Khutbat-eNasir Vol 5

Khutbat-eNasir Vol 5

خطباتِ ناصر (جلد5 ۔ 1973ء، 1974ء)

Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات ناصر خطبات جمعہ از جنوری ۱۹۷۳ء تاد سمبر ۱۹۷۴ء فرموده سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جلد پنجم

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خطبات ناصر خطبات جمعہ ، خطبات عیدین، خطبات نکاح ارشاد فرمودہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ( جلد پنجم) Khutbaat-e-Nasir - Volume 5 Friday, Eid and Nikah Sermons delivered by Hazrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul-Masih III, may.Allah have mercy on him.(Complete Set-Volume 1-10) First edition published between 2005-2009 Present revised edition published in the UK, 2023 © Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in Turkey at: For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-701-3 (Vol.1-10)

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الکریم عرض حال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ خطبات جمعہ و عیدین اور خطبات نکاح کچھ عرصہ قبل شائع کئے گئے تھے.یہ مجموعہ دس جلدوں پر مشتمل تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن کے دوبارہ شائع کرنے کی درخواست کی گئی اور عرض کیا گیا بعض خطبات ایسے ہیں جو قبل ازیں شامل اشاعت نہیں ہو سکے تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے ایڈیشن کی اجازت فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ جو خطبات پہلے شامل اشاعت نہیں ہو سکے ان کو بھی شائع کر دیا جائے.تعمیل ارشاد میں میٹر ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا چنانچہ ۵۰ خطبات دستیاب ہوئے جو پہلے مجموعہ میں شامل نہیں ہیں.اسی طرح بعض خطبات کا خلاصہ شائع ہوا اور اب ان کا مکمل متن مل گیا ہے ان خطبات کو زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ درج کر دیا گیا.نیز آیات قرآنیہ کے حوالہ جات متن میں دیئے گئے اور خطبات کے مآخذ کا خطبہ کے آخر پر حوالہ درج کر دیا گیا ہے اور خطبات میں درج احادیث اور عربی تفاسیر کے حوالہ جات کو کتاب کے آخر پر درج کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.اس کی تیاری میں جن احباب کو شریک کار ہو کر خدمت کا موقع میسر ہوا اور سعادت پائی.اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.منیر الدین سمس ایڈیشنل وکیل التصنيف اپریل ۲۰۲۳ء

Page 4

Page 5

III بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ و عَلى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ پیش لفظ سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ کی پانچویں جلد پیش خدمت ہے.یہ جلد ۱۹۷۳ء اور ۱۹۷۴ء کے فرمودہ ۷۵ خطبات جمعہ پر مشتمل ہے جن میں ۱۹۷۳ ء کے پانچ اور ۱۹۷۴ ء کے گیارہ غیر مطبوعہ خطبات بھی شامل ہیں.جن مقدس وجودوں کو خدائے قادر مقام خلافت پر فائز فرماتا ہے انہیں اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے بھی نوازتا ہے اور ان کی زبانِ مبارک سے حقائق و معارف جاری فرماتا ہے.اس جلد میں مندرجہ ذیل خطبات خاص اہمیت کے حامل ہیں.۱ ۵ /جنوری ۱۹۷۳ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے موصیان کو ان کی ابتدائی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:.”جہاں تک موصیان کے لئے ابتدائی کام کرنے کا سوال تھا میں نے یہ کام ان کے ذمہ لگایا تھا کہ تمہارے گھر میں بڑا ہو یا چھوٹا ،مرد ہو یا عورت کوئی بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم کے پڑھنے کی عمر کو پہنچا ہوا ہو لیکن قرآن کریم پڑھ نہ سکتا ہو یا ترجمہ جاننے کی عمر کو پہنچا ہوا ہو مگر ترجمہ نہ جانتا ہو یا عام روز مرہ زندگی سے تعلق رکھنے والی تفسیر قرآن کا انہیں علم نہ ہو.“

Page 6

IV ۲.۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس صحت کے قیام کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے فرمایا :.وو ربوہ ہماری مسکراہٹوں کا مرکز ہے.اس کی مسکراہٹیں قائم رہنی چاہئیں.اہلِ ربوہ کے چہروں پر بھی اور ربوہ کی فضاؤں میں بھی اور اس کی ہواؤں میں بھی مسکراہٹیں کھیلتی رہنی چاہئیں.ربوہ کی گلیوں میں بھی اور اس کی شاہراہوں پر بھی مسکراہٹیں نظر آنی چاہئیں.چنانچہ انہی مسکراہٹوں کو نمایاں کرنے کے لئے میں نے مجلس صحت کا اجرا کیا تھا اور اس کے قیام پر اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اہل ربوہ گھروں میں پھلدار اور کھلے میدانوں اور سڑکوں پر سایہ دار درخت لگا کر ربوہ کو ایک خوبصورت باغ کی شکل میں تبدیل کر دیں.“ ۱۶۳ / مارچ ۱۹۷۳ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جدید پریس کی عمارت کی تعمیر کے منصوبہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.”جماعت کو ہاتھ سے کام کر کے پیسے بچانے چاہئیں اس میں بڑی برکت ہوتی ہے.آپ جانتے ہیں ان دنوں پریس کی عمارت زیر تعمیر ہے.پہلی منزل کی کھدائی کا آٹھ دس ہزار روپے کا اندازہ لگایا گیا تو میں بڑا پریشان ہوا.میں نے بڑی دعا کی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ رقم بچانے کا منصوبہ بتایا.ہمارے ربوہ کا ہر ایک محلہ چھ انچ کھدائی کرتا جائے تو ہمارا آٹھ دس ہزار روپیہ بچ جائے گا اور وہ اشاعتِ قرآن میں آپ کی طرف سے کنٹری بیوشن (Contribution) یعنی عطیہ متصور ہوگا.“ ۴ ۳/ اگست ۱۹۷۳ء کے خطبہ جمعہ میں غلبہ اسلام کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا:.دیگر قرائن اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے جو ہمیں پتہ چلتا ہے اس کے مطابق غلبہ اسلام کا آغاز ایک صدی سے شروع ہو جائے گا.میرا ذاتی اجتہاد ہے کہ ایک سو سال یعنی ایک صدی کے بعد یہ قرائن ظاہر ہوں گے یہ روشنی ایک شاندار تقلبی کی صورت میں ۱۹۹۰ ءاور ۱۹۹۵ ء کے درمیان دکھائی جائے گی.“ ۵ - ۸ فروری ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے صد سالہ جشن تشکر کے دعائیہ پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.ذکر کے عنوان کے ماتحت جن دُعاؤں کا میں نے ذکر کیا ہے اُن کے علاوہ اپنی زبان

Page 7

V میں خدا تعالیٰ کے حضور تضرع کے ساتھ گڑ گڑا ؤ اور اُس کی مدد حاصل کرنے کی اور اُس کی رضا کے حصول کی اور اُس سے طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرو کیونکہ یہ عظیم منصو بہ یا ایک پاگل سوچ سکتا ہے یا ایک مخلص جانثار جو اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو پہچانتا ہو.پس عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ ان نفلی عبادتوں کے ساتھ جس کا منصوبہ ابھی میں نے آپ کے سامنے پیش کیا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کریں.“ ۶ - ۱۵ / فروری ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے صد سالہ جشن تشکر کے منصوبہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.یہ منصوبہ جس وقت میرے ذہن میں آیا تو بعض دوستوں نے بھی مشورہ دیا اور خود میرے دماغ نے بھی اسکے متعلق سوچا اور مطالعہ کیا.اس دوران میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے بعض فرمان بھی میری نظروں سے گزرے....اس وقت دنیا میں دہریت اور اشتراکیت کے رستے میں انہیں ایک ہی روک نظر آتی ہے اور وہ جماعت احمد یہ ہے.پس ایک بین الاقوامی متحدہ حملے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تا اسلام دنیا پر غالب نہ آئے.اس بین الاقوامی منصوبہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اللہ تعالی کی منشا سے ”صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ بنایا گیا ہے جس کی رُو سے مالی قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے.“ ۷.۳۱ رمئی ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت کے خلاف ہنگاموں کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:.۲۹ مئی کو اسٹیشن پر یہ واقعہ ہوا.آگ تو بڑی شدت سے بھڑکائی گئی ہے لیکن یہ آگ ناکام ہوگی ان شاء الله تعالی.ناکامی اس معنی میں نہیں کہ کسی احمدی کو بھی مختلف قسم کی قربانیاں نہیں دینی پڑیں گی ، وہ تو دینی پڑیں گی.جب تک جماعت احمد یہ کے احباب وہ اور اس قسم کی تمام قربانیاں خدا کے حضور پیش نہیں کرتے جو قربانیاں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے خدا کے حضور پیش کی تھیں اس وقت تک وہ ان

Page 8

VI انعامات کو بھی حاصل نہیں کر سکتے جو صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کریم سے حاصل کئے تھے لیکن دنیا کے کسی دماغ میں اگر یہ بات آئے کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اللہ تعالیٰ کی غلبہ اسلام کی اس تدبیر اور اللہ تعالیٰ کے غلبہ اسلام کے اس منصو بہ کونا کام بنا سکتی ہیں جس غرض کے لئے کہ جماعت احمد یہ قائم کی گئی تھی تو ہمارے نزدیک وہ روحانیت سے دور ہونے کی وجہ سے نا سمجھی کے خیالات رکھنے والا ہے.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ منصوبہ ناکام ہو جائے.۲۱-۸ جون ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے حکومت پاکستان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے متعلق یہ اعلان کیا کہ ہم احمدیہ فرقہ کے مسلمان ہیں.ایک جگہ آپ نے انہی الفاظ میں یہ جملہ بولا ہے احمدی فرقہ کے مسلمان.ساری دنیا کے احمدی کہیں گے کہ ہم احمدی فرقہ کے مسلمان ہیں اور دنیا کی کوئی حکومت یہ حق نہیں رکھتی کہ وہ یہ کہے کہ تم احمدی فرقہ کے مسلمان نہیں ہو.مذہب دل کا معاملہ ہے.خدا تعالیٰ اپنے فعل سے ثابت کرے گا کہ کون مومن اور کون کا فر ہے.“ ۹ - ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے قومی اسمبلی کی قرارداد کا ذکر کرتے ہوئے جن امور کا ذکر فرمایا ان کا خلاصہ حضور کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:.۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی نے مذہب کے متعلق ایک قرارداد پاس کی ہے.اس پر دوسوال پیدا ہوتے ہیں.اوّل یہ کہ اس پر تبصرہ کیا ہے؟ تبصرہ کا ابھی وقت نہیں.اس کے لئے بڑے غور اور مشورہ کی ضرورت ہے.دوم یہ کہ جماعت کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم اللہ پر کامل اور زندہ ایمان رکھتے ہیں جیسا که قرآن عظیم نے اس کی ذات اور صفات بیان کی ہیں.اس لئے ”احمد یہ فرقہ کے مسلمان کا رد عمل کے دو پہلو ہیں.

Page 9

VII ا.رد عمل ایسا ہونا چاہیے کہ اللہ ناراض نہ ہو جائے.۲.رد عمل ایسا ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور پیار حاصل ہو اور اللہ کے نزدیک انسان اس کا حقیقی عبد ٹھہرے.۱۰.یکم نومبر ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے فرمایا:.جس دن قومی اسمبلی کے سارے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی بنی اُس دن جب اعلان ہوا کہ اس کمیٹی کا اجلاس In Camera ( یعنی خفیہ ) ہوگا.اس بات نے کہ اجلاس خفیہ ہو گا مجھے پریشان کیا اور اس اطلاع کے ملنے کے بعد سے لے کر اگلے دن صبح چار بجے تک میں بہت پریشان رہا اور میں نے بڑی دُعائیں کیں.....سوره فاتحہ بہت پڑھی اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ بہت پڑھا.ان الفاظ میں دُعا بہت کی اور صبح اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے مجھے یہ کہا وَشِعْ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِيْنَ کہ ہمارے مہمانوں کا تم خیال کرو اور اپنے مکانوں میں مہمانوں کی خاطر وسعت پیدا کرو اور جو یہ منصوبے جماعت کے خلاف ہیں ان منصوبوں کے دفاع کے لئے تیرے لئے ہم کافی ہیں تو تسلی ہوئی.وَشِعُ مَكَانَكَ جو خاص طور پر کہا گیا اس لئے میرا فرض تھا کہ جماعت کو کہوں کہ وسعتیں پیدا کرو.“ الغرض حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کی تاریخ بھی ہیں اور ہر پہلو سے انسانیت کی ضرورت بھی ہیں.ان میں خدا تعالیٰ کی خاطر ترقیات کے لئے قربانیوں اور کامل اطاعت کی تیاری کے لئے سامان ہیں.حضور کے دست مبارک سے لکھے ہوئے چند خطبات کے نوٹس بھی بطور تبرک اس جلد میں دیئے جا رہے ہیں.۱۳ / مارچ ۲۰۰۷ء والسلام سید عبدالحی ناظر اشاعت

Page 10

Page 11

خطبات ناصر جلد پنجم IX فہرست خطبات جمعہ عنوان نمبر شمار 1 انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنا ضروری ہے فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۵ / جنوری ۱۹۷۳ء 1 ۳ م ٨ 1." L ۱۴ دنیا کی کسی سلطنت کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ کسی کو مومن یا کافر کہے ۱۹ / جنوری ۱۹۷۳ء اللہ تعالیٰ روحانی زندگی کا سلسلہ نسل میں بھی قائم رکھے ۲۶ / جنوری ۱۹۷۳ء جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بیشمار جلوے ظاہر ہو چکے ہیں ۹ فروری ۱۹۷۳ء اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت کرنے کا حق ادا کرو ۱۶ فروری ۱۹۷۳ء مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی پیدائش کی کیا غرض ہے ٢ / مارچ ۱۹۷۳ء 11 ۲۱ ۳۹ ۵۱ ۵۳ لا ۱۰۵ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے لئے رحمت اور استحکام کے سامان پیدا کرے ۱۶ / مارچ ۱۹۷۳ء احمدی ڈاکٹر ز اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے پیش کریں ۲۳ مارچ ۱۹۷۳ء ۷۳ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقام ختم نبوت کے لحاظ سے تمام رسولوں سے ممتاز ہیں ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء بہتر مشورہ وہی ہے جو حقوق العباد کی ادائیگی کا موجب ہو ۶ اپریل ۱۹۷۳ء ملکی دستور باہمی تعلقات کو متعین کرنے اور مستحکم کر دینے کا ذریعہ ہوتا ہے ۱۳ اپریل ۱۹۷۳ء جماعتوں کو اپنا بجٹ پورا کرنے کے لئے انتہائی کوشش کرنی چاہیے ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء ۱۲۹ مومن کو اپنے ایمان کے لئے سیاست کی سند وغیرہ کی ضرورت نہیں ۴ رمئی ۱۹۷۳ء حضرت مہدی علیہ السلام کی جماعت کا ہر قدم ہر سال آگے ہی بڑھتا ہے ارمئی ۱۹۷۳ ء ۱۴۱ ۱۶۳ ۱۷۳ ۱۵ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے لئے شاہد، مبشر اور نذیر تھے ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تمام بنی نوع انسان کی طرف مبعوث ہوئے ۲۵ مئی ۱۹۷۳ء ۱۸۷ 17 ۱۷ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کے الفاظ میں ایک مکمل دعا ہے یکم جون ۱۹۷۳ء ۱۹۱

Page 12

خطبات ناصر جلد پنجم نمبر شمار عنوان ربوہ کو شجر کاری کے ذریعہ جنت نظیر بنادیں ۱۹ ایمان بالغیب قربانیاں دینے کی راہوں کو آسان کرتا ہے ۲۰ فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۲۲ / جون ۱۹۷۳ء ۲۹ جون ۱۹۷۳ء ہمارا مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افضال ہر آن نازل ہورہے ہیں ۶ جولائی ۱۹۷۳ء ۱۹۵ ۱۹۷ ۲۰۷ ۲۲۱ ۲۱ ہر انسان کو قرآن کریم مترجم پہنچانا جماعت احمدیہ کا کام ہے ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء سورۃ فاتحہ میں دو گروہوں کا ذکر ہے.ایک ضال اور دوسرا منعم علیه گروه ۲۰ / جولائی ۱۹۷۳ء ۲۴۱ ۲۳ قربانیاں دیتے چلے جاؤ اور خدا کا پیار حاصل کرتے جاؤ ۲۷؍ جولائی ۱۹۷۳ء ۲۴۳ ۲۴ ایک صدی کے بعد غلبہ کے قرائن ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے ۳ اگست ۱۹۷۳ء ۲۴۹ ۲۵ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک عظیم انقلاب مقدر ہے ۱۰ راگست ۱۹۷۳ء ۲۵۵ پاکستانی بھائیوں کی تکالیف میں جماعت برابر کی شریک ہے ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء ۲۶۱ ۲۷ جماعت کو مجاہدہ سے اپنی دعا کی تدبیر کو کمال تک پہنچانا چاہیے ۵/اکتوبر ۱۹۷۳ء ۲۸ عیسائی، یہودی اتحاد کے مقابلہ کے لئے عالم اسلام کو متحد ہونا پڑے گا ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء ۲۹ اپنا ہاتھ اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے ہرگز نہ پھیلائیں ۳۰ گروه مطہرین نے اللہ تعالیٰ سے قرآن کی تفسیر سیکھی ۱ تحریک جدید کے چالیسویں سال کا اعلان ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء ۲ نومبر ۱۹۷۳ء ۹/ نومبر ۱۹۷۳ء ۲۷۹ ۲۹۱ ۳۱۵ ۳۲۹ ۳۵۱ ۳۲ احباب ربوہ اپنے مکان جلسہ کے مہمانوں کے لئے پیش کریں ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء | ۳۶۵ ٣٣ جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ سے اسلام کو غالب کرنے کی مہم جاری ہے ۱۳۰ نومبر ۱۹۷۳ء ۳۴ جلسہ سالانہ پر رضا کارانہ خدمات کے لئے احباب اپنے نام پیش کریں ۷ دسمبر ۱۹۷۳ء ۳۵ جلسہ سالانہ کے ایام اللہ کی خاص بشارتوں کے دن ہیں ۳۶ ۱۴ / دسمبر ۱۹۷۳ء مشرق وسطی کا مسئلہ دنیا کے امن وسلامتی کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے ۲۱ / دسمبر ۱۹۷۳ء اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے ہر دور میں سامان پیدا کرتا ہے ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۳ء ۸ وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ۳۸۹ ۴۰۱ ۴۰۵ ۴۱۱ ۱۸ جنوری ۱۹۷۴ء | ۴۲۱

Page 13

خطبات ناصر جلد پنجم نمبر شمار عنوان ☑ XI فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۴۲۹ ۳۹ انگریزی دان اپنی زندگیاں تبلیغ اسلام کے لئے وقف کریں ۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء تبلیغ اسلام کا ایک عظیم منصو بہ صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ“ یکم فروری ۱۹۷۴ء ۴۳۷ ۴۰ ۴۱ ۴۲ م م جماعت احمدیہ کا ہر قدم غلبہ اسلام کی طرف اُٹھ رہا ہے ۸ فروری ۷۴ ۱۹۷۴۱ء ۴۵۳ ۱۵ / مارچ ۱۹۷۴ء ۴۹۵ صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ غلبہ اسلام کا ایک عظیم منصوبہ ہے ۱۵ / فروری ۱۹۷۴ء ۴۶۷ صد سالہ احمد یہ جوبلی منصو بہ اللہ تعالیٰ نے جاری کرایا ہے ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء ۴۷۵ جس شخص میں اللہ تعالیٰ سے محبت پائی جائے وہ کبھی ناکام نہیں ہو سکتا ۸ مارچ ۱۹۷۴ء ۴۸۵ ۴۵ ہماری دلی خواہش ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہو انسانی قوی کی تین قو تیں.قوت بیان قوت تصدیق و انکار اور قوت عمل صالح ۲۹/ مارچ ۱۹۷۴ء ۵۰۱ جب الہی سلسلے قائم ہوتے ہیں تو روحانی بند بھی باندھنے پڑتے ہیں ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء ۵۰۹ ۴۸ مومن کسی ایک منزل پر رکتا نہیں بلکہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء ۴۹ دیگر مذاہب کے مقابلہ میں اسلام نے واضح اور روشن تعلیم دی ہے ۱۹ را پریل ۱۹۷۴ء ۵۳۵ حمد اور شکر کو انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض ہے ۴۷ ۳ رمئی ۱۹۷۴ء ۵۱ جماعت نے نہ صرف بجٹ کو پورا کر دیا بلکہ آٹھ فیصد زیادہ ادا کیا ۱۰ رمئی ۱۹۷۴ء ۵۲ غلبہ اسلام کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے ۵۳ جماعت احمدیہ کو بھی ابتلاؤں میں سے گزرنا پڑے گا ۷ ارمنی ۱۹۷۴ء ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء ۵۲۱ ۵۴۵ ۵۵۳ ۵۵۹ ۵۸۵ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی خدائی منصوبہ کو نا کام نہیں بناسکتیں ۳۱ مئی ۱۹۷۴ء ۵۷۷ ۵۵ تمام استعدادوں کو موقع ومحل کے مطابق استعمال کرنا تقویٰ ہے ۷ /جون ۱۹۷۴ء ۵۶ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے لئے ہر وقت استغفار کرو ۱۴ / جون ۱۹۷۴ء ۵۷ حقوق انسانی کا منشور ہر ایک کو مذہبی آزادی دیتا ہے ۵۸ ہمارا زمانہ خوش رہنے، مسکراتے رہنے اور خوشی سے اچھلنے کا زمانہ ہے ۲۸ جون ۱۹۷۴ء ۲۱ جون ۱۹۷۴ء ۵۹۳ ۶۰۳ ۶۲۱ ۵۹ ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ ملکی قانون کا پابند ہو اور قانون شکنی نہ کرے ۵/ جولائی ۱۹۷۴ء ۶۳۵

Page 14

خطبات ناصر جلد پنجم نمبر شمار عنوان XII فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه پاکستان ہمارا اپنا ملک ہے جس کے لئے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں ۱۹؍ جولائی ۱۹۷۴ء ۶۴۵ ۶۱ ہمارے دکھ ، ہماری مسکراہٹیں ،مسرتیں اور بشاشتیں نہیں چھین سکتے ۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء ۶۵۵ ۶۲ انسان کی سعادت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی پیروی کرے ۲ اگست ۱۹۷۴ء ابتلا کے زمانہ اور سخت گھڑیوں میں اللہ تعالیٰ کے پیار کا اظہار ۱۶ راگست ۱۹۷۴ء ۶۳ نفسانی جذبات کو فنا کر دیں اور اپنے آپ کو طیش میں نہ آنے دیں قومی اسمبلی کی قرارداد پر جماعت احمدیہ کا رد عمل کیا ہو امتحان کے وقت مومن ایمان میں ترقی کرتا ہے ۶ ستمبر ۱۹۷۴ء ۱۳ ستمبر ۱۹۷۴ء ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء ۶۶۳ ۶۷۱ ۶۷۹ ۶۹۱ ۷۰۳ ۷۱۹ ۷۲۹ تکبر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اس کے بالمقابل وہ عاجزی کو پسند کرتا ہے ۴/اکتوبر ۱۹۷۴ء ایمان میں تمام گناہوں سے بچنا اور تمام نیکیوں کا بجالا نا شامل ہے ۱۱ اکتوبر ۱۹۷۴ء ۲۹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وحشی انسان کو باخدا انسان بنایا ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء | ۷۳۹ ۷۰ انسان اور غیر انسان میں فرق کرنے والی چیز قوتِ دعا ہے ۲۵اکتوبر ۱۹۷۴ء ۷۴۷ ۸/نومبر ۱۹۷۴ء ۷۵۹ ا توحید کے قیام کے لئے اموال مہیا اور خرچ کرنے کی ہمیں توفیق ملے یکم نومبر ۱۹۷۴ء ۷۲ خدا کے اتنے قریب ہو جاؤ کہ ذرہ بھر بھی دوری نہ رہے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بغض و عداوت کو اپنے قریب نہ آنے دو ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء ۷۴ اللہ تعالیٰ متقی اور اس کے غیر میں ایک امتیاز پیدا کر دیتا ہے ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء ۷۹۷ ۷۵ نجات کا تصور اور اس کے حصول کے ذرائع اسلام نے پیش کئے ہیں ۲۷؍ دسمبر ۱۹۷۴ء ۸۰۷ ۷۸۳

Page 15

18.5773 انا ارسلناک شاهدا و میترا و نذیراه لتؤمنوا بالله و رسوله و اعزارة لا و تو قروه وتستمرة بارة و اهیلا الفتح 10-9 مینے تجھے اپنی صفات کے لئے گواہ اور مومنوں کے لئے شہادت دینے تبركات که میخواد بنا کر بھیجا کرده اعا رہے تا کہ تم اسکے ذریعہ سے اللہ اور اس کی و سول پر وی این لاؤ.اور اسکی مدد کرو ر اسکی عزت کرو.اور صبح و شام اور اسکی تقسیم کرو.- کا تحضرت مسلم کی تین مرضا شاهد ملفات باری پر 3 یلم و عمل کے لحاظ کے والد اور کافروں کے لئے ھوت

Page 16

مطانوی کے تین فوائض ۰۰ ایمان بالته و با سر سول 2.اعداد رسول کی.اللہ اور رسول کی ترتیب شام در حجم ولے اللہ کی کھیچ پیچ し متر = تعداده و توخرو فترة التصوير والتنقيع العليم حضروات امانه و نمره منجد: احکام الہی کے اجراء میں اپنے فضل اور عونہ سے مدد کرنا الفة شاهدت ایمان باله و رسوله تو چه وقر عظم علی صفات باری پر ایمان اور صفات باری کا مظہر بنے کے لئے رسول اور آسکے اسود پر ایمان تغير خیر شارت دیتا ہے کہ اگر قول و فعل اور غونہ سے اس عظیم شریت کی مدد کرو گے و خدا کے زیارت پنجو کا ہو گئے.

Page 17

خرید نذیر حجم و شام اللہ کی تقسیم النجم - تنزیہ الله سلام من و تعالٰی الله خوان مسلم جن بد اعما ہوں سے ڈرامائی ہے.یہ ڈرانا مسلمان کے دل من نو واحد المتر البريع في عداده اند خود دیگر مملک خیادت و اعمال بھی پیدا کرنے کے انسان خود کو کچھ لکھنے و جعلی ذالک فی فعل الخير في و جولى التسبيح عامة السادات کوں کان او فعلاً او نیر ا تنزيه :- عبادات اللات این طوری تیزی سے اور دوڑ کر جانا ، صرفت سے خداور شکلی بالات به کسیم تولی.فعلی اور عبادات اور عبادات کی نیت کے لئے عام ہے لگے.اسلئے نسیج خوای ۶.پاک وہی.2 موتمن تقلی - پالیسز کی فی نفسہ اسکی ۶ ے منصو اپنے زور سے نہیں اس پاک و قادر کی مدد سے.اس کے زمانا عدد جب مره کمی شور و فعال میں پنہاں ہر ہو گئے یار کہاں میں

Page 18

13974 خطبہ حصہ د شمر 1974ء کو قومی استعمالی نے مذیب کے متعلق ایک قرار داد پائیں کی دو سوال پیدا ہونے پہلے اور تبصرہ کیا.تبصرہ - کا ابھی وقت نہیں.اسکے لئے پڑتے غور اور مشورہ کی ضرورت ہے.دوست صبر کریں.وہ جماعت کا رد عمل کیا ہونا چاہتے ر اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا دعوی رہے ہم اللہ پر کامل اور وکره ایمان رکھتے ہیں.جیسا کہ قرآن عظیم نے اسکی ذات اور صفات بیان کی ہیں اسلئے احمد میں فرقہ کے مسلمان " کا رد عمل کے دو پہلو میں -1 رد عمل اب ہونا چاہئے اللہ ناراض نہ ہو جائے.قرآن کے مطابق -2 رڈ علی ان ہونا چاہیے کہ و صداتم کی رضا اور پیار حاصل ہو

Page 19

اور اللہ کے نزدیک افغان اسکا حقیقی عبد تھ اسوقت میں پہلے پہلو استان چند باتیں بیان گردشگاه الف : والله لا يحب العالمي 140-57-UA : والله لا يحب الفساد والله بوه 205 ج - ان الله لا يحب المعتدين ל بوه 190 لف والله لا لحب العالمین ہمیں - حق تلفی حق سے تجاوز تجاوز چھوٹا ؟ پائرا - گناہ کبیرہ یا صغیره ہر دو تین قسمیں ه بین الازمان و بین الله حقوق اللہ کی ادائیکی میں تجاوز : لیکن الافعال یه و بین دانام حقوق العباد میں تجاوز 2 - بین الائتمان و مین لفه اپنے نفس کے حقوق میں تجاور

Page 20

7.11 والله لا يجب الفهاد العناد : خر جير الشيتي عن الاعتدال خواط نیستیم به پر فوری.پھینک جاک مند ہے سلام کی مرہ اور ماخر : القائم date جماً علی ؟ من الحقوق والواجبات - 14 اسكى م سایت رکھتا ہوم ملة

Page 21

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۵ /جنوری ۱۹۷۳ء انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر گذار بندہ بننا ضروری ہے خطبه جمعه فرموده ۵ /جنوری ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دینی اور دنیوی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننا ضروری ہے.شکر کے معنے صرف زبان سے ثنا کرنے یا شکریہ کے الفاظ ادا کرنے کے نہیں ہوتے نیز شکر کے صرف یہی معنے نہیں کہ انسان کا دل محسن حقیقی کے انعامات کی یاد سے معمور ہو جائے بلکہ انسان کو جو عملی قو تیں عطا کی گئی ہیں، اُن عملی قوتوں سے بھی شکر ادا کرنا لازمی ہے.عملی قوتوں سی انسان کے احسان“ کے مقابلہ میں جو شکر ادا کیا جاتا ہے وہ تو احسان کا بدلہ ہوتا ہے لیکن ایک ایسی ہستی بھی ہے جس کے احسانات کا بدلہ چُکا یا نہیں جاسکتا اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.پس جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے، شکر کے یہ معنے ہوں گے کہ اُس نے ہمیں جو کچھ عطا فر مایا ہے، اُس میں سے ہم اپنے اعمال سے اُس کے حضور ایثار کے رنگ میں یا ہم اپنے اعمال سے اس کے بندوں کی خدمت کی شکل میں یا عملاً اُن حقوق کی ادائیگی کی صورت میں جو حقوق کہ اُس نے ہم پر واجب قرار دیئے ہیں، شکر ادا کریں.وہ تو دینے والا ہے، لینے والا نہیں ہے کیونکہ ہر چیز اُسی کی ہے لیکن انسان اُس کے حضور ( اپنی زبان کے محاورہ کے لحاظ سے )

Page 22

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۵ /جنوری ۱۹۷۳ء کچھ نہ کچھ پیش کرتا ہے ان شکلوں میں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہے :.اِعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكرا (سبا: ۱۴) فرما یا شکر گذاری کے ساتھ عمل کرو گویا شکر جذبات سے دل کو معمور کرنے کا یہاں ذکر نہیں یا زبان سے شنا کرنے کا یہاں ذکر نہیں یا انسان جو مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار تسبیح و تحمید کرتے ہیں اس کا یہاں ذکر نہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اپنے عمل سے شکر ادا کرو.اسی لئے عربی کی لغت میں جوارح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے معنے بھی کئے گئے ہیں یعنی وہ تمام طاقتیں جو انسان کو دی گئی ہیں ، ان کو ایسے رنگ میں استعمال میں لایا جائے کہ وہ گویا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا متصور ہو.جب تک عملاً اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کیا جائے اُس وقت تک انسان کامیاب نہیں ہو سکتا.پس بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھانا ہی شکر نہیں ہوتا یا الْحَمدُ لِلہ کہ کر کھا ناختم کرنا ہی شکر نہیں ہوتا بلکہ کھانا کھانا خود ادائے شکر کے مترادف ہے کیونکہ اسلام میں بھوکا رہ کر خودکشی کی اجازت نہیں دی گئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اے انسان! تیرے نفس کے بھی تجھ پر کچھ حقوق ہیں.اسلئے جہاں حق قائم ہوتا ہے.جہاں حق کی ادائیگی کی طاقت عطا کی جاتی ہے وہاں حق کو خدائے قادر و توانا کی منشا اور اس کی ہدایت کے مطابق ادا کرنا اُن ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مہیا کئے جاتے ہیں ،شکر ہے.غرض جب تک عملی شکر نہ ہو کامیابی نہیں ملتی مثلاً ایک ذہین بچہ ہے وہ اگر اپنی خدا داد ذہانت کے شکریہ کے طور پر اُس کا صحیح استعمال نہیں کرتا یا وہ اپنے اوقات کو ضائع کر دیتا ہے اور اپنی توجہ کو مطالعہ اور حصول علم پر قائم نہیں رکھتا تو وہ ناشکرا اور ناکام ہوتا ہے پس ناشکری ہمیں ناکامی کی وجہ بتاتی ہے.جہاں آپ کو ناشکری نظر آئے گی وہاں آپ کو نا کا می نظر آئے گی.اس لئے کہ کامیابی کے لئے اس معنی میں جس کی میں نے ابھی وضاحت کی ہے شکر گزار بندہ بننا ضروری ہے.میری اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں اس مرکزی اور بنیادی نکتہ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.ہماری جماعت میں ایک گروہ ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کے انعامات کو زیادہ اور نمایاں طور پر حاصل کر رہا ہے اور وہ موصیان کا گروہ ہے.جن کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا

Page 23

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۵ /جنوری ۱۹۷۳ء فرمایا اور وہ اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں مثلاً اپنی آمد کا ۱٫۱۰ اور ۱٫۳ کے در میان حصہ وصیت ادا کرتے ہیں گویا وہ نیکی کی قوتوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رسالہ وصیت کی شرائط کے مطابق استعمال کرتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے اُن کو قو تیں عطا کیں اور پھر اُن کے صحیح مصرف کی توفیق بھی عطا فرمائی.ظاہر ہے کہ کسی کی آمد کا ۱/۱۰ حصہ سینما بینی پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں بھی خرچ کیا جا سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے موصیان کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ نیکی کی راہ میں اپنے مال کا ایک بڑا حصہ خرچ کریں.اُن کو یہ توفیق بخشی کہ وہ اس معیار پر آنے کی کوشش کریں (میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اس معیار پر آگئے ہیں ) جو معیار کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موصی کا رسالہ الوصیت میں بیان فرمایا ہے یا آپ نے اپنی کتب میں بعض دوسری جگہوں پر اس کا ذکر کیا ہے تاہم اس کا جو انفرادی پہلو ہے یعنی ہر موصی کی ذات کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھاری اکثریت ایسی ہے جس میں کامیابی کا پہلو نمایاں ہے یعنی وہ شکر گزار بندے ہیں لیکن اجتماعی زندگی میں ابھی تک وہ اس مقام پر نہیں پہنچے جس مقام پر موصیان اور موصیات ہمیں نظر آنے چاہئیں.میں نے قریباً سات سال قبل موصیان کی ایک تنظیم کا اعلان کیا تھا اور کچھ ابتدائی کام اُن کے ذمہ لگائے تھے چنانچہ میرا خیال تھا کہ بعد میں اجتماعی طور پر کچھ اور کام بھی اُن کے ذمہ لگائے جائیں گے لیکن چونکہ اُن کی جو ابتدائی ذمہ داریاں تھیں وہ ایک خاص معیار تک نہیں پہنچیں اس لئے وہ ذمہ داریاں جن کے متعلق میرا یہ خیال تھا کہ دوسرے مرحلہ پر اُن کو بتائی جائیں گی اور وہ ان ذمہ داریوں کو بھی اجتماعی رنگ میں نباہنے کی کوشش کریں گے اس کے متعلق میں نے خاموشی اختیار کی.جہاں تک موصیان کے لئے ابتدائی کام کرنے کا سوال تھا.میں نے یہ کام ان کے ذمہ لگایا تھا کہ تمہارے گھر میں بڑا ہو یا چھوٹا، مرد ہو یا عورت کوئی بھی ایسا نہ رہے جو قرآنِ کریم کے پڑھنے کی عمر کو پہنچا ہوا ہو لیکن قرآن کریم پڑھ نہ سکتا ہو یا تر جمہ جانے کی عمر کو پہنچا ہوا ہو مگر تر جمہ نہ جانتا ہو یا عام روز مرہ زندگی سے تعلق رکھنے والی تفسیر قرآن کا انہیں علم نہ ہو.گو یہ صحیح ہے کہ عمیق.

Page 24

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۵ /جنوری ۱۹۷۳ء رموز و اسرار قرآنی کا علم ہر انسان کو تو نصیب نہیں ہوتا لیکن قرآن کریم کی تفسیر ایسی بھی ہے جو روز مرہ ہمارے کام آنے والی ہے.اس کا علم بھی ہونا چاہیے مگر سات سال ہونے کو ہیں ابھی تک اس سلسلہ میں کو ئی ٹھوس اور نمایاں کام نظر نہیں آیا.پھر موصیان کے ذمہ ایک یہ کام بھی کیا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ کی عام تربیت کے معیار کو بلند کرنے کے لئے ، ان کی کوششوں سے کم از کم پانچ ہزار واقفین عارضی ہمیں ملنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا پانچ ہزار سے زیادہ واقفین عارضی ہمیں مل تو گئے لیکن اس میں کتنا حصہ موصیان کی کوششوں کا ہے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا.میرے خیال میں اس میں تو شاید نصف بھی ان کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوگا بہر حال مطلوبہ تعداد پوری ہو جانے سے ان کی پردہ پوشی ہو گئی.تیسرے موصیان کو یہ بھی کہا گیا تھا کہ تم جہاں بھی رہتے ہو مثلاً راولپنڈی میں رہتے ہو یا لاہور میں رہتے ہو یا کراچی میں رہتے ہو یا لائلپور میں رہتے ہو یا سرگودھا میں رہتے ہو یا چک ۹۹ شمالی میں رہتے ہو یا دوسرے چکوک اور دیہات میں رہتے ہو.جہاں بھی تم رہتے ہو تم اس بات کا خیال رکھو کہ تمہاری جماعت (اس سے اصطلاحی جماعت مراد ہے ) مثلاً سرگودھا کی جماعت ہے یا راولپنڈی کی جماعت ہے یا کراچی کی جماعت ہے یا لائلپور کی جماعت ہے یا چک ۹۹ شمالی کی جماعت ہے وغیرہ.اس میں کوئی شخص ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم آنا چاہیے تھا لیکن اسے پڑھنا نہیں آتا.اس کے متعلق بھی کوئی واضح اور خوشکن رپورٹ کم از کم میرے سامنے نہیں آئی.اس لئے ہمیں کچھ انتظامی کام کرنے پڑیں گے تا کہ صحیح کام ہوں اور کام کی صحیح رپورٹیں ہوں.ربوہ میں موصیان کی ایک مرکزی سب کمیٹی مقرر ہو جانی چاہیے جو ان سب کاموں کے کروانے کی ذمہ دار ہو.نظارت اصلاح وارشاد یا اس سے تعلق رکھنے والے ہمارے تین چار بزرگ دوست عبدالمالک خانصاحب.ابوالعطاء صاحب اور قاضی محمد نذیر صاحب ہیں یہ موصیان ربوہ کا ایک جائزہ لیں اور عمر کے لحاظ سے صحت اور ہمت کے لحاظ سے اور کام کی اہلیت کے لحاظ سے اُن کے نزد یک جو ۲۵ موصیان کام کروانے کے اہل ہوں ان کی فہرست مجھے اگلے جمعہ سے پہلے دے دیں.میں ان میں سے ایک کمیٹی مقرر کر دوں گا اور پھر خواہ با تنخواہ کلرک اور دوسرا عملہ جو ضروری

Page 25

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۵ /جنوری ۱۹۷۳ء ہے اور سٹیشنری یعنی کاغذ وغیرہ کا جو خرچ ہے، اس کا انتظام کرنا پڑے یہ انتظام تو انشاء اللہ ہو جائے گا لیکن پہلے تو اس کمیٹی کو جائزہ لینا چاہیے کہ موصیان نے کس حد تک کام کیا ہے دوسرے چونکہ موصیان کی چھان بین ضرور ہوتی رہنی چاہیے اس لئے یہ کمیٹی موصیان کا عمومی جائزہ بھی لے کیونکہ صرف وصیت کا چندہ شرط نہیں ہے یہ تو ایک معمولی سی شرط ہے.اصل تو دوسری چیز میں ہیں جن کا خیال رکھنا چاہیے چنانچہ تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى (المآئدۃ:۳) کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ مومن ایک دوسرے کی نگرانی کرنے والے ہوں.تاہم یہ صحیح ہے کہ بہت سے کام بغیر نگرانی کے مکمل ہو جاتے ہیں لیکن بہت سے ایسے کام بھی ہیں جو بغیر نگرانی کے صحیح طور پر بجانہیں لائے جا سکتے اُن کا اگر خیال رکھا جائے تو وہی فرد یا گروہ جن میں ایک وقت میں شستی نظر آتی ہے چست ہو جاتے ہیں اور اُن کا کام اچھا ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے موصیان کو دوسروں کے مقابلہ میں اپنی نعمتوں سے زیادہ نوازا ہے.اُس نے انہیں وصیت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اُن کو اُن بشارتوں کے حصول کے امکان کو پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائی جس کے نتیجہ میں اس دنیا میں بھی جنت مل جاتی ہے اور اُخروی زندگی میں بھی جنت کے متعلق الا ماشاء اللہ کوئی شبہ باقی نہیں رہتا.تاہم اس احسان یا ان نعماء کی وجہ سے اُن پر شکر کرنے کی ذمہ داری بھی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے جہاں ناشکری ہوتی ہے وہاں ناکامی ہوتی ہے.ناشکری اور نا کا می دونوں ہی ہمیں انسانی زندگی میں پہلو بہ پہلو کھڑی نظر آتی ہیں اس لئے اگر ایک موصی خدا کا شکر گزار بندہ نہیں بنتا اور اِعْمَلُوا ال داودَ شُکرا کا مصداق نہیں بنتا.اپنے عمل کو شکر کی بنیاد پر قائم نہیں کرتا تو بعض دفعہ کسی موصی کے حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ اس کی وصیت منسوخ ہو جاتی ہے.ایسی صورت میں دوست عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے آدمی سے حصہ وصیت کی ادائیگی میں سستی ہوئی اس لئے اس کی وصیت منسوخ ہو گئی ہے لیکن میں درد بھرے دل کے ساتھ یہ سمجھا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس سے کوئی ایسا عمل سرزد ہوا جس سے وہ خدا کے غضب کا مورد بن گیا اور اس طرح خدا تعالیٰ کے منشا کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ

Page 26

خطبات ناصر جلد پنجم ۶ خطبہ جمعہ ۵ /جنوری ۱۹۷۳ء ہمارے لئے ظاہری علامت قائم کی گئی ہے یعنی بہشتی مقبرہ اس میں دفن ہونے سے وہ محروم ہو گیا.بعض دفعہ ایک موصی فوت ہو جاتا ہے تو اس کے بچے وصیت کا پیسہ نہیں دیتے.اب جہاں تک وصیت کے چندہ کا تعلق ہے یہ ایک ظاہری چیز ہے اس کی دو شکلیں بن جاتی ہیں باپ بہشتی مقبرہ میں دفن ہو جاتا ہے اور بیٹوں نے حصہ وصیت نہیں دیا ہوتا.اس واسطے کہ وصیت کے پیسے تو کوئی چیز نہیں.اس کے بغیر خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہو جاتا ہے لیکن بعض دفعہ متوفی کی اولاد پیسے نہیں دیتی اور وہ بہشتی مقبرہ میں دفن نہیں ہوسکتا.اب ایک ہی فعل ہے جو دو مختلف خاندانوں کی اولاد سے سرزد ہوا.سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس سے دومختلف نتیجے کیوں نکلے بظاہر اس کا ایک ہی نتیجہ نکلنا چاہیے تھا ؟ میں ایسے موقع پر یہ نتیجہ اخذ کیا کرتا ہوں کہ ایک شخص جس نے وصیت کی تھی مگر اس کا حصہ وصیت ادا نہ ہو سکا.اس کے باوجود چونکہ وہ خدا کا پیارا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا میں اس کی اولا د کو تو پکڑوں گا مگر اس نے میری راہ میں اخلاص کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ قربانیاں دی ہیں اس کو میں اپنی جنت میں داخل کروں گا لیکن ایک دوسرا آدمی ہے جو دنیا کی نگاہ میں خواہ کچھ ہو لیکن خدا تعالیٰ کی نگاہ میں یہ تھا کہ اس کو بہشتی مقبرہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا چنانچہ اس کی اولا داس کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے سے محرومی کا ذریعہ بن جاتی ہے.پس ہر موصی پر انفرادی حیثیت میں بھی اور جماعت موصیان پر اجتماعی رنگ میں بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری شکر گزار بندہ بننے کی بھی عائد ہوتی ہے.اگر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کریں گے تو ان کی زندگی ناکام ہوگی.وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے جس مقصد کے لئے انہوں نے وصیت کی اور بظاہر ایک حد تک دوسروں سے زیادہ قربانیاں بھی دیں.ہماری جماعت میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو وصیت کی عظیم ذمہ داریوں کی وجہ سے وصیت تو نہیں کرتے لیکن یوں بڑی قربانی دے رہے ہوتے ہیں خود میرے علم میں بعض ایسے دوست ہیں جن کی کسر نفسی کا یہ حال ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم جب اپنی زندگی پر غور کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو اس قابل نہیں

Page 27

خطبات ناصر جلد پنجم ۷ خطبہ جمعہ ۵ /جنوری ۱۹۷۳ء پاتے کہ ہم بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والی جماعت میں شامل ہوں چنا نچہ اللہ تعالیٰ ان کو شامل کر دیتا ہے.ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسے لوگوں کی گنجائش رکھی ہے کہ اگر چہ ان کی وصیت تو نہیں ہوتی لیکن بعد میں کیسی یہ بن جاتا ہے کہ بڑا مخلص اور فدائی احمدی تھا.اس کی وصیت ۱۰ ر ا حصہ کی تو نہیں تھی لیکن وہ اپنے مال کا ۱٫۵ حصّہ خدا کی راہ میں قربان کر رہا تھا یعنی ایسے لوگوں کی مال کی محبت وصیت کے راستے میں روک نہیں تھی وہ ۱۰ را دے کر وصیت کر سکتے تھے.پس اگر چہ انہوں نے وصیت نہیں کرائی تھی لیکن جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے وہ عملاً ۱/۵ خدا کی راہ میں دے رہے تھے چنانچہ کئی دوستوں کا مجھے ذاتی طور پر علم ہے جو کہتے تھے کہ ہم کیا ہیں.جب اپنے نفس پر غور کرتے ہیں تو اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں پاتے.یہ اُن کا اپنا ذہن ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کو ہم صحیح سمجھ لیں لیکن یہ ہے بڑی پیاری منکسرالمز اجی چنانچہ خدا تعالیٰ ایسا سامان پیدا کر دیتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد خلیفہ وقت فیصلہ کرتا ہے کہ ان کو بہشتی مقبرہ میں دفن کر دیا جائے کیونکہ ان کی ساری زندگی ایسی ہوتی ہے کہ وہ خدا کی راہ میں بڑا اخلاص دکھانے والے اور بڑی قربانی کرنے والے تھے اس کے برعکس بعض لوگ اتنے مخلص نہیں ہوتے جتنا ایک موصی کو ہونا چاہیے.اس لئے انہوں نے وصیت تو کی ہوتی ہے لیکن وفات کے بعد بہشتی مقبرہ میں دفن نہیں ہو سکتے.پس بہشتی مقبرہ کوئی فارمل چیز نہیں ہے جب ہم وصیت کے سارے حالات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے گو ایک موصی کے ساتھ اللہ تعالیٰ بڑا پیارا اور حسین سلوک کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان پر شکر گزار بندہ بنے کی ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے.اس لئے ان کو دوسروں کی نسبت خدا تعالیٰ کا زیادہ شکر گزار بندہ بننا چاہیے.ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے شکر اور حمد کا مقام دوسروں کی نسبت بہت بڑا اور بلند ہونا چاہیے.غرض موصیان کی زندگی کا جو اجتماعی پہلو ہے اس کے متعلق مجھے تسلی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ مجھے

Page 28

خطبات ناصر جلد پنجم Λ خطبہ جمعہ ۵ /جنوری ۱۹۷۳ء ان سے کام لینے کی توفیق بخشے اور انہیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.موصیان نے اجتماعی طور پر تسلی بخش کام نہیں کیا جس کی وجہ سے تعلیم القرآن کلاس کا جو پروگرام تھا اس پر اثر پڑا اور اس کے نتیجہ میں قرآن کریم کی وسیع اشاعت کے سلسلہ میں ہم نے جو کوششیں کیں (جن کا کچھ ذکر میں نے جلسہ سالانہ کی تقریر میں بھی کیا تھا ) اُن پر بھی اثر پڑا.اگر یہ موصی صاحبان اور جماعت کا دوسرا حصہ قرآنِ کریم کی اشاعت اور اس کے علم کے حصول پر اس سے زیادہ توجہ دیتا یعنی اتنی توجہ دیتا جتنی کہ میں نے خواہش ظاہر کی تھی اور سکیمیں بنائی تھیں تو اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور برکتیں ہم پر نازل ہوتیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.لَکن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمُ (ابراهيم : ۸) یعنی تم شکر گزار بندے بنو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کرو گے اور تمہیں پہلے سے زیادہ کامیابیاں عطا ہوں گی.تمہیں پہلے سے زیادہ رضائے الہی حاصل ہوگی لیکن اگر تم شکر گزار بندے نہیں بنو گے تو تم پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی زیادتی نہیں ہوگی.انتہائی کامیابی کی طرف تمہاری جو مسلسل حرکت ہے وہ رک جائے گی.جب حرکت میں کمی واقع ہو جائے تو وہ ناکامی ہے، نہایت بھیانک ناکامی ہے.پس موصیان کی ایک مرکزی کمیٹی بنی چاہیے.اس کا ایک حصہ لجنہ بھی بنائے بعض ایسے کام ہوتے ہیں جو صرف موصیات کر سکتی ہیں وہ اپنی بہنوں سے کام لے سکتی ہیں.میرے پاس جو فہرست آئے گی اس میں سے مناسب افراد کی ایک کمیٹی بنادی جائے گی.وہ کام کرے گی.کسی نظارت کے ساتھ اس کا الحاق کر دیا جائے گا.اللہ تعالیٰ جس آخری اور حسین تر اور اکمل تر اور ارفع تر کامیابی اور فلاح کی بشارت دیتا ہے (اور اس کے لئے اس نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے ) یہ وہ کامیابی اور فلاح ہے جس کے نتیجہ میں تمام دنیا اُمتِ واحدہ کی شکل میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع نظر آئے گی.یہ وہی کامیابی ہے جس کی ہر صاحب فراست احمدی کے دل میں تڑپ ہے.اس کامیابی کے حصول کے لئے ہر صاحب فراست احمدی اپنی طرف سے کوشش کر رہا ہے.خدا کرے

Page 29

خطبات ناصر جلد پنجم ۹ خطبہ جمعہ ۵ /جنوری ۱۹۷۳ء که ساری جماعت اور جماعت کا ہر فرد صاحب فراست بن جائے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آخری کامیابی اور انتہائی خوشیوں کے دن کو ہمارے قریب سے قریب تر کر دے تا کہ ہم بھی اپنی زندگیوں میں اسے دیکھ لیں.روزنامه الفضل ربوه ۴ رفروری ۱۹۷۳ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 30

Page 31

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۳ء دنیا کی کسی سلطنت کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ کسی کو مومن یا کافر کہے خطبه جمعه فرموده ۱۹ جنوری ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:.اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِى حَاجَ إِبْرَهِم فِي رَبَّةٍ أَنْ اللهُ اللهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِمُ رَبِّيَ ط الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أخي وَأَمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِى كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ - (البقرة : ۲۵۹) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرما یا کہ کیا تمہیں معلوم ہوا کہ جس شخص کو ہم نے بادشاہت اور سلطنت عطا کی تھی اور جسے ہماری طرف سے سیاسی اقتدار ملا تھا.اس نے ہمارے ہی (یعنی اپنے ربّ کے بارے میں ابراہیم سے بحث شروع کر دی اس شخص نے جس موضوع پر بحث کی اس کی طرف صفت ربوبیت یعنی رب کا لفظ اشارہ کر رہا ہے.اس نے کہا کہ موت وحیات اور جسمانی اور روحانی اجالے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا نہیں کئے گئے بلکہ ہم کو جو بادشاہ ہیں ربّ

Page 32

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۲ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۳ء کی یا اس کے تصرف کی یا اس کی نصرت اور اس کی مدد کی ضرورت نہیں ہے اور اس طرح اس نے سلطنت میں انکساری پیدا کرنے کی بجائے غرور پیدا کیا.اتنا غرور کہ جس نے انسان کو پاگل کر دیا اور وہ خدا کے مقابلہ میں کھڑا ہو گیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے سمجھانے کے لئے کہا کہ دیکھو زندگی اور موت کا سلسلہ جو ہمیں اس دنیا میں نظر آتا ہے.اس پر ہمیں انسانی تصرف نظر نہیں آتا.وہ انسان کے اختیار میں نہیں اس لئے ہمیں ایک بالا ہستی کا وجود تسلیم کرنا پڑے گا.جو متصرف بالا رادہ اور قادر مطلق ہو اور جس کے متعلق ہم یقین کریں کہ زندگی اور موت کا سلسلہ اسی نے جاری کیا.ایسے لوگ صرف دین سے ہی بے بہرہ نہیں ہوتے.دُنیوی لحاظ سے بھی انہیں حقیقت اشیاء کا علم نہیں ہوتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے دلیل یہ دی گئی تھی کہ موت وحیات رب رحیم کے اختیار میں ہے اور جواب اس شخص نے یہ دیا کہ میں اس سلطنت کا مالک ہوں جو میرے ملک میں زندہ ہے وہ اس لئے زندہ ہے کہ میں نے اسے مارنے کا فیصلہ نہیں کیا اور اسے مارنے کا حکم نہیں دیا ور نہ جس کو میں چاہوں مروا سکتا ہوں اور مروا دیتا ہوں.تو جو چیز تم رب کی طرف منسوب کر رہے ہو، وہ میرے اندر بھی پائی جاتی ہے یعنی جو زندہ ہے وہ اس لئے زندہ ہے کہ میں اسے مار نہیں رہا اور جسے میں مارنا چاہوں اسے میں مار دیتا ہوں پس زندگی اور موت میرے اختیار میں بھی اسی طرح ہے جس طرح تم سمجھتے ہو کہ رب کے اختیار میں ہے.یہ جہالت کا جواب تھا.یہ جواب اس لاعلمی اور جہالت کے نتیجہ میں دیا گیا کہ زندگی اور موت کہتے کسے ہیں؟ 66 حیات کا لفظ قرآن کریم نے جن معانی میں استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ لفظ نبات وغیرہ قسم کی چیزوں کے لئے بولا جائے تو اس کے معنی ہیں کہ ان میں قوت نمونشو ونما کی طاقت پائی جاتی ہے اور ساری دنیا کے بادشاہ مل کر بھی کسی چیز میں جو نبات کی قسم کی ہو یہ زندگی پیدا نہیں کر سکتے اگر چہ اب پلاسٹک کے تنکے بن گئے ہیں.ان سے مصنوعی پھول کی جھاڑی سی بنا کر بعض دوکاندار پھولوں سے لدی ہوئی ایک چیز بنا دیتے ہیں لیکن اس میں نمو کی طاقت نہیں ہوتی اور نہ پیدا کی جاسکتی ہے اور جب حیات کا لفظ حیوان کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ

Page 33

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۳ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۳ء اس کے اندر جس پائی جاتی ہے.گو جتنے جاندار ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے وجود کے لحاظ سے اور جس مقصد کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف قسم کی حسیں دی ہیں اس میں بڑا تنوع ہے.ہمیں اس میں اللہ تعالیٰ کی شان نظر آتی ہے اور جب انسان کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو قرآن کریم نے اس کے دو معنی کئے ہیں اور مفردات میں امام راغب نے اس کے جو معنی کئے ہیں وہ دونوں قسم کی حیات پر لگ جاتے ہیں یہ کہ (۱) جس میں عقل ہو اور (۲) قوت عمل ہو.سمجھ کے ساتھ عقل کے ساتھ اپنے تجربہ اور مشاہدہ کے نتیجہ میں کچھ نتائج اخذ کر کے اور اصول بنا کر انسان اعمال کرے یہ زندگی ہے.پس کسی معنی میں بھی زندگی کو لیں.ایک بادشاہ کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کا وہ بادشاہ کیا، آج کے زمانہ کی ساری حکومتیں بھی حیات اور موت اس معنی میں پیدا نہیں کرسکتیں چونکہ وہ حیات کو پیدا نہیں کر سکتے اور موت اس رنگ میں حیات کی نفی ہے لہذا موت بھی پیدا نہیں کر سکتے.حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کو سمجھانے کے لئے مذہب ، جو اصل مقصد تھا، کی طرف لے آئے اور کہا دیکھو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی صفات کی دو اصولی جلوہ گا ہیں نظر آ رہی ہیں.ایک تو مادی دنیا میں مثلاً سورج ہے یہ اللہ تعالیٰ کے نور کی آماجگاہ ہے.اللہ تعالیٰ کا نور اللہ تعالیٰ کی سمت سے اُٹھتا ہے اور اس سورج کے لئے مشرق بنا دیتا ہے اور (۲) روحانی طور پر اس کے نور کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں اور بنی نوع انسان کے لئے روحانی مشرق بن جاتی ہے جیسا کہ سورہ رحمن میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ میں رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ اور رَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ ہوں یعنی مادی دنیا کی جو مشرق ہے اس کا رب بھی میں ہوں اور روحانی دنیا کی جو مشرق ہے اس کا رب بھی میں ہوں اور جسمانی دنیا کی جو مغرب ہے یعنی روشنی کا فقدان اور سورج کا ڈوب جانا، وہ بھی میرے حکم اور منشا سے، اور میرے منصوبہ کے ماتحت اور میری مصلحت سے ہوتا ہے اور روحانی طور پر اندھیروں کے پائے جانے کے اصول بھی میں نے وضع کئے ہیں.پس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس بادشاہ کو فرمایا کہ دیکھو میرا رب تو سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے یعنی روشنی کو وہاں سے نمودار کرتا ہے.تم سورج کو اپنے اندھیروں سے طلوع کر

Page 34

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۴ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۳ء کے دکھا دو یہ بڑا لطیف مضمون ہے.انہوں نے فرمایا کہ میرے رب نے اپنی نورانی تجلی سے مجھے اپنے نور کی جلوہ گاہ بنا دیا ہے.سورج میرے وجود میں روحانی افق پر طلوع ہو گیا تم اندھیرے میں ہو تم پر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اصول کے مطابق روحانی روشنی کا سورج غروب ہو چکا ہے.تو تم روحانی طور پر اپنے اس مغرب کو مشرق بنا دو اور اگر تمہارے اندر رب کی طاقت ہے تو نور کا وہ جلوہ ظاہر کرو اور اپنی فضا کے اندھیروں کو دور کرو.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس رنگ میں بات کی ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس نکتے کو سمجھا یا نہیں بہر حال اس کا جو ظاہر تھا اس نے اسے ہرا دیا.جیسا کہ فرما یا فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ پس اس آیت میں بہت سی حقائق زندگی بیان کی گئی ہیں.ایک یہ کہ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ (التغابن : ٢) که حقیقی بادشاہت اور سلطنت اللہ تعالیٰ کی ہے اور جس کو وہ چاہتا ہے اپنی اس حقیقی بادشاہت میں سے ظلی طور پر کسی مخصوص اور کسی محدود زمانے میں اور کسی معین جگہ پر کسی کو بادشاہ بنا دیتا ہے.چنانچہ فرما یا توتى المُلكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ (ال عمران: ۲۷) اور دوسرے یہ کہ جب بادشاہ اور سیاسی طور پر صاحب اقتدار ہونا کسی کے اپنے ہاتھ میں نہیں اور نہ کوئی اپنی طاقت اور کوشش سے ہو سکتا ہے تو بادشاہ کو کسی قسم کا تکبر اور غروراختیار کرنے کا حق حاصل نہیں کیونکہ جو اس کو ملا اس کی اپنی قوت، طاقت ، زور اور منشا کے مطابق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ کے نتیجہ میں اس کو ملا.ایک اور بات اس سے یہ کھلتی ہے کہ جب اپنے بنائے ہوئے اصول کے مطابق بادشاہت نہیں ملی تو شاہی اختیار اس دائرہ کے اندر محدود ہو گا جو کہ اختیار دینے والے نے کھینچ دیا.جیسا کہ فرما یا آن الله الله الملك (البقرة : ۲۵۹) پس جب اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اقتدار دیا ہے تو بادشاہت کے اختیار کی تعیین اور حد بندی بھی اللہ تعالیٰ ہی کرے گا.دُنیا میں جو ڈکٹیٹر ( آمر ) ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بادشاہت پر اپنے زور سے اور اپنی فوج کے زور سے قبضہ کیا ہے اور وہ اپنے لئے خود قانون بناتے ہیں.جہاں جمہوریت ہے وہاں عوام کہتے ہیں جو قانون ہم دیں گے اس کے مطابق حکومت کو کام کرنا ہوگا یا اگر Democracy Representative ہے یعنی عوام

Page 35

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۵ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۳ء کے نمائندے آکر حکومت اور قانون بناتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم جو دائرہ اختیارات قائم کریں گے اس کے اندر حکومت وقت کو رہنا پڑے گا چنانچہ وہ قانون بناتے ہیں اور صدر کا یا وزیر اعظم کا یا وزارت کا اختیار نہیں ہوتا کہ اپنے لئے خود قانون بنائے اور جو اختیارات وہ چاہے لے لے.پس اس دنیا میں جو جمہوریت ہے یا حکومتوں کے دیگر مختلف طریق کار ہیں اس سے بھی ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ عقلاً جس نے بادشاہ بنایا اسی نے دائرہ اختیارات کی تعیین کرنی ہے.تو الله الله المُلک میں تیسری چیز جو میں بیان کر رہا تھا یہ ہے کہ چونکہ بادشاہت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس لئے بادشاہت کے اختیارات وہ ہوں گے جن کا بیان اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کے ذریعہ کرے گا.خودا پنی طرف سے بادشاہ کا کوئی اختیار نہیں ہوگا.پس اگر ان تین پہلوؤں سے الله الله المُلک پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کے رب کے بارہ میں بحث کرنے والے کا جواب جہالت پر مبنی تھا.قرآنِ کریم نے اس نکتے کے متعلق آیات تو بہت سی بیان کی ہیں مگر شاید میں اس وقت ان کی تفصیل میں نہ جاسکوں اور نہیں جا سکتا کیونکہ میری طبیعت ناساز ہے.چوتھی چیز جس کا یہاں ذکر آیا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حیات اور ممات کا مالک ہے اور کسی اور مخلوق کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایسا دعویٰ کرے.زندگی سے مراد اگر انسانی زندگی لی جائے تو وہ عقل کے ساتھ عمل کرنے کی طاقت ہے.دنیا کا کون بادشاہ یا کن بادشاہتوں کا مجموعہ ہے جو جنون کو عقل میں تبدیل کر دے.اگر زندگی قوت عاملہ عاقلہ کا نام ہے تو دنیا کی کوئی بادشاہت کسی کو قوت عاملہ عاقلہ نہیں بخش سکتی.زندگی جب ختم ہو جاتی ہے تو یہ قوت عاملہ عاقلہ کی نفی ہے.زندگی روحانی ہو یا جسمانی سوائے اللہ کے نہ کوئی دے سکتا ہے نہ بطور حق کے کوئی لے سکتا ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ کسی کو کسی نے قتل کر دیا ؟ مارنے کا تو خدا تعالیٰ نے ایک اصول بنایا تھا اس کے مطابق اس نے قتل کیا.ہر وہ چیز جس سے انسان کی قوتِ عاملہ عاقلہ سلب ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے.اگر اس کو چھوڑ دو تو تم کوئی ایسی چیز نہیں بنا سکتے کہ قوت عاملہ عاقلہ کو سب کر لوپس جو نا جائز قتل ہے وہ بھی قوت عاملہ عاقلہ کے سلب کا وہ طریقہ ہے جو خدا تعالیٰ نے بنایا ہے.بہر حال جہاں تک زندگی کا سوال ہے یہ چیز واضح

Page 36

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۶ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۳ء ہو جاتی ہے.واضح تو دوسری بھی ہے ممکن ہے بعض بچوں کو سمجھ نہ آئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ دیکھو ! زندہ کرنا اور مارنا اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں کیا ہے.جسمانی طور پر بھی کوئی زندگی خدا تعالیٰ کے قانون اور منشا کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی موت اس کے بنائے ہوئے اصول کے خلاف چل کر واقع ہو سکتی ہے.اس مخالف نے کہا (اپنی جہالت کے سبب سے وہ سمجھا نہیں ) کہ میں بھی مارتا ہوں اور جو نہیں مرتا وہ سمجھو میری عطا کردہ زندگی ہے نا.ایسے بے وقوف اور ظالم بھی دنیا میں ہوتے ہیں کہ ہم نے بڑا احسان کیا کہ تیری جان نہیں لی.دوسرے یہ کہ جسمانی یا روحانی احیاء وامانت اللہ کے اختیار میں ہے.اس لئے بادشاہ وقت کسی کو زندگی دینے یا اس سے زندگی چھین لینے کی طاقت رکھتا ہے نہ حق ، نہ جسمانی طور پر نہ روحانی طور پر.پس دنیا کی کوئی سلطنت عقلاً یہ حق نہیں رکھتی کہ فیصلہ کرے کہ کوئی شخص یا جماعت روحانی طور پر زندہ ہے کیونکہ روحانی زندگی زندہ خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق کا نام ہے اس کے بغیر روحانی میدانوں میں انسان کو قوتِ عاملہ عاقلہ حاصل نہیں ہوتی جیسا کہ پہلے بھی میں نے ایک مضمون میں بتایا تھا.پس کسی حکومت یا سلطنت کو یہ حق نہیں کہ وہ اعلان کرے کہ فلاں شخص بڑا مومن ہے اور وہ b جنت میں جائے گا.اللہ تعالیٰ نے فرما یا فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُم هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ اتَّقَى (النجم : ٣٣) خدا کہتا ہے میں زندگی دینے والا ہوں اس واسطے میں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس کو میں نے زندگی دی ہے اور کس کو نہیں دی.حکومت وسلطنت کا یہ حق نہیں اور جب حکومت اور سلطنت ایمان کی سند اور جنت کا ٹکٹ نہیں دے سکتی تو کسی کو کا فر بھی نہیں کہ سکتی یعنی جب روحانی زندگی کا فیصلہ نہیں کر سکتی تو روحانی موت کا فیصلہ بھی نہیں کر سکتی کیونکہ کفر تو روحانی موت ہے اور ایمان روحانی زندگی ہے.خدا تعالیٰ قرآنِ عظیم میں کہتا ہے کہ دنیا کی کسی سلطنت کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ کسی کو مومن کہے یا کافر کہے یعنی روحانی طور پر زندہ یا مردہ کہے اور اس کے خدا تعالیٰ کی رضا کے حقدار ہونے کا اعلان کرے یا یہ اعلان کرے کہ اس پر خدا تعالیٰ کا غضب بھڑ کے گا.کسی حکومت کا یہ حق نہیں ہے لیکن لوگ بھی سیاسی اقتدار رکھنے والوں میں بھی ضال اور جاہل ہوتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابلہ میں جو حاکم تھا اس کی حکومت چھوٹی سی تھی لیکن اب بڑی بڑی حکومتیں ہیں.

Page 37

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۷ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۳ء یہ لوگ بعض لحاظ سے بڑے عقلمند سمجھے جاتے ہیں.سائنس میں انہوں نے بڑی ترقی کی.( مثلاً روس ہے.لیکن اُنہوں نے بھی وہی بات کی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابلہ میں بادشاہ نے کی کہ ہم زمین سے خدا کے نام اور آسمانوں سے خدا کے وجود کوختم کر دیں گے یعنی خود خدا بن گئے.زندگی اور موت کا حق اپنے ہاتھ میں لے لیا لیکن روس کے سارے سائنسدان یا اگر اس قسم کی کچھ اور دہر یہ حکومتیں ہیں ان کے سارے سائنسدان مل کر بھی خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف کسی انسان کو پیدا نہیں کر سکتے اور نہ وہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ اصولوں کے خلاف چل کر کسی سے زندگی کی علامات چھین سکتے ہیں یعنی حقائق زندگی کو کوئی نہیں چھین سکتا لیکن جب ان کو طاقت ملی اور انہیں خدا تعالیٰ نے ملک دیا تو انہوں نے خدائی کا دعوی کر دیا اور روس کو تو میں کہوں گا کہ جب میں کہتا ہوں کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے ملک دیا تو میرے پاس اس کی ایک زبر دست دلیل ہے.جس کا تم انکار نہیں کر سکتے.وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے لینن کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر یہ مشورہ کرنے سے بھی پہلے کہ ہم روس میں ایک انقلابی حکومت قائم کریں، زار روس کی تباہی اور ایک انقلابی حکومت کے قیام کی خبر دی تھی پس خود تمہارا وجود بھی خدا تعالیٰ کی ایک مصلحت کے نتیجہ میں ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کے بادشاہ نے بھی آپ سے کہا کہ میں زندہ کرتا اور مارتا ہوں اس لئے کسی بالا ہستی کی ضرورت نہیں اور اب جن کو حکومت ملی ہے وہ بھی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں گویا کہتے ہیں کہ میں زندہ کرتا اور مارتا ہوں کیونکہ وہ دراصل زندگی اور موت کا فلسفہ نہیں سمجھے (جسمانی زندگی اور موت اور روحانی زندگی اور موت دونوں پر ہی یہ آیہ کریمہ روشنی ڈالتی ہے ) اور اس روحانی زندگی کو زیادہ نمایاں کرنے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا دیکھو! روشنی وہاں ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے نور کا جلوہ ظاہر ہوتا ہے.پس سورج روحانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی اللہ تعالیٰ ہی نکالتا ہے.فرمایا:.کہ دیکھو روحانی طور پر اندھیرے وہیں دُور ہوتے ہیں جہاں خدا تعالیٰ کی نورانی روحانی تحلیلی ہو.تم روحانی طور پر اندھیروں میں ہو.اپنے اخلاق کو دیکھو، اپنی حالت کو دیکھو اور

Page 38

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۸ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۳ء جو تمہاری قیادت ہے اس کے نتیجہ میں جو ظلم اور حق تلفی ہورہی ہے اس کو دیکھو.یہ تو اندھیرا ہے پس تمہارے سائے میں اندھیرا ہے اور میرے وجود میں روشنی ہے.بہر حال حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا رب مشرق سے سورج نکالتا ہے تو مغرب سے نکال دے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ کہا کہ میرا وجود محبط انوار الہی ہے اور میرے وجود سے انوار روحانی کا انتشار ہوگا.اس زمانہ اور اس علاقہ کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک سورج کو پیدا کیا ہے جس کے نتیجہ میں اندھیروں کو دور کیا جائے گا.تم اندھیروں میں ہوا گر تم خدا پر ایمان نہیں لاتے اور اس کی ربوبیت کی معرفت نہیں رکھتے اور خود کو خدا کا قائمقام سمجھتے ہو اور عملاً انا ربکم الاعلی کا نعرہ لگاتے ہو اور اس قسم کی تمہاری ذہنیت ہے تو سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال کر دکھاؤ یعنی اپنے وجود کو جو شیطانی ظلمات کا گھر ہے، انوار الہی کا سر چشمہ دکھاؤ.”رب“ کے متعلق مخاصم مخالف نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو بحث کی کہ خدا تعالیٰ کی ربوبیتکوئی چیز نہیں ہے اور نہ اس کی ہمیں ضرورت ہے.ہم سب کچھ خود حاصل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ پھر ایسے روحانی نور سے ظلمات شیطانی دور کر کے دکھلاؤ اس طرح اُسے سمجھایا کہ یہ فیصلہ کرنا حاکم وقت یا حکومت وقت کا کام نہیں کہ کون شخص اللہ تعالیٰ کا مقترب ہے اور کون نہیں کیونکہ مشرق یا روشنی کا منبع یعنی جہاں سے وہ روشنی پھوٹتی ہے اللہ تعالیٰ کے نور کے جلوے کی جگہ ہے یعنی تجلی گاہ نو ر الہی ہے پس یہ فیصلہ کرنا کہ یہاں اللہ کے نور کی تجلی ہوگی اور یہاں نہیں ہوگی یہ کسی حاکم وقت یا حکومت یا ساری دنیا کی حکومتوں کا کام نہیں نہ حاکم وقت کا یہ کام ہے کہ جنت کے ٹکٹ ایشو (Issue ) کرنا شروع کر دے اور نہ یہ کام ہے کہ دوزخ کے ٹکٹ ایشو کرنا شروع کر دے.ان کا جو کام ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو طاقتیں دی ہیں اور ان کے استعمال کے لئے اس نے جو اصول بنائے ہیں.ان اصول کے مطابق اپنی طاقت کو استعمال کیا جائے اور اپنے اختیارات کے دائرہ سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کی جائے.الہی اصولوں سے انحراف شیطان کا کام ہے، انسان کا کام نہیں.غرض اس آیت میں بڑے بنیادی اصول اور حقائق حیات اجتماعی کو بڑے حسین پیرا یہ میں

Page 39

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۹ خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۳ء بیان کیا گیا ہے اور قرآنِ کریم مفسر ہے یعنی قرآنِ کریم کی آیات ایک دوسرے کی مفسر ہیں.میں نے بتایا ہے اس مضمون سے متعلق دوسری آیات بھی ہیں جو میرے ذہن میں آئیں اور میں نے نوٹ بھی کیں لیکن مجھے لمبا خطبہ دینا نہیں چاہیے.ڈاکٹری مشورہ تو یہ تھا کہ میں مسجد میں آؤں ہی نہ لیکن میرا دل چار پائی پر لیٹے لیٹے گھبرا گیا کیونکہ دو دن سے زیادہ میں احباب سے ملے بغیر نہیں رہ سکتا.اس لئے میں یہاں آ گیا ہوں.بہر حال اختصار کے ساتھ میں نے اس مضمون کی بعض بنیادی باتیں بیان کر دی ہیں.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو تفصیل بھی کسی وقت بیان کر دوں گا اور اس اختصار کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی حاکم اپنے زور سے حاکم نہیں بن سکتا اور نہ اسے سیاسی اقتدار اس وجہ سے حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ بڑا عقلمند اور بڑا ہوشیار اور بڑا چالباز ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ کی ایک منشا ہے جو کافر اور مومن کی زندگی میں یکساں طور پر جاری و ساری ہے اس سے تو ہم آزاد نہیں ہو سکتے.دوسرے یہ کہ جب حکومت اور بادشاہت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی تو اختیارات کی تعیین بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونی چاہیے.انسان کو یہ اختیار نہیں رہتا کہ خود اپنے لئے اختیارات تجویز کرے اور تیسرے یہ کہ اس دنیا کی زندگی اور موت بادشاہ وقت کے ہاتھ میں نہیں اور اس کا یہ حق نہیں کہ کسی کی جان پر یا زندگی پر ڈاکا ڈالے یا وہ لوگوں کے حقوق چھینے یا جو پہلا حق ہے یعنی حرمت حیات انسانی، اس میں دخل اندازی کرے اور نہ اس کا یہ حق ہے اور نہ یہ اس کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں روحانی اصلاح کرے اور بلند مقامات پر لے جائے یعنی یہ موت اور حیات اس کے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور چوتھے یہ کہ اندھیروں کا دور کرنا یا اندھیروں کا دور نہ کرنا یعنی مشرق و مغرب کسی حاکم وقت کے اختیار میں نہیں اس واسطے حکومتوں کو مومن و کافر کا فیصلہ کرنے کی بجائے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ان فرائض کی انجام دہی کی طرف توجہ دینی چاہیے جو کہ اس بالا ہستی نے مقرر اور معین کئے اور تفویض کئے ہیں جس نے انہیں صاحب اقتدار بنایا ہے.جس نے سیاسی اقتدار دیا وہی بتائے گا کہ سیاسی اقتدار سے کام کس طرح لینا ہے اور اس کا مصرف کیا ہے اور انسان کے اپنے ہاتھ میں کچھ نہیں.انسان تو بڑا کمزور

Page 40

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۱۹ / جنوری ۱۹۷۳ء ہے.وہ بھی اس جہان سے گزر گئے جنہوں نے عاجزانہ اور عاشقانہ زندگیاں گزاریں اور وہ بھی اس جہان سے گذر گئے جنہوں نے اباء اور استکبار کی راہوں کو اختیار کیا لیکن آخری اور حقیقی کامیابی اسی کی ہوئی جس نے اپنے پیدا کرنے والے رب کے دامن کو نہ چھوڑا اور اس سے چمٹا رہا اور اپنے نفس کو کچھ نہ سمجھا.ہر کام میں ہدایت پانے کے لئے اس کی نگاہ اپنے رب کے منور چہرہ کی طرف اُٹھی اور وہاں سے اس نے نور حاصل کیا.یہ کامیابی جو حقیقی ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی ملتی ہے اور انفرادی زندگی میں بھی ملتی ہے.بسا اوقات ظاہری آنکھ اس کا میابی کو نہیں دیکھ رہی ہوتی لیکن جو جا ر ہا ہوتا ہے اس کی زبان سے یہی نکلتا ہے کہ ربّ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا کیونکہ اسے اس وقت جنت کا دروازہ اپنے لئے کھلا نظر آ رہا ہوتا ہے اور جو اباء اور استکبار کی راہ کو اختیار کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے بے پرواہی برتتا ہے اور اس کے احکام کے نیچے اپنی گردن کو رکھنے کے لئے تیار نہیں وہ عارضی طور پر بعض جھوٹے دنیوی معیاروں کے لحاظ سے، بعض لوگوں کے نزدیک شاید کامیاب سمجھا جائے لیکن کیا وہ شخص کا میاب ہوا جو اس دنیا میں بھی آخری کامیابی کو حاصل نہیں کر سکا؟ کیا وہ شخص کا میاب ہوا جس کے لئے مرنے کے بعد اُس دنیا میں جنت کی بجائے دوزخ کے دروازے کھولے جائیں؟ ہرگز نہیں وہ کامیاب نہیں.کوئی عقل اسے کامیابی نہیں کہہ سکتی کوئی فکر اسے کامیاب نہیں کہ سکتی.پس حکومت اللہ کی ہے.وَ لَهُ الْحَمْدُ جس رنگ میں وہ حاکم ہے اس کے نتیجہ میں ساری تعریفیں اس کی طرف منتقل ہوتی ہیں اور وہی ان کا سزاوار ہے.پس اس رنگ میں ان اختیارات کو جو اس کی طرف سے تفویض کئے گئے ہیں، استعمال کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں تا کہ اس کی رضا حاصل ہو جائے.انفرادی زندگی میں بھی یہ ہمارا فرض ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی ہمارا یہ فرض ہے.اللہ تعالیٰ ہم کو یہ توفیق دے کہ ہم اپنے فرائض کو سمجھ کر عقل کے ساتھ ان پر عمل کرنے والے اور ان کو ادا کرنے والے ہوں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢

Page 41

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۱ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ روحانی زندگی کا سلسلہ نسل میں بھی قائم رکھے فرمائی:.خطبه جمعه فرموده ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت ط إِنَّ اللهَ فَالِقُ الْحَبْ وَ النَّوَى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيْتِ وَ مُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذلِكُمُ اللهُ فَاتَّى تُؤْفَكُونَ - (الانعام : ٩٢) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دمشق سے ہمارے ایک عزیز نوجوان السید ابوالفرج الحصنی صاحب اردو اور دینی تعلیم کے حصول کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں.چند دن یا شاید ایک دو ہفتے ہوئے کہ دمشق میں اُن کی والدہ ( جو احمدی نہیں تھیں ) وفات پاگئیں.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ (البقرة: ۱۵۷) اگر انسان کو صرف اپنے ماں اور باپ کے پیار کا سہارا ہوتا تو ان کی جدائی پر انسانوں پر ایک مصیبت نازل ہو جاتی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ ہمارا پیدا کرنے والا رب ہم سے کتنا پیار کرتا ہے.وہ ہم سے ہماری ماؤں سے بھی زیادہ اور ہمارے باپوں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے.اس لئے ہماری یہ دعا ہے کہ ہمارے یہ عزیز

Page 42

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۲ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء بھائی خدا تعالیٰ کے اس پیار کو پانے والے ہوں اور والدہ کی جُدائی اُن پر شاق نہ گذرے.جہاں تک زندگی اور موت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ کاملہ سے زندگی اور موت کو اپنے بنائے ہوئے قانون کے اندر باندھ رکھا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ جو سب قدرتوں کا مالک ہے اور تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور جس کے اندر کوئی عیب کمزوری اور نقص نہیں اُس نے بتایا ہے کہ میں ہی مردہ سے زندہ کو پیدا کرتا ہوں اور پھر زندوں سے موت کو نکالتا ہوں زندگی اور موت صرف انسانوں سے تعلق نہیں رکھتی ، صرف جانداروں سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ غیر جانداروں سے بھی اس کا تعلق ہے.مثلاً درخت ہیں گوان میں زندگی تو پائی جاتی ہے.لیکن وہ انسان کی طرح زندہ نہیں ہوتے اس لئے وہ زندہ بھی ہوتے ہیں اور مُردہ بھی ہوتے ہیں.وہ خوبصورت پھولوں اور پھلوں سے لدے ہوئے بھی ہوتے ہیں اور ھشیم یعنی سوکھی ٹہنیوں کی طرح بھی ہمیں نظر آتے ہیں.درختوں میں بھی خدا تعالیٰ کا یہ قانون جاری ہے کہ اجتماعی اور نوعی زندگی اور بقا کے لئے درخت کی موت میں سے زندگی کا چشمہ پھوٹتا ہے مثلاً کیلے کا درخت ہے جب یہ اپنے موسم میں پھل دیتا ہے تو پھل دینے والے تنے کو نا کارہ سمجھ کر کاٹ دیا جاتا ہے لیکن اس کی جڑوں میں سے تین چار کیلے کے پودے نکل آتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کے قانون کے مطابق اچھا پھل بننا ہو تو وہاں سے نکال کر دوسری جگہوں پر لگا دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک سے کئی پودے نکلتے رہتے ہیں.بعض درخت اپنے پیچھے بظاہر زندگی سے محروم بیج چھوڑ جاتے ہیں مگر اس بیچ میں سے جس میں انسان کی ظاہری آنکھ زندگی نہیں دیکھ رہی ہوتی اللہ تعالیٰ اس میں سے زندگی کو پیدا کرتا ہے.مثلاً آم کی گٹھلی سے آم کا پودا نکل آتا ہے اور مالٹے کی ٹہنیوں سے جو درخت سے کٹنے کی وجہ سے بظاہر مُردہ ہو جاتی ہیں انسان اُن سے آنکھ پیوند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں زندگی کی لہر دوڑا دیتا ہے.پس موت سے زندگی کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم قانون ہے اس میں اس کی ایک ز بر دست شان نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ قانون اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے.پھر زندگی اور موت دونوں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور روحانی بھی.جہاں تک بنیادی قوانین کا تعلق ہے یہ دونوں

Page 43

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۳ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء پر حاوی اور جاری ہیں.جب انسان کی اپنی ہی شامت اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کو اس کی زندگی ختم کرنا مقصود ہوتو وہ انسان جسمانی طور پر وفات پا جاتا ہے گو اس طرح جسمانی اور روحانی لحاظ سے اس کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں رہتا لیکن ایک شخص جو روحانی طور پر خدا تعالیٰ کا فدائی اور جاں شمار ہوتا ہے جب وفات پا جاتا ہے تو اس کی نیکی کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتی ہے.اس کی مثال اس درخت کی ہوتی ہے جس کی جڑوں میں سے ویسے ہی یا بعض دفعہ اس سے بھی اچھے پودے نکلتے نظر آتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ سے پیار نہیں کرتا وہ جب مرجاتا ہے تو اس کے درخت وجود سے ایسے پودے نکلتے نظر نہیں آتے بلکہ کیا جسمانی اور کیا روحانی ہر دو لحاظ سے اس دنیا میں اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے.اس قسم کے انسان اور اس کی زندگی کے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورہ قمر میں فرمایا ہے کہ جب لوگوں نے ہمارے رسولوں کا انکار کیا اور ان کے مقابلہ پر کھڑے ہو گئے اور اس طرح انہوں نے ہماری ناراضگی مول لی تو دنیوی لحاظ سے ہم نے ان کو كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ (القمر :۳۲) یعنی ان سوکھی ہوئی ٹہنیوں کی طرح بنا دیا جن سے ایک باڑ بنانے والا باڑ بناتا ہے اور جن کے اندر کوئی زندگی نہیں ہوتی.شیم کے معنے ٹوٹی ہوئی یا توڑی ہوئی چیز کے ہوتے ہیں مثلاً گندم کے متعلق کہا جائے تو یہ بُھو سے کی شکل میں ہوگی اور اگر یہ لفظ درختوں کے متعلق استعمال ہو تو ایسے درخت کو بھی ہم هَشِیم کہیں گے جو جڑوں سے نکل کر خشک ہو گیا ہو اور زندگی کی کوئی رمق اس کے اندر باقی نہ ہو اور ان سوکھی ہوئی ٹہنیوں کو بھی ہم ھشیم ہی کہیں گے جو خواہ ہمیں درخت پر نظر آئیں خواہ وہ درخت سے کٹ کر الگ ہوگئی ہوں خود ٹوٹ کر علیحدہ ہو گئی ہوں یا کسی توڑنے والے نے ان کو توڑ دیا ہو.پس خشک ٹہنیوں کو عربی زبان میں ھشیم کہتے ہیں اسی لئے عربی میں جب تَهَشَمَ الشَّجَرُ کہیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ درخت سوکھ کر گر گیا غرض سورۃ قمر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ جس طرح وہ اپنی حکمت کا ملہ سے انسان کو سبق دینے کے لئے درختوں کی ٹہنیوں یا خود درختوں سے اُن کی زندگی کو چھین لیتا ہے اسی طرح وہ انبیاء علیہم السلام کے منکرین پر اپنا عذاب

Page 44

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۴ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء نازل کرتا اور حیات اُن سے چھین لیتا ہے جس سے تم یہ سمجھ لو کہ جس شخص یا جس قوم میں روحانی طور پر زندگی کا سلسلہ ختم ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے قہر کا مورد بن جاتی ہے اسی لئے جہاں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ تم خاتمہ بالخیر کی دعا کرو وہاں مخلص بندوں سے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم اپنی اولاد کے لئے دعا کیا کرو کہ تمہارے لئے تمہاری اولا د قرۃ العین بنے.یعنی وہ تمہاری آنکھوں کی ٹھندک ثابت ہو.ایک کروڑ پتی شخص جس کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ قرآن کریم کی اُسے سمجھ ہوتی ہے اُس کے لئے اس کی اولا دقرۃ العین یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک اس وقت بنتی ہے جس وقت وہ تجارت میں یا زراعت میں یا چالا کیوں میں یا دوسروں کی دولت کے استحصال میں بڑی مہارت حاصل کرلے لیکن ایک دیندار شخص جس کا اپنے رب سے زندہ تعلق ہوتا ہے اس کی اولاد تو اس کے لئے قرة العین اس وقت بنتی ہے جس وقت وہ دیندار بنے یعنی خدا تعالیٰ سے روحانی زندگی پانے لگے اسی لئے اسلام نے تربیت اولا د پر بڑاز ورد یا ہے.پس ہر شخص کے ساتھ موت لگی ہوئی ہے اسے یہ بات ہمیشہ نظروں کے سامنے رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اُسے جو روحانی زندگی عطا فرمائی ہے اس کا سلسلہ اس کی نسل میں بھی جاری رہے اور جو اس شخص کی اولاد ہے.اس کے بچے ہیں ان کو بھی یہ یا درکھنا چاہیے کہ ان کے بزرگ باپ نے اپنی زندگی میں اُن کے لئے ایک مثال قائم کی ہے اس مثال کے مطابق انہیں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ جو روحانی نعمتیں ان کے بزرگوں کو ملیں ( یہ روحانی نعمتیں ورثہ میں نہیں ملا کر تیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں عظیم اور مقبول مجاہدہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہیں ) وہ ان کے حصہ میں بھی آئیں تا کہ خاندان میں روحانی زندگی جاری وساری رہے.آج جمعہ کے دن ( ویسے تو یہ پچھلی رات کا واقعہ ہے لیکن میں آج اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اسلامی کیلنڈر کی رو سے ہمارا دن غروب شمس سے شروع ہوتا ہے اس لئے ہمارے کیلنڈر کے لحاظ سے آج جمعہ کی رات) قریباً دس بج کر ۲۵ منٹ پر ہمارے ایک بزرگ بھائی حضرت مرزا عزیز احمد صاحب وفات پاگئے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ.مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کے پوتے تھے.اپنے والد سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حلقہ بیعت میں آئے اور

Page 45

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۵ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء احمدی ہوئے اور اس طرح ان کی روحانی حیات شروع ہوئی.پھر وہ خلافت سے بھی وابستہ رہے پھر ان کے والد حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ میں عمر میں اپنے چھوٹے بھائی اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں امام وقت کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق ملی.حضرت مرزا عزیز احمد صاحب علی گڑھ یونیورسٹی میں اس وقت داخل ہوئے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس دنیا میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کا نور پھیلا رہے تھے.یعنی اس وقت قریباً جوانی کی عمر ہو چکی تھی.آپ نے لمبی عمر پائی مجھے ان کی صحیح عمر تو یاد نہیں وفات کے وقت کم و پیش ۸۲ سال کی عمر تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑا لمبا عرصہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.آپ بڑے بے نفس انسان تھے اور بڑے ہنس مکھ اور خوش مزاج انسان تھے اور بڑی دعائیں کرنے والے انسان تھے اور انسان سے بڑا پیار کرنے والے انسان تھے اور بچوں کی تربیت کا بڑا خیال رکھنے والے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑا صبر عطا کر رکھا تھا.جب آپ کی پہلی بیوی وفات پاگئیں اور اُن کے بطن سے ان کے دونوں بیٹے بھی فوت ہو گئے تو ان کی وفات کے صدمے کو انہوں نے بڑے صبر سے برداشت کیا.پھر جب حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کی بڑی صاحبزادی سے اُن کی شادی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس صبر کا اجر یہ عطا فر مایا کہ ان کی نسبتا بڑی عمر میں دو اور بیٹے عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کا یہ مزید پیار بھی حاصل ہوا کہ ان کے صبر اور اپنے لئے ان کی محبت کو دیکھ کر ان کے ہر دو بچوں کو اسلام کے لئے محبت رکھنے والے دل عطا فرمائے.آپ کے دونوں بیٹے واقف زندگی ہیں اور بڑے اخلاص سے سلسلہ کے کام کرنے والے ہیں.میں نے بتایا ہے کہ جس طرح کیلے کا پودا پھل دینے کے بعد ا پنی جڑوں سے دو چار مزید پودے نکالتا ہے اور اس لحاظ سے ہم اُسے مُردہ نہیں کہہ سکتے بلکہ اُس کا خاندان زندہ ہے اسی طرح حضرت مرزا عزیز احمد صاحب جسمانی لحاظ سے تو وفات پاگئے ہیں مگر وہ روحانی طور پر زندہ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسل کو روحانی طور پر زندہ کیا ان کو خدا کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی توفیق عطا

Page 46

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۶ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء فرمائی.تاہم اُن کے بیٹوں پر اب ذمہ داری بھی آپڑی ہے.باپ کی زندگی میں بعض بچے بعض دفعہ کچھ لا پروا بھی ہو جایا کرتے ہیں.اگر وہ غلطی کریں تو باپ تصحیح کر دیتا ہے ان کی غلطی کو ڈور کر دیتا ہے غرض وہ اُن کی ہر رنگ میں تربیت کرتا ہے.مگر جب انسان کو اپنی بقا کی ساری ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر خود ہی اٹھانی پڑتی ہیں تو پھر اُسے خود ہی اپنا مربی بھی بننا پڑتا ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: - وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا کہ انسان پر اس کے نفس کا بھی حق ہے.پس انسانی زندگی میں جب یہ مرحلہ آتا ہے کہ اس کا بزرگ باپ داغ مفارقت دے جاتا ہے تو پھر کوئی باہر سے آکر اس کا مربی نہیں بنتا.اس صورت میں انسان خود اپنا استاد بھی ہوتا ہے اور اپنا شاگرد بھی ہوتا ہے یعنی خود اپنی تربیت بھی کر رہا ہوتا ہے اور دوسروں سے تربیت حاصل بھی کر رہا ہوتا ہے.غرض حضرت میاں عزیز احمد صاحب کی جدائی سے اُن کے بیٹوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں.اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے حضرت میاں صاحب کی مغفرت فرمائے اور اُن کی اولا د کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اُن کو نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ اس دنیا میں بھی زندگی کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ موت کے سرچشمہ سے زندگی کے سوتے پھوٹتے ہیں.چنانچہ حقیقی زندگی مسکراہٹ اور بشاشت کا دوسرا نام ہے.جو درخت مرجاتا ہے یا جب درخت مرجاتے ہیں تو باغ پر مردنی چھا جاتی ہے لیکن جو درخت زندہ ہے اور اس کی زندگی کی علامت یہ ہے کہ سبزہ ہے اس کے پتوں پر پھول ہیں اس کی ٹہنیوں پر اور وہ پھلوں سے لدا ہوا ہے تو گویا اس کی سرسبزی و شادابی اور اس کے پھول اور پھل اس کی دلآویز مسکراہٹوں کے مترادف ہیں یہی وجہ ہے کہ سرسبز اور پھول دار درخت کے وجود میں شاعر مسکراہٹیں دیکھتا اور اپنے کلام کو پھولوں کی طرح خوشنما بناتا ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں.ہمیں روحانی حیات میں جو خوشیاں اور مسکراہٹیں اور بشاشتیں نظر آتی ہیں یہ ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتیں.چنانچہ ربوہ ہماری مسکراہٹوں کا مرکز ہے.اس کی مسکراہٹیں قائم رہنی چاہئیں.اہل ربوہ کے چہروں پر بھی اور ربوہ کی فضاؤں میں بھی اور اس کی ہواؤں میں بھی مسکراہٹیں کھیلتی رہنی چاہئیں.ربوہ کی گلیوں میں بھی اور اس کی

Page 47

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۷ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء شاہراہوں پر بھی مسکراہٹیں نظر آنی چاہئیں.چنانچہ انہی مسکراہٹوں کو نمایاں کرنے کے لئے میں نے مجلس صحت کا اجراء کیا تھا اور اس کے قیام پر اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اہلِ ربوہ گھروں میں پھلدار اور کھلے میدانوں اور سڑکوں پر سایہ دار درخت لگا کر ربوہ کو ایک خوبصورت باغ کی شکل میں تبدیل کر دیں کیونکہ علاوہ اور بہت سے فوائد کے ہمیں لہلہاتے ہوئے درختوں میں خدا تعالیٰ کی قدرتیں جلوہ گر دکھائی دیتی ہیں جن سے انسان بہت سے جسمانی اور روحانی فائدے اُٹھا سکتا ہے.چنانچہ میری اس تحریک پر پچھلے سال موسم خزاں کے آخر میں جو درخت لگائے گئے تھے.مجلس صحت کی طرف سے موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق اُن پر جو حالت گذری اور جن حادثات کا ان کو سامنا کرنا پڑا خدا تعالیٰ درختوں کو بھی اور انسان کو بھی اُن حادثات سے محفوظ رکھے کچھ تو بچوں نے توڑ تاڑ دیئے.میں کہتا ہوں ایک احمدی طفل اگر درختوں کو توڑتا ہے تو اس کے ماں باپ ذمہ دار ہیں پھر کچھ درخت آندھیوں کی نذر ہو گئے کچھ درختوں کو زندگی کا پانی نہیں ملا اور وہ مُرجھا گئے کچھ درختوں کو غذا نہیں دی گئی.درختوں کو غذا کی بھی ضرورت ہوتی ہے یعنی یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ جس جگہ درخت لگایا گیا ہے وہاں اس کے پنپنے کے لئے حالات سازگار ہیں یا نہیں.دو تین سال ہوئے ہم نے اپنی زمینوں پر ایک بڑ کا درخت لگایا.چنانچہ میں نے دیکھا کہ گرمیوں میں اس کی شاخیں نکل آتیں اور وہ بڑا خوبصورت لگتا لیکن جب موسم سرما آتا اور کورا پڑتا تو وہ مرجھا جاتا پھر گرمیوں میں اس کی جڑ میں سے ایک اور شاخ نکل آتی تھی.دوسال تک ہم اس کے ساتھ اسے زندہ رکھنے کا کھیل کھیلتے رہے مگر بے سُود.چند مہینے ہوئے ان سردیوں سے پہلے مجھے خیال آیا کہ یہ درخت تو بڑا مظلوم ہے.جس جگہ ہم نے اسے لگا رکھا ہے اس جگہ زمین کے دوفٹ نیچے ریت کی موٹی تہ شروع ہوتی ہے جس میں درخت کے لئے کوئی غذائیت موجود نہیں غذا نہ ملنے کی وجہ سے اس میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ شدت سرما کا مقابلہ کر سکے.چنانچہ میں نے اس کے اردگرد گو بر کی کھاد ڈلوادی اور اب اتنی سخت سردی کے باوجود وہ بڑا اچھا اور سرسبز ہے اور بہت خوبصورت لگتا ہے.پس درختوں پر بھی گو اللہ تعالیٰ ہی کا قانون کارفرما ہے.اصل حکم تو اللہ تعالیٰ ہی کا چلتا ہے لیکن اس کے قانون کا ہمیں بھی خیال رکھنا پڑتا ہے.درختوں کی غذا بھی ضروری ہے

Page 48

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۸ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء اگر اُن کو غذا نہ ملے تو وہ مُرجھا جاتے ہیں.پس گذشتہ سال کی شجر کاری ایک تجربہ تھا جس میں درختوں کو ضائع کیا.عربی کا محاورہ ہے مَا ضَاعَ مَالُكَ مَا وَعَظَكَ “ کہ جس مال کے ضائع ہونے سے تمہیں نصیحت حاصل ہو اور اس سے تم سبق سیکھو اس کو ضائع نہ سمجھو اس لئے جو درخت ضائع ہو گئے ہیں اگر ان کی جگہ نئے درخت اس آنے والے موسم میں لگا دیئے جائیں اور وہ چل نکلیں تو تلافی مافات ہو سکتی ہے.چنانچہ اب ۲۵ فروری کے بعد حکومت کے اعلان کے مطابق درخت لگانے کا موسم شروع ہو رہا ہے نگران مجلس صحت کہتے ہیں کہ انہوں نے اس موسم میں تین ہزار درخت لگانے کا انتظام کیا ہے.میرے نزدیک یہ تعداد کم ہے.میں سمجھتا ہوں اور اس میں کوئی مشکل نہیں کہ ربوہ میں دس ہزار درخت لگنے چاہئیں.عام حوادث اور نا تجربہ کاری کے پیش نظر اگر پانچ ہزار یعنی پچاس فیصد درخت ضائع بھی ہو جائیں تب بھی میں پانچ ہزار درخت زندہ وسلامت دیکھنا چاہتا ہوں.جب اگلا موسم سرما آئے تو اتنے درخت اپنی عمر کے لحاظ سے اونچا قد نکال چکے ہوں.اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے احباب ربوہ خدا کی بتائی ہوئی تدابیر بھی کریں اور خدا کی بتائی ہوئی دعا بھی کریں خدا کے حضور جھکیں اس سے اس کا فضل مانگیں درختوں کے لگانے اور اُن کی دیکھ بھال کی توفیق مانگیں ، عقل مانگیں، فراست مانگیں اپنے بچوں کی تربیت کی توفیق مانگیں میٹھا پانی مانگیں وہ بڑا دیالو ہے.وہ ہر چیز دینے والا ہے اپنی ضرورت کی ہر چیز اس سے مانگیں.میری یہ خواہش ہے کہ ربوہ میں درخت لگا کر اسے سرسبز و شاداب بنا دیا جائے.میں آپ پر یہ ذمہ داری ڈالتا ہوں یہ بڑا ضروری کام ہے اس میں پورے ذوق اور شوق کے ساتھ حصہ لیں.شجر کاری کی اہمیت کو گو سرکاری سطح پر بھی محسوس کیا جاتا رہا ہے لیکن پچھلے ۲۵ سال میں ہمارے ملک میں ہر سال کروڑوں درخت لگائے گئے اور قریبا کروڑوں درخت ہی ضائع بھی ہو گئے اگر ان میں سے نصف تعداد میں بھی درختوں کی حفاظت کرنے کے ہم قابل ہوتے تو اس وقت سارا پاکستان (ہوائی جہاز سے ) ایک خوبصورت جنگل یا باغ نظر آتا لیکن اب ایسا نظر نہیں آتا کیونکہ درخت بہت کم ہیں اس لئے محض درختوں کے لگانے پر خوشی کا اعلان جہالت کا اعلان ہے.

Page 49

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۹ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء جب درخت بڑے ہو جاتے ہیں جب انسان کے اس زمانہ پر خود درخت کا سبزہ اور اس کی خوبصورتی گواہی دے کہ گویا انسان نے خدا تعالیٰ کے قانون کو سمجھا اور بوقت ضرورت اس کا استعمال کیا اور اس استعمال میں اُس نے محنت کی اور خدا تعالیٰ سے دعا کی اور اس طرح اس کے فضل کو حاصل کیا یہ تو خوشی کی بات ہے لیکن یہ تو خوشی کی بات نہیں کہ ۲۵ سال تک قوم ہر سال کروڑوں درخت لگائے اور ہر سال کروڑوں درختوں کو ضائع بھی کر دے.یہ تو بڑی شرم کی بات ہے یہ تو بڑی نالائقی کی بات ہے.اس سے تو گردنیں جھک جانی چاہئیں گردنیں اکڑنی نہیں چاہئیں.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو بھی بہترین شجر کاری اور ان کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بھی جو میرے پہلے مخاطب ہیں اس کام کی کماحقہ تو فیق عطا ہو کیونکہ آپ کی ذمہ داری دوسروں سے بہر حال زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ نے آج روحانی قیادت آپ کے ہاتھ میں دی ہے اس لئے ہر احمدی نے زندگی کے ہر شعبہ میں دوسروں سے آگے نکلنا ہے.یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ہر احمدی دوست کو انتہائی کوشش کرنی چاہیے.جہاں تک درختوں کے لئے پانی کا تعلق ہے اس کی ابتدا میں نے اس طرح کی کہ وہ ایسے محلے جن میں اس وقت پانی بالکل نہیں یا بہت کم ہے.پینے کے لئے بھی دقت ہے وہاں اہل محلہ اور مرکز کے باہمی مشورہ اور تعاون سے بجلی کے کنویں لگا دیئے جائیں گے.اس طرح پانی کی ضرورت پوری ہو جائے گی.میں نے بعد میں یہ بھی اعلان کیا تھا کہ دوسرے محلے میں بھی پانی کی ضرورت ہو تو وہ بھی اس قسم کے پروگرام میں شامل ہو جائے.مجھے رپورٹ ملی ہے کہ ایک اور محلے نے بھی اس طرف توجہ کی ہے تاہم ابھی تک کوئی ٹھوس کام سامنے نہیں آیا یوں لگتا ہے یہ محلے خواب خرگوش میں پڑے ہوئے ہیں.ترقی کے لئے کچھوے کی طرح کی آہستہ آہستہ حرکت تو کوئی حرکت نہیں ہے حالانکہ انسانی صحت کے لئے پانی بہت ضروری ہے.نمکین پانی پینے کی کچھ عادت بھی پڑ گئی ہے.اس لئے میٹھے پانی کے انتظام کے لئے فوری توجہ نہیں دی جا رہی.علاوہ پینے کی ضرورت کے اگر ہم نے درختوں کے لئے پانی کا انتظام کرنا ہے تو پھر چونکہ فروری کے آخر سے درخت لگانے کا موسم شروع ہو رہا ہے اس سے پہلے یہ کنوئیں چالو ہونے چاہئیں یہ تو نہیں ہوسکتا کہ مثلاً

Page 50

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء جس وقت گندم لگانے کا موسم ختم ہو جائے اس وقت ہم یہ کہہ دیں کہ ہم نے کھاد کی صحیح تقسیم کا اعلان کر دیا ہے نتیجہ اسی کام کا نکلا کرتا ہے جس کو خدائی قانون کے مطابق وقت پر کیا جائے بے وقت کام کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا کرتا.اسی لئے عمل صالح میں حال کے مطابق کام کرنے کی شرط بھی شامل ہے یعنی جو کام کرنے کا وقت ہے اس کو بھی ملحوظ رکھنا پڑتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے درخت لگانے کا موسم سال میں ایک دفعہ فروری مارچ میں آتا ہے اگر اس موسم کی بجائے دسمبر جنوری میں درخت لگائے جائیں تو ظاہر ہے کہ جہاں تک درخت لگانے کا سوال ہے یہ عمل صالح نہیں کہلائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ موسم درخت لگانے کا نہیں درختوں کے سُلانے کا رکھا ہے.بعض درخت بہت گہری اور لمبی نیند لیتے ہیں مثلاً سیب کا درخت ہے یہ ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں اسے پانچ چھ مہینے کی نیند مل جائے.اتنی لمبی نیند سے کشمیر میں ہی ملتی ہے اس لئے کشمیر کا سیب بہت مشہور ہے.غرض جہاں بھی ایسا موسم ہوگا وہاں کا سیب بہت اچھا ہوگا.اسی لئے اب سوات میں بھی بہت اچھے سیب ہونے لگ گئے ہیں.سیب کی بعض قسمیں ایسی بھی ہیں جن کے درخت چودہ چودہ ہزارفٹ کی بلندی پر ہوتے ہیں اور وہ آٹھ مہینے تک نیند لیتے ہیں.پس جس وقت درختوں کے سونے کا وقت ہوتا ہے اس وقت اگر آپ درخت لگا ئیں گے تو وہ مر جائیں گے کیونکہ اس موسم میں کوئی درخت جڑ نہیں پکڑے گا.غرض وہی کام نتیجہ خیز ہوتا ہے جسے وقت پر کیا جائے بے وقت کا کام بتا تا ہے کہ کام کر نے والے شخص کو اپنے کام سے پیار نہیں ہے وہ تو یونہی بیگار کاٹ رہا ہے.ہمارے اس کام کی جو پہلی سٹیج ہے یا اس کا جو پہلا قدم ہے وہ دو کنوئیں لگانے کا تو یقینا ہے.اگر کسی اور محلے میں تیسرے کنوئیں کے لگانے کا پروگرام بھی شامل ہو اور وہ محلہ اپنے آپ کو حق دار بنالے تو اس کو بھی حصہ مل جائے گا لیکن اگر وہ فی الواقعہ حق دار نہ ہو تو اس کو حصہ نہیں ملے گا.۲۰.۲۵ فروری سے پہلے پہلے یہ کنوئیں بہر حال چالو ہو جانے چاہئیں.اسی طرح اگر درخت فروری میں لگانے ہیں تو ابھی سے ان کے لئے گڑھے کھود لینے چاہئیں.مجھے یہ رپورٹ ملی ہے کہ محلے اس طرف توجہ نہیں کر رہے.تمام محلوں کو چاہیے کہ وہ ابھی سے گڑھے کھودنے کا کام شروع کر دیں گڑھے کھود کر

Page 51

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۱ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء ان میں مٹی ( بھل ) ڈال دی جائے.پھر جس قسم کی کھاد درختوں کے لئے موزوں ہوتی ہے مہیا کی جائے.درختوں کے لگانے کے بعد ان کی حفاظت کی جائے جو بچے درختوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ان کو وہاں کا نگران بنادیا جائے.آپ ان سے کہیں کہ تم ان درختوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہو جتنے درخت لگیں گے ان میں سے نصف تو آپ نے انشاء اللہ ضرور پالنے ہیں.ان ۵۰ فیصد میں سے جتنے درخت آپ نہ پال سکیں مثلاً کسی جگہ سو درخت پلنے ہیں ( دوصد میں سے ) ان میں سے آپ ۹۵ فیصد کو پال سکے ہیں اور ۵ ضائع ہو گئے ہیں تو آپ آپس میں مشورہ کر کے یہ فیصلہ کریں کہ آپ اہل محلہ اپنے اوپر دس روپے فی درخت اجتماعی جرمانہ ادا کریں گے اور اس طرح جو رقم جمع ہوگی وہ شجر کاری ہی پر خرچ ہوا کرے گی.پس تمام محلوں کے صدر صاحبان کو میں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ آج شام کو اپنی مجالس عاملہ کو اکٹھا کر کے باہمی مشورہ سے اپنے اپنے حالات کے مطابق یہ طے کر لیں کہ پچاس فی صد میں سے ضائع ہونے والے درختوں پر فی درخت دس روپے یا ساڑھے نو روپے یا سوا نو روپے یا نورو پے دو آنے تک محلہ جرمانہ ادا کرے گا.حالات کے مطابق میرے مشورہ سے تبدیلی بھی ہو سکتی ہے.دوسرے مجلس صحت کے نگران کو چاہیے کہ وہ تین ہزار کی بجائے دس ہزار درختوں کے منگوانے کا انتظام کریں.حکومت پانچ پیسے فی درخت یعنی پانچ روپے فی سینکڑہ کے حساب سے درخت دیتی ہے.یہ بڑا سستا سودا ہے.تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ دوست یا کچھ محلے ایسے ہوں جو اتنی رقم بھی خرچ نہ کر سکتے ہوں لیکن اگر وہ یہ فیصلہ کر لیں کہ درخت ضائع ہونے کی صورت میں وہ نو دس روپے جرمانہ ادا کریں گے تو ہم ان کو شروع میں درخت مفت دے دیں گے اگر وہ ہم سے زائد قیمت پر درخت خرید لیں تو پھر ان کو جرمانہ نہیں ہو گا جو انہوں نے خود ہی اپنے اوپر عائد کرنا ہے.پھر وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے چونکہ زیادہ پیسے دے کر درخت خریدے ہیں اور گویا شروع میں جرمانہ ادا کر دیا ہے اس لئے اب ہم سے نہ لو.بہر حال درخت لگنے چاہئیں سڑکوں کے کناروں پر اور کھلے میدانوں میں ہر جگہ درخت لگنے چاہئیں.فی الحال اُن جگہوں پر بھی درخت لگادیں جہاں مثلاً کسی کا مکان بننے والا ہے.اس

Page 52

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۲ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء سلسلہ میں جماعت کی طرف سے یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ جن دوستوں کے قطعات میں ابھی تک مکان تعمیر نہیں ہوئے اُن میں بھی درخت لگا دیئے جائیں جب وہ مکان بنائیں تو درخت کاٹ لئے جائیں ان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ اُن کی زمین اچھی ہو جائے گی تاہم اس شخص کا جس نے ابھی اپنے قطعہ زمین پر مکان نہیں بنا یا حق ہے کہ وہ کہے کہ میں ایسا نہیں کرنے دوں گا اس لئے وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے قطعہ میں جلدی مکان بنانا ہے اس لئے اجتماعی درخت نہیں لگنے چاہئیں وہ نظارت امور عامہ کو اطلاع دے ہم اس کے قطعہ میں درخت نہیں لگا ئیں گے لیکن جو شخص اطلاع نہیں دے گا تو جس طرح کنواری بچی سے اس کے نکاح کے موقع پر رضامندی لی جاتی ہے کہ اگر وہ شرم کے مارے خاموش رہے تو اس کی خاموشی رضامندی سمجھ لی جاتی ہے اسی طرح خالی قطعات کے مالکان کی خاموشی بھی رضامندی متصور ہو گئی جو شخص یہ کہے گا کہ اس کے قطعہ میں درخت نہ لگائے جائیں تو محلہ ذمہ دار ہے.اُس کے قطعہ میں درخت نہیں لگے گا تاہم ایسے لوگوں کو میں بتا دیتا ہوں کہ اس طرح اُن کے لئے فائدہ ہے درختوں سے زمین کی شکل بدل جاتی ہے پس اجازت دینا اُن کا کام ہے میرا اور آپ کا کام نہیں ہے.یہ تو تھی زندگی اور موت کی حقیقت جس کو میں نے اس وقت مختصراً بیان کیا ہے.اب میں ایک بڑی دُکھ دہ اور خطر ناک خبر کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں جو آج کے اخبارات میں چھپی ہے چونکہ وہ اخباری خبر ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ درست نہ ہو یا کیونکہ وہ اخباری خبر ہے ہوسکتا ہے اس کے الفاظ درست نہ ہوں یا اس سے ملتے جلتے الفاظ ہوں.اگر یہ خبر صحیح ہے تو میں اس کے متعلق کچھ کہنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں.میں اس بارہ میں خاموش نہیں رہ سکتا آج میں اس کے متعلق کچھ باتیں اصولی طور پر بیان کر دیتا ہوں.اصل الفاظ معلوم ہو جانے پر اس کے متعلق قرآن کریم ہی کی روشنی میں زیادہ تفصیل سے اہل ملک کو اس سے متعارف کرانے کی کوشش کروں گا.خبر یہ ہے کہ آج ۲۶ جنوری کے روز نامہ مشرق لاہور میں چھپا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں ایک صاحب نے قانون کا ایک مسودہ پیش کیا ہے اور یہ تجویز کیا ہے کہ کسی اخبار یا رسالہ یا دوسری مطبوعات میں جب قرآنِ کریم کی کسی آیت کا حوالہ دینا مطلوب ہو تو قرآن کریم کی اصل آیت

Page 53

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۳ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء درج کرنے کی بجائے اس کا ترجمہ لکھا جائے یعنی قرآنِ کریم کے الفاظ کسی اخبار یا کسی رسالے یا کسی کتاب میں نہ چھاپے جائیں اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.اس سلسلہ میں یہ وسوسہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اخبارات وغیرہ میں چھپنے کی وجہ سے قرآنِ کریم کی آیات کی بے حرمتی ہوتی ہے گویا ان کی تحریم کے لئے یہ مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے.مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی تو بڑا ہی مبارک اور قابل صد احترام ہے.پھر کل یہ بل پیش ہو جائے گا کہ کسی اخبار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک شائع نہ کیا جائے.یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوگا بلکہ بڑھتے بڑھتے اس سب سے بزرگ و برتر اور حرمت و احترام اور بزرگی اور نیکی اور نور کے سرچشمہ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات تک جا پہنچے گا جس کا قرآن کریم میں جا بجاذ کر آتا ہے.چنانچہ پھر ایک بل یہ پیش ہو جائے گا کہ کسی اخبار یا رسالے یا مطبوعات میں اللہ تعالیٰ کا نام شائع نہ کیا جائے.میں یہ تو نہیں کہ سکتا کہ اسلام دشمنی کے نتیجہ میں یہ مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے کیونکہ ہمیں یہ حکم ہے کہ حسن ظن کی راہ کو اختیار کیا جائے.پس میں یہ الزام نہیں دیتا کہ اسلام کے خلاف جان بوجھ کر یہ حملہ کیا گیا ہے لیکن میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ ذہنیت صرف اس شخص کی ہو سکتی ہے جس کو اسلام کے الف اور باء سے بھی واقفیت نہ ہو.غرض یہ اسلام دشمنی کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اسلام سے ناواقفیت کے نتیجہ میں اور قرآن کریم اور اس کی افادیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ مسودہ پیش کیا گیا ہے.میر انفس یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ اس مسودہ کو اکثریت رڈ کر دے بلکہ میرانفس پاکستانی شہریوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس شخص کو سمجھایا جائے کہ وہ اپنا مسودہ واپس لے لے کیونکہ اس کا اسمبلی میں پیش ہوکر زیر بحث آنا بھی میرے نزدیک قرآن کریم کی بے حرمتی ہے.دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر حرمت قرآنِ کریم کے لئے یہ قانون بنایا گیا ہے کہ قرآنِ کریم کی کوئی آیت نہ کسی اخبار میں نہ کسی رسالہ میں اور نہ کسی کتاب میں عربی الفاظ میں لکھی جائے گی اور اسے حرمت قرار دیا جائے گا اور اسے درست سمجھ لیا جائے گا تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ تمام كتب جو امت محمدیہ میں ہمارے بزرگ اور اولیاء اللہ نے لکھی ہیں جس میں وہ اپنے استدلال کو

Page 54

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۴ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء ثابت کرنے کے لئے قرآنِ کریم کی آیت پر آیت درج کرتے چلے گئے ہیں ان سب کی اشاعت بھی یہاں بند ہو جائے گی اور اگر بند نہیں ہوگی تو عقلاً یہ قانون نامعقول ٹھہرے گا کیونکہ مطلوب ہے.قرآن کریم کی آیات کی حرمت اور طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ کسی کتاب اور رسالہ میں نہ چھپے تو پھر جو کتا میں پہلے چھپ چکی ہیں جن میں آیات کی بے حرمتی کا اسی طرح سوال ہے جس طرح رسالوں میں ہے تو پھر ان کتابوں کی اشاعت کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے.اگر آپ نے شائع نہیں کر نہیں تو مثلاً ھدایہ جو فقہ کی مشہور کتاب ہے اور حدیث کی ساری کتابیں تو گئیں.پھر تو صحیح بخاری شائع نہیں ہوگی کیونکہ اس میں قرآن کریم کی آیات لکھی گئی ہیں.اسی طرح حضرت سیّد عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ کی کوئی کتاب شائع نہیں ہو گی علی ہذا القیاس اللہ تعالیٰ کے وہ سینکڑوں ہزاروں محبوب بندے جن کو اللہ تعالیٰ نے خود معلم بن کر قرآن کریم کے رموز و اسرار سکھائے تھے ان کی کتابوں کی اشاعت بند ہو جائے گی.تجویز پیش کنندہ کہتے ہیں ورق پھٹ جاتے ہیں ادھر ادھر بکھر جاتے ہیں تو آیات کی بے حرمتی ہوتی ہے.اس لئے قرآنِ کریم کی آیات نہیں چھپ سکتیں لیکن جس طرح بخاری شریف کے اوراق جن پر قرآن کریم کی آیات ہوں وہ پھٹ سکتے ہیں اور بکھر سکتے ہیں اور تمہارے نزدیک بے حرمتی ہوتی ہے اسی طرح قرآنِ کریم مترجم کے اوراق بھی پھٹ سکتے ہیں اور بکھر سکتے ہیں اور تمہارے نزدیک اُن کی بے حرمتی ہوتی ہے تو اس واسطے قرآنِ کریم مترجم کی اشاعت بھی بند ہونی چاہیے یعنی اگر غلطی کی حد تک اس نا معقول تجویز پر عمل کیا جائے تو پھر یہی مشکل بنتی ہے پھر تو سب سے زیادہ مشکل ہو جائے گا.خود قرآنِ کریم کا متن شائع کرنا کیونکہ قرآنِ کریم کا ترجمہ تو عام طور پر بڑی عمر کے آدمی کے ہاتھ میں نظر آتا ہے مثلاً آٹھویں نویں کا طالبعلم ہے اور سمجھدار ہے یا کالج کے طلباء ہیں یا دوسرے پڑھے لکھے لوگ قرآن کریم کو ترجمہ کے ساتھ پڑھتے ہیں.اگر ان سے بے احتیاطی ہو سکتی ہے تو ایک بچہ جو پہلی جماعت میں پڑھتا ہے اور اس نے قرآنِ کریم ناظرہ پڑھنا شروع کیا کیا اس سے بے احتیاطی نہیں ہو سکتی؟ اس سے بھی بعض دفعہ قرآنِ کریم پھٹتا ہے کیونکہ بچہ بچہ ہی ہوتا ہے خود مجھ سے بچپن میں قرآن کریم پڑھتے وقت دو تین قرآن کریم کے کئی

Page 55

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۵ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء جگہ سے اوراق پھٹ جاتے رہے.پس بچوں سے بے احتیاطی ہو جاتی ہے.اب ہم اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں تو وہ قرآن کریم کے صفحے پھاڑ دیتے ہیں اس لئے ہم نے پہلے پانچ پارے اور آخری پارہ (جو بالعموم بچوں کو پہلے پڑھایا جاتا ہے ) الگ طور پر ایک ایک پارہ کر کے شائع کیا ہے تا کہ جو بچہ اپنے بچپن کی وجہ سے بے احتیاطی کے نتیجہ میں اور اق پھاڑ دیتا ہے اُسے ہر دفعہ زیادہ قیمت پر ایک نیا قرآن کریم خریدنا نہ پڑے مثلاً اگر کسی بچے کا قرآن کریم پڑھتے وقت پہلا پارہ ختم ہونے سے پہلے پھٹ گیا تو نیا پارہ دس بیس پیسے میں مل جاتا ہے لیکن سارا قرآنِ کریم اُسے پانچ چھ روپے میں ملتا ہے.پس سب سے زیادہ بے حرمتی کا (اگر یہ بے حرمتی ہے ) تو قرآن کریم کے متن کو خدشہ ہے اس لئے تم کہو گے قرآنِ کریم کے متن کو شائع کرنا بند کرو.پھر تم جاکر شیطان کی گود میں بیٹھو.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں کس طرح بیٹھ سکتے ہو.میں نے بتایا ہے کہ ایک احمدی کا مقام عقل و فراست کے لحاظ سے بھی بڑا اونچا ہے ہم قرآن کریم کی ہر آیت بلکہ اس کے لفظ اور ہر شعشے کی حرمت کے لفظی اور معنوی ہر دو لحاظ سے قائل اور اس کی تعلیمات پر چلنے والے ہیں لیکن ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ تجویز ایسی ہے کہ اس سے بالآ خر قرآن کریم کی اشاعت کے بند ہونے کا خدشہ ہے.بے حرمتی کا تدارک اپنی جگہ نہایت ضروری ہے لیکن قرآن کریم اور اس کی آیات کی ہمہ گیرا فادیت اور عالمگیر اشاعت کے پیش نظر اس قسم کی پابندی نہ عقلاً صحیح ہے اور نہ مذہباً جائز.اس لئے ہم حسن ظن رکھتے ہوئے اس شخص کو اسلام دشمن نہیں سمجھتے البتہ اسلام سے ناواقف ضرور سمجھتے ہیں دوسرے یہ کہ نہ صرف اسلامی تعلیم سے بے بہرہ بلکہ اس نے عقل کے جو عام تقاضے ہیں ان کو بھی مد نظر نہیں رکھا تیسرے میں نے اس وقت اپنے پاکستانی بھائیوں سے یہ عرض کیا ہے کہ تجویز کنندہ کو سمجھایا جائے دلیل کے ساتھ اور پیار کے ساتھ کہ وہ اس قسم کا غلط مسودہ قانون واپس لے لیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کسی اسمبلی میں بل کا پیش ہو کر رڈ ہو جانا بھی قرآنِ کریم کی بے حرمتی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ہماری زندگیوں پر حاوی کر کے بھیجا ہے اس کو تو ہم نے اپنے سینے سے لگانا ہے تا کہ اس کے نور سے ہمارے سینے کے داغ ڈھل جائیں اور ظلمات چھٹ جائیں میں نے پچھلے سال چند خطبات يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا

Page 56

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۶ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : ۳۱) پر دیئے تھے.میں نے ان خطبات میں بھی قرآنِ کریم کے بارہ میں اس قسم کے توہمات اور غلط باتوں اور ان کے ازالہ کی طرف توجہ دلائی تھی مگر آج تو میں روز نامہ مشرق کی یہ خبر پڑھ کر سخت پریشان ہوا ہوں.قرآن کریم ہماری جان ہے اس لئے یہ کہنا کہ ایک مسلمان اپنی جان کو چھوڑ سکتا ہے درست نہیں اس طرح وہ زندہ نہیں رہ سکتا.اگر مسلمان نے انفرادی اور اجتماعی ہر دور نگ میں زندگی کو حاصل کرنا ہے یعنی اس نے زندہ رہنا اور باقی رہنا اور ترقیات حاصل کرنی ہیں تو اسے قرآن کریم کو اپنی زندگی کی روح رواں بنانا پڑے گا بلکہ میں تو کہتا ہوں قرآنِ کریم کی روح اس کی بھی روح ہے اس کی زندگی اور اس کے جسم کی حرارت ہے اس کے دل کا چین ہے اور اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس عظمت اور ان خوبیوں کے مالک قرآن کریم کو تم کیسے دُور کر دو گے یا اس کی آیات کو کتابوں سے کیسے الگ کر دو گے.پس جیسا کہ میں نے مختصر آبتایا ہے یہ بات بظاہر نا معقول بھی ہے اور ہوسکتا ہے ” مشرق نے اسے جن الفاظ میں پیش کیا ہے وہ اصل حقیقت پر مبنی نہ ہوں.اس وقت میں نے اس اگر کے ساتھ کچھ اظہار خیال کیا ہے کیونکہ میں آج کے دن آج کی اس خبر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا تھا.ہم اس مسودہ کے اصل الفاظ منگوانے کی کوشش کریں گے اس وقت تک ہم اس کے متعلق مزید کچھ نہیں کہنا چاہتے.اس بارہ میں غصہ کرنے کی بات نہیں نہ خفگی کی ضرورت ہے اور نہ ہی طیش میں آنے کی ضرورت ہے قرآن کریم کے متعلق یہ بات ہو رہی ہے جو خود پیار کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جس نے کبھی ختم نہیں ہونا یہ پیار ہی ہے جس سے اس نے دنیا کو رام کیا اور اسلام کی صداقتوں کا قائل کیا اور لوگوں کے دلوں کو جیت لیا.آئندہ جیتے گا.اس کام کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے اس لئے ایسے موقع پر پیار کے ساتھ سمجھانا ضروری ہے پس غصہ کے اظہار کے بغیر آپ اُسے بڑے پیار سے لکھیں کہ غفلت سے یا لاعلمی کے نتیجہ میں آپ سے یہ غلطی ہو گئی ہے اس قسم کا بل پیش نہیں ہونا چاہیے یہ ہمارے دلوں کو دکھانے والا مسودہ ہے اس کو واپس لے لینا چاہیے.میری دعا ہے اللہ تعالیٰ سب کو سمجھ عطا فرمائے اور اس قسم کی باتوں سے بچنے کی توفیق بخشے.اصل مسودہ کے الفاظ منگوا کر اگر ضرورت سمجھی تو میں انشاء اللہ زیادہ تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالوں

Page 57

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۷ خطبہ جمعہ ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء گا.بہر حال یہ ایسی بات نہیں ہے جس پر کوئی مسلمان فرقہ خاموش رہ سکے یہ صحیح ہے کہ آج کل تکفیر کا بازار گرم ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ سب فرقوں کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم ایک نور ہے اس دعویٰ کے مطابق اس بارہ میں ہر مسلمان کا رد عمل ہونا چاہیے تا کہ دنیا پر ثابت ہو جائے کہ قرآنِ کریم کے متعلق مسلمانوں کا دعویٰ صحیح ہے.روزنامه الفضل ربوہ ۳ / جولائی ۱۹۷۳ء صفحہ ۱ تا ۷ )

Page 58

Page 59

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۹ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۳ء جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کے بیشمار جلوے ظاہر ہو چکے ہیں خطبه جمعه فرموده ۹ فروری ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ دنیوی زندگی امتحان اور ابتلا کی زندگی ہے.کبھی ہمارا رب بخشش کرتا ، عطا کرتا ، دیتا اور دیتا ہی چلا جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ہم نے اس کی عطا کو کیسے اور کس رنگ میں خرچ کیا.دنیوی نعمتوں کے نتیجہ میں ہمارا دماغ کہیں بہک تو نہیں گیا دنیا نے دنیوی متاع کے سبب ہمیں اپنی طرف تو نہیں کھینچ لیا اور اللہ تعالیٰ سے ہمارا بعد تو نہیں پیدا ہو گیا.خدا کے بندے(اگر ساری دنیا بھی خدا کے بندوں کے قدموں میں ڈھیر کر دی جائے ) اپنے دل اور اپنی روح کا تعلق اپنے ربّ کریم سے قطع نہیں کرتے.اور کبھی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے ساتھ آزمائشیں بھی آتی ہیں اور خدا تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تکلیف کے وقت میرے بندے مجھ سے منہ تو نہیں موڑ لیتے اور وہ اس وقت ثبات قدم دکھاتے ہیں یا نہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ان حالتوں میں مُهْتَدِی یعنی ہدایت یافتہ وہ شخص یا وہ جماعت ہوتی ہے ( یعنی سیدھی راہ پر چلنے والی اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور فلاح کو حاصل کرنے والی جماعت ) جن پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں تسلسل کے ساتھ

Page 60

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ 9 فروری ۱۹۷۳ء نازل ہوتی چلی جاتی ہیں اور یہ وہ گروہ ہے کہ جس وقت کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کسی مصیبت سے ڈرتے نہیں جس وقت اللہ تعالیٰ امتحان لیتا ہے اور جس وقت اللہ کا بندہ اس امتحان میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسے انتہائی کامیابیوں کی بشارتیں بھی ملتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں بھی اس تسلسل کے ساتھ اس پر نازل ہوتی ہیں کہ ایک رحمت اور برکت کے بعد دوسری رحمت اور برکت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہتا اور اللہ تعالیٰ کی صلوات اور اس کی برکتیں اور اس کی رحمتیں موسلا دھار بارش کی طرح اس پر نازل ہوتی ہیں.امتحانوں کے وقت ثبات قدم ہمت اور عزم کا کام ہے اور مومن کی تو سرشت ہی یہ ہے کہ دنیا کی ہزار بلائیں نازل ہو جائیں وہ خدا تعالیٰ کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتا بلکہ اس سے چمٹا رہتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کے فضلوں کا وارث ہوتا ہے اور جس وقت یہ پختگی جماعت میں پیدا ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ امتحان کے ذریعہ اور ابتلا کے نتیجہ میں اپنی جماعت کو پختہ پاتا اور ان کو ثابت قدم دیکھتا ہے تو پھر قومی لحاظ سے اور اجتماعی طور پر یہ ایک ایسی کیفیت اور حقیقت ہے کہ جس کے متعلق یہ کہا گیا ہے.لاغلبنَ آنَا وَرُسُلى (المجادلة: ۲۲) کہ جو منصوبہ میں نے اس دنیا میں اپنے بندوں کے لئے بنایا اور جس مقصد کے لئے میں نے اپنے انبیاء کو مبعوث کیا اس میں میری جماعتیں ہی کامیاب ہوتی ہیں اور میر امنصوبہ ہی کامیاب ہوتا ہے اور اگر ساری دنیا کی طاقتیں بھی مل جائیں اور اکٹھی ہو کر حملہ آور ہوں تو احزاب کی ہلاکت کی جو پیشگوئی تھی اور جس کے پورا ہونے کا نظارہ دنیا نے ایک خاص موقع پر حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ میں دیکھا اس موقع کی یاد جب ہمارے سامنے آتی ہے تو وہ نظارہ بھی سامنے آجاتا ہے ) وہ پوری ہو جاتی ہے وہ تو اس بات کی ایک علامت ہے کہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی جماعت غالب آتی ہے اور ہر وہ طاقت جو اس کی جماعت سے نگر لیتی ہے ناکام ہوتی ہے لیکن فراخی کے دنوں میں کہ جب ابتلا اور امتحان کا وقت نہ ہو، عاجزانہ زندگی گذارنا اور امتحان کے اوقات میں خدا کے لئے اور خدا سے اپنے تعلق کے اظہار کے لئے گردنیں اونچی کر کے چلنا اور دنیا کی کسی طاقت کے رعب میں نہ آنا یہ چیز اللہ تعالی کے فضلوں کو جذب کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک منصوبہ بنا کر

Page 61

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۱ خطبہ جمعہ 9 فروری ۱۹۷۳ء ایک مہم جاری کی اور یہ مہم اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کی مہم ہے اس زمانہ میں لوہے یا مادی تلوار کے ذریعہ نہیں بلکہ اسلام کی روحانی تلوار کے ساتھ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے مہدی معہود کی بعثت ہوئی.اپنا تو کچھ نہیں تھا اور نہ ہے سب کچھ خدا تعالیٰ کی عطا ہے.چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا انسانیت کے دل میں آپ کی زندگی کا مقصد اور بعثت کا مقصد یہی ہے.اتنے عظیم مقصد کے ہوتے ہوئے وہ طاقتیں جو اندھیرے کی پروردہ ہیں اور روشنی سے نفرت رکھتی ہیں خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتیں.اللہ تعالیٰ کبھی ایک رنگ میں اپنی جماعت کو آزماتا ہے اور کبھی دوسرے رنگ میں.کبھی دنیا کے دُکھ اس کی نعمتوں کے تلے دب جاتے ہیں اور بظا ہر فراخی ہی فراخی برکتیں ہی برکتیں اور رحمتیں ہی رحمتیں نظر آتی ہیں اس وقت بھی اللہ کا بندہ غرور اور تکبر سے کام نہیں لیتا نہ خود پسندی اور ریاء کا مظاہرہ کرتا ہے کبھی ان نعمتوں کے ساتھ آزمائش کا دور بھی آتا ہے.خدا تعالیٰ کی محبت تو اپنے بندے کے ساتھ رہتی ہے اور اس کا قادرانہ ہاتھ اس کی حفاظت بھی کر رہا ہوتا ہے لیکن بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دُکھ دیئے گئے اور وہ آزمائشوں میں ڈالے گئے اور تکلیفوں میں مبتلا کئے گئے اور ان پر ایک جرار د شمن حملہ آور ہو گیا لیکن دھواں چھٹتا ہے اور روشنی ظاہر ہوتی ہے تو غلبہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت کو ہی ہوتا ہے.پس قرآن کریم کے بعض حصوں میں جو بشارتیں دی گئی ہیں اور جن کی طرف میں اس وقت اشارہ کر رہا ہوں ان بشارتوں کا اہل بننے کے لئے آپ کے دلوں میں یقین محکم قائم ہونا چاہیے اور جماعت کے اندر اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل کی ذہنی کیفیت پیدا ہونی چاہیے.اپنے محدود دائرہ میں بھی کہ مثلاً کبھی اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کا ایک حصہ آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور کبھی اپنے وسیع دائرہ میں بھی یعنی کبھی خدا تعالیٰ کی جماعتیں اجتماعی رنگ میں خود کو اندھیروں کے سامنے پاتی ہیں.ظاہر ہے جب اندھیرا سامنے ہو تو اندھیرا دور کرنے کے لئے جہاں سے نور مل سکتا ہے اس طرف رجوع کرنا چاہیے کیونکہ ہمارا تو وجو د ہی کچھ نہیں بلکہ انا اللہ ہم تو اللہ کے ہیں اور ہر ضرورت کے وقت اور ہر حالت میں اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں.صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 62

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۲ خطبہ جمعہ 9 فروری ۱۹۷۳ء کی آنکھوں میں جب موت نے آنکھیں ڈالیں تو انہوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شاہراہ ترقی اسلام اور غلبہ اسلام پر اپنی حرکت کو اور بھی تیز کر دیا.یہی گذشتہ چودہ سوسال میں ہوتا رہا ہے اور یہی اب ہو رہا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ ہوتا رہے گا جب تک کہ اسلام ساری دنیا پر غالب نہ آجائے.یہ تو خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہو کر رہے گا.حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی پیارے روحانی فرزند کی بعثت ہی اس غرض کے لئے ہوئی ہے لیکن آپ کی جماعت سے منسلک ہو جانے کے بعد اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نزول کو اپنے وجودوں میں مشاہدہ کر لینے کے بعد جو ذمہ داریاں عسر اور ٹیسر کی حالت میں ہم پر عائد ہوتی ہیں ان کو سمجھنا ، اُن کو پہچانا اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہمارا فرض ہے.بحیثیت جماعت تو کامیابی کے علاوہ کوئی امکان نہیں کیونکہ جماعت احمد یہ ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہے اور اس نے بہر حال اس مقصد کو حاصل کرنا ہے.بحیثیت فرد یا گروہ ( یعنی جو چھوٹا سا گروہ جماعت میں پیدا ہو ) ان کے لئے بعض دفعہ فکر کی بات پیدا ہو جاتی ہے.وہ انفرادی طور پر کمزوری دکھا جاتے ہیں وہ خدا کی طرف رجوع کرنے کی بجائے بندوں کی طرف رجوع کر لیتے ہیں یا ایسا خیال ان کے دل میں گذرتا ہے لیکن ہمارا تو کامل تو کل اپنے ربّ پر ہے ہمارا کامل بھروسہ اپنے رب پر ہے ہمارا مرجع ہمارا رب ہے اور رب کے علاوہ ہر چیز ہماری نگاہ میں لاشی اور نیست ہے اور کوئی حقیقت نہیں رکھتی ہم خوش ہیں اس لئے کہ ہم اُسی کے فضل سے نہ کہ اپنے کسی عمل یا اپنی کسی قربانی کے نتیجہ میں خود کو اس کی گود میں پاتے ہیں.پس جو سارے عالمین کو پیدا کرنے والا اور ساری طاقتوں کا منبع اور سر چشمہ ہے جب اس کے ساتھ ہمارا تعلق ہے تو بے وقوف ہے وہ انسان جو یہ سمجھتا ہے کہ الہی سلسلہ اس کے رعب میں بھی آسکتا ہے.ہرگز نہیں آسکتا اور نہ انشاء اللہ تعالیٰ و بفضلہ کبھی آئے گا لیکن ہماری ذمہ داری بڑی ہے اور اس کی طرف بار بار توجہ دلانی پڑتی ہے.خصوصاً نو جوان نسل کو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ نہیں دیکھا.بہت سے ایسے ہیں جن کے ذہنوں میں ۱۹۵۳ء.۱۹۵۲ء کے حالات بھی نہیں ہوں گے.ہم اس وقت لاہور میں تھے ( میں اپنی بات کر رہا ہوں یعنی میں اور میرے کچھ ساتھی )

Page 63

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۳ خطبہ جمعہ 9 فروری ۱۹۷۳ء اور ۱۹۵۳ء میں حالات ایسے تھے کہ اگر کوئی احمدی اس وقت یہ کہتا کہ ظاہری حالات ایسے ہیں کہ ہم بچ جائیں گے تو ہم سمجھتے کہ اس کے دماغ پر اثر ہو گیا ہے کیونکہ ظاہری حالات ایسے نہیں تھے لیکن باطنی حالات ایسے تھے یعنی الہی تقدیر اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ جو انسان کو صرف دنیا کی آنکھ رکھنے والے انسان کو نظر نہیں آتا وہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ہمارا بال بھی بیکا نہیں ہوسکتا.۱۹۵۳ء میں اتنا ہنگامہ تھا کہ گویا ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی.اب اس پر بہت لمبا عرصہ گذر گیا یعنی ہیں سال کے قریب گویا آج سے دس سال پہلے جو بچہ پیدا ہوا تھا اور آج دس سال کا ہے یا اُس وقت جماعت میں جو بچی پیدا ہوئے تھے اور اب وہ میں اکیس سال کے جوان ہیں ان کو تو اِن حالات کا پتہ نہیں اور نہ وہ سمجھ سکتے ہیں لیکن ان ہنگاموں کا نتیجہ یہی نکلا کہ ۱۹۵۳ء کے بعد جماعت ہر لحاظ سے سینکڑوں گنا زیادہ ہوگئی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے حالات ہیں.واقعات وقت گذرنے کے ساتھ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں کیونکہ وقت تو چل رہا ہے ٹھہرا ہوا نہیں اور تاریخ کا جاننا اور خصوصاً اپنی تاریخ کا جاننا ہم سب کے لئے ضروری ہے کیونکہ کسی انسان یا کسی جماعت کی زندگی اپنے ماضی سے کلیہ منقطع نہیں ہوتی.مجھے یہ احساس ہے کہ بہت سے احمدی گھروں میں سلسلہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے واقعات دہرائے نہیں جاتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بعض جگہ خود ان واقعات کی تصویر کھینچی ہے.ان واقعات کو بچوں کے سامنے دہرانا چاہیے.جماعت کی مخالفت میں دنیا کو اسی سال ہو گئے ہیں اور جماعت کو اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو حاصل کرتے ہوئے اسی سال ہو گئے ہیں اور ان کوششوں کو بھی اسی سال ہو گئے ہیں جو جماعت کو مٹانے میں لگی ہوئی ہیں اور ان ناکامیوں کو بھی اتنی سال ہو گئے ہیں جو ہر روز ان مخالفانہ حرکتوں کے نصیب میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں.ہماری یہ ایک معمور تاریخ ایک کامیاب تاریخ ہے.یہ نہیں ہے کہ آج میں نے یا جماعت کے کسی اور صاحب نے کھڑے ہو کر یہ باتیں بتادیں بلکہ دنیا نے خدا تعالیٰ کے ہاتھ کی قدرت کے نظارے دیکھے ہیں اور خدائی طاقتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے اور مشاہدہ کر رہی ہے.وہ جوا کیلا تھا اور کوئی

Page 64

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۴ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۳ء اس کی قدر نہ پہچانتا تھا آج ساری دنیا میں اُس کی آواز گونج رہی ہے اور اُسی کی آواز گونج رہی ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں جو اس طرح ساری دنیا میں گونج رہی ہو.پس ان بچوں کو جو ہمارے لعل ہیں اور جن کی مثال ہیرے جواہرات سے دی جاتی ہے بلکہ جو جواہرات سے بھی زیادہ قیمتی وجود ہیں ان کو ان کا مقام پہچاننے میں مدد یا کرو اور ان واقعات کو اپنے گھروں میں بار بار دہرایا کرو.انسان بھول جاتا ہے وہ بعض دفعہ میں دن کی بات بھی بھول جاتا ہے غرض جتنی کسی ذہن میں کسی بات کی اہمیت کم ہوتی ہے اتنی جلدی وہ اُسے بھول جاتا ہے.اب مثلاً ننانوے فیصد دوست یہاں ایسے ہوں گے جن کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ کل دو پہر انہوں نے کیا کھایا تھا کیونکہ ان کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں.اس وقت انہوں نے کچھ کھایا اور اپنی بھوک کا مداوا کر لیا اور وہ کھانا ان کی جسمانی طاقت کو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ بن گیا.اس کے علاوہ اس کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن جو ہماری روح کی غذا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اور اس کی رحمتوں کا نزول اس کو تو ہم نہیں بھول سکتے یعنی ایک طرف تو ہماری جسمانی غذا کے چند بے اہمیت لقمے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کے پیار کے جلوے کہ جن سے زیادہ اہمیت رکھنے والی کوئی چیز نہیں اور ان کے درمیان دوسری چیزیں ہیں جتنی کسی چیز کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ وہ یاد میں رہتی ہے اگر کسی کے دماغ میں کوئی بات نہ ہو جس کے لئے ذکر کا حکم ہے تو وہ اسے یاد کس طرح رکھ سکتا ہے؟ مثلاً ایک بچہ ہے اس کے ذہن میں تو وہ واقعہ موجود ہی نہیں جو اس کی پیدائش سے پہلے یا اس کے شعور سے قبل واقع ہو چکا.چنانچہ سینکڑوں، ہزاروں بلکہ بے شمار ایسے واقعات ہیں ،ایسے حقائق زندگی ہیں جن میں سے ہر حقیقت زندگی اللہ تعالیٰ کے پیار کا ایک جلوہ ہمارے سامنے رکھتی ہے اور اس میں تیزی اور شدت پیدا ہورہی ہے.ظاہر میں تو شدت ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ شدید القوی ہے لیکن اس دنیا میں قبولیت کے لحاظ سے بھی اس کے اثر میں شدت پیدا ہو رہی ہے.ایک فرد واحد تھا جس کو کہا گیا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤ نگا جس کو کہا گیا تھا کہ اس کثرت سے تیری طرف خلائق کا رجوع ہوگا کہ راستے ہموار نہیں رہیں گے.اس کے علاوہ اور

Page 65

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۵ خطبہ جمعہ 9 فروری ۱۹۷۳ء ہزاروں پیشگوئیاں ہیں.اب دیکھ لو اس کا نام اپنے گاؤں سے نکلا اور دنیا کے کناروں تک پہنچ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ براہین احمدیہ کی طباعت کے وقت میں امرتسر مطبع میں جاتا تھا تو راستے میں کوئی مجھے پہچا نتا بھی نہیں تھا اور نہ کوئی پوچھتا تھا کہ ہے کون اور کیا کرنے جا رہا ہے اور مطبع کا مالک بھی میری پیشین گوئیوں کو پڑھتا تھا اور حیران ہوتا تھا کہ اس قسم کا انسان جس کو کوئی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا وہ یہ کہہ رہا ہے کہ میری طرف خلائق کا رجوع ہوگا اور میں مرجع عالم بن جاؤں گا اور میری آواز دنیا میں گونجے گی براہین احمدیہ میں بہت سی بنیادی پیشگوئیاں ہیں جنہیں سن کر دنیا حیران ہوتی تھی اور تعجب میں پڑتی تھی اور آپ فرماتے ہیں کہ کسی کی نظر بھی میری طرف نہیں اٹھتی تھی ایک بظاہر غیر معروف وجود جو دنیا کی نگاہ میں غیر معروف تھا اور اپنے پیدا کرنے والے رب کا آلہ کار بننے والا تھا جسے سوائے اس کے رب کے اور کوئی نہیں جانتا تھا.آج دیکھو اس حالت سے اس کے رب نے اس کو نکال کر کیسی شہرت عطا فرمائی.اس وقت بھی ہماری اس مسجد میں باوجود اس کے کہ کچھ دوست کاموں کی وجہ سے کچھ بیماری کی وجہ سے یہاں نہیں بھی ہوں گے پھر بھی ہزاروں کی تعداد میں سامعین موجود ہیں.غرض جس کو کسی وقت ایک آدمی بھی نہیں پہچانتا تھا ایک مقام پر اس کے متبعین میں سے جمعہ کے وقت مسجد میں ہزاروں افراد جمع ہو گئے پھر مغربی افریقہ کے دورہ میں اس سے بڑے بڑے مجمعوں میں میں نے جمعہ کے خطبے دیئے صحیح تعداد تو مجھے یاد نہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ سالٹ پانڈ میں ایک جمعہ میں کم و پیش ہیں ہزار کی تعداد میں احباب شامل ہوئے اور لیگوس میں ایک جمعہ میں کثیر تعداد میں احمدی احباب موجود تھے جو چھوٹا ہال تھا وہ بھرا ہوا تھا سکول کے کمرے بھرے ہوئے تھے درمیان کا صحن بھی بھرا ہوا تھا غرض وہاں آدم ہی آدم تھا اور وہ نمائندے تھے جماعت کے سب افراد تو نہیں تھے.پس جہاں تک خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمت کا سوال ہے اس کے بے شمار جلوے جماعت احمدیہ پر ظاہر ہو چکے ہیں لیکن کیا یہ بے شمار جلوے ہمارے ذہنوں میں اور ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں موجود رہتے ہیں جس کے بعد انسان اللہ تعالیٰ سے روگردانی نہیں کر سکتا اور جس کے بعد انسان کے دل میں سوائے خدا کے اور کسی کی قدر اور پیار باقی

Page 66

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۶ خطبہ جمعہ ۹ فروری ۱۹۷۳ء نہیں رہتا.یہ باتیں گھروں میں، اجتماعوں میں اور جلسوں میں اور جب ان کے بچے اکٹھے ہوتے ہیں دہرانی چاہئیں.اب اگلی نسل کو سنبھالنے کا وقت آ گیا ہے چھوٹے بچوں کو ایک ایک دو دو چھوٹے چھوٹے واقعات ایسے رنگ میں سمجھائے جائیں کہ وہ سمجھ جائیں اور چوتھی اور پانچویں اور اس سے بڑی جماعت والے بچوں کے لئے ان واقعات پر مشتمل کتابیں شائع ہوئی چاہئیں اور بچوں کے لئے کافی مواد موجود ہے جس کا استعمال ہونا چاہیے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تشریف لے گئے وہاں کے علماء ظاہر نے آپ سے کہا کہ ہم سے مناظرہ کر لو یعنی ایک دوسرے کے مقابلہ میں تقریریں ہونی چاہئیں.آپ نے فرما یا ٹھیک ہے میں تمہارا مہمان ہوں اس لئے امن قائم رکھنے کی ذمہ داری تمہیں اٹھانی چاہیے.چونکہ یہ ایک معقول بات تھی اس لئے علماء ظاہر نے یہ مطالبہ مان لیا اور قول دیا کہ ہم یہ ذمہ داری اٹھائیں گے لیکن اس وعدے کے باوجود جس وقت آپ تیار ہو کر اس مقام پر جانے لگے جہاں گفتگو کرنی تھی تو بعض لوگوں نے آپ کی رہائش گاہ پر حملہ کر دیا وہاں دو سحن تھے وہ لوگ باہر کے صحن کا دروازہ توڑ کر اندر گئے اور اندر کے صحن کا دروازہ توڑ رہے تھے کہ انہیں کسی نامعلوم غیبی طاقت نے روکا اور وہ واپس چلے گئے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ صرف بارہ آدمی تھے لیکن سینکڑوں کا مجمع آیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو واپس کر دیا.اس کے بعد آپ نے ان علماء ظاہر کر کہلا بھیجا کہ اب میں نے اپنی حفاظت کا سامان کرلیا ہے.جہاں چاہو میں آجاؤں گا تم لوگوں نے جو ذمہ داری لی تھی اس کو تم نباہ نہیں سکے اور معاملہ الٹ ہو گیا.انہوں نے کہا جامع مسجد میں آجاؤ دہلی کی جامع مسجد بہت بڑی ہے اور بے تحاشا ہجوم وہاں اکٹھا ہو چکا تھا جو ان پڑھ تھے اور جن کو فساد اور فتنہ کے لئے اکسایا گیا تھا وہاں آپ بارہ آدمیوں کو لے کر پہنچ گئے.حکومت نے بھی حفاظت کا کچھ سامان کیا ہوا تھا لیکن اس مجمع کے سامنے کچھ درجن پولیس والے تو نہیں ٹھہر سکتے تھے.غرض انہوں نے وہاں بھی بات نہیں کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب تبادلۂ خیال کرنے لگے اور جب وہ مقصد پورا نہ ہوا تو آپ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں واپس آگئے اور جو بظا ہر

Page 67

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۷ خطبہ جمعہ 9 فروری ۱۹۷۳ء دنیوی رنگ میں آپ کی حفاظت کے لئے افسر اعلیٰ وہاں موجود تھا وہ زخمی ہو گیا اور آپ اور آپ کے ساتھ والوں میں سے کسی کو خراش بھی نہیں آئی.اللہ تعالیٰ پر اتنا اعتماد اور تو گل تو خدا تعالیٰ کا ایک مامور ہی کرسکتا ہے یا اس کے وہ ماننے والے جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کا ملہ سے ایسی طاقت بخشتا ہے کہ نہ وہ طاقت اس نے فولاد میں رکھی ہے اور نہ ایسی سختی اس نے ہیرے میں رکھی ہے.سختی اس معنی میں کہ وہ دل بد اثرات کو قبول نہیں کرتے اور نہ فتنہ پردازوں سے وہ خوف کھاتے ہیں.بہر حال یہ ایک عظیم واقعہ ہے جو بتاتا ہے کہ اصل حفاظت کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیے کیونکہ جو خدا نے کہا وہ پورا کر کے دکھایا اور پھر اس قدر نا مساعد حالات میں کہ انسان کا دماغ اس کا اندازہ نہیں کر سکتا.اس نے جو بشارتیں دیں وہ پوری ہوگئیں ہورہی ہیں اور ہوتیں رہیں گی یہاں تک کہ احمدیت اپنے مقصد کے قیام میں کامیاب ہو جائے اور یہ مقصد اسلام کا ساری دنیا میں غلبہ ہے.اس وقت تک یہ باتیں پوری ہوں گی لیکن اپنے بچوں کو بتاؤ تو سہی کہ کیا واقعات گزر گئے خدا تعالیٰ کے پیار کے وہ حسین جلوے اور دنیا پر خدا تعالیٰ کی طاقت کے وہ مہیب جلوے کہ جن کے نتیجہ میں خدا نے ایک طرف جماعت کو اپنے سایہ رحمت میں داخل کر لیا اور دوسری طرف مخالفوں کو خوف میں مبتلا کر دیا.یہ ایک دن کی روئداد تو نہیں ہے ہماری اسی سالہ زندگی ان واقعات سے بھری پڑی ہے اس اٹھنا میں بعض لوگ وفات پاگئے.ان واقعات سے انسانی زندگی کا ہر لحظہ بھرا پڑا ہے لیکن کتنے بچے ہیں! جو ان واقعات کا علم رکھتے ان واقعات کا علم رکھنے کے بعد ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کی ہیبت بیٹھی ہوئی ہے اور جس کے نتیجہ میں ان کے دل اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے اور رجوع کرنے والے ہیں اور جس کی وجہ سے ان کے دل خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی سے خوف نہیں کھاتے اور جس کے نتیجہ میں وہ سمجھتے ہیں کہ ہر خیر کا منع اور ہر نیکی کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس سے ہر قسم کی بھلائی مل سکتی ہے اور اس نے قرآنِ کریم کو اس لئے نازل کیا ہے کہ ہمیں اس سے ہر قسم کی خیر بھلائی اور نیکیاں ملتی رہیں اور جس نے اپنے بندوں کے لئے اس دنیا میں بھی ایک حسین جنت کو پیدا کیا اور مرنے کے بعد بھی

Page 68

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۸ خطبہ جمعہ 9 فروری ۱۹۷۳ء اس نے ایک حسین جنت ہمارے لئے تیار رکھی ہوئی ہے.پس جب تک یہ ساری چیز میں نئی نسل اور نئی پود کے سامنے نہیں آئیں گی وہ اپنے مقام کو نہیں پہچانیں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نباہ سکیں گے اور ہر احمدی کو بڑوں اور چھوٹوں سب کو اپنی ذمہ داری نباہنی چاہیے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے مقام کو پہنچانتے ہوں گے اور چونکہ چھوٹوں کو بھی اپنی ذمہ داری نباہنی چاہیے اس لئے ہم امید رکھتے ہیں کہ ان کے ماں باپ ان کے کانوں میں ایسی باتیں ڈال کر انہیں اس قابل بنادیں گے کہ وہ اپنے مقام کو پہچانیں وہ اگر اپنے مقام کو نہیں پہچانیں گے تو اپنی ذمہ داریوں کو بھی نہیں پہچانیں گے اور اگر اپنی ذمہ داریوں کو نہیں پہچانیں گے تو خدا تعالیٰ کی ان نعمتوں کے وارث نہیں بنیں گے جو ایک احمدی فرد اور احمد یہ جماعت کے لئے بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھی ہیں.خدا تعالیٰ کے پیار کا تو ایک سمندر ہے جو ٹھاٹھیں مار رہا ہے کچھ لوگ اس کے کنارے کھڑے اس سے ہر قسم کا فائدہ اٹھار ہے ہیں کچھ روحانی تیراک اس میں غوطہ زن ہیں اور اس کی تہہ میں سے ہر قسم کے موتی نکال رہے ہیں کچھ ذرا دور کھڑے ہیں جن کو کچھ شبہ ہے اور نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کے پیار کا یہ ایک سمندر ہے جو ٹھاٹھیں ماررہا ہے لیکن جن کو اس کا کوئی تجربہ نہیں اس لئے کہ ان کے ماں باپ نے ان کی تربیت میں غفلت برتی اور اس وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کے پیار سے محروم ہونے کے خطرہ میں پڑے ہوئے ہیں.غرض جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صبر کرنے والے ہیں ان کے لئے بشارتیں ہیں ان کے لئے صلوات برکتیں اور رحمتیں مقدر ہیں ان کے لئے انتہائی فلاح اور کامیابی مقدر ہے وہ ہدایت یافتہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف ان کا رجوع ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف ان کی زندگی کے ہرلمحہ کی حرکت ہے.خدا تعالیٰ کا پیار ہر آن ان پر ظاہر ہوتا اور اپنے حسن میں اپنے نور میں اور اپنی قدرت میں ان کو لپیٹ لیتا اور لیٹے رکھتا ہے.پس دنیا ہمارے دل میں کوئی خوف پیدا نہیں کر سکتی دنیا کی لالچ ہمیں اپنے محبوب آقا یعنی رب کریم سے دور نہیں لے جاسکتی.دنیا کے منصوبے ہمیں ناکام نہیں کر سکتے دنیا کی مخالفتیں ہماری راہ میں روک نہیں بن سکتیں ، دنیا کی تدابیر ہمیں اپنے رب کے پیار سے محروم نہیں کرسکتیں اور

Page 69

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۹ خطبہ جمعہ 9 فروری ۱۹۷۳ء ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے اور ہماری یہ دعا ہے کہ ہماری نوجوان نسل اور پھر بعد کی نسلیں ہماری نوجوان نسلیں ہمیشہ اپنے مقام کو پہچانتی رہیں.اپنے ربّ کریم کے پیار کو حاصل کرتی رہیں اس کے دامن کو ہمیشہ پکڑے رکھیں اس کی رحمتوں کے ہمیشہ وارث بنے رہیں اور ان کے لئے جو جنت تیار کی گئی ہے دنیا کا کوئی حربہ ان کو اس سے محروم کرنے والا نہ ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہواور خدا کرے کہ ہم اپنے مقام کو بھی نہ بھولیں اور خدا کرے کہ اس کا نور ہمارے سروں پر ہمیشہ سایہ کرتا رہے اور اس کی رحمت کی چادر ہمیشہ ہمیں لیٹے رکھے.روزنامه الفضل ربوہ ۱۰ / جولائی ۱۹۷۳ء صفحہ ۲ تا ۶ )

Page 70

Page 71

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۱ خطبہ جمعہ ۱۶ رفروری ۱۹۷۳ء اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت کرنے کا حق ادا کرو خطبه جمعه فرموده ۱۶ / فروری ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن مجید کی آیت يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - (ال عمران : ٢٠٠) تلاوت فرمائی اور اس کی پر معارف تفسیر کرتے ہوئے بتایا کہ اس آیت میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی ہدایت فرمائی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اس بارے میں مثالی نمونہ دکھایا.انہوں نے جسمانی اور روحانی دونوں لحاظ سے اپنی حدود کی حفاظت کے لئے پورا سامان بہم پہنچایا.ان کا علم حاصل کیا اور پھر پوری طرح اپنے نفوس کی تربیت کی اور ہر طرح کی محنت و مشقت برداشت کر کے اپنی صلاحیتوں کو اپنے دائرہ استعداد میں کمال تک پہنچا کر حدود کی حفاظت کا حق ادا کر دیا.حضور نے فرمایا ہر احمدی کا خواہ وہ بڑا ہے یا چھوٹا یہ فرض ہے کہ وہ بھی ہر طرح کی ریاضت اور مشقت کو برداشت کر کے اپنے نفس کی معراج تک اور اپنے دائرہ استعداد میں عروج کے انتہائی نقطہ تک پہنچنے کی کوشش کرے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی

Page 72

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲ خطبہ جمعہ ۱۶ فروری ۱۹۷۳ء حفاظت کرنے کا حق ادا کرے حضور نے فرمایا جسمانی سرحدوں کی حفاظت کے سلسلے میں ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ یہ دعائیں کی جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم اور حکومت دونوں کو چوکس اور بیدار رہ کر اپنی ذمہ داریوں کو صبر و استقامت اور جرأت وفراست کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق بخشے اور پاکستان کی حفاظت اور استحکام کے سامان پیدا (روز نامه الفضل ربوه مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۷۳ء صفحه ۱) فرمائے.آمین

Page 73

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۳ خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی پیدائش کی کیا غرض ہے خطبه جمعه فرموده ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء بمقام مسجد احمد یہ.اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ - (ال عمران : ۲۰) بلى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ق ولاهُمْ يَحْزَنُونَ - (البقرة : ١١٣) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہمارا مذہب اسلام ہے اسی نام سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے متعلق پہلوں کو اطلاع دی گئی تھی.اسلام کے ایک لغوی معنی ہیں اور ایک اصطلاحی معنی ہیں.ہر لفظ تو ہم نہیں کہہ سکتے لیکن ایک زبان کے بہت سے الفاظ لغوی معنے بھی رکھتے ہیں اور اصطلاحی معنے بھی رکھتے ہیں.اصطلاحی معنی لغوی معنی کو محدود کرتا ہے.اسلام کے لغوی معنے ہیں کسی چیز کا پہلے مول دے دینا، سودا کر لینا، قیمت دینا، وصول کرنا، در اصل تجارت دونوں طرف سے ہی ہے یا کسی کو اپنا آپ سونپ دینا یا صلح کرنا اور لڑائی جھگڑا دور

Page 74

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۴ خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء کرنا ان معنوں میں عربی زبان اسلام کے لفظ کو استعمال کرتی ہے.میں نے بتایا ہے کہ اصطلاحی معنے لغوی معنی کو محدود کرتے ہیں.اسی لئے جب میں ۱۹۶۷ء میں یورپ کے دورے پر گیا تو ایک موقع پر یہ لطیفہ ہوا کہ تین مختلف سوسائٹیز کے چار چار نمائندے بارہ کی تعداد میں جب مجھے ملے (جن میں دو گروہ عیسائی پادریوں کے تھے اور ایک گروہ سکالرز کا تھا) تو اُن سے بڑی اچھی طرح باتیں ہوتی رہیں لیکن ایک پادری کچھ شوخ اور بے ادب تھا.اسلام کے متعلق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جب اس کی زبان سے بے ادبی کا کلمہ نکلا تو خدا تعالیٰ کی عطا کردہ تفہیم کے پیش نظر میں نے اس کو اس معاملے میں جواب نہ دیا بلکہ باتوں باتوں میں یہ کہا کہ سن آف مین Son of man) نے یہ کہا ہے کہ وہ چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بھی مانتے ہیں.(حالانکہ سن آف مین کا محاورہ انجیل میں بڑی کثرت سے استعمال ہوا ہے ) اس لئے وہ بڑا سٹپٹا یا.اس پر ان سب کی توجہ بٹ گئی اور وہ حملہ سے دفاع کی طرف آگئے.کہنے لگے یہ تو ہماری اصطلاح ہے.میں نے کہا ٹھیک ہے یہ تمہاری اصطلاح ہے لیکن سن آف مین (Son of man) کے معنے سن آف مین(Son of man) کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اصطلاح لغوی معنے کو محدود کرتی ہے اس میں وسعت پیدا نہیں کرتی وہی پادری کہنے لگا نہیں.میں نے دل میں کہا میرا مقام بحث کرنے کا نہیں بلکہ اللہ پر توکل کرنے کا ہے چنانچہ جو ان کا لیڈر تھا اس کو میں نے کہا کہ یہ کہتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا.میں اس کو جواب دینا نہیں چاہتا تم اس کا جواب دو.ان کے لیڈر نے کہا یہ ٹھیک کہتے ہیں تم غلط کہتے ہو.غرض اسلام میں اسلام کی اصطلاح لغوی معنی کو بہر حال محدود کرے گی یعنی لغت اگر اسلام کے لفظ کو چار معانی میں استعمال کرتی ہے تو یہ اس سے کم معانی میں استعمال کرے گی.چنانچہ اسلام کی اصطلاح بلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ میں استعمال ہوتی ہے.اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اسلام کے اصطلاحی معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا تمام وجود اللہ تعالیٰ کو سونپ دینا.گویا لغوی معنی کے برعکس اپنے آپ کو کسی کے سونپ دینا اصطلاحی معنے ہیں اسلام کے اور بھی معنی ہیں لیکن باقیوں کی نسبت اس کو اصطلاحی معنوں کے لحاظ سے اسلام نے

Page 75

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۵ خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء پیش کیا ہے اور یہ اللہ کے حضور اپنے آپ کو سپرد کر دینے کے متعلق ہے زید بکر یا یہ اور وہ یا بہت یا قوم کی طاقت یا سٹیٹ (State) یا کمیونسٹ بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں کہ ”عوام ہمارا خدا ہے ان سب کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کو اسلام نے اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ گویا انسان اپنا سب کچھ اس کو سونپ دیتا ہے یہ سونپنا دو قسم کا ہوتا ہے ایک اعتقادا اور ایک عملاً.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ مختصراً یہ مضمون بڑے لطیف پیرا یہ میں بیان فرمایا ہے.آپ کے نزدیک اعتقاداً سونپ دینے کے معنے یہ ہیں کہ انسان یہ اعتقاد رکھے کہ میرا وجود خدا تعالیٰ کے ارادوں کے ماتحت ارادے رکھنے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے پیدا کیا گیا ہے.ایک مسلمان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی پیدائش کی کیا وجہ ہے.خدا نے اُسے کیوں پیدا کیا ہے؟ اعتقاداً مسلمان وہ شخص ہے جو یہ اعتقا در کھتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ میرے رب نے مجھے اس لئے پیدا کیا ہے کہ میں آوارہ ارادوں کا مالک نہ بنوں بلکہ اپنے ارادے اور خواہشات کو خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دوں اپنی ہر خواہش کو اُس کے ارادوں کے ماتحت کر دوں.جو اللہ کا ارادہ ہے وہی ہما را ارادہ ہو جائے.جو اللہ کی رضا ہے وہی ہماری رضا بن جائے اور عملاً مسلمان ہونا اور اپنے وجود کو اللہ کو سونپ دینے کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جتنی طاقتیں دی ہیں وہ ساری کی ساری نیکی کے کاموں پر خرچ ہوں اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی طاقتیں دی ہیں.اتنی طاقتیں دیں کہ اگر وہ اپنی ساری قوتوں کو بحیثیت انسان مجموعی طور پر استعمال کرے تو زمین آسمان کو اپنا خادم بنا سکتا ہے اسی لئے انسان کو نہ صرف جسمانی اور ذہنی اور علمی قوتیں عطا کی گئیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اخلاقی اور روحانی قوتیں بھی بخشیں.جس طرح خلقِ خدا میں اتنی وسعت ہے کہ اسے ہم غیر محدود کہتے ہیں اسی طرح انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محدود طاقتیں اور قو تیں عطا کی گئی ہیں.انسان کہتے ہی اس وجود کو ہیں جو خدا داد طاقتوں اور استعدادوں کا مجموعہ ہوتا ہے.اگر آپ سوچیں کہ یہ میرا جسم ہے یہ آپ کا جسم ہے ویسے دراصل انسان صرف جسم کا نام

Page 76

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء نہیں ہے کیونکہ مادی جسم کے لحاظ سے گدھے کا جسم بھی مٹی کے اجزا سے بنا ہے اور کتے کا بھی بنا، اونٹ اور بیل اور شیر اور ہاتھی اور بے شمار مخلوق دنیا کی چرند پرند اور درندے ہیں ان کے وجود بھی بنے اس لئے جہاں تک انسانی نفس کے مادی وجود کا تعلق ہے.انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں.اس واسطے صرف مادی جسم کے لحاظ سے کسی کو ہم انسان نہیں کہہ سکتے.آخر جانور اور انسان میں کوئی امتیاز پیدا ہونا چاہیے.جہاں تک احساس کا تعلق ہے ایک درخت میں بھی جس ہے اور ایک انسان میں بھی جس ہے.ایک درخت ایسا بھی ہے کہ اگر انسان اس کو جرات کر کے ہاتھ لگالے تو اس کے پتے شرما کر سکڑ جاتے ہیں.درخت میں جس ہے تو سکڑتے ہیں.ان کو اگر آپ ضرورت سے زیادہ غذا دے دیں تو جس طرح انسان کو نقصان پہنچتا ہے.اسی طرح اس درخت کو بھی نقصان پہنچتا ہے.بعض دفعہ انسان زیادہ کھانے سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے.میں اس کا عینی شاہد ہوں.ایک دفعہ غلطی سے ایک درخت کو شام کے وقت میں نے ضرورت سے زیادہ غذا دے دی.اور صبح جب میں اُٹھا تو وہ مرا ہوا تھا.تو یہ جس انسان اور درختوں کی زندگی میں برابر ہے.یہ زندگی حیات کا نام ہے.اس میں حیوان اور انسان برابر ہیں پس وہ کیا چیز ہے جو فرق پیدا کرتی ہے اور امتیاز پیدا کرتی ہے اور فرقان پیدا کرتی ہے انسان اور دوسری خلق میں وہ یہی انسانی قوت اور استعداد ہی تو ہے.تمام قوتوں کے حصول کے نتیجہ میں انسان کے لئے تسخیر عالمین کا امکان پیدا ہوا.اگر انسان کو قو تیں دی جاتیں لیکن اس کے اندر ہمت نہ ہوتی اسے عزم نہ عطا کیا جاتا اس کے دل میں کوئی خواہش نہ پیدا ہوتی.وہ کوئی بڑا ارادہ نہ رکھتا.اس کے دل میں کوئی امنگ نہ ہوتی تو ساری قو تیں بریکار تھیں.اس لئے ایک طرف تسخیر عالمین کے لئے اس کو قو تیں عطا کی گئیں دوسری طرف اس کے دل میں خواہشات اور ہمت اور ارادہ پیدا کیا گیا.کس کام کے لئے تھا یہ عزم اور خواہش اور ارادہ؟ اس کام کے لئے کہ میں اپنی تمام قوتوں کو انتہائی طور پر استعمال کروں گا اور جب اس نے اپنے روحانی مقام کو پہچانا اور روحانی قوتوں کا اُس نے انداز لگایا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ میں اپنے وجود میں کوئی ایسا ارادہ نہیں رکھوں گا جو اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے تضاد رکھنے والا ہو اور اس

Page 77

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۷ خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء کے مخالف ہو.جو خدا کا ارادہ ہوگا وہی میرا ارادہ ہو گا.جو خدا تعالی کی خواہش ہوگی وہی میری خواہش ہو گی.تاہم خدا تعالیٰ کے متعلق ہمارے نوجوان سمجھ لیں کہ یہ الفاظ اُس پر پوری طرح چسپاں نہیں ہوتے کیونکہ وہ ہر پہلو ہر لحاظ سے ایک منفر د واحد اور یگانہ ذات ہے لیکن ہم خود ان کو سمجھنے اور دوسرے کو سمجھانے کے لئے اپنے وہ محاورے اور الفاظ استعمال کرتے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے متعلق ہیں.دوسرے معنی میں بھی اللہ تعالیٰ کا عزم اور اس کی خواہش اور اس کا ارادہ ہے مگر جہاں تک انسان کا تعلق ہے اس کے ماتحت اس کے سائے میں اس کے عکس کے طور پر اس کی تشریح کے طور پر انسان کا ارادہ اور اس کی خواہش ہونی چاہیے.خدا نے کہا میں نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری صفات کا مظہر بنے.اس لئے انسان کو یہ چاہیے کہ بنیادی طور پر اُس کی ایک ہی خواہش ہو اس کا ایک ہی ارادہ ہو اور وہ یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنوں گا.اسلام کے یہ معنے بلى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّهِ وَهُوَ مُحْسِن کے اندر آتے ہیں.اعتقادی طور پر اس طرح کہ میری کوئی ایسی خواہش نہ ہوگی میرا کوئی ایسا عزم نہ ہوگا میری کوئی ایسی ہمت نہ ہوگی کوئی ایسا ارادہ نہ ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے خلاف ہو.جو اس کے عزم اور اس کی ہمت سے متضاد ہوتا ہم انسان اور اللہ تعالیٰ کی ہمت میں بڑا فرق ہے.اس لئے ظاہر ہے کہ تمہاری اور اس کی ہمت میں بھی بڑا فرق ہے.ہم بڑی کوشش کرتے ہیں اور بڑی محنت کرتے ہیں اور بڑی تکلیف اُٹھاتے ہیں اور بڑا مجاہدہ کرتے ہیں.تب اس کے فضل سے نتائج کو پاتے ہیں لیکن وہ تو کسی امر کے متعلق گن کہتا ہے اور وہ وجود میں آجاتا ہے.یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ارادے اور عزم اللہ تعالیٰ کے عزم اور ارادہ کے ماتحت ہونے چاہئیں.انسان کا عزم اور ارادہ تو بہر حال اتنا نہیں ہوتا جتنا خدا کا ہوتا ہے پھر انسان انسان کے عزم و ارادہ میں بھی فرق ہوتا ہے.اس مضمون میں جانے کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ نے جتنی طاقتیں دی ہیں خواہش اور ارادہ سے استعمال ہونی چاہئیں گویا ان کا استعمال اس رنگ میں ہونا چاہیے کہ تسخیر عالمین کا مقصد پورا ہو جائے اور اس رنگ میں تسخیر عالم ہو کہ سارے عالمین زمین و آسمان

Page 78

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۸ خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء میں جو کچھ ہے ان کو اس رنگ میں خدمت پر لگا یا جائے کہ نیکی دنیا میں قائم ہو جائے.انسان کا نیکی پر پختگی سے قائم ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان عملی طور پر اپنی زندگی وقف کر دے یا اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دے.اس کو سونپ دے اعتقاداً اور عملاً ہر دو طریق پر اپنے سارے وجود اور اپنے وجود کی سب خواہشات اور ہر عزم اور ہمت جو ہے اور ہر قوت اور اس کا استعمال خدا کو سونپ دیا جائے.اس کی خواہش کے مطابق ہماری خواہشات اور اس کے حکم کے مطابق ہماری اپنی قوتوں کا استعمال تسخیر عالمین کی کوشش کے لئے وقف ہو جائے.بعض نادان کہہ دیتے ہیں کہ مذہب کا مطلب ہے درویش پین.یہ غلط ہے.مذہب کا اگر یہ مطلب ہوتا تو اللہ تعالیٰ تسخیر عالمین کی قوتیں انسان کو عطا نہ کرتا.اس لئے مذہب کا یہ مطلب نہیں کہ درویش بن جاؤ ، گوشہ نشین بن جاؤ ، دنیا سے قطع تعلق کر لو جنگل میں چلے جاؤ ، درخت کے نیچے اپنا ڈیرہ ڈال لو اور صبح شام اللہ ھو اللہ ھو کہتے رہو.مذہب کا یہ مطلب نہیں.مذہب کا تو یہ مطلب ہے کہ اصلاح ہو یعنی اعتقادا اور عملاً اپنے وجود کو خدا تعالیٰ کے حضور سونپ دینا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمین جس کی تسخیر کے لئے جو قو تیں عطا کی گئیں ہیں اس سے ہم قطع تعلق نہیں کر سکتے.یہ تو خدا تعالیٰ کے منشا کے خلاف ہے ورنہ وہ ہمیں طاقت ہی نہ دیتا لیکن تسخیر عالمین کے لئے اپنی قوتوں کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ انہیں خدا کے منشا کے مطابق استعمال کرنا چاہیے.اس کے حکم کے نیچے ہونا چاہیے ورنہ پھر آدمی بیٹھ جائے پھر وہ اس سے تو ایک قدم آگے بڑھے گا جس نے کہا تھا کہ اس عالمین سے انسان کا کیا تعلق؟ گو وہ ایک قدم آگے بڑھا اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہاں آکر وہ ٹھہر گیا.وہ روسی کمیونسٹ بن گیا اور کہ دیا میں اپنی قوتوں کو استعمال کر کے اس عالمین کی تسخیر اللہ تعالیٰ کے منشا کو پورا کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی منشا کو پورا کرنے کے لئے کروں گا.پھر انسانی جان کی کوئی قدر نہیں رہے گی.خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ یہ عالمین اور یہ ساری خلق یعنی زمین و آسمان کے اندر جو کچھ پایا جاتا ہے ان سے خدمت لو.گویا انسان کی خدمت کرنے کے لئے کائنات معرضِ وجود میں آئی لیکن ایسے آدمی پیدا ہو گئے جو کہتے ہیں ہم ان سے خدمت لیں گے.انسان کو دُکھ

Page 79

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۹ خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء پہنچانے کے لئے انسان کی ایذا دہی کے لئے ، انسان کو قتل کرنے کے لئے ، انسان کا گلا گھونٹنے کے لئے ، انسان کی نورانیت کو اندھیروں میں تبدیل کرنے کی کوشش کے لئے.یہ تو اسلام نہیں سکھاتا.اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو مسلمان اس لئے بنایا ہے اور اس لئے ہدایت نازل کی ہے کہ وہ اس ارادہ کے ماتحت رہتے ہوئے اپنی تمام قوتوں ک تسخیر عالمین کے لئے استعمال کرے اور اس استعمال کی جو غرض ہے اس غرض کو بھی سامنے رکھے اور وہ ہے حقوق العباد کی ادائیگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار فرمایا ہے کہ اسلام کا خلاصہ حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے.جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہی قائم کئے ہیں.انسان کو اتنی سمجھ بوجھ نہیں کہ وہ حقوق العباد قائم کر سکے لیکن اسلام نے انہیں کھول کر بیان کر دیا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ حقوق العباد کو قائم کرنا ضروری ہے.اس طرح اعتقادا اور عملاً اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دینا اُسے سونپ دینا اپنی ساری خواہشات اور ارادے اپنی انتہائی ہمت اور اپنے عزم کو اس کی منشا کے مطابق کر دینا حقیقی اسلام ہے یعنی انسان کہے کہ اے میرے خدا میں وہی خواہش کروں گا جو تیری خواہش ہوگی میں وہی کام کروں گا جو تیری منشا ہوگی.اعتقاد کے بعد عمل شروع ہوتا ہے.اگر اعتقاد صیح ہے تو عمل صحیح ہو گا اور اعتقاد غلط ہے تو عمل بھی غلط ہوگا.گو یا عملاً بھی خود کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دینا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جتنی قو تیں عطا کی ہیں ان کو استعمال کرنا چاہیے جو شخص استعمال نہیں کرتا وہ بھی خدا سے دور چلا جاتا ہے کیونکہ خدا اسے انعام دینا چاہتا ہے مگر وہ کہتا ہے میں نہیں لیتا.یہ تو شوخی کرنے ، استکبار کرنے اور اباء کرنے کے مترادف ہے.خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا ہے کہ اس نے جو طاقت اسے دی ہے وہ اس کا استعمال کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے.جنگلوں میں جا کر اس کا نام جپنا یہ تو انسان کے سپردنہیں کیا گیا.اس کو خدا تعالیٰ نے طاقت دی یہاں تک کہ اس نے کہا کہ انسان چاند پر کمند ڈال سکتا ہے اور ڈال رہا ہے اور چاند تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا ہے لیکن اس کوشش کے نتیجہ میں سیٹلائٹ تو بنالیا مگر عجیب مضحکہ خیز باتیں کرنے لگ گئے کہتے ہیں ان مصنوعی سیاروں کے ذریعہ اپنے دشمنوں پر ایٹم بم گرائیں گے.

