پودے پہلے تھے ، باقی درختوں کو زمین نے قبول نہیں کیا یا ان درختوں نے زمین کو قبول نہیں کیا.بہر حال بعض ایسے درخت ہیں جو یہاں ہو جاتے ہیں اور ہماری زمین کے نیچے چار پانچ فٹ سے اور پھر دس بارہ فٹ تک بڑا سخت حصہ زمین کا ہے.یہاں ایک Layer یا تہہ آتی ہے جس میں عام درختوں کی جڑیں گزر نہیں سکتیں اور عام درخت جو ہیں ان کو خدا تعالیٰ
خطبات ناصر جلد ششم ۶۳ خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء نے یہ نہیں سکھایا کہ وہ اگر نیچے نہ جاسکیں تو او پر پھیل جائیں اور اپنی غذا کو اوپر سے لے لیں.بہر حال یہاں جو درخت ہو جاتے ہیں ان میں سے ایک بڑا صحت مند درخت ہے جو کہ بڑا فائدہ مند بھی ہے وہ ہے یوکلپٹس.یوکلپٹس شاخیں نکال کے بہت زمین گھیر تا ہے لیکن اگر آپ قریب قریب لگا دیں تو شاخیں کم نکلیں گی اور تنا موٹا ہو جائے گا بیچ کا اور اوپر چلا جائے گا.اس کام کے لئے ماہرین جنگلات نے ہمیں مشورہ دیا ہے کہ یہ درخت پانچ فٹ پر بھی لگایا جا سکتا ہے.اگر پانچ پانچ فٹ پر درخت لگائیں اور آپ کے پاس ۱۰ × ۰افٹ جگہ ہو جس کا مطلب ہے کہ دو تین چار پائیوں کی جگہ تو تین درخت ایک طرف اور تین ایک طرف تو نو درخت اس جگہ میں لگ جاتے ہیں ۱۰ × ۰ افٹ کا مطلب ہے دو تین چار پائیوں کی جگہ جس مکان میں آپ نکال لیں تو ۹ درخت لگا سکتے ہیں اور اگر آپ کے پاس ہیں فٹ جگہ ہو تو اس میں فٹ مربع میں پچیس درخت لگ جاتے ہیں پانچ پانچ درخت او پر اور یہ کوئی بڑی جگہ نہیں ہے.یہاں کے چھوٹے مکانوں میں کم از کم نو درخت کی بلکہ اکثر میں پچیس درخت کی جگہ نکل آئے گی.اسی طرح ایک اور درخت جسے پنجابی میں دھر یک کہتے ہیں، یہ بھی یہاں ہوتی ہے اور اس کی لکڑی بھی اچھی قیمتی ہے بہت زیادہ لکڑی نہیں ہوتی لیکن اس کے بالے دیمک نہیں ان کو کھاتی اکثر دیہات میں دھریک کے بالے استعمال ہوتے ہیں.یہ درخت بھی پانچ فٹ پر لگایا جا سکتا ہے.پھر شہتوت ہے، توت شہتوت نہیں.اگر آپ دیسی توت کے پچیس درخت لگائیں وہ قسم جس کے اوپر ریشم کے کیڑے پالے جا سکتے ہیں جب وہ پانچ سال کا ہو جائے تو آپ اس پر نصف اونس ریشم کے کیڑے پال سکتے ہیں.پانچ سال کے پچھپیں درختوں پر اور ہر سال اگر عقل وفراست سے محنت کریں تو مفت میں ہر گھر کو جو کیڑے پالے زائد آمد پانچ صد سے ایک ہزار روپیہ تک ہو جاتی ہے یہ بھی جیب خرچ سمجھ لیں.احمدی سگریٹ تو نہیں پیتے یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ انہیں سگریٹ نہیں پینا چاہیے اور اس قسم کی اور عادتیں نہیں ہونی چاہئیں.بہت سارے کام اس سے آ جاتے ہیں تو اب بھی کمایا جا سکتا ہے اور دنیا کی ضرورتیں بھی پوری کی جاسکتی ہیں اور اگر ہمارے ہر گھر میں جو ایک ہزار سے زائد ہیں اوسطاً ہمیں درخت ہوں
خطبات ناصر جلد ششم ۶۴ خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء کہیں تو کہیں پندرھا ، کہیں پچھیں تو یہ میں ہزار درخت بن جاتا ہے اور سارے ربوہ کی مجموعی آمد بڑھ جاتی ہے ان درختوں کی وجہ سے شہر کی شکل دور سے ہوائی جہاز سے.ہوائی جہاز یہاں بہت گزرتے ہیں راستہ ہے ان جہازوں کا یہ.ویسے آنکھ کو بھی سایہ، آرام دہ جگہ.گرمیوں میں کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی بہت سے فوائد ہیں.جو آیات میں نے اس وقت تلاوت کی ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے کئی فوائد درختوں کے بتائے ہیں ایک یہ کہ لکڑی سے ہم گرمی حاصل کرتے ہیں آگ جلاتے ہیں ، آگ سے ہزار ہا کام ہیں ہمارے جن کا تعلق آگ سے ہے.ہمارا کھانا پکتا ہے آگ پر، بہت سی انڈسٹریز ہیں جن میں لکڑی جلتی ہے.بھٹیوں کے اوپر ہمارے کپڑوں کی صفائی ہے اور اگر ہم جو خدا تعالیٰ نے اپنی شان بتائی ہے کہ تم درخت کا بیج لگا سکتے ہو یا پودا اگا سکتے ہولیکن اس حالت میں بیچ کا پہنچ جانا جب لگانے کے قابل ہے یا بعد میں بڑھنا، یہ انسان کا کام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اس سے دعا اور تضرع کے ساتھ مانگنا چاہیے.پس ہمیں خدا تعالیٰ کی شان ہر جگہ نظر آتی ہے، درختوں میں بھی اور اس کی دوسری مخلوقات میں بھی ، بے حد اس کی صفات ہیں اس کی خلق کے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے غیر محدود ہیں، اس لئے جو چیز اس کی دست قدرت سے پیدا ہوئی ہے اس کی صفات بھی اور خواص بھی غیر محدود ہیں.انسان ان پر حاوی نہیں ہوسکتا.چنانچہ پچھلے دو سو سال میں لکڑی سے وہ کام لئے گئے ہیں جو اس سے پہلے نہیں لئے گئے چنانچہ چپ بورڈ ایک نئی ایجاد ہے یہ بھی لکڑی سے بنتی ہے.اور ایک تو خدا تعالیٰ نے یہاں اس طرف توجہ دلائی کہ ہمارے حکم سے درخت پلتے ہیں اس لئے خالی درخت کا لگانا کافی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کے حصول کے لئے اس کے حضور عاجزانہ دعائیں اور اس کی خاطر عاجزانہ راہوں کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے.دوسرے فرمایا کہ اس میں ہم نے نصیحت کے سامان رکھے ہیں ایک تو جو میں نے ابھی بتایا وہ نصیحت ہے اور دوسرے نصیحت کے سامان یہ کہ اب ان درختوں سے ہمارا کاغذ بننے لگ گیا ہے
خطبات ناصر جلد ششم خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء اور کتا بیں شائع ہوتی ہیں مثلاً قرآن کریم جو کہ ذکر کی کتاب ہے ساری دنیا میں اس کا پھیلا نا جو ہے درخت اس کے اندر خدمت کر رہے ہیں اور محد و معاون بن رہے ہیں یہ ہے تذکرہ.پھر قرآنِ کریم کی تفسیر ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی شکل میں انسان تک پہنچی یا صلحائے امت کی کتب جو اُنہوں نے لکھیں یا اقوال جو تحریر میں آئے ، یا پھر اس زمانہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند نے زمانہ حاضرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مسائل کو حل کرنے کے لئے قرآن کریم کی تفسیر ہمارے ہاتھ میں رکھی.یہ وہ بھی کاغذ کے اوپر کتا بیں لکھی جاتیں اور دنیا میں پھیلائی جارہی ہیں اس معنی میں یہ تذکرہ ہے اور پھر تیسری چیز جس کا ذکر یہاں ہے وہ یہ کہ لکڑی میں مسافروں کی سہولت کا سامان رکھا گیا ہے جیسے کشتیاں ہیں ایک زمانہ میں تو لکڑی کی کشتیاں بنتی تھیں.ہمارے دریاؤں میں ڈونیاں ہیں بڑے جہاز یہاں نہیں شمالی علاقوں میں.لیکن دریا ہیں وہاں کشتیاں ہیں اور ساری بنی ہوئی ہیں لکڑی کی.یہ لکڑیوں کی کشتیاں مسافروں کے کام آتی ہیں.بڑی کشتیاں ہیں.جو جہاز ہیں بڑے بڑے لوہے کے خول ہیں انہوں نے بنا دیئے لیکن اندر سارا کام لکڑی سے کیا جا رہا ہے تو مسافروں کے آرام کے لئے سامان پیدا کر دیئے.اور قرآن کریم نے بہت سی آیات میں درختوں کے فوائد کا ذکر کیا ہے.میں نے ان میں سے تین لئے ہیں ان آیات میں ایک بڑا فائدہ درخت کا یہ ہے کہ وہ آپ کے لئے پھلوں کی شکل میں بہترین غذا مہیا کرتا ہے.خدا کی عجیب شان ہے کہ ایک ہی مٹی ، ایک ہی پانی ، قریباً کم و بیش ایک ہی قسم کی کھاد سے مختلف الانواع پھل، جن کے مزے بھی مختلف، جن کی شکل بھی ہماری آنکھوں کے لئے سرور کا باعث بنتی ہے وہ بھی مختلف، جن کے خواص بھی مختلف ، کوئی گرم ہے، کوئی سرد ہے.موسموں کے لحاظ سے سردی کے پھل اور گرما کے پھل اور بہار کے پھل اور خزاں کے پھل ہر موسم کے لئے یہ درخت ہمارے لئے پھل مہیا کرتے ہیں اور جنت کے متعلق قرآن کریم نے یہ فرمایا کہ پھل کبھی ختم نہیں ہوں گے اس دنیا میں بھی جنت جیسے جنات اور باغ لگائے جا سکتے ہیں جس میں ہر موسم کا درخت لگایا جائے اور ہر موسم میں پھل آپ کو ملتے رہیں.میں توت کے درخت کے متعلق بات کر رہا تھا.اگر توت کا درخت ریشم کے لئے نہیں لگا نا تو
خطبات ناصر جلد ششم ۶۶ خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء شہتوت لگا دیں فاصلہ ذرا بڑھا دیں اور درخت اس طرح کم لگا دیں تو آپ کو اپنے موسم میں پھل مل جائے گا.جن دوستوں کو پھلوں والے درخت سے دلچسپی ہو اور جلدی پھل کھانا چاہیں تو جلدی پھل دینے والا درخت انجیر ہے بعض دفعہ قلم لگائی جائے تو پہلے سال ہی ایک آدھ انجیر لگ جاتی ہے ایسے ہی شہتوت بھی بڑی جلدی پھل دیتا ہے اور یہ سخت جان بھی ہے اسے زیادہ سنبھالنے کی کوشش بھی نہیں کرنی پڑتی.پس آپ درخت لگائیں، اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے پالنے اور لگانے کا حکم دیا ہے.اس لئے کثرت سے جماعت کے دوست خصوصاً زمیندار ، درختوں اور جنگلات کی طرف توجہ کریں اور اپنے کھیتوں میں بھی درخت لگائیں.اس وقت ربوہ کے لوگ میرے مخاطب ہیں انہیں چاہیے کہ گھروں میں نو سے پچیس تک درخت لگا دیں.اس سلسلہ میں بعض محلوں نے کام شروع کر دیا ہے ویسے بعض درختوں کا پالنا یا حاصل کرنا بھی آسان ہے اور بعض مفت مل جاتے ہیں.میرا خیال ہے کہ آپ کو مفت نہ ملیں تو زیادہ اچھا ہے کیونکہ اٹھنی یا روپیہ فی درخت خرچ کریں گے تو زیادہ شوق و پیار سے اُسے پالیں گے تاکہ آپ کی رقم ضائع نہ ہو جائے.بہر حال جو خرید نہیں سکتے وہ دوسرے درخت بھی شوق سے پالیں.بعض درختوں کی تو قلمیں لگ جاتی ہیں اور اس پر خرچ بھی نہیں آتا مگر یوکلپٹس کی قلم نہیں لگتی یہ بیج سے پودا تیار کیا جاتا ہے اور پھر اس کی جگہ بدل کر دوسری جگہ لگایا جاتا ہے.جنگلات والے غالباً آٹھ آنے میں اور نرسری والے ایک روپیہ میں پودا دیتے ہیں.بہر حال درخت خواہ کسی شکل میں ہوں لگنے چاہئیں آپ کے محلوں کے جو پریذیڈنٹ ہیں اُنہوں نے کام شروع کر دیا ہے جنہوں نے شروع نہیں کیا وہ میرا خطبہ سنیں اور شروع کر دیں، یہ دن آج کل پودے لگانے کے ہیں.میں نے بتایا کہ ساری قوم درخت لگانے کی طرف متوجہ ہے اور ہم اپنی اس قوم کا ایک حصہ ہیں اور ہمارے دل میں ہمارے نزدیک اس ملک کے لئے شاید دوسروں کی نسبت زیادہ پیار ہو.
خطبات ناصر جلد ششم ۶۷ خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء عموماً ہم درخت تو بہت لگاتے ہیں لیکن پھر پرواہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں.پس ہر احمدی کو چاہیے کہ درخت لگائے اور حتی الوسع اس کو ضائع نہ ہونے دے.اس لئے جو مادی تدبیر ہے وہ بھی کرے اور پھر جو روحانی تدبیر ہے دعا کے ساتھ ، پیار کے ساتھ ، وہ بھی کرے اور خدا کو یہ کہے کہ اے خدا! تو نے قرآن کریم میں درخت لگانے کا حکم دیا ہے.درختوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن تیرے پیار سے ہمیں دلچسپی ہے وہی ہماری زندگی اور روح کی غذا ہے.باقی ان درختوں کو ہم نے کیا کرنا ہے؟ تیرا حکم ہے تیرا منشاء ہے تیری خواہش ہے کہ جو بھی خدام تو نے ہمارے لئے پیدا کئے ہیں ہم ان سے خدمت لیں اس لئے ہم یہ درخت بھی لگاتے ہیں.اور دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں اسی کے تسلسل میں اور اسی لئے ہم گھوڑوں سے بھی پیار کرتے ہیں ، گھوڑا ، کتا یا دوسرے جانور جو ہیں اپنی ذات میں ہمیں ان سے کیا پیار ہے لیکن ہر مخلوق کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا:.وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثیۃ : ۱۴ ) کہ ہر مخلوق انسان کی خدمت کے لئے بطور خادم پیدا کی گئی ہے پس جس کو خدا نے ہمارا خادم بنا یا بڑا ہی متکبر اور مغرور ہوگا وہ شخص جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے خادم بنایا ہے اس سے خدمت لینے سے انکار کر دے اور اباء اور استکبار اور بغاوت کی راہ اختیار کرے.پس گھوڑا بھی ہمارا خادم ہے قرآن کریم نے اس کی بڑی تعریف کی.پہلے انبیاء نے اس سے خدمت لی.اسلام نے خدمت لی، اس وقت گھوڑوں کے متعلق یورپ و امریکہ میں جو کتب لکھی جا رہی ہیں اگر ان میں عرب گھوڑے کا ذکر ہے تو مجبور ہو گئے ہیں اپنے تمام تعصبات کے با وجود کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی لیں اور آج کی بھی ساری دنیا اس بات کے اعتراف پر مجبور ہے کہ عرب گھوڑے کی نشو و نما اور اس کو کھلانا اور اس کے خواص کو قانونِ قدرت کے مطابق ضیاع سے بچانا ، یہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہوا ہے.میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ عرب کو فائدہ اس وقت پہنچا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات ناصر جلد ششم ۶۸ خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء نے فیصلہ کیا کہ مسلمان جو مظلوم ہیں اور بڑی بڑی طاقتیں ان پر حملہ آور ہو رہی ہیں ان کی فوج میں گھوڑ سوار فوج بھی ہو.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑ سوار فوج کی تربیت کا فیصلہ کیا تو عرب نسل گھوڑے کی نشوونما ہوئی اور گھوڑوں کے جو ماہر ہیں عیسائی ہو یا دہر یہ ہو ، غیر مسلم یورپ اور امریکہ کے رہنے والے ان کی متفقہ رائے یہ ہے کہ "There is no horse in the world but Arab" یعنی دنیا میں گھوڑا تو ایک ہی ہے اور وہ عرب ہے.باقی تو ویسے ہی اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.تو مجبور ہو گئے حالانکہ یہ اتنا چھوٹا سا احسان ہے آپ کے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انسانیت پر بہت بڑے احسان ہیں اور بے شمار احسان ہیں بڑے بھی اور چھوٹے بھی ، ایک چھوٹا سا احسان گھوڑے کا ہے اور اس چھوٹے سے احسان کو غیر مسلم دنیا تسلیم کرتی ہے اس کا ذکر کرتی ہے اور کتا ہیں جو ہیں ان میں اس قسم کی تحریریں ملتی ہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت سے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ قیامت تک اگر تم چاہو تو گھوڑوں میں جو برکت رکھی گئی ہے اس سے تم فائدہ حاصل کر سکتے ہو آپ نے فرما یا کہ قیامت تک کے لئے گھوڑوں کی پیشانیوں میں میری اُمت کے لئے اللہ تعالیٰ نے برکت رکھ دی ہے.اللہ تعالیٰ نے وَإِذَا الْعِشَارُ عُظَلَتْ (التکویر : ۵) تو کہا لیکن گھوڑوں کے متعلق ایسا نہیں کہا کہ کسی زمانہ میں قیامت تک ایسا بھی ہوگا کہ گھوڑوں کی ضرورت نہیں رہے گی یا انسان کو گھوڑے کی برکت سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت نہیں رہے گی.ہم گھوڑوں میں دلچسپی رکھتے ہیں آج گھوڑ دوڑ کا مقابلہ بھی ہے اور گھوڑوں والے اپنے گھوڑے لے کر آئے ہوئے ہیں ( مانگے کے نہیں ) ہم گھوڑوں میں دلچسپی اس لئے نہیں لے رہے کہ ہم گھوڑوں کی پرستش کرتے ہیں نہ اس لئے کہ ہم خدا کو چھوڑ کر یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو نظر انداز کر کے ہم گھوڑوں سے کوئی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.ہمیں گھوڑوں سے اس لئے پیار ہے کہ ہمارے محبوب آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گھوڑوں سے پیار تھا.ایک کہاوت ہے لمبی کہانی.وہ تو میں نہیں سناؤں گا اس وقت ،
خطبات ناصر جلد ششم ۶۹ خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء وقت لگے گا لیکن وہ یہ ہے کہ کہنے والے نے کہا تھا کہ میں بینگن کا غلام تو نہیں میں تو بادشاہ کا غلام ہوں.تو ہم گھوڑوں کے غلام نہیں ہیں لیکن ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور اس غلامی پر ہم فخر کرتے ہیں اور گھوڑوں سے ہم اس لئے پیار کرتے ہیں کہ ہمارے محبوب آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں سے پیار کیا اور اپنے صحابہ میں اس پیار کو اتنا راسخ کیا جس کی مثال نہیں ملتی.میں نے پہلے بھی بتا یا کہ دو سال ہوئے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اکٹھی کروائیں صحابہ کے اقوال جمع کئے.سب سے پہلے قرآن کریم کی آیات اکٹھی کیں جن میں گھوڑوں کا ذکر ہے اور اس طرح یہ ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک اتنی موٹی کتاب بن گئی اور وہ باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھوڑوں کے متعلق سکھائی ہیں کہ آج یہ دنیا اتنی ترقی کر گئی.گھوڑے کے علم میں بھی ترقی کر گئی لیکن وہاں تک ان کے ذہن اب بھی نہیں پہنچے.اب ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں ایسی باتیں نظر آتی ہیں جہاں آج کی دنیا نہیں پہنچی.ان حقائق تک جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائے.یہ گھوڑ دوڑ کوئی میلہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنے اس پیار کی ایک عاجزانہ نمائش ہے نمائش بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک ریا کارانہ نمائش ہوتی ہے ایک عاجزانہ نمائش ہے جو محد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار نہیں کرنے والے، ان کی نمائش ریا کارا نہ ہوتی ہے جسے Show کہتے ہیں دکھاوے کے لئے ظاہر کرنا خواہ اندر کھوکھلا ہو لیکن ایک اُس شخص یا جماعت کی نمائش جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والی ہے وہ عاجزانہ نمائش ہوتی ہے.ریا کے ہر پہلو سے ہم نے اپنے اس قسم کے اجتماعات کو محفوظ کرنا ہے.بعض لوگوں کو جن کی صحیح تربیت نہیں ہوئی شاید اس سے تکلیف بھی پہنچے لیکن بعض لوگوں کی ظاہر دنیا دارا نہ تکلیف کی ہم کیا پرواہ کر سکتے ہیں ہمیں تو پرواہ یہ ہے کہ کہیں ہمارا رب، ہمارا خالق، ہم سے پیار کرنے والا رب کریم ناراض نہ ہو جائے.باقی ہمارا یہ کام بھی ہے کہ ہم تربیت کریں ان کی بھی جن کی تربیت پہلے بھی ہو چکی ہے کیونکہ ہم ایک جگہ ٹھہر نہیں سکتے انسان کو مزید تربیت کی ضرورت رہتی ہے اور ان کی بھی جن کی ابھی پوری طرح تربیت نہیں ہوئی.اس لئے میں نے کہا ہے کہ جو جہاں تربیت کی تھوڑی سی ضرورت نظر آئی تھی اس ضلع کے امیر صاحب کو بلائیں
خطبات ناصر جلد ششم خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۷۵ء اور ان کو بلا کے ابھی تربیت کی طرف توجہ دیں کیونکہ اگر اصل روح نہ ہو تو ہزار ہالکھوکھہا گھوڑے بھی اس پر قربان.ہم نے تو وہ معاشرہ پیدا کرنا ہے جس کے ہر پہلو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی ایک جھلک نظر آئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس حقیقت کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اپنے گھوڑوں سمیت جو دوست باہر سے آئے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی اور ان کے گھوڑوں کو بھی ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی اور بیماری سے محفوظ رکھے اور جو دیکھنے والے ہیں ان کو بھی کسی طور سے بھی کوئی تکلیف نہ پہنچے بلکہ ہنسی خوشی آنے والے بشاشت کے ساتھ آئیں، رہیں اور پھر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے سایہ کے نیچے اپنے گھروں کو پہنچیں.وہاں بھی خدا کی رحمت انہیں ہر وقت حاصل رہے اور جور بوہ والے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کی اس خلق کی شان دیکھیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اقوال ہیں جن کے نتیجہ میں گھوڑوں کا پیار ہمارے دل میں پیدا ہوا ہے وہ اپنے دل میں بھی گھوڑوں کے لئے پیار پیدا کرنے کی کوشش کریں.صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ششم اے خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء خدا تعالیٰ کی تقدیر کشمیریوں کو کشمیر کا حق دلائے گی خطبه جمعه فرموده ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج ہماری پوری قوم متحد ہو کر ایک بہت بڑی نا انصافی اور ظلم کے خلاف احتجاج کر رہی ہے.یہ نا انصافی اس سمجھوتہ سے ہوئی ہے جسے اخبارات’اندرا عبداللہ مجھوتہ کا نام دے رہے ہیں.اس سمجھوتہ کی چار شقیں ہیں ساری شقوں کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں البتہ پہلی شق کے متعلق کچھ کہنا ضروری ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جموں وکشمیر کی ریاست بھارت یونین کا ایک حصہ ہے اور بھارتی دستور کی دفعہ ۲۷۰ کے مطابق اس خطہ میں حکومت قائم کی جائے گی.میں اس شق کا ترجمہ نہیں کر رہا صرف مفہوم بتا رہا ہوں ) باقی شقوں میں بھی کچھ اور باتیں ہیں لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ ہندوستان نے اس سمجھوتے کے ذریعہ کشمیر کے مستقل الحاق کا اعلان کیا ہے.اس اعلان کے نتیجہ میں اس خطہ میں بسنے والوں کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے کیونکہ ۱۹۴۷ء سے انہیں خود اختیاری کا جو حق دیا گیا تھا یا یوں کہنا چاہیے کہ اُن کا یہ حق تسلیم کیا گیا تھا، یہ اعلان اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے.اس ظلم کا پس منظر یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں جب پارٹیشن ہوئی اور پاکستان معرض وجود میں
خطبات ناصر جلد ششم ۷۲ خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء آیا تو اُس وقت ریڈ کلف نے جو فیصلہ دیا تھا وہ ہندوستان کے حق میں تھا اور پاکستان کے وجود کو نقصان پہنچانے والا تھا.بظاہر تو اُس نے ہر دو طرف کی باتیں سنیں لیکن اُن دنوں میں بھی ہمیں یہ علم ہو رہا تھا کہ ہر دو کی باتیں سننے کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے اور فیصلہ گفتگو سے بھی قبل کر دیا گیا ہے اس غلط فیصلہ کا ایک حصہ یہ تھا کہ ضلع گورداسپور جو اُس طرف سے کشمیر کا دروازہ ہے اور جس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ، وہ اس ایوارڈ میں ہندوستان کو دے دیا گیا.گورداسپور کا ضلع جیسا کہ تقسیم کا طریق کار مقرر ہوا تھا، پاکستان کے ساتھ شامل کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی.دوسرے وہ ایک طرف سے لاہور کے ضلع کے ساتھ ملحق تھا تو دوسری طرف سے سیالکوٹ کے ساتھ اور اس طرح ( کونٹیکوس Contiguous یعنی متصل ہونے کی جوشردتھی ، وہ بھی پوری ہوتی تھی لیکن گورداسپور کا ضلع ہندوستان کو دے دیا گیا اور اس طرح ہر وہ مضبوط بنیاد فراہم کر دی گئی جس سے کشمیریوں پر مزید ظلم وستم کا دور شروع ہو گیا.ایسا ظلم کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم ہو نہیں سکتا گویا اُن کو زبردستی ہندوستان کے ساتھ ملحق کرنے کی سکیم تیار کر لی گئی.اس کے بعد ہندوستان نے غذر لنگ کی بنا پر وہاں اپنی فوجیں بھیجنی شروع کر دیں پھر یہ ایک مقدمہ کی شکل بن گئی اور پھر یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے جایا گیا.وہاں کچھ قرارداد میں منظور کی گئیں جن پر آج تک یہ بین الاقوامی تنظیم عمل نہیں کروا سکی.جس وقت اس ناانصافی کے خلاف دنیا میں آواز اُٹھی تو پنڈت نہر و جو اُس وقت بھارت کے وزیر اعظم تھے، انہوں نے انسانی ضمیر کو یہ یقین دلایا کہ یہ ظلم ( جواب اندرا عبداللہ سمجھوتہ کے ساتھ انتہا کو پہنچ چکا ہے) نہیں ہو گا.چنانچہ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں جو ۲ نومبر ۱۹۴۷ء کو دہلی ریڈیو سے نشر کی گئی، دنیا کو یہ کہا : "We have declared that the fate of Kashmir is ultimately to be decided by the people.That pledge we have given, and the Maharaja has supported it, not only to the people of Kashmir but to the world,
خطبات ناصر جلد ششم ۷۳ خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء We will not and cannot back out of it." اس نشری تقریر سے اگلے دن یعنی ۳/ نومبر کو پنڈت نہرو نے ہمارے اُس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک تار دیا جس میں اُنہوں نے کہا: "I have stated our Government's policy and made it clear that we have no desire to impose our will on Kashmir but to leave final decision to people of Kashmir.I further stated that we have agreed to an impartial international agency like United Nations supervising any referendum.' غرض پنڈت نہرو نے اپنی تقریر میں یہ اعلان کیا کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ آخر کار کشمیری عوام ہی کریں گے اور یہ بھی کہ یہ ایک عہد ہے جس کا ہم نے اعلان کیا اور یہ عہد ہم نے صرف کشمیری عوام کے ساتھ نہیں کیا بلکہ دنیا کو مخاطب کر کے ہم نے یہ اعلان کیا ہے کہ یہ ہمارا عہد ہے اور ہم کسی صورت میں اس کے خلاف کام نہیں کریں گے اور پھر انہوں نے لیاقت علی خان بذریعہ تاریہ کہا کہ میں نے اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے اور اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ ہماری کوئی خواہش نہیں ہے کہ ہم کشمیری عوام پر زبردستی اپنی رائے ٹھونیں.آخری فیصلہ بہر حال کشمیری عوام ہی کریں گے اور پھر یہ بھی کہا کہ ہم اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ کوئی بین الاقوامی تنظیم مثلاً اقوام متحدہ ریاست میں ریفرنڈم کرائے یا بعد میں اس کا نام Plebiscite یعنی رائے شماری رکھا گیا گویا بین الاقوامی تنظیم اپنی نگرانی میں رائے شماری کروائے.پس دنیا کے انسانی ضمیر سے یہ عہد کیا گیا تھا کہ کشمیریوں پر کوئی ملک زبر دستی اپنی رائے نہیں ٹھونسے گا.آخر کا ر کشمیری عوام نے یہ فیصلہ کرنا ہے ہندوستان جو کچھ کر رہا ہے یہ بالکل عارضی ہے.اس کے بعد اسی پس منظر میں بین الاقوامی تنظیم یعنی اقوام متحدہ نے بہت سے فیصلے کئے کچھ سلامتی کونسل نے اور کچھ جنرل اسمبلی نے.چنانچہ ۱۴ مارچ ۱۹۵۰ء کی ایک قرارداد ہے اس میں
خطبات ناصر جلد ششم سب کا حوالہ موجود ہے، وہ میں پڑھ دیتا ہوں.۷۴ خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء "I Observing that the Governments of India and Pakistan have accepted the provisions of the United Nation Commission for India and Pakistan resolution of 13 August 1948 and 5 January 1949....that the future of the state of Jammu and Kashmir shall be decided through the democratic method of a free and impartial plebiscite conducted auspices of the United Nations.under the کہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا.اس میں ۱۳ اگست ۱۹۴۸ ء اور ۵ /جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادوں کا ۱۳ راگست ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ پر جو فیصلہ ہوا تھا، وہ بھی ذکر موجود ہے.میں سنا دیتا ہوں."The Government of India and the Government of Pakistan reaffirm their wish that the future status of the state of Jammu and Kashmir shall be determined in accordance with the will of the people and to that end, upon acceptance of the truce Agreement both Governments agree to enter into consultations with the commission to determine fair and equitable conditions whereby whereby such free expression will be assured."
خطبات ناصر جلد ششم ۷۵ خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء اسی طرح ۵ / جنوری ۱۹۴۹ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ پر جو فیصلہ ہوا اور جسے دونوں حکومتوں نے تسلیم کیا ، اس کی شق نمبر ایتھی." The question of the accession of the state of Jammu and Kashmir to India or Pakistan will be decided through the democratic method of a free and impartial plebiscite.' گویا اس قرار داد میں پھر یہ کہا گیا کہ دونوں حکومتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کے ذریعہ ہوگا.اس طرح گویا کشمیر کی قسمت اور اس کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا.پھر ۲۱ فروری ۱۹۵۱ء کو سلامتی کونسل نے ایک اور قرار داد پاس کی جس میں یہ کہا گیا تھا: " Observing that the Govrnments of India and Pakistan have accepted the provisions of the United Nations and India for Commission Pakistan resolution of 13August 1948 and 5January 1949 and of the security council resolution of 14March 1950." کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل اور اس کی قسمت کا فیصلہ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعہ کیا جائے گا.پس پہلے اس فتنہ کو پیدا کرنے کے لئے گورداسپور کا ضلع جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی بھارت کو دے دیا گیا پھر جہاں تک ہمیں علم ہے انگریز ہی کی شہ پر اور اُن ہی کے سہارے ہندوستان نے کشمیر میں فوجیں بھیج دیں چنانچہ جب ہندوستانی فوجوں کی نقل وحرکت شروع ہوئی تو اُس وقت پاکستان کے لئے بہت سی دشواریاں تھیں.اُس وقت پاکستان کی فوج بھی پوری واپس نہیں آئی ہوئی تھی.ہتھیاروں میں پاکستان کا جو حصہ تھا ، وہ بھی نہیں ملا تھا.بہر حال اہل پاکستان
خطبات ناصر جلد ششم ۷۶ خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء کے لئے وہ زمانہ بڑی تکلیف کا زمانہ تھا چنانچہ اُس وقت جو دفاع کی شکل بنی اس میں بہت سی رضا کار بٹالین بھی شامل تھیں.پاکستان کی فوجی تنظیم نے جماعت احمدیہ کے پیچھے پڑ کر اور بار بار کی درخواستوں اور بڑے اصرار سے ایک احمدی بٹالین بھی تیار کر وائی اور اس کا نام فرقان بٹالین رکھا گیا.یہ وہی فرقان بٹالین ہے جس کے متعلق احباب آئے دن غلط قسم کے اعتراضات سنتے رہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت کے ایماء پر قائم ہوئی.شروع میں اسے بغیر بیونٹس کے رائفلیں دی گئیں اور غریبانہ طور پر راشن دیا گیا اور شرط یہ لگا دی کہ سارے کے سارے نوجوان احمدی ہوں گے.علاوہ ازیں یہ شرط بھی عائد کر دی کہ رضا کاروں کی یونیفارم کا انتظام جماعت کرے گی.راشن وغیرہ لے جانے کے لئے آٹھ یا دس گدھیاں دی گئیں جنہوں نے محاذ جنگ پر بڑا کام دیا کیونکہ وہاں سڑکیں وغیرہ تو تھی نہیں.راشن میں اکثر اوقات مسور کی دال ملتی تھی جس میں بگار لگانے کے لئے مونگ پھلی کا تیل ملتا تھا اور چائے پکانے کے لئے کالا گر.بہر حال اُس وقت تو قربانی کا وقت تھا ملک کو مصیبت پڑی ہوئی تھی ان حالات میں فرقان بٹالین نے بڑی بشاشت کے ساتھ جانی قربانی بھی دی.رضا کار زخمی بھی ہوئے وقت کی قربانی بھی دی موت کے منہ میں جانے کے لئے ہمارے رضا کا ر ہر وقت تیار بھی رہے چنانچہ بلا ناغہ ہر رات ہمارے کچھ نو جوان پٹرول کی شکل میں دشمن کے علاقے میں گھس جاتے.بربط کی پہاڑیوں پر ہمارا کیمپ تھا سامنے ریچھ پہاڑی تھی جس پر ہندوستانی فوجیں قابض تھیں.ان کے درمیان سعد آباد وادی کے اندر دشمن کے سپاہی اُترا کرتے تھے مگر جب فرقان بٹالین وہاں پہنچی تو ایک ہفتہ کے اندر اندر ہندوستانی فوجوں سے وہ علاقہ چھین لیا گیا اس معنی میں کہ ان کے دل میں خوف پیدا ہو گیا اور اُنہوں نے وادی میں اُترنا چھوڑ دیا.بہر حال خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور اپنے ملک کی محبت میں سرشار ہو کر جماعت احمد یہ کے رضا کاروں نے اس وقت بھی قربانی دی جب وہ محاذ پر تھے اور اب بھی قربانی دے رہے ہیں کہ لوگوں کے اعتراض سُن رہے ہیں مگر جواب نہیں دیتے اور ہمیں جواب دینے کی ضرورت بھی کیا ہے.کہا جاتا ہے کہ فرقان بٹالین ابھی تک قائم ہے اور اس کے پاس ہتھیار ہیں اس لئے اس
خطبات ناصر جلد ششم LL خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء بٹالین کو تو ڑا جائے؟ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ فرقان بٹالین ۱۹۵۱ء میں توڑ دی گئی تھی.اس موقع پر با قاعدہ ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں فرقان بٹالین کو Disband کرنے کا اعلان کیا گیا.سارے کے سارے ہتھیار اور ایمونیشن با قاعدہ گنتی کر کے فوج نے واپس لے لیا اور اس کی ہمیں رسیدیں دیں اور ساتھ ہی فوج نے ایک سرٹیفکیٹ بھی دیا کہ فرقان بٹالین نے بہت اچھا کام کیا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اعتراض کئے جارہے ہیں اور ہم اُن کو بشاشت کے ساتھ ٹن رہے ہیں.یہ اعتراض تو ہوتے ہی رہتے ہیں ہمیں تو اپنے کام سے غرض ہے یہ تو بیچ میں ضمناً ایک بات آ گئی جسے میں نے مختصراً بیان کر دیا ہے.بہر حال ۱۹۴۷ ء میں حالات بڑے تکلیف دہ تھے.ہندوستانی فوجوں کی یلغار کو روکنے کے لئے اور بھی بہت سے ایثار پیشہ لوگ قوم کی خاطر محاذ جنگ پر لڑنے کے لئے گئے.صرف احمدیوں کی فرقان بٹالین ہی نہیں تھی.ہمارے دائیں بائیں جو بٹالین تھیں وہ بھی رضا کاروں پر مشتمل تھیں.اُن میں سے کسی نے بہت اچھا کام کیا کسی نے درمیانہ درجہ کا کام کیا، یہ ایک الگ بات ہے مگر جہاں تک ملک کی خدمت کا سوال ہے سب رضا کا رقوم کی بقا کی خاطر اپنی جانیں دینے کے لئے محاذ جنگ پر پہنچے تھے اور دشمن کے سامنے سینہ سپر تھے.پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ مسئلہ کوئی عملی مسئلہ نہ تھا جس کو صرف بحث و تمحیص حل کر سکتی.یہ تو ایک انسانی مسئلہ تھا انسانیت کے ایک گروہ پر ظلم ہور ہا تھا اُن سے نا انصافی کی جارہی تھی.اس مسئلہ کو انسانی حقوق کے پیش نظر حل کرنا چاہیے تھا مگر پچھلے ۲۷ برس میں اقوام متحدہ نے اس مسئلہ کو حل نہیں کیا کیونکہ آہستہ آہستہ اس بین الاقوامی تنظیم کی رنگت بدلتی چلی آرہی ہے.در اصل اقوام عالم کی بہبود کے لئے یہ تنظیم قائم کی گئی تھی مگر یہ دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے کہ یہ عالمی تنظیم اقوام عالم کی بہبود کی بجائے چند گنتی کی قوموں اور حکومتوں کے مفاد کی خاطر کام کر رہی ہے.انصاف کی خاطر کام کرنے کی جرات نہیں کر رہی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی مشہور کتاب ”احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب تک اسلام اور قرآن عظیم کے بتائے ہوئے اصول کی بنیادوں پر بین الاقوامی تنظیم
خطبات ناصر جلد ششم ZA خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء قائم نہیں کی جائے گی اُس وقت تک یہ بھی کامیاب نہیں ہوگی.چنانچہ قرآن کریم کی یہ شان ہے کہ اس وقت تک دو بین الاقوامی تنظیمیں بن چکی ہیں مگر چونکہ اُنہوں نے قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصولوں کو نظر انداز کر دیا ہے اس لئے ان میں سے پہلی جو لیگ آف نیشنز کہلاتی تھی ، نا کام ہو چکی ہے.دوسری تنظیم اس وقت اقوام متحدہ کی صورت میں قائم ہے مگر یہ بھی ناکامی کی طرف حرکت کر رہی ہے.پس گذشته ۲۷ سال میں تنازعہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے کام نہیں ہوا لیکن وعدے تو ہوتے رہے.وعدے کئے ہندوستان نے ، فیصلہ کیا ہندوستان اور پاکستان دونوں نے کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیر کرے گا.کشمیری عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کریں گے اس کی ضمانت دی بین الاقوامی تنظیم یعنی اقوام متحدہ نے اور ضمانتیں دیتی چلی گئی.میں نے تو اس وقت چند حوالے پڑھے ہیں ورنہ اس مسئلہ کی پوری تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کہا گیا کہ ہاں یوں ہوگا ، ہاں یوں ہوگا مگر جو عملاً ہوا وہ یہ ہوا کہ جس وقت پاکستان اور ہندوستان علیحدہ علیحدہ ہوئے یعنی ہندوستان کے دوٹکڑے ہوئے ایک کا نام بھارت رکھا گیا اور دوسرے کا پاکستان.جو ہمارا ملک ہے.۱۹۴۷ء میں جموں و کشمیر کے ہر دو حصوں کے علاوہ لداخ کے علاقہ کو بھی شامل کر کے جس کے نصف حصہ میں قریباً سارے ہی ہندو ہیں اور جموں میں بھی ہندوؤں کی اکثریت ہے.میں ۱۹۴۷ء کی بات کر رہا ہوں ویسے چونکہ مردم شماری غالباً ۱۹۴۱ء میں ہوئی تھی اس لئے ۱۹۴۱ء کہنا زیادہ صحیح ہے.غرض لداخ کے علاوہ جموں کا علاقہ جس میں وادی کشمیر کے مقابلہ میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، اسے بھی شامل کر کے کل آبادی میں ۸۱.۲ فیصد مسلمان تھے اور ۱۸.۸ فیصد غیر مسلم تھے گویا مسلمان بہت بھاری اکثریت میں تھے مگر گذشتہ ۲۷ برس میں بیچارے مظلوم کشمیریوں کے حق میں فیصلہ ہونے کی بجائے اُن پر ظلم و ستم کا دور دورہ رہا.اُن کا جو انسانی حق ہے یعنی خودارادیت کا حق کہ وہ جو چاہیں فیصلہ کریں، وہ بھی نہیں دیا گیا.اقوام متحدہ نے اُن کا سیاسی حق تسلیم کیا ہے اور یہ انسانی حق سے تھوڑا سا مختلف ہے لیکن خود ارادیت کے طور پر کشمیریوں کو نہ انسانی حق دیا گیا اور نہ سیاسی حق بلکہ اس کے برعکس کشمیری مسلمانوں کے لئے اس حق کے حصول کی جو بنا تھی یعنی
خطبات ناصر جلد ششم ۷۹ خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء ۸۱۰۲ فیصد مسلمان ہیں اور ۱۸۰۸ فیصد غیر مسلم.اس ہیئت کو بدلنے کی کوشش کی گئی اور بہت حد تک بدل بھی دی اور وہ اس طرح کہ وہاں کے اکثر مسلمان ظلم و ستم سے تنگ آکر آزاد کشمیر میں آگئے.خود وادی کشمیر یعنی جو مقبوضہ کشمیر کا علاقہ ہے وہاں سے بھی بہت سے لوگ اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر پاکستان میں آگئے اور ان کی جگہ بہت سے غیر مسلموں کو ایک باقاعدہ سکیم کے ماتحت وہاں آباد کیا گیا.اس وقت گو مجھے علم نہیں کہ نسبت کس حد تک بدل چکی ہے لیکن یہ یقینی بات ہے کہ اب ۸۱۰۲ اور ۱۸۰۸ کی بجائے کوئی اور نسبت ہوگی اور وہ کشمیری مسلمانوں کے حق میں اتنی نمایاں نہیں ہو گی جتنی ۷ ۱۹۴ء میں تھی.غرض گذشته ۲۷ برس میں ہمارے مسلمان کشمیری بھائیوں کو اُن کا جائز حق دینے کی بجائے اُن کا حق غصب کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور اب اندرا عبداللہ سمجھوتہ کے ذریعہ یہ اعلان کر دیا کہ ریاست جموں و کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے.دراصل ہمیں نہ تو پنڈت نہرو کے وعدوں پر یقین کرنا چاہیے تھا اور نہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر انحصار کرنا چاہئے تھا.بے وقوف تھے وہ لوگ جو پنڈت نہرو کے وعدوں پر یقین کر رہے تھے اور احمق تھے وہ لوگ جنہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بھروسہ کیا اور چند بڑی بڑی طاقتور حکومتوں کی طرف سے جو اعلانات اور وعدے ہوتے رہے اُن کا خیر مقدم کیا.پاکستان کو تسلیاں دلائی جا رہی تھیں کہ وہ انصاف کروائیں گے.ویسے بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تعمیل کروانے کی اصل ذمہ داری تو بڑے ملکوں پر عائد ہوتی ہے جن کو یہ طاقت حاصل ہے کہ اگر وہ چاہتے تو ان قرار دادوں پر عمل کروا سکتے تھے مگر حالات بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا.آخر لکسمبرگ نے تو ان قرار دادوں پر عمل نہیں کروانا تھا.وہ تو خود ایک چھوٹا سا آزاد ملک ہے جس کا اکثر دوستوں نے شاید پہلے نام بھی نہیں سنا ہوگا یا گیمبیا جس کی آبادی بچوں سمیت پچھلی مردم شماری کی رو سے تین لاکھ تھی.اس چھوٹے سے ملک نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تعمیل تو نہیں کروانی تھی.یہ تو امریکہ کا کام تھا، یہ تو روس کا کام تھا، یہ تو فرانس کا کام تھا، یہ تو برطانیہ کا کام تھا.گو برطانیہ پر اب تنزل آچکا ہے لیکن اس وقت بہر حال انگلستان میں بھی طاقت تھی اور اس کا کام تھا کہ کشمیریوں سے جو وعدے کئے گئے ہیں اور جو
خطبات ناصر جلد ششم ۸۰ خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء سمجھوتے ہوئے ہیں اور اُن کو حقوق دینے کے لئے انسانی ضمیر سے جو عہد کیا گیا ہے اس کی تعمیل کروائی جاتی لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا اور اب اندرا عبداللہ سمجھوتہ کے ذریعہ یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ جس طرح ہندوستان کے اور صوبے ہیں اسی طرح کشمیر بھی ہندوستان کا ایک صوبہ ہے.اس اعلان کے ذریعہ سارے وعدے اور ساری قرار دادیں گویا ہوا میں بے قیمت ذروں کی طرح بکھیر دی گئیں حالانکہ اب تو ایٹم کی وجہ سے ذرہ کی بھی بڑی قیمت ہو گئی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان جو مہذب کہلاتا ہے، اُس کی زبان کی کوئی قیمت نہیں.پس آج اہل پاکستان متحد ہو کر اس لئے احتجاج کر رہے ہیں کہ اس مسئلہ میں اختلاف کی کوئی بات ہی نہیں ہے یہ کوئی شرعی یا فقہی مسئلہ نہیں جس میں فقہاء کی رائے کا اختلاف ہوتا یا فرقے فرقے کے عقیدہ کا اختلاف ہوتا.یہ تو ایک انسانی مسئلہ ہے یہ تو انسان کے حق کا سوال ہے.اس لئے ہم سب متحد ہو کر کامل اتحاد اور پوری یک جہتی کے ساتھ آج اس نا انصافی کے خلاف پر زور احتجاج کر رہے ہیں.ہم احتجاج کر رہے ہیں اس ظلم کے خلاف انسانی ضمیر کے سامنے.اس مسئلہ کے حل کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انسانی ضمیر کو بیدار ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور انسانی ضمیر کو یہ ہمت بخشے کہ وہ اس خطہ ارض میں جو نا انصافی اور ظلم ہو رہا ہے اس کو دور کرے اور کشمیریوں کو اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ خود اپنی رائے کا اظہار کر سکیں.میں نے سالہا سال کئی مواقع پر اس مسئلہ کے متعلق بہت سوچا ہے اور مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ہندوستانی رہنما اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ کشمیریوں کو یہ حق نہیں دینا کہ کوئی بین الاقوامی تنظیم آکر اُن کی رائے لے لے.آخر انہوں نے ہندوستان کا کیا بگاڑا ہے کیا کشمیری اُن کی کوئی چیز اُٹھا کر لے گئے ہیں کہ وہ اُن کا حق دینے کے لئے تیار نہیں.پس جہاں ہم احتجاج کر رہے ہیں انسانی ضمیر کے سامنے کہ وہ کشمیریوں کو اُن کا انسانی اور سیاسی حق دلوائے وہاں ہم اپنے رب کریم کے حضور عاجزانہ جھک کر یہ دعا ئیں بھی کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے فضل سے انسانی ضمیر کو بیدار کرے اور خواہ انسانوں کا ایک حصہ خدا کو نہ بھی پہچانتا
خطبات ناصر جلد ششم ΔΙ خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء ہولیکن ہم نے اُن کے حق میں بھی دعا کرنی ہے کیونکہ وہ بھی بہر حال خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق ہے اور اُن کی انسانی ضمیر اور اندرونی فطرت بھی ظلم کو برداشت نہیں کرتی.غرض دوست یہ دعا کریں اور یہ سمجھ کر دعا کریں کہ ہم احمدی تدبیر کے ساتھ ساتھ ایک چیز زائد کرتے ہیں اور وہ یہی دعا ہے اس لئے ہماری ہر دم یہ دعا ہونی چاہیے کہ انسانی ضمیر بیدار ہو اور اُسے انصاف کرنے کی توفیق عطا ہو.میں نے یہ بھی سوچا کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہمارے ملک کی جو حکومت ہے وہ پہلی حکومتوں سے مختلف ہے.اس لئے ہو سکتا ہے کہ ان کی تدبیر کشمیریوں کو اُن کا حق دلانے میں کامیاب ہو جائے لیکن اگر یہ حکومت اگلے انتخاب سے پہلے کشمیریوں کو اُن کا حق دلانے میں کامیاب نہ ہوئی تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس وقت یہ سمجھیں گے که انسانی تدبیر نا کام ہوگئی لیکن مجھے یہ یقین کامل ہے کہ جب انسانی تدبیر ناکام ہو جائے گی تو اُس وقت خدا تعالیٰ کی تقدیر کشمیر کو کشمیر کا حق دلائے گی انشاء اللہ تعالیٰ.اس لئے دوست اہل کشمیر کے لئے آج جمعہ کی نماز میں بھی دعائیں کریں اور ویسے بھی دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کشمیریوں پر ہونے والے اس ظلم اور اس تکلیف کو دور کر دے اور ہمارے کشمیری بھائی سر اونچا کر کے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے قابل ہو جائیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ششم ۸۳ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۷۵ء اللہ سے قطع تعلق موت ہے اور تعلق باللہ زندگی ہے خطبہ جمعہ فرموده ۷ / مارچ ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - بِالَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَوةَ ليبلُوكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ - (الْمُلْكَ : ۲ تا ۳ ) پھر حضور انور نے فرمایا:.تمام برکتیں اس ہستی سے مخصوص ہیں جو حقیقی بادشاہ ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی بھی طاقت اُسے اپنے ارادوں کے پورا کرنے سے عاجز نہیں کرسکتی.خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة موت وحیات کو اس نے اس لئے پیدا کیا تا کہ تمہارے عملوں کے باعث تمہیں آزمائے کہ تمہارے عمل کیسے ہیں.وَ هُوَ الْعَزِيزُ وہ طاقتور ہستی ہے کوئی اس کے غضب سے بچ نہیں سکتا.وَ هُوَ الْغَفُورُ خدا تعالی بڑی بخشش کرنے والا اور گناہوں کی معافی دینے والا ہے اسی طرح امید پیدا کرنے والا ہے کیونکہ میری کچھ طبیعت خراب ہو رہی ہے اس لئے آج میں صرف خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيُونَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا کے متعلق اختصار سے بتاؤں گا.
خطبات ناصر جلد ششم ۸۴ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۷۵ء دُنیا میں موت وحیات کا سلسلہ اکٹھا اور متوازی چلتا ہے اصل چیز حیات ہے اور حیات یا زندگی کا نہ ہونا یا زائل ہو جانا موت کہلاتا ہے.قرآن کریم نے حیات کی مختلف قسمیں بیان کی ہیں اور حیات کے فقدان کا نام موت رکھا ہے.ایک تو قوت نامیہ ہے یعنی نمو کی قوت ، جو قر آنی محاورہ میں حیات کہلاتی ہے اس کا تعلق انسان سے، حیوان سے اور نباتات سے بھی ہے اور اگر ہم زیادہ گہرے چلے جائیں تو اس کا تعلق ہر قسم کی مخلوق سے ہے کیونکہ ہیرے اور جواہرات بھی ایک لمبے عرصے کی نشوونما کے بعد اپنی خصوصیات کے حامل بنتے ہیں اور جب نمو کی قوت اللہ تعالیٰ کے اذن سے زائل ہو جائے یا زائل کر دی جائے تو قرآنی محاورہ کے مطابق اسے موت کہتے ہیں.دوسرے قرآن کے محاورہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوت حاسہ کو بھی زندگی کہا گیا ہے.انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے یا ہم جو کچھ محسوس کرتے ہیں وہ اس کی یا ہماری زندگی ہے.بعض ایسی حالتیں ہیں جب جس کام نہیں کرتی یا بعض ضروری اور بنیادی حصے کام نہیں کر رہے ہوتے تو قرآن کریم نے اسے بھی موت کہا ہے اگر کسی کو فالج ہو جائے تو قوتِ حاسہ غائب ہو جاتی ہے.تیسری قسم کی زندگی جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے وہ قوت حاصلہ ہے.اس کے مقابل قرآنی محاورہ کے مطابق جہالت مطلقہ ، موت ہے.چوتھے معنی میں حیات کا لفظ قرآنی محاورہ میں اُس خوش حال زندگی کا نام ہے، جو دنیوی لحاظ سے کوشش کرنے سے بسا اوقات دنیا والوں کو کبھی مل جاتی ہے اور کبھی نہیں ملتی.اس کے مقابلہ میں حزن اور غم ہے جو زندگی کو مکہ رکر دیتا ہے.قرآنی محاورہ میں اسے بھی موت کہا گیا ہے.پانچویں.قرآنی محاورہ میں نیند کو بھی موت کہا گیا ہے اور اس کے برعکس بیداری کو زندگی کا نام دیا گیا ہے یعنی قرآنی محاورہ کے مطابق بیداری کا فقدان موت کہلاتا ہے.اسی طرح ایک محاورہ پیدا ہو گیا ہے کہ النُّومُ مَوْتُ كَثیف کہ نیند ایک کثیف موت ہے.وَالْمَوْتُ نَوْمٌ كَثِيرٌ کہ موت گہری نیند کا نام ہے.چھٹے.اجزا کی تحلیل کا نام قرآن کریم کے محاورہ میں موت کہلاتا ہے اس کے مقابلہ میں کچھ
خطبات ناصر جلد ششم ۸۵ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۷۵ء نئے اجزا کو جو روز مرہ زندگی میں جزو بدن بنتے رہتے ہیں، زندگی سے تعبیر کیا جائے گا اور کچھ اجزا علیحدہ ہوتے رہتے ہیں جو موت کے مترادف ہے اس لئے کہا جاتا ہے فَإِنَّ الْبَشَرَ مَادَامَ فِي الدُّنْيَا يَمُوتُ جُزْءًا قَلِيلًا کہ دنیا میں انسان کے اجزا آہستہ آہستہ موت سے ہمکنار ہوتے یا موت کا منہ دیکھتے ہیں اور نئے اجزا اس کے جسم میں بصورت غذا داخل ہوتے ہیں جن کو ہضم کرنا پڑتا ہے یہ اس کی زندگی ہے.ساتویں معنی زندگی کے بدن اور روح کے تعلق کے ہیں.جسم اور روح کے اتصال کو قرآن کریم نے حیات کہا ہے اور جب یہ اتصال باقی نہ رہے اور قوت حیوانیہ کا زوال ہو جائے اور بدن سے روح جدا ہو جائے تو اس کا نام موت ہے.اس سارے مضمون میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ موت وحیات کو جس معنی میں بھی قرآن کریم نے لیا ہے اس میں بہت سی برکتیں اور رحمتیں پوشیدہ ہیں اس کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کی جگہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.یہ رحمتیں و برکتیں صرف اُس سے مل سکتی ہیں اور کہیں سے نہیں.اسی طرح عقل یا قوت عاقلہ کا ہونا بھی زندگی ہے عقل بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اور عقل کے ذریعہ سے جو نعمتیں حاصل ہو سکتی ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے حاصل ہوتی ہیں.وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - اسی طرح اگر موت نہ ہوتی اور صرف اس ورلی دنیا کی زندگی ہوتی تو روحانیت بھی نہ ہوتی اور وہ عظیم نعمتیں جن کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے ان کی بھی امید نہ ہوتی تو پھر انسان اور سؤر میں کوئی فرق باقی نہ رہ جاتا.پس موت کے ساتھ بھی اسی طرح برکات وابستہ ہیں جس طرح زندگی یا حیات کے ساتھ وابستہ ہیں اور پھر نشو و نما اور زندگی کے بعض دوسرے حصے ہیں مضمون لمبا ہے مگر چونکہ میری طبیعت خراب ہورہی ہے اس لئے میں نہایت مختصر کر رہا ہوں.اصل چیز خیر اور برکت ہے اور یہ چیز میرے اس مضمون کا نتیجہ ہے جو یہاں بیان ہوا ہے
خطبات ناصر جلد ششم ۸۶ خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۷۵ء کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق نہیں ہونا چاہیے چونکہ اللہ سے قطع تعلق یا دوری موت ہے اس کے برعکس تعلق باللہ یا اس سے پیار کرنا اور اس کے حصول کی کوشش کرتے رہنا، یہی زندگی ہے اور اللہ تعالیٰ سے دل اس طور پر لگانا چاہیے کہ مخلوقات میں سے کسی اور کے ساتھ انسان کا تعلق اس طور پر باقی نہ رہے.دعا کرتے رہنا چاہیے کہ ہم اس حقیقت سے ہمیشہ آگاہ رہیں اور اسے کبھی نہ بھلا ئیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے ہم بھی وارث بنیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی برکات کی وراثت کی توفیق ملے جو اللہ تعالیٰ سے دور جا پڑے ہیں اور اس کی رحمتوں سے محروم ہو چکے ہیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ششم ۸۷ خطبہ جمعہ ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء زندگی اور موت کو پیدا کرنے والے رب کی ہر قسم کی برکتیں حاصل کریں خطبه جمعه فرموده ۱۴/ مارچ ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:.تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - بِالَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ - الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَواتِ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفُوتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ - ثُمَّ ارجع البَصَرَ كَرّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَ هُوَ حَسِيرُ - (الْمُلْكَ : ۲ تا ۵) پھر حضور انور نے فرمایا:.مجھے کچھ عرصہ سے پیچش کی تکلیف زیادہ رہی ہے اس لئے پچھلے جمعہ کی نماز میں خطبہ کے دوران دل کی دھڑکن شروع ہو گئی تھی.یہ تکلیف معدے اور انتڑیوں کی خراش کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہے.گو پہلے سے افاقہ ہے لیکن ابھی پوری طرح آرام نہیں آیا.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے صحت عطا فرمائے.جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ، ان میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس کے ایک حصہ کو تو میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں مختصراً بیان کر دیا تھا.خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیوی کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ
خطبات ناصر جلد ششم ۸۸ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء قرآن کریم کے محاورہ میں انسان میں سات قسم کی زندگیاں پائی جاتی ہیں اور ہر زندگی کے مقابلہ میں ایک موت ہے کیونکہ موت نام ہے زندگی کے فقدان اور اس کے ضائع ہو جانے کا.تاہم ان آیات میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کو پہلو بہ پہلو پیدا کیا اور اس کی حکمت یہ ہے کہ اچھے اور برے اعمال کو ظاہر کرے.ویسے تو ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے.ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو بھی پتہ لگے اور دوسروں کو بھی پتہ لگے کہ احسن عمل کرنے والے کون ہیں اور وہ کون ہیں جو احسن عمل نہیں کرتے.ان آیات میں جو اصل مضمون بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ حقیقی برکتیں اور نعمتیں حاصل کرنی ہوں تو انسان کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے.غیر اللہ کی طرف رجوع کرنا بالکل لایعنی اور بے مقصد ہے کیونکہ تمام برکات اور تمام نعمتوں کا حقیقی سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ہم عاجز انسانوں کو سمجھانے کے لئے یہ بتایا گیا ہے کہ تمام برکتیں اور نعمتیں اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوتی ہیں کیونکہ حقیقی بادشاہ وہی ہے فرمایا بِيَدِهِ الْمُلْكُ بادشاہت سارے اقتدار کے ساتھ پوری کی پوری اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ متصرف بالا رادہ ہستی ہے فرما یا هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قدیر.وہ جو چاہے سو کرتا ہے.اُسے کوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں.حقیقی بادشاہت کے لئے عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ہم حقیقی بادشاہت کا تصور ہی نہیں کر سکتے.دنیا کی جو بادشاہتیں ہیں یہ نہ حقیقی بادشاہتیں ہیں اور نہ دنیا کے بادشاہ اور برسر اقتدار لوگ حقیقی بادشاہ یا حاکم ہیں.اب ان دنیوی بادشاہوں اور حاکموں کو دیکھو کہ چاہتے کچھ ہیں یا اپنی خواہش کا اظہار کچھ کرتے ہیں اور عمل کچھ کرتے ہیں.ایک گروہ کو ایک گروہ کے خلاف فیصلہ بھی دے دیتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ کیا کریں بڑی مجبوریاں پیش آگئی تھیں..پس یہ تو کوئی بادشاہت نہیں، یہ تو کوئی حاکمیت نہیں، اللہ تعالیٰ حقیقی بادشاہ ہے جس کے متعلق یہ وہم بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ یہ کہے کہ چاہتا تو میں کچھ اور تھا مگر مصلحتوں نے مجھے مجبور کر دیا اس لئے اپنی خواہش کے خلاف کیا میں نے کچھ اور ہے مگر اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کیونکہ وہ کہتا ہے ھو علی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيد جس چیز کو وہ چاہتا ہے جس کام کے کرنے کا وہ ارادہ کرتا ہے اس کے کرنے پر وہ
خطبات ناصر جلد ششم ۸۹ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء قادر ہے.دنیا کی کوئی طاقت اُسے اس کے ارادہ کو پورا کرنے میں عاجز نہیں کرسکتی.پس ہمیں یہ سمجھایا گیا ہے کہ تمام برکتوں کا جو سر چشمہ ہے اور جو حقیقی بادشاہ ہے اسی سے ہر برکت اور نعمت مل سکتی ہے.جو حقیقی بادشاہ نہیں وہ اگر کسی کو کوئی چیز دینا بھی چاہے تب بھی بعض دفعہ نہیں دے سکتا اور بسا اوقات دینا ہی نہیں چاہتا.اسی طرح دنیوی بادشاہتیں بعض دفعہ حق تلفی کی طرف اس سے زیادہ مائل ہو جاتی ہیں جتنی اُن کی رعایا فساد اور حق تلفی کی طرف مائل ہوتی ہے یا دنیوی بادشاہ چاہتے نہیں کرنا اور یا پھر چاہتے ہیں یا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم یوں چاہتے ہیں لیکن عملاً کر نہیں سکتے.در اصل حقیقی بادشاہت تمام قسم کے بندھنوں سے آزاد ہوتی ہے لیکن دنیا کی ہر مخلوق قانون قدرت میں بندھی ہوئی ہے.درخت یہ نہیں چاہ سکتے کہ وہ لوہے کا کام دیں وہ یہ کام دے ہی نہیں سکتے اُن کے لئے اللہ تعالیٰ نے لکڑی کا کام دینا مقدر کر رکھا ہے.پس حقیقی بادشاہت اسی کے تصرف میں ہے اس لئے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے وہ جو چاہتا ہے سوکرتا ہے اور اس حقیقی بادشاہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ نیکی کے علاوہ بدی کا اختیار رکھتے ہوئے نیکی کرے اور اسی طرح اس بات کا اختیار رکھتے ہوئے کہ اگر وہ چاہے تو خدا تعالیٰ سے دور بھی ہوسکتا ہے، وہ خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو ہر قسم کی قربانیاں دے کر تلاش کرے اور پھر ان پر گامزن رہے اور اس قرب الہی کے نتیجہ میں برکتوں کو حاصل کرے.پس ساتوں قسم کی موت اور زندگی اس لئے پیدا کی گئی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتیں حاصل کر سکے.بعض اس قسم کی زندگی ہے کہ وہ سوائے انسان کے اور کسی کی نہیں ہے مثلاً روح اور جسم کا اتصال، ایک یہ زندگی ہے جس کے مقابلہ میں موت آتی ہے یعنی روح اور جسم کا اتصال ٹوٹ جاتا ہے اور جسم جو مٹی سے بنا ہے وہ مٹی میں واپس مل جاتا اور روح جسے اللہ تعالیٰ نے قائم رہنے کے لئے بنایا ہے وہ اگلے درجہ میں داخل ہو جاتی ہے.یہ ایک لمبا مضمون ہے اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جا سکتا.بہر حال روح ایک اور منزل میں پہنچتی ہے اور پھر اس کی زندگی بھی قائم رہتی ہے اور اس کی ترقی کے لئے دروازے بھی کھلے رہتے ہیں.
خطبات ناصر جلد ششم خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء غرض انسان کو ساتوں قسم کی زندگی عطا کی گئی ہے مگر غیر انسان کو اللہ تعالیٰ نے سات قسم کی زندگی نہیں دی بعض کو کم قسموں کی اور بعض کو زیادہ مگر انسان کو ساتوں قسم کی زندگی دی.اس زندگی اور موت کے متعلق میں نے پچھلے خطبہ میں مختصر بتا دیا تھا.انسان کو یہ زندگی اس لئے دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے آزمائے.ویسے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ کے علم سے تو کوئی چیز پوشیدہ تھی اور آزمائش کے نتیجہ میں ظاہر ہوئی وہ تو علام الغیوب خدا ہے، اس کے علم سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں لیکن جہاں تک انسان کا تعلق ہے اور اس کی زندگی کا سوال خود انسان کے علم سے پوشیدہ تھی اور انسان کے ماحول سے پوشیدہ تھی.بہت سے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑے ہیں اور اس طرح وہ متکبر بن جاتے ہیں.اُن کے اندر کبر پیدا ہو جاتا ہے.کوئی کہتا ہے میں علم میں بڑا ہوں کوئی کہتا ہے کہ میں روحانیت اور تزکیہ نفس اور طہارت میں بڑا ہوں کوئی کہتا ہے کہ میرے جسم میں اتنی طاقت ہے کہ کوئی پہلوان میرا مقابلہ نہیں کر سکتا یہ اور اسی قسم کے دوسرے تکبر انسان کے لئے موت کا باعث بن جاتے ہیں.جس چیز کو انسان زندگی سمجھتا ہے ، وہ اس کے لئے موت بن جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی درگاہ سے وہ دھتکار دیا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی برکتوں اور نعمتوں کے حصول کی بجائے وہ اللہ تعالیٰ کی لعنتوں کا وارث بن جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ موت وحیات کا سلسلہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تمہیں بھی پتہ لگے اور دوسروں کو بھی پتہ لگے کہ تمہارا مقام کیا ہے تمہاری حیثیت کیا ہے تم زندگی کے حامل ہو یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت کی شکل میں تم پر موت وارد ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ عزیز بھی ہے وہ بڑی طاقت والا ہے.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تم اس سے زبردستی یہ منوالو کہ تم پاکیزہ ہو حالانکہ قرآن کریم 9191 نے یہ کہا ہے کہ فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمُ اپنے آپ کو تزکیہ یافته یا پاک نہ ٹھہرا یا کرو کیونکہ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم :۳۳) تقویٰ کا علم اور اس کا فیصلہ اور اس کا اظہار اور اس کے مطابق اپنی قدرت کی تاروں کو ہلانا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے یہ انسان کا کام نہیں ہے.پس وہ عزیز ہے اور بڑی طاقت والا ہے کوئی شخص اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا لیکن مایوسی بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ غفور بھی ہے وہ مغفرت کرنے والا ہے.یہ انسان کا کام ہے کہ وہ ہر لحظہ اور ہر آن استغفار کرتا
خطبات ناصر جلد ششم ۹۱ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء رہے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا طلبگار رہے اور تیسرے یہ بتایا کہ تمام برکتیں اور نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی سے حاصل کی جاسکتی ہیں اور اس کے لئے اس نے یہ بتایا تھا کہ یہ ظاہر کرے کہ احسن عمل والا کون ہے اور انسان کے حسنِ عمل کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو قانون بنایا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے.اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفت یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ خَلَقَ سَبْعَ سَمواتِ طِبَاقًا اللہ تعالیٰ نے سات آسمان اوپر نیچے مگر ایک دوسرے سے موافقت رکھنے والے بنائے ہیں ان کی خاصیتوں میں بھی تضاد نہیں ہے.یہ نہیں کہ پہلا آسمان کسی اور طرف لے جارہا ہو اور اس کا نتیجہ کچھ اور نکل رہا ہو اور دوسرے آسمان کا کچھ اور.ساتوں آسمان اوپر نیچے بھی ہیں اور آپس میں موافق بھی ہیں اور ان کے ذریعہ انسان کے لئے روحانی ترقی کے درجہ بدرجہ سامان بھی پیدا کئے گئے ہیں کیونکہ اس عالمین کے جو سات آسمان ہیں ان کے علاوہ روحانیت کے بھی سات آسمان ہیں اور ان پر انسان درجہ بدرجہ بلند ہوتا ہے.اس کے لئے اُسے محنت کرنی پڑتی ہے بہت مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے اس کے لئے اُسے خدا کے دامن کو پکڑ لینا پڑتا ہے اس عہد کے ساتھ کہ دنیا اس کے ساتھ جو مرضی سلوک کرے وہ اپنے رب کے دامن کو کبھی نہیں چھوڑے گا.پس برکت والا ہے وہ خدا جس نے سات آسمان درجہ بدرجہ اوپر نیچے اور بالکل موافق پیدا کئے.یہ نہیں کہ کسی کے زاویے کسی دوسری طرف نکلے ہوئے ہوں جس طرح جگر متورم ہو جائے تو ایکسرے میں جگر کا سایہ اور ہوتا ہے اور پہلی کا سایہ کچھ اور ہو جاتا ہے.ا یک دفعہ میرے ساتھ بھی اسی طرح ہوا کہ ڈاکٹروں نے غلط تشخیص کی وجہ سے کہہ دیا کہ جگر پھٹ گیا ہے یہ تو میں ویسے ضمناً بات کر رہا ہوں.میں بتا یہ رہا ہوں کہ اس آیت میں طباقا کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو ان میں کوئی فرق نہیں.ہر لحاظ سے سب آپس میں موافقت رکھتے ہیں اپنے وجود کے لحاظ سے بھی اور اپنے خواص کے لحاظ سے بھی اور اپنے اثرات کے لحاظ سے بھی.اختلاف کے باوجود آپس میں موافقت ہے کیونکہ اس عالمین کو انسان کی بہتری اور مفاد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے ہر آسمان (سَمَاءَ الدُّنْیا میں تو ہماری زمین بھی آجاتی ہے ) انسان کی بہتری کے لئے
خطبات ناصر جلد ششم ۹۲ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء اس کے خادم کی حیثیت میں پیدا کیا گیا ہے.یہ نہیں کہ پہلا اور دوسرا آسمان تو انسان کی خدمت کر رہے ہوں اور تیسرا اس سے دشمنی کر رہا ہو.یہ ناممکن ہے کیونکہ فرمایا : - خَلَقَ سَبْعَ سَمُوتٍ طِبَاقًا ما تَرى فِي خَلْقِ الرَّحْمنِ مِنْ تَفُوت اس میں جو بنیادی مضمون بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے اور اس کا عبد بننے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی تمام صفات کی بنیا د اس بات پر ہے کہ ان میں کوئی تضاد اور کوئی تفاوت اور کوئی خلل اور کوئی فساد اور کوئی فطور نہیں پایا جاتا.جس غرض کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اگر اس کی زندگی اس کے مطابق ہو اور اس کی زندگی میں اندرونی طور پر بھی تضاد نہ ہو اور اس کی زندگی میں صفات باری کے انعکاس کے بارہ میں بھی کوئی تضاد نہ پایا جائے تو پھر کامیابی ہے دنیا کی بھی اور اُخروی زندگی کی بھی.دین کی بھی اور دنیا کی بھی ، جسم کی بھی اور روح کی بھی.ہر لحاظ سے اُسے پوری کامیابی ملتی ہے اور اچھے نتائج نکلتے ہیں لیکن جب تضاد پایا جائے.تضاد مثلاً اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ شرک نہیں کرنا لیکن بعض لوگ کچھ خدا کے لئے زندہ رہتے ہیں اور کچھ بتوں کے لئے زندگی گزارتے ہیں یہ کھلم کھلا تضاد ہے.بعض لوگ خدائے واحد ویگا نہ پر ایمان لانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور قبروں پر جا کر سجدے بھی کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کو قادر وتو انا بھی سمجھتے ہیں اور اپنی عقل اور علم کے زور سے کچھ حاصل کرنے کا تصور بھی اپنے دماغ میں رکھتے ہیں.ان کا نفس ایک بہت بڑا بت بن جاتا ہے اور ان کے دماغ میں ہزاروں بت نظر آتے ہیں.اگر ہم خدا تعالیٰ کی دی ہوئی فراست اور اس کے عطا کردہ نور سے دیکھیں تو ہمیں ایسے لوگوں کے اندر ہزار ہا بت نظر آتے ہیں اور یہ تضاد ہے.اس کے مقابلہ میں زندگی کے ہر پہلو سے خدا تعالیٰ کا ہو جانا اور اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کی صفات منعکس کرنے کی کوشش کرنا یعنی اپنے اپنے دائرہ استعداد کے اندر مظہر صفات باری بنے کی انتہائی کوشش کرنا اور ہر قسم کے تضاد سے اپنے آپ کو پاک رکھنے کی کوشش کرتے رہنا یہ کامیابی کی راہ ہے اور یہ احسن عمل ہے مگر جہاں تضاد پایا گیا وہاں حسن نظر نہیں آئے گا.زندگی کے ہر پہلو سے جو عمل ہے ، وہ ٹھیک طور پر بجالا نا نظر نہیں آئے گا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں خدائے رحمن ہوں تمام برکتیں اور نعمتیں مجھ سے حاصل کی جا اور یہ
خطبات ناصر جلد ششم ۹۳ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء سکتی ہیں اور اس طرح حاصل کی جاسکتی ہیں کہ تمہاری زندگی میں جہاں تک خدا تعالیٰ کے ساتھ تمہارا تعلق ہے یا تمہاری مختلف اندرونی صفات کا تعلق ہے ان میں کوئی تضاد نہ پایا جائے.تم سارے کے سارے اللہ تعالی کے ہوکر رہو تب تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر قسم کی برکتیں اور نعمتیں ملیں گی لیکن اگر تم سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کے لئے ہو کر اس میں زندگی گزارنے کے لئے تیار نہیں ہو گے تو پھر تمہیں کسی قسم کی برکتیں اور نعمتیں نہیں ملیں گی اور جو دنیا کے اموال ملیں گے وہ بھی برکت کے طور پر نہیں بلکہ لعنت کے طور پر ملیں گے.وہ اس لئے نہیں ملیں گے کہ ان کے حصول کے بعد تم نے اپنے لئے جنت کے دروازے کھولے بلکہ وہ اس لئے ملیں گے کہ تم اُن کی وجہ سے جہنم کے اور بھی نچلے درجے کی طرف چلے جاؤ.دیکھو ایک وہ مال تھا.میں اب یہ بتا رہا ہوں کہ مال مال میں فرق ہوتا ہے.ایک وہ مال تھا جو اُس شخص کو ملا جس کی زندگی خدا تعالیٰ کی صفات کی مظہر تھی اور اس میں کوئی تضاد نہیں تھا یعنی اس کی زندگی میں جو اعمال تھے اُن میں اور خدا تعالیٰ کی صفات کے انعکاس میں کوئی تضاد نہیں تھا چنانچہ دیکھ لو جب فتوحات ہوئیں اور مدینہ میں اموال غنیمت آئے تو کہتے ہیں ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ دینا ر آئے تو وہ تقسیم کرنے بیٹھ گئیں.انہوں نے غرباء اور مستحقین میں تول تول کر بانٹنا شروع کر دیا اور آخر سارا مال تقسیم کر کے ہاتھ جھاڑ کر کھڑی ہو گئیں.آخر کوئی جذبہ تھا جس نے اُن سے یہ عمل کروایا.اصل چیز یہ ہے کہ وہ طاقتیں اور عرفان جو انہیں حاصل تھا وہ اُس وقت کیا کہتا ہے، کچھ اُس وقت کے حالات ہوں گے کچھ دوسروں کو سبق دینا ہوگا.یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ انہی صحابہ کرام میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے بڑے فخر سے کسری کے رومال میں تھوکا اور پھر اس کو استعمال کیا.یہ نہیں کہ کسی اور کو دے دیا لیکن ان کے ہر عمل میں یہ چیز نظر آتی ہے کہ اُن کے عمل میں تضاد کوئی نہیں تھا.پس ایک وہ مال ہے جس کے ذریعہ انسان قرب الہی حاصل کرتا ہے اور ایک وہ مال ہے جس کے ذریعہ لوگ ساری ساری رات شراب پیتے اور عیش کرتے ہیں.گو یا مال مال میں فرق ہوتا ہے ویسے مال اپنی ذات میں کوئی بری چیز نہیں ہے جس رنگ میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے وہ اس مال اور دولت کی حقیقت کو بدل دیتا ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۹۴ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء پس ساری دنیا انسان کی خدمت پر لگا دی گئی اور انسان کو یہ کہا کہ تیری ذات میں جو قو تیں اور استعدادیں ہیں ، اُن میں اور اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کوئی تضاد نہیں پیدا ہونا چاہیے کیونکہ تو نے خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننا ہے چنانچہ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے بے شمار جلووں میں کوئی تضاد نہیں ہے.اُن کے اندر کوئی خلل نہیں ، اُن کے اندر کوئی فساد نہیں، ان کے اندر آپس میں کوئی مقابلہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ایک ایسی ہستی ہے جوحسن کا مجموعہ ہے ہمارے پاس تو وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے حسن کو بیان کیا جا سکے.بہر حال جہاں تک ہو سکتا ہے ہم بات کرتے ہیں اور جہاں تک ہوسکتا ہے ہم سمجھتے ہیں اور انہیں الفاظ کا جامہ پہنا کر بات کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی کنہ کو سمجھنا انسان کا کام نہیں ، انسان تو بڑا عاجز ہے.پس ظاہر ہے کہ تمام برکتیں اور نعمتیں اسی ہستی سے حاصل کی جاسکتی ہیں جس کی صفات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا اور یہ خدا تعالیٰ ہی کی ہستی ہے جس کے متعلق ہمیں یہ حکم ہے کہ اس کی صفات کا مظہر بنو تو پھر ہماری زندگی میں بھی کوئی تضاد نہیں پایا جانا چاہیے کوئی فتور اور کوئی خلل اور کوئی فساد نہیں پایا جانا چاہیے.اب مثلاً ایک آدمی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بڑا اچھا ذہن دیا ہے.ذہنی لحاظ سے اُسے بہت اچھی استعداد میں دی گئی ہیں لیکن بعض گیپیں ہانکنے والے اس کے دوست بن گئے تو یہ گو یا اس کی زندگی میں تضاد پیدا ہو گیا.اس کی علمی میدان میں آگے بڑھنے کی طاقت کچھ اور تقاضا کرتی ہے اور گپیں مارنے کی عادت کچھ اور تقاضا کرتی ہے چنانچہ جب اس کی ایک حصہ زندگی میں تضاد پیدا ہو گیا تو وہ نا کام ہو گیا.ہمارے ملک میں بھی اور بعض دوسرے ملکوں میں بھی بڑے اچھے ذہین بچے پیدا ہوتے ہیں مگر وہ اس لئے ضائع ہو جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری کرتے ہیں جو انہیں ذہنی استعدادوں کی شکل میں میسر آتی ہے.البتہ یہ صحیح ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی طاقتوں کے مطابق تو اپنی زندگی میں اپنی طاقتوں کے جلوے نہیں دکھا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق قرآن کریم میں یہ بھی آتا ہے لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ (البقرة : ۲۵۶)
خطبات ناصر جلد ششم ۹۵ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء وہ ہر وقت پورا چوکس اور بیدار رہتا ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال اور اس کی کبریائی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا لیکن بہر حال ہمارے پاس یہی الفاظ ہیں کہ وہ پوری چوکسی کے ساتھ رہتا ہے اور غفلت کے کسی پہلو میں بھی نہیں پڑتا.وہ ہر قسم کی غفلت سے آزاد ہے اور اپنی طاقتوں کے جلوے ظاہر کرتا ہے.ہم نے اپنی استعدادوں کے مطابق کام کرنا ہے اپنی Faculties ( فیکلٹیز ) کے مطابق، اپنی طاقتوں کے مطابق اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنا ہے.یہ درست ہے لیکن اپنی صلاحیتوں کے مطابق پورا کام کرنا ہے.جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی خدائی میں پورا کام کرتا ہے لیکن اس کی خدائی غیر محدود ہے ہم اس کی طاقتوں کا احاطہ نہیں کر سکتے انسان اور اس کی طاقتیں محدود ہیں یہ درست ہے لیکن اپنی اپنی طاقت ، استعداد اور صلاحیت کو پورے اور کامل طور پر بروئے کار لانا ضروری ہے پھر خدا تعالیٰ کی صفات کے مقابلہ میں کوئی تضاد نہیں پیدا ہو گا لیکن ایک شخص ہے جسے خدا تعالیٰ نے اعلیٰ ذہن دیا ہے اور وہ اسے ضائع کر رہا ہے تو یہ اندرونی تضاد بھی ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے مقابلہ میں بھی تضاد ہے.میں نے بتایا ہے کہ بڑے اچھے ذہن ضائع ہو گئے اسی طرح جس طرح اچھے خوبصورت جسموں والے بچے پیدا ہوتے ہیں مگر بچپن میں گندی عادتوں میں پڑ جاتے ہیں اُن کی آنکھیں گڑھے میں چلی جاتی ہیں موت اُن کی آنکھوں میں نظر آنے لگتی ہے اُن کے گلے پچکے ہوئے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو محفوظ رکھے.ہر شخص جو عقل رکھتا ہے اُس کے سامنے جب کبھی کوئی گندی عادتوں والا بچہ آئے تو وہ اپنے چہرے سے اپنی تاریخ بھی پڑھا دیتا ہے کہ یہ میرا ماضی ہے تو یہ تضاد ہے.خدا تعالیٰ کی منشاء کچھ اور ہے اور اس کا عمل کچھ اور ہے اور اسی کو تضاد کہتے ہیں ہر شخص کو حسن عمل کی طاقت دی گئی ہے مگر جب اس کا ضیاع ہوتا ہے تو تضاد پیدا ہوجاتا ہے ہرضیاع تضاد ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اے لوگو! اگر تم میری رحمتوں اور برکتوں اور نعمتوں سے کامل حصہ لینا چاہتے ہو تو تمہاری زندگی میں کسی قسم کا تضاد نہیں پایا جانا چاہیے.فرمایات برَكَ الَّذِى بِيَدِهِ الْمُلْكُ تمام برکتوں اور نعمتوں کا سر چشمہ اور منبع وہ ذات ہے جو بادشاہ ہے اور حقیقی طور پر
خطبات ناصر جلد ششم ۹۶ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء بادشاہ ہے کیونکہ فرماتا ہے وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ حقیقی بادشاہت کا یہ بیان ہے کہ حقیقی بادشاہ کے لئے ہر چیز پر قادر ہونا ضروری ہے.ظاہر ہے جو حقیقی بادشاہ ہوگا وہ ہر چیز پر قادر ہو گا اور مصلحتیں اور حالات اور مجبوریاں اس کے راستے میں حائل نہ ہوں گی اور نہ ہو سکتی ہیں بلکہ اُن کے حائل ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا مثلاً بادشاہ کی ایک یہ مجبوری ہے کہ چھوٹا ملک ہے جیسے گیمبیا ہے جس کی آبادی تین لاکھ افراد پر مشتمل ہے اس پر اگر کوئی ایسا ملک حملہ آور ہو جائے جس کی آبادی ایک کروڑ کی ہے تو اس صورت میں چھوٹا ملک کچھ نہیں کر سکتا.اچھی بادشاہت ہوتے ہوئے بھی وہ مقابلہ نہیں کر سکتا اور یہ اس کی مجبوری ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے تو کوئی مجبوری نہیں.وہ عظیم ہستی جس نے کُن کہہ کر ساری کائنات کو پیدا کر دیا اور اسی کے حکم سے ساری کائنات نشو و نما پا رہی ہے، اُس کے لئے تو کوئی مجبوری نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ ہی تمام برکتوں اور نعمتوں کا سرچشمہ ہے اگر برکتیں اور نعمتیں لینی ہوں تو اسی کی طرف رجوع کرو کہ وہ حقیقی طور پر بادشاہ ہے وہ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے کوئی طاقت اس کی راہ میں روک نہیں بن سکتی.خدا تعالیٰ سے جو برکتیں اور نعمتیں حاصل کرنے کی کوشش کرو اس میں صرف اس دنیا کو مدنظر نہ رکھو بلکہ اس کی برکتوں کے ایک حصہ کا تعلق موت سے ہے اور ایک کا تعلق زندگی سے ہے.پس ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ زندگی اور موت کو پیدا کرنے والے رب کی ہر قسم کی برکتیں حاصل کریں جن کا اس زندگی سے تعلق ہو یا جن کا موت سے تعلق ہو.انسان کے لئے ہر موت ایک نئی زندگی کا دروازہ کھولتی ہے لیکن خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة کے محاورہ میں ہم نہیں گئے کہ زندگی سے تعلق رکھنے والی اور ایک زندگی کو چھوڑ کر دوسری زندگی میں جانے سے تعلق رکھنے والی جو برکتیں اور نعمتیں ہیں وہ خدا تعالیٰ سے حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کے لئے بنیادی طور پر جورا ہیں اور اصول بتائے گئے ہیں وہ یہی ہیں کہ تمام برکتیں اسی عظیم ہستی سے حاصل کی جاسکتی ہیں جس کی خلق کے اندر اور جس کی حسنات کے جلوؤں کے اندر تمہیں کوئی تضاد نظر نہیں آتا اور ساتھ طریقہ بھی بتادیا کہ تمہارے اندر تضاد نہیں ہونا چاہیے.پچھلے سال دنیا نے جماعت احمدیہ کے کردار کا ایک عظیم نظارہ دیکھا.جماعت کی عظمت
خطبات ناصر جلد ششم ۹۷ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء اور اس کا حسن اسی وجہ سے تھا کہ اُن کے اندر کوئی تضاد نہیں پایا جاتا تھا.احباب جماعت نے مصائب و مشکلات میں بھی کہا تو یہی کہا کہ ہم نے خدا کی آواز کو سنا اور پہچانا اور اسی کے لئے ہماری زندگی ہے اور اس میں ہم خوش ہیں اور راضی ہیں.انہیں دُکھ دیئے جا رہے تھے مگر وہ مسکراتے چہروں کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے.یہ گویا عجیب نظارہ تھا جو غیروں کو پاگل کر دینے والا تھا کیونکہ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ اپنی طرف سے سب کچھ کر رہے ہیں لیکن ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا.یہ وہ حقیقی مقام ہے جس پر جماعت احمد یہ قائم ہے یہ ایک سال کے لئے تو اُسے نہیں دیا گیا تھا بلکہ خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ جماعت اپنے اس مقام پر ہمیشہ کھڑی رہے اور وہ اپنے اندر ہمیشہ عظمت اور حسن پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہے.یہی حسن ہے جس کے ساتھ ہم نے دنیا کے دل جیتنے ہیں.جماعت احمدیہ کے ایک حصہ کے اموال اور دولتیں اور مکان اور ڈکا نہیں گئیں اور جلائی گئیں لیکن جب زلزلہ آیا تو جماعت نے اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے پیسے دے دیئے اور یہ نہیں کہا کہ جب ہم مصیبت میں تھے تو انہوں نے ہمارا خیال نہیں رکھا بلکہ یہ کہا کہ جب میرے محبوب اور پیارے اللہ کی یہ مخلوق مصیبت میں ہے تو ہمارے مال بہر حال اس کے کام آئیں گے کیونکہ ہماری زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کو حاصل کرنا ہے.پس جماعتِ احمد یہ کو جو مقام حاصل ہوا وہ اس وجہ سے ہوا کہ ہماری زندگی تضاد سے پاک زندگی ہے یہ نہیں کہ ایک طرف خدا سے ڈرتے ہیں اور دوسری طرف دنیا سے ڈرتے ہیں بلکہ ہم خدا تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہیں:.فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوني ( البقرة :۱۵۱) قرآن کریم ان مثالوں سے بھرا پڑا ہے جمعہ کی نماز کے خطبہ میں انسان مختصر آبات کرتا ہے ایک یہ کہ اگر تم خدا سے بھی ڈرو گے اور کسی اور سے بھی ڈرو گے تو تمہاری زندگی میں تضاد پیدا ہو جائے گا اس لئے فرمایا: - فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي لوگوں سے نہیں ڈرنا بلکہ مجھ (اللہ ) سے ڈرنا ہے کیونکہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے خشیت صرف اسی کی ہمارے دل میں پیدا ہونی چاہیے.جماعت احمدیہ نے دنیا کو خشیت اللہ کا عجیب نظارہ دکھایا.میں نے کئی بارا اپنی مجلسوں میں بھی یہ کہا کہ گو ہر جلسہ سالا نہ کوئی نہ کوئی رنگ لے کر آتا ہے کیونکہ ہمارے جلسہ سالانہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا سایہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے
خطبات ناصر جلد ششم ۹۸ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن :۳۰) اس کی رو سے ہر جلسہ سالانہ میں کوئی نہ کوئی نیا رنگ پیدا ہو کر اس کی مجموعی کیفیت کو بدل دیتا ہے اس لئے ہمارا گذشتہ جلسہ سالانہ بھی منفرد ہے اس لحاظ سے کہ اس میں جماعت احمدیہ کا جو کردار تھا اور اس کا جو مقام تھا وہ یوں ابھرا کہ دنیا حیران رہ گئی.احباب جماعت کو ڈرایا گیا ان کو دھمکایا گیا بظاہر پیار کے رنگ میں یہ بھی کہا گیا کہ بڑی مشکل ہے یہ جلسہ نہ ہو تو اچھا ہے یا تھوڑے سے آدمی بلا لئے جائیں لیکن خدا کا یہی منشاء تھا اور جماعت کی یہی خواہش تھی اور جماعت کے امام کا یہی فیصلہ تھا کہ ہم معمول کے مطابق جلسہ سالانہ منعقد کریں گے.دنیا داروں کے جو افعال ہیں اُن کے نتیجہ میں ہمیں اتنا بھی احساس نہیں ہونا چاہیے جتنا کہ کسی آدمی کو راہ چلتے ہوئے کانٹا چھنے کا احساس ہوتا ہے اور اس لئے فرمایا: - فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَونی ہم نے اللہ تعالیٰ کی خشیت کے نتیجہ میں انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنی ہے اور خدا تعالیٰ کی یہ خشیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اتنی عظیم ہستی کہ فرمایا تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ ہم اسی سے ہر برکت اور نعمت حاصل کریں کیونکہ اس کے بغیر کسی اور سے حاصل نہیں کی جاسکتی.ہم نے اس کے لئے زندگی گزارنی ہے اور اس کی منشاء کے مطابق ہم نے کام کرنا ہے اس نے مہدی کو بھیجا اور کہا کہ ہر سال ایک جلسہ کیا کرو.ہم نے جلسہ کر دیا اگر کبھی ایسی روک پیدا ہو جو بعض دفعہ پیدا ہوئی ہماری تاریخ میں کہ جلسہ ہو ہی نہ سکے تو یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے.ہم اس سے خوش ہیں لیکن آپ ہی خوف کے مارے نیکیوں کا کام اور نیکی کی باتیں سننے کا جو ایک موقع ہے اس کو گنوا دیں یہ تو نہیں ہوسکتا.پس پچھلا جلسہ سالانہ جو تھا اس میں جماعت کا جو حقیقی مقام تھا یہ کہ اُن کا اپنا وجود ہی کوئی نہیں.یہ عاجزی کا مقام ہے اور ان کی زندگی ساری کی ساری خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی وجہ سے ہے ورنہ نہیں ہے.اگر خدا تعالیٰ کا پیار ہمیں حاصل نہیں تو ہم نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے اور اگر خدا تعالیٰ کا پیار ہمیں حاصل ہے تو پھر کسی اور کی ہمارے دل میں خشیت کیسے پیدا ہو سکتی ہے.تو بہت سی میں نے بتایا سینکڑوں چیزیں ہیں جن کی نشاندہی کی گئی ہے فرمایا یہ کرو گے تضاد پیدا ہو جائے گا یا یہ نہ کرو گے تو تضاد پیدا ہو جائے گا.اندرونی زندگیوں میں اور خدا تعالیٰ کی صفات کا
خطبات ناصر جلد ششم ۹۹ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء مظہر بننے میں اور تمہاری صلاحیتوں اور استعدادوں کے درمیان تضاد پیدا ہو جائے گا ،تم نا کام ہو جاؤ گے.بعض دنیا داروں نے اس بات کو سمجھا ہے چیئر مین ماؤزے تنگ کے دماغ میں بھی یہ بات آئی ہے کہ تضاد نہیں ہونا چاہیے.ایک دفعہ مجھے چینی سفیر ملے اُن سے بڑی لمبی باتیں ہوئیں.مختصراً ایک بات بتا دیتا ہوں میں نے اُن سے کہا کہ چیئر مین ماؤ نے کہا کہ انسانی زندگی میں تضاد نہیں ہونا چاہیے.اُن کے سامنے اور ان کے تصور میں تو صرف دنیا ہی کی زندگی ہے ہمارے سامنے یعنی ایک مسلمان کے سامنے دنیا کی یہ زندگی جو بڑی حقیر اور بڑی چھوٹی ہے، یہ بھی ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی اور بہت بڑی ایک اور زندگی بھی ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا ہے اور جس پر ہمیں یقین ہے کہ وہ بھی ہے.بہر حال تضاد نہ ہو میں نے کہا ٹھیک ہے اُن کے دماغ میں آیا لیکن ہمیں تو قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے یہ تعلیم دی تھی کہ ہماری زندگیوں میں دو ہرا پن یعنی تضاد نہیں ہونا چاہیے.اندرونی تضاد بھی نہیں ہونا چاہیے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے مقابلے میں بھی تضاد نہیں ہونا چاہیے.چینی سفیر کو یہ سُن کر بڑا تعجب ہوا وہ سمجھتے تھے کہ انسانی تاریخ میں شاید چیئر مین ماؤ کے دماغ میں پہلی دفعہ یہ بات آئی ہے حالانکہ یہ ایک بنیادی حقیقت ہے اور اسے قرآن کریم نے بیان کیا اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک احسن اسوہ اور عمدہ مثال پیدا ہوئی اور ہمیں نظر آئی.آپ کی زندگی اس طرح ہے جس طرح کہ گویا خدا تعالیٰ کی صفات کے سایہ کے نیچے گزری.ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جہاں کوئی تضاد ہو.جنگوں کا حکم نہیں تو مظلومیت کی زندگی گزار دی، جنگوں کی اجازت ملی تو ٹوٹی ہوئی تلوار میں لے کر میدان میں نکل کھڑے ہوئے.آپ کے فدائیوں نے جانیں دیں شہید ہوئے.کہتے ہیں ستر شہیدوں کی لاشوں کو ایک ہی گڑھا کھود کر دفن کر دیا.آپ کی زندگی کا ہرلمحہ اور ہر پہلو یہ بتارہا ہے کہ صرف خدا سے تعلق ہے.دنیا سے تعلق خدا کے واسطے سے ہے خدا سے علیحدہ ہو کر نہیں.دنیا سے علیحد ہ ہونے کا تو اسلام نے ہمیں سبق نہیں دیا.خدا میں ہو کر خدا کی مخلوق سے واسطہ اور چیز ہے اور خدا سے دور ہو کر خدا کی مخلوق سے تعلق قائم کرنا اور چیز ہے.گویا آپ کی زندگی کا ہر پہلو بتا تا ہے کہ اتنا
خطبات ناصر جلد ششم 10+ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء عظیم انسان کہ نہ کسی ماں نے پہلے جنا اور نہ آئندہ جن سکتی ہے مگر پھر بھی آپ فرماتے ہیں اے عائشہ! میری مغفرت بھی خدا کے فضل کے بغیر ممکن نہیں.حدیث میں آتا ہے آخری عمر میں جسم کمزور ہو جاتا ہے گھنٹوں تہجد کی نماز پڑھتے ، پنڈلیاں متورم ہو جاتیں.تو پہلے تو یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر میری مغفرت نہیں اس موقع پر کہا گیا اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور کہہ دیا آپ کو مغفرت مل گئی.تو پھر کیا ضرورت ہے اتنی لمبی نمازیں پڑھنے کی.تو آپ نے فرمایا کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.یہ ایک عجیب زندگی ہے لیکن وہ استعداد تو ہم میں نہیں یہ تو درست ہے لیکن جتنی بھی ہماری استعداد ہے اس میں آپ کو ہمارے لئے اسوہ حسنہ بنایا گیا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اسوہ حسنہ کا یہ مطلب نہیں کہ انسان کی ساری عمرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جیسی بن سکتی ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ یہ ہے کہ آپ نے اتنی محنت کی کہ اپنی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتوں اور صلاحیتوں اور استعدادوں کو اپنے کمال تک پہنچا دیا.جس کی جتنی استعداد اور صلاحیت ہے اس کے مطابق وہ اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو کمال تک پہنچائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پورا ہو جائے گا.ہر شخص کا دائرہ استعداد مختلف ہے لیکن ہر دائرہ استعداد میں جتنی بھی استعداد ہے اس کو کمال تک پہنچنا چاہیے اس کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اُسوہ حسنہ ہے.پھر صحابہ کی زندگی ہے.اس میں بھی کوئی تضاد نہیں ہے جب تضاد نہ ہو تو تکلف نہیں ہوتا.اس دنیا کی زندگی میں یہ جو تکلف ہے اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کہلوایا گیا کہ مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (ص: ۸۷) فرمایا میری روح اور میری زندگی میں تکلف نہیں پایا جاتا کیونکہ تکلف تضاد ہے.ایک شخص کے پاس مہمان آیا اس کی توفیق ہے دال کھلانے کی اور اُس نے مرغا تلاش کرنا شروع کر دیا تو یہ تکلف ہے اور ہر تکلف تضاد ہوتا ہے.زمینداروں کی عام طور پر عادت ہوتی ہے کہ کھلانا مرغا ہے چاہے دو پہر کا کھانا رات کو کھلائیں.ایک دو دفعہ ہمیں بھی اس کا تجربہ ہوا ہے.ویسے تو عادتیں مختلف ہوتی ہیں لیکن مجھے جس وقت کھانا کھانے کی عادت ہے اس وقت میں روکھی روٹی پانی سے کھالوں
خطبات ناصر جلد ششم 1+1 خطبہ جمعہ ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء تو میری صحت ٹھیک رہتی ہے اور اگر میں تین گھنٹے انتظار کر کے کھانے کی جتنی بھی دنیوی نعمتیں ہیں وہ کھاؤں تو میری صحت خراب ہو جاتی ہے.ایک دفعہ ہم باہر گئے ہوئے تھے واپس آنے لگے تو بعض دوست پیچھے پڑگئے کہ جی کھانا ہم کھلائیں گے چنانچہ ایک بجے کا کھانا پانچ بجے تک تیار نہیں ہوا تھا کہ ہم نے معذرت کی اور واپس آگئے سخت سر در دشروع ہو گیا.پس تکلف تضاد ہے بڑوں اور چھوٹوں میں تکلف مختلف ہوتا ہے.کھانے کی میں نے بات کی ہے تو بچوں کے بارہ میں بھی بتا دوں.میرے پاس متعدد بارا کیلا باپ یا ماں باپ دونوں آتے ہیں کہ ہمارا بچہ کھاتا کچھ نہیں اس لئے بہت کمزور ہے.بچہ بھی ساتھ ہوتا ہے میں ہنس کر کہتا ہوں کہ یہ تو کھانا چاہتا ہے تم نہیں کھانے دیتے.وہ کہتا ہے مثلاً کہ فلاں چیز کھانی ہے تم کہتے ہو نہیں ، نہیں اس سے تو تو بیمار ہو جائے گا.فلاں چیز کھاؤ اس کو نہیں اچھی لگتی وہ نہیں کھائے گا.تو نہ کھانے کی وجہ سے کمزوری پیدا ہو جائے گی.ایک دفعہ میرے پاس ایک دوست آئے اور اپنے بچے کی کمزوری کا حال بیان کیا تو میں نے کہا یہ کیا چیز مانگتا ہے مجھے بھی بتاؤ جو تم کھانے کو نہیں دیتے.کہنے لگے مونگ پھلی مانگتا ہے.میں نے کہا کہ پھر پہلا کام گھر جا کر یہ کرنا کہ میری طرف سے مونگ پھلی خرید کر اس بچے کو دے دینا.اس موضوع پر ایک ریسرچ ہوئی ہے تکلف کے نتیجہ میں رد عمل ہوتے ہیں ہر جگہ تکلف ہے بچوں کے کھانے کا تکلف ہے.ایک امریکن لڑکا جس کے ماں باپ اس سے ہر وقت تکلف کیا کرتے تھے کہ یہ نہیں کھانا ، یہ کھانا ہے.اس کے دماغ میں اس کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے بچپن میں یہ عہد کیا کہ بڑے ہو کر ڈاکٹر بنوں گا اور کھانے پینے کے معاملہ میں خصوصاً بچوں کے بارہ میں ریسرچ کروں گا.وہاں چونکہ دولت بڑی ہے بعض ایسوسی ایشنز Associations پیسے دے دیتی ہیں اس نے جب ارادہ ظاہر کیا تو کسی ایسوسی ایشن نے اسے ریسرچ کے لئے پیسے دے دیئے اور اس نے نیوٹریشن Nutrition یعنی بچوں کو کیا غذائیت ملنی چاہیے پر ریسرچ شروع کر دی.پانچ دس ڈاکٹر اس کے ساتھ اور تھے.انہوں نے ۲۰.۲۵ سال تک ریسرچ کی اور اس کے بعد اُس نے ایک بڑی اچھی کتاب لکھی اور اس کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ تھا کہ انسانی جسم کھانے کے لحاظ سے اٹھارہ سال تک بچہ ہے.اس عمر تک غذا کا جو اصول ہے وہ یہ
خطبات ناصر جلد ششم ۱۰۲ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء ہے کہ بچہ کو جس وقت جس چیز کی جتنی مقدار میں خواہش پیدا ہو، وہ اُسے ملنی چاہیے.پس خواہش اندر سے پیدا ہوتی ہے.بعد میں ہمارے ماحول اندر کی بعض طاقتوں کو کمزور کر دیتے ہیں.ایک دفعہ ہماری بڑی پھوپھی جان کی ایک نو اسی کو اسہال لگے ہوئے تھے وہ ملنے آئی تو اس کو بھنے ہوئے چنے دے دیئے گئے ہمارے گھروں میں بالعموم بھنے ہوئے چنے بہت پسند کئے جاتے ہیں اس کو اسہال آرہے تھے پھوپھی جان نے چنے رکھے، وہ کہے میں نے چنے کھانے ہیں.باپ ڈاکٹر تھا وہ کہے اس کا تو پیٹ خراب ہے اس کو تو اسہال آرہے ہیں چنے کھانے سے تو اور بیمار ہو جائے گی.پھوپھی جان نے کہا بالکل نہیں.جو یہ کہتی ہے وہ اسے کھانے دو اس نے چنے کھائے اور اسے اسہال سے آرام ہو گیا.پس کھانے پینے کے معاملہ میں کوئی تکلف نہیں کرنا چاہیے.کھانے پینے کا تکلف لعنت بن جاتا ہے حقیقتا لعنت بن جاتا ہے جو چیز میسر ہے وہ اپنے وقت پر کھاؤ.انسان کا جسم کچھ ایسا بنا ہے کہ اسے خاص وقفہ کے بعد غذ املنی چاہیے.عادتوں کی وجہ سے یہ وقفہ مختلف ہو جاتا ہے ہمارے زمیندار بھائیوں کا وقفہ ذرا لمبا ہوتا ہے.قادیان کی بات ہے میں خدام الاحمدیہ کا صدرتھا برسات کے موسم میں میں اٹھوال گیا.وہاں ایک دن بارش ہو گئی اب وقت مقر ر کیا ہوا تھا ہم نے چھ سات میل کا فاصلہ طے کیا تھا کہ پتہ لگا آگے پانی ہی پانی ہے.ہمارے پاس مانگے کی موٹر تھی وہ وہاں نہیں جاسکتی تھی.خدام الاحمدیہ کے قائد آئے اُنہوں نے ہمارا سامان اٹھایا اور گھٹنے گھٹنے پانی میں کہیں زیادہ اور کہیں کم ہم چھ سات میل پیدل چلے اٹھوال پہنچے.رات وہاں ٹھہرے.میں چونکہ عام طور پر کھانے میں تکلف نہیں کرتا جو لوگ مجھے جانتے ہیں وہ میرے ساتھ تکلف نہیں کرتے.خیر جو کھانا میسر تھا وہ اُنہوں نے دے دیا بڑا مزیدار کھانا تھا.صبح اُنہوں نے پراٹھے کھلائے پھر پتہ لگا نہر ٹوٹ گئی ہے.میں خدام کو لے کر وہاں چلا گیا دو تین گھنٹے کام کیا قائد صاحب نے بھی کام کیا میں ان کی بات کر رہا ہوں.پھر ہم دو پہر کے بعد واپس چلے تو انہوں نے ہی سامان اٹھایا اور چھ سات میل کا فاصلہ پانی میں طے کیا.میں نے سوچا اُنہوں نے تو میرے سامنے کہیں بھی کھانا نہیں کھا یا موٹر میں بیٹھنے لگے تو میں نے اُن سے پوچھا تمہیں کھانا کھاتے نہیں دیکھا کہنے لگے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۰۳ خطبہ جمعہ ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء کہ نہیں جی کام میں کھانا نہیں کھایا، اب جا کر کھا لیں گے.پس وہ تو اتنا لمبا وقفہ بھی برداشت کر جاتے ہیں.ان کی ایسی عادت ہے لیکن تکلف نہیں کرنا چاہیے.یہ صحیح ہے کہ کوئی شخص کھانا کم کھاتا ہے اور کوئی زیادہ کھا تا ہے بعض دفعہ مہمان بن کر چلے جائیں تو بعض میزبان ایسے بھی ہوتے ہیں جوز بر دستی کھلاتے ہیں.کہتے ہیں تمہیں ضرور کھلانا ہے چاہے بعد میں اسہال سے جان نکل جائے اور بعض لوگ ایسے ہیں مثلاً حیدر آباد میں یہ مشہور ہے کہ وہاں دعوت پر جو لوگ بھی جاتے تھے وہ کھانا گھر میں کھا کر جاتے تھے اور کہتے تھے ہم تو بہت کم خور لوگ ہیں ہم تو چڑیا کی زبان اور روٹی کا پھپھولا کھانے والے ہیں بس ذرا سا لقمہ لیا اور کھا لیا حالانکہ پیٹ بھر کر آئے ہوئے ہوتے تھے گھر سے.تو یہ تکلف ہے اور یہ تکلف بھی تضاد ہے.میں اصل چیز یہ بتارہا ہوں کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہاری زندگیوں میں کسی قسم کا تضاد پیدا نہیں ہونا چاہیے نہ اندرونی طور پر اور نہ خدا تعالیٰ کی صفات کے مقابلے میں.اندرونی طور پر اس طرح کہ تمہاری ایک صلاحیت ایک چیز کا تقاضا کر رہی ہے اور دوسری صلاحیت کو تم نے دوسری طرف لگا دیا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ نے ساری صلاحیتوں کا مجموعہ تمہیں ایسا بنا کر دیا تھا کہ جن میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا.ویسے بھی خلق خدا میں تضاد نہیں پایا جاتا.اس آیت میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی خلق کے اندر کوئی تضاد نہیں پایا جاتا.جہاں مرضی ہو جا کر تلاش کرو تمہیں خلق خدا میں کوئی تضاد نہیں نظر آئے گا.خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو جتنی صلاحتیں دیں اُن میں آپس میں کوئی تضاد نہیں بلکہ اُن میں یک جہتی ہے اور اُن کا آپس میں بڑا گہرا اور مضبوط تعلق ہے تو آپس میں اندرونی تضاد نہیں ہونا چاہیے اور خدا تعالیٰ کی صفات سے انسان کے اعمال کا تضاد نہیں ہونا چاہیے.جو صلاحیتیں ہمیں ملی ہیں اگر اُن کا صحیح استعمال کیا جائے تو تضاد نہیں ہو گا.پس جس بات کی مجھے ہر وقت فکر رہتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی صفات کی جس حد تک معرفت حاصل کی ہے اور جماعت نے صفات الہیہ کی معرفت کا جو مقام حاصل کیا ہے اور جس پر وہ گذشتہ سال با وجود سخت مشکلات اور مصائب کے قائم رہی ہے اس مقام پر وہ ہمیشہ قائم رہے.اپنی زندگیوں میں اور اپنے اعمال میں کسی قسم کا تضاد نہ پیدا ہونے دیں.اندرونی طور پر
خطبات ناصر جلد ششم ۱۰۴ خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۷۵ء بھی اور خدا تعالیٰ کی صفات کے مقابلہ میں بھی اپنی زندگیوں میں تضاد پیدا کر کے اپنے رب سے لڑائی نہ مول لیں.جماعت کا ہر فرد ہر چھوٹا اور بڑا، ہر جوان اور بوڑھا ، ہر مرد اور عورت صدق وصفا سے رہے.خدا تعالیٰ کے دامن کو کسی لحظہ نہ چھوڑے تا خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہم پر نازل ہو اور جس غرض کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے وہ غرض پوری ہو اور جس مقصد کے لئے جماعت احمدیہ قائم کی گئی ہے وہ مقصد حاصل ہو.آمین.‘“ از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ششم ۱۰۵ خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۷۵ء ہم احمدی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کامل نور اور کامل بشر تھے خطبه جمعه فرموده ۲۸ مارچ ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہم احمدی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمارے محبوب آقا حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل انسان تھے.آپ کی استعداد میں ہر لحاظ سے کامل تھیں آپ کامل نور تھے اور کامل بشر تھے.کامل نور ہونے کی وجہ سے آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کامل معرفت رکھتے تھے.اس ضمن میں جہاں بھی میں ” کامل“ کا لفظ استعمال کروں گا میری مراد یہ ہوگی کہ جب سے کہ اس کرہ ارض پر انسان نے جنم لیا کوئی اور شخص آپ کے کمال کے قریب بھی نہیں پہنچا.ابتداء سے لے کر قیامت تک ہر قوم کے لحاظ سے اور ہر زمانہ کے لحاظ سے آپ اپنی ساری استعدادوں اور قوتوں اور صلاحیتوں میں کامل تھے یعنی میں آپ کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے نسبتی طور پر کامل کے لفظ کو استعمال نہیں کر رہا بلکہ ایک ایسی حقیقت کا ملہ کا اظہار کر رہا ہوں کہ جس کے ساتھ کسی اور کا کوئی مقابلہ نہیں ہو سکتا چونکہ آپ کامل استعدادوں کے ساتھ ، کامل صلاحیتوں کے ساتھ اور کامل قوتوں کے ساتھ اس دنیا میں پیدا ہوئے تھے اس لئے آپ کامل نور بھی تھے اور کامل بشر بھی.کامل نور اس معنی میں کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کی استعداد بھی کامل تھی اور اس
خطبات ناصر جلد ششم 1+4 خطبه جمعه ۲۸ مارچ ۱۹۷۵ء استعداد کی نشو و نما بھی کامل تھی اور اس کے نتیجہ میں جس قسم کی معرفت جتنی عظیم معرفت اور کامل معرفت صفات باری تعالیٰ کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل تھی اتنی کسی اور کو حاصل نہیں تھی اور چونکہ صفات باری کی معرفت کا کمال آپ کو حاصل تھا اور خدا تعالیٰ سے پیار کرنے کی اور اُس سے محبت کرنے کی قوت کامل طور پر آپ کے اندر پائی جاتی تھی اس لئے اس محبت کے نتیجہ میں جو اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھی اور اس استعداد کی وجہ سے جو آپ کو کمال کے رنگ میں حاصل تھی صفاتِ باری کا مظہر بننے میں آپ نے کمال حاصل کیا اور اسی وجہ سے آپ کے صفاتِ باری کے مظہر اتم ہونے پر ہم یقین رکھتے ہیں.دیگر انبیاء کی آنکھ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس قدر قرب دیکھا اور انہیں اس کا علم دیا گیا کہ جس کے نتیجہ میں اُنہوں نے تمثیلی زبان میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا اللہ کا آنا قرار دیا.خود قرآن کریم نے بھی متعدد آیات میں آپ کے اس انتہائی اور کامل قرب کا ذکر کیا ہے.یہ ایک لمبا مضمون ہے اس وقت اس کی طرف صرف اشارہ کر دینا کافی ہے.پس چونکہ آپ کامل نور تھے اس لئے آپ کی زندگی میں جو دوسرا پہلو نظر آتا ہے وہ آپ کے کامل بشر ہونے کا ہے.کامل بشر ہونے کے لحاظ سے آپ نے نوع انسانی پر جو احسان کیا ہے وہ اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا.دنیا نے آپ کو بجا طور پر محسن اعظم کا لقب دیا یہی آپ کی شان تھی.چونکہ آپ صفات باری کے اتم اور اکمل مظہر تھے اس لئے آپ کی جو قوت قدسیہ ہے اور فیض رسانی کی جو طاقت ہے وہ ہمیں کسی اور وجود میں نظر نہیں آتی.اصولی طور پر آپ نے ماضی کی حدود کو پھاندا جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے آدم ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا کہ میں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اس مقام پر فائز تھا.محض فلسفیانہ طور پر نہیں بلکہ پہلوں کو بھی جو نور عطا ہوا وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے طفیل عطا ہوا تھا.یہ ایک لمبا سلسلہ انبیاء تھا جو بعض کے نزدیک ایک لاکھ ہیں ہزار یا چوبیس ہزار انبیاء پر پھیلا ہوا ہے.قوم قوم میں نبی بھیجا گیا، زمانہ زمانہ میں انبیاء نے نوع انسانی کی تربیت کی اور یہ اس لئے کہ وہ ارتقائی مدارج میں سے گزر کر اس قابل ہو جا ئیں کہ جب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نور د نیا میں جلوہ گر ہوتو وہ اس پر ا اپنی جان قربان کر سکیں اور اس
خطبات ناصر جلد ششم ۱۰۷ خطبه جمعه ۲۸ مارچ ۱۹۷۵ء سے فائدہ اٹھا سکیں.آپ کے اس کامل بشر ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے اندر نوع انسانی کی ہمدردی اور غم خواری اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور اس میں اتنا حسن ہے کہ کہیں اور وہ نظر نہیں آتا.آپ کی اس ہمدردی کا جو اظہار ہے وہ گو یا صفات باری کے نور کے جلووں میں لپٹا ہوا ہے کیونکہ آپ صفات باری کے مظہر اتم ہیں.دنیوی عقل ہو یا روحانی فراست، ان کا سر چشمہ ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کی تعلیم نظر آتی ہے چونکہ آپ کامل بشر تھے اس لئے آپ ہمارے لئے کامل اسوہ ہیں.اگر آپ کامل بشر نہ ہوتے تو ہمارے لئے کامل اسوہ بھی نہ بن سکتے.کچھ چیزیں ہمیں آپ کی پیروی سے حاصل کرنی پڑتیں اور کچھ کے حصول کے لئے ہمیں کسی اور طرف نگاہ اُٹھانی پڑتی لیکن آپ کامل نور کے لئے ہی کامل بشر بنتے ہیں کیونکہ خدا سے نور لیا حصول نور کی کامل استعداد کے نتیجہ میں اور وہ دیا نوع انسانی کو کامل بشر کے نتیجہ میں.آپ نے اپنے زمانہ میں جو آپ کی ظاہری زندگی کا زمانہ تھا اور اپنے زمانہ میں جو آپ کی روحانی زندگی کا زمانہ ہے جو قیامت تک ممتد ہے.نوع انسانی کے لئے اُسوہ حسنہ بن کر اور اُن کو اس طرف بلا کر کہ میری اتباع کرو کیونکہ میری اتباع کے بغیر تمہیں زندگی کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا اتناد یا، اتنا دیا کہ انسان جب ان باتوں کے متعلق سوچتا ہے تو اس کی عقل حیران رہ جاتی ہے.آپ نے لوگوں کو دنیا دی ، دین دیا، روحانیت دی ، خدا کا پیار دیا، خدا کا قرب دیا اور وہ دیا جس سے خدا تعالیٰ کا پیار ظاہر ہوتا ہے یعنی مکالمات ہیں، مخاطبات ہیں، بشارتیں ہیں، اللہ تعالیٰ کی پیاری آواز ہے جسے انسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمرنگ ہو کر حاصل کرتا ہے.آپ کی اس اتباع کے نتیجہ میں اور اس اطاعت کا ملہ کے نتیجہ میں انسان اپنے دائرہ استعداد کے اندر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ جتنا جتنا اپنے اوپر چڑھاتا ہے اتنا اتنا خدائے واحد و یگانہ کا رنگ اس کی ذات پر چڑھ رہا ہوتا ہے کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو عکس ہیں پیدا کر نے والے رب کریم کا اور مظہر اتم ہیں صفات باری کے.ہمارا یہ عقیدہ ہے اور ہم نے اپنی زندگیوں میں زندہ خدا کی تجلیات کو اور اپنے زندہ نبی کے احسانوں کو دیکھا اور مشاہدہ کیا.ہمارے بڑوں نے بھی مشاہدہ کیا اور ہمارے بچوں نے بھی ،
خطبات ناصر جلد ششم ۱۰۸ خطبه جمعه ۲۸ مارچ ۱۹۷۵ء ہمارے مردوں نے بھی مشاہدہ کیا اور ہماری عورتوں نے بھی ، ہمارے عالموں نے بھی مشاہدہ کیا اور ہمارے اس گروہ نے بھی جو بظا ہر دُنیوی علوم سے محروم سمجھا جاتا ہے لیکن جن کے اندر روحانی علوم کا دریا بہہ رہا ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے فرزند جلیل کی دعاؤں اور تربیت کے نتیجہ میں مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلامی تعلیم کو صاف شفاف پانی کی طرح ہمارے سامنے رکھا.غرض ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم احسان کے عملی جلوؤں کو اپنی زندگیوں میں دیکھا اور اتنی کثرت سے دیکھا کہ اس کا احاطہ کرناممکن نہیں.میں نے پہلے بھی بتایا ہے جو زمانہ ہم پر بڑا سخت سمجھا جا رہا تھا اس زمانہ میں جوخبریں میرے تک پہنچیں ، اُن کی بھی ایک پنڈ بن گئی تھی.دوستوں نے (جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ) مجھے لکھا کہ اُنہوں نے یہ یہ خواہیں دیکھی ہیں اور اُن میں اکثر اپنے وقت پر پوری ہو گئیں.اُن میں بعض خوا ہیں ایسی بھی تھیں جو دو گھنٹے کے اندر پوری ہو گئیں اور یہ خدا تعالیٰ کا کتنا پیار ہے جسے ہم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں پایا ہے.یوں تو اس کی بیبیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن میں صرف ایک مثال دیتا ہوں.ایک شخص کو ایک رات میں تین خوا میں آئیں.ان میں سے دو بظاہر کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں.وہ اس کے اپنے ٹریکٹر کے متعلق تھیں مگر تیسری خواب بڑی اہم تھی.دو خدا تعالیٰ نے اس کو اس لئے دکھا ئیں کہ اُسے یہ یقین ہو جائے کہ اطلاع دینے والا علام الغیوب ہے.گھنٹے بعد کی خبر کا بھی اُسے علم ہے اور مہینوں بعد کا بھی اُسے علم ہے اور چونکہ منبع ان تینوں کا ایک ہے اس لئے جب دو پوری ہوگئیں تو اُسے یقین ہو گیا کہ جو تیسری خواب ہے اور جو زیادہ اہم ہے وہ بھی اسی سر چشمہ سے نکلی ہے.اسی طرح بچوں نے خوا ہیں دیکھیں اور بڑی واضح خواہیں دیکھیں اور وہ اپنے وقت پر پوری ہوئیں.بڑوں نے خوا میں دیکھیں اور وہ بھی پوری ہو ئیں اور یہ خوا ہیں تو احمدی افراد کو تسلی دلانے کے لئے آتی ہیں.اصل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئیاں ہیں، وہ بشارتیں ہیں ، وہ خوشخبریاں ہیں اور پیشگی بتائی ہوئی باتیں ہیں جن میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ مہدی معہود علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام پھر ساری دنیا میں اسی طرح غالب آئے گا جس طرح کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے
خطبات ناصر جلد ششم 1+9 خطبه جمعه ۲۸ مارچ ۱۹۷۵ء تربیت یافتہ صحابہ کے زمانہ میں غالب آیا تھا.آج کی بشارت جو کل پوری ہو جاتی ہے، وہ ہمیں اس مقام پر کھڑا کر دیتی ہے کہ ہم علی وجہ البصیرت یہ عقیدہ رکھیں کہ جو چودہ سو سال پہلے بشارتیں دی گئیں تھیں وہ اب پوری ہوں گی کیونکہ ایسا ہی بتایا گیا ہے کہ یہ زمانہ ہے اُن کے پورے ہونے کا اور پھر انسان حیران ہوتا ہے کہ لوگ مہدی علیہ السلام کے مقام کو نہیں پہچانتے.مہدی تو وہ پیارا وجود ہے جس کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا جس کی علامات بتائیں، جس کے کام بتائے جس کے زمانہ میں اسلام کا غلبہ بتایا اور پھر ان چودہ صدیوں میں کوئی صدی ایسی نہیں گذری جس کے بیسیوں مقربین الہی کو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں بتایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شان کا ایک خادم پیدا ہونے والا ہے.اب پھر دنیا میں ایک شوق پیدا ہو گیا ہے مہدی معہود کی تائید میں دلائل ظاہر کرنے کا.بعض لوگوں نے جن کا جماعت سے تعلق نہیں، بے تحاشہ روپیہ خرچ کر کے بیسیوں ،سینکٹر وں شاید ہزاروں سکالرز اور صاحب علم محققین کو اس طرف متوجہ کیا کہ جو چھپی ہوئی کتا بیں ہیں اُن کو نکا لیں اور شائع کریں یا چھپی ہوئی کتابوں کے حوالے اپنی کتابوں میں دینا شروع کر دیں.ابھی چند ہفتوں کی بات ہے ایک کتاب آئی ہے جس میں سے بہت سے حوالے ملے ہیں اُن میں سے ایک یہ حوالہ بھی ہے کہ ابن النبی المھدی کے زمانہ میں جھنڈوں کے رنگ سرخ ہو جائیں گے.یہ کوئی معمولی خبر تو نہیں بڑی اہم خبر ہے.پھر ہمیں مہدی علیہ السلام نے یہ خوشخبری دی کہ میں نے جو کچھ پایاوہ میرا اپنا نہیں ہے بلکہ مجھے جو بھی ملا ہے وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا ہے اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کی اتباع کے ذریعہ سے اور آپ کی محبت میں فنا ہو کر اور آپ کی کامل اتباع کر کے اور آپ کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھ کر مجھے جو ملا سو ملا اور جو آدمی اسی قسم کی عاشقانہ اور مستانہ محبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کرے گا وہ اسی مقام کو اپنے اپنے مرتبہ کے لحاظ سے اور استعداد کے لحاظ سے پالے گا.اب جو اصل نتیجہ میں آپ کے سامنے نکالنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارا یہ دعویٰ کرنا کہ ہمیں
خطبات ناصر جلد ششم 11.خطبه جمعه ۲۸ مارچ ۱۹۷۵ء اللہ تعالیٰ کے فضل نے دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے منتخب فرمایا ہے محض یہ دعوی کافی نہیں.جب تک ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اطاعت کا جوا اپنی گردن پر نہ رکھیں اور جب تک ہم آپ کی محبت میں فنا ہو کر فیوض میں حصہ دار نہ بنیں جن فیوض سے صحابہ کرام پہلے زمانہ میں بنے تھے.اُس وقت تک ہم اس دنیا کے روحانی رہبر اور قائد نہیں بن سکتے اور جب تک ہم اس دنیا کے روحانی رہبر اور قائد نہ بنیں ہم اسلام کو دنیا میں غالب نہیں کر سکتے.فلسفی تو بھٹکی ہوئی دنیا نے ہزاروں پیدا کر دیئے لیکن بے نتیجہ اور بے اثر.آج دنیا جس ہلاکت کے گڑھے پر کھڑی ہے اس سے بچنے کے لئے وہ زبانِ حال سے خدا کے ان بندوں کو پکار رہی ہے جو حضرت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اور دنیا کی ہمدردی میں گداز ہوں اور جن پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ چڑھا ہوا ہو اور جنہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا ہو اور جن کی زندگی ایک نشان اور حجت ہو دنیا کے لئے.اس جماعت کو آج دنیا پکاررہی ہے فلسفیوں کو تو اُنہوں نے پکارا.کئی ایک نے آوازسنی اور کئی ایک نے نہیں سنی.جنہوں نے اُن کی آواز سنی وہ اُن کے پاس گئے مگر بے نتیجہ اور بے فائدہ.ایک گیا اُس نے اپنی کہانی سنائی دوسرا گیا اُس نے اپنی رٹ لگائی لیکن وہ بات نہیں کہہ سکے جو انسانی فطرت کی سیری کا باعث بنتی ہے اور جو انسان کو زمین سے اُٹھا کر آسمانوں تک لے جاتی ہے جو انسان کو اجر دلاتی اور وہ تواضع سکھاتی ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا نے فرمایا میرا بندہ جتنی جتنی عاجزی کرتا چلا جائے گا میں اُسے اتنی اتنی بلندی دیتا چلا جاؤں گا.پس عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے حضرت مہدی علیہ السلام کی آواز کو عملاً سُن کر اور قبول کرتے ہوئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اور آپ کے عشق میں بالکل محو اور فنا ہوئے بغیر ہم اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے جس مقصد کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں اور ہم جانتے ہیں اور ہم دعوی کرتے ہیں کہ ہم اس مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا کرے کہ ہم اپنے مقام کو پہچانیں اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا کرے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو پہچانیں جو اس مقام کے ساتھ وابستہ ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا کرے کہ ان ذمہ داریوں کو
خطبات ناصر جلد ششم خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۷۵ء پہچانتے ہوئے اپنی عملی زندگی میں یہ ثابت کر دکھا ئیں کہ جو ہمارا دعویٰ تھا کہ اس غرض کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے کہ ہم اُس غرض کے حصول کے لئے انتہائی کوشش کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتے ہوئے دنیا میں اسلام کو غالب کرتے چلے جارہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ایک دن وہ آنے والا ہے جب ساری دنیا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ.کئی چھوٹی چھوٹی بیماریاں بھی بہت تنگ کر رہی ہیں.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر بیماری سے شفا عطا کرے.پچھلے دنوں دوران سر یعنی چکروں کی تکلیف ہو گئی ، جگر بند ہو گیا اور باوجود پوری احتیاط کرنے کے خون میں Sugar ( شکر ) کی جو زیادتی آجاتی ہے وہ پھر زائد ہو گئی.اللہ تعالیٰ ہی شافی ہے.میں بھی دعا کرتا ہوں آپ بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے بھی اور آپ کو بھی صحت دے اور عمر دے اور عمل کی توفیق دے اور اپنی رحمتوں سے ہمارے عاجزانہ اعمال کو قبول فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ اگست ۱۹۷۵ ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ششم ۱۱۳ خطبه جمعه ۱/۴ پریل ۱۹۷۵ء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع نہ کرنے والا خدا تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۷۴ پریل ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہم احمدی جو حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے ہیں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اول المسلمین ہیں یعنی اسلام کی حقیقت کامل طور پر اور اعلیٰ طور پر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں متحقق اور ثابت ہے.ہے.ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو رحمن ہے اپنی موہبت سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذات باری اور صفات باری کے عرفان کی سب سے زیادہ طاقت اور استعداد عطا کی تھی اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدائے رحیم نے اس استعداد کی کامل نشو و نما کے لئے سامان پیدا کئے تھے اور اس طرح استعداد محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کامل طور پر جلوہ گر ہوئی آپ کی استعدا د نے کمال نشو و نما پایا.غرض ذاتِ باری اور صفات باری کے عرفان کی سب سے بڑھ کر استعدا د حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہوئی اور اس استعداد کی کامل نشو و نما کے سامان خدائے رحیم نے پیدا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۱۴ خطبه جمعه ۱/۴ پریل ۱۹۷۵ء ا کئے اور وہ تمام علوم جن کا تعلق عظمت اور واحدانیت باری سے ہے اُن کی کامل معرفت نوع انسانی میں سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی.اس لئے ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جیسا کہ قرآن کریم نے کہا ہے کہ آپ اول المسلمین ہیں یعنی سب سے اعلیٰ مسلمان ہیں چونکہ اسلام کی حقیقت کامل طور پر آپ کے وجود میں متحقق ہوئی ہے اور چونکہ آپ صفات باری کے مظہر اتم بنے ہیں اس لئے آپ اعلیٰ اور اکمل ہیں.اب جس کسی نے بھی اپنی استعداد کی اپنے دائرہ استعداد میں کامل نشو و نما کرنی ہو اس کے لئے ہمارے عقیدہ کے مطابق ضروری ہے کہ وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غلامی کا رشتہ قائم کرے اور جیسا کہ قرآن کریم نے کہا ہے کامل اتباع نبوی کے نتیجہ میں اپنے لئے اپنی استعداد کے مطابق عرفانِ الہی کے حصول کی اور حقیقت اسلام کے حصول کی کوشش کرے اور ہر وہ شخص جو اتباع نہیں کرتا تو جیسا کہ وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور ہو جاتا ہے ویسا ہی خدا سے بھی دور ہو جاتا ہے اور جو شخص آپ کی اتباع کرتا ہے اس کو اس اتباع کے نتیجہ میں روح القدس کی مدد حاصل ہوتی ہے اور اس کے رُوحانی علوم میں زیادتی کی جاتی ہے اور اس کے اپنے دائرہ میں اُسے دوسروں کے لئے نمونہ بنایا جاتا ہے یہ ہمارا عقیدہ ہے اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر اور بیان ہی سے ہم سب کچھ لیتے ہیں.ایک حوالہ سناتا ہوں آپ نے آئینہ کمالات اسلام میں اس کے متعلق یوں بیان فرمایا ہے:.قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ( طه : ۱۱۵) یعنی اے میرے رب تو مجھے اپنی عظمت اور معرفت ،شیون اور صفات کا علم کامل بخش اور پھر دوسری جگہ فرما یا بذلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: ۱۶۴) ان دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اول المسلمین ٹھہرے تو اس کا یہی باعث ہوا کہ آپ اور وں کی نسبت علومِ معرفت الہی میں اعلم ہیں یعنی علم ان کا معارف الہیہ کے بارے میں سب سے بڑھ کر ہے اس لئے اُن کا اسلام بھی سب سے اعلیٰ ہے اور وہ اول المسلمین ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس زیادت علم کی طرف اُس دوسری آیت میں بھی اشارہ ہے جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے وَ عَلَيْكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء : ۱۱۴) یعنی خدا تعالیٰ نے تجھ کو وہ علم عطا کئے جو تو خود بخود نہیں
خطبات ناصر جلد ششم ۱۱۵ خطبه جمعه ۱/۴ پریل ۱۹۷۵ء جان سکتا تھا اور فضل الہی سے فیضان الہی سب سے زیادہ تیرے پر ہوا یعنی تو معارف الہیہ اور اسرار اور علوم ربانی میں سب سے بڑھ گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت کے عطر کے ساتھ سب سے زیادہ تجھے معطر کیا.غرض علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اگر چہ حصول حقیقت اسلام کے وسائل اور بھی ہیں جیسے صوم وصلوٰۃ اور دعا اور تمام احکام الہی جو چھ سو سے بھی کچھ زیادہ ہیں لیکن علم عظمت و وحدانیت ذات اور معرفت شیون وصفات جلالی و جمالی حضرت باری عزّ اسمه وسیلة الوسائل اور سب کا موقوف علیہ ہے کیونکہ جو شخص غافل دل اور معرفت الہی سے بکلی بے نصیب ہے وہ کیا تو فیق پاسکتا ہے کہ صوم اور صلوٰۃ بجا لا وے یا دعا کرے یا اور خیرات کی طرف مشغول ہو.ان سب اعمالِ صالح کا محرک تو معرفت ہی ہے اور یہ تمام دوسرے وسائل دراصل اسی کے پیدا کردہ اور اسی کے بنین و بنات ہیں اور ابتدا اس معرفت کی پر توہ اسم رحمانیت سے ہے نہ کسی عمل سے نہ کسی دعا سے بلکہ بلا علّت فیضان سے صرف ایک موہبت ہے.يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَيُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ مگر پھر یہ معرفت اعمالِ صالحہ اور حسنِ ایمان کے شمول سے زیادہ ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ آخر الہام اور کلام الہی کے رنگ میں نزول پکڑ کر تمام صحن سینہ کو اُس نور سے منور کر دیتی ہے جس کا نام اسلام ہے اور اس معرفتِ تامہ کے درجہ پر پہنچ کر اسلام صرف لفظی اسلام نہیں رہتا بلکہ وہ تمام حقیقت اس کی جو ہم بیان کر چکے ہیں حاصل ہو جاتی ہے اور انسانی روح نہایت انکسار سے حضرت احدیت میں اپنا سر رکھ دیتی ہے.تب دونوں طرف سے یہ آواز آتی ہے کہ جو میرا سو تیرا ہے یعنی بندہ کی روح بھی بولتی ہے اور اقرار کرتی ہے کہ یا الہی جو میرا ہے سو تیرا ہے اور خدا تعالیٰ بھی بولتا ہے اور بشارت دیتا ہے کہ اے میرے بندے جو کچھ زمین و آسمان وغیرہ میرے ساتھ ہے وہ سب تیرے ساتھ ہے.“ چونکہ یہ معرفت تا مہ یعنی کامل معرفت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو ملی.اس لئے آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ استدلال کیا :.اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اِس آیت میں ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى
خطبات ناصر جلد ششم ١١٦ خطبه جمعه ۱/۴ پریل ۱۹۷۵ ء ط أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الزمر : ۵۴) یعنی کہہ اے میرے غلامو! جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے کہ تم رحمت الہی سے نا امید مت ہو.خدا تعالیٰ سارے گناہ بخش دے گا.اب اِس آیت میں بجائے قُل لِعِبَادَ اللہ کے جس کے یہ معنے ہیں کہ کہہ اے خدا تعالیٰ کے بندو.یہ فرمایا کہ قُل يُعِبادِی یعنی کہہ کہ اے میرے غلامو! اس طرز کے اختیار کرنے میں بھید یہی ہے کہ یہ آیت اس لئے نازل ہوئی ہے کہ تا خدا تعالیٰ بے انتہا رحمتوں کی بشارت دیوے اور جولوگ کثرت گناہوں سے دل شکستہ ہیں اُن کو تسکین بخشے.سو اللہ جل شانہ نے اس آیت میں چاہا کہ اپنی رحمتوں کا ایک نمونہ پیش کرے اور بندہ کو دکھلاوے کہ میں کہاں تک اپنے وفادار بندوں کو انعامات خاصہ سے مشرف کرتا ہوں سو اُس نے قُلْ يُعِبَادِی کے لفظ سے یہ ظاہر کیا کہ دیکھو یہ میرا پیارا رسول دیکھو یہ برگزیدہ بندہ کہ کمال طاعت سے کس درجہ تک پہنچا کہ اب جو کچھ میرا ہے وہ اُس کا ہے.جو شخص نجات چاہتا ہے وہ اُس کا غلام ہو جائے یعنی ایسا اُس کی طاعت میں محو ہو جاوے کہ گویا اُس کا غلام ہے.تب وہ گو کیسا ہی پہلے گنہگار تھا بخشا جائے گا.جاننا چاہیے کہ عبد کا لفظ لغت عرب میں غلام کے معنوں پر بھی بولا جاتا جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے وَلَعَبدُ مُؤْمِنْ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ (البقرة : ۲۲۲) اور اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اپنی نجات چاہتا ہے وہ اس نبی سے غلامی کی نسبت پیدا کرے یعنی اُس کے حکم سے باہر نہ جائے اور اُس کے دامن طاعت سے اپنے تئیں وابستہ جانے جیسا کہ غلام جانتا ہے تب وہ نجات پائے گا.اس مقام میں اُن کور باطن نام کے موحد وں پر افسوس آتا ہے کہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہاں تک بغض رکھتے ہیں کہ اُن کے نزدیک یہ نام کہ غلام نبی ، غلام رسول، غلام مصطفی ، غلام احمد ، غلام محمد شرک میں داخل ہیں اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ مدار نجات یہی نام ہیں اور چونکہ عبد کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ ہر ایک آزادگی اور خودروی سے باہر آ جائے اور پورا متبع اپنے مولیٰ کا ہو.اس لئے حق کے طالبوں کو یہ رغبت دی گئی کہ اگر نجات چاہتے ہیں تو یہ مفہوم اپنے اندر پیدا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۱۷ خطبه جمعه ۱/۴ پریل ۱۹۷۵ء کریں اور در حقیقت یہ آیت اور یہ دوسری آیت قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمُ (ال عمران : ۳۲) از روئے مفہوم کے ایک ہی ہیں کیونکہ کمال اتباع اُس محویت اور اطاعت تامہ کو مستلزم ہے جو عبد کے مفہوم میں پائی جاتی ہے.یہی ستر ہے کہ جیسے پہلی آیت میں مغفرت کا وعدہ بلکہ محبوب الہی بننے کی خوشخبری ہے گویا یہ آیت کہ قُلُ يُعِبادی دوسرے لفظوں میں اس طرح پر ہے کہ قُلْ يَا مُتَّبِعِی یعنی اے میری پیروی کرنے والو جو بکثرت گناہوں میں مبتلا ہور ہے ہو ، رحمت الہی سے نومید مت ہو کہ اللہ جلشانہ بہ برکت میری پیروی کے تمام گناہ بخش دے گا اور اگر عباد سے صرف اللہ تعالیٰ کے بندے ہی مراد لئے جائیں تو معنے خراب ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ ہرگز درست نہیں کہ خدا تعالیٰ بغیر تحقق شرط ایمان اور بغیر تحقیق شرط پیروی تمام مشرکوں اور 66 کافروں کو یونہی بخش دیوے.ایسے معنے تو نصوص بینہ قرآن سے صریح مخالف ہیں.“ اس کے بعد میں جو حصہ عبارت پڑھوں گا اس میں جماعت کے لئے نصیحت ہے.اس لئے اس حصہ کو بھی تو جہ سے سننا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے نباہنے کی اور آپ کی کامل اتباع کی اپنے اپنے دائرہ استعداد کے اندرتا کہ ہمیں نو رایمان اور محبت الہی اور عشق رسول کی توفیق ملے اور غیر اللہ سے ہم رہائی پائیں چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ ماحصل اس آیت کا یہ ہے کہ جو لوگ دل وجان سے تیرے یا رسول اللہ کے غلام بن جائیں گے اُن کو وہ نور ایمان اور محبت اور عشق بخشا جائے گا کہ جو اُن کو غیر اللہ سے رہائی دے دے گا اور وہ گناہوں سے نجات پا جائیں گے اور اسی دنیا میں ایک پاک زندگی اُن کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے.اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے آنا الحاشر الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ على قَدَمِن یعنی میں وہ مردوں کو اُٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اُٹھائے جاتے ہیں.واضح ہو کہ قرآن کریم اس محاورہ سے بھرا پڑا ہے کہ
خطبات ناصر جلد ششم ۱۱۸ خطبه جمعه ۱/۴ پریل ۱۹۷۵ ء دنیا مر چکی تھی اور خدا تعالیٰ نے اپنے اس نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر نئے سرے دنیا کو زندہ کیا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے:.اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحدید: ۱۸) یعنی اس بات کوشن رکھو کہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ زندہ کرتا ہے پھر اُسی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں فرماتا ہے وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِنْهُ (المجادلة: ٢٣) یعنی اُن کو روح القدس کے ساتھ مدد دی اور روح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قو تیں اور پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرماتا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہ سے خدا تعالیٰ کے مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے...اور یہ علوم جو مدار نجات ہیں یقینی اور قطعی طور پر بجز اُس حیات کے حاصل نہیں ہو سکتے جو بتوسط روح القدس انسان کو ملتی ہے.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں روح القدس کے توسط سے ایک زندگی انسان کو ملتی ہے اور قرآن کریم بڑے زور وشور سے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ حاصل ہونے والی وہ حیات روحانی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں ذکر کر رہے ہیں رُوح القدس کے توسط سے انسان کو ملتی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.اور قرآن کریم کا بڑے زور شور سے یہ دعویٰ ہے کہ وہ حیاتِ روحانی صرف متابعت اس رسول کریم سے ملتی ہے اور تمام وہ لوگ جو اس نبی کریم کی متابعت سے سرکش ہیں وہ مردے ہیں جن میں اس حیات کی روح نہیں ہے اور حیات روحانی سے مراد انسان کے وہ علمی اور عملی قولی ہیں جو روح القدس کی تائید سے زندہ ہو جاتے ہیں.یہ حکم ہے جماعت احمدیہ کے احباب کو مردوں کو بھی اور مستورات کو بھی بڑوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی کہ وہ یہ عقیدہ رکھیں اور اس عقیدہ کے مطابق انتہائی کوشش کریں کہ جس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کامل استعدادوں کے مالک تھے اور استعدادوں کی کامل نشوونما خدائے رحیم کے فضل سے پانے والے تھے اسی طرح آپ کی متابعت اور آپ کی پیروی اور آپ
خطبات ناصر جلد ششم ۱۱۹ خطبه جمعه ۱/۴ پریل ۱۹۷۵ ء کے ساتھ رشتہ غلامی جوڑ کر ہم میں سے ہر ایک اپنی استعدادوں کو کمال نشو ونما تک پہنچانے والا ہو اور اس کے لئے روح القدس کی جب مدد کی ضرورت پڑے اُسے وہ پانے والا ہو.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین (روز نامه الفضل ربوه ۸ اگست ۱۹۷۵ ء صفحه ۲ تا ۴ )
خطبات ناصر جلد ششم ۱۲۱ خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۷۵ء انسان کو ہر دم اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی ضرورت ہے خطبہ جمعہ فرموده ۲۵ / جولائی ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ روووو تلاوت فرمائیں :.وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ اعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ - وَلَتَكُن مِنْكُمْ أمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَبِكَ هُمُ b الْمُفْلِحُونَ - وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنْتُ وَ أُولَبِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ـ (ال عمران : ۱۰۴ تا ۱۰۶) پھر حضور انور نے فرمایا:.دوست جانتے ہیں کہ میں بڑی لمبی بیماری میں سے گزر رہا ہوں.ایک وقت میں تو بیماری نے بہت تشویشناک رُخ اختیار کر لیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اس تشویش سے نجات دے دی تاہم ابھی تک پوری طرح صحت نہیں ہوئی.پہلے انفلوائنزا کا دو بار حملہ ہوا اور اس کے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۲۲ خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۷۵ء بعد تین بیماریاں اکٹھی شدت اختیار کر کے ظاہر ہوئیں ایک تو جسم کا شکر کا نظام خراب ہو گیا دوسرے بلڈ یور یا معمول سے دو گنا ہو گیا.خون کے اندر یور یا اگر اپنی حدود کے اندر رہے تو یہ بھی بڑا ضروری ہے.انسان کے لئے بھی اپنی حدود کے اندر رہنا ضروری ہے اور اس کے اجزا کو بھی.بلڈ یور یا بڑھ جانے سے دو بار شدید لرزہ کے ساتھ بخار ہو گیا ایک بار تو اتنے شدید لرزہ کے ساتھ بخار ہوا کہ جو عزیز اُس وقت میرے پاس موجود تھے انہوں نے بتایا کہ آپ کے ملنے کے ساتھ دیواریں ہل رہی تھیں گویا بڑے شدید لرزے کے ساتھ بخار ہوتا رہا.بعد میں جب خون اور قارورے کا لاہور سے ٹیسٹ کروایا تو بڑی شدید انفیکشن نکلی.ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ انفیکشن یا تو گردوں میں ہے اور یا مثانہ میں.ہمارے ایک احمدی سرجن تو ایک دن آگئے تھے کہ چلیں آپ کا ابھی آپریشن کر دیتے ہیں.میں نے کہا میرا آپریشن تو اتنی آسانی سے نہیں ہوتا جماعت کو بتانا پڑے گا، اُن سے مشورہ لینا پڑے گا ، دعائیں کرنی پڑیں گی یہاں کے حالات کا جائزہ لینا پڑے گا.غرض ہزار باتیں سوچنی پڑتی ہیں اس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا آپریشن ہونا چاہیے یا نہیں.دوسرے اُن کا یہ خیال تھا کہ جو یوریا بڑھ گیا ہے اس کا علاج ہی ممکن نہیں اور یہ ایک بڑی خطرناک بیماری ہے ہمارے پاس اس کا علاج نہیں ہے.خیر اُن کے یہ فقرے میرے کام آگئے.اُن کے جانے کے بعد میں نے اُس رات یہ دعا کی کہ اے میرے رب! میں تیرا بندہ ہوں اور تیری پرستش کرنے والا ہوں ڈاکٹروں کی پرستش کرنے والا تو نہیں.ڈاکٹر یہ فکر ڈال گئے ہیں تو اپنے فضل سے مجھے اس فکر سے نجات عطا فرما.ایک بیماری اور دوسرے اس فکر کی وجہ سے اُس دن درد سے دعا نکلی.خدا کی شان جس بیماری کو لاعلاج سمجھا گیا تھا ایک ہفتہ کے بعد جب دوبارہ لاہور سے ٹیسٹ کروایا تو معلوم ہوا بلڈ یوریا اپنے معمول پر آ گیا ہے اور بیماری غائب ہو گئی ہے الْحَمْدُ لِلهِ عَلى ذلِكَ - اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے باقی رہا بیماریاں ، وہ تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں جن میں انسان دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا نشان بھی دیکھتا ہے اور صبر کے ساتھ اور برداشت کے ساتھ اس کی رحمتوں کو جذب بھی کرتا ہے.جہاں تک میرے جسم میں شکر کے نظام کا تعلق ہے ۱۹۶۷ء میں مجھے ڈاکٹروں نے کہا تھا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۲۳ خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۷۵ء کہ آپ کنارہ پر کھڑے ہیں اس لئے احتیاط برتیں.چنانچہ میں نے اپنی غذا بڑی قابو میں رکھی ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے مجھے بچپن سے میٹھے سے کوئی شغف نہیں اور کم خور بھی ہوں اتنا کم خور کہ ۱۹۶۷ء میں کراچی کے جن چوٹی کے ڈاکٹر صاحب نے سب سے پہلے شکر کو دیکھا اور ٹیسٹ کئے اُنہوں نے مجھے ایک گوشوارہ بنا کر دیا جس میں غذا کے متعلق احکام تھے یعنی یہ کھانا ہے اور یہ نہیں کھانا اتنا کھانا ہے وغیرہ.مثلاً انہوں نے مجھے کہا کہ دو چھٹانک سے زیادہ آٹا دو پہر کے کھانے میں نہیں کھانا اور ایک چھٹانک سے زیادہ آثارات کے کھانے میں نہیں کھانا.ہم نے کہا اگر پر ہیز کرنا ہے تو ٹھیک طرح سے پر ہیز کیا جائے.میں نے ایک بزرگ کو بلا کر کہا اپنے سامنے تول کر آٹا گندھوائیں اور اس کی چپاتیاں پکوائیں.اتفاقاً ہمارا باور چی بھی ساتھ ہی کراچی گیا ہوا تھا اس سے میں نے کہا تم میرے لئے جو بڑی پتلی سی چپاتی بناتے ہو ویسی چپاتیاں بناؤ.تو جب ایک آدمی کی نگرانی میں دو چھٹانک آٹے کی چپاتیاں بن کر آئیں تو وہ چار چپاتیاں تھیں حالانکہ میرے معمول کی غذا دو چپاتیاں تھیں یعنی ایک چھٹانک آٹا.تو پھر میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ مجھے کہیں اور سے غذا دیں آپ کا جو چارٹ ہے اس سے تو پہلے ہی میں کم کھا رہا ہوں اس کے علاوہ اُنہوں نے یہ بھی کہا پھل نہ کھائیں سوائے سیب کے اور ہفتہ میں ایک آدھ دفعہ کوئی اور بھی چیز تھی لیکن کہا آم نہیں کھانے ، انگور نہیں کھانے نیز ورزش کرنی ہے.میں نے کہا ٹھیک ہے کچھ بھی نہیں کھاؤں گا جو کہو گے کھاؤں گا کیونکہ مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا.غرض کھانے میں احتیاط اور ورزش کے نتیجہ میں شکر کا نظام اپنی حدود کے اندر رہتا تھا لیکن جب میری بیماری لمبی ہو جائے اور میری ورزش بند ہو جائے تو اس وقت مجھے تکلیف ہو جاتی ہے.اب اس دفعہ دراصل ۲۶ نومبر ۱۹۷۴ء سے بیماری شروع ہوئی ، درمیان میں جلسہ سالانہ پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا آپ لوگ جانتے ہیں سب گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کتنا فضل کرنے والا ہے.۲۳؍ دسمبر کو میں چار پائی سے اُٹھا تھا اور اس وقت جلسہ سالانہ کے سارے کام کا بوجھ ، ملاقاتیں ، تقاریر ، جلسہ کا نظام اور پھر خاص طور پر دعائیں کرنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جلسہ کو کامیاب کرے.ہمارے ملک کی فضا بھی کچھ ایسی ہی تھی احباب کو توجہ دلائی جاتی رہی کہ بہت دعائیں کرنی چاہئیں میرا تو فرض ہے میں تو بہر حال
خطبات ناصر جلد ششم ۱۲۴ خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۷۵ء دعائیں کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کا شکر ہے جلسہ سالانہ خیریت سے گزر گیا.جلسہ سالانہ پر آپ نے بھی اور میں نے بھی خدا تعالیٰ کی قدرت کی شان دیکھی اور جو لوگ ہم میں ابھی شامل نہیں ہوئے اُنہوں نے بھی وہ نظارے دیکھے جو اُن کو حیرانی میں ڈالنے والے تھے.باہر سے آنے والے ہمارے جو احمدی دوست تھے وہ بھی حیران تھے کہ یہ موسم، یہ بارش، یہ حالات کھلے میدان میں جلسہ اور کوئی شخص اپنی جگہ سے ہل نہیں رہا سب لوگ جلسہ کی تقریر کو غور سے سن رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے خود ہی مضمون بھی ذہن میں ڈال دیا تھا اور اسے بیان کرنے کی توفیق بھی دی.غرض جلسہ سالانہ پر کئی تقریریں کرنی پڑتی ہیں بہر حال الْحَمدُ للهِ تقریریں کرنے کی توفیق ملی آپ نے بھی الحمد للہ کہی اور ضرور کر رہے ہوں گے میں بھی الْحَمدُ للہ ہمیشہ ہی کہتا ہوں.پھر انفلوائنزا کا دوبارہ حملہ ہوا خدا تعالیٰ کے فضل سے مشاورت تک آرام آ گیا اور مشاورت کی ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق مل گئی.پھر مشاورت کے بعد جو بیماری شروع ہوئی تو اس کے لمبے چکر میں مبتلا رہا.آج مجھے بتایا گیا ہے کہ میں نے غالباً اپریل کے پہلے ہفتہ میں خطبہ دیا تھا اس کے بعد آج پہلی دفعہ میں یہاں آیا ہوں چونکہ بیماری ضعف کرتی ہے اس لئے ضعف کی وجہ سے آج بھی طبیعت بہت کمزور ہے اور دل کی دھڑکن بھی بہت تیز تھی لیکن میں نے سوچا کہ بڑی دیر ہو گئی ہے مجھے جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے جانا چاہیے دوستوں سے ملنا چاہیے اُن کی شکلیں دیکھنی چاہئیں وہ میری شکل دیکھیں اس سے دعاؤں کی زیادہ تحریک ہوتی ہے اللہ تعالیٰ آپ پر بھی اور مجھ پر بھی اپنی بے شمار نعمتیں نازل کرے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے شکر کا نظام خاصے لمبے عرصہ تک خراب رہا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.ویسے پہلے ایک دوائی کھانی پڑی اس سے شکر کا نظام معمول کے مطابق آگیا لیکن انسان کی عقل اور تجربہ بہت محدود اور نا قابل اعتبار ہے مگر پھر بھی انسان اس کو سمجھتا نہیں کہ اُسے خدا کی ضرورت ہے ہم تو خدا کی ضرورت سمجھتے ہیں اگر دوا ئیں نہ ہوں تو ڈاکٹر ہمارا علاج کیسے کریں؟ شکر کو معمول پر لانے کی جو دوائی ہے اور جو آج سے پتہ نہیں بیسیوں سال پہلے سے شروع ہوئی ہوئی ہے.اُس کے متعلق دو تین ہفتے ہوئے امریکن ڈاکٹروں نے یہ فتویٰ دیا کہ وہ نہایت
خطبات ناصر جلد ششم ۱۲۵ خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۷۵ء خطرناک دوائی ہے اس کو بالکل استعمال نہ کیا جائے.چونکہ ڈاکٹر مجھے بھی یہ دوا دے رہے تھے اب ڈاکٹروں کا جھگڑا ہو گیا تو یہاں کے ہمارے ڈاکٹر لطیف قریشی صاحب نے انگلستان میں ایک چوٹی کے ڈاکٹر کو جو ذیا بیطس کا ماہر ہے خط لکھا کہ امریکہ کے ڈاکٹروں نے ذیا بیطس کے علاج کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے تم کیا کہتے ہو اس نے کہا کہ ہم تو امریکن ڈاکٹروں کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے.ہم تو اب بھی یہ دوائی مریضوں کو دے رہے ہیں لیکن بہر حال احمدی کے دل میں اللہ تعالیٰ نے خلافت حقہ سے بڑا پیار رکھا ہے.مجھے امریکہ سے یہ پیغام آنے شروع ہو گئے کہ دوائی بالکل نہیں کھانی چنانچہ میں نے سوچا چلو اسے چھوڑ کر دیکھتے ہیں.دوائی چھوڑنے کے دوتین دن بعد ٹیسٹ لیا تو دوائی استعمال کرنے کے دوران خون میں معمول کے مطابق جتنی شکر تھی اس سے بھی کم نکلی.اب کل پھر ٹیسٹ ہے خدا کرے کہ بغیر دوائی کھانے کے اسی طرح رہے.میں نے بتایا ہے کہ پر ہیز کرنے سے مجھے تکلیف نہیں ہوتی تھوڑی سی غذا کھا تا ہوں اور الحمد للہ پڑھ کر کھاتا ہوں اور خوب چبا کر کھاتا ہوں.اللہ تعالیٰ میرے جسم کو ہضم کرنے کی توفیق دیتا ہے اور تھوڑی غذا سے میری طاقت کو قائم رکھتا ہے لیکن اگر دوائی کی ضرورت پڑی تو پھر دو مختلف ملکوں کے ڈاکٹروں کی آراء کا اختلاف پریشانی کا باعث بھی بن سکتا ہے سوائے اس کے کہ ایک دوائی ایسی ہے جس کے متعلق سب کا یہی فتویٰ ہے کہ اس مرض کے لئے یہ بڑی اچھی دوا ہے اور وہ ہے انسولین ، جو ہمارے جسم کے غدود بناتی ہے لیکن اب یہ بھی مصنوعی بننے لگ گئی ہے جس طرح مصنوعی گھی بنا شروع ہو گیا ہے اور مصنوعی کھادیں بنی شروع ہوگئی ہیں اسی طرح انسان نے دوائیں بھی مصنوعی بنانی شروع کر دی ہیں اور وہ ٹھیک نہیں بہر حال یہ تو آئندہ کی بات ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اتنی لمبی بیماری کاٹنے کے بعد اور آج بھی ضعف کے باوجود اس بات کی توفیق دی کہ میں یہاں آؤں اور آپ سے باتیں کروں.میں نے اس وقت جو آیات پڑھی ہیں ان میں بہت لمبا مضمون بیان ہوا ہے میں اسے بڑے اختصار کے ساتھ چند منٹ میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا.ان آیات کا انتخاب مجھے اس لئے کرنا پڑا کہ میری بیماری کے ایام میں ربوہ کے بعض احمدیوں کی آپس کی چپقلش اور لڑائی
خطبات ناصر جلد ششم ۱۲۶ خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۷۵ء سے مجھے بہت تکلیف پہنچی ہے.ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مہدی آگئے اور یہ وہ وجود ہے جس کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا.آپ نے تاکید فرمائی کہ جن لوگوں کو اُن کا وقت پانا نصیب ہو، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اُسے سلام پہنچا ئیں.مہدی اور اس کی عظمت کے متعلق اُمت محمدیہ کے تمام صلحاء نے وہ قصیدے پڑھے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.اب میں نئی تحقیق کروارہا ہوں بہت سی نئی روایات ملی ہیں مثلاً عربی کی ایک روایت ہے فارسی کے علماء نے اس کے معنے اور تشریح اس طرح کی ہے کہ ایک اور رنگ میں مضمون سامنے آجاتا ہے.اب اس وقت بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا نے ہمیں عقل دی ہے اس لئے ہمیں مہدی کی کیا ضرورت ہے؟ الہام کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے نور یعنی رہنمائی کے نازل ہونے کی کیا ضرورت ہے.خدا تعالیٰ خود ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں راہ ہدایت پر چلائے اور قائم رکھے ہمیں کسی مہدی کی ضرورت نہیں ہے ہم اپنی عقل سے کام لیں گے مگر جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے عقل کا یہ حال ہے کہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے کروڑوں انسانوں کو شکر کے نظام کو درست کرنے کی ایک دوائی دی اور اب آرام سے کہہ دیا یہ تو زہر ہے اور بڑی مضر دوا ہے اسے ہاتھ نہ لگاؤ.یہ ہے انسانی عقل کا حال کہ ایک وقت میں زہر کوتریاق سمجھتی ہے اور دوسرے وقت میں اسی تریاق کو زہر سمجھنے لگ جاتی ہے.پس انسان کو ہر دم اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی ضرورت ہے اسی لئے وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہ میں ” حَبْلُ اللہ“ کے معنے ہمارے بزرگ صلحاء (لغت کے ماہرین نے بھی اور مفسرین نے بھی ) یہ کئے ہیں کہ وہ ذرائع جو وصلِ الہی تک پہنچانے والے ہوں کہلاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت امام راغب کو بڑی فراست عطا کی تھی اُنہوں نے قرب الہی کے ذرائع میں سے نمبر 1 قرآن کریم کو ٹھہرایا ہے یعنی شریعت قرآنیہ جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی.گواصل روحانی ذریعہ تو یہی ہے مگر انہوں نے ساتھ ہی عقل کو دوسرا ذریعہ قرار دیا ہے.عقل خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے اس کا بھی ایک مصرف ہے انسان اس سے فائدہ اٹھاتا ہے بشرطیکہ یہ اندھیروں میں بھٹکتی نہ پھرے بشرطیکہ اسے الہی رہنمائی حاصل رہے ورنہ جس طرح
خطبات ناصر جلد ششم ۱۲۷ خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۷۵ء قانون اندھا ہے اسی طرح عقل بھی اندھی ہے.انسان کی عقل نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ آج کا قانون جسے انسانی عقل نے بنایا ہے، وہ اندھا ہے لیکن یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ جس عقل نے اندھا قانون بنایا ہے وہ خود اندھی کیوں نہیں؟ ظاہر ہے کہ جس عقل نے ایک اندھا قانون بنا دیا ہو وہ خود بھی اندھی ہے کیونکہ نور سے اندھیرے پیدا نہیں ہوتے جہاں بھی اندھیر انظر آئے گا اُس کے منبع میں بھی اندھیرے ہی کی تلاش کرنی پڑے گی.ہماری عقل نور کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ ظلمات کا سرچشمہ نور نہیں پیدا کرتا ظلمت کا سرچشمہ ظلمت ہے.پس جو قانون عقل سے نکلا وہ اندھا ہے وہ عقل خود بھی اندھی ہے البتہ اس کے وہ پہلو جو خدا تعالیٰ کے نور سے منور ہو چکے ہوں اور اُن میں بیداری پیدا ہو چکی ہو وہ اندھے نہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا میں یہ بنیادی اور تاکیدی حکم دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کی جو راہیں ہیں اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے جو ذرائع ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے جو وسیلے ہیں اُن کو مضبوطی سے پکڑے رکھو.اگر مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو پراگندہ نہیں ہو گے اور اگر مضبوطی سے نہیں پکڑو گے تو پراگندہ ہو جاؤ گے تمہارے اندر تفرقہ پیدا ہو جائے گا.گویا اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر دو باتیں بتائی ہیں ان میں سے ایک کا تعلق قرآن کریم کی ہدایت سے ہے اور دوسری کا عقل سے.پھر فرمایا وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ - خدا تعالیٰ کا تم پر یہ احسان ہے کہ اُس نے تمہیں قرآن کریم کی شکل میں ایک ایسی ہدایت دی جس کے نتیجہ میں تمہارے دلوں میں باہمی محبت اور اخوت پیدا ہوئی اور اس کا تعلق شریعت حقہ کے ساتھ ہے لیکن چونکہ عقل انسانی سے بھی کام لینا ضروری ہے اس لئے فرمایا:.وَلتَكُن مِنْكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ محض شريعت جو ہے یا قرآن کریم کتابی شکل میں جز دانوں میں بند کر کے رکھ دیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.عقل کے ساتھ قرآن کریم کا سمجھنا اور سیکھنا ضروری ہے.عقل جب اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہدایت دیتا ہے اس پر عمل کرنا اور اس کے مطابق اعمال صالحہ بجالا نا ضروری ہے.خدا تعالیٰ نے شریعت دے دی لیکن شریعت پر عمل کرنا انسان کا کام ہے اور اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت دعاؤں کے ذریعہ جذب
خطبات ناصر جلد ششم ۱۲۸ خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۷۵ء کی جاتی ہے.امت محمدیہ کے لئے سب سے زیادہ دعا ئیں تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی ہیں آپ نے کسی قوم کو کسی ملک کو اور کسی زمانہ کو نہیں چھوڑا جس کے لئے دعائیں نہ کی ہوں ہمارے اس زمانہ کو بھی نہیں چھوڑا ہمارا یہ ایمان ہے.دوسرے لوگ ہمارے ساتھ اتفاق رکھیں یا نہ رکھیں لیکن ہمارا یہ ایمان ہے اور ہم اسے ظاہر کریں گے کہ مہدی آگئے اور ہم اُن پر ایمان لائے ہیں.اس وقت میرے سامنے ایران سے آئی ہوئی فارسی کی ایک کتاب ہے جو شیعوں کی طرف سے شائع کی گئی ہے اس میں ایک حوالہ ہے جسے عربی سے لیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے طور پر مروی ہے.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی علیہ السلام کے ساتھ ایک پختہ تعلق قائم رکھنے کے لئے یہاں تک فرمایا ہے کہ ایک مجلس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور اُنہوں نے مجھے کہا کہ میرے بعد ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ) حضرت علی، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضوان اللہ علیہم اور تمام اہل بیت پر ظلم ہونے لگ جائے گا اور وہ مظلوم بن جائیں گے اور اہل بیت پر یہ ظلم اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک مہدی آکر اُن کو اس ظلم سے نجات نہیں دلائے گا.کتنا پیار پیدا کیا ہے یہ بات بتا کر کہ جس کی میرے اہل بیت کو ضرورت ہو گی تم کون ہوتے ہو کھڑے ہو کر یہ کہنے والے کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے.ایک جگہ آپ نے جوش کے ساتھ اور پیار کے ساتھ کہا اے لوگوسُنو ! میں تمہیں مژدہ سناتا ہوں کہ تمہارے اندر مہدی پیدا ہوگا اور بیسیوں حوالے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ہیں.اُمت محمدیہ کے صلحاء کے اقوال ہیں ، ہمارے بزرگوں کے اقوال ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دائرہ استعداد کے مطابق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کیا تھا اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے زندہ نشان دیکھے تھے.خدا تعالیٰ اُن کا معلم بنا تھا اور وہ خدا تعالیٰ سے علم حاصل کر کے یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ مہدی کا یہ مقام ہے، مہدی کا یہ کام ہے، مہدی یہ خدمت کرے گا ، مہدی کے زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا.یہ ہم نے اپنے گھر میں بیٹھ کر باتیں تو نہیں بنائیں.پہلے بزرگ یہ بتا گئے تھے ہم تو خدا تعالیٰ کی حمد کرتے تھک جائیں تب بھی
خطبات ناصر جلد ششم ۱۲۹ خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۷۵ء اس کی حمد ادا نہیں ہوتی کہ اُس نے اول ہمیں اس زمانے میں پیدا کیا اور پھر ہمیں مہدی معہود کی شناخت کرنے کی توفیق دی اور پھر ہمیں یہ توفیق بھی دی کہ مہدی کے اس کام میں جس کے لئے وہ مبعوث ہوا تھا اس میں تھوڑا سا ہمارا بھی حصہ ہو گیا اور اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کی عظیم الشان مہم میں ہمیں بھی تھوڑی بہت قربانیاں دینے کی توفیق ملی مگر جیسا کہ ایک محاورہ ہے ” کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ ہم کیا ہیں اور ہماری یہ Contributions کیا ہیں اور خدمت اسلام میں ہمارا یہ حصہ کیا حیثیت رکھتا ہے لیکن خدا تعالیٰ جو بڑی پیار کرنے والی ہستی ہے اور اپنے بندوں سے بے حد پیار کرتا ہے اس کی یہ شان ہے کہ وہ کہتا ہے اپنی انگلی کٹاؤ میں تمہیں شہیدوں میں شامل کر دوں گا تھوڑی سی قربانیاں دو میں تمہیں ان کے بہترین نتائج اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی عطا کروں گا اور تمہیں اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کروں گا.ان وعدوں کے ہوتے ہوئے تم آپس میں لڑائیاں کرتے ہو اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں جھگڑتے ہو.اگر تم نے مہدی پر ایمان نہیں رکھنا، اگر تم نے غلبہ اسلام کی اس مہم میں شامل نہیں ہونا، اگر تم میں سے کسی نے اُن برکات میں سے حصہ نہیں لینا جن کی بشارتیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہیں تو پھر تمہیں کس نے مجبور کیا ہے کہ جماعت احمدیہ میں رہو.ایسی صورت میں نہ خدا کو تمہاری ضرورت ہے اور نہ خدا کے اس سلسلہ کو کسی کی ضرورت ہے.ہم خدائے واحد و یگانہ پر ایمان رکھتے ہیں خدا اپنے وعدوں کا سچا ہے وہ مہدی کے مشن کو پورا کرے گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اگر ایک قوم چلی جائے گی تو میں اُس کی جگہ ایک اور قوم لے آؤں گا جو میری راہ میں قربانیاں کرنے والی ہوگی.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس زمانے میں اسلام کی تعلیم تمام تعلیموں پر غالب آئے گی اور اس کی حقانیت کا ہر انسان قائل ہو گا.یہ تو ہو کر رہے گا ہم نے تو تھوڑی سی قربانیاں دے کر خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو حاصل کرنا ہے.تم اس کے حصول کی طرف توجہ کیا کرو اور ذرا ذراسی دنیوی باتوں کی طرف توجہ کر کے اپنی عاقبت خراب کرنے کی کوشش نہ کرو.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر رحم کرے گو ایسے لوگ گنتی کے چند ہیں مگر ایک بھی کیوں؟ مجھے اس بیماری میں ایسے لوگوں کی وجہ سے بڑی سخت تکلیف پہنچی اور آج بھی.ٹھیک ہے اس وقت مجھے جوش آ گیا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۳۰ خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۷۵ء اور جوش سے بول رہا ہوں لیکن بڑی کمزوری کی حالت ہے.جب میں گھر سے چلا ہوں تو میری نبض بہت تیز تھی اور ممکن ہے اگر میں ڈاکٹر صاحب سے مشورہ لیتا تو وہ یہی مشورہ دیتے کہ میں نماز جمعہ میں نہ جاؤں لیکن میں نے دل میں یہ عزم کیا تھا کہ آج میں ضرور جاؤں گا اور اپنے دوستوں سے کچھ باتیں کروں گا.خدا تعالیٰ نے میرے اور آپ کے درمیان محبت واخوت کا ایک رشتہ قائم کر رکھا ہے.آپ میں سے کوئی بیمار ہوتا ہے تو آپ کی بیماری میرے لئے باعث تکلیف بن جاتی ہے اور میں آپ کے لئے دعائیں کرتا ہوں اگر مجھے تکلیف ہو تو آپ دعائیں کرتے ہیں اور ظاہری طور پر چھوٹے سے دُکھ میں آپ بھی اسی طرح شریک ہوتے ہیں جس طرح میں اپنے دُکھ میں شریک ہورہا ہوتا ہوں.تو اس لئے میں نے سمجھا کہ اگر مجھ میں تھوڑی سی بھی ہمت ہے تو میں جا کر دوستوں کو مختصراً بیماری کے حالات بتادوں اور ان آیات میں جو بڑا لمبا اور بڑا حسین مضمون بیان ہوا ہے، اس کی طرف توجہ دلا دوں.پس میں نے آپ کو توجہ دلا دی ہے.جن لوگوں کے آپس میں مکانوں اور دکانوں کے کرایہ وغیرہ کے جھگڑے ہیں وہ اگلے جمعہ سے پہلے پہلے ختم ہونے چاہئیں.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے میں اگلا جمعہ بھی پڑھا سکوں اور خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو یہ توفیق دے کہ میں اگلے جمعہ میں یہ اعلان کر سکوں کہ اللہ تعالیٰ نے کمزوروں پر بھی فضل فرمایا اور وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ کے ماتحت میں نے جو نصیحت کی تھی اس پر عمل کرتے ہوئے سارے جھگڑے ختم ہو گئے اور ہم پھر بنیان مرصوص بن گئے ہیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.بیماری میں زیادہ لیٹے رہنے سے میرے گھٹنوں میں پھر کچھ سختی آگئی تھی جو بہت حد تک دور ہو چکی ہے میرے خیال میں دو چار دن اور ورزش کرنے سے یہ بھی ٹھیک ہو جائے گی اس وقت خود نماز نہ پڑھا سکوں گا آپ کے ساتھ مل کر نماز پڑھوں گا.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ششم ۱۳۱ خطبه جمعه ۸ /اگست ۱۹۷۵ ء پاکستان اور اہل پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے دعائیں کرنے کی تلقین خطبه جمعه فرموده ۸ را گست ۱۹۷۵ء بمقام مسجد فضل - لندن (خلاصه خطبه ) ۱۷۸اگست بروز جمعۃ المبارک سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد فضل لندن میں تشریف لا کر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.نہ صرف یہ کہ مسجد فضل لندن نمازیوں سے پوری طرح بھری ہوئی تھی بلکہ مسجد سے ملحق وسیع و عریض محمود ہال میں بھی خاصی تعداد میں احباب بیٹھے ہوئے تھے.مستورات ان کے علاوہ تھیں جن کے لئے محمود ہال میں علیحدہ جگہ مقررتھی.خطبہ جمعہ میں حضور انور نے احباب جماعت کو خاص طور پر تین دعاؤں کی تحریک فرمائی.اول تو حضور نے اپنی موجودہ علالت اس میں اتار چڑھاؤ کی کیفیت اور اس دوران اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے ظاہر ہونے والے ایمان افروز نشانات کا ذکر کر کے احباب جماعت کو حضور کی صحت کاملہ عاجلہ کے لئے دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی.دوسرے حضور نے پاکستان اور اہل پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی.اس ضمن میں حضور نے فرمایا اس وقت ہمارے ملک پاکستان کو بھی ہماری دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بعض الہامات کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ
خطبات ناصر جلد ششم ۱۳۲ خطبه جمعه ۸ /اگست ۱۹۷۵ء پاکستان کے لئے دعائیں کرنا ہماری ذمہ داری ہے.پس پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ پاکستان اور اہل پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے دعائیں کریں.تیسرے حضور نے تمام بنی نوع انسان کے لئے دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا کہ ہماری جماعتی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ دنیا میں توحید خالص قائم کی جائے اور نوع انسان کے دلوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پیدا کی جائے.یہ غرض نوع انسان کے ساتھ سچی ہمدردی کئے اور ان کے لئے دعائیں کئے بغیر پوری نہیں ہو سکتی.اس لئے احباب جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے دعائیں کریں.حضور نے احباب جماعت کو تحریک فرمائی کہ وہ خاص توجہ، انہماک اور التزام سے یہ تینوں دعائیں کریں.طویل سفر کے دوران کرسی پر مسلسل بیٹھے رہنے کی وجہ سے حضور انور کے گھٹنوں کے اعصاب میں پھر کسی قدر سختی آگئی ہے اس لئے حضور نے خطبہ ارشادفرمانے کے بعد مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد لندن کو نماز جمعہ پڑھانے کی ہدایت فرمائی ، خود محراب میں ایک کرسی پر بیٹھ کر با جماعت نماز ادا کی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۵ اگست ۱۹۷۵ء صفحه ۱)
خطبات ناصر جلد ششم ۱۳۳ خطبه جمعه ۱۵ راگست ۱۹۷۵ ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور غلبہ حق سے متعلق بعض اہم امور خطبه جمعه فرموده ۱۵ را گست بمقام مسجد فضل - لندن (خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں :.وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِه أُولَبِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ - لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذُلِكَ جَزْوُا الْمُحْسِنِينَ - لِيُكَفِّرَ اللهُ عَنْهُمْ أَسْوَا الَّذِي عَمِلُوا وَ يَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمُ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ - أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ وَ يُخَوَفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ - وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُّضِلَّ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزِ ذِى انتقام - (الزمر : ۳۴ تا ۳۸) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی نہایت لطیف تفسیر کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور غلبہ حق سے متعلق بعض نہایت اہم امور ذہن نشین کرائے گئے ہیں جو علی الترتیب یہ ہیں.(۱) جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے سچی تعلیم لائے اور وہ شخص جو ایسی تعلیم کی تصدیق کرے ایسے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۳۴ خطبه جمعه ۱۵ راگست ۱۹۷۵ ء لوگ متقی ہونے کے باعث خدا تعالی کی پناہ میں ہوتے ہیں.(۲) ایسے لوگ جو کچھ چاہیں گے انہیں وہ سب کچھ اپنے رب کی جناب سے ملے گا اور وہ چاہیں گے یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے برے پہلوؤں کو ڈھانک دے اور ان کا بدلہ بھی ان کے اعمال میں سے جو سب سے اچھے اعمال ہوں ان کے مطابق انہیں دے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے سے چھوٹے اچھے عمل کی جزا بھی ان کے سب سے بڑے اور سب سے اچھے عمل کی جزا کے مطابق دے گا.(۳) ظاہر ہے ایسا رحمن و رحیم اور ارحم الراحمین خدا جو سب دینے والوں سے بڑھ کر دینے والا ہے اپنے بندوں کے لئے کافی ہے.اسلئے انہیں ہر طرف سے منہ موڑ کر اسی پر توکل کرنا چاہئے اور صحیح معنوں میں اُسی کا ہوکر رہنا چاہیے.(۴) باقی رہے خدا تعالیٰ کے علاوہ دوسرے وجود جن سے بالعموم ڈرایا اور جن کا خوف دلایا جاتا ہے ان کا حلقہ اقتدار بہت محدود اور عارضی ہے.ان سے کوئی توقع رکھنا اور ان پر بھروسہ کرنا محض بے کار ہے ، خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں انہیں کوئی قدرت اور طاقت حاصل نہیں ہے تھوڑا بہت اقتدار رکھنے کے باوجود وہ خود محتاج ہیں، وہ کسی کو کیا دے سکتے اور کسی کی کیا مدد کر سکتے ہیں، اجر بے حساب کا دینے والا صرف خدا ہے جو ہر شے کا خالق و مالک اور قادر مطلق ہے.(۵) جس کو اللہ تعالی گمراہ قرار دے دنیا کی کوئی طاقت یا فتویٰ اسے ہدایت یافتہ نہیں بنا سکتا.اسی طرح جو خدا کی نگاہ میں ہدایت یافتہ ہے دنیا کی کوئی طاقت یا کوئی فتویٰ اسے ہدایت سے محروم نہیں کر سکتا اور نہ دنیا کی کوئی طاقت یا فتویٰ ایسے ہدایت یافتہ کو افضال و انعامات کا وارث بنانے سے خدا تعالیٰ کو باز رکھ سکتا ہے.دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کی بھی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو اس بات سے روک دے کہ وہ اپنے ہدایت یافتہ بندوں سے پیار نہ کرے اور انہیں اپنے افضال وانعامات کا مورد نہ بنائے.(1) اللہ تعالیٰ غالب ہے اور بدلہ لینے پر قادر ہے.اس لئے وہ اپنے ہدایت یافتہ حقیقی بندوں کو اپنی تائید و نصرت کا مورد بنا کر ان کے ذریعہ حق کو غلبہ عطا کرتا ہے.برخلاف اس کے وہ
خطبات ناصر جلد ششم اله خطبه جمعه ۱۵ /اگست ۱۹۷۵ء اطاعت سے نکلنے والوں، نافرمانوں اور ظلم کو اپنا شیوہ بنانے والوں پر اپنا قہر نازل کرتا ہے.غلبہ حق سے متعلق ان امور کو بعض نہایت لطیف اور عام فہم مثالوں سے واضح فرمانے کے بعد حضور نے بتایا کہ ان آیات میں جس سچی تعلیم اور اس کو لانے والے وجو د باجود کا ذکر کیا گیا ہے.اس سے مراد قرآن مجید کی سچی اور تا ابد قائم رہنے والی ہر لحاظ سے کامل ومکمل تعلیم ہے اور ظاہر ہے کہ اس کو لانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور جہاں تک اس کامل و مکمل اور تا قیامت قائم و دائم رہنے والی تعلیم کی تصدیق کا تعلق ہے تو اس سے مراد محض زبانی تصدیق ہی نہیں ہے بلکہ عربی لغت اور قرآنی محاورہ کی رُو سے تصدیق کے معنے اس تعلیم پر صدق دل سے مخلصانہ عمل کرنے کے بھی ہیں.اس میں زبانی تصدیق اور عملی تصدیق دونوں شامل ہیں.چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری زمانہ میں احیاء وغلبہ اسلام کی غرض سے مہدی علیہ السلام کے مبعوث ہونے کی بشارت دی تو اس میں آپ نے یہی بتایا تھا کہ آنے والا مہدی قرآنی تعلیم کی دلائل و براہین کے ذریعہ زبان سے ہی تصدیق نہیں کرے گا بلکہ اپنے عمل اور اس عمل کے نتیجہ کے طور پر معرض وجود میں آنے والے اپنے رفیع الشان مقام کے ذریعہ بھی اس کی صداقت کو دنیا پر آشکار کر دکھائے گا.اس موقع پر حضور ایدہ اللہ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پر معارف تحریرات پڑھ کر سنائیں اور اس طرح ثابت فرمایا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک طرف تو قرآنی تعلیم کی صداقت اور اس کی لازوال عظمت وفضیلت کو نہایت محکم دلائل کے ساتھ دنیا پر آشکار فرما یا اور دوسری طرف اس بے مثال ولا زوال تعلیم کی عملی تصدیق کے طور پر دنیا کے سامنے اپنے وجود کو پیش کیا کیونکہ آپ قرآن مجید کی تعلیم پر کما حقہ عمل پیرا ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل پیروی اور اتباع میں اپنے اوپر فنا وارد کرنے کے نتیجہ میں ہی تعلق باللہ کے نہایت بلند مقام پر فائز کئے گئے تھے اور اس طرح آپ کے وجود نے اسلام کی صداقت و حقانیت کے زندہ اور درخشندہ و تابندہ ثبوت کی حیثیت حاصل کر لی تھی.آخر میں حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۳۶ خطبه جمعه ۱۵ راگست ۱۹۷۵ء متبعین کی حیثیت سے بنی نوع انسان کے دلوں کو جیتنا اور انہیں اسلام کا والہ وشید ا بنانا ہے تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اس کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم اسلام کی محض زبان سے ہی تصدیق کرنے والے نہ ہوں بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کی تصدیق کرنے والے بہنیں یعنی ہم اپنے وجودوں اور اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیم کا عملی نمونہ پیش کرنے والے ہوں.بحیثیت احمدی یہ ہے ہمارا مقام.ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اس مقام کو پہچانے اور اس پر پورا اترنے کی کوشش کرے تا اسلام جلد از جلد دنیا میں غالب آئے اور حضرت مہدی علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہ تمام و کمال پوری ہو.اس پر معارف خطبہ کے بعد حضور ایدہ اللہ کے ارشاد کی تعمیل میں مکرم امام صاحب مسجد فضل لندن نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.چونکہ حضور کے گھٹنوں میں متعد بہ افاقہ کے باوجود معمولی سی سختی ابھی باقی ہے اس لئے حضور نے کرسی پر بیٹھ کر نمازیں ادا کیں.(روز نامه الفضل ۲۵ / اگست ۱۹۷۵ ء صفحه ۶،۲)
خطبات ناصر جلد ششم ۱۳۷ خطبه جمعه ۲۲ /اگست ۱۹۷۵ء حقیقی اسلام کے علوم و معارف سے آگاہ ہو کر اس کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں خطبه جمعه فرموده ۲۲ را گست ۱۹۷۵ء بمقام مسجد فضل - لندن (خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری زمانہ میں جس مہدی کے ظہور کا مژدہ سنایا تھا وہ مہدی دنیا میں آیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں اس پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی.حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب مہدی علیہ السلام کا دنیا میں ظہور ہوگا تو اس وقت اسلام میں اس قدر بدعات داخل ہو چکی ہوں گی کہ اسلام کا فقط نام باقی رہ جائے گا.چنانچہ جب مہدی علیہ السلام اسلام میں سے ہر قسم کی بدعات نکال کر اسے اس کی اصل اور حقیقی شکل میں پیش کریں گے تو لوگ کہیں گے یہ شخص تو بالکل ایک نئی شریعت پیش کر رہا ہے.سو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مہدی علیہ السلام کو قبول کرنے کی توفیق عطا کر کے حقیقی اسلام پر از سر نو ایمان لانے کی سعادت بخشی ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا ہمیں عرفان عطا کیا گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و جلالت شان کی معرفت ہمیں بخشی گئی ہے اور قرآن مجید کی عظمت ہمارے دلوں میں جاگزیں کر کے اس کی انقلاب انگیز تاثیرات سے ہمیں بہرہ ور کیا گیا ہے اور ہمارا یہ فرض ٹھہرایا گیا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۳۸ خطبه جمعه ۲۲ /اگست ۱۹۷۵ ء ہے کہ ہم حقیقی اسلام کے علوم و معارف اور حقائق ودقائق سے پوری طرح آگاہ ہو کر اس کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں گزشتہ ایک سال سے جو خطبات دے رہا ہوں ان میں سے ایک سلسلۂ خطبات کا مقصد دو باتیں احباب جماعت کے ذہن نشین کرانا ہے.ایک یہ کہ ہم نے اصل اور حقیقی اسلام کو ہی اختیار کرنا ہے، اس پر غور کر کے اس پر عمل پیرا ہونا ہے اور دنیا کے سامنے خود اپنی زندگیوں میں اس کا عملی نمونہ پیش کرنا ہے اور دوسرے یہ کہ اگر ہم اس مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن مجید کی اس بے نظیر تفسیر سے آگاہ ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب و ملفوظات میں بیان فرمائی ہے کیونکہ وہی اصل تفسیر ہے.اس اصل اور بے نظیر تفسیر سے آگاہ ہم اسی صورت میں ہو سکتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نہایت قیمتی اور بیش بہا تصانیف نیز ملفوظات کا نہ صرف مطالعہ کریں بلکہ انہیں ہمیشہ زیر مطالعہ رکھیں اور ان پر غور کرتے رہیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واضح فرمایا کہ اس تفسیر سے آگاہ ہوئے اور اس سے صحیح معنوں میں مستفیض ہوئے بغیر ہمارے لئے بدعات سے یکسر منز ہ حقیقی اور خالص اسلام سے آگاہ ہونا اور اس کی حقیقی معرفت سے بہرہ ور ہو نا ممکن نہیں ہے.اس کے بغیر نہ ہم اللہ تعالیٰ کی بے ہمتا ذات اور اس کی غیر محدود صفات اور ان صفات کے ہر آن جاری رہنے والے جلووں کا عرفان حاصل کر سکتے ہیں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انتہائی ارفع و اعلیٰ شان اور انسانی فہم و ادراک سے بالا مقام کی حقیقی معرفت ہمیں نصیب ہو سکتی ہے نہ قرآنِ مجید کے ختم نہ ہونے والے علوم و معارف اور حقائق و دقائق سے ہم بہرہ ور ہو سکتے ہیں اور نہ اس حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہونے کی ہمیں تو فیق مل سکتی ہے.اس حقیقت کے ایک بین ثبوت اور حضور علیہ الصلواۃ السلام کی بیان فرمودہ بے نظیر تفسیر کے نمونہ کے طو پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے براہین احمدیہ میں سے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ کی حقائق و معارف سے پر نہایت ہی لطیف تفسیر پڑھ کر سنائی اور واضح فرمایا کہ حضور علیہ السلام
خطبات ناصر جلد ششم ۱۳۹ خطبه جمعه ۲۲ /اگست ۱۹۷۵ء نے اس چھوٹی سی آیت میں (جس سے قرآن مجید کی ہر سورۃ شروع ہوتی ہے اور جس سے ہر کام شروع کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ) پوشیدہ حقائق و معارف پر ایسے لطیف اور پر معارف انداز میں روشنی ڈالی ہے کہ انسانی عقل دنگ ہوئے بغیر نہیں رہتی.آخر میں حضور نے فرمایا کہ اگر دیکھا جائے تو حضرت مہدی علیہ السلام کی وساطت سے حقیقی اسلام پر از سر نو ایمان لانے کی توفیق عطا ہونے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی لازوال تڑپ سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے ایک احمدی کا مقام بڑا بلند ہے.اس بلند مقام تک پہنچنا آسان نہیں ہے.اس کی راہ میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں اور مصائب جھیلنے پڑتے ہیں.پس سختیاں برداشت کرو اور اس مقام تک پہنچے بغیر کبھی دم نہ لو اور پھر اپنے اس مقام پر قائم ودائم رہنے کے لئے دعاؤں میں لگے رہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.روزنامه الفضل ربوه ۵ رستمبر ۱۹۷۵ء صفحه ۶،۲)
خطبات ناصر جلد ششم ۱۴۱ خطبه جمعه ۲۹ /اگست ۱۹۷۵ء ہر احمدی بچہ اپنی ذہنی استعداد کی پوری مستعدی کے ساتھ نشوونما کرتا رہے خطبه جمعه فرموده ۲۹ را گست ۱۹۷۵ء بمقام مسجد فضل - لندن (خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج میں دو باتوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.ان میں سے ایک بات تو احمدی طلباء اور طالبات سے متعلق ہے اور دوسری بات کا تعلق صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کی اُس ذمہ داری سے ہے جو انگلستان کی جماعت نے از خود قبول کی ہے.اللہ تعالیٰ اپنی وراء الوراء حکمتوں کے ماتحت قوموں اور افراد کو بے انداز افضال سے نوازتا ہے اُس کے یہ افضال مختلف شکلوں میں نازل ہوتے ہیں اور ان کی مختلف علامتیں ہوتی ہیں کسی قوم کے حق میں اس کی سب سے بڑی عطا نوجوان نسل کے ذہن ہوتے ہیں.اگر دیکھا جائے تو مادی دولت کا انحصار بھی بنیادی طور پر ذہن پر ہوتا ہے اور روحانی رفعتوں کا تعلق بھی بڑی حد تک ذہن رسا سے ہی ہوتا ہے.اس تمہید کے بعد ایک بات تو میں احمدی بچوں سے کہنا چاہتا ہوں اور دوسرے اس تعلق میں جو ذمہ داری نظامِ جماعت پر عائد ہوتی ہے اس کی طرف جماعت کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں..