Page 80

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء بھلا ان سے پوچھو تمہارا دشمن کون ہے کیا خدا کا بنایا ہوا تمہارا ایک بھائی دشمن ہے؟ لیکن جب خدا کو نہیں پہچانا اور اسلام کی روشنی سے منور نہ ہوئے تو اس قسم کی باتیں نہ کریں تو اور کیا کریں؟ غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تمہارے ارادے میرے ارادے ہو جا ئیں اور تمہاری قوتوں کا استعمال میرے حکم، میرے امر کے نیچے آجائے.اگر اپنی طاقتوں کو غلط جگہ استعمال کرنے سے رک جاؤ.آخر او امر ونواہی دیئے ہی اس لئے گئے ہیں کہ تم اپنے اچھے برے اعمال کا جائزہ لے سکو اور نیک و بد میں تمیز کر سکو تو تم میرے نیک بندے بن جاؤ گے.انسانی قوت کا استعمال صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہوسکتا ہے.اگر تم میرے اوامر و نواہی کے مطابق اعمال بجالاؤ گے تو فَلَةٌ أَجُرُه عِندَ رَبّہ کی رو سے تم میرے بندے بن جاؤ گے.میری صفات کا مظہر بن جاؤ گے.یہ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِن کی جزا ہے جو حقیقی مسلمان ہوتا ہے اس کو فائدہ کیا ہوتا ہے؟ فَلَة أَجْرُه عِنْدَ رَبّہ ان کے اعتقادات جو انہوں نے رکھے اور وہ جو نیک اعمال انہوں نے کئے اس کا اجر انسان نہیں دے گا خود خدا دے گا یہ بڑا عظیم اور خوشکن وعدہ ہے.انسان جب بدلہ نہیں دے گا تو اور کون دے گا.انسانی اعمال کا بدلہ اللہ دے گا.فرما یا فَلَةٌ أَجُرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ اور یہاں اللہ نہیں کہا رب کہا ہے اس میں ایک حکمت ہے کیونکہ جس نے پیدا کیا ہے وہ تمہیں پہچانتا ہے.تمہاری قوتوں اور استعدادوں کو پہچانتا ہے.تم تھوڑا مانگو گے اپنی قوت اور استعداد سے وہ تمہیں زیادہ دے گا کیونکہ وہ رب ہے کیونکہ کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور تم زیادہ مانگو گے جو کہ تمہاری تباہی اور ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے.یہ زیادتی ہے تو وہ تمہیں تھوڑا دے گا کیونکہ وہ ربّ ہے تم جتنا برداشت کر سکتے ہو اتنا دے گا.ماں اپنی ساری محبت کے باوجود بعض دفعہ بیٹے کو کم دے دیتی ہے اور بعض دفعہ زیادہ دے دیتی ہے.میرے پاس دوست آتے رہتے ہیں کوئی کہتا ہے میرا یہ بچہ ہے کچھ کھا تا نہیں ہے اور عام طور پر یہ بات صحیح ہوتی ہے.سوال یہ نہیں کہ یہ کھاتا ہے یا نہیں کھا تا بلکہ سوال تو یہ ہے جو یہ کھانا چاہتا ہے وہ تم دینے کے لئے تیار ہو یا نہیں.یہ کہتا ہے میں نے چنے کھانے ہیں تم کہتے ہو نہ !

Page 81

خطبات ناصر جلد پنجم ༈། خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء نہ !! نہ !!! ماں وہمی ہوتی ہے باپ وہمی ہوتا ہے کہتے ہیں تمہارے پیٹ میں درد ہو جائے گی حالانکہ اس کے اندر سے جسم کی اپنی فطرت کی آواز یہ ہوتی ہے اس لئے چنا اس کو ملنا چاہیے.جو اندر سے آواز آ گئی ہے کہ اتنا مجھے کھانے کے لئے ملنا چاہیے تم اس سے کم دیتے ہو.بعض دفعہ ہم نے خود دیکھا ہے ماں دو سال کے بچے کو چھپڑ مار دیتی ہے اور کہتی ہے دودھ پیتے ہو یا نہیں تم اسے زیادہ دودھ دے دیتی ہو اس کا جسم کہتا ہے میں نے نہیں پینا.کیوں اسے زیادہ دے رہی ہولیکن جو رب ہے اس کو پتہ ہے کہ میرے اس پیارے بندے کی اس انسان کی اس فرد کی جس نے کوشش کی میری صفات کا مظہر بننے کی اس کا دائرہ استعداد کتنا ہے.میں اس کے مطابق اسے دوں گا.اس واسطے اس جزا اور اس اجر میں کوئی تکلیف کا پہلو نہیں ہے کیونکہ اللہ دینے والا ہے.دوسرے یہ فرمایا کہ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ تم میرے بن جاؤ پھر دنیا میں جو تمہیں ستانے کی کوشش کرتا ہے، کرتا رہے تمہاری ہلاکت کی کوشش کرتا ہے، کرتا رہے تمہیں ڈر نہیں ہونا چاہیے.جب انسان اللہ تعالیٰ کا بن گیا تو پھر اُسے دنیا سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے.جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے تیار نہیں اس کی عطا کردہ خواہشات اور قوتوں کا صحیح استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں اس سے تمہیں کیا ڈرنا ہے؟ تم اللہ کی حفاظت میں ہو.اس لئے انبیاء اور مامورین کی جماعتیں جو ہیں ان کا کردار ایسا ہوتا ہے کہ چودہ سوسال کے بعد آج مؤرخ حیران ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا اور قریباً ستر ، اسی سال کے بعد ہم بھی حیران ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے بارہ ساتھیوں کو لے کر دہلی کے شور شرابے کے باوجود اور ان کی بے وفائی اور دھوکہ دہی کے باوجود جو اُنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم انتظام کریں گے کہ کوئی نقص امن نہ ہو اس وقت علماء ظاہر کے کہنے پر بارہ ساتھیوں کے ساتھ دہلی کی بہت بڑی جامع مسجد میں تشریف لے گئے اور ان کو کہلا بھیجا.میں تمہارے پاس آ رہا ہوں اور اس لئے آ رہا ہوں کہ تم نے کہا تھا کہ تم امن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہو تم نے دھوکہ دہی کی اب میں نے اپنی حفاظت کا انتظام کر لیا ہے اب میں آ رہا ہوں.اتنے بڑے ہجوم کے اندر آپ بے دھڑک چلے گئے.اگر کسی کو حالات کا پتہ نہ ہو اور وہاں یورپ میں جا کر آدمی یہ بتائے وہ کہے گا اُنہوں نے

Page 82

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۲ خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء کہانی بنالی ہے.کسی کو سمجھ نہیں آسکتا ایسا دماغ جس نے خدا کی معرفت کو حاصل نہیں کیا اور اس نے خدا تعالیٰ کی صفات سے لذت و سرور نہیں پایا.وہ کہے گا یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں.لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے خدا نے فرما یا وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.میں تمہارے ساتھ ہوں تمہیں فکر کی کیا بات ہے؟ جاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں.اس وقت انگریزوں کی حکومت تھی ایک انگریز (S-P) ایس پی تھا.غالباً وہ وہاں پولیس لے کے گیا ہوا تھا وہ تو مسجد سے باہر رہا اور آپ تو مسجد کے اندر چلے گئے تھے.جب واپس آئے تو ہجوم حملہ آور ہوا ایک وہ ایس پی تھا انگریز جس پر دوسروں کی حفاظت کی ذمہ داری تھی اور ایک وہ خدا کا بندہ مہدی معہود جس کو خدا نے کہا تھا کہ تم میری حفاظت میں ہو.دونوں باہر آئے.ایک جگہ پر اکٹھے ہوئے.ایس پی صاحب کے پتھر پڑے اور چوٹ آگئی لیکن خدا کے اس محبوب کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور بڑے آرام سے گزر گئے.جب انسان خدا کا ہو جاتا ہے تو پھر کوئی خوف باقی رہتا ہے اور نہ کوئی مخزن رہتا ہے.پس خدا کی گود میں خود کو بٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے جو بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِن کے مطابق حقیقی معنی میں مسلمان ہو گیا.اعتقاداً اور عملاً اس نے اپنے وجود کو اللہ کے حضور پیش کر دیا اور اسے سونپ دیا اسے کوئی خوف اور حزن نہیں ہوسکتا.و قرآن کریم نے اسلام اور مسلم کو دو مختلف معانی میں استعمال کیا ہے.اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ جو تمہیں سلام کہتا ہے اُسے تم یہ نہ کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو.وہ بالکل زبان کا ایک عام اقرار ہے.حقیقی اسلام یعنی نفس کو خدا کے حضور سونپ دینے کا مطلب نہیں ہے وہاں یہ مطلب ہے کہ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا (النساء: ۹۵) کہ جو تمہیں السلام علیکم کہے تمہارا حق یہ نہیں کہ تم کہو کہ تم مومن نہیں ہو.وہ ظاہری حکم ہے جو ظاہری فساد کو روکنے کے لئے دیا گیا ہے اور اس کے اندر بڑی حکمت ہے لیکن اسلام کا وہ مقام جس کے بعد خوف اور حزن باقی نہیں رہتا وہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنے وجود کو اعتقاداً اور عملاً اپنے رب کے حضور پیش کر دیتا ہے اور اسے سونپ دیتا ہے.

Page 83

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۳ خطبہ جمعہ ۲ / مارچ ۱۹۷۳ء خدا کرے مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی توفیق ملے اور ہم ہمیشہ ہی صبح بھی اور شام بھی دن کو بھی اور رات کو بھی جاگتے ہوئے بھی اور سوتے ہوئے بھی خدا تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی امان میں رہیں اور خدا کرے کہ بندے کو جس غرض کے لئے اس نے پیدا کیا ہے اور بندے کو وہ مقام پہچاننے کے لئے احمدیت کو قائم کیا ہے اور خدا کے مامور مہدی کو مبعوث کیا ہے وہ مقصد بھی ہماری حقیر اور ناچیز کوششوں کے نتیجہ میں اس کے انتہائی فضلوں کی بدولت اور رحمتوں کی وجہ سے پورا ہو اور بنی نوع انسان اپنے رب اور اپنے محبوب آقا محمد خَاتَمُ النَّبِيِّين صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے لگے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 84

Page 85

خطبات ناصر جلد پنجم 3 خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۳ء دعا کریں اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان اور ہمارے ملک کے لئے رحمت اور استحکام کے سامان پیدا کرے خطبه جمعه فرموده ۱۶ / مارچ ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے دنوں مجھ پر فلو کا بڑا حملہ ہوا تھا جو کئی دن تک رہا.اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا.اس کی شدت تو دُور ہوگئی ہے لیکن بیماری کے کچھ آثار ابھی باقی ہیں.فلو کے بعد ضعف بہت ہو جاتا ہے چنانچہ اس وقت بھی ضعف ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کچھ کہنے کی طاقت عطا فرمائے.دوستوں سے باتیں کرنے کو دل چاہتا تھا اس لئے میں یہاں آ گیا ہوں.شاید بہت ہی مختصر سا خطبہ دے سکوں گا.چند ضروری باتیں مختصراً کہنا چاہتا ہوں.زیادہ تفصیل کی ہمیشہ ضرورت بھی نہیں ہوتی ) اول یہ کہ احمدیت کے باہر بنی نوع انسان دو گروہوں میں منقسم نظر آتے ہیں.ایک وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہلاکت کے سارے سامان اکٹھے کر لئے ہیں اور انسان کے لئے باہمی اخوت کا کوئی جذبہ بظاہر اُن کے دلوں میں باقی نہیں رہا.دوسرے وہ لوگ ہیں جو خوف سے دھڑکتے دلوں کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زندگی گزار رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس وقت بحیثیت انسان بڑے خطرے میں ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا کوئی چیز انہیں انتہائی خطر ناک تباہی سے بچا نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تو اعمال صالحہ اور عاجزانہ دعاؤں سے جذب کی

Page 86

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۶ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۳ء جاتی ہے.اس لئے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کے لئے رحمت کے سامان پیدا کرے اور جس خطرہ میں انسان آج خود کو پارہا ہے وہ خطرہ دور ہو جائے اور اُسے جملہ پریشانیوں اور گھبراہٹوں سے نجات مل جائے.ہمارے ملک میں بھی فتنہ اور فسادزوروں پر ہے.دوست دعا کریں ملک کی مضبوطی اور استحکام کے سامان پیدا ہوں اور اللہ تعالیٰ ہم عاجز بندوں کو اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی تو فیق عطا کرے جو اُس نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالی ہیں.ربوہ میں درخت لگانے کا کام میری غیر حاضری میں ہوا.جہاں تک درخت لگانے کا سوال ہے اچھا کام ہو گیا ہے.شروع میں مجلس صحت کے کنویز چوہدری بشیر احمد صاحب کی رپورٹ تھی کہ اُنہوں نے تین ہزار درختوں کے لگانے کا انتظام کیا ہے.میں نے انہیں کہا تین ہزار نہیں دس ہزار درخت لگنے چاہئیں.چنانچہ اُن کی رپورٹ یہ ہے کہ آٹھ دس ہزار پودے لگ چکے ہیں ( یہ دو تین دن پہلے کی رپورٹ ہے ممکن ہے کچھ اور بھی لگ گئے ہوں ) اور کل چودہ ہزار درختوں کے حصول کے لئے کوشش کی جارہی ہے.اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنا اُن کا پہلا اندازہ تھا اہل ربوہ نے اس سے قریباً چار گنا زیادہ پودے حاصل کئے اور لگائے ہیں.جو درخت لگائے جاتے ہیں اُن میں بالعموم پچیس فیصد جڑ نہیں پکڑتے بعض کی تو کونپلیں نکلتی ہی نہیں.بعض کی نکل کر مر جاتی ہیں.جو درخت اپنے تنے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اُن کو بعض نا واقف انسان کھڑے دیکھنا پسند نہیں کرتے مثلاً بچے ہیں یا بعض بڑے لوگ بھی ہوتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض اچھے سمجھدار لوگوں کو بے خیالی میں اُنگلیاں چلانے کی عادت ہوتی ہے.درخت کے پاس کھڑے کھڑے اس کی ٹہنی توڑ دیں گے.انہیں یہ احساس ہی نہیں ہو گا کہ وہ درختوں کا نقصان کر رہے ہیں اس لئے میں نے یہ اعلان کر دیا تھا ( مجھے پتہ لگا ہے کہ وہ اعلان تمام محلوں میں ہو گیا ہے ) کہ جہاں تک شجر کاری کے اس منصو بہ کا تعلق ہے اس میں کامیاب ہونے کے لئے ۴۰ فیصد نمبروں کی ضرورت ہے.یعنی جتنے درخت کو کی محلہ لگائے اس کا کم از کم ۲۰ فیصد سے ضرور پالنا چاہیے جو محلے کم از کم ۴۰ فیصد درخت پالنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر اُن محلوں میں جو اول نمبر پر آئے گا ( مثلاً کسی نے پچپن فیصد پال لئے کسی نے ساٹھ فی صد پال لئے کسی نے اکسٹھ فیصد پال لئے ) اس کو پانچ صدر و پید انعام

Page 87

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۷ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۳ء ملے گا تاہم یہ کسی فرد کا انعام نہیں ہوگا بلکہ اُس محلہ کو اپنی اجتماعی زندگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے ملے گا.میں اس موقع پر اُن لوگوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں جنہوں نے بھیڑ بکریاں پالی ہوئی ہیں اور وہ اپنے بھائیوں کے لئے گوشت مہیا کرتے ہیں.اُن کے لئے بھی غالباً اعلان ہو چکا ہے.ان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر وہ گوشت دیں لیکن درختوں کے ذریعہ جو صحت قائم ہوتی ہے.اُسے قائم رکھنے میں مدد نہ دیں تو ربوہ کا مکین کمزور ہو جائے گا.اس صورت میں اگر وہ گوشت کھائے گا جو انہوں نے بازار میں بیچا اور اس نے خریدا تو اس کا اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا.اس لئے کسی بھیڑ بکری کے مالک کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ شجر کاری کی اس مہم میں روک بنے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا.جب میں کالج کا پرنسپل تھا اور نیا نیا کا لج یہاں آیا تھا تو ایک دفعہ ایک آوارہ بکرا ہمارے اڑھائی تین سو روپے کے پودے کھا گیا جو گملوں میں تھے اور کالج کے احاطہ میں لگائے جانیوالے تھے میں نے چوکیدار سے کہا کہ تم ذمہ دار ہو یا تم پیسے دو یاوہ بکرا دوجس نے پودے کھائے ہیں.اگلے دن وہ بکرا پھر آ گیا.چوکیدار نے پکڑ لیا.چونکہ وہ آوارہ اور لاوارث تھا اس لئے میں نے چھری منگوائی اور اس کو ذبح کر دیا.ایک مہینے تک وہ بکرا ہمارے خیال میں لاوارث رہا.میں نے سمجھا شاید باہر سے آیا تھا اور آوارہ پھر رہا تھا ( اُن دنوں ہمارے اس علاقہ میں سیلاب بھی آیا ہوا تھا مگر ایک مہینے کے بعد ربوہ کے ایک صاحب آگئے اور کہنے لگے میرا بکرا یہاں آیا تھا.میں نے کہا آیا تھا کہنے لگے پھر وہ مجھے دے دیں.میں نے کہا.کہاں سے دوں وہ تو آوارہ سمجھا گیا اور ذبح کیا جا چکا ہے پہلے تو وہ سمجھے نہیں لیکن میں نے جب اسے بتایا کہ میں سنجیدگی سے باتیں کر رہا ہوں تو وہ مجھے کہنے لگا آپ کو کیا حق تھا کہ میرا بکرا ذبح کریں.میں نے کہا ذبح تو آوارہ سمجھ کر کیا گیا تھا مگر میں مانتا ہوں کہ مجھے کوئی حق نہیں تھا کہ تمہارا بکرا ذبح کروں.میں یہ تسلیم کرتا ہوں اور تم یہ تسلیم کرو کہ تمہارا کوئی حق نہیں تھا کہ اپنے بکرے کو آوارہ چھوڑ دو اور کالج کا اڑھائی تین سو روپے کا نقصان کرواؤ.میں تو جھگڑانہیں کرتا عاجز بندہ ہوں تم جس کو مرضی ثالث بنا کر لے آؤ.لیکن احتیاطاً کچھ روپے ساتھ لے آنا اگر 100

Page 88

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۸ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۳ء تمہارے بکرے نے کالج کا زیادہ نقصان کیا ہو تو روپے دے جانا.اگر تمہارے بکرے کی قیمت تمہارے مقرر کردہ ثالث نے زیادہ بتائی تو جتنا ہمارا نقصان ہے اس سے جو زائد ہوگا وہ کالج تمہیں دے دے گا.اس میں جھگڑنے کی کیا بات ہے.پس ربوہ میں بکریاں پالنے والے دوستوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ اگر کسی محلہ میں ان کی آوارہ بھیڑ بکریوں نے پودوں کا نقصان کیا اور محلے والوں نے پانچ دس بکرے ذبح کر کے کھالئے تو اس کا اسی اصول پر فیصلہ ہو گا جس کا میں نے ابھی اظہار کیا ہے.یہ تو ٹھیک ہے کہ محلے والوں کا یہ حق نہیں ہے مگر بکرے والوں کا بھی یہ حق نہیں ہے اس لئے ہم بکرے والوں سے کہیں گے ثالث لے آؤ اور جو فرق ہے ( یعنی پودوں کے نقصان اور بکرے کی قیمت کے درمیان ) وہ تم لے جاؤ.ہم کسی پر ظلم نہیں کرنا چاہتے.مگر پودوں کا نقصان بھی نہیں دیکھ سکتے جس طرح بکرے والے کا یہ کہنا حق ہے کہ اس کا حق نہ چھینا جائے.اسی طرح محلے والوں کا یہ کہنا بجا ہے کہ محلے کا حق نہ چھینا جائے دوستوں کو احتیاط برتنی چاہیے.یہ اصول قائم ہو چکا ہے.ہم اس کے مطابق فیصلے کر دیں گے نہ بکری والوں کا نقصان ہوگا اور نہ محلے والوں کا.انجان بچے بھی پودوں کا نقصان کرتے ہیں.گو بکریوں سے تو وہ بہر حال زیادہ عقل اور ہوش رکھتے ہیں لیکن چونکہ ابھی وہ شعور اور عقلی بلوغت کو نہیں پہنچے ہوتے اس لئے پودوں کا نقصان کرتے ہیں.اس کے متعلق میرے ذہن میں ایک تجویز آئی تھی لیکن وہ میں بتانا نہیں چاہتا.آپ خودسوچیں.تاہم کسی بچے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی درخت کو نقصان پہنچائے یہ بات اپنی جگہ درست ہے.نہ کسی محلے والے کا یہ حق ہے کہ وہ بچے کو مارے یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے.جہاں تک بچوں کو مارنے کا سوال ہے اس کے ساتھ بکری والا معاملہ نہیں کیا جائے گا.بچے کو تو بہر حال حفاظت ملنی چاہیے.اس لئے اس کو کوئی مارے گا نہیں لیکن یہی حفاظت اس کے باپ یا سر پرست کو نہیں دی جاسکتی اس کو کوئی نہ کوئی سزاملنی چاہیے.ہر درخت بڑا ہونے میں اور اس عمر اور اس قد اور پھیلاؤ تک پہنچنے میں کہ وہ مفید ہو وقت لیتا ہے.اس پر خرچ کرنا پڑتا ہے خواہ وہ درخت مفت لے کر ہی کیوں نہ لگایا گیا ہو.خرچ کے علاوہ ہم نے آپ کو کہا درختوں کو پانی دیں اُن کا خیال رکھیں.گوڈی کریں.اس پر وقت صرف

Page 89

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۹ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۳ء ہوتا ہے ایک احمدی کے وقت کی بڑی قیمت ہے اگر چہ ایک احمدی کے ایک گھنٹے کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے لیکن اگر کم از کم پندرہ بیس روپے لگائی جائے تو اتنے پیسے اُس شخص کو دینے پڑیں گے جس کے بچے نے درخت کو نقصان پہنچایا ہوگا لیکن جبر کوئی نہیں.یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہم کسی پر جبر نہیں کرتے ایسے شخص کے لئے دوراہوں میں سے ایک راہ کھلی ہے یا تو وہ محلہ کا مقرر کردہ جرمانہ ادا کرے.یا اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ جبر ہے ظلم ہے اور سختی ہے تو اس کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ ربوہ چھوڑ کر چلا جائے پھر اس کو یہاں رہنا نہیں چاہیے.ہم جبر نہیں کرتے لیکن ہم اس کو بھی جبر کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ کہے کہ میں یہاں رہوں گا بھی اور کسی درخت کو میرے بچے چھوڑیں گے بھی نہیں.خراب کرتے جائیں گے اس کی اجازت تو نہیں دی جاسکتی.ہر محلے کو چاہیے کہ وہ آج اپنی اپنی مسجد میں شام کے وقت یا مغرب یا عشاء کے بعد مشورہ کرے کہ بچوں کی تربیت کے لئے کیا قدم اٹھایا جانا چاہیے.بچوں کی تربیت کا بہر حال خیال رکھا جانا چاہیے کیونکہ آگے چل کر جماعت کے بوجھ ان کے کندھوں پر پڑنے والے ہیں جنہوں نے ساری دنیا کی تعمیر نو کرنی ہے.ظاہر ہے وہ درختوں کی تخریب نہیں کریں گے.یہ امر صحیح تربیت کا متقاضی ہے لیکن اگر ماں باپ بچوں کی صحیح تربیت نہیں کریں گے تو ان کی غفلتوں کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا.میں کچھ کنوؤں کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں درختوں کے لئے پانی کی ضرورت ہے بعض محلوں میں پانی کی کمی تھی تو میں نے کہا آؤ ملکر کام کریں محلے والے رضا کارانہ طور پر کچھ کام کریں کچھ جماعت اُن کو مدد دے.چنانچہ شروع میں دو محلوں میں بجلی کے ٹیوب ویل کا انتظام ہوا.بعد میں تیسرا محلہ بھی اس انتظام میں شامل ہوا میرے نزدیک محلہ دارالعلوم نے ٹھیک کام کیا ہے.وہاں ہم نے پانچ ہزار سے کم خرچ کیا.مجھے آج ہی رپورٹ ملی ہے کہ شاید آج یا کل بجلی کا کنیکشن مل جائے گا.محلہ الف میں یہ کام مکمل نہیں ہو سکا.محلے والوں کا قصور نہیں ہمارے منتظمین کا قصور ہے.سیکیم یہ تھی کہ محلے رضا کارانہ طور پر اپنے ہاتھ سے بہت سے کام کریں اور کچھ تھوڑا سا جماعتی خزانہ سے پیسہ لگا کر اور جماعت کی مدد سے ٹیوب ویل لگائے جائیں.اس کی بجائے منتظمین نے صرف ٹینکی کا اندازہ پچاس ہزار روپے لگایا ہے.میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ اس مرحلے میں

Page 90

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۳ء کسی کنوئیں پر پانچ ہزار روپے سے زیادہ خرچ نہیں کیا جاسکتا.جب آپ کو دنیا کے خزانے مل جائیں گے تو آپ پچاسی ہزار کی بجائے پچاسی لاکھ خرچ کریں گے تو اس سے آپ کو کوئی نہیں رو کے گالیکن آج کے حالات میں اصل زور ہاتھ سے کام کرنے پر ہے ہمارا دل کرتا ہے کہ جماعت بحیثیت مجموعی بھی ان کی اس کوشش میں شامل ہو اس لئے اگر یہ محلہ پانچ ہزار روپے اکٹھے نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے بجلی کا پمپ خرید نے یا بورنگ پر خرچ کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو چار پانچ ہزار روپیہ ہم دے دیں گے.تا کہ یہ محلہ پانی کے لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے.الف محلے میں پانی بھی بہت اچھا ہے ان کو میں نے کہا ہے کہ پہلے مجھے موقع دکھاؤ پھر سکیم اور اس پر اخراجات کا اندازہ میں خود لگاؤں گا.سر دست پانچ ہزار سے زیادہ خرچ کرنے کے لئے میں تیار نہیں ہوں.باقی جو ضرورتیں ہیں وہ آہستہ آہستہ پوری ہوتی رہیں گی.۱۹۴۷ء کے بعد گویا پچھلے ۲۴ - ۲۵ برس میں تو یہ ضرورت بھی پوری نہیں ہوئی تھی.اب ایک کام شروع ہوا ہے تو پہلے دن ہی جماعت پر مستقبل کا بوجھ نہ ڈالیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ تیسر امحلہ بھی اس سکیم میں شامل ہوا ہے اور وہ محلہ دارالصدرغربی ( حلقہ مسجد قمر ) ہے جس نے اس کام کے لئے جو تخمینہ لگا یا وہ نو ہزار روپے کا تھا.( میں ) سمجھتا ہوں نو ہزار روپے کی ابھی وہاں ضرورت نہیں ہے.میں نے یہ اصول بنادیا ہے کہ جماعت پانچ ہزار روپے تک امداد کرے گی اس کے علاوہ جو خرچ ہے وہ محلہ اپنے ہاتھ کی محنت سے یا آپس میں مل کر حسب توفیق چندہ جمع کر لے، ہم پانچ ہزار تک دیں گے لیکن ایسی سکیم نہیں بننے دیں گے جس میں اسراف پایا جائے اس گناہ میں ہم ملوث نہیں ہوں گے.اسراف گناہ ہے جس میں جماعت ملوث نہیں ہونا چاہتی.پس دار العلوم کو پانی مل جائے گا محلہ الف میں بھی انشاء اللہ انتظام ہو جائے گا.آخری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے جماعت کو ہاتھ سے کام کر کے پیسے بچانے چاہئیں اس میں بڑی برکت ہوتی ہے.آپ جانتے ہیں ان دنوں پریس کی عمارت زیر تعمیر ہے اس میں ۶۰×۰۰ افٹ کا دو منزلہ ہال ہے.اس کی منزل سطح زمین سے نیچے ہے.اس کا کچھ حصہ او پر آئے گا اس پہلی منزل کی کھدائی کا آٹھ دس ہزار روپے کا اندازہ لگایا گیا تو میں

Page 91

خطبات ناصر جلد پنجم اے خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۳ء بڑا پریشان ہوا.میں نے بڑی دعا کی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ رقم بچانے کا منصوبہ بتایا.ہمارے ربوہ میں اٹھارہ سے زیادہ محلے ہیں.اگر فی محلہ چھ انچ کھدائی کر دے تو اٹھارہ محلے نوفٹ کھدائی کریں گے چھ انچ کھدائی کوئی مشکل بات نہیں.ہر ایک محلہ چھ انچ کھدائی کرتا جائے تو ہمارا آٹھ دس ہزار روپیہ بچ جائے گا اور وہ اشاعتِ قرآن میں آپ کی طرف سے کنٹری بیوشن (Contribution) یعنی عطیہ متصور ہوگا.دراصل اس پریس کے قیام کی غرض یہی ہے که قرآن کریم سستا طبع ہو کر دنیا میں تقسیم ہو.ستی طباعت کے لئے ضروری ہے کہ جو اوور ہیڈ چارجز (Over head charges) ہیں یعنی عمارت وغیرہ کے خرچ ہیں وہ جہاں تک ممکن ہو کم کئے جائیں.بعض چیزیں ہیں جو کم کرنی ممکن نہیں ہوتیں مثلاً ہم چاہتے ہیں کہ پرنٹنگ کی بہترین مشینری ملے اب اگر کوئی آکر کہہ دے کہ آپ نے کہا ہے کم خرچ کرنا ہے.لنڈے بازار میں چار ہزار روپے کی مل رہی ہے آپ نے ہمیں ہزار روپے کیوں خرچ کر دیا.تو میں کہوں گا کہ لنڈے بازار کی چار ہزار کی مشین ہمیں نہیں چاہیے.اس واسطے کہ جہاں تک میرے جذبات کا تعلق ہے میری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی اور نہ آپ کی غیرت گوارا کرے گی کہ انسان اشاعت قرآن کے لئے لنڈے بازار کی چار ہزار کی مشینری لگائے اور اشاعت بائیبل کے لئے ایک دوسرا گروہ دس لاکھ کی مشینری لگائے پس قرآن کریم کی اشاعت کے لئے چیز تو بہترین ہوگی.لیکن بہترین چیز کا حصول نسبتا کم دام پر بھی ممکن ہے اور اسی چیز کا حصول نسبتاً زیادہ پیسے خرچ کر کے بھی ہوتا ہے ہمیں نسبتا کم دام خرچ کرنے چاہئیں اس طرح وقار عمل کے ذریعہ ہم آٹھ دس ہزار روپیہ بچالیں گے.جس کا مطلب ہے کہ اس طرح اس پریس کی ایک چھوٹی درآمد شدہ مشین کی قیمت نکل آتی ہے یا ایک کمرے کا خرچ نکل آتا ہے.پس آج میں اس کا اعلان کر رہا ہوں یہ سکیم تمام محلوں میں آجائے گی ۲۰ × ۱۰۰ فٹ رقبہ میں چھ انچ مٹی اٹھانا کوئی ایسا بڑا کام نہیں ہے کہ ایک محلے کے حصہ میں ۳ ہزارفٹ مٹی کی کھدائی آتی ہے بعض دفعہ خدام الاحمدیہ کے وقار عمل کی رپورٹ میں سات آٹھ ہزارفٹ مٹی اٹھانے کا ذکر ہوتا ہے.غرض یہ ایک سکیم ہے جو آپ کے سامنے آجائے گی مجھے یقین کامل ہے کہ آپ بشاشت اور

Page 92

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۲ خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۷۳ء خوشی سے اس میں حصہ لیں گے اور اشاعت قرآن کے خرچ کو تھوڑا سا کم کردیں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ راگست ۱۹۷۳ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 93

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۳ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء احمدی ڈاکٹر ز اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے پیش کریں خطبه جمعه فرموده ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں ۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کے دورہ پر گیا تو اُس وقت مجھ پر اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ظاہر ہوا تھا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ مغربی افریقہ کے مختلف ممالک میں بنی نوع انسان کی خدمت کے مختلف منصوبوں پر خرچ کروں یہ بھی دراصل خدمتِ اسلام ہی ہے کیونکہ اسلام کے حکم اور اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق ہی انسان انسان کی علی وجہ البصیرت خدمت کر سکتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس منشا کے مطابق جماعت نے اس مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مال میں بڑی برکت ڈالی.چنانچہ کئی لاکھ پاؤنڈ یا مل گئے یا بن گئے.اللہ تعالیٰ نے اس سکیم کو چلانے کے لئے مال بھی دیا اور کام کرنے کے لئے آدمی بھی دیئے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اب بھی حسب ضرورت اور دے گا.اللہ تعالیٰ اس کمزور اور دُنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت کی بے لوث خدمات کو اپنے فضل اور رحم سے قبول بھی فرمائے گا اور حسناتِ دارین بھی عطا فرمائے گا.یہ ۱۹۷۰ ء کی گرمیوں کی بات ہے.ابھی تین سال پورے نہیں ہوئے مگر جیسا کہ میں گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر بتا چکا ہوں اللہ تعالیٰ نے

Page 94

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۴ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء ہماری حقیر مساعی میں برکتیں ڈالیں اور رحمتوں کی بارشیں برسائیں.پھر اس کے بعد بھی وہ خدا جو غیر محدود خزانوں کا مالک ہے اپنی رحمتوں کے خزانہ سے ہم پر بے انتہا فضل اور برکتیں نازل کر رہا ہے.تاہم جماعت احمد یہ کو یہ بات اچھی طرح سے یاد رکھنی چاہیے کہ ہم وہاں پیسہ کمانے کے لئے نہیں بلکہ اہل افریقہ کی خدمت کرنے کے لئے گئے ہیں.گو اللہ تعالیٰ ہمیں پیسے بھی دیتا ہے لیکن وہ بھی انہی پر خرچ کرنے کے لئے ہوتے ہیں.شروع میں یہاں سے جو ڈاکٹر اور پروفیسر صاحبان وہاں گئے تھے ان میں سے بعض نے مجھے یہ لکھا کہ یہ لوگ کچھ عرصہ کے بعد ہمارے طبی مراکز اور کالجوں کو قومی ملکیت میں لے لیں گے.اس لئے ان کے نزدیک ہمیں ہسپتالوں اور کالجوں کی عمارتوں پر رقم خرچ نہیں کرنی چاہیے.میں نے اُن کو یہی جواب دیا کہ ہم وہاں اُن کی خدمت کے لئے گئے ہیں.جس وقت بھی وہ قو میں جس حد تک طبی مراکز اور کالج سنبھالنے کے قابل ہو جائیں گی ہمارے لئے خوشی کا باعث ہوگا اور ہم بشاشت کے ساتھ اُن کو پیش کر دیں گے کہ یہ لوا اپنی چیز اور اس کو سنبھالو.لہذا خرچ کی راہ میں یہ امر میرے لئے روک نہیں بن سکتا.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ نائیجیریا میں نئے دستور کے مطابق موجودہ حکومت نے بارہ صوبے (جن کو وہ امریکہ کی طرح سٹیٹیں کہتے ہیں) بنا دیئے ہیں.چھ شمالی صوبے ہیں جن میں بہت بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے.شمالی صوبوں میں شاید ۹۸-۹۹ فیصد مسلمان آباد ہیں.چھ صوبے جنوب میں ہیں جن میں بعض جگہوں پر غیر مسلم کچھ زیادہ ہیں اور بعض جگہوں پر وہاں بھی ۴۵ ۴۶ فیصد مسلمان آباد ہیں.گویا نائیجیر یا حقیقتاً ایک مسلمان ملک ہے.اُن کی اپنی ایک تاریخ، اپنا ایک شاندار ماضی ہے قوموں پر ابتلا آتے رہتے ہیں.نائیجیرین قوم بھی بعض لحاظ سے ایک ابتلا میں سے گذر رہی ہے لیکن اس وقت جو سر براہ مملکت ہیں اور جن کا نام یعقو بوگوون ہے.وہ دل کے بڑے اچھے ہیں.مسلمانوں کا اسی طرح خیال رکھتے ہیں جس طرح عیسائی بھائیوں کا رکھتے ہیں.عیسائیوں اور مسلمانوں میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے.خدا تعالیٰ نے اُن کو بڑا پیار کرنے والا دل اور بڑا سمجھدار دماغ عطا فرمایا ہے.

Page 95

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۵ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء نائیجیریا کا یہ شمالی حصہ عیسائیت کی مخالفت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے پرانے خیالات کی وجہ سے احمدیت کی تبلیغ پر اپنے دروازے بند رکھتا تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کا تو میں ایک کلینک (اب تو وہ بڑی اچھی عمارت والا ہسپتال بن گیا ہے) گھلوایا.کا تو نائیجیریا کا ایک صوبہ (سٹیٹ) ہے اور شمال میں واقع ہے.حضرت عثمان فودی" جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلی صدی میں نائیجیریا کے مجدد تھے اسی شمالی علاقے کے رہنے والے تھے.ہر صدی میں بہت سے مجدد ہوتے رہے ہیں یہ بھی اُن میں سے ایک تھے.اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اُس وقت کے اپنے پیارے بندوں کو بشارت دی تھی ان کی پیدائش کے وقت یا اس سے بھی پہلے کہ وہاں ایک مجد د پیدا ہونے والا ہے چنانچہ جب انہوں نے تجدید دین کا کام شروع کیا تو اُن پر کفر کا فتویٰ بھی لگا.وہ واجب القتل بھی قرار دیئے گئے.ان کے خلاف عملاً میان سے تلوار بھی نکالی گئی لیکن چونکہ وہ خدا کے پیارے تھے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اپنی طاقتوں کے تار ہلائے اور اُن کو مخالفوں کے ہر شر سے محفوظ رکھا.وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوئے.نائیجیریا میں بھی اور اس کے ساتھ کے دوسرے ملکوں میں بھی اُن کا اثر و رسوخ بڑھ گیا.ان کی وفات کے وقت اُن کے ایک بھائی تھے جو بہت بڑے بزرگ عالم تھے اور بعض بڑی اچھی عربی کتابوں کے مصنف بھی تھے.بڑی اچھی عربی لکھنے والے تھے.میں نے خود ان کی بعض کتابیں پڑھی ہیں کچھ تو نایاب تھیں حال ہی میں ان کی دوبارہ اشاعت ہوئی ہے.جن میں سے کچھ ہمیں بھی ملی ہیں بعض کی تلاش ہورہی ہے.غرض وہ بڑے سمجھدار، دینی تفقہ اور روحانی فراست رکھنے والے بزرگ تھے.حضرت عثمان فودی کے ایک لڑکے تھے جن کا نام محمد بن عثمان تھا یہ بھی بڑے عالم اور متقی انسان تھے.حضرت عثمان فودیؒ نے اپنی وفات سے قبل وہ علاقہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کے ہاتھ پر غلبہ اسلام کے لئے فتح ہوا تھا.اُس وقت کے جغرافیہ کے لحاظ سے اسے تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا (بعد میں بعض جغرافیائی تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ہیں) ایک حصہ سیاسی لحاظ سے اپنے بھائی کو دیا اور ایک حصہ اپنے بیٹے محمد بن عثمان کو دیا تھا.یہ ان کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ بھی بنے اور امیر المومنین کے لقب سے معروف ہوئے.حضرت عثمان فودگی کا ایک اور بیٹا بھی تھا جو ان کی وفات کے وقت

Page 96

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۶ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء چھوٹا تھا.شاید اسی لئے ان کی مہمات دینیہ یعنی جہاد اور اشاعت اسلام اور احیائے سنت کے لئے ان کی جو کوششیں تھیں اُن میں اس چھوٹے بیٹے کا نام نہیں لیکن جب بعد میں وہ بڑے ہوئے تو ایک تہائی حصہ ان کے تصرف میں آیا.چنانچہ اس چھوٹے بیٹے کے علاقہ کا ایک حصہ کا نو کے صوبہ میں شامل ہے جس میں اس کی نسل آباد ہے اس وقت بھی اُن کا مذہبی اثر ورسوخ بہت ہے.حضرت عثمان فودیؒ کے جو بیٹے خلیفہ بنے تھے.یعنی محمد بن عثمان اُن کا جو علاقہ اور صوبہ ہے اس کو سکو تو کہتے ہیں.ان کی نسل کے دینی رہنما سلطان آف سکو تو کہلاتے ہیں اور کانو والے امیر آف کا نو کہلاتے ہیں.سکو تو کا صوبہ ہم سے دُور دُور رہتا تھا.اب دیکھیں خدا تعالیٰ کی شان وہ کتنا فضل کرنے والا ہے.میں مصلیا کسی کا نام نہیں لوں گا اور نہ اُن کے عہدے بتاؤں گا تا ہم آپ سمجھ جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ہماری کوتاہیوں کے باوجود احمدیت کی اشاعت کے وہاں سامان پیدا کئے.ایک تو اس طرح کہ سکو تو کے جو باشندے تجارت یا دوسرے کاموں کے سلسلہ میں نائیجیریا کے دوسرے حصوں میں یا غیر ممالک کو چلے گئے تھے اُن میں سے بہت سے خاندان اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہو گئے پھر اُن میں سے بہت سارے خاندان اپنے وطن واپس آگئے اور کچھ اس طرح کہ سکو تو کے بعض بچے ایسے سکولوں میں پڑھے جہاں احمدی کام کر رہے تھے یا سکول کے علاوہ ہمارے احمدی دوستوں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی اور وہ بچپن میں احمدی ہو گئے.چنانچہ اب جب کہ یکدم تبلیغ کا دروازہ کھلا تو پتہ لگا کہ یہاں تو پہلے سے احمدی موجود ہیں.پہلے تو اس علاقہ میں کسی احمدی مبلغ کے لئے شاید تقریر کرنا بھی مشکل ہوتا ہوگا لیکن اب حالات بدل گئے اور یہ حالات اس طرح بدلے اور ہماری تبلیغ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس طرح دروازہ کھولا کہ جب میں ۱۹۷۰ء کے مغربی افریقہ کے دورہ میں نائیجیریا میں تھا تو ایک دن ریڈیو پر یہ خبر آئی کہ سکو تو کے گورنر فاروق کا بینہ کے اجلاس میں شمولیت کے لئے ( آٹھ نو سو میل دورا اپنی سٹیٹ سے) آئے ہیں.ہوائی اڈہ پر صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سکو تو کی ریاست تعلیم میں بہت پیچھے ہے اس لئے انہوں نے تعلیمی محاذ پر اپنی ریاست میں ہنگامی حالات

Page 97

خطبات ناصر جلد پنجم LL خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء کا اعلان کر دیا ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ لوگ ان کے ساتھ تعاون کریں گے.ہمیں تو سفر میں بڑی مصروفیت رہتی تھی.اس لئے کبھی ریڈیو کی خبریں سنتے تھے اور کبھی نہیں سنتے تھے لیکن خدا نے یہ خبر سنانی تھی اس لئے اتفاقاً یہ خبر سُن لی.میں نے صبح سویرے ایک افریقن احمدی بھائی کو ان کے پاس بھیجا کہ میری طرف سے اُن سے کہو کہ اس طرح ریڈیو پر ہم نے یہ خبر سنی ہے کہ آپ نے اپنے صوبہ میں تعلیمی محاذ پر ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا ہے.میں آپ کے صوبہ میں چارسکول کھولنے کی پیشکش کرتا ہوں دولڑکیوں اور دولڑکوں کے لئے.آپ ہم سے تعاون کریں تو انشاء اللہ جلدی کھل جائیں گے اور ہم دو باتوں میں تعاون چاہتے ہیں ایک یہ کہ آپ ہمیں سکولوں کے لئے زمین دیں کیونکہ ہم پاکستان سے زمین نہیں لا سکتے دوسرے یہ کہ ہمارے اساتذہ کے ٹھہرنے کا اجازت نامہ دیں اس کے بغیر وہ ٹھہر نہیں سکتے.چنانچہ وہ اس پیشکش کوٹن کر بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ میں پورا تعاون کروں گا.بعد میں انہوں نے ہمارے ساتھ واقعی تعاون بھی کیا.دو سکولوں کے لئے قریباً چالیس چالیس ایکٹر زمین دی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے دوسکول وہاں کھل چکے ہیں.جن میں ابتدائی کلاسیں شروع ہو چکی ہیں.آہستہ آہستہ ترقی ہوگی.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے یہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے ابھی پونے تین سال ہی ہوئے ہیں کہ پچھلے سال وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ سارے سکول قومی ملکیت میں لے لئے جائیں اور ان کا معاوضہ ادا کیا جائے اور اگر باہر کے اساتذہ رہنا چاہیں تو ان کو رکھ لیا جائے نیز یہ کہ ہر ریاست اپنے اپنے حالات کے مطابق اس سکیم پر عمل کرے.چنانچہ سکو تو نے سب سے پہلے سکولوں کو قومی ملکیت میں لینے کا فیصلہ کیا.جہاں تک ہمارے سکولوں کا تعلق ہے گو ان کے لئے زمین تو انہوں نے ہی دی تھی لیکن اس پر عمارتیں ہم نے بنائی تھیں قریباً چار چار لاکھ روپیہ اُن پر خرچ آیا تھا.ہم نے خرچ کیا کیا ؟ خدا نے دیا تھا.وہیں خرچ کر دیا اللہ کے نام کی سربلندی کے لئے جب مجھے اطلاع ملی کہ حکومت نے ہمارے سکول قومی ملکیت میں لے لئے ہیں تو میں نے کہا بڑا اچھا کیا.انہوں نے ان کو قومی ملکیت بنالیا ہے.ہم تو ان کی خدمت کے لئے گئے تھے.وہ قومی ملکیت میں لینا چاہتے ہیں تو

Page 98

خطبات ناصر جلد پنجم LA خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء بڑی خوشی سے لیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں.دوسرے میں نے وہاں کی جماعت کو یہ بھی لکھ لکھ بھیجا کہ اگر وہ اساتذہ کو رکھنا چاہیں تو ہمارے اساتذہ وہاں کام کریں گے اور اپنا نیک نمونہ پیش کریں گے جس سے اپنے آپ تبلیغ ہوتی رہے گی.گویا ہمارا کام اسی طرح ہوتا رہے گا جس طرح وہ اپنے سکول میں رہ کر کرتے.تیسرے اگر وہ اخراجات کا معاوضہ دینا چاہیں تو وہ ہم نہیں لیں گے.ہم وہاں ان کی خدمت کے لئے گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس حد تک اور جتنے عرصہ تک خدمت کی توفیق دی ہم نے خدمت کی.اب ہم ان کو بنی بنائی چیز دیتے ہیں.چنانچہ جب ہمارا وفد ملنے گیا اور یہ پیشکش کی گئی کہ ہم خرچ نہیں لیں گے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی.ویسے بھی انسان کے ساتھ اگر کوئی پیار کا برتاؤ کرے تو وہ خوش ہوتا ہے.تاہم ان کے لئے خوشی کی اصل وجہ اور تھی اور وہ مجھے دو ایک ہفتے بعد میں معلوم ہوئی.دوست جانتے ہیں کہ عیسائی پادری وغیرہ بھی وہاں گئے ہوئے ہیں اور انہوں نے بھی وہاں سکول کھول رکھے ہیں.جب حکومت نے سکولوں کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا تو وہ بڑے تلملائے کیونکہ وہ خدمت کے جذ بہ سے تو وہاں جاتے نہیں بلکہ عیسائیت کے پھیلانے اور پیسے کمانے کے لئے وہاں جاتے ہیں.غرض عیسائیوں نے جب یہ سنا کہ حکومت سکولوں کا معاوضہ دے گی تو انہوں نے بڑے مبالغہ آمیز دعاوی تیار کئے لیکن جب ہماری طرف سے ایک وفد کے ذریعہ خرچ نہ لینے کی پیشکش کی گئی تو وہاں کے اخبارات، ریڈیو اور ٹیلیویژن پر شور مچ گیا.عیسائی سکولوں والے بہت ہی تلملائے.اُن کے منتظمین ہمارے اساتذہ اور مبلغوں کے پاس آئے کہ آپ نے یہ کیا ظلم کر دیا ہے.حکومت چنگے بھلے پیسے دے رہی تھی آپ نے لینے سے انکار کیوں کر دیا ہے؟ اس سے ہمارے لئے مشکل پڑ گئی ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمیں وہاں بے لوث خدمت کرنے کی توفیق ملی کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہمارے سکولوں کو کھلے ہوئے تو ابھی ڈیڑھ سال ہوا ہے لیکن ڈیڑھ سال تک بھی بنی نوع انسان کی اس رنگ میں بے لوث خدمت کر کے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے.خدا تعالیٰ کا پیار تو ایک لمحہ کے لئے مل جائے تو وہ بھی بڑی چیز ہے.ہماری دعا ہے کہ ہر وقت

Page 99

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۹ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء ہی اس کا پیار ملتا ر ہے.اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی.اللہ تعالیٰ کے ایک لمحہ کے پیار کے سامنے ساری دنیا کے خزانے بیچ ہیں.ہمیں ڈیڑھ سال تک اللہ کے پیار اور محبت کو پانے کی توفیق ملی.اس عرصہ میں اُن کی خدمت ، سکول کی عمارت ،سکول کا انتظام ،سکول کے فرنیچر ،سکول کے لئے یہاں سے اساتذہ بھجوانا وغیرہ کوئی معمولی خدمت نہیں ہے.پھر اس کے علاوہ یہ خدمت بھی ملی کہ جو لوگ وہاں پیسے کمانے گئے تھے ان کو پیسے نہیں کمانے دیئے اور اب اُن کو بڑی دقت کا سامنا ہے.حکومت ان کو معاوضہ دے گی تو ضرور لیکن اتنا نہیں دے گی جتنا وہ سوچ رہے تھے وہ سمجھتے تھے کہ سارے مل کر حکومت سے زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کی کوشش کریں لیکن چونکہ ایک حصہ ( یعنی احمدیوں) نے کہا کہ ہم حکومت سے ایک دھیلہ نہیں لیتے.اس لئے اب ان کی خواہشات پوری نہ ہوسکیں گی.اس کے علاوہ اس سٹیٹ کے باشندے گو باہر نکل کر احمدی ہو جاتے تھے لیکن وہاں ریاست کے اندر ہمارے مبلغ کا جانا بھی مشکل تھا.اب وہاں ہماری تبلیغ کا دروازہ کھل گیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر سب سے بڑا فضل ہوا ہے.اب وہاں نئی جماعتیں قائم ہونی شروع ہو گئی ہیں ابھی پرسوں اترسوں مجھے خبر ملی کہ اس ریاست میں جماعتِ احمدیہ کی پہلی مسجد بھی بن گئی ہے.الْحَمدُ لِلّهِ عَلى ذلِكَ ـ پھر جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا تھا وہاں کے چند لوگوں نے جو وہاں کی دینی اور دنیوی اثر و رسوخ رکھنے والی ہستیاں ہیں انہوں نے کہا کہ ہم تو بڑی دیر سے احمدی ہیں.جماعت سے ان کا عملی تعلق اس وجہ سے نہیں تھا کہ اس علاقے کے حالات ہی کچھ ایسے تھے.چنانچہ ایسے ہی ایک بہت بڑے آدمی سے ہمارے ایک احمدی ٹیچر نے کہا اگر آپ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں تو پھر حضرت صاحب کو لکھ دوں تو وہ کہنے لگے میرے متعلق ضرور لکھ دو، میرے لئے دعا کے لئے بھی عرض کرو اور یہ بھی لکھو کہ میں تو حکیم فضل الرحمان صاحب کے زمانہ میں بچہ تھا اُن کے پاس پڑھا کرتا تھا اس وقت سے احمدی ہوں.اب دینی اور دنیوی ہر دولحاظ سے اس کا بڑا بلند مقام ہے.اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ وہاں اور بھی بہت سے چھپے ہوئے احمدی ہیں گویا وہاں احمدی تو تھے لیکن ہمیں ان کا علم نہیں تھا وہاں کے مقامی حالات کی وجہ سے جماعت سے ان کا کوئی عملی تعلق

Page 100

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۰ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء نہیں تھا.غرض اللہ تعالیٰ اپنے پیار اور رحمت سے ہماری حقیر سی کوششوں کے بڑے اچھے نتائج نکال رہا ہے اور ہمارے لئے جسمانی اور روحانی خوشیوں اور مسرتوں کے سامان پیدا کر رہا ہے.جیسا کہ میں نے پچھلے جلسہ سالانہ پر بھی بتایا تھا اب وہاں کے ایک ملک کے سفیر نے یہ کہا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ اس سال کے بعد ہمارے ملک میں (ویسے ملک چھوٹا سا ہے ) اکثریت احمدیوں کی ہو چکی ہوگی.اس لئے میں نے اپنے بیٹے سے کہا ہے ابھی جا کر بیعت کر لو جب اکثریت احمدی ہو جائے گی تو اس وقت بیعت کرو گے تو کیا مزہ آئے گا.مجھے پتہ لگا ہے کہ کچھ سمجھدار لوگ اس دفعہ حج پر گئے ہوئے تھے انہوں نے افریقہ سے آنے والے حاجیوں سے ملاپ کیا.مختلف ملکوں کے حاجی تھے خصوصاً افریقہ سے آنے والے حاجیوں سے بھی ملے اور ان سے سوال کئے اور حالات دریافت کرتے رہے چنانچہ یہاں آکر ان میں سے بعض نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ نائیجیریا کے افریقن حاجیوں سے بھی ملے ہیں اور اُن سے یہ پتہ لگا ہے کہ نائیجیریا میں ہر جگہ احمدیوں کا اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا پیار ہی ہے جس کا نتیجہ نکل رہا ہے.نائیجیریا کی ایک ریاست کی حج کمیٹی کے صدر ایک احمدی دوست ہیں جس وقت حج پر جانے کا وقت آیا تو سعودی سفارت نے ویزا دینے میں لیت ولعل کیا وہ بڑے مخلص احمدی اور صاحب اثر ورسوخ تھے اور چونکہ ایک پوری ریاست کی حج کمیٹی کے صدر بھی تھے اس لئے وہاں شور پڑ گیا.چنانچہ اس پر نائیجیریا کی حکومت نے مداخلت کی اور سینکڑوں نائیجیرین احمدی حج کی برکات سے مستفید ہوئے پس وہاں کی حکومت نے جرات سے کام لیا.دوست دعا کریں بعض دوسری حکومتیں جو اس معاملہ میں کمزوری دکھا جاتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو مضبوط کرے اور ان میں جرات پیدا کرے.پس کام تو ہم نے گو تھوڑا سا کیا ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے اُن لوگوں سے کئی گنا بہتر ہے.جو اربوں روپے کے مالک ہیں اور اربوں روپے عیسائی پادریوں کو دے کر افریقہ میں بھجوا رہے ہیں ان کے مقابلہ میں بظاہر آپ کی قربانی کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے آپ نے چند

Page 101

خطبات ناصر جلد پنجم ΔΙ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء لاکھ روپیہ خرچ کیا ہے اور یہ کوئی دولت تو نہیں ہے جو آپ نے خدا کی راہ میں لگا دی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دیکھ کر کہ ابھی میں نے ان کو تھوڑا دیا ہے اور یہ اس تھوڑے میں سے کچھ حصہ میرے لئے نکالتے اور اسے میری راہ میں خرچ کر رہے ہیں اس لئے میں ان کو جزا دوں گا اور ان کے مالوں میں برکت ڈالوں گا.مال کی زیادتی کی شکل میں بھی اور مال کے بہترین نتائج نکلنے کی شکل میں بھی اور اصل برکت یہی ہے.آپ ایک پیسہ خرچ کرتے ہیں مگر ہزار روپے خرچ کر کے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ آپ کے ایک پیسے سے نکل آتا ہے.۹۹۹ روپے ۹۹ پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ وہ آسمان سے برکت کی شکل میں آتے ہیں.پھر اسی طرح ڈاکٹر آئے اور بہت ڈاکٹر آئے مجھے ڈاکٹروں کے آنے کی بہت زیادہ خوشی دو وجہ سے ہوئی ایک تو یہ کہ میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ صوبہ سرحد کے ہمارے احمدی دوست جانی قربانیوں کے پیش کرنے میں پیچھے ہیں لیکن اس تحریک میں صوبہ سرحد نے حصہ رسدی کے طور پر بشاشت کے ساتھ شمولیت کی.اُن کی چھپی ہوئی ایمانی کیفیت کا اظہار میرے لئے خوشی کا باعث تھا دوسرے یہ کہ اس تحریک میں نوجوان نسل نے بہت اچھا نمونہ دکھایا اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.چنانچہ وہ نسل جو عام طور پر مغربیت زدہ کہلاتی ہے لیکن جہاں تک نوجوان احمدی نسل کا تعلق ہے یہ دوسروں سے بدرجہا بہتر ہے مثلاً میں نے جب ڈاکٹروں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کی تو ہمارے چند نوجوان ڈاکٹر جو ڈاکٹری کے آخری سال میں پڑھ رہے تھے انہوں نے اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر اس خدمت کے لئے پیش کیا ان میں سے ایک نو جوان ڈاکٹر وہ بھی تھا جو لاہور کے علاقہ میں یونیورسٹی بھر میں اول آیا تھا.لیکن جس وقت اُن کا نتیجہ نکلا بھارت کے ساتھ ہماری جنگ شروع ہو گئی اور ہمارے ملک کو ڈاکٹروں کی ضرورت پڑ گئی تو ہمارے ان ڈاکٹروں کو بھی انٹرویو کے لئے بلالیا گیا وہ میرے پاس آئے کہ ہم نے وقف کیا ہوا ہے لیکن حکومت کی طرف سے یہ چٹھی آگئی ہے.میں نے اُن کو سمجھایا کہ بات یہ ہے کہ جہاں تک اپنے ملک کا سوال ہے اس کی خدمت کو بہر حال مقدم رکھا جائے گا.اگر ہمارے ملک کو آپ کی خدمت کی ضرورت ہے تو جب تک ملک کو آپ کی ضرورت رہے آپ اپنے ملک کی خدمت کرتے رہیں.مگر انٹرویو بورڈ سے صاف صاف کہہ دیں اس میں گھبرانے کی یا جھجکنے کی یا

Page 102

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۲ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء ڈرنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کہیں کہ ہمارا قصہ یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں ہم نے اپنی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کیا ہوا ہے.ہماری نیت یہ ہے اور ہمارے لئے پروگرام بھی یہی ہے کہ ہم افریقہ کے جنگلوں میں جا کر اسلام کی خدمت کریں اور اسلام کے غلبہ کی مہم کو کامیاب کرنے کے لئے بساط بھر کوشش کریں مگر جس وقت آپ نے ہمیں انٹرویو کے لئے بلایا تو ہم اپنے امام کے پاس گئے اور انہوں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر ملک کوضرورت ہوا اور جب تک ضرورت ہو اس وقت تک کام کرتے رہو اور ہمیں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بورڈ سے یہ بھی کہہ دینا کہ ہم بغیر تنخواہ کے بھی ملک کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہیں چنانچہ ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ جب میں نے انٹرویو بورڈ کے صدر ( جو ایک جرنیل صاحب تھے ) کے سامنے یہ بات کی تو ان کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ ایسی باتیں استثنائی صورت ہی میں سننے میں آتی ہیں اور عجیب بات ہے کہ جب بھی استثنائی طور پر کوئی ایسی بات ہوتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے منہ سے نکل رہی ہوتی ہے ابھی ہنگامی حالات ہیں اس لئے حکومت نے ہمارے واقف ڈاکٹروں کو فارغ نہیں کیا بلکہ جس ڈاکٹر کے متعلق میں نے بتایا ہے وہ اپنی کلاس میں اول آیا تھا اس کو اس کے بریگیڈیر ڈاکٹر نے کہا کہ خدا نے تمہیں اتنی اعلیٰ عقل و فراست عطا کی ہے تم ایک ہائر کورس (Higher Course) کر ولیکن اس کے لئے تمہیں پانچ سال کا معاہدہ کرنا پڑے گا.اُس نے مجھ سے پوچھا میں نے کہا چپ کر کے اپنا کام کئے جاؤ لیکن بریگیڈیر صاحب کے ذہن پر ہمارے اس بچے کی ذہانت کا کچھ ایسا تاثر تھا کہ وہ ہمارے ایک احمدی کرنل سے کہنے لگے کہ اس کو جب میں یہ کہتا ہوں کہ کورس کر لو تو یہ کہتا ہے میں نے وقف کیا ہوا ہے تم میری طرف سے حضرت صاحب سے کہو کہ یہ بچہ بڑا ذہین ہے اس کو کورس کر لینے دیں پانچ سال کا معاہدہ ہے اس کے بعد نوکری چھوڑ کر خدمت کرسکتا ہے.چنانچہ پھر میں نے بھی اجازت دے دی کہ اچھا ہے ایک اور ٹرینگ بھی ہو جائے گی اب وہ اپنا کام بھی کر رہا ہے.ساتھ ہی کو رس بھی کر رہا ہے.پس چونکہ ہمارے ملک کو ڈاکٹروں کی ضرورت پڑی ہمارے چند واقف ڈاکٹر بھی ملک کی خدمت کر رہے ہیں ( غیر واقف ڈاکٹر تو بہت ہیں جو ملک کی خدمت کر رہے ہیں ) ان کو ہم فی الحال

Page 103

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۳ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء باہر نہیں بھجوا سکتے دوسرے بعض ڈاکٹروں کو افریقہ میں گئے ہوئے قریباً دو سال کا عرصہ ہو گیا ہے تین سال کے بعد ہم نے ان کو واپس بلانا ہے تیسرے بعض ڈاکٹر یہاں سے چھٹی لے کر گئے ہوئے ہیں.میں نے ہی ان کو مشورہ دیا تھا کہ فراغت لینے کی بجائے محکمہ سے چھٹی لو اور وہاں جا کر خدمت کے کام کرو.ان کو واپس بلانا ہے تاکہ وہ کچھ عرصہ یہاں آکر کام کریں اور پھر بارہ چلے جائیں.ویسے بھی واقفین چاہے ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہوں اُن کو کچھ عرصہ کے بعد واپس آنا چاہیے.غرض ان وجوہ کی بنا پر یعنی ایک تو یہ کہ ہمارے کچھ ڈاکٹر پاکستان میں قوم کی خدمت کر رہے ہیں دوسرے بعض ڈاکٹروں کو ہم نے واپس بلانا ہے یا بعض ایسے ڈاکٹر ہیں جو وہاں کما حقہ کام نہیں کر سکے کیونکہ ہر آدمی ہر کام کے لئے نہیں بنا ہوتا اور یہ بات تجربہ سے معلوم ہوتی ہے چنانچہ ایسے ڈاکٹروں کی کوششوں کو بے نتیجہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کی کوشش کامیاب ڈاکٹروں کے نتائج کے سویں حصے تک بھی نہیں پہنچی اور وہ بمشکل اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں اور یہ بھی دراصل ان کی ناکامی ہی ہے.ایسے ڈاکٹروں کو بہر حال واپس بلانا ہے اور ان کی جگہ یہاں سے دوسرے ڈاکٹروں کو بھجوانا ہے.پس اس وقت دنیا کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے ذریعہ جو مہم جاری ہے اس کے ایک حصہ یعنی مغربی افریقہ میں جو کام ہو رہا ہے.اس کے لئے آٹھ دس ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.جن کے نام ہمیں دو تین مہینوں کے اندر اندریل جانے چاہئیں.اس واسطے پاکستانی احمدی ڈاکٹروں اور ان پاکستانی یا غیر پاکستانی احمدی ڈاکٹروں کو جو انگلستان میں یا امریکہ میں یا دوسرے ملکوں میں ہیں ان کو میں اللہ کے نام پر آواز دیتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے پیش کریں پھر ہم ان میں سے حالات اور ضرورت کے پیش نظر جتنوں کی ضرورت ہوگی جب چاہیں گے بلا لیں گے.سر دست اُن کو اپنے نام پیش کر دینے چاہئیں پاکستان میں بھی اور بیرونِ پاکستان میں بھی.میرے خیال میں بیرونِ پاکستان بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے سو سے اوپر

Page 104

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۴ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء احمدی ڈاکٹر ہوں گے جو اپنا کام کر رہے ہوں گے یا کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اگلے دو چار ماہ میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے والے ہوں گے.غرض اگلے تین ماہ کے اندر اندر آٹھ دس ڈاکٹر بہتر ہو کہ فزیشن سرجن ہوں یعنی نسخے لکھنے کے علاوہ آپریشن کرنا بھی جانتے ہوں ورنہ خالی فزیشن ہوں یا خالی سرجن ہوں وہ اپنے نام پیش کر دیں پھر ان کو حسب حالات اور ضرورت باہر بھجوانے کا انتظام کیا جائے گا.بہت ساری ایسی خوشیاں ہیں جو مجھے اپنے دل میں رکھنی پڑتی ہیں اور پھر مناسب موقع پر جماعت کو بتادی جاتی ہیں چنانچہ ایسی ہی کئی خوشیاں ہیں جن میں سے بعض کو ممکن ہے میں شوری پر بتاؤں گا یا اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر بیان کروں گا.اس وقت جماعت کا ایک حصہ اکٹھا ہوتا ہے.جلسہ سالانہ کا ذکر ہوا ہے تو میں ضمناً یہ بتا دیتا ہوں کہ کسی دوست نے ایک تجویز بھیجی ہے میں خود حیران ہوں کہ ہمیں پہلے کیوں خیال نہیں آیا.اللہ تعالیٰ اُن کو جزائے خیر عطا فرمائے) انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ جماعت کا ایک بہت تھوڑا حصہ جلسہ سالانہ پر آتا ہے اور بہت بھاری اکثریت ایسی ہے جو اپنے اپنے حالات اور مجبوریوں کی وجہ سے جلسہ سالانہ پر نہیں آسکتی لیکن جلسہ سالانہ کے دنوں میں الفضل بند کر دیا جاتا ہے اور ان کو کچھ پتہ نہیں چلتا.دوست بے چین رہتے ہیں.پھر کہیں مہینے کے بعد جب ان کو جلسہ سالانہ کی خبریں پہنچتی ہیں تو جہاں خوشی کے خط آتے ہیں وہاں دوستوں کے گلے شکوے بھی ہوتے ہیں کہ کیوں اتنے لمبے عرصہ کے بعد یہ باتیں معلوم ہوئیں جماعتوں تک ان کے جلد پہنچانے کا انتظام ہونا چاہیے تھا اس سلسلے میں ایک اور بڑا اچھا انتظام زیر غور ہے.اس پر کچھ خرچ آئے گا تاہم اس کے ذریعہ بڑی جلدی خبریں پہنچانے کا انتظام ہو جائے گا.یہ سکیم تو ابھی ابتدائی شکل میں ہے.انشاء اللہ اس کی تکمیل پر بہت اچھا انتظام ہو جائے گا.لیکن سر دست جلسہ سالانہ کے دنوں میں روزانہ کی رپورٹ مثلاً ہر روز آٹھ بجے شام تک کی رپورٹ اگلے دن صبح چھپ جانی چاہیے.خواہ وہ الفضل کے حجم کا ایک ورق یعنی بڑی مختصر رپورٹ ہی کیوں نہ ہو اور پھر اسی دن بذریعہ ہوائی ڈاک ساری دنیا میں بھجوانے کا انتظام ہونا چاہیے بلکہ تحریک جدید کو چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ اس کا انگریزی میں ترجمہ یا الگ اپنی طرف

Page 105

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۵ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء سے آزادانہ طور پر انگریزی میں روزانہ کی رپورٹ تیار کر کے بذریعہ ہوائی ڈاک بھیجوانے کا انتظام کرے.اس طرح بعض جگہ تو ۳، ۴ دن میں اور بعض جگہ ۱۵ ،۲۰ دن کے اندر خبریں پہنچ جائیں گی.بعض جگہیں تو ایسی بھی ہیں کہ جہاں ڈاک کا انتظام خراب ہونے کی وجہ سے دو دو تین تین ہفتے کے بعد ڈاک پہنچتی ہے.دوست تو یہ سمجھتے ہوں گے کہ ہوائی ڈاک زیادہ سے زیادہ پانچ دس دن میں پہنچ جاتی ہوگی.مگر بعض جگہ ایسا نہیں ہوتا.مجھے یاد ہے جب میں مغربی افریقہ کے دورہ پر گیا تھا تو جو خطوط مجھے یہاں سے پہلے ہفتے میں لکھے گئے تھے ان میں سے بعض خطوط دواڑھائی مہینے کے بعد مجھے اس وقت ملے جب میں دورہ ختم کر کے لندن سے ہوتا ہوا یہاں واپس پہنچ چکا تھا گویا اڑھائی تین مہینے اور بعض خطوط چار مہینے تک ساری دنیا کا چکر کاٹ کر یہیں واپس آگئے.پس اگر چہ دنیا کے بعض حصوں میں ڈاک کا انتظام ٹھیک نہیں ہے لیکن جب تک کوئی دوسرا انتظام نہیں ہو جاتا اس وقت تک جلسہ سالانہ کے دنوں میں الفضل کو بند نہیں ہونا چاہیے.ان دنوں اس پر زیادہ عملہ لگانا چاہیے تحریک بھی علیحدہ طور پر انگریزی میں بلیٹن تیار کرے اس کے لئے اخبار ہی کی پیروی کرنا ضروری نہیں ہے یعنی الفضل تو اخبار کی شکل میں شائع ہوگا لیکن تحریک اپنی رپورٹ بلیٹن کی شکل میں شائع کرے.غرضیکہ جلسہ سالانہ کی کارروائی کی اطلاع بیرونی دنیا میں ساتھ کے ساتھ ہونی چاہیے بعض جگہوں پر تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دوست جلسہ سالانہ پر آتے ہیں جب وہ دس پندرہ دن کے بعد واپس جاتے ہیں تو وہاں کے مقامی دوست اُن سے کئی دن تک کرید کرید کر جلسہ سالانہ کی رُوداد سنتے رہتے ہیں.میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضل جماعت پر نازل ہوتے رہتے ہیں.جلسہ سالانہ میں ان فضلوں کو مختصر تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے.جس کا دنیا بھر کی جماعتوں کو جلد تر پتہ لگنا چاہیے تاہم یہ ایک ضمنی بات تھی جس کا بعد میں تفصیل سے ذکر ہوگا.میں نے اس وقت آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کی کچھ باتیں بتائی ہیں تا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنے کی کوشش کریں اور اپنے رب کی بہت حمد کریں میں نے اس وقت احمدی

Page 106

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۶ خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۳ء ڈاکٹروں کو وقف کی تحریک کی ہے آٹھ دس ڈاکٹروں کی فوری ضرورت ہے.تین مہینے کے اندر اندر ڈاکٹروں کے نام آجانے چاہئیں ہمارا اصل سہارا تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کے فضلوں کے حصول کا ذریعہ دعا ہے دعا کے بغیر ہمیں کام کرنے والے نہیں مل سکتے.دعا کے بغیر ان کے کاموں میں برکت نہیں پڑسکتی دعا کے بغیر جماعت کو بحیثیت مجموعی ان کی حقیر کوششوں کا بے انتہا اور بڑا پیارا بدلہ نہیں مل سکتا.اس لئے دوست بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں کا ہر لحاظ سے وارث اور ہر جہت سے اہل بنائے اور ہر شعبۂ عمل میں آگے سے آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے.اللهم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۳۱ مارچ ۱۹۷۳ ، صفحه ۲ تا ۷ ) 谢谢您

Page 107

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۷ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقام ختم نبوت کے لحاظ سے تمام رسولوں سے ممتاز ہیں خطبه جمعه فرموده ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآنِ عظیم میں نبوت اور رسالت کے متعلق بہت سی بنیادی باتیں بتائی ہیں.میں اس وقت اُن میں سے بعض کا ذکر کروں گا.پہلی بات ہمیں یہ بتائی گئی ہے کہ انبیاء اور مرسلین میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (البقرۃ : ۲۵۴).اس کے علاوہ بھی انبیاء کی ایک دوسرے پر فضیلت کا ذکر آتا ہے لیکن قرآن کریم نے اس کی تفصیل نہیں بتائی البتہ بعض باتیں بتائی ہیں اور بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض باتوں کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی مثلاً تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ( جو تیرے سیپارے کی پہلی آیت ہے، اس ) میں فضیلت کی ایک وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ بعض انبیاء صاحب شریعت ہوتے ہیں اور بعض انبیاء صاحب شریعت نہیں ہوتے.شاید بعض دوسری جگہ کوئی دوسری وجہ فضیلت بیان ہوئی ہو لیکن اس وقت میرے ذہن میں مستحضر نہیں لیکن قرآن کریم سے ہمیں یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ فضیلت کی بعض وجوہ کو بیان کرنے کی ضرورت

Page 108

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۸ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء نہیں سمجھی گئی باوجود اس کے کہ بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت بخشی گئی ہے پھر بھی ہمیں یہ بتایا گیا ہے لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ (البقرة : ۲۸۲) یعنی فی نفس رسالت رسول اور رسول میں فرق نہیں کرنا.اسی قسم کی بعض دوسری آیات میں بھی اسی قسم کا مفہوم بیان ہوا ہے.پس فضیلت بھی ہے اور ان مسل“ میں فرق بھی نہیں کرنا یعنی نفس رسالت میں کوئی فرق نہیں ہے جو صاحب شریعت رسول ہے اور جو صاحب شریعت رسول نہیں ان دونوں رسالتوں میں نفسِ رسالت میں کوئی فرق نہیں دونوں رسول ہیں.اللہ تعالیٰ نے اُن کو اپنی حکمت کا ملہ سے مختلف زمانوں اور مختلف ممالک میں بسنے والی قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا.ان میں ایک رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایسے بھی ہیں جن کو ساری دنیا کی طرف سارے زمانوں کے لئے اور تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا.بایں ہمہ نفسِ رسالت میں ان میں اور دیگر رسل میں کوئی فرق نہیں.پس فضیلت بھی ہے نفس رسالت میں کوئی فرق بھی نہیں ہے.یہ رسل کے بعض بنیادی حقائق ہیں جن کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جا سکتا چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر قرآن عظیم صرف رسول کہتا تو نفس رسالت میں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی فرق نہ رہتا یا حضرت یحیی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان نفس رسالت میں کوئی فرق نہ رہتا اگر چہ فضیلت اپنی جگہ پر ہوتی لیکن اتنی نمایاں فضیلت کہ جو تمام انبیاء سے آپ کو ممتاز کر دے اس کی ہمیں سمجھ نہ آتی.اس لئے قرآن کریم نے جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کہہ کر رسالت کے مقام پر تمام رسل اور انبیاء کے برابر کھڑا کر دیا وہاں آپ کو ایک اور اعلیٰ مقام عطا فرمایا جس کا ذکر سورۃ احزاب کی آیت ۴۱ میں موجود ہے.اس لحاظ سے آپ رسول بھی ہیں اور خاتم الانبیاء بھی ہیں.خاتم الانبیاء یا ختم المرسلین ختم نبوت یا ختم رسالت کا جو مقام ہے اسے اسلامی اصطلاح میں مقام محمد بیت کہتے ہیں اور اس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منفرد ہیں.یہ وہ فضیلت نہیں جس کا فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ میں.نسبتی فضیلت) ذکر ہے نسبتی فضیلت میں بھی نسبتی لحاظ سے اول اور آخر ہوتا ہے.اگر نفس رسالت

Page 109

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۹ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء میں کوئی فرق نہ ہو اور چشم تصور میں تمام انبیاء ایک میدان میں کھڑے ہوں تو مشرق کی طرف سے دیکھیں گے تو شمال والا آخری ہو گا.جنوب کی طرف سے دیکھیں گے تو جو نبی غربی کونے میں ہے وہ آخری نبی ہوگا.پس ایک تو یہ نسبتی طور پر آخری ہے.اس میں کسی فضیلت کا ذکر نہیں بلکہ یہ ایک نسبتی چیز ہے جس زاویہ سے آپ دیکھیں گے مقابلہ کی انتہا آخری بن جاتی ہے.پس فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ بھی ایک بنیادی حقیقت ہے اور لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رسلہ بھی اپنی جگہ ایک بنیادی حقیقت ہے دراصل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیدا کرنے والے رب کے حضور جو منفرد مقام حاصل تھا اس کے اظہار کے لئے آپ کو خاتم النبیین کہا گیا بے خَاتَمَ النَّبيِّين یعنی مقام محمدیت قرب اتم کا مقام ہے.بالفاظ دیگر آپ صفات باری کے مظہر اتم تھے.یہ شرف صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا ہے دوسرا کوئی نبی اس مقام تک پہنچ نہیں سکا.کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ رسالت میں ایک لاکھ بیس ہزار رسول شامل ہیں.ان میں ہم نے کوئی فرق نہیں کرنا لیکن مقام محمدیت کے لحاظ سے آپ کو جو منفرد مقام حاصل ہے وہ صفات باری کے مظہر اتم ہونے کا مقام ہے اس مقام کو انسانوں کے مقابل میں انسان کامل کہتے ہیں اور قرب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے قریب تر دوسرا کوئی شخص خدا کے پیار کے حصول میں آپ سے زیادہ اور قریب تر ہوا نہ ہوسکتا ہے غرض اس مقامِ محمدیت کو بیان کرنے کے لئے مختلف اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں.پس سورۃ احزاب کی آیت ۴۱ میں ایک تو یہ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے رسولوں کی طرح ایک رسول ہیں اور اس جہت سے رسول رسول میں فرق کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور دوسرے آپ خاتم النبیین ہیں اس جہت سے آپ بے مثل و مانند ہیں اور کوئی رسول آپ کے ہم پلہ نہیں.اس حیثیت میں کسی کو آپ کے ساتھ منسلک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی.اس مقام محمدیت کے لحاظ سے آپ تمام رسولوں میں منفر دو ممتاز ہیں.پھر سورہ احزاب کی اس آیہ کریمہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (الاحزاب : ۴۱) کہ ہر چیز کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بیان کا ایک گہرا

Page 110

خطبات ناصر جلد پنجم ۹۰ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء اور ضروری تعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ختم نبوت یعنی مقام محمدیت کے ساتھ ہے ورنہ بظاہر یہ کہ کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طور پر کسی مرد کے باپ نہیں لیکن (1) اللہ کے رسول ہیں اور (۲) خاتم النبیین ہیں اور پھر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک چیز کا علم ہے اس میں کوئی حکمت ہونی چاہیے.اس میں کوئی فلسفہ ہونا چاہیے؟ اس میں کسی گہرے اور عمیق مضمون کا بیان ہونا چاہیے؟ چنانچہ میرے نزدیک علاوہ اور معانی کے ایک معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں فرمایا کہ خاتم النبیین کے خود معنے نہ کرناختم نبوت کے معنے تمہارا پیدا کرنے والا رب تمہیں بتائے گا.اگر خود معنے کرو گے تو غلطی کھاؤ گے اس لئے خود قرآن کریم نے اس کے معنی کئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرما یا وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتِ (البقرة : ۲۵۴) جس کے ایک معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عرشِ ربّ کریم تک رفعت روحانی بخشی.قرآنِ کریم کی ہر آیت اور ہر فقرے اور فقرے کے ہر لفظ کے بہت سے بطون ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے ایک معنے یہ کئے ہیں کہ ایک وہ رسول جو ارفع ہے اپنے درجات کے لحاظ سے اور منفرد ہے رفعت روحانی میں کوئی رسول اس مقام میں آپ کا شریک نہیں ہے.قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:۵) که تَخَلُقُ بِأَخْلَاقِ اللَّهِ کے مقام میں کوئی دوسرا انسان تو کیا کوئی دوسرا نبی بھی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ کوئی انسان آپ کے بلند مقام کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا.یہ آپ کا مقام محمدیت ہے جس میں آپ تمام رسولوں میں افضل ہیں.قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ آپ کا کلام خدا کا کلام اور آپ کا ظہور خدا کا ظہور اور آپ کا آنا خدا کا آنا ہے ( پہلے آسمانی نوشتوں نے بھی اسی رنگ میں اس مفہوم کو بیان کیا ہے ) فرما یا: - جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (بنی اسراءیل : ۸۲) اس آیہ کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حق کے لفظ سے اللہ تعالیٰ قرآن عظیم کی آخری اور کامل شریعت اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہرسہ مراد ہیں.ان پر حق کا لفظ حقیقی طور پر چسپاں ہوسکتا ہے.قرآن کریم نے مقام محمدیت یعنی مذکورہ منفرد مقام کو مختلف طریقوں اور مختلف زاویوں سے

Page 111

خطبات ناصر جلد پنجم ۹۱ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء بیان کیا ہے.چنانچہ ہم عاجز بندوں کو تصویری زبان میں مقام محمدیت کی حقیقت کے سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج سے نوازا.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ” مقامِ محمدیت مقامِ خَاتَمَ النَّبِيِّين اور اس نسبت سے دوسرے انبیاء کے ساتھ آپ کا تعلق بڑی وضاحت سے ظاہر ہو جاتا ہے.اس کو حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے.حضرت مصلح موعورضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے تفسیر صغیر کے نوٹوں میں بھی بیان فرمایا ہے اور وہ یہ کہ ”معراج میں مقام محمدیت کی حقیقت بیان کی گئی ہے اور اس کی اُمت مسلمہ کے سامنے یہ تصویر رکھی گئی کہ اہل زمین جو نبی نہیں عوام ہیں ( اور اُمت محمدیہ کے فرد ہوں یا دیگر تمام بنی نوع انسان ہوں ان کو ہم کہیں گے وہ اہل زمین ہیں یعنی زمین میں بسنے والے انسان ہیں) اور جنہیں روحانی رفعت کا وہ مقام حاصل نہیں جسے ہم رسالت کے نام سے منسوب کرتے ہیں.آپ نے گویا اہل زمین کو فرمایا کہ اپنے زمینی مقام سے اوپر نگاہ کر تمہیں پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام نظر آئیں گے تمہیں دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہما السلام نظر آئیں گے ( واضح رہے کہ ہر آسمان پر ایک ایک یا دو دو کا گروہ علامت کے طور پر ہے یعنی وہ سارا گر وہ جو حضرت آدم علیہ السلام کا مقام رکھتا ہے اُن کے لئے پہلا آسمان ہے جن کی روحانی رفعت حضرت عیسیٰ اور حضرت یحی علیہما السلام کے ساتھ نسبت رکھتی ہے اُن کے لئے دوسرا آسمان ہے.وعلى هذا القياس) تمہیں تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نظر آئیں گے.چوتھے آسمان پر حضرت اور میں علیہ السلام نظر آئیں گے.پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نظر آئیں گے.چھٹے آسمان پر صاحب شریعت حضرت موسی علیہ السلام نظر آئیں گے.ساتویں آسمان پر غیر شرعی نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نظر آئیں گے اور اس سے بھی او پر یعنی عرش ربّ کریم پر حضرت محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے.گویا حقیقت معراج میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام عرشِ ربّ کریم ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا جو تمام صفات کا ملہ حسنہ سے متصف ہے اُس نے اپنے نہایت ہی پیار کے ساتھ مظہر اتم الوہیت بنا کر اپنی دائیں طرف آپ کو بٹھایا.یہ ہے مقام ختم نبوت جو حقیقت معراج میں تصویری زبان میں بتایا گیا ہے.جسے

Page 112

خطبات ناصر جلد پنجم ۹۲ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء ایک عام انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسی اور حضرت یحی علیہما السلام ، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے اور اس کے بھی اوپر مقام محمدیت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدائے ذو العرش کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں، یہ شرف آپ کے مقام کے لحاظ سے اور اس محبت کی وجہ سے ہے جو آپ کو اپنے خدا سے تھی اور اس پیار کی وجہ سے جس سے آپ کو نوازا گیا تھا.یہ ہے وہ مقام ختم نبوت جو خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا.اب اہل زمین جب اس تصویر میں زمین سے آسمانوں کی طرف دیکھیں گے تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک ایک نبی (اور ایک آسمان پر دونبیوں) کا ذکر آیا ہے وہ محض نبیوں کے گروہ کی علامت کے طور پر ہے کیونکہ اگر واقع میں ایک لاکھ بیس ہزار پیغمبر دنیا کی طرف آئے تو پھر تو پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ بہت سے اور انبیاء بھی ہوں گے.اسی طرح دوسرے حتی کہ ساتویں آسمان پر بھی بہت سارے انبیاء ہوں گے.تاہم ساتویں آسمان تک پہنچ کر یہ سارے انبیاء ختم ہو جائیں گے.اس کے بعد صرف ایک وجود ہوگا.وہ اپنے رب سے اتنا پیوست اور ایک جان ہوگا کہ اس کا آنا خدا کا آنا اور اس کا کلام کرنا خدا کا کلام کرنا اور اس کی حرکات خدا کی حرکات متصور ہوں گی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بھی بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے.آپ نے فرمایا جنگ بدر کے موقع پر کنکریوں کی جو مٹھی پھینکی گئی تھی وہ دعاؤں کے نتیجہ میں نہیں بلکہ آپ کے اس قرب الہی کے نتیجہ میں تھی اور آپ کے صفات باری کے مظہر اتم ہونے کی وجہ سے تھی.یہ آپ کے بلند مقام کا کرشمہ تھا کہ وہ کفار کی آنکھوں میں پڑی اور اُن کی تباہی کا باعث بن گئی.سردارانِ مکہ میدانِ جنگ میں اپنی لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے یہ ایک مستقل اور لمبا مضمون ہے.اس وقت اس کے بیان کا موقع نہیں.میں بتا یہ رہا ہوں کہ یہ مقام یعنی عرشِ ربّ کریم پر مقام محمد یت یا مقام ختم المرسلین یا مقام خاتم النبین اس تصویر میں اور حقیقتاً بھی اتنا اعلیٰ اور ارفع مقام ہے کہ وہاں تک کوئی اور انسان

Page 113

خطبات ناصر جلد پنجم ۹۳ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء پہنچ ہی نہیں سکتا.یہی وہ مقام اور صاحب مقام ہے جس کی خاطر اس ساری کائنات کو پیدا کیا گیا ہے.حدیث قدسی لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ “اسی حقیقت کی مظہر ہے اور اسی لئے یہ وہ مقام ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت بھی ملا ہوا تھا جب آدم ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بھی خاتم النبیین تھے جب کہ آدم کا وجود مٹی میں کروٹیں لے رہا تھا.یہی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے.یہی تو آپ کا آخری مقام ہے.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِنْ رُسُلِہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رسولوں میں سے ایک رسول کہا گیا ہے.یہ وہ مقام ہے جو سورہ احزاب کی آیہ کریمہ میں وَلكِن رَّسُولَ اللہ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے جس کے بعد آپ کو خاتم النبین قرار دیا گیا ہے یعنی آپ رسول ہیں مگر ایسے رسول کہ آپ خاتم النبیین بھی ہیں اور اس لحاظ سے آپ تمام رسولوں سے منفرد ہیں.غرض ایک طرف فرما یا رسول رسول میں فرق نہیں کیا جاسکتا باوجود فضیلت کے فرق نہیں کیا جاسکتا.آخر کی فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ آیت کو لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِہ کی آیت یا آیت کے ٹکڑے نے منسوخ تو نہیں کر دیا کیونکہ قرآن کریم کی کوئی آیت کوئی فقرہ کوئی لفظ کوئی شعشہ کوئی زیر اور کوئی زبر منسوخ نہیں ہوتی اور نہ کبھی ہوئی ہے.پس فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ اپنی جگہ پر صیح اور لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ اپنی جگہ پر درست ہے.لفظ رسالت میں کوئی فرق نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رسول بھی ہیں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.رسالت کے اعتبار سے آپ میں اور آدم میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا لیکن آپ محض ایک رسول ہی نہیں بلکہ آپ خاتم النبین بھی ہیں.خاتم النبیین کے ارفع مقام کے لحاظ سے کسی اور نبی کو یہ جرات نہ ہو سکتی کہ وہ اس ارفع و اعلیٰ مقام کا دعویدار بنے.اس میں آپ منفرد ہیں.آپ کا مقام خدائے ذوالجلال کے داہنی جانب عرش رب کریم پر ہے.جسے ہم مقام محمدیت کہتے ہیں.اس معنی میں حقیقتاً آپ ایک عظیم الشان آخری نبی ہیں اور ہم علی وجہ البصیرت آپ کے آخری نبی ہونے پر ایمان لاتے ہیں وہ آخری مقام جو آپ کو معراج میں دکھایا گیا اور آپ نے اس کی جو تصویر کھینچی ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو آخری نبی مانتے ہیں.ہم تو

Page 114

خطبات ناصر جلد پنجم ۹۴ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء ایک لمحہ کے لئے بھی یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتے کہ قرآنِ کریم یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے عظیم رؤیا اور کشوف اور عظیم روحانی تجربات سے انکار کریں.اس معنی میں آپ تمام انبیاء پر فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور یہی معنی آپ پر چسپاں ہوتے ہیں.لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِه اپنی جگہ درست مگر مقام محمدیت مقام ختم نبوت جس کا سورۃ احزاب میں ذکر ہے.اس مقام محمدیت میں منفرد ہونے کے لحاظ سے آپ آخری نبی ہیں اور خاتم النبیین اور خاتم المرسلین ہیں.تاہم وہ بنیادی حقیقت جو معراج کی رات نوع انسان کو دکھائی گئی وہ کچھ اور بھی بتاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مقامِ محمد یت عرش رب کریم پر ہے اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے کوئی شخص روحانی رفعتوں کو حاصل کرتے کرتے ساتویں آسمان تک پہنچ جائے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلو میں جگہ پائے.تب بھی آپ کے آخری نبی ہونے میں کوئی خلل نہیں پڑتا کیونکہ آپ کا مقام تو بہت بلند ہے.آپ آخری مقام یعنی مقام محمد یت پر فائز ہیں اور یہ یہ مقام ہے جس کے بعد کوئی اور روحانی مقام نہیں ہے.عرشِ ربّ کریم کے بعد تو کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی.آپ اس آخری مقام پر کھڑے ہیں جہاں تک کسی کا پہنچنا ہی ناممکن ہے کسی کا آگے بڑھنا شرعاً ناممکن ہے.کسی کا آگے بڑھنا انسانی فطرت کے خلاف ہے کیونکہ فطرت کا نچوڑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور آپ کا مقام مقام محمدیت ہے عرشِ رب کریم ہے.اگر کوئی امتی آپ کی متابعت میں ساتویں آسمان پر بھی پہنچ گیا تو وہ ختم نبوت میں کیسے خلل انداز ہو گیا.ختم نبوت کا مقام ساتواں آسمان نہیں ہے بلکہ اس سے بہت بلند بہت پرے ہے اور ختم نبوت یعنی مقام محمدیت کے پرے کوئی چیز نہیں ہے عرش رب کریم کے بعد تو کوئی اور مقام نہیں ہے وہاں تک کسی کے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا نہ ہی اس سے ورے رہ کر ختم نبوت میں کوئی خلل پڑتا ہے مثلاً ہمارے سامنے پہاڑیاں ہیں.ایک شخص سب سے اونچے پتھر پر کھڑا ہے.وہاں صرف ایک آدمی ہی کھڑا ہو سکتا ہے.اب نیچے سے ایک اور شخص اوپر چڑھتا ہے اور چڑھتے چڑھتے وہ اس جگہ تو نہیں پہنچ سکتا مگر دس گزورے رہ جاتا ہے.اس کا دس گزؤرے مقام حاصل کر لینے کا یہ

Page 115

خطبات ناصر جلد پنجم ۹۵ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء مطلب تو نہیں ہوتا کہ وہ دوسرا شخص پہاڑی کے آخری اور سب سے بلند مقام پر کھڑا نہیں ہوا.پس ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں اس معنی میں جس معنی میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ہمارے محبوب اور پیارے ہیں آخری نبی سمجھنا چاہیے لیکن بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی کے باوجود کوئی شخص پہلے آسمان پر بھی نہیں جا سکتا.بعض کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ دوسرے آسمان پر بھی کوئی نہیں جا سکتا.کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں تیسرے آسمان پر بھی کوئی نہیں جا سکتا کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ چوتھے اور پانچویں آسمان پر بھی کوئی نہیں جا سکتا.اسی طرح چھٹے اور ساتویں آسمان تک بھی کوئی نہیں جاسکتا حالانکہ اگر آپ کی اُمت میں سے کوئی شخص حضرت آدم کا رتبہ اور آپ کی رفعت حاصل کر لے تو مقام محمدیت پر اس کا کیا فرق پڑا وہ تو چھ سات آسمان آپ سے نیچے ہے.اسی طرح اگر کوئی آدمی ساتویں آسمان تک پہنچ جاتا ہے (جس کی حدیث میں بھی خوشخبری دی گئی ہے ) تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے.اگر حضرت ابرہیم علیہ السلام کے مقام تک پہنچنے سے ختم نبوت پر اثر پڑتا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وجود یہ اثر ڈال چکا ہے.کسی اور کو رخنہ ڈالنے کی ضرورت نہیں لیکن فی الواقعہ یہ امر رخنہ نہیں ڈالتا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کا شمرہ ، آپ کی قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ ایک ایثار پیشہ قوم تیار ہوگئی جسے ابراہیم علیہ السلام نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے تیار کیا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ مقام پر اپنے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے کس چیز پر قربان کرنے کے لئے؟ خدا نے فرمایا تھا میرے عرش پر، میرے عرش کی رفعتوں کے حصول کے بعد میری دائیں طرف بیٹھنے والا تیری نسل میں پیدا ہونے والا ہے.اس فخر پر (جو تجھے نصیب ہو رہا ہے کہ وہ تیری نسل میں پیدا ہوگا ) اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اپنی نسل کو اس ممتاز اور منفرد شخصیت پر قربان کر دو.گو اس کی تعبیر کچھ اور تھی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام ظاہری طور پر اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.اس کی تعبیر یہ تھی اور تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل

Page 116

خطبات ناصر جلد پنجم ۹۶ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء سینکڑوں سال تک حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کی تیاری کرتی رہی ہے.عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کسی جگہ ڈی سی صاحب نے آنا ہوتا ہے.تین چار دن پہلے تیاری کی جاتی ہے.کمشنر صاحب کے لئے آٹھ دس دن پہلے اور صدرمملکت مثلاً امریکہ کا صدر نکسن ہوتو اس کے استقبال کے لئے لوگ کئی مہینے پہلے تیاری کرنا شروع کر دیتے ہیں مگر وہ عظیم ہستی جس کے مقابلہ میں جس سے ارفع کسی انسان نے پیدا نہیں ہونا تھا اس کے استقبال کے لئے صدیوں کی تیاری کی ضرورت تھی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک قوم تیار کی جانی تھی جس نے آپ کا استقبال کرنا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ اور روحانی اثرات کو قبول کرنا تھا جس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا تھا کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے اسی طرح ہم اپنی نسلوں کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر خدا تعالیٰ کی خاطر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں یہ وہ ذبح عظیم ہے جس کی وجہ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان بچ گئی اور یہی وہ ذبح عظیم ہے جس کی ہزاروں مثالیں ابتداء دور اسلام میں ملتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام اور آپ کے مشن کے دفاع میں میدان کارزار میں جو کٹی ہوئی گرد میں نظر آتی ہیں وہ ذبح عظیم کی درخشندہ مثالیں ہیں.ایک قوم کو تیار کرنے کا حکم تھا جو خدا کی راہ میں اپنی جانیں قربان کر دے ایک بچے کی جان لینے سے کام نہیں بنتا تھا چنانچہ ایک جان نثار قوم تیار ہوئی اور اس میں سے کئی بدر کے میدان میں شہید ہوئے پھر وہ جنگ اُحد میں شہید ہوئے یکے بعد دیگرے ہر جنگ میں شہید ہوتے رہے.وہ عرب کے میدانوں میں شہید ہوئے وہ ایران کے میدانوں میں شہید ہوئے وہ روم کے میدانوں میں شہید ہوئے وہ مصر کے میدانوں میں شہید ہوئے مغربی افریقہ کے میدانوں میں شہید ہوئے.وہ اسپین سے آگے نکل کر فرانس کے شمالی علاقوں میں جا نکلے.وہ روم میں جا پہنچے جو اس وقت ترکی میں شامل تھا اور پھر پولینڈ تک چلے گئے.انہوں نے اپنی جانوں کو خدا کی راہ میں قربان کرتے ہوئے زمین کو اپنے خون سے سرخ کر دیا.پس یہ ہے وہ ذبح عظیم جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے لی گئی.حضرت ابراہیم علیہ السلام

Page 117

خطبات ناصر جلد پنجم ۹۷ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء کا روحانی رفعتوں کے حصول پر ساتویں آسمان تک پہنچ جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام محمدیت میں رخنہ اندازی کرنے والا نہیں ہے بلکہ آپ کی عظیم روحانی مہمات میں مد و معاون بننے والا ہے.جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی نسل کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کیا تھا اگر اسی طرح آج بھی آپ کا کوئی روحانی فرزند ایک ایسی جماعت کو تیار کرنے کے لئے کھڑا ہو جو پہلوں کی طرح یا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کی طرح اپنی جانوں کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربان کرنے والے ہوں اور اس وجہ سے وہ شخص یعنی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرزند جلیل حضرت ابراہیم کے ساتھ ساتویں آسمان تک پہنچ جائے تو کوئی جاہل ہی یہ کہے گا کہ اس سے خاتم النبیین کے اندر رخنہ پڑ گیا اور خلل واقع ہو گیا نہ پہلے آنے والوں کے نتیجہ میں رخنہ پڑا اور نہ بعد میں آنے والے امتی اور ظلی نبی کے آنے پر خلل واقع ہوسکتا ہے.آخری نبی کا یہی وہ مقام یعنی مقام محمدیت ہے جس کی رو سے ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی سمجھتے ہیں اور ہم آپ کے اس قول پر بھی یقین رکھتے ہیں جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ دیکھو تم میں سے جو بھی تواضع اور عاجزی اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو روحانی طور پر رفعتیں عطا فرمائے گا مگر ایک وہ بھی ہوگا (إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ - ) جس کی عاجزی اور تواضع جس کی اطاعت محمد اور فنا فی محمد کا رتبہ اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہو گا.وہ عجز کے انتہائی مقام ، تواضع کے انتہائی مقام اور عشق محمدؐ کے انتہائی مقام سے سرفراز ہوگا.دراصل عجز اور انکساری عشق کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.پس جس کی یہ کیفیت ہوگی (إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ ) اس کے متعلق خدا وعدہ کرتا ہے.رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ کہ اللہ تعالیٰ اُسے ساتویں آسمان تک پہنچا دے گا اور اُسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلو میں لے جا کر کھڑا کر دیگا.پس حضرت ابراہیم علیہ السلام روحانی رفعتوں کے لحاظ سے ساتویں آسمان پر پہنچے لیکن وہ پاک وجود جس نے عرش رب کریم پر جگہ پانی تھی اور ختم نبوت سے مشرف ہونا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رفعتیں آپ کے اس مقام میں رخنہ ڈالنے والی نہیں تھیں تو آپ کا وہ فرزند جلیل جس نے

Page 118

خطبات ناصر جلد پنجم ۹۸ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء اپنی زندگی کا ہر لمحہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا اور غلبہ اسلام کے لئے جس کی تڑپ نے اور جس کے دل میں خدا اور اس کے رسول کے پیار نے اور جس کی متضرعانہ دعاؤں نے ایک ایسی قوم پیدا کی جس نے ساری دنیا کے ساتھ جنگ کو قبول کیا لیکن حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت کا رشتہ قطع نہیں کیا اس فرزند جلیل کے اس روحانی رتبہ کی وجہ سے جو ساتویں آسمان پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے ہے اس سے ختم نبوت میں کیسے خلل پڑ گیا ؟ یہ ایک سمجھنے کی بات ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کو سمجھ عطا فرمائے.باقی ہم سمجھتے ہیں کہ جو شخص یہ مسئلہ نہیں سمجھتا وہ دراصل بغض کی وجہ سے یا جہالت کے نتیجہ میں یا تعصب کی وجہ سے یا روحانی اقدار حاصل نہ کرنے کے نتیجہ میں ایسا کرتا ہے کیونکہ امت محمدیہ کے علماء دو مختلف ( علمائے ظاہر اور علمائے باطن کے ) گروہوں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں.پہلے لوگوں نے بھی ان کے متعلق یہی کہا ہے اور اب بھی یہی کہا جاسکتا ہے.ایک وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم سکھایا اور ایک وہ ہے جس نے خدا سے سیکھے ہوئے کو یاد کیا سمجھ کر اور کچھ بغیر سمجھے کے، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.میں اس وقت اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتا.بہر حال ہم بھی حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء اور آخری نبی مانتے ہیں اور اس محکم یقین پر قائم ہیں کہ کوئی شخص روحانی رفعتوں کے لحاظ سے پہلے، دوسرے، تیسرے، چوتھے ، پانچویں، چھٹے اور ساتویں آسمان تک پہنچنے کے باوجود مقام ختم نبوت میں خلل انداز نہیں ہوسکتا ساتویں آسمان پر پہنچ کر اس کا مقام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام سے نیچے مگر آپ کے قریب تر مقام ہوگا کیونکہ چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے درمیان ایک پورا ساتواں آسمان حائل ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام وہ قرب نہیں پا سکے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پایا تھا اسی واسطے ان کے دل میں جب یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس تجلی کو دیکھیں جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی تھی تو اس کے ہزارویں حصہ سے بھی تھوڑی سی جھلک کے نتیجہ میں خَرِّ مُوسى صَعِقًا (الاعراف: ۱۴۴) یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ نظارہ دکھا یا لیکن

Page 119

خطبات ناصر جلد پنجم ۹۹ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء جو شخص ساتویں آسمان پر پہنچ گیا وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ہے.آپ سے نیچے ہے بعد نہیں.جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتہائی قرب اور آپ کے قدموں کی خاک میں بیٹھنا میرے لئے فخر کا موجب ہے.وہ آپ کے احترام کے منافی کس طرح بات کرنے والا سمجھا جا سکتا ہے.وہ تو آپ کے پیار میں گم ہے اس کی روح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیوست ہے.وہ تو آپ پر ہر آن فدا ہوتا رہا اور عاجزی سے خدمتِ اسلام کے کاموں میں لگا رہا.اس کے وجود میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کار فرما رہی.اس کی قائم کردہ جماعت آج بھی اس بات پر فخر محسوس کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے اس طرح چنا جس طرح پہلے لوگوں کو چنا تھا تا کہ وہ خواب جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دکھائی گئی تھی وہ دوبارہ پوری ہو.دنیا پھر فدائیت اور جاں نثاری کے نمونے دیکھے.جس طرح پہلے اسلام معروف دنیا پر غالب آیا تھا اب پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن جاں نثاروں کی قربانیوں اور جاں شاری کے نتیجہ میں اسلام ساری معروف دنیا پر غالب آئے ساری دنیا پر.پس یہ وہ مقصد ہے جس کے لئے میں اور آپ پیدا کئے گئے ہیں باقی کسی کو مومن کہنا اور کسی کو کافر کہنا یہ دو طرح کا ہوتا ہے جس شخص نے اپنا ایمان کسی انسان مثلاً زید کے فتوے کے نتیجہ میں حاصل کیا ہو اس شخص کا ایمان اسی شخص کے کفر کے نتیجہ میں زائل ہو سکتا ہے اور ہو جانا چاہیے کیونکہ اس زید نے اس کو مومن کہا ہے.اگر زید بکر کو مومن کہتا ہے اور بکر کہتا ہے کہ مجھے چونکہ زید نے مومن کہا ہے اس لئے میں مومن ہوں.زید اگر کسی وقت بکر کو کافر کہے تو وہ کافر ہوگیا کیونکہ اس کے ایمان کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں بلکہ زید کا فتوی ہے لیکن اگر کسی شخص کو ایمان خدا سے حاصل ہوا ہو اور اس حقیقت کے بعد حاصل ہوا ہو کہ فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقُی (النجم : ۳۳) جس شخص کو خدا تعالیٰ نے مومن کہا ہے خدا کا کوئی بندہ اگر اُسے ہزار دفعہ کا فر کہے تو وہ کا فرنہیں بن جاتا کیونکہ اس نے اپنا ایمان انسان کے فتوے سے حاصل نہیں کیا.نہ کسی ”سیاسی اقتدار کی سند سے.b حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا یہ واقعہ بڑا اہم، بڑا عجیب، بڑا دلچسپ، بڑا پیارا اور بڑی بنیادی حیثیت کا حامل ہے اور وہ یہ کہ ابھی آپ کو بیعت لینے کا حکم نہیں ملا تھا کہ

Page 120

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء ہندوستان کے چوٹی کے دوسو علماء نے آپ پر کفر کا فتو ی لگایا.آپ کے گھر دوسو چوٹی کے علماء کے کفر کے فتوے تو تھے لیکن آپ کے گھر میں کوئی احمدی نہ تھا کیونکہ ابھی آپ نے بیعت لینی شروع نہیں کی تھی.ابھی آپ کو بیعت لینے کا حکم نہیں ملا تھا.پھر دیکھو وہ جو پہلے دوسو تھے اتنی سال میں ہزاروں ہو گئے بالفاظ دیگر دو سوفتوے ہزاروں فتوؤں کا رنگ تیار کر گئے مگر وہ جوا کیلا تھا جس کے ساتھ شروع میں ایک بھی احمدی نہ تھا اس کی آواز جو قرآنِ کریم کے عشق میں ڈوبی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ کے پیار سے لبریز ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی محبت میں سیچوریٹڈ (Saturated) ہے یعنی ایسی محبت جس سے زیادہ محبت ہو ہی نہیں سکتی.یہ آواز ساری دنیا میں گونج رہی ہے اور کفر کے فتوے اس کی گرد کو بھی نہیں پاسکے.وہ لوگوں کو خوابوں کے ذریعہ بتا تا ہے ان کی عقل و فراست میں ایک چمک اور نور پیدا کرتا ہے اور انہیں مسئلے سمجھ آجاتے ہیں.چنانچہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے یہ اسی چمک کا نتیجہ تھا کہ افریقہ کے ایک بہت بڑے افسر کے دل میں خیال پیدا ہوا.اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ہمارا یہ اندازہ ہے کہ دس سال تک ہمارے ملک میں احمدیوں کی اکثریت ہو جائے گی، جب اکثریت احمدیوں کی ہوگی اس وقت تم نے بیعت کی تو کیا فائدہ؟ اس واسطے تم ابھی جا کر بیعت کر لو.اب یہ کوئی عقلی دلیل تو نہیں البتہ فراست کی ایک چمک ضرور ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ میں یہ بات ڈالی اور اس نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کی.عرب کے ایک ملک میں ایک جگہ ایک شخص اپنے دوساتھیوں کے ساتھ ایک احمدی دوست سے ملا.اس احمدی دوست نے جب احمدیت کے متعلق باتیں کیں تو اس نے کہا میری بیعت لو.ہمارے اس دوست نے کہا تمہیں احمدیت کا کچھ پتہ نہیں تم نے سلسلہ کی کتابیں نہیں پڑھیں احمدیت قبول کرنے کے بعد بڑا شور مچتا ہے.راستے میں کانٹے بکھیرے جاتے ہیں یہ پھولوں کی کوئی بیج تو نہیں جس پر تم نے لیٹنا ہے اس لئے پہلے مجھ سے کتابیں لو ان کو پڑھو، سوچو اور دعائیں کرو.پھر شرح صدر کے بعد بیعت کرو.وہ کہنے لگا کہ نہیں ! میں نے ابھی بیعت کرنی ہے اور اس کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ میں ایک دوسرے ملک کا رہنے والا ہوں میرے والد کی وفات

Page 121

خطبات ناصر جلد پنجم 1+1 خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء پر کئی سال گزر چکے ہیں، میرے والد کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے اپنے لڑکوں کو بلایا اور ہمیں وصیت کی کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ امام مہدی ظاہر ہو چکا ہے میرا باپ وصیت کرتے وقت زارو قطار رو رہا تھا کہ میں بد قسمت انسان ہوں.مجھے امام مہدی کی شناخت کا شرف حاصل نہیں ہوا.مجھے ان کا پتہ نہیں لگ سکا اس لئے میں تمہیں (اپنے بیٹوں کو ) یہ وصیت کرتا ہوں کہ تم جب بھی امام مہدی کا ذکر سنو فوراً بیعت کر لینا اور ان کی جماعت میں شامل ہو جانا.اب بتاؤ کیا یہ کسی مبلغ کا کارنامہ ہے؟ نہیں ! یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو آسمانوں سے نازل ہوتے اور دلوں میں تبدیلی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں.یہ تو انشاء اللہ ہوتا چلا جائے گا تاہم خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ دین متین اسلام کی تبلیغ کرتے رہا کرو تمہیں ثواب دے دیا کروں گا یہ کام تو دراصل خدا کا ہے وہ کر رہا ہے.میں یہ بتارہا ہوں کہ دنیا جہان کے علمائے ظاہر نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند جلیل پر کفر کے فتوے لگائے مگر خدا تعالیٰ نے ان کفر کے فتوؤں کو قبول نہیں کیا اگر وہ انہیں قبول کر لیتا تو احمدیت کو مٹانے کے لئے ایک آدمی کا فتویٰ کا فی تھا پس اگر چہ احمدیت کو مٹانے کے لئے ساری دنیا اکٹھی ہو گئی.غلبہ اسلام کی مہم کو نا کام کرنے کے لئے ایک جہان جمع ہو گیا لیکن خدائے قادر و توانا کے دست قدرت سے جاری ہونے والی مہم کی راہ میں نہ دنیا کے جتھے ، نہ دنیا کے اموال اور نہ لوگوں کے فتوے روک بن سکے یہ ہم روز افزوں ترقی پر ہے.پس یہ تو صحیح ہے مگر دوست اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ اس مقصد کے لئے ہم سے قربانی کی جائے گی اور وہ ہمیں دینی پڑے گی لیکن دنیا کی کوئی طاقت غلبہ اسلام کی اس مہم کو نا کام نہیں بنا سکتی.نہیں بناسکتی.نہیں بنا سکتی.یہ تو انشاءاللہ کبھی نہیں ہوگا کیونکہ خدا اپنے وعدوں کا سچا ہے وہ اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا یہ تو پیار کا ایک عظیم سلوک ہے تاہم جہاں پیار کی تقسیم کا سوال پیدا ہوتا ہے وہاں بعض شرائط رکھی جاتی ہیں.چنانچہ خدا نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ تم قربانی دو.اپنی بساط کے مطابق ایثار دکھاؤ اور مجھ سے پیار کرو اپنی قوتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے صرف مجھ سے ڈرو کسی اور سے نہ ڈرو.چنانچہ احمدیت کے خلاف ساری دنیا اکٹھی ہوگئی مگر احمدی کہاں اور

Page 122

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۰۲ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء کس سے ڈرے؟ یہاں بھی مخالفت وہاں بھی مخالفت مگر یہاں بھی ، وہاں بھی ہر جگہ احمدیت ترقی کر رہی ہے.یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی جزائر میں بھی اور افریقہ میں بھی مشرقی افریقہ میں بھی اور مغربی افریقہ میں بھی جنوبی افریقہ میں بھی اور شمالی افریقہ میں بھی احمدیت پھیل رہی ہے.چنانچہ بعض دوستوں کے عجیب و غریب حالات سامنے آتے رہتے ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا عراق کے ایک بہت بڑے عالم اور مؤتمر عالم اسلامی کے رکن احمدی تھے لیکن بعض حالات کی وجہ سے ( قرآن کریم نے بھی بعض حالات میں اخفاء کی اجازت دی ہے ) ہمارے ساتھ اُن کا ملاپ نہیں تھا.ایک دفعہ جب وہ اپنے ملک سے باہر مؤتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں شریک ہونے کے لئے گئے تو انہوں نے مجھے بڑے پیار کا خط لکھا بالکل ایسے ہی جیسے یہاں سے مخلصین خط لکھتے ہیں حالانکہ وہ اتنی دور بیٹھے ہوئے تھے ان سے ہماری خط و کتابت بھی نہیں تھی لیکن پیار کے اظہار کے لئے معین الفاظ نہیں ہوا کرتے.پیار تو الفاظ میں سے خود پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہا ہوتا ہے.چنانچہ جب اُن کا مجھے خط ملا تو میں نے اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد کی.اسی طرح پچھلے سال کی بات ہے ایک احمدی دوست ترکی گئے ان کو ایک ترک ملا کہنے لگا آپ کا جماعت احمدیہ سے تعلق ہے.میری بوڑھی ماں احمدی ہے اور چونکہ وہ بہت بوڑھی ہو چکی ہے ہوٹل میں نہیں آسکتی.آپ وہاں گھر پر چلیں تو اسے بڑی خوشی ہوگئی.وہ بڑھیا پستہ نہیں کب سے احمدی ہے لیکن ہمیں اس کا پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کس طرح احمدی ہوئی کن حالات میں احمدی ہوئی.اُس تک احمدیت کا پیغام کیسے پہنچا ؟ میں سمجھتا ہوں اس قسم کے بوڑھے لوگ شاید درجنوں اور بھی ہوں میری خواہش ہے ہم کوشش بھی کریں گے اُن سے ملاپ ہو جائے.اللہ تعالیٰ زندگی دے.پتہ تو لگے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے احمدیت کے پیغام کو کن راہوں سے لوگوں تک لے گئے اور اس طرح ان کے دلوں میں ایک تبدیلی پیدا ہو گئی.خلاصہ کلام یہ کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اپنے مقام محمدیت میں منفرد ہیں.آپ کے سوا کسی شخص کو یہ مقام حاصل نہیں ہے.آپ خاتم النبیین ہیں اور روحانی رفعتوں کے لحاظ سے آپ آخری نبی ہیں.آپ اُس وقت سے آخری نبی ہیں جس وقت ابھی آدم کو نبوت تو کیا انہیں

Page 123

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۰۳ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء یہ مادی وجود بھی عطا نہ ہوا تھا.غرض سب نبوتیں نبوت محمدیہ کے تحت حاصل کی گئی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی نبوت کی خاطر اور اسی مقام محمدیت کی خاطر ساری کائنات کو پیدا کیا تھا اس لئے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روحانی رفعت ساتویں آسمان تک پہنچنے کے باوجود ختم نبوت کے منافی نہیں ہے اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کی روحانی رفعت پہلے آسمان تک پہنچنے کے باوجود ختم نبوت میں خلل اندازی نہیں کر رہی.حضرت رسولِ کریم صلی اللہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ میرے روحانی فرزند یعنی علمائے باطن جو مجھ سے قرآنی علوم حاصل کر کے قرآنِ کریم کی شریعت کو زندہ اور تابندہ رکھیں گے اور ہر صدی میں آتے رہیں گے.وہ بھی انہی انبیاء کی طرح ہیں جن میں سے کوئی پہلے آسمان تک پہنچا کوئی دوسرے پر کوئی تیسرے پر، کوئی چوتھے پر کوئی پانچویں پر، کوئی چھٹے پر اور ایک ایسا بھی پیدا ہوگا جو انتہائی عاجزی اور عشق کے سارے مراحل طے کرنے کے بعد اور محبت کی انتہائی رفعتوں کو پالینے کی وجہ سے ساتویں آسمان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلو میں جا پہنچے گا اور سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جگہ پائے گا.جس طرح ابراہیم علیہ السلام کی روحانی رفعت ساتویں آسمان تک پہنچنے پر ختم نبوت کے منافی نہیں پڑتی اسی طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم روحانی فرزند کی روحانی رفعت ساتویں آسمان تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام محمدیت میں کوئی رخنہ اندازی نہیں کرتی.دوسرے یہ تصویر یہ حقیقت معراج ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ کسی کی روحانی رفعتیں سات آسمانوں میں محصور ہونے کی وجہ سے مقام ختم نبوت میں کوئی خلل نہیں ڈالتیں کیونکہ وہ ارفع مقام اس کے اوپر کا مقام ہے اور ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ روحانی رفعتوں کے حصول کے لئے اپنی اپنی استعداد کے مطابق کوشش کرو.ہمیں یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ امت محمدیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا فرزند جلیل پیدا ہوگا جو ساتویں آسمان تک پہنچ جائے گا تاہم اس کا مقام حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ہے.تیسرے یہ کہ جو شخص انسان کے فتوؤں سے مومن بنتا ہے.انسان کے کفر کے فتوے اس کا

Page 124

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۰۴ خطبه جمعه ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء ایمان چھین سکتے ہیں مگر جو شخص خدا تعالیٰ کی بشارت کے مطابق ایمان حاصل کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کو پاتا ہے.خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ہستی اس کے ایمان کو چھین نہیں سکتی خواہ ساری دنیا ہی زور کیوں نہ لگائے.(روز نامه الفضل ربوه ۱۵ را پریل ۱۹۷۳ ء صفحه ۴ تا ۱۰)

Page 125

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۰۵ خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۳ء فرمائی:.بہتر مشورہ وہی ہے جو حقوق العباد کی ادائیگی اور اصلاح معاشرہ کا موجب ہو خطبه جمعه فرموده ۶ را پر میل ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیہ کریمہ کی تلاوت لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّنْ نَجُوهُهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاج بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا - (النساء : ۱۱۵) پھر حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ باہمی مشورے بنیادی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ مشورے ہیں جو انسان کی بہتری اور بھلائی اور نیکی کے لئے ہوتے ہیں.ایسے مشورے خیر پر منتج ہوتے ہیں دوسرے وہ مشورے ہیں جن کے نتیجہ میں بنیادی طور پر حقائق مختلف ہوتے ہیں اور ان سے خوشحالی پیدا نہیں ہوتی تاہم جو مشورے خیر کے ہیں اور بھلائی کے ہیں انسان کی بہتری اور خوش حالی کے ہیں ، وہ قرآنِ عظیم کے بیان کے مطابق تین قسم کے ہوتے ہیں.

Page 126

خطبات ناصر جلد پنجم 1+4 خطبہ جمعہ ۱/۶ پریل ۱۹۷۳ء ایک مشورہ وہ ہے جو صدقہ کے بارہ میں کیا جاتا ہے.عربی زبان اور قرآنی محاورہ میں اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ انسان اپنے مال کا جو اللہ تعالیٰ ہی نے اسے عطا فرمایا ہے کم از کم ایک حصہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرے چنانچہ اسلام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے دو بنیادی طریق ہیں ایک اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اور دوسرے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ عباد کے حقوق کی ادائیگی.ایک کو ہم حقوق اللہ کہتے ہیں اور دوسرے کو حقوق العباد.ان حقوق کی ادائیگی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.مال کا خرچ ہر دو طریق پر ہو سکتا ہے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے صاحب عقل و فراست بندے باہمی مشورہ کرتے ہیں حقوق اللہ کی ادائیگی کے ضمن میں اس لئے کہ مثلاً معاشرہ اخلاقی بنیادوں پر قائم ہو اس میں کوئی بداخلاقی اور گند نہ ہو مردوزن کا اختلاط اس قسم کا نہ ہو جس کے نتیجہ میں اخلاقی اور معاشرتی برائیاں پیدا ہوتی ہیں.اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.پھر اس سلسلہ میں باہمی مشورہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تعلیم دی ہے اس کو سیکھا جائے اور دوسروں کو سکھایا جائے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہترین اور اکمل ترین شریعتِ اسلامیہ عطا فرمائی ہے اس کو رائج کیا جائے.انسان کا اللہ تعالیٰ سے جو تعلق پیدا ہونا چاہیے اس تعلق کو پیدا کرنے کے لئے فضا کو ہموار اور درست کیا جائے.یہ بھی گویا حقوق اللہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں خرچ کی ایک صورت ہے.اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی پر جو خرچ ہے اس کا مقصد ا قتصادی خوشحالی پیدا کرنا ہے.اسلام میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اقتصادی طور پر جو حقوق قائم کئے ہیں ان حقوق کی ادائیگی کے لئے خدا کی راہ میں جو اموال پیش کئے جاتے ہیں ان کو خرچ کرنے کی تجاویز سوچنا اور باہمی مشورہ سے انسان کے اقتصادی حقوق کی ادائیگی کی تدابیر کو بروئے کار لانے کے لئے مناسب ذرائع اختیار کرنا، اس قسم کے سب مشورے إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ کی ذیل میں آتے ہیں.پس جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے خیر کے جو مشورے ہیں وہ تین قسم کے ہوتے ہیں پہلی قسم حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے اموال پیش کرنے اور پھر ان کو بہترین رنگ میں خرچ کرنے کی تدابیر سو چنے اور عمل کی راہیں نکالنے سے متعلق ہیں اور یہ قسم

Page 127

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۰۷ خطبہ جمعہ ۱/۶ پریل ۱۹۷۳ء الا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ کی ذیل میں آتی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.او مَعْرُوفِ یعنی خیر کا دوسرا بنیادی مشورہ معروف باتوں کے متعلق مشورہ کرنا ہے.عقل اور شرع ہر دولحاظ سے جو چیز حسن ہو ، خوبصورت ہو اور بھلی ہو اس کو عربی زبان میں معروف کہتے ہیں.جس چیز کو شرع حسن سمجھتی ہے عقل بھی اس کو صحیح سمجھے گی.اگر انسان فطرت صحیحہ کا مالک ہے تو اس کی عقل ہر شرعی حکم کو خوبصورت اور بھلا جانے گی گویا ہر شرعی معروف عقلاً بھی معروف ہوگا بشرطیکہ فطرت صحیحہ کارفرما ہو.انسانی زندگی کے بہت سے ایسے حقائق ہیں جن کے اصول تو ہمیں بتا دیئے گئے ہیں.لیکن اُن کی تفاصیل کے سمجھنے کے لئے زمان و مکان کی بدلتی ہوئی صورتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ہر زمانہ، ہر مقام اور ہر حالت کے مطابق عقل کہتی ہے کہ یہ چیز معروف ہے.یہ چیز عقل کے نزدیک.اچھی ہے.پس اگر چہ ہر دو لحاظ سے بنیاد تو مذہبی ہی ہے لیکن بعض دفعہ اسلامی شریعت پر عمل کرنے والا.اسلام کو ماننے والا یہ کہے گا کہ عقلی بھلائی کی جو باتیں سوچی گئی ہیں وہ قرآنِ کریم کی فلاں آیت یا فلاں تعلیم کی ذیل میں آتی ہیں لیکن جو دنیا دار لوگ ہیں جن کو اسلام کا کچھ پتہ نہیں یا جو مذہب سے دور ہیں ، وہ یہ کہیں گے کہ انسانی عقل ان چیزوں کو درست سمجھتی ہے اس لئے یہ درست ہے.پس اگر معروف کا مشورہ ہو تو وہ قرآن کریم کے نزدیک خیر کا مشورہ ہے لیکن جس چیز کو شریعت حقہ اور انسانی عقل اور فطرت صحیحہ حسن اور بھلا نہیں سمجھتی وہ خیر کا مشورہ نہیں ہے مثلاً ڈاکہ ڈالنا ہے یا مثلاً ملک میں فتنہ و فساد بر پا کرنا ہے یا مثلاً بغاوت کے خیالات رکھنا اور باہمی مشورہ سے بغاوت کی راہ ہموار کرنا.یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کی شرع بھی اجازت نہیں دیتی اور انسانی عقل بھی اگر وہ درست ہو اور پوری طرح تربیت یافتہ ہو اور اچھی طرح نشوونما پا چکی ہوتو وہ بھی اس قسم کی مفسدانہ روش کو غلط قرار دے گی.پھر فرما یا او اصلاح بَيْنَ النَّاسِ لوگوں کے درمیان صلح کرانا تیسری قسم کا بنیادی مشورہ ہے یہ بھی خیر اور بھلائی کا مشورہ ہے.اصلاح معاشرہ کے ذیل میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ ایسے حالات پیدا کرنا کہ باہمی اختلافات بہت کم پیدا ہوں یا جب اختلافات پیدا ہوں تو وہ فساد پر منتج

Page 128

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۰۸ نہ ہوں بلکہ انسانی معاشرہ کی اصلاح پر منتج ہوں.خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۳ء پس جو مشورے ان تین عنوانوں کے ذیل میں نہیں آتے ان کے متعلق قرآن کہتا ہے لا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّنْ تَجُوهُهُمْ ایسے مشوروں میں کوئی خیر اور بھلائی کی بات نہیں ہوتی.چنانچہ جس چیز کو سب صحیح الفطرت انسان درست سمجھیں اُسے عربی میں خیر کہتے ہیں حضرت امام راغب کو اللہ تعالیٰ نے بڑا اچھا ذہن عطا فرمایا تھا.انہوں نے مفردات میں خیر “ کے معنے یہ لکھے کہ ہمیشہ سب انسان ہی خیر سمجھیں تب وہ چیز خیر ہوگی.یہ مطلق خیر ہے یا یہ کہ چونکہ زمانہ زمانہ، قوم قوم اور ملک ملک کے حالات مختلف ہوتے ہیں اس لئے ہر زمانہ ، ہر قوم اور ہر ملک ایک چیز کو خیر سمجھتا ہے مگر دوسرے زمانہ میں وہ چیز خیر نہیں رہتی.چنانچہ انسان کی اقتصادی زندگی کے اکثر پہلو زمانہ کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں مثلاً ایک چیز جو صنعتی ترقی سے پہلے خیر سبھی جاتی تھی وہ اب خیر نہیں سمجھی جائے گی کیونکہ آئے دن نئے نئے مسائل سامنے آتے رہتے ہیں ہر قسم کے مسائل سے نپٹنے کے مشورے اور کوششیں خیر کے مشورے اور کوششیں ہوتی ہیں اور چونکہ مسائل بدلتے رہتے ہیں اس لئے زمانہ کے لحاظ سے بھی اور بدلے ہوئے مکان کے لحاظ سے بھی یہ مطلق خیر نہیں بنتی بلکہ اپنی نسبت کے لحاظ سے خیر ہے یعنی زمانہ کی نسبت ، حالات کی نسبت اور مسائل کی نسبت سے وہ خیر ہے تاہم جہاں تک بھلائی اور حسن اور اصلاح پیدا کرنے اور قرب الہی کی راہیں ڈھونڈھنے کا سوال ہے وہ پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے تین حصوں میں منقسم ہے لیکن جہاں ایسا نہیں ہوتا یعنی جہاں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر پیسے خرچ کر کے خیر کے سامان پیدا نہیں کر رہا تو ایسے مشورے لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نُّجُوهُمْ کے مصداق ہوتے ہیں.غرض ”صدقة“ کے لفظ میں حقوق العباد کی ادائیگی کے تحت اقتصادی خوشحالی مراد ہے.اس میں حقوق اللہ کی ادائیگی بھی شامل ہے گویا اموال کے خرچ کے بارہ میں مشورے کرنا صدقة کے حکم میں آتا ہے.دوسرے وہ مشورے ہیں جو حقوق العباد کی ادائیگی کے متعلق کئے جاتے ہیں.پھر خیر مطلق اور خیر نسبتی بھی ہوتی ہے ان کا آپس کا فرق اس بات سے عیاں ہو جائے گا کہ ایک وقت میں کارخانوں وغیرہ میں ہڑتالیں کرنا غیر قانونی تھا چنانچہ اس وقت جماعتِ احمد یہ

Page 129

خطبات ناصر جلد پنجم 1+9 خطبہ جمعہ ۱/۶ پریل ۱۹۷۳ء کا موقف یہ تھا کہ ہم نے ہڑتالوں میں حصہ نہیں لینا.ہڑتالوں کو قانونی تحفظ مل گیا ہے.قانون نے اجتماعی سودے بازی کی اجازت دے دی ہے اس واسطے مسئلہ بدل گیا.جب ہڑتالیں کرنا غیر قانونی فعل تھا، منع تھا اب یہ قانون کی ذیل میں آ گیا ہے تو وہ ممانعت نہیں رہی لیکن یہ تین شرائط اپنی جگہ پر قائم ہیں.اگر احمدی مزدور کسی کارخانے میں مزدوری کرتے ہوں اور اجتماعی سودے بازی کا سوال پیدا ہو تو ایک احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسا مشورہ دے جس سے اقتصادی خوشحالی پیدا ہوتی ہے.بعض دفعہ مزدور غصہ میں آکر کہتا ہے کہ کارخانے کو آگ لگا دی جائے یا مزدور سر جوڑتے اور یہ مشورہ کرتے ہیں کہ پیداوار کو تلف کر دیا جائے مثلاً ایک لاکھ روپے کا کپڑا پڑا ہے اس کو آگ لگا دی جائے تا کہ مالک کو بھی پتہ لگے کہ وہ ہمارے حقوق کیوں ادا نہیں کر رہا.یہ غصہ کا اظہار تو ضرور ہے لیکن یہ صدقہ کے اصول پر مشورہ نہیں ہے.جو مال ضائع ہو جاتا ہے اگر چہ وہ ایک لحاظ سے خرچ ہی ہے لیکن وہ ہمارے کام کا نہیں رہتا.یہ ایسا خرچ نہیں جو خدا تعالیٰ کو خوش کرنے والا ہو اور اس کی رضا کے حصول کا ذریعہ بننے والا ہو نہ یہ ایسا خرچ کہ جو حقوق العباد کی ادائیگی کی ذیل میں آتا ہو کیونکہ مال تو ضائع ہو جاتا ہے.یہ اگر چہ خرچ کے صحیح معنوں میں نہیں آتا تاہم یہ مشورہ صدقہ کی اصطلاح میں آجاتا ہے اور یہ ایسا مشورہ ہے کہ جس کے نتیجہ میں اقتصادی خوشحالی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں بلکہ اقتصادی بدحالی پیدا ہونے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے جس کی اجازت شریعت حقہ نہیں دیتی.غرض اس قسم کے مشوروں میں جو اجتماعی سودے بازی کے لئے ہوں.موجودہ حالات میں ان کی ایک حد تک اجازت بھی دی گئی ہے.یہ ایک نسبتی خیر ہے کہ اُن محنت کشوں کے حقوق صحیح معنوں میں ادا ہو جائیں.اس کے متعلق میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں اب بھی ضرورت پڑی تو قرآن کریم ہی کی روشنی میں کچھ کہوں گا.بہر حال اقتصادی خوشحالی کے لئے مشورے ہوتے ہیں لیکن اگر کسی کے مشورہ کے نتیجہ میں حقوق العباد ادا نہ ہوں یا ادا نہ ہو سکتے ہوں بلکہ ان کی ادائیگی میں روک پیدا ہو جائے مثلاً اگر

Page 130

خطبات ناصر جلد پنجم 11.خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۳ء ایک لاکھ روپے کا کپڑا موجود ہے تو حقوق العباد کی ادائیگی یعنی مزدوروں کے حقوق کی ادائیگی بہتر رنگ میں ہو سکتی ہے اگر وہ تلف ہو جائے تو اس کا نقصان ان کو بھی پہنچے گا.پس احمدی مزدور کے لئے جہاں بدلے ہوئے حالات میں اجتماعی سودے بازی کے مشوروں میں شریک ہونے کی اجازت ہے وہاں انہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ ایسے مشورے کریں جو لا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَّجُوبُهُمْ کے حکم کے ماتحت آتے ہوں.اس قسم کے مشورے کرنے کی اجازت نہیں دی گئی.اب چونکہ ملکی صنعت تو خدا کے فضل سے اور ترقی کرے گی اس میں کثرت سے احمدی مزدور اور کاریگر بھی شامل ہوں گے.مختلف ایسوسی ایشنز اور کارخانوں کی انتظامیہ میں اُن کا بھی حصہ ہوگا اس لئے احمدی دوستوں کو یہ اصول کبھی نہیں بھولنے چاہئیں ورنہ وہ احمدی کیسے رہیں گے؟ کیونکہ ایک طرف تو ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے اسلام کی تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلانا ہے اور دوسری طرف عمل یہ کہ جب کام کرنے کا موقع پیدا ہو تو ہماری روش لا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجُوهُمْ کی مصداق بن جائے.باہمی مشوروں میں بھلائی کی بجائے فساد کے طریق اختیار کرنے کے لئے آپس میں سمجھوتے کرنے کی کوشش میں لگ جائیں.قرآن کریم کسی مسلمان کو بھی اس کی اجازت نہیں دیتا.احمدیت سے باہر مسلمانوں کے جو فرقے ہیں اُن کا نہ تو عمل ایسا ہے اور نہ کوئی دعوئی اور نہ ہی اُن کو کوئی ایسی بشارت ملی ہے کہ ان کے ذریعہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کیا جائے گا لیکن ہمیں تو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ یہ بشارت دے رکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کے ذریعہ احمدیوں کو اپنا آلہ کار بنا کر اسلام کو قرآنِ کریم کی شریعت کو اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دے گا.پس موجودہ حالات میں جہاں ہمیں اجتماعی سودے بازی کے مشوروں میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی ہے وہاں ہم پر یہ ذمہ داری بھی ڈالی ہے کہ اپنے اپنے (اور اپنے سے مراد ہے جس کا زمانہ کے ساتھ کسی احمدی کا یا بہت سے احمدیوں کا تعلق ہے ) حلقہ میں خیر کے مشورے دیں.ہمارے مشورے فساد اور برائی کے مشورے نہ ہوں کیونکہ برائی خیر کی ضد ہے.مشورے

Page 131

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۳ء تو ہوتے رہتے ہیں.مشورے کے بغیر تو زندگی ہی کوئی نہیں نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے مثلاً سول انتظامیہ ہے.وہ بھی آپس میں مشورے کرتی ہے جب مسائل اکٹھے ہو جا ئیں تو علاقہ کا ڈی سی یا سپر نٹنڈنٹ پولیس اپنے ساتھیوں کو بلا کر اُن سے حالات سنتے اور ان کے متعلق مشورے لیتے ہیں لیکن ان کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا کہ مشوروں کے متعلق قرآن کریم نے کچھ بنیادی تعلیم عطا کی ہے اور وہ کیا ہے؟ مگر ہم قرآن کریم اور اس کی تعلیم کو نظر انداز نہیں کر سکتے.اُن کو تو علم نہیں کیونکہ اُن کو بتانے والا کوئی نہیں.وہ تو بد قسمت ہیں اس معنی میں کہ ان کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں مگر ہمارے لئے تو خدا تعالیٰ نے ہدایت دینے والے پیدا کر دیئے ہیں.پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے.تم میں کوئی نہ کوئی موجود رہتا ہے جو تمہیں قرآن کریم کی طرف بلاتا اور اس کی آواز تمہارے کانوں میں ڈالتا رہتا ہے.یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم قرآنی تعلیم سے فائدہ اٹھاؤ.یہ صرف سول انتظامیہ تک بات محدود نہیں اسی طرح فوجی مشورے ہوتے ہیں.اسی طرح وزراء مشورہ کرتے ہیں.اس طرح صوبوں کے باہمی مشورے ہوتے ہیں.اگر وہ اقتصادی مشورے ہیں تو اُن میں بنیادی طور پر یہ بات مد نظر رکھنی پڑتی ہے کہ ایسے پروگرام بنائے جائیں کہ جن کے ذریعہ حقوق العباد یعنی وہ اقتصادی حقوق پورے ہوں جن کا ادا کرنا اُمت محمدیہ پر فرض کیا گیا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے آپ کی یادداشت کو تازہ کرنے کے لئے ایک فقرہ کہہ دیتا ہوں کہ ہر فرد بشر کا یہ حق قائم کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مختلف طاقتیں اور استعدادیں دی ہیں اُن کی صحیح نشوونما ہو سکے اور نشوونما کے بہترین معیار پر وہ قائم رکھی جاسکیں.پس ہر اقتصادی مشورہ اگر الہی احکام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بیان کردہ حقوق العباد کی ادائیگی کا مشورہ ہے تو وہ خیر کا مشورہ ہے اگر وہ اس سے کچھ مختلف ہے تو وہ خیر کا مشورہ نہیں ہے اس لئے کسی احمدی کو ایسا مشورہ دینے کی اجازت نہیں ہے حقیقت یہ ہے اور سچی بات بھی یہی ہے کہ اگر کوئی احمدی قرآن کریم کی تعلیم کو دیدہ دانستہ اور جان بوجھ کر توڑتا ہے.تو وہ اسی وقت

Page 132

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۱۲ خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۳ء جماعت احمدیہ سے باہر نکل جاتا ہے خواہ کسی طرف سے اس کے متعلق اعلان ہو یا نہ ہو کیونکہ ہماری زندگی کا انحصار قرآن کریم پر ہے.قرآنی تعلیم پر عمل پیرا رہنا ہماری زندگی کا اولین مقصد ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق يُخي الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ کا الہام ہے.اس الہام کی رو سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وساطت سے آپ کو یہ بشارت بھی دی اور احیائے دین اور قیامِ شریعت کی بھاری ذمہ داری بھی آپ پر عائد کی گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ آپ دین کا احیاء فرمائیں گے دین کی جو باتیں لوگ بھول گئے ہیں وہ اُن کو دوبارہ یاد کرائیں گے.ویسے دین تو حی یعنی زندہ ہے اسلامی شریعت تو ابدی ہے لیکن اس پر عمل کرنے والوں پر شرعی لحاظ سے جب مرد نی چھا جاتی ہے تو احیائے دین یعنی بنی نوع انسان کو دین پر قائم کرے اور انہیں ایک نئی روحانی زندگی دینے کے لئے کسی آسمانی وجود کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ اسی غرض کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی ہے یعنی شریعت حقہ اسلامیہ کو قائم کرنے کے لئے آپ کو مبعوث کیا گیا ہے یہ وہ عظیم الشان فریضہ ہے جس کو سر انجام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مہدی معہود علیہ السلام کو مرسل بنا کر اس دنیا میں بنی نوع انسان کی طرف بھیجا ہے.پس ان واضح ہدایات کے باوجود اگر کوئی احمدی ایسا نہیں کرتا تو وہ احمدیت سے نکل جاتا ہے لیکن اگر وہ بے جانے بوجھے ایسا نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اُس کے کانوں میں یہ باتیں بار بار نہیں ڈالیں اس صورت میں اس کی غلط روش کے ذمہ دار ہم ٹھہرتے ہیں.مجھ پر یہ ذمہ داری آتی ہے.جماعت کے عہدیداروں پر ذمہ داری آتی ہے.شاہدین مربیان پر ذمہ داری آتی ہے.صرف عہد یداران یا مربیان کا سوال نہیں بلکہ تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة: ۳) کی رو سے ہر ایک احمدی پر اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ہم سب پر یہ ذمہ داری عقلاً اور شرعا معروف باتوں کے متعلق ہے.غرض قرآنِ کریم ایک بڑی عظیم اور حسین شریعت ہے.مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ دین اور دُنیا کی باتیں شرعاً معروف ہی ہو سکتی ہیں اور منکر کے دائرہ کے اندر بھی آسکتی ہیں مگر جو

Page 133

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۱۳ خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۳ء لوگ اُمت محمدیہ سے وابستہ نہیں قرآن کریم نے اُن کو یہ کہا کہ دیکھو! قرآنِ کریم پر تو تم ایمان نہیں لاتے اور اس کو واجب العمل شریعت نہیں سمجھتے لیکن ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ بے شک شریعتِ اسلامیہ پر تمہارا ایمان نہیں ہے لیکن تم خود کو چونکہ صاحب عقل و فراست سمجھتے ہو اس لئے ہم تمہیں یہ نصیحت کرتے ہیں کہ جو چیز انسانی عقل اور فراست اور فطرتِ صحیحہ کے نزدیک معروف نہیں اس کے متعلق اگر تم مشورہ کرو گے تو دنیا میں فساد پیدا ہوگا اور اس قسم کے مشوروں میں کوئی خیر نہیں ہوگی اور اگر تم اپنی عقل کے مطابق اپنی فطرت صحیحہ کے مطابق جس چیز کو اچھا اور حسین سمجھتے ہو اور اُسے بھلا پاتے ہو اگر اُسے قائم کرنے اور اس کے پھیلانے کے لئے تم باہمی مشورے کرو گے تو خود تمہاری عقل یہ کہے گی کہ اچھی بات ہے.ایسے ہی مشورے ہونے چائیں.اس لئے اگر چہ تم مسلمان نہیں ہو تب بھی ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ عقلاً معروف کے مطابق مشورے کرو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو عقل عطا فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اُس نے ہر ایک شخص کو عقل دی ہے اور فطرت صحیحہ پر پیدا کیا ہے وہی تمہیں یہ بھی کہتا ہے کہ گو آج تم شریعت اسلامیہ سے غافل اور اس کے مضامین سے جاہل ہو یہ تو درست ہے لیکن تم نے اپنی فطرت صحیحہ کو تو خیر بادنہیں کہا وہ تو تمہارے وجود کا تمہاری شخصیت کا ایک حصہ ہے.اس لئے ہم تمہیں یہ مشورہ دیتے ہیں کہ تمہارے آپس کے مشورے معروف طریق پر ہونے چاہئیں.پچھلے دنوں کا واقعہ ہے آپ میں سے اکثر دوستوں کو یاد ہوگا کہ ہزاروں میل کا چکر کاٹ کر ایک قوم پاکستانی ساحلوں کے قریب مچھلیاں پکڑنے کے لئے آگئی.اب انسانی عقل اس بات کو معروف نہیں سمجھے گی کہ کوئی اتنی دور سے آکر پاکستانی ساحلوں کے نزدیک مچھلیاں پکڑ کر لے جائے جو پاکستان کے ماہی گیروں کی غذا اور ان کی اقتصادی خوشحالی کا ذریعہ ہے.کوئی انسانی فطرت اور کوئی انسانی عقل اس کو صحیح نہیں سمجھے گی مگر جنہوں نے مچھلیاں پکڑنے والے سمندری جہاز بھیجنے کی تجویز کی اور سر جوڑ کر مشورہ کیا اور اندازے لگائے کہ اتنے لمبے سفر اور خرچ کے باوجود وہاں سے ہمیں اتنی مچھلی ملے گی اور وہ ہمیں مہنگی نہیں پڑے گی.ایسے لوگوں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے عقل کے ایک تقاضے کو پورا کیا اور وہ یہ کہ تم نے مشورہ کیا لیکن تم نے عقل کے

Page 134

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۱۴ خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۳ء دوسرے اور بنیادی تقاضے پورے نہیں کئے اس لئے کہ تم نے جو مشورہ کیا تھا وہ معروف نہیں تھا، وہ اچھا نہیں تھا ، وہ بھلائی کا نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں تھا...بنی نوع انسان کے اس حصہ کو جس کا اُمت محمدیہ سے تعلق نہیں یہ یاد دلا کر کتنا احسان کیا کہ دیکھو! جو چیز عقلاً اور فطرتاً معروف ہے اگر تم اس کے خلاف کرو گے تو ایسا مشورہ فساد، دُکھ اور تکلیف کا موجب ہوگا اور اُس حد تک تم عقلاً بھی خالق فطرتِ انسانی کی گرفت میں ہو گے اور اس کی سزا تمہیں بھگتنی پڑے گی.پھر فرمایا اور اصلاح بَيْنَ النَّاسِ اگر تم کہو معاشرہ کی اصلاح مد نظر ہے تو اس میں بھی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں میں ان کو مختصر بیان کر دیتا ہوں.ایک دنیوی لحاظ سے اصلاح بَيْنَ النَّاسِ ہے اور دوسری شرعی لحاظ سے ہے ویسے تو اسلام دین فطرت ہے.اس کے سارے احکام فطرت کے کسی نہ کسی پہلو کو نمایاں کرتے اور اسے مقناطیس کی طرح اپنی طرف جذب کرتے ہیں مگر جس شخص کی فطرت مسخ ہو جاتی ہے اس کی حالت اس مقناطیسی لوہے کی سی ہے جو خراب ہو جا تا ہے اور اس کے اندر جذب کی طاقت نہیں رہتی.پس یہ تو درست ہے لیکن بعض ایسے مشورے ہوتے ہیں جن کا لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ انسانی فطرت اور اسلامی شریعت کے مطالبہ سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں کیونکہ اُن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر جہاں تک دنیوی لحاظ سے معاشرہ کی اصلاح کا تعلق ہے کوئی انسانی عقل مثلاً نا انصافی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی.اس کے لئے ایک مسلمان ہونا یا اس کے لئے عالم قرآن ہونا یا اس کے لئے تفقہ فی الدین ہونا ضروری نہیں.ہر وہ انسان جو فطرتِ صحیحہ پر قائم ہے وہ نا انصافی کو اور حق تلفی کو ٹھیک نہیں سمجھتا.یہاں تک کہ ایک چور جو اپنے ایک بد عمل میں اپنی فطرت کو بھول چکا ہوتا ہے اس کی چوری کا مال بھی اگر کوئی دوسرا آدمی اٹھالے تو وہ شور مچا دیتا ہے کہ یہ کیا نا انصافی ہے کہ کوئی میری چیزیں اٹھا کر لے گیا حالانکہ اگر یہ نا انصافی ہے تو خود اس کا دوسرے کی چیز کو چرا لینا اور چھینا بدرجہ اولی نا انصافی ہے.لیکن ایک پہلو سے چونکہ اس کا نفس اور اس کا وجود ( جس میں عقل سمجھ اور فراست سب کچھ آجاتا ہے ) اتنا کمزور ہے کہ وہ دوسرے شخص کے مال کو

Page 135

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۱۵ خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۳ء اٹھانے میں ذرا بھی عار نہیں سمجھتا اور اپنی فطرت کے خلاف نہیں پاتا لیکن وہی چوری کا مال جب کوئی دوسرا چور اٹھا لیتا ہے تو شور مچادیتا ہے کہ یہ کیا ہو گیا یہ تو انصاف کے خلاف ہے.چنانچہ وہ اس سے جا کر لڑتا ہے اور اسے مارنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.پس اصلاح بین الناس یعنی معاشرہ کی جو اصلاح ہے یا انسان کے جو باہمی تعلقات ہیں (انسان انسان میں بڑے وسیع اور گہرے تعلقات ہیں) ان کو فلاح کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے.فساد کی بنیاد پر قائم نہیں ہونا چاہیے.غرض قرآنِ کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی مشورے اچھے اور بھلے اور بہتر ہیں جو تین مختلف قسم کی باتوں کے متعلق ہوں.ایک یہ کہ اقتصادی خوشحالی کے سامان پیدا کرنے والے ہوں.حقوق العباد کی ادائیگی سے ان کا تعلق ہو، اُن میں فساد کا کوئی شائبہ نہ ہو دوسرے روحانی طور پر مشورے ہیں.میں اس سلسلہ میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جو شخص مال لینے والا ہے اس کے جسمانی اور مادی حقوق ہیں مثلاً اس کی طاقتوں اور استعدادوں کی نشو ونما ہونے والی تھی اس کے لئے کچھ چیزیں درکار تھیں جن کے بغیر اس کی نشو و نما نہیں ہو سکتی تھی چنانچہ اس کی نشو ونما کے لئے سازگار حالات پیدا کئے گئے اور جو دینے والا ہے، وہ بھی صدقہ کے اندر آجاتا ہے ہاں اس کے وجود کے بہت سارے روحانی پہلو جو کمزور تھے ان کی کمزوری دور ہوگئی گویا ایک طرف بڑے نمایاں طور پر یہ ایک اقتصادی مسئلہ ہے اور دوسری طرف یہ ایک بڑا گہرا روحانی مسئلہ ہے.تمہارے اموال میں دوسروں کا جو حق ہے اگر وہ تم ادا نہیں کرو گے تو اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم روحانی برکات سے محروم ہو جاؤ گے.تیسرے، إِصْلَاح بَيْنَ النَّاسِ “ کی رُو سے تمہارے آپس کے تعلقات ہیں.ان میں سے بعض کے اوپر دنیا کے اصول چلتے اور بعض پر روحانی اصول بھی چلتے ہیں گویا معاشرہ کو دونوں قسم کے مسائل درپیش ہوتے ہیں.جن کو ایک مسلمان اسلامی تعلیم کی روشنی میں اور غیر مسلم محض انسانی عقل اور فراست اور فطرت صحیحہ کی روشنی میں حل کرے گا.موخر الذکر صورت میں گو کئی مسئلہ کا حل تو کسی حد تک مل جائے گا لیکن جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں جو مشورہ بھی مذکورہ تین بنیادی اصول کے خلاف ہوتا ہے وہ خیر کی بجائے فساد اور بُرائی کو پیدا کرنے والا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے مشورے کی اجازت نہیں دیتا.

Page 136

خطبات ناصر جلد پنجم 117 خطبہ جمعہ ۶ را پریل ۱۹۷۳ء جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میں پہلے بتا چکا ہوں کہ جو شخص مذکورہ اصول کو یاد نہیں رکھتا اور ان کی خلاف ورزی کر کے دنیا میں اقتصادی حقوق کو پامال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ عملاً جماعت احمدیہ سے نکل جاتا ہے.خواہ اس کے اوپر نظام جماعت نے کوئی جرم عائد کیا یا نہ کیا اور اس کو سزادی یا نہ دی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ بہر حال احمدی نہیں رہتا.پس یہ بڑے فکر کی بات ہے اور ہر وقت بیدار رہ کر اپنی زندگیوں کو اسلام کے بتائے ہوئے اصول پر ڈھالنے کا سوال ہے.کسی شخص کو ایسے مشوروں میں شامل نہیں ہونا چاہیے جو موجب فساد ہوں ورنہ ہم وہ مقصد حاصل نہیں کر سکتے جس کے حصول کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے اور جس کی خاطر اس کے اندر اتنا جذبہ پیدا کیا گیا کہ وہ آج ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کی توفیق ملے تا کہ تمام بنی نوع انسان اسلام کے اُس حسین معاشرہ کا حصہ بن جائیں جسے اللہ تعالیٰ مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ بنی نوع انسان کی خاطر دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ / جون ۱۹۷۳ ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 137

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۱۷ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ء ملک دستور باہمی تعلقات کو متعین کرنے اور مستحکم کر دینے کا ذریعہ ہوتا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه تشہد وتعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.گذشتہ ربع صدی میں پاکستان کو بہت سی پریشانیوں میں سے گذرنا پڑا.قیام پاکستان کے ایک سال بعد بائی پاکستان قائد اعظم کی وفات ہو گئی.ان کے ذہن میں پاکستان کے لئے جو دستور تھا وہ قوم کو نہ دے سکے.پھر ملک کو بعض دوسری پریشانیوں کا منہ دیکھنا پڑا.پھر مارشل لاء لگا ، جس کے متعلق بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی ذمہ داری فوج پر ہے اور یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے لیکن اس کی اصل ذمہ داری تو ان لوگوں پر عاید ہوتی ہے جنہوں نے اس قسم کے حالات پیدا کر دیئے کہ فوج کو مارشل لاء لگانا پڑا.بہر حال مارشل لاء کا زمانہ بھی پریشانیوں پر منتج ہوا.اس کی تفصیل میں جانے کا نہ یہ وقت ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے.مارشل لاء کے زمانہ میں بھی کچھ قوانین تو ہوتے ہیں جن کے تحت حکومت کی جاتی ہے.تا ہم ان قوانین کا دستور نہ کہا جاتا ہے، نہ سمجھا جاتا ہے اور نہ حقیقہ ایسا ہوتا ہے.اس لحاظ سے قوم گو یا دستور کے میدان میں پچھلے ۲۵ سال بھٹکتی رہی ہے.چنانچہ ایک لمبے عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ قوم کو ایک دستور مل گیا.ہم خوش ہیں اور ہمارے دل

Page 138

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۱۸ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ء اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہیں کہ ہماری اس سر زمین کو جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے منتخب فرمایا ہے اس میں بسنے والی اس عظیم قوم کو اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ وہ اپنے لئے ایک دستور بنائے.جہاں تک دستور یا کانسٹی ٹیوشن کی تیاری کا سوال ہے، یہ کسی الہامی کتاب کی طرح تو نہیں ہوتا اسے قرآن عظیم کا مقام تو حاصل نہیں ہوتا کیونکہ قرآن عظیم ایک ایسی الہامی کتاب ہے جس کی کوئی آیت، کوئی لفظ اور کوئی شعشہ منسوخ نہیں ہو سکتا.بدلا نہیں جا سکتا مگر دستوران بنیادی قوانین پر مشتمل ہوتا ہے جسے قوم کے چند نمائندے تیار کرتے ہیں اور وہ قوم اور ملک کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد بنتا ہے.گویا یہ ایک کھونٹا ہوتا ہے جس کے گرد قوم سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے گھومتی ہے اس سے قبل نہ یہ کھونٹا تھا، نہ کوئی معین حدود تھیں جن کے اندر رہ کر قوم نے ارتقائی حرکت کرتے ہوئے اپنے مقدر کو پانا اور اپنی منزل مقصود تک پہنچنا تھا.چونکہ سیاسی اور معاشرتی ترقی کی کوئی بنیاد موجود نہیں تھی اس لئے ساری قوم ادھر ادھر بھٹک رہی تھی.اب اسے ایک بنیا دل گئی ہے.ایک دستور بن گیا ہے.سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے قومی ترقی کی حدود معین کر دی گئی ہیں.بہر حال قوم بجا طور پر خوش ہے کہ اسے ایک دستور مل گیا ہے.ہم بھی بڑے خوش ہیں یہ خوشی منانے کا ہفتہ ہے اس لئے ہم بھی خوشی منا رہے ہیں.چراغاں کر رہے ہیں.یہ دعائیں کرنے کے ایام ہیں.ہم بھی دعائیں کر رہے اور کرتے رہیں گے یہ ایسا موقع ہے کہ جماعت کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اس دستور کو قوم کے لئے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی مہم کے لئے بہت ہی با برکت کرے.ہر دستور چونکہ انسان کا بنایا ہوا ہوتا ہے اس لئے یہ سمجھنا غلط ہے کہ اس کے اندر کوئی خامی یا کوئی کمزوری نہیں یا اس میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں.ہر انسانی کام کے اندر انسانی کمزوریاں تھوڑی یا بہت ضرور ہوتی ہیں.اس لئے دنیا کا کوئی دستور ایسا نہیں ہے جس میں ترمیم کی ضرورت نہ پڑی ہو اور ترمیم کی ضرورت دو وجوہات کی بنا پر پیدا ہوتی ہے ایک اس وجہ سے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ حالات بدل جاتے ہیں.سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے بعض نئے تقاضے

Page 139

خطبات ناصر جلد پنجم ١١٩ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ء پیدا ہو جاتے ہیں.ان تقاضوں کا ایک حصہ دستور کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اس واسطے دستور میں لازماً ترمیم کرنی پڑتی ہے دوسرے احساس خامی ترمیم دستور کا باعث بنتا ہے.گو دستور کے نفاذ پر ابھی لمبا عرصہ نہیں گذرا ہوتا.حالات ابھی بدلے نہیں ہوتے لیکن سیاسی اقتدار رکھنے والوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ دستور میں فلاں جگہ فلاں کمی رہ گئی ہے.وہ دور ہونی چاہیے چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے اس دستور کے آخری مراحل میں بھی کچھ قوانین جو بن چکے تھے ان میں حکومت نے دستوریہ کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ فلاں حصوں میں خامیاں نظر آتی ہیں.بعض لفظی خامیاں ہیں بعض بنیادی خامیاں رہ گئی ہیں.ان کو دور کرنا ضروری ہے.چنانچہ دوبارہ بحث و تمحیص کے بعد متعلقہ خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی.یہ تو وہ خامیاں تھیں جن کے متعلق بحث کے دوران ہی احساس پیدا ہو گیا لیکن ان بہت ساری خامیوں کے متعلق تو کچھ نہیں کہا جاسکتا جو موجود تو ہوسکتی ہیں اور ہیں لیکن ان کے متعلق تبدیلی کا احساس پیدا نہیں ہوا.کل، پرسوں، اگلے ماہ، دو چار مہینے بعد یا سال کے بعد احساس پیدا ہو گا کہ فلاں شق میں غلطی رہ گئی ہے.وہ دور ہونی چاہیے.بہر حال یہ ایسی باتیں ہیں جو قوم کے سامنے آتی رہیں گی اور وہ ان کی اصلاح کرے گی.ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اگر اور جو غلطیاں یا خامیاں اس وقت دستور کے الفاظ میں یا اس کے مضمون میں رہ گئی ہیں.قبل اس کے کہ کوئی خرابی رونما ہو اور قوم کو نقصان پہنچے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قوم کو ان خرابیوں کے دور کرنے کی جلد از جلد تو فیق عطا فرمائے.در اصل یہ تو سب کا سانجھا کام ہے.جس کسی شخص کو بھی کوئی غلطی نظر آئے گی وہ اس کی نشاندہی کرے گا تا کہ اصلاح ہو جائے.باقی جو لوگ برسراقتدار ہوتے ہیں ، ان کی سمجھ میں اگر کوئی بات نہ آئے اور اس وجہ سے وہ اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہوں تو بھی حسن ظن سے کام لینا چاہیے اور کہ دینا چاہیے کہ ہماری بات تو ٹھیک ہے لیکن حزب اقتدار کو سمجھ نہیں آئی.بدظنی بہر حال نہیں کرنی چاہیے.دستور باہمی تعلقات کو متعین کرنے اور مستحکم کر دینے کا ذریعہ ہوتا ہے مثلاً ایک شکل وفاقی دستور ہے جس میں وفاقی یونٹوں (جن کو ہم اپنے ملک کے لحاظ سے صوبے کہتے ہیں ) کے

Page 140

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۲۰ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ء اختیارات اور ان کے آپس کے تعلقات اور مرکز کے ساتھ ان کے روابط کو آئینی شکل دی جاتی ہے.پھر جس طرح علاقے علاقے کے تعلقات قائم ہوتے ہیں اسی طرح سارے افراد کے باہمی تعلقات بھی بہت سے پہلوؤں سے قائم کئے جاتے ہیں.مثلاً قانون کی حکومت ہے.یہ دستور کا کام ہے کہ وہ یہ کہے کہ کوئی قانون ایسا نہیں بنایا جائے گا جو گروہ، گروہ کے درمیان افتراق اور تمیز پیدا کرنے والا ہو.قانون کی حکومت سب پر یکساں ہوگی.قانون کا تحفظ سب کو حاصل ہوگا.اس حد تک اس کا تعلق دستور سے ہے اس سے آگے مقننہ کا کام ہے وہ اپنا کام کرتی رہتی ہے.اب باہمی تعلقات کے استوار کرنے میں بھی بعض دفعہ غلطیاں ہو جاتی ہیں.چنانچہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے جہاں ہمیں کوئی کمزوری یا خامی نظر آرہی ہے یا جہاں ہمیں تو کوئی کمزوری یا خامی نظر نہیں آرہی مگر خدا تعالیٰ کے علم میں وہ موجود ہے تو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قوم کو اس قسم کی ساری کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ اللہ تعالیٰ نے اس خطہ زمین پر رہائش رکھنے والے لوگوں کے لئے جو ترقیات مقدر کی ہیں وہ ان کے حصہ میں آئیں.قوم نے ایک لمبا عرصہ پریشانیوں میں گذارا ہے.خدا کرے اب اسے اس قسم کی یا کوئی دوسری پریشانیاں دیکھنی نہ پڑیں.اس سلسلہ میں ایک دو باتیں کہنا چاہتا ہوں.گوان کا بلا واسطہ دستور کے ساتھ تعلق نہیں لیکن ان کا اظہار ضروری ہے.اسلام نے بنیادی طور پر دو حقوق قائم کئے ہیں.ایک کو ہم حقوق اللہ کہتے ہیں اور دوسرے کو حقوق العباد.قرآنِ کریم نے حقوق اللہ کو کھول کر بیان کر دیا ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان حقوق کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے.پھر اب اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں ہمیں بتایا ہے کہ حقوق اللہ کیا ہیں.ان کی دائیگی سے کیا مراد لی جاتی ہے.یہ ایک بہت لمبا مضمون ہے.دراصل ساری دنیا اسی مضمون سے تعلق رکھتی ہے.تاہم اس مضمون کی بعض باتیں یہ ہیں کہ انسان اپنے وجود، اپنی قوتوں اور استعدادوں کے متعلق یہ یقین رکھتا ہو کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.مزید برآں خدا تعالیٰ کی اطاعت کی

Page 141

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۲۱ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ء جائے.اس کی فرمانبرداری کی جائے.اس کی صفات کا ملہ کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالا جائے.اللہ تعالیٰ کی ذات با برکات پر توکل اور بھروسہ رکھا جائے.غیر اللہ کو کچھ نہ سمجھا جائے.خدا تعالیٰ کے سوا ہر چیز کو ایک مُردہ کیڑا اور لاشے محض سمجھا جائے.نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے عمل سے اور اپنی فکر سے اور اپنے خیالات کے لحاظ سے غیر اللہ کوکوئی چیز نہ سمجھا جائے.خواہ وہ غیر اللہ دنیا کی ساری حکومتیں ہی کیوں نہ ہوں یا خود اقوام متحدہ ہی کیوں نہ ہو ( اقوام متحدہ میں دنیا کی قریباً ساری حکومتوں کے نمائندوں کا اجتماع ہوتا ہے) اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کا کوئی ملک، دنیا کی کوئی جماعت ، دنیا کی کوئی قوم اور دنیا کا کوئی دماغ کچھ حقیقت ہی نہیں رکھتا خدا کے مقابلے میں ہر چیز لاشے محض ہے.یہ ہے حقیقی تو حید اور یہ ہے حقیقی توحید کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا حق دا کرنا.اللہ تعالیٰ کو واقعہ اور حقیقتا واحد ویگا نہ سمجھنا تو حید ہے اس کے قبضہ اقتدار میں یہ ساری مخلوق ہے.سب پر اسی کا حکم چلتا ہے.تاہم ہمیں غلط قسم کے جو کام نظر آتے ہیں مثلاً بعض ملکوں میں جہاں لوگ دہر یہ ہیں وہاں غلط قسم کے کام کئے جا رہے ہیں.آئندہ نسلوں کو خدا سے روز بروز دور کیا جا رہا ہے.لیکن یہ اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ ممالک خدا تعالیٰ کے خلاف بغاوت میں کامیاب ہو گئے ہیں یا ہو جائیں گے بلکہ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان کی دنیا بنایا ہے اور خدا نے یہ اجازت دی ہے کہ اگر چاہو تو تم باغی بن سکتے ہو.قرآنِ عظیم کہتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو سب کو مسلمان بنا دیتا.اگر خدا تعالیٰ اپنا حکم چلاتا اور جبر أسب کو ایمان پر قائم کر دیتا اپنی قوت کا ملہ کا اس رنگ میں مظاہرہ کرتا تو پھر کون کا فر اور کون شیطان؟ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانی ترقیات کی خاطر یہ اجازت دی کہ چاہے تو ایک محدود دائرہ کے اندر خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو اختیار کرے اورس کی رضا کی جنتوں کو پالے اور اگر چاہے تو خدا تعالیٰ سے بغاوت کرے اور اس بغاوت کے نتیجہ میں وہ خدا سے دور ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی جہنم کا مورد بن جائے.پس جو چیز ہمیں بظاہر بغاوت نظر آتی ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے اختیار کے

Page 142

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۲۲ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ء نتیجہ میں ہے، ورنہ کوئی مخلوق ایسی نہیں اور نہ کوئی ہستی ایسی ہے جو یہ کہے کہ میں اپنے زورِ بازو سے کوئی کام کر سکتا ہوں یا الہی منصوبوں کو ناکام بنا سکتا ہوں.ہم نے خدا کے متعلق ، خلق اور پیدائش کے متعلق ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے متعلق جو کچھ سنا ، دیکھا اور پایا ہے اور جس کا عرفان اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے طفیل عطا فرمایا ہے اس کی رُو سے کسی انسان کا از خود کسی کام کی طاقت ناممکن ہے اگر انسانی کام میں اللہ تعالیٰ کی اجازت یا مشیت کارفرما ہوتی ہے.شاید کوئی پاگل ہی یہ کہہ دے تو کہہ دے کہ میرے فلاں کام میں اللہ تعالیٰ کو اختیار نہیں ہے ورنہ کوئی عقل مند آدمی تو اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا.میں سمجھتا ہوں کسی پاگل کے دماغ میں بھی یہ خبیثانہ عقیدہ نہیں آسکتا کہ خدا کی مشیت سے باہر رہ کر انسان کوئی کر سکتا ہے.تاہم بعض لوگ توحید کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور بعض نہیں سمجھتے یہ اور بات ہے.پس حقوق اللہ کی ادائیگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کو کچھ نہ سمجھے.ہر خیر کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو جانے اور غیر اللہ کو خواہ وہ دنیوی لحاظ سے کتنی ہی طاقتور ہستی کیوں نہ ہو لاشے محض سمجھے.گویا غیر اللہ کو ایک مُردہ کیڑے سے بھی کم تر سمجھے.کیونکہ مردہ کیڑا بھی تو آخر کچھ شے ہے.چھوٹی سی چیز سہی اور بے جان ساذرہ سہی مگر ایک شے تو ہے ہم نے خود کو اس سے بھی کم تر سمجھنا ہے.یہ ہے حقوق اللہ اور ان کی ادائیگی کی اصل حقیقت جسے ہر وقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے.دوسرے حقوق العباد ہیں اور ان کی ادائیگی ہے.اس کے متعلق میں ایک بنیادی بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ اچھے سمجھ دار لوگ بھی بہک جاتے ہیں.حقوق العباد کے متعلق بنیادی طور پر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے بنی نوع انسان سے ہمدردی کرنا ان سے مخلصانہ محبت و پیار کرنا اور ان سے حسن سلوک کرنا ضروری ہے.بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی یہ ایک بنیادی حقیقت ہے جس کے ذریعہ بنی نوع انسان کے دل جیتے جاسکتے ہیں.یہ ہماری ذمہ داری ہے.اس ذمہ داری کو باہنا ہمارا فرض ہے.انسانی خدمت بہت ضروری ہے تا کہ ہر بندہ خدا اپنی خدا داد طاقتوں کی صحیح نشو و نما کر سکے اور چونکہ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم : ۳۱) کی رُو سے اسلام دین فطرت ہے.اس لئے فطرت کی صحیح

Page 143

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۲۳ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ء نشوو نما کے نتیجہ میں اسلام کی طرف لے آئیں.پس یہ ایک بنیادی حقیقت ہے.بنی نوع انسان سے للہی محبت و پیار اور ان کی مخلصانہ خدمت کے نتیجہ میں ان کا دل جیتا جا سکتا ہے.اس میں ان کا اپنا فائدہ بھی ہے.جب ہم بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے کہتے ہیں تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق قائم ہو جائے.لیکن اگر اپنی مخلصانہ کوشش اور ہمدردانہ رویہ سے کسی کا دل عارضی طور پر جیت نہ سکیں تو کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں کا جو بنیادی حق قائم کیا گیا ہے وہ بدل جائے گا.وہ بہر حال اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے.آپ نے جس شخص کے ساتھ اس کے مخالفانہ رویڈ کے باوجود اس کی بھلائی کے لئے مخلصانہ پیار کیا اس کا رد عمل وہ نہیں ہو سکتا جو آپ چاہتے ہیں.تب ہی آپ نے مخلصانہ پیار کیا.کسی ایک کوشش کی ناکامی کوشش کو چھوڑ دینے کی دلیل نہیں بن سکتی اس لئے کسی احمدی کا یہ کہنا کہ ہم ایک دفعہ ناکام ہو گئے اس لئے ہم کوشش ہی نہیں کریں گے یا ہم ایک سو ایک دفعہ نا کام ہو گئے اب ہم کوشش نہیں کریں گے یا ہم ایک ہزار ایک دفعہ ناکام ہو گئے اب ہم کوشش نہیں کریں گے یا ایک لاکھ ایک دفعہ ناکام ہو گئے اب ہم کوشش نہیں کریں گے، درست نہیں ہے.ہم نے ساری عمر مخلصانہ محبت و پیار اور محسن سلوک اور ہمدردی کے ساتھ بنی نوع انسان کے دلوں کو خدا تعالیٰ کی خاطر جیتنے کی کوشش کرتے چلے جانا ہے.اس کوشش کی انفرادی انتہا ایک فرد کی موت ہے.جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو وہ دار الا بتلا سے باہر نکل جاتا ہے اس جہان سے باہر جا کر جزا وسزا کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر اس پر اس دنیا کی ذمہ داریاں ختم ہو جاتی ہیں.لیکن جب تک انسان زندہ ہے اس کو خدا کا یہی حکم ہے کہ جس کے ساتھ تو میری خاطر مخلصانہ پیار اور محبت کرتا ہے، جس کے ساتھ تو میری رضا کے حصول کے لئے ہمدردی رکھتا ہے.جس کے ساتھ تو میری خوشنودی حاصل کرنے کے لئے محسن سلوک کرتا ہے.اگر وہ اس سارے پیار کے باوجود تجھے دھتکار دیتا ہے اور تجھ سے دشمنی رکھتا ہے یا تیری بے لوث خدمت کی قدر نہیں کرتا تو پھر اگر تو نے یہ سب کچھ میری خاطر کیا ہے تو اس کی بے قدری کی پرواہ کیوں کرتا ہے تو یہ کام کئے جا اس کے صلے میں تجھے میری رضا اور پیار ملتا رہے گا.لیکن میں نے حقوق العباد کی ادائیگی کے متعلق

Page 144

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۲۴ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ء ایک بنیادی حکم دے رکھا ہے تو نے اس کو نہیں بھولنا.ہم اللہ کی توفیق سے اور اسی کے فضل سے ہمیشہ ہی محسن سلوک کرتے ہیں.ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے ہیں جو ساری عمر ہمیں گالیاں دیتے رہتے ہیں، چنانچہ بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہماری سرشت ہی کچھ ایسی بنائی ہے کہ اگر کوئی شخص قادیان میں آئے اور صبح و شام ہمیں گالیاں دیتا ر ہے تب بھی ہمارے چہرہ پر کدورت کے آثار نہیں پیدا ہوں گے.ظاہر ہے جس شخص نے خدا تعالیٰ کے لئے کام کرنا ہوتا ہے، بندوں کا رد عمل اس کے کام میں رکاوٹ نہیں بن سکتا.مگر جس شخص نے خدا کے لئے کام نہیں کرنا ہوتا وہ تو آج بھی مارا گیا اور کل بھی مارا گیا.ایسا شخص تو پھر ظلمات کی دنیا میں رہنے والا ٹھہرا.پس جماعتِ احمدیہ کے ہر فرد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم نے کسی سے حسن سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ دشمنی کی.اگر ہم نے کسی سے محبت و پیار کا سلوک کیا اور اس نے ہم سے نفرت کا اظہار کیا.اگر ہم نے کسی سے ہمدردی کے تعلقات قائم کرنا چاہے اور اس نے دشمنی کے طریقوں کو اختیار کیا تو اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے اس بنیادی حکم میں کہ میرے بندوں سے پیار کرو، پیار کرو اور پیار کرو اور میرے لئے ان کے دلوں کو جیتو.اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی.یہ حکم تو اپنی جگہ پر قائم ہے.یوں بھی اس دنیا میں آج ایک بات ہوتی ہے کل دوسری رونما ہو جاتی ہے زمانہ کے حالات بدلتے رہتے ہیں.اگر کوئی شخص ہمارے خلاف حرکت کرتا ہے تو ہمارے دل میں اس کے لئے رحم پیدا ہوتا ہے اور دل سے اس کے لئے دعائیں نکلتی ہیں.ہمیں اپنی کوئی فکر نہیں ہوتی کیونکہ خدائے قادر و توانا ہمارا مونس و مددگار ہے.بڑا عجیب واقعہ ہے.کہنے والے نے یہ کہا خانہ کعبہ کا جو مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا.میرے تو اونٹ گم ہو گئے ہیں.مجھے تو ان کی تلاش ہے.اس میں ایک بنیادی حقیقت بیان کی گئی ہے.چار پانچ دن ہوئے کسی نے اس قسم کی کوئی بات مجھ سے کی ( گوانسان پریشان تو ہوتا ہے لیکن کسی احمدی کو اپنا مقام نہیں چھوڑ نا چاہیے ) چنانچہ میں نے ہنس کر کہا تعبیر رویا میں خانہ کعبہ کی تعبیر امام وقت ہے.میں نے کہا خانہ کعبہ کا مالک خانہ کعبہ کی حفاظت کے سامان آپ کرے گا.ہمیں تو ان اونٹوں کی فکر ہے.ہمیں تو اس

Page 145

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۲۵ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ء ملک میں بسنے والے لوگوں کی فکر ہے کہ کہیں ان کے لئے شر کے سامان نہ پیدا ہو جا ئیں اس واسطے نہ گھبرانے کی کوئی وجہ ہے اور نہ بہکنے کی کوئی بات.خدا تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ میرے بندوں سے حسن سلوک کرتے چلے جاؤ.میرے بندوں سے ہمیشہ ہمدردی رکھو.میرے بندوں کے دل کو مخلصانہ محبت اور پیار سے میری خاطر جیتو.حقوق العباد کے سلسلہ میں یہ ایک بنیادی حکم ہے.اللہ تعالیٰ کے حکم بدلا نہیں کرتے.دنیا کے حالات بدلتے رہتے ہیں.اس لئے یہ بنیادی حکم بھی نہیں بدلے گا.نہ پہلے بدلا ہے اور نہ اب بدلے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے محدود رنگ میں ، محمد ودطریقے پر اور محدودزاویوں سے ہمیں یہی نظر آتا ہے گو یہ منظر اتنا روشن نہیں کیونکہ آفتاب رسالت ابھی تک طلوع نہیں ہوا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ، آپ کی پاک زندگی کی کوئی مثال نہیں ملتی.آپ کی زندگی سے بنیادی طور پر یہی مترشح ہوتا ہے کہ آپ نے ہر ایک آدمی کا دل پیار اور محبت سے جیتنے کی کوشش کی.آپ کی مکی زندگی مظلومانہ زندگی تھی ، دکھوں کی زندگی تھی.غیر اللہ کی پرستش کرنے والوں نے آپ کی بہت مخالفت کی.اس کے باوجود آپ اس حقیقت کو نہیں بھولے اور اپنے صحابہ سے بھی یہی فرمایا تمہیں محبت اور پیار کرنے کا حکم ہے.تمہیں لوگوں سے دشمنیاں رکھنے کا حکم نہیں ہے جن لوگوں نے آپ اور آپ کے صحابہ کو اڑھائی سال تک شعب ابی طالب میں بھوکا رکھ کر مارنے کی کوشش کی تھی.آپ ان کی چند دن کی بھوک برداشت نہیں کر سکے.چنانچہ جب مکہ میں قحط پڑا تو آپ نے ان کے لئے کھانے کا انتظام کیا.اب دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا یہ کتنا حسین پہلو ہے کہ اڑھائی سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ تک جن لوگوں نے آپ کو بھو کا مارنے کی کوشش کی تھی ، آپ نے ان کی ایک دن کی بھوک برداشت نہیں کر سکے اور جتنی جلدی ممکن ہو سکتا تھا ان کی بھوک کو دور کرنے کے لئے خوراک کا انتظام فرمایا یہ ایک عظیم مثال ہے.اس قسم کی مثال دنیا کی تاریخ میں اس میں کہیں نظر نہیں آتی.آپ کے صحابہ نے بھی کسی سے دشمنی نہیں کی.وہ دنیا میں پھیلے.ایک طرف ترکی سے آگے پولینڈ تک چلے گئے ، دوسری طرف پین سے نکل کر فرانس کے اندر چلے گئے.ادھر صحرا کو عبور کر کے مغربی افریقہ کے ساحلوں تک پہنچ گئے.جزائر میں پہنچ گئے.سمندر کی موجیں ان کا

Page 146

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۲۶ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ء راستہ نہ روک سکیں اور نہ صحرا اور پہاڑ ان کے راستے کی روک بنے.وہ پہاڑوں کو پھلانگتے ہوئے صحراؤں میں دوڑتے ہوئے اور سمندروں میں تیرتے ہوئے دور دراز ملکوں میں پہنچ گئے.وہ اپنے ساتھ ہر جگہ بنی نوع انسان کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محبت اور پیار کا پیغام لے کر گئے اور ہر جگہ کامیاب رہے.چنانچہ دنیا کی تاریخ، بنی نوع انسان کی تاریخ ، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس وقت کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پیار اور محبت کبھی نا کام نہیں ہوئی.نفرت اور دشمنی ہی ناکام ہوتی رہی ہے.خدا کا یہ قانون ہے آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں آخر کا ر محبت کامیاب ہوگی اورنفرت اور دشمنی نا کام ہوگی.غرض جن لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے محبت کو قائم کیا ہے ان کی ناکامی کا تصور در اصل بنی نوع انسان کی تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہے.ہمیں یہ ساری باتیں ہر وقت پیش نظر رکھنی چاہیے.ہمیں بنی نوع انسان سے ہمدردی کرنے کا حکم ہے ہمیں اس مقام پر کھڑا کیا گیا ہے جہاں انسانی تاریخ میں ناکامی کی کوئی مثال نہیں ملتی.اسی واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے.جس کی سرشت میں بنی نوع انسان کے لئے محبت اور پیار کا خمیر ہوتا ہے اس کی سرشت میں ناکامی کا خمیر ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ محبت اور پیار کبھی نا کام نہیں ہوئے ، اس لئے جس قسم کے حالات بھی ہوں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے.بعض دفعہ اکا دُکا دوست یا بعض بچے یا بعض دوست جو نئے نئے جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور ہماری روایات کو پوری طرح نہیں سمجھتے وہ گھبرا جاتے ہیں.جو دوست اپنی روایات سے واقف ہیں ان کو یہ کہنے کی مجھے اس لئے ضرورت نہیں کہ وہ ان باتوں کو جانتے ہیں.طور پر پس حالات خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہوں تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے.تمہیں بنیادی ا گیا ہے کہ محبت اور پیار اور ہمدردی سے بنی نوع انسان کا دل اپنے رب اور حضرت محمد رسول اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتو.یہ ایک بنیادی حکم ہے اس کو کبھی نہ بھولو.ہمیں خدا تعالیٰ نے بشارتیں دی ہیں کہ اسلام کو احمدیت کے ذریعہ عالمگیر غلبہ نصیب ہوگا.لیکن اس کے علاوہ عقلی

Page 147

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۲۷ خطبه جمعه ۱۳ را پریل ۱۹۷۳ء دلیل یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ ہمیں کوئی مثال نہیں بتاتی جہاں محبت اور پیار نا کام ہوا ہو اور نفرت اور دشمنی کامیاب ہوئی ہو.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں حقائق زندگی اور حقائق پیدائش عالمین سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان تمام برکات کا ہمیں بھی وارث بنائے جنہیں صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل کیا تھا.اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں کو بھی خوشحال اور مسرور بنادے.谢谢谢 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 148

Page 149

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۲۹ خطبه جمعه ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء مالی سال کے اختتام تک جماعتوں کو اپنا بجٹ پورا کرنے کے لئے انتہائی کوشش کرنی چاہیے خطبه جمعه فرموده ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.صدر انجمن احمد یہ پاکستان کا مالی سال ختم ہونے کو ہے.سال رواں کا بجٹ پورا کرنے میں قریباً تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں ( صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے مالی سال مختلف تاریخوں میں ختم ہوتے ہیں ) اس لئے اب انتہائی کوشش اور جد و جہد اور پوری لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے..چند روز ہوئے میں نے جماعتوں کے امراء اور مربی صاحبان کی طرف خطوط بھی بھجوائے تھے کہ وہ بجٹ پورا کرنے کی طرف توجہ دیں.بجٹ بہر حال پورا ہونا چاہیے نہ صرف پورا ہونا چاہیے بلکہ حسب روایات سابقہ بجٹ سے زائد رقم وصول ہونی چاہیے کیونکہ مومن کا قدم پیچھے نہیں ہٹتا ہمیشہ آگے ہی بڑھتا ہے.چندوں کی کچھ رقوم تو بعض جائز مجبوریوں کی وجہ سے یا بعض غفلتوں اور سستیوں کے نتیجہ میں مالی سال کے آخری دنوں تک رکی رہتی ہیں چنانچہ ہر سال ان دنوں میں نسبتاً بہت زیادہ رقوم مرکز کو وصول ہو جاتی ہیں.

Page 150

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۳۰ خطبه جمعه ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء میں نے اس سے قبل بھی ذمہ دار اصحاب کو توجہ دلائی تھی کہ احباب جماعت پر مالی بوجھ سارے سال پر پھیلا کر ڈالا کریں تا کہ بعض دوستوں کو چندوں کی ادائیگی میں کوفت اور تکلیف نہ ہو لیکن جس طرح بعض احباب غفلت برتتے ہیں اسی طرح بعض عہدیدار بھی سارا سال پوری تند ہی سے کا م نہیں کرتے.سال کے آخر میں اپنے بجٹ کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ بعض جماعتیں ایسی بھی رہی ہیں اور اس سال بھی ہیں جو وقت سے پہلے اپنا بجٹ پورا کر دیتی ہیں ( میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کیونکہ میں مختصر سا خطبہ دینا چاہتا ہوں) اور اب ایسی جماعتیں یہ کوشش کر رہی ہیں کہ سات یا دس یا بارہ فی صد اپنے بجٹ سے زائد قربانیاں دے کر اور ایثار دکھا کر محبت الہیہ کا اظہار کریں اور غلبہ اسلام کی اس مہم کے ساتھ اپنے تعلق کو نمایاں سے نمایاں تر ثابت کریں چنانچہ ایک جماعت جس کا سالانہ بجٹ تین ساڑھے تین لاکھ روپے کا تھا وہ اپنا یہ بجٹ پورا کر چکی ہے اور اب کوشش کر رہی ہے کہ ۴۰.۵۰ ہزار روپے زائد جمع کر لے.اس قسم کی کئی اور جماعتیں بھی میرے علم میں ہیں ( لیکن اگر میں نے ان کے نام لینے شروع کئے تو بات لمبی ہو جائے گی ) پھر بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں جو عام طور پر سال کے آخر میں اپنا بجٹ پورا کر دیتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اکثر جماعتیں ایسی ہی ہوں گی البتہ بعض جماعتیں ایسی بھی ہیں کہ جو کبھی بھی اپنا بجٹ پورا نہیں کرتیں.وہ سوئی رہتی ہیں اس حد تک کہ آخری وقت میں بیداری کے باوجود ان کی کوششوں کا وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو نکلنا چاہیے.ایسی جماعتوں کو بار بار توجہ دلائی گئی ہے لیکن بعض جماعتوں کو کاغذی گھوڑے دوڑانے کی عادت پڑ گئی ہے اور بعض ایسے عہد یدار بھی ہیں کہ ان کو مثلاً پہلی ششماہی گزرنے کے بعد جب ناظر بیت المال کا خط جاتا ہے کہ اس ششماہی میں یعنی پچھلے چھ ماہ کے بجٹ کے مطابق اتنی وصولی ہونی چاہیے تھی مگر اس کے مقابلہ میں مثلاً چھ مہینے کا بجٹ اگر سو روپے ہے تو وصولی ستر فیصد ہے اس لئے توجہ دیں تو ان کو جواب یہ آتا ہے اور عہد یدار یہ سمجھتا ہے کہ اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ آپ کا خط ملا.میں نے اس کی نقول مختلف حلقوں میں بھجوادی ہیں.اگر حلقوں میں خط بھیجوانے ہوتے تو یہاں سے ان کو براہ راست بھجوائے

Page 151

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۳۱ خطبه جمعه ۲۰ ۱٫ پریل ۱۹۷۳ء جا سکتے تھے نقلیں کرنے کی زحمت نہ دی جاتی.پس ایسی جماعتوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ بیدار ہو جائیں اور ایسی جماعتوں کے احباب کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ یا تو ذمہ دار عہدیداروں کو بیدار کریں یا پھر ایسے عہد یداروں کو جماعتی کاموں سے فارغ کر دیں.ان بیچاروں کے کندھوں پر دوست ایسا بوجھ کیوں ڈالتے ہیں جس کو وہ اٹھا ہی نہیں سکتے اور وہ بھی کیوں یہ خواہش رکھتے ہیں کہ آئندہ سال بھی اس قسم کا بوجھ ان کے کندھوں پر ڈال دیا جائے جس کے متعلق ان کو علم ہوتا ہے کہ وہ اس کو اٹھا نہیں سکتے.میں سمجھتا ہوں کہ ایک آدمی کے کندھوں پر ایسا بوجھ ڈال دینا جسے وہ اٹھا نہیں سکتا، ظلم ہے.جب پچھلے دس پندرہ سال سے تجربہ ہو رہا ہے کہ کچھ لوگ اس بوجھ کو نہیں اٹھا ر ہے یا نہیں اٹھا سکتے تو پھر ان پر جماعتی کاموں کا بوجھ ڈال دینا زیادتی ہے.یہ حرکت تو اگر کسی گدھے کے ساتھ کی جائے تب بھی انسان اسے ظلم سمجھتا ہے.انسان کو تو اللہ تعالیٰ نے گدھے سے بدرجہا بہتر بنایا ہے بشرطیکہ وہ اپنے مقام کو سمجھے.پس جو سلوک آپ ایک گدھے سے کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے وہ ایک انسان سے کیوں کرتے ہیں اور بار بار اس کی طاقت سے زیادہ اس کے کندھوں پر بوجھ کیوں ڈال دیتے ہیں؟ آپ اسے کیوں عہد یدار منتخب کر لیتے ہیں اور جماعتی ذمہ داریاں اس کے سپرد کر دیتے ہیں؟ ایسے شخص کو عہد یدار منتخب کرنا عزت افزائی نہیں اور نہ اس کا احترام مقصود ہے بلکہ اس پر یہ ظلم ہے کہ اس کے کندھوں پر ایک ایسا بوجھ ڈال دیا جائے جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا.پس ایسی جماعتیں بھی ہیں جو اپنا بجٹ پورا نہیں کرتیں گو تھوڑی ہیں لیکن ہیں ضرور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.تاہم اکثریت ایسی جماعتوں کی ہے جو اپنا اپنا بجٹ پورا کر دیتی ہیں.میرے خیال میں ۹۹۹۹۹ احمدی دوست ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی غافل تو ہو جاتا ہے.اسے اونگھ تو آ جاتی ہے لیکن نیند نہیں آتی اگر ایسے دوست کو وقت پر اس اونگھ سے بیدار کر دیا جائے تو وہ بشاشت کے ساتھ مالی قربانیوں میں حصہ لینے لگتا ہے ہماری جماعت صرف مالی قربانی نہیں دے رہی بلکہ وقت کی قربانی بھی دے رہی ہے.جب ہم مالی قربانیوں کی یاددہانی کراتے ہیں کہ بعض غیر لوگ اور جماعت کے اندر منافق یہ کہتے ہیں کہ دیکھو چندے دینے کی بات کر دی ہے حالانکہ

Page 152

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۳۲ خطبہ جمعہ ۲۰ ۱٫ پریل ۱۹۷۳ء چندہ تو ہماری کوششوں کا شاید ہزارواں حصہ ہوگا.ہم صرف چندے کی تحریک نہیں کرتے بلکہ ہم اپنے دوستوں سے یہ بھی کہتے ہیں کہ غلبہ اسلام کے لئے دعائیں کرو.اب دعا کرنا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے دعا کے لئے ذہن کو تیار کرنا پڑتا ہے.دعا کے لئے وقت کا انتخاب کرنا پڑتا ہے دعا کے لئے دنیوی جذبات کو قربان کرنا پڑتا ہے دعا کے لئے دنیوی آراموں کو چھوڑ نا پڑتا ہے.غرض بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے تب دعا صحیح معنی میں دعا ہوتی ہے.پس پیسے دینا تو آسان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس کو جتنا دیا ہے اس کا سولہواں یا اگر موصی ہے تو عام طور پر دسواں حصہ دیا جاتا ہے یا بعض موصی صاحبان پانچواں حصہ بھی دیتے ہیں بعض تیسرا حصہ بھی دے دیتے ہیں لیکن عام طور پر موصی دسواں حصہ دیتے ہیں لیکن جو اوقات کی قربانی مختلف رنگوں میں جماعت لے رہی ہے.جماعت سے اور افراد جماعت سے وہ ۲۴ گھنٹے کے ایک دن میں نسبتاً بہت زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ ہی نے فرمایا ہے کہ رات کا ایک تہائی حصہ دعاؤں میں اور خدا تعالیٰ کی یاد میں اور اس کی حمد میں اور اس کے احسانوں کا شکر یہ ادا کرنے میں خرچ کیا کرو اور اسی طرح دن کے وقت بھی ایک مومن تو صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک بیداری کے اوقات میں اتنا ذکر الہی کرتا ہے کہ خدا کے فرشتے کہتے ہیں کہ اس کی نیند کے اوقات کو بھی ذکر الہی میں شمار کر لو کیونکہ اگر یہ اس وقت بھی اپنے ہوش میں ہوتا یعنی نیند نہ آئی ہوتی اور خدا تعالیٰ نے اسے آرام کرنے کا حکم نہ دیا ہوتا تو یہ اس وقت کو بھی ذکر الہی میں گزار رہا ہوتا کیونکہ مومن تو دنیا کے سارے دھندے کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی یاد کو نہیں بھلاتا.اسلام ایک ایسا عظیم اور حسین مذہب ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی دوسری ظاہری ذمہ داریوں کو چھوڑ کر ہی ذکر الہی کی تلقین نہیں فرمائی.گو ہم بعض مواقع پر دنیوی مصروفیات کو چھوڑ کر بھی ذکر الہی کرتے ہیں مثلاً ہم سب کام چھوڑ کر یہاں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں.قرآن کریم نے کہا ہے کہ جب تمہیں نماز جمعہ کے لئے بلایا جائے تو ہر قسم کی بیع وشراء کو چھوڑ دیا کرو.میں نے آج نماز جمعہ کے لئے آتے ہوئے محسوس کیا ہے کہ بعض دوست اس ہدایت کی

Page 153

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۳۳ خطبه جمعه ۱٫۲۰ پریل ۱۹۷۳ء پابندی نہیں کرتے کیونکہ آذان کے قریباً ۵۰-۵۵ منٹ کے بعد بھی جب میں گول بازار سے گزر رہا تھا تو بعض دکانداروں کے متعلق شبہ ہے کہ انہوں نے بارہ بجے آذان ہونے کے ساتھ ہی دکان بند نہیں کی یہ طریق غلط ہے.قرآن کریم کا حکم ہے کہ جس وقت جمعہ کی پہلی اذان ہو تو اس وقت دکانیں بند کر دی جائیں اس لئے میں احباب جماعت سے کہتا ہوں کہ تمہارے اندر یہ ارج (Urge ) ہونی چاہیے تمہارے اندر یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ ہم خدا تعالیٰ کے ہر حکم کی پوری طرح پیروی کریں گے اور بشاشت کے ساتھ کریں گے اس لئے جس وقت اذان کا وقت ہو جائے اس وقت خواہ آپ کے کان میں اذان کی آواز پہنچے یانہ پہنچے اپنی دکانیں بند کر دیا کرو.اب جب تک دوست یہاں ٹھہریں گے دنیا کے دوسرے کام تو نہیں کریں گے خدا کی باتیں سنیں گے خدا کا ذکر کریں گے اس وقت گویا ہمارے جسم اور روح کی ساری قوتیں عبادت الہی میں لگی ہوتی ہیں.غرض کچھ تو اس قسم کی عبادتیں ہیں لیکن ایک وہ عبادت ہے کہ آپ کے ساتھ جو دنیا کی ذمہ داری وابستہ ہے اسے ادا کرنا ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح یہ کہا گیا تھا کہ جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو.پس جس شخص نے اس آواز کو سن کر جو قیصر کا تھا وہ قیصر کو دیا اس نے بھی گویا عبادت ہی کی کیونکہ اس نے خدا کا حکم مانا غرض جو ذمہ داری ہاتھوں سے تعلق رکھتی ہے اور حقوق العباد سے جس کا تعلق ہے اس ذمہ داری کی ادائیگی کے وقت بظاہر دنیا کے کاموں میں پوری طرح مشغول اور پوری مہارت کے ساتھ بہتر نتائج نکالنے کی کوشش میں مصروف ایک مومن انسان کا دل بھی ہر وقت خدا کی یاد اور اس کی حمد سے معمور رہتا ہے یہ بھی عبادت ہی ہے.اس کے مقابلہ میں مالی عبادت تو بڑی معمولی چیز ہے.ہم زیادہ زور اس بات پر دیتے ہیں کہ احباب اسلامی تعلیم کے پیرو اور خدا تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں رنگین ہو جا ئیں چنانچہ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں موصی کے لئے دسویں حصہ کی شرط لگائی ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ جس شخص کا معیار زندگی اسلامی نہیں اور وہ اپنے اخلاق میں ایک عام مسلمان سے بلند نہیں اگر وہ اپنے

Page 154

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۳۴ خطبه جمعه ۲۰ ۱٫ پریل ۱۹۷۳ء مال کا تیسرا حصہ بھی وصیت میں دے دے تب بھی عند اللہ موصی نہیں رہے گا.اس کی بہت ساری مثالیں ہیں کئی ایسے لوگ بھی ہیں کہ جب ان میں سے کسی کی وصیت کسی خلاف شریعت فعل کے نتیجہ میں منسوخ ہو جاتی ہے تو وہ لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ انہوں نے مثلاً پانچ سو یادو ہزار یا پانچ ہزار روپے وصیت کا چندہ دیا ہے وہ انہیں واپس کر دیا جائے.چنانچہ ایسی صورت میں صدر انجمن احمدیہ نے ( میں بھی بطور صدر.صدر انجمن احمد یہ کام کرتا رہا ہوں ) یہ طریق اختیار کر رکھا ہے کہ ہم ان کو کہتے تو یہی ہیں کہ تمہارا قانونا کوئی حق نہیں ہے تم جو دے چکے ہو وہ دے چکے ہو لیکن ہماری طبیعت یہ گوارا نہیں کرتی کہ تمہارے جیسے آدمی کا پیسہ ہمارے اموال کے اندر باقی رہے اس لئے تمہارا پیسہ واپس کر رہے ہیں وگرنہ دنیا کا کوئی قانون تمہیں وہ پیسہ واپس نہیں دلا سکتا لیکن جماعت احمدیہ کی جو روح ہے یعنی جو حقیقی اسلامی روح ہے وہ یہ برداشت نہیں کرتی کہ ایک شخص اسلام کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرے اور شریعت اسلامیہ کا باغی بھی ہو اور اس کا پیسہ ہمارے مال میں ملا ہوا ہو.اس لئے ہم کہتے ہیں کہ لے جاؤ اپنا پیسہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے.اس کے نتیجہ میں جماعت غریب تو نہیں ہو گئی پانچ سات سال میری خلافت کا مختصر زمانہ ہے اس میں جماعت کی مالی قربانی کہیں سے کہیں پہنچ گئی خدا تعالیٰ نے بہت زیادہ دیا وہ اب بھی دیتا ہے اور دیتا چلا جاتا ہے.اس کے خزانے تو کبھی خالی نہیں ہوتے.غرض جہاں تک جماعت کی مالی قربانیوں کا تعلق ہے اس کا ایک حصہ ہم وصیت کی شکل میں یا چندہ عام کی صورت میں ادا کرتے ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ۹۹۹۹۹ ایسے افرادِ جماعت ہیں کہ جب ان میں چند لوگ غفلت کر جائیں گے تو ذکر “ کے الہی حکم کے ماتحت جب ان کو یاد دہانی کرائی جائے گی تو وہ بیدار ہوں گے اور اپنے اپنے حصہ کا بجٹ پورا کر دیں گے.پچھلے سال بھی جب اسی طرح آخری دنوں میں بعض جماعتوں کو اپنے اپنے بجٹ پورے کرنے کی تحریک کی گئی تو ہمارے ایک زمیندار دوست جنہوں نے اپنے چندہ کی ادائیگی میں سستی دکھائی تھی جب میری آواز الفضل کے ذریعے یا کسی مبلغ کے ذریعہ ان کے کان تک پہنچی تو انہوں

Page 155

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۳۵ خطبه جمعه ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء نے اپنے گھر کا جائزہ لیا اور جب انہیں اپنے سارے سال کا چندہ ادا کرنے کی اور کوئی صورت نظر نہ آئی تو انہوں نے اپنی ایک بڑی اچھی بھینس فروخت کر کے سارا چندہ ادا کر دیا.یہی ایک مثالی روح ہے جو جماعت میں پائی جاتی ہے.اسی روح کی بدولت جماعت خدا تعالیٰ کے احکام کی بشاشت سے پیروی کرتی ہے اور غلبہ اسلام کی مہم میں اپنا سب کچھ قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتی تا ہم کبھی ستی ہو جاتی ہے.یہ تو درست ہے کیونکہ انسان کے ساتھ یہ چیزیں لگی ہوئی ہیں لیکن بعض منافق بھی ہوتے ہیں بعض کمزور ایمان بھی ہوتے ہیں.لاکھ میں سے ایک ہوگا یا دس لا کھ میں سے ایک ہوگا بہر حال ہم نے ان کو بھی بیدار کرنا اور ان کی تربیت کرنی ہے.جہاں تک جماعت کے عہدیدار کا تعلق ہے اگر کوئی شخص عہدیدار بننے کے بعد اپنے عہدہ کی ذمہ داریوں کو نباہتا نہیں تو جماعت اگر اسے پھر اگلے سال کے لئے عہد یدار منتخب کر لیتی ہے تو یہ اس پر ظلم کے مترادف ہے.تم اس بیچارے کو کیوں گنہگار کرتے ہو؟ پس جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے مالی قربانیوں کے لحاظ سے جماعتیں تین قسم کی ہیں ایک وہ ہیں جو آج سے پندرہ دن پہلے مجھے یہ اطلاع بھجوا چکی ہیں کہ انہوں نے اپنا بجٹ پورا کر دیا ہے اور اب اپنے بجٹ سے زائد وصولی کرنے کی کوشش کر رہی ہیں دوسری وہ جماعتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ وہ اپنے حصہ کا بجٹ وقت کے اندر پورا کر دیں گی اور تیسری وہ جماعتیں ہیں جو ہمیشہ ہی اپنا بجٹ پورا نہیں کر سکتیں دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ایسی جماعتوں کی حالت پر بھی رحم فرمائے.بہر حال یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہماری جماعت مخلصین اسلام کی جماعت ہے اس لئے اس کے اندر کوئی شیطانی کمزوری نہیں پائی جاتی مخلصین کی یہ جماعت ہمیشہ کوشش کرتی ہے اور جیسا کہ فرمانے والے نے فرمایا ہے ہر سال ان کا قدم آگے بڑھے پیچھے نہ ہے.چنانچہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ جماعت روز افزوں ترقی پر ہے لیکن کچھ افراد کمزور ہوتے ہیں ان کی تربیت کی طرف توجہ دینا ضروری ہے.پس گو مالی سال کے ختم ہونے میں بہت تھوڑ اوقت رہ گیا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ پورا ہو جائے گا تاہم جماعتوں کو چاہیے کہ وہ کوشش کریں کہ اپنے اپنے

Page 156

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۳۶ خطبه جمعه ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء بجٹ سے جتنا آگے نکل سکیں نکلیں انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی طور پر بھی یعنی چھوٹی بڑی دیہاتی اور شہری جماعتوں کے لحاظ سے بھی.باقی جماعت احمدیہ کی یہ جو اجتماعی زندگی ہے اس میں تو بہر حال آگے نکلنا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی توفیق سے کیونکہ اسی پر ہمارا تو گل.اور وہی ہمارا سہارا ہے.مالی امور کا ذکر کرنے کے بعد حضور نے فرمایا.ہے دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ احباب جماعت ربوہ نے بڑی ہمت کے ساتھ اور بڑی بشاشت کے ساتھ وقار عمل کے اس کام میں حصہ لیا ہے جو ان کے سپرد کیا گیا تھا.مطبع کی کھدائی کا کام قریب قریباً ختم ہو گیا ہے.چند آخری مراحل رہ گئے ہیں یعنی جہاں کہیں دیوار ٹیڑھی ہے یا آگے کو نکلی ہوئی ہے اس کی درستی کا کام رہ گیا ہے اور یہ بھی انشاء اللہ ایک دو دن میں مکمل ہو جائے گا.یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے سرانجام پایا ہے اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کی حمد بھی کرتے ہیں اور شکر کے جذبات سے اپنے دلوں کو معمور بھی پاتے ہیں.جہاں احباب نے اس کام میں بڑے شوق سے حصہ لیا ہے وہاں ایک کمزور پہلو بھی سامنے آیا ہے.بعض افراد اور بعض محلے کام میں ست بھی رہے ہیں اور بہانوں کی تلاش میں بھی رہے ہیں جوسست تو ہوتا ہے مگر شرمندہ بھی ہوتا ہے وہ اس سے زیادہ بہتر ہوتا ہے جو سستی دکھاتا ہے اور پھر بہانے ڈھونڈتا ہے.خدام الاحمدیہ کے صحت جسمانی کے منتظم کو چاہیے کہ وہ مجھے تفصیلی رپورٹ دیں اور ان لوگوں کی نشاندہی کریں جو اس کام میں ست اور بہانے کرتے رہے ہیں تا کہ میں ان کی اصلاح کی کوشش کروں.یہ کام بڑا محنت طلب تھا.احباب نے خدا کے فضل سے بڑی محنت کر کے اسے مکمل کیا ہے حالانکہ کچھ دنوں سے گرمی بھی زیادہ ہو گئی ہے.ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں (اطفال) نے اپنے علیحدہ بھی وقار عمل کئے اور بڑوں کے ساتھ مل کر بھی کئے اللہ تعالیٰ ان سب کو اسلام اور جماعت کا جن بنائے رکھے.پھر جو بڑے ہیں خدام ہیں یا انصار ہیں ( بعض انصار بڑی ہمت سے کام کرنے والے ہیں) سب نے اس کام میں نہایت گرمجوشی سے حصہ لیا ہے.اللہ تعالیٰ سب

Page 157

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۳۷ خطبه جمعه ۱٫۲۰ پریل ۱۹۷۳ء کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے سستی دکھائی ہے خدا کرے ان کی سستیاں دور ہو جا ئیں.دوست یہ بھی دعا کریں کہ یہ کام جو شروع ہوا ہے اور بڑی برکتوں سے شروع ہوا ہے.جس کے لئے ہزاروں آدمیوں نے گھنٹوں کام کر کے پریس کے تہ خانے کی کھدائی کی ہے اللہ تعالیٰ اس پریس کو جماعت کے لئے اور اسلام کے لئے اور بنی نوع انسان کے لئے با برکت کرے.اس پریس کے قیام کا مقصد قرآن کریم کی عالمگیر اشاعت ہے.خدا کرے کہ ہمارا یہ مقصد ہمارے تخیل اور تصور سے بڑھ کر پورا ہو.خدا تعالیٰ اپنی حکمت کا ملہ سے جماعت احمدیہ کو قرآنِ کریم کے انوار ساری دنیا میں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے.تیسرے میں ایک اور دعا کی طرف بھی جماعت کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں.میر داؤ داحمد صاحب جو جامعہ احمدیہ کے پرنسپل بھی ہیں اور کئی سالوں سے جلسہ سالانہ کے افسر اعلیٰ بھی ہیں اور ناظر خدمت درویشاں بھی ہیں ، وہ کچھ عرصہ سے بہت بیمار چلے آرہے ہیں کل شام تو حالت بہت تشویشناک ہوگئی تھی.خود انہوں نے ہی کہا کہ مجھے سورہ یسین سناؤ.چنانچہ سورہ یسین جو قرآن کریم کا بڑی برکتوں والا حصہ ہے وہ سنایا گیا.سانس اکھڑا ہوا تھا جس طرح نمونیہ میں سینہ اور پھیپھڑے کی کیفیت ہوتی ہے اسی طرح کی کیفیت طاری تھی.سانس مشکل سے آ رہا تھا.بخار بڑا تیز تھا بہت تشویشناک حالت تھی.ہم سارے گھر والے وہاں اکٹھے ہوئے ہوئے تھے اور بڑے فکرمند تھے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہے تھے.دراصل ایک مومن کی دعا یہی ہوتی ہے کہ اے خدا! میں تیرے فضلوں کی امید رکھتا ہوں اور کسی صورت اور کسی شکل میں تجھ سے مایوس نہیں ہوں.چنانچہ میں نے یہ دعا کی کہ اے خدا! تجھے سب قدرتیں حاصل ہیں یہ تیرا فضل ہے کہ تو نے ہمارے دلوں میں یہ روشنی پیدا کی ہے کہ اس حالت میں بھی جو اپنے عزیز کی دیکھ رہے ہیں ہم تجھ سے مایوس نہیں ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اگر تو چاہے تو جس کو دنیا آخری سانس کہتی ہے اس کے بعد بھی اس کو کئی سال تک سانس آتے رہیں.ہم نے اپنی زندگیوں میں خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے ایسے کئی نظارے دیکھے ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ شفا دینے والا ہے وہ حی وقیوم خدا ہے.وہی انسان کو زندگی دیتا اور اس کو قائم بھی رکھتا ہے کیونکہ وہ ساری قوتوں اور طاقتوں کا مالک ہے.

Page 158

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۳۸ خطبه جمعه ۱٫۲۰ پریل ۱۹۷۳ء غرض جب بالکل مایوسی کی حالت طاری ہو گئی یہاں تک کہ وہ اپنی بیٹی کو نصیحت کرنے لگے کہ میں جا رہا ہوں تم یہ خیال رکھنا وہ خیال رکھنا باتیں کرتے کرتے (ان کی باتوں نے میری طبیعت پر اثر ڈالا کہ کچھ ) ان کے اندر بھی تبدیلی آگئی.چنانچہ یہ کہہ کر کہ جامعہ احمدیہ کے استادوں اور طلباء کو میر اسلام اور پیار ہو اور کہنا کہ میں ان کا خیال رکھتا رہا ہوں.اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دیں.چندلحوں کے بعد کہنے لگے اگر میں آج مرجاؤں تو ان کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا.اگر زندہ رہوں تو میں ان کی خدمت کرنے کی اور کوشش کروں گا.اس وقت میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے کوئی ایسی تبدیلی پیدا کر دی ہے جس سے حالت بہتر ہونے کی امید ہے ویسے غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے وہ کسی کو کتنی زندگی دیتا ہے چند گھنٹوں کی چند دنوں کی یا چند برسوں کی یہ تو وہی جانتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہمارے بیٹھے بیٹھے ان کا بخار کم ہو گیا.طبیعت میں سکون پیدا ہو گیا.آج صبح بھی خدا کے فضل سے وہ کیفیت نہیں تھی جو کل شام تھی.پہلے کی نسبت بہت بڑا فرق ہے.طبیعت میں سکون ہے.سانس کی تکلیف نہیں.پھیپھڑوں میں تکلیف نہیں تا ہم ان عوارض کی اصل وجہ ایک تو خون کے دباؤ کا بہت بڑھ جاتا ہے دوسرا بلڈ یوریا ( Blood Urea) جسے میر صاحب کی طبیعت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ پچاس تک معمول کے مطابق ہونا چاہیے تھا وہ ۲۰۰ تک پہنچ گیا.کبھی اس سے کم اور کبھی زیادہ ہوتارہا ہے.بڑھے ہوئے یوریا کی وجہ سے گر دے بہت مجروح ہو چکے ہیں.بہت تھوڑا کام کر رہے ہیں.کل پیشاب بالکل بند ہو گیا تھا جس سے ڈاکٹروں کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ گردوں نے کام کرنا بالکل چھوڑ دیا ہے اگر گردے کام نہ کریں تو وہ زہر جو جسم سے گردوں کے ذریعہ پیشاب کے راستے خارج ہوتے ہیں وہ خارج نہیں ہو سکتے جب وہ زہر جسم کے اندر رہتے ہیں تو بڑی تشویشناک حالت ہو جاتی ہے.اگر چہ یہ بیمار یاں تو ابھی دور نہیں ہوئیں.یوریا کی اور اس کے نتیجہ میں گردہ کی تکلیف اور خون کے دباؤ میں کوئی نمایاں تبدیلی پیدا نہیں ہوئی.تاہم خدا تعالیٰ کے آگے تو کوئی چیز انہونی نہیں ہے، وہ سب قدرتوں کا مالک ہے اس واسطے جو حقیقتا آخری سانس ہوتا ہے یعنی جس کے بعد انسان دوسرا سانس نہیں

Page 159

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۳۹ خطبه جمعه ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء لے سکتا اس وقت تک مومن مایوس نہیں ہوتا پھر وہ بعض دفعہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے جلوے بھی دیکھتا ہے اور بعض دفعہ الْحَمدُ لِلهِ پڑھ کر اور رضِيتُ بِاللهِ رَبًّا کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے.اس عالمین پر حکومت اللہ تعالیٰ کی ہے اور ہمیشہ اسی کی حکومت رہے گی.ہم اس کے بڑے عاجز گنہگار اور کمزور بندے اور مزدور ہیں ہم اس کی صفات حسنہ کو پہچانتے ان پر یقین رکھتے اور ان کا مظہر بننے کی کوشش کرتے ہیں.ہم تو اس کے مزدور ہیں اور وہ بھی بڑی عاجز قسم کے.غرض مومن کی یہ شان ہے کہ وہ کسی صورت میں مایوس نہیں ہوتا مثلاً بیماری کا سوال ہے تو جب تک عزیز زندہ ہے اس کے لئے ایک مومن انتہائی کوشش کرے گا کہ اسے آرام آجائے اس کی صحت یابی کے لئے ہر ممکن تدبیر کی جائے لیکن اگر خدا تعالیٰ کی تقدیر میں یہ ہو کہ اس کی زندگی پوری ہوگئی ہے تو پھر ایک طبعی غم جو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے انبیاء کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے ان کے ماننے والوں کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے اس سے مفر نہیں لیکن خدا تعالیٰ کا شکوہ ایک لحظہ کے لئے بھی ایک مومن کے دل میں پیدا نہیں ہوتا وہ اسی طرح اپنے کام میں مشغول ہو جاتا ہے جس طرح پہلے مشغول تھا کیونکہ کام اتنا ہے کہ اس کی کوئی حدو انتہا ہی نہیں.غلبہ اسلام کا کام کوئی آسان کام نہیں ہے.یہ تو نشان راہ ہیں.جو دوست کام کرتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں وہ اپنے پیچھے نشان چھوڑ جاتے ہیں.جن کو خدا تعالیٰ زندہ رکھتا ہے وہ اس کام میں پورے انہماک کے ساتھ آگے بڑھ جاتے ہیں.کام کی اہمیت اور جو فریضہ ان کے سپرد کیا گیا ہے اس کو آخری انجام تک پہنچانے کا احساس توجہ کے ہر گوشہ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.اس کی ان چیزوں یعنی بیماریوں اور اموات کی طرف توجہ نہیں ہوتی یہی وہ اصل کام ہے جسے یا درکھنا اور جس کی خاطر ہر دکھ کو بھلا دینا چاہیے.بہر حال جو حالت میر صاحب کی کل تھی آج اس سے بہتر ہے بظاہر بہت بہتر ہے لیکن شافی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.دوائیوں نے تو شفا نہیں دینی یہ تو ایک پردہ ہیں.پس پردہ اللہ تعالیٰ کی قدرتیں کارفرما ہیں ورنہ ایمان بالغیب کے بغیر ایمان کے ثواب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور پس پردہ ان تاروں کو حرکت میں لائے جن کے نتیجہ میں میر داؤ د احمد صاحب کو لمبی زندگی عطا ہو.جہاں تک تدبیر کا تعلق ہے وہ تو ہم سب

Page 160

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۴۰ خطبه جمعه ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء گھر والے اور دوست کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میر صاحب کو صحت کاملہ بخشے اور انہیں لمبی عمر قوت عمل اور خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے وہ سب قدرتوں کا مالک ہے.الْحُكْمُ لِلهِ وَالْقُدْرَةُ لِلَّهِ - روزنامه الفضل ربوه ۱/۲۴ پریل ۱۹۷۳ء صفحه ۲ تا ۴، ۲۲ جون ۱۹۷۳ء صفحه ۳، ۴)

Page 161

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۴۱ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء مومن کو اپنے ایمان کے لئے سیاست کی سند یا ظاہری علم دینی کے فتوی کی ضرورت نہیں خطبه جمعه فرموده ۴ رمئی ۱۹۷۳ ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.چند دن ہوئے بے احتیاطی کے نتیجہ میں مجھے گرمی لگ گئی تھی (اسے انگریزی میں Heat Stroke کہتے ہیں ) جس کی وجہ سے تکلیف رہی.گرمی میرے لیے بیماری بن جاتی ہے پھر شدید نزلہ اور کھانسی کی شکل میں بیماری نے حملہ کیا، بڑی تکلیف اُٹھانی پڑی اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا طبیعت پہلے سے بہتر ہے لیکن ابھی گلے ، سانس کی نالی اور ناک میں نزلے اور کھانسی کا اثر ہے لیکن چونکہ میں اپنے بھائیوں سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا تھا اس لیے میں جمعہ پڑھانے آ گیا ہوں اس بھرو سے اور امید پر کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری زبان پر صداقت کی باتوں کو مؤثر رنگ میں جاری فرمائے گا.۱/۳۰ پریل کی صبح جب ہم نے اخبارات دیکھے تو اُن میں آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد کا ذکر تھا جس شکل میں وہ قرار داد شائع کی گئی ہے، وہ میں ”امروز سے پڑھ کر سنا دیتا 9966 ہوں.”امروز کے علاوہ ” نوائے وقت“ ” مساوات پاکستان ٹائمز“ اور ”مغربی پاکستان“ نے بھی اس خبر کو قریباً اُسی شکل میں شائع کیا ہے جس شکل میں ”امروز‘ میں ہے اور جسے میں اب

Page 162

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۴۲ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء پڑھ کر سناتا ہوں.یہ خبر امروز میں ” آزاد کشمیر میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا“ کے عنوان کے تحت ان الفاظ میں تھی :.میر پور ۱/۲۹ پریل.آزاد کشمیر اسمبلی نے آج ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی ہے جس کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے اور آزاد کشمیر میں احمدی عقائد کی تبلیغ پر پابندی لگا دی گئی ہے.“ قریباً یہی خبر دوسرے اخبارات میں بھی شائع ہوئی ہے، جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے یہ خبر فی ذاتہ جھوٹی ہے.اس شکل میں کوئی قرارداد پاس نہیں ہوئی جس شکل میں پاس ہوئی ہے اُس کی طرف میں ابھی آؤں گا.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اخبارات جن کا وزارت اطلاعات و نشریات سے بڑا گہرا تعلق ہے.ان اخباروں نے اس جھوٹی خبر کونمایاں طور پر کیوں شائع کیا؟ اس کی ذمہ واری یا تو کسی افسر پر عائد ہوتی ہے جو اس وزارت سے تعلق رکھتا ہے اور یا انہی اخباروں پر ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو بھی جھوٹ بول دیں اُن سے جواب طلبی کرنے والا کوئی نہیں.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ انسان جب خود کو انسان کے محاسبہ سے محفوظ پاتا ہے تو اگر خدا چاہے تو آسمانوں سے ایسے لوگوں کا اور ایسے گروہوں کا محاسبہ کیا جاتا ہے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے یہ خبر اس شکل میں درست نہیں ہے ، نہ کوئی ایسا بل منظور ہوا ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جاتا ہے نہ کوئی ایسا بل منظور ہوا ہے کہ احمدیوں کی تبلیغ پر پابندی عائد کی جاتی ہے.ایک اور خبر تھی وہ امروز میں تو نہیں غالباً ”نوائے وقت“ اور ”مغربی پاکستان میں شائع ہوئی ہے کہ احمدیوں کی غیر مسلم اقلیت کے طور پر رجسٹریشن کروائی جائے ، جس دن یہ خبر شائع ہوئی ہے اُس دن چونکہ کسی کو حالات کا پتہ نہیں تھا کہ آیا یہ خبر صحیح بھی ہے یا نہیں ؟ اس لئے جہاں بھی یہ خبر پہنچی وہاں اس کا شدید رد عمل ہوا.جماعتوں نے اس کے خلاف بڑے غم وغصہ کا اظہار کیا.اس قسم کی خرافات کا ہم عام طور پر نوٹس نہیں لیا کرتے اور ان کو قابل اعتنا نہیں سمجھا کرتے.اس لیے اگر یہ بات ڈھکی چھپی رہتی تو اس کے متعلق ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن چونکہ یہ خبر اخبارات کے ذریعہ کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے پشاور تک پہنچ چکی ہے اور اب

Page 163

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۴۳ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء یہ کوئی ایسی خفیہ بات نہیں رہی کہ جس کے متعلق کچھ کہ کر یا جس پر کوئی صحیح اور جائز تنقید کر کے کسی قسم کے فتنے کے پیدا کرنے کا سوال ہو.جب سب کچھ قوم کے سامنے آچکا ہے تو اس کے متعلق بولنا چاہیے تا کہ فتنے کو دبایا جا سکے.غرض جس احمدی دوست نے بھی یہ خبر پڑھی اس کی طبیعت میں شدید غم وغصہ پیدا ہوا.چنانچہ دوستوں نے مجھے فون کئے ، میرے پاس آدمی بھجوائے ، خطوط آئے ، تاریں آئیں.احباب جماعت نے خطوط اور تاروں وغیرہ کے ذریعہ اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر خدمت کے لیے پیش کیا کہ اگر قربانی کی ضرورت ہو تو ہم قربانی دینے کے لیے تیار ہیں.چنانچہ میں نے تمام دوستوں کو جنہوں نے خطوط اور تاروں کے ذریعہ مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا اور اُن کو بھی جو میرے پاس آئے یہی سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل وفر است عطا فرمائی ہے اور عزت واحترام کا مقام بخشا ہے.پس عقل و فراست اور عزت و احترام کا یہ مقام جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں مرحمت فرمایا ہے یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم پورے اور صحیح حالات کا علم حاصل کیسے بغیر منہ سے کچھ نہ کہیں.اس قرارداد کے الفاظ کیا ہیں؟ قرارداد پاس کرنے والوں میں کون کون شامل ہے؟ یہ خبر اخباروں میں نمایاں طور پر کیوں آئی سوائے پاکستان ٹائمز کے جس نے پانچویں صفحے پر شائع کی لیکن چوکھٹہ بنا کر گویا اس نے بھی اس کو نمایاں کر دیا.جب تک اس کے متعلق ہمیں علی وجہ البصیرت کوئی علم نہ ہو اس وقت تک ہم اس پر کوئی تنقید نہیں کر سکتے.میں نے دوستوں سے کہا ہم حقیقت حال کا پتہ کریں گے اور پھر اس کے متعلق بات کریں گے.چنانچہ یکم مئی کو مشرق نے (جس نے ۱/۳۰ پریل کو خبر شائع نہیں کی تھی ) صحیح خبر شائع کی اور وہ یہ تھی کہ آزاد کشمیر اسمبلی نے اپنے میر پور کے اجلاس میں یہ قرارداد پاس کی ہے کہ ہم آزاد کشمیر کی حکومت کے پاس سفارش کرتے ہیں کہ وہ احمدیوں کو اقلیت قرار دے یعنی یہ کوئی ایسا بل پاس نہیں ہوا کہ اقلیت قرار دیا جاتا ہے بلکہ یہ ایک سفارش ہے جو آزاد کشمیر کی حکومت سے کی گئی ہے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے اور اُن کی مذہبی تبلیغ پر پابندی لگائی جائے اور احمدی غیر مسلم اقلیت کی صورت میں نام رجسٹر کروائیں.

Page 164

خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء خطبات ناصر جلد پنجم ۱۴۴ چنانچہ میں نے آزاد کشمیر سے بعض ذمہ دار آدمیوں کو بلوایا.اُس وقت تک صحیح صورت حال سامنے نہیں آئی تھی.اگلے دن وہ میرے پاس پہنچ گئے.میں نے کہا دیکھیں! ایک بات میں آپ کو بنیادی ہدایت کے طور پر ابھی کہہ دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر یہ قانون کی صورت میں منظور بھی ہو جائے تو قانون یہ کہتا ہے کہ ہر وہ احمدی جو خود کو غیر مسلم سمجھتا ہے وہ اپنا نام رجسٹر کر وائے.ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ ہر احمدی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے اور خدائے علیم و خبیر کی نگاہ میں بھی مسلمان ہے اس لئے اُس پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا.آپ سارے احمدیوں کو بتادیں کہ نام رجسٹر کروانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں تو ہمارے اوپر یہ قانون لاگو نہیں ہو سکتا.ایک آدمی جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے وہ غیر مسلم کی حیثیت میں نام کیسے رجسٹر کروائے گا؟ اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ گویا جھوٹ بول رہا ہوگا اور اسلام نے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی.غرض میں نے آزاد کشمیر کے دوستوں سے کہا تم جاؤ اور بے فکر رہو.اگر کوئی آدمی تمہارے نام رجسٹر کرنے کے لئے آئے اور میرے نزدیک انشاء اللہ کوئی بھی رجسٹر کرنے کے لئے نہیں آئے گا لیکن اگر خدانخواستہ ایسا وقت آ جائے تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم اس بنیادی ہدایت کو سامنے رکھو جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.نمائندوں پر مشتمل پھر ہم نے پتہ لیا کہ یہ اسمبلی کا کیا قصہ ہے اور میر پور کے اجلاس میں کون کون شامل ہوا؟ یہ کتنی بڑی اسمبلی ہے؟ کیونکہ لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کی طرح یہ بھی کوئی اچھی خاصی اسمبلی ہے جس نے قرار داد پاس کی ہے.چنانچہ ہمیں یہ پتہ لگا کہ آزاد کشمیر کی اسمبلی گل ۲۵ ہے.جن میں سے ۱۱ نمائندوں نے جو حکومت آزاد کشمیر کے مخالف ہیں بائیکاٹ کر رکھا ہے اور وہ اس اجلاس میں شامل ہی نہیں تھے.باقی ۱۴ رہ جاتے ہیں.ان میں سے بھی بعض غیر حاضر تھے ابھی پوری تحقیق نہیں ہو سکی.ایک اطلاع کے مطابق اس اجلاس میں (جس میں قرار داد پاس کی گئی ) 9 نمائندے حصہ لے رہے تھے.اب ۹ نمائندوں کی پاس کردہ سفارش پرلوگوں کا شور مچادینا کہ آزاد کشمیر کی اسمبلی نے متفقہ طور پر قرارداد پاس کر دی ہے فتنہ انگیزی

Page 165

خطبات ناصر جلد پنجم نہیں تو اور کیا ہے؟ ۱۴۵ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء بعض کے نزدیک ۱۲ نمائندے اجلاس میں شریک تھے.جو نمائندے اجلاس میں شامل تھے اُن میں سے بعض وہ بھی تھے جنہوں نے احمدیوں سے کہا کہ وہ تو اس قرار داد سے بالکل متفق نہیں.وہ تو اس قرار داد کے پاس کرنے میں شامل نہیں ہوئے.اگر انہوں نے سچ بولا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ قرار داد سامنے آئی تو وہ ہال میں سے نکل کر باہر چلے گئے ہوں گے اسی وجہ سے بعض کے نزدیک ۱۹ اور بعض کے نزدیک ۱۲ آدمی قرار داد پاس کرنے والے تھے.جنہیں آزاد کشمیر کی حکومت کی اسمبلی قرار دے کر ہمارے ملک پاکستان میں شور مچانے والوں نے شور مچادیا.یہ اس اسمبلی کی اصلیت ہے.اگر ۹ یا ۱۲ اشخاص اس قسم کی کوئی قرار داد پاس کر دیں تو اول تو ہمیں امید ہے کہ یہ قرار داد منظور نہیں کی جائے گی کیونکہ ہمارے ملک میں (اور خود آزاد کشمیر میں بھی ) کہیں نہ کہیں تو عقل و فراست موجود ہے گو بعض جگہوں پر ہمیں اس کا فقدان بھی نظر آتا ہے لیکن گلی فقدان تو نہیں بڑے سمجھ دار لوگ بھی ہیں.ہمارے صدر مملکت کو اللہ تعالیٰ نے بڑی عقل و فراست عطا فرمائی ہے اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو بڑے اچھے ہیں، شریف ہیں، نیک دل ہیں، انصاف پسند ہیں تاہم اس اچھے گروہ میں کچھ لوگ بڑے دلیر اور جری ہیں اور کچھ انتہائی طور پر بزدل ہیں لیکن وہ بھی فطرتی طور پر شریف ہیں کیونکہ بزدلی شرافت کے بعض مظاہروں میں روک ہوتی ہے لیکن وہ شرافت کے خلاف تو نہیں ہوتی.پس اگر نو یا بارہ آدمیوں نے اس قسم کی قرارداد پاس کر دی تو خدا کی قائم کردہ جماعت پر اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟ اس کے نتیجہ میں جو خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں وہ یہ نہیں کہ جماعت احمد یہ غیر مسلم بن جائے گی.جس جماعت کو اللہ تعالیٰ مسلمان کہے اُسے کوئی نا سمجھ انسان غیر مسلم قرار دے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ اس لئے ہمیں اس کا فکر نہیں.ہمیں فکر ہے تو اس بات کی کہ اگر یہ خرابی خدانخواستہ انتہا تک پہنچ گئی تو اس قسم کے فتنہ و فساد کے نتیجہ میں پاکستان قائم نہیں رہے گا.اس لئے ہماری دعائیں ہیں ہماری کوششیں ہیں اور ہمارے اندر حُب الوطنی کا یہ جذبہ موجزن ہے کہ کسی قسم کا کوئی بھی فتنہ نہ اُٹھے کہ جس سے خود پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے.آخر فتنہ وفساد یہی ہے نا

Page 166

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۴۶ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء کہ کچھ سرکٹیں گے، کچھ لوگ زخمی ہوں گے.کون ہوں گے اور کیا ہوگا ، یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لیکن جب اس قسم کا فساد ہوگا تو دنیا میں ہماری ناک کٹے گی ، ہر جگہ پاکستان کی بدنامی ہوگی.اب میں وہ خبر بھی جو یکم مئی کو ” مشرق نے شائع کی ہے اس خطبہ میں ریکارڈ کروا دیتا ہوں.مشرق‘ نے ۳۰ ا پریل کو یہ خبر شائع نہیں کی.اُس نے شرافت کا ثبوت دیا ہے اور صحیح خبر شائع کر دی ہے.غرض اس اخبار نے ” آزاد کشمیر اسمبلی نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی قرار داد منظور کر لی“ کے عنوان سے لکھا کہ آزاد کشمیر اسمبلی نے ایک قرار داد منظور کی ہے جس میں حکومت کشمیر سے یہ سفارش کی گئی ہے کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا جائے.ریاست میں جو قادیانی رہائش پذیر ہیں اُن کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جائے اور انہیں اقلیت قرار دینے کے بعد (ہم پر گویا بڑی مہربانی کر رہے ہیں) ان کی تعداد کے مطابق مختلف شعبوں میں اُن کی نمائندگی کا یقین کرایا جائے.قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں قادیانیت کی تبلیغ ممنوع ہو گی.یہ قرارداد اسمبلی کے رکن میجر محمد ایوب نے پیش کی تھی.قرارداد کی ایک شق ایوان نے ہفتہ کے روز بحث کے بعد ایک ترمیم کے ذریعہ خارج کر دی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست میں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے“.میجر ایوب نے قرارداد پیش کرتے ہوئے آئین پاکستان میں مندرج صدر مملکت اور وزیر اعظم کا حلف نامہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ آئین میں ان عہد یداروں کے لئے مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کے مطابق یہ حلف نامہ تجویز کیا گیا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ حلف اُٹھانے والا یہ اقرار کرتا ہے کہ اس کا ایمان ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور اُن کے بعد کوئی نبی نہیں.میرا اور آپ سب کا بھی یہی ایمان ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نبی اور خاتم الا بنیاء ہیں ہم یہی مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں.پچھلے دنوں میں نے ایک خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ مقام محمدیت عرشِ ربّ کریم ہے اور

Page 167

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۴۷ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء عرش رب کریم کے بعد کسی شے کا تصور ہی ممکن نہیں ہے گویا آپ کے بعد کسی نبی کے آنے کا سوال ہی نہیں ہے کیونکہ اس ارفع روحانی مقام کے بعد کوئی رفعت ممکن ہی نہیں لیکن جو ساتویں آسمان پر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت اور آپ کی سچی پیروی اور آپ کے فیض.مستفیض ہو کر پہنچا یعنی مہدی معہود وہ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نہیں ہے ورے ہے وہ آپ کے آخری ہونے میں روک نہیں ہے اگر کسی وقت ملک دشمن عناصر نے اس حلف نامہ کو وجہ فساد بنا کر ملک میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کی تو اُس وقت دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ حقیقت کیا ہے؟ شنید ہے کہ ملک دشمن عناصر یہ کہہ کر بھی ملک میں شور مچائیں گے اور فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ شیعہ حضرات صدر اور وزیر اعظم نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے خلاف حضرت ولی اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”تفہیمات الہیہ میں لکھا ہے کہ وہ اپنے اماموں کو انبیاء سے بالا درجہ دیتے ہیں اس واسطے وہ ختم نبوت کے منکر ہیں حضرت ولی اللہ شاہ کے ذہن میں غالباً یہی ہوگا کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مصدق ہر نبی کا مقام زیادہ سے زیادہ ساتواں آسمان ہے اس سے اوپر نہیں.اس سے اوپر عرش رب کریم پر مقام محمد یت ہے اور جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات وصفات منفرد ہے اس لئے اگر شیعہ صاحبان اپنے اماموں کا درجہ ساتویں آسمان سے اوپر بتاتے ہیں تو وہ گو یا ختم نبوت کے منکر ہیں واللهُ أَعْلَمُ بِالضَّوَابِ.اب ذرا اور آگے چلئے اہل حدیث اور بعض دوسرے فرقے بھی ہم سے مناظرہ کرتے آئے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں اور ایک وقت میں اُن کا نزول ہوگا.اب ایک ایسا مسلمان جس کا اس فرقے کے ساتھ تعلق ہے یعنی وہ حیات مسیح اور نزول مسیح کا قائل ہے وہ یہ حلف نہیں اٹھا سکتا لیکن احمدی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کسی نئے نبی کے قائل ہیں اور نہ کسی پرانے نبی کے.حلف میں یہ الفاظ ہی نہیں ہیں کہ کوئی پرانا نبی آسکتا ہے اور نیا نہیں آسکتا بلکہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں.اگر وہ معنی لئے جائیں جو ہم کرتے ہیں کہ مقام محمدیت یا ختم نبوت کا مقام عرشِ ربّ کریم ہے اس کے بعد تو کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی.اگر تم یہ معنے کرتے ہو تو پھر ہم پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اگر یہ معنے نہیں کرتے بلکہ

Page 168

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۴۸ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء اپنے ہی غلط معنی کرتے ہو تو پھر نزول مسیح کے عقیدہ کو مانتے ہوئے تم یہ حلف نہیں اُٹھا سکتے.اس حلف میں یہ عبارت بھی ہے کہ ہم خدائے واحد ویگانہ پر ایمان لاتے ہیں.اگر تم قبروں پر سجدہ کرتے ہو یا سجدہ کرنا جائز سمجھتے ہو تو پھر بھی تم یہ حلف نہیں اُٹھا سکتے.پھر اس حلف میں یہ بھی ہے کہ ہم قرآنی احکام کو اپنی زندگیوں میں قابل عمل سمجھتے ہیں لیکن اگر تم احکام قرآنی کی پروا نہیں کرتے اور تم نے اپنی زندگی انوار قرآنی کے جلوؤں سے منور نہیں کر رکھی تو تم یہ حلف نہیں اُٹھا سکتے سوائے اس کے کہ اپنی قوم کے ساتھ بد دیانتی کرتے ہوئے اس حلف کو اٹھا لو تو اُٹھا لو اور کوئی صورت نظر نہیں آتی.میں نے اس حلف نامہ کے الفاظ پر بڑا غور کیا ہے اور میں بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ایک احمدی کے راستہ میں اس حلف کے اُٹھانے میں کوئی روک نہیں لیکن میں بآواز بلند دنیا کو یہ بتا دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی احمدی کو بھی سیاست اور اقتدار سے کوئی سروکار نہیں ، کوئی پیار نہیں اور کوئی لگاؤ نہیں ہے.ہم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل مہدی معہود کو ماننے والے ہیں جس نے فرما یا تھا.مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار ہمیں ان دنیوی تاجوں، ان مملکتوں ، ان حکومتوں اور ان بڑے بڑے عہدوں سے کوئی تعلق کوئی پیار نہیں ہے.دنیا کی یہ عزتیں دنیا والوں کو مبارک ہوں اور خدا کرے کہ ہم درویشوں کے نصیب میں ہمیشہ رضوانِ یار کا تاج رہے.پس آزاد کشمیر کی اسمبلی میں غلط کہا گیا یا غلط نتیجہ نکالا گیا کہ حلف کے الفاظ بتاتے ہیں کہ احمدی غیر مسلم ہیں.میں اس کے متعلق جواب دے چکا ہوں.مملکت پاکستان میں بھی کچھ لوگ اس قسم کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ صدر اور وزیر اعلیٰ کے حلف کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں لیکن چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لئے اب میاں طفیل محمد صاحب نے پریس کا نفرنس میں یہ اعلان کر دیا ہے کہ آزاد کشمیر والوں نے بڑا معرکہ مارا ہے.پاکستان کی حکومت کو بھی یہ قانون پاس کرنا چاہیے کہ احمدی غیر مسلم اقلیت ہیں مگر تم تو کہ رہے تھے کہ حلف

Page 169

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۴۹ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء کے الفاظ نے ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا اب کہتے ہو کہ نہیں ، قانون پاس کرو.تمہارا یہ مطالبہ کرنا کہ پاکستانی حکومت کوئی ایسا قانون بنائے ، بتاتا ہے کہ تم جب یہ کہتے تھے کہ حلف کے الفاظ سے احمدی غیر مسلم اقلیت بنتے ہیں تو تم جھوٹ بول رہے تھے.کل تو تم یہ کہتے تھے آج یہ کہہ رہے ہو.بات دراصل یہ ہے دوست اسے اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیں کہ ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ ایک مومن کو اپنے ایمان کے لئے سیاست کی سند یا ظاہری علم دینی کے فتویٰ کی ضرورت نہیں ہے.اگر کسی شخص کو یہ خیال ہو کہ اس کے مسلمان بننے یا رہنے کے لئے کسی بادشاہ کی سند یا کسی بڑے مفتی کے فتوے کی ضرورت ہے تو میرے نزدیک اس کا ایمان ایمان نہیں ہے.اگر فتوے کی ضرورت نہیں ہے اور یقیناً ضرورت نہیں ہے تو پھر یہ فتوے ایک لا یعنی چیز ہیں.اللہ تعالیٰ کے علم میں تو ہر چیز ہے جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ایسے فتوے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے فتوے اس کے حضور قابل قبول نہیں.غرض ہمارے خلاف دیئے جانے والے فتوؤں کی کوئی حقیقت نہیں.جب میں ”ہمارے خلاف“ کہتا ہوں تو ہم سے میری مراد صرف آج کی دنیا کا احمدی نہیں بلکہ ”ہم سے میری مراد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر اس زمانے تک خدا تعالیٰ کی محبت میں فانی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مست اور اسلامی تعلیم کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے مسلمان جب بھی ہوئے اور جہاں بھی ہوئے ان کے بارہ میں اس قسم کے فتوے کوئی فرق نہیں ڈالتے.اس لئے فرق نہیں ڈالتے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے هُوَ سَشْكُم الْمُسْلِمِينَ (الحج: ۷۹ ) اللہ تعالیٰ نے تمہیں مسلمان کہا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں مسلمان کہا ہے تو پھر اگر ساری دنیا تمہیں کافر کہے اس کا نتیجہ یہ تونہیں نکلتا کہ تم مسلمان نہیں رہے کیونکہ تمہیں تو خود خدا نے مسلمان کہا ہے پوری آیت یوں ہے:.هُوَ سَشْكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَ فِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ * فَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللهِ هُوَ مَوْلَكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَ نِعْمَ النَّصِيرُ - (الحج: ٧٩)

Page 170

خطبات ناصر جلد پنجم ܙ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اور اس کے نزدیک تم مسلمان ہو اور اس نے پہلے انبیاء علیہم السلام کو بھی یہ خبر دی تھی کہ اُمتِ مسلمہ پیدا ہونے والی ہے.چنانچہ پہلوں نے بھی تمہارا نام مسلمان رکھا اور قرآنِ کریم نے بھی تمہارا نام مسلمان اور مومن رکھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے آنا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام : ۱۶۴) اور أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (الاعراف: ۱۴۴) کے الفاظ کہلوائے اس کا مطلب یہی ہے کہ اُمت محمدیہ مسلمین مومنین کی اُمت ہے.اس آیہ کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ تمہیں مسلمان قرار دیتا ہے اور تمہارے اسلام کا اعلان کرتا ہے اس لئے کہ تم نمازیں پڑھتے ہو، تم زکوۃ دیتے ہو.تم اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق رکھتے ہو.تم اس بات پر یقین کے ساتھ قائم ہو کہ خدا تعالیٰ سے جب تمہارا پختہ تعلق قائم ہو جائے تو پھر تمہیں کسی اور ہستی کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ هُوَ مَوْلَكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ - (الحج: ۷۹) پس اب سوال یہ نہیں پیدا ہوتا کہ زید یا بکر مجھے یا تمہیں کا فر کہتا ہے یا مسلمان؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن شرائط کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے افراد کو مسلمان قرار دیا ہے اور اُن کے اسلام کا اعلان کیا ہے وہ شرائط تمہاری زندگیوں میں پوری ہو رہی ہیں یا نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ آج احمدیوں کی بہت بھاری اکثریت ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے.چند ایک ہیں جو منافق ہیں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.چند ایک ہیں جو کمز ور ایمان والے ہیں اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ احمدیوں کی بہت بھاری اکثریت ایمان کے جملہ تقاضوں کو پورا کرنے والی ہے اور وہ اپنے رب سے پیار کرنے والی ہے اس کے دامن کو اس طرح پکڑ رکھا ہے کہ گویا ایک لحظہ کے لئے بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے پس جماعتِ احمدیہ کی یہ اکثریت جنہیں اللہ تعالیٰ نے پہلے نبیوں کی زبان سے مسلمان قرار دیا اور قرآنِ کریم میں ان کے اسلام کا اعلان فرمایا ان کو آزاد کشمیر کی اسمبلی یا ساری دنیا کے علمائے ظاہر غیر مسلم کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ گویا خدا تعالیٰ کے مقابلے میں کھڑا ہونا چاہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے منشا کے خلاف

Page 171

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۵۱ خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۷۳ء اور اس کے منصوبہ کے مقابلہ میں کھڑا ہوا خدا کے قہری ہاتھ نے اسے نیست و نابود کر دیا اور اس کا نام و نشان تک مٹا دیا.پس کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کے متعلق فتوے دینا انسان کا کام ہی نہیں ہے تاہم جنہوں نے اس قرار داد کو پاس کروایا ہے ہمیں ان کا علم ہے.یہاں پاکستان میں ایک گروہ ایسا ہے جنہوں نے آزاد کشمیر اسمبلی کی اس قرار داد کا سہارا لے کر ( جیسا کہ میاں طفیل محمد صاحب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی نے کمال کر دیا ) پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی اسی قسم کا قانون پاس کرے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ایک تو اس مطالبہ کے ساتھ یہ اعلان کر دیا کہ ”حلف“ کے الفاظ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے کافی نہیں، کچھ اور بھی چاہیے دوسرے اس قرار داد کی کوئی حقیقت نہیں ، تیسرے ہماری شنید یہ ہے (میرے پاس تو کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ میں تحقیق کر کے ثبوت پیش کروں لیکن سننے میں آیا ہے ) کہ یہ لوگ یعنی جماعت اسلامی اور ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ حکومت کو خوف زدہ اور پریشان کرنے کے لئے دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر حکومت نے ایسا نہ کیا تو ۵۳ ء جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے.یہ بات تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ حکومت وقت کو ایسا کمزور اور بزدل کیوں سمجھتے ہیں کہ حکومت ان کی اس قسم کی دھمکیوں سے مرعوب ہو جائے گی تاہم اس کا تعلق حکومت سے ہے مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں لیکن جہاں تک ۵۳ ء کا سوال ہے اور جہاں تک اس سے احمدیوں کو ڈرانے کا سوال ہے اس سے میرا ضرور تعلق ہے.در اصل ۵۳ء کا نام لے کر وہ اپنے نفسوں کو اور اپنے ساتھیوں کو دھوکا دے رہے ہیں.۵۳ء کے فسادات کی حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو اُس وقت اتنی ذلت اٹھانی پڑی تھی کہ اگر وہ ذرا بھی سوجھ بوجھ سے کام لیتے تو ۵۳ ء کا کبھی نام تک نہ لیتے مگر جماعت احمدیہ نے اُس فساد فی الملک میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے عظیم نشان دیکھے.اللہ تعالیٰ کی رحمت نے جماعت کو بڑی ترقی عطا فرمائی اس لئے ہمارے حق میں ۵۳ ء بڑا مبارک زمانہ ہے جس میں جماعت نے بڑی تیزی سے ترقی کی اور رفعتوں میں کہیں سے کہیں جا پہنچی.تربیت کے لحاظ سے بھی اور وسعت تبلیغ کے لحاظ

Page 172

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۵۲ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء سے بھی اور تعداد کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو بہت ترقی نصیب ہوئی اس وقت میرے سامنے کئی دوست بیٹھے ہیں جن کا اُن بہت ساری جماعتوں کے ساتھ تعلق ہے جو سرگودھا اور جھنگ کے بارڈر پر واقع ہیں اور ۵۳ ء کے بعد قائم ہوئی تھیں چنانچہ ہزار ہا بلکہ لاکھوں احمدی ہوئے یا دل سے احمدی ہوئے میں نے پہلے بھی بتایا تھا لا ہور میں میں نے بات کی تو چند آدمی جو ایک گاؤں سے ملنے آئے ہوئے تھے باتوں باتوں میں کہنے لگے ۵۳ء میں ہم احمدیوں کے گھروں کو آگ لگانے کے لئے نکلا کرتے تھے.پھر خدا نے ہمیں احمدیت قبول کرنے کی سعادت بخشی ، ہمیں احمدیت کا فدائی اور جاں نثار بنادیا.پس ۵۳ ء نے اُن لوگوں پر ذلت کا داغ لگایا جو آج ۵۳ء کا نام لے رہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ۵۳ ء کو احمدیت کی ترقی کا ذریعہ بنا دیا.وہ زمانہ احمدیت کی تاریخ میں ایک Land Mark اور ترقی کا ایک نشان ہے اس لئے جب کوئی ۵۳ ء کا نام لیتا ہے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے کیونکہ جماعت احمدیہ نے اُس وقت بڑی قربانیاں دیں اور اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی مہم کو اور بھی تیز کر دیا.اگر آج احمدیت میٹ جائے تو دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں رہے گا جو اسلام کے لئے کام کرے اور اس کی ترقی اور اشاعت کے لئے قربانی دے یہ صرف جماعت احمدیہ کو شرف حاصل ہے جو اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے جان مال عزت اور وقت کی قربانی دے رہی ہے.چنانچہ ۵۳ء کے وہ حالات جسے ڈ ہرا کر مخالفین احمدیت ناممکن الحصول خواہشات رکھتے ہیں اور خود فریبی میں مبتلا ہیں اُس میں بھی جماعت احمدیہ کو قربانیاں دینے اور بشاشت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کا موقع ملا.دوست اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر پھر رہے تھے اور فرشتے ان کی حفاظت کر رہے تھے.چنانچہ اس وقت جب کہ لاہور میں ہر سُو آگ لگی ہوئی تھی جماعت اسلامی کے چند کرتا دھرتا لوگوں نے ایک احمدی سے کہا اپنے حضرت صاحب سے جا کر کہو کہ زندہ رہنا ہے تو ہم جو مسودہ دیتے ہیں اُس پر دستخط کر دیں ورنہ ختم کر دیئے جاؤ گے.بھلا حضرت اصلح الموعود رضی اللہ عنہ ان گیڈر بھبکیوں کی کیا پروا کرتے تھے اور نہ ہی جماعت احمدیہ کا کوئی اور فرد پروا کرتا تھا اور نہ اب کرتا ہے.پھر کہنے والے ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب افسرانِ فوج اُن کو پکڑنے گئے تو کبھی گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے

Page 173

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۵۳ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء تھے اور کبھی پاؤں کو تا ہم ہمیں اُن کے کسی کے پاؤں پڑنے سے کوئی دلچسپی نہیں.ہمیں جس چیز سے دلچسپی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور اس کے پیار کا جلوہ ہے جسے وہ اپنے مظلوم بندوں کے حق میں اُس وقت دکھاتا ہے جب ظلم کے حالات غیر معمولی شدت اختیار کر جائیں اُن دنوں میں جن کو تم پتہ نہیں کیوں ۵۳ ء کے حالات کہتے ہو اور اپنے دلوں کو خوش کرتے ہو ہم نے اپنے رب کے پیار کے وہ جلوے دیکھے ہیں کہ اب بھی جب تم یہ کہتے ہو کہ ۵۳ء کے حالات پیدا ہو جائیں گے تو ہمارا دل خوشی سے اُچھل پڑتا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے معمولی حالات سے بڑھ کر ظاہر ہوں گے.پس ۵۳ ء کا نام لے کر اگر تم حکومت وقت کو بزدل سمجھتے ہوئے ان کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہو تو کرتے رہو ہم تو اُن کو بزدل نہیں سمجھتے.ہمیں یقین ہے کہ وہ تم سے ہرگز نہیں ڈریں گے لیکن بہر حال یہ حکومت کا کام ہے اُن کے متعلق کچھ کہنا میرا کام تو نہیں ہے لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے تم گیڈرا اپنی کھوہ سے باہر نکل آئے ہو اور سمجھتے ہو کہ تمہارے چیخنے چلانے سے جماعت احمدیہ کے افراد ڈر جائیں گے؟ نہیں! ہر گز نہیں ڈریں گے.جیسا کہ میں پہلے بھی کئی موقعوں پر بتا چکا ہوں جماعت احمدیہ کی تعداد اس وقت ایک کروڑ کے قریب ہے پاکستان میں بھی بچے ، عورتیں اور مرد ملا کر اچھی خاصی تعداد ہے ( چالیس لاکھ کے قریب ہوگی ) ہمارے مخالفین جو ہمیں غیر مسلم اور کافر کہتے اور گالیاں دیتے ہیں الیکشن کے دنوں میں خود اُن کا اپنا اندازہ یہ تھا کہ ۲۱ لاکھ نو جوان سمجھ دار پورے جوش کے ساتھ رضا کارانہ طور پر بے لوث خدمت کرنے والا پیپلز پارٹی کی خدمت کرتا رہا اس واسطے پیپلز پارٹی جیت گئی.میں سمجھتا ہوں یہ مبالغہ ہے ۲۱ لاکھ بالغ احمدی نہیں اور نوجوان تو اس سے بھی کم ہیں اور ان میں سے بھی وہ جنہیں رضا کارانہ طور پر کام کرنے کی فرصت ملی اور پیپلز پارٹی کے حق میں کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی صحت نے بھی اجازت دی اور مخالفین کے کہنے کے مطابق انہوں نے دن رات ایک کر دیا ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں جتنی بتائی جاتی ہے.پھر اُن میں کچھ بالغ بھی نہیں تھے اُن میں عورتیں بھی شامل نہیں تھیں اگر تھیں بھی تو اُن کی نسبت بہت کم تھی.وہ تو بالغوں کا بھی اُن کے

Page 174

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۵۴ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء کہنے کے مطابق ایک چھوٹا سا حصہ ہے گو یہ مبالغہ ہے لیکن یہ فعال رضا کا رلاکھوں تو ضرور ہیں.میں آج ان لوگوں کو جو ۵۳ ء کی باتیں شروع کر دیتے ہیں ان لاکھوں احمدیوں کے متعلق ایک حقیقت بتا دینا چاہتا ہوں تا کہ ہم پر یہ الزام نہ رہے کہ ہمیں حقیقت حیات احمدی سے آگاہ نہیں کیا گیا میں ایسے لوگوں کوحضرت خالد بن ولید کے الفاظ میں بتا نا چاہتا ہوں کہیں تم دھو کے میں نہ رہو.میں تمہیں یہ حقیقت بتا دیتا ہوں کہ جس قدر پیار تمہیں اس ورلی زندگی کے ساتھ اور اس دنیا کے عیش وعشرت کے ساتھ ہے میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس سے بڑھ کر پیار احمدی مسلمان کو موت کے ساتھ ہے.یہ الفاظ حقیقت پر مبنی اور بڑے پیارے الفاظ ہیں یہ ہمارے دل کی آواز ہیں.پس انہی الفاظ میں میں آج اُن لوگوں کو جو ۵۳ء کی آڑ میں فتنہ وفساد بر پا کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں عاجزانہ طور پر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا.جماعت احمدیہ کے وہ لاکھوں بالغ افراد جو پاکستان کے باشندے ہیں ( یہی حال ملک ملک بسنے والے احمدیوں کا ہے مگر اس وقت میں پاکستانی احمدیوں کا ذکر کر رہا ہوں ) ان کو خدا کی راہ میں موت سے ایسا ہی پیار ہے جیسا کہ ایک عاشق اپنے معشوق پر مستانہ وار قربان ہونے کو تیار کھڑا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے ان جان نثاروں کو موت سے جو پیار ہے وہ اُس پیار سے کہیں زیادہ ہے جتنا تمہیں اس دنیا کی زندگی اور اس کے عیش وعشرت اور آرام و آسائش سے پیار ہے لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ پیار سے میرے بندوں کے دل جیتو.اس لئے جب ہم تمہارے نعروں اور تمہاری گالیوں کے مقابلہ میں غصہ میں نہیں آتے تو یہ ہماری کمزوری کی دلیل نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ کے حکم کی پیروی اور اس کی خاطر عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کی دلیل ہے.پس جہاں ہمیں پیار سے لوگوں کے دل جیتنے کا حکم ہے وہاں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے أُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (الحج:۴۰) جب ظلم انتہا کو پہنچ جائے تو قرآنِ کریم نے اپنی مدافعت کی اجازت دی ہے.نیز قانون مملکی نے بھی خود حفاظتی کی اجازت دی ہے تاہم یہ کام تو حکومت کا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر فرد بشر کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حاکم وقت پر عائد کی ہے اس لئے ہم خاموش رہتے ہیں کہ حاکم وقت اپنی ذمہ داری کو نباہے گا لیکن اگر کسی وقت خدانخواستہ حاکم وقت نہ رہے

Page 175

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۵۵ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء ملک میں انار کی پھیل جائے اور حکومت وقت جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری اُٹھانے کے عملاً قابل نہ رہے اور ایک فانی فی اللہ مسلمان جس نے اپنے جذبات کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر قابو میں کیا ہوا تھا اس کے کان میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیاری آواز آئے وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے وَلِمَالِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ تیرے مال و دولت کی حفاظت کی ذمہ داری بھی تجھ پر ڈالی گئی ہے تو پھر اگر خدانخواستہ ہمارے ملک میں بدامنی اور لاقانونیت پھیل جائے تو تم دیکھو گے کہ تم اپنی زندگی اور مال و دولت سے جو پیار کرتے ہو ہر احمدی اُس سے زیادہ موت سے پیار کرتا ہے اس واسطے کہ یہ حقیقت ہر احمدی پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس ورلی زندگی میں انسان کی زندگی ختم نہیں ہو جاتی.موت زندگی کا خاتمہ نہیں ابدی زندگی کا ایک اہم موڑ ہے اور بس.ہماری بڑی پھوپھی جان کہہ رہی تھیں ” یہاں آنکھ لگی وہاں آنکھ کھل گئی یہ ہے ہمارے نزدیک اس دنیا کی حقیقت جس سے لوگ بڑا پیار کرتے ہیں.ہم تو اس دنیا سے پیار نہیں کرتے ہم مانتے ہیں کہ ہم بڑے کمزور انسان ہیں، خطا کار ہیں لیکن ہمارے رب نے ہمیں دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے آلہ کار بنایا ہے.اس لئے اگر ہم اپنے گناہوں اور خطاؤں کے باوجود اپنی اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے قربانیاں دیتے رہے تو ہمیں یقین ہے کہ جب یہاں آنکھ بند کر کے وہاں آنکھ کھلے گی تو ہم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی گود میں پائیں گے وہ اپنے فضل اور رحمت سے ہماری خطائیں معاف کر دے گا کیونکہ اُسی نے یہ فرمایا ہے لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر:۵۴) ظاہر ہے جو لوگ اپنی زندگیوں کا ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے خرچ کرنے کی نیت رکھتے ، جذبہ رکھتے اور کوشش کرتے ہیں اگر ان کے کام میں غلطیاں رہ جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دیتا ہے.پس میں احباب جماعت سے کہتا ہوں اور تنبیہ کرتا ہوں کہ تم نے فساد بر پا نہیں کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا فرمایا ہے وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (المائدة : ۶۵) مگر اے حق کی مخالفت کرنے والو! تم فساد کر کے پھر گلہ کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت تمہیں کیوں حاصل نہیں ہوتی جب تمہارے مفسدانہ منصوبوں کے نتیجہ میں تمہیں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل نہیں ہے تو پھر

Page 176

خطبات ناصر جلد پنجم ܪܩܙ خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۷۳ء تمہیں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کیسے حاصل ہو جائے گی لیکن ہم فساد سے کتراتے ہیں.ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا جائز نہیں سمجھتے ، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت وقت کا کام ہے کہ وہ ہمارے مخالفوں کی جان و مال کی پوری حفاظت کرے اور اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ایک احمدی کی جان و مال کی بھی حفاظت کرے.اللہ تعالیٰ نے انسان کے جو حقوق قائم کیے ہیں ہر انسان خواہ وہ مفتی محمود ہو یا ابوالاعلیٰ مودودی ہو یا میاں طفیل محمد ہو یا ایک احمدی ہو اُن کا مستحق ہے اور حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ اس کا حق ادا کرے اور اس کی جان و مال کی حفاظت کرے لیکن اگر تم خود خدا تعالیٰ کا باغی بن کر خدا کی اس دنیا میں فساد پیدا کرنا چاہو گے تو اللہ تعالیٰ کا پیار تمہیں حاصل نہیں ہوگا اور جب اللہ تعالیٰ کا پیار تمہیں حاصل نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت اور معجزانہ قدرت نمائی کے نشان تم کیسے دیکھو گے لیکن ہم انتہائی عاجزی اور انکساری کے باوجود اور اس لئے کہ ہم کلی طور پر عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے والے ہیں ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے ہم ان معاملات کو خدا پر چھوڑتے ہیں ہم اُسی وقت خود حفاظتی کے کام کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں جس وقت صحابہ کے قول کے مطابق حاکم وقت نہ رہے دنیا میں قانون نہ رہے، انار کی پیدا ہو جائے ، افراتفری پھیل جائے.خدا نہ کرے کہ یہ وقت ہمارے ملک کو دیکھنا نصیب ہولیکن اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ کہنے والے نے سچ کہا تھا.جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار ونزار لومڑی کا لبادہ اوڑھ کر اور گیدڑ کا لباس پہن کر باہر نکلتے ہوا اور چیختے اور چنگھاڑتے ہو اور سمجھتے ہو کہ ہم تم سے مرعوب ہو جائیں گے ہمیں تو خدا تعالیٰ نے شیر کی جرات سے بڑھ کر جرات عطا فرمائی ہے ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے شیر کے رعب سے زیادہ رعب عطا فرمایا ہے شیر کی دھاڑ سے میلوں تک بُزدل جانور کانپ اُٹھتے ہیں.ہمیں تو یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيْرَةَ شَهْرٍ.یعنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخلص فدائیوں اور جان شاروں کا ایک ماہ کی مسافت تک رعب طاری ہوگا.ہمیں اللہ تعالیٰ نے بے لوث خدمت کی توفیق عطا فرمائی

Page 177

خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء خطبات ناصر جلد پنجم ہے.ہم افریقہ کے اُن جنگلوں میں خدا کی تو حید کو قائم کرنے اور خدا اور اس کے رسول کے نام کو بلند کرنے کے لئے بے خوف و خطر چلے گئے جہاں آدم خور وحشی بسیرا کرتے تھے جماعت احمد یہ میں کتنی ہی مثالیں ہیں سینکڑوں ہزاروں ہیں جنہوں نے اسلام کی خاطر قربانی دی حتی کہ تم نے بعض کو سنگسار کیا مگر کیا اُن سنگسار ہونے والوں کے مستانہ عشق الہی میں کوئی لغزش آئی ؟ تم نے اپنی بہیمانہ خواہشات کو تسکین پہنچائی اور انہوں نے اس موت کو اپنی روحانی لذتوں کے حصول کا ذریعہ بنالیا.خدا تعالیٰ نے اُن سے وہ پیار کیا کہ اُن پر ظلم کرنے والوں کو ان کی جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا.ایک کو سنگسار کیا گیا تھا مگر خدا تعالیٰ کے قہری ہاتھ نے ایک لاکھ کو ہلاک کر دیا.ہم خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کے غیر معمولی پیار کا مشاہدہ کرتے چلے آئے ہیں اس کی قدرتوں پر محکم یقین ہے ہم بھلا تم سے ڈریں گے ہم تو ساری دنیا سے نہیں ڈرتے.جب انگریز سمجھتا تھا کہ اس کی دولت مشترکہ پر سورج غروب نہیں ہوتا اُس وقت اس نے احرار کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا.اُس وقت بھی ہم نہیں ڈرے نہ ہمیں کوئی نقصان پہنچا.اب جب کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حالات بدل گئے ہیں اور احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ہم نے خدا تعالیٰ کے عظیم الشان نشان دیکھ لیے.اب ہم اللہ کے سوا کسی اور سے بھلا کیوں ڈریں گے؟ پس اگر خوف ہے تو ہمارے دل میں خدا کی ناراضگی کا خوف ہے ہمیں خدا نے شرافت کے ایک مقام پر کھڑا کیا ہے ہمیں خدا نے خدمت خلق کے ایک مقام پر فائز کیا ہے.ہمیں خدا نے اپنی اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ایک مقام سے سرفراز فرمایا ہے.ہم اس بلند مقام پر کھڑے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو آئے روز اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے ہیں ہمارے جسم اور روح کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور اور خوشیوں سے بھرا پڑا ہے اور انوار روحانیہ الہیہ سے چمک رہا ہے.ہم انوار میں رہنے والے ظلمات میں چیچنے والے گیدڑوں سے بھلا کیسے ڈر سکتے ہیں؟ پس جہاں تک حکومت کا تعلق ہے وہ خود جواب دے گی یا وقت بتائے گا کہ وہ تمہاری دھمکیوں سے مرعوب ہوتی ہے یا نہیں.میرا اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میں تمہیں واضح طور پر بتا دیتا ہوں اُس پیار کی وجہ سے جس کے متعلق ہمیں حکم دیا گیا.

Page 178

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۵۸ خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۷۳ء ہے کہ پیار کے ساتھ میرے بندوں کا دل جیتو ، تم اس قسم کے خیالات بھی اپنے دماغوں میں نہ لاؤ کیونکہ گیدڑ بھبکیاں ہمیں خوفزدہ نہیں کرتیں البتہ ہمارے دل میں گدگدی ضرور پیدا کرتی ہیں.ہمارے چہروں پر مسکراہٹ ضرور آجاتی ہے کہ یہ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں لیکن اگر خدانخواستہ تم فتنہ وفساد کو اس ملک میں اس حد تک پھیلانے میں کامیاب ہو گئے (ہماری دعا ہے اور ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے حالات نہیں پیدا ہونے دے گالیکن اگر کے ساتھ میں بات کر رہا ہوں ) اور حکومت وقت اس عظیم مملکت کے شہریوں کی حفاظت کرنے کے قابل نہ رہی تو پھر جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں جب احمدی کے سامنے اپنی جان و مال کی حفاظت اور بالخصوص غلبۂ اسلام کی مہم کی حفاظت کا سوال پیدا ہوا تو اُس دن تمہارے بڑے بھی اور تمہارے چھوٹے بھی تمہارے مرد بھی اور تمہاری عورتیں بھی یہ مشاہدہ کریں گی کہ تمہارے دل میں اس دنیا کی زندگی اور اس کے عیش و آرام سے جو محبت ہے اس سے کہیں زیادہ ہمیں خدا کی راہ میں جان دینے سے محبت ہے.باقی رہا یہ کہ دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان حالات میں ہم کیا کریں؟ میں آپ سے کہوں گا پہلے سے زیادہ دعائیں کریں.آپ پوچھتے ہیں کہ ان حالات میں ہم کیا کریں میں کہوں گا کہ جس خدا پر تم نے بھروسہ کیا ہے وہ قادر و توانا خدا ہے.اس نے تمہاری اتنی سالہ زندگی میں کبھی بے وفائی نہیں کی.اب بھی بے وفائی نہیں کرے گا کیونکہ وہ بچے وعدوں والا ہے.تم اس کے وفا دار بندے بنے رہو اور اپنی زندگی کے ہر لمحہ یہ ثابت کرتے رہو کہ تم اس کے وفادار بندے ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سایہ میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ گے.دنیا کی کوئی طاقت خدا تعالیٰ کے منشا کو نا کام نہیں کر سکتی خدا نے احمدیت کے ذریعہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کا فیصلہ فرمایا ہے.آسمانوں پر خدا کا یہ فیصلہ ہے اور زمین پر جاری ہو چکا ہے.جماعت احمدیہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی توحید اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ساری دنیا پر غالب آئے گا خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے جس طرح ہم دیکھتے ہیں اسی طرح دنیا کے تمام ممالک اور اقوام بھی دیکھیں گی.خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے یہ تو ضرور پورا ہوگا البتہ جماعت احمدیہ کو قربانیاں دینی پڑیں گی بعض افراد کو شاید جان کی قربانی دینی پڑے بعض کو مال کی قربانی دینی

Page 179

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۵۹ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء پڑے یہ تو ضرور ہوگا لیکن جس مقصد کے لئے جماعت کو پیدا کیا گیا ہے اس مقصد میں انشاء اللہ نا کامی نہیں ہوگی.پس گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں، فکر کی کوئی ضرورت نہیں.ان نعروں کو ، ان فتوؤں کو ، ان جھوٹی تحریروں کو جو اخباروں میں چھپتی ہیں ان سے ہنستے کھیلتے گزر جاؤ.ان کو درخورِ اعتنا نہ سمجھو اور دل کے اندر غصہ نہ پیدا کرو بلکہ ایسے لوگوں کے لئے رحم کے جذبات پیدا کرو.میں تو جب سوچتا ہوں تو مجھے بعض دفعہ یہ دُکھ ضرور ہوتا ہے کہ انسان اپنی گراوٹ میں اتنا بھی گر جاتا ہے کہ وہ پہلے ایک جھوٹ بولے اور پھر اس جھوٹ کو دلیل بنا کر ایک اور جھوٹا اور مفسدانہ مطالبہ کر دے.یہ اخلاقی گراوٹ اور انسانی فطرت کا مسخ ہونا ہمارے دلوں کو دُ کھ پہنچاتا ہے خوف نہیں پیدا کرتا.یہ طرز عمل غصہ نہیں دلا تا رحم کے جذبات پیدا کرتا ہے.پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان حالات میں دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے ان کی فلاح و بہبود اور تائید و نصرت کے سامان پیدا کر دے.جس طرح وہ ہم سے پیار کا سلوک کرتا ہے اسی طرح ان سے بھی پیار کرنے لگے یہ لوگ بھی سمجھ جائیں اِن کو بھی عقل آجائے اور خدا کے ایک عاجز اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عظیم روحانی جرنیل کی جماعت میں شامل ہونے کی ان کو بھی توفیق ملے.قرآنِ کریم کا یہ وعدہ ہے تا ہم کئی بدقسمت مرجاتے ہیں لیکن کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو لمبے عرصہ تک مخالفانہ حرکتیں کرتے اور مخالفانہ منصوبے باندھتے رہتے ہیں وہ دکھ دیتے اور گالیاں نکالتے ہیں ، مال لٹواتے اور آ گئیں لگواتے ہیں وغیرہ وغیرہ مگر ایک وقت آتا ہے کہ اُن پر حقیقت کھل جاتی ہے اللہ تعالیٰ اُن پر اپنے پیار کے جلوے ظاہر کرتا ہے اور الہی نور ان کو سارے اندھیروں سے باہر لے آتا ہے پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جماعت جو آپ کے مہدی معہود کے ذریعہ غلبہ اسلام کے لئے قائم کی گئی ہے اس کے فرد بن جاتے ہیں چنانچہ کل تک جو آگیں لگانے والے دُکھ دینے والے لوٹ مار کرنے والے قتل کے منصوبے بنانے والے تھے آج ایک عاشق خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی اور جان شار بن جاتے ہیں اور اسلام کی سربلندی کے لئے بے لوث خدمت کو شعار بنا

Page 180

خطبات ناصر جلد پنجم 17.خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء لیتے ہیں اور جان و مال اور وقت کی قربانی دینے میں فخر محسوس کرنے لگ جاتے ہیں.غرض جماعتِ احمد یہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اپنی قربانیوں میں اپنی مثال آپ ہے.خدا تعالیٰ نے صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے اور ان کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کرنے والے اور آپ کے اسوۂ حسنہ پر چلنے والے افراد جماعت احمدیہ کے نتیجہ میں انسان کو اشرف المخلوقات کہا.یہی وجہ ہے کہ اس وقت جب کہ بعض لوگ دہر یہ ہیں یا دوسرے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں طعن اور دشنام دہی کرنے والے ہیں بہت سی مخلوق ایسی ہے.جو اپنے پیدا کرنے والے خدا کو بھولی ہوئی ہے عبادت الہی سے منہ پھیر چکی ہے نیکیوں سے محروم اور اخلاق سے عاری ہے بایں ہمہ وہ بھی انسان ہونے کی وجہ سے اشرف المخلوقات ہیں کیونکہ خدا کی راہ میں قربانیاں دینے والے اور خدا سے پیار کرنے والے اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق اور فدائی یعنی صحابہ رضوان اللہ علیہم انسانیت کا سر تھے.انسان کو اشرف المخلوقات اُن پہلوں کی وجہ سے بھی کہا گیا ہے جنہوں نے اپنے وقت کے انبیاء کی خدمت میں جنہوں نے بنی نوع انسان کو اس خطہ ارض میں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے خدا کی طرف لانے کی کوششوں میں اپنی جان و مال کی قربانی دی لیکن حقیقت یہی ہے کہ اجتماعی زندگی میں انسان اشرف المخلوقات اس لئے ہے کہ انسانی برادری میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم اور جلیل انسان پیدا ہوا جس کا روحانی مقام عرش رب کریم پر ٹھہرا اور انسان اشرف المخلوقات اس لئے ہے کہ انسانی برادری نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے انسانوں کو جنم دیا اور آج ان کو جنم دیا کہ جن کے متعلق خدا نے آسمانوں سے آواز دے کر کہا کہ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا گویا انسان کو حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات بنانا اُن کی تہذیب اخلاق ، ان کے اخلاق کو درست کرنا ، اُن کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا سبق دے کر خدائے واحد و یگانہ کی طرف لا نا اُن کے دلوں میں خدا کی محبت پیدا کرنا اور ان کے اندر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا جذبہ اس طور پر پیدا کرنا کہ ان کے رگ وریشہ میں سرایت کر جائے آج یہ ہمارا کام ہے یہ ساری کوششیں ہم نے

Page 181

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۶۱ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء کرنی ہیں.ہم نے ان کو اس مقام تک لانا ہے جو اشرف المخلوقات کی حیثیت سے انسان کا مقام ہے اور یہ انشاء اللہ ہو کر رہے گا کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے یہ خدا کا فیصلہ ہے یہ تو ضرور پورا ہوکر رہے گا اس کے خلاف غیر اللہ کی جو آوازیں آئیں ہمیں ان کی کوئی پروانہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ ان لوگوں کی زبانوں سے نکلتی ہیں جو ہمارے نزدیک حقیقی معنوں میں عبادت نہیں کرتے ان کی آنکھوں میں محبت الہی کے انوار کا فقدان ہے اُن کے کان اپنے رب کے پیار کی آواز سُننے کے قابل نہیں اور اُن کے ناک اپنے ربّ کے پیار کی خوشبو سونگھنے کے قابل نہیں اگر ایسے لوگ حقارت کا اظہار کرتے ہیں تو ہمیں ان کی کیا پروا ہے؟ پس تم دعائیں کرو یہ تمہارا کام ہے اور پیار سے دنیا کے دل جیتنے کی انتہائی کوشش کرتے چلے جاؤ کہ یہی تمہیں خدا کا حکم ہے اور جب تم (اور یقینا تم ) اپنے رب کے پیار کو اپنے اندر جذب کر لو گے تو پھر دنیا کی ساری چیزیں بیچ ہیں اُن سے خوف کھانا تو درکنار رہا وہ اس قابل بھی نہیں کہ اُن کا ذکر کیا جائے.غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک آدھ استثناء کے سوا ساری اخباروں نے اس جھوٹی خبر کو شائع کیا ہے اور ملک کے کونے کونے میں پہنچایا ہے جس پر احمدی دوستوں نے سوچا کہ ہمیں مرکز سے ہدایت لینی چاہیے کہ ہمارا رد عمل کیا ہو؟ چنانچہ یہی بتانے کے لئے باوجود بیماری کے میں یہاں آ گیا.میرا خیال ہے کہ میں نے ایک احمدی کا جو صحیح مقام ہے وہ آپ کو سمجھا دیا ہے.آپ دعائیں کریں اور اس مقام پر مضبوطی سے قائم رہیں کیونکہ ہمارے لئے جو وعدے ہیں اور ہمیں جو بشارتیں ملی ہیں وہ اس شرط کے ساتھ ملی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں جس مقام پر سرفراز فرمایا ہے اس کو بُھولنا نہیں اور اس کو چھوڑنا نہیں.خدا تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتے رہنا ہے.اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھنا بے لوث خدمت میں آگے رہنا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے اور جب دنیا پیار کو کلی طور پر قبول کرنے سے انکار کر دے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو یا درکھنا کہ اٹھو! نمازیں پڑھیں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں.“

Page 182

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۶۲ خطبہ جمعہ ۴ رمئی ۱۹۷۳ء اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ رحمت الہی کو جذب کر کے اور مستانہ وار اپنے ربّ کریم کی طرف رجوع کر کے خدائے قادر و توانا کی غیرت کے عظیم نشان دیکھنے کی کوشش ہمارا فرض ہے.ایسے حالات میں ہماری یہ دعا ہوگی کہ اے رحیم خدا! ہمیں مقبول دعاؤں کی تو فیق عطا فرمائیوجس کے نتیجہ میں ظلمات“ خدا کے نور سے بدل جائیں اور دنیا و اشرقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا (الزمر : ٧٠) کا نظارہ دیکھنے لگ جائے.اللھم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۳ رمئی ۱۹۷۳ء صفحه ۲ تا ۱۰)

Page 183

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۶۳ خطبہ جمعہ ۱۱ رمئی ۱۹۷۳ء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی علیہ السلام کی جماعت کا قدم ہر سال آگے ہی بڑھتا ہے فرمائی:.خطبه جمعه فرموده ۱۱ رمئی ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کی تلاوت ط وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ ، وَ مَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۖ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ.(البقرة : ۲۷۳) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں نے ۱/۲۰ پریل کو صدرانجمن احمدیہ کے بجٹ کو پورا کرنے کے متعلق ایک خطبہ دیا تھا اس میں میں نے ایک طرف احباب جماعت کو تو جہ دلائی تھی کہ وہ اپنا اپنا بجٹ پورا کریں اور دوسری طرف سے یہ امید ظاہر کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس جماعت کا قدم آگے ہی آگے بڑھائے گا.احباب چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے بھی ایک مقام پر نہیں ٹھہریں گے.لیکن اس وقت میں نے اس تشویش کا تفصیل سے ذکر نہیں کیا تھا جس میں ناظر صاحب بیت المال مبتلا تھے چنانچہ ۱/۲۱ پریل کو جب کہ مالی سال ختم ہونے میں چند دن باقی رہ گئے تھے بجٹ میں ۲,۱۷,۸۷۱ روپے کی کمی تھی یہ ایک بڑی رقم ہے اس سے ان کے دل میں جو فکر اور

Page 184

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۶۴ خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۷۳ء تشویش پیدا ہوئی تھی وہ تو ایک قدرتی بات تھی لیکن میں نے یہ سمجھا کہ ذکر کے حکم کے مطابق گا ہے گا ہے جو یاد دہانی کروائی جانی ضروری ہے اس میں مجھ سے کچھ غفلت اور سستی ہوئی ہے اس لئے جب میں اللہ تعالیٰ کے اس حکم یعنی ذکر کے مطابق احباب جماعت کو یاد دہانی کرادوں گا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کی ہم پر بارش کر دے گا.چونکہ مالی سال کے آخری مہینے یعنی اپریل کے بعد تنخواہیں وغیرہ ملتی ہیں اور کئی دوست اس وقت اپنا بقایا چندہ ادا کرتے ہیں اور کچھ باہر سے منی آڈر چلتے ہیں اس لئے ہم ۱۰ رمئی کو آمد کے حسابات بند کرتے ہیں جب کہ خرچ کے حسابات ۳۰ را پریل کو بند ہو جاتے ہیں.پچھلے سال بھی غالباً دس ۱۰ رمئی ہی کو آمد کے حسابات بند کئے گئے تھے.گویا یکم مئی اور دس مئی کے درمیان دس دن کا جو عرصہ ہے اس میں جو آمد ہوتی ہے وہ گزشتہ سال کے بجٹ میں چلی جاتی ہے.چنا نچہ اس سال بھی ایسا ہی ہوا.جو دوست تنخواہ دار ہیں ان کو عام طور پر پہلی یا دوسری تاریخ کو تنخواہ ملتی ہیں اس عرصہ میں جو چندہ ادا ہونا ہوتا ہے یا دوستوں نے چندے دینے ہوتے ہیں یا پھر باہر سے مثلاً کراچی سے بعض لوگ مہینے کے آخر میں رقمیں دے دیتے ہیں لیکن ۱٫۳۰ پریل تک یہاں نہیں پہنچ سکتیں.اس واسطے یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ ۱۰ رمئی تک حسابات کھلے رہیں لیکن چونکہ ہر سال ۱۰ رمئی کو حسابات بند ہوتے ہیں اس لئے اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا پورا سال ہی بنتا ہے.غرض میری یاد دہانی کا نتیجہ دو شکلوں میں ظاہر ہوا ایک تو یہ کہ احباب نے بڑے پیار کا مظاہرہ کیا.میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے عہدیداروں نے دن رات کام کیا اور وہ لوگ (ایسے افرا د سینکڑوں ہوں گے ) جنہوں نے سال بھر ستی دکھائی تھی اپنا سارے کا سارا چندہ ادا کر دیا.کئی دوست ہیں جن کے ذمہ بڑی بڑی رقمیں واجب الادا تھیں انہوں نے وہ ادا کر دیں.چنانچہ جب ہم نے ۱۰ رمئی کو آمد کے حسابات بند کئے تو ۲۱ /۱ پریل تک بجٹ میں ۶٫۱۷,۸۷۱ روپے کی کمی کے مقابلہ میں ان دنوں میں ۲,۵۵,۸۳۲ روپے وصول ہوئے گویا ۳۷,۹۶۱ روپے مجوزہ بجٹ سے زائد آمد ہوئی یعنی ۲۱ /۱ اپریل کو جس بجٹ میں سے چھ لاکھ سے زائد بقایا تھا.۱۰ رمئی کو

Page 185

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۶۵ خطبہ جمعہ ۱۱رمئی ۱۹۷۳ء نہ صرف وہ بقا یا صاف ہو گیا بلکہ اڑتیس ہزار کے قریب زائد آمد ہوئی.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - یہ سال بھی دراصل کئی لحاظ سے ہنگامی سال تھا.اس سال مختلف وقتوں میں کالج وسکول قومیائے گئے یعنی حکومت نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا.کچھ عرصہ ہوا میں نے رپورٹ منگوائی تھی صحیح اعداد و شمار تو مجھے یاد نہیں لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے تعلیمی ادارے (سکول اور کالج ) شروع میں اپنی آمد یعنی فیس وغیرہ کے مقابلہ میں خرچ زیادہ کروا دیتے رہے ہیں.فیس اور دوسرے واجبات کا جہاں تک تعلق ہے یہ زیادہ تر عادتاً ( قانو نا نہیں ) سال میں دو تین موقعوں پر زور دے کر وصول کئے جاتے ہیں لیکن چونکہ شروع سال میں بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں مثلاً کھیلوں کا سامان اور دوسری چیز میں خریدنی پڑتی ہیں ان پر خرچ کر دیئے ہیں اگر چہ وہ یونین فنڈ ہوتا ہے لیکن وہ خرچ جو صدر انجمن احمد یہ اٹھاتی تھی.وہ اُنہوں نے زیادہ تر شروع میں کرنا ہوتا ہے اس لئے خرچ تو بہت سارے ہو گئے جو شروع میں ہو جاتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں فیسوں کی آمد کم ہوئی.سکولوں اور کالجوں پر آٹھ نو لاکھ روپے خرچ کرنے پڑتے تھے ان کے قومیائے جانے کی وجہ سے جماعت احمدیہ کو آٹھ نو لاکھ روپے کی بچت ہونی چاہیے تھی مگر اس کی بجائے غالباً دولاکھ چالیس پینتالیس ہزار روپے کی رقم بچی.باقی شروع میں ہی جماعت کے تعلیمی اداروں پر خرچ ہو گئی تھی.دوسرے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس وقت تک ہمارے صوبہ کے وزیر تعلیم اپنے آپ کو جماعت کے تعلیمی اداروں کا سگا باپ نہیں سمجھتے اس لئے کہ انہیں یہاں کے تعلیمی اداروں کی بعض ضروری چیزوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہے.ہمارے بعض ایسے کام تھے جن پر ہم نے حکومت کی تحویل میں چلے جانے کے باوجود اس لئے رقم خرچ کی کہ اینٹیں اور شہتیر تو حکومت نے لے لئے لیکن انہوں نے بچوں کی گردنوں کی حفاظت کی ذمہ داری قبول نہیں کی مثلاً ہائی سکول کا بورڈنگ ہاؤس خستہ حالت میں تھا.جماعت نے اس کی مرمت کے لئے غالباً پچاس ہزار روپے منظور کئے ہوئے تھے چنانچہ بورڈنگ کی چھتیں وغیرہ تبدیل کرنے پر خرچ کیا گیا.اب اگر جماعت یہ کام نہ کرتی تو کسی نے توجہ ہی نہیں دینی تھی.ابھی تک کسی کو ہوش ہی نہیں.شاید ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ

Page 186

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۶۶ خطبہ جمعہ ۱۱ رمئی ۱۹۷۳ء جماعت اس عرصہ میں ان کے اس نیشنلائزڈ انسٹی ٹیوشن (Nationalised Institution) پر پچاس ہزار روپے خرچ کر چکی ہے کیونکہ جماعت تو ہر فرد کی بمنزلہ ماں اور باپ کے ہے.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندہ جماعت ہے جس طرح جماعت اپنی تنظیم سے اپنے باپوں سے بڑھ کر پیار کرتی ہے اسی طرح تنظیم احباب جماعت سے ان کے باپوں اور ماؤں سے زیادہ بڑھ کر پیار کرتی ہے سوال یہ نہیں تھا کہ حکومت کو خرچ کرنا چاہیے تھا اس لئے وہ خرچ کیوں کیا جائے ؟ سوال یہ تھا کہ بچے تو ہمارے ہی ہیں وہ ان بچوں کو اپنا بچہ نہیں سمجھتے تو وہ ہمارے نزدیک گناہ گار ہیں اور ہمارے نزدیک وہ اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی اہلیت نہیں رکھتے لیکن یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم یہ کہہ دیں کہ بچوں کے سروں پر بے شک چھتیں گر جائیں ہمیں کیا ہے؟ بچے ہمارے ہیں اور انشاء اللہ ان کے سروں پر چھتیں نہیں گریں گی چنانچہ ہم نے پچاس ہزار روپے بورڈ نگ کی مرمت پر خرچ کر دیئے.اس لحاظ سے یہ گو یا ہنگامی سال تھا.اس سال حکومت کی بعض پالیسیوں کے مقابلہ میں جتنی بچت ہونی چاہیے تھی اتنی بچت نہیں ہوئی کیونکہ زیادہ تر پیسے تعلیمی اداروں پر شروع ہی میں خرچ ہو گئے تھے.قومی تحویل میں بعد میں گئے ہیں اس کے باوجود جو ہمارا خرچ کا بجٹ ہے جس وقت بجٹ بنتا ہے تو اس وقت خرچ کی بعض مذات بطور ریز رو کے ہوتی ہیں.جس وقت اللہ تعالیٰ نے پریس کی سکیم میرے ذہن میں ڈالی ( آج میں پہلی دفعہ آپ کو بتانے لگا ہوں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے کیا اشارہ کیا تھا) میں اس سلسلہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ جب خدا نے مجھے یہ سکیم بتائی تو میں نے کہا کہ میں اس کے لئے جماعت سے چندہ کی اپیل نہیں کروں گا.ہمارا اندازہ تھا کہ اس پریس پر دس لاکھ روپے خرچ آئیں گے اگر دس لاکھ روپے خرچ کریں اور ہر سال ایک لاکھ روپیہ واپس کریں تو دس سال میں قرضہ ختم ہو جائے گا.جماعت کے اتنے ریز رو ہیں ان میں سے بطور قرض لے لیں گے.ایک لاکھ جو واپس کرنا ہے وہ سالا نہ چندوں میں سے ہے چنانچہ تین چار سال سے ایسا ہو رہا ہے ہر سال ایک لاکھ روپیہ علیحدہ کیا جاتا رہا ہے.یہ ریزرو میں جاتا ہے مگر خرچ میں دکھا دیا جاتا ہے یا ہماری کئی لاکھ روپے کی مد ہے ریز رو برائے واپسی قرضہ جات کی.کچھ تو ۴۷ء میں رقمیں ضائع ہو گئی تھیں.وہ قرضوں میں رکھی ہوئی ہیں ورنہ پھر یہ

Page 187

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۶۷ خطبہ جمعہ ۱۱رمئی ۱۹۷۳ء خیال نہیں پیدا ہوتا کہ یہ رقمیں پوری ہونی چاہئیں.پھر جب ربوہ بنا تو حضرت صاحب نے قرضہ لے کر خرچ کیا اس کی واپسی کے لئے یہی ایک مد ہے جو واپسی قرضہ جات کے نام سے قائم ہے تاہم جہاں تک مجھے یاد ہے وہ لکھوکھا روپے جو ربوہ کی جماعتی عمارتوں کی تعمیر کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے افراد جماعت سے عمارتیں رہن رکھ کر قرض لئے تھے وہ سارے کے سارے قرضے خدا کے فضل سے واپس ہو چکے ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - پس ہم اللہ تعالیٰ کا ہر سال بلکہ ہمیشہ ہی یہ نشان دیکھتے ہیں کہ خدا کی مدد اور اس کی نصرت جماعت کے شامل حال رہتی ہے.مالی سال کے آخر میں ہم اس کا نمایاں طور پر مشاہدہ کرتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا قدم ہر سال آگے ہی ہوتا ہے حالانکہ خود بجٹ پچھلے سال کے بجٹ سے زائد تھا.میرے خیال میں پچھلے سال کی نسبت دو لاکھ روپے کا اضافہ تھا اور آمد بڑھوتی کے مقابلہ میں بھی زیادہ ہوئی ہے اور یہ خدا کا ایسا نشان ہے کہ ہمارے مخالفین میں سے جس کے دماغ میں ذراسی بھی عقل ہے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کی مخالفتوں کے نتیجہ میں غلبہ اسلام کے لئے جماعتی کوششوں میں کوئی غفلت یا کوتاہی ہوئی.بجٹ دراصل ایک بنیاد ہے جس کے اوپر ہم نے اپنی ساری دینی سرگرمیوں یا مہمات دینیہ کی عمارت کھڑی کرنی ہوتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ بنیا د سال بسال مضبوط سے مضبوط تر بنتی چلی جارہی ہے.دراصل یہ بھی ایک بہت بڑی دلیل ہے جسے اللہ تعالیٰ دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے تا کہ کسی وقت ان کو سمجھ آ جائے اور ان کی آنکھیں کھل جائیں.جہاں تک میں نے اپنے ان دوستوں ( ہمارے نزدیک دوست ہی ہیں کیونکہ خدا نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ تم نے ان کے دل جیتنے ہیں) کی تقاریر اور تحریرات کا مطالعہ کیا ہے ہر سال وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہمیں ہلاک کرنے کی ان کی کوششیں سال گزشتہ کی نسبت زیادہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا ہمیں ہر سال یہ نشان دکھاتا ہے کہ ہمیں کمزور کرنے اور ہلاک کرنے کے لئے جو کوششیں کی جاتی ہیں ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو قبول فرما تا اور پہلے سے کہیں زیادہ نتائج پیدا کر دیتا ہے.

Page 188

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۶۸ خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۷۳ء لیکن یہیں بس نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہماری کوششوں میں ہر سال پہلے سے زیادہ تیزی پیدا ہوتی ہے.صرف کوششوں میں تیزی نہیں آتی بلکہ کوششوں کے نتائج کوششوں کی کمیت کے مقابلہ میں ہر سال پہلے کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں گویا ایک تو کوشش زیادہ ہوتی ہے دوسرے کوشش اور نتیجہ کی نسبت زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمتیں ہیں.ہمارے دل اس کی حمد سے معمور ہیں ہماری زبانیں اس کا شکر ادا کرتے کرتے خشک ہو جا ئیں تب بھی ہم کماحقہ شکر ادا نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ مجھے خیال آیا اللہ تعالیٰ اتنے فضل اور رحم نازل کرتا ہے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں پر کیوں نہ میں ایک کتاب لکھوں.چنانچہ کشف میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو موسلا دھار بارش کا نظارہ دکھایا اور فرمایا اگر تو بارش کے ان قطروں کو گن سکتا ہے تو پھر ایسی کتاب لکھنے کی کوشش کر جس میں میرے احسانات کو گنا جائے.اللہ تعالیٰ کے احسان تو بے حد و حساب ہیں.حقیقت یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو گن ہی نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر غیر محدود انعامات کی بارش برساتا ہے.بھلا محدود انسان کی محدود طاقتیں غیر محدود فضلوں کا شکر کیسے ادا کر سکتی ہیں ؟ صاف بات یہ ہے کہ کبھی کر ہی نہیں سکتیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم شکر ادا ہی نہ کریں اس کا یہ مطلب ہے کہ ہر شخص انفرادی طور پر اور جماعت اجتماعی طور پر اپنی طاقت کی انتہا تک اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور خدا سے کہے اے خدا! تو نے مجھے جو قو تیں عطا کیں ان کے مطابق میری زبان پر تیری حمد کے کلمات جاری ہوئے اور میرے جسم کے ذرہ ذرہ اور میری روح کے گوشہ گوشہ سے تیری حمد وثنا کی ندا بلند ہوئی.ہم سمجھتے ہیں کہ تیرا کماحقہ شکر ادا نہیں ہو سکا اور نہ ہو سکتا ہے لیکن جتنا شکر ہم ادا کر سکتے تھے اتنا شکر ادا کر دیا ہے.پس اگر تم لين شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَتكُمْ (ابراهیم : ۸) کی رُو سے اللہ تعالیٰ کے شکر اور اس کی حمد کو اپنی طاقت کی انتہا تک پہنچاؤ گے تو اللہ تعالیٰ اس وعدہ یعنی لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ کے مطابق شکر اور حمد کی طاقت میں اضافہ کرے گا.گو اس کے اور بھی کئی پہلو ہیں لیکن ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ جب آپ زیادہ شکر کی توفیق پائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو زیادہ شدت کے

Page 189

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۶۹ خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۷۳ء ساتھ اپنے پر نازل ہوتا دیکھیں گے ہر سال زیادہ نمایاں ہوکر اور زیادہ پختہ بن کر.غیر کے لئے یہ دلیل ہو گی کہ ساری دنیا کی مخالفانہ طاقتیں جماعت احمدیہ کی قوت کو کمزور کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ جماعت احمدیہ کی قوت، ان کا اخلاص ، ان کی جاں نثاری اور ان کی قربانیاں پہلے سے زیادہ محض اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اور ان قربانیوں کے نتائج بھی پہلی قربانیوں کے نتائج کے مقابلہ میں نسبتاً زیادہ ظاہر ہوئے.اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو مختلف پیرایہ میں بیان فرمایا ہے جو آیت اس وقت میں نے پڑھی ہے اس میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں.ایک یہ کہ جو مال بھی تم خدا کی راہ میں خرچ کرو گے وہ مال خیر ہونا چاہیے خیر کے لفظ میں دونوں معنی پائے جاتے ہیں مال بھی ہو اور مال حلال بھی ہو ) تو اس کا فائدہ تمہارے نفسوں کو ملے گا گویا ہر قربانی دینے والا مخلص مومن اپنے نفس کی بھلائی کی خاطر خدا کی راہ میں قربانی دیتا ہے.دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ گو دنیا بھی قربانی دیتی ہے لیکن وہ انتہائی قربانی دینے کے بعد ایک عارضی نتیجہ چاہتی ہے کبھی اس میں کامیاب ہوتی ہے اور کبھی کامیاب نہیں ہوتی.تاہم ان کا جو مقصود و مطلوب ہے وہ ایک بے حیثیت اور عارضی چیز ہے مثلاً لوگ مال کی قربانی دیتے ہیں یا جنگوں میں جان کی قربانیاں دے دیتے ہیں یا اوقات کی قربانیاں دے رہے ہیں مگر اس کے نتیجہ میں ان کو دنیا تومل جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کی رضا حاصل نہیں ہوتی.عیسائی قو میں مالی لحاظ سے ہم سے بہت زیادہ قربانیاں دینے والی ہیں ( مختلف ملکوں میں آباد ہونے کی وجہ سے میں ان کو قو میں کہہ رہا ہوں) اسی طرح دہر یہ ممالک مالی لحاظ سے ہم سے بہت زیادہ قربانیاں دینے والے ہیں.روس قربانی دیتا ہے روسی حکومت اہلِ روس سے مالی قربانی لیتی ہے تاکہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں زیادتی کر سکے.غرض روس اور دوسرے اشترا کی ممالک دنیا کی اس غرض کے لئے اور دنیا کی اُس غرض کے لئے لوگوں سے مالی قربانی لیتے ہیں.وہ ہم سے زیادہ قربانیاں دیتے ہیں لیکن ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں ان کو خیر نہیں ملتی یعنی جو بہترین جزا عقلاً مل سکتی ہے وہ عملاً ان کو نہیں ملتی جو دنیا کی خاطر عارضی زندگیوں کے لئے قربانیاں دیتے ہیں ان کو دنیوی انعام مل جاتا ہے کبھی وہ بھی نہیں ملتا.تاہم ان کے اپنے اندازے ہیں ان

Page 190

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۷۰ خطبہ جمعہ ۱۱رمئی ۱۹۷۳ء کے مطابق وہ کام کر رہے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اس نے فرمایا جو تم مجھ سے مانگو گے تمہارے معیار کے مطابق خیر میں نہیں دوں گا بلکہ اپنی محبت اور اپنی قدرت اور اپنے علم کے مطابق دوں گا مثلاً ہوسکتا ہے تمہاری جو درخواست ہے وہ تمہارے لئے حقیقتا دکھ دہ ہو، نقصان دہ ہو مہلک ہو مثلاً اگر کوئی مذہبی جماعت ( میں چونکہ سمجھانا چاہتا ہوں اس لئے بطور مثال لے رہا ہوں ور نہ جو زندہ مذہبی جماعتیں ہیں ان کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ ) روس کی طرح اللہ تعالیٰ سے یہ کہے کہ ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ چاہیے.اے خدا! اس کے لئے تو ہمیں قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرما.اللہ تعالیٰ اس کی اس قسم کی دعا اور درخواست کو قبول نہیں فرمائے گا کیونکہ وہ دنیا کے دل جیتنے کے لئے مذہبی جماعتوں کو قائم کرتا ہے ان کے ذریعہ دنیا کو ہلاک کرنے کے منصوبے نہیں بنائے جاتے البتہ دنیا دار لوگوں کی کوشش اندھیروں میں کبھی اچھی اور کبھی بُری ہوتی ہے مگر وہ دنیا کے لئے ہوتی ہے.چنانچہ ان کی کوشش کے نتیجہ میں کبھی دنیا کی بھلائی انہیں مل جاتی اور کبھی نہیں ملتی لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری راہ میں تم جو بھی کوشش کرو گے میں ضمانت رود دیتا ہوں کہ وہ لانفسکم تمہارے لئے بھلائی کا موجب ہو گی.تیسری بات اس آیت کریمہ میں یہ بیان ہوئی ہے کہ ایک مومن جو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت رکھتا ہے وہ جب بھی خدا کی خاطر خرچ کرتا ہے اس کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی مشفقانہ توجہ جسے وہ اپنی طرف کھینچنا چاہتا ہے وہ خدا کی آنکھ میں اپنے لئے پیار د یکھنا چاہتا ہے.یہی اس کا مقصد ہوتا ہے جس میں وہ کامیاب ہوتا ہے چونکہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا پیار اسے مل جاتا ہے اس لئے اسے دنیا میں کوئی تکلیف نہیں پہنچتی یا دنیا کی تکلیف کو وہ تکلیف نہیں سمجھتا اور پھر اخروی دنیا میں اس کی کوشش یا قربانی (مالی ہو یا جانی ) کی جو جزا ہے اس کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں اور پھر ہماری کوشش اور قربانی کیا ہے.ایک عارضی کوشش ہے.ایک ناقص کوشش ہے ایک لفظی کوشش ہے لفظی کوشش معنوی لحاظ سے ورنہ جو دیا تھا وہ خدا کا تھا.اسی نے دیا اور ہم نے اس کے حضور پیش کر دیا.اپنی طرف سے تو کچھ نہیں کیا اس لحاظ سے میں کہوں گا کہ یہ لفظی کوشش ہے مگر اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہیں پورے کا پورا دوں گا اور کوئی کمی نہیں کروں گا.

Page 191

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ارمئی ۱۹۷۳ء پورا تمہارے پیمانے کے مطابق نہیں بلکہ اپنے پیمانے کے مطابق پورا دوں گا.پس یہی وہ فرق ہے جو دنیا دارلوگوں کی کوششوں اور خدا کی قائم کردہ جماعتوں کی کوششوں میں نظر آتا ہے دنیا داروں کی کوششیں دنیوی خوشیوں کے حصول کے لئے ہوتی ہیں.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کی جماعت کی کوششیں اپنے نفس کی بھلائی کے لئے ، اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کی خاطر اور ابدی جنت کے حصول کے لئے ہوتی ہیں مگر یہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کا پیار ان کے شامل حال نہ ہو.خدا نے فرمایا میرے پیاروں کا قدم نہ کبھی ایک جگہ ٹھہرے گا نہ پیچھے ہٹے گا بلکہ آگے بڑھے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے دکھا دیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی علیہ السلام کی جماعت کا قدم ہر سال آگے ہی بڑھتا ہے.اس میں دنیا کے لئے ایک عظیم نشان ہے صداقت احمدیت کا.اللہ تعالیٰ دنیا کی آنکھیں کھولے اور انہیں سمجھ عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ / مارچ ۱۹۷۴ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 192

Page 193

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۷۳ خطبہ جمعہ ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے لئے شاہد ، مبشر اور نذیر تھے خطبه جمعه فرموده ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.اِنَّا اَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا - لِتُؤْمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا - (الفتح : ٩، ١٠) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ دو آیات جو اس وقت میں نے تلاوت کی ہیں.ان میں سے پہلی آیت میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین صفات بیان ہوئی ہیں یا تین بنیادی کام جو آپ کے سپرد ہیں ان کا ذکر ہے جبکہ دوسری آیت میں تین بنیادی ذمہ داریوں کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین صفات کے نتیجہ میں اُمّتِ مسلمہ پر عائد ہوتی ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول ! ہم نے تجھے شاھد بنا کر مبعوث کیا ہے شاھد کے معنے صفات باری پر گواہ کے ہیں اور یہ گواہی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دوطور پر دی گئی ہے ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے لحاظ سے اور دوسری آپ کے اسوۂ حسنہ

Page 194

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۷۴ خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء کے لحاظ سے.صفات باری کے تعلق میں تاریخ نے پہلے انبیاء کی جو تعلیمات محفوظ کی ہیں اگر ان کا قرآن عظیم سے موازنہ کیا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جس قدر وضاحت کے ساتھ جس قدر وسعت کے ساتھ جس قدر حسن کے ساتھ اور جس قدر دل موہ لینے والے انداز میں قرآن کریم نے صفات باری کو بیان کیا ہے، اس قدر اور اس قسم کا بیان پہلی کتب میں نہیں پایا جاتا تھا اس لئے کہ ابھی نوع انسانی انفرادی اور اجتماعی ہر دو اعتبار سے ارتقائی مدارج کو طے کر کے اس انتہائی رفعت تک نہیں پہنچی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ اُمتِ مسلمہ کے لئے مقدر تھی کیونکہ نوع انسان انتہائی رفعت کی تدریجی طور پر ترقی کر رہی تھی حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ انسان نے خدا کی صفات کے اپنے حالات اور استعداد کے مطابق کچھ جلوے دیکھے اور اس نور سے خود کو منور کیا.پھر دیگر انبیاء علیہم السلام ( شرعی بھی اور غیر شرعی بھی ) مبعوث ہوتے رہے اور وہ نوع انسان کو روحانی لحاظ سے ترقی پر ترقی دے کر ارتقا کے مختلف مدراج میں سے گزارتے ہوئے اس درجہ تک لے آئے جس میں نوع انسانی نے (جس کی اُمت مسلمہ نمائندہ ہے ) حضرت نبی اکرم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ داخل ہونا تھا.پس قرآنِ کریم میں جس رنگ میں صفات باری کا ذکر ہے اس رنگ میں پہلی امتوں کے سامنے ذکر نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ وہ اس کی حامل نہیں بن سکتی تھیں ان کے اندر اس کی استعداد اور طاقت نہیں پائی جاتی تھی.غرض تعلیمی لحاظ سے قرآنِ کریم نے خدا تعالیٰ کی صفات پر گواہی دی.قرآن کریم نے ہر صفت کو لیا اور پھر آگے اس کی تفصیلات کو بڑی وضاحت سے بیان کیا اس کے لئے شواہد پیش کئے.خدا تعالیٰ کی بعض ایسی بنیادی صفات ہیں ( اشارہ ہی کر سکوں گا کیونکہ نفس مضمون کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ) جن کا تعلق سب صفات باری سے ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے سورۃ ملک میں بیان فرمایا ہے کہ تمام صفات باری کی بنیادی صفت یہ ہے کہ ان کے جلوؤں میں انسان کو کبھی تضاد نظر نہیں آئے گا چنانچہ صفات باری کے جو مختلف جلوے نوع انسانی پر نازل ہوتے ہیں ان پر اجتماعی نظر ڈالی جائے تو واقعی ان کے اندر کوئی تضاد نظر نہیں آتا اس لئے کہ تضاد کا نہ ہونا

Page 195

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۷۵ خطبہ جمعہ ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء صفات باری کی ایک بنیادی صفت ہے میرے خیال میں (جس رنگ میں قرآن کریم نے ان کو پیش کیا ہے اس رنگ میں ) پہلی شرائع میں اس قسم کی بنیادی صفات کا ذکر بھی کوئی نہیں ہوگا کیونکہ پہلے انسان کی روحانی جس اور روحانی شعور اس قابل نہیں تھا کہ ان باریکیوں کو سمجھ سکے.غرض ایک تو تعلیم کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے شاہد یا گواہ کے طور پر ہیں اور دوسرے آپ گواہ ہیں اپنے عمل کے لحاظ سے ، اپنے نمونہ کے لحاظ سے کیونکہ صفات باری کا بیان نوع انسانی کے لئے محض ایک فلسفیانہ مضمون کے طور پر نہیں ہے بلکہ اس بیان میں انسان کی زندگی کو ایک خاص رنگ میں بدل کر رکھ دینا مقصود تھا اس پر انسان کو عمل کرنا تھا اور وہ یہی بنیادی تعلیم تھی جس کی جھلک انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ نازل ہوتی رہی اور جو کامل طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل ہوئی.انسان کو اس کا مظہر بنا ہے یہی انسانی زندگی کا مقصد ہے.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی نوع انسان کو تعلیم دینے کا مقصد یہ ہے کہ وہ صفات باری کا مظہر بننے کی کوشش کریں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے شاہد ہیں اس معنی میں بھی کہ آپ نے کامل اور ائم طور پر اپنے وجود کو صفات باری کا مظہر بنا کر دنیا کو دکھا دیا گویا آپ کا وجود صفات باری کا مظہر اتم ہونے کی وجہ سے اس حقیقت کا گواہ ہے کہ صفات باری انسان پر جلوہ گر ہوتی ہیں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ - (الدريت : ۵۷) چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں نوع انسانی نے عبد کامل کا ایک نہایت ہی حسین نمونہ دیکھا.کوئی دوسرا انسان نہ تو ایسا حسین نمونہ پیش کر سکتا تھا اور نہ ہی اس رفعت اور عظمت کو پا سکتا تھا.غرض جہاں تک صفات باری کا تعلق تھا اسے قرآنِ کریم میں بیان کر دیا.جہاں تک صفات باری کے بیان کی غرض کا تعلق تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عملی نمونہ سے اور صفات باری کا مظہر اتم بن کر دنیا کو دکھا دیا.گویا ہر دو اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 196

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۷۶ خطبہ جمعہ ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء صفات باری کے شاہد ہیں.پھر اسی آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ آپ مبشر ہیں آپ دنیا کو بشارتیں دینے والے ہیں پھر آپ کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ آپ نذیر ہیں.آپ دنیا کو ڈرانے والے، انتباہ کرنے والے اور بدیوں اور بداعمالیوں سے روکنے والے ہیں جو باتیں اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد بنا دیتی ہیں ان کو بتا کر دنیا کو ان سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے والے ہیں.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تین بنیادی صفات ہیں جو اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں اس کے مقابل امت مسلمہ پر (چونکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے نتیجہ میں نوع انسانی کی بہترین نمائندہ ہے اس لئے اس پر ) تین ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں چونکہ آپ شاہد ہیں اس لئے فرمایا تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر ایمان لاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاؤ.اس بات پر یقین رکھو کہ آپ کے اُسوہ حسنہ پر چلنا نوع انسانی کے لئے ضروری ہے گویا آپ کی شاہد کی صفت کے مقابلہ پر عقلاً بھی اور شرعاً بھی انسان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جملہ صفات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے اور آپ کے اُسوہ حسنہ پر چل کر سعادتِ دارین پائے.پھر چونکہ آپ مبشر ہیں اس لحاظ سے انسان پر جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ ان الفاظ میں مضمر ہے.وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ (الفتح :۱۰) فرمایا آپ کی تعظیم کو دیکھ کر ، آپ کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے آپ کے مشن کی کامیابی کے لئے کام کر و اسلام کی مدد کرو اور اس کی نصرت کرو آپ کی عظمت کا اقرار محض زبان سے نہیں کرنا بلکہ ساتھ عمل بھی کرنا ہے گویا اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ تم اپنے قول اور عمل سے اس عظیم شریعت کی مدد کرو گے تو خدا کے پیار کو پا لو گے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم خالی ایمان لے آؤ گے بلکہ فرمایا ہے کہ مُبَشِّرًا کی حیثیت سے آپ کے ذریعہ دنیا کو جو بشارتیں دی گئی ہیں ان پر بھی یقین رکھو گے اور خلوص نیت کے ساتھ اپنے قول اور فعل کو آپ کے اُسوہ حسنہ کے مطابق بنا لو گے تو وہ بشارتیں تمہیں مل جائیں گی جو انسانیت کے

Page 197

خطبات ناصر جلد پنجم 122 خطبہ جمعہ ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء محسنِ اعظم حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو دی گئی ہیں.آپ کی تیسری صفت نذیر بیان ہوئی تھی اس کے مقابلہ میں انسان پر جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے وه وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (الفتح : ١٠) کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے.تسبیح کے دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کی کمزوری اور نقص سے منزہ سمجھنا گویا اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب اور کمزوری سے پاک ہے دوسرے معنے امام راغب نے مفردات میں یہ بیان کئے ہیں الْمَزُ السَّرِيعُ فِي عِبَادَةِ اللهِ تَعَالَى...عَامَّا فِي الْعِبَادَاتِ قَوْلًا كَانَ أَوْ فِعْلًا أَوْ نيّةٌ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سرعت پیدا کرنا....گو یا تسبیح کا لفظ قولی و فعلی اور نیت کی عبادات کے لئے عام طور پر استعمال ہوتا ہے اور ان عبادات میں سرعت پیدا کرنا تسبیح ہے.غرض نذیر کے مقابلہ میں وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (الفتح:۱۰) میں بتایا کہ چونکہ بعض قسم کے افعال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے اس لئے تمہاری یہ ذمہ داری ہے کہ جب انذار کے حالات پیدا ہوں ، لوگوں کو بد اعمالیوں سے ڈرایا جائے تو یہ امر تمہارے لئے نیکیوں کے بجالانے میں سرعت اور تیزی پیدا کر دے.پس یہ تین ذمہ داریاں ہیں جنہیں میں نے مختصراً اور کچھ تھوڑے سے موازنہ کے ساتھ بیان کر دیا ہے.شاہد کی صفت کے مقابلہ میں ایمان باللہ وایمان برسول کہا گیا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے تعلیمی لحاظ سے صفات باری کا جو بیان قرآنِ عظیم میں ہے وہ انسان کی تاریخ میں ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتا.اس لحاظ سے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم معرفتِ صفات و شئونِ باری کے لئے قرآنِ کریم پر غور کریں اور صفاتِ باری کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ صفات باری کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں بداعمالیاں سرزد ہوتی ہیں جو توحید سے دور لے جانے والی اور شرک کے قریب کرنے والی ہیں.گویا پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے جس رنگ میں صفات باری کو بیان کیا ہے اس رنگ میں ان کا عرفان حاصل کرنا چاہیے.چنانچہ آج مہدی معہود علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والوں کو یہ کہا جا سکتا ہے کہ صفات باری کا جس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں اور اپنی تحریروں اور تقریروں میں بیان

Page 198

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۷۸ خطبہ جمعہ ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء فرمایا ہے اور جو تفسیر قرآنِ عظیم ہے ان صفات کے بیان کو پڑھنا اور ان کو سمجھنا اور ان کو یادرکھنا ہمارا فرض ہے گویا ہمیں عرفان صفات باری حاصل ہونا چاہیے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ شاہد ہیں.صفات باری کے گواہ ہیں اور ان کی صفات کی حقیقت کو اپنے عمل سے ثابت کرنے والے ہیں اس لئے اس جہت سے آپ کی متابعت میں ہماری پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے والے اور ان پر غور کرنے والے ہوں.ہمیں صفات باری کی اس حد تک معرفت حاصل ہو جائے کہ وہ ہماری زندگی کی روح رواں بن جائیں.وہ ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر محیط ہو جائیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شاہد ہونا ہم احمد یوں پر یہ ذمہ داری بھی ڈالتا ہے ( یوں تو سب نوع انسانی پر ڈالتا ہے لیکن اس وقت پہلے مخاطب آپ ہیں اس واسطے میں کہوں گا کہ احمدیوں پر یہ ذمہ داری ڈالتا ہے ) جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے شاہد کی صفت میں علمی لحاظ سے صفاتِ باری اور توحید باری کو بیان کرنے والا جو حصہ ہے وہ محض ایک فلسفیانہ بیان نہیں بلکہ وہ ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہونے والا بیان ہے.اس کی غرض یہ ہے کہ ہم صفات باری کے مظہر بنیں تو گویا شاہد کی صفت کے مقابلہ میں جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وجود پر صفات باری کا جو رنگ چڑھایا تھا ہم بھی اپنے پر وہی رنگ چڑھانے کی کوشش کریں.تاہم یہ تو صیح ہے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بن سکتے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر بن سکتے ہیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ اور آپ کا ظل بن جائیں.ایک اچھا فوٹو گرافر اچھی تصویر کھینچتا ہے لیکن ایک عام فوٹوگرافر بالخصوص دیہات میں رہنے والا تو بڑی بھڑی سی دھندلی سی تصویر کھینچتا ہے لیکن تصویر ہوتی تو اسی شخص کی ہے جس کی تصویر کھینچی گئی ہے.گویا ایک اچھا کیمرہ زیادہ عمدہ اور روشن عکس لے لے گا لیکن ایک خراب اور سستا کیمرہ دھندلا ساعکس لے گا اسی طرح ایک شخص جو پوری توجہ اور محنت اور اخلاص سے سعی اور کوشش کرنے والا ہے اور اس کی استعداد بھی زیادہ ہے وہ زیادہ نورانی عکس لے لے گا لیکن ایک کمز ور ایمان شخص جو عملاً ست ہے وہ بھی عکس تو

Page 199

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۷۹ خطبہ جمعہ ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء لے گا مگر وہ کمز ور قسم کا ہوگا.تاہم عکس تو وہی ہوگا، تصویر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی ایک روشن ہوگی دوسری دھندلی ہوگی.اگر ہم صحیح معنی میں احمدی ہیں تو ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم صفات باری کی معرفت حاصل کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کو لائحہ عمل بنا ئیں.میں اس حصہ کو پھر دوہرا دیتا ہوں کہ شاھد کی صفت کے مقابلہ میں ہماری ذمہ داری کے دو پہلو ہیں.ان ہر دو پہلوؤں کے لحاظ سے ایک احمدی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صفات باری کی معرفت حاصل کرے.صفات باری کا علم حاصل کرے.ان کو پڑھے ، ان کی حقیقت کو پہچاننے کے لئے ان پر غور کرے اور دیکھے کہ صفات باری کی کس قدر حسین تفاسیر بیان کی گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.دوسرے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صفات باری کا رنگ اپنے وجود پر چڑھایا تھا.جس طرح آپ صفات باری کے مظہر احم بنے تھے کیونکہ آپ کی استعدادا ئم تھی اور قوت ایسی تھی کہ جس کے مقابلہ میں کوئی انسانی قوت پیش نہیں کی جاسکتی لیکن اخلاص کے ساتھ قربانیاں دے کر اور مجاہدہ کر کے اللہ تعالیٰ سے ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ محبت قائم کر کے اور اللہ تعالیٰ کے عشق اور پیار میں فنا ہو کر آپ نے اپنے اوپر جو رنگ چڑھایا تھا اسی طرح ہمیں بھی اپنی قوت اور استعداد کے مطابق انتہائی زور لگا کر وہی رنگ اپنے پر چڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صفت تھی مبشر ہونے کی.اس صفت کے مقابلہ میں تُعَذِرُوهُ وَتُوَقرُوں کی رو سے تعزیر اور توقیر کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے المنجد میں عذر کے معنے ہیں النُّصْرَةُ مَعَ التَّعْظِیمِ یعنی کسی ہستی کی عظمت کے احساس کے ساتھ اس کی اعانت اور مدد کرنا تعرروہ میں ضمیر کا مرجع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے لیکن چونکہ آپ کی ذات کو تو کسی انسان کی عزت و تکریم کی ضرورت نہیں کیونکہ پہلے انبیاء کی زبان سے بھی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے بھی یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر

Page 200

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۸۰ خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء نہیں مانگتا تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ احکام الہی کے اجراء میں اپنے فعل اور نمونہ سے مدد کرو.گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا جو مقصد ہے اس کو کامیاب کرنے کے لئے عمل اور نمونہ کے ساتھ کوشش کرنا.اسی طرح تو قیر کے معنے عظم اور بجل (المنجد : زير لفظ بجل ) کے کئے گئے ہیں.اس کا مطلب یہ ہوا کہ قول وفعل اور نمونہ سے اس عظیم شریعت کی مدد کرو گے تو بشارتوں کو پالو گے اور خدا کے پیار کو حاصل کرلو گے.یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس قدر بشارتیں دی ہیں کہ پہلے انبیاء نے اس کا سواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی بشارتیں نہیں دیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بشارتیں تمہیں اس طرح نہیں ملیں گی جس طرح ایک آم کے درخت کے مالک کو ٹپکے کا آم پکنے کے بعد خود گر کر مل جاتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی بلکہ تمہیں اس کے لئے اسی طرح قربانیاں دینی پڑیں گی جس طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے مقصد کے حصول کے لئے بے شمار قربانیاں دی اور اس راہ میں قسم قسم کے دکھ اور تکلیفیں اٹھائی تھیں.آپ کے صحابہ نے بھی آپ سے عشق و وفا کا اعلیٰ وعمدہ نمونہ دکھایا اور خدا کی راہ میں بڑی قربانیاں دیں.چنانچہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی بلند مقام کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہا گیا تھا.صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا آپ نے حقیقتا صحابہ کا درجہ پایا ہے یا نہیں اصل سوال یہی ہے کیونکہ جس شخص نے دیکھا اور بیعت کی مگر کلی طور پر پایا نہیں اس کو وہ ثواب نہیں مل سکتا جو بیعت کرنے کے بعد قربانیاں دینے والے کو ملتا ہے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے بے شمار اور بے مثال قربانیاں دینی پڑیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قربانیاں دینا آپ کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی.احادیث میں آتا ہے کہ جنگوں میں سب سے زیادہ خطرناک جگہ وہ سبھی جاتی تھی جو آپ کے قرب میں ہوتی تھی کیونکہ آپ کا وجود دشمن کا اصل نشانہ تھا چنا نچہ صحابہ میں سے جوسب سے

Page 201

خطبات ناصر جلد پنجم ΙΔΙ خطبہ جمعہ ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء زیادہ دلیر تھے وہ آپ کے قریب رہنے کی کوشش کرتے تھے.ان کے اس جذبہ سے پتہ لگتا تھا کہ وہ کتنے دلیر ہیں.صحابہ اتنے دلیر تھے تو ہمارے آقا و مولا سید نا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کتنے دلیر ہوں گے اس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا.ایک دفعہ رات کو خوف پیدا ہوا.لوگ ابھی تیاریاں کر رہے تھے یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ خوف کیوں اور کس وجہ سے پیدا ہوا ہے؟ اسی اثناء میں لوگوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر سے تشریف لا رہے ہیں.صحابہ کے عرض کرنے پر آپ نے فرمایا.کوئی بات نہیں.میں نے پتہ لے لیا ہے.تیاری کر کے مقابلہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.جاؤ گھروں میں آرام کرو.اب دیکھو! آپ نے خطرے کی صورت میں اپنے کسی ساتھی کو بتایا نہیں نہ ساتھ لیا ہے بلکہ یکا و تنہا حالات کا پتہ لینے کے لئے نکل کھڑے ہوئے حالانکہ آپ کے صحابہ میں سے ہر ایک آپ کے لئے اپنا خون بہانے کے لئے تیار رہتا اور اس پر فخر کرتا تھا.غرض خدا کی راہ میں قربانیاں دینے اور خدا کے لئے محبت اور خلوص کا اظہار کرنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے مثل اور منفرد تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے عرش پر اپنی دائیں طرف بٹھا لیا.یہ مقام تو بہت بلند ہے.یہ مقام تو عرش ربّ کریم ہے اس مقام تک تو میں اور آپ نہیں پہنچ سکتے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ امت کا ہر شخص اپنی قوت اور استعداد اور مخلصانہ کوششوں کے نتیجہ میں مقام عرش رب کریم سے ورے درے ساتویں آسمان تک پہنچ سکتا ہے.یہ گویا ایک بہت بڑی بشارت تھی جو اُمت مسلمہ کو دی گئی ہے (جس کے دروازے بعض لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے اپنے اوپر بند کر لیتے ہیں حالانکہ ) یہ ایک بہت بڑی بشارت ہے جو کھلے الفاظ میں امت مسلمہ کو دی گئی ہے لیکن آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ حقیقی معنوں میں مسلمان ہونے کے لئے محض بیعت کر لینا یا زبان سے اقرار کر لینا کافی ہو گا.بلکہ آپ نے یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے قرب کو پانے کے لئے جس رنگ میں اور جس طور پر میں نے قربانیاں پیش کرنے کا نمونہ قائم کیا ہے اسی رنگ میں تمہیں بھی قربانیاں دینی پڑیں گی.تب تم اللہ تعالیٰ کے پیار کو اپنی قوت اور استعداد کے مطابق حاصل کر سکو گے ورنہ نہیں.