خطبات ناصر جلد ششم ۱۴۲ خطبه جمعه ۲۹ /اگست ۱۹۷۵ء اس کی وجہ یہ ہے کہ جس بچہ کو اللہ تعالیٰ ذہن رسا عطا کرتا ہے اس کی ذہنی نشو وارتقاء کی ذمہ داری خود اس بچہ پر بھی عائد ہوتی ہے اور نظام جماعت پر بھی.بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ذہین پیدا کرتا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ غفلتوں ، بد عادتوں یا بدصحبتوں کے نتیجہ میں اپنی ذہنی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے.اس طرح وہ ان ترقیات سے محروم رہ جاتے ہیں جو انہیں یقینا مل سکتی تھیں بلکہ وہ جماعت اور قوم کو بھی اس فائدہ سے محروم کر دیتے ہیں جو ان کی خداداد ذہنی صلاحیتوں کی صحیح نشو ونما کی صورت میں اسے پہنچ سکتا تھا.اس لیے ہر احمدی بچے کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ذہنی استعداد کی پوری مستعدی کے ساتھ نشو ونما کرتا رہے.اگر کوئی بچہ ایسا ہے جو اپنی ذہنی استعداد کی نشو نما نہیں کرتا تو وہ اپنے نفس کا بھی گناہ گار ہے اور جماعت کا بھی مجرم ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور احسان ہے کہ وہ احمدی بچوں کو بڑے اچھے ذہن عطا کر رہا ہے.جہاں ہمارے بچے مختلف امتحانات میں اعلیٰ کا میابیاں حاصل کر رہے ہیں وہاں ہماری بچیاں بھی تعلیمی میدان میں پیچھے نہیں ہیں.ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ احمدی بچی بی.ایس.سی کے امتحان میں اول آئی.ویسے اول آنا ایک اعزاز ہونے کے باوجودا تفاقی امر ہوتا ہے.دراصل ہر سال ایک کلاس اور درجہ سے تعلق رکھنے والے تیس چالیس طلباء اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں.ذہنی صلاحیتوں کے لحاظ سے وہ کم و بیش ایک ہی سطح پر ہوتے ہیں.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک لڑکا کسی ایک پرچے میں سب کچھ جاننے کے باوجود کسی نہ کسی وجہ یا کسی وقتی اثر کے ماتحت پورے سوالوں کا جواب لکھ نہیں پاتا جبکہ دوسرالڑ کا سارے سوالوں کا جواب لکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے.وہ جس نے سارے سوالوں کا جواب لکھا تھا اول قرار پاتا ہے جبکہ دوسرا لڑکا اس اعزاز کو حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے لیکن دونوں ذہنی استعداد کے لحاظ سے ہوتے ہیں ایک ہی سطح پر.سو اول آنے کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے جتنی اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ جن بچوں کو اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان کی بہر حال نشو ونما ہونی چاہیے اور ان کی نشوونما کی ذمہ داری خود بچوں پر بھی عائد ہوتی ہے اور جماعت پر بھی.
خطبات ناصر جلد ششم ۱۴۳ خطبه جمعه ۲۹ /اگست ۱۹۷۵ء اگر ہمارے نوجوان طالب علم میٹرک ، ایف.ایس سی ، بی.ایس.سی ، ایم.اے اور ایم.ایس سی وغیرہ امتحانات میں آگے نکلنے کی کوشش کریں تو وہ بازی لے جاسکتے ہیں اور ذہنی نشوونما کے سلسلہ میں ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اسے ادا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں.اگر بعض لڑ کے بازی نہ بھی لے جاسکیں تو ان کی اس کوشش کا یہ نتیجہ تو بہر حال نکلے گا کہ اس طرح ان کی ذہنی استعدادوں اور صلاحیتوں کی نشو و نما ہوتی رہے گی اور وہ جماعت اور قوم و ملک کے لئے مفید وجود بن سکیں گے.اگر ہم بین الا قوامی سطح پر ستر پچھتر فیصد سے او پر نمبر لینے والے دو تین سو بچے پیدا کرنے لگیں تو اس کا بہت اثر ہو سکتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کے بہت اچھے نتائج رونما ہو سکتے ہیں.اس کے لئے ایک تو یہ ضروری ہے کہ احمدی بچے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں دوسرا ضروری امر یہ ہے کہ جماعتی سطح پر اس امر کی کوشش کی جائے کہ کوئی بچہ جسے اللہ تعالیٰ نے ذہنی دولت عطا کی ہے جماعت اس دولت کو ضائع نہیں ہونے دے گی.ایسے بچوں کی ذہنی نشوونما ضروری ہے اور یہ نشو ونما نہیں ہو سکتی جب تک کہ دو طرفہ کوشش بروئے کار نہ لائی جائے.اوّل یہ کہ بچے اپنی ذہنی استعدادوں اور صلاحیتوں کو ضائع کر کے اللہ تعالیٰ کی ناشکری کے مرتکب نہ ہوں اور اس طرح نہ اپنا نقصان کریں نہ جماعت کا نقصان کریں اور نہ اپنے ملک کو نقصان پہنچانے کا موجب بنیں.دوسرے یہ کہ جماعتی سطح پر ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ کوئی ایک ذہن بھی ترقی کرنے سے رہ نہ جائے.انگلستان میں اب ایک بڑی جماعت بن چکی ہے.یہاں کے حالات کے مطابق ایک کمیٹی بن جانی چاہیے جو اس امر کا جائزہ لیتی رہے کہ بچوں کی ذہنی نشو و نما اور ترقی خاطر خواہ طریق پر ہورہی ہے یا نہیں اور اگر نہیں ہو رہی تو کیا اقدامات ضروری ہیں.اگر صحیح خطوط پر کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بچوں کی ذہنی نشوونما کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکے.بہر حال ساری جماعت میری اس نصیحت کو یا در کھے اور عہد کرے کہ کوئی ایک ذہن بھی ضائع نہیں ہوگا نہ بچہ کی اپنی غفلت کی وجہ سے اور نہ جماعت کی غفلت کی وجہ سے.
خطبه جمعه ۲۹ /اگست ۱۹۷۵ء خطبات ناصر جلد ششم ۱۴۴ دوسری بات میں انگلستان کی جماعتہائے احمدیہ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں خوب بڑھ چڑھ کر وعدے لکھوائے.یہ وعدے پندرہ سال میں ادا ہونے ہیں.پہلا سال اس سال مارچ میں ختم ہوا تھا.اُس وقت تک ان وعدہ جات کا پندرھواں حصہ ادا ہو جانا چاہیے تھا.آپ نے جو وعدے لکھوائے ہیں ان کا پندرھواں حصہ ۳۸۹۰۸ پاؤنڈ بنتا ہے.اتنی رقم ہر سال ادا ہونی چاہیے لیکن پہلے سال وصولی ۲۹۴۶۳ پاؤنڈ ہوئی ہے یعنی اصل رقم سے ۹۴۴۵ پاؤنڈ کم وصول ہوئے ہیں.دوسرا سال شروع ہو چکا ہے جو مارچ ۱۹۷۶ء میں ختم ہو گا.اس وقت تک دو سال کی رقم پوری ہونی چاہیے.صد سالہ احمد یہ جو بلی کے منصوبہ کے تحت ہمیں جو کام انجام دینے ہیں ان میں سے بعض کام شروع ہو چکے ہیں.ایک کام یورپ میں پانچ نئے مشن کھولنے سے تعلق رکھتا ہے.یہ مشن انشاء اللہ تعالیٰ سویڈن، ناروے، اٹلی ، فرانس اور سپین میں کھولے جائیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کام کی ابتدا ہو چکی ہے.چنانچہ سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں دس کنال کے قریب زمین مل گئی ہے پر مشن ہاؤس اور مسجد تعمیر ہونے کے انتظامات ہو رہے ہیں.سوگو یا منصوبے کے دوسرے سال ہی یورپ میں ایک نئے مشن کی طرح پڑ گئی ہے.ابھی مزید مشن کھولنے ہیں اور ان کے لئے رقم درکار ہوگی.اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس سے اگلے سال ناروے میں مشن کے قیام کی باری آ جائے گی جس پر پھر علی الترتیب سپین ، اٹلی اور فرانس میں مساجد اور مشن ہاؤس تعمیر کئے جائیں گے.اس ضمن میں میں آپ سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی روایات کو نقصان نہ پہنچا ئیں اور ثواب سے محروم رہنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اپنے وعدے پوری با قاعدگی اور مستعدی سے پورا کر کے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے میں کوشاں رہیں.پس جہاں میں نے پہلی بات احمدی طلباء اور طالبات سے کی ہے وہاں دوسری بات جماعت کے کمانے والے مردوں اور عورتوں سے کی ہے اور وہ یہی ہے کہ وہ ناشکری نہ کریں.خدا تعالیٰ نے انہیں جو مال دیا ہے اس میں سے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں اپنے حصہ کا چندہ ادا کریں اور تمام تر کوشش اس بات کی کریں کہ پانچ ، سات سال
خطبات ناصر جلد ششم ۱۴۵ خطبه جمعه ۲۹ /اگست ۱۹۷۵ء کے اندر یورپ میں پانچ نئے مشن قائم ہو جائیں.خدا تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلنے اور اپنی رضا کے کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) روزنامه الفضل ربوه ۲۰ رستمبر ۱۹۷۵ء صفحه ۸،۱)
خطبات ناصر جلد ششم ۱۴۷ خطبه جمعه ۵/ستمبر ۱۹۷۵ء ایمان باللہ سے متصف ہوکر اپنے قول وفعل سے دعوت الی اللہ کرتے چلے جائیں خطبه جمعه فرموده ۵ ستمبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد فضل - لندن (خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ حم السجدة کی آیت وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ - ( حم السجدة : ۳۴) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس شخص کے قول سے اور کون سا قول بہتر ہے کہ جس نے دعوت الی اللہ کی اور جو اپنے ایمان کے مطابق اعمال صالحہ بجالا یا اور اعلان کیا کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اس کا کامل فرمانبردار ہوں.یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا قول جو دعوت الی اللہ کرتا ہے کس کے نزدیک دوسرے لوگوں کے قول سے بہتر ہے؟ سو ایک تو اس سے مراد خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے قرآن نازل کیا اور دوسرے اس سے مراد اہل بصیرت ہیں کیونکہ اَحْسَنُ کا لفظ ایک تو اس حسن پر بولا جاتا ہے جس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو اور دوسرے یہ لفظ اس حسن کے لئے بھی بولا جاتا ہے جس کا بصیرت سے تعلق ہو.اسی لئے حضرت امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے احْسَنُ قَولاً سے مراد یہ ہوگی کہ اللہ اور اس کے مقربین کے نزدیک اس سے زیادہ اچھا اور کوئی قول
خطبات ناصر جلد ششم ۱۴۸ خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۷۵ء نہیں کہ انسان لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے.اس کے بعد حضور نے یہ واضح فرماتے ہوئے کہ اس آیت کریمہ میں قول سے کیا مراد ہے فرمایا.یہاں قول سے مراد ظاہری الفاظ بھی ہیں، اعتقاد بھی اور اعتقاد کے مطابق کئے جانے والے اعمال بھی کیونکہ قول کا لفظ قرآن کریم میں ظاہری الفاظ اعتقاد اور عمل تینوں پر بولا جاتا ہے.اسی لئے حقیقی مومن وہی کچھ زبان سے کہتا ہے جس پر اس کا پختہ اعتقاد ہوتا ہے اور پھر اس کا عمل بھی اس اعتقاد کے عین مطابق ہوتا ہے اور وہی اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس امر کی پرواہ کئے بغیر کہ دوسرے اسے کیا کہتے ہیں یا کیا نہیں کہتے خود کہے إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ.ایسا قول توجس کے ساتھ نہ اعتقاد ہو اور نہ عمل منافق کا قول ہوتا ہے جو کسی لحاظ سے بھی قابل التفات نہیں ہوتا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قول بے عمل کا کھوکھلا پن ظاہر کرنے کے لئے منافقوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے وَ اِذَا جَاءُوكَ حَيْرُكَ بِمَا لَمْ يُحَيْكَ بِهِ اللَّهُ وَ يَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللهُ بِمَا نَقُولُ - (المجادلة: 9) یعنی اے رسول ! جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ایسے لفظوں سے دعا دیتے ہیں جن میں خدا نے دعا نہیں دی.مراد یہ کہ دعا میں بناوٹ کے طور پر مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور پھر اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ کیوں اللہ ہمارے منافقانہ قول کی وجہ سے ہمیں عذاب نہیں دیتا.اسی لئے قرآنی محاورہ کی رُو سے قول احسن وہی قول ہوگا جس میں ظاہری الفاظ صحیح عقیدہ اور عمل تینوں شامل ہوں.یہ معنے امام راغب نے مفردات میں کئے ہیں اور استدلال انہوں نے قرآن مجید کی اس آیت سے کیا ہے الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ (البقرة : ۱۵۷) انہوں نے اس آیت سے استدلال کر کے قول احسن میں اقرار، اعتقاد، اور عمل تینوں کو شامل کیا ہے.قول احسن کے معنے بالوضاحت بیان کرنے کے بعد حضور نے دعا إلی اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرما یا قولِ احسن کے ان معانی کی رو سے دعا الی اللہ کے معنے ہوں گے خود قولی ، اعتقادی اور عملی لحاظ سے ایمان باللہ سے متصف ہو کر دوسروں کو خدا کی طرف بلانا، یعنی انہیں اس امر کی دعوت کرنا کہ وہ صحیح اعتقاد پر قائم ہو کر اعمال صالحہ بجالا ئمیں اور اس طرح اس کی ناراضگی سے بچیں
خطبات ناصر جلد ششم ۱۴۹ خطبہ جمعہ ۵ ستمبر ۱۹۷۵ء اور اس کے پیار کو حاصل کرنے والے بنیں.یہ ہے دعوت الی اللہ اور جو شخص بھی قولی ، اعتقادی اور عملی لحاظ سے خود ایمان باللہ سے متصف ہو کر دوسروں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے وہ اس بات کا حق رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور یہ عرض کر سکے کہ اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ایمان باللہ پر خود قائم ہو کر دوسروں کو ایمان باللہ کی دعوت دینے کی اہمیت و عظمت واضح کرنے کے بعد حضور نے اللہ تعالیٰ کی غیر محدود صفات میں سے بعض ایسی صفات کا ذکر فرمایا جن کا تعلق اس کی اپنی ذات سے ہے نیز اس صفت کا ذکر فرمایا کہ وہ دعاؤں کو سننے والا ہے.چنانچہ اس ضمن میں حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق جو بات اس وقت میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں قبول کرتا ہے، سورۃ المؤمن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُدْعُونِي اسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱ ) ( مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا ) اسی طرح سورۃ البقرۃ میں اس نے فرما یا أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة: ۱۸۷) ( جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں) لیکن دعا کی قبولیت کے بارہ میں یہ امر یا درکھنا چاہیے کہ جب دعا اس کی تمام شرائط کے ساتھ کی جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی تمام حکمتوں کے ساتھ اسے قبول کرتا ہے.یعنی ضروری نہیں کہ دعا اسی طرح قبول ہوجس طرح بندہ مانگتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ اس کی دعا کو اس شکل میں قبول کرتا ہے جو دعا کرنے والے کے حق میں بہتر ہو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دعا کرنے والے کے حق میں کیا بہتر ہے اور کیا بہتر نہیں ہے.پس دعا قبول ضرور ہوتی ہے لیکن ہوتی اس شکل میں ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں دعا کرنے والے کے لئے بہتر ہو نہ کہ اس شکل میں جس میں بندہ اپنی نادانی سے اس کے پورا ہونے کی خواہش رکھتا ہے.پھر سورۃ النمل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ (النمل: ۶۳) یعنی بتاؤ کون کسی بے کس کی دعا کو سنتا ہے جب وہ خدا سے دعا کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے.ویکشف السوء میں اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب بشارت دی ہے اور وہ یہ کہ تم دعا کرتے چلے جاؤ ایک دن وہ ضرور قبول ہوگی.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان مضطر ہونے کی حالت میں دعا مانگے اور وہ قبول نہ ہو.مضطر کی دعا کی قبولیت ایک نہ ایک
خطبات ناصر جلد ششم ۱۵۰ خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۷۵ء دن ظاہر ہو کر رہتی ہے یعنی اس کی تکلیف بہر حال دور کر دی جاتی ہے.پس السوء کا دعاؤں کے نتیجہ میں دور کیا جانا مومنوں کے دل کا مستقل سہارا ہے.اسی ضمن میں اس امر کو واضح کرتے ہوئے کہ بعض دعائیں ایسی ہوتی ہیں جن کا ایک لمبا زمانہ گزرنے کے بعد پورا ہونا مقدر ہوتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مومنوں کی جماعت نسلاً بعد نسل دعائیں کرتی چلی جائے.حضور نے فرما یا ایسی ہی دعاؤں میں سے ایک دعا تمام بنی نوع انسان کے امتِ واحدہ بننے سے تعلق رکھتی ہے.چنانچہ تیرہ سو سال سے امت مسلمہ اس کے لئے دعائیں کرتی چلی آرہی تھی.آخر حسب وعدہ الہی بعثت مسیح موعود کا زمانہ آ گیا جس میں اس دعا کا پورا ہونا مقدر تھا.میں اور آپ خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود کو شناخت کرنے اور قبول کرنے کی توفیق ملی ہے اور ہمیں تمام بنی نوع انسان کے دل جیت کر انہیں امت واحدہ بنانے کی غرض سے قربانیاں پیش کرنے کے مواقع حاصل ہیں.ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دنیا کو اللہ کی طرف دعوت دیتے چلے جائیں اور ایسے نہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں ہم عرض کر سکیں اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ - اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت دی ہے کہ اسلام تمہارے ذریعہ سے نوع انسانی کے دل جیتے گا اور دنیا پر غالب آکر انہیں اُمتِ واحدہ میں تبدیل کر دکھائے گا.رہیں اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات سو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ اعلان کیا ہے کہ تمہاری دعائیں قبول کی جائیں گی اور اس کے نتیجہ میں تم وَيَكْشِفُ السُّوءَ کا نظارہ دیکھتے چلے جاؤ گے.ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دعائیں کرتے چلیں جائیں اور دعوت الی اللہ اور إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ کی رُو سے اس امر کا ثبوت دیتے چلے جائیں کہ صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار ہیں، اپنے وعدے کے مطابق تکالیف اللہ تعالیٰ خود دور کرتا چلا جائے گا.ہمارے ذریعہ سے تمام بنی نوع انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوں گے لیکن اس کے لئے ہمیں تو گل کے اعلیٰ مقام پر قائم ہو کر قربانیاں دینی ہوں گی اور دعائیں کرنا پڑیں گی.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں وہ الگ ہو جا ئیں خدا انہیں خود جماعت سے کاٹ دے گا.بچے گا وہی جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن کو تھامے گا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۵۱ خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۷۵ء اور آپ کو ملنے والی بشارتوں اور وعدوں پر زندہ ایمان رکھتے ہوئے دنیا میں غلبہ اسلام کے لئے انشراح صدر کے ساتھ قربانیاں پیش کر کے اپنے آپ کو خدائی افضال و انعامات کا مورد بنائے گا.آخر میں حضور نے اس امر کا ذکر کرتے ہوئے کہ قیام سلسلہ کی اگلی صدی جس کے شروع ہونے میں پندرہ سال باقی رہ گئے ہیں غلبہ اسلام کی صدی ہے.فرمایا یہ پندرہ سال تیاری اور قربانی کے سال ہیں.خدا نے آپ پر بڑا فضل کیا ہے کہ اس نے نئی صدی شروع ہونے سے پہلے آپ کو قر بانیوں کا موقع دیا ہے.اس وقت ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اور وہ ذمہ داری یہی ہے کہ ہم خود حقیقی ایمان باللہ سے متصف ہو کر نہ صرف اپنے قول سے بلکہ اپنے فعل سے بھی دعوت الی اللہ کرتے چلے جائیں تا کہ بنی نوع انسان امت واحدہ کی شکل اختیار کر سکیں.خدا تعالیٰ نے خود یہ اعلان کر دیا ہے کہ میرے اور میرے مقربین کے نزدیک سب سے اچھا اور سب سے پیارا قول واعلان یہ ہے کہ انسان خود کہے إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ خدا تعالیٰ نے اس بات کو سب سے اچھا اور سب سے پیارا اعلان نہیں کہا کہ ایک شخص دوسرے کے بارہ میں کہے کہ وہ کیا ہے بلکہ پیارا اعلان اس امر کو ہی قرار دیا ہے کہ ایک شخص خود یہ کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار ہوں اور پھر اس کا قول اور فعل اس بات کی گواہی دے کہ واقعی وہ اللہ تعالیٰ کے فرماں برداروں میں شامل ہے.پس دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر بنی نوع انسان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے قربانیاں کرتے اور دعاؤں سے کام لیتے چلے جاؤ اور صرف وہی ہتھیار کام میں لاؤ جو خدا نے تمہیں عطا کئے ہیں.ہمیں دلائل قاطعہ کا ہتھیار دیا گیا ہے، ہمیں دعاؤں کی قبولیت کا ہتھیار دیا گیا ہے.ہمیں آسمانی نشانوں کا ہتھیار دیا گیا ہے.یہ نہایت ہی کارگر ہتھیار ہیں اور ان کے ذریعہ ہی اسلام کا دنیا میں غالب آنا مقدر ہے.پس اس موقع کو غنیمت جانیں قربانیاں کریں اور دعاؤں سے کام لیتے چلے جائیں تا کہ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے تلے جلد تر جمع کر دے.آمین.روز نامه الفضل ربوه ۲۵ رستمبر ۱۹۷۵ ء صفحه ۶،۲)
خطبات ناصر جلد ششم ۱۵۳ خطبہ جمعہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۷۵ء عند اللہ مسلمان وہ ہے جو اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دے خطبه جمعه فرموده ۱۹ رستمبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد فضل.لندن (خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ البقرہ کی حسب ذیل دو آیات کی تلاوت کی :.b b وَقَالُوا لَنْ يَدخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصْرَى تِلْكَ آمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُم صُدِقِينَ - بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(البقرة : ۱۱۲، ۱۱۳) ( ترجمہ ) اور وہ (یعنی یہودی اور مسیحی) کہتے ہیں کہ جنت میں سوائے ان کے جو یہودی ہوں یا مسیحی ہوں ہرگز کوئی داخل نہیں ہوگا.یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں.تو انہیں کہہ دے کہ اگر تم بچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو.بھلا کیوں داخل نہ ہوں گے.جو بھی اپنے آپ کو اللہ کے سپر د کر دے اور وہ نیک کام کرنے والا بھی ہو تو اس کے رب کے ہاں اس کے لئے بدلہ مقرر ہے اور ایسے لوگوں کو نہ کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.پھر حضور انور نے فرمایا:.سورۃ بقرۃ کی ان دو آیات میں جو مضمون بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ بعض لوگ یا بعض فرقے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۵۴ خطبہ جمعہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۷۵ء یہ سمجھتے ہیں کہ جنت کے دروازوں کی چابی ان کے پاس ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ جولوگ ان سے تعلق رکھنے والے ہیں صرف وہی اس تعلق کی بنا پر جنت کے مستحق ہیں اور تمام وہ لوگ جوان سے تعلق نہیں رکھتے محض ان سے تعلق نہ رکھنے کی بنا پر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں ہے.یہ لوگ محض خوش فہمی میں مبتلا ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ جو خلوص نیت کے ساتھ اپنا سارا وجود خدا کے سپر د کر دے یعنی اسی کا ہور ہے اور جو احکام خدا نے دیئے ہیں انہیں پورے اخلاص اور تعہد کے ساتھ بجالائے اور اس طرح نیک اعمال بجالانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے وہ جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے.ان آیات سے صاف عیاں ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو جنت کا مستحق قرار دے.یہ فیصلہ تو خدا نے کرنا ہے کہ كون بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ کا مصداق ہونے کے باعث جنت کا مستحق ہے اور کون خدا تعالیٰ کا نافرمان ہونے کے باعث جہنم کا حقدار ہے.محض نام کی بنا پر کوئی شخص بھی جنت کا مستحق نہیں ٹھہر سکتا.خدا تعالیٰ تو صرف اُس کو ہی جنت کا مستحق قرار دے گا جو اس کے احکام پر چلنے والا ہوگا.اس وضاحت کے بعد حضور نے سورۃ بقرۃ کی ان دو آیات کی اس نہایت ہی پر معارف تفسیر کے بعض اقتباسات پڑھ کر سنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی معرکہ آراء تصنیف آئینہ کمالات اسلام میں رقم فرمائی ہے اور جس کا لب لباب یہ ہے کہ ان آیات کی رُو سے عند اللہ مسلمان وہ ہے جو اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وقف کر دے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دے یعنی اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جائے.لہذا حقیقی طور پر اسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا جب اس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اس کے نفس امارہ کا نقش ہستی مع اس کے تمام جذبات کے یک دفعہ مٹ جائے اور پھر اس موت کے بعد بوجہ حسن للہ ہونے کے نئی زندگی اس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اس میں بجز طاعت خالق اور ہمدردی مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو.
خطبات ناصر جلد ششم ۱۵۵ خطبہ جمعہ ۱۹ ستمبر ۱۹۷۵ء اس کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رقم فرمودہ تفسیر کے وہ حصے پڑھ کر سنائے جو اس وضاحت پر مشتمل ہیں کہ اعتقادی اور عملی طور پر اپنے وجود کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے سے کیا مراد ہے نیز یہ کہ طاعت خالق اور ہمدردی مخلوق کا مطلب کیا ہے اور پھر یہ کہ نفس پر موت وارد کرنے کے بعد محسن اللہ ہونے کے نتیجہ میں انسان جس نئی زندگی سے ہمکنار ہوتا ہے اس کی نوعیت اور کیفیت کیا ہوتی ہے.یہ حقائق و معارف سے لبریز اقتباسات سنانے کے بعد حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی ان دو آیات میں یہ بتایا ہے کہ یہود اور نصاریٰ کا اپنی اپنی جگہ یہ کہنا کہ بجز یہودیوں کے اور کوئی جنت میں نہیں جائے گا یا بجز نصاریٰ کے جنت میں جانے کا اور کوئی مستحق قرار نہیں پائے گا ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس حقیقی مسلمان کو جنت میں جانے کا حقدار قرار دے گا جو اپنے وجود کو اعتقادی اور عملی طور پر خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دکھائے اور جو اس درجہ محسن للہ ہو کہ بجز طاعت خالق اور ہمدردی مخلوق کے اس میں اور کچھ باقی نہ رہے اس کے جنت کا مستحق ہونے کی دلیل یہ ہے کہ فَلَةَ اجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کی رو سے خدا تعالیٰ ایسے حقیقی اور کامل فرمابردار مومن کو اسی دنیا میں جنت عطا کر دیتا ہے.وہ جس حال میں بھی ہو دم نقد بہشت میں ہوتا ہے.پھر وہ اگلے جہان میں بھی اسے جنت عطا کرے گا.سو گویا وہ ایک جنت سے نکل کر دوسری جنت میں داخل ہو جائے گا.حضور نے فرمایا سورۃ بقرۃ کی ان آیات کی رُو سے کسی کے جنت کا مستحق ہونے کا فیصلہ خدا نے کرنا ہے.انسانوں کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ خود اپنے یا کسی اور کے جنت میں جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کریں.جو یہ فیصلہ کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں.اصل چیز تو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف رکھنا ہے جس نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر کے اور محسن اللہ ہو کر اسی دنیا میں جنت حاصل نہیں کی وہ محض رسمی تعلق کی بنا پر اگلے جہان میں جنت میں کیسے چلا جائے گا جائے گا وہی جو بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِن کا مصداق ہوگا اور کون اس کا مصداق ہے اور کون نہیں ہے یہ خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.اس کا فیصلہ اس نے ہی کرنا ہے یہ فیصلہ کرنے کا
خطبات ناصر جلد ششم ܪܩܙ خطبہ جمعہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۷۵ء.اختیار بجز اس کے اور کسی کو حاصل نہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے ایک سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، وہی راستہ جو اسلام کا راستہ ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس پر چل کر اپنے آپ کو ایسا بنا ئیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مومن اور جنت کے مستحق قرار پاتے چلے جائیں.پس ہم اس امر کی پرواہ کئے بغیر کہ دائیں طرف سے آوازیں آرہی ہیں یا بائیں طرف سے آوازیں آرہی ہیں اس راس راستہ پر چلتے چلے جائیں گے.آخر میں حضور نے یہ امر ذہن نشین کرانے کے لئے کہ محض نام کے اعتبار سے مومن یا احمدی کہلانا کچھ کام نہ آئے گا احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرما یا پس یہ دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس گروہ میں شامل کرے اور ہمیشہ شامل رکھے جو بلی " مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ کا مصداق ہے اور اس طرح ہم اس کی نگاہ میں اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی جنت کے مستحق ٹھہریں.حضور کا یہ پر معارف خطبہ نصف گھنٹہ سے کچھ زائد وقت تک جاری رہا جس کے بعد حضور انور نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھا ئیں.اس دفعہ بھی احباب لندن کے مختلف علاقوں سے ہی نہیں بلکہ انگلستان کے دور دراز مقامات سے بھی آئے ہوئے تھے اور نہ صرف مسجد نمازیوں سے پر تھی بلکہ بہت سے احباب کو مسجد سے ملحق محمود ہال میں نماز ادا کرنا پڑی.روزنامه الفضل ربوه ۶ اکتوبر ۱۹۷۵ ء صفحه ۵،۱) ☐☐☐
خطبات ناصر جلد ششم ۱۵۷ خطبه جمعه ۱٫۳ کتوبر ۱۹۷۵ء جماعت احمدیہ کی پہلی صدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے مشابہت رکھتی ہے خطبه جمعه فرموده ۳/اکتوبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد نصرت کو پن ہیگن.ڈنمارک (خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جب سے اس دنیا میں انبیاء علیہم السلام کی بعثت شروع ہوئی دو قسم کے انبیاء آتے رہے ہیں.ایک وہ جو صاحب شریعت اور صاحب حکم ہوا کرتے تھے اور ایک وہ جو کسی شریعت کے تابع ہو کر آتے تھے اور جو بدعات پہلے سے نازل شدہ دین میں پھیلی ہوئی ہوتی تھیں انہیں دور کر کے دین کو اس کی اصلی اور خالص شکل میں از سر نو پیش کرتے تھے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں انبیاء بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے :.إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَةَ فِيهَا هُدًى وَ نُور يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا (المائدة : ۴۵) اس آیت سے ظاہر ہے کہ تو رات بطور شریعت کے نازل تو موسیٰ علیہ السلام پر ہوئی تھی لیکن بعد میں ایسے انبیاء آئے جو خود بھی اس شریعت پر عمل کرتے رہے اور دوسروں سے بھی اس پر عمل کراتے رہے يَحكُم بِهَا النَّبِيُّونَ کا یہی مطلب ہے.حضور نے دونوں قسم کے انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا یہ فرق تو انبیاء علیہ السلام کے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۵۸ خطبه جمعه ۳ اکتوبر ۱۹۷۵ء درمیان اصولی طور پر پایا جاتا ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ہیں سب ایک جیسے.مثال کے طور پر اصولی اختلاف کے باوجود دونوں میں پائی جانے والی یکسانیت اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ دونوں قسم کے انبیاء کی مخالفت ہوئی اور اس قدر شدید مخالفت ہوئی کہ اپنے مشن میں ان کی کامیابی ناممکن نظر آنے لگی.انبیاء بنی اسرائیل میں سے آخری بنی شریعت موسوی پر عمل کرانے والے حضرت عیسی علیہ السلام تھے.ان کی انتہائی شدید مخالفت ہوئی اور انہیں شدید قسم کی تکالیف برداشت کرنا پڑیں حتی کہ ان کے بعض ماننے والوں کو عرصہ دراز تک غاروں میں زندگی بسر کرنا پڑی.یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے مقصد میں ناکام ہو جائیں گے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق انہیں کامیاب کیا.سب سے آخر میں صاحب شریعت نبی خاتم النبین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے.آپ کے ہاتھ میں قرآن کریم کی کامل شریعت تھی جو تا قیامت بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لئے آپ کو عطا کی گئی.آپ کی بھی انتہائی شدید مخالفت ہوئی اور آپ کو بھی اور آپ کے ماننے والوں کو بھی شدید تکالیف اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا.پھر خود امت محمدیہ میں وہ لوگ جو علماء امتى كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَاوِيْلَ کے مصداق تھے.ان میں سے ہر ایک کی خود اُمت محمدیہ نے مخالفت کی.وہ بزرگ ہستیاں جنہوں نے فقہ میں اُمت کی رہبری کی اور جن کے لئے ہم آج بھی دعائیں کرتے ہیں جیسے حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی ، حضرت امام بن جنبل وغیر ہم اپنے اپنے وقت میں انہیں ہر قسم کی تکالیف پہنچائی گئیں اور بعض کو قتل بھی کیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے معاً قبل کی صدی میں نائیجیریا میں حضرت عثمان بن فودی آئے.انہوں نے مجد دہونے کا دعویٰ کیا، بدعات سے دین کو صاف کر کے صحیح اسلام لوگوں تک پہنچایا لیکن ہوا یہ کہ ان پر کفر کا فتویٰ لگا یا گیا اور ان کے خلاف تلوار اٹھائی گئی.انہیں اور ان کے مشن کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی.اس کے با وجود وہ کامیاب ہوئے اور اسلام ان لوگوں میں اپنی اصل شکل میں قائم ہوا.اسی ضمن میں حضور نے مزید فرمایا کہ آخر میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلا کے وجود میں امام مہدی آئے.مہدی کے متعلق قرآن میں پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں.
خطبات ناصر جلد ششم ۱۵۹ خطبه جمعه ۱٫۳ کتوبر ۱۹۷۵ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہدی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام پہنچانے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا جب بھی تم اس کا زمانہ پاؤ اس کے ساتھ شامل ہو جانا کیونکہ اسلام اس کے ذریعہ سے دنیا میں فتح یاب ہوگا اور غالب آئے گا.چونکہ اُمت محمدیہ میں مہدی علیہ السلام سے بڑھ کر اور کوئی پیدا نہیں ہوا اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جس قدر پیار اور آپ کے لئے خدمت وفدائیت کا جو جذ بہ مہدی علیہ السلام میں نظر آتا ہے وہ کسی اور میں نظر نہیں آتا.اور اسی لئے یہ ضروری تھا کہ اُمت محمدیہ میں ظاہر ہونے والے بزرگوں کی جس قدر مخالفت کی گئی تھی اس سے بڑھ کر مخالفت مہدی علیہ السلام کی جاتی.پس مخالفت تو ہوگی اور ضرور ہوگی لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں محبت کے ساتھ ، پیار کے ساتھ اور غایت درجہ ہمدردی اور غمخواری کے ساتھ احمدیت نے اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ترین رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نوع انسان کے دل جیتنے ہیں.اس امر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ پندرہ سال جن کے اوائل میں سے ہم گزر رہے ہیں میرے اندازے کے مطابق غلبہ اسلام کی صدی کے لئے تیاری کے سال ہیں.جماعت احمدیہ کی پہلی صدی (جس کے پورا ہونے میں پندرہ سال رہ گئے ہیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی سے مشابہت رکھتی ہے.مکی زندگی میں مسلمانوں اور اسلام کی مخالفت آہستہ آہستہ بڑھتی ہی چلی گئی تھی.جولوگ اس دور میں خدائے واحد پر ایمان لائے تھے اور جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا انہیں پے در پے تکالیف پہنچائی گئی تھیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا.اسی طرح میرے خیال میں اگلے پندرہ سال میں جو جماعتِ احمدیہ کی پہلی صدی کے اختتام کا زمانہ ہے دنیا ہمیں تکالیف پہنچانے اور مثانے کی کوشش کرے گی لیکن جس طرح مکہ کے ابتدائی مسلمانوں نے بشاشت کے ساتھ تکالیف برداشت کی تھیں حتی کہ ان کے ننگے جسموں کو پتھروں پر گھسیٹا گیا تھا.شعب ابی طالب میں محصور کر کے بھوکا اور پیاسا رہنے پر مجبور کیا گیا تھا پھر بھی صحابہ نے بشاشت کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کیا تھا اسی طرح ہنتے اور مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ ہمیں بھی تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی.جب مکہ میں
خطبات ناصر جلد ششم 17.خطبه جمعه ۳/اکتوبر ۱۹۷۵ء حق پرستوں کے سینوں پر گرم پتھر رکھے جاتے تھے اور نیچے زمین پر بھی آگ کی طرح پتے پتھر ہوتے تھے اس حالت میں بھی ان کے منہ سے یہی آواز نکلتی تھی کہ اللہ احد کہ اللہ ایک ہے.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس یقین سے پر تھے کہ فی الحقیقت خدا ہے وہ اس یقین سے پر تھے کہ ان کا خدا ساری طاقتوں کا مالک ہے، وہ اس یقین سے پر تھے کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دعوے میں صادق ہیں اور خدا کے سچے رسول ہیں، وہ اس یقین سے پر تھے کہ اسلام بہر حال غالب آئے گا اور وہ خودان رحمتوں کے وارث بنیں گے جن کا وعدہ کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مجھ پر ایمان لانے والوں کو صحابہ کے سے انعام ملیں گے لیکن انہیں صحابہ کی سی تکالیف بھی برداشت کرنا پڑیں گی.ہم اس یقین سے لبریز ہیں کہ جو بشارتیں چودہ سوسال سے اس وقت تک دی گئی ہیں اور جو خبر میں بطور بشارت حضرت مہدی موعود علیہ السلام کو ملی ہیں وہ ضرور پوری ہوں گی.حضور ایدہ اللہ نے مزید فرما یا ہماری جماعتی زندگی پر ۸۵ سال گزر چکے ہیں.جس طرح بتایا گیا تھا جماعت احمدیہ کی زندگی اسی طرح Unfold ہوئی ہے.میں دو مثالیں بیان کر دیتا ہوں.ان میں سے ایک پوری ہو چکی ہے اور دوسری کے پورا ہونے میں ہمیں ذرہ بھر بھی شک نہیں ہے.پہلی مثال یہ ہے کہ جس دن لینن اور اس کے ساتھیوں نے سر جوڑ کر انقلاب روس کا منصوبہ بنایا اس سے دو ہفتہ پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار یہ لمبی پیشگوئی ہے اور یہ اس کا صرف ایک حصہ ہے جس میں زار روس اور اس کے اقتدار کے خاتمہ کی خبر دی گئی تھی.ایک دفعہ ایک روسی سائنسدان پاکستان آیا ہم نے اُسے دعوت دے کر ربوہ بلا یا.جب وہ ربوہ آیا تو میں نے اس سے کہا کہ جب تمہارے لیڈر لین کو ابھی پتہ بھی نہ تھا ہمیں معلوم تھا کہ تمہارے ملک میں کیا ہونے والا ہے.میں نے اور بھی پیشگوئیاں اُسے بتا ئیں.وہ سن کر بہت حیران ہوا اور اس نے بڑے تعجب کا اظہار کیا.الغرض یہ ایک زبر دست پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی اور ہم نے اسے پورا ہوتے دیکھا.اس سے بھی زیادہ ایک عظیم پیشگوئی
خطبات ناصر جلد ششم ۱۶۱ خطبه جمعه ۳ اکتوبر ۱۹۷۵ء ہے جو ابھی پوری ہونی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں نے رویا میں روس کے اندر ریت کے ذروں کی طرح احمدی دیکھے ہیں.جو پیشگوئیاں پوری ہو جاتی ہیں وہ دلوں میں یہ یقین پیدا کر جاتی ہیں کہ جو مزید بشارتیں یا خبریں دی گئی ہیں وہ بھی اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی.حضور نے فرما یا یہ تو ایک مثال ہے جو میں نے بیان کی ہے ورنہ پچھلے ۸۵ سال میں ہم نے بے شمار بشارتوں کو پورا ہوتے دیکھا ہے.اس لئے ہر احمدی کا دل اس یقین سے لبریز ہونا چاہیے کہ وہ تمام بشارتیں جو ہمیں دی گئی ہیں وہ اپنے اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی اور اسلام بہر حال دنیا میں غالب آئے گا.ان کے پورا ہونے میں شک کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے.ہمیں بتایا گیا ہے کہ اسلام اس زمانہ میں اپنے نور، اپنے دلائل، اپنے نشانوں کے ذریعہ پیار اور محبت کے ساتھ بنی نوع انسان کے دل جیت لے گا.ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ ایسا ہوگا اور ضرور ہوگا.دنیا کا کوئی منصوبہ، کوئی دکھ ، اور کوئی مصیبت ہمیں یقین کے اس مقام سے ہٹا نہیں سکتی.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی ہم سے پیارکرتار ہے اور اپنی رحمتوں سے ہمیں نوازتا رہے اور ایسے اعمال بجالانے کی ہمیں توفیق دیتا رہے جس سے اس کی رضا کی جنتیں ہمیں حاصل ہوں.حضور انور کا یہ پر معارف اور بصیرت افروز خطبہ نصف گھنٹہ تک جاری رہا خطبہ کے بعد حضور نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۵ ء صفحه ۵،۲)
خطبات ناصر جلد ششم ۱۶۳ خطبه جمعه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۷۵ء مستقبل کو سنوارنے کا طریق یہ ہے کہ اپنے اللہ کو یا در کھو خطبه جمعه فرموده ۱۰ / اکتوبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد فضل - لندن (خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن مجید کی درج ذیل آیات تلاوت کیں :.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ b خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ - وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَانْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ - لَا يَسْتَوِى اَصْحَبُ النَّارِ وَ اَصْحَبُ الْجَنَّةِ - اَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ - (الحشر : ۱۹ تا ۲۱) پھر ان آیات کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:.ان آیات میں ایک مضمون تسلسل سے بیان ہوا ہے.اس وقت میں اس مضمون کی تفصیل میں تو نہیں جاسکوں گا کیونکہ عید کے روز سے مجھے انفلوائنزا کی شکایت ہے ناک ، گلے اور سانس کی نالی میں خراش ہے.نیز اگر چہ بخار تو نہیں ہے سارے جسم میں درد کی تکلیف ہے.پہلی آیت میں یہ بنیادی ہدایت دی گئی ہے کہ تقویٰ اللہ کا تقاضا ہے کہ انسان اس بات پر
خطبات ناصر جلد ششم ۱۶۴ خطبه جمعه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۷۵ء نظر رکھے کہ مستقبل کے لئے وہ کیا کر رہا ہے اس میں شک نہیں کہ انسان کا ماضی سے گہرا تعلق ہے اور ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے.اس کا لحاظ رکھنا، اسے فراموش نہ ہونے دینا بھی ضروری ہے لیکن ماضی سے زیادہ جو چیز انسان سے تعلق رکھتی ہے وہ حال کا زمانہ ہے یاوہ زمانہ ہے جو لمحہ بہ لمحہ مستقبل سے حال میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے.مستقبل کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے کبھی آنا ہی نہ ہو اور وہ ہمیشہ مستقبل ہی رہے.جو چیز مستقبل سے حال میں بدلتی چلی جاتی ہے جب تک وہ حال میں نہ بدلے ہم اسے مستقبل کہتے ہیں مستقبل اپنی ذات میں دائمی حیثیت کا حامل نہیں ہوتا.وہ نہ صرف یہ کہ حال میں تبدیل ہو کر رہتا ہے بلکہ لمحہ بہ لمحہ حال میں تبدیل ہور ہا ہوتا ہے.اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مستقبل ہمارے حال کی تعمیل کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا یہ ہے کہ انسان کو تقویٰ اللہ پر قائم ہو کر مضبوطی سے ایسے مقام پر کھڑا ہونا چاہیے کہ اسے یہ اطمینان حاصل ہو سکے کہ میرا مستقبل جو کچھ بھی ہے جیسے جیسے وہ حال میں تبدیل ہوگا وہ میرے لئے دکھ کا نہیں سکھ کا موجب ہوگا.یہ تو اس زندگی کی کیفیت ہے جو ہم اس دنیا میں گزارتے ہیں.یہاں مستقبل لمحہ بہ لمحہ حال میں تبدیل ہورہا ہوتا ہے اور ہمیں یہ تاکید کی گئی ہے کہ ہم دنیا میں اس طور پر زندگی گزاریں کہ مستقبل حال میں تبدیل ہو کر ہمارے لئے تکلیف کا موجب نہ بنے لیکن ایک نہ ختم ہونے والا زمانہ بھی ہے جو اس زندگی میں حال کی شکل اختیار نہیں کرتا اور وہ ہے اُخروی زندگی کا لامتناہی زمانہ.وہ بھی مستقبل ہی ہے یہ زندگی اُس زندگی کا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دائمی ہے.متقی لوگ اس بات پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ وہ اس زندگی میں اُس مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کرتے رہیں تا کہ جب وہ مرنے کے بعد اُس زندگی میں داخل ہوں تو وہاں انہیں تکلیف نہیں بلکہ راحت میتر آئے اور وہ زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق آرام سے گزرے.یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح اور کس طریق پر ہم مستقبل کو سنوار سکتے ہیں؟ دوسری آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مستقبل کو سنوارنے کا طریق یہ ہے کہ اپنے اللہ کو یا درکھو.جو قو میں یا نسلیں اللہ کو یاد نہیں رکھتیں ، اللہ تعالیٰ ایسے سامان کرتا ہے کہ وہ اپنے نفسوں
خطبات ناصر جلد ششم ۱۶۵ خطبه جمعه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۷۵ء کو بھول جاتی ہیں یعنی اپنی اور اپنی نسلوں کی فلاح پر ان کی نظر نہیں رہتی.جہاں تک خدا تعالیٰ کو بھولنے کا تعلق ہے یہ دو طرح پر ہوتا ہے.ایک بھولنا یہ ہے کہ ایسا شخص خدا تعالیٰ کی عبادت نہ کر کے، اس سے اس کی پناہ نہ مانگ کر ، اس کے قہر اور غضب سے نہ ڈر کر ، اس کی محبت اور اس کے پیار کی قدر نہ جان کر، اس کی صفات کا رنگ اپنے پر نہ چڑھا کر اس سے یکسر غافل ہو جاتا ہے.ایک بھولنا خدا کو یہ ہے کہ اس نے جو احکام انسان کو اس کے اپنے نفس کے متعلق، دوسرے بنی نوع کے متعلق ، معاشرہ کے متعلق اقتصادیات کے متعلق ، سیاست کے متعلق دیئے ہیں انہیں تو وہ نظر انداز کر دیتا ہے اور اپنی چلانے اور من مانی کرنے لگتا ہے.خدا تعالیٰ کو بھولنے کا نتیجہ کیا ہوتا ؟ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے تیسری آیت میں کیا ہے اور بتایا ہے کہ ایسے لوگوں پر خدا کے غضب کی آگ بھڑکتی ہے.وہ اس دنیا میں بھی خسارہ میں رہتے ہیں اور اگلے جہان میں بھی خسارہ ان کے لئے مقدر ہوتا ہے کیونکہ وہاں جہنم ان کا ٹھکانہ ہوگی.برخلاف اس کے جو لوگ تقویٰ اللہ پر قائم ہو کر خدا تعالیٰ کو ہمیشہ یادر کھتے ہیں، اُس کی عبادت بجالاتے ہیں ، اس سے اس کی پناہ طلب کرنے میں شست نہیں ہوتے ، اپنے آپ کو اُس کی صفات کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس کے جملہ احکام بجالا کر دنیوی اور اُخروی فلاح کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں ان کے لئے اس دنیا کو بھی جنت بنا دیا جاتا ہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے جنت مقدر ہوتی ہے.آپ لوگوں پر جو اس ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ آپ یہ سوچتے رہیں کہ کہیں ہم نے اپنی اور اپنی نسلوں کی فلاح کو بھلا تو نہیں دیا.آپ یہاں کے لوگوں اور ان کے معاشرہ کی نقل کر کے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کو ہمیشہ یا درکھ کر ، اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر اٹھا کر اور اس کے جملہ احکام بجالا کر ہی اس کا فضل حاصل کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں عقل اور سمجھ اور فراست عطا کرے تا کہ ہم اُس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق مستقبل کو سنوارنے میں کوشاں رہ کر اُس کا فضل حاصل کر سکیں اور ہمیشہ ہی حاصل کرتے چلے جائیں.
خطبات ناصر جلد ششم ۱۶۶ خطبه جمعه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۷۵ء اس بصیرت افروز خطبہ کے بعد حضور انور نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.اس جمعہ بھی لندن کے مختلف حصوں سے ہی نہیں بلکہ انگلستان کے دور و نزد یک مقامات سے احباب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے اور حضور کے روح پرور ارشادات سے فیضیاب ہونے کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے آئے ہوئے تھے نہ صرف مسجد نمازیوں سے پوری طرح بھری ہوئی تھی بلکہ محمود ہال کا اکثر حصہ بھی نمازیوں سے پر تھا.(روز نامه الفضل ربوه ۴ /نومبر ۱۹۷۵ ء صفحه ۶،۲)
خطبات ناصر جلد ششم ۱۶۷ خطبه جمعه ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۵ء جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صداقت نے کبھی شکست نہیں کھائی خطبه جمعه فرموده ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد فضل.لندن (خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.انفلوائنزا کی تکلیف ابھی دور نہیں ہوئی اور نہ تا حال اس مرض کی کوئی دوا ایجاد ہوئی ہے کسی قدرا فاقہ کے باوجود تکلیف کا احساس اب بھی ہے.آپ کو آپ کے ایک اہم فرض کی طرف توجہ دلانی تھی اس لئے تکلیف کے باوجود یاد دہانی کرانے آ گیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے گوٹن برگ میں جو مسجد بن رہی ہے اس کے اخراجات کا اکثر بار آپ کے کندھوں پر ہے.اس کے لئے انگلستان کی جماعتوں کو ستر اسی ہزار پاؤنڈ اپنے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے وعدوں میں سے ادا کرنے پڑیں گے.اس فنڈ میں آپ نے جو وعدے کئے ہیں ان کے لحاظ سے یہ رقم زیادہ نہیں ہے اور بآسانی ادا ہو سکتی ہے کیونکہ آپ کے وعدوں کی کل مقدار دس لاکھ پاؤنڈ ہے.یہ وعدے قریباً پانچ پانچ لاکھ کے دوحصوں میں منقسم ہیں.اپنے ایک حصہ کے وعدوں میں سے جور تم پہلے دو سال میں آپ نے ادا کرنی ہے وہ اسی ہزار پاؤنڈ ہے یہ دو سال مارچ ۱۹۷۶ء میں پورے ہور ہے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ اسی ہزار پاؤنڈ مارچ ۱۹۷۶ء سے پہلے پہلے ادا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۶۸ خطبه جمعه ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۵ء ہو جانے چاہئیں.مسجد گوٹن برگ کی تعمیر کے لئے جو ر قوم درکار ہوں گی اور جس طرح انہیں خرچ کیا جائے گا اُس کی کسی قدر تفصیل بیان کرتے ہوئے حضور نے فرما یا تعمیر کے سلسلہ میں ٹھیکیدار سے جو معاہدہ ہوا ہے اس کی رُو سے اُس نے مسجد کی تعمیر جولائی ۱۹۷۶ء میں مکمل کرنی ہے.اسے اخراجات کی رقم جولائی ۱۹۷۶ ء تک قسط وار ادا کی جائے گی.اخراجات کا ایک چھوٹا حصہ سیکنڈے نیویا کی جماعتہائے احمد یہ ادا کریں گی کیونکہ وہ ابھی اتنی استطاعت نہیں رکھتیں کہ زیادہ مالی بوجھ برداشت کر سکیں.اسی طرح امریکہ کی جماعتہائے احمد یہ ۲۵ ہزار پاؤنڈ ادا کریں گی.اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اخراجات کا ایک بہت بڑا حصہ آپ ہی کو ادا کرنا ہوگا.اس خیال سے کہ آپ مارچ ۱۹۷۶ء تک اپنے دو سال کا چندہ جو اسی ہزار پاؤنڈ بنتا ہے ادا کرنے میں سستی سے کام نہ لیں اور آپ کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے.میں آج تکلیف کے باوجود خطبہ پڑھنے آ گیا ہوں.صد سالہ جو بلی فنڈ میں آپ کے وعدوں کا دوسرا حصہ جو پہلے حصہ کی طرح قریباً پانچ لاکھ پاؤنڈ پر مشتمل ہے اُس کی ایک لاکھ پچیس ہزار پاؤنڈ کی پہلی قسط کی ادائیگی ۱۹۷۷ء میں ہوگی.اس کے متعلق میں نے سوچا ہے کہ اس سے ناروے میں مسجد تعمیر کی جائے.حضور ایدہ اللہ نے گوٹن برگ کی مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ایک اور اہم کام انجام دینے کا بھی ذکر فرمایا.چنانچہ فرمایا جب آپ اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری ادا کر دیں گے تو پھر انگلستان کے مشن کو جو یورپ میں ایک مرکزی مشن کی حیثیت رکھتا ہے مضبوط کرنے کا کام کیا جائے گا اس سلسلہ میں متعدد منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا ہوگا.حضور نے اس اہم کام کی کسی قدر تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جب انسان اندھیرے میں ہوتا ہے اور اسے مستقبل کا کچھ علم نہیں ہوتا وہ ایسی بات سمجھا دیتا ہے جو بظاہر تو اہم معلوم نہیں دیتی لیکن جب اندھیرا دور ہوتا ہے اور مستقبل حال میں تبدیل ہوتا ہے تو اُس وقت پتہ لگتا ہے کہ ایسا کیوں ضروری تھا.میں نے چند سال بیشتر کہا تھا کہ ہمیں دو تین اعلیٰ درجہ کے پریس مختلف ملکوں میں لگانا ہوں گے تاکہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن مجید کی
خطبات ناصر جلد ششم ۱۶۹ خطبہ جمعہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۵ء طباعت ہو سکے اور ایسے رسالے شائع کئے جاسکیں جو جھوٹے اور بے بنیاد الزامات یا اعتراضات کی تردید یا لوگوں کی غلط فہمیوں کے ازالہ پر مشتمل ہوں.اگر دوسروں کی طرف سے غلط اور جھوٹے اعتراضات نہ کئے جائیں تو ہمیں ایسے رسالے لکھنے اور شائع کرنے کی ضرورت نہیں.ہمارا اصل کام تو دنیا کے سامنے اسلام کی صداقت کو پیش کرنا ہے.ہمارے اور حقیقی اسلام کے خلاف غلط اعتراضات شائع کر کر کے ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم ایسے رسالے بھی لکھیں.دراصل دنیا دو حصوں میں بٹ گئی ہے ایک تو وہ لوگ ہیں جن کا انحصار صداقت پر ہے اور ایک وہ لوگ ہیں جن کا انحصار بہت حد تک جھوٹ پر ہے.جب یہ مؤخر الذکر لوگ جھوٹ پر انحصار کرتے ہوئے ہمارے خلاف سراسر جھوٹی باتیں شائع کرتے ہیں تو پھر ہمیں یہ امر مجبوری ان کی تردید میں رسالے شائع کرنے پڑتے ہیں.ہمیں اس کام میں گھسیٹا جاتا ہے ورنہ ہمارا اصل کام یہ نہیں ہے.ہمارا اصل کام تو براہ راست صداقت کو پیش کرنا ہے.ویسے اس جھوٹے پراپیگنڈے سے ہم قطعاً ہراساں نہیں ہوتے کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صداقت نے کبھی شکست نہیں کھائی.سچ ہی ہمیشہ کامیاب ہوا ہے اور ہمیشہ جھوٹ نے ہی بالآ خر شکست کھائی ہے.ایسے لوگ جو جھوٹی باتیں پھیلاتے اور جھوٹ کی اشاعت کرتے ہیں ان کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ کتا بچے اور رسالے شائع کر کے ان کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور انہیں خدا تعالیٰ کی امان کے نیچے لایا جائے.بہر حال قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت کے لئے دو یا تین پر یسوں کا ہونا از بس ضروری ہے اور بعد کے حالات نے ان کی ضرورت کو اور بھی واضح کر دیا ہے.یورپ میں تبلیغ اسلام کی مہم کو تیز کرنے کے سلسلہ میں بعض اور ضروری اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ نے فرمایا ہم نے پروگرام بنایا ہے کہ آئندہ پندرہ سال میں پانچ نئی مسجد میں یورپ کے مختلف ملکوں میں بنائی جائیں.ایک مسجد اٹلی کے اُس حصہ میں تعمیر کرنے کا ارادہ ہے جو یوگوسلاویہ کے قریب ہے.پھر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا امیچور ریڈیو کلبز (Immature Radio Clubs) کا قیام اور دنیا بھر کے احمد یہ مشنوں میں ٹیلیکس کے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۷۰ خطبہ جمعہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۵ء نظام کا قیام بھی ضروری ہے تاکہ مشنوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ قائم ہو اور ایک دوسرے کو غلبہ اسلام کے ضمن میں ضروری معلومات بہم پہنچائی جاسکیں.اللہ تعالیٰ دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام کی ترقی کے سامان کرتا ہے اور اسے کامیابیاں عطا فرماتا ہے لیکن ان کی خوشخبری دوسرے مشنوں کو بہت دیر سے ملتی ہے.اگر ٹیلیکس کے ذریعہ مشنوں کا با ہم رابطہ قائم ہو تو ایسی اطلاعات انہیں فوری طور پر مل سکتی ہیں اور وہ نزولِ افضال الہی پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر بجالا سکتے ہیں.حضور نے احباب انگلستان کو فی الوقت ان کا سب سے اہم اور مقدم فرض پھر یاد دلاتے ہوئے فرما یا اس وقت نمبر ایک کام آپ کے سامنے یہ ہے کہ آپ نے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں اپنے وعدوں میں سے مارچ یا حدا پریل ۱۹۷۶ء تک پچھتر یا اتنی ہزار پاؤنڈ کی رقم ادا کرنی ہے.گوٹن برگ میں مسجد کی تعمیر شروع کرنے کے لئے وہاں فوری طور پر رقم بھیجنے کی ضرورت ہے.پہلے سے جمع شدہ رقوم میں سے ہیں ہزار پاؤنڈ کی رقم تو اس ہفتہ وہاں بھیج دی جائے گی.مزید ہیں ہزار پاؤنڈ دسمبر میں بھیجنا ہوں گے.اسی طرح وہاں قسط وار رقوم بھجوائی جائیں گی.کنٹریکٹر نے مجھے کہا تھا کہ اخراجات کی کل رقم بنک میں جمع کرا دی جائے تا کہ وہ تعمیر شروع کر سکے.اس پر میں نے اُسے کہا کیا میری زبان ضمانت کے طور پر کافی نہیں ہے؟ رقم کی تم پر واہ نہ کرو وہ حسب ضرورت ساتھ کے ساتھ ہم مہیا کرتے رہیں گے.اس پر اس نے کہا آپ کی زبان میرے لئے کافی ہے مجھے اور کسی ضمانت کی ضرورت نہیں.جب جماعت کا خلیفہ وہاں زبان دے کر آیا ہے تو کیا آپ اس کا پاس نہ کریں گے اور چندوں سے متعلق اپنے وعدے بر وقت پورے نہیں کریں گے؟ (اس پر سب احباب نے جو خطبہ سنے میں ہمہ تن محو تھے یک زبان ہو کر خطبہ کے پیش نظر کسی قدر دھیمے لہجے میں بے ساختہ کہا کہ انشااللہ ضرور پورا کریں گے ).اسی ضمن میں دوسرے اہم کام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا دوسرے نمبر پر خود اس مشن کو وسعت دینے اور اسے اور زیادہ مضبوط بنانے کا کام ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں دن بدن وسعت پیدا کر رہا ہے.جب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے احباب
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۵ء چوہدری صاحب کی صحت و عافیت اور درازی عمر کے لئے دعائیں کریں وہ مالی قربانیوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں ) موجودہ مشن ہاؤس اور اس سے ملحق محمود ہال تعمیر کروانا شروع کیا تو تعمیر کردہ ہال کو اس وقت کی ضرورت سے زیادہ بڑا اور وسیع خیال کیا گیا تھا لیکن چند سال کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو مزید ترقی دے کر ثابت کر دکھایا کہ یہ ہال بھی نا کافی ہے اور اب اس سے بھی بڑے ہال کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت سے ہمیں یہ حکم ہے کہ وَشِعُ مَكَانَكَ یعنی یہ کہ ہم اپنے مکانوں کو وسیع کرتے چلے جائیں.چنانچہ ہم اس خدائی حکم کی تعمیل میں پہلے سے زیادہ وسیع عمارتیں بناتے ہیں لیکن ہر سال ہی جب جلسہ سالا نہ آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی نا کافی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں مخاطب کر کے فرمایا ہے.” میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! بڑا ہی پیارا جملہ ہے جس سے ہمیں مخاطب کیا گیا ہے اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ ہمارے لئے من جانب اللہ سرسبزی وشادابی ہی مقدر ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کا ثبوت دیتا چلا آ رہا ہے.گزشتہ سال جب حالات بظاہر پریشان کن تھے میں نے ایک رات اللہ تعالیٰ کے حضور بہت دعا کی.صبح کے وقت الہام ہوا.وَشِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِینَ.یہ ایک بہت بڑی تسلی تھی جو اُس وقت دی گئی اور ساتھ ہی جماعت کی مزید ترقی کے پیش نظر مکانوں کو وسیع کرنے کا حکم دیا گیا.اس امر کو ایک تازہ مثال سے واضح کرتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کس طرح ہمیں اپنی برکتوں اور کامیابیوں سے نواز رہا ہے حضور نے فرمایا گوٹن برگ میں جب میں نے مسجد کی بنیا د رکھی تو اس سے اگلے روز چودہ یوگوسلاوین دوست بیعت کر کے جماعت احمد یہ میں داخل ہوئے.اس کے بعد جب میں وہاں سے واپس آیا تو کمال یوسف صاحب امام مسجد کو پن ہیگن نے فون پر اطلاع دی کہ سویڈن کے ایک اور شہر میں رہنے والے یوگوسلاوین باشندوں نے گلہ کیا ہے کہ ہمیں تبلیغ کیوں نہیں کی گئی.ہمارے بعض رشتہ دار احمدی ہو چکے ہیں.میں نے کمال یوسف صاحب سے کہا کہ تم فوراً وہاں جاؤ اور اُن سے ملو.چنانچہ امام کمال یوسف مبلغ سویڈن منیر الدین احمد ہمارے یوگوسلاوین بھائی شعیب موسیٰ اور عزت اولی وچ وہاں گئے.اُس روز وہاں ایک ٹورنا منٹ تھا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۷۲ خطبہ جمعہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۵ء اور لوگ وہ ٹورنامنٹ دیکھنے گئے ہوئے تھے.ان کی صرف سات آدمیوں سے ملاقات ہوسکی ساتوں نے بیعت فارم پر کر دیئے اور مزید بیعت فارم بھی لے لئے تا کہ ان کے دوسرے ساتھی بھی فارم پُر کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر سکیں.آخر میں حضور نے فرمایا الغرض یہ دنیا تو عارضی ہے.اصل اور پائیدار زندگی وہ ہے جو مرنے کے بعد شروع ہو گی ہمیں چاہیے کہ اس دنیا میں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اور اس دنیا کے ساتھ ساتھ اخروی جہان کے انعاموں کے وارث بنیں.دوست یہ دعا بھی کریں کہ مجھے فلو سے آرام آجائے اور انسان کو اس کی دوا بھی مل جائے جو ابھی تک دریافت نہیں ہوسکی.اس کے بعد حضور نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھا ئیں.اس طرح لندن کے مقامی احباب ہی نہیں بلکہ انگلستان کے دور و نزدیک مقامات سے آئے ہوئے احباب حضور کے روح پرور ارشادات سے مستفیض ہوئے اور حضور کی اقتداء میں نمازیں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی.روزنامه الفضل ربوه ۵ رنومبر ۱۹۷۵ ء صفحه ۵،۲)
خطبات ناصر جلد ششم ۱۷۳ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء مسجد کا دروازہ ہر موحد کے لئے کھلا ہے خطبه جمعه فرموده ۳۱ اکتوبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوست جانتے ہیں کہ گذشتہ سال نومبر کے آخر سے وقفہ وقفہ کے بعد لمبی بیماریوں کے حملے ہوتے رہے.پہلے ۲۶ نومبر کو انفلوائنزا کا شدید حملہ ہوا اور ۲۶ نومبر سے اس وجہ سے کہ انفلوانزا کے ساتھ بخار بھی بہت تیز تھا ۲۳ دسمبر تک میں بستر میں رہا.پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ۲۳ دسمبر کو میں بیماری سے اُٹھا اور خدا کی دی ہوئی توفیق سے جلسہ سالانہ کی ذمہ داریاں ادا کیں.جلسہ سالانہ کے بعد دوبارہ فلو کا حملہ ہوا اور بہت تیز بخار آنے لگا اور یہ بھی بہت لمبا عرصہ چلا پھر کچھ عرصہ آرام رہنے کے بعد گردے اور مثانہ وغیرہ میں کسی جگہ انفیکشن کی وجہ سے تکلیف ہوئی اور اس کے دو دفعہ حملے ہوئے.دوسری بار تو ایک وقت میں انفیکشن کا اتنا شدید حملہ تھا کہ بخار تھوڑے سے وقت میں ۱۰۵/ ۱۰۶ تک چلا گیا اور رعشہ (انگریزی میں اسے Wriggle ہیں ) اتنا شدید تھا کہ عزیزوں نے بتایا کہ گویا کمرے کی دیواریں ہل رہی تھیں جس کی وجہ سے پھر ہمارے ڈاکٹروں کو تشویش پیدا ہوئی.لاہور سے بھی احمدی ڈاکٹر آتے رہے.دوسرے دوست ڈاکٹر بھی آتے رہے.راولپنڈی سے کرنل محمود بھی کئی بار آئے.اگر چہ بخار کچھ عرصہ کے بعد ٹوٹ گیا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۷۴ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء لیکن انفیکشن بدستور قائم رہی اس لئے مشورہ یہ ہوا کہ میں Check up (چیک آپ ) کے لئے بیرونِ ملک چلا جاؤں.پھر اگست کے شروع میں انگلستان اور یورپ کے بعض ممالک کا دورہ کرنا پڑا لیکن دراصل میں انگلستان چیک آپ کے لئے گیا تھا وہاں گردے وغیرہ کی امراض کے ایک ماہر ڈاکٹر بیڈنوف ہیں، اُن کو دکھایا اُن کے مشورہ سے کچھ ٹیسٹ ہوئے پھر اُن کو دوبارہ دکھایا.ٹیسٹ اور ایکسرے رپورٹ دیکھنے کے بعد اُن کی یہ رائے تھی کہ گردے دُرست کام کر رہے ہیں اور جو نالیاں گردوں سے مثانہ تک جاتی ہیں اُن میں بھی کوئی تکلیف نہیں.مثانہ بھی ٹھیک کام کر رہا ہے ویسے تھوڑی انفیکشن ہو جاتی ہے.وہ تو ہے لیکن پراسٹیٹ وغیرہ کی کوئی چیز نہ ایکسرے میں نظر آئی اور نہ ویسے ایگزامینیشن میں.وہاں ذیا بیطس کے جو بہت بڑے ماہر ڈاکٹر ہیں اُن کو بھی دکھایا.ذیا بیطس کی بیماری پہلی دفعہ ۱۹۶۷ء میں ایکیوٹ (Acute) شکل میں آئی تھی.کراچی میں کمانڈر شوکت جو احمدی تو نہیں ہیں لیکن بڑے ماہر ہیں اور اچھے پیار سے دیکھنے والے طبیب ہیں.انہوں نے بڑے پیار سے ٹیسٹ لئے ، معائنے کئے اور وہ اُس وقت اس نتیجہ پر پہنچے کہ ذیا بیطس اپنی بیماری کی شکل میں یعنی Chronic ( کرانک ) شکل میں آگئی ہے.میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر ذیا بیطس بیماری کی شکل میں آ جائے تب بھی اس میں اپنے رب پر کوئی گلہ نہیں لیکن میرے اندر سے یہ آواز آرہی ہے کہ یہ بیماری عارضی ہے.کر انک شکل میں کہ جس میں ذیا بیطس بیماری سمجھی جاتی ہے اس شکل میں نہیں اس لئے آپ مجھے ابھی دوائی نہ دیں، پر ہیز بتا دیں چند دن تک دیکھیں اگر میرے اندر کی آواز درست ہے تو بغیر دوائی کے فرق پڑ جائے گا.خیر انہوں نے میری بات مان لی.غالباً آٹھ دس ہفتے کراچی میں قیام رہا.اس عرصہ میں بغیر دوائی کے شکر اپنے معمول کے مطابق یعنی جتنی مقدار میں ہر انسان کے جسم میں ہونی چاہیے اور یہ بڑی ضروری چیز ہے اُس معیار پر آگئی.جہاں تک پر ہیز کا تعلق ہے میں اس کا بڑا خیال رکھتا ہوں لیکن ایک دن مجھے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں میٹھا کھاؤں.کمانڈر شوکت نے میٹھا کھانا چھڑوا یا ہوا تھا میں نے آم ایک طرف سے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۷۵ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء کا ٹا اور پھر اس کے دوٹکڑے کئے اور پھر ایک چھوٹی سی قاش کھائی مگر اُن کو نہیں بتا یا.پھر اگلے دن خواہش پیدا ہوئی تو میں نے دو قاشیں کھا لیں اُن دنوں چونکہ قارورے کا روزانہ ٹیسٹ ہو رہا تھا اور دو دن چھوڑ کر ہر تیسرے روز خون کا ٹیسٹ ہو رہا تھا میں نے خیال کیا کہ اگر آم کی مٹھاس نے مجھے تکلیف پہنچائی تو ظاہر ہو جائے گی لیکن وہ نہ قارورے کے ٹیسٹ میں ظاہر ہوئی اور نہ خون کے ٹیسٹ میں ظاہر ہوئی.پھر میں نے خود ہی اُن کو بتایا کہ اس طرح مجھے خواہش پیدا ہوئی تھی اور میں نے آم کھا لیا تھا.وہ مجھے کہنے لگے کہ تم کھانے کے معاملے میں اتنا پر ہیز کرتے ہو کہ اس سلسلہ میں مجھے کوئی فکر نہیں جو دل کرے کھا لیا کرو.اُنہوں نے میرے کھانے کا باقاعدہ ایک چارٹ بنا دیا تھا مثلاً آٹا ہے دو پہر کے وقت دو چھٹانک آٹے کی روٹی تجویز کی تھی اور رات کو ایک چھٹانک آٹے کی روٹی سے زیادہ کھانا منع کیا تھا.میں نے کہا پر ہیز کرنا ہے تو پھر ٹھیک طرح کیا جائے.میں نے ایک بزرگ سے کہا کہ باروچی خانے میں اپنے سامنے آٹا تول کر دیں اُنہوں نے بٹے منگوائے ، تکڑی منگوائی اور دو چھٹانک یعنی چار اونس آٹا تلوا کر اپنے سامنے باور چی سے گند وایا.ہمارا اپنا باور چی ساتھ گیا ہوا تھا اس سے کہا کہ تم معمول کے مطابق جس قسم کی چپاتیاں تیار کرتے ہو اسی قسم کی پتلی سی چپاتیاں تیار کر و.تو جب چپاتیاں بنیں تو وہ بنیں چار، جب کہ میرا معمول دو چپاتیاں کھانے کا تھا یعنی ایک چھٹانک آٹا.جب مجھے ڈاکٹر صاحب ملے تو میں نے کہا کہ مجھے ایک چھٹانک آٹے کی غذائیت کسی اور چیز سے دیں کیونکہ آپ کے حساب سے تو میرا کھانا کم ہو گیا.بہر حال ۱۹۶۷ ء سے ورزش، کام اور کھانے کا پر ہیز میرے نظام شکر کو معمول کے مطابق یعنی کنٹرول میں رکھتا ہے مگر پچھلے سال جب اتنا لمبا عرصہ بیماری رہی اور لیٹنا پڑا.بیماری کے چار بڑے لمبے لمبے حملے ہوئے دو فلو کے اور دو انفیکشن کے جن کی وجہ سے مہینوں مجھے بستر میں رہنا پڑا تو اس قسم کا کام مثلاً میں او پر دفتر میں جاتا ہوں، کام کرتا ہوں دوست ملتے ہیں اُن سے باتیں ہوتی ہیں اس سے بھی آدمی کی طاقت خرچ ہوتی ہے اور Calories ( کیلوریز ) burn ہورہی ہوتی ہیں وہ کام چھٹ گیا جو ضروری کام کیا وہ بھی لیٹے لیٹے کیا.جو کام کے ساتھ ورزش والا حصہ تھا
خطبات ناصر جلد ششم 124 خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء علاوہ کام کے نتیجہ میں کیلوریز Burn ہوتی ہیں اس کے علاوہ بھی ورزش ہوتی ہے ادھر اُدھر پھرنے سے یا مثلاً سیر کرنا ہے یہ بھی ختم ہو گیا.میں سائیکل چلاتا ہوں ، ورزش کرنے والا کھڑ ا سائیکل ہے اسے چار میل چلاتا ہوں یہ ورزش بھی چھٹ گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شکر جس وجہ سے پہلے معمول کے دائرہ کے اندر تھی وہ وجہ نہ رہی تو وہ اپنی حدود سے باہر نکل گئی.ہوسکتا ہے یہ سب شرارت اسی وجہ سے ہو یعنی جو شکرا اپنی حدود سے باہر نکلی تو اس نے اور بھی شرارتیں کی ہوں.شکر کنٹرول نہیں ہوتی یہ تو عام بات ہے.بہر حال لندن میں جب ڈاکٹروں کو دکھایا تو انہوں نے کہا کہ انفیکشن دور کرنے کی جو دوائیں دی جاتی رہی ہیں وہی ٹھیک ہیں لیکن وہاں کے جو کلینک ہیں ان کا اب یہ حال ہے کہ ساری دنیا کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لندن کے کلینکس میں بہت اچھے ٹیسٹ ہوتے ہیں لہذا وہاں جانا چاہیے چنانچہ بحرین، ابوظہبی اور کویت اور دوسرے عرب ممالک کو بھی شوق پیدا ہوا ہے.اب گرمیوں میں ایک ایک ملک کے پندرہ پندرہ ، میں بیس ہزار آدمی وہاں پہنچے ہوئے تھے.پیسہ خدا نے ان کو بہت دے دیا ہے اس لئے ان میں سے ہزاروں آدمی اپنا چیک اپ بھی کرواتے ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا کام بہت بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے ان کا معیار بھی اسی نسبت سے کم ہو گیا ہے چنانچہ وہاں ایک جگہ قارورہ ٹیسٹ کے لئے جاتا تھا تو کہتے تھے قارورہ میں کوئی انفیکشن نہیں ہے دوسری جگہ قارورہ جاتا تھا تو کہتے تھے کہ قارورے میں بہت زیادہ الفہ ادہ انفیکشن ہے تیسری جگہ جا تا تھا تو کہتے تھے معمولی انفیکشن ہے.ایک دن میں نے کہا کہ کچھ ان سے مذاق بھی کرنا چاہیے ایک ہی قارورہ دوشیشیوں میں ڈال کر دو جگہ بہت چوٹی کے ہسپتالوں میں بھجوا دیا دونوں کے نتیجے مختلف آگئے حالانکہ ایک ہی وقت کا قارورہ تھا.پس معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مجبور ہیں ایک تو اس کی وجہ ہیومن ایرر (Human error) بھی ہو سکتی ہے.انسان کے ساتھ غلطی کا احتمال بھی لگا ہوا ہے اور دوسرے کام کی زیادتی ہے تیسرے پیشاب کی انفیکشن کا یہ حال ہے کہ جو لوگ لیبارٹری میں کام کرنے والے ہیں اگر ان کی انگلی میں کوئی نہ نظر آنے والا بیکٹیریا لگ جائے اور وہ انگلی ٹیوب میں لگ جائے تو وہ کلچر بیکٹیریا کی ایسی غذا ہے کہ وہ جاتے ہی بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.وہ ۴۸ گھنٹے کے بعد نتیجہ دیتے ہیں.
خطبات ناصر جلد ششم 122 خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء پتہ نہیں وہ کتنے گھنٹے پیشاب رکھتے ہیں بہر حال ڈیڑھ دو دن تک تو وہ رکھتے ہیں اس میں بیکٹیر یا کی بہت بڑی تعدا دنکل آتی ہے.غرض اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں تو میں نے سوچا کہ جب نتیجہ یہ نکل رہا ہے اور علامت انفیکشن کی کوئی نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیماری دور ہوگئی ہے.وہاں آہستہ آہستہ ورزش بھی کرنی شروع کی پارکس میں سیر کرنی شروع کر دی.لندن میں پارکس بہت ہیں وہ شہر اس لحاظ سے قابل رشک ہے کہ ہر دس پندرہ میل کے اندر انسان کو سینکڑوں ایکڑ کی پارک مل جائے گی کوئی کامن کے نام سے اور کوئی پارک کے نام سے اور اس کے اندر بہت سے ایسے حصے ہوتے ہیں جہاں موٹر بھی نہیں جاتی موٹر کی سڑکیں علیحدہ بنی ہوئی ہیں وہاں آرام سے آدمی سیر کر سکتا ہے.بہر حال یہ تسلی ہو گئی کہ جس قسم کی بیماری کا خطرہ یہاں ڈاکٹر محسوس کر رہے تھے اس قسم کی بیماری نہیں البتہ انفیکشن تو تھی اس نے ضعف بھی کیا اس کی وجہ سے بخار بھی ہوا اس کی وجہ سے کام میں بھی دقت پیدا ہوئی.اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا یہاں دوائیں مل رہی تھیں.انہوں نے کہا یہاں بھی ہم یہی دوائیں دیتے بلکہ ایک ڈاکٹر نے تو کہا کہ شاید کچھ زیادہ اینٹی بائیوٹکس دے دی گئی ہیں.اس سے کم پر بھی گزارہ ہو جاتا واللہ اعلم.یہ تو کوئی ایسی چیز نہیں.بہر حال خدا تعالیٰ نے فضل فرما یا صحت ہو گئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں آج پھر آپ کے اندر آ کر کھڑا ہو گیا اور آپ کے سامنے خطبہ جمعہ دینا شروع کیا اور میں آپ کو دیکھنا اور آپ سے ملنا چاہتا تھا اور آپ مجھ سے ملنا چاہتے تھے.ہم دونوں کی خواہشیں آج پوری ہو گئیں لیکن قریب دس گیارہ مہینے بیماری رہی.بیچ میں ایسے وقفے آئے کہ جب بھی کچھ صحت ہو جاتی تھی میں خطبہ دینے کے لئے یہاں آجا تا تھا لیکن بیماری نے ایک قسم کی دوری پیدا کر دی تھی جو نہیں ہونی چاہیے.روحانی طور پر نہیں قلبی طور پر نہیں لیکن بیماری کی وجہ سے بہر حال ایک فرق تو پڑ گیا اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.وہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے دور ہو گیا.اب میں بھی دعا کرتا ہوں آپ بھی دعا کریں کہ یہ فرق پھر بیچ میں نہ آئے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے اور یہ حقیقت ہے اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ جماعت احمد یہ
خطبات ناصر جلد ششم KLA خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء کا امام اور جماعت احمد یہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں یعنی جماعت احمد یہ بغیر امام کے کوئی وجود نہیں رکھتی اور جماعت احمدیہ کا امام جماعت احمدیہ کے بغیر کوئی وجود نہیں رکھتا.پس یہ دونوں دراصل ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور ان کا باہمی اتحاد اور اتصال اور تعلق بڑا گہرا ہے اور بڑا مضبوط اور مستحکم ہے.بیماریاں عملاً اس تعلق کو تو ڑ نہیں سکتیں لیکن دوری کا کچھ سایہ بیچ میں آجاتا ہے وہ سایہ بھی نہیں آنا چاہیے لیکن وہ تو میرے اور آپ کے اختیار کی بات نہیں.خدائے شافی اپنا فضل فرمائے اور وہ اپنی رحمت سے آپ کو بھی صحت سے رکھے اور سب کی دعاؤں سے مجھے بھی صحت سے رکھے اور جماعتی زندگی کے جس عظیم اور بڑے اہم اور نازک مرحلے میں ہم داخل ہوئے ہیں اس کی ذمہ داریوں کو نباہنے کے ہم قابل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے.بعض لوگ چونکہ خدا پر ایمان نہیں رکھتے ظاہر ہے کہ جب خدا پر ایمان نہیں تو اس کی رحمتوں اور اس کے فضلوں اور اس کی برکتوں اور ان کے نتائج پر بھی ان کا ایمان نہیں ہوتا.ان کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہ برکتیں کہاں سے آگئیں جماعت احمد یہ میں.یہ صبر کہاں سے آگیا جماعت احمدیہ میں یہ مضبوطی اور استحکام کیسے پیدا ہو گیا جماعت احمد یہ میں.کئی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے ۱۹۷۴ء میں تمہارے ساتھ اتنا کچھ کر دیا مگر تمہارے اندر کوئی فرق نہیں پڑا.فرق نہ پڑنا تو ہماری زبان میں نہیں ہے کیونکہ ہم تو فرق پڑنے والی قوم ہیں کیونکہ ہر دن جو ہم پر طلوع ہوتا ہے وہ ہمیں پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ دیکھتا ہے وہ اسلام کو پہلے سے زیادہ غالب پاتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت دنیا میں جماعت احمدیہ کی حقیر کوششوں کے نتیجہ میں اسلام کا غلبہ ظاہر ہو رہا ہے.اس دورے میں اللہ تعالیٰ کے پیار کے بڑے نشان دیکھے، بہت سے نشان دیکھے.ایک چھوٹا سانشان بیان کر دیتا ہوں بعض دفعہ خدا تعالیٰ کا ایک چھوٹا سا پیار بھی بہت مزہ دیتا ہے.دوستوں نے اخبار میں پڑھا ہوگا کہ سویڈن کے ملک میں گوٹن برگ کے شہر میں میں نے ایک مسجد کا سنگ بنیا درکھا ہے اس کے ساتھ مبلغ کے رہنے کے لئے مشن ہاؤس، لائبریری ،لوگوں کو بٹھانے اور تقریر کرنے کے لئے ہال ضروری ہے.یہ پورا ایک پروجیکٹ ہے اس کا ۲۷ ستمبر
خطبات ناصر جلد ششم 129 خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء کوسنگ بنیا در کھا اُن دنوں وہاں سردی کی ایک رو آئی اور بہت بارشیں شروع ہو گئیں.جس وقت ہم ۲۵ رستمبر کو لندن سے روانہ ہوئے تو موسلا دھار بارش ہو رہی تھی.اب آج کل وہاں موسلا دھار بارش بھی ہو جاتی ہے جب میں وہاں پڑھا کرتا تھا تو اُس زمانے میں انگلستان میں بالکل باریک پھوار پڑا کرتی تھی وہ بارش نہیں ہوا کرتی تھی جس کو ہم بارش کہتے ہیں لیکن اب وہاں بھی بارش ہونے لگی ہے موسم بدل گئے ہیں.غرض جب ہم ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات ڈیڑھ بجے کے قریب گوٹن برگ پہنچے تو پتہ لگا کہ دو دن سے متواتر بارش ہورہی ہے اور جو بارش کی پیش خبریاں دیتے ہیں اُنہوں نے اعلان کیا ہے کہ کل بھی بارش ہوگی اور اُسی روز گیارہ بجے سنگ بنیاد رکھنا تھا.چنانچہ پہلے تو میرے دماغ میں یہ دعا آئی کہ اے خدا! ہمیں کھلا موسم دے.یہ بھی ایک دعا ہے یہ بھی ہم ما نگتے ہیں.پھر مجھے خیال آیا کہ آج تو ہمیں کہنا مناسب نہیں.تو میں نے دعا یہ کی کہ اے خدا! تیرے گھر کی بنیاد رکھنے کے لئے کل ہم اکٹھے ہو رہے ہیں.تیری مسجد کی بنیادر کھنے کے لئے جس قسم کے موسم کی ضرورت ہے وہ ہمیں دے.چنانچہ بتایا تو ہمیں یہ گیا تھا کہ موسلا دھار بارش ہو گی لیکن صبح جب ہم اُٹھے تو سورج نکلا ہوا تھا اور بہت اچھا موسم تھا.اپنی زمین پر گئے مسجد کی بنیاد رکھی.اس موقع پر کوئی تین سو سے زیادہ احمدی اکٹھے ہوئے ہوئے تھے اور بہت سے دوسرے لوگ بھی تھے جن میں کچھ عیسائی تھے اُنہوں نے بھی اب اسلام میں دلچسپی لینی شروع کی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے سنگ بنیا درکھنے کی تقریب بڑی اچھی رہی.ہم وہاں سے فارغ ہوئے اور واپس آئے تو بارہ ایک بجے پیش خبری کے مطابق بڑے زور سے بارش شروع ہو گئی.بس وہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے چند گھنٹے دعا کو قبول کیا اپنے پیار سے اور اپنی مسجد کی بنیاد کے لئے جس قسم کے موسم کی ضرورت تھی وہ ہمیں دے دیا.ہمیں وہاں جو زمین ملی ہے اس میں بھی خدا کی شان نظر آتی ہے وہاں دو کمیٹیاں ہیں جن میں سے ہماری مسجد کی زمین ہی نہیں بلکہ ہر وہ زمین جو کسی کو الاٹ کرنی ہو اس کا معاملہ ان دو کمیٹیوں سے گزرتا ہے.ایک کمیٹی تو صرف اتنا فیصلہ کرتی ہے کہ یہ پارٹی اس قابل ہے کہ اس کو
خطبات ناصر جلد ششم ۱۸۰ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء زمین دے دی جائے یعنی وہ صرف کلیئرنس دیتی ہے کہ ہاں یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کو زمین دے دینی چاہیے پھر وہ معاملہ دوسری کمیٹی جس کو سٹی کونسل کہتے ہیں اس میں پیش ہوتا ہے اور وہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ عملاً دیں گے یا نہیں دیں گے اور اگر دیں گے تو کہاں دیں گے.چنانچہ انہوں نے ایک پہاڑی کی چوٹی پر جہاں سے سارا شہر نظر آتا ہے اور اتنا خوشنما منظر ہے کہ دیکھ کر بڑا لطف آتا ہے وہاں ہمیں ڈیڑھ ایکٹر زمین دے دی لیکن ہمارے وہاں کے مبلغ سے یہ غلطی ہوئی کہ اُنہوں نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ لکھ دیا کہ ہم نے ڈیڑھ ایکٹر ز مین کیا کرنی ہے ہمیں اس کا نصف دے دیں.میں سمجھتا ہوں کہ شاید میری بیماری اسی لئے آئی تھی کہ میں لندن جاؤں اور یہ غلطی دور کر دوں.تو ایسے اچھے نتائج پر ایسی ہزار بیماریاں قربان کی جاسکتی ہیں یعنی اگر ایسی بیماریاں آجائیں تو کوئی حرج نہیں.اگر میں وہاں نہ جاتا تو یہ کام اسی طرح رہ جاتا مجھے پتہ لگا تو میں نے کہا یہ کیا ظلم ہو گیا ہم تو بڑھنے والی قوم ہیں.آج ڈیڑھ ایکٹر کا ٹکڑا ہمارے مبلغ کو بہت نظر آیا.کل ڈیڑھ ایکٹر بھی تھوڑا نظر آنا ہے چنانچہ آدمی بھیج کمال یوسف صاحب ڈنمارک میں ہیں اُن کو بھیجا.کچھ اور دوستوں کو کہا کہ جاؤ کوشش کرو اس عرصہ میں ایک اور ایسوسی ایشن کو اُس نصف حصہ کی پیش کش ہو چکی تھی.ہمارے دوست اُن سے بھی ملے اور کہا کہ چونکہ ہمیں پھر دلچسپی پیدا ہو گئی ہے اس لئے اگر تم زیادہ سنجیدہ نہیں ہو تو تم ہمارے لئے یہ چھوڑ دو.اُنہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم چھوڑ دیتے ہیں.میں نے سویڈن کی جماعت احمدیہ پر زور ڈالنے کے لئے کہہ دیا تھا کہ میں مسجد کا سنگ بنیا د ر کھنے کے لئے آؤں گا اس شرط پر کہ ہمیں پوری زمین ملے ورنہ نہیں آؤں گا.پھر اُن کو احساس پیدا ہوا اور اُنہوں نے ادھر اُدھر بھاگ دوڑ کی.کئی دفعہ متعلقہ افسروں سے جا کر ملے.زبانی طور پر سب نے وعدہ کر لیا کہ ہم نے فیصلہ کر دیا ہے حتی کہ سٹی کونسل نے بھی کہہ دیا کہ دیں گے ساری زمین لیکن دس اکتوبر کو میٹنگ ہے اور میٹنگ سے پہلے ہم تحریر میں نہیں دے سکتے.خیر وہ تو پھر میں نے کہا مجبوری ہے چنانچہ میں نے وہاں جا کر مسجد کی بنیاد رکھی جو ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھلی فضا میں واقع ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۱۸۱ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء ی ڈیڑھ ایکٹر زمین کا جوٹکڑا ہے اس کے ایک طرف بہت بڑی سڑک جاتی ہے جسے موٹر وے یا آٹو بانن کہتے ہیں.اس میں سے کوئی رستہ کسی گھر کو نہیں نکل سکتا.کوئی رستہ نکل ہی نہیں سکتا گویا پوری ایک سائیڈ ایسی ہے جہاں یہ سڑک گزرتی ہے اس کے شہر کی طرف جائیں تو جہاں ہماری زمین شروع ہوتی ہے وہاں سے چند سو گز ورے ایک اور سڑک اُنہوں نے نکالی ہے جہاں سے گھروں کو راستے جاتے ہیں.گویا اس زمین کے ٹکڑے کے دوسری طرف یہ سڑک جاتی ہے جہاں سے ہماری زمین کو رستہ بھی جاتا ہے.ہماری موٹر کے لئے بھی عارضی رستہ بنایا گیا تھا اسی پر سے گزرکر ہم اپنی زمین میں داخل ہوئے تھے.یہ زمین چونکہ مثلث شکل میں ہے اس لئے اس کی جو تیسری جانب ہے اس میں بارہ فٹ کی ایک گلی ہے اور اس کے پرے مکان ہے یعنی اس کے تینوں طرف سڑکیں ہیں بیچ میں قریباً ڈیڑھ ایکٹر کا ٹکڑا ہے اس کے ایک حصہ میں مسجد اور مشن ہاؤس بن جائے گا اور باقی انشاء اللہ وسعت پیدا ہو گی تو اُس وقت ہمارے کام آئے گی.ایک تو خدا تعالیٰ نے یہ خوشی پہنچائی دوسرے یہ زمین جب آخری مرحلے میں اُنہوں نے زبانی طور پر ہمیں دے دی تو اُس وقت وہاں کسی نے اُن کو کہا ہمیں یہ نہیں پتہ کہ کس نے کہا کیونکہ ذمہ دار افسر یہاں والے بھی اور وہاں والے بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم نے نہیں کہا لیکن بہر حال کسی چھوٹے نے کہہ دیا کہ اگر جماعت احمدیہ کو یہ زمین دے دی گئی تو یہ بات پاکستان سے دشمنی سمجھی جائے گی یعنی پاکستان کے خلاف دشمنی ہوگی اگر جماعت احمدیہ کو مسجد کے لئے زمین دی گئی.اب خدا جانے وہ کون سا چھوٹا افسر تھا بہر حال ہمیں بدظنی کرنے کی ضرورت نہیں کسی نے کہا اور انہوں نے ہمیں بتایا اور وہ کچھ پریشان بھی ہوئے کہ پتہ نہیں اس کا اثر نہ ہو جائے.سیکرٹری نے جب بات کی لیکن انسان کی باتیں اور ہوتی ہیں اور الہی تقدیر اور ہوتی ہے.پھر آخر ہوا یہ کہ باوجود اس بات کے کہ ان کو یہ کہا گیا تھا وہ تو یہ سمجھتے تھے کہ یہ حکومت پاکستان نے کہا ہے لیکن حکومت پاکستان کہتی ہے کہ اس نے نہیں کہا انہوں نے وہ زمین ہمیں دے دی اور اب وہاں اس جگہ پر مسجد کی بنیا درکھ دی گئی ہے.آرکیٹیکٹ جس نے ابتدائی نقشے بنائے تھے وہی دوسرے نقشے بھی بنا رہا ہے غالباً ۱۵ نومبر تک آخری نقشے بھی بن جائیں گے اور دسمبر کے شروع میں کنٹریکٹر
خطبات ناصر جلد ششم ۱۸۲ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء کام شروع کرے گا اور اس نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اگلے سال جولائی تک اسے مکمل کر دے گا.اب انشاء اللہ جولائی میں سویڈن میں پہلی مسجد ہوگی ( جہاں تک ہمیں علم ہے ہو سکتا ہے ہمیں پورا علم نہ ہو لیکن جہاں تک ہمیں علم ہے) یہ پہلی احمد یہ مسجد ہے جو وہاں بن رہی ہے اور جو بنیں گی مساجد اور خدا کرے بنیں.ہمیں تو جتنی مساجد بنیں خوشی ہوتی ہے کہ خدا کے گھر بنے ہیں تو وہ ہمارے پیچھے آنے والی ہوں گی ہم سے پہلے نہیں ہوں گی.اس عرصہ میں ہم پہلی مساجد اور کئی ممالک میں بھی انشاء اللہ بنا چکے ہوں گے.میں نے وہاں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اس مسجد کی تعمیر کا سارا خرچ بیرون پاکستان کی جماعتیں ادا کریں گی چنانچہ اس غرض کے لئے روپیہ یا تو جمع ہو چکا ہے یا ایسے وعدے ہیں جو اگلے مارچ اپریل تک پورے ہونے والے ہیں.پاکستان کا ایک پیسہ بھی اس مسجد میں نہیں لگے گا.یہ ہمارے لئے شرم کی بات ہے ہمارے لئے دکھ کی بات ہے بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیے کہ ہمارے لئے دُکھ کی بات ہے اور ہمارے ملک کے لئے شرم کی بات ہے.سویڈن کے ساتھ دوسرا ملک ناروے ہے اس کے بعد پھر میں وہاں بھی گیا.وہاں جانے کی دراصل دو اغراض تھیں ایک تو یہ کہ وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے چالیس کمانے والے احمد یوں کی ایک جماعت بن گئی ہے جن میں سے زیادہ پاکستانی ہیں یعنی ان کے آباء و اجداد پاکستانی ہیں.ممکن ہے ان کی اپنی شہریت بدل گئی ہو.ان میں سے بعض بڑے مخلص احمدی ہیں اور اپنے بچوں کی بڑی اعلی تربیت کر رہے ہیں.ان سے میں نے کہا کہ اب تمہاری باری ہے.صرف انگلستان کی جماعت دو سال کے بعد ۷۸ء میں صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں اتنے پیسے جمع کر چکی ہوگی کہ وہ تمہاری مسجد بنادے اس لئے تم اپنے لئے کسی اچھی جگہ پر مسجد کے لئے زمین تلاش کرو.اس کے علاوہ دوا اور ممالک بھی ہیں جن کے متعلق میں کہ کر آیا ہوں کہ وہاں بھی مسجد میں تعمیر کی جائیں.دوست یا درکھیں ہم مسجدیں کسی Show کے لئے نہیں بناتے.یہ ایک بنیادی بات ہے کہ ہم مسجد میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بناتے ہیں.اگر کوئی شخص اپنی جہالت سے یہ سمجھتا ہے کہ مثلاً مغل بادشاہوں نے لاہور میں جو بہت بڑی مسجد بنائی ہے اور اس کے چار مینار بنائے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۸۳ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء ہیں جب تک ویسی مسجد نہ ہو خدا تعالیٰ سے ثواب نہیں ملتا تو نعوذ باللہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مسجد کھجور کے پتوں کی چھت کی بنائی تھی جو بارش میں ٹپکتی رہتی تھی موجب ثواب نہ تھی اس سے بڑی حماقت اور کیا ہوسکتی ہے.پس ہم مسجد میں خدا کی رضا کے حصول کے لئے بناتے ہیں ہم نے کہیں بھی اپنی شان کے لئے مسجد نہیں بنائی.خدا کا گھر بنانا ہے اور خدا کے گھر بنانے میں ہماری رضا یہ ہے کہ وہ آبادر ہے اور خدا ہمیں، ہماری نسلوں کو، ہمارے ہمسایوں کو اور ان ملکوں کو جن میں مساجد بنائی جارہی ہیں یہ تو فیق عطا کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ان گھروں کو ، ان مساجد کو آباد درکھیں.سویڈن میں ایک وقت میں یہ بھی ہوا تھا کہ احمدی تھوڑے ہیں ان کو مسجد کے لئے زمین نہ دی جائے بلکہ جو لوگ زیادہ ہیں ان کو مسجد کے لئے زمین دی جائے.وہاں ایک شخص نے مجھے بتا یا اس کی تفصیل کا مجھے علم نہیں مجھے صرف اتنا بتایا گیا کہ جب یہ صورت پیدا ہوئی تو ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور انہوں نے سویڈن کے متعلقہ افسران سے یہ کہا کہ ہماری مسجد ہر موحد کے لئے کھلی ہے اس میں مسلمان ہونے کی بھی شرط نہیں کیونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موحد عیسائی فرقے کے وفد کو جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو یہ فرمایا کہ تم باہر کیوں جاتے ہو مَسْجِدِئ هذا یہ میری مسجد ہے تم اس میں عبادت کرو.اب دیکھو مسجد نبوی سے زیادہ با برکت اور مقدس دنیا میں اور کوئی مسجد نہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دروازے عیسائیوں کے لئے کھول دیئے اور فرمایا تم باہر کیوں جاتے ہو یہیں اپنی عبادت کر لو.پس أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا ( الجن: ۱۹) کی رو سے ہر موحد کے لئے خدا کے گھر کے دروازے کھلے ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا یہی اعلان میں نے ڈنمارک میں کوپن ہیگن کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر کیا تھا.اس کے معا بعد جمعہ کی نماز تھی اور اس جمعہ کی نماز میں سینکڑوں عیسائی بھی ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہو گئے تھے جب میں نے یہ کہا أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ احدًا اگلی آیت کا ٹکڑا ہے.اس سے ہماری اسلامی تعلیم کی تین باتیں بڑی نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں.ایک یہ کہ ہم مسجد کے مالک نہیں، مسجد تو خدا کا گھر ہے اور وہی اس کا مالک ہے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۸۴ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء ویسے بھی وہی مالک ہے لیکن اس پہلو سے بھی وہی مالک ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے.اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا اس کی رو سے ہر موحد کے لئے مسجد کا دروازہ کھلا ہے.اگلا حصہ بتا تا ہے کہ صرف ایک شرط ہے نیک نیتی سے آنا ہے شرارت کی نیت سے نہیں آنا.میں تو ایک درویش انسان ہوں.اس قرآنی آیت کا یہ اثر ہوا کہ سینکڑوں عیسائی جو افتتاح کے وقت موجود تھے نماز میں شامل ہو گئے.یہ ٹھیک ہے کہ جب ہم رکوع کرتے تھے تو وہ ادھر ادھر دیکھ لیتے تھے کہ یہ رکوع کس طرح کرتے ہیں تو انہوں نے رکوع بھی کیا.جب ہم سجدہ کرتے تھے تو وہ ادھر ادھر دیکھ لیتے تھے کہ ہم سجدہ کس طرح کرتے ہیں لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ سجدہ کیا اور اس طرح وہ اسلامی عبادت میں شامل ہو گئے.چنانچہ اس وقت تک دس ہزار سے زیادہ غیر مسلم اسلامی عبادت میں شامل ہو چکے ہیں یعنی اگر وہ ایسے وقت میں مسجد دیکھنے کے لئے آئے کہ نماز ہو رہی تھی تو وہ بھی نماز میں شامل ہو گئے کیونکہ جب اس کا افتتاح ہوا تھا تو اس وقت ملک کے ہر اخبار اور رسالے نے افتتاح کی خبر کو Cover کیا تھا اور خبریں دی تھیں.چنانچہ وہاں کے روزانہ اور ہفتہ وار اور ماہانہ اخبارات و رسائل کے ۱۸۵ تراشے ہمارے پاس پہنچے تھے.درجنوں اخبار تھے جنہوں نے پورا صفحہ دیا تھا اور بیسیوں تھے جنہوں نے آدھا صفحہ دیا تھا گویا بہت زیادہ پبلسٹی ہوئی تھی اور اس چیز کو تو اُن کی روح نے قبول کیا کہ اچھا یہ ایسا گھر ہے.چنانچہ ہمارے دوست نے وہاں کے متعلقہ افسران سے کہا کہ ہماری مسجد تو ایسی ہے لیکن یہ جو مطالبہ کر رہے ہیں ان کی تو اپنی مسجدیں علیحدہ ہیں.یہ ہمیں نماز نہیں پڑھنے دیں گے.آپ ان سے پوچھ لیں اور ہمارے لئے تو ہر آدمی جو نیک نیتی سے آتا ہے اس کے لئے مسجد کے دروازے کھلے ہیں.ٹھیک ہے شرارت کرنے والے کے لئے منع ہے.شرارت خدا کا گھر کیا ایک عاجز اور غریب آدمی کے گھر میں بھی شرارت کی نیت سے کوئی نہیں گھس سکتا.چنانچہ ان کو یہ بات سمجھ آ گئی.پس یہ بھی خدا کے فضل کے نشان ہیں جو اس مسجد کے سلسلہ میں رونما ہوئے.دوست دعا ئیں کریں اللہ تعالیٰ اسے برکتوں والی مسجد بنائے اور یہ کمسجد أيْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ (التوبة : ۱۰۸) کی مصداق ہو اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد نبوی کی طفیلی مسجد ہو کیونکہ جہاں تک مسجد کا تعلق ہے تمام برکتیں مسجد نبوی سے آگے نکلتی ہیں.
خطبات ناصر جلد ششم ۱۸۵ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء گوٹن برگ کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر وہاں جو آرکیٹیکٹ آئے ہوئے تھے اُن کو بڑا شدید انفلوائنز تھا لیکن مسجد کا جذب اُن کو وہاں لے آیا تھا پہ نہیں کس طرح اُٹھ کر آگئے تھے اور مجھے بھی لگا گئے.چنانچہ ۲۷ ستمبر کو جو انفلوائنزا ہوا تھا اُس کا تھوڑ اسا اثر ابھی تک باقی ہے انسان ہے بڑا عاجز لیکن اس کو عادت پڑ گئی ہے کچھ گپیں لگانے لگ گیا ہے چاہے وہ انگلستان ہی کا کیوں نہ ہو ہمیں وہاں لوگ کہنے لگے کہ انفلوائنزا کا ایک نیا ٹیکا نکلا ہے جو آدمی وہ ٹیکہ لگوالے اُس کو فلو نہیں ہوتا پر ایک شرط ہے کہ ٹیکہ لگنے سے پندرہ دن تک فلو نہ ہو تو اس کے بعد نہیں ہوگا.میں نے کہا کیا خدا سے تم نے کوئی ٹھیکہ کیا ہوا ہے کہ پندرہ دن تک فلو نہ ہوگا.یہ تو ویسے ہی مضحکہ خیز بات ہے.میں نے کہا اچھا لگوا لیتے ہیں.جب وہ ٹیکہ لگوا لیا تو اس کے بعد انفلوائنزا کا بڑا سخت حملہ ہو گیا اصل تو خدا تعالیٰ شافی ہے وہی شفا دینے والا ہے.گوٹن برگ کے گرد چالیس سے زیادہ یوگوسلاوین گھرانے احمدی ہو چکے ہیں.میں نے اپنے دوستوں سے کہا مجھے ان سے ملاؤ گو وہ نئے احمدی مسجد کے افتتاح کے موقع پر بھی آئے ہوئے تھے لیکن کیونکہ افتتاح کے بعد مشن ہاؤس میں کھانے کا انتظام تھا اور مشن ہاؤس ایک چھوٹی سی عمارت میں ہے جس میں اگر پچاس یا سو آدمی اکٹھے ہو جا ئیں تو جگہ نہیں رہتی اس لئے اگلے دن شام کو صرف یوگوسلاوین احمدیوں کی دعوت کی گئی جس میں بہت سے غیر احمدی دوست بھی شامل ہوئے جو زیر تبلیغ تھے اُس شام کو ۱۴ یوگوسلاوین نے بیعت کی جن میں چھ مرد تھے اور ۸ عورتیں الحمد للہ علی ذالک اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ایک رو پیدا ہوگئی ہے چنانچہ میرے لندن واپس پہنچنے پر کمال یوسف جو کوپن ہیگن کے انچارج مبلغ ہیں اُن کا مجھے فون آیا کہ جب اخباروں میں سویڈن کی مسجد کے افتتاح اور یوگوسلاوین دوستوں کی بیعت کی خبریں اخباروں میں چھپیں تو اُن کے بعض رشتے دار دوست اور واقف کار یوگوسلاو جو سویڈن کے ایک ایسے شہر میں بستے ہیں جو کوپن ہیگن سے ۳۲/۳۰ میل اور گوٹن برگ سے ڈیڑھ پونے دوسو میل کے فاصلے پر واقع ہے اُنہوں نے فون پر ہمارے مبلغ سے کہا کہ بتائیں ہمارے پاس تبلیغ کرنے کے لئے کیوں نہیں آتے؟ میں نے اُن کا فون سن کر اُن سے کہا کہ آپ اُن کو تبلیغ کرنے کے لئے جائیں لیکن پہلی دفعہ میرے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۸۶ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء قیام انگلستان کے دوران وہاں جائیں.چنانچہ وہ وہاں گئے اُس جگہ صرف بارہ یوگوسلا و خاندان آباد ہیں.اُنہوں نے کہا آپ ہمیں مسائل سمجھا ئیں ہو سکتا ہے سارے کے سارے خاندان احمدی ہو جائیں.کسی وجہ سے وہ سارے تو اُس دن اکٹھے نہ ہو سکے.کوئی ایسی ہی خاص دلچسپی تھی وہ باہر گئے ہوئے تھے اُن میں سے سات ملے.کمال یوسف صاحب سارا دن اُن سے باتیں کرتے رہے مسائل بتاتے رہے شام کو سات کے سات نے بیعت کی اور احمدی ہو گئے اور دونے بعد میں بیعت کی.ان میں دو عیسائی عورتیں ہیں.ایک عورت یوگوسلا و سے شادی شدہ ہے اور ایک اُس کی بیٹی ہے جو مسلمان نہیں ہوئی تھی ماں کے مذہب پر تھی.وہاں کے قوانین بڑے سخت ہیں وہ جوان اور بالغ ہو چکی ہوئی ہے.دراصل وہاں کے قوانین کی رو سے جب بچے بالغ ہو جائیں تو اُن پر کسی کا زور نہیں چلتا تو وہ بھی آزاد ہو گئی تھی اس بات کے اظہار کے لئے کہ وہ باپ کا مذہب اختیار نہیں کرنا چاہتی ماں کا مذہب اختیار کرے گی.پس اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر یہ فضل فرمایا اور ہمارے لئے خوشی کا یہ سامان پیدا کیا که باوجود اس بات کہ ہم اس کے حقیر بندے ہیں اور نہایت ادنیٰ خادم ہیں ، ہمارے ذریعہ ان دو عیسائی عورتوں کو جو ایک اپنے باپ کے خلاف اور دوسری اپنے خاوند کے خلاف کھڑی ہوئی تھی اُن کو اسلام میں داخل ہونے کی توفیق مل گئی.فَالْحَمْدُ لِلّهِ عَلى ذلِكَ - اب کمال یوسف صاحب دوبارہ وہاں جا رہے ہیں اس کے علاوہ تین اور شہروں کا بھی پتہ لگا ہے جہاں یوگوسلاو بستے ہیں.میرے خیال میں یہ چار جگہیں ایسی ہیں جہاں انشاء اللہ جماعتیں بن جائیں گی.ایک جگہ تو جماعت بن گئی ہے اور امید ہے کہ خدا کے فضل سے سارے کے سارے احمدی ہو جائیں گے.علاوہ ازیں ایک اور ملک میں کمیونزم سے بھاگے ہوئے ترک آباد ہیں وہ ترکی زبان بولتے ہیں اور ان کا یہ دعویٰ ہے کہ اصل جوثر کی ملک ہے ہم اس سے بھی زیادہ پکے ترک ہیں.وہ پکے ترک ہیں یا نہیں خدا کو معلوم ہے.ہمیں تو اس بات سے دلچسپی ہے کہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح پکے مسلمان ہو جائیں.وہاں بھی جائزہ لینے کے لئے آدمی بھیجا تھا اس کی رپورٹیں آچکی ہیں خدا کرے اس ملک میں بھی جماعتیں قائم ہونی شروع ہو جائیں.
خطبات ناصر جلد ششم I^2 خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء اُن لوگوں کے ایمان کا یہ حال ہے آپ ذرا سوچ لیں وہ آپ سے آگے نکل رہے ہیں.ایک یوگوسلا و جو بڑا مخلص احمدی ہے جس کی بیوی بضد تھی کہ مجھے احمدی کرو اور وہ کہتا تھا کہ میں نہیں کرتا تھا اس لئے کہ تمہیں قرآن پڑھنا نہیں آتا تم کس قسم کی احمدی بندگی میں تمہیں احمدی نہیں کر سکتا.میں نے اس کو پھر سمجھایا کہ تمہاری بیوی احمدی ہو جائے گی تو بعد میں اس کو قرآن سکھانا.چنانچہ اس کو وہ یہی کہتا تھا کہ تم قرآن نہیں جانتی اگر تم احمدی ہو گئی تو احمدیت کی بدنامی ہوگی.کیا میں اپنی ایسی بیوی کو احمدی کر لوں جس کو قرآن بھی نہیں آتا؟ چنانچہ ۲۷.۲۸ ستمبر کو بیعت کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھی.میں نے اس کے خاوند سے کہا تم اس کو با قاعدہ قرآن کریم پڑھاؤ.غرض وہ لوگ دین کے مسائل بڑی اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں.اس سے پہلے اُن کو کچھ بھی نہیں آتا تھا نام کا اسلام تو کوئی چیز نہیں ہے.قرآن کریم نے ایک مسلمان سے جو مطالبات کئے ہیں، ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے ہر وہ شخص جس کے دل میں یہ خواہش ہے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ مسلمان ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان سے جو مطالبات کئے ہیں ، وہ اُن کو پورا کرے اگر وہ قرآن کریم کی شریعت کے مطالبات پورے نہ کرے اور سمجھے کہ پھر بھی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ مسلمان سمجھا جائے گا اور خدا تعالیٰ کی وہ رحمتیں اور وہ برکتیں جو مومن مخلص مسلمان سے وابستہ ہیں وہ اس کو مل جائیں گی تو یہ ایک خوش فہمی ہے.نہ کبھی پہلے ایسا ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو گا اسی لئے قرآن کریم نے ہمیں دعا ئیں سکھائی ہیں اور کہا ہے کہ اپنے لئے دعائیں کرو، اپنی اولاد کے لئے دعائیں کرو، اپنی نسلوں کے لئے دعائیں کرو، اپنے ماحول کے لئے، دنیا کے لئے اور اُمت محمدیہ کے لئے دعائیں کرو.بڑی اہم دعا مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کو سکھائی گئی ہے کہ اُمت محمدیہ کے لئے بحیثیت مجموعی دعائیں کرو یعنی صرف اپنے ملک کے مسلمانوں کے لئے نہیں مثلاً انگلستان کے احمدی صرف انگلستان کے مسلمانوں کے لئے یا سویڈن کے احمدی صرف سویڈن کے مسلمانوں کے لئے دعائیں نہ کریں بلکہ اُمت مسلمہ کے لئے دعا سکھلائی گئی ہے.پس سب مسلمانوں کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں جب تک ہم خدا تعالیٰ کی ساری ہی رحمت کو جذب کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ، اُس وقت تک
خطبات ناصر جلد ششم ۱۸۸ خطبه جمعه ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۵ء اسلام کا وہ غلبہ جوان ایام میں مقدر ہے وہ حاصل نہیں ہوسکتا اور وہ ساری برکتیں جو نوع انسانی کے لئے مقدر ہیں وہ میسر نہیں آسکتیں.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے یہ ماحول پیدا کرے اور یہ سامان پیدا کر دے کہ نوع انسانی بحیثیت مجموعی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے اور خدائے واحد و یگانہ کے ترانے گھر گھر سے بجنے لگیں اور ہر زبان سے خدا کی حمد گائی جانے لگے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ششم ۱۸۹ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء آج تحریک جدید ایک بہت بڑا درخت بن گئی ہے جو سارا سال ہی پھلوں سے لدار ہتا ہے خطبہ جمعہ فرموده ۷ /نومبر ۱۹۷۵ ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ - تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَ انْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ روووو كنتُم تَعلَمُونَ - (الصف : ۱۱ ، ۱۲) سورہ صف کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں ایثار اور قربانی کے وطیرہ کو اختیار کرنے کی برکات کا ذکر کیا ہے اور اس میں مالی جہاد کا بھی ذکر ہے.دراصل مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرۃ : ۴) میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہوتا ہے وہ اس کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی دی.زندگی کی ایک مدت عطا کی.اللہ تعالیٰ نے انسان کو موت عطا کی.اللہ تعالیٰ نے اس زندگی میں انسان کی ترقیات کے لئے اسے بہت سی قوتیں، صلاحیتیں اور استعداد میں عطا کیں.اللہ تعالیٰ نے ان قوتوں اور استعدادوں کی نشونما کے مناسب حالات پیدا کرنے کے لئے وسائل کے طور پر اسے مال اور دولت عطا کئے.گویا ہر جہت
خطبات ناصر جلد ششم ١٩٠ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء سے اور ہر لحاظ سے اس نے اپنی عطا سے ہماری جھولیوں کو بھر دیا اور ہم سے یہ مطالبہ کیا کہ جو کچھ بھی میں نے تمہیں دیا ہے اس میں سے میری راہ میں میرے کہنے پر اور میری تعلیم کے مطابق میری توحید کے قیام کے لئے میرے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو نوع انسانی کے دلوں میں پیدا کرنے کے لئے خرچ کرو.جو سرمایہ ہے وہ بھی اسی کا ہے لیکن احسان عظیم فرماتے ہوئے وہ ہمیں یہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ تجارت کرو گے تو گھاٹے میں نہیں رہو گے.میرے ساتھ تجارت کرو گے اور میرے ہی مال کو مجھے واپس دو گے، میری ہی عطا کردہ قوتوں کو میری راہ میں خرچ کرو گے، میری ہی دی ہوئی زندگی کے دنوں کو میری عبادات میں میری تسبیح وتحمید میں اور میرے بندوں کی خدمت میں لگاؤ گے اور اگر ضرورت پڑے تو جو موت میں نے تمہارے لئے مقدر کی ہے اس کو بشاشت سے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اس موت کو میرے لئے قبول کرلو گے تو تمہیں عذاب الیم سے بچایا جائے گا اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو عذاب الیم میں مبتلا ہو گے.ان آیات میں بہت لمبا مضمون ہے مگر اس تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا.صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مالی جہاد کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک عظیم جہاد قرار دیا ہے اور انسان اگر عقل اور فراست رکھتا ہو تو حیران ہوتا ہے کہ وہ خود ہی ہمارے ہاتھوں میں دولت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے دو گے (اس میں سے جو میں نے تمہیں دیا ہے ) تو میں تمہیں عذاب الیم سے بچا لوں گا.پس یہ گھاٹے کا سودا نہیں یہ تو بڑا ہی نفع مند سودا ہے اور جولوگ اس سے غفلت برتتے ہیں، جو اس کی طرف توجہ نہیں کرتے، جو اس کو اچھا نہیں سمجھتے ، جو اس کی حقیقت کو نہیں پہچانتے ، جوا اپنی نسلوں کی بہبود کا خیال نہیں رکھتے، جو اپنے مستقبل کی پرواہ نہیں کرتے جو اُخروی زندگی کا تصور اپنے دماغوں میں نہیں لاتے اور اللہ تعالیٰ نے جو بشارتیں دی ہیں ان بشارتوں کے مطابق خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے حصول کے لئے کوشاں نہیں، وہ بڑے ہی خسارے میں ہیں.وہی عذاب الیم ہے.جس نے خدا کو ناراض کر لیا اس سے بڑا اور کیا عذاب اس کو ملے گا.اللہ تعالیٰ نے اس بات کو انسان کی اپنی سمجھ پر نہیں چھوڑا کہ وہ کب اور کس طرح اور کن راہوں
خطبات ناصر جلد ششم ۱۹۱ خطبہ جمعہ ۷ نومبر ۱۹۷۵ء پر اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے خرچ کرے بلکہ ابتدائے اسلام سے اللہ تعالیٰ نے اس کی راہنمائی کا انتظام کیا ہے.ابتدا تو ہوئی اس عظیم ہستی سے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہ جن کی عظمت اور جلالت کا تصور میں بھی انسانی ذہن احاطہ نہیں کر سکتا.آپ اعلان کرتے تھے کہ خرچ کرو.آپ کی طرف سے یہ اعلان ہوتا تھا کہ یہ راہ ہے خرچ کرنے کی اس میں مال دو.کبھی جب دشمن تلوار سے حملہ آور ہوتا تھا تو اس کے مقابلہ کے لئے مال کو خرچ کرنے کی ندا آتی تھی.اپنے اوقات کو خرچ کرنے کی ندا آتی تھی کہ کاموں کو چھوڑو اور اسلام کی حفاظت کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یا آپ کے مقرر کردہ سپہ سالار کی معیت میں کام کاج ہر چیز کو چھوڑ کر باہر نکلو اور اپنے وقتوں کو خرچ کرو اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ان کو یہ کہا جاتا کہ شہادت ایک عظیم انعام ہے ہو سکتا ہے تمہیں وہ بھی مل جائے.زندگی کے لمحات کا خدا کی راہ میں خرچ کرنا یہ بھی ایک طریق ہے خدا کی راہ میں زندگی وقف کر دینے کا اور خدا کی راہ میں شہادت کو قبول کر لینا یہ موت بھی جو اس نے عطا کی ہے عظیم احسان ہے.انسان کی موت ایک عظیم پس منظر رکھتی ہے.اس موت کو خدا کے لئے قبول کر لینا اور ابدی جنتوں کا وارث بن جانا یہ بھی ایک عظیم انعام ہے.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلاتے تھے اموال کے خرچ کرنے کی طرف، بلاتے تھے اوقات کے خرچ کرنے کیلئے ، بلاتے تھے جانوں کو دے دینے کیلئے مٹھی بھر صحابہ تھے جو غیر تربیت یافتہ تھے.ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی ان کو پوری مشقیں نہیں تھیں.ان کی پہلی زندگی کچھ اس رنگ کی تھی کہ ان کو زیادہ تلوار چلانے کی بھی پہلے عادت نہیں تھی لیکن اسے کون دیکھتا تھا کہ مجھے تلوار چلانی آتی ہے یا نہیں.وہ تو یہ دیکھتے تھے کہ خدا کی راہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز جب بلائے تو اس آواز پر لبیک کہنا ہماری زندگی کا بہترین ثمرہ اور بہترین انعام ہے لیکن ہماری زندگیوں میں آج کے زمانہ میں تو تلوار کی جنگ کے لئے نہیں بلا یا جا تا.اس زمانہ کے حالات ایسے ہیں کہ دشمن نے جو صدیوں یہ اعتراض کیا کہ اسلام نعوذ باللہ تلوار کے زور سے پھیلا تھا اگر چہ یہ جہالت کا الزام تھا، یہ حماقت کا الزام تھا، یہ شرارت کا الزام تھا، یہ شیطنت کا الزام تھا مگر تاہم یہ ایک الزام تھا.دنیا میں اس الزام اور اس اعتراض کو اتنا دہرایا گیا کہ مثلاً عیسائی دنیا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۹۲ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء عیسائیت کو چھوڑ بیٹھی.لیکن اسلام کے خلاف جو یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.یہ اعتراض ان کے دماغوں سے نہیں نکلا.میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ۱۹۶۷ ء میں زیورچ ( سوئٹزر لینڈ ) میں T.V کا ایک گروپ میرے انٹرویو کے لئے آیا.انہوں نے ایک سوال یہ کیا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کو کیسے پھیلائیں گے؟ یہ سیدھا سادہ سوال بڑے ادب سے پوچھا گیا تھا لیکن دراصل ان کے دماغ کی جو کیفیت تھی وہ یہ تھی کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلتا ہے اور تلوار ہم نے تمہارے ہاتھوں سے چھین لی ہے اب تم اسلام کو کیسے پھیلاؤ گے.میں نے سوچا کہ عیسائی پادریوں نے ان کے دلوں میں عیسائیت قائم رکھنے کی جو کوشش کی وہ اس میں تو نا کام ہو گئے ہیں لیکن یہ اعتراض ابھی تک ان کے دلوں میں راسخ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.میں نے جو حقیقت تھی وہ بغیر کسی تکلف کے اسی وقت ظاہر کر دی.میں نے کہا کہ ہم پیار اور محبت سے تمہارے دل جیتیں گے اور اسلام کو پھیلائیں گے.ان کا رد عمل اس طرح تھا کہ جس طرح کسی کو پکڑ کے ایک جھٹکا دیا جائے کہ یہ کیا جواب ہمیں مل گیا ہے اور اس کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا کہ یہ تو ہم ضرور T.V پر لانا چاہتے ہیں.میں نے کہا کہ میری بھی یہ خواہش ہے کہ ضرور T.V پر لاؤ کہ اسلام دلوں کو جیت کر تمہارے ملکوں میں پھیلے گا.اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے یہ تدبیر کی ہے کہ نوع انسانی کو بحیثیت نوع انسانی اسلام میں داخل کرے.الا مَا شَاء الله - کچھ لوگ چوہڑے چماروں کی طرح غیر مسلموں میں سے باقی بچ جائیں جو اسلام نہ لائیں تو اور بات ہے لیکن نوع انسانی اسلام کو پیار اور محبت کے نتیجہ میں قبول کرے گی اور توحید پر قائم ہوگی اس محبت کے نتیجہ میں جو اسلام ان کے سامنے پیش کرتا ہے.ہمارے ذمے یہ لگایا گیا ہے کہ ہم اسلامی تعلیم کو اسلام کی پیار کی تعلیم کو اور بے نفس خدمت کی تعلیم کو ان کے سامنے پیش کریں.اس اعتراض کو جو صدیوں سے اسلام پر کیا جا رہا ہے اس اعتراض کو کہ اپنے مذہب کو انہوں نے چھوڑ دیا مگر ان کے دماغ اسلام پر اس اعتراض کو نہیں چھوڑ سکے اس اعتراض کو آج ہم نے دور کرنا ہے.ان کے دلوں سے اس کو مٹانا ہے ان کے ذہنوں سے اس نقش
خطبات ناصر جلد ششم ۱۹۳ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء کو ہم نے مٹادینا ہے اور ان کو مجبور کرنا ہے.اسلام کی محبت اور پیار کی تعلیم پیش کر کے اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے اسلام کی جو اتنی بڑی تعلیم ہے وہ ان کے سامنے پیش کر کے اور اس اعتراض کو کلیۂ جڑ سے اکھیڑ کر باہر پھینک دینا ہے اور اس بات پر انہیں قائم کرنا ہے کہ اسلام واقعہ میں پیار اور محبت کے ساتھ پھیلا تھا اور اس قدر زبردست انقلابات سے بھری ہوئی اس دنیا میں اس معمور کا ارض پر ( کہ پہلے اس قسم کا معمورہ نہیں تھا ) اسلام کا پیار کے ساتھ پھیل جانا یہ ثابت کرے گا کہ پچھلے زمانوں میں بھی اسلام پیار سے پھیلا تھا اور یہ اعتراض غلط ہے کہ اسلام کو اپنی اشاعت کے لئے تلوار کی ضرورت پڑی.اس پیار کو پھیلانے کے لئے اس پیار کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے وقت کی بھی ضرورت ہے.تکالیف کے برداشت کرنے کی بھی ضرورت ہے ، اموال کی بھی ضرورت ہے اور اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام اور اسلامی تعلیم کی روشنی میں ایک مسلمان خدا کی مخلوق کی خدمت پر مامور ہے، بعض نوجوانوں کو بعض حالات میں غصہ آتا ہے تو میں ان کو سمجھایا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں یعنی جماعت احمدیہ کو زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے مارنے کے لئے پیدا نہیں کیا اور حقیقی زندگی وہ ہے جو خدا میں ہو کر گزاری جائے.باقی تو اگر انسان کی زندگی حیوان کی زندگی سے مختلف نہ ہو تو وہ کیا زندگی ہے لیکن انسان کی وہ زندگی جو خدا میں ہو کر گزاری جائے وہ انسان کی حقیقی زندگی ہے اور اس قسم کی زندگی دنیا کو دینے کی ذمہ داری جماعت احمد یہ پر عائد کی گئی ہے اور میں نے بتایا ہے کہ اس کے لئے جہاں اور بہت سی اور مختلف قسم کی عطا یا میں سے خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے وہاں مال میں سے خرچ کرنے کے لئے بھی بلایا جاتا ہے.پس کبھی تو ان حالات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس تلوار کے جو اسلام کے خلاف میان سے نکلتی تھی فساد اور شر سے مسلمان کو بچانے کے لئے مسلمان کو بلاتے تھے اور کبھی جہاد کے سفر میں راشن کم ہو جاتا تھا تو اعلان کرتے تھے کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ خزانے میں جمع کرا دے.جس کے پاس پانچ کھجوریں ہیں وہ بھی اور جس کے پاس پانچ من کھجوریں ہیں وہ بھی اور وہ برابر کی تقسیم ہو جائیں.یہ خالصتہ انسانی پیار کا جلوہ ہے.مجھے تو یہی نظر آتا ہے امید ہے کہ آپ کو بھی
خطبات ناصر جلد ششم ۱۹۴ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء ایسا ہی نظر آئے گا.پس جس وقت انسان کو بھوک کی تکلیف کا اندیشہ پیدا ہوا تو سب کو برابر کر دیا.انہوں نے کہا کہ اگر تکلیف اٹھائیں گے تو ہم سب اٹھا ئیں گے اور خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ اس تھوڑے میں برکت ڈالی اور ان کی سیری کے سامان پیدا کئے.میرے علم میں نہیں ہے کہ صحابہ نے کہیں یہ بھی ذکر کیا ہو کہ اس کے باوجود ہمیں بھوک کی بہت تکلیف اٹھانی پڑی کیونکہ اصل میں غذا کی مقدار نہیں بلکہ اس مقدار کا انسان کے اندر سیری کا احساس پیدا کرنا اصل چیز ہے.مختلف آدمی مختلف مقدار میں غذا ئیں کھاتے ہیں کسی کو ایک چھٹانک آٹا سیر کر دیتا ہے اور اس کے اندر سیری کا احساس پیدا کر دیتا ہے اور کسی کو آدھ سیر آٹا بھی سیر نہیں کرتا.ایسے لوگ بھی میرے علم میں ہیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور انسان کے جسم کی ضروریات کو تھوڑے میں پورا کر دے تو وہ اس پر قادر ہے اور اپنے بندوں سے وہ کبھی اس طرح بھی پیار کرتا ہے کہ تھوڑے میں اتنی برکت ڈالتا ہے کہ انسان کے جسم کی ضرورتیں اس کے پیارے بندوں کے جسم کی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں.اس زمانہ میں زندگی کے وقف کے لئے اعلان ہوتا ہے اپنے اموال کے خرچ کرنے کے لئے اعلان ہوتا ہے.اُس طرح میدان جنگ کا اعلان نہیں ہوتا کیونکہ اس اعتراض کو دور کر نے کے لئے تو یہ زمانہ آیا ہے اور اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے تو مہدی معہود علیہ السلام مبعوث ہوئے ہیں اور اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے تو ہمیں مہدی معہود سے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہت سی پیشگوئیاں نظر آتی ہیں.اس پیار سے اسلام کو پھیلانے کے لئے آج کی دنیا میں اموال کی ضرورت ہے.پہلے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ندالی کیونکہ اصل ندا تو آپ ہی کی ہے باقی تو ساری ندائیں طفیلی ہیں اور اب میں نے مہدی کے زمانے کی ندا لے لی.بیچ کا سارا زمانہ ایسا ہے جس میں خدا تعالیٰ کے پیارے اور محبوب اور برگزیدہ بندے خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے اپنے گرد جمع ہونے والے مخلصین سے مالی قربانیاں بھی لیتے رہے ہیں.پس ہر انسان کو یہ نہیں کہا کہ تو خود فیصلہ کر کہ تو نے خدا کو خوش کرنے کے لئے کہاں اور کس طرح دینا ہے.بعض حالات میں چھوٹی چھوٹی ایسی قربانیاں ہیں جن کے متعلق اس کو کہا کہ تو آپ
خطبات ناصر جلد ششم ۱۹۵ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء فیصلہ کر لیا کر مثلا زکوۃ پر اس کے بعض اخراجات وغیرہ ہیں لیکن ان کی حد بندی بھی خود اسلام نے کر دی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی آواز، تلقین یا ندا ہے جو براہ راست یا بالواسطہ اٹھتی اور بلند ہوتی ہے یہ آواز بالواسطہ آپ کے مخلصین ، آپ کے اطاعت گزار ، آپ کے عشق اور محبت میں فنا ہونے والوں کے ذریعہ سے اٹھتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس وقت اسلام کو اس بات کی ضرورت ہے اس کے لئے آگے آجاؤ.اس زمانہ میں جو ساری دنیا میں ایک جال پھیلنا تھا تبلیغ اسلام کا ، اشاعت اسلام کا، اس حسین تعلیم کو دنیا کے سامنے رکھنے کا، اس پیاری تعلیم سے پڑھے لکھوں کو متعارف کرانے کا ،اس کے لئے ایک وقت میں جماعت احمدیہ کی تاریخ میں وہ وقت آیا کہ خدا کی طرف سے ہمیں باہر نکلنے کا حکم ہوا اور اس کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کو قائم کیا.جیسا کہ ہراچھے درخت کی ابتدا بھی ایک چھوٹے سے نحیف اور کمزور پودے سے ہوتی ہے تحریک جدید کی ابتدا بھی اسی طرح ہوئی لیکن آج وہ ایک بہت بڑا درخت بن گیا ہے اور سارا سال ہی پھلوں سے لدا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس درخت میں اتنی برکت ڈالی ہے کہ اس کی شاخیں ایک طرف افریقہ کے صحراؤں میں پھیلی ہوئی ہیں اور دوسری طرف شمالی امریکہ کی گنجان اور تہذیب نو کی آبادیوں کے اندر پھیلی ہوئی ہیں اور وہاں چھوٹے چھوٹے جزیرے بن رہے ہیں جو ان نو تہذیب یافتہ لوگوں کو نئی تہذیب کے گند اور اس کی نحوست سے بچا کر اسلام کی حسین تعلیم کے اوپر قائم کر رہے ہیں.ان جزیروں میں جو ہمارے احمدی رہ رہے ہیں ان کی زندگیاں بالکل مختلف ہیں.پھر ایک طرف اس کی شاخیں جاپان میں چلی گئیں اور آسٹریلیا میں چلی گئیں ، جنوبی امریکہ میں چلی گئیں ، یورپ اور انگلستان میں اور اُس مڈل ایسٹ میں چلی گئیں جس کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید وہاں بڑا تعصب پایا جاتا ہے اور ہمارے لئے اس کے دروازے کھلے نہیں ، وہاں بھی اگر چہ کثرت سے نہیں لیکن دروازے کھلے ہیں وہ لوگ بھی احمدی ہوتے ہیں.قریباً ہر ملک ایسا ہے جہاں کے مقامی باشندوں نے احمدیت کو قبول کیا ہے اور احمدیت کو جب مسلمان قبول کرتا ہے تو بعض دفعہ کہتے ہیں کہ مسلمان احمدیت کو کیوں قبول کرے، اسے کیا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۹۶ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء فائدہ؟ وہ اس لئے قبول کرے کہ احمدیت قبول کر کے دنیا میں اسلام کی اشاعت کا جو انتظام ہوا ہے اور ایک مہم جو جاری ہوئی ہے اور دنیا میں اشاعت اسلام کا ایک جہاد جو شروع ہو چکا ہے اس میں وہ شخص شامل ہو جاتا ہے اور احمدیت سے باہر حقیقی معنوں میں ایسا کوئی سامان نہیں ہے.باقی دنیا دار پیسے بھی بڑے خرچ کرتے ہیں اور ہم قدر کرتے ہیں بڑی بڑی مساجد کی جو بنائی جاتی ہیں اور ہم قدر کرتے ہیں ان پیسوں کے مساجد پر خرچ ہونے کی اور ہم دعائیں کرتے ہیں کہ خدا وہ دن بھی لائے کہ جب یہ مساجد نمازیوں سے بھی بھر جائیں لیکن یہ سعی اور کوشش اور یہ جہاد کہ اسلام کے حسن اور احسان اور اس میں جو جذب پایا جاتا ہے اس کے ذریعہ سے غیر مسلموں کو کھینچنا یہ مہدی علیہ السلام کی مہم ہے اور یہ جہاد جو شروع ہو چکا ہے اس سے باہر کوئی اور جہاد ہمیں نظر نہیں آتا لیکن تاہم ہر کوشش جو اسلام کو پھیلانے کی ہے خواہ وہ باہر ہی ہو ہم اس کی قدر کریں گے ہم اس سے پیار کریں گے وہ ہماری طرف ہی لوگوں کو لانے والی ہے ان کو خواہ نظر آئے یا نہ آئے.بہر حال تحریک جدید سے جو ایک چھوٹا سا کام شروع ہوا تھا اب وہ بہت پھیل گیا ہے اب اس کی شکل بدل گئی ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ۱۹۴۴ء تک ہمارے رجسٹروں میں ایک پیسہ بھی بیرون ہندوستان کے چندوں کا نہیں تھا اور اب سوائے ان بنیادی اخراجات کے جوان پر بہر حال مرکز میں ہوتے ہیں مثلاً لٹریچر کی اشاعت پر خرچ اور جامعہ احمدیہ میں مبلغ بنانے پر خرچ باقی جو ان کے روز مرہ کے اخراجات ہیں انہیں بیرون پاکستان کی ساری دنیا مل کر اجتماعی زندگی میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی ہے اور پاکستان کی ایک پیسے کی بھی محتاج نہیں رہی.اتنا ز بر دست انقلاب آچکا ہے دنیا میں.یہ معمولی بات نہیں ہے.تم سوچو ۱۹۴۴ء میں یہ بیرون ہندوستان کی دنیا (اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا) مرکز کی پیسے پیسے کی محتاج تھی.ایک پیسہ بھی ہماری لسٹ میں ان کی آمد کا نظر نہیں آتا اور وہ جو اس وقت پیسے پیسے کی محتاج تھی آج ایک پیسے کی بھی محتاج نہیں ہے.اتنا انقلاب عظیم آگیا ہے.وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ بعض جگہ نئی تحریکیں شروع ہوئی ہیں اور وہ ایر یا وہ ملک وہ ریجن خود اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا تو پاکستان سے باہر کے دوسرے ممالک کہتے ہیں کہ ہم تمہاری مدد کو آتے ہیں اور اب تو میں نے
خطبات ناصر جلد ششم ۱۹۷ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء پچھلے جمعہ میں بتایا تھا کہ ایک مسجد کی تعمیر کا قریباً سار اخرچ زیادہ تر انگلستان کی جماعتیں اٹھا ئیں گی لیکن اس کا کوئی ۱٫۵ امریکہ کی جماعتیں اور ۵ فیصد کے قریب سکنڈے نیویا کی جماعتیں اس مسجد پر خرچ کریں گی اس کے لئے ہمیں انہوں نے ثواب سے محروم کر دیا ہے یا یوں کہیں کہ ہمارے حالات نے ہمیں محروم کر دیا ہے.دعا کریں کہ حالات بدل جائیں اور درست ہو جائیں اور پھر جو اگلا منصوبہ ذہن میں آیا ہے یعنی اوسلو (ناروے) کی مسجد کا اس کی تعمیر کی ساری کی ساری ذمہ داری جماعتِ احمد یہ انگلستان پر ہے.میں نے بتایا تھا کہ انگلستان کی جماعت کے وعدوں کے دو حصے ہیں ان کا حساب الگ الگ ہے.جو دوسرا حصہ ہے ان کی جو پہلی رقم ملنی ہے وہ ساری اوسلو کی مسجد پر خرچ کر رہے ہیں کسی اور ملک کی بھی ضرورت نہیں رہے گی.کہتے ہیں تمہارے پاس پیسہ کہاں سے آ گیا ہے؟ ہماری دولت پٹرول کے چشمے نہیں ہیں ہماری دولت بڑے بڑے کارخانے نہیں ہیں.جماعت احمدیہ کی دولت وہ مخلص دل ہیں جو منور سینوں کے اندر دھڑک رہے ہیں جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے والے ہیں.اس وقت بھی بیرونی ممالک میں وہ لوگ بھی ہیں جو شاید سارا سال بمشکل دو روپے دیتے ہوں گے یا پانچ روپے دیتے ہوں گے.اتنے غریب لوگ بھی ہیں لیکن پانچ روپے دے کر وہ اس سے قربانی دے رہے ہیں جو ایک ملینیئر (Millionair) لاکھوں روپے دے کر کیونکہ پانچ روپے دینے سے ان کو خدا کی راہ میں بھوک کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے ان کو کچھ ایسے کھانے کھانے پڑتے ہیں جو ان کے روز مرہ سے کم ہوتے ہیں اور اس اخلاص کے ساتھ جو قربانیاں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کی جاتی ہیں ہم دعا بھی کرتے ہیں ( میں بھی اور ساری جماعت بھی ) اور ہم اپنے رب کریم سے امید بھی رکھتے ہیں کہ وہ قربانیاں قبول ہوں گی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نتیجہ نکلا کرتا ہے خدا کی نگاہ دولت کے انبار دیکھ کر وہ نتائج نہیں نکالتی اس لئے کہ وہ دولت کے انبار کا محتاج نہیں ہے وہ تو غنی ہے وہ تو صد ہے اس کو تو اموال کی ضرورت نہیں وہ تو مالک کل ہے، ہر چیز اس نے پیدا کی اور وہ اس کا مالک ہے.وہ تو جب ثواب کے رنگ میں نتیجہ نکالتا ہے تو وہ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمُ (الحج: ۳۸) دلوں کے تقویٰ کو دیکھا کرتا ہے.وہ تو یہ دیکھتا
خطبات ناصر جلد ششم ۱۹۸ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء ہے کہ ایک غریب دنیا کا دھتکارا ہوا پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس، کھانا اسے ملتا نہیں اور اگر ملے بھی تو مالی قربانیاں پیش کرنے کی ندا جب اس کے کان میں پڑتی ہے تو باوجود اس غربت کے وہ ایک پیسہ اٹھنی ، روپیہ ( بہر حال تکلیف اٹھاتا ہے اور ) میرے حضور پیش کر دیتا ہے یہ چیز جب اس کی نگاہ میں آتی ہے تو پھر وہ نتائج نکالتا ہے اور پھر وہ اتنے انقلابی نتائج ہوتے ہیں کہ (انشاء اللہ ) دنیا دیکھے گی کہ وہ چیز جو آج انہونی نظر آتی ہے کہ اسلام کیسے پھیلے گا وہ پوری ہو کر رہے گی.ایک طرف بڑی زبردست Godless ( گاڈلیس ) سوسائٹی ہے جو کہتی ہے کہ ہم خدا سے بیزار ہیں.تم بھی خدا سے بیزار اور خدا بھی تمہارے اعمال اور منصوبوں سے بیزا رلیکن خدا تم سے پیار کرنے والا ہے.تم اس کی مخلوق ہو.اس نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ تم چاہو نہ چاہو ایسے حالات پیدا ہوں گے کہ تم اس کی طرف آؤ گے کھنچے چلے آؤ گے اور تمہیں اس وقت تک چین نہیں آئے گا جب تک کہ تمہاری گردنیں اس کے پاؤں کے اوپر جھک نہیں جائیں گی.پس ہم جو حقیقت سے آگاہ ہیں ہم جو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو پہنچاننے والے ہیں ہم جانتے ہیں کہ Godless Socicty ( گاڈیس سوسائٹی ) کے نعرے لگانے چند دنوں کی بات ہے چند سالوں کی بات ہے.ہوگا وہی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے دنیا کی کوئی طاقت قرآن کریم کی پیشگوئیوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارتوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی.پھر دوسری طرف سرمایہ دار ممالک ہیں جہاں عیسائیت بڑی طاقتور ہے لیکن اندر سے کھوکھلی ہے.تاہم ظاہر میں بڑی طاقت ہے ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے بڑے پیسے ہیں میں نے شمار تو نہیں کیا لیکن میرے خیال میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں پادری ہیں جو دنیا میں کام کر رہے ہوں گے بے تحاشا ان کا لٹریچر چھپ رہا ہے مگر وہ مانتے ہیں کہ وہ نا کام ہو گئے ہیں.اسے تسلیم بھی کرتے ہیں اور اپنے رسالوں میں بھی شائع کرتے ہیں کہ جہاں جہاں افریقہ میں احمدی ہیں وہاں عیسائیت پسپا ہو رہی ہے.ایک وقت میں انہوں نے کہا تھا کہ افریقہ خداوند یسوع مسیح کی جھولی میں ہے.وہ وقت بھی کہ جب وہ یہ نعرے لگاتے تھے اور آج وہ مجبور ہو گئے ہیں یہ تسلیم کرنے پر کہ ہم ایک عیسائی بناتے ہیں تو جماعت دس مسلمان بنا لیتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے
خطبات ناصر جلد ششم ١٩٩ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء یہ ہماری کوششوں یا ہمارے اموال کا نتیجہ نہیں ہے پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ دولت کے انبار، محض دولت کے انبار دیکھ کر تو خدا تعالیٰ نتائج نہیں نکالا کرتا وہ تو دلوں کوٹٹولتا ہے یہ محاورہ ہے ورنہ اس سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اگر ان میں تقویٰ ہواگر خدا تعالیٰ ان میں اپنا پیار پالے اگر ان دلوں میں خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے عشق پائے تو وہ ان کے دو پیسے میں وہ برکت ڈالے گا کہ ساری دنیا کے اموال وہ برکت نہیں پیدا کر سکتے.پس تحریک جدید کو خدا تعالیٰ نے اس کے لئے ایک وسیلہ بنایا ہے جس کے نئے سال کا میں نومبر کے شروع میں اعلان کیا کرتا ہوں.یہ جو سال نو ہے یہ دفتر اول کا بیالیسواں سال اور دفتر دوم کا بتیسواں سال اور دفتر سوم کا گیارھواں سال ہے.پچھلے سال یعنی دفتر اول کے اکتالیسویں سال دفتر دوم کے اکتیسویں سال اور دفتر سوم کے دسویں سال کے مجموعی وعدے نو لاکھ چوالیس ہزار تک پہنچ چکے ہیں جبکہ میں نے جو تحریک کی تھی وہ سات لاکھ نوے ہزار کی تھی.غرض مخلصین جماعت نے اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے جتنی تحریک کی گئی تھی اس سے زیادہ کے وعدے کر دیئے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں ان وعدوں کے پورا کرنے کی توفیق عطا کرے.ہرسال ہمارے وعدے پہلے سے کچھ زائد ہوتے ہیں کیونکہ ہم ایک جگہ ٹھہر نے والی جماعت نہیں.پس میں امید رکھتا ہوں اور میں دعا بھی کرتا ہوں اور کرتا بھی رہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا کرے کہ آئندہ سال ہمارے وعدے پچھلے سال سے یعنی جو سال گزر رہا ہے اس کے وعدوں سے زائد کے ہو جائیں.اس وقت تک جو گزشتہ سال کی وصولی ہوئی ہے وہ قریباً پچاس فیصد ہے لیکن تحریک جدید کا طریق یہ ہے کہ نئے سال کا اعلان تو نومبر کے شروع میں ہو جاتا ہے لیکن پچھلے سال کی ادائیگی ۱/۳۰اپریل تک ہوسکتی ہے اور بیچ میں Overlapping (اور لیپٹنگ ) ہے.مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ ۱/۳۰ پریل تک جماعت اپنے وعدوں کو پورا کر دے گی.باقی دفتر والوں نے مجھے ایک اور مشورہ دیا تھا وہ میں قبول نہیں کرتا اس سال کے جو وعدے ہیں ان سے زائد وعدے اور جو اس سال کی وصولی ہوگی اس سے زیادہ وصولی ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق عطا کرے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کا شکر بجالانے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۰۰ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم اگر اس سے بڑھ کر نہیں تو اسی اخلاص سے قربانی دیں.اول تو اس سے بڑھ کے اخلاص اور اس کی محبت زیادہ اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہوئے اور اس مہم اور اس جہاد کی اہمیت کا احساس رکھتے ہوئے مالی قربانی دیں اور اس وقت مالی قربانی کے ساتھ ساتھ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اگلی نسل کو بھی سنبھالیں کیونکہ یہ کام نسلاً بعد نسل ہونا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اور میں بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہر قول قرآن کریم کی تفسیر ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات میں سے کسی ارشاد کی تشریح ہے.آپ نے استدلال کیا ہے کہ ابھی تین سو سال پورے نہیں ہوں گے کہ مہدی معہود کے ذمے جو فرض عائد کیا گیا ہے نوع انسانی کو خدائے واحد و یگانہ کے جھنڈے تلے جمع کر دینے کا اور ہر دل میں ( إِلَّا مَا شَاء الله ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پیدا کر دینے کا یہ فرض انشاء اللہ پورا ہو چکا ہوگا.آپ نے جس رنگ میں یہ باتیں بیان کی ہیں اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے جس کا میں کئی بار اعلان کر چکا ہوں کہ میرے نزدیک ہمارے اس جہاد کی پہلی صدی تیاری کی صدی ہے اور اگلی صدی انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کی صدی ہے اس لئے ہمیں رحم آتا ہے ان لوگوں پر جو ہمارے احساسات کو نہیں سمجھتے.ہمیں اپنے لئے خدا کی قسم کچھ نہیں چاہیے.ہمیں جو کچھ چاہیے وہ خدائے واحد و یگانہ اور اس کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے چاہیے.اس کی تیاری کی صدی میں جو باقی پندرہ سال رہ گئے ہیں میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور اب بھی بتا دیتا ہوں کہ یہ بڑے سخت سال ہیں کیونکہ اگر جیسا کہ میں سمجھتا ہوں دوسری صدی غلبہ اسلام کی ہے تو اس صدی کے تیاری کے جو آخری پندرہ سال ہیں ان میں وہ سب طاقتیں جو اسلام کو غالب آتا دیکھنا نہیں چاہتیں وہ انتہائی زور لگا ئیں گی کہ ہم تیاری نہ کرسکیں اور غلبہ اسلام کی صدی غلبہ اسلام کی صدی نہ بن سکے.ہوگا تو وہی جو خدا چاہے گا لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی کمریں کس لیں اور ہر قسم کے دکھ اور تکالیف برداشت کر کے یہ جو پندرہ سال ہیں ان میں اس تیاری کو مکمل کر لیں جس تیاری کا مطالبہ غلبہ اسلام کی صدی ہم سے کر رہی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہماری تیاریاں سر پھوڑنے کے لئے نہیں ہیں ہماری تیاریاں نیم مردوں
خطبات ناصر جلد ششم ۲۰۱ خطبہ جمعہ ۷ /نومبر ۱۹۷۵ء کو زندہ کرنے کے لئے ہیں ، اخلاقی مردوں کو اخلاقی حیات دینے کے لئے ہیں ، جو روحانی طور پر خشک ہیں روحانی آب حیات ان تک پہنچانے کے لئے ہیں، یہ ہے ہماری تیاری.ہم تو یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ وہ جو اپنی طرف سے ہمارا مخالف ہے ( ہم تو کسی کے دشمن نہیں ہیں لیکن وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمارا دشمن ہے ) ہم یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ اس کے پاؤں میں ایک کانٹا بھی چھے، سر پھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ہم نے تو پیار سے اپنوں کو بھی جیتنا ہے اور غیروں کو بھی جیتنا ہے اور انشاء اللہ ہم سب کو اُمتِ واحدہ بناویں گے اپنے زور سے نہیں بلکہ خدا کے فضل سے.خدا نے اپنی رحمتوں سے وہ کچھ ظاہر کیا جس کا تصور بھی ہمارے دماغ نہیں کر سکتے تھے کہ عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ بیرونی ممالک کے سارے اخراجات بیرونی ممالک کی جماعتیں اٹھا لیں گی.جبکہ اس وقت وہ ایک دھیلہ بھی چندہ نہیں دے رہی تھیں.باہر کی جماعتوں کے اخلاص کو دیکھ کر مجھے تو خیال آیا کرتا ہے اور یہ جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم مرکزی جماعت ہیں پاکستان ہمارا ملک ہے پاکستان ہمارا مرکز ہے پاکستان کی خوشحالی کے لئے ہم دعائیں کرتے ہیں اس کی دنیوی خوشحالی کے لئے ہم دعائیں کرنے والے ہیں.دوسرے لوگ بعد میں آکے کہیں ہم سے آگے نہ نکل جائیں.ایک پاکستانی احمدی کے دل میں یہ بھی ایک غیرت ہونی چاہیے کہ کسی اور کو ہم آگے نہیں نکلنے دیں گے بلکہ قربانی اور ایثار اور اخلاص اور فدائیت کے جو نمو نے خدا تعالیٰ کی راہ میں ہم اپنی طرف سے دکھائیں گے کوشش یہ کریں گے کہ خدا تعالیٰ کو وہ سب سے زیادہ پیارے اور مقبول ہو جا ئیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۵ نومبر ۱۹۷۵ ء صفحه ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ششم ۲۰۳ خطبه جمعه ۱۴/ نومبر ۱۹۷۵ء رضا کارا اپنی خدمات جلسہ سالانہ کے لئے پیش کر کے نفلی ثواب کے عظیم موقع سے فائدہ اٹھائیں خطبه جمعه فرموده ۱۴ نومبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں ابھی لندن ہی میں تھا کہ مجھے یہ اطلاع ملی کہ ہمارے اپنے ہی نظام کی طرف سے خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع اور اسی طرح انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع بھی بعض وجوہ کی بنا پر منسوخ کر دیئے گئے ہیں.یہاں آکر جو حالات میرے علم میں آئے ہیں ان کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلے درست نہیں تھے یہ اجتماعات ہونے چاہیے تھے.دفعہ ۱۴۴ کی پابندی کرنا جہاں ہر ایک احمدی کے لئے ہر اچھے پاکستانی شہری کے لئے ضروری ہے وہاں ملکی انتظامیہ کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ جن اغراض کے لئے دفعہ ۱۴۴ لگائی گئی ہے اگر وہ اجتماعات ان اغراض کے خلاف نہیں تو ان کے لئے استثنائی اجازت دے اور ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے لیکن چونکہ افسر لوگ بدلتے رہتے ہیں.بعض افسروں کو حالات کا زیادہ علم ہوتا ہے اور بعض کو کم.اس لئے جماعتی نظام کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ساتھ تعلق رکھنے والے حکومت کے افسران پر حالات کی وضاحت کر دے.میں یہ سن کر حیران ہوا ہمارے علاقہ کے ایک افسر نے آرام سے یہ کہ دیا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کا اجتماع تقریری جلسہ ہوتا ہے جو مسجد میں بھی ہو سکتا ہے اور ہم نے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۰۴ خطبه جمعه ۱۴ / نومبر ۱۹۷۵ء تو کہہ دیا تھا کہ مسجد میں جلسہ کر لو.بہر حال جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا اور اس کے نتیجہ میں مجھے جو ذہنی کوفت اٹھانی پڑی ہے وہ تو اٹھانی پڑ گئی.اب اس کے تدارک کے لئے ایک صورت یہ ہے کہ یہ مجالس اپنے اپنے منسوخ شدہ اجتماع کو ملتوی سمجھیں اور اگلے سال قانون کے اندر رہتے ہوئے اور افسران علاقہ کی فراست پر بدظنی نہ کرتے ہوئے یہ اجتماع بھی کریں اور آئندہ سال کے اجتماع بھی کریں.اس کا ایک برا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض لوگ پوچھتے ہیں کیا جلسہ سالا نہ ہو گا یا وہ بھی نہیں ہوگا؟ ایسے وہی دماغوں کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ انشاء اللہ جلسہ سالا نہ ہوگا وَعَلَى اللهِ نَتَوَكَّلُ اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے ملک کی انتظامیہ پر بدظنی کریں.گزشتہ سال بہت سے لوگوں کا خیال تھا که شاید جلسہ نہ ہو اور بہت سے مخلص احمدیوں کی یہ رائے تھی کہ جلسہ نہیں ہونا چاہیے اور پھر جب میں نے کہا جلسہ تو ہو گا، کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ تو پھر بعض دوستوں نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ اچھا اگر آپ نے جلسہ کرنا ہی ہے تو یہ اعلان کر دیں کہ دس پندرہ ہزار سے زیادہ آدمی یہاں جلسہ پر نہ آئیں.میں نے کہا اگر میں ایسا اعلان کر بھی دوں تو میں اس کی تعمیل کیسے کرواؤں گا.بہر حال ہم چونکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں اور چونکہ ہمیں حسن ظن سے کام لینے کی تعلیم دی گئی ہے ہمارے خدا تعالیٰ نے ، قرآنی شریعت نے ، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ اور قول نے ہمیں حسن ظن کی تعلیم دی ہے اس لئے ہم حکومت وقت پر بھی حسن ظن رکھتے ہیں سوائے اس کے کہ ان کا کوئی فعل ہمارے حسن ظن کو مجروح کر دے اس کی ذمہ داری تو ان پر ہے ہم خدا کی نگاہ میں گناہ گار کیوں ہوں.اس لئے میں دنیا کے ہر احمدی کو یہ بتانا چاہتا ہوں (اللہ تعالیٰ پر تو گل کرتے ہوئے ، اسی پر بھروسہ رکھتے ہوئے اور اپنی حکومت پر حسن ظن رکھتے ہوئے ) کہ انشاء اللہ جلسہ سالا نہ اپنی مقررہ تاریخوں میں ہوگا.گزشتہ سال چونکہ حالات اس سے بھی زیادہ مختلف تھے جو سال رواں میں رہے یا آجکل ہیں.اس لئے بڑی مہربانی سے انتظامیہ کے بہت سے شعبوں نے بڑا اچھا تعاون بھی کیا.ان کی جو ذمہ داریاں تھیں ان کو نباہنے کی بھی انہوں نے کوشش کی.اب تو ان کو ہمارا جلسہ کروانے کا اچھی طرح تجربہ بھی ہو چکا ہے.پچھلے سال تو تجربہ
خطبات ناصر جلد ششم ۲۰۵ خطبه جمعه ۱۴ / نومبر ۱۹۷۵ء بھی نہیں تھا.اس واسطے میں امید رکھتا ہوں کہ اس سال ان کا انتظام بھی گزشتہ سال سے بہر حال بہتر ہوگا.انسان تجربہ سے سیکھتا ہے اور پھر اس کے فعل میں پہلے سے زیادہ حسن پیدا ہوتا ہے.ہم نے تو ایک لمبے عرصہ کے تجربے کے بعد اپنے جلسہ کے نظام کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی فراست اور اللہ تعالیٰ کی آسمانوں سے بارش کی طرح نازل ہونے والی رحمتوں کے نتیجہ میں جلسہ سالانہ کا ایک بڑا ہی اچھا نظام قائم کر دیا ہے.باہر کی دنیا جو ہم سے واقف نہیں ، وہ نہ تو جلسہ میں شریک ہونے والوں کی ذہنیت اور مزاج سے واقف ہے اور نہ جلسہ سالانہ کا انتظام کرنے والوں کی ذہنیت اور مزاج سے تعارف رکھتی ہے وہ لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ جلسہ سالانہ کا اتنابڑا انتظام کس طرح ہو سکتا ہے.کئی ایک غیر ملکی عیسائی اور لا مذہب لوگوں سے بات ہوئی ہے کئی ایک نے یہاں آ کر بات کی ہے وہ کہتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے جماعت احمدیہ جلسہ سالانہ پر آرام کے ساتھ اتنی بڑی تعداد کو کھانا کھلا دیتی ہو لنگر سے کھانے والوں کی تعداد روزانہ ۷۰ - ۸۰ ہزار تو ہوتی ہے ( گوجلسہ میں شریک ہونے والے ایک لاکھ سے زیادہ ہوتے ہیں ) یہ ایک چکر ہوتا ہے جس میں کچھ دوست کھانا باہر کھالیتے ہیں.ان دنوں دوست ایک دوسرے کی دعوتیں بھی کرتے ہیں ہم بھی دعوتیں کرتے ہیں.ہمارے گھروں میں بھی بہت کھانا پکتا ہے اور دوسرے بہت سے گھروں میں پکتا ہے.اس کے باوجو دلوگ حیران ہوتے ہیں کہ لنگر ۷۰-۸۰ ہزار آدمیوں کو دو گھنٹوں کے اندر کیسے کھانا کھلا دیتا ہے.ایسے لوگ سمجھتے ہیں ہم گپ مارتے ہیں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم گپ کبھی نہیں مارا کرتے.ہمیں کوئی سیاسی مصلحت تو سچ بولنے سے نہیں روکتی.کیونکہ ہم سیاست دان ہیں ہی نہیں.نہ ہماری کوئی سیاسی مصلحت ہے ہم تو اللہ والے اور درویش لوگ ہیں اور جو حقیقت ہوتی ہے اسے بیان کر دیتے ہیں.ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کوئی مانتا ہے یا نہیں مانتا مگر حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا.یہ ایک واقعہ ہے جو ہورہا ہے جو لوگ جلسہ سالانہ کے انتظام کو دیکھتے ہیں وہ حیران ہو جاتے ہیں.جہاں تک جلسہ سالانہ پر کام کرنے والوں کی ذہنیت کا سوال ہے وہ تو ایسی ہے کہ دیر ہوئی قادیان کی بات ہے میں اس وقت ابھی بچہ ہی تھا میرا ہم عمر ایک اور بچہ مدرسہ احمدیہ کے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۰۶ خطبه جمعه ۱۴ /نومبر ۱۹۷۵ء ایک کمرے میں بطور معاون کام کر رہا تھا.میری عمر اس وقت اتنی چھوٹی تھی کہ میرے بزرگ حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ جو اس وقت جلسہ سالانہ کے انچارج ہوتے تھے وہ اپنے دفتر میں میری ڈیوٹی تو لگا دیتے تھے لیکن ان کی طرف سے ڈیوٹی لگانے کا مطلب صرف یہ ہوتا تھا کہ مجھے جلسہ سالانہ کے کام کرنے کی عادت پڑ جائے.ورنہ اس عمر میں جو عام جلسہ کا انتظام ہے اس قسم کے کام میں نہیں کر سکتا تھا.بس کبھی وہ مجھے کوئی پیغام دے کر بھیج دیتے تھے کبھی ویسے ہی بٹھائے رکھتے تھے اور میں ان کو کام کرتے دیکھتا رہتا تھا یا ان کے کاغذ وغیرہ ٹھیک کرتا رہتا تھا.ایک دن رات کے وقت جبکہ قریباً سب مہمان کھانا کھانے سے فارغ ہو چکے تھے وہ مجھ سے کہنے لگے مدرسہ احمدیہ کے کمروں میں جا کر دیکھ آؤ.کیا سب مہمان ٹھیک ٹھاک ہیں ان کو کھانا مل گیا ہے یا نہیں.آیا سب آرام سے ہیں کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ چنانچہ میں مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرہ کے دروازہ پر جب پہنچا تو اس کا دروازہ ذرا سا کھلا تھا.ان دنوں جلسہ سالانہ کے دوران رضا کاروں کو رات کے وقت ایک دو بار چائے کی پیالی بھی مل جایا کرتی تھی.میں نے دیکھا کہ ایک رضا کا را پنی چائے کی پیالی لے کر جب کمرے میں آیا تو وہاں ایک مہمان بیمار پڑا تھا اسے غالباً لرزہ کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا اسے خیال آیا کہ یہ بچہ شاید مجھے بیمار دیکھ کر میرے لئے چائے لے کر آیا ہے.چنانچہ عین اس وقت جب میں ذرا سا دروازہ کھول کر اندر جانے لگا تو اس بیمار دوست نے پوچھا میرے لئے چائے لے کر آئے ہو؟ مجھے تو پتہ تھا کہ یہ فلاں لڑکا ہے ( جو اس وقت مجھ سے ذرا بڑا ہو گا ) اور یہ اپنے لئے چائے لے کر آیا ہے.میں باہر کھڑا ہو گیا یہ دیکھنے کے لئے کہ اب اس کا رد عمل کیا ظاہر ہوتا ہے.میں نے دیکھا کہ ایک لمحہ کے لئے اس طفل نے یہ نہیں ظاہر ہونے دیا کہ وہ اپنے لئے چائے لے کر آیا ہے.وہ فوراً کہنے لگا ہاں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں.آپ یہ چائے پئیں.اس نے یہ بھی نہیں کہا کہ آپ کے لئے چائے لے کر آیا ہوں کیونکہ اس طرح غلط بیانی ہو جاتی.پس بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے لیکن یہ معمولی سا واقعہ بھی بتا رہا ہے کہ جو ہمارے کم عمر احمدی بچے ہیں یا نو جوان اور بڑی عمر کے جلسہ سالانہ کی ڈیوٹیاں دیتے ہیں اور جلسہ سالانہ کے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۰۷ خطبه جمعه ۱۴ / نومبر ۱۹۷۵ء کام رضا کارانہ طور پر کرتے ہیں ان کی ذہنیت کیا ہوتی ہے.پچھلے سال چونکہ جلسہ سالانہ کے موقع پر پولیس کا بھی بڑا انتظام تھا.ایک چھوٹا بچہ جو رات کا کھانا لے کر جا رہا تھا اس سے ایک پولیس افسر نے علم حاصل کرنے کے لئے پوچھا بچے ! تمہیں اس کام کے کتنے پیسے ملتے ہیں؟ تو وہ ہنس پڑا.کہنے لگا تم پیسوں کی بات کرتے ہو میں ربوہ کا رہنے والا نہیں؟ میں باہر سے آیا ہوں اور بڑی سفارشیں کروا کر میں نے جلسہ کے کام کرنے کے لئے اپنی ڈیوٹی لگوائی ہے ورنہ باہر والوں کو عام طور پر نہیں لگاتے اور تم مجھ سے یہ پوچھتے ہو کہ مجھے پیسے کتنے ملتے ہیں.ان دو باتوں کے بیان کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ میں اس ضمن میں جلسہ سالانہ کے بارہ میں اپنے احمدی نوجوانوں، بچوں اور بڑی عمر والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر سال جلسہ اپنی وسعتوں کے ساتھ آتا ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں بھی وسعت ہوتی ہے اور ذمہ داریوں میں بھی وسعت ہوتی ہے.اس لئے نظام جلسہ کو ہر سال زیادہ اخلاص سے اور زیادہ تعداد میں کام کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر جلسہ سالانہ کے نظام کو یہ شکوہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض ماں باپ اپنے بچوں کو اس عظیم ثواب سے محروم ہوتا دیکھتے ہیں اور اسے برداشت کر لیتے ہیں وہ اس کو کیسے برداشت کر لیتے ہیں مجھے تو سمجھ نہیں آتی.یا تو وہ مجھے سمجھا دیں کہ یہ بھی برداشت کر لینے کی چیز ہے تو میں ان کو کچھ نہیں کہوں گا یا پھر اس ثواب سے فائدہ اٹھا ئیں کیونکہ خدا تعالیٰ ایک قوم کو گھر بیٹھے نظلی ثواب کے ایسے مواقع میٹر کرے اور آپ ان مواقع سے فائدہ نہ اٹھا ئیں تو اس میں کوئی معقولیت مجھے تو نظر نہیں آتی اور مجھے یقین ہے کہ کسی صاحب فراست کو بھی اس میں معقولیت نظر نہیں آئے گی اس لئے اے میرے عزیز بچو! اور جوانو! اور بڑی عمر والو! جلسہ سالانہ کے نظام میں تند ہی سے کام کرو.یہ تمہارے لئے مفت کا ثواب ہے.میں نے بتایا ہے اور میرا یقین ہے کہ ہمارے کام تو خدا کے فضل سے ہوتے ہیں اور اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں جو دنیا عام طور پر کر لیتی ہے.ہماری زندگی کے تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ مہدی معہود علیہ السلام کے کام تو آسمان سے فرشتے آ کر کرتے ہیں اور ثواب ہمیں مل جاتا ہے.چونکہ فرشتے کام کرتے ہیں اُن کے لئے جزا و سزا نہیں.ان کی فطرت ہی ایسی ہے.قران کریم نے فرشتوں کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ جو حکم
خطبات ناصر جلد ششم ۲۰۸ خطبه جمعه ۱۴ / نومبر ۱۹۷۵ء انہیں دیا جاتا ہے وہ اسے بجالاتے ہیں.اس واسطے خدا تعالیٰ کی راہ میں جو اجتماعی کوشش ہوتی ہے اس میں بڑا حصہ فرشتوں کا ہوتا ہے مگر اس اجتماعی کوشش کا جو ثواب ہوتا ہے وہ چونکہ فرشتوں کو نہیں ملتا اس لئے اللہ تعالیٰ وہ ثواب بندوں کو دے دیتا ہے اور اس طرح وہ دس گنا ، سو گنا بلکہ ہزار گنا ثواب میں شامل ہو جاتے ہیں.ویسے تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے.فرشتے نہ بھی ہوتے تب بھی اگر اللہ چاہتا تو وہ اپنے بندوں کو ثواب دے سکتا تھا لیکن اس نے ہمیں ثواب پہنچانے کا ایک ذریعہ بھی بنادیا.پس نفلی ثواب کے اس قسم کے عظیم مواقع میسر آئیں جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بعد امت محمدیہ میں ایک گروہ کو اب پہلی دفعہ مل رہے ہیں اور وہ ان.فائدہ نہ اٹھا ئیں تو ایسے لوگوں کو پتہ نہیں لوگ پاگل کہیں گے یا کیا کہیں گے مگر جو فر شتے آ کر کام کرتے ہیں وہ تو ضرور حیران ہونگے کہ آسمان سے ہماری ڈیوٹی لگ جاتی ہے مگر جن کے سپرد یہ کام ہے وہ اس سے غافل رہتے ہیں.ا دوسرے جلسہ سالانہ کے متعلق ہمیشہ ہی یہ تحریک کرنی پڑتی ہے کہ دوست نظام جلسہ کے ماتحت ٹھہر نے والے مہمانوں کے لئے اپنے مکانوں کا کوئی نہ کوئی حصہ فارغ کریں.وشعُ مكانك کا ہمیں مستقل حکم ہے.پچھلے سال تو میں نے بتایا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے وَشِعُ مَكَانَكَ کی یاد دہانی بھی کروائی تھی جب سے جلسہ سالانہ شروع ہوا ہے یا جب سے حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے ماننے والوں کو مرکز میں آنے کی توفیق ملی آپ کے زمانہ میں آپ سے ملنے کی یا مرکز میں آکر اس قسم کے مرکزی اجتماعات سے استفادہ کرنے کی تو ہمیشہ ہی یہ دیکھنے میں آیا کہ باوجود اس کے کہ دوران سال مکانوں میں بڑی وسعتیں پیدا ہوتی ہیں پھر بھی مکان کم ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل ہے.جلسہ پر آنے والے اس جذبہ کے ساتھ آتے ہیں اور خدا کی رحمت اور اس کی برکتوں کے بغیر وہ جذ بہ پیدا نہیں ہو سکتا.ایک دفعہ کا واقعہ مجھے اب بھی یاد ہے.شروع شروع میں جب جامعہ نصرت کے میدان میں جلسہ ہوا کرتا تھا غالباً حضرت صاحب کی افتتاحی تقریر کے بعد میں باہر نکلا کیونکہ میں افسر جلسہ سالا نہ تھا اور مجھے دوسری ڈیوٹیوں پر جانا تھا.ایک صاحب جن کو میں