Page 202

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۸۲ خطبہ جمعہ ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء تیسری بات جو پہلی آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کے طور پر بیان ہوئی ہے وہ آپ کا نذیر ہونا ہے.آپ کی صفت کے مقابلہ میں اُمت مسلمہ پر صبح و شام تسبیح کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.تسبیح کے معنے ایک تو تنزیہ و تمجید کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کے نقص، عیب اور کمزوری سے پاک سمجھنا اس کے دوسرے معنے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے مفردات امام راغب کی رُو سے اَلْمَرُ السَّرِيعُ فِي عِبَادَةِ اللَّهِ تَعَالَى وَ جُعِلَ ذَلِكَ فِي فِعْلِ الْخَيْرِ گو یا عبادت اللہ کی طرف تیزی سے دوڑ کر اور سرعت کے ساتھ جانا اور خیر اور نیکی بجالا نا تسبیح کے معنوں میں شامل ہے نذیر کی صفت میں ڈرانے کا ذکر ہے یعنی بعض ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے یا اقوال شنیعہ کے نتیجہ میں یا منافقانہ اور کافرانہ نیتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد بن جاتے ہیں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ ور نہ جب تم پر خدا کا غضب بھڑکتا ہے تو وہ ایسا سخت ہوتا ہے کہ انسان ایک لحظہ کے لئے بھی اسے برداشت نہیں کر سکتا.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میں نذیر ہیں کہ آپ خدا کا غضب بھڑ کنے سے پہلے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہیں.ان کو ہو شیار کرتے ہیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری بنیادی صفت نذیر ہے.اس صفت کے مقابلہ میں مسلمانوں پر تسبیح کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.ان سے کہا گیا کہ وہ لوگ جو خدا سے دور جا پڑے ہیں اور ا اپنی اس دوری پر تسلی یافتہ ہیں.ان کو جب ڈرایا جائے اور تنبیہ کی جائے تو اس وقت تمہارا فرض یہ ہے کہ تم عبادات بجالانے اور نیکی کے کام کرنے میں پہلے سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ لگ جاؤ.اس لئے کہ جس وقت اندار ہوتا ہے یعنی کچھ لوگ بدیوں کی طرف جھکنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تنبیہ کے مورد ٹھہرتے ہیں قولاً یا فعلاً.اس وقت خدا کے مومن بندہ کے دل میں شیطان یہ وسوسہ بھی پیدا کر سکتا ہے کہ تو بہت کچھ ہے دیکھ ! دوسروں پر خدا نے اپنا قہر نازل کیا مگر تجھ پر نازل نہیں کیا چنانچہ اس قسم کے شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ جو خدا کا نیک بندہ تھا اگر اسے ٹھوکر لگے تو بلعم باعور بن جاتا ہے.ایسی صورت میں خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار اس کی نفرت اور غضب سے بدل جاتی ہے.

Page 203

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۸۳ خطبہ جمعہ ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء اس لئے ایسے حالات میں ساتھ ہی مومن کو بھی انذار کر دیا اور ہوشیار کر دیا کہ ایسے وقت میں تمہارے اندر کوئی فخر پیدا نہ ہو بلکہ تمہارے اندر پہلے سے بھی زیادہ عاجزی اور انکسار پیدا ہو.تم اس جذ بہ کو بیدار رکھنے کے لئے کثرت سے تسبیح کرو.خدا تعالیٰ کو پاک و مطہر قرار دو اور اس حقیقت کو جان لو اور اسے ہر وقت پیش نظر رکھو کہ حقیقی پا کیز گی صرف خدا کو حاصل ہے.خدا کے علاوہ اس کی مخلوق میں سے یا انسانوں میں سے صرف وہی پاک ہے جسے خدا پاک کرتا ہے اور جس کی پاکیزگی کا اور جس کے تزکیہ کا اور جس کی تطہیر کا خود خدا اعلان فرماتا ہے انسان اپنے زورِ بازو سے، اپنے نفس کی طاقتوں کے بل بوتے پر پاکیزگی حاصل نہیں کرسکتا.غرض خدا تعالیٰ سے دور ہو جانے والوں پر جب خدا کا غضب بھڑ کے یا ان کو تنبیہ کی جائے تو دیکھنا تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرب کا جو مقام ہے کہیں شیطان کے ہاتھوں اسے چھینے جانے کا آغاز نہ ہو جائے ایسے موقع پر تمہیں فوراً خدا تعالیٰ کی تسبیح میں لگ جانا چاہیے.تمہیں خدا تعالیٰ کی تسبیح کی ڈھال کے پیچھے اپنے نفسوں کی حفاظت کرنی چاہیے.انذار کے موقع پر تسبیح کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جولوگ خدا تعالیٰ سے دور ہیں اور اس کے قرب اور پیار سے محروم ہیں ان کی بداعمالیوں میں سے کچھ اعمال خدا تعالیٰ کے مقربین کو دکھ پہنچانے والے ہوتے ہیں.اس واسطے خدا تعالیٰ انہیں (دشمنانِ اسلام کو ) انذار کرتا ہے کہ ایسے کاموں سے باز آجاؤ ورنہ قہری گرفت میں آجاؤ گے گویا شیطان کا پہلا وار انسان کی روح پر ہے اور دوسرا وار خدا کے بندوں سے نفرت اور دشمنی کو ہوا دینا ہے یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ سے دور ہیں.وہ اس کے پیاروں سے پیار نہیں کرتے بلکہ ان سے نفرت سے کام لیتے ہیں.وہ انہیں تنگ کرتے اور ہلاک کرنے کے منصوبے بناتے ہیں چنانچہ ایسے ہی موقعوں پر اللہ تعالیٰ ان سے مثلاً یہ کہتا ہے اتی مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ لیکن ہمیں یہ فرمایا کہ تم یہ نہ سمجھنے لگ جانا کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نذیر ہیں اور اپنے سے پیار کرنے والوں سے دشمنی رکھنے والوں کو تنبیہ کرتے ہیں اس لئے ہم نے کچھ نہیں کرنا کیونکہ ہم پر وار نہیں ہوسکتا.نہیں ! تم پر دشمن کا بھی اور شیطان کا بھی دو ہر اوار ہوسکتا ہے ایسے موقع

Page 204

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۸۴ خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۷۳ء پر تم نے خدا کی پناہ ڈھونڈنی ہے اپنے علم پر بھروسہ نہیں کرنا تم نے اپنی جرات پر تکیہ نہیں کرنا کیونکہ تم خود اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں ہو.علم وفضل اور جرات و بہادری خدا عطا فرماتا ہے.انسان صفات کو اپنے ماں باپ سے لے کر تو نہیں آتا یا اپنے خاندان اور قبیلے سے تو ان چیزوں کو حاصل نہیں کرتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی دین اور عطا ہے اس لئے فرمایا کہ ایسے موقع پر اللہ کے سوا کسی اور چیز پر بھروسہ نہ کرنا خدا کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا.صفات باری کے علم و عرفان میں ترقی کرتے رہنا اور تسبیح و تحمید میں مشغول رہنا یہ اعلان کرتے ہوئے کہ صرف خدا تعالیٰ ہی ہر کمزوری سے پاک اور ہر خوبی سے متصف ہے.گویا خدا کا کوئی بندہ کبھی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ مجھ میں کوئی کمزوری نہیں اس لئے دشمن خدا مجھ پر غالب نہیں آ سکتا.وہ تو یہی کہتا ہے کہ میں تو کلی طور پر کمزور ہی کمزور اور لاشے محض ہوں لیکن میں نے جس ہستی کا دامن پکڑا ہے وہ ہر کمزوری اور نقص سے پاک ہے اس کی یہ بنیادی صفت ہے کہ وہ ہر کمزوری اور عیب سے مبرا ہے میں اس قدوس ہستی کا دامن پکڑتا ہوں اور اس کی صفات کا واسطہ دے کر اس کے سامنے جھکتا اور کہتا ہوں کہ اے میرے قادر و توانا خدا! ہم میں کوئی طاقت نہیں.نہ کوئی علم ہے نہ کوئی جتھہ ہے اور نہ کوئی جرات ہے.کچھ بھی نہیں.جو کچھ ہے وہ تجھ سے پایا ہے اور اس وقت تک رکھ سکتے ہیں جب تک تو چاہے اور فیصلہ فرمائے کہ ہم ان صفات سے متصف رہیں.ان صفات سے جنہیں تو پسند کرتا اور جن سے تو محبت کرتا ہے.غرض نذیر کی صفت کے مقابلہ پر تسبیح وتحمید کی ذمہ داری کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس بات سے ڈرتے رہنا ہے کہ شیطان فخر کے جذبات نہ پیدا کر دے دوسرے یہ کہ دشمن کے مقابلہ میں اپنے زور بازو پر تکیہ نہیں کرنا اور ہمیشہ یہی سمجھتے رہنا ہے کہ ہم خدا کی مدد اور اس کے رحم کے بغیر اس کی محبت اور پیار کے بغیر تقرب الہی کے مقام کو نہ اس دنیوی زندگی میں قائم رکھ سکتے ہیں اور نہ اس کے نتیجہ میں اُخروی زندگی میں فلاح پاسکتے ہیں.اس لئے ہر دو معنی میں اس کی طرف جھکنا اور اس کی تسبیح میں مشغول ہو جانا ضروری ہے.خدا کو ہر عیب اور کمزوری سے پاک اور مقدس ٹھہراتے ہوئے اور سب پاکیزگی اور تقدس اور تزکیہ کا سرچشمہ سمجھتے ہوئے تسبیح کرنی ہے تا کہ

Page 205

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۸۵ خطبہ جمعہ ۱۸ رمئی ۱۹۷۳ء بجائے اس کے کہ ہم اپنے نفس پر یا اپنے اعمال پر یا اپنے افعال پر یا اپنے علم پر یا اپنے تجربہ پر یا اپنے جتھہ پر یا اپنی دلیری پر بھروسہ کریں، ہم نے اس کی محبت کو اور اس کے پیار کو پہلے سے زیادہ جذب کرنے کے لئے نیک اعمال بجالانے میں، خیر اور نیکی کے کام کرنے میں اور بھی زیادہ سرعت دکھانی ہے.یہی وہ حقیقت ہے جس میں دیارِ نہاں میں نہاں ہو جانے کا راز مضمر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس معنی میں فرمایا ہے.عدد جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں رونامه الفضل ربوه ۱۹ / جون ۱۹۷۳ء صفحه ۱ تا ۵)

Page 206

Page 207

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۸۷ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۳ء ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم كافةً لِلنَّاسِ یعنی تمام بنی نوع انسان کی طرف مبعوث ہوئے خطبه جمعه فرموده ۲۵ رمئی ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج صبح شدید دورانِ سر ( چکروں) کی تکلیف شروع ہوگئی تھی اب نسبتا فرق محسوس کیا ا چند منٹ کے لئے آ گیا ہوں کیونکہ میرے دل نے غیر حاضر رہنا قبول نہیں کیا.اس وقت میں مختصراً ایک بنیادی اور اہم خوشخبری کے متعلق چند فقرات کہنے پر اکتفا کروں گا.اللہ تعالیٰ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اُمت محمدیہ پر بڑا ہی مہربان ہے چنانچہ اس نے سورۃ فاتحہ میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَبْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا سکھائی.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جو دعائیں سکھاتا ہے ان کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان میں یہ بشارت ہوتی ہے که اگر انسان شرائط دعا پوری کرے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہر دعا قبول ہوگی کیونکہ کوئی دعا ایسی نہیں سکھائی جاتی جس کے متعلق ساتھ ہی یہ اعلان بھی ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں کرے گا کیونکہ اس طرح تو یہ عقلاً بھی ایک لغو فعل بن جاتا ہے جب کہ لغو فعل سے مجتنب رہنے کی خود خدا نے ہمیں تلقین فرمائی ہے اس لئے وہ خدا جو ہر عیب اور نقص سے پاک ہے اس کی طرف یہ بات منسوب نہیں کی جاسکتی.

Page 208

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۸۸ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۳ء پس جو دعا بھی سکھائی گئی ہے اس کے متعلق یہ بشارت دی گئی ہے کہ امت محمدیہ کے افراد یا گروہ (اگر دعا کا تعلق جماعت یا گروہ سے ہو ) اگر دعا کریں گے خلوص نیت کے ساتھ اور اس کی شرائط کو پورا کریں گے اپنی استعداد کے مطابق تو وہ دعا ضرور قبول ہوگی.چنانچہ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اُمت محمدیہ کو یہ بشارت دی اور بتایا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ابنیاء علیہم السلام مختص المکان اور مختص الزمان تھے یعنی خاص علاقے کے لئے اور خاص زمانی کے لئے آتے تھے اور وہ اپنے اپنے علاقہ اور زمانہ کی محدود ضرورتیں پوری کرتے اور پیش آمدہ مسائل کو حل کرتے تھے.چونکہ ان کی ذمہ داریاں کا حل نہیں تھیں یا یوں کہنا چاہیے کہ ابھی ان کی استعدادوں کی کامل نشو و نما نہیں ہوئی تھی یا یہ کہ وہ انسان کامل کا ظل بننے کے اہل نہیں تھے اس لئے ان کو ارتقائی مدارج ہی سے گزارنے کے لئے ان پر تھوڑی تھوڑی ذمہ داریاں ڈالی گئیں.گویا جس قسم کی ذمہ داریاں تھیں اس قسم کا انہیں انعام بھی ملنا تھا.پہلے زمانوں میں جس طرح بعض دفعہ ایک گاؤں میں ایک قسم کی بادشاہت ہوتی تھی.ایک شہر میں بادشاہت ہوتی تھی.اسی طرح ایک قصبہ یا شہر کا ایک نبی ہوتا تھا.اس کے فرائض محدود تھے.اس کی قربانیاں محدود تھیں کیونکہ مثلاً یروشلم میں یروشلم سے تعلق رکھنے والے نبی کو اس علاقہ کے لوگوں نے گالیاں دیں اور اس پر کفر کے فتوے لگائے مگر نا کیجیریا کے لوگوں نے اس پر کفر کے فتوے نہیں لگائے اور نہ اس کو دکھ دیا غرض پہلے نبیوں نے اپنے اپنے حالات کے مطابق قربانیاں دیں قربانیاں اور ذمہ داریاں ہر دو کم تھیں.انہوں نے ساری دنیا سے گالیاں نہیں کھا ئیں اس لئے ان کا انعام بھی محدود تھا.لیکن ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم كافة لِلنَّاسِ یعنی تمام بنی نوع انسان کی طرف مبعوث ہوئے.ساری دنیا سے آپ کا تعلق ٹھہرا ساری دنیا نے آپ سے دشمنیاں کیں مگر آپ نے ساری دنیا سے پیار کیا ہماری دنیا کے لئے آپ نے دعائیں کیں.نہ صرف اپنے زمانہ کی دنیا بلکہ قیامت تک ہر نسل کے لئے دعائیں کیں.قرآن کریم کے ذریعہ ان کے مسائل حل کرنے کے سامان مہیا فرمائے.گویا یہ ایک بہت بھاری ذمہ داری تھی اور بہت بڑا ابو جھ تھا جو آپ پر ڈالا گیا.چنانچہ جس شان کی ذمہ داریاں تھیں اسی شان

Page 209

خطبات ناصر جلد پنجم ١٨٩ خطبہ جمعہ ۲۵ رمئی ۱۹۷۳ء سے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بھی آپ کے وجود میں ظاہر ہوئیں.آپ کے طفیل قرآن عظیم کے شروع ہی میں سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ اور اس کے افراد کو یہ بشارت دی کہ تم یہ دعا کیا کرو کہ اے خدا پہلوں کے انعامات متفرقہ مجموعی طور پر ہمیں عطا فرما.کیونکہ پہلوں کی متفرق ذمہ داریاں اب مجموعی طور پر ہم پر ڈال دی گئی ہیں.اسی لئے اب استعداد اور اس کی کامل نشو و نما کی رُو سے اُمت محمدیہ میں بعض ایسے افراد ہوں گے جو اس قدر روحانی انعام حاصل کرنے والے ہوں گے جتنے پہلے کسی ایک نبی نے حاصل کئے تھے مگر کچھ بزرگ ایسے بھی ہوں گے جن کی استعداد اور مجموعی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور اتنی مقبول ہوں گی جتنی پہلے تین چار نبیوں کی ہوتی تھیں اس استعداد اور اخلاص کے مطابق اللہ تعالیٰ ان کو تین چار نبیوں کے انعامات دے دے گا اور اگر اُمت محمدیہ میں کوئی ایسا برگزیدہ وجود پیدا ہو جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل کامل ہونے کے لحاظ سے تمام انبیاء کی صفات کا عکس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اپنے وجود میں منعکس کرتا اور وہی شکل اختیار کرتا ہے تو وہ بھی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ان تمام انعامات متفرقہ جو پہلے نبیوں کو اور پہلے صدیقوں کو اور پہلے شہداء کو اور پہلے صالحین کو دیئے گئے تھے ان کا مستحق ٹھہرتا ہے.پس یہ ایک بہت بڑی بشارت ہے جو دی گئی ہے اور ایک بڑی ہی حسین امید ہے جو امت محمدیہ اور اس کے افراد کے دلوں میں پیدا کی گئی ہے.اس بشارت کی رو سے ان دروازوں کے پیش نظر جو خدا تعالیٰ کے انعامات کے حصول کے لئے اُمت محمدیہ پر کھولے گئے ہیں ہمیں اپنی کوششوں میں وسعت اور شدت پیدا کرنی چاہیے.تا کہ اللہ تعالیٰ حسب وعدہ ہمیں پہلوں سے کہیں زیادہ انعامات کا مستحق بنائے.ہمارے دل خدا تعالی کی حمد سے معمور اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور صلوات کے جذبات سے پر ہو جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.谢谢谢 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 210

Page 211

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۹۱ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۳ء اسلام نے ہمیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے الفاظ میں ایک مکمل دعا سکھائی ہے خطبه جمعه فرموده یکم جون ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام ایک کامل مذہب ہے.اسلام نے ہمیں ایک کامل دعا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے الفاظ میں سکھائی ہے.دراصل جس طرح ایک نگینہ کسی زیور میں جڑا ہوتا ہے اسی طرح یہ دعا بہترین دعا کی شکل میں سورۃ فاتحہ میں بیان کی گئی ہے.گوساری سورۃ فاتحہ ہی ایک نہایت اعلیٰ رنگ کی دعا ہے لیکن اس میں دعا کے لحاظ سے ایک بنیادی نکتہ ہمیں یہ سوجھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا ہے.انسان کو خلق کیا اسے بہت سی قوتیں اور استعدادیں بخشیں اور اس کی زندگی کا یہ مقصد ٹھہرایا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے حی وقیوم خدا کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرے لیکن چونکہ اس تعلق کا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے سورہ فاتحہ کی شکل میں ایک کامل دعا سکھا دی تا کہ ہم اس دعا کے ذریعہ خدا کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اپنے مقصدِ حیات کو حاصل کر سکیں.چنانچہ سورۃ فاتحہ کی اس آیہ کریمہ میں جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ

Page 212

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۹۲ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۳ء اسی اصول کی رہنمائی کرتا ہے کہ میں نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے میری صفات کی جو تجلیات تمہیں اپنی زندگیوں اور اپنے ماحول میں نظر آتی ہیں اگر تم ان کا غور سے مشاہدہ کرو گے تو اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ ہر شے کے حصول کے لئے ایک سیدھا اور مقررہ راستہ ہوتا ہے.وسائل ہوتے ہیں جن کے بغیر انسان کسی چیز کو حاصل نہیں کر سکتا سیدھی راہیں ہوتی ہیں جن پر چلے بغیر انسان منزل مقصود تک پہنچ نہیں سکتا.پس اگر یہ درست ہے اور یقیناً یہی درست ہے تو بنیادی دعا جو ایک انسان کو مانگنی چاہیے وہ یہی ہے کہ اے ہمارے خدا! ہمارا جو بھی نیک مقصد ہو اس کے حصول کے لئے جو سیدھی راہ ہے یعنی صراط مستقیم وہ ہمیں دکھا اور چونکہ انسان کی پیدائش کی اصل غرض خدا تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق کو قائم کرنا ہے.اس لئے یہ دعا یوں بنے گی کہ اے ہمارے خدا! ہمیں وہ سیدھا راستہ دکھا جس پر چل کر ہم تجھ تک پہنچ سکیں اور تیرا قرب حاصل کر سکیں.غرض جب تک اللہ تعالیٰ وہ راہ نہ دکھائے جب تک انسان محنت اور کوشش اور مجاہدہ کے ذریعہ اور دعا اور تضرع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو جذب نہ کرے جس کے نتیجہ میں اسے سیدھی راہ دکھائی جاتی ہے اس وقت تک خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اس کا مقرب بن جانا اس کا محبوب بن جا نا ممکن ہی نہیں.پس جہاں تک مقصدِ حیات کا تعلق ہے یہ دعا کامل اور مکمل ہے لیکن یہیں بس نہیں بہت ساری ذیلی چیزیں ہیں جو حقیقتا اسی مقصود کے حصول کے لئے ہیں مثلاً صحت کا قائم رہنا صحت کے قیام کے ساتھ اصل مقصد تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش اور محنت کی جاسکے اور دعائیں کی جائیں.ایسی دعائیں جو نسل کی طرح تڑپا دیتی اور خدا تعالیٰ کو پیاری ہیں ہمارے جسم اور ہماری روح کو اس مشقت کے برداشت کرنے کی توفیق ملے.چنانچہ قیام صحت کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ راہیں یعنی کچھ طریقے مقرر کئے ہیں.کچھ وسائل پیدا کئے ہیں ان راہوں کا علم حاصل کئے بغیر اور ان وسائل کے حصول کے بغیر ہم اپنی صحت کو قائم

Page 213

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۹۳ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۳ء نہیں رکھ سکتے.ہم وہ محنت اور کوشش وہ تضرع اور دعا نہیں کر سکتے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے علاوہ دو قسم کے اور حقوق بھی ہوتے ہیں.ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے ایک تو حقوق العباد ہیں اور دوسرے حقوق النفس ہیں جب تک یہ حقوق ادا نہ ہوں.انسان اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے میں اور اس کے پیار کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا.پس ہر وہ چیز جو ہم نے حاصل کرنی ہے ہمارا جو بھی مقصود و مطلوب ہے اور جس کے حصول کے لئے ہم نے کوشش اور دعا کرنی ہے اس کے لئے پہلی اور بنیادی چیز یہی ہے کہ ہمیں صراطِ مستقیم مل جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صراط مستقیم کو توحید کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے.یہ ایک حقیقت ہے اور بالکل سچی بات ہے اور ہماری عقل بھی اسے تسلیم کرتی ہے.چنانچہ آپ نے قریبا نو چیزوں سے توحید کا تعلق گنوایا ہے.یہ تو ایک لمبا مضمون ہے.اس وقت تو میں مختصراً چند باتیں کہنے پر اکتفا کروں گا.میں نے بتایا ہے کہ صراط مستقیم کا حصول اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر میٹر نہیں آسکتا.اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے اور اپنا مقصود پانے کے لئے ہمیں اپنی کوشش اور محنت، تضرع اور دعا کو ذریعہ بنانا چاہیے.یہی وہ صراط مستقیم ہے جس کے نتیجہ میں انسان کو اللہ تعالیٰ کا تحرب ملتا اور انسان اس کے پیار اور اس کی رضا کو حاصل کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اس زمانے میں ہم پر ایک اور بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم تمام بنی نوع انسان کو اس خدا کی طرف کھینچ کر لے آئیں جس نے ان کو پیدا کیا ہے گویا جماعت احمدیہ کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کے دل میں اس بات کو جانشین کر دے کہ تمہاری زندگی کا وہ مقصد نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ تمہاری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف واپس لوٹو اور جس پیار کے حصول کے لئے اس کی رحمت نے تمہیں پیدا کیا ہے اس پیار کے حصول کی کوشش کرو.پس ایک طرف ہم نے اپنے لئے صراط مستقیم کے حصول کے لئے مجاہدہ بھی کرنا ہے اور

Page 214

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۹۴ خطبہ جمعہ یکم جون ۱۹۷۳ء دعا ئیں بھی کرنی ہیں اور دوسری طرف ہم نے نوع انسانی کو یہ حقیقت حیات اور یہ حقیقت کا ئنات سمجھانے کی کوشش کرنی ہے تاکہ وہ بھی اس بنیادی نکتہ کو سمجھ کر خدا کے قرب کو پاسکیں اور تا کہ جلد وہ زمانہ آ جائے کہ سب بنی نوع انسان خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کے پیار کو حاصل کر لیں اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا جو مقصد ہے اور قرآنِ کریم کے نزول کی جو غرض ہے وہ پوری ہو.خدا کرے کہ ایسا دن جلد آ جائے.(روز نامه الفضل ربوہ ۱۹ جون ۱۹۷۳ ء صفحه ۷،۶)

Page 215

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۹۵ خطبہ جمعہ ۲۲ / جون ۱۹۷۳ء ربوہ کو شجر کاری کے ذریعہ جنت نظیر بنادیں خطبه جمعه فرموده ۲۲ جون ۱۹۷۳ بمقام مسجد اقصی.ربوہ کل مسجد اقصی میں نماز جمعہ حضرت خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تشریف لا کر پڑھائی.خطبہ جمعہ میں حضور نے دوضروری امور کا تذکرہ فرمایا.(۱) ربوہ کے دو محلوں میں نظام سلسلہ کے تعاون کے ساتھ اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت ٹیوب ویل لگانے کا جو کام ہو رہا ہے حضور نے اس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک محلہ میں ٹیوب ویل لگ چکا ہے اور اہل محلہ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.البتہ دوسرے محلہ میں ٹیوب ویل کے مکمل ہونے میں بعض روکیں حائل ہو گئی تھیں جنہیں دور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے.حضور نے فرمایا ہمیں یہ تہیہ کر لینا چاہیے کہ درمیان میں خواہ کتنی ہی مشکلات حائل ہوں ہم نے ربوہ میں اتنے درخت ضرور لگا دینے ہیں جو اسے جنت نظیر بنادیں.اس کے بعد حضور نے دار الاقامۃ النصرۃ کے ادارہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ اعلان فرمایا کہ یہ ادارہ اب اپنی پرانی شکل میں ختم کر دیا گیا ہے لیکن اس کے ذریعہ غریب اور مستحق طلباء کی جو مدد کی جاتی تھی وہ ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے.یہ انتظام پہلے محترم سید میر داؤ د احمد صاحب مرحوم کے سپر د تھا اور وہی اسے چلاتے تھے لیکن اب اسے جماعت نے اپنے ذمہ لے لیا ہے.ہم نے مستحق

Page 216

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۹۶ خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۷۳ء طلباء کی ہر ضرورت کو بہر حال پورا کرنا ہے.لہذا جو احباب اس ادارہ کی مالی مدد کرتے تھے وہ اب بھی اسے جاری رکھیں اور جب تک کسی اور انتظام کا اعلان نہیں کیا جاتا اپنی امدادی رقوم نظارت بیت المال ( آمد ) کو بھجواتے رہیں تا کہ مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کا جو باغ اس زمانہ میں لگایا گیا ہے اس کے تمام اشجار کی صحیح اور کامل پرورش اور نشوونما کے سامان مہیا ہوتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۴ جون ۱۹۷۳ ء صفحه ۱) 谢谢谢

Page 217

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۹۷ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۳ء ایمان بالغیب قربانیاں دینے کی راہوں کو آسان کرتا ہے خطبه جمعه فرمود ه ۲۹ جون ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گرمی بہت پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے مجھے کافی تکلیف رہتی ہے.ایک تو دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری تکلیف کو دور کرنے کے سامان پیدا کر دے اور دوسرے ہم اجتماعی دعا بھی دوسری رکعت کے پہلے سجدہ میں ( سب مل کر ) کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی بارش برسائے اور اس گرمی کی شدت کو بھی دور کرے اور اپنے فضلوں کے سامان ہر طرح ہم سب کے لئے پیدا کرے.علم اور ایمان میں بنیادی فرق ہے.علم اسے کہتے ہیں کہ ایک چیز کی حقیقت ہر طرح سے کھل جائے یا ایک وافر حصہ اس کا کھل جائے مثلاً یہ علم ہے کہ اس وقت دن ہے رات نہیں ہے.یہ ایک واضح چیز ہے جو علوم ہر آدمی کے لئے اتنے واضح نہیں مثلا طبعی کے اصول ہیں، فزکس کے یا علم کیمیا کے اصول ہیں.ان علوم کے علماء ان اصول کا اس وقت علم رکھتے ہیں جب وہ اصول ان پر واضح ہو جائیں اور کوئی اشتباہ باقی نہ رہے.اس سے ورے ورے تحقیق کا مسئلہ ہے یعنی کوشش کر کے اور دعائیں کر کے Conciously یا Unconiously یعنی شعور میں بھی ہو کہ ہم دعا کر رہے ہیں اور ہمیں کرنی چاہیے اور تحت الشعور بھی بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 218

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۹۸ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۳ء نے فرمایا ہے کہ جس وقت ایک سائنسدان کسی مرحلہ پر اپنی بے بسی کا احساس کرتا ہے تو اس وقت وہ کسی غیر مرئی چیز کا سہارا لیتا ہے.اس وقت اس کے سامنے اندھیرا ہوتا ہے.ایک عارف عارفانہ دعا کرتا ہے اور ایک جاہل جاہلانہ دعا کرتا ہے.علم کی بھی مختلف حیثیتیں ہیں.ہر انسان کے سامنے ہزاروں باتیں آتی ہیں اور وہ ان کا علم رکھتا ہے مثلاً میں نے ایک مثال دی کہ ہم سب اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ اس وقت دن ہے رات نہیں ، ہم اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ آج جمعہ ہے پیر نہیں ، ہم اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ مسجد کے ہال میں اکثر احمدی بیٹھے ہیں (ممکن ہے ہمارے دوسرے دوستوں یعنی غیر احمدیوں میں سے بھی کوئی دوست ہوں ) عورتیں نہیں.بے شمار اس قسم کی واضح باتیں ہیں جو ہمارے علم میں آتی ہیں.وہ ہے علم عام انسانوں کا یا ایک سائنس دان کا علم ہے.جس وقت کسی اصول اور قاعدے کو وہ واضح طور پر عیاں سمجھے وہ اس کا علم ہے.عجیب بات یہ ہے کہ اس قسم کے علوم میں آج ایک سائنسدان کا جو علم ہے کل اس کو اس کا انکار کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ ان معاملات میں بسا اوقات وافر حصہ کھل جانے پر یقین کر لیتا ہے لیکن ابھی اس کی حقیقت ہر طرح سے کھلی نہیں ہوتی.پس جس وقت کوئی چیز وافر حصہ کھل جانے کی وجہ سے معلوم ہوتی ہے تو وہ اس عالم کا علم بن جاتا ہے لیکن چند سال کے بعد مزید تحقیق کے نتیجہ میں وہ بات واضح نہیں رہتی اور شبہ پڑ جاتا ہے پھر وہ بات علم سے باہر نکل جاتی ہے.اس کے برعکس حقیقی علم وہ ہے جو ظاہر اور عیاں ہو.اس میں کسی شک کی گنجائش نہ ہو وہ علم ہے.مثلاً خود اپنی ذات کا علم ہر ایک کو کہ میں ہوں یہ احساس کہ میں ہوں.میں بھی ایک انسانی فرد ہوں.یہ اس کا علم ہے.یہ بڑی واضح چیز ہے.ایمان کے مفہوم میں بنیادی طور پر یہ بات پائی جاتی ہے کہ کچھ پہلو غیب میں ہے جس پر ہم ایمان لاتے ہیں اسی واسطے قرآن پاک کے شروع میں ہی يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کہا گیا ہے.پس غیب کی باتوں کو مان لینا یہ ایمان کا لازمی حصہ ہے.اس کے بغیر ایمان ایمان ہے ہی نہیں.مثلاً اس علم پر کہ آج جمعہ ہے اور اس وقت دن کا ایک حصہ ہے کوئی ثواب نہیں کیونکہ یہ بات اتنی ظاہر ہے که نه صرف انسان بلکہ چمگادڑ کو بھی پتہ ہے اسی لئے جب دن غائب ہو جاتا ہے تو وہ اپنے کمین گاہوں

Page 219

خطبات ناصر جلد پنجم ۱۹۹ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۳ء سے باہر نکل آتی ہے.پس دن کے وقت اس کا چھپ جانا اور رات کو باہر نکل آنا یہ بتاتا ہے کہ دن اور رات اتنی واضح چیز ہے کہ انسان کے علاوہ بہت سی دوسری مخلوقات کو بھی پتہ ہے.سارے جاندار حیوانات کو پتہ ہے.پھر درختوں کو پتہ ہے کیونکہ ان کا دن اور رات کا رد عمل مختلف ہے.ان کا رد عمل دن کے وقت اور ہے اور رات کے وقت اور ہے مثلاً دن کے وقت درخت آکسیجن باہر نکالتے ہیں اور رات کے وقت کھا رہے ہوتے ہیں تو دن اور رات کے رد عمل میں فرق ہے کہ جس قسم کی بھی جس اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں دی گئی ہے وہ اس میں تمیز کر رہی ہے لیکن سب مخلوقات میں سے صرف انسان کو ثواب ملتا ہے تو اب علم پر نہیں ملتا ایمان پر ملتا ہے اور ایمان کا لازمی حصہ غیب پر ایمان لانا ہے.غیب پر ایمان عقلاً آگے دوحصوں میں منقسم ہو جاتا ہے.ایک وہ غیب ہے جس کے حق میں قرائن مرتبہ نہیں ہیں.قرائن قویہ نہیں ہیں اور جس غیب کا میلان یقین کی نسبت شک کی طرف زیادہ ہے.اسلام نے ہمیں اس غیب پر ایمان لانے کے لئے نہیں کہا جیسا کہ قرآن کریم کے بہت سے مقامات سے یہ بات عیاں ہے.ایک غیب وہ ہے جس کا میلان شک کی نسبت یقین کی طرف زیادہ ہے.پس قرائن قویہ مرتبہ جہاں پائے جائیں ایک مومن اس پر ایمان لاتا ہے.مثلاً ایمان باللہ ہے.اس ایمان کا ایک پہلو علم کی طرح عیاں ہے اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا تعلق ہے اس کا ایک پہلو عیاں بھی ہے لیکن جو تصور اسلام نے ہمیں اللہ تعالیٰ کا دیا ہے اس کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی وسعتوں کے مقابلہ میں یہ عیاں پہلو اتنا بھی نہیں جتنا سمندر میں سے ایک قطرہ اٹھا لیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اس کی صفات کے جلوؤں کی حد بندی نہیں کی جاسکتی وہ ذات غیر محدود ہے اور کسی محدود کی غیر محدود کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں.پس اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا ایک حصہ تو ہمارے سامنے آگیا لیکن بڑا حصہ ہم سے پوشیدہ ہے.اس پر ہم ایمان بالغیب لاتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے ان جلوؤں پر جو ہنوز پردہ غیب میں ہیں پھر ایمان بالغیب کا تعلق ملائکہ اور حشر ونشر سے ہے.وہ ایمان بالغیب کی ایک اور لائن ہے ایمان بالغیب کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جنہیں میں مثال کے

Page 220

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۰۰ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۳ء طور پر بیان کر دیتا ہوں.(۱) ایمان بالغیب کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کی شخصیت اور وجود پر ایمان لانے سے بھی ہے اس پاک و مطہر وجود کا ایک حصہ ایک دور کے انسان پر ظاہر ہوتا اور ایک بڑا حصہ ہر دور کے انسان کی نظر سے غائب رہتا ہے مثلاً ایک پہلو جو ہم آپ کی ذات کا لیں وہ محسن ہونے کا ہے ہر صدی کے حالات واحوال کے اختلافات کی وجہ سے اس احسانِ عظیم کی بعض پوشیدہ باتیں سامنے آتی ہیں.پہلی صدی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس ایمان پر قائم ہونا کہ قیامت تک کے لئے آپ ایک عظیم محسن کی حیثیت رکھتے ہیں آپ پر ایمان لانے کا ایک پہلو ہے پہلی صدی میں اس احسانِ عظیم کے کچھ جلوے ظاہر ہوئے لیکن وہ جلوے تو ظاہر نہیں ہوئے جن کے نتیجہ میں ہم یہ کہ سکیں کہ آپ قیامت تک کے لئے دنیا کے محسن اعظم ہیں پہلی صدی کے بعد قیامت تک آپ کے احسان کے جو پہلو انسان کے سامنے آنے تھے پہلی صدی کے لئے وہ جلوے پردۂ غیب میں تو تھے لیکن ان پر ایمان لانا ضروری تھا ورنہ ایمان بالرسول نہ ہوتا لیکن صرف یہ فقرہ کہ ہمارے محسن ہیں، حقیقی ایمان نہیں.حقیقی ایمان یہ ہے کہ ہمارے بھی محسن ہیں اور قیامت تک بنی نوع انسان کے بھی محسن ہیں اور یہ ایمان بالغیب ہے جس کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے مثلاً آج کی دنیا انقلابات کی دنیا ہے ایسے انقلابات بھی آئے کہ جن کا ایک حصہ غلبہ اسلام کی مہم میں ممد ثابت ہوا اور ہورہا ہے لیکن ایک حصہ ایسا تھا جو نوعِ انسانی کے ایک بڑے حصہ کو خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام سے دور لے جانے والا تھا.یہ جو مسائل آج کی دنیا کے لئے پیدا ہوئے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمارے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم بھی دی اور ان حالات میں اپنا ایک اُسوہ بھی ہمارے سامنے پیش کیا.یہ باتیں پہلی صدیوں کے انسانوں کے لئے غیب کا حکم رکھتی ہیں اور آج کے بعد قیامت تک جو مسائل نوع انسانی کے لئے پیدا ہوں گے ان کے حل کے لئے قرآنی تعلیم کے وہ پہلو جن کا ان مسائل کے ساتھ تعلق ہے اور آپ کے اُسوہ کے وہ جلوے جن کا اس زمانہ کے انسان کے ساتھ تعلق ہے آج ہمارے لئے غیب ہیں.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے لئے نوع انسانی کا محسن سمجھ کر ایمان لانا اس

Page 221

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۰۱ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۳ء ایمان میں غیب کا ایک بڑا حصہ ہے اور قرائن قویہ مرتبہ کی وجہ سے ہم ایمان لاتے ہیں مثلاً پہلی صدی کے انسان نے کہا کہ میرے اوپر احسان کیا اور یہ کہنے کے بعد احسان کیا کہ میں تمہارے لئے محسن اعظم ہوں آپ نے جو کہا وہ ہماری زندگیوں میں پورا ہوا.جو آئندہ کے متعلق کہا گیا ہے وہ پورا ہوگا.اسی طرح اور بیسیوں پہلو پیش کئے جاسکتے ہیں جو قرآئن کا حکم رکھتے ہیں جن کے نتیجہ میں ترجیح اس بات کو دی گئی کہ ہم یقین کی طرف مائل ہو جائیں اور ایمان لے آئیں.قرآن کریم نے اسی تسلسل میں یہ دعوی کیا کہ میں اب ہمیشہ کے لئے نوع انسانی کے ہر قسم کے مسائل کو حل کروں گا اور ان کی روحانی ضروریات کو اور ان کی دنیاوی ضروریات کے بنیادی مسائل کو حل کروں گا اور قرآن کریم نے ایک بڑا قوی قرینہ جو قائم کیا وہ یہ ہے کہ قرآن کو ہمیشہ مطہر بندے سمجھ سکیں گے.لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ۸۰) میں جہاں اس بات کا ذکر ہے کہ مطہرین پر نئے سے نئے اسرار قرآنی کھولے جاتے ہیں وہاں یہ بھی تو ذکر ہو گیا نا! کہ قرآنِ کریم میں اسرار ورموز چھپے ہوئے ہیں ورنہ مطہر کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی.اگر ہر چیز قرآن کریم کی پہلی صدیوں میں ظاہر ہوگئی تو پھر نہ قرآن کریم پر ایمان بالغیب کی ضرورت ہے نہ آئندہ کسی مطہر کی ضرورت ہے کیونکہ قرآنِ کریم کے علوم میں کوئی اسرار و رموز اور بنیادی حقیقتیں جو آئندہ زمانہ سے تعلق رکھتی تھیں وہ باقی نہیں رہیں تو قرآن کریم پر ایمان ، ایمان بالغیب سے بھی تعلق رکھتا یعنی کتاب مبین کے ساتھ ساتھ ایک بڑا حصہ ایمان بالغیب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یعنی کتاب مکنون پر ایمان پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور آپ سے انتہائی محبت رکھنے والے اولیاء کے ذریعہ اور پھر آج کے زمانہ میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ بہت سی بشارات دی گئی ہیں.بشارات کے اصولی طور پر دو حصے ہیں ایک یہ کہ صبح کے وقت بشارت دی گئی اور ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا کہ وہ پوری ہو گئی.ایک وہ ہے کہ بشارت دی گئی اور اس کے لئے کوئی وقت دو چار یا پانچ سال بعد کا مقرر کر دیا گیا مثلاً مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیشگوئی جو کسی کے لئے انذار نہیں رکھتی لیکن غلبہ اسلام کے لئے بڑی بشارت تھی اور لیکھرام کی پیشگوئی جو اس کے لئے انذاری پیشگوئی تھی لیکن اسلام کے حق میں انتہائی مبشر پیشگوئی تھی کیونکہ اصل غرض کسی کی جان لینا تو نہیں

Page 222

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۰۲ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۳ء تھی اصل غرض تو یہ تھی کہ ہر وہ زبان خاموش کر دی جائے گی اور ہر وہ قلم توڑ دی جائے گی جو اسلام کے خلاف اس قسم کے ظالمانہ اور بہیمانہ طریقے پر اٹھے گی.پس ایک بشارتیں وہ ہیں جو بہت جلد یا تھوڑے سے عرصہ میں پوری ہوتی ہیں اور ایک وہ بشارتیں ہیں جن کا تعلق اگلی صدی سے ہے یا جن کا تعلق تدریجی طور پر دنیا میں ایک انقلاب بپا کرنے سے ہے.وہ غیب ہیں لیکن جو قرائن اس غیب پر ایک منتقی کو ایمان لانے پر مجبور کرتے ہیں وہ یہ قرائن ہیں کہ وہ باتیں جو صبح کہی گئیں اور دو پہر کو پوری ہو گئیں اور وہ باتیں جو آج کہی گئیں اور کل پوری ہو گئیں اور وہ باتیں جو اس سال کہی گئیں اور اگلے چند سالوں میں پوری ہو گئیں اس لئے وہ بشارتیں جن کا تعلق مستقبل بعید یا نسبتا مستقبل بعید سے ہے وہ بھی چونکہ اسی منبع کی طرف منسوب ہوتی ہیں جس کی طرف جلد پوری ہونے والی بشارتیں منسوب تھیں اس لئے یہ بھی پوری ہوجائیں گی یہ بھی ایمان بالغیب ہے.پس ہر پہلو میں ایمان بالغیب ہمارے لئے اس رحمت کو جذب کرتا ہے جس پر ثواب ملے گا اور جو ہو چکا جو غیب بعد میں ظاہر بن گیا اس پر ایمان ہمارے لئے وہ لذت مہیا کرتا ہے جو آج ہم حاصل کر رہے ہیں.دو مختلف پہلو ہیں ایک ہمارے لئے روحانی لذتوں اور سرور کا باعث بنتا ہے.ایک بات پوری ہوگی کتنی خوشی ہوتی ہے اور ایک چیز کا ہمارے مستقبل کے ساتھ تعلق ہے اور ہمارے لئے باعث ثواب ہے اور ثواب کے حصول کی اصل جگہ تو اُخروی زندگی ہے اور وہ بھی ایمان بالغیب سے تعلق رکھتی ہے.ایمان بالغیب ثواب کے حصول کے لئے ضروری ہے.اور اس ایمان کے بغیر ایک مومن متقی وہ قربانیاں دے ہی نہیں سکتا جن کا اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے.یہ ممکن ہی نہیں یہ ایمان کی طاقت ہے.یہ ان قرائن مرتجحہ کی قوت ہے جو ایک عاشق خدا اور محب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ قربانیاں دلواتا ہے جن کا مطالبہ ہورہا ہے کیونکہ وہ شخص غیب پر ایمان لاتا اور ان بشارتوں پر اس قدر یقین رکھتا ہے جس قدر حاضر بشارتوں پر.پس غیب پر یہ یقین ہی ہے جو ثواب کا باعث بنتا ہے.انسان کہتا ہے ہم سے جو مانگا گیاوہ دے دینا چاہیے کیونکہ ہم سے جو مانگا گیا تھا جب دیا گیا تو اس کا بدلہ اتنا عظیم ملا ، اتنا حسین ملا،

Page 223

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۳ء اتنا سرور اور لذت پیدا کرنے والا ملا کہ اس تجربہ کے بعد اب ایمان بالغیب کے نتیجہ میں جو قربانیاں مانگی جارہی ہیں ان کا جو ثواب اور ان کے نتیجہ میں جو لذت وسرور ملے گا (چونکہ قربانیوں کا مطالبہ پہلے سے بڑھ کر ہے ) وہ ثواب اور وہ لذت اور سرور پہلے سے بڑھ کر ہوگا.عقل یہی نتیجہ نکالتی ہے پس علم اور ایمان میں یہ فرق ہوا کہ علم اس چیز کا ہوتا ہے جو ظاہر اور عیاں ہو جائے اس سے پہلے پہلے علم کے میدان میں تحقیق ہوتی ہے اور تحقیق کے نتیجہ میں جو دو اور دو چار کی طرح واضح ہو جائے وہ مجموعی طور پر انسانی علم کا ایک حصہ بن جاتا ہے اور ایمان کے لئے بنیادی شرط ہے کہ کچھ پوشیدہ باتوں کو ایمان بالغیب کے طور پر یقینی طور پر تسلیم کیا جائے.جہاں تک قرائن اور دلائل کا سوال ہے قرائن مرتجہ ہیں لیکن جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے معلومات ظاہرہ کی نسبت زیادہ یقین غائب کی باتوں پر ہے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو گیا اور جب اس کو پہچا نا جب اس کے پیار کے جلوے دیکھے جب اس کی معرفت حاصل کی تو پھر غیب کے با وجود یقین محکم پیدا کرنے کا ذریعہ علم کے مقابلہ میں ایمان بالغیب زیادہ ہے اور آج جماعت احمد یہ سے غلبہ اسلام کے لئے جوقربانیاں مانگی جارہی ہیں وہ بڑی عظیم ہیں لیکن اس کا بدلہ بھی عظیم اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والا سرور اور لذت بھی عظیم ہے.ہم ایک چھوٹی سی جماعت، ہم ایک غریب کسی جماعت ، ہم دنیاوی معیار کے مطابق بے سہارا سی جماعت ہیں.ہمارے پاس سیاسی اقتدار نہیں.ہمارے پاس کوئی دنیاوی و مادی طاقت نہیں غرض کچھ بھی نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایمان بالغیب کے حکم کے ماتحت ہماری توجہ اس طرف پھیری اور ہمیں توفیق دی کہ ہم اس بات پر یقین کامل رکھیں کہ یہ غیب کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ذریعہ سے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور جو لذت اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے نتیجہ میں ہمیں مل سکتی ہے اور جو سرور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نوع انسانی کے دلوں میں گاڑ دینے کے نتیجہ میں ہمیں حاصل ہوسکتا ہے اس کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی لذت نہیں اور پھر ثواب اللہ تعالیٰ کے پیار کی شکل میں ملے گا.یہ دنیا کیا اگر اس قسم کی ہزاروں دنیا بھی ہمیں دی جائیں تو ہم ان سب کو خدا تعالیٰ کے پیار پر قربان کر دیں گے یہ یقین ہم

Page 224

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۰۴ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۳ء نے اپنی نسلوں میں اپنے بڑوں میں اپنے چھوٹوں میں اپنے مردوں میں اپنی عورتوں میں پیدا کرنا ہے.جو ایمان بالغیب کا ایک لازمہ ہے کہ خدا نے جو یہ وعدہ دیا کہ اس چھوٹی سی مختصر سی بے سہارا غریب جماعت کے ذریعہ اسے آلہ کار بنا کر میں ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں یہ اس نے بشارت دی ہے اور ہمیں کہا کہ ایمان بالغیب لا ؤ.کچھ وعدے پورے ہو گئے جو وعدے تمہیں دیئے جا رہے ہیں اور آئندہ پورے ہونے والے ہیں یقین رکھو کہ وہ بھی پورے ہوں گے اور اس میں بد عہدی نہیں ہوگی.خدا تعالیٰ وفا کرنے والا ہے وفا کرے گا وہ صادق ہے وہ حق ہے اور اس کا قول حق ہے یعنی اس کے کہنے کے ساتھ ہی دنیا میں ایک عظیم تبدیلی اس کے ارادہ کے مطابق پیدا ہو جانی ہے پس اس پر ایمان رکھو.تمہارے ذریعہ سے اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا اور اس لئے چونکہ یہ غیب پر ایمان لانے کا سوال ہے اس لئے تمہیں جہاں عظیم قربانیاں دینی پڑیں گی وہاں بہت بڑا ثواب بھی ملے گا اور عظیم سرور اور لذت تمہارے مقدر میں ہوگی.خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں تم داخل ہو گے.پس ایمان بالغیب قربانیاں دینے کی راہوں کو آسان کر دیتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا بڑا باعث بنتا ہے.اللہ تعالیٰ اس رنگ میں ہمارے دلوں میں انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی طور پر بھی ایمان بالغیب کو پیدا کرے جس رنگ میں وہ امید رکھتا ہے کہ اس سے پیار کرنے والے بندے اپنے دلوں میں ایمان بالغیب رکھیں گے.ایمان بالغیب جس پر بے شمار یقین قربان ہو جاتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ سے محبت اور پیار کی نشاندہی بھی کرتا ہے اس کی علامت بھی ٹھہرتا ہے اور حصولِ رضائے الہی کا ذریعہ بھی بنتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور ہماری نسل کو بھی ہم میں سے بڑوں ، چھوٹوں، مردوں اور عورتوں کو اس کی توفیق دے ایمان بالغیب بھی ہو اور اس غیب پر یقین محکم بھی.اللہ تعالیٰ کی اس بشارت کو صحیح سمجھیں کہ اس چھوٹی سی جماعت کے ذریعہ سے غلبہ اسلام کی مہم کو کا میاب کیا جائے گا اور پھر جو عظیم فضل اور رحمتیں اس کے نتیجہ میں ہم سے وعدہ کی گئی ہیں وہ ہمیں ملیں گی.اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہمیں قربانیاں دینے کی توفیق دیتا چلا جائے.

Page 225

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۰۵ خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۷۳ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب کو دعا کی یاد دہانی کرواتے ہوئے 66 فرمایا.” دوسری رکعت کے پہلے سجدہ میں ہم سب بارانِ رحمت کے لئے دعائیں کریں گے.“ روزنامه الفضل ربوه ۲۱ / اگست ۱۹۷۳ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 226

Page 227

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۰۷ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء ہم نے ہمیشہ مشاہدہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افضال ہر آن ہم پر نازل ہو رہے ہیں خطبه جمعه فرموده ۶ جولائی ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہم نے اپنی زندگیوں میں ہمیشہ یہی مشاہدہ کیا ہے کہ نیز یہ کہ:.عے شمار فضل اور رحمت نہیں ہے سے تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل آپ کے محبوب مہدی معہود کے غلاموں کو ہر وقت اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازتا رہتا ہے.میں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے دو فضلوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.ایک یہ کہ تحریک جدید نے کئی سال ہوئے کا نو ( نائیجیریا) میں ایک ہائر سیکنڈری سکول ( جس کی حیثیت ہمارے ہاں کے انٹر میڈیٹ کالج کی ہے ) کھولا تھا لیکن اس کی ترقی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں تھیں.کا نو کا علاقہ نائیجیریا کا جو مسلم نارتھ یعنی ”مسلمانوں کا شمالی علاقہ“ کہلاتا ہے اس کا ایک صوبہ ہے.مسلم نارتھ وہ علاقہ ہے جس میں حضرت عثمان بن فودی علیہ الرحمۃ اللہ تعالیٰ

Page 228

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۰۸ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء کی بشارتوں کے مطابق اپنے زمانہ میں مجدد بن کر آئے تھے ان کی وفات غالباً ۱۸۱۸ء میں ہوئی یہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے پہلی صدی کے مجد د ہیں.نائیجیریا کے شمالی علاقوں میں ان کی نسل صاحب اثر ورسوخ ہے.اکثر لوگ انہی کے ماننے والے اس علاقہ میں پائے جاتے ہیں.یہ علاقہ ایک عرصہ تک ہم پر بند رہا.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کے دروازے ہمارے لئے کھول دیئے.کا نو میں ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے بڑی محنت کی اور قربانی دی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے ذریعہ وہاں ایک کامیاب ہسپتال جاری ہو گیا پھر وہیں ایک سکول بھی کھل گیا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.کا نو کے مغرب میں سکو تو کا صوبہ ہے جہاں حضرت عثمان بن فودی علیہ الرحمہ کے بڑے بیٹے کی نسل آباد ہے اور مذہبی اثر ورسوخ اور سیاسی اقتدار کی مالک ہے.کانو کا علاقہ ان کے چھوٹے بیٹے کو ملا تھا.حضرت عثمان بن فودی علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی میں ہی حصے بانٹ دیئے تھے چنانچہ کا نو کا علاقہ ان کے چھوٹے بیٹے کے حصہ میں آیا تھا.اس علاقہ میں جب ہمارا ہسپتال اور سکول کھل گیا تو وہاں کے افسروں کا ایک حصہ تو ہمارے ساتھ بڑا تعلق رکھنے لگا لیکن تبلیغ و اشاعت کے دروازے کھلنے کی وجہ سے بعض افسروں کی طرف سے بڑی مخالفت رہی اور اب بھی ہے.مخالفت سے ہم ڈرتے نہیں کیونکہ یہ تو دراصل ہماری ترقی کے لئے بہت ضروری ہے چنانچہ کا نو میں سکول تو کھل گیا لیکن حکومت اس کو مالی امداد دینے کے لئے ایک باقاعدہ سکول کے طور پر ابھی تک تسلیم نہیں کر رہی تھی.اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ گو ہم نے تمہیں سکول کھولنے کی اجازت تو دے رکھی ہے اور تمہارا سکول عملاً کام بھی کر رہا ہے لیکن تمہارے پاس نہ اپنی زمین ہے اور نہ اپنی عمارت.تم کرایہ کی ایک عمارت میں کام کر رہے ہو ہم اسے باقاعدہ سکول سمجھ کر کیسے مدد دینی شروع کر دیں.تاہم وہ افسر جو ہم سے اچھا تعلق رکھتے تھے وہ ہمارے سکول کے لئے مالی امداد کے حصول کی برابر کوششیں کرتے رہے اور ادھر مخالفین بھی اپنی مخالفت میں لگے ہوئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا ابھی تھوڑا عرصہ ہوا وہاں سے یہ اطلاع ملی ہے کہ حکومت نے ہمارے اس سکول کے لئے دس ایکٹر

Page 229

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۰۹ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء زمین عطیہ کے طور پر یا برائے نام قیمت پر دے دی ہے.الْحَمدُ لِلهِ عَلَى ذلِكَ - اب یہ روک تو دور ہوگئی ہے.انشاء اللہ وہاں سکول کی عمارت بھی بن جائے گی اور با قاعدہ سکول بھی بن جائے گا.جب سکولوں کو حکومت کی طرف سے امدا د ملنی شروع ہو جائے تو پھر سکولوں کے اخراجات کا بوجھ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے لیکن جب تک امداد نہ ملے ان کا سارا بوجھ جماعت کو اٹھا نا پڑتا ہے.ظاہر ہے سکول چلانا کوئی معمولی بات نہیں اس پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے.ہم نے تو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہوتا ہے.وہی ہمیں دیتا ہے اور کہتا ہے خرچ کرو یعنی خود ہی دیتا ہے اور خود ہی خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے اور ہمیں ثواب دے دیتا ہے.ہم اس کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے بڑے ممنونیت اور حمد سے بھرے ہوئے جذبات رکھتے ہیں.پس ایک تو یہ فضل ہے جس کا ذکر میں آج اس خطبہ میں کرنا چاہتا تھا تا کہ یہ بات جماعت کے علم میں آجائے اور ہم سب اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ تحمید اور تسبیح کرنے والے بن جائیں.دوسری خوشخبری جس کا میں اس وقت ذکر کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ۱۹۷۰ء میں جب میں مغربی افریقہ کے دورہ پر گیا تو لائبیریا میں پریذیڈنٹ ٹب مین صاحب سے بھی میری ملاقات ہوئی.ہمارے مبلغ نے گوان سے یہ تو کہا تھا کہ حضرت صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں آپ اس موقع پر ہمارے مشن ہاؤس اور ہسپتال وغیرہ کے لئے ہمیں ایک سوا ایکڑ زمین کا تحفہ دیں لیکن ان سے یہ نہیں کہا گیا تھا اور نہ خواہش کی گئی تھی نہ ہمارا خیال تھا اور نہ ایسا خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ وہ جو استقبالیہ دعوت دیں گے اس میں اس کا اعلان بھی کر دیں گے.چنانچہ انہوں نے ہمیں جو استقبالیہ دیا جس میں سب وزراء اور بڑے بڑے افسر اور دیگر صاحب اثر ورسوخ شہری بھی شامل تھے.اس میں انہوں نے اپنی تقریر کے دوران اچانک یہ اعلان بھی کر دیا کہ میں نے جماعت احمدیہ کو سوا پکڑ زمین دینے کا وعدہ کیا ہے اس موقع پر ان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوئی اور اس کا انہوں نے اظہار کر دیا.میں سمجھتا ہوں اس میں ضرور کوئی خدائی حکمت تھی کیونکہ بعد میں جو حالات پیدا ہوئے ان سے بھی یہ پتہ لگتا ہے کہ بڑا اچھا ہوا بھری محفل میں حکومت کے سب ذمہ دار افراد کی موجودگی میں ان کے پریذیڈنٹ کی طرف سے یہ اعلان ہو گیا کہ میں نے امام جماعتِ احمد یہ کو

Page 230

خطبات ناصر جلد پنجم ایک سوا یکٹر زمین دینے کا وعدہ کیا ہے.۲۱۰ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء جب میں وہاں گیا تھا تو اس وقت ان کی عمر ۸۵ سال کے لگ بھگ تھی.گو بڑے بوڑھے آدمی تھے لیکن بڑی ہمت والے انسان تھے پچھلے سال ان کی وفات ہوگئی.زمین کے متعلق دفتری کارروائی جاری رہی تھی یہ کارروائی بہر حال کچھ وقت لیتی ہے.پھر وہاں کی اکثر زمینیں جنگلات کی صورت میں پڑی ہوئی ہیں.جنگلات بھی ایسے کہ جن میں نہ کوئی پٹواری گیا اور نہ کوئی قانون گو، جن میں نہ کوئی نشان لگا اور نہ حد بندی ہوئی بس ایک وسیع جنگل ہے جو خالی پڑا ہوا ہے.علاوہ ازیں وہاں پر زمین کی دوہری ملکیت ہے.حکومت بھی مالک ہے اور کئی افراد یا پرانے قبائل کی بھی ملکیت ہے.جب کوئی حصہ زمین فروخت ہوتا ہے تو اس کی قیمت کا ایک حصہ حکومت لیتی ہے اور ایک حصہ قبائل کو ملتا ہے.یہ گویا کچھ اس قسم کا انتظام ہے جو ہمارے یہاں سے بالکل مختلف ہے.مجھے اس کی تفصیل کا پورا علم بھی نہیں.صرف اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے ملک سے ان کا انتقال اراضی کا نظام بہت مختلف ہے.غرض پریذیڈنٹ ٹب مین صاحب کی زندگی میں تو سو ایکڑ زمین ہمیں نہ مل سکی لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو چونکہ ان کے آئین کے مطابق وہاں کا نائب صدر نئے انتخابات تک صدر بن جاتا ہے اس لئے مسٹر ٹالبرٹ جو وہاں کے نائب صدر تھے اور بڑی اچھی شخصیت کے مالک تھے صدر بن گئے ان سے بھی میری ملاقات ہوئی تھی.یہ بھی ہمارے ساتھ بڑا تعلق رکھتے تھے لیکن جو تعلق پریذیڈنٹ ٹب مین کے دل میں ہمارے لئے تھا جس کا انہوں نے اظہار بھی کیا تھا.مسٹر ٹالبرٹ کا ہمارے ساتھ ویسا تعلق تو نہیں تھا لیکن پھر بھی مسٹر البرٹ ہم سے بڑا اچھا تعلق رکھتے تھے.ان کے زمانہ میں بھی ہمارا یہ معاملہ سرخ فیتہ کی زد میں رہا.ایک لمبے عرصہ تک کا رروائی ہوتی رہی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کب اور کیا فیصلہ ہوگا ؟ کبھی کوئی مشکل پیش آجاتی تھی کبھی کہتے تھے دستاویز کے الفاظ درست نہیں.غرض یہ معاملہ بڑے لمبے عرصہ تک چلتا رہا یوں سمجھئے کہ اس بات کو قریباً تین سال ہو گئے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا اب چند دن ہوئے اطلاع آئی ہے کہ ہمارے حق میں فیصلہ ہو گیا ہے.پہلے یہ اطلاع ملی کہ پریذیڈنٹ ٹالبرٹ نے نقشہ پر منظوری دے دی ہے

Page 231

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۱۱ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء لیکن کچھ قانونی کام کرنے باقی ہیں.پھر اب یہ اطلاع ملی ہے کہ باقاعدہ منظوری کے بعد دستاویز ہائیکورٹ میں رجسٹر ہو گئی ہے گو اس میں انہوں نے ایک شرط تو لگائی ہے اور وہ شرط یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے اس کا کچھ بھی نہیں لیا یا اگر کچھ لیا ہے تو وہ بھی برائے نام ہے یوں سمجھیں کہ بالکل مفت ملی ہے لیکن وہ شرط ہے بالکل جائز.شرط یہ ہے کہ جن مقاصد کے لئے زمین دی گئی ہے اگر جماعت احمد یہ اس کا استعمال نہ کرے یا نہ کرنا چاہے یا نہ کرسکتی ہو تو وہ اس زمین کو بیچ نہیں سکتی بلکہ یہ حکومت کو واپس چلی جائے گی.یہ شرط معقول ہے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.یہ تو سوا یکڑ ہیں.ہمیں تو انشاء اللہ اگلے دس پندرہ سال میں وہاں کے لئے معلوم نہیں مزید کتنے سینکڑے ایکڑ زمین کی ضرورت ہوگی.غرض لائبیریا میں زمین مل گئی ہے اس زمین کو جلد استعمال میں لانے کے لئے ایک تو فوری طور پر وہاں ایک سکول کھلنا چاہیے دوسرے ہسپتال کھولنے کے لئے ایک ڈاکٹر جانا چاہیے تیسرے سکول اور ہسپتال کی عمارتوں پر رقم خرچ کرنی پڑے گی شروع میں میرا خیال ہے کہ شاید آٹھ دس ہزار پاؤنڈ (قریباً ۲ لاکھ ۷۰ ہزار روپے) کی رقم درکار ہے.بعد میں تو مزید اخراجات بھی ہوتے ہیں جو بہر حال کرنے پڑتے ہیں یہ دس ہزار پاؤنڈ بھی بڑی رقم ہے خصوصاً آج کل کے حالات میں جب کہ زرمبادلہ کی پاکستان میں کمی ہے.اس لئے یہاں سے تو یہ رقم بھجوا ناسر دست مشکل ہے ہمیں ملک پر بوجھ بھی نہیں ڈالنا چاہیے.یہ بوجھ تو انشاء اللہ بیرونِ پاکستان کی جماعتیں اٹھالیں گی.(انگلستان نے نصرت جہاں ریزروفنڈ میں ۵۲ ہزار پاؤنڈ کے وعدے کئے تھے ان کی طرف سے ۳۵ ہزار پاؤنڈ سے زائد ادا ئیگی ہو چکی ہے بقیہ رقم بھی وہ جلد ادا کر دیں گے یہ کوئی ایسی بات نہیں.اللہ تعالیٰ خودا اپنے فضل سے پیسوں کا انتظام کرتا ہے اب لائبیریا کے سکول اور ہسپتال کے لئے بھی کر دے گا.بہر حال یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایک نئے ملک میں ایک چھوٹے کالج (جو بعد میں کسی وقت بڑا بھی ہو سکتا ہے ) اور ایک بڑے ہسپتال کے لئے ایک سوا یکڑ زمین دے دی ہے.جماعت کو اپنے رب کریم کی کثرت سے حمد کرنی چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کا پیار

Page 232

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۱۲ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء ہمارے لئے اور زیادہ جوش میں آئے اور زیادہ حسین پیرایہ میں جلوہ گر ہو.ہم ہر آن اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے مور د ٹھہریں.اللہ تعالیٰ کا ہر چھوٹا اور بڑا فضل انسان پر ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے یوں ویسے اللہ تعالیٰ کا کوئی فضل چھوٹا تو نہیں ہوتا البتہ نسبتی لحاظ سے اپنی ہی دینی حالت اور ذمہ داری کے مقابلہ میں ہم کسی کو چھوٹا اور کسی کو بڑا کہہ دیتے ہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے.۱۰۰ یکٹر زمین مل گئی.لیکن اس فضل کے ساتھ ہی جماعت پر یہ ذمہ داری بھی آپڑی ہے کہ جماعتیں ڈاکٹر مہتا کریں.اساتذہ دیں اور اخراجات کے لئے رقم فراہم کریں جب آپ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے یہ انتظام کر لیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اس سے بھی بڑا فضل نازل فرمائے گا.ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہر آن زیادہ شدت کے ساتھ نازل ہورہے ہیں جس وقت خدا تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو لائبیریا میں سکول اور ہسپتال کے لئے عمارتیں بنانے اور اساتذہ اور ڈاکٹر بھجوانے کی توفیق عطا فرمائے گا تو پھر آپ کی ذمہ داری اور بڑھ جائے گی.ان لوگوں کی تربیت کرنے اور ان سے پیار کرنے کی ذمہ داری بہت بڑھ جائے گی.وہ قو میں پیار کی بھوکی ہیں آپ کو اسی حسین قول اور شیریں گفتار کے ساتھ ان سے پیش آنا پڑے گا جس طرح کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کے ساتھ اُلفت اور اخوت کی تعلیم دی اور خود اس پر چل کر دکھایا تھا.بنی نوع انسان کے دل جیتنے کی ذمہ داری سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور بنی نوع انسان سے اُلفت اور اخوت کا کوئی موقع رائیگاں نہ جانے دیں.یہ سلسلہ نسلاً بعد نسل چلتا رہے گا اور اس میں سعت پیدا ہوتی رہے گی.اس لئے آئندہ نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے یہ بڑا اہم کام ہے آئندہ نسل کی تعلیم و تربیت کی ضرورت دن بدن بڑھ رہی ہے کیونکہ ہرنسل تعداد میں پہلے سے زیادہ ہوتی ہے خدا تعالیٰ کا یہی قانون چل رہا ہے اس لئے جہاں جماعت احمدیہ پر ہر آن اللہ کا فضل نازل ہو رہا ہے وہاں ہر فضل پہلے سے زیادہ ذمہ داریاں بھی ڈالتا ہے اور ساتھ ہی پہلے سے بڑھ کر الہی فضلوں کو جذب کرنے کے سامان بھی پیدا کرتا ہے اسی

Page 233

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۱۳ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء طرح یہ تسلسل جاری رہتا ہے.اسی حقیقت کو میں عام طور پر ان الفاظ میں بیان کیا کرتا ہوں ، غلبہ اسلام کی شاہراہ پر ہنستے مسکراتے آگے بڑھتے چلے جانے کے سامان آپ کے لئے پیدا ہو تے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری زبان پر بے اختیار اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کے الفاظ جاری رہتے ہیں.میں ایک اور بات بھی احباب جماعت سے کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم نے اشاعتِ قرآن کا ایک منصوبہ بنایا تھا جس کی خدا تعالیٰ کے فضل سے ابتدا بھی ہو چکی ہے یہ منصوبہ دوحصوں پر مشتمل ہے ایک یہ کہ ہمارا اپنا چھا پہ خانہ ہو دوسرے یہ کہ با قاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ دنیا میں کثرت سے قرآن کریم کی اشاعت کی جائے.جہاں تک ایک جدید پریس کے قیام کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اس کی ابتدا ہو چکی ہے عمارت زیر تعمیر ہے.اہلِ ربوہ نے ، بچوں نے ، بڑوں نے ، خدام نے ، انصار نے اور اطفال نے حتی کہ اطفال سے کم عمر کے بچوں نے بھی بڑے پیار سے اور بڑی محنت سے اور بڑے استقلال سے نہ خانہ کی کھدائی کا کام مکمل کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے اہلِ ربوہ کو یہ سعادت نصیب ہوئی.ہماری گردنیں اللہ تعالیٰ کے اس پیار پر اس کے حضور جھک جاتی ہیں.تہ خانہ کی کھدائی کے بعد اب تعمیر کا کام شروع ہے جسے اکتوبر نومبر تک مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے.تاہم انجینئر صاحب کو میں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر وہ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے مکمل کر دیں تب بھی غنیمت ہے.مجھے تسلی ہو جائے گی اور میں جلسہ پر احباب سے کہہ سکوں گا اور جماعت اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی کہ پریس کی عمارت تیار ہوگئی ہے اس کے اندر جو مشینیں لگتی ہیں وہ تو پریس کی عمارت کا انتظار کر رہی ہیں.جو نہی عمارت مکمل ہوگی وہ لگ جائیں گی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ منصوبہ جسے اگر چار وار میں تقسیم کیا جائے تب بھی پہلے دور کے آخری حصے میں ہے.ابھی اس نے تین ادوار میں سے گزرنا ہے.جلسہ سالانہ تک عمارت بن گئی تو ممکن ہے کچھ حصہ کام کا بھی شروع ہو جائے گا.میں نے اس منصوبہ کے اعلان کے وقت بھی کہا تھا کہ ہمیں ایک نہیں سینکڑوں چھا پہ خانوں کی ضرورت پڑے گی.تاہم ایک پریس کا کام شروع ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بتایا کہ اس

Page 234

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۱۴ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء سے بھی ایک بڑا کام ہے تمہیں اس کی طرف توجہ دینی چاہیے.چنانچہ یہ تفہیم ہوئی کہ اس پریس کے علاوہ ہمارے دو اور پریس ہونے چاہئیں ایک افریقہ میں اور ایک براعظم یورپ میں (انگلستان میں ) یا جہاں بھی حالات اجازت دیں.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ربوہ میں ایک جدید پریس کے قیام کا منصوبہ پچھلے حصہ سے تعلق رکھتا ہے دوسرے مرحلے میں قرآنِ عظیم کی ہمہ گیر اشاعت کا کام کرنا ہے اب تک اتنی ہزار کے قریب قرآن کریم انگریزی ترجمہ اور سادہ چھپ چکے ہیں جن میں کچھ حمائل قرآنِ کریم انگریزی ترجمہ کے ساتھ ہیں اور کچھ جیبی سائز جن کا بڑا حصہ افریقہ میں بھجوایا گیا تھا وہاں وسیع پیمانے پر ان کی اشاعت کی گئی ہے مثلاً غانا میں قریباً سارے اچھے ہوٹل جو حکومت غانا کے پاس ہیں اور ان کے کمروں کی مجموعی تعداد غالباً ۸۲۸ ہے پچھلے دنوں ایک خاص تقریب میں (جس کی تصویریں یہاں بھی آئی ہیں ) ان سب کمروں میں رکھنے کے لئے ۸۲۸ قرآنِ عظیم کے نسخے ہوٹلوں کے انچارج کو پیش کئے گئے اس نے اس موقع پر ایک بڑی اچھی تقریر کی اور جماعت احمدیہ کی تعلیمی مساعی کی تعریف کی حالانکہ وہ خود عیسائی ہے.اس تقریر سے پتہ لگتا ہے کہ غلبہ اسلام کی مہم کو سر کرنے کے لئے احمدیہ تحریک جسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے جاری کیا ہے اس کا عیسائیوں پر کتنا اثر ہے.مجلس نصرت جہاں نے ایک چھوٹا سا با تصویر رسالہ انگریزی میں طبع کروایا ہے جس میں یہ تقریر بھی شامل ہے.اس میں چند ایک واقعات لے کر بتایا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی کس طرح اشاعت کی جارہی ہے.اس کا اردو تر جمہ بھی زیر طبع ہے وہ بھی انشاء اللہ جلد شائع ہو جائے گا.آپ دیکھیں گے تو بہت خوش ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد کریں گے.اس رسالہ کو ضرور پڑھنا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل دیکھ کر آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کی تحریک پیدا ہو.جو دوست انگریزی جانتے ہیں وہ انگریزی میں لیں اور کالجوں کے طلبہ ردوسرے احباب میں تقسیم کریں.اس کی تعداد بہت کم ہے انگریزی میں شاید تین ہزار کی تعداد میں چھپا ہے اور اردو میں پانچ ہزار کی تعداد میں زیر طبع ہے.احباب ایک ایک کاپی لے کر خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی پڑھائیں.

Page 235

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۱۵ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء اسی طرح سیرالیون اور نائیجیریا میں بھی بہت سے ہوٹلوں میں ہر ہوٹل کے کمروں کی تعداد کے مطابق انگریزی ترجمہ والا قرآن کریم رکھوا دیا گیا ہے.اس کا ایک اثر تو ہوٹلوں کی انتظامیہ پر پڑا ہے دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ خود ہی سامان پیدا کر دیتا ہے.جب تک ہوٹلوں کے مالکوں کو کوئی جماعت قرآن کریم پیش کرنے کے قابل نہیں تھی تو ان پر یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا تھا کہ تم بائیبل رکھتے ہو قرآنِ کریم کیوں نہیں رکھتے.اگر کوئی یہ اعتراض کرتا تو وہ بڑے آرام سے کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم بائیل اس لئے رکھتے ہیں کہ بائیبل سوسائٹیز ہمیں بائیبل رکھنے کے لئے دیتی ہیں تم قرآن کریم لاؤ ہم وہ بھی رکھ لیں گے.ان کی یہ فراخ دلی جو اس وقت وہ دکھاتے تھے اب ہمارے کام آگئی چنانچہ اب کئی ہوٹل والے ایسے بھی ہوں گے جو دل میں کڑھتے ہوں گے کہ یہ کیا ہو گیا لیکن اب وہ قرآن کریم رکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے منہ سے فراخدلی کی باتیں نکلوا تارہا اب وہ انکار نہیں کر سکتے.پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہوٹل تو سب کے لئے برابر ہیں وہ انکار کر بھی نہیں سکتے.غرض ان میں سے بعض نے تو نیکی کا کام سمجھ کر قرآن کریم رکھ لئے اور ان پر بڑا خوشکن اثر بھی ہوا ہے اور بعض مجبور بھی ہوئے مگر انکار نہ کر سکے.یہ باتیں اسی سال ۱۹۷۳ء سے تعلق رکھتی ہیں.میں نے اس سے پہلے کے واقعات نہیں لئے اور نہ وہ کسی رسالے میں پاکستان میں چھپے ہیں اور نہ میں ان کی بات کر رہا ہوں یہ وہ چند واقعات ہیں جو پچھلے چند مہینوں میں رونما ہوئے ہیں.بہت سے مسلمان جو ان ہوٹلوں کے کمروں میں ٹھہرے اور وہاں انہوں نے انگریزی ترجمہ قرآن کریم دیکھا تو انہوں نے بڑے تعریفی خطوط لکھے کہ آپ نے بڑا اچھا کیا ہوٹلوں کے کمروں میں قرآنِ کریم رکھوا دیئے لیکن یہ تو ہماری اس مہم کے ایک حصے کی ایک چھوٹی سی شاخ ہے یعنی اگر ہم ساری دنیا کے تمام ہوٹلوں کے ہر کمرہ میں قرآنِ کریم متر جم مختلف ملکوں میں ان کی اپنی زبانوں میں رکھنا چاہیں تب بھی ہمارا یہ کام ۱۰۰۰ را سے بھی کم ہوگا.اس لئے کہ انسان کی مجموعی آبادی کے مقابلہ میں ہوٹلوں کے کمروں کی تعداد شاید ہزار میں ایک بھی نہ ہو حالانکہ ہم نے تو دنیا کے ہر انسان کے ہاتھ میں قرآنِ کریم پہنچانا ہے اس لئے یہ خیال پیدا ہوا کہ ابھی سے ہمیں

Page 236

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۱۶ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء اس کا پورا جائزہ لے لینا چاہیے کیونکہ کسی منصوبہ کو کامیاب بنانے کے لئے پورا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے اس کے بغیر صحیح منصوبے نہیں بنتے اور نہ کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں.گویا ہم نے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ یورپ میں کس جگہ با آسانی ہم اپنا پریس کھول سکتے ہیں اور افریقہ میں کون سا ملک اس کام کے لئے زیادہ موزوں ہے.چنانچہ اس وقت تک جو اشاعت قرآنِ کریم ہوئی ہے اس میں افریقہ کا زیادہ حصہ ہے یہ کام ’ نصرت جہاں آگے بڑھ سکیم کے ماتحت ہو رہا ہے لیکن جماعت احمدیہ کا کام تو بہت پھیلا ہوا ہے اس سارے کام کے ہزارویں حصہ تک نصرت جہاں سکیم کا کام منحصر ہے لیکن چونکہ نصرت جہاں منصوبہ کے ساتھ اس کی ابتدا ہوئی تھی اس لئے قرآن کریم کی زیادہ اشاعت بھی افریقہ میں ہوئی خصوصاً ان ملکوں میں جن کا میں نے دورہ کیا تھا.وہاں سے کئی عیسائی طالب علم بچے مجھے خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمیں قرآنِ کریم مترجم بھجوائیں.میں ان کو لکھ دیتا ہوں کہ وہاں کے امیر سے ملو.ایک طالب علم نے مجھے لکھا کہ ایک نسخہ بائیبل کا اور ایک قرآنِ کریم مترجم کا بھجوا دیں وہ شاید عیسائیت اور اسلام کا موازنہ کر رہا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہدایت کی راہیں کھول دی ہیں اور وہ اسلام میں بہت دلچسپی لینے لگ گئے ہیں.امریکہ اور انگلستان میں اور اسی طرح یورپ کے دوسرے ممالک میں اشاعت قرآنِ کریم کا جو کام ہے وہ کچھ مختلف ہے اور حقیقی معنی میں ابھی اس کی ابتدا بھی نہیں ہوئی وہاں اشاعت کے کام میں بھی وہ وسعت پیدا نہیں ہوئی جو فریقہ میں پیدا ہو چکی ہے.قرآنِ کریم کے بہت کم نسخے یورپ و امریکہ میں گئے ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ احمدی دوستوں نے خریدے ہیں.دراصل ملک ملک کے مزاج میں فرق ہوتا ہے جس کا غذ پر ہم نے قرآنِ کریم چھپوایا ہے وہ بڑا اچھا ہے.پاکستان میں کسی آدمی کو اس کاغذ پر اعتراض نہیں ہو گا.اسی طرح افریقہ میں بھی بہت پسند کیا جاتا ہے.وہاں تو میں نے دیکھا ہے کہ جو قرآن کریم بعض انجمنوں کی طرف سے وہاں بھجوائے جاتے ہیں ان کا کاغذ تو بہت ہی معمولی ہوتا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے رڈی کے ڈھیر میں سے کاغذ اٹھا کر اس کے اوپر قرآن مجید جیسی عظیم کتاب کی طباعت کر دی ہے لیکن اس وقت امریکہ کا

Page 237

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۱۷ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء معیار طباعت سب سے اونچا ہے.روس کا ہمیں پتہ نہیں البتہ چین کا معیار بھی بہت بلند ہے امریکہ سے کم نہیں.یورپ کا معیار طباعت میں بڑا اونچا ہے شاید اتنا اونچا تو نہ ہو جتنا امریکہ کا ہے لیکن اگر فرق بھی ہے تو انہیں میں کا ہے اس سے زیادہ نہیں.ہم نے اس وقت تک جو قرآنِ کریم انگریزی ترجمہ والے چھپوائے ہیں ان کا کاغذ اور چھپوائی امریکہ اور یورپ کے معیار کے مطابق نہیں.اس لئے لجنہ اماءاللہ انگلستان نے لجنہ کے پچاس سالہ جشن کے موقع پر خلافت کو کچھ رقم بذریعہ چیک پیش کی تھی تو میں نے کہا یہ پیسے وہیں رکھو.اس رقم سے جماعت کے لئے کوئی چیز تحفہ بھجوا دینا.چنانچہ بعد میں ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ اچھے کاغذ کا تحفہ بھجوا دو تا کہ تمہارے خلوص کا ہد یہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں تم نے پیش کیا ہے اس کو ہم ایسے کام میں استعمال کریں کہ وہ تمہارے لئے وہاں بہت بڑے ثواب کا موجب بن جائے.چنانچہ کم و بیش چار ہزار پاؤنڈ کا کاغذ سویڈن سے خریدا گیا ہے اور انشاء اللہ اسی ماہ وہاں سے چل پڑے گا.ہما را اندازہ ہے کہ اس پر قرآنِ کریم حمائل ( درمیانہ سائز) کے چودہ پندرہ ہزار نسخے چھپ جائیں گے اور باوجود اس کے کہ وہ بھی اسی پریس میں چھپیں گے جس میں پہلے چھپے ہیں ان کی طباعت بدر جہا اچھی ہوگی کیونکہ کا غذا اچھا ہے.طباعت کی ایک خرابی اس وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے کہ پاکستانی کاغذ کہیں سے موٹا ہوتا ہے اور کہیں سے پتلا.جہاں زیادہ موٹا ہوتا ہے وہاں پریس کی سیاہی پھیل جاتی ہے اور جہاں پتلا ہوتا ہے وہاں الفاظ کا ایک سایہ سا آتا ہے الفاظ پوری طرح نہیں ابھر تے لیکن جو کاغذ سویڈن سے آرہا ہے وہ اس لحاظ سے بھی اچھا ہے کہ اس کی موٹائی ہر جگہ برابر ہوتی ہے اس لئے اس پر قرآن کریم کی طباعت بھی عمدہ اور دیدہ زیب ہوگی.پھر یہ نسخے ہم امریکہ اور یورپ بھجوائیں گے.اور وہاں ایک منصوبہ کے تحت قرآن کریم کی اشاعت کی جائے گی.میرا خیال ہے کہ وہاں بھی ہوٹلوں میں رکھوانے کا پروگرام بنایا جائے افریقہ کے ہوٹل یورپ اور امریکہ کے ہوٹلوں کی نسبت غریب ہیں اس لئے ہمیں ان کو قرآن کریم مفت بھی دینے پڑتے ہیں لیکن امریکہ اور یورپین ممالک بڑے امیر ہیں وہ پیسے بھی خرچ کر سکتے ہیں ان سے ہم یہ کہیں گے کہ تم قرآن کریم خریدو اور ہوٹلوں میں رکھو کیونکہ ہم مسلمان بھی تمہارے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں اس لئے جہاں عیسائیوں کے لئے تم نے

Page 238

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۱۸ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء بائیل رکھی ہوئی ہے وہاں مسلمانوں کے لئے قرآن کریم بھی رکھو مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے ہوٹل تیار ہو جائیں گے کیونکہ یہ ملک اپنے ہوٹلوں سے بہت زیادہ کمارہے ہیں.ان کے لئے فی کمرہ ایک پاؤنڈ خرچ کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے بعض ہوٹلوں کے ایسے سلسلے قائم ہیں جن کی یومیہ آمد کروڑوں میں ہے ان کے لئے ایک پاؤنڈ قرآن کریم پر خرچ کرنا بہت معمولی بات ہے تاہم ہمارے لئے یہ امر از بس ضروری ہے کہ قرآنِ عظیم کو ان کے سامنے ایسی عمدہ حالت میں پیش کریں کہ وہ ظاہری طور پر بھی دنیوی معیار کے مطابق ہو گویا جہاں قرآن کریم دینی اور دنیوی ہر دو لحاظ سے اچھا ہے وہاں اس کی طباعت بھی ہر لحاظ سے معیاری ہونی چاہیے.پس یہ ایک منصوبہ ہے جو ذہن میں آیا ہے اسی طرح کچھ اور جماعتی کام ہیں.ان کاموں کا پورا جائزہ لینے اور بیرونی جماعتوں کے بعض احباب سے مشورہ کرنے کے لئے میں نے سوچا کہ مجھے اس سال کچھ عرصہ کے لئے انگلستان جانا چاہیے.پہلے میرا خیال تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو میں انڈونیشیا کی جماعتوں کا دورہ کروں.پچھلے سال ان سے وعدہ بھی کیا تھا لیکن حالات ایسے تھے کہ ہم وہاں نہیں جا سکے لیکن اس دفعہ بڑی شدید تحریک پیدا ہوئی کہ قرآن کریم کے کام میں وسعت پیدا کرنے کے لئے وہاں خود جا کر احباب سے مشورہ کرنا ضروری ہے.اس لئے ہم نے فی الحال انڈونیشیا کا دورہ ملتوی کر دیا ہے اور انگلستان جانے کا پروگرام بنایا ہے اس سلسلہ میں دعائیں کی بھی ہیں اور دعائیں کروائی بھی ہیں.اللہ تعالیٰ کے بعض بندوں نے خدا تعالیٰ سے بڑی بشارتیں بھی حاصل کی ہیں اور کچھ انذاری پہلو بھی سامنے آئے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان سے کوئی نقصان نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا اور کامیابی حاصل ہوگی.وَاللهُ اعْلَمُ بِالصَّوَابِ - چنانچہ اس بارہ میں میں نے چند دوستوں سے پہلے بھی درخواست دعا کی تھی.انہوں نے بھی دعائیں کیں.اب میں ساری جماعت کی خدمت میں درخواست کرتا ہوں کہ ساری جماعت دعا کرے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور برکت کے ساتھ اس سفر کی تو فیق عطا فرمائے.اسلام کی عالمگیر اشاعت اور ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں جوارا دے اور خواہشات پیدا کرتا

Page 239

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۱۹ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء ہے وہ خود ہی اپنے فضل سے ان کے پورا کرنے کے سامان بھی پیدا کر دے تا کہ اسلام کو بہت ترقی بھی ہو اور اس کے عالمگیر غلبہ کی نئی سے نئی راہیں بھی کھلتی چلی جائیں جس سے ہمارے دل بھی خوشی اور راحت محسوس کریں اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان بھی پیدا ہوں.ہماری روح بھی اسلام کے عالمگیر غلبہ و کامیابی سے حقیقی لذت اور سرور حاصل کرے.پس اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کی تلاش میں آٹھ دس دن تک وہاں کے لئے روانگی ہوگی اور چند ہفتے وہاں قیام ہوگا.دوست آج ہی سے دعائیں کرنا شروع کر دیں تا کہ جو غرض ہماری زندگی کی ہے، جو غرض ہماری زندگی کے ہر منصوبے کی ہے اور جوغرض ہماری زندگی کے ہر منصوبے کی ہر شاخ کی ہے وہ پوری ہو اور آخری غلبہ اسلام کا دن جلد سے جلد اور قریب سے قریب تر آتا چلا جائے اور اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں کو قبول فرمائے اور ان کے نتائج احسن رنگ میں نکالے.دنیا میں صرف وہی انسان مظلوم نہیں جس پر دوسرے انسانوں نے ظلم کیا ہو اس سے بھی زیادہ مظلوم وہ شخص ہے جس پر شیطان نے ظلم کیا ہو اس لئے میں یہ کہوں گا کہ اس مظلوم دنیا کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے اپنی زندگی کو، اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو اور اپنے آرام کو غرضیکہ اپنا سب کچھ قربان کر دینا چاہیے تا کہ وہ لوگ جو شیطانی حملوں کی وجہ سے مظلوم بن گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی محبت سے محروم ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مظلومیت کے دور کوختم کر دے اور اس کے پیار کے سایہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سارے کے سارے بنی نوع انسان پھر سے اُمتِ واحدہ بن کر آ جمع ہوں.خدا کرے ایسا ہی ہو.پس دوست دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں دن کو بھی دعائیں کریں اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر بھی دعائیں کریں.نمازوں میں بھی دعائیں کریں اور نوافل میں بھی دعائیں کریں.غرض اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں اور اس کی توحید کو قائم کرنے کے لئے اس کی مدد اور نصرت کے حصول کے لئے اس کے سامنے عاجزانہ ہاتھ پھیلا ئیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ہاتھوں کو جو اس کے سامنے پھیلے ہوں اور آپ کی جھولیوں کو جو اس کے سامنے پھیلی ہوں اپنی رحمتوں اور فضلوں سے اس طرح بھر دے کہ ان میں کوئی مزید گنجائش باقی نہ رہے اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو

Page 240

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۲۰ خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۷۳ء قبول فرمائے اور جماعت احمدیہ کو جواد نی خادم ہیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور حقیر بچے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی معہود کے ، انہیں اپنی رحمتوں اور فضلوں کے حصول کی زیادہ سے زیادہ توفیق دے اور ہمیشہ ہی اپنے فضلوں اور رحمتوں کا وارث بنائے رکھے.اللهم آمین.روزنامه الفضل ربوہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۳ ء صفحہ ۲ تا ۷ )

Page 241

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۲۱ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء ہرانسان کے ہاتھ میں قرآن کریم مترجم پہنچانا جماعت احمدیہ کا کام ہے خطبه جمعه فرموده ۱۳ / جولائی ۱۹۷۳ ء احمد یہ ہال.کراچی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حالات کی مجبوری کی وجہ سے گذشتہ تین سال میں کراچی کے دوستوں سے عملاً اُسی قدر بُعد پیدا ہو گیا جتنا انگلستان اور افریقہ کے احمدی دوستوں کے درمیان واقع تھا یعنی مجھے یہاں کراچی آنے کا موقع نہیں ملا.اس لئے ہر احمدی سے ملنے کی جو خواہش میرے دل میں پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح مجھ سے یعنی خلیفہ وقت سے ملنے کی جو خواہش مخلص احمدیوں کے دل میں پیدا ہوتی ہے وہ بھی پوری نہ ہوسکی.اس عرصہ میں کچھ محدود مقامی ( یہ مقام جس میں ہم اس وقت اکٹھے ہوئے ہیں ) تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور کچھ دنیا کے حالات میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں.جو تبدیلی اس ہال میں مجھے نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہال اب وہ نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا.ایک شخص جس کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہو، وہ یہ کہے گا کہ ہال چھوٹا ہو گیا ہے لیکن وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے، وہ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جماعت بڑھ گئی ہے اور اب وہ اس میں سانہیں سکتی.غرض یہ ایک تبدیلی رونما ہوئی ہے اور اس تبدیلی کے دوران ایک اور بات سامنے آئی اور

Page 242

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۲۲ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء وہ یہ کہ یہاں کی انتظامیہ (امیر صاحب اور اُن کے ساتھی ) ایسی جگہ کے حصول میں سستی دکھاتے رہے ہیں جہاں کراچی کے سب احمدی احباب اکٹھے ہو کر سہولت کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرسکیں.خصوصاً جب خلیفہ وقت یہاں دورے پر آئیں، تو اُس وقت قطع نظر اس بات کے کہ بعض محلوں اور سوسائٹیز وغیرہ میں علیحدہ نماز جمعہ کی اجازت دی جاتی ہے مگر وہاں کے سبھی احباب یہ چاہتے ہیں کہ سب لوگ ایک جگہ نماز ادا کریں.اس اجتماع کی اہمیت کو میرے نزدیک جماعت کراچی کی انتظامیہ نے سمجھا نہیں اور کسی ایسی جگہ کا انتظام نہیں کیا جہاں ہم سب اکٹھے ہو کر ایک دوسرے سے مل سکتے ہوں.اگر چہ جمعہ کے اجتماع میں اس قسم کی ملاقات تو نہیں ہوتی.جس سے دل سیر ہو جاتے ہیں.احباب مجھے دیکھ رہے ہوں اور میں اُن کے چہروں پر ایمانی بشاشت کو محسوس کر رہا ہوں.اس وقت بھی مردوں کا ایک بڑا حصہ اس ہال سے باہر سڑکوں پر بیٹھا ہوا ہے یا ساتھ کی عمارت کے کمروں میں بیٹھا ہوا ہے ( پتہ نہیں وہ کس کی عمارت ہے ).موجودہ صورت میں ہم ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہیں سکتے.میں اب آتے ہوئے احباب کی ایک جھلک ہی دیکھ سکا ہوں بعض کی تو جھلک بھی نہیں دیکھ پاتا.غرض کسی وسیع جگہ کے حصول کی طرف بہر حال زیادہ توجہ دی جانی چاہیے تھی اور اب میں کہوں گا زیادہ توجہ دی جانی چاہیے.میں یہ تو نہیں کہتا کہ جب میں واپسی پر یہاں جمعہ پڑھاؤں تو آپ اس وقت تک کسی وسیع جگہ کا انتظام کر چھوڑیں کیونکہ باہر کا تو چند ہفتے کا پروگرام ہے.اتنے عرصہ میں تو اس کا انتظام ممکن نہیں لیکن ایک سال کے اندراندر تو اس کا انتظام ہو جانا چاہیے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ نو مہینے کا عرصہ کافی ہے.اس لئے میں آپ کو نو ماہ کی مہلت دیتا ہوں اس عرصہ میں کم از کم زمین خرید لینی چاہیے.ہم کھلے میدان میں نماز جمعہ ادا کریں گے.نماز جمعہ کے لئے چھت کی ، گیلریوں کی ، کمروں کی اور اس چیز کی اور اس چیز کی ضرورت نہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے ساری زمین کو مسجد بنایا ہے.اس میں بڑی حکمت کی بات کہی گئی ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو سزاوار ہے.

Page 243

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۲۳ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء آپ کے سوا اور کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس نے ان چیزوں کے متعلق سوچا ہو اور اپنی قوم کو ہدایت دی ہو.یہ شرف صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا ہے کہ انہوں نے نماز کی ادائیگی میں سہولت کے پیش نظر فرمایا: - جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا اگر یہ صحیح ہے اور ہمارے نزدیک یقیناً صحیح ہے تو پھر میری اور تیری مسجد میں نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے کا سوال باقی ہی نہیں رہتا سوائے اس کے کہ کوئی احمق یہ کہے کہ ساری زمین میری ہے.جس نے نماز پڑھنی ہے وہ چاند میں جا کر نماز پڑھا کرے.لیکن ایسے احمق لوگ شاید ہی ہوں ہماری نظر میں سے تو نہیں گذرے لیکن ایسے بیسیوں مقامات ہیں جہاں کے دیو بندی کہہ دیتے ہیں کہ بریلوی نماز نہ پڑھیں.بریلوی کہہ دیتے ہیں کہ دیو بندی نماز نہ پڑھیں.اب دیکھو ! ساری زمین کو جب خدا تعالیٰ نے اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اُمت محمدیہ کے لئے مسجد بنادیا ہے.تو پھر اگر ہم عقل سے کام لیں تو یہ سارے جھگڑے ختم ہو جانے چاہئیں لیکن اس کے باوجود یہ جھگڑے امت میں باقی ہیں اور ختم ہونے کا نام نہیں لیتے.دوسرے یہ بھی فائدہ ہے کہ اس ارشاد نبوی کے پیش نظر اس قسم کے ہال کی ان گیلریوں کی اور ان پر رنگ و روغن وغیرہ کے سلسلہ میں رقم خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی.ہر شخص اپنے ساتھ کوئی کپڑا یا چادر لا سکتا ہے.جسے بچھا کر نماز پڑھی جاسکتی ہے.تاہم صفیں درست ہونی چاہئیں.صفوں کی درستی کے متعلق ہمیں حکم ہے لیکن نماز پڑھتے وقت جبین نیاز سطح زمین پر مٹی پر ہو یا کپڑے پر ہو یا قالین پر ہو اس کے متعلق کوئی ہدایت اور حکم نہیں ہے.غرض خدا تعالیٰ کے حضور ہم نے بہر حال عاجزانہ طور پر جھکنا ہے اور اس کے لئے شرائط نہ ہیں اور نہ لگائی جا سکتی ہیں البتہ کھلی اور پاک زمین ہونی چاہیے.اور اس کا جلد انتظام ہونا چاہیے.یہ جو آہستہ آہستہ چلنے کا رواج مجھے بعض جگہ نظر آنے لگ گیا ہے یہ طریق ٹھیک نہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت دن بدن بڑھ رہی ہے.ابھی میں مسجد کا ذکر کر رہا تھا تو میری توجہ اس طرف پھری اور میں نے سوچا کہ قرآن کریم نے یہ کتنے پتے کی بات کہی ہے.أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَاتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا اَفَهُمُ الْغَلِبُونَ.(الانبياء : ۴۵)

Page 244

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۲۴ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء کہ لگا تار اور تسلسل کے ساتھ کسی جماعت کا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بن کر بڑھتے ہی چلے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ صرف وہی جماعت کامیاب ہوگی جو دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس کے مقابلہ میں جو جماعت گھٹتی چلی جاتی ہے، خواہ تھوڑا ہی فرق کیوں نہ ہو وہ کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے اور اس کی ساری مخلوق میں کارفرما ہے.اب فرض کر لیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ کے وقت دنیا کی دوارب کی آبادی تھی.اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ غلبہ اسلام کی مہم کے اجرا کے لئے کھڑے ہو جاؤا اور دنیا میں اس بات کی منادی کرو کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس غرض کے لئے مبعوث کیا ہے اور میری جماعت میں شامل ہو جاؤ تا کہ ہم اکٹھے ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ میں بے دریغ قربانیاں دیتے ہوئے اس کی بے شمار رحمتوں کو جذب کرنے کے بعد اس مہم کو ( کہ اسلام دنیا میں غالب آئے ) کامیاب کریں.اگر اس وقت دنیا میں کل دو ارب انسان تھے اور دعوی کرنے والا بہر حال ایک تھا تو کل آبادی میں احمدیوں کی نسبت ۲ ارب تھی.پھر یہ تعداد بڑھنی شروع ہوئی اور اسی نسبت کے ساتھ غیر احمدی مسلمان بحیثیت مجموعی گھٹنے شروع ہوئے.مسلمان چونکہ مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اس لئے لفظ ” غیر احمدی بڑی احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے.مثلاً آپ کہا کریں دیو بندی ہیں یا یہ کہا کریں بریلوی ہیں یا یہ کہا کریں کہ اہل حدیث ہیں یا یہ کہا کریں کہ شیعہ ہیں یا یہ کہا کریں کہ حنفی ہیں یا یہ کہا کریں کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں.اس طرح یہ چھوٹے چھوٹے گروہ بن جاتے ہیں.مگر آپ اپنے مخالف کو ایک نام دے کر اس کی تعداد کو غیر فطری طور پر بڑھا دیتے ہیں پس یا درکھنا چاہیے کہ جماعت کا مخالف غیر احمدی نہیں ہے بلکہ جماعت کا مخالف یا تو دیو بندی ہے یا بریلوی ہے یا اہل حدیث ہے یا شیعہ ہے یا جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والا ہے گویا اسی طرح اُمت مسلمہ ۷۳ فرقوں میں بٹی ہوئی ہے.وہ سب علیحدہ علیحدہ طور پر آپ کے مخالف ہیں کچھ تھوڑے مخالف ہیں اور کچھ زیادہ ، سب کو اکٹھا کر کے ایک گٹھڑی میں باندھ دینا درست نہیں ہے.اس کا خیال رکھنا چاہیے.تاہم میں اس وقت نوع انسانی کو لے رہا ہوں.پہلے دن ایک اور دوارب کی نسبت تھی اور آج میرے اندازہ کے مطابق دنیا میں احمدیوں کی تعداد ایک کروڑ تک

Page 245

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۲۵ خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۷۳ء پہنچ چکی ہے اور اس کے مقابلہ میں فرض کریں دنیا کی آبادی بڑھ کر تین ارب ہو گئی ہو تو پھر بھی ایک کروڑ کی نسبت تین ارب کے ساتھ اس سے بہت زیادہ ہے جتنی ایک کی نسبت دو ارب کے ساتھ تھی کیونکہ احمدی ایک سے ایک کروڑ ہو گئے.جس کا مطلب یہ ہے کہ جو اس ایک اور دوارب کی نسبت میں فرق ہے اور جو ایک کروڑ اور تین ارب کی نسبت میں فرق ہے اسی نسبت سے مسلمانوں کا جو حصہ جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہوا وہ گھٹ گیا ہے.اُن کی تعداد کم ہوگئی ہے.پس عقلاً بھی آنا نأتي الاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا، اَفَهُمُ الْغَلِبُونَ کی رُو سے ایک مسلسل عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے رونما ہوا ہے.ایک تبدیلی ہے جو اس نسبت کے اندر پیدا ہوگئی ہے اور اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ وہ اپنے قائم کردہ سلسلہ کو ترقی دے.جماعت احمد یہ جو دراصل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا باغ ہے، جسے قدرت کے ہاتھ نے خود لگایا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اس باغ کو ثمر آور کرے اور اس جماعت کو غالب کرے.قرآنِ کریم نے ایک اصول بیان کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرت کے ہاتھ نے دنیا میں اس اصول کو قائم کیا ہے اور کر رہا ہے.دنیا پر یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ جو سلسلہ خدا کی طرف سے ہے وہ دن بدن بڑھ رہا ہے.پس یہ ہماری ایک جدو جہد ہے جو شروع ہے.اس کے لئے کچھ ذیلی باتیں میں نے بتادی ہیں.کچھ بنیادی باتیں ہیں اور وہ یہ کہ ساری دنیا میں قرآنِ کریم کی اشاعت ہونی چاہیے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر گھر میں جہاں انسان رہائش پذیر ہیں ہم نے قرآنِ کریم صرف متن ہی نہیں بلکہ اس زبان میں مترجم جس زبان کو اس گھر کے مکین بو لتے اور سمجھتے ہیں اس گھر میں قرآنِ کریم پہنچانا ہے.یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے.یہ بہت عظیم الشان کام ہے مگر یہ انشاء اللہ ہوکر رہے گا.اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ یہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہوگا تاہم اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت نہیں دی کہ زید یا بکر کے ذریعہ ہوگا اسی لئے خدا تعالیٰ دوسری جگہ انذار کا پہلو سامنے لے آیا ہے کہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ ایک اور قوم پیدا کرے گا جو خدا تعالیٰ کا منشا پورا کرے گی.خدا تعالیٰ کی تدبیر اور اس کا منصوبہ اور اس کا ارادہ نا کام نہیں ہوا کرتا ہر گھر میں قرآن کریم کا اس

Page 246

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۲۶ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء زبان میں ترجمہ شدہ نسخہ جس کو اس گھر کے مکین بولتے اور سمجھتے ہیں وہ ہم نے پہنچانا ہے.اللہ تعالیٰ کو انسان کے دل سے پیار ہے.اس نے انسان کو اپنی محبت کے حصول کے لئے پیدا کیا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان اس کا بندہ بنے ، اس کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھائے.انسان جو زبان بولتا ہے اللہ تعالیٰ کو وہ زبان تو پیاری نہیں ہے سوائے اس الہی زبان کے جو کہ بنی نوع انسان کے فائدہ کے لحاظ سے بہترین زبان تھی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو اختیار فرمایا.یہ نہیں کہ جو ہمارا محاورہ ہے کہ باقی زبانیں سوتیلی تھیں اور عربی اس کی اپنی تھی اس لئے اس نے عربی کو اپنا یا ایسا نہیں ہے.اس زبان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح بنایا ہے اور انسانی دماغ کو اس طرف رہنمائی کی کہ ابدی زبان جو اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ نظر آتی ہے وہ قرآنِ کریم کی زبان بن گئی.پس عربی زبان کو اختیار کرنے کا صرف یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ نے یہ چاہا کہ صرف یہی ایک زبان ہے جس میں آخری شریعت اگر اتاری جائے تو نوع انسانی کو اس سے سب سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ یہ زبان مختلف معانی کی متحمل ہے.یہ زمانہ اور ہے ملک کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور اس تبدیلی کے نتیجہ میں کئی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں.اور کئی نئے مسائل جنم لیتے ہیں.ان کو حل کرنے کے لئے زبان کے اندر وسعت کو سمیٹ لینا اور اس سمٹی ہوئی وسعت کو چھپالینے کی طاقت ہونی چاہیے یعنی ایسی زبان ہونی چاہیے جس کے متعلق محض فلسفیانہ رنگ میں نہیں یا اپنی خواہش کے رنگ میں نہیں بلکہ فی الحقیقت یہ کہا جاسکتا ہو کہ اس کے اندر باطنی رموز و اسرار رکھے جاسکتے ہیں.اگر وہ زبان نہ ہو تو اس زبان میں اللہ تعالیٰ کے کلام نے ہر زمانہ کے مسائل کو حل کرنا ہوتو وہ نہیں کر سکے گی لیکن اگر اس زبان میں اتنی وسعت ہو کہ قیامت تک کے مسائل کے حل کرنے کے لئے وہ پوشیدہ اسرار جو اس زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں پوشیدہ اسرار کے طور پر ودیعت کر دیئے جائیں تو پھر اس زبان کو اختیار کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں کیا جاسکتا.پس اصل زبان عربی ہے لیکن دنیا کے مختلف حصوں کے لوگوں کو سمجھانے کے لئے اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے.جو حتی الوسع کوشش کے باوجود پھر بھی ناقص رہتا ہے.اس لئے ہم کہتے ہیں متن سے پیار کرو کیونکہ مطہر دل کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تمہیں حالات کے مطابق

Page 247

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۲۷ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء قرآن کریم کے معانی بتائے گا.ان نئے معانی کا سیکھنا حقیقتا تو عربی زبان ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے کیونکہ عربی زبان ہی اس کی متحمل ہوسکتی ہے.اس کے بعد طفیلی طور پر ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اردو کا جس رنگ میں استعمال کیا ہے وہ بھی بڑا قادرانہ استعمال ہے.اس کے ذریعہ بھی بہت سارے اسرار ورموز قرآنیہ انسان پر کھل سکتے ہیں اور کھلتے رہے ہیں.یہ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے لیکن یہ تو ایک طفیلی چیز ہے.اصل عربی ہے.اس لئے متن کو تو ہم نے بہر حال قائم رکھنا ہے لیکن متن سے اُنس اور پیار کو قائم کرنے کے لئے اور قرآن کریم سے ایک لگاؤ اور الفت پیدا کرنے کے لئے یہ بات اشد ضروری ہے کہ ہم ہر انسان کے سامنے متن بھی رکھیں کیونکہ اس کے دل میں ایک وقت میں یہ خواہش پیدا ہو سکتی ہے اور پیدا ہو جاتی ہے کہ اسے ترجمہ کے علاوہ عربی سیکھنی چاہیے.مجھے اس کا ذاتی طور پر علم ہے کیونکہ بہت سے دوست مجھے خط لکھتے ہیں کہ ان پر ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے سمجھا تراجم اور تفسیری نوٹوں سے تو ان کی سیری نہیں ہوتی اس لئے انہیں اپنی سیری کے لئے عربی زبان سیکھ کر عربی متن پر غور کرنا چاہیے.غرض ہر گھر میں قرآنِ کریم پہنچانا ایک بہت بڑا کام ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ہر فرد واحد کے ہاتھ میں اس کی اپنی زبان میں قرآنِ کریم پہنچانا اس سے بھی بڑا کام ہے کیونکہ گھر کے مکین ایک وقت میں دو میاں بیوی اور بچے بھی ہوتے ہیں.الا مَا شَاء الله بعض گھروں میں بچے نہیں ہوتے.عموماً ہر گھر میں چار پانچ بچے ہوتے ہیں یہ اور بات ہے کہ کسی کہ ہاں ہالہ کے ہالہ بچے ہوتے ہیں.(ہالہ بنگالیوں کی اصطلاح ہے.ایک ہالہ میں چار بچے ہوتے ہیں ) گو کشمیریوں کے ہاں بھی بہت بچے ہوتے ہیں تاہم بنگالی اس میں مشہور ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ ہمارے گھر میں اتنے بچے ہیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے اتنے ہالہ بچے ہیں.اگر کوئی یہ کہے کہ صرف چار ہالہ بچے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے سولہ بچے ہیں.گویا ہر گھر میں بچوں کی تعداد کم و بیش ہوتی ہے.تاہم بڑے بچوں کے لئے بھی ہر گھر میں قرآن کریم پہنچانا ہے.تم اگر یہ سوچو اور گھبرا ؤ اور کہو کہ ہمارے اوپر ذمہ داری نہیں ہے.تو تمہاری مرضی.لیکن اگر تمہارے دل میں صدق اور صفا اور وفا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو مانتے اور اس کی بشارتوں پر ایمان لاتے ہوتو تمہیں یہ بات تسلیم کرنی

Page 248

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۲۸ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء پڑے گی کہ تمہارے اوپر یہ بات فرض کر دی گئی ہے.البتہ یہ صحیح ہے کہ یہ کام بہت وسیع ہے.یہ ذمہ داری بہت بھاری ہے اور یہ کام اتنی دولت کا محتاج ہے کہ آج ہماری وسعت یا ہماری دولت یا ہماری طاقت اس کو نباہ نہیں سکتی لیکن جس ہستی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں تمہارے ذریعہ یہ کام کرواؤں گا.وہ ہمیں پیسے بھی دے گا.وہ ہمارے اندر ہمت اور وسعت بھی پیدا کرے گا.وہ اپنی قادرانہ صفات کے جلوے ہمارے وجود میں ظاہر فرمائے گا کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.اس لئے اس بات کی تو فکر نہیں کرنی چاہیے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں.یہ کام کیسے ہوگا.احباب کو یاد ہوگا میں نے ۱۹۷۰ء میں کہا تھا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ افریقی ممالک میں غلبہ اسلام کی مہم میں شدت اور تیزی پیدا کرنے کے لئے کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ سٹرلنگ خرچ کرو.میں نے کہا مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے دولت اور خزانوں کا مالک تو خود خدا تعالیٰ ہے.اس نے کہا ہے تو وہ خود اس کا انتظام فرمائے گا.یہ تو ایک ایسی بات ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنے نوکر کو یہ کہے کہ مہمان آگئے ہیں تم جا کر چار آنے کا دہی لے آؤ.وہ کہے حضور پیسے دو.کہے میں پیسے نہیں دوں گا.وہ کہے گا پھر دہی کہاں سے لاؤں.اگر ایک عظمند مالک دہی کا حکم دیتے ہوئے نوکر کے ہاتھ پر پیسے بھی رکھ دیتا ہے تا کہ وہ فوراً دہی لے آئے تو وہ جو تمام حکمتوں کا سر چشمہ ہے اور عقل و فراست کا منبع ہے اور ہر امر کا مصدر ہے اس کے متعلق تم یہ خیال کرتے ہو کہ وہ تمہیں وسیع پیمانے پر قرآنِ کریم کی اشاعت کا حکم دے اور تمہارے لئے پیسوں کا انتظام نہ کرے.یہ تو نہیں ہوسکتا.چنانچہ میں نے دوستوں سے کہا مجھے پیسوں کی فکر نہیں ہے.اسی طرح اس نے کہا ہے کہ ڈاکٹر بھیجو.ٹیچر بھیجو.میں نے کہا مجھے اس کی بھی فکر نہیں ہے.مجھے جس چیز کی فکر ہے اور تمہیں بھی ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہماری حقیر کوششیں جب اس کے حضور پیش ہوں تو وہ ان کو قبول بھی کرے گا یا نہیں.ہماری اپنی غفلت ، اپنی کوتاہی اور اپنے گناہ یا اپنی غلطی کہیں ہماری نا کامی کا موجب نہ بن جائے.کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کہے میرے پاس کیا لے کر آئے ہو.میرے خزانے بھرے ہوئے ہیں اس لئے لے جاؤ مجھے تمہارے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ہمارے اپنے دلوں کے گند کا رد عمل ہو کہ ہم اس کے حضور پیش کریں مگر وہ عند اللہ قبول نہ ہو.اس لئے یہ وہ

Page 249

خطبات ناصر جلد پنجم مقام خوف ہے جس کی فکر کرنی چاہیے.۲۲۹ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء پس تم کچھ کر کے بھی فخر نہ کرو بلکہ کچھ کر کے اور زیادہ عاجزانہ طور پر اپنی گردنوں کو اس کے حضور جھکا لو کیونکہ خطرے کا وقت اب آ گیا ہے.تم نے اپنی طرف سے قربانی پیش کر دی دیکھنا یہ ہے کہ عند اللہ قبول بھی ہوتی ہے یا نہیں.یہ ایک بنیادی نکتہ ہے جو ہر وقت مومنوں کے سامنے رہنا چاہیے.جب ایک مومن خدا کے حضور کوئی قربانی پیش کرتا ہے تو وہ اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ اس کے دل میں خدا کے حضور پیش کرنے کا پہلے سے زیادہ جذبہ پیدا ہوتا ہے.اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پتہ نہیں قبول ہوگا یا نہیں.لیکن جب تم نے کچھ پیش ہی نہیں کیا تو قبول ہونے نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن جس وقت تم نے خدا کے حضور کچھ پیش کر دیا اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا عند اللہ مقبول بھی ہے یا نہیں.یہ ایک بڑا اہم سوال ہے اور بڑا نازک سوال ہے.ہر ایک احمدی کو اس کی فکر کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ نے کہا یہ تھا کہ مغربی افریقہ میں خرچ کرنے کے لئے کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ جمع کرو اور خدا تعالیٰ نے دے دیا تین چار گنا زیادہ.جماعت نے یہ قربانی باقی چندوں میں اسی طرح شدت اور تیزی کو قائم رکھتے ہوئے دی یعنی باقی چندوں کا تسلسل قائم رہا ( یہ میں اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب پاؤنڈ گیارہ بارہ روپے کا تھا اب تو اس کی قیمت بڑھ گئی ہے) چنانچہ پاکستان کی جماعتوں نے قریباً تین لاکھ پاؤنڈ چندہ دیا اور ایک لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ بیرونِ پاکستان کی جماعتوں نے چندہ دیا.کہا تھا کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ خرچ ہونا چاہیے اور دے دیا ہمیں قربانی کی شکل میں ساڑھے تین اور چارلاکھ پاؤنڈ.صرف یہی نہیں بلکہ ہم نے وہاں جو کلینک کھولے ہیں ان سے جو بچت ہوئی ہے وہ ایک لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ اب دیکھو اللہ تعالیٰ کتنا دیا لو ہے.اس لئے جب میں یہ کہوں یا کوئی اور کہے کہ ہر انسان کے ہاتھ میں قرآنِ کریم مترجم پہنچانا جماعت احمدیہ کا کام ہے تو دنیا جو کہے سو کہے آپ میں سے کسی شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ یہ کہے کہ یہ غریب جماعت اس عظیم الشان کام کو کیسے کرے گی.آخر اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال کی شکل میں جو دولت عطا فرمائی ہے وہ تمہارے

Page 250

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۳۰ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء پاس کیسے آگئی.ماؤں کے پیٹ سے لے کر تو کوئی نہیں آیا تھا.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی دین ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کا نتیجہ ہے.تو کیا اب خدا تعالیٰ کے خزانے خالی ہو گئے ہیں؟ نہیں! اس کے خزانے اب بھی بھرے ہوئے ہیں.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس پر کامل تو کل اور پوری امید رکھی جائے.جب اس نے یہ کہا کہ یہ کام کرو.دنیا میں وسیع پیمانے پر اشاعت قرآن کریم کا یہ کام کرو.تو وہ اس کے لئے وسائل بھی مہیا فرمائے گا.خود قرآن کریم نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی جو تدابیر نافذ ہوتی ہیں اور منصوبے بنائے جاتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں ایک وقت مقدر ہوتا ہے.اس وقت پر وہ کامیابی نمایاں ہو کر بنی نوع انسان کے سامنے آجاتی ہے.چنانچہ مجھے بھی ایک بشارت کے سلسلہ میں ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ کام اپنے وقت پر ہو گا.یہ اس وقت کی بات ہے جب میں سپین کا دورہ کر رہا تھا.اسے میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.غرض ہمارے ساتھ تو خدا تعالیٰ بہت پیار کرتا ہے.اگر کوئی احمدی یہ کہے کہ یہ کیا خدا نے ہمارے ذمتہ اتنا بڑا کام لگا دیا ہے ہم اس کو کیسے کریں گے.ہمیں اس کی طاقت ہی نہیں ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس احمدی سے بڑا بد قسمت اور کوئی انسان نہیں ہے.پرسوں کا ایک واقعہ ہے.میں دوستوں کو بتا دیتا ہوں کیونکہ اس سے خدا کا پیار ظاہر ہوتا ہے.میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات موجزن ہیں.کسی نے مجھے کہا کہ انگلستان کا ویزہ لینے کے لئے فلاں شخص سے کہا جائے کیونکہ لاہور کے برٹش قونصلیٹ (British Consolate) میں ان کی کسی سے دوستی ہے وہ جلدی ویزہ لے دے گا کیونکہ ہماری تیاری میں دیر ہو گئی تھی ملکی حالات کی وجہ سے پروگرام پیچھے ڈالتے رہے تھے.اب چند دن بعد ہم نے روانہ ہونا تھا.چنانچہ میں نے ان کو فون کیا کہ میں اس سلسلہ میں تمہارے پاس آدمی بھجوا رہا ہوں.تم کوشش کر کے انگلستان کا ویزا حاصل کرو.میرا پیغام ان کی بیگم نے سنا تھا.میں نے آدمی بھجوا دیا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا.پیر کی شام کو ان کا فون آگیا کہ حضرت صاحب کو کسی نے غلط بتایا ہے برٹش کونسلیٹ میں میرے کسی سے ایسے تعلقات نہیں ہیں کہ میں ایک دن میں ویزہ لے

Page 251

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۳۱ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء سکوں کیونکہ یہ لوگ تو جب ویزے کی درخواست جائے تو دو ہفتے سے لے کر آٹھ ہفتے تک وقت دیتے ہیں کہ آکر پہلا انٹرویو دو کہ تمہیں ویزا کیوں دیا جائے.لہذا ایک دن میں تو ویزا ملنا مشکل ہے.وہ خود بڑے گھبرائے ہوئے تھے.مجھے خود بھی بڑی تشویش تھی اور پریشانی بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے ویزا ملنے کی کوئی صورت نکل آئے.چنانچہ منگل کی صبح نماز کے بعد میں لیٹا ہوا تھا اور اپنے رنگ میں دعائیں کر رہا تھا تو اس دعا کے اندر ایک فقرہ خود میرے دل میں اُبھرا اور اُس نے ایک مجسم شکل اختیار کی.اس کے پورے الفاظ مجھے یاد نہیں رہے کیونکہ اس وقت میں نے لکھے نہیں تھے.کچھ اس قسم کا فقرہ تھا.”مجھ سے امید نہیں ہے؟ اس میں اللہ تعالیٰ کے پیار کا اظہار بھی تھا اور کچھ تھوڑی سے ڈانٹ بھی تھی.اس سے ایک طرف تو مجھے بڑی تشویش ہوئی کہ میں نے غلطی کی ہے.خدا تعالیٰ پر امید رکھنی چاہیے تھی.دعا کے الفاظ میں غلطی ہو گئی ہے.دوسری طرف مجھے اللہ تعالیٰ کے اس پیار پر اتنا لطف آیا کہ میں بتا نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندوں سے اتنا پیار کرتا ہے کہ انسان کما حقہ شکر بھی ادا نہیں کر سکتا.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ساری مخلوق سے جو رشتہ قطع ہونا چاہیے وہ پوری طرح قطع ہونا چاہیے.اگر خدا تعالیٰ کی راہ میں کام ہے تو اس قسم کی روکیں لایعنی اور بے معنی ہیں.چنانچہ جب میں نو بجے کے قریب اپنے دفتر میں گیا تو پرائیویٹ سیکریٹری ( آج کل چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ہیں ) آئے اور میں نے اُن سے کہا صبح اشارہ ہو گیا ہے.انشاء اللہ سب کام ٹھیک ہو جائے گا.ابھی میرے منہ سے یہ فقرہ نکلا ہی تھا کہ دفتر کے ایک اور صاحب دوڑے ہوئے آئے اور کہا کہ فلاں صاحب کا فون آیا ہے.وہ کہتے ہیں میں برٹش کونسلیٹ سے ملا ہوں وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے.ہم ابھی ویزا دے دیتے ہیں.وہ ویزا جس کے لئے اُن کے خیال میں دو ہفتے سے آٹھ ہفتے تک صرف انٹرویو پر وقت لگتا ہے ایک دن میں مل گیا.بلکہ انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب کے لئے ویزے کی کیا ضرورت ہے.وہ تو جس ملک میں جانا چاہیں بغیر ویزے کے جاسکتے ہیں.خیر یہ تو ایک الہی تصرف تھا جو اس کے دل پر ہوا.ہمارے دوست نے کہا جو آپ کا ملکی قانون ہے وہ تو پورا کرو اور ویزا جاری کر دو چنانچہ دوسرے دن ویزامل گیا.اب یہ ایک چھوٹی سے بات تھی جس کے لئے صحیح راستہ بھی بتادیا

Page 252

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۳۲ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء گیا.مجھے اس الہی پیار پر بہت لطف آیا.میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات موجزن ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ میرے جیسے عاجز انسان سے یہ پیار کرتا ہے کہ وہ کام جس کے لئے ہفتوں درکار تھے منٹوں میں ہو گیا.پس یہ سوال نہیں ہے کہ ایسا نہیں ہوگا.یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.سوال یہ ہے کہ ہر گھر کے ہر انسان کے ہاتھ میں اس کی اپنی زبان میں ترجمہ شدہ قرآنِ کریم پہنچانا ہے.یہ کام انشاء اللہ ہوکر رہے گا.یہ بات تو سوچنی بھی نہیں اور یہ ہماری ذمہ داری بھی نہیں ہے کہ روپیہ کہاں سے آئے گا.جس ہستی نے کہا ہے یہ کام ہو وہ اس کا انتظام بھی کرے گا.ہماری ساری تو قعات اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات سے وابستہ ہیں.اس نے اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے یہ نہیں کہا کہ ہر انسان مثلاً اگر دنیا میں ڈیڑھ ارب گھر ہو تو ڈیڑھ ارب گھر میں قرآنِ کریم پہنچانے کے لئے ( حمائل سائز قرآن کریم جو بڑا ستا نظر آتا ہے ) نو ارب روپے چاہئیں.خدا تعالیٰ نے مجھ پر اور آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی کہ ہم نو ارب رو پیدا کٹھا کریں.خدا تعالیٰ نے مجھ پر اور آپ پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ جو کام تم کر سکتے ہو اس کو انتہا تک پہنچا دو.جو شخص دو پیسے دینے کی استطاعت رکھتا ہے وہ اگر دھیلا دیتا ہے تو گنہگار ہے لیکن جو شخص دو پیسے دینے کی استطاعت رکھتا ہے اور دو پیسے دے دیتا ہے تو اس نے گویا اپنی کوشش اور تدبیر کو انتہا تک پہنچانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیار کو حاصل کر لیا اور ایک دوسرا شخص جو خدا کی راہ میں ۲۰ ہزار روپے دے سکتا ہے.اگر اس نے ۱۰ ہزار روپے دیئے تو اس نے گویا اپنی تدبیر کو انتہا تک نہ پہنچانے کی وجہ سے اس سے کم پیار حاصل کیا جس نے دو پیسے کے دو پیسے دے دیئے کیونکہ نہ دو پیسے دینے کا حکم ہے نہ ۲۰ ہزار روپے دینے کا حکم ہے اور نہ ۲۰ لاکھ دینے کا حکم ہے.خدا تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق انتہائی قربانی کر جاؤ.جواب طلبی خدا نے کرنی ہے میں نے یا آپ میں سے کسی نے نہیں کرنی اس لئے انسان کو سوچنا پڑے گا اور اپنے اندرونہ پر نگاہ ڈالنی پڑے گی کہ وہ اپنے نفس کو کہیں جھوٹی تسلی تو نہیں دے رہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت نہیں تھی.اس لئے قربانی نہیں دے سکتا تھا.خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنا ہے کہ تمہارے اندر طاقت تھی یا نہیں.تاہم یہ بڑے خوف کا مقام ہے.

Page 253

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۳۳ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء اس تدبیر کو انتہا تک پہنچانے کے مختلف طریقے ہیں.کچھ آپ سے ذاتی اور کچھ آپ کی عت سے تعلق رکھتے ہیں.کچھ پاکستان کی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں کچھ بیرون پاکستان کی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں کچھ ساری دنیا کے احمدیوں کی مجموعی زندگی جسے احمدی زندگی کہا جاتا ہے اس سے تعلق رکھتے ہیں.جن کا تعلق بیرون پاکستان کی جماعتوں سے ہے مثلاً جو ذمہ داریاں انگلستان یا یورپ کی جماعتوں پر ہیں یا امریکہ کی جماعتوں پر ہیں یا مغربی افریقہ کی جماعتوں پر ہیں یا مشرقی افریقہ کی جماعتوں پر ہیں ان کے متعلق احباب سے مشورہ کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے.بیرونِ پاکستان کے احباب جماعت سے باتیں کرنا.اسلام کا تبلیغ اور قرآن کریم کی ہمہ گیر اشاعت کے متعلق سوچنا اور موقع پر مختلف کمیٹیاں مقرر کرنا اور منصوبے بنانا یا دوسرے لفظوں میں صحیح طور پر اعداد وشمار اکٹھے کرنا وغیرہ بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں.قرآنِ کریم نے کہا ہے.وَلَوْ أَرَادُوا الخروج لاعَدُّ واله عُدَّةٌ (التوبة: ٤٦) کہ کسی کام کے کرنے سے پہلے بڑی تیاری کرنی پڑتی ہے.اگر چہ یہ منافقوں سے کہا گیا ہے کہ اگر تمہیں جہاد میں شامل ہونا تھا تو جہاد میں شامل ہونے کے لئے جس قسم کی تیاری کی ضرورت تھی وہ تمہیں کرنی چاہیے تھی.تاہم اس میں ایک اصول یہ بتایا گیا ہے کہ جس قسم کا کام ہوتا ہے اس قسم کی پوری تیاری کرنی چاہیے.کسی کام کی تیاری کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ کام کرنے کی نیت ہے.اگر کوئی شخص مثلاً جمعہ کی نماز میں شامل ہونے کے لئے ( چھوٹی سی مثال لیتا ہوں تا کہ چھوٹے بچے بھی سمجھ جائیں ) یہ کہے کہ میری یہ خواہش ہے کہ جمعہ میں شامل ہوں.اب وہ جمعہ کی نماز میں شامل تو ہونا چاہتا ہے مگر یہاں جمعہ ہوتا ہے ڈیڑھ بجے سوائے اس کے آج میں آ گیا ہوں اور وقت بدل دیا ہے اور آپ کو نصف گھنٹے تک انتظار کروایا ہے.بہر حال اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈیڑھ بجے سے پہلے کھانا کھا لے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈیڑھ بجے سے پہلے غسل کر کے نئے کپڑے پہن لے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گھر سے ایسے وقت چلے کہ ڈیڑھ بجے سے پہلے پہلے احمد یہ ہال میں پہنچ جائے.اگر ایک گھنٹے کا راستہ ہے اور کوئی شخص یہ کہے کہ جمعہ میں شامل ہونے کی میرے دل میں تو اتنی خواہش ہے اور نہ شامل ہوکر مجھے اتنا دکھ ہوتا ہے کہ کراچی میں کسی احمدی

Page 254

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۳۴ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء کے دل میں جمعہ چھوڑنے پر اتنا دکھ نہیں ہوتا.اب وہ دعوی تو یہ کرے لیکن گھر میں بیٹھا ر ہے اور جب ڈیڑھ بج جائے تو سستی سے آنکھیں ملتا ہوا نیم دلی سے وضو کرے اور کپڑے بدلے اور کہے دیر ہوگئی ہے اب نہانا چھوڑتا ہوں اور پون گھنٹہ اسے اپنے گھر سے یہاں پہنچنے میں لگتا ہو تو جمعہ جو ایک فرض نماز ہے اس میں تو وہ شامل نہیں ہو سکے گا اور ممکن ہے وہ اپنے دل کو طفل تسلی دینے کے لئے یہ کہہ دے کہ اوہو! بڑی دیر ہوگئی ہے.ہن تے جمعہ ملنا ہی نہیں ہن جان دا کی فائدہ اے.کوئی گل نئیں گھر میں بیٹھ جاندے آں“ پس جس آدمی کی کام کرنے کی نیت ہو وہ اس کے لئے تیاری کیا کرتا ہے.ایک چھوٹی سی اور مثال دے دیتا ہوں.جس عورت یا جس بیوی کی یہ خواہش ہو کہ وہ اور اس کا میاں اور بچے بھوکے نہ رہیں.تو وہ چولہا جلاتی ہے.گرمیوں کے دنوں میں تکلیف اُٹھاتی ہے.آگ کے سامنے بیٹھتی ہے اور سالن تیار کرتی ہے اور روٹیاں پکاتی ہے لیکن اگر کوئی عورت ( اور ایسی عورتیں ہیں ہمارے سامنے ان کے واقعات آتے رہتے ہیں ) یہ کہے کہ مجھے تو اپنے میاں اور بچوں کا بڑا خیال ہے لیکن میں گرمی برداشت نہیں کر سکتی.میں ان کے لئے کھانا نہیں پکا سکتی اس لئے وہ جائیں جہنم میں.جو مرضی آئے کرتے رہیں.اب ان سے پیار کا اظہار بھی ہے اور جہنم میں بھجوانے کی باتیں بھی کرتی ہے.اس قسم کی باتیں ایسی ہیں جن کو انسانی عقل قبول نہیں کرتی.اللہ تعالیٰ جو عقل کل کا منبع اور سر چشمہ ہے وہ ان کو کیسے قبول کرے گا.پس ہم نے تیاری کرنی ہے.یہ ہمارا فرض ہے.جماعت احمدیہ کے افراد کو انفرادی اور اجتماعی ہر دو اعتبار سے جتنی جتنی وسعت اور استطاعت ہے وہ پوری کی پوری خدا کی راہ میں خرچ کر دیں.پھر اللہ تعالیٰ کا ان کو پورا ثواب اور پیار ملے گا.اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں کیا ہی خوب فرمایا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.جو کی رہ جائے گی اس کے لئے فرما یا.لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ (البقرة: ۲۸۷) پہلے ٹکڑے میں بشارت دی گئی اور عظیم بشارت دی گئی ہے لیکن عظیم بشارت کے مطابق تم سے وہ قربانی نہیں مانگی گئی جس کی تم کو طاقت نہیں دی گئی لیکن جتنی تم کو طاقت دی گئی ہے اس کے مطابق انتہائی قربانی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور پھر کامیابی اللہ تعالیٰ کے

Page 255

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۳۵ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء اختیار میں ہے.وہی کامیابی عطا کرتا ہے وہ آسمانوں سے سامان نازل کرتا ہے.وہ زمین سے کہتا ہے کہ میری تدبیر کو کامیاب کرنے کے لئے سامان اُگلو.چنانچہ بہتے ہوئے چشموں کی طرح سامان مہیا ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ قادر مطلق ہے.اس کے لئے کوئی چیز ان ہونی نہیں ہے لیکن جو ہماری ذمہ داری ہے وہ ہم نے بہر حال نباہنی ہے.اس کے بغیر تو کوئی چارہ کار نہیں ہے.جہاں تک قرآنِ کریم کی اشاعت اور اس کے لئے مطبع کا تعلق ہے یہ کام پورے زور کے ساتھ شروع ہو چکا ہوا ہے.مجھے بڑی خوشی ہے اور آپ کو خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تھوڑے سے عرصہ میں اپنا مطبع نہ ہونے کے باوجو د ۸۰ ہزار کے قریب قرآنِ کریم طبع ہو کر قریباً سارے کے سارے تقسیم بھی ہو گئے ہیں.ابھی اور چھپ رہے ہیں پھر مطبع کی عمارت کا کام بھی شروع ہو گیا ہے.اسی طرح پر یس کی معلومات اور اس کے دوسرے لوازمات کی فراہمی کا کام بھی شروع ہے.انشاء اللہ اپنے وقت پر مکمل ہو جائے گا.اس میں دقتیں پیش آئیں ، روکیں پیدا ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے ایک بہادر مسلم احمدی کی طرح تمام روکوں کو پھلانگا.ہمارے سامنے کوئی ایسی روک نہیں ہے جو ہمیں ایک جگہ پر کھڑا کر دے.کھڑا ہونے یا بے حرکت ہونے یا مرجانے کے لئے ہم پیدا ہی نہیں ہوئے.ہم تو زندہ رہنے اور زندہ کرنے اور ہمیشہ متحرک رہنے اور حرکت میں شدت پیدا کرتے چلے جانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.جب تک انتہائی اور آخری کامیابی حاصل نہ ہو اور تمام دنیا پر اسلام غالب نہ آجائے ہم ایک لمحہ کے لئے دم نہیں لیں گے.اور ہر وقت خدمت دین میں کوشاں رہیں گے.یہی وہ غرض ہے جس کے لئے ہم پیدا ہوئے ہیں اور جس کے لئے سلسلہ احمدیہ قائم کیا گیا ہے.غرض جہاں تک پریس کے قیام کا تعلق ہے کام ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک سال کے عرصہ میں مکمل ہو جائے گا.مگر خدا تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ ابھی پریس مکمل نہیں ہوا ابھی اس کے مکمل ہونے میں ایک سال لگ جائے گا لیکن خدا تعالیٰ کا یہ منشا مجھ پر ظاہر ہوا کہ یہ تو کافی نہیں ہے جماعت احمدیہ کے سپر د جو مہم کی گئی ہے اس کے لئے ایک چھاپہ خانہ اور وہ بھی پاکستان میں یہ تو کافی نہیں ہے.اس لئے ایک اور چھاپہ خانہ لگایا جائے.چنانچہ مجھے اس کی یہ تفہیم ہوئی کہ ایک

Page 256

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۳۶ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء مطبع یورپ میں کسی جگہ اور ایک افریقہ میں کسی جگہ لگ جانا چاہیے اور اس کے لئے ابھی سے تیاری ہونی چاہیے کہ اس غرض کے لئے کون سا ملک زیادہ مناسب ہے اور اس ملک میں کون سے شہر زیادہ مناسب ہیں اور اس غرض کے لئے کتنی زمین درکار ہے اور وہ کس قیمت پر ملے گی.زمین لینے میں دیر لگے گی.پھر اس پر پریس کی عمارت کھڑی کرنے میں وقت لگے گا.اس غرض کے لئے دو چار سال لگ جائیں گے.جو پریس پاکستان میں لگ رہا ہے جب یہ کام کرنے لگ جائے گا تو اتنے میں وہ (یورپ اور افریقہ کے پریس ) بھی تیار ہو کر اپنا کام شروع کر دیں گے.اشاعت قرآن کریم کے سلسلہ میں ہم نے ابھی تک جو کوشش کی ہے اس کا اثر افریقہ خصوصاً مغربی افریقہ میں بہت زیادہ ہوا ہے.وہیں زیادہ تعداد میں قرآنِ کریم گئے ہیں.یورپ اور امریکہ میں بہت کم تعداد میں گئے ہیں کیونکہ وہاں کے لوگ عادتاً اچھے اور عمدہ کاغذ پر خوبصورت رنگ میں چھپے ہوئے قرآن کریم پڑھنا چاہتے ہیں.ان کے لئے ہمیں اچھے کاغذ کا انتظام کرنا پڑے گا.وہ بھی انشاء اللہ ہو جائے گا.اس غرض کے لئے اور علاوہ ازیں کئی اور جماعتی کام تھے میرا ارادہ بدلا ، پہلے میرا خیال تھا کہ اس سال انڈونیشیا جائیں گے اُن سے میں نے وعدہ بھی کیا ہوا ہے اور ان کا حق بھی ہے لیکن اشاعت قرآنِ عظیم کی خاطر جب یہ چیزیں میرے ذہن میں ڈالی گئیں تو میں نے ارادہ کیا کہ مجھے انگلستان جانا چاہیے اور وہاں مختلف کمیٹیاں بنا کر اس منصوبہ پر عمل درآمد شروع کر دینا چاہیے.پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے اور بہت سی باتیں ہیں جن پر انشاء اللہ وہاں جا کر غور کریں گے.اس کے علاوہ بعض دوسرے ضروری کام ہیں.کچھ اپنا بھی ہے دراصل تو اپنا وہ بھی نہیں ہے.اس سال مجھے گرمی لگ گئی تھی (اسے انگریزی میں ہیٹ سٹروک کہتے ہیں) اور اس کے نتیجہ میں میں بڑا کمزور ہو گیا ہوں.کام کرنے سے مجھے کوفت ہو جاتی ہے.یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری فطرت کچھ ایسی بنائی ہے کہ وقت آنے پر کافی کام کر بھی لیتا ہوں لیکن بعد میں پھر مجھے تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے.مثلاً اب میں یہاں آ گیا ہوں مجبور ہو کر آپ کے پیار سے.تاکہ جمعہ کی نماز پڑھاؤں اور آپ کے کانوں میں نیکی کی باتیں ڈالنے کی کوشش کروں.اس کمزوری کی حالت میں سفر کی تیاری کی وجہ سے میں گذشتہ رات ڈیڑھ سے

Page 257

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۳۷ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء ساڑھے تین بجے تک صرف دو گھنٹے سو سکا.پھر ربوہ سے لاہور تک کا موٹر کا سفر تھا اس میں بڑی کوفت ہوئی.پھر ہوائی جہاز کا سفر.یہاں آتے ہی میں نماز پڑھانے کے لئے آ گیا ہوں.اگلی رات بھی مجھے جاگنا پڑے گا لیکن اگر کوئی جماعتی کام آ گیا تو میں پھر اسی طرح بشاشت سے وہ کام کر رہا ہوں گا.یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے لیکن اب میں محسوس کرتا ہوں کہ کام کی وجہ سے تھک جاتا ہوں.میرے اوپر بہت زیادہ جماعتی کاموں کا بوجھ ہو تو جسم کوفت محسوس کرتا ہے.میرا خیال تھا کہ میں وہاں جا کر پانچ سات دن آرام کروں گا.اس کے بعد کام کریں گے.جس طرح آپ کے دلوں میں نظامِ خلافت کا احترام ہے اسی طرح بیرونِ پاکستان کے احمدیوں کے دل میں بھی خلافت سے بہت پیار ہے.وہ تو بیچارے میرے جانے پر مختلف کاموں کی وجہ سے تھکے ہوئے ہوتے ہیں مگر کام کئے جاتے ہیں.دراصل خلافت ایک انسٹی ٹیوشن ہے.ایک فرد نہیں ہے یہ وہ چیز ہے جس کے متعلق میں نے ڈنمارک کے پادریوں سے کہا تھا کہ تمہارا سوال غلط ہے.انہوں نے پوچھا تھا آپ کا مقام جماعت احمدیہ میں کیا ہے؟ میں نے جواب دیا تھا میں اور جماعتِ احمد یہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.اس واسطے میرا مقام جماعت احمدیہ میں کیا ہے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.پس ہمارا ایک وجود ہے مثلاً میری انگلیوں پر چوٹ آئی ہو اور مجھے ان پر دوائی لگانی ہو تو میں رات بھر چوکس اور بیدار رہوں گا اور رات کو اُٹھ اٹھ کر دوائی لگاؤں گا تو جماعت احمد یہ جو خدا کے لئے کام کر رہی ہے اس کے لئے بھی میں رات کو بھی اٹھوں گا اور کام کروں گا.مجھے یاد ہے ۴۷ء میں میں دو مہینے تک رات کو سو یا ہی نہیں تھا ورنہ عام طور پر میری عادت ہے کہ سات آٹھ گھنٹے نیند پوری کرلوں تو دماغ چوکس اور بیدار رہتا ہے.بچپن سے یہی عادت رہی ہے لیکن جب کام پڑ جاتا ہے تو پھر یہ عادت چھوڑنی پڑتی ہے.یہی حال ۴۷ء میں تھا جب کہ بہت کام در پیش تھا.احباب جماعت کے لئے بہت کام کرنے پڑتے تھے.اُن کی حفاظت کی تدبیریں کرنی پڑتی تھیں.ان کے کھانے پینے اور پھر انہیں پاکستان بھجوانے کا انتظام اور اسی قسم کے دوسرے بہت کام تھے.چنانچہ میں بلا مبالغہ کہہ رہا ہوں کہ میں دو مہینے تک نہیں سو یا.اس معنی میں کہ اگر رات

Page 258

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۳۸ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء کے ایک بجے ( میں دفتر میں لیٹتا تھا ) کام پڑ گیا تو میرے ساتھی مجھے اٹھا دیتے تھے.لیکن اب عمر کا تقاضا ہے تاہم کام کرنا پڑتا ہے خواہ کیسے بھی حالات کیوں نہ ہوں.پس ارادہ ہے کہ لندن پہنچ کر چند دن آرام کروں گا.یہ مجھے یقین نہیں کہ یہ میرا ذاتی کام ہے.یہ بھی دراصل جماعتی کام ہے آخر میری صحت ہو گی تبھی تو میں جماعتی کاموں کا بوجھ اٹھا سکوں گا.غرض میری نیت ہے اور میں نے اس کے متعلق اس لئے اظہار کر دیا ہے تا کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ آپ نے دو چار دن آرام بھی کیا تھا حالانکہ کہا یہ تھا کہ میں ایک دن بھی آرام نہیں کروں گا.میں نے اس بات کو کھول کر بیان کر دیا ہے کیونکہ خلیفہ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اس لئے میرے ( خلیفۂ وقت ) اور آپ کے درمیان کوئی راز اور تکلف نہیں ہے.جو بات بھی ہوگی وہ آپ کے سامنے کھل کر بیان کروں گا.اس لئے کہ ہمارا کام سانجھا ہے.اگر چہ تھوڑی سی ذمہ داری اہمیت کے لحاظ سے انگلستان اور یورپ پر زیادہ پڑ گئی ہے اسی طرح کچھ مغربی افریقہ پر.تاہم مجموعی طور پر ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے جس کا ہم نے وہاں جا کر حالات کے لحاظ سے پورا جائزہ لینا ہے.پس اشاعت قرآنِ عظیم کے لئے اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے میں اس سفر کو اختیار کر رہا ہوں اور آپ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنی بھر پور اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ میری مددکریں گے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے.یہ کہ ایک چھوٹی سی مہم ہے اس بہت بڑے منصوبے کی جو اشاعت قرآن کے سلسلہ میں رو بعمل آنا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس مہم میں کامیابی عطا فرمائے.اس وقت بھی میں اپنی طاقت سے زیادہ بول چکا ہوں.ہر آدمی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھی لگایا ہوا ہے.بیوی کے لئے میاں اور میاں کے لئے بیوی کو اللہ تعالیٰ نے فرشتہ بنادیا ہے.اس واسطے کہا گیا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی کمزوریاں ڈھانپنے کے لئے ثوب کا کام دیتے ہیں.یہ وہ حقیقت ہے جسے ہماری جماعت میں سے کچھ لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں اور مجھ تک یہ رپورٹ آجاتی ہے کہ فلاں میاں بیوی میں جھگڑا ہو گیا ہے.میاں بیوی کو آپس میں جھگڑنا نہیں چاہیے بلکہ ایک دوسرے سے پیار کرنا چاہیے.چنانچہ اب جبکہ میں یہاں نماز پڑھانے کے لئے آیا تھا تو منصورہ بیگم نے کہا تھا میں بھی تھکی ہوئی ہوں اور آپ بھی تھکے ہوئے

Page 259

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۳۹ خطبہ جمعہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء ہیں لمبا خطبہ نہ دیں.میں نے کہا ٹھیک ہے کوشش کریں گے کہ خطبہ لمبا نہ ہو.خدا کرے کہ ان کے نزدیک یہ خطبہ اتنا لمبا نہ ہو.پس دوست بہت دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.عاجزانہ دعائیں کریں.گڑ گڑا کر دعائیں کریں.ابتہال کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپر د کیا ہے اس کے لئے ہمیں اپنی طاقت کے مطابق جو جو قربانیاں دینی چاہئیں اللہ تعالیٰ وہ وہ قربانیاں دینے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.پھر ہمارے دل تسلی یافتہ ہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ اگر ہمیں توفیق ہے دھیلے کی تو کام ہمارے سپر د کر دیا ہے ایک ارب کا.باقی اس نے کہا ہے میں انتظام کروں گا کیونکہ میں خزانوں کا مالک ہوں لیکن اگر ہم میں طاقت ہو دھیلے کی اور دیں دمڑی بھی نہ تو پھر خدا نے کہا ہے کہ میں کوئی اور قوم ڈھونڈوں گا اور اسے لا کر تمہارا قائمقام بنا دوں گا پھر تمہارے حق میں خدائی بشارتیں پوری نہ ہوں گی.خدا ایسا نہ کرے.ہماری تو یہ دعا ہے کہ جو بشارتیں ہیں وہ ہمیں حاصل ہوں ہماری نسلوں کو بھی حاصل ہوں.اللہ تعالیٰ کو اس کے لئے کوئی اور قوم نہ ڈھونڈ نی پڑے.کوئی اور قوم نہ پیدا کرنی پڑے.یہ تو محاورہ ہے ویسے تو وہ قادر مطلق ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے.لیکن اس نے ہماری زبان میں سمجھانے کے لئے ایسا بھی کہا ہے.بہر حال دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے اموال میں بھی برکت ڈالے اور گھر یلو حالات میں بھی برکت ڈالے.آپ کے صدق و وفا میں پختگی پیدا کرے اور آپ کو یہ سمجھ بھی دے کہ آپ کی طاقت کی انتہا کیا ہے اور آپ کو یہ توفیق بھی دے کہ آپ خدا کے حضور اپنی طاقت کی انتہا کو پیش کریں یہ عرض کرتے ہوئے کہ جو تو نے طاقت دی تھی وہ تیرے حضور پیش ہے اور جو کامیابی اور اس توفیق کے درمیان فاصلہ ہے وہ اپنے وعدوں کے مطابق پاٹ دے اور ہمیں کامیابی عطا فرمائے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 260

Page 261

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۴۱ خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۷۳ء سورۃ فاتحہ میں دو گروہوں کا ذکر ہے.ایک ضال اور دوسر ا منعم علیه گروه خطبہ جمعہ فرموده ۲۰ / جولائی ۱۹۷۳ء بمقام مرفیلڈ.انگلستان تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ قرآنِ عظیم میں بنیادی طور پر ایک ہی مضمون بیان ہوا ہے اور وہ ہے صراط مستقیم.یہ وہ راہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتی ہے اور اس سے ایک زندہ تعلق قائم کرتی ہے.اس سیدھی راہ سے بھٹکنے والی دائیں بائیں جو پگڈنڈیاں نکلتی ہیں وہ بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں.ایک وہ جن پر چلنے والوں کو سورۃ فاتحہ میں مغضوب کہا گیا اور ایک وہ جن پر چلنے والوں کو ضال کہا گیا ہے.یعنی ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے غضب تک لے جانے والے راستے ہیں اور ایک وہ جن پر چل کر انسان جو اللہ تعالیٰ کی یاد کے لئے پیدا کیا گیا ہے.صراط مستقیم سے بھٹک کر دوری کی پگڈنڈیوں کو اختیار کرتا ہے.اس گمراہی کی سزا اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا غضب نہیں بلکہ اصلاح کے لئے اسلام نے جو تصور دوزخ اور جنت کا دیا ہے ایسا انسان پہلے دوزخ میں جا کر اصلاح حاصل کرتا ہے اس کی روحانی صحت کو بحال کیا جاتا ہے تب جا کر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے قابل ہوتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ سے دوری کو خواہ وہ ایک لحظے کے لئے ہی کیوں نہ ہو.صحیح انسانی فطرت برداشت نہیں کرتی اور اس کے قہر اور غضب کے تو تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.قرآنِ کریم تلاوت کرتے وقت اس امر کو دریافت کرنا چاہیے کہ وہ کون سا طریق ، کون ساعمل اور زندہ رہنے کی وہ کون سی صبح ہے جس کے نتیجے میں

Page 262

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۴۲ خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۳ء اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے.اور وہ کون سے اعمال اور طریق ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے بتایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے والے ہیں.یا جن کے اختیار کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے متعلق فیصلہ دیتا ہے کہ تو مجھے بھول گیا.میں بھی تجھے بھول جاؤں گا فرما یا اللہ تعالیٰ اپنے غضب سے بھی محفوظ رکھے (اور اگر چہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھولتا تو نہیں لیکن ہم اس مفہوم کو اپنی زبان میں ایک حد تک ہی ادا کر سکتے ہیں ) اور ان پگڈنڈیوں پر چلنے سے بھی بچائے.جن پر چلنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ہمیں بھول جاتا ہے اور ہمیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ وہ پیار کی نگاہ ہم پر ڈالے اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھے اسی مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے اور اسی مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ کو قائم کیا ہے خدا کرے کہ جماعت ہمیشہ بڑھتی ہوئی قربانیوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ پیار کو حاصل کرنے والی ہو اور جس مقصد کے لئے اسے قائم کیا گیا ہے اسے حاصل کر لے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۵ /اگست ۱۹۷۳ ء صفحه ۲)

Page 263

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۴۳ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۳ء قربانیاں دیتے چلے جاؤ اور خدا کا پیار حاصل کرتے جاؤ خطبہ جمعہ فرموده ۲۷ / جولائی ۱۹۷۳ بمقام بریڈ فورڈ.انگلستان تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :- انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ایک مختصر سی زندگی عطا کی ہے.اس مختصر زندگی میں انسان اپنی خوشحالی اور بہبودی کے لئے بنیادی طور پر دو چیزوں کا محتاج ہوتا ہے.اول یہ کہ انسان اس دنیا کے مصائب اور تکالیف سے امن میں رہے اور یہ کہ اس دنیا میں جو ابتلا امتحان کے رنگ میں آتے ہیں اس میں وہ کامیاب ہو جائے اور دوسرے یہ کہ انسان روحانی بیماریوں سے نجات پا تار ہے اور روحانی طور پر صحت مند زندگی گزارے اور یہ کہ صحت مند زندگی گزارنے کے لئے اس نے خدا تعالیٰ کو جو کچھ پیش کرنا ہے خدا تعالیٰ اس کو منظور فرما لے.تو انسان کو خوش حال زندگی کے لئے ان دو چیزوں اور شاخوں سمیت کل چار چیزوں کی ضرورت ہے.دنیا میں تدبیر اور عمل کا حکم ہے محض ایمان انسان کے لئے کافی نہیں.ایمان کے ساتھ ساتھ اعمالِ صالحہ بجالانے پڑتے ہیں اور یہ اعمال صالحہ شاخ در شاخ بے شمار حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں مثلاً وہ اعمالِ صالحہ جن کا تعلق اموال سے ہے یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال کو قربان کرنا.اسی طرح وہ اعمال صالحہ جن کا تعلق انسان کے اپنے نفس کے ساتھ ہے کہ انسان اپنے نفس کو بہکنے نہ دے.اس کی تربیت اس رنگ میں کرے کہ وہ صراط مستقیم پر قائم رہ سکے.پھر اعمالِ صالحہ کا

Page 264

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۴۴ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۳ء تعلق اولاد کے ساتھ ہے.اولاد کے ساتھ اس رنگ میں بھی کہ اولاد کی صحیح تربیت ہو اور اس رنگ میں بھی کہ اگر خدا تعالیٰ یہی پسند کرے تو ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنی اولاد کے گلے پر چھری پھیرنے کے لئے تیار ہو جائے.اعمالِ صالحہ کا تعلق جذبات کے ساتھ بھی ہے اور عزت نفس کے ساتھ بھی.ہم بار بار خدام کو کہتے ہیں کہ اپنے جلسوں میں اعلان کرو کہ ہم اپنی عزتوں کو خدا کی راہ میں قربان کریں گے.ہم بار بار کہتے ہیں کہ دوسروں کی طرف سے جو تکلیفیں پہنچ رہی ہوں بشاشت کے ساتھ ان کو حصولِ رضائے الہی کی خاطر برداشت کرو.ہم وہ قوم ہیں جو ہر قسم کی تکالیف کو خوشی سے برداشت کرتے ہوئے غلبہ اسلام کی شاہراہ پر بڑھتے ہی بڑھتے جارہے ہیں.انسانی عقل راہ راست پر بھی رہتی ہے اور اس سے بھٹک بھی جاتی ہے.عمل صالح عقل کے لحاظ سے بھی ہے.جب انسان اپنی عقل پر اس قدر قابورکھ سکتا ہو کہ وہ بہکے نہیں اور صراط مستقیم پر قائم رہے اور غلط نہیں بلکہ صحیح نتائج نکالے.دنیا جب جنون میں مبتلا ہوئی تو اس نے کہا کہ محض عقل کافی ہے، الہام کی ضرورت نہیں.عقل کی مثال اس دنیا میں انسانی آنکھ سے دی جاسکتی ہے.بینا ہونے کے لئے باہر کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے.رات کو روشنی بند کرنے کے بعد جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو اگر چہ آنکھیں آپ کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن پھر بھی آپ دیکھ نہیں سکتے.اگر الہام کی روشنی نہ ہو تو عقل اندھیرے میں پڑ جاتی ہے.پس ایسے اعمال اعمال صالحہ کہلائیں گے جو عقل کی روشنی مہیا کرنے کا موجب ہوں.پھر مال تھوڑا بھی ملتا ہے اور بہت بھی.اولا دا ایک دو تک بھی ہوتی ہے اور بعض معاشروں میں سولہ سترہ تک بھی ہوتی ہے.بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں بچے کی ضرورت نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بعض اعمال صالحہ سے اپنے آپ کو محروم رکھنا چاہتے ہیں.ایسے لوگ تربیت کے بوجھ سے آزا در ہنا چاہتے ہیں یا پھر یہ ہوگا کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار نہیں.دنیا کی ہر چیز ہمارے لئے ثواب اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے.رہبانیت کی اسلام میں اجازت نہیں بلکہ جس قدر نعماء کی فراوانی ہوگی اسی قدر اعمالِ صالحہ بجالانے کے زیادہ مواقع ہوں گے.مومن دنیا سے گھبرا تا نہیں ، دنیا سے بے زار نہیں.

Page 265

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۴۵ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۳ء مومن دنیا کماتا تو ہے لیکن دنیا کی بادشاہت قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا.وہ دنیا کے مال کو اس کی دولت کو ، مذہب کا خادم بنا کر حاصل کرنا چاہتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی دیکھیں.یہ تو نہیں کہ آپ فقیر تھے.دنیا کی دولت اللہ تعالیٰ نے آپ کے قدموں میں لاکر رکھ دی اور وہ قدم جواللہ کی یاد میں محو تھے انہوں نے اس دولت کو ٹھو کر مار کر پھینک دیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شعر میں کہا ہے کہ تیرے پیارے کو دنیا جہان مل جاتا ہے لیکن وہ اس جہان کو لیکر کرے کیا ؟ جس قدر دنیاوی نعماء میں وسعت ہوگی اتنے ہی زیادہ عذاب کے مواقع میسر آنے کا خطرہ ہوگا.اسی نسبت سے انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور فضلوں کو جذب کرنے کے مواقع بھی اپنے لئے پیدا کرسکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے.پھر آپ کی کوششیں، قربانیاں، ایثار، دنیا سے بے رغبتی ، خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لینا یہ آپ کا اپنا کام ہے.آپ جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس وقت انگلستان ہے یا بعض دوسرے ممالک ہیں جہاں آپ کو ثواب کے بعض مواقع سے محروم رہنا پڑتا ہے مثلاً پاکستان میں بعض مخالف کھڑے ہو جاتے ہیں اور مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں.ابھی چند دن ہوئے بلوچستان میں احمدیوں پر گولی چلائی گئی جس سے ان کو عارضی طور پر بے گھر ہونا پڑا.وہاں کی جماعت کے پریذیڈنٹ کی انگلی پر رائفل کی ایک گولی لگی.اگر نیت یہ ہو کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں ہم نے اپنے رب کی را ہوں کو تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جانا ہے تو انگلی کا معمولی زخم بھی شہیدوں میں شامل کر دیتا ہے.اب جو صلہ ان لوگوں کو تکلیفیں اٹھا کر ملا آپ اس سے محروم ہیں.ایک دفعہ بعض غرباء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! غریب لوگ دوسروں جیسا اخلاص رکھتے ہیں.دل میں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کا ویسا ہی جذبہ ہے لیکن امراء کی قربانیوں میں ہماری قربانیوں کی نسبت زیادہ وسعت ہے.حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں ایک طریق بتا تا ہوں اس کو اختیار کرو پھر تمہیں اور ثواب ملے گا.چنانچہ آپ نے ان کو ایک وظیفہ بتایا.اس پر غرباء نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اگر امیروں کو

Page 266

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۴۶ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۳ء اس کا پتہ چل گیا تو پھر وہ بھی اس پر عمل شروع کر دیں گے.یہ جذ بہ جو صحابہ رضوان اللہ علیہم کے سینوں میں پیدا ہوا وہی جذبہ خدا تعالیٰ کی ہر پسندیدہ اور چنیدہ جماعت میں پیدا ہونا چاہیے.دنیا کی کسی نعمت کے نتیجے میں کوئی قربانی دینی پڑے تو ہم دیں گے لیکن قربانی کی ایک راہ بند ہو جائے تو ہم دوسری راہ تلاش کر لیں گے تا خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی بعض رحمتوں سے محروم نہ ہو جائیں.اب آپ یہ تو کر نہیں سکتے کہ خواہ مخواہ کسی سے جھگڑا کر کے چانٹے کھائیں.آپ لوگ تو اس قسم کی ایذا دینے والی باتیں نہیں سن پاتے جو ہمیں سننی پڑتی ہیں.جب آپ کے کان میں وہ باتیں ہی نہیں پڑیں گی تو کسی رد عمل کا سوال ہی نہیں پیدا ہوگا.اس لئے میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ ثواب کے حصول کی بعض راہیں آپ پر بند ہیں اس لئے جو راہیں آپ پر کھلی ہیں ان میں اپنے ایثار اور قربانی میں شدت اختیار کریں اور اپنے ماحول کے مطابق قربانیوں میں آگے نکلنے کی کوشش کریں.دنیا کی فضا ہم درست کر دیں اور دنیا کو یہ بنیادی سبق سکھا دیں کہ اسلام کا پیغام محبت اور اخوت کی بنیادوں پر کھڑا ہوا ہے.نفرت، حقارت، ظلم، ناانصافی اور دکھ دینے کی بنیادوں پر کھر انہیں ہوا.قرآن کریم کو ہم نے شروع سے آخر تک پڑھا کہیں بھی نفرت ،حقارت ، ناانصافی ، دکھ دینے اور زبان درازی کی تعلیم نہیں پائی بلکہ یہ پڑھا کہ اللہ تعالیٰ ظالم اور بے انصاف سے پیار نہیں کرے گا.خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے پاک اور مطہر راستوں کو اختیار کرنا پڑے گا.یہ پڑھا که صراط مستقیم خدا تعالیٰ سے ملاتی اور انسان اپنی کوششوں اور عمل کے ذریعے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرتا چلا جاتا ہے تا وہ الضَّالِّينَ اور الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم والے راستوں کو اپنے اوپر بند کر لے.اسلام ہمارے لئے صراط مستقیم لے کر آیا ہے اور شریعت جو قیامت تک کے لئے ہے ایک ایسی شریعت جس میں اس قدر حسن ہے کہ انسان اس حسن کی چمک برداشت نہیں کر سکتا.جس طرح لوگ فریج (Fridge) میں بہت سا کھانا اکٹھا رکھ لیتے ہیں لیکن کھانا رکھ لینے سے پیٹ نہیں بھرتا.پیٹ تو اس وقت بھرے گا جب کھانے کو صحیح طریق پر پکایا جائے گا اور پھر کھایا جائے گا.صرف فریج کو خوراک سے بھر لینا کافی نہیں.

Page 267

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۴۷ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۳ء پس اسلام حسن سے بھرا پڑا ہے.اسلام ان راہوں کی نشاندہی سے پر ہے جو خدا تعالیٰ کے قرب اس کے پیار اور رضا کے لئے ضروری ہیں لیکن ان راہوں پر چلنا ان کے حصول کے لئے قربانیاں دینا یہ ہمارا کام ہے.آپ کے بعض بھائی قربانیوں میں آپ سے آگے بڑھ رہے ہیں آپ اپنے لئے قربانیوں کی مزید راہیں اور قربانیوں کی راہوں کو کشادہ کرنے کے مزید طریق اختیار کریں.پیچھے نہ رہیں.مومن کے دل میں قربانیوں کی راہ میں مسابقت کا جذ بہ ہوتا ہے.قربانیاں دو.ساری دنیا آپ کو مل جائے گی.ایک اکیلا فرد تھا جس نے دعویٰ کیا کہ خدا نے مجھے مبعوث کیا ہے تا میں اسلام کو ساری دنیا پر غالب کروں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کو ہر شخص کے دل میں گاڑ دوں خدا تعالیٰ نے کہا میں تیرے ساتھ ہوں.خدا نے کہا میں تجھے نہیں چھوڑوں گا.آج یہاں دیکھ لیں ابھی تک سارے لوگ نہیں آئے.کسی وقت انگریز کہا کرتا تھا کہ ہماری کامن ویلتھ پر سورج غروب نہیں ہوتا.اب تو سوچتا ہوں کہ شاید انگلستان میں سورج چڑھتا بھی نہیں.غروب ہونے کا سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے لیکن وہ جوا کیلا تھا اس کی آواز پھیلی بہت سے انسانوں کے دل میں اس کی محبت پیدا ہوئی.اس وقت جہاں جہاں لوگ بس رہے ہیں اس کو دیکھ کر صرف جماعت احمد یہ ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے دعوی کر سکتی ہے کہ جماعت احمدیہ پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا.خدا کی شان ہے اس نے جو دعوے کئے تھے کچھ پورے ہو گئے اور کچھ مستقبل قریب میں پورے ہوں گے لیکن جو وعدے پورے ہو گئے انہوں نے ہمارے دل میں یہ یقین پیدا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی خاص مصلحت کے مطابق اس زمانے کے لئے مبعوث کیا.جماعت احمدیہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ اسلام کو غالب کرنے والا ہے.ہوسکتا ہے ہم سے کوئی ٹھوکر کھا جائے اور گر جائے.یہ علیحدہ چیز ہے.اس کی جگہ ایک اور قوم آگے آ جائے گی ایک اور نسل پیدا ہو جائے گی.خدا تعالیٰ کا آسمانوں پر یہ فیصلہ ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے گا ہم اس وعدہ کو عملاً ظہور پذیر ہوتے ہوئے آج دیکھ رہے ہیں.

Page 268

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۴۸ خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۳ء ،افریقہ، امریکہ، انگلستان اور دیگر ممالک میں مومینٹم گین (Momentum Gain) پچھلے سات سال میں جس تیزی کے ساتھ جماعت احمدیہ کی قربانیوں میں برکت پیدا ہوئی.نتائج میں نہیں کہہ رہا.میری خلافت کو ابھی سات سال ہوئے ہیں ان سات سال میں ہمارا بجٹ ہی لے لیں، مالی قربانیوں میں جماعت احمدیہ پچھلے ۷۲ سالہ قربانیوں سے جس مقام پر پہنچی تھی اس سے اڑھائی گنا زیادہ بڑھ گئی.اللہ تعالیٰ نے رعب ایسا دیا ہے جو جانتے ہیں ان کے دلوں میں بھی رعب پیدا ہوتا ہے اور جو نہیں جانتے ان کے دلوں میں بھی رعب پیدا ہو جاتا ہے خواہ یہ بڑے بڑے دنیا دار ہوں اگر چہ ہمیں اس سے کیا تعلق جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار جن کو پیار ہے اللہ تعالیٰ ان کی گردنیں احمدیت کے سامنے جھکا دیتا ہے.خدا تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ آپ کی جھولیاں اس فضل کو سمیٹ نہیں سکتیں.کیا پھر بھی آپ خدا تعالیٰ کے ناشکرے بندے بن کر اس کے فضلوں کو دھتکار دیں گے؟ دیکھا کریں اور تلاش کیا کریں کہ کہاں کہاں ہم سے قربانی کا مطالبہ ہے ہم وہ قربانی دے سکتے ہیں یا نہیں؟ پس قربانیاں دیتے چلے جاؤ اور خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرتے چلے جاؤ.خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دنیاوی لحاظ سے آپ کے آبانے جو حاصل کیا آپ نے اس سے زیادہ حاصل کیا.دنیوی لحاظ سے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا جتنا بوجھ آپ لوگوں پر ہے وہ آپ کے آبا سے کہیں بڑھ کر ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت کے نشانوں کو دیکھیں اور اس پختہ عزم اور یقین کے ساتھ کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.نا کام ہونے کے لئے ہم پیدا نہیں ہوئے.کامیاب ہونے کے لئے جو ہمیں کرنا چاہیے اسے ضرور کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ را گست ۱۹۷۳ء صفحه ۶،۲)

Page 269

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۴۹ خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۷۳ء ایک صدی کے بعد احمدیت کے غلبہ کے قرائن ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے خطبه جمعه فرموده ۳/ اگست ۱۹۷۳ء بمقام مسجد فضل.لنڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے آیہ کریمہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ (البقرۃ: ۱۴۹) کی تلاوت فرمائی.اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس زمانے میں مختلف اقوام ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جو کوشش کر رہی ہیں اس سے قبل اس قسم کا نظارہ انسانی تاریخ میں ہمیں نظر نہیں آتا اور جب اس مسابقت کی دوڑ پر تقویٰ کی نگاہ سے غور کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں جو ذرائع اور وسائل استعمال کئے جارہے ہیں ان میں سے بعض نیک ، جائز اور حلال وسائل نہیں.اسی طرح جس نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بھی خیر اور بھلائی کا نتیجہ نہیں یعنی اس کے نتیجے میں نوع انسانی کے لئے کسی قسم کی بھلائی اصلاح، نیکی یا خوشحالی مد نظر نہیں.دنیا نے آج جس قدر جد و جہد اٹامک ریسرچ کے میدان میں کی ہے جس کے نتیجے میں اٹا مک اور ہائیڈ روجن بم بنائے ہیں اتنا بڑا سرمایہ جہاں تک مجھے علم ہے کسی اور تحقیق پر انسان نے خرچ نہیں کیا.اس وقت بعض ایسے ممالک بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اس وقت تک جو بم انہوں نے بنائے ہیں وہی کافی ہیں مزید بموں کی ضرورت نہیں اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر بعض دوسرے

Page 270

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۵۰ خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۷۳ء ممالک کو تحقیق سے روک سکیں تو پھر اس دوڑ کو جہاں تک وہ پہنچ چکے ہیں ختم کر سکتے ہیں لیکن اس میں انہیں کا میابی نظر نہیں آرہی.ایٹم بم جو بن چکے ہیں اس جدوجہد کی دو شکلیں نکل سکتی ہیں یا یہ بم استعمال کر لئے جائیں یا انسان کوئی ایسا طریقہ سوچے کہ ان کے استعمال کی ضرورت نہ پڑے تیسری کوئی صورت عقلاً ممکن نہیں اگر استعمال ہوں گے تو اس کے نتیجے میں انسان پر بڑی تباہی آئے گی اور اگر استعمال نہیں ہوں گے اور خدا کرے کہ استعمال نہ ہوں تو وہ عظیم سرمایہ جو انسان نے ان پر خرچ کیا کلی طور پر ضائع ہو جائے گا.اگر یہ سرمایہ ان بد ہتھیاروں پر خرچ نہ ہوتا تو انسان کی ضروریات پر خرچ ہوسکتا تھا.پس دو چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ جو ذرائع ہیں وسائل ہیں وہ صالح اور طیب اور حلال مثلاً جو رقوم خرچ کی جاتی ہیں اگر ماہرین اقتصادیات ان کی تفصیل میں جائیں تو سود اور انشورنس کا رو پیدان کاموں پر خرچ ہوتا ہے پرانے زمانے میں انشورنس کمپنیاں ہی جنگیں کروایا کرتی تھیں.اب حالات بدل گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عقل مند یہی کہے گا کہ وہ رقم جو خیر نہیں.پر خرچ ہونی چاہیے تھی اس کی بجائے بدی پر میت ہونے والی تحقیقوں پر خرچ ہورہی ہے.دوسری یہ چیز نمایاں ہے کہ اس عظیم جد و جہد اور کوشش کا نتیجہ بجائے بھلائی کے انسان کے لئے فکر اور خوف کا باعث ہو رہا ہے اور یہ خطرہ پیدا ہورہا ہے کہ انسان خود کشی کر کے کہیں اپنی ہلاکت کے سامان پیدا نہ کر لے.قرآن کریم نے اس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے ہمیں بتایا ہے کہ مجرد مسابقت بری نہیں لیکن مسابقت وہ ہونی چاہیے جو خیر کا باعث ہو.خیر کی جو تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے وہ دونوں پہلوؤں پر مشتمل ہے یعنی وسائل نیک ہوں اور نتائج بھی نیکی اور بھلائی کے ہوں.اس دنیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ایسی دوڑ جاری ہے کہ انسانی تاریخ میں ایسی کوئی مثال پہلے نظر نہیں آتی اس دنیا میں جماعت احمدیہ کو دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرنی پڑے گی.اگر احمدیت نے کامیاب ہونا ہے اور اسلام نے غالب آنا ہے تو جماعت احمدیہ کو اس مسابقت میں آگے نکلنے کی کوشش میں ایسی شدت اور محسن پیدا کرنا پڑے گا کہ کامیابی بھی

Page 271

خطبات ناصر جلد پنجم ہو اور دوسروں کے لئے راہنمائی بھی ہو.۲۵۱ خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۷۳ء ہماری جد و جہد ۸۰ سال سے شروع ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لئے مجھے مبعوث کیا ہے.آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح میں جمال لے کر دنیا کی طرف آیا ہوں.میرے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجے میں جمالی تجلیات دکھا کر بنی نوع انسان کو اپنی طرف اور اپنی رضا اور محبت کی طرف کھینچا جائے گا.آپ نے فرمایا کہ تین صدیاں ابھی نہیں گزریں گی کہ میں اپنے مشن اور مقصود کو حاصل کرلوں گا اور اسلام اس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ ساری دنیا پر غالب آجائے گا.آپ نے فرمایا کہ تین صدیاں نہیں گزریں گی یہ نہیں فرمایا کہ تین صدیاں گزرجائیں گی تو پھر غلبہ اسلام ہوگا.دیگر قرائن اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے جو ہمیں پتہ چلتا ہے اس کے مطابق غلبہ اسلام کا آغاز ایک صدی سے شروع ہو جائے گا.شمسی لحاظ سے صدی پوری ہونے میں تقریباً ۱۶ سال لگ جائیں گے قمری لحاظ سے اس سے کم وقت لگے گا.ہماری جد و جہد اور مسابقت کے میدان میں عمل شروع ہو چکا ہے.اس کا آغاز بڑا آہستہ ہوا.غیر تو غیر اپنے بھی اسے اچھی طرح نہیں سمجھ رہے تھے.غیر مبائعین سے صبر نہ ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے ان کو یہ کہا گیا تھا کہ تین سو سال نہیں گزریں گے کہ تم میری پیشگوئیوں کے مطابق جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلام کو دنیا میں غالب پاؤ گے.ان کے دماغوں نے یہ سمجھا کہ سو سال کے بعد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے جو بشارتیں ملی ہیں ان کے پورا ہونے سے کہیں قبل آپ کا زمانہ ختم ہو جائے گا.اب اگر وہ پیشگوئیاں اور بشارتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ضرور ہیں تو کمزور احمدی کو بھی تین سو سال انتظار کرنے کے لئے تیار ہونا چاہیے لیکن جیسا میں نے بتایا ہے تین سو سال کا ہمیں انتظار نہیں کرنا پڑے گا میرا ذاتی اجتہاد ہے کہ ایک سو سال یعنی ایک صدی کے بعد یہ قرائن ظاہر ہوں گے یہ روشنی ایک شاندار تقلبی کی صورت میں ۹۰ء اور ۹۵ ء کے درمیان دکھائی جائے گی.

Page 272

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۵۲ خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۷۳ء ہم مبائعین ہیں.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو پرکھا.ہم ایمان بالغیب بھی لائے لیکن آپ کی بتائی ہوئی چیزیں اپنے اپنے وقت پر پوری ہوئیں اور ہم یقین کامل کے ساتھ بغیر کسی شک وشبہ کے اس نتیجے پر پہنچے کہ جو باتیں ابھی پوری نہیں ہوئیں وہ اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی کیونکہ ان پیشگوئیوں کا منبع اور سر چشمہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہے.اس وقت میں جماعت کے سامنے یہ چیز رکھ رہا ہوں کہ جو چیزیں پہلے نظر نہیں آتی تھیں اب وہ نظر آنے لگ گئی ہیں.ہمیں یہ بھی نظر آنے لگ گیا کہ دنیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے ایک زبر دست دوڑ جاری ہے اور ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ اس دوڑ میں وہ دنیا جو اسلام کی حقیقت نہیں پہچانتی وہ نہ تو نیک وسائل سے کام لے رہی ہے اور نہ ہی نیک نتائج پیدا کر رہی ہے بلکہ استحصال اور ظلم کی مرتکب ہو رہی ہے.جو قو میں اٹامک بم بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی عطا کے سمندر کا ایک قطرہ ہے جوان کو ملا ہے.اگر ایک قطرہ پالینے کے بعد وہ سمجھنے لگیں کہ یہ قوم ہماری منشا کے مطابق اپنی سیاست کو نہیں ڈھالتی اس کو ہم آنکھیں دکھا ئیں گے اور اپنی بات منوائیں گے تو کیا یہ نتائج خیر اور بھلائی کے ہوں گے؟ پس ایک قطرہ پالینے کے بعد دروازے بند نہیں ہوئے بلکہ سارا سمندر ہمارا انتظار کر رہا ہے ہمیں چاہیے کہ آگے بڑھیں اور اپنی کوششوں کے نیک نتیجے حاصل کرنے کی کوشش کریں.ہماری ابتدا ہلکی چال سے ہوئی.پھر اس میں وسعت پیدا ہونی شروع ہوئی.اب اس میں تیزی پیدا ہو رہی ہے.ہماری تحریک نے بڑا Momentum حاصل کیا ہے مثلاً ۷۳ سالہ جد و جہد اور کوشش کے نتیجے میں جماعت مالی قربانی میں (اگر چہ اور بھی بہت سے پہلو ہیں ) جس مقام تک ۱۹۶۵ء میں پہنچی تھی گزشتہ سات سال میں میرے زمانہ خلافت میں ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ترقی ۲ گنا بڑھ گئی ہے گویا جہاں سے سالہ کوشش پہنچی تھی سات سال میں اس سے ۲ گنا زیادہ ہوگئی ہے.یہ صرف مالی قربانی کی مثال میں دے رہا ہوں اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک پہلو ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اسلام کے غلبے کے لئے ایک قسم کا سیلاب آیا ہوا ہو.ہم دیکھ

Page 273

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۵۳ خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۷۳ء رہے ہیں اور نو جوان نسل کو دیکھنا چاہیے کہ کیا تھا اور کیا ہورہا ہے.نیک نتائج کے لئے نیک ذرائع کو اختیار کر کے بنی نوع انسان کی بھلائی کی خاطر نہ صرف انگلستان، امریکہ، روس، چین، جاپان بلکہ تمام دنیا کی مجموعی کوششوں کے مقابلے پر اس جدوجہد میں آگے نکلنا ہے.یہی خدا کا منشا ہے اور یہی مطالبہ ہے جو جماعت احمدیہ سے کیا جا رہا ہے.زندگی کے ہر میدان میں ہم نے دنیا کے مقابل پر آنا ہے اس سے ڈرنا نہیں اور دعاؤں کے ذریعہ نیکی اور بھلائی کے وسائل کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جذب کرنا ہے.میں پورے زور سے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس جدو جہد اور مسابقت کی دوڑ میں آپ نے ان سے آگے بھی نکلنا ہے اور دنیا کے لئے ایک مثال بھی قائم کرنی ہے اگر آپ آگے نکل جائیں تو دنیا کا ایک حصہ آپ کی تعریف تو کرے گا لیکن آپ کے نقش قدم پر نہیں چلے گا لیکن جب یہ مسابقت اور جد و جہد ایک حسین شکل اختیار کرے گی تب دنیا آپ کی طرف متوجہ ہوگی کیونکہ حُسن میں ایک کشش ہے.اس طرح دنیا اس تباہی سے بچ جائے گی جس تباہی کے سامان اپنی غفلتوں اور جہالتوں کی وجہ سے وہ پیدا کر رہی ہے دنیا آپ کے پیار کو دیکھ کر اس پیار کو حاصل کرے گی جس پیار کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے.آج دنیا کو تباہی اور ہلاکت سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق آپ کے سوا اور کوئی آلہ کار نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ نے اس لئے مبعوث کیا ہے کہ آپ کے ذریعے اسلام غالب ہو.اسلام کوئی تلوار آ تو نہیں.اسلام کے غلبے کا مطلب یہ ہے کہ انسان بحیثیت انسان مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ کے پیار اور رضا کو حاصل کرنے والا ہو.خدا ایسا کرے کہ ہم اس حقیقت کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کریں.روزنامه الفضل ربوه ۲۸ را گست ۱۹۷۳ء صفحه ۳، ۴) 谢谢谢

Page 274

Page 275

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۵۵ خطبه جمعه ۱۰ را گست ۱۹۷۳ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نوع انسانی کے لئے ایک عظیم انقلاب مقدر ہے خطبه جمعه فرمود ه ۱۰ را گست ۱۹۷۳ء بمقام مسجد فضل - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صفات حسنہ کا مظہر بننے کے لئے پیدا کیا ہے.انسان کی زندگی دو حیثیتوں کی مالک ہے.ایک اس کی انفرادی زندگی ہے اور ایک اس کی اجتماعی زندگی.انسانی زندگی کے ہر دو پہلوؤں میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا جلوہ نظر آنا چاہیے اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات کا ذکر قرآن عظیم نے کیا ہے یعنی ان تمام صفات کا ذکر جن کا تعلق انسان سے اور اس عالمین سے ہے اور ہم سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہم ان صفات کا رنگ اپنی زندگیوں پر چڑھائیں.سورۂ فاتحہ میں چار بنیادی صفات باری تعالیٰ کا ذکر آیا ہے.جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی اصل الاصول صفات کا نام دیا ہے.ان صفات میں سے پہلی صفت ربوبیت کی صفت ہے.عربی زبان میں ربوبیت کے معانی دو پہلو ر کھتے ہیں.اول پیدا کرنا، دوسرے پیدائش کے بعد بتدریج ابتدائی مراحل میں سے گزار کر اس شخص یا قوم کی انفرادیت کو نقطۂ کمال تک پہنچانا.اور فرمایا کہ اللہ رب العلمین ہے.قرآنِ کریم میں اللہ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بطور اسم ذات آیا ہے قرآنی اصطلاح میں اللہ اس ذات پاک کا نام ہے جو تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے اور

Page 276

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۵۶ خطبه جمعه ۱۰ را گست ۱۹۷۳ء جس میں کوئی کمزوری نفس نہیں پائی جاتی.رَبُّ العلمين سب سے پہلی اور بنیادی اور اہم صفت ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا.چونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی صفات سے متصف ہونے کا حکم ہے اس لئے پہلا مطالبہ جو انسان سے کیا گیاوہ یہ ہے کہ رب العلمین کا پر تو اور عکس ہماری زندگی میں آنا چاہیے.اس صفت کے دو پہلو ہیں ایک خلق کا اور ایک ارتقائی ربوبیت کا.اس صفت سے تعلق رکھنے والا ایک بڑا نمایاں پہلو اس کا انقلابی فعل ہے اور دوسرا نمایاں پہلو اس کا ارتقائی فعل ہے سائنس یا فلسفہ کی تفصیل میں جانے کے بغیر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جب جمادات معرض وجود میں آئیں تو یہ خدا تعالیٰ کا بڑا انقلابی فعل تھا.اس کے بعد ایک اور عظیم خلق پیدا ہوئی اور صفت خلق کا ظہور ہوا.اور وہ اللہ تعالیٰ کا نباتات کو پیدا کرنا تھا.جمادات اور نباتات میں جو اصولی فرق ہے.وہ ارتقائی فرق نہیں بلکہ انقلابی فرق ہے.چنانچہ ایک مشہور فلاسفر نے بھی ان فرقوں کو انقلابی فرق قرار دیا ہے.پھر خدا تعالیٰ کا ایک بڑا عظیم انقلابی فعل نباتات کے بعد زندگی کا دوسرا معجزہ حیوانات کا ނ پیدا کرنا ہے.نباتات کی پیدائش کے بعد یہ ایک نیا انقلابی فعل ہے.پھر حیوانی زندگی.صاحب عقل و شعور زندگی کی پیدائش بھی ایک بہت بڑا اور زبردست اور انقلابی فعل ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہمیں بتاتے ہیں کہ کوئی انقلاب اس عالم میں کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ حقیقی اور مناسب حال ارتقائی منازل میں سے گزر کر اپنے کمال کو نہ پہنچے.اس وقت جو چند انقلاب آئے ان کا ذکر ضمنی طور پر کر دیتا ہوں مثلاً سرمایہ دارانہ انقلاب جب انسان کے اندر ایک نیا شعور پیدا ہوا اس کے پھیلاؤ نے مختلف راہیں اختیار کیں.مثلاً ایک وقت میں صنعتی انقلاب، پھر زرعی انقلاب معرض وجود میں آیا.ان سب کی جہت ایک ہی طرف تھی.اور وہ انسان کی مادی ترقی تھی.لیکن اس انقلاب کے بعد جن ارتقائی منازل میں سے اسے گزرنا چاہیے تھا یہ انقلاب ان منازل میں سے نہ گزرا.اس کے بعد اس کے مقابلے میں اشترا کی انقلاب کھڑا ہوا.اسلام کی اصطلاح میں ہم اس کو ایک دنیوی انقلاب کہہ سکتے ہیں.اس انقلاب نے دعوئی یہ کیا کہ ہم انسان کی بطور انسان

Page 277

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۵۷ خطبه جمعه ۱۰ را گست ۱۹۷۳ء بہبودی اور خیر خواہی کے لئے یہ انقلاب بر پا کر رہے ہیں.اور آج ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ آدھی سے زیادہ دنیا ان کے عزائم کی حصہ دار ہونے کی بجائے ان سے ڈر رہی ہے کہ کہیں وہ ہمیں ہلاک نہ کر دیں جس سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ اس اشترا کی انقلاب کو جن صحیح ارتقائی منازل میں سے گزرنا چاہیے تھا ان میں سے نہیں گزرا.کیونکہ کوئی انقلاب صحیح ارتقائی منازل طے کئے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا.اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ خواہ وہ مانیں یا نہ مانیں اشترا کی انقلاب بھی ناکام ہو چکا ہے.آدھی سے زیادہ دنیا کا ان سے ڈرنا اور خوف کھانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ انقلاب کامیاب نہیں ہوا.ایک تیسرا انقلاب بڑا مختلف ہے اور جس کو میں اشترا کی نہیں بلکہ سوشلسٹ انقلاب کہتا ہوں چین کا انقلاب ہے.یہ بھی دنیاوی انقلاب ہے لیکن خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا ایک جلوہ اور پہلو ہے.انسان نے غور وفکر کے بعد ایک چیز حاصل کی.چین کا یہ انقلاب بڑے ابتدائی دور میں سے گزر رہا ہے اور اس وقت ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ انقلاب کامیاب ہوگا.یا پہلے انقلابوں کی طرح بھٹک کر رہ جائے گا.کئی سال ہوئے ٹیکسلا میں ایک Complex بنانے کی سکیم کے ضمن میں چینی ماہروں کی ایک ٹیم آئی تھی.ایک جگہ جہاں Complex بنایا جا سکتا تھا ر بوہ کے قریب تھی.اس وقت کے ضلعی افسروں کو ان کے قیام کے بارے میں مشکلات پیش آئیں تو انہوں نے ہمیں کہا کہ ہم ان کے قیام اور کھانے وغیرہ کا انتظام سنبھال لیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر کے دروازے جس طرح پاکستانیوں کے لئے کھلے ہیں اسی طرح افریقہ، امریکہ، یورپ، روس اور دوسرے ممالک کے لوگوں کے لئے کھلے ہیں.ہم نے ان لوگوں سے باتیں کیں.میں نے اس وفد سے کہا کہ اس وقت چین بڑا صحیح چل رہا ہے اگر تم لوگوں نے دوسرے لوگوں کی طرح بنی نوع انسان کی خدمت کی بجائے نوع انسانی کا استحصال شروع کر دیا تو تمہارا ابھی وہی حال ہوگا جو پہلوں کا ہو چکا ہے یعنی ان انقلابات کی ابتدا بڑی عظیم تھی.لیکن ان کے ارتقائی ادوار ترقی اور نقطہ کمال تک پہنچانے کی بجائے نقطہ زوال تک پہنچانے والے ثابت ہوئے.میں نے خدام الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے چار روحانی انقلابوں کا ذکر کیا تھا جن میں سے

Page 278

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۵۸ خطبه جمعه ۱۰ راگست ۱۹۷۳ء آخری انقلاب انقلاب عظیم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالا یا ہوا انقلاب ہے.میں سائنس دان نہیں لیکن اس وقت چاند اور ستاروں کی طرف جو راکٹ بھیجے جاتے ہیں ان کے لئے ایک انجن تو وہ ہے جو رفتار اور جہت کو کنٹرول کرتا ہے یا جو Source of power ہے لیکن ساتھ ساتھ دوسرے انجن بھی لگائے ہوئے ہوتے ہیں جن کو Booster کہتے ہیں.پہلے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے روحانی انقلاب آئے وہ تھوڑے عرصے کے لئے تھے.انہیں کسی Booster کی ضرورت نہ تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انقلاب عظیم برپا کیا اور جس کو کمال تک پہنچنے کے لئے فرمایا کہ چودہ، پندرہ ، سولہ سو سال درکار ہوں یہ کوئی چھوٹا عرصہ نہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ اس عظیم انقلاب کی ابتدا تو ہو چکی اس کی انتہا مہدی معہود کے زمانہ میں ہوگی.جب تمام بنی نوع انسان کو ایک اُمتِ واحدہ بنادیا جائے گا.اس میں بہت سی حکمتیں ہیں جن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے روشنی ڈالی ہے.جو ایک لمبا مضمون ہے.بہر حال یہ بتانا ضروری ہے کہ نوع انسانی کے لئے یہ ایک عظیم انقلاب ہے جو آج کل کے تمام انقلابوں سے بڑا ہے.اور کمیونزم، سوشلزم اور سرمایہ دارانہ انقلاب یہ سب مل کر بھی اس کے مقابلے میں کوئی چیز نہیں.دو کی ناکامیاں تو ہمارے سامنے ہیں اور تیسرا بالکل ابتدائی دور میں ہے.ہوسکتا ہے کہ وہ Right turn یعنی صحیح موڑ اختیار کرے اور جو راہ وہ مقرر کرے کسی وقت اسلام کی شاہراہ میں داخل ہو.آخر ساری دنیا نے اس انقلاب میں شامل ہونا ہے.اس انقلاب کی جدو جہد نے چونکہ لمبا عرصہ طے کر کے اپنے نقطۂ کمال کو پہنچنا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے تجدید دین کا ایک سلسلہ قائم کیا پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کی امتوں میں یہ سلسلہ نظر نہیں آتا.مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کی اُمت میں انبیاء تو آتے رہے اور موسیٰ کی شریعت بھی قائم رہی اور تورات کی دوسری الہامی کتب بھی ساتھ ہی موجودر ہیں ( یہ بھی ایک علیحدہ مضمون ہے ) بہر حال ان کو ایسے سلسلے کی ضرورت نہ تھی.قرآنی شریعت جو کامل اور مکمل ہے.اس کامل شریعت کو چودہ سوسالہ ارتقائی مقام میں سے گزار کر اس مقام تک پہنچا دینا کہ ساری دنیا پر وہ حاوی ہو جائے اور نوع انسانی کو اُمتِ واحدہ بنادے اس کے لئے ضروری تھا کہ Booster قسم کی

Page 279

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۵۹ خطبه جمعه ۱۰ را گست ۱۹۷۳ء چیزں ہوں.اولیاء، ابدال، اقطاب آئے.آخر میں مہدی معہود آئے.چونکہ انہوں نے اس کو تین سوسال کے اندر اندر اپنے کمال تک پہنچانا تھا جس کمال تک پہنچنے کے آثار ہمارے اندازے کے مطابق ایک صدی ختم ہونے تک نظر آنے لگ جائیں گے.اب وہ زمانہ آگیا کہ جب وہ پیشگوئی پوری ہوگئی ان ارتقائی منازل میں سے دنیا نے گزرنا ہے.لیکن ذمہ داری جماعت احمد یہ پر ہے.دو ذمہ داریاں ہیں.ایک ذمہ داری لینے کی ہے.ایک دینے کی.جب تک آپ ان تمام قوتوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات سے متاثر ہونے کی ایک طاقت دی ہے ان قوتوں پر خدا تعالیٰ کا رنگ نہ چڑھا ئیں.لینے میں پورے کامیاب نہ ہوں گے اور پھر لینے کے بعد جب تک آپ نوع انسان کی پاگلوں اور مجنونوں کی طرح خدمت نہ کریں اس وقت تک آپ اس عظیم جد و جہد میں جو اپنے نقطہ کمال تک پہنچنے والی ہے نہ پورا حصہ لے سکتے ہیں نہ پوری برکتیں حاصل کر سکتے ہیں.بہت بڑی ذمہ داری ہے لینے کے نقطۂ نگاہ سے بھی اور دینے کے نقطۂ نگاہ سے بھی.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی ان ذمہ داریوں کے سمجھنے اور ادا کرنے کی توفیق دے.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۵ ستمبر ۱۹۷۳ ء صفحه ۱، ۶٫۲)

Page 280

Page 281

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۶۱ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء سیلاب سے پاکستانی بھائیوں کو جو تکلیف پہنچی جماعت اس میں برابر کی شریک ہے خطبه جمعه فرموده ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی:.وَ عِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا - (الانعام :٢٠) پھر حضور انور نے فرمایا:.۳۱ ماہِ وفا (جولائی ) جمعہ کے دن صبح کو خاکسار یہاں سے کراچی اور پھر وہاں سے انگلستان اور یورپ کے دوسرے ملکوں کے دورے پر روانہ ہوا تھا اور ۲۶ رتبوک ( ستمبر ) بدھ کے مبارک دن ( مبارک میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ کوئی پچھلے واقعات میں بلکہ سفر کی برکتوں کی وجہ سے کہتا ہوں ) ہم واپس یہاں پہنچے.اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کے نظارے دیکھ کر پیر کو ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور ایک دن کراچی میں ٹھہر کر بدھ کو یہاں پہنچ گئے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - اس عرصہ میں اس دورے میں اللہ تعالیٰ کی کچھ عظمتیں مشاہدہ میں آئیں.کچھ قادرانہ تصرفات جو غیر معمولی نوعیت کے تھے آپ لوگوں نے یہاں مشاہدہ کئے سیلاب کے رنگ میں اور ان کے اثرات کی شکل میں.چنانچہ اس وقت میں پہلے یہاں جو سیلاب آئے ہیں ان کے متعلق

Page 282

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۶۲ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء کچھ کہنا چاہتا ہوں.شاید لمبا خطبہ اس لئے نہ دے سکوں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے اس سفر میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فضل بھی فرمایا کہ اس عرصہ میں تھکان اور کوفت کا احساس بہت کم ہوا لیکن یہاں آنے کے بعد پچھلے دو ماہ کی کوفت کا اکٹھا احساس پیدا ہو گیا.چنانچہ پچھلے دو دن میں جسم کا رواں رواں درد محسوس کرتا رہا اور آج بھی پوری طرح تھکان دُور ہونے کا جو احساس ہوتا ہے وہ نہیں ہے تاہم یہ چیزیں تو بہر حال انسانی جسم کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.اگست کی ۱۱ یا ۱۲ تاریخ کو ہمیں یہ اطلاع ملی کہ پاکستان میں بڑے زبر دست سیلاب آئے ہیں.یورپین ملکوں کا ہمارے ساتھ غیر دوستانہ برتاؤ کا یہ حال ہے کہ ایک دن کسی نے اطلاع دی کہ بی بی سی ٹیلیویژن پر پاکستان کے سیلاب کے مناظر دکھائے جائیں گے چنانچہ ہم نے وہ مناظر دیکھے.پانی ہی پانی نظر آتا تھا آبادیاں تو نظر نہیں آتی تھیں.کہیں کہیں درختوں کی چوٹیاں یا کوئی اونچی جگہ یا کوئی بچا ہوا گھر دکھائی دیتا تھا.ایک جگہ خشکی پر سو کے قریب آدمی دکھائے گئے تھے کہ یہ لوگ بچ گئے ہیں اور اردگرد کے دیہات سے وہاں اکٹھے ہو گئے ہیں جن میں زیادہ عورتیں تھیں اور کچھ مرد اور بچے تھے.پھر نظارہ دکھایا گیا روٹی کی تقسیم کا.اور اس وقت آنکھ نے جو دیکھا وہ بڑا ہی دُکھ وہ منظر تھا.بیچارے مصیبت زدہ لوگوں کے ہاتھ میں ایک ایک یا دو دو روٹیاں ہیں اور ایک ہاتھ اُن روٹیوں پر بھاجی سی کوئی چیز ڈال رہا ہے تب نظر اُٹھا کر جو دیکھا تو جو بھاجی تقسیم کرنے والا تھا وہ ایک سکھ صاحب تھے اپنے کیسوں اور پگڑی سمیت.معلوم ہوتا ہے کہ بی بی سی کے نمائندے نے ہندوستان کی کوئی پرانی فلم لی اور بڑے ذلیلا نہ طریقے پر کھانے کی تقسیم پر منظر پیش کر کے اس طرف توجہ پھیری کہ دیکھو مسلمان کیسے ذلیل طریقے سے کھانا کھاتے اور کھلاتے ہیں حالانکہ اس طرح ہاتھ سے اُٹھا اُٹھا کر بھاجی روٹیوں پر دینا مسلمان کی روایت کے خلاف ہے.اب دیکھو کہا یہ گیا تھا کہ یہ پاکستان کے سیلاب کے نظارے ہیں جو دکھائے جائیں گے مگر جو دکھایا گیا اس کا ایک حصہ اہل پاکستان کی روایت کے خلاف تھا یا تو یہ جہالت کی انتہا ہے اور یا شرارت کی انتہا ہے.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر فضل کرے وہ ایسا کیوں کرتے ہیں یہ تو وہ جانہیں ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کیا اس سے خودا پنی تذلیل کی.

Page 283

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۶۳ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء جب مجھے سیلاب کی اطلاع ملی تو طبیعت میں بڑی بے چینی اور گھبراہٹ پیدا ہوئی اور ادھر اُدھر سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی.اپنے سفارت خانہ سے بھی رابطہ قائم کیا لیکن کوئی زیادہ فائدہ نہ ہوا.میں نے یہاں ہدایت کی تھی کہ روزانہ اطلاع آنی چاہیے روزانہ نہیں کم از کم ہفتے میں دو دفعہ تو ضرور مجھے اطلاع ملنی چاہیے.پھر میں نے یہ ہدایت بھی دی کہ جماعت کام کرے.یہ کام کا وقت ہے اور پھر ایک دفعہ تو یہ ہدایت بھی دینی پڑی کہ پیسے کی پروانہ کی جائے.انسانی دُکھ اور در دکو دور کرنا ( جہاں تک ہمارے امکان میں ہے وہ) ضروری ہے اور اس سے غفلت نہیں برتنی چاہیے.بہر حال مجھے تو اب بھی زیادہ علم نہیں ہے.تاہم بڑے بھیا نک واقعات سننے میں آئے ہیں.ملک کے جن حصوں میں سیلاب آئے ہیں یا جو حصے سیلاب کی زد میں آئے ہیں وہاں بڑی سخت تباہی آئی ہے یہ صحیح ہے کہ اکثر اونچے مقامات پر سیلاب نہیں آیا لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ جہاں جہاں سیلاب آیا ہے وہاں اس نے بڑی سخت تباہی مچائی ہے اور لوگوں کو بڑا دکھ اور تکلیف اٹھانی پڑی.یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جہاں سیلاب آیا وہاں (اپنے احمدیوں کی میں بات نہیں کر رہا) دوسرے پاکستانی بھائیوں نے کہا کہ یہ سیلاب تو طوفانِ نوح کی طرح ہے.پھر یہ بھی سننے میں آیا کہ بعض لوگوں نے کہا اسے عذاب نہ کہو کیونکہ پھر تو جماعت احمدیہ کو تقویت پہنچے گی بہر حال جس کی جو خواہش تھی اس کے مطابق اُس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے عقائد کو بدلنے کی کوشش کی اپنے اس لئے کہ قرآنِ کریم میں وہ بیان ہوئے ہیں اور بدلنے کی کوشش اس لئے کہ اس وقت یہی طریق چل رہا ہے.کیونکہ دین سے ایک بعد پیدا ہو چکا ہے.قرآن عظیم میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک تو غیب کی چابیاں ہیں اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی غیب کو جانتا ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی ہستی عَلَامُ الْغُيُوبِ نہیں ہے یہ ایک معنی نہیں بلکہ یہ دو مختلف معانی ہیں ایک تو یہ بتایا گیا ہے کہ غیب کی چابیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور دوسرے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی چیز غیب نہیں ہے.انسان جس معنی میں بھی غیب کے لفظ کو استعمال کرے اللہ تعالیٰ کے حضور وہ غیب نہیں ہے بلکہ وہ اس کے علم میں ہوتا ہے.

Page 284

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۶۴ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء غیب کے لفظ کو ہم اپنی زبان میں دو معنوں میں استعمال کرتے ہیں.ایک اس معنی میں کہ شے موجود تو ہے لیکن ہمارے علم میں نہیں ہے مثلاً سونے کی کانوں میں جوسونا ہے وہ موجود تو ہے اور اس کا وزن بھی معین ہے لیکن ہمیں اس کا پتہ نہیں ہے کہ کس کان میں سونا ہے اور ہے تو کتنا ہے ہمارے لئے وہ غیب میں ہے.سمندروں کی تہہ میں موتی ہوتے ہیں ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جو سمندر میں پنہاں ہے کچھ حصوں میں تو انسان نے نئے آلات کے ساتھ غوطہ زنی کر کے بعض چیزوں کو پہچانا اور باہر نکالا لیکن ہزار ہا بلکہ بے شمار چیز میں ایسی ہیں جو انسان کے لئے غیب میں ہیں.اسی طرح ایک ہی وقت میں امریکہ ہمارے لئے اس وقت غیب کی حالت میں ہے یعنی ہمارے علم میں نہیں ہے کہ وہاں اب کیا ہو رہا ہے وہاں وہ اس وقت ( معیاری وقت کے لحاظ سے نو گھنٹے ہم سے پیچھے ہونے کی وجہ سے) سوئے ہوئے ہیں.گویا امریکہ اس وقت سو یا ہوا ہے اور اس معنی میں بھی عملاً اندھیروں میں ہے لیکن ہمارے لئے اس وقت کے امریکہ کے حالات غیب میں ہیں.ہمارے لئے اس وقت لاہور، کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور وغیرہ کے حالات غیب میں ہیں.پس چیز موجود تو ہے.ایک واقعہ ایک حقیقت تو ہے لیکن ہمارے علم میں نہیں اس معنی میں ہم غیب کا لفظ استعمال کرتے ہیں کوئی شے جو موجود ہے یا کوئی واقعہ جو ہورہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے.وہ اس کے لئے غیب نہیں ہے.دوسرے ہم غیب اس معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں کہ ایک چیز کا اس وقت وجود تو نہیں لیکن مستقبل میں پیدا ہونے والی ہے ابھی اُس نے وجود نہیں پکڑا مثلاً اگر ہم ماضی پر قیاس کریں زمین کے اندرونے (مَا فِي الْبَرِّ ) پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے مختلف اور بڑے لمبے ادوار میں کیمیاوی اجزاء کی تبدیلی کے نتیجہ میں ہیرا بنتا ہے.ہو سکتا ہے میں ہوسکتا ہے اس لئے کہتا ہوں کہ ماضی میں ایسا ہوا ) کہ کچھ اجزائے ارضی آج سے دوسوسال کے بعد ہیرے کی شکل اختیار کریں.آج نہ ہمیں ان کا علم ہے اور نہ ہمارے علم میں وہ آسکتے ہیں کہ ان میں یہ تبدیلی آنے والی ہے کیونکہ اس وقت ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے

Page 285

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۶۵ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء علم میں ہے.اجزائے ارضی کے ہیرا بننے کے لئے اللہ تعالیٰ نے گویا اپنی قدرت کی چابی لگائی ہے.پس مستقبل کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز میں ابھی حیز وجود میں نہیں آئیں مثلاً ایسی تمام بشارتیں جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آپ کے طفیل مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ اور نوع انسانی کو دی گئیں جو ابھی تک پوری نہیں ہوئیں اور آئندہ پوری ہونے والی ہیں اُن کا آج کوئی وجود نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کی جو چابی ہے وہ ہرٹی کا وجود پیدا کرنے والی ہے گویا مفاتح الغیب کے ایک معنی یہ ہیں کہ جب تک خدا تعالی کنجی نہ لگائے کوئی چیز عدم سے جو ایک غیب کی کیفیت ہے وجود میں جو حال کی کیفیت ہے تبدیل نہیں ہوتی.اس آیہ کریمہ میں ( میں اس کی پوری تفسیر اس وقت بیان نہیں کروں گا ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا جب تک کہ اس کے علم میں نہ ہو غیب کے ہر دو معنی سے ان کا تعلق ہے.جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم آسمان سے نہ آجائے اس وقت تک کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز مثلاً درخت کے پتے کا اپنی شاخ سے گر جانا یا بڑی سے بڑی چیز مثلاً سیلابوں کا آنا جو ایک بڑے علاقہ کو تہ و بالا کر کے انتہائی تباہی کے نظارے ہمارے سامنے رکھتے ہیں یہ خدا تعالیٰ کے منشا اور اس کے حکم اور علم کے بغیر نہیں ہوتا.یہ ایک حقیقت ہے جس کو ایک مسلمان فراموش نہیں کر سکتا.ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پانی کی یہ طوفانی لہریں اور یہ سیلاب اللہ تعالیٰ سے بغاوت کر کے نہیں آئے کیونکہ عناصر خدا سے بغاوت کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے یہ کہنا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ نے چاہا.اُس نے اپنی مفتاح لگائی ( کیونکہ سیلاب کی شکل میں پانی موجود نہیں تھا ) اس کا حکم نازل ہوا اور پانی کے قطروں کا اس قدر بپھرا ہوا اجماع ہو گیا جس نے بڑے بڑے اونچے درختوں کو جن کی جڑیں اُن کی لمبائی کے مطابق زمین کے اندر گڑھی ہوئی تھیں اُن کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک دیا.ایک دوست نے مجھے بتایا کہ بعض جگہوں پر تین تین منزلہ مکان جب طوفانی لہروں کی زد میں آئے تو اس طرح بہ گئے جس طرح کوئی ٹوٹی ہوئی شاخ پانی میں بہہ جاتی ہے تاہم اس قسم کا جو خطر ناک سیلاب آیا ہے خدا سے باغی ہو کر نہیں آیا.ہوسکتا ہے انسان کی بغاوت کو دُور کرنے کے لئے یا اُن کو کوئی سبق دینے کے لئے آیا ہو.(اس وقت میں یہ نہیں بتا رہا میں اپنا مضمون اور

Page 286

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۶۶ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء اس کے مختلف پہلو آہستہ آہستہ بتاتا چلا جاؤں گا ) پس ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس خطہ ارض اور اس ملک میں اس قسم کی ایک زبر دست تباہی آئے.سیلاب کے پانیوں نے بعض علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا اور بعض کو نہیں لیا.لیکن اس کے نتیجہ میں جو اقتصادی بے چینی اور بحران پیدا ہوا ہے وہ اگر چہ نظر آنے والی لہریں تو نہیں ہیں لیکن درحقیقت بڑے گہرے گھاؤ کرنے والی لہریں ہیں.ہماری ساری اقتصادیات پر سیلاب کی زد پڑی ہے.اقتصادی ترقیات کے سارے منصوبے سیلابوں کی زد میں آئے ہیں جہاں سیلاب نہیں آئے وہ علاقے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں مثلاً کراچی ہے.کراچی شہر کے اندر سیلاب کا پانی نہیں آیا.بارشوں کا پانی بھر گیا تھا مگر جلدی نکل گیا لیکن جہاں سیلاب آیا مثلاً جھنگ میں بڑا خطرناک سیلاب آیا.چنانچہ جس طرح جھنگ میں اشیائے ضرورت بہت مہنگی ہو گئیں اسی طرح کراچی میں بھی مہنگی ہو گئیں حالانکہ وہاں سیلاب نہیں تھا لیکن کراچی میں سیلاب کے اثرات پہنچ گئے اور وہ ایسے اثرات تھے جو تکلیف دینے والے اور دُکھ پہنچانے والے تھے.قرآنِ کریم کہتا ہے کہ یہ دُکھ اور یہ تکلیف اللہ تعالیٰ کے منشا اور اس کے اذن اور اس کے حکم اور اس کے چابی لگانے سے آتی ہے یہ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا.اس کے علاوہ قرآنِ کریم نے اس قسم کے حوادثات کی مصلحتیں بتائی ہیں جو سب خدائی منشا کے مطابق آتے ہیں.چنانچہ ایک مصلحت یہ بتائی ہے کہ جب خدا تعالیٰ اپنی توحید کے قیام کے لئے کسی بندہ کو اس دنیا میں بھیجتا ہے یا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد غلبہ اسلام کے لئے کسی کو مامور کر کے بھیجتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی انبیاء آئے اور آپ سب کے بادشاہ اور سرتاج بن کر تشریف لائے.غرض جب دنیا خدائے واحد اور اس کے رسول اور مامور کی طرف توجہ نہیں کرتی تو اللہ تعالی حوادث کی چابیوں کو حرکت میں لاتا ہے اور اس قسم کے حالات پیدا کر دیتا ہے ایک اور مصلحت مثلاً یہ ہوتی ہے کہ اس طرح سے لوگوں کو اچھی طرح سے ہلایا جائے اور یہ اس لئے نہیں ہوتا کہ اُن کو ابدی ہلاکت ملے بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ابدی لعنت سے خود کو محفوظ کرنے کی طرف متوجہ ہوں.پھر ایک مصلحت یہ بتائی کہ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ (البقرة : ۱۵۶) جس

Page 287

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۶۷ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء وقت اس قسم کے حالات پیدا ہوں تو ان کے نتیجہ میں لوگوں کی بھلائی اور روحانی ترقیات کے سامان پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے اس واسطے جو ذمہ داریاں ” امتحان ڈالتے ہیں یا جو ذمہ داریاں ابتلا پیدا کرتے ہیں اگر انسان ان ذمہ داریوں کو نبا ہے تو اس کے نتیجہ میں یہ خوشخبری ملتی ہے.وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ - (البقرۃ:۱۵۷،۱۵۶) غرض اس قسم کے امتحان اور ابتلا کے نتیجہ میں اللہ کے عاجز بندے اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو اور بھی زیادہ پختہ اور مضبوط بنا لیتے ہیں اور ان میں کوئی بعد اور جدائی باقی نہیں رہتی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ میں قُرب کا یہی مقام بیان ہوا ہے.یعنی دوری کے جو امکانات تھے اب رجوع الیہ کر کے ہم اس دوری کو اس بعد کو قرب میں تبدیل کریں گے.بہر حال حوادث خواہ لوگوں کو جھنجھوڑنے کے لئے آئیں یا روحانی ترقیات کے لئے ہوں ان کی وجہ سے انسان پر بہت سی ذمہ داریاں آپڑتی ہیں.اس لئے اصل بحث یہ نہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ اصل چیز تو یہ ہے کہ جو مصلحتیں قرآن کریم نے بیان کی ہیں ان مصلحتوں کے مطابق ہم اپنی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں یا نہیں.اگر ہم وہ تبدیلی پیدا کر لیتے ہیں.اگر ہم الہی اشاروں کو سمجھ لیتے ہیں اور الہی منشا کے مطابق اپنے ذہنوں میں اور اپنے خیالات میں اور اپنے عقائد میں اور اپنے رجحانات میں اور اپنی عادات میں تبدیلی پیدا کر لیتے ہیں تو وہ مصیبت جو بہت لمبے زمانہ پر پھیلی نہیں ہوتی اس کا اثر باقی نہیں رہتا بلکہ محدود اور مفید بن جاتا ہے.پس امتحان اور ابتلا میں کامیاب ہونے والے شخص کے چہرے پر اسی طرح بشاشت کھیلنے لگتی ہے اور کوفت دور ہو جاتی ہے جس طرح اچھا نتیجہ نکل آنے پر راتوں کو جاگنے والے طالب علم کی کوفت دور ہو جاتی ہے.چہرے پر بشاشت اور سُرخی آجاتی ہے دن رات پڑھتے رہنے کی وجہ سے آنکھوں میں جو گڑھے پڑ جاتے ہیں اور کوفت کے آثار چہرے پر نمودار ہوتے ہیں.وہ سب دُور ہو جاتے ہیں.اس کی بجائے چہرے پر بشاشت کھیل رہی ہوتی ہے اور خوشیاں انگ انگ سے چشمہ کے پانی کی طرح بہہ کر باہر نکل رہی ہوتی ہے.امتحان اور ابتلاؤں کی کچھ اور مصلحتیں

Page 288

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۶۸ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء بھی بیان ہوئی ہیں لیکن موٹی چیزیں یہی ہیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ایسے حالات سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر ظلم کیا ہے وَمَا ظَلَمَهُمُ الله (ال عمران : ۱۱۸) بلکہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور خدا تعالیٰ نے انسان کو اس کو اپنے ظلم سے بچانے کی خاطر کفارہ کے طور پر اور ایک انتباہ کے لئے اس قسم کے دکھوں اور تکلیفوں کے سامان اس دنیا میں پیدا کئے تا کہ وہ ان دکھوں سے نجات کے طریقوں کو تلاش کر کے اُخروی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرے.پس پاکستان میں جو سیلاب آئے اور ہمارے بہت سے بھائیوں کو جو دُ کھ اور تکلیفیں پہنچیں، جماعتِ احمد یہ ان کے دُکھوں میں برابر کی شریک ہے.چنانچہ اس موقع پر احمدی بڑوں نے بھی اور احمدی بچوں نے بھی احمدی جوانوں نے بھی اور احمدی بوڑھوں نے بھی ، احمدی مردوں نے بھی اور احمدی عورتوں نے بھی اپنے دُکھ اور تکالیف بھول کر اپنے بھائیوں کو دُکھوں سے بچانے کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دی.مجھے امید ہے کہ جماعت احمدیہ کی تاریخ کے یہ اوراق اپنی پوری تفصیل کے ساتھ محفوظ کر لئے گئے ہوں گے.اگر نہیں کئے گئے تو اب پوری تفصیل کے ساتھ محفوظ کر لینے چاہئیں.ان کو شائع کرنے کی ضرورت نہیں.لیکن ہماری تاریخ میں یہ واقعات محفوظ ہونے چاہئیں کہ کس طرح نوجوانوں نے اپنی عمر کے مطابق اور بڑوں نے اپنی عمر کے مطابق ذمہ داری کے جو کام تھے وہ ہر قسم کی تکالیف اٹھا کر سرانجام دیئے اور اپنے پاکستانی بھائیوں کی تکلیفوں کو دُور کرنے کی حتی المقدور کوشش کی.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے احسن عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں کے سمندر سے بہت بڑا حصہ اُن کے لئے مقدر کرے.غرض جہاں پاکستان میں سیلاب کے دُکھ وہ حالات سُن کر تکلیف پہنچی تھی وہاں یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوتی تھی کہ جماعت نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا اور صحیح طریقہ پر اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی پوری کوشش کی.جہاں تک میرے اس دورے کا تعلق ہے اس وقت میں زیادہ تو کچھ نہیں بیان کروں گا.البتہ ابتدا کر دیتا ہوں.ایک تو یہ کہ انگلستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑی جماعت

Page 289

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۶۹ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء قائم ہو چکی ہے اُن کی تربیت کا خیال تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے تربیتی امور اور تربیتی اعمال کی طرف انہیں متوجہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے ان مخلصین کو توفیق عطا فرمائی کہ وہ اسلام کی خاطر مجنونانہ کام کے لئے تربیت حاصل کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُن کی اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشو و نما میں اور بھی اضافہ کرے.پھر جہاں تک ان کی مہمان نوازی کا تعلق ہے.اس دفعہ جماعت احمد یہ انگلستان نے پوری مہمان نوازی کی ہے یہاں سے تو ہم تھوڑی سی رقم لے جاسکتے تھے.چنانچہ پانچ سو ڈالر لے کر گئے تھے اور وہ بھی انہوں نے انگلستان میں قبول نہیں کیے.انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ ہم پوری میزبانی کریں.جب ہم نے یورپ کے ممالک کا دورہ کیا تو یہ رقم وہاں خرچ ہوئی لیکن انگلستان میں وہاں کی جماعت نے مکمل طور پر میز بانی کے فرائض بڑی خوش اسلوبی اور انتہائی پیار کے ساتھ ادا کئے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ مہمان نوازی کا بہت خرچ تھا اور پھر خرچ کے علاوہ انہوں نے کھانے پکانے وغیرہ کے سلسلہ میں دن رات خدمت کی کیونکہ جہاں جماعت احمدیہ کا امام ہوگا وہاں لوگ آئیں گے دن کو بھی آئیں گے اور رات کو بھی آئیں گے.چنانچہ بعض دفعہ عام اتوار کے دنوں میں وہاں اڑھائی اڑھائی تین تین سو آدمی جمع ہو جاتے تھے اور وہ اُن کے لئے کبھی کھانے اور کبھی لائٹ ریفریشمنٹ (Light Refreshment) مثلاً چائے کافی اور بسکٹ وغیرہ کا انتظام کرتے تھے.اس ساری میزبانی کا خرچ خود برداشت کرتے تھے.میں نے اُن سے بھی کہا کہ یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لنگر ہے اس لئے جو کھانے کا خرچ ہے اس کو ہم خود اٹھائیں گے.انہوں نے جواب دیا اور مجھے وہ ماننا پڑا کہ ہمارا کچن بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر ہی کا حصہ ہے.آپ ہمیں اس کی اجازت دیں تاکہ ہم اس کا ثواب حاصل کریں اور وہ انتظام بھی یعنی کھانے پینے کا سارا انتظام نو جوان بچے خود کرتے تھے.آپ اُن کی شکلیں اور اُن کا انگلستان کا صاف ستھر الباس دیکھ کر یہ سوچ بھی نہیں سکیں گے کہ وہ سارا دن صبح سے لے کر شام تک قافلے اور دوسرے مہمانوں کے لئے کھانا تیار کرنے میں مصروف رہتے ہوں گے.اور ہمارے

Page 290

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۷۰ خطبہ جمعہ ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء لئے وہاں کی ۳- ۴ لجنات کے علاوہ امام رفیق کی اہلیہ صاحبہ اور اُن کے بچوں نے کھانا تیار کرنے میں بڑا کام کیا.حفاظت کے خیال سے باہر سے خود چیزیں لے کر آنا اور پھر خود پکا نا بڑا کام تھا.کوئی باہر کے کھانے والا تحفہ بھی آجائے تو وہ علیحدہ رکھ دیتی تھیں کہ یہ ہمارے گھر کا پکا ہوا نہیں ہے بلکہ فلاں جگہ سے تحفہ آیا ہے.غرض صبح سے لے کر شام تک ہمارے نوجوان خدام باورچی خانہ میں رہتے تھے پھر اتوار کو تو بہت انتظام کرنا پڑتا تھا.مثلاً برتنوں کی صفائی وغیرہ.اگر چہ وہاں یہ سہولت ہے کہ چائے کی پیالی دھونی نہیں پڑتی گتے کی بنی ہوئی ہے جسے لوگ چائے پی کر پھینک دیتے ہیں اور وہ کوڑے کرکٹ میں چلی جاتی ہے لیکن پھر بھی دودھ اور چائے وغیرہ تیار کرنا بڑا کام ہے.ایک دن پتہ لگا کہ ایک گود کا بچہ آیا ہوا تھا اور وہ رو رہا تھا.ہمارا خیال تھا کہ شاید اس کو دودھ مہتا نہیں کیا گیا.میں نے خدام سے کہا کہ تم ایسے بچوں کے لئے دودھ بھی رکھا کرو کیونکہ ایسی مائیں آئیں گی جو اپنے کم سن بچوں کو گھر نہیں چھوڑ سکتیں.ایسے بچوں کی خوراک کا لنگر میں انتظام ہونا چاہیے پھر بعد میں پتہ لگا کہ دودھ تو تھا لیکن ماں تو اتنی مصروف تھی کہ اسے بچے کو دودھ پلانے کی فرصت نہیں ملی.وہ اپنے دوسرے دینی کاموں میں اتنی مشغول ہوئی کہ اسے بچے کو دودھ پلانے کا خیال ہی نہ رہا.چنانچہ بچہ رو رہا تھا اس کے رونے کی وجہ سے میرے علم میں یہ بات آئی کہ بچے کو دودھ نہیں ملا.بعد میں پتہ لگا کہ ماں کو وقت نہیں ملا دوسرے کاموں میں لگی ہوئی تھی کوئی تقریب تھی یا شاید منصورہ بیگم کی ملاقات تھی.بہر حال اتنے پیار سے اور اتنی قربانی دے کر ان لوگوں نے کام کیا ہے کہ میں ان کے اخلاص کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا اور اسی لئے میں نے ان فقروں کی ابتدا میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی اُن کو احسن جزا دے.پھر جہاں تک اُن کی تربیت کا تعلق ہے میں نے اپنے خطبات جمعہ میں ان کو نصائح کیں وہاں ہمارا جلسہ سالانہ 9 ستمبر کو تھا اس میں ان کو نصیحتیں کیں.۱۰ ستمبر کو ہمارے مبلغین کی کا نفرنس تھی اس میں مبلغین کو سمجھایا.اسی طرح لجنہ اماء اللہ چھوٹی بچیوں کو پھر خدام الاحمدیہ کو

Page 291

خطبات ناصر جلد پنجم نصیحتیں کیں.۲۷۱ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء پھر آخری جمعہ میں میں نے خلاصہ بیان کیا کہ میں نے تمہیں یہ یہ خبریں بتائی ہیں کچھ تمہارے نفوس کی طہارت کے لئے اور کچھ اپنے نفس کی طہارت کے لیے.ایک بات آپ کو بھی بتا دیتا ہوں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اسلام کی ساری جنگیں صرف امام کو ڈھال بنا کر لڑی جاسکتی ہیں فرمایا " الْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ “ اس حدیث کی اور بھی بہت سی تشریحیں کی جاسکتی ہیں لیکن اس میں ایک بڑا ہی پیارا مفہوم جوادا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی ساری جنگیں صرف امام کی ڈھال کے پیچھے کھڑے ہوکر لڑی جاسکتی ہیں.ہمارے کئی واقف زندگی ایسے ہیں جو انجام بخیر کو پہنچے یا جن کے انجام بخیر کی ہم توقع رکھتے ہیں اور اُن کے لئے دعائیں کرتے ہیں.کئی ٹھو کر بھی کھاتے ہیں.آدم کے زمانہ سے اس وقت تک شیطان انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے لیکن ٹھوکر کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ ہمیں وقف سے فارغ کر دیں ہم اسلام اور احمدیت کی خدمت میں ساری زندگی گزار دیں گے.مگر جب تم امام کی ڈھال کے پیچھے سے ہٹ جاؤ گے تو پھر یا تو نعوذ باللہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان غلط ہوگا یا تمہاری خواہشات پوری نہیں ہوں گی (صدق اللہ ورسولہ ) کیونکہ اسلام کی جنگ الہی سلسلہ کی جنگ تو امام کو ڈھال بنا کر اس کے پیچھے لڑی جاسکتی ہے ورنہ نہیں لڑی جاسکتی.اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد دو چیزیں سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ کبھی امام مصلحت بتائے گا اور کہے گا کہ یہ حکم ہے اس میں یہ یہ صلحتیں ہیں اس کے نتیجہ میں میں تمہارے سامنے یہ پروگرام رکھتا ہوں اور کبھی کہے گا میں تمہیں مصلحتیں نہیں بتاتا تمہیں یہ حکم ہے کہ مجھے ڈھال بنا کر میرے پیچھے کھڑے ہو کر جنگ لڑو.پس بہت سے پروگرام ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے متعلق مصلحتیں ہم نہیں بتاتے کیونکہ مصلحت بتانے میں مصلحت نہیں ہوتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہماری بات کو مانو مثلاً میں نے انگلستان میں کہا کہ ہر احمدی بچہ یعنی طفل اور ہر خادم اور ناصرات کی ہر ممبر اپنے پاس ایک ربڑ کی غلیل اور چھ غلولے رکھے.اب انگلستان میں رہائش کا جو طریق ہے وہاں غلیل استعمال ہی نہیں ہوسکتی.دس دس گز کے تو ان کے صحن ہوتے ہیں ان کی عمارتوں کے ساتھ باغ

Page 292

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۷۲ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء نہیں ہوتے الا ماشاء اللہ.کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے محلوں کے ساتھ چھ چھ سوا یکڑ کے باغات ہیں.لیکن میں عام طور لندن کی بات کر رہا ہوں.جہاں غلیل نہیں چل سکتی.چنانچہ میں نے ان کو یہ بھی سمجھایا کہ یہاں غلیل رکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمسایہ کے بچے کے سر پر غلولہ جا لگے.لیکن میں حکم دوں گا کہ غلیل رکھو.لیکن اس کی مصلحت نہیں بتاؤں گا.بلکہ یہ میری خواہش ہے.کہ ہر ناصرہ اور ہر خادم اور ہر طفل اپنے پاس غلیل رکھے اور پلاسٹک کی چھوٹی سی تھیلی میں چھ غلولے بھی موجود ہیں.یہ مثال میں نے اس لئے دی ہے کہ میں آپ سے بھی یہ کہتا ہوں.جیسا کہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہاں بھی ہمارا ہر خادم، ناصرات کہ ہر ممبر اور ہر طفل ایک غلیل اور چھ غلو لے اپنے پاس رکھے.اچھے غلولے یہی ہوتے ہیں جو مٹی سے بنائے جاتے ہیں کیونکہ اگر اس میں پتھر کا ٹکڑا رکھا جائے تو اس میں حادثہ کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے.اس لئے بچوں کو تربیت بھی دی جائے کہ اس کا صحیح استعمال کرنا ہے.وہاں میں نے بتایا تھا کہ دیکھور بوہ میں بعض ایسے بچے ہیں.کہ جور بڑ کی غلیل سے بیس ہیں فاختہ شکار کر لاتے ہیں اور ان کے خاندان کو نہایت صحت مند گوشت مل جاتا ہے.مگر تمہیں نہیں ملے گا کیونکہ تمہارا معاشرہ اور قسم کا ہے.لیکن امام کہتا ہے کہ اپنے پاس غلیل رکھو اس لئے تم اپنے پاس غلیل رکھو.آپ کو بھی جب میں یہ کہتا ہوں کہ غلیل رکھو تو رکھیں.اُن کے متعلق تو مجھے رپورٹ مل جائے گی وہ ضرور لے لیں گے کیونکہ وہاں سہولت سے غلیل مل جاتی ہے.اُن کے لحاظ سے اس کی زیادہ قیمت بھی نہیں ہوتی.۴۵ پنس کی ایک بڑی اچھی ربڑ کی غلیل مل جاتی ہے جس کا فریم لوہے کا بنا ہوتا ہے اور وہ بڑی قابل اعتبار بھی ہوتی ہے.میں نے اُن کے ایک دو نمونے لے کر اپنے دو ساتھیوں کو جو خدام الاحمدیہ کے نمائندے تھے اور میرے ساتھ قاصد بن کر گئے تھے ان کو دے دیئے تھے کہ وہ اپنے پاس رکھیں.ابتدا وہیں سے کی تھی.میں اس وقت یہ بتارہا ہوں کہ مصلحت بتانا ضروری نہیں ہوتا.لیکن امام کے پیچھے امام کی ڈھال کے پیچھے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ اور اسلام کی جنگیں لڑنا ضروری ہے.یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ مصلحت نہیں بتائی گئی.اس لئے ہم ڈھال سے پرے چلے جاتے ہیں.اس طرح تم اپنا نقصان کرو گے اس طرح اسلام کی جنگ نہیں لڑی جاسکتی.ہرگز نہیں لڑی جاسکتی.امت محمدیہ پر

Page 293

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۷۳ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء ایک ایسا زمانہ بھی گذرا ہے جب اُمت کو ہر جگہ یہ ڈھال میسر نہ تھی یا چھوٹی چھوٹی ڈھالیں تھیں مگر امت محمدیہ بحیثیت اُمّت اس ڈھال کے پیچھے نہیں لڑ سکتی تھی وہ تو ایک جگہ جمع ہی نہیں ہو سکتی تھی کیا اس وقت مسلمان نے کوئی ترقی کی؟ اس زمانہ کو مسلم اور غیر مسلم مؤرخین تنزل کا زمانہ کہتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے مگر اس کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس فیج اعوج کے زمانہ میں خدا کے مقربین بندے لاکھوں کی تعداد میں پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام کی شمع کو روشن رکھا.لیکن اسلام کی شمع ایک اور چیز ہے اور اسلام کا چاند ایک اور چیز ہے اور اسلام کا سورج تو اسلام کا سورج ہے صلی اللہ علیہ وسلم لیکن سورج کے ہوتے ہوئے بھی کرہ ارض پر رات آ جاتی ہے اور سورج غروب ہو جاتا ہے اسی طرح روحانی سورج کا حال ہے.جب دنیا روحانی طور پر پرے ہٹ گئی اور اس کی روشنی سے خود کو محروم کر لیا تو یہ گویا تاریکی کا زمانہ تھا.مگر اب پھر یہ چاند کی روشنی آگئی ہے اس کا عکس لے کر اس کا نور لے کر پیار کے ساتھ دنیا میں اسلام پھیلانا ہے.چاند کا اپنا کوئی نور نہیں ہے مہدی معہود کا اپنا کوئی نور نہیں ہے.لیکن مہدی معہود کا انکا ر اس وجہ سے کہ اس کا اپنا کوئی نور نہیں ہے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا سب نو ر ہے غلط ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہی نہیں فرمایا کہ اس کی بیعت کر کے اپنی گردن اس کے جوئے کے نیچے لاؤ بلکہ ساتھ ہی یہ ارشاد بھی فرمایا ہے کہ پیار اور بشاشت کے ساتھ اس کی اطاعت کرو.اور یہ اسی کا ارشاد ہے جس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میرا اسلام اس کو پہنچا دو.چنانچہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ محبت بھرا سلام مہدی معہود کو اس وقت جب آپ دنیا میں موجود تھے یا اب اپنی دعاؤں کے ذریعہ نہایت بشاشت سے پہنچا رہا ہے اور خوشی سے پہنچا رہا ہے اس کے دل میں تو اللہ تعالیٰ اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محبت کو جوش میں لا کر یہ کام اس سے لینا ہے.بہر حال اسلام پر ایک زمانہ آیا جب یہ ڈھالیں اتنی چھوٹی ہو گئیں کہ امت محمدیہ اُن کے پیچھے سماہی نہیں سکتی تھی.پھر مہدی معہود کا زمانہ آ گیا، پھر اب یہ ڈھال بڑی ہوگئی اور امت محمدیہ نے پھر اپنے پورے عروج کو (جیسا کہ وہ نشاۃ اولی میں پہنچی تھی ) پہنچنا ہے.چنانچہ میں نے یورپ

Page 294

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۷۴ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء کے دورہ میں لوگوں کو بتایا.پیار سے بتایا سمجھا کر بتایا یہ بڑی لمبی باتیں ہیں جن کو میں بعد میں بیان کروں گا.اس وقت تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے مختصراً اور اشارہ چند باتیں بیان کروں گا.جو چیز میں نے وہاں دیکھی اور میرے لئے حیران کن تھی وہ یہ تھی کہ ہالینڈ میں ( پریس کانفرنس تو نہیں تھی.پریس کے کچھ نمائندے آئے ہوئے تھے ) پھر فرینکفورٹ میں ، زیورک میں ، ڈنمارک میں اور گوٹین برگ سویڈن میں پوری پریس کانفرنسیں تھیں.جن میں بڑے تیز قسم کے صحافی آئے ہوئے تھے.مگر کسی ایک نمائندے نے یہ نہیں کہا کہ آپ جو باتیں کہتے ہیں وہ پیاری نہیں یا غلط ہیں.دو جگہوں پر آخر میں مجھ سے مختلف الفاظ میں ایک ایسا سوال کیا گیا جس کا جواب میں نہیں دے سکا.ڈنمارک میں مجھے ایک صحافی کہنے لگے کہ آپ نے جو باتیں ہم سے کی ہیں وہ بڑی ہی پیاری ہیں اور بڑی اچھی لگی ہیں اور ان کی ہمیں ضرورت ہے.لیکن آپ یہ بتائیں کہ ڈنمارک کے عوام تک ان باتوں کے پہنچانے کا آپ نے کیا انتظام کیا ہے؟ ابھی ہم انتظام نہیں کر سکے یہ ایک حقیقت ہے لیکن یہ ایک ایسا سوال ہو گیا جس کا جواب میرے پاس نہیں تھا اور مجھے شرمندہ کرنے والا تھا.لیکن یہ سوال آئندہ کے پروگرام کی بنیاد بنے والا ہے.اسی قسم کی اور باتیں تھیں جن کے نتیجہ میں یورپ میں تبلیغ اسلام کا ایک بہت بڑا منصو بہ اللہ تعالیٰ نے ذہن میں ڈالا ہے جس کا تعلق بڑی حد تک اس بہت بڑے منصوبہ سے ہے جس کا ذکر اس کی تفاصیل کے ساتھ انشاء اللہ اور اس کی توفیق سے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کو بتاؤں گا.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت سے رکھے اور ذہن میں ہر قسم کی جلا پیدا کرے اور اس کے سارے پہلوؤں کو اجا گر پانے اور اجا گر کر کے روشن کر کے آپ دوستوں کو دکھانے کی توفیق عطا فرمائے.غرض دوست اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں کہ وہ اپنے فضل سے مجھے زندگی اور صحت دے تا کہ ایک بہت بڑا منصو بہ جو خدا تعالیٰ کے اذن سے ذہن میں آیا ہے اس کو صحیح طور پر اور ضروری تفاصیل کے ساتھ جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت احمدیہ کے سامنے رکھنے کی توفیق پاؤں تاہم یورپ میں تبلیغ کے پروگرام کے کچھ حصے کو میں اپنے خطبات میں بتاؤں گا.اب ایک ہی وقت

Page 295

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۷۵ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ میرے سامنے یہ دو منصوبے آگئے جن کا آپس میں بھی بڑا گہرا تعلق ہے اور ویسے ایک کا تعلق صرف یورپ سے ہے اور دوسرے کا ساری دنیا اور تمام بنی نوع انسان سے ہے کچھ حصے جو اس بڑے منصوبے سے بلا واسطہ تعلق نہیں رکھتے وہ بتا دوں گا کہ بالواسطہ کیا تعلق رکھتے ہیں.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے پریس کانفرنس کے دوران دو جگہ ایک سوال کیا گیا اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا اور سوچنے کے نتیجہ میں بہت سے کوائف معلوم کیسے میں نے مبلغین کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ فلاں فلاں معلومات حاصل کر کے مجھے بھیجو کیونکہ یہ ہے بڑا ظلم کہ مہدی معہود علیہ السلام آگئے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اسلام کو غالب کرنے کی بنیاد رکھ دی.مگر اب تک تبلیغ کا دائرہ وسیع نہ ہو سکا جس کی وجہ سے دنیا کا وہ حصہ جو اس وقت خدا سے بہت دور ہے اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ باتیں تو اچھی ہیں.اسلام ہمارے مسائل حل تو کرتا ہے لیکن ہمارے عوام تک ان باتوں کے پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہے.پس یہ سوال بنیاد بنی اس یورپین منصوبہ کی جس کا ایک حصہ آپ کے سامنے آجائے گا.اس کے لئے آپ کو انتظار کرنا پڑے گا.علاوہ ازیں ہم نے اس سفر میں خدا کے بڑے فضل دیکھے اس کی رحمتوں کو دیکھا چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کو پایا اور بڑی بڑی باتوں میں بھی اس کی صفات کے حسین جلوے دیکھے اور اس کے قادرا نہ تصرفات کا مشاہدہ کیا.میں بہت الحمد پڑھتا ہوں اور آپ بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ جب میں جار ہا تھا تو اس وقت بعض منذر خوابوں میں بہت سی شرارتوں کے اشارے تھے.یہ خواہیں مومنین کو اس لئے بتائی جاتی ہیں کہ استغفار اور دعا اور توبہ اور رُجُوع إِلَى الرَّبِّ الْكَرِيمِ کے ساتھ ان حوادث سے بچنے کی کوشش کی جائے.اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرما یا خیر کے ساتھ ہم گئے اور خیر کے ساتھ ہم وہاں رہے اور خیر سے ہم انگلستان میں بھی اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی پھرے اور بے تکلف باتیں کیں ہر چھوٹے سے بھی اور ہر بڑے سے بھی.کہیں ایک جگہ بھی تکلیف کا احساس نہیں ہوا.انگلستان کی

Page 296

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء بات ہے ہم نے پریس کا جو انتظام کرنا تھا دو چھوٹے چھوٹے پر یس خرید کر بھجوانے کا انتظام کر رہے ہیں.امید ہے ایک تو جلسہ سالانہ کے قریب یہاں بھی پہنچ جائے گا.یہ ابھی چھوٹے ہیں مگر بڑے کی ابتدا ہے.ان فرموں کے نمائندے جو ہمارے پاس معلومات بہم پہنچانے کے لئے آتے تھے اُن میں سے ایک کہنے لگا کہ میرا دل کرتا ہے تفصیل سنے کا میں نے کہا مجبوری ہے اس وقت، وقت بہت کم ہے تفصیل نہیں بتا سکتے پھر کسی وقت سہی.پس ہماری باتیں سننے کی طرف اُن کی توجہ ہے.اسلام کی باتیں سنے کی طرف تو ہے لیکن ہم نے سنانے کے سامان پیدا نہیں کئے اور اُن سامانوں کے مہیا کرنے کی طرف جتنی توجہ ہم کر سکتے ہیں اتنی بھی تو جہ نہیں ہے.غرض یہ منصوبے سامنے آجائیں گے دوست بہت دعائیں کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایک تو سیلاب زدگان کی تکالیف کو دور کرے ہمارے پاکستانی بھائیوں کو سیلاب کی وجہ سے مختلف شکلوں میں بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.انہوں نے اپنے مکان بنانے ہیں، اپنے جانور خریدنے ہیں، نئے بیج مہیا کرنے ہیں، اپنی کھیتیاں تیار کرنی ہیں ، اپنے لئے خوراک کا انتظام کرنا ہے، اپنے لئے کپڑوں کا انتظام کرنا ہے اور چیزیں بہت مہنگی ہوگئی ہیں اور پھر اپنے بچوں کی پڑھائی کا انتظام کرنا ہے اور کئی دقتیں ہیں.تاہم یہ آسمانی مصیبت تھی اور اگر آسمان سے کسی وقت خدائی منشا کے مطابق کوئی حادثہ نازل ہوتا ہے تو اس صورت میں اگر انسان انسان سے جھگڑ پڑے اور ایک دوسرے کو الزام دینے لگ جائے تو مسلمان کی عقل اس چیز کو تسلیم نہیں کرتی اس لئے سب کو مل کر یہ کام کرنا چاہیے.ہمارے ایک سفیر نے ایک پریس کانفرنس سے پہلے مجھے کہا کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لئے بھی آپ کچھ کہیں.میں نے ان کی بات سن لی میں نے تو اپنے رنگ میں کہنا تھا.چنانچہ میں نے کا نفرنس کے دوران کہا کہ بنی نوع انسان سے پیار اور اخوت کا رشتہ قائم کرنا چاہیے یہ بیان کرنے کے بعد میں نے کہا مثلاً پاکستان میں سیلاب آیا اور ایک دنیا اس وقت دکھ اور تکلیف میں مبتلا ہے اس وقت تمہاری بحیثیت انسان یہ ذمہ داری ہے کہ تم انسانی بھائیوں کی مدد کے لئے پہنچو اور میں تو بڑا حیران ہوتا ہوں کہ بعض لوگ اس کو ایک سیاسی مسئلہ بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ایک انسانی مسئلہ

Page 297

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۷۷ خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۳ء ہے.سیلاب زدگان تمہارے بھائی ہیں تمہیں ان کی امداد کے لئے پہنچنا چاہیے اور اسلام میں یہ تعلیم دی گئی ہے.پس دوست دعا کریں کہ پاکستان میں ہمارے جو بھائی بستے ہیں سیلاب کی زد میں آنے کی وجہ سے یا آگے سیلاب کی وجہ سے جو وسیع اثرات پیدا ہوئے ہیں اُن کی وجہ سے تکلیف پہنچ رہی ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے سب کی تکالیف کو پورے طور پر دور فرمائے اور اپنی رحمت سے اپنے بندوں کو نوازے اور دنیا کی آنکھ بھی اُن کو عطا فرمائے اور دین کی آنکھ بھی اُن کو عطا کرے تا کہ اُن کو ہر قسم کی خوش حال زندگی میسر آئے.پھر دوست یہ بھی دعا کریں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا جو مقصد ہے یعنی ساری نوع انسانی کو اُمتِ واحدہ بنا کر ایک خاندان بنا کر اور پیار اور محبت کے بندھنوں میں باندھ کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.جماعت احمدیہ کو اس مقصد کے پورا کرنے کے سامان جلد میسر آجائیں اور ہماری حقیر اور ناچیز کوششوں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے.ہماری زندگیوں ہی میں وہ مقصد پورے ہو جائیں یا اُن مقاصد کے پورا ہونے کی ہر ہمیں ایک جھلک نظر آ جائے.ہم خوشی اور بشاشت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوں کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو ایک حد تک عاجز بندے ہونے کے باوجود نباہ دیا ہے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی تو فیق عطا فرمائے.(روز نامہ الفضل ربوہ.۴ رنومبر ۱۹۷۳ء صفحہ ۲ تا ۷)

Page 298

Page 299

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۷۹ خطبه جمعه ۱٫۵ کتوبر ۱۹۷۳ء جماعت کو انتہائی مجاہدہ سے اپنی دعا کی تد بیر کو کمال تک پہنچانا چاہیے خطبه جمعه فرموده ۵ اکتوبر ۱۹۷۳ ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.بیماری بھی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.کبھی جانتے بوجھتے اور کبھی غفلت میں انسان اپنے لئے بیماری کا سامان پیدا کر لیتا ہے چند دن ہوئے مجھ پر پیچش کا بڑا شدید حملہ ہوا.چنانچہ کچھ پیچش کی وجہ سے اور کچھ اس دوائی کی وجہ سے جو آج کی طب اس مرض کے علاج کے لئے دیتی ہے.ضعف کی کیفیت اس حد تک پہنچ گئی کہ کل صبح میرے خون کا دباؤ (بلڈ پریشر ) گر کر ۱۰۴ اور ۷۰ تک آ گیا.ہر فرد کا بلڈ پریشر یعنی اس کے خون کا دباؤ مختلف ہوتا ہے.گوانسان کو دیکھ کر اطباء نے کتابیں لکھی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو اطباء کی کتب کے مطالعہ کے بعد تو پیدا نہیں کیا.آج کے بہت سے اطباء اور ڈاکٹر بعض دفعہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.غرض ہر فرد واحد کے خون کا دباؤ اپنا ہے جو دوسرے شخص سے مختلف ہوسکتا ہے معمول کے مطابق میرے خون کا دباؤ اوپر کا ۱۲۴/۱۲۳ اور نچلا ۸۰ کے قریب ہے.بلڈ پریشر یا خون کے دباؤ کے دو حصے ہوتے ہیں جنہیں ہماری زبان میں ایک کو اوپر کا اور دوسرے کو نچلا بلڈ پر یشر کہہ دیتے ہیں ویسے اس کا اصطلاحی نام کچھ اور ہے.چنانچہ ضعف کی وجہ سے میرے خون کا دباؤ ۱۲۴/۱۲۳ سے گر کر

Page 300

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۸۰ خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۷۳ء ۱۰۴ تک آ گیا اور ۸۰ سے گر کر ۷۰ تک آ گیا جس کی وجہ سے بڑی شدید ضعف کی کیفیت پیدا ہو گئی.آج طبیعت نسبتاً بہتر ہے.لیکن ابھی خون کا دباؤ معمول کے مطابق نہیں ہوا لیکن بعض باتیں ایسی تھیں جن کو اگلے جمعہ تک ملتوی کرنا مناسب نہیں تھا.کیونکہ وقت کم ہے اس لئے ان کے متعلق میں اس وقت مختصر ا دوستوں سے کچھ کہوں گا.پہلی بات تو یہ ہے اور یہ ایک بنیادی بات ہے اور نہایت ہی اہم بلکہ ایک لحاظ سے ہماری زندگی کی سب سے اہم بات ہے اور وہ یہ کہ انسان کی حقیقی زندگی کی بنیاد دعا پر رکھی گئی ہے.دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بغیر نہ انسان کی زندگی نہ اس کی بقا اور نہ اس کا ارتقا ممکن ہے.ماه رمضان دعاؤں کا مہینہ ہے.یہ دعاؤں کے دن ہیں.اس ماہ مبارک میں جماعتِ احمد یہ کو انتہائی مجاہدہ سے اپنی دعا کی تدبیر کو اس کے کمال تک پہنچانا چاہیے.دعا بھی ایک روحانی تدبیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں کو سکھائی ہے.پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ اس تد بیر کو کمال تک پہنچائیں اور عاجزانہ طور پر اپنے ربّ کریم کے حضور جھک کر اس سے اپنے ذاتی ارتقا کی بھیک مانگیں.اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہم میں سے ہر فرد میں جو فطری صلاحیتیں پیدا کی ہیں، وہ اپنے فضل سے ان کی کامل نشو ونما کے سامان پیدا کرے اور ہر فر دکو کمال نشوونما کے حصول کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری یہ ارتقائی حرکت ہماری زندگیوں میں عروج کو پہنچ جائے.تاکہ ہم اس دنیا کی بہترین جنت اور اس دنیا کی اعلیٰ جنتوں کے اعلیٰ مقامات کو حاصل کرنے والے ہوں.اسی طرح دوست دعا کریں اور بہت دعا کریں کہ جس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام میں اس جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ جماعت کو انفرادی زندگی اور اجتماعی جدو جہد اور کوشش میں صراط مستقیم پر قائم رکھنے اور ہر وہ چیز اس کے حضور قربان کرنے کی توفیق بخشے جس کا وہ آج ہم سے مطالبہ کر رہا ہے.دوست یا درکھیں کہ غلبہ اسلام کی مہم نہ تو

Page 301

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۸۱ خطبه جمعه ۱٫۵ کتوبر ۱۹۷۳ء کوئی معمولی مہم ہے اور نہ کوئی آسان مہم ہے.جماعت احمدیہ نے خدا تعالیٰ کے نام پر اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو بلند کرنے کے لئے گویا ساری دنیا سے جنگ مول لی ہے.اس چھوٹی سی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی منشا کے پیش نظر ساری دنیا سے جو جہاد شروع کیا ہے اس جہاد کو اور اس مہم کو سر کرنے کے لئے جس طاقت کی ضرورت ہے وہ ہم اپنے زور سے مہیا نہیں کر سکتے.پس چاہیے کہ ہم خدا کے حضور جھکیں اور اسی سے وہ طاقت اور وہ اثر اور وہ جذ بہ اور وہ ایثار اور وہ ہمدردی خلق اور وہ جذ به خدمت مانگیں جو الہی سلسلوں کا طرہ امتیاز ہوتا ہے تا کہ جماعت غلبہ اسلام کے مقصد میں جلد تر کامیاب ہو جائے.پھر دوست دعا مانگیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس ملک پاکستان پر رحم فرمائے اور اس کی مشکلات کو دور کرے اور اس کے شہریوں کو ان کی پریشانیوں سے نجات بخشے اور ان میں جو روحانی ارتقا کی صلاحیتیں رکھی گئی ہیں جہاں دوسری صلاحیتوں کی نشوونما کی انہیں توفیق ملے وہاں روحانی صلاحیتوں کی نشو و نما کی بھی انہیں تو فیق عطا ہوتا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے منشا کو سمجھنے لگیں اور انہیں بھی اللہ تعالیٰ کے نور سے منور ہونے کی توفیق عطا ہو.اسی طرح دوست دعا کریں بنی نوع انسان کے لئے بھی کہ نوع انسانی بڑی تیزی کے ساتھ ہلاکت کی طرف حرکت کر رہی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ہاتھ نے ان کو سہارا نہ دیا تو وہ یقیناً ایک ایسی بھڑکتی ہوئی آگ میں جاگریں گے کہ پھر انسان کا اس کرہ ارض پر باقی رہنا شاید ممکن نہ رہے لیکن یہ تو ظاہری حالات ہیں ظاہر میں ہماری نظر یہ دیکھ رہی ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ چاہے تو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم رحمت کے نتیجہ میں صرف ان بچے کھچے لوگوں کی روحانی تربیت ہی کے سامان پیدا نہ کرے جو اس ہلاکت کے بعد اس کرہ ارض پر رہ جائیں بلکہ وہ اپنے فضل کے ساتھ ان لوگوں کو جو آج بھٹکے ہوئے ہیں راہِ راست پر لے آئے اور وہ جو خدا سے دوری کی راہوں پر گامزن ہیں وہ قرب کی راہوں کو تلاش کرنے لگیں اور پھر اس کے قرب کے درجات کو پالیں.آج جو لوگ اسے پہچانتے نہیں وہ اس کو پہچانے لگیں.آج جو لوگ خود کو خدا سمجھتے ہیں وہ اپنے عاجزانہ مقام کو پہچانتے ہوئے بندگی کی طرف مائل ہوں اور انتہائی عاجزانہ

Page 302

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۸۲ خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۷۳ء راہوں کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق اللہ تعالیٰ کی انتہائی محبت کو حاصل کریں.یہی وہ غرض ہے جس کے لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور اب اسی غرض کے لئے آپ کے ایک عظیم روحانی فرزند اور جرنیل کو مہدی معہود اور مسیح موعود علیہ السلام کی شکل میں مبعوث کیا گیا ہے.پس یہ دعاؤں کے دن ہیں.دوست ان دنوں بہت دعائیں کریں.اپنی تمام ذمہ داریوں کو اپنی نگاہ میں رکھیں اور ہر ذمہ داری کے سلسلہ میں جو دعا آپ پر فرض ہوتی ہے وہ دعا کثرت سے کرتے رہیں.دوسری بات جو اس وقت میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ نیکی مزید نیکیوں کی تو فیق عطا کرتی ہے.ماہ رمضان کی عبادتیں اگر خلوص نیت سے کی جائیں تو نیکیوں سے محروم کرنے والی نہیں ہوں گی بلکہ مزید نیکیوں کے لئے زیادہ بشاشت پیدا کرنے والی ہوں گی.رمضان کے معا بعد اس فرض کو ( جورمضان کے دنوں میں ہوتا ہے ) زیادہ چمکانے کے لئے اور مزید فرائض کی ادائیگی کی توفیق پانے کے لئے اسلام میں نوافل بھی رکھے گئے ہیں.چنانچہ فرض نمازوں اور روزوں کے علاوہ نفلی روزے ہیں.نفلی نمازیں ہیں.خود رمضان بھی ایک لحاظ سے نوافل نماز کا مہینہ ہے.پھر اس مہینے میں اور دوسری قربانیاں ہیں لیکن میں اس وقت ان کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا.پس ماہِ رمضان کی یہ عبادتیں اپنے اندر عظیم وسعت رکھتیں اور بڑی برکتوں کی حامل ہیں.اس لئے رمضان کے نتیجہ میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ چونکہ رمضان کے چند دنوں بعد ہی ہمارا اجتماع ہے اس کی وجہ سے شاید ہماری حاضری پر اثر پڑے گا.ان کو اس وہم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے.یہ اجتماع اگر چہ ایک نفلی چیز ہے لیکن یہ اس فوج کی تربیت کے لئے جس نے اسلام کی جنگ لڑنی ہے ایک ضروری نفلی عبادت کے مترادف ہے.اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا یہ اصول جانتی ہے کہ ہر نیکی مزید نیکیوں کی تو فیق عطا کرتی ہے اس لئے انسان جب فرائض سے سبکدوش ہوتا ہے تو وہ نوافل کے لئے پہلے سے زیادہ بشاشت اپنے اندر پاتا ہے اور یہ ہر احمدی کو معلوم ہے یا کم از کم معلوم ہونا چاہیے اگر بھول گیا ہے

Page 303

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۸۳ خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۷۳ء تو ذکر کے حکم کے ماتحت اسے یاد دھانی کرانی چاہیے.پس مجالس اور خدام کی تعداد کے لحاظ سے پچھلے سال سے کہیں زیادہ نمائندگی اس اجتماع میں ہونی چاہیے.کیونکہ ہر سال ہمارا قدم گزشتہ برس کی نسبت آگے ہی بڑھتا ہے.اور تیسری بات جو میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے ” نصرت جہاں“ کے نام سے ایک منصو بہ بنایا تھا اور پچھلے تین سال سے زائد عرصہ میں ہم اس پر عمل کرتے رہے ہیں.اس منصوبہ کے دو حصے ہیں.ایک اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے مالی قربانیاں دینا اور دوسرے اس کی بنیادوں پر منزل پر منزل بناتے چلے جانا.جہاں تک مالی لحاظ سے قربانیاں دینے کا سوال ہے ہم عاجز بندوں کا یہ منصوبہ اور یہ تدبیر اس سال ختم ہو رہی ہے.مالی قربانی کے سلسلہ میں دوستوں نے جو وعدے کئے تھے اور جن کو انہوں نے تین سالوں پر پھیلا کر پورا کیا ہے اس کا تھوڑا سا حصہ باقی ہے.اس وقت یہاں کے صحیح اعداد و شمار تو میرے ذہن میں نہیں کیونکہ مجھے رپورٹ نہیں ملی لیکن انگلستان کی جماعت سے میں نے رپورٹ لی تھی اور وہ اس وقت میرے ذہن میں ہے.خلافت ثانیہ جتنے سالوں پر ممتد تھی اس ا کے لحاظ سے انہوں نے ۵۱ ہزار پاؤنڈ کے وعدے نصرت جہاں کے منصوبہ کے لئے تھے.جن میں سے وہ ۴۷۱۴۶ ہزار پاؤنڈ ادا کر چکے ہیں ۵/۴ ہزار پاؤنڈ ابھی باقی ہے.ان کو میں نے توجہ دلائی تھی کہ تھوڑی سی رقم باقی رہ گئی ہے.اس کی جلد ادائیگی کریں.قریباً اسی نسبت سے پاکستان اور بیرونِ پاکستان کی جماعتوں کا بقایا ہو گا.پس جہاں تک مال کے وصول کرنے کا تعلق ہے اگر میں نے مہلت دی تو زیادہ سے زیادہ جلسہ سالانہ تک دے سکتا ہوں.اس سے زیادہ مہلت دینا میرے بس کی بات نہیں ہے.اس کی طرف میں ابھی اشارہ کر دوں گا.بہر حال میں آپ سے اس وقت تاکیداً کہنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں کے ذمہ نصرت جہاں سکیم کے وعدے ہیں وہ جلد ادا کر دیں.غالباً نومبر میں آخری سال ختم ہو رہا ہے.لیکن آج میں ایک مہینے کی اور مہلت دے دیتا ہوں.۲۰ دسمبر سے پہلے پہلے بقایا جات ادا ہو جانے چاہئیں.نصرت جہاں کا دفتر نوٹ کرے اور جماعتوں کے ذمہ دارا حباب اسے یادرکھیں کہ اس کے بعد کوئی رقم اس مد میں

Page 304

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۸۴ خطبه جمعه ۱٫۵ کتوبر ۱۹۷۳ء وصول نہیں کی جائے گی.ہم وصولی کے کھاتے بند کر دیں گے.باقی رہیں وہ برکتیں جو اللہ تعالیٰ نے اس سکیم سے وابستہ فرمائی ہیں وہ تو انشاء اللہ بڑھتی چلی جائیں گی.اللہ تعالیٰ بڑی برکتیں دینے والا اور بڑی رحمت اور پیار کا سلوک کرنے والا ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ ہم نے مغربی افریقہ میں جو ڈا کٹر بھیجے تھے جن میں سے بعض بڑے پرانے اور تجربہ کار ڈاکٹر تھے اور چھٹیاں لے کر وہاں گئے ہوئے ہیں کام چلانے کے لئے ہم نے ان کو ۵۰۰ پاؤنڈ کی رقم دی تھی ( بیرون پاکستان کی مالی قربانیوں میں سے ) اور اس کے بعد انہوں نے وہاں سے جو پیسے کمائے وہ بھی وہیں خرچ کر دیئے کیونکہ ہم میں سے کسی فرد کو ذاتی طور پر مال سے دلچسپی نہیں ہے.جہاں خدا کی راہ میں مال خرچ ہونا چاہیے وہاں خرچ ہوتا ہے.افریقی ممالک کے متعلق اس وقت یہی ہو رہا ہے.ہماری ریت اور روایت یہی ہے کہ جو کچھ ہم اللہ کے فضل سے کسی ملک میں کماتے ہیں وہ اسی ملک پر خرچ کر دیتے ہیں اور جو ہم اس ملک میں نہیں کماتے ( کمانا اس معنی میں نہیں جس معنی میں مزدور کماتا ہے بلکہ اس معنی میں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جو کچھ دیتا ہے ) دوسرے ملک میں ہمیں حاصل ہوتا ہے، وہ بھی ہم ان ملکوں میں حسب ضرورت بھجوا دیتے ہیں.مثلاً یہ ۵۰۰ پاؤنڈ فی ڈاکٹر جو رقم دی گئی تھی وہ بھی ہم نے باہر سے بھجوائی تھی.اب مثلاً غانا کو لے لیں.غانا میں اس تھوڑے سے عرصہ میں جو قریباً دو سوا دو سال کا عرصہ یا زیادہ سے زیادہ اڑھائی سال کا ہوگا اس میں ہسپتالوں کی دو ۲ نہایت شاندار عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں اور فی عمارت قریباً دس دس لاکھ روپیہ خرچ ہوا ہے.اس میں وہ خرچ شامل ہے جو مستقبل قریب میں ہونے والے ہیں.جو اس وقت تک خرچ ہو چکا ہے وہ تو کوئی پانچ چھ لاکھ روپے کا ہے لیکن ابھی بہت سے سامان وہاں جانے والے ہیں اور اس طرح خرچ دس لاکھ روپے تک پہنچ جائے گا.اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اپنی ہی قائم کردہ جماعت کو توفیق دی ہے کہ وہ اس کی راہ میں خرچ کرے.جن ڈاکٹروں کو ہم نے ۵۰۰ پاؤنڈ دے کر وہاں بھیجا تھا ان ڈاکٹروں کے ہسپتالوں کی عمارتوں پر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ۵۰۰ پاؤنڈ کے مقابلہ میں ۳۵ ہزار پاؤنڈ خرچ ہو چکا ہے اور ابھی اور خرچ ہونے والا ہے گویا ایک اور ۵۰ کی نسبت سے تو ہم خرچ کر چکے ہیں

Page 305

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۸۵ خطبه جمعه ۱٫۵ کتوبر ۱۹۷۳ء اور ابھی اور خرچ بھی ہوگا.ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہی خوب فرمایا تھا کہ گھر سے تو کچھ نہ لائے یہ رقم بھی کیا ہم گھر سے لے کر گئے یا آپ نے دی یا یہ صرف آپ کی قربانیوں کا حصہ ہے.نہیں.یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نتیجہ ہے.اس نے اپنے خاص تصرف سے اپنی قدرت کی تاروں کو ہلا دیا اور ہمارے لئے دولت کے سامان پیدا کر دیئے اور ایک ملک میں دو ہسپتال بن گئے.دوسرے ممالک میں حسب ضرورت سکولوں کی کئی عمارتیں بنیں.ہسپتال کا تو یہ حال ہے کہ اس پر بتدریج خرچ تو کرتے ہیں لیکن ضرورت تو ایک حد تک بتدریج نہیں (جیسا سکول کی تعمیر میں ہوتا ہے) بلکہ ایک ہی وقت میں ضرورت پڑتی ہے مثلاً پہلے دن ہی ان کو Outdoor Patient کے لئے کمروں کی ضرورت ہوتی ہےIndoor Patient کے لئے کمروں کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی طرح اپریشن تھیٹر کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ اب ان دو ہسپتالوں میں سے جن کا میں ذکر کر رہا ہوں ایک ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کا مجھے خط ملا ہے.پتہ نہیں ان کو کیا خیال آیا بڑی نیکی کا خیال آیا.اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالا.انہوں نے مجھے لکھا.ابھی یہاں آکر پرسوں اتر سوں ان کا خط پڑھا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ گو امیر صاحب نے میرے ہسپتال کے متعلق تفصیل لکھ دی ہوگی اور وہ آپ تک پہنچ چکی ہوگی لیکن میں بھی تفصیل لکھ دیتا ہوں ( یہ ہسپتال جماعت کی ملکیت ہے اس کا کچھ حصہ خریدا گیا ہے بہت بڑی زمین کے ساتھ اور کچھ حصے بنائے گئے ہیں اپنی طرف سے جو حصہ خریدا گیا ہے اس میں بہت بڑی عمارت تھی) کہ اس ہسپتال کے مختلف ونگز (Wings) ہیں اور بڑے بڑے کمرے ہیں جن میں مریضوں کے لئے رہائشی کمرے بھی شامل ہیں.گویا یہ ہسپتال اکیس کمروں پر مشتمل ہے.اس کے علاوہ ڈاکٹر اور دوسرے عملہ کی رہائش کا بھی پورا انتظام ہے.چنانچہ میں نے اس پر نوٹ دیا تھا کہ یہ سارا خط تفصیل کے ساتھ الفضل میں شائع کرا دیا جائے کہ ہسپتال کی یہ شکل ہے.اتنے کمرے آؤٹ ڈور کے لئے اور اتنے ان ڈور کے لئے اور اتنے اپریشن تھیٹر کے لئے ہیں.میرے خیال میں وہاں (اگر مجھے صحیح یاد ہے) تین کمرے آپریشن تھیٹر کے لئے ہیں.ہمارے یہاں اس وقت تک فضل عمر ہسپتال میں صرف ایک آپریشن تھیٹر کی ضرورت پڑی اور

Page 306

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۸۶ خطبه جمعه ۱٫۵ کتوبر ۱۹۷۳ء ایک موجود ہے.میرے علم میں نہیں کہ یہاں کوئی دوسرا یا تیسرا آپریشن تھیٹر بھی ہے.غرض اللہ تعالیٰ ہمارے اموال میں برکت ڈالتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے جو دروازے ہیں یہ تو بند نہیں ہوں گے لیکن آپ نے اپنے لئے الہی رحمتوں کے سامان مالی قربانیوں کے نتیجہ میں جو پیدا کرنے ہیں اس کا دروازہ نصرت جہاں کے لحاظ سے ۲۰ / دسمبر کے بعد آپ پر بند ہو جائے گا.اس کے بعد اس مد میں کوئی رقم وصول نہیں کی جائے گی.باقی رہا اللہ تعالیٰ کا فضل تو وہ تو جماعت پر بے حساب نازل ہو رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت محمدیہ کو یہ بشارت دی تھی کہ جب تک تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے رہو گے دنیا پر تمہارا بڑا رعب رہے گا.اب یورپ دولت کی بڑی فراوانی رکھتا ہے وہ بڑے امیر لوگ ہیں.ہمارا اثر یا ہمارے پیسے کا اثر سکوں میں نہیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت کی شکل میں ہے.ہمارے خزانے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھرے ہوئے ہیں.پاؤ نڈ یا سونے چاندی یا ہیروں سے نہیں بھرے ہوئے.مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی شکل میں جو چیز ہے وہ دنیا کی ہر چیز مثلاً سونے چاندی اور ہیرے جواہرات سے کہیں زیادہ قیمتی اور مفید ہے.اور پھر وہ بے وفائی کرنے والی بھی نہیں.یہ دُنیوی سنتے ہی ہیں جو بے وفائی کر جاتے ہیں.ابھی پچھلے دو تین سال میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ ڈالر ڈگمگا گیا یا پاؤنڈ کی کوئی حیثیت نہیں رہی مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے متعلق کبھی آپ نے سوچا یا تصور میں لائے کہ وہ ڈگمگا گئی یا اس کی کوئی قیمت نہیں رہی؟ انسان نے خود کو اس سے محروم کر دیا تو کر دیا لیکن اس کی رحمت کا جو اثر ہے اور اس کی جو افادیت ہے اور انسان کو اس کی جو ضرورت ہے اور انسان کے لئے اس میں جو جوش ہے اس میں کبھی کوئی فرق نہیں آتا.بہر حال یورپین بڑے امیر لوگ ہیں.چنانچہ سوئیٹزر لینڈ میں ڈیڑھ پونے دو گھنٹے کی پریس کانفرنس میں ایک شخص جو سوال کر رہا تھا اور وہ بڑا تیار ہو کر آیا تھا.میرے ذاتی حالات کے متعلق اس نے علم حاصل کیا.پھر جماعت کے متعلق اور پیچھے پاکستان میں جو الیکشن ہوئے.اس سلسلہ میں اس نے پتہ نہیں کہاں کہاں سے معلومات حاصل کی تھیں اور وہ بڑی ہوشیاری سے سوال کر رہا تھا.چنانچہ اس نے مجھ سے سوال پوچھا (یہ میں مثال دینے لگا ہوں رعب کے اس اثر کی جو

Page 307

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۸۷ خطبه جمعه ۱٫۵ کتوبر ۱۹۷۳ء ان قوموں پر بھی ہے جو بڑی امیر ہیں ) کہ آپ کی جماعت کا حکومت پاکستان سے کیا تعلق ہے.یہ سوال ایسا تھا کہ میں نے سمجھا کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی بات ہے.میں نے جواب دیا کہ ہر اچھے شہری کا ایک اچھی حکومت سے جیسا تعلق ہونا چاہیے ویسا ہمارا اپنی حکومت سے تعلق ہے تو پھر اس کے دل میں جو چھپی ہوئی بات تھی وہ باہر آگئی.اس نے سوچا کہ اُنہوں نے ایک اصولی جواب مجھے دے دیا ہے.جو بات میں چاہتا تھا وہ تو معلوم نہیں ہوئی.چنانچہ پھر وہ مجھے کہنے لگا کہ کیا حکومت آپ کو اپنے کاموں کے چلانے کے لئے روپیہ دیتی ہے.اب دیکھو جماعت احمد یہ ایک غریب سی جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے نتیجہ میں تبلیغ اسلام کا کام کر رہی ہے مگر لوگوں کے ذہن میں اس سوال کا پیدا ہونا کہ جب تک حکومت ان کو مالی امداد نہ دے اس وقت تک جماعت اس قسم کا کام نہیں کر سکتی.یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے ،سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کے خزانوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں.خیر میں مسکرایا اور کہا کہ ہمیں حکومت کوئی پیسے نہیں دیتی اور نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک فیدائی جماعت اسلام کی راہ میں قربانیاں دینے والی پیدا کی ہے جس کا ایک حصہ اپنے اموال کا ۱/۱۰ اور کچھ اس سے بھی زیادہ دینے والے ہیں.اور جماعت کا ایک حصہ ۱/۶ دے دیتا ہے.اور اس کے علاوہ جب ہمیں ضرورت پڑتی ہے اور ہم اعلان کرتے ہیں خاص منصوبوں کے لئے تو جماعت ان کے لئے مالی قربانی دیتی چلی جاتی ہے.پھر میں نے اس کو غالباً کوئی مثال دی اور نصرت جہاں سکیم کی مثال دی ہوگی کہ اس طرح ہمیں ضرورت پڑی اور اس طرح جماعت نے قربانیاں دیں.پس یہ رُعب ہے جس کا اثر غیروں پر بھی ہے مگر یہ اس پیسے کا رعب نہیں جس سے آپ کے خزانے خالی ہیں بلکہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کے پیار کا رعب ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی رحمت نے آپ کے لئے مہیا کیا ہوا ہے اور جس سے آپ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی.مگر یہ حقیقت عقل سے کام لینے اور سوچنے پر ہی معلوم ہوسکتی ہے.پس اس لحاظ سے بھی دوستوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بڑے شکر گزار بندے بن کر زندگی کے دن گزار دیں.یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت پر بہت بڑا فضل ہے اور سوچنے کا مقام ہے کہ کس طرح وہ جو

Page 308

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۸۸ خطبه جمعه ۱٫۵ کتوبر ۱۹۷۳ء چوٹی کے ملک ہیں اور جنہوں نے ساری دنیا کی دولت سمیٹی ہوئی ہے.ان پر ہمارا اتنا رعب ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ کام نہیں کر سکتے.جب تک حکومتیں مالی لحاظ سے ان کی پشت پناہی نہ کریں.باقی رہا میرا یہ کہنا کہ میں بے بس ہوں اور ۲۰ / دسمبر کے بعد نصرت جہاں کی مد میں پیسے وصول نہیں کئے جائیں گے اس کی ایک وجہ ہے وہ میں بتا دیتا ہوں شاید آپ کے دماغ پریشان ہوں گے کہ یہ کیا بے بسی ہے.دراصل اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بعض اور منصوبوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو نصرت جہاں کے منصوبے سے بہت بڑے منصوبے ہیں.اپنے کام کے لحاظ سے بھی اور زمانے کی وسعت کے لحاظ سے بھی اور ان کا اعلان میں اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی رحمت سے جلسہ سالانہ کے موقع پر کرنا چاہتا ہوں.اس لئے یہ درخواست کروں گا کہ جہاں آپ میری صحت کے لئے دعا کریں وہاں یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے زندگی اور توفیق عطا فرمائے کہ میں اس کی منشا کے مطابق اس نہایت اہم منصوبہ کی تفاصیل جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کے سامنے رکھنے کی توفیق پاؤں اور اللہ تعالیٰ جماعت کو بھی یہ توفیق دے کہ وہ اس منصوبے کی اہمیت اور افادیت کو سمجھے اور اس کے لئے آنے والے سالوں میں ( پتہ نہیں کتنے سال ہیں جن کا میں اعلان کروں گا ) قربانیاں دیتے چلے جائیں.اس وقت جہاں تک یورپ کا سوال ہے ہم بڑے نازک مقام پر کھڑے ہیں اگر ہم نے اس وقت یورپ میں اسلام پھیلانے کے لئے قربانیاں دیں.(ویسے اس منصوبے کا تعلق صرف یورپ سے نہیں بلکہ ساری دنیا سے ہے لیکن میں اس منصو بہ کی صرف ایک چھوٹی سی مثال دے رہا ہوں ) تو خدا کرے اور اس کی رحمت جوش میں آئے تو کوئی بعید نہیں کہ اگلے دس سال میں جہاں ہم آج سینکڑوں کی باتیں کرتے ہیں کہ ان ملکوں میں اتنے سواحمدی ہیں جو عیسائیت یا دہریت یا مذہب سے لا پرواہی کو چھوڑ کر مسلمان ہوئے ہیں وہاں ہم لاکھوں کی باتیں کرنے لگیں.پس دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے توفیق بخشے اور میں جماعت کے سامنے یہ منصوبہ پیش کرسکوں اور جماعت کو اسے سمجھنے اور اس کے لئے قربانیاں دینے کی توفیق ملے.اللہ تعالیٰ اپنی

Page 309

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۸۹ خطبه جمعه ۱٫۵ کتوبر ۱۹۷۳ء رحمت سے اس سے زیادہ اچھے اور بہتر نتائج نکالے جو ہمارے دماغ اپنے تصور میں لا سکتے ہیں کیونکہ ہمارے دماغ محدود ہیں مگر اس کی رحمتیں غیر محدود ہیں.اس نے تو سارے کرہ ارض کو لپیٹا ہوا ہے.فرینکفرٹ مغربی جرمنی میں میری ایک پریس کانفرنس اور جماعت احمدیہ کے متعلق ایک کیتھولک اخبار نے قریباً ۳/۴ صفحے کا نوٹ دیا ہے اور سوائے ایک بات کے جس کا ایک ذرا سا حصہ وہ نہیں سمجھے اور وہ بھی اپنے سیاق وسباق کے لحاظ سے واضح ہے باقی باتیں بغیر کسی تنقید کے شائع کر دی ہیں.میں حیران ہوں کہ ایک کیتھولک اخبار ہے اور عیسائیت سے ہماری جنگ ہو رہی ہے مگر اخبار نے بالکل صحیح اور دیانت داری کے ساتھ میری باتیں بیان کر دیں جن میں سے ایک یہ کہ مرزا ناصر احمد نے ہمیں یہ بتایا کہ سرمایہ داری کے بعد اشترا کی انقلاب آیا اور پھر اس کے بعد چینی سوشلسٹ انقلاب ہے اور اب چوتھا روحانی انقلاب، اسلامی انقلابی کی شکل میں بپا ہو چکا ہے اور ایک سو سال کے اندراندر یہ اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ جائے گا.اور ساری دنیا کو اپنے احاطہ میں لے لے گا.اس نوٹ کا ترجمہ ہو رہا ہے.انشاء اللہ یہ بھی آپ کے سامنے آجائے گا.اس پریس کا نفرنس میں جو قریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی جو باتیں میں نے بیان کی تھیں کچھ مختصراً اور کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ ، وہ ساری تو نہیں دے سکتے تھے یا ساری باتوں کے لئے جگہ نہیں دے سکتے تھے.ورنہ تو سارا اخبار بھر جاتا.۳/۴ صفحہ کا دینا بھی بڑی بات ہے.علاوہ تصویر کے حصہ کے.بہرحال یہ ایک مثال میں نے دی ہے جو اس بڑے منصوبے کا ایک حصہ بننے والی ہے اگر یورپ میں ہم اپنی سی کوشش کر ڈالیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے گی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ دس سال کے اندر اندر یورپ میں لاکھوں نئے مسلمان احمدی دنیا کو نظر آنے لگ جائیں گے یہ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور توفیق سے ہو سکتا ہے.ورنہ ہم تو عاجز بندے ہیں اور اس کی مدد کے ہر آن محتاج ہیں.اب نتیجہ یہی نکلا کہ یہ تینوں باتیں ایسی ہیں جن کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.دعاؤں

Page 310

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۹۰ خطبه جمعه ۱٫۵ کتوبر ۱۹۷۳ء کا یہ مہینہ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس ماہ میں اگر رمضان کی عبادات کو ان کی شرائط کے ساتھ پورا کرو گے تو تمہارے لئے قبولیت دعا کے دروازے دوسرے دنوں کی نسبت اس مہینے میں زیادہ کھول دیئے جائیں گے.پس احباب کو چاہیے کہ وہ قبولیتِ دعا کے ان دروازوں میں زیادہ سے زیادہ داخل ہونے کی کوشش کریں اور اپنی ہر ذمہ داری کے متعلق یعنی ایک احمدی پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں ان میں سے ہر ذمہ داری کے متعلق خدا کے حضور عاجزانہ جھک کر یہ کہیں کہ ذمہ داری تو نے ڈال دی اور کندھے ہمارے کمزور ہیں.مگر تیری طاقتیں اور قدرتیں تو کمزور نہیں.پس یہ دعا کرتے رہیں کہ اے خدا! ہمارے کندھوں کو اپنی متصرفانہ قدرت کا سہارا دے تا کہ ہم اس بوجھ کو اٹھاسکیں اور تیری خوشنودی کو حاصل کر سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت اور رضا سے وافر حصہ عطا فرمائے.روز نامه الفضل ربوه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۷۳ ء صفحه ۲ تا ۶)

Page 311

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۹۱ خطبہ جمعہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء عیسائی، یہودی اتحاد کے مقابلہ کے لئے عالم اسلام کو متحد ہونا پڑے گا خطبه جمعه فرموده ۱۹ ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.طبیعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بہتر ہے.الْحَمْدُ لِلهِ اس وقت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جنگ لڑی جارہی ہے.عیسائی طاقتیں اور یہودی رو پید اور اثر و رسوخ ایک ایسے خطہ ارض پر مسلمانوں سے برسر پیکار ہیں جس کے متعلق شروع ہی میں یعنی ۱۹۴۸ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دنیائے اسلام کو ایک انتباہ کیا تھا.جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو اتحادیوں نے اپنے مفاد کی خاطر مسلم ممالک سے بہت سے وعدے کیے اور اس طرح اپنے وعدوں کی آڑ میں مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کیا اور دوسری طرف یہودی دولت کی لالچ میں اُن سے وعدے کیے.ان ہر دو وعدوں میں تضا دتھا جو ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کی حکومت کے قیام کی شکل میں ظاہر ہوا.اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے الْكُفْرُ مِئَةٌ وَاحِدَةٌ کے نام سے ایک مضمون میں (جو بعد میں ٹریکٹ کی صورت میں شائع بھی کر دیا گیا تھا) مسلمانوں کو یہ بتایا کہ ان کے خلاف ایک خطر ناک منصوبہ بنایا گیا ہے اب وقت ہے کہ مسلمان متحد ہوجائیں اور اس طاقت کو جو مستقبل میں بڑی بن سکتی ہے اور کسی وقت خطر ناک شکل اختیار

Page 312

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۹۲ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء کر سکتی ہے اس کو شروع ہی میں کچل دیا جائے.چنانچہ آپ نے اپنے مضمون میں تمہیداً بتایا کہ کس طرح یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر قسم کے خبیثانہ اور ظالمانہ منصوبے بنائے.آپ کو قتل کرنے اور صلح کے بہانے گھر پر بلا کر چنگی کا پاٹ کو ٹھے پر سے گرا کر مارنے کی سازشیں کیں وغیرہ.پھر اس کے بعد آپ فرماتے ہیں :.یہی دشمن ایک مقتدر حکومت کی صورت میں مدینہ کے پاس سراٹھانا چاہتا ہے شاید اس نیت سے کہ اپنے قدم مضبوط کر لینے کے بعد وہ مدینہ کی طرف بڑھے.جو مسلمان یہ خیال کرتا ہے کہ اس بات کے امکانات بہت کمزور ہیں اس کا دماغ خود کمزور ہے.عرب اس حقیقت کو سمجھتا ہے عرب جانتا ہے کہ اب یہودی عرب میں سے عربوں کو نکالنے کی فکر میں ہے اس لئے وہ اپنے جھگڑے اور اختلافات کو بھول کر متحدہ طور پر یہودیوں کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا ہے مگر کیا عربوں میں یہ طاقت ہے؟ کیا یہ معاملہ صرف عرب سے تعلق رکھتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہ عربوں میں اس مقابلہ کی طاقت ہے اور نہ یہ معاملہ صرف عربوں سے تعلق رکھتا ہے.سوال فلسطین کا نہیں ، سوال مدینہ کا ہے،سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے.سوال زید اور بکر کا نہیں سوال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا ہے.دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہو گیا ہے، کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اِس موقع پر اکٹھا نہیں ہو گا ؟“ اسی مضمون کے تسلسل میں پھر آپ فرماتے ہیں :.پس میں مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس نازک وقت کو سمجھیں اور یا درکھیں کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان الكُفْرُ مِلَّةً وَاحِدَةٌ لفظ بلفظ پورا ہورہا ہے.یہودی اور عیسائی اور دہر بیل کر اسلام کی شوکت کو مٹانے کے لئے کھڑے ہو گئے ہیں.پہلے فرداً فردایور بین اقوام مسلمانوں پر حملہ کرتی تھیں مگر اب مجموعی صورت میں ساری طاقتیں مل کر حملہ آور ہوئی ہیں.آؤ ہم سب مل کر ان کا مقابلہ کریں کیونکہ اس معاملہ میں ہم

Page 313

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۹۳ خطبہ جمعہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں کوئی اختلاف نہیں.دوسرے اختلافوں کو ان امور میں سامنے لانا جن میں اختلاف نہیں نہایت ہی بے وقوفی اور جہالت کی بات ہے.“ پس یہ وہ زبر دست انتباہ ہے جو اس فتنہ کے آغاز میں کیا گیا تھا یعنی ۱۹۴۸ء میں جب کہ اسرائیل کی حکومت معرض وجود میں آئی تھی اس میں ایک عظیم منصوبے کی طرف رہنمائی کی گئی تھی جس کے لیے تمام مسلم اقوام اور مسلم گروہوں میں اتحاد کی ضرورت تھی.پھر اس میں مسلمانوں کو عقلاً سمجھایا گیا تھا کہ تم اس وقت اختلافات کو زیر بحث نہ لاؤ اور جو عقائد اور عادات اور روایات اور بدعات کی وجہ سے اختلافات پیدا ہو گئے ہیں اُن کو بھول جاؤ کیونکہ جو مسئلہ ہمارے سامنے ہے، وہ اختلافی نہیں ہے.وہ اسلام کی عزت کی حفاظت کا سوال ہے.کوئی مسلمان یہ کبھی نہیں کہہ سکتا اور نہ اس کے دل میں یہ خیال ہی پیدا ہو سکتا ہے کہ جہاں اسلام کی عزت اور اس کی حفاظت کا سوال ہو وہاں اختلاف بھی ہو سکتا ہے.غرض آپ نے عالم اسلام پر یہ واضح کیا کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں کوئی اختلاف ہو، اس لیے ایک ایسے مسئلے میں جس میں اختلاف کی نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ اختلاف کا کوئی تصور پیدا ہو سکتا ہے، تم ایسے مسائل کو بیچ میں کیوں گھسیٹتے ہو جو اختلافی ہیں.اس وقت تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب متحد ہو کر عزت و حفاظت اسلام کی خاطر قربانیوں کے لئے تیار ہو جائیں.لیکن اس وقت تو اس عظیم انتباہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی اور آج ایک طبقہ ہمارے خلاف باتیں بنارہا ہے.اس کی تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں ہے.بہر حال ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی عزت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے.جتنا خدا مانگتا ہے، جماعت احمدیہ دیتی چلی جاتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.وَلا فَخْرَ.ہمارے اندر کوئی خوبی اور بڑائی نہیں ہے جس کے نتیجہ میں ایسا ہوا.اللہ تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ وہ اسلام کو غالب کرے اور اللہ تعالیٰ کی اس مرضی کے نتیجہ میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت ہوئی اور جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا.گویا ایک ایسی جماعت دنیا میں پیدا ہو چکی ہے جو اسلام کی خاطر اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرتی ہے اور قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے.

Page 314

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۹۴ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء پس وہ لوگ جو اس غیر اختلافی مسئلہ میں فساد کی خاطر اور وحدت اسلامی کو کمزور کرنے کی خاطر آج باتیں بنا رہے ہیں اُن کو ہم یہ کہہ سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وزیر اعظم بھٹو کی قیادت میں حکومت پاکستان اہلِ پاکستان سے جس قسم کی قربانی لینا چاہتی ہو اس میں جماعت احمد یہ نہ صرف یہ کہ دوسروں سے پیچھے نہیں رہے گی بلکہ یہ ثابت کر دے گی کہ وہ ان قربانیوں میں دوسروں سے کہیں آگے ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور اس کی بشارتوں پر ایمان رکھتے ہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ ہم کمزور ہیں اور ہم میں نہ کوئی طاقت ہے اور نہ کوئی خوبی لیکن ہم وہ ذرہ نا چیز ہیں جس کو خدا نے اپنے دست قدرت میں پکڑا اور اعلان فرمایا کہ میں اس ذرہ ناچیز کے ذریعہ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کروں گا.اس لئے جن قربانیوں کے دینے کا تصور بھی بعض لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرتا ہے اُن سے کہیں زیادہ قربانیاں ہم عملاً ایثار کے میدان میں دے دیتے ہیں.ہماری تاریخ نوع انسانی کی تاریخ اور ملک ملک کی تاریخ ہمارے اس بیان پر شاہد ہے.پس حکومت وقت یا دوسری اقوام عالم جن کا تعلق اسلام سے ہے اُن کا یہ کام ہے ( ہر فرد اگر اپنے طور پر اس قسم کے منصوبے بنائے تو فائدہ کی بجائے نقصان ہوا کرتا ہے ) کہ وہ سر جوڑیں اور منصوبے بنائیں اور پھر ہر اسلامی ملک کی ذمہ داریوں کی تعیین کریں مثلاً کہیں کہ فلاں ملک اس مہم اور مجاہدے میں یہ یہ خدمات اور قربانیاں پیش کرے یا اس قسم کا ایثار اور قربانی سامنے آنی چاہیے.جب سارے اسلامی ممالک کسی منصوبے کے ماتحت اسلام کے دشمن کو جو اپنے ہزار اختلافات کے باوجود اکٹھا ہو گیا ہے اس کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے ایک جد و جہد ،ایک عظیم جہاد اور مجاہدے کا اعلان کریں گے پھر دیکھیں گے کہ کون اس میدان میں آگے نکلتا ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اور ایک ہزار کی نسبت سے آگے نکل جائیں گے بلکہ ہم دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ آگے نکلنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.پس میں تو یہ کہتا ہوں کہ یہ باتیں بنانے کا وقت نہیں ہے اور نہ ایک دوسرے پر کیچڑ

Page 315

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۹۵ خطبہ جمعہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء اُچھالنے کا وقت ہے.یہ کام کا وقت ہے اپنی حکومت کو تو جہ دلانے ، اس کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے اور اسے تسلی دلانے کا وقت ہے کہ اس وقت جو بھی مطالبہ کیا جائے گا ہم میدانِ عمل میں وہ مطالبہ پورا کریں گے.غرض جب بھی حکومت اہلِ پاکستان سے مطالبہ کرے گی اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ دیکھیں گے کہ جماعت احمدیہ کا مقام کتنا بلند اور کتنا ارفع ہے.تاہم یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہوگا.اللہ تعالیٰ ہی پر ہمارا تو کل ہے.اسی کی قدرتوں کے جن قادرا نہ تصرفات کو ہماری آنکھوں نے مشاہدہ کیا ہے.اس کی وجہ سے ہمارے دل نتیجہ کے لحاظ سے بھی مضبوط ہیں اور قربانیوں کے لحاظ سے بھی ہشاش اور بشاش ہیں.قربانیاں دینے سے احمدی گریز نہیں کرتا.وہ مسکراتے چہرہ کے ساتھ قربانیاں دیتا چلا آیا ہے اور اب بھی قربانیاں دے رہا ہے اور قربانیاں دیتا چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالی.ایک اور ضروری بات بھی میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں کیونکہ انتظار نہیں کیا جاسکتا اس لئے طبیعت میں کمزوری کے باوجود میں وہ بات ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرنا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا ایک وقت تھا قادیان سے باہر اکا دُکا خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے واقفیت رکھتے تھے اور آپ کے مقام کو پہچانتے تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا قادیان کے ماحول میں جماعت پھیلی.پھر پنجاب میں پھیلنی شروع ہوئی.پھر متحدہ ہندوستان ( یعنی پاکستان بننے سے پہلے کے ہندوستان) میں پھیلنے لگی.پھر الہی بشارتوں کے ماتحت بیرونی دنیا میں پھیل گئی مگر ۱۹۴۴ ء تک بیرونی ہندوستان کی جماعتیں مالی قربانیوں میں بہت پیچھے تھیں حتی کہ وہ اس قابل بھی نہیں تھیں کہ ان کا نام لیا جا تا یعنی اُن کے علیحدہ کوئی کھاتے نہیں تھے آمد و خرچ کے کوئی رجسٹر نہیں تھے.اخراجات کے بجٹ نہیں بنتے تھے.گویا ان کی مالی قربانی نہ ہونے کے برابر تھی جو لوگ مالی قربانی میں حصہ لینے والے تھے ان میں شاید ۹۹ فیصد یعنی بھاری اکثریت ان لوگوں کی تھی جو اس وقت کے متحدہ ہندوستان سے باہر مختلف ملکوں میں آباد ہوئے اور وہیں دولت کما رہے تھے اور بڑی بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں

Page 316

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۹۶ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء دے رہے تھے.پھر ۱۹۴۴ء میں پہلی بار بیرونِ ملک کی جماعتوں کی مالی قربانیاں بجٹ کے ذریعہ نمایاں ہو کر جماعت کے سامنے آنی شروع ہو ئیں اور ہر سال ترقی کرتی چلی گئیں یہاں تک کہ میرا خیال ہے کہ اگر اس وقت ہر قسم کی مالی قربانیوں کو اکٹھا کیا جائے تو پاکستان کے مقابلہ میں اب متحدہ ہندوستان تو نہیں رہا جس کی ہم بات کریں.اب تو ہمارا مرکز پاکستان میں ہے اس لئے ہم پاکستان کی بات کریں گے ) کہ تحریک جدید کی ۵۰ فیصد سے زیادہ مالی قربانیاں بیرونِ پاکستان کی جماعتیں دے رہی ہیں.گویا بڑی وسعت پیدا ہوگئی ہے اور اس وقت میں اسی وسعت کی بات کر رہا ہوں مالی قربانیوں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا صرف اس وسعت کو بتانے کے لئے میں نے مالی قربانیوں کا ذکر کیا ہے.چنانچہ نائیجیریا جو ایک بہت بڑا ملک ہے وہاں بڑی بڑی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور وہاں بڑے بڑے افسر حتی کہ صوبوں کے وزراء تک احمدی ہیں اور بڑا اخلاص رکھتے ہیں.وہاں یہ حالت نہیں ہے کہ اکا دُکا خاندان احمدی ہو مثلاً کچھ عرصہ ہوا ہمیں پتہ لگا کہ سوڈان میں ایک خاندان احمدی ہے لیکن وہاں ابھی جماعت نہیں بنی لیکن نائیجیریا میں بڑی بڑی جماعتیں ہیں اور سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں.پھر غانا ہے جہاں کی ۳۰ لاکھ کی آبادی میں سے تین لاکھ سے زائد احمدی بالغ مرد اور عورتیں ہیں بچے ان کے علاوہ ہیں.یہ بھی ایک بہت بڑی جماعت ہے جو ملک کے مختلف حصوں میں پھیلی ہوئی ہے.اسی طرح سیرالیون ہے جہاں بہت بڑی جماعتیں ہیں.پھر افریقہ کے دوسرے ممالک ہیں جہاں نائیجیریا اور غانا کی طرح بڑی بڑی جماعتیں تو نہیں لیکن وہاں بڑی تیزی کے ساتھ جماعت احمدیہ کو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں.وہاں کے لوگوں میں بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ اگر ہم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات میں حصہ دار بننا ہے تو ہمیں جماعت احمد یہ میں شامل ہو جانا چاہیے.اسی طرح انگلستان ہے.اس میں بھی خدا کے فضل سے بہت بڑی جماعت ہے گو تعداد کے لحاظ سے اتنی بڑی تو نہیں جتنی افریقہ کی جماعتیں ہیں لیکن اپنی کارکردگی کے لحاظ سے بڑی جماعتوں میں شمار ہو سکتی ہے.جماعتہائے احمد یہ انگلستان نے نصرت جہاں ریزروفنڈ کے لئے

Page 317

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۹۷ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء علاوہ دوسرے چندوں کے ساڑھے بارہ لاکھ روپے کے وعدے کیے تھے جن میں سے گیارہ لاکھ سے اوپر وہ ادا بھی کر چکے ہیں.یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی اسلام کے حق میں ایک خوشگوار رو چل پڑی ہے.امریکہ میں اتنی مخلص جماعتیں ہیں کہ آپ اُن کا اندازہ نہیں کر سکتے.وہاں سے جو رپورٹیں آتی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ امریکن باشندے جماعت میں شامل ہورہے ہیں جولوگ یہاں سے نوکریوں وغیرہ کے سلسلہ میں جاتے ہیں میں اُن کی بات نہیں کر رہا) چنانچہ وہاں بھی بڑی مخلص جماعتیں قائم ہو گئی ہیں.پھر انڈونیشیا میں بہت بڑی بڑی جماعتیں ہیں.فجی آئی لینڈ میں بھی ایک بڑی تیز حرکت ہے.ماریشس کا بھی یہی حال ہے.غرضیکہ ساری دنیا میں مختلف ملکوں میں اس وقت یا تو بڑی بڑی جماعتیں ہیں یا تعداد کے لحاظ سے نسبتاً چھوٹی جماعتیں ہیں لیکن یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ اشاعتِ اسلام کے کام میں بہت وسعت پیدا ہو سکتی ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ ایک وقت میں انگریز کا یہ دعوئی تھا ( صحیح تھا یا غلط) کہ برٹش کامن ویلتھ پر سورج غروب نہیں ہوتا مگر آج وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کیونکہ کامن ویلتھ ختم ہو چکی ہے.اب ایک نیا بین الا قوامی اجتماعی وجود دنیا میں ابھرا ہے اور وہ جماعت احمد یہ اسلامیہ ہے جو اسلام کو غالب کرنے کی مہم میں مصروف ہے اور یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا کیونکہ جماعت احمد یہ ساری دنیا میں پھیل گئی ہے.پس یہ ایک حقیقت زندگی ہے جو ہمیں بھولنی نہیں چاہیے کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی وسعت حاصل ہو گئی ہے.ساری دنیا میں جماعت پھیل گئی ہے اور بہت سے ممالک میں جماعتہائے احمدیہ کی بڑی کثرت ہے.بیسیوں جماعتیں بڑا اثر و رسوخ رکھنے والی ہیں یہ ایک حقیقت زندگی ہے اور دوسری حقیقت زندگی یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے میری بعثت کی بنیادی غرض یہ ہے کہ تمام نوع انسانی کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے اُمتِ واحدہ کی شکل میں اکٹھا کیا جائے یعنی تمام بنی نوع انسان ایک خاندان اور ایک اُمت بن جائیں.اگر چہ یہ کام بڑا اہم ہے اور مشکل بھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی حرکت، اس کا پھیلاؤ اور وسعت روز افزوں ترقی پر ہے یہ گویا ایک پہلو ہے حقیقت زندگی کا

Page 318

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۹۸ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء یعنی جماعت دنیا میں پھیل گئی اور اسے بڑی وسعت حاصل ہو گئی.اس حقیقت زندگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غرض بعثت یہ تھی کہ اس کرہ ارض پر بسنے والی تمام نوع انسانی کو اکٹھا کر کے حضرت محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے.گویا آج کی زندگی کی یہ ایک دوسری حقیقت ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم فاصلے کے بعد کو ایسی شکل اختیار نہ کرنے دیں کہ تمام دنیا کو امت واحدہ بنانے کا ہمارا جو مقصد ہے اس میں کوئی روک یاستی پیدا ہو جائے یعنی جماعت ہائے احمد یہ جو مختلف ممالک میں بسنے والی ہیں ان کو قریب سے قریب تر لانے کے لئے ایک جد و جہد جاری رہنی چاہیے.یہ بڑی ضروری بات ہے ورنہ اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ اسی طرح نہ ہو جس طرح پہلے ہوا.جب مسلمانوں کا آپس کا تعلق ٹوٹ گیا، ایک دوسرے سے قطع تعلق ہو گیا اور مسلمان علیحدہ علیحدہ ٹکڑیوں میں بٹ گئے تو اسلام کی وہ شان و شوکت نہ رہی جو اسے قرونِ اولیٰ میں حاصل ہوئی تھی.اب پھر اللہ تعالیٰ کا منشا ہے کہ اسلام کو بہت بڑے پیمانے پر آخری فتح نصیب ہو.گویا غلبہ اسلام کے لئے ایک جنگ جاری ہے جنگ کے شروع میں فتح نہیں ہوا کرتی جنگ کے آخر میں فتح ہوا کرتی ہے.یہ روحانی جنگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شروع ہوئی.پھر خلفائے راشدین کی زندگی میں فتوحات ہوئیں اور پھر ان کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ اسلام عرب و عجم میں دُور دُور تک پھیل گیا.ایک طرف یورپ تک جا پہنچا دوسری طرف ترکی اور اس سے آگے یورپ کے دوسرے حصے پولینڈ تک پھیل گیا.روس میں ایک وقت میں بارہ خوانین ( پٹھانوں ) کے خاندان ریاستوں کی شکل میں خود ماسکو کے ارد گرد کے علاقوں میں حکومت کر رہے تھے پھر چین میں مسلمان گئے لیکن وہاں اتنی زیادہ وسعت اختیار نہ کر سکے.تاہم ایک بڑے پیمانے پر سارے نوع انسان کو اکٹھے کرنے کی مہم جاری ہوگئی.مگر اب اس سے بھی بڑے پیمانے پر اسلام کو فتوحات حاصل ہونے والی ہیں کیونکہ شیطانی طاقتوں سے اسلام کی یہ آخری اور ( کامیاب ) جنگ ہے کیونکہ اس وقت امریکہ کا کسی کو پتہ نہیں تھا.آسٹریلیا کا کسی کو پتہ نہیں تھا نیوزی لینڈ کا کسی کو پتہ نہیں تھا

Page 319

خطبات ناصر جلد پنجم ۲۹۹ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء انڈونیشیا کے تعلقات باقی دنیا سے بہت تھوڑے تھے اسی طرح نجی ، آئی لینڈ اور فلپائن وغیرہ کے تعلقات دوسرے خطہ ہائے ارضی سے نہیں تھے مگر اب دنیا کے ہر ملک کا دوسرے ملک سے تعلق قائم ہے اس لئے اب جہاں جہاں اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے پاؤں مضبوط کر رہا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم میلوں کے فاصلوں کو ایک دوسرے سے بعد میں تبدیل نہ ہونے دیں اور ساری دنیا کے احمدیوں کو ( جو بھی اس وقت تک نوع انسان میں سے احمدی ہو سکے ہیں ان کو ) ایک دوسرے سے قریب تر لانے کی کوشش کریں.چنانچہ اس دورے میں میرے دل میں یہ احساس بڑی شدت کے ساتھ پیدا ہوا.اس بارہ میں میں نے بہت سوچا.اس ضمن میں بہت سی باتیں تو ایسی ہیں جن کو جلسہ سالانہ سے پہلے بیان کرنا شاید مناسب نہ ہولیکن دو باتیں ایسی ہیں جن کو میں اس تمہید کے ساتھ تفصیلاً بیان کرنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا جلسہ سالانہ اور ہماری مشاورت اس قسم کے مواقع ہیں جن میں تمام دنیا کے احمدیوں کی شرکت ضروری ہو گئی ہے.فی الحال میں جلسہ سالانہ کو لوں گا.مجلس مشاورت میں ساری دنیا کے احمدی نمائندگان کی شرکت کے متعلق بعض باتیں ابھی مزید غور طلب ہیں ان پر غور کرنے کے بعد ہم انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اور اس کی ہدایت کی روشنی میں کوئی منصوبہ بنائیں گے.اس وقت تک جو بات ذہن میں ڈالی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جلسہ سالانہ کے متعلق کام شروع کر دینا چاہیے.یہ صحیح ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر شاید درجنوں کی تعداد میں یا اس سے کم بیرون جات کے احمدی جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے یہاں ہر سال آتے ہیں مگر وہ کسی منصوبہ کے ماتحت نہیں آتے.اس لئے آج میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں بسنے والی تمام احمدی جماعتیں جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی اپنی جماعت کی طرف سے وفود بھجوایا کریں جو جلسہ سالانہ میں شریک ہوں.یہاں کی تصاویر لیں یہاں کے حالات دیکھیں ، جماعت احمد یہ پر خدا تعالیٰ کی جو بے شمار رحمتیں نازل ہو رہی ہیں ان کو دیکھیں ، ان کے متعلق سنیں اور ان کو نوٹ کریں اور پھر اپنے اپنے ملک میں جا کر ان کو بیان کریں.یعنی اپنی اپنی جماعت کے احباب کو

Page 320

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء بتائیں کہ ہم جلسہ سالانہ پر گئے وہاں ہم نے یہ دیکھا اور یہ سنا کہ کس طرح دنیا میں ایک حرکت پیدا ہو رہی ہے کتنی خوش کن تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کی مہم میں کامیاب کرنے کے لئے اپنے فضل سے اس پر اپنی عنایتیں اور رحمتیں نازل کر رہا ہے اور غلبہ اسلام کے حق میں ایک عظیم حرکت ہے جو روز بروز شدت اختیار کرتی چلی جارہی ہے.پس بیرونِ پاکستان کے ہر ملک سے احمدیوں کو وفود کی شکل میں جلسہ سالانہ پر پورے انتظام کے ساتھ آنا چاہیے اس سلسلہ میں کچھ ہمیں بھی یہاں انتظام کرنا پڑے گا.مثلاً سلائیڈز کا انتظام کرنا پڑے گا.کچھ ان لوگوں کو انتظام کرنا پڑے گا مثلاً بڑی سکرین کا جس پر ٹرانس پیرنسی یعنی خاموش تصاویر دکھائی جاتی ہیں.غرض وفود کی شکل میں بیرونِ پاکستان سے احباب جماعت یہاں آئیں یہاں کا ماحول دیکھیں اور حالات معلوم کریں.جلسہ سالانہ والوں کو چاہیے کہ وہ پہلے سے ایک چھوٹا سا رسالہ ( چار ورقہ ہو یا اس سے زیادہ کا ہو کیونکہ کاغذ وغیرہ کی کمی نہیں ہے ) شائع کریں اور باہر سے آنے والوں کے لئے اسے انگریزی میں طبع کروائیں.جس میں جلسہ سالانہ کے سارے انتظامات کا تعارف کروایا گیا ہو مثلاً اتنے لنگر خانے ہیں، اتنے آدمیوں کو پچھلے سال کھانا کھلایا گیا تھا اور اب اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے بڑھ کر کھلایا جائے گا وغیرہ وغیرہ تا کہ جو دوست باہر سے آئیں وہ یہ اطلاعات لے کر جائیں.پھر اس کے علاوہ جو کچھ وہ خود دیکھیں.عقائد کے متعلق دلائل سنیں.واقعات کے متعلق میرا تبصرہ نہیں جو ساری جماعت کے بارہ میں میری پہلی تقریر میں ہوتا ہے.پھر علوم قرآنی جو موجودہ مسائل کو حل کرنے والے ہیں.وہ ان کے کانوں میں پڑیں اور واپس جا کر اپنی اپنی جماعت میں اپنے تاثرات بیان کریں.ایک اور بات بھی یہاں کے انتظام سے تعلق رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ باہر سے آنے والوں میں سے اکثر وہ لوگ ہوں گے جو انگریزی سمجھتے ہوں گے اور اکثر وہ ہوں گے جو اردو نہیں سمجھتے ہوں گے.اس لئے تحریک جدید ابھی سے پلان (Plan) کرے انگریزی بولنے والے اتنے آدمی موجود ہونے چاہئیں کہ ایک ایک آدمی ہر وفد کے ساتھ لگ جائے.جو سونے کے وقت تک

Page 321

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء سوا ہر وقت ان کے ساتھ رہے تا کہ ہر وفد کے اراکین جلسہ سالانہ کی کارروائی سمجھ سکیں.یہاں ہمارے جلسہ کی کارروائی اس زبان میں ہوتی ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسرار قر آنیہ کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے یعنی اردو میں.اس لئے ترجمانی ضروری ہے.پھر کچھ ایسے وفود بھی ہوں گے جو انگریزی بھی نہیں جانتے ہوں گے مثلاً یوگوسلاوین احمدی جن کو میں جلسہ سالانہ پر آنے کی دعوت دے کر آیا ہوں اور جن میں سے دو کی اطلاع تو مجھے مل گئی ہے کہ وہ بڑے شوق سے آئیں گے وہ مختلف جگہوں کے رہنے والے ہیں ایک تیسری جگہ کے احمدی خاندانوں میں سے بھی ایک کو بلایا گیا ہے.اب ان کے ساتھ اسی آدمی کو لگانا پڑے گا جو ان کی زبان جانتا ہو ورنہ مقصد پورا نہیں ہو سکے گا.ہمارے یہاں یہ مسئلہ نمبر ۲ کی شکل میں آ جائے گا یعنی یہ کہ مختلف زبا نہیں جاننے والے کثرت سے تیار کرنے چاہئیں (جن کا تعلق پاکستان سے ہو تو بہتر ہے ) جو فرانسیسی زبان جانتے ہوں ، جرمن زبان جانتے ہوں، یوگوسلا و بین زبان جانتے ہوں ، البانین زبان جانتے ہوں اسی طرح افریقہ میں تو گو انگریزی بولی اور سمجھی جاتی ہے لیکن اگر تھوڑی بہت سواحیلی اور ہاؤ سا زبان یا جو بعض دوسری افریقین زبانیں بولی جاتی ہیں وہ بھی سیکھنی چاہئیں.ہمارے مبلغین جو وہاں سے آتے ہیں وہ اگر یہ زبانیں جانتے ہوں تو ان سے کام لیا جاسکتا ہے.بہر حال یہ کام ہمیں کرنا پڑے گا.یہ تو ٹھیک ہے کہ اس پر کچھ وقت تو ضرور لگے گا لیکن و کو أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَدُّ واله عُدَّةٌ (التوبة : ۴۶) کی رُو سے ہمارے اس ارادے کی عملی شکل بھی ظاہر ہونی چاہیے.پس جب ہم نے یہ ارادہ کر لیا ہے تو اب خدا تعالیٰ کی راہ میں کسی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی ترک نہیں کرنا جو غلبہ اسلام کی اس مہم میں مفید اور محمد و معاون ہوتا ہم اس وقت میں زبانوں کے سیکھنے کے بارے میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.اس سلسلہ میں ایک منصوبہ میرے ذہن میں ہے جسے بروئے کارلانے کے لئے جلد عملی قدم اٹھایا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ جہاں تک جلسہ سالانہ پر بیرونِ ملک سے احمدی احباب کا وفود کی شکل میں آنے کا تعلق ہے اس سال چونکہ جلسہ سالانہ میں بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے اس لئے میں ابھی اس کو لازمی قرار

Page 322

خطبات ناصر جلد پنجم ٣٠٢ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء نہیں دیتا لیکن جہاں تک ممکن ہو تحریک جدید پورا زور لگائے کہ ملک ملک سے دوست وفود کی شکل میں تشریف لائیں جن میں زیادہ تر مقامی باشندے ہوں یعنی یہ نہ ہو کہ ہمارے پاکستانی دوست جو باہر گئے ہوئے ہیں اور وہ وہاں پیسے کما رہے ہیں اور انہوں نے اپنی چھٹی کا ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ وہ جلسہ سالانہ پر آجائیں ان کو وفد میں شامل کر لیا جائے یا صرف انہی سے وفد تشکیل کر لیا جائے.ٹھیک ہے اگر ایسے دوست کی نیت نیک ہے تو چونکہ خدا تعالیٰ بڑا د یا لو ہے وہ اس کی نیک نیتی اور قربانی کی اسے بہترین جزا عطا فرمائے گا لیکن جو بات میں کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ایسے وفود آئیں جن کا مقصد صرف جلسہ سالانہ کی برکات سے متمتع ہونا ہو اور جو فوراً واپس بھی چلے جائیں.مگر چھٹی پر آنے والے دوستوں کے کئی مقاصد ہوتے ہیں مثلاً پچھلے سال جلسہ سالانہ اور حج اور پھر واپس گھر پہنچنے کے درمیان قریباً ڈیڑھ دو مہینے کا فرق تھا.چنانچہ کئی دوست بیرونی ممالک سے تشریف لائے انہوں نے جلسہ سالانہ سُنا اور پھر فریضہ حج ادا کرنے کی سعادت بھی پائی.یہ ایک بہت بڑے ثواب کا کام ہے.ہمارے اکثر دوست جن کے حج کی راہ میں جہالت اور غفلت آڑے نہیں آتی یا قرآن کریم سے لا پرواہی کے نتیجہ میں جن پر حج کی راہیں بند نہیں کر دی جاتیں وہ حج کرتے ہیں اور ثواب پاتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانتے ہیں اور اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مکہ مکرمہ میں پہنچ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو احسن جزا عطا فرمائے.یہ اپنی جگہ ایک بہت بڑی نیکی کا کام ہے لیکن وفود کی شکل میں دوستوں کا جلسہ سالانہ پر آنا دراصل حج اور دوسری نیکیوں کے حصول کے لئے مخلصانہ تڑپ پیدا کرنے کے مترادف ہے یعنی اس طرح ایسی جماعت پیدا کرنا مقصد ہے جن کے دل ہر وقت اخلاص کے ساتھ قرب الہی کے حصول کے لئے بے قرار اور رحمت الہی کی تلاش میں سرگرداں ہوں.پس یہ منصوبہ دراصل حج کی تڑپ رکھنے والی جماعت تیار کرنے کا منصوبہ ہے جو تمام روکوں کو پھلانگ کر فریضہ حج ادا کر سکے اس لئے بیرونِ ملک سے وفود کی شکل میں دوست جلسہ سالانہ پر تشریف لائیں اور پھر ادھر اُدھر ٹھہرے بغیر وہ واپس چلے جائیں اس طرح وہ وہاں جا کر جو کام کریں گے اس کے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ لوگ حج کرنے کی کوشش کریں گے.کچھ کو روکا جائے گا اور کئی ساری روکوں کے باوجود دیارِ حرم

Page 323

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۰۳ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں پہنچ جائیں گے.یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے.بہر حال زیادہ سے زیادہ وفود کی شرکت اس سال سے شروع ہو جانی چاہیے.ایک اور بات جس کا میں اس وقت اعلان کرنا چاہتا ہوں وہ قلم دوستی ہے اور یہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں سے ایک ہے جو ملک ملک کے درمیان قرب پیدا کرنے کے لئے ہیں.قلم دوستی ایک منصوبہ کے ماتحت عمل میں آنی چاہیے مثلاً انگلستان اور دوسرے ملکوں سے پتہ لیا جائے اور مجھے رپورٹ ملنی چاہیے کہ انگلستان میں اس قدر احباب تیار ہیں ( مجھے امید ہے انگلستان میں رہنے والوں میں سے پانچ سو نو جوان مل جائیں گے.شروع میں ایک سو تو یقینی مل جائیں گے ) اتنے نائیجیریا کے تیار ہیں، اتنے غانا کے تیار ہیں ، اتنے آئیوری کوسٹ کے تیار ہیں، اتنے لائبیریا کے تیار ہیں، اتنے سیرالیون کے تیار ہیں ، اتنے گیمبیا کے تیار ہیں ، اتنے سینیگال کے تیار ہیں اور بھی کئی ملکوں میں ہماری احمدی جماعتیں قائم ہیں ان میں سے بھی چاہیے احباب تیار ہوں کیونکہ اس تحریک میں ضرور شامل ہونا چاہیے.اسی طرح نجی کے رہنے والے، انڈونیشیا کے رہنے والے، آسٹریلیا کے رہنے والے، یورپین ممالک کے رہنے والے، ہندوستان کے رہنے والے، پاکستان کے رہنے والے مصر کے رہنے والے سعودی عرب کے رہنے والے ( کوئی یہ نہ سمجھے کہ عرب ممالک میں کوئی احمدی نہیں دنیا مخالفت کرتی ہے تو کرتی رہے وہاں احمدی ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ) ابوظہبی میں رہنے والے غرض مشرق وسطی کے سارے ممالک میں رہنے والے احمدی قلم دوستی کی مجالس میں شامل ہونے کے لئے اپنے نام پیش کریں.پھر ایک منصوبہ کے ماتحت ان کی آپس میں دوستیاں قائم کیں جائیں گی.اس قسم کے قریبی اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی مثال ایک شاندار رنگ میں اور شاندار پیمانے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتی ہے.اب چونکہ اُمت محمد یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے اس صورت میں ان میں دوستانہ اور قریبی تعلقات پیدا کرنے کی ایک راہ یہ ہے کہ ان کی آپس میں قلم دوستی ہو.اس کا اثر اس مثال سے واضح ہو جائے گا کہ فرض کریں سوئٹزرلینڈ میں ہماری ایک چھوٹی سی جماعت ہے.ہمارے سوئس دوست جو پہلے عیسائی تھے یاد ہر یہ تھے وہ

Page 324

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۰۴ خطبہ جمعہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء احمدی مسلمان بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جماعت احمدیہ کے سپر د جو کام کیا ہے وہ اس میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں پس سوئٹزرلینڈ میں گوابھی ہماری ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن اگر وہاں سے دس آدمی قلم دوستی کے لیے تیار ہوں اور ان میں سے دور بوہ میں خط و کتابت کر رہے ہوں، ایک نائیجیریا سے خط و کتابت کر رہا ہو، ایک غانا سے خط وکتابت کر رہا ہو، ایک سیرالیون سے خط و کتابت کر رہا ہو، ایک انڈونیشیا سے خط و کتابت کر رہا ہو، ایک شمالی امریکہ سے خط و کتابت کر رہا ہو ، ایک انگلستان سے خط و کتابت کر رہا ہو اسی طرح اگر ملک ملک میں ایک دوسرے سے قلم کا تعلق قائم ہو جائے اور دوست آپس میں خط و کتابت کر نے لگیں تو اس باہمی اخوت سے خوشگوار تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا.اب مثلاً سوئٹزرلینڈ کے دس آدمی ہر پندرھویں دن یا ہر مہینے خط لکھیں گے اور ملک ملک سے ان کو جواب ملیں گے تو جب جمعہ اور اتوار کو یہ اکٹھے ہوں گے اور سر جوڑیں گے اور آپس میں باتیں کریں گے تو ایک کہے گا مجھے ( ربوہ سے ) میرے قلم دوست نے مثلاً مجھے یہ اطلاع بھیجی ہے کہ مشاورت اس اس طرح اختتام پذیر ہوئی ہے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے اور نوع انسان کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے یہ یہ سکیمیں بنی ہیں اور یہ ہوا اور وہ ہوا.دوسرا کہے گا مجھے نائیجیریا سے میرے قلم دوست کا خط ملا ہے اس نے لکھا ہے کہ ہم نے یہاں اتنے اور میڈیکل سنٹر بنا دیئے اور اتنے مزید سکول کھول لئے ہیں اور اتنے لوگ جو پہلے بت پرست تھے اب توحید کا کلمہ پڑھنے لگ گئے ہیں.لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا پیارا کلمہ ان کی زبانوں پر جاری ہو گیا ہے اسی طرح ان میں سے ایک یہ کہے گا کہ مجھے امریکہ سے خط آیا ہے جس میں اس کے قلم دوست نے لکھا ہے کہ اس طرح ہم نے غلبہ اسلام کے لئے گھنٹہ بھر رو رو کر دعائیں کیں یہاں تک کہ ہماری آنکھوں سے آنسو نہیں تھمتے تھے.ایک اور سوئس دوست کہے گا مجھے میرے قلم دوست نے انگلستان سے خط لکھا ہے کہ ہماری جماعت یہ یہ اچھا کام کر رہی ہے.پس اس طرح ہم تبلیغ کر رہے ہیں (انگلستان میں اکثر یوم التبلیغ منایا جاتا ہے ) اور اس اس طرح تبلیغی وفود گئے اور کامیاب ہو کر واپس آئے.