خطبات ناصر جلد ششم ۲۰۹ خطبه جمعه ۱۴ / نومبر ۱۹۷۵ء ذاتی طور پر جانتا تھا کہ وہ لکھ پتی تھے یا اس سے بھی زیادہ امیر تھے انہوں نے ہاتھ میں ایک بکس پکڑا ہوا تھا اور ساتھ ان کی بیوی تھی.وہ اڈے کی طرف سے چلے آرہے تھے میں سمجھ گیا کہ یہ تو ابھی پہنچے ہیں.میں نے ان سے پوچھا آپ کے لئے رہائش کی کوئی جگہ مقرر ہے.کہنے لگے نہیں اب جا کر تلاش کروں گا.میں نے سوچا کہ یہ اب کہاں سے تلاش کریں گے جتنے دوستوں نے ہم سے رہائش گا ہیں مانگی تھیں اس سے کم اہل ربوہ نے ہمیں دی ہیں.بہت سے دوستوں کو انکار کرنا پڑا ہے اس لئے اس وقت جبکہ جلسہ شروع ہو چکا ہے ان کو کون رہائش گاہ دے گا.افسر مکانات تو ان کو کوئی رہائش گاہ نہیں دے سکیں گے.میں نے ان سے کہا آئیے میں آپ کے لئے کوشش کرتا ہوں.میں اپنے گھروں میں ایک جگہ گیا.گھر والوں سے پوچھا کوئی کمرہ یا کوئی ڈریسنگ روم خالی ہومگر پتہ لگا کوئی بھی خالی نہیں.پھر ہم دوسرے گھر میں گئے حتی کہ تیسرے گھر میں تلاش کرتے کرتے ایک جگہ ایک چھوٹا ساغسل خانہ ٹائپ کمرہ تھا جس میں گھر والوں کی کچھ چیزیں پڑی ہوئی تھیں.میں نے کہا کیا یہ کمرہ آپ کے لئے ٹھیک ہے؟ کہنے لگے بڑا اچھا ہے.الحمد للہ ہم اس میں بڑے آرام سے رہیں گے.میں نے وہ کمرہ خالی کروایا.دَب کی ایک پنڈ منگوائی (ان دنوں بوجوں والی گھاس ہوا کرتی تھی یعنی آب جو بڑی چھتی تھی ) اور وہاں ڈلوا دی.اب دیکھو وہ دوست جو لاکھوں روپے کے مالک تھے اور ہر سال لاکھوں کماتے تھے وہ اس چھوٹے سے کمرے میں بڑے آرام سے رہنے لگے اور بڑے ممنون ہوئے.مہمانوں کی ممنونیت کا یہ اظہار یہاں کام کرنے والوں کی گردنیں جھکا دیتا ہے یہ سوچ کر کہ ہم نے ان کی کیا خدمت کی ہے جو اتنے ممنون ہورہے ہیں لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے دونوں طرف سے ایک ایسا جذبہ دیکھنے میں آتا ہے جسے دنیا پہچان نہیں سکتی.پس اہل ربوہ کو چاہیے کہ جتنے مکان بھی وہ دے سکتے ہوں یا مکانوں کے کوئی سے جو حصے دے سکتے ہوں ، وہ دیں.بیشک ۸ × ۸ یا ۶ × ۸ کا کوئی کمرہ یا کوئی اسٹور جو بھی فارغ کر سکتے ہوں وہ اپنے مہمانوں کے علاوہ نظام سلسلہ کے ماتحت ٹھہر نے والے مہمانوں کے لئے فارغ کر دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ احمدی خاندانوں کو اس سے سہولت بہم پہنچائی جا سکے.یہ صحیح ہے کہ ربوہ کا ہر گھر مہمانوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے کیونکہ جو کمز ور احمدی ہے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۱۰ خطبه جمعه ۱۴ / نومبر ۱۹۷۵ء اس کے بھی باہر سے کئی رشتہ دار آ جاتے ہیں تو یہ کمزوری نہیں دکھاتا اور یہ نہیں کہتا کہ جلسہ کے مہمان اس کے گھر نہ ٹھہریں بلکہ بعض دفعہ تو اس سے الٹ ہو جاتا ہے.میں افسر جلسہ سالا نہ تھا ایک دفعہ مجھے یہ رپورٹ ملی کہ فلاں شخص کا اتنے x اتنے کا کمرہ ہے اور وہ سو آدمیوں کی روٹی لے کر گیا ہے.وہ آدمی بظاہر کمزور ہی تھا.میں نے کہا پتہ کرنا چاہیے کہیں ضیاع تو نہیں ہو رہا ہے.چنانچہ جب میں نے چیک کروایا تو پتہ لگا کہ سو سے بھی زیادہ آدمی ٹھہرے ہوئے ہیں.خدا جانے اس کمرے میں وہ سو آدمی کس طرح رہتے تھے.پس آنے والے بھی اور یہاں والے بھی بڑی قربانی کرتے ہیں.اس سے انکار نہیں لیکن میں یہ چاہتا ہوں اور میرے دل میں یہ خواہش ہے کہ ربوہ کے دوست جتنی قربانی کرتے ہیں اس سے زیادہ کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنے فضلوں کے وہ وارث ہوتے ہیں اس سے زیادہ فضلوں کے وارث بنیں.یہ میری آپ کے لئے خواہش ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بڑی اچھی خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ دوستوں کو میری اس خواہش کے پورا کرنے کی توفیق عطا کرے.جلسہ سالانہ کا جو نظام ہے اسے ہر سال پہلے سے بہتر ہونا چاہیے اور ہے مگر کچھ چیزیں تو ایسی ہیں جن کا علم تجر بہ سکھاتا ہے مثلاً جب مجھے پہلی دفعہ افسر جلسہ سالانہ مقرر کیا گیا تو مجھے تو پتہ نہیں تھا کہ دال کی دیگ کا نسخہ کیا ہے یعنی ایک دیگ میں دال کتنی پڑتی ہے اس میں کتنا نمک، کتنی ہلدی اور مرچ پڑتی ہے کتنا مسالہ اور کتنا گھی پڑتا ہے وغیرہ وغیرہ.چنانچہ اس وقت اجناس کے جو افسر تھے اور کئی سال سے کام کرتے چلے آرہے تھے.میں نے ان سے پوچھا تم بتاؤ ، کہنے لگے مجھے تو پتہ نہیں.میں نے کہا پھر تم کیا کرتے ہو؟ کہنے لگے بس دیگیں پکانے والے جو چیزیں مانگتے ہیں وہ ہم دے دیتے ہیں.میں نے کہا یہ تو ٹھیک نہیں.چنانچہ میں نے قادیان لکھا.انہوں نے دیگوں کے نسخے بھجوائے تو ایک عجیب بات معلوم ہوئی کہ قادیان میں دال کی دیگ میں جتنا نمک پڑتا ہے اتنی ہی دال جور بوہ میں پکتی ہے اس میں کم نمک پڑتا ہے.یہاں کا پانی نمکین ہے یا کیا بات ہے بہر حال فرق ہے.اسی طرح مرچ وغیرہ میں بھی فرق نظر آیا.یہاں کے تجربے کے مطابق یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا گیا.پھر میں نے اخبار میں اشتہار دینا شروع کیا اور یہ
خطبات ناصر جلد ششم ۲۱۱ خطبه جمعه ۱۴ / نومبر ۱۹۷۵ء سلسلہ کئی سال تک جاری رہا کہ جس دوست کے دماغ میں جو چیز آئے وہ ہمیں لکھ بھیجے وہ اعتراض نہیں ہو گا وہ مشورہ ہو گا اور افسر کا کام ہے کہ وہ مشورہ طلب کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے کسی نے لکھا آپ جو چیز نیچے بچھاتے ہیں (دب) وہ بہت تکلیف دیتی ہے.دراصل ان دنوں بوجوں والی گھاس کاٹ کاٹ کر نیچے بچھا دیا کرتے تھے کیونکہ اس زمانے میں اس علاقے میں چاول کی فصل نہیں ہوتی تھی.یہ تو جلسہ سالانہ کے مہمانوں کو آرام پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے زمین کو کہا یہاں چاول اگا.ورنہ پہلے تو یہاں چاول نہیں ہوتا تھا غرض کسی دوست نے لکھا کہ یہ تکلیف ہے کسی نے لکھا وہ تکلیف ہے کسی دوست نے مشورہ دیا کہ یہ انتظام ٹھیک ہونا چاہیے اور کسی نے کہا وہ انتظام ٹھیک ہونا چاہیے.یہ سب مشورے بھی اسی رجسٹر میں لکھے جاتے تھے جو بعد میں لال کتاب“ کے نام سے مشہور ہو گئی.پھر اسی کتاب میں Forecast کا طریقہ بھی درج کیا گیا اور وہ یہ تھا کہ پچھلے سال سے دس فیصد زیادہ مہمانوں کے لئے صبح و شام اتنی دیگیں زیادہ لگیں گی ، اتنا آٹا زیادہ ہوگا ، اتنا گوشت کا اندازہ ہے، اتنا گھی ، اتنی دال، اتنا نمک اور اتنی مرچ زیادہ پڑے گی.غرض ایک ایک چیز کے اندازے جولائی اگست اور ستمبر میں تیار ہو جاتے ہیں اور پھر اس کے مطابق اشیاء خریدنی پڑتی ہیں اور یہ ایک بڑی اچھی چیز ہے جو تجربے سے حاصل ہوتی ہیں لیکن تجربے کا میدان ہر جلسہ پر کھلا ہوتا ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں ہر روز کھلا ہوتا ہے.انسان اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں علم حاصل کرتا ہے اپنے ماحول سے، اپنے گرد و پیش سے، اپنے دوستوں کے تجربات سے اور خود اپنے تجربات سے.پس جتنے مہمان پچھلے سال آئے تھے اس سال اس سے زیادہ مہمان آئیں گے انشاء اللہ.اس لئے جلسہ کا انتظام پہلے سے بہتر ہونا چاہیے.اسی طرح ہمیں امید ہے کہ ملکی انتظامیہ نے پچھلے سال جتنا انتظام کیا تھا اس سال ان کا انتظام پہلے سے بھی اچھا ہو گا.ان کا ہمارے ساتھ تعاون اچھا ہو گا ہمارا ان کے ساتھ تعاون اچھا ہوگا.ایک دوسرے کو آپس میں ہزا ر ضرورتیں پیش آتی ہیں.وہ بھی باہر سے آتے ہیں ان کو ہزار تکلیفیں ہوتی ہیں.ان کا خیال رکھنا چاہیے.ان کو ہمارا خیال رکھنا چاہیے.دونوں طرف سے بات چلتی ہے لیکن بہر حال ایک چیز تو واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری کسی سے لڑائی نہیں ہے نہ
خطبات ناصر جلد ششم ۲۱۲ خطبه جمعه ۱۴ / نومبر ۱۹۷۵ء ہمارے دل میں کسی کی دشمنی ہے نہ ہمارے دل میں کسی کے لئے حقارت ہے نہ کسی کو ہم ذلیل سمجھتے ہیں.ہم ہر انسان کو انسانیت کے شرف کا مقام دینا چاہتے ہیں اور اس مقام پر اسے کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں ہم ہر ایک کے ساتھ پیار کرتے ہیں.ہر ایک کو پیار کے ساتھ اس صداقت کی طرف لانا چاہتے ہیں جو ہمارے نزدیک صداقت ہے اور یہ کوئی گناہ نہیں.ایک اچھی چیز جو میں اچھی چیز سمجھتا ہوں اگر میں چاہوں کہ وہ دوسروں کے پاس بھی ہو تو یہ بات قابل اعتراض نہیں ہے.یہ چیز ضرور قابل اعتراض بن جاتی ہے جو کہانیوں میں بیان کی جاتی ہے.کہتے ہیں ایک گیدڑ تھا یا شاید کوئی اور جانور تھا اس کی دم کٹ گئی تو اس نے کہا یہ تو فضول چیز تھی سارے ہی گیدڑوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنی دُمیں کٹوادیں.ہم تو انسان ہیں خدا نے ہمیں انسان سے پیار کرنا سکھایا ہے اور یہ بڑی نعمت ہے.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے انسان کو سب سے بڑی نعمت ہی یہ عطا کی ہے کہ ایک ایسی جماعت پیدا کر دی گئی جو انسان سے انسان کی حیثیت سے پیار کرتی ہے.اسے کسی سے کوئی دشمنی نہیں اور اس سے بھی دشمنی نہیں جو کسی غلط فہمی کی وجہ سے خود کو ہمارا دشمن سمجھتا ہے میں نے کئی دفعہ یہ کہا ہے اور یہ کہتے ہوئے میں کبھی تھکوں گا نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس وقت تک لوگ کہتے ہیں ایک لاکھ ہیں یا چوبیس ہزار انبیاء گزرے ہیں اور زمین پر انسانی زندگی کا بڑالمبازمانہ ہے جس میں پتہ نہیں کتنے آدم پیدا ہوئے ہیں مگر تاریخ نے کوئی ایک واقعہ بھی ریکارڈ نہیں کیا کہ پیار نے کبھی شکست کھائی ہو.غرض میں بتا یہ رہا ہوں کہ میرے نزدیک اس زمانہ میں نوع انسانی پر خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل یہ ہے کہ مہدی علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ نوع انسانی کا ایک حصہ ایسا پیدا کر دیا گیا ہے جو ہر ایک سے پیار کرتا ہے اور کسی سے دشمنی نہیں رکھتا.دنیا میں یہ چیز جماعت احمدیہ کے باہر کہیں بھی نظر نہیں آئے گی.دنیا میں بڑا فساد پیدا ہوا ان اقوام کی وجہ سے جو بڑی مہذب کہلاتی ہیں اور اپنے آپ کو تہذیب کی چوٹیوں پر پہنچی ہوئی بجھتی ہیں مگر وہ بھی ایک دوسرے سے نفرت اور حقارت کا سلوک کر رہی ہیں اور جو غریب ممالک ہیں ان کے ساتھ کوئی پیار نہیں کرتا.چنانچہ بڑے بڑے مہذب اور مالدار ممالک کی جتنی بھی پالیسیاں ہیں وہ سب اپنے فائدہ کے لئے ہیں
خطبات ناصر جلد ششم ۲۱۳ خطبه جمعه ۱۴ / نومبر ۱۹۷۵ء ہمارے پیار کے لئے نہیں لیکن دنیا میں ایک ایسی جماعت ہے جو ہر ایک سے پیار کرتی ہے اور آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی ایسا واقعہ تاریخ نے ریکارڈ نہیں کیا کہ پیار نے شکست کھائی ہو اور نفرت اور حقارت نے کامیابی حاصل کی ہو.آخر کار پیار کی جیت ہوتی ہے اور میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اب بھی آخر کار پیار ہی انشاءاللہ جیتے گا.مہدی علیہ السلام کے سپرد یہ کام ہوا ہے اس کے نتیجہ میں ساری دنیا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار کرنے لگ جائے گی اور پیار میں تڑپ کر آپ کی جھولی میں آگرے گی اور خدائے واحد ویگانہ کی پرستش کرنے لگے گی.دنیا آج اس واقعہ کو کتنا ہی انہونا کیوں نہ سمجھے مگر ہونا یہی ہے کیونکہ آسمانوں اور زمین کے خدا نے کہا ہے کہ یوں ہی ہوگا.پس جلسہ سالانہ کا جو نظام ہے اس کو میں کہتا ہوں ہماری روایات یہ ہیں کہ ہر جلسے پر نظام جلسہ پہلے جلسے کے نظام جلسہ سے بہتر ہوتا ہے اس لئے وہ کوشش کریں دعاؤں کے ساتھ اور تدبیر کے ساتھ.اللہ تعالیٰ ان کا قدم ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھاتا چلے جائے گا.اس سلسلہ میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ ایک تو ہر ایک عمر کے رضا کار آگے آئیں دوسرے جن دوستوں کو خدا تعالیٰ نے سر چھپانے کو مکان دیئے ہیں وہ اپنے بھائیوں کے لئے جو اسلام کے نام پر اور قرآن کے نام پر یہاں آتے ہیں اور قرآن کی باتیں سننے کے لئے یہاں جمع ہوتے ہیں ان کو سکھ پہنچانے کے لئے یا ان کو نسبتاً کچھ آرام پہنچانے کے لئے اپنے ہاں ٹھہر نے والے مہمانوں کے علاوہ مکان کا جتنا حصہ بھی وہ نظام جلسہ کو دے سکتے ہوں ضرور دیں.تیسرے یہ کہ جلسہ کے جو منتظمین ہیں وہ اس بات کو یا درکھیں کہ ان کا نظام پہلے سے بہتر ہونا چاہیے چوتھے ساری دنیا کے احمدی یا درکھیں کہ جہاں تک ہماری عقل و فراست کا تعلق ہے اور جہاں تک ہمارے دل اور روح کا تعلق ہے اور جہاں تک ہمارے عزم اور ارادہ کا تعلق ہے اور جہاں تک ہمارے تو گل علی اللہ اور حکومت وقت پرحسن ظن کا تعلق ہے جلسہ سالانہ انشاء اللہ اپنی تاریخوں میں ہو گا.پچھلے سال بھی ہمارے مخالفوں نے بڑا ہی پرو پیگنڈا کیا تھا بعض جگہ یہ کہا کہ جلسہ نہیں ہوگا.بعض جگہ یہ مشہور کر دیا کہ عورتوں کو جلسہ میں شمولیت سے منع کر دیا گیا ہے حالانکہ جو ہدایت یہاں سے جاتی ہے اس کے متعلق دوستوں کو یہ علم
خطبات ناصر جلد ششم ۲۱۴ خطبه جمعه ۱۴ / نومبر ۱۹۷۵ء ہونا چاہیے کہ وہ یہاں سے جاتی ہے اور اس کے اندر تو کوئی اخفا نہیں ہوتا اس میں تو کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہوتی.پس جلسہ سالانہ کا جو عام طریق ہے اسی کے مطابق اس سال بھی جلسہ ہوگا اور ہمارا جو عام طریق ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر پورا تو گل کرتے ہوئے اس کے حضور عاجزانہ جھکتے ہوئے ہر آن اس کے حضور دعائیں کرتے ہوئے ہمارا جلسہ سالانہ ہوتا ہے.اس لئے جماعت کو ابھی سے دعائیں شروع کر دینی چاہئیں اللہ تعالیٰ ہمارے جلسے کو ہر اُس رنگ میں بابرکت کرے جس رنگ میں بابرکت ہونے کی دعائیں اس جلسے کے لئے حضرت مہدی علیہ السلام نے کی ہیں.غرض جب ہماری عاجزانہ دعا ئیں حضرت مہدی علیہ السلام کی دعاؤں کے ساتھ شامل ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ ہمارے کام میں برکت ڈال دے گا.اس لئے دوست دعائیں کرتے رہیں تدبیر کرتے رہیں.حسن ظن سے کام لیں خدا تعالیٰ پر توکل رکھیں اور جلسہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامل ہونے کی ابھی سے تیاری شروع کر دیں.یہ چار پانچ دن کی بات ہے ہم نے دیکھا ہے.زمیندار احباب کو تو دو دن تک روٹی نہ ملے تب بھی گزارہ کر لیتے ہیں اور یہ میری اپنی آنکھوں کا مشاہدہ ہے لیکن یہاں تو بہر حال کئی ایک کو بڑی لذیذ روٹی مل جاتی ہے.کئی شاید سمجھتے ہوں کہ اتنی لذت نہیں ملتی جتنی ان کی گھر کی روٹی میں ملتی ہے لیکن ہمیں تو بہت لذت آتی ہے.اب تو اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسری ذمہ داریوں میں باندھ دیا ہے لیکن جب میں اس سے پہلے ان سے آزاد تھا اور آزادانہ باہر پھرا کرتا تھا.افسر جلسہ سالانہ کی حیثیت میں یا ویسے ہی تو سب سے زیادہ مزیدار روٹی جو میں نے عمر میں کھائی ہے وہ تازہ گرم گرم تنوری روٹی تھی جو جلسہ سالانہ کے تنور سے نکلی اور میں نے بغیر سالن کے کھالی اور ساتھ پانی لیا.ایسے بہت سے کھانے بھی میں نے کھائے ہیں اب بھی اس روٹی کی لذت دل میں سرور پیدا کرتی ہے حالانکہ اس وقت نہ جلسہ ہورہا ہے اور نہ وہ تنور چل رہا ہے بہر حال دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکتے ہوئے جلسہ پر آنے کی تیاری کریں.تکبر کا کوئی رنگ اپنی زندگیوں میں پیدا نہ ہونے دیں اور پورے عزم اور ارادہ کے ساتھ جلسہ سالانہ پر آنے کی اسی طرح تیاری کریں جس طرح دوست اپنے دوسرے نیکی کے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۱۵ خطبه جمعه ۱۴ / نومبر ۱۹۷۵ء کاموں کی تیاری کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے اور اپنی رحمتوں سے نواز نے والا ہے اب وہ اپنے فضلوں اور رحمتوں سے ہمیں نوازے گا.انشاء اللہ العزیز روز نامه الفضل ربوه ۳ دسمبر ۱۹۷۵ ء صفحه ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ششم ۲۱۷ خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۷۵ء صد سالہ احمد یہ جو بلی منصوبہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا منصوبہ ہے خطبه جمعه فرموده ۲۱ رنومبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.دوستوں کو یاد ہوگا کہ ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے صد سالہ احمد یہ جو بلی“ منصوبے کا اعلان کیا تھا.اصل منصو بہ تو بعض بنیادی کاموں کی تکمیل ہے تا کہ جب ہم غلبہ اسلام کی صدی میں داخل ہوں تو ہماری راہ میں اپنی غفلتوں کی کوئی روک نہ ہولیکن ان بنیادی کاموں کی تکمیل کے لئے رقم کی بھی ضرورت ہے.اس رقم کی ضرورت صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں جہاں جہاں بھی احمدی بستے ہیں ان ممالک میں ان رقوم کی ضرورت ہے کیونکہ اس منصوبہ کی تکمیل صرف ایک ملک سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ ساری دنیا سے تعلق رکھتی ہے اس لئے کہ یہ منصوبہ ہے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا.اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تو فیق اور اسی کے فضل اور اسی کی رحمت کے ساتھ اس منصوبہ کے اعلان اور اشاعت پر قریباً ایک سال گزر گیا.پہلے خیال تھا کہ اس منصوبہ سے تعلق رکھنے والا جو مالی مطالبہ ہے اسے سولہ سال پر تقسیم کیا جائے لیکن بعد میں جو حالات پیدا ہوئے اس کے نتیجہ میں ہمیں اسے پندرہ سال پر تقسیم کرنا پڑا.اس وقت میں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ ہو نہار اور مخلص احمدی نوجوان جو اس وقت تو
خطبات ناصر جلد ششم ۲۱۸ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۷۵ء روزی نہیں کما رہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی عمروں میں برکت ڈالے اور جو ہنر وہ سیکھ رہے ہیں خدا کے فضل سے اس میں وہ ترقی کریں) وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے آئندہ کی آمد کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی وعدے لکھوا سکتے ہیں اور اس گروہ میں سے بہتوں نے اپنے وعدے لکھوا دیئے تھے.لندن میں انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارا جو ایک سال کا حصہ بنتا ہے یعنی قریباً چالیس ہزار پاؤنڈ اس میں سے تین ہزار پاؤنڈ اس ننھے مخلص احمدی گروہ کا ہے جنہوں نے ابھی کمانا شروع نہیں کیا.میں نے کہا ٹھیک ہے اس رقم کو ابھی اس سال میں شامل نہ کرو وہ تو اگر آپ جمع نہ کر سکیں تو آپ کے اوپر کوئی حرف نہیں آئے گا.میں قوی امید رکھتا ہوں اور ہر وقت دعائیں کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس نسل کی امیدوں سے زیادہ انہیں دنیا کے اموال بھی دے تا کہ جس جذبہ کے ساتھ انہوں نے خدا کی راہ میں مالی قربانیاں پیش کی ہیں ( نہ صرف اس منصوبہ کے سلسلہ میں بلکہ اور دوسرے منصوبوں میں بھی) اس کے مطابق اپنے وعدوں سے زیادہ وہ ادا ئیگی کرسکیں لیکن بہر حال وہ ادائیگیاں تو اپنے وقت پر ہوں گی.پھر ایک دوسرا گروہ ہے جنہوں نے آئندہ بڑھنے والی آمد کی توقع پر زیادہ وعدے کئے ہیں.وہ حصہ جو توقع کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس کے لئے انہوں نے اللہ پر بھروسہ رکھا ہے اور خدا تعالیٰ ان کے اس اعتماد کو ضائع نہیں کرے گا اور ان کی دولت اور ان کے اموال میں برکت ڈالے گا، انشاء اللہ.لیکن جو وہ اس وقت کما رہے ہیں اس کے لحاظ سے وعدے کا پندرھواں حصہ پہلے سال میں اور پندرھواں حصہ دوسرے سال میں یعنی دو سالوں کا ملا کر ۲۱۵ تو انہوں نے بہر حال پہلے دو سال میں ادا کرنا ہے.اس منصوبہ کی تیاری عملاً ساتھ ساتھ شروع ہوگئی ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے کہ میں ایک مسجد کی بنیا درکھ کر آیا ہوں جس کا صد سالہ احمد یہ جو بلی منصوبہ سے تعلق ہے.اللہ تعالیٰ نے بنیاد کے ساتھ ہی وہاں جماعت کی مضبوطی کے سامان بھی پیدا کر دیئے ہیں.ابھی کل ہی مجھے وہاں سے ایک اور خط ملا ہے کہ کچھ اور یوگوسلا و احمدی ہو گئے ہیں.ان کے اندر ایک رو پیدا ہوگئی ہے اور مسجد میں اور مشن ہاؤسز یہ ہمارے مراکز ہمارے کیا یہ خدا کے گھر خدا کے نام کو بلند کرنے کے مراکز بنتے ہیں.جس ملک میں اس قسم کا کوئی بھی مرکز نہ ہو اس ملک میں خدا تعالیٰ کی توحید کو قائم
خطبات ناصر جلد ششم ۲۱۹ خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۷۵ء کرنے کی ہماری کوشش کامیاب ہو ہی نہیں سکتی سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کے لئے استثنائی حالات پیدا کرے.وہ تو اس کا فضل اور اس کی رحمت ہے اور اس کی عطا ہے.ہم عاجز بندے تو اپنی کوتاہ فراست اور عقل سے ہی اندازے لگاتے ہیں لیکن وہ جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور جو سب اموال اور دولتوں کا مالک ہے وہ دیتا بھی ہے اور وہ سامان بھی پیدا کرتا ہے.وہ تو اس کا حصہ ہے اور وہ دے گا لیکن ہمیں اس نے کہا ہے کہ تم اپنی بساط کے مطابق تد بیر کرو اور ہم اپنی بساط کے مطابق اور اپنی سمجھ کے مطابق تدبیر کرتے ہیں.ہماری ناقص عقل یہ کہتی ہے کہ مثلاً یورپ کے جن ممالک میں ہم نے اسلام کی تبلیغ کرنی ہے اور اسلام کی پیاری اور حسین اور احسان کرنے والی تعلیم ان تک پہنچانی ہے اور اس کے ذریعہ سے ان کے دلوں کو خدا اور اس کے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے جیتنا ہے یہ کام تب ہو سکتا ہے جب وہاں ہمارا کوئی مرکز بھی ہو، کوئی کام کرنے کی جگہ ہو اور لوگوں کو پتہ ہو اور اگر اور جب دلچسپی پیدا ہوتو وہ اس جگہ پر جا کرا اپنی سیری کا انتظام کر سکتے ہوں اور اپنی لگن کو دور کرنے کے لئے ان کو وہاں سے کوئی لٹریچر مل سکتا ہو.اس عرصے میں ہم نے بہت سا لٹریچر کتب اور رسائل مختلف زبانوں میں شائع کرنے ہیں.اب وہاں میں نے ایک مسجد کی بنیا درکھی ہے اور کتب ورسائل کی بیسیوں ضروریات وہاں محسوس ہونے لگی ہیں اور یہ مطالبہ ہو گیا ہے کہ ہمیں اس قسم کا لٹریچر دیں.ٹھیک ہے صرف دلائل سمجھا کر اور خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے جو وہ احمدیت پر ظاہر کرتا ہے وہ ان کے سامنے رکھ کر ان کو احمدی بنا لینا تو کافی نہیں ہے بلکہ اسلام کی صحیح تعلیم اور قرآن عظیم کی صحیح تصویر ان کے سامنے رکھ کر کوشش کرنا کہ یہ ان کے دلوں میں رچ جائے یہ اصل چیز ہے.یہ اگر ہم ان کو نہ دے سکیں تو ایسا ہی ہے کہ ہم نے بڑا خوبصورت اور صحت مند درخت لگادیا لیکن اس کو پانی دینے کا ہم نے کوئی انتظام نہیں کیا تو وہ کیسے زندہ رہے گا اور کیسے بڑھے گا.کیسے نشوونما حاصل کرے گا یا کم از کم کیسے اس قسم کی نشو و نما حاصل کرے گا جیسی ایک صحت مند درخت جب ایک اچھی زمین میں لگایا جائے تو وہ حاصل کر سکتا ہے اس کی تو ساری ضرورتیں پوری ہونی چاہئیں تب جا کر وہ اپنی چھپی ہوئی استعدادوں کی نمائش کر سکتا ہے اور تب وہ اپنی حسین شکل ظاہر کرتا ہے اور تب وہ دنیا کے لئے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۲۰ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۷۵ء بھلائی کے سامان پیدا کر سکتا ہے اس کے بغیر تو نہیں کرسکتا.لٹریچر کے لئے اب یہاں سے ہمیں کتب وغیرہ باہر بھیجنے میں کچھ دقت پیدا ہورہی ہے جو بھی ذمہ دار ہیں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ اور عقل عطا کرے اور ہر پاکستانی کا جوحق ہے اس کی ادائیگی کی انہیں تو فیق عطا کرے لیکن اگر یہاں کچھ عرصہ تک اس قسم کے حالات رہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھ جائیں گے اور وہ ذمہ داریاں جو خدا تعالیٰ نے ہم پر ڈالی ہیں ان کو نظر انداز کر دیں گے اور اپنے کام چھوڑ دیں گے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جب ہم پر ایک دروازہ بند کیا جائے گا تو ہم انتہائی عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اور انتہائی عاقلانہ تدبیر کے ساتھ دنیا میں جہاں بھی اس کام کا کوئی دوسرا دروازہ کھل سکتا ہو وہ کھولیں گے اور خدا تعالیٰ کے نام کی بلندی کی راہ میں کوئی روک قائم نہیں رہنے دیں گے.ہماری یہ کوششیں ، اگر ہماری دعا ئیں اپنی شرائط کے ساتھ ہوں تو بار آور ہوں گی انشاء اللہ.اسی لئے میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں کیوں کہہ گیا کہ ہمیں بیرونِ پاکستان دو جگہ دو ممالک میں پریس کھولنے پڑیں گے.اس وقت تو میرے ذہن میں یہ چیز نہیں تھی لیکن حالات نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ جو ہادی ہے جو معلم حقیقی ہے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اس کے علم میں تو تھا.پس جب تک ہم باہر اپنے پریس نہ کھولیں ہم اسلام کی حقانیت میں اور توحید کے ثبوت میں لٹریچر اس تعداد میں شائع نہیں کر سکتے جتنا کہ ہم اپنے مطبع خانے اور اپنے پریس کے ذریعے کر سکتے ہیں کیونکہ دوسرے بہت مہنگا شائع کرتے ہیں انہوں نے اپنے نفعے رکھنے ہیں ، ان کے اپنے معیار ہیں، ان کی اپنی قیمتیں ہیں ، ان کا اپنا طریق کار ہے.مثلاً ہمیں ایک امریکن فرم نے کہا کہ ہم آپ سے قرآن کریم کے ایک لاکھ انگریزی کے تراجم خریدنے کے لئے تیار ہیں لیکن قیمت کا ۶۰ فیصد ہمارے لئے کمیشن دو.یعنی اگر قرآن کریم کی دس جلدوں کی قیمت سوروپے ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ساٹھ روپے ہمیں دیں.ان سے پوچھا کہ اتنا کمیشن ! انہوں نے کہا نہیں سارا ہمارا نہیں ہے وہ تھوک میں بیچنے والے کتب فروش تھے کہنے لگے کہ بیس فی صد ہمارا کمیشن ہے اور چالیس فیصد جو آگے اپنی دکانوں پر رکھیں گے ان کا کمیشن ہے.وہ کہتے تھے کہ بے شک اس کی
خطبات ناصر جلد ششم ۲۲۱ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۷۵ء قیمتیں بڑھا دو.لیکن قیمتیں بڑھا کر تو ہم اس تعداد میں دنیا میں قرآن کریم کے تراجم نہیں پھیلا سکتے جس تعداد میں ہم پھیلانا چاہتے ہیں.اس مثال میں اگر ہمارا اپنا پر یس ہو تو ہم قرآن کریم کی دس کا پیاں سو روپے کی بجائے چالیس روپے خرچ کر کے دنیا کے ہاتھ میں دے سکتے ہیں.بڑا فرق ہے اس واسطے باہر ہمارے اپنے پریس ہونے چاہئیں.امریکہ میں اس وقت سب سے زیادہ آزادی ہے.آگے تو خدا بہتر جانتا ہے اس واسطے دعائیں کرو کہ ہم جو منصوبہ بنائیں وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی آئندہ برکتوں والا ہو.اس وقت سب سے زیادہ آزادی امریکہ میں ہے وہاں شائع کرنے کی بھی کوئی پابندیاں نہیں ہیں اور وہاں سے لٹریچر ساری دنیا میں بھیجا بھی جاسکتا ہے تاہم اور بھی بہت سے ملک ہیں جن میں آزادی ہے صرف امریکہ نہیں ہے مثلاً موجودہ حالات میں افریقہ کے ممالک ہیں اور ان کے اوپر جماعت کا بڑا اثر ہے.اس منصوبہ سے معا پہلے جو نصرت جہاں آگے بڑھو کا منصوبہ تھا وہ صرف مغربی افریقہ کے لئے تھا.ایک محدود اور چھوٹا سا منصوبہ تھا اس نے مغربی افریقہ میں اتنا اثر پیدا کیا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے اور اس اثر کو دیکھ کر ہماری گردن خدا تعالیٰ کے حضور اور بھی جھک جاتی ہے.کتنی حقیرسی پیشکش تھی جو ہم نے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کی اور اتنے عظیم اس کے نتائج نکل رہے ہیں.اب ایک ملک میں تو یہ حال ہے کہ ہمارے وہاں کے مبلغ جب دورہ کرتے ہیں تو قریباً ہر علاقے میں اس جگہ کے لوگ پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ آپ ہمارے ہاں سکول کھولیں اور ہمارے بچوں کو عیسائیت سے بچائیں ، ہمارے ہاں ہسپتال کھولیں اور ہمارے بڑوں کو عیسائیت سے بچائیں.گو خدا کے فضل سے ہم آہستہ آہستہ پھیل رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ جتنی توفیق دیتا ہے وہ کام ہورہا ہے لیکن یہ کام تو پانچ سال کا تھا.نصرت جہاں کی سکیم ۱۹۷۰ء میں میں نے جاری کی تھی اور جلسہ سالانہ پر اس کا اعلان کیا تھا.اس وقت اپنے حالات کو دیکھ کر ، جماعت کے حالات کو دیکھ کر یہ خیال تھا کہ سات سال میں یا بہت ہی جلدی کر سکے تو پانچ سال میں میں اپنا وعدہ پورا کرسکوں گا.میں نے دعائیں کیں، جماعت نے دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے وہ منصوبہ جس کے متعلق
خطبات ناصر جلد ششم ۲۲۲ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۷۵ء ہمارے اندازے تھے کہ وہ سات سال میں مکمل ہوگا خدا تعالیٰ کے فضل سے ڈیڑھ دو سال میں وہ مکمل ہو گیا اور اس کا بڑا اثر ہوا.ایک امریکن مجھے نانا میں ملے وہ وہاں کے قبائلی Customs (کسٹمز ) ان کی روایات اور رہن سہن کے طریقوں پر P.H.D ( پی ایچ ڈی) کے لئے اپنا مقالہ لکھ رہے تھے.وہ ڈیڑھ سال کے بعد یہاں آئے.سیر کرتے ہوئے پھر رہے تھے یہاں بھی آگئے.وہ کہنے لگے کہ میں صرف یہ دیکھنے کے لئے آیا ہوں کہ یہ جماعت کس چیز سے بنی ہوئی ہے.مجھ سے تو بات نہیں کی لیکن بعض دوستوں سے انہوں نے یہ کہا کہ اگر امریکہ یہ وعدہ کرتا تو ڈیڑھ دوسال میں وہ اپنا یہ وعدہ پورا نہ کر سکتا لیکن جماعت احمدیہ نے اسے پورا کر دیا.بات یہ ہے کہ ہم اس مٹی سے بنے ہوئے ہیں جو دنیا کی نگاہ میں حقیر ہے لیکن خدا کے ہاتھ میں اس کا آلہ کار بن چکی ہے.خدافضل کرتا ہے اور کامیابیاں عطا کرتا ہے ورنہ ہم کیا اور ہماری بساط کیا اور ہمارے مال کیا اور ہماری عقلیں اور فراست کیا.نتیجے اور تدبیر اور کوشش کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہے.بڑا عظیم نتیجہ نکل رہا ہے.جماعت کے منتظمین چونکہ موقع کے اوپر ہیں وہ پیچھے پڑ جاتے ہیں تو مبلغ ہاں کر جاتے ہیں، نیم رضامند ہو جاتے ہیں کہ ہاں ہم کھول دیں گے.بعد میں مجھ سے منظوری لیتے ہیں پھر مجھے منظوری دینی پڑتی ہے.ایک سکول کا تو یہ ہوا کہ ایک مسلمان نے اپنے علاقے میں ایک سکول کھولا جس کو وہ چلا نہیں سکا.وہ مسلمانوں کا علاقہ ہے وہاں احمدی بھی ہیں لیکن اکثریت ان مسلمانوں کی ہے جو احمدی مسلمان نہیں.تو وہ حکومت اس کے پیچھے پڑگئی کہ تم سکول نہیں چلا سکتے تو ہم تم سے واپس لے لیں گے.اس نے کہا کہ میری تو عززت خاک میں مل جائے گی وہ بہت بڑا آدمی تھا انہوں نے اسے کہا کہ پھر تم یہ کرو کہ سکول کسی مشن کو دے دو کہ وہ سنبھال لے.عیسائی اس کے پاس گئے کہ یہ سکول ہمیں دے دو.خدا نے ان کو بڑی دولت دی ہے لیکن ایسی مثالوں سے دنیا کی دولت اور خدا تعالیٰ کی تدبیر اور منشاء کا مقابلہ نمایاں ہو کر کھلے طور پر سامنے آ رہا ہے.انہوں نے کہا کہ ہم تمہیں تو نہیں دیتے وہ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ اگر عیسائیوں کو دے دیا تو پہلے ہی ان کے بہت سکول ہیں ہمارے علاقے میں.وہ ہمارے بچوں کو خراب کر رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ اسے جماعت احمد یہ
خطبات ناصر جلد ششم ۲۲۳ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۷۵ء لے لے اور اس سکول کی یہ حالت تھی کہ لڑ کے داخل ہونے کے لئے نہیں آتے تھے.چند میل پر ایک کیتھولک سکول تھا انہوں نے سکول کی بہت بڑی اور شاندار عمارت بنائی ہوئی تھی اور غیر ملکی سٹاف رکھا ہوا ہے.وہاں کثرت سے بچے جاتے تھے اور اس بیچارے کے سکول میں کوئی آتا نہیں تھا.چنانچہ اس حالت میں کہ علاقے کو اس کی طرف کوئی توجہ نہیں تھی وہ صرف اس جذبے کے ماتحت جو بڑا پیارا جذبہ ہے کہ اسے کوئی مسلمان لے لے جماعتِ احمدیہ کے پاس آئے کہ جماعتِ احمد یہ اس ملک کے مسلمانوں کی نمائندہ ہے یہ لے لے ورنہ عیسائیوں کو اور تقویت پہنچے گی.انہوں نے یہاں حالات لکھے میں نے کہا اچھا لے لو اللہ فضل کرے.چنانچہ وہ لے لیا.یہ اسی سال کا واقعہ ہے صرف چند مہینے ہوئے ہیں جس سکول میں پچاس سے زیادہ کبھی بچے داخل نہیں ہوتے تھے دو ہفتے ہوئے ہیں مجھے رپورٹ آئی ہے کہ جماعت کے پاس آنے کے بعد اس سکول میں ۱۵۰ بچے پہلی کلاس میں داخل ہو چکے ہیں اور انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ ماں باپ نے اپنے بچوں کو اس بہت بڑے کیتھولک سکول سے ہٹا کر ان کے نام وہاں سے کٹوا کر اس سکول میں انہیں داخل کیا ہے.تو وہاں اس قسم کے حالات پیدا ہور ہے ہیں میں بتا یہ رہا ہوں کہ ان واقعات کو دیکھ کر موجودہ حالات میں وہاں بھی کسی ملک میں ایک پریس لگایا جاسکتا ہے.کل کا تو مجھے پتہ نہیں میرا رب جانتا ہے اسی واسطے میں بار بار کہتا ہوں کہ دعاؤں کے بغیر ہمارا کام نہیں چل سکتا.وہ ہستی جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں نہ ماضی کی ، نہ حال کی ، نہ مستقبل کی.جب تک اس کی راہنمائی نہ ہو کیسے ہم ترقی کر سکتے ہیں، کیسے ہم اس کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں، کیسے ہماری کوشش اور کام اور تدبیر میں برکت پڑسکتی ہے.پس وہ بڑی اچھی جگہ ہے ممکن ہے کہ ایک پریس وہاں کھولیں.یہاں کا پریس بھی بعض روکوں کی وجہ سے دوسال لیٹ ہو گیا ہے اب کچھ آثار ہیں کہ شاید پانچ چھ مہینے میں تھوڑا بہت کام کرنا شروع کر دے.جس وقت میں نے اعلان کیا تھا کہ دو پریس باہر بنیں گے اس وقت مجھے تو پتہ نہیں تھا کہ یہاں کے حالات کیا ہو جائیں گے اور ہمارے راستے میں کیا روکیں پیدا ہوں گی لیکن میرے اور تمہارے رب کو پتہ تھا اور اس نے میری زبان سے ایسی بات نکلوا دی کہ خود میں نے بعد میں سوچا
خطبات ناصر جلد ششم ۲۲۴ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۷۵ء تو میں نے کہا کہ اس کی ضرورت تو بظاہر نہیں تھی.ٹھیک ہے زبان سے بات نکال دی گئی ہے اس میں خدا تعالیٰ کی کوئی حکمت ہو گی.تو پریس کے اوپر خرچ آئے گا.پاکستانی روپیہ کے لحاظ سے تو پریس کے اوپر کافی خرچ ہو جاتا ہے اگر ایک درمیانے درجے کا پریس انگلستان میں لگے تو اس کے اوپر وہاں کا لاکھ سوالاکھ روپیہ جس کو وہ پاؤنڈ کہتے ہیں وہ خرچ ہو جاتا ہے( میں جب دورے پر وہاں جاتا ہوں تو پاؤنڈ کو میں روپیہ ہی کہا کرتا ہوں ) بڑا مہنگا ملک ہے اس کی قوت خرید بھی بہت کم ہے یعنی آپ یوں سمجھ لیں کہ وہاں پر بعض جگہ ایک عام ریسٹورنٹ میں چائے کی ایک پیالی چھ روپے کی ملتی ہے.بڑا ہی مہنگا ملک ہے.پس اگر وہاں پر ایک لاکھ یا سوالا کھ وہاں کے روپے کا پریس لگ جائے تو ان کے لحاظ سے یہ زیادہ مہنگا نہیں لیکن جو ہمارا پاکستانی روپے کا تصور ہے اس کے لحاظ سے یہ بائیس تنیس لاکھ سے تیس لاکھ روپے تک بن جاتا ہے.انگلستان کی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی بڑھ بھی گئی ہے ( میرے ان دوروں کے درمیان بھی بہت بڑھی ہے ) اور فعال اور مخلص بھی بڑی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول کرے اور انہیں احسن جزا دے ابھی تو دو مساجد کی ذمہ داری میں ان کے اوپر ڈال آیا ہوں یعنی پہلی مسجد کا ۷۰ - ۷۵ فیصد اور دوسری اوسلو کی مسجد کا قریباً سارا خرچ.یہ انشاء اللہ ہو جائے گا.اس کے بعد پھر وہ پریس کے لئے بھی تیار ہیں ان کی کچھ اپنے مشن کی ضرورتیں تھیں ان کے لئے کچھ مزید تعمیر کرنے کے لئے میں نے ان کو ۱۲.۱۴ ہزار پاؤنڈ کی اجازت دی تھی کیونکہ جس مشن ہاؤس کا ہال بنتے وقت بہت بڑا سمجھا گیا تھا اور یہ بحث ہوگئی تھی کہ اتنا بڑا ہال کیوں بنایا جائے اس سے چھوٹا ہونا چاہیے اب اس میں گنجائش ہی نہیں رہی ، جماعت اس میں سماتی بھی نہیں.اسی طرح جو دفتر ہیں ان میں بھی کام نہیں سماتا تو بارہ ہزار پاؤنڈ کا مطلب ہے پچیس روپے فی پاؤنڈ کے حساب سے تین لاکھ روپیہ.چنانچہ کچھ چھوٹی چھوٹی Annexies (اینکسیز ) یعنی چھوٹے چھوٹے کمرے مزید بن جائیں گے اور ان کی ضرورت پوری ہو جائے گی.پھر اس میں بھی انشاء اللہ وسعت ہوگی وہاں ہمارے پاس زمین بڑی ہے.اصل منصوبہ پیسے اکٹھے کرنے کا تو نہیں ہے نا.اصل منصو بہ تو یہ کہنا چاہیے کہ پیسے خرچ
خطبات ناصر جلد ششم ۲۲۵ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۷۵ء کرنے کا ہے اور جتنے پیسے میں نے سوچا تھا کہ ہمیں خرچ کرنے چاہئیں اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا کہ جماعت اس سے زیادہ خرچ کرے.جتنے میں نے کہا تھا کہ وعدے کرو اس سے چار گنے زیادہ جماعت نے وعدے کر دیئے ہیں.میں نے کہا تھا اڑھائی کروڑ.جماعت نے کہا دس کروڑ.میں نے کہا یہی ٹھیک ہے میں سمجھ گیا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ دس کروڑ خرچ کرو.دس کروڑ کی ضرورت پڑے گی.آپ نے وعدے کر دیئے ہیں.میں نے بتایا ہے کہ بعض وعدے ایسے ہیں کہ اگر وہ ادا نہ ہوں تو کسی پر کوئی الزام نہیں آتا بلکہ وہ ہماری اور دعاؤں کے مستحق ہو جاتے ہیں.مثلاً میں ایک مثال دے دیتا ہوں جس سے بات واضح ہو جائے گی.ایک طالب علم جو میڈیکل میں تھر ڈائیر میں پڑھ رہا تھا اس کی کوئی آمد نہیں تھی وہ تو اپنے ماں باپ کا خرچ کروارہا تھا اس نے کہا کہ میں ڈاکٹر بنوں گا.یہاں پاکستان میں ڈاکٹر بہت کماتے ہیں اس نے کہا کہ میں احمدی ڈاکٹر بنوں گا.میں غریبوں کا مفت علاج کروں گا.میں اتنا نہیں کماؤں گا لیکن پھر ان سے آدھا کمالوں گا اور جتنا کماؤں گا اس کے مطابق اس نے اپنے دماغ میں اندازہ کیا کہ علاوہ اور چندوں کے جو اس نے دینے تھے اور وہ اس کے دماغ میں حاضر تھے اس نے کہا کہ میں اتنی رقم اس منصوبے میں دوں گا یعنی پانچ چھ سال بعد اس کی جو کمائی شروع ہونی ہے جبکہ وہ پاس ہونے کے بعد ڈاکٹر بن جائے گا اس کے مطابق اس نے وعدہ لکھوا دیا اور میں نے کہا تھا کہ وعدے لکھوا دو.اب اگر اس وقت وہ سیکنڈ ائیر میں تھا تو اب فورتھ ائیر میں ہے.وہ ابھی چندہ نہیں دے سکتا ابھی تو وہ طالب علم ہے اگر آج وہ نہیں دیتا تو اس کے اوپر کیا الزام ہے.پس جو ایسے افراد یا ایسے گروہ ہیں ان کے او پر کوئی الزام نہیں.ان کے لئے تو ہم اور بھی دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کی خواہشات اور ان کی توقعات سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کی توفیق عطا کرے لیکن اس وقت میں بڑی عمر کے ان لوگوں سے مخاطب ہوں جنہوں نے اپنی آمد کے مطابق وعدے لکھوائے تھے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں.غالباً اگلے مارچ میں دوسرا سال ختم ہو رہا ہے وہ اپنے وعدے کے مطابق دو سال کا حصہ ادا کریں.پاکستان میں بھی اور باہر کے ممالک میں بھی.انگلستان کو میں اس وقت دوسری یاد دہانی کرا رہا ہوں ایک میں وہاں کروا آیا تھا.ان
خطبات ناصر جلد ششم ۲۲۶ خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۷۵ء کے دو سال کے وعدے ( جو استثنی ہیں وہ نکال کر ) کم و بیش ستر ہزار پاؤنڈ بنتے ہیں یعنی قریباً ۱۷.۱۸ لاکھ روپیہ.لیکن وہاں بعض چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں وہ اپنے چندے وہاں بھیج دیتے ہیں وہ بھی کئی ہزار بن جاتے ہیں.میرا اندازہ ہے کہ پچھتر ہزار پاؤنڈ سے اتنی ہزار پاؤنڈ تک ان کا ان دو سالوں کا چندہ بن جائے گا.یہ جو میں نے کہا تھا کہ وہاں ایک دوسرا گروہ ہے بات دراصل یہ ہے کہ وہ گروہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور ان کے چند ساتھیوں کا ہے ان کا چندہ دس لاکھ پاؤنڈ میں سے ( جو انگلستان کا ٹوٹل چندہ ہے ) ساڑھے چار.پونے پانچ لاکھ پاؤنڈ ہے لیکن انہوں نے اپنی سکیم کے مطابق جس کی مجھ سے اجازت لی ہے یہ وعدے کئے ہیں.چونکہ وہاں ان کی واقفیت بہت سیارے دوستوں سے ہے اور وہ دنیا میں چوٹی کے آدمی ہیں.ان کی سکیم یہ ہے کہ اگر اس وقت ہم رقم Invest ( انوسٹ) کر دیں، تجارت پر لگا دیں تو ہمیں امید ہے کہ یہ رقمیں دگنی ہو جائیں گی بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ ہو جائیں.میں نے کہا ٹھیک ہے آپ وہاں لگا دیں.چنانچہ انگلستان کا نصف حصہ تو ہر سال پیسے دے کر اور اپنے وعدوں کا حصہ دے کر ہر سال کی ضرورت میں اس طریق سے حصہ لے رہا ہے لیکن انہوں نے اپنا تاجرانہ حساب کر کے جو نفع وغیرہ آنا ہے اس کے حساب سے پہلی رقم ۱۹۷۷ ء کے آخر میں دینی ہے انشاء اللہ.اور یہ ہے اکٹھی بڑی رقم.کوئی ایک لاکھ تیس ہزار پاؤنڈ بنتی ہے.یہ بہر حال انگلستان کی جماعت کی رقم ہے اور میں نے ان کو کہا ہے کہ اس رقم سے تم اوسلو کی مسجد بناؤ اور اللہ تعالیٰ ایسا فضل کرنے والا ہے کہ ہمارا Architect ( آرکیٹیکٹ ) اور Contractar ( کنٹریکٹر ) جنہوں نے گوئٹن برگ کی مسجد بنانی ہے اور وہ نقشے بنا رہے ہیں.وہ اپنے کام کے سلسلہ میں اوسلو جارہے تھے تو ہمارے مبلغ سے کہنے لگے کہ ہم بھی وہاں جا کر آپ کے لئے ، آپ کی مسجد کے واسطے کوئی زمین تلاش کریں گے ابھی وہاں زمین تلاش کرنے کا مرحلہ ہے چنانچہ ان کو بھی ایک دلچسپی پیدا ہوگئی ہے.اصل منصوبہ یہ ہے کہ پریس ہوں.اصل منصوبہ یہ ہے کہ مساجد اور مشن ہاؤس بنہیں.پریس کے ساتھ مجھے کہنا چاہیے کہ پریس ہوں اور ہم دنیا کی ضرورت کے مطابق سستا اور اچھا
خطبات ناصر جلد ششم ۲۲۷ خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۷۵ء لٹریچر شائع کر سکیں اور دوسرے یہ کہ یورپ کے ان ممالک میں بھی جہاں ابھی تک ہماری مساجد اور ہمارے مشن ہاؤسز نہیں ہیں وہاں ہماری مساجد اور مشن ہاؤسز بن جائیں.ان دو ممالک کے علاوہ ہم اٹلی ، فرانس اور سپین میں مراکز چاہتے ہیں اور حالات نے اجازت دی تو بنیں گے.ہم اللہ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ہماری دعائیں ہیں کہ ہمارے حق میں حالات پیدا ہو جا ئیں.اب ایک چھٹا ملک سامنے آگیا ہے یعنی فن لینڈ فن لینڈ کی اہمیت اصل میں یہ ہے کہ ایک وہاں ہزار خاندان جس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ دس ہزار مسلمان وہاں ایسے ہیں جو اشتراکیت کے خوف سے بھاگے اور وہاں جا کر آباد ہو گئے اور انہوں نے اس ملک میں پناہ لے لی.ان کے دل میں یہ جذبہ ہے کہ ہمارے بچے قرآنی تعلیم سے محروم نہ رہیں اور دہر یہ نہ بن جائیں یعنی جس چیز سے بھاگے تھے وہی نہ سامنے آ جائے اور ان کو سوائے جماعت احمدیہ کے اور کوئی قرآن کریم پڑھانے والا نہیں ملے گا انشاء اللہ جب ہماری مسجد بن جائے گی اور اس کا اثر ہونا شروع ہو جائے گا اور جب یہ ضرورت پوری ہو جائے گی تو پھر شاید کسی اور کو بھی خیال آئے کہ وہاں کوئی مسجد بنادی جائے یا کوئی سکول بنا دیا جائے لیکن اس وقت خیال نہیں آئے گا.نہ ہے اور نہ آئے گا.پہل ہم نے ہی کرنی ہے اور اگر کوئی ہمارے پیچھے آتا ہے تو ہمیں غصہ نہیں ہے ہمیں خوشی ہے کہ وہ بھی ہمارے نقش قدم پر آگے چل رہا ہے.اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے ثواب کے طور پر مزید نیکیوں کی تو فیق عطا کرتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو مزید نیکیوں کی توفیق عطا کرے اور پھر ہم اور وہ ، سارے مل کر اسلام کو پھیلانے کے لئے اکٹھے کوشش کرنے لگیں.وہ ہمارے ساتھ آملیں گے بہر حال یہ چھٹا ملک پیچ میں آگیا ہے.ایک براڈ کاسٹنگ سٹیشن جس کا میں نے اعلان کیا تھا کی اجازت ملی تھی لیکن اس اجازت میں بعض ٹیکنیکل نقائص تھے اس لئے اس سے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکے.اب ویسے وہاں کی حکومت بدل گئی ہے لیکن دنیا کے تغیرات ہمارے لئے ہیں ہمارے خلاف نہیں.انشاء اللہ.اس لئے آج نہیں تو کل اجازت ملے گی اس کے اوپر بھی لاکھ دو لاکھ پاؤنڈ ا بتدا میں خرچ ہوگا تا کہ ہم ایک
خطبات ناصر جلد ششم ۲۲۸ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۷۵ء خاص علاقے کو اپنی آواز سے معمور کر دیں اور مہدی معہود کی آواز ان کو پکارے کہ جَاءَ الْمَسِيحُ جَاءَ الْمَسِيحُ - صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے لئے پہلے سال سے ہی ہمیں رقم کی ضرورت پڑ گئی تھی اور پھر اب دوسرے سال میں یہاں پر پریس شروع ہو گیا ہے.انشاء اللہ کتا میں شائع ہوں گی.پھر وہ باہر بھی جائیں گی اور یہاں کے لئے بھی کتابوں کی ضرورت ہے.اپنی آنے والی نسلوں کو تو ہم پیاسا نہیں رکھنا چاہتے.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ پانچ ہزار میل پر جا کر تو ہم پیاسے کی پیاس کو بجھانے کی کوشش کریں اور جو پہلو میں بیٹھا ہے وہ پانی کے لئے روحانی پانی کے لئے آب حیات کے لئے ترستا ر ہے ہم اس کی طرف توجہ نہ کریں.یہ تو نہیں ہوگا ہم نے یہاں بھی خدمت کرنی ہے پیار کی خدمت، بے لوث خدمت اپنی طرف کھینچ لینے والی خدمت.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے نہایت ہی عاجزانہ دعاؤں کی بنیادوں کے اوپر اس خدمت کے مکان تعمیر کرنے ہیں اور یہ جو نوجوان نسلیں ہیں.اللہ فضل کرے تو ان کو تو خدا تعالیٰ کی محرومی نہیں رہے گی.اللہ فضل کرے اسی کے فضل سے سب کچھ ہو سکتا ہے.پس آپ کی جور قوم کی ادائیگی کی ذمہ داری ہے اس کی طرف توجہ کریں کراچی پیچھے رہ گیا تھا.ان کے امیر صاحب آئے ہوئے تھے میں نے ان سے بات کی.میں نے کہا کہ اگر آپ نے غلطی سے زیادہ وعدے لکھوا دیئے تھے تو کوئی بات نہیں مجھے کہیں میں جلسہ سالانہ پر یہ اعلان کر دوں گا کہ کراچی نے غلطی سے زیادہ لکھوا دیا تھا اب وہ کم کر کے اتنا کر رہے ہیں ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ ہمیں کہیں اور سے دے دے گا.تو وہ گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ نہیں نہیں جلسے پر اعلان نہ کریں.بس ہمیں تین سال کی مہلت دے دیں تین سال کی رقم تین سال کے اندرضرور ادا ہو جائے گی.میں نے کہا کہ سوچیں گے اور آپ بھی جا کر سوچ لیں.اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں یا شاید اس سے پچھلے خطبہ میں کہا تھا کہ ہماری دولت یہ سونا چاندی کے سکے اور ہیرے جواہرات کے انبار نہیں ہیں ہماری دولت تو وہ مخلص دل ہے جو ایک منورسینہ کے اندر دھڑک رہا ہے.جب تک یہ دل ہمارے ہیں اور جب تک ان سینوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے پیسے کی کسے پرواہ ہے وہ تو اگر ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد ششم ۲۲۹ خطبه جمعه ۲۱ / نومبر ۱۹۷۵ء ہمارے لئے آسمان سے پھینکے گا اور زمین ہمارے لئے دولت اُگلے گی.اگر ہمیں کسی جگہ بے تدبیر اور اپاہج کرنے کی کوشش کی گئی تو ہماری کوشش کے بغیر یہ ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوکسی نے کہا کہ یہ تو کوئی استعارہ ہوگا اور تمثیلی زبان ہوگی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا اور وہ بچ گئے.آپ نے فرمایا کہ تم خدا کی قدرتوں پر ایمان نہیں رکھتے آپ نے فرمایا کہ مسیح اور مہدی کا کام مداریوں کی طرح تماشا دکھانا تو نہیں لیکن میں یعنی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تمہیں کہتا ہوں کہ اگر دنیا مجھے بھی شعلہ اٹھتے ہوئے تنور کے اندر پھینک دے تو وہ آگ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی ہو گئی تھی وہ میرے لئے بھی ٹھنڈی کر دی جائے گی.پس اصل چیز جس کی ہمیں فکر کرنی چاہیے وہ ہماری اپنی ہی کمزوریاں ہیں اپنی ہی غفلتیں ہیں ، اپنی ہی بے پرواہیاں ہیں.باقی اللہ تعالیٰ تو دے رہا ہے دینے کے لئے تیار ہے اور دیتا چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۳ / دسمبر ۱۹۷۵ء صفحه ۲ تا ۶ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ششم ۲۳۱ خطبه جمعه ۲۸ / نومبر ۱۹۷۵ء قرآن کریم وہ شریعت حقہ ہے جس نے قرب الہی کے راستوں کو کھولتے چلے جانا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۸ /نومبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے محترم صدر صاحب خدام الاحمدیہ کو یہ ہدایت فرمائی کہ دو ذمہ دار سمجھ دار اور پیار سے بات کرنے والے خدام ان اطفال کو مسجد میں لانے کے لئے بھجوائیں جو تربیت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے سامنے پرالی پر کھیل رہے ہیں نیز فرما یا جلسہ سالانہ تک یہاں پر جمعہ کے دن رضا کا رمقرر ہونے چاہئیں جو بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں.پھر حضور انور نے فرمایا:.دوست جانتے ہیں پچھلے سال پہلے تو کچھ عرصہ بیماری میں گزرا اور پھر طبی معائنہ اور علاج وغیرہ کے لئے مجھے باہر جانا پڑا اس لئے احباب جماعت سے ملے ایک لمبا عرصہ ہو گیا تھا چنانچہ میرے آنے کے بعد ہر اتوار کو دوست بڑی کثرت سے ملنے کے لئے آتے ہیں اور یہ ملاقات بہت ضروری ہے کیونکہ زمانے اور مکان کا بعد جتنا کم ہو اتنا ہی بہتر ہوتا ہے لیکن میں نے بتایا تھا که شاید ساری دنیا میں ہی انفلوائنزا کی وبا پھیلی ہوئی ہے، انگلستان سے روانگی سے پہلے بھی مجھے انفلوائنزا ہو گیا تھا وہاں بھی بڑی کثرت سے پھیلا ہوا تھا یہاں سے بھی یہی اطلاعات مل رہی تھیں که انفلوائنزا ، نزلہ اور کھانسی بڑی کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں.انفلوائنزا اپنے پھیلنے کے کئی رستے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۳۲ خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۷۵ء اختیار کرتا ہے اور یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن چونکہ پچھلے چند ہفتوں میں میرا پروگرام کچھ ایسا رہا ہے کہ کچھ تو ہفتہ کے دن ملاقاتیں ہوتیں اور پھر اتوار کو پانچ چھ سو بلکہ پچھلی اتوار کو تو غالباً آٹھ سو سے بھی زیادہ ملاقاتی تھے.ان ملاقاتوں کے دوران ایک تو کئی گھنٹے دوستوں سے باتیں کرنا پڑتی ہیں دوسرے کئی جماعتیں مختلف علاقوں سے آئی ہوتی ہیں اور وہ کچھ نہ کچھ انفلوائنزا کے بیمار بھی ساتھ لاتی ہیں گویا سارے پاکستان کا انفلوائنزا پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں جمع ہو جاتا ہے اور مجھ پر اثر انداز ہوتا ہے.چنانچہ گزشتہ اتوار کے بعد پیر سے انفلوائنزا کا ایسا شدید حملہ ہوا کہ مجھے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں پھر ایک لمبا عرصہ چار پائی پر نہ گزارنا پڑے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے آج کچھ آرام ہے لیکن جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کھانسی اٹھتی ہے ابھی پورا آرام نہیں آیا.انفلوائنزا کی وجہ سے ضعف بھی ہے.ابھی جب میں یہاں آنے لگا تو اٹھنے سے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی لیکن میں اس خیال سے یہاں آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ بھی ملاقات کا دن مقرر کیا ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے.علاوہ ازیں کچھ تربیتی اور انتظامی ، کچھ اخلاقی اور روحانی باتوں کے کہنے کا دن ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہوں کچھ باتیں ہو جائیں گی کچھ ملاقات ہو جائے گی اور کل اور پرسوں سے پھر ملاقاتوں کا چکر شروع ہو جائے گا.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ سب کو ہی شفا دے اور سارے ملک سے اس بیماری اور دوسری سب بیماریوں کو دور کردے.انسان جب قرآن کریم پر غور کرتا ہے اور دعاؤں سے اس کے علوم سیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور استغفار کے ذریعہ مغفرت کی چادر کی تلاش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ رحم کرتے ہوئے انسان کو مغفرت کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے.غرض جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو بہت سی باتیں نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہیں اور ہمیں قرآنی تعلیم کی یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کی جو متاع ہے وہ دنیا کی منڈیوں میں یا دنیا کی ایسوسی ایشنز اور مجالس وغیرہ سے نہیں ملا کرتی.نہ دنیا کے کارخانے اسلام کی متاع عزیز کو بناتے ہیں اور نہ وہ اس کے بنانے پر قادر ہیں.یہ متاع عزیز صرف اللہ تعالیٰ کے دربار سے دستیاب ہوتی ہے اور اس کے لئے قرآن کریم نے ہمیں دعائیں
خطبات ناصر جلد ششم ۲۳۳ خطبه جمعه ۲۸ / نومبر ۱۹۷۵ء سکھائی ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اے لوگو! دعائیں کرتے رہا کرو کہ تمہیں اسلام ملے اور پھر اسلام پر قائم رہنے کی توفیق ملے.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو دعائیں سکھائیں ان میں سے وہ دعائیں جو اپنے اندر ابدی صداقتیں رکھتی ہیں ان کو قرآن کریم میں محفوظ کر دیا.ان میں ایک یہ دعا بھی ہے.رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ (البقرة : ١٢٩) اے ہمارے رب ! مجھے اور میرے بیٹے ( جو بعد میں نبی ہونے والے تھے ) کو مسلمان بنا اور اسلام پر قائم رکھ.عربی محاورہ میں ہر دو معنے آتے ہیں جس کو ابھی اسلام نصیب نہ ہوا ہو اور ملتِ ابراہیمی کی پیروی کرنے والا نہ ہو اللہ تعالیٰ فضل کرے تو اُسے اسلام نصیب ہو جائے گالیکن ایک نبی اور وہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے نبی جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارتیں دیں.جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بے انتہا دعائیں کیں.جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کو قبول کرنے کے لئے اپنی قوم اور اپنی نسلوں کی تربیت کی.اللہ تعالیٰ نے انہیں دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ان قوموں سے پیار کرنے کے لئے قائم کیا تھا جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابتدائی مخالفت کے باوجود دنیا میں پہلا وار پہلی سختیاں ، پہلی تنگیاں ، پہلے دکھ اسلام کی راہ میں اٹھانے تھے اور بنیاد بننا تھا اسلام کے لئے ، اسلام کی قوت کے لئے ، اسلام کی طاقت کے لئے اور اسلام کے استحکام کے لئے.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ یہ دعائیں کرتے رہا کرو کہ اے خدا! مجھے اور میری اس اولا د کو جس کو تو نے نبوت عطا کرنی ہے اسلام پر قائم رکھ.پس اسلام اللہ تعالیٰ کے دربار سے ملتا ہے اور اسی کے فضل سے اور اسی کی رحمت سے انسان اس پر قائم رہ سکتا ہے.اسلام کوئی معمولی چیز نہیں ہے اسلام چند قوانین کا نام نہیں ہے.اسلام ان احکام پر مشتمل ہے جو ہر زمانے کے ہر انسان کی ساری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں اور زندگی کے ہر مر حلے پر اس کی راہنمائی کرتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قیامت والے دن قرآن تمہارے حق میں یہ گواہی دے گا کہ تم نے اس پر عمل کیا ہے یا نہیں.اگر تم اس کے سینکڑوں احکامات میں سے کسی ایک حکم کی بھی جانتے بوجھتے اور تکبر اور استکبار کے نتیجہ
خطبات ناصر جلد ششم ۲۳۴ خطبه جمعه ۲۸ / نومبر ۱۹۷۵ء میں خلاف ورزی کرنے والے ہو گے تو اللہ تعالیٰ کے غضب کو مول لینے والے بن جاؤ گے.پس قرآن کریم کوئی معمولی دستاویز نہیں ہے یہ تو وہ شریعت حقہ کا ملہ ہے جس نے قیامت تک کے لئے انسانی مسائل کو حل کر کے ان کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو کھولتے چلے جانا ہے اور روشن کرنا اور روشن رکھنا ہے.اسلام محض زبان کا دعویٰ نہیں اسلام تو دلوں کو بدلتا اور روح کی کایا پلٹ دیتا ہے.اندھیروں کو دور کر کے ان کی جگہ نور کو لے آتا ہے.انسان کو شرف کے اس مقام پر لے جاتا ہے جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے.اسلام انسان کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنا تا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے اسے جلوے دکھاتا ہے.ہر غیر اللہ سے اسے غنی کر دیتا ہے اور وہ مسلم جو حقیقی مسلم ہے صرف خدا کا ہو کر رہ جاتا ہے.خدا کے فضل ، اس کی مدد اور اس کے حکم کے بغیر ایک آدمی اسلام پر کیسے قائم رہ سکتا ہے یا ایک انسان سے انسان کو اسلام کیسے مل سکتا ہے یہ تو ممکن ہی نہیں ہے.غرض قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اسلام کی متاع صرف اللہ تعالیٰ کے دربار سے ملتی ہے.اسلام پر قائم رہنا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب اللہ تعالیٰ انسان کا ہاتھ پکڑے اور اس کو بھٹکنے سے محفوظ کر دے.یہ کسی انسان یا انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں ہے جس میں ہر روز ترامیم ہوتی رہتی ہیں کبھی اچھی اور کبھی بری ، یہ تو ایک قائم رہنے والی صداقت ہے اور ایک ایسی حقیقت ہے جس کے اندر کوئی رخنہ راہ نہیں پاسکتا اور انسان کسی کو اسلام دے بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ اسلام محض ذمہ داریوں کا نام نہیں محض کچھ حقوق ہی تو نہیں جن کی ادائیگی کے لئے کہا گیا ہو اور بس.اسلام محض اپنی دنیوی زندگیوں کو ایک خاص دنیا دارانہ نبج میں ڈھالنے کا نام تو نہیں.اسلام ایک مکمل لائحہ عمل ہے یہ ہماری ہر حرکت اور ہر سکون کو ایک خاص راہ پر لے آتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم اسلامی احکام شریعت قرآنیہ کے مطابق بجالاؤ گے تو تمہیں اجر ملے گا.گویا اسلام ایک ایسے مجموعہ احکام کا نام ہے جن کی بجا آوری کے بعد اجر ملتا ہے اور قرآن کریم نے دوسری حقیقت یہ بتائی ہے کہ جو آدمی اسلام پر عمل کرتا ہے اسے اجر سوائے خدا کے گھر کے کسی اور گھر سے مل ہی نہیں سکتا فرمایا.بلی مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ (البقرة : ۱۱۳)
خطبات ناصر جلد ششم ۲۳۵ خطبه جمعه ۲۸ /نومبر ۱۹۷۵ء صرف رب کے حضور اس کا اجر ہے کسی اور جگہ سے وہ ملتا ہی نہیں اور مل بھی کیسے سکتا ہے جب کہ اس کے اجر میں جنتیں بھی شامل ہیں جن کو اس دنیا کی نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ جن کے متعلق اس دنیا کے کسی کان نے سنا اور نہ جن کی لذت کو اس دنیا کی کسی جس نے محسوس کیا یعنی اجر کے جن پہلوؤں کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے.اُخروی جنتوں کے ساتھ ہے وہ انسان، انسان سے کیسے لے سکتا ہے یہ ممکن ہی نہیں عقلاً ممکن نہیں پھر اس دنیا میں جو اجر ملتا ہے اس دنیا کی جو جنتیں ہیں وہ بھی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ پیدا کر سکے.چنانچہ بڑے عنظمند لوگ، بڑے مہذب تربیت یافتہ اور تعلیم کے میدانوں میں آگے نکلے ہوئے چاند اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے بھی اپنے اپنے ملک میں سکینت اور اطمینانِ قلب کا انتظام نہیں کر سکے.ہر جگہ فتنہ و فساد نظر آتا ہے.اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جس سے ایک مسلمان اس دنیا میں جنت کا وارث بن جاتا ہے اور وہ اسے سکون اور اطمینانِ قلب بخشتی ہے.یہ وہی اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی باتیں ہیں کہ جس وقت ساری دنیامل کر خدا کے ایک پیارے بندہ کو دکھ دینے اور ستانے کے لئے جمع ہو جاتی ہیں اس وقت خدا کے پیارے کی یہ آواز کہ تو ان سے نہ ڈر میں تیرے ساتھ ہوں ، سارے غموں کو بھلا دیتی ہے اور ایک ایسا اطمینانِ قلب پیدا ہوتا ہے کہ انسان اپنے دکھ بھول جاتا ہے یہی وہ سکون ہے اور یہی وہ مسکراہٹیں ہیں جن کے متعلق میں جماعت کو ہمیشہ کہتا رہا ہوں خصوصاً پچھلے دو سال سے حالات کے مطابق مجھے کثرت سے کہنا پڑا کہ تمہاری مسکراہٹوں کو دنیا کی کوئی طاقت اس لئے نہیں چھین سکتی کہ تمہاری مسکراہٹوں کا منبع اور سر چشمہ اللہ تعالیٰ کا پیار ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت چھین ہی نہیں سکتی.اس لئے تو پھر ہم پر بطور فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کریں اور اپنی غفلتوں، کوتاہیوں، گناہوں اور بے راہ روی کے نتیجہ میں خدا کے پیار سے خود کو محروم نہ کر لیں.اس لئے دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے اعمال مقبول اور سعی مشکور کی.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ایسے اعمال کے بجالانے کی جن سے وہ راضی ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں حسن و احسان کی توفیق دے اور اپنی (اللہ کی) صفات کے جلووں کو دنیا میں پھیلانے کی توفیق عطا کرے اور وہ ہم سے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۳۶ خطبه جمعه ۲۸ / نومبر ۱۹۷۵ء راضی ہو جائے.جب خدا ہم سے راضی ہو تو دنیا کی کون سی طاقت خدا کی رضا کو زید اور بکر سے چھین سکتی ہے یا مجھ سے اور آپ سے چھین سکتی ہے.پس قرآن کریم نے پہلی بات یہ بتائی کہ اسلام کا حصول خدا تعالیٰ کے دربار کے سوا کسی اور جگہ سے ممکن نہیں اور اسلام پر قائم رہنا بھی خدا تعالیٰ کے اذن اور منشاء اور حکم کے بغیر ممکن نہیں اور دوسری بات ہمیں یہ بتائی کہ اسلام کے نتیجہ میں اجر ملتا ہے اسلامی تعلیم تو زندگی کے ہر پہلو کو پالش کر دیتی ہے اسے صاف کر دیتی ہے اور روشن کر دیتی ہے اور خدا کی نگاہ میں انسان کو پیارا بنا دیتی ہے.قرآن کریم کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے سے اس کا اجر ملتا ہے اور یہ اجر سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی دے نہیں سکتا.بڑا ہی بیوقوف ہے وہ انسان جو کہتا ہے کہ میں کسی کو مسلمان بناؤں گا اور میں اجر دوں گا.بھلا جن لوگوں کا اخروی زندگی پر ایمان ہی نہیں وہ اخروی زندگی کی نعمتیں کہاں سے عطا کر دیں گے.نہ ان کو طاقت ہے نہ اخروی زندگی کا علم ہے، نہ اس پر ایمان ہے، نہ اس کی ایک ہلکی سی جھلک اس دنیا میں دیکھنے والے اور نہ وہ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرے اور ان کی عقلوں کو تیز کرے.جس شریعت پر، جس اسلام پر عمل کر کے اجر ملنا ہو اور وہ اجر سوائے خدا کے کسی اور نے نہ دینا ہو اس کے متعلق یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ انسان اسلام دے سکتا ہے.اس لئے اسلام چونکہ ایک بڑی اہم چیز ہے اور بڑی بنیادی چیز ہے.اس نے تو دنیا کی کایا پلٹ دی تھی پہلے زمانے میں اور اس نے دنیا میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں اس زمانے میں ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر روحانی فرزند کے زمانہ میں ) نوع انسانی کو اسلام کی حسین تعلیم سے روشناس کرانا ہے اور اپنی دعاؤں سے اور اپنے جذب سے اور اپنے عمل سے اور اپنے اُسوہ سے اسلام کی طرف ان کو لے کر آنا ہے.اس حزب اللہ نے اپنی دعاؤں سے ایسے حالات پیدا کرنے ہیں کہ نوع انسانی اپنے پیار کرنے والے خالق اور رب کو پہچاننے لگے اور اس کی جو شریعت ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کی طرف لے کر آئے تھے اس کے مطابق اور خود محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق عمل کرنے والے بن جائیں.دوست دعا کریں کہ ہم خدا سے اسلام پائیں اور خدا سے یہ توفیق پائیں کہ اسلام پر قائم
خطبات ناصر جلد ششم ۲۳۷ خطبه جمعه ۲۸ /نومبر ۱۹۷۵ء بھی رہیں اور خدا سے اس کا اجر پائیں اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی.اس کام کے لئے جو جماعت پیدا کی گئی ہے اس پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.پس تم اپنے اسلام کی بھی فکر کرو.اسلام کے حصول کے لئے بھی خدا سے دعائیں کرو اور اسلام پر قائم رہنے کے لئے بھی دعائیں کرو اور دنیا کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی بھی فکر کرو.جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ کام اسلام کا نمونہ بن کر خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن کر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر اور اپنی عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ ہوسکتا ہے اس لئے دوست بہت دعائیں کیا کریں.جس دعا کی حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے بزرگ نبی کو ضرورت تھی میں یا آپ اس دعا سے کیسے بے نیاز ہو سکتے ہیں.پس ہر وقت یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا ! ہمیں پورے کا پورا اسلام دے اور اسلام پر ہمیشہ قائم رکھ.چنانچہ خدا نے ایک اور نبی سے یہ دعا کہلوائی تَوَفَّنِي مُسْلِمًا اے خدا! مجھے اسلام کی حالت میں وفات دے.غرض سارے کا سارا قرآن کریم اسی طرف اشارے کر رہا ہے کہ اسلام خدا سے ملتا ہے اور انسان اسلام پر خدا ہی کی دی ہوئی توفیق سے قائم رہتا ہے.اس کا بڑا اجر ہے.اس تعلیم پر عمل کر نا خسارے کا سودا نہیں ہے لیکن یہ اجر دنیا کے کسی کارخانے سے نہیں مل سکتا نہ دنیا کے کسی کنسرن (Concern) سے یا منڈیوں سے مل سکتا ہے صرف خدا سے مل سکتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ( حم السجدة : ٣١) اس آیت کریمہ میں بڑا لمبا مضمون بیان ہوا ہے.میں طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے خطبہ مختصر کر رہا ہوں.صرف دو باتیں کہنا چاہتا ہوں ایک یہ کہ اس اجر کی جس کا خدا نے وعدہ دیا ہے بڑی عظمت ہے.قرآن کریم نے اس کی جو عظمت بیان کی ہے انسان حیران ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے عاجز گناہگار بندے بھلا اس عظیم نعمت کے لائق کیسے ہو سکتے ہیں.ہم واقعی اس لائق نہیں لیکن خدا تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اپنے عاجز بندوں کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے اور اپنے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۳۸ خطبه جمعه ۲۸ / نومبر ۱۹۷۵ء بے انتہا فضلوں اور رحمتوں کا انہیں وارث بنا دے.پس دعاؤں سے خدا کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے وارث بننے کی کوشش کرو.روزنامه الفضل ربوه ۲۰/ دسمبر ۱۹۷۵ ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ششم ۲۳۹ خطبہ جمعہ ۵ /دسمبر ۱۹۷۵ء ربوہ کے مقام کے پیش نظر اہل ربوہ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں ہر دم پیش نظر رکھیں خطبه جمعه فرموده ۵/ دسمبر ۱۹۷۵ ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس سے پہلے میں اہل ربوہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا چکا ہوں جن کا تعلق جلسہ سالانہ کے انتظام کے ساتھ ہے.اسی طرح جلسہ سالانہ کے نظام کو بھی میں نے بعض باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی.آج میں اہل ربوہ کی ان ذمہ داریوں کو بیان کرتا ہوں جو اہل ربوہ ہونے کی حیثیت سے ان پر سارا سال ہی رہتی ہیں لیکن جلسہ سالانہ کے ایام میں خصوصاً ان کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.ہمیں قرآن عظیم کا یہ حکم ہے کہ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ المدثر :۵) اس چھوٹی سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے طہارت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے اس میں ایک تو انسان کو یہ توجہ دلائی ہے کہ اپنے جسم کو اور اپنے کپڑوں کو پاکیزہ رکھا کرو.گندگی خواہ جسمانی ہو یا روحانی قرآن عظیم کی تعلیم اس کو دور کرنا چاہتی ہے.پھر قرآن کریم کے محاورہ میں اسلامی تعلیم کے محاورہ میں’شیاب“ کے معنی میں ماحول بھی آتا ہے اور وہ لوگ بھی آتے ہیں جو کہ تعلق رکھنے والے ہوں مثلاً میاں بیوی کو ( ثوب ) لباس کہا گیا ہے.اسی طرح ساتھیوں کو اور دوسرے تعلق رکھنے والوں کو بھی ہمارا مذ ہب ” ثیاب“
خطبات ناصر جلد ششم ۲۴۰ خطبہ جمعہ ۵؍دسمبر ۱۹۷۵ء سکتا کے لفظ سے یاد کرتا ہے جب ہم ان تمام معانی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ہم پر طہارت کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں اور ہمیں پاکیزگی کے متعلق بہت سے احکام دیئے گئے ہیں جن کی طرف توجہ دینا ضروری ہے خصوصاً ایسے موقعوں پر جبکہ اجتماعات کی وجہ سے جسمانی پاکیزگی اور ماحول کی پاکیزگی اور فضا کی پاکیزگی اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے.ربوہ عام طور پر کچا شہر ہے پختہ شہر نہیں ہے ان معنوں میں کہ اس کی اکثر سٹرکیں کچی ہیں پختہ نہیں ہیں اور اس لحاظ سے بھی اس کی صفائی مشکل ہے کہ ابھی یہاں Drainage (ڈریج) وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں ہے اور جو منتظمین ہیں وہ اندر کے گند کو باہر ایسی جگہ پھینکوا دیتے ہیں کہ اگر وہ اندر ہی رہتا تو شاید اتنی خرابی پیدا نہ ہوتی مثلاً ہمارے علاقے کا جو گھروں کا گند ہے وہ باہر مسجد مبارک کی دیوار کے کونے کے ساتھ پڑا ہوا آپ کو نظر آئے گا.اس سلسلہ میں کچھ تو شاید پیسے کی کمی ہولیکن بہت کچھ تجربے اور علم کی کمی ہے.گھروں کا گند تو گھروں میں ہی غائب کیا جا ہے.اللہ تعالیٰ نے جس مٹی سے انسان کو بنایا ہے اس مٹی میں ہی یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ ہر قسم کی گندگی کو کھا جاتی ہے اور بد بوکو کلیتہ دور کر دیتی ہے.صحن خواہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں اہل خانہ جو صفائی وغیرہ کرتے ہیں اور ترکاریوں کے چھلکے یا اس قسم کی اور چیز میں اٹھا کر باہر گلیوں میں پھینک دیتے ہیں.اگر وہ صحن کے ایک حصے میں ان کو دبا دیں تو ایک تو باہر گند نہیں ہوگا اور دوسرے اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں سارے سال کی ترکاریاں بڑی اچھی اور صحت مند مہیا کرتا رہے گا کیونکہ یہی خدا کا قانون ہے لیکن جو لوگ گند کو گھروں سے باہر پھینک دیتے ہیں.بعض دفعہ وہ اپنے دروازے کے سامنے پھینک دیتے ہیں جب باہر نکلتے ہیں تو اپنے ہی پاؤں اس گند میں پڑتے ہیں.یہاں کمیٹی کا انتظام موجود ہے چنانچہ انہوں نے بہت سارا انتظام کیا ہوا ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے اب ہماری مسجد کے کونے کی طرف گند پڑا ہوا ہے.ہمارے ربوہ میں داخل ہونے والے دوست عام طور پر مسجد آتے ہیں اور بہت سارے لوگ اس رستہ کو اختیار کرتے ہیں.ان کی پہلی نظر جور بوہ کی پاکیزگی اور طہارت یا اس کے فقدان پر پڑتی ہے وہ اس کونے پر
خطبات ناصر جلد ششم ۲۴۱ خطبہ جمعہ ۵؍دسمبر ۱۹۷۵ء پڑتی ہے جہاں باہر دیوار کے ساتھ گند کا ایک ڈھیر پڑا ہوا ہے.اس واسطے ایک تو مل ملا کر اور جو ذمہ دار لوگ ہیں ان کو کہہ کر ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ اس قسم کے گندگی کے ڈھیر ہمیں باہر نظر نہ آئیں اور نہ ایسی جگہ ہوں جو صحت کے لئے مضر بن سکیں اور دوسرے جہاں تک ہو سکے ہماری اپنی جو انتظامیہ ہے اور جماعت احمدیہ کا نظام ہے ان کو چاہیے کہ گھروں میں یہ کہیں کہ یہ جو گند ہے اس سے تم فائدہ اٹھاؤ کیونکہ ہر چیز خدا تعالیٰ نے ہماری خدمت کے لئے پیدا کی ہے.یہ گندگی بعض پہلوؤں سے گندگی ہے لیکن بعض دوسرے پہلوؤں سے یہ بڑی خدمت گزار چیزیں ہیں اس لئے ان کے جو اچھے پہلو ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ.ان کو زمین میں دبا دو تو زمین اچھی ہو جائے گی، کلر ایک حد تک ختم ہو جائے گا اور ختم ہوتا رہے گا ، آپ کے صحن بڑے اچھے ہو جائیں گے، درخت اُگیں گے، گھاس اُگے گا، ترکاریاں اُگیں گی اور اس میں کوئی ایسی محنت نہیں ہے بلکہ صرف ایک جذبہ اور ایک خیال ہے اور ایک علم ہے جو کہ ہونا چاہیے.ہر گھر کو یہ علم میسر ہونا چاہیے اور ہر دل میں یہ جذبہ پیدا ہونا چاہیے.درخت ہماری ہوا کو صاف کرتے ہیں اور اس کی طہارت اور پاکیزگی کا انتظام کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے مختلف گیسز سے ہوا بنائی ہے.کچھ گیسوں کو جو ہمارے لئے مفید نہیں ہیں وہ کھا لیتے ہیں اور جو گیسیں ہمارے لئے مفید ہیں مثلاً آکسیجن وغیرہ ان کو وہ پاک کر کے صحیح اور صحت مند شکل میں پھر فضا میں چھوڑ دیتے ہیں اور اچھی صحت کے لئے پاکیزہ ہوا کی اور پاکیزہ فضا کی ضرورت ہے.میں کئی سال سے درخت لگانے کی طرف توجہ دلا رہا ہوں.میں یہ نہیں کہتا کہ اہل ربوہ نے بالکل ہی توجہ نہیں کی ، میں یہ ضرور کہوں گا کہ جتنی توجہ کرنی چاہیے تھی اتنی نہیں کی.اس میں شک نہیں کہ اس کے راستے میں کچھ روکیں بھی ہیں کچھ دقتیں بھی ہیں مثلاً ایک تو پانی اس قسم کا کھارا ہے کہ بعض درخت یہاں ہو ہی نہیں سکتے ، بعض ترکاریاں یہاں اُگائی ہی نہیں جاسکتیں لیکن یہ اس قسم کا کھارا ہے کہ بعض ترکاریاں اس کھارے پانی کو بڑے شوق سے پیتی ہیں مثلاً چقند ر اس کھارے پانی میں خوب پلتا ہے اور بڑا اچھا، میٹھا اور Juicy ( جوسی ) بن جاتا ہے پس یہ علم ہونا چاہیے.جہاں گھروں میں کلر زیادہ ہے وہاں آپ چقندر لگا ئیں اس سے ایک تو کر
خطبات ناصر جلد ششم ۲۴۲ خطبہ جمعہ ۵؍دسمبر ۱۹۷۵ء مرجائے گا اور دوسرے وہ کلر آپ کے لئے صحت مند تر کاری مہیا کر دے گا.پھر ایک دقت یہ ہے کہ زمین کا Structure ( سٹرکچر ) ایسا ہے کہ اس میں کلر کے علاوہ بھی اور بہت سے ایسے اجزا ہیں جو درختوں اور ترکاریوں کے لئے یا تو مفید نہیں یا وہ چیزیں اس میں طاقتور نہیں اگتیں.اس کے لئے کھا دیں ہونی چاہئیں لیکن اگر آپ اپنے گند کو اپنے گھر کی مٹی میں ملا دیں تو آپ کو بڑا فائدہ ہوگا.میں نے ایک مضمون پڑھا اس میں ایک ۷۸ سالہ بڑھیا کی تصویر تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ ربوہ کے ننانوے فیصد احباب ۷۸ سالہ بڑھیا سے ہر لحاظ سے زیادہ طاقتور ہیں.اس بڑھیا کا کام یہ تھا کہ وہ صبح سویرے اٹھ کر لوگوں کے گھروں کے کوڑا کرکٹ اٹھا لاتی.وہ ایک ایسے چھوٹے سے قصبے میں رہتی تھی کہ جہاں لوگ اپنے گھروں میں جھاڑو دے کر یا ویسے صفائی کر کے گند باہر ایک طرف پھینک دیتے تھے چنانچہ وہ اپنی Wheel Barrow ( وہیل بیرو ) یعنی دو پہیوں کی بوجھ اٹھانے والی ٹرالی لے کر باہر نکلتی اور اپنے سارے محلے کا جو گند باہر پھینکا ہوتا تھا وہ اٹھا لاتی اور اس کا ایک چھوٹا سا بیک گارڈن تھا ترکاریوں اور پھلوں کا ایک چھوٹا سا باغ تھا وہ اس میں لا کر ڈال دیتی تھی.ہر روز اس کا یہی کام تھا اور اس تصویر میں دکھایا گیا تھا کہ وہاں بڑی اچھی ترکاریاں اُگی ہوئی ہیں.جتنی عقل اس عیسائن بڑھیا میں ہے اس سے کہیں زیادہ عقل ایک احمدی کے دماغ میں ہے لیکن ان کو یہ تعلیم دینی چاہیے کہ دیکھوا اپنی عقل سے فائدہ اٹھاؤ اور خدا تعالیٰ کے ناشکرے بندے نہ بنو اور اس طرح پر آپ کو بھی فائدہ ہوگا اور بوہ بھی صاف ہو جائے گا.کچی سڑکوں کے اندر ضرور گڑھے پڑتے ہیں.قادیان میں جب میں وہاں لمبا عرصہ خدام الاحمدیہ کا صدر رہا.میرا مشاہدہ تھا وہاں بھی گڑھے پڑا کرتے تھے اور مجھے یقین ہے کہ یہاں بھی پڑتے ہوں گے.اس کے لئے وقار عمل کے ذریعے گاہے گاہے اپنی کچی سڑکوں کو درست کرنا ضروری ہے.پس ایک تو خدام الاحمدیہ کو چاہیے کہ ۲۰ / تاریخ سے پہلے پہلے اس قسم کا جو گند ہے کہ اوپر نیچے ٹھوکریں لگتی ہیں اور بچوں کو تکلیف ہوتی ہے، بڑوں کو تکلیف ہوتی ہے، رات کے وقت چلنے والوں کوٹھوکریں لگتی ہیں کیونکہ روشنی پوری نہیں ہے اس گند کو دور کر دیں اور لوگوں کو اس دکھ اور
خطبات ناصر جلد ششم ۲۴۳ خطبہ جمعہ ۵؍دسمبر ۱۹۷۵ء تکلیف اور پریشانی سے بچانے کے لئے سارے ربوہ کی سڑکوں کو ہموار کر دیں.جہاں جہاں ضرورت ہے وہاں کام کریں.بعض جگہ ضرورت نہیں ہو گی ان سڑکوں کو اکھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جہاں پر ضرورت ہے وہاں ان کو ہموار کر دیں اور دوسرے سارے ربوہ والے صفائی کا ایک ہفتہ منائیں جو کہ ۱۹ / تاریخ کو ختم ہو.۱۹ کو میں اس لئے کہتا ہوں کہ پھر ۲۳ کو جلسے کا انتظام شروع ہوگا اور یہ جو بیچ میں دو چار دن ملیں گے ان میں اپنے آپ کی صفائی اور اپنے کپڑوں کی صفائی کا خیال رکھیں.اس سے پہلے اپنے ماحول کو صاف کریں.میں درختوں کا بھی ذکر کر رہا تھا مجھے یہ سن کر بڑی شرمندگی ہوئی کہ کمیٹی نے ہمارے اس مسجد اقصیٰ والے چوراہے پر کچھ پھولدار پودے لگائے اور اس میں سے دو پودے غائب ہو گئے.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ کسی احمدی نے اٹھائے ، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ کسی انسان نے لئے ، ہو سکتا ہے کہ کوئی جانوران کو توڑ گیا ہو یا کھا گیا ہو.ایک تو جولوگ یہاں بکریاں رکھتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ پبلک پلیسز یعنی جن جگہوں کی ملکیت اہل ربوہ کی ہے اور جن کا فائدہ اہل ربوہ کو ملتا ہے مثلاً سڑکیں اور ان کے درخت وغیرہ ہیں ان کو اپنے ذاتی فائدے کے لئے استعمال نہ کریں اور ان درختوں کو نہ کاٹیں.لوگوں کے جو کھلے قطعے ہیں اور ان میں انہوں نے ترکاریاں ہوئی ہوئی ہیں یا درخت بوئے ہوئے ہیں وہ ان میں جا کر ٹہنی کاٹ لیتے ہیں.پھر میرے پاس شکایت آجاتی ہے اور میرے لئے بڑی شرمندگی کا باعث بنتی ہے کہ جی ہم نے ترکاریاں لگائی تھیں اور ہمارے ہمسائے نے وہاں مرغیاں چھوڑ دیں جو کہ کچھ چنگ کر لے گئیں یا بیری اور کیکر وغیرہ کی ٹہنیاں کاٹ کر اس نے اپنی بکریوں کو کھلا دیں.اگر تم نے بکری پالنی ہے تو اپنے گھر میں بکری کے کھانے کا انتظام کرو.بن بلائے مہمان بن جانا تو نہ آپ کے لئے مناسب ہے اور نہ آپ کی بکری کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ بن بلائی مہمان بن جائے.یہ درخت جو یہاں سے غائب ہوئے ہیں جس نے بھی ایسا کیا ہے، جو کوئی بھی وہ ہے مجھے اس کا علم نہیں ہے اور میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں خواہ مخواہ یہ کہوں کہ کسی احمدی بچے نے یا بڑے نے یہ کیا ہے یا کسی اور نے کیا ہے یا جانور کر گئے ہیں لیکن بہر حال یہ امر واقعہ ہے کہ کمیٹی کے غالباً دو درخت غائب ہو گئے ہیں.
خطبات ناصر جلد ششم ۲۴۴ خطبہ جمعہ ۵؍دسمبر ۱۹۷۵ء اب ہمیں چاہیے کہ ہم ان کو دو کی بجائے چار درخت دے دیں اور دیں اسی چوک کے ارد گر در ہنے والے.اور جیسا کہ میں نے اعلان کیا ہے کہ میں اور جماعت کوئی علیحدہ علیحدہ وجود نہیں ہیں بلکہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اس لئے ان چار پودوں میں سے ایک پودا میں دوں گا اور تین کا آپ انتظام کریں.میں اپنے آپ کو بھی جرمانہ کرتا ہوں نا کہ کیوں میں نے ایسا تربیتی ماحول پیدا نہیں کیا کہ ان درختوں کی حفاظت ہو سکے.اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے اور اللہ تعالیٰ آپ کو بھی معاف کرے.بعض دوستوں نے درختوں کا بڑا اچھا خیال رکھا ہے اور جنہوں نے درختوں کا خیال رکھا ہے ان کی طرف سے کبھی میرے پاس یہ شکایت پہنچ جاتی ہے کہ ہمارے مکانوں کے سامنے جو پیار سے پالے ہوئے درخت ہیں بعض لوگ آکر ان کو نقصان پہنچا جاتے ہیں.یہ درخت تو خدا تعالیٰ کی ایک نعمت ہے.قرآن کریم نے درخت کی حفاظت پر اتنا زور دیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایک جنگ میں انسانی جان کی حفاظت کے لئے بعض درختوں کو کاٹنا پڑا تو قرآن کریم نے جو خدا تعالیٰ کی وحی ہے یہ ریکارڈ کیا کہ ہمارے ( خدا تعالیٰ کے حکم سے ایسا کیا گیا ہے.پس خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے ہر ایک کی اپنی ایک شان ہے گو وہ ہماری خادم ہیں اور ان کے خدمت کے مقامات ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کے کچھ حقوق بھی رکھے ہیں.خدا تعالیٰ رَبُّ الْعلمين ہے قرآن کریم نے ہمارے سامنے جو پہلی صفت بیان کی ہے وہ رَبُّ العلمین کی صفت ہے.اس میں جاندار اور غیر جاندار کے حقوق کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس میں ہر مخلوق کے حقوق کا ذکر ہےاس Universe ( یو نیورس) میں، اس عالمین میں جو چیز بھی ہے اس کی ربوبیت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی ہے.تو خدا تعالیٰ تو اس کی ربوبیت کر رہا ہو اور ربوبیت کے سامان پیدا کر رہا ہو اور انسان اس کے قوانین اور اس کے منشاء اور اس کے حکم اور سورۃ فاتحہ میں اس کے پہلے اعلان کے خلاف کھڑا ہو جائے! اور کہے کہ ہم درختوں کی ربوبیت نہیں کریں گے یا ہم فلاں چیز کی ربوبیت نہیں کریں گے ایک مومن کی اور ایک احمدی مسلمان کی تو یہ شان نہیں ہے.ہمیں سارا سال یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ربوہ میں گندگی نہ ہو اور پاکیزگی اور طہارت کے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۴۵ خطبہ جمعہ ۵ /دسمبر ۱۹۷۵ء خلاف کوئی چیز نہ ہو لیکن میں نے بتایا ہے کہ اجتماعات میں گند پڑ جانے کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں اس لئے جلسہ سے پہلے صفائی کرو اور جلسہ سالانہ میں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھو.جلسہ سالانہ کا نظام اور ہماری جماعت کے جو دوسرے نظام ہیں اور حکومت کا جو یہاں نظام ہے یہ ان کا کام ہے.امید ہے کہ وہ اس کا خیال رکھیں گے لیکن جو ہمارے نظام ہیں ان سے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ خیال رکھیں.ان دنوں میں بھی خیال رکھیں لیکن جلسہ سے پہلے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ ربوہ کو بالکل صاف ستھرا کر دیں.انصار اللہ کا صرف نام ہی مختلف ہے ویسے تو ہم سارے ہی خادم ہیں ، میں بھی اور آپ بھی دنیا کے خادم بن گئے ہیں اور اس خدمت میں اور پھر اس خدمت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے میں بڑا لطف ہے.یہ حقیقت ہے کہ ہم نے نہ تو شو کے لئے عمارتیں بنائی ہیں اور نہ سڑکیں بنائی ہیں.ربوہ میں ہمارا جو کالج کا پہلا کانووکیشن ہوا تھا اس میں ہم نے ایک بہت بڑے مشہور سکالر اور بڑے پائے کے محقق عالم کو بلایا ہوا تھا وہ کچھ دنیا دارانہ نگاہ رکھتے تھے.میں نے اپنے ایڈریس میں یہ کہا کہ ہم نے تو اپنی ضرورتیں پوری کر لی ہیں لیکن وہ نگاہ جو دنیا دارانہ ہے وہ انتظار کرے.اپنے وقت پر خدا اس کی نگاہ کی تسلی اور دلچسپی کے سامان بھی پیدا کر دے گا.مگر یہ آج نہیں ہوگا کیونکہ آج ہم وہ شان و شوکت جو دنیا کی آنکھ دیکھنا چاہتی ہے اس کو Afford ( افورڈ ) ہی نہیں کر سکتے.اس وقت یہاں پر کچی سڑکیں ہیں.۱۹۵۴ء میں میں یہاں آیا تھا اس وقت سے لے کر ۱۹۶۵ء تک بڑے بڑے غیر ملکی سکالر بھی یہاں آتے رہے ہیں اور غیر ملکی اس معاملہ میں زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں.چنانچہ وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ اس قسم کے سادہ اور غریبانہ مکان ہیں لوگوں نے اپنے آپ کو گرمی سردی سے بچانے کے لئے یہ انتظام کیا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے جماعت پر بڑا فضل کیا ہے لیکن ہمارے اندر جو روح ہے وہ ان کے لئے حیرت کا باعث بنتی تھی.وہ حیران ہوتے تھے کہ ربوہ میں تعلیم کا معیار اس قدر بلند ہے.اب تو میں نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہاں دن کے وقت بہت سارے باہر کے لوگ بھی آئے ہوتے ہیں.کوئی تھانے میں جارہا ہوتا ہے، کوئی تحصیل میں جا رہا ہوتا ہے، کوئی آر.ایم صاحب کی کچہری میں جارہا ہوتا ہے.اچھی خاصی رونق ہوتی ہے سینکڑوں
خطبات ناصر جلد ششم ۲۴۶ خطبہ جمعہ ۵ /دسمبر ۱۹۷۵ء آدمی ہوتے ہیں.اس لئے اس وقت کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے لیکن جور بوہ کے احمدی مکین ہیں ان کے متعلق ہم آج بھی کہہ سکتے ہیں اور اس وقت بھی کہتے تھے اور سننے والے کے لئے یہ بات حیرانی کا باعث بنتی تھی کہ ایک غریب جماعت جس کی غربت کی حالت اس کے مکانوں سے ظاہر ہے اور اس کے مکینوں کے کپڑوں سے ظاہر ہے.جہاں تک ہماری بچیوں کا سوال ہے سو فیصد بچیاں پڑھی لکھی اور Literate (لٹریٹ) ہیں اور جہاں تک بچوں کا سوال ہے وہ ۹۸ فیصد پڑھے لکھے ہیں.اب بچوں کو شرم تو آئے گی مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ دو فیصد کھسک جاتے تھے.اب تو مجھے پتہ نہیں لیکن اس وقت وہ دو فیصد کھسک جاتے تھے اور پڑھنا چھوڑ دیتے تھے.بہر حال ایک ایسے ملک میں جہاں Literacy (لٹریسی ) بڑی تھوڑی ہے وہاں پر آپ ربوہ کو علمی لحاظ سے ایک چھوٹا سا جزیرہ سمجھ لیں.پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی برکت دی ہے.اللہ تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ فضلوں کو حاصل کرو جن کا پاکیزگی کے ساتھ تعلق ہے اور پاکیزگی کا تو تبلیغ کے ساتھ بھی بڑا تعلق ہے چنانچہ قم فَانْذِرُ کے بعد کہا وَ ثِيَابَكَ فَطَهَّرُ (المدثر : ۵،۳) اس لئے جب تک انسان اپنے ماحول کو پاکیزہ نہیں کرتا اور آنے والوں اور دیکھنے والوں کے لئے اسے ایک نمونہ نہیں بنا تا اس وقت تک وہ صحیح معنی میں صحیح طور پر صحیح رنگ میں تبلیغ بھی نہیں کر سکتا اور نہ انذار کر سکتا ہے.آپ لوگ ربوہ کو صاف رکھا کریں اور جلسہ سے پہلے تو اس کو ایک غریب دلہن کی طرح بنا دیں.میں یہ نہیں کہتا کہ ربوہ کو سونے کے کڑے پہناؤ میں یہ کہتا ہوں کہ اس کو ایک غریب دلہن کی طرح صاف ستھرا بنا دو.اسی میں ہماری شان ہے شو میں ہماری شان نہیں ہے.یہ جو چار پودوں کا ہم نے جرمانہ کیا ہے میں نے اپنے آپ پر بھی کیا ہے اور ویسے تو سارا ربوہ ہی ذمہ دار ہے لیکن جو اس چوک کے ارد گرد رہنے والے مکین یا محلے ہیں ان کی ذمہ داری زیادہ ہے ایک دو دن کے اندر خدام الاحمدیہ اس کا انتظام کرے اور مجھ سے بھی ایک پودا یا اس کی قیمت لے کر اور باقی پودے بھی لے کر ان کو جلد دے دیں تا کہ ان کومل جائیں جنہوں نے وہاں لگائے تھے.
خطبات ناصر جلد ششم ۲۴۷ خطبہ جمعہ ۵ /دسمبر ۱۹۷۵ء ربوہ کی جو حیثیت ہے دنیا میں مکہ اور مدینہ کے بعد ان کی تو شان ہی اور ہے اور پھر قادیان کے بعد کسی اور جگہ کی وہ حیثیت نہیں ہے.مکے کا مقام تو بہت بلند ہے مکے کا مقام ایک عظیم ابراہیمی معجزہ کی وجہ سے اور حج کی وجہ سے جو کہ ہماری بنیادی عبادات میں سے ایک عبادت ہے بہت بلند ہے.مکے کے متعلق جو ذمہ داریاں ہیں ان کے متعلق قرآن کریم نے بہت کچھ کہا ہے.اہل مکہ میں سے کچھ لوگ ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے لیکن اس وقت میرا یہ مضمون نہیں ہے اور مدینہ منورہ کا مقام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے بہت ہی بلند ہے.جس طرح کے کے گلی کوچوں سے ہمیں پیار ہے مدینے کے تو ذرے ذرے پر ہماری جان فدا ہے اور پھر ان دو مقامات کی روح کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے مہدی علیہ السلام کے ذریعے قادیان میں ایک بنیا درکھی گئی.پس اس وجہ سے کہ قادیان میں مہدی علیہ السلام کے ذریعے مکے اور مدینے کی روح کو ساری دنیا میں قائم کرنے کی بنیاد رکھی گئی ہے ہمیں قادیان سے بھی پیار ہے اور پھر وہ جماعت جس نے آج اس روح کو قائم کرنا ہے اس کا مرکز اس وقت ربوہ میں ہے.بہت سے اہل ربوہ ربوہ کے مقام کو اور اس مقام کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے اور اس طرف توجہ نہیں کرتے.وہ ایک حد تک معذور بھی ہیں کیونکہ ہم لوگ ان کو یاد نہیں دلاتے اور ہم فذكر (الاعلی :۱۰) پر عمل نہیں کرتے.ان کو بتانا چاہیے کہ یہ اتنی زبر دست چیز ہے کہ انسان کا دماغ اس کو اپنے تصور میں نہیں لاسکتا یعنی دنیا میں اتنا بڑا اعلان ہو گیا کہ ساری دنیا کو انواع انسانی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے گا.بظاہر یہ انہونی بات ہے دنیا کی عقل اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں لیکن وہ جو خدائے واحد و یگانہ پر ایمان رکھتے ہیں وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئیاں جن کا اس زمانہ کے ساتھ تعلق ہے وہ ضرور پوری ہوں گی.آپ کی وہ پیش گوئیاں جو قرآن کریم میں بیان ہوئیں یعنی اللہ تعالیٰ کی وہ وحی جو قرآن کریم کے ذریعہ ہمیں ملی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے جو پیش خبر یاں ہمارے تک پہنچیں وہ پوری ہو کر رہیں گی.اس واسطے ساری دنیا ہمیں بالکل پاگل سمجھتی ہے اور اپنی عقل کے لحاظ سے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۴۸ خطبه جمعه ۵ /دسمبر ۱۹۷۵ء ایسا کرنے میں وہ حق بجانب ہے.اسے ہم کو پاگل ہی سمجھنا چاہیے جس طرح کہ مکی زندگی میں مکہ میں اہل مکہ کی نگاہ میں مسلمانوں کو پاگل سمجھا جاتا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھی بڑی دلیری سے یہ کہہ دیا تھا کہ نعوذ باللہ آپ مجنون ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت اور اپنے فعل سے یہ بتا یا کہ جس کو تمہاری دنیوی عقل مجنون کہتی ہے پہلوں نے بھی اسی سے عقل حاصل کی اور قیامت تک نوع انسانی اپنی ترقیات کے لئے اسی سے عقل حاصل کرتے رہیں گے.پس دنیا میں یہی ہوتا چلا آیا ہے اور قیامت تک ہوتا چلا جائے گا.اس واسطے اگر دنیا ہمیں پاگل نہ سمجھے تو ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے کیونکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمارے اندر کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے.ہم پاگل ہی سہی لیکن ہم پر عشق کی مستی کا جنون سوار ہے اور ہمارا یہ عشق اپنے قادر و توانا خدا کے ساتھ اور اس حسین ترین ہستی کے ساتھ ہے جسے دنیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے نام سے یاد کرتی ہے.آج کی دنیا نہ خدا کو پہچانتی ہے نہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتی ہے.دنیا کی نگاہ میں ایک پاگلوں کی یہ چھوٹی سی جماعت ہے جو بڑے بڑے عقل مندوں میں کھڑے ہو کے بھی یہ اعلان کر دیتی ہے کہ ساری دنیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.ہمارے سارے مبلغ ایسا کرتے ہیں.مجھے مختلف ملکوں کے دورے کرنے کی توفیق ملی.بغیر جھجک کے میں نے یہ اعلان کیا اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی میرے دل میں گھبراہٹ نہیں پیدا ہوئی.جب میں انہیں یہ کہتا تھا کہ خدا نے یہ کہا ہے کہ تمہارے دلوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جیت لیا جائے گا اور ایسا ہو کر رہے گا.اس میں شک نہیں کہ وہ حیران ہو کر دیکھتے تھے مگر ان کی حیرانیاں تو ویسی ہی ہیں جیسی کہ رؤسائے مکہ کی حیرانیاں تھیں اور اسلام کی کامیابیاں اور غلبہ ویسا ہی ہے جیسا کہ اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے چند ساتھیوں کو جو دنیا کے دھتکارے ہوئے تھے اپنے فضل اور اپنی رحمت اورا اپنی قدرت کے جلووں کے نتیجے میں غالب کر دیا تھا.پس جس شہر میں تم آباد ہو اس کی بھی قدر کرو اور جس جماعت کے ساتھ تمہارا تعلق ہے اس کی بھی قدر کرو.تمہیں خدا تعالیٰ نے خدمت کے لئے اور نوع انسانی کے دلوں کو محبت اور پیار کے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۴۹ خطبہ جمعہ ۵؍دسمبر ۱۹۷۵ء ساتھ جیتنے کے لئے پیدا کیا ہے اس کو ہمیشہ یاد رکھو اور اپنی نسلوں کے دماغوں اور ان کے ذہنوں میں یہ بات گاڑ دو کہ دنیا جو مرضی کہتی رہے ہو گا وہ جو خدا نے کہا ہے.خدا کی باتوں کو کبھی دنیا کے منصوبے بھی نا کام کر سکتے ہیں؟ قرآن کریم نے بڑی تحدی کے ساتھ بار بار یہ کہا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے.جب سے کہ الہام نازل ہونا شروع ہوا اور انبیاء علیہم السلام آئے ہم نے یہی دیکھا ہے.اگر یہ درست ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی آئے تو جس چیز کی صداقت پر ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی بے کسی اور ان کے مخالفوں کی طاقت اور اس کے باوجود آخر میں مخالفوں کی ناکامی اور نبیوں کی کامیابی نے مہر لگا دی اس کی صداقت سے ہم کیسے منہ پھیریں اور اس کو غلط سمجھنے لگ جائیں.خدا تعالیٰ نے تیرہ سو سال سے اُمت محمدیہ کو یہ وعدہ دیا تھا یہ بشارت دی تھی اور یہ تسلی دی تھی کہ درمیان کے زمانہ میں جو مختلف ادوار آئیں گے ان سے گھبرانا نہیں آخر اسلام ساری دنیا کا مذہب بنے گا جو رحمتہ اللعالمین بن کر آیا.دنیا کا کوئی حصہ اس کی رحمت کے دائرہ سے باہر کیسے رہ سکتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اور آپ نے قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ بات مہدی کے زمانہ میں پوری ہوگی جیسا کہ میں نے آپ کو کہا ہے.اسلام کے غلبہ کی صدی آ رہی ہے اب اس کا انتظار بہت تھوڑا ہے.دنیا میں کسی کو بھی یہ پتہ نہیں نہ مجھے نہ آپ کو کہ ہم نے کتنی دیر زندہ رہنا ہے لیکن پندرہ سال کا زمانہ ایک فرد واحد کی زندگی میں کوئی لمبا زمانہ تو نہیں ہے اور قوموں کی زندگی میں تو اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور اس عرصہ میں بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی.اس لئے نظر آنے والی یا انسانی نظر سے غائب رہنے والی وہ طاقتیں جو چودہ سو سال تک یہ پسند نہیں کرتی رہیں کہ اسلام غالب آئے.اب جبکہ اسلام کے غلبہ کا وقت آ گیا ہے وہ اس کو کیسے برداشت کریں گی کہ اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا ہونے لگ جائیں.اس واسطے ان طاقتوں نے ان طاغوتی طاقتوں نے اس مہم کو نا کام کرنے کے لئے پورا زور لگانا ہے.انہوں نے اس بات میں پورا زور لگانا ہے کہ اسلام غالب نہ آئے.اس کے مقابلہ میں ہماری صرف یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی حقیر سی اور اپنی غریبانہ، اپنی عاجزانہ کوششیں اور مجاہدے خدا کے حضور پیش کر دیں اور خدا تعالیٰ کے حضور
خطبات ناصر جلد ششم ۲۵۰ خطبہ جمعہ ۵ /دسمبر ۱۹۷۵ء عاجزانہ جھک کر یہ کہیں کہ اپنی بساط کے مطابق جتنا کر سکتے تھے ہم نے کر دیا.اور ہم جانتے ہیں کہ جتنی ضرورت تھی اس کا کروڑواں حصہ بلکہ اربواں حصہ بھی نہیں ہو سکا لیکن اس سے زیادہ کی تو نے ہمیں طاقت نہیں دی.اس سے زیادہ کی تو نے ہمیں توفیق نہیں دی، اس سے زیادہ ہم نہیں کر سکتے.باقی تو سب کچھ خدا تعالیٰ نے آسمانوں سے کرنا ہے اور وہی کر رہا ہے.آخر پچاسی سال میں ہم نے کیا دیکھا ہے کیا اپنی زندگیوں میں ہم نے اپنی طاقتوں اور اپنی تدبیر اور اپنے مجاہدے اور اپنی کوششوں کے نتائج دیکھے ہیں؟ نہیں ! ہم نے اپنی زندگیوں میں خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کی قدرتوں کے نتیجے دیکھے ہیں.پس جو ذمہ داریاں ہیں چھوٹی ہوں یا بڑی ان کو سمجھو.پہلے ان کو سمجھو گے تو پھر تبلیغ کر سکو گے اور آپ پر بڑی ذمہ داریاں ہیں.ہماری کیا حقیقت ہے ہمارا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا قیام اور خدا تعالیٰ کی توحید کا قیام ہے اس دنیا میں کہ جو اتنی متکبر ہو گئی تھی کہ اس نے یہ اعلان کیا کہ دنیا سے خدا تعالیٰ کے نام اور آسمانوں سے اس کے وجود کو مٹا دیں گے لیکن ہمارے کان میں یہ آواز آئی کہ ان ممالک میں اتنی کثرت سے احمدی مسلمان پیدا ہو گا کہ جس طرح ریت کے ذرے نہیں گنے جا سکتے وہاں مسلمان کی تعداد بھی حساب دان شمار نہیں کر سکیں گے.یہ وعدے تو پورے ہوں گے لیکن اس کے لئے ہم نے چھوٹے سے لے کر بڑے تک سب کام کرنے ہیں یہ نہیں کہ بڑا کام کرنا ہے اور چھوٹا نہیں کرنا.ہم اپنی سیری کے لئے پہلا لقمہ بھی کھاتے ہیں.یہ نہیں کہتے کہ تین روٹیاں اکٹھی کھالیں گے اور پہلا لقمہ نہیں کھائیں گے.پس ہماری ساری کوششیں مل کر نتیجہ نکلے گا.ہماری بالکل عاجزانہ حالت ہے.بے بسی کی حالت ہے، بے کسی کی حالت ہے.دنیا کے دھتکارے ہوئے ہیں لیکن ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے.ہم نے تو اپنے رب سے ایک عہد کیا ہے کہ جو ہمارے پاس ہے وہ ہم تیرے حضور پیش کر دیں گے اور ہم یہ توقع رکھتے ہیں ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ جو تیرے پاس ہے ( اور تیرے پاس سب کچھ ہے ) وہ تو دنیا کو دکھائے گا اور اسلام کو دنیا میں غالب کرے گا.یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ربوہ کے ماحول کو پاک کرو، پاکیزہ رکھو، درخت لگاؤ یہ اپنے لئے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۵۱ خطبہ جمعہ ۵ /دسمبر ۱۹۷۵ء نہیں ہے اس کے پیچھے یہ نیت ہے کہ جو باہر سے آنے والے ہیں وہ کچھ نمونہ تو دیکھیں گوغریبانہ کوششیں ہوں لیکن غریبانہ کوششیں تو دیکھیں.پس وہ گندگی ، وہ جہالت اور وہ ظلمت جو دنیا کے دوسرے حصوں میں ہمیں نظر آتی ہیں وہ ربوہ میں نظر نہیں آنی چاہیے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور ہمیں اس کی توفیق ملے.آمین (روز نامه الفضل ربوه ۲۵ / دسمبر ۱۹۷۵ ء صفحه ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ششم ۲۵۳ خطبه جمعه ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء اسلام سچا مذ ہب ہے جو قیامت تک انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۲ / دسمبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہم جو مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہیں ہمارے لئے خاص طور پر یہ سوچنے کی بات ہے کہ ہم اسلام کو کیوں مانتے اور قبول کرتے ہیں؟ اسلام پر، قرآنِ عظیم کی شریعت پر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہمارا ایمان اس وجہ سے ہے اور ہم اپنے دل سے اور اپنی روح کے ساتھ اسلام پر اس لئے ایمان لاتے ہیں کہ اس میں بنیادی طور پر دو ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جن کی رو سے اس کا انکار ایک عقلمند کے لئے ممکن ہی نہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآنِ عظیم کی شریعت اپنی تعلیم کے لحاظ سے ایک کامل اور مکمل شریعت ہے.شریعت کو انسان کی ہدایت کے لئے جو تعلیم دینی چاہیے وہ کامل اور اتم طور پر اسلامی شریعت میں پائی جاتی ہے چونکہ اسلام کا یہ دعوی ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے قیامت تک کے انسانوں کے تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے آیا ہے.اس لئے قرآن عظیم کی تعلیم اس لحاظ سے کامل ہے کہ کوئی نیا زمانہ انسان کے سامنے کوئی ایسے نئے مسائل نہیں رکھتا جن کے متعلق اسلام انسان کی رہنمائی نہ کرتا ہو چنانچہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ تفصیل كُلِّ شَيْءٍ (یوسف: ۱۱۲) ہے ہر زمانہ کی
خطبات ناصر جلد ششم ۲۵۴ خطبه جمعه ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء ضرورتوں کو کھول کر بیان کر دیتا ہے اس کے آگے دو پہلو بیان کئے.ایک تفصیل اس معنی میں کہ قرآنِ عظیم کی اس کامل شریعت کے بہت سے علوم بین ہیں ظاہر ہیں یعنی قرآن عظیم ایک معنی سے کتاب مبین ہے اور ایک اس معنی میں تفصیل ہے کہ جو مسائل ابھی انسان کو پیش نہیں آئے اور چھپے ہوئے ہیں اور جن کا تعلق آئندہ زمانوں کے ساتھ ہے.قرآنِ عظیم کا یہ دعویٰ ہے کہ آنے والے زمانوں میں ان چھپے ہوئے اسرار قرآنی کو ظاہر کرنے کا سامان اللہ تعالیٰ نے اس شریعت میں کیا ہے اور کیا ہے مطہرین کے گروہ کے ذریعہ کیونکہ جب یہ کہا في كتب مكنُونِ (الواقعة: ۷۹) تو ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر دیا لا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعۃ:۸۰) مطہرین کا ایک گروہ پیدا ہوتا رہے گا جو اپنے اپنے وقت میں ، اپنے اپنے زمانہ میں، اپنے اپنے علاقہ میں اُس زمانے اور علاقے کی ضروریات کے لئے اسلامی ہدایت جو اس سے پہلے ظاہر نہیں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ سے سیکھ کر انسان کو سکھائیں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا جس سے یہ ثابت ہوگا کہ یہ دعویٰ کہ اسلام اپنی تعلیم کے لحاظ سے ایک مکمل اور اتم مذہب ہے ایک سچا دعوی ہے کیونکہ اس نے کسی زمانہ میں بھی انسان کی ہدایت کو نظر انداز نہیں کیا.یہ دعویٰ کہ فِي كِتَب مَّكْنُونٍ - لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ سے تصدیق حاصل کرے گا اور اس سے یہ ثابت ہوگا اور یہ پتہ لگے گا کہ یہ قرآن عظیم تَنْزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ (الواقعة : ۸۱) ہے.وہ خدائے واحد ویگا نہ جو رَبُّ الْعَلَمِيْنَ ہے، جو اس یو نیورس، اس عالمین کی ربوبیت کرنے والا ہے، قرآنی تعلیم اُس کی طرف سے نازل ہوئی ہے.اس وقت ساری دنیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے سامنے جب مذہب کی بات کی جائے تو کہتے ہیں تم لوگوں نے کیا دقیانوسی باتیں شروع کر دی ہیں زمانہ آگے نکل گیا اور تم قرآنی باتیں کر رہے ہو.غرض ایسے لوگ کہتے ہیں وہ شریعت جو چودہ سو سال قبل نازل ہوئی تھی وہ ہمارے زمانہ کے مسائل کو کیسے حل کرے گی؟ اگر چودہ سوسال قبل نازل ہونے والی شریعت رب العالمین کی طرف سے نازل نہیں ہوئی تھی تو ان کا یہ اعتراض ، اُن کا یہ دعویٰ اور اُن کا یہ موقف درست ہے لیکن قرآن عظیم نے یہ اعلان کیا کہ میں رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہوں جس کا علم مستقبل پر بھی حاوی ہے.قیامت تک کا زمانہ تو ایک مختصر سا وقت ہے.قیامت تک
خطبات ناصر جلد ششم ۲۵۵ خطبه جمعه ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء کا جو زمانہ ہے اسی پر بس نہیں کیونکہ زمانے تو اس سے بھی آگے پھیلے ہوئے ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں اور اللہ تعالیٰ کا علم ہر زمانہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے.پس رب العلمین خدا کی طرف سے یہ کلام نازل ہوا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ قیامت تک ہر زمانہ اور ہر مقام پر خدا تعالیٰ کے مظہر بندے پیدا ہوتے رہیں گے.اس دعوی کے مطابق ہم نے یہ نظارہ دیکھا کہ جو کہا گیا تھا وہ پورا ہوا چنانچہ قرآن کریم کے اسرار روحانی کو وقت کے تقاضا کے مطابق اللہ تعالیٰ سے سیکھ کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا.گویا اس معنی میں ہم ایمان لائے ہیں کہ قرآن کریم اکمل اور اتم تعلیم لایا ہے.اس تعلیم کے مقابلہ میں ایک تو مذاہب ہیں.مذاہب کے ساتھ جب ہم اس تعلیم کا موازنہ کریں تو اولاً وہ مذاہب جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل دنیا کی طرف آئے تھے اُن کے ساتھ ہمیں اس کا موازنہ کرنا پڑتا ہے لیکن اکمل اور اتم تعلیم کا یہ مطلب نہیں کہ ضمنی طور پر یا نسبتی لحاظ سے اسلامی شریعت پہلے مذاہب کے مقابلہ میں اچھی ہے بلکہ ہر ازم، ہر خیال اور ہر School of Thought کے مقابلہ میں بھی ہر پہلو سے اسلامی تعلیم اکمل اور اتم ہے.یہ اُن لوگوں کے موقف کے مقابلہ میں بھی اکمل اور اتم ہے جن کا خیال یہ ہے کہ چودہ سو سال پرانی تعلیم آج کے زمانہ کے لئے نہیں ہے لیکن ہر شخص کا کام نہیں ہے کہ وہ اس کو ثابت کرے.خود قرآن کریم نے اعلان کیا کہ یہ ہر شخص کا کام نہیں ہے بلکہ لا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی رُو سے اسلام کے اندر ایک ایسا نظام قائم کر دیا گیا ہے جس میں مطہرین کے گروہ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اُن کے ذریعہ سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اسلام ہر زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے.پس ایک تو ہم اسلام پر ایمان رکھتے ہیں اس معنی میں کہ اسلام اپنی تعلیم کے لحاظ سے اکمل اور اتم ہے دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں ہی نہیں بلکہ ہر موقف کے مقابلہ میں بھی.مذہب سے باہر بھی تو ایسے Schools of Thought ایسے اِزم ہیں اور ایسے موقف انسان نے اختیار کئے ہیں اور انہوں نے کہا ہماری عقل ایسے اصول بنائے گی جو ہمارے مسائل حل کرے گی اور ہماری استعدادوں کی ارتقاء کے سامان پیدا کرے گی.“ دراصل یہ تخیل اور یہ الفاظ جو میں نے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۵۶ خطبه جمعه ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء بیان کئے ہیں یہ اسلام کے ہیں اُن کے تو دماغ میں بھی کبھی یہ نہیں آیا تھا.اب جب احمدیت نے ان اصطلاحات اور ان باتوں کو بیان کرنا شروع کیا ہے تو احمدیت کی نقل میں اب باہر والوں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے لیکن اس سے پہلے اُن کا جولٹریچر ہے مثلاً اشتراکیت ہے یہ بھی ایک ازم ہے اسے کمیونزم کہتے ہیں یا انسان کے دوسرے عقلی موقف ہیں ( موقف میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ مذہب نہیں ہیں.مذہب کا نام لینا بھی وہ پسند نہیں کرتے.ہم اُن کو بد مذہب بھی نہیں کہہ سکتے ویسے دنیا میں بد مذاہب بھی ہیں لیکن ) اس وقت میری مراد وہ لا مذہب دماغ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی عقل اُن کی بھلائی کے سارے سامان پیدا کر سکتی ہے حالانکہ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اُن کی عقل اُن کی بھلائی کے سارے سامان پیدا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور یہ مسئلہ محض علمی نہیں رہا بلکہ عملاً یہ ثابت کیا جاسکتا ہے.بہر حال یہ تو ایک لمبی تفصیل ہے اس وقت میں یہ بات جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ ہم جو مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے ہیں ہم اسلام کو اس معنی میں ایک سچا اور حقیقی مذہب مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت تک کے انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے قائم کیا.اس نے ہر زمانے اور ہر مکان کے جو مسائل ہیں ان کو سلجھانے کے لئے اور لوگوں کی رہنمائی کے لئے تعلیم دی ہے یہ ایک حقیقت ہے جس پر ہر ایک احمدی ایمان لاتا ہے.دوسری چیز جو ہمارے ایمان کے مطابق بنیادی طور پر اسلام میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی زندہ برکات کبھی ختم نہیں ہوتیں، کسی زمانہ میں بھی ختم نہیں ہوتیں.اس کے انوار اور برکات اور انسان پر ظاہر ہونے والے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے معجزانہ جلوے کبھی ختم نہیں ہوتے.علمی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کا دماغ کچھ ایسا بنایا ہے کہ وہ سوفسطائی طریقوں پر سچی بات کو غلط بیان کرنے اور غلط تسلیم کر لینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور پھر اگر کوئی سمجھدار آدمی اس کے حالات کے مطابق اُس سے بات کرے تو اس سے منوا بھی سکتا ہے یا اس کو خاموش بھی کروا سکتا ہے لیکن بہر حال جہاں تک بنیادی تعلیم کا سوال ہے عقل اس میں وسو سے ڈال سکتی ہے اور ڈالتی ہے.اسی واسطے وسوسے ڈالنے والوں کی پناہ مانگنے کی دعا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں
خطبات ناصر جلد ششم ۲۵۷ خطبه جمعه ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء سکھائی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی معجزانہ قدرتوں کے جو جلوے ہیں اُن کو انسانی عقل غلط قرار نہیں دے سکتی اور نہ اُن کو Explain کر سکتی ہے اور نہ اُس کی وجہ بیان کرسکتی ہے کہ یہ کیا اور کیوں ہو گیا.ہم نے بڑے بڑے ماہرین علوم سے باتیں کیں لیکن اس معاملے میں آکر انہوں نے خاموشی اختیار کر لی.میں نے پہلے بھی بتایا تھا ایک روسی سائنسدان ٹی.آئی کالج میں آئے.میں اس وقت پرنسپل تھا جب میں نے ان کو یہ بتایا کہ لین کو بھی پتہ نہیں تھا روس میں کیا ہونے والا ہے لیکن جماعت احمدیہ کو پتہ تھا کہ روس میں کیا ہونے والا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہا ماں یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں ایک انقلاب آنے والا ہے اور یہ اس وقت بتا یا گیا تھا کہ ابھی لینن نے اپنے ساتھیوں سے سر جوڑ کر بات ہی نہیں کی تھی.تاریخ کے حوالے ہمارے پاس موجود ہیں کہ انہوں نے پہلی بار جب میٹنگ کی اور سر جوڑا اور ایک منصوبہ تیار کیا کہ وہ روس میں جا کر اس سکیم کو چلائیں گے.اُن کی اس پہلی میٹنگ سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتا دیا تھا کہ روس میں ایک انقلاب آ رہا ہے اور وہ بڑا از بردست انقلاب ہو گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں اس کی بڑی تفصیل بتائی گئی ہے.پھر جہاں تک اسلامی انوار و برکات کا تعلق ہے کوئی دہر یہ نہ سمجھ لے کہ میں اپنی طرف سے بیان کر رہا ہوں یہ قرآن کریم کا دعوی ہے کہ اسلامی شریعت اکمل اور اتم ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى (المآئدۃ: ۴) اور جو معجزات اور برکات اور انوار اور خدا تعالیٰ کے ایسے جلوے ہیں جن کو انسانی عقل Explain نہیں کر سکتی.اُن کی وجہ نہیں بیان کر سکتی کہ یہ کیا ہو گیا.اس کے بھی متعلق قرآن کریم کی متعدد آیات میں ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ الا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ( حم السجدة : ٣١) ملائکہ کا نزول قرآن کریم کے محاورے میں کئی معانی میں آتا ہے ایک یہ ہے کہ وہ آئندہ کی
خطبات ناصر جلد ششم ۲۵۸ خطبه جمعه ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء خبریں دیتے ہیں.ایک اس معنی میں آتا ہے کہ ملائکہ آکر تسلی دیتے ہیں.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دنیا میں ایک شور بپا ہے کہ یہ شخص کا فر ہے اور خدا کے فرشتے میرے کان میں آکر یہ کہتے ہیں کہ تم گھبراؤ نہیں خدا تمہارے ساتھ ہے.پس تسلی دینے کے لئے ملائکہ کا نزول ہوتا ہے اور یہ بھی انوار کے اندر شامل ہے اور اس کی بڑی لمبی تفصیل ہے.میں اس کی چند مثالیں دوں گا تا کہ بچے بھی سمجھ جائیں کہ اس سے ہماری کیا مراد ہے.پہلے نوشتوں میں تھا کہ مہدی کے زمانہ میں بچے بھی نبوت کریں گے مگر یہ نبوت اصطلاحی معنوں میں نہیں بلکہ اس لغوی معنی میں ہے کہ ان کو بھی سچی خوا ہیں آئیں گی چنانچہ جب ۱۹۷۴ء میں جماعت پر پریشانی اور ابتلاء کے دن تھے تو دوست مجھ سے ملنے کے لئے آتے تھے.میں اُن کو اسلام اور احمدیت کی تعلیم بتا تا تھا، اُن کو صبر کی تلقین کرتا تھا.انہیں وعظ کرتا تھا کہ مسکراتے رہو کیونکہ تمہاری مسکراہٹوں کا منبع خدا تعالیٰ کا پیار ہے.جب تک اللہ تعالیٰ کا پیار تمہیں حاصل ہے تمہاری مسکراہٹیں تم سے چھینی نہیں جاسکتیں.میں انہیں کہا کرتا تھا صبر کرو اور غصہ میں نہ آؤ.ہم نے ساری دنیا کے دل پیار سے جیتنے ہیں کسی کے خلاف کوئی ایذاء رسانی کی بات نہیں کرنی نہ زبان سے اور نہ ہاتھ سے ایذاء پہنچانا ہے.خیالات بھی ایسے نہیں ہونے چاہئیں انسان کے خیالات پاک ہونے چاہئیں.اُس وقت ملاقات کے لئے آنے والوں میں بچے بھی ہوتے تھے چنانچہ کئی بار میں نے بچوں سے پوچھا بتاؤ تم کو کبھی سچی خواب آئی ؟ تو بچے کھڑے ہو جاتے کہ ہاں.اُن کی سمجھ اور عقل کے مطابق آئندہ کی بات بتا دی جاتی ہے جو انسان کا کام ہی نہیں مثلاً کسی دیہاتی بچے کو خواب میں یہ بتایا جائے کہ تیری بھینس جو بچہ دینے والی ہے وہ کئی ہو گی کٹا نہیں ہو گا.اب کون انسان یہ بتا سکتا ہے اور جب اس کی خواب پوری ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خواب میں اُسے جو علم دیا گیا ہے اس کا منبع اور سر چشمہ علام الغیوب کی ذات ہے.پس جب گھر کے بچوں کو ، عورتوں کو اور مردوں کو اُن کی عقل اور سمجھ کے مطابق ان کو تسلی دینے کے لئے سچی خوا میں آرہی ہوں تو اُن کو دنیا کا شور و شر کیا پریشان کر سکتا ہے، بالکل پریشان نہیں کر سکتا.پس ہم اسلام پر اس معنی میں ایمان لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار انوار اور برکات اور معجزانہ قدرتوں کے جلوے اسلام کے اندر بھرے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۵۹ خطبہ جمعہ ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء ہوئے ہیں جو صرف اس کے طفیل مل سکتے ہیں اور وہ ہر زمانہ میں اس طور پر ملتے ہیں کہ دنیا کا کوئی اور مذہب یا دنیا کا کوئی اور موقف (میں نے موقف کے بارہ میں بتا دیا ہے کہ اس سے میری کیا مراد ہے ) اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا.اسلام کے متعلق یہ دو بنیادی صداقتیں ہیں جو ہمیں بتائی گئی ہیں اور ہم صدق دل سے ان پر ایمان لاتے ہیں.مگر یہ تھی تمہید اور اس سے جو نتیجہ نکلتا ہے اور ہر احمدی کو نکالنا چاہیے وہ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس اکمل اور اتم دین کے جو علوم ہیں ان سے واقفیت ہمارے بڑوں کو، عورتوں کو اور بچوں کو حاصل کرنی چاہیے.صرف یہ کہ دینا کہ اسلامی تعلیم کے مقابلے میں کوئی اور مذہب ٹھہر نہیں سکتا یا صرف یہ کہ دینا کہ اسلامی تعلیم کے مقابلے میں کمیونزم یا دوسرے اِزم کھڑے نہیں رہ سکتے یہ تو کافی نہیں ہے.ہمارے ہر بڑے اور چھوٹے ، ہر مرد اور عورت اور ہر جوان اور بچے کو علی وجہ البصیرت اس کا علم ہونا چاہیے کہ یہ بات درست ہے اسلامی تعلیم کی ہر خوبی اس کے سامنے آنی چاہیے.آج کے کئی مسئلے ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے اتنی تفصیل سے ہدایت دی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے مثلاً آج کی دنیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ Industrial Development (انڈسٹریل ڈویلپمنٹ ) ( یعنی صنعتی ترقی ) سے تعلق رکھتا ہے.اب دنیا میں کا رخانے بن گئے ، مزدور ا کٹھے ہو گئے اور نئے نئے مسائل پیدا ہو گئے.آج سے پانچ سو سال پہلے نہ اس طرح مزدور ا کٹھے ہوتے تھے اور نہ مسائل پیدا ہوتے تھے مگر قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ وہ اس مسئلہ کی تفصیل میں گیا.میں نے اسلامی اقتصادیات اور اس کے فلسفہ کے متعلق خطبات دیئے تھے وہ چھپے ہوئے موجود ہیں.اُن میں مثال کے طور پر میں نے بہت سی آیات کو پیش کیا تھا اور ان کی تفسیر بیان کی تھی چنانچہ میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات سے یہ استدلال بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ صاحب اختیار ہیں اُن کو کارخانے لگانے کی اجازت کن اصول پر دینی چاہیے.اسلام نے وہ اصول بتائے ہیں اور تفصیل میں جا کر ہماری رہنمائی کی ہے لیکن یہ جو مختلف ازم ہیں مثلاً کمیونزم ہے اس کا بڑا چرچا ہے بعض دفعہ نو جوان طبقہ بھی تھوڑا سا بہک جاتا ہے کیونکہ اس کو سمجھ نہیں آتی.اشتراکیوں نے دو اعلان کئے اور بظاہر یہ اعلان بڑے اچھے تھے.ایک
خطبات ناصر جلد ششم ۲۶۰ خطبه جمعه ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء یہ اعلان کہ Proletariat of the world unite ( پرولیٹریٹ آف دی ورلڈ یو نائٹ ) اور دوسرا یہ اعلان کہ To Each According to His Need پہلے اعلان کے مطابق یہ کہا گیا کہ دنیا کے غریب مزدور اور سب لوگ جن کا استحصال ہوا ہے وہ اکٹھے ہو جائیں ہم ان کی مدد کے لئے آگئے ہیں اور دوسرے یہ کہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے گا.اب اس تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا بہت دیر ہو جائے گی پھر کسی وقت موقع ملا تو دہرا دوں گا ویسے تو میں اپنی مجلسوں میں باتیں کرتا رہتا ہوں کہ وہ جن کو انہوں نے کہا تھا ہم تمہاری مدد کے لئے آگئے ہیں یعنی پرولیٹریٹ جن کا استحصال ہو رہا تھا.یورپ میں Hard core کمیونسٹوں سے بھی باتیں ہوئیں میں نے کہا تمہارا اعلان بڑا اچھا تھا لیکن یہ بتاؤ کہ وہ مظلوم اب بھی کیوں مظلوم ہے بلکہ اب تو تم نے اپنے مظلوموں کو بانٹ لیا اور کہا مظلوموں ( پرولیٹریٹ ) کا ایک حصہ امریکہ کے اثر کے ماتحت رہے گا حالانکہ امریکہ ایک سرمایہ دار ملک ہے اور ایک حصہ ہمارے اثر کے ماتحت رہے گا.جس وقت تم نے Zones of influence بنالئے باہم Compromise کر لیا آپس میں معاہدے کر لئے تو پھر تمہارا یہ دعویٰ غلط ہو گیا اور تمہارا یہ اعلان ختم ہو گیا Proletairat of the World Unite.اسی طرح جہاں تک کمیونزم کے اس دعوی کا تعلق ہے کہ To Each According to His Need میں نے انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس ہیگ میں روسی حج سے بات کی.اب وہ چوٹی کا دماغ ہونا چاہیے اور ہو گا ضرور اس میں کوئی شک نہیں.اُن سے میں نے کہا آپ نے اعلان کیا اور اچھا اعلان کیا.ہمیں یہ بہت پسند آیا کہ To Each According to His Need لیکن تمہارے لٹریچر میں کہیں بھی Need کی تعریف نہیں کی گئی اور اس کا عملاً نتیجہ یہ نکلا کہ چیکوسلا واکیہ کی ضروریات اور سمجھ لی گئیں اور وہائٹ رشیا کی اور سمجھ لی گئیں.میں نے ان سے کہا تم مجھے Need کی تعریف بتادو میں تمہارا بڑا ہی ممنون ہوں گا.کئی منٹ تک بات کرتے رہے ادھر اُدھر چکر لگاتے رہے لیکن Need کی تعریف کی طرف آئے ہی نہیں.وہاں دوسرے ممالک کے اور بھی جز تھے وہ مسکرا رہے تھے کہ یہ شخص جواب نہیں دے سکتا.اس کے مقابلہ میں اسلام نے جو چیز بتائی ہے اور جو اصطلاح پیش
خطبات ناصر جلد ششم ۲۶۱ خطبہ جمعہ ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء کی وہNeeds نہیں بلکہ حق کا لفظ استعمال کیا ہے.اُن کی اصطلاح تو خود قابل اعتراض بنتی ہے جب کہ اسلام کی پیش کردہ تعلیم بڑی حسین ہے.بہر حال یہ تفصیلی علم ہر احمدی کو ہونا چاہیے اور اسلام کی یہ تعلیم ہے جو دوسرے تمام مذاہب سے افضل ہے اپنے اکمل اور اتم ہونے کے لحاظ سے اور اس کے اندر کوئی نقص نہیں اور اس کا نظام ایسا ہے کہ قیامت تک مطہرین پیدا ہونے کا سلسلہ جاری ہے.خدا تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا ہے اس کو کوئی نہ مانے تو اس میں آپ کا یا میرا تو کوئی قصور نہیں.قرآن کریم نے اعلان کیا ہے کہ قیامت تک مطہرین پیدا ہوں گے جو خدا تعالیٰ سے اسرار قرآنی سیکھ کر دنیا کو بتا ئیں گے.اس زمانہ میں حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفصیل کے ساتھ یا پیج کی شکل میں قرآن کریم کی جو تفسیر کی ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی جو تشریح کی ہے وہ بار بار ذہنوں میں تازہ کرنے کے لئے ہر جگہ بیان ہونی چاہیے.جہاں بھی دو احمدی مل بیٹھیں وہاں اس کا ذکر ہونا چاہیے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے محض علمی فضیلت اور اکملیت اور اتمام کافی نہیں جب تک یہ دوسرا حصہ جو اس کے متوازی چل رہا ہے اس کا ظہور نہ ہو یعنی اسلام کے انوار اور برکات اور معجزات ظاہر نہ ہوں.آخر یہ بھی ایک معجزہ ہے اور بڑا زبردست معجزہ ہے.اگر تم سوچو کہ ایک بارہ سال کے بچے کو سچی خواب آتی ہے اور یہ برکت اسلام سے حاصل کی.ویسے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام سے باہر بھی چونکہ خدا تعالیٰ اپنے سے دوری کو پسند نہیں کرتا اس لئے ان کو بتانے کے لئے کہ تم میرے قریب آ سکتے ہو ہر کس و ناکس کو خال خال سچی خواب آجاتی ہے لیکن اس کثرت کے ساتھ کہ مہینوں میں سچی خوابوں کے دفتر بھر جائیں.خدا تعالیٰ کا یہ معاملہ صرف تعلیم قرآنی کی برکت سے اس گروہ کے ساتھ ہوتا ہے جس سے وہ پیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی پیار کی جو باتیں ہیں اُن میں سے ہر ایک بیان بھی نہیں کی جاسکتی.اللہ تعالیٰ کے پیار کی بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں حق کو آدمی عام طور پر بیان کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے لیکن ساری جماعت کو تقویٰ کے ذریعہ اس گروہ میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے جو زندہ دلیل ہوں اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ اسلام میں انوار و برکات کا دریا بہاتا ہے اور اس کی برکتوں
خطبات ناصر جلد ششم ۲۶۲ خطبه جمعه ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء سے اگر انسان محروم ہے تو وہ اپنی ہی غفلت سے محروم ہے خدا تعالیٰ اسے محروم نہیں رکھنا چاہتا.اب دیکھو یہ کتنی زبردست برکت ہے اسلام کی کہ ۱۹۷۴ء میں اتنا کچھ ہو گیا اور جماعت نے بحیثیت مجموعی یہ عہد کیا کہ ہم ان لوگوں کے لئے دعائیں کریں گے بد دعا نہیں کریں گے.یہ اتناز بر دست معجزہ ہے کہ بعض افراد کو سمجھ ہی نہیں آرہی.ہمارے پاکستان میں بڑے بڑے سمجھ دارلوگ کہتے ہیں ہمیں سمجھ نہیں آتی یہ کیسے ممکن ہو گیا ضرور بیچ میں کوئی بات ہے.یہ ضرور والی بات تو پھر وہ کہانی ہو جائے گی جو دو دوستوں ایک اندھے اور ایک سو جاکھے کے درمیان کھانے پر واقع ہوئی تھی.کہتے ہیں ایک نابینا اور بینا کی کسی نے دعوت کی چنانچہ جیسا کہ طریق ہے کہ پرات میں ان کے سامنے پلاؤ اور زردہ رکھا گیا اور آمنے سامنے بٹھا کر کھانا کھلانا شروع کیا.جو نا بینا تھا اس کے دل میں بدظنی پیدا ہوئی کہ مجھے تو نظر نہیں آرہا معلوم ہوتا ہے اس نے مجھے محروم کرنے کے لئے دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا ہو گا (حالانکہ گلا تو ایک ہی ہے چاہے ہاتھ دو ہوں بہر حال ) جب نابینا کے دل میں بدظنی پیدا ہوئی تو اس نے دو ہاتھوں سے جلدی جلدی کھانا شروع کر دیا.آنکھوں والا سمجھ گیا کہ اندھے کے دل میں بدظنی پیدا ہوگئی ہے چنانچہ اس نے کھانے سے ہاتھ اٹھالیا اور کھانا کھانا چھوڑ دیا اور چپ کر کے بیٹھ گیا کہ تماشا دیکھوں.تھوڑی دیر دونوں ہاتھوں سے کھانے کے بعد نا بینے نے سوچا اوہو اس کو تو یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ میں نے بھی دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا ہے ضرور اس نے اپنی چادر پر ڈالنا شروع کر دیا ہوگا تو وہ اس کو کہنے لگا بس بھی کر میرے واسطے بھی تو کچھ رہنے دے.پس جس طرح اس نا بینے کو سمجھ نہیں آ رہی تھی سو جا کھے کی شرافت کی اسی طرح بعض لوگ ہیں جن کو ہماری شرافت کی سمجھ نہیں آ رہی.اس واسطے یہ بھی دعا کرو اُن کو ہماری شرافت کی سمجھ آ جائے.بعض لوگ بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارا دماغ نہیں مانتا آپ کے ساتھ ہم نے یہ کچھ کر دیا ہو اور پھر بھی آپ ہمارے لئے دعائیں کرنے والے ہوں.اُن کو کیا معلوم ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس جماعت کے لئے دعائیں کی تھیں کہ یہ دنیا کے لئے سکھ کے سامان پیدا کرنے والی جماعت ہو.یہ دنیا کے لئے ترقیات کے سامان پیدا کرنے والی جماعت ہو.اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
خطبات ناصر جلد ششم ۲۶۳ خطبه جمعه ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء سے بے انتہا پیار کرنے والا قا در و توانا خدا ہے اُس نے ان دعاؤں کو ٹنا اور اس جماعت کو پیدا کر دیا.ٹھیک ہے ہماری جماعت میں بعض منافق بھی ہیں اور کمزور بھی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی بعض لوگ منافق اور کمزور تھے لیکن بحیثیت جماعت یہ ایک ایسی جماعت ہے جو کسی کو دکھ دینا تو در کنار دکھ دینے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی اور یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے اور اتنی بڑی برکت ہے جو اس جماعت نے اسلام کے ذریعہ حاصل کی تھی اس برکت کو ساری دنیا حاصل کر سکتی ہے.پس علم حاصل کر و حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے علوم کا دریا بہا دیا ہے تاہم جیسا کہ کہا گیا تھا ہر ظرف اپنی استعداد کے مطابق علم حاصل کرے گا.ہر برتن اپنے ظرف کے مطابق بھر جائے گا پس علم کے ساتھ ساتھ اپنے لئے پاکیزگی کے سامان پیدا کرو تا کہ آپ کا نمونہ دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب بنے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری جماعت کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بنے.اس لئے آپ اس غرض کو پورا کر دیں دنیا آپ سے آکر چمٹ جائے گی اور آج نہیں کل پہچان لے گی کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہماری نجات کے سامان پیدا کر دیئے ہیں لیکن ہم عاجز اور مسکین بندے ہیں.خدا تعالیٰ سے دعائیں کر کے اس سے طاقت حاصل کرو.اپنی عقل اور فراست کی تیزی کے لئے بھی دعائیں کرو اور اپنے اعمال کی پاکیزگی اور اپنے دل اور روح کی.جماعت کے لئے بھی دعائیں کرو.اللہ تعالیٰ فضل کرے وہ اپنی رحمتوں سے نوازے اور جیسا کہ وہ چاہتا ہے ہماری ساری جماعت کو دنیا کے لئے اسلام کی صداقت کی خاطر ایک نمونہ بناوے.اللھم آمین.روز نامه الفضل ربوه ۱۴ فروری ۱۹۷۶ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ششم ۲۶۵ خطبہ جمعہ ۱۹ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء ہمارا ہر لمحہ خدا کے حضور دعائیں کرتے ہوئے گزرنا چاہیے خطبه جمعه فرموده ۱۹ دسمبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جن حالات میں سے جماعت اس وقت تک گزرتی آئی ہے اور اس وقت گزر رہی ہے وہ حالات اس قسم کے ہیں کہ دعا کے سہارے کے بغیر سانس لینا بھی مشکل ہو جائے.ساری دنیا کو ہم نے اس لئے اپنا دشمن بنالیا ہے کہ دنیا خدائے واحد و یگا نہ کو چھوڑ کر اپنے بتوں کی طرف مائل ہو چکی تھی اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اور اس میں ہو کر زندگی گزارنے کی بجائے عیش وعشرت میں پڑ چکی تھی.جب ان کو جھنجھوڑا تو وہ غصے ہو گئے ، جب انہیں خدائے واحد و یگانہ کی طرف بلایا تو انہیں طیش آیا کہ تم ہمیں اپنے معبودوں سے چھڑوانا چاہتے ہو.جب قرآنِ عظیم کی حسین تعلیم ان کے سامنے پیش کی تو ہم نے انہیں غضبناک دیکھا کہ کیا ہم اپنی تعلیمات کو چھوڑ کر تمہاری طرف آجائیں اور کیا تمہارے نزدیک ہماری تعلیمات درست نہیں اور ہمارے عقائد درست نہیں بلکہ بد عقائد ہیں.جب ہم نے انہیں کہا کہ عقل پر بھروسہ نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو تو اُنہوں نے کہا کہ ہمیں اتنی عقل مل چکی ہے کہ اس کے علاوہ ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.غرضیکہ انسانوں میں سے ہر گروہ نے خدائے واحد و یگانہ کو چھوڑ کر اور قرآنِ عظیم کی تعلیم سے منہ موڑ کر جیسا کہ خود
خطبات ناصر جلد ششم ۲۶۶ خطبہ جمعہ ۱۹ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء قرآن عظیم نے اعلان کیا تھا کہ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ( الفرقان : ۳۱) اپنے اپنے بت اور اپنے اپنے طریقے بنا لئے تھے یا قرآن کریم کی طرف توجہ نہ کر کے اپنی ایک طرزِ زندگی اور اپنے کچھ عقلی محلات بنائے ہوئے تھے.جب ان کی کمزوریاں اور ان کے نقائص بتائے گئے تو وہ غصے ہو گئے.ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے اپنے نمونہ سے اور اپنی فراست سے پیار کے ساتھ ان کو صداقت کی طرف لے کر آنا ہے.جب ہم اپنے نفسوں پر نگاہ کرتے ہیں تو خود کو اتنا کمزور، اتنا بے بس اور اتنا حقیر دیکھتے ہیں کہ ان ذمہ داریوں کے اُٹھانے کے قابل نہیں پاتے لیکن ہم پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں انہیں چھوڑ بھی نہیں سکتے کیونکہ ڈالنے والا ہمارا پیارا رب اللہ تعالیٰ ہے جس نے جماعت کو قائم کیا ، جس نے اس پودے کو لگایا ، جس نے پیار سے اس کی آبپاشی کی اور جس نے ہر مرحلہ اور ہر قدم پر اس کی حفاظت اور اس کی نشوو نما کے لئے اپنی قدرت کے جلوے ظاہر کئے.پس ہم اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ نہیں سکتے ان سے منہ موڑ نہیں سکتے گود نیا ناراض ہے، دنیا غصے میں ہے، دنیا طیش میں ہے.آج دنیا کو ہمارے جذبات خیر خواہی کی سمجھ نہیں آرہی.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم کمزور ہیں ، ہم حقیر ہیں ، ہم بے مایہ ہیں ، ہمیں کوئی اقتدار سیاسی یا کسی اور قسم کا حاصل نہیں اور نہ ہم اس کی خواہش رکھتے ہیں پھر ہم زندہ رہیں تو کس برتے پر، جئیں تو کیسے اور اپنی ذمہ داریوں کو نبا ہیں تو کن وسائل کے ذریعے.جب ہم یہ سوچتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے خلاف ان طوفانوں کے باوجود خدا تعالیٰ کے پیار کی آواز ہمارے کان میں یہ کہتی ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اپنی دعاؤں کے ساتھ ، نہایت عاجزانہ دعاؤں ، ابتہال کے ساتھ کی جانے والی دعاؤں کے ساتھ میرے پاس آؤ اور دعاؤں کے کھالوں کے ذریعے ( کھال جس میں پانی بہتا ہے ) دعا کی نہر کے ذریعے میری رحمت کو اور میری برکت کو جذب کرنے کی کوشش کرو.دراصل ہمارا ہر لمحہ خدا کے حضور دعائیں کرتے ہوئے گزرنا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر تو نہ زندگی ممکن ہے اور نہ زندگی میں کچھ مزہ.
خطبات ناصر جلد ششم ۲۶۷ خطبہ جمعہ ۱۹ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء دعاؤں کے دن کبھی زیادہ اہمیت رکھنے والے ہوتے ہیں اور کبھی عام دن ہوتے ہیں لیکن ہمارے عام دن بھی دعاؤں کے بغیر اس رنگ میں نہیں گزر سکتے جس طرح کہ خدا چاہتا ہے کہ ہم گزاریں.دعاؤں کے جو خاص ایام ہیں وہ ایک تو رمضان کے ایام ہیں اور رمضان کے موقع پر جماعت کے علماء مقررین خطیب اور علاقوں کے امیر وغیرہ دوستوں کو اس کی طرف توجہ دلاتے ہیں.یہ جماعت میں ایک روایت ہے ان دنوں قرآن کریم کا درس بھی ہوتا ہے.پھر حج کے ایام ہیں اور وہ بڑی دعاؤں کے ایام ہیں اور پھر ہم پر جو ذمہ داریاں ہیں ان کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کئی اور خاص مواقع بھی بہم پہنچا دیئے ہیں.چنانچہ ہمارے لئے دعاؤں کے ایک وہ ایام ہیں جو ہمارے لئے اچانک پیدا کئے جاتے ہیں.جب ہمارا امتحان لیا جاتا ہے جب ہمارے لئے ابتلا کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں تب دراصل اللہ تعالیٰ ہمارے لئے انتہائی دعا کے سامان انتہائی اضطرار کے ساتھ دعا کے سامان اور انتہائی عاجزی کے ساتھ دعا کرنے کے سامان پیدا کرتا ہے اور دعاؤں کے کچھ وہ ایام ہیں جو ہر سال ہی ایک چکر میں آتے رہتے ہیں ان میں سے ایک ہمارا جلسہ سالانہ ہے.جلسہ سالانہ قریب آرہا ہے اللہ سب خیر رکھے تو انشاء اللہ آئندہ جمعہ جلسہ کے.تقاریر کے جو تین دن ہیں ان میں آئے گا.ویسے تو ہمارا جلسہ آٹھ دس دن پر پھیلا ہوا ہے لیکن تقریروں کے تین دن ہیں اور امسال ان میں سے پہلا دن جمعہ ہے اور وہ اگلا جمعہ ہے یعنی آج کے بعد کا خطبہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کی منشا کے مطابق وہاں سامنے جو جلسہ گاہ بنے گی وہاں دیا جائے گا.ساری دنیا کے احمدی جمع ہوں گے.اس موقع پر ان کو کچھ باتیں سنائی جائیں گی جمعہ کے خطبہ میں بھی اور باقی ایام میں بھی.میں بھی اور میرے دوست اور ساتھی بھی تقاریر کے ذریعے اور گفتگو کے ذریعے اپنی مجالس میں خدا اور رسول کی باتیں جماعت کے کانوں تک پہنچائیں گے.ان ایام میں خاص طور پر دعاؤں کی ایک فضا پیدا ہو جاتی ہے لیکن اس سے قبل بھی ہمارے لئے خاص طور پر دعاؤں کے ایام ہیں.بہت سے دوست جلسہ کے لئے چل پڑے ہیں بلکہ اس سے پہلے مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ بہت سے دوست جلسہ کی خاطر ہزار ہا میل کا سفر طے کر
خطبات ناصر جلد ششم ۲۶۸ خطبہ جمعہ ۱۹ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء کے ربوہ پہنچ چکے ہیں.بہت سے دوست ربوہ آنے کے لئے اور جلسہ میں شمولیت کے لئے آج ہوائی جہازوں میں سوار ہوں گے.بہت سے لوگ جلسہ میں شمولیت کے لئے تیاری کر رہے ہیں.پھر جوں جوں ۲۶ / تاریخ قریب آتی جائے گی (یعنی تقاریر کے دن قریب آتے جائیں گے کیونکہ ۲۶ کو تقریروں کا جلسہ شروع ہوتا ہے ) ربوہ میں داخل ہونے والوں کی روزانہ کی حاضری بڑھتی چلی جائے گی اور میرا اندازہ ہے کہ آخری دن یعنی ۲۵ / تاریخ سے ۲۶ / تاریخ کی صبح تک کوئی ۲۵ - ۳۰ ہزار نفوس اس چھوٹے سے قصبہ میں داخل ہوتے ہیں.وہ کسی دنیوی غرض یا دنیا کی تجارت کے لئے نہیں آتے لیکن وہ ایک ایسی تجارت کے لئے آتے ہیں جس سے بہتر کوئی تجارت ممکن نہیں ہے یعنی خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے کچھ باتیں سننے ، کچھ عزم کرنے اور کچھ ارادے پختہ کرنے کے لئے وہ یہاں آتے ہیں.یہاں کے جو دوست ہیں یعنی اہل ربوہ جلسہ کے ایام میں ان کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور ان کے فرائض میں اضافہ ہو جاتا ہے وہ اپنے اخلاق اور اپنے میل ملاپ کے ایک نازک دور میں داخل ہوتے ہیں.ان کو سال کے ہر دن ہی جماعت کے سامنے اور دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرنا چاہیے لیکن ان ایام میں جبکہ اجتماع ہو ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں.احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات میں بھی یہ ذکر ہے کہ اجتماع کے موقع پر ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں زبان پر ذمہ داری پڑتی ہے.مہمانوں کی خاطر مدارت کرنے ، ان کے لئے کھانا لانے ، ان کو کھانا پیش کرنے ، کھانا کھلانے ، ان کے برتن دھونے وغیرہ ان کاموں کے لئے چلنا پھرنا اور بہت ساری حرکت کرنی پڑتی ہے کام کے دوران اس کی طرف شاید کسی کی توجہ نہ ہوتی ہولیکن یہ بڑا کام ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ان ایام میں ربوہ میں کئی لاکھ برتن تو ڈھلتے ہی ہوں گے یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے لیکن چونکہ خدا کے پیار کے حصول کے لئے جماعت کو اس کی عادت پڑ چکی ہے اس واسطے ان کی توجہ اس طرف نہیں ہوتی وہ اپنا کام کرتے چلے جاتے ہیں.بہر حال بہت بڑی ذمہ داریاں آپڑتی ہیں ذمہ داریوں کی فضا بدل جاتی ہے، اخلاق کے اظہار کی فضا مختلف ہو جاتی ہے.اس وقت پیار کے موقعے ہوتے ہیں ملنا ملانا، باتیں کرنی ، آنے والوں کا خیال رکھنا اور اپنا
خطبات ناصر جلد ششم ۲۶۹ خطبہ جمعہ ۱۹ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء خیال رکھنا ہوتا ہے کیونکہ وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًا کا حکم بھی تو ہے اپنا یہ خیال رکھنا ہوتا ہے کہ بیمار نہ ہو جائیں کہ اس ثواب سے محروم ہونا پڑے.گھر والوں کو یہ خیال رکھنا ہوتا ہے کہ ناسمجھ بچے جن کی عمر ابھی پختہ نہیں جن کے دماغ ابھی پختہ نہیں کہیں وہ اس موقع سے فائدہ اُٹھانے میں غفلت اور کوتاہی نہ کرنے والے ہوں.ہر ذمہ داری جو انسان پر پڑتی ہے ایک احمدی کی زندگی میں ) وہ اس کو ایک جھٹکا دے کر اسے اپنے خدا کی طرف متوجہ کرتی ہے اور وہ ذمہ داری یہ کہتی ہے کہ میں آگئی ہوں لیکن تو اس ذمہ داری کو بھی نباہ سکتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کا فضل تیرے شامل حال ہو اس واسطے جا اور اپنے رب کے حضور جھک اور اس سے دعا کر، اس سے مدد مانگ اور اس سے توفیق حاصل کرنے کی کوشش کر.پس دوست ابھی سے دعا ئیں شروع کر دیں خاص طور پر جلسہ کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو ہزار ہا میل سے غیر ممالک سے چل کر یہاں پہنچ گئے ہیں یا روانہ ہو گئے ہیں اور ہوائی جہازوں میں بیٹھے ہوئے ہیں.میرے علم میں ہے کہ اس وقت بھی بہت سے احمدی دوست (سینکڑوں کی تعداد میں مصروف پرواز ہیں اور جلسہ کے لئے آرہے ہیں.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس دور دراز کے سفر میں ان کی حفاظت کرے، اللہ تعالیٰ انہیں صحت سے رکھے.اللہ تعالیٰ انہیں اُن دعاؤں کے کرنے کی توفیق عطا کرے جن کا مطالبہ یہ جلسہ ان سے کر رہا ہے.وہ اپنے پیچھے بہت سے رشتہ دار چھوڑ کر آئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنی حفاظت اور امان میں رکھے.وہ لوگ یہاں کے فیوض اور برکات سے خدا تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ اپنی جھولیاں بھریں اور بہت فائدہ اُٹھا کر واپس جانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ان کا مستقبل ان کے ماضی سے زیادہ روشن کرے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو وہ پہلے سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں اور ان کو ہر قسم کی ان برکات سے وافر حصہ ملے جن برکات کے لئے مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ میں شمولیت کرنے والوں کے لئے دعائیں کی ہیں.یہ تو میں غیر ممالک کی بات کر رہا تھا یہاں پاکستان کے دور دراز علاقوں سے بھی اس سردی میں اتنے پیار سے لوگ آتے ہیں کہ میں افسر جلسہ سالا نہ رہا ہوں اور سپیشل گاڑیوں پر مہمانوں کا
خطبات ناصر جلد ششم ۲۷۰ خطبہ جمعہ ۱۹ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء استقبال کرتا رہا ہوں مجھے معلوم ہے کہ مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کا بھی خیال نہیں رکھتیں.جس وقت ربوہ میں گاڑی کھڑی ہوتی ہے اتنا پیار ان کو اپنے مرکز ربوہ سے ہے ربوہ کی اینٹوں سے نہیں ، نہ یہاں کے گارے اور سیمنٹ سے یا چھتوں سے یا یہاں کے مکانات سے ہے بلکہ ربوہ سے ان کو اس لئے پیار ہے کہ یہ وہ جگہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور آپ کے جلال کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے جو تحریک اٹھی تھی اس کا یہ مرکز بن گیا ہے.یہ اس تحریک کا مرکز ہے اس لئے ان کے دلوں میں وہ پیار اور وہ محبت ہے.یہاں آکر وہ ساری تکالیف کو بھول جاتے ہیں اور دعا کریں خدا کرے کہ ان ایام میں ان کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچے اور بعد میں آنے والے ایام میں بلکہ وہ ہمیشہ ہی اللہ کی پناہ میں رہیں.جواہل ربوہ ہیں ان پر کبھی ہم غصے بھی ہوتے ہیں کبھی ان کی کمزوریوں کی طرف بھی انہیں تو جہ دلاتے ہیں کیونکہ مومن کا ہر قدم ہر آن پہلے سے آگے بڑھنا چاہیے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جماعت میں بھی یہ ایک ایسا گروہ ہے کہ یہاں کی اکثریت انتہائی قربانیاں کرنے والی ہے اور دُنیا کے نقشے میں اس قسم کی کوئی کمیونٹی (Community ) اور کوئی قصبہ انسان کو نظر نہیں آئے گا.یہ چھوٹا سا قصبہ جس کی آبادی اب شاید بمشکل ۶۷ - ۶۸ ہزار ہو گی یہ قریباً ایک لاکھ مہمانوں کو سمالیتا ہے اور پتہ بھی نہیں لگتا.وہ کیا چیز ہے جو ان کو سنبھالتی ہے؟ ان کو ایک اہلِ ربوہ کا پیار سنبھالتا ہے، ان کو اہل ربوہ کا خدمت کا جذبہ سنبھالتا ہے، ان کو اہل ربوہ کی دعائیں سنبھالتی ہیں.اہل ربوہ پر بھی اللہ تعالیٰ بڑا ہی فضل کرے اور انہیں اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق دے اور انہیں اجر عظیم عطا کرے اور ان کی نسلوں کو بھی اس ذمہ داری کے سمجھنے اور اس کے ادا کرنے کی توفیق عطا کرے.دعائیں کریں کہ آنے والے بھی اور یہاں آ کے رہنے والے بھی سارے کے سارے قرآن کریم کے علوم کو سیکھنے والے سمجھ کر سکھنے والے ہوں ان پر عمل کرنے والے ہوں اور علوم کے ان خزانوں کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ عظمت قرآن کو دنیا میں قائم کرنے والے اور نور قرآن کو دنیا میں روشن تر کرنے والے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۷۱ خطبہ جمعہ ۱۹ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء دو ہوں.پس دعاؤں کے ان ایام میں غفلت سے کام نہ لیں بلکہ بے حد دعائیں کریں.اتنی دعائیں کریں کہ آسمانوں سے خدا تعالیٰ کے فرشتوں کا نزول ہو اور وہ آپ کے لئے حفاظت کا اور آپ کے لئے امن کا اور آپ کے لئے سلامتی کا اور آپ کے ذہنوں کے لئے جلا کا اور آپ کے عزم کے لئے پختگی کا سامان پیدا کرنے والے ہوں اور وہ دن جلد آئے کہ جب ہم تو حید کو ساری دنیا میں غالب دیکھیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور جلال کو ہر دل میں کھلے کی طرح گڑا ہوا پائیں اور ہماری زندگی کا مقصد ہمیں مل جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں حاصل ہو کہ جسے خدا تعالیٰ کی رضا مل جائے اسے پھر نہ اس دنیا میں کسی اور چیز کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ اُس دنیا میں کسی اور چیز کی ضرورت رہے گی.دعائیں کرو اور میں یہ دعا کرتا ہوں کہ مجھے بھی اور آپ کو بھی اللہ تعالیٰ صحیح رنگ میں دعا کرنے کی توفیق عطا کرے اور پھر انہیں قبول کرے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اعمالِ صالحہ بجالانے کی توفیق دے اور مقبول اعمال ہم سے سرزد ہوں.اللھم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ مارچ ۱۹۷۶ء صفحه ۲ تا ۴ )
خطبات ناصر جلد ششم ۲۷۳ خطبه جمعه ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء الہی سلسلوں کو چوکس اور بیدار رہ کر اجتماعی، اخلاقی اور روحانی زندگی گزارنی چاہئے خطبه جمعه فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۵ ء بمقام جلسہ گاہ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ - يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمُ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ - وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ - أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لَّا يَشْعُرُونَ - وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ امِنُوا كَمَا أَمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْ مِنْ كَمَا أَمَنَ السُّفَهَاءُ الا اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ - وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى ط شَيْطينهم : قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِعُونَ - اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي اوروور ص طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ - أُولَبِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ.(البقرة : ۹ تا ۱۷) اور پھر حضور انور نے فرمایا:.اگر چہ ہر نبی کے ساتھ یہی معاملہ رہا ہے لیکن بڑا نمایاں ہوکر ہمارے محبوب آقا محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت پر ہمیں یہ نظارہ دکھائی دیتا ہے کہ کچھ لوگ تو ایمان لائے سچا اور حقیقی ایمان اور
خطبات ناصر جلد ششم ۲۷۴ خطبہ جمعہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء انہوں نے اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیں.وہ ہر دم اور ہر آن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے رہے اور اسی میں اپنی عزت سمجھتے رہے اور اسی میں اپنی فلاح پاتے رہے اور اسی کے ذریعہ اُخروی زندگی میں اپنے لئے جنتوں کی تلاش کرتے رہے.ایک گروہ تھا جو آپ کی صداقت کا منکر ہوا.اس گروہ میں سے آہستہ آہستہ ایمان لا کر کئی لوگ جماعت مومنین میں شامل ہوئے یا پھر اپنے اپنے وقت پر اس جہان سے کوچ کر گئے اور اُن کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے جا پڑا.جس سلوک کے وہ مستحق تھے وہ اُن سے ہوا ہو گا لیکن چونکہ اُس زندگی سے ہمارا تعلق نہیں اس لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے جو وعدہ کیا ہے اس کے مطابق اُن کو یقینا سزا دی ہوگی.ایک تیسرا گروہ جو بڑا نما یاں ہوکر ہمارے سامنے آتا ہے وہ منافقین کا گروہ ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں جس قسم کا خبیثا نہ نفاق پایا جاسکتا ہے اور جس کا ذکر خود قرآن کریم نے کیا ہے اُس کے متعلق یہ سمجھنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت محمدیہ میں ایسا نفاق ظاہر نہیں ہو گا صحیح نہیں ہے.اس بات کو عقل تسلیم نہیں کرتی.قرآن کریم نے ایک جگہ پر یہ ہدایت کی ہے کہ منافقوں کی سال میں (مرة او مرتين ) ایک دو بار آزمائش کرتے رہنا چاہیے اور اُن کو ٹو لتے رہنا چاہیے.ان سے بھی بعض اصلاح کر لیتے ہیں اور بعض گند کے اس مقام پر جہاں کھڑے تھے وہاں کھڑے رہتے ہیں یا بعض اس گند میں ترقی کرتے ہیں بہر حال الہی سلسلوں کو چوکس اور بیدار رہ کر اپنی اجتماعی ، اخلاقی اور روحانی زندگی گزارنی چاہیے.اس وقت میں اس سلسلہ میں بعض آیات جن کا میں نے انتخاب کیا ہے پڑھوں گا اور ساتھ اُن کا ترجمہ کروں گا.ویسے قرآن کریم نے بہت سے دیگر مقامات پر بھی منافقین کا ذکر کیا ہے لیکن اگر وہ آیات بھی میں پڑھنے لگوں تو یہ بہت لمبا مضمون بن جائے گا اس لئے میں نے چند آیات کو منتخب کیا ہے دوست ان کو غور سے سنیں.قرآن عظیم نے ہماری بھلائی اور ہدایت کے لئے جو باتیں بیان کی ہیں انہیں سمجھنے کی کوشش کریں انہیں یا درکھیں اور ان سے فائدہ اٹھا ئیں.سورۃ بقرہ کی ابتدا میں تینوں گروہوں کا ذکر ہے تیسرے گروہ کا ذکر سے شروع ہوتا ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۲۷۵ خطبه جمعه ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء ان آیات کی میں نے آغاز خطبہ میں تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے:.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ امَنَّا بِاللهِ - اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آنے والے دن پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ہرگز ایمان نہیں رکھتے.وہ اللہ کو اور اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں دھوکا دینا چاہتے ہیں مگر ( واقعہ میں ) وہ اپنے سوا کسی کو دھوکا نہیں دیتے لیکن وہ سمجھتے نہیں.اُن کے دلوں میں ایک بیماری تھی پھر اللہ نے اُن کی بیماری کو (اور بھی) بڑھا دیا اور انہیں ایک درد ناک عذاب پہنچ رہا ہے کیونکہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے.اور جب اُن سے کہا جائے ( کہ ) زمین میں فساد نہ کرو (فتنہ نہ پیدا کرو ) تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں.( کان کھول کر سُنو ! یہی لوگ بلا شبہ فساد کرنے والے ہیں.مگر وہ (اس حقیقت کو ) سمجھتے نہیں اور جب اُنہیں کہا جائے کہ (اسی طرح) ایمان لاؤ جس طرح ( دوسرے مخلص ) لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا ہم (اس طرح) ایمان لائیں جس طرح بیوقوف (لوگ) ایمان لائے ہیں.یادرکھو! ( یہ جھوٹ بول رہے ہیں) وہ خود ہی بیوقوف ہیں مگر (اس بات کو ) جانتے نہیں.اور جب وہ اُن لوگوں سے ملیں جو ایمان لائے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو (اس رسول کو ) مانتے ہیں اور جب وہ اپنے سرغنوں سے علیحدگی میں ملیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم یقینا تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف ان مومنوں سے ) ہنسی کر رہے تھے.اللہ انہیں ( اُن کی ) ہنسی کی سزا دے گا اور انہیں اپنی سرکشیوں میں بہکتے ہوئے چھوڑ دے گا.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی کو اختیار کر لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ تو انہیں دنیوی فائدہ پہنچا اور نہ انہوں نے ہدایت پائی.“ پھر اللہ تعالیٰ سورۃ توبہ میں فرماتا ہے:.لَقَدِ ابْتَغُوا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأَمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ اَمْرُ اللَّهِ وَهُمُ كرِهُونَ - إِن تُصِبُكَ حَسَنَةٌ تَسُوهُمْ وَإِنْ تُصِبُكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدُ أَخَذْنَا امْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ يَتَوَلَّوْا وَهُمْ فَرِحُونَ - قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا ۚ هُوَ مَوْلِنَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ
خطبات ناصر جلد ششم الْمُؤْمِنُونَ - خطبہ جمعہ ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِرُكَ فِي الصَّدَقَتِ فَإِنْ أَعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَ إِنْ لَّمْ يُعْطُوا مِنْهَا إِذَاهُمْ يسخطون.ط وَ مِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أَذْنَّ قُلْ أَذُنٌ خَيْرٍ تَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ يُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ الِيمُ - يَحْلِفُونَ بِاللهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ ۚ وَاللهُ وَرَسُولُةٌ اَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ - رووو وَلَبِنْ سَالَتَهُمْ لَيَقُولُنَ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ آبِاللهِ وَأَيْتِهِ وَ رَسُولِهِ كُنْتُم تستهزءون.الْمُنْفِقُونَ وَالْمُنْفِقْتُ بَعْضُهُم مِّنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ ط b الْمَعْرُونِ وَ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُوا اللهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ هُمُ الْفَسِقُونَ - وَعَدَ اللهُ الْمُنْفِقِينَ وَالْمُنْفِقْتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَلِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ ۚ وَ لَعَنَهُمُ اللهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ - (التوبة: ۴۸ ، ۵۱،۵۰، ۵۸، ۶۱، ۶۵،۶۲، ۶۷، ۶۸) ترجمہ:.انہوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ پیدا کرنا ) چاہا تھا اور تیرے لئے حالات کو کئی کئی طرح بدلا تھا یہاں تک کہ حق آگیا اور اللہ کا فیصلہ ظاہر ہو گیا اور وہ اس فیصلہ کو ناپسند کرتے تھے.اگر تجھے کوئی فائدہ پہنچے تو اُن کو برا لگتا ہے اور اگر تجھ پر کوئی مصیبت آجائے تو وہ کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی سے اپنے پیش آنے والے دنوں کا انتظام کر لیا تھا اور وہ خوشی کے مارے پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں.تو ( اُن سے ) کہہ دے ہم کو تو وہی پہنچتا ہے جو اللہ نے ہمارے لئے مقرر کر چھوڑا ہے وہ ہمارا کارساز ہے اور مومنوں کو چاہیے کہ وہ اللہ پر ہی تو گل رکھیں.