Page 325

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۰۵ خطبہ جمعہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء غرض سوئٹزرلینڈ کے دس کے دس احباب جب اکٹھے مل کر بیٹھیں گے تو آپس میں تبادلۂ خیال کریں گے ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جو نظارے احمدی دیکھ رہے ہیں ان کے متعلق مختلف احباب کے تاثرات اکٹھے ہو جائیں گے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو علمی اور تبلیغی لحاظ سے حسین اور خوشکن اثر پیدا کرے گی.پس دوسری بات جس کا میں اعلان کر رہا ہوں وہ قلم دوستی کی تحریک ہے دوست جہاں یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے صحت دے اور کام آنے کی توفیق عطا فرمائے وہاں یہ دعا بھی کریں کہ جتنے آدمی اس وقت اس تحریک کے لئے درکار ہیں وہ مل جائیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ میرے دماغ میں منصوبے ڈالتا ہے اور کام کرنے کی تفصیلات بھی بتا تا ہے لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ میرے پاس ایسے دوست ہونے چاہئیں جن کو میں یہ کہوں کہ یہ کام کرو.یہ ساری باتیں اور یہ سارے کام میں اکیلا تو نہیں کرسکتا سوائے اس کے کہ پانچ سو گھنٹے کا ایک دن ہو جائے اور اس کا کچھ حصہ میں کام کر جاؤں لیکن دن تو بیچارہ چوبیس گھنٹے سے آگے نہیں بڑھ سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ نہ سورج چاند کو پکڑ سکتا ہے اور نہ چاند سورج کو ، دن اور رات کا فرق تو یہی رہنا ہے.انسانی جسم کی اپنی حد بندیاں ہیں.ہر انسان خواہ وہ پہلوان ہو یا عام آدمی ہو اس کا جسم ایک وقت میں جا کر تھک جاتا ہے اسے سونے اور آرام کرنے کی ضرورت پڑتی ہے پھر جو کام ہوتا ہے اس کی ترتیب ہوتی ہے کچھ وقت ہم احمدیوں کا تلاوت قرآن کریم پر لگتا ہے کچھ وقت ہم احمدیوں کا قرآنِ کریم کی مختلف آیات کی تفسیر اور ان کے معانی پر غور کرنے پر خرچ ہوتا ہے کچھ وقت ہم احمدیوں کا مطالعہ پر خرچ ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت احمدیہ کو مجموعی طور پر اتنا اعلیٰ دماغ اور روشن دل عطا ہوا ہے جس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی اور یہ اس لئے ہے کہ دوست ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں میرے خطبے سنتے ہیں جن میں میں مختلف مسائل اور موضوعات پر باتیں کرتا ہوں.میں بعض دفعہ جان بوجھ کر چھوٹی چھوٹی تفصیلات بتا دیتا ہوں جس نے کوئی تفصیلی بات پہلے سنی ہوتی ہے وہ کہہ دیتا ہے حضرت صاحب نے یہ کیا بات شروع کر دی ہے چھوٹی چھوٹی باتوں کی تفصیل بیان کرنے لگ گئے

Page 326

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء ہیں مثلاً میں نے اپنے پچھلے خطبہ میں بلڈ پریشر (خون کے دباؤ ) کے متعلق بات کی تھی اور جان بوجھ کر اس کی تفصیل بیان کر دی تھی اس لئے کہ ہمارے بہت سے بچے اور بعض دوسرے لوگ بھی اس کی تفصیل نہیں جانتے اور یہ ایک ایسی بات ہے جو ان کے علم میں آنی چاہیے.خدا تعالیٰ کی صفات سے متصف ہونا ہماری زندگی کا ایک بنیادی مقصد ہے اور اس کا ہمیں بنیادی طور پر حکم بھی دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی قرآنِ کریم کی یہ تعلیم پیش کی ہے.آپ سے پہلے جتنے بزرگ گزرے ہیں وہ بھی یہی تعلیم پیش کرتے رہے اور آپ کے بعد بھی یہی پیش کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنے اوپر صفات باری کا رنگ چڑھانا ہے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت اس کا عَلامُ الْغُيُوبِ ہونا ہے یعنی اس کا ئنات کی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے ہم نے بھی اس صفت سے متصف ہونا ہے مگر ایک محدود دائرہ کے اندر ہم پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ خدائ عَلامُ الْغُيُوبِ کی طرح کوئی چیز بھی ہم سے بھی پوشیدہ نہ ہولیکن ہم پر یہ ذمہ داری ضرور ہے کہ اپنی استعداد کے مطابق جتنی غیب کی چیزیں حاضر میں لائی جاسکتی ہیں اتنی حاضر میں لانی یا ہمارے علم میں آنی چاہئیں اور اس طرح ہمارا علم بڑھنا چاہیے.پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم کتابیں پڑھنے والی قوم ہیں ہم علمی باتیں سننے والی قوم ہیں.ہم باہمی تبادلۂ خیال کرنے والی قوم ہیں، ہم دوسروں سے کہیں زیادہ اور بلا جھجک سوال کرنے والی قوم ہیں ، ہمارے دل میں اگر کوئی سوال پیدا ہوتا ہے تو ہم بلا جھجک اس کا حل تلاش کر نے والی قوم ہیں.آپ باہر نکلیں تو پتہ لگتا ہے کہ جماعت کی علمی استعداد کہاں تک پہنچی ہوئی ہے.اس سفر میں مجھے بعض دفعہ پر یس کا نفرنس میں یہ کہنا پڑا کہ مجھ سے حجاب کی کیا ضرورت ہے میں تو ایک درویش آدمی ہوں.تمہارے دل میں جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ کرو تا کہ ہر قسم کی غلط فہمیاں دُور ہو جائیں لیکن بعض دفعہ میں یہ محسوس کرتا تھا کہ صحافی جھجک محسوس کر رہے ہیں حالانکہ ہم تو سیدھے سادھے لوگ ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کا ایک پہلو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ( ص : ۸۷) اس لئے کسی قسم کا تکلف نہیں چاہیے.پیار سے باتیں کرنی چاہئیں بعض لوگ پیار سے جواب دیتے ہیں.بعض

Page 327

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۰۷ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء جواب نہیں بھی دیتے ہوں گے.وہ غلطی کرتے ہیں پیار سے جو سوال کیا جائے اس کا پیار سے جواب ملنا چاہیے ورنہ علم نہیں بڑھتا.تا ہم اس کے لئے پیار کا ماحول اور پیار کی فضا پیدا کرنی ضروری ہے.یہاں تک کہ جو چھوٹے بچے مسجد میں آجاتے ہیں اور بعض ان میں سے سو بھی جاتے ہیں اُن کو جگانا نہیں چاہیے وہ کچھ باتیں سن لیتے ہیں کچھ لیٹے لیٹے ان کے کان میں پڑ جاتی ہیں اور نہ سہی تو مسجد میں اچھی خوا ہیں دیکھ لیں گے.اس لئے چھوٹے بچوں کو مسجد میں آنے سے روکنا نہیں چاہیے.مسجد کے ساتھ ان کا پیار قائم رہنا چاہیے.غرض میں بتایہ رہا ہوں کہ ہم عَلاهُ الْغُيُوبِ تو نہیں بن سکتے لیکن ہمیں اس صفت کا مظہر بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں.چنانچہ ساری دنیا کے حالات وغیرہ جاننے کے سلسلہ میں باہمی خط و کتابت یعنی قلم دوستی کی جس سکیم کا میں نے اعلان کیا ہے اس سے علم بڑھے گا.دوست ایک دوسرے سے خطوط کے ذریعہ مختلف علوم سیکھیں گے.مختلف حالات اور واقعات سے آگاہ ہوں گے مثلاً لوگ افطاری کس چیز سے کرتے ہیں اب مثلاً کھجور ہے یہ ہمارے روزے کی افطاری کا ایک نشان ہے.بعض جگہ کھجوریں مل جاتی ہیں لیکن کئی گھروں میں کھجور میتر نہیں آتی کئی ملکوں میں کھجور پیدا ہی نہیں ہوتی ڈبوں میں بند بھی نہیں ملتی یا یہ کہ لوگ کھانا کیا کھاتے ہیں.غرض اس قسم کی بے شمار معلومات بڑی دلچسپ ہوتی ہیں.میں جب ۳۷- ۱۹۳۶ء میں انگلستان میں پڑھا کرتا تھا تو ایک دفعہ میں نے ایک انگریز دیہاتی بچے سے پوچھا تم نے کل شام کو کیا کھایا تھا کہنے لگا اُبلے ہوئے آلو.میں نے کہا تم نے کل دو پہر کو کیا کھایا تھا کہنے لگا اُبلے ہوئے آلو پھر میں نے پوچھا تم نے کل صبح ناشتہ کس چیز کا کیا تھا کہنے لگا اُبلے ہوئے آلو.گویا وہ سارا دن اُبلے ہوئے آلو استعمال کرتا رہا.اس سے مجھے پتہ لگا کہ جس طرح یہاں کا غریب آدمی روکھی روٹی کھاتا ہے وہاں کے غریب لوگ آلو ابال کر کھا لیتے ہیں.روکھی روٹی میں تو پھر بھی کچھ مزہ ہوتا ہے لیکن ابلے ہوئے آلوؤں میں تو کچھ بھی مزہ نہیں ہوتا معلوم ہوا وہ بیچارے بڑے ہی غریب لوگ تھے.یہاں تو لوگ روکھی روٹی سالن کی عدم موجودگی میں نمک مرچ کی چٹنی کے ساتھ کھا لیتے ہیں لیکن وہاں تو لوگ صرف نمک لگا کر آلو

Page 328

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۰۸ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء کھالیتے ہیں.تاہم اب وہاں کی یہ حالت نہیں ہے اب تو وہاں کا غریب آدمی بھی اتنا کھاتا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ گویا پہلوان بنا ہوا ہے.دراصل وہ لوگ اقتصادی لحاظ سے بڑی ترقی کر گئے ہیں.میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں اور مفید بھی.اس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ مختلف ملکوں میں کیا پکتا ہے اور کیا کھایا جاتا ہے اور لوگوں کی عادتیں کیسی ہیں وغیرہ.میں نے ۱۹۷۰ ء میں جب مغربی افریقہ کا دورہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ افریقہ میں لوگ میٹھا نہیں کھاتے.چنانچہ سیرالیون کے گورنر نے ہماری دعوت کی ہم نے ان کی جوابی دعوت کی جس میں میں نے منصورہ بیگم سے کہہ کر بڑے پیار سے گورنر صاحب کی خاطر ایک ایسا میٹھا کھانا تیار کروایا جوصرف ہمارے گھر میں پکتا ہے اور کوئی آدمی اس کو پکا نا جانتا ہی نہیں ہم اسے ملائی کے گلگلے کہتے ہیں اس نام کی کوئی چیز شاید کسی اور جگہ مل جائے مگر یہ چیز جو ہمارے گھر پکتی ہے وہ اور کہیں نہیں ملتی.چنانچہ ہم نے بڑی مشکل سے اس کے اجزاء ا کٹھے کئے جو اس میں پڑتے ہیں.منصورہ بیگم خود باورچی خانہ میں گئیں جہاں ہمارے احمدی اساتذہ کی مستورات کھانا وغیرہ تیار کرتی تھیں اور اپنی نگرانی میں اسے تیار کر وایا مگر جب کھانے پر بیٹھے تو گورنر جنرل صاحب کہنے لگے میں تو میٹھا نہیں کھایا کرتا.میں نے کہا لو! ایک نیا علم حاصل ہوا.خیر میں نے ان سے کہا آپ میٹھا نہیں کھایا کرتے ، ٹھیک ہے نہ کھایا کریں لیکن یہ چیز سوائے آج کی اس دعوت کے اور کہیں نہیں ملے گی کیونکہ یہ ہمارے گھر کا نسخہ ہے اس لئے چکھ کے تو دیکھ لیں.چنانچہ میرے کہنے اور زور دینے پر انہوں نے تھوڑا سا ٹکڑا لے کر کھا لیا لیکن باقی وزراء اور جج صاحبان اور دوسرے معزز افریقن دوست جو میرے قریب نہیں بیٹھے ہوئے تھے اور جن کو میں اصرار سے منوانہ سکا انہوں نے میٹھا نہیں کھایا ہوگا.اب دیکھو ایک ملک ہے جہاں کے لوگ میٹھا کھاتے ہی نہیں اور ایک ملک ہے مثلاً ہمارا پاکستان جس میں کروڑوں روپے کی کھانڈ باہر سے منگوانی پڑتی ہے.چنانچہ کچھ عرصہ ہوا حکومت کو اس غرض کے لئے ساٹھ کروڑ روپے کا زرمبادلہ خرچ کرنا پڑا اور یہ بڑا ظلم ہے.چاہیے تو یہ تھا کہ اتنی بڑی زرمبادلہ کی رقم کسی اور مفید چیز کے منگوانے پر خرچ ہوتی مگر حکومت مجبور ہے لوگ کہتے

Page 329

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۰۹ خطبه جمعه ۱/۱۹ کتوبر ۱۹۷۳ء ہیں ہم میٹھے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے حالانکہ باپ تو تمہارا گڑ اور شکر کھایا کرتا تھا تم اتنی جلدی کھانڈ پر کیسے آگئے تمہارے باپ دادوں میں سے ۹۹۹ اس قسم کا گڑ کھایا کرتے تھے جس کو تم آج ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرو گے کیونکہ اس وقت تک میل کاٹنے والے آلات اور کیمیاوی نسخے نہیں بنے تھے گنا عام تھا اس سے گڑ بنا لیا جاتا تھا اور اسے عیش کی چیز سمجھا جاتا تھا.میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ میں علم بڑھانے کے لئے ہر چیز کا مشاہدہ کرتا رہتا ہوں.ایک دفعہ ہم صبح سویرے تیتر کا شکار کرنے کے لئے باہر گئے تو ہم ایک ایسے کنویں پر جا پہنچے جہاں ایک زمیندار جس نے ساری رات کنواں چلوایا تھا بیٹھا ہوا تھا.ہم نے وہاں موٹریں کھڑی کیں اور سوچا کہ اسی جگہ ڈیرہ ڈال لیتے ہیں دو پہر کے کھانے کے وقت پانی مل جائے گا صبح کا وقت تھا.اس زمیندار کی بیوی اس کے لئے کھانا لے کر آئی مجھے خیال آیا کہ دیکھنا چاہیے کہ ساری رات بیچارہ کام کرتا رہا ہے اب یہ کھائے گا تو کیا کھائے گا.چنانچہ میں السلام علیکم کہہ کر اس کے پاس چلا گیا اور کہا میں تمہارا مہمان آیا ہوں کیا تم اپنے مہمان کو بھی کھانے کا پوچھو گے؟ کہنے لگا کیوں نہیں پوچھوں گا.خیر میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور دیکھا کہ باجرے کی روٹی ہے جس میں گھی ملا ہوا ہے میں نے روٹی کا ایک ٹکڑا لیا اور اس سے اتنی لذت حاصل کی کہ کوئی حد نہیں.مکھن کی وجہ سے وہ چکنی ہو گئی تھی اس کے ساتھ سرخ مرچ تھی.میں سرخ مرچ استعمال نہیں کرتا کیونکہ اس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے.میں نے روٹی کا صرف ایک ٹکڑا اٹھالیا اور اس سے بڑی لذت حاصل کی.میں نے تو صرف یہ علم حاصل کرنا تھا کہ ساری رات کام کرتے کرتے تھکا ہوا یہ زمیندار کیا کھا رہا ہے.چنانچہ جب میں باجرے کی روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کھا کر اٹھا تو اس کی بیوی جو ایک طرف بیٹھی ہوئی تھی کہنے لگی اے وی تے لوجی میں نے سمجھا اپنے خاوند کے پیار میں خاص طور پر کوئی بہت ہی اچھی چیز لائی ہے جس کے متعلق اس نے سمجھا ہے کہ اس میں مہمان کو بھی شریک کرنا چاہیے.جب اس کے چھائے کو دیکھا تو اس میں گڑ کی ڈلیاں پڑی ہوئی تھیں اور یہ اس کے لئے ایک بہت بڑی چیز تھی.اس نے سمجھا مہمان بغیر گڑ کھانے کے جا رہا ہے اسے گڑ پیش کرنا چاہیے لیکن اب یہ نوبت آ پہنچی ہے کہ گویا ہم کھانڈ کے بغیر زندہ رہ ہی نہیں سکتے خواہ ملک اقتصادی

Page 330

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۱۰ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء طور پر کمزور ہی کیوں نہ ہو جائے کھانڈ ضرور استعمال کرنی ہے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ساٹھ کروڑ روپے کی کھانڈ باہر سے درآمد کی گئی.اس کی بجائے اور کئی مفید اور ضروری اشیاء مثلاً مشینری وغیرہ منگوائی جاسکتی تھی جس سے ملک کو فائدہ پہنچتا یا قرآن کریم کی اشاعت کے لئے پریس کی مشینری منگوانے کے لئے ہمیں زرمبادلہ کی ضرورت ہے اس کے لئے زرمبادلہ بچایا جا سکتا تھا.یہ تو ایک کار ثواب ہے کھانڈ منگوا منگوا کر اور میٹھا گھول گھول کر پی لینے کا کیا فائدہ ہے؟ صرف افریقہ ہی نہیں جہاں میٹھا کھایا ہی نہیں جاتا چین میں بھی بہت کم استعمال ہوتا ہے میرے خیال میں چین نے ایک چھٹانک چینی بھی باہر سے کبھی نہیں منگوائی ہوگی.جس شکل میں وہ میٹھا بناتے ہیں اسی میں استعمال کر لیتے ہیں مثلاً گڑ ہے وہ استعمال کر لیا.شکر ہے تو وہ استعمال کر لی یا اگر کہیں کھانڈ بنانے کے کارخانے ہیں تو کھانڈ کی شکل میں استعمال کر لیتے ہیں.گو یاملکی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں باہر سے منگوانے پر پیسے ضائع نہیں کرتے.یہ ساری چیزیں جو میں نے اس وقت آپ کو بتائی ہیں ان میں سے بعض کا شاید آپ کو پتہ نہیں ہوگا اور اس طرح آپ کو نئے نئے علم حاصل ہو گئے.اپنے ملک کے فائدہ کے لئے بہت ساری چیزیں سوچنی پڑتی ہیں مثلاً اگر کسی ملک کے ہیں فیصد لوگ کھڑے ہوجائیں اور مطالبہ کریں کہ کھانڈ باہر سے نہ منگوائی جائے تو اس سے اس ملک کی اقتصادی حالت بدل جائے.اگر ہمارے افریقن بھائی کھانڈ کا استعمال کئے بغیر طاقتور اور ہم سے زیادہ قوت کے ساتھ محنت کر سکتے ہیں اور زندگی گزار سکتے ہیں تو ہم اس کے بغیر زندہ کیوں نہیں رہ سکتے.پس ایک تو میں نے یہ کہا ہے کہ بیرونِ پاکستان کے احباب وفود کی شکل میں جلسہ سالانہ پر آئیں.زیادہ سے زیادہ وفود آنے چاہئیں.اس سال ابتدا ہو جائے گی.اِنْ شَاءَ اللهُ تَعَالٰی.اگلے دو تین سال میں اس کا پورا انتظام ہو جائے گا اور ہر ملک جلسہ میں شمولیت کے لئے اپنا وفد بھجوائے گا.یہاں ان کے لئے رہائش کا انتظام کرنا ہے.اکرام ضیف کے حکم کے ماتحت ان کی عادتوں کے مطابق ان کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا انتظام کرنا ہے ان کے ساتھ ایسے آدمی رکھنے ہیں جو ان کو ساری چیزیں بتاتے رہیں.پھر ان کے لئے ایسا انتظام کرنا ہے کہ جب وہ

Page 331

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۱۱ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء واپس جائیں تو ان کو ساری چیزیں بھولی ہوئی نہ ہوں بلکہ کچھ تصاویر کی شکل میں اور کچھ حافظہ کی مدد سے وہ اپنی اپنی جماعت میں جلسہ سالانہ کی روئداد بیان کریں اور بتائیں کہ انڈونیشیا کے وفد سے ملے تو اس نے ہمیں یہ باتیں بتا ئیں امریکہ کے وفد سے ملے تو اس نے ہمیں یہ باتیں بتا ئیں.غرض یہ وفود اپنے اپنے ملک میں جا کر تقاریر کا ایک سلسلہ جاری کریں گے اور دوستوں کو بتائیں گے کہ جماعت احمد یہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے.دیر کی بات ہے میں اس وقت کالج کا پرنسپل اور افسر جلسہ سالانہ بھی تھا.ہمارے ایک افریقن دوست جلسہ سالانہ پر تشریف لائے ہوئے تھے.۲۵ / دسمبر کی شام کو وہ باہر ٹہل رہے تھے کہ اسی اٹھنا میں سیالکوٹ کی طرف سے ایک سپیشل ٹرین آئی جس میں اتنی بھیڑ تھی کہ بعض لوگ دروازوں کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے اور وہ سب نعرے لگا رہے تھے ہمارے اس افریقن دوست نے جب یہ نظارہ دیکھا تو پوچھنے لگے کہ یہ سارے احمدی ہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ ہاں یہ سارے ماشاء اللہ احمدی ہیں.ابھی وہ وہیں کھڑے تھے کہ ایک اور پیشل آگئی اور وہ بھی بھری ہوئی تھی اور جس میں سے دوست نعرے لگا رہے تھے.انہوں نے جب دوبارہ یہ نظارہ دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو گئے اور فرط جذبات سے کہنے لگے یہ بھی سارے احمدی ہیں اتنے زیادہ احمدی ہیں؟ اب ان کا اپنے ملک میں احمدیوں کا تصور اور تھا مگر جب انہوں نے یہاں آکر دیکھا تو نقشہ ہی اور تھا.کانوں سے سننے اور آنکھوں سے دیکھنے میں بڑا فرق ہوتا ہے اور اس کا ایک تجربہ جلسہ سالانہ پر آنے ہی سے ہوتا ہے.پس وفود کی شکل میں جب ہر ملک سے دوست جلسہ سالانہ پر آئیں گے اور یہاں کے حالات کو دیکھیں گے تو ان کا علم بڑھے گا.میں نے بتایا تھا کہ ایک یوگوسلاوین جسے میں مہمان بنا کر انگلستان کے جلسہ پر لے گیا تھا.وہ سولہ سو آدمیوں کا جلسہ دیکھنے کے بعد کہنے لگا.جب میں نے واپس جا کر اپنے دوستوں سے باتیں کیں تو وہ کہیں گے تم گپیں ماررہے ہو.اتنے احمدی کہاں سے آگئے.وہ افسوس کر رہا تھا کہ اگر تصویریں لے کر جاتا تو ان کو پتہ لگتا.اب میں نے اس کو کہا ہے کہ کیمرہ اپنے ساتھ لے کر آنا کیونکہ یہاں تو اسے دنیا ہی اور نظر آتی ہے.جو شخص یہاں لاکھ

Page 332

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۱۲ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء سوالا کھ احمدی دیکھے گا اس کا علم بہت بڑھ جائے گا.اس کی اگر تصاویر لے لی جائیں تو وہ شخص جو زبانی باتیں نہیں مانتا جب تصویریں دیکھتا ہے تو اسے یقین کرنا پڑتا ہے.یہ ایسی چیزیں ہیں جن کو دیکھ کر منکرینِ صداقت کہہ دیا کرتے ہیں کہ ان سے نہ ملو یہ جادو کر دیتے ہیں.چنانچہ اگر نائیجیریا میں ہمارے خلاف جو مولوی بیٹھا ہوگا اس سے جب کوئی احمدی دوست یہ کہے گا کہ میں نے اسی ہزار آدمیوں کا کھانا پکتے تقسیم ہوتے اور کھلاتے دیکھا ہے.تو وہ کہے گا.تم پاگل ہو گئے ہو بھلا کبھی یہ بھی دنیا میں ہوا ہے.وہ کہے گا معلوم ہوتا ہے اس (احمدی) پر جادو کر دیا گیا ہے.پس خدا تعالیٰ کے پیار اور اس کی رحمتوں کے جو نظارے ہم مشاہدہ کرتے ہیں منکرین کی نگاہ میں وہ جادو ہے اور پس وہ تو مان ہی نہیں سکتے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی جماعت پر اس قدر فضل نازل ہوسکتا ہے.غرض ایک یہ بھی وجہ بن جاتی ہے جادو گر کہلانے کی یا جادو کر دینے کی ٹھیک ہے ہمیں اللہ تعالیٰ کا پیار چاہیے.اس پیار کا نام کوئی جادور کھ لے تو یہ اس کی مرضی ہے.ہمیں اس قسم کی باتوں سے گھبراہٹ نہیں ہوتی.دنیا اس قسم کی باتیں کر کے خوش ہوتی ہے تو ہو لے ہم اپنی جگہ اپنے رب کریم سے بہت خوش ہیں.خدا تعالیٰ نے مومن کے روحانی عروج کا یہی مقام بتایا ہے کہ تمہارا رب تم سے راضی اور تم اپنے رب سے راضی.جب کسی شخص کو یہ شرف حاصل ہو جاتا ہے تو پھر اُسے دنیا کی مخالفتوں کی کیا پر واہ ہے اور کیسی گھبراہٹ؟ غرض میں نے اس وقت دو باتوں کی طرف تمام احمدی جماعتوں کو توجہ دلائی ہے ایک یہ ہے کہ ملک ملک سے جلسہ سالانہ پر وفودآ ئیں.دوسرے یہ کہ احباب آپس میں قلم دوستی کریں قلم دوستی کے ضمن میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے ایسے آدمیوں کی تلاش ہے جو میری ہدایت کے مطابق کام کریں لیکن اس خطبہ کے ذریعہ غیر ملکوں میں اور خود اپنے ملک میں جہاں جہاں بھی میرا یہ پیغام پہنچے.دوست رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں اور اپنے نام مجھے بھجوا دیں.اصل منصوبہ یہیں سے بنے گا.یہ وہ چیزیں اُن آٹھ دس چیزوں میں سے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے میری توجہ پھیری

Page 333

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۱۳ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء ہے جو وسعت کو سمیٹ کر پیار کے بندھنوں میں باندھ کر قرب کی کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے آج از بس ضروری ہے.ایک جلسہ سالانہ پر وفود کی شکل میں آنا اور دوسرے قلم دوستی کے ذریعہ ملک ملک کے احمدیوں کا آپس میں بھائی بن کر اور ایک دوسرے کو خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے نشانات بتا کر اور خدا تعالیٰ کی محبت میں شدت پیدا کر کے مزید اور پہلے سے بڑی قربانیوں کے لئے تیار کرتے رہنا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۵ /دسمبر ۱۹۷۳ ء صفحه ۱ تا ۸)

Page 334

Page 335

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۱۵ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء خَيْرَ أُمَّةٍ کی بنیادی صفت یہ ہے کہ اُس کا ہاتھ اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے ہرگز نہ پھیلے خطبه جمعه فرموده ۲۶ /اکتوبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورہ آل عمران کی آیہ کریمہ کا یہ حصہ پڑھا:.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ - (آل عمران: ۱۱۱) پھر حضور انور نے فرمایا:.ویسے تو مومن کی زندگی کا ہر لمحہ ہی دعاؤں میں مشغول رہنا چاہیے لیکن بعض ایام ( مثلاً رمضان اور اس میں بھی آخری عشرہ ) کو قبولیت دعا سے خاص نسبت ہے.جب قربانیاں زیادہ مانگی جاتی ہیں تو قبولیت دعا کی بشارتیں بھی زیادہ دی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے بھی زیادہ کھولے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل موسلا دھار بارش سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ آسمانوں سے نازل ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے عاجز بندوں کی روحانی سیری کا سامان پیدا کرتا ہے.میں نے اپنے ایک پہلے خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ رمضان کا مہینہ دعاؤں کا مہینہ ہے اس لئے میں نے اپنی جماعت کو بہت سی دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی.آج ماہِ رمضان کا آخری جمعہ

Page 336

خطبات ناصر جلد پنجم ٣١٦ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء ہے.رمضان کے مبارک ایام اور جمعہ کی مبارک ساعتیں ہمیں میسر ہیں اس لئے آج پھر میں احباب جماعت کو بعض دعاؤں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ہماری زندگی کا ویسے تو ہرلمحہ ہی دعا کے غلاف میں لپٹا ہوا اپنے رب کریم کے حضور پیش ہونا چاہیے لیکن اس وقت میں چند خاص دعاؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو بنیادی حیثیت کی حامل ہیں.میں نے اس وقت قرآنِ کریم کی آیت کے جس ٹکڑے کی تلاوت کی ہے اس کے ایک حصے کی طرف ہی توجہ دلاؤں گا اور وہ ہے کُنتُم خَيْرَ أُمَّةٍ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہارے لئے ایسے سامان پیدا کئے گئے ہیں کہ تم تمام امتوں اور جماعتوں سے زیادہ برکت والی اُمت اور خیر والی جماعت بن سکتے ہو اور یہ اس لئے کہ قرآنِ عظیم ایک کامل شریعت کی شکل میں نوع انسانی کے ہاتھ میں دیا گیا ہے.اس میں اُمتِ مؤمنہ اور اُمت مسلمہ کے لئے روحانی اور دوسری رفعتوں کے سامان بھی بہت زیادہ مہیا کئے گئے ہیں.پس خَيْرَ أُمَّةٍ میں جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ ایک بنیادی چیز ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ تم سے بڑھ کر تم سے بہتر اور تم سے افضل کوئی اور گروہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ جس قدر رفعتوں تک پہنچنے کے سامان اُمتِ مسلمہ کو دیئے گئے ہیں اس قدر رفعتوں تک پہنچنے کے سامان پہلی امتوں کو نہیں دیئے گئے تھے.چنانچہ میں ایک بڑا وسیع مضمون بیان ہوا ہے اور دراصل ساری قرآنی تعلیم ہمیں اسی طرف لا رہی ہے.تاہم جہاں تک لفظ خیر کا تعلق ہے قرآن کریم میں بعض جگہ اس کے استعمال سے لفظا اور بعض جگہ معنا یہ بتایا گیا ہے کہ خیر امت کی کیا کیا صفات ہونی چاہئیں.اسی طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی لفظ اور معناً ہر دو لحاظ سے خیر امت کی صفات کے متعلق ہمیں بہت کچھ بتایا گیا ہے.اس وقت میں خیر کی دو ایسی صفات کی طرف احباب کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں جن میں خیر کا لفظ معنا بھی استعمال ہوا ہے اور لفظاً بھی.66 چنانچہ خیر امت بننے کے لئے ہمیں ایک یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ ہم اپنی تمام صلاحیتوں

Page 337

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۱۷ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء کو بروئے کارلا کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے والے بہنیں.نہ صرف ہم اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہوں بلکہ ہم دنیا جہاں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے بھی ہوں نہ صرف یہ کہ ہم خود دوسروں کے سامنے مدد کے لئے ہاتھ نہ پھیلا ئیں بلکہ جب ہمارے سامنے دنیا جہاں کے ہاتھ لمبے ہوں اور ہمارے سامنے امداد کے لئے ہاتھ پھیلائے جائیں تو ہم اُن کے ہاتھوں کو ان کی وسعت سے زیادہ بھر دینے والے ہوں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے جس کے دو حصے ہیں.ایک حصے کا تعلق اُمت کے اندر باہمی معاونت کرنے سے ہے اور دوسرے کا تعلق مسلم و غیر مسلم سب کے ساتھ بھلائی کرنے سے ہے.آپ نے فرما یا اليَدُ الْعُليَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفلی گویا اس میں لفظ بھی اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو خیر امت میں پنہاں ہے یعنی اُمت مسلمہ کا ہاتھ ، مومنوں کے گروہ کا ہاتھ ہمیشہ علیا یعنی بالا رہنا چاہیے.اُن کا ہاتھ دینے والا ہونا چاہیے سفلی یعنی لینے والا نہیں ہونا چاہیے.جب ہم اپنی تاریخ یعنی اُمت مسلمہ کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر اس وقت تک دوزمانے نظر آتے ہیں.ایک زمانہ تو وہ ہے جس میں خیر امت کی یہ حقیقت بڑی نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ اُن کا ہاتھ الْيَدُ الْعُلیا ہے اليد السفلی نہیں ہے.پھر ایک وہ زمانہ ہے جس میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اس بنیادی حقیقت پر عمل پیرا رہنے میں کچھ فرق پڑ گیا.وہ ہاتھ جو ہمیشہ دینے کے لئے پیدا کیا گیا تھا وہ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے دوسروں کے سامنے لینے کے لئے پھیلنے لگا حالانکہ ایک حقیقی مسلمان کا ہاتھ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے سامنے پھیل ہی نہیں سکتا اور نہ توحید کیا ہوئی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان کے کیا معنی رہے.اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں ایک وہ وقت تھا کہ قریباً سارے مسلمانوں کو (شاید ہی کوئی مسلمان چھپا ہوا باہر رہ گیا ہو ) شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا اور قریباً اڑھائی سال تک قید میں رکھ کر مسلمانوں کو بھوکا مارنے کی کوشش کی گئی لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان دُکھ وہ

Page 338

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۱۸ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء حالات میں انتہائی مجبوری کے حالات میں بھی اُمت مسلمہ ( گو اس وقت تھوڑی سی جماعت تھی، مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ تھا اس میں شک نہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اُن ) کا ہاتھ غیر کے سامنے نہیں پھیلا.مسلمان اڑھائی سال تک شعب ابی طالب میں محصور ومقید رہے.اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ اُن کا ہاتھ غیر کے سامنے نہیں پھیلا حالانکہ اس قسم کے حالات میں عام دنیوی نگاہ رکھنے والے اور خدا پر توکل نہ رکھنے والے لوگوں کا ہاتھ یقینی طور پر دوسرے کے سامنے پھیلے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.اس کے بعد مسلمانوں نے نہ صرف مال و دولت میں ترقی کی اور دنیا کو مالا مال کیا بلکہ اپنے علم وفضل سے بھی دنیا کو مستفید کیا.چنانچہ ایک لمبے عرصہ تک علم لینے کے لئے علم کے حصول کے لئے بڑے بڑے مشہور پادری تک مسلمانوں کی درس گاہوں میں آتے تھے.اب ظاہر ہے جو علم دینے والا ہاتھ ہے وہ الید العلیا ہے اور جو علم لینے والا اور علم حاصل کرنے والا ہاتھ ہے وہ الْيَدُ السُّفلی ہے.غرض ایک وقت تک زندگی کے ہر میدان میں دُنیوی لحاظ سے بھی اور دینی لحاظ سے بھی، اقتصادی لحاظ سے بھی اور معاشرتی لحاظ سے بھی نئی نئی ایجادات کے لحاظ سے بھی اور نئی نئی ایجادات سے فوائد کے حصول کے لحاظ سے بھی غرض ہر نقطۂ نگاہ سے ہمیں مسلمانوں کا ہاتھ بالا نظر آتا ہے.اور ظاہر ہے کہ جب تک مسلمانوں کا ہاتھ بالا رہے اُسی وقت تک مسلمان حقیقی معنی میں خیر امت کہلائے جا سکتے ہیں ورنہ وہ خیر امت کی ایک بنیادی صفت سے محروم سمجھے جائیں گے.پس چونکہ خیر امت کی ایک بنیادی صفت اليد العلیا کا ہونا ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ الیدُ العلیا خیر ہے.اس لئے اس خیر کے ساتھ اس خیر (اُمت) کا تعلق بتا دیا.دونوں چیزوں کو آپس میں چسپاں کر دیا لیکن اس وقت بعض مسلمانوں کی دنیا بدل گئی ہے.اب ہمیں جو نظارہ دکھائی دیتا ہے وہ بڑا تکلیف دہ ہے مثلاً پاکستان کو لے لیں.غیر ملکی امداد پر اتنا انحصار ہے کہ جب ہم اس کے متعلق سوچتے ہیں اور قرآن کریم پر غور کرتے ہیں اور خیر امت کی صفات ( جیسا کہ قرآنِ کریم و حدیث میں بیان ہوئی ہیں اُن ) کو سامنے رکھتے ہیں تو ہمارے جسم

Page 339

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۱۹ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.جس چیز سے اتنی شدت کے ساتھ روکا گیا تھا اور جو اُمت مسلمہ کی ایک بنیادی علامت قرار دی گئی تھی اُسے ہم بھول گئے ہیں اور اب نہ صرف یہ کہ آج ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں رہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم دوسروں کے دست نگر بن گئے ہیں.پچھلے ۲۵ سال (یعنی پاکستان کی زندگی کی ابتدا) سے ہم نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش ہی نہیں کی.ہمارے بعد ایک نیا ملک دنیا میں اُبھرا.ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی لحاظ سے ایک نیا بچہ پیدا ہوا جو پاکستان سے دو سال چھوٹا ہے، چین اس کا نام ہے غیر مسلم ہے.دہر یہ ہے اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتا اس لحاظ سے قابل رحم ہے لیکن وہ اس بنیادی حقیقت سے واقف ہے اور انتہائی قابل تعریف صفت اس میں پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اُس نے کہیں سے بھی مدد نہیں لینی بلکہ اپنی مدد آپ کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے.چنانچہ اب اُن کی یہ حالت ہے کہ نہ صرف بحیثیت قوم بلکہ انفرادی طور پر بھی عوام میں یہ جذ بہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ کسی سے مدد نہیں لینی.اگر چہ چین کا نام اس وقت بہت اونچا ہو گیا ہے لیکن آج بھی وہاں علاقوں کے علاقے ایسے ہیں جہاں کے باشندوں کو پیٹ بھر کر روٹی بھی نہیں ملتی.بایں ہمہ اُن کی عزت نفس کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی حکومت سے بھی قرض لینے کے روادار نہیں.ایسی صورت میں وہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جس وقت تک وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو جاتے اور اپنے لئے اپنی ضرورتوں کے مطابق پیدا نہیں کر لیتے اس وقت تک خواہ اُنہیں بھوکا کیوں نہ رہنا پڑے وہ ہر دُکھ اور مصیبت اُٹھا ئیں گے مگر کسی سے قرض نہیں مانگیں گے لیکن ہماری یہ حالت ہے کہ ہم جہاں تھے اب بھی وہیں ہیں.ہماری طرف سے اس قسم کی کوئی کوشش ہی نہیں ہوئی.اب پی پی پی پاکستان پیپلز پارٹی) کی نئی حکومت کوشش کر رہی ہے.خدا کرے کہ انہیں صحیح راہوں کی نشاندہی ہو جائے اور وہ ترقی کر سکیں لیکن دنیا کی باتیں تو دنیا کی باتیں ہیں، میں اس وقت قرآنِ کریم کی بات کر رہا ہوں.قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ خیر امت وہ اُمت ہے جس کے اندر یہ بنیادی صفت پائی جاتی ہو کہ اُس کا ہاتھ اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے نہ پھیلے.پس وہ وجود، وہ گروہ ، وہ جماعت ، وہ قوم

Page 340

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۲۰ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء اور وہ ملک جس کا ہاتھ غیر اللہ کے سامنے پھیل گیا وہ حقیقی معنے میں تو خیر امت کا حصہ نہیں رہا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ قریباً چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں ، دنیا کے کسی نہ کسی ملک میں دُنیا کی کسی نہ کسی جماعت میں ہمیں یہ صفت ضرور نظر آتی ہے.یعنی اُمت مسلمہ مجموعی طور پر اس صفت سے خالی نظر نہیں آتی.بلکہ امت مسلمہ میں ایسے گروہ ہمیشہ پیدا ہوتے رہے ہیں جن کا ہاتھ خدا کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں پھیلا.وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لئے خدا تعالیٰ پر پورا توکل رکھتے تھے اور رکھتے ہیں اور صبر سے کام لیتے تھے اور لیتے ہیں.اب مثلاً جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں کچھ عرصہ بھوکا رہ لوں گا مگر کسی سے مانگ کر نہیں کھاؤں گا.اس صورت میں صبر کی ضرورت ہے اُسے کچھ عرصہ صبر سے کام لینا پڑے گا.اسی لئے صبر اور تو گل کو قرآن کریم میں کئی جگہ اکٹھا کر دیا گیا ہے کیونکہ صبر کا تعلق تو کل علی اللہ سے بہت زیادہ ہے.غرض اسلام کسی کے دل میں مایوسی نہیں پیدا کرتا.قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا.ہم اس کے عام طور پر یہ معنے کیا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی گناہوں کو بخش دیتا ہے.یہ درست ہے، اللہ تعالیٰ گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس لحاظ سے بھی ہمارے دل میں مایوسی پیدا نہیں ہونی چاہیے لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس کے علاوہ بھی انسانی زندگی کے ہزاروں پہلو ایسے ہیں جن میں انسان اگر صحیح اسلامی تعلیم پر عمل کر رہا ہو تب بھی حصول مقصد اور ابتدائی کوشش میں ایک فاصلہ ضرور ہوتا ہے.جب انسان کسی کام کے لئے کوشش کی ابتدا کرتا ہے تو اس وقت وہ بے صبری سے کام نہیں لیتا بلکہ صبر کرتا ہے اور بشاشت کے ساتھ دکھ اور پریشانی اُٹھاتا ہے یعنی دنیا کی نگاہ میں وہ دُکھ ہوتا ہے یا جسمانی تکلیف ہوتی ہے یا بعض اور تکالیف ہوتی ہیں جن میں سے انسان کو گذرنا پڑتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں انسان کو جو راحت نصیب ہوتی ہے اس سے سارے دُکھ درد کا فور ہو جاتے ہیں.پس اس سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صبر اور توکل علی اللہ کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے وہاں اس حقیقت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہر انتہا ایک ابتدا کی محتاج ہے.اگر کسی کام کی ابتدا

Page 341

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۲۱ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء نہ ہو تو اس کے انتہا تک پہنچنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور پھر ہر ابتدا اور انتہا میں تھوڑا یا زیادہ فاصلہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ یہ امر محال ہے کہ ادھر کسی کام کی ابتدا ہوئی اور ادھر اس کی انتہا بھی ہو گئی.انسانی زندگی میں ایسا کبھی نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظاروں میں تو یہ چیز موجود ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی یہ شان ہے کُن فیکون یعنی ادھر وہ کسی چیز کے ہونے کا حکم دیتا ہے اور اُدھر وہ چیز معرض وجود میں آجاتی ہے لیکن انسان کو نہ پہلے اور نہ اب یہ طاقت دی گئی ہے کہ جب بھی اس کے دل میں خواہش پیدا ہو یا جب بھی وہ کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرے یا جب بھی وہ یہ کہے کہ مجھے یہ چاہیے یا میرے حق میں ایسا ہو جائے یا جب بھی اُسے کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی ہو تو وہ چیز اُسے فورا مل جائے یا اس کا کام فوراً ہو جائے.نہ انسانیت کی یہ خاصیت ہے اور نہ اس کی یہ شان ہے.یہ صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے.انسان کے ساتھ تو یہی لگا ہوا ہے.اُس کی تو یہی خاصیت ہے کہ اُسے اپنے ارادہ اور خواہش کو انتہا تک پہنچانے کے لئے محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے.دعا سے بھی اور تدبیر سے بھی مثلاً ایک نہایت ذہین بچہ پیدا ہوتا ہے اُسے اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لئے برسوں محنت کرنی پڑتی ہے مثلاً اپنوں میں سے لے لو.ڈاکٹر عبد السلام ہیں جو ماشاء اللہ نہایت ذہین ہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں علم طبعی میں ایک خاص (سائنسی ) ذہن عطا فرمایا ہے مگر جس دن وہ پیدا ہوئے تھے اس دن لوگوں کو یہ قطعاً پتہ نہیں تھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو کیا چاہیے لیکن اُن کے اندر ان کی فطرت میں یہ ارج (Urgu) موجود تھی کہ میں پڑھوں اور نشو و نما حاصل کروں اور دنیوی لحاظ سے اپنے مقصود کو پالوں.ویسے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو اخلاص بھی دیا ہے لیکن میں اُن کی زندگی کا صرف ایک پہلو بیان کر رہا ہوں جو اُن کی دُنیوی ترقی اور عقل وفراست سے تعلق رکھتا ہے.چنانچہ انہوں نے جب علمی میدان میں قدم رکھا تو انہیں ایک لمبا عرصہ کوشش اور تربیت کے علاوہ پڑھائی کے دنوں میں نہ جانے کن کن تکلیف دہ مراحل میں سے گزرنا پڑا.خدا جانے کتنی تکالیف اٹھانی پڑیں وہ کتنی راتیں جاگے ہوں گے.مہینوں تک اُنہوں نے نیند پوری نہیں کی ہوگی نہ جانے کتنے جائز مشغلوں مثلاً کھیل کود سے اجتناب کیا ہوگا وغیرہ وغیرہ اور پھر ایک لمبے عرصہ کی محنت کے بعد انہوں نے اپنے مقصود کو پالیا.

Page 342

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۲۲ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء اُنہوں نے جو ابتدا کی تھی اس کی انتہا ہوئی.ویسے تو ورلی زندگی کی انتہا انسان کے خاتمہ بالخیر کے ساتھ ہوتی ہے لیکن اس انتہا کی بعض جھلکیاں وسط عمر میں بھی نظر آ جاتی ہیں.ابھی پتہ نہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُنہوں نے اور کتنی ترقی کرنی ہے لیکن وہ ترقیات کے میدان میں داخل ہو گئے ہیں اور دنیا نے اُن کے مقام کو ایک حد تک پہچان لیا ہے تو اُن سے تعصب بھی روا رکھا جاتا ہے.بعض دفعہ ان کو تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن میں نے اُن کو سمجھایا تھا کہ آپ کوئی فکر ہی نہ کریں.اپنے وقت پر اللہ تعالیٰ آپ کو سب کچھ دے گا.انشاء اللہ.اسی پر ہمارا توکل ہے اور وہی ہمارا سہارا ہے.میں بتا یہ رہا ہوں کہ ہر انتہا کے لئے ابتدا کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر انتہا اور ابتدا کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے کسی ابتدا اور انتہا کے درمیان تھوڑا فاصلہ ہوتا ہے اور کسی میں زیادہ ہوتا ہے.۴۷ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا اور ایک نئی حکومت بنی.پہلے دن ہی وہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کے برابر تو نہیں ہو سکتی تھی لیکن پہلے دن سے اُسے اپنی تمام قوتوں اور استعدادوں کی صحیح نشو ونما کے لئے کوشش شروع کر دینی چاہیے تھی تا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس پاک خطۂ ارض کو جو مقام دیا یا دینا چاہ وہ ہمیں حاصل ہو جائے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے جب میں کالج میں تھا اس وقت ایک ایسا زمانہ بھی آیا جس کے متعلق سوچ کر بڑا دکھ ہوتا ہے.میرا عام اندازہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس زمانے میں ایک لاکھ اچھے ذہن ضائع ہوئے حالانکہ اچھے ذہن اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان اور عطا ہے.کسی قوم میں ذہین بچوں کا پیدا ہونا ایک بہت بڑی عطا ہے مگر قوم نے اپنی لا پرواہی سے ذہین بچوں کو اس لئے نظر انداز کر دیا کہ وہ غریب گھرانوں میں پیدا ہوئے تھے یا مثلاً اس لئے کہ کوئی ذہین بچہ ایسے گھرانہ میں پیدا ہوا تھا جس کی سفارش کوئی نہیں تھی یا نہایت عمدہ ذہن اس لئے ضائع ہو گئے کہ اُن کی ذہنی نشو و نما میں ایسی وقتیں تھیں جن کو نہ سمجھا گیا اور نہ دور کرنے کی کوشش کی گئی.اگر ۱۹۴۷ء سے صرف یہ کوشش شروع کر دی جاتی کہ قوم کے ایک لاکھ ذہن ضائع نہ ہوں بلکہ اُن کو سنبھال لیا جائے تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی اور سائنسدانوں کی کمی کا رونا نہ رویا جاتا.چند سال پہلے کی بات ہے میں اس وقت تعلیم الاسلام کالج کا پرنسپل تھا پاکستان کے ایک

Page 343

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۲۳ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء بہت بڑے سائنسدان نے ایک مقالہ لکھا وہ میرے بھی واقف تھے.انہوں نے وہ مقالہ مجھے بھی دکھا یا.اس میں لکھا ہوا تھا ہم کیا کریں ہمارے پاس صرف چار پانچ ہزار سائنسدان ہیں جب کہ قوم کو اس سے کہیں زیادہ سائنسدانوں کی ضرورت ہے.میں نے اُن کو کہلا بھیجا کہ میرے نزدیک تم اپنی غفلت کے نتیجہ میں پچاس ہزار سائنسی ذہن تباہ کر چکے ہو اور آج تم یہ رونا رور ہے ہو کہ ہمارے پاس صرف چار ، پانچ ہزار سائنسدان ہیں.خدا تعالیٰ نے تمہیں صرف چار، پانچ ہزار سائنسی ذہن نہیں دیئے تھے میرے اندازے کے مطابق خدا نے تمہیں چون ، پچپن ہزار ذہن عطا فرمائے تھے اور ضروری نہیں کہ میرا اندازہ درست ہو.یہ ایک عام اندازہ ہے ممکن ہے ایک لا کھ ذہن دیئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے دولاکھ دیئے ہوں مگر تم نے ان ذہنوں کو ضائع کر دیا اور اب یہ رونا رور ہے ہو کہ ہمارے پاس اتنے سائنسدان نہیں کہ ہم ترقی کر سکیں.پس جب تک ساری دنیا میں بسنے والے مسلمان اس بنیادی حقیقت کو نہیں سمجھیں گے کہ بلند ہاتھ اور دینے والا ہاتھ اُمتِ مسلمہ کی ایک بنیادی صفت اور علامت ہے اس وقت تک دنیا میں ہم وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے جو خدا چاہتا ہے کہ امت مسلمہ کو ملے.میں جانتا ہوں کہ بہتوں کو میری یہ باتیں اچھی نہیں لگیں گی مگر یہ ایک مسلمان کی زندگی کی بہت بڑی اور بنیادی حقیقت ہے جس کے بیان کرنے سے میں خاموش نہیں رہ سکتا.آخر یہ کیا بات ہے کہ ہمیں ہر پانچویں یا دسویں سال نہایت ہی ذلیل اور رسوا کن حالات میں سے گذرنا پڑتا ہے اور ہم کب تک یہ سنتے رہیں گے کہ فلاں جگہ مسلمان ذلیل ہو گئے.اب دیکھو مسلمانوں کی چارلڑائیاں تو اسرائیل کے ساتھ ہو چکی ہیں ان کے نتائج ہمارے سامنے ہیں.مسلمانوں کے خلاف صف آراء یہ قومیں اپنے گھر کے پالے ہوئے سوروں سے زیادہ پیار کرتی ہیں لیکن دنیا میں بسنے والی عظیم مسلمان قوم سے اُن کو کوئی پیار نہیں ہے.بایں ہمہ ہم اُن کے سامنے مدد کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں.ہم اُن کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں جو ابتدا سے اپنی بدقسمتی اور جہالت کی وجہ سے اس عظیم نور کو لینے سے انکاری ہیں جو اُن کے انسانی شرف اور مرتبہ کو بلند کرنے کے لئے اُن کی طرف آیا تھا.پس حقیقت یہ ہے کہ وہ لینے والے ہیں دینے والے نہیں.اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی تعلیم

Page 344

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۲۴ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء کی اتنی شان اور اتنا رعب ہے کہ اس کے سامنے عیسائیت اور دہریت ٹھہر ہی نہیں سکتی.میں نے پہلے بھی بتایا تھا یورپین لوگ بڑے آزاد ہیں.وہ بڑے بڑے لوگوں سے حتی کہ صدر نکسن بھی آجائے تو اُن سے دبنے والے نہیں.وہ اُن سے بھی بڑی آزادی کے ساتھ سوال کرتے ہیں لیکن پہلے ۶۷ء میں اور اب میرے حالیہ دورہ میں جہاں کہیں بھی پریس کا نفرنس ہوئی اور اس میں جب اسلامی تعلیم کے بنیادی اور حسین پہلوان کے سامنے رکھے گئے تو صرف ہاں میں سر ہلانے کے اور کوئی حرکت اُن میں ظاہر نہیں ہوئی.الحمد للہ علی ذالک پس لینے کے لئے تو وہ تیار ہیں مگر دینے کے لئے ہم تیار نہیں.یہ مسلمانوں کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟ میں نے آج کے خطبہ کے لئے دو باتیں منتخب کی تھیں لیکن پچھلے جمعہ کو خطبہ دیتے ہوئے میں بعض نہایت اہم امور کی تفصیل میں لمبا خطبہ دے گیا جس کی وجہ سے مجھے دو دن تک بہت ضعف رہا.اس لئے اس وقت میں ایک بات ہی کہنے پر اکتفا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے زندگی بخشی تو عید کے بعد انشاء اللہ دوسری بات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالوں گا.تا ہم اس وقت میں اس کے متعلق بھی اصولاً کچھ بتا دیتا ہوں کیونکہ کچھ افواہیں کانوں میں پڑ رہی ہیں لیکن قبل اس کے کہ وہ واضح ہو کر سامنے آئیں کچھ نہ کچھ میری طرف سے بیان ہو جانا چاہیے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خیر امت کی رو سے اُمت مسلمہ کے سب سے افضل ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ مسلمان خود قرآن عظیم کو سکھنے اور نوع انسانی کو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں.اس کے متعلق چند اصولی باتیں ( جن کو انگریزی میں آؤٹ لائنز (Out Lines) کہتے ہیں ) بتا دیتا ہوں تا کہ وہ ریکارڈ ہو جائیں.پس یادر ہے کہ قرآنِ کریم کو دو طرح سے سیکھا جاتا ہے اور یہ اس لئے کہ خود قرآنِ کریم نے اپنی دو بنیادی حقیقتیں بیان کی ہیں.ایک یہ کہ قرآن کہتا ہے میں کتاب مبین ہوں ، ایک کھلی ہوئی کتاب ہوں.تم اس کے ورق کھولو.اس کے بعض مضامین کے متعلق پہلے بزرگوں کی تفاصیل موجود ہیں.احادیث کی کتب کھولو ان میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات موجود ہیں جو قرآنِ کریم کی

Page 345

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۲۵ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء تفسیر پر مشتمل ہیں.اس لحاظ سے قرآنِ کریم کتاب مبین ہے.اس کو یا اس کے متعلقات کو ہر کوئی پڑھ سکتا ہے مثلاً ایک وقت میں ایک نہایت معاند و مخالف اسلام مستشرق مارگولیتھ نے اعلان کر دیا کہ مسند احمد بن حنبل جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر مشتمل حدیث کی ایک کتاب ہے اور حدیثوں کی کتابوں میں سے ایک بہت بڑی کتاب ہے.اس کو شروع سے لے کر آخر تک سوائے میرے ( یعنی مارگولیتھ کے ) اور کسی نے نہیں پڑھا.غرض جہاں تک قرآنِ کریم کے کتاب مبین ہونے کا تعلق ہے اس کو مارگولیتھ جیسا معاند اسلام مستشرق بھی پڑھ سکتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے اُسے حافظہ بھی دیا ہو تو وہ بہت سے حصے یاد بھی کر سکتا ہے اور اسی طرح احادیث کو بھی فرفر پڑھ سکتا ہے.پس ایک تو قرآنِ کریم کا یہ پہلو ہے جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں تفصیلاً اور اجمالاً بیان ہو چکا ہے.(یعنی آپ کے ارشادات میں کچھ اجمال بھی ہے جس کا تعلق درحقیقت قرآن کریم کے دوسرے پہلو یعنی کتاب مکنون سے ہے ) بہر حال جہاں تک قرآنِ کریم کے کتاب مبین ہونے کا تعلق ہے یہ حصہ اس تفسیر اور تفصیل پر مشتمل ہے جو احادیث نبوی میں بیان ہوا ہے یا کچھ حصہ ان رموز و اسرار کی تشریح پر مشتمل ہے جو اولیاء اللہ کو سکھائے گئے اور بعد میں آنے والے لوگوں نے اُن کو پڑھا اور اُن سے استفادہ کیا یہ دیکھ کر کہ فلاں زمانے میں یا فلاں علاقے میں اس اس قسم کے مسائل پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ چونکہ اپنے بندوں سے بڑا پیار کرنے والا ہے.اس نے اُن میں سے ایک شخص کو کھڑا کیا اور اُس نے اپنے مجاہدہ اور قربانیوں اور تزکیۂ نفس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا اور اللہ تعالیٰ سے علم قرآن سیکھا اور بعض اسرار و رموز قرآنی کا علم بھی حاصل کیا جو پہلے گویا چھپے ہوئے تھے اور اس طرح اُس نے اپنے وقت یا اپنے زمانے یا اپنے علاقے کے مسائل کو قرآنی علوم کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی.جو بہت سے لوگوں کے لئے سبق آموز اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو بڑھانے کا موجب بنی.غرض ایک بات جو پہلے اسرار ورموز کے پردوں میں لپٹی ہوئی تھی جب کسی خدا کے بندے پر ظاہر ہوئی تو وہ کتاب مبین کا حصہ بن گئی.چنانچہ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم کتاب مبین کے علاوہ کتاب مکنون بھی سیکھیں اور قرآنی علوم

Page 346

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۲۶ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء پر اپنی اپنی قوت اور استعداد کے مطابق عبور حاصل کریں اور جو لوگ قرآن کریم کی عظمت سے ناواقف اور جاہل ہیں اُن تک قرآنی علوم پہنچائیں کیونکہ اس کو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت مسلمہ کے خیر ہونے کی ایک علامت قرار دیا ہے.خود قرآنِ کریم نے بھی اس کو خیر کے لفظ سے یاد کیا ہے لیکن یہ ایک بڑی لمبی تفصیل ہے اگر زندگی رہی اور توفیق ملی تو انشاء اللہ اگلے جمعہ کے خطبہ میں بیان کروں گا.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قرآنِ کریم کا ایک دوسرا رُخ ہے.اس کا ایک دوسرا پہلو ہے اور وہ ہے کہ اس کا کتاب مکنون ہونا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ایک عظیم کتاب ہے.یہ کتاب بڑی عظمتوں والی ہے اس لئے کہ اس کا ایک پہلو ظاہر ہے یعنی کتاب مبین پر مشتمل ہے اور اس کا ایک پہلو چھپا ہوا ہے یعنی کتاب مکنون سے تعلق رکھتا ہے چنانچہ اس کے اس چھپے ہوئے پہلو کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : - لا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ٨٠) یعنی کسی معاند مستشرق کو اس کا علم حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ اُس مسلمان کو حاصل ہو سکتا ہے جسے روحانیت میں ایک خاص اور ارفع مقام حاصل نہ ہو.گویا اس حصہ کا علم حاصل کرنے کے لئے لا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی رو سے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ( بندوں کی نگاہ میں نہیں ) مطہر ہونا لازمی ہے.چنانچہ جب خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اس کا کوئی بندہ مظہر ہو کر اس کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کے پیار کو حاصل کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کتاب مکنون کے اوراق یا اس کے چھپے ہوئے پہلوؤں کو اس کے سامنے رکھتا ہے اور کہتا ہے آج دنیا کی یہ ضرورتیں ہیں اور اس کے یہ مسائل ہیں.اُن کو حل کرنے کے لئے قرآن کریم نے یہ تعلیم دی ہے تم اس کو سیکھو اور پھر دنیا کو سکھا ؤ اور پیش آمدہ مسائل کو حل کرو.قرآنِ کریم کا ایک ہی وقت میں کتاب مبین اور کتاب مکنون ہونے کا دعویٰ کرنا بظاہر یہ باتیں متضا لگتی ہیں لیکن در حقیقت یہ متضاد نہیں ہیں.میں نے اپنوں اور غیروں کے سامنے اس مضمون کو بیان کیا ہے.لاریب یہ مضمون انسان کو حیرت میں ڈالتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے یہ کتاب تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الواقعة : ۸۱) ہے.یہ کتاب رَبُّ الْعَلَمِینَ کی طرف سے نازل ہوئی ہے یعنی اس ہستی کی طرف سے نازل کی گئی ہے جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 347

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۲۷ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء بعثت سے لے کر قیامت تک ایک بالغ انسانیت کی تربیت کے سامان مہیا کرنے تھے اور نوع انسانی نے ارتقائی مدارج ہی سے گذرتے ہوئے اپنے لئے ایک سے ایک نئے مسائل پیدا کر لینے تھے اور اس صورت میں ہر زمانے اور ہر علاقے کے انسان کو رب العلمین کی مدد کی ضرورت پڑنی تھی کیونکہ یہ کتاب رب العلمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس لئے اس کا ایک حصہ کتاب مکنون بنایا گیا ہے جس کا ظہور ہر زمانے کی ضرورت پر منحصر اور ہر وقت ربوبیت اور مطالب در بوبیت کی صورت میں مقدر ہے.یا د رکھنا چاہیے کہ ربوبیت ایک فطری مطالبہ ہے جو ہر انسان اپنے رب کریم کے حضور التجا کے رنگ میں کرتا ہے.وہ کہتا ہے اے میرے خدا! میری فلاں مشکل میں میری رہنمائی کے سامان پیدا کر.چنانچہ یہ خدا کا قانون اور اس کا منشا ہے کہ ہر فطری مطالبہ ربوبیت کے وقت خدا کا کوئی نہ کوئی بندہ کھڑا ہو جسے زمانہ کی ضرورت کے مطابق خدا تعالیٰ اجمالاً یا تفصیلاً یا اجمالاً اور تفصیلاً ہر دولحاظ سے قرآنِ کریم کے رموز و اسرار سکھائے اور اس طرح خدا دنیا پر یہ ثابت کرے کہ یہ قرآن کریم ہے جو رب العلمین کی طرف سے نازل ہوا ہے یعنی یہ اُس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جس نے آنے والے چودہ سو سال (بعثت نبوی سے لے کر آج تک ) کے زمانے یا دو ہزار سال بعد میں آنے والے زمانہ کی ضرورتوں کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ قیامت تک کے لوگوں کی ربوبیت کے سامان بھی اس عظیم شریعت میں چھپا کے رکھے ہوئے ہیں جن کے بتانے کی پہلے ضرورت نہیں تھی اور جن سے بوقت ضرورت پردہ اُٹھایا جانا تھا.پس ایک علم قرآنی وہ ہے جو ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں سے ہم حاصل کر کے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں تا کہ دنیا کے مسائل آسانی کے ساتھ حل ہوسکیں.اگر قرآن کریم کی یہ شان ہے اور یقیناً قرآن کریم ہی کی یہ شان ہے تو پھر کسی ایسے شخص کو قرآن کریم کی تفسیر یا اس کے ترجمہ کی اجارہ داری نہیں دی جا سکتی جو علمائے ظاہر میں شامل ہے یا لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی رو سے مطہرین کی صف میں شامل نہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل اور فراست عطا فرمائے اور قرآنِ کریم کے علوم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے اور بنی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ

Page 348

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۲۸ خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۳ء قرآنی علوم سکھانے کی توفیق عطا فرمائے.سب بھلائی اور خیر قرآن کریم میں ہے اس سے باہر نہیں ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا میں دوبارہ یاد دہانی کرا دوں.میں اس وقت احباب کو دو دعاؤں کی طرف توجہ دلا رہا ہوں.ایک تو آپ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس خیر امت کو اس لحاظ سے بھی خیر امت بنائے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھنے لگیں اور اُن کا ہاتھ کسی دوسرے کے سامنے نہ پھیلے اور دوسرے یہ کہ قرآنِ عظیم جس کے دو پہلو ہیں یعنی اس کا ایک پہلو کتاب مبین ہونے کا ہے اور دوسرا کتاب مکنون ہونے کا.ان دو بنیادی حقیقوں کو مسلمان سمجھنے لگیں اور نہ سمجھنے کے نتیجہ میں ایسی راہوں کو اختیار نہ کریں جو اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے والی ہوتی ہیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 349

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۲۹ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء گروہ مطہرین نے زمانے کی حاجتوں اور ضرورتوں کے مطابق اللہ سے قرآن کی تفسیر سیکھی فرمائی.خطبه جمعه فرموده ۲ نومبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیہ کریمہ کی تلاوت كُنتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ b وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَ لَوْ أَمَنَ اَهْلُ الْكِتَب لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ.(ال عمران : ۱۱۱) پھر فرمایا:.گذشتہ خطبہ میں میں نے کے متعلق دو اصولی باتوں کا ذکر کیا تھا ایک پر نسبتا تفصیل سے روشنی ڈالی تھی اور دوسری بات کا صرف خا کہ بیان کر دیا تھا.میں نے بتایا تھا کہ ”خَيْرَ أُمَّةٍ “ اور أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ “ میں دو بنیادی باتیں اُمت محمدیہ کے متعلق بتائی گئی ہیں.خیر امت کی صفات کا ذکر قرآن عظیم اور ارشادات نبوی میں ہمیں ملتا ہے.کبھی لفظ خیر کو استعمال کر کے اور کبھی معنوی ذکر سے اس حقیقت کو بیان کیا جاتا ہے.دو بنیادی صفات جن کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اُمت مسلمہ

Page 350

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۳۰ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء 66 اس معنی میں خیر ہے کہ تمام پہلی امتوں کے مقابلے میں اپنی استعداد کے لحاظ سے بھی اور اپنی صلاحیت کی نشوونما کے لحاظ سے بھی اقومی ہے.زیادہ طاقتور ہے اور القوی “ کا مفہوم دراصل یہ بھی ہے کہ جس امت نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ کی کامل شریعت اور تعلیم کی روشنی میں اس طرح کامل نشو و نماد یا ہو اور اپنی قوتوں کا کامل نشو ونما کیا ہو کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی معنی میں یہ کہا کہ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِّنَ " الْيَدِ السُّفْلِی کہ دینے والا ہاتھ خیر کا ہاتھ ہے اور لینے والا ہاتھ ایسا نہیں اور اس کی تفصیل میں نے جتنا ممکن تھا بتائی تھی.دوسری صفت جو خیر امت کی بنیادی صفت ہے اور جس کا ذکر قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ہے وہ یہ ہے کہ وَ لَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ (ال عمران :۱۰۵) کہ (ایک جماعت ) ایک گروہ اس اُمتِ مسلمہ یعنی خیر امت کا ایسا ہونا چاہیے کہ جن کا کام ہی صرف یہ ہو کہ وہ گروہ خیر کی طرف بلانے والا ہو.خیر کے ایک معنی یہاں ”قرآن“ کے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک حدیث کی روشنی میں جس کا میں ذکر کروں گا ایک الہام اس معنی میں ہوا اور حدیث یہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّبَهُ پس اُمّتِ مسلمہ کا وہ گروہ جس کے متعلق کہا کہ وہ گروہ ایسا ہونا چاہیے "وَ لَتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ “ تو يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ کی بنیادی صفت یہ ہے کہ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ قرآن کریم سیکھنا اور سکھانا اور قرآن کریم کی ساری دنیا میں اشاعت کرنا یہ خَيْرَ أُمَّةٍ اُمتِ مسلمہ کی ایک دوسری بنیادی صفت بیان کی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اسی حدیث اور قرآن کی بعض اور آیات کی تفسیر کے طور پر یہ الہام ہوا الْخَيْرُ كُلُهُ فِي الْقُرْآنِ “.پس آیت وَ لَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ میں إلَى الْخَيْرِ سے مراد قرآنِ عظیم ہے یعنی ایسی امت اور جماعت تم میں ہر وقت رہنی چاہیے جو قرآن عظیم پر کامل عمل کرنے والی ہو

Page 351

خطبات ناصر جلد پنجم ٣٣١ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آیا ہے کہ جب پوچھا گیا کہ آپ کے اخلاق کیسے تھے تو حضرت عائشہ نے فرمایا ” قرآن یعنی قرآن کریم نے جو تعلیم دی جن اصول اور حدود کو قائم کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی وہی نظر آتا ہے اور ہمیں کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگیوں کے لئے اسوہ بناؤ.پس اُمّت مسلمہ میں ایک ایسی امت اور گروہ بزرگوں کا ہونا چاہیے بزرگ عمر کے لحاظ سے نہیں بلکہ اپنی عاجزی کے لحاظ سے اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کے لحاظ سے نیز بزرگ نیستی کے اعلان کے بعد اپنے رب سے بے لوث محبت کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے لحاظ سے ) جو نمایاں طور پر دوسروں کے لئے قابل تقلید مثال اور اپنی استعداد کے معراج پر پہنچنے کے بعد جتنا کسی انسان کے لئے اسوہ کا بناممکن ہے مثیل بن جانے والے ہوں.اصل میں تو الاسوۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ ہی ہمارے لئے ایک مثال ہیں ان معنوں میں کہ ہم وہی رنگ اپنے اوپر چڑھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگے جائیں اور اس طرح پر اس نیک مثال کے قائم کر نے کے ساتھ دنیا کو قرآنِ عظیم کی طرف بلائیں.میں نے ایک خطبہ میں بتایا تھا کہ قرآنِ عظیم کے دو پہلو ہیں.ایک اس کا کتاب مبین ہونا ہے اور دوسرا پہلو اس کا کتاب مکنون ہونا ہے.کتاب مبین ہونے کی ابتدا یعنی قرآنِ عظیم کا یہ پہلو جو پہلی مرتبہ نوع انسانی کو نظر آیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی اور لسانی تفسیر کے ساتھ ہے یعنی آپ کی زندگی قرآنِ کریم کی عملی تفسیر تھی اور آپ کے ارشادات قرآنِ کریم کی لسانی تفسیر تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی وضاحت کی اور ہم اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد تفسیر قرآن ہے.وہ قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کیونکہ اگر اس کو اضافہ سمجھا جائے تو قرآن کریم کو نعوذ باللہ اس حد تک ناقص سمجھا جائے گا حالانکہ قرآن عظیم میں کوئی نقص اور خامی اور کمی نہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن پر عمل اور آپ کے ارشادات قرآن کریم کی تفسیر ہیں.پس پہلا انسان وہ انسانِ کامل تھا جس نے اس کامل شریعت اور ہدایت کی اپنے عمل اور

Page 352

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۳۲ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء اپنی زبان سے تفسیر کی اور اس کے بطون میں سے بعض کی تفصیلی تفسیر کر دی اور بعض کی اجمالی تفسیر کی جو خفی بطون کی صحیح تفسیر کو پرکھنے کے کام آسکتے ہیں.بہر حال جو تفصیلی تفسیر قرآن آپ نے فرمائی اس کے نتیجہ میں قرآن کریم کا کتاب مبین ہونا دنیا میں ظاہر ہو گیا.اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ سے محبت رکھنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے بننے کے بعد امت محمدیہ میں لاکھوں ایسے مقرب فرزندانِ اسلام پیدا ہوئے جن کا معلم معلم حقیقی تبارک و تعالی خود بنا اور مطہر مین کے اس گروہ نے اپنے اپنے زمانہ میں اس زمانہ کی حاجتوں اورضرورتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ سے قرآن عظیم کی تفسیر سیکھی اور اپنے زمانہ کے لوگوں کے سامنے اسے بیان کیا.اپنے زمانہ کے جو نئے اعتراضات اسلام اور قرآنِ عظیم پر پڑ رہے تھے ان کا رڈ کیا اور انہیں غلط ثابت کیا لیکن کتاب مبین کی ابتدا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی اور آپ کے ارشادات اور آپ نے جس طرح قرآنِ عظیم کی تفسیر بیان کی اس سے قرآنِ عظیم کی ابدی صداقتیں اور بنیادی حقیقتیں بھی اور بطون بھی تفصیلاً یا اجمالاً دنیا کے سامنے آگئے کیونکہ جو مخفی بطون تھے اور قیامت تک جنہوں نے ظاہر ہونا تھا ان کی طرف بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجمالی اشارے کئے.اس وقت میں اس مضمون کی طرف توجہ نہیں دوں گا.جس طرح کتاب پڑھنے والا ہر صفحہ پڑھنے کے بعد کتاب کا صفحہ الٹاتا ہے اسی طرح ہر زمانہ کے مطہرین نے زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات کے لحاظ سے قرآنِ عظیم کے نئے بطون کو سیکھا اور سیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کر کے حاجتِ زمانہ کے مطابق نئی تفسیر قرآن دنیا کے سامنے پیش کی جو نئے اسرار و بطونِ قرآنی کے ظہور کے بعد کتاب مبین کا حصہ بن گئی.بدلتے ہوئے زمانہ کے ساتھ ظاہر ہو جانیوالے رموز و اسرار قرآنی جو مبین اور کھلے کھلے علوم قرآنی ہیں ان کی بھی دو وجوہات کی بنا پر آج ضرورت ہے.ایک اس لئے کہ ماضی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن کریم کے وہ معانی اور اسرار اور معارف اور حقائق کے حصے جو ماضی کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرنے کے لئے اور جو ماضی کے اعتراضات کو رڈ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے تھے کہ دنیا کے سامنے پیش کئے جائیں.وہ سارے اعتراضات ایسے نہیں

Page 353

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۳۳ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء کہ جو قصہ پارینہ بن گئے ہوں بلکہ ہر آنے والے کو اَسَاطِيرُ الأَولِین بھی کہا گیا کہ اس کی باتیں تو وہی ہیں جو پہلوں نے کہی تھیں.اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان باتوں پر بھی وہی اعتراضات ہیں جو پہلوں نے کئے تھے.چونکہ اسلام پر ماضی کے اعتراضات خود کو دہراتے ہیں اس لئے ان اعتراضات کے جو صحیح اور مسکت جوابات ہیں جو کتاب مبین کا حصہ ہیں انہیں بھی ہمیں دہرانا پڑتا ہے.پس کتاب مبین کی آج بھی ضرورت ہے یعنی وہ صحیح اور حقیقی تفسیر قرآنی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم سے پہلوں نے کی اس کی آج بھی ہمیں ضرورت ہے.( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی اور لسانی تفسیر کی ہر آن ضرورت ہے ہمارا بیان بعد میں آنے والی مظہرین کی جماعتوں سے تعلق رکھتا ہے ).اس لئے کہ تفسیر کے جس حصہ کا تعلق ماضی کے اعتراضات کو دور کرنے کے ساتھ ہے جب وہ اعتراضات آج بھی دہرائے جاتے ہیں اور جس حد تک وہ اعتراضات اب بھی دہرائے جاتے ہیں اس حد تک کتاب مبین میں جوان اعتراضات کے مسکت جوابات ہمیں ملتے ہیں وہ ہمیں یاد ہونے چاہئیں.پس ایک تو قرآن سیکھنا اور سکھانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ ابدی صداقتوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اسی طرح اس کا تعلق کتاب مبین کے اس حصہ کے ساتھ ہے جو اعتراضات کو رفع کرنے والا ہے اور پہلوں نے اللہ تعالیٰ سے سیکھا اور جس کی آج بھی ہمیں ضرورت ہے.دوسرے نئے معارف قرآنی نئی ضرورتوں کو پورا کرنے اور نئے مسائل کو حل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھائے گئے جو مسائل اور الجھنیں مثلاً آج سے ہزار سال پہلوں کی تھیں وہ مسائل یا ان میں کچھ کا تعلق آج سے بھی ہے یعنی مسائل بالکل ہی بدل نہیں جاتے.بہت سے مسائل انسانی زندگی کے ایسے ہیں جو اپنے آپ کو دہراتے ہیں جو اصرار کرتے ہیں اس بات پر کہ ہم بار بار آئیں گے اور تمہارے لئے الجھنیں پیدا کریں گے.ان بار بار الجھنیں پیدا کرنے والے مسائل کا حل پہلوں کو سکھا دیا گیا کیونکہ ماضی سے اس کا تعلق ہے اور جو ان مسائل کو حل کرنے کے لئے معارف اور حقائق اور اسرار قرآنی پہلوں کو بتائے گئے تھے آج ان کی ضرورت باقی رہی.اس سے ہم غنی اور بے نیاز نہیں بن جاتے.پس کتاب مبین کا حصہ بھی ایسا نہیں جس کی

Page 354

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۳۴ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء ہمیں ضرورت نہ ہو بلکہ ان دو وجوہ کی بنا پر ہمیں آج بھی ان کی ضرورت ہے ایک اس لئے کہ آج سے ہزار سال پہلے جو اعتراضات اسلام پر کئے گئے تھے ان میں سے بہت سے اعتراضات اسلام پر آج بھی کئے جا رہے ہیں.پس ان کے جوابات پہلے بزرگوں کو خدا تعالیٰ نے سکھائے اور کتاب مبین میں وہ موجود ہیں ہمیں ان کی بھی ضرورت ہے.اس لئے ہمیں کتاب مبین کو بھی پڑھنا چاہیے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے.پھر آج سے پانچ سوسال پہلے یا ہزار سال پہلے نوع انسانی کو یا نوع انسانی کے بعض حصوں کو جن مشکلات اور الجھنوں کا سامنا تھا آج بھی نوع انسانی کے بعض گروہوں کو بعض قوموں کو بعض مقامات پر اس قسم کے بعض مسائل اور الجھنوں کا سامنا ہے اور قرآن کریم نے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اور الجھنوں کو دور کرنے کے لئے ہم سے پہلے بزرگوں کو قرآنِ کریم کی تعلیم بتادی تھی کہ قرآن کریم کی تعلیم اور ہدایت ان مسائل کو اس رنگ میں حل کرتی ہے اور اس میں نوع انسانی کا فائدہ ہے.اس لحاظ سے بھی کتاب مبین کا جاننا ہمارے لئے ضروری ہے.دوسرا پہلو قرآنِ عظیم کا اس کا کتاب مکنون ہونا ہے یعنی وہ باطنی اسرار جو قرآنِ عظیم اس کتاب عظیم اور اس کامل اور مکمل شریعت میں پائے جاتے ہیں وہ بطون ہر نئے زمانہ میں نئے زمانہ کے نئے اعتراضات کو دور کرنے کے لئے موجود ہیں اور نئے زمانہ کی نئی الجھنوں کو سلجھانے کے لئے اس کے اندر تعلیم موجود ہے اور اس کے متعلق قرآن عظیم نے نوع انسانی کے سامنے یہ اعلان کیا کہ یہ کتاب مکنون میں پوشیدہ ہیں اسرار ہیں.لَا يَمَسُّةُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ۸۰) سوائے اللہ تعالیٰ کے مطہر بندوں کے جن کا معلم معلم حقیقی خود بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ خود ان کو علوم قرآنی سکھا تا اور نئے زمانہ کی دونوں ضرورتوں نئے اعتراضات کا دور کرنا اور نئی الجھنوں کا سلجھانا ) کو پورا کرتا ہے.اس پہلو سے چار باتیں بنیادی طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں اور چوتھی کا آج کے زمانہ سے تعلق ہے.انسانی زندگی ایک جگہ ٹھہری ہوئی نہیں.اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور جوں جوں انسان کے اندر تبدیلی ہر لحاظ سے پیدا ہوتی ہے اس کے ایک پہلو کو ہم لے لیتے ہیں یعنی علم انسانی میں

Page 355

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۳۵ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء وسعت اور رفعت کی طرف ایک مسلسل حرکت حصول علم کی جو حرکت ہے اس میں بھی تبدیلی پیدا ہوتی ہے.ایک ہی جگہ تو انسان نہیں کھڑا رہا.علمی میدان میں جس جگہ وہ آج سے پچاس سال پہلے کھڑا تھا اس جگہ آج بھی نہیں کھڑا ہوا.علمی میدان میں انسان ہمیں اس جگہ بھی کھڑا نظر نہیں آتا جہاں وہ ایک سال پہلے کھڑا تھا علمی میدان میں انسان ہمیں اس جگہ بھی کھڑا نظر نہیں آتا جہاں وہ ایک مہینہ پہلے تھا علمی میدان میں انسان بعض لحاظ سے ہمیں اس جگہ کھڑا ہوا بھی نظر نہیں آتا جہاں کل وہ کھڑا تھا ایک حرکت ہے جس میں تسلسل پایا جاتا ہے.علمی تحقیق ہے کہیں تحقیق ہورہی ہے کہیں اس کے نتائج نکل رہے اور جو سائنسدان اور عالم ہیں ان سب کا تعلق اسلام سے تو نہیں ان سب کو اسلام سے پیار تو نہیں ایسے بھی ہیں جو دہریت سے پیار کرتے ہیں ایسے بھی ہیں جو مشرک ہیں.ایسے بھی ہیں جو عیسائیت سے پیار کرتے ہیں.ایسے بھی ہیں جو یہودیت سے پیار کرنے والے ہیں.جو یورپ سے پیار کرنے والے ہیں.ایسے بھی ہیں جو امریکہ سے پیار کرنے والے ہیں.ایسے بھی ہیں جو ہندوستان سے پیار کرنے والے ہیں جو جاپان اور چین اور جو دوسرے جزائر ہیں ان سے پیار کرنے والے ہیں اور ان مختلف ممالک کے حالات چونکہ مختلف ہیں اور ان لوگوں کا پیار کا تعلق اسلام سے نہیں اس لئے اپنی علمی تحقیق کے دوران بعض ایسے خیالات ان کے ذہن میں ابھرتے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام پر کاری ضرب لگانے والے ہیں اور وہ اس قسم کے اعتراضات کر دیتے ہیں یا غیر مذاہب کے جو عالم ہیں پنڈت ہیں.پادری ہیں یہودی علماء ہیں وہ نئی تحقیقات کے نتیجہ میں نئے اعتراضات اسلام پر کرتے ہیں.مثلاً آج سے تیس چالیس سال میں بعض سائنسدانوں کو شہد کی مکھی اور اس کے حالات شہد وغیرہ کے متعلق دلچسپی پیدا ہوئی.انہوں نے تحقیق کرنی شروع کی وہ تحقیق جب کی گئی تو ایک وقت میں انہوں نے کہا کہ کبھی پھول سے اس لیتی ہے یعنی شہد جس چیز سے بنتا ہے اس وقت اس کا قوام نہیں ہوتا پھول کے اندر ایک پانی کا قطرہ یا قطرہ کا کچھ حصہ ہوتا ہے.اس کے اندر مٹھاس بھی ہوتی ہے اور خوشبو بھی.اس کو انگریزی میں نیکٹر (Nector) کہتے ہیں.پادریوں کے پاس جب یہ علمی تحقیق آئی تو انہوں نے کہا کہ قرآن تو کہتا تھا کہ شہد کی مکھی میں سے شہر نکلتا ہے.يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا

Page 356

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۳۶ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء شَرَابٌ (النحل : ٧٠ ) کہ ان کے اندر سے شہر نکلتا ہے اب تحقیق نے تو یہ ثابت کر دیا کہ پھول کے نیکٹر سے یہ شہد کی مکھی شہد بناتی ہے.نئے علم نے ایک نیا اعتراض پیدا کر دیا اور اللہ تعالیٰ کا قادرا نہ تصرف ہے کبھی وہ خود سائنسدانوں کو سائنسدانوں سے ہی جواب دلواتا ہے اور مزید تحقیق سے انہیں جواب مل جاتا ہے اور وہ تحقیق ہمارے حق میں مفید ہوتی ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے عقل دی ہم نے بھی سوچا اور پڑھا اور ان ہی سائنسدانوں نے چند سال کے بعد یہ کہا کہ شہد کی مکھی تقریباً ۵۰ فیصد اپنے جسم کے Glands ( غدود ) میں سے سیکریشن (Seekeration) یعنی غدود کا رس نکال کر شہد کے اندر ملاتی ہے.پھر انہوں نے یہ کہا کہ جو باہر سے خادم مکھی نیکٹر (Nector) کاذرا سا جزو لے کر آتی ہے تو چھتے میں رہنے والی مکھیاں زبان باہر نکالتی ہیں تو خادم مکھیاں اس کے اوپر رکھ دیتی ہیں...اور چھتے میں رہنے والی مکھی زبان کو نکالنے اور اندر لے جانے کی حرکت ہزاروں ہزار مرتبہ کرتی ہے اور اس طرح پانی کو خشک کر کے شہد کو قوام کی شکل دیتی ہے.وہ بھی اس کے منہ میں سے نکلا ہے یعنی جو منہ کے اندر گیا اس کی شکل اور تھی اور جو منہ میں سے نکلا اس کی شکل اور تھی جو منہ میں گیا وہ پانی سے مشابہ تھا اور جو باہر نکلا اس کی شکل زیادہ تر شیرے سے ملتی ہے.دو مختلف شکلیں ہوئیں اور پھر قریباً ۵۰ فیصد اپنے جسم کے حصے ملا دیئے اب یہ نئی تحقیق نے علم دیا.جو اسلام سے پیار کرنے والے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے نو را ایمان دیا ہوا تھا انہوں نے کہا تمہارا اعتراض غلط ہے کیونکہ اصل کیفیت یہ ہے کہ جس چیز پر تم اعتراض کر رہے ہو وہ حقیقت شے نہیں بلکہ حقیقت شے کا نصف ہے جب دو کو ملا دو گے اس کو پورا کر دو گے تو اعتراض خود ہی ساقط ہو جائے گا.پس چونکہ انسانی زندگی میں ایک حرکت ہے وہ ایک جگہ نہیں کھڑی ہوئی.زمانہ کروٹ لیتا ہے اور زمانہ جدید بن جاتا ہے.حال ماضی بن جاتا ہے اور جو مستقبل ہے وہ حال کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور ایک جدید زمانہ بن جاتا ہے اور ان انقلابات کے نتیجہ میں بہت سے خیالات میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور جو مخالف حرکت ہے وہ اسلام پر نئے اعتراضات پیدا کرتی ہے.جب ہر زمانہ اسلام پر نئے اعتراضات کرتا چلا آیا ہے اور کرتا چلا جائے گا تو ضروری ہوا کہ قرآنِ کریم کے

Page 357

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۳۷ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء وہ بطون جو پہلوں پر (ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے مخفی تھے آج جب اُمت مسلمہ کو ان کی ضرورت پڑ گئی.ظاہر ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ سے نئے معارف اور حقائق کا علم حاصل کرنے والے پیدا ہوں اور اس طرح نئے اعتراضات کارڈ کریں.دوسرے اس مسلسل تبدیلی جسے ہم انقلابی ریوولیوشن (Revolution) نہیں.انقلاب اور ریوولیوشن (Revolution) کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے.ہم انقلاب کو صرف ریوولیوشن (Revolution) کے معنوں میں استعمال نہیں کرتے.بنیادی تبدیلی حالات میں جب پیدا ہوئی تو نئے مسائل پیدا ہو گئے.مثلاً جب صنعت ابھی پوری طرح عروج کو نہیں پہنچی تھی.اس میں پوری طرح وسعت پیدا نہیں ہوئی تھی.اس میں مزدور اکٹھا نہیں ہوا تھا.غریب مزدور بکھرا ہوا تھا.لیکن جب صنعت نے ترقی کی.کارخانے لگے تو مزدور اکٹھے ہو گئے.پہلے ایسا نہیں تھا.اب اکٹھے ہو گئے اور ایک نئی حالت پیدا ہوئی.جب نئی چیز پیدا ہوئی تو نئے مسائل پیدا ہوئے.جب نئے مسائل پیدا ہوئے تو ان کا حل ضروری ہو گیا اتنا ضروری کہ جب انسان لاچار ہوا تو وہ کبھی اشترا کی بنا کبھی دہر یہ بنا.کبھی عیسائی بنا.کبھی عیسائیت کو چھوڑ نے والا بنا.کبھی غافلانہ اندھیروں میں رہتے ہوئے بھی خدا کی طرف جھک کر اس نے حل کے تلاش کی کوشش کی تو کبھی خدا سے دور ہو کر اسلام سے باہر اس نئے مسئلہ کے حل کی کوشش کی اور نا کام ہوا.اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے مطہر بندوں میں سے کچھ کو زندگی کے نئے مسائل کے حل کے لئے علوم سکھائے مثلاً میں نے ہی بعض اشتراکیوں کو کہا کہ تم غریب سے پیار کرنے والے نہیں ہو کیونکہ اسلام اس حل سے جو تم پیش کرتے ہو کہیں زیادہ اچھا حل پیش کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو امت محمدیہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشق ہیں کے طفیل ہم نے قرآنِ کریم کے نئے معارف حاصل کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پایا اور جو نئے مسائل نوع انسانی کو در پیش تھے ان کا حل اتنا اچھا اتنا پیارا کہ دنیا سوائے اثبات میں سر ہلانے کے اور کچھ کر نہیں سکتی.میں نے پہلے بھی بتایا کہ یورپ کے حالیہ دورہ میں میں نے چار جگہ پر پریس کانفرنس بلا کر ان کو بتایا کہ میں اسلام کی یہ تعلیم تمہارے سامنے پیش کرنے آیا ہوں اور کسی نے بھی ”نہ نہیں کی.سب نے کہا کہ یہ تعلیم بہت اچھی ہے اور میں نے تحدی سے یہ کہا کہ اشتراکیت

Page 358

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۳۸ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء وغیرہ وغیرہ مکاتیب فکر یہ تعلیم پیش نہیں کر سکتے تھے.صرف خدا تعالیٰ ہی ہے جو اس قسم کی اعلیٰ تعلیم انسان کی بہبود کے لئے دے سکتا ہے.پس نئے مسائل چونکہ زمانہ کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے مظہر بندوں میں سے بعض کو ان مسائل کے حل کرنے کے لئے قرآن کریم کے نئے معانی سکھاتا ہے اور ان نئے معانی کا تعلق کتاب مکنون سے ہے.ورق الٹتے ہیں اور کتاب مکنون کے یہ حصے کتاب مبین کا حصہ بن جاتے ہیں.یہ بات کہ زمانہ بدل رہا ہے اور اسلام پر آج تک نئے اعتراضات پڑتے چلے آئے ہیں اور نوع انسان کو نئے مسائل در پیش آتے ہیں.یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ کتاب جس کا دعویٰ خاتم الکتب ہونے کا ہے اور جس نے دنیا میں یہ اعلان کیا کہ میں قیامت تک کے لئے غیر مبدل ہوں اور تمام حقائق زندگی اور حقائق زندگی میں جو اندھیرے اور سائے نظر آئیں میں ان میں روشنی پیدا کرنے کے سامان میرے اندر ہیں.پس خاتم الکتب کے لئے یہ ضروری تھا کہ ہر زمانہ میں اس کے مخفی حقائق اور معارف مطہرین کے گروہ کو سکھائے جاتے اور دنیا کے سامنے وہ ان کو پیش کرتے.پس ایک تو نئے اعتراضات کا رڈ کرنے کے لئے اور دوسرے نئے مسائل کے حل تلاش کرنے کے لئے نوع انسانی کو جو ضرورت تھی وہ ضرورت پورا کرنے کی خاطر مطہرین کو اللہ تعالیٰ خود معلم بن کر قرآن کریم کے نئے معارف سکھاتا اور اس کے بطون میں سے کچھ ان پر ظاہر کرتا ہے تا کہ زمانہ جدیدہ کے مسائل حل ہوسکیں.اور تیسری بات ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ قرآنِ کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ ہمیشہ کے لئے ہدایت و شریعت ہے.ایک ایسی حقیقت ہے جو ابدی ہے.ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے یعنی پہلی صداقتوں کو اس نے اپنے اندر لے لیا.اس لحاظ سے پہلی ہدایتوں اور شریعتوں سے اس کا تعلق قائم ہو گیا اور ہمیشہ کے لئے جن ہدایات کی ضرورت تھی وہ اس میں پائی جاتی ہیں.دراصل یہ دعویٰ اس بات کے مترادف ہے کہ خدا تعالیٰ کی صنعت“ کی صفات بھی غیر محدود ہیں.ہر چیز میں اس کی غیر محدود صفات نظر آتی ہیں کیونکہ حتی و قیوم خدا سے ان کا گہرا تعلق ہے.یہ صنعت خواہ کہکشاں (Galaxy) کی شکل میں لیں یعنی وہ بے شمار ستاروں کا مجموعہ جو ایک خاندان کی

Page 359

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۳۹ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء حیثیت سے بحیثیت مجموعی ایک جہت کی طرف حرکت کر رہا ہے اس طرح کی بے شمار کہکشائیں پائی جاتی ہیں.ایک بڑا یونٹ میں نے لے لیا ہے.ہمارے علم کے مطابق خدا تعالیٰ کی صنعت کا ایک بہت بڑا وجود کہکشاں کی صورت میں ہے اس کو لیں یا کیڑے کے ایک پاؤں کو لیں جو ایک چھوٹی سی چیز ہے.خدا کی مخلوق میں سے بڑی سے بڑی چیز لیں یا بظا ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز لیں.کسی کو بھی لیں جو چیز خدا تعالیٰ کے دست قدرت سے وجود پذیر ہوئی ہے اس کے اندر غیر محدودصفات پائی جاتی ہیں.یہ ایک حقیقت ہے اور آج کا انسان یہ مانے پر مجبور ہے کہ خدا تعالیٰ کی خلق اور صنعت میں غیر محدود صفات پائی جاتی ہیں مثلاً میں جب اس دورہ میں تھا تو ایک دن مجھے ڈاکٹر سلام صاحب کہنے لگے کہ اس وقت تک ساری دنیا اس بات پر متفق تھی کہ اس عالمین (Universe) کی بعض چیزوں میں صرف ایک اصول چلتا ہے.انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق دی ہے اور میں ایک نئے نظریہ (Theory) پر عمل کر رہا ہوں جو اس اصول کو غلط قراردے دے.پس سائنسدان آج ایک چیز پر اکٹھے ہو کر کہتے ہیں کہ بس یہی حقیقت ہے اور کل اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے کسی بندہ کو اس چیز کی کسی اور صفت کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور انسان کو پتہ لگتا ہے کہ انسان کی عقل ناقص کا یہ دعویٰ کہ کامل قدرت کے ہاتھ نے جو پیدا کیا میں نے اس کی تمام صفات کا احاطہ کر لیا ہے یہ بیوقوفی ہے.تو جب ایک مکھی یا ایک کیڑے کے پاؤں میں پائی جانے والی صفات کا انسان احاطہ نہیں کر سکتا تو اس کے ساتھ ہی کسی مسلمان کا یہ کہہ دینا کہ خدا تعالیٰ کا جو کلام ہے اس کے بطون کا ہم احاطہ کر سکتے ہیں اس سے زیادہ حماقت کی ہمارے نزدیک کوئی بات نہیں.جس طرح خدا تعالیٰ کی خلق میں ہر چیز کی صفات غیر محدود ہیں اسی طرح قرآنِ کریم جس نے قیامت تک نوع انسانی کا رہبر بنتا ہے اس کے معانی بھی غیر محدود بطون واسرار کے حامل ہیں.ایک تیسری بات ہمیں کتاب مکنون کے مضمون سے یہ پتہ لگی کہ اگر ہم قرآن عظیم کو کتاب مکنون تسلیم نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ اس میں جو کچھ علم تھا اور معارف جو اس میں تھے اور حقائق جو اس میں تھے اور رموز و اسرار روحانی جو اس میں تھے وہ سارے کے سارے پہلوں کے علم میں آگئے اور آگے کوئی نئی چیز باقی نہیں رہی تو ہمارا یہ تسلیم کرنا اس اعلان کے مترادف ہوگا کہ ہم قرآنِ عظیم کو

Page 360

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۴۰ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء خدا تعالیٰ کا کلام نہیں سمجھتے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک مکھی کی صفات کا کوئی انسانی علم احاطہ نہیں کر سکتا لیکن خدا تعالیٰ کی ایک عظیم اور کامل اور مکمل شریعت کے علوم اور اس کے بطون پر انسانی عقل احاطہ کر سکتی ہے یا اس کا علم اپنے دائرہ میں اسے لے سکتا ہے پس اس کا خدا تعالیٰ کے ایک کامل اور مکمل کلام ہونے کے نتیجہ میں ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن کریم میں ہر زمانہ میں نئے نئے بطون ظاہر ہوتے رہیں گے اور قیامت تک قرآنِ کریم کے نئے علوم دنیا کے سامنے آتے چلے جائیں گے.اگر ایسا نہیں سمجھو گے تو خدا پر اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن عظیم پر اعتراض کرنے والے ٹھہرو گے.پس قرآنِ عظیم غیر محدود معارف اور غیر محدود روحانی اسرار کا خزانہ ہے اگر یہ خدا کا کلام ہے تو یہ بات ہمیں تسلیم کرنا پڑے گی اور جب غیر محدود معارف کا خزانہ ہے تو ہر زمانہ میں اس کے نئے سے نئے بطون ظاہر ہو کر کتاب مکنون کا ورق الٹیں گے اور کتاب مبین کا حصہ بنتے 66 چلے جائیں گے.اور چوتھی چیز اس خیر کے متعلق اصل میں میں بتا رہا ہوں کہ خیر امت جو ہمیں کہا گیا تو اس خیر امت کی بہت سی صفات بیان کی گئی ہیں.بعض جگہ لفظ ”خیر “ کو استعمال کر کے ، بعض جگہ خیر “ کے معانی کو استعمال کر کے.دو بنیادی چیزیں ان دو خطبوں میں میں بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں.ایک میں نے بیان کی تھی کہ قوی ہونا.یعنی اُمت مسلمہ کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا چاہیے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ بتاتا ہے.قرآن کریم کی تعلیم یہ کہتی ہے کہ غیر اللہ کے سامنے ہم نے ہاتھ نہیں پھیلانا اور جب تک اُمتِ مسلمہ میں اس کی شان کے مطابق یہ صفت پیدا نہیں ہو جاتی اس وقت تک اسلام کی طرف انسان منسوب تو ہوسکتا ہے لیکن اسلام کی عظمت میں انسان حصہ دار نہیں بن سکتا.وو.اور دوسرے ”خیر “ کا بنیادی اصل جو ہمیں بتایا گیا ہے وہ ہے قرآنِ کریم کو سیکھنا.یہ صفت ایسی ہے جو اُمت مسلمہ کو كُنتُم خَيْرَ اُمَّةٍ بناتی ہے.یعنی خیر امت ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسی امت ہے جو قران کریم میں سے کتاب مبین کو بھی اور کتاب مکنون کو بھی سیکھتی

Page 361

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۴۱ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء ہے اور محفوظ رکھتی ہے اور اپنے نمونہ اور خدا داد فراست کے ذریعہ یا اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے تو اس سے سیکھی ہوئی تعلیم کے ذریعہ دنیا تک قرآن کریم کے نئے سے نئے علوم پہنچاتی رہتی ہے.پس یہ خَيْرَ أُمَّةٍ اُمّتِ مسلمہ کی ایک بنیادی صفت ہے.اس سے انکار نہیں کیا جاتا اگر خدا کی نگاہ میں خیر امت بننا ہے تو ایسا بنا پڑے گا.پھر چوتھی چیز یہ ہے کہ ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ چونکہ مطہرین کے علاوہ کسی پر بطون واسرار قرآنی ظاہر نہیں ہونے تھے.اس لئے شروع سے لے کر آج تک اُمتِ مسلمہ میں مطہرین کا ایک گروہ پیدا ہوتا رہا.ان کے ساتھ بعض علمائے ظاہر نے جو کچھ کیا اس کو دہرانے کی مجھے ضرورت نہیں لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں امت مسلمہ میں ہر صدی میں لاکھوں کی تعداد میں وہ مطہرین کا گروہ پیدا ہوتا رہا جس نے قرآنِ کریم کی حقیقت کو پہچانا اور صحیح رموز قرآن انہوں نے کتاب مبین سے بھی حاصل کئے اور کتاب مکنون کے حصے جو وہ دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے وہ بھی اپنے رب سے سیکھے اور اب ہم اس زمانہ میں داخل ہو چکے ہیں.جس زمانہ کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا کہ اسلام کی حق وصداقت کی شیطانی قوتوں سے آخری جنگ ہوگی اور آپ تاریخ انسانی پر نظر ڈالیں.مذہب پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل اور مذہب اسلام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اتنے حملے اس کثرت کے ساتھ اس شدت کے ساتھ اس قسم کے دجل کے ساتھ اور ظاہر میں ملمع چڑھا کر اس قسم کے مؤثر بنا کر اعتراضات نہیں ہوئے جتنے آج ہورہے ہیں.دشمن کا حملہ کتاب مبین سے تعلق رکھنے والا بھی ہے یعنی جو پہلے اعتراضات ہیں وہ بھی دہرائے جارہے ہیں اور نئی روشنی میں بدلے ہوئے نئے حالات میں نئے اعتراضات بھی کئے جا رہے ہیں.اتناز بر دست حملہ اسلام پر ہے کہ اس سے قبل کے زمانہ میں اس کی مثال نہیں ملتی.نہ مستقبل میں اس قدر شدید حملہ کا تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ حملہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا.اتنا شدید حملہ کہ بعثت مہدی علیہ السلام سے چند سال قبل ہندوستان کے پادریوں نے یہ اعلان کیا کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے اور ” خداوند یسوع مسیح کی ایسی برکتیں اس ملک ہند میں پھیلنے والی ہیں کہ اس ملک میں اگر کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا

Page 362

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۴۲ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء ہوئی کہ وہ کسی مسلمان کا چہرہ دیکھ سکے تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکے گی کیونکہ ایک بھی مسلمان نہیں رہے گا.یہ شدت تھی اس حملہ میں.پھر ہندوستان سے باہر والوں نے یہاں تک اعلان کیا کہ خانہ کعبہ پر (نعوذ باللہ ) خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرائے گا ، اس قسم کے شدید حملے تھے ان حملوں کی شدت بتا رہی تھی کہ پیشگوئی میں جو یہ کہا گیا تھا کہ اس آخری جنگ کو فاتح کی حیثیت میں امت محمدیہ کا جرنیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فرزند جو دنیا میں بھیجا جائے گا وہ مہدی اور مسیح کے لقب سے آئے گا.اسلام پر حملے بتا رہے ہیں کہ مسیح و مہدی کی ضرورت ہے.اسلام پر اتنا شدید حملہ ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا کہ میں نے تین ہزار نئے اعتراضات عیسائیوں کی طرف سے اسلام پر کئے جانے والے جمع کئے ہیں پھر آپ نے کہیں اعتراض کا ذکر کر کے اور کہیں ذکر کئے بغیر اسلام کی تعلیم اس طرح پیش کی کہ وہ اعتراض دور کرتی چلی گئی.بہر حال میں اس وقت یہاں اپنے مضمون کے سلسلہ میں یہ بتا رہا ہوں کہ اتنا شدید حملہ اسلام پر جو ہوا وہ پکار رہا تھا اور آسمان اور زمین پکار رہی تھی کہ اگر اسلام نے دنیا میں قائم رہنا ہے تو مہدی کو اس وقت ہی آنا چاہیے.پھر خدا تعالیٰ جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارتیں دی تھیں جو اپنے وعدوں کا پکا اور سچا ہے اور متصرفانہ قدرتوں کا مالک ہے.اس نے مہدی علیہ السلام کو بھیج دیا مہدی اور مسیح علیہ السلام آگئے اور یہ جو بپھری ہوئی طوفانی موجوں کی طرح عیسائی پادری اسلام پر حملہ آور ہورہے تھے کہاں گئیں وہ موجیں اور کہاں گئیں ان کی شوخیاں؟ وہ پیچھے ہٹے اور پسپا ہو گئے لیکن بہتوں کو ابھی یہ چیز نظر نہیں آرہی کیونکہ ابھی وہ آخری فتح مہدی کو اور آپ کی فوج کو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کو حاصل نہیں ہوئی.جو مقدر ہے جس کے نتیجہ میں اسلام کو آخری غلبہ حاصل ہونا ہے جس کے نتیجہ میں اسلام کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے اور ساری دنیا میں پھیل جانے والا ہے.وہ مہدی علیہ السلام آیا اور جس قسم کے شدید حملے ہور ہے تھے اس نسبت کے ساتھ بڑی تعداد میں بڑی گہرائیوں اور بڑی رفعتوں والے بطونِ قرآنی آپ نے دنیا کے سامنے پیش کئے مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک عیسائی نے یہ سوال کیا کہ جب آپ کے نزدیک تو رات بھی خدا تعالیٰ کی الہامی کتاب ہے تو اس الہامی کتاب کے بعد

Page 363

خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء خطبات ناصر جلد پنجم ۳۴۳ قرآن کریم کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب آپ نے بڑے لطیف رنگ میں دیا.میں مختصراً اس وقت اپنے الفاظ میں بیان کروں گا.آپ نے فرمایا تم مجھ سے یہ پوچھتے ہو کہ تو رات کے ہوتے ہوئے قرآنِ عظیم کی کیا ضرورت ہے اور میں تمہیں یہ بتا تا ہوں کہ قرآنِ عظیم اپنی پوری تفصیل اور شان کے ساتھ آخری کامل اور مکمل ہدایت اور شریعت ہے.اس کے شروع میں قرآن کریم کا ایک خلاصہ سورۃ فاتحہ کی شکل میں جو چھوٹی سی سورۃ ہے اور صرف سات آیات پر مشتمل ہے.سورۃ فاتحہ میں جو رموز و اسرار روحانی بیان ہوئے اگر تم اپنی تو رات کی ساری کتابوں میں سے وہ نکال دو تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارے پاس کچھ ہے لیکن اگر تم قرآن کریم کی ابتدائی سورۃ کی سات آیات کے معانی وروحانی خزائن جو اس میں بیان ہوئے ہیں تو رات میں سے نہ نکال سکو تو تمہارے منہ سے یہ سوال نہیں سجتا کہ پھر قرآن مجید کی ضرورت کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھی اور مختلف پہلوؤں سے لکھی، مختلف کتب میں لکھی.اب وہ تفسیر جس کے متعلق یہ چیلنج تھا کہ اپنی ساری تو رات میں سے اس کے معانی کے برابر بھی نکال دو تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارے ہاتھ میں کچھ ہے جو چیلنج انہیں منظور نہیں ہوا.اتنی زبردست جو تفسیر لکھی گئی تو وہ سارے بطونِ قرآن تھے جو ظاہر ہوئے کیونکہ جو اعتراضات آج کی عیسائی دنیا کر رہی تھی وہ پرانے نہیں تھے یا ان میں سے اکثر پرانے نہیں تھے.جو پرانے تھے ان کے تو جواب پہلے آچکے تھے.سورۃ فاتحہ کی وہ تفسیر اتنی عظیم ہے کہ ہمارے بڑے بڑے بزرگ مطالعہ کا شوق رکھنے والے اچھے حافظہ والوں میں سے بھی بعض نے مجھے کہا کہ جب ہم یہ پڑھتے ہیں تو اتنی ٹھوس اور مضامین سے اتنی بھری ہوئی ہے کہ بعض دفعہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا ذہن اس کو برداشت نہیں کر سکتا اور اس کو مزید سمجھنے کے لئے آرام ملنا چاہیے.اب جس شخص کو خدا تعالیٰ نے اس آخری زمانہ میں اسلام پر انتہائی حملوں کے وقت میں اسلام کی مدافعت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت کے لئے اس معلم حقیقی نے خود معلم بن کر قرآن کریم کے بے شمار بطون سکھائے.آج.

Page 364

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۴۴ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء کوئی کھڑا ہوکر کہے کہ جو معنے اس مہدی نے کئے ہمارے پہلے معانی سے مختلف ہیں اس لئے ہم ان کے اوپر کوئی پابندی لگائیں گے تو اس سے زیادہ شوخی کا اور کوئی کھیل نہیں ہو گا کہ خدا تعالیٰ آج اسلام پر اعتراضات کو دور کرنے کے لئے اور اسلام کو اس قابل بنانے کے لئے کہ اُمت مسلمہ دنیا کے دل کو پیار اور محبت کے ساتھ اور قرآن کریم کی حسین اندرونی تعلیم اور عظیم روشنی کے ساتھ جیتے.یہ سوچنا میرے نزدیک بڑی شوخی ہے اور بڑی جہالت اور اندھا پن ہے.تمہیں نظر نہیں آرہا کہ اس دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا تم اتنے ہی کند ذہن ہو؟ اور کیا ماضی سے اتنا ہی تمہارا تعلق کٹا ہوا ہے کہ تم بھول گئے ان اعلانوں کو جو ایک وقت میں اسلام کے خلاف عیسائیوں نے اور ہندوؤں نے اور آریوں نے اور سب دوسروں نے مل کر کئے تھے؟ ساری دنیا اسلام کو مٹانے کے لئے اکٹھی ہو گئی اور اس وقت جو دنیائے اسلام کہلاتی ہے وہ سوئی ہوئی تھی.اُن کو تو ان اعتراضوں کا بھی علم نہیں تھا، ان ہتھیاروں کا علم نہیں تھا جن سے اسلام پر حملہ ہوا تھا.اس وقت ایک شخص تھا جو راتوں کو خدا کے حضور جھک کے اس کی امداد کا طالب ہوتا تھا اور اس کی دی ہوئی مدد سے دن کے اوقات میں وہ دنیا کے سامنے اسلام کے پہلوان کی شکل میں ایک عظیم جرنیل کی صورت میں آتا اور اسلام کی مدافعت بھی کرتا.اسلام کی خوبیاں بیان کر کے دلوں کو جیتا تھا.وہ اکیلا آج ایک کروڑ کیسے بن گیا؟ خدا کی قدرت کا ہاتھ اس کے ساتھ ہے اور خدا تعالیٰ کے منشا کے بغیر دنیا کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا.ہمیں تو اس بات کی تسلی ہے لیکن تمہیں کس چیز کی تسلی ہے جو تم ہمارے رستہ میں روک بننا چاہتے ہو؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم میں خدا سے لڑنے کی طاقت ہے؟ یا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اسلام تمہاری ہی باتوں سے ان اعتراضات کی یلغار سے بچ جائے گا جن کو نہ اعتراض کی سمجھ نہ اس کی مدافعت کی طاقت اور علم.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف جگہ ان باتوں کو کھول کر بیان کیا ہے.آپ قرآن کریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آخر وہی ہے جو موجب اشراق اور روشن ضمیری کا ہو جاتا ہے اور عجیب در عجیب انکشافات کا ذریعہ ٹھہرتا ہے اور ہر ایک کو حسب استعداد معراج ترقی پر پہنچاتا ہے.راستبازوں

Page 365

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۴۵ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء کو قرآن کریم کے انوار کے نیچے چلنے کی ہمیشہ حاجت رہی ہے اور جب کبھی کسی حالت جدیدہ زمانہ نے اسلام کو کسی دوسرے مذہب کے ساتھ ٹکرا دیا ہے تو وہ تیز اور کارگر ہتھیار جو فی الفور کام آیا ہے قرآنِ کریم ہی ہے.ایسا ہی جب کہیں فلسفی خیالات مخالفانہ طور پر شائع ہوتے رہے تو اس خبیث پورہ کی بیخ کنی آخر قرآن کریم ہی نے کی اور ایسا اس کو حقیر اور ذلیل کر کے دکھلا دیا کہ ناظرین کے آگے آئینہ رکھ دیا کہ سچا فلسفہ یہ ہے نہ وہ.حال کے زمانہ میں بھی جب اول عیسائی واعظوں نے سراٹھایا اور بد فہم اور نادان لوگوں کو تو حید سے کھینچ کر ایک عاجز بندہ کا پرستار بنانا چاہا اور اپنے مغشوش طریق کو سوفسطائی تقریروں سے آراستہ کر کے ان کے آگے رکھ دیا اور ایک طوفان ملک ہند میں برپا کر دیا.آخر قرآنِ کریم ہی تھا جس نے انہیں پسپا کیا کہ اب وہ لوگ کسی با خبر آدمی کومنہ بھی نہیں دکھلا سکتے اور ان کے لمبے چوڑے عذرات کو یوں الگ کر کے رکھ دیا جس طرح کوئی کاغذ کا تختہ لپیٹے.پھر آپ فرماتے ہیں :.وو جانا چاہیے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر یک اہلِ زبان پر روشن ہوسکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر یک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یوروپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہوملزم و ساکت ولا جواب کر سکتے ہیں.وہ غیر محدود معارف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں اور ہر یک زمانہ کے خیالات کو مقابلہ کرنے کے لئے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں.”اے بندگانِ خدا! یقیناً یا درکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہر ایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور ہر یک زمانہ اپنی نئی حالت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کرتا ہے یا جس قسم کے اعلیٰ معارف کا دعویٰ کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف میں موجود ہے.قرآن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور جس طرح صحیفہ فطرت کے عجائب وغرائب خواص کسی پہلے

Page 366

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۴۶ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء زمانہ تک ختم نہیں ہوچکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں یہی حال ان صحف مطہرہ کا ہے تا خدائے تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو.اور میں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ قرآن شریف کے عجائبات اکثر بذریعہ الہام میرے پر کھلتے رہتے ہیں اور اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ تفسیروں میں ان کا نام ونشان نہیں پایا جاتا.اور یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن شریف کے ایک معنے کے ساتھ اگر دوسرے معنی بھی ہوں تو ان دونوں معنوں میں کوئی تناقض پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہدایت قرآنی میں کوئی نقص عائد حال ہوتا ہے بلکہ ایک نور کے ساتھ دوسرا نور مل کر عظمت فرقانی کی روشنی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے اور چونکہ زمانہ غیر محدود انقلابات کی وجہ سے غیر محدود خیالات کا بالطبع محرک ہے لہذا اس کا نئے پیرا یہ میں ہو کر جلوہ گر ہونا یا نئے نئے علوم کو بمنصۂ ظہور لا نا نئے نئے بدعات اور محدثات کو دکھلانا ایک ضروری امر اس کے لئے پڑا ہوا ہے اب اس حالت میں ایسی کتاب جو خاتم الکتب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اگر زمانہ کے ہر یک رنگ کے ساتھ مناسب حال اس کا تدارک نہ کرے تو وہ ہر گز خاتم الکتب نہیں ٹھہر سکتی اور اگر اس کتاب میں مخفی طور پر وہ سب سامان موجود ہے جو ہر یک حالتِ زمانہ کے لئے درکار ہے تو اس صورت میں ہمیں ماننا پڑے گا کہ قرآن شریف بلا ریب غیر محدود معارف پر مشتمل ہے اور ہر یک زمانہ کی ضرورات لاحقہ کا کامل طور پر متکفل ہے.اب یہ بھی یادر ہے کہ عادت اللہ ہر یک کامل ملہم کے ساتھ یہی رہی ہے کہ عجائبات مخفیہ فرقان اس پر ظاہر ہوتے رہے ہیں.66 پھر آپ فرماتے ہیں :.یہی زمانہ ہے کہ جس میں ہزار ہا قسم کے اعتراضات اور شبہات پیدا ہو گئے ہیں اور انواع اقسام کے عقلی حملے اسلام پر کئے گئے ہیں.اور خدائے تعالیٰ فرماتا ہے وَ إِنْ مِّنْ شَيْءٍ الا عِنْدَنَا خَزَايِنُهُ وَمَا نُنَزِّلَةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوم (الحجر : ۲۲) یعنی ہر یک چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقدر معلوم اور بقدر ضرورت ہم ان کو اتارتے ہیں.سوجس قدر معارف و حقائق بطونِ قرآنِ کریم میں چھپے ہوئے ہیں جو ہر یک قسم کے ادیان فلسفیہ و

Page 367

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۴۷ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء غیر فلسفیہ کو مقہور و مغلوب کرتے ہیں ان کے ظہور کا زمانہ یہی تھا.کیونکہ وہ بجر تحریک ضرورت پیش آمدہ کے ظاہر نہیں ہو سکتے تھے.سواب مخالفانہ حملے جو نئے فلسفہ کی طرف سے ہوئے تو ان معارف کے ظاہر ہونے کا وقت آگیا اور ممکن نہیں تھا کہ بغیر اس کے کہ وہ معارف ظاہر ہوں اسلام تمام ادیان باطلہ پر فتح پاسکے کیونکہ سیفی فتح کچھ چیز نہیں اور چند روزہ اقبال کے دور ہونے سے وہ فتح بھی معدوم ہو جاتی ہے.سچی اور حقیقی فتح وہ ہے جو معارف اور حقائق اور کامل صداقتوں کے لشکر کے ساتھ حاصل ہو.سو وہ یہ فتح ہے جواب اسلام کو نصیب ہورہی ہے.بلا شبہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے حق میں ہے اور سلف صالح بھی ایسا ہی سمجھتے آئے ہیں.یہ زمانہ در حقیقت ایک ایسا زمانہ ہے جو بالطبع تقاضا کر رہا ہے جو قرآن شریف اپنے ان تمام بطون کو ظاہر کرے جو اس کے اندر مخفی چلے آتے ہیں....یہ بات ہر ایک فہیم کو جلدی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اللہ جل شانہ کی کوئی مصنوع دقائق وغرائب خواص سے خالی نہیں.اور اگر ایک مکھی کے خواص اور عجائبات کی قیامت تک تفتیش و تحقیقات کرتے جائیں تو بھی کبھی ختم نہیں ہو سکتی.تو اب سوچنا چاہیے کہ کیا خواص و عجائبات قرآن کریم کے اپنے قدر واندازہ میں لکھی جتنے بھی نہیں.بلا شبہ وہ عجائبات تمام مخلوقات کے مجموعی عجائبات سے بہت بڑھ کر ہیں ( کیونکہ تمام کی تمام مادی مخلوقات کے مقابلے میں قرآن کریم اور اللہ تعالیٰ کے کلام کی حیثیت میں مقابلہ پر ہے) اور ان کا انکار در حقیقت قرآنِ کریم کے منجانب اللہ ہونے کا انکار ہے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے صادر ہو اور اس میں بے انتہا عجائبات نہ پائے جائیں.....وہ نکات و حقائق جو معرفت کو زیادہ کرتے ہیں وہ ہمیشہ حسب ضرورت کھلتے رہتے ہیں اور نئے نئے فسادوں کے وقت نئے نئے پر حکمت معانی بمنصہ ظہور آتے رہتے ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ قرآنِ کریم بذات خود معجزہ ہے اور بڑی بھاری وجہ اعجاز کی اس میں یہ ہے کہ وہ جامع حقائق غیر متناہیہ ہے.مگر بغیر وقت کے وہ ظاہر نہیں ہوتے.جیسے جیسے وقت کے مشکلات تقاضا کرتی ہیں وہ معارف خفیہ ظاہر ہوتے جاتے ہیں.دیکھو دنیوی علوم جو اکثر مخالف قرآنِ کریم اور غفلت میں ڈالنے

Page 368

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۴۸ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء والے ہیں.کیسے آج کل ایک زور سے ترقی کر رہے ہیں اور زمانہ اپنے علوم ریاضی اور طبعی اور فلسفہ کی تحقیقاتوں میں کیسی ایک عجیب طور کی تبدیلیاں دکھلا رہا ہے.کیا ایسے نازک وقت میں ضرور نہ تھا کہ ایمانی اور عرفانی ترقیات کے لئے بھی دروازہ کھولا جاتا.تا شرور محدثہ کی مدافعت کے لئے آسانی پیدا ہو جاتی.سویقینا سمجھو کہ وہ دروازہ کھولا گیا ہے اور خدائے تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ تا قرآن کریم کے عجائبات مخفیہ اس دنیا کے متکبر فلسفیوں پر ظاہر کرے.اب نیم ملا دشمن اسلام اس ارادہ کو روک نہیں سکتے.اگر اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئیں گے تو ہلاک کئے جائیں گے اور قہری طمانچہ حضرت قہار کا ایسا لگے گا کہ خاک میں مل جائیں گے.ان نادانوں کو حالت موجودہ پر بالکل نظر نہیں.چاہتے ہیں کہ قرآن کریم مغلوب اور کمزور اور ضعیف اور حقیر سا نظر آوے لیکن اب وہ ایک جنگی بہادر کی طرح نکلے گا.ہاں وہ ایک شیر کی طرح میدان میں آئے گا اور دنیا کے تمام فلسفہ کو کھا جائے گا اور اپنا غلبہ دکھائے گا.اور لیظهر عَلَى الدِّينِ كُلِهِ (الصف:۱۰) کی پیشگوئی کو پوری کر دے گا اور پیشگوئی وَلَيْسَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ (النور : ۵۶) کو روحانی طور سے کمال تک پہنچائے گا.کیونکہ دین کا زمین پر بوجہ کمال قائم ہو جانا محض جبر اور اکراہ سے ممکن نہیں.دین اس وقت زمین پر قائم ہوتا ہے کہ جب اس کے مقابل پر کوئی دین کھڑا نہ رہے اور تمام مخالف سپر ڈال دیں.سواب وہی وقت آ گیا.اب وہ وقت نادان مولویوں کے روکنے سے رک نہیں سکتا.اب وہ ابن مریم جس کا روحانی باپ زمین پر بجز معلم حقیقی کے کوئی نہیں جو اس وجہ سے آدم سے بھی مشابہت رکھتا ہے بہت سا خزانہ قرآنِ کریم کا لوگوں میں تقسیم کرے گا یہاں تک کہ لوگ قبول کرتے کرتے تھک جائیں گے اور لا یقبلۂ احد کا مصداق بن جائیں گے اور ہر یک طبیعت اپنے ظرف کے مطابق پر ہو جائے گی اس کام کے لئے کہ نوع انسانی میں سے ہر فرد کی طبیعت اپنے ظرف کے مطابق قرآنی علوم سے پُر ہو جائے یہ ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے کہ ہم اس بنیادی ذمہ داری کو سمجھیں اور نبھا ئیں تا کہ وہ خیر امت کی بنیادی خوبی ہم میں بھی پیدا

Page 369

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۴۹ خطبہ جمعہ ۲ نومبر ۱۹۷۳ء ہو جائے جو ہم سے پہلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہوئی اور جس کے نتیجہ میں اس وقت کی دنیا اس بنیادی اعجازی خوبی کا مقابلہ نہیں کرسکی اور اسلام کی طرف متوجہ ہوئی اسلام کو انہوں نے قبول کیا اسلام کی برکات سے انہوں نے فائدہ اٹھایا.آج کی ساری دنیا بھی امریکہ اور آسٹریلیا اور افریقہ اور جزائر اور ایشیا اور مشرق وسطی وغیرہ جو دنیا میں آبادیاں ہیں، ہمارے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نمونہ بنا اور دنیا تک نئے حقائق اور علوم کا پہنچانا ہمارے لئے ضروری ہے تا اس نمونہ کو دیکھ کر اور سمجھ کر وہ حقیقی مسلم بنے بغیر نہ رہ سکیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے لئے ایسے سامان پیدا کرے اور ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازے.(آمین) روز نامه الفضل ربوه ۱۲ / مارچ ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۸)

Page 370

Page 371

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۵۱ خطبہ جمعہ ۹ / نومبر ۱۹۷۳ء تحریک جدید کے چالیسویں سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۹ نومبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع تھا.اُس کے معا بعد دوران سر کا بڑا شدید حملہ ہوا جس کا اثر ابھی تک باقی ہے.اس وقت میں تحریک جدید کے چالیسویں سال کا اعلان کروں گا.تحریک جدید جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے.تحریک جدید کی ابتدا سے قبل اگر چہ احمدیت دنیا کے ملک ملک میں پہنچ چکی تھی اور قریباً ہر ملک میں دو ایک خاندان احمدیت کی طرف منسوب ہونے والے تھے.لیکن منظم طور پر اُس وقت کے ہندوستان سے باہر ابھی کام نہیں شروع ہوا تھا.اگر چہ جماعت اپنے مرکز اور اُس ملک میں جہاں جماعت کا مرکز تھا مضبوط ہو رہی تھی اور پھیل رہی تھی اور وسعت اختیار کر رہی تھی اور طاقت پکڑ رہی تھی لیکن اپنے مرکز کے ملک سے باہر منظم اور وسیع اور مؤثر اور کامیاب کام ابھی شروع نہیں ہوا تھا.پھر ”تحریک“ کی ابتدا ۱۹۳۴ء میں ہوئی تو جس طرح کوئی طاقت اپنی حدود میں سمانہ سکے اور پھر وہ زور لگا کر باہر نکلے اور پھیلے اس طرح جماعت احمدیہ کی طاقت جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لئے قائم کیا تھا ملک ہند میں سما نہ سکی.پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ وہ ملک ہند سے باہر نکلی اور بڑے زور اور جذ بہ اور قربانیوں کے ساتھ

Page 372

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۵۲ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء جماعت نے بیرون ہند غلبہ اسلام کی مہم کی کامیاب اور شاندار ابتدا کی.ہماری جماعتیں جو بڑی کثرت سے نائیجیریا میں یا غانا یا سیرالیون میں پائی جاتی ہیں یا مشرقی افریقہ کے بہت سے ممالک میں ہیں یا یورپ کی مساجد یا وہاں کے مشن ہاؤسز (Mission Houses) اور یورپ میں جو لمبے عرصہ سے ایک کام ہو رہا ہے.یہ بھی تحریک جدید کا کام ہے.صرف ایک مسجد انگلستان میں اس سے پہلے بنی تھی لیکن وہ بھی انگلستان میں تبلیغ کی ابتدا تھی.اور انسان کی تدبیر پراللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آتی ہے اور انسان کے منصوبوں پر اللہ تعالیٰ کا منصوبہ حاوی ہوتا ہے.ہمیں اسلام کو غالب کرنے کے لئے تدبیر کرنے اور منصوبے بنانے کا حکم ہے لیکن ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ ہم جس رنگ میں کوئی تدبیر یا منصوبہ بناتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے مختلف رنگ میں کامیابی بخشتا ہے.اور اس کے اثر کو بڑی شدت کے ساتھ ایک دوسری شکل میں دنیا بھر میں قائم کرتا ہے.انگلستان میں اگر چہ مسجد اور مبلغ کا مکان یا مشن ہاؤس جو خریدا گیا تھا وہ ”تحریک“ سے پہلے بن گیا تھا.قریباً دس سال پہلے اُس کی ابتدا ہو گئی تھی پھر کچھ وقت اُس کو بننے میں لگا.لیکن منصوبہ پہلے تیار ہو چکا تھا.اور آہستہ آہستہ کام ہو رہا تھا اور زیادہ تر کام یہ ہو رہا تھا کہ وہ لوگ جو اسلام کے متعلق غلط فہمیوں میں اس وجہ سے مبتلا تھے کہ اُن تک خبریں پہنچانے والے متعصب جان بوجھ کر غلط باتیں اسلام کے ماضی اور اُس کی انفرادیت کے متعلق اور اسلام کی عظمت کو گرا کر ایک پستی کی شکل میں پادری لوگ اس دنیا میں جس کا میں ذکر کر رہا ہوں ( یعنی یورپ میں ) پیش کر رہے تھے.پھر اس محاذ پر یعنی خیالات میں تبدیلی پیدا کرنے کے محاذ پر ایک جنگ لڑی گئی اور کافی حد تک کامیابی کے ساتھ وہ اپنے آخری دور میں پہنچ رہی ہے.ایک متوازی حرکت تھی.ایک طرف انسان کی ، اُس انسان کی جو مہدی معہود پر ایمان لا کر خدا تعالیٰ کا فدائی بن چکا تھا.ایک مہم تھی جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہ فرمایا ہے.وہ یہ تھی کہ وہ بنیادی چیزیں جو اسلام کے مقابلہ میں غلط ہیں لیکن کھڑی کی جاتی ہیں ان کی وجہ سے اسلام کی راہ میں مشکلات ہیں.اُن کو مٹادیں.مثلاً جہاں تک عیسائی دنیا کا تعلق ہے اور یہ بہت وسیع دنیا ہے.تثلیث کا مسئلہ، کفارہ کا عقیدہ اور مسیح علیہ السلام کی غلو والی محبت یہ تین چیزیں

Page 373

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۵۳ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء ނ بنیادی طور پر اسلام کے راستہ میں روک تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی تقدیران روکوں کو دور کرے گی.چنانچہ اب بہت جگہ آپ کو عجیب نظارہ نظر آئے گا.یا ما حول آپ دیکھیں گے کہ کیتھولک سے اگر آپ بات کریں تو وہ کہتے ہیں ہم تو خدائے واحد کو ماننے والے ہیں.اور ایک سے زائد خدا پر ایمان نہیں رکھتے.تمہارا سارا ماضی تثلیث اور اُس کی حمایت کے لئے تحریر و تقریر سے بھرا پڑا ہے.تمہاری آواز میں فضا میں ابھی تک گونج رہی ہیں.آج تم انکار کرتے ہو؟ یہ تبدیلی اس عرصہ میں ہوئی ہے جس کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتوں کو نازل کر کے حالات کو بدلے گا.کفارہ کے مسئلہ کا نام آج تمسخر کے لئے تو لیا جاسکتا ہے.وہ خود کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے اور نا معلوم کن لوگوں نے کس خیال کے ماتحت ایسا مسئلہ گھڑا تھا.ہم تو اسے نہیں مانتے.اور جہاں تک مسیح علیہ السلام کی محبت کا سوال ہے وہ تو دلوں.اس طرح مٹی کہ ہمارے لئے دُکھ کا باعث بن گئی.اس دورہ میں ایک جگہ میں نے کھل کر (اور ویسے عام طور پر باتوں باتوں میں ) اس کا ذکر کیا اور پریس کانفرنس میں مجھے کہنا پڑا میں نے کہا دیکھو ہم مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا یا خدا نہیں مانتے لیکن ہم مسیح علیہ السلام کو خدا کا ایک برگزیدہ رسول مانتے ہیں.ان کی رسالت پر جیسا کہ باقی تمام انبیاء کی رسالت پر ایک مسلمان کا ایمان لانا ضروری ہے ہم ایمان لاتے ہیں لیکن ہم حیران ہیں کہ تم جو بڑی شدت کے ساتھ اور غلو کے ساتھ اُن کے پیار کا دعویٰ کرتے ہو.تمہارے پیار کا یہ نتیجہ ہے کہ ایک پشپ صاحب نے چرچ کے اندر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ ساری عمر کی تحقیق جو میں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کے متعلق کی اُس کا نتیجہ میں یہ نکالتا ہوں کہ حضرت مسیح بدمعاش تھے اور لونڈے باز تھے.میں نے کہا یہ تمہاری محبت کا تقاضا ہے.سو وہ غلو تو ٹوٹ چکا ہم نے نہیں تو ڑا نہ ہم اس حد تک توڑ سکتے تھے کیونکہ ہم تو مسیح علیہ السلام کو خدا کا ایک برگزیدہ نبی مانتے ہیں لیکن ان کے دلوں کو جھنجوڑا گیا اور وہ صداقت پر قائم رہنے کی بجائے چھلانگ لگا کر دوسری طرف چلے گئے.اور پہلے ایک انتہا پر تھے اب دوسری انتہاء پر پہنچ گئے.صراط مستقیم نہ پہلے ان کے پاس تھا نہ بعد میں رہا.لیکن شکل بدل گئی اور یہ ہمیں پہلے سے بتایا گیا تھا.پس یہ متوازی حرکتیں تھیں.ایک جماعت احمدیہ کے

Page 374

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۵۴ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء مخلصین کی خدا کی راہ میں جدو جہد اور مجاہدہ جو خیالات میں تبدیلی پیدا کر رہا تھا.لٹریچر تقسیم کر کے، صداقت اُن کے سامنے رکھ کر.تقریر سے، گفتگو سے، تحریر سے، اخبارات میں مضمون شائع کرنے سے اور پہلے بھی میں نے بتایا مثلاً اس مرتبہ میں نے جو اسلام کی تعلیم کا رُخ اور جو پہلوان کے سامنے رکھا.اسلام کی تعلیم تو بڑی وسیع ہے اس کی تفاصیل گھنٹے یا دو گھنٹے کی پریس کا نفرنس میں تو نہیں بتائی جاسکتیں.بعض پہلوؤں کا انتخاب کر کے اُن کو قائل کرنے کے لئے بتانے پڑتے ہیں تو کسی ایک شخص نے کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں کہا کہ جو باتیں آپ ہم سے کر رہے ہیں اور اسلام کا یہ پہلو جو آپ ہمارے سامنے رکھ رہے ہیں ہم اس سے اختلاف کرتے ہیں.اور اسے ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ ہر جگہ ان کے سر اقرار میں ہے.جیسا کہ میں نے کہا ایک دوافراد نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ جو باتیں ہمیں بتا رہے ہیں یہ بہت اچھی ہیں اور اس کی تعلیم بہت ہی اچھی ہے اور حسین ہے لیکن ہمارے عوام تک پہنچانے کے لئے آپ نے اس کا کیا انتظام کیا ہے.تحریک جدید پڑھے لکھے لوگوں کے خیالات میں جو کہ اسلام کے خلاف فضا کو خراب کرنے والے تھے تبدیلی پیدا کی.لیکن ابھی عوام تک پہنچنے کا وقت نہیں آیا تھا.اس لئے ایسا سوال کیا گیا.جس کا جواب یہی تھا کہ تمہارے عوام تک پہنچنے کی بھی کوشش کریں گے.بہر حال ساری دنیا پر روحانی یلغار پہلی مرتبہ خدا تعالیٰ کے محبوب مہدی علیہ السلام کی جماعت نے جو کی وہ تحریک جدید کے ذریعہ ہوئی اور جس طرح ایک بہادر اور شجاع اور نڈر اور ایک جانثار فوج کی صفیں بے دھڑک دشمن کے علاقہ میں گھستی چلی جاتی ہیں.اسی طرح ہمارے مبلغین دنیا کے ملک ملک میں جہاں بھی انہیں بھیجا گیا وہاں چلے گئے.اور کوئی پرواہ نہیں کی کہ وہاں کے حالات کیا ہیں اور ہمیں کیا تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی.اور ایک لمبی جدوجہد کے بعد جس کی ابتدا قریباً چالیس سال پہلے ہوئی یہ ہماری زندگیوں کے لحاظ سے بڑی لمبی جدو جہد ہے.اجتماعی اور قومی اور جماعتی زندگی میں تو یہ چالیس سال کا زمانہ ایسا لمبا زمانہ نہیں.لیکن انفرادی طور پر ایک نسل کی زندگی میں بڑا زمانہ ہے.اتنی بڑی جدوجہد کے بعد ملک ملک میں اُنہوں نے اپنے مقام ہدایت اور روشنی کے مینار کھڑے کئے اور کام کیا اور صف اوّل کا کام کیا.اور پہلی صف میں جو خلا پیدا ہو جاتا ہے اُس کو پر کرنے کے لئے ہمارے مبلغین جاتے

Page 375

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۵۵ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء ہیں.اُن کو وہ تکلیف تو برداشت کرنا نہیں پڑتی.ہمارے نذیر احمد علی صاحب شہید ( اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بہت بلند کرے) سیرالیون میں مدفون ہیں.جب وہ پہلی مرتبہ بھیجے گئے.وہ خدا کا ایک دلیر سپاہی تھا.مجھے افریقیوں نے بتایا ہے کہ اُنہوں نے یہ کرنا شروع کیا کہ کتابوں کی گٹھڑی کچھ اپنے سر پر کچھ کسی دوسرے کے سر پر رکھ کر ایک گاؤں میں گئے.وہاں کے لوگوں نے کہا ہم تمہیں ماریں گے.نکل جاؤ یہاں سے ! انہوں نے جواب دیا ٹھیک ہے میں لڑنے نہیں آیا.میں تو ایک صداقت تمہارے سامنے رکھنے آیا ہوں.تمہیں پسند نہیں تو میں چلا جاتا ہوں.پھر اگلے گاؤں میں گئے.پھر وہاں سے بھی نکالے گئے یہاں تک کہ دو چار گاؤں کے بعد پھر کسی شریف آدمی نے کہا کہ کہاں مارے مارے پھرو گے تمہیں پناہ دے دیتا ہوں.پھر وہاں انہوں نے قیام کیا.اور انہیں باتیں بتا ئیں.سچی باتیں دل پر اثر کرتی ہیں.اس طرح اُنہوں نے تبلیغ کی اب جو ہمارا نوجوان سیرالیون میں جاتا ہے جہاں اُن کی قبر ہے تو وہ ایک بنے بنائے مضبوط قلعے میں جاتا ہے.اُس کو تو کوئی تکلیف نہیں.اُس کو سر کے اوپر کتابوں کا بنڈل رکھ کر نہیں گھومنا پڑتا.پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں زیادہ تکلیف ہے.اُن کے مقابلہ میں تمہیں زیادہ تکلیف کیسے ہو گئی.بہر حال صفتِ اوّل کی تحریک جدید کو بیرون مرکز تبلیغ کی ابتدا کرنے اور کامیاب کرنے کی خصوصیت حاصل ہے.ایک صف نکلی تھی جو علاقوں میں پھیل گئی.اب ہماری دوسری صفیں مثلاً نصرت جہاں کی سکیم کے ماتحت کنسولی ڈیشن (Consolidation) یعنی ان پہلی صفوں کو استحکام بخش رہی ہیں.جن علاقوں میں اُنہوں نے احمدیت قائم کی.احمدیت کے اثر ورسوخ کو مستحکم اور زیادہ کرنے کے لئے اور پھر ان مبلغین کی اس معنی میں امداد کرنے کے لئے کہ لوگ زیادہ توجہ کریں اور صحیح اسلام کو سیکھنے کی کوشش کریں.اس کے لئے ہم کثرت کے ساتھ اب استاد اور ڈاکٹر بھیج رہے ہیں اور وہاں سکول کھولے گئے ہیں.ایک نیا سکول کھلا ہے.پرسوں مجھے ایک خط آیا ہے کہ پرانے سکولوں سے سر ٹیفکیٹ لے کر ہماری طرف آرہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.بہر حال اس وقت جہاں تک غلبہ اسلام کی مہم کا سوال تھا شکل تو بدل گئی ہے لیکن یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ پہلی صف جو دنیا پر اسلام کے غلبہ کے لئے روحانی ہتھیار..

Page 376

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۵۶ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء لے کر روحانی اسلحہ کے ساتھ جو آگے بڑھے اور اُنہوں نے یلغار کی وہ تحریک جدید اور بعض لحاظ سے اُس کی صف اوّل ہے.یہ کام بڑا اہم تھا اور شاندار نتائج کا حامل بنا اور اپنے ان بھائیوں کے لئے جو اس میں شامل ہوئے اور جنہوں نے ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے ملک ملک میں جا کر خدا کے نام کو بلند کیا اور اس کی توحید کو قائم کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار دلوں میں بٹھا یا.یہ صتِ اوّل تحریک جدید کی صف ہے.تحریک جدید کے قیام سے پہلے اس طرح کی کوئی مہم نہیں تھی اور تحریک جدید کے قیام کے بعد اور بہت سی صفیں پیدا ہوگئیں.اور آئندہ بھی ہوں گی لیکن جیسا کہ میں نے بتایا نصرت جہاں سکیم جس کا کام ابھی تک مستحکم کرنا تھا یعنی تحریک جدید کی صفتِ اول نے جن علاقوں کو خدا کے نام پر اسلام کے لئے فتح کیا تھا ان علاقوں میں اسلامی تعلیم کی ممدو معاون ہونے کے لئے ایک سکیم چلائی گئی ہے اور اس کی اپنی برکتیں ہیں اور اس کے اپنے نتائج ہیں.اس کے بعد دوسری صفیں آئیں گی.اور ان صفوں میں سے نکل کر آگے گزر جائیں گی.جیسا کہ دنیا کا طریق ہے جیسا کہ قانونِ قدرت ہے کہ ہر لہر کے بعد ایک دوسری لہر آتی ہے جو اُس پانی کو آگے لے کر جارہی ہوتی ہے.جس طرح مادی پانی کو سمندر کی لہریں یکے بعد دیگرے اُس کے مذ کے وقت آگے ہی آگے پہنچاتی ہیں اسی طرح اس روحانی پانی کی پہلی ہر جس نے ظلمات کے کناروں پر یلغار کی اور آگے بڑھی وہ تحریک جدید ہے.وہ صف اوّل ہے وہ پوانیر (Poinear) یعنی ہر اول دستے ہیں.وہ ہم میں سے پہلے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین اور احسن جزا دے جنہوں نے غلبہ اسلام کی ایسی مہم میں پہل کی اور دنیا میں نکلے اور علاقوں کو خدا اور اس کے رسول کے لئے فتح کیا اب یہ ایک دوسری لہر آئی ہے جو استحکام کا کام کر رہی ہے اور آگے بڑھنے کے لئے حالات پیدا کر رہی ہے پھر ایک اور صف پیچھے سے آئے گی جوان صفوں سے آگے نکل جائے گی یہاں تک کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آجائے گا.اور خدا تعالیٰ کا وعدہ اپنی پوری شان اور کامل عروج کے ساتھ پورا ہوگا.اور ہمارے دل جن کی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ یہ حالات پیدا کرے گا خدا کی حمد سے اور خدا کی پیدا کردہ خوشیوں سے معمور ہو جا ئیں گے.بہر حال تحریک جدید کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی.نہ اُن کو بھلایا جا سکتا ہے جنہوں نے ان مشکلات

Page 377

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۵۷ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء کے وقت میں دنیا میں مہدی کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کے لئے باہر نکل کر تکالیف برداشت کیں اور اسلام کے لئے کام کیا.یہ کام ختم نہیں ہوا یعنی تحریک جدید کا حملہ ایک جگہ تک گیا.پھر اور صفیں تیار ہو رہی ہیں.مبلغ تیار ہورہے ہیں.کتابیں طبع ہو رہی ہیں.وہ بھی جائیں گے جماعت میں وسعت پیدا ہورہی ہے کسی اور نام کے ساتھ بھی لوگ باہر جائیں گے لیکن تحریک جدید کا نام ہماری تاریخ سے محو نہیں کیا جا سکتا.اسے قیامت تک چلنا ہے اور اسے کامیاب رکھنے کے لئے جس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے بہر حال اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے ہم نے ان قربانیوں کو اُس کے حضور پیش کرنا ہے.تحریک جدید کی اہمیت کے ایک پہلو کو نمایاں کر کے میں نے اس وقت آپ کے سامنے رکھا ہے.انتالیس سال گزر چکے ہیں اور قیامت تک خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کتنے سال اور گذریں گے ہر سال ہم نے پہلے سے آگے قدم رکھنا ہے.ہر سال ہمارے کام میں وسعت اور شدت پیدا ہوگی اور ہر سال جماعت کی وسعت کے ساتھ جماعت کی قربانیوں میں بھی ایک وسعت پیدا ہوگی.اس وقت میں چالیسویں سال کا اعلان کر رہا ہوں.اس سے قبل چونتیسویں سال سے لے کراُنتالیسویں سال کے وعدوں کی رفتار یہ ہے.تحریک جدید کے چونتیسویں سال میں پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے کے وعدے تھے.پینتیسویں سال میں چھ لاکھ تیس ہزار کے وعدے تھے.چھتیسویں سال میں چھلا کچھ پینسٹھ ہزار روپے کے وعدے تھے.سینتیسویں سال میں ملک کے حالات کے لحاظ سے ایک جھٹکا لگا.گو ہمارا قدم پیچھے تو نہیں ہٹا لیکن وعدوں میں کمی آگئی.اور اُس سال چھ لاکھ اڑتیس ہزار روپے کے وعدے تھے اور پھر جماعت نے سنبھالا لیا اور ظاہری طور پر بھی پیچھے تو جماعت کبھی نہیں ہٹی نہ ایک جگہ ٹھہری ہے لیکن ملک کے حالات کی وجہ سے جس کی تفصیل میں اس وقت جانا مشکل ہے.بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وعدے کم ہیں لیکن عملاً کم نہیں.اڑتیسویں سال میں چھ لاکھ پچھتر ہزار روپے کے وعدے اور اُنتالیسویں سال میں سات لاکھ دس ہزار روپے کے وعدے تھے اور اگر آپ کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ میری دعائیں قبول فرمائے تو میں نے جو سات لاکھ نوے ہزار روپے کا

Page 378

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۵۸ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء نشانہ مقرر کیا ہے اس سال وہ آپ پورا کر دیں.وہ میں نے آپ کے سامنے ایک آئیڈیل (Ideal) ( مثالی ) چیز رکھی ہے.اس سال سات لاکھ نوے ہزار روپے کے وعدے ضرور آجانے چاہئیں.وعدوں کے لحاظ سے آمد قریباً ہر سال ہی زیادہ ہوتی ہے.اس واسطے اُس کی تفصیل میں میں نہیں جاتا.آپ سات لاکھ نوے ہزار کے وعدے کریں اور اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے گا اس سے زیادہ قربانیاں اُس کے حضور پیش کرنے کی.وعدے پیش کرنے اور دفتر میں ریکارڈ کروانے کی آخری تاریخ (۳۱ ر فتح ھش ۱۳۵۲) ۳۱ دسمبر ۱۹۷۳ ء ہے.اسے نہ افراد بھولیں نہ جماعتیں اسے نظر انداز کریں اور ۳۱ دسمبر تک چالیسویں سال کے وعدے سات لاکھ نوے ہزار تک پہنچا ئیں.سات لاکھ دس ہزار کے مقابلہ میں اتنی ہزار کا اضافہ کوئی مشکل امر نہیں ہے.ہمت کریں اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے گا.بعض نے وعدے پیش کر دیئے ہیں.غالباً بعض جماعتوں کی طرف سے بھی آگئے ہیں.ہماری آپا صدیقہ صاحبہ (جنہیں آپ اُتم متین کہتے ہیں ) اُنہوں نے ابھی مجھے اپنا وعدہ بڑھا کر اور عزیزہ امتہ العلیم صاحبہ ( بنت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب) کا وعدہ یہاں آتے ہوئے دیا تھا اور بھی بہت سے وعدے ہو جائیں گے لیکن دسمبر کے آخر تک پورے کے پورے وعدے آجانے چاہئیں.ہمارا وعدوں کا سال نومبر کے اوائل سے شروع ہوتا ہے اور ہماری ادائیگیوں کا سال اپریل کے آخر میں ختم ہوتا ہے.یہ جو بیچ کا زمانہ ہے اس میں سب وعدے آتے ہیں اور کچھ ادائیگیاں بعض لوگ ہمت کر کے کر دیتے ہیں.یا جنہوں نے اپنا معمول یہ بنالیا ہے کہ اس عرصہ میں پہلے دے دیں گے.اور بعض کا معمول ویسے ہی کسی وجہ سے شروع سے یہ بن گیا کہ وہ ادائیگیاں یکم مئی کے بعد کریں گے.بے خیالی میں اُنہوں نے اپنا معمول یہ بنالیا ہے.اور پھر ایک سال میں دو سال کے وعدے تو نہیں دے سکتے.اس لئے اُن کا وہی معمول چل رہا ہے.بعض لوگ پہلے ہی دے دیتے ہیں.بہر حال تحریک جدید کا سال نومبر کے شروع میں شروع ہوتا ہے اور اُسی کے چالیسویں سال کی ابتدا کا میں اعلان کرتا ہوں.اس اعلان کے ساتھ کہ وعدے ۳۱ دسمبر تک سات لاکھ نوے ہزار ہو جانے چاہئیں.اور اِس اُمید کے ساتھ اور دعاؤں کے

Page 379

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۵۹ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء ساتھ کہ سالِ رواں کے جو وعدے سات لاکھ دس ہزار روپے کے ہیں جماعت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے اُس سے زیادہ رقم اس سال کے تحریک جدید کے چندوں میں اپریل کے آخر تک ادا کر دے گا اور پھر دوسرا بھی یہ کچھ عرصہ ہے جس میں کھتائی کے لحاظ سے دونوں سال اکٹھے چلتے ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کچھ اور صفیں تیار کی گئیں اور کچھ اور قربانیاں دینے والے آگے آئے اور تحریک جدید کے اُن علاقوں میں جن پر تحریک جدید کی پہلی صف نے روحانی طور پر قبضہ کیا.جسمانی اور مادی اور ظاہری سیاست میں احمدی کو کوئی دلچسپی نہیں.اس لئے جب ہم ایسے الفاظ بیان کرتے ہیں یا ایسی اصطلاحیں ہماری زبان پر آتی ہیں تو صرف روحانی طور پر مراد ہوتی ہے.پس روحانی طور پر بعض علاقوں پر تحریک جدید کی پہلی صفوں نے قبضہ کیا.اور انہیں مستحکم کرنا شروع کیا اور نصرت جہاں آگے بڑھوں کے منصوبہ کے ماتحت اس میں اور استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور بعض نئی جگہوں پر اس ہتھیار کے ساتھ جو خدمت کا زبردست ہتھیار ہے اس کے ذریعہ سے فضا کو سازگار کرنے کی مستقل طور پر کوششیں کی جارہی ہیں.اور تحریک جدید نے اور بھی بہت سے کام کرنے ہیں زمانہ کے حالات جب سے آدم پیدا ہوئے بدل رہے ہیں.ہمارے ملک میں ایک وقت میں زرمبادلہ کی کوئی کمی نہ تھی جتنی ہمیں ضرورت ہوتی تھی ہم باہر خرچ کر سکتے تھے.پھر اللہ تعالیٰ کے علم میں تو تھا کہ اس قسم کی ایک دقت پیدا ہونے والی ہے.اتنی دقت پیدا ہوئی کہ اب ہمیں اپنے ملک سے کوئی زرمبادلہ باہر بھجوانے کے لئے نہیں ملتا.لیکن اللہ تعالیٰ نے بیرون پاکستان، جماعت کو اتنا استحکام بخشا ہے کہ بیرونِ پاکستان کی جماعتیں ، بیرونِ پاکستان اپنے تمام اخراجات پورے کرنے کے بعد بھی اپنے (Reserve) ریز رو(اندوختے ) بنارہی ہیں.حالانکہ ۱۹۴۴ء سے پہلے ایک دھیلہ بھی ان کی کھتائی میں نہیں آیا تھا.اتنا عظیم انقلاب ۱۹۴۴ء سے ۱۹۷۳ء کے درمیان ہو گیا.انقلابات آرہے ہیں.اب یہ زمانہ بدل گیا ہے.زمانہ میں تبدیلی کے ساتھ ہماری سوچ اور فکر کا انداز بھی بدلتا ہے اور اللہ تعالیٰ نئی راہیں ہمارے لئے کھولتا ہے اور مختلف نئے دروازے ہمارے لئے پیدا کرتا ہے.اخلاص کی نئی بارشیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں اور احمدی کے سینہ و دل کو معمور کر دیتی ہیں اور وہ قربانی دیتا ہے.باہر کی

Page 380

خطبات ناصر جلد پنجم ٣٦٠ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء جماعتیں اتنی قربانی دینے لگی ہیں کہ بعض دفعہ شک ہوتا ہے کہ کہیں قربانیوں میں وہ مرکز کی جماعتوں سے آگے نہ نکل جائیں.پھر جتنی وسعت ملک سے باہر پیدا ہوگی اسی نسبت سے اس سے کہیں زیادہ وسعت اور استحکام اور مضبوطی اور بنیادوں میں پھیلا ؤ ہمارے ملک میں مرکز میں ہونا چاہیے.اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سامان پیدا کرتا ہے.اس کے لئے بھی آپ قربانیاں دیں اور میں تو اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے والا نمبر ایک ہوں.ہم اس کی راہ میں قربانیاں دیں گے.کیونکہ ایک فرض انفرادی ہوتا ہے اور ایک عہدہ کے لحاظ سے فرض ہوتا ہے.ہر احمدی پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں.لیکن احمدی عہدیداروں پر اپنی ذمہ داریاں ہیں.عہدے کے لحاظ سے وہ ہر فر د جماعت کی ذمہ داریوں سے مختلف ہیں وہ بھی ایک ذمہ داری ہے اور جو امام اور خلیفہ وقت ہوگا اس کی سب سے بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس شخص کا خلیفہ اور نائب ہے جس کی زبان سے یہ کہلایا گیا ہے اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (الانعام: ۱۶۴) وہ اوّل ہونے کے لحاظ سے قربانیاں دینے میں بھی اول ہے اور مجھ سے پہلوں نے بھی قربانیاں دیں اور ہم بھی ہر وقت تیار ہیں.جس قسم کی قربانی کی بھی ضرورت ہوگی اس میں اول نمبر تمہارا.امام ہو گا.ہم سائق نہیں قائد ہیں.آگے جا کر آپ لوگوں کو پیچھے دوڑانے والے ہیں کہ آؤ خدا کی راہ میں یہ قربانیاں دیں.اور جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتی ہے جس قسم کی بھی قربانیاں اللہ تعالیٰ ہمارے ملک میں یا دوسرے ملکوں میں لینا چاہتا ہے تو جماعت خدا کے فضل سے تربیت یافتہ ہے اور ایثار پیشہ ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں خلیفہ وقت اور امام وقت کی قیادت میں ہر قربانی دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہے اور عملاً اس کے نمونے وہ پیش کر رہی ہے جو مطالبہ کیا جاتا ہے اسے پورا کر رہی ہے.تحریک جدید کی مہم کے لئے بھی غیر ممالک زرمبادلہ جمع کریں گے ہم یہاں سے روپیہ نہیں دے سکتے.کتا بیں بھجوا سکتے ہیں.مبلغ بھجوا سکتے ہیں.مبلغوں کے قیام پر خرچ کر سکتے ہیں.لیکن زرمبادلہ کی شکل میں ہم باہر رقم نہیں بھجوا سکتے.اس وقت میں موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بیرون پاکستان کی احمدی جماعتوں کو بھی اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے کم از کم دومشن ایسے ہیں جہاں کی مسجد میں مرمت طلب ہیں اور ان پر میرے اندازے کے مطابق دس ہزار پاؤنڈ کے

Page 381

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۶۱ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء قریب رقم ( جو زیادہ نہیں ہے) خرچ آئے گی.اس کا انہیں انتظام کرنا چاہیے.اس کے علاوہ ہمیں دو نئی جگہ مساجد کی تعمیر اور مشن ہاؤسز (Mission Houses) کی تعمیر کرنا ہوگی.اور اس کے لئے بھی ہمیں ممکن ہے بیس ہزار یا شاید تیس ہزار پاؤنڈ خرچ کرنا پڑیں گے.پس بیرون پاکستان کی احمدی جماعتوں کو ابھی سے اس ذمہ داری کے ساتھ اٹھانے کے لئے تیاری شروع کر دینی چاہیے.جہاں ہماری ضرورتیں اب سامنے آرہی ہیں ان میں سے ایک ناروے ہے اور ایک سویڈن ہے.پھر اس کے بعد ان قریب قریب چار ممالک میں سے فن لینڈ رہ جائے گا جہاں اس لئے ضرورت ہے کہ وہ اشتراکیت کے علاقوں کی سرحدوں پر ہے اور وہاں مشن کا کھولا جانا بہت ضروری ہے اور ممکن ہے یورپ کے بعض اور علاقے ہوں جہاں ہمیں مشن کھولنا پڑیں.اور جب وہ مشن کھلیں گے تو وہاں ان کے لئے لٹریچر ان زبانوں میں مہیا کرنا اور دوسرے ایسے اخراجات جو یہاں ہو سکتے ہیں ان کا انتظام کرنا یہاں کی جماعتوں کا کام ہوگا.ایک اور بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جماعت کے وہ نوجوان جن کو اللہ تعالیٰ نے زبان سیکھنے کا ملکہ عطا کیا ہو وہ صرف اس حد تک اپنے آپ کو وقف کریں کہ مجھے اطلاع دیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے زبان سیکھنے کا ملکہ عطا کیا ہے اور ہم غیر زبان بڑی سہولت اور آسانی سے سیکھ سکتے ہیں.پھر ان میں سے انتخاب کر کے اور اللہ تعالیٰ جنہیں تو فیق عطا کرے ان کو ٹریننگ دلوا کر بہت سے ایسے نوجوان تیار کرنا پڑیں گے جو دوسری زبانیں جانتے ہوں.خود اپنے ملک میں بھی ایسی سندھی جاننے والے جو دقیق مذہبی اصطلاحات کا ترجمہ کر سکتے ہوں ان کی ہمیں ضرورت ہے ایسے پشتو بولنے والے جو دقیق مذہبی اصطلاحات کا پشتو میں ترجمہ کر سکیں ان کی ضرورت ہے.فارسی جاننے والوں کی ضرورت ہے اور عربی کے لئے تو بہت کچھ سہولتیں ہمارے پاس ہیں اتنی سہولت فارسی زبان کی نہیں.حالانکہ ہمارے لئے اوّل نمبر پر عربی زبان ہے دوسرے نمبر پر اردو ہے اور تیسرے نمبر پر فارسی زبان ہے.فارسی بڑی اہم ہے جماعت کے لئے اہم ترین تین زبانوں میں سے فارسی اس لئے بھی ہے کہ مہدی معہود جن کے آنے کی پیشگوئی تھی اور جو آچکے اُن کو فارس النسل کہا گیا تھا.اور دوسرے دنیا میں جو مسلمان خطے کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں ان

Page 382

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۶۲ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء میں بہت بڑا علاقہ فارسی بولنے والوں کا ہے.جو روس کے اندر تک گیا ہوا ہے.اور دنیا میں تبلیغ کے لئے جو زبانیں ہمیں چاہئیں ان میں سے پہلے محض انگریزی ہمارا کام کر دیتی تھی.اس لئے کہ دولت مشتر که ساری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی.اور انگریزی بولنے والے ملک ملک میں تھے.یہاں تک کہ یورپ کے وہ ممالک جو دولت مشترکہ کا حصہ نہیں تھے بلکہ انگریزوں سے برسر پیکار رہتے تھے وہ بھی اپنے بچوں کو انگریزی ضرور سکھاتے تھے.مثلاً جرمنی ، اس کی دومرتبہ انگریزوں سے لڑائی ہوئی لیکن دوسری جنگ سے معا پہلے جب میں آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا تو چھٹیوں میں ادھر اُدھر پھرا کرتا تھا.مجھے کرید کر پوچھنے کی عادت ہے اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ جرمن سکولوں میں انگریزی ضرور پڑھائی جاتی ہے.وہاں دو قسم کے سکول ہیں ایک سائنس کے اور ایک آرٹس کے، آرٹس کے سکولوں میں دو زبانیں جرمن زبان کے علاوہ ضرور پڑھائی جاتی ہیں.ان میں سے ایک انگریزی ہے، یعنی عام طور پر ان کا اسی فیصد طالب علم انگریزی جانتا تھا.لیکن اب وہ حالت نہیں رہی.اب تو اتنا فرق پڑ گیا ہے کہ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ جرمن ملک میں اسی فیصد کی بجائے انگریزی جانے والے شاید ۱۰ فیصد رہ گئے ہیں.اور یہاں تک کہ جرمنی میں فرینکفرٹ کے مقام پر میری پریس کانفرنس ہوئی اور زیورک (سوئٹزرلینڈ.جہاں کا ایک بڑا حصہ جرمن زبان جانتا ہے ) وہاں بھی ایک پریس کانفرنس ہوئی تو بہت سے پڑھے لکھے صحافی تھے جن کو بس واجبی سی انگریزی آتی تھی.فرینکفرٹ میں ایک صحافیہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے لئے وضاحت کرتی تھی کہ میں یہ کہہ رہا ہوں.وہ سمجھتی تھی کہ اس کے ساتھی جو میں کہہ رہا ہوں وہ سمجھ نہیں رہے.پس پہلے جوا کیلی انگریزی زبان ہمارا کام کرتی تھی وہ اب نہیں کر رہی.اب ہمیں جرمنی میں تبلیغ کرنے کے لئے جرمن زبان کے ماہر اور فرانس میں تبلیغ کرنے کے لئے فرانسیسی زبان کے ماہر اور سپین میں تبلیغ کرنے کے لئے سپینش زبان کے ماہر اور ڈنمارک میں تبلیغ کے لئے ڈینش زبان کے ماہر اور سویڈن میں تبلیغ کے لئے سویڈش زبان کے ماہر اور ناروے میں تبلیغ کے لئے نارو یجئین زبان کے ماہر اور فن لینڈ میں تبلیغ کے لئے فینش زبان کے ماہر اور یوگوسلاویہ میں تبلیغ کے لئے یوگوسلاوین اور البانین ( وہاں کی دو زبانیں ہیں) ان کے ماہر اور اٹلی میں تبلیغ کے لئے اٹیلسین

Page 383

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۶۳ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء زبان کے ماہر چاہئیں.غرضیکہ ملک ملک کی زبان احمدیوں کو گروپ کے لحاظ سے آنی چاہیے.ایک گروپ ایسا ہو جو ٹیلین زبان سیکھ رہا ہو ایک ہو جو فرانسیسی زبان سیکھ رہا ہو.وغیرہ وغیرہ.پھر افریقہ کی قبائلی زبانیں ہیں.وہ ان کی نیم قومی زبانیں ہیں.وہاں شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں کی قومی زبان کوئی ایک ہو.صرف سواحیلی زبان مشرقی افریقہ میں ہے جو زیادہ بولی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے بعض ماہر اس زبان کے دے دیئے تھے.اور قرآن کریم کا ترجمہ ہو گیا.ہمارے یہاں خود پاکستان میں سندھی میں تفسیر صغیر کا ترجمہ نہیں ہو سکا.اب میں نے ایک دوست کو لگا یا ہے.ان کو میں نے تاکید کی ہے کہ ایک سال کے اندر اندر مجھے دس پاروں کا ترجمہ دو تا کہ پہلی جلد ہم سندھی میں شائع کرسکیں اور پھر اس کے بعد ہر سال ایک ایک جلد شائع ہو اور تین سال بعد یہ مکمل ہو جائے.پھر اکٹھا شائع کریں.پھر اس کے اوپر تنقید ہوگی.تبصرے ہوں گے کچھ غلط تبصرے ہوں گے اور کچھ صحیح.اس کے نتیجہ میں اگر زبان کا کوئی محاورہ غلط استعمال ہو گیا ہو تو اس کی تصحیح کرنی پڑے گی.لیکن اب سندھی میں بھی گجراتی زبان جو بمبئی وغیرہ میں بولی جاتی ہے اور سندھ یہ کسی زمانہ میں ایک ہی صوبہ رہا ہے.کراچی میں اور حیدر آباد میں اور سندھ کے مختلف علاقوں میں نیز دوسرے بہت سے مسلمان گجراتی بولنے والے ہیں اور مطالبہ تو بہر حال میرے پاس آنا ہے وہ آجاتا ہے کہ ہم نے فلاں جگہ تبلیغ کی وہ کہتے ہیں کہ گجراتی زبان میں لٹریچر دو.اب اگر آپ گجراتی نہیں پڑھیں گے اور اس کے ماہر نہیں بنیں گے تو میں گجراتی زبان میں کہاں سے لٹریچر مہیا کروں گا.بہر حال یہ کام تو انسانوں نے کرنا ہے.آسمان سے فرشتوں نے آکر زبانوں میں تراجم نہیں کرنے.یہ ہماری ذمہ داری ہے.ان تراجم کے نتیجہ میں دنیا میں اثر پیدا کرنا یہ فرشتوں کی ذمہ داری ہے.لیکن تراجم کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے کام بٹا ہوا ہے.تقسیم کا ر ہے.جو ہمارا کام ہے وہ ہم نے کرنا ہے کسی اور نے نہیں کرنا.ملائکہ نے بھی نہیں کرنا.جو ملائکہ کا کام ہے وہ ہم کر ہی نہیں سکتے.ڈاکٹر بھیجنا ہمارا کام تھا.وہ ہم نے بھیج دیئے.نسخہ لکھنا ڈاکٹر کا کام تھا وہ نسخہ لکھ دیتا ہے شفا دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.آسمانوں سے فرشتے آئے اور انہوں نے ہمارے ان ڈاکٹروں کے ہاتھ میں جو نصرت جہاں سکیم کے ماتحت باہر گئے تھے شفا رکھ دی اور ان کے علاج

Page 384

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۶۴ خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۷۳ء میں برکت ڈالی اور ان کا اثر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور مریض ان کی طرف کھنچے چلے آئے اور تبلیغ کے مواقع پیدا ہو گئے.پس جو ہمارا کام ہے وہ ہم نے خود کرنا ہے جو فرشتوں کا کام ہے وہ وہی کریں گے.کیونکہ ان کے متعلق تو کہا گیا ہے کہ وہ انکار کر ہی نہیں سکتے.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل: ۵۱) جو حکم ہو اس کی پابندی کرتے ہیں.انسان کو یہ آزادی دی ہے کبھی وہ بغاوت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھے کبھی وہ غفلت اور ستی برتا ہے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہے لیکن بہر حال اپنے کام ہم نے کرنے ہیں کسی اور نے آکے نہیں کرنے.پس اس کے لئے تیار رہنا چاہیے.اور پھر اہل ربوہ کو میں مختصراً کہتا ہوں کہ جلسہ آ رہا ہے.جلسہ کے لئے تیاری کرو ربوہ کو صاف ستھرا بنا کے اور اپنے چہروں کو پہلے سے بھی زیادہ اس بات کی عادت ڈال کر کہ آنے والوں کا استقبال بشاشت اور مسکراہٹوں کے ساتھ اہل ربوہ کریں گے.اللہ تعالیٰ اہل ربوہ کو بشاشت اور مسکراہٹ کی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ پہلے سے بھی زیادہ کثرت کے ساتھ باہر سے آنے والوں کو بھی اس بشاشت اور ان مسکراہٹوں کے وصول کرنے کی توفیق دے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 385

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۶۵ خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء احباب ربوہ اپنے مکانوں کے کچھ حصے جلسہ کے مہمانوں کے لئے پیش کریں خطبه جمعه فرموده ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جلسہ سالانہ کے انتظامات شروع ہو چکے ہیں.جلسہ پر آنے والے سب دوست یہاں اپنے مرکز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان کی حیثیت سے آتے ہیں.ان کی رہائش کا انتظام تین طریقوں پر کیا جاتا ہے.ایک تو جماعتوں کو اکٹھا ٹھہرانے کا انتظام کیا جاتا ہے.مردوں کے لئے قیام گاہوں کا علیحدہ انتظام ہوتا ہے اور عورتوں کے لئے علیحدہ.جہاں تک مردانہ انتظام کا تعلق ہے.ہائی سکول، جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام کالج کے کمروں میں جماعتیں ٹھہرتی ہیں.اسی طرح جو نیا کالج بنا ہے اس کے ایک حصہ میں جہاں لیبارٹری نہیں ہے.اور پھر خدام الاحمدیہ کے ہال اور غالباً انصار اللہ کے ہال میں بھی جماعتوں کے ٹھہرنے کا انتظام ہوتا ہے.زنانه انتظام، زنانہ کالج، زنانہ سکول اور لجنہ اماءاللہ کے دفاتر اور ہال میں ہوتا ہے.غرض ایک تو یہ انتظام ہے جو عام طور پر نظام جلسہ کی طرف سے مہمانوں کی رہائش کے لئے کیا جاتا ہے.دوسرے وہ انتظام ہے جو اہلِ ربوہ انتہائی خلوص اور محبت کے ساتھ انفرادی طور پر کرتے ہیں.وہ اپنے اپنے گھروں میں اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو ٹھہراتے ہیں اور یہ بھی

Page 386

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۶۶ خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء ایک بے مثال نظام کی حیثیت اختیار کر چکا ہے.دوست اس کثرت کے ساتھ مہمانوں کو اپنے گھروں میں ٹھہراتے ہیں کہ اس کی مثال دنیا میں شاید ہی کہیں ملے.مجھے بچپن کا نظارہ یاد ہے کہ کس طرح دار مسیح کا وہ حصہ جو حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کے پاس تھا.نیچے بھی اور اوپر بھی مہمانوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا.یوں لگتا تھا جیسے کوئی جماعتی رہائش گاہ ہو.ایک وقت تک تو عورتوں کا سارا انتظام نچلے حصہ میں ہوتا تھا.بہت بڑے بڑے کمرے تھے جن میں شروع شروع میں تو اندھیرا ہوتا تھا لیکن بعد میں بجلی کی وجہ سے اندھیرا دور ہو گیا تھا.تاہم وہ کمرے گرمیوں میں گرم نہیں ہوتے تھے اور سردیوں میں جلسہ کے مہمانوں کی وجہ سے ٹھنڈے نہیں رہتے تھے.غرض جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے ٹھہرانے کی دوسری صورت یہ ہے کہ ربوہ کے دوست اپنے سارے خاندان کو ایک کمرے میں سمیٹ لیتے ہیں اور مکان کا باقی حصہ حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے مہمانوں کو دے دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اہل ربوہ کو اس کی جزائے خیر عطا فرمائے.جلسہ سالانہ کے مہمانوں کا ایک تیسرا گروہ ہے اور اس گروہ سے مراد وہ دوست ہیں جو اپنی بعض مجبور یوں مثلاً چھوٹے چھوٹے بچوں کی وجہ سے جماعتی رہائش گاہوں میں نہیں ٹھہر سکتے.ایسے دوستوں کو خواہ کوئی غسلخانہ ہی کیوں نہ علیحدہ مل جائے تب بھی وہ بڑے ممنون ہوتے ہیں کیونکہ ان کے حالات انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ اکٹھے ٹھہریں.میرے خیال میں ایسے خاندانوں کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچتی ہے.چنانچہ ایسے خاندانوں کے لئے جلسہ کے نظام نے آگے دو شکلیں اختیار کی ہیں.ایک تو نظام جلسہ کی طرف سے دوستوں کو خیمے لگا کر دیئے جاتے ہیں.اس سردی میں چھوٹے چھوٹے بچوں والے خاندانوں کے لئے خیموں میں ٹھہرنا بڑی ہمت کا کام ہے اور اس پیار کی دلیل ہے جو انہیں غلبہ اسلام کی اس عظیم مہم کے ساتھ ہے جو حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ جاری کی گئی ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز ترقی ہورہی ہے.دوسری شکل یہ ہے کہ نظام جلسہ اور خلیفہ وقت دوستوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کا جہاں تک ممکن ہو کوئی حصہ خواہ وہ چھوٹا سا کمرہ ہی کیوں نہ ہوا اپنی ضرورت سے بچا کر یا اپنے عزیزوں اور دوستوں کی ضرورت سے بچا کر نظام جلسہ کو

Page 387

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۶۷ خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء دے دیں.میں نے دیکھا ہے کہ بڑے بڑے امیر لوگ بھی جن کے ساتھ بچے ہوتے ہیں اس قسم کی رہائش گاہوں کو بڑی خوشی سے قبول کرتے اور ان میں پرالی بچھا کر آرام سے رہ لیتے ہیں اور مرکزی نظام اور اہل ربوہ کے ممنون ہوتے ہیں لیکن اگر ایسے دوستوں کے لئے ہم یہ انتظام نہ کر سکے تو مجھے اندیشہ ہے کہ ان میں سے بعض دوست جن کی مجبوریاں واقعی اس قسم کی ہوتی ہیں کہ اگر یہاں ان کے لئے ہم علیحدہ انتظام نہ کر سکیں تو شاید انہیں مجبوراً اور دکھی دل کے ساتھ جلسہ چھوڑنا پڑے.چند دن ہوئے افسر صاحب جلسہ سالانہ نے جب مجھ سے یہ کہا کہ میں اہل ربوہ سے اپیل کروں کہ وہ اپنے اپنے مکانوں کا کوئی نہ کوئی کمرہ نظام جلسہ کو دیں تو ایک خیال میرے دل میں یہ پیدا ہوا اور جس سے مجھے گھبراہٹ بھی ہوئی اور پریشانی بھی اٹھانی پڑی اور کچھ دکھ بھی اٹھانا پڑا کہ جماعت احمدیہ کے کچھ خاندان ایسے ہیں جن کی اہلِ ربوہ سے عزیز داری نہیں یا جن کی ربوہ کے مکینوں سے دوستی نہیں ، ایسا نہ ہو کہ ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ ربوہ کے مکین اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو ان پر ترجیح دیتے ہیں اور ان کے لئے کمرے خالی نہیں کرتے حالانکہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان بن کر جاتے ہیں.پس اس قسم کی کیفیت کا پیدا ہونا اور اس قسم کے حالات کا سامنے آنا ہمارے لئے پریشانی کا باعث بھی ہے اور دکھ کا باعث بھی ہے اس لئے میں دوستوں سے اپیل کروں گا اور انہیں بڑے زور سے یہ نصیحت کروں گا کہ اتنے بڑے شہر میں ایسے دوستوں کے لئے بھی رہائش کا کوئی نہ کوئی انتظام ضرور ہونا چاہیے جن کی ربوہ میں بظاہر کسی سے رشتہ داری نہیں ویسے تو روحانی لحاظ سے ہم سب احمدیت کی رشتہ داری میں منسلک ہیں.جہاں تک خیموں کا تعلق ہے یہ انتظام بھی ہونا چاہیے پہلے پہل تو ہم سب یہاں خیمے لگا کر ٹھہر تے رہے ہیں.میں نے خود جلسہ سالانہ کے دنوں میں خیمہ میں وقت گزارا ہے کیونکہ اس وقت تک ربوہ میں ہمارے مکانوں میں کوئی جگہ ہی نہیں تھی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے شروع میں جو کچے مکان بنوائے تھے وہ بھی کافی نہیں تھے.اپنے

Page 388

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۶۸ خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء عزیزوں کے لئے بھی کافی نہیں تھے.لیکن اب تو وہ کیفیت نہیں رہی.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے ربوہ میں مکان پر مکان بنتا چلا جا رہا ہے اور یہ اس برکت کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے لئے مقدر ہے اور یہ ان بشارتوں کا ظہور ہے جو ہمیں دی گئی ہیں.چنانچہ چند سال پہلے ہمارے نئے کالج (جونیئر کیمپس کہلانے لگ گیا ہے ) کے پاس ایک محلہ ہے جو دار العلوم کہلاتا ہے وہاں اِکا دُکا مکان تھا مگر چند دن ہوئے میں ایک شادی کی تقریب پر وہاں گیا تو وہ علاقہ مکانوں سے اتنا بھرا ہوا تھا کہ پہچانا ہی نہیں جاتا تھا.غرض اس ایک نئے محلے میں کئی سو مکان بن چکے ہیں اور یہی حال دوسرے محلوں کا ہے.اس لئے اہلِ ربوہ سے میں یہ کہوں گا کہ کیا وہ چار پانچ سو کمرے (خواہ کتنے ہی چھوٹے کیوں نہ ہوں) اپنے ان بھائیوں اور اپنے عزیزوں کے لئے فارغ نہیں کریں گے جو ان کے ساتھ روحانی رشتہ میں منسلک ہیں جن کے ساتھ ظاہری طور پر یاد نیوی لحاظ سے تو دوستی ، عزیز داری یا رشتہ داری کا تعلق نہیں ہے لیکن جماعتی طور پر وہ بھی ہمارے بھائی ہیں.حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے عشق میں وہ بھی سردیوں کے دنوں میں اپنے بچوں کو اٹھائے چلے آتے ہیں.اہلِ ربوہ کو ان کا بھی اسی طرح خیال رکھنا چاہیے جس طرح وہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کا خیال رکھتے ہیں.گو اس میں کوئی شک نہیں کہ ربوہ کے دوستوں کے عزیز اور رشتہ دار بھی حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آتے ہیں ان کی بھی کوئی دنیوی غرض نہیں ہوتی.اہلِ ربوہ ان کے لئے اپنے مکانوں کے جو حصے خالی کرتے ہیں اس نیت اور اخلاص سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ثواب دے گا.تاہم اہل ربوہ جہاں اتنی قربانی کرتے ہیں وہاں ان کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اس چھوٹے سے گروہ کو نظر انداز نہ کریں.ان کے لئے بھی اپنے دلوں میں ایک تڑپ پیدا کریں اور ان کے ٹھہرنے کے لئے اپنے اپنے مکانوں کا کوئی نہ کوئی حصہ خالی کر کے نظام جلسہ کو بروقت اطلاع کر دیں.جلسہ سالانہ کے انتظامات کے سلسلہ میں جو دوسری بات میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ گزشتہ برس میں نے کہا تھا کہ اہل ربوہ مسکراتے چہروں کے ساتھ حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے مہمانوں کا استقبال کریں.مجھے خوشی تھی کہ اہل ربوہ نے مسکراتے چہروں کے ساتھ مہمانوں کا

Page 389

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۶۹ خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء استقبال کیا.ہمارے دل بھی اللہ تعالیٰ کی حمد اور خوشی سے معمور ہوئے اور آنے والوں نے اسے خاص طور پر محسوس کیا تھا.اس لئے میں پھر یاد دہانی کرا دیتا ہوں.ہمارے چہروں پر ہر وقت مسکراہٹیں کھیلتی رہنی چاہئیں میں نے کئی بار ا حباب کو بتایا ہے کہ ہمارے چہروں پر مسکراہٹوں کی کوئی دنیوی وجہ نہیں ہے اور نہ دنیا ہماری مسکراہٹوں کو چھین سکتی ہے کیونکہ ہماری مسکراہٹوں اور ہماری بشاشت کا منبع اللہ تعالیٰ کی وہ بشارتیں ہیں جو جماعت احمدیہ کی ترقی اور اسلام کے غلبہ کے متعلق حضرت مہدی معہود علیہ السلام کو دی گئی ہیں.ہماری مسکراہٹوں کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کا وہ پیار ہے جس کا آئے دن ہم میں سے ہر شخص جو روحانیت رکھتا ہے اور اخلاص رکھتا ہے وہ اسے بجاطور پر مشاہدہ کرتا ہے.پس جس بشاشت اور جس مسرت اور جس مسکراہٹ کا سر چشمہ خدائے واحد ویگانہ کی ذات ہو، دنیا کا کوئی منصوبہ یا دنیا کا کوئی حربہ یا دنیا کی کوئی دشمنی اسے چھین نہیں سکتی اس لئے ہمارے چہروں کی یہ کیفیت تو انشاء اللہ قائم رہے گی.ہم پہلے بھی مسکراتے تھے لیکن خاص موقعوں پر ہم نے زیادہ بشاشت اور زیادہ مسرت کا اظہار کیا.جلسہ سالانہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم موقع ہوتا ہے.ہر سال جلسہ سالانہ میں مہمانوں کی تعداد کا بڑھنا بتاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کے جس عظیم مقصد کے لئے کھڑا کیا گیا تھا.وہ اس مقصد کو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حاصل کرتی چلی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمتیں پہلے سے زیادہ اس پر نازل ہو رہی ہیں.احباب جانتے ہیں اس سال میں نے یہ تحریک کی تھی کہ بیرون پاکستان کی احمدی جماعتوں کے دوست علاوہ انفرادی حیثیت کے نمائندہ حیثیت میں بھی وفود کی شکل میں جلسہ سالانہ میں شامل ہوں.چنانچہ بیرونِ پاکستان بسنے والے مخلصین احمدیت کا رد عمل بڑا اچھا ہے.بیرونِ پاکستان سے خطوط آرہے ہیں کہ دوست تیار ہو رہے ہیں وہ جلسہ سالانہ پر آئیں گے.اب ہمارے نومسلم احمدی دوست جو سوئٹزرلینڈ یا ڈنمارک کے رہنے والے ہیں یا دوسرے یورپین ممالک کے رہنے والے ہیں یا افریقہ کے رہنے والے ہیں وہ جب پہلی بار یہاں آئیں گے تو وہ ان مسکراہٹوں اور بشاشتوں کو پہلی بار دیکھ رہے ہوں گے.اس لئے احباب جماعت کا یہ فرض ہے وہ ان کی خوشیوں میں اضافہ کریں.اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہے.

Page 390

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۷۰ خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء علاوہ ازیں میں چوہدری بشیر احمد صاحب ( کنویز مجلس صحت) کے نظام کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ باہر سے آنے والوں کے استقبال اور اظہار مسرت کے طور پر أَهْلًا وَسَهْلًا وَ مَرْحَبًا وغیرہ کے آٹھ نہایت ہی خوبصورت دروازے بنوائیں.آٹھ کیوں یہ میں جلسہ سالانہ پر بتاؤں گا.اس کے علاوہ بھی اس موقع پر ربوہ کو صاف اور ستھرا کر کے اس میں جھنڈیاں لگا کر اسے دلہن کی طرح سجادیں کیونکہ یہ ایک بہت بڑا نظام ہے.یہ ایک بہت بڑی اور عجیب انسٹی ٹیوشن ہے جو اللہ تعالیٰ کے بڑے فضلوں کا مظہر ہے.یہ ایسا با برکت جلسہ ہے جس میں دور و نزدیک سے احباب شامل ہو کر الہی برکتوں سے متمتع ہوتے ہیں.وہ والہانہ رنگ میں اور عشق الہی میں سرشار ہو کر اس جلسہ میں شامل ہوتے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اور بھی زیادہ پائیں.وہ یہاں پروانہ وار ا کٹھے ہوتے ہیں تا وہ اسلام کے حق میں بیا ہونے والے انقلاب عظیم اور اس کے اثرات کا مشاہدہ کریں.اپنے بھائیوں سے ملیں اور باہمی طور پر محبت و پیار کو بڑھا ئیں.پس بڑی برکتوں کے ساتھ یہ جلسہ آتا ہے اور ہمارے لئے الہی برکتوں اور رحمتوں کا موجب بنتا ہے.تمام احمدی اس کی برکتوں سے متمتع ہوتے ہیں.اس لئے یہ وہ جگہ ہے جہاں کے چپہ چپہ پر مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے طفیل اللہ تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوتی ہیں.سارا ر بوہ ہی ایک لحاظ سے جلسہ سالانہ بنا ہوتا ہے کسی حصے میں مہمانوں کی رہائش کا انتظام ہورہا ہوتا ہے کہیں نقار پر اور کہیں نمازوں اور تجد کا انتظام کیا جارہا ہوتا ہے.غرض عبادت الہی کے نقطۂ نگاہ سے ربوہ کا چپہ چپہ ایسا ہے جہاں ہمارے سر خدا کے حضور جھکے ہوتے ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا اس حدیث کی رو سے میں سمجھتا ہوں کہ ربوہ کی ساری زمین جلسہ کے دنوں میں عملاً مسجد بن جاتی ہے.پس میری دعا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اہلِ ربوہ کو جلسہ سالانہ کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کی توفیق عطا فرمائے.میں نے انصار اللہ کے اجتماع میں اپنی آخری تقریر میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 391

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء بنیادی خصوصیات کے متعلق کچھ کہا تھا لیکن چونکہ اس وقت میرے ذہن میں دو مضمون تھے اور یہ مضمون دوسرے نمبر پر آیا تھا اسے میں قلت وقت کی وجہ سے تفصیل سے بیان نہیں کر سکا تھا.میں نے ایک بات اصولاً یہ بیان کی تھی کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فطری صلاحیتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے ایک کامل وجود تھے یعنی انتہائی کمال جو کسی فطری صلاحیت میں متصور ہوسکتا ہے وہ آپ کی فطرت میں بدرجہ اتم پایا جاتا تھا اور وہ وسعت جو فطری صلاحیتوں اور استعدادوں میں سوچی جاسکتی ہے وہ وسعت آپ کی فطری صلاحیتوں اور استعدادوں میں بدرجہ اکمل موجود تھی اور انسان کی فطری صلاحیتوں میں جس قدر رفعت اور بلندی اور غلو شان کا امکان ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطری صلاحیتوں میں بدرجہ اولی موجود تھی.غرض آپ فطری صلاحیتوں کا ایک ایسا کامل اور اعلیٰ نمونہ تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.کوئی انسان نہ آپ کا ہم شکل ہے اور نہ ہم صفت ہے کیونکہ آپ انسان کامل ہیں اگر انسان اس حقیقت کو سمجھ لے تو بہت سے غیر مسلموں نے بغیر سوچے سمجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جو اعتراض کئے ہیں ہمیں ان کا جواب مل جاتا ہے.چنانچہ بعض دفعہ یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ کیا خدا تعالیٰ دوسروں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام تک پہنچنے سے روک کر ایک ظالم ہستی تو نہیں بن جاتا ؟ نہیں ! ہر گز نہیں.اس لئے کہ دوسروں کو خدا تعالیٰ اس معنی میں جس میں اعتراض کیا جاتا ہے روکتا نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے اگر اپنی کسی مصلحت کی بناء پر ایک وجود کو اکمل اور ارفع صلاحیتیں عطا کر دیں تو کسی دوسرے کو اعتراض کا حق اس لئے نہیں پہنچتا کہ خدا تعالیٰ پر کسی فرد بشر کا کوئی حق ہی نہیں ہے.وہ تو خالق اور مالک ہے اور خالق اور مالک پر کسی مخلوق کا حق واجب ہی نہیں ہوتا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ کا وجود اپنی فطری صلاحیتوں اور استعدادوں میں بے نظیر تھا ایک دوسرا پہلو ہے جو انہی سے تعلق رکھتا ہے ، وہ یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اُسوہ حسنہ ہمیں نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جتنی بھی اور جس قدر بلندشان اور عظمت والی استعدادیں اور صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں ، آپ نے ساری عمر انتہائی کوشش اور عظیم مجاہدہ سے ان صلاحیتوں کی کامل نشوونما بھی کی اور پھر انسانی فطرت میں

Page 392

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۷۲ خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء چونکہ یہ بات بھی ودیعت کی گئی ہے کہ اس کا قدم آگے سے آگے بڑھتا ہے اس لئے آپ اپنی صلاحیتوں کو اس کمال تک لے گئے جہاں تک کسی دوسرے انسان کی پہنچ ہی نہیں ہے اس لئے اس نقطہ نگاہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو ہمارے لئے اُسوہ نہیں بنایا گیا مثلاً ہماری خلق ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کمال حاصل تھا اور آپ کی فطرت میں جس قدر ہمدردی خلق ہمیں نظر آتی ہے اسی قدر اور اسی وسعت کے ساتھ اور اسی عظمت کے ساتھ ہمدردی خلق کا جذبہ کسی دوسرے انسان میں نہیں پایا جا سکتا.اگر کوئی شخص کوشش بھی کرے تب بھی وہ کامیاب نہیں ہوسکتا.گو ہمت اور استعداد اور صلاحیت کا دینا اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ جتنا لینا چاہے لے لے لیکن حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ہمارے لئے بنیادی طور پر اُسوہ حسنہ ہیں.اس لئے آپ نے جس طرح اپنی فطری صلاحیتوں اور استعدادوں کو کمال تک پہنچادیا ( اور اس بات میں آپ ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہیں ) اسی طرح ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اس اُسوہ کو دیکھ کر اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی صلاحیتوں کو نشوونما کے کمال تک پہنچا ئیں.جیسا کہ میں پہلے کئی بار بتا چکا ہوں اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتیں عطا فرمائی ہیں یعنی انسانی فطرت میں یہ چار قسم کی بنیادی صلاحیتیں اور استعداد میں ودیعت کی گئی ہیں.میرے اس مضمون کا جو حصہ رہ گیا تھا وہ اس بات سے تعلق رکھتا ہے کہ بنیادی طور پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اُسوہ بن گئے مگر جہاں تک صلاحیتوں اور استعدادوں کا تعلق ہے اس معنی میں کہ جس طرح آپ نے اپنی فطری صلاحیتوں اور استعدادوں کی نشو ونما کو کمال تک پہنچایا تھا اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ آپ کے نمونہ کے مطابق اور آپ کی زندگی اور عمل کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی صلاحیتوں کی نشو ونما کو کمال تک.پہنچادیں.علاوہ ازیں میرے ذہن میں اس وقت جو مضمون تھا.اس میں آٹھ بنیادی روحانی صلاحیتوں کے بارہ میں کچھ کہنا تھا.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جسمانی طاقت کی نشوونما ہو تو سوال پیدا

Page 393

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۷۳ خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء ہوتا ہے کہ کس قسم کی طاقت مراد ہے اور اس کا ذکر ہم اکثر کرتے ہیں اور ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کی طاقت مراد ہے جس قسم کی طاقت ایک پہلوان کی ہوتی ہے یا ایک باڈی گارڈ کی طاقت ہوتی ہے جسے دیکھ کر راستے میں چلتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں یا ذہنی طور پر اس شخص کے متعلق کہہ سکتے ہیں جو بچوں کو بندر کا تماشا دکھا رہا ہوتا ہے اس میں بند رکو سدھانے کی طاقت ہوتی ہے.ہم اس قسم کی بے شمار چیزوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن روحانی صلاحیتوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن اُن کی تفصیل عام طور پر نہیں بتاتے اس لئے عام ذہن اس کا تصور نہیں کر سکتا کہ آخر کون سی بنیادی روحانی صلاحیتیں مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں.یوں تو بہت سی ہیں لیکن میں نے ان میں سے آٹھ کا انتخاب کیا تھا.چنانچہ میرے نزدیک پہلی روحانی قوت جو انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے وہ اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنے پیدا کرنے ( والے ) رب سے انتہائی پیار کرنے کی طاقت ہے یہ گویا ایک روحانی قوت ہے اور انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ سے پیار کرے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلتے ہوئے یہ کوشش کرے کہ اپنے دائرہ استعداد میں اس روحانی صلاحیت کی نشو نما کو کمال تک پہنچائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشعار میں ایک جگہ فرمایا ہے.تو نے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑ کا نمک اس سے ہے شور محبت عاشقان زار کا پس اللہ تعالیٰ کے لئے انسانی فطرت میں اور اس کی روحانی صلاحیت میں محبت کرنے کی جو قوت ہے، وہ ایک زبر دست بنیادی روحانی طاقت ہے.اس لئے انسانی فطرت سے جہاں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کی نشو و نما کرے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ چونکہ اس نے انسان کو اپنے ساتھ محبت اور پیار کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اور اسے ایسی قوت اور طاقت دی ہے اس لئے اس کا فرض ہے کہ وہ اس قوت کی نشو ونما کو کمال تک پہنچائے اور جس حد تک ہو سکے اللہ تعالیٰ سے محبت کرے.( جس حد تک سے میری مراد اپنے اپنے

Page 394

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۷۴ خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء دائرہ استعداد کے مطابق انتہائی محبت کرنا ہے) چنانچہ قرآنِ کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے دل میں اس محبت کا پیدا ہونا اور انسان کا اس قوت اور استعداد کا حامل ہونا بتاتا ہے کہ انسان کے دل میں اصل محبت وہی ہے جو اسے اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ ہوتی ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک اور معنی میں ایک دوسرے سے محبت کرنے کی بھی اجازت دی فرما یا اپنے رشتے داروں سے پیار کرو.اپنے بیوی بچوں سے پیار کرو.بیویاں اپنے خاوندوں سے پیار کریں اور یہ دراصل خدا تعالیٰ کی اپنی محبت کے سائے ہیں جن کے نیچے وہ بنی نوع انسان کو رکھنا چاہتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی تیز چمکتی ہوئی روشنی نہیں.بلکہ ایک سایہ اور ظل ہے اس بنیادی اور روشن ترین محبت کا جو انسان کو اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ ہوتی ہے.دنیا میں انسان ایک دوسرے سے ( رشتہ داروں، عزیزوں اور دوستوں سے ) بِاِذْنِ اللہ جو محبت کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی اصل روشنی کی نشاندہی کے مترادف ہے.تاہم اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں کسی اور کی محبت نہیں ٹھہر سکتی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی زبان سے یہ کہلوایا کہ انسان کے دل میں خدا سے محبت سے مراد یہ ہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی اس قدر عظمت بیٹھ جائے کہ دنیا کی ساری عظمتیں اس کے سامنے بیچ ہو جا ئیں.اور خدا کی عظمت سے بڑھ کر اور کس کی عظمت ہو سکتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ کا پیار پیدا کرنے کے لئے گو انسانی فطرت میں قوت تو موجود ہے لیکن جس طرح آنکھ میں قوت ہے دیکھنے کی تو اس کے لئے سورج کی ضرورت ہے.اگر سورج کی روشنی نہ ہو تو آنکھ باوجود بصارت کے دیکھ نہیں سکتی ، اسی طرح انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے کی قوت اور استعداد تو ہے لیکن اس کے جلوہ گر ہونے کے لئے کچھ سامان ہونے چاہئیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بار بار اپنے حسن واحسان کو انسان کے سامنے پیش کیا ہے اور اس طرح گویا اس کے دل میں اپنے لئے محبت اور پیار پیدا کرنے کے سامان پیدا کئے ہیں.کیونکہ حسن و احسان کی یہی دو صفات ہیں جن کے نتیجہ میں انسان کے دل میں محبت اور پیار پیدا ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ حسن کے لحاظ سے بھی ہر حسن کا سر چشمہ ہے اور احسان کے لحاظ سے.

Page 395

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۷۵ خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۷۳ء بھی.دراصل اس کا احسان اس دنیا میں کارفرما ہے باقی تو سارے اس کے ظل ہیں حقیقی احسان اسی کا ہے انسان انسان نے کسی پر کیا احسان کرنا ہے یا کسی جانور نے انسان پر کیا احسان کرنا ہے.مثلاً گدھا ہے اس نے انسان پر کیا احسان کرنا ہے وہ تو صرف انسان کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھا کر ( اللہ تعالیٰ کے حکم سے کہ انسان کی خدمت کر ) لے جاتا ہے.یہ کوئی احسان تو نہیں.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ دیکھو جی گدھا انسان کا بڑا حسن ہے.جس عظیم ہستی نے گدھے کو پیدا کیا اس نے اس کی فطرت میں یہ بات رکھ دی کہ وہ انسان کی خدمت کرے اصل احسان خدا کا ہے جس نے کائنات کی ہر چیز کو ہماری خدمت پر لگا دیا ہے.یہ وہ احسان ہے جسے خدا نے قرآنِ کریم میں بار بار یاد دلایا ہے اور وضاحت سے بیان کیا ہے تا کہ انسان کو اپنے محسن حقیقی سے محبت اور پیار پیدا ہو.غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانی طور پر جو پہلی قوت عطا فرمائی ہے وہ اپنے خالق و مالک سے خالص محبت کرنے کی قوت ہے اور یہ ایک بنیادی روحانی قوت ہے جس کی نشو ونما ہر احمدی کو اپنے اپنے دائرہ استعداد میں کمال تک پہنچانی چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.بقیہ سات بنیادی روحانی قوتوں کا انشاء اللہ آئندہ خطبوں میں ذکر کروں گا.وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ.روزنامه الفضل ربوه ۱۲ / دسمبر ۱۹۷۳ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 396

Page 397

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۷۷ خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۷۳ء جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ سے اسلام کو غالب کرنے کی عظیم مہم جاری ہے خطبه جمعه فرموده ۰ ۳ نومبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مجھے پتہ چلا تھا کہ مسجد کے بعض حصوں میں لاؤڈ سپیکرز ٹھیک کام نہیں کرتے اس لئے وہاں تک آواز نہیں پہنچتی.اس وقت مسجد میں بعض جگہیں خالی ہیں.کچھ دوست تاخیر سے آنے والے وہاں بیٹھیں گے.وہ تو جواب نہیں دے سکتے لیکن جو دوست یہاں بیٹھے ہیں.وہ مجھے بتائیں کہ اس وقت ہر جگہ آواز پہنچ رہی ہے یا نہیں.( دوستوں نے عرض کیا کہ آواز آرہی ہے ) پھر فرمایا:.قرآنِ عظیم نے بتایا ہے کہ اِن اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلناس کی رو سے وہ گھر جو شریعت کے قیام کے لئے پہلے پہل انسان کو ملا تھا، وہ مکہ میں ہے اور اس وجہ سے مکہ کو قرآنِ کریم کی ہدایت کے مطابق اُم القری کہتے ہیں.جس طرح ماں سے اس کے بچے وابستہ ہوتے ہیں اسی طرح وہ شہر جس سے بہت سے دوسرے شہر وابستہ ہوتے ہیں اُم القری ( یعنی بستیوں کی ماں ) کہلاتا ہے اور یہ حیثیت مکہ مکرمہ کو حاصل ہے.قرآنِ کریم کی دو بنیادی صفات ہیں.ایک یہ کہ قرآنِ عظیم پہلی صداقتوں کا جامع ہے اور دوسرے یہ کہ ان صداقتوں کو بھی اپنے اندر لئے ہوئے ہے جن تک

Page 398

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۷۸ خطبه جمعه ۳۰/ نومبر ۱۹۷۳ء پہلوں کی پہنچ نہیں تھی.چونکہ مکہ مکرمہ کا تعلق اِنَّ اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَةَ مُبْرَكًا وَهُدًى لِلْعَلَمِينَ (ال عمران: ۹۷) کی رو سے تمام پہلی شریعتوں سے ہے اور قرآن کریم کے متعلق آیا ہے کہ پہلے انبیاء پہلی کتب اور پہلی قوموں کو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو بشارتیں دی گئی تھیں وہ ان کو پورا کرنے والا ہے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہر نبی کو بتا یا گیا تھا اور آپ کی بشارت دی گئی تھی ) اس لئے گو یا قرآن عظیم ان بشارتوں کا مصدق ہوکر بھیجا گیا ہے.جہاں تک پہلی بشارتوں کی تصدیق کا تعلق ہے قرآنِ کریم جس امت پر نازل ہوا اور جس کی بدولت عظیم ذمہ داریاں ان پر ڈالی گئیں مکہ مکرمہ اس لحاظ سے ان کے لئے اُم القری بنا اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ نوع انسانی کی عام اور وسیع اور کامل ہدایت کے لئے مدینہ کو اپنا مرکز بنایا تھا.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل مدینہ نوع انسان کے لئے ام القری بن گیا.چنانچہ مؤطا امام مالک کی ایک حدیث بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے جس میں انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ پہلے مکہ کو حرم بنا یا گیا تھا اور اب میرے ذریعہ مدینہ کو حرم بنایا گیا ہے.پس مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہم مسلمانوں کے لئے اُم القری کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی یہ وہ مراکز ہیں جن سے دنیا کے سارے شہروں کا تعلق ہے اور جہاں سے دنیا کی رہنمائی کی مہم شروع ہوئی.ام القری کی یہ اصطلاح ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ قرآنی ہدایت اور شریعت کو مستحکم کرنے اور اسلام کو پھیلانے کی غرض سے مکہ اور مدینہ کے ماتحت بہت سے اور مراکز بھی بنیں گے.چنانچہ جب ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر کئی ایسے مراکز نظر آتے ہیں جن کا تعلق مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے ہے مثلاً سپین ہے.سپین میں اسلامی حکومت کا جو دارالخلافہ تھا (ایک دو جگہ بدلا بھی ہے تاہم ایک وقت میں جو بھی دارالخلافہ تھا ) وہ یورپ میں اسلام کے نور کو پھیلانے اور اسلام کی اشاعت کے لئے مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا.اسی طرح تاشقند وغیرہ علاقوں میں جو مجدد پیدا ہوئے یا افریقہ کے صحراؤں سے تعلق رکھنے والے جو مجددین اور اولیاء اللہ آئے ان کے مرکز خانہ کعبہ ہی کے طفیل اور اس کے ظل کے طور پر اس غرض کے لئے

Page 399

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۷۹ خطبه جمعه ۳۰/ نومبر ۱۹۷۳ء بنے تھے کہ اسلام کی اشاعت ہو.گویا ایسی جگہیں اپنے اپنے دائرہ اور اپنے اپنے زمانہ کے لحاظ سے اشاعتِ اسلام کا مرکز بن گئیں اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اُم القری ٹھہرے.جب یہ مراکز بنے تو جن علاقوں سے ان مراکز کا تعلق تھا ان علاقوں کی نگاہیں انہی مرا کز کی طرف اٹھتی تھیں مثلاً ایک لمبا عرصہ یورپ کے لئے پین اسلامی دارالخلافے مراکز بنے رہے جہاں بڑی زبر دست لائبریریاں، درسگاہیں اور یو نیورسٹیاں تھیں جن کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے مشہور پادری وہاں حصول علم کے لئے آتے تھے.ظاہری دنیوی علوم جیسے علم طبیعات، علم کیمیا علم حساب وغیرہ سیکھنے کے علاوہ اخلاقی لحاظ سے بھی وہ اسلامی تعلیم سے متأثر ہوکر واپس جاتے تھے.جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے روحانیت کا تو اس سے بھی بلند درجہ ہے ) دوسرے مذہب چونکہ ارتقائی ادوار کی نچلی منازل میں ہیں جس وقت انبیاء مبعوث ہوئے نوع انسانی ابھی اپنی استعداد کے لحاظ سے ارتقائی دور میں سے گزر رہی تھی اس لئے وہ ان اسلامی اخلاق کی حامل نہیں ہو سکتی تھی جو بعد میں اُمت محمدیہ کو دیئے گئے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے بُعثتُ لِأُتِيَمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ یعنی مجھے اللہ تعالیٰ نے اس غرض سے بھی مبعوث فرمایا ہے کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کروں.چنانچہ اہل یورپ اخلاقی پہلوؤں کے اعتبار سے بھی متاثر ہوتے اور مسلمانوں سے سبق لیتے تھے.علاوہ ازیں مسلمانوں کی یہ بھی کوشش ہوتی تھی کہ وہ روحانیت سے بھی سبق لیں اور متاثر ہو کر واپس جائیں بہر حال جہاں جہاں اور جس جس زمانہ میں بھی یہ مرکز تھے.جس علاقے اور جس زمانے سے بھی ان کا تعلق تھا اس زمانہ اور اس علاقہ کی نگاہیں ان مراکز کی طرف اٹھتی تھیں اور وہ ان کے لئے نمونہ بنتے تھے.پھر ہمارے اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم روحانی فرزند پیدا ہو گیا جس نے دنیا میں اسلام کو غالب کرنا تھا.چنانچہ اس زمانہ کے لحاظ سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد اور ان کے ظل کے طور پر سب سے بڑا کام جس مرکز کے سپر د ہوا ہے وہ وہ مرکز ہے جس کا تعلق سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ساتھ ہے اور وہ اس وقت احمدیت کا مرکز ربوہ ہے اب یہی وہ مرکز ہے جس کی طرف مکہ اور مدینہ کے بعد دنیا کی نگاہیں اٹھتی ہیں اور اٹھیں گی اور اٹھنی چاہئیں.گو اس وقت ابتدا

Page 400

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۸۰ خطبه جمعه ۳۰/ نومبر ۱۹۷۳ء ہے لیکن کسی وقت نو جہاں ہجوم میکشاں ہو گا.لوگ عشق الہی اور محبت رسول میں مست جوق در جوق یہاں آئیں گے کیونکہ یہ مرکز ذریعہ بنے گا انہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کے سبق سکھانے کا اور ان کے دلوں میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار اور محبت پیدا کرنے کا.جہاں تک ربوہ میں احمدیت کے مرکز اور اس سے دنیا بھر کے احمدیوں کی وابستگی کا تعلق ہے ہم نے اپنی آنکھوں سے دنیا میں عجیب نظارے دیکھتے ہیں.میں نے اپنے دورِ خلافت میں مختلف ملکوں کے دورے کئے ہیں.افریقہ میں میرے اور احمدیت کے ساتھ افریقن لوگوں نے جس انتہائی پیارا اور محبت کا مظاہرہ کیا وہ اسی لئے تھا کہ وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وہ جماعت ہے اور یہی وہ مہم ہے جس کے نتیجہ میں انہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسین ترین چہرہ اپنی اصلی شکل میں دیکھا ہے اور خدا تعالیٰ کا حقیقی نور ان پر نازل ہوا چنا نچہ احمدیت کے نتیجے میں جہاں ان کے دلوں میں حقیقی تو حید قائم ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاحقیقی پیار پیدا ہوا وہاں جماعتِ احمد یہ کے ساتھ بھی ان کو محبت پیدا ہوئی اور بانی جماعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قدر ان کے دلوں میں پیدا ہوئی گویا نظام سلسلہ اور مرکز سلسلہ کے ساتھ ان کو بڑا گہرا اور بڑا پختہ تعلق پیدا ہو گیا جو احمدیت کی صداقت کی دلیل ہے.پس آج دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا مرکز پیشگوئیوں کے مطابق وہ مرکزی جگہ ہے جس کا تعلق حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی جماعت سے ہے.یہ جماعت احمدیہ کا مرکز ہی ہے جہاں سے آج دنیا بھر میں اسلام کو غالب کرنے کی عظیم الشان مہم جاری ہے.اس لئے دنیا کی نگاہیں جماعت احمدیہ کے مرکز کی طرف اٹھ رہی ہیں.پہلے بھی اٹھتی رہی ہیں لیکن اب تو حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں اور ہمارا قدم تیز سے تیز تر ہو رہا ہے.احمدیت کے ذریعہ اسلام دنیا میں پھیل رہا ہے جہاں پہلے تاریکی تھی وہاں اب اسلام کا نور پھیل رہا ہے.لوگوں کے دلوں میں اسلام کے لئے عشق اور محبت پیدا ہو رہی ہے.شیطانی ظلمات کی جگہ اب توحید حقیقی کی حکمرانی قائم ہورہی ہے.کچھ عرصہ ہوا میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ جلسہ سالانہ پر غیر ممالک کی احمدی جماعتوں کے

Page 401

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۸۱ خطبه جمعه ۳۰/ نومبر ۱۹۷۳ء وفود آئیں چنانچہ ان کے دل میں بھی چونکہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ہے اور حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ساتھ ان کا بڑا گہرا رشتہ قائم ہو چکا ہے اس لئے وہ فوری طور پر بغیر تفاصیل جاننے کے ربوہ آنے کے لئے تیار ہو گئے.اب ان کی طرف سے اطلاعات آ رہی ہیں.گوا بھی چھوٹے پیمانے پر وفود آئیں گے لیکن ابتدا ہو جائے گی.انشاء اللہ ہر سال اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا.غرض غیر ممالک کے وفود جلسہ سالانہ پر پہلی دفعہ آئیں گے.چار پانچ ملکوں سے تو وہاں کے مقامی باشندے آئیں گے (جو دوست یہاں سے بیرونی ملکوں میں پیسے کمانے کے لئے گئے ہوئے ہیں اور ان میں سے بعض ہر سال چھٹی لے کر جلسہ سالانہ پر آتے ہیں میں ان کی بات نہیں کر رہا ) پس مقامی باشندے آئیں گے مثلاً سویٹزرلینڈ کے رہنے والے سوئس ، جرمنی سے تعلق رکھنے والے جرمن ، امریکہ سے تعلق رکھنے والے امریکن دوست جلسہ سالانہ پر تشریف لائیں گے.یہ سب ایسے دوست ہیں جنہوں نے جماعت احمدیہ کی کوششوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے نتیجہ میں اسلام قبول کیا.چنانچہ امریکہ سے آمدہ اطلاع کے مطابق آٹھ امریکن دوست آئیں گے اسی طرح انگلستان سے انگریز نمائندہ آئے گا سویڈن میں بسنے والوں کا سویڈش نمائندہ آئے گا.ڈنمارک کا ڈین نمائندہ آئے گا.کئی دوسرے ممالک سے بھی دوست تشریف لائیں گے.افریقہ کے مختلف ممالک سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ وہاں سے بھی نمائندے آئیں گے.یہ سب دور دور سے یہاں اس لئے آئیں گے کہ ربوہ دنیا میں غلبہ اسلام کی مہم کا مرکز ہے اور یہ حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے سلسلہ خلافت کا مرکز ہے اور چونکہ خلیفہ اور امام وقت نے کہا ہے کہ جلسے پر آؤ.اس لئے وہ آئیں گے.اللہ تعالیٰ ان کے سفر و حضر میں حافظ و ناصر ہو اور انہیں جلسہ سالانہ کی برکات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کی توفیق عطا فرمائے.پس دوست بیرونی ممالک سے بھی انشاء اللہ کثرت سے آئیں گے.تاہم ان کا مرکز سلسلہ میں آنا اہل ربوہ کو ان کی کچھ ذمہ داریاں جنہیں وہ بھولے ہوئے تھے یاد دلانے کے مترادف

Page 402

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۸۲ خطبه جمعه ۳۰/ نومبر ۱۹۷۳ء ہے.دنیا میں کوئی شہر محض ماضی کی برکات کے نتیجہ میں اسلام کا مرکز نہیں رہا.مثلاً ایک وقت میں سپین کا اسلامی مرکز سپین کے علاقے کے لئے مختص ہو کر رہ گیا تھا.اسلام کے ابتدائی دور میں ہی خود مدینہ خلافت کا مرکز نہیں رہا تھا اس لئے کہ اہل مدینہ کی غفلتوں کے نتیجہ میں ان سے تو وہ برکت چھین لی گئی تھی جو مرکزیت سے تعلق رکھتی ہے مگر مدینہ منورہ اپنی تمام برکتوں کے ساتھ ایک زندہ شہر ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا.اللہ تعالیٰ کا یہ منشا نہیں ہے کہ کسی شہر کو بت بنایا جائے خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ اس کی تو حید دنیا میں قائم ہو اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سے دنیا آشنا ہو.اس لئے جب تک اہلِ ربوہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے اور ان کو نباہتے رہیں گے اس وقت تک ربوہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کا مرکز بنا رہے گا.اور اگر خدا نہ کرے وہ ان باتوں کو نظر انداز کر دیں.ان سے غفلت برتیں.اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے لئے تیار نہ ہوں.اپنے فرائض سے غافل ہو جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ پر ان کا کوئی زور نہیں چلے گا کہ وہ پھر بھی اسی جگہ کے مکینوں کو برکات کا سر چشمہ اور منبع بنائے رکھے.ہماری اسلامی تاریخ میں اس سے پہلے کئی دفعہ ایسا ہو چکا ہے اس لئے اہل ربوہ کے لئے یہ بڑے خوف کا مقام ہے.تاہم جہاں تک اس مہم کا تعلق ہے اس کے لئے کوئی خوف کا مقام نہیں ہے.اس مہم نے اپنی آخری فتح تک آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے.غرض اس نقطہ نگاہ سے اہل ربوہ کو جن ذمہ داریوں کی طرف میں آج توجہ دلانا چاہتا ہوں ان میں پہلی ذمہ داری کا تعلق طہارت ظاہری کا خیال رکھنے سے ہے.میں اس سے پہلے بھی کئی موقعوں پر احباب ربوہ کو تو جہ دلا چکا ہوں کہ وہ ربوہ کی صفائی کریں بلکہ ربوہ کو دلہن کی طرح سجا دیں اور اب تو یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پہلی دفعہ بیرونی ملکوں سے بھی خدا اور اس کے رسول کے مہمان آرہے ہیں.علاوہ ازیں بیرونی ممالک سے آنے والے خدا اور اس کے رسول کے جو مہمان ہوں گے اور دین کی باتیں سننے کے لئے یہاں آئیں گے.ان کی بعض ایسی ضرورتیں ہیں جو انہیں عادتا لاحق ہیں.وہ بہر حال پوری ( ہونی چاہئیں مثلاً ایک خاص قسم کے غسل خانے استعمال کرنے کی انہیں عادت ہے جس میں کموڈ اور فلش ہوتا ہے وہ ان کو مہیا ہونا چاہیے.چونکہ جلسہ سالانہ کے قریب ہی

Page 403

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۸۳ خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۷۳ء میں نے ( وفود آنے کا ) یہ اعلان کیا ہے.اس لئے نظام سلسلہ اتنی جلدی اتنا بڑا انتظام نہیں کر سکتا انشاء اللہ بعد میں جہاں تک ممکن ہوا یہ انتظام ہو جائے گا لیکن سر دست بیرون ممالک سے آنے والے مہمانوں کی یہ ضرورت تو بہر حال پوری ہونی چاہیے.ہم انہیں یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس سال نہ آؤ اگلے سال آنا اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہر وہ گھر جس میں انگریزی قسم کا غسل خانہ بنا ہوا ہے اور جس میں W.C فلش لگا ہوا ہے اس کے مکین کو چاہیے کہ وہ ہنسل خانہ اور اس کے ساتھ کا کمرہ بیرونی ممالک کے مہمانوں کے لئے خاص کر دے اور اس کی اطلاع تین دن کے اندر اندر افسر صاحب جلسہ سالانہ کو دے دے اور وہ مجھے اکٹھی رپورٹ کریں کہ کتنے دوستوں کی طرف سے ایسے کمرے فارغ کرنے کی اطلاع ملی ہے.خدا کرے ہمیں کافی تعداد میں ایسے کمرے مل جائیں لیکن اگر خدانخواستہ نہ ملیں تو پھر ہمیں کوئی دوسرا انتظام تو بہر حال کرنا پڑے گا کیونکہ ایسے دوستوں کو روکا تو نہیں جاسکتا.ابھی تو ابتدا ہے آئندہ دیکھیں گے کہ کس کثرت سے لوگ بیرونی ممالک سے جلسہ سالانہ پر آتے ہیں اور حسب ضرورت انتظام کیا جائے گا.دوسری بنیادی ذمہ داری طہارت باطنی سے متعلق ہے.اجتماعات کے دنوں میں جہاں بہت سے لوگ اکٹھے ہو جا ئیں تو بہت سے دباؤ بھی پڑتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اسی لئے فرمایا ہے.فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجّ (البقرة : ۱۹۸) کیونکہ حاجیوں کا بہت کثرت سے ہجوم ہوتا ہے اس لئے رفت ، فسوق اور جدال سے منع کیا گیا ہے تا ہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حج کے موقع پر تو یہ نہیں ہونا چاہیے دیگر اجتماعات پر کوئی حرج نہیں یعنی لوگ آپس میں لڑیں جھگڑیں اور دوسری بداخلاقیاں کریں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی اجتماع ہو وہاں اجتماعی اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہیے اور اجتماع کے نتیجہ میں جن کمزوریوں کے پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ان کمزوریوں سے بچنے کی کوشش ہونی چاہیے.پس بیرونِ ملک سے آنیوالے دوست اہلِ ربوہ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں گے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شہر بھی اور اس کے مکین بھی ان کے لئے نمونہ ہیں.اس اعتبار سے وہ آپ پر تنقیدی نگاہ ڈالیں گے اور دیکھیں گے کہ آپ نے کس حد تک اپنی ذمہ داریوں کو نباہا ہے اور طہارتِ ظاہری

Page 404

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۸۴ خطبه جمعه ۳۰/ نومبر ۱۹۷۳ء اور باطنی کا باہم ثبوت فراہم کیا ہے ویسے تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے عام طور پر جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی اور عام موقعوں پر بھی اس قسم کی شکائتیں زیادہ نہیں ہوتیں لیکن بعض دفعہ ہو جاتی ہیں.اس سلسلہ میں ایک تو میں یہ کہوں گا کہ دوستوں کو سگریٹ اور حقہ پینے کی عادت نہ ہونی چاہیے.لیکن اگر کسی کو اس کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا تو اسے چاہیے کہ پبلک جگہوں پر یعنی بازاروں میں برسر عام سگریٹ یا حقہ نوشی نہ کرے گو اس بات کا سارا سال خیال رکھنا چاہیے لیکن جلسہ سالانہ کے موقع پر تو خاص طور پر اس قسم کی کوئی حرکت نہ اہلِ ربوہ کی طرف سے ہونی چاہیے اور نہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے آنیوالے دوستوں کی طرف سے ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان میں بسنے والے احمدی بیرونی ممالک کے احمدیوں کی نگاہ میں ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس میں احمدیت کا مرکز ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر (منجملہ اہل ربوہ) زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ایک دفعہ ایک بہت بڑے ملک کے سفیر ربوہ میں آئے.انہیں کسی نے یہ بتایا تھا کہ یہاں پبلک میں سگریٹ نوشی نہیں ہوتی اس لئے جس وقت وہ حد و در بوہ میں داخل ہوئے انہوں نے سگریٹ پینا بند کر دیا اور پھر جتنا عرصہ وہ یہاں رہے انہوں نے اپنے کمرے سے باہر نکل کر سگریٹ نہیں پیا.چنانچہ انہوں نے اس حد تک ربوہ کا احترام کیا کہ جب وہ واپس جانے لگے اور اپنی موٹر پر بیٹھ گئے اور موٹر پختہ سڑک پر پہنچ گئی تو انہوں نے اپنا کوٹ اتارا اور سگریٹ کا بکس ورد یا سلائی کی ڈبیدا پنی قمیض کی جیب میں ڈالی تو میزبان نے کہا کہ آپ نے ربوہ کا بڑا احترام کیا اب تو آپ جارہے ہیں اس لئے سگریٹ پی لیں تو انہوں نے جواب دیا کہ جب تک میں ربوہ کی حدود سے باہر نہیں نکلوں گا سگریٹ نہیں پیوں گا.پس اگر ایک غیر مسلم سفیر ربوہ کو تو اس عزت کی نگاہ سے دیکھے مگر ایک احمدی مسلمان (ربوہ کا مکین ہو یا پاکستان کے کسی بھی حصہ سے آنے والا ) ربوہ کے اس مقام کو نہ پہچانے تو یہ بڑے افسوس کی بات ہوگی.اسی طرح خدا اور اس کے رسول نے ہمیں یہ بھی فرمایا ہے کہ جب بھی چلتے پھرتے ہم ایک

Page 405

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۸۵ خطبه جمعه ۳۰/ نومبر ۱۹۷۳ء دوسرے کے سامنے آئیں تو آپس میں السلام علیکم کہیں.قادیان میں احباب جماعت کو السلام علیکم کہنے کی عادت پڑ گئی تھی مگر یہاں چونکہ نئی آبادی ہے قادیان کے اصل باشندے تو شاید دس پندرہ فی صد سے زیادہ نہیں ہوں گے.باقی باہر سے نئے آباد ہونے والے لوگ ہیں.اس لئے ان کو ابھی تک ایسی عادت نہیں پڑی جس کا مظاہرہ قادیان میں ہوا کرتا تھا.مجھے یاد ہے میں چھوٹا تھا اور مدرسہ احمدیہ میں پڑھا کرتا تھا.ہم دوست آپس میں باتیں کیا کرتے تھے کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ کسی دوست کو یہ موقع نہیں دیتے کہ وہ انہیں پہلے السلام علیکم کہے.باہر چلتے پھرتے جب بھی ان کی کسی پر نظر پڑتی وہ اسے پہلے السلام علیکم کہہ دیتے تھے.مجھے یاد ہے میں نے بھی اور میرے دوستوں نے بھی کئی دفعہ یہ کوشش کی کہ السلام علیکم کہنے میں ہم ان پر سبقت لے جائیں لیکن ایسا نہ کر سکے ہر بار ہی پہلے السلام علیکم کہہ دیتے تھے.پس یہاں بھی دوست ایک دوسرے کو خواہ چھوٹا ہو یا بڑا سب کو السلام علیکم کہنے کی عادت ڈالیں تاکہ باہر سے آنے والے مہمان بھی دیکھ کر خوش ہوں اور وہ بھی اسی رنگ میں رنگین ہو جائیں.پس آپس میں ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنا چاہیے.اس پر نہ کسی کا دھیلا خرچ ہوتا ہے اور نہ کوئی وقت خرچ ہوتا ہے.اس لئے چلتے پھرتے السلام علیکم اور وعلیکم السلام کی صدا گونجتی رہنی چاہیے.ربوہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کا مرکز ہے.مرکز سلسلہ کو یہ عادت نہیں بھولنی چاہیے اگر.اکثر مکین بدل گئے ہیں لیکن مرکز تو مرکز ہی ہے یہ تو نہیں بدل سکتا.ایک اور گندی عادت پڑ گئی ہے اور وہ بازاروں میں سر عام کھانے پینے کی عادت ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سوق (بازار) میں کھانے پینے کو پسند نہیں فرمایا.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مجھے ساری عمر اس سے نفرت رہی ہے بلکہ بچپن میں ہی جب میں نے یہ حدیث پڑھی تو میرے دل میں بازاروں میں کھانے پینے سے نفرت پیدا ہوگئی.کئی دفعہ بازار میں سے مثلاً پھل خریدنے کا اتفاق ہوا تو جیسا کہ پھل بیچنے والوں کی عادت ہوتی ہے وہ فوراً چاقو سے پھل کاٹ کر کہتے ہیں لیں چکھ کر دیکھ لیں.پس میں ایسے موقع پر کہہ دیا کرتا تھا کہ دیکھو میں نے یہاں تو کھانا نہیں تمہارے اوپر اعتبار کر سکتا ہوں.اپنے اعتبار کو ضائع نہ کرنا.چنانچہ بعض دفعہ پھل

Page 406

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۸۶ خطبه جمعه ۳۰/ نومبر ۱۹۷۳ء بیچنے والے دھوکا بھی کر جاتے ہیں.بڑی تعریف کر کے پھل دے دیا مگر وہ نہایت نکما ، خراب ،سڑا ہوا نکل آیا.تا ہم پیسوں کا ضائع ہو جانا اس بات سے زیادہ اچھا ہے کہ ایک چیز جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں ہے ہم اسے پسند کر لیں یعنی بازاروں میں کھانے پینے لگ جائیں.ہمارے ملک میں بھی سڑکوں کے کناروں پر کھڑے کھڑے کھانے پینے کا رواج پڑ گیا ہے.یورپ کے اکثر ملکوں میں خاص طور پر فرانس میں سڑکوں کے کناروں پر قہوہ خانے اور چائے کی دکانیں ہوتی ہیں جہاں لوگ سڑکوں پر کھڑے کھڑے کھا پی لیتے ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو سخت ناپسند فرمایا ہے.اس لئے یہاں اس بات کا انتظام ہونا چاہیے.تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید بعض جگہ اس سال ممکن نہ ہو لیکن امور عامه، خدام الاحمدیہ اور افسر جلسہ سالا نہ اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ دوست جنہوں نے صرف ایام جلسہ میں دکانیں کھولنی ہیں وہ قناتیں لگا کر بیٹھنے کا انتظام کریں تا کہ دوست وہاں بیٹھ کر کھا ئیں پیئیں.سڑکوں پر چلتے پھرتے نہ کھائیں کیونکہ جو چیز ہمارے محبوب آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاری نہیں ہے وہ ہمیں بھی پیاری نہیں ہونی چاہیے.غرض طہارت ظاہری اور طہارت باطنی کا خیال رکھنا بڑا ضروری ہے.خصوصاً جلسہ سالانہ کے موقع پر جب کہ بیرونی ممالک سے بھی احباب کثرت سے تشریف لا رہے ہیں.وہ اہلِ ربوہ پر تنقیدی نگاہ ڈالیں گے.اس لئے علاوہ طہارت باطنی کے ظاہری طور پر بھی صفائی ہونی چاہیے.کپڑے اچھے ہوں.صاف اور ستھرے ہوں.منہ صاف ہو.زبان ستھری ہو.ظاہری طور پر بھی اور زبان سے جو الفاظ نکلیں وہ بھی پیارے ہوں.چہروں پر مسکراہٹیں کھیل رہی ہوں.اس کا تو میں دو سال سے آپ کو سبق دے رہا ہوں اور یہ اس لئے دے رہا تھا کہ باہر سے آنے والے بھی دیکھ لیں کہ ہمارا دشمن اور مخالف اور بدخواہ ہمارے چہروں سے ہماری مسکراہٹیں نہیں چھین سکا.اس نے اپنا پورا زور لگا یا مگر وہ اپنے ارادوں میں ناکام رہا.آئندہ بھی انشاء اللہ ہمارے چہروں سے ہماری مسکراہٹ کو کوئی بھی چھین نہیں سکے گا کیونکہ یہ وہ قوم ہے جس کے لئے آخری فتح مقدر ہو چکی ہے.افراد کو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے.تاہم اجتماعی حیثیت میں جماعت احمدیہ کو کوئی

Page 407

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۸۷ خطبه جمعه ۳۰/ نومبر ۱۹۷۳ء فکر نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر ایک حصہ کمزوری دکھائے گا اور جماعت سے کٹ جائے گا تو وہ اس سے بہتر گروہ لے آئے گا لیکن جو شخص کمزوری دکھائے گا اور جماعت سے کٹ جائے گا تو اس کے لئے ہلاکت مقدر ہے.اس کے لئے عذاب اور قہر الہی مقدر ہے.پس افراد کو اس سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ساری دنیا میں غلبہ اسلام کی مہم کو چلانے کا مرکز ہونے کی حیثیت میں اہل ربوہ پر ظاہری اور باطنی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اس لئے دوست ربوہ کی مرکزی حیثیت کے پیش نظر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور نبھا ئیں اور باہر سے آنے والے دوستوں کے لئے ایک ایسا عمدہ نمونہ بنیں کہ جسے وہ ساری عمر بھول نہ سکیں ان کو یہ ہمیشہ یادر ہے کہ وہ ایسے شہر میں گئے تھے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اس کثرت سے نازل ہوتی ہیں کہ وہاں کے مکینوں کی حالت بدل گئی ہے.ان کی ظاہری شکلیں اور باطنی اوصاف حقیقی اسلام کے رنگ میں رنگین ہیں اللہ تعالیٰ نے اُن میں گویا غیر معمولی طور پر ایک نیک تبدیلی پیدا کر دی ہے ورنہ اگر یہ تبدیلی پیدا نہیں کرنی تو یہاں رہنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے جن لوگوں کا صرف تجارتیں کرنا مقصد ہے اور خدا کی رحمتوں سے انہیں حصہ لینے کا خیال نہیں ہے وہ باہر جا کر تجارتیں کریں اور دنیا کمائیں.وہ ہمارے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش نہ کریں لیکن جو لوگ مرکز سلسلہ میں خدا اور اس کے رسول کی خاطر غلبہ اسلام کی عظیم جدوجہد میں شریک ہونے کے لئے آئے ہیں اُن کا یہ فرض ہے کہ وہ دعاؤں کے ساتھ اور تدبیر کے ساتھ اور ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ اور اس محسن اخلاق کے ساتھ جس کا حسین ترین مظاہرہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہمیں نظر آتا ہے باہر سے آنے والے غیر از جماعت دوستوں کے دل موہ لیں اور اس مرکز احمدیت میں جو اپنے دوست آتے ہیں اور اہل ربوہ کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں، دوست اپنے عمدہ نمونہ اور حسنِ اخلاق سے اُن کے ایمانوں کی پختگی اور استقامت کے سامان بھی پیدا کریں.چونکہ باہر سے وفود کی شکل میں دوست پہلی بار ربوہ آرہے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کے لئے دوست دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں

Page 408

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۸۸ خطبه جمعه ۳۰/ نومبر ۱۹۷۳ء جملہ ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق بخشے.اس سلسلہ میں اہل ربوہ سے میں یہ بھی کہوں گا کہ بڑے بھی اور چھوٹے بھی مرد بھی اور عورتیں بھی کل یکم دسمبر سے روزانہ دونفل پڑھنے شروع کر دیں.جن دوستوں سے ہو سکے وہ آج سے پڑھنا شروع کر دیں اور خدا سے یہ دعا مانگیں کہ اللہ تعالیٰ اُن (اہل ربوہ) کے وجود کو ہر اس شخص کے لئے اپنا ہو یا غیر سب کے لئے برکت اور ہدایت کا باعث بنادے.باہر سے آنے والا ہر شخص جب ربوہ کو دیکھے اور اس پر تنقیدی نگاہ ڈالے تو وہ اسے اس دعوی کے مطابق پائے جس دعوی کی بنا پر یہ مرکز قائم کیا گیا ہے یعنی یہ کہ اس جگہ سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں ساری دنیا میں اُس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کی جائے گی جس مقصد کے حصول کے لئے آدم کو پہلے دن مکہ نصیب ہوا اور پھر اوّل البشر اور انسانِ کامل حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کہ جن کی خاطر اس کا ئنات کو پیدا کیا گیا تھا ) کی رہائش گاہ مدینہ منورہ کو مرکز قرار دیا گیا.پس میں دوستوں سے پھر یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے رحمت اور فضل کے حصول کی خاطر تم عشاء کی نماز کے بعد اور وتروں سے پہلے روزانہ دو نفل پڑھو، مسجدوں میں پڑھو یا اپنے گھروں میں پڑھو، بہر حال بالالتزام پڑھو اور دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو بہت بابرکت بنائے ہمارے کاموں میں برکت ڈالے.وفود کی صورت میں باہر سے آنے والے دوستوں پر ہمارا نمونہ نہایت اچھا اثر ڈالنے والا ہو.یہاں سے برکتوں اور رحمتوں کی جھولیاں بھر کر لے جانے کی انہیں تو فیق عطا ہو اس جلسہ پر میں جماعت کے سامنے اشاعت اسلام کا ایک نیا منصوبہ رکھنا چاہتا ہوں اس کو احسن طور پر جماعت کے سامنے رکھنے کی اللہ تعالیٰ مجھے تو فیق عطا فرمائے.وہ میری زبان پر اثر ڈالے اور جماعت کے دلوں کو اثر قبول کرنے کے لئے تیار کر دے یہ منصوبہ جب مختلف مراحل میں سے گزرتے ہوئے اپنی انتہا کو پہنچے تو اپنے مراحل میں بھی اور انجام کا ر بھی اسلام کے لئے اور مسلمانوں کے لئے انتہائی طور پر برکتوں کا موجب بنے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربو ه ۱۹ / دسمبر ۱۹۷۳ء صفحه ۲ تا ۶) 谢谢您

Page 409

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۸۹ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء جلسہ سالانہ کے موقع پر رضا کارانہ خدمات کے لئے احباب اپنے نام پیش کریں خطبہ جمعہ فرموده ۷ / دسمبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جلسہ سالانہ کی بہت سی ضروریات ہیں.ایک تو میں نے مکانوں کے متعلق دوستوں کو کہا تھا کہ وہ جہاں اپنے عزیز و اقارب کے لئے اپنے مکانوں میں جگہ بناتے ہیں وہاں ان احمدی خاندانوں کے لئے بھی جنہیں بعض مجبوریوں کی بنا پر بیوی بچوں کے ساتھ اکٹھے ٹھہرنا پڑتا ہے ان کے لئے بھی کمرے خالی کریں.اسی طرح میں نے کہا تھا کہ بیرونِ ملک سے آنے والے وفود کے لئے ان کے مناسب حال گنجائش موجود ہونی چاہیے.اس کے متعلق تو مجھے رپورٹ ملی ہے کہ دوستوں نے کافی کمرے بیرون ملک سے آنے والے وفود کے لئے پیش کئے ہیں.اب منتظمین دیکھیں گے کہ کون سے مناسب ہیں اور وہ ان کمروں کو استعمال کریں گے اور اگر کوئی مناسب نہ ہوئے یا ضرورت سے زائد ہوئے تو ان میں دوسرے مہمان ٹھہرا دیئے جائیں گے.اب سال بہ سال یہ ضرورت بڑھتی چلی جائے گی.اس لئے ایک تو ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مرکز کی طرف سے مہمان خانہ ان لوگوں کے مناسب حال بنوانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں کھانے اور بیٹھنے کے کمروں کے علاوہ آٹھ رہائشی کمرے ہوں گے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر مجالس

Page 410

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۹۰ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کوشش کریں اور ہمت کریں تو یہ بھی تین یا چار سونے کے کمروں والے مہمان خانے اپنی تنظیم کے ماتحت ایسے بنا سکتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر یا بعض دیگر ضروریات کے مواقع پر انہیں بھی سلسلہ کے کاموں کے لئے استعمال کیا جا سکے.اس کے علاوہ رضا کاروں کی ضرورت ہے جو سال بہ سال بڑھتی چلی جارہی ہے.سال بہ سال آبادی میں بھی اضافہ ہورہا ہے لہذا یہ ضرورت پوری ہو جانی چاہیے.میرے نزدیک رضا کارانہ خدمت کے معیار میں کچھ کمی واقع ہوگئی ہے.جو معیار احمدی بچوں اور نو جوانوں نے اس زمانہ میں قائم کیا تھا جب ہم بھی بچے تھے وہ معیا راب قائم نہیں رہا.اُس وقت چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی اور خدمت سمجھی جاتی تھی.اب تو تقسیم اوقات کر کے رضا کاروں کا ایک حصہ ایک وقت میں دفتر میں کام پر ہوتا ہے اور دوسرا حصہ دوسرے وقت میں کام پر ہوتا ہے.کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس طور پر جتنے گروہ بنائے جائیں گے اسی نسبت سے زیادہ رضا کاروں کی ضرورت ہوگی اور اتنی ہی ثواب میں کمی واقع ہو جائیگی.پہلوں نے جو ثواب حاصل کیا آج کا بچہ یا نوجوان وہ ثواب حاصل نہیں کر رہا اس کی فکر کرنی چاہیے.اسے خود بھی اور اس کے اساتذہ اور ماں باپ کو بھی.اساتذہ کی بھی ایک ذمہ داری ہوتی ہے.والدین کی بھی اور جملہ تنظیموں کی بھی ذمہ داری ہے.آج کے نوجوانوں کو جب تک ثواب کے زیادہ سے زیادہ مواقع میٹر نہیں آتے رہیں گے تو انہیں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی دن بدن بڑھتی ہوئی عظیم ذمہ داریوں کے نباہنے کی تربیت کیسے حاصل ہوگی.اگر رضا کار زیادہ تندہی سے کام کریں تو جس کام کے لئے زیادہ تعداد میں نو جوانوں کی ضرورت ہوگی وہی کام کم تعداد ہی انجام دے سکے گی.بہر حال مہمانوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے.خدا تعالیٰ نے ہمیں کچھ رضا کارایسے دیئے ہیں جو سارا سال ہی ایک اعلیٰ معیار پر دینی کام کرتے رہتے ہیں.کچھ ایسے بھی رضا کار ہیں جو سارا سال بظاہر توسستی دکھاتے ہیں لیکن جلسہ سالانہ کے موقع پر بہت چست ہو جاتے ہیں اور بڑی تندہی سے کام کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول کر کے انہیں یہ جزا بھی دے کہ سارا سال بھی وہ اُونگھنے کی بجائے

Page 411

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۹۱ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء بیدار ہو کر خدا تعالیٰ کے سلسلہ کے کاموں میں مشغول رہیں.ایک ضرورت اور بھی بنیادی اور حقیقی ضرورت ہے اسلام اور امت محمدیہ کی.باقی سب ضرورتیں اس کے ذیل میں آتی ہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد نے اس کی ذمہ داری ہم پر ڈالی ہے اور اس کی اہمیت اس قسم کے اجتماعات میں اور بھی بڑھ جاتی ہے.اسلام نے ضیاع کو پسند نہیں کیا اور اس کو بہت بُرا سمجھا ہے اور ایک مسلمان اور امت محمدیہ کے پاس ایک دھیلہ بھی ضائع ہونے کے لئے نہیں ہے.ہر دھیلہ صحیح مصرف پر خرچ ہونا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ اس کی قیمت ہمیں ملنی چاہیے اور یہ بھی ایک منبع برکت ہے جو لوگوں کو حیران کرتا ہے مثلاً ۴ ۵ - ۱۹۵۲ء کی بات ہے ہمارا تعلیم الاسلام کالج بن رہا تھا تو کچھ حاسد اور متعصب بھی تھے.وہ یہ چاہتے تھے کہ لاہور میں جو ٹوٹی پھوٹی ڈی اے وی کالج کی عمارت صدر انجمن احمد یہ کوملی ہے وہ بھی واپس چھن جائے لیکن ہم سے پیار کرنے والے ہم پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والے بڑی دور کی سوچنے والے بھی تھے یعنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ.آپ چاہتے تھے کہ جلد ہی ربوہ میں کالج آجائے تا کہ نوجوانوں کی صحیح تربیت ہو سکے دونوں کی اختلاف نیت کے باوجود خواہش ایک ہی تھی اور چونکہ اس عاجز پر اس وقت کالج کی ذمہ داری تھی اس لئے بڑی دوڑ دھوپ کرنی پڑ رہی تھی کہ کسی طرح ایسے سامان پیدا ہو جا ئیں کہ ہم جلد ربوہ منتقل ہوسکیں.اس وقت جو وزیر تعلیم تھے ان سے ہمارا تعلق تھا میں ان کے پاس گیا.میں نے کہا کہ کالج تو بہر حال ایک قومی ضرورت ہے.آپ نے تقسیم ملک کے بعد ایک نقشہ کے مطابق دو جگہ کالج بنائے ہیں.آپ وہ نقشے مجھے دے دیں اور جتنی رقم آپ کی خرچ ہوئی ہے اس کا چالیس فیصد دے دیں تو آپ کو جو لوگ آئے دن تنگ کرتے رہتے ہیں کہ احمدیوں کو لاہور سے نکا لو تو آپ ان لوگوں کے اس دباؤ یا ایڈا سے بھی بیچ جائیں گے اور ہمارا کالج بن جائے گا اور آپ کو یہ بھی پتہ لگ جائے گا کہ آپ نے جو کچھ خرچ کیا س کا ساٹھ فیصد کہاں گیا کیونکہ انہی نقشوں کے مطابق چالیس فیصد کے خرچ کے ساتھ میں عمارت بنوا دوں گا.وہ ہنس کر مجھے کہنے لگے کہ وہ تو ہمیں پہلے ہی پتہ ہے کہ ساٹھ فی صد رقم کہاں جاتی ہے.مطلب یہ تھا کہ آپ کو ہم رقم دینے کے لئے تیار نہیں لیکن وہ تو میں نے ایک بات ان سے کہی

Page 412

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۹۲ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء تھی.میں ایک چیز ان پر ظاہر کرنا چاہتا تھا.ہمیں تو اللہ تعالیٰ کے خزانوں سے پیسے ملنے تھے.پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیسے میں اتنی برکت ڈالی کہ آج تک خود مجھے بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ان پیسوں میں یہ کالج کیسے بن گیا اور باہر کسی سے بات کریں تو وہ مانتا ہی نہیں.ایک مرتبہ ایک مرکزی وزیر آئے.انہوں نے کہا یہ سارار بوہ جس کے متعلق تم کہتے ہو کہ جماعتِ احمدیہ نے اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر بنایا ہے یہ میں نہیں مانتا.ضرور حکومت نے کئی کروڑ روپے کی امداد آپ لوگوں کو دی ہوگی.خیر ان سے کہا گیا کہ یہ تو آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ وزیر ہیں.حقیقت یہ ہے کہ ایک دھیلہ بھی ہمیں حکومت نے نہیں دیا نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے غیرت بھی دی ہے اور اخلاص اور برکت بھی دی ہے.ہمیں مانگنے کی ضرورت نہیں.ہمارے پاس جو بھی غریبانہ سامان ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ اتنی برکت ڈالتا ہے کہ دوسروں کو حیرت ہوتی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضیاع سے بچنے پر اتناز وردیا ہے کہ ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ کھانا کھاتے وقت اپنی رکابی میں اتنا ہی کھانا نکا لو جتنا کھا سکو.ایک لقمہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے.اس بنیادی حکم کا تعلق ہر شعبۂ زندگی سے ہے.ہمارے جلسہ سالانہ کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے.جلسہ کا نظام وسیع ہے اس میں بڑی وسعت ہے اور اس میں ہر قسم کی نگرانی ہے.جلسہ کے نظام کی نوعیت یہ ہے کہ ضیاع سے بچنے کے لئے بہت بڑی جدو جہد اور بڑے پیمانہ پر نگرانی کی اور چوکس اور بیدار رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے.اجتماعی قیامگاہوں کے منتظمین کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کس وقت کے کھانے پر کتنے مہمان آئیں گے وہ اپنی طرف سے یہ سوچتا ہے کہ اس جگہ پچھلے سال اسی وقت پچاس مہمان آئے تھے.اس مرتبہ ممکن ہے ساٹھ یا ستر آجائیں؟ وہ ساٹھ ستر کا کھانا منگواتا ہے.وہ ستر کس کا کھانا اس نیت کے ساتھ منگواتا ہے کہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہولیکن وہاں ساٹھ مہمان پہنچتے ہیں.اب دس کس کا کھانا اس کے پاس بیچ رہتا ہے.تو کوئی ایسا انتظام نہیں کہ اس کھانے کو ضیاع سے بچایا جاسکے.اس لئے اس ہنگامی صورت کے متعلق جلسہ کے

Page 413

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۹۳ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء منتظمین کو سوچنا چاہیے کہ مہمان کو تکلیف بھی نہ ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی پورا ہو جائے کہ اُمت محمدیہ کو ایک لقمہ بھی ضائع کرنے کے لئے نہیں دیا گیا.ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حکم دیا کہ تمہیں خدا تعالیٰ بہت دے گا.کیا قیصر اور کسریٰ کے خزانے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلاموں کے قدموں میں لا کر نہیں ڈالے گئے تھے؟ لیکن اس کے باوجود یہ حکم ہے کہ ایک لقمہ بھی کھانے کا ضائع نہ ہو اس کا خیال رکھیں.آج مثلاً امریکہ بعض دفعہ اس بات پر فخر کرتا ہے اور ایسی باتیں شائع ہوئی ہیں کہ امریکہ اتنا کھانا ضائع کرتا ہے کہ ایک وقت کے کھانے کا ضیاع دنیا بھر کے لوگوں کا ایک وقت میں پیٹ بھر سکتا ہے.یہ کوئی فخر کی بات ہے؟ یہ تو شرم کی بات ہے لیکن ہمیں اس بات پر فخر نہیں کرنا.ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے مطابق اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ ہمیں ایک لقمہ بھی ضائع کرنے کے لئے نہیں دیا گیا.ہمیشہ ہی اس طرف توجہ ہوتی ہے اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خواہش ہے اور اس لئے کہ آپ کا یہ حکم ہے کہ میری اُمت کا کوئی لقمہ بھی ضائع نہ ہو اور پھر اب وقت کی ضرورت بھی ایسی آپڑی ہے مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ میں حیران ہو گیا جب ایک کاغذ میرے سامنے یہ آیا کہ مہنگائی کی وجہ سے اس جلسہ سالانہ کے خرچ کے لئے ایک لاکھ بتیس ہزار روپیہ زائد منظور کیا جائے اور پھر صدرانجمن نے اس پر غور کیا اور اعداد و شمار دیکھے کہ کن کن شقوں میں خرچ زیادہ ہے.گندم کی قیمت بڑھ گئی اور اگر چہ مصنوعی گھی کی پیداوارسو فیصد بڑھ گئی ہے لیکن اس کی قیمت بھی سو فیصد بڑھ گئی.یہ تو الٹے کام ہورہے ہیں حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے.میرے خیال میں آج بھی صبح کو ئی خبر تھی کہ بناسپتی گھی کی پیدا وار سو فیصد بڑھ گئی ہے لیکن چونکہ یہ گھی ملک سے باہر سمگل ہو نے لگ گیا ہے اس لئے اس کی قیمتیں معمول پر نہیں آرہیں اور اس لئے لوگوں کو گھی میسر نہیں آرہا.یہ اعلان ہو جانا تو بڑے شرم کی بات ہے اور یہ کوئی عذر معقول تو نہیں مگر حکومت کی طرف سے یہ عذر ہو کہ ہم کیا کریں ہم نے تو پیداوار دوگنی کر دی تھی لیکن لوگ باہر لے جارہے ہیں تو یہ عذر کسی معقول آدمی کے نزدیک عذر معقول نہیں.حکومت اس بات کی ذمہ دار ہے کہ ہماری کوئی چیز ناجائز طور پر ملک سے باہر جانے نہ پائے اور اگر جاتی ہے تو وہ کوتاہی ہے.

Page 414

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۹۴ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء حکومت سے یہاں مرا د حکومت کی ساری مشینری ہے.ہو سکتا ہے کہ کابینہ کی کوشش کے باوجود ایسا ہورہا ہو ، ہوسکتا ہے ایسا نہ ہو.خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے ممکن ہے کہ کوئی ڈپٹی کمشنر اس کا ذمہ دار ہو یا کوئی پولیٹیکل ایجنٹ اس کا ذمہ دار ہو یا کوئی تحصیلدار اس کا ذمہ دار ہو، چھوٹا ذمہ دار ہو، بڑا ذمہ دار ہو قوم کو اس سے کیا تعلق؟ قوم تو مطالبہ کرے گی کہ جو چیز ہماری ضرورت کے لئے پیدا کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنائی گئی ہے ( کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے.پیدا کرنے سے یہ نہ کوئی سمجھ لے.ہم پیدا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے.اس نے فضل کیا کہ ہمارے لئے وہ سامان پیدا کئے کہ ہم بناسپتی گھی کی پیداوار کو دو گنا کر دیں) لیکن حکومت کی مشینری اتنی ناقص ہے کہ لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ گھی کی پیداوار سو فیصد بڑھنے کے باوجود کمی ہے.ضرورت پوری نہیں ہور ہی اس لئے کہ سمگل ہو جاتا ہے یا تو یہ خبر حکومت کے دشمنوں نے اڑائی ہے اگر ایسا ہے تو قوم کو پتہ لگنا چاہیے لیکن اگر سمگل نہیں ہو رہا تو پیدا وار دگنی ہو جانے کے باوجود وہ پیداوار کہاں جاتی ہے؟ اور اگر یہ واقعی سمگل ہو رہا ہے تو حکومت کی بڑی غفلت ہے انہیں اس طرف توجہ دینی چاہیے.پیچھے یہ خبریں بھی سننے میں آتی رہیں کہ ( پہلی حکومتوں میں بھی ) جی اتنے کروڑ کی چینی باہر سے منگوائی گئی وہ لوگوں کو ملی نہیں اور سمگل ہوگئی.اگر ہمارا معاشرہ چھلنی کی طرح ہے کہ اس میں جو مائع بھی پڑے وہ نیچے کی طرف بہہ جاتا ہے تو پھر چینی وغیرہ باہر سے نہ منگواؤ.اگر چینی یا گھی قوم کو پھر بھی نہیں ملنا تو درآمد ہی نہیں ہونی چاہیے یا پھر ایسا کام کرو جس سے سمگلنگ کا سد باب ہو جائے بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے کارندوں میں سے جو بھی اس کا ذمہ دار ہے وہ بڑا ظالم ہے اور جو اس سے بالا افسر ہیں وہ بڑے غافل ہیں.ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے یہ ساری قوم کا مطالبہ ہے جس کا ایک حصہ جماعت احمدیہ کے افراد بھی ہیں.لیکن جماعت کا اپنے نفس سے یہ مطالبہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ میری اُمت کو ایک لقمہ بھی اس لئے نہیں دیا جائے گا کہ وہ ضائع کر دیا جائے.اس حکم پر عمل ہونا چاہیے اس لئے کہ آپ کے اس ارشاد اور ہدایت اور خواہش کے مطابق ہمیشہ ہی خصوصاً جلسہ سالانہ کے موقع پر اور خصوصاً اس جلسہ پر جب ہمارے بجٹ سے ( جو پہلے سے بہر حال زیادہ تھا اس سے

Page 415

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۹۵ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء بھی تقریباً ساٹھ فیصد زائد خرج متوقع ہو گیا.اس وجہ سے کہ ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے اپنے خرچ کو کم کرنے اور بچت کرنے اور پیسے کی حفاظت کرنے کی ایک صورت جیسا کہ میں نے کہا یہ بھی ہے کہ کوئی کھانے کا ایک لقمہ بھی ضائع نہ ہو.اسی طرح کوئی ایک قطرہ بھی مٹی کے تیل کا ضائع نہ ہو، کوئی ایک لکڑی ایندھن کی ضائع نہ ہو، مٹی کا ایک پیالہ بھی تقسیم کے وقت ضائع نہ ہو یعنی ہر ایک چیز میں احتیاط بر تو اور کم سے کم خرچ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرو.ہم نے ایک توازن کو قائم رکھنا ہے.تو ازن یہ قائم ہونا چاہیے کہ مہمان کو ہر قسم کی تکلیف سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے جماعت کو ہر قسم کے ضیاع سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے.دوسرے اس مہنگائی کے نتیجہ میں قوم کو جن تکالیف کا سامنا ہے ان کا علاج بھی ہمیں سوچنا پڑے گا.جب چیزیں مہنگی ہو جا ئیں تو سب سے زیادہ تکلیف اس طبقہ کو ہوتی ہے جس کی ماہوار آمدنی محدود اور معین ہو یعنی دوسوروپے یا پانچ سو یا ہزار روپے جس کی آمد ہے اگر مجموعی طور پر اشیاء کی قیمتیں دوگنی ہو جائیں تو اس شخص کی قوت خرید پہلے کے مقابلہ میں پچاس فی صد یعنی نصف رہ جائے گی اور گھر کی ضرورت اور عادتیں ) کچھ اخراجات عادتیں کرواتی ہیں کچھ اخراجات ضروریات کرواتی ہیں) وہ ضروریات اگر بڑھی نہیں تو کم از کم اتنی ہی رہیں گی جتنی تھیں.اگر بچہ پیدا ہو گیا ہے تو ضروریات بڑھ گئی ہیں اور اگر کوئی بچہ خاندان میں پیدا نہیں ہوا تو نہیں بڑھیں اگر ایک بچہ سکول میں جانے کے قابل ہو گیا ہے تو ضرورت بڑھ گئی.اگر سارے بچے پہلے ہی سکول جارہے تھے تو ضرورت نہیں بڑھی ( غرضیکہ اس کی تفصیل لمبی ہے ) لیکن بہر حال سب سے زیادہ تکلیف وہ شخص اٹھاتا ہے جس کی آمد محدود اور معین ہو کہ ہر مہینے اتنی آمد ہے اور اجناس کی قیمت بڑھ گئی ہے گندم کی ، روئی کی ، ایندھن کی قیمت بڑھ گئی ، دالوں کی قیمت بڑھ گئی ، میٹھے کی قیمت بڑھ گئی ، گھی کی قیمت بڑھ گئی ، سفر پر جانا ہے تو کرائے بڑھ گئے.نامعلوم گھی کی کیوں لوگوں کو عادت پڑ گئی ہے.تیل کھانا چاہیے ہمارے ہاں پر انا محاورہ ہے کہ تیل کو اگر جلا لیا جائے تو وہ گھی بن جاتا ہے اور گھی زیادہ جل جائے تیل جتنا بھی نہیں رہتا اس کے اندر موجود بعض مفید اجزا ضائع ہو جاتے ہیں اور تیل کے بعض مضر صحت اجزا جلانے سے جل جاتے ہوں گے اور وہ اچھا ہو جاتا

Page 416

خطبات ناصر جلد پنجم.۳۹۶ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء ہوگا.مصنوعی گھی کیا ہے؟ ہے تو وہ بھی تیل ہی.کیا یہ ضروری ہے کہ تیل کو ایسی مشکل میں بنا کر جوگھی سے ملتی جلتی ہو استعمال کیا جائے؟ بنولے کا تیل ہے مونگ پھلی کا تیل ہے سو یا بین کا تیل ہے سرسوں کا تیل ہے تو ریا کا تیل ہے.ان تیلوں ہی سے گھی بنادیا جاتا ہے اور آپ بڑے شوق سے کھاتے ہیں یوں آپ کہتے ہیں کہ تیل نہیں کھانا اور یہ گھی کھانا ہے.یہ گھی ہے کیا چیز؟ تیل ہی تو ہے محنت کر و خالص اور صاف تیل حاصل کرو.احمدی دکاندار خالص چیز مہیا کریں اس تیل کو جلا کر رکھو اور استعمال کرو.دکاندار اگر تیل کے پکوڑے تل دے تو بچے شوق سے کھالیں گے اور ماں اگر تیل میں کھانا پکا دے تو کہیں گے تیل کا کھانا ہم نے تو نہیں کھانا.پھر پکوڑے کھانے چھوڑ دیں دوکانوں سے چیزیں لے کر کھانا چھوڑ دیں.ہماری زندگی میں تضاد نہیں ہونا چاہیے اور ایک احمدی مسلمان کی زندگی میں نامعقولیت نہیں ہونی چاہیے.میں بتارہا ہوں کہ جب اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو وہ شخص جس کی آمد معین ہے سب سے زیادہ تکلیف اٹھاتا ہے.مثلاً جماعت احمدیہ کے تنخواہ دار کارکنان ہیں ان کی تکلیف بڑھ جاتی ہے لیکن قیمتوں میں اضافہ کے نتیجہ میں قوم کے کچھ افراد ایسے ہیں جن کی آمدنیاں بڑھ جاتی ہیں مثلاً دکاندار ہیں.یہ ایک گہرا مضمون ہے میں ایک عام فہم مثال لوں گا.فرض کریں گھی کی قیمت میں پچاس فیصد اضافہ ہو گیا یعنی چار روپے کی بجائے چھ روپے سیر ہو گیا.اب ہمارا ایک احمدی دکاندار ہے اس کے پاس اگر سوسیر گھی پڑا ہے تو جب وہ نئی قیمت پر لائے گا تو پھر اس میں اس کے نفع کی نسبت پہلے کے مقابلہ میں اتنی ہی ہو جائے گی لیکن جو سو سیر گھی اس کے پاس پہلے پڑا ہے اس کے دوسوروپے تو اسے قیمت بڑھنے کے ساتھ ہی زائدمل گئے.اس طرح معمولی آمد سے زائد اس کو دوسوروپے کی آمد ہوگئی اور یہ دوسو کا سوال نہیں اس طرح پر کروڑوں روپے کا کاروبار ہو جاتا ہے.جو تاجر ہیں وہ قیمتیں بڑھنے سے یکدم امیر ہو جاتے ہیں.پھر میں نے غور کیا ہے زمیندار کی آمد میں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ قیمتیں اگر اتنی نہیں بڑھیں جتنی اس کے خرچ میں اضافے کے ساتھ سے بڑھنی چاہیے تھیں لیکن پھر بھی پہلے سے وہ زیادہ امیر ہو گیا.ایک اس لئے کہ اسے پیچ اچھے ملنے لگ گئے اور اس کے فی ایکٹر کی پیداوار بڑھ گئی دوسرے اس لئے کہ مثلاً چاول ہے.اگر چہ جس نسبت سے حکومت نے چاول کے

Page 417

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۹۷ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء نرخ بڑھائے ہیں اس نسبت سے زمیندار کو فائدہ نہیں پہنچا لیکن فائدہ پہنچا ضرور ہے خواہ نسبت کم ہے اور حکومت کی یہ بڑی سخت غفلت ہے کہ گندم کی قیمت تو مقرر کرتی ہے لیکن ”جھونے“ (یعنی مونجی ) کی قیمت مقرر نہیں کی جاتی.ایک زمیندار تو جھونا یعنی مونجی پیدا کرتا ہے وہ بغیر چھلکوں کے چاول پیدا نہیں کرتا.اس کی زمین سے چھٹڑے چھڑائے چاول نہیں نکلتے کہ وہ بکنے کے لئے بازار میں چلے جائیں.ان کے اوپر چھلکا ہوتا ہے جس کو ” پھک“ کہتے ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ مشین سے نکل کر چاول جو شکل اختیار کرتا ہے اس کی قیمت مقرر کی جاتی ہے.اب چاول کی قیمت بیالیس روپے سے باسٹھ روپے من تک چلی گئی ہے.بیس روپے بڑھ گئے اور یہ قیمت حکومت نے یہ کہہ کر بڑھائی کہ زمیندار کو اس سے فائدہ ہوگا لیکن بیچ میں جو کارخانہ دار ایک واسطہ آ جاتا ہے اس نے کہا کہ پہلے ہمیں کچھ فی صد کھلی مارکیٹ کے لئے ملنے تھے اب نہیں مل رہے اس لئے ہم جھونے کی قیمت زیادہ نہیں بڑھائیں گے.چنانچہ جھونے کی قیمت جس نسبت سے بڑھنی چاہیے تھی وہ نہیں بڑھی حالانکہ حکومت کو چاول کی قیمت اپنی خرید کے لئے مقرر کرنی چاہیے حکومت زیادہ تر باسمتی چاول خریدتی ہے.تو باسمتی چاول جو اپنی اصل شکل میں ہے (یعنی چھڑائی کے بعد اس کی ) قیمت خرید کا فائدہ حکومت کو ہوتا ہے زمیندار کو نہیں.حکومت نے اپنا فائدہ جو حاصل کرنا ہے اس کے لئے چاول کی قیمت مقرر کرنی چاہیے اور زمیندار کو جو فائدہ پہنچانا ہے تو اس کے لئے جھونے کی قیمت مقرر کرنی چاہیے.اور جھونے کی قیمت مقرر کر کے مل والوں سے باہمی مشورہ کے ساتھ انہیں مناسب نفع دے کر ان سے چاول خریدنا چاہیے لیکن زمیندار کو بیچ میں سے چھوڑ دینا اور فرض کرنا کہ زمیندار کے ایکڑوں میں چاول پیدا ہوتا ہے یہ تو نادانی ہے.زمیندار کے ایکڑ جھونا پیدا کرتے ہیں یعنی چھلکے سمیت چاول اُگاتے ہیں اور اس کی قیمت مقرر نہیں کی جاتی.بہر حال زمیندار کو اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا کہا گیا تھا کہ ہم پہنچانا چاہتے ہیں تا ہم اس کو فائدہ ہوا.ضرور ہے اس لئے صدرانجمن اور جماعت احمدیہ کے دوسرے اداروں نے اپنے کارکنان کے گزاروں میں کچھ تھوڑا سا اضافہ کیا ہے.اس کو پورا کرنے کے لئے یا ہم اپنے کارکنوں کی تعداد کم کریں اور ان کی تنخواہوں کو باقیوں پر بانٹ دیں تا کہ ان کو تکلیف نہ ہو

Page 418

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۹۸ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء یا ہمارے وہ افراد جن کی آمد موجودہ گرانی کی وجہ سے کچھ بڑھ گئی ہے وہ اسی نسبت سے مالی قربانی بھی زیادہ دیں اور جو معقول گزارا ہونا چاہیے کہ وہ بھوکے اور ننگے نہ رہیں اس کے مطابق ان کو گزارا ملنا چاہیے اور اتنی آمد ان کی ہونی چاہیے.اس وقت میں جلسہ سالانہ کی بات کر رہا ہوں.جلسہ سالانہ کا ایک بجٹ ہے.جلسہ سالانہ کی ایک آمد ہے.آمد ہمیشہ بجٹ سے کم رہتی ہے.جماعت لازمی چندہ جات یعنی چندہ عام جو سولہواں حصہ آمد کا ہے اور حصہ آمد یعنی چندہ وصیت کی طرف زیادہ توجہ دیتی ہے اور اس لازمی چندہ کو جو ویسا ہی لازمی ہے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس کی اتنی ضرورت نہیں اب تو مہنگائی نے زیادہ ضرورت پیدا کر دی ہے اس کا احساس بڑا شدید ہو گیا ہے.پس جلسہ سالانہ کے مہمانوں کو تکلیف سے بچانے کے لئے اور یہ سارا خرچ پورا کرنے کے لئے پیسہ ہونا چاہیے.اب یہ حال ہے کہ یہ ہمارا جلسہ گاہ جو سامنے ہے اس کی تعمیر نہیں ہو رہی کیونکہ پہلے ساری جلسہ گاہ پر خرچ کے لئے ہمارا بجٹ دس پندرہ ہزار روپے ہیں اور اب اینٹ کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ میرا خیال ہے کہ وہ ۲۵.۳۰ ہزار روپے یا شاید اس سے بھی زائد صرف اینٹ کا خرچ ہے.بہر حال جلسہ گاہ کا خرچ پہلے سے کہیں زیادہ ہو گیا ہے گو جلسہ سالانہ کے دوسرے نظام سے یہ نظام قدرے مختلف ہے لیکن اس کا خرچ بھی بڑھ گیا.پس اگر مجبوراً جماعت کے اخراجات بڑھانے پڑے اور جماعت اس کا مطالبہ کرے کہ ایسے مخلص کو بھرتی کرو جو آدھا پیٹ بھر کر بھی یہاں کام کر سکیں اور اب اگر ان کی پچھتر فی صد ضرورتیں پوری ہوئی ہیں تو پھر صرف پچاس فیصد پوری ہوں تب بھی وہ یہاں کام کریں تو ٹھیک ہے ایسے مخلصین پیدا کر و جماعت ان کو لے لے گی.یا یہ ہے کہ جو کم از کم ہم گزارا دے رہے ہیں اتنا تو بہر حال لے کر کام کرنا چاہیے یہاں زید اور بکر کا سوال نہیں.یہ جماعت احمدیہ پر اجتماعی ذمہ داری ہے کہ جن سے وہ کام لیتی ہے ان کو کم سے کم ضرورت پوری کرنے کے لئے رقم گزارے کے طور پر دے اور جو کام کرنے والے ہیں ان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بشاشت اور اخلاص کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت چوکس اور بیدار رہ کر خدمتِ سلسلہ پر خرچ کریں جو

Page 419

خطبات ناصر جلد پنجم ۳۹۹ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء بعض دفعہ وہ نہیں کرتے بہر حال دونوں طرف سے یہ ذمہ داریاں ہیں.جلسہ سالانہ کے خرچ میں ایک لاکھ بتیس ہزار کا یہ اضافہ اور دوسرا پہلے کا بجٹ جو مجھے صحیح یاد نہیں وہ بھی کافی ہے.یہ شاید پونے دولاکھ کے قریب خرچ بڑھ جائے گا.اتنی آمد بھی ہونی چاہیے جلسہ سالانہ کا جو تشخیص شدہ بجٹ ہے اس کے مطابق ایک تو جماعت کو ادا کرنا چاہیے دوسرے جو زمیندار جماعتیں ہیں ان کو خاص طور پر یہ سوچنا چاہیے کہ چونکہ اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں.ان میں وہ اشیاء بھی ہیں جنہیں وہ پیدا کرتے ہیں اور جس اضافہ کے نتیجہ میں ان کی آمد بڑھ گئی ہے اس میں وہ خدا تعالیٰ کے کاموں کو چلانے کے لئے پہلے سے زیادہ قربانی دیں زیادہ قربانی بظا ہر نظر آئے گی لیکن نسبت وہ وہی قائم رکھیں.جتنی ان کی پہلے آمد تھی اور جو نسبت اس آمد کے اعتبار سے مالی قربانی کی انہوں نے مقرر کر رکھی تھی اسی نسبت سے آمد کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ اب دیں تو اس سے جماعت کو زیادہ چندہ حاصل ہو جائے گا.آمد بڑھ جائے گی.ان کی قربانیاں کمیت کے لحاظ سے تو بڑھ جائیں گی لیکن کیفیت کے لحاظ سے ان کی قربانی تو نہیں بڑھے گی کیونکہ پہلے اگر وہ آمد کا چھ فیصد یا ۱۰ فیصد دیتے تھے تو اب بھی یہی نسبت رہے گی لیکن اس وقت کے لئے جب تک نئی فکسیشن (Fixation) نہیں ہو جاتی انسان مخلص ہونے کے باوجود عدم توجہ کے نتیجہ میں اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو معاف فرمائے اور اس طرف توجہ کرنے کی توفیق عطا کرئے.بہر حال جلسہ کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اور اس کے لئے ایک تو ہمیں فوری طور پر عملی قدم اس جلسہ پر اٹھانا چاہیے کہ کوئی ضیاع نہیں ہونا چاہیے جو گھروں میں کھانا لانے والے ہیں یا جو اجتماعی قیامگاہوں میں کھانا کھلانے کے منتظمین ہیں وہ بڑی احتیاط کریں.پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جو ٹکڑے بچیں ان کو بھی سنبھال کر رکھیں.پرسوں مجھے باہر سے ایک دوست کا خط آیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ جلسہ کے دنوں میں بہت سے فقیروں نے روٹیوں کی بوریاں اٹھائی ہوئی تھیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اس دوست نے رک کر جائزہ لیا ہو گا وہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ بالکل ثابت روٹی جو کہیں استعمال ہی نہیں ہوئی اس کے پاس ہے وہ تو ضائع ہوگئی انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ کسی وقت کسی اجتماعی قیام گاہ میں سوروٹی

Page 420

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۰۰ خطبہ جمعہ ۷ /دسمبر ۱۹۷۳ء زائد چلی گئی تھی اور وہ بہر حال اگلے دن مہمانوں کو نہیں دی جاسکتی لیکن اس کو اکٹھا کریں.گھر والے بھی اکٹھا کریں اور انتظام تک یہ ٹکڑے پہنچائیں اور پھر یہ ٹکڑے گواس قیمت پر تو نہیں سکتے جس قیمت پر آٹا خریدا جاتا ہے لیکن کچھ نہ کچھ پیسے تو واپس آ جاتے ہیں اور دنیا کو اب اس کی بھی ضرورت ہے.چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ضائع نہ کریں بلکہ اگر بک سکتی ہے تو بیچیں.اگر سنبھالی جائے تو آئندہ کے لئے سنبھال لیں اور جماعت کا وہ حصہ جن کی آمد نیاں قیمتوں میں اضافہ کے نتیجہ میں زیادہ ہوگئی ہیں ان کو اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنے آمد وخرچ کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور اپنی نسبت اور توازن کو جو انہوں نے لازمی اور دیگر مالی قربانیوں کا قائم کیا ہوا تھا اسے نیچے نہیں گرنے دینا چاہیے بلکہ کم از کم اسے ضرور قائم رکھیں تو تب بھی میرے نزدیک جماعت کی آمد میں تیس فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے یعنی ہمارے چندوں کی آمد تیس فیصد زیادہ ہو جائے گی.وہ تو دور کی بات ہے نزدیک کا یہ ہے کہ اسی مہینہ میں جلسہ سالا نہ ہو رہا ہے اور میرے سامنے جو دوست بیٹھے ہیں ان کی بھاری اکثریت وہ ہے جس نے رضا کارانہ طور پر جلسہ سالانہ کا کام کرنا ہے.آپ میرے پہلے مخاطب ہیں آپ کو میں کہتا ہوں کہ ٹوٹی ہوئی سوئی بھی اگر آپ کو نظر آئے تو اسے سنبھال لیں کیونکہ ٹوٹی ہوئی سوئیاں بھی اگر ایک سیر بن جائیں تو ان کے بھی پیسے مل جاتے ہیں اور اگر کہیں روٹی کا ایک لقمہ بھی آپ کو گرا پڑا نظر آئے تو اسے بھی سنبھال لیں اس نیت سے سنبھال لیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ امت محمدیہ کو ایک لقمہ بھی ضائع کرنے کے لئے نہیں دیا گیا.تب آپ کو بڑا ثواب ملے گا اور آپ کے دلوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار اور محبت اور بھی زیادہ ہو جائے گی.خدا کرے کہ بے شمار محبت ہم سب کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدا ہو جائے.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ / دسمبر ۱۹۷۳ ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 421

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۰۱ خطبہ جمعہ ۱۴ /دسمبر ۱۹۷۳ء وو جلسہ سالانہ کے ایام اللہ کی خاص بشارتوں کے دن ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۴ / دسمبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں ایک جگہ فرمایا ہے:.” ہر پاکیزگی یقین کی راہ سے آتی ہے“ اس لئے آپ نے یقین کی ضرورت واہمیت اور اس کے نتائج پر روشنی بھی ڈالی ہے اور افراد جماعت کو اپنے اندر یقین کامل پیدا کرنے کی تلقین بھی فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ اپنے سلسلوں کو بشارتیں دیتا چلا آیا ہے.چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ امت محمدیہ کو بشارتیں دی گئیں بعد میں اسی تسلسل اور انہی کے ظل کے طور پر مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں میں اسلام کے مختلف حالات کے پیش نظر اور مختلف ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے مقرب بندوں کو بھی اپنے اپنے وقت میں بشارتیں دی گئیں.تاہم جس طرح اندار مشروط ہوتا ہے اسی طرح بشارتیں بھی مشروط ہوا کرتی ہیں.انذاری پیشگوئیاں اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں کہ اگر تو بہ اور دعا اور صدقات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچنے کی تدبیر نہ کی گئی تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر جو اس کے غضب اور قہر کو ظاہر کرنے اور اس دنیا میں مفسد لوگوں

Page 422

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۰۲ خطبہ جمعہ ۱۴ /دسمبر ۱۹۷۳ء کو جھنجھوڑنے والی ہوتی ہے وہ ظاہر ہو جائے گی.پس انداری پیشگوئیاں جہاں تو بہ، دعا، استغفار اور صدقات کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں، وہاں بشارتیں بھی مشروط ہوتی ہیں ان قربانیوں اور ایثار اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ جس کا بشارتیں تقاضا کرتی ہیں اور انسان کے اس یقین کے ساتھ جو اسے ان بشارتوں کے پورا ہونے پر ہوتا ہے یہ انسان کا یقین ہی ہے جس کے نتیجہ میں انسان اپنی قربانیاں اور ایثار خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اگر میرے بندے اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبا ہیں گے تو اللہ تعالیٰ ایک اور قوم کو پیدا کرے گا جو اس کی عظمت کی معرفت رکھنے والی اور اس کی بشارتوں پر یقین رکھنے والی ہوگی.اللہ تعالیٰ کی بشارتوں پر اسے ایک ایسا کامل یقین ہوگا کہ خدا کی راہ میں اس سے جو بھی مطالبہ کیا جائے گا وہ اسے پورا کرے گی.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ ہر پاکیزگی یقین ہی کی راہ سے آتی ہے.اگر انسان کو یقین نہ ہو تو وہ خدا کی راہ میں قربانیاں نہیں دے سکے گا.اگر اسے خدا تعالیٰ پر کامل یقین نہ ہو تو دینی ذمہ داریوں کے نباہنے کی طرف اسے توجہ نہیں ہوگی.اگر خدا تعالیٰ کی ہستی کا انسان کو یقین نہ ہو تو عبادت نہیں ہوگی یا عبادت میں وہ خلوص نہیں ہوگا جو عبادت کی روح رواں ہوتا ہے بالفاظ دیگر یقین نہ ہو تو عبادت نہیں ہوگی یا عبادت میں وہ رنگ پیدا نہیں ہوگا جو عبادت کی اصل غرض ہے اور جس سے انسان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ گویا وہ خدا کے حضور کھڑا ہے اور وہ اسے دیکھ رہا ہے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ خدا کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے علم نے ہر چیز کو گھیرے میں لیا ہوا ہے.اس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے جب انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی ہستی پر پختہ یقین پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ اس کا کوئی فعل اور کوئی حرکت خدا سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی تو پھر انسان گناہوں سے بچتا ہے اور اخلاص کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور جذبہ قربانی کے ساتھ خدا کی راہ میں ہر آواز پر لبیک کہتا ہے.خدا کی راہ میں اس سے جس چیز کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے وہ اسے پورا کرتا ہے گویا جس رنگ

Page 423

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۰۳ خطبہ جمعہ ۱۴ /دسمبر ۱۹۷۳ء میں بھی عبادت کا تقاضا کیا جاتا ہے وہ اس پر پورا اترتا ہے.وہ توحید حقیقی پر قائم رہتا ہے اور اپنی تمام ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرتا ہے.بعض الہی بشارتوں کا مجموعہ ایک گلدستہ کی شکل میں عنقریب ہمارے لئے پیش کیا جائے گا یعنی وہ بشارات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملی تھی ان کے جلوے ظاہر ہونے کا زمانہ آنیوالا ہے اور وہ جلسہ سالانہ کے ایام ہیں.جلسہ سالانہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت سی برکات کا ذکر فرمایا ہے یہ برکات ایسے لوگوں کی گود میں نہیں ڈالی جاتیں جو سوئے ہوئے یا غافل پڑے ہوں.ان برکات کے حصول کے لئے بیدار رہنا پڑتا ہے.اس لئے احباب جماعت کو ان برکات کے حصول کے لئے ہر وقت بیدار رہنا پڑے گا اور اس کے لئے جن راہوں پر چلنا ضروری ہے ان راہوں پر پورے وثوق کے ساتھ اور کامل یقین کے ساتھ چلنا پڑے گا یعنی ایسی راہوں کو اختیار کرنا پڑے گا جو اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کا ذریعہ بنتی ہیں اور انسان کو خدا تک پہنچاتی ہیں.پس خاص بشارتوں کے دن جو ہمارے لئے ہر سال مقرر کئے گئے ہیں یہ دن آ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی محبت کے جلوہ گر ہونے کے دن آ رہے ہیں.احباب جماعت ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فیوض سے کما حقہ متمتع ہونے کے لئے دعا ئیں کریں.دعا بھی ایک تدبیر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں یہ عجیب نکتہ بتایا ہے کہ دعا تدبیر ہے اور تدبیر دعا ہے (اس وقت میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا ) یہ ایک حقیقت ہے اسے سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ دعا بھی ایک تدبیر ہے بلکہ ایک ایسی تدبیر ہے جو ہر دوسری تدبیر کا شہتیر بنتی ہے.اس کے بغیر دوسری تدابیر بے نتیجہ رہ جاتی ہیں اور ثمر آور نہیں ہوتیں اس لئے احباب دعا کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور التجا کریں کہ اے خدا! تو اپنے فضل سے ہمیں اس جلسہ سالانہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے والی بشارتوں کا وارث بنا اور ان کی برکات سے متمتع ہونے کی توفیق عطا فرما.یہ اجتماع خدا کے لئے خدا ہی کی خاطر منعقد ہوتا ہے.ظاہر ہے جو لیبی اجتماع ہوتے ہیں وہ

Page 424

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۰۴ خطبہ جمعہ ۱۴ /دسمبر ۱۹۷۳ء انسان پر بہت سی اخلاقی اور روحانی ذمہ داریاں ڈالتے ہیں اور چونکہ وہ انسان پر بہت سی اخلاقی اور روحانی ذمہ داریاں ڈالتے ہیں اس لئے وہ بہت سی بشارتوں کے حامل بھی ہوتے ہیں.ان اجتماعوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے بڑے فضل نازل ہوتے ہیں اور بڑی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اس لئے میں احباب جماعت سے یہ کہوں گا کہ وہ دن رات دعاؤں میں لگے رہیں تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم میں سے ہر ایک کو ان بشارتوں کا وارث بنائے جو اس جلسہ سے تعلق رکھنے والی ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے افراد جماعت احمدیہ کی اس جلسہ کے نتیجہ میں ایسی تربیت کرے اور وہ روحانی جلا بخشے کہ جماعت اس مقصد میں کامیاب ہو جس کے لئے اسے قائم کیا گیا ہے یعنی شیطان سے آخری جنگ جیت کر ساری دنیا میں اسلام کے جھنڈے گاڑنے کا جو عظیم الشان فریضہ اس کے سپرد ہوا ہے اس میں یہ کامیاب ہو اور وہ دن جلد آجائیں کہ جب ہم اسلام کا سورج نصف النہار تک بلند ہوتا ہوا دیکھ سکیں اور وہ لوگ جو خدا کو بھول چکے ہیں وہ پھر خدا کی طرف رجوع کریں اور وہ لوگ جنہوں نے حضرت سید الانبیاء وفخر المرسلين محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر نہیں پہچانی اور آپ کی عظمت کا عرفان حاصل نہیں کیا وہ آپ کی قدر و منزلت اور آپ کی عظمت و فضیلت کو پہچاننے لگ جائیں اور آپ کی محبت میں سرشار ہو کر آپ کے اُسوہ حسنہ پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضا کو پانے والے ہوں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۲۳ / دسمبر ۱۹۷۳ء صفحه ۳، ۴)

Page 425

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۰۵ خطبہ جمعہ ۲۱؍دسمبر ۱۹۷۳ء مشرق وسطی کا مسئلہ دنیا کے امن وسلامتی کے لئے ایک بہت بڑا اور اہم مسئلہ ہے خطبه جمعه فرموده ۲۱ / دسمبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ - وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بعد اصلاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ - (الاعراف: ۵۷،۵۶) پھر حضور انور نے فرمایا:.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انسان بین الاقوامی امن کے اصول سے بھی ناواقف تھا.اس لئے کہ ایک تو انسان کی طرف قوم قوم اور ملک ملک کے حالات کے مطابق آسمانی وحی نازل ہورہی تھی اور دوسرے اس لئے بھی کہ اقوام عالم کا باہمی رابطہ ایسا نہ تھا کہ امن ہو تو عالمگیر ہو اور فساد ہو تو عالمگیر ہو.گویا بعثت نبوی سے قبل نہ عالمگیر اصلاح کے لئے آسمانی ہدایت کی ضرورت تھی اور نہ عالمگیر فساد کے امکانات تھے بلکہ کئی علاقے تو ایسے بھی تھے جن کے مہذب کہلانے والی دنیا کو بر ہی نہ تھی چنانچہ جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی

Page 426

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۰۶ خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۷۳ء اور آپ کے ذریعہ آسمانی ہدایت اور شریعت کی تکمیل کی گئی.آپ کی بعثت کے ساتھ تکمیل ہدایت ہو گئی تو پھر قرآن کریم نے تمام بنی آدم کو اجتماعی طور پر مخاطب کیا.نوع انسانی کے سب افراد، دنیا کے سب ممالک اور سب خطے قرآنی احکام کے مخاطب ٹھہرے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ اب جبکہ عالمگیر اصلاح کے سامان پیدا ہو چکے ہیں اور اصلاح کے ان سامانوں کے بعد عالمگیر فتنہ وفساد سے بچنے کی راہیں بھی معین کر دی گئی ہیں اور علم کی اشاعت کی وجہ سے ان پر چلنا بھی آسان ہو گیا ہے اس لئے وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ اصلاحها اس اصلاح کے بعد تم کوشش کرو کہ عالمگیر فساد رونما نہ ہو یا عالمگیر فساد بپا ہونے کے محرکات پیدا نہ ہوں تاہم انسان اپنے زور سے ایسا نہیں کر سکتا اس کے لئے انسان اللہ تعالیٰ کی نصرت، مدد، راہنمائی اور عملی توفیق کا ہر آن محتاج ہے اس لئے فرما یا دعا کے ساتھ خدا کی مدد مانگو اور کوشش کرو کہ اصلاح کے سامان پیدا ہو جانے کے بعد انسانی ذہن اور مادی طاقتیں فساد کی طرف مائل نہ ہوں.انسان بسا اوقات مادی طاقتوں کے بل بوتے پر فساد بپا کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.اس خطرناک رجحان کو روکنے کے لئے اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی لحاظ سے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے.اس لئے فرمایا خاموشی سے چپکے چپکے بھی دعاؤں میں لگے رہو اور تضرع اور ابتہال کے ساتھ اور گڑ گڑا کر بھی دعائیں مانگو کہ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت یعنی قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق دنیا میں امن اور امان قائم ہو جائے اور ہر طرف صلح اور آشتی کی فضا پیدا ہو جائے.آج دنیا کی اکثریت یا تو سرے سے دعا پر یقین ہی نہیں رکھتی یا منہ سے اس یقین کے اظہار کے باوجود دعاؤں کی طرف اس رنگ میں متوجہ نہیں رہتی جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے زندگی کے ہرلمحہ میں دعا کی طرف متوجہ رہنے کی ہدایت فرمائی ہے.اگر اس وقت اسلام میں کوئی جماعت دعا پر یقین رکھتی ہے اور اس یقین کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو وہ صرف جماعت احمد یہ ہی ہے جو جماعتی اور انفرادی ہر دو لحاظ سے دعا پر کامل یقین رکھتی ہے اور علم کے ساتھ عمل کی کوشش کرتی ہے.یہ ایک عالمگیر روحانی جماعت ہے.یہ ایک بین الاقوامی خالص مذہبی

Page 427

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۰۷ خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۷۳ء اور غیر سیاسی جماعت ہے.یہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت ہے.اس لئے دنیا میں جہاں جہاں بھی فساد کے حالات پیدا ہوں یہ جماعت ان سے لازماً متاثر ہوتی ہے.افراد جماعت پر بھی عالمی فتنہ فساد کا اثر پڑتا ہے.گویا وہ امن اور سلامتی اور صلح اور آشتی جس کے قیام کے لئے اسلام کو قائم کیا گیا ہے اگر اس کے برعکس حالات پیدا ہوں تو جماعت ان سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی.اس لئے ہم یہی چاہتے ہیں اور یہی ہماری دلی خواہش ہے کہ دنیا میں امن اور سلامتی اور صلح اور آشتی کا دور دورہ ہو لیکن جب کبھی دنیا میں فساد رونما ہوتا ہے تو یہ جماعت ہی ہے جو انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی رنگ میں بھی دعا کی طرف توجہ کر سکتی ہے.اس لئے احباب جماعت کو موجودہ حالات میں پہلے سے بھی زیادہ دعا کی طرف توجہ دینی چاہیے.اس وقت ویسے تو دنیا کو بہت سے مسائل در پیش ہیں لیکن فوری طور پر عالمگیر نوعیت کے دو مسئلے بڑے واضح ہیں جن کی طرف آج کا انسان نوع انسانی کی حیثیت سے بھی اور انسانیت کا نچوڑ اور انسان کامل کا متبع ہونے کے لحاظ سے بھی اجتماعی طور پر غور کر رہا ہے.ان میں سے ایک مسئلہ مشرق وسطی میں پیدا شدہ فساد کے حالات کو دور کرنے کی کوشش سے متعلق ہے.یہ کوشش شاید آج جنیوا میں شروع ہو جائے گی یا ممکن ہے اس میں کوئی روک پیدا ہوگئی ہو اس لئے یہ کوشش کچھ دن کے لئے ملتوی ہو جائے.واللہ اعلم.بہر حال دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے یہ ایک بہت بڑا اور نہایت ہی اہم مسئلہ ہے.ہم احمدیوں کو یہ مسئلہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ وہ جنگ جس وہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خبر دی گئی تھی اور جس سے یہ خطرہ بھی پیدا ہوسکتا ہے(جیسا کہ بتایا گیا ہے ) کہ خطہ ہائے ارض سے زندگی (صرف انسانی زندگی نہیں بلکہ ہر قسم کی زندگی ) کا خاتمہ ہو جائے کیونکہ لوگوں نے ایٹم اور ہائیڈ روجن بم وغیرہ قسم کے مہلک ہتھیا را ایجاد کر رکھے ہیں.اس بھیانک جنگ کی ( خدا اس سے محفوظ رکھے ) اگر ابتدا ہوئی تو اس کی ابتدا انہی علاقوں سے ہوگی جہاں آج کل فساد پیدا ہورہا ہے اور مسلمان علاقوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے.جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی اس وقت شام کا جغرافیہ کچھ اور تھا اور آج کچھ اور ہے.چنانچہ پیشگوئیوں میں یہ بتایا گیا کہ ارضِ شام سے اس جنگ کے شعلے

Page 428

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۰۸ خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۷۳ء بھڑک سکتے ہیں یعنی شام سے اس جنگ کی ابتدا ہو سکتی ہے.تاہم یہ ایک انذاری پیشگوئی ہے جو دعاؤں ،صدقات ، اصلاح نفس اور توبہ و استغفار سے مل سکتی ہے.اگر انسان اسلام نہ بھی لائے لیکن اپنے دل میں ایک حد تک خشیت اللہ پیدا کرے تب بھی اگر وہ اپنی فطرت کے تقاضوں کے مطابق عقل سے کام لے تو ان خطرات سے بچ سکتا ہے.اگر انسان نے اسلام کی روشنی حاصل نہ بھی کی ہو تب بھی فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم :۳۰) کی رُو سے انسانی فطرت کی کوئی نہ کوئی جھلک اور دھندلی سی روشنی کام دے سکتی ہے اگر چہ وہ اتنی منور نہیں ہوتی ، اس میں اتنی چمک نہیں ہوتی جتنی اسلام کے نور سے فطرتِ انسانی منور ہو کر دنیا میں روشنی پیدا کرتی ہے لیکن بہر حال انسانی فطرت کے اندر ایک دھندلی سی روشنی ضرور پائی جاتی ہے اس کے مطابق ہی اگر دنیا کام کرے اور خدا کی طرف رجوع کرے تب بھی لوگ خدا کے غضب سے بچ سکتے ہیں اور ایٹمی جنگوں کی تباہی سے محفوظ رہ سکتے ہیں.اس وقت انسان اپنے ہی ہاتھوں تباہی کے سامان پیدا کر رہا ہے اور ایک بین الاقوامی فساد کے خطرہ کا موجب بن رہا ہے.اس عالمی خطرہ کو دور کر نے کے لئے بعض کوششیں شروع ہو رہی ہیں.ممکن ہے آج شروع ہو جائیں یا چند دن کے التواء کے بعد شروع ہوں.پس اسلام نے دنیا میں امن اور سلامتی کی فضا پیدا کرنے کی تعلیم دی ہے.قرآن کریم نے امن و سلامتی اور صلح و آشتی کی فضا پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لئے جو تعلیم دی ہے اس میں تمام بنی نوع انسان مخاطب ہیں.ہر انسان کو (خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان ) مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم نے دنیا میں فساد نہیں کرنا ورنہ تمہیں اس کی سزا ملے گی.امن وسلامتی میں انسان کی بہتری ہے اس لئے انسان کو دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کر کے دنیوی فتنہ وفساد کو دور کرنے کی کوشش کرنی پڑے گی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے صرف جماعت احمدیہ ہی وہ جماعت ہے جس کی ( إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ کچھ کمزور احمدی بھی ہوتے ہیں اس سے میں انکار نہیں کرتا لیکن ) بحیثیت مجموعی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو دعاؤں پر تکیہ کرتی ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت رکھتی ہے.اللہ تعالیٰ سے پیار

Page 429

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۰۹ خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۷۳ء کرتی اور اسی پر توکل رکھتی ہے اور اسی کو ہر قسم کی طاقت اور قوت کا سر چشمہ سمجھتی ہے.پس احباب جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ ان ایام میں کثرت سے یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس بین الاقوامی اور عالمگیر فساد کے خطرہ کو ٹال دے.جولوگ ابھی اسلام کی روشنی سے منور نہیں ہو سکے ان کو بھی اس خطرے کو دور کرنے کی سمجھ عطا ہوتا کہ دنیا کے افق پر جو خطرات منڈلا رہے ہیں وہ ٹل جائیں اور ہر طرف امن و امان قائم ہو جائے.ایک دوسرا اور بڑا مسئلہ وہ اجتماع ہے جو جنوری میں ہمارے اپنے ملک پاکستان میں منعقد ہونے والا ہے (سنا ہے اب یہ فروری میں ہوگا) جس میں اسلامی ممالک کے سر براہ شامل ہوں گے اور وہ اپنی کا نفرنس میں سر جوڑ کر سوچیں گے.احباب جماعت اس کانفرنس کی کامیابی کے لئے بھی دعا کریں.گریہ وزاری اور تضرع سے بھی اور خاموشی سے بھی اپنے ربّ کریم کے حضور جھکیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو صرف وہی فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اسلامی تعلیم کی رُو سے فساد کی جگہ اصلاح کی فضا پیدا کرنے کا موجب ہوں گو یا فساد کے ہر پہلو سے ان کی سوچ، ان کے فیصلے اور ان کے عمل محفوظ رہیں.خدا کرے ایسا ہی ہو.رونامه الفضل ربوه ۲ / جنوری ۱۹۷۴ ، صفحه ۲، ۳)

Page 430

Page 431

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۱۱ خطبه جمعه ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۳ء اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی معنوی اور لفظی تحریف سے حفاظت کے لئے ہر دور میں ہر قسم کے سامان پیدا کرتا ہے فرمائی:.خطبہ جمعہ فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء بمقام جلسہ گاہ مردانہ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیۃ کریمہ تلاوت إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ.(الحجر :١٠) پھر حضور انور نے فرمایا:.قرآن کریم ایک کامل ہدایت اور ابدی شریعت کی شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.پہلی الہامی کتب چونکہ مختلف ملکوں اور مختلف زمانوں میں خاص قوموں کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی تھیں اس لئے ان کے لئے ابدی حفاظت کا وعدہ نہیں تھا لیکن قرآن کریم نے چونکہ قیامت تک کے انسان کی رشد و ہدایت کا ذریعہ بننا تھا اور انسان کی رُوحانی تشنگی دور کرنے اور اس کی دنیوی علمی ضروریات کو پورا کرنے کے سامان پیدا کرنے تھے اور پھر چونکہ شیطان نے بھی اپنا پورا زور لگانا تھا کہ وہ اس تعلیم کو اگر مثانہ سکے تو تحریف کے طور پر اس میں کسی نہ کسی شکل میں کوئی نہ کوئی رخنہ پیدا کر دے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ہمیں یہ تسلی دی ہے کہ اس نے قرآنِ کریم کی حفاظت لفظی اور حفاظت معنوی کے

Page 432

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۱۲ خطبہ جمعہ ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۳ء سامان پیدا کر دیئے ہیں.اب کوئی شیطانی طاقت یا کوئی منصوبہ قرآن کریم میں تحریف لفظی یا معنوی میں کامیاب نہیں ہوگا.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کا ئنات کا نچوڑ تھا اسی لئے کہا گیا.لولا لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر تجھے پیدا نہ کرنا ہوتا.اگر تیری پیدائش کا الہی منصوبہ نہ ہوتا ، تو اس کائنات کی پیدائش کی ضرورت ہی نہ تھی اس لئے آپ کو ایک کامل شریعت دی گئی.آپ کو ایک بلند ترین روحانی مقام عطا ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو قیامت تک کے لوگوں کے لئے اسوۂ حسنہ بنا دیا.اس کائنات کی ہر چیز کو آپ کا خادم بنا دیا.جہاں تک انسان کی طاقتوں کا تعلق ہے وہ بھی انسان کو اسی لئے عطا کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض پوری ہو.ان قوتوں میں سے ایک قوت ، قوت حافظہ ہے جو انسان میں ودیعت کی گئی ہے.خود انسان کو اس قوت سے فائدہ اٹھانے کا بھی حکم دیا گیا ہے.بہت سے لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں.مختلف مشاہدے کرتے ہیں اور پھر قوت حافظہ کے ذریعہ اپنے ذہن میں انہیں حاضر رکھتے ہیں.پس قوتِ حافظہ کے دنیوی لحاظ سے بھی بہت سے فوائد ہیں اور اخلاقی و روحانی لحاظ سے بھی بہت سے فوائد ہیں لیکن قوتِ حافظہ کی اصل غرض یا قوت حافظہ کی پیدائش کا اصل مقصد یہ تھا کہ خدا تعالیٰ قرآنِ عظیم کو تحریف لفظی سے بچائے گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کی قوت حافظہ کو قرآنِ کریم کی حفاظت لفظی کے لئے خدمت پر لگا دیا.گزشتہ چودہ صدیوں میں لاکھوں حفاظ پیدا ہوئے جنہوں نے قرآنِ کریم کو تحریف لفظی سے محفوظ رکھا.قرآن کریم کے الفاظ میں تحریف کرنے کی کسی کو جرات نہ ہو سکی.ان لوگوں کو ایسا حافظہ دیا گیا کہ جس کی دوسری قوموں میں مثال نہیں ملتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس قسم کے حفاظ پیدا ہوتے رہے اور اب بھی پیدا ہورہے ہیں کہ اگر آپ قرآن کریم کا کوئی لفظ ان کے سامنے رکھیں تو وہ اس لفظ یا آیت

Page 433

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۱۳ خطبه جمعه ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۳ء کا سیاق و سباق تک بتا دیتے ہیں گویا کہ سارے کا سارا قرآن کریم ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے اور ذہن میں ستحضر رہتا ہے.پس اس کثیر فوج کی موجودگی میں جو ہر صدی میں لاکھوں کی تعداد میں تھی کسی معاند اور مخالف اسلام کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ قرآن کریم میں تحریف لفظی کر سکے اور نہ ہی مسلمانوں میں سے کسی غافل یا نا سمجھ آدمی کو یہ جرات ہوئی کہ وہ قرآن کریم میں کوئی لفظی تحریف کر سکے.بعض نا سمجھ لوگوں نے بعض دوسری قسم کی حرکتیں کیں.جو ہماری مذہبی کتابوں میں اور اسلامی لٹریچر میں محفوظ ہیں.یہ آج کی باتیں نہیں بلکہ صدیوں پرانی باتیں ہیں کہ بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے بعض لوگوں نے احادیث وضع کرلیں جنہیں ہماری اصطلاح میں وضعی حدیثیں کہتے ہیں لیکن قرآن کریم کے نزول سے لے کر آج تک کسی شخص نے کامیابی کے ساتھ کوئی قرآنی آیت وضع نہیں کی.انسان کی بنائی ہوئی کوئی ایسی آیت نظر نہیں آتی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کے باوجود انسانی دماغ نے آپ کی طرف غلط روایتیں منسوب کرنے کی جرات تو کر لی لیکن حفاظ کے ذریعہ قرآن کریم کی لفظی حفاظت کا یہ کمال تھا کہ امت محمدیہ کے اندر اور باہر کوئی شخص قرآن کریم کی طرف غلط آیت منسوب کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا.اگر دشمنانِ اسلام نے کبھی کوئی جرات کی بھی تو لاکھوں کی تعداد میں حفاظ کی یہ فوج فوراً گرفت کرتی تھی کہ یہ تم کیا کر رہے ہو.بہر حال تحریف لفظی کی ایسی کامیاب جرأت کہ جسے دنیا میں پھیلا یا جا تا ہو نظر نہیں آتی.پس ایک تو قرآن کریم کی لفظی حفاظت کا سوال تھا جسے انسان کی قوتِ حافظہ کے ذریعہ حل کیا گیا.اللہ تعالیٰ نے لاکھوں حفاظ کے ذریعہ قرآن کریم کی لفظی حفاظت کے سامان پیدا کر دیئے لیکن انسان کو صرف قوت حافظہ ہی تو نہیں دی گئی اسے دوسری قو تیں بھی عطا کی گئی ہیں.جن میں سے ایک روحانی قوت ہے اور اس کے ذریعہ قرآن کریم کی تین اور قسم کی حفاظت بھی کی گئی ہے.چنا نچہ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.وو ” دوسرے ایسے ائمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے.جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کر

Page 434

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۱۴ خطبہ جمعہ ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۳ء کے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا.“ پس جہاں تک تحریف معنوی کا تعلق ہے قرآنِ کریم کو معنوی تحریف سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقربین کا ایک سلسلہ اُمت محمدیہ میں جاری کیا.یہ مقتر بین الہی پہلی صدی سے لے کر آج تک ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہر صدی میں موجود رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ مسلمانوں پر فیج اعوج یعنی انتہائی تنزل کا جو زمانہ آیا تھا اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے مطہر بندوں کی جماعت سمندر کی لہروں کی طرح موجیں مار رہی تھی.تاہم مسلمان کہلانے والوں کی اکثریت اسلام سے دُور جا رہی تھی اور قرآن کریم کو مہجور بنا چکی تھی.قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم ہے اور کتاب مکنون میں ہے اور پھر اس حصہ کے متعلق فرمایا: - لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :۸۰) اس حصّہ تک صرف پاکیزہ لوگوں یا جماعتوں کی پہنچ ہوتی ہے اور یہ واقعہ اور حقیقت کہ قرآنِ عظیم غیر متناہی بطون اور اسرار کا مالک ہے.دنیا پر اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ قرآنِ کریم منجانب اللہ ہے.اللہ تعالیٰ قرآنی ہدایت کے ذریعہ قیامت تک لوگوں کی ربوبیت اور تربیت کرنا چاہتا ہے.چنانچہ قرآنی ہدایت اور اس کے انوار کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ان پاک اور مطہر بندوں کا گروہ ہمیں تین روحانی لشکروں میں تقسیم نظر آتا ہے.ایک وہ اکابر اور آئمہ دین ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی تفسیر کو تحریف معنوی سے بچایا لیکن اسلام پر ایک تیسرا حملہ فلسفیوں (اہل عقل ) کی طرف سے ہوا.اسلام کی تعلیم کے خلاف عقلی دلائل پیش کر کے وہ دنیا کو بہکانے کی کوشش کرتے رہے.انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآنی تعلیم اور انسانی عقل میں نعوذ باللہ تضاد پایا جاتا ہے حالانکہ انسانی عقل اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک خلق ہے اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ایک کامل ، اور قیامت تک رہنے والا کلام ہے اس لئے عقل اور کلام الہی کے درمیان تضاد ہو ہی نہیں سکتا.لیکن لوگوں کی طرف سے ان دونوں کے اندر تضاد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور بڑی زبر دست کوشش کی گئی.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :.تیسرے سمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق

Page 435

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۱۵ خطبہ جمعہ ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۳ء 66 دے کر خدا کی پاک کلام کو کو نہ اندیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے.“ لوگوں نے اپنی کو نہ اندیشی کے نتیجہ میں فلسفہ، منطق اور دوسرے علوم کی رُو سے جو نتائج نکالے ان کی بنا پر قرآن کریم کی تعلیمات پر مختلف اعتراض کئے مثلاً پادریوں نے ایک زمانہ میں یہ اعتراض کر دیا کہ قرآن کریم نے کہا ہے کہ شہد کی مکھی کے اندر سے ایک پینے والی چیز یعنی شہر نکلتا ہے اور اس میں شفا کی بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں حالانکہ مکھی پھولوں کے رس سے شہد بناتی ہے اس کے اندر سے تو شہر نہیں نکلتا.یہ اعتراض دراصل غفلت اور عدم علم کا نتیجہ تھا.بعد میں جب مکھی اور اس کے شہد بنانے پر تفصیلی تحقیق ہوئی تو ہمیں دو چیزوں کا پتہ لگا.ایک یہ کہ کھی پھولوں سے جو رس لاتی ہے وہ شہد کی شکل میں نہیں ہوتا.وہ تو ایک پانی کی شکل میں مائع سی چیز ہوتی ہے شیرے کے قوام کی طرح اس کے اندر شہد کا قوام نہیں ہوتا.مکھی پھولوں کا رس لا کر اس میں دو چیزیں اپنی کوشش سے زائد کرتی ہے.اس کی ایک کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس مائع کو گاڑھا قوام بنائے.چونکہ پھولوں کے رس میں پانی کی فیصد زیادہ ہوتی ہے اس لئے رس کے ایک ایک ذرہ کو خشک کرنے کے لئے اسے کئی سومیل حرکت کرنی پڑتی ہے.زبان کو اندر باہر لیجا کر اور بڑی محنت کرنی پڑتی ہے تب جا کر مائع قوام بنتا ہے اور پھر یہیں پر بس نہیں ہوتی بلکہ اپنے جسم میں سے وہ مختلف غدود کے رس سے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے مکھی میں پیدا کر رکھا ہے اور جن میں شہد کے قریبا نصف اور ضروری حصے پائے جاتے ہیں وہ شہد میں شامل کرتی ہے گویا شہد میں پچاس فیصد حصہ مکھی کے اپنے غدود کے رس کا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ کے نتیجہ میں شہد میں شامل کر دیا جاتا ہے.بسا اوقات ہمارے ہاں دودھ میں ۹۵ فیصد پانی ہوتا ہے.بایں ہمہ لوگ اسے دودھ ہی کہتے ہیں تو شہد میں جبکہ پچاس فیصد سے زیادہ شہد کی مکھی کی اپنی محنت اور فطرت کا دخل ہوتا ہے تو اس کے مکھی کے پیٹ میں سے نکلنے پر اعتراض بے معنی ہے غرض اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے اور ان سے اپنے بعض بندوں کو فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائی اور خدا کے فعل نے معترضین کو ملزم قرار دیا اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ ہم ان کا مذاق اڑائیں.وہ قرآن کریم کو استخفاف کی نظر سے دیکھنا چاہتے تھے مگر ہم نے دنیا پر یہ

Page 436

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۱۶ خطبہ جمعہ ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۳ء ثابت کر دکھایا کہ استخفاف کی نظر سے اگر کسی چیز کو دیکھا جاسکتا ہے تو وہ وہ نتائج ہیں جو اہل یورپ کے علوم ، ان کی سائنس اور ان کی تحقیقات نکال رہی ہیں.وہ آج ایک دوائی بناتے ہیں اور اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں اور دس سال کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو ایک زہر تھا.ہم نے اس دوائی کو بنا کر بڑی غلطی کی اسی طرح آج ایک طبی مشورہ دیتے ہیں اور اگلے چند سال کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے غلط مشورہ دیا تھا.مثلاً ایک زمانے میں یورپ کے ایلو پیتھی کے اطباء نے کہہ دیا کہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ نہ پلائیں یہ ان کے لئے نقصان دہ ہے.مگر اسلام نے یہ کہا تھا حمله وفضله تَلْقُونَ شَهْرًا (الاحقاف: ۱۲) یعنی ماں کے لئے ایک معین وقت تک بچے کو دودھ پلانا ضروری ہے.یہ ماں کی صحت کے لئے بھی مفید ہے اور بچے کی صحت کے لئے بھی ضروری ہے (اس کی تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اسلام کے معاندین نے اسلام کی اس تعلیم پر یہ اعتراض کر دیا کہ دودھ پلانے سے بچے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا ماں کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کی صحت خراب ہو جاتی ہے.چنانچہ ساری دنیا میں اس بات کی تشہیر کی گئی کہ مائیں اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہ پلایا کریں.آسٹر ملک اور گلیکسو وغیرہ کے دودھ (جو بند ڈبوں میں دستیاب ہوتے ہیں وہ پلایا کریں.جب پندرہ بیس سال گزر گئے اور ان کی ایک نسل صحت کے لحاظ سے تباہ ہوگئی تو پھر یہ اعلان کر دیا کہ ہم نے بڑی بیوقوفی کی تھی اور غلط مشورہ دیا تھا.بچے کو دودھ پلانے سے تو عورت کی صحت بنتی ہے.بگڑتی نہیں.پس قرآن کریم کی تعلیم در اصل عقل ، مشاہدہ اور سائنس کے خلاف نہیں ہے بلکہ سائنس اور عقل اور مشاہدہ قرآنِ عظیم کی ارفع و عظیم تعلیم کی عظمت اور رفعت کے حق میں دلائل واضحہ پیش کرتے ہیں.دنیوی علوم قرآن کریم کی تعلیم سے متضاد نہیں بلکہ اس کے تابع ہیں اس لئے دنیا جب قرآنِ کریم پر اس قسم کے عقلی اعتراضات کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پیدا کر دیتا ہے جوان اعتراضات کو رڈ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے مطہرین کے گروہ میں سے ایک ایسالشکر بنا تا ہے اور ان کو نہم قرآن عطا کرتا ہے.وہ غلط قسم کے عقلی اعتراضات کا جواب دیتے ہیں اور قرآنِ کریم کی تعلیم پر حملہ کرنے والوں کو پسپا کرتے ہیں اور ان پر قرآن کریم کی برتری کو ثابت کرتے ہیں.

Page 437

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۱۷ خطبه جمعه ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۳ء پھر ایک اور قسم کی تحریف معنوی ہے جس کا ارتکاب نادانستہ طور پر خود مسلمان ممالک میں کیا جارہا ہے اور ان کی شدت بھی معاندین کے اعتراضات سے کم نہیں ہے اور وہ یہ دُکھ دہ اور شرمناک پرو پیگنڈا اور پر چار ہے کہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھنا تو پرانے زمانے کی باتیں ہیں اور اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شراب پینا تو اس لئے منع کیا گیا تھا کہ عرب کا گرم علاقہ تھا.اب ہم ان سے زیادہ اچھے اور مہذب انسان ہیں ہمیں شراب نقصان نہیں پہنچائے گی.پس یہ اور اس قسم کے دوسرے اعتراضات قرآنِ کریم میں تحریف معنوی کے مترادف ہیں.ان اعتراضات کو رد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے مظہر بندوں میں سے ایک گروہ کو کھڑا کورڈ ا کرتا اور اسے فہم قرآن عطا کرتا ہے اور وہ تحریف معنوی کا ازالہ کرتا ہے.تحریف معنوی کی چوتھی کوشش یہ کی گئی کہ قرآنِ کریم میں جن عظیم معجزات اور نشانوں کا ذکر ہے اور جو انسانی طاقت سے بالا اور خدا تعالیٰ کے قادرانہ تصرفات کی دلیل ہیں ان کا انکار کر دیا گیا اور بڑے اصرار کے ساتھ یہ کہہ دیا گیا کہ نعوذ باللہ وہ سب کے سب غلط ہیں.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.وو چوتھے روحانی انعام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا ہے.پس یہ چار قسم کے لشکر ہیں جن میں سے تین کا تعلق ”مطہروں“ سے ہے.جنہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی حفاظت لفظی اور معنوی کے لئے اس پیاری اُمت میں ہر صدی میں کھڑا کرتا رہا ہے.ایک لشکر کو قوتِ حافظہ کے اسلحہ سے مسلح کیا اور انہوں نے قرآنِ کریم کو تحریف لفظی سے بچایا اور دوسرے ہر صدی میں مطہرین کی ایک جماعت پیدا ہوتی رہی جن کے ذریعہ وقت کی ضرورت اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق کسی ایک قسم کی اور کبھی دوسری قسم کی اور کبھی تیسری قسم کی تحریف معنوی سے بچانے کے سامان پیدا کئے گئے لیکن اس آخری زمانہ میں جبکہ اسلام پر کفر کا حملہ انتہائی شدت اختیار کر گیا اور مطہرین کے گروہ کے سپر د قرآن کریم کی تین قسم کی مدافعت کرنے اور اسلامی تعلیمات کی برتری ثابت کرنے کا جو انتظام کیا گیا تھا اس کی ضرورت بیک وقت

Page 438

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۱۸ خطبہ جمعہ ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۳ء پیش آگئی.گویا تینوں قسم کے حملے ایک ہی وقت میں اسلام پر مختلف اطراف سے ہونے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حسب بشارات امت محمدیہ پر رحم کرتے ہوئے مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا اور وہ اُمت محمدیہ کے مطہرین کی فوج کا سالا رلشکر بنا اور مطہرین کی جماعتوں کو مختلف زمانوں میں مختلف شکلوں میں جو ہر سہ روحانی قوتیں ملتی چلی آرہی تھیں وہ سب کی سب اسے عطا کی گئیں.چنانچہ اُس نے زندہ نشانوں کے ذریعہ زندہ خدا کا ثبوت دے کر یہ ثابت کیا کہ جن نشانات کا ذکر قرآنِ کریم میں ہے وہ محض قصے کہانیاں نہیں اگر خدا اپنے قادرانہ تصرف کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت کی خاطر آج انہونی باتوں کو ہونی کر سکتا ہے تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنے محبوب کی صداقت میں معجزات اور نشان کیوں نہیں دکھا سکتا تھا.غرض جب قرآنِ کریم پر اس قسم کے اعتراضات کر کے اس میں تحریف معنوی کرنے کی کوشش کی جارہی تھی تو خدا تعالیٰ کا جرنیل اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب روحانی فرزند کھڑا ہوا اور اس نے اسلام کی مدافعت کی اور اس کی برتری ثابت کی.فلسفیوں کا جو گروہ کھڑا ہوا تھا اور کہتا تھا کہ قرآن کریم کی بعض باتیں عقل کے خلاف ہیں ان کو یہ کہا کہ عقل خود اندھی ہے گر نیز الہام نہ ہو، محض تھیوری نہیں ہے یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد آپ کی جماعت میں آج بھی خلفاء اور آئمہ اور اکابرین کا سلسلہ جاری ہے.ہم قرآنِ کریم کی صداقت میں جو بات کرتے ہیں ہم اس کے ذمہ دار ہیں.دنیا کا کوئی فلسفی ہمارے سامنے آکر بتائے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت یا اس کی فلاں تعلیم خلاف عقل ہے.ہم ثابت کریں گے کہ وہ خلاف عقل نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی عقل اندھی ہے جو حقیقت کو نہیں پارہی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خدائی نشانوں کا ایک سلسلہ جاری ہو گیا اور آپ نے فرمایا کہ یہ نشان ثابت کرتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو نشانات ظاہر ہوئے اور جن کو قرآنِ کریم نے محفوظ رکھایا جن کی تفصیل احادیث سے ملتی ہے.وہ بھی محض

Page 439

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۱۹ خطبہ جمعہ ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۳ء قصے کہانیاں یا مبالغہ آمیز باتیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کو انسان کی بھلائی کے لئے نازل کیا تھا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں تفسیر سکھائی گئی.تفسیر کرنے کے اصول بتائے گئے اور پھر ان اصولوں کو سامنے رکھ کر اس جماعت کے بیسیوں ہی نہیں سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تو فیق عطا کی گئی کہ وہ قرآن کریم کی صحیح تفسیر کر سکیں اور جہاں غلط تفسیر ہو رہی ہو وہاں اس کی نشاندہی کر کے اصلاح کر دیں لیکن آج دنیا کی یہ بد قسمتی ہے کہ وہ روحانی جرنیل جس کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا اور جس کو ہر سہ قسم کے ہتھیار دیئے گئے تھے قرآن کریم کو تحریف معنوی سے بچانے کے لئے اس پر بعض لوگوں کی طرف سے تحریف قرآن کا الزام لگا دیا گیا اور یہ نہیں سوچا کہ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی کس عظیم نعمت کا انکار کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی اس نعمت سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۵ رفروری ۱۹۷۴ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 440

Page 441

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۲۱ جمعه ۱۸ / جنوری ۱۹۷۴ء جلسہ سالانہ کے بابرکت اور کامیاب انعقاد پر ہم اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں خطبه جمعه فرمود ه ۱۸ جنوری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہمارے وجود کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہے.اُس نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ہمارے جلسہ کو بہت ہی بابرکت بنایا اور اُس کی برکتوں سے نہ صرف اہل پاکستان کے لئے بلکہ دنیا میں بسنے والوں کے لئے رحمت کے سامان پیدا کئے.جو دوست یہاں بیرونی وفود کی صورت میں یا جو دوست بیرونی ممالک میں بسنے والے احمدیوں کی نمائندگی میں یہاں پہنچے اور جلسہ میں شامل ہوئے تھے ان میں سے قریباً سب واپس پہنچ چکے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حسن اور اُسکے احسان کے جو جلوے اُنہوں نے جلسہ کے ایام میں یہاں دیکھے تھے اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں میں اُن کے متعلق وہاں بسنے والے احمدیوں اور اُن کے دوستوں کو حالات بتانے شروع کر دیئے ہیں.یہاں جو تاثر اُنہوں نے ظاہر کیا وہ تو یہ تھا کہ ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ اس تحریک کا یہ سالانہ جلسہ اس قدرشان اور عظمت کا حامل اور اس قدر برکتوں کے حصول کا ذریعہ بن جاتا ہے.بہر حال ہر ایک نے اپنی فطرت اور طبیعت کے مطابق اثرات قبول کئے اور اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق ان تأثرات کو اپنے اپنے ملکوں میں پھیلائیں گے.