خطبات ناصر جلد ششم ۲۷۷ خطبہ جمعہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء اور اُن میں سے کچھ (منافق) ایسے ہیں جو صدقات کے بارے میں تجھ پر الزام لگاتے ہیں اگر ان صدقات میں سے کچھ اُن کو دے دیا جائے تو وہ راضی ہو جاتے ہیں اور اگر ان میں سے انہیں کچھ نہ دیا جائے تو فوراً خفا ہو جاتے ہیں.اور اُن میں سے بعض ایسے (منافق) بھی ہیں جو نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو ( کان ہی) کان ہے تو کہہ دے کہ وہ تمہارے لئے بھلائی سننے کے کان رکھتا ہے وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور جو تم میں سے مومن ہوں اُن ( کے وعدوں ) پر ( بھی ) یقین رکھتا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت کا موجب ہے اور وہ لوگ جو اللہ کے رسول کو دُکھ پہنچاتے ہیں اُن کے لئے دردناک عذاب ہے.وہ تمہارے خوش کرنے کے لئے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں حالانکہ اللہ بھی اور اس کا رسول بھی زیادہ حق دار ہیں کہ اُس کو خوش کیا جائے بشرطیکہ یہ (منافق) سچے مومن ہوں.اور اگر تو اُن سے پوچھے ) کہ تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو ) تو وہ ضرور یہی جواب دیں گے ہم تو صرف مذاق اور ہنسی کرتے تھے.تو ان کو جواب دیجئیو کہ کیا اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول سے مذاق اور ہنسی کرتے تھے؟ منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.وہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں کے خلاف تعلیم دیتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو ( خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے روکتے ہیں.اُنہوں نے اللہ کو ترک کر دیا سو اللہ نے بھی ان کو ترک کر دیا.منافق یقیناً اطاعت سے نکلنے والے ہیں.اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کفار سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے وہ اس میں رہتے چلے جائیں گے.وہی ان ( کی پوری توجہ کھینچنے ) کے لئے کافی ہے (اور اس کے علاوہ ) اللہ نے ان کو (اپنی درگاہ سے) دھتکار بھی دیا ہے اور اُن کے لئے ایک قائم رہنے والا عذاب ( مقدر) ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۲۷۸ خطبه جمعه ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء پھر غزوہ احزاب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَ مِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّونَ بِاللهِ الظُّنُونَا - هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَ زُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا - وَإِذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا - (الاحزاب: ۱۱ تا ۱۳) ترجمہ:.(ہاں ! اس وقت کو یاد کرو) جب کہ تمہارے مخالف تمہاری اوپر کی طرف سے بھی (یعنی پہاڑی کی طرف سے بھی) اور نیچے کی طرف سے بھی ( یعنی نشیب کی طرف سے بھی ) آگئے تھے اور جب کہ آنکھیں گھبرا کر ٹیڑھی ہو گئی تھیں اور دل دھڑکتے ہوئے حلق تک آگئے تھے اور تم اللہ کے متعلق مختلف شکوک میں مبتلا ہو گئے تھے.اس وقت مومن ایک (بڑے) ابتلا میں ڈال دیئے گئے تھے اور سخت ہلا دیئے گئے تھے اور (اس وقت کو بھی یاد کرو) جب کہ منافق اور جن لوگوں کے دلوں میں بیماری تھی کہنے لگ گئے تھے کہ اللہ اور اُس کے رسول نے ہم سے صرف ایک جھوٹا وعدہ کیا تھا.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا ۖ وَ لِلَّهِ خَزَابِنُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وَلكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ - يَقُولُونَ لَبِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَةُ مِنْهَا الْأَذَلَ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ - (المتفقون : ۸، ۹) ترجمہ :.یہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول کے پاس جو لوگ رہتے ہیں اُن پر خرچ نہ کرو، یہاں تک کہ وہ فاقوں سے تنگ آکر ) بھاگ جائیں حالانکہ آسمان اور زمین کے خزانے اللہ کے پاس ہیں لیکن منافق (اس حقیقت کو) سمجھتے نہیں.وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ کی طرف کوٹ کر گئے تو جو مدینہ کا سب سے معزز آدمی ہے ( یعنی عبد اللہ بن ابی بن سلول اپنے زعم میں ) وہ مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی کو اس سے نکال دے گا.(حالانکہ ) اور
خطبات ناصر جلد ششم ۲۷۹ خطبه جمعه ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کو ہی حاصل ہے لیکن منافق جانتے نہیں.قرآن کریم نے متعدد جگہوں پر مختلف رنگ میں منافقوں کا ذکر کیا ہے ان کی علامتیں بتائی ہیں اور وہ فتنہ پھیلانے کی جو راہیں اختیار کرتے ہیں ان کا ذکر کیا ہے چونکہ قرآن کریم صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کے لئے نہیں اترا تھا بلکہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے نازل ہوا تھا اور لوگوں کے لئے ہدایت ، کامیابی اور فلاح کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں اور اس کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے آیا ہے اس لئے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے جن جن مضامین کا ذکر ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن مضامین کو ذہن نشین کیا کریں.ہم اپنے ماحول میں اور اپنے معاشرہ میں شیطان کے لئے کوئی راہ کھلی نہ رہنے دیں اور جو طریقے قرآن کریم نے بتائے ہیں وہ واضح ہیں البتہ اُن میں یہ طریقہ نہیں ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا جائے بلکہ دعا کا طریقہ ہے سمجھانے کا طریقہ ہے اور پھر یہ یقین ہے کہ اگر منافق اصلاح نہیں کریں گے تو اُن کو سزا دینا انسان کا کام نہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اُن کو اِس دنیا میں بھی سزا دوں گا اور وہ اُخروی زندگی میں جہنم میں جائیں گے.یہ خدا کا کام ہے یہ انسان کا کام نہیں ہے لیکن انسان کا یہ کام ہے کہ وہ کسی منافق کو اپنے معاشرہ میں فتنہ پیدا نہ کرنے دے اللہ تعالیٰ ہمیں چوکس رہنے کی تو فیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۱/۳ پریل ۱۹۷۶ ، صفحه ۲ تا ۴) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ششم ۲۸۱ خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۷۶ء جلسہ سالانہ کے بابرکت اور کامیاب ہونے پر ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں خطبه جمعه فرموده ۲ جنوری ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی:.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ - (البقرة: ٢٠٨) اس کے بعد فرمایا :.جب کسی جماعت پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کی بارش کرتا ہے تو ان کی دلی اور روحانی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے کہ گویا وہ اپنے نفسوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اور اس کے پیار کے حصول کے لئے بیچ ہی ڈالتے ہیں.ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کا پیار جلوہ گر ہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے بندوں کے وجود میں اور ان کے نفوس میں اور ان کی روح میں عشق اور پیار کی کچھ اس قسم کی کیفیت ہوتی ہے کہ جسے الفاظ بیان نہیں کر سکتے.قرآن کریم کی اس آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کا شکر ادا کر سکیں اور اس کی حمد بجالا سکیں.اس نے اپنی رحمت سے ہمارے گذشتہ جلسہ کو کا میاب کیا اور وہ لوگ جو
خطبات ناصر جلد ششم ۲۸۲ خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۶ء یہ سمجھتے تھے کہ موجودہ حالات میں شاید جماعت کا ایک حصہ کمزوری دکھائے گا اور اللہ کے لئے ان کے پیار میں کمی پیدا ہو جائے گی اور وہ مہدی معہود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مرکز سلسلہ کی طرف نہیں آئیں گے.ان کے اس خیال کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار اور ا اپنی ، رحمت سے اس قسم کے سامان پیدا کئے کہ اس جلسہ پر پچھلے تمام جلسوں سے زیادہ احباب آئے اور ہر قسم کی صعوبتیں اُٹھا کر اور روکوں کو پھلانگتے ہوئے آئے اور یہاں پر بھی بڑے سکون کے ساتھ اور بڑی توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو سنا کیونکہ یہاں ہمارے جلسہ میں خدائے واحد و یگانہ کا ذکر ہی ہوتا ہے اور انہوں نے بظاہر خدا تعالیٰ کے فضلوں کو زیادہ حاصل کرنے کے سامان پیدا کئے اور ہم سب کی ، ساری جماعت کی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور اپنے پیار کے جلوے ہمیشہ پہلے سے زیادہ دکھاتا چلا جائے.دو چیزیں نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں ایک یہ کہ وہ انتظامیہ جس کے سپرد یہ کام ہے کہ وہ قومی ترقی کے لئے منصوبے بنائے اور جس نے ملک کے تعلیمی اداروں کو قو میا یا اور نیشنلائز کیا جماعت کا سب سے پہلے یہ فرض تھا کہ وہ اس سے تعاون کرتی اور میں سمجھتا ہوں کہ سارے پاکستان میں سب سے زیادہ بشاشت کے ساتھ اور تعاون کرتے ہوئے اور دل میں بھی کوئی بات نہ رکھتے ہوئے جماعت نے موجودہ نرخ کے لحاظ سے قریباً پانچ کروڑ روپے کی جائیدا دحکومت کے حوالے کر دی کیونکہ آخر یہ ملک ہمارا ہی ہے اور آئندہ پڑھ کر اور علم حاصل کر کے عمل کے میدان میں جانے والی نسلیں ہماری ہی ہیں.پس ہم نے بڑی خوشی سے اس جائیداد کو قوم کے سپر د کر دیا لیکن جب جلسہ قریب آیا تو اسی انتظامیہ کے بعض افراد نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ عمارتیں جنہیں جماعت نے بنایا اور انہیں بشاشت کے ساتھ قوم کے سپرد کر دیا ہم قوم کے نمائندے تو ہیں لیکن ہم بشاشت کے ساتھ آپ لوگوں کو وہ عمارتیں نہیں دیں گے کہ آپ وہاں اپنے مہمانوں کو ٹھہرائیں.پھر انہیں کچھ غیرت دلائی گئی اور سمجھایا گیا اللہ نے فضل کیا اور ان کو سمجھ آگئی لیکن ہمارے لئے آئندہ کے لئے ایک انتباہ کا سامان بھی پیدا ہو گیا ہے.لیکن اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ہمیں ایک
خطبات ناصر جلد ششم ۲۸۳ خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۶ء توجہ دلائی گئی ہے اور وہ اس طرح پر کہ اس دفعہ بڑی کثرت سے مہمان آئے ہیں.میں افسر جلسہ سالا نہ بھی رہا ہوں وہ بھی ایک خدمت ہے لیکن جلسے کی ہر خدمت ہی بڑی پیاری خدمت ہے اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں جلسے کے دنوں میں جلسے کی خدمت سے فائدہ اٹھاتا رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا رہا ہوں کہ اُس نے مجھے اس کی توفیق دی.ہم نے وَشِعُ مَكَانَكَ کا یہ نظارہ تو دیکھا ہے کہ ہمارے مکان کبھی بھی ہمارے مہمانوں کے لئے پورے نہیں ہوئے بلکہ ان کو تنگی سے گزارہ کرنا پڑتا رہا ہے لیکن یہ نہیں ہوا کہ بالکل ہی کم ہو جائیں اور پہلے برآمدوں کو قناتیں لگا کر رہائش کے لئے استعمال کیا جائے اور پھر چھولداریاں اور شامیانے لگا کر رہنے کے لئے گنجائش پیدا کی جائے.میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو جلسہ کے مہمانوں کے لئے آئندہ جلسہ سے پہلے کئی ہزار مربع فٹ جگہ شاید ۵۰،۴۰ ہزار مربع فٹ جگہ تعمیر کرنی پڑے گی خواہ وہ عارضی بیرکوں کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو.اِس سلسلہ میں ابھی سے سوچ کر اور جو سکیم بھی بنے اس کے مطابق جلسے سے قبل اس کو تیار کر دینا چاہیے کیونکہ اس سال مہمان جو کہ اہل ربوہ کے لئے برکتوں اور رحمتوں کی یاد دلانے والے ہیں وہ اپنے کناروں سے اس طرح چھلکے ہیں کہ سال میں عام طور پر جس شرح سے مکان بنتے ہیں اور جتنے مکان بنتے ہیں وہ ان کو نہیں سنبھال سکے.مرکز کے مکانوں میں ہمیشہ ہی وسعت پیدا ہوتی ہے لیکن اس سال اتنی کثرت کے ساتھ مہمان آئے کہ سال بھر میں جو وسعتیں پیدا ہوئی تھیں ان کو تو ہم بھول ہی گئے اور ہمیں مہمانوں کو ٹھہرانے کی فکر رہی جن کی قربانی کو ہم کبھی بھول نہیں سکتے.آنے والے بھی خدا تعالیٰ کی مرضات کے حصول کے لئے آتے ہیں اور تکلیفیں برداشت کرتے ہیں لیکن سردی کے ان ایام میں جب کہ کبھی بارش بھی ہو جاتی ہے ان کو آسمان کے نیچے تو بہر حال نہیں رکھا جا سکتا چونکہ اس سلسلہ میں بھی یہاں بعض روکیں اور دقتیں ہیں.اس لئے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری راہ سے ان روکوں کو دور کر دے اور ہمارے ملک میں پیار کی فضا پیدا کرے اور جماعت کو یہ توفیق دے کہ وہ آنے والوں کے لئے مکانیت کی جو کم سے کم ضرورت ہے اس حد تک تو تعمیر کریں خواہ وہ ہٹس (Huts) ہوں یا بیرکس ہوں یا جو مرضی ان کا نام
خطبات ناصر جلد ششم ۲۸۴ خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۶ء رکھ لیں.بڑی بڑی عمارتیں اور لنشل کی چھتیں نہ ہوں.شروع میں یہاں ساری قیام گاہیں ہی گھاس پھونس کی چھتوں ہی کی بنائی جاتی تھیں اور بعض دفعہ بارش بھی ہو جاتی تھی لیکن اگر بامر مجبوری ان کو کوئی تکلیف اُٹھانی پڑتی تھی (یعنی ہماری منتظمین کی مجبوری کی وجہ سے ) تو وہ جو خدا تعالیٰ کی آواز پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدا کی اور محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سننے کے لئے مرکز میں آتے تھے وہ تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے تھے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ جماعت جتنا کر سکتی ہے اتنا کر دیا ہے اور باقی جو ہے وہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا امتحان لیا ہے اور ہمیں نا کام نہیں ہونا چاہیے بلکہ خوشی اور بشاشت کے ساتھ اس امتحان کو قبول کر لینا چاہیے.بہر حال جماعت کو مکانیت کی طرف توجہ دینی چاہیے ( صدر انجمن احمد یہ اس طرف فوری توجہ دے) اسی طرح روٹی پکانے کی مشینوں کا بھی از سر نو جائزہ لینا چاہیے اور اگر ضرورت محسوس ہو کہ آئندہ جلسہ کے لئے نئی مشینیں بھی چاہیے ہوں گی تو ابھی سے اس کا انتظام شروع کر دینا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں برکت ڈالے اور اہل ربوہ پر بھی رحمتیں برستی رہیں اور اللہ تعالیٰ کی باتیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سننے کے لئے یہاں آنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں سے نوازتار ہے.دوسری بات جو اس وقت میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وقف جدید کا نیا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے میں نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.گذشتہ سال اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور وقف جدید کے لئے جماعت کو جتنی رقم کی ضرورت تھی اور جو اس کا بجٹ تھا جماعت نے اپنے وعدے پورے کر کے اس کے لگ بھگ رقمیں ادا کر دی ہیں.چندہ بالغاں کا ۲,۶۲,۰۰۰ روپے کا وعدہ تھا اور ۵۳،۰۰۰، ۲ روپے اس رپورٹ تک وصول ہو چکے ہیں اور اس کے سامنے یہ نوٹ ہے کہ گذشته سال ۱۵ جنوری تک رقوم آتی رہی تھیں اس لئے اس سال بھی رقمیں آئیں گی کیونکہ بعض رقمیں چلی ہوتی ہیں لیکن وقت پر نہیں پہنچ سکتیں اور بعض دوست جلسے کے بعد یہاں سے جا کر بھجواتے ہیں اس لئے امید ہے کہ یہ بجٹ پورا ہو جائے گا.وقف جدید کا ایک دفتر اطفال ہے اس
خطبات ناصر جلد ششم ۲۸۵ خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۶ء میں ان کے اندازے کے مطابق رقم جمع نہیں ہوئی.وقف جدید کی انتظامیہ نے ان کا ۵۰ ہزار کا بجٹ تجویز کیا تھا لیکن ۵۰ ہزار کے مقابلہ میں وصولی ۲۳۲۴۰ روپے ہوئی ہے گو ۱۹۷۴ء کے مقابلہ میں ۱۹۷۵ء میں چند رقوم کی زیادتی تو ہے کیونکہ اس سے پہلے سال ۲۳۱۳۵ روپے وصولی ہوئی تھی اور ۱۹۷۵ء میں ۲۳۲۴۰ روپے وصولی ہوئی ہے جو کہ گذشتہ سال سے زیادہ ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے اطفال ہزاروں کی تعداد میں ہر سال بڑھ جاتے ہیں ان کو اسی نسبت سے اس طرف توجہ کرنی چاہیے.وہ کچھ طفلانہ شعور بھی پیدا کر لیتے ہیں اس لئے ان کو توجہ دلا کر تیار کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں سے پیچھے رہنے والے نہ ہوں بلکہ ان سے آگے بڑھنے والے ہوں.یہ تو چندوں کی شکل ہے اور اللہ تعالیٰ پر جو مجھے تو گل ہے اور اللہ تعالیٰ کا جو مجھ سے سلوک ہے اسے دیکھتے ہوئے مجھے رقم کے متعلق گھبراہٹ نہیں ہوتی لیکن جو ہماری ذمہ داری ہے جب تک ہم اس کو پوری طرح ادا نہ کریں ہم اللہ تعالیٰ کے پورے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے.اس کی مجھے بھی اور آپ کو بھی فکر ہونی چاہیے.جیسا کہ آپ نے جلسہ سالانہ کی تقاریر سے اندازہ لگایا ہوگا ہمیں تربیت کی طرف خاص زور دینے کی ضرورت ہے اور مختلف شکلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمودہ تفسیر قرآنی اور وہ تعلیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کریم کی تفسیر کے رنگ میں بیان فرمائی اور آداب اور اخلاق اور روحانیت کے حصول کی طرف توجہ کرنا یہ باتیں اب آپ کے سامنے پہلے کی نسبت زیادہ آئیں گی اور آپ کو اپنے بچوں کے دلوں میں ان باتوں کی اہمیت پیدا کرنی ہوگی اور ان کو آہستہ آہستہ عادت ڈال کر ویسا بنانے کی کوشش کرنی ہوگی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کے نیچے آکر پہلے زمانہ میں ایک جماعت پیدا ہو چکی ہے.اس میں شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت جیسی تربیت آج کوئی نہیں کر سکتا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو روحانی طور پر آج بھی اسی طرح زندہ ہیں جس طرح کہ آج سے چودہ سو سال پہلے زندہ تھے اور آپ کی دعائیں قیامت تک مخلصین امت محمدیہ کے لئے جاری ہیں.آپ نے ہر زمانہ کے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۸۶ خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۶ء لوگوں کے لئے اور ساری اُمت کے لئے بڑی کثرت سے دعائیں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی بشارتیں دیں ہیں اور وہ نظام جو آپ کی اتباع کر کے اور آپ کے اسوہ پر چل کر اور قرآنی تعلیم کی اطاعت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کا نظام ہے جسے ہم آپ کی قوت قدسیہ کہتے ہیں وہ نظام تو مردہ نہیں ہوا وہ آج بھی زندہ ہے کیونکہ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : ۳۲) کی آواز جس طرح اس وقت کے لوگوں نے سنی تھی اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر اور یہ حکم بجالا کر خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا تھا.یہ آیت قرآنی منسوخ تو نہیں ہو گئی بلکہ آج بھی یہ آواز اسی طرح آ رہی ہے.آج بھی یہ ہمارے لئے ایک عمل کا پیغام دے رہی ہے اور آج بھی ہمارے لئے ایک بشارت دے رہی ہے.خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے دروازے آج بھی اسی طرح کھلے ہیں جس طرح پہلے کھلے تھے مگر اس کے لئے اُن قربانیوں کی ضرورت ہے جو پہلوں نے دیں اور پہلوں نے جو قربانیاں دیں جب ہم سوچتے ہیں تو ایک طرف تو اُن پر رشک پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف دل سے ان کے لئے بے حد دعائیں نکلتی ہیں.وہی لوگ تھے جن کے متعلق ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آیت پوری ہو چکی ہے اور اپنے متعلق تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے انسان کو ہمیشہ خائف اور ترساں رہنا چاہیے لیکن انہوں نے واقع میں خدا تعالیٰ کی مرضات کے حصول کے لئے خدا کے حضور ا پنی جانیں بیچ دی تھیں.اللہ تعالیٰ سے ایک سودا کیا تھا اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دیا تھا اور وہ خدا تعالیٰ کی ساری ہی رحمتوں کے وارث بن گئے تھے جن کا انسان اس دنیا میں وارث بن سکتا ہے.جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے اور نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں.ابھی ہم ہیں پرانی جماعتوں کو بھی ان کی تعداد کے لحاظ سے پورے معلم نہیں دے سکے.اس وقت جتنے معلم ہی اور ان پر جو خرچ ہورہا ہے اگر ہمارے معلموں کی تعداد بڑھ جائے اور اسی نسبت سے ان پر خرچ ہو یعنی ضرورت کے مطابق اگر ہم ہر جماعت میں ایک معلم رکھیں تو اس کام پر ہمیں ۳۰،۲۵لاکھ روپیہ خرچ کرنا پڑے گا موجودہ حالات میں وقف جدید اس بار کی متحمل نہیں ہوسکتی.اس لئے آج میں وقف جدید کا ایک نیا دفتر ایک نیا باب کھولتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں.ہر جماعت کا ایک یا
خطبات ناصر جلد ششم ۲۸۷ خطبہ جمعہ ۲ /جنوری ۱۹۷۶ء ایک سے زائد فرد جو کہ کچھ لکھا پڑھا ہوا اپنے آپ کو پیش کرے اور جو گزارہ ہم معلمین کو دیتے ہیں وہ گزارہ بھی وہ نہ لیں.میں تنخواہ کہنے لگا تھا.تنخواہ تو ہم دیتے نہیں.جولوگ وقف جدید کے لئے وقف کرتے ہیں ان کو ہم گزارہ دیتے ہیں.بہر حال وہ گزارہ بھی نہ لیں بلکہ اپنا کام کریں اور اپنے گاؤں میں رہ کر اپنی جماعت کو علمی معلومات بہم پہنچا ئیں.وہ شاید اکٹھا ایک سال مرکز میں رہ کر تعلیم حاصل نہ کر سکیں لیکن وہ ایسے واقفین رضا کارتین مہینے کے لئے یہاں آئیں اور تین مہینے کا ایک کورس کر کے واپس چلے جائیں پھر دوبارہ تین مہینے کے لئے آئیں اور ایک اور کورس کر لیں اور اس طرح ہم ان کو کم از کم اس معیار پر لے آئیں جس معیار پر آج وقف جدید کا معلم پہنچا ہوا ہے اور میرے نزد یک وقف جدید کا معلم بھی اس معیار پر نہیں ہے جس معیار پر جماعتِ احمد یہ کے معلم کو ہونا چاہیے.بہر حال ہر گاؤں سے اور ہر جماعت سے اس قسم کے آدمی نکلیں اور اگر بعض جماعتیں چھوٹی ہیں تو ان کے گرد جو بڑی جماعتیں ہیں وہ ایک سے زائد آدمی دیں اور ان کے ذمہ یہ لگایا جائے تم ہفتے میں کم از کم ایک دن ساتھ والی جماعت میں جاؤ وہ کوئی دن مقرر کر لیں بہر حال ساتواں دن وہ ساتھ والی جماعت میں دیں اور (اگر ان کو اس قسم کی تربیت ہو تو ) اپنے گاؤں میں تو وہ ہر وقت ہی پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کی باتیں بڑوں اور بچوں اور مردوں اور عورتوں کے سامنے کریں اور ان کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار پیدا کر کے ان کو یہ Convince ( کنونس ) کرا دیں.انہیں یہ باور کرا دیں اور ان کو پختہ طور پر یہ بات سمجھا دیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کرنا اور آپ کے اُسوہ پر چلنا اور آپ کی اتباع کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لینا کوئی مہنگا سودا نہیں ہے بلکہ بہت ہی سستا سودا ہے اور اللہ تعالیٰ نے شریعت اسلامیہ کو جس کی کہ ہم پیروی کرنے والے ہیں اس قسم کا مذہب نہیں بنایا جس میں یہ دعا کی گئی ہو کہ اے خدا! ہمیں صرف اُخروی نعماء سے نواز بلکہ ہمیں تو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النار (البقرة : ۲۰۲) اور دنیا کی تمام حسنات کے حقیقی وارث دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل
خطبات ناصر جلد ششم ۲۸۸ خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۶ء آپ کے متبعین ہی ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ دنیا کی حسنات کا استعمال اس طرح پر ہونا چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والا نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا ہو.وقف جدید کے اس نئے دفتر کے لئے جماعت میں تحریک بھی ہونی چاہیے.صرف میرا یہ خطبہ کافی نہیں ہے.ہمارے مبلغ اور مبشر اور معلم جماعتوں میں اس کی تحریک کریں کہ اس کے لئے دوست آگے آئیں.اس دفتر کی تفصیل میں اس وقت معین نہیں کر سکتا بعد میں حالات کو دیکھ کر معین کی جائے گی.بعض ایسے دوست بھی ہو سکتے ہیں جو یہ کہیں کہ ہم پہلے صرف ایک مہینے کے لئے آسکتے ہیں تو ان کے لئے ایسے دینی نصاب ہونے چاہئیں کہ ہم ان کو کم از کم اتنا نصاب سکھا دیں کہ جب وہ دوسری دفعہ ایک مہینے کے لئے آئیں تو اس عرصہ تک وہ گزارہ کر لیں کیونکہ آداب اسلامی اور اخلاق اسلامی سکھانے کی جس مہم کا اور جس عظیم علمی جہاد کا میں نے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا ہے اس کو ہم ایک دو دن میں تو پورا نہیں کر سکتے.اس کی تو تیاری کے لئے بھی وقت لگے گا اور پھر چوکس رہ کر اس کے لئے محنت کرنی پڑے گی.بعض اچھی باتیں شروع کی جاتی ہیں پھر ان کی طرف توجہ نہیں رہتی.جب ہم بچے تھے تو قادیان احمد یہ چوک میں جو سیمنٹ کا ایک بورڈ تھا حضرت میر محمد احق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے اوپر آداب اور اخلاق کی باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث لکھتے رہتے تھے اور ہر مردوزن کے علم میں آجاتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہے اور آپ اپنی اُمت سے یہ چاہتے ہیں کہ اسی طرح کھانا کھایا جائے ، اسی طرح لباس پہنا جائے ، اسی طرح بات کی جائے.کئی دوست یا بچے بعض دفعہ ایسی بات کہتے ہیں کہ بڑی تکلیف ہوتی ہے چنانچہ مجھے جلسے پر کہنا پڑا کہ دوبارہ ”اوئے“ کی آواز نہ آئے.جب میں نے یہ لفظ سنا تو مجھے سخت تکلیف ہوئی.مجھے اس طرح بیچ میں بولنے کی عادت نہیں ہے لیکن میں رہ نہیں سکا.ہمارا جلسہ ہو رہا ہو اور جلسے میں کوئی احمدی کسی اور کو ”اوئے“ کر کے آواز دے اور اونچی آواز سے پکارے یہ تو بڑی بد تہذ یہی ہے لیکن یہ اس کا قصور نہیں ہے.میں نے تو استغفار کی میں سمجھا کہ یہ میرا قصور ہے کہ کیوں میں ساری جماعت کی صحیح تربیت نہیں کر سکا.پھر یہ ساری جماعت کا قصور ہے کہ اس طرف توجہ نہیں دی.اگر ان کو بتایا جائے تو وہ ایسا نہیں
خطبات ناصر جلد ششم ۲۸۹ خطبہ جمعہ ۲ /جنوری ۱۹۷۶ء کریں گے.چنانچہ اس کے بعد آواز نہیں آئی البتہ ایک دفعہ باہر سے آواز آئی تو میں نے با ہر آدمی بھیجا کیونکہ یہاں جلسے کے دنوں میں جو دکاندار ہوتے ہیں ان کی اکثریت اِدھر اُدھر کے علاقوں کے غیر احمدیوں کی ہوتی ہے جو یہاں آکر دکانیں کھولتے ہیں.وہ اپنی عادتیں لے کر آجاتے ہیں وہ بیچارے تو قابل رحم ہیں ان کو تو بتانے والا بھی کوئی نہیں ہے.شاید اُن کی نقل کسی نے یہاں اُتاری تھی یا وہ باہر سے ہی ایسی عادت لے کر آیا تھا.مسجد میں شور مچانے کی اجازت نہیں ہے جب خطبہ ہو رہا ہو تو اس میں بولنے کی اجازت ہے.اسلام نے اُٹھنے اور بیٹھنے اور مجالس میں آنے کے آداب سکھائے ہیں.یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں مگر ان چھوٹی چھوٹی چیزوں نے ہی اسلامی معاشرہ کو ایک فرقان بنادیا ہے اور اسلامی معاشرہ اور غیر اسلامی معاشرہ میں ایک ایسی تمیز پیدا کر دی ہے کہ یہ بظاہر چھوٹی چیزیں نتائج کے لحاظ سے چھوٹی نہیں رہتیں بلکہ زبر دست چیزیں بن جاتی ہیں جس پر ایک مسلمان کو ایک احمدی کو فخر کرنا چاہیے کہ کس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دعاؤں سے اور اپنی قوت قدسیہ سے اور اللہ تعالیٰ سے اس عظیم تعلیم کو حاصل کر کے ہمیں وحشی سے انسان بنا دیا.پھر انسانوں میں سے بہتوں کو با اخلاق بنا یا اور بنارہے ہیں اور پھر با اخلاق انسانوں میں سے بہتوں کو خدا رسیدہ انسان بنایا اور اس تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے.انسان ایک دن میں تو خدا تعالیٰ کا محبوب نہیں بن جاتا.اس کے لئے بڑی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں، بڑی دعائیں کرنی پڑتی ہیں، بڑے مجاہدے کرنے پڑتے ہیں، بڑا محاسبہ نفس کرنا پڑتا ہے اور اپنی ہر حرکت و سکون کو بیدار ضمیر اور عزم صمیم کے ساتھ ایک خاص نہج پر ڈھالنا پڑتا ہے تب انسان وہ انسان بنتا ہے جس کے متعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس رنگ میں میری پیروی کر کے خدا تعالیٰ بھی تم سے پیار کرنے لگ جاتا ہے.یہ کتنی بڑی نعمت ہے جو ہمیں ملتی ہے.باقی تو میں نے بتایا ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں لیکن ان کا مجموعہ معاشروں میں ایک فرقان کی اور امتیاز کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ دے اور توفیق عطا کرے کہ ہم اپنی ضرورتوں کے مطابق آگے بڑھیں اور اپنے آپ کو پیش کر کے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں تا کہ ہم ساری دنیا کے لئے نمونہ بنیں اور وہ
خطبات ناصر جلد ششم ۲۹۰ خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۶ء خواہش جو ہم میں سے اکثر کے دل میں ہوگی ایک ایسی تڑپ جس کو بعض دفعہ دبانا مشکل ہو جاتا ہے خدا کرے کہ وہ جلد پوری ہو یعنی یہ وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے ہم سے کیا ہے کہ مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام ساری دنیا میں تمام دیگر ادیان پر غالب آئے گا اور گو آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنے والی دنیا کی اکثریت ہے لیکن ان میں سے اکثریت نہیں بلکہ یہ سارے ہی یعنی تمام نوع انسانی (سوائے چند استثناء کے ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کو حاصل کرے گی اور آپ کے پیار میں مست ہوگی.ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم یہ دن دیکھیں.خدا تعالیٰ ہمیں یہ تو فیق دے کہ اس خواہش کو پورا ہوتے دیکھنے کے لئے جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ہم اُن کو پورا کرنے والے ہوں.وقف جدید کے لئے جو میں نے اب ایک نیا باب کھولا ہے وقف جدید اس کے لئے کوشش کرے اور جماعت کے لئے میں دعا کرتا ہوں اور آپ بھی دعا کریں کہ آپ کو یہ توفیق ملے کہ ہر جماعت اس قسم کے آدمی بھیجے.یہ سنت نبوی بھی ہے کہ اس قسم کے وفود کو آپ تربیت دیا کرتے تھے.یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہے.میں کوئی نئی چیز آپ کے سامنے نہیں رکھ رہا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں ہر علاقے اور ہر قبیلے کے لوگ آکر دین سیکھتے ، قرآن کریم کا علم حاصل کرتے اور واپس جا کر دوسروں کو سکھاتے تھے.ہم اِسے کیوں بھول گئے ؟ بڑے افسوس کی بات ہے.بہر حال دنیا کی ضرورت نے مجبور کیا اور یہ چیز نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آگئی ہے اور دعاؤں کے بغیر ہمیں اس کی توفیق نہیں مل سکتی.پس بہت دعائیں کریں کہ اس مہم کو سر کرنے کی اور پیار اور محبت کے ساتھ دنیا کو آداب اور اخلاق سکھانے کی اور رُوحانی میدانوں میں آگے بڑھا کر خدا تعالیٰ کے پیار اور اس کی مرضات کو حاصل کرنے کی اللہ تعالیٰ جماعت کو جلد تو فیق عطا کرے.روزنامه الفضل ربو ه ۲۸ فروری ۱۹۷۶ء صفحه ۲ تا ۵ )
خطبات ناصر جلد ششم ۲۹۱ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۷۶ء خدا تعالیٰ پر کامل یقین رکھنا اور اُس کی معین کی ہوئی صراط مستقیم پر چلنا ضروری ہے خطبه جمعه فرموده ۹ جنوری ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اب جماعت احمدیہ قریباً ساری دنیا میں پھیل چکی ہے.چنانچه گذشتہ تین سالوں سے مختلف ممالک کے وفود جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے آتے رہے ہیں کوئی وفد پانچ ہزار میل سے اور کوئی دس ہزار میل سے آتا ہے.غرض ہمارے یہ احباب بڑے لمبے فاصلے طے کر کے مرکز سلسلہ میں آتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں یہ توفیق دیتا ہے کہ وہ یہاں آکر دین کی باتیں سنیں اور اپنے ایمانوں کو تازہ کر کے واپس جائیں اور اپنے اپنے ملک کی رُوحانی اور اخلاقی تربیت کی طرف پہلے سے زیادہ اور شدید جذبہ کے ساتھ متوجہ ہوں.گذشته جلسه سالانہ پر سب سے بڑا وفد امریکہ سے آیا تھا جو ا ۴ مرد و زن پر ہمارے یہ دوست آج واپس جا رہے ہیں اور چونکہ انہیں جمعہ کی نماز کے بعد یہاں سے جلد روانہ ہونا چاہیے اس لئے اُن کی خاطر ایک تو میں اپنے خطبہ کو مختصر کروں گا دوسرے اختصار کے ساتھ میں ساری جماعت کو عموماً اور اس وفد کو خصوصاً چند باتیں کہنا چاہتا ہوں.مشتمل تھا پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رب العالمین پر ایمان لانا ضروری قرار
خطبات ناصر جلد ششم ۲۹۲ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۷۶ء دیا ہے یعنی اللہ پر جو رب العالمین ہے اور دیگر صفات حسنہ سے متصف ہے اور جس کے اندر کوئی نقص یا برائی ، کوئی خامی یا کمی نہیں ہے مگر رب العالمین پر ایمان کا صرف دعوی کافی نہیں قرار دیا گیا بلکہ فرمایا ہے:.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا ( حم السجدۃ: ۳۱) گویا اس دعوی کے ساتھ استقامت کی شرط رکھی گئی ہے چنانچہ اس آیہ کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والوں کو جس جنت کا وعدہ دیا گیا ہے وہ اُن کو تبھی مل سکتی ہے جب وہ رب العالمین پر ایمان کے ساتھ استقامت بھی دکھا ئیں.استقامت کے معنے یہ ہیں کہ رب العالمین نے انسانی ترقیات کے لئے جو سیدھی راہیں متعین کی ہیں ان راہوں پر سختی سے گامزن ہوا جائے.دنیا کی کوئی طاقت یا دنیا کا کوئی ابتلاء اور امتحان انسان کو صراط مستقیم سے ہٹا نہ سکے.غرض ہمارا رب رب العالمین ہے اگر ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہمارے رب نے ہمارے لئے جو صراط مستقیم معین کی ہے ہم اس پر چلتے ہیں تو ہمیں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ تمہیں وہ جنت دی جائے گی جس کا ذکر تفصیل سے قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اور جس کی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات میں تفصیل سے پائی جاتی ہے یا وہ تفسیر ہے جو آپ پر فدا ہونے والے بعض مقربین الہی نے کی ہے جو امت محمدیہ میں پیدا ہوتے رہے ہیں.پس ربنا الله ، ربنا اللہ کہنا بھی ضروری ہے اور اس رب کی قائم کردہ صراط مستقیم پر چلنا بھی ضروری ہے اس صورت میں پھر خدا تعالیٰ نے کہا ہے میں تمہیں اس دنیا میں بھی جنت دوں گا اور مرنے کے بعد تم ایک اور ابدی جنت کے وارث کئے جاؤ گے.دوسری بات جو اختصار کے ساتھ میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ اور ہوتی ہے اور دنیا کے رستے اور ہوتے ہیں.جو عزت انسان کو خدا سے ملتی ہے اس کی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور جو عرب میں انسان آپس میں بانٹ لیتے ہیں یعنی دنیوی عرب تیں ، اُن کی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے.دنیا دار بسا اوقات دنیوی عزتوں کی بیچ میں خدا تعالیٰ کے تقویٰ کو اختیار کرنے سے رُک جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ
خطبات ناصر جلد ششم ۲۹۳ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۷۶ء الْعِزَّةُ (البقرة: ۲۰۷) جب ایسے لوگوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کے تعلقات اور وہ عرب تھیں جو تم نے ایک دوسرے کو دے رکھی ہیں ان کی طرف نگاہ نہ رکھو.اُن سے پیار نہ کرو، اُن سے اپنے دل کو نہ باندھو بلکہ خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.خدا تعالیٰ کی پناہ میں آجاؤ، خدا تعالیٰ جو سب عرب توں کا سر چشمہ ہے اسی سے سب عرب تیں حاصل کرو تو دنیا کی عرب تیں اور دنیا کی عزتوں کی پیچ ایسے شخص کو گناہ کی طرف لے جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے دور لے جاتی ہے.فرمایا :.فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کے قہر کی آگ میں جلنا پڑے گا.تیسری بات جس کی طرف میں جماعت کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ تو درست ہے کہ قرآن کریم نے ہمیں یہ تاکیدی حکم دیا ہے کہ خود کو خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر سے بچاؤ لیکن جو ہمارے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ان کے لئے بھی یہی حکم ہے اسی لئے فرمایا:.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحريم : ( البته قُوا أَنْفُسَكُم پر قرآن کریم نے زور دیا ہے جیسا کہ فرمایا:.لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ (المآئدة : ١٠٦) اگر تمہارے ماں باپ، بیٹے اور بیٹیاں گمراہ ہوتی ہیں اور تم ہدایت پر قائم رہتے ہو تو ان کی گمراہی جو ان سے تعلق رکھتی ہے اس کا تمہیں ضرر نہیں پہنچے گا.تم اپنی فکر کرو.ہر شخص مرد ہو یا عورت اس کو خدا تعالیٰ کے غضب سے بچنے کے لئے اپنی ذات کی فکر کرنی چاہیے.یہ ایک بنیادی حکم ہے جو ہمیں دیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں کا بھی حکم دیا گیا ہے یعنی نیکی کی باتوں میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا اور نیکی کے قیام کے لئے ایک دوسرے کا ممد و مددگار ہونا.اس لئے ہمیں یہ کہا گیا ہے:.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السّلْمِ كَافَةً (البقرة : ۲۰۹) اسلام نے اس دنیا میں ایک حسین معاشرہ قائم کرنا چاہا ہے تم سارے کے سارے بغیر کسی استثناء کے اس میں داخل ہونے کی کوشش کرو.تم ایک دوسرے کی مدد کر کے ایک دوسرے کا خیال رکھ کر اور اپنے ماحول کو نا پاکی ، گندگی اور گناہ سے بچا کر ایسے حالات پیدا کرو کہ کوئی شخص بھی اس معاشرہ سے باہر نہ رہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۲۹۴ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۷۶ء چوتھی بات اسلام کے حسین معاشرہ سے باہر رہنے والوں کے متعلق ہے.دنیا میں ہمیں چار قسم کے گروہ نظر آتے ہیں ایک تو ان لوگوں کا گروہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں انتہائی قربانیاں دے کر اس کے پیار کو حاصل کر لیتے ہیں اور وہ جب تک اس دنیا میں زندہ رہتے ہیں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے باوجود ان کے لبوں پر ہر وقت یہ دعا رہتی ہے کہ اے خدا کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری غفلتیں ہمیں تیرا قرب پالینے کے بعد پھر تجھ سے دور لے جائیں اور ہمارا خاتمہ بالخیر نہ ہو.دوسرا گروہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو اس روحانی معیار پر پہنچا ہوا نہیں ہوتا وہ کمزور ہوتا ہے اور زیر تربیت بھی لیکن اس کی اپنی کوشش ہر وقت یہی رہتی ہے کہ وہ تقویٰ کے میدانوں میں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو نباہنے میں ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے.یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے بھائیوں سے تعاون علی البر کرتے ہیں اور ان کے بھائی ان کے ساتھ تعاون علی البر کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جب فضل کرتا ہے تو ان لوگوں کو بھی اپنے مخلص اور چنیدہ بندوں کے گروہ میں شامل کر لیتا ہے یعنی ان مخلصین کے گروہ میں جو پہلے تیار ہو چکا ہوتا ہے.تیسرا گروہ ایسے کمزور لوگوں کا ہے جن کے دلوں میں مرض ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.في قُلُوبِهِم مَّرَضٌ (البقرة:1) لیکن وہ انتہائی کوشش کرتے ہیں کہ اس مرض اور اس کمزوری کا علاج ہو.یہ دراصل کمزور اور زیر تربیت گروہ کا دوسرا حصہ ہے.ان کے لئے روحانی ترقیات کی راہوں کو اختیار کرنا کمزور اور زیر تربیت گروہ کے پہلے حصہ کی نسبت زیادہ مشکل ہوتا ہے اس لئے کہ جس وقت یہ اپنے جیسے یا اپنے سے بڑھ کر بیمار دلوں کی صحبت میں بیٹھتے ہیں تو ان کا اثر قبول کر لیتے ہیں اور جس وقت وہ مومنین کی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ان کی روحانی صحبت سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے اندر اصلاح کی طرف توجہ پائی جاتی ہے.ایسے لوگ اپنے روحانی مجاہدہ میں نہ تو اس قدر ترقی یافتہ ہوتے ہیں کہ ہم ان کو زیر تربیت یعنی آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والے گروہ میں شامل کر لیں جن کے لئے خدا کے فرشتے بھی ان کے ساتھ مل کر دعا کرتے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۹۵ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۷۶ء ہیں کہ مرنے سے پہلے وہ بلند مقام پر پہنچیں اور ان کا خاتمہ بالخیر ہو.لیکن ہم ان کو منافق بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ابھی ان کی کمزوری نفاق کی حد تک نہیں پہنچی ہوتی.قرآن کریم نے سورۃ بقرہ کے شروع میں منافقین کا جو ذ کر کیا ہے اس میں فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ کہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فَزَادَهُمُ الله مَرَضًا بھی کہا ہے جب کہ قرآن کریم کی بعض دوسری آیات میں صرف اتنا بتایا ہے کہ ان کے دلوں میں مرض ہے.چوتھا گر وہ ان لوگوں کا ہے جن کے دل میں مرض بھی ہے اور جن سے اعمال بھی وہی سرزد ہوتے ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان کے نفاق اور ان کی اس قلبی مرض کو بڑھاتا چلا جاتا ہے اور ان کا مستقبل ان کے ماضی سے زیادہ خراب، زیادہ بھیانک اور خدا تعالیٰ سے زیادہ دور لے جانے والا بن جاتا ہے.اب میں اپنے امریکن بھائیوں سے یہ کہوں گا کہ جو پاکستانی احمدی آپ کو امریکہ میں نظر آتے ہیں ان میں ان چاروں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.اس لئے آپ یہ نہ سمجھیں کہ بوجہ اس کے کہ وہ پاکستانی احمدی ہیں وہ آپ کے لئے نمونہ ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو آپ کے لئے واقعی نمونہ ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو صدق و ثبات اور محبت و وفا میں اور بھی بڑھائے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے ان پر اور بھی نازل ہوں.وہ آپ کے لئے نمونہ بنیں اور خدا کرے آپ میں سے بھی ایک گروہ پیدا ہو جو ان کے لئے نمونہ بنے اور اس طرح ہم اپنے مقصود کو پالینے والے ہوں یعنی ساری کی ساری نوع انسانی کو اُمتِ واحدہ بنانے کی اس عظیم مہم میں کامیاب ہوں جس کے لئے مہدی معہود کو مبعوث کیا گیا ہے لیکن جس طرح امریکہ کے مقامی احمدیوں میں بعض کمزور احمدی بھی ہیں اور زیر تربیت بھی.اُسی طرح امریکہ میں بسنے والے پاکستانی احمدیوں میں بھی بعض کمزور احمدی ہیں لیکن ان کا تعلق دوسرے گروہ کے ساتھ ہے جن کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ ان کو اپنی کمزوری کا احساس ہوتا ہے اور ان کی ہر دم یہ کوشش ہوتی ہے اور وہ اس مجاہدے میں مشغول رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں کو دور کرے اور ان کے بھائی تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى (المآئدۃ:۳) کے حکم کے ماتحت اُن کی کمزوریوں کو دور کرنے میں ان کا ہاتھ بٹاتے
خطبات ناصر جلد ششم ۲۹۶ خطبہ جمعہ 9 جنوری ۱۹۷۶ ء ہیں، دعاؤں سے ان کی مدد کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو قبول کرے گا اور ان کی کوششوں کو حسین بنا کر پیار کی نگاہ سے انہیں دیکھنے لگ جائے گا.اسی طرح امریکہ میں وہ پاکستانی احمدی بھی ہیں جن کے دلوں میں مرض تو ہے لیکن جنہیں ہم منافق نہیں کہہ سکتے.ان کے متعلق میں یہ کہوں گا کہ آپ میں سے وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کا وافر حصہ عطا فرمایا ہے ان کا فرض ہے کہ ایسے کمزور لوگوں کی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کریں تا کہ جتنا وقت ایسے لوگ منافقانہ ماحول میں گزارتے ہیں اس سے زیادہ وقت وہ آپ کی صحبت میں رہ کر اپنے آپ کو سنوارنے میں خرچ کرنے لگیں.پاکستانی احمدیوں میں بعض پورے منافق بھی ہیں یعنی ایسے لوگ بھی ہیں جن کو قرآن کریم نے منافق کہا ہے اور جن کا ذکر قرآن کریم نے منافقانہ گروہ کے ذکر میں کیا ہے.غرض ان تمام عادتوں اور فتنوں اور مصلح ہونے کے تمام دعاوی کے ساتھ وہاں بعض منافق ہیں اور ہم ان کو جانتے ہیں لیکن یہ منافق تو آپ کے راہبر و رہنما نہیں اور نہ ہی وہ آپ کے لئے نمونہ ہیں.ان کے بداثر سے بچنے کی آپ کو دعا مانگنی چاہیے یعنی یہ دعا مانگنی چاہیے کہ ان کی بدصحبت سے امریکہ کے کسی احمدی میں بھی نفاق کا مہلک مرض پیدا نہ ہونے پائے.آپ کو یہ دعا بھی مانگنی چاہیے اور تدبیر بھی کرنی چاہیے کہ ان کی منافقانہ حرکات سے جماعت میں کمزوری نہ پیدا ہو.اسی طرح آپ کو یہ دعا بھی مانگنی چاہیے اور تدبیر بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نفاق کو دور کرے اور اس مہلک اور روحانیت کو تباہ کرنے والی بیماری سے ان کو شفا دے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں شامل ہو جائیں.جیسا کہ اسلامی تاریخ سے ہمیں پتہ لگتا ہے ایسا ممکن ہے کیونکہ جس طرح ایک شخص جو مقرب الہی ہے وہ اپنے غرور کے نتیجہ میں حصول قرب کے بعد اللہ تعالیٰ سے دوری کی راہوں کو اختیار کر لیتا ہے اسی طرح ایک منافق اپنے پورے نفاق کے باوجود عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اصلاح نفس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل کا وارث بھی ہو جاتا ہے.پس جہاں تک منافقین کا تعلق ہے ہمیں ان کے بارہ میں مایوس نہیں ہونا چاہیے.ان کی اصلاح کے لئے کوشش اور دعا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے لیکن ان کے بداثر سے بچنا بھی
خطبات ناصر جلد ششم ضروری ہے.۲۹۷ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۷۶ء اس وقت امریکی وفد کے ساتھ جو دوست مقرر ہیں وہ ان کو بتا دیں کہ میں نے مختصراً یہ باتیں ان کے لئے کہی ہیں ویسے تو یہ باتیں ایسی ہیں جن کا تعلق ساری جماعت سے ہے.ہماری یہ دعا ہے اللہ تعالیٰ جماعت کو سچ مچ اور واقع میں اس جنت کا وارث بنادے جس کے وارث ثبات قدم دکھانے والے اور ربنا الله ! ربنا الله !! کہنے والے مومن ہوتے ہیں یہی وہ جنت ہے جس کا قرآن کریم میں کثرت سے ذکر آتا ہے اور جس کے متعلق اتنی بشارتیں ہیں کہ ہم ان کو بیان نہیں کر سکتے.اتنی بشارتیں ہیں کہ ان کا وہ حصہ جو ہم پالیتے ہیں اس کا بھی شکر ممکن نہیں ہے اور نہ وہ الفاظ ملتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے احسانات کا کماحقہ شکر ادا کر سکیں.اللہ تعالیٰ تھوڑے کو قبول کر لیتا ہے.اسی واسطے اس نے کہا ہے میں اپنے نیک بندوں کو دس گنا زیادہ اجر دیتا ہوں، ۷ ۲ گنازیادہ اجر دیتا ہوں.مختلف احادیث میں مختلف اضافوں کے ساتھ اجر دینے کا ذکر ہے لیکن اس محدود زندگی کے بدلے میں جس ابدی جنت کا وعدہ دیا گیا ہے اس میں تو کوئی نسبت قائم نہیں رہتی.سب نسبتیں ٹوٹ جاتی ہیں.جو قائم رہنے والی چیز ہے وہ اللہ کی ذات اور اس کی رحمتیں ہیں.خدا تعالیٰ ہمیشہ ہی ہم پر اپنی رحمت کا سایہ رکھے اور اس سے دوری کا فتنہ ہماری راہ میں روک نہ بنے.روزنامه الفضل ربوہ ۱ ارجون ۷ ۱۹۷ ، صفحہ ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ششم ۲۹۹ خطبہ جمعہ ۱۶ جنوری ۱۹۷۶ء اجتماعی اور انفرادی لحاظ سے اپنا محاسبہ کریں اور اپنی کمزوریوں کو سامنے لا کر انہیں دور کرنے کی کوشش کریں خطبه جمعه فرموده ۱۶ جنوری ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.تین چار روز سے مجھے پیٹ میں درد اور نفخ اور قبض کی وجہ سے بڑی تکلیف ہے اور ہر وقت بے چینی محسوس کرتا ہوں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحت دے اس وقت بھی مجھے اس قدر تکلیف تھی کہ اگر میں نے ایک ضروری دعا کے لئے نہ کہنا ہوتا تو شاید میں آج اس وقت جمعہ کے لئے بھی نہ آ سکتا.لیکن میں جماعت کو اس طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان دنوں پھر ہماری مخالفت بڑے زوروں پر ہے اور وہ لوگ جو ہمارے مخالف ہیں وہ حکومت وقت کے بھی مخالف ہیں لیکن وہ کہتے حکومت وقت کو ہیں کہ وہ ہمارے خلاف کوئی اقدام کرے.میں اور آپ ہم سب جانتے ہیں کہ ہم کوئی سیاسی جماعت یا ٹولہ نہیں ہیں بلکہ ہمارے ایمان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مہدی (علیہ السلام ) کو بھیجا اور ہمیں یہ توفیق عطا کی کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہدی پر ایمان لائیں.سیاست سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں اور کوئی سیاسی مقاصد ہمارے پیش نظر نہیں.ہم ایک مذہبی جماعت ہیں اور اس وقت ہم دنیا کی
خطبات ناصر جلد ششم ۳۰۰ خطبہ جمعہ ۱۶ جنوری ۱۹۷۶ء نگاہ میں حقیر بھی ہیں، بے بس بھی ہیں، کم مایہ بھی ہیں اور دنیا کی نگاہ میں ہم بے سہارا بھی ہیں لیکن ہم اپنے مشاہدہ کی رو سے اس یقین کامل پر قائم ہیں کہ ہم بے سہارا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا سہارا ہمیں حاصل ہے.اللہ ہمارا ولی ہے اللہ ہمارا مہربان ہے.اللہ جو تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے وہ ہمیں پیار کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور جس وقت ساری دنیا ہمیں دھتکار کر پرے پھینک دیتی ہے اس وقت ہمارا رب پیار سے ہمیں اٹھا کر اپنے قرب میں ہمیں جگہ دیتا ہے.جس وقت مخالفت زوروں پر ہو اس وقت دو ذمہ داریاں خاص طور پر نمایاں ہو کر الہی سلسلوں کے سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتیں اجتماعی لحاظ سے بھی اور انفرادی لحاظ سے بھی اپنا محاسبہ کریں اور اپنی کمزوریوں کو سامنے لا کر ان کو دور کرنے کی کوشش کریں اور خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہوئے استغفار کے ذریعے اس کی رحمت کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.بہرحال ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی اصلاح کے لئے جس حد تک ممکن ہو کوشش کریں اور دوسرے یہ ذمہ داری ہے کہ دعا کریں اور بے حد دعا کریں.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جس غرض کے لئے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے وہ غرض پوری ہو اور وہ یہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تمام دنیا میں بلند ہو اور اسلام کا دین تمام ادیان باطلہ پر اور تمام از مز (Isms) پر جنہیں ہم ادیان تو نہیں کہتے مگر وہ اس کے مقابلہ پر آجاتے ہیں مثلاً اشتراکیت وغیرہ ان از مز (Isms ) پر اور ان ادیان باطلہ پر غالب ہو.اس زمانہ میں ایسا ہونا مقدر ہے ہمیں اس سے زیادہ خوشی اور کوئی نہیں پہنچ سکتی کہ ہم تمام مخالفتوں کے باوجود اپنی نگاہ سیدھی اپنے رب کی طرف رکھیں اور اس کے حضور جھکیں اور اس سے دعائیں کرتے ہوئے اس کی رحمت اور اس کے پیار کو حاصل کریں.پس ایک تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے نفسوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور دوسرے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے نفس کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونے والا شخص اگر خدا تعالیٰ کی رحمت کو حاصل نہیں کرتا تو وہ اپنی اس کوشش اور تدبیر میں کامیاب نہیں ہوا کرتا.اس لئے جہاں اپنے نفوس کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں وہاں خدا تعالیٰ سے نہایت عاجزانہ دعائیں کرتے ہوئے
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۱۶ /جنوری ۱۹۷۶ء اس کی رحمت ، اس کے پیار، اس کے فضل اور اس کی برکات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.وہ لوگ جن کا حقیقی معنی میں اللہ سہارا ہوتا ہے اور ان کا ولی بن جاتا ہے وہ ابتلاؤں اور دنیا کی جو آگ جلائی جاتی ہے اس کی پرواہ نہیں کیا کرتے اور ہمارا مقصد ، ہماری زندگی کا مقصد پیار کے ساتھ انسانوں کے دل جیتنا ہے، اس لئے وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے مخالف ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی دنیوی تدابیر سے اور ہمیں دکھ اور تکلیف اور ایذاء پہنچا کر ہمیں اپنی راہ سے ہٹا دیں گے وہ غلطی پر ہیں.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے مخالف ہیں اور ہم انہیں یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے دشمن نہیں بلکہ ان کے لئے بھی دعائیں کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے صحیح مقام کو سمجھنے اور اس کی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق عطا کرے.روزنامه الفضل ربوه ۲۴ جنوری ۱۹۷۶ ، صفحه ۳، ۴) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد ششم خطبه جمعه ۲۳ جنوری ۱۹۷۶ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تجدید دین تمام بدعات کو مٹانے پر حاوی ہے خطبہ جمعہ فرموده ۲۳ جنوری ۱۹۷۶ء بمقام کوٹھی صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب.جہلم تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جلسہ سالانہ کے بعد جنوری کے دوسرے ہفتہ میں میرے جگر اور انتڑیوں میں شدید تکلیف ہو گئی تھی.جس کے نتیجہ میں ایک تو قبض ہو گئی اور دوسرے معدے اور انتڑیوں میں بڑی سخت جلن ہونے لگی.ایسا لگتا تھا کہ معدے میں آگ لگی ہوئی ہے.۸.۱۰ دن اسی حالت میں گزر گئے.ربوہ میں ہمارے جو ڈاکٹر ہیں ان کو میں نے کئی دفعہ بتایا کہ میرے معدہ میں سوجن ہے مگر ان کا خیال صحیح تشخیص کی طرف نہیں گیا.پھر جب میری تکلیف بڑھ گئی تو میں نے راولپنڈی سے اپنے احمدی ڈاکٹروں کو بلا کر ان سے مشورہ کیا انہوں نے کہا آپ کو معدے میں تکلیف ہے لیکن کوئی فکر کی بات نہیں.ایک تو Acidity ( تیزابیت) کی زیادتی ہے دوسرے جگر میں تکلیف ہے اس لئے ورم ہو گیا ہے.انہوں نے دوائیں دیں کافی فرق پڑ گیا ہے لیکن ابھی تک پورا افاقہ نہیں ہوا.آج صبح سے مجھے شدید سر درد ہے.میں نے درد دور کرنے کی دوائی استعمال کی مگر بیماری کی وجہ سے کچھ ضعف اور کچھ سر درد کی وجہ سے بے چینی ہے.میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی لیکن اس خیال سے کہ جہلم کی جماعت کو کم ہی موقع ملتا ہے یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ مجھے کم ہی موقع ملتا ہے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۰۴ خطبہ جمعہ ۲۳ /جنوری ۱۹۷۶ء کہ میں نماز جمعہ میں جہلم کی جماعت کی شکلیں دیکھ لوں اور اُن کو کچھ باتیں کہہ سکوں.اس کے علاوہ بعض دوسرے مقامات سے بھی دوست آئے ہوئے ہیں اس لئے میں جمعہ کی نماز پڑھانے آ گیا ہوں.ایک ضروری امر کے متعلق میں مختصر سا خطبہ دوں گا اور وہ یہ ہے کہ ہم خود کو احمدی کہتے ہیں.ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم احمدی مسلمان ہیں اور یہ دعویٰ اس لئے ہے کہ آج سے قریباً ۸۵ سال پہلے ایک شخص نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعوی کیا یعنی اُس مسیح کا جس کی اُمت محمدیہ کو بشارت دی گئی تھی اور اُس مہدی کا جس کا ذکر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات میں ہے اور جس کے آنے کے بارہ میں قرآن کریم میں اشارے پائے جاتے ہیں اور جن آیات کی تفسیر کرتے ہوئے صلحائے امت نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ یہ مسیح کے زمانے کی خبریں ہیں اور یہ باتیں مہدی علیہ السلام کی صداقت کے دلائل ہیں.مدعی نے یہ دعویٰ کیا کہ میں اُن بشارتوں کے مطابق آیا ہوں.اللہ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کو مسیح اور مہدی علیہ السلام کو شناخت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.پھر بعد میں آنے والی نسلوں میں سے ساری دنیا میں احمدی پیدا ہو گئے یعنی ملک ملک کے اصلی باشندوں میں سے بھی احمدی ہو گئے.کچھ تو وہ احمدی ہیں جو باہر سے جا کر آباد ہوئے میں اُن کا ذکر نہیں کر رہا.ہر ملک کے اصلی باشندوں میں سے ایسے افراد اور بعض جگہ ایسے گروہ اور بعض جگہ اتنے بڑے گروہ کہ جن کی تعداد لاکھوں کی ہے اللہ تعالیٰ نے اُن کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ اس مدعی کو پہچانیں اور اس پر ایمان لائیں.اس ایمان کے نتیجہ میں جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا ساری دنیا آپ کی مخالف ہو گئی.عیسائی اس لئے مخالف ہو گئے کہ مہدی علیہ السلام نے کہا مجھے اس لئے مبعوث کیا گیا ہے کہ میں عقلی دلائل کے ساتھ اُس صلیب کو توڑ کر پھینک دوں جس نے مسیح کی ہڈیوں کو توڑا اور آپ کے جسم کو زخمی کیا تھا.ہندوؤں سے کہا میں تمہاری اصلاح کے لئے آیا ہوں.جس اوتار کا تم انتظار کر رہے تھے، اس حیثیت میں مجھے تمہاری طرف بھی بھیجا گیا ہے تو وہ غصے میں آگئے.پھر عیسائیوں کی رسومات، اُن کی عادتیں ، غلط خیالات اور گندے عقائد اُن میں پیدا ہو چکے تھے مثلاً شرک کا عقیدہ ایک نہایت گندا عقیدہ ہے.مہدی علیہ السلام نے کہا میں ایسے غلط خیالات کو مٹا دوں گا.ظاہر ہے وہ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۰۵ خطبہ جمعہ ۲۳ /جنوری ۱۹۷۶ء بھی اس سے خوش تو نہیں ہو سکتے تھے.جہاں تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کا تعلق تھا.ایک حدیث میں آتا ہے کہ مہدی علیہ السلام کے وقت اسلام میں اس قدر بدعات شامل ہو چکی ہوں گی کہ جب مہدی آکر اسلام کو ان بدعات سے پاک کر کے صحیح شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرے گا تو اس زمانے کے مسلمان کہیں گے یہ اسلام نہیں ہے یہ تو کوئی نیادین لے آیا ہے.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں کہ لوگ کہیں گے مہدی ایک جدید دین لے کر ہماری طرف آ گیا ہے ہم اس کو کس طرح ما نیں.اس کا مطلب ہوا ہمیں اسلام چھوڑنا پڑے گا.حالانکہ حقیقت یہ ہوگی کہ وہ اسلام کو چھوڑ چکے ہوں گے اور مہدی علیہ السلام اُن کے سامنے صحیح اور صاف اور پاک اور مصفی اسلام کو اس کی پوری رعنائی اور پورے حسن کے ساتھ پیش کر رہے ہوں گے اور لوگ کہیں گے کہ یہ نیا دین لے کر آ گیا ہے.گویا اس طرح یہ لوگ مہدی علیہ السلام سے غصے ہو گئے اور مہدی علیہ السلام کے طفیل ہم سے بھی غصے ہو گئے اور جیسا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اُن کو حکم دیا گیا تھا مہدی کو سلام بھیجنے کی بجائے اُن پر کفر کے فتوے لگانے شروع کر دیئے.اس کی تفصیل کا یہ وقت نہیں ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بعض کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ان فتاوی کے الفاظ لکھ دیئے ہیں یہ بتانے کے لئے کہ کس قسم کی بے دھڑک فتوی بازی کی گئی گویا کہ مسلمانوں پر کوئی اخلاقی پابندی ہی نہیں ہے.لوگوں نے مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیں، کفر کے فتوے لگائے ، مفسد و مفتری کہا لیکن چونکہ آپ سچے تھے اس لئے آپ کو کوئی خوف نہیں تھا کہ میں اپنی کتابوں میں ان چیزوں کو محفوظ کر کے چلا جاؤں.ہم اس مہدی علیہ السلام پر ایمان لائے ہیں یا کم از کم ہر احمدی یہ دعوی کرتا ہے بڑا بھی اور چھوٹا بھی مرد بھی اور عورت بھی کہ اس مدعی مہدویت پر ہم ایمان لائے ہیں.اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ اس مہدی کے مقام کو پہچانیں.ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مہدی علیہ السلام کا کیا مقام ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مسیح موعود علیہ السلام کا کیا مقام ہے (مہدی اور مسیح ایک ہی وجود کے دو نام ہیں ) پھر ہمارے سامنے بدعات سے پاک اسلام پیش کیا گیا ہے ہم اُس
خطبات ناصر جلد ششم ۳۰۶ خطبہ جمعہ ۲۳ /جنوری ۱۹۷۶ء کو سمجھنے والے ہوں.قرآن کریم کی جو تفسیر بیان کی گئی ہے اُسے سمجھنے والے ہوں.مہدی علیہ السلام عاشق رسول تھے.آپ نے قرآن عظیم کا جو حسن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جو حسن و احسان دیکھا اور جسے ہمارے سامنے بیان کیا وہ ہر وقت ہمارے ذہنوں میں حاضر رہنا چاہیے ورنہ تو احمدی بنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے.محض زبانی ایمان کسی کا زبانی دعوی کرنا اس بات کا کہ وہ ایمان لاتا ہے اس کی تو کوئی اہمیت نہیں ہے ذراسی غفلت انسان کو کہیں سے کہیں لے جاتی ہے.دیکھ لیں جماعت احمدیہ کا ایک حصہ جن کو ہم عام طور پر غیر مبائعین کہتے ہیں انہوں نے کہہ دیا ہم یہ تو مانتے ہیں لیکن وہ نہیں مانتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم و عدل قرار دیا ہے.اس لئے جو بات میں کہوں وہ تمہیں ماننی پڑے گی اور جس کو میں کہوں یہ غلط بات ہے اس کو تمہیں چھوڑنا پڑے گا.قرآن کریم کی جو تفسیر میں کروں اس کے مقابلہ میں اگر علماء امت کی دوسری تفاسیر آجائیں تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ میری تفسیر صحیح ہے.اگر کسی شخص نے کسی اور رنگ میں اس کے مخالف بات کی ہوگی تو وہ غلط ماننی پڑے گی جس حدیث کو میں کہوں کہ یہ حدیث صحیح ہے یعنی واقعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے تمہیں ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں ایسا ہی ہے اور اسی طرح جن احادیث کے متعلق میں کہوں کہ لوگوں نے بعد میں بنالی ہیں اور غلط طور پر منسوب کر دی ہیں ان سے تمہیں انکار کرنا پڑے گا.پس یہ جو مختصر سی تمہید میں نے باندھی ہے اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مہدی معہود علیہ السلام کو اس زمانے کا حکم و عدل ماننا ضروری ہے.کئی دفعہ میں نے سوچا میں حیران ہوتا ہوں کہ بعض لوگ امام بخاری کو تو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ کئی لاکھ احادیث کے متعلق یہ فتوی دیں کہ یہ احادیث صحیح نہیں.اس لئے میں اپنی کتاب (یعنی بخاری شریف جو قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ صحیح اسلامی لٹریچر پر مشتمل کتاب سمجھی جاتی ہے اس میں شامل نہیں کروں گا کیونکہ میرے نزدیک یہ مشتبہ احادیث ہیں.امام بخاری کا مقام تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی حدیث میں بیان نہیں ہوا.لوگ اُن کو تو تنقید کا حق دیتے ہیں لیکن جس کا مقام احادیث میں بیان ہوا ہے کہ وہ حکم
خطبات ناصر جلد ششم ۳۰۷ خطبہ جمعہ ۲۳ /جنوری ۱۹۷۶ء اور عدل ہو گا اس کے متعلق یہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں اس کا کوئی حق نہیں ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض احادیث کے متعلق فرمایا کہ ان کے بارہ میں مجھے بتایا گیا ہے کہ در حقیقت یہ احادیث اس اس طرح ہیں.پس یہ عجیب بات ہے جو شخص براہ راست اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرتا ہے اس کی بات کو ٹھکرانے کے لئے بعض لوگ تیار ہو گئے اور امام بخاری کو یہ حق دے دیا کہ وہ اپنی صحیح بخاری کے لئے لاکھوں احادیث کے مجموعہ سے صحیح حدیثوں کا انتخاب کریں.ویسے امام بخاری کی ہر احمدی کے دل میں بڑی قدر ہے.اُنہوں نے بڑی محنت کی اور بڑے اخلاص سے اور بڑی دعاؤں کے بعد آخر صحیح بخاری کو مرتب کیا اور رطب و یابس پر مشتمل کئی لاکھوں احادیث کو شامل نہیں کیا.احادیث کی تحقیق میں اُنہوں نے اپنی ساری عمر خرچ کر دی.ایک ایک حدیث کی صحت کو معلوم کرنے کے لئے انہوں نے بعض دفعہ سینکڑوں میل کا سفر اختیار کیا صرف یہ پتہ لینے کے لئے کہ راویوں کا مقام کیا ہے وہ سچ بولنے والے ہیں یا نہیں ، اُن کا حافظہ کیسا ہے.بعض دفعہ ایک شخص بڑا مخلص ہوتا ہے لیکن اگر اُس کا حافظہ کام نہیں کر رہا تو وہ ایسی بات کر جائے گا جو اصول روایت و درایت پر پوری نہیں اترتی.چنانچہ جب کئی لاکھ احادیث کا مجموعہ امام بخاری کے سامنے آیا تو انہوں نے دیکھا بعض احادیث کے الفاظ قرآن کریم سے ٹکراتے ہیں انہوں نے کہا یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ ان کا دماغ نہیں مانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہو.اس شک کو دور کرنے کے لئے پھر وہ راویوں کو تلاش کرتے تھے.پس اُن کو تو بعض لوگوں کے نزدیک یہ حق پہنچ گیا کہ لاکھوں احادیث کو رد کر دیں لیکن ان لوگوں کے نزدیک مہدی علیہ السلام کو یہ حق کیوں نہیں پہنچتا جنہوں نے خدا سے سیکھ کر یہ بتانا ہے کہ کون سی حدیث درست ہے اور کون سی نہیں، کس حدیث کو رد کریں یا کس کو قبول کریں.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے غیر مبائعین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حکم اور عدل نہیں مانتے رہے اب تو وہ ویسے ہی ختم ہو گئے ہیں.میں اپنے ذوق کے مطابق ایک تاریخی مثال دے رہا ہوں آج کی زندگی کی مثال نہیں دے رہا کیونکہ میرے نزدیک تو اب اُن کا وجود ایسا نہیں رہا
خطبات ناصر جلد ششم ۳۰۸ خطبہ جمعہ ۲۳ /جنوری ۱۹۷۶ء کہ اُن کی مثال دی جا سکے.بعض دفعہ اسی قسم کے خیالات بعض کمزور نو جوان احمدیوں کے دل میں بھی آجاتے ہیں مثلاً یہ کہ ہر صدی کے سر پر مجد دآئے گا.یہ صدی ختم ہو گئی ہے اس لئے اب ہم نئے مجد د کا انتظار کرتے ہیں.اگر اس قسم کا آدمی مجھ سے بات کرے تو میں اس کو یہ کہا کرتا ہوں کہ اس وقت جو مجد د آ چکا ہے تم اس کے احکام کی تو پہلے تعمیل کرو پھر نئے آنے والے کے متعلق سمجھیں گے کہ تم اُس کی بھی بات مان لو گے.جس کو مان چکے ہو اس کی بات کو تو تم تسلیم نہیں کرتے اس کی بات پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں اور آنے والے کا انتظار کر رہے ہو.اس میں کوئی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چودھویں صدی کے مجد د کی حیثیت میں آئے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات میں بھی کوئی شک اور شبہ نہیں ہے کہ آپ اس دنیا کی زندگی کے سات ہزار سالہ دور کے آخری ہزار سال کے ہزار سال کے مجد د کی حیثیت سے آئے ہیں اور یہی ایک فقرہ اس وقت میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیکچر سیالکوٹ میں لکھا ہے.آپ فرماتے ہیں:.،، ’اور ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلا تا ہے وہ مجد دصدی بھی ہے اور مجدّد الف آخر بھی.یعنی اس دنیا کا جو آخری ہزار سال ہے اس کے بھی آپ مجد د ہیں اور چودہویں صدی کے بھی مجدد ہیں اس لئے کسی کا یہ کہنا مثلاً غیر مبائعین کا کہ ہم اس دعویٰ کو تو مانتے ہیں کہ آپ چودہویں صدی کے مجدد ہیں مگر ہم اس دعوی کو نہیں مانتے کہ دنیا کی زندگی کے اس دور یعنی آخری ہزار سال کے بھی آپ مجد د ہیں.اگر تم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تو پھر تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حکم اور عدل کیسے مانا؟ آپ کا یہ دعویٰ کہ میں صرف ایک صدی کا مجد دنہیں ہوں دس صدیوں کا مجد دہوں.میرے خیال میں یہاں اس وقت جو نو جوان بیٹھے ہیں اُن میں سے بہت کم نوجوانوں
خطبات ناصر جلد ششم ۳۰۹ خطبہ جمعہ ۲۳ /جنوری ۱۹۷۶ء کے ذہن میں ہوگا حالانکہ وہ کتابیں پڑھتے ہیں بہتوں کو اس کا علم ہونا چاہیے.پس مہدی معہود علیہ السلام کا صرف یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں چودہویں صدی کے سر پر مجدّد ہوکر آیا ہوں بلکہ آپ کا یہ دعویٰ بھی ہے اور اس میں کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے.آپ نے فرمایا اس انسانی زندگی کے دور کا جو آخری ہزار سال ہے اس ہزار سال کا خدا نے مجھے مجدد بنایا ہے.جب خدا نے آپ کو ہزار سال کا مجد د بنادیا اور میں تو علی وجہ البصیرت اس بات پر قائم ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو بات کہتے ہیں وہ سچی ہے اس لئے اگر کوئی ۱۵ ویں صدی کا مجدد ہوا یا ۱۶ ویں یاے اویس کا ہوا تو اس کی قسم اور نوعیت وہ نہیں ہوگی جو ۱۳ ویں صدی کے مجد د کی تھی بلکہ جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے وہ آپ کے ظل کے طور پر محبت دہوگا.مجدد کے متعلق میں ایک اور غلط نہی دور کر دینا چاہتا ہوں.ایک صدی میں صرف ایک مجدد نہیں ہوا کرتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کوئی صدی مجدد سے خالی نہیں ہوگی یہ نہیں فرما یا کہ کسی صدی میں ایک سے زیادہ مجدد نہیں ہوں گے ان دونوں میں بڑا فرق ہے.تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ان مجددین کے اسماء جمع کریں جن کو مجد د سمجھا گیا ہے تو ایک ایک صدی میں ایک سے زائد مجددیت کے دعویدار ہمیں مل جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے معا پہلے کی صدی میں ہندوستان میں ایک بزرگ تھے جسے اُمت محمدیہ میں ( ہندوستان کے رہنے والے مسلمانوں ) نے مجدد تسلیم کیا لیکن اب جو نئی کتا بیں ہمارے سامنے آئیں تو ہمیں پتہ لگا کہ نائیجیریا میں اسی زمانہ میں عثمان فودگی نے مجد د ہونے کا دعوی کیا تھا اور خالی یہ دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس دعوئی سے پہلے اُس علاقے کے بزرگوں کو خدا تعالیٰ نے کشف اور رؤیا اور الہام کے ذریعہ بتایا تھا کہ تمہارے علاقے میں ایک مجدد پیدا ہونے والا ہے.چنانچہ وہ مقامی بشارتوں کے مطابق پیدا ہوئے اور انہوں نے تجدید دین کی اور بڑی زبر دست تجدید دین کی.ویسے ان کا مشن صرف بعض بدعات کو دور کرنا تھا جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تجدید دین تمام بدعات کو مٹانے پر حاوی ہے.خدا تعالیٰ نے ان کو بڑا تقویٰ بھی دیا تھا اور ان کو بڑی فراست بھی عطا کر رکھی تھی.میں نے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۱۰ خطبه جمعه ۲۳ /جنوری ۱۹۷۶ء ان کی ساری کتاب پڑھی ہے بڑا لطف آتا ہے ان کی کتاب پڑھنے سے.اب اس زمانہ ہی کو دیکھ لو مسلمانوں کی جو دنیا ہے اس میں لباس کے بارہ میں بدعات آ گئیں، کوئی ایک انتہا پر پہنچا ہوا ہے تو کوئی دوسری انتہا پر.گویا مسلمان افراط و تفریط کا شکار ہیں.کچھ لوگوں نے کہا جس طرح یورپ میں مردوں اور عورتوں کا عام طور پر آدھے ننگے پھرنے کا رواج ہے اُسی طرح مسلمان بھی لباس پہن لیں تو کیا حرج ہے.مسلمان بھی کہلاتے ہیں اور اس قسم کے لباس پہننے میں کوئی حرج بھی نہیں سمجھتے اور ستر جس کا اسلام نے حکم دیا ہے اس کی پرواہ نہیں کرتے اور دوسری طرف تفریط کا یہ حال ہے کہ اگر لباس ٹخنوں سے نیچے ہو تو مارنے لگ جاتے ہیں.اس سلسلہ میں میں آپ کو ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں.پچھلے سال جب میں لندن میں تھا تو وہاں مجھے پتہ لگا کہ ایک کمیونسٹ ملک ہے جس میں بہت سے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں مسلمان رہتے ہیں اور ان کو آزادی ہے کہ وہ نمازیں اور قرآن کریم خود بھی پڑھیں اور بچوں کو بھی پڑھوائیں لیکن ماحول ایسا گندہ ہے کہ بہت سے بچوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے لیکن کوئی سختی نہیں کرتا.غیر ملک سے بعض علماء وہاں گئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی پتلونیں ٹخنوں سے نیچے گئی ہوئی ہیں کہنے لگے تم کہاں کے مسلمان ہوئے ، ان کی پتلونیں ٹخنے سے نیچے ہیں.اس لئے ان کو سبق دینے کے لئے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ جب نماز کھڑی ہو تو ایک آدمی نماز میں شامل نہ ہو بلکہ وہ ڈنڈا پکڑ لے اور جب سارے نماز کی نیت باندھ لیں اُس وقت ان کے ٹخنوں پر ڈنڈا مارے اور کہے کہ تمہاری پتلونیں ٹخنوں سے نیچے گئی ہوئی ہیں تم نماز کیسے پڑھ رہے ہو.غرض بجائے ان کو سمجھانے کے ڈنڈے مارنے کا طریق اختیار کیا حالانکہ سمجھانا بھی غلط طریق ہے چہ جائیکہ ڈنڈے مارنا.اصل تو یہ مسئلہ نہیں ہے اور میں ابھی بتا تا ہوں کہ اصل مسئلہ کیا ہے غرض جب لوگوں نے ڈنڈے کھائے تو ان کو بہت غصہ آیا کہ یہ مسجد کی بے حرمتی ہے اور نماز کی بے حرمتی ہے.دوسری طرف جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ آدھے ننگے پھرنے والے مسلمان یہ سمجھنے لگ گئے کہ کوئی بات نہیں یہی لباس ٹھیک ہے.میں ساری دنیا کے مسلمانوں کی بات کر رہا ہوں صرف پاکستان کی بات نہیں کر رہا لیکن عثمان فودی نے وہ ساری حدیثیں نوٹ کر دیں جن میں لباس کے متعلق ہدایات دی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں
خطبات ناصر جلد ششم ٣١١ خطبہ جمعہ ۲۳ /جنوری ۱۹۷۶ء انہوں نے بڑا مطالعہ کیا ہے اور آخر نتیجہ یہ نکالا اور کتنے صحیح نتیجہ پر پہنچے کہ سنت نبوی یہ ہے کہ انسان کو جس قسم کا لباس میتر آئے وہ اُسے پہن لے یعنی اگر اسلام نے ساری دنیا میں پھیلنا ہے اور انتہائی طور پر سر دممالک میں بھی اُس نے جانا ہے اور انتہائی گرم ممالک میں بھی جانا ہے تو اس قسم کی قید و بند کا مطلب یہ ہے کہ بے شک کسی کو سردی لگ جائے بیمار ہو جائے پتلونیں پنڈلی کے وسط سے نیچے نہ جائیں.یہ تو بالکل نا معقول بات ہے اسلام اس قسم کی نامعقول بات کا حکم نہیں دیتا.اس واسطے عثمان فودی نے لکھا کہ حالات کے مطابق جس قسم کا کپڑا میٹر آتا ہے وہ پہن لیا جائے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانہ میں مسلمان غریب تھا.لوگ انتہائی غربت کی زندگی گذار رہے تھے اور بڑی قربانیاں دے رہے تھے اب تو ہمیں بہت آسانیاں حاصل ہیں مثلاً میں نے کوٹ پہن رکھا ہے.دوستوں نے بھی اسی قسم کے گرم کپڑے اور چادریں لی ہوئی ہیں کیونکہ موسم سرد ہے لیکن جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت گھٹنوں سے اوپر اُن کی دھوتیاں ہوا کرتی تھیں.یہاں تک کہ لوگ جب مسجد میں نماز پڑھتے تھے تو پیچھے سے ننگے ہو جایا کرتے تھے عورتیں پچھلی صف میں نماز پڑھتی تھیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فر ما یا تم سجدہ سے اُس وقت سر اٹھایا کرو جب مرد اُٹھ جایا کریں حالانکہ اصولی طور پر یہ حکم ہے کہ امام کے ساتھ مقندی سجدے سے اُٹھے لیکن عورتوں کو اس کے خلاف یہ حکم دیا کہ تم دیر سے سجدہ سے سر اُٹھاؤ دوسری طرف مردوں کو یہ نہیں کہا کہ تمہیں میسر آئیں یا نہ آئیں لمبی دھوتیاں پہنا کرو.اس لئے کہ دین اللہ یسر اسلام کے اندر کوئی سختی نہیں ہے.اسلام انسان کی فراست تیز کرنے کے لئے آیا ہے عقلیں مارنے کے لئے تو اسلام نہیں آیا.پھر ایک ہی صدی کے دوسرے مجدد ہمارے علم میں آگئے اور وہ تھے امیر تیمور جو اپنے زمانے کے بڑے زبردست بادشاہ بھی ہوئے ہیں گو انگریزوں نے تعصب کی وجہ سے ان کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے لیکن وہ بڑا دیندار اور متقی شخص تھا انگریزوں نے تعصب کی بنا پر اُن پر ظلم وتشدد کے الزامات لگائے ہیں حالانکہ انہوں نے کسی جگہ چڑھائی نہیں کی جب تک ان کے مرشد نہیں کہتے تھے کہ فلاں جگہ کا بادشاہ اپنی رعایا پر ظلم کر رہا ہے تم رعایا کو اس کے ظلم سے بچانے کے لئے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۱۲ خطبہ جمعہ ۲۳ /جنوری ۱۹۷۶ء اُس پر حملہ کرو.امیر تیمور کے مرشد بڑے پایہ کے بزرگ تھے.چنانچہ وہ ظلم کو مٹانے کے لئے اور اپنے مرشد کی ہدایت پر دوسرے ملکوں پر حملے کرتے تھے.خیر یہ تو ایک ضمنی بات ہے اصل مسئلہ جو میں اس وقت سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خود امیر تیمور نے لکھا ہے کہ میرے وقت کے تمام علماء نے لکھ کر فتویٰ دیا ہے کہ میں اس زمانے کا مجد دہوں.نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنی تزک تیموری میں ایک اور امیر یا بادشاہ کا نام لیا ہے جو اپنے زمانہ کا مجد دتھا صرف اس بات کی تجدید کی کہ نماز میں درود پڑھنا فرض ہے.دیکھیں انسان کا دماغ کس طرح بہکتا ہے.اس کے زمانہ میں یہ فتویٰ دے دیا گیا کہ نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا حرام ہے حالانکہ ہم ہر التحیات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں مگر انہوں نے یہ فتویٰ دے دیا کہ درود بھیجنا حرام ہے.یہ شخص جسے امیر تیمور نے مجد دکہا ہے اپنے دل میں خدا کا خوف رکھتا تھا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار تھا اس کے دل میں، اس لئے اس نے سوچا علماء نے یہ کیا فتویٰ دے دیا ہے چنانچہ اس نے سارے علماء کو اکٹھا کیا اور کہا میرے ساتھ مناظرہ کرو اور مجھے قائل کر وتب میری مملکت میں تمہارا فتویٰ چلے گا.اس نے مناظرہ کے دوران علماء کو دلائل دے دے کر قائل کیا کہ درود پڑھنا حرام نہیں بلکہ ضروری ہے اور ہر نماز میں ضرور پڑھنا چاہیے چنانچہ امیر تیمور نے لکھا کہ اُن کی صرف یہی تجدید ہے کہ انہوں نے اپنے زمانہ کی اس بدعت کو دور کر دیا اس واسطے وہ اپنے زمانہ کا مجد د ہے.پس مجدد، مجدد میں فرق ہے کوئی ایک صدی کا مجدد ہوتا ہے کوئی اپنے وقت کا مجدّد ہوتا ہے.ہر صدی کے مجد دین اپنے اپنے علاقے کے مجدد ہوتے رہے ہیں اور یہ بات بڑی نمایاں ہے.ہم نے کئی دفعہ سمجھایا ہے ہم سے دور جانے والے لاہور میں بسنے والے غیر مبائعین احمدیوں کو کہ تم کسی ایک مجدد کی مثال دو جس نے اپنے ملک سے باہر مشن کھولے ہوں.اسلام کی اشاعت یا مسلمانوں کی اصلاح یا بدعات کو دور کرنے کی اندرونی جنگ کے لئے عالمگیر جہاد کیا ہو.کسی ایک مجد د نے یہ کام نہیں کیا صرف ایک شخص نے کیا جو مہدی معہود ہے.اسی واسطے شیعوں کی حدیث میں ہے وہ اگر چہ مہدی کو قائم منتظر مانتے ہیں لیکن اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ مہدی علیہ السلام کا
خطبات ناصر جلد ششم ۳۱۳ خطبہ جمعہ ۲۳ جنوری ۱۹۷۶ء مقام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جتنے نبی ہوئے ہیں ان سے بلند اور ارفع ہے اور وہ اس کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ مہدی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل کامل ہیں لیکن آپ سے پہلا کوئی نبی ظل کامل نہیں ہے.ہم احمدیوں کے نزدیک وہ بھی ظل کے طور پر ہیں کیونکہ اصل شریعت ،شریعت محمد یہ ہے جسے قرآن کریم نے الکتاب کہا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے اوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الكتب (ال عمران : (۲۴) گویا پہلے انبیاء کو قرآن کریم کی شریعت کا ایک حصہ دیا گیا تھا لیکن مہدی علیہ السلام کو سارے قرآن کی سمجھ اور فہم عطا کیا گیا ہے اور ساری دنیا کی اصلاح اس کے پر نظر ہے.پس یہ مقام ہے مہدی معہود علیہ السلام کا.تم اس مقام کو پہچانو اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنوور نہ آدھے ادھر اور آدھے اُدھر، اس کا تو کوئی فائدہ نہیں پھر تو خدا تعالیٰ بھی ناراض اور دنیا بھی ناراض.یہ تو میرے نزدیک کوئی مزے کی زندگی نہیں.خدا تعالیٰ کا فضل ہے جماعت کی تو کوئی مثال ہی نہیں ہے.ان کی قیمت کے لحاظ سے اگر کوئی یہ کہے کہ ایک احمدی کی قیمت کسی قیمتی ہیرے اتنی ہے تو میں کہوں گا غلط ہے.میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ قیمت ہے لیکن شیطان بھی ساتھ لگا ہوا ہے نفس کی کمزوریاں بھی ہیں اس واسطے تم اپنا محاسبہ کر کے اپنی اصلاح کی طرف توجہ کیا کرو کیونکہ اب تو یہ بڑا نازک دور ہے جس میں ہم داخل ہو چکے ہیں.میں نے کئی دفعہ کہا ہے اور یہ کہتے کہتے کبھی نہیں تھکوں گا کہ ایک بڑے نازک دور میں ہم داخل ہو چکے ہیں.اگلے ۲۰،۱۵ سال کے عرصہ میں پتہ نہیں اللہ تعالیٰ ہم سے کتنی قربانیاں لینا چاہتا ہے ہمیں یہ قربانیاں بشاشت کے ساتھ دے دینی چاہئیں.آخر ۱۹۷۴ء کا سال قربانیوں کا سال تھا نا.اُس وقت یوں لگتا تھا کہ پتہ نہیں کیا ہو گیا لیکن ہم شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے اور کہیں سے کہیں پہنچ گئے.اس شاہراہ پر ۱۹۷۴ء کا کوئی نشان مجھے نظر نہیں آ رہا.سارے نشانات ختم ہو گئے.خدا تعالیٰ نے جماعت پر بڑا فضل فرمایا جتنی کسی نے بشاشت کے ساتھ قربانی دی اتنی ہی جلدی خدا نے اس پر زیادہ فضل فرمایا اور اس کے گھر کو بھر دیا حالانکہ مکان اور دوسری جائیداد میں لوٹی اور جلائی گئی تھیں اور بڑا ظلم ہوا تھا.میں اُن دنوں ہفتوں سویا نہیں یہ ایک حقیقت ہے لیکن وہ نشان مٹ گئے.
خطبات ناصر جلد ششم ۳۱۴ خطبہ جمعہ ۲۳ /جنوری ۱۹۷۶ء میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے ان دنوں ہمارے دو نو جوان مبلغوں کو بس میں اتنا پیٹا گیا کہ ان کے منہ سوجھ گئے اور گردنیں اکٹر گئیں.سو جھے ہوئے منہ اور گردنیں لے کر وہ میرے پاس آگئے اور کہنے لگے کہ دس میل کے سفر کے دوران ساری بس نے ہمیں مارا ہے.میں دیکھ کر ہنس پڑا.میرا فرض یہ تھا میں نے ان سے کہا میں تمہیں ایک بات بتا تا ہوں.تمہارے منہ اور گردن کا یہ ورم ۴۸ گھنٹے کے اندر اندر ختم ہو جائے گا اس لئے فکر نہ کرو چنانچہ وہ خوش خوش واپس چلے گئے اور ٹھیک ۴۸ گھنٹے کے بعد دفتر والوں نے مجھے اطلاع دی کہ ان میں سے ایک ملنا چاہتا ہے میں سمجھ گیا کہ کیوں؟ میں نے کہا بھیج دو جب وہ میرے پاس آیا تو کہنے لگا میں آپ کو اپنی گردن دکھانے کے لئے آیا ہوں کہ ۴۸ گھنٹے کے اندراندر ورم کا نام ونشان نہیں رہا.پس ایک تو ہمیں اپنے فرائض کا علم ہونا چاہیے دوسرے ان فرائض کو ہم تبھی ادا کر سکتے ہیں ب ہمیں پختہ یقین ہو کہ مہدی علیہ السلام کا یہ مقام ہے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزد یک.اس مقام کو پہچاننے کے بعد نوع انسانی کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے.ہم کسی کے دشمن نہیں اور نہ کسی کا سر کاٹنا چاہتے ہیں ہم تو کسی کو ایک کا نا بھی نہیں چھونا چاہتے لیکن ہم اُن کو اس گڑھے سے بچانا چاہتے ہیں جس کے اندر آگ جل رہی ہے اور وہ اس کے کنارے کھڑے ہیں.ہماری یہ کیفیت ہے ہمارے دل میں ان کے لئے غصہ نہیں بلکہ رحم ہے.رحم بھی ہلکی چیز ہے ہمارے دل میں لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلَا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: ۴) والی کیفیت ہے اور یہ رحم کی کیفیت سے زیادہ شدت اپنے اندر رکھتی ہے اس لئے تم اپنے اندر یہ کیفیت پیدا کرو اور خدا کے حضور بہت دعائیں کرو کہ وہ تمہیں صراط مستقیم پر قائم رکھے اور جس مقصد کے لئے مہدی علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا ہے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے آپ کی زندگیاں عملاً وقف رہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ششم ۳۱۵ خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۷۶ء خدا سے ایسی محبت پیدا کرو کہ کوئی اور ہستی قابل توجہ نہ رہے خطبه جمعه فرموده ۳۰/جنوری ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے:.عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں جیسا کہ اخبار پڑھنے والے جانتے ہیں آج کل جماعت کے خلاف پھر بہت شور مچایا جارہا ہے یہ شور ہماری سمجھ اور عقل سے تو نیچے ہے.کہتے ہیں کہ احمدی لا إِلهَ إِلَّا اللہ کیوں کہتے ہیں یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ احمدی مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کیوں کہتے ہیں، ہم پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم قرآن عظیم کو آخری شریعت کیوں کہتے ہیں.اسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں یہ بھی شور مچایا جا رہا ہے کہ احمدی اذان کیوں دیتے ہیں خدا کے نام کو کیوں بلند کرتے ہیں.ہم ایک ہی راہ اختیار کر سکتے ہیں اور وہ وہ راہ ہے جو ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند اور خادم مہدی علیہ السلام نے اختیار کی اور جس کی طرف ہمیں متوجہ کیا اور وہ راہ یہ ہے کہ اس شور و غوغا کے زمانہ میں ایک احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے پیار کی چادر میں غائب ہو جائے اور اس کا کوئی وجود نہ رہے وہ گویا ایک رنگ میں
خطبات ناصر جلد ششم ٣١٦ خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۷۶ء تمثیلی زبان میں دنیا کی نگاہ سے اوجھل ہو جاتا ہے.نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں جب ہم غور کرتے ہیں تو آپ کا یہ بیان اور آپ کا یہ کہنا کہ ایسے وقت میں ہم یارنہاں میں نہاں ہو جاتے ہیں قرآن کریم کی بعض آیات کی تفسیر ہی میں ہے.ہمیں قرآن عظیم نے دعا کی طرف توجہ دلائی، دعا کا حکم دیا، دعا کی حکمتیں بیان کیں.اسلامی تعلیم نے دعا میں شغف پیدا کرنے کی کوشش کی اور ایک مومن کو ہر وقت دعا کرنے کا عادی بنا دیا.یہ مقام بڑا عظیم مقام ہے کہ دوسروں پر غصہ نہیں کرنا اور دوسروں کو ایسا جواب نہیں دینا جس سے فتنہ پیدا ہو بلکہ ایسے اوقات میں ” نہاں ہم ہو گئے یا ر نہاں میں“ پر عمل کرتے ہوئے انتہائی کوشش کر کے خدا تعالیٰ کی رحمت اور پیار کی چادر میں نہاں ہونا ہے.اس کے لئے ہمیں دعا سکھائی ہے اس لئے کہ دعا کے بغیر نہ اللہ انسان کا ولی بنتا ہے اور نہ انسان ہی اولیاء اللہ میں شامل ہو سکتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ (البقرة: ۲۵۸) اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :.الا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (يونس: ٦٣ ) خدا تعالیٰ کا ولی بن جانا یہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا پیار ہے.انسان تو کمزور ہے خدا کا فضل اور اس کی رحمت ہی ایسا کر سکتی ہے اور انسان کا ہر دوسری چیز سے انقطاع کر کے محض اللہ کے لئے ہو جانا یہ بڑی بات ہے.اس کے لئے بڑی قربانی اور بڑے ایثار کی ضرورت ہے.اس کے لئے بڑی فدائیت ، اس کے لئے اپنے نفس کو مٹا دینے اور اس کے لئے سب کچھ چھوڑ کر اُسی کو سب کچھ سمجھ لینے کی ضرورت ہے اور پھر اس کے لئے ، اس انقطاع کے لئے ، اس نہاں ہو جانے کے لئے معرفت کی ضرورت ہے اور دعا کے بغیر انسان کو معرفت حاصل نہیں ہوتی یہ ہمیں قرآن کریم نے بتایا ہے.جب انسان ابتہال کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھکتا اور اس سے دعائیں کرتا ہے تو ان دعاؤں کے نتیجہ میں اس کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کاملہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے تب اس معرفت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور
خطبات ناصر جلد ششم ۳۱۷ خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۷۶ء جس وقت یہ محبت اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو پھر خدا ہی خدا اور اللہ ہی اللہ اس کے سامنے ہوتا ہے ہر دوسری چیز اس کی نظر سے غائب ہو جاتی ہے اور وہ حقیقی طور پر خدا تعالیٰ میں نہاں ہو جاتا ہے.پس تم اس شور و فغاں کے زمانہ میں دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رحمت میں نہاں ہونے کی کوشش کرو اور دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھ کر اپنی زندگیوں میں ایک زندہ معرفت کو حاصل کرو اور جب اور اگر اللہ تعالیٰ کی ولایت حاصل ہو جائے ، اگر تم اس کی نگاہ میں اولیاء اللہ میں شامل ہو جاؤ تو پھر یہ شور وشر بے نتیجہ اور بے اثر ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے پیار کے سامنے غیر اللہ کی دشمنی کوئی معنی نہیں رکھتی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.وہ ہمیں دعا کی توفیق دے اور دعا کے نتیجہ میں وہ اپنے فضل سے معرفت عطا کرے.اس معرفت سے وہ محبت پیدا ہو جو اس کے نیک بندوں میں اس کے لئے پیدا ہوتی ہے اور وہ ایسی محبت ہو کہ سوائے اللہ کے اور کوئی ہستی ہمارے لئے قابل توجہ نہ رہے.اللہ ہی اللہ ہو ، مولا بس اور جب مولا بس ہو تو پھر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی.ان دنوں دوست بہت دعائیں کریں اپنے لئے معرفت کے حصول کے لئے بھی دعائیں کریں اور جس غرض کے لئے آپ کو پیدا کیا گیا ہے اس کے حصول کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ حقیقی اسلام کو ساری دنیا میں قائم کرے اور خدا تعالیٰ کے وہ وعدے جو اس زمانہ کے متعلق ہیں وہ پورے ہوں کہ مہدی علیہ السلام کی جماعت کے ذریعہ خدا تعالیٰ اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے گا اور نوع انسانی خدا تعالیٰ کے پیار میں غرق ہو کر سب کے سب اسی میں نہاں ہو جائیں گے اور شیطان کو اور شیطانی حربوں کو اور شیطانی تدا بیر کو ایسے لوگ نہیں ملیں گے جن پر وہ کامیابی سے وار کر سکتا ہو.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دنیا کی ہدایت کے سامان پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی ہدایت کے لئے ایک نمونہ بننے کی توفیق عطا کرے کیونکہ اس کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.روزنامه الفضل ربوہ ۷ رفروری ۱۹۷۶ء صفحہ ۲، ۳)
خطبات ناصر جلد ششم ۳۱۹ خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۷۶ء احمدی کا کام ہر دوسرے شخص کے مقابلہ میں نمایاں طور پر ممتاز اور اچھا ہوتا ہے خطبه جمعه فرموده ۶ فروری ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حکومت کی طرف سے قوم کی بہبود کے لئے جو کام کئے جاتے ہیں اور جن میں عوام کو بھی حصہ لینا چاہیے ان میں درخت لگانے کا کام بھی ہے جو حکومت کے اعلان کے مطابق آج سے شروع ہو رہا ہے بلکہ صبح سے شروع ہو چکا ہے ایسے کاموں میں افراد جماعت احمدیہ کو دوسروں کی نسبت زیادہ ذوق اور شوق سے حصہ لینا چاہیے تا کہ ہمارا ملک ہر لحاظ سے ترقی کرے اور اس کے لئے خوشحالی کے سامان پیدا ہوں.درختوں کے بہت سے فوائد ہیں.ہم اپنے گھروں میں جو درخت لگاتے ہیں ان کا ہمیں ذاتی طور پر اور خاندانی طور پر فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے درختوں کے ذمہ ایک یہ کام بھی لگایا ہوا ہے کہ جو ہوا سانس لیتے ہوئے ہمارے پھیپھڑوں میں جاتی ہے درخت اس کو صاف بھی کرتے ہیں اور آکسیجن جو ہمارے لئے ہوا کا بہت مفید حصہ ہے درختوں کی وجہ سے وہ فضا میں زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہے.پھر درختوں کے نتیجہ میں زمینوں کی پیداوار بڑھ جاتی ہے جس علاقے میں بہت سے درختوں پر مشتمل جنگلات ہوں وہاں کی فضا پر درخت اثر انداز ہوتے ہیں
خطبات ناصر جلد ششم ۳۲۰ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۶ء اس رنگ میں کہ وہاں کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں اگر ہم محنت کر کے اور حکومت کی انتظامیہ کے تعاون کے ساتھ ربوہ کی پہاڑیوں کو درختوں کے ساتھ ڈھانک دیں تو یہاں گرمیوں کے موسم میں بڑا فرق پڑ جائے اور نسبتا ٹھنڈ ہو جائے.زمیندار جو درخت لگاتے ہیں ان کو مالی لحاظ سے بہت فائدہ پہنچتا ہے لیکن ہمارے ملک میں جو درخت کھیت میں خود ہی غلط جگہ اُگ آتے ہیں زمیندار ان کو کاٹتا نہیں اور جس جگہ درخت لگانا چاہیے وہاں درخت لگانے کی طرف توجہ نہیں کرتا.میں باہر جاتا رہتا ہوں میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک کھیت میں ۵-۱۰ جگہ کیکر یا ٹالی وغیرہ کے درخت اُگے ہوئے ہیں جانور اُن کی گٹھلی یا بیج پھینک دیتے ہیں اور وہ کھیت کے عین بیچ میں اُگے ہوتے ہیں اور ایک عجیب تماشا سا بنا ہوتا ہے ان کا ہل چلانے پر اثر پڑتا ہے، گندم اور دوسری فصل پر اثر پڑتا ہے زمیندار وہاں سے اُن کو اُکھاڑتا نہیں.اُس کے لئے مصیبت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے درخت کیوں لگائے؟ وہ کہتا ہے جب جانوروں نے تھوڑی سی غلط جگہ میرا کام کر دیا ہے تو ٹھیک ہے جانوروں کا شکریہ، میں ان کو نہیں اکھاڑوں گا اور یہ عمل صالح نہیں ہے عمل صالح موقع اور محل کے مطابق کام کرنے کو کہا جاتا ہے.اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اعمالِ صالحہ کی جزا ہے صرف اچھے اعمال کی نہیں.بہت سے عمل جو ویسے اپنے نفس میں اچھے ہوتے ہیں اگر وہ بے موقع اور بے محل اور بے وقت کئے جائیں تو وہ اچھے نہیں رہتے مثلاً نماز ہے قرآن کریم میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں صلوۃ یعنی نماز با جماعت پر بڑا زور دیا گیا ہے.ہمارے سامنے نماز کے فرائض رکھے پھر جن کو ہم سنتیں کہتے ہیں وہ رکھیں.پھر نوافل ہیں جن لوگوں کو خدا توفیق دے یا جب ضرورت پڑے وہ مختلف اوقات میں نفل نماز پڑھتے ہیں.نماز فی نفسم بڑی اچھی چیز ہے انسان کو نیکیوں کی طرف لے جانے اور بدیوں سے روکنے والی ہے لیکن بعض مقامات کے متعلق کہہ دیا کہ تم یہاں نماز نہیں پڑھو گے مثلاً حکم دیا کہ تم مقبروں میں نماز نہیں پڑھو گے.بعض اوقات کے متعلق حکم دیا کہ ان اوقات میں نماز نہیں پڑھو گے مثلاً جس وقت سورج طلوع ہورہا ہو یا غروب ہو رہا ہو اس وقت نماز پڑھنے سے منع کر دیا یا مثلاً جس وقت انسان کسی بیماری کی تکلیف کی وجہ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۲۱ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۶ء سے حواس باختہ ہو.وہ اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو تو اس وقت نماز پڑھنے سے منع کر دیا کہ اس حالت میں کوئی شخص نماز نہ پڑھے کیونکہ وقت اور موقع اور محل کے لحاظ سے نیک عمل ہی کو عملِ صالح کہتے ہیں گویا ہر نیک کام کے لئے وقت اور جگہ کا مناسب حال ہونا بھی ضروری ہے تب وہ عمل عملِ صالح بنتا ہے.پس جو درخت جانور لگا جاتے ہیں اور ایسے جانوروں میں مثلاً طوطا ہے وہ کوئی چیز لے آتا ہے اور اس کی گٹھلی گر جاتی ہے یا ہوائیں درختوں کے پیچ اڑا کر لے آتی ہیں اور اس سے درخت اگ آتے ہیں تو یہ تو انسان کا عمل ہی نہیں ہے اور جہاں وہ درخت آگ آیا وہ اس کا محل ہی نہیں.اس لئے ایک تو ہمارے احمدی زمینداروں یا زمین کے مالکوں کو چاہیے کہ جو بے موقع درخت اُگ آئیں ان کو کاٹ دیں لیکن اس کے ساتھ اُن کو یہ بھی کرنا چاہیے کہ اگر بے موقع اُگنے والے دس درخت کاٹیں تو اس کے مقابلہ میں وہ خود اپنے ہاتھوں سے موقع اور محل کے مطابق سو درخت لگا دیں.اس سے صرف اس زمیندار ہی کو مالی فائدہ نہیں پہنچتا جو درخت لگا تا ہے بلکہ ساری قوم کو فائدہ ہوتا ہے.دنیا میں ایسی قومیں بھی ہیں جن کی ساری ملکی دولت کے ایک بہت بڑے حصہ یا بڑی فیصد کا انحصار جنگلات پر ہوتا ہے مثلاً سویڈن ہے وہ جنگلوں سے بھرا ہوا ہے.انگلستان اپنا فرنیچر سویڈن سے منگواتا ہے سویڈن والے فرنیچر بنا کرا یکسپورٹ کرتے ہیں.پس انسان کو ہمیشہ درخت کی ضرورت رہی ہے اور رہے گی.ابھی چند ہفتے ہوئے کسی بین الاقوامی تنظیم کی طرف سے یہ اعلان ہوا تھا کہ ساری دنیا میں درختوں کی کمی ہو رہی ہے اور اگر انسان نے اس طرف توجہ نہ کی تو ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد ساری دنیا میں درختوں کی کمی ہو جائے اور انسان کو تکلیف اٹھانی پڑے لیکن ہم احمدیوں کو اس طرح درخت نہیں لگانے چاہئیں جس طرح پچھلے ۲۷ سال سے پاکستان میں درخت لگ رہے ہیں.ہر سال با قاعدہ سکیم کے ما تحت گورنر اور صدر، چیف منسٹر اور پرائم منسٹر صاحبان جو گزرے ہیں انہوں نے درخت لگائے اور ان کی تصویریں اخباروں میں چھپیں.آج بھی اخبار میں تھا کہ ہمارے گورنر صاحب فلاں جگہ اور چیف منسٹر صاحب فلاں جگہ درخت لگائیں گے.پس درخت تو لگتے چلے آرہے ہیں اور شاید
خطبات ناصر جلد ششم ۳۲۲ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۶ء کروڑوں درخت لگے ہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ شروع میں ہر سال پاکستان کے درختوں کی مجموعی تعداد میں کمی واقع ہوتی رہی ہے.اب پچھلے دو چار سالوں میں شاید کچھ سنبھالا ہولیکن شروع میں تو یہ حال تھا کہ ہر سال کروڑوں درخت لگانے کے باوجود پہلے سے کم درخت پاکستان میں موجود تھے کیونکہ جو درخت لگائے گئے ان کو ضائع کر دیا ان کو پالا نہیں اور جو پلے ہوئے تھے ان کو کاٹ کر استعمال کر لیا کیونکہ درخت بہر حال استعمال ہونے والی چیز ہیں اور وہ اسی کام کے لئے لگائے جاتے ہیں.میں ربوہ میں کئی سال سے درخت لگانے کی تحریک کر رہا ہوں اس کا کچھ تو فائدہ ہوا ہے.ایسی بہت سی جگہوں پر اب درخت نظر آتے ہیں جہاں پہلے کوئی درخت نہیں تھا لیکن جو میں چاہتا ہوں کہ ہر طرف درخت ہوں اور بڑی صحت مند ہوا ہو جس میں ہم سانس لے رہے ہوں وہ کیفیت ابھی تک پیدا نہیں ہو سکی.درخت تو ہر قسم کے لگانے چاہئیں پھلدار بھی اور لکڑی کے لئے سایہ دار بھی.ہر قسم کا درخت ہماری خدمت پر مامور ہے.ہوا کو صاف کرنے کے لئے بھی اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اور بہت سی خدمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے درخت کے سپرد کی گئی ہیں.ربوہ میں درخت لگانے کا کام خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا گیا تھا اور غالباً انصار اللہ کے بھی، اگر پہلے نہیں کیا تھا تو آج میں انصار اللہ کے سپر د بھی کر دیتا ہوں.علاوہ ازیں ہماری مقامی تنظیم ہے وہ بھی ذمہ دار ہے.سب مل کر کوشش کریں کہ محلوں میں کوئی جگہ جہاں درخت لگ سکتا ہے اس کو بہر حال خالی نہ چھوڑیں اور اگر درختوں کو ٹھیک طرح پالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ درخت بڑھنے نہ لگ جائیں.تاہم بعض ایسے درخت ہیں جو بڑے صبر آزما ہوتے ہیں مثلاً بڑ کا درخت ہے جو پندرہ بیس سال کے بعد بھی ایسا نہیں ہوتا جس کا سایہ ٹھیک طرح انسان کے کام آسکے گو یہ ایک بڑی عمر پانے والا درخت ہے لیکن بہت آہستہ آہستہ بلوغت کو پہنچتا ہے اس کے مقابلے میں بعض ایسے درخت بھی ہیں جن کی بہت جلدی نشو و نما ہوتی ہے وہ بہت جلد قد نکالتے اور پھیل جاتے ہیں ان میں سے ایک شہوت ہے جو بڑا پھل دیتا ہے اور اس کا پھل بھی بڑا اچھا ہوتا ہے اگر کوئی شخص شہتوت کا ایک درخت لگا دے تو موسم میں اس کا پھل بھی مل جائے گا بلکہ ہمسائے اور محلے کے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۲۳ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۶ء بچے بھی کھا ئیں گے اور بڑا مزا آئے گا پھر پوپلر (Popoer) کا درخت ہے.دیر ہوئی یہاں ربوہ میں پوپلر کے درخت لگائے گئے تھے لیکن ہم ان کو پال نہیں سکے تھے میں یہ درخت لگانے والوں میں سے نہیں تھا مجھے نہیں علم کہ ہمارا قصور تھا یا اس درخت کو یہاں کی زمین موافق نہیں آئی تھی.ہم نے احمد نگر میں اپنی زمینوں میں پوپلر کے درخت لگائے تھے وہاں کی زمین اتنی موافق آئی کہ ابھی دو سال کے نہیں ہوئے کہ ان کا قد میں پچیس فٹ اونچا ہو گیا ہے اور کافی موٹے ہو گئے ہیں.سردیوں میں پت جھڑ کرتے ہیں گرمیوں میں ان کا بڑا اچھا سا یہ ہوتا ہے اور بڑے خوبصورت لگتے ہیں.تین چار سال کے بعد ان کی لکڑی بھی کام کی ہو جائے گی دس سال کے بعد تو وہ پوری طرح Mature ہو جائیں گے یعنی ان کی لکڑی کچی نہیں رہے گی بلکہ پختہ اور پوری طرح کا رآمد بن جائے گی.پس ایک تو میں سارے احمدیوں کو کہتا ہوں کہ جس حد تک ممکن ہو وہ درخت لگائیں اور کسی منصوبہ کے ماتحت لگا ئیں.ملک بھی اور قوم بھی یہی چاہتی ہے.قوم کا قوم سے مطالبہ ہے کیونکہ حکومت قوم کی نمائندہ ہے اس کی اپنی تو کوئی طاقت نہیں ہوتی اس لئے جب قوم یہ کہتی ہے کہ ہمیں درخت لگانے چاہئیں تو قوم کو درخت لگانے کی طرف توجہ کرنی چاہیے آخر اسے اپنا حکم تو ماننا چاہیے.دوسرے احمدی کا مقام ایسا ہے کہ اس کا کام دوسروں کے مقابلہ میں نمایاں طور پر اچھا ہوتا ہے یہ خدا کا فضل ہے الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحة:۲).پس دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نتیجہ میں جماعت کے لئے جو امتیاز اور فرقان پیدا کیا گیا ہے اور حسن عمل ہر احمدی کا طرہ امتیاز ہے وہ ہر معاملہ میں قائم رہے.ہمارے ہر کام میں ایک حسن پیدا ہونا چاہیے اور ہمارے نزدیک حسن اور نور ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور نو رسوائے اللہ تعالیٰ کے فضل کے اور کہیں سے ملتا نہیں.اس لئے دوست دعائیں کرتے ہوئے اگر ان کا موں کو بھی نیک نیتی کے ساتھ کریں گے تو ان کو درخت بھی ملیں گے اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا پیار بھی ملے گا کیونکہ الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ اعمال کا تعلق نیتوں پر ہے اگر یہ نہ ہوتا کہ دنیوی حسنات ہمارے لئے أخر وى حسنات کے سامان پیدا کرتیں تو دنیوی حسنات سے ہمیں روک دیا جا تا لیکن اسلام نے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۲۴ خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۷۶ ء محض اُخروی حسنات کے لئے دعا نہیں سکھائی بلکہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ : ۲۰۲) کی دعا سکھائی ہے گویا دنیا کی حسنات ذریعہ بنتی ہیں اُخروی حسنات کے حصول کا اور جس کو اُخروی حسنات یعنی روحانی حسنات مل جائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی قہر کی آگ سے بچائے جاتے ہیں.پس شجر کاری کا موسم شروع ہو گیا.حکومت کی طرف سے بھی اعلان ہو چکا ہے اور قوم کی بھلائی کے لئے یہ منصوبہ ہے ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے زیادہ قوم کا درد ہمارے دل میں ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں حسن عمل کی توفیق عطا فرمائی ہے اس لئے میں احباب جماعت سے یہ کہتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو وہ درخت لگائیں اور پھر ان کو پالیں.میں ربوہ کی مثال لیتا ہوں ربوہ والوں کو سمجھانے کے لئے کیونکہ اس وقت براہ راست وہی میرے مخاطب ہیں.درخت لگاتے وقت دوست اس بات کو یا درکھیں کہ ایسا نہ ہور بوہ کا ایک حصہ درخت لگائے اور دوسرا حصہ صبح و شام بکریاں لا کر ان درختوں کو چروا دے.بکری کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ انسان کو نقصان پہنچائے جس آدمی نے بکری رکھنی ہے وہ اس کے چارے کا ایسا انتظام کرے کہ اجتماعی فوائد کو نقصان نہ پہنچنے پائے.میں نے کچھ درختوں کی پنیری لگوائی تھی.ہمارے پاس سے بھی درختوں کی قلمیں مل جائیں گی میرا چھوٹا بیٹا لقمان احمد زمینوں پر کام کرتا ہے میں نے آج ہی اس کو کہا ہے ربوہ کے منتظمین سے کہو درختوں کی بہت سی قلمیں دستیاب ہیں وہ لے لیں اور محلوں میں تقسیم کر کے لگوادیں.دوست گھروں میں بھی درخت لگائیں.اس کے لئے اگر تھوڑا سا زیادہ پیسہ خرچ کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں اور پھر محنت اور توجہ سے درختوں کی پرورش کریں اور فائدہ اٹھائیں.یہاں ہماری جونرسری یا پنیری کی جگہیں ہیں جہاں درختوں کے پودے فروخت ہوتے ہیں ان کا معیار بڑا گھٹیا ہے.ایک تو ایک فٹ کا پودا دے دیتے ہیں اس کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے چار پانچ سال لگ جاتے ہیں دوسرے اس بات کی ضمانت نہیں ہوتی کہ درخت بڑا ہو کر اچھا پھل بھی دے گا یا نہیں مثلاً آپ نے مالٹا لگایا اور چھ سال تک پرورش کرنے کے بعد جب اس کو پھل لگے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۲۵ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۶ء تو اتنا کھٹا ہو گا کہ الامان ، اور پتہ لگے گا کہ جس نے درخت دیا اس نے آپ کو دیانتداری کے ساتھ اچھی قسم کا درخت نہیں دیا.اس وقت دنیا میں درختوں کا علم اور تجربہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ ایسی عمر کے درخت مل جاتے ہیں خصوصاً پت جھڑ کرنے والے جن کو لگانے کے بعد پہلے سال ہی پھل لگ جا تا ہے مثلاً انگلستان کی نرسری چار سال کی عمر کا درخت دے گی اور ساتھ سرٹیفکیٹ ہوگا کہ یہ چار سال کا درخت ہے اور اچھا خاصا بڑا ہوتا ہے اور پہلے سال یعنی اپنی عمر کے لحاظ سے پانچویں سال اس کو پھل لگ جاتا ہے گو اس کے لئے زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں لیکن پھل کھانے کے لئے زیادہ صبر نہیں کرنا پڑتا.امریکہ اس سے بھی آگے نکل گیا ہے یورپ اور انگلستان کے لوگ امریکہ سے آگے نہیں نکلے لیکن ہم تو ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچے کیونکہ یہاں تو چھوٹے چھوٹے پودے ملتے ہیں ان کو پالنا مشکل ہوتا ہے پھر ان کے پھل کا کئی سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے.بڑی محنت کرنی پڑتی ہے بعض کمزور ہوتے ہیں وہ مرجاتے ہیں.آج کی دنیا نے اگر چہ درختوں کے بارہ میں بڑی ترقی کی ہے لیکن وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ مسلمانوں سے آگے نکل گئے ہیں.سپین میں جب اسلام ترقی پر تھا اور مسلمانوں کو نور فراست حاصل تھا تو انہوں نے باغبانی میں اتنی ترقی کی اور بہت سے ایسے کام کئے کہ اگر چہ دنیا ان سے سبق سیکھنا بھول گئی لیکن وہ آج بھی حیرت انگیز ہیں.مثلاً انہوں نے بادام یا آلوچہ وغیرہ میں سے کسی ایک پر گلاب کا کامیاب پیوند کیا چنانچہ ان کے باغات میں گلاب کے درخت پائے جاتے تھے.ہمارے یہاں تو گلاب کے چھوٹے چھوٹے پودے ہوتے ہیں یا بیل اور یہ بھی وہ چیز نہیں لیکن وہاں موٹے موٹے تنوں والے گلاب کے پھولوں سے بھرے، لدے درخت ہوتے تھے.اسی طرح انہوں نے پیوند کیا بڑے کامیاب طریقے سے اور بڑے اچھے پھل نکالے.ہندوستان میں ہمارے مغل بادشاہوں نے آم کا درخت لگوایا.اس کی پت جھڑ نہیں ہوتی اس لئے اس کے لگانے میں یہ آسانی نہیں ہوتی کہ جنوری فروری میں جب یہ درخت سویا ہوا ہو تو ایک جگہ سے اُکھاڑ کر اور اس کی جڑوں سے مٹی وغیرہ جھاڑ کر دوسری جگہ لگا دیا جائے اور مہینے کے بعد وہاں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے اور اس کے شگوفے نکل آئیں.آم کا درخت ایسا درخت نہیں ہے اس
خطبات ناصر جلد ششم ۳۲۶ خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۷۶ ء کا بڑی عمر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا اور وہاں اسے کامیابی کے ساتھ لگانا بہت مشکل ہے لیکن مسلمان بادشاہوں نے ہندوستان میں یہ کام بھی کیا اور بڑی کامیابی سے کیا.وہ بڑے بڑے آموں کے درختوں کا باغ (پھل دینے والا ) ایک سال میں تیار کروا دیتے تھے.بادشاہ باغات کے انچارج کو حکم دیتا تھا میں مہم پر جا رہا ہوں فلاں جگہ بڑی اچھی ہے اس میں چشمہ ہے سال کے بعد جب میں واپس آؤں تو وہاں آم کا باغ ہو حالانکہ پہلے وہاں کوئی باغ نہیں ہوتا تھا چنانچہ سال کے بعد جب بادشاہ واپس آتا تھا تو وہاں پھلدار درخت لگے ہوتے تھے بہر حال یہ تو بھولی ہوئی چیزیں ہیں آہستہ آہستہ یاد آئیں گی.ہمیں یہاں بھی پھلدار درخت لگانے کی کوشش کرنی چاہیے مجھے شوق ہے.میں نے پچھلے سال ایک دوست سے کہا کہ وہ مجھے بڑی عمر کے درخت لا کر دیں انہوں نے شہتوت کے دو بڑے بڑے درخت بھجوائے شاید تین سال کے ہوں گے اور پہلے سال ہی ان کو پھل آ گیا اس سال امید ہے پورا پھل آ جائے گا اس طرح میں نے چیری کے دو درخت منگوائے تھے جن کی عمر اڑھائی اور تین سال کی تھی.ایک تو راستہ میں خراب ہو گیا ایک شاید چل پڑے لیکن یہ بھی کم ہے چیری کا درخت سرد علاقوں میں مثلاً کوئٹہ میں ہوتا ہے وہیں سے میں نے منگوایا ہے ویسے ایبٹ آباد میں بھی ہوتا ہے اگر چار سال کی چیری کا درخت مل جائے تو وہ انتظار نہیں کروائے گا پہلے سال ہی پھل دینے لگ جائے گا اور اس کو پالنا زیادہ آسان ہے.تو جس وقت آپ پہلے سال پھل کھائیں گے تو چونکہ ہم سب ایک ہی فضا میں پلے ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں آپ کے منہ سے بھی میری طرح بے شمار دفعہ الْحَمدُ لِلَّهِ نکلے گا کہ خدائی شان ہے اس نے اتنے سامان پیدا کر دیئے کہ پہلے سال ہی درخت نے ہمیں پھل دیدیا اور اس طرح باغات کی وجہ سے گویا اُخروی جنات کے سامان بھی پیدا ہو گئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے یہ چیزیں تسبیح و تحمید کے سامان پیدا کرتی ہیں اگر انسان کے دل میں ایمان ہو اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کا پیار کا تعلق ہو تو یہی دنیوی حسنات انسان کو اخروی حسنات یعنی روحانی حسنات کی طرف گھسیٹ کر لے جاتی ہیں.پس ربوہ والے بھی اور باہر رہنے والے احمدی خصوصاً وہ جو زمیندار ہیں ان کو درخت لگانے کی
خطبات ناصر جلد ششم ۳۲۷ خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۷۶ ء طرف اور پھر درخت پالنے اور ان کی نگہداشت کی طرف پوری توجہ کرنی چاہیے اور زیادہ سے زیادہ درخت لگا دینے چاہئیں.جو منتظمین ہیں وہ مختلف قسم کے درخت باہر سے بھی منگوائیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ درخت لگانے کا موسم شروع ہو چکا ہے جو پت جھڑ کرنے والے درخت ہیں ان کی قلمیں فروری کے آخر تک بھی لگ سکتی ہیں.میں منتظمین کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے دوستوں کی آسانی کے لئے ایک دو ورقہ شائع کریں جس میں یہ بتایا جائے کہ فلاں درخت لگانے سے پہلے اس قسم کی احتیاط کی جاتی ہے مثلاً اتنا گہرا گڑھا ہونا چاہیے اور اس کو اتنا بھرنا چاہیے یہاں کی مٹی بھی بدل سکتے ہیں یعنی اگر پوپلر نہیں چلا تو اس کے لئے ہم چارفٹ کا گڑھا کھودیں باہر سے بھل لا کر اور کچھ کھاد ڈال کر اور کچھ مقامی مٹی ملا کر پودے لگا ئیں تو امید ہے وہ چل پڑے گا یہاں یوکلپٹس بڑا اچھا ہو جاتا ہے لیکن اتنی جلدی وہ اونچا نہیں ہوتا.گو وہ بھی جلد بڑھنے والا درخت ہے لیکن اتنی جلدی نہیں بڑھتا جتنی جلدی پوپلر یا Willow ( وتو) بڑھتا ہے لیکن وتو کے لئے پانی کی زیادہ ضرورت ہے.پھلدار درختوں میں سے شہتوت بڑا اچھا درخت ہے اس سے بھی اچھی انجیر ہے یہ تو دو سال کی پھل دینے لگ جاتی ہے بلکہ اگر اس کی دو سال کی ٹہنی کی قلم لگاؤ تو ایک دوا نجیر پہلے سال قلم ہی دے جاتی ہے بہر حال دوستوں کو یہ پتہ لگنا چاہیے کہ یہ یہ درخت لگائے جا سکتے ہیں اور اس اس طرح ان کو لگانا چاہیے ان کی قلم یا پودا کہاں سے ملے گا یہ بتانا منتظمین کا کام ہے اور ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے.اور اب جب باغات کا ذکر ہوا تو میں چاہتا ہوں ان کے روحانی پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالوں لیکن اس وقت میں اس کی تمہید مختصراً بیان کر دیتا ہوں ممکن ہے اگلے دو تین خطبات میں یہ مضمون مکمل ہو و باللہ التوفیق.اسلامی تعلیم نے قضاوقدر کا ایک اصولی مسئلہ ہمارے سامنے رکھا ہے کیونکہ تو حید خالص کے لئے اس اصول کو سمجھنا بڑا ضروری تھا لیکن اس میں بھی نا سمجھی کی وجہ سے بہت سی باتیں انسان نے اپنی طرف سے شامل کر لیں اور فائدہ کی بجائے نقصان اٹھایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے قضا و قدر کا مسئلہ توحید خالص کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے اور اسی لئے اسلام نے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۲۸ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۶ء اس کو بیان کیا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں اس وقت اس کی Out Lines( آؤٹ لائنز ) یا اس کی بعض بنیادی باتوں کی طرف مختصراً اشارہ کروں گا.اصل مضمون بعد میں بیان کروں گا ایک تو جب مسلمان کا ہل بن گیا ، کام کرنے کو اس کا دل نہ کیا اور اس نے سمجھ لیا.یہ تقدیر کا مسئلہ یہ سکھاتا ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہو جو کام ہونا ہے وہ آپ ہی ہو جائے گا لیکن یہ کوئی تقدیر نہیں ہے.اسلام نے ہمیں یہ نہیں سکھایا.دوسرے کچھ لوگوں نے جن میں زیادہ تر غیر مذا ہب والے ہیں انہوں نے اسلام پر یہ اعتراض بھی کیا کہ اسلام نے تقدیر یعنی قضا و قدر کا جو مسئلہ پیش کیا ہے اس کا مطلب ہے کہ انسان مجبور ہے.اگر تقدیر ہی نے سب کچھ کرنا ہے تو انسان تو گویا مجبور ہو گیا.وہ تو صاحب اختیار نہ رہا اگر وہ صاحب اختیار نہیں ہے تو جنت کیسی اور دوزخ کیسی.یعنی اللہ تعالیٰ جبراً کام کرواتا ہے اور پھر سزا دیتا ہے یہ تو کوئی معقول بات نہ ہوئی.یہ تو یقیناً معقول بات نہیں ہے لیکن دراصل ایسے معترض کے دماغ میں عقل کی کمی ہے اسلام نے تقدیر یعنی قضا و قدر کا مسئلہ اس رنگ میں نہیں بتایا کہ انسان صاحب اختیار نہ رہے اس ضمن میں اس وقت میرے ذہن میں تین ایسی بنیادی غلطیاں ہیں جو مسلمانوں میں نا سمجھی کے نتیجہ میں پیدا ہو گئیں.چنانچہ ایک وقت میں بڑے بڑے عالم ایسے گذرے جنہوں نے کہا کہ چونکہ ملنا وہی ہے جو مقدر ہے اور جو مقدر نہیں وہ ملنا نہیں تو پھر دعا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں مثلاً سرسید احمد خان صاحب نے یہ مسئلہ پیش کر دیا کہ کیا کرے گی دعا جو چیز مقدر ہی میں نہیں دعا وہ دلوا نہیں سکتی اور جو مقدر ہے اس کے لئے دعا کی ضرورت نہیں.وہ چیز بغیر دعا کے مل جائے گی.انہوں نے ساتھ کوئی اور تو جیہ بھی کی جو ہمارے نزدیک نہ ہمیں قائل کرنے والی ہے اور نہ اسلام کے حسن کو دوبالا کرنے والی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے اس نظریہ کا بڑا زبردست جواب دیا ہے.اس کے علاوہ بھی کئی اور خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن میرے ذہن میں تین آئی ہیں ان کے متعلق اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو تفصیل سے اگلے خطبات میں بیان کروں گا.تقدیر کے اصل مسئلہ پر اسلام نے جس رنگ میں روشنی ڈالی ہے اس رنگ میں آپ اس کو سمجھیں گے تو ترقی کرسکیں گے.
خطبات ناصر جلد ششم ۳۲۹ خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۷۶ ء اسلامی تعلیم نے انسان کو ایک بڑا ہی عجیب اصول بتایا ہے کہ یہ جو ہماری کائنات ہے اس کائنات کی حقیقت قضا و قدر میں مضمر ہے مسئلہ تقدیر اس کی بنیاد ہے اور چونکہ یہ ساری کائنات انسان کی خدمت کے لئے بنائی گئی ہے.انسان اس سے خدمت لے ہی نہیں سکتا جب تک اسے تقدیر کا مسئلہ سمجھ میں نہ آئے میں اس مسئلہ پر انشاء اللہ اگلے خطبات میں تفصیل سے روشنی ڈالوں گا.درختوں کے باغات یا جنگلات سے جَنَّةٌ ( اس کی جمع جنات یعنی باغات ) کی طرف توجہ دلائی جو اس دنیا میں بھی روحانی طور پر ملتی ہے اور اخروی زندگی میں بھی اور وہ تو ہمیشہ کے لئے مل گئی.گویا انسانی زندگی کا اصل مقصد یہ ہے کہ اپنے آپ کے پیار اور اس کی رحمت کو کچھ اس طرح حاصل کر لے کہ اس دنیا میں بھی اس کے لئے جنت کا سامان پیدا ہو جائے اور اخروی زندگی میں بھی انسان کے لئے جنت کا سامان پیدا ہو.نہ اس جہان میں خدا کے قہر کی آگ انسان کو جلا دینے والی اور راکھ کر دینے والی ہو اور نہ اس جہان میں خدا تعالیٰ کے قہر کے جلوے اس طرح ظاہر ہوں کہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق انسان نہ زندوں میں ہے نہ مردوں میں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اس دنیا میں بھی حقیقی زندگی دے اور حقیقی زندگی کے ساتھ جو فضل اور حقیقی زندگی کے ساتھ جو روحانی نعمتیں وابستہ ہیں وہ بھی عطا فرمائے اور پھر وہ نعمتیں ہمیں اخروی زندگی میں بھی نصیب ہوں.روزنامه الفضل ربوه ۱۱ار مئی ۱۹۷۶ ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ششم ٣٣١ خطبہ جمعہ ۱۳ رفروری ۱۹۷۶ء مسئلہ قضا و قدر کے متعلق اسلامی تعلیم کے بعض ابتدائی امور خطبه جمعه فرموده ۱۳ رفروری ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گذشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں قضا و قدر کے متعلق چند خطبات دینے کا ارادہ رکھتا ہوں چنانچہ آج میں بالکل سادہ طریق پر قضا و قدر کے متعلق ابتدائی درس دینا چاہتا ہوں تا کہ بڑے اور چھوٹے ، مردوزن اور ظاہری علوم کے لحاظ سے زیادہ پڑھے ہوئے یا کم پڑھے ہوئے سب دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کروں رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي - وَ يَسِرُ لَى أَمْرِى - وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِى - يَفْقَهُوا قَوْلِي - ( طه : ۲۶ تا ۲۹ ) خدا کرے کہ میں آپ کو سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤں.یہ کارخانہ عالم ، یہ ہماری دنیا اسباب کی دنیا ہے اور ہر چیز کا ایک سبب ہوتا ہے پھر اس کے پیچھے ایک اور سبب پھر اس کے پیچھے ایک اور سبب، اس طرح ایک لمبا سلسلہ چلتا ہے اور ایک حد پر جا کر انسان کا علم ٹھہر جاتا ہے.دوسرے وقت میں یہ ٹھہرا ہوا علم چند قدم اور پیچھے چلتا ہے اور کچھ اور سبب اور مؤثرات معلوم کر لیتا ہے اور انسان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ بھوک لگائی ہوئی ہے ہمارے ملک میں عام طور پر دو یا تین بار بھوک لگنے پرسیری
خطبات ناصر جلد ششم ۳۳۲ خطبہ جمعہ ۱۳ رفروری ۱۹۷۶ء کا سامان کیا جاتا ہے بعض ممالک میں زیادہ بارکھانا کھایا جاتا ہے اور بعض بیماروں کو ڈاکٹر کہتا ہے کہ ہر ڈھائی تین گھنٹے کے بعد کچھ نہ کچھ کھاؤ مگر تھوڑا کھاؤ بہر حال جسم میں ایک کمزوری کا احساس پیدا ہوتا ہے اور کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے.ایک عام آدمی کہتا ہے کہ کھانے سے میرا پیٹ بھر گیا اور کھانے نے میری بھوک دور کر دی یعنی جو آخری سبب تھا وہاں تک اس کی نظر گئی.میں مثال میں بھی بعض مرحلے اور بعض Steps چھوڑ جاؤں گا تا مضمون زیادہ مغلق نہ ہو جائے.بعض دوسرے علاقوں کو دیکھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے عوام بڑے محنت کش ہیں اور ان کی دانشمندانہ محنت نے ہماری قوم کی بھوک دور کر دی ہے مثلاً چین ہے یہ تو وہ خود مانتے ہیں کہ ساری بھوک ابھی دور نہیں ہوئی لیکن تاہم وہ بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں.چین میں کام کرنے والوں کی ایک خاص (چھوٹی اکائی) بریگیڈ ہے جو کہ غالباً دس پندرہ ہزار کی آبادی والے علاقے پر مشتمل ہے اس کو ٹا چاؤ کہتے ہیں ان کے افسر اور عہدیدار بڑے زیرک ہیں.انہوں نے اپنے محنت کشوں کو اس طرح سنبھالا کہ اُنہوں نے اپنی ضرورت سے زیادہ کھانے والے اجناس کی پیداوار کی اور پھر انہوں نے دوسرے علاقوں کو کہا کہ ان کی نقل کرو چنانچہ چین میں وہ کہتے ہیں کہ ہمارے عوام کی محنت نے ہماری بھوک کو دور کر دیا.ایک اور وقت میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ کسی جگہ قحط پڑ گیا اور کچھ عرصہ رہا ( مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے کے قحط کا ذکر قرآن کریم میں بھی آیا ہے ) اور اس کے بعد پھر بارشیں ہوئیں اور قحط کے آثار دور ہو گئے چنانچہ اس علاقے میں اس وقت یہ کہا گیا کہ بارشوں نے ہماری بھوک کو دور کرنے کا سامان پیدا کیا کیونکہ بارشوں نے غلہ اگا یا.ایک اور شخص جس کو زیادہ علم حاصل ہے وہ کہتا ہے کہ ہوا کے دباؤ کچھ اس طرح کی شکلیں اختیار کر گئے کہ جو ہوائیں بادلوں کو لے کر اُڑ رہی تھیں ان کا رُخ ہمارے علاقے کی طرف ہو گیا اور اس طرح ہوا کے اس مناسب دباؤ کی وجہ سے ہمارے علاقے کا قحط دور ہو گیا.فصلیں اچھی ہو گئیں اور ہماری بھوک کے دور ہونے کا سامان پیدا ہو گیا.میرے عزیز بچو اور بڑوائیں یہ بتا رہا ہوں کہ یہ اسباب کی دنیا ہے اور علل کی دنیا ہے.کسی چیز کو دور کرنے کی کوئی وجہ بنتی ہے مثلاً سردی لگتی ہے تو کپڑا اسے دور کرتا ہے اور اگر کپڑا بھی اسے دور نہ کرے یا کپڑا نہ ہو
خطبات ناصر جلد ششم ۳۳۳ خطبہ جمعہ ۱۳ رفروری ۱۹۷۶ء ( دونوں شکلیں ہوتی ہیں ) تو پھر آگ سینکنے سے وہ دور ہو جاتی ہے.جو لوگ محض اسباب کو دیکھتے ہیں اور ان اسباب کے پیچھے جو حقیقت ہے اس پر ان کی نظر نہیں جاتی وہ لوگ ان کی پرستش شروع کر دیتے ہیں اور ان کو خدا ماننے لگ جاتے ہیں.کھانے کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں گے کہ جی ہمیں کچی گندم پھانکنی پڑتی لیکن آگ نے ہماری بھوک دور کرنے کا سامان پیدا کر دیا یعنی یا تو بھٹی میں دانے بھونے گئے یا توے کے اوپر روٹی پکی.آگ کے بغیر تو روٹی نہیں پک سکتی چنانچہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو آگ کی پرستش کرنے لگ گئے کیونکہ اُنہوں نے اس سبب کو جس نے اور بہت ساری باتوں کا علاج کیا تھا اور ان کا سبب بنا تھا اس کو ہی خدا سمجھ لیا.افریقہ میں اور ہندوستان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جن درختوں کی وہ لکڑی استعمال کرتے ہیں یا ان کے سایہ کے نیچے تپش سے بچتے ہیں یا اور بہت سے فوائد اٹھاتے ہیں وہ ان درختوں کی ہی پوجا کرنے لگ گئے اور اس سبب کی ہی پرستش شروع کر دی.پھر دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان کے لئے جو دوائی تھی اس کو وہ دوا کے طور پر استعمال نہیں کر سکے اور اس کے غلط استعمال کے نتیجہ میں انہیں دُکھ پہنچا مثلاً سانپ سے جس غرض کے لئے کہ وہ ہے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکے اور اُس نے بچے کو کا ٹا اور گھر والوں کو بڑی پریشانی اٹھانی پڑی اور یہ مثال جو میں دے رہا ہوں اس میں میں کہتا ہوں کہ پریشانی کے بعد علاج کے ساتھ وہ بچہ اچھا ہو گیا لیکن چونکہ دس پندرہ دن پریشانی کے گزرے تو اُنہوں نے کہا کہ اس بلا سے نجات پانے کے لئے ہمیں اس بلا کی پرستش شروع کر دینی چاہیے اور اُنہوں نے سانپ کی پوجا شروع کر دی.آج کی دنیا میں بھی سینکڑوں مثالیں ملیں گی اور انسانی تاریخ میں بھی ہزاروں مثالیں ایسی ملیں گی کہ انسان نے سب کو ہی سب کچھ سمجھ لیا اور جو اس سبب کو پیدا کرنے والا تھا یعنی اللہ ، وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا.ابھی میں نے ایک مثال دی ہے کہ آج کا دہر یہ یہ اعلان کرنے لگ گیا کہ ہمارے عوام ہمارا خدا ہیں.یہ میں نے خود پڑھا ہے.اُنہوں نے کہا کہ ہمارے عوام بڑی محنت کرتے ہیں ، راتوں کو جاگتے ہیں، بڑی تکلیف اٹھاتے ہیں اور بڑی سمجھ کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور اُنہوں نے اپنی اس محنت اور فراست کے نتیجے میں
خطبات ناصر جلد ششم ۳۳۴ خطبہ جمعہ ۱۳ رفروری ۱۹۷۶ء ملک سے غربت اور بھوک کو دور کر دیا ہے ہمارے عوام ہمارا خدا ہیں.پھر ہماری یہ دنیا اور ہمارا یہ ملک جس میں ہم بستے ہیں اس میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ دولت ہی سب کچھ ہے اس واسطے جائز اور ناجائز طریقوں سے روپیہ کماؤ.بعض لوگوں کو یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ سیاسی اقتدار ہی سب کچھ ہے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ جائز اور ناجائز طریقوں سے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اسلام یہ نہیں کہتا.اسلام کہتا ہے کہ اسباب تو درست ہیں لیکن ان کا ایک مستب بھی ہے.یہ علمل جو کہ ایک کے بعد دوسری کو پیدا کرتی چلی جاتی ہے یہ تو موجود ہیں لیکن ان سب پیچھے ایک علت العلل بھی ہے.عام آدمی اور بچے شاید اس اصطلاح کا مفہوم نہیں سمجھ سکیں گے اس لئے یوں کہو کہ وہ ہستی جو دنیا کے تمام اسباب اور علل کو پیدا کرنے والی ہے.میں نے جو مثال دی تھی اس کے لحاظ سے بعض لوگوں نے کہا کہ بارش پانی برساتی ہے بعض نے کہا کہ ہوائیں بادلوں کو لے کر آتی ہیں اس لئے ان کی وجہ سے پانی برسا.قرآن کریم نے سورہ ٹور میں ذرا تفصیل کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ اللہ وہ ہے کہ جس نے وہ سبب اور سامان پیدا کئے کہ جن کے ذریعے سے سمندروں پر بخارات بنتے ہیں پھر یہ انتظام کیا وہ بخارات جو اپنے اندر بڑا پھیلا ؤ رکھنے کی وجہ سے بارش برسانے کے قابل نہیں ہوتے ان کو ہوا ئیں بعض سمتوں کی طرف لے جاتی ہیں.پھر وہاں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ ان بخارات میں ایک اتصال اور اتحاد پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ تہہ بہ تہہ بادل بن جاتے ہیں جن کو ہم کالی گھٹا میں کہتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ گرمی، سردی اور ہوا کے دباؤ وغیرہ وغیرہ کے ذریعے ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ جن لوگوں کو وہ اپنی بارش کی رحمت سے نوازنا چاہتا ہے اس طرف ہوا ئیں اُن بادلوں کو لے جاتی ہیں اور وہ وہاں برستے ہیں اور بعض لوگوں کو خدا تعالیٰ اپنے غصے کے اظہار کے لئے اور اس لئے کہ وہ سمجھیں اور اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف واپس آئیں ان بادلوں سے محروم کر دیتا ہے.اس چیز کے اظہار کے لئے اسلام نے کہا کہ تقدیر ہے اور خدا تعالیٰ جو کہ علت العلل ہے اس نے اس حقیقت کی طرف توجہ پھیرنے کے لئے یہ کہا کہ ہوتا وہ ہے جو خدا چاہتا ہے.وہ نہیں ہوتا جو سمندر کے بخارات چاہتے ہیں نہ وہ ہوتا ہے جو وہ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۳۵ خطبہ جمعہ ۱۳ رفروری ۱۹۷۶ء ہوائیں چاہتی ہیں جو ان بخارات کو اڑا کر لے جاتی ہیں.نہ وہ ہوتا ہے جو وہ اونچے اونچے پہاڑ چاہتے ہیں جہاں جا کر ایسے سامان پیدا ہوتے ہیں کہ یہ بخارات آپس میں مل جاتے ہیں اور نہ وہ سامان کچھ کر سکتے ہیں کہ جن کے نتیجے میں تہہ بہ تہہ کالی گھٹائیں بن جاتی ہیں اور نہ وہ ہوائیں کہ جو ان بادلوں کو جہاں مرضی لے جائیں.پس ان تمام واسطوں سے انقطاع حاصل کرنے کی غرض سے خدا تعالیٰ نے اسلام میں یہ تقدیر کا مسئلہ، یہ قضا و قدر کا مسئلہ بتایا تا کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے رب سے دور نہ ہو جائے اور محض اسباب کا نہ ہو جائے اور صرف اسباب پر ہی بھروسہ نہ کرنے لگے اور اسباب کو اتنا طاقتور نہ سمجھے کہ وہ جس کو چاہیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور جس کو چاہیں محروم رکھیں.وہ تو سامان ہیں ان سامانوں کا پیدا کرنے والا رب فائدہ پہنچاتا ہے، یہ سامان نہیں فائدہ پہنچاتے.قرآن کریم نے بہت سی مثالیں دے کر اس چیز کو واضح کیا ہے پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان : ٣) یعنی ہر چیز کو اس نے پیدا کیا ہے اور ایک اندازہ مقرر کیا ہے یہ ہے تقدیر.مثلاً ایک خاص قسم کی گرمی کے اندر اس نے یہ خاصیت رکھی.یہ اندازہ رکھا کہ وہ بخارات اُڑا لے گی.پھر سورہ ٹور میں یہ بھی فرمایا ہے کہ بعض دفعہ جن پر خدا تعالیٰ غصے ہوتا ہے ان کی طرف بادل لے جاتا ہے اور وہ بادل کہ جب ان کے بخارات اُٹھ رہے ہوتے ہیں تو ان کے اندر کوئی ٹھوس چیز نظر نہیں آتی.ان کے اندر سے یا ان کے نتیجہ سے بڑے بڑے حجم والی چیزیں گرنی شروع ہو جاتی ہیں مثلاً ثژالہ باری ہے.زمیندار دوست جانتے ہوں گے کہ کچھ عرصہ کے بعد کبھی کسی علاقہ میں اور کبھی کسی علاقہ میں عین اُس وقت ژالہ باری ہو جاتی ہے کہ جب فصلیں تیار ہوتی ہیں.بعض دفعہ بعض انسان اپنی حماقت سے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہماری کھیتیوں کی گندم کی بالیس ہماری بھوک کو دور کریں گی تب خدا تعالیٰ بادلوں کو کہتا ہے کہ وہاں جاؤ اور ان کو بتاؤ کہ ان میں تو کوئی طاقت نہیں ہے.گندم کے کھیت یا گندم کی بالیں یا ان سے جو گندم حاصل ہوتی ہے وہ بھوک کو دور نہیں کرتیں بلکہ جوان کا پیدا کرنے والا ہے وہ بھوک کو دور کرتا ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا ایک دفعہ ہمارے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۳۶ خطبہ جمعہ ۱۳ رفروری ۱۹۷۶ء اس علاقے میں صرف پندرہ منٹ ژالہ باری ہوئی اور پانچ چھ مہینے کی فصلوں میں سے بعض کھیتوں میں سو فیصد گندم ٹوٹ کر زمین پر گر گئی اور تباہ ہوگئی اور کسی جگہ روپے میں سے بارہ آنے اور کسی جگہ روپے میں سے آٹھ آنے اور کسی جگہ چار آنے یعنی اس طرح کم و بیش نقصان ہوا.شام کے وقت سورج غروب ہونے سے چند منٹ پہلے ژالہ باری ہوئی تھی.یہاں ہماری زمین پر جو میرے کارندے کام کر رہے تھے وہ آئے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے.مجھے بڑا غصہ آیا وہاں انداز اروپے میں سے آٹھ آنے نقصان ہوا تھا میں نے کہا کہ تم یہ روتے ہو کہ فصل کے آٹھ آنے تباہ ہو گئے تم نے وہاں اللہ اکبر کا نعرہ کیوں نہیں لگایا کہ خدا نے تمہارے آٹھ آنے بچالئے.آٹھ آنے تباہی کا مطلب ہے نا کہ آٹھ آنے بچ گئے اور یہ اس کا بڑا احسان ہے ہمارا تو کوئی زور نہیں ہے اور نہ ہمارا حق ہے اس پر ، اس نے بڑا فضل کیا ہے چنانچہ میں نے انہیں واپس بھیجا اور کہا کہ جاؤ اور آدھا گھنٹہ وہاں نعرہ ہائے تکبیر اللہ اکبر کی آواز بلند کرو اور الحمد للہ کا ورد کرو اور آدھے گھنٹے کے بعد آکر مجھے رپورٹ کرو کہ ہم نے یہ کام کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے اُس کی چیز تھی اُس نے لے لی.پس اس قسم کے سبق دینے کے لئے قرآن کریم نے کہا کہ خدا کی تقدیر چلے گی.ہوگا وہی جو خدا چاہے گا.یہ تقدیر ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس دنیا میں سامان نہیں ہیں بلکہ وہ مستبب الاسباب ہے.ایک سبب کے بعد دوسرا سبب آجاتا ہے لیکن ان تمام اسباب کو پیدا کرنے والا اللہ ہے وہ خود بخود نہیں پیدا ہو گئے.پھر خدائی علم کے مطابق ہر چیز میں اندازے ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر جو اثر ہوتا ہے اس کے متعلق اندازے ہیں مثلاً اگر پانچ دس اکائیوں کی یہ شکل بن جائے تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا اور اگر ذراسی شکل بدل جائے تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا.ہوا کے اور فضا کے جو Depression (ڈیپریشن) ہیں ان کے ذرا ذرا سے فرق کے ساتھ ان کے مختلف نتیجے نکلتے ہیں اور ہواؤں کے راستے متعین ہوتے ہیں اور ہوا کے اندر تیزی پیدا ہوتی ہے اور وہی چیز جو بادلوں کو لانے کا سبب ہے وہ بعض دفعہ اتنی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ ڈیڑھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلنے لگتی ہیں اور وہ مکانوں کو بھی اُڑا کر لے جاتی ہیں.پس خدا تعالیٰ کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دینے کے لئے اور مسلمان کے دل میں تو حید خالص کو پیدا کرنے کے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۳۷ خطبہ جمعہ ۱۳ فروری ۱۹۷۶ء لئے یہ تقدیر کا مسئلہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ آخری علت جس سے کہ آگے سب کچھ چلا وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.بديع السمواتِ وَالْأَرْضِ (البقرة : ۱۱۸) کہ خدا تعالیٰ نے ان آسمانوں اور زمین کو پہلے کسی نمونے کے بغیر پیدا کر دیا ہے وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (البقرة: ۱۱۸) کہ جب وہ اپنے منصوبہ اور منشاء اور ارادہ کے مطابق عدم سے کوئی چیز وجود میں لانا چاہتا ہے تو گن کہتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے اور دوسری جگہ فرمایا :.خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَرَةَ تَقْدِيرًا (الفرقان : ٣) کُن کہنے کی شکل قرآن کریم نے یہ بتائی ہے کہ اس نے سات زمانوں میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ.پس كُنُ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسباب نہیں بنائے اور ان کے بغیر ہی انہیں پیدا کیا بلکہ اس دنیا میں جس میں ہم رہتے ہیں یا مجھے کہنا چاہیے کہ اس عالمین میں ، اس کا ئنات میں اور اس یونیورس (Universe) میں جس کا انسان کے ساتھ تعلق ہے اس میں پیدا ہونا اور پھیلنا اور نشوونما پانا اسباب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے یہ درست ہے کہ اس نے گن کہا اور سارے انتظام ہونے لگے اور جہاں تک آخر میں انسان کا تعلق ہے ( یہ سارے عالمین خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا کئے ہیں سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا منه (الجاثية : ۱۴) ہمارے لئے وہی چیز ان گنت اسباب کے نتیجہ میں پیدا ہوئی مثلاً ہمارے لئے ستاروں کی روشنی پیدا کی.وہ بھی ہماری فصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور بعض ستاروں کی روشنی کئی کھرب روشنی کے سالوں کے بعد زمین پر پہنچی ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ کن نہیں تھا بلکہ اُس وقت کُن ہو گیا تھا کہ تم نے روشنی پہنچانی ہے.پھر ہر چیز میں اندازہ مقرر ہے مثلاً خدا نے یہ اندازہ رکھا ہے کہ روشنی ایک منٹ میں اتنا سفر طے کرے گی.قدرة تقديرا سارے قوانین قدرت کے ساتھ خدا تعالیٰ نے اپنی تقدیر کو باندھ دیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَضَى رَبُّكَ أَلا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ (بنی اسرآءيل: ۲۴) یہ قضا ہے اور یہ الہی تقدیر
خطبات ناصر جلد ششم ۳۳۸ خطبہ جمعہ ۱۳ رفروری ۱۹۷۶ء ہے کہ اس نے یہ فیصلہ کیا ہے انسان سوائے خدا کے اور کسی کی پرستش نہ کرے نیز دوسری جگہ فرمایا کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: ۵۷) یعنی جن وانس کو وہ روحانی قوتیں اور استعدادیں عطا کی گئی ہیں کہ وہ اپنے رب کی پرستش کر کے اس کے انتہائی مخرب کو حاصل کر سکتے ہیں ، یہ ہے قضا و قدر.یہ خدا کی تقدیر اور اس کا اندازہ ہے یعنی انسان کی فطرت میں اور اس کی خُو میں اس نے اپنے اندازے کے مطابق یہ رکھا اور یہ چیز پیدا کی کہ وہ خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر کے اس کا عبد بن سکتا ہے، اسکا فرمانبردار بندہ بن سکتا ہے اور اس کا مطیع بن سکتا ہے اس کی فطرت میں یہ اندازہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے شیطان کو یہ کہہ دیا ہے کہ جن پر تیرا بس چلے انہیں فریب دے لیکن جو میرے بندے ہیں ان کے اوپر تیرا کوئی غلبہ نہیں ہوگا.تو یہ قضا ہے، یہ تقدیر ہے کہ انسان خدا کا بندہ بنے لیکن اس تقدیر نے شیطان کو بھی یہ مہلت دے دی کہ وہ بعض لوگوں کو بہکانے کے قابل ہو جائے.پس تقدیر کے معنی ہیں ایک تو یہ کہ عِلتُ العِلل یعنی تمام سامانوں اور تمام اسباب کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور دوسرے یہ کہ اس نے اپنے قوانین میں اور اندازے میں جن کو ہم قوانین قدرت کہتے ہیں ہر چیز کو لپیٹا ہوا ہے اور محیط کیا ہوا ہے.ہر چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اس نے ایک اندازے کے مطابق اس میں اپنی صفات کے جلوے رکھے ہیں یعنی اس کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ اس حد تک جاسکتی ہے اس سے آگے نہیں جاسکتی.تو جس تقدیر کو اسلام ہمارے سامنے پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ ایک اور خالق کل ہے لیکن اس یو نیورس میں ، اس عالمین میں اور اس کائنات میں ، ہماری زندگی میں یہ نہیں ہوتا کہ ہمیں بھوک لگے اور آسمان سے خدا کی آواز آئے اور پیٹ بھر جائے.نہیں بلکہ اس نے سامان پیدا کئے ہیں اور اس دنیا میں تدریج کا قانون رائج کیا ہے.ہر چیز تدریج کے ساتھ ہوتی ہے اور پھر ہر چیز کے ساتھ اندازے ہیں فَقَدَّدَة تقديرا.تدریج ایک بنیادی اصول ہے لیکن اس میں بھی اندازے ہیں مثلاً ایک بیکٹیریا ہے اس کی زندگی کا تسلسل چند سیکنڈ میں ختم ہو جاتا ہے اس میں جوانی آتی ہے پھر وہ آگے بے تحاشا اپنی نسل چھوڑتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے اور ایک گھوڑے کی
خطبات ناصر جلد ششم ۳۳۹ خطبہ جمعہ ۱۳ فروری ۱۹۷۶ء زندگی ہے اس میں بھی ایک تدریج ہے گھوڑی کے حمل کا اپنا زمانہ ہے جو کہ دوسری قسم کی مادہ سے مختلف ہے، پھر بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ جوان ہوتا ہے پھر بوڑھا ہوتا ہے اور عام طور پر عرب گھوڑوں کے علاوہ جو دوسری نسلیں ہیں ان کی عمریں ۲۲ ، ۲۳ سال سے زیادہ نہیں ہوتیں اس کے مقابلہ میں ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ انسان کی اوسط عمر بحیثیت انسان گھوڑے کی عمر سے ۳ گنا زیادہ ہے.واللہ اعلم.صحیح اندازے تو اللہ تعالیٰ کو ہی پتہ ہے نیز ڈاکٹر کہتے ہیں کہ گھوڑے کی اوسط عمر کتے کی عمر سے ۳ گنا زیادہ ہے وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے اندازے پیدا کئے ہیں.یہ نہیں کہ کتا یہ کہے کہ میں دوسو سال زندہ رہوں.یہ تقدیر الہی کے خلاف ہے یعنی اس نے کتے کی زندگی کے جو اندازے مقرر کئے ہیں یہ اس کے خلاف ہے اس لئے یہ نہیں ہو سکتا.لیکن اگر حالات درست ہوں تو کتا خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اندازے اور تقدیر کے مطابق اپنی عام زندگی گزار سکتا ہے.پس ساری نشو ونما تدریجی ہے اور اندازوں کے مطابق ہے مثلاً اگر آپ دنبے کو صحیح مقدار میں صحیح قسم کا کھانا دیں تو ایک خاص نسل کے دنبے کا وزن ۴۰ سیر یا ۴۵ - ۵۰ سیر ہو جائے گا.یہ اللہ تعالی کا مقرر کردہ اندازہ ہے کہ اگر اس کو اتنا ملے گا تو اس کا وزن اتنا ہو جائے گا گویا اس کے جسم کی نشوونما کی طاقتوں اور کھانے کی قسموں کو تقدیر نے باندھ دیا ہے اور اگر اتنا نہیں ملے گا تو تقدیر کہتی ہے کہ اس کا وزن ۱۰، ۱۵ سیر سے زیادہ نہیں ہوگا ، ہم نے اپنی زندگیوں میں خود اس کا تجربہ کیا ہے.پس نقدیر کا اور قضا و قدر کا جو غلط تصور دنیا کے ذہن میں ہے اسلام وہ نہیں پیش کرتا.اسلام یہ کہتا ہے کہ یہ اسباب کی دنیا ہے اور یہ عمل کی دنیا ہے لیکن وہ لوگ جوصرف اسباب کی طرف ہی متوجہ ہو جاتے ہیں اور انہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اور شرک کرتے اور اسباب پر اتنا بھروسہ کرتے ہیں جتنا کہ ان کو اپنے خدا پر کرنا چاہیے وہ غلطی کرتے ہیں.سارے اسباب اپنی جگہ درست ہیں انسان کی خداداد طاقتیں اور استعدادیں اپنی جگہ درست لیکن خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑنا، اس کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے.پس ایک مسلمان کو تو حید پر قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآنی شریعت میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کے اسوہ میں یہ سبق دیا ہے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۴۰ خطبہ جمعہ ۱۳ فروری ۱۹۷۶ء کہ قضا و قدر سے کوئی چیز باہر نہیں ہے یعنی تمام اسباب کا پیدا کرنے والا اور تمام علل کا پیدا کرنے والا بھی ہمارا خدا ہے.روٹی بھوک دور نہیں کرتی اور نہ ہمیں طاقت دیتی ہے بلکہ خدا بھوک دور کرتا ہے اسی واسطے قرآن کریم بہت سے مقامات پر درمیانی واسطوں اور اسباب کا ذکر چھوڑ دیتا ہے اور اس پیدائش عالمین کی جو اصل حقیقت ہے وہ بیان کر جاتا ہے لیکن قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے اور قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر پوری طرح سمجھنے کے لئے قرآن کریم پر ہی غور کرنا پڑے گا.قرآن کریم خود اپنا مفسر ہے.وہ دوسری جگہ بتائے گا کہ جہاں پر درمیانی واسطوں کا ذکر نہیں ہے وہاں خرابی پیدا کرنا مقصود نہیں بلکہ ایک نہایت حسین انفرادی زندگی اور ایک نہایت حسین اجتماعی معاشرہ پیدا کرنا مقصود ہے.وہ انفرادی زندگی اور وہ اجتماعی معاشرہ جس کا ایک پختہ اور پکا اور صحیح اور حقیقی تعلق اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ ہو.اس لئے خدا تعالیٰ بہت سے مقامات پر درمیانی واسطوں کا ذکر چھوڑ دیتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ ہی اللہ ہے جیسے کہ ہم کہتے ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ اللہ ہی اللہ.باقی اس نے اسباب بھی پیدا کئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ گھر سے تو کچھ نہ لائے.اور یہی حقیقت ہے.آج کے خطبہ میں کچھ اصطلاحیں بچوں کے لئے نسبتا ثقیل ہوں گی اس لئے میں بچوں کی زبان میں اسے پھر دہرا دیتا ہوں.اللہ ایک ایسی عظیم ہستی ہے کہ جو اپنی ذات میں اور اس کے اندر جو طاقتیں ہیں ان میں بے نظیر اور بے مثل ہے اور سب کچھ اسی نے پیدا کیا ہے اور جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے اس میں اس نے اپنی منشاء کے مطابق آہستہ آہستہ بڑھنے کے اصول کو مقرر کیا ہے.اسے بچو ! تم بچے ہو اور اکثر سکولوں میں پڑھ رہے ہو پہلے تم پہلی جماعت میں جاتے ہو پھر دوسری میں پھر تیسری میں اور دسویں جماعت میں پہنچنے کے لئے تمہیں دس درجوں میں سے گذرنا پڑتا ہے.یہ اصول کہ ایک قدم کے بعد دوسرا قدم اٹھتا ہے یہ تمہاری ترقی کا ذریعہ بنتا ہے.یہ اصول ہمارے رب نے پیدا کیا ہے اور اس میں بہت سی حکمتیں ہیں.اس میں اصل حکمت یہ ہے کہ انسان اپنی مرضی سے لیکن اس دائرہ اختیار میں کہ جو خدا نے ہمیں دیا ہے اپنے خدا کی طرف رجوع کر کے اس کے بے انتہا پیار کو حاصل کرے اور جس کو ہم قضا و قدر کہتے ہیں اس کا مطلب یہ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۴۱ خطبہ جمعہ ۱۳ فروری ۱۹۷۶ء ہے کہ اللہ نے ہمارے پیدا کرنے والے محبوب اور پیارے رب نے بہت ساری چیزیں بنائی ہیں جو کہ ایک میں سے دوسری نکلتی ہے جس طرح کہ گٹھلی میں سے درخت نکل آتا ہے اور درخت میں سے بہت ساری گٹھلیاں نکل آتی ہیں اور خدا تعالیٰ نے یہ انتظام کیا ہے کہ ایک سکول ماسٹر میں سے وہ بچے نکل آتے ہیں جو سکول میں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور ان بچوں میں سے وہ استاد بن جاتے ہیں کہ جو سکول میں پڑھانے لگ جاتے ہیں.یہ ایک چکر چلایا ہوا ہے لیکن چلا یا اللہ نے ہے یہ سب سامان ہیں.خدا نے چھوٹے سامان بھی پیدا کئے ہیں اور بڑے سامان بھی پیدا کئے ہیں.خدا نے ایسے سامان بھی پیدا کئے ہیں جو تھوڑی دیر کے لئے انسان کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں مثلاً دو چھٹانک آٹا جو کہ میں ایک کھانے میں کھاتا ہوں اس نے میری ایک بھوک ماری اور خدا تعالیٰ نے گندم کے اُگانے کا بھی سامان کیا ہے جو کہ بہت لمبا عرصہ چلتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے چھوٹے سامان بھی پیدا کئے اور بڑے سامان بھی پیدا کئے تھوڑے وقت کے لئے کام کرنے والے سامان بھی پیدا کئے اور ہزاروں لاکھوں سال تک کام کرنے والے سامان بھی پیدا کئے.کم اثر رکھنے والے سامان بھی پیدا کئے اور بہت بڑا اثر رکھنے والے سامان بھی پیدا کئے جن کے ذریعے قومیں بڑی طاقتور ہو گئیں لیکن ہمیں اس نے یہ کہا کہ میں نے جو سامان پیدا کئے ہیں ان کی پرستش نہ کرنا اور ان کو خدا نہ سمجھ لینا بلکہ مجھے سمجھنے کی کوشش کرنا اور میری طرف رجوع کرنے کے لئے مجاہدہ کرنا.پھر میں تمہیں ایسی جنتیں دوں گا کہ میرے پیار کے جو پھل ہیں ان کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی لذت اور کوئی شیرینی نہیں رکھی جا سکے گی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توحید خالص پر قائم ہونے کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ قضا و قدر کے متعلق میرا ابتدائی سبق یا درس ہے.اس کے بعد ذہن میں تین اور چیزیں ہیں ایک تو یہ کہ پھر دعا کا کیا مطلب؟ دوسرے پھر عمل پر اجر اور ثواب کا کیا مطلب؟ اور تیسرے یہ کہ پھر محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو اللہ دی مرضی ہوئی ہو جائے گا آرام نال سوئے رہو چادرتان کے.اسلام یہ نہیں کہتا.قضا وقدر کا جو مسئلہ ہے وہ نہ ہمیں کاہل اورست کرتا ہے اور نہ وہ ہمیں باندھ کر یہ کہتا ہے کہ ہم مجبور ہیں ہم کیا کریں.بچہ شرارتیں کرتا
خطبات ناصر جلد ششم ۳۴۲ خطبہ جمعہ ۱۳ رفروری ۱۹۷۶ء رہے اور سکول میں پڑھے ہی نہ اور کہے کہ میں تو مجبور ہوں.بس اللہ کی تقدیر.یہ درست نہیں اور نہ یہ کہ پھر دعا کا کیا فائدہ جو ہونا ہے وہ تو دعا کے بغیر بھی ہو جائے گا.تو ان پہلوؤں کے متعلق میں انشاء اللہ تفصیل کے ساتھ مثالیں دے کر بعد میں بیان کروں گا.میں اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے اس مسئلے کو حل کرنے کی توفیق دے گا.روزنامه الفضل ربوه ۴ رمئی ۱۹۷۶ صفحه ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ششم ۳۴۳ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء دنیا اور کائنات کا ہر جز واللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کا مظہر ہے خطبه جمعه فرموده ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دس پندرہ روز سے مجھے دوران سر اور دردسر کے علاوہ معدے کی تکلیف چلی آ رہی ہے.آج بھی اسی تکلیف ہی میں میں بعض حکمتوں کے مد نظر یہاں آ گیا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے توفیق دے گا اس سلسلہ مضمون کے بارہ میں کچھ کہنے کی جسے میں نے دو تین ہفتے پہلے شروع کیا تھا یعنی مسئلہ قضا و قدر.اس سلسلہ میں پہلا خطبہ میں نے اپنی طرف سے سادہ زبان میں بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں اس مسئلہ کے سمجھانے کی کوشش میں دیا تھا.آج میں قضا و قدر اور دعا کا جو مسئلہ ہے اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.دنیا میں بعض لوگ ایسے پائے جاتے رہے ہیں اور پائے جاتے ہیں جنہوں نے اس خیال اور عقیدے کا اظہار کیا کہ دعا میں کوئی اثر نہیں اور نہ دعا سے کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ ہر چیز قضا و قدر میں بندھی ہوئی ہے.جو ہونا ہے وہ دعا کے بغیر ہی ہو جائے گا اور جونہیں ہونا کوئی شخص خواہ کتنی ہی دعا کرتا رہے اسے وہ چیز حاصل نہیں ہوگی کیونکہ وہ مقدر میں نہیں ہے؟ لیکن چونکہ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۴۴ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء قرآن کریم نے دعائیں کرنے کا حکم دیا ہے اس واسطے یہ عقیدہ ظاہر کیا گیا کہ دعا کسی مطلوب شے کو تو حاصل نہیں کرتی مثلاً کسی کا بچہ بیمار ہے.اس کے والدین، عزیز دوست اُس کے لئے دعائیں کرتے ہیں تو عقیدہ یہ ظاہر کیا گیا کہ اگر بچے کی صحت قضا و قدر کے لحاظ سے مقدر نہیں تو دعاؤں سے بچہ اچھا نہیں ہوگا تو پھر دعا کا حکم کیوں دیا گیا؟ وہ کہتے ہیں اس لئے دیا گیا کہ دعا ایک عبادت ہے ایک عبادت کا جتنا اثر ہوتا ہے اتنا ہوگا لیکن جو مطلوب شے ہے جس کے لئے دعا کی گئی ہے وہ نہیں ملے گی.یہ ساری خرابیاں اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم پر غور نہیں کیا جا تا.خدا تعالیٰ کی اس حسین اور ابدی شریعت پر جیسا کہ چاہیے انسان غور نہیں کرتا اور نہ ہی اُن مقربین الہی کی تقریروں، تحریروں اور تفسیروں سے فائدہ اٹھاتا ہے جو قرآن عظیم کے روحانی اسرار پر مشتمل ہوتی ہیں اور جنہیں وہ اللہ تعالیٰ سے سیکھ کر بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں دعا کی تاثیر سے انکار کرنے والوں کے خیالات نمایاں ہو کر اس لئے ابھرے کہ دنیا میں علوم پھیل رہے تھے اور بنی نوع انسان کا ایک حصہ دنیوی علوم میں ترقی کر رہا تھا.مادی علوم کے اثر کے نیچے بعض باتوں کا جواب نہ دے سکنے کی وجہ سے جو اسلام کے متعلق کی جارہی تھیں اس قسم کے Escapes یعنی ذہنی طور پر بچاؤ یا اعتراضات سے بچنے کی کوششیں کی گئیں.پہلے میں تمہید یہ بتا دیتا ہوں کہ ہر دعا قبول نہیں ہوتی اور یہ مسئلہ اسلام نے ہمارے سامنے رکھا ہے.خدا تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک اور تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور بندہ کی حقیقت اس کے مقابلہ میں ایک ذرہ ناچیز کی بھی نہیں.خدا اپنے فضل اور رحمت سے اپنے ان بندوں سے جو اس کی راہ میں اپنی زندگیاں گزارنے والے ہیں دوستوں کا سا سلوک کرتا ہے.اب کہاں رب کریم اور کہاں اس کا ناچیز بندہ لیکن رب کریم نے یہ چاہا کہ اپنی مخلوقات میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو اس کی راہ میں فدا ہوتے ہیں اور جنہوں نے دنیا سے انقطاع کیا ہے ان کی طرف رجوع برحمت ہو اور ان سے دوستانہ پیار کا سلوک کرے اور اس کو دنیا پر ظاہر کرے.
خطبات ناصر جلد ششم ۳۴۵ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء پس دو دوستوں کے درمیان خواہشات کے اظہار اور ان کے قبول یارڈ کا جو دستور ہمیں نظر آتا ہے وہی خدا تعالیٰ نے اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان قائم کیا ہے یعنی دوست کبھی اپنے دوست کی بات مانتا ہے اور کبھی اپنے دوست سے اپنی بات منواتا ہے.عموماً دنیا میں یہ نظر آتا ہے یہ کوئی الجھا ہوا مسئلہ نہیں ہے.وہ دوست نہیں جو ساری ہی باتیں منواتا چلا جائے.وہ تو جب انسان غلام رکھا کرتا تھا غلام بھی بعض دفعہ ساری باتیں نہیں مانتا تھا دوست کا تو سوال ہی نہیں.غرض دوستی کا معیار اور دوستی کی بنیاد یہ ہے کہ کبھی دوست دوست کی بات مانتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے لیکن جہاں تک خدا تعالیٰ اور بندے کا تعلق ہے، وہ تو خالق اور مخلوق ، معبود اور عبد کا تعلق ہے لیکن عبد اور مخلوق ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کا انسان سے سلوک یہ ہے کہ کبھی اس کی بات مان لیتا ہے اور کبھی کہتا ہے اپنی بات منواؤں گا.کبھی وہ کہتا ہے آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (النمل: ۶۳) یعنی جس وقت انسان اضطرار کی حالت میں نیکی اور فدائیت کے جذبات لے کر اس کی طرف جھکتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اُس کی دعا کو قبول کرتا ہے اور اس کے اضطرار کو دور کر دیتا ہے اور کبھی قرآن کریم میں یہ اعلان ہوتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ (البقرة:۱۵۶) ہم تمہیں آزمائیں گے.اب یہ فیصلہ کہ ہم تمہاری آزمائش کریں گے.ہم تمہارا امتحان لیں گے اس فیصلے کے مقابلے میں تو ساری دنیا کی دعائیں رد ہوں گی کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم میری بات مانو.اب ایک طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی قبولیت ہے اور یہ ایک حقیقت ہے ہم محبت رسول کی وجہ سے کوئی مبالغہ نہیں کر رہے بلکہ ہماری روح ، ہماری عقل ، ہمارا وجدان اور ہماری قوت استدلال ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتی ہے کہ آپ نے اس قدر دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس قدر دعائیں قبول کیں کہ انسانی زندگی میں ایک انقلاب عظیم بپا ہو گیا اور وہ جوسینکٹروں سال کے مردہ پڑے ہوئے تھے اُن کے اندر زندگی کے آثار پیدا ہو گئے.دوسرے مکی زندگی میں خدا تعالیٰ نے ابتلاء اور امتحان پیدا کئے.رؤسائے مکہ مسلمانوں کو طرح طرح کی ایذائیں دے رہے تھے اور مسلمان بھی دعائیں کر رہے تھے.خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں تھیں لیکن مکی زندگی کے ابتلاء کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے دعا سے منع کیا گیا تھا کیونکہ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۴۶ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء انبیاء علیہم السلام کو بعض دفعہ منع بھی کیا جاتا ہے کہ دعا نہیں کرنی.اسلامی تاریخ میں بعض بزرگوں اور مقربین کے متعلق آتا ہے کہ وہ ایسے وقت میں سوچ میں پڑ جاتے تھے کہ آیا یہ کوئی ابتلاء تو نہیں اور خدا تعالیٰ امتحان تو نہیں لینا چاہتا.پھر وہ ابتلاء کے دور ہونے کی دعا نہیں مانگتے تھے بلکہ اس فکر میں رہتے تھے کہ وہ ثبات قدم دکھا ئیں اور تکلیف برداشت کر کے امتحان میں کامیاب ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں.یہ تو ایک ضمنی بات تھی جسے میں نے شروع میں بتا دیا ہے، اصل وہ تمہید ہے جسے میں دعا کا فلسفہ سمجھنے کے لئے بیان کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اسلام نے کس معنی میں قوانین قدرت یا اس کے مفہوم کو استعمال کیا ہے.اسلام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جو کچھ اس عالمین میں نظر آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہیں اور بس.ان کو ہم آثارالصفات بھی کہتے ہیں مثلاً خدا تعالیٰ کی ایک صفت ہے خالق ہونے کی ، وہ خلق کر رہا ہے.خدا تعالیٰ کی ایک صفت الحی ہے یعنی زندگی کو قائم رکھنے کی اگر اس صفت کا جلوہ ایک لحظہ کے لئے بھی اس کی مخلوق کے کسی حصہ سے علیحدہ ہو جائے تو اسی وقت وہ ختم ہو جاتا ہے اُس پر فنا آجاتی ہے.اسی طرح بہت سی صفات کا ہمیں علم دیا گیا ہے اور بہت سی صفات کا ہمیں اس دنیا میں علم نہیں دیا گیا اور اس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ بھی کیا ہے.خدا تعالیٰ کی ہر صفت کے غیر محدود جلوے ہیں.ان جلووں کے نتیجہ میں چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور قائم رہتی ہیں.اُن کے اندر جو خواص پائے جاتے ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کا نتیجہ ہیں اس لئے ہم انہیں آثار الصفات کہتے ہیں.اس عالمین کی ہر مخلوق اور ہر چیز آثار الصفات کے اندر بندھی ہوئی ہے یعنی خالی پیدائش ہی تو نہیں.ایک بچہ پیدا ہوتا ہے پھر اس کو صحت اور تندرستی سے زندہ رکھنا ہوتا ہے کیونکہ خدا قیوم ہے پھر اس کی ربوبیت کے سامان پیدا کرنے ہوتے ہیں کیونکہ خدا رب العلمین ہے.گویا انسان کی پیدائش کے وقت سے لے کر اس کے مرتے دم تک خدا تعالیٰ کی مختلف صفات کے جلوے اس کی زندگی میں نظر آتے ہیں.مثلاً اگر رب العالمین کی صفت کے جلوے ظاہر نہ ہوں اور اس صفت کے آثار پیدا نہ ہوں تو کوئی ربوبیت نہ ہوگی.یہ ایک لمبا مضمون ہے اور گہرا بھی ہے.اس کے متعلق مختلف اوقات میں گفتگو ہوتی رہنی چاہیے.اس وقت تو میں بطور تمہید کے بتا رہا ہوں کہ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۴۷ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء آثار صفات الہیہ ہی کو سنت اللہ بھی کہتے ہیں اور قوانین قدرت بھی کہتے ہیں.گو یا خدا تعالیٰ کی ازلی ابدی صفات ہی کے موافق خدا تعالیٰ کے کام ہیں اور ان ازلی ابدی صفات کے موافق خدا تعالیٰ کے جو کام ہیں انہی کو ہم سنت اللہ کہتے ہیں.جب ہم خدا تعالیٰ کی ان آثار الصفات پر یا اس سنت اللہ پر یا ان قوانین قدرت پر غور کرتے ہیں تو نظام قدرت میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قضاء وقدر کو اسباب کے ساتھ بڑی مضبوطی سے باندھ دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان روٹی کھائے گا تو اس کا پیٹ بھرے گا.یہ سنت اللہ بھی ہے اور قانونِ قدرت بھی ہے اور یہی قضاء وقد ربھی ہے اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم روٹی نہ کھائیں اور امید یہ رکھیں کہ مقدر ہوگا تو آپ ہی پیٹ بھر جائے گا.کیسے بھر جائے گا؟ جب کہ خدا تعالیٰ نے قضاء و قدر کو نظام قدرت میں اسباب کے ساتھ باندھ دیا ہے.یہ اسباب جن کے ساتھ قضاء وقدر کو وابستہ کر دیا گیا ہے، روحانی بھی ہیں اور جسمانی بھی.پانی ایک مخلوق ہے.خدا تعالیٰ نے پانی پیدا کیا ہے.پانی سے ہم ہزاروں فائدے اٹھاتے ہیں.پانی سے انسان اپنی پیاس بھی بجھاتا ہے.پانی انسان اپنی میل کو بھی دور کرتا ہے.جمعہ کے دن نہانے کا حکم ہے اور صاف کپڑے پہن کر مسجد میں آنے کا حکم ہے.غرضیکہ پانی کو ہم مختلف طریق سے استعمال کرتے ہیں.پانی سے ہم کھیتوں کو سیراب بھی کرتے ہیں گندم جس کے اُگانے کے لئے پانی کی ضرورت ہے اس کے پسوانے کے لئے بھی اس کی ضرورت ہے اگر ایک خاص نسبت سے گندم میں پانی نہ ہو تو وہ پیسی نہیں جا سکتی.اس صورت میں یہ دیکھنا کہ کتنی فیصد پانی ہے یہ تو ہمارے اختیار کی بات نہیں لیکن یہ ہمارے اختیار کی بات ہے کہ ہم اس کو گوندھتے وقت اس میں پانی ملا ئیں.آٹے میں پانی ملائے بغیر کوئی شخص روٹی بنانا چاہے تو نہیں بنے گی.یہ قانونِ قدرت ہے یہ خدا تعالیٰ کی صفات کے آثار ہیں جو دنیا میں جلوہ گر ہیں مثلاً آٹے کی گندھوائی پانی کی محتاج ہے.خدا تعالیٰ نے آٹے کی گندھوائی کو پانی کے ساتھ باندھ دیا ہے.پھر آٹے کی پسوائی میں بھی یہی قانونِ قدرت نظر آتا ہے اگر پیتے وقت آٹا زیادہ گرم ہو جائے تو اس کے بہت سارے صحت مند اجزاء بیچ میں سے جل جائیں گے اور فائدہ نہیں دیں گے.یہ ایک قانونِ قدرت ہے لیکن اس کا استعمال ہم نے کرنا ہے کیونکہ ہمارے لئے اس میں فائدہ ہے.اگر
خطبات ناصر جلد ششم ۳۴۸ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء ہم بڑی بڑی ملوں کا آٹا استعمال کریں گے تو چونکہ اس کے بعض صحت مند اجزاء ضائع ہو جانے کی وجہ سے اس میں تھوڑا سا فرق پڑ جائے گا اس لئے وہ ہماری صحتوں پر اثر انداز ہوگا.جولوگ گھر کی چکیوں کا آٹا پیس کر کھایا کرتے تھے اُن کی صحتیں اچھی رہتی تھیں.اب بھی اگر اسی قسم کا آٹا ملنے لگ جائے تو لوگوں کی صحتیں اچھی ہو جائیں گی.پس نظام قدرت میں قضا و قدر کو اسباب کے ساتھ باندھا ہوا ہے.جہاں تک جسمانی اسباب کا تعلق ہے اُن کو ہم سمجھتے بھی ہیں اور اس کے اوپر تو ہم آنکھیں بند کر کے عمل بھی کرتے ہیں حتی کہ وہ لوگ بھی جو کہتے ہیں دعا میں تاثیر نہیں.وہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ بچہ بیمار ہے قضا و قدر میں ہو گا یا مقدر میں ہوگا تو بچ جائے گا ورنہ مرجائے گا بلکہ وہ اُس کے لئے تڑپ رہے ہوتے ہیں کبھی ایک ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں کبھی دوسرے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور کبھی عقل کی حدود پچھلانگ کر گنڈے اور تعویذ کرنے والوں کے پاس بھی چلے جاتے ہیں.غرض بعض لوگوں کا یہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ نے جو جسمانی اسباب مقرر کئے ہیں یعنی ایک مسبب ہے اور دوسرا اس کا سبب اور یہ ایک سلسلہ ہے جو جاری ہے یہ تو ضروری ہے لیکن روحانی طور پر دعا سبب نہیں اور اس میں کوئی اثر نہیں.ایک صاحب فراست مومن اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں.یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ اگر ہا کی سے کھیلنا ہے تو شہوت کا درخت جس سے ہاکی بنائی جاتی ہے وہ لگانا پڑے گا ورنہ ہا کی نہیں بنے گی.اس دنیا میں خدا تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے مادی سامان پیدا کئے ہیں.قانون قدرت یا قضا و قدر یہ ہے کہ ان سامانوں کے ذریعہ ہم اپنی حاجتوں کو پورا کرتے ہیں اور اپنی ترقیات کے سامان پیدا کرتے ہیں مثلاً ستر کا حکم ہے ننگ ڈھانکنے کے لئے کپڑے کی ضرورت ہے.اب اگر کوئی یہ کہے کہ اگر قسمت میں ہوا تو خود ہی پردہ ہو جائے گا کپڑے پہننے کی کیا ضرورت ہے.تو لوگ اسے کہیں گے کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟ لیکن جب وہ یہ کہے دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے تو یہ گویا ایک وسوسہ ہوتا ہے جو شیطان اس کے دل میں ڈالتا ہے ورنہ دنیا میں مسببات اور اسباب کا ایک بڑا لمبا سلسلہ جاری ہے.ایک چیز دوسرے کو پیدا کر رہی ہے ایک چیز دوسرے کا سبب بن رہی ہے اور یہ ایک بڑا لمبا سلسلہ ہے جس میں
خطبات ناصر جلد ششم ۳۴۹ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء خدا تعالیٰ کی غیر محدود قدرتیں کارفرما ہیں.خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو اپنی عقل سے باندھنا اور ان کی حد بست کرنا یا ان کو محدود قرار دینا گویا خدائی کا دعوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اگر آدمی آثار صفات الہیہ کی حد بندی کرنے لگ جائے تو یہ خدا سے بڑا بننے والی بات ہے.اس وقت دنیا میں جو علمی اور سائنسی ترقی ہو رہی ہے اس میں بھی قانون قدرت جلوہ گر ہے مثلاً فزکس ہے اس میں آئے دن کئی ایسے اصول وضع ہوتے رہتے ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قانون اس کی بھی بنیا د تھا جس کا ہمیں علم تھا.ہمارے علم میں جو سب سے گہرا اور بنیادی اصول پایا جاتا تھا اس کے نیچے ایک اور اصول کام کر رہا تھا جو پہلے ہمارے علم میں نہیں تھا اب ہمیں اس کی سمجھ آئی ہے.خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے جو سامان ہیں یا جو آثار الصفات ہیں جن کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کو قضا و قدر میں باندھا ہوا ہے ہم ان کا احاطہ نہیں کر سکتے کیونکہ جو مادی سامان یا اسباب ہیں ان کے پیچھے ایک اور سبب کام کر رہا ہے اور پھر اس کے پیچھے اور سبب ہے اور اس کے پیچھے اور سبب ہے.یہ ایک لمبا سلسلہ جاری ہے.ایک وقت میں ہم نے کہا ہمارے علم کے لحاظ سے فلاں چیز سے فلاں چیز پیدا ہوئی، اس سے یہ، اُس سے یہ اور اس سے یہ چیز پیدا ہوئی اور پھر وہ آخری شکل میں ہم تک پہنچ گئی لیکن پھر اگلے دن ہمیں پتہ لگتا ہے کہ وہ چیز جس کو ہم نے بنیادی سمجھا تھا وہ بنیادی نہیں اس کے نیچے ایک اور اصول کام کر رہا ہے.باوجود اس علم کے کہ خدا کی قدرتوں کی کوئی حد بست نہیں پھر بھی ہم قانون قدرت کا جتنا ہمیں علم ہے اس سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں.انسان کے جسم سے تعلق رکھنے والی طلب جاننے والوں نے ایک وقت میں یہ کہا کہ جو معدنیات ہیں ان کا ہمارے جسم کے ساتھ کیا تعلق ہے کیونکہ ان کی اصطلاح میں انسانی جسم Organic ہے اور دوسری اشیاء Inorganic ہیں.ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن اب ایک اور بڑا ضروری اصول نکل آیا اور لوگوں کو یہ پتہ لگ گیا کہ معدنیات کے بغیر انسانی صحت قائم نہیں رہتی.غرض موجودات میں جتنے آثار الصفات پائے جاتے ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۵۰ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء جلوے ہیں.انسان کی اب تک کی پیدائش میں بھی خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے بے شمار جلوے نظر آتے ہیں.ہر فرد واحد کی پیدائش بھی خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک جلوہ ہے.یہ دنیا اسباب اور مسببات کی دنیا ہے.خدا تعالیٰ نے قضا و قدر کو مسببات اور اسباب کے ساتھ باندھ دیا ہے.نظام قدرت میں مادی چیزیں بڑی واضح ہیں کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ جی اگر تقدیر ہوئی تو بیمار بچ جائے گا اور اگر مقدر میں صحت نہ ہوئی تو مر جائے گا آرام سے بیٹھے رہو بلکہ لوگ بیماروں کا علاج کرانے کے لئے پاگلوں کی طرح پھرتے ہیں.اس کی بے شمار مثالیں ہیں کہ جو لوگ دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ سارے قضا و قدر کے ماتحت ہی لگے ہوئے ہیں یعنی اسباب کے پیچھے لگے ہوئے ہیں.زبان سے مانیں نہ مانیں مگر ان کا سارا طریق کار بتا رہا ہے کہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہی قضا و قدر ہے.قرآن کریم نے کہا.لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَ أَنَّ سَعْيَه سَوْفَ يُراى (النجم :۴۱،۴۰) تم جتنی کوشش کرو گے اتنا پالو گے.جس طرح جسمانی دنیا میں قضا و قدر کو اسباب اور مسببات کے ساتھ باندھ لیا ہے اسی طرح روحانی دنیا میں بھی قضا و قدر کو اسباب اور مسببات کے ساتھ باندھا گیا ہے یا قضا و قدر کے ساتھ ان کو باندھا گیا ہے.جو کام دعا کرتی ہے اور جو ہمیں سمجھ آجاتا ہے وہ یہ ہے کہ اصل تو آثار الصفات ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی غیر محدود قدرتوں میں سے بہت سی یا ایک صفت کا جلوہ ہے.اس واسطے میں نے اس سلسلہ میں پچھلے خطبہ جمعہ میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ علت العلل ہے اور اس کا ئنات کی حقیقت تا کہ انسان تو حید پر قائم رہ سکے.پس اس تمہید کے بعد دعا کا فلسفہ اور حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نیک بندوں میں ایک قوت جذب رکھی گئی ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے روحانی طور پر آثار الصفات کے نتیجہ میں یہ چیز پیدا ہوئی کہ خدا اور بندے میں ایک قوت جذب ہے اور وہ اس طرح کام کرتی ہے کہ کسی سعید روح کے لئے پہلے اللہ تعالیٰ کی رحمانیت جوش میں آتی ہے.خدا تعالیٰ کی رحمانیت کی کشش اور اس کا جذب اس سعید بندہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت بغیر عمل عامل کے جوش میں آتی ہے اور جس وقت انسان کی وہ سعید روح خدا تعالیٰ کے اس پیار کو دیکھتی
خطبات ناصر جلد ششم ۳۵۱ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء ہے جس کے لئے اس نے کوئی کوشش نہیں کی ، کوئی جد و جہد نہیں کی تو خدا کا بندہ تڑپ اُٹھتا ہے خدا تعالیٰ کے اس پیار کو دیکھ کر اور پھر وہ صدق وصفا اور ثبات کے نتیجہ میں اور زیادہ ایثار دکھاتا ہے خدا کی راہ میں.وہ سمجھتا ہے اتنی عظیم ہستی رحمانیت کا پیار میرے اوپر نازل کر رہی ہے.پھر وہ خدا تعالیٰ کے لئے ثبات قدم دکھاتا ہے اس کے عمل میں صدق ہوتا ہے ایثار ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرتا ہے وہ اور زیادہ کوشش کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا کو اور زیادہ حاصل کرے.یہ دوسرا عمل روحانی طور پر آیا تب خدا تعالیٰ اس کے صدق اور ثبات کو دیکھ کر اور اس کے جذبہ کو دیکھ کر اس کو اپنی طرف کھینچتا ہے.جب یہ جذبے دوطرفہ ہو جاتے ہیں تو انسان روحانی طور پر کمال حاصل کر لیتا ہے.باقی رہا کمال تو اس کے بھی ہزاروں درجات ہوتے ہیں.مجموعی طور پر ہم سب کو ہی کامل کہہ دیتے ہیں ورنہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اکمل وجود کے مقابلے میں تو کوئی کامل نہیں لیکن انبیاء کا اپنا مقام ہے دوسروں کا اپنا مقام ہے.ایک خاص گروہ کو ہم روحانی طور پر کامل کہتے ہیں اس معنی میں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا جلوہ دیکھا اور اس کے پیار کو پا یا بغیر اپنی کسی کوشش کے اور پھر اُن کی روح تڑپ اٹھی اور انہوں نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دی اور ہر قسم کی تکالیف اٹھانے کے لئے تیار ہو گئے اور ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا وہ پیار جو پہلے رحمانیت کے نتیجہ میں ان کو ملا تھا 60 اب خدا تعالیٰ کے قرب کے نتیجہ میں اور زیادہ ملنے لگ گیا.جس وقت ایسا بندہ خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو وہ اس دعا کا اثر دیکھ لیتا ہے اس قرب کے نتیجہ میں ( میں ذرا وضاحت کے لئے آسان الفاظ استعمال کروں گا کہ خدا تعالیٰ پھر اس بندے کی خاطر وہ مسببات پیدا کرتا ہے جن کے نتیجہ میں اس مسبب اور سبب کی دنیا میں وہ چیز پیدا ہو جاتی ہے جس کو وہ مانگتا ہے مثلاً باہر دھوپ ہے.میں اس وقت دھوپ میں باہر سے آیا ہوں.ہمیں آسمان پر کوئی بادل نظر نہیں آرہا لیکن اگر خدا تعالیٰ کا بندہ بارش کے لئے دعا کرے تو یہ تو نہیں ہوتا کہ اسی طرح دھوپ میں سے بارش کے قطرے ٹپکنے لگ جائیں بلکہ اللہ تعالیٰ اس جگہ ایسے طبعی سامان پیدا کرتا ہے یعنی ان مسببات کے نتیجہ میں بارش ہو جاتی ہے جو قانون قدرت میں آثار صفات کے نظام پر مشتمل ہیں.اگر خدا تعالیٰ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۵۲ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء کا کوئی بندہ انسانوں کی اصلاح کے لئے قحط کی بددعا کرے تو خدا تعالیٰ ایسے اصولی ، بنیادی اور طبعی سامان پیدا کر دیتا ہے اور اس کی صفات کے جلوے کچھ اس طرح ظاہر ہوتے ہیں کہ وہ ایک لمبے عرصے تک بارش نہیں ہونے دیتے اور قحط کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں لیکن یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ یہ اسباب اور مسببات کی دنیا ہے.ایک علت ہے اور ایک اس کا معلول ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات عِلتُ الْعِلَل ہے.یہ دنیا اور اس کی کائنات کا ہر جز و اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کا مظہر ہے مثلاً خدا تعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ دنیا میں بعض چیزوں کو بڑھاتا چلا جاتا ہے میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے ستاروں کی جو روشنی زمین پر پہنچ رہی ہے جب سے زمین بنی ہے اس میں ستاروں کی روشنی کا اضافہ ہو رہا ہے.بعض ستارے اتنے فاصلے پر ہیں کہ ان کی روشنی پہلے نہیں پہنچی بعض کی روشنی ۱۹۷۵ء میں پہنچی ہوگی.پس جہاں تک ستاروں کی مجموعی روشنی کا تعلق ہے جو زمین کے اوپر پڑ رہی ہے اس کے اندر ایک وسعت پیدا ہو گئی.گویا خدا تعالیٰ کی ایک یہ صفت ہے کہ وہ وسعت پیدا کرتا ہے چنانچہ وہ انسان کو ترقی دیتے دیتے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک لے آیا اور یہ بھی گویا ایک وسعت ہے روحانی طور پر کہ لوگ شریعت قرآنیہ کو سمجھنے کے قابل ہو گئے.ان کے دل و دماغ شریعت قرآنیہ کو قائم کرنے کے قابل ہو گئے انہوں نے دنیا کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہ کی اور خدا تعالیٰ کے قانون کے مطابق دنیا میں ایک انقلاب عظیم بپا ہو گیا جس کا سلسلہ چلتا چلا جا رہا ہے اور اب پھر اس پیشگوئی کے مطابق جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی کہ آخری زمانہ میں اسلام پھر اسی طرح ساری دنیا پر غالب آئے گا جس طرح وہ اپنے شروع زمانہ میں معروف دنیا پر غالب آیا تھا کیونکہ اس وقت ساری دنیا آباد نہیں ہوئی تھی اس وقت امریکہ کا وہ حال نہیں تھا جو اس وقت ہے.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے سامان پیدا کرتا ہے.پس دعا کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جب دعا کی جاتی ہے تو وہ اپنے فضل سے ایسے بنیادی اسباب پیدا کر دیتا ہے جو اس چیز کے حصول کا سبب بن جاتے ہیں جس کے لئے دعا کی
خطبات ناصر جلد ششم ۳۵۳ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء جاتی ہے مثلاً ایک شخص بیمار ہے وہ دوائی استعمال کرتا ہے اس کا اثر ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے کچھ آثار دوائی کے اندر پائے جاتے ہیں جن کو خواص اشیاء کہتے ہیں وہ دراصل آثار الصفات ہیں.مثلاً ایک تو یہ کہ دل کا جو گوشت یا پیٹھہ ہے خدا تعالیٰ کی صفت نے اس کی طاقت کا سامان اس کے اندر رکھ دیا ہے دوسرے یہ کہ ہر فرد کے دل کے لئے علیحدہ علیحدہ حکم چلتا ہے اور دل کا جو گوشت ہے اس کے اندر یہ صفت رکھی گئی کہ دوائی کے اثر کو قبول کرے.اس صفت کے بغیر اس کا علاج ہو ہی نہیں سکتا.دوائیوں کا انتخاب ہمیں یہ سمجھاتا ہے.دیکھو جو ڈاکٹر ہیں وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ میرے جیسا عام آدمی بھی سمجھ لیتا ہے کہ بعض دوائیاں ایسی ہیں جن کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ صرف دل کے گوشت پر اثر انداز ہوں گی ہمارے بازو کے گوشت پر اُن کا کوئی اثر نہیں ہوگا.اس لئے کہ دل کے گوشت میں خدا تعالیٰ کی اُسی صفت کا جلوہ ظاہر ہوا ہے جو اُس دوائی کے اثر یا صفت میں ظاہر ہوا تھا.اسی لئے دل دوائی کے اثر کو قبول کرتا ہے.جب خدا تعالیٰ کسی کا امتحان لینا چاہے اصلاح کی خاطر اصل تو اس کی رحمانیت ہے لیکن کبھی انسان خود خدا تعالیٰ کے قہر اور غضب کو بلاتا ہے اور خدا تعالیٰ اصلاح کی خاطر کہ آخر تم میری طرف رجوع کرو گے تو دین ودنیا تمہیں ملے گی اُس کے بچے کو بیمار کر دیتا ہے.اب خدا نے اس کو بڑی دولت دے رکھی ہے لیکن خدا کہتا ہے تیری دولت تیرے بچے کو نہیں بچاسکتی.ساری دنیا کے علاج اس کو نہیں بچا سکتے.دوستوں نے سنا ہوگا بعض دفعہ پاکستان میں بھی بعض لوگ امریکہ کے ڈاکٹر بلاتے ہیں اور لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں.خدا کہتا ہے دولت تمہیں دی ہے لیکن تیرے بچے کی صحت تیری دولت پر منحصر نہیں ، میرے حکم پر منحصر ہے.چنانچہ ایک طرف دوائی کو یہ حکم ہوتا ہے کہ تو اثر نہ کر.یہ خدا تعالیٰ کی صفت کا جلوہ ہوتا ہے کہ انسان جو دوائی کھا رہا ہوتا ہے اس کا اثر نہیں ہوتا دوسری طرف ایک اور جلوہ ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ کہ خدا اس کے دل کو کہتا ہے دوائی کے اثر کو قبول نہ کر.اب ساری دنیا علاج میں لگی ہوئی ہے لیکن آرام نہیں آتا.پھر اگر اور جب خدا تعالیٰ کا ایک کامل بندہ اس کے لئے دعا کرتا ہے تو دونوں طرف کے جذب کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اس سے پیار کا یہ سلوک کرتا ہے کہ اس کی خاطر طبعی اسباب پیدا کر دیتا ہے اور پھر وہ دوا میں اثر پیدا کر دیتا ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۳۵۴ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء دل کو حکم ہو جاتا ہے کہ دوائی کے اثر کو قبول کرے چنانچہ وہی دوا جو کل تک بے اثر تھی آج اثر کرتی ہے اور بیمار کو آرام آجاتا ہے.جیسا کہ میں نے ابھی خطبہ کے شروع میں بتایا ہے خدا تعالیٰ کی قدرتیں یعنی آثار الصفات عام محاورے میں ان کو قدرت کہتے ہیں اور اسے عام طور پر سب لوگ سمجھ جائیں گے ) غیر محدود ہیں.انسان اُن کی حد بست کر ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کے لئے بظاہر اپنے قانون کو توڑتا ہے لیکن قانون تو اس کے بندہ کے لئے ہے جو قانون اس کے نیچے چھپا ہوا ہوتا ہے وہ ہمیں معلوم نہیں اس قانون کا ہمیں پتہ نہیں.ہم اپنے علم کے مطابق سمجھتے ہیں کہ قانون توڑا گیا لیکن قانون توڑا بھی گیا ہمارے علم کے مطابق لیکن اس تبدیلی کے لئے جو قانون کے اندر آئی ہے اس کے لئے بھی قانون ہے ہمیں اس کا پتہ نہیں ہے مثلاً قانون قدرت یہ کہتا ہے اگر کسی کو بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائے تو آگ اس کو جلا دے گی.یہ قانون قدرت ہے اور یہی قضا و قدر ہے.خدا تعالیٰ نے یہ مقدر کر رکھا ہے کہ بھڑکتی ہوئی آگ میں اگر کسی انسان کو ڈالا جائے تو وہ جل جائے گا لیکن اگر اللہ چاہے تو ایک اور قانون جو پوشیدہ ہے ہماری نظر سے ، خدا اپنے بندہ کے لئے اس کو حرکت میں لاتا ہے چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا گیا لیکن وہ نہیں جلے.آج کل کے دہر یہ خیال رکھنے والوں نے اس پر اعتراض کر دیا کہ یہ تو ایک قصہ کہانی ہے اور بس.ورنہ آگ کیسے نہیں جلاتی ؟ چنانچہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر اس قسم کے جو اعتراضات ہو رہے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کا علم ہوا تو آپ نے کہا عجیب لوگ ہیں جو اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں.آپ نے کہا خدا تعالی کے مامور تماشہ نہیں دکھایا کرتے اس واسطے میں خود تو یہ نہیں کر سکتا لیکن میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے حالات تم میرے لئے پیدا کرو گے تو میرے خدا نے کہا ہے کہ میں اس وقت کے حالات کے مطابق آگ میں تبدیلی پیدا کر دوں گا اور مجھے آگ نہیں جلائے گی.پس جہاں تک قانون قدرت کا سوال ہے خدا اپنے نیک بندوں کی دعاؤں کو قبول کرتا.اور اس کے نتیجہ میں اپنے قانون کو بدل دیتا ہے اور اس میں جذب کا وہ قانون کارفرما ہوتا ہے جس
خطبات ناصر جلد ششم ۳۵۵ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ جب انسان قُرب کے ایک خاص مقام پر پہنچتا ہے تو اس کے حق میں بظا ہر قانون ٹوٹتا ہے لیکن یہ یوں ہی نہیں ہوتا بلکہ قانون کا ٹوٹنا بھی کسی قانون ہی کے ماتحت ہوتا ہے کیونکہ ہم قانون قدرت کی حد بست تو کر ہی نہیں سکتے.خدا کا قانون یہ کہتا ہے کہ اگر مچھلی انسان کو نگل جائے گی تو وہ ختم ہو جائے گا.یہ قانون قدرت ہے.دنیا میں سینکڑوں بلکہ میرے خیال میں ہزاروں انسانوں کو مچھلی نے نگلا.گو تعداد تو کسی نے محفوظ نہیں رکھی لیکن ہزاروں انسانوں کو مچھلیوں نے نگل لیا اور ان کی زندگی ختم ہو گئی یہ قانون قدرت ہے.نظام قدرت میں قضا و قدر نے یہ قانون بنا رکھا ہے کہ جہاں تک جان دار کا سوال ہے مچھلی کے پیٹ میں جا کر کوئی زندہ نہیں نکلا کرتا.اربوں جاندار چیزیں مچھلی کے پیٹ میں گئیں اور وہ ختم ہو گئیں مثلاً بعض مچھلی کھانے والی مچھلیاں ہیں جو ۲، ۲ سیر پکے کی مچھلیاں کھا جاتی ہیں حتی کہ بعض تو ۳۰،۲۰،۲۰، ۳۰ سیر کی زندہ سلامت تیز دوڑنے والی مچھلی ان کے قابو آ جائے تو نگل لیتی ہیں.یہ قانون قدرت ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی کو خدا تعالیٰ نے یہ نشان دکھایا تھا (اس واقعہ کی تفصیل میں جانے کا یہ وقت نہیں ) اُن کو مچھلی نے نگل لیا تو ان کی جان بچانے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنا قانون بظاہر توڑ دیا لیکن کسی قانون کے ماتحت تو ڑا اور اس واسطے جب اور جہاں ہمیں یہ نظر آئے کہ خدا تعالیٰ کا قانون کیسے ٹوٹ سکتا ہے تو حقیقت تو یہ ہے کہ قانون ٹوٹا نہیں صرف وہ قانون ٹوٹتا ہمیں نظر آیا جس کا ہمیں علم تھا.خدا تعالیٰ کے سارے قوانین کا تو ہمیں علم ہی نہیں.ہم اُن کی حد بست کر ہی نہیں سکتے ، کبھی بھی نہیں کر سکیں گے قیامت تک نہیں کر سکیں گے.پس خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے ظاہر میں نظر آنے والا قانون بھی بدل دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کا کسی قانون کو بدلنا بھی ایک قانون کے مطابق ہوتا ہے کیونکہ اس نے ہر چیز کو قانون قدرت میں باندھ دیا ہے.میں بتا چکا ہوں اس دنیا میں سب آثار الصفات یا صفات الہیہ کے جلوے ہیں اسی کا نام سنت اللہ ہے اور اسی کو قانون قدرت بھی کہتے ہیں مثلاً یہ علت ہوگی تو یہ اس کا معلول پیدا ہو جائے گا یہ چیز دوسرے کو پیدا کرے گی وغیرہ وغیرہ لیکن اس کو خدا نے قضا و قدر کے ساتھ باندھا ہوا ہے.البتہ ان قوانین کی ہم حد بست نہیں کر سکتے اسی واسطے ہم کہتے ہیں اور
خطبات ناصر جلد ششم ۳۵۶ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء ہمارے بزرگ بھی کہتے چلے آئے ہیں کہ تقدیر میں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک تقدیر ہے معلق اور ایک ہے مبرم.معلق تقدیر عام تقدیر ہے مثلاً یہ معلق تقدیر ہے کہ روٹی کھاؤ گے تو پیٹ بھرے گا، نہیں کھاؤ گے تو بھوکے مرو گے.یہ تقدیر ہے یہ قضا و قدر ہے اور ایک تقدیر ہے جوٹل نہیں سکتی.اس کا تو انسان کو پتہ ہی نہیں لگتا سوائے اس کے کہ خدا خود بتائے.پتہ اسی وقت لگتا ہے جب واقع ہو جاتا ہے پھر لوگ پریشان ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وحی والہام کے ذریعہ بہت زبر دست پیش خبریاں دی گئیں.جب میں ۱۹۶۷ء میں یورپ کے دورے پر گیا تو میں نے ایک مضمون لکھا اور لندن میں پڑھا.اس موقع پر بہت سارے انگریز آئے ہوئے تھے.ان میں کچھ تو بڑے پڑھے لکھے اور ایم پی اے وغیرہ بھی تھے.میں نے اس مضمون کو شروع ہی اس طرح کیا.میں نے کہا اگر میں تمہیں وہ باتیں بتاؤں جو پوری ہو چکیں تو تم کہو گے اب آ گئے ہو جب وہ باتیں پوری ہو گئیں تو تم نے پیشگوئیاں سنانی شروع کر دیں اور اگر میں تمہیں وہ باتیں بتاؤں جو ابھی پوری نہیں ہوئیں لیکن جن کی خدا تعالیٰ نے پہلے سے خبر دے رکھی ہے اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو نقشہ الہامات میں کھینچا گیا ہے یعنی جو قرآن کریم میں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارتیں دی ہیں وہ بتاؤں تو تم کہو گے کہ مشرق سے پتہ نہیں کون پاگل آ گیا ہے کیسی پاگلوں والی باتیں ہمارے ساتھ کر رہا ہے تو تمہارے لئے بڑی مشکل ہے.میرے لئے سمجھانا مشکل ہے اور تمہارے لئے سمجھنا مشکل ہے.تم اپنے آپ کو بہت عقلمند سمجھتے ہولیکن یہ میں بتا دیتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے (میں نے اپنے مضمون کو اسی پر ختم کیا ) کہ اگر تم خدا کی طرف رجوع نہیں کرو گے تو جو مرضی کر لو تم ہلاک ہو جاؤ گے.اس لئے اگر تم ہلاکت سے بچنا چاہتے ہو تو اس رب العلمین کی طرف رجوع کرو جو اسلام تمہارے سامنے آج پیش کرتا ہے.پس جو تقدیر مبرم ہے اس کے متعلق لوگ کہہ دیتے ہیں ہمیں تو پتہ ہی نہیں کونسی مبرم ہے سوائے اس کے کہ خدا خود بتائے اور میں نے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے چھپے ہوئے قانون کی تاریں کھینچتا ہے یہ بھی اس کا اپنا قانون ہوتا ہے لیکن انسان کے علم میں نہیں ہوتا.بظا ہر تقدیر مبرم
خطبات ناصر جلد ششم ۳۵۷ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء ہوتی ہے لیکن وہ دعاؤں کے نتیجہ میں بدل جاتی ہے کیونکہ دعا میں بڑا اثر ہے لیکن اس کے لئے جس چیز کو Develop( ڈیویلپ) کرنے کی یا جس چیز کو ارتقائی منازل میں سے گزار کر کمال تک پہنچانے کی ضرورت ہے وہ بندے اور خدا کے درمیان وہ تعلق ہے جس کو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کے مطابق قوت جذب کہا ہے.آپ نے اپنی کتابوں میں اس قوت جذب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ دعا کی کیا اہمیت ہے.اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ دعا کرے کہ خدا تعالیٰ رحمانیت کا جلوہ دکھائے.پہل بہر حال اس نے کرنی ہے اپنی طرف کھینچنے کی.انسان اپنے زور سے کچھ نہیں پاسکتا.اسی لئے کہا گیا ہے خدا کے فضل کے بغیر کوئی نجات نہیں اور نہ کسی کو جنت مل سکتی ہے.پہلے تو لوگ اس قدرت کا تھوڑا بہت نظارہ دیکھیں گے پھر اس کے بعد مجاہدہ کا دور شروع ہوتا ہے جن کو یہ شرف حاصل نہیں وہ دعا کریں خدا تعالیٰ ان کو رحمانیت کا جلوہ دکھائے اور پھر یہ دعا کریں کہ اس کا جو صحیح اثر ہونا چاہیے انسان کی روح اور اس کے دل پر وہ اثر پیدا ہو اور اس کے مقابلے میں انسان کے اندر جو کشش رکھی گئی ہے یعنی خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو.انسان صدق وصفا، ایثار اور قربانی اور انقطاع الی اللہ کے ذریعہ خدا کے قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کرے اور خدا کا قرب پالے.پھر وہ خود بھی دیکھے گا اور دنیا کو بھی دکھائے گا کہ خدا تعالیٰ کس قدر قدرتوں کا مالک ہے.دنیا جب کہ دیتی ہے کہ کچھ نہیں ہو سکتا اس وقت خدا کی طرف سے بندہ کو بتایا جاتا ہے کہ ہو جائے گا اور وہ ہو جاتا ہے لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں خدا اپنے قانون کو توڑتا نہیں لیکن جو قانون دنیا کو نظر آرہے ہوتے ہیں ان میں ایک تبدیلی اپنے کسی ایسے قانون کے ذریعہ کر دیتا ہے جو ہمارے علم میں نہیں ہوتا.پس دعا ہے، دعا موثر ہے دعا عبادت بھی ہے.یہ بھی قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگتا ہے لیکن دعا محض عبادت نہیں جس کا کوئی اثر نہ ہو بلکہ حصول مطالب کے لئے بہترین چیز ہے ہی دعا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے انسان کی ہر کوشش ایک پہلو دعا کا رکھتی ہے.جو لوگ خدا کو نہیں جانتے ان کے اندر جذب کا دو طرفہ جوش نہیں پیدا ہوتا.ان کی دعا ایک مجو بانہ دعا ہوتی ہے اور جو لوگ خدا کو اس کی ذات وصفات کے ساتھ جانتے ہیں ان کی دعا ایک عارفانہ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۵۸ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء دعا ہوتی ہے.آپ نے فرمایا ہر نئے علم کا جو دروازہ کھلتا ہے وہ درحقیقت خدا کی کسی نہ کسی صفت کا ظہور ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والے بھی دراصل کسی نامعلوم منبع کی تلاش میں ہیں.جو لوگ دن رات دنیوی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور سالہا سال کی کوششوں کے بعد کوئی چیز حاصل کرتے ہیں ان کی یہ کوشش کسی نامعلوم منبع سے کہتی ہے کہ مجھے کوئی چیز ملے کوئی اور صداقت اس پر ظاہر ہولیکن ایک عارف اپنے رب کو پہچانتا ہے، وہ اپنے رب کے حضور جھکتا ہے ، وہ اپنے رب کی خاطر دنیا کو چھوڑتا ہے، اپنے رب کی طرف انقطاع کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتا ہے اور دعا کے ذریعہ اپنا مطلب خدا تعالیٰ سے حاصل کر لیتا ہے.غرض اسلام نے اجتماعی زندگی میں بھی اور انفرادی زندگی میں بھی ایک بڑا عظیم مقام ہمارے سامنے رکھا ہے اور وہ مقام دعا کا مقام ہے.پس میں اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ دعا کریں اور ایسے رنگ میں دعا کریں کہ وہ قبول ہو.وہ خود بھی خدا کی قدرتوں کے نشان دیکھیں اور دنیا کو بھی دکھا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فارسی کے ایک شعر میں فرمایا.ع از دعا کن چاره آزار انکار دعا فرمایا اے شخص! اگر تجھے انکار دعا کی بیماری لگ گئی ہے اور تو دعا میں ایمان نہیں رکھتا تو اس کا علاج بھی دعا سے کر.یہ ایک بڑی بنیادی حقیقت ہے اس لئے جن لوگوں کو اس کو چے کی کچھ خبر نہیں ان کو خدا تعالیٰ سے دعائیں کر کے اس مقام کو حاصل کرنا چاہیے.میں اپنے دوستوں سے ایک بار پھر کہتا ہوں کہ وہ ذرا سوچیں ہم پر کتنی بڑی ذمہ داری ہے.ساری دنیا کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں.وہ دنیا جو ہماری نسبت بے شمار گنا زیادہ دولت کی مالک ہے، سیاسی اقتدار کی مالک ہے مہلک ترین ہتھیاروں کی مالک ہے ہم تو انسان پر ایک ڈنڈا بھی نہیں چلانا چاہتے اور وہ ایٹم بم بھی استعمال کر لیتے ہیں.اس دنیا کو اسلام کی طرف کھینچ کر لانا اور اس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کو ظاہر کر کے ان کو حلقہ بگوش اسلام بنانا یہ کوئی آسان کام نہیں ہے.ہماری خواہش ہے ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ غلبہ اسلام کے دن قریب ہیں.ہم اپنے بچوں کو بھی کہتے ہیں کہ تمہیں بشارت ہو لیکن وہ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۵۹ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء یہ بھی سن لیں کہ ان کے بچپن کے کھیل کود سے تو یہ نتائج نہ نکلیں گے اس لئے تم سب تیاری کرو اور وقت آنے پر قربانیاں دو.اپنے لئے نہیں نہ میرے لئے اور نہ اپنے رشتہ داروں کے لئے اور نہ کسی اور کے لئے بلکہ محض خدا اور اس کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربانیاں دو تا کہ غلبہ اسلام کے دن جلد آئیں اور ہمیں بھی دیکھنے نصیب ہوں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ششم ۳۶۱ خطبہ جمعہ ۵/ مارچ ۱۹۷۶ء اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے نظام قدرت میں قضا و قدر کو اسباب سے وابستہ کر دیا ہے خطبه جمعه فرموده ۵ / مارچ ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کیا قضا و قدر کے مسئلے کے نتیجہ میں انسان کی زندگی میں جبر پایا جاتا ہے اور وہ صاحب اختیار نہیں رہتا ؟ عام طور پر عیسائی یہ اعتراض کرتے آئے ہیں کہ چونکہ اسلام نے تقدیر پر اور قضا وقدر پر ایمان لانے کی تعلیم دی ہے اسلئے اسلام جبر کا قائل ہے اور انسان کو صاحب اختیار نہیں سمجھتا اور اگر انسان صاحب اختیار نہیں ہے تو پھر جزا سزا اور دوسرے مسائل خود بخو د ساقط ہو جاتے ہیں.جنت کس کو ملے گی اور کس کو نہیں ملے گی ، یہ سوال ہی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اگر ہر فعل انسان نے بامر مجبوری کرنا ہے اور اپنے عمل میں وہ صاحب اختیار نہیں ہے تو پھر اس کو اجر کیسا اور ثواب کیسا لیکن غیر مذاہب اور خصوصاً عیسائیت ہی نہیں بلکہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں میں سے بھی بعض اس مسئلے کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے آئے اور اُمت مسلمہ کے اندر اس قسم کے گروہ پیدا ہوتے رہے ہیں جواس بارہ میں شکوک وشبہات میں مبتلا رہتے رہے چنانچہ اس وقت میں قضا وقدر اور جبر کے مسئلے پر کچھ کہوں گا انشاء اللہ.میں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے سلسلہ نظامِ قدرت میں
خطبات ناصر جلد ششم ۳۶۲ خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۷۶ء قضا وقدر کو اسباب سے وابستہ کر دیا اور باندھ دیا ہے سلسلہ نظام قدرت سے مراد وہ قوانین قدرت ہیں جو ہمیں اس کا ئنات میں جلوہ گر نظر آتے ہیں اور میں نے بتایا تھا کہ قوانین قدرت نہایت ہی حکیمانہ آثار صفات کا نام ہے.گویا سنت اللہ یا عادت اللہ ہی کو قوانین قدرت کہا جاتا ہے اور نظام قدرت کا جو سلسلہ ہے اس میں ہمیں اسباب کام کرتے نظر آتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے اپنی صفات کے آثار کو اس طرح پر ظاہر کیا ہے کہ اس نے کچھ اسباب مقرر کئے ہیں جن سے نتیجہ نکلتا ہے اور اس کا ئنات میں بنیادی طور پر تدریج کا اصول قائم کیا گیا ہے مثلاً آم کی گٹھلی ہے وہ زمین میں لگائی جاتی ہے، اگر اس کو اسباب میسر آجائیں تو وہ زندہ رہتی ہے اور اگر اسباب میسر نہ آئیں تو اس گٹھلی سے جو آم کا درخت پھوٹا ہے وہ اپنی ابتدائی عمر میں ہی مرجاتا ہے.پھر اگر اسباب میسر آتے رہیں تو وہ درخت بڑھتا رہتا ہے، پھر اسباب میسر آتے رہیں تو ایک خاص عمر کو پہنچ کر جو تقدیر میں مقدر ہے اس کے شگوفے نکلتے ہیں، پھول آتے ہیں اور وہ پھل دینے لگ جاتا ہے پھر وہ ایک خاص عمر تک پھل دیتا رہتا ہے.پھر ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں کہ اُس آم کی عمر ڈھلنے لگتی ہے اور پھل کم ہونے لگتا ہے اور ٹہنیوں میں خشکی کے آثار آنے لگتے ہیں اور زندگی کی طراوت کم ہونی شروع ہوتی ہے اور پتوں کا حسن ماند پڑنے لگ جاتا ہے اور پھر ایک عمر گزار کے وہ درخت مرجاتا ہے.پس اس کائنات میں تدریج کا اصول اور اسباب مقرر ہیں اور اس کو ہم قانونِ قدرت کہتے ہیں اور قضا و قدر کو ان اسباب کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے :.خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان : ۳) ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس کے لئے ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے.خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اندازوں سے تو کوئی چیز باہر نہیں جا سکتی لیکن خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اندازوں کے اندر رہتے ہوئے اور ان کے مطابق ہی زندگی Unfold ہوتی ہے اس کے خفیہ خواص ظاہر ہوتے رہتے ہیں.ایک بالکل چھوٹے سے پیج یا گٹھلی سے زندگی شروع ہوتی ہے اور پھر وہ نشو ونما پاتی ہے.اسی گٹھلی کے اندر یہ انتظام ہے کہ ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں پنے اپنے اپنے وقت کے اوپر نکلتے ہیں مثلاً آم کے درخت کے سارے پتے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۶۳ خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۷۶ء ایک موسم میں یا ایک سال میں تو نہیں نکل آتے بلکہ کچھ جھڑتے ہیں اور کچھ نکلتے ہیں.اس کے کچھ اسباب ہیں اور اس کی کوئی علل ہیں اور یہ ان کے معلول بن جاتے ہیں اور اسی طرح ایک سلسلہ چلتا ہے.میں نے پچھلے خطبے میں دعا کے سلسلے میں ایک اور رنگ میں اس کے متعلق بتایا تھا.آج میں جبر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.فَقَدرَة تَقْدِيرًا میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے اس اندازہ کی وجہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان صاحب اختیار نہیں رہا بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے اختیارات ایک اندازہ کے مطابق ہیں اور وہ اپنے اختیارات میں اس اندازہ سے باہر نہیں جاسکتا اور اس کو یہ اختیارات دینا بھی کہ اس دائرہ کے اندر انسان آزاد ہے یہ بھی خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے.جب خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کا اور انسانی خو کا اندازہ کیا تو اس کا نام اس نے تقدیر رکھا جس کا اس آیت میں ہمیں علم دیا گیا ہے اور اندازہ یہ ہے کہ فلاں حد تک انسان اپنے اختیارات برت سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں.بڑی موٹی چیز ہے.بچے بھی اس کو سمجھ جائیں گے کہ ہمیں یہ اختیار نہیں ہے کہ ہم ہوا کے بغیر زندہ رہ سکیں.ہم سانس روک لیں اور سانس لیں ہی نہ اور پھر بھی زندہ رہ سکیں یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے.اسی طرح ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ اختیار نہیں دیا کہ ہم پانی نہ پئیں اور اپنی حیات کو قائم رکھ سکیں کیونکہ پانی کو ایک سبب اور علت بنایا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت میں اور اس کے جو آثار الصفات ظاہر ہوئے ہیں ان کے اندر پانی کو حیات کے قائم رکھنے کا ایک سبب بنایا گیا ہے.قرآن شریف نے اس پر دوسری آیات میں روشنی ڈالی ہے.پھر غذا ہے ہمارے علم میں ماریشس کی بعض بڑی تیز مرچیں بھی آتی رہی ہیں.خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ اختیار نہیں دیا کہ تمہارے معدے میں سوزش ہو اور پیچیش کی وجہ سے انتڑیوں میں خراش آئی ہوئی ہو اور تم ماریشس کی ایک چھٹانک تیز مرچیں کھالو اور تمہیں تکلیف نہ ہو تمہیں یہ اختیار نہیں ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۳۶۴ خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۷۶ء پس ہماری زندگی کے جو عام اصول ہیں ان میں یا ہمارے کھانے پینے کی جو چیزیں ہیں ان میں ہمیں یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم غلط چیز استعمال کریں اور ہمیں صحیح نتیجہ مل جائے.البتہ ہمیں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر ہم اپنی صحت کو قائم رکھنا چاہیں تو خدا تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق اور اس کی ہدایت کے مطابق متوازن غذا کھائیں کیونکہ غذا کا صرف ایک جزو نہیں ہے کہ صرف نشاستہ ہے یا صرف پروٹینز ( یعنی لحمیات) ہیں بلکہ بہت ساری چیزیں ہیں.مثلاً گوشت کی قسم کی جو پروٹینز ہیں ان کی پھر آگے کئی قسمیں ہیں.پروٹین ہمیں گوشت سے ملتی ہے، پروٹین ہمیں دودھ سے ملتی ہے، پروٹین ہمیں پنیر سے ملتی ہے، پروٹین ہمیں اخروٹ سے اور دوسرے Nuts یعنی گریوں وغیرہ سے ملتی ہے مثلاً بادام پستہ اور درجنوں اس قسم کی چیزیں ہیں.ڈاکٹر اب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق پروٹین میں بھی ایک توازن قائم رکھنا چاہیے.خدا کو تو وہ نہیں جانتے.یہ فقرہ میں کہہ رہا ہوں.بہر حال ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ انسان نے اگر صحت مند رہنا ہے تو اس کو اپنی روزانہ کی پروٹین کی مقدار میں بھی آگے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اتنے فیصد میں گوشت سے حاصل کروں گا ( گوشت کی آگے پھر کئی قسمیں بن جاتی ہیں مچھلی وغیرہ لیکن اس کو میں چھوڑتا ہوں ) اور اتنے فیصد میں پنیر سے حاصل کروں گا اور اتنی دودھ سے لوں گا اور اتنی بادام وغیرہ سے لوں گا اور اتنی میں Legumes یعنی دالوں سے لوں گا.دالوں میں سے کسی میں کم پروٹین ہوتی ہے اور کسی میں زیادہ.بہر حال خدا تعالیٰ کی شان ہے اس نے بے تحاشا چیزیں بنا دیں اور ہمیں کہا کہ وَضَعَ الْمِيزَانَ - اَلا تَطْغَوا فِي الْمِيزَانِ (الرحمن : ٩،٨) کہ اس نے میزان پیدا کیا ہے اور تمہیں حکم یہ ہے کہ اس اصول میزان کو اس بیلنس (Balance) کو توڑنا نہیں.اب انگریزوں نے بالکل اسی لفظ کا ترجمہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں Balanced Diet یعنی متوازن غذا - قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے کہا تھا کہ خدا نے ہر چیز میں میزان بنایا ہے اَلا تَطْغَوا في الميزان تمہیں حکم یہ ہے کہ اس اصول کو نہ تو ڑنا، اس بیلنس (Balance) کو Upset نہ کر دینا اور نہ تمہاری صحبتیں خراب ہو جائیں گی.پس ہمیں یہ تو اختیار ہے کہ ہم متوازن غذا کھائیں ، وزن کو برقرار رکھیں اور ہمیں ٹھیک
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۷۶ء صحت مل جائے یا ہم اس اصول کو توڑیں اور بیمار ہو جائیں.اِذَا مَرِضْتُ (الشعر آء :۸۱) میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان خود بیمار ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی شفا کے لئے جھکتا ہے لیکن ہمیں یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم گوشت کھا ئیں اور ہماری خواہش یہ ہو کہ ہمیں نشاستہ مل جائے اور ہمیں یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم کھائیں پنیر اور یہ سمجھیں کہ ہمارے جسم میٹھے کا فائدہ حاصل کر لیں.یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں ہے.وہاں خدا تعالیٰ نے اپنا قانون چلایا ہے.پس ایک دائرہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے.جب انسان کی فطرت کو پیدا کیا گیا تو اس فطرت کے اندر یہ اندازہ تھا اور یہ قضا و قدر تھی کہ اس دائرہ کے اندر انسان کو آزاد رکھا جائے گا.تو تقدیر میں جبر نہیں ہے یعنی خدا تعالیٰ کا خلق کا یہ جلوہ کہ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی خُو اور فطرت کا ایک اندازہ کیا یہ اس کی تقدیر ہے اور یہ اس کا اندازہ ہے.یہ تقدیر جبر نہیں ثابت کرتی بلکہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں یہ تقدیر انسان کے اختیار کو ثابت کرتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے ہر چیز کا اپنا ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے.انسانی فطرت کی آزادی اور اس کے جو اختیارات ہیں یہ تقدیر نے اس کو دیئے ہیں اپنی طرف سے وہ انہیں حاصل نہیں کر سکتا تھا.یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کا ئنات میں ایک حکم جاری کرے اور انسان کہے کہ نہیں میں ایک دوسرا حکم جاری کروں گا.انسان خدا تعالیٰ سے لڑنے کی قدرت نہیں رکھتا لیکن بعض دفعہ انسان اپنی حماقت یا جہالت کے نتیجہ میں یا اس کے اندر شیطانی خو جوش مارتی ہے اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے لڑ پڑتا ہے لیکن اس کا اثر وہ نہیں نکلتا جو وہ چاہتا ہے کہ نکلے.پس انسان کو آزا درکھنا اور اس کو اختیار دینا خدا تعالیٰ کی تقدیر کا حصہ ہے اور اس نظام قدرت میں جو قوانین قدرت چل رہے ہیں ان میں قضا وقد رکو اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ نے اسباب کے ساتھ وابستہ کر دیا اور باندھ دیا ہے.خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَرَة تَقْدِيرًا کی یہ تفسیر جو میں بتا رہا ہوں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفسیر قرآنی کے متعلق ہمیں بہت سے اصول بتائے ہیں ان کی تفصیل میں تو میں نہیں جاؤں گا وہ علیحدہ مضمون ہے.ایک بات آپ نے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۶۶ خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۷۶ء یہ بتائی ہے کہ قرآن کریم خود اپنا مفسر ہے یعنی اپنی تفسیر خود قرآن کریم کر رہا ہے.چنانچہ خلق كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَة تَقْدِيرًا کے یہ معنی کہ خدا تعالیٰ نے اپنی تقدیر سے اور اپنی قضا و قدر سے انسان کو صاحب اختیار بنا دیا ہے یہ معنی دوسری آیات سے وضاحت کے ساتھ ثابت ہونے چاہئیں.اگر قرآن کریم میں کسی اور جگہ بڑی وضاحت کے ساتھ اس کی ضد ہو تو پھر یہ تفسیر غلط ہو جائے گی.پس قرآن کریم اپنی صحیح تفسیر کے لئے کسی غیر کا محتاج نہیں ہے بلکہ یہ اپنی آیات کی خود تفسیر کرتا ہے.یہ ایک عظیم کتاب ہے.دیکھو! قرآن کریم نے ایک جگہ فرمایا.لَيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى - وَ أَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ یری - (النجم :۴۱،۴۰) کہ اجر حاصل کرنے کے لئے عمل کرنے کی ضرورت ہے انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے اور ایک جگہ فرمایا ہے فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ (الصف: ٦) بعض لوگ اس پر اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے گمراہی کا انتظام پیدا نہیں کیا.خدا تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ جب انہوں نے حق سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں جو حق کی مناسبت رکھی تھی اس مناسبت کو زائل کر دیا اور وہ ان کے اندر نہیں رہی اور یہ قانون قدرت ہے کہ جو آدمی بدی کرتا ہے اور بدی پر اصرار کرتا ہے وہ بدی کی نفرت کو کھو دیتا ہے اور اس کے اندر اس کو خوشی اور لذت محسوس ہوتی ہے اور یہ اس کا اپنا قصور ہے.اس کی ظاہری اور موٹی مثال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قانون قدرت میں سورج کو روشنی دینے کے لئے بنایا ہے لیکن انسان کے لئے اس نے یہ قانون بنایا ہے کہ اگر وہ کھڑ کیوں اور دروازوں والے کمرے بنائے تو اگر وہ دن کے وقت کھڑکیاں دروازے کھلے رکھے یا ان پر شیشے لگے ہوئے ہوں تو کمرے کے اندر روشنی آئے گی.ہم ایسے دروازے لیتے ہیں جن میں شیشے وغیرہ نہیں لگے ہوئے تو اگر دروازے کھلے ہوں گے تو کمرے میں روشنی آئے گی.یہ قانون قدرت ہے اور اگر کوئی شخص اپنے کمرے کے دروازے بند کر دے اور شیشہ وہاں کوئی نہیں لگا ہوا تو وہاں پر اندھیرا ہو جائے گا.یہ قانون قدرت ہے.ہر فعل جو انسان سے صادر ہوتا ہے وہ اس کی مرضی سے ہوتا ہے.اب وہ صاحب اختیار ہے کہ چاہے تو اپنے کمرے کا دروازہ بند کرے اور چاہے تو اپنے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۶۷ خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۷۶ء کمرے کا دروازہ بند نہ کرے اس کو یہ اختیار حاصل ہے لیکن جب وہ دروازہ بند کرتا ہے تو اس کے اس فعل پر کہ اس نے سب دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں اور وہاں کوئی شیشہ بھی نہیں لگا ہوا اللہ تعالیٰ ایک اثر پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہاں پر اندھیرا کر دیتا ہے.یہ انسان کا فعل ہے کہ اس نے دروازے کھڑکیاں بند کر دیں اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ اثر پیدا کیا کہ وہاں پر اندھیرا کر دیا.اسی طرح اندھیرے کمرے میں کھڑکیاں دروازے کھولنے کا عمل انسان کا ہے اور اس کے بعد جو روشنی ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے مطابق ہوتی ہے.پس انسان اپنے دائرہ میں صاحب اختیار ہے اور انسان کا یہ اختیار اور انسان کی یہ آزادی قضا و قدر ہے یعنی خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا اور یہ اندازہ قائم کیا اور مقر ر کیا ہے کہ اس حد تک نوع انسانی اپنے دائرہ میں آزا در ہے گی اور نوع انسانی کا ہر فرد اپنے اپنے دائرہ استعداد میں آزاد رہے گا.ہر انسان کا دائرہ استعداد مختلف ہے مثلاً ہر انسان علم کے حصول میں ایک جیسی ترقی نہیں کر سکتا.لَيْسَ لِلإِنسَانِ اِلَّا ما سعی کا اصول تو یہ ہے کہ اجر کے حصول کے لئے تمہارا عمل ضروری ہے اگر تم عمل نہیں کرو گے تو تمہیں اجر نہیں ملے گا.اس میں جبر کہاں سے ہوا؟ بالکل پوری طرح آزادی کا اعلان کر دیا ہے لیکن ہر شخص دوسرے شخص جیسا اور اتنی عقل والاعمل نہیں کرسکتا.ہر ایک کا اپنا ایک دائرہ استعداد ہے جو بڑے بڑے موجد ہیں ان کی استعداد اور ہے مثلاً جس نے ایٹم کی طاقت کا علم حاصل کیا ( گواب اسے غلط طرف لے گئے ہیں ) اس شخص کو خدا تعالیٰ نے اتنی ذہنی طاقت دی تھی کہ وہ اس میدان میں یہ چیز ایجاد کر لیتا یہ ہر شخص کا کام نہیں تھا لیکن یہ طاقت اور قوت اس کو خدا تعالیٰ نے دی تھی.پس تقدیر کو جس معنی میں قرآن کریم استعمال کرتا ہے اس میں موٹی بات یہ ہے کہ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَرَة تَقْدِيرًا میں تقدیر کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے اور یہ تقدیر خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں کو ضائع نہیں کرتی کیونکہ وہ خود اسی نے دی ہیں.البتہ ان قوتوں کی تعیین اور حد بندی اور اندازہ کر کے ان کو ایک دائرہ استعداد کے اندر رکھ دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور اس دائرے کے اندر انسان کو اختیار ہے.ہر انسان ولایت کے اعلیٰ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۶۸ خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۷۶ء مقام پر پہنچ نہیں سکتا.خدا تعالیٰ کا نیک بندہ اپنے دائرہ استعداد میں خدا تعالیٰ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور اسے پا بھی لیتا ہے.یہ تو درست ہے لیکن ہر انسان کا استعداد کا دائرہ ایک جیسا نہیں ہوتا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوع انسانی میں سب سے زیادہ اور عظیم استعدادوں کے حامل بنا کر پیدا کئے گئے تھے جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام سے ہمیں پتہ لگتا ہے نہ آپ سے پہلے کسی ماں نے اتنی عظیم استعدادوں اور طاقتوں اور صلاحیتوں والا بچہ پیدا کیا اور نہ آئندہ پیدا کرے گی.اسی وجہ سے قرآن عظیم جیسی کتاب آپ پر نازل ہوئی اور رحمتہ للعالمین کی حیثیت سے آپ دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے.یہ آپ ہی کی استعداد تھی اور اتنی عظیم استعداد کے مالک نے ہمیں یہ بھی کہا کہ دین العجائز اختیار کیا کرو کیونکہ ایک گروہ ایسا ہے جو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا.پس زیادہ گہرائیوں میں نہ جایا کرو جو تمہیں حکم ہے وہ کرو اور تمہاری استطاعت کے مطابق یعنی جتنی تم میں ثواب حاصل کرنے کی طاقت اور قوت ہے اس کے مطابق تمہیں تو اب مل جائے گا ورنہ اگر تم اپنی طاقت سے آگے جاؤ گے تو شیطان کے لئے رستے کھل جائیں گے جیسا کہ اگر ایک شخص کے معدے کو اللہ تعالیٰ نے دو چھٹانک آٹا ہضم کرنے کی طاقت دی ہے اور وہ ایک سیر کھا لیتا ہے تو بد ہضمی ہو جائے گی اور اگر کسی کے معدے کو آدھ سیر آٹا کھانے کی طاقت ہے جیسا کہ عام طور پر ہمارے زمینداروں کے معدوں کو یہ طاقت ہے تو اگر وہ دو چھٹانک کھائیں گے تو وہ کمزور ہو جائیں گے اگر وہ دوسیر کھالیں گے تو وہ بھی خرابی پیدا کرے گا اور بدہضمی ہو جائے گی.اسی طرح انسان کی ظاہری زندگی میں ہم ہزاروں مثالیں ایسی دے سکتے ہیں کہ انسان استعداد سے نہ ادھر ہوسکتا ہے نہ اُدھر ہوسکتا ہے لیکن استعداد کے اندر اس کو آزادی ہے مثلاً اس کو یہ آزادی ہے کہ اس نے اپنی ذات کے متعلق غور کر کے محاسبہ نفس کر کے اپنی طبیعت اور فطرت اور عادات اور اپنے جسم کے مختلف حصوں کی طاقت کو مد نظر رکھ کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو پروگرام بنایا ہے اس پر عمل کرے اور اپنی استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے اس کو یہ آزادی حاصل ہے اور اسی کو ہم تقدیر کہتے ہیں یعنی انسان کو صاحب اختیار بنانا اور اس کو آزادی دینا یہ الہی تقدیر ہے.اس نے یہ چاہا کہ ایسا ہو فَقَدرَةُ تَقْدِيرًا اگر اللہ
خطبات ناصر جلد ششم نہ چاہتا تو انسان کبھی آزاد نہ ہوتا.۳۶۹ خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۷۶ء انسان کے بارے میں تقدیر اور اندازے کے متعلق قرآن کریم میں بیسیوں آیات ہیں پہلے مجھے خیال آیا کہ میں ایسی تیس آیات منتخب کر کے انہیں اس خطبے کا حصہ بنا دوں لیکن پھر میں نے سوچا کہ پہلے میں اصولی بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کروں اور اس کے بعد دوسری طرف آؤں.پس قرآن کریم ان آیات سے بھرا پڑا ہے جن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ انسان کو اپنے عمل کی جزا ملے گی مثلاً ایک آیت یہ ہے کہ تم میں سے جو بھی اعمال صالحہ بجالائے گا مرد ہو یا عورت اس کو ان کے مطابق جزا ملے گی.میں نے بتایا ہے کہ قرآن کریم میں بیسیوں آیات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان مجبور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر جبر کا قانون لاگو نہیں ہے بلکہ اس کو صاحب اختیار بنایا گیا ہے اور اس کو آزادی دی گئی ہے لیکن اس کو ایک اندازے کے مطابق آزادی دی گئی ہے اور فَقَدرَة تَقْدِيرًا میں اس کا اعلان کیا گیا ہے اور قرآن کریم ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے.تم میں سے کوئی شخص اپنی غفلتوں میں زندگی گزارتے ہوئے خدا تعالیٰ پر یہ الزام نہیں دھر سکتا کہ اس نے ہمیں پیار کیوں نہیں دیا حالانکہ ہم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق مہدی پر ایمان لے آئے تھے.تمہیں صرف یہ حکم تو نہیں دیا گیا تھا کہ ایمان لاؤ بلکہ تمہارے لئے اس دائرہ استعداد کے اندر جس میں تمہیں آزاد کیا گیا ہے ہزاروں راستے ایسے کھولے گئے تھے جن میں سے ہر راہ کو اختیار کرنے یا نہ کرنے میں تم آزاد تھے اور تمہیں کہا گیا تھا کہ اگر تم ان کو اختیار کرو گے تو تمہیں ثواب مل جائے گا اور اگر تم ان کو اختیار نہیں کرو گے تو جس حد تک تم ان راہوں کو اختیار نہیں کرتے اس حد تک تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مستحق نہیں ٹھہرو گے.اسی طرح ہزا ر ہا راستے تمہارے اوپر بند کئے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ یہ کام نہیں کرنے ، یہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی باتیں ہیں اگر ان ممنوعہ راہوں میں سے بعض راہوں کو تم اختیار کرو تو خدا تعالی کا غضب تم پر آئے گا لیکن یہ اس لئے نہیں کہ تم مجبور ہو بلکہ اس لئے کہ تمہیں آزادی دی گئی تھی کہ تم چاہو تو ان غلط راہوں کو جو خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر کی طرف لے جانے والی ہیں اختیار کر لو.تم آزاد تھے تم نے خود اپنے لئے جہنم کے سامان پیدا کر لئے لیکن اگر تم ہر غلط راہ سے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۷۰ خطبہ جمعہ ۵ / مارچ ۱۹۷۶ء بچو اور تقویٰ کی راہ کو اختیار کرو تو پھر نیکی کی راہیں تمہارے لئے آسان ہو جائیں گی.پس قضا و قدر کا جو مسئلہ اسلام پیش کرتا ہے بلکہ وہ انسان کو صاحب اختیار بنانے کا مسئلہ ہے وہ انسان کو ایک دائرے کے اندر آزاد رکھنے کا مسئلہ ہے وہ انسان کی دینی اور دنیوی ترقیات کی را ہیں کھولنے کا مسئلہ ہے.یہ مسئلہ اتنا عظیم ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب اس کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا، نہ عیسائیت نہ یہودیت اور نہ کوئی اور مذہب اور نہ کوئی عقل انسانی کا تراشیدہ علم اس کے مقابلے میں ٹھہر سکتا ہے.جس جگہ عیسائیوں نے قضا و قدر کی وجہ سے یہ اعتراض کیا کہ اسلام جبر کی تعلیم دیتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اس جگہ اسلام کی عظیم شان بیان کی اور اسلام کے حسن کو دنیا کے سامنے رکھا.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کے سمجھنے اور ہمیشہ اسے یادرکھنے کی توفیق عطا کرے کیونکہ انسان کو بعض دفعہ شیطان اس طرح بھی ورغلاتا ہے کہ انسان خود گناہ کرتا ہے لیکن کہتا ہے کہ کیا کریں بس تقدیر تھی اس لئے گناہ ہو گیا.خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ مقدر نہیں کیا کہ تم گناہ کرو بلکہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ مقدر کیا ہے کہ چاہوتو گناہ کرو چاہو تو گناہ سے بچو، چاہوتو نیکیاں کرو اور چاہوتو نیکیاں کرنے سے انکار کرو اور جب تم اپنے اختیار سے نیکیاں کرو گے تو خدا تعالیٰ دوڑتا ہوا آئے گا اور تمہیں اپنے دامن رحمت میں لپیٹ لے گا ورنہ تم خود ذمہ دار ہو اور خدا تعالیٰ پر یا کسی انسان پر اس کا الزام نہیں دھرا جا سکتا.پس اپنی اس آزادی اور اس اختیار کی قدر کو پہچانو جو خدا تعالیٰ نے اپنی تقدیر اور قضا و قدر میں تمہارے لئے مہیا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول کے لئے ہمیشہ کوشاں رہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے اور خدا سے ہمیں مقبول اعمال کی توفیق ملے اور وہ اپنی نعمتوں سے ہمیں نوازے.روز نامه الفضل ربوه ۱۵ جون ۱۹۷۶ صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ششم ۳۷۱ خطبہ جمعہ ۲۶ / مارچ ۱۹۷۶ء اسلام نہایت ہی حسین اور عظیم شان والا مذہب ہے خطبه جمعه فرموده ۲۶ / مارچ ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ بقرہ کی آیت کے درج ذیل حصہ کی تلاوت فرمائی:.لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى - (البقرة : ۲۵۷) اور پھر حضور انور نے فرمایا:.گذشته پندرہ دن انفلوائنزا کی وجہ سے بیماری میں گزر گئے.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا بیماری تو قریباً دور ہو چکی ہے لیکن اپنے پیچھے کچھ شعف کے آثار چھوڑ گئی ہے.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل کرے اور یہ ضعف بھی دور ہو جائے.اسلام نہایت ہی حسین اور عظیم شان والا مذہب ہے.اس قدر زبر دست دلائل اسلام کی صداقت کے قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن عظیم کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے اس میں پائے جاتے ہیں پھر بعد میں آنے والے مظہرین ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ سے علم قرآن سیکھا، اُن کی تفاسیر میں یہ دلائل پائے جاتے ہیں.ہر زمانے اور ہر علاقے اور ہر قوم کے جو خیالات تھے اور اُن کے جو عقائد تھے اُن کو اسلام کی طرف لانے کے لئے جس
خطبات ناصر جلد ششم ۳۷۲ خطبہ جمعہ ۲۶ / مارچ ۱۹۷۶ء قسم کے دلائل کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ان مقربین اور مطہرینِ امت کو دیتا چلا آیا ہے اس کے علاوہ بھی آسمانی نشانات کا ایک سمندر ہے جو خدائے مہربان نے اسلام کو عطا کئے ہیں.ان عظیم اور بین دلائل کے ہوتے ہوئے اور نشانات کا اس قدر وسیع سمندر جو ہے اس کے ہوتے ہوئے اسلام کو اپنی صداقت کے منوانے کے لئے اور انسان کے دل کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں جاگزیں کرنے کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں لیکن یہ بھی ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک وقت میں ایسے لوگ خود اسلام کے اندر پیدا ہو گئے جو اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ اسلام کو اپنی اشاعت کے لئے تلوار کی طاقت اور زور کی ضرورت ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نہ تو اسلامی دلائل کا علم رکھتے تھے اور نہ وہ کوئی ایسا روحانی مرتبہ رکھتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض سے حصہ لے کر دنیا کو نشانات دکھانے کے قابل ہوتے.غرض جہالت اور عدم قابلیت کے نتیجہ میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ اسلام صرف تلوار کے زور سے پھیل سکتا ہے اس کے اندر کوئی اندرونی محسن نہیں اور نہ اس میں قوتِ احسان پائی جاتی ہے جس زمانہ میں ہم پیدا ہوئے ہیں، یہ دنیوی لحاظ سے علمی میدانوں میں آگے ہی آگے بڑھنے والا زمانہ ہے کیونکہ انسان نے قدرت کے مشاہدہ کے بعد اور تجربات کے نتیجہ میں علم کے میدان میں بڑی ترقیات کر لیں.لیکن علمی میدان میں ترقی کرنے والے بد قسمتی سے مسلمان محقق اتنے نہیں تھے.اکا دُکا تو کوئی تھا لیکن اکثریت ان محققین کی یا تو عیسائیت سے تعلق رکھنے والی تھی یا یہودیت سے تعلق رکھنے والی تھی یاد ہریت سے تعلق رکھنے والی تھی یا کسی اور مذہب یا ازم سے تعلق رکھنے والی تھی اور جہاں اُنہوں نے ایک حد تک علوم میں ترقی کی وہاں اُنہوں نے اسلام کے خلاف اور خدا تعالیٰ کی ہستی کے خلاف اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بڑی کثرت سے اعتراضات کرنے شروع کر دیئے اور چونکہ اُن کو علمی لحاظ سے فضیلت حاصل تھی اس لئے وہ اپنی بات منوانے کے لئے اور ایک معصوم ذہن پر اثر ڈالنے کے لئے کہتے تھے دیکھو! ہم نے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۷۳ خطبہ جمعہ ۲۶ / مارچ ۱۹۷۶ء سائنس کے میدانوں میں ، ہم نے فلسفہ کے میدانوں میں اور ہم نے اخلاقیات کے میدانوں میں کتنی ترقی کی ہے اس واسطے آج اسلام پر جو ہمارے اعتراضات ہیں اُن کے اندر بھی اُن ترقیات کے نتیجہ میں کوئی وزن تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا.یہ بات غلط تھی اُس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کے ایک عظیم روحانی فرزند کو مبعوث کیا مسیح اور مہدی کے وجود میں اور اس قدر علوم عطا کئے گئے مہدی علیہ السلام کو اور اس قدر دلائل دیئے گئے اسلام کی حقانیت کے ثبوت میں اور اسلام کے مقابلہ میں آنے والے ہر مذہب اور ہر خیال کے اعتراض کو دور کرنے کے لئے اس قسم کے دلائل دیئے کہ جو احمدی آج ان دلائل سے واقف ہیں ان کے سامنے بڑے بڑے پڑھے لکھے عیسائی بھی کھڑے ہونے سے یا بات کرنے سے گھبراتے ہیں.افریقہ کے ایک بچے کی میں نے پہلے بھی مثال دی تھی لیکن یہ تو روز مرہ کا دستور بن گیا ہے اور جماعتِ احمدیہ نے یورپ میں اور دوسرے غیر مسلم ممالک میں جو کوشش کی ہے، اُس کا نتیجہ ابھی یہ تو نہیں نکلا کہ وہ کثرت سے مسلمان ہو گئے ہوں لیکن یہ نتیجہ نکل آیا ہے (محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ) کہ وہی لوگ جو پہلے اسلام پر اعتراض کیا کرتے تھے ، اب اُن کا رویہ، اُن کی Approach اور اُن کے بیانات کی جو شکل ہے وہ بدل گئی ہے اب بے ہودہ الزام تراشی اور گالیوں کی بجائے وہ اس طرف آرہے ہیں کہ اسلام اس قابل ہے کہ اس پر غور کیا جائے یا اس میں بڑی خوبیاں ہیں یا یہ کہ جولوگ عیسائیت کو سچا سمجھتے ہیں ابھی تک وہ کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارے جیسا ہی ہے اس میں کوئی برائی نہیں ہے جیسے عیسائیت سچی ہے ویسے ہی یہ بھی سچا مذ ہب ہے لیکن ہم نے تو یہ ثابت کرنا ہے کہ عیسائیت اپنا وقت گزار چکی اور جس زمانہ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کو بھیجا گیا تھا اور اُس زمانہ کی ضرورتیں اُنہوں نے پوری کر دیں.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب انجیل کی ضرورت نہیں رہی بلکہ اب قرآن کریم نے پہلی تمام شریعتوں کی جگہ خود لے لی ہے چنانچہ قرآن کریم نے یہ اعلان کر دیا.لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى یعنی جو ہدایت ہے اور جو ضلالت ہے اس
خطبات ناصر جلد ششم ۳۷۴ خطبہ جمعہ ۲۶ / مارچ ۱۹۷۶ء کے درمیان ایک بین اور نمایاں فرق کر کے بتا دیا گیا ہے اسی مفہوم کو سورۃ بقرہ ہی میں ایک دوسری جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے.هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتِ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقرۃ:۱۸۶) کہ جو علومِ دین ایسے تھے جن سے دنیا واقف نہیں تھی قرآن کریم ان علوم کو لانے والا ہے چونکہ یہ ھدی للناس ہے اور بَيِّنَتِ مِنَ الْهُدی جن دینی ہدایات میں اجمال پایا جاتا تھا اور کچھ پہلوضرورت زمانہ کی وجہ سے پہلے نمایاں نہیں کئے گئے تھے قرآن کریم نے اس اجمال کی تفصیل بتائی اور اُن مشتبہ چیزوں کی وضاحت کر دی اور پھر فرمایا یہ الفرقان ہے قرآن کریم حق اور باطل میں ایک امتیاز پیدا کرتا ہے کیونکہ قرآن کریم یا اسلامی شریعت میں اس قدر زبردست دلائل ہیں اور اسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانات کا اتنا وسیع سمندر عطا کیا گیا ہے کہ ان دلائل اور ان آسمانی نشانات کے بعد اسلام کو اپنی اشاعت کے لئے کسی مادی طاقت اور قوت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہاں جو لوگ دلائل سے غافل اور آسمانی نشانات کے حصول کی اہلیت نہیں رکھتے وہ دھوکا کھاتے ہیں.قرآن کریم نے دلیل کے ساتھ (چند باتیں میں نے بیان کی ہیں ورنہ قرآن کریم کے سارے دلائل تو میں اس وقت بیان نہیں کر سکتا ) انسان کے سامنے یہ بات بڑی وضاحت اور زور سے رکھی کہ اسلام کو ، قرآن کریم کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا دین پھیلانے کے لئے کسی جبر کی ضرورت نہیں ہے فرما یا لا اکراہ فی الدین.دین کے بارہ میں جبر جائز نہیں لیکن انسان بھی کیا عجیب ہے؟ اس عظیم اعلان کے باوجود اور اس عظیم اعلان کے حق میں زبر دست دلائل کے ہوتے ہوئے جبر کرنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے.ہم ایک کہاوت سنا کرتے تھے کہ کسی آدمی کو موقع مل گیا اُس نے ایک غیر مسلم کو قابو کیا اور چھر انکال کر کہنے لگا پڑھ کلمہ.وہ حیران کہ یہ کیا بات ہوئی کہ چھرے کے زور پر مجھے کہتا ہے پڑھ کلمہ.خیر اُس نے کوئی دلیل دینی چاہی اور کہا مجھے سمجھاؤ تو سہی مگر اُس نے کہا یا تو کلمہ پڑھو یا میں چھرے سے تمہاری گردن کا تا ہوں.چنانچہ جب اُس نے یہ دیکھا کہ یہ شخص سنجیدگی کے ساتھ چھری کی دھار پر مجھے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنا چاہتا ہے تو چونکہ اُس نے جان بچانی تھی اس
خطبات ناصر جلد ششم ۳۷۵ خطبہ جمعہ ۲۶ مارچ ۱۹۷۶ء لئے کہنے لگا اچھا تو پھر پڑھاؤ کلمہ تو وہ آگے سے کہنے لگا اوہو! کلمہ تو مجھے بھی نہیں آتا.تو بڑا خوش قسمت ہے تیری جان بچ گئی ورنہ یا تو کلمہ پڑھتا یا میں تجھے مار دیتا.پس جبر کے زور سے اسلام منوانے والے، اسلام کی حقانیت کے روشن نشانات سے خود بے نیاز ہو جاتے ہیں.یہ ایک بڑا پرانا اور مشہور قصہ ہے لیکن اس میں ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ جس شخص کو اسلام کے حسن واحسان کا علم نہیں وہ چھرے یا تلوار یا طاقت یا ایٹم بم سے دل کے عقائد بدلنے کی کوشش کرے گا.حالانکہ دین کے بارہ میں جبر سے کام لینے کی ہرگز اجازت نہیں ہے.لا اكراه في الدین کے کئی تفسیری معنے لئے جاسکتے ہیں.دین کے معنے اگر دل سے اطاعت کے لئے جاویں اور یہ لغت عربی کی رو سے صحیح ہیں.تو یہ امر واضح ہے کہ اطاعت میں جبر ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اطاعت کا تعلق اخلاص سے ہے اور اخلاص کا تعلق دل سے ہے اور دل کا کوئی تعلق طاقت سے نہیں یعنی زبان سے تو ز بر دستی کہلوایا جا سکتا ہے اگر کوئی بزدل قابو آ جائے لیکن دلی اخلاص کے ساتھ زبردستی اطاعت نہیں کروائی جاسکتی.اس کے لئے اخلاقی اور روحانی طاقتیں ہیں جن کی ضرورت پڑا کرتی ہے.پس ایک یہ جبر ہے جس کی قرآن کریم میں تردید کی گئی ہے یعنی کسی کو زبر دستی مسلمان بنانے کی ممانعت کی گئی ہے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر رحم کرے جو ز بر دستی مسلمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں اسلام کو تو کسی مادی قوت اور طاقت کے استعمال کی جیسا کہ میں نے ابھی مختصر لیکن ذرا وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، ضرورت ہی نہیں کیونکہ اسلام کو اپنی صداقت منوانے کے لئے زبر دست دلائل دیئے گئے ہیں اور آسمانی نشانوں کا سلسلہ قیامت تک ممتد ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آسمانی نشانات کے پہلے سلسلے ختم ہو گئے اور آپ ایک زندہ نبی کی حیثیت سے دنیا میں آئے اور آپ کا روحانی فیض قیامت تک جاری ہے اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں آسمانی نشان ظاہر ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے آج کے دن سے پیچھے دیکھیں تب بھی کوئی زمانہ خالی نہیں آسمانی نشانات سے، اور مستقبل کی طرف فراست کی تیز شعاعیں ڈالیں تب بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ کوئی زمانہ خالی نہیں ہوگا.ایک وقت تھا جب عیسائی مناد ہندوستان میں جہاں اُس وقت انگریزوں کی حکومت تھی ،
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۲۶ / مارچ ۱۹۷۶ء یسوع مسیح کے پرانے قصوں اور معجزات کی منادی کیا کرتے تھے.کہتے تھے مسیح نے یوں مردے زندہ کئے اور مسیح نے یوں اندھوں کو بینائی عطا کی.مسیح نے یہ کیا اور وہ کیا.عجیب و غریب قصے ہیں جو وہ پیش کیا کرتے تھے اور ان قصوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی اُس وقت اسلام کی طرف منسوب ہونے والا کوئی جرات مند آدمی نظر نہیں آتا تھا سوائے خال خال لوگوں کے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے معا پہلے ہمیں کچھ ایسے وجود نظر آتے ہیں جن کے دل میں اسلام کی محبت اور غیرت تھی اور وہ مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے تھے پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسے آسمانی نشانات دیئے کہ اُن کے سامنے عیسائی مناد ٹھہر نہ سکے.آپ نے فرمایا کہاں گئے وہ عیسائی مناد جو چوراہوں پر کھڑے ہو کر ” خداوند یسوع مسیح کے معجزات بیان کیا کرتے تھے آج جب میں کہتا ہوں میرے مقابلہ میں معجزہ دکھانے کے لئے اور نشان دکھانے کے لئے آؤ تو ایک شخص بھی سامنے نہ آیا.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ وہ نشان جن کا مطالبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا اور جن کا آپ نے عیسائیت کو چیلنج دیا آج بھی وہ چیلنج قائم ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں سلسلہ خلافت قائم ہے اور خلیفہ وقت بطور نا ئب مسیح اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ اُن سب چیلنج کی ذمہ داری قبول کرے اور پورا تو گل رکھتا ہے اور رکھے گا ہر خلیفہ کو اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے اظہار کے لئے خلفائے احمدیت کو جب کبھی کسی نشان کی ضرورت پڑی دیتا چلا جائے گا.ویسے تو جماعت کے اندر بے شمار نشانات ظاہر ہوتے ہی رہتے ہیں چھوٹے چھوٹے دائرہ کے اندر، بچوں کی پیدائش ہے، بیماری سے صحت ہے پریشانیوں کا دور ہونا ہے ایک دفعہ ایک غیر مسلم نے افریقہ سے مجھے لکھنا شروع کیا کہ میں بڑا سخت پریشان ہوں.مجھے کسی نے بتایا ہے کہ آپ کی دعائیں خدا قبول کرتا ہے آپ دعا کریں چنانچہ میں نے خدا تعالیٰ سے یہی دعا کی کہ میں تیرا عاجز بندہ ہوں یہ غیر مسلم اسلام کی صداقت کا نشان مانگ رہا ہے تو اپنے فضل سے اس کو نشان دکھا چند مہینوں کے بعد مجھے اُس کا خط آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول کیا اور میری
خطبات ناصر جلد ششم ۳۷۷ خطبہ جمعہ ۲۶ / مارچ ۱۹۷۶ء پریشانی دور ہوگئی ہے (اُس نے اپنی پریشانی کے متعلق کھل کر اظہار نہیں کیا تھا ) اب چونکہ آپ کی دعا سے میری پریشانی دور ہو گئی ہے اس لئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی رہے گی کہ میں آپ کو خط لکھتا رہوں تو آپ خواہ مخواہ میرے خط کے جواب میں پیسے نہ خرچ کیا کریں.مجھے جواب دینے کی ضرورت نہیں میں اس پیار میں آپ کو خط لکھ دیا کروں گا.میں نے دفتر والوں سے کہا یہ اس کا پیار ہے اور نوع انسانی کا جو پیار ہمارے دل میں ڈالا گیا ہے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کا ہر خط جو آئے اس کا جواب دیا جائے اس واسطے بے شک اس کا مطالبہ یہ ہے کہ جواب نہ دیا جایا کرے لیکن میری طرف سے جواب بہر حال جائے گا.غرض اس وقت افریقہ اور دوسرے ملکوں سے بیبیوں خط آ جاتے ہیں اور لکھنے والا لکھتا ہے ہوں تو میں عیسائی لیکن مجھے پتہ لگا ہے کہ دعا ئیں آپ کی قبول ہوتی ہیں اس واسطے یہ میرا کام ہے.آپ اس کے لئے دعا کریں.کوئی کہتا ہے میں پڑھائی میں کمزور ہوں دعا کریں میں امتحان میں کامیاب ہو جاؤں.کوئی لکھتا ہے میرے ہاں اولاد نہیں دعا کریں اللہ تعالیٰ بچہ عطا کرے کوئی کچھ لکھتا ہے اور کوئی کچھ جس طرح کی اُن کی ضرورتیں ہوتی ہیں، وہ مجھے لکھ بھیجتے ہیں.اللہ تعالیٰ کبھی اپنی منواتا ہے اور کبھی اسلام کی صداقت کے اظہار کے طور پر اپنے عاجز بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور اُن کے لئے نشان کے سامان پیدا کرتا ہے.پس اگر چہ تاریخ بتاتی ہے کہ بعض دفعہ کسی کو مسلمان بنانے کے لئے بھی جبر کو استعمال کیا گیا لیکن در حقیقت اسلام میں اس کی ضرورت نہیں ہے.ایک اور جبر دین کے اندر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ جبراً کسی کو کسی دین سے نکالا جائے مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں لیکن دوسرا کہتا ہے کہ نہیں تو کہہ کہ میں مسلمان نہیں ہوں ورنہ میں تیرا سر پھوڑ دوں گا اور جبر کی یہ شکل آج کل بڑی نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آرہی ہے ایک شخص کہتا ہے کہ میں اُس اللہ پر ایمان لاتا ہوں جس کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ اس کی ذات ایسی ہے اور اس کی صفات ایسی ہیں لیکن کہتے ہیں نہیں! تم جھوٹ بولتے ہو ہم تمہیں ماریں گے اگر تم کہو گے کہ خدا ایک ہے.تم کہو یا تو خدا کوئی نہیں یا یہ کہہ دو کہ تین خدا ہیں یا بت پرستوں کی طرح یہ کہہ دو کہ ہیں بہت سے خدا مگر ایک خدا پر
خطبات ناصر جلد ششم ۳۷۸ خطبہ جمعہ ۲۶ / مارچ ۱۹۷۶ء اپنے ایمان کا اعلان کیا تو ہم تمہارا سر پھوڑ دیں گے ہم تمہاری کوٹھیاں جلا دیں گے.ہم تمہاری دکانیں لوٹ لیں گے ہم تمہیں یہ نقصان پہنچا ئیں گے اور ہم تمہیں وہ نقصان پہنچا ئیں گے اسی طرح ایک اور جبر اس شکل میں نظر آتا ہے کہ ایک شخص کہتا ہے کہ میرے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ہے میرا دل کرتا ہے کہ میں ہر وقت آپ پر درود بھیجتار ہوں اور خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتا رہوں اور سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کا ورد کرتا رہوں لیکن بعض لوگ ڈانگ (لٹھ ) لے کر سر کے اوپر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہو ( نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے تمام دعاوی میں جھوٹے تھے تب ہم خوش ہوں گے.پس ایسے لوگوں کے لئے بھی جو اس قسم کے جبر روار کھتے ہیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے.میں نے چند مثالیں دی ہیں ورنہ بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن میں اس تفصیل میں اس وقت نہیں جانا چاہتا.اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ تم خدا کو نہ مانو تو اس کو یہ کہنا چاہیے کہ ہمارے بادی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نمائندہ اس زمانہ میں ہے اُس نے تو مجھے یہ سبق دیا ہے کہ قرآن کریم کے ایک حکم سے بھی بغاوت کرو گے تو تم خدا کے غضب کی جہنم خریدو گے مگران لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُسی سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ تم یہ کہو ہم قرآن کریم کے کسی حکم کو نہیں مانتے ور نہ ہم تمہیں یہ ڈکھ دیں گے اور وہ دُکھ دیں گے یہ تو گویا ایک صریحاً جبر ہے جو اس وقت ہمیں نظر آنے لگا ہے لیکن نہ جبر کے مقابلے میں ہمیں جبر کی اجازت ہے اور نہ جبر کے مقابلے میں ہمیں بد دعا کرنے کی اجازت ہے ہمیں حکم ہے کہ اس قسم کی جب خلاف اسلام حرکتیں دیکھو اور قرآن کریم میں لا إكراه في الدین کے اس عظیم اعلان کے خلاف باتیں دیکھو تو تم ایسے لوگوں کے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کی ہدایت کے سامان پیدا کرے.اللہ تعالیٰ اُن کو بھی هُدًى لِّلنَّاس اور بيّنت مِنَ الھدی میں جن زبر دست دلائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اُن کو سمجھنے اور اُن سے فائدہ اُٹھانے اور اپنے نفوس کو اُن کے ذریعہ منور کرنے اور نوع انسانی کے لئے نور اور برکت اور خیر کے سامان پیدا کرنے کی توفیق عطا کرے اور اُن سے پہلے ہمیں عطا کرے کیونکہ لَا يَضُرُّكُم
خطبات ناصر جلد ششم ۳۷۹ خطبہ جمعہ ۲۶ / مارچ ۱۹۷۶ء منْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُم (المائدة :۱۰۶) سب سے زیادہ ہم محتاج ہیں کہ شیطان ہمارے نفسوں پر حملہ نہ کرے.شیطان ہمیں بے راہ نہ کر دے.شیطان ہمیں اللہ سے دور نہ لے جائے.شیطان ہمارے دلوں میں اس محبت کو قائم رکھنے میں روک نہ بنے جو محبت کہ ہمارے دلوں میں مہدی علیہ السلام نے پیدا کی ہے اور یہ محبت جو ہمارے دلوں میں خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن عظیم کے لئے پیدا کی گئی ہے خدا کرے اس میں کبھی ذرہ بھر کمی واقع نہ ہو بلکہ یہ محبت بڑھتی ہی چلی جائے.اور یہ نور اتنا پھیلے کہ ساری نوع انسانی کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور ساری دنیا کو اپنے احاطہ میں لے لے اور سب لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اسلام کے نام پر جو جبر کا دھبہ لگا ہے وہ یکسر اور ہمیشہ کے لئے مٹادیا جائے اور آئندہ قیامت تک کسی کو یہ کہنے کی جرات نہ ہواور نہ ہی وہ اسلام پر یہ الزام لگا سکے کہ اسلام جبر کی کسی رنگ میں بھی اجازت دیتا ہے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ششم ۳۸۱ خطبہ جمعہ ۱/۲ پریل ۱۹۷۶ ء جس نے خدا کی رضا کے لئے اپنی استعداد کے مطابق خرچ کیا خدا نے اُس کے گھر کو فضلوں سے بھر دیا خطبہ جمعہ فرموده ۲ را پریل ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ رعد کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.وَ الَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَ أَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَبِكَ لَهُم عُقْبَى الدَّارِ - (الرعد : ٢٣) اس کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے سورۃ رعد کی اس آیت میں بعض بنیادی تعلیمات کا ذکر فرمایا ہے.ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ مومن اپنے رب کی رضا کی طلب میں ثبات قدم دکھاتے ہیں اور ان میں استقامت پائی جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور ”الصلوۃ“ کو ادا کرتے ہیں اور اسے قائم رکھتے ہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ بھی عطا کیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں سر او عَلَانِيَةً یعنی اس رنگ میں بھی خرچ کرتے ہیں کہ ان میں ریاء کا کوئی شائبہ پیدا نہ ہو اور اس طور پر بھی کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ اور اسوہ بنیں اور جب بدی کے ساتھ ان کا مقابلہ ہو تو وہ بدی کے مقابلہ میں بدی نہیں کرتے بلکہ نیکی کے ذریعہ سے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۸۲ خطبه جمعه ۱۷۲ پریل ۱۹۷۶ء بدی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ 66 وو کہ جن کا انجام بہترین ہوتا ہے.اگلی آیات میں اس دار “ کا ذکر ہے اور ان جنات “ کو بیان کیا گیا ہے جن کا کہ وعدہ دیا گیا ہے.انسان اللہ تعالیٰ سے جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ جب اسی کی راہ میں اسے خرچ کرتا ہے تو اس میں اس کے اوقات بھی آجاتے ہیں ، اس میں اس کی ذہنی صلاحیتیں بھی آجاتی ہیں اس میں اس کی جسمانی قوتیں بھی آجاتی ہیں اس میں اس کی اخلاقی طاقتیں بھی آجاتی ہیں اور اس میں اس کی روحانی استعدادیں بھی آجاتی ہیں جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اسے مومن اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور ثبات قدم دکھاتے ہیں اور آگے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ان کے اعمال، جب ان کی کوششیں، جب ان کی جدو جہد مقبول ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو جاتا ہے تو انہیں زیادہ سے زیادہ انعام حاصل ہوتے ہیں.جو کچھ مومن خرچ کرتے ہیں اس میں ان کے اموال بھی شامل ہیں.خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال کا خرچ ایک تو یہ ہے کہ کسی ایسی راہ میں یا کسی ایسے طریق پر یا کسی ایسی جگہ مال کو خرچ نہ کیا جائے جو خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو مثلاً اسراف نہ ہو یا مثلاً ایسی بداخلاقیوں پر یا عیاشیوں پر یا دنیا کی معیوب مسترتوں پر جود نیا خرچ کرتی ہے اس قسم کا خرچ نہ ہو کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں نہیں ہے اور یہاں پر اللہ کی راہ میں اللہ کی رضا کے حصول کے لئے ہی ساری باتوں کا ذکر ہے.اسی واسطے اس آیت کو شروع ہی خدا تعالیٰ کی رضا کی طلب میں ثبات قدم دکھانے کے مضمون سے کیا گیا ہے.پس ہر وہ جگہ جہاں خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کا عطا کردہ مال یا دولت خرچ کی جاتی ہے اس سے ثواب حاصل ہوتا ہے مثلاَولِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَق پر عمل کرتے ہوئے اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے مناسب اور متوازن اور صحت مند غذا کھانا خدا تعالیٰ سے ثواب کو حاصل کرنا ہے.بشرطیکہ نیت یہ ہو کہ ہم خدا کی خاطر اس کی رضا کی طلب میں اور اس کی اطاعت میں خرچ کر رہے ہیں کیونکہ حکم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ اپنے نفس کے حقوق کو بھی اسی طرح ادا کرنا ہے جس طرح کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ غیروں کے حقوق کو ادا کرنا ہے.اگر ایک شخص اسراف اور ریا
خطبات ناصر جلد ششم ۳۸۳ خطبہ جمعہ ۱/۲ پریل ۱۹۷۶ء کی نیت سے نہیں بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ اپنی طاقتوں کو ضائع اور کمزور نہ کرو کیونکہ یہ بھی خدا کی ناشکری ہے.پس اگر وہ اس نیت سے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو.موسم کے لحاظ سے اپنی ضرورت پوری کرتے ہوئے کپڑے پہنتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا ہے.اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے انہیں متوازن غذا کھلاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حکم کی پیروی اس کی نیت ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا کو حاصل کرتا ہے.اگر کوئی شخص خدا کے حکم کے مطابق اپنے ہمسائے کا خیال رکھتا ہے اور اس اطاعت حکم میں اسے اپنے مال کا کچھ حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے یا اپنی طاقت کا کچھ حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے مثلاً ہمسائے کو ضرورت ہے اس کے لئے دوالا نے والا کوئی نہیں.اگر وہ دوا کے لئے باہر جاتا ہے تو اس وقت اس نے اپنی طاقت کا ایک حصہ اپنے ہمسائے کے لئے خرچ کیا اور اس سے بھی ثواب حاصل ہوتا ہے.اگر کوئی شخص زمیندار ہے تو وہ اپنے بیلوں کے لئے اپنا وقت خرچ کرتا ہے.وقت پر ان کے لئے چارہ کاٹ کر لاتا ہے اور ان کو دیتا ہے اور اس کی نیت یہ ہے کہ یہ خدا کی مخلوق ہے یہ بھوکی نہیں رہنی چاہیے اور اس کی نیت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ ایک نعمت عطا کی ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے مجھے ان کی صحت کا اور ان کے طاقتور رکھنے کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنے چاہیے.تو اللہ تعالیٰ اسے ثواب دیتا ہے.غرض مال اور دولت کے خرچ کی ہزار ہا ایسی راہیں ہیں اپنے پہ خرچ کی ، اپنوں پہ خرچ کی اور اپنے ہمسایوں پر خرچ کرنے کی را ہیں ہیں.اپنی قوم پر خرچ کرنے کی راہیں ہیں اور بنی نوع انسان پر خرچ کرنے کی راہیں ہیں کہ جو ثواب پر منتج ہوتی ہیں.خرچ کی کچھ راہیں متعین کر دی جاتی ہیں کبھی عارضی طور پر اور کبھی ایک لمبے عرصہ کے لئے.مثلاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت تھی کہ جب دشمن سے خطرہ پیدا ہوتا تو آپ اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لئے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرتے تو آپ اعلان کرتے کہ اپنی جانیں پیش کرو، اپنے وقت پیش کرو، اپنے مال پیش کرو.اس وقت جو شخص اپنے دائرہ استعداد روحانی میں جتنا دے سکتا تھا وہ آکر اتنا پیش کر دیتا تھا یا اپنے دائرہ استطاعت مال میں جتنا دے سکتا تھا اس
خطبات ناصر جلد ششم ۳۸۴ خطبه جمعه ۱/۲ پریل ۱۹۷۶ ء دائرہ کے اندر رہتے ہوئے وہ اتنا پیش کر دیتا تھا اور خدا تعالیٰ کی نگاہ یہ نہیں دیکھتی تھی کہ کسی نے ایک پیسہ دیا ہے اور کسی نے زیادہ دیا ہے.جس کے پاس زیادہ تھا اس نے زیادہ دے دیا جس کے پاس کم تھا اس نے کم دے دیا.اموال کے خرچ کا ایک وقتی اعلان ہوتا تھا اور اُمتِ مسلمہ کے مخلصین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اس وقتی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر اپنے اموال پیش کر دیتے تھے.خدا تعالیٰ ایسے اوقات میں ان کی ان قربانیوں کا جو نتیجہ نکالتا تھا اس سے ہم یہ استدلال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے خدا کے حضور ا پنی طاقت کے مطابق پیش کیا اور کہا کہ اے ہمارے رب ! جتنی طاقت تھی ہم نے دے دیا لیکن دشمن کے مقابلہ کے لئے جتنے کی ضرورت تھی اتنا ہم نہیں دے سکے.اس واسطے جتنی کمی رہ گئی ہے وہ پوری کر دے.نہ اس قسم کی تلواریں ان کے ہاتھوں میں تھیں جس قسم کی تلوار میں لے کر دشمن حملہ آور ہوتا تھا نہ اس قسم کے سامان ان کے پاس تھے لیکن جو نتیجہ نکلا اس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی طاقت کے مطابق جو پیشکش کی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو قبول کر کے اپنی طرف سے برکت اور رحمت اور فضل کی شکل میں اتنا بیچ میں ڈالا کہ کوئی خامی باقی نہیں رہی.ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ سلوک کیا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی پھر خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی اور پھر بعد میں بھی جہاں اسلام کے احکام کی پابندی میں دشمنوں کی یلغار کا مقابلہ کیا گیا اور دشمن کے مقابلہ میں طاقت کم ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا کہ دشمن کا زور ٹوٹ گیا لیکن جب تک زور نہیں ٹوٹا اس وقت تک ان کی بڑی طاقت تھی.کسری ایک بہت بڑی طاقت تھی ساری دنیا کے خزانے ان کے پاس تھے.پھر ” قیصر “ ایک بہت بڑی طاقت تھی جس سے مقابلہ ہوا.پھر سپین کی طرف سے مسلمان داخل ہوئے اور انہوں نے اپنی حقیر قربانیاں پیش کر دیں ( میں اس وقت تاریخ کے اس حصہ کی طرف نہیں جا رہا کہ پین پر حملہ کی کیا ضرورت تھی.اس کی ضرورت تھی اور تاریخ نے اسے ریکارڈ کیا ہے وہ بھی دفاعی جنگیں ہی تھیں ) اور دشمن کا زور ٹوٹ گیا اور خدا تعالیٰ نے انہیں بہت کچھ دیا.انہوں نے خدا کے حضور ابتدا میں جو کچھ پیش کیا تھا وہ تو بالکل حقیر تھا لیکن اس کے مقابل میں ان کو اتنا ملا تھا کہ وہ اس کو نہ سنبھال سکتے تھے ، نہ خرچ کر سکتے تھے.خرچ اس لئے نہیں کر سکتے تھے کہ
خطبات ناصر جلد ششم ۳۸۵ خطبه جمعه ۱/۲ پریل ۱۹۷۶ ء ان پر پابندیاں تھیں مثلاً مردوں نے سونا نہیں پہنا اور ہیرے جواہرات کا استعمال نہیں کرنا.مسلمانوں سے لوٹا ہوا مال اب تک سپین میں ایک جگہ اکٹھا ہے جب ہم قرطبہ کی مسجد دیکھنے گئے تو ان کا سالانہ میلہ تھا.انہوں نے مسلمانوں سے لوٹے ہوئے ہیرے جواہرات وغیرہ ایک بہت بڑے تابوت میں رکھے ہوئے ہیں اور سال میں ایک دن وہ اسے باہر نکال کر سارے شہر میں پھراتے ہیں.سپین کے رہنے والے ایک پروفیسر مجھے کہنے لگے کہ اس صندوق میں اڑ ہائی ٹن ہیرے جواہرات ہیں.وہ تابوت کی طرز کا ایک بہت بڑا صندوق تھا اور پہیوں والی گاڑی کے اوپر رکھ کر اسے شہر میں پھراتے تھے.غرض اس قدر ہیرے جواہرات تھے میں نے بھی وہ نظارہ دیکھا، قرطبہ دیکھا پھر الحمرا اور غرناطہ کے محل دیکھے اگر چہ سب جگہ تو ہم نہیں جا سکے تھے.وہاں جو نشان باقی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے مساجد کو بہت سجایا تھا اور اس نیت سے سجایا تھا کہ ہم ان ہیرے اور جواہرات کو خدا کے گھر کی سجاوٹ کے علاوہ اور کہاں خرچ کریں.کس مصرف میں لائیں؟ ویسے تو مسجد بڑی سادہ ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ کی مسجد ہے اور اس میں ریا کی خاطر نقوش کرنے اور اس کے اندر ہیرے جواہرات لگانے کی تو اسلام اجازت نہیں دیتا لیکن اگر کسی قوم کو خدا تعالیٰ اتنی کثرت سے ہیرے جواہرات دے دے کہ وہ اپنے پر اور اپنی بیویوں پر بھی ان کو خرچ نہ کرنا چاہیں یعنی ان کے استعمال میں نہ لانا چاہیں تو اگر وہ اس نیت سے کہ خدا یا پھر ہم ان کو کہاں رکھیں تیرے گھر میں ہی دیواروں پر لگا دیتے ہیں.پس اگر اس نیت حسنہ کے ساتھ انہوں نے یہ لگائے تو انہوں نے اپنی نیتوں کے مطابق ثواب حاصل کر لیا لیکن جس کوشش اور جس قربانی کے نتیجہ میں یہ دنیا کے اموال ملے تھے میں اس وقت اس کی طرف آپ کو توجہ دلا رہا ہوں وہ قربانی تو بہت ہی حقیر تھی.میرے خیال میں جب یہ دس ہزار سپاہی گئے ہیں جس وقت مسلمانوں کی یہ پہلی فوج طارق کی قیادت میں وہاں اتری اور انہوں نے اپنی کشتیاں جلا دیں تو شاید ساری فوج کے پاس ایک ہیرا بھی نہیں ہوگا اور پھر خدا تعالیٰ نے انہیں بے شمار ہیرے اور جواہرات دیئے.وہ دشمن کی لاکھوں کی فوج کے مقابلہ کے لئے گئے تھے کیونکہ اس وقت وہاں ایسے متعصب عیسائی بادشاہ تھے جو اسلام کے خلاف اور
خطبات ناصر جلد ششم ۳۸۶ خطبہ جمعہ ۱/۲ پریل ۱۹۷۶ء اسلامی حکومتوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے اس کا سدِ باب کرنا ضروری تھا لیکن ان کے مقابلہ میں دس ہزار کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.اس قدر فرق ہے دونوں فوجوں کا کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے لیکن جس چیز سے ان کے سینے اور ان کے ذہن اور ان کی روح بھری ہوئی تھی وہ اللہ پر تو گل تھا.اتنے تھوڑے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی کشتیاں جلا دیں کہ آگئے ہیں تو اب واپس تو نہیں جانا ہم نے اور خدا تعالیٰ پر اتنا تو گل کہ وہ ہماری اس حقیر کوشش کو ضائع نہیں کرے گا.پس خدا تعالیٰ یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ اسلام کو جتنی ضرورت ہے اتنا دو بلکہ مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ جتنی طاقت ہے اتنا خدا کے حضور پیش کر دو اور جتنی طاقت ہے اتنا جب پیش کیا جاتا ہے تو وہ ضرورت کا شاید کروڑواں حصہ بھی نہیں ہوتا شاید ار بواں حصہ بھی نہیں ہوتا.لیکن خدا یہ کہتا ہے کہ جتنا تمہاری استعداد میں ہے جتنا تمہاری طاقت میں ہے وہ دے دو اور باقی مجھ پر توگل رکھو اور مجھ پر بھروسہ رکھو.خدا کہتا ہے کہ اصل طاقت تو میری ہے اور اصل حکم تو ( خدا کہتا ہے کہ ) میرا چلتا ہے.جب تم اپنی طاقت کے مطابق سارا دے دو گے تو میں ضرورت کے مطابق مہیا کر دوں گا.اس وقت ہم اسی قسم کے زمانہ میں سے گزر رہے ہیں.غریب سی جماعت ہے دنیا اسے حقارت کی نظر سے دیکھ کر اور گالیاں دے کر خوش ہوتی ہے اور ہر قسم کی غلط اور بے بنیاد باتیں منسوب کر دیتے ہیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے لیکن اصل چیز یہ نہیں ہے کہ ان میں اخلاقی کمزوریاں ہیں ان کے لئے تو ہم دعائیں کرتے ہیں.اصل چیز یہ ہے کہ اس وقت یہ ہماری حالت ہے ہمارا مقام دنیا کی نگاہ میں یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں ، ایک ذرہ ناچیز ہیں.یہ جو اتنی جرات کے ساتھ اس قسم کی باتیں کر دی جاتی ہیں یہ نہیں کہ اس سے ہمیں غصہ آتا ہے.ہمیں تو ان پر رحم آتا ہے لیکن اس سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں اور ہر احمدی کو یہ نتیجہ نکالنا چاہیے کہ اس سے ہمیں اپنی حالت کا پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا ہمیں بتا رہا ہے کہ ہو تو تم یہی نا کہ جو اُٹھتا ہے تمہیں گالی دینے کو ثواب سمجھتا ہے ہر قسم کے دُکھ تمہیں پہنچاتا ہے اور ایذا دیتا ہے.یہ ہے تمہاری حیثیت اور خدا کہتا ہے کہ تمہاری یہ حیثیت دنیا کی نگاہ میں ہے لیکن میری نگاہ میں تمہاری یہ حیثیت نہیں ہے اگر تم خلوص نیت کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور ثبات قدم کا مظاہرہ کرتے ہوئے جتنی طاقت ہے اتنا
خطبات ناصر جلد ششم ۳۸۷ خطبہ جمعہ ۱/۲ پریل ۱۹۷۶ء میرے حضور پیش کر دو گے تو تمہارے سپر د جو کام کیا گیا ہے اس کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے ان دونوں میں جو فرق ہے وہ میں پورا کر دوں گا اور وہ پہلے بھی کرتا رہا ہے ہمارے سامنے کوئی نئی چیز تو نہیں.دراصل جب سے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ شروع ہوا اس وقت سے یہی ہو رہا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ حسن سلوک اپنے پیارے بندوں کے ساتھ اس وقت اپنے کمال کو پہنچا جب شمس الکمال دنیا پر ظاہر ہوا یعنی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم.عظیم تھا وہ انسان ! کہ اس وقت سے اب تک چودہ سوسال ہو گئے ہیں کہ اس کی اُمت میں سے جس نے بھی اور جب بھی خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی طاقت کے مطابق اس کے حضور پیش کر دیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے فضلوں سے ان کے گھر کو بھر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت مہدی معہود علیہ السلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے مبعوث ہوئے کہ آخری زمانہ میں ساری دنیا میں اسلام غالب آجائے گا اور آپ کے ذریعہ سے تربیت حاصل کرنے والوں کی ایک چھوٹی سی جماعت بنی.اب آہستہ آہستہ اس تربیت کا رنگ بدل گیا ہے.کجاوہ زمانہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے اگر کسی نے دین اسلام کی راہ میں چوٹی پیش کی تو آپ نے اپنی کتابوں میں ان کا نام اور چونی یا دونی کا ذکر کر کے قیامت تک کے لئے ان کے لئے دعا ئیں کرنے والے بنادیئے.جب بھی دوست پڑھیں گے ان کے لئے دعائیں کریں گے.آپ نے اس واسطے نام لکھے کہ یہ چیز اس زمانے کی حالت بتا رہی تھی ، ایسا زمانہ تھا کہ کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول اور اسلام کی راہ میں دونی دینا بھی دوبھر سمجھتا تھا پھر تربیت ہوئی اور تربیت میں دو قسم کی وسعت پیدا ہوئی.ایک تو تربیت پانے والوں میں وسعت پیدا ہوئی اور دوسرے آہستہ آہستہ تربیت میں شدت پیدا ہوئی اور تربیت کا ہر قدم آگے بڑھنا شروع ہوا.چنانچہ ابھی مشاورت ختم ہوئی ہے اس میں جماعت کے بجٹ پیش ہوئے.بیرونی ممالک کا ایک سال کا بجٹ قریباً دو کروڑ روپے ہے اور اندرونِ پاکستان کا بجٹ اگر سارے چندے ملالئے جائیں تو ایک کروڑ سے اوپر ہے لیکن صرف صدر انجمن احمدیہ کے چندے بھی ۷۲ لاکھ کے قریب بنتے ہیں.پس کجا ہم (یعنی جماعت
خطبات ناصر جلد ششم ۳۸۸ خطبہ جمعہ ۱/۲ پریل ۱۹۷۶ ء احمدیہ) اپنے ابتدائی دور میں دوتیوں کی بات کیا کرتے تھے اور کجا آج ہم کروڑوں کی بات کر رہے ہیں لیکن جس طرح کام بڑھنا شروع ہوا ہے اس کے لحاظ سے اس وقت کام کے مقابلے میں جو دونی کی حیثیت تھی آج کروڑوں کی حیثیت بھی کام کے مقابلہ میں وہی ہے کیونکہ جماعتِ احمدیہ کے سپر د جو کام ہوا ہے وہ کروڑوں سے تو پورا نہیں ہوتا.ساری دنیا کو اسلام کی صداقت کا قائل کرنا ہے میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ایک موقع پر مجھے شرمندہ ہونا پڑا.ایک صحافی نے مجھے سے یہ سوال کر دیا کہ اسلام کی ایسی حسین تعلیم کو ہمارے عوام تک پہنچانے کے لئے آپ نے کیا سامان کیا ہے؟ چنانچہ اس وقت میں نے اندازہ لگوایا اور یورپین ممالک کے سارے مبلغین سے میں نے کہا کہ جائزہ لیں تو سوئٹزرلینڈ جو کہ ایک چھوٹا سا ملک ہے وہاں کے پوسٹ آفس نے کہا کہ اگر آپ ایک خط ہر گھر میں بھیجنا چاہیں تو اس پر پندرہ لاکھ روپیہ خرچ ہو جائے گا.ا پس یہ جو کروڑوں روپے کی ہماری ساری دنیا کی جماعت کی آمد ہے اس سے تو شاید ہم ساری دنیا کے ہر گھر میں ایک خط بھی نہ پہنچاسکیں.میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج اسلام کو غالب کرنے اور نوع انسانی کے دلوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کی جو ضرورت ہے اس ضرورت کے لئے کروڑوں روپے نہیں چاہئیں بلکہ کھربوں روپیہ سے بھی زیادہ رقم چاہیے لیکن خدا تعالیٰ ہمیں یہ کہتا ہے کہ تم سے جو بن آتی ہے وہ کرو اور باقی مجھ پر چھوڑ دو بہر حال جماعت خدا کے فضل سے اس میدان میں بھی جو کہ مالی جہاد کا میدان ہے ہر سال ترقی کرتی ہے.مالی جہاد کا میدان تو بہت چھوٹا ہے اور جو دوسرے بہت سے جہاد جماعت کر رہی ہے.ان کے لئے تو یہ ایک چھوٹی سی بنیاد بنتا ہے اس سے بڑی بنیاد وہ اوقات ہیں جو دوست دیتے ہیں.جماعت بہت وقت دے رہی ہے دوشکلوں میں جماعت وقت دے رہی ہے.ایک اس شکل میں کہ ہم تحریک کرتے رہتے ہیں کہ اتنی دفعہ الحمد للہ کہو اتنی دفعہ سبحان اللہ کہو اتنی دفعہ درود بھیجو اور اربوں دفعہ یہ تسبیح اور تحمید اور درود جماعت پڑھ رہی ہے اور دوسری دعائیں کر رہی ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ استغفار کرو.خدا سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافیاں مانگو.اس پر انسان وقت خرچ کرتا ہے.ساری جماعت اجتماعی رنگ میں یہ وقت خرچ کر رہی ہے.تسبیح اور تحمید اور درود
خطبات ناصر جلد ششم ۳۸۹ خطبہ جمعہ ۱/۲ پریل ۱۹۷۶ء کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات سے ہر نفس فائدہ اٹھا رہا ہے.ہر شخص کے اپنے نفس کے بھی حقوق ہیں جو اس طرح پورے ہوتے ہیں لیکن علاوہ نفس کی بہتری کے ہماری یہ دعا ئیں اجتماعی نتائج بھی نکال رہی ہیں.پس ایک تو یہ وقت ہے جو جماعت دیتی ہے اور بڑے پیار سے دیتی ہے بڑے اخلاص سے دیتی ہے بڑی عاجزی سے دیتی ہے اور دعاؤں میں لگی ہوئی ہے دوسرا وقت جو جماعت دے رہی ہے گو وہ بھی دعاؤں کا حصہ ہی ہے لیکن پہلی دعاؤں کے علاوہ بہت ساری اور دعائیں ہیں جو ہم کرتے ہیں اور اس پر وقت خرچ کر رہے ہیں ہم جو کہتے ہیں نوافل پڑھو اس پر بھی تو وقت خرچ ہوتا ہے اس کے علاوہ ہم نیکی کے اور ہزار مطالبے کرتے ہیں مثلاً یہ کہ اپنے ہمسایوں کا خیال رکھو، اپنوں کا خیال رکھو، کوئی شخص بھوکا نہ رہے.اس کے لئے خیال رکھنا پڑتا ہے اور بہر حال وقت دینا پڑتا ہے، پھر وقف عارضی ہے، دورے ہیں.پھر مقامی کارکن وقت دیتے ہیں میں نے کئی دفعہ بتایا ہے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ دوست اگر سات یا آٹھ گھنٹے مثلاً اپنی فرم میں دے رہے ہیں تو جماعت کے کام کے لئے اس کے علاوہ وقت دیتے ہیں.رات کے گیارہ بجے تک بیٹھے رہتے ہیں اور دن میں دس دس گھنٹے وقت دے دیتے ہیں اس قدر وقت بھی دوست خرچ کر رہے ہیں.ہم وقت کے لحاظ سے اعداد و شمار اکٹھے نہیں کر سکتے ورنہ دنیا ہماری مالی قربانی کے مقابلے میں ہماری وقت کی اس قربانی کو دیکھ کر بہت زیادہ حیران ہو جائے.عجیب قوم ہے ! جھکتی ہی نہیں خدا کی راہ میں دن رات لگے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ خوشخبری دی گئی تھی کہ اَنْتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُه جب انسان اپنا وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ کام میں لگا رہتا ہے تب ہی یہ صورت بنتی ہے اور اس میں یہ بشارت دی گئی تھی کہ تجھے ایک ایسی جماعت ملے گی جو اپنے اوقات کو ضائع نہیں کرے گی اور معمور الاوقات ہو گی.وہ لوگ دعاؤں میں لگے رہیں گے کبھی نفل پڑھ رہے ہیں کبھی دین کی باتیں کر رہے ہیں بچوں کو قرآن کریم پڑھا رہے ہیں وقف عارضی میں باہر نکل رہے ہیں کراچی اور لاہور کے جماعت کے مقامی نظام بڑے پھیلے ہوئے ہیں.اگر جماعت ایک جگہ ہو تو کام شاید دسواں حصہ بھی نہ رہے لیکن اب ہر محلے میں کہیں دس گھر ہیں کہیں ہیں گھر ہیں کہیں پچاس اور کہیں سو.پھر
خطبات ناصر جلد ششم ۳۹۰ خطبہ جمعہ ۱/۲ پریل ۱۹۷۶ء محلوں کے نظام ہیں اور پھر سارے لاہور کا نظام ہے اس میں کا رکن وقت دے رہے ہیں.ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں بھی کافی وقت دے رہے ہیں اور یہ بھی اَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ کے ماتحت ہی آجاتا ہے.مومن جو کچھ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں مال بھی اس کا ایک حصہ ہے اور اس میں بھی جماعت ہمیشہ ترقی کرتی ہے اور مجھے اس مہینے کے شروع میں ہمیشہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ بیت المال والے گھبرائے ہوئے ہیں لیکن میں تو نہیں گھبرایا ہوا.پچھلے سال میں نے فروری کے آخر میں خطبہ دیا تھا اور اس وقت مجوزہ بجٹ سے اٹھارہ لاکھ روپے کی کمی تھی اور جماعت نے اس اٹھارہ لاکھ سے کہیں زیادہ دے دیا اور اس وقت ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب کمی ہے.میں اس لئے یہ خطبہ نہیں دے رہا کہ میں یہ بدظنی کرتا ہوں کہ جمات بجٹ سے آگے نہیں نکلے گی بلکہ اس لئے آج کا یہ خطبہ دے رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ڈرگز کا بھی حکم دیا ہے کہ میں یاد دہانی کراؤں.پس میں اس نیت سے خطبہ دے رہا ہوں کہ میں اس وجہ سے بھی خدا تعالیٰ سے ثواب پانے کا مستحق ہو جاؤں.ثواب تو جتنا ملے اور جس راہ سے بھی وہ انسان کو اکٹھا کرنا چاہیے.پس مجھے یقین ہے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے پچھلے سال کے مقابلے میں جمات بہر حال آگے بڑھے گی.کچھ حصہ تو خود جماعت کے نمائندوں نے مجلس شوری کے موقع پر بڑھا دیا تھا اور اس سال کئی لاکھ روپیہ پچھلے سال کے بجٹ سے زیادہ ہے لیکن بجٹ کی حدود پر تو جماعت کبھی بھی نہیں ٹھہری.ہمیشہ اس سے آگے بڑھتی ہے اور انشاء اللہ اس دفعہ بھی بڑھے گی اور جس طرح آگے بڑھ کر اس آیت کے حصہ کے مطابق جماعت خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے والی ہو گی اسی طرح جو دوسری باتیں ہیں ان میں بھی وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے والی ہوگی اور انشاء اللہ تعالیٰ ان جنتوں کی وارث بنے گی کہ جن جنتوں میں صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے جگہ دی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ ہو نہیں سکتا اور خدا تعالیٰ کا فضل اس کے بتائے ہوئے طریق کے بغیر ہم حاصل نہیں کر سکتے.پس جن راہوں سے خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کرنے کی قرآن کریم نے ہمیں ہدایت کی
خطبات ناصر جلد ششم ۳۹۱ خطبہ جمعہ ۱/۲ پریل ۱۹۷۶ء ہے ان راہوں پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اسی کے فضلوں کو حاصل کرنے کی جماعت کو کوشش کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.روزنامه الفضل ربوه ۸ / جنوری ۱۹۷۹ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ششم ۳۹۳ خطبہ جمعہ ۱۷۹ پریل ۱۹۷۶ ء قانون شکنی یا قانون کو ہاتھ میں لینے کا تصور بھی ہمارے دل میں نہیں آنا چاہیے خطبه جمعه فرموده ۹ را پریل ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کا حصہ پڑھا:.فَإِنْ حَاجُوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَن ـ (ال عمران : ۲۱) اس کے بعد فرمایا:.سورۃ آل عمران کی اس آیت سے قبل جو آیت ہے اس کو اس طرح شروع کیا گیا ہے کہ ان الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران :۲۰) کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اصل دین اس کی کامل فرمانبرداری ہے اور آیت کا جو حصہ میں نے پڑھا ہے اس کے شروع میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ دین کے معاملہ میں جھگڑا کریں تو انہیں اپنے عملی نمونہ سے بتاؤ کہ تمہارا دین کیا ہے ( أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ ) تم اپنا سارا وجود خدا کے لئے سونپ دو اور اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دو اور جس طرح ہمارا اللہ رب العالمین ہے اے اس کے مانے والو ! تم خادم العالمین بن جاؤ.یہاں ایک بڑا لطیف نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک تو علمی بحثیں ہوتی ہیں لیکن دین کے معاملہ میں علمی بحثوں کے علاوہ اور ان سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے عملی نمونہ سے اپنے مقام پر قائم ہو.اللہ تعالیٰ نے دین کی روح اور اس کی اصل اور اس کی بنیاد یہ بتائی ہے کہ انسان اللہ کے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۹۴ خطبہ جمعہ ۹ ا پریل ۱۹۷۶ء لئے اور اللہ میں فنا ہو کر اپنی زندگی کو گزارے.کامل فرمانبرداری ، ایک ایسی اطاعت جواس کے معمولی سے معمولی حکم سے بھی باہر لے جانے والی نہ ہو ، وہ اطاعت جو کامل ہو، وہ اطاعت جو انسان کے وجود کا اس کے اعمال کا اس کے خیالات کا اس کی سوچ کا اور اس کی عادات کا احاطہ کئے ہوئے ہو، اللہ کی ایسی اطاعت کرنا یہ اصل چیز ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنی چاہیے.پہلے آنے والے مذاہب کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ جو خدا کہتا ہے وہ مانو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے جو کامل اور مکمل شریعت انسان کو دی گئی اس کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ جو خدا کہتا ہے اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو.فرق یہ ہے کہ پہلوں کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ان کی استعدادوں اور طاقتوں کو دیکھتے ہوئے پورا بوجھ ان کے کندھوں پر نہیں ڈالا تھا کیونکہ وہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے.اُوْتُوا نَصِيبًا مِّنَ الكتب (ال عمران : ۲۴) یعنی شریعت کا ملہ محمدیہ کا صرف ایک حصہ انہیں دیا گیا تھا لیکن جو بھی دیا گیا تھا اس کے متعلق ان سے مطالبہ یہ تھا کہ جو تم سے کہا جاتا ہے وہ تم کرو اور جو ان سے کہا جاتا تھا وہ ایسے احکام تھے جو کامل نہیں تھے کیونکہ اس وقت وہ کامل احکام کے بوجھ کو اُٹھانے کے قابل نہیں تھے ان میں اتنی استعداد نہیں تھی.پھر جب انسان کامل شریعت کو اُٹھانے کے قابل ہو گیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کامل شریعت اس کے سامنے رکھی اور جو کہا جاتا ہے وہ کرو کی شکل بدل گئی لیکن مذہب کی جو روح تھی وہ وہی رہی کہ جو خدا کہتا ہے وہ کرو.ایک لحاظ سے یہ چیز آسان بھی ہے اسی واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے فارسی کلام میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ خدا کو پالینا تو ایسا مشکل نہیں ہے وہ جان مانگتا ہے جان دے دو ( کامل اطاعت ) کامل اطاعت سے انسان اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کا وارث بن جاتا ہے جن کے متعلق خدا کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ اس اطاعت کے نتیجہ میں وہ اس پر نازل ہوں گے.پہلوں پر وہ فضل نازل نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ جو ان سے کہا گیا تھا جو ان سے مانگا گیا تھا.جس کا ان سے مطالبہ کیا گیا تھا وہ اس سے بہت کم تھا جس کا مطالبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اُمت یعنی نوع انسانی سے کیا ہے لیکن پہلوں سے جو کہا گیا تھا، جو ان سے مطالبہ کیا گیا تھا
خطبات ناصر جلد ششم ۳۹۵ خطبہ جمعہ ۱٫۹ پریل ۱۹۷۶ء وہ لوگ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کے پیرو کار یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو ماننے والے اگر اُن مطالبات کو پورا کرتے جو اُن سے کئے گئے تھے تو وہ اُن فضلوں کے وارث بن جاتے جو ان مطالبات کے پورا کرنے اور کامل فرمانبرداری کے نتیجہ میں ان کو ملنے تھے اور جن کی بشارت ان کو دی گئی تھی.پھر ایک ایسی شریعت جس نے انسانی فطرت کا احاطہ کیا ہوا ہے اور فطرت کے عین مطابق ہے اور ایک کامل شکل میں انسان کے تمام قومی کو طاقت دینے کی اہلیت رکھنے والی ہے.پوری کی پوری شریعت جو انسان کے لئے مقد رتھی وہ ایک کامل اور عظیم ہستی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے انسان کو ملی اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ اسلام لاؤ یعنی خدا میں فنا ہو کر اپنے سارے وجود کو اُس کے سپرد کر دو پھر تمہیں اتنے فضل ملیں گے کہ پہلوں کا تصور بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا تھا.قرآن کریم کی اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ لوگوں کو کہہ دے کہ میں تو اپنے تمام وجود کو خدا کے حضور پیش کرنے والا ہوں اور جو میرے حقیقی متبع ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری کرنے والے ہیں لیکن چونکہ انسان اپنے اندر بشری کمزوریاں بھی رکھتا ہے اس واسطے ذکر کا حکم ہے کہ قرآن کریم نے جو مطالبے کئے ہیں ، چھوٹے چھوٹے بھی اور بڑے بڑے بھی ان کی یاددہانی ہوتی رہے ورنہ انسان بھول جاتا ہے، اس کے ذہن سے محو ہو جاتا ہے.شیطان وساوس پیدا کر دیتا ہے اور عملی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ اعتقاداً بڑے ہی مخلص احمدی ایسے بھی ہیں جو اعمال کی طرف توجہ نہیں کر رہے لیکن اعتقادی لحاظ سے وہ اتنے مخلص ہیں کہ اگر اعتقاد پر جان دینے کا موقع ہو تو وہ اپنی جان بھی دے دیں گے اور سب کچھ قربان کر دیں گے لیکن عملاً خود ان کی زندگیوں میں سستی پائی جاتی ہے.یہ اندرونی تضاد اور Contradiction ہے اور اندرونی تضاد کامیابی تک نہیں پہنچاتا.قرآن کریم نے اس مضمون کو بڑے لطیف پیرایہ میں مختلف مقامات پر بیان کیا ہے کہ ناکامی کی بڑی اور بنیادی وجوہات میں سے تضاد کا پایا جانا اور Contradiction کا پایا جانا ہے.چیئر مین ماؤزے تنگ نے بھی کہیں یہ کہا ہے کہ Contradiction نہیں ہونی چاہئیں
خطبات ناصر جلد ششم ۳۹۶ خطبہ جمعہ ۱٫۹ پریل ۱۹۷۶ء ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.اب بہت سارے ممالک میں لوگ ان کی نقل کرتے ہیں کیونکہ دنیوی لحاظ سے انہوں نے بڑی ترقی کی ہے.چنانچہ اگر وہ مسلمان کہلاتے ہیں تو وہ قرآن کریم کا حوالہ دینے کی بجائے چیئر مین ماؤزے تنگ کا حوالہ دیتے ہیں حالانکہ قرآن کریم نے ایک نہایت لطیف پیرایہ میں اس مضمون کو بیان کیا ہے اور وہ اس طرح پر کہ (میں اس وقت مختصراً صرف اس کا ڈھانچہ یعنی Out Line بیان کروں گا ) قرآن کریم نے ہمیں کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنی صفات کے اوپر اور اپنی زندگی کے اوپر چڑھاؤ.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی اس تعلیم کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ تَخَلَقُوا بِأَخْلَاقِ الله یعنی اخلاق اللہ جیسے خلق تمہارے اندر بھی ہونے چاہئیں.قرآن کریم نے کہا ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ کی اور بہت ساری صفات ہم نے انسان کے لئے بیان کی ہیں جن کا رنگ انسان کی فطرت کے مطابق اس کی طبیعت پر چڑھنا چاہیے وہاں ایک بنیادی چیز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ان صفات میں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام صفات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا.اس واسطے اگر خدا تعالیٰ کے اخلاق کا رنگ اپنے خلق پر چڑھانا ہے تو ہماری زندگی میں بھی کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے.ہماری زندگی بغیر تضاد کے، بغیر Contradiction کے خوب سے خوب تر بن کر گذرنی چاہیے یعنی جس طرح کلی سے گلاب کھلتا ہے اسی طرح بچے کی زندگی اپنے مرتے دم تک کھلنی چاہیے اور اس کے اندر کوئی تضاد نہیں پایا جانا چاہیے.میں نے ایک دفعہ پہلے بھی کسی ضمن میں بتایا تھا کہ ہمارے ایک نو جوان کو یہ خواہش تھی کہ میں یو نیورسٹی میں اول آؤں لیکن اس خواہش کے مطابق نہ اس کی استعداد تھی اور نہ اس کی محنت تھی.صرف خواہش کے نتیجہ میں تو اعلیٰ درجہ کی کامیابیاں نہیں ملا کرتیں بلکہ اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے.ایسی محنت جو اس کامیابی کے مناسب حال ہو یعنی انسان کو خدا تعالیٰ نے عقل بھی اس کے مطابق دی ہو اور اس عقل کا استعمال بھی صحیح طور پر کیا گیا ہو.وقت ضائع نہ ہو اور اپنی صحت کو قائم رکھتے ہوئے پوری توجہ کے ساتھ وہ محنت کی جائے اور کوئی تضاد نہ ہوتولڑ کا کا میاب ہو جائے گا.میں نے دیکھا ہے کہ جو فرسٹ آنے والے طالب علم ہیں یا بہت اچھے نمبر لینے والے
خطبات ناصر جلد ششم ۳۹۷ خطبہ جمعہ ۱٫۹ پریل ۱۹۷۶ء طالب علم ہیں ان کی زندگی بڑی پیاری ہوتی ہے.اس کے اندر کوئی تضاد نہیں پایا جاتا.ایک مقصد ان کے سامنے ہوتا ہے اور اس کے حصول کے لئے وہ بڑے آرام سے پہلے دن سے ہی محنت کر رہے ہوتے ہیں.ایشین ممالک کی یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ماحول میں ہماری زندگیوں میں تضاد پیدا کیا جاتا ہے.میں پرنسپل بھی رہا ہوں اور میں آکسفورڈ میں پڑھتا بھی رہا ہوں.میں نے وہاں جو حالات دیکھے میری خواہش ہوتی تھی کہ حصول تعلیم کے متعلق اس طرح کے حالات یہاں ہمارے بچوں کے لئے بھی پیدا کئے جائیں.اب ہمارے یہاں کے حالات یہ ہیں کہ ہوٹل میں ہمارا ایک بچہ رہتا ہے.دھوبی اس کے کپڑے لے کر جاتا ہے جب وہ کپڑے دھو کر واپس لاتا ہے تو قمیص کے بٹن غائب ہوتے ہیں یا جو جواب صحیح سلامت تھی وہ پھٹی ہوئی ہوتی ہے.بعض طبیعتیں ایسی ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ کیسے کپڑے واپس آئے.چنانچہ انہیں کچھ وقت دھوبی سے جھگڑنے پر ضائع کرنا پڑتا ہے.اگر اس نے دس منٹ بھی بات کی اور کہا کہ بھلے مانس آدمی تم نے کیا کیا ، میری بالکل نئی جراب تھی اور تم پھاڑ کر لے آئے ہو یا نئی قمیص تھی جو تم نے پھاڑ دی یا اس کے بٹن ضائع کر دیئے.پھر ہوٹل میں اس کی بہن یا اس کی ماں یا اس کے عزیز تو نہیں بیٹھے ہوئے جو اس کے کپڑے سی دیں گے یا بٹن لگا دیں گے بلکہ اس کو خود وقت خرچ کر کے لگانے پڑیں گے.غرض کچھ وقت اس نے دھوبی کے ساتھ بات کرتے ہوئے ضائع کیا اور کچھ وقت اس نے اپنے کپڑوں کو درست کرتے ہوئے ضائع کیا ، وہ تو ضائع ہو گیا.اگر ہمارے ماحول کے یہ حالات نہ ہوتے تو وہ وقت بچ جاتا اور اگر وہ چاہتا تو اس وقت کو اپنی پڑھائی پر خرچ کر سکتا تھا.آکسفورڈ میں مجھے کئی مہینے تک یہ پتہ نہیں لگا کہ کون کس وقت میرے کپڑے لے جاتا ہے اور کس وقت وہاں کپڑے واپس رکھ دیئے جاتے ہیں.پتہ ہی نہیں لگتا تھا کیونکہ وہاں کمرے بند کرنے کا رواج نہیں ہے اور نہ ہمارے پاس چابیاں تھیں بلکہ بارہ بارہ ہفتے کی جو چھٹیاں ہیں ان میں بھی چیز میں اسی طرح چھوڑ کر کمرے کھلے چھوڑ کر چلے جاتے تھے.ایک یہ خوبی بھی ہے کہ وہاں یہ خطرہ نہیں ہے کہ کوئی چیز گم ہو جائے گی اور اگر دھوبی کے ہاں پھٹی ہوئی جراب گئی ہے تو وہ رفو کر کے واپس دیں گے اور اگر
خطبات ناصر جلد ششم ۳۹۸ خطبہ جمعہ ۱٫۹ پریل ۱۹۷۶ء قمیص کا بٹن ٹوٹ گیا ہے تو وہ بٹن لگا کر دیں گے.نہ اس سے بات کرنے کی ضرورت نہ کپڑے سینے کی ضرورت اور نہ جرا میں رفو کرنے کی ضرورت ، اتنا وقت بچ گیا.وہاں یہ حال ہے کہ عام طور پر طالب علم شام کی چائے اپنے کامن روم میں پیتے ہیں (ان کو چائے پینے کی عادت ہے ) یا اگر کوئی دوست مل جائے تو وہ کسی ریسٹورنٹ میں چلے جاتے ہیں لیکن بعض اوقات وہ اپنے کمرے میں بھی دوست بلا لیتے ہیں.دو تین دوست بلائے تو ہر دو چار کمروں کا جو نوکر ہوتا ہے اس کو کہنا پڑتا ہے کہ مجھے چائے چاہیے.آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہاں وقت کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے اس کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ چائے مجھے سوا چار بجے چاہیے یا ساڑھے چار بجے چاہیے یعنی پندرہ منٹ کے فرق کا بھی خیال رکھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وقت بڑا قیمتی ہے یہ ضائع نہیں ہونا چاہیے.اگر آپ نے کہا ہے سوا چار بجے چاہیے تو وہ چار بج کر دس منٹ پر چائے اور ساری چیزیں آکر لگا دے گا اور اگر آپ نے کہا ہے ساڑھے چار بجے چاہیے تو وہ چار بجکر پچیس منٹ پر لے آئے گا.یہاں کی طرح نہیں ہے کہ جیسا ایک پنجابی کا لطیفہ مشہور ہے وہ لمبا ہے میں اس کا ایک حصہ بتا دیتا ہوں.ایک شخص لکھنؤ وغیرہ کی طرف سے اپنے دوست کومل کر آیا تو اس کا نوکر بڑا اچھا تھا.اس نے بڑے وقت کے اوپر ہر کام کیا.اس نے کہا کہ مجھے بھی اپنے نوکر کی اہلیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے.چنانچہ جب اس کا دوست آیا تو اس نے کہا کہ جا دوست آیا ہے اس کے لئے لسی لے کر آ.تو جس طرح اس کے دوست نے کہا تھا اسی طرح اس نے بھی دو چار منٹ گزرنے کے بعد کہا کہ نوکر دوکان پر پہنچ گیا ہو گا.پھر دو چار منٹ گزرے تو اس نے کہا کہ اب لسی بنا کر دوکان سے واپس چل پڑا ہوگا.پھر چند منٹ گزرے تو کہنے لگا کہ اب پہنچ گیا ہو گا پھر اس کو آواز دی کہ او نتھو خیرے ( جو بھی اس کا نام تھا ) لسی لے آیا ایں.وہ کہنے لگا جی میں تے بجتی ڈھونڈ ریاں جان واسطے.اس کو احساس ہی کوئی نہیں.پس ہمارا جو ماحول ہے ہمارا وقت ضائع کرتا ہے لیکن اسلام نے تو وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس کے نتیجہ میں یہ اعلان کہ ہمارا سب کچھ خدا کے لئے ہے یہ غلط بن جاتا ہے.جو وقت ضائع ہو گیا وہ خدا کے لئے تو ضائع نہیں ہوا خدا تو اسے ضائع کرنا نہیں چاہتا.
خطبات ناصر جلد ششم ۳۹۹ خطبہ جمعہ ۱٫۹ پریل ۱۹۷۶ء ہم نے مہدی علیہ السلام کو شناخت کیا اور ہم مہدی علیہ السلام پر ایمان لائے.حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس اسلامی تعلیم کی الہاما بھی یاد دہانی کرائی گئی ہے.آپ کو الہام ہوا انتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِى لَا يُضَاعُ وَقْتُه کہ تو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں ہوگا.پس جماعت احمدیہ پر بڑی ذمہ داری ہے اور ہم یاد دہانیاں بھی کراتے ہیں کہ معمور الا وقات بنو.وقت کے ہر حصے کے ساتھ خدا تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی حکم وابستہ ہے اس کو بجالا ؤ تو وقت معمور ہو جائے گا.بھر پور زندگی گزارو.خشک زندگی ست زندگی کا ہل زندگی اور بے خیر زندگی گزارنے کی تو ہمیں خدا نے تعلیم نہیں دی.پس ہم بہت کچھ سوچتے ہیں، دوستوں کو نصیحتیں کرتے ہیں اور دوستوں کو کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو نصیحتیں کیا کرو.ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ ایک منصوبہ یہ ہے کہ میں نے تحریک کی تھی کہ دوست وقف عارضی میں پندرہ دن کا وقف کر کے دوسری جگہوں پر جائیں.اس میں بڑی برکت ہے جو دوست اس منصوبہ کے تحت گئے مجھے سینکڑوں کی تعداد میں ان کے خط ملے جس میں انہوں نے یہ لکھا کہ انہوں نے بھی فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ باہر جانے سے پہلے انسان زیادہ متوجہ ہو جاتا ہے کہ میں دوسری جگہ جا رہا ہوں لوگ مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی کتب کے متعلق سوال کریں گے پھر وہ پڑھتا ہے اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑھنے پر زیادہ وقت دیتا ہے اور زیادہ غور اور زیادہ توجہ سے پڑھتا ہے، سوچتا ہے، دعائیں کرتا ہے.بہتوں کو اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے نوازا اور ان کو سچی خوا ہیں دکھا ئیں اور ان کے کاموں میں برکت ڈالی اور وہ بڑے خوش ہو کر اور روحانی سرور حاصل کرنے کے بعد واپس لوٹے.نیز جہاں وہ گئے ان کو یہ خیال ہوتا تھا کہ باہر سے آئے ہیں.چھوٹی چھوٹی باتیں جو ہم بھول جاتے تھے اور جن کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے مقامی دوست سوچتے ہیں باہر سے آنے والے بھائیوں کے سامنے تو اس سستی کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے.چنانچہ انہوں نے اپنا محاسبہ کرنا شروع کیا.ایک دوسرے سے باتیں کیں، ایک دوسرے سے واقفیت حاصل کی ، ایک دوسرے سے پیار کرنا سیکھا.برادری اور اخوت اور بھائی چارے کا ماحول پیدا ہوا اور آپس میں باتیں کرنے کے بعد انہوں نے روحانی طور پر زیادہ تیزی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۰۰ خطبہ جمعہ ۹ ا پریل ۱۹۷۶ء کے ساتھ قدم آگے بڑھانے شروع کئے.اب جیسا کہ مشاورت پر بھی جماعت کے ذمہ دار عہد یداروں اور نمائندوں کے سامنے یہ بات لائی گئی تھی اس میں کچھ سستی پیدا ہوگئی ہے اس کی طرف توجہ دلائی گئی تھی اور دراصل تو میں سمجھا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کیونکہ یہ تو میرا کام ہے کہ میں جماعت کو کہوں کہ اس طرف توجہ کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جب میں ان کو توجہ دلاتا ہوں تو وہ پوری تندہی کے ساتھ توجہ کرتے ہیں.میں جو بات بھی دین کے لئے اور خدا کے پیار کے حصول کے لئے کہوں وہ اس کو مانتے ہیں اور بشاشت کے ساتھ مانتے ہیں.اس وقت ہم کئی لحاظ سے نازک وقت میں سے گزر رہے ہیں چنانچہ اس وقت دو باتیں بڑی اہم ہیں اور یہ باتیں جماعت کو ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہئیں.ایک چیز تو ہمارے ملک کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ہمارے ملک میں جو حالات پیدا ہوئے اس کے نتیجہ میں جو چھوٹے چھوٹے افسر لوگ ہیں انہوں نے احباب جماعت کو تنگ کرنا ملک کی ترقی کا ایک ذریعہ سمجھ لیا ہے.ان کو غلط نہی ہے اور وہ ایسا ماحول پیدا کر رہے ہیں کہ مجھے بعض دفعہ یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ جو بنیادی تعلیم ہمیں اسلام نے دی ہے اور جس بنیادی تعلیم کی طرف بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام ( آپ دو حیثیتوں میں آئے ) نے ہمیں بلایا اور آپ نے جماعت کو شروع سے ہی پہلے دن سے ہی یہ تلقین کی اور سلسلہ کی یہ روایت ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا.قانون شکنی نہیں کرنی بلکہ قانون کی پابندی کرنی ہے.مجھے یہ فکر رہتی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ان لوگوں کے رویہ کے نتیجہ میں جن کو میں چھوٹے درجے کے افسر کہتا ہوں بعض جو شیلے نوجوان کسی وقت غصہ میں آکر یہ سمجھنے لگیں کہ ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے مجاز بن گئے ہیں.بالکل نہیں ہرگز نہیں.پس آپس میں یہ باتیں کر کے اور سوچ کے اور اس پر غور کر کے اور پوری توجہ کے ساتھ اس بنیادی چیز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نفسوں پر کنٹرول کرو اور ان کو اپنے قابو میں رکھو.جس طرح ایک اچھا شہسوار گھوڑے کو اپنے قابو میں رکھتا ہے اسی طرح اپنے نفسوں کو قابو میں رکھتے ہوئے انہیں غلط راہوں پر پڑنے سے روکنا چاہیے.ہماری پناہ ان حالات میں ہمارا مولیٰ ہے اور ایک معمولی عقل رکھنے والا احمدی بھی اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ اس کی اپنی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۰۱ خطبہ جمعہ ۹ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ ء طاقت سے بے شمار گنا زیادہ اس کے اس رب کی طاقت ہے جس پر وہ ایمان لایا اور جس کے حضور أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ کے مطابق اس نے اپنا سب کچھ پیش کر دیا اور اس کے سپر د کر دیا، وہ آپ کو کیسے ضائع کر دے.اس واسطے قانون شکنی کا تخیل بھی نہیں آنا چاہیے.میں یہ نہیں کہتا کہ احمدی قانون توڑنے پر عملاً تیار ہو جائیں گے مجھے جو خطرہ محسوس ہوتا ہے اور جس وجہ سے میں آپ کی خاطر استغفار کرتا رہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کہیں آپ کے دماغ میں بھی یہ بات نہ آئے کہ کیا ان حالات میں پھر قانون توڑنا جائز ہو جائے گا جبکہ قانون کا رکھوالا جس کو ہم افسر کہتے ہیں وہ خود اپنے ملک کے قانون کو توڑ رہا ہے نہیں! اگر وہ قانون کو توڑ رہے ہیں تب بھی آپ لوگ وہم بھی نہ کریں کہ آپ نے قانون کو توڑنا ہے اور وقف عارضی کے جو وفود باہر جائیں وہ خاص طور پر یہ نوٹ کریں اور دوستوں سے یہ باتیں کریں کہ یہ ہماری تعلیم ہے اور ہم ملک میں کسی طور پر بھی فتنہ وفساد پیدا نہیں ہونے دیں گے خواہ حالات کیسے ہی کیوں نہ پیدا کر دیے جائیں.یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ جو اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے دشمنی رکھتے ہیں اور وہ ہمارے دشمن ہیں وہ جانتے بوجھتے ہوئے ایسا ماحول پیدا کرتے ہوں کہ جس سے احمدی بھڑکیں اور اس طرح جماعت کو نقصان پہنچے.ہم قانون شکنی سے باز رہیں گے اس لئے نہیں کہ قانون شکنی سے اس رنگ میں جماعت کو نقصان پہنچے گا جس رنگ میں کہ وہ سوچ رہے ہیں بلکہ اس لئے کہ قانون شکنی سے ہمارا خدا ہم سے ناراض ہو جائے گا اور خدا تعالیٰ کی چھوٹی ناراضگی بھی ہمیں برداشت نہیں ہے.پس خدا کے خوف سے نہ کہ دنیا اور دنیا داروں کے خوف سے یاد نیا کے جو افسر لوگ ہیں ان کے خوف سے، ہم نے قانون شکنی سے باز رہنا ہے خدا کے خوف سے.خَشْيَةُ اللهِ کے نتیجہ میں تقویٰ اللہ کے نتیجہ میں ہم نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا تصور بھی اپنے دماغ میں نہیں لانا.یہ دنیا سے تعلق رکھنے والی بات ہے لیکن ہے اسلامی تعلیم کی اساس پر.یعنی بظاہر اس کا تعلق اس دنیوی زندگی سے ہے لیکن اس کی بنیاد وہ اسلامی تعلیم ہے جو ہمیں دی گئی ہے کہ دنیا میں فتنہ اور فساد نہیں کرنا.اس زمانہ میں جس میں کہ مہدی علیہ السلام آچکے ہیں اس میں تو نوع انسانی کو ایک اُمتِ واحدہ اور ایک خاندان بنانے کا کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اور ہم نے پیار سے انسانیت
خطبات ناصر جلد ششم ۴۰۲ خطبہ جمعہ ۹ را پریل ۱۹۷۶ء کا دل جیت کر اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے.پس شیطان کوئی وسوسہ ہمارے ذہن میں ڈال کر ہمیں اپنی راہ سے بھٹکنے پر مجبور نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ طاقت دی ہے اور میں امید رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو ہمیشہ اس قسم کے وسوسوں اور ان کے شر سے محفوظ رکھے گا.دوسری بات جو بہت اہم اور بہت بنیادی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مثیل مسیح ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے كما استَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمُ (النور : ۵۶) پر بنیا د رکھ کر قرآن کریم کی آیات سے استدلال کیا اور فرمایا کہ اُمت محمدیہ میں آخری خلیفہ کے آنے کی جو بشارت تھی اس کے مطابق مجھے مہدی معہود و مسیح موعود بنا کر بھیجا گیا ہے.مسیح موسوی علیہ السلام پر ایمان لانے والوں پہ جو بیتی ، ان پر جو گذری اس سے ہمیں سبق لینا چاہیے.اُن کو یہودیوں نے اتنا تنگ کیا ، انہیں اتنا دکھ پہنچایا اور ان کو موسوی شریعت سے اتنا پرے دھکیلا کہ ایک عرصہ کے بعد دو علیحدہ علیحدہ مذہب بن گئے.دو جماعتیں اور دوExtremes(ایکسٹریمز ) بن گئیں جو بالکل نمایاں طور پر ایک دوسرے کے خلاف تھیں.ایک مسیحی کہلانے لگے اور ایک یہودی کہلانے لگے حالانکہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام تو یہودی شریعت کے قیام کے لئے آئے تھے لیکن ایک خلیج بیچ میں پیدا کر دی گئی لیکن مسیح محمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی جماعت کا مقام مختلف ہے اور اس کے مطابق خدا تعالیٰ نے امت محمدیہ کو بشارتیں دی ہیں.ہر بشارت ماننے والوں پر ایک ذمہ داری ڈالتی ہے اور جو بشارت جتنی بڑی ہوتی ہے اتنی ہی بڑی ذمہ داری ڈالتی ہے.اس وقت ہم سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تم اقرار کر لو کہ ہم مسلمان نہیں.ہم کیسے اقرار کر لیں مہدی علیہ السلام تو مبعوث ہی اس غرض سے ہوئے ہیں کہ اسلام کے چہرے پر جوگر د ڈال دی گئی ہے اس سے اسلام کے چہرے کو صاف کر کے اور اسلامی تعلیم میں ، عقائد میں اور اعمال میں جو بدعتیں اور بد رسوم شامل کر دی گئی ہیں ان سے ان کو پاک اور صاف کر کے اسلام کا خالص اور حسین چہرہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور یہ دعویٰ مرزا غلام احمد (مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام ) نے نہیں کیا بلکہ یہ بشارت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی.
خطبات ناصر جلد ششم ۴۰۳ خطبہ جمعہ ۹ ا پریل ۱۹۷۶ء ہمارے بھائی شیعہ حضرات نے مہدی علیہ السلام کے متعلق احادیث بڑے پیار اور محنت سے اکٹھی کی ہیں اور سنبھالی ہوئی ہیں کیونکہ وہ مہدی منتظر کا انتظار کر رہے تھے اور غیر شیعہ بھی مہدی کا انتظار کر رہے تھے.مہدی آگئے اور ہم نے خدا کی توفیق سے انہیں شناخت کر لیا لیکن خدا تعالیٰ ان کو بہتر رنگ میں بہتر جزا دے کہ انہوں نے ان احادیث کو جن کا تعلق مہدی علیہ السلام کے ساتھ تھا سنبھال کر رکھا اور اس میں کوئی فرقہ وارانہ تعصب نہیں برتا.آجکل جو کتابیں ایران میں چھپ رہی ہیں ان میں سے کچھ یہاں پہنچی ہیں ساری تو نہیں پہنچیں میرے خیال میں بارہ پندرہ پہنچ چکی ہیں ان کے بہت سے حصے میں نے خود دیکھے ہیں.جب شروع میں میں نے دیکھے تو مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ جہاں تک احادیث کے اکٹھا کرنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے اکٹھا کرنے کا سوال تھا ان کے اندر کوئی تعصب نہیں ہے یعنی ہمارے جو شیعہ بھائی ہیں ان کی کتب میں ان کے علماء نے یہ لکھا ہے کہ امام بخاری سے یہ روایت مروی ہے اور امام شافعی سے یہ روایت مروی ہے اور امام ابو حنیفہ سے یہ روایت مروی ہے اور سید عبدالقادر جیلانی سے یہ روایت مروی ہے.غرض ان کے پرانے لٹریچر میں کسی فرقہ اور کسی فقہی مسلک کے مابین کوئی فرق نہیں ہے انہوں نے سب احادیث اکٹھی کر دی ہیں.انہوں نے اپنی کتابوں میں ایک حدیث یہ بھی محفوظ کی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی محفوظ کیا ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے انہیں فرمایا کہ مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام میں اس قدر بدعات شامل ہو چکی ہوں گی کہ جب مہدی اسلام کو ان بدعات سے پاک کر کے اس کی صحیح شکل میں اسے دنیا کے سامنے پیش کرے گا تو لوگ کہیں گے کہ یہ نیا دین اور نئی کتاب لے آیا ہے.یہ کیسی باتیں کر رہا ہے.گویاوہ بد رسوم اور بدعقائد کی وجہ سے اسلام کی صحیح شکل کو شناخت نہیں کر سکیں گے لیکن ہم مہدی علیہ السلام پر ایمان لائے اور جس جماعت کا یہ مقام ہو، اس بشارت کے نتیجہ میں جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم کہنے لگ جائیں گے اور کوئی نیا دین اور کوئی نئی کتاب بنا لیں گے، یہ توقع عبث ہے.اس لحاظ سے تو ٹھیک ہے کہ جس چیز کو مد صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کیا اسے ہم بھی تسلیم کرتے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۰۴ خطبہ جمعہ ۹ ا پریل ۱۹۷۶ء ہیں کہ جس وقت مہدی علیہ السلام کو تمام بدعات اور بدعقائد اور بد رسوم سے پاک کر کے اسلام کو اس کی حسین اور صحیح شکل میں دنیا کے سامنے پیش کریں گے تو آپ پر یہ اعتراض کیا جائے گا کہ یہ نیا دین اور نئی کتاب لے آیا ہے.لوگ کہیں گے کہ یہ نیا دین لے آئے ہیں اور انہوں نے نئی کتاب بنالی ہے نہ قرآن پر عمل کرتے ہیں نہ دین اسلام پر عمل کرتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ مہدی کے زمانہ میں ایسا ہوگا اور آج جو کہتے ہیں کہ ایسا ہوا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے عین مطابق اور ہماری صداقت کے ثبوت میں ایسا کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نیامذہب لے کر آگئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ سچے مہدی کی یہ علامت ہے کہ جب وہ آئے گا تو اسلام کے چہرے کو ہر قسم کی گرد سے صاف کر کے اس کے حسین چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرے گا تو اس وقت یہی کہا جائے گا.پس دنیا نے اگر یہ کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نیادین اور نئی کتاب لے کر آگئے ہیں تو عین اس کے مطابق کہا جو آج سے چودہ سو سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا لیکن ہمارے اوپر ایک ذمہ داری ہے ہمارے لئے اس دنیا سے کوچ کر جانا زیادہ آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ ہم یہ کہیں کہ ہمارا دین دینِ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین ، اور ہمارا نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور نبی ہے.وقف عارضی کے جو وفود باہر دوسری جگہوں پر جائیں وہاں بھی اور پھر واپس آکر اپنے ہاں بھی یہ بات اچھی طرح دلوں میں گاڑ دیں کہ اسلام کو ہم نہیں چھوڑ سکتے.اپنی جانوں کو چھوڑ سکتے ہیں ، اپنے مالوں کو چھوڑ سکتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کی گردنیں کٹوا سکتے ہیں لیکن اسلام کو نہیں چھوڑ سکتے.یہ ہو ہی نہیں سکتا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کسی صورت میں بھی کوئی احمدی اپنے آپ کو اسلام سے دور نہیں کہہ سکتا اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں کہہ سکتا.باقی اگر کوئی شخص ہمیں کا فر کہتا ہے تو یہ نئی بات نہیں ۸۰ اسی سال سے ہمیں کا فر کہا جا رہا ہے البتہ تم یہ سوچ لو کہ تم نے خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونا ہے.تم مخالفین جو مرضی کہ لو ہم اپنے منہ سے کیسے وہ چیز کہہ سکتے ہیں جو حقیقت سے دور اور نفاق کی بدبو اپنے اندر رکھتی ہے.ہمارا جو رشتہ ہمارے پیار کرنے والے رب کے ساتھ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۰۵ خطبہ جمعہ ۹ ا پریل ۱۹۷۶ء ہے ہم کیسے وہ تو ڑ سکتے ہیں ہمارا جو تعلق محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے اس تعلق کو تمہاری کوئی تدبیر قطع نہیں کر سکتی ، خدا کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ.یہ باتیں آپس میں کیا کرو اور وقف عارضی پر جو دوست باہر جائیں وہ جا کر ایسی باتیں کہیں.جماعت خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے اتنے نشان دیکھ چکی ہے کہ جن کا شمار نہیں.انفرادی نشان بھی ، ایک ایک گاؤں میں بھی خدا نے اپنی قدرتوں کے نشان دکھائے اور ساری دنیا میں بھی وہ اپنی قدرتوں کے نشان اور اپنے پیار کے سلوک کے نشان دکھا رہا ہے.اس کے بعد ناشکری کی کوئی راہ تو ہم اختیار نہیں کر سکتے اور ہماری ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ ہم ڈنڈے کے ساتھ یا تیر کمان کے ساتھ یا بندوق کے ساتھ یا ایٹم بم کے ساتھ دنیا کو اسلام کی طرف لے کر آئیں.ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم پیار کے ساتھ ، ہم بے لوث خدمت کے ساتھ ، ہم خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اس سے برکتیں حاصل کر کے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو لوگوں تک پہنچا کے، خدا تعالیٰ کا انسان سے تعارف کروا کے اور اسلام نے انسان میں مساوات اور انسان کے حقوق کو قائم کرنے کے لئے جو صحیح تعلیم دی ہے نوع انسانی کو اس سے روشناس کروا کے نوع انسانی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کی کوشش کریں، یہ ہماری ذمہ داری ہے.پس عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے بغیر کسی فخر اور غرور کے بغیر کسی نخوت اور تکبر کے سروں کو جھکائے ہوئے اس راہ پر چلتے رہو جو صراط مسقیم کہلاتی ہے اور جو خدا تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والی راہ ہے اور سوائے خدا کے کسی سے نہ ڈرو اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اگر تکلیف اٹھانی پڑے تو اسے بشاشت سے اٹھاؤ.تکلیف سے بچنے کے لئے ایک احمدی کا دل اور اس کا دماغ اور اس کی روح خدا تعالیٰ کو چھوڑ نے کے لئے کیسے تیار ہو جائے گی.ہماری روح تو یہ بات سوچ کر بھی کانپ اُٹھتی ہے.اتنا پیار کرنے والا خدا جس نے آج تک ہمیں لاوارث نہیں چھوڑا وہ آئندہ بھی نہیں چھوڑے گا.اس کی طاقتوں میں تو کبھی کوئی کی نہیں آئی اور نہ آسکتی ہے باقی جب تک دل نہیں بدلتے دنیا آپ کو یہی سمجھتی رہے گی اور دل بدلنا خدا کا کام ہے.انسان کا دل خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کا فرض یہ ہے کہ اپنے نمونہ سے جیسا کہ اَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ میں کہا گیا ہے.دنیا کو یہ بتاؤ کہ ہم اسلامی تعلیم پر
خطبات ناصر جلد ششم ۴۰۶ خطبہ جمعہ ۹ ۱ پریل ۱۹۷۶ ء قائم ہیں کسی ایک حکم کی خلاف ورزی کرنے کے لئے بھی ہم تیار نہیں ہیں.اگر اس کے باوجود تمہارے نزدیک کا فر ہیں تو جو تمہاری مرضی ہے کہتے رہو لیکن ہم اسلامی تعلیم میں سے کسی ایک حکم کو بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.یہ دوسری اہم اور بنیادی بات ہے ایسی بات جو ہماری زندگی اور ہماری روح ہے ہماری پیاس بجھانے والا پانی ہے اس کو سمجھو، اسے پہچانو ، اس سے فائدہ اٹھاؤ.اس سے اپنی پیاس بجھاؤ اور اس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرو.خدا کرے کہ ہمیں اس کی توفیق ملتی رہے.روزنامه الفضل ربوه ۳ /اگست ۱۹۷۶ ء صفحه ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ششم ۴۰۷ خطبہ جمعہ ۱۶ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ء جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم قیامت تک کے لئے ہدایت نامہ ہے خطبه جمعه فرموده ۱۶ را پریل ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت تلاوت فرمائی:.قُلْ يَاهْلَ الْكِتَب تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ.(آل عمران: ۶۵) پھر فرمایا:.اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.قرآنی تعلیم کا دوسرا کمال ، کمال تفہیم ہے یعنی اُس نے اُن تمام راہوں کو سمجھانے کے لئے اختیار کیا ہے جو تصور میں آ سکتے ہیں.اگر ایک عامی ہے تو اپنی موٹی سمجھ کے موافق اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور اگر ایک فلسفی ہے تو اپنے دقیق خیال کے مطابق اس سے صداقتیں حاصل کرتا ہے اور اس نے تمام اصولِ ایمانیہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے دکھلایا ہے اور آیت تعالوا إلى كَلِمَةِ میں اہل کتاب پر یہ حجت پوری کرتا ہے کہ اسلام وہ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۰۸ خطبہ جمعہ ۱۶ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ ء کامل مذہب ہے کہ زوائد اختلافی جو تمہارے ہاتھ میں ہیں یا تمام دنیا کے ہاتھ میں ہیں، ان زوائد کو نکال کر باقی اسلام ہی رہ جاتا ہے.“ اس آیت کریمہ میں بہت سی باتوں کی طرف ہمیں توجہ دلائی گئی ہے ایک یہ کہ قرآن کریم قیامت تک کے لئے ہدایت نامہ ہے اور ہم لوگ جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایک آیت بھی یا کوئی ایک لفظ بھی یا کوئی ایک حرف بھی یا کوئی ایک زیر اور زبر بھی منسوخ نہیں ہو سکتی.جماعت احمدیہ کا یہ مذہب اور عقیدہ ہے کہ جس رنگ میں قرآن کریم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اُسی شکل میں بغیر کسی رد و بدل کے یہ ہم تک پہنچا ہے اور اپنی اسی اصلی اور حقیقی شکل میں قیامت تک قائم رہے گا.سوال پیدا ہوتا ہے کہ لفظ ” قال “ کا مخاطب کون ہے؟ سو یا د رکھنا چاہیے کہ اس کے پہلے مخاطب تو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں لیکن چونکہ یہ قیامت تک کے لئے ایک ہدایت ہے اس واسطے یہ حکم صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے تعلق نہیں رکھتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ کے وصال کے بعد اس آیت کو یا اس حکم کو جو قل میں آیا ہے لوگ اسے منسوخ سمجھتے.دراصل اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر متبع کو کہا گیا ہے کہ وہ بیان شدہ مضمون کے مطابق اہل کتاب کو دعوت دے.پس جیسا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ فرض تھا کہ آپ اس آیت کی روشنی میں اہلِ کتاب کو دعوت دیتے اور جیسے آپ اپنی زندگی میں احسن طور پر بجالائے اسی طرح ہر سچے مسلمان کا جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا اور قرآن کریم کو ہمیشہ کے لئے ہدایت اور شریعت سمجھتا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اس حکم کے ماتحت اہلِ کتاب کو اسلام کی طرف اس رنگ میں دعوت دے جس رنگ میں کہ یہاں مضمون بیان ہوا ہے.دوسری بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چھوٹے سے اقتباس میں جو اشارے ہیں میں انہی کی وضاحت کروں گا ) قرآن کریم نے توحید باری تعالیٰ کے بارہ میں زبردست دلائل بیان کئے ہیں اور بتایا ہے کہ تمام مذاہب توحید
خطبات ناصر جلد ششم ۴۰۹ خطبہ جمعہ ۱۶ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ ء کے قیام کے لئے آئے تھے اور تعالوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمُ.یہ محض ایک دعوت نہیں کیونکہ عیسائیت میں مثلاً بعض ایسے لوگ ہیں کہ جو تثلیث کے قائل ہیں اور ان پر تو بظاہر تعالوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُم کا اطلاق نہیں ہوتا اور اہلِ کتاب میں سے مثلاً یہودیوں میں سے بعض وہ لوگ ہیں جنہوں نے اربابا مِنْ دُونِ اللهِ بنائے ہوئے تھے.انہوں نے اپنے بزرگوں کو قریباً خدا کا درجہ دے دیا تھا.ایسے لوگوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی تعالوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُم کا یہ نعوذ باللہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ مسلمان بھی اربابا مِنْ دُونِ اللَّهِ کے قائل ہیں.مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم نے اس بات کے ثبوت میں اس قدر ز بر دست عقلی اور نقلی ثبوت دیئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا اہلِ کتاب میں سے کوئی فرقہ اگر کسی کو مقام خدائی دے یا خدا بنا دے یا خدا کا بیٹا بنادے تو قرآن کریم اس بات کی ذمہ داری لیتا ہے اور قرآن کریم کی شریعت نے اس ذمہ داری کو احسن طور پر نباہا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اربابا مِنْ دُونِ اللہ کہنے والے لوگ غلطی پر ہیں اسی طرح ایک ایسے عیسائی مخاطب کو جو تثلیث کا قائل ہے اُس پر یہ ثابت کیا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ غلط ہے خدا واحد و یگانہ ہے اور یہ عقائد اختلافی جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اقتباس میں ذکر کیا ہے یہ وہ زوائد یا غلط باتیں ہیں جو لوگوں نے اپنے مذہب میں شامل کر لیں لیکن اسلام نے کہا کہ میں دنیا پر یہ بات ثابت کروں گا کہ یہود و نصاری اور ایسے ہی دوسرے مذاہب جن پر کتابیں اتری تھیں لیکن اُنہوں نے ان میں ملاوٹ کر دی اُن میں تحریف کردی یا اُن میں تبدیلی کر کے ان کی شکل کو بگاڑ دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ توحید کی راہ سے بھٹک گئے.کوئی زیادہ بھٹکا اور کوئی کم بھٹکا لیکن جو بھٹک گیا وہ تو بھٹک گیا قرآن کریم نے اس آیت میں یہ ذمہ داری لی ہے کہ وہ یہ ثابت کرے گا کہ توحید سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ ہے ہر نبی توحید کے قیام ہی کے لئے آیا تھا اور یہ ایک ایسا مسئلہ جس میں باوجود ظاہری اختلاف کے ہمارا اور تمہارا کوئی اختلاف نہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ دلائل ساطعہ اور حج قاطعہ کے ساتھ یہ ثابت کرے گا کہ اے اہل کتاب! تم غلط راہ پر ہو.اس جگہ اور چیزیں تو بعد کی باتیں ہیں لیکن تبلیغ یہاں سے شروع کی کہ اس بات پر ہمیں اور تمہیں اکٹھا ہونا پڑے گا اور ہم تمہیں ثبوت دیں گے.چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات ناصر جلد ششم ۴۱۰ خطبہ جمعہ ۱۶ را پریل ۱۹۷۶ء نے قرآن کریم دنیا کے ہاتھ میں پکڑا کر اور زبردست دلائل دے کر یہ ثابت کر دیا کہ نہ اربابا من دُونِ اللہ کا عقیدہ صحیح ہے اور نہ تثلیث یعنی ایک اور دو اور تین خدا (ایک تین اور تین ایک ) ہیں.یہ سب نامعقول باتیں ہیں اور انسانی فطرت اور اس کی ضمیر کے خلاف عقیدے ہیں.لفظی طور پر ساری کتب سماویہ کے کچھ حصے محفوظ ہوتے ہیں ہر چیز تو نہیں بدل جاتی اُن مذاہب کی جن کو ہم اہل کتاب کہتے ہیں (ویسے بعض ایسے مذاہب بھی ہیں جن کو بد مذہب کہا جاتا ہے اُن کو ان کی فطرت کی طرف ہم توجہ دلائیں گے ).اور ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب ہمارے ہاتھ میں دے کر اور اس کی بہترین تفسیر کر کے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ واقع میں یہ کلمہ ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ الا نعبد إلا اللہ ہم سوائے خدائے واحد کے کسی کی عبادت نہ کریں.ہم صرف خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے والے ہوں.یہ ہے بنیادی طور پر مشترک عقیدہ جس کے بغیر مذہب لاشے محض ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں اگر خدا ہی نہیں تو پھر مذہب کوئی چیز نہیں انسان کی اپنی عقل کے ڈھکو سلے ہیں اور بس.اور اگر خدا ہے اور یقیناً ہے تو وہ ایک ہی ہے باقی سارے عقائد وساوس اور تو ہمات ہیں اور سب غلط اور بے ہودہ ہیں اور قرآن کریم نے ان کی غلطی کو ثابت کیا ہے.اس لئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کو ہم منسوخ نہیں سمجھ سکتے ہم احمدی یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا کوئی لفظ منسوخ نہیں.چودہ سو سال گزر گئے اور آج بھی قرآن کریم ہر ایک کے کان میں کہتا ہے قل ياهل الكتب تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ - پس جب ہم اس نقطۂ نگاہ سے اُمت محمدیہ کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو پہلے دن ہی سے مقر بین الہی کا ایک گروہ ہمیں نظر آتا ہے جن کو قرآن کریم کا علم اور اس کے اسرار روحانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے اور انہوں نے کسی مذہب کے مقابلے میں کبھی یہ وہم پیدا نہیں ہونے دیا که قرآن کریم خود بنیادی طور پر اور دوسرے مذہب کے مقابلہ میں بھی توحید خالص کو ثابت نہیں کرتا لیکن اس آیت میں اہل کتاب کے مقابلہ میں قرآن کریم کی یہ قوت اور یہ طاقت اور اس کے یہ دلائل اشارۃ بیان ہوئے کہ قرآن کریم تو حید خالص کو قائم کرنے والا ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۴۱۱ خطبہ جمعہ ۱۶ را پریل ۱۹۷۶ ء پس مخلصین اور مقربین کا جو گروہ امت محمدیہ میں پہلے دن سے آج تک پیدا ہوتا رہا ہے اُنہوں نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم کا کوئی لفظ واقع میں منسوخ نہیں.محض یہی نہیں کہ اس نے مخاطب کر دیا اور مخاطب تھا کوئی نہیں ، پھر تو فضا اور ہوا کو مخاطب کیا نا ! دراصل ہر سچا مسلمان اس کا مخاطب ہے اور ذمہ دار ہے اس بات کا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کو اس بات کا قائل کرے کہ خدائے واحد و یگانہ کا تصور ہم میں قدر مشترک ہے اور یہ کہ اَلا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ اس میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ قرآن کریم نے قل کہ کر کس کو مخاطب کیا ہے؟ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے محبوب مطہرون کو حکم دیا ہے کہ وہ یہ پکاریں یاهل الكتب تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ لیکن اگر کوئی ولی اللہ ہی نہیں اور اس کا مخاطب ہی نہیں تو مخاطب پھر کس کو کیا گیا ہے در آنحالیکہ قرآن کریم کا تو کوئی لفظ بھی منسوخ نہیں ہوسکتا اس واسطے قرآن کریم کے مخاطب چاہے جو جی ہوں قرآن کریم کہتا ہے کہ اہل کتاب سے کہو اور اُن کو اس بات کی دعوت دو کہ تعالوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ - تَعَالَوْا میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ثابت کریں کہ توحید خالص کے خلاف لوگوں کے جو عقیدے ہیں وہ غلط اور بے بنیاد ہیں.بالکل نا معقول اور غیر فطری ہیں بلکہ اُن کی اپنی مذہبی کتب کے خلاف ہیں کیونکہ اُن کے مذہبی عقائد بدل گئے.اس کی نشاندہی اسلام نے کی اور پھر اُمت محمدیہ بھری ہوئی ہے ان مطہرین کے گروہ سے کہ جو ہر زمانہ اور ہر قوم میں اور ملک ملک میں اور شہر شہر میں پیدا ہوتے رہے اور وہ اس بات کے اہل تھے کہ قرآن کریم اُن کو مخاطب کر کے کہتا کہ تمہیں ہم کہتے ہیں کہ جاؤ اور عیسائیوں ، یہودیوں اور دوسرے اہل کتاب کو پکارو اور انہیں ایک کلمہ پر اکٹھے کرو جو ہمارے اور ان کے درمیان قدر مشترک کے طور پر ہے.ایسی صورت میں وہ آدمی جو تثلیث کا قائل ہے وہ کہے گا کہ کہاں ہے قدر مشترک؟ میں اس نکتے کو دہرا دیتا ہوں تا کہ ہمارے بچے بھی سمجھ جائیں.عیسائیوں کا وہ فرقہ جو کہتا ہے تین خدا ہیں جب وہ اس آیت پر پہنچے گا تو وہ کہے گا کہ تین خداؤں کو ماننے والے تو اس کو مشترک نہیں سمجھتے کہ اَلا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ پس اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ امت محمدیہ کے مطہرین کا کام ہے اور اہلیت اُن کو خدا تعالیٰ نے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۱۲ خطبہ جمعہ ۱۶ را پریل ۱۹۷۶ء عطا کی ہے اس بات کی کہ وہ یہ ثابت کریں کہ واقعہ میں یہ مشترک ہے اور ثابت کریں عقلی دلائل کے ساتھ اور ثابت کریں خود اُن کی کتب کے حوالوں کے ساتھ.چودہ سو سال سے اُمت محمدیہ اپنی شاہراہ تاریخ پر چلتی رہی ہے اور لاکھوں کروڑوں انسان ایسے نظر آتے ہیں جو اس بات کے اہل تھے اور انہوں نے یہ ثابت کیا کہ قل کا لفظ یوں ہی استعمال نہیں ہوا بلکہ اس کے مخاطب ہمیشہ خدا تعالیٰ نے موجود ر کھے ہیں اور اگر اس کے باوجود لوگ ان دلائل کو نہ مانیں اور اپنی فطری فراست کے خلاف بات کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور جو دوسرے نشان خدائے واحد و یگانہ کی ہستی کو ثابت کرنے کے لئے ضروری ہیں وہ دیکھیں پر نہ دیکھیں.محض عقلی دلائل کافی نہیں بلکہ ہمارا زندہ خدا اپنے وجود پر آسمانی نشانوں کے ذریعہ مہر ثبت کرتا ہے.اپنی زندہ طاقتیں انسانوں کے سامنے ظاہر کرتا ہے اور انسان مجبور ہو جاتا ہے یہ ماننے پر کہ واقعی خدا تعالیٰ ہے کیونکہ وہ اپنی ہستی کے نشان دکھاتا ہے اور شمار نہیں ہو سکتا اُن آسمانی نشانوں کا جو امت محمدیہ کو مد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملے.اُن کا بالکل شمار نہیں ہو سکتا اور یہ میں کوئی مبالغہ نہیں کر رہا واقعہ میں شمار نہیں ہوسکتا.یہ تو لمبی بات ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل جماعت احمدیہ کو جو نشان ملے ان کا بھی شمار نہیں ہوسکتا اور شمار کرنے کی ضرورت بھی نہیں.جس آدمی نے پیسہ پیسہ جوڑا ہو وہ شمار کیا کرتا ہے اور گنتا ہے اپنی دولت کو اور کہتا ہے میرے پاس دس ہزار روپے ہو گئے ہیں ، میرے پاس پچاس ہزارروپے ہو گئے ہیں، میرے پاس دس لاکھ یا ایک کروڑ یا پانچ کروڑ روپے ہو گئے ہیں.گویاوہ اپنی دولت کا شمار کرتا رہتا ہے اور اسی طرح جو لوگ کنوؤں سے جھجھریاں سروں پر اُٹھا کر لاتے ہیں ( بعض علاقوں میں زمیندار مرد اور عورتیں کنوئیں سے پانی لے کر آتی ہیں ) اُن کے گھروں میں بھی پانی کا شمار ہوتا ہے کہ تین گھڑے ہیں یا چار گھڑے ہیں اور بعض دفعہ ماں بچوں کو کہتی ہے دیکھنا تھوڑا سا پانی رہ گیا ہے ابھی پانی لانے میں دیر ہے اس لئے احتیاط سے استعمال کر ولیکن جو آدمی صاف اور شفاف پہاڑی چشمے کے کنارے بیٹھا ہو اس کے تو پانی کا شمار نہیں ہوتا کیونکہ وہ گھڑوں میں پانی سنبھال کر نہیں رکھتا اس کے لئے تو ہر وقت پینے والا برف کی طرح ٹھنڈا بالکل صاف اور ہر قسم کی ملاوٹوں سے پاک پانی میٹر ہے.پس جس آدمی کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو
خطبات ناصر جلد ششم ۴۱۳ خطبہ جمعہ ۱۶ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ء میں اس وقت بحیثیت جماعت بات کر رہا ہوں ) اُس پر خدا تعالیٰ کے نشانات آسمان سے بارش کی طرح ظاہر ہورہے ہیں اور پھر قرآن نے کہا ہے کہ بارش کے قطروں کو گنا جا سکتا ہے لیکن خدا کے فضلوں کو اور اس کی رحمت کی جو بارش ہے اس کے قطروں کو نہیں گنا جاسکتا، بارش کے قطرے بھی کہاں گئے جاسکتے ہیں لیکن وہ تو ایک مادی فضل اور رحمت ہے جو روحانی فضل نازل ہوتے ہیں ان کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہے.پس خدا تعالیٰ اپنے وجود پر اپنے قادر نہ تصرفات سے مہر لگاتا ہے اور وہ ایسے عظیم معجزات دکھاتا ہے کہ دنیا ان کا انکار نہیں کر سکتی.مثلاً کمیونزم کو لے لو اور خدا کی شان دیکھو کہ ابھی لینن نے عملاً کوئی قدم نہیں اُٹھایا تھا ( تھیوری الگ چیز ہے) لیکن ابھی کوئی ملک کمیونسٹ نہیں ہوا تھا اور لینن وہ شخص ہے جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک دن سر جوڑا اور یہ پروگرام بنایا کہ روس میں کوئی انقلابی تحریک شروع کی جائے.چنانچہ جس دن لینن نے سر جوڑا اور اپنے ساتھیوں.مشورہ کیا اس سے کئی ہفتے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتادیا گیا تھا کہ روس میں ایک انقلاب عظیم آنے والا ہے.ایک دفعہ ایک کمیونسٹ سائنٹسٹ پاکستان میں آئے.انہوں نے تعلیم الاسلام کالج کی طرف سے دعوت قبول کی اور یہاں تقریر بھی کی.اُس وقت میں کالج کا پرنسپل تھا میں نے اُن کے کانوں میں یہی بات ڈالی کیونکہ میں سمجھتا ہوں جو دہر یہ دماغ ہے اس پر خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے زبردست نشانات بہت اثر کرتے ہیں.دنیوی لحاظ سے اُن کے دماغ کو بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن الہی نشانات کو وہ Explain نہیں کر سکتے اور ان کی وجوہات بیان نہیں کر سکتے.چنانچہ جب میں نے اُن کو یہ بات بتائی کہ تمہیں نہیں پتہ تھا کہ روس میں کیا ہونے والا ہے لیکن ہمیں پتہ تھا بحیثیت جماعت کیونکہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے جماعت احمدیہ کو بتا دیا تھا کہ روس میں ایک عظیم انقلاب بپا ہونے والا ہے اور یہ زار روس کی حکومت ختم ہو جائے گی جب اُس نے یہ بات سنی تو اس کی طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ آپ انداز نہیں کر سکتے.غرض اسلام نے خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر ایک مسلمان کے ہاتھ میں جہاں زبردست عقلی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۱۴ خطبہ جمعہ ۱۶ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ء دلائل دیئے جن کا انسانی دماغ خواہ وہ کتنا ہی بہ کا ہوا کیوں نہ ہو مقابلہ نہیں کر سکتا.وہاں خدا تعالیٰ کی تو حید کو ثابت کرنے کے لئے آسمانی نشان بھی اُمت کے بزرگوں کو، اُمت کے اولیاء کو، اُمت کے مقربین کو اور اُمت کے مظہرین کو دیئے اور مسلمانوں کے ذہنوں کو کھولا اور یہ سلسلہ پہلے دن سے چلا آ رہا ہے اور قیامت تک چلتا چلا جائے گا.اس وقت بعض لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اب تو ہمیں آسمانی نشانوں کی ضرورت نہیں ، ہم اپنی عقلوں ہی سے مسائل کو حل کر لیں گے یہ اُن کی بد قسمتی ہے لیکن میں اُن کی بات نہیں کر رہا.میں تو اپنی بات کر رہا ہوں، جماعت احمدیہ کی بات کر رہا ہوں ہم یہ کہتے ہیں اور ایسا کہنا ہماری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں، یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ اپنی تو حید کو ثابت کرنے کے لئے اور اسلام کی سچائی کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو انسان کے دل میں بٹھانے کے لئے اُمت مسلمہ میں سے اس گروہ کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی عززت کرنے والا ہے، اللہ تعالیٰ اسے آسمانی نشان عطا کرتا ہے تاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور اسلام کی حقانیت دنیا پر ثابت ہو.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اہلِ کتاب ان عقلی اور نقلی دلائل کے باوجود اور ان زبر دست آسمانی نشانوں کے باوجود اس کلمہ کی طرف سے اُس صداقت کی طرف نہ آئیں جو ایک مسلمان اور غیر مسلم اہلِ کتاب میں مشترک ہے اور وہ یہی ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب بنا ئیں.فَاِنْ تَوَلَّوا.پھر اگر وہ پھر جائیں اور خدا کے علاوہ اور معبود بنالیں اور شرک کرنے لگیں تو فَقُولُوا اشْهَدُوا.ایسی صورت میں مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ وہ اُن (اہل کتاب) کو کہہ دیں کہ تم گواہ رہو پانا مُسْلِمُونَ ہم مسلمان ہیں خدا تعالیٰ کے کامل فرمانبردار ہیں اور خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے ہیں.اس لئے جب جماعت احمدیہ کے افراد خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کو دیکھتے ہوئے قرآن کریم کو سمجھنے کے بعد عقلی اور نقلی دلائل سے اپنی جھولیاں بھر لینے کے بعد اور آسمانی نور کی چادر میں اپنے آپ کو لپیٹ لینے کے بعد اور آسمانی نشانات دنیا کے سامنے پیش کر کے خدا تعالیٰ کی توحید اور اسلام کی حقانیت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرنے کے اہل ہو جانے کے بعد
خطبات ناصر جلد ششم ۴۱۵ خطبہ جمعہ ۱۶ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ء پھر بھی دنیا اگر ان کو مسلمان نہ سمجھے تو یہ ان کی مرضی ہے.جماعت احمدیہ کو یہ حکم ہے کہ فَقُولُوا اشْهَدُوا ایسے لوگوں سے کہہ دیں تم گواہ رہو کہ ہم اعلان کر رہے ہیں بِانَّا مُسْلِمُونَ.ہم مسلمان ہیں.اس لئے میں کہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت اور ان تمام باتوں کے با وجود آج یہ اعلان کر رہی ہے کہ ہم قرآن کریم کی اس آیت کے مطابق مسلمان ہیں.ہم دنیا میں یہ اعلان کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں کیونکہ ہم خدا تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں ہم خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت کرنے والے ہیں.اگر ہم کامل اطاعت کرنے والے نہ ہوتے تو خدا تعالیٰ کے پیار اور اُس کی رضا کو کیسے پالیتے ، خدا کی تو حید کو دنیا میں قائم کرنے کے اہل کیسے ہو جاتے.اس واسطے دنیا بے شک کہے کہ احمدی مسلمان نہیں یہ اُن کی مرضی ہے زبردستی تو کسی پر نہیں کی جاسکتی لیکن قرآن کریم کی یہ آیت ایک احمدی کو یہ کہتی ہے کہ تم دنیا میں یہ اعلان کر دو اور ان کو مخاطب کر کے کہو کہ تم گواہ رہو کہ جو علامتیں مسلمانوں میں پائی جانی چاہئیں وہ ہم میں پائی جاتی ہیں اس لئے ہم مسلمان ہیں.پس دوستوں کو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ جماعت احمدیہ کو اپنی اجتماعی زندگی میں بھی اور جماعت کے افراد کو اپنی انفرادی زندگی میں بھی توفیق دیتا چلا جائے کہ وہ اسلام کی روح کو سمجھنے والے ہوں.خدا تعالیٰ سے حقیقی اور خالص محبت کرنے والے ہوں اور اسلام کی حقانیت کو ہر پہلو سے پر کچھ لینے کے بعد اُسے ایک حقیقت زندگی سمجھنے والے ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ہمیشہ اپنے سینوں میں سمندر کے پانی کی طرح موجیں مارنے والا پاتے رہیں اور کبھی خدا تعالیٰ سے دُوری اُن کے مقدر میں نہ ہو بلکہ ہمیشہ ہی وہ خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے دیکھنے والے ہوں اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۲ جون ۱۹۷۶ ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ششم ۴۱۷ خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۷۶ ء غلبہ اسلام کی خاطر ہم انتہائی قربانیاں پیش کرتے رہیں گے خطبه جمعه فرموده ۲۳ را پریل ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.إن يَنْصُرُكُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُ لَكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ ج بَعْدِهِ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (ال عمران : ١٦١) لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا آتَوُا وَ يُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا 609 تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيمُ - وَ لِلَّهِ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير - (ال عمران: ۱۹۰،۱۸۹) اس کے بعد فرمایا :.جس مسیح اور مہدی کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی ہمارے ایمان کے مطابق وہ آگئے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم نے اس عظیم فرزند محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا اور شناخت کیا اور ہم آپ پر ایمان لائے.ہم ایمان لائے یعنی ہم نے اپنے رب سے یہ عہد کیا کہ جس مقصد کے لئے اس مسیح محمدی اور اس مہدی علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا ہے یعنی اس غرض سے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۱۸ خطبہ جمعہ ۲۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ء کہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کیا جائے ، اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہم لوگ انتہائی قربانیاں دے کر انتہائی جدو جہد کریں گے تا کہ خدا کا یہ قول پورا ہو کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کی کوششیں اور جن کے عمل مقبول ہوں گے اور اس کے نتیجہ میں اسلام کا حسن لوگوں کے دلوں کو موہ لے گا اور نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تلے اکٹھی ہو جائے گی.لیکن یہ معمولی کام نہیں ہے.دنیا میں مذہب کے اعتبار سے اس وقت اسلام کے مقابلے میں سب سے بڑا مذہب ہے، دنیا میں پھیلا ہوا مذ ہب ، دنیا میں طاقتور مذہب ، دنیا میں صاحب اقتدار مذہب اور دنیا میں صاحب دولت و ثروت مذہب عیسائیت ہے.ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ جس کا شمار نہیں اور ان کے پاس عددی طاقت بھی ہے اور ان کا نظام جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے وہ با وجود فرسودہ ہو جانے کے اور باوجود اپنی روح کے کھوئے جانے کے پھر بھی وہ اس قسم کا نظام ہے کہ میرے خیال میں لاکھوں آدمی اپنی زندگیوں کو وقف کرنے والے اس مذہب میں پائے جاتے ہیں اور وہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی کوششوں کے پیچھے سیاسی اقتدار ہے.ان کے پاس اموال ہیں جن سے وہ کتب کی اشاعت کا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط اعتراضات کی بہتات کا انتظام کرتے ہیں اور اسلام کے خلاف کثرت سے کتب شائع کرتے ہیں.ان کے پاس دولت ہے جس سے وہ دودھ تقسیم کرتے ہیں، گندم بانٹتے ہیں، کپڑے دیتے ہیں اور دُنیوی حرص اور لالچ کے ذریعہ سے وہ دنیا کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں.اس کے مقابلہ میں ایک چھوٹی سی جماعت ہے جس کے پاس نہ سیاسی اقتدار ہے اور نہ اقتدار کی خواہش ہے، نہ اموال ہیں اور نہ ان کے دل میں اپنے لئے اموال کی کوئی تڑپ اور حرص اور لالچ ہے.ان کے دلوں میں ایک لگن ہے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے حضور اپنی جانوں کو اور اپنی عرب توں کو اور اپنے اوقات کو اور اپنے اموال کو پیش کیا ہے اور ہم نے عیسائیت کے مقابلہ میں دلائل کے ساتھ اور حقائق کے ساتھ اور عملی نمونہ کے ساتھ اسلام کو غالب کرنا ہے اور نوع انسانی کے ایک کثیر حصہ کو انسانوں میں سے ایک کثیر گروہ کو عیسائیت کے پنجہ سے نکال کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۴۱۹ خطبہ جمعہ ۲۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ء لیکن اس دنیا میں، آج کی دنیا میں اسلام کے مقابلہ میں صرف عیسائیت ہی تو نہیں ہے یہودی بھی ہیں.یہودی گو تعداد میں تھوڑے ہیں لیکن مال میں زیادہ ہیں اور ان کا اثر و رسوخ اتنا ہے کہ اس وقت جو دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے یعنی امریکہ اس سب سے بڑی طاقت کا جو سب سے بڑا فرد ہے جس کے ہاتھ میں کہ وہ طاقت ہے یعنی امریکہ کا پریذیڈنٹ اس کے گرد جو مشیر ہیں ان میں سے سات سات آٹھ آٹھ دس دس مشیر یہودیوں میں سے ہوتے ہیں اور وہ اس معاشرہ پر چھائے ہوئے ہیں اس وجہ سے کہ وہاں کے اخبارات جس کو ہم پر یس کہتے ہیں وہ یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں وہاں کے بنک یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں.وہاں کی فائینانس کارپوریشنز جو کہ تقسیم زر کا انتظام کرتی ہیں وہ یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں.وہاں کے جو بڑے بڑے کارخانے.ہیں وہ یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں اور ان کارخانوں میں اسلحہ بنانے کے کارخانے بھی ہیں.ابھی کسی نے مجھے بتایا کہ ایک اسلامی ملک میں بعض لوگوں نے بعض احمدیوں کے ملا زمت میں لئے جانے پر اعتراض کیا.اس پر وہاں کی سب سے بڑی سیاسی صاحب اقتدار شخصیت نے ان کو بلا کر کہا کہ دیکھو اگر ہم احمدیوں پر اعتراض کریں تو پھر یہ اعتراض یہاں نہیں ٹھہرے گا بلکہ آگے بھی جائے گا.ہم نے اپنی ایئر فورس کے لئے جولڑا کا طیارے خریدے ہوئے ہیں ان کے مالک یہودی ہیں اور وہاں سے جو ٹیکنیشنز اور دیکھ بھال کرنے والا یہودی عملہ آیا ہوا ہے وہ سینکڑوں کی تعداد میں ہمارے ملک میں پھر رہے ہیں.پھر کل کو تم کہو گے کہ ان کو بھی نکالو.پس یہ جو دنیا کے کام ہیں ان کے اوپر اس قسم کے اعتراض نہیں کرنے چاہئیں.اس لئے اگر احمدی بھی ہماری ملازمت میں ہیں تو ہمیں تحمل سے اور برداشت سے کام لینا چاہیے اور اپنے ماحول کو اور اپنے معاشرہ کو خراب نہیں کرنا چاہیے.بہر حال طیارے بنانے والے اور دوسرے ہتھیار بنانے والے کارخانے بھی یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں.یہودی اگر چہ میں تھوڑے سے مٹھی بھر ہیں نوع انسانی کی کل تعداد کے مقابلہ میں ان کی فیصد بہت کم ہے لیکن ان کا اپنا ایک طریق ہے جس سے وہ چھا گئے ہیں.۱۸۷۰ ء کے لگ بھگ دنیا میں ان کا اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا تھا کہ میں نے بعض جگہ پڑھا ہے کہ یہودیوں کو یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ دنیا کا سیاسی اقتدار ( کسی ایک ملک کا
خطبات ناصر جلد ششم ۴۲۰ خطبہ جمعہ ۲۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ء نہیں بلکہ ساری دنیا کا سیاسی اقتدار ) یہودیوں کے ہاتھ میں آجائے گا اور یہودیوں کی حکومت بین الاقوامی حیثیت میں قائم ہو جائے گی.پھر پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ میں اور امریکہ میں اور روس میں ان کا اثر بہت بڑھ گیا.روس میں تو یہ حال تھا کہ انہی کی کتابوں میں لکھا ہے کہ روس میں کمیونزم کو قائم کرنے کے لئے جتنے روپے اور دولت کی ضرورت تھی وہ تمام سرمایہ یہودیوں نے لینن اور اس کے ساتھیوں کو دیا تھا.چنانچہ وہاں ان کا بڑا اثر ورسوخ ہے.میں نے ایک یہودی کے متعلق کتابوں اور رسالوں میں پڑھا ہے کہ جب بڑی چپقلش تھی تو اس کا اتنا اثر تھا کہ وہ جب چاہے دنیا کے ہر ملک میں جاسکتا تھا حالانکہ ویسے روسیوں نے دوسروں کے خلاف اور دوسروں نے روسیوں کے خلاف بڑی پابندیاں لگائی ہوئی تھیں.ان کے پاس اجتماعی طاقت ہے اور وہ بڑی زبردست ہے.پس اگر چہ وہ تعداد میں کم ہیں لیکن اثر ورسوخ کے لحاظ سے سرمایہ دارانہ دنیا میں بھی اور اشترا کی اور بے دین دنیا میں بھی ان کا بڑا اثر ہے.ہم نے ان کا مقابلہ کرنا ہے.یہ مقابلہ لاٹھی اور بندوق سے یا ایٹم بم سے نہیں ہے کیونکہ غلبہ اسلام کے لئے آج کے سچے مسلمان کو یہ ہتھیار نہیں دیئے گئے بلکہ عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ اور حج قاطعہ کے ساتھ اور آسمانی برکات کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا ہے اور یہ چیزیں ان کے پاس نہیں ہیں.گویا روحانیت کا مقابلہ مادی طاقت کے ساتھ ہے اور جو مادی طاقت ہے وہ تو اپنے مد مقابل کی مادی طاقت کو ہی دیکھتی ہے اور انہیں کمزور پاتی ہے اور یہ مجھتی ہے کہ وہ غالب نہیں آئیں گے اور جو روحانی طاقت ہے وہ اپنے مد مقابل کی روحانی طاقت کا اندازہ لگاتی ہے اور کہتی ہے کہ چونکہ روحانی لحاظ سے یہ صفر ہیں اس.لئے اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے اسلام ان کے مقابلہ میں غالب آئے گا.بہر حال مہدی علیہ السلام کے آنے کے ساتھ آج کی اس انسانی دنیا میں ایک زبر دست کشمکش پیدا ہوگئی اور ساری دنیا ایک حرکت میں آگئی اور ایک زلزلہ پیدا ہو گیا اور دنیا اس آخری جنگ روحانی کے لئے بلائی گئی جس کی خبریں دی گئی تھی اور جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ شیطان کی آخری جنگ ہے اور اس کے بعد اسلام پیار اور محبت کے ساتھ اور اپنے حسن واحسان کے ساتھ نوع انسانی کے دلوں کو جیت کر ہمیشہ کے لئے انسان انسان کی جنگ کا خاتمہ کر دے گالیکن اس
خطبات ناصر جلد ششم ۴۲۱ خطبه جمعه ۲۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ء آخری جنگ میں اسلام کے مقابل پر صرف عیسائی اور یہودی ہی نہیں بلکہ دنیا میں مذہب کے میدان میں ہندو بھی ہیں.چنانچہ تقسیم سے قبل کا جو ہندوستان تھا اس میں ہم بھی رہتے تھے اور دوسرے مذا ہب والے بھی رہتے تھے.اس میں ہندوؤں کی اکثریت تھی اور دنیوی علم کے لحاظ سے وہ مسلمانوں پر فوقیت رکھتے تھے، ان کے پاس مال تھا، ان کے پاس بنک تھے ، ان کے پاس تعلیمی ادارے تھے، ان کے پاس بڑی زبر دست تنظیم تھی ساری چیز میں ہی تھیں اور پھر ان میں سے، اس دنیوی تنظیم میں سے لوگ نکلے جنہوں نے آریہ خیالات کا لبادہ اوڑھ کر اسلام پر حملہ کیا اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس طرح حملہ آور ہو گئے جیسے کہ ایک وحشی ایک کمزور ہستی پر حملہ آور ہو جاتا ہے لیکن جو چیز وہ سمجھ نہیں سکے وہ یہ تھی کہ اسلام کا وہ موعود جس کا وعدہ اسلام کے صرف دفاع کے لئے نہیں بلکہ اسلام کو غالب کرنے کے لئے دیا گیا تھا وہ آچکا ہے اس لئے ان کے حملے کامیاب نہیں ہو سکتے.پھر خدا تعالیٰ نے اس شخص کو جو بڑی تعلیاں کیا کرتا تھا جس کا نام لیکھرام تھا.حضرت مہدی علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ہندوستان کی دنیا کو ایک زبر دست نشان دکھاتے ہوئے اسلام کی برتری کو ثابت کرنے کے لئے اور ہندوستان کی دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ خدائے قادر و توانا آج اسلام کے ساتھ ہے،اسلام کے مد مقابل کے ساتھ نہیں ہے معجزانہ طور پر اس کو ہلاک کیا.انہوں نے بڑا شور مچایا کہ شاید مہدی علیہ السلام نے قتل کا منصوبہ بنایا تھا لیکن جو منصوبہ آسمانوں پر بنایا گیا تھا مہدی علیہ السلام کے خلاف اس منصو بہ کو ثابت نہیں کیا جاسکتا تھا اور نہ کیا گیا.پھر یہاں پر بس نہیں بلکہ دوسری دنیا میں مختلف الخیال لوگ بسنے والے ہیں.جاپان ہے ان کے اپنے مذہبی خیالات ہیں انہوں نے مذہب کو کلب بنا دیا ہے.ان کے متعلق مشہور ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک مذہب کی رسوم ادا کی جاتی ہیں اور جب وہی بچہ فوت ہوتا ہے تو اس کے جنازے کی رسوم ایک دوسرے مذہب کے مطابق ادا کی جاتی ہیں.بہر حال مذہبی میدان میں ان کے خیالات جو بھی ہیں وہ اسلام کے خیالات نہیں ہیں بلکہ وہ اسلام کے مخالف خیالات ہیں.ان میں لچک ہے لیکن وہ اس قسم کی لچک ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ لچک ہمیں بچالے گی اور
خطبات ناصر جلد ششم ۴۲۲ خطبہ جمعہ ۱/۲۳ پریل ۱۹۷۶ء اس کے نتیجہ میں اسلام کی طاقت ہماری اس جڑ کو جو بے دینی کی جڑ ہے جو خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی جڑ ہے اس کو اکھیڑ کر پرے نہیں پھینک سکے گی.ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ ہے.پھر آج آدھی دنیا وہ ہے جو خدا کی منکر ہو چکی ہے اور انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہم زمین سے خدا کے نام اور آسمانوں سے خدا کے وجود کو مٹا دیں گے.خود یہی اعلان ایک احمدی کے نزدیک ایسا ہے کہ جو اُن کی ناکامی کا سبب بننے والا ہے کیونکہ یہ سمجھنا کہ خدا کا وجود آسمانوں پر تو ہے لیکن زمین پر نہیں ہے یہ بنیادی طور پر ایک غلط تصور ہے اور اس کی غلطی جب ثابت ہو جاتی ہے تو اس زمین پر بسنے والے یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا وجود تو یہاں بھی ہے (وہ تو ہر جگہ موجود ہے ) اور وہ اتنی طاقتوں کے ساتھ یہاں بھی موجود ہے کہ انسان کی یہ طاقت نہیں کہ وہ اس کے مقابلہ میں کھڑا ہو اور کامیاب ہوا اور خدا تعالیٰ کے منصوبوں کو نا کام کرنے کی کامیاب تدبیر کر سکے لیکن بہر حال دنیوی لحاظ سے وہ زبر دست طاقتیں ہیں ایسی زبر دست طاقتیں کہ مذہبی دنیا بھی ان سے ڈرنے لگ گئی انہوں نے ایٹم بم اور ہلاکت کے دوسرے سامان بنالئے.روس اور دوسرے کمیونسٹ یا سوشلسٹ ممالک اور مذہبی دنیا کے اندر جو کمیونسٹ یا سوشلسٹ گروپ ہیں اگر ان کو اکٹھا کیا جائے تو تعداد کے لحاظ سے وہ مذہبی دنیا سے بھی بڑھ جاتے ہیں.میں جب سوچتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے کندھوں پر جو ذمہ داری ڈالی ہے اس کی مثال اگر کچھ تھوڑی بہت دی جاسکتی ہے تو وہ ایسی مثال ہے کہ ایک آدمی ماؤنٹ ایورسٹ جو کہ دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ہے اس کے دامن میں کھڑا ہو اور کہے کہ میں ایک ٹکر کے ساتھ اس پہاڑ کو گرا دوں گا جہاں تک طاقتوں کا مقابلہ ہے یہ مثال بھی کمزور ہوگی کیونکہ آج احمدیت کی طاقت دنیوی نقطہ نگاہ سے ان طاقتوں کے مقابلہ میں اتنی بھی نہیں جتنی کہ ہمالیہ کے مقابلہ میں جو کہ زمین کے اندر گھسا ہوا اور آسمان سے باتیں کرنے والا ہے اس شخص کی طاقت ہے جو یہ کہتا ہے کہ ایک ٹھوکر کے ساتھ وہ اس کو اپنی جگہ سے ہلا دے گا.مخالفین اسلام اور معاندین اسلام یا اسلام سے غافل اور اسلامی حسن سے دور اور خدا تعالیٰ کا عرفان نہ رکھنے والی دنیا کے ساتھ ہمارا مقابلہ اس سے بھی سخت ہے اور ان کے مقابلہ میں جن کے متعلق خدا نے ہمیں
خطبات ناصر جلد ششم ۴۲۳ خطبہ جمعہ ۱/۲۳ پریل ۱۹۷۶ء یہ حکم دیا ہے کہ تم ان سے مقابلہ کرو اور اسلام کو غالب کرو آج احمدیت کی طاقت اس سے بھی کم ہے لیکن خدا نے ہمیں یہ وعدہ دیا ہے کہ گھبرانے کی بات نہیں.بے شک یہ قومیں، یہ گروہ اور یہ افراد بڑے طاقتور ہیں لیکن میری طاقت سے تو ان کی طاقت زیادہ نہیں اور میں تمہارے ساتھ ہوں.اگر یہ حسین اور یہ میٹھی اور یہ شیریں آواز ہمارے کانوں میں نہ پڑے تو دو میں سے ایک نتیجہ ضرور نکلے یا تو لوگ احمدیت کو چھوڑ کر بھاگ جائیں اور یاوہ پاگل ہو جائیں کیونکہ دنیوی عقل ان حالات میں جماعت احمدیہ کی کامیابی کا تصور بھی نہیں کر سکتی لیکن جماعتِ احمد یہ کو صرف دنیوی عقل نہیں دی گئی بلکہ جماعت احمدیہ کو روحانی اور اخلاقی فراست عطا کی گئی ہے، جماعت احمدیہ کو قرب الہی میٹر ہے جماعت احمدیہ کے کان میں خدا تعالیٰ کے فرشتے آ کر خدا کا کلام نازل کرتے ہیں اور جماعت احمدیہ کو تسلی دینے والا وہ ہے جس کی طاقت اور جس کی قدرت سے کوئی شئے کوئی ہستی بلکہ ساری کائنات بھی باہر نہیں رہ سکتی.اگر یہ چیز نہ ہو تو پھر تو ہماری زندگی کوئی چیز نہیں اور اگر یہ بشارتیں نہ ہوں تو ہماری زندگی میں کوئی مزہ نہیں کیونکہ پھر سوائے گھبراہٹ اور پریشانی کے ہمارے مقدر میں اور کیا رہ جاتا ہے لیکن ہمیں قرآن کریم نے بار بار یہ کہا ہے کہ کام بڑا سخت ہے، دنیا کی نگاہ میں انہونا ہے لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کام کو پورا کرنے کے لئے تم کھڑے ہو جاؤ اور جو تمہاری بساط ہے اس کے مطابق تم قربانیاں دو تو خدا کے فضل سے تم کامیاب ہو جاؤ گے لیکن ہر قسم کی قربانی دے کر.مال کی ،عزت کی ، اوقات کی ، اعزہ کی رشتہ داروں کی اور دوستوں کی ہر قسم کی قربانی دے کر بھی یہ نہ سمجھنا کہ تم نے کچھ کیا ہے کیونکہ جو کام تمہارے سپرد ہے اور جتنی اہم ذمہ داری ہے اس کے مقابلہ میں تم نے کچھ بھی نہیں کیا.پس فخر اور غرور نہ آجائے اور اگر دنیا تم سے مذاق کرے تو تم پرواہ نہ کرنا اور وہ مذاق کرے گی کیونکہ طاقتوں کا آپس میں مقابلہ ہی نہیں ہے اور پھر جو طاقت ہمارے پاس ہے وہ تو کسی کو نظر ہی نہیں آتی وہ تو روحانی طاقت ہے دنیا کی نگاہ ہماری طاقت کو صفر کے برابر بھی نہیں سمجھتی وہ تو مائینس (Minus) پر سمجھتی ہوگی یعنی صفر سے بھی نیچے گری ہوئی.پھر بعض دفعہ شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ جو کام انسان نے نہیں کیا ہوتا وہ اس کے متعلق بھی شیخیاں بگھارنے لگتا ہے.قرآن کریم نے اس سے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۲۴ خطبه جمعه ۱/۲۳ پریل ۱۹۷۶ء بچنے کی ہدایت کی ہے قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے اس نے سارے رخنے بند کئے ہیں اور ہمارے سامنے اس نے ایک بڑی حسین تعلیم پیش کی ہے.پس خدا تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمد یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی اور خدا تعالیٰ کے یہ وعدے پورے ہوں گے کہ اس زمانہ میں اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا.مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ اتنا بڑا کام ہے کہ یہ ایک نسل یا دو نسلوں یا پانچ دس نسلوں کا کام نہیں ہے بلکہ بڑے لمبے زمانے پر پھیلی ہوئی صحیح اور مقبول جد و جہد اسلام کو غالب کرے گی چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ تین سو سال کے اندراندر یہ پیشگوئیاں پوری ہو جائیں گی لیکن بعض قرائن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اسلام کی کامیابی کی یہ مہم یہ جہاد، یہ روحانی جدوجہد اپنے کلائمیکس (Climax) کو اپنے عروج کو اپنی ہستی کی دوسری صدی میں پہنچے گی اور اپنے کام کا اکثر حصہ پورا کرے گی اور پھر اس کے بعد جیسا کہ فوجی کہتے ہیں Mopping Up Operation کا وقت ہو گا یعنی کہیں کہیں کچھ پاکٹ ایسی رہ جائیں گی جو اسلام کی طرف توجہ نہیں کر رہی ہوں گی پھر ان کی طرف توجہ کرنی پڑے گی اور تیسری صدی میں نہیں کہہ سکتے دوسو ہیں سال کے بعد یا دو سو چالیس سال کے بعد لیکن بہر حال تیسری صدی میں ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ جب اسلام سے باہر رہنے والوں کی حیثیت چوہڑے چماروں کی حیثیت سے زیادہ نہیں ہوگی، چوہڑے چمار تحقیر کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ ان کی محرومی ہے کہ وہ ایسے لوگ ہوں گے جن کی قسمت میں نہیں ہو گا کہ وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لیں جب کہ ساری دنیا خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر رہی ہوگی جب انسانوں کی بہت بھاری اکثریت کے دل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت سے پر ہو چکے ہوں گے اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتیں اسی دنیا میں ان کو نظر آنے لگ جائیں گے.یہ تھوڑے سے لوگ اس وقت ایسے بھی رہ جائیں گے جو اس عظیم پیار سے محروم ہوں گے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ کام ہماری طاقت سے نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کے قادرانہ تصرفات کے نتیجہ میں یہ ساری باتیں ہونے والی ہیں.قرآن کریم نے مختلف پیرایوں میں اس
خطبات ناصر جلد ششم ۴۲۵ خطبه جمعه ۲۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ء 66 چیز کو ہمارے سامنے رکھا ہے.اس وقت میں نے سورۃ ال عمران کی جن آیتوں کو اکٹھا پڑھا ہے وہ بھی اسی مضمون کو ہمارے سامنے لانے والی ہیں ”ذکر“ کے حکم کے ماتحت میں جماعت کے بڑوں ، چھوٹوں ، مردوں اور عورتوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنْ تَنْصُرُ كُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ کہ اگر اللہ تمہاری مدد کے لئے آجائے اور تمہاری مدد کرے اس کی طاقت اور اس کے قادرانہ تصرفات تمہارے حق میں ہوں تو تمہارے اوپر کوئی غالب نہیں آسکتا.اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تمہارا تعلق خدا کے ساتھ نہ ہو اور آسمانی مدد تمہیں حاصل نہ ہو تو جو کام تمہارے سپر د کیا گیا ہے اس میں تمہارے کامیاب ہو جانے کا کوئی امکان ہی نہیں تمہیں اس کا وہم بھی نہیں کرنا چاہیے وَإِن يَخْذُ لَكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِى يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِہ.اور اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد چھوڑ دے تو پھر اور کون آئے گا جو تمہاری مدد کرے گا اور جس کی مدد کے ساتھ تم کامیاب ہو جاؤ گے، کوئی نہیں.پس اگر خدا کی مدد ہو تو غلہ پر اسلام کی عظیم مہم میں تم غالب آ سکتے ہو اور خدا کی مدد نہ ہو تو غلبہ اسلام کا تصور بھی ناممکنات میں سے ہے.وَ عَلَی اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ اور جوحقیقی مومن ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کیا کریں.دنیا کی طاقتوں پر توکل نہ کریں اور اپنی طاقت پر ، اپنی قربانی پر ، اپنے ایثار پر اور خدا کے حضور جو کچھ پیش کیا ہے اس کے اوپر بھروسہ نہ کریں بلکہ خدائے قادر و توانا پر ان کا بھروسہ ہونا چاہیے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقین رکھو کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ نہیں ہیں جو اپنے کئے پر اتراتے ہیں.یہ کئے پر اترانے والے دنیا دار بھی ہوتے ہیں اور مذہب کے نام پر اترانے والے بھی ہوتے ہیں.مذہبی گروہ اپنے جتھے پر اترانے لگ جاتے ہیں اپنے مال و دولت پر اترانے لگ جاتے ہیں، اپنی طاقت پر اترانے لگ جاتے ہیں، اپنی تنظیم پر اترانے لگ جاتے ہیں، اپنی فوجوں پر اترانے لگ جاتے ہیں.ہزاروں وجوہ ہیں اترانے کی.کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی فوج کو اتنا مضبوط کر لیا، ہم نے اپنے نظام اقتصادیات کو ایسا بنا لیا، ہماری زراعت ایسی ہوگئی ، ہم نے پانی کا یہ انتظام کر لیا، ہم نے ایٹم بم بنالیا.( پہلے تو یہ مذہبی گروہ نے ہی بنایا تھا یعنی عیسائی دنیا نے جو کہ کیپٹلسٹ (Capitalist) کہلاتے ہیں ) جولوگ اپنے کئے پر اتراتے ہیں
خطبات ناصر جلد ششم ۴۲۶ خطبه جمعه ۲۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ء اور صرف اپنی ذات یا اپنے جتھے یا اپنی قوم یا اپنے ملک پر بھروسہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا زندہ تعلق نہیں ہوتا کہ جس کی طاقت پر وہ بھروسہ کرنے والے ہوں اور پھر انہوں نے جو کام نہیں کیا ہوتا وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر بھی ان کی تعریف کی جائے حالانکہ انہوں نے کام نہیں کیا ہوتا لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا آتَوا وَيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ یہ نہ سمجھو کہ وہ خدا کے عذاب سے محفوظ ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے لیکن وہ گروہ اور وہ جماعت جو اللہ کا نام لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لئے اور اسلامی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے اپنی کمزوریوں کے باوجود کھڑی ہو جاتی ہے.وہ جو کچھ خدا کے حضور پیش کرتے ہیں ان کے اوپر بھی وہ اتراتے نہیں اور فخر نہیں کرتے اور جو کام انہوں نے نہیں کیا ہوتا اس کے متعلق تو شیخی مارنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہ لوگ خدا تعالیٰ کے قہر کے عذاب سے محفوظ ہیں لیکن ان کا مد مقابل اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہے اور قرآن کریم کی بشارتوں کے مطابق جو مسلمانوں کے حق میں دی گئی ہیں اور قرآن کریم کے انذار کے مطابق جو معاندین اسلام کے متعلق دیا گیا ہے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اپنے پر بھروسہ کرنے والے اور جو طاقت نہیں ہے اس کا بھی اعلان کرنے والے کامیاب نہیں ہوا کرتے.اخباریں پڑھنے والے اور دنیا کے حالات کا علم رکھنے والے دوست جانتے ہیں کہ آجکل سیاسی لیڈر وہ تعلیاں مارتے رہتے ہیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے مثلاً ہٹلر نے اپنے وقت وہ شور مچایا تھا کہ بس اس کے پاس ایسی طاقت ہے اور ایسے مخفی ہتھیار ہیں کہ وہ ساری دنیا کو کھا جائے گا حالانکہ وہ ہتھیار نکلے نہیں.وہ يُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا کے آیت کے ٹکڑے کے نیچے آ گیا نا کہ وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ وہ ایسے ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جود نیا کو زیر کرنے کے لئے کافی ہیں اور ان کا مد مقابل کامیاب ہو ہی نہیں سکتا.دنیا جو کرتی ہے اور دنیا جو نہیں کرتی اس کا یہاں ذکر ہے جو وہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جو ان کی طاقت ہے اس پر وہ فخر کرنے لگتے ہیں اور تکبر سے کام لیتے ہیں اور اپنے مفاد کی خاطر انسانوں کے حقوق کو پامال کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں وَيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا اور دوسروں کو ڈرانے کے لئے وہ بڑے مبالغہ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۲۷ خطبه جمعه ۲۳ ۱٫ پریل ۱۹۷۶ء آمیز بیانات دیتے ہیں یا بعض دفعہ اپنے ملک کو خوش کرنے کے لئے بھی سیاسی لیڈر ایسا کرتے ہیں.فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ یہ لوگ ناکامی کے عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکتے اور جو لوگ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے ہیں اور خدا تعالیٰ کی جماعت ہیں وہی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کامیاب ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ تمام قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے وہ علی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ہے جس چیز کو چاہے اسے کر دیا کرتا ہے اور کوئی اسے نا کام کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.کائنات میں اسی کا حکم چلتا ہے اور اس کے منشاء کے مطابق ہر کام ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اسلام کے غلبہ کے لئے اس زمانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا محبوب ترین روحانی فرزند مهدی پیدا ہو تو مہدی پیدا ہو گیا.اس نے چاہا کہ اس مہدی کی اس ظاہری اور ماڈی دنیا میں اس قدر مخالفت ہو کہ اس کی کامیابی کا کوئی امکان ظاہری آنکھ کو نظر نہ آئے تو وہ مخالفت پیدا ہوگئی اور پھر اس نے یہ چاہا کہ اس کے باوجود جو کچھ ظاہری آنکھ نے دیکھا تھاوہ نہیں ہوگا اور مہدی نا کام نہیں ہوگا.مہدی کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہے جیسا کہ خلافت راشدہ کے زمانہ میں مختلف میدانوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی جھنڈے تھے.کسری کے مقابلہ میں مسلمان فوجوں کے جو سپہ سالار تھے ان کے ہاتھوں میں جو جھنڈے تھے یا قیصر کے مقابلہ میں شام کے میدانوں میں مسلمانوں کے سپہ سالاروں کے ہاتھوں میں جو جھنڈے تھے وہ ان کے اپنے تو نہیں تھے اور نہ خلفائے وقت کے تھے بلکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تھے.اسی طرح آج اسی معنی میں محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا جھنڈا مہدی کے ہاتھ میں ہے.خدا نے یہ چاہا کہ دنیا کی طاقتوں کو اس کے خلاف کھڑا کرے اور دنیا کو یہ بتائے کہ اگر تم سارے اکٹھے ہو کر بھی میری اس سکیم اور میرے اس منصوبہ کو نا کام کرنے کی کوشش کرو گے تو تم نا کام ہی ہو گے چنانچہ مہدی جوا کیلا تھاوہ ایک سے دو ہوا پھر دو سے دو ہزار بنا پھر دو ہزار سے دولاکھ بنا.وہ محض ہندوستان میں تھا پھر وہ باہر نکلا اور آج وہ ساری دنیا میں پھیل گیا اور جیسا کہ اس کو حکم تھاوہ پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اسلام کے حسن کو ایک ہاتھ میں لے کر اور اسلام کی قوتِ احسان کو دوسرے ہاتھ میں لے کر باہر نکلا اور دنیا کے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۲۸ خطبہ جمعہ ۲۳ را پریل ۱۹۷۶ء سامنے اس نے اسلامی تعلیم کو پیش کیا اور پنجابی میں ایک بڑا پیارا محاورہ ہے ” پھورنا‘ اس نے آہستہ آہستہ دنیا کی طاقتوں کو پھورنا شروع کیا اور قرآن کریم نے ہمیں کہا کہ اَو لَمْ يَروا انا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد: (۴۲) خدائی تقدیر کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح آہستہ آہستہ خدائی سلسلوں کا قدم ترقی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر جس طرح بارش مختلف اوقات میں ایک کچی دیوار کے نچلے حصے کو کھودتی ہے یعنی بارش کی وجہ سے تھوڑی سی مٹی بہہ جاتی ہے ایک وقت آتا ہے کہ وہ دیوار اپنے پاؤں پر گر جاتی ہے اسی طرح دنیا کی طاقتوں کی حقیقت کچی دیوار سے زیادہ نہیں ہے اور آہستہ آہستہ وہ عمل شروع ہو چکا ہے کہ عقلمند آدمی جو کہ صاحب فراست روحانی ہے وہ دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو وعدے کئے تھے ان کے پورا ہونے کے ایام آچکے ہیں.لیکن اور یہ لیکن بڑا اہم ہے جو ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے وہ تو اپنی جگہ پر ہے.اس واسطے آپ ان چیزوں کو سامنے رکھا کریں کہ آپ اپنے زور اور طاقت کے ساتھ وہ کام نہیں کر سکتے کہ جو خدا تعالیٰ خدائی طاقت کے ساتھ آپ سے کروانا چاہتا ہے وہ ایک لحظہ اور ایک سیکنڈ جس میں آپ اپنے رب کریم سے دور چلے جائیں وہ آپ کے لئے انفرادی طور پر یا آپ کے خاندان کے لئے یا آپ کے گروہ کے لئے ہلاکت کا باعث بنے چوکس رہ کر اس ہلاکت سے بچنے کی کوشش کریں اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور یہ کہتے ہوئے جھکے رہیں کہ اے خدا ! جو کام تو نے دیا ہے اس کی اہمیت کو ہم سمجھتے ہیں اور اپنی بے بسی کو ہم جانتے ہیں ہم اپنے زور سے یہ نہیں کر سکتے تیری مدد اور نصرت کے بغیر یہ مہم سر نہیں ہو سکتی اس لئے اپنے وعدہ کے مطابق تو ہماری مدد کو آ.اس لئے نہیں کہ ہم اپنے لئے کچھ چاہتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ہم تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس غلبہ کو چاہتے ہیں جس کا تو نے وعدہ دیا کہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا.انشاء اللہ اسلام پھیلے گا.خدا کرے کہ وہ دن جلد آئے.رونامه الفضل ربوه ۲۸ مئی ۱۹۷۶ ، صفحه ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ششم ۴۲۹ خطبه جمعه ۱٫۳۰ پریل ۱۹۷۶ء آخری زمانہ میں غلبہ اسلام کے لئے جس مہدی کی بشارت تھی وہ بائی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ پوری ہوگئی خطبه جمعه فرموده ۰ ۳ را پریل ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.فَلَا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَوني (البقرة : ۱۵۱) وو وَلَا تَشْتَرُوا بِأَيْتِى ثَمَنًا قَلِيلًا وَ مَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الكفرُونَ (المائدة: ۴۵) ارضِيتُم بِالْحَيوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قليل - (التوبة: ۳۸) زين لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ اتَّقَوا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ - (البقرة : ۲۱۳) وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتُ وَ هُوَ كَافِرُ فَأُولبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ أُولبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ.(البقرة : ۲۱۸) اور پھر فرمایا:.ہم لوگ جن کا تعلق سلسلہ عالیہ احمدیہ، مبائعین خلافت سے ہے.ہمارا یہ ایمان اور عقیدہ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۳۰ خطبہ جمعہ ۳۰ را پریل ۱۹۷۶ء ہے کہ وہ مہدی جس کی بشارت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے إِنَّ لِمَهْدِينَا آيَتَيْنِ کے علاوہ اور بہت سے دوسرے ارشادات میں دی تھی ، وہ مہدی علیہ السلام آگئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت پوری ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اس مہدی علیہ السلام پر ایمان لائیں.ہمارا یہ ایمان اُس محبت کا تقاضا ہے جو ہمارے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پائی جاتی ہے.اس محبت کے نتیجہ میں ہم اس پر ایمان لائے جس کے متعلق ہمارے پیارے اور محبوب آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:.إِنَّ لِمَهْدِينَا آيَتَيْنِ ہمارے مہدی کے لئے دو نشانیاں ہیں.اس طرز بیان میں بڑا پیار پایا جاتا ہے غرض حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مہدی کے لئے بڑے پیار کا اظہار فرمایا ہے اور اس کے متعلق آپ نے بہت سی بشارتیں دی ہیں.آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر فرمایا تھا کہ مہدی اس آخری زمانہ میں آئے گا جس میں اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنا مقدر ہے اور وہ اُن روحانی ہتھیاروں کے ساتھ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُن برکات کے ساتھ اور آپ کے طفیل ان آسمانی نشانات کے ساتھ اور آپ کے لائے ہوئے قرآن کریم کی اُن حج قاطعہ کے ساتھ آئے گا جن کا مقابلہ اُس وقت کے مذاہب نہیں کر سکیں گے اور اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اسلام کو غالب کرنے کے سامان پیدا کرے گا.ہوگا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام ، ہو گا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک روحانی فرزند ، مگر ہوگا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نہایت ہی پیارا اور محبوب جرنیل جو آخری زمانے میں روحانی ہتھیاروں کے ساتھ اسلام کی جنگ لڑے گا.اس کے ہاتھ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا جھنڈا ہوگا اور اسی جھنڈے کو غالب کرنے کے لئے ساری سعی کی جائے گی.یہ ہمارا عقیدہ ہے اور یہ ہمارا ایمان ہے.اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑتا ہے اس کا آپ کے مہدی کے ساتھ کیا تعلق باقی رہ جاتا ہے.یہ بات تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس کی وجہ سے اور جس کی محبت کے نتیجہ میں اور جس کے حکم کے ماتحت اور جس کی بشارتوں کو اور پیشگوئیوں کو پورا ہوتا آنکھوں کے سامنے پاتے ہوئے ایک جماعت مہدی علیہ السلام پر ایمان لائی ہے.ان تمام باتوں کو چھوڑنے کے بعد اور
خطبات ناصر جلد ششم ۴۳۱ خطبہ جمعہ ۱/۳۰ پریل ۱۹۷۶ء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیار کو چھوڑنے کے بعد اور اُن برکات کو نظر انداز کرنے کے بعد اور ان آسمانی برکات سے منہ موڑنے کے بعد اور ان حقائق اشیاء کو پیٹھ پیچھے پھینک دینے کے بعد پھر مہدی علیہ السلام کے ساتھ ایسے آدمی کا کیا تعلق رہ جاتا ہے.یہ تعلق تو قائم ہی ہوا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے.یہ تعلق تو پیدا ہی اس لئے ہوا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں مہدی سے پیار کرتا ہوں تم بھی اس سے پیار کرنا اور میرا اسے سلام پہنچانا.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق نہ ہو یا آپ کا واسطہ نہ ہو اور آپ کے ساتھ تعلق محبت نہ ہو تو مہدی پر ایمان لانے کا کیا مطلب؟ اس واسطے کوئی شخص اسلام کو چھوڑ کر، اسلام سے ارتداد اختیار کر کے (خواہ کسی غرض کے لئے اُس نے ایسا کیا ہو ) اُس جماعت کا فرد نہیں رہ سکتا جو جماعت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات کے مطابق قائم کی گئی ہو اور اس غرض کے لئے قائم کی گئی ہو کہ وہ اسلام کو غالب کرے.ایک شخص کہتا ہے میں اسلام پر ایمان ہی نہیں لاتا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تعلق ہی نہیں رہا وہ شخص پیشگوئیوں کے مطابق غلبہ اسلام کی اس زبر دست مہم اور عظیم جہاد میں حصہ کیسے لے سکتا ہے جو اس وقت شروع ہو چکا ہے اور اپنے وقت پر بخیر وخوبی ختم ہو گا.آج کل کے حالات میں دنیا بعض کمزور ایمان والوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے حالانکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی عزت بھی خدا کی طرف سے ملنے والی عزّت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی.یہ دراصل عزت ہے ہی نہیں، یہ تو ذلت ہے.عزت دینا یا ذلت پہنچانا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے یہ دُنیا داروں یا دنیا کی بادشاہتوں کا کام نہیں ہے.اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ اسلام کے دامن کو چھوڑ کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا باغی بن کر عزت حاصل کرے گا تو یہ اس کی غلطی ہے اور یہ سمجھنا بھی اس کی غلطی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ غلطی ہے کہ اس کے بعد پھر وہ احمدیت کے ساتھ وابستہ بھی رہ سکتا ہے.مجھے کسی نے بتایا کہ بعض احمدی کہلانے والے صوبائی اسمبلیوں میں اچھوتوں کی اور غیر مسلموں کی جو الیکشن ہوگی اس میں حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں.میں نے کہا ان کی یہی خواہش بتاتی ہے کہ اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۳۲ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۷۶ء خواہش بتاتی ہے کہ ان کے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی پیار نہیں ، یہ خواہش بتاتی ہے کہ اگر کبھی وہ اسلام کا نام اپنے اوپر چسپاں کرتے تھے اور خود کو مسلمان کہتے تھے تو اب وہ خود ہی غیر مسلم بن گئے ہیں اور اعلان کر رہے ہیں کہ اُس پاک وجود سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے جس نے مہدی کی بشارت دی اور جس کے حکم پر ہم مہدی پر ایمان لائے.تو پھر ایسے شخص کا اسلام کو چھوڑنے کے بعد اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑنے کے بعد مہدی علیہ السلام یا اُس کی جماعت سے تعلق کیسے رہ گیا یا وہ مہدی کی جماعت کا فرد کیسے؟ بعض لوگ تو اس سے بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں بعض دفعہ بعض کم سن بچے احمقانہ باتیں کر جاتے ہیں اُن کو تو سمجھانے والی بات ہے لیکن وہ شخص جو دنیا کے لالچ میں اور اُس دنیا کے لالچ میں جس کی حیثیت ایک مردہ کیڑے کی بھی نہیں ہے اس کے لالچ میں خدا اور اس کے رسول کو چھوڑ دیتا ہے اور قرآن جیسی عظیم ( مجید اور کریم ) کتاب اور اس کے احکام سے منہ موڑ لیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ اس کا اس کتاب سے کوئی واسطہ نہیں ، اسلام کے ساتھ اس کا کوئی واسطہ نہیں اور یہ کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ سچا نہیں سمجھتا تو اس اعلان کے بعد اس کا جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلق باقی کیسے رہ سکتا ہے؟ وہ جماعت جو قائم ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہوئی ہے اور آپ کی بشارتوں کے ماتحت قائم ہوئی ہے اور جس نے مہدی علیہ السلام سے اپنا تعلق باندھا ہی اس غرض سے کہ غلبہ اسلام کی پیشگوئی پوری ہو اور غلبہ اسلام کی اس مہم میں جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی علیہ السلام کے ساتھ وابستہ کیا ہے اُس مہم میں اس کی حقیر سی قربانی بھی شامل ہو جائے، خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو اور کوتاہیوں کو اور غفلتوں کو بخش دے اور اس طرح وہ اللہ کے پیار کو حاصل کرنے والا بن جائے ایسی جماعت کے ساتھ اس شخص کا کیسے تعلق رہ سکتا ہے جو کہتا ہے کہ اس نے اسلام کو چھوڑا ، اُس نے خدا کو چھوڑا ، اُس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا، قرآن مجید جیسی عظیم کتاب کو چھوڑا ، تو پھر اس کے پاس باقی کیا رہ گیا.ہمارے ساتھ تو ایسے ذہن کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے.جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے جو اوپر بیان ہوالیکن کوئی شخص یہ کہ سکتا ہے کہ جس مہدی پر تم ایمان لائے ہو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مطابق نہیں آیا.پھر
خطبات ناصر جلد ششم ۴۳۳ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۷۶ء ہمارا کام ہے کہ ہم اسے پیار اور محبت کے ساتھ عقلی دلائل کے ساتھ حج قاطعہ کے ساتھ آسمانی برکات اور نشانات کے ساتھ سمجھائیں کہ جو آنے والا تھا وہ آ گیا وہی جس نے مہدی ومسیح موعود ہونے کا دعوی کر رکھا ہے اس لئے کہ جو علامات بتائی گئی تھیں خصوصاً اس ارشاد نبوی: - إِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ میں مہدی کی صداقت اور اس کی علامات کے طور پر جو دوز بر دست پیشگوئیاں کی گئیں پوری ہو چکی ہیں.یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو پیار اور محبت کے ساتھ سمجھائیں کہ دیکھو ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں مدعی "مہدویت کے حق میں پوری ہو چکیں خدا تعالیٰ کا پیار اور تائید الہی اُس کو حاصل رہی.غیر مسلموں کے ساتھ مہدی علیہ السلام کا جو بھی مقابلہ ہوا اُس میں خدا تعالیٰ نے اسلام کی خاطر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی خاطر اور اسلام کی صداقت کے اظہار کے لئے اس مدعی مہدویت کو غالب کیا.پہلے نوشتوں میں بھی اس کی خبر دی گئی تھی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تیرہ سو سال پہلے دنیا کو بتا یا تھا ( اب تو چودہ سوسال گزرنے والے ہیں لیکن دعوئی مہدویت کے وقت تیرہ سوسال ہوئے تھے ) اس حقیقت کے منکشف ہو جانے کے بعد کسی شخص کا کسی دُنیوی لالچ کے لئے خود کو غیر مسلم قرار دینا بڑی احمقانہ بات ہے.عام طور پر احمدیت میں پیدا ہونے والے بچے یا احمدیت کو قبول کرنے والے بچے بڑے ہی پیارے بچے ہیں اس لحاظ سے بھی کہ اُن کے اندر اسلام اور اسلام کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ پایا جاتا ہے:.پچھلے سال کی بات ہے ایف ایس سی (پری میڈیکل ) میں ہمارے بعض چوٹی کے نمبر لینے والے طلبا سے جب یہ کہا گیا کہ تم چونکہ احمدی ہو اور تمہیں دستور یا قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں سمجھا جاتا اس لئے ہم تمہیں غیر مسلموں کے لئے جو سیٹیں رکھی ہوئی ہیں اُن میں داخلہ دیں گے.تو انہوں نے انکار کر دیا کہ وہ اس میں داخل نہیں ہونا چاہتے.انہوں نے کہا ہم نے بہت اعلیٰ نمبر لئے ہیں ، خدا تعالیٰ نے پاکستان میں ہماری قوم میں جہاں بہت سے دماغ پیدا کئے ہیں وہاں ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے عقل اور فراست سے نوازا ہے اور ہمیں توفیق دی ہے کہ ہم اعلیٰ نمبر لے کر پاس ہوں لیکن تم کہتے ہو کہ ہم داخل نہیں کریں گے.اس کا مطلب ہے کہ تم پاکستان کے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۳۴ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۷۶ء دشمن ہو کیونکہ خدا نے ذہنی قابلیت کی شکل میں پاکستان کو ایک نعمت دی ہے تم اس کو ٹھکرانا چاہتے ہو اور اس طرح پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہو لیکن ہم بہر حال Merit پر داخلہ لیں گے ورنہ نہیں داخل ہوں گے چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لئے تم نے غیر مسلموں کے لئے جو سیٹیں رکھی ہوئی ہیں ہم ان میں سے کوئی سیٹ نہیں لیں گے.اس پر بڑے ہنگامے ہوئے ، کورٹ میں جانا پڑا.یہ سب کچھ ہوا تو بالآخر خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ بعض عقل رکھنے والوں نے کہا یہ کیا مذاق ہو رہا ہے چنانچہ اب اُنہوں نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ غیر مسلموں (اقلیتوں) کے لئے سیٹ ہی نہیں ہوگی بلکہ Merit پر داخلہ ہوا کرے گا.ہم بڑے خوش ہیں تا ہم ہوسکتا ہے کہ اب کوئی متعصب ممتحن جسے اگر پتہ لگ جائے کہ فلاں لڑکا احمدی ہے تو وہ اس کو نقصان پہنچا دے لیکن یہ ایک استثناء ہوگا اور ایسا شاذ ہی ہو گا کیونکہ عام طور پر انسان فطرتا شریف ہے خدا نے اُسے یوں ہی تو اشرف المخلوقات نہیں کہا.میرا واسطہ لاکھوں غیر احمدیوں سے پڑتا رہا ہے احمدیوں میں سے تو ہر ایک میرا پیارا بھائی اور تعلق رکھنے والا ہے لیکن غیروں میں سے بھی لاکھوں سے میراتعلق رہا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمارے ملک میں ایک لاکھ میں سے ۹۹۹۹۹ شرفاء ہیں اس واسطے یہ خطرہ تو نہیں لیکن استثنائی طور پر کسی بچے کو اس پہلو سے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے لیکن جو بچہ ذہین ہے اور خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ میں اسے ایک روشن ذہن دے کر پیدا کرتا ہے اس کے متعلق میں اعلان کر چکا ہوں کہ اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.یہ جماعت کی ذمہ داری ہے وہ پڑھے گا.جہاں تک اس کا ذہن اس کا ساتھ دیتا ہے اور وہ ترقی کر سکتا ہے اُسے پڑھایا جائے گا ترقی کرنے کا موقع دیا جائے گا چنانچہ اس وقت بھی ہمارے کئی بچے غیر ممالک میں پڑھ چکے ہیں یا پڑھ رہے ہیں.میں ایک بچے کے متعلق پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں وہ حساب کے ایک خاص شعبہ میں بڑا ذہین ہے.پہلے تو بعض اساتذہ اُسے بھی بہت ستاتے رہے حالانکہ وہ بڑا جینٹس (Genius) اور غیر معمولی ذہن رکھنے والا بچہ تھا اور جب باوجود سب کچھ کرنے کے اُس نے بہت اچھے نمبر لے لئے تو پھر اُسے کہنے لگے کہ اب یونیورسٹی سے معاہدہ کر لو پانچ سال تک یہاں پڑھاؤ پھر ہم
خطبات ناصر جلد ششم ۴۳۵ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۷۶ء امریکہ سے تمہاری سفارش کر دیں گے کہ وہ تمہیں وظیفہ دے دیں.اُس کے ایک پروفیسر صاحب میرے پاس بھی آگئے کہ آپ اس کا مستقبل خراب کر رہے ہیں.یہ کہتا ہے کہ میں تو جماعت کا بچہ ہوں اور جو جماعت کہے گی وہ کروں گا اس کا مستقبل خراب ہو جائے گا.آپ اسے اجازت دے دیں بلکہ حکم دیں کہ یونیورسٹی میں پانچ سال تک پڑھائے اور پھر ہم امریکہ سے سفارش کریں گے کہ وہ اسے وظیفہ دے دیں.میں نے اُن سے کہا یہ تو میرے نزدیک بڑی بے غیرتی والی بات ہے کہ کام تمہارا کرے اور پھر سفارش تم امریکہ سے کرو گے.اس کو سفارش کی ضرورت اس لئے نہیں کہ جماعت احمدیہ کا یہ بچہ ہے اور وہی اس کی ذمہ دار ہے اس کا مستقبل خراب نہیں ہو گا تم فکر نہ کرو.چنانچہ جماعت نے اُسے باہر بھجوایا اس نے تین سال کی بجائے اڑھائی سال میں لنڈن میں پی ایچ ڈی کا کورس مکمل کر لیا.میں نے وہاں کے پرانے تجربہ کار احمدی دوستوں کولکھا تھا کہ یہ ہمارا بچہ ہے اور ماشاء اللہ بڑا ذہین ہے اس کا جو حساب کا شعبہ ہے اس میں دنیا کا جو بہترین استاد ہے جہاں بھی وہ ہو اس کے پاس اسے جانا چاہیے.جتنا بھی خرچ آئے جماعت برداشت کرے گی.تو مجھے مشورہ دیا گیا کہ اس مضمون ( جس میں اللہ تعالیٰ نے نہایت اعلیٰ ذہن دیا ہے ) کا بہترین استاد ماسکو میں ہے اور وہ غالباً اس کو داخل نہیں کریں گے لیکن دوسرے نمبر پر جو بہترین استاد وہ لندن میں ہے.اس لئے میں نے کہا اُس کے پاس داخلہ لے لے.وہاں وہ داخل ہوا وہ اتنا شریف النفس انسان ہے کہ جب وہ یہاں تھا تو اس وقت بھی اسے اپنے نفس کی عزت کا شعور اور احساس تھا جس نے میری طبیعت پر بڑا اثر ڈالا ہوا تھا.وہاں بھی جو اُ سے غریبانہ وظیفہ ملا اسی میں تنگی اور ترشی سے گزارہ کرتا رہا اور تین سال کی بجائے اڑھائی سال میں اس نے پی ایچ ڈی کر لی.پھر اس کے استاد بڑی شفقت سے کہنے لگے کہ تم چھ ماہ اور ہمارے پاس لگا ؤ اور ریسرچ کرو اس طرح تمہیں اور مہارت ہو جائے گی اور علم میں ترقی کرو گے.اس نے کہا میں جماعتِ احمدیہ کا نوجوان ہوں میں ان کی اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کروں گا چنانچہ انہوں نے مجھے خط لکھا کہ ہم نے اسے یہ مشورہ دیا ہے اور وہ انکار کر رہا ہے اس کو بہت فائدہ پہنچے گا آپ اس کو اجازت دے دیں.وہ یہ سمجھتے تھے کہ شاید ہم پیسے کی وجہ سے آگے نہیں پڑھانا چاہتے اس لئے اُنہوں نے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۳۶ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۷۶ء ساتھ مجھے یہ بھی لکھا کہ جو آپ نے سیکیورٹی (ضمانت کی رقم ) رکھوائی ہوئی ہے بس اسی کے اندر چھ ماہ کا گزارہ ہو جائے گا.میں نے انہیں کہا کہ اصل چیز تو اس کی علمی لیاقت میں ترقی ہے اس واسطے اگر تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ اس طرح یہ اور ترقی کر سکتا ہے تو ٹھیک ہے اور چھ ماہ لگائے.چنانچہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اس نے اُن کے ساتھ مزید چھ ماہ ریسرچ کی اور اب وہ جماعت کے مشورہ سے انگلستان کی ایک یونیورسٹی میں کام کر رہا ہے لیکن اس نے لکھا تھا کہ آپ کہتے ہیں تو میں یہاں ملا زمت کرتا ہوں ورنہ نہیں.میرا خیال تھا کہ یہ اور ترقی کرے اور پھر کسی وقت جب اس مضمون میں ہمارے ملک کو ضرورت محسوس ہوئی تو وہ یہاں آ کر اپنے ملک کی خدمت کرے گا.پس جہاں تک تعصب کا سوال ہے بہت بھاری اکثریت شرفاء کی ہے لیکن بیچ میں عارضی طور پر بچوں کو تکلیف بھی پہنچ سکتی ہے ذہنی پریشانی بھی ہو سکتی ہے کہ پتہ نہیں جماعت ہمیں سنبھالتی ہے یا نہیں؟ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور اب بھی بتا دیتا ہوں کہ اے بچو! تم یو نیورسٹی میں ٹاپ کرو اپنے اپنے مضمون میں.جماعت خدا کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے تمہیں کبھی ضائع نہیں ہونے دے گی.بات میں یہ بتا رہا ہوں کہ ہمارے بچے کم عمر تھے جن کو آگے ترقی کرنے کا شوق بھی ہوتا ہے کہ وہ کچھ بن کر دکھا ئیں.یونیورسٹی میں چوتھی پوزیشن لینے والے بچے ،مگر جب ان کو یہ کہا گیا کہ اسلام چھوڑو اور یہ اعلان کرو کہ ہم مسلمان نہیں تو غیر مسلموں کے لئے جو ریز روسیٹیں ہیں اس میں ہم تمہیں داخل کر لیں گے تو اُنہوں نے کہا اسلام تو ہماری زندگی ہے، اسلام تو ہماری روح اور جان ہے، اسے چھوڑ کر پھر زندگی کا کیا مزہ ہے اور داخل ہونے کا کیا مطلب؟ یہ تو ہم نہیں کریں گے.پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے یہیں سامان پیدا کر دیئے.گو پہلے ہائیکورٹ میں جانا پڑا لیکن بعد میں قانون بدل گیا تاہم مجھے بڑی شرم آتی تھی کہ کسی وجہ سے سہی مگر ہمارا ملک ان بچوں کی ذہانت کی قدر نہیں کر رہا اور انہیں اپنا حق لینے کے لئے ( پیسے کا نہیں ) اپنے ذہنی ارتقاء میں جو روک پیدا ہوگئی ہے اُسے دور کرنے کے لئے اُن کو ہائیکورٹ میں جانا پڑا اور روک پیدا کرنے والے خود اپنی ہی قوم کے لوگ تھے.ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قوم کو عقل اور
خطبات ناصر جلد ششم ۴۳۷ خطبہ جمعہ ۱٫۳۰ پریل ۱۹۷۶ء فراست عطا کرے تا کہ وہ تعصبات کے نتیجہ میں خود اپنی ہی اُنگلیاں کاٹنے والے نہ ہوں.اصل طاقت کا سر چشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، عقل بھی وہی دیتا ہے اور فراست بھی وہی عطا کرتا ہے.بڑے بڑے ذہین لوگ بعض دفعہ پاگل ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں یہ لکھا ہے کہ تکبر نہ کرو وہاں یہ مثال دی ہے کہ اپنی عقل اور سمجھ پر بھی گھمنڈ نہ کرو کیونکہ تمہیں پتہ نہیں کل کیا ہونے والا ہے.میں ذاتی طور پر اس غیر احمدی لڑکے کو جانتا ہوں جو میرے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور میں فرسٹ ائیر میں داخل ہوا تھا اور وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جسے احمدیت سے شدید تعصب تھا اس لئے وہ لڑکا جب بھی ملتا ہمیں ستانے کے لئے ، ہر وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیتا رہتا تھا.اس کے خاندان کو یہ خیال تھا کہ وہ یونیورسٹی میں چوٹی کے طالب علموں میں پاس ہوگا اور پھر سُپر سیر سروسز (ICS) میں جائے گا اور بہت بڑا افسر بن جائے گا تو اُن کے خاندان کی عزت ہوگی اور اُن کی مالی حیثیت بھی اچھی ہو جائے گی.غرض اس کے ساتھ اُنہوں نے بڑی امیدیں وابستہ کی ہوئیں تھیں لیکن اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلتے رہتے تھے جو خدا کو پسند نہیں تھے اور اس کو اپنی عقل اور سمجھ پر بڑا گھمنڈ تھا لیکن ابھی ایف.اے کے امتحان کا وقت بھی نہیں آیا تھا کہ وہ پاگل ہو گیا اور بڑی مشکل سے ایف.اے تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا اور اُس کے سارے گھمنڈ اور غرورختم ہو گئے.پس اپنی عقل پر گھمنڈ کرنا بھی ہمارے خدا کو پسند نہیں.پس ہر وہ احمدی جسے خدا سمجھ دے اور قرآن کریم کے احکام پر چلنے کی توفیق دے اس کو غرور اور تکبر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ خیال کرنا کہ عقل ہم اپنے پاس سے لے آئے یا دولت ہم نے اپنی سمجھ کے مطابق حاصل کر لی یا صحت اس لئے اچھی ہے کہ ہم بڑی سمجھ کے ساتھ غذا کھاتے ہیں اور اُسے ہضم کرتے ہیں، یہ چیزیں اپنی جگہ درست ہوں گی لیکن جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں علت العلل اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور ہر لقمہ جو مجھے اور آپ کو ہضم ہوتا ہے وہ صرف اُس وقت ہضم ہوتا ہے جب اُس لقمہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد ہوتا ہے کہ وہ میرے بندہ کے پیٹ میں ہضم ہو جائے ورنہ وہی لقمہ بد ہضمی پیدا ہو کر ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۴۳۸ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۷۶ء غرض ہمارے بچے نے بڑا اچھا نمونہ پیش کیا دنیا کی تاریخ میں بھی اور احمدیت کی تاریخ میں بھی لیکن اگر کوئی نا سمجھ دنیا کی طرف مائل ہو اور دنیا کی خاطر جو ایک نہایت ہی حقیر چیز ہے اور دنیا کی خاطر جو نہایت ہی بے وفا ہے.آتی بھی ہے اور چلی بھی جاتی ہے، دنیا بعض کروڑ پتیوں کو بعض دفعہ مانگتے ہوئے دیکھتی ہے اور غریب آدمیوں کے متعلق محاورہ بن گیا ہے کہ جب خدا دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے ، غرض غریبوں کو امیر ہوتے اور امیروں کو غریب ہوتے دیکھا.یہ تو دنیا ہے یہ تو کسی سے وفا نہیں کرتی تو پھر کیوں نہ اس ہستی سے تعلق پیدا کیا جاوے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات سے جس سے زیادہ وفا کرنے والی کوئی اور ہستی نہیں ہے اور اُسی کے ہو کر زندگی گزاری جائے.اگر کسی کے دماغ میں نا سمجھی کے نتیجہ میں یا دنیوی لالچ کی وجہ سے خیال آئے تو اُسے سمجھا دینا چاہیے اور اگر نفاق یا ایمانی کمزوری کی وجہ سے ایسے خیال آئیں تو اُسے بتا دینا چاہیے کہ جو شخص اسلام کو چھوڑتا ہے اس کا مہدی علیہ السلام کے ساتھ تعلق عقلاً بھی نہیں ہوسکتا.اسی واسطے میں نے شروع میں بتا دیا ہے کہ ہم تو مہدی علیہ السلام پر ایمان اس لئے لائے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ اس پر ایمان لانا اور میرا اُسے سلام پہنچانا.جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑتا ہے مہدی علیہ السلام کے ساتھ اس کا کیا رشتہ باقی رہ جاتا ہے.اسی واسطے پیچھے جب ایک واقعہ ہوا تو الفضل نے اعلان کیا تھا لیکن اصولی اعلان کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت لکھیں اُن میں سے ایک شرط بیعت یہ ہے کہ میں اپنی جان، مال، عزت اور ہر چیز کو اسلام پر قربان کرتا رہوں گا.یہ شرائط بیعت میں سے ایک شرط ہے اور پھر آپ نے فرمایا کہ شرائط بیعت میں سے اگر کوئی شخص ایک شرط کو بھی توڑتا ہے تو وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مطابق بھی جو شخص اسلام سے ارتداد اختیار کرتا ہے اس کا جماعت احمدیہ سے کیا تعلق رہ جاتا ہے تاہم میں صرف جماعتِ مبائعین کی طرف سے بول سکتا ہوں اس لئے میں کہتا ہوں کہ سلسلہ عالیہ احمد یہ مبائعین خلافت سے اس کا کوئی تعلق نہیں.پس جو شخص داخلہ کی خاطر یا جوشخص وظیفہ کی خاطر یا جو شخص جھوٹی عرب توں کی خاطر یا جو شخص اسمبلی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۳۹ خطبه جمعه ۱۷۳۰ پریل ۱۹۷۶ء کی سیٹ لینے کی خاطر اسلام کو چھوڑنے کا اعلان کرتا ہے وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے اُس نے گویا اپنے لئے جہنم کی آگ کے شعلے بھڑ کا لئے.اس کا ہمارے ساتھ کیا تعلق باقی رہ گیا ہم تو مہدی علیہ السلام پر ایمان لائے ہی اس لئے ہیں کہ جس مہدی کی بشارت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ آگئے اور ہم ان پر ایمان لاتے ہیں.یہ ہمارا عقیدہ ہے.کوئی اس سے متفق ہو یا نہ ہومگر یہ ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے مطابق ہے، آپ کی بشارتوں کے مطابق ہے.خدا تعالیٰ نے میرے اور آپ سب کے اطمینان کے سامان پیدا کئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت میں ایسے زبر دست نشانات اور آسمانی برکات کا نزول ہوا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور محض قرآن کریم کے احکام اور شریعت کی پیروی میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ٣٢) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بنیادی طور پر سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جو حقیقتاً اور فی الواقع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عشق رکھنے والی جماعت ہے اور اس پاک ذات کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے والی ہے.حضرت مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کا یہی بنیادی اور سب سے بڑا معجزہ ہے لیکن وہ شخص جو ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیزاری اختیار کرے اُس کا اُس جماعت کے ساتھ کیسے تعلق قائم رہ سکتا ہے جن کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق سمندروں کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے یہ ایک حقیقت ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اعلان خلیفہ وقت کی طرف سے نہیں ہوا.یہ اعلان نظام سلسلہ کی طرف سے ہو گیا تھا لیکن خلفائے وقت بھی مختلف پہلوؤں سے اس بات کی وضاحت کرتے رہے ہیں کہ جو شخص اسلام کو چھوڑتا ہے اس کا احمدیت سے کیا تعلق؟ احمدیت تو ہے ہی غلبہ اسلام کی ایک مہم کا نام.ایک مہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں شروع ہوئی اُس وقت بھی اسلام کے لئے بڑے سخت جہاد اور بڑے زبر دست مجاہدہ کی ضرورت تھی.اب اگر کوئی شخص اُس وقت یہ کہتا کہ میں اسلام کو چھوڑتا ہوں لیکن میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کونہیں چھوڑ تا تو بڑی پاگلوں والی بات
خطبات ناصر جلد ششم ۴۴۰ خطبہ جمعہ ۱٫۳۰ پریل ۱۹۷۶ء ہوتی.پھر اسلام کے جہاد کی شکل بدل گئی اس میں زیادہ وسعت پیدا ہوگئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آگیا تو دنیا میں زیادہ وسعت کے ساتھ اسلام پھیلنے لگا.پھر کسری اور قیصر کی دو حکومتیں جو اُس وقت کی دنیا میں سب سے بڑی حکومتیں سمجھی جاتی تھیں مال کے لحاظ سے بھی اور اپنی فوجوں کے لحاظ سے بھی ، اپنے ہتھیاروں کے لحاظ سے بھی اور اپنے تجربہ کے لحاظ سے بھی ، اپنی ذہانت کے لحاظ سے بھی اور علوم میں اپنی ترقی کے لحاظ سے بھی ، اُن کے ساتھ تصادم ہو گیا اس لئے کہ اسلام کے دشمن یہ سمجھے کہ دنیا کے مال ، دنیا کی دولتیں ، دنیا کی طاقتیں ، فوجیں اور ہتھیا رصداقت کی شمع کو بجھا دیا کرتے ہیں.وہ غلط سمجھے اور انہیں اپنی اس غلطی کا خمیازہ میدانِ جنگ میں سر کٹوا کر بھگتنا پڑا.اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اگر کوئی شخص یہ کہتا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو چھوڑتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تو اُسے سوائے بیوقوف، احمق اور پاگل کہنے کے ہمارے پاس اور کوئی الفاظ نہیں پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے ، پھر ملوکیت آ گئی بادشاہتیں آگئیں تاہم اسلام کی جو حرکت تھی ترقی کی طرف اور بڑھنے کی طرف اور غلبہ کی طرف وہ جاری رہی، اس میں شدت نہ رہی یہ تو درست ہے لیکن وہ جاری رہی.اسلام کے نام پر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرنے کے لئے اور تو حید کو غالب کرنے کے لئے اور قائم رکھنے کے لئے مسلمانوں نے قربانیاں دیں اور ہزاروں نے اپنی گردنیں کٹوائیں.کس کے لئے کٹوائیں؟ اُس کے لئے جو اُن کا رب کریم تھا جو اُن کو پیدا کرنے والا اور اُن سے پیار کرنے والا اور پیار کے جلوے اُن پر ظاہر کرنے والا تھا اور اُن کی ہر تکلیف اور دُکھ کے وقت اُن سے اس طرح ہم کلام ہونے والا تھا کہ اُن کی ساری تکالیف اور دکھ دور ہو جاتے تھے اور پریشانیاں جاتی رہتی تھیں.غرض ایک تو خدا کی تو حید کو قائم کرنے کے لئے مسلمانوں نے قربانیاں دیں اور دوسرے اس مبارک وجود کی خاطر جو ایک عظیم انسان نوع انسانی کی طرف آیا کہ ویسا نہ پہلے کسی ماں نے جنا اور نہ بعد میں کوئی جن سکتی ہے.غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدرا حسانِ عظیم ہیں نوع انسانی پر کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن یہ اس وقت میرا مضمون نہیں.میں قرونِ اولیٰ کے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۴۱ خطبہ جمعہ ۱٫۳۰ پریل ۱۹۷۶ء مسلمانوں کی بات کر رہا ہوں کہ اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو سمجھا اور آپ کی آواز پر اور آپ کی تعلیم اور اس کی اشاعت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا.انہوں نے اسلام کی خاطر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اور قرآن کریم کی خاطر قربانیاں دی تھیں کسی اور شخص کے لئے تو قربانیاں نہیں دی تھیں.پھر اُمت مسلمہ میں اولیاء آتے رہے انہوں نے اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھا، اسلام کے تنزل کے زمانہ میں بھی اسلام کی روشنی کے سامان پیدا کئے.دیئے کی مانند سہی یا ستاروں کی روشنی کی طرح سہی مگر روشنی تو تھی پورا اندھیرا تو نہیں آیا تھا.پھر وہ ا مہدی آ گیا جو بدر منیر بن کر دنیا میں چمکا.اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پورے طور پر اپنے اندر جذب کیا چنانچہ شیعوں کی ایک کتاب میں ایک پرانے بزرگ کا یہ قول ہے کہ چونکہ مہدی معہود، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل عکس ہو گا اس لئے اس کے مقابلہ میں اور کسی کو پیش نہیں کیا جا سکتا ( میں اُن کے الفاظ نہیں بتا رہا صرف مطلب بیان کر رہا ہوں ) اب اس روشنی پر، اس بدرمنیر پر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند پر ہم ایمان لائے ہیں جس نے اسلام کے لئے اندھیری راتوں کو پھر روشن کرنا شروع کر دیا ہے.اُس نے ساری دنیا کو نور اسلام سے روشن کرنے کا زبردست بیڑا اٹھا رکھا ہے.اگر کوئی شخص آج یہ کہتا ہے کہ میں سورج پر ایمان نہیں لاتا مگر اس چاند کو مانتا ہوں تو اس سے زیادہ بے وقوف کوئی اور شخص نہیں ہے.اگر وہ سورج پر ایمان نہیں لاتا تو چاند کو پھر روشنی کہاں سے ملی ، قصہ ختم ہوا.پس جماعتِ احمدیہ کے بڑے بھی اور چھوٹے بھی ، مرد بھی اور عورتیں بھی سن لیں کہ اگر اُنہوں نے احمدیت میں رہنا ہے اور بیعت خلافت میں رہنا ہے تو انہیں اسلام اور اس کے غلبہ کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دینی پڑیں گی.اسلام کے چھوڑنے کے بعد، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منہ موڑ لینے کے بعد احمدیت کے اندر اُن کے لئے کوئی جگہ نہیں نہ آج ہے اور نہ کل ہوگی.کبھی نہیں ہو گی قیامت تک نہیں ہوگی.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو شیطانی وسوسوں اور حملوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ نے جس پیار سے احباب جماعت احمدیہ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں کیا ہے خدا کرے ہم میں سے ہر ایک اس پیار کا وارث اور مستحق اور
خطبات ناصر جلد ششم ۴۴۲ خطبه جمعه ۱/۳۰ پریل ۱۹۷۶ ء اہل ثابت ہو.ہم خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر کے غلبہ اسلام کی اس مہم میں جو مہدی علیہ السلام کے ذریعہ اس زمانہ میں شروع ہوئی ہے اس میں ہر قسم کی قربانیاں دے کر اپنے اس مقصد میں کا میاب ہونے کی ہمیشہ مقبول سعی کرتے رہیں.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں عمل کی توفیق دے اور ایسے عمل کی توفیق دے جسے وہ اچھا سمجھے اور قبول کر لے اور جزا دے اس دنیا میں بھی اور آنے والی زندگی میں بھی.خدا تعالیٰ ہمیں کبھی دھتکار کر پرے نہ پھینکے بلکہ پیار کے ساتھ اپنے گلے کے ساتھ لگالے اور ہماری بشری کمزوریوں کو معاف کر دے اور جو ہمت والوں کو اُس نے کبھی ہمتیں دیں اور جو ایثار پیشہ جماعتوں کو اُس نے کبھی ایثار عطا کیا اس سے بڑھ کر ہمت اور ایثار جماعت احمدیہ کو عطا کرے تا کہ اسلام کی صداقت ساری دنیا پر ظاہر ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہر دل میں پختگی کے ساتھ گاڑا جا سکے.اے خدا تو ایسا ہی کر.(روز نامه الفضل ربوه ۱۸ رمئی ۱۹۷۶ ء صفحه ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ششم ۴۴۳ خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۷۶ء کائنات کی ہر چیز جو انسان کو دی گئی ہے وہ اس ور لی زندگی کا سامان ہے خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ رمئی ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی:.فَمَا أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَ ابْقَى لِلَّذِيْنَ امَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ.(الشورى:۳۷) اس کے بعد فرمایا:.پچھلا قریباً سارا ہفتہ ہی سر درد، بیماری اور تکلیف میں گذرا ہے لیکن چونکہ جمعہ بھی ہمارے لئے ایک ہفتہ وار عید ہے اور عید پر ہم ملتے ہیں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے دعائیں کرتے ہیں اس لئے میں اپنی کمزوری کے باوجود جمعہ پر آ گیا ہوں.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور کام کی توفیق عطا کرے اور سعی قبول فرمائے.جو آیت میں نے اس وقت تلاوت کی ہے اس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ انسان کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے اور ہمیں دوسری آیات سے پتہ لگتا ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز ہی انسان کو دے دی گئی ہے وہ ہے مَتَاعُ الْحَیوۃ الدنیا یعنی ورلی زندگی کا سامان ہے اور اپنی ذات میں فِي نَفْسِهَا وہ اس سے زائد کچھ نہیں.ورلی زندگی کا سامان مثلاً چارہ اور غذا ہے کھانے کی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۴۴ خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۷۶ء ایک چیز بھینسوں اور گھوڑوں اور بیلوں اور گائے اور بکری اور بھیڑ کا پیٹ بھرتی ہے اور ایک چیز انسان کا پیٹ بھر دیتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات انسان کو دے دی اور بنیادی بات یہ بتائی کہ جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ مَتَاعُ الحیوۃ الدنیا ہے یعنی تمہیں ورلی زندگی کا سامان دیا گیا ہے اس سے زائد اور کچھ نہیں.آیت کی ابتدا میں یہ مضمون بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے لیکن اس ور لی زندگی کے سامان میں اُس وقت ایک عظیم روحانی اور اخلاقی انقلاب اور ایک حسین تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے جب اس مَتَاعُ الْحَیوۃ الدنیا کے ساتھ آسمانی برکات شامل ہو جا ئیں اور جب ور لی زندگی کے سامان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہدایت شامل ہو جائے.جب ور لی زندگی کے سامان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے تو کل علی اللہ شامل ہو جائے پھر یہ حیض ورلی زندگی کا سامان نہیں رہتا.پس وہی چیز جو محض ورلی زندگی کا سامان تھا اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ایک تدبیر کی اور اس میں آسمانی برکات کو ملا دیا اور اس کے نتیجہ میں اس لغو سی چیز یعنی ورلی زندگی کے سامان کی شکل بدل دی، اس میں آسمانی ہدایت کو شامل کر دیا اور ور لی زندگی کے سامان کی شکل بدل دی اور توکل علی اللہ کو بیچ میں ملا دیا، انسان کو یہ توفیق دی کہ وہ توکل کر سکے اور وہ جو محض ورلی زندگی کا سامان تھا اسے گویا زمین سے اٹھا کر آسمانوں تک پہنچا دینے کا سامان بنا دیا.ور لی زندگی کا سامان مادی بھی ہے یعنی جو کچھ بھی ہمیں دیا گیا ہے اور جسے محض ورلی زندگی کا سامان کہا گیا ہے اس میں مادی اشیاء بھی شامل ہیں.مثلاً اس مَا أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ میں جو کچھ بھی دیا گیا ہے کھانا ہے، پینا ہے، کپڑا اور لباس ہے کنوینس (Conveyance) کے سامان ہیں گھوڑے گاڑیاں ، موٹریں، ہوائی جہاز وغیرہ اور اب راکٹ بن گیا ہے.اس میں بھی انسان سفر کرنے لگ گیا ہے اور آگے اور ترقی کرے گا.پھر جسم کی طاقتوں کی نشوونما کا سامان ہے.خدا تعالیٰ نے متوازن غذا پیدا کی اور اس کے ہضم کے سامان پیدا کئے لیکن اگر آسمانی برکت شامل نہ ہو اور آسمانی ہدایت شامل نہ ہو تو صحت انسانی بھی انسان کو گمراہی کی راہوں پر چلا دیتی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۴۵ خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۷۶ء ہے.پرانے زمانہ میں جولوگ خوب کھانے والے، دوسروں کا استحصال کر کے کھانے والے اور اپنی صحت کو پوری طرح نشو و نما دینے والے تھے وہ عملی زندگی میں عیاش بن گئے تھے اور انہوں نے عیاشانہ راہوں کو اختیار کر لیا تھا اور جن کے پاس ورلی زندگی کے وہ سامان نہیں تھے یا اس قسم کے نہیں تھے یا تو ان کی عیاشی میں فرق تھا یا وہ اس طرف بالکل توجہ نہیں کر سکتے تھے.ایک مردہ گھوڑا عیش کے احاطوں میں کہاں چھلانگیں لگا سکتا ہے لیکن جب آسمانی ہدایت بیچ میں شامل ہو گئی اور خدا تعالیٰ نے کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا.اگر یہ کرو گے تو میرا غضب تم پر نازل ہوگا اور میرا غضب تم برداشت نہیں کر سکتے اس واسطے میرے غضب سے بچنے کے لئے تمہیں میری ہدایت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور جب انسان نے اس پر عمل کیا تو وہی بے برکت زندگی جس کا انحصار صرف اچھے کھانے پینے اور رہنے سہنے پر تھا وہ بڑی حسین زندگی ، وہ بڑی محسن زندگی ، وہ بڑی پیاری زندگی اور دوسروں کے لئے بڑی خادم زندگی بن گئی.پھر انسان کو جو ذ ہنی استعدادیں عطا ہوئی ہیں وہ بھی فَمَا أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ میں شامل ہیں وہ بھی ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہیں لیکن اگر آسمانی ہدایت شامل حال نہ ہو تو یہ ذہنی استعداد میں بھی محض ورلی زندگی کا سامان ہی ہیں یا ان سامانوں کو پیدا کرنے والی ہیں.انسان کی عقل نے جب وہ خدا کی وحی اور اس کے الہام کی روشنی سے کوری تھی باوجود ایٹم کی طاقت کو پالینے کے اور اس کو دریافت کر لینے کے اس کے غلط استعمال سے انسانوں کی تباہی کے سامان پیدا کر دیئے.پس جہاں تک ذہانت کا سوال تھا ذہانت دی گئی لیکن جہاں تک آسمانی برکات سے محرومی کا نتیجہ تھا اس ذہانت سے اس ورلی زندگی کے ہی سامان پیدا ہوئے.ایک دوسرے کو قتل و غارت کرنے کے بعد اپنی سلطنتوں کو مضبوط بنانے کے سامان پیدا ہوئے جن کا تعلق محض اس ورلی زندگی کے ساتھ تھا اور آسمانی برکتوں سے محرومی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے پیار سے محرومی ظاہر ہونے لگی.پھر انسان کو اخلاقی طاقتیں دی گئی ہیں.بڑے بڑے فلاسفر پیدا ہوئے جنہوں نے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۴۶ خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۷۶ء اخلاق پر کتابیں لکھیں لیکن وہ بالکل پھپھی سی کتابیں ہیں.میں آکسفورڈ میں اخلاقیات کا مضمون بھی پڑھتا رہا ہوں چنانچہ وہ کتب جو آکسفورڈ اور کیمبرج اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں یا اب روس کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ بڑے فخر سے پڑھاتے ہیں وہ لوگ جو دینی علوم سے واقف ہیں جب وہ ان کتب کو پڑھتے ہیں جن پر کہ مغرب فخر کرتا ہے تو وہ ہمیں بدمزہ ہی ، پھسپر سی اور لا یعنی سی کتابیں نظر آتی ہیں.اخلاق کا حسن ان مصنفین کی آنکھوں سے پوشیدہ رہا اور اس کا خول اور میں کہوں گا کہ وہ بھی کرم خوردہ، اُن کے سامنے آیا اور انہوں نے اس کے متعلق لکھنا شروع کر دیا ور بڑی شہرت حاصل کی اور بڑا نام پیدا کیا لیکن وہ مَتَاعُ الْحَیٰوۃ الدنیا تھی ، ان کی شہرت اور ان کی ناموری کا تعلق محض اس ورلی زندگی کے ساتھ تھا اور ور لی زندگی کی چیزیں ، خود ور لی زندگی ہی بھول جاتی ہے.ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا ہوتی ہے اور نئی نسل کے سامنے نئے چٹکلے رکھ دیئے جاتے ہیں اور پرانی باتیں نئی نسل بھول جاتی ہے.ان کتابوں کے نام بھی یاد نہیں رہتے ان کے مضامین بھی یاد نہیں رہتے.صرف وہی چیزیں یاد رکھی جاتی ہیں جو مذہب کی خوبیوں کو بیان کرنے والی ہیں یا جو بگڑی ہوئی انسانی فطرت کی برائیوں کو بیان کرنے والی ہیں کیونکہ انہیں بچے اور حقیقی مذہب کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کے لئے یادرکھنا پڑتا ہے.یہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ انگلستان میں ایک مشہور لبرل مصنف نے غالباً ۱۸۳۶ء میں ایک کتاب لکھی جس میں اس نے بعض پہلوؤں سے ایک مذہب کی بہت گھناؤنی شکل کھینچی کیونکہ اس وقت اس مذہب کے اجارہ دار بھی اس قوم کے استحصال میں شامل تھے.میں اپنی پڑھائی کے سلسلہ میں ایک مضمون لکھ رہا تھا تو اس کتاب کا نام اور لکھنے والے کا نام کسی ضمن میں دیکھا.اس نام سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ ہم احمدیوں کے کام کی کتاب ہے.جب ہم اسلام کا دوسرے مذاہب کے ساتھ موازنہ کریں تو یہ کام آئے گی.چنانچہ وہاں ایک بہت بڑی دُکان بَلَيْكَ وَلز ہے میں اس دکان پر گیا اور میں نے کہا کہ مجھے یہ کتاب چاہیے.وہ کہنے لگے کہ ۱۸۳۶ء کی چھپی ہوئی کتاب جو کہ اپنی ضرورت پوری کر چکی ہے وہ اب کہاں ملتی ہے.اس کو تو
خطبات ناصر جلد ششم ۴۴۷ خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۷۶ء آؤٹ آف پرنٹ ہوئے بھی ایک زمانہ گزر گیا ہے.اس کا ملنا تو بڑا مشکل ہے.میں نے دل میں کہا کہ تمہاری ضرورت اس نے پوری کر دی ہو گی لیکن میری ضرورت تو اس نے پوری نہیں کی.جب اسلام کا دوسرے مذاہب کے ساتھ موازنہ اور مقابلہ کیا جائے تو یہ بڑی کارآمد کتاب ہے.میں نے ان سے کہا کہ اشتہار دو جہاں سے بھی ہو مجھے یہ کتاب منگوا کے دو.مجھے تو اس کے حاصل کرنے میں دلچسپی ہے.خیر! ان کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اشتہار دے کر جہاں سے بھی ملے مجھے سیکنڈ ہینڈ کتاب ڈھونڈ کر دیں گے.چنانچہ انہوں نے ڈھونڈ دی.میں نے وہ بڑی سنبھال کر رکھی ہوئی ہے اور بعض لوگوں کو میں اس کے بعض حصے پڑھا تا رہتا ہوں.اس وقت بڑی محنت کر کے مَتَاعُ الْحَيوةِ الدُّنْیا کی خاطر وہ کتاب لکھی گئی یعنی وہ کتاب محض سیاسی غرض کے حصول کے لئے لکھی گئی تھی لیکن جب اسلام کے ساتھ تعلق رکھنے والی آسمانی برکات کا سوال پیدا ہوا اور دوسرے مذاہب کے ساتھ موازنہ کا سوال پیدا ہوا تو اس غرض کے لئے وہ آج ہمارے کام کی کتاب ہے.جیسا کہ بدصورت چہرہ خوبصورت کے حسن کو اُجاگر کرتا ہے.پس آسمانی برکات کا یہ پہلو کہ اسلام کے مقابلے میں جو چیز ہے جو آسمانی برکات سے محروم ہے وہ حسین نہیں ، وہ خوبرو نہیں، وہ خوبصورت نہیں ، وہ مفید نہیں ، وہ محسن نہیں.اس مقابلہ اور موازنہ کے لئے وہ بڑی مفید کتاب ہے.آسمانی ہدایت کو روشن کر کے اور اس کے حسن کو ظاہر کر کے بعض مضامین لکھنے کے لئے اس کتاب کی ضرورت تھی اور اس طرح طفیلی طور پر اس کی بقا کا سامان موجود تھا.روحانی قوتوں اور استعدادوں کا اگر چہ مَتَاعُ الْحَیوۃ الثانیا کے ساتھ تعلق نہیں ہے لیکن تعلق ہے بھی جب کہ روحانیت بگڑ جائے مثلاً بہتوں نے مذہب کو روزی کمانے کا ذریعہ بنالیا.قرآن کریم نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے کہ تم نے اسلامی ہدایت کے انکار کو اپنے پیٹ پالنے کا ذریعہ بنالیا ہے.پس جب روحانیت محض نام کی ہو اور آسمانی برکات اس میں شامل نہ ہوں تو وہ روحانی استعداد یں بھی متاع الحیوۃ الدنیا بن جاتی ہیں.پس قرآن کریم کی صداقت بالکل ظاہر ہے کہ فَمَا أُوتِيتُم مِّن شَی ءٍ تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے خواہ وہ روحانی استعداد میں ہی کیوں نہ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۴۸ خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۷۶ء ہوں اس کا فائدہ کچھ نہیں مَتَاعُ الْحَیٰوۃ الدنیا اس سے تو اس ورلی زندگی کا سامان ہی ملے گا اور جو اصل غرص ہے وہ پوری نہیں ہوگی.اس آیت کے شروع میں ایک بنیادی حقیقت بیان کی گئی ہے جو کہ اس کائنات کی بنیاد ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ ورلی زندگی کا سامان ہے لیکن اس بنیادی حقیقت کے بیان کے بعد اس سے بھی اہم اور سچی حقیقت بیان ہوئی ہے فرمایا.وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَ ابْقَى لِلَّذِيْنَ امَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ کہ خدا تعالیٰ نے ایک اور سامان بھی پیدا کیا ہے جو آسمانوں سے نازل ہوتا ہے.وہ ہر کس و ناکس کے لئے موجود نہیں رہتا بلکہ جس پر اللہ تعالیٰ فضل کرے اور جس کو وہ اپنی رحمت سے نوازے ان کے لئے ملائکہ یہ سامان لے کر آتے ہیں اور جن پر اللہ تعالیٰ فضل کرے اور جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازے وہ اس ورلی زندگی کے مادی سامانوں کی کا یا پلٹ کر ان کی ہیئت کذائی بدل کر انہیں ایک نہایت ہی بدلی ہوئی چیز بنا دیتے ہیں جس کا تعلق صرف حیات دنیا سے نہیں بلکہ حیات ابدی کے ساتھ بھی ہے.ایمان کے لفظ میں یہ اشارہ کیا کہ آسمان سے ہدایت نازل ہو گی تبھی تو اس پر ایمان لانا ہے.انسانی تاریخ میں ہمیں ایمان ایمان میں فرق نظر آتا ہے.پہلے انبیاء پر جو شریعتیں نازل ہوئیں ان پر ایمان لا کر اس وقت کے متاعُ الحيوةِ الدُّنْيَا کو روحانی، اخلاقی اور اگلی زندگی کے سامانوں میں تبدیل کرنے کے لئے مواد تھا لیکن وہ اس پائے کا نہیں تھا.پھر انسانی ذہن آہستہ آہستہ ارتقائی مدارج طے کر کے آخر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ تک پہنچ کر کامل شریعت کا حامل ہوا اور ایک کامل اور مکمل شریعت کو اس وقت کے انسان نے اور بعد میں آنے والی نسلوں نے حاصل کیا اور پھر اتمام نعمت ہو گیا.اس سے قبل پہلے انبیاء کے ذریعہ سے نعمت تو ملی تھی مگر ا تمام نعمت نہیں تھا.اتمام نعمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا.آپ کی لائی ہوئی شریعت نے فَمَا أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ کے مطابق جو کچھ بھی انسان کو ملا تھا جو کہ محض مَتَاعُ الحیوۃ الدنیا تھا اس کی ہر چیز اور ہر شے کے ہر پہلو کو بدل کر اسے اخروی زندگی کے سامان میں تبدیل کر دیا.پھر ایک سچے اور حقیقی مسلمان کے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۴۹ خطبہ جمعہ کے رمئی ۱۹۷۶ ء لئے وہ محض مَتَاعُ الحیوۃ الدنیا نہیں رہا بلکہ ابدی زندگی کا ہمیشہ رہنے والی زندگی کا سامان ان کے لئے پیدا ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انسان کو آسمانی شریعت ملی ، جب آسمان سے ہدایت نازل ہوئی تو اس نے تقاضا کیا کہ اس پر ایمان لاؤ اور جیسا کہ جب وقت ہوتا ہے،موقع آتا ہے اور ایمان کے متعلق بات ہوتی ہے تو ہم ہمیشہ ہی بتاتے ہیں کہ ایمان کے تین پہلو ہیں.عقیدہ کے لحاظ سے ایمان ، صدق دل کے لحاظ سے ایمان اور عمل کے لحاظ سے ایمان یعنی عقل اور دل بھی مانتا ہو کہ یہ بات سچی ہے اور عقیدہ بھی اس کے مطابق ہو اور عمل بھی اس کے مطابق ہو.جس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف نوع انسانی کی طرف مبعوث ہوئے تو کامل شریعت آگئی ، اس کامل شریعت نے ہر اس چیز کو جس کے متعلق آیت کے شروع میں کہا گیا تھا کہ وہ مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا یعنی محض ورلی زندگی کے سامان ہیں اسے بدل کر اُخروی زندگی کے سامان بنادیا.انسان شمار نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ نے اس کو کتنی طاقتیں دیں اور کن کن رنگوں میں اس نے ان کو استعمال کرنا ہے لیکن اگر انسان خدا تعالیٰ کی ہدایت کے نور میں اپنے آپ کو لپیٹ لے تو ہمارا کھانا ، ہمارا پینا، ہمارا پہننا، ہمارا رہنا سہنا ، ہماری ہر حرکت اور ہمارا ہر سکون غرضیکہ ہر قوت اور استعداد کا ہر پہلو اُخروی زندگی کا سامان بن جاتا ہے.پھر وہ محض ورلی زندگی کا سامان نہیں رہتا لیکن ایمان کے اندر بعض کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.وہ اس طرح پر کہ شیطانی وسوسہ آتا ہے اور انسان میں کئی خامیاں پیدا ہو جاتی ہیں مثلاً خود نمائی یا اپنے نفس پر تو گل یا اپنی اس حقیری قربانی پر بھروسہ کر لینا ہو جو انسان خدا کے حضور پیش کرتا ہے.اس وقت ایمان ایک بگڑا ہوا ایمان ، کرم خوردہ ایمان، بے جان ایمان اور بے روح ایمان بن جاتا ہے.اس لئے فرمایا کہ توکل بڑا ضروری ہے محض ایمان کا فی نہیں.اپنے نفس کے کسی پہلو پر بھی اپنی طاقت کی کسی بڑائی پر بھی بھروسہ نہیں کرنا بلکہ بھروسہ محض خدا پر اور محض خدا پر کرنا ہے.اللہ پر جس نے کہ ہمیں یہ سب کچھ دیا اور جس کے فضل کے بغیر ہم ان سامانوں کا صحیح استعمال نہیں کر سکتے جس کے فضل کے بغیر ہم صیح نتائج نہیں نکال سکتے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۵۰ خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۷۶ء جس کے فضل کے بغیر ہم اس کی رضا کی جنتوں کو نہیں پاسکتے.وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور ان کے ایمان کی روح مردہ نہیں ہوتی بلکہ زندہ ہوتی ہے ان کے ایمان کی روشنی میں اندھیروں کی ملاوٹ نہیں ہوتی بلکہ خالص نور ہوتا ہے، اُن کے ایمان کے کسی پہلو میں خود نمائی، خودستائی اور خود پرستی اور اپنے آپ کو کچھ سمجھنے کا کوئی پہلونہیں ہوتا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایسا انسان سب کچھ کرنے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا کیونکہ سب کچھ کرنے کے بعد جو کچھ کیا اگر وہ خدا کی نگاہ میں مقبول نہیں ہوا تو اُس نے کچھ بھی نہ کیا اور جب انسان سب کچھ کرنے کے بعد سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا تو نتیجہ پھر بھی خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر منحصر ہے.پس وہ لوگ کامل تو گل کی راہ کو اختیار کرتے ہیں تب وہ جو محض مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا تھا اس کی شکل بدل جاتی ہے اور ابدی زندگی کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں جہاں ٹھہر نا کہیں نہیں.قرآن کریم میں بھی اور قرآن کریم کی اس تفسیر میں بھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی بڑی وضاحت سے یہ آیا ہے کہ جنتوں میں بھی کوئی صبح پہلی شام کے برابر نہیں ہوگی بلکہ وہ صبح اس سے زیادہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر رہی ہوگی ہر دو پہر صبح سے آگے اور ترقی یافتہ ہوگی اور ہر شام دو پہر سے آگے ہوگی.خدا تعالیٰ کے پیار کوزیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ایک غیر متناہی سلسلہ ہو گا.عمل ہوگا امتحان کے بغیر ! خدا تعالیٰ کے پیار میں زیادتی کو جذب کرنے والا ، خدا تعالیٰ کی محبت کو اس کی رحمت کو اس کے نور کو اور بھی زیادہ حاصل کرنے والا عمل.وہ کیا ہوگا ہمیں نہیں معلوم اس دنیا میں.لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ چیز جو اپنے نفس میں محض مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْیا تھی اس میں کتنی عظیم تبدیلی پیدا ہوئی کہ اس نے ابدی زندگی کے سامان پیدا کر دیئے.غرض ہر چیز جو خدا نے ہمیں دی ہے اس کا ایک پہلوتو یہ ہے کہ سوائے اس ورلی زندگی کے وہ اور کسی کام کی نہیں اور پھینک دینے کے قابل ہے لیکن ایک پہلو یہ ہے کہ ہر چیز کا استعمال خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق استعمال ، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے استعمال، وہ استعمال
خطبات ناصر جلد ششم ۴۵۱ خطبہ جمعہ ۷ رمئی ۱۹۷۶ء جس کے بعد خدا تعالیٰ پر توکل پیدا ہوتا ہے ایسا استعمال انسان کی زندگی کو بالکل بدل ڈالتا ہے اور اس کے لئے آسمانی خیر و برکت اور روحانی ترقیات اور اس دنیا اور اُس دنیا کی جنتوں کے سامان پیدا کر دیتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو یہ عظیم شریعت اور ہدایت ہماری طرف لے کر آئے جس نے اس مَتَاعُ الْحَیوۃ الدنیا میں اتنی عظیم اور انقلابی تبدیلی پیدا کر دی کہ اس عظیم شریعت کو چھوڑ کر اور اس عظیم تبدیل شدہ متاع کو چھوڑ کر ہم محض مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنیا کی طرف محض دنیا کے سامانوں کی طرف جھک جائیں گے؟ کوئی سمجھ دار، کوئی مخلص، کوئی خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھنے والا احمدی تو ایسا نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ ہم اسی کے فضل اور اس کی رحمت سے ہر اس چیز کو کہ اگر اس کا فضل نہ ہو تو وہ محض مَتَاعُ الحیوۃ الدنیا ہے اور چھونے کے قابل بھی نہیں.اللہ کی رضا کی جنتوں کے حصول کا ذریعہ بنالیں اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور اس کی بتائی ہوئی ہدایت اور اس کی قائم کردہ تو گل کی راہوں پر چل کر ہم ہر چیز کی کنہہ کو بدل دیں اور جو چیز مَتَاعُ الحَيوةِ الدُّنْیا تھی وہ ہماری زندگیوں کے لئے ، ہماری نسلوں کے لئے اور نوع انسان کے لئے ابدی حیات کے سامان پیدا کرنے والی بن جائے.اللهم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ جون ۱۹۷۶ء صفحه ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ششم ۴۵۳ خطبہ جمعہ ۱۴ رمئی ۱۹۷۶ء جماعت احمد یہ مخلصین کی ایسی جماعت ہے جس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۴ رمئی ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جماعت احمد یہ مبائعین خلافت کامالی سال کم می کو ختم ہوتا ہے لیکن چونکہ بہت سے مخلصین جماعت کو اُن کی تنخوا ہیں ، گذارے یا دوسری آمدنیاں جن کا تعلق اپریل سے ہوتا ہے مئی کے شروع میں ملتی ہیں.اس لئے ہماری روایت یہ ہے کہ جہاں تک اخراجات کا سوال ہے ۳۰/اپریل کو مالی سال ختم ہو جاتا ہے لیکن جہاں تک آمد کا سوال ہے مئی کے کچھ دن رکھے جاتے ہیں جن میں پچھلے سال کی آمد آتی رہتی ہے اور پچھلے سال کے حساب میں پڑتی رہتی ہے اس طرح پر آمد کا سال عملاً ۱۰ رمئی کو ختم ہوتا ہے اور جو ر تمیں ۱۰ رمئی تک آتی ہیں اُن کا تعلق سال گذشتہ کے چندوں سے ہوتا ہے.کچھ عرصہ ہوا غالباً ڈیڑھ دو ماہ پہلے کی بات ہے کہ بجٹ کے پورا ہونے میں خاصی کمی تھی.اُس وقت میں نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ ناظر صاحب بیت المال آمد، جماعت کو ایک اور نگاہ سے دیکھتے ہیں اور خلیفہ وقت کی نگاہ کچھ اور دیکھ رہی ہوتی ہے.میں نے بتایا تھا کہ اس سلسلہ میں مجھے فکر اور تشویش نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۵۴ خطبہ جمعہ ۱۴ مئی ۱۹۷۶ء قوت قدسیہ کے نتیجہ میں (جس کا پھیلاؤ قیامت تک ہے ) مہدی کے ذریعہ مخلصین کی ایک ایسی جماعت پیدا ہو چکی ہے جن کا قدم آگے ہی بڑھتا ہے کبھی ایک جگہ ٹھہرتانہیں پیچھے ہٹنے کا تو سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.غرض ۱۰ رمئی کو آمد والے حساب میں کھاتے بند ہوئے تو ہمیں پتہ لگا کہ گذشتہ سال کے مقابلہ میں یعنی مالی سال برائے ۷۵.۱۹۷۴ ء کا جو بجٹ تھا اس کے مقابلہ میں قریباً ۲۰ فیصد سے بھی زیادہ آمدنی ہوئی ہے یہ ہے مخلصین کی جماعت جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اخلاص اور محبت کے ساتھ اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اس میدان میں بھی اموال کی قربانی دے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول بھی کر رہا ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے جو لوگ مالی قربانیاں دے رہے ہیں وہ نسبت کے لحاظ سے اگر چہ پہلے سال سے ۲۰ فیصد سے بھی زیادہ مالی قربانی دینے والے ہیں لیکن جو مالی سال گزرا اور دوستوں نے مالی قربانی دی تو اُن کی اس مالی قربانی کی قبولیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل ہر پہلو سے جو ظاہر ہوئے ، وہ ۲۰ فیصد نہیں بلکہ اُن کی زیادتی کا کوئی شمار نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے ( دُنیا کی نگاہ میں اس دھتکاری ہوئی لیکن ) خدا کی نگاہ میں مقبول جماعت کی کوششوں میں اپنے فضل سے اتنی برکت رکھ دی کہ چاروں طرف ہمیں خدا کی رحمتوں کی بارشیں نازل ہوتی نظر آ رہی ہیں.دنیا کے کونے کونے میں خدا تعالیٰ کے فضل موسلا دھار بارش کی طرح نازل ہوتے رہے اور یہ فضل بذات خود ایک زبر دست دلیل ہیں مہدی علیہ السلام کی صداقت کی اور جماعت احمدیہ کے مقبول عمل کی کہ کوئی دیندار جماعت اس کا انکار نہیں کرسکتی.ایک مادی فضل اور رحمت اس مادی قربانی کے مقابلہ میں تو ہمیں یہ نظر آئی کہ جو پچھلے مالی سال کے شروع میں میں نے گوٹن برگ ( سویڈن ) میں جس مسجد کی بنیاد رکھی تھی اس پر قریباً ۲۰، ۲۵ لاکھ روپے خرچ کا اندازہ ہے وہ ایک سال کے اندر قریباً مکمل ہو گئی ہے.اس کی بلڈنگ کی ۱۵ را پریل کی جو تصاویر میرے پاس پہنچی ہیں اور اس کے ساتھ جو ر پورٹ آئی ہے وہ یہ بتاتی ہے کہ چھتیں قریباً پڑ چکی ہیں اور خدا کے فضل سے یہ کام بڑی جلدی ختم ہونے والا ہے.کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ نے مثال دی اُن جماعت ہائے احمدیہ کی مقبول قربانیوں
خطبات ناصر جلد ششم ۴۵۵ خطبہ جمعہ ۱۴ رمئی ۱۹۷۶ء کی جو پاکستان سے باہر رہنے والے ہیں اور بات کر رہے تھے آپ پاکستان کی جماعت ہائے احمدیہ کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح پاکستان کے احمدیوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال کی بڑھ چڑھ کر قربانی دی اُسی طرح بڑھ چڑھ کر باہر والوں نے بھی مالی میدان میں قربانی دی.ابھی دو چار دن کی بات ہے غانا سے یہ رپورٹ آئی ہے کہ وہاں ایک جلسے کے موقع پر جو چندہ اکٹھا ہوا ہے (وہاں جلسوں کے موقعوں پر ہر جماعت کے عہدیدار اپنے چندے اکٹھے کرتے ہیں ) وہ اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں ۳۰ فیصد سے بھی زیادہ تھا.اسی طرح انگلستان کی جماعت ہائے احمدیہ کے چندوں میں بھی اضافہ ہوا ہے.افریقہ کی ساری جماعتوں سے بھی یہی رپورٹیں آرہی ہیں پھر امریکہ ہے اس کی بھی یہی رپورٹ ہے یورپ کی جماعتوں کی بھی یہی رپورٹ ہے اور یہ تو میں نے بتایا ہے ہمارے جہاد کا ایک معمولی سا حصہ ہے دوسرے میدانوں کے بھی جہاد ہیں.دوست خدمت دین کے لئے وقت دیتے ہیں اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں تبلیغ کی طرف توجہ دے رہے ہیں.ساری دنیا میں خدا کی راہ میں بڑی حقیر قربانیاں ہیں جو پیش کی جا رہی ہیں اور بڑی عظیم مقبولیت ہے جو ان قربانیوں کو حاصل ہو رہی ہے.افریقہ میں بہت سی جگہوں پر بڑی بڑی مساجد گزشتہ سال بن گئیں یا زیر تعمیر آگئیں اور اگلے سال مکمل ہو جائیں گی.خود پاکستان میں باوجود اس کے کہ بعض جگہ عقل سے دور جو روکیں ہیں وہ ہماری راہ میں حائل کی جارہی ہیں مگر خدا تعالیٰ توفیق دے رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی اس پر توفیق کے نتیجہ میں جہاں جہاں ضرورتیں ہیں وہاں مساجد بن رہی ہیں.مساجد کے متعلق اس وقت ضمنی طور پر بات آگئی ہے تو میں مختصر ابتا دوں کہ اصل مساجد وہ ہیں جن کے اندر مسجد کی روح پائی جاتی ہے اسی لئے قرآن کریم نے فرما یا لَمَسْجِدُ اسّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ (التوبة: ۱۰۸) یعنی وہ مسجد کہ جس کی پہلے دن سے تقویٰ پر بنیا د رکھی گئی ہے اور یہی تقوی مسجد کی رُوح ہے اس کے لئے منبر اور محراب گنبد اور مینار کی ضرورت نہیں ہے.ہمارے لئے جو سب سے زیادہ مطہر اور مقدس مسجد ہے وہ وہ مسجد ہے جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ساری مدنی زندگی میں نمازیں پڑھتے رہے لیکن اس میں نہ کوئی محراب تھی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۵۶ خطبہ جمعہ ۱۴ رمئی ۱۹۷۶ء اور نہ گنبد تھا اور نہ اس کے مینار تھے.کھجور کے درختوں کے ستون تھے کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں کی چھت تھی جو بارش میں ٹپک پڑتی تھی لیکن اس کے باوجود اس مسجد کی جو طہارت اور نقدیس ہے اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی اور مسجد نہیں کر سکتی.یہ ہے مسجد جسے اللہ تعالیٰ نے ( اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ ) ( الجن : ۱۹ ) کہا ہے کہ مساجد کی ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے.انسان ان مساجد کا مالک نہیں ہوتا اور نہ ہی قرآن کریم کی رو سے کسی شخص کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ مساجد کے دروازے موحدین یعنی خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے والوں پر بند کر دے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عیسائی وفد آیا اُن کی عبادت کا جب وقت آیا تو وہ باہر جانا چاہتے تھے.یہ عیسائیوں کے اُس فرقے کے لوگ تھے جو موحدین تھے یعنی تثلیث کے قائل نہیں تھے.غرض آپ نے اُن سے فرما یا تمہیں باہر جانے کی کیا ضرورت ہے.مَسْجِدِئ هذا یہ میری مسجد ہے اس میں تم اپنی عبادت کرلو چنا نچہ اُنہوں نے وہاں عبادت کی.مسجد نبوی جو دنیا کی سب سے زیادہ مقدس اور پاک مسجد ہے اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کو عبادت کرنے کی اجازت دی اور اس اسوۂ نبوی سے یہ ثابت ہوا کہ مساجد خدا کے گھر ہیں اور خدا کے گھر توحید باری کو قائم کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں اور مساجد کے دروازے موحدین کے لئے ہر وقت کھلے رہتے ہیں.پس وہ مساجد جن کے اندر خدا کے فضل سے مسجد کی روح باقی ہے اور حیات بخش ہیں روحانی طور پر ، ان مساجد کو محراب اور گنبد اور میناروں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی.غرض مسجد میں عملاً مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی بنیاد ہوتی ہیں اور یہی اُن کی ایک بہت بڑی غرض ہے اس لئے جہاں بھی اور جو بھی مسجدیں بنیں وہ وہی حقیقی اور سچی مساجد ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے.لَمَسْجِدٌ أَيْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ یا اس کے طفیل اور اس کے تابع جو دوسری مساجد ہیں جو اسی کی نہج پر بنائی جائیں اور اسی ایثار کے جذبہ کے ساتھ بنائی جائیں یعنی کچھ لوگ اپنی غربت کے باوجود خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیتے ہوئے خدا کا گھر اس لئے تیار کر دیں تا کہ وہاں خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کی جاسکے.
خطبات ناصر جلد ششم ۴۵۷ خطبہ جمعہ ۱۴ رمئی ۱۹۷۶ء غرض باہر بھی اور یہاں بھی مالی قربانی کے علاوہ دوسرے میدانوں میں بھی جماعت احمدیہ نے بڑی قربانیاں دی ہیں مثلاً تبادلۂ خیال ہے.ہمارے ملک میں بھی اور باہر بھی جماعت کے متعلق ایک جستجو پیدا ہو چکی ہے.لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ساری دنیا ہی اکٹھے ہوکر احمدیوں کے خلاف کھڑی ہو گئی ہے چنانچہ جب وہ نیک نیتی کے ساتھ تبادلۂ خیال کرتے ہیں تو ہزار ہا لوگ ہیں جو ہر سال جماعت احمدیہ میں داخل ہوتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ تو شرم آتی ہے کہ ہمارے پاکستان میں بعض علاقوں میں ہزار ہانئے احمدی ہور ہے ہیں اور اُن کو تبلیغ کرنے والے زیادہ تر خود نئے احمدی ہوتے ہیں اور جو پرانے احمدی ہیں وہ اس طرف پوری تو جہ نہیں کرتے.وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے حصول میں غفلت برت رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو بیدار کرے اور اپنے فضل کے حصول کے سامان اُن کے لئے بھی پیدا کرے.یہ ہے مخلصین کی جماعت جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کے لئے تیار کی جس کے لئے آپ نے بڑے پیار سے ”ہمارا مہدی“ کے الفاظ فرمائے تھے گویا یہ جماعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مہدی کی جماعت ہے اس مہدی کی جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی کامل پیروی میں اور آپ کی بشارات کے مطابق خدا تعالیٰ سے جو معلم حقیقی ہے، علم قرآن سیکھا اور روحانی اسرار سیکھے اور آج کی دنیا کے جو مسائل تھے اُن کو حل کرنے کے لئے جن علوم کی ضرورت تھی وہ سیکھے.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے مہدی معہود علیہ السلام کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا لیکن جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے الہی سلسلوں میں منافقین کی ایک جماعت بھی موجود رہتی ہے جس کے بہت فوائد ہیں.منافقین کے وجود کے نتیجہ میں جماعت کا وہ حصہ جو زندہ اور بیدار ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والا اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے، اُسی پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ہم میں بھی منافقین ہیں لیکن ہمیں خدا نے یہ کہا ہے کہ تم فراست سے کام لو اور بیدار ہو کر اور اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے اُن کے فتنوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہا کر ولیکن تو کل اللہ پر رکھو.اگر تم خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والے ہو گے تو جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے معاندین
خطبات ناصر جلد ششم ۴۵۸ خطبہ جمعہ ۱۴ رمئی ۱۹۷۶ء کے شر سے الہی سلسلوں کو محفوظ کیا جاتا ہے اُسی طرح نفاق کے جو شر ہیں ، اُن سے بھی الہی سلسلوں کو محفوظ کیا جاتا ہے اور اُن سے حفاظت کی جاتی ہے لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ جماعت اُن ذمہ داریوں کو نباہنے والی ہو جو ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے نفاق سے بچنے کے سلسلہ میں مخلصین کے کندھوں پر ڈالی ہوتی ہیں.پس ہمارا فرض ہے کہ فساد سے بچتے ہوئے ، قانون کی پابندی کرتے ہوئے ایسی راہیں اختیار کریں جو قرآنِ کریم نے ہمارے سامنے رکھی ہیں تا کہ ہم جماعت کو منافقین کے شر سے محفوظ رکھ سکیں.یہ کام اللہ تعالیٰ ہی کے فضل کے ساتھ ہوسکتا ہے کیونکہ آخری کامیابی خدا کے فضل اور رحمت کے بغیر ممکن نہیں ہے بہر حال یہ سانپ تو ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے اور ہمیشہ ڈسنے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم اُس کے دامن کو نہیں چھوڑیں گے تو خدا کا فضل ہمیں اس سے محفوظ کر دے گا.دراصل میں اس وقت جماعت کی مالی قربانیوں کا ذکر کر رہا ہوں جس کے نتیجہ میں میرا دل خدا کی حمد اور اس کے پیار سے معمور ہے اور احباب جماعت کے دل بھی اس کی حمد سے معمور ، ہونے چاہئیں.دیکھو ساری دنیا نے پہلے سے زیادہ ہمیں دھتکارا، پہلے سے زیادہ ہمیں بُرا بھلا کہا پہلے سے زیادہ ہمارے خلاف جھوٹ اور بہتان باندھا گیا پہلے سے زیادہ ہمیں دنیا میں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی لیکن خدا تعالیٰ نے پہلے سے کہیں زیادہ ہم پر اپنے فضلوں کو نازل کیا اور جماعت احمد یہ کو اپنے مقصد کے حصول کے لئے جن راہوں پر اُس نے چلا یا تھا اور درحقیقت وہ ایک ہی راہ ہے یعنی غلبہ اسلام کی شاہراہ.اس شاہراہ پر ہماری حرکت کو سست نہیں ہونے دیا بلکہ جو گزرا ہوا سال ہے اُس میں بھی ہماری حرکت شاہراہ غلبہ اسلام پر زیادہ شدت اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی رہی ہے اور ہم اُمید رکھتے ہیں اپنے رب سے اور ہم دعائیں کرتے ہیں اپنے رب سے اور اسی پر ہمارا تو کل اور بھروسہ ہے کہ آنے والے سال میں بھی وہ ہمیں پہلے سے زیادہ اپنی محبت اور پیار اور اپنی رضا سے نوازتا رہے گا اور ہمیں اپنی آخری کامیابی کے زیادہ قریب کر دے گا جو سال بسال
خطبات ناصر جلد ششم ۴۵۹ خطبہ جمعہ ۱۴ رمئی ۱۹۷۶ء نسبت ہے اس لحاظ سے بھی زیادہ قریب کر دے گا تا کہ وہ دن ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ہوں جس دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ہر انسان گواہی دینے لگے اور خدائے واحد و یگانہ کا جھنڈا ہر گھر کے اوپر ہمیں لہراتا ہوا نظر آنے لگے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہوا اور خدا کرے کہ ہم اپنی کسی غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں اُس کی ناراضگی کو مول لینے والے نہ بن جائیں بلکہ ہمیشہ ہی اُس کے پیار کے جلوے، اُس کی رضا کے جلوے اور اس کی متضرعانہ قدرتوں کے جلوے ہم پر ظاہر ہوتے رہیں اور جس غرض کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تھا یعنی یہ کہ ساری دنیا کو اُمتِ واحدہ بنا دیا جائے اور یہ غرض آپ کے روحانی فرزند مہدی معہود علیہ السلام کے زمانہ میں پوری ہوئی تھی.خدا کرے کہ یہ غرض اور یہ مقصد جلد حاصل ہو جائے اور نوع انسانی کو امن اور آشتی کی زندگی گزارنے کا موقع میسر آ جائے.اللَّهُمَّ آمِینَ.روزنامه الفضل ربوه ۲۹ جون ۱۹۷۶ ، صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ششم ۴۶۱ خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۷۶ء اللہ تعالیٰ نے اپنے تحرب کی راہیں معین کر دی ہیں انہیں اختیار کر کے ہی الہی قرب ورضا کا مقام حاصل کیا جا سکتا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۱ رمئی ۱۹۷۶ ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - (المائدة : ٣٦) اس کے بعد فرمایا :.اس دنیا میں ہر انسان فلاح اور کامیابی کی خواہش اور تمنا رکھتا ہے لیکن ہر انسان فلاح اور کامیابی کو حاصل نہیں کیا کرتا اور نہ ہر انسان کو ان راہوں کا علم ہوتا ہے یا اپنے طور پر ہو سکتا ہے جو را ہیں کہ کامیابی کی طرف لے جانے والی اور ناکامیوں کے دروازے بند کرنے والی ہیں.مثلاً بہت سے لوگ بددیانتی اور کرپشن (Corruption) کے ذریعہ سے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، بہت سے لوگ جھوٹ بول کر اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، بہت سے لوگ مال حرام کے ذریعہ کا میابیاں پانا چاہتے ہیں.اسی طرح بیبیوں ایسی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ انسان راہِ (مستقیم ) سے بھٹک جاتا ہے اور ان راہوں کو اختیار کرنے لگتا ہے جو کامیابی کی طرف نہیں لے جاتیں بلکہ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۶۲ خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۷۶ء ناکامی کی طرف لے جانے والی ہیں.دنیا میں بے شمار ایسی مثالوں کا پایا جانا (یعنی جن کا انسان شمار نہیں کرسکتا ) اور دنیا کے ان حصوں میں بھی پایا جانا جن کے رہنے والے دنیا میں بہت عقلمند سمجھے جاتے ہیں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان اپنی کوشش اور اپنی عقل سے فلاح اور کامیابی کے حصول کے ذرائع کو معلوم نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لئے آسمانی ہدایت کی ضرورت ہے.قرآن کریم نے کامیابیوں کے حصول کے لئے متعدد جگہ مختلف پہلوؤں سے صداقت و ہدایت کی راہوں کی نشاندہی کی ہے اور ان راہوں کو روشن کیا ہے اور ان کی طرف انسان کی رہنمائی کی ہے اور ان کی برکتوں کی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے.اس وقت جو مختصر سی آیت میں نے پڑھی ہے اس میں اس سلسلہ میں ایک حسین مضمون بھی بیان ہوا ہے.” بھی میں اس لئے کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں اور ہر بطن اس کے حسن کو دوبالا کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری حقیقی کامیابی اس بات میں ہے کہ تم ان راہوں سے پر ہیز کرتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ان بدعقائد اور بد اعمال سے بچتے ہوئے جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور قہر نازل ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے حضور وہ چیز پیش کرو جو اسے پسند ہو اور اس کی پناہ میں آجاؤ اپنی حفاظت کے لئے اسے اپنی ڈھال بنا لو اور اسے اپنی کامیابی کا ذریعہ بنا لو تو تب تم کامیاب ہو گے اور ایک ایسی کامیابی تمہیں حاصل ہوگی جس سے بڑھ کر کسی کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.فلاح کے معنی عربی میں عظیم کا میابی کے ہوتے ہیں.یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ اے ایمان کا دعوی کرنے والو! نا کامیوں سے بچنے میں اپنی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ کو اپنی پناہ بنا لو اور اس کو اپنی ڈھال بنا لو وَ ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ اور ڈھال اس طرح بناؤ کہ اس کے قرب کی راہوں کو تلاش کرو.زبانی دعوؤں سے تو اللہ تعالیٰ کسی کی ڈھال نہیں بن سکتا بلکہ اس کے قرب کی راہیں معین ہیں اور ان معین راستوں کو اختیار کر کے ان راہوں پر چل کر اللہ تعالیٰ انسان کو اس مقام تک پہنچادیتا ہے جو مقام کہ اس کے قرب کا مقام اور اس کی رضا کا مقام ہے.وَسِيلَة کے لئے تین طریقے بیان کئے گئے ہیں اور وہ اس مضمون کو ظاہر کرتے اور اس کو نمایاں کرتے ہیں.وسيلة “ کے معنی ہیں خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنا اور اس کے لئے جو
خطبات ناصر جلد ششم ۴۶۳ خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۷۶ء راہ اور جو ذریعہ ہے وہ ایک تو علم و معرفت ہے اور دوسرے عبادت ہے اور تیسرے ہے مکارم شریعت کو اختیار کرنا.جیسا کہ دوسری جگہ بتایا ہے علم و معرفت، خدا تعالیٰ کی ذات کو پہچاننا اور اس کی صفات کا عرفان رکھنا بہت ضروری ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں جو تقاضے پیدا ہوتے ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے عبادت اور مکارم کے لباس میں خود کو ملبوس کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے.وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ قرب اور وسیلہ کے حصول کے لئے جو راستہ اور سبیل ہے وہ تین قسم کی ہے.ایک تو صحیح روحانی علم کا حاصل ہونا، معرفت کا حاصل ہونا ، دوسرے خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر اس کی عبادت کرنا اور تیسرے شریعت حقہ اسلامیہ کے مکارم کو اختیار کرتے ہوئے اپنی روح اور اپنے ذہن اور اپنے عمل اور اپنے عقیدہ میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کرنا.ان تین چیزوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انسان کی ڈھال بن جاتا ہے اور اسے اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے.اگر انسان کو خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت نہ ہو تو اس نے خدا کو پہچانا ہی نہیں اس لئے اس کے قرب کی راہوں کی تلاش وہ صحیح معنی میں کر ہی نہیں سکتا.اسی لئے آپ کو دنیا میں ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے جو زبان سے تو یہ دعویٰ کر رہے ہوں گے کہ وہ خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرتے ہیں اور اس کی وحدانیت کی معرفت رکھنے والے ہیں لیکن وہی لوگ جب مقبروں میں جاتے ہیں تو قبروں کو سجدہ کرنے لگ جاتے ہیں اور جب اپنے بزرگوں کے پاس جاتے ہیں تو انہیں ارباب سمجھنے لگ جاتے ہیں اور ان کی پرستش شروع کر دیتے ہیں.ہزار بت اپنے سینوں میں اُنہوں نے سجائے ہوئے ہیں اور ہزار بت کے گردان کا طواف ہے اور زبان سے یہ دعویٰ بھی ہے کہ ہم خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے ہیں.یہ تضاد ہمیں اس لئے نظر آتا ہے کہ بنیادی طور پر انہیں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت حاصل نہیں اور چونکہ انہیں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا ، اس کے احد ہونے کا عرفان ہی حاصل نہیں اس لئے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت اور اس کا علم جن باتوں کا تقاضا کرتا ہے وہ اس کو پورا نہیں کرتے اور پورا کر ہی نہیں سکتے کیونکہ انہیں علم ہی نہیں کہ خدائے واحد و یگانہ کی معرفت کے بعد انسان پر کیا ذمہ داریاں عائد
خطبات ناصر جلد ششم ۴۶۴ خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۷۶ء ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ رب ہے نیز قرآن کریم نے دوسری بہت ساری صفات بیان کی ہیں جن کا تعلق انسان کی زندگی کے ساتھ ہے ان میں سے بعض بنیادی ہیں اور بعض ان سے تعلق رکھنے والی ہیں.اس کے ساتھ ہی یہ کہا کہ میری صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرو اور میری صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ.اب اگر انسان رب کی ربوبیت کا علم ہی نہیں رکھتا ، اسے اس کی معرفت ہی حاصل نہیں.اس رنگ کو وہ پہچانتا ہی نہیں تو اپنی ذات پر اور اپنی صفات پر وہ اس رنگ کو کیسے چڑھائے گا.یہ واضح بات ہے کوئی گہری اور دقیق بات نہیں ہے کہ جب تک رنگ کی پہچان نہیں اس رنگ کو اپنے نفس کے اوپر چڑھایا ہی نہیں جاسکتا.اب ربوبیت رب العالمین کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں تک انسان کی طاقت ہو وہ ہر مخلوق کی نشو و نما کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرے جہاں تک کہ انسان کا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ نے تو رب ہونے کی حیثیت سے اگر کسی چیز کو پیدا کیا تو اس کو قومی اور طاقتیں بھی دیں اور ان کی نشوونما کے سامان بھی پیدا کئے.پس جو شخص صفت رب العالمین کی معرفت اور علم رکھتا ہے وہ تو یہی رنگ اپنے پر چڑھائے گا اور وہ کسی شخص کو اس کے حق سے محروم نہیں کرے گا لیکن جو شخص اس صفت کا علم ہی نہیں رکھتا اسے اس کی معرفت ہی حاصل نہیں وہ اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتا اور یہ بنیادی حکم کہ میری صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ اور اس کے مطابق دنیا سے یعنی اپنے بھائی بندوں سے اور دوسری مخلوق سے سلوک کرو وہ اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتا.پس خدا تعالیٰ کو اپنی حفاظت کے لئے ڈھال بنانے ، خدا تعالیٰ کے قُرب کی راہوں کو حاصل کرنے کے لئے اس کی پناہ میں آجانے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو خدا کے فضل سے حاصل کرنے کے لئے جو ذریعہ ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا وَ ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ کہ اس وسیلہ کو تلاش کرو جو خدا تعالیٰ نے تمہارے سامنے رکھا ہے اور میں نے بتایا ہے کہ وہ تین باتیں ہیں.ان میں سے پہلی بات علم اور معرفت اور عرفان کا حصول ہے.علم نقلی اور سماعی بھی ہے یعنی روایت اور پہلوں کے مشاہدے سے انسان علم حاصل کرتا ہے اور پہلوں کے مشاہدات اور ان کے تجربوں کے نتائج سے غفلت برت کر خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرتا اور ایک اس کا اپنا
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۷۶ء مشاہدہ ہے وہ بھی علم کا ذریعہ بنتا ہے.اسی واسطے قرآن کریم نے کہا ہے کہ تقویٰ کوئی مختصر اور چھوٹا سا مقام نہیں ہے کہ جہاں پہنچ گئے اور بس بلکہ تقویٰ کے بے شمار مدارج ہیں اور انسان درجہ بدرجہ تقویٰ میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے.اسی لئے قرآن کریم کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کوئی شخص تقویٰ کے کسی مقام پر بھی پہنچ جائے اگر اس نے اپنے تقویٰ کو قائم رکھنا اور تقویٰ کی منازل میں ترقیات کا حصول کرنا ہے تو وہ قرآن کریم سے بے تعلق نہیں ہوسکتا.پس خدا تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے ، اس کی رضا کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل کرنے کے متعلق ہمارے گھروں میں باتیں ہونی چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات کے اصولی پہلوؤں کے متعلق بھی اور ان کے تفصیلی پہلوؤں کے متعلق بھی اپنی کتب میں اور تقاریر اور ملفوظات میں بیان کیا ہے لیکن ہم اس سے غفلت برتنے لگ جاتے ہیں.ہمارے ماحول میں ، ہماری مجالس میں اور ہمارے گھروں میں خدا تعالیٰ کی صفات کا ذکر ہونا چاہیے.خدا تعالیٰ ہی اپنی صفات اور اپنی ذات کے متعلق ہمیں بتا سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں بتا سکتا.پس جس رنگ میں خدا تعالیٰ نے اپنی ذات اور صفات کا ذکر قرآن کریم میں بیان کیا اور جس رنگ میں اس کی تفسیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ تفسیر کے مطابق ان باتوں کو ہمارے سامنے رکھا اس کا ذکر بڑوں میں، چھوٹوں میں، مردوں میں اور عورتوں میں ہوتے رہنا چاہیے کیونکہ اگر یہ پہلو یعنی خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق علم اور معرفت رکھنا جو کہ پہلا پہلو اور بنیادی چیز ہے اگر یہ نہ ہوگا تو اتقوا کا جو حکم ہے کہ خدا کی پناہ میں آجاؤ اور اپنی ترقیات کے لئے اور اپنی جنتوں کے حصول کے لئے اس کے قرب کو حاصل کرو یہ حکم پورا نہیں ہو سکتا.اس علم کے نتیجہ میں پھر آگے دو چیز میں پیدا ہوتی ہیں ایک عبادت ہے خدا تعالیٰ کے حضور انسان کا سر جھک جاتا ہے اس کو ہم حقوق اللہ کی ادائیگی کہتے ہیں اور دوسرے مکارمِ شریعت پر عمل کرنا ہے.الغرض وسيلة “ کے لئے یعنی قرب الہی کے حصول کے لئے تین باتیں بتائی گئی ہیں ان
خطبات ناصر جلد ششم ۴۶۶ خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۷۶ء میں سے پہلی بات علم ہے یعنی خدا تعالیٰ اور اس کی صفات کی معرفت اور عرفان اور ان صفات کے جلوؤں پر غور کرنا جو اس نے انسان کے سامنے اپنے کلام میں ظاہر کئے اور جو خدا تعالیٰ اپنے اس تعلق میں ظاہر کرتا ہے جو اس کے نیک بندے اس سے حاصل کر سکتے ہیں مثلاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے اس پر غور کرنے سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کتنا پیار کرنے والا ، خدا تعالیٰ کس رنگ میں ربوبیت کا مظاہرہ کرنے والا اور خدا تعالیٰ کس طرح اپنی رحمانیت کے جلوے انسان پر ظاہر کرنے والا ہے، علی ہذا القیاس.اور اس معرفت اور عرفان کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک تو حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف ہمیں توجہ ہوتی ہے اور ہم عبادت کو اس کے پورے حقوق کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور دوسرے بنی نوع انسان کے آپس کے تعلقات میں شریعت محمدیہ اور شریعت حقہ اسلامیہ کے مکارم کو اپنانے اور خدا کے پیدا کردہ انسان کے ساتھ اُس سلوک کے کرنے کی طرف ہمیں توجہ ہوتی ہے جس سلوک کا حکم قرآن کریم کی شریعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ اور ارشادات میں ہمیں نظر آتا ہے.پس وسیلہ ، یعنی خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کی جو راہ ہے اس کے تین طریقے بتائے گئے ہیں ، تین راہوں کی تعین کی گئی ہے جو خدا تعالیٰ کے قرب تک لے جانے والی ہیں ایک علم ہے یعنی معرفت اور عرفان ، دوسرے اس کا تقاضا عبادت اور حقوق اللہ کی ادائیگی ہے اور تیسرے مکارم شریعت کے مطابق انسان کے ساتھ حسن سلوک اور خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوق کے ساتھ وہ برتاؤ ہے جیسا برتاؤ کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کہا ہے کہ ہونا چاہیے اور جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور ارشادات میں ہمیں نظر آتا ہے.یہ تین باتیں جو اس وسيلة “ کے اندر آتی ہیں اس کے تین دشمن ہیں اور جس وقت انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کی راہ میں روک بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں.جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم رسول ایک کامل اور مکمل شریعت لے کر دنیا کی طرف آیا، ایک ایسی شریعت لے کر جس نے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا اتمام کر دیا اور ان کی تکمیل کر دی تو اس کے بعد یہ نہیں ہوا کہ کوئی مقابلے میں کھڑا نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد یہ ہوا کہ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۶۷ خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۷۶ء رؤسائے مکہ نے اپنی میانوں سے تلوار میں نکال لیں وہ یہ سمجھے کہ شاید تلوار کے ساتھ ہم خدا تعالیٰ کے اس سلسلہ کو ، خدا تعالیٰ کے ”اسلام“ کو ، خدا تعالیٰ کی کامل اور مکمل شریعت کو اور اس کامل اور مکمل شریعت کے لانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نا کام اور نامراد کر دیں گے.اُنہوں نے یہ سمجھا اور اُنہوں نے تلواریں نکال لیں لیکن اسلام کو ناکام کرنے کے لئے صرف ظاہری دشمن کی مادی طاقت کا مظاہرہ ہی تو نہیں ہوا، صرف تلواریں ہی میانوں سے نہیں نکلیں، صرف کمانوں پر چلتے نہیں چڑھائے گئے اور ان میں تیر نہیں رکھے گئے ،صرف نیزوں کی انیوں کو تیز نہیں کیا گیا ، صرف گھوڑوں کی پرورش نہیں کی گئی جن پر سوار ہو کر مسلمانوں کے قتل کرنے کا اُنہوں نے منصوبہ بنایا تھا بلکہ اس ظاہری دشمن کے ساتھ ساتھ ایک مخفی دشمن بھی مقابلہ پر آ گیا.مذہب کی اصطلاح میں اس کو شیطان کہتے ہیں.شیطان اپنا کام کا فر کے ذریعے بھی کرتا ہے اور شیطان اپنا کام منافق کے ذریعے بھی کرتا ہے.وہ دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، وہ جھوٹی افواہیں پھیلاتا ہے، وہ غلط باتیں منسوب کرتا ہے، خدا تعالیٰ کی وحی میں جو کلے ہیں قرآن کریم میں جو الفاظ آئے ہیں وہ ان کو اپنی جگہ سے ہلا کر اور معانی کو بدل کر دنیا کے سامنے پیش کرتا اور انسان کے دل میں غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے.اور پھر انسان کے اندر بشری کمزوریاں ہیں یہ صداقت کا اور خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں پروئے جانے والوں کا تیسرا دشمن ہے جو کھڑا ہوتا ہے.یہ ہر شخص کا اپنا نفس ہے.اسی واسطے قرآن کریم نے کہا کہ وَ جَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ امام راغب کہتے ہیں کہ اس جہاد اور مجاہدہ میں تینوں دشمنوں کا مقابلہ آ جاتا ہے، ظاہر دشمن کا بھی ، شیطانی وساوس کا بھی اور اپنے نفس کی کمزوریوں کا بھی (جو کہ شہوات دنیا کی طرف مائل ہو جا تا اور دنیا کے لالچ کی طرف پھسلتا اور تباہی کے سامان پیدا کرتا ہے ).پس جہاں خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کا عرفان حاصل کرنا ضروری ہے اور قرآن کریم نے اسے بیان کیا وہاں اس کے مقابلہ میں تین دشمن بھی ہیں ایک نے کہا کہ سر پھوڑ دیں گے تمہارا اگر تم نے نمازیں پڑھیں.چنانچہ کی زندگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لمبا عرصہ چھپ چھپ کر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے اور وہ معرفت اور علم، اتنا عظیم علم ! اتنا حسین علم ! ایسا علم
خطبات ناصر جلد ششم ۴۶۸ خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۷۶ء جس کے اندر احسان کی بڑی زبر دست طاقتیں ہیں اس کے متعلق ظاہری دشمن نے بھی یہ اعلان کیا کہ یہ تو کوئی چیز نہیں ہے اور اس کی طاقت کوئی طاقت نہیں ہے.ان کے خیال میں یہ روحانی علم ایسا تھا کہ جسے تلوار کی دھار کاٹ سکتی تھی.تلوار کی دھار مادی چیزوں کو کاٹا کرتی ہے اور جو روحانی قوتیں اور طاقتیں ہیں انہیں تلوار کی دھار اور انہیں تیر خواہ وہ کس قدر طاقتور کمان سے ہی کیوں نہ چھوڑے جائیں اور انہیں نیزہ کی انی نہیں کاٹا کرتی وہ علم تو اپنی جگہ قائم رہنے والی روحانی طاقت ہے لیکن انہوں نے اپنے زعم میں یہی خیال کیا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے چند ایک ہیں شاید وہ ان کی گردنیں اڑا کر خدا تعالیٰ کے سلسلہ کو ختم کر دیں گے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس ظاہری دشمن کا بھی مقابلہ کرنا ہے جب وہ ظاہری اور مادی سامان لے کر آئے تو تمہیں ظاہری اور مادی سامان لے کر اس کے مقابلہ میں جانا چاہیے خواہ اس کے مقابلہ کے لئے تمہارے پاس ظاہری اور مادی سامان ان کی طاقت کے مقابلہ میں سو میں سے ایک بھی نہ ہوں یا ہزار میں سے ایک بھی نہ ہوں یا لا کھ میں سے ایک بھی نہ ہوں لیکن اگر تمہیں کہا جائے کہ خدا تمہیں کہتا ہے کہ ان مادی سامانوں کا مقابلہ مادی سامانوں سے کروتو تم ان کا مقابلہ کرو.یہ ظاہری مادی طاقت جو بعض سر پھرے انسانوں کے ہاتھ میں ہمیں نظر آتی ہے اس کو نا کام کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے غیر مادی روحانی طاقتیں بھی پیدا کی ہیں اور یہی چیز ہے جو مومن مسلم انسان کی طاقت کو ثابت کرتی ہے لیکن اس وقت میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا.غرض پہلے مفسرین نے بھی کہا ہے کہ جَاهِدُوا فِي سَبِيلِہ میں تینوں دشمنوں کا ذکر آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی تینوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور پہلوں سے بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ اور بہت زیادہ حسن کے ساتھ اور بہت زیادہ مؤثر طریقے پر اور بہت زیادہ قائل کرنے والے بیان کے ساتھ دنیا کو بتایا ہے.جَاهِدُوا میں جس دوسرے مخالف سے مقابلہ کرنے کا ذکر آتا ہے وہ ہے شیطانی کوششوں کا مقابلہ.شیطان چھپی ہوئی راہوں سے آتا اور خدا کے دین کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے مثلاً پچھلے چودہ سو سال سے یہودی اور عیسائی اسلام کے خلاف وساوس پیدا کرنے کی انتہائی کوشش
خطبات ناصر جلد ششم ۴۶۹ خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۷۶ء کرتے چلے آرہے ہیں لیکن پچھلے چودہ سو سال میں اسلام میں ترقی اور تنزل، اتار چڑھاؤ تو نظر آتا ہے لیکن کوئی زمانہ ایسا نہیں ہوا کہ جس میں خدا تعالیٰ کے لاکھوں محبوب بندوں نے اسلام کی شمع کو روشن نہیں رکھا.روشنی کبھی تیز تھی اور کبھی کم.اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں اور ملک ملک ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اسلام کی شمع کو بجھنے نہیں دیا.یہاں تک کہ پھر مہدی علیہ السلام بدر منیر کی حیثیت سے دنیا کی طرف مبعوث ہو کر آگئے اور اب خدا تعالیٰ کے اس بندے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرزند کے ذریعہ سورج (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اخذ کی ہوئی روشنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ سے لی ہوئی روشنی ، ساری دنیا میں پھیلانے کا کام شروع ہو چکا ہے اور یہ ہر شخص کو نظر آرہا ہے عیسائیوں کو بھی اب نظر آ رہا ہے کہ اسلام کی روشنی ان جگہوں پر پہنچ گئی جن کے متعلق ان کو خیال بھی نہیں تھا کہ اسلام کبھی ان کے اندھیروں کو چیرتا ہوا اپنی روشنی کی شعاعوں کے ساتھ ان اندھیروں کے بعض مقامات کو منور کرنا شروع کر دے گا.بہر حال جَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ میں یہ بھی حکم ہے کہ شیطانی وساوس اور اعتراضات کا مقابلہ بھی اپنی انتہائی کوشش کے ساتھ کرو.پھر انسان کا اپنا ہی نفس اس کا اپنا ہی شیطان بن جاتا ہے اور اپنا ہی نفس اپنے ہی نفس کو خدا تعالیٰ سے دور لے جانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے اور دنیا کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور دنیا جو کسی سے وفا نہیں کرتی اس کی خاطر وہ اس کو جس سے بڑھ کر کوئی وفا کرنے والا نہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کو وہ چھوڑ دیتا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی ہمیں ہدائتیں دی ہیں جنہیں ایک مسلمان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے.غرض خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم میرے قرب کے حصول کے لئے معرفت اور عبادت اور مکارم اخلاق و مکارم شریعت حقہ اسلامیہ کی راہوں کو اختیار کرو گے تو تمہارے لئے قرب کے دروازے کھولے جائیں گے لیکن یہ نہ سمجھنا کہ تمہاری اس کوشش میں جو تم خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے کر رہے ہو گے تمہارا کوئی مخالف نہیں ہوگا بلکہ اس کوشش میں تمہارا مخالف ظاہری دشمن بھی ہوگا اور چھپا ہوا دشمن بھی ہو گا اور تمہارا اپنا نفس بھی ہوگا ان تین محاذوں پر اگر تم نے اپنی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۷۰ خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۷۶ء فلاح کی خاطر کامیاب مقابلہ کر لیا تو تمہاری حرکت خدا تعالیٰ کے قُرب کے حصول کے لئے جن تین راہوں کے متعلق بتایا گیا ہے ان راہوں پر جاری رہے گی اور آگے بڑھتی رہے گی اور تم خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر لو گے اور تمہیں وہ کامیابی نصیب ہوگی جس سے بڑھ کر کوئی کامیابی تصور میں نہیں آسکتی.تم ان لوگوں کی طرح اور ان انسانوں کی طرح نہیں ہو گے جو کوشش تو کرتے ہیں مگر غلط اور وہ ناکام ہو جاتے ہیں تم ان انسانوں کی طرح نہیں ہو گے جن کی فطرت میں فلاح کی خواہش اور تمنا تو رکھی گئی ہے لیکن ان کی فطرت اپنے اس فطری جذ بہ اور فطری خواہش کو پانے میں ناکام رہتی ہے بلکہ تمہاری فطرت کا تم سے جو مطالبہ ہے تم اس مطالبہ کو پورا کرنے والے ہو گے اور خدا تعالیٰ کی رضا کو تم حاصل کرنے والے ہو گے.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک کی قسمت میں یہ فلاح مقدر ہو جائے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.(روز نامه الفضل ربوہ ۶ / جولائی ۱۹۷۶ء صفحہ ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد ششم ۴۷۱ خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۷۶ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۱ جون ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا - (التحريم :-) اور پھر فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہم میں سے ہر شخص اور ہر خاندان پر یہ بڑا احسان ہے کہ آپ نے ہمارے دلوں میں نبی اکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے انتہا محبت پیدا کر دی.قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ عشق رسول اور محبت رسول ہی انسان کو جہنم کی آگ سے بچاتی ہے چنانچہ یہ جو فرمایا کہ اے ایمان والو! اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ ان کو جہنم کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرو تو اس کے متعلق دوسری جگہ فرمایا :.إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) فرمایا:.اس آگ سے بچنے کا طریق یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے اتباع رسول کرو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو.اتباع
خطبات ناصر جلد ششم ۴۷۲ خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۷۶ء دراصل محبت کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ محبت کرنے والا دل محبوب کے پیچھے چلتا ہے.یہ ایک بنیادی صداقت ہے اللہ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہنے کی یعنی یہ بات کہ انسان کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ہوا اور ایک لگن ہو کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنی ہے.اس کا انعام اللہ تعالیٰ کا پیار ہے.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کی جنتیں ہیں لیکن ان جنتوں کا حصول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کے نتیجہ میں ملتا ہے ورنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری بھی ہو اور خدا کی رضا بھی حاصل ہو جائے یہ ایسے ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ سورج چھپا بھی ہو اور دن کی طرح یہ دنیا روشن بھی ہو.اندھیرے اور روشنی تو آپس میں متضاد ہیں یہ اکٹھے نہیں ہوا کرتے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو جانا اندھیرا ہے ایسا اندھیرا کہ ہماری راتوں کے اندھیرے جب بادل بھی چھائے ہوئے ہوں.وہ بھی اتنے اندھیرے نہیں جتنے روحانی طور پر اور اخلاقی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو جانے کے اندھیرے ہیں.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو جانے کے نتیجہ میں اس قسم کی کالی گھٹائیں ہوں ، رات کے اندھیرے بھی ہوں اور پھر خدا تعالیٰ کے پیار کا نور بھی ہو یہ چیزیں تو اکٹھی نہیں ہوسکتیں.پس یہ ایک بنیادی صداقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار حاصل کرنے کے لئے آپ کی سچی اتباع اور متابعت کی ضرورت ہے.اتباع رسول کے نتیجہ ہی میں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے دلوں میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو پیار پیدا کیا ہے یہ آپ کا اتنابڑا احسان ہے کہ اس سے بڑھ کر احسان ہمارے تصور میں بھی نہیں آسکتا لیکن اس پیار کے جو تقاضے ہیں وہ تربیت کو چاہتے ہیں.پیار پیار میں فرق ہوتا ہے کسی سے تھوڑا پیار ہوتا ہے کسی سے زیادہ البتہ یہ فرق وہ فرق نہیں جو استعداد، استعداد میں فرق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ فرق تربیت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل پیار آپ کی کامل اتباع کو چاہتا ہے اور آپ کی کامل اتباع قرآن کریم کے تمام احکام کی پیروی کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۷۳ خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۷۶ء پوچھا گیا تو انہوں نے کہا.كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ آپ کی زندگی کے متعلق معلوم کرنا چاہتے ہو تو قرآن کریم کو دیکھ لو کیونکہ آپ کی زندگی قرآن کریم کی عملی تفسیر ہے.قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور اس قول کے مطابق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآنی تعلیم کا علمی نمونہ ہے.آپ کی عملی زندگی کے تمام حسین مظاہرے قرآن کریم کی تعلیم کو ظاہر کرنے والے ہیں اس کو روشن کرنے والے اور اس کے حسن کو دوبالا کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنے والے ہیں.پس اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ جماعت احمدیہ کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ جماعت کے ہر فرد کو اور ہر خاندان کو بیگن ہے اور اس کے دل میں یہ تڑپ ہے کہ اس کی زندگی بھی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اور آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی میں قرآنی تعلیم کے مطابق خُلق کو ظاہر کرنے والی ہو.البتہ یہ صحیح ہے کہ یہ نیک جذبہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اُسی وقت اپنی انتہا کو نہیں پہنچتا.محبت کے تقاضے منٹوں میں پورے نہیں ہوا کرتے.محبت کی شدت بھی ایک وقت کے بعد ہی پیدا ہوتی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جب یہ کہا گیا کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ تو یہ بھی کہا گیا کہ آپ کی اس حسین زندگی کا جو اظہار تھا وہ ایک دن میں نہیں ہوگیا تھا بلکہ یھی اسی طرح Unfold ( آن فولڈ ) ہوئی جس طرح گلاب کی پتیاں کھل کر گلاب کا پھول بنتی ہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل اخلاق کے ظہور پر وہ سارا زمانہ گزرا جس زمانہ میں قرآن کریم کا نزول ہوتا رہا.قرآن کریم پہلے دن ہی سارے کا سارا تو نازل نہیں ہو گیا تھا.غیروں نے اس کا مطالبہ بھی کیا تو انکار کر دیا گیا کہ اس طرح نہیں ہوگا.چنانچہ قرآن کریم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور دنیا کے ہاتھ میں دیا گیا اور اس طرح آپ کا عمل ہر روز تدریجی طور پر اسلامی تعلیم کے ایک سے ایک حسین پہلو کو ظاہر کرنے ولا بنتا چلا گیا اور اس میں روز بروز ترقی ہوتی چلی گئی اور اس میں بھی عجیب حکمت تھی.ابھی بات کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اگر ہم نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرنی تھی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ مرتے دم تک اپنی تربیت اور محاسبہ نفس اور اصلاح نفس میں گزاریں اور کوشش کریں کہ ہماری زندگی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۷۴ خطبہ جمعہ ۱۱؍جون ۱۹۷۶ ء زندگی کی طرح قرآنی تعلیم کا نمونہ بن جائے.اتباع رسول کے یہی معنے ہیں.اُسوۂ نبوی کو قبول کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کے یہی معنے ہیں یعنی یہ کہ قرآن کریم کی جو تعلیم ہے اور اس کے جو سینکڑوں احکام ہیں ان پر عمل کر کے ہماری زندگی بھی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ایک مسلمان مومن کی حسین زندگی بن جائے.اگر قرآن کریم ایک دن میں نازل ہو جا تا اور گو یہ بات خدا تعالیٰ کے لئے ناممکن تو نہ تھی.وہ ایک دن میں قرآن کریم نازل کر سکتا تھا اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی جو کامل استعدادوں کے ساتھ دنیا کی طرف بھیجی گئی تھی وہ اگر اس کے مطابق ایک دن میں عمل کر کے دکھانے لگ جاتے تو آپ کی اتباع کا یہ پہلو ہمارے لئے ممکن نہ ہوتا.ہمیں تو آہستہ آہستہ تربیت کا ایک لمبا عرصہ گزارنا پڑتا کیونکہ دوسرے انسان وہ استعدادیں لے کر دنیا کی طرف نہیں آئے جن استعدادوں کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا تھا.پس حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قریباً ساری زندگی میں قرآن کریم کا نزول ہوا.آپ کی وہ زندگی جو افضل الرسل کی حیثیت سے ہے یعنی قرآن کریم کو دنیا کی طرف پیش کرنے والی زندگی ہے.جب قرآن کریم کی وحی آپ پر نازل ہونی شروع ہوئی اس وقت سے لے کر آخر وقت تک نئے احکام نازل ہوتے رہے.ایسے احکام جو انسانی زندگی کو پالش کرنے والے تھے اس کو چمکانے اور اس میں نیا حسن پیدا کرنے والے تھے.چنانچہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ استعداد یں جو دنیا کی نگاہ سے چھپی ہوئی تھیں ان کا حسن آہستہ آہستہ ظاہر ہونا شروع ہو گیا اور ہوتا رہا اور یہ خدا تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا کہ اس نے کہا تم ساری زندگی کوشش کرتے رہو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اور تربیت کروا اپنی بھی اور اپنے نفسوں کی بھی اور ہر معنے میں اپنے اہل کی بھی.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا میں حکم کے علاوہ ایک بشارت بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہیں اپنی انفرادی اور اجتماعی ہر دو زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے گا.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے کہ آپ نے ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار اور محبت پیدا کر
خطبات ناصر جلد ششم ۴۷۵ خطبہ جمعہ ۱۱؍جون ۱۹۷۶ء دی.آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کی لگن پیدا کر دی اور ہمارے اندر یہ جذ بہ پیدا کر دیا کہ ہم اتباع رسول میں ہر روز ترقی کرتے چلے جائیں.ہمارے بچے بھی اسلامی علوم سیکھیں اور ان پر عمل کریں.یہ کام احمدیت کی ہر نسل کے ساتھ لگا ہوا ہے اور خدا کے فضل کے ساتھ ہوتا چلا جائے گا، پہلے بھی ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی ہوتا چلا جائے گا.وَ بِاللهِ التَّوْفِيقُ.غرض اتنے بڑے احسان کے بعد کیا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چھوڑ سکتے ہیں؟ آپ نے ہمارے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو محبت پیدا کی اور آپ کی اتباع کی جولگن پیدا کی اور آپ کے دین کو دنیا میں پھیلانے کی جو تڑپ پیدا کی ، کیا اس کے بعد ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ سکتے ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ آپ کے مہدی نے آپ کا نہایت ہی نورانی اور حسین چہرہ اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کر دیا اور دین اسلام میں سے ساری بدعات کو نکال کر باہر پھینک دیا اور بالکل پاک صاف اور مصفی اسلام ہمارے سامنے رکھا جس میں بدعات کا شائبہ تک نہ تھا.آپ نے فرمایا یہ ہے وہ حقیقی اسلام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے تم اس کی اتباع کرو اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرو.پس جہاں اتنا بڑا احسان ہے ہم پر مہدی معہود علیہ السلام کا وہاں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے اور کسی کو یہ غلط فہمی نہیں رہنی چاہیے کہ جماعت احمد یہ بحیثیت جماعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن چھوڑ سکتی ہے.یہ ٹھیک ہے کہ الہی سلسلوں میں بعض منافق بھی ہوتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی بعض لوگ منافق تھے.ان میں سے بعض اسلام چھوڑ کر چلے گئے اور بعض کمزور ایمان والے بھی ہوتے ہیں لیکن کسی کو یہ خیال بھی نہیں کرنا چاہیے کہ جماعت احمد یہ بحیثیت جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن چھوڑ کر ارتداد کی راہوں کو اختیار کر کے شیطان کی گود میں چلی جائے گی.اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل خدا تعالیٰ کی رحمت کے سایہ کے نیچے زندگی کے جو دن گزارے ہیں ان کی کوئی قدر نہیں کرے گی.کسی کو یہ خیال بھی نہیں کرنا چاہیے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے مہدی جس کے متعلق خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” مَهْدِينَا “ ہمارا مہدی.اور جس کے طفیل ہمارے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وو
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۱۱؍جون ۱۹۷۶ ء محبت پیدا ہوئی اتنا نا شکرا بن جائے گی اتنی عظیم چیز حاصل کر لینے کے بعد پھر اس کی جماعت کو چھوڑ کر اس سے علیحدہ ہو جائے گی.دونوں باتیں جماعت کے لئے ممکن نہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے انسان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے اس لئے میں کہتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ، خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکتا نہ جماعت احمدیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن چھوڑ سکتی ہے اور نہ جماعت احمد یہ مہدی علیہ السلام سے دور ہو کر ناشکری کی راہوں کو اختیار کرسکتی ہے.غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کائنات کی وجہ تخلیق ہیں اور جن کی وجہ سے اس کائنات، اس یونیورس اور اس عالمین کو پیدا کیا گیا.جب آپ کی اس عظیم الشان زندگی ، آپ کے حسن و احسان کو ہمارے سامنے رکھا گیا تو آپ کے اس مقام کی معرفت کے بعد ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو نہیں چھوڑ سکتے.ہم آپ کا دامن کیسے چھوڑ سکتے ہیں ہم یہ کیسے اعلان کر سکتے ہیں کہ ہم غیر مسلم ہیں ہم یہ اعلان نہیں کر سکتے.دنیا یا دنیا کا دستور یا قانون ہمیں جو مرضی چاہے کہتا رہے، ہم پر جو چاہے حکم لگائے لیکن ہماری زبان اس بات کا کیسے اعلان کر سکتی ہے جب کہ ہمارا دل اس اعلان کے ساتھ نہیں ہے جبکہ ہماری روح کا ذرہ ذرہ اس ہستی پر قربان ہو رہا ہے اور اس کے گردمستانہ چکر لگا رہا ہے جب کہ ہم جان و دل سے اسلام کی عظمت کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ہر وقت قربان ہونے کے لئے تیار ہیں تو پھر ہم آپ کے دامن کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں.اسی طرح مہدی علیہ السلام جنہوں نے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے اندر عشق رسول پیدا کیا جب کہ دنیا آپ کو بھول چکی تھی اور جس کے متعلق خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مہدی کا زمانہ وہ زمانہ ہوگا جس میں اسلام کی اس قدر خستہ حالت ہوگی اور اس کے اندر اس قدر بدعات شامل ہو چکی ہوں گی کہ جب وہ اسلام کو ان بدعات سے صاف کر کے خالص شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرے گا تو دنیا کہے گی یہ تو کوئی نیا دین اور نئی کتاب لے کر آ گیا ہے.پس اس مہدی کو چھوڑ کر ہم ناشکری کی راہوں کو کیسے اختیار کر سکتے ہیں جس نے اسلام کو صاف اور مصفی کر کے پیش کیا اور اس کے حسن و احسان کو ثابت کیا اور اس کا نہایت ہی حسین اور
خطبات ناصر جلد ششم ۴۷۷ خطبہ جمعہ ۱۱ جون ۱۹۷۶ء نورانی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور ہمارے دلوں میں حضرت بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار پیدا کیا.اس لئے نہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہم آپ کے مہدی کو چھوڑ سکتے ہیں.ہماری دعا ہے کہ ہر دو پر خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں.پس جہاں ہر احمدی خدا تعالیٰ کی حمد کرتا ہے اس کی تسبیح بیان کرتا ہے وہاں وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا اور آپ کی شان کے گن گاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا رہتا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ پر اور بھی زیادہ رحمتیں اور برکتیں نازل کرتار ہے اور سلام بھیجتار ہے اور ان پر بھی جو آپ کے ہو گئے اور جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی راہ میں وقف کر دیں.صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس فدائیت کا عملی نمونہ تھے وہ محبت رسول میں سرشار زندگی گزار کر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے اور پھر اُمت محمدیہ میں کروڑوں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جن کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کی آگ سلگتی رہی.پھر اسلام پر تنزل کا زمانہ آگیا موجودہ زمانہ کے بڑے بڑے فلاسفر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام پر تنزل کا زمانہ آیا.مگر اس بات سے انکار کر دیتے ہیں کہ اس تنزل کے زمانہ میں جس مہدی کے آنے کی بشارت دی گئی تھی وہ آئے گا.کہتے ہیں وہ نہیں آیا اور انہیں اس کی ضرورت نہیں وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ جس نے تنزل کے زمانہ کی خبر دی تھی اسی نے مہدی کے آنے کی بشارت بھی دی تھی.بہر حال حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آقا ہیں.ہم اپنے پیارے آقا کو نہیں چھوڑ سکتے اور ایک اس آقا کا محبوب روحانی فرزند ہے جس نے انسانوں کے ایک گروہ میں ایک عظیم انقلاب پیدا کر دیا.اس نے اپنی جماعت کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے پناہ عشق اور محبت پیدا کر دی اس لئے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کو بھی نہیں چھوڑ سکتے.بعض لوگ اپنی افتاد طبع کی وجہ سے اور اپنی ان استعدادوں کے فقدان کی وجہ سے جو ایک مخلص مومن میں ہونی چاہئیں ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں اگر اسی میں اُن کی خوشی ہے تو
خطبات ناصر جلد ششم ۴۷۸ خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۷۶ء ٹھیک ہے وہ اپنی خوشیاں منالیں لیکن ہماری خوشی تو اس بات میں ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ اتباع کرتے رہیں.ہمارے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عشق مہدی علیہ السلام نے پیدا کیا ہے اس کے شکر گزار بنے رہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مستانہ وار اپنی زندگیوں کے دن گزارنے والے بن جائیں.خدا کرے کہ ہماری یہ خوشی پوری ہوتی رہے اور ہماری جو ذمہ داری ہے ہم اس کو نباہنے والے ہوں اور خدا کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی جو آگ ہمارے دلوں میں بھڑکائی گئی ہے اس کی شدت میں کبھی کمی واقع نہ ہو اور خدا کرے کہ جیسا کہ قرآن کریم میں يُحببكم الله کا وعدہ ہے ہمارے اہل اور ہماری نسلوں کے حق میں بھی وہ پورا ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کے پیار اور محبت کو حاصل کرنے والے ہوں.آمین روزنامه الفضل ربوہ ۱۳ / جولائی ۱۹۷۶ ، صفحہ ۲ تا ۵)
خطبات ناصر جلد ششم ۴۷۹ خطبہ جمعہ ۲۵ جون ۱۹۷۶ء جماعت احمد یہ حکومت وقت کی اطاعت اور قانون کے احترام کو ضروری سمجھتی ہے خطبه جمعه فرموده ۲۵ جون ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ ، تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ - (النساء : ٦٠ ) اس کے بعد فرمایا :.گذشتہ چند خطبوں میں میں نے جماعت کے شرعی اور قانونی حقوق کے متعلق کچھ کہا تھا آج میں ہر احمدی پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.انسان اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے ایک اس کے حقوق کے پہلو ہیں اور دوسرے اس کی ذمہ داریوں کے پہلو ہیں.ذمہ داریاں مختلف النوع اور مختلف قسم کی ہیں.عام ذمہ داری جو ہر احمدی پر ہے اور ہر ملک کے ہر شہری پر ہے وہ مشترکہ ذمہ داری ہے جس کو شہری ذمہ داری“ کہا جاتا ہے یہ شہری حقوق کے مقابلہ میں آجاتی ہے اور دراصل یہ حقوق کا ہی دوسرا رُخ ہے کیونکہ ایک سوال ہوتا ہے حق کے لینے کا اور ایک سوال ہوتا ہے حق کے ادا کرنے کا.شہری ذمہ داریوں میں سے ایک وہ ذمہ داریاں ہیں جو کہ قانونِ وقت یا حکومت وقت شہریوں پر ڈالتی ہے اور ایک
خطبات ناصر جلد ششم ۴۸۰ خطبہ جمعہ ۲۵ جون ۱۹۷۶ء وہ ابدی ذمہ داریاں ہیں جو شریعت اسلامیہ نے اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں پر ڈالی ہیں شریعتِ اسلامیہ کی بہت سی ایسی ذمہ داریاں ہیں کہ وہ اور قانون وقتی کی ذمہ داریاں ایک ہی ہو جاتی ہیں کیونکہ اسلام انسانی فطرت کے مطابق مذہب ہے اور انسانی فطرت اسلام سے باہر پوری طرح نشو و نما حاصل نہیں کرتی بلکہ اسلام کے اندر پوری نشوونما حاصل کرتی ہے اس لئے اسلام سے باہر جو شہری ذمہ داریاں ڈالی جاتی ہیں وہ ناقص ہوتی ہیں اور وہ ادھوری رہتی ہیں.اسلام نے زیادہ وسعت اور پھیلاؤ کے ساتھ انسان کو دوسرے انسانوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے بہر حال شہری ذمہ داریاں جو قانون کے ذریعہ سے شہریوں پر ڈالی جاتی ہیں وہ وقتی بھی ہوتی ہیں اور ہمیشہ کے لئے بھی.مثلاً ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا یہ ہر شہری کی قانون یا معاشرہ کی طرف سے ذمہ داری ہے یہ غیر اسلامی معاشرہ میں بھی ہے چنانچہ جسے وہ مہذب معاشرہ کہتے ہیں اس میں بھی وہ کہتے ہیں کہ اپنے ہمسایوں کا خیال رکھو.میں جب پڑھا کرتا تھا تو ایک دفعہ میں جرمنی میں سفر کر رہا تھا اُس زمانے میں ہٹلر کی حکومت تھی جو کہ بڑا سخت ڈکٹیٹر تھا وہاں مجھے کسی سے یہ علم ہوا کہ اگر رات کو آٹھ بجے کے بعد کوئی گھر والا زیادہ اونچی آواز سے ریڈیو چلائے تو اگر اس کا ہمسایہ یہ شکایت کر دے کہ اس نے مجھے سونے نہیں دیا اور میرے آرام میں مخل ہوا ہے تو قانون فوراً حرکت میں آجاتا ہے اور اگلے دن صبح پولیس پہنچ جاتی ہے.غرض دوسروں کا خیال رکھنا قانون اور معاشرہ کی طرف سے ذمہ داری ہے.میں نے جو مثال دی ہے بعض ملک اس کا خیال رکھتے ہیں اور بعض نہیں رکھتے.مختلف حکومتوں میں تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے، وہ بعض باتوں کا خیال رکھتی ہیں اور بعض کا نہیں بھی رکھتیں لیکن بہر حال حکومتِ وقت بھی دوسروں کا خیال رکھتی ہے اور ہماری شریعت یعنی شریعت اسلامیہ بھی اس بات کا خیال رکھتی ہے.انسان کے انسان پر بہت سے ایسے حقوق ہیں جن کے حصول کے لئے یا جن کی ادائیگی کے لئے امن کی ضرورت ہے.اگر امن عامہ نہ ہو تو وہ حقوق ادا نہیں ہو سکتے.اسی لئے حکومتیں فساد سے روکنے کی کوشش کرتی ہیں اور امن کا ماحول پیدا کرنے کی کامیاب یا ناکام کوششیں ہمیشہ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۸۱ خطبہ جمعہ ۲۵ جون ۱۹۷۶ء ہر ملک میں ہوتی رہتی ہیں.اسلام نے بھی اور دراصل صحیح معنی میں اسلام ہی نے فساد کے خلاف اور امن کے قیام کے لئے عظیم جہاد کیا ہے اور وہ لوگ جونرے وحشی تھے، جو کہ ابتدا میں بھی قرآن کریم کے مخاطب ہوئے اسلام نے اُن کی زندگیوں میں ایک ایسا انقلاب بپا کیا کہ وہ وحشی سے انسان پھر با اخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بن گئے اور باخدا انسان کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے بہت باریکیوں میں جاتا ہے کیونکہ تقوی باریکیوں کا مطالبہ کرتا ہے چنانچہ انہوں نے باریکیوں میں جا کر اپنے ہمسایوں کا خیال رکھا اور اپنے بھائیوں کا خیال رکھا.بعض دفعہ وہ ایسی حدود میں داخل ہو گئے کہ دوسروں نے ان کا پیار کا مظاہرہ قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا.مثلاً جب مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں پہنچے تو اُن میں سے بعض اپنی بیویاں بھی پیچھے چھوڑ آئے تھے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کو بھائی بھائی بنادیا تو کئی انصار بھائیوں نے مہاجر بھائیوں سے کہا کہ ہماری ایک سے زائد بیویاں ہیں ہم چاہتے ہیں، ہمارے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ ہم ایک بیوی کو طلاق دے دیں اور تم اُس سے شادی کر لو.بعض نے ورثے میں شرکت اور بعض نے مالی تحائف کے ذریعہ اپنی اس اخوت کا مظاہرہ کیا لیکن مہاجرین کی شرافت نفس اپنی جگہ تھی اور جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے انہوں نے شکریے کے ساتھ ان چیزوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.وہ آدھی آدھی دولت دینے کے لئے تیار ہو گئے تھے لیکن اُنہوں نے آگے سے جواب دیا کہ جو چیز خدا نے ہمیں دی ہے ہمیں اُس پر بھروسہ کرنے دو اور خدا کی عطا کردہ قوتوں اور استعدادوں کو استعمال کرنے دو، اللہ تعالیٰ ہمارے حالات بدل دے گا.بعض نے صرف اتنا پیسہ قرض لے لیا کہ جس سے وہ ایک کلہاڑی خرید سکیں اور لکڑیاں کاٹ کر پیچنی شروع کر دیں.پھر یہی لوگ تھے جن میں سے بعض کے متعلق آتا ہے کہ اُنہوں نے مدینے کی منڈی میں ایک ایک دن میں کروڑ کروڑ روپے سے بھی زیادہ سامان کی خرید وفروخت کی.یہ تو اسلام کی خوبیوں کا بیچ میں ذکر آ گیا ہے اور آنا ہی چاہیے تھا میں بتا یہ رہا ہوں کہ انسان کے جو انسان پر حقوق ہیں ان میں سے جو شہری حقوق کہلاتے ہیں ، اُن پر اسلام نے جس طرح روشنی ڈالی ہے اور اسلام نے جس طرح اپنے ماننے والوں کے دل و دماغ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۸۲ خطبہ جمعہ ۲۵ جون ۱۹۷۶ء میں انقلاب بپا کیا کہ ان حقوق کو ادا کرنا ہے، وہ دنیا کی حکومتیں نہیں کر سکیں لیکن بہر حال جس نے اسلام کے حکم کے مطابق اور اسلام کی شریعت کے مطابق دوسروں کے حقوق ادا کرنے ہیں وہ بہر حال حکومت وقت یا قانون وقتی کے مطابق بھی عمل کرے گا کیونکہ ان کا دائرہ تو چھوٹا ہے اور وہ اسلام کے وسیع دائرہ کے اندر خود بخود آ جاتا ہے.فساد کرنے سے بھی اسلام نے روکا ہے میں نے بتایا ہے کہ بنیادی حکم ادائیگی حقوق شہریت ہے اس کے لئے اسلام نے دو حکم دیئے ہیں ایک یہ کہ خود فساد نہ کرو اور دوسرے یہ کہ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ (هود: ۱۱۷) کے مطابق دوسروں کو فساد کرنے سے روکو.ایک یہ کہ خود ظلم نہ کرو اور دوسرے یہ کہ دوسروں کو ظلم کرنے سے روکو ظلم کرنے سے روکنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لاٹھی پکڑ لو اور اُن کو مارنا شروع کر دو بلکہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرو کہ اس معاشرے میں کوئی شخص نہ ظلم کرنے کی جرات کر سکے اور نہ فساد پیدا کرنے کی جرات کر سکے.بہر حال ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ جس طرح وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ اُس کے حقوق اُسے ملیں اسی طرح وہ یہ جذبہ رکھے کہ جو دوسروں کے حقوق ہیں وہ ان کو ملیں اور جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے وہ دوسروں کے حقوق کو ادا کرے اور جہاں تک اس کے ماحول اور اس کے زیر اثر طبقہ کا سوال ہے وہ یہ نگرانی کرے کہ اس کا ماحول اور معاشرہ ہر ایک کے حقوق کو ادا کرنے والا ہو.اس سلسلے میں ہمیں بعض بڑی خوشکن اور بڑی اچھی مثالیں بھی ملتی ہیں.پس نہ صرف یہ کہ حق غصب نہ کرنے کا حکم ہے جو کہ فساد کے وسیع معنی کے اندر آ جاتا ہے بلکہ ایک مسلمان پر اور ایک مسلمان احمدی پر یہ بھی ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ ایسا ماحول اپنے گرد پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ دوسرے بھی فساد کرنے سے باز رہیں.شہری ذمہ داریوں میں سے امن کا قیام ایک بنیادی چیز ہے.ویسے تو سینکڑوں ذمہ داریاں ہیں بلکہ شاید ہزاروں ہو جا ئیں کیونکہ جتنے حقوق ہیں ان کے مقابلے میں اتنی ہی ذمہ داریاں ہیں لیکن میں نے بطور مثال ایک بنیادی چیز یہ بتائی ہے کہ نہ صرف یہ کہ فساد نہیں کرنا بلکہ ایسا ماحول پیدا کرنا ہے کہ جو ہمارے اردگر در ہنے والے ہیں وہ بھی فساد سے اجتناب کرنے والے ہو جائیں اور اپنی ذمہ داری کو سمجھنے لگیں کہ شہری حقوق کی
خطبات ناصر جلد ششم ۴۸۳ خطبہ جمعہ ۲۵ جون ۱۹۷۶ء ذمہ داری امن اور آشتی کے ماحول میں ہی ادا کی جاسکتی ہے.فساد اور درندگی کے مظاہروں کے ماحول میں شہری حقوق ادا نہیں کئے جاتے نہ ان کا ادا کیا جانا ممکن ہے.پس شہری ذمہ داریاں انسان انسان کے ہر قسم کے باہمی رشتوں سے تعلق رکھنے والی ہیں اور ان کو شمار نہیں کیا جا سکتا لیکن خواہ قانون نے ان حقوق کی ادائیگی کی ذمہ داری ایک شہری پر ڈالی ہو یا نہ ڈالی ہو اور نہ ڈالنے کی صورت میں اگر شریعت اسلامیہ نے وہ ذمہ داری ایک احمدی مسلمان پر ڈالی ہو تو ان حقوق کو ادا کرنا ایک احمدی مسلمان کے لئے ضروری ہے.دوسری ذمہ داری جو ایک احمدی کی ہے اور جس کے متعلق شروع سے ہی جماعت کی تربیت کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ قانونِ ملکی کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہیں لینا.ہمارے متعلق Law Abiding People کہا جا سکتا ہے کہ ہم قانون کی پابندی کرنے والے اور قانون کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہیں.آیت کا جو چھوٹا سا ٹکڑا میں نے سورۃ فاتحہ کے 66 بعد پڑھا تھا اس میں اُولی الامر کے لفظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ ( تیسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی میں اس کے ساتھ ہی شامل کر لیتا ہوں ) ایک تو ہم Law Abiding یعنی قانون کے پابند اور قانون کی اطاعت کرنے والے لوگ ہیں اور دوسرے جن کو قانون صاحب اختیار بناتا ہے ہم اُن کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہیں.یہ بھی اسی کے اندر آجاتا ہے یعنی قانون کی اطاعت کرنا اور قانون شکنی سے بچنا ہی یہ تقاضا کرتا ہے کہ جن لوگوں کو قانون نے حکومت کا اختیار دیا ہے قانون کے اندر رہتے ہوئے اُن کی بھی اطاعت کی جائے.اُن کا یہ فرض ہے کہ وہ قانون کے خلاف کوئی کام نہ کریں اور قانون کے خلاف کوئی حکم نہ دیں اور ہر شہری کا یہ فرض ہے اور ہر احمدی کا خصوصاً، جن کو میں اس وقت مخاطب کر رہا ہوں کہ وہ قانون شکنی نہ کریں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں.یہ تو میں ذکر کے مطابق کہہ رہا ہوں ورنہ جماعت خدا کے فضل سے بڑی دیر سے اس میدان میں تربیت یافتہ ہے اور ۱۹۷۴ء میں اس نے اس کا اتنا شاندار مظاہرہ کیا کہ ۷۴ گذرا اور اس کے بعد ایک اور سال ۷۵ گذرا اور اب ۷۶ ء میں ہم داخل ہو چکے ہیں ابھی تک بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ احباب جماعت کے لئے یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۸۴ خطبہ جمعہ ۲۵ جون ۱۹۷۶ء اس قسم کے حالات میں جبکہ ان کے خلاف ہر طرف ایک آگ لگائی گئی تھی انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا.ان کے لئے سمجھنا مشکل ہے ان کو تو ہم معذور سمجھتے ہیں لیکن ہمارے لئے لمبی تربیت کے بعد سمجھنا بھی آسان ہو گیا ہے اور اس پر عمل کرنا بھی آسان ہو گیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ ظلم کے مقابلہ میں ظلم کرنے سے ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں اور جو ختم ہونے والا نہیں.لیکن الہی سلسلے وہ سد سکندری ہیں جو ظلم کے سامنے کھڑی ہو کر اس کو بند کر دیتی ہے اگر ۷۴ء کے فسادات میں جماعت احمدیہ کا یہ ردعمل نہ ہوتا تو ایک تو جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتی ، دوسرے فتنہ و فساد کا ایک اتنا لمبا سلسلہ چلتا کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس کے بعد ہمارا ملک باقی رہتا لیکن اس وقت میں ملک کے متعلق بات نہیں کر رہا وہ بعد میں کروں گا.اس وقت میں یہ بات کر رہا ہوں کہ اولی الامر میں ، صاحب امر میں دو چیزیں ہیں ایک صاحب امر کا ہونا اور دوسرے امر کا ہونا.یعنی ایک تو قانون کو نافذ کرنے والے حاکم کا ہونا اور دوسرے قانون کا ہونا پس قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا اور جو حاکم وقت ہے جس کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے ملکی قانون کے مطابق انسان انسان معاملہ کرے اس کی اطاعت کرنا ہے.لیکن اس آیت میں حاکم وقت کا جو ذکر ہے اس کے معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ ضروری نہیں کہ وہ مسلمان ہی ہو.کسی نے سوال کر دیا تھا کہ پھر منگھ“ کا کیا " 66.9919 مطلب ہو گا؟ آپ نے فرمایا کہ جو حاکم وقت ہمیں احکامِ شریعت کے خلاف حکم نہیں دیتا وہ منکم کے دائرہ کے اندر آ جاتا ہے.یہ بڑا لطیف اور بڑا گہرا فلسفہ ہے لیکن اس لطیف اور گہرے فلسفہ پر میں اس وقت تفصیل سے روشنی نہیں ڈالوں گا بہر حال آپ سن لیں اور سمجھ لیں کہ غیر مسلم حاکم بھی اگر ہمیں احکام شریعت کے خلاف حکم نہ دے تو وہ بھی میں آجاتا ہے کیونکہ اسلام کی تعلیم صرف پاکستان کے متعلق تو نہیں ہے یہ تو ساری دنیا کی حکومتوں کے متعلق ہے اور ساری دنیا میں احمدی بستے ہیں.پس " أولي الأمر اگر افریقہ کی ایک عیسائی حکومت ہو اور وہ اسلام کی شریعت کے احکام کے خلاف قانون بنانے والی نہ ہو تو اس کی اطاعت بھی ایسی ہی ضروری ہے جیسی کہ پاکستان میں
خطبات ناصر جلد ششم ۴۸۵ خطبہ جمعہ ۲۵ جون ۱۹۷۶ء ایک مسلمان حکومت کی اطاعت.لیکن اگر شریعت کے احکام کے خلاف کوئی حکم ہو مثلاً افریقہ میں کوئی بت پرست حکومت مسلمانوں کو یہ کہے کہ جو پتھر کے بت ہم نے تراشے ہیں تم ان کے سامنے سجدہ کرو.تو پھر اُس وقت اُس کا حکم نہیں ماننا کیونکہ اطاعت اللہ کی اور اطاعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیٰ ہے اُولی الامر کی اطاعت سے.اگر افریقہ کی حکومت یہ کہے کہ قبروں پر سجدے کرنا ضروری ہے تو اس وقت کوئی موحد مومن مسلمان یہ حکم ماننے کے لئے تیار نہیں ہو گا لیکن اس وقت دنیوی لحاظ سے انسان کے اندر اس قسم کی سیاسی بیداری پیدا ہو چکی ہے کہ میرا نہیں خیال کہ کوئی حکومت اس قسم کے آرڈر جاری کرے جو انسانی فطرت کے خلاف ہوں اور جب میں کہتا ہوں کہ انسانی فطرت کے خلاف تو ساتھ ہی میں یہ بھی کہتا ہوں کہ شریعت حقہ اسلامیہ کے خلاف ہوں کیونکہ قرآن کریم فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم : ۳۱) کے مطابق اور انسانی فطرت کے عین مطابق آیا ہے.بہر حال یہ بیداری پیدا ہو چکی ہے اس بیداری میں عارضی طور پر غنودگی بھی ہو سکتی ہے.اس وقت میں جماعت کو جو چیز بتا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ شروع سے لے کر اس وقت تک ہمارا مسلک یہ ہے کہ نہ قانون کو ہاتھ میں لینا ہے اور نہ حاکم وقت کی عدم اطاعت کرنی ہے بلکہ اُس کی اطاعت کرنی ہے اور تابعداری کرنی ہے اگر حکم اسلامی شریعت کے خلاف نہ ہو یعنی بالمعروف ہو.پانچویں بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ احمدی جس جگہ بھی ہیں اور جس ملک کے بھی Citizen ( شہری ) ہیں، وہ اپنے ملک کے وفادار ہیں.جہاں تک ہم اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہم اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہیں، ہم دھو کے میں نہیں.احمدی کے متعلق یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے ملک سے غداری کرنے والا ہوگا.ہم تو یہ سمجھتے ہیں گو کوئی ہماری ہنسی اڑائے گا اور کوئی حقارت کی نگاہ ہم پر ڈالے گا لیکن جہاں تک ہماری سمجھ کا تعلق ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے استحکام کی اور حکومت کی ترقی کی اور حکومت کی غداریوں سے بچانے کی سب سے زیادہ ذمہ داری جماعتِ احمد یہ اور اس کے افراد پر ہے.اس کے لئے ہم ایک در بھی کھٹکھٹاتے ہیں اور یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس در کو جو کھٹکھٹاتا ہے اور دھونی رما کے وہاں بیٹھ جاتا
خطبات ناصر جلد ششم ۴۸۶ خطبہ جمعہ ۲۵/جون ۱۹۷۶ء ہے وہ خالی ہاتھ واپس نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لئے وہ دروازہ کھولا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کوڈ نیوی حسنات کے لحاظ سے بھی اور اُخروی حسنات کے لحاظ سے بھی وہ حاصل کرتا اور پاتا ہے.بہر حال ہم اپنے ملک کی خاطر اس کی بقا کے لئے ، اس کے استحکام کے لئے اس وثوق کے ساتھ اور اس ایمان کے ساتھ خدا تعالیٰ کا در کھٹکھٹاتے ہیں کہ وہ عاجز انسانوں کی دعاؤں کو قبول کیا کرتا ہے اور جب وہ ہماری ان دعاؤں کو قبول کرے گا تو پاکستان کے حق میں ایک ایسی چیز ظاہر ہوگی ، ہمارے ملک کو ایک ایسی چیز ملے گی جو کسی اور گروہ اور جماعت کے ذریعہ سے اسے نہیں مل سکتی کیونکہ اُنہوں نے تو اس دروازہ کو ایسا بند کیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کھل ہی نہیں سکتا.بہر حال جو ہماری ذمہ داریاں ہیں اس وقت میں ان کے متعلق بات کر رہا ہوں.احمدی ملک کا غدار نہیں بلکہ وفادار ہے اہل ملک کی سوچ سوچ میں فرق ضرور ہے.سیاسی پلیٹ فارم اور منصوبوں میں بھی فرق ہے اور ہم تو سیاسی جماعت نہیں بلکہ مذہبی جماعت ہیں.دعائیں کرنا ہمارا فرض ہے اور لوگ بھی دعائیں کرتے ہوں گے مگر میں اپنے متعلق بات کر رہا ہوں ہم خدا سے کچھ حاصل کرتے ہیں اسی کے فضل سے نہ اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں اور ہمارا مشاہدہ ہے کہ وہ در کھولا جاتا ہے اس در کو میں اور آپ صرف اپنی ذاتی بھلائی کی خاطر نہیں کھٹکھٹاتے نہ ہم اپنے خاندان یا اپنے قبیلے یا اپنے دوستوں کے لئے کھٹکھٹاتے ہیں بلکہ اس ڈر کو جس سے ہم سب کچھ پاتے ہیں ہم اس لئے کھٹکھٹاتے ہیں کہ اللہ تعالی سامان پیدا کرے کہ ہمارا ملک مضبوط اور مستحکم ہو اور ترقی کرے اور اس میں خوشحالی کے سامان پیدا ہوں اور ایک ایسا معاشرہ قائم ہو جائے کہ جس میں ہر فرد واحد کو دوسرے افراد اس کے حقوق دینے والے ہوں اور کوئی شخص مظلوم نہ رہے اور اس ماحول سے ظلم کا خاتمہ ہو جائے ہم اپنے ملک کے لئے ہمیشہ یہ دعائیں کرتے ہیں اور دعائیں کرنا ہماری ذمہ داری ہے ہمارے سینے اپنے ملک کے لئے وفا کے جذبہ سے پُر رہتے ہیں اور ہمارے سینے ہمیشہ ہی وفا کے جذ بہ سے بھرے اور معمور رہنے چاہئیں.ہم پر جو ذمہ داریاں ہیں اللہ تعالیٰ ان کی ہر پہلو سے ادا ئیگی کی ہمیں تو فیق عطا کرے اور ہمارے وہ بھائی جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے حقوق ادا کریں اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۸۷ خطبہ جمعہ ۲۵/جون ۱۹۷۶ء کہ وہ ہمارے حقوق ادا کریں اور اللہ تعالیٰ ایسا ماحول پیدا کرے کہ ہر فردِ واحد، اس ملک کا ہر شہری ہر وہ شخص جو اس پاکستان میں بسنے والا ہے اس کے سارے حقوق اس کو ملنے لگ جائیں اور پھر کوئی شخص بھی یہ محسوس نہ کرے کہ کچھ حقوق تھے اس کے جو غصب کر لئے گئے، کچھ سہولتیں تھیں اس کی جو اسے میسر نہیں اور کچھ قوتیں اور استعدادیں تھیں اس کی جن کی صحیح طور پر نشو ونما نہیں ہو سکی بلکہ ہر شخص خوش باش اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گانے لگے اور حمد کے ترانے گاتے ہوئے ملکی ترقیات کی شاہراہ پر بھی آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے.اللھم آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۲۷ / جولائی ۱۹۷۶ء صفحہ ۲ تا ۵ )
خطبات ناصر جلد ششم ۴۸۹ خطبہ جمعہ ۲؍جولائی ۱۹۷۶ء قانون کا احترام کرنا اور قانون شکنی سے بچنا اسلام کا ایک بنیادی حکم ہے خطبہ جمعہ فرموده ۲ جولائی ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوست جانتے ہیں کہ گرمی میرے لئے ایک مستقل بیماری ہے چنانچہ پچھلے دنوں گرمی اور جگر کی خرابی کی وجہ سے دوران سر کا بڑا شدید حملہ ہوا کئی روز تک بڑی تکلیف رہی.اب پہلے سے نسبتاً افاقہ ہے لیکن چونکہ درس القرآن کلاس کے لئے ہمارے بچے اور بڑی عمر کے دوست بھی تشریف لائے ہوئے ہیں اس لئے میں اس وقت انہیں مختصراً کچھ کہنے کے لئے اور ان کی وساطت سے جماعت تک اس آواز کو پہنچانے کے لئے یہاں آگیا ہوں.میں جو کچھ کہوں گا وہ سب کے لئے نصیحت ہے.پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چونکہ ایک کے بعد ایک دوسری نسل پیدا ہوتی ہے وہ بچپن گزار کر جوانی میں داخل ہوتی ہے اور پھر بڑی عمر کو پہنچ جاتی ہے.پھر وہ بھی اپنے اپنے وقت پر اسی طرح اس دنیا سے گزر جاتی ہے جس طرح ایک فلم نظر کے سامنے سے گزرتی چلی جاتی ہے.کچھ بنیادی باتیں ہیں جو بنیادی صداقتوں پر مشتمل ہیں.ان کو دہراتے رہنا اس لئے ضروری ہے کہ ایک نسل خواہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھنے والی ہی کیوں نہ ہوا گر آنے والی نسل یا کم عمر نسل جو
خطبات ناصر جلد ششم ۴۹۰ خطبہ جمعہ ۲؍جولائی ۱۹۷۶ء بعد میں انسانی رو ( بہاؤ ) میں شامل ہوتی ہے وہ اس حقیقت کو نہ سمجھے اور ان کے کانوں میں بار بار بنیادی باتیں نہ پڑیں تو حقیقت سے ان کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.پس جو بنیادی صداقتیں ہیں جن کے متعلق بار بار کہنے کی ضرورت پڑتی ہے ان میں سے بعض کو میں اس وقت لوں گا کیونکہ ایک خطبہ میں سب پر کچھ کہا بھی نہیں جاسکتا خصوصاً وہ خطبہ جوگرمی کا بیمار مختصر دے رہا ہو.پس پہلی بنیادی بات جو بچپن میں ہمارے کانوں میں پڑی وہ یہ تھی کہ قانون شکنی نہیں کرنی لیکن اس وقت بڑوں کے مقام اور ان کی عزت و احترام کی وجہ سے ہم نے حکمت سمجھے بغیر اس کو صحیح تسلیم کر لیا.پھر جب بڑے ہوئے تو ہم نے اس مسئلہ پر غور کیا تو اس بنیادی صداقت کی حکمتیں بھی ہمارے ذہن نشین ہو گئیں اس وقت چونکہ میرے مخاطب بچے بھی ہیں اور بڑی عمر کے بھی ہیں اس لئے میں بچوں سے تو یہ کہوں گا کہ انہیں سمجھ آئے یا نہ آئے اسلام کی اس بنیادی صداقت کو مان لینا چاہیے کیونکہ بڑی پر حکمت تعلیم ہے قرآن عظیم کی اِسے سمجھو اور دل میں گاڑلو.یہ تعلیم اس لئے دی گئی کہ مسلمانوں نے دنیا کے ہر ملک میں پہنچنا تھا جس وقت قرآن کریم نازل ہوا اس وقت گو اس کے مخاطب عرب کے لوگ ہی تھے لیکن ساتھ یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عالمین کے لئے ہے آپ کو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ بنا کر بھیجا گیا تھا.پس چونکہ دنیا کے ہر ملک میں مسلمان نے جانا تھا اس واسطے بچے کو تو یہ کہا گیا کہ قانون شکنی نہیں کرنی اور بڑے کو اس کی حکمت بھی بتا دی کہ تم نے ہر ملک کے شہری کی حیثیت میں زندگی گزارنی ہے.بعض ممالک اسلامی ہوں گے بعض کی حکومتیں غیر اسلامی ہوں گی.لیکن ہر وہ حکومت جو ایک شہری کے حقوق کو قائم کرتی اور ادا کرتی ہے تم نے قطع نظر اس کے کہ حاکم کون ہے اس اصولی تعلیم کو یا درکھنا ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کرنی ہے.میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں بہت سی ایسی باتیں بتائی تھیں آج میں پھر اُن میں سے ایک بات کو لے رہا ہوں.قرآن کریم کے الفاظ الہی انتخاب ہے.اس پر غور کریں تو بڑا لطف آتا ہے.اللہ تعالیٰ نے حاکم وقت نہیں کہا بلکہ اولی الامر کہا ہے.دراصل ایک قانون ہے اور ایک
خطبات ناصر جلد ششم ۴۹۱ خطبہ جمعہ ۲؍جولائی ۱۹۷۶ء صاحب قانون ہے.اولی الامر میں یہ دونوں باتیں آجاتی ہیں.ایک امر یا حکم ہے جس کو ہم قانون کہتے ہیں جب وہ مدون ہو جائے.ملکی دستور یا قانون بن جائے تو وہی امر یا حکم ہے اور ایک صاحب حکم ہے.جہاں تک صاحب حکم کا تعلق ہے اولی الامر کی رو سے اس کا دائرہ اختیار نفاذ حکم تک محدود ہے یعنی اس نے Execute کرنا ہوتا ہے یعنی حکم کو نافذ کرنا ہوتا ہے.پس جو شخص بھی قانون کی اطاعت کرے گا اس کو لازماً صاحب امر کی بھی اطاعت کرنی پڑے گی یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے جس کا اثر چودہ سوسالہ اسلامی تاریخ میں ہمیں نظر آتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو دنیا میں فساد پیدا ہو جائے.اگر ایسا نہ ہو تو اسلام کی تبلیغ کے راستے میں بڑی زبر دست رکاوٹیں پیدا ہو جا ئیں.اگر ایسا نہ ہو تو وہ کشش اور جذب جو اسلام کا خاصہ ہے اور عرب یا مصر یا شام یا ہندوستان یا پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ نوع انسانی کو اپنی طرف کھینچنے والا ہے اُس کے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اس واسطے جہاں نوع انسانی کو امت واحدہ کے ایک مقام پر کھڑا کر دیا گیا وہاں جو اندرونی حقیقت تھی یعنی وطن کی محبت اس کو ایمان کا حصہ بنا دیا گیا اور اس میں کوئی تضاد نہیں بلکہ اس میں دونوں باتوں کا ایک نہایت حسین اور نہایت پر لطف امتزاج ہے.دراصل اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے انٹر نیشنلزم اور نیشنلزم یعنی بین الاقوامی تصورات اور قومی نظریوں کے اندر ایک امتزاج پیدا کر دیا ہے ان میں ایک جوڑ پیدا کر دیا ہے.انسانی نظر اور اس کی بصیرت اسے دیکھ کر الجھتی نہیں کہ ان دونوں کا آپس میں ملاپ کیسے ہو گیا.اس لئے جو دوست بڑی عمر کے ہیں وہ سوچیں ، ہم بھی جب بڑے ہوئے تھے تو اس مسئلے پر سوچا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمتیں بتا دیں تھیں.پس ایک تو میں اپنے بچوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم سے جو بڑی نسلیں یکے بعد دیگرے احمدیت میں شامل ہوئیں ان کو یہ تربیت دی گئی تھی کہ قانون کی اطاعت کرنی ہے انہوں نے یہ تربیت حاصل کی تھی کہ قانون شکنی نہیں کرنی اور جو شخص صاحب قانون ہے اس کی بھی اطاعت کرنی ہے کیونکہ وہ قانون کا نفاذ کرتا ہے اور اس طرح گویا ملک ملک کا قانون ملک ملک کے شہریوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور دوسرے حقوق کی حفاظت کے لئے کوشاں رہتا ہے.یہ اہمیت کے
خطبات ناصر جلد ششم ۴۹۲ خطبہ جمعہ ۲؍جولائی ۱۹۷۶ء لحاظ سے ایک چھوٹا حکم ہے جسے میں نے بچوں کی عمر کے لحاظ سے ان کے ذہن نشین کرانے کے لئے لیا تھا.گو یہ چھوٹے چھوٹے حکم ہیں لیکن ہیں بنیادی احکام میں سے اور ہر حکم کی پابندی کرنا اور اس کا ماننا اور اس سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے تاہم کوئی حکم چھوٹا ہے اور کوئی بڑا ہے قانون اور صاحب قانون کی اطاعت کرنا چھوٹے احکام میں سے ہے گو یہ بھی ایک بنیادی حکم ہے لیکن جو بنیادی طور پر سب سے بڑا حکم ہے وہ شرک سے اجتناب ہے.اسلام نے جس طرح شرک کو بیان کیا ہے وہ بیان اپنے اندر ایک محسن رکھتا ہے بلکہ یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ سن بیان اپنے کمال پر پہنچا ہوا نظر آتا ہے.پھر قرآن کریم کی جو تفسیر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تشریح کی اس کا ایک کے بعد دوسرا ورق حسن سے بھرا ہوا نظر آتا ہے.توحید باری کا اقرار اور شرک سے اجتناب کی تعلیم پہلو بہ پہلو چلتی ہے.اصل توحید باری ہے اور یہ مثبت پہلو ہے.شرک سے اجتناب منفی پہلو ہے.خدا تعالیٰ کو واحد ویگا نہ ماننا اور اسے تمام صفات حسنہ سے متصف تسلیم کرنا اور اس کے متعلق یہ یقین رکھنا کہ کوئی کمزوری اور عیب اور نقص اس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا، تو حید حقیقی ہے اور یہ جان ہے دو چیزوں کی ایک مذہب کی جان ہے اور ایک انسان کی جان ہے.کیونکہ اگر تو حید نہ ہو.اگر تو حید کوسمجھا اور خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل نہ کی جائے تو پھر انسان کو پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی.جب یہ کہا گیاتو لاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكِ تو یہ بھی کہا گیا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا موحد دنیا میں پیدا کرنا خدا کو منظور نہ ہوتا تو دنیا پیدا نہ کی جاتی.پس تو حید حقیقی اور توحید خالص ایک طرف مذہب کی روح اور جان ہے اور دوسری طرف انسان کی روح کی روح اور اس کی جان ہے.توحید پر قائم ہو جانا اور قائم رہنا انسانی زندگی کا اولین مقصد ہے.ہماری سب دینی اور مذہبی جد و جہد اسی کے گرد گھومتی ہے باقی تمام فروعات ہیں.یہی ایک نقطہ ہے جو ہماری زندگی کا بھی مرکزی نقطہ ہے اور مذہب کا بھی.جب ہم مذہب کا نام لیتے ہیں تو اس سے ہماری مراد اسلام ہے تو حید حقیقی کا اقرار اسلام کا مرکزی نقطہ ہے.اسلام کے اس مرکزی نقطے کے گرد ہماری زندگی کا ہرلمحہ طواف کرتا ہے.یہی ہماری زندگی کا مرکزی نقطہ
خطبات ناصر جلد ششم ۴۹۳ خطبہ جمعہ ۲؍جولائی ۱۹۷۶ء ہے.سو جاننا چاہیے کہ یہ تو حید نہیں ہے کہ بعض لوگ خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لانے کا اعلان بھی کرتے ہیں اور قبروں پر سجدہ کرنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں.یہ توحید نہیں ہے یہ توحید کا چھلکا ہے.اسی طرح بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ وہ خدائے واحد و یگانہ پر جو تمام قدرتوں کا مالک ہے اور جس کے حکم کے بغیر درخت کا ایک پتہ بھی زمین پر نہیں گرتا اُس پر ایمان بھی لاتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نعوذ باللہ ان کی کوششیں اپنے طور پر ثمر آور ہو جائیں گی.گویا انہیں خدا تعالیٰ کی مہربانی ، اس کی رحمت اور اس کے فضل کی ضرورت نہیں ہے.یہ تو حید کا اقرار نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی کامل معرفت انسان پر کامل فنا طاری کر دیتی ہے.پس اے عزیز بچو! اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت تمہیں یہ بتاتی ہے اور خدا کا یہ حکم یاد دلاتی ہے کہ تدبیر کرو.اپنے وقتوں کو علم سیکھنے میں گزارو.اس لئے تم اپنے وقت علم سیکھنے میں گزارتے ہو لیکن علم کا حاصل ہونا خدا تعالیٰ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں ہے یہ تو حید ہے.یہ سمجھ لینا کہ ہم خدا تعالی کی ہر آن رحمت سے یا اس کی نزول رحمت سے بے نیاز ہو کر اپنی عقل سے اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں یہ تو حید نہیں ہے.توحید یہ ہے کہ انسان یہ کہے کہ میرے رب نے اپنی رحمت سے مجھے عقل دی اور میں دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنی رحمت سے عقل کے صحیح استعمال کی مجھے تو فیق عطا فر مائے اور جب مجھے یہ تو فیق عطا ہو جائے تو اس کا جو نتیجہ نکلنا چاہیے وہ اپنے فضل سے خود آسمانوں سے حکم نازل کر کے نکالے.یہ ہے تو حید جس کا حقیقی اقرار ضروری ہے.دولت ہے، دنیوی اقتدار ہے.ہزاروں چیزیں ہیں جو انسان کی راہ میں بت بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں.ان کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے ادھر اُدھر پھینک دینا اور توحید خالص کی راہ پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا یہ ہر احمدی مسلمان کا فرض ہے شرک سے بچنا اور خدا کے لئے خدا کے حضور سب کچھ پیش کر دینا ہی اسلام ہے.یہ قربانی بھی اسی طرح ہونی چاہیے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جذباتی لحاظ سے اور ان کے بیٹے نے ہر لحاظ سے سب کچھ قربان کر دیا تھا.خدا کی رضا کے لئے اپنی گردن جھکا دی تھی اور کہا تھا اگر خدا کا یہ حکم ہے تو مجھے ذبح کر دیں.چنانچہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا تو کوئی بحث نہیں چلی کہ پہلے مذاہب نے تو یہ حکم نہیں دیا یا اخلاقی طور پر اس کی یہ مضرتیں
خطبات ناصر جلد ششم ۴۹۴ خطبہ جمعہ ۲؍جولائی ۱۹۷۶ء ہیں یا انسان کے جو بنیادی حقوق ہیں یہ حکم اس کے خلاف ہے.غرض کوئی بحث ہی نہیں کی اور فیصلہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا اور خدا تعالیٰ نے یہی فیصلہ کیا کہ تم نے اپنی مرضی سے اپنا سب کچھ میرے حضور پیش کر دیا اور میں اپنی مرضی سے یہ سب کچھ پھر تمہیں واپس لوٹاتا ہوں.جن قربانیوں کا میں مطالبہ کروں گا وہ اس سے مختلف اور اس سے بڑی ہوں گی اور وہ قربانیاں تمہیں دینی پڑیں گی میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ وہ بڑی قربانی جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کو نسلاً بعد نسل دینی پڑی یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو گئے اور پھر اولاد ابراہیم آپ کی خدمت میں لگ گئی اور انہوں نے خدا کی توفیق اور اس کی رحمت سے دنیا میں نوع انسانی کے حق میں ایک انقلاب عظیم بپا کر دیا.غرض توحید خالص پر قائم رہنا اور شرک سے پورا اجتناب ضروری ہے ایسی صورت میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اطاعت امیر کرنی ہے اور قانون شکنی نہیں کرنی تو یہ ایک دوسرے کے متضاد نہیں کیونکہ ہم حکومت وقت کے اس لئے وفادار نہیں کہ ہم کسی سے ڈرتے ہیں بلکہ اس لئے اطاعت کرتے ہیں کہ خدا کہتا ہے حکومت وقت کے وفادار ہو.اسی طرح ہم قانون شکنی سے بچتے ہیں اور قانون کی اطاعت کرتے ہیں اس لئے کہ خدا نے قرآن کریم میں کہا ہے کہ تم قانون کی اطاعت کرو اور چونکہ قرآن کریم حکمتوں سے پر کتاب ہے.قرآن کریم نے ہر بات کی حکمت بھی بتا دی ہے پس ہم علی وجہ البصیرت قانون شکنی سے پر ہیز کرنے والے اور قانون کی اطاعت کرنے والے ہیں.ویسے تو ہر ملک کی ایک بہت بھاری اکثریت قانون کی اطاعت کرتی ہے اور حاکم وقت کی مطیع اور تابعدار ہوتی ہے لیکن ان میں سے اکثر علی وجہ البصیرت سوچ سمجھ کر اطاعت نہیں کر رہے ہوتے بلکہ کوئی ڈر کے مارے کر رہا ہوتا ہے.کوئی لالچ میں کر رہا ہوتا ہے.کوئی کسی نیت سے اور کوئی کسی نیت سے اطاعت کر رہا ہوتا ہے.اس وقت اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں.لیکن ایک مسلمان احمدی اس لئے اطاعت کر رہا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے سمجھایا ہے کہ اگر تم میرا یہ حکم مانو گے تو میری طرف سے تمہیں جزا ملے گی.تمہیں ثواب ملے گا.تمہاری زندگی کی خوشحالی کے سامان پیدا ہوں گے.اس لئے کسی پر احسان جتائے بغیر، حاکم وقت پر
خطبات ناصر جلد ششم ۴۹۵ خطبہ جمعہ ۲؍جولائی ۱۹۷۶ء احسان جتائے بغیر ایک احمدی حکومت وقت کی اطاعت کرتا ہے.حاکم وقت سے کسی چیز کو حاصل کرنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا نہیں ہوئی گویا وہ یہ نہیں چاہتا کہ کسی کی ایسے رنگ میں اطاعت کروں گا اور ساتھ خوشامد بھی کروں گا تو مجھے فلاں چیز مل جائے گی.یہ نہیں ہوگا بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور نوع انسانی جو اس کی مخلوق ہے اس کو فساد سے بچانے کے لئے احمدی مسلمان امر کی اطاعت کرتا ہے اور اولی الامر کی اطاعت کرنے والا ہے.پس اس میں کوئی تضاد نہیں ہے یہ میرے مضمون کے پہلے حصے یعنی توحید کے عین مطابق ہے.اگر قرآن کریم میں کوئی اور حکم ہوتا تو ہم اس کے مطابق عمل کرنے والے ہوتے لیکن قرآن کریم نے ہمیں کہا ہے اطِیعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ - (النساء :۶۰) اس لئے ہم قانون کی اطاعت کرنے والے ہیں قانون کو ہاتھ میں لینے والے نہیں اور قانون کو توڑنے والے نہیں اور جو صاحب قانون ہے یعنی جسے ہم اولی الامر کہتے ہیں اس کی بھی اطاعت کرنے والے ہیں اور یہ اس لئے کہ یہ بھی ایک پہلو ہے تو حید کے قائم کرنے کا کیونکہ تو حید خالص تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی ہر پہلو سے اطاعت کی جائے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کے سینکڑوں احکام میں سے ایک حکم ہے.پس جیسا کہ میں بتا چکا ہوں بچوں کے لئے اتنا ہی سمجھ لینا کافی ہے کہ قانون ہاتھ میں نہیں لینا قانون تو ڑنا نہیں.قانون کا احترام کرنا ہے.قانون کی عزت کرنی ہے.قانون شکنی نہیں کرنی.قانون کی اطاعت اور تابعداری کرنی ہے اور اس طرح اولی الامر کی لیکن جو سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ ہیں وہ خود سوچیں.کچھ حکمتیں تو میں نے بتا دی ہیں باقی وہ خود مطالعہ کریں اور غور کے بعد معلوم کریں.بڑی حکمتیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے بلکہ ابھی تک سب سے گہری حکمت جو میرے دماغ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيمَانِ والا حصہ نہ ہوتا تو جو اس زمانے میں اسلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس قدرت کا اظہار کرنا تھا یعنی یہ کہ مختلف ملکوں میں بسنے والے انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں وہ ممکن نہ ہوتا.اس کے لئے ضروری تھا کہ جس طرح پرانے زمانہ میں بڑے بڑے پتھر رکھ کر قلعوں کی دیوار میں بنائی جاتی تھیں.اُسی طرح ہر ایک ملک کے باشندوں کا
خطبات ناصر جلد ششم ۴۹۶ خطبہ جمعہ ۲؍جولائی ۱۹۷۶ء اکٹھے ہو کر بڑے بڑے مضبوط پتھر بن جانا اور اس طرح نوع انسانی کا ان مضبوط پتھروں کے ملاپ سے اُمتِ واحدہ بن جانا بڑا عظیم کام ہے اور ہم پر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن یہ اس وقت میرے مضمون کا حصہ نہیں تیسری بات جو اس وقت میں طلبائے درس القرآن کلاس کو کہنا چاہتا ہوں وہ علمی لحاظ سے کچھ حاصل کرنے سے متعلق ہے.تمام طلباء وطالبات یہاں کچھ علم سیکھنے کے لئے آئے ہیں علم سر چشمہ ہے عمل کا اس لئے وہ یہاں جن اچھی باتوں کا علم سیکھیں اس کے متعلق اپنے دل میں یہ عہد کریں کہ اپنی بھلائی کی خاطر اپنی زندگی میں اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :.تم اگر پاک علم کے وارث بننا چاہتے ہو تو نفسانی جوش سے کوئی بات منہ سے مت نکالوکہ ایسی بات حکمت اور معرفت سے خالی ہوگی پس علم سیکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو بات ہم منہ سے نکالتے ہیں وہ سوچ سمجھ کر نکالیں اور اپنے نفسوں کے جوش کو اپنے قابو میں رکھیں جوش ایک طبعی چیز ہے جو طبعی چیز ہے اسلام کا یہ حکم نہیں کہ اسے فنا کر دیا جائے.جوطبعی چیز ہے وہ خدا کی عطا ہے اس لئے وہ غلط نہیں ہوسکتی جس چیز کا خطرہ پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے انسان اس کا استعمال غلط طور پر کر لیتا ہے انسانی طبیعتوں کے اندر ایک جوش ایک جذبہ اور ایک احساس پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو کچھ کرنا چاہیے میں جماعتِ احمدیہ کے ہر چھوٹے اور بڑے سے کہتا ہوں کہ تم اس جوش کو اپنے دائرہ کے اندر رکھو اس کو بے لگام مت چھوڑو تا کہ تمہارے جوش اسلام کی خدمت میں خرچ ہوں.تمہارے جوش نوع انسان کی بھلائی کے لئے خرچ ہوں.تمہارے جوش لوگوں کی ایذاء پر منتج نہ ہوں تمہارا جوش زبان سے بھی نکلتا ہے ہاتھ سے بھی نکلتا ہے بلکہ اشاروں سے بھی انسان اپنے جوش کا اظہار کر دیتا ہے لیکن ہر وہ اظہار جوش جو غلط طور پر کیا جاتا ہے وہ انسان کو حکمت کے سرچشمہ سے دور سے دور لے جاتا ہے.پس میں طلبائے درس القرآن سے کہوں گا کہ انہوں نے اسلامی تعلیم کے مطابق صحیح اور حقیقی علم سیکھنا ہو اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلامی تعلیم کے مطابق صحیح اور حقیقی علم ہو تو اس سے ہماری مراد محض دینی علم ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ سب دینی و دنیوی علوم مراد ہیں جن پر عمل کر کے انسان قرآنی تعلیم
خطبات ناصر جلد ششم ۴۹۷ خطبہ جمعہ ۲؍جولائی ۱۹۷۶ء کی رو سے حسنات دنیا اور حسنات آخرت کا وارث بنتا ہے یہ حسنات تبھی ملتی ہیں جب صرف جوش ہی جوش نہ ہو دنیا میں جتنے اچھے عالم محقق اور موجد گزرے ہیں ان کی سوانح سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے ٹھنڈے دل اور دماغ کے مالک تھے اور جوش میں آکر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے میں نے دیکھا ہے اور مجھے بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ بعض دفعہ بعض احمدی بھی جوش میں آجاتے ہیں کوئی حوالہ مل جاتا ہے تو وہ چھلانگ لگا کر اس کا غلط استدلال کر لیتے ہیں ایسا حوالہ کسی کام کا نہیں نہ ہمارے کام کا اور نہ کسی اور کے کام آسکتا ہے.غرض ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر اور سمجھ کر اور پھر نتائج نکالنا یہ چیز تبھی ممکن ہے جب انسان اپنے جوش کو قابو میں رکھے وہی شخص دنیا میں ترقی کرتا ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھتا ہے آج کی دنیا دنیوی علوم میں بہت ترقی کر گئی ہے احمدی نوجوان نے انشاء اللہ و بفضلہ تعالیٰ ان سے آگے نکلنا ہے اور آج کی دنیا دین کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئی ہے اور دین کے میدان میں اس کو آگے لانا ہے ایک احمدی نے اپنی دعاؤں کے ساتھ اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اور تکبر کے کسی پہلو کو بھی قریب نہ پھٹکنے دے کر.پس جو تکبر اور فخر اور غرور ہے یہ ہمارے حصہ میں نہیں اور ہم خوش ہیں اور الحمد للہ کہتے ہیں کہ ہمارے حصہ میں نہیں ہمارے حصہ میں عاجزی، انکساری فروتنی ہمدردی اور غمخواری ہے اور ہم الحمد للہ پڑھتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ ہمارے حصہ میں آئے اور خدا کرے کہ یہ ہمیشہ ہی ہمارے حصہ میں رہیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۰ ؍جولائی ۱۹۷۶ء صفحه ۲ تا ۵ )
خطبات ناصر جلد ششم ۴۹۹ خطبہ جمعہ ۱۶ / جولائی ۱۹۷۶ء اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے جلوے غیر محدود ہیں خطبه جمعه فرموده ۶ ارجولائی ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہم اس کامل اللہ پر ایمان لاتے ہیں جسے قرآن عظیم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.قرآن عظیم کے ذریعہ انسان نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں حقیقی علم حاصل کیا اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو علم قرآن دیا گیا ہے چنانچہ اگر ہم آپ کی کتب پڑھیں تو ہمیں خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے بارے میں بڑا ہی علم حاصل ہوتا ہے.قرآن کریم نے جو اللہ پیش کیا ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے وہ خدائے واحد و یگانہ بے انتہا قدرتوں کا مالک ہے.اس کی قدرتوں اور حکمتوں کی کوئی انتہا نہیں اور چونکہ اس کی قدرتوں کی انتہا نہیں.اس لئے انسان کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اس کی قدرتوں کا احاطہ کر سکے.انسانی علم الہی قدرتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات غیر محدود ہیں اور ان صفات کے جلوے بھی غیر محدود ہیں اور خدا تعالیٰ کی جو بھی مخلوق ہے اس کے اندر ایک صفت اللہ تعالیٰ نے یہ پیدا کی ہے کہ وہ اس کی ازلی ابدی صفات کا اثر اور ان کے غیر محمد ودجلوؤں کا اثر قبول کرے.ہر مخلوق کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے.خدا تعالیٰ کا ان غیر محدود صفات اور
خطبات ناصر جلد ششم ۵۰۰ خطبہ جمعہ ۱۶ جولائی ۱۹۷۶ء آثار الصفات ( یعنی ان صفات کا جو اثر ہوتا ہے اس کو ہم جلوہ بھی کہتے ہیں اثر کی جمع آثار ہے ) کے اثر کو قبول کرنے کی خاصیت ہر مخلوق میں پیدا کی گئی ہے چھوٹی میں بھی اور بڑی میں بھی.پس اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے غیر محدود ہیں اور ان کی حد بست نہیں کی جاسکتی اور ہر مخلوق خدا تعالیٰ کی ازلی ابدی صفات کا اثر قبول کر رہی ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے ہر ایک میں جو خاصیتیں پائی جاتی ہیں ان پر انسانی علم احاطہ نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے خشخاش کے دانے کی مثال دی ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ اگر ساری دنیا کے سائنسدان اکٹھے ہوکر خشخاش کے دانے پر تحقیق کرتے چلے جائیں تو کسی جگہ وہ اس مقام پر نہیں پہنچیں گے کہ وہ یہ کہیں کہ خشخاش کے دانے کی تمام خصوصیتوں پر ہماری تحقیق اور تجربے اور فہم نے احاطہ کر لیا ہے.یہ کوئی فلسفہ یاد قیق بات نہیں ہے بلکہ جب ہم دنیا کی تاریخ پر ، انسان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت بڑی واضح ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کیونکہ جب سے انسان نے علم کے میدان میں تحقیق کے گھوڑے دوڑانے شروع کئے ہیں اس وقت سے انسان آگے ہی آگے بڑھتا چلا جارہا ہے.مجموعی طور پر بھی انسان یہ نہیں کہ سکتا اور نہ ان میں سے کسی عظمند نے دعوی کیا کہ ہم نے اپنے علم اور اپنے تجربہ اور اپنے مشاہدہ اور اپنے فہم سے خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا احاطہ کر لیا ہے.نہ کوئی یہ کہہ سکا ہے اور نہ کہ سکتا ہے کیونکہ جس دن انسان اس غلط مقام پر کھڑا ہوا اس نے اپنے اوپر علم کے دروازے بند کر لئے.جب سب کچھ اسے مل گیا تو آئندہ کچھ ملنے کی امید باقی نہیں رہی حالانکہ اجتماعی لحاظ سے انسانی زندگی اسی امید پر قائم ہے کہ اس کا علم ترقی کرے گا.آج سے سوسال پہلے اگر کوئی یہ بات کہتا کہ بعض ایٹموں میں اس قدر طاقت ہے کہ وہ سینکڑوں میل کے علاقوں سے زندگی کو تباہ کر سکتے ہیں یا انسان کی خدمت بہت بڑے پیمانے پر کر سکتے ہیں تو لوگ ہنستے اور کہتے کہ یہ پاگل ہو گیا ہے لیکن یہ پاگل کہنے والے وہ لوگ ہوتے جو یہ سمجھتے کہ ایٹم کے متعلق ہماری تحقیق اور ہمارا علم اور ہمارا مشاہدہ مکمل ہو چکا ہے.ان پاگل کہنے والوں کے باوجود انسانی دماغ نے علم کے میدان میں اپنی کوشش اور اپنی جہد و جہد کو قائم رکھا اور ایٹم کے اندر جو طاقت چھپی ہوئی تھی اس کو باہر نکالا.انسان نے اس کو صحیح یا غلط استعمال کیا! یہ اس وقت میرے
خطبات ناصر جلد ششم ۵۰۱ خطبہ جمعہ ۱۶؍جولائی ۱۹۷۶ء زیر بحث نہیں ہے لیکن بہر حال وہ طاقت انسان کے علم میں آگئی جو ان باریک سے ذروں کے اندر چھپی ہوئی تھی.پچھلے سو سال میں بے شمار میدانوں میں ، بے شمار پہلوؤں سے انسانی علم نے ترقی کی ہے اور آئندہ صدی میں وہ اس سے بھی زیادہ ترقی کرے گا.علم کا دروازہ نوع انسانی کی کسی نسل پر بھی بند نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی صفات کے مطابق اس عالمین میں کام کر رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات غیر محدود ہیں اور ان صفات کے جلوے غیر محدود ہیں اور ہر چیز میں یہ خاصیت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات سے اثر پذیر ہو اور ان کا اثر قبول کرے.خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کا نام ہی آثار الصفات ہے اور آثار الصفات کا نام سنت اللہ ہے اور اسی کو ہم قانون الہیہ یا قانون قدرت کہتے ہیں.قانون قدرت پر احاطہ کرنا انسان کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ انسان خواہ کس حد تک ترقی کرتا چلا جائے اس کا علم محدود ہو گا اس کا مشاہدہ محدود ہو گا اور اس کا فہم محدود ہو گا لیکن خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور حکمتوں کی کوئی انتہا نہیں.ان کی حد بست نہیں کی جاسکتی اگر یہ حقیقت ہے اس مخلوق کی کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے اثر کو ہمیشہ قبول کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی اور اگر یہ حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات اثر انداز ہوتی ہیں اور مؤثر بنتی ہیں اور اگر یہ حقیقت ہے (اور یہ حقیقت ہے ) کہ خدا تعالیٰ کی ازلی ابدی صفات لا محدود اور لا متناہی ہیں اور آثار الصفات بھی لا محدود اور غیر متناہی ہیں تو قانون قدرت کی حد بست کرنا اور اس کو اپنے احاطہ علم میں لے آنا انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اور چونکہ یہ ممکن نہیں ہے اس واسطے کسی کام کے متعلق کسی واقعہ کے متعلق کسی پیشگوئی کے متعلق یا کسی معجزہ کے متعلق انسان کا یہ کہ دینا کہ ایسا نہیں ہو سکتا یا ایسا نہیں ہوا ہوگا کیونکہ یہ قانون قدرت کے خلاف ہے یہ غلط ہے.اس لئے کہ قانون قدرت کا تو انسان احاطہ ہی نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ کی صفات اور اس کی صفات کے آثار یعنی مخلوق میں جو ان کا اثر پیدا ہوتا ہے وہ غیر متناہی ہے چونکہ قدرت الہیہ کا جسے ہم قانون قدرت کہتے ہیں اس لئے احاطہ نہیں ہوسکتا کہ وہ غیر متناہی ہے تو قانونِ قدرت کا جو تھوڑا سا علم انسان کو ملا ہے اس میں دنیا کے پچھلے اور اگلے واقعات کو باندھنے کا دعویٰ کر دینا جنون
خطبات ناصر جلد ششم ۵۰۲ خطبہ جمعہ ۱۶؍جولائی ۱۹۷۶ء کی کیفیت ہے عقلمندی کی کیفیت نہیں.دنیا نے خصوصاً آج کی دنیا نے نہ صرف یہ کہ معجزہ کا دروازہ کہ اللہ تعالیٰ انسانی مشاہدہ سے باہر اپنی قدرتوں کا اظہار کر سکتا ہے یا نہیں ) آئندہ کے متعلق بند کیا بلکہ جو پچھلے معجزات اللہ تعالیٰ نے دکھائے تھے ان کے ماننے سے بھی انسان کی کم فہمی اور کم عقلی نے انکار کر دیا.ہم جو قرآن عظیم پر ایمان رکھتے اور اس زمانہ میں قرآن کریم کی حکمتوں کو سمجھنے کی اپنے رب سے تو فیق پانے والے ہیں ہم خدا تعالیٰ کے قانون کو اس کے آثار الصفات کو غیر محدود سمجھتے ہیں اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ انسان کا ناقص علم قانون قدرت کا احاطہ نہیں کر سکتا.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے عملی زندگی کے دوز بر دست دروازے کھولے ہیں اور اس تمہید کے بعد میں اس کی طرف ہی اپنے احمدی بچوں اور نوجوان طالب علموں کی توجہ پھیرنا چاہتا ہوں.ایک یہ کہ جس نے تو یہ سمجھ لیا کہ قانون قدرت پر انسانی علم نے احاطہ کر لیا ہے اس کے لئے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنا ذ ہنی طور پر مشکل ہو جاتا ہے یہ الجھن پیدا ہو جاتی ہے کہ جب جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ ہو چکا تو اب ہم کیا کریں.رکھے الگا ئیں، پچھلوں نے جو کہا تھا اس کو اپنے حافظہ میں محفوظ رکھیں؟ یہ تو علم نہیں ہے عربی کی اصطلاح میں بھی اسے علم نہیں کہتے بلکہ علم کے اصطلاحی معنی ہیں وہ نور فراست جو اندھیروں میں اجالا پیدا کر دے.اس واسطے رتھ لگانے یا پچھلوں کے مشاہدات کو از بر حفظ کر لینے کا علم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ پچھلوں کے مشاہدات سے فائدہ اٹھا کر اپنے لئے نئی راہ کھولنے کی کوشش کرنا اور خدا تعالیٰ کی توفیق سے کامیاب ہو جانا یہ علم ہے.اللہ تعالیٰ نے احمدی نوجوانوں کو احمدی طلباء کو بڑا ذہن دیا ہے.ان کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی غیر محدود قدرت اور اس کے قوانین قدرت اور آثار الصفات میں سے ایک چھوٹا سا حصہ انسان نے ابھی تک علمی رنگ میں حاصل کیا ہے اور بہت بڑا چھپا ہوا علم اس وقت موجود ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے آثار تو ہر وقت ظاہر ہور ہے ہیں اس کی صفات ہر وقت جلوہ گر ہوتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی مخلوق ہر روز ان صفات سے نئے اثرات قبول کر رہی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں میں اثر پیدا کرنے کی طاقت ہے وہ تو قادر مطلق ہے اسے جو چیز پسند ہو وہ ظاہر ہو جاتی ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۵۰۳ خطبہ جمعہ ۱۶ / جولائی ۱۹۷۶ء اسلام نے ہمیں جو چیز سکھائی ہے وہ بڑی عجیب ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر مخلوق میں، ہر چیز جو اس نے پیدا کی ہے اس میں ایک خاصیت یہ رکھی ہے کہ وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی صفات کا اثر قبول کرتی رہی ہے، قبول کرتی ہے اور قبول کرتی رہے گی.اسی واسطے میں نے کئی دفعہ بغیر تفصیل میں جانے کے یہ کہا کہ ہر سال ہم گندم کے جو دانے کھاتے ہیں وہ پچھلے سال کی نسبت اس لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں کہ اس سال کے دوران پہلے کے مقابلہ میں ان گندم کے دانوں نے پتہ نہیں کتنے غیر محدود آثار صفات باری سے اثر قبول کیا ہے اور آگے پھر انہوں نے اثر کرنا ہے ہمارے جسم پر ، اثر کرنا ہے ہمارے ذہن پر اور ہمارے اخلاق پر اور ہماری روحانیت پر.کیونکہ کھانے کا اثر بھی اس دنیا میں ان سب چیزوں پر پڑتا ہے جو بظاہر اس کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی لیکن تعلق رکھتی بھی ہیں.مثلاً بزدلی ہے اس کا تعلق تو اخلاق سے ہے یعنی گرے ہوئے اخلاق سے لیکن جن لوگوں نے اپنے جسم کی صحیح اور پوری نشود نما حاصل نہیں کی ان میں سے بہت سے جسمانی کمزوری کے نتیجہ میں احساس بزدلی میں ملوث ہو جاتے ہیں اور اس کا شکار ہو جاتے ہیں.حالانکہ بزدلی غیر مادی چیز ہے اور کھانا مادی چیز ہے اور ہمارے جسم بھی مادی چیز ہیں.بہر حال یہ ایک لمبا مضمون ہے اور آپ کے سامنے اس کی مثالیں آتی رہتی ہیں.پس ہمیں یعنی جماعت احمدیہ کے افراد کو اپنے حواس کو جو کہ علم حاصل کرنے کے دروازے ہیں کھلا رکھنا چاہیے تا کہ علم کی روشنی انسان کے وجود کے اندر ہر آن داخل ہوتی رہے.اس وقت میں خصوصیت سے نوجوانوں کو کہ رہا ہوں ورنہ میرا عقیدہ بھی یہی ہے اور میرا مشاہدہ بھی یہی ہے که انسان ساری عمر ہی علم سیکھتا ہے اور طالب علم رہتا ہے لیکن خاص طور پر جو طالب علم کی زندگی ہے وہ طالب علم کی زندگی کہلاتی ہے لیکن اصل میں علم کا حصول تو انسان مرتے دم تک کرتا ہے یا اس کو کرنا چاہیے اور جماعت تو ایسا کرتی ہے ان کے لئے نئے سے نئے علم سیکھنے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کے نشانات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ہر علم خدا تعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ ہر چیز کی خصوصیتیں اور خواص در اصل آثار صفات باری ہیں.دوسرا دروازہ جو اس حقیقت زندگی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے کھولا ہے وہ یہ
خطبات ناصر جلد ششم ۵۰۴ خطبہ جمعہ ۱۶؍جولائی ۱۹۷۶ء ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ غیر متناہی قدرتوں کا مالک ہے اس لئے کوئی چیز اس کے حضور انہونی نہیں ہے اور ہماری زندگی میں بالکل قطعاً کوئی ایسا لمحہ نہیں آتا کہ ہمیں یہ کہنا پڑے کہ اب تو ہمارا خدا بھی ہماری مدد کو نہیں آسکتا.یہ کفر ، شرک اور ہلاکت کا خیال ہے اگر کسی کے دماغ میں آئے.خدا محفوظ رکھے.میں کئی دفعہ اس کی مثالیں دیتا رہتا ہوں.اس وقت میں مثال تو نہیں دوں گا لیکن یہ حقیقت میں نے بیان کر دی ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور کوئی چیز انہونی نہیں ہے اور چونکہ کوئی چیز اس کے حضور انہونی نہیں بلکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے سوائے اس چیز کے جو اس کی صفات کے اور اس کے تقدس کے خلاف ہو یا اس کے وعدہ کے خلاف ہو یا مثلاً دعا کرنے والے کے اپنے مفاد کے خلاف ہو.کیونکہ بعض دفعہ انسان خود اپنا فائدہ نہیں سمجھتا لیکن خدا سمجھ رہا ہوتا ہے اس لئے جو دعا کی جاتی ہے وہ قبول نہیں ہوتی بلکہ اس سے بہتر رنگ میں خدا اس کی دعا کو قبول کر لیتا ہے.پس دوسری چیز جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ قبولیت دعا ہے اور مایوسی کا قطعاً فقدان.کسی احمدی کے دل میں کبھی یہ مایوسی پیدا نہیں ہو سکتی کہ ہمارا رب کسی وقت کسی چیز کے کرنے پر قادر نہیں ہوگا.اگر ہم تدبیر کو جو اسی کی بتائی ہوئی ہے اپنی انتہا تک پہنچائیں گے اور اگر ہم دعا کو جو اس کے حضور الحاح کے ساتھ اس کی رحمت کو جذب کرنے کا ایک ذریعہ ہے اس کی انتہا تک پہنچائیں گے تو ہماری تدبیر اور ہماری دعا کا جو سانجھا نتیجہ نکلے گا وہ بہترین کامیابی اور فلاح ہے.اس زمانہ میں جبکہ ایک دنیا خدا سے دور ہٹی ہوئی ہے اور اس سے پرے جا رہی ہے جس جماعت پر اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا ہو کہ اس کو ان باریکیوں میں جا کر خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق علوم حاصل کرنے کے مواقع میسر آگئے ہوں اور اس کے نتیجہ میں علم کے حصول کا اور علمی میدانوں میں آگے بڑھنے کا شوق ان کے دلوں میں پیدا ہو رہا ہو اور وہ اپنی زندگیوں میں دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھنے والے ہوں اتنے بابرکت زمانہ میں اگر وہ جماعت یا اس کے بعض افراد فائدہ نہ اٹھا ئیں تو ان سے زیادہ بد بخت اور بدقسمت کو ئی نہیں ہوگا.ہم نے جو دعا اور تدبیر کرنی ہے وہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق انسانی فلاح اور بہبود کے لئے کرنی ہے.ہمیں اسلام میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک مسلمان دل کسی سے بغض اور حسد اور کینہ اور دشمنی نہیں رکھتا
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۱۶؍جولائی ۱۹۷۶ء بلکہ وہ ہر ایک کی خیر خواہی اور بھلائی چاہتا ہے اور ایک دل جو ہر ایک کی خیر خواہی اور بھلائی چاہنے والا ہے اور اسے یہ بھی علم ہے کہ تدبیر اور دعا کے ساتھ اپنے اس مقصد کو وہ بہترین صورت میں حاصل کر سکتا ہے اگر وہ پھر بھی اس میں کوتا ہی کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے لیکن کو تا ہی کیوں کرے ! جماعت خدا کے فضل سے بحیثیت جماعت ان باتوں میں کوتاہی کرنے والی نہیں ہے.میں چونکہ چند دنوں تک دنیا کے بعض ایسے حصوں میں سفر کرنے والا ہوں جو پاکستان سے باہر ہیں اس لئے آج میں بعض دعاؤں کی طرف خصوصیت سے توجہ دلانا چاہتا ہوں ( میں نیچے سے اوپر جاؤں گا).اول اپنے نفس کے متعلق دعا کرنی چاہیے ولنفسك عليك علی ورائٹس کے لئے اگر صیح رنگ میں دعا کی جائے تو وہ بنیاد بن جاتی ہے.ہر شخص جب اپنے نفس کے لئے دعا کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک درد پیدا ہوتا ہے کئی پریشانیاں جب دعا کرتے وقت سامنے آتی ہیں کئی ضرورتیں جب دعا کرتے وقت سامنے آتی ہیں تو ایک جذب پیدا ہوتا ہے.پھر اپنے نفس سے اٹھو اور پھر زیادہ دعائیں اپنے ماحول کے متعلق ، اور زیادہ دعا ئیں اپنے ملک کے متعلق کرو میں نے پہلے بھی کہا ہے اور یہ کہتے ہوئے میں تھکوں گا نہیں کہ ہمارے ملک کی ہم پر جو دعا کی ذمہ داری ہے وہ اس نوعیت کی ہے کہ دوسرے شاید اس کی اہمیت کو اتنا نہ سمجھتے ہوں.میں یہ کہتا ہوں کہ ہم انتہائی شدت کے ساتھ یہ احساس رکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو اپنے ملک کی خیر خواہی اور بھلائی کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں.اپنے ملک کے استحکام اور بہبود کے لئے اور فتنہ وفساد سے ملک کے بچنے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں.جب سے انسان ملک ملک میں بسنا شروع ہوا اور رہنے لگا ہے اس وقت سے ہر ملک کو کوئی نہ کوئی پریشانی، کوئی پرابلم (Problem) کوئی الجھن اور کوئی مسئلہ رہتا ہے.ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے تمام مسائل ایسے رنگ میں حل کر دے کہ تمام اہل ملک ، اہل پاکستان کے لئے خیر اور خوبی کے سامان پیدا ہو جائیں.لیکن اسلام محض ایک ملک سے تو تعلق نہیں رکھتا بلکہ وہ نوع انسانی سے تعلق رکھتا ہے ملک
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۱۶؍جولائی ۱۹۷۶ء ملک کی اکائیاں مل کر بین الاقوامی معاشرہ پیدا کرتی ہیں اور بین الاقوامی معاشرہ کے اندر بہت اصلاح کی ضرورت ہے جیسا کہ ہر بیدار مغز انسان جانتا ہے دنیا میں کبھی کسی جگہ فساد پیدا ہو رہا ہے اور کبھی کسی جگہ فساد پیدا ہورہا ہے اور انسان کو یہ مسئلہ ابھی سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک خاندان اور ایک برادری کی طرح زندگی اور معاشرہ کو قائم کر کے ان تمام مسائل کو حل کرنا چاہیے بلکہ جس وقت انسان بین الاقوامی سطح پر اٹھا تو اس نے اپنے لئے نیشنلزم سے زیادہ مسائل پیدا کر لئے.ہماری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کو بحیثیت انسان یہ توفیق دے کہ وہ ایک دوسرے سے پیار کرنے لگے.پیار نہ ہونے کی وجہ سے اور ایک دوسرے سے پیار نہ کرنے کے نتیجہ میں دنیا میں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اور بعض جگہ کبھی افریقہ میں کبھی امریکہ کے بعض حصوں میں ، کبھی یورپ میں ،کبھی ایشیا میں کبھی جزائر میں انسان دیکھی ہو جاتا ہے.دنیا میں جہاں بھی انسان دکھی ہوتا ہے میں اپنے آپ پر بھی قیاس کرتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ ہر احمدی کا دل دکھی ہو جاتا ہے اور اسے تکلیف محسوس ہوتی ہے.ان کے دکھوں کو دور کرنے کا ہمارے پاس اور کوئی مداوا نہیں سوائے اس کے کہ ہم ان کے دکھوں کے دور ہونے کے لئے اپنے خدا کے حضور جھکیں اور اس سے دعائیں کریں.احمد یوں کو دعا کے میدان میں بین الاقوامی سطح پر انسان کے لئے بحیثیت انسان دعا ئیں کرنی چاہئیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا تھا کہ آخری زمانہ میں نوع انسانی ایک خاندان بن کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.ہم احمدی یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہی وہ زمانہ ہے.پس ہمارے اوپر بڑی ذمہ داریاں ہیں اور دنیوی اور مادی لحاظ سے ہم بڑے کمزور اور بے بس اور بے سہارا ہیں لیکن وہ جس نے کہا ہے کہ ایسے اوقات میں میرا سہارا لینا وہ بڑی قدرتوں والا اور بڑی طاقتوں والا اور زبردست بادشاہت والا اور اپنے عظیم عزم کا مالک ہے اور اس دنیا میں اسی کا امر اور حکم چلتا ہے لیکن اس رنگ میں اس کا حکم چلانے کے لئے جس کے متعلق کہ اس کے وعدے ہیں اس نے ہم پر کچھ ذمہ داریاں ڈالی ہیں اگر ان ذمہ داریوں کو ہم ادانہ کریں تو وعدے تو پورے ہوں گے لیکن کچھ اور نسلیں آئیں گی کچھ اور قو میں آئیں گی جو ان وعدوں کو پورا کرنے کے لئے قربانیاں دیں گی اور خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی نعمتوں کی
خطبات ناصر جلد ششم ۵۰۷ خطبہ جمعہ ۱۶؍جولائی ۱۹۷۶ء وارث بنیں گی لیکن اور کیوں بنیں ہم کیوں نہ بنیں؟ اس لئے ہمیں ہماری اس نسل کو اور ہماری آنے والی نسلوں کو یہ دعائیں کرنی چاہئیں ( خدا تعالیٰ توفیق دے ) کہ خدا تعالیٰ کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وعدہ کہ نوع انسانی کا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کے لئے جیتا جائے گا اور نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی ہماری زندگیوں میں ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان حقیر کوششوں کے نتیجہ میں جن کی توفیق ہم خدا سے پائیں اور جن کی قبولیت ہماری کوششیں خدا تعالیٰ سے حاصل کریں یہ وعدہ پورا ہو اور یہ انقلاب آ جائے.یہ انقلاب اتنا عظیم ہے کہ اگر کوئی احمدی یہ خیال کرے کہ وہ اپنے زور اور اپنی عقل اور فراست سے ایسا انقلاب لا سکتا ہے تو وہ پاگل ہے.خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہی اس عظیم انقلاب کے لانے کا موجب ہوگی لیکن خدا تعالیٰ کی اس رحمت اور اس فضل کو جذب کرنے کے لئے ہمیں دعا ئیں بھی کرنی پڑیں گی، ہمیں قربانیاں بھی دینی پڑیں گی اور ہمیں خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی پیار سے دل جیتنے کی تدابیر کو بھی اختیار کرنا پڑے گا.خدا تعالیٰ سے یہ دعا بھی کریں جو کہ در اصل پہلی دعا کے ضمن میں ہی آتی ہے کہ اب ملک ملک کے لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے ہیں وہ ہزار ہا میل دور ہیں چار ہزار میل دور، پانچ ہزار میل دور، دس ہزار میل دور.تربیت کے مواقع ان کے لئے کم ہیں.ایک ایمان کا جذبہ ہے ایک محبت ہے جوان کے اندر موجود ہے لیکن ہر جذ بہ اپنی نشو و نما کے لئے کچھ تدبیر مانگتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے لئے کچھ کیا جائے.اس چیز کی کمی ہے.خدا تعالیٰ ان کے لئے ایسے سامان پیدا کرے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کے لئے اسوہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ بنیں اور اس طرح پر وہ لوگوں کی توجہ اُس حسن اور اس احسان کی طرف کھینچنے والے ہوں جس حسن اور احسان نے حقیقتا نوع انسانی کے دل کو اپنی طرف کھینچ کر ایک انقلاب عظیم بپا کرنا ہے وہ حسن اور وہ احسان جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن واحسان ہے کہ جس سے بڑھ کر کہیں اور نوع انسان میں آدم سے لے کر آج تک ہمیں نظر نہیں آیا.پس وہ لوگ بھی بہت دعاؤں کے مستحق ہیں ان لوگوں کی بڑی قربانی ہے ان کا اپنا ایک ماحول ہے وہ گندہ ہے ، خراب ہے جو کچھ بھی ہے لیکن وہ اس ماحول کی پیداوار ہیں اس میں سے وہ
خطبات ناصر جلد ششم ۵۰۸ خطبہ جمعہ ۱۶ جولائی ۱۹۷۶ء نکلے ہیں اور وہاں سے اُنہوں نے اپنے قد اٹھائے ہیں لیکن خدا اور رسول کی خاطر انہوں نے اس ماحول کو چھوڑا ہے ایک جذبہ کے ساتھ ایک ایمان کے ساتھ اُنہوں نے اپنے اس گندے ماحول کو چھوڑا ہے.خدا کرے کہ ان کو تربیت کے ایسے سامان مل جائیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں اور خدا کی نگاہ میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں شامل ہونے والے ہو جائیں.وہ لوگ بڑی قربانیاں دے رہے ہیں.پھر میں ایک مسجد کا افتتاح بھی کروں گا گوٹن برگ میں بڑی خوبصورت مسجد بنی ہے اس کی بنیاد پچھلے سال رکھی گئی تھی اب وہ مکمل ہو چکی ہے اور انشاء اللہ ۲۰/ اگست کو اس کا افتتاح ہوگا یہ سب باہر والوں کی مالی قربانیوں کا نتیجہ ہے وہ لوگ وقت بھی دیتے ہیں.جس قدر کام ہو رہا ہے ہمارے پاس تو اس کے مطابق باہر جا کر تبلیغ کرنے والے مبلغ بھی نہیں ہیں.اس وقت بیسیوں کی تعداد میں رضا کار مبلغ اور آنریری مبلغ جماعت کو مل رہے ہیں اور وہ محبت کے جذبہ کے ساتھ بلکہ محبت سے بھی بڑھ کر تعلّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلَا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: (۴) کے مطابق بخع کے جذبہ کے ساتھ اپنے ماحول میں خدائے واحد و یگانہ کی طرف لوگوں کو بلا رہے ہیں اور تو حید خالص کے قیام کے لئے کوششیں کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو قبول کرے اور اپنی رحمتوں سے انہیں نوازے.علم کے میدان میں جماعت کو صحیح اور حقیقی معنی میں عالم دماغ کی بے حد ضرورت ہے ان کی کثرت تو نئی نسل ہی پیدا کر سکتی ہے.جو لوگ حصول علم سے فارغ ہو چکے ہیں وہ تو علم کے میدان میں تعداد کے لحاظ سے زیادتی نہیں کر سکتے.یہ درست ہے کہ وہ اپنا علم بڑھاتے ہیں ہمارے سامنے نئی سے نئی کتابیں آتی ہیں ہمارے پرانے مبلغ بھی ان کو پڑھتے ہیں اور میں نے بتایا ہے کہ انسان مرتے دم تک علم سیکھتا ہے لیکن تعدا دنئی نسل نے ہی ہمیں دینی ہے پرانی نسل ہماری تعدا دکو نہیں بڑھا سکتی.ان کے علم بڑھ جائیں گے اور بڑھ رہے ہیں لیکن یہ کہ سو کی بجائے پانچ سو مبلغ میدانِ عمل میں آجائے یہ تعداد ہمارا نوجوان ہی بڑھا سکتا ہے تم دعائیں کرو، دعائیں کرو کہ بشمولیت آپ میں سے ہر ایک کے اللہ تعالیٰ ایسے نوجوان کے دل اس طرف پھیرے کہ جو اُس کی خاطر قربانی
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۱۶؍جولائی ۱۹۷۶ء دے کر علوم حاصل کر کے اس کے نام کو بلند کرنے کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لئے مبلغ بنیں.اللہ تعالیٰ ہمارے علموں میں بھی زیادتی کرے.اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات وصفات کے متعلق قرآن کریم میں علوم کا جو خزانہ بیان کیا ہے اور جو ہمارے سامنے مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج رکھا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے پڑھنے اور اس کے سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق بھی دے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوشان اور آپ کا جو مرتبہ اور آپ کی جو جلالت ہے خدا تعالیٰ ہمیں اس کو سمجھنے کی بھی توفیق دے اور اس عظمت و شان کو اپنے دلوں میں محفوظ کرتے ہوئے ہمارے دل اس جذبہ سے معمور ہوں کہ ہم نے اس پیارے اور محبوب آقا و مطاع کی اتباع کرنی ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا اور پیار کو حاصل کرنے والے ہوں.علموں کے میدان میں آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.”علموں میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بہت سارے علوم یعنی سائنسز ہیں.اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرتا ہے نسبتی لحاظ سے آج آپ دوسروں سے آگے نکل رہے ہیں لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے، میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو جتنے ذہن دیئے ہیں کچھ اپنی غفلت کے نتیجہ میں اور کچھ اپنے ماحول کی غفلت کے نتیجہ میں ، سارے کے سارے پنپ نہیں رہے ترقی نہیں کر رہے نشو و نما نہیں حاصل کر رہے.میں نے اعلان کیا اور بار بار اعلان کیا کہ جو اچھا دماغ ہے اگر وہ جماعت کے علم میں آجائے میرے علم میں آ جائے تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ ضائع ہو جائے اس کے لئے پیسے کہاں سے لا ئیں بلکہ اس کے لئے ہم فوری انتظام کرنے کے لئے سوچتے ہیں اور خدا تعالیٰ ہی انتظام کرتا ہے وہی دینے والا ہے لیکن میں یہ وضاحت کر دوں کہ جماعت تنگی ترشی سے اور جس طرح بھی ہو سکے ان کی نشو و نما کے لئے ہر قسم کی قربانی دے کر انتظام کرے گی وہ اعلیٰ دماغ ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ ہر آدمی اپنے متعلق بہت کچھ حسن ظنی بھی کرتا ہے مثلاً ایک دفعہ ایک تھرڈ ڈویژن کے لڑکے نے لکھا کہ میں نے بڑی اچھی تھرڈ ڈویژن میں فلاں کورس پاس کیا ہے میرے لئے آگے پڑھائی کا انتظام کر دیں.اس کے لئے تھرڈ ڈویژن ہی بڑی اچھی تھرڈ ڈویژن بن جاتی
خطبات ناصر جلد ششم ۵۱۰ خطبہ جمعہ ۱۶ / جولائی ۱۹۷۶ء ہے کوئی بڑی اچھی سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے لئے آگے پڑھائی کا انتظام کرو یا وظیفے کا انتظام کرو یا باہر بھجوا دو.ایسے لوگ بھی ہیں چنانچہ میرے ذہن میں جو مثال آئی ہے وہ لڑکا کہے گا کہ میں نے بہت اچھی تو نہیں درمیانے درجے کی سیکنڈ ڈویژن کی ہے لیکن بہت اچھی ہے یہ بھی اس واسطے بیرون ملک میری پڑھائی کا انتظام کر کے جماعت کئی ہزار روپیہ مجھ پر خرچ کرے.ایسے لوگوں کو تو میں کہا کرتا ہوں کہ جس وقت اچھی فرسٹ ڈویژن والوں سے ہم فارغ ہو جا ئیں گے.اس وقت ہم عام فرسٹ ڈویژن والوں کی طرف توجہ کر سکیں گے اور جب ہم ان سے فارغ ہو جائیں گے پھر ہم سیکنڈ ڈویژن والوں کی طرف توجہ کر سکتے ہیں ورنہ تو یہ ظلم ہے کہ جو اچھی فرسٹ ڈویژن والا ہے اس کی مدد کو تو خدا تعالیٰ کی جماعت نہ پہنچے اور جو بڑے اچھے نمبر لے کر درمیانے درجے کی سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوا ہے اس پر پیسے خرچ کرنے شروع کر دے یہ تو معقول بات نہیں ہے.بہر حال جب میرے سامنے ذہین طالب علم آتے ہیں تو میں یہ سوچتا بھی نہیں کہ کہاں سے اور کس مد سے ان کا خرچ برداشت کیا جائے گا بلکہ جس وقت ایسا طالب علم میرے سامنے آتا ہے تو میں اس کو کہا کرتا ہوں کہ تم جا کر داخل ہو جاؤ.اگر مثلاً اس نے بڑی اچھی فرسٹ ڈویژن لے کر انٹر میڈیٹ پری میڈیکل کیا ہے تو میں اسے کہتا ہوں کہ میڈیکل کالج میں داخل ہو جاؤ اور وہ میرے پاس یہ بات لے کر پہنچا ہوتا ہے کہ جی میرے گھر کے حالات ایسے ہیں کہ میں آگے پڑھ ہی نہیں سکتا.تو چند سیکنڈ تک تو وہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ میرے منہ سے کیا بات نکل گئی.وہ حیران ہو کر میرے منہ کو دیکھتا ہے کہ میں تو ان کو کہہ رہا ہوں کہ میں غریب ہوں آگے داخل نہیں ہوسکتا اور یہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ جا کر داخل ہو جاؤ.تو اکثر ایسا بچہ ذہین ہی ہوتا ہے نا.چنانچہ چند سیکنڈ کے بعد اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ سمجھ جاتا ہے لیکن ایک دو واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں کہ وہ نہیں سمجھے پھر مجھے کہنا پڑا کہ جب میں کہہ رہا ہوں کہ جا کر داخل ہو جاؤ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ میرے ذریعے تمہاری پڑھائی کا انتظام کر دے گا اس لئے تمہیں کس چیز کی فکر ہے.تاہم اکثر بچے سمجھ جاتے ہیں کہ ان کا کیا مطلب ہے لیکن میں یہ بتا دوں کہ جو سیکنڈ ڈویژن والے اور اچھی تھرڈ ڈویژن والے ہیں ابھی ہم ان کو نہیں سنبھال سکتے.
خطبات ناصر جلد ششم ۵۱۱ خطبہ جمعہ ۱۶ / جولائی ۱۹۷۶ء اس وقت تو جو اچھی فرسٹ ڈویژن والے ہیں ان کو سنبھالنا ضروری ہے مثلاً ایک بچہ ۷۲۵ نمبر لے کر آجاتا ہے کہ آگے نہیں پڑھ سکتا ۷۵۰ نمبر والا آ جاتا ہے کہ آگے نہیں پڑھ سکتا کیسے نہیں پڑھ سکتے ! اگر تم جماعت احمدیہ کے فرد ہو اور امام جماعت نے کہا ہے کہ تم آگے پڑھو گے تو تم کیسے نہیں پڑھ سکتے ؟ پڑھو گے! چنانچہ کئی لڑکے باہر بھی گئے خدا نے ہمیں بڑے اچھے دماغ دیئے ہیں وہ غیر ملکوں میں گئے اور اُنہوں نے بڑا Shine کیا.ہمارا احمدی نوجوان بڑا عزت نفس والا ہے جن کو ضرورت نہیں ہوتی وہ بالکل نہیں مانگتے.میں نے پہلے بھی بتایا ہے یہاں ایک بڑا غریب لڑکا تھا.مجھے اس بچے پر بڑا پیار آ یا.ایک دن وہ گردن نیچی کر کے جا رہا تھا غریبانہ کپڑوں میں ملبوس اور کسی حد Under nourished تھا یعنی اس کو پوری طرح غذا نہیں مل رہی تھی میں نے اس کو دیکھا تو مجھے خیال آیا اور میں نے اس کو علیحدگی میں بلا کر کہا کہ تمہیں کوئی ضرورت ہو تو مجھے بتا دو.استاد بھی باپ کی طرح ہی ہوتا ہے اس لئے شرمانے کی بات نہیں ہے.تو وہ غریب بچہ مجھے کہنے لگا کہ مجھے تو کسی چیز کی ضرورت نہیں ، رشتہ داروں کے ہاں رہتا ہوں ان کے ساتھ کھانا کھاتا ہوں اور بڑے اچھے کپڑے ہیں میرے پاس ( اور اس کے کپڑے بڑے غریبانہ تھے البتہ چند ماہ تک بی.ایس سی کا داخلہ بھیجنا ہو گا وہ میں نہیں بھیج سکتا.شاید دوسوروپے یا کم و بیش دا خلہ تھا صحیح تو میرے علم میں نہیں ہے.تو حالت اس کی ی تھی، اتنا غریب لڑکا تھا کہ وہ داخلہ نہیں بھیج سکتا تھا لیکن ویسے مانگنے کے لئے تیار نہیں تھا.پس بڑے اچھے ، عزت نفس رکھنے والے ذہین بچے ہیں.جماعت کو میں یہ کہوں گا کہ اگر کوئی ایسا بچہ چھپا ہوا ہے تو اس کو نکالو اور آگے پڑھاؤ وہ تو ہیرے ہیں ہیروں سے زیادہ ان کی قیمت ہے.ان کو نظر انداز کرنا خدا تعالیٰ کی ناشکری ہے اس نعمت پر خدا تعالیٰ کا شکر ہم اسی طرح ادا کر سکتے ہیں کہ اس بچے کو ہم کہیں کہ تجھے ضائع نہیں ہونے دیں گے وہ پڑھیں اور دنیا میں ترقی کریں وہ واقفین زندگی تو نہیں ہوں گے مثلاً جو ڈاکٹر بنے گا وہ اپنے میدان میں ترقی کرے گا مختلف سائنسز ہیں کوئی نیوکلیئر فزکس میں جانے والے ہیں.بڑے بڑے ہوشیار طالب علم ہیں.یہ بڑا لمبا قصہ ہے اشاروں میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ آپ لوگ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں اس کی ذات بڑی رحمتیں
خطبات ناصر جلد ششم ۵۱۲ خطبہ جمعہ ۱۶ جولائی ۱۹۷۶ء کرنے والی ہے.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم ہمیشہ اس کے شکر گزار بندے بنے رہیں اور اس کے فضلوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتے رہیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ششم ۵۱۳ خطبہ جمعہ ۲۳ / جولائی ۱۹۷۶ ء اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے فضل سے غیر معمولی قربانیاں کرنے والی جماعت عطا کی خطبہ جمعہ فرموده ۲۳ / جولائی ۱۹۷۶ء بمقام مسجد فضل - لندن (خطبہ جمعہ کا خلاصہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہمارا رب اللہ اس قدر عظمت، کبریائی اور جلال والا ہے کہ انسانی ذہن اُس کی عظمت و کبریائی اور جلالت شان کا تصور نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ نے اپنی غیر محدود صفات اور قدرتوں میں سے بعض صفات کا ذکر فرمایا ہے جن سے ہمیں اُس کی عظمت اُس کے جلال اور اُس کی کبریائی کا کسی قدر اندازہ ہوتا ہے ان میں سے اس کی دو صفات اُس کا الحی اور القیوم ہونا ہے.الحی کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی ذات میں ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا پھر یہی نہیں کہ وہ خود زندہ ہے بلکہ ہر ذرہ کائنات اور ہر ذی روح میں جوزندگی نظر آتی ہے وہ اُسی کی عطا کردہ ہے وہ خود ہی زندہ نہیں بلکہ ہر ذی روح کی زندگی کا موجب اور علت العلل بھی ہے پھر وہ القیوم ہونے کی وجہ سے خود اپنی ذات میں ہی قائم نہیں ہے بلکہ ہر چیز جو اس کی اپنی پیدا کردہ اور مخلوق ہے اس کے قیام کا بھی وہی موجب ہے اور اگر اس کا ئنات اور اس کے ہر ذرہ کا الحی اور القیوم کے ساتھ تعلق نہ رہے يَا حَنُ وَقَیوم خدا ایک لحظہ کے لئے اپنا سہارا ہٹالے تو پوری کائنات
خطبات ناصر جلد ششم ۵۱۴ خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۷۶ء پر فوراً ہی فنا وارد ہو جائے اور کوئی چیز بھی باقی نہ رہے.ایسے حَى وَقَیوم اور قدرت طاقت کے ساتھ زندہ تعلق کا ہونا از بس ضروری ہے اس کے بغیر انسان روحانی طور پر زندہ رہ ہی نہیں سکتا زندہ تعلق خدا کے ساتھ اُس وقت قائم ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جائے اور اُس کی رُوح رَضِيْتُ بِاللهِ رَبَّا پکار اٹھے لیکن ایک خا کی انسان رضِيْتُ بِاللهِ رَبِّاً ( یعنی میں اپنے رب کی رضا پر راضی ہوں ) اُس وقت ہی کہہ سکتا ہے جب خدا تعالیٰ اسے اپنی جناب سے ایسا کہنے کی اجازت عطا فرمائے.اس مرحلہ پر حضور نے خطبہ کے دوران جذبات تشکر سے لبریز ہو کر بڑے جذ بہ سے فرمایا کہ آج میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے خوشی کے ساتھ اپنے آپ کو یہ اعلان کرنے پر مجبور پاتا ہوں کہ رضیتُ بِاللهِ رَبا یعنی میں اپنے رب کی رضا پر راضی ہوں.آپ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ سال میں نے نامساعد حالات میں سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں ایک مسجد کا سنگ بنیا درکھا تھا خدا نے اپنے فضل سے سب رو کیں دور کر دیں اور اسی کے فضل سے اب وہ مسجد بن کر تیار ہو گئی ہے اور اُسی کی دی ہوئی توفیق سے عنقریب اس کا افتتاح عمل میں آنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے فضل سے بہت مخلص جماعت عطا کی ہے اور انہیں خدا کی راہ میں قربانیاں کرنے کی غیر معمولی توفیق سے نوازا ہے.اس نئی مسجد کی تعمیر کے لئے پاکستان سے باہر کی بعض جماعتوں نے رقم فراہم کر دکھائی بالخصوص اللہ تعالیٰ نے جماعت انگلستان کو مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اس پر دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور اُس کی تقدیس سے بھر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اسی دنیا میں جزائے خیر عطا فرمائے.ہر ایک کا خاتمہ بالخیر ہو اور اگلے جہان کی زندگی میں بھی جو دائمی ہے ہر ایک کو اُس کا پیار حاصل رہے.اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کے افضال وانعامات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے مزید فرمایا ابتدا میں مسجد کی تعمیر کا اندازہ لگایا گیا تھا بعد ازاں اس میں کچھ فرق پڑ گیا.جب اندازہ لگایا گیا تھا اس وقت پاؤنڈ کی قیمت زیادہ تھی لیکن بعد میں پاؤنڈ کی قیمت گر گئی اور اندازہ سے بڑھ کر پاؤنڈز (Pounds) ادا کرنا پڑے.کنٹریکٹر کو آخری قسط ادا کرنا تھی اور رقم ختم ہو گئی تھی میں نے مسجد کی تعمیر سے قبل
خطبات ناصر جلد ششم ۵۱۵ خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۷۶ء کنٹریکٹر سے کہا تھا کہ تمہیں بنک کی ضمانت پر زیادہ اعتبار ہے یا میری زبان پر؟ اس نے جواب دیا تھا کہ مجھے آپ کی زبان پر زیادہ اعتماد ہے مجھے بنک کی ضمانت کی ضرورت نہیں.مجھے فکر تھا کہ کنٹریکٹر نے جب میری زبان پر اعتماد کیا ہے تو اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے اللہ کے کام نیارے ہوتے ہیں امریکہ کے احمد یہ مشن میں ایک پرانا فنڈ پڑا ہوا تھا.یہ رقم میری نگاہ میں نہیں آئی تھی اور اگر یہ رقم پہلے نگاہ میں آگئی ہوتی تو اسے وہاں تبلیغ اسلام کے کاموں پر خرچ کر دیا جا تا لیکن خدا تعالیٰ نے اسے ایک اور ہی کام کے لئے محفوظ رکھا ہوا تھا چنانچہ اس فنڈ میں سے آخری قسط کے طور پر کنٹریکٹر کو بروقت ادائیگی کر دی گئی.جماعت احمد یہ ایک غریب جماعت ہے، دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت ، دنیا کے غضبوں اور غیظ کا نشانہ بننے والی جماعت ہے، لیکن یہ خدا تعالیٰ کی اپنی قائم کردہ جماعت ہے.اس پر آسمان کے فرشتوں کے ذریعہ اس کی رحمت نازل ہوتی ہے.مہدی علیہ السلام کا یہ قافلہ (یعنی آپ کی جماعت ) اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید و نصرت سے آگے ہی آگے قدم بڑھا رہا ہے اور انشاء اللہ آگے ہی آگے قدم بڑھاتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ آپ سب کی اور بیرونی ملکوں کی ان جماعتوں کی قربانیوں کو جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے رقم مہیا کی قبول فرمائے اور آپ کو اور انہیں اپنی رحمت سے نوازے.اس مسجد کی تعمیر میں پاکستان کی جماعتیں اپنی خواہش کے با وجود بعض حالات کی بنا پر حصہ نہیں لے سکیں.اگر ان کے لئے حصہ لینا ممکن ہوتا تو وہاں کی احمدی خواتین ہی اپنے چندوں سے یہ مسجد تعمیر کرا دیتیں جیسا کہ وہ پہلے بھی یورپ میں کئی مسجد میں تعمیر کرا چکی ہیں.حضور نے قربانیوں کے مزید مواقع کا ذکر کرتے اور احباب جماعت کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ غلبہ اسلام کا کام کسی ایک وقت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور نہ اس کا تعلق کسی ایک نسل کے ساتھ ہے بلکہ یہ نسلاً بعد نسل چلتا چلا جائے گا اور قربانیوں کے مواقع پیدا ہوتے چلے جائیں گے اگر کوئی جماعت کسی موقع پر بامر مجبوری قربانیوں میں حصہ نہ لے سکے تو اس کے لئے خدا تعالیٰ مزید مواقع مہیا کر دے گا.خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے والی کسی جماعت
خطبات ناصر جلد ششم ۵۱۶ خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۷۶ء پر قربانیوں میں حصہ لینے کے دروازے ہمیشہ کے لئے کبھی بند نہیں کئے جاسکتے.خدائی جماعتوں کی راہ میں روکیں پیدا ہوتی ہیں، ابتلاء آتے ہیں لیکن اس لئے نہیں آتے کہ انہیں خدائی افضال کے حصول سے محروم کر دیں بلکہ وہ ان کے درجات بلند کرنے اور انہیں افضال و انعامات کا پہلے سے بڑھ کر مورد بنانے کے لئے آتے ہیں.بعدہ حضور نے سویڈن اور ناروے میں (جن میں سے اول الذکر میں حال ہی میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی ہے اور مؤخر الذکر میں مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ ہے ) تبلیغ اسلام کی مساعی اور ان کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا سویڈن اور ناروے کی جماعتوں میں ایک بنیادی فرق ہے.سویڈن کی جماعت میں پاکستانی احمدیوں کی تعداد صرف دس فیصد ہے باقی وہاں کے اصلی باشندے ہیں یا ان یورپین ملکوں کے باشندے ہیں جو اپنے ملک میں کمیونسٹ انقلاب آنے کے بعد وہاں سے نقل مکانی کر کے سویڈن میں آکر آباد ہو گئے ہیں اور ان میں سے بہت سوں نے یہاں آکر جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیا ر کر لی ہے.برخلاف اس کے ناروے کی جماعت زیادہ تر پاکستانی احمدیوں پر مشتمل ہے.ناروے میں اسلام قبول کرنے کی رو ابھی نہیں چلی جبکہ یہ رو سویڈن میں چل پڑی ہے.وہاں کے یورپین نژاد احمدی تو کہتے ہیں کہ اگر ضروری وسائل میتر آجائیں تو چند سال میں ہی لاکھوں گھرا نے احمدیت میں آسکتے ہیں.حضور نے فرما یا مستقبل کا علم تو خدا کو ہے ہم آئندہ کے بارہ میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن خدا تعالیٰ چاہے تو چند سال میں ایسا انقلاب لا سکتا ہے.ابھی تو تبلیغ اسلام کا جو کام ہوا ہے اور اس کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں وہ آنے والے انقلاب کی ابتدا ہے.ایک روشنی ضرور نمودار ہوئی ہے لیکن یہ وہ روشنی نہیں ہے جو سورج نکلنے کے بعد چاروں طرف پھیلتی چلی جاتی ہے بلکہ یہ وہ روشنی ہے جو سورج نکلنے سے پہلے نظر آتی ہے.یہ صحیح ہے کہ ابھی بہت سے یورپی ملکوں میں احمدیوں کی تعداد بہت کم ہے اور بہت کم لوگوں نے وہاں اسلام قبول کیا ہے لیکن ابتدا میں تعدا د کو چنداں اہمیت حاصل نہیں ہوتی.اہمیت تو اس مخفی تبدیلی کو حاصل ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ فضا میں آ رہی ہوتی ہے کیونکہ یہ تبدیلی ہی آگے چل کر ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بنتی ہے.جب میں ۱۹۶۷ء میں
خطبات ناصر جلد ششم ۵۱۷ خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۷۶ء یورپ کے دورہ پر آیا تھا تو ہالینڈ میں پریس کانفرنس میں وہاں کے ایک صحافی نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ آپ نے اس وقت تک ہالینڈ میں کتنے احمدی بنائے ہیں؟ اس سوال سے اُس کا مقصد یہ تھا کہ جب میں کہوں گا کہ چند در جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے تو تمام صحافیوں پر یہ اثر پڑے گا کہ یہ کوئی قابل لحاظ تعداد نہیں ہے اور یہ کسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ نہیں بن سکتی.میں نے اسے جواب دیا کہ مسیح علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی میں جتنے لوگوں کو عیسائی بنا یا تھا اُس سے زیادہ تعداد میں چند سال کے اندر اندر ہم یہاں لوگوں کو مسلمان بنا چکے ہیں یہ غیر متوقع جواب سن کر وہ بالکل خاموش ہو گیا جیسے اُسے سانپ سونگھ گیا ہو دوسرے صحافی اس جواب سے بہت محظوظ ہوئے.سوحقیقت یہی ہے کہ اشاعت اسلام کے ضمن میں سوال اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد کا نہیں ہے سوال یہ ہے کہ فضا میں بتدریج تبدیلی آرہی ہے یا نہیں.اور فضا میں تبدیلی مسجد کی وجہ سے آئی ہے.فضا کو بدلا ہے تو مسجد نے بدلا ہے مشن ہاؤس تو مبلغ کی ضرورت کے لئے ہوتا ہے لیکن مسجد اللہ کا گھر ہے اس میں اللہ کی باتیں ہوتی ہیں اور جب اللہ کی باتیں ہوتی ہیں تو وہ اندر ہی اندرا ثر کر کے بدخیالات کو جو متعصب ذہنوں کی پیداوار ہوتے ہیں زائل کر دیتی ہیں جوں جوں بدخیالات زائل ہوتے ہیں لوگوں کے نقطۂ نظر میں تبدیلی آتی چلی جاتی ہے اور اسلام کی اشاعت کے لئے فضا سازگار ہوتی چلی جاتی ہے اس وقت یورپ میں صورتِ حال یہ ہے کہ لوگوں نے وہاں ساری عمر پادریوں سے اسلام کے خلاف باتیں سنی ہیں اب اُنہوں نے عیسائیت اور پادریوں کو تو چھوڑ دیا ہے لیکن پادریوں نے اسلام کے خلاف جو اعتراض ان کے ذہن نشین کرائے تھے انہیں اُنہوں نے ابھی تک ترک نہیں کیا اسی لئے ابھی وہاں اسلام کے خلاف تعصب دور نہیں ہوا.یہ رفتہ رفتہ دور ہو گا اور مسجدوں کی تعمیر کے نتیجہ میں وہاں بتدریج فضا بد لے گی.اسی ضمن میں حضور نے ایک اور امر کا ذکر کرتے ہوئے فرما یا یورپ میں پریس کا نفرنس میں ایک سوال مجھ سے یہ پوچھا گیا تھا کہ آپ یورپ میں اسلام کو کس طرح پھیلائیں گے؟ سوال کرنے والے کا مقصد یہ تھا کہ (نعوذ باللہ ) اسلام تو تلوار سے پھیلا تھا اور تلوار ہم نے تم سے چھین لی ہے اس لئے اب تم اسلام کو دنیا میں پھیلانے میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہو.میں نے جواب دیا
خطبات ناصر جلد ششم ۵۱۸ خطبہ جمعہ ۲۳ / جولائی ۱۹۷۶ء کہ ہم تمہارے دل جیت کر اسلام کو یورپ میں پھیلائیں گے.اُسے اس جواب کی توقع نہ تھی اس لئے وہ مبہوت ہوئے بغیر نہ رہا.بہر حال دنیا خواہ کتنی ہی بے توجہی سے کام لے اور دور بھاگے یہ نہیں ہوسکتا کہ اسلام غالب نہ آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر لوگ اسلام کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے تو فرشتے آسمان سے نازل ہو کر انہیں اسلام کی طرف راغب کریں گے.فی الوقت تو ذہنوں کی تختی صاف ہو رہی ہے تا کہ اسلام کا نقش اچھا جم سکے.اس ضمن میں حضور نے ایک نہایت ہی اہم ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت دنیا کو محض اسلامی تعلیم کی نہیں بلکہ اسلام کے عملی نمونہ کی ضرورت ہے جبھی تو پر یس کا نفرنس میں ایک سوال یہ کیا گیا تھا کہ اسلام کی تعلیم تو اچھی ہے لیکن اس کا عملی نمونہ کہیں نظر نہیں آتا.یہ ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب محض زبان سے نہیں دیا جا سکتا.وہ تو جبھی مطمئن ہوں گے جب اسلام کا حقیقی عملی نمونہ اُن کے سامنے آئے گا اسی لئے محض عقیدہ کبھی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس پر عمل کی ضرورت ہوتی ہے اور اصل اہمیت عمل ہی کو حاصل ہوتی ہے.احمدی ہونے کی حیثیت میں ہم پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ایک ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم اپنی ذاتی فلاح ونجاح کے لئے اسلام پر کماحقہ عمل کریں دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم دوسروں کی رہنمائی اور فلاح ونجاح کے لئے اپنی زندگیوں میں اسلام کا حقیقی نمونہ پیش کریں.اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کیا جاسکتا ہے اور احمدیت کے طفیل ہمیں یہ نعمت میسر ہے تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور اُن کی غمخواری کا جذ بہ بھی بدرجہ اتم موجود ہواور ہمارے اندر دوسرں کی فلاح و نجاح کی تڑپ پائی جاتی ہو.اس تڑپ کا لازمی تقاضا ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہم دوسروں کے سامنے اسلام کی حسین و جمیل تعلیم کا عملی نمونہ پیش کریں اور اس طرح انہیں راہ راست کی طرف لائیں.پس ہماری یہ ایک نہایت ہی اہم ذمہ داری ہے کہ ہمیں نہ صرف اپنی ذات کی خاطر بلکہ دنیا کے واسطے رحمت کے دروازے کھولنے کی خاطر اسلام کا دل موہ لینے والا عملی نمونہ اپنی زندگیوں میں پیش کرنا ہے.اس امر کو مزید واضح کرتے ہوئے حضور نے فرما یا اس میں شک نہیں مالی قربانی بھی اہم
خطبات ناصر جلد ششم ۵۱۹ خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۷۶ء ہے لیکن مالی قربانی ہی تو کافی نہیں اسی لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں مال یا جان کا اتنا مطالبہ نہیں کیا جتنا کہ زندگی کا مطالبہ کیا ہے.اس نے کہا ہے کہ نہ مجھے تمہارے مال کی چنداں ضرورت ہے اور نہ تمہاری جان کی ہی ضرورت ہے میں یہ چاہتا ہوں کہ تم پوری زندگی میری راہ میں وقف کر دو.حضرت ابراھیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام خواب کے ذریعہ ایک خدائی اشارہ پر جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے.خدا تعالیٰ نے کہا میں تم سے جان نہیں مانگتا بلکہ اس سے بھی بڑا ایک فدیہ مانگتا ہوں اور وہ ہے اپنی پوری زندگی کو میری راہ میں وقف کرنا.چنانچہ نہ صرف اُنہوں نے بلکہ ان کی نسلوں نے اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں وقف کر دکھائیں اور وہ زندگی بھر بڑی بڑی تکلیفیں اپنے پر وار د کر کے خدمت دین کا فریضہ ادا کرتے چلے گئے.حضور نے فرمایا اس وقت ایک عظیم جد و جہد جاری ہے ایک طرف خدا تعالیٰ ہم سے دین کی سر بلندی کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرنے اور کرتے چلے جانے کا مطالبہ کر رہا ہے اور دوسری طرف دنیا انسان کو خدا تعالیٰ سے دور لے جانے میں کوشاں ہے.اس عظیم جدوجہد کے وقت اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹی سی غریب جماعت کو توفیق دی ہے کہ وہ خدمتِ اسلام کے لئے قربانیاں پیش کرتی چلی آرہی ہے اور اس نے خدمتِ اسلام کو اپنا مقصد عظیم قرار دے رکھا ہے.اس میں شک نہیں قربانیاں بھی عظیم ہیں جن کا ہم سے مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن انعام بھی بہت عظیم ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا ہے.پھر یہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ ہمیں ساتھ کے ساتھ اپنے انعاموں سے نواز رہا ہے.مثال کے طور پر ستمبر ۱۹۷۴ء کے بعد بعض علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسی رو چلائی ہے کہ وہاں اب تک ہزاروں گھرانے احمدی ہو چکے ہیں اور جو احمدی ہوئے ہیں وہ دن بدن ایمان اور اخلاص میں پختہ سے پختہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ انسان تھوڑی سی قربانی کرتا ہے اس کے جواب میں خدا تعالیٰ اپنی پوری کائنات اور اپنی پوری صفات کے ساتھ اس کی طرف دوڑا چلا آتا ہے پھر خدا اپنے بندے کو اس قدر نوازتا ہے کہ عام محاورہ کی رُو سے حد کر دیتا ہے یہ سب صلہ ہوتا ہے معمولی سی قربانی کا سو گویا انسان خدا کی خاطر تھوڑی سی تکلیف اُٹھاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے
خطبات ناصر جلد ششم ۵۲۰ خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۷۶ء لئے بے انداز راحت کے سامان کر دیتا ہے اسی لئے ۱۹۷۴ ء میں جب احباب جماعت نا مساعد حالات میں سے گزر رہے تھے میں اُن سے کہتا تھا تمہارے یہ کھ عارضی ہیں لیکن تمہاری خوشیاں دائمی ہیں.ان دکھوں کے عوض خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی خوشیاں مقدر کر رکھی ہیں.دراصل دنیا یہ بھول جاتی ہے کہ اصل رزق تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے وہ جب چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے اپنے بندہ کو دیتا ہے اور جس ذریعہ سے چاہتا ہے دیتا ہے کوئی اس کی عطا کے راستہ میں روک نہیں بن سکتا اسی طرح خوشی و راحت اور سکون واطمینان اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ملتا ہے اور کہیں سے نہیں مل سکتا اس لئے سب کچھ ہر طرف سے منقطع ہو کر اُسی سے مانگنا چاہئے اور اسی کے در سے لینا چاہیے نہ کہ کسی اور دَر سے وہ الھی ہے جب وہ اپنی اس صفت کا اظہار کرتا ہے تو مردہ قو میں زندہ ہو جاتی ہیں اور جن کو وہ تباہ کرنا چاہتا ہے وہ اپنی قیومیت کا سہارا ذراسی دیر کے لئے ہٹا لیتا ہے اور وہ فنا ہو جاتے ہیں.پس انسان کو اپنا مقام بھی پہچاننا چاہیے اور خدا تعالیٰ کی عظمت و جلالت شان اور کبریائی کی بھی معرفت حاصل کرنی چاہیے اسی میں اس کی تمام تر فلاح کا راز مضمر ہے.آخر میں حضور نے سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں تعمیر کی جانے والی مسجد کا پھر ذکر کرتے ہوئے فرما یا ہمیں یہ امر کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہر مسجد اللہ کی مسجد نہیں ہوتی.مسجد کی حرمت اینٹ گارا اور لکڑی سے وابستہ نہیں ہے.ان چیزوں کو تو اللہ نے انسان کا خادم بنایا ہے.مسجد کی حرمت کا مدار اُسے آباد کرنے والوں پر ہوتا ہے اور ان لوگوں کے تقویٰ پر ہوتا ہے جنہیں خدا تعالیٰ ان کا کسٹوڈین اور نگران بناتا ہے.ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر قائم ہوں اور قائم رہیں تا کہ ہم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مساجد کی حرمت کو قائم کرنے والے قرار پاسکیں.حضور نے فرمایا سویڈن کے بعد اب ناروے میں مسجد تعمیر ہونی ہے اس کے لئے بھی انشاء اللہ العزیز بیرونی جماعتیں رقم فراہم کر دیں گی.جماعت احمد یہ کے قیام کی پہلی صدی مکمل ہونے میں اب صرف تیرہ چودہ سال کا زمانہ رہ گیا ہے.یہ زمانہ بہت ہی اہم ہے ذمہ داریوں کے لحاظ سے بھی اور بہت ہی اہم ہے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے نتیجہ میں ملنے والے انعامات
خطبات ناصر جلد ششم ۵۲۱ خطبہ جمعہ ۲۳ / جولائی ۱۹۷۶ ء کے لحاظ سے بھی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اہم ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس پر معارف اور بصیرت افروز خطبہ کے بعد حضور نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.روزنامه الفضل ربوه ۱۹ را گست ۱۹۷۶ء صفحه ۶،۵،۲)
خطبات ناصر جلد ششم ۵۲۳ خطبہ جمعہ ۳۰ جولائی ۱۹۷۶ء خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اپنے اعمال پر صفات الہیہ کا رنگ چڑھا ئیں خطبہ جمعہ فرموده ۳۰ / جولائی ۱۹۷۶ء بمقام مسجد فضل.واشنگٹن ( خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت میں ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں جو قادر مطلق ہے.ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ احد یعنی اکیلا ہے اور یہ کہ بجز اللہ کے کوئی پرستش کے لائق نہیں.ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ الصمد ہے یعنی وہ سب سے بے نیاز ہے وہ کسی کا محتاج نہیں سب اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے لئے اُس کے محتاج ہیں.ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ الحی ہے یعنی ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا کسی مفہوم اور کسی اعتبار سے بھی اس پر موت وارد نہیں ہو سکتی وہ خود ہی زندہ نہیں بلکہ حیات کا سرچشمہ اُسی کی ذات ہے.ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ القیوم ہے یعنی وہ ہر قسم کی جسمانی کمزوریوں سے ماوراء ہے اور خود قائم بالذات ہے اور دوسروں کے قیام کا بھی وہی موجب ہے نہ اُسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند اُس پر غلبہ پاتی ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۵۲۴ خطبہ جمعہ ۳۰/ جولائی ۱۹۷۶ء ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے اور اس نے ہر چیز کو انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے اُس نے انسان پر اپنے فضلوں کو خواہ وہ مرئی ہوں یا غیر مرئی کمال تک پہنچایا ہے.ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ رب العلمین ہے یعنی وہی ہے جو ہر شے کو قیام بخشتا ہے اور نہ صرف قیام بخشتا ہے بلکہ اسے درجہ بدرجہ ترقی دیتا اور اسے اس کے کمال تک پہنچاتا ہے.ایسے ہمہ قدرت اور ہمہ طاقت خدا نے جس پر ہم ایمان لائے ہیں ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنے اعمال پر صفات الہیہ کا رنگ چڑھائیں اور اس طرح اُس کی صفات کے مظہر بنیں اُس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس کی صفات کا مقدس رنگ اپنے پر چڑھا کر اُس کی مخلوق کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آئیں اور اس امر کا اہتمام کریں کہ ان کی صلاحیتیں نشو و نما پا کر اپنے کمال کو پہنچیں.چونکہ ہم رب العلمین کے بندے ہیں اس لئے ہمیں کسی سے دشمنی نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے ہم سب کے دل سے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں اور ان کی بھلائی کے لئے کوشاں رہنا اور امن وسلامتی کے سامان کرنا ہمارا مقصد ہے لیکن ہم کمزور ہیں اور رب العلمین کے عاجز بندے ہیں اس لئے ہم اُسی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہمت اور توفیق عطا کرے تا کہ ہم اُس کی صفات کے رنگ میں رنگین ہو کر اُس عظیم مقصد میں کامیاب ہو سکیں.میں اس خطبہ کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعا پر ختم کرتا ہوں.یہ دعا ان دعاؤں سے ماخوذ ہے جو میں نے اپنے رب کے حضور مانگیں اور جو حال ہی میں کتابی شکل میں شائع ہوئی ہیں.دعا یہ ہے کہ ”اے ہمارے رب ! تو ہر نقص سے پاک ہے.پیدائش عالم بے فائدہ اور بے مقصد نہیں.اے ہمارے رب ! ہماری زندگی کو بے مقصد بنے سے بچالے اور اپنے غضب کی آگ سے تو اپنی پناہ میں لے لے.اے ہمارے رب! تیرے نام پر ایک پکارنے والے نے ہمیں پکارا اور تیری رضا کے حصول کے لئے ہم نے اُس کو قبول کیا، اُس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر تیرے نام کی عظمت اور
خطبات ناصر جلد ششم ۵۲۵ خطبہ جمعہ ۳۰/ جولائی ۱۹۷۶ء کبریائی کے لئے ہم نے اُس کی آواز پر لبیک کہی.کس حد تک ہم نے اس عہد بیعت کو نبھا یا.تو ہی بہتر جانتا ہے ہم کمزوریوں کے پتلے ہیں ہماری عاجزانہ پکا رکوشن اور ہمارے قصور معاف کر اور ہماری بد یاں ہم سے مٹادے اور ہمیں اس گروہ میں شامل کر جو تیری نگاہ میں نیک اور پاک ہے.اور اے ہمارے رب ! اے سر چشمہ عنایات بے پایاں! تیری طرف سے آنے والی ہر خیر کے ہم بھوکے اور فقیر ہیں.اے ہمارے رب! ہمیں وہ سب کچھ دے جس کا تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبان پر وعدہ کیا ہے اور جب جزا کا دن آئے تو ہم تیری نظروں میں ذلیل نہ ٹھہریں.دیکھنے والے دیکھیں اور سمجھنے والے سمجھیں کہ جو تیری راہ میں دکھ اٹھاتے اور سختیاں جھیلتے ہیں اور جن کو ذلیل کرنے اور ہلاک کرنے میں دنیا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتی وہی تیرے پیار کو پاتے ہیں اور عِبَادُ اللهِ الْمُكْرَمُونَ میں شامل کئے جاتے ہیں.(اے ہمارے رب!) ہم نے کوشش کی کہ ہم تیرے لئے اپنے نفسوں کی خواہشات اور ماحول کی کشش اور دنیا کی زینت سے کنارہ کش ہو جائیں اور ہم تیری راہ میں ستائے گئے اور ذلیل کئے گئے اور ہم نے تیری راہ میں رسوائیاں اُٹھا ئیں اور ماریں کھائیں اور جائیدادیں لٹوا ئیں لیکن ہلاکت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہم نے محبت کے اُس شعلہ کو اور بھی روشن کیا جو تیرے لئے ہمارے دلوں میں موجزن ہے لیکن یہ تو ہماری سمجھ ہے اور ہوسکتا ہے کہ ہماری سمجھ کا قصور ہو ہم تیرے خوف سے لرزاں ہیں.ہماری روح تیرے جلال سے کانپ رہی ہے.تیری عظمت اور کبریائی نے ہمارے درخت وجود کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے.اے ہمارے رب! ہماری کمزوریوں ، ہستیوں ، غفلتوں ، کوتاہیوں ، خطاؤں اور گناہوں نے ہماری نیکیوں کو دبا دیا ہے.مغفرت ! مغفرت !! اے رب غفور ! مغفرت کی چادر تلے ہمیں چھپالے.ہمارے ہاتھ نیکیوں کے پھول اور اعمالِ صالحہ کے ہار تیرے قدموں پر نچھاور کرنے کے لئے نہیں لا سکے تہی دست ہم تیرے قدموں پر گرتے اور تیری رحمت کی بھیک مانگتے ہیں اے ہمارے رحمن ! ان تہی ہاتھوں کو اپنی رحمت سے ید بیضا کر دے.تیرا جمال اور محمد کا حسن دنیا پر
خطبات ناصر جلد ششم ۵۲۶ خطبہ جمعہ ۳۰/ جولائی ۱۹۷۶ء چمکے اور اسے روشن کرے ان تہی ہاتھوں کو اپنے دست قدرت میں پکڑ.تیرا جلال اور محمد کی عظمت دنیا پر ظاہر ہو.اسلام اور محمد کے مغرور دشمن کا سرنگوں اور شرمندہ کر دے.اے ہمارے رب ! ہماری بھول چوک پر ہمیں گرفت نہ کرنا اور ہماری خطاؤں سے درگزر کرنا.ہم عاجز اور کمزور بندے ہیں مگر ہیں تو تیرے ہی بندے.اے ہمارے رب ! کبھی ایسا نہ ہو کہ ہم عہد شکن ہو کر ثواب کے کاموں سے محروم ہو جائیں اور عہد شکنی کی سزا تیری طرف سے ہمیں ملے.اے ہمارے محبوب! ہم ہمیشہ اپنے عہد پر قائم رہنے کی تجھ سے توفیق حاصل کرتے رہیں اور ہمیشہ تیری ہی رضا ہمارے شاملِ حال رہے اور تیرے انعامات بے پایاں کا جو سلسلہ اسلام میں جاری ہوا ہے اس کا تسلسل کبھی نہ ٹوٹے.اے ہمارے رب ! اپنے قہر کی گرفت سے ہمیں محفوظ رکھیو.تیرے غصہ کی ہمیں برداشت نہیں.تیری گرفت شدید ہے، کچل کر رکھ دیتی اور ہلاک کر دیتی ہے.ہم عاصی ہیں ہمیں معاف فرما.ہم سے گناہ پر گناہ ہوا اور کوتاہی پر کوتاہی، اپنی رحمت کی وسیع چادر میں ہماری سب کمزوریوں کو چھپالے ہمیں اپنی رحمتوں سے ہمیشہ نواز تارہ.تُو ہمارا محبوب آقا ہے.تیرے دامن کو ہم نے پکڑا، دامن جھٹک کے ہمیں پرے نہ پھینک دینا.ہماری پکار کوٹن اور اسلام کے ناشکرے منکروں کے خلاف ہماری مدد کو آ اور ان کے شر سے ہمیں محفوظ رکھ.اے ہمارے رب ! تیری راہ میں جو بھی سختیاں اور آزمائشیں ہم پر آئمیں اُن کی برداشت کی قوت اور طاقت ہمیں بخش اور سختیوں اور آزمائشوں کے میدان میں ہمیں ثبات قدم عطا کر، ہمارے پاؤں میں لغزش نہ آئے اور اپنے اور اسلام کے دشمن کے خلاف ہماری مدد کر اور ہماری کامیابیوں کے سامان تو خود اپنے فضل سے پیدا کر دے.“ اثر و جذب میں ڈوبا ہوا فصیح و بلیغ انگریزی میں یہ خطبہ پندرہ منٹ تک جاری رہا.پرشوق سامعین پر سکتہ کا عالم طاری تھا.در دوسوز میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کے زیر اثر کمال عجز و نیاز کی حالت میں ہر ہر دعا پر ان کی زبان سے بے ساختہ آمین آمین کی دھیمی دھیمی آواز میں مسجد کی
خطبات ناصر جلد ششم ۵۲۷ خطبہ جمعہ ۳۰/ جولائی ۱۹۷۶ء پرسکون فضا میں بار بار ہلکا سا ارتعاش پیدا کرتی رہیں.خطبہ کے بعد حضور نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھا ئیں.احباب نے حضور کی اقتداء میں یہ نمازیں کمال ذوق و شوق اور تضرع و ابتهال کی حالت میں ادا کیں.روزنامه الفضل ربوه ۳ رستمبر ۱۹۷۶ء صفحه ۶،۲)
خطبات ناصر جلد ششم ۵۲۹ خطبہ جمعہ ۶ راگست ۱۹۷۶ء قرآن کریم کے احکام پر عمل کر کے ہم حقیقی فلاح سے ہمکنار ہو سکتے ہیں خطبه جمعه فرموده ۶ را گست ۱۹۷۶ء بمقام نیوجرسی.میڈیسن ( خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے قرآن کریم کی حسب ذیل آیت مع ترجمہ تلاوت فرمائی:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (المائدة : ١٠٦) ط ترجمہ:.اے مومنو! تم اپنی جانوں ( کی حفاظت) کی فکر کرو.جب تم ہدایت پا جاؤ تو کسی کی گمراہی تم کو نقصان نہیں پہنچائے گی تم سب نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پس جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس سے تمہیں آگاہ کرے گا.پھر فرمایا:.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ ایک شخص کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی فکر کرے اور اس کا پورا پورا خیال رکھے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے، اُس نے ہمیں محض پیدا ہی نہیں کیا بلکہ بعض صلاحیتیں بھی عطا
خطبات ناصر جلد ششم ۵۳۰ خطبہ جمعہ ۶ /اگست ۱۹۷۶ء کی ہیں اور پھر اُس نے ہمیں بعض راہوں پر چل کر ان صلاحیتوں کو ترقی دینے اور حسب استعداد انہیں کمال تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی ہے.ان راہوں پر چلنے سے ہم اس کو پالیتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کا اصل مقصد ہمیں حاصل ہو جاتا ہے.وہ راہیں کون سی ہیں؟ سو جاننا چاہیے کہ وہ را ہیں وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں دیئے ہیں.ان احکام پر عمل کر کے ہم حقیقی فلاح سے ہمکنار ہو سکتے ہیں اور عند اللہ کا میاب قرار پاسکتے ہیں.ان احکام میں سے بعض کا تعلق ہمارے جسم سے ہے اور بعض کا تعلق ہماری روح سے ہے.اسی نسبت سے ہماری صلاحیتیں بھی دو قسم کی ہیں ایک جسمانی اور دوسرے روحانی.ہر دو قسم کی صلاحیتوں کو ترقی دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے علیحدہ علیحدہ احکام دیئے ہیں.جہاں تک جسمانی صلاحیتوں کو ترقی دینے والے احکام کا تعلق ہے ان میں سے ایک حکم یہ ہے کہ ہم خواہ مخواہ نفس کشی کے مرتکب نہ ہوں.اسی لئے اُس نے بلا وجہ فاقے کرنے اور جسمانی قوی کو ماؤف کرنے سے منع کیا ہے.اسی طرح دوسری طرف اُس نے اسراف سے بھی روکا ہے.جسمانی صلاحیتوں کو ترقی دینے کے سلسلہ میں اُس نے ہمیں درمیانی راستہ پر چلنے کا حکم دیا ہے یعنی انسان نہ تو نفس کو اتنا مارے کہ مضمحل ہو کر نا کارہ ہو جائے اور نہ اس درجہ نفس پروری کرے کہ اسراف کا مرتکب ہو کر نفس پرستی پر اتر آئے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اَلَّا تَطْغَوا فِي الْمِيزَانِ (الرحمن:۹) فرما کر متوازن خوراک اور متوازن عمل کی تعلیم دی ہے Balanced Diet یعنی متوازن غذا کا نظریہ جس کا فی زمانہ بہت تذکرہ سننے میں آتا ہے کوئی جدید نظریہ نہیں ہے بلکہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہمیں یہی تعلیم دی تھی کہ ہم متوازن غذا استعمال کریں کیونکہ متوازن جسمانی ترقی کے لئے متوازن غذا کی ضرورت ہے.آج کل کے ماہرین اغذیہ متوازن غذا پر بہت زور دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ متوازن غذا کا نظریہ دنیا میں پہلی بار اُنہوں نے ہی پیش کیا ہے حالانکہ اسلام نے بہت پہلے ہی متوازن غذا کی اہمیت کو اُجا گر کر دیا تھا اسی طرح شہر کے متعلق قرآن مجید میں چند آیات آتی ہیں.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شہد اور شہد کی مکھیوں کے بارہ میں جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ جدید ریسرچ
خطبات ناصر جلد ششم ۵۳۱ خطبہ جمعہ ۶ راگست ۱۹۷۶ء کی رو سے بھی سو فیصد درست اور مبنی بر حقیقت ثابت ہوا ہے.صدیوں بعد ریسرچ کرنے والے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ گویا شہد اور شہد کی مکھیوں کے یہ خواص اُنہوں نے پہلی بار دریافت کئے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں ان خواص کا پہلے ہی ذکر موجود ہے.جب ہم اس نقطۂ نگاہ سے قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو دل بے اختیار اللہ اکبر پکار اٹھتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ خدا کی کتاب یعنی قرآن مجید بہت عظمت والی کتاب ہے.الغرض اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم میں ایسے احکام دیئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم زندگی کے تمام میدانوں میں ترقی کر سکتے ہیں.قرآن سب سے عظیم کتاب ہے سب سے پیاری کتاب ہے.یہ ہر بار یکی میں جاتا ہے اور ایسے احکام دیتا ہے کہ جن پر عمل کر کے ہم ترقی کی منازل.بآسانی طے کر سکتے ہیں.ہمیں چاہیے کہ ہم یہ عہد کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کریں گے اور اس کی اطاعت سے کبھی روگردانی نہیں کریں گے اسی میں ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے.ان احکام کی رو سے پہلی ذمہ داری انسان کی یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کی قدر کرے اور قدر یہی ہے کہ ان کے حقوق بجالائے.پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کی روحانی ترقی کے پیش نظر ایک اور عظیم اعلان بھی کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دوسری روح کو بچانے کے لئے اپنی روح کی قربانی پیش کرو.جہاں جسمانی صلاحیتوں کو ترقی دینے اور اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دی وہاں ساتھ ہی نفس پرستی سے منع فرمایا اور اس کے لئے اس نے ہمیں اخلاقی صلاحیتیں عطا کیں.اُس نے ان اخلاقی صلاحیتوں کو ترقی دینے کے لئے بھی متعدد احکام دیئے ہیں اور تاکید کی ہے کہ ہم ان پر بھی عمل پیرا ہوں اور وجہ اس کی یہ بیان فرمائی کہ اخلاقی احکام پر عمل پیرا ہونا دراصل تیاری ہے ایک اور اہم منزل تک پہنچنے کی.اور وہ منزل یہ ہے کہ ہم اس زندگی میں روحانی طور پر ترقی کر کے اپنے آپ کو اُس زندگی میں کامیابی کا اہل بنائیں جو کبھی ختم نہ ہو گی یعنی حیات الآخرۃ کو اپنا منتہائے مقصود بنا کر اس دنیا میں اعمالِ صالحہ بجالائیں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ امر ذہن نشین کرایا ہے کہ اگلے جہان کی زندگی کا آغاز اس دنیا میں ہی ہو جاتا ہے یعنی اس دنیا کی زندگی اور اگلے جہان کی زندگی میں ایک
خطبات ناصر جلد ششم ۵۳۲ خطبہ جمعہ ۶ راگست ۱۹۷۶ء تسلسل ہے اور دونوں زندگیاں باہم ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں.اس سے صاف عیاں ہے کہ قرآنی احکام پر عمل پیرا ہونے سے انسان کی دنیا اور آخرت دونوں سنورتی ہیں اور اس طرح وہ حقیقی فوزوفلاح کا وارث قرار پاتا ہے.وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے اور اُس کے احکام پر نہیں چلتے وہ بد قسمت ہیں.وہ نہیں جانتے کہ ان کے لئے اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی خسارہ ہی خسارہ ہے.ہم خوش قسمت ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر ایمان لانے کی توفیق دی اور ایسی راہوں کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی جو ہر لحاظ سے انسان کو کامیابی سے ہمکنار ہونے کی ضمانت دیتی ہیں.ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور اس احسان کی قدر کریں اور اُس کے احکام پر چل کر جو اُس نے قرآن مجید میں ہمیں دیئے ہیں جسمانی ، اخلاقی اور روحانی ترقیات کی منزلیں طے کرتے چلے جائیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ( آمین ) (روز نامه الفضل ربوه ۴ را کتوبر ۱۹۷۶ ء صفحه ۶،۵)
خطبات ناصر جلد ششم ۵۳۳ خطبه جمعه ۱۳ /اگست ۱۹۷۶ء اسلام ہمیں ایک ہمہ گیر اور اعلیٰ ترین ضابطہ ہدایت عطا فرماتا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۳ راگست ۱۹۷۶ء بمقام مسجد فضل.واشنگٹن (خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا میرا اس ملک کا دورہ اب اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور میں فی الوقت اپنے اس دورہ کا آخری خطبہ جمعہ پڑھتے ہوئے اپنے امریکی بھائیوں اور بہنوں سے مخاطب ہوں.سب سے پہلے تو میں جماعت ہائے احمد یہ امریکہ میں سے ہر جماعت اور اس کے افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُنہوں نے میرے یہاں آنے پر دلی محبت اور اخلاص کا اپنے اپنے رنگ میں بڑھ چڑھ کر اظہار کیا.میں یہ دیکھ کر خوش ہوا ہوں کہ یہاں کا ہر احمدی خواہ وہ مرد ہو یا عورت نظام خلافت کے ساتھ دلی طور پر وابستہ ہے اور اس کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان واخلاص میں برکت ڈالے اور انہیں اپنے فضلوں کا وارث بنائے.اس کے بعد حضور نے فرمایا:.میں اس وقت ایک خاص امر آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ ایک خدائی جماعت اور انسانوں کی بنائی ہوئی جماعت کے باہمی فرق کو کبھی فراموش نہ ہونے دیں اور اس ضمن میں ہمیشہ یا درکھیں کہ اسلام محض ایک فلسفہ یا ایک نظریہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی حیثیت محض ایک اخلاقی ضابطہ کی سی ہے بلکہ اسلام ہمیں ایک ہمہ گیر اور
خطبات ناصر جلد ششم ۵۳۴ خطبہ جمعہ ۱۳ /اگست ۱۹۷۶ء اعلیٰ ترین ضابطہ ہدایت عطا کرتا ہے اور ہم سے مطالبہ کرتا ہے ہے کہ ہم اس ضابطہ حیات پر کما حقہ عمل پیرا ہو کر اور صحیح معنوں میں عباد الرحمن بن کر اپنے آپ کو حقیقی مسلمان بنا ئیں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں چھ سات سو کے قریب احکام دیئے ہیں جو ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہیں.ہمیں ان جملہ احکام پر پورا پورا عمل کرنا چاہیے اور اپنی زندگیوں کو ان احکام کے سانچے میں ڈھالنا چاہیے اور اپنے لئے از خود نئے احکام یا ضا بطے وضع نہیں کرنے چاہئیں.بعدۂ حضور نے امریکی بھائیوں اور بہنوں کے دینی جذبہ اور احکام اسلامی پر عمل سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:.میں نے اپنے امریکی بھائیوں اور بہنوں میں قبول اسلام کے زیر اثر ایک تبدیلی دیکھی ہے اور میں اس پر خوش ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس حد تک بھی تبدیلی آئی ہے وہ ہر چند کہ خوشکن ہے تاہم ابھی کافی نہیں ہے.ابھی بعض خامیاں اور کمیاں ایسی ہیں جن کا دور ہونا ضروری ہے تا کہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو زیادہ سے زیادہ جذب کر کے بڑے بڑے انعاموں کے وارث بن سکیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں زندگی کے خالص مادہ پرستانہ انداز رائج ہیں اور یہاں بالعموم روحانی اقدار کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی.اس مادہ پرستانہ ماحول سے اپنے آپ کو پورے عزم و تعہد کے ساتھ بچانا اور مسلسل بچاتے چلے جانا ضروری ہے.ہر چند کہ میں نے دیکھا ہے کہ ہماری امریکی بہنیں بالعموم پردہ کے اسلامی احکام پر عمل پیرا ہیں تاہم ان احکام کو ہمیشہ ذہن میں مستحضر رکھنا اور ان کی افادیت سے باخبر رہتے ہوئے ان پر پورے عزم کے ساتھ عمل پیرا رہنا چاہیے اور ماحول کے مادی اثرات قبول نہیں کرنے چاہئیں.اس موقع پر حضور نے سورۃ الاحزاب اور سورۃ النور میں سے وہ آیات پڑھیں جن میں مسلمان عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور پھر ان کا ترجمہ کرنے کے بعد فرمایا میں اپنی بہنوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قرآن مجید کی ان آیات میں بیان کردہ احکام اور ان کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہوں اور عمل پیرا ر ہیں.ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو صحیح معنوں میں عباد الرحمن بنائیں اور اس کی راہ میں خدمات بجالانے والے بنیں.یہ بھی ممکن ہے کہ ہم قرآنی احکام پر کماحقہ عمل پیرا ہوں.اگر یہاں کے باشندوں نے یہ
خطبات ناصر جلد ششم ۵۳۵ خطبه جمعه ۱۳ راگست ۱۹۷۶ ء محسوس کیا کہ ان کی اپنی زندگیوں میں اور امریکی نومسلموں یا باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں کی زندگیوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ کہ ان کی زندگیاں بھی اسی طرح مادہ پرستی کی آئینہ دار ہیں جس طرح کہ ان کی اپنی زندگیاں ہیں تو پھر تم لوگ خود ان کے نقش قدم پر چلنے کی وجہ سے انہیں اسلام کی طرف نہیں کھینچ سکتے.اس میں شک نہیں کہ میں نے یہاں کے احمدیوں کی زندگیوں میں ایک خوشکن تبدیلی دیکھی ہے اور میں اس پر خوش بھی ہوں لیکن میں یہ کہنا اور آپ لوگوں کے یہ امر ذہن نشیں کرانا چاہتا ہوں کہ یہ تبدیلی کافی نہیں ہے.آپ لوگوں پر نہ صرف اپنے نفوس کے بارہ میں ذمہ داریاں ہیں بلکہ آپ پر تو دوسروں کو بھی اسلام کی طرف مائل کرنے اور انہیں اسلام کا گرویدہ بنانے کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اسلام پر کما حقہ عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگیوں میں اسلام کا صحیح نمونہ پیش کرنے کی ہمت ، جرات اور توفیق عطا فرمائے.میں نے اس ضمن میں فی الوقت جو کچھ کہا ہے اس پر غور کریں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہیں.اس کے بعد حضور نے ایک اور امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرما یا :.میرے اس ملک میں قیام کے دوران امریکہ کی جماعتہائے احمدیہ کے امراء کے متعد دا جلاس منعقد ہوئے ہیں جن میں ہم نے مل کر تعمیر و ترقی کا ایک پروگرام مرتب کیا ہے لیکن اگر مادی ذرائع میسر نہ ہوں تو اچھے سے اچھے پروگرام یا منصوبے پر بھی عمل نہیں ہو سکتا.میں نے یہاں آکر یہ محسوس کیا ہے کہ موصی صاحبان پر دیگر افراد جماعت کے سامنے ہر لحاظ سے جو اعلیٰ نمونہ پیش کرنے کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اسے وہ کما حقہ ادا نہیں کر رہے.مثال کے طور پر موصی صاحبان کے لئے حصہ آمد کے طور پر جو چندہ مقرر ہے اسے خلیفہ وقت بھی معاف نہیں کر سکتا اور نہ اسے بدل سکتا ہے چندہ عام کے بارہ میں اگر کوئی شخص اپنی مجبوریاں یا مخصوص حالات پیش کر کے معافی یا تخفیف کی درخواست کرے تو خلیفہ وقت چندہ کا بقایا معاف کر سکتا ہے یا اس میں تخفیف کی اجازت دے سکتا ہے لیکن وصیت کے چندہ میں ایسا نہیں ہو سکتا.میں نے اس بارہ میں مبلغ انچارج سے بات کی ہے اور انہیں اس بارہ میں ہدایات دی ہیں کہ وہ چندوں کی باقاعدہ اور با شرح ادائیگی کی احباب
خطبات ناصر جلد ششم جماعت سے پابندی کرائیں.۵۳۶ خطبه جمعه ۱۳ /اگست ۱۹۷۶ ء احباب کو اس ضمن میں یادرکھنا چاہیے کہ ایک موصی اسی صورت میں موصی رہ سکتا ہے جب وہ اپنی آمد کا کم از کم حصہ بطور چندہ ادا کرے اور جماعت کے تمام دوسرے افراد کے لئے ہر لحاظ سے نمونہ بنے.جو ایسا نہیں کرتا نہ اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو موصی سمجھے اور نہ جماعت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ایسے شخص کو موصیوں میں شمار کرے.اسے بہر حال موصیوں سے الگ سمجھنا اور الگ کرنا ضروری ہے.آخر میں حضور نے فرمایا مجموعی طور پر میں خوش ہوں کہ آپ لوگوں نے احمدیت قبول کر کے اپنی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی پیدا کی ہے.آپ نے گنوایا کچھ نہیں اور بہت کچھ حاصل کیا ہے لیکن جتنی تبدیلی بھی آپ کی زندگیوں میں آئی ہے اور جو کچھ آپ نے حاصل کیا ہے اس پر قانع نہ ہوں.خدا تعالیٰ نے آپ کو بڑے بڑے انعامات کا وارث بنے کا عظیم موقع عطا کیا ہے اس موقع کو ضائع نہ ہونے دیں بلکہ اس سے کما حقہ فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو انعامات الہیہ کا وارث بنا ئیں.میں اس بارہ میں فکرمند ہوں کہ آپ کی ترقی کی رفتارتسلی بخش نہیں ہے آپ لوگ اپنی پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ اسلام کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریں اور اپنے عملی نمونہ کے ذریعہ اسلام کو اس ملک میں پھیلانے اور غالب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں تا خدا کا پیار آپ کو حاصل ہو اور آپ اس کے اور وہ آپ کا ہو جائے.اور پھر فر ما یا اب میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں گے.اس کے بعد حضور نے جذب واثر میں ڈوبی ہوئی وہ دعا ئیں انگریزی میں کیں جن سے حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۶۷ ء منعقدہ جنوری ۱۹۶۸ء کا افتتاح فرمایا تھا.وہ دعائیں جن سے حضور نے احباب امریکہ کو اپنے دورہ امریکہ کے اس آخری خطبہ جمعہ میں نوازا خود حضور ہی کے بابرکت الفاظ میں یہ ہیں.” میری یہ دعا ہے کہ اللہ کرے کہ تم پاک دل اور مطہر نفس بن جاؤ اور نفس امارہ کے سب گند اور پلیدیاں تم سے دور ہو جائیں تکبر اور خود بینی اور خود نمائی اور خودستائی کا شیطان
خطبات ناصر جلد ششم ۵۳۷ خطبہ جمعہ ۱۳ /اگست ۱۹۷۶ء تمہارے دل اور تمہارے سینہ کو چھوڑ کر بھاگ جائے اور تذلل اور فروتنی اور انکسار اور بے نفسی کے نقوش تمہارے اس سینہ کو اپنے رب کے استقبال کے لئے سجائیں اور پھر میرا اللہ اس میں نزول فرمائے اور اسے تمام برکتوں سے بھر دے اور تمہارے دل اور تمہاری روح کو ہر نور سے منور کر دے اور خدا کرے کہ بنی نوع کی ہمدردی اور غمخواری کا چشمہ تمہارے اس سینہ صافی سے پھوٹے اور ایک دنیا تمہاری بے نفس خدمت سے فائدہ اٹھائے.خدا کرے کہ عاجزانہ دعاؤں کے تم عادی رہو اور تمہاری روح ہمیشہ اللہ رَبُّ الْعَلَمِينَ کے آستانہ پر گری رہے اور اللہ ، اس کی رضا اور اس کے احکام کی اتباع ہر ایک پہلو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائے.تم خدا کی وہ جماعت ہو جسے اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس مہم کو کامیاب انجام تک پہنچانے کی راہ میں تمہیں ہزار دکھ اور اذیتیں سہنی ہوں گی اور ہر قسم کے ابتلاء اور آزمائشوں میں تم کو ڈالا جائے گا.دعا ہے کہ ہر امتحان میں تم کامیاب رہو اور ہر آزمائش کے وقت رب کریم سے ثبات قدم کی تم توفیق پاؤ.بس اسی کے ہو جاؤ وہ مہربان آقا تمہیں پاک اور صاف کر دے اور پیارے بچے کی طرح تمہیں اپنی گود میں لے لے اور ہر نعمت کے دروازے تم پر کھولے اور تمام حسنات کا تم کو وارث بنائے.خدا کرے کہ آسمان کے فرشتے تمہیں یہ مژدہ سنائیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری عاجزانہ دعاؤں کو سنا اور تمہاری حقیر کوششوں کو قبول کیا اور اپنے قرب اور اپنی رضا کی جنتوں کے دروازے تمہارے لئے کھول دیئے ہیں.پس آؤ اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ.ربُّ الْعَلَمِينَ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند کو اس زمانہ کا حصن حصین بنایا ہے.چوروں ، قزاقوں اور درندوں سے آج اسی کی جان محفوظ ہے
خطبات ناصر جلد ششم ۵۳۸ خطبہ جمعہ ۱۳ /اگست ۱۹۷۶ء جو اس قلعہ میں پناہ لیتا ہے.اللہ کرے کہ تم بدی کو چھوڑ کر نیکی کی راہ اختیار کر کے اور کجی کو چھوڑ کے راستی پر قدم مار کر اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو کر اپنے رب عظیم کے بندہ مطیع بن کر اس حصن حصین اس مضبوط روحانی قلعہ کی چار دیواری میں پناہ اور امان پاؤ.خدا کرے کہ تمہارے نفس کی دوزخ کلی طور پر ٹھندی ہو جائے اور اس لعنتی زندگی سے تم بچائے جاؤ جس کا تمام ہم و غم محض دنیا کے لئے ہوتا ہے.تم اور تمہاری نسلیں شرک اور دہریت کے زہریلے اثر سے ہمیشہ محفوظ رہیں.خدائے واحد یگانہ کی روح تم میں سکونت کرے اور اس کی رضا کی خاص تجلی تم پر جلوہ گر ہو.پرانی انسانیت پر ایک موت وارد ہو کر ایک نئی اور پاک زیست تمہیں عطا ہو اور لیلتہ القدر کاحسین جلوہ اس عالم میں بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان تمہارے لئے پیدا کر دے.اے ہمارے رب! تو ہمیں مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے انصار میں سے بنا اور اس قیامت خیز ہلاکت اور عذاب سے ہمیں محفوظ رکھ جس سے تو نے ان لوگوں کو ڈرایا ہے جو اپنا تعلق تجھ سے تو ڑ چکے ہیں جو تجھ سے دور ہو چکے ہیں جو تجھے بھول چکے ہیں.اے ہمارے خدا! اپنی طرف تبتل اور انقطاع اور رجوع کی توفیق ہمیں بخش اور ہم پر رجوع برحمت ہو.“ اس پراثر خطبہ کے دوران احباب پر محویت کا ایک خاص عالم طاری تھا انہیں معلوم تھا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے سب سے پہلے ( یعنی موجودہ ) دورہ امریکہ کا یہ آخری خطبہ جمعہ ہے جس سے مستفیض ہونے کی انہیں سعادت میسر آ رہی ہے.وہ سوچ رہے تھے کہ یہ خدا ہی کو معلوم ہے کہ دن اور بہار کی یہ کیفیت اب پھر کب اُن کے دلوں کو مسرت و شادمانی کے گہوارہ میں تبدیل کرے گی.اپنے اس شدید احساس کے زیر اثر وہ ہمہ تن گوش اور ہمہ تن اشتیاق بنے ہوئے تھے.ان کی نظریں حضور کے رخ انور پر جمی ہوئی تھیں.کان حضور کی آواز گوش نواز کی سماعت سے بہرہ اندوز ہورہے تھے اور وہ حضور کی بیش بہا نصائح سے اپنے ہر گوشتہ دل کو سجا کر انہیں حقائق و معارف اور علوم و عرفان کے خزینوں میں تبدیل کر رہے تھے.جب حضور ایدہ اللہ نے خطبہ کے
خطبات ناصر جلد ششم ۵۳۹ خطبہ جمعہ ۱۳ /اگست ۱۹۷۶ء آخر میں انہیں انمول دعاؤں سے (جو ایک رنگ میں الوداعی دعائیں ہونے کے باعث خاص طور پر اثر وجذب میں ڈوبی ہوئی تھیں نوازا تو ان پر رقت کا عالم طاری ہوئے بغیر نہ رہا اور وہ ہر ہر دعا پر آمین ! اللهم امین “ کہتے رہے اور اس یقین سے لبریز ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ کے بندہ کی یہ دعا ئیں جناب الہی میں مقبول ہو کر اُن کے لئے اللہ تعالیٰ کے فیضانِ خاص کا دروازہ کھولنے پر منتج ہوں گی.اثر و جذب میں ڈوبے ہوئے اس بصیرت افروز خطبہ کے بعد جو پچیس منٹ تک جاری رہا.حضور نے دو بجے بعد دو پہر جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.نمازوں سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے احباب جماعت کے درمیان رونق افروز ہو کر اُن سے بہت محبت بھرے انداز میں باتیں کیں اور انہیں اہم تربیتی ارشادات سے نوازا.روزنامه الفضل ربوه ۲۰ را کتوبر ۱۹۷۶ء صفحه ۶،۵،۲)
خطبات ناصر جلد ششم ۵۴۱ خطبه جمعه ۲۰ /اگست ۱۹۷۶ء حقیقی مسجد ایک نشان اور عظیم الشان پیغام کی حامل ہوتی ہے خطبه جمعه فرموده ۲۰ راگست بمقام مسجد ناصر گوٹن برگ.سویڈن ( خلاصه خطبه ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ ہماری زندگی کا نہایت خوشکن اور پُر مسرت موقع ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اللہ کے نام کی عظمت بلند کرنے کی غرض سے سویڈن میں پہلی مسجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے تا کہ ہم یہاں سے یہ اعلان کر سکیں کہ ہر شخص اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہو کر اس کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرسکتا ہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا مسجد خدا کا گھر ہے اور وہی اس کا مالک ہے اس کی ملکیت بجز اس کے اور کسی کو حاصل نہیں ہم ( جنہیں خدا تعالیٰ نے یہ مسجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے ) اس مسجد کے صرف کسٹوڈین یعنی اس کی حفاظت کے ذمہ دار اور اس کے نگران ہیں.اس حقیقت کے پیش نظر کہ مسجد خدا کا گھر ہے اور وہی اس کا مالک ہے اس کے دروازے ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں جو خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہیے اسی لئے تمام موحدین ہماری تعمیر کردہ دوسری مساجد کی طرح اس مسجد میں اگر چاہیں تو اپنے طریق کے مطابق خدائے واحد کی عبادت کر سکتے ہیں ان
خطبات ناصر جلد ششم ۵۴۲ خطبه جمعه ۲۰ /اگست ۱۹۷۶ء کے لئے اس کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں.اس کے بعد حضور نے قرآن مجید کی رو سے اس امر پر روشنی ڈالی کہ مسجد کے کسٹوڈین کون ہیں اور ان کے فرائض کیا ہیں حضور نے فرمایا اس بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں کیا ہے جہاں اُس نے اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ (الجن : ۱۹) کہہ کر اس فیصلے کا اعلان فرمایا ہے کہ مساجد ہمیشہ اللہ ہی کی ملکیت رہیں گی وہاں ساتھ ہی مساجد کے کسٹوڈینز اور ان کی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.افَمَنْ أسس بنيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَنْ اَتَسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرْفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ (التَّوبة : ١٠٩) ( ترجمہ:.کیا وہ شخص جو اپنی عمارت ( مراد مسجد ) کی بنیاد اللہ کے تقویٰ اور رضا مندی پر رکھتا ہے زیادہ اچھا ہے یا وہ جو اس کی بنیاد ایک پھسلنے والے کنارے پر رکھتا ہے جو گر رہا ہوتا ہے پھر وہ کنارہ اس عمارت سمیت جہنم کی آگ میں گر جاتا ہے اور اللہ ظالم قوم کو ( کامیابی کا راستہ نہیں دکھاتا.) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر پر زور دے کر کہ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے مسجد وہی ہے جس کی بنیاد تقوی اللہ اور رضائے الہی پر ہو مساجد کے کسٹوڈینز پر دو اہم ذمہ داریاں عائد کی ہیں:.اوّل.یہ کہ وہ اسے پاک صاف اور مطہر رکھیں اس میں پانی مہیا کریں اور ایسی تمام دیگر ضروریات بہم پہنچا ئیں جن کا موجود ہونا عبادات بجالانے کے لئے ضروری ہو.دوم.یہ کہ وہ مساجد میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ جو لوگ ان میں عبادت کے لئے آئیں ان کا زندہ تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ قائم ہونے میں مدد ملے.پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دو قسم کی مساجد کا ذکر کر کے ان کے درمیان پائے جانے والے امتیاز کو واضح فرمایا ہے چنانچہ اس آیت کی رُو سے جس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر ہو اور وہ لوگوں کا خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق پیدا کرنے والی ہو وہ حقیقی مسجد ہے برخلاف اس کے وہ مسجد جس کی
خطبات ناصر جلد ششم ۵۴۳ خطبه جمعه ۲۰ /اگست ۱۹۷۶ء بنیاد ظلم کی راہ سے لوگوں کو Exploit کرنے پر ہو اور بناء بریں تقویٰ اللہ سے یکسر خالی ہو وہ حقیقی مسجد نہیں ہے اُس کے بنانے والوں کی اور اُس کے نگرانوں کی نیت خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا نہیں اس لئے ایسی مسجد اور اُس کے ایسے نگرانوں کا انجام فانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ بتایا جو الله کے فرمانبردار اور اطاعت گزار بندے ہیں وہی سچے مسلمان ہیں خدا تعالیٰ خود ان کی راہنمائی کرتا ہے اور انہیں اپنے افضال و انعامات کا مورد بناتا چلا جاتا ہے.اُنہیں ان افضال وانعامات کا مورد بنانے میں مسجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے.مسجد کی بنیادی اہمیت واضح فرمانے کے بعد حضور نے فرمایا حقیقی مسجد ایک عظیم نشان(Symbol) کی حیثیت رکھتی ہے اور ایک پیغام کی حامل ہوتی ہے سو ہماری یہ مسجد ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ سب لوگ خدا کی نگاہ میں برابر ہیں اور سب اس کے فرمانبردار اور عبادت گزار بندے بن کر اُس سے زندہ تعلق قائم کر سکتے ہیں اور اس کے افضال وانعامات کے مورد بن سکتے ہیں اور یہ کہ انہیں ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کی بے لوث خدمت ان کا طرہ امتیاز ہونا چاہیے.آخر میں حضور نے فرما یا ہم اس پر مسرت موقع پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے حضور دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں مسجد کے ان مقاصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اِس مسجد کو اپنی غیر معمولی برکتوں اور فضلوں سے نوازے.ہم اُسی کی دی ہوئی توفیق سے اسلام کے لئے سب کے دل جیتنے والے ہوں اور اُنہیں بھی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے قابل بنانے والے ہوں اسلام کے لئے سب ہی کے دل جیتے جائیں اور سب ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں تا خدا کی مرضی اس زمین پر پوری ہو.( آمین ) روزنامه الفضل ربوه ۳ /نومبر ۱۹۷۶ ء صفحه ۶،۲)
خطبات ناصر جلد ششم ۵۴۵ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء جماعت احمد یہ سلامتی اور امن کی تعلیم پر چلنے والی قانون کی پابند جماعت ہے خطبه جمعه فرموده ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندوں پر اس قدر فضل نازل کرتا ہے کہ انسان کی زبان اس کا شکر اور حمد بیان نہیں کر سکتی.میں گزشتہ تین ماہ سفر میں اور دورے پر رہا ہوں.اس عرصہ میں میں نے شروع میں امریکہ اور کینیڈا کا سفر کیا یعنی ۲۵ جولائی سے ۱۵ اگست تک.ہم ۱۹ جولائی کو یہاں سے روانہ ہوئے تھے اور ۲۰ رکو لندن پہنچے.۲۵ / کو وہاں سے چلے اور سات گھنٹے کی اُڑان کے بعد واشنگٹن جو امریکہ کا دارلخلافہ ہے اور جماعت ہائے احمد یہ امریکہ کا مرکزی شہر ہے ، وہاں پہنچ گئے اور پھر ۱۵ / اگست کو ہوائی جہاز ہی کے ذریعہ واپسی ہوئی.۱۷ رکو میں لندن میں رہا اور ۱۸؎ کو موٹر کے ذریعہ یورپ کے دورہ پر نکلا.۱۸ / اگست سے غالباً ۱۴ ستمبر تک دورے پر رہنے کے بعد لندن کو وا پسی ہوئی اور پھر بقیہ عرصہ وہیں ٹھہرے رہے.امریکہ میں کیونکہ میں پہلی دفعہ گیا تھا اس لئے بھی وہاں بہت شوق تھا کہ میں پہنچوں اور میرے گرد احباب جماعت جمع ہوں چنانچہ وقت کی تنگی کی وجہ سے میں امریکہ کے بہت سے حصوں میں جہاں جماعتیں ہیں نہیں جا سکا کیونکہ یہاں سے روانگی میں دیر ہو گئی.ہمارے سفر
خطبات ناصر جلد ششم ۵۴۶ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء کے کاغذات جو حکومت سے لینے تھے، اُن میں بعض وجوہات کی بناء پر تاخیر ہوتی چلی گئی اور جون کے شروع میں جو سفر اختیار کرنے کا ارادہ تھا اس کی بجائے یہاں سے ۱۹ جولائی کو روانہ ہوئے.امریکہ پہنچنے پر چند ایک شہروں ہی میں جاسکا.واشنگٹن جو مرکز ہے جماعت کا بھی.پھر وہاں سے ڈیٹن گئے یہاں امریکن احمدیوں کی کافی بڑی جماعت ہے شہر میں بھی اور اس کے گردونواح میں بھی.پھر وہاں سے نیو یارک اور نیو یارک سے میڈیسن سٹی گئے جہاں ایک یو نیورسٹی میں جس میں چھٹیاں تھیں سالانہ کنونشن ہوئی.وہاں سے پھر ٹورنٹو کینیڈ اروانہ ہوئے.یہ بھی ہزاروں میلوں میں پھیلا ہوا ملک ہے لیکن ایک جگہ جہاں ہمارے نیشنل امیر رہتے ہیں وہاں ہی میں جاسکا اور چند دن سے زیادہ ٹھہر نہیں سکا بڑی دور دُور سے دوست وہاں آئے ہوئے تھے.امریکہ کے دورے میں ایک چیز جو نمایاں ہو کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ بعض چیزیں ہماری عادت بن گئی ہیں اُن کی طرف ہماری توجہ نہیں ہوتی لیکن امریکہ میں جہاں ہماری نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں اُن کے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ایڈ منسٹریشن یعنی انتظامیہ پر بھی اثر پڑا ہے اور عوام بھی انہیں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں خصوصاً قانون کی پابندی کا بڑا اثر ہے.ڈیٹن جہاں ہماری بہت بڑی جماعت ہے وہاں کے دوستوں نے مجھے بتایا کہ افسران برسر عام بات کرتے ہیں کہ احمدیت نے عجیب انقلاب پیدا کیا ہے امریکن احمد یوں میں کہ سارے سال ایک شکایت بھی ان کے خلاف پیدا نہیں ہوتی جب کہ سینکڑوں ہزاروں شکایتیں اس شہر میں پیدا ہو جاتی ہیں دوسرے شہریوں کے خلاف اور اس کا اتنا اثر ہے شہر کی انتظامیہ پر اور عوام پر کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.بنیادی اسلامی تعلیم جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سیکھی ایک بنیادی حصہ (ویسے اور سینکڑوں چیزیں ہیں جو اسلام میں ہیں اور ہمیں سکھائی گئی ہیں لیکن ایک ) یہ بھی ہے کہ قانون شکنی نہیں کرنی.قانون کا پابند رہنا ہے اور اب ساری دنیا میں جماعت اس کا نظارہ پیش کر رہی ہے اگر چہ میں اس وقت ڈیٹن کا ذکر کر رہا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف ڈیٹن میں نہیں ساری دنیا سے نقوش اُبھر رہے ہیں کہ جماعت احمد یہ امن پسند جماعت ہے جیسا کہ اسلام کے لفظی معنی
خطبات ناصر جلد ششم ۵۴۷ خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء بھی سلامتی اور امن کے ہیں.اس لئے جماعت احمد یہ سلامتی اور امن کی تعلیم پر چلنے والی اور قانون کی پابند جماعت ہے.مغربی افریقہ کے بعض ممالک میں ہماری بہت بڑی جماعتیں ہیں.اُن کا اندازہ ہے میں نے تو اندازے نہیں کئے نہ ہی یہاں بیٹھے ہوئے اندازہ کر سکتا ہوں اور نہ آپ کر سکتے ہیں.غانا کی جماعت کا اندازہ یہ ہے کہ غانا میں جس کی آبادی کم و بیش اتنی لاکھ ہوگی اور اس میں دس لاکھ سے زائد احمدی ہیں.اسی طرح سیرالیون کی آبادی ۴۰ لاکھ کے لگ بھگ ہے اور وہاں کی احمدی آبادی چھ لاکھ کے قریب ہے.اس شکل میں بڑی طاقتیں اُبھر رہی ہیں لیکن عوام کو بھی پتہ ہے اور حکومت کو بھی پتہ ہے کہ یہ جماعت قانون شکن نہیں ہے قانون کی پابندی کرنے والی جماعت ہے.احمدی امن پسند لوگ ہیں بنی نوع انسان کے خیر خواہ ہیں دوسروں کو تکلیف پہنچانے والے نہیں اس لئے لوگ جماعت احمدیہ کا احترام کرتے ہیں.ہوں گے دنیا میں بعض ممالک جو اس کو پسند نہیں کرتے ہوں گے یا احترام نہیں کرتے ہوں گے یا عقیدت کے جذبہ کے ساتھ اس مظاہرہ کو نہیں دیکھتے ہوں گے لیکن افریقہ کے جو ممالک ہیں اور دوسرے ممالک جو میں نے دیکھے ہیں اُن میں لوگ احمدیوں کا اتنا احترام کرتے ہیں مثلاً ۱۹۷۰ء میں جب میں نے مغربی افریقہ کا دورہ کیا تھا اس کے بعد اس چھوٹے سے عرصہ میں جو قریباً چھ سال کا ہے اس میں غانا میں دو انقلاب آچکے ہیں.حکومت بدلی میرے آنے کے بعد اور پھر ایک فوجی انقلاب بپا ہوا اور فوجی انقلاب یعنی مارشل لاء کے متعلق آپ جانتے ہیں کہ کس طریق کا ہوتا ہے لیکن حکومتیں بدلتی ہیں اور آئے دن بدلتی رہتی ہیں لیکن حکومتوں کا رویہ جماعت احمدیہ کے تعلق میں ہمیشہ ہی اچھا رہا ہے جو بھی نئی حکومت آتی ہے وہ جماعت احمدیہ کے حق میں اچھی ثابت ہوتی ہے.جب میں گیا تو ایک فوجی جرنیل وہاں کے صدر تھے اُن کے ساتھ جماعت کا بڑا اچھا تعلق تھا.میرے ساتھ بڑے تپاک اور عزت سے پیش آئے اور جو اب وہاں کے صدر ہیں، وہ ہیں تو عیسائی لیکن جب بھی وہاں کے امیر عبدالوہاب بن آدم سے اُن کی بات ہوتی ہے تو مجھے پیغام بھجواتے ہیں.کہتے ہیں حضرت صاحب کو لکھو میرے لئے اور میرے ملک کے لئے دعا کریں ان کی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.کچھ ایسے اثرات دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی دعائیں
خطبات ناصر جلد ششم ۵۴۸ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء قبول ہوتی ہیں.دعا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے قبول ہوتی ہے میں اپنے زور سے تو دعا قبول نہیں کروا سکتا.ابھی پچھلے دنوں لندن میں مجھے ایک جوڑا ملنے کے لئے آیا.مجھے تو یاد بھی نہیں تھا وہ کہنے لگے کہ ہمارے ہاں لڑکا نہیں تھا یا شاید بچہ ہی کوئی نہیں تھا آپ کو دعا کے لئے لکھنا شروع کیا احمدیوں میں سے اُن کے کوئی واقف تھے اور اُن کو خدا تعالیٰ نے لڑکا دیا اور لڑکا اُن کی گود میں تھا.وہ کہنے لگے دیکھیں آپ کی دعاؤں کا ثمرہ ہمیں مل گیا اور وہ تھے غیر مسلم.خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے دنیوی لحاظ سے خدا تعالیٰ کے احسان مسلم اور غیر مسلم ہر ایک پر ہوتے ہیں وہ تو کتوں پر احسان کرنے والے لوگوں کی بدکاریاں معاف کر دیتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے.یہ شان ہے ہمارے رب عظیم کی.بہر حال میں بتا یہ رہا تھا کہ ڈیٹن میں اور دوسری جگہوں پر اتنا اثر ہے ان علاقوں میں اس بات کا کہ جماعت احمد یہ ایک امن پسند جماعت ہے.لوگوں کی خیر خواہ اور اُن کے کام کرنے والی جماعت ہے.اُن کے ساتھ تعاون کرنے والی اور قانون کی پابندی کرنے والی جماعت ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں تو حیران ہوتا تھا کہ جب وہ کہتے تھے ہمارے خلیفتہ امسیح آرہے ہیں تو عیسائی ہو یا د ہر یہ ہوجو خدا کونہیں مانتے جماعت احمدیہ کو ماننے کا کیا سوال ہے اُن کی آنکھ میں جماعت احمد یہ کیا وقعت رکھتی ہے لیکن اس اثر کے نتیجہ میں جماعت کے دوست جو بھی اُن کو کہتے تھے کہ یہ انتظام کرو وہ انتظام کرو.ہمیں یہ سہولت دوائیر پورٹ پر وغیرہ وغیرہ تو وہ سب بڑی خوشی سے تعاون کرتے تھے.یہ نہیں کہ ایسا معلوم ہو کہ کوئی احسان کر رہے ہیں بلکہ خوشی کے ساتھ کام کر رہے ہوتے تھے.جماعت کے ساتھ اُن کا تعاون تھا جس طرح جماعت کا ہر وقت اُن کے ساتھ رہتا ہے.وہاں احمد یہ جماعتیں جو اسلامی نمونہ پیش کر رہی ہیں وہ بہت ہی خوشکن ہے.میری مراد اس وقت اُن خاندانوں سے نہیں ( اور مجھے تو شرم آتی ہے اس کا اظہار کرتے ہوئے بھی کہ ) جو یہاں سے یا ہندوستان سے یا دوسرے ایشیائی ممالک سے جا کر وہاں آباد ہوتے ہیں بلکہ وہ احمدی مراد ہیں جو امریکن باشندے ہیں اور سینکڑوں سال سے کہ جب سے اُن کو افریقہ سے لے جا کر وہاں آباد کیا گیا ہے وہ خاندان وہاں آباد ہیں اور اب اللہ تعالیٰ نے اندھیروں کے لئے اور
خطبات ناصر جلد ششم ۵۴۹ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء ان سیاہ فام لوگوں کے لئے نور کے سائے پیدا کئے احمدیت کے نتیجہ میں اور انہوں نے اس نور کو دیکھا اور سمجھا اور اپنا لیا اور اُن کے دل اور سینے اللہ تعالیٰ کے پیار سے بھر گئے اور اسلام کے نور سے منور ہو گئے.ان کو اتنا پیار ہے اسلامی تعلیم سے جب میں ڈیٹن کے ہوائی اڈہ پر اتر اتو وہاں ہوائی اڈہ پر استقبال کے لئے تین سو سے زائد مردوزن موجود تھے اور ایک سو سے زائد امریکن مستورات تھیں اور وہ ساری کی ساری پاکستانی طرز کے برقعے پہنے ہوئے تھیں.نقا میں اوڑھی ہوئیں تھیں ان میں ایک (ویسے تو دوسری جگہ کے رہنے والے ہیں ) یہودی خاندان بھی آیا ہوا تھا جو جماعت احمدیہ کی تبلیغ سے مسلمان ہوا ہے اُن کی عورتوں نے بھی اسلامی پردہ کیا ہوا تھا.قرآن کریم نے برقعہ کی شکل کو پیش نہیں کیا.قرآن کریم نے تو ایک حکم دیا ہے جس کی پابندی ہم مختلف قسم کے برقعوں سے کر سکتے ہیں بعض دفعہ لوگ اس طرف چلے جاتے ہیں کہ جو پاکستان میں برقعہ پہنا جاتا ہے صرف یہی پردہ ہے اس کے علاوہ کوئی پردہ نہیں ہے.پردہ برقعہ پہنے کا نام نہیں ، پردہ زینت ڈھانپنے کا نام ہے اس کا حکم قرآن کریم میں موجود ہے.اس پر عمل ہونا چاہیے.ہمارے ہاں چونکہ برقعہ پہنے کا دستور ہے اور چونکہ احمدیت کے ذریعہ اُنہوں نے اسلامی تعلیم سیکھی ہے اور کئی جلسوں پر اُن کے نمائندے یہاں آئے ہیں یہاں سے جانے کے بعد اُنہوں نے کہا جس قسم کا پردہ ربوہ کی ہماری احمدی بزرگ عورتیں کرتی ہیں اس قسم کا ہم بھی کریں گی چنانچہ یہاں سے برقعے سلوا کر لے گئیں اور اب خود بھی سی لیتی ہیں.وہ ساری بڑی محنتی قوم ہے اور اسلام کا اتنا جذ بہ ہے اُن میں کہ ایک دفعہ چند مستورات مجھ سے مل رہی تھیں اور بڑے جذباتی انداز میں اُنہوں نے اپنے مردوں کے خلاف شکایت کی کہ جس طرح ہم چاہتی ہیں اس طرح ہمارے مرد جماعت احمدیہ کی تبلیغ نہیں کر رہے اور نہ کام کر رہے ہیں اس لئے آپ تبلیغ کا کام ہمارے سپر د کر دیں پھر دیکھیں ہم کس طرح کام کرتی ہیں.خیر یہ تو ایک قابل احترام جذبہ تھا اور اُن کے اس جذبہ کی میرے دل میں بہت عزبات پیدا ہوئی لیکن اصل بات یہ ہے کہ اُس دنیا میں جس کا ہرلمحہ گند میں گزر رہا ہے اس میں سے نیکی اور تقویٰ کے ان جزیروں کا اُبھر آنا بڑی بات ہے.یہ ہیں تو چھوٹے چھوٹے جزیرے لیکن ان کا اُبھر آنا خدا تعالیٰ کی عظیم قدرت کا نشان ہے اور ہمیں یہ بتاتا
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء ہے کہ یہ جزیرے اُبھرتے ابھرتے اس حال میں پہنچ جائیں گے کہ گندا پانی کم رہ جائے گا اور یہ جزیرے جو نیکی کے اور تقویٰ کے اور پاکیزگی کے اور خدا تعالیٰ کے پیار کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق کے اور بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے جزیرے ہیں سارے علاقے میں پھیلے ہوئے ہوں گے.جہاں تک اُن کی تعداد کا سوال ہے امریکہ میں بڑی تعداد میں احمدی نہیں ہیں.وہاں ہماری تعداد اس وقت ۴۳ ہزار کے درمیان ہوگی اور وہ بھی بکھری ہوئی لیکن بڑی فعال جماعتیں ہیں اور بڑھ رہی ہیں ایک جگہ کھڑی نہیں.بعض جگہ پر یس کا نفرنسز میں صحافی سوال کرتے تھے کہ امریکہ میں آپ کی کتنی جماعت ہے وہ علمی لحاظ سے بڑی تیز عقلیں رکھتے ہیں اس لئے ایک دوسرے کو یہ بتانے کے لئے کہ اُنہوں نے کوئی زیادہ ترقی تو نہیں کی.میں ایسے سوالوں کا یہ جواب دیا کرتا تھا کہ بالکل درست ہے جب الہی سلسلوں کی ابتدا ہوتی ہے تو اس وقت سر نہیں گنا جایا کرتے اس وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ فضا کے اندر کیا تبدیلی پیدا ہو رہی ہے.اس سے پہلے میرے ۱۹۶۷ء کے یورپ کے دورے میں ہالینڈ میں ایک پریس کانفرنس میں مجھ سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ ہالینڈ میں کتنے مسلمان آپ بنا چکے ہیں تو میں نے اُن کو یہ جواب دیا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ تمہارے نزدیک حضرت مسیح علیہ السلام کی جو زندگی اس دنیا میں تھی اس سلسلہ میں گو ہما را اختلاف ہے میں اس میں نہیں پڑتا لیکن تمہارے نزدیک جتنا عرصہ وہ زندہ رہے ساری عمر میں جتنے عیسائی اُنہوں نے بنائے تھے اس سے زیادہ تمہارے ملک میں ہم مسلمان بنا چکے ہیں.یہ جواب ایسا تھا کہ وہ حیران بھی ہوئے اور جو شوخی اُن کی آنکھ میں تھی کہ یہ کہیں گے تھوڑے ہیں تو اس طرح اسلامی تعلیم کا اثر زائل ہوگا اور ان کا مقصد پورا نہیں ہوگا.ہماری جو پچھلی تاریخ ہے اور جو تاریخ ہماری آگے اُبھری ہے اور جس کے متعلق ہمیں بشارتیں دی گئی ہیں اور ہم علی وجہ البصیرت اُن پر ایمان لاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم عنقریب غلبہ اسلام کی صدی میں داخل ہونے والے ہیں اور یہ جو پندرہ سال اس صدی کے رہ گئے ہیں یہ اس لحاظ سے بڑے اہم ہیں کہ غلبہ اسلام کی صدی جو ہماری زندگی
خطبات ناصر جلد ششم ۵۵۱ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی ہے اور جو غلبہ اسلام کی صدی ہے اس کے لئے ہم نے تیاری کرنی ہے اور اس تیاری ہی کے سلسلہ میں دراصل میں امریکہ گیا تھا.وہاں کے حالات کا میں نے جائزہ لیا اور میں نے اُن سے کہا کہ اصل پروگرام تو صد سالہ جو بلی کا پروگرام ہے جو ساری دنیا کی جماعت ہائے احمدیہ پر حاوی ہے اور اس کا میں اعلان کر چکا ہوں لیکن اس کے اندر جو ابتدائی کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ پندرہ صوبوں (امریکہ میں ان کو States کہا جاتا ہے ) میں سے ہر ایک میں کم از کم بیس سے تیس ایکٹر زمین کا رقبہ جماعت کی اجتماعی زندگی کے لئے یعنی Center Community بنانے کے لئے خرید و.چنانچہ بڑی لمبی بحث کے بعد اور بغور جائزہ لینے کے بعد اور وہاں کی جماعتوں کے سارے امراء سے ملاقاتیں کر کے ( وہ سب واشنگٹن میں بھی آئے.نیو یارک میں بھی آئے.میرے خیال میں ڈیٹن میں بھی آئے وہاں بھی اُن کی میٹنگ ہوئی) بہت سارے پروگرام بنے تھے.اُن میں سے ایک یہ تھا کہ بیس سے تیس ایکڑ زمین کمیونٹی سنٹر کے طور پر پانچ سال کے اندر اندر خرید لیں.مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ وہ ضرور خرید لیں گے ویسے تو وہاں ہر سٹیٹ یعنی ہر صوبے میں احمدی ہیں لیکن کہیں زیادہ تعداد ہے اور کہیں کم ہے.ان پندرہ سٹیٹس میں کافی بڑی تعداد ہے.چھوٹے بچے ہیں اُن کی فکر ہے اتنی فکر ہے جماعت ہائے احمد یہ امریکہ کو اپنے بچوں کی.خدا کرے یہاں بھی اتنی ہی فکر والدین کو ہو کہ میرے سامنے بیٹھ کر آنسوؤں کی جھڑیاں بہتی تھیں ماؤں کی اور وہ مجھ سے یہ مطالبہ کرتی تھیں کہ اس اندھیری دنیا کے بداثرات سے ہمارے بچوں کو محفوظ کرنے کا انتظام کریں.اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ کمیونٹی سنٹرز ہیں جہاں چھٹیوں میں بچے اکٹھے ہوں گے اور اُن کو اسلامی تعلیم بتائی جائے گی.اُن کی عمر کے لحاظ سے دلچسپی پیدا کر کے وہاں کے ماحول میں اسلام سکھانے کا انتظام کیا جائے گا.اس کے علاوہ اُن کی اور بہت سی ضروریات پر غور ہوئے اور ان کے متعلق ہم نے فیصلے کئے ان کے اوپر انشاء اللہ بڑی جلدی عمل شروع ہو جائے گا یعنی ان چودہ سال کے اندراندر جو ہماری تیاری کے سال ہیں مثلاً میں نے انہیں کہا ہے کہ تم ایسا پروگرام بناؤ اور اس پر عمل کرو.ہم
خطبات ناصر جلد ششم ۵۵۲ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء نے یہ مشورے کئے ہیں کہ کس طرح ان چودہ پندرہ سالوں میں کئی ملین ترجمے قرآن کریم کے شائع کئے جائیں گے.۴۰.۵۰ لاکھ تراجم قرآن کریم امریکہ کے مختلف گھروں میں پہنچائے جائیں.جو لوگ احمدی ہو گئے ہیں ان کے شوق کا یہ حال ہے کہ جو ۴، ۵ سال کے پرانے احمدی ہیں ان کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ ہر گھر میں ہماری انگریزی کی جو بڑی تفسیر ہے پانچ جلدوں میں.وہ موجود ہے اور وہ ہر وقت پڑھتے رہتے ہیں.اور بعض دفعہ ان کو کوئی بات سمجھ نہ آئے تو مبلغ سے کہتے ہیں کہ سمجھائے.مبلغ بہر حال انسان ہے ہر موضوع کے متعلق ہر وقت تو ہر چیز اس کے دماغ میں حاضر نہیں رہتی چنانچہ ان کو سمجھانے کے لئے اس کو Study کرنی پڑتی ہے اور کچھ دوست مجھے کہنے لگے کہ پانچ جلدوں والی تفسیر ختم ہوگئی ہے اس کی دوبارہ اشاعت کا انتظام کیا جائے.میں نے پتہ کرایا تو معلوم ہوا ان کے پاس ۲۵ جلد میں باقی تھیں یعنی ۲۵ سیٹ باقی تھی.میں نے ان سے کہا تم اپنی ضرورت پوری کرو اور جماعت کو کہا کہ اور منگواؤ.اگر یہاں بھی نہ ہوئی تو اور چھپوانی پڑے گی کیونکہ امریکن دوست اس کا مطالبہ کر رہے ہیں.یہ مطالبہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ یورپ میں جو پرانے احمدی ہیں ان کے متعلق ہمارے مبلغوں نے کہا کہ اب یہ کہتے ہیں کہ جتنی کتب جماعت احمد یہ انگریزی میں شائع کر چکی ہے وہ ہم سب پڑھ چکے ہیں.ایک بار سے زائد بار پڑھ چکے ہیں ہمیں نئی کتابیں پڑھنے کے لئے دو.آدمی بہت ساری چیزیں دورے میں سیکھتا ہے چنانچہ اس دفعہ بھی جو ضرورت سامنے آئی اس کا انتظام کیا.ایک یہ کہ امریکہ کی جماعت کوشش کرے اپنا پریس لگانے کی.امید ہے عنقریب وہاں انشاء اللہ جماعت کا پریس لگ جائے گا کیونکہ اس وقت دنیا میں جو حقیقی معنے میں آزاد ممالک ہیں اور پورے طور پر آزاد ہیں ان میں سے سر فہرست امریکہ ہے بڑی آزادی ہے.آدمی ان کی آزادی کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے مثلاً ان کے ہاں پرائیویٹ براڈ کاسکٹنگ اسٹیشن ہیں.لاکھوں لاکھ کی تعداد میں افریقی خاندان جو امریکہ میں بستے ہیں مختلف شہروں میں ان کے اپنے براڈ کاسٹنگ اسٹیشن ہیں اور اپنے انتظام ہیں.ان کے اوپر کوئی پابندی نہیں وہ اپنے گھروں کو اپنی آواز پہنچاتے ہیں.ان کی ضروریات تو سیاسی ہیں ہم مذہبی طور پر کام لینا چاہتے ہیں کچھ اور
خطبات ناصر جلد ششم ۵۵۳ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء بڑی جماعت ہوگئی یاConcentrate ہو گئی یعنی ایک جگہ زیادہ احمدی ہو گئے تو وہ جب کہیں گے حکومت کہے گی ٹھیک ہے تم اپنا براڈ کاسٹنگ سٹیشن تیار کرو اور اپنے علاقے کو ہر وقت ریڈیو پر خبریں دیا کرو، درس قرآن کریم دیا کرو.بڑا اچھا انتظام ہو جائے گا وہاں سے ہر ملک میں پیسہ بھی جاسکتا ہے اور کتابیں بھی جاسکتی ہیں کوئی پابندی نہیں ہے.وہاں میرا خیال ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد ( میرا بہت جلد کا مطلب ہے کہ یہ جو پانچ سالہ منصوبہ بڑے منصوبے کے اندر بنا کر آیا ہوں وہاں اس میں ) ان کا پریس لگ جائے گا.اتفاقاً ایک پریس کا پتہ لگ گیا میں نے لندن کی جماعت احمدیہ کو بھی کہا ہوا تھا کیونکہ انگلستان کی جماعتیں بھی بڑی فعال اور کافی تعداد میں ہیں اور اُن کی آمد کافی زیادہ ہے چندہ عام کی جو آمد ہے اس کے علاوہ بھی جب اُن کو کہا جائے قربانی کرو تو وہ بڑی قربانی کرتے ہیں مثلاً میں نے چندہ کی کوئی اپیل نہیں کی میں نے اپنے خطبہ میں کہا کہ امریکہ میں انشاء اللہ ایک پریس لگ جائے گا.انگلستان میں بھی ایک پریس ہونا چاہیے تا کہ اس میدان میں یہ بھی آجائے میں باہر نکلا تو ایک صاحب نے کہا ایک ہزار پاؤنڈ میں دیتا ہوں اور اگلے دن اُنہوں نے بذریعہ چیک ادا کر دیئے.میں نے جماعت کو کہا صد سالہ جو بلی کی مد میں جمع کر لو.پس وہاں جو ضرورت ہے اس کے مطابق جماعت کام کرنے کے لئے بھی تیار ہے قربانیاں دینے کے لئے بھی تیار ہے.ہمارے ملک میں اس سلسلہ میں کچھ پابندیاں لگی ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرے کہ وہ جلد دور ہو جائیں لیکن میں اس وقت غیر ممالک میں جماعت ہائے احمد یہ کی باتیں سنا رہا ہوں اپنے ملک کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا.کینیڈا میں بھی کم و بیش امریکہ جتنی جماعت ہے یعنی تین ، چار ہزار کے درمیان لیکن ایک بھاری اکثریت اُن احمدیوں کی ہے جو پاکستان سے یا ہندوستان سے یا بعض عرب ممالک سے وہاں گئے ہوئے ہیں یا آباد ہو گئے ہیں Immigrants کے طور پر یعنی شہری بن گئے ہیں یا ویسے کام کر رہے ہیں اور وہاں کے شہری نہیں بنے ان کو وہ اجازت دے دیتے ہیں.اس معاملہ میں اُن کو فراخ دل تو نہیں کہنا چاہیے صاحب فراست ضرور کہنا چاہیے کیونکہ ہر شخص جو اپنے کام میں ماہر ہے اس کو وہ تین دن میں اجازت دے دیتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آجاؤ بلکہ ایک
خطبات ناصر جلد ششم ۵۵۴ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء وقت میں تو طالب علم پاس بھی نہیں ہوتے تھے اور اُنہوں نے وہاں منگوانے شروع کر دیئے.میں کئی لوگوں کو جانتا ہوں بڑی جلدی اُن کو بلا لیا یہ کہتے ہوئے کہ اچھا تم اس کام میں ماہر ہو آ جاؤ کام کی ضرورت ہے اور مہارت یہی نہیں کہ اچھا ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے بلکہ جو ویلڈنگ کے کام میں ماہر ہے اس کو وہ کہیں گے کہ آجاؤ ہمارے پاس اُن کی انڈسٹری بڑھ رہی ہے اور ایسے کاموں کی مہارت کی بھی اُن کو ضرورت ہے بہر حال اُن کی مہربانی ہے کہ غیر ممالک کے لوگوں کو آنے دیتے ہیں وہاں صرف احمدی ہی نہیں دوسرے بہت سارے لوگ گئے ہوئے ہیں.ہمارے ملک کے دوسرے مسلمان بھی وہاں گئے ہوئے ہیں.بہر حال اس وقت وہاں ہماری بڑی جماعت ہے گو وہ پھیلی ہوئی ہے لیکن ٹورنٹو کے قریب میں نے ایک جگہ دیکھی بھی تھی میں نے اُن کو کہا ہے کہ ۱۰.۱۲۰ یکٹر زمین کمیونٹی سنٹر کے لئے خرید لو.آخر میں تو ہر شہر کے لئے کمیونٹی سنٹر ہونا چاہیے جہاں ہمارے احمدی بچے چھٹیوں کے اوقات گزاریں اور وہاں ان کو بڑے خوشگوار ماحول میں رکھا جائے.بچے خوش ہیں اور انتظار کر رہے ہیں کہ کب چھٹیاں آتی ہیں اور کب ہمیں موقع ملتا ہے وہاں جانے کا.وہ تو ایک لمبی سکیم ہے جب اُن کے ساتھ باتوں باتوں میں بہت ساری چیزیں سامنے آئیں تو میں نے اُن کو ہدائتیں دیں لیکن بہر حال ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا دلچسپی رکھنے والا سنٹر جس میں چھوٹی عمر کے بچے چھلانگیں مارتے جائیں اور وہاں اسلام کی باتیں سیکھیں اور بڑے جائیں اور اُن کے ریفریشر کورسز ہوں.یہاں تو جس سال اجازت ہوجائے اطفال اور خدام تین دن کے لئے آیا کرتے ہیں اور وہاں تو وہ تین ہفتے کے لئے جا کر ٹھہرا کریں گے اور بہت کچھ سیکھیں گے.باتیں تو ویسے بہت زیادہ ہیں میں بیچ میں سے ایک ایک دو دو چن رہا ہوں.پھر ہم ۱۵ اگست کولندن آگئے اور وہاں سے سیدھے گوٹن برگ گئے.گوٹن برگ میں مسجد کا افتتاح کرنا تھا.مسجد اللہ کا گھر ہے قرآن کریم نے دنیا میں یہ اعلان کیا ہے.آنَ الْمَسْجِدَ لِلهِ (الجن : ۱۹) کہ دنیا میں کوئی انسان مسجد کی ملکیت کا دعویدار بن ہی نہیں سکتا.مسجد کا مالک اللہ ہے.فَلَا تَدعُوا مَعَ اللهِ احَدًا (الجن : ۱۹) اور ہر موحد خواہ وہ عیسائی ہو جو بھی خدا کے واحد ویگانہ
خطبات ناصر جلد ششم ۵۵۵ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء پرستش کرنا چاہے اور اس کی عبادت کرنا چاہے اُس کے لئے خدا کی مسجد کے دروازے کھلے ہیں.عیسائیوں کے بہت سے فرقے تثلیث کے قائل نہیں مثلاً Unitarian ہیں وہ مسیح کو خدا کا ایک رسول مانتے ہیں خدا نہیں مانتے.وہ خدا کے واحد و یگانہ پر ایمان لاتے ہیں.پہلے تو وہ ایک فرقہ تھا اب اُن کے کئی فرقے ہو گئے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عیسائیوں کا ایک Unitarian وفد آپ سے ملنے کے لئے آیا گفتگو کے دوران وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے ہماری عبادت کا وقت ہو گیا ہے.اجازت دیں ہم باہر کسی باغ میں جا کر اپنی عبادت کر لیں.آپ نے فرمایا تم باہر کیوں جاتے ہو.مَسْجِدِئی ھذا یہ میری مسجد ہے یہ خدا کا گھر ہے اس میں تم اپنی عبادت کرو.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد جسے ہم مسجد نبوی کہتے ہیں اور جو مدینہ میں ہے اس سے زیادہ تو کوئی اور مسجد مقدس نہیں.وہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اس مسجد کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں کیونکہ تم اپنے خدا کی پرستش کرنا چاہتے ہو.تاہم ساتھ یہ شرط لگا دی کہ بد نیتی سے شرارت کرنے کی غرض سے کوئی وہاں داخل نہ ہو.اس کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن امن کے ساتھ اور خشیت کے ساتھ خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے کوئی آئے تو وہ وہاں عبادت کرے.میں نے یہ اعلان پہلی بار ۱۹۶۷ء میں کوپن ہیگن (ڈنمارک) کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر کیا تھا اور اسی دن جمعہ کی نماز میں مجھے بتایا گیا کہ تین سو غیر مسلم نماز میں شامل ہو گئے کیونکہ ان المَسْجِدَ لِله کا اعلان بہت ہی مؤثر اعلان ہے اور چونکہ اُن کو پتہ نہیں تھا اس لئے گواُنہوں نے رکوع ہمارے ساتھ مل کر کیا سجدہ میں گئے قعدہ میں بیٹھے لیکن ادھر ادھر دیکھ لیتے تھے کیونکہ ان کو پتہ نہیں تھا کہ رکوع کس طرح کرنا ہے اور سجدہ کس طرح کرنا ہے؟ چنانچہ اس وقت تک دس ہزار سے زیادہ غیر مسلم ہماری اس مسجد میں ہمارے ساتھ مل کر خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کر چکے ہیں.مسجد کو دیکھنے کے لئے جو سیاح آتے ہیں اگر نماز کا وقت ہو تو بیچ میں شامل ہو جاتے ہیں یعنی ہماری نماز میں شامل ہو جاتے ہیں، سارے نہیں ہوتے کوئی شامل ہوتا ہے کوئی نہیں ہوتا بہر حال مسجد تو سارے لوگ دیکھتے ہیں.
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء گوٹن برگ کی مسجد کا میں نے اس سال افتتاح کیا ہے.گوٹن برگ سویڈن کا ایک بہت بڑا شہر ہے جو سمندر کے کنارے واقع ہے.یہاں پر اللہ تعالیٰ نے بہت سے نامساعد حالات میں محض اپنے فضل ورحم کے ساتھ lease پر ہمیں ایک ایسا بڑا قطعہ دلوا دیا جو پہاڑ کی چوٹی پر ہے اور جس کا رقبہ ڈیڑھ ایکٹر ہے وہاں ہمارا گھر بنا ہے یعنی مشن ہاؤس اور اس کے ساتھ مسجد اور اس کے ساتھ بہت بڑا مسقف ایریا ہال اور لائبریری اور جو باہر سے آتے ہیں اُن کے لئے علاوہ رہائشی حصہ کے بیٹھنے کا کمرہ ، ڈرائنگ روم کے پیچھے ایک اور بھی بہت بڑا کمرہ ہے.یہ سارے قبلہ رُخ ہیں.نماز کے وقت اگر نمازی زیادہ ہوں مثلاً عید وغیرہ کے موقع پر تو یہ مسجد کے ساتھ کام آتے ہیں.جب میں نے مسجد کا افتتاح کیا تو یہ سارے بھرے ہوئے تھے.۲۰ /اگست کو افتتاح ہوا اس موقع پر جرمنی سے بھی ہمارے احمدی دوست آئے ہوئے تھے جرمنی میں بھی بہت بڑی جماعتیں ہیں یعنی بہت بڑی اُن ملکوں کے لحاظ سے.ہمارے یہاں کی جماعت کے لحاظ سے نہیں.ہمارا خیال ہے جرمنی میں اس وقت ایک ہزار احمدی ہوں گے کچھ بہت پرانے ہیں کچھ وہاں کے ہیں اور کچھ پچھلے سال کے اندر گئے ہیں ایک ہزار کے لگ بھگ ہیں بلکہ کم ہوں گے اوسلو میں اچھی خاصی بڑی جماعت بن گئی ہے.بچوں کو ملا کر وہاں چار پانچ سواحمدی ہیں.وہاں سے بھی دوست آئے ہوئے تھے انگلستان سے ہوائی جہازوں پر آئے تھے کچھ پاکستان سے گئے ہوئے تھے.اُسی دن صبح پر یس کا نفرنس تھی وہاں کمال یوسف صاحب مشنری انچارج ہیں مشنری انچارج ہی انتظام کرتا ہے اُس نے کہا بیٹھ کر پر یس کا نفرنس ہوگی جس طرح ہم زمین پر بیٹھتے ہیں اُس طرح بیٹھ کر ہوگی میں نے سوچا اگر چہ ان لوگوں کو تکلیف ہوگی کیونکہ اُن کو کرسیوں پر بیٹھنے کی عادت ہے لیکن ہمارا جو معاشرہ ہے ہم اس کو کیوں چھوڑیں اس لئے میں نے کہا چلو ایسا ہی سہی.چنانچہ میرے دوروں میں یہ پہلی کا نفرنس ہے جو بیٹھ کر ہوئی مسجد کے اندر اور وہاں اُنہوں نے خوب سوال کئے اور جواب سُنے.اسلامی تعلیم کے مختلف پہلوؤں پر میں نے روشنی ڈالی جس کا بہت چرچا ہوا.وہاں کی ۴۰ اخباروں کے تراشے ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں جن میں افتتاح کی خبریں دی گئی ہیں اور یہ بہت بڑی پبلسٹی ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۵۵۷ خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء پبلسٹی کے ضمن میں میں یہ بھی بتا دوں کہ امریکہ میں ہر جگہ کافی پبلسٹی ہوئی.بعض چیزیں تو میرے لئے حیران کن ہیں مثلاً نیو یارک میں جو پریس کانفرنس تھی وہاں اخباروں کے نمائندوں کے علاوہ ٹی وی اور ریڈیو کے نمائندے بھی آئے ہوئے تھے.ٹی وی والوں نے ۳۰ منٹ کی ایک فلم تیار کی جسے اُسی دن تو دکھا نہیں سکتے تھے مجھے بعد میں پتہ چلا کہ انہوں نے ۳۰ منٹ کی ٹی وی رنگین فلم دکھا دی ہے اور ۳۰ منٹ کی فلم بڑی چیز ہے.مجھے ایک امریکن احمدی دوست نے ایک دفعہ ملاقات کے دوران اپنے جوش کا اظہار کیا ہر ایک دل میں جوش پیدا ہوتا ہے اور خیالات آتے ہیں کہ یوں کرنا چاہیے اور یوں کرنا چاہیے.خیر انہوں نے کہا ہمارا پرا پیگینڈا ریڈیو پر نہیں آسکتا کیونکہ وہ بڑے پیسے مانگتے ہیں.ریڈیو والے ایک سو ڈالر یعنی ایک ہزار روپے فی منٹ مانگتے ہیں.اگر روزانہ دس منٹ لئے جائیں تو دس ہزار روپیہ اور ایک مہینے کا تین لاکھ روپیہ اور سال کا ۳۶ لاکھ روپیہ بنتا ہے یہ تو ہم Afford نہیں کر سکتے.اس کے دماغ میں ایک سکیم آئی تھی کہ آپ اس طرح کریں تو ہمیں مفت میں پبلسٹی مل جائے گی.وہ بھی کچھ جائزہ لیا ہے بعض ایسے راستے ہیں کہ نسبتاً ستا وقت ہمیں مل سکتا ہے.بہر حال یہ تو امریکن جماعتوں کا کام ہے وہ خود ہی کریں گی ہمیں اس کی فکر نہیں.سویڈن میں ۴۰ اخباروں نے خبریں دیں.جرمنی میں ایسی جگہوں کے اخباروں نے دیا کہ ان اخباروں کے نام کا بھی ہمارے مبلغ کو پتہ نہیں.وہاں ایک جگہ ایک ایجنسی کی نمائندہ آئی ہوئی تھی اس نے کہا ۴۰ اخبار ہیں جن کو میں خبریں پہنچاتی ہوں اور ۴۰ ہی کو میں نے خبریں بھجوائی ہیں.غرض اس طرح لاکھوں لاکھ لوگوں تک پیغام پہنچ گیا.یہ درست ہے کہ وہ ایک دن میں احمدی نہیں ہوں گے لیکن یہ درست ہے کہ احمدیت کی وجہ سے وہاں ایک انقلابی حرکت ہمیں نظر آنے لگ گئی ہے اور اُن میں ٹھہراؤ نہیں ہے بلکہ ایک حرکت ہے اور جماعت آگے بڑھ رہی ہے اور ہر حرکت جو آگے بڑھتی ہے ایک وقت میں Momentum Gain کرتی ہے اس میں ایک تیزی پیدا ہوتی ہے پھر وہ تیزی بڑھتی چلی جاتی ہے اور پھر بڑی جلدی انقلاب آجاتا ہے.یہ انقلاب میرے اور آپ کے لئے نہیں.یہ اللہ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے اُسی کی خبر دی گئی ہے میں کس باغ کی مولی ہوں اور آپ کی کیا حیثیت ہے سوائے خدا اور
خطبات ناصر جلد ششم ۵۵۸ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنیٰ خادم ہونے کے اور کوئی حیثیت نہیں.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی عاجزی کا بھی اظہار کیا ہے اور ہمیں بھی یہی تعلیم دی ہے کہ خدا تعالیٰ کو عاجزانہ راہوں کا اختیار کرنا پسند ہے اور کہا ہے کہ شوخی اور رکبر شیطان لعین کا کام ہے یہ انسان کو زیب نہیں دیتا.ہم تو حیران ہیں کہ ہمارے جیسے عاجز بندے نہایت ہی حقیر قربانیاں اپنے رب کے حضور پیش کرتے ہیں اور ہمارا پیارا رب اتنا پیار کرنے والا ہے کہ وہ اُن کے ایسے نتائج نکالتا ہے کہ کوئی نسبت ہی نہیں ہماری قربانی اور نتائج کے درمیان.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ مغربی افریقہ میں نصرت جہاں آگے بڑھوں کی جو سکیم ۱۹۷۰ء میں تیار کی گئی تھی اور جس میں جماعت نے ۵۳ لاکھ اور چند ہزار روپے چندہ دیا تھا وہاں خدا تعالیٰ نے ہمارے ہسپتالوں میں اتنی برکت ڈالی اور ہمارے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں اس قدر شفا رکھی کہ وہاں کے امراء ( یعنی بہت امیر لوگ جو Millionaires کہلاتے ہیں ) مجبور ہوئے ہمارے پاس آنے کے لئے حالانکہ اچھی اچھی عمارتوں والے ہسپتال تھے جن میں غیر ممالک کے یورپین اور امریکن ڈاکٹر کام کر رہے تھے اُن ہسپتالوں کو چھوڑ کر ہمارے پاکستانی احمدی ڈاکٹروں کے پاس آنے لگ گئے اور بڑی بڑی رقمیں فیس میں دیں.آپریشن کرواتے تھے بڑی رقمیں دے جاتے تھے وہ رقم یہاں کے لئے تو نہیں تھی نہ وہاں کے احمدیوں کے لئے انفرادی طور پر تھی.وہ ملک ، ملک کی قوم کے لئے تھی اور عوام پر خرچ کر دی گئی اور جو خرچ کی گئی وہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہماری قربانی ۵۳ لاکھ اور کچھ ہزار تھی اور اس میں سے بھی اس وقت تک ساری رقم خرچ نہیں ہوئی مثلاً میرا خیال ہے کہ اس میں سے کوئی چھ سات لاکھ روپے کی رقم انگلستان کی جماعتوں کی وہیں پڑی ہوئی ہے لیکن مغربی افریقہ میں نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے مطابق ڈیڑھ کروڑ روپیہ خرچ ہو چکا ہے.جو ہم نے نہیں دیا وہ آسمانوں سے فرشتوں کے نزول کے طفیل ہمیں ملا ہے یعنی جو قربانی وہاں خرچ کی گئی تھی میرا خیال ہے ۴۰- ۴۵ لاکھ سے زیادہ نہیں لیکن وہاں ہسپتالوں اور سکولوں کے اجراء کے اوپر جو خرچ ہو چکا ہے وہ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے اور ابھی عرصہ کتنا گذرا ہے ۱۹۷۰ء میں اعلان کیا تھا ۱۹۷۲ء میں یہ کام شروع ہوئے تھے اور ۱۹۷۴ء میں پھیل گئے.کم و بیش ۱۷ ہسپتال بن گئے
خطبات ناصر جلد ششم ۵۵۹ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء اور جو وعدہ کیا تھا اس کے مطابق کام شروع ہو گیا اور خدا تعالیٰ نے آمد کے سامان پیدا کر دیئے.گوٹن برگ میں جو مسجد بنی ہے اس کی تعمیر میں بھی انگلستان کی جماعتوں نے زیادہ رقم خرچ کی ہے یعنی قریباً اسی ہزار پاؤنڈز جس کا مطلب ہے کہ پرانی شرح تبادلہ کے مطابق قریباً ۱۸.۲۰ لاکھ روپے اور اب تو شرح اور کم ہوگئی ہے.بہر حال جس وقت انہوں نے رقم دی تھی اس وقت کی شرح کے مطابق یہی رقم بنتی ہے اب انٹی ہزار پاؤنڈ ز یا انٹئی لاکھ پاؤنڈ ز بھی لوگوں کے دل تو مارکیٹ میں جا کر نہیں خرید سکتے.نیت بخیر تھی دعائیں کرتے ہوئے اس کے حضور عاجزانہ جھکتے ہوئے پہاڑ کی ایک چوٹی پر خدا کا ایک گھر تیار کر دیا گیا جہاں سے سارا شہر نظر آتا ہے اور سارے شہر کو جہاں سے خدا کا گھر نظر آئے گا.غرض ایک بڑی خوبصورت عمارت بن گئی ہے دیکھنے کے لحاظ سے بھی اور Utility کے لحاظ سے بھی.لیکن جس دن افتتاح تھا اس دن ایک ملک کے سب سے بڑے پادری بھی وہاں موجود تھے وہ بھی وہاں کھنچے چلے آئے.سارا دن یہ نظارہ دیکھنے میں آیا میں بھی کچھ دیر باہر دوستوں کے ساتھ کھلے جنگل کے درختوں کے سایہ میں رہا اور دوستوں سے ملتا رہا جو کا ر آتی تھی کھڑی ہو جاتی تھی.کچھ دیکھتے رہتے تھے وہاں سے اور کچھ اتر کر اندر آ جاتے تھے کچھ بسوں میں آتے تھے اور اتر کر اندر جاتے تھے.یہ کھلی زمین تھی پتہ نہیں کب کی پڑی ہوئی تھی.میں ابھی وہیں تھا کہ کمال یوسف مشنری انچارج کو پیغام آیا دو بوڑھی عورتوں کا کہ جس جگہ تمہاری مسجد بنی ہے اس جگہ ایک پگڈنڈی نیچے سے اوپر کو جاتی تھی ہم اس پر سیر کرتے ہوئے یہاں سے گذرا کرتی تھیں اب آپ کی مسجد بن گئی مشن ہاؤس بن گیا اب ہمیں یہ پگڈنڈی چھوڑنی پڑے گی.وہ گذر رہی تھیں کہ ساتھ یہ بھی کہا.کمال یوسف میرے پاس آئے میں نے کہا نہیں ! انہیں روک کر یہ پیغام دو کہ جس طرح پہلے یہ پگڈنڈی آپ کی سیر گاہ تھی اب بھی رہے گی.آپ کو اس علاقے سے گذرنے سے کوئی نہیں روکتا.غرض دن میں سینکڑوں آدمی وہاں سے گذرتے ہوئے دیکھنے کے لئے آجاتے ہیں.محلے کا یہ حال ہے کہ پندرہ ہیں بچے ہر وقت وہاں رہتے تھے.وہ شوخیاں بھی کرتے تھے شرارتیں بھی
خطبات ناصر جلد ششم ۵۶۰ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء کرتے تھے ایک دوسرے سے کشتیاں بھی کرتے تھے اور ایک دوسرے پر پتھر بھی پھینکتے تھے خوب Enjoy کرتے تھے اور کھانے کا وقت ہو تو وہ سارے کے سارے ہمارے کھانے میں بھی شریک ہو جاتے تھے اور کام ہو تو کام میں بھی لگ جاتے تھے.پریس کانفرنس کے وقت ایک بچہ ہاتھ میں کسی پریس والے یا ہمارے احمدی کا مائیک پکڑ کر میرے سامنے بیٹھا ہوا ہے اور وہ ہمارے ہمسائے عیسائی خاندان کا بچہ ہے.ان دنوں غالباً چھٹیاں تھیں اور وہ سارا دن وہاں رہتا تھا اور جو کام بھی ہو کرتا تھا مثلاً کھانے کے وقت میزوں پر برتن لگانے یا لے کر جانے وغیرہ وغیرہ.غرض محلے کے سارے بچے آتے تھے اور خوشی خوشی ہمارا ہاتھ بٹاتے تھے.جہاں تک پریس کا سوال ہے وہ لوگ غصہ بھی نکال لیتے ہیں ایک پریس فوٹو گرافر آیا اس نے کہا میں زنانہ حصہ کی تصویر لے سکتا ہوں؟ ہمارے اس دوست نے جس سے اُس نے پوچھا تھا جواب دیا کہ یہ تو جو زنانہ حصہ میں بیٹھی ہیں وہی بتا ئیں گی کہ تم تصویر لے سکتے ہو یا نہیں ؟ بڑا اچھا جواب دیا.اس نے کہا میں کیا بتاؤں آؤ ان سے پوچھتے ہیں.زنانہ حصہ کے باہر کھڑے ہو کر باہر سے آواز دی اندر ہماری با پردہ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں کہ یہ پریس فوٹوگرافر صاحب ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ وہ آپ کی تصویر لے سکتے ہیں؟ عورتوں نے کہا نہیں ! ہم نہیں پسند کرتیں کہ ہماری تصویر لیں.خیر وہاں تو انہوں نے کچھ نہیں کہا لیکن اپنی رپورٹ میں جو اخبار میں شائع کی اس میں انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اسلام نے عورت کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی اس لئے وہ مسجد میں جاہی نہیں سکتیں.ان کے لئے علیحدہ کمرہ بنایا ہوا ہے جو مسجد کا حصہ نہیں ہے.میں نے کہا لو یہ شخص عورتوں پر غصہ نکالتے نکالتے ہم پر غصہ نکال گیا ہے.جب اس کے بعد ہم اوسلو گئے تو وہاں پر یس کا نفرنس میں سوال کر دیا گیا.میں حیران کہ یہ خبر اوسلو میں بھی پہنچی ہوئی تھی.سوال کرنے والی عورت ہی تھی میں نے اس کو سمجھایا کہ یہ تو اس شخص نے غصہ اتارا ہے عورتیں مسجد میں جاتی ہیں.جس حصہ میں وہ بیٹھتی ہیں وہ مسجد ہی کا ایک حصہ ہے.یہ تو درست ہے کہ وہ مردوں کے پیچھے ایک طرف کھڑی ہوتی ہیں لیکن یہ کہنا کہ عورت مسجد میں جاہی نہیں سکتی یہ غلط ہے لیکن بہر حال اس فوٹو گرافر کو موقع ملا اس نے غصہ اتارلیا اور اس کی بڑی پبلسٹی ہوئی.
خطبات ناصر جلد ششم ۵۶۱ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء میں لندن میں تھا کہ مجھے کمال یوسف صاحب نے فون کیا کہ ایک ملک کے سفیر نے ( میں مصلحت اس ملک کا نام نہیں لینا چاہتا ) کونسل جنرل کو حکم دیا کہ گوٹن برگ کی مسجد میں جاؤ چنا نچہ وہ کونسل جنرل آیا اور اس نے ان کو بتایا کہ اس طرح مجھے حکم ملا ہے اور میں مسجد دیکھنے آیا ہوں.اُس نے ساری مسجد دیکھی اور پھر کہنے لگا کہ آپ کے نام پیغام یہ ہے کہ کبھی بھی آپ کو ایسی ضرورت پڑے جو ہم پوری کر سکتے ہوں تو آپ بے تکلف ہمیں بتائیں ہم وہ پوری کریں گے.وہ ایک عربی بولنے والے ملک کے سفیر کا کونسل جنرل تھا.ایک دن ایک اور مسلمان ملک کا ایک شخص آ گیا.بعد میں پتہ لگا کہ وہ سفیر تھا لیکن انہوں نے بتایا ہی نہیں کہ میں ہوں کون ؟ نہ ہمارے کمال یوسف صاحب نے پوچھا اُن کی بیوی اور ایک اور افسر بھی ان کے ساتھ تھا.انہوں نے کہا ہم مسجد دیکھنے آئے ہیں چنانچہ مسجد دیکھی ۳۰-۴۰ منٹ تک باتیں کرتے رہے.دوران گفتگو اُن کی بیوی نے بے جھجک کہا کہ بات یہ ہے کہ جہاں تک رسوم کا تعلق ہے ہر ملک کی اپنی رسوم کہلاتی ہیں اور ہمارے ملک میں بھی ہیں (مشرقی ممالک کی طرف کے تھے ) لیکن اسلامی تعلیم میں نے جماعت احمدیہ سے سیکھی ہے اور یہ بات انہوں نے بر ملا مجلس میں کہی اور ہمارے مشنری انچارج کو نہیں پتہ تھا کہ یہ ہیں کون لوگ.جب وزیٹر بک اُن کے سامنے رکھی گئی اور انہوں نے اس پر دستخط کئے تو نیچے لکھا کہ میں فلاں ملک کا سفیر ہوں.غرض لوگوں کو اس مسجد کے ساتھ بھی دلچسپی پیدا ہو رہی ہے.مسجد کے ساتھ دلچپسی میرے ساتھ دلچپسی یا آپ کے ساتھ دلچپسی تو نہیں خدائے واحد و یگانہ کے ساتھ دلچسپی ہے جس کا وہ گھر ہے اور امن کی جگہ ہے.جو مجھ سے ملتا تھا میں اس سے کہتا تھا کہ دیکھو اس مسجد میں کتنا سکون ہے.اس میں کتنا امن ہے.جب آدمی اس میں داخل ہوتا ہے تو وہ سارے تفکرات بھول جاتا ہے اور یہ صرف ہم پر اثر نہیں بلکہ جو غیر مسلم وہاں آئے ہوئے تھے وہ بھی کہتے تھے کہ آپ کی بات درست ہے بڑی پرسکون جگہ ہے وہ سارا علاقہ ہی پرسکون ہے.بڑی کثرت سے لوگ آتے ہیں اور انشاء اللہ آتے رہیں گے.ہمارے ساتھ ایک مووی لینے والے تھے ان کی مووی دیکھی کہ ابھی ہم دومیل پرے تھے کہ مسجد کا گنبد اور چھوٹے چھوٹے مینار نظر آنے لگ گئے تھے اور
خطبات ناصر جلد ششم ۵۶۲ خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء یسے شہر سے تو سارا منظر دکھائی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت دی اب یہ برکت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل قرآن کریم کی تعلیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے ماتحت حاصل ہوئی ہے.آپ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد یہ مجھو کہ ہم نے کچھ نہیں کیا جو کچھ ملا وہ خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کا نتیجہ ہے اور بس.اور یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے اور حقیقت بھی ایسی کہ ہمارے الفاظ اس کو بیان نہیں کر سکتے.ہمارے کرنے اور ہمارے لینے میں، ہمارے دینے اور ہمارے لینے میں زمین آسمان کا فرق ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں زمین آسمان کا فرق بھی کم ہے اس سے زیادہ فرق ہے.سوچنا چاہیے کہ دیا ہم نے کیا اور لیا ہم نے کیا وہاں مسجد بن گئی وہاں نئی بیعتیں ہو گئیں لوگ جماعت میں شامل ہوئے وہاں نئے مطالبے ہو گئے کہ ہمیں کتابیں دو.اب سکیم بنانی پڑی ہے امریکہ شائع کرے یا انگلستان شائع کرے یا پاکستان شائع کرے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے لیکن بہر حال ساری ضروریات دیکھنے کے بعد اس کا جو ابتدائی کام ہے وہ شروع ہو گیا ہے.بہت سی چیزیں ہیں جو ہمارے کرنے والی ہیں صرف چندہ دینا تو کافی نہیں ہے.وقت دیں اپنی عقل اپنا علم اسلام کی راہ میں خرچ کریں مضمون لکھا کریں.میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ دوست اس طرف توجہ کریں کئی لوگ بی.اے، ایم.اے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں دینی علوم سیکھنے اور مضامین لکھنے کی طرف توجہ نہیں کرتے یا اتنی توجہ نہیں کرتے جتنی توجہ کرنی چاہیے.جماعت میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنا علم ہے ! اتنا علم ہے !! اور خدا تعالیٰ کی اتنی عظیم عطا ہے علم کا ہونا.یہ تو پھر ناشکرا پن ہے اگر ہم خدا کی راہ میں اس علم کو خرچ نہ کریں.میرے دورے پر جانے سے چند دن پہلے تعلیم القرآن کلاس شروع ہوئی تھی اور میرے جانے کے بعد ختم ہوئی.اس میں ہماری بچیاں بھی شامل تھیں وہ دوگروپس میں مجھ سے ملنے کے لئے آئیں.ان کے ایک گروپ سے بات ہوئی تو پتہ لگا کہ اس کلاس میں ۱۲۵ لڑکیاں گریجوایٹ ہیں.اگر وہ سال میں ایک مضمون بھی لکھیں یعنی وہی ۱۲۵ گریجوایٹ لڑکیاں جو یہاں تعلیم القرآن کلاس میں شامل ہوئی تھیں مضمون لکھیں تو ۱۲۵ مضمون بن جاتے ہیں.یہ تو ہمارے مبلغین کا کام ہے کہ ان کو گائیڈ کریں کیونکہ بی.اے، ایم.اے طالب علم اپنے طور پر تو حوالے اکٹھے نہیں کر
خطبات ناصر جلد ششم ۵۶۳ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء سکتے ان کو مضمون بتا ئیں ان کی دلچسپی کے.ان کو گائیڈ کریں کہ فلاں جگہ سے تمہیں اس کا حوالہ ملے گا.پھر وہ آہستہ آہستہ تیاری کریں دو مہینے لگائیں تین مہینے لگائیں چار مہینے لگائیں یہاں تک کہ ایک علمی مضمون تیار ہو جائے جو واقع میں علمی ہو اور جسے شائع کرتے ہوئے ہمیں شرم محسوس نہ ہو بلکہ ہم سمجھیں کہ مدلل مضمون ہے اگر ایک مضمون میں ایک بھی نئی دلیل دنیا کے سامنے آگئی ہے تو یہ بھی علمی دنیا کی بڑی خدمت ہے ساری علمی دنیا اسی طرح کر رہی ہے.لوگ تحقیق کرتے ہیں بعض کو نوبل پرائز مل جاتا ہے اس طرف توجہ ہونی چاہیے.کیونکہ ضرورت بہت ہے.غرض سویڈن میں گوٹن برگ کے مقام پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد بن گئی.خدا کا گھر تیار ہو گیا اور آباد ہو گیا.انشاء اللہ برکتیں بڑھتی چلی جائیں گی.گوٹن برگ کے نارتھ ویسٹ میں اوسلو ہے جو ناروے کا دارالخلافہ ہے.چنانچہ پروگرام کے مطابق سویڈن سے میں اوسلو گیا وہاں جماعت بھی ہے اور وہاں مسجد کے لئے جگہ بھی دیکھنی تھی.دوستوں نے دو جگہیں تلاش کی ہوئی تھیں.ایک کے تو مانگ رہے تھے ۳۵لا کھ سویڈش کرونے.۲۲ ایکڑ رقبے میں دو عمارتیں بنی ہوئی تھیں.اس کے کچھ پرے بھی ایک جگہ تھی.وہاں بسیں وغیرہ اگر جاتی بھی تھیں تو بہت کم جاتی تھیں اور دوسری بڑی اچھی جگہ شہر کے مرکزی حصے میں تھی اور اس کی قیمت بھی مناسب تھی.Villa ( ولا ) ٹائپ جگہ تھی یعنی جس طرح کسی قطعہ زمین میں ایک کوٹھی ہوتی ہے اسی طرح کسی اور کے ساتھ اس کی دیوار میں بھی نہیں لگتی تھیں اور قیمت اس کی تھی دس لاکھ کرونے اور اس کا انتظام بھی ہوسکتا تھا لیکن دماغ میں تاریخیں غلط یا درہ گئیں.جس ترتیب سے انگلستان صد سالہ جو بلی کی رقمیں جمع کر رہا ہے اسی طرح اوسلو والوں نے ایک رقم جمع کرنی تھی دسمبر میں.میں سمجھا کہ اسی سال کے دسمبر میں جمع ہو رہی ہے.میں نے جا کر جگہ دیکھی مجھے بہت پسند آئی میں نے کہا ان سے Negotiation کرو اور قیمت کچھ کم کرانے کی کوشش کرو جو عمارتوں والی جگہ ہے وہاں عمارتوں میں کچھ ہلکی ہلکی تریریں آئی ہوئی تھیں Sarveyor سے کہہ کر اس کا سروے کروایا اس نے بھی کہا یہ ٹھیک ہے اوپر صرف پلستر کی تریڑیں ہیں اندر نہیں بالکل ٹھیک ہے لیکن جب ہم انگلستان آئے تو پتہ لگا کہ اس سال دسمبر نہیں.بلکہ ۱۹۷۷ء کے دسمبر میں وہ رقم ملنی ہے.اس کا
خطبات ناصر جلد ششم ۵۶۴ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء مالک سوا سال تو انتظار نہیں کر سکتا تھا.میں نے کہا اس کو کہہ دو مجبوری ہے اور جماعت کے دوست بڑے پریشان ہوئے مگر پریشانی کی کیا بات ہے خدا اس سے بہتر جگہ دے دے گا ہم تو اس پر تو گل رکھنے والے اور رَبّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير (القصص: ۲۵) کی رو سے ہم تو اسی کے در کے فقیر ہیں اور فیصلہ بھی اسی سے چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے جو بھی بہتر سمجھتا ہے وہ مہیا کرے.ہم عاجز انسان ہیں آگے پیچھے اوپر نیچے سب چیزوں کا ہمیں کہاں علم ہوتا ہے.پس جو عَلَامُ الْغُيُوبِ خدا ہے اس کو ہم کہتے ہیں اے خدا! تو سب چیزوں کو ماننے والا ہے تو ہماری مدد کو آ اور ہمارے لئے جو بہتر چیز ہے وہ عطا کر.میں نے ان سے کہا اس میں بھی خدا تعالیٰ کی کوئی حکمت ہوگی خدا تعالیٰ اس سے بہتر جگہ دے دے گا.ان کو ویسے بڑی مشکل پیش آئی ہے ایک جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے چند گھنٹوں کا ان کو پتہ نہیں کتنے سوروپے کرایہ دینا پڑتا ہے.وہاں ان ملکوں میں بہت زیادہ مہنگائی ہے اتنی مہنگائی ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.بہر حال اب وہ گزارہ ہی کریں گے جب تک کہ خدا تعالیٰ ان کے لئے سامان نہ پیدا کر دے.ہوسکتا ہے کہ گھر لینے کی بجائے ہمیں زمین ملے اور وہاں ایک مسجد تیار ہو جس طرح سویڈن میں ہوئی ہے یعنی با قاعدہ مسجد.ویسے تو ساری زمین ہمارے لئے مسجد ہے بعض لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا گھبرا جاتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:.جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا کہ اللہ تعالیٰ نے ساری زمین میرے لئے مسجد بنادی ہے البتہ دو جگہ نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ایک ٹائلٹ میں جہاں ہم رفع حاجت کے لئے جاتے ہیں اور ایک مقبرے میں اور اس کے علاوہ ہر جگہ مسجد ہے.اس طرح تو کسی کا مسجد سے مسلمان کو نکالنا مشکل ہے سوائے اس کے کہ اس زمین سے نکالے تبھی مسجد سے نکال سکتا ہے.غرض مسجد کی شکل میں مسجد ملے یا گھر کے کمرے کی شکل میں یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن دل چاہتا ہے کہ مسجد کی شکل میں ہو تو زیادہ اچھا ہے.پھر رہ جاتے ہیں ہمارے اس ابتدائی پروگرام میں اٹلی ، فرانس اور چین اور ان چودہ سال کے اندر محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمیں اس کی بھی توفیق مل جائے گی
خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء خطبات ناصر جلد ششم بعض جگہ مثلاً اٹلی میں ہمیں یہ Offer آگئی تھی کہ یہ یہ کام کریں تو ہم بڑی مدد کرتے ہیں لیکن وہ اس قسم کے کام تھے کہ جماعت احمدیہ کو قابل قبول نہیں تھے.ہمیں دولت دینے والی کوئی دنیوی ایجنسی یا کوئی دنیوی طاقت یا حکومت نہیں ہے.ہمارے خلاف یہ بھی بڑا پرا پیگنڈا ہے کہ اسرائیل دیتا ہے ان کو پیسے اور فلاں دیتا ہے اور یہ انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اور جو صیہونیت کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے اور جو نصرانیت کے خلاف لکھا ہے اس کو یہ پڑھتے نہیں اور نہ اس کا جواب دے سکتے ہیں اور جو پڑھتے اور عمل کرتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے عیسائیوں کو اور یہودیوں کو لا رہے ہیں اُن پر اعتراض کر دیتے ہیں.ایک بہت بڑے پاکستانی لیڈر سے باتیں ہوئیں.میں نے کہا امریکہ میں یہودیوں کو ہم مسلمان کر رہے ہیں کہنے لگا اچھا؟ یہ ہورہا ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے اور اس طرح بعض اور ملکوں کا میں نے بتایا.میں نے کہا اب ہو تو یہی رہا ہے کیسے ہو سکتا ہے کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن یہ واقع ہے اور میں نے ایک یہودی کا آپ کو بتایا ہے کہ وہ مسلمان ہوا ہے.بیٹی اس کا نام ہے اور اس کے شاید تین چارلڑ کے ہیں لیکن دوز را بڑے ہیں.یہودیت سے مسلمان ہونے والے اس دوست کے بچوں میں سے ایک وہ بھی تھا جس نے کنونشن کے موقع پر قرآت کے مقابلہ میں حصہ لیا اور اول آیا اور انعام لیا.یہ نہیں کہ ویسے ہی احمدیت اور اسلام کا لیبل لگا لیا ہے بلکہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کر رہا ہے اور بہت تربیت دے رہا ہے یعنی قرآن کریم پڑھا دیا پھر بہت سی سورتیں حفظ کروا دیں اور دوسری کتابیں اُن کو پڑھاتا ہے وہ ایک چھوٹے سے فارم میں رہتا ہے جہاں اسے وقت بھی زیادہ ملتا ہے اس لئے وہ بچوں کا بہت خیال رکھتا ہے بلکہ اس کی ایک اور عزیزہ احمدی ہوئی ہے ایسے وقت میں جب کہ اس کی بچی جوان ہو چکی ہے.اُن ملکوں میں ماحول میں جب بچہ جوان ہو جائے تو اس کو پکڑنا اور اپنے ماحول میں لا نا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے چنانچہ وہ رونے لگ گئی کہنے لگی دعا کر میں خدا تعالیٰ اس کو ہدایت دے دے.کیونکہ ایسے وقت میں مجھے احمدیت ملی ہے جب یہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہے اور آزاد ہے اور توجہ نہیں کرتی وہ اُسے لے کر آئی ہوئی تھی اس نے بھی باتیں سنیں ، خطبے سنے.غرض اس قسم کے لوگ پیدا ہور ہے ہیں.
خطبات ناصر جلد ششم خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء میں بتا یہ رہا ہوں کہ ہمیں اسرائیل سے پیسے کی ضرورت نہیں اور نہ نصرانیت کا پیسہ ہماری غیرت قبول کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے بڑا ہی بے غیرت ہے وہ مسلمان جوان کا دودھ لے کر پینا شروع کر دے اور ان کی گندم کھانی شروع کر دے.اللہ ہمیں محفوظ رکھے اور یہ اس وقت کہا تھا جب انہوں نے گندم اور آٹا اس طرح تقسیم کرنا بھی شروع نہیں کیا تھا.پس ہماری دولت اللہ ہے لَهُ الْمُلْكُ (فاطر : ۱۴) ہر دو جہان اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اس کی جو مخلوق ہے وہ اس کے قبضہ میں ہے اور وہ اس کا مالک ہے.وہ اپنی برکتوں کے نتیجہ میں ہمارے لئے سامان پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اس دولت کا سامان ایک مومن مخلص سینہ میں دھڑکنے والے دل میں پیدا کرتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ وہ جا کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوْحِيَ إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ تیری مدد کو وہ لوگ آئیں گے جن کو ہم آسمانوں سے کہیں گے کہ جاؤ ان کی مدد کرو.اب جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے جب میں نماز سے باہر نکلا اور جس دوست نے کہا یہ لیں ہزار روپے کا وعدہ اور اگلے دن اس نے چیک دے دیا.اس کو میں نے تو نہیں جا کر کہا تھا کہ دے.میں نے تو کبھی کسی کو نہیں کہا میں تو جماعت کو کہا کرتا ہوں اپنی فکر کرو اگر کرنی ہے اور صرف پیسے نہ دو.۱۹۷۰ء میں میں نے کہا تھا کہ مجھے پیسوں کی فکر نہیں.مجھے پتہ ہے کہ جماعت بڑی قربانی کر رہی ہے لیکن مجھے اس بات کی فکر ہے کہ بعض لوگوں کی قربانیاں قبول نہیں کی جاتیں رد کر دی جاتی ہیں اور خدا منہ پر مارتا ہے کہ لے جاؤ میں نے تمہارے گندے مال کو لے کر کیا کرنا ہے جو اخلاق سے عاری اور ریا اور نفاق سے بھرا ہوا ہے.تو دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول کرے.ہمیشہ عاجزانہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے باقی خدا تعالیٰ جو مالک الکل ہے اس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں.وہ جتنا قربانی کے رنگ میں لیتا ہے اس سے کہیں زیادہ واپس بھی کرتا ہے یہ تو روز مرہ ہماری زندگی میں مخلصین کی زندگی میں یہ نظارے نظر آتے ہیں.مخلصین جماعت نے خدا کی راہ میں قربانیاں دیں اور خدا تعالیٰ نے ان
خطبات ناصر جلد ششم ۵۶۷ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء کے گھر بھر دیئے پھر اور قربانیاں دیں اور خدا نے اُن کے اور زیادہ گھر بھر دیئے.یہ سلسلہ تو اپنے طور پر جاری ہے لیکن ہر شخص کو ہر وقت جب تک کہ اس کا خاتمہ بالخیر نہ ہو جائے اس وقت تک یہ فکر رہنی چاہیے کہ ہم خدا کی راہ میں تھوڑا بہت جتنا بھی اس کے سامنے پیش کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے اور ہمارے گھروں کو اپنی رحمتوں سے بھر دے اور اپنے نور سے ہمارے سینوں اور ہمارے ذہنوں کو بھر دے اور ہمیں اس کے نور کے پھیلانے کا ذریعہ بنادے.اس کے بعد ہم ڈنمارک گئے وہاں بھی یہی مسئلہ در پیش.وہاں کے مبلغ انچارج مجھے کہنے لگے کہ یہاں کے پرانے احمدی خاندان کہتے ہیں کہ وہ ساری کتابیں پڑھ چکے ہیں اور کتابیں دو.ڈنمارک سے ہم مغربی جرمنی چلے گئے جرمنی میں ایک چھوٹا سا فنکشن (Function) فرینکفرٹ کے میئر نے کیا ہوا تھا وہ بڑی دلچسپی لے رہا تھا اور پوچھتا تھا کہ تعلیم کیا ہے اور آپ نے افریقہ میں کیا کام کیا ہے اور کتنے ہسپتال کھولے اور کتنے سکول کھولے اور آپ افریقی لوگوں کی اور کیا خدمت کر رہے ہیں؟ غرض وہ اس تقریب کے موقع پر بہت دلچسپی لے رہا تھا اس نے بلایا ہوا تھا ایک صوبے کے منتخب ممبر کو جو پادری تو نہیں تھا لیکن عیسائی ایسوسی ایشن کا منتخب ممبر تھا اور ساری عمر ہی ممبر رہا ہے.اس کو بلوایا ہوا تھا پتہ نہیں اس سے اُن کی کیا غرض تھا چنانچہ میں نے دوران گفتگو اُسے بتایا کہ ہم افریقہ میں اس اس طرح خدمت کر رہے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں کسی اور سے ہمیں پیسہ لینے کی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کا در ہمارے لئے کافی ہے اور میں نے کام بتائے کہ اس طرح ہم خدمت کر رہے ہیں تو اس نے اس منتخب ممبر کی طرف دیکھا اور مسکرا کر اس سے کہنے لگا کہ آپ سن رہے ہیں کہ یہ کیا بتارہے ہیں.پس بعض دفعہ میں بہت پریشان ہوتا ہوں خود اپنے آپ کو اور جماعت کو سامنے رکھ کر کہ ایسا نہ ہو ہم خدا تعالیٰ کی ناشکری کر جائیں.خدا تعالیٰ اتنے فضل کرتا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.۱۹۷۰ ء میں جب ہم لائبیریا میں گئے.زمین تو ہمیں پہلے ہی پریذیڈنٹ ٹب مین صاحب نے دے دی تھی ڈیڑھ سو ایکڑ.اب وہ فوت ہو چکے ہیں.غرض ایک جگہ پچاس ایکڑ زمین ہے اور غالباً دوسری جگہ بھی اتنی ہی ہے لیکن وہاں مکان تعمیر ہونے میں اور سکول اور ہسپتال جاری
خطبات ناصر جلد ششم ۵۶۸ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء کرنے میں وقت لگنا تھا ایک عیسائی مشن نے وہاں کام شروع کیا تھا اور کئی سال تک کام کرنے کے بعد وہ ناکام ہوئے اور عمارتیں چھوڑ کر اس جگہ سے چلے گئے وہ مکان خالی پڑے ہوئے تھے ان کو پتہ نہیں کیا خیال آیا خدا تعالیٰ خود سامان پیدا کرتا ہے جن لوگوں سے ہمارا مقابلہ ہے روحانی اور اخلاقی اور مذہبی میدانوں میں.انہوں نے کہا یہ مکان خالی پڑے ہوئے ہیں یہ احمدیوں کو دے دو.چنانچہ وہ ہمیں مل گئے جب ہمیں ملے تو اُن کا سکول باوجود اتنی دولت کے جو عیسائی دنیا کے پاس ہے نا کام ہو گیا لیکن ہمارا سکول اتنا کامیاب ہوا کہ سارے علاقے کے بچے وہاں آنے لگے.انہوں نے ہمیں کہا تو یہ تھا کہ ۳.۴ سال کم از کم اپنے پاس رکھو.اس عرصہ میں ہم آپ سے نہیں لیں گے لیکن ابھی سال سے بھی زیادہ عرصہ باقی تھا تو کہنے لگے واپس کرو.جس آدمی نے بنائے تھے وہ ملک چھوڑ کر اپنے ملک امریکہ چلا گیا تھا جب اس نے یہ حالات سنے تو واپس آ گیا اور اس نے کہا خالی کرو.اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے توفیق دے دی اپنے سکول کی اپنی زمین پر عمارت بنانے کی اور ان کو کہا ٹھیک ہے ہم خالی کر دیتے ہیں وقت سے پہلے تم اپنے مکان لے لو چنانچہ انہوں نے بڑے طمطراق سے پھر اپنا سکول جاری کیا.چھ ماہ کے بعد وہ سکول ان سے چل نہیں سکا اور واپس چلے گئے.ہمیں ان کے تعمیر شدہ مکانوں میں کوئی دلچسپی نہیں، ہمیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت میں دلچسپی ہے اور اسی کے حصول اور اس کی رضا کی تلاش میں ہم اس کے حضور قربانی پیش کرتے ہیں جتنی بھی ہو سکتی ہے.دنیوی لحاظ سے ہمارا امیر بھی اور ہمارا غریب بھی انتہائی درجے کا مخلص دل رکھتا ہے.تربیت یافتہ ہو یا زیر تربیت ہو ہر ایک کے اندر ایک حرکت ہے جو خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کی طرف لے جارہی ہے.اس سے قطعا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کسی کی حرکت کمزور ہے اور کسی کی تیز ہے.یہ ہم مان لیتے ہیں لیکن ہر حرکت ہمیں خدا تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہے سوائے منافق کی حرکت کے جس کا ذکر قرآن کریم میں بار بار آیا ہے وہ ریا اور تکبر سے بھرا ہوا ہے اور دکھاوے کے لئے کام کرتا ہے اور فتنہ پیدا کرنے کے لئے مصلح کا روپ بھرتا ہے اور مصلح کے لباس میں وہ آتا اور خدا تعالیٰ کی جماعت اسے رد کرتی ہے.کئی یہاں کے لوگ یہاں کے متعلق عجیب باتیں کہہ دیتے ہیں اس وقت نو جوان
خطبات ناصر جلد ششم ۵۶۹ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء با ہر سے بھی آئے ہوئے ہیں اگر چہ اجتماع تو بعض وجوہ کی بناء پر نہیں ہوسکا لیکن میں ان کو سنادیتا ہوں کہ یہاں ہمارے علاقے کے افسر صاحب کہنے لگے کہ نوجوان احمدی اپنی قیادت بدلنا چاہتا ہے یعنی خلیفہ وقت کو اتار کر نیا خلیفہ بنانا چاہتا ہے.جس کے سامنے اس نے بات کی وہ تو ہنس پڑا اس نے کہا تم تو اتنی دیر سے یہاں ہو لیکن جماعت کو جانتے ہی نہیں.دنیا میں قیادتیں بدلا کرتی ہیں جو سیاسی قیادتیں ہیں وہ بدلا کرتی ہیں اپنی کمزوریوں کے نتیجہ میں.لیکن جو کمزور ہے اور کمزوری پر ہی راضی ہے خدا کا ایک عاجز بندہ ہے جسے خلیفہ وقت بنا دیا جاتا ہے اور وہ ہر آن چھوٹی سے چھوٹی چیز کے لئے خدا تعالیٰ کا محتاج ہے اور اپنے اس مقام کو کبھی بھولتا نہیں اور ہمیشہ یا درکھتا ہے اور اعلان کرتا ہے پبلک میں کہ میرے جیسا عاجز انسان کوئی نہیں وہ کس مقام سے نیچے گرے گا.اس کا مقام تو ہے ہی عاجزی کرنا لیکن جس ہستی نے اس کا ہاتھ پکڑا ہے اس کی قدرتوں کا تو دنیا کی طاقتیں یا دنیا کے ذہن ساری عمر مقابلہ نہیں کر سکتے.دنیا عدم علم یا جہالت کی وجہ سے سب کے ساتھ یہی کرتی رہی ہے جو لوگ سوچتے رہتے ہیں وہ اسے سوچتے رہیں.میں ۱۹۷۰ء میں افریقہ کے دورہ پر گیا اور وہاں جماعت کی عقیدت کا یہ حال تھا کہ دوست مصافحہ کرتے تھے اور ہاتھ چھوڑتے ہی نہیں تھے.اب یہ چیز نہ میری خوبی کی وجہ سے پیدا ہوسکتی ہے اور نہ میری کوشش کے نتیجہ میں.ایک جگہ تو ہمارے مبلغ نے پروگرام ایسا بنایا تھا جو میرے لئے بڑا تکلیف دہ تھا کیونکہ سومیل کے قریب فاصلہ طے کر کے میں ایک جگہ ایسے بے وقت پہنچا کہ میں جماعت سے مصافحہ نہیں کر سکتا اور وہاں میں نے ایڈریس دینا تھا جس میں غیر ملکی عیسائی بھی آئے ہوئے تھے.اُن میں یونیورسٹی کے عیسائی پروفیسر اور طالب علم بھی شامل تھے.میں نے بہر حال ایڈریس دینا تھا کیونکہ غیروں کو بلایا ہوا تھا میں نے سوچا مصافحے کروں گا تو ایڈریس نہیں دے سکتا ایڈریس دوں گا تو مصافحے نہیں کر سکتا.خیر میں نے ایڈریس دیا.سوال و جواب ہوتے رہے اس میں بہت دیر ہو گئی اور جب خاصا وقت گزر چکا تو ہمارے مبلغ نے اعلان کر دیا کہ مصافحے نہیں ہوں گے.اب وہ لوگ جن کی ساری عمر میں پہلی دفعہ جماعت احمدیہ کا خلیفہ اُن کے پاس گیا تھا اور کوئی پتہ نہیں پھر کب اُن کو موقع ملے وہ مصافحے کے لئے ٹوٹ پڑے.خدا کا شکر
خطبات ناصر جلد ششم ۵۷۰ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء ہے منصورہ بیگم اور جماعت کی دوسری خواتین پردہ میں بیٹھی ہوئی تھیں.میں نے ان کو کہلا بھیجا کہ وہ دوسری طرف سے جا کر موٹر میں بیٹھیں.میں جب نیچے اُتر ا تو وہاں کے مقامی احمدی دوستوں نے میرے پرائیویٹ سیکرٹری اور دوسرے ساتھیوں کو اتنے دھکے دیئے کہ اُن کا پتہ ہی نہیں لگا کہ وہ کہاں گئے اور مصافحہ شروع کر دیا ٹھیک ہے مصافحہ شروع ہو گیا لیکن یہ مصافحہ عام مصافحہ نہیں تھا ہر شخص میرا ہاتھ پکڑتا تھا اور پھر چھوڑتا ہی نہیں تھا میرا منہ دیکھتا تھا اور میرا ہاتھ چھوڑ تا ہی نہیں تھا اور ساتھ والا انتظار کرتا رہتا تھا آخر تنگ آکر ( یہ واقع ہوا بیبیوں مصافحوں میں ) کہ وہ ایک ہاتھ سے اس کی بانہہ پکڑتا تھا اور دوسرے ہاتھ سے میرا بازو پکڑ کر جھٹکا دے کر چھڑاتا تھا اور پھر خود مصافحہ کرنے لگ جاتا تھا اور وہ بھی ہاتھ نہیں چھوڑتا تھا اور پھر ا گلے آدمی کو یہی کرنا پڑتا تھا.اس طرح بڑی مشکل سے ہم وہاں سے مصافحے کر کے نکلے اور رات کے بارہ بجے واپس اپنی جائے رہائش پر پہنچے.میں اتنا احمق تو نہیں (یہ میں احمدیوں کو نہیں کہہ رہا.وہ تو جانتے ہیں دوسرں سے کہتا ہوں ) کہ میں یہ سمجھنے لگ جاؤں کہ میری کسی خوبی کے نتیجہ میں ۵-۶ ہزار میل دور میری اس قسم کی محبت ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگئی کہ جنہوں نے مجھے کبھی دیکھا نہ میرے حالات ہی زیادہ تر جانتے تھے.افریقہ میں اس قسم کا جذبہ ہے کہ افریقہ سے مجھے ایک شخص نے خط لکھا جس میں اس قسم کی بات تھی کہ آپ کی جان پر اس طرح حملے ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا.میری عادت یہی ہے کہ میں ایسے موقع پر کہا کرتا ہوں کہ جب تک خدا مجھے زندہ رکھتا ہے اُس وقت تک کسی بات کا ڈر نہیں.میں تو ۱۹۴۷ء میں گولیوں کے اندر پھرتا رہا ہوں جیپ لے کر مسلمانوں کو بچانے کے لئے.پس زندگی اور موت تو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے بہر حال میں نے خط پڑھا اور میاں مظفر احمد کو کہا یہ خط ہے آپ بھی اسے پڑھ لیں لیکن بالکل فضول ہے.اُنہوں نے مشورہ دیا کہ رشید امریکن جو ہمارے وہاں کے نیشنل امیر ہیں اُن کو دکھا دیں خیر اس کو دکھایا تو اُن کا رد عمل بالکل اور تھا.وہ سمجھتے تھے یہ ہماری ذمہ داری ہے چنانچہ جب یہ بات پھیل گئی تو ۳ سومیل پر کچھ احمدی ایسے شعبے میں تھے جن کو انہی کاموں یعنی حفاظتی کاموں کے لئے
خطبات ناصر جلد ششم ۵۷۱ خطبه جمعه ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء ٹرینڈ کیا جاتا ہے اور اُن کی بڑی سخت ٹریننگ ہوتی ہے اُن میں احمدی بھی تھے چنانچہ دو احمد یوں نے چھٹی لی اور وہ وہاں پہنچ گئے اور ساری رات موٹر میں بیٹھے رہے.وہاں بڑی آزادی ہے میں نے بتایا ہے وہ بڑا آزاد ملک ہے اس لئے وہ پورے طور پر ہتھیار بند بھی تھے اور موٹر میں بیٹھے ساری رات پہرہ دیتے رہے.اب کیا میں اس قسم کی محبت جو ساری دنیا کے احمدیوں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے خلافت سے، یہ بازار سے خرید سکتا ہوں یا میری کسی کوشش یا خوبی کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتی ہے؟ سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل کے اس کی اور کوئی وجہ نہیں.صرف اپنے نہیں بلکہ وہاں غیروں کی طبیعت پر بھی یہ اثر ہے میں تو اپنے رنگ میں سوچتا ہوں کہ خدا کی شان ہے کہ میرے جیسے عاجز انسان کے ساتھ خدا تعالیٰ یہ سلوک کرتا ہے ڈیٹن سے بہت سارے عیسائی وغیرہ آئے ہوئے تھے.استقبالیہ دعوت میں اُن سے بہت سی باتیں ہوتی رہیں اسلام کی تعلیم کے متعلق کہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسان کو چاہیے وہ ایک دوسرے سے پیار اور محبت کرے انسان ایک دوسرے کی خدمت کرے.انسان سے پیار کا سلوک کرے ایک دوسرے سے بغض نہ رکھے وغیرہ وغیرہ.دو شخص وہاں سے نکل رہے تھے ایک امریکن احمدی نے بتایا کہ میں نے سناوہ آپس میں باتیں کر رہے تھے دونوں غیر مسلم تھے وہ کہہ رہے تھے کہ جس قسم کی باتیں اس شخص نے کی ہیں بڑا ہی لعنتی ہو گا وہ شخص جو اب بھی اس سے پیار نہ رکھے.اب وہ باتیں میں نے اپنی بنا کے تو نہیں کیں اس وقت ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کا جو اثر پھیل رہا ہے اور جو محبت جماعت احمدیہ کی پیدا ہو رہی ہے وہ اس لئے ہے کہ مہدی علیہ السلام نے تمام بدعات سے پاک کر کے اسلام کی صحیح تعلیم اُن تک پہنچائی اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عشق اُن میں پیدا کیا.میں نے افریقہ میں بتایا تھا کہ کیا حالت تھی اُن کی.میں نے وہاں بڑا سوچا کہ آخر احمدیت سے یہ پیارکس طرح ہوا کیوں؟ ہوا تو مجھے یہ سمجھ آئی کہ چونکہ اُن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسین اور نورانی چہرے سے پہلی دفعہ جماعت احمدیہ نے متعارف کروایا ہے اس لئے یہ جماعت سے بھی پیار کرتے ہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار جو دل میں پیدا ہوا اس کے نتیجہ میں جماعت کا پیار دل میں پیدا ہوا اور یہ جماعت کی اپنی کوئی خوبی نہیں ہے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مؤثر ہو گئی.یہی حال اب
خطبات ناصر جلد ششم ۵۷۲ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء امریکہ کا ہے یورپ میں جو وہاں کے باشندے ہیں بڑے مخلص ہیں.پہلے کئی دفعہ اُن کے اخلاص کے نمونے میں بتا چکا ہوں اب وہ کتابیں مانگ رہے ہیں.ایک نو مسلم احمدی نے ڈنیش زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کر دیا جو بڑا مقبول ہوا.اب سویڈش زبان میں ایک نو مسلم احمدی نے ترجمہ کر دیا ہے وہ ہم اس لئے شائع نہیں کر رہے کہ ہمیں اس کی زبان کے متعلق ابھی پوری تسلی نہیں کیونکہ علمی لحاظ سے وہ ایسا نہیں کہ ہم اس پر اعتبار کر لیں.ابھی اُس کی چھان بین ہورہی ہے ابھی اس کی اصلاح وغیرہ ہوگی.غرض قرآن کریم کا ترجمہ اُن کے پاس پہنچتا ہے وہ قرآن کریم کو دیکھتے ہیں اور بڑے حیران ہوتے ہیں یہ ایک بڑی عظیم کتاب ہے اس کے اندر بعض ایسی خاصیتیں ہیں کہ جو اس کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہیں.ایک خاصیت یہ ہے کہ ہر کس و ناکس اس کو سمجھ ہی نہیں سکتا اس کا جو کتاب مبین والا حصہ ہے اس کے سمجھنے کے لئے بھی تقویٰ کی ضرورت ہے چاہے تھوڑا تقویٰ ہو بہر حال تقویٰ کی ضرورت ہے.اور جو کتاب مکنون والا حصہ ہے اس کے متعلق تو خود قرآن کریم نے اعلان کیا.لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ - تَنْزِيلُ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ (الواقعة : ۸۱،۸۰) یہ ایک الگ بڑا لطیف اور حسین مضمون ہے.بعض دفعہ میں اسے بیان بھی کر چکا ہوں مثلاً عیسائی دنیا ہے انہوں نے قرآن کریم کے ترجمے بھی کئے بعض نے تفسیریں بھی لکھیں لیکن وہ قرآن کریم کی روح تک نہیں پہنچ سکے.وہ اپنی جہالت کی وجہ سے ایسی فحش غلطیاں کر جاتے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے بعض تو تعصب کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں اور بعض جہالت کی وجہ سے.تاہم حیرانی آتی کہ کہنے کو تو یہ لوگ علامہ دہر ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں میں وہ عجیب وغریب ٹھوکریں کھاتے ہیں اُن کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ قرآن کریم نے یہ کیا کہہ دیا ہے.اُس کے لئے ایک فضا پیدا ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو کئی صدیوں تک قائم رہی.اس کے بعد بعض چراغ تھے وہ جلے اور اُن کے ماحول میں روشنی رہی اب یہ ہمارے ایمان کے مطابق ( میں تو اپنی بات کروں گا دنیا جو مرضی سمجھتی رہے ہمارے ایمان کے مطابق ) مہدی علیہ السلام کے ذریعہ کہ جن کی بعثت ہو چکی ہے وہی فضا پھر دنیا میں پیدا کی جارہی ہے اسلام سے محبت پیدا ہو رہی ہے اسلام کی تعلیم کی عظمت ظاہر ہو رہی ہے.اس دفعہ پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ کوئی نہ کوئی چیز خدا تعالیٰ
خطبات ناصر جلد ششم ۵۷۳ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء سکھاتا ہے دورے میں جو نئی ہوتی ہے ورنہ تو پھر وہ کہیں گے کہ یہ باتیں ہمارے پاس آپ پہلے بھی کر چکے ہیں.اس دفعہ میں اُن کو یہ پینج کرتا رہا ہوں صحافیوں کو پر یس کا نفرنس میں کہ دیکھو میں اسلام کی تعلیم کا ایک حصہ تمہارے سامنے رکھوں گا اور یہ تعلیم بیان کرنے سے پہلے تمہیں کہتا ہوں کہ تم جرات نہیں کر سکو گے کہ تم یہ کہو کہ یہ نا قابل قبول ہے اور غلط ہے اور اسے نہیں مانتے.پہلے میں یہ چیلنج دے دیتا تھا اور پھر اُن کو تعلیم بتاتا تھا چنانچہ ایک صحافی کو بھی جرات نہیں ہوئی کہ وہ یہ کہے کہ نہیں یہ تو ٹھیک تعلیم نہیں ہے.بعض شریف دماغ ہوتے ہیں اور ایسے لوگ ان پریس کانفرنسوں میں بھی تھے جنہوں نے کھل کر باتیں کیں.پہلے کے ایک سفر کے بارہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ ایک صحافی نے کہا جب اتنی اعلی تعلیم ہے اسلام کی تو پھر آپ یہ بتائیں کہ ہمارے عوام تک پہنچانے کا آپ نے کیا انتظام کیا ہے لیکن آج تک کسی نے مجھے یہ نہیں کہا کہ جو بات آپ کر رہے ہیں ہم اس کو غلط سمجھتے ہیں.اس دفعہ میں نے پہلے یہ چیلنج دیا کہ دیکھو میں تمہیں پہلے بتا تا ہوں کہ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم اس کو غلط سمجھتے ہو جو میں بتا رہا ہوں.تمہیں صحیح سمجھنا پڑے گا کیونکہ یہ ایسی عظیم تعلیم ہے جس کا انکار مشکل ہے لیکن مسئلہ پھر وہی رہ جاتا ہے کہ اُن کے عوام تک پہنچانے کا انتظام ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں اسے ادا کرنا چاہیے اور یہ ایک بہت بڑا کام ہے.اس کام میں بڑی وسعت ہے اس کام کے پھیلانے میں دُنیوی سامانوں کی ضرورت ہے مثلاً لٹریچر پوسٹ کرنے میں پوسٹیج کا بڑا خرچ ہوتا ہے طباعت کا بڑا خرچ ہوتا ہے بے تحاشا نئی کتا بیں چھاپنی ہیں بچوں کے جو کمیونٹی سنٹر ہیں اُن میں بچوں کی عمر کے لحاظ سے کتابیں چھاپنی ہیں اور میں اب اعلان بھی کر دیتا ہوں کہ ہمیں کم از کم ایک ہزار کتاب کی ضرورت ہے جو پڑھنے والی بلکہ سمجھنے والی عمر یعنی جب کہ ابھی بچہ پڑھتا بھی نہیں ماں باپ اس کو سناتے ہیں اس عمر سے لے کر خدام الاحمدیہ کی عمر تک کے بچوں کے لئے ہوں.ایسی غرض کے لئے کم از کم ایک ہزار کتاب کی ضرورت ہے جو تاریخی واقعات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر مشتمل ہوں.چھوٹے چھوٹے پانچ پانچ دس دس صفحات کے واقعات ہوں کہانیاں نہیں بلکہ واقعات ہوں مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق یا دنیا نے آپ کے حسن و احسان کے جو جلوے دیکھے اس کے متعلق ایک ہزار کتاب
خطبات ناصر جلد ششم ۵۷۴ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء ہمیں چاہیے.یہ صرف بچوں کے لئے ہوں گی.بڑوں کے لئے تو پھر ساری دنیا کے علوم کو اپنے احاطہ میں لینے والا لٹریچر ہمیں چاہیے.یہی ہمیں کہا گیا تھا کہ میرے ماننے والوں کے علم میں خدا تعالیٰ اتنی برکت دے گا کہ نہ صرف یہ کہ وہ لوگ جو صاحب علم ہیں اور علامہ دہر بنے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیم پر حملے کرتے ہیں اُن کے حملوں کا کامیاب دفاع کر سکیں.خالی یہی نہیں بلکہ دنیا میں یہ ثابت کر دکھا ئیں گے کہ اُن کے علوم بنیادی غلطیوں سے پر ہیں اور قابل قبول نہیں.اس پر میں وہاں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالتا رہا ہوں اور بتاتا رہا ہوں کہ عقل، عقل، عقل کی رٹ بے معنی ہے.میں ان کے سامنے مثالیں دے کر ثابت کرتا رہا ہوں کہ عقل قطعاً تمہارے کام نہیں آتی.اس لئے چھوڑ و عقل کو اور کسی اور کا ڈر ڈھونڈو اور وہ اللہ کے در کے علاوہ اور کوئی ڈر نہیں ہے وہی ایک ڈر ہے جہاں سے تمہاری بھلائی اور خیر کے سامان پیدا ہو سکتے ہیں.وہ عقل جو متضاد باتیں کرنے والی اور عقل عقل سے لڑنے والی ہے وہ ہمارے یا بنی نوع انسان کے کام کیسے آسکتی ہے.جرمنی سے ہم زیورچ ( سوئٹزرلینڈ ) گئے.زیورچ میں میری دلچسپی کی نمایاں چیز یہ تھی کہ پچھلی کا نفرنس میں یعنی اس سے تین سال پہلے جو کا نفرنس ہوئی تھی اس میں ایک بڑی تیز فری لانسر صحافیہ بھی آئی ہوئی تھی.پریس کانفرنس سے پہلے کھانا دیا جاتا ہے کھانے کے دوران وہ یہ کہتی رہی کہ میں نے تو اس شخص کو اس طرح تنگ کرنا ہے اور یوں تنگ کرنا ہے یہ سوال پوچھنا ہے اور وہ پوچھنا ہے.میں نے تو ایسے سوال پوچھنے ہیں کہ اسے بالکل لا جواب کر دوں گی.ہر دس منٹ کے بعد ایک احمدی دوست آتے اور کہتے کہ یہ تو بڑی تیزیاں دکھا رہی ہے.آخر میں نے کہا مجھ سے سوال کرے گی تمہیں کیا فکر ہے تم آرام سے بیٹھو اور اسے بولنے دو.خیر جب کانفرنس شروع ہوئی تو وہ چپ کر کے بیٹھی رہی جب ۳۰-۴۰ منٹ گزر گئے تو میں نے اسے کہا کہ مجھے تو یہ خبریں آ رہی تھیں کہ تم نے مجھ سے بڑے سوال کرنے ہیں تم اب خاموش کیوں بیٹھی ہو؟ تو کہنے لگی کہ جو میں نے پوچھنا تھا آپ کی باتوں میں اس کے جواب مل رہے ہیں اس لئے میں نہیں بول رہی.یہ عجیب بات ہے کہ اس دفعہ پھر آئی تو وہ بالکل بدلی ہوئی تھی.میں نے کہا میں نے تمہیں پہچان لیا ہے تین سال پہلے جو پریس کا نفرنس ہوئی تھی اس میں بھی تم تھیں ویسے اس دفعہ وہ بہت زیادہ
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء بوڑھی ہو ئی ہوئی تھی اور طبیعت بالکل بدلی ہوئی تھی یعنی اتنی بدلی ہوئی تھی کہ کوئی صحافی بات کرتا تھا تو اگر وہ بجھتی تھی کہ میرا جواب کسی پہلو سے تشنہ رہ گیا ہے اور ان عیسائیوں کو سمجھ نہیں آئے گی تو پھر وہ مجھ سے سوال کر کے وہ چیز پوچھ لیتی تھی تا کہ بات نمایاں ہو کر اور کھل کر ان لوگوں کے سامنے آجائے.دوسرے یہاں یہ دیکھنے میں آیا کہ انہوں نے ایک سوال پوچھا تو قبل اس کے کہ جواب مکمل ہو دوسرا سوال کر دیا.بعض دفعہ صحافی یہ چالا کی کرتے ہیں کہ سوال کیا جب اپنے مطلب کا جواب نہیں ملا تو پھر اگلا سوال کر دیا قبل اس کے کہ جواب ختم ہو یعنی آدھا جواب دیا تو اگلا سوال.اس کا جواب بھی اپنے مطلب کا نہیں ملا تو پھر اگلا سوال.چنانچہ انہوں نے ایک سوال کیا جس کا جواب دینے میں میں نے دس پندرہ منٹ لینے تھے میں نے کہا بات یہ ہے کہ تمہارے سوال کا جواب بڑ ا لمبا ہے اگر تم میں صبر ہے اور میری بات سنے کا حوصلہ ہے تو میں جواب دیتا ہوں ورنہ تم اگلا سوال کر دو.انہوں نے کہا نہیں ہم صبر کے ساتھ سنیں گے اس پر میں نے تفصیل کے ساتھ اسلام کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی.اس دورے میں مجموعی طور پر ایک بات یہ نظر آئی کہ اب ساری دنیا مغرب بھی اور مشرق بھی یعنی امریکہ، انگلستان اور یورپ بھی اور مشرقی دنیا بھی جس میں بعض لوگ روس کو بھی شامل کرتے ہیں وہ ہماری باتیں سننے کے لئے تیار بھی ہے اور پیاسی بھی ہے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ جو کچھ ہم نے اس وقت تک کیا ہے اس سے ہماری فطرت تسکین نہیں پاتی اس لئے اپنی فطرت کی تسکین کے لئے انہیں کچھ ملنا چاہیے.یہ احساس اب پیدا ہو گیا ہے میں مشرق کا نام اس لئے بھی لے رہا ہوں ( مختصراً بتاؤں گا ) کہ میرے باہر کے دوروں میں پہلی بار روس نے دلچسپی لی اور مختلف جگہوں پر ہمارے جو فنکشنز (Functions) تھے ان میں ان کے نمائندے شامل ہوئے.میں اس کی تفصیل پھر کسی وقت بتاؤں گا.میری یہ خواہش تھی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے قریباً پوری ہو گئی ہے میں چاہتا تھا کہ بہت لمبا خطبہ دوں تا کہ اجتماع نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی کچھ کمی پوری ہو جائے.اس دورے کی بہت سی باتیں ہیں میں نے بتایا ہے کہ قریباً دو مہینے تو میرے ایسے گذرے ہیں کہ دو دن ایک جگہ چار دن
خطبات ناصر جلد ششم ۵۷۶ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء ایک جگہ بس اسی طرح کچھ سفر میں اور کچھ دو دو چار چار دن ٹھہر کر مختلف ملکوں کا دورہ کرتا رہا.اس کے بعد لندن میں تو ویسے بڑی جماعت ہے اور بڑا کام ہے ساری ڈاک رکی ہوئی تھی جو یہاں سے جاتی ہے وہ نکالی اور کام کئے.غرض یہ جو دو مہینے لگا تا رسفر کے ہیں اور پھر لندن کے قیام کے حالات ہیں ان کے بیان کے لئے تو دنوں چاہئیں لیکن موٹی موٹی باتیں میں نے بتادی ہیں.اب اس کا خلاصہ میں بتا دیتا ہوں.ایک یہ کہ مشرق و مغرب کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ انہوں نے جو کچھ اپنی عقول سے حاصل کیا وہ ان کے لئے ناکافی ہے اُن کی فطرت کی تسلی کے لئے اُن کو کوئی چیز ملنی چاہیے.دوسرے یہ بات ظاہر ہوئی کہ جو انتہائی تعصب رکھنے والے علاقے یا گروہ تھے اُن کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ جماعت کا اثر پھیل رہا ہے تا ہم جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ابھی ہمارے کام کی ابتدائی سٹیج ہے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ سارا امریکہ ایک دم میں مسلمان ہو جائے گا.میں یہ کہتا ہوں کہ اگلے چودہ سال میں بڑی کوشش اور بڑی جدو جہد کرنی پڑے گی.جہاں تک جماعت احمدیہ کے کردار کا تعلق ہے دنیا میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ جماعت احمد یہ ترقی کر رہی ہے.قرآن کریم نے ہماری تسلی کے لئے یہ اعلان کیا ہے :.أو لَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد : ۴۲) أَفَهُمُ الْغُلِبُونَ (الانبیاء : ۴۵) ایک Process شروع ہو چکی ہے.Erosion شروع ہو چکا ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کے حق میں Erosion ہورہا ہو وہ ناکام ہو یعنی تدریجی ترقی دو باتیں ظاہر کرتی ہے ایک یہ کہ صداقت ہے کیونکہ سوائے صداقت کے لگا تار ترقی ملتے چلے جانا کسی دوسرے کے لئے ممکن ہی نہیں.یعنی دو سال پانچ سال دس سال ہو جائیں پندرہ بیس سال ہو جائیں یہ کہ جب سے وہ Process شروع ہوئی ہے اور تدریجا ترقی کرتی چلی گئی ہے یہ صداقت ظاہر کرتی ہے اور دوسرے یہ کہ جس کے حق میں یہ تدریجی ترقی ہو رہی ہے اَفَهُمُ الْغَلِبُونَ ان کے مخالف غالب نہیں آتے یہی گروہ غالب آتا ہے جس کے حق میں تدریجی ترقی ہو رہی ہو.ہمارے مخالف اور جب میں مخالف کا لفظ بولتا ہوں تو پاکستان کا ذکر نہیں کرتا
خطبات ناصر جلد ششم ۵۷۷ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء کیونکہ پاکستان اس وقت میرے مد نظر نہیں.غیر ممالک میں جو ہماری مخالف طاقتیں تھی ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے اور ان میں روس بھی شامل ہے کہ جماعت احمدیہ کی تدریجی ترقی اس قسم کی ہے کہ انہیں ہمارے نزدیک آنا چاہیے.دشمنی کے لئے یا دوستی کے لئے یہ خدا ظاہر کرے گا لیکن پہلے تو کہتے تھے ان کا کیا ہے یہ کس شمار میں ہیں ان کو چھوڑ ولیکن اب حالت بدل گئی ہے اور یہ بڑی چیز ہے.اب وہ سمجھ رہے ہیں کہ جماعت احمد یہ کچھ ہے اور ہمیں ان کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور یہ بڑی عظیم تبدیلی ہے جو نوع انسان کے دماغ میں آگئی ہے اور میں اس وقت عالمی نقطۂ نظر سے بات کر رہا ہوں.تیسرے یہ بات سامنے آئی کہ جن لوگوں کے سامنے بھی اسلامی تعلیم رکھی انہوں نے اس کا اثر قبول کیا.ایک موقع پر حساب کا ایک پروفیسر استقبالیہ میں شامل تھا.اس نے ہاتھ میں ریفریشمنٹ کی کوئی چیز پکڑی ہوئی تھی تو پتہ نہیں اس نے کتنا عرصہ پونا گھنٹہ یا کتنا میری باتیں سنتا رہا.اس طرح معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ مسحور ہو گیا ہے اس کو یہ پتہ ہی نہیں کہ اس کے ہاتھ میں رکابی پکڑی ہوئی ہے ان کی عادت ہے کہ بیچ میں گھونٹ لیتے ہیں.بوتلیں دیتے ہیں کوکا کولا وغیرہ سافٹ ڈرنکس ان کے مطلب کی پینے کی چیز تو نہیں لیکن دوران گفتگو اس طرح معلوم ہوتا تھا کہ اس کو پتہ ہی نہیں کہ کوئی کھانے کی چیز یا پینے کی چیز اس کے ہاتھ میں ہے.وہ بڑے غور سے باتیں سن رہا تھا اور بڑا اثر قبول کر رہا تھا اسلامی تعلیم سے.گویا جن لوگوں کے سامنے ہم اسلامی تعلیم پیش کرتے ہیں وہ اس کا اثر قبول کرتے ہیں.چوتھے یہ چیز ابھر کر سامنے آئی کہ اپنی ذمہ داری نباہنے میں ابھی ہم بڑے کمزور ہیں یعنی ہمارے پاس ابھی تک وہ ذرائع نہیں کہ اس بھوکی دنیا کی اخلاقی اور روحانی بھوک دور کر سکیں اور اس اخلاقی اور روحانی طور پر رنگی دنیا کا نگ دور کر سکیں اور لباس تقوی کا ان کے لئے سامان پیدا کر سکیں اور یہ چیز بڑی نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے اور یہ چیز بھی سامنے آئی کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے قانون کی پابندی کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی راہ میں ہنستے مسکراتے قربانیاں کرتے ہوئے بڑھتے چلے جانا وقت کا ایک اہم تقاضا ہے یہ راہ بڑی کٹھن ہے.دوست اچھی طرح یاد
خطبات ناصر جلد ششم ۵۷۸ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء رکھیں کہ یہ چودہ سال جو غلبہ اسلام کی صدی سے قبل غلبہ اسلام کی تیاری کے ہیں یہ بڑے مشکل ہیں اور بڑے کٹھن ہیں بڑی ذمہ داریاں ہیں.ہمارے بچے خود کو سنبھالیں ہمارے نوجوان اس کی اہمیت کو سمجھیں اور ہمارے بڑے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور نیا ہنے کا عہد کریں.ان دنوں خدام الاحمدیہ کا اگر اجتماع ہوتا تو اس میں خدام نے اپنا عہد دہرانا تھا لیکن خاموشی کے ساتھ تم اس خطبہ کے دوران یہ عہد کرو اپنے رب کریم سے کہ اس کے نام کی بلندی اور اس کے عشق کو دلوں میں گاڑنے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو دنیا میں پھیلانے اور آپ کی محبت سے سینوں کو معمور کرنے کے لئے جس قربانی کی بھی اسے ضرورت ہوگی ہم اپنی طاقت کے اندر اس کے حضور پیش کر دیں گے.خدا تعالیٰ ہمیں یہ عہد کرنے اور اسے نباہنے کی توفیق عطا کرے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ششم ۵۷۹ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء تحریک جدید کے دفتر اول ، دوم اورسوم کے نئے سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۲۹ /اکتوبر ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مجھے یہ سن کر بہت دکھ ہوا کہ گذشتہ جمعہ کے موقع پر دوستوں کو خطبہ کی آواز ٹھیک نہیں آتی رہی.آج میں نے کچھ دیر پہلے تحقیق کی تھی اور مجھے بتایا گیا ہے کہ لاؤڈ سپیکر ٹھیک کام کر رہے ہیں.کیا آپ سب کو آواز ٹھیک آرہی ہے؟ ( دوستوں نے بتایا کہ آواز ٹھیک آرہی ہے ) اس کے بعد فرمایا:.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰى (الرعد: ١٩) کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کا کہا مانتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَحْمَةٌ لِلعلمين بن کر دنیا کی طرف آئے اور قرآن کریم کے مخاطب صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو آپ پر ایمان لائے بلکہ ہر انسان قرآن کریم کا مخاطب ہے.پس بنی نوع انسان کو بحیثیت مجموعی یہ کہا گیا ہے کہ خدا کا کہا مانو گے تو کامیاب ہو گے ورنہ نہیں ہو گے.گذشته قریباً چودہ سو سال سے ہی یہ نظر آتا ہے کہ کچھ لوگ خدا کا کہا مانتے اور شریعت اسلامیہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ لوگ کہا نہیں مانتے اور قرآن کریم پر عمل نہیں کرتے.ان
خطبات ناصر جلد ششم ۵۸۰ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء میں سے کچھ تو اس لئے عمل نہیں کرتے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان ہی نہیں لاتے اور کچھ اس وجہ سے عمل نہیں کرتے کہ ایمان لانے کے بعد بھی وہ اُن طاقتوں کی چنگل میں آجاتے ہیں جو کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی پر اُبھارتی ہیں اور وہ قرآن کریم کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سچی اور حقیقی کامیابی اسے ہی نصیب ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتا ہے.کچی اور حقیقی کامیابی کو پرکھنے کے لئے پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ انسانی زندگی کی مدت کیا ہے؟ بعض لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کے آرام اور عیش کے مل جانے کے نتیجہ میں حقیقی کامیابی حاصل ہوتی ہے قطع نظر اس کے کہ ان کو اس دنیا کا عیش و آرام ملتا بھی ہے یا نہیں.لیکن چونکہ یہ مفروضہ کہ اس زندگی کے ساتھ انسانی حیات ختم ہو جاتی ہے، غلط ہے.اس لئے اگر ابدی زندگی میں جو موت کے بعد انہیں حاصل ہوتی ہے وہ ناکام رہیں تو اس دنیا کی ان کے نزدیک ان کی کامیابی کامیابی تو نہیں کہلا سکتی لیکن سوچنے والی سمجھ اور فراست جانتی ہے کہ اس دنیا میں بھی حقیقی کامیابی ان کو نہیں ملتی جو خدا کی طرف پیٹھ پھیر کر اپنی زندگی گزارتے ہیں اور شیطانی اعمال کی طرف متوجہ رہتے اور اُن پر کار بند ہوتے ہیں.مثلاً اس دنیا میں جو ہماری آج کی دنیا ہے اس میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ قومیں جو کہ دنیوی ترقیات کی چوٹی پر پہنچی ہوئی ہیں امریکہ اور روس اور پھر چین اور یورپین ممالک ہیں یعنی انگلستان اور جرمنی اور فرانس وغیرہ وغیرہ لیکن بحیثیت قوم جب ان کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں (اور جب ان سے بات کی جائے تو جس نتیجہ پر ہم پہنچتے ہیں وہ بھی اس کا انکار نہیں کرتے ) کہ باوجود مادی ترقیات کے انہیں سکونِ قلب حاصل نہیں اور باوجود دنیوی لحاظ سے اس قدر آگے بڑھ جانے کے وہ اندھیرے میں اُس چیز کی تلاش میں پھرتے ہیں کہ جو ان کے دل کے اطمینان کا باعث بن سکے.اس دورہ میں بھی اس مضمون کے متعلق میں نے بیبیوں سے باتیں کیں اور سب نے یہی کہا کہ یہ آپ درست کہتے ہیں ہمیں اطمینان قلب حاصل نہیں ہے.جو لوگ صاحب اقتدار ہیں جن کے ہاتھوں میں اُن قوموں کی لگام ہے ان کی پریشانیاں
خطبات ناصر جلد ششم ۵۸۱ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء تو خدا کی پناہ، اللہ محفوظ رکھے اس قدر ہیں کہ آپ لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.آپس کی چپقلش ، بے اعتباری، بدظنی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں نے ان کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں.پھر حوادثات بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے.ابھی پچھلے مہینوں میں جبکہ میں دورے پر رہا ہوں پہلے وہاں پانی کی کمی ہوگئی اور انگلستان جیسے ملک میں جہاں یہ حال تھا کہ جب میں پڑھا کرتا تھا تو ان دنوں میں اگر کسی دن دو تین گھنٹہ کے لئے سورج نظر آتا تھا تو لوگ بڑے خوش ہوتے تھے کہ سورج کی شعاعوں نے ہمیں گرمی اور لذت پہنچائی وہاں اب یہ حال تھا کہ ہفتوں بلکہ مہینوں گزر گئے کہ بارش نہیں برسی بلکہ بہت سے علاقوں میں بادل دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا.یہاں تک کہ انگلستان کے بعض حصوں میں پانی کا راشن کر دیا گیا اور وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اگر مہینہ دو مہینے یہی حالت اور رہی تو ہم جہازوں کے ذریعہ، ٹینکرز کے ذریعہ ناروے سے پینے والا پانی اپنے ملک کے لئے لے کر آئیں گے.درخت جل رہے تھے، لوگوں نے گھروں میں جو پودے لگائے ہوئے تھے وہ سوکھ رہے تھے اور ہدایت یہ تھی کہ ان پودوں کو پانی نہیں دینا کیونکہ پانی کی کمی ہے اور پھر جب میں واپس آیا ہوں تو بارش ہوئی اور بارش وہ ہوئی کہ یہ خبر میں آنے لگیں کہ فلاں علاقے میں سیلاب آگیا ہزار ہا آدمی بے گھر ہو گئے ، مکان بہہ گئے ، پانی کا جو ریلہ آیا وہ پورا مکان کا مکان ہی بہا کر لے گیا کئی جانیں تلف ہوئیں اور نقصان ہو گیا.پس چونکہ وہ خدا تعالیٰ کا حکم ماننے کے لئے تیار نہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کی فلاح اور کامیابی اور خوشحال زندگی کے لئے لیم بھیجی ہے اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اس لئے اپنے ہاتھ سے بھی وہ اپنی ناکامیوں کے سامان پیدا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو بیدار کرنے کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کے منہ اور توجہ کو پھیرنے کے لئے انہیں گاہے گاہے جھنجھوڑتا بھی رہتا ہے جیسا کہ اس کی سنت ہے.یہ بات کرتے ہوئے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک واقعہ یاد آ گیا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے پیاروں کے ذریعے سے اور اب اس زمانہ میں بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے نہایت ہی پیارے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنی رحمت کے سامان پیدا کرتا ہے.ایک دفعہ قحط پڑا.مدینہ میں بعض صحابہ نے جمعہ کے وقت کہا کہ یا رسول اللہ !
خطبات ناصر جلد ششم ۵۸۲ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء قحط پڑا ہے، چارے بھی خشک ہو گئے ہیں، جانور بھی تکلیف میں ہیں اور انسان بھی تکلیف میں ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لئے بھلائی کے سامان پیدا کرے اور اپنی رحمت کی بارش نازل کرے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور ابھی جمعہ ختم نہیں ہوا تھا کہ بارش شروع ہو گئی.بارش ہوتی رہی اور سات دن زمین خوب سیراب ہوئی.اگلے جمعہ میں پھر کھڑے ہو گئے کہ یا رسول اللہ بارش تو زیادہ ہو گئی ہے اب ہمیں بارش کی زیادتی نقصان پہنچا رہی ہے.یا رسول اللہ ! دعا کریں کہ بارش تھم جائے.آپ نے دعا کی اور بارش تھم گئی.اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا سے اس علاقے میں آپ کی صداقت اور آپ سے اپنے پیار کا ایک نشان ظاہر کرنا تھا چنانچہ اس طرح لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ الْحُسْنٰی کے مطابق ان کی کامیابی اور فلاح کے اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دیئے اور اب مہینوں انگلستان پانی کے لئے تڑپتا رہا لیکن اسے پانی نہیں ملا اور جب پانی ملا اور اس کی زیادتی ہوگئی تو اس پانی کو بند کرنے کے لئے اور اس میں مناسب توازن قائم کرنے کے لئے ان کو کوئی سہارا نہیں ملتا تھا.وہ لوگ اسی چکر میں رہتے ہیں.میں نے تو ایک چھوٹی سی مثال دی ہے ورنہ ان کی ساری زندگیاں ہی اسی چکر میں ہیں.شراب کے نشے میں اپنے دکھوں کو بھولنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.وہ شراب جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطن (المائدة : ٩١) کہ یہ شیطانی عمل کی گندگی ہے اور وہ خدا کی طرف جھکنے کی بجائے ذکر اللہ کی بجائے شیطانی عمل کی طرف جھک کر اپنے لئے سکون قلب تلاش کرتے ہیں لیکن دکھ کا بھول جانا تو اطمینان قلب نہیں کہلا سکتا کہ جی ہمیں یاد نہیں رہا.جیسے کہ اگر کوئی آدمی بیمار ہو اور درد میں تڑپ رہا ہو اسے ڈاکٹر افیم کا مافیا کا ٹیکہ لگا دیتے ہیں اور بے حس کر دیتے ہیں لیکن بے حسی سکون قلب اور خوشحالی کی علامت نہیں.بے حسی خواہ کسی فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوٹیکہ لگانے کے نتیجہ میں یا شراب پینے کے نتیجہ میں وہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان تکلیف میں ہے لیکن اس کو کوئی مدا وہ نظر نہیں آتا ، اس کو کوئی چارہ نظر نہیں آتا.وہ خود کو بے حس اور بے ہوش کر کے یا نیم بے ہوشی اپنے اوپر طاری کر کے تکلیف کا احساس دور کرنا چاہتا ہے کیونکہ تکلیف کو دور کرنے کا کوئی سامان اس کے پاس نہیں ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۵۸۳ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء وہ حسین تعلیم جو قرآن عظیم کی شکل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نوع انسانی کو دی گئی تھی کچھ خوش بخت تھے جن کے لئے اس کے ذریعہ حسنی اور کامیابی اور خوشحال زندگی کے سامان پیدا ہوئے اور کچھ کے لئے نہ ہوئے.انسان کو دکھوں سے نجات دلانے کے لئے ایک جد و جہد ایک تگ و دو، ایک عظیم مجاہدہ چودہ سو سال سے شروع ہے.اسلام کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنا تا اسلام درد کو دور کر کے، پریشانیوں کو مٹا کر جسمانی اور روحانی سرور پیدا کر کے لوگوں کے دل جیتا اور انہیں اپنی طرف لے کر آتا ہے جیسا کہ بتایا گیا تھا کہ نوع انسانی چودہ سوسال تک رہنے کے بعد اور سرگرداں پھرنے کے بعد آخری زمانہ میں اسلامی تعلیم کی طرف آئے گی اور اس کے حسن کو پہچانے گی اور اس کے سرور سے سرور حاصل کرے گی اور اس کی لذتوں میں اپنی خوشیاں پائے گی جیسا کہ یہ پیشگوئی کی گئی تھی اس کے مطابق اب نوع انسانی کو اسلامی تعلیم کی طرف لانے کا زمانہ آ گیا ہے اور یہ ذمہ داری کہ اسلام کے حسن کا تعارف نوع انسانی سے کروایا جائے جماعت احمدیہ پر ڈالی گئی ہے جنہوں نے کہ مہدی علیہ السلام پر ایمان لانے کی توفیق پائی.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے علمی لحاظ سے ہمارے خزانوں کو بھر دیا ہے اور اعتقادی لحاظ سے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ مسئلہ تو ہے مگر اس کے سلجھانے کے لئے کوئی تعلیم ہمارے پاس نہیں ہے.حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی چھوٹی اور بڑی قریباً ۸۰ ۸۲ کتب میں قرآن کریم کی تفسیر اس رنگ میں کی ہے کہ یا تو بعض مسائل کو کھول کر حل کر دیا یا بعض مسائل کو حل کرنے کے سامان پیدا کر دیئے اور ایک بیج آپ کی اس تفسیر قرآنی کے اندر پایا جاتا ہے جس کو آنے والوں نے سمجھا اور بیان کیا اور آنے والے قیامت تک سمجھتے رہیں گے اور بیان کرتے رہیں گے لیکن اس تفسیر قرانی کو جس کی آج نوع انسان کو ضرورت ہے نوع انسان تک پہنچانا ہمارا کام ہے.یہ ہمارا کام ہے اور ہمارا کام رہے گا.اس وقت کام کی ایک ابتدا ہے.پھر ہر کام اپنی جوانی میں آتا اور پھر اپنے عروج کو پہنچتا ہے.جہاں تک علم کا سوال تھا جہاں تک ضرورت کے لحاظ سے تفسیر قرآنی کا سوال تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے خزانوں کو بھر دیا.اس کے بعد ان کو پھیلانے کا کام شروع ہوا.ذکر کے ماتحت -
خطبات ناصر جلد ششم ۵۸۴ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء اپنوں میں بھی پھیلانا ہے تا کہ احمدی بڑے اور چھوٹے ، مردوزن قرآن کریم کی تعلیم کو بھول نہ جائیں.چنانچہ ان میں درس کا سلسلہ شروع ہوا، نئے مسائل آئے اور خلفاء وقت اور علماء احمدیت کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بتائی ہوئی تفسیر اور شرح میں سے وہ علم حاصل کریں کہ جس کی ضرورت تھی اور انہوں نے علمی لحاظ سے ان مسائل کو حل کیا.دنیا کا اسلام کی طرف آنا اس معنی میں کہ اسلام کی تعلیم کے حسن اور اس کی خوبی کی معرفت حاصل کرنے کے بعد یہ یقین حاصل کر لینا کہ ہماری تمام برائیوں کو دور کرنے اور ہمارے تمام دکھوں کو دور کرنے کا علاج اور مداوا اسلامی تعلیم میں ہے اور ہماری حقیقی فلاح اور کامیابی اسلامی تعلیم کے اندر ہے.یہ بھی ممکن ہے اور تبھی دنیا کو پتہ لگے گا جب ہم اسلامی تعلیم ان کے سامنے پیش کریں گے.اس کے بعد یعنی دنیا کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد پھر عمل کرنے کا سوال ہے اس کے لئے جماعت کی ذمہ داری ہے وہ عملی نمونہ پیش کرے.آپ سوچا کریں اور کوشش کریں کہ دنیا کے سامنے اسلامی تعلیم کا صحیح عملی نمونہ پیش کر سکیں.پس غیر کا دل جیت کر (غیر سے مراد وہ ہے جسے اسلام کے دائرے کے اندر آ جانا چاہیے تھا لیکن ابھی تک وہ دور ہے) اسے.اسلام میں داخل کرنا اور عمل کرنے کے لئے اسے تیار کرنا جماعت کی دوسری ذمہ داری ہے.ایک وقت آیا ایک دور کے بعد دوسرا دور گزرا ( اس طرح کئی دور آتے رہتے ہیں ایک دور کے بعد دوسرا دور آتا ہے ) اُس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے.آپ نے بیرون پاکستان (اس وقت ابھی پاکستان نہیں بنا تھا بلکہ ہندوستان تھا ) دنیا کے مختلف ممالک میں اسلامی تعلیم کو پھیلانے کے لئے ایک الہی تحریک جاری کی ایک منصوبہ تیار کیا اور اس کا نام تحریک جدید رکھا.۱۹۳۴ ء میں تحریک جدید کی ابتدا ہوئی پھر اپنی ابتدا سے ترقی کرتے ہوئے اس نے بڑھنا شروع کیا اور پھیلنا شروع کیا.دنیا اس بات کو نہیں سمجھتی بلکہ اعتراض کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صرف اس منصوبہ کے نتیجہ میں ہی لاکھوں عیسائیوں اور مشرکین کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی توفیق دی.لاکھوں ! ایک یا دو نہیں، سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں بلکہ صرف افریقہ میں ہی لاکھوں عیسائی اور
خطبات ناصر جلد ششم ۵۸۵ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء مشرک مسلمان ہوئے اور اب بھی ڈاک میں خط آ جاتے ہیں کہ میں عیسائی تھا اور چند مہینے ہوئے میں مسلمان ہوا ہوں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اسلام پر قائم رکھے اور اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.لیکن دنی لاکھوں افراد پر تومشتمل نہیں وہ تو کروڑ ہا افراد پر کئی ارب افراد پر مشتمل ہے اور ان سب کو اسلام کی طرف لانا اور پیشگوئیوں کے مطابق بڑے تھوڑے سے وقت میں لانا بنی نوع انسان کو جن کی اتنی بڑی تعداد ہے اور ان کے پھیلاؤ میں اتنی وسعت ہے کہ وہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن یہ ہو گا ضرور اور ہو گا اس تھوڑے سے وقت میں.انسانی زندگی میں صدی،سوا صدی کا زمانہ لمبا عرصہ نہیں ہے جیسا کہ قرائن ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری زندگی کی پہلی صدی جس کے ختم ہونے میں قریباً چودہ سال رہ گئے ہیں اس کے بعد وہ صدی ہمارے سامنے آئے گی جس کے استقبال کی ہم تیاری کر رہے ہیں اور میں اپنی سمجھ کے مطابق یقین رکھتا ہوں کہ وہ غلبہ اسلام کی صدی ہے اور پھر ہماری زندگی کی تیسری صدی وہ ہوگی جس میں ہمیں ان انسانوں کی طرف توجہ کرنی پڑے گی کہ جو بچے کھچے کونوں کھدروں میں پڑے ہوں گے اور ابھی تک اسلام نہیں لائے ہوں گے لیکن انسانوں کی اکثریت اسلام لے آئے گی اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے اور اس کی بشارتوں کے مطابق لیکن اس سلسلہ میں ہم نے بھی کچھ کرنا ہے کیونکہ یہ ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے اور خدا کا فضل ہے کہ جماعت اپنی قربانیوں میں دن بدن ترقی کر رہی ہے.ہمارے پاس صرف وہ مبلغ اور مبشر نہیں ہیں جو جامعہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں.ان میں سے کچھ ٹوٹ جاتے ہیں اور کچھ کو اللہ تعالیٰ استقامت کی توفیق عطا کرتا ہے اور وہ باہر نکل کر بڑی قربانی دے کر خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں.صرف وہی نہیں بلکہ بہت سی جگہوں پر ہمارے بعض ادارے کھل گئے ہیں مثلاً مغربی افریقہ میں سالٹ پانڈا ایک جگہ ہے وہاں پر ان ممالک کے رہنے والے بچوں کو لمبا عرصہ پڑھا کر بطور مبلغ اور مبشر کے تیار کیا جاتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یورپ میں ایک سامان کیا
خطبات ناصر جلد ششم ۵۸۶ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء ہے.اس وقت میں صرف مثالیں ہی دے رہا ہوں سارے واقعات اور تعدا د نہیں بتا رہا.یورپ میں ہمیں بڑی دقت تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ سامان کیا کہ جرمنی میں بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیے کہ سارے ملکوں میں ہی جہاں ہمارے مشن ہیں ہالینڈ میں بھی ، سوئٹزر لینڈ میں بھی ، جرمنی میں بھی ، ڈنمارک میں بھی ، سویڈن میں بھی ، ناروے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے مخلص انسان اسلام کو دیئے کہ جو احمدیت کے ذریعے اسلام قبول کرنے کے بعد ہمارے آنریری مبلغ بن گئے.رضا کار مبلغ ، وہ تنخواہ نہیں لیتے تھے لیکن مبلغوں کی طرح دن رات کام کرتے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں وہ انتہائی مخلص ہیں.انسان حیران ہو جاتا ہے ان کو اور ان کے عمل کو دیکھ کر کہ اتنی دور رہنے والے ہیں سوائے اس کے کہ فرشتوں نے ان کے اندر ایک انقلاب پیدا کیا ہو یہ تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی.اُس گند میں سے وہ نکلے اور اس گند سے متاثر ہوئے بغیر بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اس گند کو اپنے لئے کھاد بنا کر ایک نہایت حسین روحانی زندگی انہوں نے اپنے اندر پیدا کی اور بہت کام کیا.لیکن یہ تعداد بھی کم ہے ہمارے پاس پیسہ بھی کم ہے اور آدمی بھی کم لیکن جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بھی متعدد بار کہا ہے ہماری ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ دنیا کی ساری غیر مسلم آبادیوں کو مسلمان بنانے کے لئے جتنی رقم کی ضرورت ہے وہ ہم دیں یا جتنے مبلغین کی ضرورت ہے وہ ہم پیدا کریں کیونکہ ہمارے پاس نہ اتنا مال ہے اور نہ اس تعداد میں ہم آدمی دے سکتے ہیں لیکن ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ جتنی تمہاری استعداد ہے اس کے مطابق تم زیادہ سے زیادہ پیش کرو اور جو کمی رہ جائے گی (اور کمی بہت بڑی ہے ) اس قربانی اور کامیابی کے درمیان جو گیپ (Gap) ہے وہ بہت وسیع ہے لیکن خدا کہتا ہے کہ وہ کمی میں پوری کردوں گا لیکن کروں گا اس وقت جب تم اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا دو گے.اس پس منظر میں آج میں تحریک جدید کے تینتالیسویں اور تینتیسویں اور بارھویں دفتر کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں.یکم نبوت یعنی نومبر سے یہ نیا سال شروع ہوگا.اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا کچھ سالوں کا گراف دفتر نے مجھے بھجوایا ہے یہ ۶۸.۱۹۶۷ء سے شروع ہوتا ہے گویا پچھلے آٹھ سال کا ہے اور یہ آٹھ سال کا گراف تیزی سے اوپر چڑھتا ہے
خطبات ناصر جلد ششم انہوں نے اس پر صحیح لکھا ہوا ہے کہ ۵۸۷ ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف وہ بلاتے ہیں کہ ہو جا ئیں نہاں ہم زیر غار خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء ایک بلندی کی طرف اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے صرف اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے جماعت بڑھ رہی ہے اور اپنی ہر قسم کی قربانیوں میں ترقی کر رہی ہے.ان میں سے ایک حصہ مالی قربانی کا بھی ہے.تحریک جدید کے ماتحت ان قربانیوں کا جو منصو بہ بنایا گیا تھا اس کے متعلق بھی میں سمجھتا ہوں کہ اب بہت کچھ کہنے کی ضرورت ہے انشاء اللہ.اللہ نے توفیق دی تو میں کسی خطبے میں اس کے متعلق بیان کروں گا.اس وقت میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ چند سال پہلے جو ٹارگٹ میں نے جماعت کو دیا تھا اس تک پہنچنے میں کافی دیر لگ گئی.وہ ٹارگٹ غالباً آٹھ لاکھ اور کچھ ہزار کا تھا لیکن پھر جو بیر بیئر (Barrier ) اور جو روک تھی.پتہ نہیں کیا تھی خدا ہی جانتا ہے.جماعت نے اس کو پھلانگا اور سال رواں کے یعنی جو سال گزر رہا ہے اس کے وعدے بارہ لاکھ ستر ہزار کے ہو گئے اور نئے سال کا ٹارگٹ اللہ پر توکل کرتے ہوئے اور اسی پر بھروسہ رکھتے ہوئے میں پندرہ لاکھ کا مقرر کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت اسے پورا کرے گی.ہمارے دل خدا کی حمد سے ہمیشہ ہی معمور رہتے ہیں.ہماری دعا ہے کہ ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ مزید حمد ، بے شمار حمد کرنے کی وسعت پیدا کر دے تا کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں.اس گراف میں ایک اور چیز نظر آتی ہے وہ یہ کہ گذشتہ تین سال حوادثات کے سال تھے ۱۹۷۳ ء میں بڑا سخت سیلاب آیا تھا اس نے نقصان کیا پھر ۱۹۷۴ء میں حالات خراب ہوئے اور ابھی تک اس کی بازگشت کسی طرح ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی.اللہ تعالیٰ رحم کرے لیکن ان سالوں میں تو مالی قربانیوں کا گراف بڑی تیزی کے ساتھ اوپر اٹھا ہے ہم یقین رکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے ہم یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام یقیناً مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ مہدی کی بعثت اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد ششم ۵۸۸ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء کے ایک خاص منصوبہ کے ماتحت ہوئی اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جیسا کہ پہلی بشارتوں میں یہ کھل کر آیا ہے اور ہمارے بزرگوں نے قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اسلام کا ساری دنیا پر غلبہ تمام ادیان باطلہ کے عقائد کا مٹ جانا اور اسلامی تعلیم کا دنیا میں قائم ہو جانا مہدی اور مسیح کے زمانہ میں ہوگا.یہی وہ زمانہ ہے یہ ہمارا یقین ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے، یہ ہمارا اعتقاد ہے.یہ وہ چیز ہے جس کو ہم اسی طرح مانتے ہیں جس طرح ہم یہ مانتے ہیں کہ اس وقت سورج نکلا ہوا ہے.آپ کی تو اس طرف پیٹھ ہے میرے سامنے دھوپ ہے.جس طرح اس دھوپ پر ہمیں یقین ہے اسی طرح اس بات پر ہمیں یقین ہے اور ہمیں یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منصوبوں کو انسان نا کام نہیں بنایا کرتے اور ہمیں یہ یقین ہے کہ ہماری کسی کوشش کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اس وقت تک کہ ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے پیار سے معمور رہیں اور ہمارے سینے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے بھرے رہیں اور ہمارا احساس یہ رہے کہ ہم ادنی چاکر کی حیثیت میں اسلام کو ساری دنیا میں قائم کرنے کے لئے پیدا ہوئے اور قائم کئے گئے ہیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہمارے شامل حال رہیں گی اور ہمارا قدم شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا.پس راستہ بڑا کھلا ہے سختیاں بھی اٹھانی پڑیں گی ، تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں گی لیکن ہم کیا جانیں ان تکلیفوں کو خدا کی راہ میں.دنیا اپنا زور لگائے گی کہ ہمیں نا کام کیا جائے جیسا کہ پہلے لگاتی رہی ہے لیکن ہمیں نا کام نہیں کر سکتی.میں دنیا کے ہر مینار سے یہ آواز بلند کرنے کے لئے تیار ہوں کہ دنیا خدا تعالیٰ کے اس منصوبہ کو نا کام نہیں کر سکتی.دنیا کے سارے ایٹم بم اکٹھے ہو جائیں پھر بھی جو طاقتیں اس وقت گھمنڈ سے اپنی گردنیں اٹھائے ہوئے ہیں، ہم ان کی خیر خواہی کے لئے ان کے دل جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ان کو جمع کر دیں گے.یہ ہے منصوبہ، مارنے کا نہیں زندہ کرنے کا.قرآن کریم نے بڑا پیارا اعلان کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کی طرف آؤ اس پر لبیک کہو کہ وہ تمہیں اس لئے بلاتا ہے لِمَا يُحِيكُمُ (الانفال:۲۵) کہ وہ تمہیں زندہ کرے.اس وقت مردوں جیسی حالت ہے.یہ کام تو ہو کر رہے گا لیکن احمدیت کی ہر اس نسل کی زندگی میں کامیابی کا حصہ ہوگا جو نسل اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے خدا کی راہ میں قربانی دیتی چلی جائے گی.
خطبات ناصر جلد ششم ۵۸۹ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ اپنی رحمتوں سے ہمیں نوازے اور ہمیں ان اعمال کی توفیق عطا کرے جن سے ہم اس کی محبت کو ہمیشہ پہلے سے زیادہ پانے والے اور اس سے لذت اور سرور حاصل کرنے والے ہوں.روزنامه الفضل ربوہ ۱۷ / جون ۷ ۱۹۷ ، صفحہ ۲ تا ۵ )
خطبات ناصر جلد ششم ۵۹۱ خطبہ جمعہ ۵ /نومبر ۱۹۷۶ء جلسہ کے انتظامات بڑی وسعت رکھتے ہیں ان کے لئے بڑی تیاری کرنی پڑتی ہے خطبه جمعه فرموده ۵ نومبر ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.الفضل میں یہ اعلان کیا جاچکا ہے کہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے جلسہ سالانہ کی تاریخوں کو بدلنا پڑا ہے اور اس سال کا جلسہ سالانہ جس کی تقریروں کے دن ۲۶.۲۷.۲۸ دسمبر تھے ان کی بجائے ۱۰.۱۱.۱۲ دسمبر مقرر ہوئے ہیں.جلسہ کے جو انتظامات ہیں وہ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتے ہیں اور ان کے لئے بڑی تیاری کرنی پڑتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے جلسہ پر آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے.الحمد للہ.جہاں تک تیاری کا سوال ہے جن دوستوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے میں دعا کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو اپنے وقت پر نباہنے کی کوشش کریں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں اس میں کامیابی عطا فرمائے گا.جہاں تک اس محدود حلقہ منتظمین کے علاوہ جماعت کا تعلق ہے اور جماعت کے تعاون کا تعلق ہے ان منتظمین.اس کے متعلق میں بعض باتیں اس وقت دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ جن حالات میں سے ہم چند سال سے گذر رہے ہیں ان کے نتیجہ میں
خطبات ناصر جلد ششم ۵۹۲ خطبه جمعه ۵ /نومبر ۱۹۷۶ء ربوہ کے مکانوں کی تعداد اس نسبت سے نہیں بڑھی جس نسبت سے کہ اگر یہ حالات پیدا نہ ہوتے تو بڑھ جاتی لیکن مہمان پہلے کی نسبت زیادہ آنے لگے ہیں اور جو دوست پاکستان میں ربوہ سے باہر بسنے والے ہیں اور یہاں جلسہ پر آتے ہیں مہدی علیہ السلام کے مہمان کی حیثیت سے اور وہ دوست جو بیرونی ممالک سے یہاں تشریف لاتے ہیں مہدی علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کے لئے رہائش کا انتظام کرنا اہل ربوہ کا کام ہے صرف منتظمین جلسہ کا کام نہیں ہے کیونکہ منتظمین کو مکانیت کے کچھ حصے تو ایسے ملتے ہیں جو جماعت کے قبضے میں ہیں اور جلسہ کے ایام میں جماعت ان مکانوں کو خالی کر دیتی ہے اور وہ جلسہ کے مہمانوں کے کام آتے ہیں.جماعت کی جو عمارتیں تھیں اور جلسہ پر خالی کی جایا کرتی تھیں ان میں سے ایک بہت بڑا حصہ سکولوں اور کالجوں سے تعلق رکھنے والا تھا جو قومیا لئے گئے اور اب وہ جماعت کی ملکیت نہیں رہے اور نہ جماعت کے انتظام میں رہے بلکہ انتظام جماعت سے بھی نکل گئے اور ان کی ملکیت بھی جماعت کی بجائے حکومت کی ہو گئی.جس طرح ہمارے دوسرے شہری بھائیوں نے حکومت کے اس منصو بہ کو کامیاب کرنے کے لئے اپنے پرائیویٹ ادارے یعنی نجی تعلیمی ادارے قومیائے جانے کے فیصلہ کے بعد حکومت کے سپرد کئے اسی طرح ہم نے بھی اپنے تعلیمی ادارے حکومت کو دے دیئے اس وقت کچھ لوگوں نے برابھی منا یا کچھ لوگوں کی طبیعت میں انقباض بھی پیدا ہوالیکن انہوں نے اپنے تعلیمی ادارے حکومت کے سپرد کئے جب کہ جماعت احمدیہ نے خوشی اور بشاشت سے تعلیمی ادارے اور ان کی عمارتیں جن کی مالیت ( میں صرف ربوہ کے تعلیمی اداروں کی بات کر رہا ہوں ) کروڑوں روپے کی ہے وہ حکومت کے سپر د کر دیئے کیونکہ جماعت احمدیہ کی تعلیمی میدان میں ہمیشہ ہی یہ پالیسی رہی ہے کہ جماعت نے جو سکول اور کالجز کھولے وہ قوم کی خدمت کے لئے تھے اور ایسے بھائیوں کی تعلیمی خدمت کے لئے تھے جو تعلیم میں پیچھے تھے.غرض تعلیمی ادارے قومی خدمت کے لئے کھولے گئے تھے اس کے علاوہ ان کی اور کوئی غرض نہیں تھی.میں ایک لمبا عرصہ تعلیم الاسلام کالج کا پرنسپل رہا ہوں.مجھے حضرت امصلح الموعودرضی اللہ عنہ کی یہ تاکیدی نصیحت تھی کہ ہم نے کالج تبلیغی اغراض کے لئے جاری نہیں کیا بلکہ قوم کی خدمت
خطبات ناصر جلد ششم ۵۹۳ خطبه جمعه ۵ /نومبر ۱۹۷۶ء کے لئے جاری کیا ہے اس لئے اس کی اصل غرض کو مد نظر رکھ کر جس حد تک ممکن ہو ان لوگوں کی بھی خدمت کرو جن کا تعلق عقیدہ کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کے ساتھ نہیں.چنانچہ ہر عقیدہ اور ہر خیال کے نو جوان بچے ہمارے کالج میں پڑھتے رہے ہیں کالج سے وظیفہ لے کر.اور کبھی اُن پر کسی قسم کا ہلکا سا بھی مذہبی لحاظ سے دباؤ نہیں ڈالا گیا بلکہ ۱۹۵۳ء میں کچھ نوجوان ایسے تھے جن کو کالج ہر قسم کی سہولتیں دے رہا تھا لیکن جو آگ اُس وقت لاہور میں لگی ہوئی تھی ( تعلیم الاسلام کالج اس وقت لاہور میں تھا ) اس میں بھی وہ شامل ہو جاتے تھے.جب میرے پاس ان کی شکایت پہنچی تو شکایت کرنے والے کو بڑا غصہ تھا میں نے اسے کہا دیکھو! یہ کالج اس لئے تو نہیں کھولا گیا کہ جماعت کی اس سے تبلیغ کی جائے گی یہ کالج قوم کی تعلیمی اغراض کے لئے کھولا گیا ہے.جن لڑکوں کی تم شکایت کر رہے ہو ان کو ہم مالی سہولتیں اس لئے دے رہے ہیں ایک یہ کہ وہ تعلیم میں اچھے ہیں اور دوسرے یہ کہ مالی لحاظ سے وہ غریب ہیں اور اپنے وسائل سے اور اپنے پیسے سے وہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے اس لئے ہم ان کو وظیفہ دیتے ہیں.دراصل شکایت کرنے والے کا مطالبہ یہ تھا کہ ان کا وظیفہ اور دیگر سہولتیں بند کر دی جائیں.میں نے کہا نہیں ایسا نہیں ہوسکتا.اگر تم یہ کہو کہ یہ تعلیم میں کمزور ہو گئے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ وہ کمز ور نہیں تو پھر تو کوئی بات ہے.ہاں اگر تم یہ کہو کہ یہ بڑے امیر ہو گئے ہیں اور اب ان کو پیسے کی ضرورت نہیں تو پھر تو سوچنے کی بات ہے لیکن جن وجوہات پر ان کو سہولتیں دی گئی تھی اگر وہ وجوہ اسی طرح قائم ہیں تو آج ان کو دی گئی سہولتیں چھینی نہیں جاسکتیں.پھر میں نے ان لڑکوں کو بلایا اور کہا دیکھو! جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تم میرے سامنے جواب دہ نہیں ہو اس لئے جو بھی تمہارا عقیدہ ہے اور تمہارے نزدیک جو بھی اس کا تقاضا ہے اگر تم اس کو پورا کرتے ہو تو میں اس میں حائل نہیں ہوں گا کیونکہ تم میرے سامنے جواب دہ نہیں ہو.صرف اتنی نصیحت ضرور کروں گا کہ جس اللہ کے سامنے تم جواب دہ ہو اس کے سامنے جواب دہی کے لئے تیار ہو کر کام کیا کرو اور خدا تعالیٰ کو بھولا نہ کر ولیکن چونکہ تم ہوسٹل میں رہتے ہو اس لئے جہاں تک کالج کے قوانین کا سوال ہے تم میرے سامنے جوابدہ ہو.کالج کا قانون کہتا ہے کہ فلاں وقت کے بعد ہوٹل سے غیر حاضر نہ رہو اس لئے تم غیر حاضر نہ رہا کرو.
خطبات ناصر جلد ششم ۵۹۴ خطبہ جمعہ ۵ رنومبر ۱۹۷۶ء تاہم اس سے پہلے تم جو کچھ کر چکے ہو میں اس کی باز پرس نہیں کرتا لیکن آج کے بعد تم ہوٹل کے قوانین کی پابندی کرو گے لیکن جہاں تک تمہارے عقائد یا تمہارے نزدیک ان کے تقاضوں کا تعلق ہے جو کام تم صحیح سمجھتے ہو وہ کرو.کالج تمہارے اوپر کوئی پابندی نہیں لگائے گا.انسان فطرتاً شریف ہے اسی لئے اسے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے.خیر وہ تو ایک ہنگامہ تھا اور گزرگیا.بعد میں مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی تھی یہ دیکھ کر کہ پچاس سو گز سے بھی ان کی نظر مجھ پر پڑ جاتی تھی تو ان کی گردنیں جھک جاتی تھیں کیونکہ ان کی فطری شرافت جو عارضی طور پر دبی ہوئی تھی اُبھر آئی تھی.پس چونکہ ہمارے تعلیمی ادارے قوم کی خدمت کے لئے تھے اگر قوم نے یہ منصوبہ بنایا ہے اور حکومت یہ بجھتی ہے ان کو قومیا لیا جائے تو قوم کی زیادہ خدمت ہوسکتی ہے یہ ان کا منصو بہ اور ان کا خیال تھا میں کسی سیاسی بحث میں نہیں پڑوں گا کیونکہ میں سیاست دان نہیں ہر آدمی سمجھتا ہے.چنانچہ جب تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے کا فیصلہ ہوا تو ہم نے کہا ٹھیک ہے ہم نے قوم کی خدمت کرنی تھی تم سمجھتے ہو اس طرح بہتر خدمت کر سکتے ہو تو لے لولیکن کروڑوں کی جو جائیداد حکومت کو مسکراتے چہروں اور بشاش دل کے ساتھ ہم نے پیش کر دی قوم کی خدمت کے لئے اگر اس کے چند دنوں کے استعمال کی اُسی جماعت کو ضرورت پڑ جائے جنہوں نے ان پر پیسے خرچ کئے تو ایسی صورت میں اگر بعض مقامی افسروں کے دلوں میں یہ انقباض پیدا ہو کہ تعلیمی ادارے جماعت کے استعمال میں نہیں آنے چاہئیں تو ان افسروں کو میں یہ کہوں گا کہ گردنیں جھکاؤ اور اپنے دل میں جھانکو اور غور کرو کہ تمہارا یہ انقباض کس حد تک درست ہے.جلسہ سالانہ پر تعلیمی اداروں کی عمارتیں ہمیں اگر مل بھی جائیں تب بھی میں سمجھتا ہوں کہ اس دفعہ خدا کے فضل سے اتنے مہمان آئیں گے کہ پچھلے سال کی نسبت گنجائش کم ہوگی اور مہمان رہائش کے لحاظ سے تنگی محسوس کریں گے.باہر سے آنے والے دوست تکلیف تو پہلے سے زیادہ برداشت کر لیں گے خوشی سے اور ہنستے ہوئے اور بشاشت کے ساتھ اور الحمدللہ پڑھتے ہوئے پہلے سے تنگ جگہ میں گزارہ کر لیں گے لیکن جہاں تک ہمارا سوال ہے جہاں تک اہل ربوہ کا سوال ہے وہ یہ نہیں کہ باہر سے آنے والوں نے خدا کی راہ میں قربانی دی اور خدا کی توحید کی باتیں سننے کے لئے
خطبات ناصر جلد ششم ۵۹۵ خطبہ جمعہ ۵ رنومبر ۱۹۷۶ء اور قرآن کریم کی تعلیم جو اُن کے سامنے جلسہ سالانہ پر پیش کی جاتی ہے اس کی خاطر انہوں نے تنگ جگہوں پر گزارہ کر لیا.اہل ربوہ کے لئے یہ بات سوچنے کی نہیں ، اہل ربوہ کے لئے جو بات سوچنے والی ہے وہ یہ ہے کہ اہل ربوہ نے ان کے آرام اور سہولت کے لئے کیا قربانیاں دینی ہیں.اس لئے میں اپنے بھائیوں سے جور بوہ میں بسنے والے ہیں یہ کہوں گا کہ شوق اور بشاشت کے ساتھ پہلے سے زیادہ تعداد میں اپنے گھروں کے حصے جلسہ سالانہ کے انتظام کو دیں.میں نے پہلے جب بھی تحریک کی ہے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ میرے علم میں بہر حال ایسا کوئی گھرانہ نہیں جو اپنے ہاں مہمان ٹھہرانے سے انکار کرتا ہو.لیکن چونکہ الہی سلسلہ میں منافق بھی ہوتے ہیں ہو سکتا ہے یہاں بھی ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں منافق کے ایمان کا گو ایک حصہ مفلوج ہے لیکن کچھ حصہ ایمان والا بھی ہے.چاہے وہ بعض دفعہ دکھاوے کے لئے ، ریا کے لئے ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ تو کرتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ شاید ایک گھرانہ بھی ایسا نہیں ہوگا کہ جس نے اپنے ہاں مہمان ٹھہرانے سے انکار کر دیا ہو.ان کے اپنے عزیز آتے ہیں رشتے دار آتے ہیں دوست آتے ہیں دوستوں کے دوست آتے ہیں.بعض دفعہ ایسے لوگ آجاتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں کچھ فائدہ پہنچ جائے گا اُن کو وہ اپنے ہاں ٹھہراتے ہیں لیکن اس کے باوجود جن لوگوں کی واقفیت یہاں نہیں ہے ویسے تو ہم سب بھائی بھائی ہیں لیکن وہ لوگ جو اپنے بھائیوں سے ذاتی تعارف نہیں رکھتے اور یہاں اپنا انتظام نہیں کر سکتے اور نظام جلسہ ان کا انتظام کرتا ہے ان کے لئے اگر آپ اپنے مکانوں کا کوئی حصہ خواہ ایک کوٹھڑی ہی کیوں نہ ہوضرور دے دیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا ایک دفعہ جب میں افسر جلسہ سالا نہ تھا ایک لکھ پتی دوست جو ذرا دیر سے جلسہ پر پہنچے تھے اور اچانک میری نظر ان پر پڑ گئی تھی ، اُن کو میں نے ایک چھوٹے سے غسل خانے میں ٹھہرایا تو وہ اتنے خوش ہوئے اس غسل خانہ نما کوٹھڑی کو لے کر کہ گویا ان کو دنیا و جہان کے خزانے ملے گئے ہیں.جلسہ سالانہ پر ان کو دنیا و جہان کے خزانے ہی ملنے تھے جو ظاہری اور مادی دولت ہے یہ لینے کے لئے تو وہ یہاں نہیں آئے تھے.یہ تو ربوہ سے باہر بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے فراوانی پیدا کی تھی.اللہ تعالیٰ نے ان کو دولت دے رکھی تھی لیکن وہ دراصل
خطبات ناصر جلد ششم ۵۹۶ خطبہ جمعہ ۵ /نومبر ۱۹۷۶ء روحانی خزائن لینے کے لئے یہاں آئے تھے اور وہ ان کو ملے.غرض انہوں نے ایک تھوڑی جگہ میں زمین پر کسیر بچھا کر رہنا گوارا کر لیا اور بڑے خوش ہوئے.ایسا تو اب بھی کریں گے لیکن اہل ربوہ سے میں یہ کہوں گا کہ اگر ان کے پاس اور کچھ نہیں تو ایک کوٹھڑی ہی دے دو لیکن دوضرور.میں امریکہ کا دورہ کر کے آیا ہوں وہاں سے جلسہ سالانہ پر جو وفود آتے ہیں اس سلسلہ میں بعض باتیں مجھے بتائی گئیں.بعض کی اصلاح کی ضرورت تھی ان کے متعلق میں نے بات کی.میں نے ان سے کہا کہ تم اگر ہزاروں کی تعداد میں آؤ تب بھی تم ہمارے سینوں کو وسیع پاؤ گے.ہم تمہاری میز بانی کریں گے ہم تمہارا خیال رکھیں گے.جن چیزوں کی تمہیں عادت ہے ہم اس میں تمہیں سہولت پہنچانے کی کوشش کریں گے لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں کہ وہ ہم نہیں کر سکیں گے اور تم بھی خوش ہو گے مثلاً اب ہم تمہیں چار پائی دیتے ہیں لیکن جب تم کثرت سے آؤ گے تو ہم تمہیں کہیں گے کہ دوسرے احمدیوں کی طرح زمین پر کسیر بچھا کر تم بھی لیٹو تو تم بھی لیٹو گے اور خوشی سے لیٹو گے اور شکر کرو گے واپس جا کر کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی باتیں سننے کی خاطر خدا نے ہمیں یہ چھوٹی سی تکلیف برداشت کرنے کی توفیق دے دی لیکن بعض اور چیزیں بڑی ضروری ہیں ان کی طرف توجہ کرو.آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں وہ ان کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.ان کی اصلاح کے لئے بعض چیزیں ان کے سامنے رکھنی ضروری تھیں.وہ میں نے ان کو بتا ئیں میں نے ان کو یہ بتایا کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم کم تعداد میں آؤ.میں تو یہ کہتا ہوں کہ تم جتنے زیادہ سے زیادہ آسکتے ہو آؤ لیکن جلسہ سالانہ پر حاضری دینے کی نسبت بعض ذمہ داریاں زیادہ اہم ہیں ان کو نظر انداز کر کے جلسہ سالانہ پر نہ آؤ پہلے ان ذمہ داریوں کو پورا کرو اور پھر جلسہ سالانہ پر آؤ.بڑی خوشی سے آؤ اور جتنی زیادہ تعداد میں آنا چاہو آؤ.بہر حال میں اہل ربوہ سے یہ امید رکھتا ہوں اور میں اس کا آج اعلان کر رہا ہوں کہ ربوہ کے مکین مہدی علیہ السلام کے مہمانوں کے لئے اپنے مکانوں کا کوئی نہ کوئی حصہ چھوٹا ہو یا بڑا جو بھی خالی کر سکیں وہ جلسہ سالانہ کے نظام کو دیں.دوسری بات میں ربوہ سے باہر رہنے والے احمدی دوستوں اور جماعتوں سے کہنا چاہتا
خطبات ناصر جلد ششم ۵۹۷ خطبه جمعه ۵ /نومبر ۱۹۷۶ء ہوں اور وہ یہ ہے کہ مہمانوں کی تعداد جن میں بیرون ملک کے دوست بھی شامل ہیں ہر سال بڑھ رہی ہے اور جو رضا کارجلسہ سالانہ پر کام کرتے ہیں وہ اس نسبت سے نہیں بڑھ رہے جس نسبت سے مہمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے.مثلاً ابھی پچھلے چند سالوں میں ۶۰.۷۰ ہزار سے سوالاکھ تک تعداد پہنچ گئی ہے.اس طرح تعداد کے بڑھنے سے بعض چیزیں میرے مشاہدہ میں آتی ہیں.اکثر لوگوں کی نظر میں نہیں آتی ہوں گی.اُن کے متعلق میں پھر کسی وقت بات کروں گا لیکن جس تیزی کے ساتھ جلسہ کے مہمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اس تیزی کے ساتھ ہمارے رضا کاروں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ افسر صاحب جلسہ سالانہ نے مجھ سے یہ بات کی ہے کہ ربوہ کے رضا کا راب پورے نظام جلسہ کو سنبھال نہیں سکتے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ احمدی جور بوہ سے باہر رہتے ہیں ٹوکن کے طور پر بحیثیت جماعت اس انتظام میں شامل ہوں.اور وہ احمدی بھی جو پاکستان سے باہر رہتے ہیں اور یہاں وفود کی شکل میں آتے ہیں وہ رضا کارانہ طور پر کام کریں لیکن تنظیم کے ماتحت یعنی ان کا اپنے آپ کو پیش کرنا رضا کارانہ ہوگا اور جب ان کی فہرست یہاں پہنچے گی تو وہ ایک نظام کے ماتحت ہوگی مثلاً کراچی کے نوجوان رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات جلسہ کے کام کے لئے پیش کریں لیکن کراچی کی جماعت احمدیہ میں انصار کو نہیں کہہ رہا اور نہ خدام سے کہہ رہا ہوں) ان رضا کاروں کی فہرست مرکز میں بھجوائے گی.وہاں کے رضا کار جماعت احمد یہ کراچی کو اپنے نام لکھوائیں گے اور جماعت احمد یہ کراچی ہمارے پاس ان کے نام بھیجے گی.ہمیں زیادہ رضا کاروں کی ضرورت نہیں.تھوڑے سے رضا کار چاہئیں.کوئی چار پانچ سو کے درمیان رضا کاروں کی ضرورت ہے جو باہر سے آئیں گے اور ان کے حالات کے مطابق یہاں کے منتظمین اُن کی ڈیوٹیاں لگائیں گے.ایک ہدایت میں نے کی ہے ضرور اور وہ یہ کہ اگر کھانا کھلانے کی ڈیوٹی ان کو دینی ہو تو سیالکوٹ کے جو رضا کار ہوں گے ان کی ڈیوٹی سیالکوٹ کی جماعتوں پر نہ لگائی جائے بلکہ سرگودھا کی جماعت پر لگائی جائے یا جھنگ کی جماعت پر لگائی جائے یا لائل پور کی جماعتوں کو کھانا کھلانے پر لگائی جائے.اس طرح ان کی واقفیت اور تعارف اور تعلقات بڑھیں گے.میل ملاقات زیادہ ہوگی اور یہ بھی
خطبات ناصر جلد ششم ۵۹۸ خطبہ جمعہ ۵ رنومبر ۱۹۷۶ء ہم ان سے ایک فائدہ اٹھا ئیں گے.یہ تو تفصیل ہے اور اس میں جانے کی اس وقت ضرورت نہیں ہے.میں نے اہل ربوہ سے ایک اپیل کی ہے یا یوں کہو کہ ان کی طرف سے اعلان بھی کر دیا ہے کہ اہل ربوہ پچھلے سال کی نسبت زیادہ مکانیت مہیا کریں.چھوٹے کمرے ہوں یا بڑے کمرے جس طرح بھی ہوں وہ جلسہ سالانہ کے نظام کو پیش کریں اور پاکستان کی جماعتوں سے بھی اور بیرون پاکستان کی جماعتوں سے بھی نمائندگی کے طور پر رضا کار چاہئیں تا کہ وہ بھی اس کوشش میں شامل ہو جائیں.تھوڑی سی تعداد ہے.پانچ سو سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں ساڑھے چارسو کے لگ بھگ مل جائیں تو گزارہ ہو جائے گا لیکن اس کی اطلاع افسر صاحب جلسہ سالانہ کو ۲۵ نومبر سے پہلے مل جانی چاہیے تا کہ انہوں نے رضا کاروں کی ڈیوٹیوں کا جو نقشہ بنانا ہے اس میں دیر نہ ہو.تیسری بات کا تعلق ساری دنیا کے احمدیوں سے ہے اور وہ یہ کہ کہنے والوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سہولت کے پیش نظر جلسہ سالانہ کی تاریخیں بدل دیں.ہم آنکھیں بند کر کے نہیں بلکہ تعاون کی نیت سے اور اس لئے کہ ہماری وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہو ہم نے آرام کے ساتھ اپنے جلسہ سالانہ کی تاریخیں بدل دیں.میں نے یہ کہا ہے کہ ہم نے آنکھیں بند کر کے تاریخیں نہیں بدلیں.مجھے علم تھا کہ تاریخوں کی اس تبدیلی کے نتیجہ میں جماعت کو جو جلسہ سالانہ پر آتی ہے یا جماعت کو جو یہاں میزبانی کے فرائض انجام دیتی ہے بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا.پس ہم نے جانتے بوجھتے ہوئے اور خدا تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے تاریخیں بدل دیں تا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ ان کی سہولت کا خیال نہیں رکھا گیا اور یہ کہ ہم اپنے رب کے حضور جھکیں اور کہیں کہ تیرے بعض بندوں کی ان کی سمجھ کے مطابق ان کو سہولت پہنچنی تھی ہم نے یہ خیال رکھا.اب اے خدا! تو ہمارا خیال رکھ اور ہماری مشکلات کو دور فرما.جلسہ سالانہ کے لئے ۲۶ - ۲۷-۲۸ دسمبر کی تاریخیں مقرر ہوتیں ہیں اور ہر احمدی کو ذہنی طور پر سارے سال تیاری کرنی پڑتی ہے مثلاً جب میں گیا ہوں دورے پر اور ۲۵ جولائی کو میں امریکہ پہنچا ہوں تو اس وقت مجھے یہ بتایا گیا کہ بہت سے دوست جلسہ سالانہ پر جانے کی تیاری کر رہے ہیں.اسی طرح انگلستان کی جماعت ہے وہاں کے دوستوں نے اپنی سیٹیں بک کروائی ہیں
خطبات ناصر جلد ششم ۵۹۹ خطبہ جمعہ ۵ رنومبر ۱۹۷۶ء ނ بعض دوست اجتماعی طور پر گروپ کی صورت میں سفر کرنے والے ہیں کیونکہ اس طرح ان کو کچھ سہولتیں مل جاتی ہیں.اس کے لئے ہوائی کمپنیوں کے ذریعہ بہت سارے انتظامات کرنے پڑتے ہیں مثلاً ابھی جلسہ سالانہ کی تاریخیں بدلے جانے کی وہاں اطلاع نہیں تھی تو وہاں سے خط آئے بعض لوگوں نے مشورے لئے کہ آپ مشورہ دیں کہ اس صورت میں ہم آجائیں کیونکہ ابھی.ان کو سیٹیں بک کروانی پڑیں گی ورنہ ۲۶ دسمبر تک پہنچنے کے لئے جگہ نہیں ملے گی.حالانکہ ابھی تو ان کو ۱۰ دسمبر کی اطلاع نہیں ملی تھی.بعض کو سہولت بھی ہو جائے گی اور بعض کے رستے میں روکیں بھی پیدا ہوں گی مثلاً ہمارا طالب علم ہے ہو سکتا ہے کہ ان دنوں بعض امتحانات ہو رہے ہوں سارے طلباء کے امتحانات تو نہیں ہو رہے ہوں گے یہ تو مجھے پتہ ہے لیکن بعض کے امتحانات ہو رہے ہوں گے، ان کے لئے جلسہ سالانہ پر شامل ہونا مشکل ہوگا.مثلاً لا ہور کا ایک خاندان جس کا کوئی بچہ امتحان دینے والا ہے تو گھر کا کوئی بڑا ان بچوں کی سہولت کی خاطر کہ وقت پر ان کو کھانا ملے.ان کو آرام پہنچے تا کہ توجہ اور دلجمعی کے ساتھ تیاری کر سکیں اور امتحان میں شامل ہوں وہاں اس کو ٹھہر نا پڑے گا.ایسی ہزار مشکلیں ذہن میں آتی ہیں لیکن میں اس وقت جماعت سے کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ایک یا دس یا سو نہیں اگر ایک ہزار مشکلیں بھی تمہاری راہ میں حائل ہوں تو ساری مشکلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور ساری روکوں کو پھلانگتے ہوئے اور دوڑتے ہوئے اپنے جلسہ سالانہ کی طرف آؤ کیونکہ اس جلسہ کے ساتھ بہت سی برکات وابستہ ہیں اس جلسہ کے ساتھ بہت سی ایسی برکات وابستہ ہیں جن کا تعلق آپ کی ذات سے ہے، ایسی برکات وابستہ ہیں جن کا تعلق آپ کے خاندانوں سے ہے، ایسی برکات وابستہ ہیں جن کا تعلق آپ کے علاقوں سے ہے اور ایسی برکات وابستہ ہیں جن کا تعلق آپ کے ملک سے ہے.پس دنیا میں جہاں جہاں بھی احمدی ہیں اور جن جن تک میری یہ آواز انشاء اللہ پہنچے گی ان کو میں یہ کہتا ہوں کہ جو تکلیفیں ہیں اور جو مجبوریاں ہیں ان کو نظر انداز کرو اور جو مسائل ہیں ان کو حل کرو اور جو روکیں ہیں ان کو پھلانگو اور دوڑتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے کے لئے اور مہدی علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پہلے سے زیادہ تعداد میں ربوہ پہنچو اور انشاء اللہ زیادہ پہنچو گے جیسا کہ بعض خوابوں
خطبات ناصر جلد ششم ۶۰۰ خطبہ جمعہ ۵ /نومبر ۱۹۷۶ء میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی اس کی فکر کرو.ایک خواب میں کہا گیا کہ جلسہ سالانہ کے منتظمین کو تیاری زیادہ آدمیوں کے لئے کرنی چاہیے اور بعض اور اسی طرح کی خواہیں ہیں لیکن بہر حال یہ جماعت خدا تعالیٰ کی جماعت ہے.اس جماعت نے اعلان یہ کیا ہے کہ ہماری زندگی اور ہماری موت اپنے رب کریم کے لئے ہے.اس جماعت نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہمارا سب کچھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہے اس جماعت نے دنیا کے گوشے گوشے میں یہ آواز بلند کی ہے کہ وہ اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.پس غلبہ اسلام کے لئے جو تیاری ہے اس کا ایک بڑا حصہ تربیتی اور علمی لحاظ سے جلسہ سالانہ میں شمولیت ہے.اس لئے میں جماعت احمدیہ سے یہ کہتا ہوں کہ جو عہد تم نے اپنے دل میں اپنے خدا سے باندھے اور جو عہد تم نے اپنے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے باندھے جس کے بنی نوع انسان پر بے شمار احسان ہیں اور آپ بھی چونکہ نوع انسانی کا ایک حصہ ہیں اس لئے آپ پر بھی بے انتہا احسان ہیں.اس محسن اعظم سے جو عہد باندھے ہیں اور اس سلسلہ میں جو اور عہد آپ نے باندھے ہیں اُن کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام کی مخالف جو حرکتیں ہیں اُن کو بتا دیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں مثلاً جلسہ سالانہ کی تاریخوں کا دس پندرہ دن ادھر اُدھر ہو جانا یہ ہمارے راستے میں روکیں نہیں بنا کرتیں کیونکہ ایک بہت بڑا اور عظیم مقصد ہمارے سامنے ہے.دراصل اس وقت جو ہمارا مقصد ہے اس سے بڑا مقصد نوع انسانی کے سامنے کبھی نہیں رکھا گیا چنانچہ پہلوں نے بھی یہی کہا تھا کہ ساری دنیا میں اسلام کے غالب آنے کا زمانہ مہدی علیہ السلام کا زمانہ ہے.غلبہ اسلام ہوگا تو خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے.ہوگا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ، ہو گا تو اسلام کی تعلیم کے حسن اور نور کی وجہ سے لیکن تدبیر کی اس دنیا میں انسان کو بعض تدا بیر کے لئے اللہ تعالیٰ مقرر کرتا ہے چنانچہ اُس نے جماعت احمدیہ کو اس تدبیر کے لئے پیدا کیا اور تبلیغ اسلام کے لئے کھڑا کیا اور فرمایا اُٹھو اور ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہوئے دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کو پھیلا ؤ اور اس تربیت کے لئے اور ان علوم کو سیکھنے کے لئے جو ہمارے مقصد کے حصول میں ممد و معاون ہیں ہم جلسہ سالانہ میں شریک ہوتے ہیں.جماعت ان روکوں کی کیا
خطبات ناصر جلد ششم ۶۰۱ خطبہ جمعہ ۵ رنومبر ۱۹۷۶ء پرواہ کرتی ہے انشاء اللہ تعالیٰ روکیں دور ہوں گی مگر تم اپنے وجودوں میں خدا کی قدرت کا خدا سے ایک نشان مانگو یعنی خدا کی یہ قدرت کہ وہ جماعت کو یہ توفیق دے کہ وہ تمام روکوں کے باوجود خدا کی راہ میں اپنے ایثار اور وفا کا زیادہ شاندار مظاہرہ کرے.ہم عاجز بندوں کی وفا اور ایثار کو قبول کرتے ہوئے اپنی قدرت کاملہ سے اپنی شان کے مطابق وہ نتائج نکالے جن کا اُس نے نوع انسانی سے اس زمانے میں وعدہ کیا ہے خدا کرے وہ وعدے ہماری آنکھوں کے سامنے پورے ہوں اور ہم دیکھ لیں کہ سچ سچ دنیا نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پہچان لیا اور توحید باری پر قائم ہوگئی ہے.اے خدا تو ایسا ہی کر.谢谢谢 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد ششم ۶۰۳ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء اجتماعات کے موقع پر ظاہر و باطنی پاکیزگی کے متعلق اسلام کی خصوصی تاکید خطبه جمعه فرمود ه ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گذشتہ جمعہ سے چند دن قبل انفلوئنزا کا بڑا سخت حملہ ہوا اب اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اُس نے صحت دی ہے، اَلْحَمْدُ لِلهِ.بیماری کی وجہ سے میں گذشتہ جمعہ کی نماز نہیں پڑھا سکا اور بعض ضروری باتیں جو میں نے جلسہ سالانہ کے متعلق آپ سے کرنی تھیں نہ کر سکا.ایک ہفتے کی تاخیر کے بعد آج وہ باتیں کروں گا.ہمارے اسلامی اجتماعات کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ ایسے مواقع پر طہارتِ ظاہری اور باطنی کا خاص طور پر خیال رکھا جائے یعنی اندرونی اور بیرونی پاکیزگی کی طرف توجہ کی جائے.جہاں تک اندرونی روحانی پاکیزگی کا سوال ہے اس کے بغیر تو زندگی کا کوئی لطف ہی نہیں کیونکہ روحانی پاکیزگی کے بغیر اللہ تعالیٰ سے قرب کا وہ تعلق پیدا نہیں ہوسکتا جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور جس کے نتیجہ میں اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا نعمتیں عطا ہوتی ہیں اور جس کے نتیجہ میں انسان اس دنیا میں امن اور خوشحالی کی زندگی گزارتا ہے.اس زمانہ میں جب ہم دنیا پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمارے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ
خطبات ناصر جلد ششم ۶۰۴ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء کس قدر بد قسمتی ہے انسان کی کہ وہ خدا سے دور ہو گیا ہے اور باوجود دُنیوی آسائشوں کے قلبی راحت سے وہ محروم ہو گیا ہے.اس وقت یہ سمجھا جاتا ہے کہ دُنیوی تہذیب اپنے عروج پر ہے امریکہ ہے، انگلستان اور یورپ کے دوسرے ممالک ہیں، ان کے علاوہ بھی کئی دوسرے ملک ہیں جن کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بہت ہی مہذب ہیں.اُن کی تہذیب اپنے عروج تک پہنچ گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ انہیں روحانی اور قلبی طور پر سکون حاصل ہے اور نہ اُن کا معاشرہ امن اور سکون کی ضمانت دیتا ہے.اب اس وقت اس مہذب دنیا میں جو سب سے مہذب جگہ یا شہر تصور میں آ سکتا ہے وہ تو وہی جگہ ہو سکتی ہے جہاں دنیا کی اقوام نے اپنا اڈہ بنایا یعنی U.N.O (اقوام متحدہ) جس شہر میں قائم ہے نیو یارک اس کا نام ہے اور وہ امریکہ میں ہے.اس دفعہ جب میں وہاں دورے پر گیا تو وہاں کے ہمارے مبلغ انچارج کہنے لگے کہ جس جگہ کسی زمانہ میں وہ جگہ بڑی اچھی تھی ) ہمارا مشن ہاؤس ہے اور جہاں نمازیں پڑھی جاتی ہیں جب شہر بڑھا اور حالات بدلے تو اب اس کا یہ حال ہے کہ وہ ہنس کر کہنے لگے کہ جب میں یہاں آیا تو احمدیوں نے مجھے کہا کہ دیکھنا سورج غروب ہونے کے بعد اس مشن ہاؤس سے باہر نہ نکلنا.اگر باہر ہوں تو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے واپس آجانا کیونکہ کچھ پتہ نہیں کہ راستے میں تمہیں پکڑ لیا جائے اور تمہارے پیسے چھین لئے جائیں ، گھڑی اُتار لی جائے یاز دوکوب کیا جائے.غرض اس مہذب دنیا میں جرائم اس کثرت سے پیدا ہو چکے ہیں کہ ایک انسان جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا اور یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کے بغیر حقیقی راحت اور سکون مل ہی نہیں سکتا ، وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ یہ لوگ خدا سے دور ہو گئے اور انہوں نے اپنی تمام حقیقی راحتیں اور تمام چے سکون عارضی خوشیوں پر قربان کر دیئے ہیں.جرائم کی کثرت نے اندرونی طور پر ان قوموں کا جو مہذب ترین اقوام کہلاتی ہیں سکون برباد کر دیا ہے.مجھے یاد آیا کسی یورپین ملک کے ایک بہت بڑے افسر جو اپنی فرم کی طرف سے ہمارے ہاں ٹھیکوں (Contracts) پر کام کرنے کے سلسلہ میں یہاں آئے ہوئے تھے اُنہوں نے ہزاروں روپیہ دے کر السیشن (Alsation)
خطبات ناصر جلد ششم خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء کتا خریدا جو پہرے کا کتا ہے.کسی دوست نے اُن سے کہا کہ آپ کو اس کی کیا ضرورت ہے.آپ تو یہاں سے اپنے ملک (یورپ) واپس جا رہے ہیں اور وہ تو بڑی مہذب دنیا ہے اس لئے آپ کو پہرے کے لئے اس قسم کا کتا خریدنے اور اس پر اتنا خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے.وہ کہنے لگا جتنا میں نے اس کی خرید پر خرچ کیا ہے اُس سے آٹھ دس گنا زیادہ میں اس کی ٹریننگ اور تربیت پر خرچ کروں گا کیونکہ اس قسم کے خطرناک ڈراؤنے کتوں کے بغیر ہم لوگ اپنے گھروں میں بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے.پس اندرونی طور پر ان مہذب ممالک کا یہ حال ہے کہ کوئی سکون نہیں کوئی حقیقی راحت نہیں.بعض دفعہ مرد گھروں میں نہیں ہوتا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے اور اگر مالکہ مکان دروازہ کھول دے تو اس کی عزت بھی اور جان بھی چلی جاتی ہے.اس قسم کے خطرہ کے لئے اب اُنہوں نے دروازوں میں ایسے چھوٹے چھوٹے سوراخ بنا دیئے ہیں جو باہر سے نظر نہیں آتے ان سوراخوں کے ذریعہ دروازہ کھولنے سے پہلے باہر جھانک کر دیکھ لیا جاتا ہے کہ کس قسم کا آدمی ہے.واقف بھی ہے یا نہیں.بہر حال یہ جو مہذب دنیا کہلاتی ہے اپنے پیدا کرنے والے رب کریم سے دوری کے نتیجہ میں اُن کا امن اور سکون برباد ہو چکا ہے اور یہ تو منفی پہلو ہے جو مثبت پہلو ہے اور جس سے وہ بد قسمتی سے محروم ہو گئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے پیار کے جلووں کے نتیجہ میں انسان جو سکھ اور چین حاصل کرتا ہے اُس سے محرومی ہے.اُن کو یہ تو پتہ ہے کہ ”حرام“ کے کھانے میں یا شراب کے پینے میں عارضی اور لغو قسم کی لذت ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کے پیار میں انسان کس قدر سرور حاصل کر سکتا ہے اور اس کے اوپر ساری دنیا کی لذتیں قربان کی جاسکتی ہیں.غرض منفی پہلو سے جرائم کی کثرت نے اُن کے امن کو برباد کیا اور مثبت پہلو کے لحاظ سے اُنہوں نے اپنے آپ کو سچی راحت اور حقیقی خوشیوں سے محروم کر لیا.انسانی زندگی پر بعض دفعہ ایسے اوقات آتے ہیں کہ وہ لوگ بھی جن کا ماحول بحیثیت مجموعی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا ہو ان کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور ذمہ داریوں کے بڑھ جانے کی وجہ سے یہ خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے کہ شیطانی وساوس اُن کو
خطبات ناصر جلد ششم ۶۰۶ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء اللہ تعالیٰ سے دور نہ لے جائیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ بن جائیں.جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا ہے اسی لئے اسلامی اجتماعات میں باطنی طہارت پر بڑا زوردیا گیا ہے.باطنی طہارت اور پاکیزگی کیا ہے یہی کہ ہمارا جو پاک رب ہے انسان کو اس کا پیار حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ کا پیار اس کے لئے راحت اور سکون کا موجب بن جائے.باطنی طہارت کے لئے انسان کو بڑی دعائیں کرنی پڑتی ہیں ورنہ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : ۷۸) کا اعلان قرآن کریم کر چکا ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات غنی ہے اس کو انسان کی کیا حاجت ہے.انسان ہی کو ضرورت ہے کہ وہ خدا کے حضور عاجزانہ طور پر جھکے اور تضرع کے ساتھ دعا کرے تا کہ اُس کی رضا انسان کومل جائے.اگر خدا کی رضا مل جائے تو گویا سب کچھ مل گیا کیونکہ اجتماعات کے موقع پر شیطان حملے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اس لئے ہمیں یہ کہا گیا کہ دعائیں کرو خدا تعالیٰ تمہارے لئے طہارتِ باطنی کے سامان بھی پیدا کرے گا.ایسے موقع پر جب کہ بہت سے دوست اکٹھے ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے جلسہ سالانہ پر اکٹھے ہوتے ہیں طہارتِ ظاہری یعنی ظاہری پاکیزگی کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.مجھے افسوس ہے کہ اہلِ ربوہ کو اس طرف توجہ نہیں رہی شاید اس لئے کہ لمبا عرصہ ہو گیا.ہے.میں نے اہلِ ربوہ کو صفائی کی طرف توجہ نہیں دلائی.اب دورے سے واپس آنے کے بعد بہت سے دوستوں نے مجھے یہ بتانا شروع کیا ہے کہ اس طرف توجہ بہت کم ہوگئی ہے اور ہمارا یہ کافی صاف ستھرا شہر تھا، بالکل ہمارے آئیڈیل کے مطابق تو نہیں ہوا تھا وہ تو انسان کوشش کرتا رہتا ہے لیکن کافی صاف ستھرا شہر تھا مگر اب اتنا تھر انہیں رہا جتنا عام حالات میں بھی ہوتا ہے لیکن جلسہ کے ایام میں تو صفائی نمایاں طور پر نظر آنی چاہیے مثلاً بعض لوگ دیواروں پر لکھ دیتے ہیں.مجھے تو یہ دیکھ کر بچپن سے غصہ چڑھا کرتا تھا کہ لوگ دیواروں کے اوپر اپنے اشتہار کیوں لکھ دیتے ہیں مگر اُس وقت اُس عمر میں تو میں زبان سے بھی نصیحت نہیں کر سکتا تھا.یہاں کا تو مجھے علم نہیں میری نظر سے نہیں گزرا و الله اعلم لیکن لاہور وغیرہ میں تو بعض نہایت فخش قسم کے اشتہارات بھی دیواروں پر لکھے نظر آ جاتے ہیں.دیوار میں اشتہار لکھنے کی جگہ تو نہیں.اوّل تو یہ بھی مجھے شبہ ہے کہ
خطبات ناصر جلد ششم ۶۰۷ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء بغیر مالک کی اجازت کے لوگ یہ کام کر جاتے ہیں.دوسرے کی چیز میں دخل اندازی کرنا یہ ویسے ہی بری بات ہے.دوسرے کے گھر کی دیوار پر ایک داغ لگانا یہ ویسے ہی نامناسب ہے اور طہارت باطنی کے بھی خلاف ہے اور ظاہری طور پر بھی دیوار میں گندی ہو جاتی ہیں.پھر بعض ایسی چیزیں ہیں کہ جن کا تقدس اور احترام مطالبہ کرتا ہے کہ اس طرح دیواروں پر ان کلمات کو نہ لکھا جائے.صرف جوش میں آکر اور اپنا شوق پورا کرنے کے لئے تو ایسی باتیں نہیں ہونی چاہئیں یہ ویسے بھی برا لگتا ہے.لکھنے والے بعض دفعہ خوشخط بھی نہیں ہوتے اوٹ پٹانگ لکیریں ڈالی ہوئی ہوتی ہیں.ایک چیز مضمون کے لحاظ سے کتنی اچھی کیوں نہ ہو نظر کو بھی اچھی لگنی چاہیے.اسی طرح سڑکیں بھی صاف ہونی چاہئیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ چونکہ ابھی مکانوں کے بعض پلاٹس ایسے ہیں جن پر تعمیر نہیں ہوئی وہاں گند پھینک دیا جاتا ہے اور کوئی اس گند کو سنبھالنے والا نہیں.جولوگ اس قسم کے کوڑا کرکٹ کو بیچ کر پیسے کماتے ہیں یعنی ربوہ کی ٹاؤن کمیٹی ، اس کا کام ہے کہ جہاں وہ اس سے فائدہ حاصل کر رہی ہے وہاں وہ لوگوں کو تکلیف سے محفوظ کرنے کا بھی کوئی سامان پیدا کرے.بہر حال یہ تو اُن کا کام ہے میں تو آپ سے باتیں کر رہا ہوں.ربوہ کے سارے لوگ کوشش کریں جلسہ میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں.میں نے بتایا ہے ایک ہفتہ تو میں اپنی بیماری کی وجہ سے آپ کو توجہ نہیں دلا سکا.پچھلے جمعہ کے روز میں یہاں نہیں آسکا اس لئے اب میں یہ تو نہیں کہتا کہ ربوہ کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک دُلہن کی طرح سجاد ولیکن میں یہ کہوں گا کہ جس طرح عید والے دن اور جس طرح جمعہ والے دن کہا گیا ہے کہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر اور ہو سکے تو خوشبو لگا کر مسجدوں میں آؤیا عید گاہ میں پہنچو اُس طرح ربوہ کی شکل بنا دو.سارے ربوہ کو تو عطر لگانا مشکل ہے مگر سارے ربوہ سے بد بو کو دور کرنا نسبتاً آسان ہے، تم اتنا ہی کرو.بہر حال سارار بوہ صفائی میں لگ جائے.دوست و قاری عمل کریں یہاں تک کہ پوری صفائی ہو جائے.مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے اور یہ سُن کر مجھے دُکھ ہوا ہے کہ جو ہمارے اپنے مرکزی ادارے ہیں مثلاً صدرانجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں یا تحریک جدید ہے یا وقف جدید ہے یا انصار اور خدام کے
خطبات ناصر جلد ششم ۶۰۸ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء دفاتر ہیں یا ہسپتال ہے وغیرہ وغیرہ ان میں سے بعض میں بھی گند نظر آتا ہے اور پوری صفائی نظر نہیں آتی.ان کو تو چاہیے کہ یا تو وہ خود صفائی کریں، نہیں تو پھر میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ وہاں آ جاؤں گا اور ہم صفائی کریں گے.صفائی تو بہر حال ہونی چاہیے کیونکہ طہارتِ باطنی اور طہارتِ ظاہری یعنی ظاہری پاکیزگی ہر دو کے متعلق اسلام نے اجتماعات کے موقع پر خاص طور پر تاکید کی ہے.ویسے تو ایک مومن مسلم کی زندگی اس پاکیزگی اور طہارت کے بغیر تو زندگی ہی نہیں.یہ درست ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تو کہالا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ (النجم : ۳۳) کہ جہاں تک اس پاکیزگی کا سوال ہے روحانی اور باطنی پاکیزگی کا خود شیخی میں آکر دعوی نہ کیا کر ولیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم : (۳۳) کہ خدا تعالیٰ تو جانتا ہے کہ اس کی نگاہ میں متقی اور پر ہیز گار کون ہے اور جو چیز خدا جانتا ہے وہ خدا ہی سے مانگنی چاہیے خدا سے دعا کرنی چاہیے کہ اے خدا! تو ایسے کام کی ہمیں توفیق عطا کر کہ تیری نگاہ میں ہم متقی ٹھہریں اور پاکیزہ قرار دیئے جائیں اور تیرا معاملہ ہم سے اُس قسم کا ہو جیسا کہ تیرا معاملہ اپنے پاک مقدسین سے ہوا کرتا ہے.بغیر دعا کے اور بغیر حسن عمل کے یہ چیز نہیں مل سکتی.محض دعا جس کے پیچھے کوشش اور تدبیر نہ ہو وہ بھی بے معنی ہے اور کوشش اور تدبیر ہو اور دعا نہ ہو اور انسان سمجھے کہ میں اپنی ہی طاقت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی قدرت کو حاصل کر سکتا ہوں اس سے زیادہ احمقانہ کوئی تخیل نہیں ہوسکتا.اپنے زور اور طاقت سے خدا سے وہی کچھ حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے جو نعوذ باللہ کوئی دماغ پھرا یہ سمجھے کہ وہ خدا سے زیادہ طاقتور ہے.اپنے سے زیادہ طاقتور انسان سے بھی تم زبر دستی کوئی چیز حاصل نہیں کر سکتے تو خدا تعالیٰ سے کیسے کر سکتے ہو اس کے لئے تو اسی سے مانگنا پڑے گا.اسی کے سامنے جھکنا پڑے گا.اس کے بغیر خدا کا پیار اور اس کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی اور خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ ظاہری صفائی بھی کرو اس لئے ظاہری صفائی کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے.میں نے کہا ہے کہ ربوہ کی ظاہری صفائی کرو.ربوہ میں ربوہ کے مکین سڑکوں پر چلنے والے بھی ہیں.اس لئے ساتھ ہی میں نے یہ بھی کہا ہے کہ کبھی بھی کسی احمدی کو گندے کپڑوں میں اور غلیظ ہیئت کذائی میں سامنے نہیں آنا چاہیے.اب ربوہ میں بڑی کثرت سے لوگ باہر سے آرہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۶۰۹ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء ہیں اور ان میں سے بہت سے بعد میں احمدی بھی ہو جاتے ہیں تو اُن کا حلیہ بدل جاتا ہے صفائی کے لحاظ سے نظر پہچان لیتی ہے کہ ان کے اندر ایک تبدیلی پیدا ہوگئی ہے.ان میں ظاہری صفائی آجاتی ہے غلاظت کوئی نہیں رہتی.پس احباب جماعت سے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ صاف ستھرے جسم صاف ستھرے کپڑے اور صاف ستھرے خیالات رکھیں اور پاکیزہ اور حسین عمل کی راہوں کو اختیار کریں اور خدا کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس اجتماع پر یعنی جلسہ سالانہ پر اُن اعمال کے بجالانے کی توفیق عطا کرے جن کی وجہ سے ہماری ذمہ داریاں ادا ہو جائیں.اگر آپ سوچیں تو ہماری بڑی ذمہ داریاں ہیں لیکن میں اس لمبی تفصیل میں اس لئے نہیں جا سکتا کہ میں اس وقت بھی کمزوری محسوس کر رہا ہوں.انفلوئنزا اپنے پیچھے بہت کمزوری چھوڑ جاتا ہے لیکن کئی دفعہ پہلے کہا جا چکا ہے، میں نے بھی کہا ہے، میرے بزرگوں نے بھی آپ کو ان باتوں کے متعلق کہا.زندگی رہی اور خدا نے توفیق دی تو میں بھی پھر آپ کو انشاء اللہ تفصیل سے بھی بتاؤں گا لیکن مختصراً یہ کہ خدا تعالیٰ سے دعا مانگو کہ ایسے اعمال کی توفیق ملے کہ وہ آپ سے خوش ہو جائے.......اور اس لئے بھی خوش ہو کہ خدا تعالیٰ اہلِ ربوہ سے جلسہ سالانہ کے موقع پر جس قسم کے عمل کی توقع رکھتا ہے اور جس حسن معاملہ کا وہ حکم دیتا ہے اس کے مطابق خدا کرے آپ کی زندگی کے یہ دن بھی دعاؤں سے معمور گزریں.خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے آپ کی جھولیاں بھری رہیں اور ظاہری طور پر بھی ربوہ کو صاف کر دیں.اس کے لئے یہاں کی جو مجلس عمومی ہے اُن کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس طرف توجہ کریں اور نو جوان بچے اور بڑے سب کو اکٹھے کر کے وقار عمل کروائیں.چھوٹے چھوٹے گروپس میں بھی اور بڑے بڑے گروپس میں بھی ، جہاں بھی ضرورت ہو اس کے مطابق وقار عمل کروائیں.ربوہ کی بہر حال صفائی ہونی چاہیے.ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم کبھی بھی اپنے آپ کو بزرگ اور متقی اور پرہیز گار نہ سمجھیں اور نہ اس کا اعلان کریں.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ جنوری ۱۹۷۷ ء صفحه ۲ تا ۴ )
خطبات ناصر جلد ششم ۶۱۱ خطبہ جمعہ ۳/ دسمبر ۱۹۷۶ء احباب ہر سال جلسہ سالانہ پر جذ بہ عشق کے ماتحت اپنے رب کے جلوے دیکھنے کھنچے چلے آتے ہیں خطبه جمعه فرموده ۳ / دسمبر ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.وَقَالَ اللهُ لا تَتَّخِذُوا الْهَيْنِ اثْنَيْنِ : إِنَّمَا هُوَ اللَّهُ وَاحِدٌ ۚ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ - وَلَهُ ج مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَ لَهُ الدِّينُ وَاصِبًا أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَتَّقُونَ.(النحل: ۵۳،۵۲) اس کے بعد فرمایا:.طبیعت ابھی تک کمزور چلی آرہی ہے اس لئے میں مختصراً بعض باتیں اس وقت دوستوں سے کہوں گا.جو دو آیات میں نے ابھی تلاوت کی ہیں ان میں جو مضمون بیان ہوا ہے وہ ایک تو یہ ہے کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور وہی اس قابل ہے اور اس بات کا سزاوار ہے کہ ہم اس کی خشیت اپنے دل میں پیدا کریں اور زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی ملکیت ، اس کی حکومت کے نیچے اور اس کا کہا ماننے والی ہے اور اس کا حکم ہر چیز پر چلنے والا ہے.اس لئے عقلمند انسان کو چاہیے کہ اس نکتہ کو سمجھے اور اطاعت جو کہ اس کا حق ہے وہ اسے ادا کرے اور سوائے اس کے کسی اور کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر نہ رکھے اور دوسرے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم اللہ کے سواکسی اور کو اپنے بچاؤ کا ذریعہ بناؤ گے؟ جو مشکلات اور جو پریشانیاں پیش آئیں ان کو دور کرنے کے لئے سوائے اللہ کے
خطبات ناصر جلد ششم ۶۱۲ خطبہ جمعہ ۳ / دسمبر ۱۹۷۶ء کسی اور ہستی کی طرف جھکنے کی ہمیں ضرورت نہیں.اُسی پر ہم ایمان لائے ، اس کے فضل سے اس کی معرفت کو ہم نے حاصل کیا، قرآن عظیم نے تفصیل کے ساتھ ہمیں اُس کی ذات اور اس کی صفات کا علم عطا کیا اور ہمارے دل میں اُس محسن کے لئے محبت کا ایک شعلہ روشن کیا.اس بنیادی بات کے بعد اس وقت میں جو باتیں اس کے علاوہ کہنا چاہتا ہوں وہ جلسہ سالانہ کے متعلق ہیں.خدا تعالیٰ کا ہر جلوہ ، اُس کی صفات کا ہر جلوہ ایک نئی شان سے آتا ہے.اس لئے جب حالات بدلے ہوئے ہوں تو انسان کو مایوس ہونے کی بجائے اس طرف نگاہ رکھنی چاہیے کہ ان بدلے ہوئے حالات میں اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے، اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے، اللہ تعالیٰ کے حسن اور نور کے جلوے، ایک نئے رنگ میں ظاہر ہوں گے اور ہمارے لئے سکونِ قلب اور اطمینانِ قلب کا باعث بنیں گے.جلسہ سالانہ کے موقع پر ہمیشہ ہی سفر کی بہت سی سہولتیں مل جایا کرتی تھیں جو اب کچھ عرصہ سے نہیں مل رہیں.جب سہولتیں ملتی تھیں تو اُس وقت بھی اُس سہولت کو خدا سے پیار کرنے والا دل ہی سہولت سمجھتا تھا ورنہ وہ سہولت بھی کیا سہولت تھی کہ چند پیشل گاڑیاں چل پڑتی تھیں، کھچا کھچ بھری ہوئی.ان کے اندر ہمارے مہمان سانہیں سکتے تھے تو ان کی چھتوں پر سوار ہو جاتے تھے.یہ سہولت انہیں میٹر تھی کہ گاڑیوں کی چھتوں پر بیٹھ کر وہ اپنے مرکز میں پہنچ جائیں.ایک پیار کرنے والا دل اسے بھی سہولت سمجھتا تھا اور جہاں وہ اور دعائیں کرتا تھا وہاں اس قسم کا انتظام کرنے والوں کے لئے بھی اس کے دل سے دعا نکلتی تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں احسن جزا دے.اُس وقت جو اصل سہولت تھی وہ ایک جذبہ تھا.یہ چیز میں نے بھی محسوس کی اور آپ نے بھی محسوس کی ہوگی کیونکہ آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جو جلسہ سالانہ پر بطور مہمان کے بھی آتے رہے ہیں.ایک عجیب نظارہ ہے جس کو دیکھے پندرہ میں سال ہو چکے ہیں لیکن وہ نظارہ اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے.میں افسر جلسہ سالانہ تھا.ایک سپیشل گاڑی چنیوٹ کی طرف سے آرہی تھی.وہ لاہور کی تھی یا نارووال کی تھی یا پسرور کی تھی یا کسی اور جگہ کی تھی یہ تو مجھے یاد نہیں کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ، چھت پر
خطبات ناصر جلد ششم ۶۱۳ خطبہ جمعہ ۳ دسمبر ۱۹۷۶ء بھی آدمی چڑھے ہوئے تھے.جب گاڑی کھڑی ہوئی تو میرے سامنے جوڈ بہ تھا اس میں کچھ بچوں والی مستورات تھیں، احمدی مستورات ، چھوٹے چھوٹے بچے انہوں نے اٹھائے ہوئے تھے اور کچھ ان کے مرد اُن کے ساتھ تھے.میں نے پوچھا تو نہیں لیکن جو نظارہ میں نے دیکھا وہ میاں اور بیوی اور بچے کا نظارہ تھا جس وقت گاڑی کھڑی ہوئی تو ماں نے جذباتی ہوکر دروازہ کھولا اور چند مہینے کا بچہ اپنی گود سے اُٹھا کر اس نے یوں اپنے خاوند کی طرف پھینکا کہ لے پکڑ اس کو ، میں جس جگہ پہنچنا چاہتی تھی وہاں پہنچ گئی.اب کہنے والوں نے کہا کہ ہم نے بڑی سہولت بہم پہنچائی.سپیشل گاڑیاں چلا دیں لیکن وہ جو سارڈین (Sardine ایک قسم کی مچھلی جو ڈبوں میں بھری جاتی ہے.ناقل ) کی طرح گاڑی میں بھرے ہوئے تھے وہ گاڑی کی سہولت کا احساس رکھتے ہوئے تو ربوہ میں نہیں پہنچے تھے بلکہ کوئی اور چیز تھی ، ایک عشق کا شعلہ تھا جو ہر تکلیف کو جلا کر راکھ کر دیتا تھا اور اپنے پیار کرنے والے رب کے پیار کے جلوے دیکھنے کے لئے انہیں کھینچتا ہوا یہاں لے آتا تھا لیکن بہر حال دل انتظام کرنے والوں کے ممنون بھی تھے اور ان کے لئے دعائیں کرنے والے بھی تھے.بچوں کو، ان معصوم بچوں کو تکلیف شاید پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ ہو لیکن وہ جذ بہ جو انہیں کھینچ کر یہاں اپنے مرکز کی طرف لانے والا ہے اس میں بھی زیادہ شدت پیدا ہوگی اور وہ محبت اور عشق کے ایک جذبہ کے ساتھ تکلیفیں اُٹھاتے ہوئے یہاں پہنچ جائیں گے.کوئی وقت پر پہنچ سکے گا کوئی نہیں پہنچ سکے گا.یہ تو درست ہے لیکن وہ پہنچ جائیں گے کوئی دیر کے بعد پہنچے گا، کوئی جلسہ کے پہلے دن صبح جلسہ شروع ہونے سے پہلے نہیں پہنچ سکے گا اور افتتاحی دعا میں شریک نہیں ہو سکے گا.میں آج سے ہی دعا کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری ساری دعاؤں میں ان کو شریک کرے اور خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے جہاں ہمیں اپنی برکات اور نعمتوں سے نوازے وہاں دیر میں آنے والوں کو بھی نوازے کیونکہ ان کی نیتیں یہاں دیر سے پہنچے کی نہیں تھیں بلکہ حالات سے مجبور ہوکر وہ دیر سے پہنچے.یہاں جو مہمان آتے ہیں ان کی رہائش کے لئے.خاندانوں کے لئے چھوٹے چھوٹے
خطبات ناصر جلد ششم ۶۱۴ خطبہ جمعہ ۳/دسمبر ۱۹۷۶ء کمروں کا علیحدہ انتظام ہوتا ہے اور کچھ ہماری اجتماعی قیام گاہیں ہیں مردوں کی علیحدہ اور مستورات کی علیحدہ.لیکن اس میں بھی ہمیں اس وقت تک وہ سہولت میسر نہیں جو پہلے ہوا کرتی تھی.کچھ عمارتیں بیر کس کے نام سے بنی ہیں.میرا خیال تھا کہ ہر ضلع اپنے ٹھہرنے کے لئے جگہیں بنا دے تاہم اتنی جلدی تو ساری عمارتیں نہیں بن سکتی تھیں.کچھ بنی ہیں اور کچھ آئندہ سالوں میں بنیں گی لیکن یہ الہام تو ہمارے کان میں گونجتا رہے گا کہ وَشِعُ مَكَانَكَ ہر سال جب ہم بہت سی نئی اکاموڈیشن (Accomodation) بہت سی نئی تعمیرات کرنے کے بعد اپنے رب سے یہ کہیں گے کہ اے خدا! اپنی طاقت کے مطابق ہم نے کچھ اور بنادیا تو اس کے فرشتے ہمیں کہیں گے کہ ٹھیک ہے تم نے کچھ اور بنا دیا تمہیں خدا جزا دے گا.تمہیں اس کا ثواب ملے گا لیکن یہ کافی نہیں بنایا.وسیع مكانك اس میں اور زیادتی کرو.پھر اگلا سال آئے گا پھر اگلا سال، یہی ہوتا آیا یہی ہوتا رہے گا.دنیا اپنے راستہ پر چل رہی ہے اور الہی تد بیرا اپنی راہ پر جماعت احمدیہ کو آگے ہی آگے بڑھائے لئے چلی جارہی ہے.ہوگا وہی جو خدا چاہتا ہے اور جو ہو گا وہ خیر و برکت کا موجب ہوگا کیونکہ خدا اس زمانہ میں یہی چاہتا ہے کہ اسلام نوع انسانی کے دل جیتے ، اللہ کا پیار اور محبت انسان کے دل میں پیدا ہو، جماعت احمدیہ کے دل میں ہمیشہ خیر خواہی کے جذبات رہیں اور ہر یک انسان سے ہمدردی کا نظارہ دنیا دیکھے جو کہ احمدیت سے باہر نظر نہیں آسکتا اور سارے کے سارے انسان دنیا کے ہر ملک اور ہر خطہ میں بسنے والے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے زیادہ سے زیادہ وارث ہوں.یہی ہو گا لیکن جو کچھ ہم نے کرنا ہے اور جو کچھ ہمیں کرنے کو کہا گیا ہے وہ تو ہم نے ہی کرنا ہے اور ہم نے یہ کرنا ہے کہ ہم نے خدا کی باتیں سننی ہیں اور اللہ کی باتیں اور اس کے ارشادات یا در رکھنے ہیں اور یہ کوشش کرنی ہے کہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور خدا کی صفات کا رنگ جس کو کہ صِبْغَةُ الله کہا گیا ہے اپنے اخلاق پر اور اپنے اعمال پر چڑھائیں اور دنیا کے لئے ایک نمونہ بنیں.ایک شاہراہ ہے جس پر خدا تعالیٰ نے ہمیں انگلی پکڑ کر کھڑا کیا اور انگلی پکڑ کر چلا یا اور آگے سے آگے چلاتا چلا جارہا ہے.دنیا ایک اور طرف جا رہی ہے لیکن چھوٹا چکر کاٹ کر یا بڑا چکر کاٹ کر یہ تو میں کہہ نہیں سکتا لیکن بہر حال اسے اسی طرف آنا پڑے گا.آج کی
خطبات ناصر جلد ششم ۶۱۵ خطبہ جمعہ ۳ دسمبر ۱۹۷۶ء دنیا یعنی امریکہ کی دُنیا، یورپ کی دُنیا، روس اور چین کی دنیا جتنی اپنے خدا سے دور ہورہی ہے اتنا ہی لمبا چکر کاٹ کر اور دنیا کی تکالیف برداشت کر کے اسے واپس اسی طرف آنا پڑے گا جو اسلام کا راستہ ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شاہراہ ہے.میں یہ بتا رہا ہوں کہ یہاں جو سہولتیں ہیں ان میں بھی کمی آگئی ہے.جماعت نے وشغ.مكانك کے حکم کے مطابق اللہ کی توفیق سے بڑی عمارتیں بنا ئیں جتنی ہماری بظا ہر ضرورت تھی اس سے زیادہ عمارتیں جماعت نے بنادیں مثلاً ہماری یہ عمارت جس کو جماعت نے نیو کیمپس کے نام سے پکارنا شروع کیا اور اب نیشنلائز ہوگئی ہے اس کا ۱٫۵ حصہ کالج کے کام آرہا ہے اور باقی کی عمارت کے متعلق ہم خوش تھے ، ہم سے میری مراد جماعت احمد یہ ہے ، ہم خوش تھے کہ ہم نے عمارت پر خرچ کیا اور جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے اس کا استعمال ہو رہا ہے اس سے بہتر اور کیا استعمال ہو سکتا ہے لیکن اب وہ بھی ہمارے استعمال میں نہیں رہی.ابھی تک تو یہی فیصلہ ہے وَاللهُ اَعْلَمُ آگے کیا فیصلے ہوتے ہیں.پس تنگی بڑھ گئی ہے لیکن جگہ کی جو تنگی ہے جو اینٹیں اور گارے اور سیمنٹ اور لوہے کی سلاخوں سے بنی ہوئی ہے.تعمیر کی تنگی ہے اگر اس کے مقابلے میں اس سے کہیں زیادہ وسعت ہمارے اپنے رب سے پیار کرنے والے دل میں پیدا ہو جائے اور اہم مہمانوں کو اپنے گھروں میں اس طرح سمیٹ لیں جس طرح ماں بچے کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیتی ہے تو اس بچے کے لئے تو پھر کسی زائد چھپر کھٹ کی ضرورت نہیں رہتی.پس جگہ کی اس تنگی کو بھی ہمارا آنے والا بھائی ہماری آنے والی بہن ، ہمارا آنے والا معصوم بچہ محسوس نہیں کرے گا.یہ تو ہماری سوچ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر تو ہم اپنے لئے سہولتیں بہم نہیں پہنچا سکتے اور خدا کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے ہمارے لئے سوائے دعا کے اور اس کی طرف جھکنے کے اور اپنی پریشانیاں اسی سے دور کرانے کے اور کوئی راہ نہیں.پس جہاں تک میری آواز پہنچے ربوہ میں بھی اور باہر بھی جو تھوڑے سے دن باقی ہیں انہیں دعاؤں میں صرف کرو اور اپنے رب کریم سے کہو کہ اے خدا! دنیا ہمیں آزمانا چاہتی ہے اور آزما رہی ہے ایسا
خطبات ناصر جلد ششم ۶۱۶ خطبہ جمعہ ۳ / دسمبر ۱۹۷۶ء نہ ہو کہ ہم اس آزمائش میں پورے نہ اُتریں اور تیرے پیار کو پہلے سے زیادہ حاصل کرنے سے محروم ہو جائیں.یہ سامان جو بظاہر تنگی کے ہیں ان میں ایک فراخی کا دروازہ بھی تو کھلتا ہے اور اے خدا! وہ فراخی کا دروازہ تیری رحمت کی طرف کھلتا ہے اگر تو ان حالات میں ہم پر پہلے سے زیادہ رحمتوں کا نزول کرے تو ہمارے لئے پہلے سے زیادہ سکون اور اطمینانِ قلب کا سامان پیدا ہو جائے گا، پہلے سے زیادہ آرام اور سہولت کا سامان پیدا ہو جائے گا.خدا کرے کہ ہمیں دعا کی توفیق ملے اور ہماری دعائیں مقبول ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نظارے دیکھنے والے ہوں.روز نامه الفضل ربوه ۲۹ / دسمبر ۱۹۷۶ء صفحه ۲، ۳)
خطبات ناصر جلد ششم ۶۱۷ خطبہ جمعہ ۱۰ / دسمبر ۱۹۷۶ء اللہ ہمارا رب، حضرت خاتم الانبیاء ہمارا رسول، قرآن عظیم ہماری کتاب اور اسلام ہمارا مذہب ہے خطبه جمعه فرموده ۱۰ر دسمبر ۱۹۷۶ء بمقام مردانہ جلسہ گاہ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ اخلاص کی تلاوت فرمائی:.قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ - وَ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا احد - (الاخلاص: ۲ تا ۵) اس کے بعد فرمایا :.جلسہ سالانہ کے موقع پر جب جمعہ آئے تو تقاریر کے پروگراموں کی وجہ سے مختصر سا خطبہ دینا ہوتا ہے.میں آج کے اس مختصر سے خطبہ میں جماعتِ احمدیہ کے جو عقائد ہیں ، جو ہمارا مذہب ہے، جس پر ہم ایمان لائے ہیں وہ بیان کر دیتا ہوں.ہم اس اللہ پر ایمان لائے ہیں جسے اسلام نے پیش کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے متعلق قرآن کریم میں بڑا علم بھرا ہوا ہے.میں نے اس وقت ایک چھوٹی سی سورۃ کا انتخاب کیا ہے جس کو میں نے ابھی پڑھا ہے.اللہ احد ہے، اکیلا ہے، اُس جیسا کوئی اور وجود، اس جیسی کوئی اور ہستی نہیں ہے اور وہ خالق بھی ہے.اللہ کے علاوہ ہر چیز جو اس یو نیورس میں ، اس عالمین میں ، ہر دو جہان میں پائی جاتی ہے
خطبات ناصر جلد ششم ۶۱۸ خطبہ جمعہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۶ء وہ اللہ کی مخلوق ہے اور جو مخلوق ہے اسے ہم خدا نہیں مانتے نہ مان سکتے ہیں.ہم صرف اس اکیلے ایک خدا پر ایمان لاتے ہیں جس کی ذات اور صفات کی معرفت ہمیں اسلام نے دی اور قرآن کریم نے بتائی.اللهُ الصَّمَدُ اللہ اپنی ذات میں غنی ہے اپنے وجود کے لئے اپنی صفات اور ان کے جلوؤں کے لئے اسے کسی چیز کی احتیاج نہیں.مادے کی بھی اسے احتیاج نہیں کیونکہ مادہ بھی موجود نہیں تھا اس نے اسے پیدا کر دیا اور جب چاہے اسے مٹا دے.اس کی صفات کے جلوے کسی شکل میں کسی معنی میں بھی کسی غیر کے محتاج نہیں ہیں اور اللہ کے سوا ہر چیز اللہ کی محتاج ہے اپنے وجود کے لئے بھی کہ اگر وہ پیدا نہ کرتا تو کوئی چیز بھی موجود نہ ہوتی اور اپنے قیام کے لئے بھی کہ جب تک خدا تعالیٰ کی صفات سے اس کا تعلق قائم ہو وہ قائم رہتی ہے ورنہ فنا ہو جاتی ہے.یہ صفات بھی باقی اور صفات کی طرح ازلی ابدی ہیں یعنی ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی.” ہمیشہ میں بھی انسان کا دماغ وقت کی طرف جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات میں بالائے زمان و مکان ہے یعنی نہ مکان کے ساتھ اس کا کوئی واسطہ نہ زمانہ کے ساتھ.یہ چیزیں تو ہمارے لئے ہیں، مخلوقات کے لئے.خدا تعالیٰ نہ زمانے میں بندھا ہوا ہے نہ کسی مکان میں محصور ہے بلکہ بالائے زمان و مکان اس کی ہستی ہے.اللہ کے سوا ہر چیز اس لحاظ سے بھی اس کے مقابلہ پر نہیں آسکتی کہ جس کو خدا نے پیدا کیا وہ از لی نہیں رہا اور جب وہ فنا ہو جائے ، فنا اس پر وارد ہو جائے تو وہ ختم ہو جاتا ہے ابد کا سوال ہی نہیں رہتا.نہ خدا نے اپنے جیسا، اپنی جنس کا کوئی اور وجود جنا نہ وہ جنا گیا.اس میں بھی ازلی ابدی تصور ہے خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہستیاں اولاد پیدا کرتی ہیں جو زوال پذیر ہوں تا کہ جو ان کے بچے پیدا ہوں وہ آگے ان کی جگہ لینے والے ہوں لیکن جس نے ہمیشہ قائم رہنا ہے اس کو اس کی احتیاج بھی نہیں اور اس نے ایسا کیا بھی نہیں کیونکہ یہ اس کی صفات کے خلاف ہے اور ہمارے اللہ کوکسی اور نے پیدا نہیں کیا کیونکہ هُوَ الاول (الحدید: ۴) سب سے پہلے اس کی ذات ہے جس سے پہلے کوئی ہے ہی نہیں اس نے
خطبات ناصر جلد ششم ۶۱۹ خطبہ جمعہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۶ء اس کو پیدا کیسے کرنا تھا.وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌ خدا تعالیٰ کی صفات میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی صفات میں کوئی شریک نہیں اس معنی میں کہ جہاں کہیں اس کی مخلوق میں اور اس میں مماثلت یا مشابہت پائی جاتی ہے وہاں بھی بنیادی طور پر اتنا عظیم فرق ہے کہ ان دو چیزوں کو ہم ایک نہیں کہہ سکتے مثلاً ہم کہتے ہیں کہ اللہ سنتا ہے اس کی ایک صفت السمیع بھی ہے اور انسان بھی سنتا ہے لیکن انسان کے سننے اور اللہ تعالیٰ کے سننے میں بنیادی طور پر بہت بڑا فرق ہے.خدا تعالیٰ سنتا ہے بغیر کسی آلہ کی احتیاج کے اور انسان سنتا ہے اپنے کان سے.خدا تعالیٰ سنتا ہے بغیر صوتی لہروں کے اس کو سننے کے لئے ان کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمارے کان کو صوتی لہروں کی اور وہ بھی خاص حدود کے اندر مقید لہروں کی ضرورت ہے جن کو صرف انسان کا کان سن سکتا ہے بعض دوسری لہریں ہیں جن کو بعض جانور سنتے ہیں انسان نہیں سن سکتا.میں یہ بتارہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بھی سنتا ہے اور انسان بھی سنتا ہے لیکن خدا تعالیٰ بغیر کسی مادے کی احتیاج کے، بغیر کسی کان کے سنتا ہے اور اس کو سننے کے لئے صوتی لہروں کی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ سنتا ہے جو دعائیں ہم کرتے ہیں وہ صوتی لہروں کے ذریعہ سے اس تک نہیں پہنچتیں بلکہ وہ ان کے بغیر ہی سنتا ہے.ان لہروں کی اس کو ضرورت نہیں ہے اسی طرح ہم دیکھتے ہیں ہمیں آنکھ کی ضرورت ہے ہم دیکھتے ہیں ہمیں سورج کی روشنی کی ہمارے اپنے وجود سے باہر کی روشنی کی ہمیں ضرورت ہے لیکن اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے بغیر آنکھ کے اور دیکھتا ہے بغیر کسی اور نور کے.وہ تو خود ہر دو جہاں کا نور ہے اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (النور : ٣٦) پس جہاں بظاہر تھوڑا سا اشتباہ پیدا ہوتا ہے یا مماثلت پیدا ہوتی ہے وہاں بھی اسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے وہ بڑا عظیم فرق بتاتی ہے خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں اور انسان کی کچھ تھوڑی سی مشابہت میں.تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ الله کو ہم اس معنی میں بھی لے سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا تھوڑا ساحصہ انسان کو یا دوسرے جانوروں کو ملا ہے لیکن بڑا فرق ہے پس جہاں تک خدا تعالیٰ کی صفات کا تعلق ہے کوئی چیز اور کوئی وجود اس کی صفات میں شریک نہیں ہے.
خطبات ناصر جلد ششم ۶۲۰ خطبہ جمعہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۶ء ہم اس اللہ پر ایمان لائے اس لئے ہمیں کسی غیر کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں ہے.نہ قبروں پر جا کر سجدہ کرنے کی ضرورت ہے نہ کسی پیر کی پرستش کرنے کی ضرورت ہے.ایک خدا ہے ہمارا جس کی ہمیں احتیاج ہے اور وہ ایک ڈر ہے جس کو ہم ضرورت کے وقت کھٹکھٹاتے ہیں اس کے علاوہ کسی اور درکو پہچانتے بھی نہیں.یہ ہے ہمارا عقیدہ.ہمارے اس اللہ نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرا محبوب ہے اور خدا نے ہمیں کہا کہ اگر تم میرا پیار حاصل کرنا چاہتے ہوتو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو میں تم سے پیار کرنے لگ جاؤں گا چونکہ ہمارے خدا نے یہ کہا اس لئے ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسا انتہائی عشق رکھتے ہیں کہ کسی انسان نے کسی دوسرے انسان سے نہ کبھی ایسا عشق کیا اور نہ کر سکتا ہے کیونکہ ہمارا عشق اپنی انتہائی رفعتوں کو پہنچا ہوا ہے اور دوسرے عشق اور پیار وہاں تک نہیں پہنچے اور پہنچا اس لئے ہے کہ ہمارے رب نے ہمیں کہا کہ اگر تم میرا پیار حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے محمد میرے محبوب سے تم پیار کرو اس کے بندے بنو ( قُلْ يُعِبَادِی میں اس طرف اشارہ ہے ) اور اس کی اتباع کرو میرا پیار تمہیں مل جائے گا.خدا تعالیٰ نے ہمیں کہا کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن عظیم کو نازل کیا اور یہ خدا کا کلام ہے اور یہ کامل اور مکمل شریعت ہے اور قیامت تک کے انسانی مسائل کو حل کرنے والا ہے.ہم پہلے تو غیب پر ایمان لانے کی طرح اس پر ایمان لائے لیکن جب خدا تعالیٰ کے اس عظیم کلام پر جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے ہاتھ میں پکڑا یا ہم نے غور کیا جب ہم نے ادھوری عقلوں کو اندھیروں میں اِدھر اُدھر بھٹکتے دیکھا اور سر کے بل گرتے دیکھا اور مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل پیدا کرنے والا پایا تو ہم نے محسوس کیا کہ خدا تعالیٰ نے قرآن عظیم جیسی جو عظیم کتاب ہمیں دی ہے اور ان ادھوری عقلوں کو روشنی عطا کرنے والی اور انسانی مسائل کو حل کرنے والی ہے اور اس کے بغیر انسان کا گزارہ ہی نہیں ہے.آج نہیں تو کل انسان کو اپنی بقا اور اپنی ترقیات کے لئے یہ حقیقت سمجھنی پڑے گی.اس اسلام پر ہم ایمان لائے ہیں وہ مذہب جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش
۶۲۱ خطبہ جمعہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۶ء خطبات ناصر جلد ششم کیا اس پر ہم ایمان لائے ہیں کیونکہ خدا نے کہا تھا کہ اس پر ایمان لاؤ.ہم قرآن کریم پر ایمان لائے ہیں.مذہب کا ایک حصہ فقہ ہے یعنی اپنے اجتہاد سے مسائل کے متعلق فتویٰ دینا.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہماری فقہ حنفی فقہ ہے یعنی امام ابو حنیفہ کی جو فقہ ہے وہ جماعت احمدیہ کی فقہ ہے اس اختلاف کے ساتھ کہ جہاں جماعت احمدیہ کا اجتہاد ہوگا وہاں جس حد تک یہ اجتہاد حنفی فقہ سے اختلاف رکھے گا تو ہماری فقہ ہمارا اجتہاد ہو گا لیکن جہاں جماعت احمدیہ کا اپنا کوئی اجتہاد نہیں وہاں ہم اپنے معاملات نکاح ورثہ وغیرہ میں حنفی فقہ کے تابع ہیں لیکن بہت سی جگہ جہاں جماعت احمدیہ کے اجتہاد نے اختلاف کیا ( میں یہ فقرہ جان بوجھ کر بول رہا ہوں میں جماعتِ احمدیہ کے کسی فرد کا اجتہاد نہیں کہہ رہا بلکہ جماعت احمدیہ کے اجتہاد نے جہاں اختلاف کیا ) وہاں ہم حنفی فقہ سے فقہیں اختلاف کرتے ہیں اور اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیونکہ تمام فقہاء کا اور ان کی جو مختلف ہیں حنفی ، شافعی ، حنبلی ، مالکی وغیرہ ہر ایک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ فقہی مسائل میں اختلاف ہوسکتا ہے اور وہ قابل اعتراض بات نہیں.یہ متفقہ فیصلہ ہے کسی نے اس میں اختلاف نہیں کیا.تو جو فیصلہ پہلے دے چکے اس میں دی گئی آزادی کے مدنظر اور جونور ہم نے مہدی کے ذریعہ حاصل کیا اس کی وجہ سے ہمارا یہ حق ہے کہ ہم اجتہاد کریں اور جہاں ہمیں ایک نئی اجتہادی روشنی حاصل ہو وہاں ہم حنفی فقہ سے اختلاف کریں.ورنہ جہاں یہ بات نہیں یا جب تک کسی مسئلہ کے متعلق یہ نہیں ہم حنفی فقہ پر عمل کرنے والے اور اس کے پابند ہیں.اللہ واحد و یگانہ ہمارا اللہ ہمارا رب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں ہمارے رسول ، قرآن عظیم ہماری کتاب اور اسلام ہمارا مذہب ہے یہ ہے عقیدہ ہمارا.کوئی اور سمجھے کہ ہمارا کچھ اور عقیدہ ہے تو اس کو ہم اس کے خدا کے حوالے کرتے ہیں کہ جو دلوں کا حال جاننے والا ہے.وہ آپ ہی فیصلہ کرے گا.یہاں فیصلے مشکل ہو جاتے ہیں اور مذہب کا تو اصل ثواب اور اس کی جزا مرنے کے بعد ملتی ہے.پس جب انسان مرے گا اور خدا کے حضور پیش ہوگا تو وہ آپ ہی فیصلہ کر دے گا کہ کس کے دل میں کیا تھا اور کس کے دل میں کیا نہیں تھا.بہر حال جو ہم محسوس
خطبات ناصر جلد ششم ۶۲۲ خطبہ جمعہ ۱۰ / دسمبر ۱۹۷۶ء کرتے ہیں اس کا اعلان کرتے ہیں اور جو ہم محسوس کرتے ہیں اس کا اعلان کرتے رہیں گے.دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اسلام سے دور لے جانے والی قرآن کریم سے پرے ہٹانے والی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق ہم سے چھینے والی اور اللہ تعالیٰ سے ہمیں پرے لے جا کر دھتکارے ہوؤں میں شامل کرنے والی نہیں ہے ایسا نہیں ہوگا.اگلی نسلوں کو بھی ہم کہتے ہیں کہ تم خوش ہو کہ ہم نے تمہارے ساتھ یہ عہد کیا ہے کہ تمہیں اسلام سے دور نہیں جانے دیں گے.کسی کو اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ تمہیں اسلام سے پرے لے جائے لیکن ہمارے عہد تو کمزور انسان کے عہد ہیں اس لئے ہم ہمیشہ اپنے رب سے دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم نے جو محسوس کیا اس کا اعلان کیا جو تیری محبت اپنے دلوں میں پائی اس کے مطابق ہم نے تجھ سے اپنے پیار کا اعلان کیا اگر کہیں کوئی کمزوری اگر کہیں کوئی کوتا ہی ہے تو معاف کر اور ہماری کمزوریوں کو دور کر کے ہمیں واقع میں اور حقیقہ اپنی نگاہ میں اپنے سچے عاشق بنالے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے خادم بنا دے اور قرآن کریم کی عظمت کو ساری دنیا میں قائم کرنے کا جو بیڑا ہم نے اٹھایا ہے اس میں ہمارا محمد اور معاون ہو اور وہ دن جلد آئیں کہ جب دنیا کے خطہ خطہ اور کونہ کو نہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانے لگے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار نوع انسانی کے دل جیت لے اور اپنے قدموں میں انہیں لے آئے.روزنامه الفضل ربوه ۸ /جنوری ۱۹۷۷ ، صفحہ ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد ششم ۶۲۳ خطبہ جمعہ ۱۷ رد سمبر ۱۹۷۶ء جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ترقی اور اس کی صفات کے مشاہدہ کا ذریعہ ہے خطبه جمعه فرموده ۱۷ / دسمبر ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.اس عالمین میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے ظاہر ہوتے ہیں، وہ ایک پہلو سے اللہ تعالیٰ کے جلال کو ، اُس کی عظمت اور کبریائی کو ثابت کرتے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے جمال کو، اُس حسن کو ، اُس کے احسان کو اور اُس کے پیار کو ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہمیں نوازا ہے اور ہمیں یہ توفیق دی ہے کہ ہم اس کی معرفت میں ترقی کرنے کے لئے اس کی صفات کے جلووں کا مشاہدہ کریں اور اس سے اثر قبول کریں، وہ اثر جو کہ ایک مومن بندہ کو قبول کرنا چاہیے.یہ جو ہمارا جلسہ ابھی گزرا ہے اس موقع پر ہم نے یعنی جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے جلالی جلوے، عظمت اور کبریائی کے جلوے بھی دیکھے اور اللہ تعالیٰ کے حسن واحسان کے جلوے بھی ہماری قسمت میں مقدر ہوئے.اس دفعہ بعض روکیں بھی تھیں مثلاً جلسہ کی تاریخیں بدلنی پڑیں اور ہمارے ہزاروں بچے اس وجہ سے اپنے جلسہ میں شریک نہیں ہو سکے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرما یا کہ وہ جو طالب علم نہیں تھے اُن کے دل میں یہ ڈالا گیا کہ وہ نہ آسکنے والوں کی نسبت زیادہ تعداد میں یہاں پہنچیں
خطبات ناصر جلد ششم ۶۲۴ خطبہ جمعہ ۱۷ ردسمبر ۱۹۷۶ء اور اپنے جلسہ میں شامل ہوں اس کے علاوہ اور بھی روکیں ہونے کے باوجود پچھلے سال کی نسبت اس سال جلسہ سالانہ میں شامل ہونے ہونے والوں کی تعداد زیادہ تھی بعض دفعہ میں حیران ہوتا تھا کہ کیسے اور کہاں سے آگئے.احساس یہ ہوتا تھا کہ شاید آسمان سے ٹپکے ہوں اور آسمان سے ہی آئے کیونکہ جو توفیق خدائے واحد و یگانہ سے ملتی ہے وہ بلند یوں ہی سے ملتی ہے اور بلندی کی طرف لے جانے والی ہی وہ تو فیق ہوتی ہے.مہمانوں کو ٹھہرانے میں بھی پریشانی کا سامنا تھا.اس کثرت سے مہمان آئے کہ میں نے سنا ہے کہ بعض نا سمجھ لوگوں نے اس شبہ کے ماتحت کہ شاید تعلیمی اداروں میں مہمانوں کو ٹھہرایا گیا ہو خاموشی کے ساتھ وہاں جا کر کمرے کمرے کی چھان بین بھی کی کہ کہیں یہاں تو مہمان نہیں ٹھہرائے گئے وہاں تو جیسا کہ پرانا دستور تھا مہمان نہیں ٹھہرائے گئے لیکن میں نے جلسہ سالانہ سے قبل اہل ربوہ سے کہا تھا یہ وقتیں ہیں اس لئے جلسہ پر آنے والے بھائیوں کو تم اپنے سینوں سے لگا لو اور میں خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ربوہ کو یہ توفیق عطا کی کہ آنے والے مہمانوں کو اُنہوں نے اپنے سینوں سے لگایا اور اپنے گھروں میں اُن کو جگہ دی اور بہتوں نے خلاف دستور لنگر سے کھانا بھی نہیں منگوایا بلکہ اپنے گھروں میں پکا کر اُن کو کھانا بھی دیا.مجھے معلوم ہوا جلسہ کے ایام میں مستورات اپنی قیام گاہوں میں آتی تھیں تو چونکہ عمارتیں تو نہیں تھیں کچھ شامیانے تھے اور کچھ خیمے تھے اس قسم کے انتظامات تھے وہاں آ کر وہ اپنا سامان رکھتی تھیں پھر کہتی تھیں ہم مکانوں کی تلاش میں نکلتی ہیں.اب اگر دس عورتیں تلاش کے لئے جاتیں تھیں تو دو تین واپس آجاتی تھیں باقیوں کو مکانوں میں جگہ مل جاتی تھی اُن کی جو واقف ، دوست ، شناس تھیں وہ کہتی تھیں ٹھیک ہے ہمارے پاس آجاؤ.غرض ایک طرف ایسا عظیم کردار اہل ربوہ نے دکھایا ہے کہ اس کرہ ارض پر اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی اور دوسری طرف جو جلسہ سالانہ پر آئے اللہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے اور غلبہ اسلام کے جو جلوے دنیا میں ظاہر ہورہے ہیں اُن کا علم حاصل کرنے کے لئے یہاں آئے اُنہوں نے بھی یہ عہد کیا تھا کہ کوئی دنیوی اور جسمانی تکلیف اُن کی
خطبات ناصر جلد ششم ۶۲۵ خطبہ جمعہ ۱۷ ردسمبر ۱۹۷۶ء راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی.جہاں گذشتہ سالوں میں دس افراد ایک چھوٹے سے کمرے میں رہے وہاں ۱۲.۱۵ آدمی ٹھہر گئے جسمانی طور پر اور زیادہ سکڑ گئے تا کہ اور زیادہ وسعت پیدا ہو اُن کے ماحول میں روحانی طور پر اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو وہ پہلے سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں پس آنے والوں نے بھی ایک ایسا نمونہ دکھایا جو کہیں اور نظر نہیں آتا اور ان کی میزبانی کرنے والوں یعنی اہلِ ربوہ نے بھی ایک ایسا نمونہ دکھایا کہ جس کی مثال ہمیں اور کہیں نظر نہیں آتی.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دو کو احسن جزا دے اور یہ توفیق دے کہ خدا تعالیٰ کی اس رحمت کے جلوے دیکھنے کے بعد پہلے سے زیادہ اس کی حمد کے ترانے گانے والے ہوں.اگر چہ ہمیشہ ہی جلسہ سالانہ پر فضا پر سکون رہتی ہے لیکن اس دفعہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ویسی نہیں رہے گی جیسی کہ ہماری احمدیت کی فضا ہوتی ہے جس میں کوئی جھگڑا نہیں ہوتا جس میں کوئی شور نہیں ہوتا کوئی بے ترتیبی نہیں ہوتی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں میں کوئی لڑائی جھگڑ انہیں ہوتا لیکن خدا کا شکر ہے نہایت پیار اور سکون کے ساتھ یہ دن گزر گئے اور ہمیں پتہ ہی نہیں لگا کہ کب جلسہ آیا اور کب ختم ہو گیا کب خوشیوں سے ہماری روح معمور تھی اور کب جانے والوں کے جانے کے نتیجہ میں اُداسی ہم پر چھا گئی.لیکن یہ اُداسی ایک بالکل بار یک پردہ ہے جس کے ورے بھی اور جس کے پرے بھی خدا تعالیٰ کے حسن اور نور اور احسان کے جلوے ہمیں نظر آتے ہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا شکر ادا کیا کرو اور میری حمد سے اپنے نفوس کو اور اپنے ماحول کو معمور رکھا کرو اس لئے جماعت احمدیہ کا ان عظیم الہی جلووں کو دیکھنے کے بعد ضروری فرض ہے جو اُن پر عائد ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد پہلے سے زیادہ کرنے والے ہوں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُم (ابراهیم : ۸) کہ اگر تم میرا شکر اور میری حمد کرو گے تو میں اپنی نعمتوں کا تمہیں پہلے سے زیادہ وارث بناؤں گا.پس ہم خدا کی حمد کرتے ہیں اس لئے نہیں کہ ہماری حمد کی اُسے احتیاج ہے بلکہ اس لئے کہ اس کی حمد کی ہمیں احتیاج ہے تا کہ وہ پہلے سے زیادہ ہم سے پیار کرے پہلے سے زیادہ اپنے قرب کی ہمیں راہیں دکھائے.دنیا میں پہلے سے زیادہ وہ انقلابات آئیں کہ جو ہمارے دلوں کو
خطبات ناصر جلد ششم ۶۲۶ خطبہ جمعہ ۱۷ رد سمبر ۱۹۷۶ء خوش کرنے والے اور ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والے ہوں ، دنیا میں اسلام پہلے سے زیادہ پھیلے.انسان پہلے سے زیادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو اور ہمیں پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے کی توفیق ملے.اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میرے بندوں کا بھی شکر ادا کیا کرو اور بندوں کا شکر ادا کرنا میرا شکر ادا کرنا ہے اس لئے جس حد تک ہمارے ملک کی انتظامیہ نے ہمارے لئے سہولتیں بہم پہنچائیں اُس حد تک ہم ان کے بے حد ممنون اور شکر گزار ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزا دے اور اللہ تعالیٰ انہیں بھی توفیق دے کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کی عظمت وجلال اور حسن واحسان کے جلوے دیکھنے والے ہوں.جلسہ سے پہلے بھی مجھے فلو اور Diarrhoea کی بیماری ہوگئی تھی جلسہ کے بعد اس قسم کا فلوتو نہیں ہوالیکن گلے کی خراش بڑھ گئی اور اس سے تکلیف ہے بھی اور نہیں بھی.تکلیف ہے اس لئے کہ سانس کی نالی میں تکلیف ہے اور نہیں اس لئے کہ جو ان دنوں میں پایا وہ اتنا عظیم ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا احساس بھی پیدا نہیں ہوتا لیکن کام کرتے ہوئے تکلیف کا احساس طبعاً ہوتا ہے مثلاً گلے کی جو تکلیف ہے بولتے ہوئے بعض دفعہ بیماری تکلیف دیتی ہے.بعض دفعہ Irritation بڑھ جاتی ہے تو لمبی کھانسی اُٹھنی شروع ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی ہر قسم کی تکالیف سے محفوظ رکھے اور مجھے بھی صحت کے ساتھ رکھے اور اسلام کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے.روز نامه الفضل ربوه ۸ /جنوری ۱۹۷۷ء صفحه ۶،۵)
خطبات ناصر جلد ششم ۶۲۷ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء قرآن کریم کا بے مثل ہو نا خدا تعالیٰ کے وجود پر ایک زبر دست دلیل ہے خطبه جمعه فرموده ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درج ذیل شعر پڑھا.اس کے بعد فرمایا :.قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے اس زمانہ میں الحاد اور دہر بیت بہت پھیل گئی ہے لیکن اسلام نے خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق اور اس کی وحدانیت کے متعلق ہمیں بڑے زبر دست دلائل بتائے ہیں ہمارا یہ فرض ہے کہ اس دہریت کے زمانہ میں خود بھی ان دلائل پر غور کرتے رہیں اور ان کو اپنے ذہن میں حاضر رکھیں اور آنے والی نسلوں کو بھی یہ دلائل بتاتے رہیں تا کہ دہریت کا یہ زہر جو آج کی زندگی میں پھیلا ہوا ہے اس سے ہم اور ہماری نسلیں محفوظ رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں بڑی کثرت سے خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق ہستی باری تعالیٰ کے متعلق ایسے زبر دست دلائل دیئے ہیں جن کا جواب کوئی دہریہ
خطبات ناصر جلد ششم ۶۲۸ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء نہیں دے سکتا.اس وقت میں صرف ایک دلیل لوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اور یہ بات ظاہر ہے بچے بھی اس کو سمجھ جائیں گے کہ جس چیز کو انسانی قوی نے بنایا ہے اس چیز کے بنانے پر انسانی قومی قادر ہیں.جو چیز انسان کے ہاتھ سے بنی ہے انسانی ہاتھ اسے بنا سکتا ہے تبھی تو وہ بن گئی تو جس چیز کو انسانی طاقت نے اور اس کی قوتوں نے بنایا ہے انسان کی طاقت اور قوت اس کے بنانے پر قادر ہے اس واسطے انسان کے ہاتھ کی بنی ہوئی کوئی چیز بھی بے نظیر اور بے مثل نہیں ہے ایک انسان نے بنائی دوسرا بھی بنا سکتا ہے.چنانچہ جب ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو انسان ہمیں شروع سے ہی ایک حرکت کرتا ہوا نظر آتا ہے.ایک نسل دنیوی لحاظ سے کچھ پیدا کرتی ہے اور اس کے بعد آنے والے نہ صرف اس کی مانند بنا سکتے ہیں بلکہ اس سے بہتر بنا سکتے ہیں.آپ پڑھتے رہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی حکومت کی طرف سے ہر سال اس قسم کے اعلانات ہوتے ہیں کہ گندم کا فلاں بیچ جو بڑا اچھا تھا اس سے بہتر بیج ہمارے محکمہ زراعت نے بنالیا ہے اور وہ بونا چاہیے.اسی طرح آج کل کاریں انسانی ضرورت کو پورا کر رہی ہیں اور بڑی کثرت سے استعمال ہو رہی ہیں.کار کی صنعت کی تاریخ پر ہم نظر ڈالیں تو ایک وقت میں دنیا میں بڑا شور بپا ہوا کہ انسانی طاقت نے کار بنالی اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اب انسانی طاقت کا رنہیں بنا سکتی.انسانی طاقت نے کار بنائی، انسانی طاقت کار بنا سکتی ہے.پھر یہ اعلان آنے شروع ہوئے کاروں کی ساری فر میں یہ اشتہار دیتی ہیں کہ ۷۴ کا ماڈل آ گیا جو ۷۳ کے ماڈل سے زیادہ اچھا ہے.فورڈ ایک کا ر ہے اس کی طرف سے اعلان ہوتا ہے.یہاں جاپانی کاریں ٹیوٹا وغیرہ آئی ہوئی ہیں ان کی طرف سے یہ اعلان ہوتا ہے کہ ہم نے پچھلے سال کی نسبت بہتر ماڈل بنا دیا.پس صرف یہی نہیں کہ انسان کی طاقت نے جو بنا یا دوسرے انسان کی طاقت میں ہے کہ وہ بھی بنالے بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیوی زندگی میں بھی ، انسانی نسل کو اس دنیوی زندگی میں بھی بے انتہا ترقیات کی طاقت دی ہے.انسان بھی تو خدا تعالیٰ کے دست قدرت سے پیدا ہوا ہے نا.غرض انسان نے کا ربنائی ایک بڑی بے ڈھنگی
خطبات ناصر جلد ششم ۶۲۹ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء سی کار.زمین سے تین فٹ اونچی اٹھی ہوئی.ابھی تک انہوں نے اپنے میوزیمز میں رکھی ہوئی ہیں اور لوگ اُس پرانی کار کو دیکھنے کے لئے پیسے دے کر ٹکٹ لے کر میوزیم میں جاتے ہیں.یورپ کے مختلف ممالک اور انگلستان اور امریکہ وغیرہ میں.اور آج سے جو ۷۰.۸۰ سال پرانی کار تھی اگر کسی نے اس کا پنجر صحیح حالت میں صحیح شکل میں رکھا ہوا ہے تو اس کی بڑی قیمت پڑ جاتی ہے.اس کی تاریخی قیمت ہے کہ انسان ایک وقت میں ایسی کار بنایا کرتا تھا اور پھر اس نے ترقی کی اور ۷۰.۸۰ سال کے بعد اب ایسی کار بنانی شروع کر دی.پس جو چیز قوت بشریہ نے بنائی انسانی طاقت اس کے بنانے پر قادر ہے اور اس سے بہتر بنانے پر قادر ہے.یہ بڑی موٹی بات ہے.بچہ بڑا عورت مرد سب اس مسئلے کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں.لیکن جو چیز اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت سے نکلی وہ بے مثل و مانند ہے.انسان وہ بنا ہی نہیں سکتا.نہ آج تک کسی انسان نے بنائی نہ انسان وہ بنا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور جگہ اپنے منظوم کلام میں فرمایا ہے کہ بشر کیڑے کا ایک پاؤں بھی نہیں بنا سکتا اور یہ حقیقت ہے.اب بڑی عمر میں انسان کے دانت گرنے شروع ہو جاتے ہیں کسی کی بڑی عمر دانتوں کے لحاظ سے جلدی شروع ہو جاتی ہے کسی کی دیر کے بعد.تو انسان بھی مصنوعی دانت بنا تا ہے لیکن جو دانت خدا نے بنایا ہے ویسا دانت وہ بنا ہی نہیں سکتا.کئی ناسمجھ کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے دانت بنا دیا.میں کہتا ہوں کہ انسان نے دانت نہیں بنایا بلکہ اس کی نقل بنائی ہے.خدا تعالیٰ نے جو دانت بنایا ہے اس کے اندر ایک نرو (Nerve) ہوتا ہے اور اس نرو (Nerve) کا تعلق خدا تعالیٰ نے انسان کے سارے جسم کے اعصاب (Nerves) کے ساتھ باندھ دیا ہے.یہ ہے خدا کا بنایا ہوا دانت.لیکن یہ اس کا ایک پہلو ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے دانت کے تو اور بے شمار پہلو ہیں.میں آپ کو مثال سمجھانے کے لئے اس کا ایک پہلو بتا رہا ہوں.خدا نے جو دانت بنایا ہے اس کے وسط میں سے ایک نرو ( Nerve) قریباً نیچے تک آیا ہوا ہے اور اس کو ڈھانکنے کے لئے اس کی کوررنگ (Covering) ہے.اُس نرو (Nerve) کا تعلق سارے جسم کے نروز (Nerves) سے ہے.جب اس میں درد ہو تو انسان کا سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے.اس کی درد کو سارے اعصاب
خطبات ناصر جلد ششم ۶۳۰ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء اس کے ساتھ محسوس کرتے ہیں اور انسان کو بے چین کر دیتے ہیں لیکن آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ ”انسان“ نے جو دانت بنایا ہے اس میں کبھی درد بھی ہوئی اور اس دانت کے نتیجے میں ایک انسان ساری رات جاگتا رہا اور کروٹیں بدلتا رہا اور اس کو نیند نہیں آئی.اس میں درد ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ اس میں نروز (Nerves) ہی نہیں.وہ دانت خدا کے بنائے ہوئے دانت کی طرح ہے ہی نہیں لیکن خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے دانت میں جو نر و (Nerve) ہے اگر اس میں تکلیف ہو تو انسان ساری رات سو ہی نہیں سکتا.یہ میں نے صرف ایک بات بتائی ہے جو انسان کے بنائے ہوئے دانت اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے دانت کے درمیان اختلاف ظاہر کرتی ہے ورنہ بے حد اختلاف ان میں پائے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو فرمایا ہے کہ انسان کیڑے کا ایک پاؤں بھی نہیں بنا سکتا.اس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آیا.انسان نے الیکٹرانک مائیکر وسکوپس بنالی ہیں یعنی ایسی الیکٹرانک خوردبین جو چیز کو بہت زیادہ بڑا کر کے دکھاتی ہے.ہماری پنجاب یونیورسٹی میں وہ نئ نئی پہنچی تھی.میں پرنسپل تھا تو ہمیں تنگ کیا کرتے تھے کہ تمہیں ایم.ایس.سی کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ تمہارے پاس تو الیکٹرانک خورد بین بھی نہیں ہے حالانکہ ایم.ایس سی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور خود ان کو تحفہ ملی ہوئی تھی جس کا وہ استعمال نہیں کر سکتے تھے.ایک دفعہ میں لا ہور گیا تو میں نے کہا یہ ہمیں تنگ کرتے ہیں میں ان سے مزاح کروں.چنانچہ میں وہاں چلا گیا میں نے کہا کہ مجھے دکھاؤ ، بڑی اچھی ہے، کس نے تحفہ دی ، کس ملک سے آئی وغیرہ.ان کی باتوں سے مجھے پتہ لگا کہ انہوں نے اس کو بس ایک مقدس اور بزرگ چیز بنا کر رکھا ہوا ہے اور اس کو استعمال کرنا بھی نہیں جانتے.ان کو شرمندہ کرنے کے لئے میں نے انہیں کہا کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے فرمایا ہے کہ جو چیزیں خدا تعالیٰ کے دست قدرت سے نکلی ہیں انسان ویسی نہیں بنا سکتا اور مثال دی ہے کہ کیری کا ایک پاؤں بھی نہیں بنا سکتا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ تمہارے پاس اتنی زبر دست خورد بین آگئی ہے.آپ نے ہمیں جو دلیل دی ہے اس کی وضاحت کے لئے ایک چیونٹی کے پاؤں کی مجھے تصویر لے دو.وہ الیکٹرانک خوردبین تصویر بھی
خطبات ناصر جلد ششم ۶۳۱ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء لیتی ہے تو وہ لوگ میرا منہ دیکھنے لگے.چنانچہ پتہ لگا کہ انہوں نے کبھی استعمال ہی نہیں کی اور نہ استعمال کرنی آتی ہے لیکن جنہوں نے وہ بنائی ہے وہ اسے استعمال کر رہے ہیں.چنانچہ جب ہم چیونٹی کے پاؤں کو بڑا کر کے میگنیفائی (Magnify) کر کے اس کی تصویر لیتے ہیں تو اس کے اندر بھی، اس چھوٹی سی چیز میں بھی خدا تعالیٰ نے ایک دنیا سمیٹی ہوئی ہے اور انسان ویسا بنا ہی نہیں سکتا.ویسے تو ہر چیز جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی اس کی ذات پر دلیل بنتی ہے.ہر چیز کا بے مثل و مانند ہونا یعنی ایسا ہونا کہ اس جیسی چیز انسان نہیں بنا سکتا اس سے بڑھ کر تو سوال ہی نہیں اس جیسی چیز بھی انسان نہیں بنا سکتا.یہ بات ایک محکم دلیل قائم کرتی ہے خدا تعالیٰ کی ذات پر اور اس کی ہستی پر لیکن میں نے آپ سے کہا تھا کہ اس وقت میں صرف ایک دلیل بیان کروں گا سو وہ دلیل قرآن عظیم ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعہ نازل ہونے والی ایک ایسی کتاب جو لفظاً محفوظ کی گئی اس کے اندر کوئی تبدیلی انسان کی شرارت یا انسان کی جہالت یا انسان کی غفلت یا انسان کی بے پرواہی کر ہی نہیں سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کتاب کو اپنی حفاظت میں رکھا ہے.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :.جو چیز محض قدرت کا ملہ خدائے تعالیٰ سے ظہور پذیر ہو خواہ وہ چیز اس کی مخلوقات میں سے کوئی مخلوق ہو اور خواہ وہ اس کی پاک کتابوں میں سے کوئی کتاب ہو جو لفظ اور معناً اسی کی طرف سے صادر ہو اس کا اس صفت سے متصف ہونا ضروری ہے کہ کوئی مخلوق اس کی مثل بنانے پر قادر نہ ہو.قرآن کریم کا یہ دعوی ہے کہ میں بے مثل و مانند ہوں، یہ نہیں ہے کہ اس کو اپنے بے مثل ہونے کے لئے کسی انسان کی مدد کی ضرورت ہے بلکہ خود قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم بے مثل و مانند ہے.قرآن کریم نے دو تین جگہ اپنے مضمون کے لحاظ سے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ الہامی کتاب نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں اور یہ لفظا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئی تو اس جیسی کوئی کتاب ( یا سورۃ یا حصہ کا مطالبہ ) بنا کر پیش کر دو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ شان ہے کہ آپ کی تحریر اصولی طور پر ہر چیز کا احاطہ کر
خطبات ناصر جلد ششم ۶۳۲ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء لیتی ہے.آپ نے فرمایا کہ ایسی کتاب جو لفظاً اور معناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہو وہ اس صفت سے متصف ہوگی کہ اس کی مثل بنانے پر خدا تعالیٰ کی کوئی مخلوق قادر نہیں ہے.لفظ “ تو واضح ہے کہ وہ کتاب جو لفظاً خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو ، اس کے الفاظ وحی کے ذریعے نازل ہوئے ہوں اور پھر اسی طرح محفوظ ہوئے ہوں اور محفوظ چلے آئے ہوں اور اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہو کہ قیامت تک کہ جب تک کے لئے یہ کتاب ہے وہ محفوظ چلتے چلے جائیں گے.لیکن معنا “ کے کیا معنی ہیں.ہر آدمی کے لئے اس کا سمجھنا آسان نہیں.مَعْنًا کے معنی کی رُو سے قرآن کریم کی کسی تفسیر کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے بہتر تفسیر پیش نہیں کی جاسکتی.یہ اس لئے ہے کہ قرآن کریم کے بے شمار بطون ہیں اور قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قیامت تک کے انسانی مسائل کو حل کرنے کی طاقت مجھ میں ہے.تو جو تفسیر قرآن کریم کی کسی آیت کی ہمارے دوسری صدی کے بزرگوں نے دنیا کے سامنے رکھی اس سے بہتر تفسیر مہدی معہود نے چودھویں صدی کے اندر انسان کے ہاتھ میں دے دی.پس معنا کے لحاظ سے یہ مراد نہیں ہے کہ کسی انسان کی لکھی ہوئی تفسیر سے بہتر نہیں پیش کی جاسکتی بلکہ معنا سے مراد یہ ہے کہ وہ معناً خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہو اور اس لحاظ سے وہ بے مثل و مانند ہو.اس کے سمجھانے کے لئے میں یہ مثال دوں گا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر عیسائیوں نے یہ اعتراض کروایا کہ جب آپ کے نزدیک بھی بائیبل خدا تعالیٰ کے نبیوں پر نازل ہونے والی کتب کا مجموعہ ہے تو جب آپ کے نزدیک بائیبل بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے جو اتنی موٹی کتاب ہے تو قرآن کریم جو جم میں اس سے چھوٹا ہے اس کی کیا ضرورت پیش آئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کا جواب دیتے ہوئے لمبی بحث میں نہیں گئے.اس وقت میرے ذہن میں نہیں ممکن ہے اس کے متعلق بھی اصولی اشارے ہوں لیکن آپ نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ قرآن کریم کی بات نہ کرو اگر تم قرآن کریم کے شروع میں سورۃ فاتحہ کا مقابلہ کر کے دکھا دو جو سات چھوٹی آیات پر مشتمل ایک چھوٹی سی سورۃ ہے.آپ نے دیکھا ہوگا کہ چھاپنے والے سورۃ فاتحہ کو ہمیشہ ایک صفحہ پر چھاپتے ہیں یعنی یہ نہیں کہ اس صفحہ پر او پر چند آیتیں سورۃ فاتحہ کی اور
خطبات ناصر جلد ششم ۶۳۳ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء اس کے بعد سورۃ بقرۃ شروع کر دیں بلکہ صفحے کے درمیان میں سورۃ فاتحہ آئی ہوتی ہے اور باقی صفحہ کو انہوں نے نقش و نگار سے سجایا ہوتا ہے چھوٹی سی سورۃ ہے.تو آپ نے فرمایا کہ یہ جو چھوٹی سی سورۃ قرآن کے شروع میں سورۃ فاتحہ ہے اگر تم اپنی اتنی بڑی کتاب بائیبل سے وہ روحانی علوم اور اسرار جو اس چھوٹی سی سورۃ میں پائے جاتے ہیں نکال کر دکھا دو تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارے پاس کچھ ہے.تم نے بات شروع کر دی سارے قرآن کریم کی تمہاری کتاب تو سورۃ فاتحہ کا مقابلہ نہیں کرتی ،لمبازمانہ گزرگیا.عیسائی پادریوں نے سوچا کہ یہ جو چیلنج دیا گیا ہے قرآن کریم اور بائیبل کے موازنہ کا ہمارے خاموش رہنے سے دنیا اس کو بھول جائے گی اس لئے جب میں ۱۹۶۷ء میں اپنی خلافت کے زمانہ میں پہلی بار یورپ گیا تو ڈنمارک میں عیسائی پادریوں نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کی.میں نے انہیں وقت دیا.باتیں ہوتی رہیں جب وہ جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہی چینج میں نے ان کو دیا جو کہ دراصل تو اس اعتراض کا جواب تھا کہ بائیبل جو موجود ہے تو قرآن کریم کی کیا ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بائیبل تو ہے لیکن اس میں سورۃ فاتحہ جیسے علوم روحانی اور اسرار موجود نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کا انگریزی ترجمہ کروایا ہوا تھا چنانچہ جس وقت وہ جانے لگے تو میں نے آپ کے الفاظ میں وہ چیلنج ان کو دیا.میں نے کہا کہ میں نے آپ کو دوران گفتگو اس لئے یہ چیز نہیں پکڑا ئی تھی کہ اس وقت آپ مجھے کہتے کہ ہم فوری طور پر کیسے جواب دے سکتے ہیں.تو میں آپ سے ایسا مطالبہ نہیں کرنا چاہتا تھا جس کو آپ فوری طور پر منظور کر کے اس کا جواب نہ دے سکیں.اس لئے جب ہم باہر نکل آئے ہیں اور میں آپ کو الوداع کہہ رہا ہوں میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس دیتا ہوں اور پھر میں نے انہیں کہا کہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہ سوچے کہ جس نے عیسائیت کو اس مقابلے کی طرف بلا یا تھا اس کا تو ۱۹۰۸ء میں وصال ہو گیا اب ہم جواب دیں تو کس کو جا کر دیں.میں نے کہا کہ میں آپ کا نائب اور خلیفہ موجود ہوں.تم جواب دو اور میں اسے قبول کروں گا اور پھر مقابلہ ہو جائے گا.غرض میں نے انہیں کہا کہ یہ لے جاؤ ، سر جوڑ و ، سارے پادری اکٹھے ہوکر مشورے کرو اور مجھے اس کا جواب
خطبات ناصر جلد ششم دو.یہ ۱۹۶۷ ء کی بات ہے.۶۳۴ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء پچھلے سال ڈنمارک سے ایک صحافی یہاں آئے ہوئے تھے وہ مجھے کہنے لگے کہ پادری تو وہاں آپ کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ آپ نے ان پر سختی کی.سچی بات جب کڑوی لگتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ جی سختی کر دی ( یہاں بھی بعض یہی کہتے ہیں ) میں نے اس صحافی کو جو دہر یہ تھا یا عیسائی تھا واللہ اعلم کیا تھا بہر حال وہ مسلمان نہیں تھا میں نے اسے کہا میں نے تو سختی نہیں کی میں نے تو ان سے یہ بات کہی تھی کہ سورۃ فاتحہ جو قرآن کریم کی ابتدا میں ایک چھوٹی سی سورۃ ہے اس سورۃ میں جو اسرار روحانی اور مذہبی علوم اور اخلاقی علوم اور اقتصادی علوم پائے جاتے ہیں بائیبل سے ان کے مقابل میں پیش کرو.عظیم ہے قرآن کریم کی ہر سورۃ اور سورۃ فاتحہ کو سارے قرآن کا خلاصہ کہا جاتا ہے.بائیبل میں وہ علوم نہیں ہیں.عیسائیوں نے جو اعتراض کیا تھا اس کے جواب میں ان کو یہ کہا تھا کہ اس میں مقابلہ کرو اور انہوں نے اسے قبول نہیں کیا.۱۹۶۷ء میں میں نے ان کو پھر مقابلہ کے لئے بلایا تھا اور آٹھ نو سال ہو گئے ہیں لیکن انہوں نے اب بھی اسے قبول نہیں کیا.کہنے لگا اچھا یہ بات ہے تو پھر میں جا کر ان کی خبر لوں گا.معنا “ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دروازہ بند کیا ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ جو تفسیر میں نے کی ہے اس کا مقابلہ کر کے دکھاؤ.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جو تفسیر خدا تعالیٰ نے مجھے سکھائی ہے تو وہ اور بات ہے مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے مسائل جو آگے پیدا ہونے والے ہیں قرآن کریم سے بتائے ہیں اور آپ نے آج کے مسائل تفصیلاً اور جو بعد میں ہیں ان کا بیج بیان کیا ہے.آپ کا ایک فقرہ ایک چھوٹا سا بیج ہوتا ہے اس پر کئی آدمی کئی خطبے دے سکتے ہیں.ان میں بہت بڑا مضمون بیان ہو جاتا ہے.قرآن کریم نے اپنے معنوں کا بھی اعلان کیا ہے وہ لفظاً اور معناً خدا کی طرف سے ہے یعنی قرآن کے وہ معانی جن کی طرف قرآن کریم اشارہ کر رہا ہے قرآن کریم نے متعدد جگہ متعدد آیات میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآن کریم میں قیامت تک کی ضروریات کے لئے اخلاقی اور روحانی اور ذہنی جلا کے لئے جس تعلیم کی ضرورت ہے وہ اس کے اندر موجود ہے.یہ معنی ہیں کہ جو لفظا اور
خطبات ناصر جلد ششم ۶۳۵ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء معناً خدا کی طرف سے ہے یعنی (جس کے بطون غیر محدود ہیں ) انسان کا بنایا ہوا کوئی ایسا کلام نہیں جو قرآن کریم کے مقابلے میں پیش کیا جا سکے اس لئے قرآن کریم لفظا اور معناً خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کلام ہے خود قرآن کریم نے کہا ہے اصولی طور پر کہ میرے اندر کس قسم کے معنی ہیں اور خدا تعالیٰ کے نیک بندے پچھلے چودہ سو سال سے خدا تعالیٰ سے سیکھ کر نئے سے نئے علوم قرآن کریم سے نکال کر انسان کے سامنے پیش کرتے آئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے اس عظیم کلام کی عظمت کو انسان پر ظاہر کرتے چلے آئے ہیں.آج انسان پر قیامت تو نہیں آگئی.انسان زندہ ہے اور ہمارے نزدیک کم از کم کچھ او پر نوصدیاں ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی حکمت کا ملہ اسلام کو تمام مذاہب باطلہ پر غالب رکھتے ہوئے یہ غلبہ تو آئندہ قریباً سو سال کے اندر ہو جائے گا) ایک حسین معاشرہ دنیا میں قائم کر کے نوع انسانی کو اس دنیا پر زندہ رکھے گی اور حسین معاشرہ میں اونچ نیچ بھی ہے وہ تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.قرآن کریم کا یہ دعوی ہے.اگر آج کا انسان دعوی کرے کہ میں اس کی مثل و مانند لفظ و معناً بنا سکتا ہوں.ہم ثابت کریں گے کہ نہیں بنا سکتا.جس وقت قرآن کریم نازل ہوا اس وقت عربوں میں لکھنے کی عادت نہیں تھی لیکن ان کے حافظے اتنے تیز تھے اور عربی زبان سے ان کا شغف اور پیار اتنا تھا کہ سینکڑوں آدمیوں کو ہزاروں کی تعداد میں عربی کے شعر یاد تھے اور عربی زبان کو اتنی اہمیت دی جاتی تھی کہ جو چوٹی کے شعراء کی بلند پایہ جو نظمیں ہوتی تھیں وہ خانہ کعبہ میں لٹکادی جاتی تھیں یعنی اپنے خیال خام میں خانہ کعبہ کی عظمت کے ساتھ اس کلام کی عظمت کو ملا دیا جا تا تھا لیکن اس وقت کے عربی دان غیر مسلم کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ یہ کہے کہ میں قرآن جیسا کلام پیش کر سکتا ہوں جو لفظاً اور معنا ان خوبیوں پر مشتمل ہو جن پر قرآن کریم مشتمل ہے اور آج تک قرآن کریم کو اپنی زبان میں استعمال کرنے والے عیسائی یہ دعویٰ نہیں کر سکے اور نہ کر سکتے ہیں اور اگر کوئی جاہل جہالت کے جوش میں یہ دعوی کرے تو خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ ثابت کرے گی کہ وہ اپنے دعوی میں غلط ہے.جماعت احمد یہ ثابت کرے گی اور انسان کو مطمئن کرے گی کہ یہ دعوئی غلط ہے.آئندہ نوع انسان کی اتنی لمبی زندگی ہے اور اس وقت دنیا میں چوٹی کے غیر مسلم عربی دان
خطبات ناصر جلد ششم ۶۳۶ خطبہ جمعہ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۷۶ء موجود ہیں کیوں وہ مقابلے کے اس چیلنج کو جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق دیا ہے قبول نہیں کرتے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ خدا کا کلام نہیں تو اس کی ایک مثل پیدا کر دو لکھو.کوئی تحریر لاؤ، ساری کتاب نہ سہی کوئی چھوٹا سا ٹکڑالا ؤ.کسی جگہ دس آیتوں کا مطالبہ کیا ہے کسی جگہ سورۃ کا مطالبہ کیا ہے میں ان کی تفصیل میں جا کر مطالبات کی حکمت اس وقت بتانے کے لئے کھڑا نہیں ہوا.غرض قرآن کریم کا بے مثل و مانند ہونا اور قرآن کریم کا ابتدائے نزول سے ہی دنیا کو ایک چیلنج دینا کہ اگر ہمت ہے تو میرے مقابلہ پر آؤ اور دنیا کا اسے قبول نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کلام انسان کی طاقت سے نازل نہیں ہوا، نہ بنایا گیا.کیونکہ جو چیز قوائے بشریہ سے بنتی ہے وہ بے مثل و مانند ہوتی ہی نہیں.ہمارا مشاہدہ یہ ہے.ہماری عقل یہ کہتی ہے ہماری تاریخ یعنی انسان کی تاریخ یہ بتاتی ہے ابھی میں نے اس کی طرف مختصراً اشارہ کیا تھا.پس قرآن کریم کا بے مثل و مانند ہونا اس بات پر زبردست دلیل ہے کہ اللہ واحد و یگانہ موجود ہے اور یہ کلام خدائے واحد و یگانہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس وقت سب سے بڑی طاقت جو دہریت کی علمبردار ہے وہ کمیونسٹ رشیا (روس) ہے.وہ کہتے ہیں کہ خدا ہے ہی نہیں.ہم کہتے ہیں کہ اگر خدا نہیں ہے تو قرآن کریم کے چیلنج کو قبول کرو.تمہارے اپنے ملک میں بہترین عربی دان موجود ہیں، دنیا میں عربی کلام سے محبت کرنے والے عربی زبان سے محبت کرنے والے چوٹی کے ماہر غیر مسلم موجود ہیں کسی مذہب کی طرف منسوب ہونے والے غیر مسلم بھی موجود ہیں اور خدا کا انکار کرنے والے غیر مسلم بھی موجود ہیں.چنانچہ اتنی زبر دست دعوت مقابلہ تمہیں دی گی ہے.خالی تمہارا یہ شور مچاتے رہنا کہ خدا نہیں ہے ایک عظمند انسان جس کے سامنے یہ دلیل رکھی جائے اور اس قسم کے اور دلائل رکھے جائیں وہ تمہاری بات نہیں مان سکتا کیونکہ جہاں بہت سی ایسی دلیلیں ہوں گی جن کے ساتھ دعوت مقابلہ نہیں ہے وہاں ہم سینکڑوں ایسے دلائل پیش کر سکتے ہیں جن کے ساتھ دعوت مقابلہ بھی دیں گے.قرآن کریم نے کھلے طور پر اپنا کلام الہی ہونا ذات باری پر دلیل ٹھہرایا ہے یہ بڑی زبردست دلیل ہے اور اس نے یہ چیلنج دیا ہے تحدی کے ساتھ یہ دعوت مقابلہ دی ہے کہ آؤ اور میرا مقابلہ کرو.محض یہ کہ دینا کہ خدا نہیں ہے اور خدا کے نہ ہونے
خطبات ناصر جلد ششم ۶۳۷ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء پر کوئی ایسی دلیل پیش کرنے پر قادر نہ ہونا جو ہماری عقل کو منوا دے اور خدا کے ہونے پر ہماری طرف سے ایسے دلائل پیش ہو جانے جن دلائل کو توڑنے پر تمہارا قادر نہ ہونا اور اس کے باوجود یہ کہنا کہ جی خدا تعالیٰ نہیں ہے یہ تو ظاہر ہے کہ غیر معقول بات ہے.بہر حال اس وقت خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایک زبر دست دلیل جو ہمیں دی گئی ہے وہ قرآن کریم ہے یعنی قرآن کریم کا بے مثل و مانند ہونا لیکن انسان کے ہاتھ سے تیار کردہ ہر چیز کا اس صفت سے متصف نہ ہونا بلکہ دوسرے انسان کا ویسا ہی بنالینا یا اس سے بہتر بنالینا اور قرآن کریم کی مانند ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی نہ بنا سکنا اور قرآن کریم کی اس دعوت مقابلہ کو منظور کرنے سے گریز کرنا کہ اگر یہ خدا کا کلام نہیں تو اس کی مثل پیش کرو کیونکہ اگر قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام نہیں تو پھر انسان کا کلام ہے اور جیسا کہ میں نے شروع میں کہا ہر چیز جو انسان بنائے ، جو انسان کی طاقت سے نکلی ہو خواہ وہ اس کی بنائی ہوئی چیزیں موٹر وغیرہ ہوں یا اس کا کلام ہو وہ بے مثل و مانند ہوتا ہی نہیں.اگر تمہارے نزدیک قرآن کریم انسان کا بنایا ہوا کلام ہے تو تمہارے جیسے انسانوں کو یہ طاقت ہے کہ تم اس جیسا بنا سکو کیونکہ تم بھی انسان ہو.اگر قرآن کریم کو انسانی طاقت نے بنایا ہے تو تمہاری (انسانی) طاقت اس کی مثل و مانند بنا سکتی ہے لیکن تم اس طرف آتے نہیں اور اس طرح تم اس بات کا اعلان کرتے ہو کہ تم میں انسانی طاقتوں کا عروج ہونے کے باوجود قرآن کریم کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے.تمہارا یہ دعویٰ ہے اور ایک حد تک یہ واقعہ بھی ہے کہ دنیوی لحاظ سے یہ دہر یہ ممالک بہت ترقی یافتہ ہیں، تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تم ہو یا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں سے تم ہو اور دنیوی لحاظ سے آج کا مسلمان بہر حال کمزور ہے اور دنیوی لحاظ سے آج کی احمدیت بہت ہی زیادہ کمزور ہے.پس اتنی بڑی طاقت رکھنے کے با وجود ایک چھوٹی سی جماعت کے مقابل اس دلیل قرآنی کو توڑنے کے قابل نہ ہونا کہ خدا نے یہ کہا اور ہم خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لاتے ہوئے اور خدا کے کلام پر ایمان لاتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ کوئی انسانی طاقت قرآن کریم کی مثل و مانند بنانے پر قادر نہیں خواہ وہ انسانی طاقت روس جیسی زبر دست طاقت یا امریکہ جیسی زبر دست طاقت یا چین جیسی زبر دست طاقت ہی کیوں
خطبات ناصر جلد ششم ۶۳۸ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء نہ ہو.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے، خدا تعالی کی ہستی پر نہایت واضح اور معقول دلائل موجود ہیں، ایک ہے عقل کا دائرہ.عقل یہ کہتی ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا یا عقل اسی طرح اور بہت سی باتیں کہتی ہے اس پر بھی کسی وقت توفیق ملی تو تفصیل سے روشنی ڈالوں گا.بعض چیزوں کے متعلق عقل یہ کہتی ہے کہ عقلاً یہ بات نہیں ہوسکتی.مثلاً عقل یہ کہتی ہے کہ ۱+۱+۱، ایک نہیں ہو سکتے بلکہ تین بنیں گے یہ عقل کہتی ہے.پانچویں چھٹی جماعت کے بچے کو بھی پتہ ہوگا کہ ایک +ایک+ ایک تین بنتے ہیں ایک نہیں بنتا اسی طرح عقل یہ کہتی ہے کہ ۵+ ۵ دس بنتے ہیں سونہیں بنتا اگر کوئی یہ کہے کہ جی میرے پاس اتنی زبر دست روحانی دلیل ہے کہ ۱۵ اور ۵ کوستو بنا دیتا ہوں تو عقل کہتی ہے کہ چلے جاؤ ہم نہیں تمہاری بات ماننے کے لئے تیار لیکن بعض جگہ عقل کہتی ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آئی کیونکہ انسان کو صرف عقلی طاقتیں ہی نہیں دی گئیں بلکہ اس کو بالائے عقل طاقتیں بھی دی گئیں ہیں اور قرآن کریم نے جہاں ان کا ذکر کیا ہے وہاں اُس نے دلائل دیئے ہیں اور بتایا ہے کہ جو بالائے عقل طاقتیں ہیں اُن کے ثبوت کے لئے اس قسم کی باتوں کی ضرورت ہے.بہر حال یہ تو ہستی باری تعالیٰ کے متعلق جو بہت وسیع اور تفصیلی مضمون اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے اس کی باتیں ہیں.اس وقت میں پھر تیسری دفعہ یہ کہتا ہوں تا کہ بچوں کے بھی ذہن نشین ہو جائے کہ جس چیز کو انسانی قوی نے بنایا ، جس چیز کو انسانی طاقت نے بنایا اُس چیز کو انسانی طاقت بنا سکتی ہے.اگر نہ بنا سکتی تو یہ بھی درست نہ ہوتا کہ اس چیز کو انسانی طاقت نے بنایا.جس چیز کو انسانی طاقت نے بنایا اسے انسانی طاقت بنا سکتی ہے اور جس چیز کو انسانی طاقت نہ بنا سکے اسے انسانی طاقت نے نہیں بنایا اور قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ میرے جیسا کلام انسانی طاقت نہیں بنا سکتی میں بے مثل و مانند ہوں اور بے مثل و مانند بنانے کی طاقت صرف اُس ہستی کو ہے جو خود بے مثل و مانند ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ذات باری پر علی وجہ البصیرت ایمان رکھنے کی توفیق عطا فرما تا چلا جائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ وہ لوگ جو دور چلے گئے ہیں ہم عقلی دلائل کے ساتھ اور مشاہدات اور تجربات کے ذریعہ ان کو اس بات کا قائل کر سکیں کہ وہ غلطی پر ہیں اور نقصان اٹھا
خطبات ناصر جلد ششم ۶۳۹ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء رہے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے.اور خدا کرے کہ وہ رجوع کریں اور جس طرح جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں نازل ہو رہی ہیں ساری بنی نوع انسان خدا تعالیٰ کی ان نعمتوں کے علی وجہ البصیرت حصہ دار بنیں اور اس کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کے دن گزارنے والے ہوں.روزنامه الفضل ربو ه ۲۹ جنوری ۱۹۷۷ ء صفحه ۲ تا ۶ )
۶۴۱ حوالہ جات جلد ششم حوالہ جات کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۶۷ صفحہ نمبر ۴۵ ۷۳ ۷۳ ۷۴ The Wailing Vale by Aziz Beg p.353 The Wailing Vale by Aziz Beg p.354 Verdict On Kashmir p.154 ۷۴ Verdict On Kashmir p.147 Verdict On Kashmir p.147 ۷۵ Verdict On Kashmir p.154 ۱۱۸ ۲۶۹ ۳۰۸ ۴۹۶ ۶۳۱ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۹۶ خطبات ناصر جلد ششم صَحِيحُ الْبُخَارِى، كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَنْ أَقْسَمَ عَلَى أَخِيهِ لِيُفْطِرَ فِي التَّطَيُّ، وَلَمْ يَرَ عَلَيْهِ قَضَاءً إِذَا كَانَ أَوْفَقَ لَهُ لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰۸ نسیم دعوت روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۶۶،۳۶۵ براہین احمد یہ چہار حصص روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۴۹ نمبر شمار Δ 1." ۱۲
خطبات ناصر جلد ششم ۶۴۳ خطبات جمعہ فہرست خطبات جمعہ جو حضور انور نے ارشاد نہیں فرمائے.یا ارشاد فرمائے لیکن متن دستیاب نہیں ہوا.یا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشادفرمایا یانہیں.نمبر شمار وہ خطبات جو جلد میں شامل نہیں اس کی وجہ تاریخ خطبہ 1 2 حوالہ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۱ مارچ ۱۹۷۵ء الفضل ربوه ۲۲ مارچ ۱۹۷۵ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۱ را پریل ۱۹۷۵ ء الفضل ربوه ۱۲ را پریل ۱۹۷۵ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۵ ء الفضل ربوہ ۱۹ / ا پریل ۱۹۷۵ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱/۲۵ پریل ۱۹۷۵ء الفضل ربوه ۲۶ را پریل ۱۹۷۵ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲ رمئی ۱۹۷۵ ء الفضل ربوه ۳ مئی ۱۹۷۵ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ور مئی ۱۹۷۵ ء الفضل ربوه ۱۰رمئی ۱۹۷۵ ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۶ رمئی ۱۹۷۵ ء الفضل ربوہ ۱۷ رمئی ۱۹۷۵ ء صفحہ ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۳ مئی ۱۹۷۵ء الفضل ربوه ۲۶ رمئی ۱۹۷۵ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۳۰ مئی ۱۹۷۵ ء الفضل ربوه ۱۹۷۵/۳۱ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۶ / جون ۱۹۷۵ء الفضل ربوہ ۷ رجون ۱۹۷۵ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۳ / جون ۱۹۷۵ء الفضل ربوه ۱۶ جون ۱۹۷۵ صفحه ۱ ۱۲ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۰ جون ۱۹۷۵ء | الفضل ربوه ۲۱ جون ۱۹۷۵ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۷ جون ۱۹۷۵ء الفضل ربوه ۲۸ / جون ۱۹۷۵ صفحه ۱ ۱۴ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۴ جولائی ۱۹۷۵ء الفضل ربوه ۵ / جولائی ۱۹۷۵ ء صفحه ۱ ۱۵ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۱ ؍ جولائی ۱۹۷۵ ء الفضل ربوہ ۱۲ جولائی ۱۹۷۵ء صفحہ ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۸؍ جولائی ۱۹۷۵ ء الفضل ربوہ ۱۹ / جولائی ۱۹۷۵ء صفحہ ۱ ۱۷ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا یکم اگست ۱۹۷۵ ء الفضل ربوه ۲ اگست ۱۹۷۵ صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۲ ستمبر ۱۹۷۵ء الفضل ربوه ۱۳ ستمبر ۱۹۷۵ صفحه ۱ 1.۱۳ ۱۸
خطبات ناصر جلد ششم ۶۴۴ نمبر شمار وہ خطبات جو جلد میں شامل نہیں اس کی وجہ تاریخ خطبہ ۲۰ ۲۳ حوالہ خطبات جمعہ ۱۹ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۶ ستمبر ۱۹۷۵ء الفضل ربود۲۷ ستمبر ۱۹۷۵ صفحه ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۴ اکتو بر ۱۹۷۵ء الفضل ربوہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۷۵ ء صفحه ۱ ۲۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۰ فروری ۱۹۷۶ ء الفضل ربوه ۲۱ فروری ۱۹۷۶ ء صفحه ۱ ۲۲ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۲ مارچ ۱۹۷۶ ء الفضل ربوہ ۱۳ مارچ ۱۹۷۶ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۹ مارچ ۱۹۷۶ء الفضل ربوه ۲۲ مارچ ۱۹۷۶ء صفحه ۱ ۲۴ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۸ مئی ۱۹۷۶ ء الفضل ربوه ۲۹ رمئی ۱۹۷۶ ء صفحه ۱ ۲۵ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۴ جون ۱۹۷۶ء الفضل ربوه ۵ جون ۱۹۷۶ ، صفحه ۱ ۲۶ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۸ جون ۱۹۷۶ ء | الفضل ربوہ ۱۹ جون ۱۹۷۶ء صفحہ ۱ ۲۷ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ور جولائی ۱۹۷۶ء الفضل ربوہ ۰ ار جولائی ۱۹۷۶ صفحہ۱ ۲۸ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۷ / اگست ۱۹۷۶ء الفضل ربوه ۲۸ / اگست ۱۹۷۶ ء صفحه ۱ ۲۹ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۳ ستمبر ۱۹۷۶ء الفضل ربوه ۴ ستمبر ۱۹۷۶ صفحه ۱ حضور انور نے خطبہ ارشاد فر ما یا مکمل متن دستیاب نہیں ار ستمبر ۱۹۷۶ء الفضل ربوہ ۱۳ ستمبر ۱۹۷۶ء صفحه ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۷ ستمبر ۱۹۷۶ ء الفضل ربوہ ۲۱ ستمبر ۱۹۷۶ء صفحہ ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۴ ستمبر ۱۹۷۶ ء الفضل ربوه ۲۵ ستمبر ۱۹۷۶ صفحه ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں یکم اکتو بر ۱۹۷۶ء | الفضل ربوہ ۲ /اکتوبر ۱۹۷۶ ء صفحه ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱/۸ اکتو بر ۱۹۷۶ ء الفضل ربوہ ۱۳ / اکتوبر ۱۹۷۶ صفحه ۱ ۳۵ خطبہ جمعہ کی بابت تفصیل دستیاب نہیں ۳۰ ۳۱ ۳۲ ٣٣ ۳۴ ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۶ء حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۲/ نومبر ۱۹۷۶ ء الفضل ربوہ ۱۳ نومبر ۱۹۷۶ ء صفحه ۱ ۳۷ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۶ نومبر ۱۹۷۶ء الفضل ربوہ ۲۷ نومبر ۱۹۷۶ء صفحہ ۱ ۳۸ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۴ دسمبر ۱۹۷۶ء الفضل ربوہ ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۷۶ء صفحہ ۱