Page 442

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۲۲ خطبہ جمعہ ۱۸؍جنوری ۱۹۷۴ء میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کو یہ بتایا تھا کہ یہ عظیم منصوبہ جس کا میں اعلان کر رہا ہوں اس کا ماٹو (Motto) دو بنیادی حقیقتیں ہیں جن کو ہم حمد اور عزم کے دولفظوں سے پکار سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہم عاجز بندوں پر مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ بڑی ہی حمتیں نازل کرنی شروع کی ہیں اور ہم حمد کے ترانے گاتے ہوئے پختہ عزم کے ساتھ اس راہ پر گامزن ہیں جس کی تعیین غلبہ اسلام کے لئے آسمانوں سے ہوئی اور ہمارا ہر قدم اس شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُسکے فضل سے وہ دن آنے والا ہے جب اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا اور تمام ملتیں مٹ جائیں گی سوائے اسلام کے.جس کا گھر ہر انسان کا سینہ ہوگا اور جس خدا کو اس نے پیش کیا اُس کی محبت میں ہر دل مستانہ وار اپنی زندگی گزار رہا ہوگا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ جب وہ انسان کے لئے برکات اور رحمتوں کے سامان پیدا کرتا ہے اور انسان کی عاجز قربانیوں کو قبول کرتا ہے تو وہ لوگ جو زمین کی پستیوں کی طرف مجھکنے والے اور آسمانی رفعتوں سے بے خبر ہیں وہ حسد کی آگ بھڑکاتے ہیں اور حسد کی یہ آگ ایک عقل مند مومن کے لئے یہ دلیل مہیا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کی قربانیوں کو قبول کیا.بنیادی صداقت تو توحید باری ہی ہے باقی سب فروعات ہیں.بہر حال بنیادی صداقت اور اُس بنیادی صداقت کی فروعات کو ( جو صداقتوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہیں) مجھوٹ کے سہارے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی نہ بنیادی صداقت کو تضاد یا اختلاف کا سہارا لینا پڑا.جب کسی دعویٰ کے خلاف ، جب کسی حقیقت کو ناکام بنانے کے لئے جھوٹ اور افترا کا سہارالیا جائے اور ایک ایک بیان میں انسان کو دس دس تضاد نظر آئیں تو محض یہ فعل ہی کہ جھوٹ کا سہارا لیا گیا اور متضاد باتیں بیان کر کے صداقت کو چھپانے کی کوشش کی گئی اس بات کی بتین دلیل ہوتی ہے کہ جس چیز کے خلاف یہ مہم جاری کی گئی، جس کے خلاف جھوٹ باندھا گیا اور افتر ا سے کام لیا گیا ، متضاد باتیں بیان کر کے سننے والے کے دماغ میں خبط اور الجھاؤ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی وہ یقیناً صداقت ہے اور صداقت کو کسی مجھوٹ کے سہارے کی ضرورت نہیں.صداقت یا صراط مستقیم کے

Page 443

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۲۳ خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۷۴ء ساتھ تضاد کا تخیل اکٹھا ہو ہی نہیں سکتا.صداقت تو ایک سیدھی راہ ہے اور تضاد ایک ٹیڑھا راستہ ہے کبھی دائیں طرف نکلتا ہے اور کبھی بائیں طرف نکلتا ہے اور جو سیدھی راہ ، درمیانی راہ ، اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والی راہ جو اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والی راہ ہے اُس سے بھٹکتا ہے.کبھی دائیں طرف بھٹکتا ہے کبھی بائیں طرف بھٹکتا ہے.بہر حال صداقت کو، صراط مستقیم کو، نہ تضاد کی ضرورت کبھی پیدا ہوئی نہ جھوٹ کا سہارا لینے کی خواہش کبھی پیدا ہوئی.ہمیں اللہ تعالیٰ نے حقیقی اسلام کی ابدی صداقت پر قائم کیا.اُس نے محض اپنے ہی فضل اور رحمت سے اپنی صفات کی معرفت ہمیں عطا کی ہے.ہم اسکی عظمتوں کو پہچانتے ہیں.وہ خدا جو جھوٹ کا دشمن ہے اُس کی عظمتوں کے پہچاننے کے بعد ہم کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس عظیم ہستی کی محبت اور عظمت کو قائم کرنے کے لئے کبھی ہمیں جھوٹ بولنے کی بھی ضرورت پڑے گی.صداقت اور سچائی سے اُس حقیقی صداقت اور سچائی کی طرف حسین اعمال سے حسن کے سرچشمہ کی طرف ، نوع انسانی پر ہمیشہ احسان کرتے ہوئے محسن حقیقی کی طرف بلانا ہمارا کام ہے اور وہ جو جھوٹ کی طرف جھکتے ہیں تا کہ اس صداقت کو مٹادیں وہ جو ایک ہی سانس میں متضاد باتیں بیان کرتے ہیں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے بھی ہدایت اور رحمت کے سامان پیدا کرے اور اس حقیقت کو وہ سمجھنے لگیں کہ جو سچ ہے وہ جھوٹ کی طرف مائل نہیں ہو سکتا اور جو سیدھی راہ ہے اُس میں تضاد نہیں پائے جاتے ، ٹیڑھا پن نہیں پایا جا تا.جو ابھی میں نے اصولی باتیں بیان کیں اُن کے پس منظر کچھ واقعات ہیں جن کا ذکر کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا چونکہ ہمیں یہ نظر آیا کہ جس صداقت پر ہمیں اللہ تعالیٰ نے قائم کیا اور جس صداقت کو کبھی نہ تضاد نہ کذب و افترا کی ضرورت پیش آئی اُس کے خلاف کذب و افترا اور متضاد بیانات کا جاری ہو جانا ہمیں خدا تعالیٰ کی حمد سے معمور کر دیتا ہے کیونکہ اُس نے ہمیں بتایا تھا کہ جب وہ کسی کوشش کو قبول کرتا ہے، کسی قربانی کو قبول کرتا ہے تو دنیا میں حاسدوں کا ایک گروہ پیدا کر دیتا ہے جو حسد کی آگ کو بھڑکاتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ آگ اس صداقت کو بھسم کر دے گی ، جلا کر راکھ کر دے گی حالانکہ حسد کی آگ مومنوں کے وجود میں زندگی کی حرارت پیدا کرنے والی ہوتی ہے جس سے دُعا ئیں گریہ وزاری کے ساتھ نکلتی ہیں.غلبہ اسلام کے لئے بھی اور ان لوگوں

Page 444

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۲۴ خطبہ جمعہ ۱۸؍جنوری ۱۹۷۴ء کی ہدایت کے لئے بھی.اس لئے ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں اور اُسی کے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ معمور رہیں گے جب تک کہ اس دنیا کا خاتمہ نہ ہو جائے اور اسلام ساری دنیا پر غالب آ کر نوع انسانی میں سے ہر فرد کو اپنے احاطہ میں لے کر اُس کی زندگی کو حقیقی انسان کی زندگی بنا کر کامیاب نہیں ہوجاتا اور پھر نسلاً بعد نسل انسانی تربیت کو کمال تک نہیں پہنچادیتا.انشاء اللہ تعالیٰ یہ اُس کی بشارتیں ہیں.یہ اُس کے وعدے ہیں اور وہ اپنے وعدوں کا سچا ہے.یہ تو حمد کا حصہ ہے عزم کا جو حصہ ہے اُس کا زیادہ تر تعلق ہمارے نفوس کے ساتھ ، ہماری جماعت کی کوششوں کے ساتھ ، ہماری والہانہ حرکت کے ساتھ ، ہمارے مستانہ وارنعروں کے ساتھ ہے.اس یقین کی بنا پر کہ دنیا کی کوئی طاقت خدا تعالیٰ کے اس منشا اور تحریک کو نا کام نہیں کرسکتی.عزم کے محل استوار کرنا ہماری صفت ہے اور اس سے ہی عظیم جد و جہد اور کوشش کے حسین اور صاحب احسان دھارے چھوٹ نکلتے ہیں جو راہ کے ہر خس و خاشاک کو بہا کر لے جاتے ہیں اور مرد مومن، مسلم، مجاہد اپنے مقصود کو پالیتا ہے اور جس وقت یہ حقیقت انسان کے سامنے آتی ہے تو کمزور انسان بھی ایک پختہ اور مضبوط مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے.اسی کو ہم عزم کہتے ہیں.اُس کے لئے ہم نے ایک اور منصوبہ بنایا ہے جو دعاؤں کے نتیجہ میں اور ہماری قربانیوں کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کے نتیجہ میں اور سیچ تو یہ ہے کہ اُسی کی رحمتوں کو جذب کرنے کے نتیجہ میں انشاء اللہ کامیاب ہوگا.پس یہ حمد اور عزم اگلے سولہ سال کے بنیادی ماٹو ( Motto) ہیں.یہ دو چیزیں ہیں جن کی برکت سے ہم نے اسلام کو غالب کرنا اور نوع انسانی کے دل خدائے واحد و یگانہ کے لئے جیتنا ہے.دوسری بات جو اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وقف جدید کا نیا سال یکم جنوری سے شروع ہو چکا ہے.وقف جدید حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک خاص تحریک ہے.اس کے کام میں اتنی وسعت نہیں لیکن اس کے نتائج بڑے خوشکن نکل رہے ہیں.پاکستان میں لاکھوں ہندو بھی بستے ہیں اور ان کا یہ حق ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کو سچا سمجھتے اور اس میں حقیقی صداقت پاتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اس کی برکات کو محسوس کرتے ہیں وہ ان لوگوں کو بھی حلقہ اسلام میں لانے کی کوشش کریں جو اس دائرہ سے باہر اور ان برکات سے محروم ہیں لیکن کم ہیں جو اس طرف

Page 445

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۲۵ خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۷۴ء توجہ کرتے ہیں.بہر حال جماعت احمدیہ پر یہ بھی فرض ہے اور یہی بہت بڑا فرض ہے کہ وہ لوگ جو خدائے واحد و یگانہ اور ہمارے ربّ کریم سے بُعد کی وجہ سے اُس کی رحمتوں سے محروم ہیں ان کو خدائے واحد و یگانہ کی معرفت کے حصول میں مدد دی جائے اور وہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو پہچانے لگیں اور ایک خوشحال اور مسرور زندگی دینی و دنیاوی ہر دو لحاظ سے گزارنے لگیں.بہر حال یہ ہمارا فرض ہے اور حتی الوسع ہم اس کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کے لئے کوشش کرتے ہیں.اس وقت وقف جدید کے نظام کے ماتحت بعض ایسے علاقوں میں بھی اسلام کو پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے.جہاں ہندو بستے ہیں.یہ تو ایک حقیر سی کوشش ہے لیکن اس کے مقابلہ میں جو حقیر سی کوشش کی قبولیت کی علامات ہیں وہ یہ ہیں کہ اُس علاقہ کے ہندوؤں کی توجہ بڑی شدت کے ساتھ اسلام کی طرف ہو رہی ہے اور وہاں کے سینکڑوں ہندو خاندان کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور خدائے واحد و یگانہ سے محبت کا تعلق رکھتے ہیں.چنانچہ دو سال ہوئے وہاں ایک مقام پر ان میں سے بعض کو بعض شرپسند ہندوؤں کی طرف سے اُنکے سامان پر بٹھا کر سامان کو آگ لگا کر جلانے کی کوشش کی گئی.اس وعدے کے ساتھ کہ اگر وہ اسلام کو چھوڑ دیں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بند کر دیں گے تو یہ آگ بجھا دی جائے گی اور ان کو آگ میں جلا یا نہیں جائے گا لیکن وہ نو مسلم اسلام کی لذت سے اس طرح بھرے ہوئے تھے کہ انہوں نے دشمنانِ اسلام کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس جرات کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے ان کو جلا یا نہیں کیونکہ ایک کو جب جلانے لگے تو بہت سے اور آگے آگئے کہ ہم بھی ہندوؤں سے مسلمان ہوئے ہیں اور اگر جلانا ہے تو ہم سب تیار ہیں ، ہم سب کو جلا ؤ.پس اللہ تعالیٰ اس رنگ میں اس علاقہ کے ہندوؤں پر بڑا فضل کر رہا ہے اور اسلام کی طرف وہ مائل ہورہے ہیں اور یہ انتظام اس وقت وقف جدید کے ماتحت ہے اور معلمین وقف جدید وہاں کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے اچھے نتائج پیدا ہور ہے ہیں.اس کے علاوہ جو مختلف مقامات پر وقف جدید کے معلمین ہیں ان کے ذریعہ سے ان کی اپنی لیاقت کے مطابق کام

Page 446

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۲۶ خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۷۴ء لیا جارہا ہے، وہ تربیت کا کام کر رہے ہیں.وہ بچوں کو قاعدہ (یسر نا القرآن ) پڑھا رہے ہیں.نوعمر نو جوانوں کو قرآنِ کریم ناظرہ پڑھا رہے ہیں.جن کو ترجمہ نہیں آتا انہیں ترجمہ پڑھا رہے ہیں.ہزاروں احمدی تربیت کے لحاظ سے ان سے مختلف مقامات پر استفادہ کر رہے ہیں.اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم تھوڑا سا زور اُس ہند و علاقہ میں اور لگا ئیں تو بظاہر ایسے حالات نظر آ رہے ہیں کہ شاید عنقریب ہزاروں کی تعداد میں وہ ہندو مسلمان ہو جا ئیں.اس وقت اُن پر اسلام میں داخل ہونے کے خلاف دو طرف سے زور پڑ رہا ہے.ایک تو اندرونی مخالفت ہے دوسرے بڑے بڑے امیر اور تاجر پیشہ ہندو جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اونچی ذات ہے وہ اُن پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور ان کے دباؤ کے نیچے ویسے تو وہ ہمیشہ سے غلاموں کی طرح تھے.وہ ان کو قرض دیتے تھے اور شود وصول کرتے تھے.بظاہر اُن پر احسان کرتے تھے اور اندر سے اُن کا خُون چوستے تھے.اُن کا دباؤ بھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے حالات ایسے پیدا ہور ہے ہیں کہ یہ لوگ اس دباؤ کو قبول نہیں کر رہے.پس اُس جگہ کام میں اضافہ ہونا چاہیے جس کے لئے پیسے کی بھی ضرورت ہے اور جس کے لئے مخلصین معلمین واقفین زندگی کی بھی ضرورت ہے جو وقف جدید میں کام کرنے والے ہوں.کام میں وسعت پیدا ہورہی ہے اور نتائج میں برکت پیدا ہو رہی ہے.اس لئے ہمارے نوجوان اور وہ لوگ جو ہمت اور عزم کے لحاظ سے جوان ہیں انہیں آگے آنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کے کاموں کے بوجھ کو اپنے کندھوں پر اُٹھانا چاہیے.گزشتہ سال وقف جدید کے چندہ میں پچاس ہزار کچھ سوروپے کا اضافہ تھا.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت ہمت کرے اور اس سال یعنی سالِ رواں میں جو یکم جنوری سے شروع ہوا ہے.جس کا اس وقت میں اعلان کر رہا ہوں.ایک لاکھ روپیہ مزید دے دے اور وقف جدید کو میں کہوں گا کہ جو آپ کی زائد آمدنی ہوا سے اُس علاقہ میں خرچ کریں جہاں ہندو مسلمان ہو رہے ہیں تو آپ کے لئے بڑی برکت کا باعث ہے اور اسلام کے لئے بڑی خوشی کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے.وہ جو اُس سے دُور چلے گئے تھے.وہ جو اُسے چھوڑ کر مورتیوں کی پرستش کرنے لگ گئے تھے وہ اس کی طرف آئیں گے تو اس کا پیار ان لوگوں کے لئے

Page 447

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۲۷ خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۷۴ء جلوہ گر ہوگا.اور اگر چہ یہ الفاظ اس عظیم ہستی جو ہمارا رب اور ہمارا خالق و مالک ہے کے لئے اس معنی میں استعمال نہیں ہو سکتے جس معنی میں ہمارے اپنے لئے استعمال ہوتے ہیں لیکن تمثیلی زبان میں یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی استعمال کر دیتے ہیں کہ ہمارا رب بھی بڑا خوش ہوگا کہ اُس کے بھٹکے ہوئے بندے اس کی طرف واپس آگئے.پس اس اعلان کے ساتھ میں وقف جدید کے نئے سال کی ابتدا کا اعلان کرتا ہوں اس امید پر کہ جماعت ایک لاکھ روپیہ زائد چندہ اس وقف جدید کے انتظام کو دے گی اور اس ہدایت کے ساتھ کہ وقف جدید والے اس کا بڑا حصہ اُس علاقے میں خرچ کریں گے جہاں ہندو بستے ہیں اور اس وقت ان کی توجہ اسلام کی طرف ہے اور اس تو کل اور اُمید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول کرے گا اور ان اُچھوتوں پر رحم کرے گا جن کو اُن کے اپنے مذہب والوں نے دھتکار دیا اور جن کو اپنی آغوش میں لینے کے لئے اسلام اپنے بازو پھیلائے ان کی طرف بڑھ رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کے سائے کے نیچے انہیں یہ جماعت لانا چاہتی ہے.خدا کرے کہ ہمیں اس کی راہ میں اس مد میں بھی خرچ کرنے کی توفیق ملے اور خدا کرے کہ ہماری یہ حقیر کوشش اس کے حضور قبول ہو اور خدا کرے کہ اس کے نتائج بہت ہی شاندار نکل آئیں اس سے زیادہ شاندار جتنی ہماری قربانیاں ہیں جیسا کہ ہمارے ساتھ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک رہا ہے.(روز نامه الفضل ربوه ۲۷ / جنوری ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 448

Page 449

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۲۹ خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء مخلص اور باہمت انگریزی دان اپنی زندگیاں تبلیغ اسلام کے لئے وقف کریں خطبه جمعه فرموده ۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:.وَيُقَومِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَ يَزِدُكُمْ قوةٌ إلى قوتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوا مُجْرِمِينَ (هود: ۵۳) پھر حضور انور نے فرمایا:.دنیا پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو اس وقت یہ صورت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ایک طرف دہریت اشتراکیت کی شکل میں ساری دنیا پر چھا جانے کی کوشش کر رہی ہے دوسری طرف مذہب سرمایہ داری کا سہارا لیتے ہوئے اس یلغار کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے.جہاں تک ترقی یافتہ مغربی ممالک کا تعلق ہے یہ بات آہستہ آہستہ واضح ہوتی چلی جارہی ہے کہ اب اُن میں اشتراکیت کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہی اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ کسی وقت بھی یہ ممالک اس کشمکش میں ہتھیار ڈال دیں اور دہریت اُن ممالک پر قابض ہو جائے.اس وقت سرمایہ داری اور ( اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کا آپس میں اشتراک ہے.جس رنگ میں اُس دنیا کے سامنے جو اشترا کی دنیا یا سوشلسٹ دنیا کہلاتی ہے مذہب کو پیش

Page 450

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۳۰ خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء کیا گیا اُس رنگ میں کوئی بھی سمجھدار انسان مذہب کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا کیونکہ مذہب کو ان ممالک نے ( میں لفظ مذہب میں اسلام کے علاوہ سب مذاہب کو شامل کر رہا ہوں ) اس رنگ میں پیش کیا کہ نہ انسان کے لئے وہ مقام شرف اور عزت کا باقی چھوڑا جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کا ایک بنیادی حق قرار دیا ہے نہ اس کی دیگر صلاحیتوں کی نشوونما کے لئے جن مادی سامانوں کی ضرورت تھی اور جن سے وہ لوگ محروم تھے اُن کا حقدار سمجھا گیا.اگر مذہب (نعوذ باللہ ) انسان کی تمام صلاحیتوں کی نشو و نما میں روک ہے تو انسان کا فرض ہے مذہب کو دھتکار دے اس رنگ میں اشتراکیوں نے اسے دھتکار دیا لیکن حقیقی مذہب تو ایسا نہیں ہے.جو مذہب، جو ابدی صداقت، جو حسین شریعت ، جو احسانِ عظیم کی مالک ہدایت اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی شکل میں دی وہ تو اس کے برعکس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان کی اُن تمام صلاحیتیوں کی جو اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں کامل نشو ونما کے سامان پیدا ہونے چاہئیں اور جب ہم دہریت، اشتراکیت ،سوشلسٹ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ انسان کے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں ان کا تصور بھی اشتراکیت اور اس قسم کے دوسرے از مز میں نہیں پایا جاتا.اس وقت اُن ترقی یافتہ ممالک میں جو اشتراکیت کے خلاف برسر پیکار ہیں سرمایہ دارانہ نظام تو معرض زوال میں ہے اور مذہب میدان سے بھاگتا نظر آتا ہے.اسی لئے میں نے جماعت کو پہلے بھی کہا کہ ان علاقوں میں ایک خلا پیدا ہورہا ہے.اب اس خلا کو دو طاقتیں پر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں.ایک طاقت لامذہبیت اور دہریت کی ہے اور دوسری طاقت اسلام اور احمدیت کی ہے.ہمارا اصل مقابلہ ان لا دینی طاقتوں سے ہے اور اس مقابلہ میں ایک شدت پیدا ہو رہی ہے.وہ بھی ان علاقوں کے انسانوں کا دل خدا سے دور لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور جماعت احمد یہ بھی اُن علاقوں میں بسنے والے انسانوں کے دل خدائے واحد و یگانہ کے لئے جیتنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے.جہاں تک مادی وسائل کا سوال ہے غیر مذاہب اور خدا کے اس دشمن کے مقابلہ میں ہماری کوئی طاقت ہی نہیں ہے.مادی وسائل اُن کے مقابلہ میں ہمارے پاس ہزارواں کیا لا کھواں حصہ بھی نہیں لیکن ہم نے اپنی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کے

Page 451

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۳۱ خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء اس فرمان کا مشاہدہ کیا ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا اور مغفرت کی چادر میں خود کو اس معنی میں ڈھانپتا ہے کہ وہ اس کے حضور جھکتا اور یہ دُعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ جو بشری کمزوریاں ہیں وہ سرزد نہ ہوں اور جو بشری صلاحیتیں ہیں ان کی کامل نشو و نما ہو جائے اور خدا کے علاوہ ہر شئے کو لاشئے محض سمجھتے ہوئے اُسی کی طرف رجوع کرتا ہے تو ان حالات میں اللہ تعالیٰ بڑی سے بڑی ماڈی طاقتوں کو ملیا میٹ کر دیتا اور ہلاک کر دیتا ہے اور اپنے بندے کی مدد اور نصرت کے لئے آسمانوں سے سامان پیدا کرتا ہے.ہماری زندگیوں میں بھی یہ بات ایک حقیقت کی صورت میں موجود ہے.یہ کوئی فلسفہ نہیں بلکہ ہمارے وجود نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے کہ تمام مادی سامان اللہ تعالیٰ کے منشا اور اس کے حکم کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے پس یہ تو درست ہے کہ اس روحانی جنگ میں، اس اخلاقی جنگ میں ،اس مذہبی جنگ میں مادی وسائل دہر یہ اقوام کے پاس ہم سے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ہمارے ماڈی وسائل ذکر کے قابل بھی ہیں.یہ ایک حقیقت ہے ہم اس سے انکار نہیں کرتے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کمزور بندوں کی کوششوں میں اپنی زبر دست تدابیر کو چھپا کر دنیا میں اپنی قدرت کے ہاتھ کا ایک زبر دست جلوہ ظاہر کرے یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں تک ہماری طاقت ہے یا جہاں تک ان وسائل کا تعلق ہے.جن سے ہم اپنی طاقت کو بڑھا سکتے ہیں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس طاقت کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوں اور اس کوشش میں لگے رہیں کہ جو طاقت اور قوت کو بڑھانے کے وسائل اور راہیں ہیں وہ ہمیں میتر آئیں.اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں جس کی میں نے سورۃ فاتحہ کے بعد تلاوت کی ہے یہ حکم فرمایا ہے کہ اگر تم استغفار کرو اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو تو تمہاری خوشحالی کے سامان آسمانوں سے پیدا کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اگر تمہاری زندگیاں اُس کی رضا کے حصول کے لئے لگی ہوئی ہوں گی تو تمہیں قوت کے بعد مزید قوت عطا کرتا چلا جائے گا.اس وقت جیسا کہ میں نے بتایا دشمن انسانیت اور دشمن روحانیت اور دشمن مذہب کے

Page 452

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۳۲ خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء خلاف ہماری جو جد و جہد اور لڑائی ہے اس کے لئے ہمیں دشمن کے ماڈی وسائل کے اثر کو کالعدم کرنے کے لئے ایسی روحانی طاقت کی ضرورت ہے جو خدا سے حاصل ہوتی ہے اور جس کے حصول کا ایک ذریعہ اس آیت میں استغفار اور تو بہ بتایا گیا ہے اور جس کے نتیجہ میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ برکتوں کے سامان پھر آسمان سے پیدا ہوں گے اور قوت کے بعد مزید قوت عطا ہوتی چلی جائے گی.ان وسائل سے خدا تعالیٰ جو قدرت کا اور قوت کا اور طاقت کا اور عزت کا اور غلبہ کا اور قہر کا سرچشمہ ہے اُس سے قوت لیکر ہمیں اس میدان میں دشمن اسلام، دشمن روحانیت ، دشمن مذہب اور اللہ تعالیٰ کے خلاف صف آرا ہونے والی فوجوں کا مقابلہ کرنا ہے اور کامیابی کے ساتھ کرنا ہے اس وقت جیسا کہ میں نے بتایا ایک خلا پیدا ہو رہا ہے اور جلدی جلدی بڑھ رہا ہے.اس کے لئے تدبیر جتنی ہم کر سکتے ہیں وہ ہمیں کرنی چاہیے.اس کے لئے ہمیں اس سے زیادہ مجاہد چاہئیں اس سے زیادہ مبشر چاہئیں.اس سے زیادہ مبلغ چاہئیں جتنے کہ مبلغ بنانے والے ہمارے ادارے اس وقت بنارہے ہیں.اعلیٰ پیمانہ پر مبلغ بنانے والا ادارہ تو جامعہ احمد یہ ہے.دوسرے بھی بعض ادارے ہیں لیکن وہ اس معیار کے مبشر پیدا نہیں کر سکتے نہ اُن کے قیام کا یہ مقصد ہے کہ جو غیر ممالک میں جا کر اسلام کے جرنیل کی حیثیت میں ان طاقتوں کا مقابلہ کریں، اگر ہم صرف جامعہ احمدیہ پر انحصار کریں تو جس قدر انسانوں کی مخلص انسانوں کی ، مومن انسانوں کی ، صاحب فراست انسانوں کی ، اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے انسانوں کی ، خدا سے اخلاص کا تعلق رکھنے والے انسانوں کی ، خدا سے عہد وفا جو انہوں نے باندھا ہے اس پر عزم کے ساتھ اور استقامت کے ساتھ قائم اور قائم رہنے والے انسانوں کی ضرورت ہے اتنے انسان تو یہ ادارہ ہمیں شاید اگلے سوسال میں بھی نہ دے سکے لیکن ہمیں آج ضرورت ہے.اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں اُن بڑی عمر کے احمدیوں کی ضرورت ہے جو اگر چہ جامعہ احمد یہ یا اس قسم کے کسی ادارہ میں تو نہ پڑھے ہوں لیکن اُن کی زندگی صحیح اور حقیقی اسلام کے مطالعہ میں خرچ ہوئی ہو اور جن کے دل خدا تعالیٰ کی محبت سے معمور ہوں اور جن کا اپنے رب سے اخلاص کا تعلق ہو اور جن کی ہمت جوان ہوا گر چہ عمر کے لحاظ سے وہ جواں نہ ہوں وہ آگے آئیں.وہ ریٹائر ہو گئے دنیوی کاموں سے.وہ

Page 453

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۳۳ خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء جو ریٹائر ہو سکتے ہیں.( ملازمت کا ایک ایسا حصہ جس میں انسان اپنی مرضی سے ریٹائر ہو جاتا ہے اور اس کی پنشن پر خاص فرق نہیں پڑتا یا بعض دفعہ بالکل ہی فرق نہیں پڑتا ) ایسے لوگ اپنی زندگیوں کو وقف کریں تا کہ ہم انہیں ان ممالک میں بھجوا سکیں ایسے لوگ جن کی خصوصیات اور اہلیت کے کچھ پہلو تو میں نے ابھی بتائے ہیں لیکن زبان کے لحاظ سے انہیں انگریزی زبان اچھی طرح آنی چاہیے کیونکہ یہ ہر جگہ غیر ممالک میں کام دے جاتی ہے.انہیں وقف کرنا چاہیے.اس وقت ہمیں شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے.اس قسم کے مخلصین ،مجاہدین باوفا انسانوں کی جوان غیر ممالک میں جا کر کام کریں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہمارا ایک ہی ادارہ ہے جو مبلغ پیدا کر رہا ہے اور اب تعداد کچھ زیادہ ہوئی ہے جامعہ میں.ایک وقت میں تعداد بہت ہی گر گئی تھی.پھر جو آج امتحان پاس کرتا ہے یا جس نے دو سال پہلے جامعہ احمدیہ سے شاہد کیا ہے وہ اپنے تجربہ کے لحاظ سے اور اپنے معیار کے لحاظ سے آج اس قابل نہیں ہے کہ اُسے ہم باہر بھیج دیں.اس لئے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا لیکن اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ایسے انگریزی دان احمدی ہیں.جنہوں نے اخلاص سے اپنی زندگیاں گزاری ہیں.جنہیں اپنی گزشتہ زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنِ کریم کی جو تفسیر ہمارے سامنے رکھی ہے اس کے مطالعہ کا شغف رہا ہے جو علی وجہ البصیرت حقیقی اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں.جنہوں نے اسی مطالعہ کے دوران دوسرے مذاہب کے ساتھ مذہب اسلام کا موازنہ کیا ہے اور جن کو دعا کی عادت ہے جو اس مقام پر کھڑے ہیں کہ جہاں دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کیا جاسکتا ہے.جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش ماررہی ہے اور جن کے سینوں میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا میں بلند کرنے کی ایک تڑپ پائی جاتی ہے.ایسے سینکڑوں ہزاروں احمدی جماعت احمدیہ میں موجود ہیں.آج میں اُن کو آواز دے رہا ہوں کہ اسلام کی خاطر دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوانے کے لئے مجاہدین کی آج ضرورت ہے اور اس قسم کے لوگ ہی آج کے حالات میں اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں.اس لئے وہ آگے آئیں اور اپنے ناموں کو پیش کریں.اگر وہ ریٹائر ہو چکے ہوں اور اپنی ملازمتوں سے فارغ ہو چکے ہوں تب بھی ، اگر وہ آسانی سے فارغ ہو سکتے ہیں تب بھی

Page 454

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۳۴ خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء ہر قسم کے انگریزی دان افراد خواہ وہ ڈاکٹر ہوں انجینئر ہوں، ٹیچر ہوں، پروفیسر ہوں، وغیرہ وغیرہ اپنے آپ کو پیش کریں لیکن شرط یہی ہے کہ وہ لوگ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے ہوں جن کی زندگیاں اسلامی تعلیم اور قرآنِ کریم کے مطالعہ میں گذری ہیں اور جو دوسروں سے تبادلۂ خیالات کرتے رہے ہیں.ایسے لوگوں نے جماعت میں ( پہلے مثالیں موجود ہیں) بڑا اچھا کام کیا ہے ہمارے جو مبلغین ابتدا میں امریکہ یا انگلستان یا یورپ گئے وہ جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل نہیں تھے یعنی بی اے، ایم اے کر کے زندگی وقف کر کے جماعت کے کاموں میں مصروف ہو گئے تھے یا جو باہر کام کر رہے تھے لیکن دفتری اوقات سے باہر سات سات آٹھ آٹھ گھنٹے روزانہ بلا ناغہ وہ جماعت کے کاموں میں خرچ کر رہے ہیں (میرے علم میں ہیں میں نے پہلے بھی بتایا ہے بیسیوں ایسے احباب کو میں جانتا ہوں) ایسے لوگ سامنے آئیں اور اپنے نام پیش کریں تا کہ اس وقت جو ایک خلا پیدا ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں ہمارے دلوں میں ایک فکر پیدا ہورہا ہے کہ ہم اس خلا کو اگر پر نہ کر سکے تو خدا کے نام کو اس دنیا سے مٹانے کا دعویٰ کرنے والوں کی کوششیں کہیں کا میاب نہ ہو جا ئیں.اس وقت اسلام کے ایک ادنیٰ خادم کی حیثیت سے میں جماعت کے ان احباب کو آواز دیتا ہوں کہ آگے بڑھو ! زندگیوں کو وقف کرو! اور اخلاص کے ساتھ سب کام چھوڑ کر باہر جاؤ اور تبلیغ اسلام کے فریضہ کی جو ذمہ داری ہے اُسے اپنے کندھوں پر اٹھاؤ اور دنیا کو یہ بتاؤ اپنی دعاؤں کے ساتھ اور میری اور جماعت کی دعاؤں کے ساتھ کہ مذہب اسلام جو دنیاوی لحاظ سے علمی لحاظ سے اخلاقی لحاظ سے تعلیم دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے.اشتراکیت وغیرہ اس کے مقابلہ میں کسی میدان میں بھی ٹھہر نہیں سکتی لیکن انسانوں کی اکثریت غافل ہے اور انہیں بیدار کرنے کی ذمہ داری ہم پر ہے.اور ہمارے مادی وسائل تھوڑے ہیں.ہمیں روحانی وسائل اور روحانی ہتھیاروں کی طرف رجوع کرنے کی اشد ضرورت ہے.استغفار کے ساتھ اور تو بہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہماری دعا کو قبول کرے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو نباہ سکیں اور اللہ تعالیٰ جماعت کے ایسے مخلصین کو تو فیق عطا کرے کہ وہ اپنی زندگیوں کو وقف کریں اور بیرونی ممالک میں جا کر

Page 455

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۳۵ خطبہ جمعہ ۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے اپنے بیوی بچوں سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اس اہم ذمہ داری کی طرف توجہ کریں اور اُسے کامیاب طریقے پر نباہنے کی کوشش کریں.اے خدا تو ایسا ہی کر !! روزنامه الفضل ربوه ۲۰ فروری ۱۹۷۴ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 456

Page 457

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۳۷ خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۷۴ء تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کا ایک عظیم منصوبہ صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ“ خطبه جمعه فرموده یکم فروری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے جماعت احمدیہ کے سامنے اشاعتِ اسلام کا ایک منصو بہ رکھا تھا.اس منصوبہ کی میعاد قریباً سولہ سال بنتی ہے.آج سے پندرہ سال اور دو مہینے کے بعد جماعت احمد یہ جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے لئے رکھی گئی تھی ، اپنی زندگی کی دوسری صدی میں داخل ہو رہی ہوگی.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ سو سال گذرنے پر ہم خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے صد سالہ (اُس وقت میں نے نام لیا تھا) جشن منائیں گے اور اس سولہ سال کے عرصہ میں یہ بات بھی ہمارے مد نظر رہے گی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے پہلی صدی کی بنیا دوں کو مضبوط کریں اور دوسری صدی کے استقبال کے لئے حالات کو سازگار بنانے کی کوشش کریں.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ اس تحریک کا تعلق ہے، پہلی صدی زیادہ تر اس کی بنیا دوں کو بنانے اور مضبوط کرنے پر خرچ ہوئی ہے اور ہوگی لیکن دوسری صدی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بشارتیں دی ہیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے با برکت، مقدس، ارفع ،

Page 458

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۳۸ خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۷۴ء اعلیٰ اور افضل وجود کے ذریعہ اور پھر صلحائے امت کے ذریعہ جو بشارتیں ملی ہیں اور اب اس زمانے میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ جو بشارتیں ملی ہیں اُن سے استدلال کرتے ہوئے - مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ ہماری جماعت کی دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ.ہماری زندگی میں ، سلسلہ عالیہ احمدیہ کی زندگی میں دوسری صدی میں اسلام قریباً ساری دنیا میں غالب آجائے گا اور پھر جو تھوڑا بہت کام رہ جائے گا جماعت کو اسے شاید تیسری صدی میں کرنا پڑے.پس جماعت احمدیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے اور صد سالہ زندگی گزارنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکتے ہوئے پختہ عزم کے ساتھ یہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے.اس منصو بے کی بہت سی شقیں ہیں.میں نے جلسہ سالانہ کی تقریر میں بتایا تھا کہ میں اس کی تفاصیل جماعت کی مجلس شوری کے سامنے رکھوں گا.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس وقت تو میں صد سالہ جشن کے نام سے اس منصوبہ کے متعلق بات کروں گا بعد میں مشورہ کر کے اس کا جو نام مناسب ہو گا اس کا اعلان کر دیا جائے گا.چنانچہ اب مشورہ کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کا نام صد سالہ احمد یہ جو بلی ہوگا.صد سالہ احمد یہ جو بلی اُس حصہ کا نام ہوگا جس کو میں نے جشن کہا تھا اور اس کے لئے میں نے جماعت کے سامنے جو منصوبہ پیش کیا تھا اس کو ہم صد سالہ احمدیہ جوبلی منصو بہ کہیں گے اور اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے میں نے مالی قربانیوں کی جو تحریک کی تھی اسے ہم صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کا نام دیں گے.اس منصوبہ کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لئے میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر دو کروڑ پچاس لاکھ روپے کی تحریک کی تھی.ساتھ ہی میں نے اس بات کا بھی اعلان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر امید رکھتے ہوئے اگر چہ میں یہ تحریک اڑھائی کروڑ روپے کی کر رہا ہوں لیکن یہ رقم پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی.میں نے اُس وقت یہ کہا تھا کہ دوست اپنے وعدے مجلس مشاورت سے قبل بھجواد ہیں.پھر میں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ رقوم میرے پاس نہ بھجوائیں کیونکہ اس سے میرا وقت ضائع ہوتا ہے.رقوم خزانہ صدر انجمن میں جانی چاہئیں اور وعدے میرے پاس آنے چاہئیں کیونکہ اس سے وعدہ کرنے والوں کے لئے دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے.ویسے تو اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے اپنی رحمتوں سے

Page 459

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۳۹ خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۷۴ء نوازتا ہے لیکن ہم عاجز بندوں کا یہ فرض ہے کہ اس کے حضور دعاؤں میں مشغول رہیں اور اُس کی رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کریں.مجلس مشاورت میں تو ابھی قریباً دو مہینے کا عرصہ باقی ہے اور ابھی بہت سی پاکستانی جماعتوں کے وعدے نہیں آئے مثلاً شیخوپورہ کی طرف سے سوائے انفرادی یا ایک جماعت کے اجتماعی وعدوں کے ضلع کی طرف سے جماعتی وعدے ابھی تک نہیں پہنچے.اسی طرح سرگودھا شہر کا وعدہ پہنچ گیا ہے لیکن ضلع کا وعدہ نہیں پہنچا.پاکستان کے اور بھی بہت سے علاقے ہیں جہاں ہماری جماعتیں قائم ہیں لیکن ان کے وعدے ابھی تک نہیں پہنچے.بہت سے ایسے اضلاع ہیں جنہوں نے اس تحریک میں بہت پڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ یہ اُن کی پہلی قسط ہے اور یہ اُن کی طرف سے دوسری قسط ہے یا یہ اُن کی تیسری قسط ہے.اس کے علاوہ وہ اور اقساط بھی بھجوائیں گے.پس جہاں تک جماعتہائے احمدیہ پاکستان کا تعلق ہے، بہت سی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک وعدے موصول نہیں ہوئے تاہم وہ اس سلسلہ میں کام کر رہے ہیں.مشاورت سے پہلے پہلے وہ اپنے وعدے ضرور بھجوا دیں گے.جہاں تک بیرونِ پاکستان کی احمدی جماعتوں کا تعلق ہے، انگلستان میں ہمارے مبلغ یہاں موجود تھے.انہوں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جو وعدہ کیا تھا، اس کے ساتھ جب میں نے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا وعدہ بھی ملا دیا تو یہ ایک کروڑ روپے کا وعدہ بنتا تھا.ہمارے مبشر نے ہمیں اس کی یہیں اطلاع دے دی تھی لیکن جب وہاں کی جماعت کو معلوم ہوا تو وہاں کی جماعت کی مجلس عاملہ نے اپنی میٹنگ میں بھی یہی وعدہ کیا اور مجھے بذریعہ تار اطلاع دی.اس کے علاوہ ڈنمارک کی جماعت کے سارے تو نہیں لیکن بہت سے وعدے ہمیں مل گئے ہیں.گویا بیرونی جماعتوں میں سے اب تک ہمیں صرف ان دو ممالک سے وعدے موصول ہوئے ہیں.ان کے علاوہ وہ احمدی دوست جو دیگر ملکوں میں بستے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ اس جماعت کی مالی تحریکوں میں حصہ لیتے ہیں یا جن ممالک کی طرف سے مثلاً نصرت جہاں ریز روفنڈ میں وعدے آئے تھے وہاں سے ابھی تک وعدے نہیں آئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے انگلستان سے قریباً سارے وعدے آگئے ہیں.ڈنمارک سے سارے تو نہیں لیکن بہت سے

Page 460

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۴۰ خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۷۴ء وعدے آگئے ہیں.ان کے علاوہ جن ممالک میں احمدی دوست بستے ہیں اور جن میں سے بعض ممالک میں ہماری بڑی مضبوط اور مخلص جماعتیں قائم ہیں اور جن کی طرف سے ہمیں ابھی تک وعدے موصول نہیں ہوئے اور مجلس مشاورت تک وعدوں کا انتظار ہے وہ مندرجہ ذیل ملک ہیں:.(۱) امریکہ (۲) کینیڈا (۳) مغربی جرمنی (۴) ہالینڈ (۵) سوئٹزرلینڈ (۶) سویڈن (۷) سپین (۸) فرانس (۹) یوگوسلاویہ (۱۰) سعودی عرب (۱۱) مصر (۱۲) ترکی (۱۳) ایران (۱۴) مسقط (۱۵) ابوظہبی (۱۶) عدن (۱۷) بحرین (۱۸) کویت (۱۹) قطر (۲۰) دوبئی (۲۱) انڈونیشیا (۲۲) ملائیشیا (۲۳) آسٹریلیا (۲۴) جاپان (۲۵) جزائر فجی (۲۶) ماریشس (۲۷) سباء (۲۸) برما (۲۹) افغانستان (۳۰) مسلم بنگال (۳۱) بھارت (۳۲) تنزانیہ (۳۳) یوگنڈا (۳۴) کینیا (۳۵) نائیجیریا (۳۶) غانا (۳۷) سیرالیون (۳۸) لائبیریا (۳۹) گیمبیا (۴۰) آئیوری کوسٹ (۴۱) لیبیا (۴۲) آسٹریا (۴۳) سینیگال (۴۴) ناروے (۴۵) آئرلینڈ (۴۶) گی آنا (۴۷) ٹرینیڈارڈ (۴۸) سری لنکا (۴۹) شام (۵۰) زیمبیا (۵۱) سوڈان.افریقہ کے بعض دوسرے ممالک میں جہاں ہمارے مشن تو نہیں لیکن جماعتیں قائم ہیں.ان کے نام دفتر نے مجھے نہیں دیئے وہ بھی انشاء اللہ شامل ہو جا ئیں گے.پس یہ ۵۱ ممالک ہیں ان میں بھی کسی میں تھوڑی اور کسی میں بہت زیادہ احمدی جماعتیں قائم ہیں.انہوں نے ” نصرت جہاں ریزروفنڈ میں حصہ لیا تھا مگر ان کی طرف سے ابھی تک صد سالہ جو بلی فنڈ“ میں وعدے نہیں پہنچے.میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان میں بہت سی جماعتیں ہیں جن کے ابھی تک وعدے نہیں پہنچے.اس کے باوجود ا سوقت تک اڑھائی کروڑ کی مالی تحریک کے مقابلے میں تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد رقم کے وعدے موصول ہو چکے ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اسلام کی اس نشاۃ ثانیہ کے زمانہ میں ایک ایسی جماعت بنادی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہے.یہی وہ جماعت ہے جس کے دل میں یہ تڑپ ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو نوع انسانی کے دل خدا اور اُس کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے

Page 461

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۴۱ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۷۴ء جیت لئے جائیں اس لئے اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے تو یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ اشاعت اسلام کے اس عظیم منصوبہ کے لئے سولہ سال میں پانچ کروڑ سے بھی زائد رقم اکٹھی ہو جائے.جہاں یہ بڑی خوشی کی بات ہے وہاں ان ممالک کی تعداد پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمارے لئے فکر کے لمحات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ ابھی دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں ہماری منظم جماعتیں اور مشن قائم نہیں ہوئے.اسی لئے اس منصوبے کے ایک ابتدائی حصے کی رُو سے یہ تجویز تھی کم از کم سوز بانوں میں (یعنی دنیا کے مختلف ملکوں میں بولی جانے والی مختلف سوز بانوں میں ) اسلام کی بنیادی تعلیم کے تراجم کر کے بیرونی ملکوں میں کثرت سے اشاعت کی جائے اور اس ذریعہ سے وہاں کے باشندوں کی تربیت و اصلاح اور ان کو اسلام کی طرف لانے کی کوشش کی جائے.وو صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں اب تک جو وعدے ہوئے ہیں ان کے متعلق باہر سے خطوط کے ذریعہ دوست پوچھتے رہتے ہیں کہ ان کی ادائیگی کا کیا طریق اختیار کرنا چاہیے.کیا وہ ہر سال کا اپنا سولہواں حصہ دیں یا کوئی اور شکل ہو.چنانچہ میں اس بارے میں سوچتا رہا ہوں اگر چہ قانون تو اندھا کہلاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو تو سوجا کھا اور صاحب بصیرت اور صاحب بصارت بنایا ہے.میں نے سوچا کہ مختلف شکلوں میں لوگوں کو روپیہ ملتا ہے یعنی آمدنی کی شکلیں مختلف ہیں.انسانوں کا ایک گروہ تو وہ ہے جس کے ہر فرد کی ماہانہ آمد بندھی ہوئی ہے مثلاً کہیں نوکر ہیں یا مزدور ہیں اس لئے نوکری کی تنخواہ یا مزدوری کے علاوہ کوئی اور ذریعہ آمد نہیں ہے.ایک معین رقم ہے جو ہر ماہ ان کو مل جاتی ہے اور بس.ایسے لوگوں سے تو میں یہ کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو جتنی بھی توفیق عطا فرمائی ہے اور انہوں نے اس کے مطابق اس فنڈ میں وعدے کئے ہیں وہ اپنے وعدہ کو سولہ پر تقسیم کر دیں.اس طرح ہر سال کا جو حصہ بنے گا اُسے وہ سال کے بارہ مہینوں پر تقسیم کر کے ماہ بماہ اپنا وعدہ دیتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ اُن کے مال میں برکت ڈالتا چلا جائے گا.اس طرح شاید ان کو اس سے زیادہ دینے کی توفیق مل جائے جتنا وہ آج سمجھتے ہیں کہ وہ دے سکتے ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ کی ذات عزّ و جلّ سب خزانوں کی مالک ہے.اس کی رحمتیں ہماری قربانیوں

Page 462

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۴۲ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۷۴ء اور ایثار کا انتظار کر رہی ہیں کہ کب ہم عاجزانہ قربانی اور ایثار کے ساتھ اُس کے حضور جھکتے اور اس سے اس کی رحمتوں کو حاصل کرتے ہیں.غرض وہ لوگ جن کی ماہانہ بندھی ہوئی آمد ہے وہ ماہانہ کے حساب سے ادا ئیگی کریں گے تا کہ اُن کو بعد میں پریشانی لاحق نہ ہو.پس یہ قاعدہ تو ان لوگوں سے متعلق ہے جن کی ماہوار آمد بندھی ہوئی اور مقرر ہے لیکن باقی لوگ جن کی آمدنیوں کے ذرائع اور طریق مختلف ہیں اُن کے متعلق بھی اصولاً یہی قاعدہ ہو گا کہ وہ ہر سال اس سال کا جو حصہ بنتا ہے وہ ادا کر دیں گے لیکن چونکہ اس مالی منصوبہ کے لئے پورے سولہ سال نہیں بلکہ پندرہ سال اور کچھ مہینے ہیں اس لئے پہلے دو سال کا جو وعدہ ہے وہ دو سال کی نسبت سے یعنی گل و عدہ کا ۱۱۸ حصہ ۲۸ فروری ۱۹۷۵ء سے پہلے ادا ہو جانا چاہیے اور اس کے بعد دوست سال بسال عام قاعدے کے مطابق ادا کریں گے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک تو ماہ بماہ ادا کرنے والے ہوں گے اور دوسرے دیہات میں بسنے والے زمیندار اور بعض دوسرے لوگ بھی ہوں گے جن کی رہائش دیہات میں ہے، ان کی آمد عام طور پر ششماہی کے حساب سے ہوتی ہے ( یعنی سال میں دو بار آمد ہوتی ہے ) اگر وہ خیال کریں کہ سال میں آمد کے دو موقعوں پر ادا کریں گے تو اس لحاظ سے ۱/۳۲ ہو جائے گا.گویا وہ ہر آمد یا ر فصل کی پیداوار کے موقع پر ۱۱۳۲ اور ہر سال ۱/۱۶ ادا کریں گے سوائے پہلے سال کے جس میں انہوں نے چار فصلوں کی آمد کے لحاظ سے اپنے وعدے کا ۱/۱۶ ادا کرنا ہے.ان کے علاوہ تاجر پیشہ لوگ ہیں ، ڈاکٹر ہیں ، وکیل ہیں، انجینئر ہیں اور صنعت کار ہیں ان کی نہ معین ماہوار آمد ہے اور نہ قریباً معین ششما ہی آمد ہے مثلاً ڈاکٹر ہے کسی ماہ اُسے زیادہ فیس مل جاتی ہے کسی ماہ اُسے کم فیس ملتی ہے.اسی طرح آزاد انجینئر ہے، وکیل ہے، تاجر ہے اور صنعت کار ہے ان کی بندھی ہوئی یا مقررہ آمدنی نہیں ہوتی بلکہ ان کی آمد میں اُتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے.ان کی آمد ایک خاص حد کے اندر گرتی بڑھتی رہتی ہے.کبھی کم ہو جاتی ہے اور کبھی زیادہ ہو جاتی ہے.تاجروں کے لئے مختلف موسم ہیں جو مختلف وقتوں میں آتے ہیں.پس میں ان ( تاجروں، ڈاکٹروں، وکیلوں ، انجینئروں اور صنعت کاروں ) سے یہ کہوں گا کہ

Page 463

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۴۳ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۷۴ء ہم نے چونکہ کام کی ابتدا ابھی سے کرنی ہے اور چونکہ ابتدائی کاموں کے لئے ہم پر بہت سے ابتدائی اخراجات پڑ جائیں گے.اس لئے وہ ہمت کر کے شروع میں اپنے اپنے وعدہ کے سولہویں حصے کی بجائے جتنا زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہوں دے دیں یعنی وہ شرح کا خیال نہ رکھیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس کو جتنی توفیق عطا فرمائی ہے اتنا ادا کر دے تاہم میں اُن کو یہ نہیں کہوں گا کہ وہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر ایسا کریں لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ تکلیف میں پڑے بغیر وہ پہلے سو سال میں یعنی ۲۸ فروری ۱۹۷۵ ء سے پہلے پہلے اپنے وعدہ کا جتنا زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہوں، وہ دے دیں تا کہ شروع میں جو ابتدائی کام کرنے ہیں وہ کئے جاسکیں کیونکہ ہم ان کاموں کو ۱/۱۶ کی نسبت سے تقسیم نہیں کر سکتے.مثلاً میں نے کہا تھا کہ کئی جگہ ہمیں نئے مشن کھولنے پڑیں گے وہاں مسجدیں بنانی پڑیں گی.مشن ہاؤسز بنانے پڑیں گے اور کئی اخراجات ہوں گے جو ابتدا میں اُٹھانے پڑیں گے اب مثلاً جہاں مشن ہاؤسز بننے ہیں وہاں ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہم انہیں ۱۶ سال میں مکمل کریں گے اور ہر سال ان پر ۱/۱۶ حصہ خرچ کریں گے.ان پر تو ہمیں جب بھی حالات اور ذرائع میسر آجائیں گے فوری طور پر خرچ کرنا پڑیگا مثلاً زمین مل جائے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے کی اجازت مل جائے تو وہاں فوراً مکان بنانے پڑیں گے.آج کل غیر ممالک میں خصوصاً ( اور یہاں بھی عموماً لوگ ) جب زمین دیتے ہیں تو شرط لگاتے ہیں کہ اتنے عرصہ کے اندر مثلاً دوسال میں یا تین سال میں جس غرض کے لئے زمین دی گئی ہے اس کے لئے عمارت مکمل کرو.غرض ابتدا میں بہر حال نسبت سے زائد خرچ ہوں گے اس لئے جماعت میں سے ایک گروہ ایسا نکلنا چاہیے جو مذکورہ نسبت سے زیادہ ادا ئیگی کرنے والا ہوتا کہ اشاعت اسلام کے کاموں میں کوئی روک پیدا نہ ہو مثلاً قرآن کریم کے تراجم کروانے ہیں ان کو شائع کرنا ہے قرآنِ کریم تو برکت سے معمور کتاب ہے.خدا تعالیٰ نے اسے ہماری روح کی تسکین کا ذریعہ بنایا ہے.اس لئے جہاں تک قرآن کریم کے تراجم کا سوال ہے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم قرآن کریم کے ترجمے شائع تو کر سکتے ہوں مگر پھر بھی ۱۶ سال کا انتظار کریں.جب بھی خدا تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی ہم بہر حال ان کی اشاعت کریں گے تاکہ ان ممالک میں جہاں وہ زبان بولی جاتی ہے وہ علاقے

Page 464

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۴۴ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۷۴ء اسلام کی روشنی سے منور ہوں.یہی ہماری اصل غرض ہے جس کے لئے جماعت کو مالی قربانیوں میں حصہ لینے کی تحریک کی جاتی ہے.پس چونکہ بنیادوں کو تو ہم نے بہر حال مضبوط کرنا ہے اس لئے ہم نے کام شروع کرنے میں انتظار نہیں کرنا.اس لئے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے اپنا سارا وعدہ ادا کرنے کی وہ سارا دے دیں اور پھر آنے والے سالوں میں تھوڑی بہت جتنی بھی خدا تو فیق دے وہ دیتے چلے جائیں یا ۳/۱۶ یا ۴/۱۶ دے دیں.مگر وہ اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالیں کیونکہ اس کی بھی ہمیں اجازت نہیں ہے.بعض دفعہ اس طرح اس قسم کی تنگی پیدا ہو جاتی ہے جو انسان کے لئے ابتلا کا موجب بن جاتی ہے.اس لئے وہ دوست جن کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے یا اچانک اُن کی آمد کا کوئی ذریعہ پیدا ہو گیا ہے وہ آگے بڑھیں اور خود کو تکلیف میں ڈالے بغیر نسبت کے لحاظ سے نہیں بلکہ جو ضرورت ہے اس عظیم منصوبہ کی اس کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے سال جتنا زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہیں، دے دیں.غرض اصولاً تو سوائے پہلے سوا سال کے جس میں ہر ایک کو اپنے وعدہ کا ۲/۱۶ حصہ ادا کرنا ہے، ہر سال ۱۷۱۶ کے حساب سے ادا ئیگی ہونی چاہیے.بندھی ہوئی آمدنی والے دوستوں کے لئے سہولت اسی بات میں کہ وہ ہر ماہ اس نسبت سے ادا کر دیا کریں.دیہاتوں میں رہنے والے دوست کو جن کی عام طور پر سال میں دو دفعہ برداشت ہوتی ہے اور آمد کا ذریعہ پیدا ہوتا ہے وہ ان دو موقعوں پر کم از کم ۱/۱۶ ہر سال دے دیا کریں مگر پہلے سوا سال میں ۲/۱۶ کے حساب سے ادا کریں.تیسرے وہ دوست ہیں جن کی آمد کبھی بڑھ جاتی ہے اور کبھی کم ہو جاتی ہے مثلاً وکیل یا تاجر پیشہ لوگ ہیں یا صنعت کار ہیں جو ملک کی اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں.اگر اور جب اللہ تعالیٰ اُن کے رزق میں فراخی کے غیر معمولی سامان پیدا کر دے (میری دعا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسا ہی کرے) تو وہ نسبت سے ادا ئیگی کا انتظار نہ کریں بلکہ تنگی میں پڑے بغیر جتنا زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہوں، دے دیں.اس طرح ہمارے کام شروع ہی سے تیز سے تیز تر ہوتے چلے جائیں گے اور ہمارا یہ جو منصوبہ ہے جس کی کامیابیوں کی شکل اللہ تعالیٰ کی

Page 465

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۴۵ خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۷۴ء رحمتوں کے نتیجہ میں سولہ سال بعد ظاہر ہوتی ہے، اس میں عظمت اور شان پیدا ہوتی چلی جائے گی.ہم نے اپنے خون اور پسینے کی کمائی سے ، ہم نے اپنے جذبات کی قربانیوں سے، ہم نے اپنی جانوں کی قربانیوں سے اور ہم نے دنیا والوں سے دُکھ اُٹھا کر خدا تعالیٰ کے حضور سب کچھ پیش کرنے کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا کرنے ہیں.اس لئے ہماری جو ذمہ داریاں ہیں وہ کسی وقت بھی ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہئیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی بشارتیں پوری ہوں اور اس کی رحمتیں ہم پر نازل ہوں.ہم عاجز بندے ہوتے ہوئے بھی پورے وثوق اور توکل کے ساتھ یہ امید رکھتے ہیں کہ جتنی ہماری کوشش ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اس سے ہزار گنا، لاکھ گنا بلکہ کروڑ گنا زیادہ نتائج نکال دے گا اور ایسا ہی ہوگا انشاء اللہ تعالی.یہ ایک منصوبہ ہے اور بڑا پھیلا ہوا منصوبہ ہے اس لئے اس کا حساب رکھنے کی بھی شروع ہی سے فکر کرنی چاہیے.اس کے لئے ابھی باقاعدہ دفتر تو نہیں کھلا لیکن میں نے ایک دوست کو اپنے ساتھ معاون کے طور پر لگایا ہوا ہے اُن کو میں نے یہ ہدایت کی ہے کہ جس طرح لائبریری میں کتب کے کارڈ ہوتے ہیں اسی قسم کی کیبنٹ (چھوٹی سی الماریاں ) بنا کر شروع ہی سے اس میں اپنا پورا ریکارڈ رکھیں مثلاً کراچی ہے.یہ ک" کے نیچے آجائے گی اور پھر اس کے نیچے حروف تہجی ہی کے لحاظ سے دوستوں کے نام آجائیں گے.اس طرح ریکارڈ مکمل ہو جائے گا.اگر شروع ہی سے حساب باندھ دیا جائے تو آسانی رہتی ہے لیکن اصل جو ریکارڈ ہے حساب وغیرہ رکھنے کا یا رجسٹر وغیرہ مکمل کرنے کا اس کا انتظام ضلع کی جماعتوں کو کرنا چاہیے.اگر ضلعی نظام سہولت سے ایسا کر سکے تو انہیں ضرور کرنا چاہیے اگر نہ کر سکے تو پھر بڑی جماعتوں کو آزادانہ طور پر یہ کہا جائے کہ جس طرح وہ دوسرے چندوں کے حساب رکھتے ہیں اسی طرح یہ حساب بھی رکھیں لیکن نگرانی ضلعی نظام کرے تا کہ حسابات شروع سے بالکل صاف اور ستھرے ہوں.کسی وقت بھی ہمیں یہ پریشانی نہ ہو کہ دس پندرہ دن تک پانچ سات آدمی لگیں گے تب حساب کی صحیح شکل ہمارے سامنے آئے گی.پس جس طرح شروع ہی سے حساب باندھا جاتا ہے (اور اس میں بھی انسانی عقل کافی ترقی کر چکی ہے ) اس طرح اس کا بھی حساب رکھا جائے اور یاد دہانیاں کرائی

Page 466

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۴۶ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۷۴ء 66 جائیں ذکر کے حکم کے ماتحت لوگوں کے دلوں میں بشاشت پیدا کی جائے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق اور جماعت کو اُن کی قربانیوں اور ایثار کی طرف توجہ دلائی جائے حکمت کے ساتھ اور اسی طرح انہوں نے خدا کی راہ میں جو تکالیف برداشت کرنی ہیں وہ بھی ان کے سامنے لائی جائیں اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو بشارتیں دی ہیں وہ بھی اُن کو بتائی جائیں تا کہ دل میں بشاشت اور انشراح صدر پیدا ہو.حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عظیم مہم ہے جو آسمانوں سے چلائی گئی ہے.یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا نہ احمدیت کے باہر کوئی اس کا تصور کر سکتا ہے اور نہ احمدیت کے اندر خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی اس کا تصور کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم منصو بہ بنایا اور اس نے جماعت احمد یہ جیسی کمزور جماعت کو کھڑا کر کے کہا کہ میں تجھ سے یہ کام لوں گا.غلبہ اسلام کا یہ منصوبہ اتنا بڑا منصوبہ ہے کہ نوع انسانی میں اتنا بڑا اور کوئی منصوبہ نہیں ہے اس لحاظ سے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نوع انسانی کے لئے جن برکات کا سامان پیدا کیا گیا تھا ان برکات کو ہر فرد بشر تک پہنچانا ہے اور کامیابی کے ساتھ ان کے دل کو جیتنا ہے یعنی یہ وہ منصوبہ ہے جس کی ابتدا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود سے ہوئی اور جس کی انتہا بھی آپ ہی کی قوت قدسیہ اور روحانی برکات کے ساتھ مہدی معہود کے ذریعہ مقدر ہے.پس یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جو دنیا میں تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کے لئے جاری کیا گیا ہے.انسان جب اس کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کا سر چکرا جاتا ہے.اگر ہمیں خدا تعالیٰ کا پیار نہ ملتا اگر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو اپنی زندگیوں میں مشاہدہ نہ کرتے اور اگر ہمارے دماغ میں یہ خیال نہ ہوتا کہ ہم دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت ہی سے جیت سکتے ہیں تو ہم بھی خود کو پاگل سمجھنے لگتے لیکن اللہ تعالیٰ کے جس پیار کے نمونے ہم نے اپنی زندگیوں میں خود اپنے وجود میں مشاہدہ کئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اور اس علم حقیقی کے حصول کے بعد کہ اللہ تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک ہے اور تمام خزانوں کا مالک ہے اور حکم اسی کا چلتا ہے اور وہ اپنے حکم پر اور اپنے امر پر غالب ہے.ہم اس علم ومعرفت

Page 467

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۴۷ خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۷۴ء کے بعد اپنی کمزوری اور عاجزی پر نگاہ ڈالنی چھوڑ دیتے ہیں.ہم آسمانوں کی طرف اپنی نگاہ کو اٹھاتے اور اس قادر و توانا خدا کی قدرتوں کے متصرفانہ جلوے دیکھ کر خدا پر توکل کرتے ہوئے اعلان کر دیتے ہیں کہ ایسا ہو جائے گا.ورنہ ہم کیا اور ہماری طاقت کیا ؟ بظاہر یہ ناممکن ہے لیکن خدا نے آج آسمانوں پر یہی فیصلہ کیا ہے کہ اس کی تقدیر سے یہ بات بظاہر ناممکن ہونے کے باوجود بھی ممکن ہو جائے گی اور دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لئے جائیں گے.ایک نیا دورنئی صدی میں شروع ہونے والا ہے.میں نے بتایا ہے پہلی صدی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے ہے اور دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے.اب یہ صدی اور آئندہ آنے والی صدیاں مہدی معہود کی صدیاں ہیں کسی اور نے آکر نئے سرے سے اشاعت اسلام کے کام نہیں سنبھالنے یہ مہدی ہی ہے جو اسلام کی اس نشاۃ ثانیہ میں ، اسلام کے جرنیل کی حیثیت میں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محبوب روحانی فرزند کی حیثیت میں دنیا کی طرف بھیجا گیا ہے جماعت احمدیہ کی پہلی صدی بھی اسلام کے جرنیل کی حیثیت سے مہدی معہود کی صدی ہے اور دوسری صدی بھی مہدی معہود کی صدی ہے جس میں اسلام غالب آئے گا اس کے بعد تیسری صدی میں تھوڑے بہت کام رہ جائیں گے اور وہ جیسا کہ انگریزی میں ایک فوجی محاورہ ہےMoppling up operation ( یعنی جو چھوٹے موٹے کام رہ گئے ہوں اُن کو کرنا) جب تیسری صدی والے آئیں گے وہ خود ہی ان کاموں کو سنبھال لیں گے لیکن ہم جن کا تعلق پہلی اور دوسری صدی کے ساتھ ہے کیونکہ میرے سامنے اس وقت بھی جو چھوٹی سی جماعت کا ایک حصہ بیٹھا ہوا ہے اُن میں سے بہت سے وہ ہوں گے بلکہ میرا خیال ہے یہاں بیٹھنے والوں کی اکثریت وہ ہو گی جو اسی دلیری اور شجاعت اور فرمانبرداری اور ایثار کے جذبہ کے ساتھ پہلی صدی کو پھلانگتے ہوئے دوسری صدی میں داخل ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے حضور دینی قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں گے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے کہ اسلام کے غلبہ کے لئے دوسروں کے دلوں میں بھی کوئی شک اور شبہ نہیں رہا.

Page 468

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۴۸ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۷۴ء ہمارے دلوں میں تو آج بھی نہیں ہے لیکن دنیا کی اکثریت بلکہ مسلمانوں کی اکثریت بھی اس شبہ میں ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اسلام ساری دنیا پر غالب ہو جائے.اُن کو یہ نظر نہیں آرہا کہ اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں.ہم خدا کی رحمت سے مہدی معہود کے زمانے کو پانے اور آپ کو شناخت کرنے والے ہیں، ہمیں یہ نظر آ رہا ہے اُن بشارتوں کو پورا ہوتے دیکھ کر جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے دی گئی ہیں اور خدا کے اس سلوک کو دیکھ کر جو اس کا جماعت سے ہے اور خدا تعالیٰ کے ان معجزات کو دیکھ کر جو ہمارے بڑوں اور ہمارے چھوٹوں نے دیکھے ہیں اور جو ہمارے مغرب اور ہمارے مشرق اور ہمارے شمال اور ہمارے جنوب میں ظاہر ہورہے ہیں ہم علی وجہ البصیرت اس مقام پر کھڑے ہیں کہ غلبہ اسلام کا زمانہ آ گیا اور یہ زمانہ مہدی معہود کا زمانہ ہے اور وہ صدی جس میں عملاً اسلام دنیا میں غالب آنا شروع ہو جائے گا، وہ شروع ہونے والی ہے اس سے پہلی ( یعنی موجودہ ) صدی میں اسلام کے عظیم محل اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم قلعے کی عمارت کو بنانے کے لئے جن مضبوط بنیادوں کی ضرورت تھی وہ تیار ہوتی رہیں.اب صدی ختم ہورہی ہے.قریباً سولہ سال باقی رہ گئے ہیں.گویا پہلی صدی میں قربانیاں دینے کے لحاظ سے ایک آخری دھکا لگا نا رہ گیا ہے اس کے لئے یہ ۱۶ سالہ سکیم بنائی گئی ہے تا کہ اسلام کے غلبہ کے سامان جلد پیدا ہوں.پس اسلام تو انشاء اللہ خدا کے فضل اور اس کی رحمت سے ساری دنیا پر غالب آئے گا.دوسرے مذاہب اسلام کے عالمگیر غلبہ کا ابھی احساس نہیں رکھتے البتہ اپنی موت کا احساس ان کے اندر پیدا ہو گیا ہے اگر دوسرے سارے مذاہب نے مٹ جانا ہے اور اگر اسلام نے بھی غالب نہیں آنا تو پھر دنیا سے مذہب مٹ جائے گا اور اس کی جگہ دہریت آجائے گی جو لوگ اس وقت دہر یہ ہیں وہ اسی زعم میں ہیں.اُن کا یہ خیال ہے کہ اب وہ دنیا پر غالب آجائیں گے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی بہت بڑی مادی اور فوجی طاقت ان کے ہاتھ میں ہے اور دنیا کی مجموعی دولت کا ایک بڑا حصہ ان کے پاس ہے اس لئے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت کی وجہ سے اور اپنی دولت کے نتیجہ میں دنیا پر غالب آجائیں گے مگر ہم جو ایک کمزور جماعت کی طرف منسوب

Page 469

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۴۹ خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۷۴ء ہونے والے ہیں ان کی باتوں کو سنتے اور ان کی جہالت پر مسکراتے ہیں کیونکہ ساری دنیا کی مادی طاقتیں اور مادی دولتیں مل کر بھی اللہ تعالیٰ کی طاقت کے مقابلہ میں ایک سکینڈ کے لئے بھی کھڑی نہیں ہوسکتیں.غلبہ اسلام کا یہ منصوبہ جو صدیوں پر پھیلا ہوا نظر آتا ہے یہ اتنا لمبا اس لئے نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک سیکنڈ میں ایسا نہیں کر سکتا تھا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر میں ساری دنیا کو دین واحد پر جمع کرنا چاہتا تو اس کے لئے میرا حکم دینا کافی تھا لیکن خدا تعالیٰ نے چاہا کہ وہ بندوں کو ایک مخصوص دائرہ کے اندر آزاد چھوڑ دے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ وہ رضا کارانہ طور پر دوڑتے ہوئے اس کی طرف آئیں اور محبت الہیہ کو حاصل کریں اور اس طرح وہ اُس شلجم سے کہیں زیادہ اللہ کے مقرب بن جائیں جو ایک ترکاری ہے اور خدائی مشیت کے تحت خدا کی رحمت کو حاصل کرتی ہے.ظاہر ہے شلجم کے اندر جو غذائی خاصیتیں ہیں اُن کو اس نے اپنے زور سے حاصل نہیں کیا خدا نے کہا کہ شلجم کے اندر یہ یہ خاصیتیں پیدا ہو جا ئیں وہ پیدا ہوگئیں اب اگر انسان کی بھی یہی حالت ہوتی اگر وہ بھی ایک ”کن“ کے حکم پر جبراً مسلمان ہو جاتا ہے یعنی جس طرح شلجم پر جبر ہے خدا کی طاقت نے اس کو پکڑا اور کہا کہ تو میری معین کردہ حدود سے باہر نہیں جا سکتا یا مٹر ہے یا جانوروں میں سے مثلاً گھوڑا ہے یا بیل ہے یا اونٹ ہے یا سمندری جانور ہیں یا درخت ہیں پھلدار اور دوسرے کام آنے والے یا سمندر ہیں دریا ہیں یا فضا ہے.سورج ہے اور اس کی روشنی ہے یہ سب قانونِ قدرت میں بندھے ہوئے ہیں لیکن اپنے اپنے دائرہ میں بندھے ہوئے ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کر رہے ہیں.اگر حی و قیوم خدا اُن پر اپنی رحمت کا سایہ نہ ڈالے رکھتا تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی ان کا زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا لیکن جو رحمت اس نے انسان کے لئے مقرر کر رکھی ہے اس میں اور اس رحمت میں جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے زمین اور آسمان کا فرق ہے ایک وہ رحمت ہے جو خدا کی رضا کے حصول کے لئے انسان کی رضا کارانہ اور عظیم اور مقبول جدو جہد کے نتیجہ میں آسمانوں سے نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے پیار اور محبت کے ساتھ اپنے بندہ کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے.اس رحمت کا مقابلہ دوسری رحمتوں کے ساتھ جن کے مورد عموماً نباتات اور جانور وغیرہ ہوتے ہیں نہیں ہوسکتا.گویا اس

Page 470

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۵۰ خطبہ جمعہ یکم فروری ۱۹۷۴ء حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس دنیا میں ہر وہ وجود جو نظر آتا ہے.کبھی موجود ہوا.اب ہے یا آئندہ ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر نہ تو وجود میں آسکتا تھا، نہ نشو و نما حاصل کر سکتا تھا اور نہ وہ فائدہ مند چیز بن سکتا تھا لیکن یہ اور قسم کی مربیانہ رحمتیں ہیں جو اس کا ئنات کی ہر چیز میں نظر آتی ہیں.انسان کے لئے ابدی رحمت مقدر ہے اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا تھا کہ وہ اس کی عبادت میں ہمہ تن مشغول رہ کر اس کی رحمتوں سے حصہ لے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایک لمبا عرصہ تک ایسے سامان پیدا کئے کہ انسان ارتقائی مدارج طے کرتا ہوا اس دور میں داخل ہو جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مقدر تھی اور جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد اور مشن پورا ہونا تھا اور جس کی انتہا اس بات پر ہونی تھی کہ دنیا کا ہر انسان اپنے خدا کی معرفت حاصل کر چکا ہو اور اس کی رحمت سے ، اس کے پیار سے، اس کی رضا سے، اس دنیا میں بھی اور اس (آخری) دنیا میں بھی اس کی جنتوں سے حصہ لینے والا ہو.پس بڑا عظیم کام ہے جو ہونا ہے.بڑا عظیم کام ہے جس کی تکمیل کے لئے اس کی ساری عظمتوں کے باوجود میرے اور تمہارے جیسے کمزور کندھوں کو چنا گیا ہے ہمیں اس کے لئے قربانیاں دینی ہیں.یہ ہمارا کام ہے ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم اس وقت خدا کے حضور پیش کرتے ہیں وہ فی ذاتہ کوئی چیز نہیں کیونکہ اسلام کے مخالفین میں سے ایک ایک آدمی اسلام کے خلاف چلنے والی مہموں کے لئے بسا اوقات پانچ پانچ کروڑ روپے دے سکتا ہے.پس سوال پانچ کروڑ روپے کا نہیں یا دس کروڑ روپے کا نہیں ، سوال تو یہ ہے کہ کس اخلاص کے ساتھ ، کس جذبہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کس پیار کے نتیجہ میں اور وفا کے کس جذبہ کے ساتھ ہم نے اپنی حقیر قربانیاں اس کے حضور پیش کیں جسے قبول کر کے اس نے اپنی قدرت کی تاروں کو ہلایا اور دنیا نے یہ سمجھا کہ جماعت احمدیہ نے یہ قربانیاں دیں اور اسلام غالب آیا حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کا وجود اپنی تمام قربانیوں کے باوجود ایک ذرہ ناچیز سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے اس مادی دنیا میں تدبیروں میں چھپے ہوئے ظاہر ہوتے ہیں اس نے ایک تدبیر کی اور اس کی تدبیر ہی ہمیشہ غالب آیا کرتی ہے.اس کے مقابلے میں جو تدابیر کی جاتی ہیں وہ غالب نہیں آیا

Page 471

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۵۱ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۷۴ء کرتیں.پس دعاؤں کے ساتھ، قربانیوں کے ساتھ ، ایثار کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکتے ہوئے ہم نے اشاعت اسلام کے اس عظیم منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا ہے.اس سلسلہ میں میرے ذہن میں کچھ نفلی عبادتیں بھی ہیں.محض پانچ کروڑ روپے کی تو خدا کوضرورت نہیں اور نہ ہی اس کو نوافل کی ضرورت ہے لیکن ہمیں ہر چیز قربان کرنے کی ضرورت ہے اس لئے جہاں تک نفلی عبادتوں کا سوال ہے اس کے متعلق انشاء اللہ میں اگلے خطبہ میں بتاؤں گا کہ اس عرصہ ( یعنی ۱۶ سال) میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کرنے کے لئے ہمیں کیا کیا اور کتنی کتنی نفلی عبادتیں کرنی چاہئیں.غرض ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں مالی قربانیوں کی بھی توفیق دے اور نفلی عبادتوں کی بھی توفیق دے اور پھر اپنے عاجز بندوں کی ان نہایت ہی حقیر کوششوں کو قبول فرماتے ہوئے اپنے وعدہ کے مطابق نہایت ہی عظیم الشان نتائج نکال دے.خدا کرے ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۱۰ فروری ۱۹۷۴ ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 472

Page 473

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۵۳ خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۷۴ء جماعت احمدیہ کا ہر قدم دنیا کی ہر جہت میں غلبہ اسلام کی طرف اُٹھ رہا ہے خطبه جمعه فرموده ۸ فروری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے تسبیح و درود پر مشتمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ الہامی دعا پڑھی:.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ.پھر حضور انور نے یہ ادعیہ پڑھیں.أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَآتُوبُ إِلَيْهِ - رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ.(البقرة : ۲۵۱) اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ - پھر حضور انور نے فرمایا:.انسان آج ہلاکت کے کناروں پر کھڑا ہے اور انسانیت خطرہ میں ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو حسن اعظم ہیں جو محافظ انسانیت ہیں، جو رَحْمَةٌ لِلعلمین ہیں.آپ کی رحمت کے سایہ تلے آئے بغیر آج انسان اس ہلاکت سے جو اُس کے سامنے کھڑی ہے بیچ نہیں سکتا اور جیسا کہ بتایا گیا تھا یہ زمانہ وہ ہے جس میں انسانیت کی جنگ شیطنت سے اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے.یہ

Page 474

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۵۴ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۷۴ء زمانہ وہ ہے جس میں نور کی طاقتوں نے ظلمات کے ساتھ ایک آخری اور نہایت شدید جنگ لڑ کر ظلمت کو دنیا سے ہمیشہ کے لئے مٹا دینا ہے.یہ وہ زمانہ ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم مہم جو چودہ سو سال سے شروع ہے وہ اپنے آخری ارتقائی دور میں سے گزرتی ہوئی ساری دنیا پر غالب آکر استحصال کے لئے نہیں، انسانوں کی بھلائی اور خیر کے لئے اُن کے دلوں کو جیت کر اللہ تعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں.جس کا کوئی بیٹا نہیں اور نہ کوئی باپ.جس کا کوئی ہمتا نہیں.جو اپنی تمام صفات میں لگا نہ اور یکتا ہے.وہ پیار کرنے والا ہے اپنے بندوں سے.انتہائی پیار کرنے والا.جس نے انسان کو اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا.انسان کو عبد کی حیثیت سے اور انسانیت کو اپنی تمام صفات کے ساتھ اور تمام طاقتوں کے ساتھ جو اُس میں پیدا کی گئی ہیں اکٹھا کر کے، اُمتِ واحدہ بنا کر خدائے واحد و یگانہ کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.یہ وہ زمانہ ہے جس میں یہ کوشش شروع ہو چکی ہے مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ ، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آسمانی نزول کے ساتھ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُن روحانی برکتوں کے ساتھ جن کا وعدہ اِس مسیح اور اس مہدی کو دیا گیا تھا.اُس پیار کے ساتھ جس پیار سے اس پاک فرزند محمد کا وجود بھرا ہوا ہے.یہ مہم شروع ہو چکی ہے.ایک صدی گزرنے والی ہے.صدی کی انتہا پندرہ سال اور ایک ڈیڑھ ماہ تک ہونے والی ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے ، اُس سے دعائیں کرنے کے بعد ، اُسی کی دی ہوئی توفیق سے ایک منصوبہ جماعت احمدیہ کے سامنے رکھا گیا ہے.یہ منصوبہ ہے انسان کے دل کو جیت کر خدا کے ساتھ ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم کرنے کا.یہ منصوبہ ہے ہر انسانی دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو پیدا کرنے کا.اس کے بہت سے پہلو ہیں جن کا اجمالاً میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر ذکر کیا تھا اور اس منصو بہ کو چلانے کے لئے اپنی سمجھ کے مطابق مالی قربانیوں کی میں نے تحریک کی تھی.جیسا کہ میں نے پچھلے جمعہ میں بتایا تھا اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور جو کم سے کم میری تحریک کی رقم تھی یعنی اڑھائی کروڑ روپیہ، وعدے اس سے بڑھ چکے ہیں.پچھلے جمعہ تک تین کروڑ اور تیس لاکھ سے زائد کے وعدے وصول ہو چکے تھے اور جو میرے، اس عاجز بندے کے نزدیک بڑی سے بڑی رقم کی اُمید کی جاسکتی تھی یعنی پانچ کروڑ رو پید،

Page 475

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۵۵ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۷۴ء اُس کے اور کم سے کم یعنی اڑھائی کروڑ کے درمیان اس رقم کے وعدے پہنچ گئے.اب تو میرا خیال ہے چار کروڑ کے قریب و عدے پہنچے ہوئے ہوں گے.بہر حال جو حالات اس وقت نظر آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اس پیاری جماعت کے دل میں خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی جو محبت پیدا کی گئی ہے اُسے دیکھتے ہوئے کوئی بعید نہیں کہ یہ رقم پانچ اور دس کروڑ کے درمیان کہیں پہنچ جائے.شاید پانچ کی نسبت دس کروڑ سے زیادہ قریب.جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی دی جاتی ہے اور دی جاسکتی ہے.جہاں تک دینے والوں کی نیتوں کا سوال ہے بعض دفعہ سوچتے سمجھتے ہوئے بھی نیت میں خلوص نہیں ہوتا.بعض دفعہ جہالت کی وجہ سے انسان بعض ایسے کام کر جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے ہوتے ہیں اور قربانیاں قبول نہیں کی جاتیں بلکہ واپس دینے والے کے منہ پر مار دی جاتی ہیں.ایسا بھی ہو جاتا ہے جیسا کہ میں نے نصرت جہاں کے منصوبہ کے وقت جماعت کو یہ کہا تھا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا اور کیسے آئے گا.مجھے یہ فکر نہیں کہ ڈاکٹر ز جن کی ضرورت ہے یا پروفیسر ز اور لیکچررز جن کی ضرورت ہے وہ کہاں سے آئیں گے اور کیسے آئیں گے.جب خدا تعالیٰ نے اپنی منشا کو ظاہر کیا تو وہ یہ سامان بھی پیدا کر دے گا.جو مجھے اور آپ کو فکر ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ جو حقیر قربانی ہم اُس کے حضور پیش کریں اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر فرد واحد کی قربانی کو قبول کرے اور اس کے نتیجہ میں جو اُس کی رحمت اور پیار کے جلوے انسان دیکھتا ہے وہ پیار اور رحمت کے جلوے ہم میں سے ہر شخص پر ظاہر ہوں.یہ فکر کرنی چاہیے.اس کے لئے دُعاؤں کی ضرورت ہے.بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.پس ایک منصوبہ تو اپنی سمجھ کے مطابق بنا یا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے.جماعت نے بحیثیت مجموعی بڑی قربانی کا ارادہ اور عزم کیا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو بحیثیت جماعت اور ہر فرد جماعت کو انفرادی حیثیت میں اپنی رحمتوں کی چادر میں لپیٹ لے لیکن ہم میں سے ہر ایک کے لئے خوف کا مقام ہے اور دعاؤں کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے تضرع کے ساتھ ، عاجزی کے ساتھ بہت دعائیں کرنے کی ضرورت ہے پھر جو منصوبہ، ایک کوشش ایک جدو جہد اور

Page 476

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۵۶ خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۷۴ء ایک جہاد کا بنایا گیا ہے اس کے بہترین نتائج نکلنے کے لئے آسمانی طاقت کی ضرورت ہے اور یہ طاقت بھی جو آسمان سے آتی اور زمین کی ہر مخالفت کو پاش پاش کر دیتی اور مٹادیتی ہے اس آسمانی طاقت کے حصول کے لئے بھی انتہائی عاجزی کی ضرورت ہے.تضرع کی ضرورت ہے ہر وقت دعاؤں کی ضرورت ہے.پچھلے خطبہ میں میں نے آپ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ دعاؤں کا بھی ایک پروگرام اگلے خطبہ میں ( یعنی جو آج میں دے رہا ہوں) آپ کے سامنے رکھوں گا.اس کے متعلق اس عرصہ میں بھی اور پہلے بھی میں نے دعا ئیں بھی کیں اور میں نے سوچا بھی جو میں چاہتا ہوں جو میری خواہش ہے جو میں سمجھتا ہوں اپنے مقصد میں کامیابی کی خاطر اور اپنی قربانیوں کے جو کہ حقیر سی قربانیاں ہیں ان کے بہترین نتائج نکالنے کی خاطر جن عاجزانہ دعاؤں کی یا دیگر عبادات کی ہمیں ضرورت ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھوں.جماعت میں کچھ کمزور بھی ہیں اور طاقت ور بھی ہیں.کمزور ا پنی تربیت کے لحاظ سے بھی ہیں بڑے بھی ہیں اور چھوٹے بھی ہیں اور سب کو ( یعنی طفل کی عمر تک کو ) میں عبادات کے اس منصوبہ میں شامل کرنا چاہتا ہوں.مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی ہیں.بعض ایسی نفلی عبادتیں ہیں.( میں اس وقت نفلی عبادتوں کا ذکر کروں گا) بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ بعض عبادتیں کرنے کے قابل نہیں ہیں.بعض ایسے ہیں کہ جتنی میں نے کم سے کم حد مقرر کی ہے اس سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں.ان ساری چیزوں کو سامنے رکھ کر ایک سمویا ہوا درمیانہ درجہ کا مطالبہ میں نفل عبادات کے سلسلہ میں اپنے بھائیوں اور اپنی بہنوں ، اپنے بزرگوں اور اپنے بچوں کے سامنے اس وقت رکھنا چاہتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ اس منصوبہ لئے آسمان پر برکات کے حصول کے لئے جماعت کو روزے بھی رکھنے چاہئیں اور اس کے لئے میرے ذہن میں یہ تجویز آئی ہے کہ یہ جو اس منصوبہ کے کم و بیش ایک سواتی ماہ ہیں ان میں ہر ماہ ایک روزہ ہر احمدی جو روزہ رکھنے کے قابل ہے روزہ رکھے.اس طرح قریباً ایک سواتی روزے بن جائیں گے ( پندرہ سال کے اور جو ابھی دو ماہ رہتے ہیں وہ بیچ میں شامل ہو جائیں گے لیکن بعض لوگوں کو اطلاع دیر سے پہنچے گی اس لئے میں نے پندرہ سال پر

Page 477

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۵۷ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۷۴ء ہی اپنے حساب کی بنیا درکھی ہے ) ہر احمدی جو روزہ رکھ سکتا ہے اور آج بھی روزہ رکھنے کی اہلیت اور طاقت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی عمر میں برکت ڈالے اور اُس کی صحت میں برکت ڈالے.آئندہ پندرہ سال تک وہ روزہ رکھنے کی طاقت پاتا رہے.ہر وہ احمدی ایک شورشی روزے اس نیت کے ساتھ کہ ان روزوں میں وہ اس منصوبہ کی کامیابی کے لئے یعنی غلبہ اسلام کے لئے نوع انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے انسانیت جو ہمیں اس وقت خطرہ میں نظر آ رہی ہے اس خطرہ سے اُسے نکالنے کے لئے وہ یہ روزہ رکھے گا اور ان روزوں میں وہ اُن تمام شرائط کو ملحوظ رکھے گا جو فرض روزوں کے متعلق اسلام نے قائم کی ہیں.میں نے سوچا اور اندازہ لگایا کہ اگر پانچ لاکھ ایسے احمدی مرد اور عورتیں اور وہ بچے جو روزہ کی عمر کے قابل ہیں ایسے صحت مند پانچ لاکھ افراد مل جائیں تو اس منصوبہ کے زمانہ میں نو کروڑ روزے رکھے جائیں گے.اگر آپ کی مالی قربانیاں ساڑھے چار کروڑ تک پہنچیں تو آپ اپنی مالی قربانی کے ہر روپے میں برکت کے پیدا کرنے کے لئے آپ خدا تعالیٰ سے فی روپیہ دوروزے رکھ کر دعائیں کر رہے ہوں گے اور اگر آپ کی مالی قربانی نو کروڑ تک پہنچے تو فی روپیہ ایک روزہ رکھ کے آپ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہے ہوں گے کہ اے خدا! یہ مال ہم تیرے حضور پیش کر رہے ہیں اسے قبول فرما اور اپنی ساری برکتیں اس مال کے اندر ڈال دے کیونکہ تیرے نام کو بلند کرنے کے لئے اور تیرے پیدا کردہ انسان کو تیری طرف واپس لانے کے لئے یہ ساری مہم جاری کی گئی ہے.پس ہر ماہ میں ایک روزہ رکھنا ہے میں دن کی تعیین نہیں کرنا چاہتا کیونکہ دن کی تعیین روزوں میں پسندیدہ نہیں سمجھی گئی لیکن ایک اجتماعی کیفیت بھی پیدا کرنا چاہتا ہوں اس لئے میں نے یہ سوچا کہ میں دن کی تعیین کئے بغیر جماعت سے یہ توقع رکھوں کہ ہر ماہ کے آخری ہفتہ میں ہر شہر، گاؤں ، قصبہ یا محلہ میں جیسا آپ چاہیں ایک دن مقرر کر لیا کریں یعنی ایک تاریخ مقرر کر لیا کریں اور اُس تاریخ کو حتی الوسع اس دائرہ میں ( محلے میں یا قصبہ میں یا شہر میں ) ساری جماعت روزہ رکھے اس طرح ہر ماہ کا آخری ہفتہ قریباً سارا ہی روزہ کا ہفتہ بن جائے گا.اگر چہ ایک روزہ رکھا جائے گا لیکن کسی تاریخ کو کسی مقام پر کسی دوسری تاریخ کو کسی اور مقام پر سارا ہفتہ ہی اللہ

Page 478

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۵۸ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۷۴ء کے حضور گڑ گڑا کر عاجزانہ دعائیں کرنے کا موقع مل جائے گا کہ روزے کے اندر دعا بھی شامل ہے.روزہ حقیقتاً ہے ہی دُعا.اور پھر تلاوت قرآن کریم ہے.میں نے کہا ہے کہ روزے کی شرائط اختیار کی جائیں.روزے میں صدقات کی طرف توجہ کرنا بھی شامل ہے اور بہت سی شرائط ہیں.ان تمام شرائط کے ساتھ ایک روزہ آدمی رکھے.عام طور پر بھوکے کا خیال رکھے.ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کی طرف توجہ ہو.وہ دن ایسا ہو جس میں اگر روزانہ ایک شخص مثلاً ایک رُبع کی تلاوت کرتا ہے تو اُس دن ایک سپارہ کی کرے ایک سپارہ کی تلاوت کرنے والا اُس دن دو تین سپاروں کی تلاوت کرے.اور اگر اس طرح کیا جائے اس نیت کے ساتھ کہ اس منصوبہ میں خدا سے ہم نے برکت حاصل کرنے کے لئے ایک عاجزانہ سعی اور جہاد کرنا ہے.قرآنِ کریم کے بھی لاکھوں دور ہو جائیں گے.پس فی ماہ ایک روزہ مہینہ کے آخری ہفتہ میں کسی دن جس کا فیصلہ شہر یا محلہ یا قصبہ یا گاؤں کرے.(وہ دعاؤں کا دن ہے جس طرح رمضان کے آخر میں ہماری اجتماعی دعا ہوتی ہے) جس دن جو علاقہ مہینے کے آخری ہفتہ میں روزے کے لئے مقرر کرے اُس دن عصر کے بعد یا مغرب کے بعد جو بھی اُن کے لئے سہولت ہو وہ اپنے علاقے کی ، اپنے حلقے کی ، اپنے گاؤں کی ، اپنے قصبے کی ، اپنے محلے کی اجتماعی دعا کا بھی انتظام کریں.اور اپنی زبان میں جو ہم نے دُعائیں کرنی ہیں ( علاوہ ان دعاؤں کے جن کا میں ابھی ذکر کروں گا ) خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اُس سے مانگیں.اپنی عاجزی کے پورے احساس کے ساتھ کہ اے خدا! اتنا بڑا بوجھ تو نے ہم پہ ڈالا اور اتنے کمزور ہم انسان ہیں اور بشری کمزوریاں بھی ساتھ لگی ہوئی ہیں اور علمی کمزوریاں بھی ہیں.جسمانی طاقت کے لحاظ سے بھی کمزور یاں ہوتی ہیں.پوری طاقت تو شاید لاکھ میں سے ایک بھی آدمی ایسا ہو گا جس کو سو فیصد جو اُس کی صحت کا معیار ہونا چاہیے اپنی اندرونی طاقتوں کے لحاظ سے وہ اُسے حاصل ہو.کبھی ہوا چلتی ہے تو نزلہ ہو جاتا ہے.کبھی ٹھنڈ لگ جاتی ہے.کبھی گرمی پڑتی ہے تو ہیٹ سٹروک (Heat Strock) ہو جاتا ہے.موسم بدلتے ہیں تو ہمیں فائدہ بھی پہنچاتے ہیں.موسم بدلتے ہیں تو ہمیں دوسرے اسباق بھی دیتے ہیں.خدا کے حضور جھکیں اور خدا سے کہیں کہ اے ہمارے پیارے ربّ! تو نے ہمیں یہ کہا ہے کہ شیطان سے

Page 479

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۵۹ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۷۴ء انسان کی یہ آخری جنگ ہے اور یہ انسان جو آج تیرے مہدی معہود کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تیری طرف لوٹا اور تیرے قدموں پر آ کر گر گیا ہے یہ کمزور انسان ہے جوتُو نے منصوبہ بنایا ہے اُس سے تیری شان کے مطابق جو نتائج نکلنے چاہئیں تو ہماری تدبیروں میں وہی برکتیں ڈال دے.وَلَا فَخُر اور ہمیں کوئی فخر نہیں.فخر کر ہی نہیں سکتا انسان.یہی ہم نے سنتِ نبوی سے سیکھا اور یہی ایک حقیقت ہے.جیسا کہ میں نے کہا اگر پانچ لاکھ احمدی بڑا اور چھوٹا مرد و زن اس روزے کی طرف (جو میں تحریک کر رہا ہوں عبادات میں سے نمبر ایک) اس کی طرف توجہ کرے تو نو کروڑ روزے اس منصوبہ کے زمانہ میں رکھے جائیں گے.اور نو کروڑ دنوں میں اس کے لئے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور اجتماعی دعا ئیں ہوں گی.دوسری تحریک نوافل کی ہے یعنی با قاعدہ جس طرح نماز پڑھی جاتی ہے.نماز میں فرض بھی ہیں اور سنتیں بھی ہیں اور نوافل بھی ہیں.نوافل کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر احمدی جس پر نماز فرض ہے ( بعض تو ایسے بچے ہوتے ہیں جن کو شوقیہ اور شوق پیدا کرنے کے لئے اور نماز کی عادت ڈالنے کے لئے ہم نماز پڑھاتے ہیں ایک ایسی عمر ہے جہاں نماز فرض ہو جاتی ہے.تو ہر وہ احمدی بچہ یا بڑا یا عورت جن دنوں میں اس پر نماز فرض ہے.جس پر بھی نماز فرض ہے وہ دو رکعت نفل روزانہ پڑھے.اس منصوبہ میں برکت پیدا کرنے کے لئے دعائیں کرنے کی غرض سے اور روزوں کے متعلق میرا اندازہ پانچ لاکھ افراد کا تھا لیکن نفلوں کے متعلق میرا اندازہ دس لاکھ افراد کا ہے اور دس لاکھ احمدی اگر روزانہ دو نفل پڑھ رہا ہو تو فی روپیہ ( نو کروڑ رو پید اگر آ جائے اُس کے لحاظ سے فی روپیہ ) ایک سو بائیس نوافل بنتے ہیں.خدا تعالیٰ کے حضور جو ایک روپیہ قربانی کے لئے پیش کیا جائے ایک سو بائیس نوافل پڑھ کر دُعائیں کر کے پیش کریں تا کہ عاجزی کا اور نیستی کا احساس ہمارے دلوں میں پیدا ہو اور ہمیں محسوس ہو کہ روپیہ دینا فخر کی بات نہیں ہے کہ ہم نے ایک روپیہ دے دیا یا ایک لاکھ روپیہ دے دیا یا نو کروڑ روپیہ اجتماعی طور پر دے دیا اصل تو یہ کہ جب تک نیک نیتی کے

Page 480

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۶۰ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۷۴ء ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہوئے مالی قربانی نہیں کی جاتی وہ اپنے نتائج نہیں نکالا کرتی.تو روزہ ہر ماہ ایک اور نوافل ہر روز دو رکعت اور ان کا جو وقت ہے وہ عشاء سے لے کر صبح کی اذان کے درمیان یا نماز ظہر کے بعد کوئی وقت مقرر کر لیں.یہ انفرادی ہے سوائے اس کے کہ کہیں اکٹھے ہو کر بھی پڑھ لیں.مسجدوں میں جہاں تک ممکن ہولیکن بہر حال یہ انفرادی نوافل ہیں.جو بچے ہیں وہ بعض دفعہ تو عشاء کی نماز میں بھی اُونگھ رہے ہوتے ہیں.ان کو یہ کہنا کہ تم تہجد پڑھو یا نماز عشاء کے بعد نوافل پڑھو.یہ ان کو ایسی تکلیف دینا ہے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے لیکن ظہر کے بعد وہ دو رکعت نفل پڑھ سکتے ہیں.یہ دونفل اُن نوافل سے زائد ہیں جن کی پہلے سے کسی احمدی کو عادت ہے اور وہ نفل کی صورت میں پہلے سے پڑھ رہا ہے.اُن کو یہ دونفل زائد کرنے پڑیں گے.ذکر.( روزہ نفل نماز پڑھنا اور ذکر ) ذکر کے مختلف پہلو ہیں جن کو میں اس وقت بیان کر رہا ہوں ایک ہے ذکر.سورۂ فاتحہ کی تلاوت.سورۂ فاتحہ قرآنِ کریم کا نچوڑ بھی ہے اور خالی نچوڑ نہیں بلکہ.....اتنا حسن ہے اس اختصار میں اور اتنی تفصیل ہے اس اجمال میں اور اتنے پیار کی جھلک ہمیں نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ کے اس احسان میں کہ قرآنِ کریم کا خلاصہ ہمیں سورہ فاتحہ کی شکل میں دے دیا اور اتنی خوشبو ہے اس کی روحانیت میں کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے.پس سورۃ فاتحہ بہت بڑا ذ کر ہے ہم اسے بہت دفعہ پڑھتے ہیں.نماز کی ہر رکعت میں ہم پڑھتے ہیں لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ جتنی بار اب ہم پڑھ رہے ہیں اس سے زیادہ سات بار روزانہ ایک احمدی سورۂ فاتحہ کو پڑھے.اور اس کے مطالب پر غور کرے اور اس کے لئے میرا اندازہ ہے کہ اگر دنیا میں بسنے والے سب احمدی اس طرف توجہ کریں تو تیس لاکھ احمدی ایسا ہو گا جو سورہ فاتحہ سات بار روزانہ پڑھ سکتا ہے مگر اس میں میں یہ ضرور کہوں گا کہ ماں باپ اپنے گھر میں بچوں کو اکٹھی سات مرتبہ نہ پڑھا ئیں کیونکہ اس سے وہ اُکتا جائیں گے بلکہ دو دفعہ سے زیادہ کسی وقت نہیں.اپنے بچوں سے سورۂ فاتحہ پڑھائیں.جو چھوٹے بچے ہیں پانچ یا سات سال کے اور خدام الاحمدیہ کے قواعد کے مطابق ابھی اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں داخل نہیں ہوئے ان سے بھی پڑھا ئیں اور جو چھوٹے بچے

Page 481

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۶۱ خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۷۴ء ہیں اُن کی تعداد بے شک کم ہی ہو کیونکہ یہ اصل میں تو اُن کے لئے ہے جن پر نماز فرض ہو گئی وہ سات بار پڑھیں اور جو اپنی عمر کے لحاظ سے ایسا ہے جس پر نماز فرض نہیں ہوئی وہ اپنی طاقت کے مطابق جس کا فیصلہ اُس کے نگران یا ماں باپ یا بڑے بھائی نے کرنا ہے اگر وہ اس گھر میں ہے اور ماں باپ کہیں باہر گئے ہوئے ہیں.اگر تیس لاکھ آدمی سات بار سورۂ فاتحہ روزانہ پڑھیں تو جماعت کی مجموعی مالی قربانی کے فی روپیہ کے مقابلہ میں سورۂ فاتحہ کی ایک سو اٹھائیس مرتبہ تلاوت ہوگی یعنی فی پیسہ کے مقابلہ میں ایک دفعہ سے زائد سورہ فاتحہ جیسا عظیم اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھے اور اس دعا کے ساتھ ، بڑی عجیب دعا ہے کہ اے خدا! پیسہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر تیرے اس عظیم کلام کے صدقے سے ہم تجھ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے دھیلے میں تو برکت ڈال اور اس کے وہ نتائج نکال جو آج ہم کمزور بندے چاہتے ہیں کہ نکلیں اور اسلام ساری دنیا پر غالب آئے.یہ ذکر کا الف حصہ ہے.ب.دوسری بات جو میں چاہتا ہوں کہ اتنی تعداد میں احمدی تسبیح و تحمید اور درود پڑھنے والے ہوں اور اگر تیس لاکھ احمدی تینتیس بار سُبحَانَ اللَّهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ - موجودہ جو دور وہ کر رہے ہیں اس کے علاوہ تینتیس بار پڑھیں تو فی روپیہ جو ہم اللہ کے حضور پیش کر رہے ہوں گے تو اس کے مقابلہ میں اُس روپیہ میں برکت کی خاطر سات سو ستائیس دفعہ تسبیح تحمید اور درود پڑھ رہے ہوں گے.یہ نو کروڑ کے حساب سے ہے ورنہ ساڑھے چار کروڑ روپے اگر ہوں تو یہ چودہ سو سے او پر فی روپیہ ہو جائے گا.اصل روپیہ نہیں اصل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کرتے ہوئے اور محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے آسمانی برکات کے حصول کی کوشش کی جائے تاکہ ہمارا یہ منصوبہ کامیاب ہو.پس تسبیح وتحمید اور درود جیسا کہ میں نے ابھی خطبہ کے شروع میں پڑھا تھا اور پہلے بھی بڑی تعداد میں یہ پڑھا جا تا رہا ہے لیکن اب میں نے بتایا ہے کہ سب کچھ سوچ کر تعداد میں نے تھوڑی رکھی ہے کیونکہ بہت سی دُعا ئیں اس کے اندر آ گئیں.تینتیس بار سُبحَانَ اللَّهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ - پڑھنا ہے.

Page 482

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۶۲ خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۷۴ء ج.تیسرے نمبر پر استغفار اور تو بہ ہے.اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّ مِنْ كُلِ ذَنْبٍ وَ أَتُوْبُ إِلَيْهِ تینتیس بار روزانہ اُس گنتی سے زائد جس کی عادت اور جس کا دستور کسی شخص نے بنایا ہو.یہ زائد استغفار اور تو بہ کرنی ہے تا کہ جیسا کہ خطبہ میں میں نے ایک آیت قرآنی پڑھ کے آپ کو بتایا تھا کہ اس کے نتیجہ میں آسمانوں سے بارش کی طرح خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی اور خلوص نیت رکھنے والوں کی زبانوں پر جب استغفار اور تو بہ کے کلمات جاری ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف.۶۶ سے اُس شخص یا اس جماعت کو قوت کے بعد اور قوت دی جاتی ہے اور ایسا ہوتا ہی چلا جاتا ہے.د.چوتھے یہ کہ ربَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبِّتُ أَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اللهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ - یہ گیارہ بار پڑھی جائے کیونکہ پہلی جو ہے اُس کی عادت بھی ہے اور میرا اندازہ ہے کہ نو جوانوں نے بھی اپنا لیا ہو گا.اس میں میرا اندازہ ہے کہ تیس لاکھ احمدی شاید نہ پڑھ سکیں اس لئے میرا اندازہ ہے کہ کم از کم یہ سارے اندازے میرے کم از کم کے ہیں ) دس لاکھ احمدی مردوزن گیارہ باران دو دُعاؤں کو پڑھیں.ایک قرآن کریم کی اور ایک حدیث نبوی کی ہے اور اس طرح ہر روپیہ جو ہم خدا کے حضور پیش کریں گے.چھیاسٹھ بار ہم خدا سے یہ کہیں گے کہ اے خدا جو تیرے نام کو مٹانا چاہتی ہیں ان طاقتوں کے مقابلہ پر تیرے یہ عاجز بندے کھڑے ہوئے ہیں اور کمزور ہیں ہر لحاظ سے ہم نے ایک منصوبہ بنایا ہے.اس منصوبہ کے مطابق تیری محبت کو انسان کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن دشمن انسان کو وہ دشمن جو اے خدا! تیرا بھی دشمن ہے اور انسانیت کا بھی دشمن ہے تیرے انسان کو تجھ سے دور لے جانا چاہتا ہے.اس واسطے ہم تیرے حضور جھکتے ہیں اور بار بار جھکتے ہیں اپنی ایک مادی کوشش کے لئے چھیاسٹھ بار تیرے حضور جھکتے اور تجھ سے یہ طلب کرتے ہیں عاجزانہ طور پر تجھ سے مانگتے ہیں رگڑ گڑاتے ہیں تیرے حضور تڑپتے ہیں تیرے پاس آ کر کہ تو ہماری اس مادی قربانی کو قبول کر اور اس میں برکت ڈال اور ہمارے اس منصو بہ کو جو تیرے انسان کے فائدے اور اپنی روح کے فائدے اور تیری رضا کو حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اُسے تو کامیاب کر دے.پس ذکر کے اندر یہ چار پہلو ہیں.سورہ فاتحہ کا سات بار روزانہ پڑھنا.

Page 483

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۶۳ خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۷۴ء علاوہ اُس تعداد کے جو ہمارا معمول ہے.ہر ایک کا اپنا معمول ہوتا ہے.غور وفکر کرنے والے سورۂ فاتحہ کو ویسے بھی بار بار پڑھ رہے ہیں) اور سُبحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيم - اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آل مُحَمَّد - تینتیس بار روزانہ اور اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلِ ذَنْبٍ وَ اَتُوْبُ إِلَيْهِ تینتیس بار روزانہ پڑھنا اور رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ شَيْتُ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ - اَللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ.اس دعا کا گیارہ بار روزانہ پڑھنا یہ ذکر کے ماتحت ایک نفلی عبادت ہے.جو اس منصوبہ میں برکت ڈالنے کی خاطر اس وقت میں جماعت کے سامنے رکھ رہا ہوں.اس کے علاوہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا دو نفل روزانہ اور ہر ماہ میں ایک روزہ اُس طریق پر جو ابھی میں نے بتایا اور اُن شرائط پر جن کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ہدایت کے مطابق قائم کیا ہے.جس میں نوع انسانی کی دُنیوی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی شامل ہے.جس میں نوع انسانی کی اُخروی و روحانی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی شامل ہے.جس میں اپنے نفس کا خیال رکھنا بھی شامل ہے.یہ بنیادی طور پر تین شرائط مختلف شکلوں میں ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر غور کرنا.قرآنِ کریم پڑھتے وقت جو اللہ تعالیٰ کی صفات سامنے آتی ہیں ان پر غور کرنا.قرآن کریم پڑھتے وقت انسان کی صلاحیتیں یعنی جن طاقتوں اور صلاحیتوں اور استعدادوں کو لے کر انسان پیدا کیا گیا ہے وہ سامنے آتی ہیں ان کی نشو و نما کی ذمہ داری سامنے آتی ہے.قرآنِ کریم نے ان تمام صلاحیتوں کی نشوونما کے طریق بتائے ہیں.یہی چیز ہے جو ہم نے دنیا میں قائم کرنی ہے اور اسی غرض کے لئے اس منصو بہ کو بنایا گیا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا ذ کر کے عنوان کے ماتحت جن دعاؤں کا میں نے ذکر کیا ہے اُن کے علاوہ اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور تضرع کے ساتھ گڑ گڑاؤ اور اُس کی مدد حاصل کرنے کی اور اُس کی رضا کے حصول کی اور اُس سے طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرو کیونکہ یہ عظیم منصوبہ یا ایک پاگل سوچ سکتا ہے یا ایک مخلص جانثار جو اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو پہچانتا ہو اس کے دماغ میں آسکتا ہے تو اگر آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پہچانتے نہیں تو پھر آپ پاگل ہیں جو منصو بہ سوچ رہے ہیں.

Page 484

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۶۴ خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۷۴ء اگر آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت نہیں رکھتے اور اُس قادر و توانا خدا کے اوپر آپ کا تو کل نہیں ہے اگر آپ اپنی زندگیوں میں اُس کی متصرفانہ قدرتوں کے جلوے نہیں دیکھتے وہ جلوے موجود تو ہیں لیکن اگر آپ ان کا مشاہدہ نہیں کرتے تو پھر یہ منصوبہ جنون کی علامت ہے لیکن نہیں جماعت احمد یہ مجنون نہیں چاہے دنیا اسے مجنون سمجھے.صاحب فراست جماعت خدا تعالیٰ نے پیدا کی.یہ وہ جماعت ہے جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کا جھنڈا دیا ہے اور جس کا ہر قدم دنیا کی ہر جہت میں غلبہ اسلام کی جانب اُٹھ رہا ہے لیکن پھر میں کہوں گا اور پھر میں کہوں گا اور پھر میں کہوں گا کہ وَلا فَخْرَ- فخر کا کوئی مقام نہیں ہے.رونے کا اور عاجزی کا مقام ہے کہ کہیں انسان نفس کو دھوکا دے کر کئے کرائے پر پانی نہ پھیر دے.پس عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ ان نفلی عبادتوں کے ساتھ جس کا منصوبہ ابھی میں نے آپ کے سامنے پیش کیا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کریں اور ان برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے بعد خدا تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے اس یقین کے ساتھ کہ اسلام نے بہر حال غالب آنا ہے.غلبہ اسلام کی شاہراہ پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے نوازے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی طاقت سے حصہ عطا کرے اور اپنے نور سے ہمیں علم عطا کرے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ شیطان کی تمام ظلمات کو اس زمانہ میں دنیا سے مٹا کر تو حید کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر دل میں ایک پختہ ، اندر گھس جانے والی میخ کی طرح گاڑ کر اُس مقصد کے حاصل کرنے والے ہوں جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور جس مقصد کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی کو دنیا کی طرف مبعوث کیا گیا اور جس غرض کے لئے قرآن کریم جیسی بہت ہی عظیم اور حسین اور احسان کی طاقتیں رکھنے والی شریعت کو جو انسان کی تمام صلاحیتوں کی نشو و نما کی اہلیت رکھتی ہے اُسے دنیا کی طرف ابدی شریعت کے لحاظ سے قیامت تک قائم رہنے والی شریعت کے لحاظ سے بھیجا گیا ہے.دعاؤں کے ساتھ دعاؤں میں مشغول رہ کر ان دُعاؤں کو بھی پڑھتے ہوئے اس طریق پر جو میں نے بتایا اور اپنی زبان میں بھی ہر شخص اپنے فہم اور اپنی قوت کے مطابق اپنے علم اور اپنی فراست کے مطابق خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور ایک چیز سامنے رکھے کہ غلبہ اسلام کے

Page 485

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۶۵ خطبہ جمعہ ۸ فروری ۱۹۷۴ء لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے اگر ہمارے جسموں کا قیمہ بنا دیا جاتا ہے تو ہم اُس کے لئے بھی تیار ہیں اور دنیا کو ایک نہایت بھیانک ہلاکت سے بچانے کی خاطر ہم اپنے پر ہر قسم کا دُکھ اور ظلم سہنے کے لئے تیار ہیں اور انشاء اللہ جیسا کہ وعدہ دیا گیا ہے اگر آپ خلوص نیت سے کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اس سے زیادہ آپ پر نازل ہوں گی جس کو آپ کا ذہن اپنے تصور میں لاسکتا ہے..از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 486

Page 487

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۶۷ خطبه جمعه ۱۵ / فروری ۱۹۷۴ء صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ“ غلبہ اسلام کا عظم منصوب خطبه جمعه فرموده ۱۵ فروری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.رحمتوں اور برکتوں کا حقیقی سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے ہر خیر اسی سے ملتی ہے اور وہی ہر خیر کے حصول کے لئے راہیں متعین کرتا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمارے لئے حصولِ خیر کی ان راہوں کی نشان دہی کی گئی ہے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ گھوڑوں کی پیشانیوں میں امت محمدیہ کے لئے قیامت تک خیر و برکت کے سامان رکھے گئے ہیں.اس خیر کے حصول کے لئے بھی جماعت احمد یہ کوشش کر رہی ہے اور وہ اس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف لوگوں کی توجہ دلانے کے لئے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے میں کچھ عرصہ سے گھوڑوں کی طرف ، گھوڑے پالنے کی طرف گھوڑ سواری کی طرف اور گھوڑوں کی پرورش کی ذمہ داریوں کی طرف جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں.چنانچہ آج سے گھوڑ دوڑ کے تیسرے سالانہ - مقابلے شروع ہو رہے ہیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال زیادہ گھوڑے آئے ہیں.مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ کی منتظم ہے.میں نے پچھلے سال انہیں کہا تھا

Page 488

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۶۸ خطبه جمعه ۱۵ / فروری ۱۹۷۴ء کہ کم از کم چار سوگھوڑے تو اس مقابلے میں شامل ہونے چاہئیں.اس دفعہ چار سو تک تو نہیں پہنچے سو تک پہنچے ہیں اور اچھا ہوا ابھی چار سو تک نہیں پہنچے کیونکہ اس تھوڑی تعداد ہی نے بعض ضرورتوں کی طرف توجہ دلا دی ہے اور وہ یہ کہ گھوڑے خواہ چند روز کے لئے ہی جمع ہوں ان کے ٹھہرانے کا صحیح انتظام ہونا چاہیے تا کہ وہ پوری طرح صحت کے ساتھ اپنے مقابلوں میں حصہ لے سکیں.پس اگر چار سو گھوڑوں نے ایک وقت میں ربوہ میں ٹھہرنا ہے چارسو گھوڑوں کے لئے پُرانے طرز کی ایک یا ایک سے زائد سرائے ہونی چاہئیں جہاں گھوڑے بھی رہیں اور اُن کے مالکوں کے ٹھہرنے کے لئے کمرے بھی ہوں.میں نے منتظمین کو اس طرف توجہ دلائی ہے اس کا جلد انتظام ہونا چاہیے.ایک حصہ کا تو ( یعنی کچھ گھوڑوں کے لئے تو ) انشاء اللہ جلد ہی انتظام ہو جائے گا کیونکہ دوستوں کو جب گھوڑے رکھنے اور اُن کے استعمال کا شوق پیدا ہو گا تو گاؤں کے رہنے والے دوست پچیس تیس میل سے گھوڑوں پر جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے یہاں آجایا کریں گے اس لئے ایسی جگہ کا انتظام ہونا چاہیے جہاں پندرہ میں گھوڑے جمعہ والے دن باندھے جاسکیں اور اُن کی خوراک کا انتظام ہو یہ بھی دارالضیافت کا ایک حصہ ہے.مجھے یاد ہے دریائے بیاس کے کنارے پر جب ہماری جماعتیں مضبوط ہو ئیں تو وہاں کے بہت سے زمیندار دوست آٹھ میل، دس میل بلکہ بعض پندرہ میل سے گھوڑوں پر سوار ہوکر جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے قادیان آجایا کرتے تھے.بعض لوگ ایسے بھی تھے جو اپنی بچھیریوں پر سوار ہو کر قادیان پہنچتے اور قریباً ہر نماز جمعہ میں شامل ہوتے تھے اور اس طرح اُن کی عام دینی اور دنیوی معلومات کا معیار بہت بلند ہو گیا تھا.تاہم یہ تو گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ کے سلسلہ میں ضمناً بات آگئی ہے اور میں نے پھر توجہ دلائی ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس خیر کے حصول کی طرف بھی اُمت محمدیہ کو توجہ کرنی چاہیے اور ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنیٰ خادم ہیں ہمیں بالخصوص اس منبع سے بھی خیر اور برکت کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے.جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت احمدیہ کے سامنے جو صد سالہ احمد یہ جو بلی منصوبہ رکھا گیا تھا اس سلسلہ میں ایک دو باتیں میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں.ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل 66

Page 489

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۶۹ خطبه جمعه ۱۵ / فروری ۱۹۷۴ء سے اس وقت تک جو وعدے موصول ہو چکے ہیں ان کی رقم قریباً چار کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے، الْحَمدُ لِلهِ.تاہم ابھی ہمارے اندرونِ ملک سے بھی بہت سے مقامات بلکہ بہت سے ضلعوں کے مجموعی وعدے بھی نہیں ملے اس لئے کہ وعدہ کرنے اور وعدوں کو یہاں پہنچانے کی میعاد شوری تک رکھی گئی ہے اور بیرون ملک جن چالیس پچاس ممالک میں احمدی بستے ہیں ، ان میں سے بھی میرے گذشتہ سے پیوستہ خطبہ جمعہ کے بعد صرف ایک ملک کے وعدے پہنچے ہیں اور وہ بھی غالباً پہلی قسط کے طور پر ہیں.گو یا بیرونِ ملک سے بھی وعدے آنے والے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ بعض بیرونی ممالک میں بھی اتنی مضبوط جماعت ہائے احمد یہ قائم ہو چکی ہیں کہ اُن کے سالانہ بجٹ تیس لاکھ روپے سے بھی زائد ہوتے ہیں یعنی صدرانجمن احمد یہ پاکستان کے مجموعی بجٹ کا پچاس فیصد ! غرض بڑی مضبوط اور قربانی کرنے والی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.ان کی طرف سے بھی اس منصوبے کے وعدوں کی ابھی اطلاع نہیں آئی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دل میں اب یہ جو خواہش پیدا ہوئی ہے کہ اڑھائی کروڑ کی اپیل میں اللہ تعالیٰ اس قدر برکت ڈالے کہ عملاً نو کروڑ روپیہ جمع ہو جائے.اس کے پورا کرنے کے آثار نظر آرہے ہیں.میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ کم از کم اتنی رقم اگلے پندرہ سولہ سال میں ضرور جمع ہو جائے گی.اس سکیم کے بہت سے حصے ایسے ہیں جنہیں میں بعد میں کسی وقت بیان کروں گا اور جن کی وجہ سے آمد زیادہ ہو جائے گی.یہ منصو بہ جس وقت میرے ذہن میں آیا تو بعض دوستوں نے بھی مشورہ دیا اور خود میرے دماغ نے بھی اس کے متعلق سوچا اور مطالعہ کیا.اس دوران میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بعض فرمان بھی میری نظروں سے گزرے....اس وقت یہ ایک لحاظ سے مبہم سامنصوبہ تھا کیونکہ تفاصیل تو ذہن میں نہیں تھیں اور نہ آسکتی تھیں.بس یہ خواہش تھی کہ نہ صرف یہ کہ صد سالہ جشن منا یا جائے بلکہ جماعت احمدیہ کی زندگی میں جب دوسری صدی شروع ہوا اور وہ صدی جیسا کہ میں گذشتہ خطبہ میں بتا چکا ہوں.غلبہ اسلام کی صدی ہے اس لئے اس کا استقبال کرنے اس کے کاموں کی بنیادیں رکھنے اور ان کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیں اگلے پندرہ سولہ سال میں انتہائی کوشش کرنی چاہیے.

Page 490

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۷۰ خطبه جمعه ۱۵ / فروری ۱۹۷۴ء جلسہ سالانہ کے بعد بعض باتیں علم میں آئیں لیکن جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو اس منصوبہ کی تفاصیل انشاء اللہ مجلس مشاورت میں جماعت کے سامنے رکھوں گا اس لئے یہ منصوبہ جو ایک خاکہ کی صورت میں پیش کیا گیا تھا اس کے متعلق تفصیلی باتیں تو مجلس شوریٰ میں پیش ہوں گی لیکن میں چاہتا ہوں کہ دعا کی تحریک کی غرض سے دوستوں کے سامنے جس حد تک ان باتوں کو ظاہر کر ناممکن ہے ان کو ظاہر کر دوں.اس وقت تک اسلام کی اشاعت میں ہماری جو جد و جہد تھی اس کی شکل حقیقی طور پر بین الاقوامی گروہوں کی بین الاقوامی کوشش کے خلاف نہیں تھی مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعوی کیا تو پہلے پنجاب نے اور پھر سارے ہندوستان نے مخالفت کی اور لوگوں نے کوشش کی کہ اس آواز کو دبا دیا جائے جس کو آسمانوں نے اسلام کو غالب کرنے کے لئے اس دنیا میں مہدی معہود کے منہ سے بلند کر وایا تھا.پس پہلے پنجاب میں اس آواز کو دبانے کے لئے غلبہ اسلام کی اس جد و جہد کے راستہ میں روکیں ڈالنے کے لئے مخالفت شروع ہوئی اور پھر کچھ عرصہ کے بعد سارے ہندوستان میں مخالفت شروع ہو گئی ۱۹۴۷ ء تک یہی حالت رہی.پھر بیرونِ پاکستان بھی اللہ تعالیٰ ہی کے فرشتوں نے کوئی ایسی تحریک کی کہ جماعت احمدیہ کی طرف اور جماعت کے اس مقصد کی طرف جس کی خاطر مہدی معہود کی بعثت ہوئی تھی افراد کو، خاندانوں کو توجہ پیدا ہونی شروع ہوئی اور ایسی جگہوں پر بھی جہاں ہمارے علم کے مطابق نہ کوئی مبلغ پہنچا تھا اور نہ کتب پہنچی تھیں لیکن کسی ذریعہ سے احمدیت کا پیغام پہنچا تھا وہاں اکا دُکا افراد اور خاندان احمدی ہونے لگے تو ان کی تعداد تھوڑی تھی لیکن غلبہ اسلام کی تحریک آہستہ آہستہ وسعت اختیار کرنے لگی.گویا غلبہ اسلام کی وہ آواز جو قادیان سے بلند ہوئی تھی وہ ہندوستان سے باہر نکلی اور دُنیا کے اکثر ممالک میں پھیلنے لگی.چنانچہ جب وہاں اکا دکا لوگ احمدی ہوئے تو اُن کی مخالفت بھی بڑی معمولی سی تھی یعنی جس ملک میں کوئی اکا دکا احمدی ہوتا اس ملک کی مجموعی مخالفت سامنے نہیں آتی تھی اللہ تعالیٰ اشاعت اسلام کے لئے اپنی تدبیر کرتا ہے اس لئے ایسی مخالفت کہیں بھی اور کسی شکل میں بھی کسی ملک میں پیدا نہیں ہوئی جو ہماری کوششوں کو کسی ایک محدود دائرے میں کلیہ ناکام بنادے.

Page 491

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۷۱ خطبه جمعه ۱۵ / فروری ۱۹۷۴ء پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں بڑھنے لگیں اور بعض ممالک میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہماری جماعتیں تعداد کے لحاظ سے وہاں کی آبادی میں دس فیصد سے زیادہ ہیں اور مالی قربانیوں کا یہ حال ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے ملک کی جماعتوں کا بجٹ تیس لاکھ سے زیادہ ہوتا ہے.اُن کی آبادی ہمارے مقابلہ میں دس فیصد ہے لیکن بجٹ ہمارے مقابلہ میں پچاس فی صد ہے.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قربانی دینے والی جماعتیں قائم ہوگئیں.جب یہ صورت پیدا ہوئی تو پھر ہر اس ملک میں جہاں احمدیت کو ترقی ہو رہی تھی ، مخالفت شروع ہوگئی تاہم مخالفت سے گھبراہٹ کبھی پیدا نہ ہوئی کیونکہ مخالفت کا پوری جدو جہد کے ساتھ مقابلہ کرنا تو ہماری زندگی کا ایک ضروری حصہ ہے بہر حال جب ہماری اجتماعی زندگی میں توانائی پیدا ہوئی تو مخالفت میں زور پیدا ہوا اور ہونا بھی چاہیے تھا.گویا ہر وہ ملک جس میں جماعتیں قائم ہوئیں وہ جماعتی کوششوں کے خلاف کھڑا ہو گیا.مثلاً افریقہ کے بہت سے ممالک ہیں جہاں ہماری جماعتیں قائم ہوئیں اور انہوں نے ترقی کی اور انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقبولیت حاصل ہوئی تو وہاں کے لوگوں نے (غیر مسلموں نے بھی اور ان مسلمانوں نے بھی جنہوں نے ابھی تک حقیقت کو نہیں پایا ) مخالفت شروع کر دی اور جوں جوں جماعت بڑھتی گئی ، اس مخالفت میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی لیکن مخالفانہ عنصر اسی ملک کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جس میں جماعتیں قائم تھیں یعنی ہر ملک میں جماعت احمدیہ کی مخالفت مقامی نوعیت کی حامل تھی اور گذشتہ جلسہ سالانہ تک یہی حالت رہی.جلسہ سالانہ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں صد سالہ احمد یہ جوبلی کا منصوبہ ڈالا اور اس کے متعلق بڑے زور کے ساتھ یہ تحریک ہوئی کہ جلسہ سالانہ پر اس کا اعلان کر دیا جائے کہ اگلے پندرہ سولہ سال بڑے اہم ہیں.بڑے سخت ہیں بڑی قربانیوں کے سال ہیں خود کو سنبھالنے کے سال ہیں نئی نسلوں کی از سرئو تربیت کرنے کے سال ہیں.چنانچہ جلسہ سالانہ پر جب صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کا اعلان کیا گیا تو اس کے بعد بعض ایسی اطلاعات موصول ہوئیں کہ جن کو پا کر دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے چشمے پھوٹے.اللہ تعالیٰ عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے ہمیں علم نہیں تھا لیکن اس کو علم تھا.اس نے جماعت کو اس طرف متوجہ کر دیا کہ

Page 492

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۷۲ خطبه جمعه ۱۵ / فروری ۱۹۷۴ء قربانیاں دینے کے لئے تیار ہو جاؤ.اب جماعت احمدیہ کی طرف سے غلبہ اسلام کی اس عظیم اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہونے والی جد و جہد کی مخالفت ایک نئی شکل میں اور ایک اور رنگ میں شروع ہوئی ہے اور وہ بین الاقوامی متحدہ کوشش کی شکل میں ہے.پہلے ہر ایک ملک اپنے ملک میں مخالفت کر رہا تھا.یہاں بھی مخالفت تھی اور زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ بعض لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کے خلاف مکہ اور مدینہ سے کفر کے فتوے حاصل کر لئے لیکن اس کفر کے فتوؤں کی مہم کے نتیجہ میں جماعت میں کمزوری پیدا نہیں ہوئی جماعت نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو جس رنگ میں حاصل کیا ہے اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بہر حال ملک ملک میں مخالفت تھی یہ کہ ممالک اکٹھے ہو کر جماعت کی متحدہ مخالفت کریں.اس رنگ میں جماعت کو مخالفت کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا.میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے اسلام کو غالب کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا منصوبہ ہے یہ اتنا بڑا منصوبہ ہے (جو آسمان سے اُترا اور انسان کے کمزور ہاتھوں میں دیا گیا ہے ) کہ اگر خدا تعالیٰ کی رحمتوں اس کی طاقتوں اور قدرتوں اور اس کے غالب اور قہار ہونے پر تو گل نہ ہو تو اس کا تخیل و تصور ہی انسان کو پاگل بنادیتا ہے لیکن جہاں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کرنے کا اتنا عظیم منصوبہ مہدی معہود کے ذریعہ جماعتِ احمدیہ کے ہاتھ میں دیا وہاں ہر احمدی کے دل میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر تو گل پیدا کیا کہ وہ تمام عقلی پہلوؤں کو اپنے پاؤں تلے روند تے اور خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھا.ظاہر ہے کہ پہلے صوبے کی مخالفت تھی پھر ملک کی مخالفت تھی پھر ملک ملک کی مخالفت تھی ، مخالفت میں ترقی ہوتی چلی گئی.اب ممالک کے اکٹھے ہو کر مقابلے میں آجانے کا جو منصوبہ ہے اس سے بڑھ کر اس کرہ ارض پر اور کوئی منصوبہ تصویر میں بھی نہیں لایا جا سکتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے اور اسی پر اپنا تو گل رکھتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ غلبہ اسلام کی آخری گھڑی قریب آگئی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.کیونکہ جب منصوبہ اپنی انتہا کو پہنچا تو ہمارے ہر دل نے یہ کہا ع نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں

Page 493

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۷۳ خطبه جمعه ۱۵ / فروری ۱۹۷۴ء اب اس بین الاقوامی منصوبہ کے خلاف جماعت نے اسلام کو کا میاب اور غالب اور فاتح کرنے کے لئے ایک بین الاقوامی جہاد کرنا ہے.اس جہاد کے لئے آپ کو تیار ہونا چاہیے اس کی تفاصیل تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی رحمت پر تو گل کرتے ہوئے مجلسِ شوریٰ میں پیش کروں گا لیکن اس وقت اس مرحلے پر کہ پہلے ہمیں خدا نے کہا کہ بہت بڑے پیمانے پر قربانی دینے کے لئے تیار ہو جاؤ اور پھر ہمارے علم میں بعد میں یہ بات آئی کہ ایک بین الاقوامی منصو بہ کئی ملکوں نے اکٹھے ہو کر بنایا ہے کہ اسلام غالب نہ ہو اس کی کوشش دونوں طرف سے ہوئی ہے جو مسلمان ہیں وہ تو اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ وہ حقیقت کو سمجھتے نہیں اور جو غیر مسلم ہیں وہ اس لئے کہ وہ ہمیشہ سے اسلام کو مٹانے کی کوششیں کرتے چلے آئے ہیں اور اب ان کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں اُن کے مذہب پر اسلام غالب نہ آ جائے اور جود ہر یہ ہیں وہ کہنے لگ گئے ہیں کہ اس وقت دنیا میں دہریت اور اشتراکیت کے رستے میں انہیں ایک ہی روک نظر آتی ہے اور وہ جماعت احمد یہ ہے.پس ایک بین الاقوامی متحدہ حملے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تا اسلام دنیا پر غالب نہ آئے.اس بین الاقوامی منصوبہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی منشا سے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ بنایا گیا ہے جس کی رو سے مالی قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے.پس غیر مسلموں کی طرف سے یہ انتہائی مخالفت نشاندہی کرتی ہے اس بات کی کہ اسلام کے انتہائی غلبہ کے دن اللہ تعالیٰ کے فضل سے نزدیک آگئے ہیں.ہم نے تو اڑھائی کروڑ روپے کا سوچا تھا اور اس وقت (جلسہ سالانہ پر ) اپیل بھی یہی کی تھی.مگر ساتھ ہی کہ دیا تھا کہ یہ رقم پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نظر آرہا ہے کہ یہ فنڈ اس سے بھی آگے نکلے گا.شاید نوکر وڑ روپے تک چلا جائے.لیکن اصولی طور پر جو چیز مجھے نظر آئی اور جس نے میرے دل میں حمد کے جذبات پیدا کر دیئے اور میں چاہتا ہوں کہ احباب جماعت بھی اللہ تعالیٰ کی حمد میں میرے ساتھ شریک ہوں وہ یہ تھی کہ یہ جو اڑھائی سے پانچ کروڑ تک اور پھر پانچ سے 9 کروڑ روپے تک جمع ہونے کی امید پیدا ہوگئی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اگر ہم اخلاص کے ساتھ اور پاک نیت کے ساتھ

Page 494

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۷۴ خطبہ جمعہ ۱۵ رفروری ۱۹۷۴ء اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی قربانیاں پیش کرینگے تو اسلام کے غلبہ کے لئے خدا کے نزدیک جس قدر بھی مادی ذرائع کی ضرورت پیدا ہوگی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عطا کئے جائیں گے اور اس کام کے لئے جس قدر دعاؤں کی ضرورت ہوگی.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو یہ تو فیق عطا کرے گا کہ وہ دعائیں کریں تا کہ جہاں تک ہمارے امکان میں ہے ہم تدبیر اور دعا کو انتہا تک پہنچادیں اور خدا تعالیٰ کے آلہ کار بنتے ہوئے اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کا ذریعہ بنیں اور اس کی رحمتوں کے وارث بن جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۵ / مارچ ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 495

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۷۵ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جاری کرایا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.بارش کے موسم میں گھروں میں نماز پڑھ لینا اور جمعہ کے لئے جامع مسجد میں نہ آنا اس کی اجازت ہمیں دی گئی ہے لیکن چونکہ میرا خیال تھا کہ بعض دوست اس اجازت سے فائدہ نہیں اُٹھا ئیں گے اور مسجد میں پہنچ جائیں گے اس لئے میں نے سمجھا کہ میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں اور یہاں آکر سورج کی مسکراہٹوں سے لطف اندوز بھی ہو رہا ہوں.اگر میری طرف سے صبح اعلان کر دیا جا تا کہ نماز جمعہ کی بجائے گھروں میں دوست نمازیں پڑھ لیں تو پھر تو اور بات تھی لیکن بہر حال جیسا کہ میرا خیال تھا کافی دوست یہاں موجود ہیں.جب بھی اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے خشیت اللہ رکھنے والی نگاہ اُس میں امتحان اور آزمائش کا پہلو بھی دیکھتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي وَاشْكُرُ أَمْ اَكْفُرُ (النمل: ۴۱) تو جہاں بھی فضل نازل ہو وہاں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ جس فرد پر یا جس جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوا وہ فرد اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے یاوہ جماعت خدا کا شکر ادا کرتی ہے یا ناشکری کی راہوں کو اختیار کرتی ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے بے شمار ایسے فضل نازل ہو رہے ہیں جو اُس کی قائم کردہ

Page 496

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء جماعتوں پر ہی نازل ہوتے ہیں اور دنیا میں کہیں اور اس کی مثال ہمیں نہیں ملتی.اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے بعد اُس کی محبت اور اُس کے عشق میں مست ہو کر اُس کی راہ میں اُسی کی عطا میں سے دینا یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں اور ہم نے دیکھا کہ اس قسم کے فضل بھی خدا تعالیٰ کی قائم کردہ اس جماعت پر بڑی کثرت سے نازل ہورہے ہیں جو اڑھائی کروڑ روپے کا منصوبہ میں نے جماعت کے سامنے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر جلسہ سالانہ کے موقع پر رکھا تھا اور میں نے اپنے رب پر توکل رکھتے ہوئے یہ اعلان بھی اُسی وقت کر دیا تھا کہ یہ پانچ کروڑ تک بھی پہنچ سکتا ہے.غالباً گذشتہ سے پیوستہ خطبہ جمعہ میں میں نے کہا تھا کہ جماعت کا وعدہ چار کروڑ روپے کے قریب قریب پہنچ گیا ہے کل جور پورٹ مجھے ملی ہے جس کے تیار کئے جانے کے بعد لاکھوں روپے کے وعدے مجھے ملے ہیں اور جو ابھی دفتر میں نہیں پہنچے.جو وعدے میرے پاس آتے ہیں وہ میرے دفتر میں جاتے ہیں پھر جس دوست کو میں نے مقرر کیا ہوا ہے اُس کے پاس جاتے ہیں.میرا اندازہ ہے کہ وہ بھی بارہ پندرہ لاکھ کے قریب ہوں گے جو ابھی تک اس میں شامل نہیں کئے گئے.وعدہ بھیجوانے کی آخری تاریخ میں ابھی وقت باقی ہے.بیرونِ ملک جماعتوں میں سے ابھی بہت سی رجسٹر ڈ جماعت ہائے احمد یہ ہیں جن کی طرف سے ابھی وعدے نہیں آئے.خود پاکستان کے بہت سے ضلعوں سے مجموعی وعدے ابھی نہیں آئے.انفرادی وعدے یا جو جماعتیں مختلف ضلعوں میں ہیں ان میں سے بعض کے وعدے ابھی پہنچے ہیں.بیرون ملک جو جماعت ہائے احمد یہ ہیں ان کے متعلق میں نے رجسٹرڈ“ کا لفظ عمداً بولا ہے اس لئے کہ ہمارے بہت سے نوجوانوں بلکہ بعض بڑی عمر کے لوگوں کو بھی شاید یہ علم نہ ہو یا شاید ان کے ذہن میں یہ بات مستحضر نہ ہو کہ مختلف ممالک میں جہاں جماعتیں مضبوط ہو چکی ہیں وہاں جماعت احمدیہ مستقل حیثیت میں ایک رجسٹر ڈ جماعت ہے اور وہ صدر انجمن احمد یہ یاتحریک جدید انجمن احمدیہ کے اُس طرح ماتحت نہیں جس طرح وہ خلافت کے ماتحت ہیں.خلافت کے ماتحت تو ساری دنیا کے مبائع احمدی ہیں کیونکہ بیعت ہی اطاعت کی ہے اور نیکیوں کی جو ترغیب دی جاتی ہے اور قربانیوں کی جو اپیل کی جاتی ہے اس میں سب اُسی طرح بشاشت کے ساتھ لبیک کہتے ہیں

Page 497

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۷۷ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء جس طرح کسی دوسرے ملک کے احمدی لبیک کہتے ہیں.(اللہ تعالیٰ کے فضل سے ) مثلاً انگلستان کا اپنا دستور ہے اور وہاں رجسٹر ڈ جماعت ہے.اسی طرح افریقہ کے ممالک اور یورپ وغیرہ میں ان کے اپنے رجسٹر ڈ دستور ہیں.وہ صدرانجمن احمدیہ پاکستان کے ماتحت نہیں.ویسے صدر انجمن احمد یہ کی اس معنی میں شاخیں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ساری دنیا کے لئے صدر انجمن احمد یہ کو قائم کیا تھا لیکن اس معنی میں شاخیں نہیں ہیں کہ اُن پر پاکستان کا حکم لگنے لگ جائے.اُن پر انگلستان ہی کا حکم لگے گا اور جہاں تک دنیوی احکام اور قوانین کا تعلق ہے اُن پر انگلستان کے ہی احکام اور قوانین کی پابندی فرض ہے.جو قوانین ہیں نائیجیریاکے، نائجیر یا کی جماعت پر اُن کی پابندی لازمی ہے.غانا، سیرالیون اور گیمبیا ، جرمنی ، ہالینڈ اور سوئٹزر لینڈ اور ڈنمارک وغیرہ وغیرہ درجنوں ایسے ممالک ہیں جہاں ہماری جماعتیں مضبوط ہوگئی ہیں.وہاں ان کا اپنا ایک دستور ہے جو وہاں اس ملک میں رجسٹرڈ ہے تو ایسی بات نہیں ہے کہ صدرانجمن احمدیہ کا کوئی ریزولیوشن ان پر لاگو ہوتا ہے وہ خود اپنے فیصلے کرتے ہیں.ہر دستور میں جو بنیادی چیز ہے وہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی اطاعت بالمعروف ضروری ہوگی عام نگرانی تو ہے لیکن وہ اپنے فیصلے کرتے ہیں اور بڑی بشاشت سے کرتے ہیں.مثلاً جلسہ سالانہ پر لنڈن کے مشنری انچارج امام بشیر رفیق صاحب یہاں تھے.اُن کو میں نے پہلے بتایا تھا کہ یہ تحریک ہو رہی ہے.اُنہوں نے کہا کہ ایک کروڑ کے وعدے انگلستان کی رجسٹر ڈ باڈی جماعت احمدیہ کی طرف سے میں پیش کرتا ہوں اور جس وقت میری طرف سے یہ اعلان ہوا اور ان کو اس کی اطلاع ملی تو جس طرح یہاں صدرانجمن احمد یہ ہے اس طرح جو ان کی مرکزی مجلس عاملہ ہے اُنہوں نے میٹنگ کی اور باہمی مشورہ کیا اور انہوں نے دو ایک روز کے اندر ہی تار کے ذریعہ مجھے یہ اطلاع دی کہ ہمیں پتہ لگا ہے کہ آپ نے یہ تحریک کی ہے اور ہم ایک کروڑ ایک لاکھ روپے کے وعدے کرتے ہیں.اب وہاں سے جو اطلاعات آ رہی ہیں اُن سے پتہ لگتا ہے کہ وہاں جماعتوں میں قربانی کی بڑی بشاشت پیدا ہورہی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جو ابتدائی اڑھائی کروڑ روپے کی اپیل تھی.ہم کوشش کریں گے کہ وہ اڑھائی کروڑ روپیہ جماعت ہائے احمد یہ انگلستان دے دیں.اس کے لئے وہ کوشش کر رہے ہیں اور اس کی اطلاع انشاء اللہ مشاورت تک

Page 498

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۷۸ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء مجھے امید ہے آجائے گی ( یہ وعدے عملاً ۲ کروڑ سے او پر نکل چکے ہیں ) کیونکہ انہوں نے اس سلسلہ میں پہلی میٹنگ جو لندن میں کی اُس میں صرف ۱۵۸ احمدی شامل ہو سکے تھے.وہاں تو کئی ہزار احمدی ہیں میرے خیال میں اس وقت انگلستان میں شاید دس پندرہ ہزار سے زیادہ احمدی ہوگا.اس میٹنگ ( میں ) ۱۵۸ احمدی تھے اس میں دو لاکھ پاؤنڈ سے اوپر یعنی ۵۰لاکھ روپے کے وعدے ہو گئے تھے اُنہوں نے چار لاکھ پاؤنڈ کا وعدہ کیا ہے(ساڑھے تین لاکھ پاؤنڈ جمع چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا ۵۰ ہزار پاؤنڈ کا وعدہ جواب اُنہوں نے بڑھا کر ایک لاکھ پاؤنڈ کر دیا ہے) ممکن ہے اس سے زیادہ وہاں کی جماعت دے دے.(وعدے ۲ کروڑ سے اوپر نکل چکے ہیں ) بہر حال رجسٹرڈ میں نے اس لئے کہا کہ بعض دفعہ ہمارے احمدی دوستوں کو چونکہ علم نہیں ہوتا وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں سے صدر انجمن احمدیہ کا کوئی ریزولیوشن چلا جاتا ہے جس کی پابندی ان کو کرنی پڑتی ہے.ایسا نہیں ہے بلکہ ان کی اپنی ایک رجسٹر ڈ انجمن ہے اور وہ صدرانجمن احمدیہ کے ماتحت نہیں بلکہ خلیفہ وقت کے ماتحت ہے اسی معنی میں جس معنی میں کہ صدر انجمن احمد یہ پاکستان خلیفہ وقت کے ماتحت ہے اس موضوع پر میں کسی وقت تفصیل سے بات کروں گا لیکن سر دست چند فقروں میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت جو روحانی سلسلۂ خلافت اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق مہدی معہود کی بعثت کے بعد جاری ہوا یہ سلسلہ خلافت دنیا کو امت واحدہ بنانے کے لئے قائم ہوا ہے اور اس سلسلہ کا کوئی خلیفہ بھی بھی کسی علاقے کا حاکم وقت اور بادشاہ وقت نہیں بنے گا اور دنیا کی سیاست میں خلیفہ وقت نہیں آئے گا کیونکہ ہر ملک کی اپنی سیاست ہے اور ہر ملک کے باشندوں کے ساتھ امام وقت اور خلیفہ وقت نے پیار کرنا اُن کی ہدایت کے لئے دُعائیں کرنا ان کو مشورے دینا ان کو اپنے وجودِ روحانی کا ایک جزو بنانے کی کوشش کرنا ہے تا کہ سب مل کر ایک وجود بن جائیں.جیسا کہ میں دنیا کے سامنے کچھ عرصہ سے اس بات کو پیش کر رہا ہوں کہ میرا (مرزا ناصر احمد نہیں بلکہ خلیفہ اسیح الثالث کا ) اور جماعت احمدیہ کا ایک ہی وجود ہے.ان دو میں کوئی فرق نہیں تو جو اس وقت حالات ہیں اور جو کام مہدی معہود کے سپرد ہیں ان کے نتیجہ میں

Page 499

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۷۹ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء جماعت احمدیہ کی خلافت سیاست میں کبھی ملوث نہیں ہوگی کیونکہ اس صورت میں خلافت وہ فرائض سرانجام نہیں دے سکتی جو بحیثیت نائب مہدی علیہ السلام اُس کے سپرد کئے گئے ہیں لیکن نیکیوں کی تحریک کرنا اور جماعت میں بشاشت پیدا کرنا یہ خلیفہ وقت پر ایک بھاری ذمہ داریاں ہے کہ وہ قربانیاں بھی لے اور بشاشت کو بھی قائم رکھے.یہ تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کرتا ہے اور بندہ تو کمزور ہے اور سب سے زیادہ کمز ور تو خلیفہ وقت ہے کیونکہ ساری ذمہ داری اُس کے کندھوں پر ڈال دی گئیں وہ دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہے لیکن ذمہ داریاں تو دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں.اللہ تعالیٰ ہی کام کرتا ہے.تو خدا تعالیٰ نے اُس کو جن کاموں کے کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے اُس کی اسے طاقت بھی دیتا ہے یا فرشتوں کو کہتا ہے کہ جاؤ اس کے کام کر دو.جماعت احمد یہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور وہ لوگ جنہوں نے نہ کبھی خلیفہ وقت کو دیکھا تھا نہ کبھی مرکز میں آئے تھے غلبہ اسلام کے ساتھ ان کا عشق آپ سے کم نہیں.میں ۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ میں گیا اور بلا مبالغہ میں کہتا ہوں کہ جتنا پیار اور محبت جماعت احمدیہ کے ساتھ اور مہدی معہود کے ساتھ اور جتنا پیار اور محبت جماعت میں مہدی معہود نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیدا کیا وہ آپ لوگوں کو حاصل پیار سے کم نہیں بلکہ جو آپ میں چوٹی کا ایک گروہ ہے اُس کے پہلو بہ پہلو وہ لوگ کھڑے ہیں اور ان کے خلوص اور محبت کو دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے.پس یہ سب کام تو فرشتے ہی کرتے ہیں.بہر حال اس وقت تک جو وعدے یہاں پہنچے ہیں وہ ۲،۳۰۰،۰۰۰، ۴ ( چار کروڑ تئیس لاکھ) سے زیادہ ہیں اور اس میں پچھلے دو تین دن کے ایسے وعدے جو میرے دفتر میں پڑے ہیں یا کچھ ڈاک کے تھیلے جو میرے گھر میں پڑے ہیں وہ شامل نہیں ہیں میرا خیال ہے کہ وہ ملا کر یہ رقم ۴ کروڑ ۳۰ لاکھ سے اوپر چلی گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.پتہ نہیں کیوں نو کروڑ کے اعداد وشمار میرے ذہن میں آتے ہیں کہ وہاں تک پہنچ جائیں گے.انشاء اللہ اخلاص کچھ وضاحتیں بھی طلب کرتا ہے جتنا کوئی مخلص ہوا اتنا ہی وہ ڈرتا بھی ہے تو اُن میں

Page 500

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۸۰ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء سے بعض وضاحتیں اس وقت میں کرنا چاہتا ہوں.مثلاً ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میری عمر اس وقت ۷ ۷ سال ہے اور وعدوں کی ادائیگی کا پھیلا ؤ پندرہ سال سے کچھ زائد عرصہ پر ہے تو بظاہر تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اتنا لمبا عرصہ میں زندہ رہوں ویسے اللہ تعالیٰ فضل کرے اور عمر دے تو اور بات ہے لیکن ستتر سال میں پندرہ جمع کریں تو ۹۲ سال ہوتے ہیں لیکن اس ملک میں تو ۷۰ یا اتی سال بڑی عمر سمجھی جاتی ہے تو انہوں نے یہ سوال کیا کہ اگر میں پندرہ سال کا وعدہ کروں اور میری وفات ہو جائے تو کیا مجھے گناہ ہو گا؟ یا میری وفات کے بعد وعدہ کی وہ ذمہ داری میری اولاد پر پڑ گئی اور اس نے غفلت برتی تو کیا اس پر گناہ ہو گا حالانکہ اولا د نے تو وعدہ نہیں کیا ہوگا.وعدہ تو اُنہوں نے اپنا کیا ہے؟ پس ایک تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک زندگی اور موت کا سوال ہے پانچ سالہ بچہ بلکہ ایک دن کے بچے سے بھی موت اتنی ہی قریب ہے جتنی ۷۷ سال کے بوڑھے سے قریب ہے.زندگی اور موت تو ہمارے اختیار میں نہیں اس لئے عام طور پر ہم اخلاص کی وجہ سے یہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور اتنی زندگی مل جائے گی لیکن کوئی شخص یقین نہیں رکھتا.ایک پل کا یقین نہیں ہوتا تو پندرہ سال تو بے شمار پلوں کا مجموعہ ہے.لیکن بعض ۹۰ یا ۹۵ سال کی عمر کے ہیں یا بعض ایسے مریض ہیں مثلاً ایک سل کا مریض ہے.یہ بیماری ایسی ہے کہ وہ بظاہر زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا باقی اللہ تعالیٰ سب قدرتوں کا مالک ہے اُس کی قدرتوں میں تو کمی نہیں ہے لیکن بظاہر حالات خدا تعالیٰ کا جو قانون چلتا ہے وہ ڈاکٹروں کے نزدیک یہی ہے کہ ایک سل کے مریض کو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ چالیس سال تیری عمر ہے کئی لوگوں کی عمر ڈاکٹروں کے کہنے کے خلاف اس سے بڑھ بھی جاتی ہے یا پھر کینسر کا مریض ہے.یہ حالات استثنائی حالات ہیں ان صورتوں میں کہ مثلاً کینسر کا مریض ہے یا مثلاً اسی سال عمر کا ہے اس صورت میں ایک راہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ یہ وعدہ کرے کہ میں اپنی آمد کے لحاظ سے سولہ سال کا یہ وعدہ کرتا ہوں اور میں یہ وضاحت کر دیتا ہوں کہ اگر کوئی دوست فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی اولاد پر ذمہ داری نہیں پڑتی.دوسرے یہ کہ اگر وہ فوت ہو جاتے ہیں تو اُن پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷) لیکن جو مخلص دل ہے میرے نزدیک ایک مخلص دل کو یہ کرنا چاہیے کہ ہر سال کا یہ طوعی چندہ جو

Page 501

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۸۱ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء صد سالہ جو بلی فنڈ کا ہے وہ سال کے ابتدا میں ادا کر دے گا کیونکہ وہ اس سال میں داخل ہو گیا جس کا کچھ حصہ اس نے زندگی کے دن گزارے.اگر وہ سال کے بیچ میں فوت ہو جائے یا یہ ہوسکتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ اتنا میں دینا چاہتا ہوں مثلاً ایک شخص ہے وہ یہ کہتا ہے کہ میرے حالات ایسے ہیں کہ میں سوروپیہ سالانہ دے سکتا ہوں.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سولہ سال کا چندہ ( یونٹ تو سولہ سال ہے اگر چه سولہ سال پورے تو نہیں پندرہ ہیں ) میں سولہ سور و پیر دے سکتا ہوں اور نیت میری یہی ہے لیکن میں وعدہ پہلے دو سال کے یونٹ کا کرتا ہوں.دوسو روپیہ میں اب دوں گا اور ہر سال میں وعدہ کی تاریخ کے لحاظ سے یکم تاریخ کو وعدہ کروں گا اور ادائیگی کرتا چلا جاؤں گا.یہ بھی ایک شکل ہے ویسے یوں ہونا چاہیے کہ جس میں جتنی ہمت ہے آج وہ ادا کرے جو بڑی عمر کے ہیں یا سخت بیمار ہیں وہ اپنا وعدہ کریں اور سال کے شروع میں ادا کر دیں.تو میں سمجھتا ہوں کہ اُن کو اللہ تعالیٰ سولہ سال کی ادائیگی کا ہی ثواب دے دے گا کیونکہ اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.اور جو نیت ہے اس نیت کا اخلاص انسان کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس بات کا مستحق قرار دیتا ہے کہ وہ اپنی رحمت کا دروازہ ایسے شخص پر کھولے (سوائے اس کے کہ کوئی اور مصلحت خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو ) اور اُسے ثواب اتنادیدے جتنی اُس کی نیت ہے.پس سولہ سال کی نیت کرو اور آگے ادا ئیگی جس شکل میں بھی کر و ثواب تمہیں مل جائے گا.گناہ نہ تمہیں ہوگا نہ تمہارے وارثوں کو.ایک اور شکل سامنے آئی وہ یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص ہے وہ بڑا ذہین ہے اس نے بڑی ترقی کی اور ملازمت کے سلسلہ میں وہ آگے نکلا.دو تین ہزار روپے ماہوار اس کی تنخواہ تھی.یکدم اُس کو موقع مل گیا کہ وہ ورلڈ بینک یا یو این او (U.N.O) یا اس قسم کی جو بین الاقوامی تنظیمیں ہیں ان میں سے کسی میں چلا گیا ایسی تنظیمیں بہت پیسے دیتی ہیں پیسے تو وہ بہت دیتی ہیں لیکن ان کا معاہدہ ایک وقت میں دو سال کا ہوتا ہے.ایسے بھی متعدد آدمی ہیں میرے خیال میں ایک درجن سے زیادہ ہوں گے جوان بین الاقوامی تنظیموں میں ہیں.ان کو بہت پیسے مل رہے ہیں ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم کس طرح اندازہ لگائیں اور اپنے وعدہ کی بنیاد کس آمدنی پر رکھیں اس وقت تو دو سال کے لئے ہمیں پچاس ہزار روپیہ ماہوار مل رہا ہے اور دو سال کے بعد ہمیں تین ہزار روپیہ ماہوار

Page 502

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۸۲ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء ملے گا.تو ہم اپنے وعدہ کی بنیاد پچاس ہزار روپے مہینہ پر رکھیں یا تین ہزار روپیہ ماہوار آمد پر رکھیں جس نے مجھ سے یہ سوال کیا تھا اس کو میں نے یہی سمجھایا تھا کہ آپ وعدہ کر دیں پچاس ہزار روپے کی بنیاد پر اور پچاس ہزار میں سے تین ہزار روپیہ ماہوار دینے کا وعدہ کر دیں اور دوسال کے بعد آپ کو تین ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ملنے لگے وہ آپ اِ دھر دے دیں اور گھر میں گزارے کے لئے کچھ نہ ہو اور خدا آپ کو یہ کہے کہ سارے کے سارے پیسے دے دو.یہ بات تو نہیں ہے پس تم پہلے کہہ دو کہ حالات کے مد نظر دو سالوں میں میں اتنا دوں گا اور اس کے بعد جو نئے حالات پیدا ہوں گے اس کے مطابق میں رقم کی تعیین کردوں گا.یا تین ہزار جو عام آمد ہے اُس کے مطابق یہ وعدہ کرو اور ساتھ یہ کہو کہ جن سالوں میں میری آمد بڑھ جائے گی اُسی نسبت سے جو آمد اور اس موجودہ وعدہ کی ہے میں اپنا وعدہ بڑھا دوں گا یا اس نسبت میں کمی یا زیادتی کر دوں گا یہ کوئی ایسی تکلیف نہیں ہے جس کا حل نہ ہو.اس ضمن میں اس سے ملتی جلتی شکل یہ سامنے آتی ہے کہ ایک آدمی تین چار ہزار روپے تنخواہ پارہا ہے اور دو سال یا پانچ سال بعد اُس نے ریٹائر ہو جانا ہے پھر تو اُسے پنشن ملے گی.یہ سارے حالات سامنے رکھتے ہوئے آپ اپنی نیت میں اخلاص پیدا کریں تو قطعاً آپ کو کوئی گناہ نہیں ہوگا.اپنے بدلے ہوئے حالات کے مطابق خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی دیتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے آپ کے لئے کھلتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.قرآن کریم نے خیر کے مقابلہ میں بڑی خیر کا وعدہ دیا ہے اور بعض جگہ تو کہہ دیا کہ اتنے گنا زیادہ ثواب ملے گا اور بعض جگہ حد نہیں مقرر کی اور صرف یہ کہا کہ اس سے زیادہ ثواب ملے گا.اب زیادہ جو ہے وہ ۵۰ فیصد بھی زیادہ ہے اور پچاس کروڑ فی صد بھی زیادہ ہے یعنی ایک نیکی کے مقابلہ میں پچاس لاکھ گنا ثواب بھی زیادہ ہے اللہ تعالیٰ نے بڑی امید دلائی ہے اور بڑا تو گل دل میں پیدا کیا ہے اور بڑی بشاشت دل میں پیدا کی ہے.اصل میں تصور یہ ہمیں دیا گیا کہ انسان کی قربانی کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا کی کوئی حد بست ہی نہیں ہے.اخلاص پیدا کرتے چلے جاؤ اور اُس کی رحمتوں سے حصہ لیتے چلے جاؤ.پس اس قسم کی

Page 503

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۸۳ خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء تفصیل سے گھبرانے کی ضرورت نہیں.خلوص نیت کے ساتھ جو حالات ہیں لکھ دو یا اس کے مطابق نیت کر لو.اللہ تعالیٰ ثواب دے گا اور اجر دے گا.اس کی رحمتوں کے دروازے کھلیں گے.بہر حال چار کروڑ تئیس لاکھ تک ہم پہنچ چکے ہیں ابھی کچھ وقت باقی ہے اور ابھی بہت سے علاقے بھی باقی ہیں جن سے وعدہ جات آنے ہیں.مثلاً ایک ضلع کا مجھے علم ہے وہ کہتے ہیں ہم ہیں لاکھ سے آگے نکلیں گے اور ابھی تک میرا خیال ہے سات آٹھ لاکھ سے زیادہ بحیثیت مجموعی اس ضلع کے وعدے نہیں ہوئے جو ہم تک پہنچے ہیں یہ کام تو بشاشت سے ہونے والے ہیں اور ہوں گے.میں نے بتایا تھا کہ ہمیں تو پتہ نہیں تھا ایک منصوبہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے عاجز بندوں کے ذریعہ جاری کر دیا اور پھر وہ باتیں سامنے آگئیں جو اس منصوبہ کی متقاضی تھیں اور دل میں یہ یقین پیدا ہوا کہ جس بالا ہستی نے ، قادر و توانا نے ، جس کے علم میں ضرورت تھی اُس نے ہمارے دماغ میں صرف منصوبہ ڈال دیا بعد میں کہا یہ ضرورت ہے جس پر ہمیں یقین ہے کہ وہ ضرورت پوری ہوگی یعنی ہماری یہ جدوجہد کامیاب ہوگی اور ساری دنیا اکٹھی ہو کر بھی اللہ تعالیٰ کے اس منصو بہ کو ناکام بنانے کی کوشش کرے تو خود نا کام ہو جائے گی خدا تعالیٰ کا منصوبہ نا کام نہیں ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہوگا - رَضِيْنَا بِاللَّهِ رَبِّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا - (روز نامه الفضل ربوہ یکم مئی ۱۹۷۴ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 504

Page 505

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۸۵ خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۷۴ء جس شخص میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا احساس اور اس سے محبت پائی جائے وہ کبھی نا کام نہیں ہوسکتا خطبه جمعه فرموده ۸ / مارچ ۱۹۷۴ء بمقام مسجد دارالذکر.لاہور تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ایک لمبے عرصہ کے بعد میں یہاں آیا ہوں اور اب میری نظر میں یہ مسجد بہت چھوٹی لگتی ہے.شاید اسے اور بڑھانے کی ضرورت پڑ جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کی تعداد میں بھی اور جماعت کے اموال میں بھی اور جماعت کی کوششوں میں بھی پہلے سے کہیں زیادہ برکتیں ڈال رہا ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِكَ - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری سرشت میں نا کامی کا خمیر نہیں ہے.آپ کے اس فقرہ پر جب ہم غور کرتے ہیں تو طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ فطرت اور وہ سرشت جس میں ناکامی کا خمیر نہ ہو ، وہ اسلامی تعلیم کے مطابق کن صلاحیتوں کی مالک ہونی چاہیے یعنی جب حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے تو جماعت کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کون سی صلاحیتیں ہیں جو ہمیں اپنانی چاہئیں ، جس کے بعد نا کامی کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہے.جب ہم اس بارے میں غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ صرف اسی فطرت اور سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہوتا جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی

Page 506

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۸۶ خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۷۴ء معرفت اور اس کے جلال کا عرفان بدرجہ کمال موجود ہوتا ہے.وہ ایک ایسی فطرت ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے ایک ایسی محبت پائی جاتی ہے جس کے سامنے دنیا کی ساری محبتیں بیچ ہیں.پس جس شخص کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا احساس اور اس کی ذاتی محبت پائی جاتی ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوا کرتی اور اللہ تعالیٰ کی یہی عظمت اور یہی جلال ہے جس کی معرفت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس جماعت کا ایک خاصہ ہے اور جو امت محمدیہ ہی کا ایک حصہ ہے اور اس آخری زمانہ میں پیدا ہو کر اور مہدی معہود کے گرد جمع ہو کر ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے پر مامور ہے.پس اگر کسی فطرت یا کسی جماعت کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا احساس پیدا ہو جائے تو اس کا ایک واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس میں خدا کے سوا کسی اور کا خوف نہیں رہتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ مجھ سے ڈرو.میرے سوا کسی اور سے مت ڈرو.پس ایک ایسا فرد، ایسی فطرت اور ایسی جماعت جس کی یہ سرشت ہو جس کی یہ طبیعت ہو اور جس کی یہ فطرت ہو، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی اور کا خوف اپنے دل میں پاہی نہیں سکتی کیونکہ اس کا سارا وجود خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا آئینہ دار ہوتا ہے.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات میں گم ہو جاتے ہیں.اُن کی نگاہ میں دنیا کی ہر چیز بیچ ہوتی ہے وہ ہر چیز کو لاشے محض سمجھتے ہیں.ظاہر ہے جس دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ہو گی اگر اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف اور اس کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے دنیا کی ساری طاقتیں ( دینی بھی اور مادی بھی اکٹھی ہو جائیں اور وہ شخص اکیلا ہو تب بھی وہ یہ کہے گا الْجَمْعُ“ تو ہے مگر سَيُهْزَم.669 چنانچہ اس وقت دنیا یہ نظارہ دیکھ رہی ہے کہ ساری دنیا خدا تعالیٰ کے منصوبہ کے خلاف کھڑی ہو گئی ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہی دنیا یہ نظارہ بھی دیکھے گی کہ ساری طاقتیں جمع ہو کر ساری دولتیں اکٹھی ہو کر اور باہم منصوبے بنا کر بھی خدا تعالیٰ کی منشا کے خلاف کامیاب نہیں ہوں گی.دُنیا یہ بھی دیکھے گی کہ جس دل میں اللہ تعالیٰ کی خالص ذاتی محبت پائی جاتی ہے اور و شخص یاوہ جماعت جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہر خیر کا منبع سمجھتی ہے اور کسی بھلائی کے لئے اللہ کے سوا

Page 507

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۸۷ خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۷۴ء کسی اور طرف توجہ نہیں کرتی ( کسی اور میں اس کا اپنا نفس بھی شامل ہوتا ہے ) وہ کبھی نا کام نہیں ہوتی.غرض خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا دل میں پیدا ہو جانا اور اس سے پیار کا اتنا بڑھ جانا کہ خود اپنے نفس کو بھی کوئی چیز نہ سمجھنا اور دنیا کی طاقتوں کو خیر کا منبع تسلیم نہ کرنا.یہ وہ صلاحیتیں ہیں، یہ وہ اخلاق ہیں اور یہ وہ باتیں ہیں جن کی موجودگی میں انسانی فطرت نا کام نہیں ہوا کرتی.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے یہی حالت آپ کی جماعت کی ہے جو آپ کے نقش قدم پر غلبہ اسلام کے لئے کوشاں ہے.تا ہم غلبہ اسلام کا منصوبہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس کی تکمیل خدا تعالیٰ نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈال دی ہے.ظاہر ہے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا یہ کوئی آسان کام نہیں ہے.اس وقت آدھی سے زیادہ دنیا خدا کی منکر ہو چکی ہے.آدھی سے کچھ کم دنیا بظاہر مذہب کا نام لیتی ہے مگر در حقیقت مذہب کی روح سے نا آشنا ہے.وہ یہ جانتی ہی نہیں کہ مذہب کیا چیز ہے.وہ مذہب اور وہ شریعت اور وہ ہدایت جو خدا کے عاجز بندوں کو خدا تک پہنچاتی ہے وہ صرف اسلامی شریعت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والے بھی کتنے ہیں جو اسلام کی شان اور قرآن کریم کی عظمت کی معرفت رکھتے ہیں.یہ شرف صرف ایک چھوٹی سی جماعت کو حاصل ہے کہ جو اگر چہ دنیا کی دھتکاری ہوئی ہے.جس کی دنیا کی نگاہ میں کوئی عزت نہیں جس کے خزانوں میں دنیا کی دولتیں نہیں جس کے پاس سونا اور جواہرات نہیں جس کے پاس سونا اُگلنے والی زمینیں نہیں لیکن پھر بھی اس یقین پر قائم ہے کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے اور انسان کو زندہ خدا کی طرف واپس لے جانے کی جو کوشش اور جد و جہد ہو رہی ہے اس میں بالآخر یہی جماعت کامیاب ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو“ کہہ کر جماعت کو مخاطب فرمایا ہے.اس لحاظ سے جماعت احمد یہ گویا حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے درخت وجود کی مختلف شاخیں ہیں.اصل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات ہے.یہ آپ ہی کا درخت ہے جو قیامت تک بڑھتا چلا جائے گا لیکن نئی شاخیں نئے تنے بنیں گی

Page 508

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۸۸ خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۷۴ء اور نئے تنے نئی شاخیں نکالیں گے.بہر حال اس وقت حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام ظاہر ہو گئے اور وہ وجود آ گیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی سلامتی اور حفاظت میں ہے.خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ آخری زمانہ میں خدا کا دین غالب آئے گا.جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس فیصلہ کا نفاذ اور اس منصوبے کی تکمیل زمین پر شروع ہو چکی ہے.گو اس وقت یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے اور بے اثر ہے سیاسی لحاظ سے اور بے ہنر ہے علم کے لحاظ سے لیکن یہ ایک ایسی جماعت ہے جو ایک طرف اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا عرفان رکھتی ہے.خدا کو سب قدرتوں کا مالک سمجھتی ہے اس کے بغیر کسی اور چیز پر بھروسہ نہیں رکھتی.وہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اگر خدا کی عظمت اور جلال کے مقابلے میں ساری دنیا کی طاقتیں بھی اکٹھی ہو کر آجائیں تب بھی وہ کامیاب نہیں ہوسکتیں دوسری طرف اللہ تعالیٰ سے اتنا پیار رکھتی ہے اور اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ اتنا عشق ہے کہ وہ اپنے نفس کو بھی بھول چکی ہے.وہ اُن عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتی ہے جن کے اختیار کرنے کی تلقین کی گئی تھی.وہ کبرو غرور، اور تکبر ور یا میں ملوث نہیں ہوتی.اشاعت اسلام کا جو تھوڑا بہت کام کرتی ہے تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہے کہ اسی کی توفیق سے یہ صورت پیدا ہوئی ورنہ اتنا سا کام کرنے کے بھی قابل نہ تھے.پس اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے جلوے دیکھنے والی یہ جماعت اپنے سروں کو ہمیشہ زمین کی طرف جھکائے رکھتی ہے.حتی کہ اپنے نفس کو بھی کچھ نہیں سمجھتی اور ہر خیر اور بھلائی، اور تمام نیکیوں اور کامیابیوں کا سر چشمہ صرف خدائے قادر و توانا کی ذات کو بجھتی ہے اور اسی کی محبت میں غرق رہتی ہے اور خدا تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتی ہے اور ہمیشہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتی ہے اور یہی اس کی اجتماعی سرشت ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری سرشت میں ناکامی کا ضمیر نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے اس لئے کہ ایک طرف ہم خدا کی عظمت اور جلال کو پہچانتے ہیں اور دوسری طرف ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمارے نفسوں میں اپنے طور پر کوئی نیکی اور بھلائی یا کوئی طاقت

Page 509

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۸۹ خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۷۴ء اور قوت نہیں ہے بلکہ ہم ہر خیر خدا تعالیٰ ہی سے حاصل کرتے ہیں اس لئے ہمارے دلوں میں کوئی فخر نہیں پیدا ہوتا.ہمارے سر اونچے نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ خدا کے حضور جھکے رہتے ہیں ہم بندوں کی خدمت میں مگن ہیں ہم اس اصول کو مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے جو حقوق قائم کئے ہیں وہ ادا ہونے چاہئیں.اسلام نے اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی ہے مگر اسے مسلم دنیا بھول چکی ہے یا اگر بھولی نہیں تو بھی اسلام کا صرف ایک دھندلا سا تصور باقی رہ گیا ہے حالانکہ شریعت اسلامیہ کی رو سے مسلمانوں پر فرض عائد کیا گیا ہے کہ اُن کا کتنا بھی شدید دشمن کیوں نہ ہو اس کے وہ حقوق جو خدا تعالیٰ نے قائم کئے ہیں وہ اُسے ملنے چاہئیں اور کبھی یہ جرات نہیں کرنی چاہیے کہ کوئی بندہ اللہ کے بندوں کو اُن کے حقوق سے محروم کر دے.یہ ایک بڑا ہی حسین اور پیارا معاشرہ ہے جس کے نمونے ہماری تاریخ میں بھی پائے جاتے ہیں اور ہم سے پہلے مسلمان بزرگوں کی زندگیوں میں بھی پائے جاتے ہیں.پس کتنا امن پیدا ہوسکتا ہے اگر ہم اس اصول کو اپنا کر اسے معاشرہ میں جاری کر دیں.جو حق خدا نے قائم فرمایا ہے اس سے دشمن سے دشمن آدمی کو بھی محروم نہیں کیا جا سکتا.اسلام کی رُو سے آدمی کا جو حق قائم کیا گیا ہے وہ بڑا عظیم ہے.خدا نے فرمایا ہے کہ ہر شخص خواہ وہ تمہارا دشمن ہے یا دوست، تمہارا عزیز رشتہ دار ہے یا کوئی دوسرا جسے تم پہچانتے بھی نہیں ، غرض ہر فرد واحد کا تم پر یہ حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے نفس میں اور اس کے ماحول میں جو قو تیں اور استعداد میں پیدا کی ہیں اُن کی کامل نشو و نما ہونی چاہیے.تمہارا یہ فرض ہے کہ قطع نظر اس بات کے کہ تمہارے ساتھ اس کے ذاتی تعلقات کیسے ہیں تم یہ دیکھو کہ اُس کا حق اُسے ملتا ہے یا نہیں ، اس کی تمام خدا داد صلاحیتوں کی کامل نشو ونما ہوتی ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں ہور ہی تو نشو ونما کا انتظام کرو.یہ ایک حسین تعلیم ہے جس کا تصور شاید کہیں کھو کھلے طریقہ پر الفاظ میں ظاہر ہوا ہو تو ہوا ہو عملاً کہیں بھی نظر نہیں آتی.یہ شرف صرف اسلام کو حاصل ہے.اسلامی تعلیم پر مسلمانوں نے مجموعی طور پر نشاۃ اولی میں عمل کیا پھر بعد میں آنے والے مختلف لوگوں یا گروہوں نے مختلف اوقات میں اور مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں اس پر عمل کیا اور اب پھر اُمت محمدیہ میں جماعت احمدیہ کے

Page 510

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۹۰ خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۷۴ء ذریعہ اس کی بنیا درکھ دی گئی ہے.اسلام دنیا میں غالب ہوگا اور ایک حسین معاشرہ قائم ہو گا جس میں ہر انسان کو اس کے حقوق ملیں گے.کوئی شخص انسانی حقوق کو غصب کرنے کی جرات نہیں کرے گا تاہم اس کے لئے ہمیں عاجزانہ راہوں کے اختیار کرنے کی ضرورت ہے.اپنے نفس کو ایک مردہ کیڑے سے بھی بیج سمجھنا لازمی ہے.پس اگر چہ قرآن کریم نے کامیابی کی اور بہت سی راہیں بھی بتائی ہیں لیکن اس وقت میں چونکہ لمبا خطبہ دینا نہیں چاہتا کیونکہ آٹھ نو دنوں سے پچپیش کا مریض ہوں اور اس کی وجہ سے کمزوری بھی ہے اس لئے میں مجموعی طور پر جماعت احمدیہ میں پائی جانے والی ان دوصفات کے اظہار پر اکتفا کروں گا.میں نے یہ بتایا ہے کہ جب انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال پیدا ہو جاتا ہے اور انتہائی طور پر عجز کا احساس اور قربانی کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے تو اس کے بعد انسان نا کام نہیں ہوا کرتا.ہماری جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے مگر خَشيَةُ اللهِ اور انفاق فی سبیل اللہ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.گذشتہ جلسہ سالانہ پر میں نے جماعت کے سامنے ایک منصوبہ رکھا تھا.میں نے اس منصوبے کے اعلان سے پہلے بڑا غور کیا.بہت دعائیں کیں.دوستوں سے مشورے کئے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس سلسلہ میں میری طرف سے صرف اڑھائی کروڑ روپے کی مالی تحریک ہونی چاہیے.تاہم میرا دل یہ کہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے اس لئے یہ رقم پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی.چنانچہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جب میں نے اس منصوبہ کا اعلان کیا تو ( میں نے اس کا ایک خاکہ بیان کیا تھا اس کی تفصیل میں انشاء اللہ مجلس مشاورت پر بتاؤں گا ) ساتھ ہی میں نے یہ بھی اعلان کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے امید ہے کہ یہ رقم اڑھائی کروڑ سے بڑھ کر پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی.آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس منصوبہ کے لئے وعدوں کی رقم پانچ کروڑ سے او پر نکل چکی ہے.فالحمد لله على ذلك.اور اب میرا یہ خیال ہے کہ یہ رقم نو کروڑ روپے بلکہ شاید اس سے بھی آگے نکل جائے گی.میں نے اپنے ایک پچھلے خطبہ میں نام لے کر بتایا تھا کہ ۵۱ بیرونی ممالک کی جماعتوں کے وعدے نہیں

Page 511

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۹۱ خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۷۴ء ملے.ان میں سے اب تک صرف ۱۱ ملکوں کے وعدے ملے ہیں.پھر ابھی اندرون ملک کی بہت سی جماعتوں کے وعدے موصول نہیں ہوئے کیونکہ میں نے مشاورت تک وعدہ جات کی وصولی کی میعاد مقرر کر رکھی ہے اور ابھی مشاورت میں کئی دن باقی ہیں.علاوہ ازیں وہ نسلیں جو موج در موج احمدیت میں داخل ہوں گی یا ہمارے بچے اور نوجوان تعلیم سے فارغ ہو کر اگلے پندرہ سال میں کمانے والی دنیا میں داخل ہوں گے وہ تو ابھی اس منصو بہ میں شامل نہیں ہوئے.اُن کا تو ہمیں بھی پتہ نہیں اور اُن بچوں کو بھی پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کس قدر اقتصادی رحمتیں بھی اُن پر نازل کرے گا.پس ابھی تو وقت ہے کئی اور لوگوں کی طرف سے اپنے اپنے وقت پر وعدے آئیں گے اور وہ بھی بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیں گے اور اس طرح تو شاید یہ رقم 9 کروڑ روپے سے بھی بڑھ جائے گی.ویسے اصولاً ہمارا یہ تجربہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ جائے اور انسان نہایت عاجزی اور تضرع کے ساتھ خدا کے حضور جھک جائے اور بغیر ریا کے اور بغیر فخر کے دعاؤں میں لگ جائے تو خدا تعالیٰ اسے کسی چیز سے محروم نہیں رکھتا.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ جس اصول کے ماتحت اللہ تعالیٰ اپنی اس محبوب جماعت کو مادی ذرائع سے نوازتا ہے.جس قدر ضرورت پڑتی ہے اتنا مال عطا کر دیتا ہے.اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ ہمیں ایک دھیلا بھی ضائع کرنے کے لئے نہیں ملا.جماعت کو بڑا محتاط رہنا چاہیے اور بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے اموال کی حفاظت بھی کرنی چاہیے اور بڑی احتیاط سے اُن کا خرچ بھی کرنا چاہیے.بہر حال میں بتا یہ رہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اس صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کی تکمیل کے دوران کسی ایسے مقام پر پہنچے کہ جہاں اشاعت اسلام ہم سے بیس کروڑ روپے کی قربانی کا مطالبہ کرے تو اللہ تعالیٰ میں کروڑ کے بھی سامان پیدا کر دے گا.انشاء اللہ العزیز.بہر حال ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھرے ہوئے ہیں کہ وہ جو ایک دل کی آواز تھی اور جس کے متعلق مشورہ کرنے کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا تھا کہ میں اس کا مطالبہ نہ کروں لیکن اس کا اظہار کر دوں.آج خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ( اپنی گردنیں اوپر نہ اُٹھانا

Page 512

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۹۲ خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۷۴ء کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر یہ کام ہو ہی نہیں سکتا تھا ) اور محض اپنی رحمت سے اور محض اپنی برکت سے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ تحریک کی گئی تھی اڑھائی کروڑ روپے کی اور خواہش دل میں پیدا کی گئی تھی پانچ کروڑ روپے کی.چنانچہ اس وقت تک پانچ کروڑ تین لاکھ سے بھی اوپر کے وعدے مل چکے ہیں اور ابھی ڈاک کے ذریعہ روزانہ وعدے موصول ہورہے ہیں.پس میری تو یہ دعا ہے اور ہر احمدی کی یہ دعا ہونی چاہیے کہ اے خدا! تو نے ہی اپنے قادرا نہ تصرف سے غلبہ اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے.اب اس غرض کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہو.مادی ذرائع ہوں یا غیر مادی ذرائع ہوں اے خدا! تو اپنے فضل سے ان کے حصول کے سامان پیدا کر دے اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم تیری منشا کے مطابق اسلام کو ساری دنیا پر غالب کر دیں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیار بنی نوع انسان کے دل میں پیدا کر دیں.ہم نے ایک عظیم منصوبہ کی ابتدا کی ہے.اے خدا! تو اپنے فضل سے اس منصو بہ کی کامیابی کے لئے جو سامان درکار ہیں وہ ہمیں مہیا فرما.ہم نہ تو غیب کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہماری نگاہیں اس دنیا کی زندگی کی وسعتوں کا احاطہ کر سکتی ہیں.ہماری تو کوتاہ نگاہیں ہیں لیکن اے ہمارے رب ! تو عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے.تیری نظر سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے.تو اپنی متصرفانہ قدرتوں سے ایسے تغیرات رونما فرما جو غلبہ اسلام کے لئے ضروری ہیں.اسلام کا عالمگیر غلبہ ہماری زندگی کا منتہائے مقصود ہے.ہم میں سے ہر ایک آدمی کی بچہ ہو یا جوان، چھوٹا ہو یا بڑا مرد ہو یا عورت یہی خواہش ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے غلبہ اسلام کو دیکھ لے.اسی صد سالہ احمد یہ جو بلی منصو بہ کو لے لیں جو ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا ایک نمایاں کام ہے.اس سلسلہ میں مجھے روزانہ بیسیوں ایسے خطوط ملتے ہیں جو ۷۰ - ۷۵ بلکہ ۸۰ سال کے احمدی دوستوں کے ہوتے ہیں اور وہ بھی اس منصوبہ میں بڑی گرم جوشی سے حصہ لے رہے ہیں اور باوجود بڑی عمر کے اُن کی بھی یہی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی نگاہوں سے یہ نظارہ دیکھ لیں.پس ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں تو پتہ نہیں کتنے مال کی ضرورت ہے اور کتنے سامان کی ضرورت ہے.ہماری تو یہ خواہش ہے کہ ہماری زندگیوں میں اسلام غالب آئے اور ہم

Page 513

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۹۳ خطبہ جمعہ ۸ / مارچ ۱۹۷۴ء اپنی آنکھوں سے بنی نوع انسان کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے دیکھ لیں.غرض دوست یہ دعائیں کریں عاجزی کے ساتھ اور تضرع کے ساتھ اور خدا کا شکر ادا کریں اور اس کی حمد کے گیت گائیں کہ تمہارے اندر نیکی کی جو بھی خواہش پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ آسمانوں سے فرشتے بھیج کر اُسے پورا کرنے کے سامان پیدا کر دیتا ہے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 514

Page 515

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۹۵ خطبہ جمعہ ۱۵ / مارچ ۱۹۷۴ء ہماری دلی خواہش ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا میں قائم ہو خطبه جمعه فرموده ۱۵ / مارچ ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی:.فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَخِفَنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ.(الروم : ٦١ ) پھر حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت سے صد سالہ جوبلی فنڈ کے وعدے چھ کروڑ سے اوپر نکل گئے ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - جلسہ سالانہ پر میں نے اڑھائی کروڑ کی اپیل کی تھی جو وعدے بیرونِ پاکستان سے مل رہے ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ بیرونِ پاکستان کے وعدے بھی تین کروڑ سے اُو پر پہنچ جائیں گے إِنْشَاءَ اللہ.اس وقت بھی دو کروڑ بیس لاکھ کے وعدے بیرونِ ملک سے پہنچ چکے ہیں اور مجھے علم ہے کہ پچاس لاکھ کے وعدے اس کے علاوہ بھی دو ایک ہفتوں میں پہنچ رہے ہیں لیکن ہمیں بہت سے بیرونی مقامات کے وعدہ جات کا علم نہیں.میرا اندازہ ہے کہ تین کروڑ کے لگ بھگ شاید تین کروڑ سے اوپر بیرونِ پاکستان کے وعدے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے بشاشت سے ان قربانیوں کو دینے کی توفیق جماعت احمدیہ کودی.اس قدر وعدے

Page 516

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۹۶ خطبہ جمعہ ۱۵ / مارچ ۱۹۷۴ء وصول ہو جائیں گے؟ اتنی ذمہ داری مالی لحاظ سے جماعت اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے گی ؟ ہمارے ساتھ جو تعلق رکھنے والے ہیں اور ابھی جماعت سے باہر ہیں اُن کو بھی کبھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا لیکن ہر گھڑی ہماری زندگی کی ، اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے خالی نظر نہیں آتی.یہ اُسی کی رحمت ہے جس کا یہ نتیجہ نکلا ہے.ہمیں شیطانی یلغار سے محفوظ رہنے کی تدبیر بھی کرنی چاہیے.ہمیں یہ دُعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ طاقت عطا کرے کہ ان وعدوں سے بھی زیادہ اموال اُس کے قدموں پر رکھ پائیں اور اللہ تعالیٰ ہماری ان حقیر قربانیوں کو قبول کرنے اور اُن کے وہ نتائج نکالے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی اُس قدر اچھے اور حسین اور احسن نتائج نہیں آسکتے.اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ جب خدا تعالیٰ قربانیوں کو قبول کرتا ہے تو دنیا میں حسد بھی پیدا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں حاسدین کا ایک گروہ پیدا ہو جاتا ہے.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آپ کے الہام میں بھی اس طرف متوجہ کیا گیا ہے اور حاسدین کے اس گروہ کے سامنے آجانے سے دو فائدے ہیں جو ہم حاصل کرتے ہیں.ایک تو یہ کہ ہمارے سامنے ہماری عاجزی زیادہ نمایاں ہو کر آجاتی ہے اور دوسرے ہمارے عزم اور ہماری ہمت میں ایک جوش پیدا ہوتا ہے اور ہماری زندگی کا یہ پہلو اور ہماری رُوح کا یہ زاویہ کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کے بعد خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے والے ہیں اور ہماری سرشت میں ناکامی کا ضمیر نہیں ہے.یہ بات ہمیں زیادہ شدت کے ساتھ مقابلہ کرنے پر آمادہ کرتی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو الہی وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے اور اُن کا یہ یقین نہیں مثلاً اس زمانہ میں یہ ہم کہیں گے کہ جن کو یہ یقین نہیں کہ مادی دنیا کی اس قدر ترقی کے زمانہ میں اسلام کے دوبارہ غالب آجانے کا کوئی امکان ہے.جن کو یہ یقین نہیں وہ اُس جماعت کو بھی اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ہے اور اس پختہ یقین پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور خدا تعالیٰ کے وعدے بچے ہیں وہ پورے ہوتے ہیں اور دنیا کا کوئی منصوبہ اُنہیں نا کام نہیں کر سکتا.قرآنِ کریم نے فرمایا: - لَا يَسْتَخفَنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ جو خدائی وعدوں پر ایمان.

Page 517

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۹۷ خطبہ جمعہ ۱۵ / مارچ ۱۹۷۴ء نہیں رکھتے وہ دھوکہ دہی سے مومن کو اُس کے مقام معرفت اور مقام یقین سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں.اُن کے دھوکے میں مومن نہیں آیا کرتا.مومن کو تو یہ حکم ہے ( اور اُس کی زندگی اس حکم کی عملی مثال ہے ) کہ فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہو گا.اس لئے استقلال کے ساتھ اور صبر کے ساتھ انتہائی قربانیاں دیتے ہوئے ، مالی بھی اور جانی بھی اور دوسری ہر قسم کی ، آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ کیونکہ تمہاری ہی جھولیوں میں خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کے پورا ہونے سے حاصل ہونے والی برکتوں کا پھل گرنے والا اور تمہیں ہی ان سے فائدہ پہنچنے والا ہے.مخالف اپنی مخالفت میں بڑھتا ہے اور مومن اپنے یقین میں ترقی کرتا ہے.مخالف اپنے منصوبوں کو تیز کرتا ہے اور مومن اپنے سر کو اور بھی جھکا کر خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ اعمال بجالاتا ہے جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیارا سے حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت اُسے ملتی اور فرشتوں کی فوجیں آسمان سے نازل ہوتیں اور اُس کا ہاتھ بٹاتیں اور کامیابی کی منزل مقصود تک پہنچا دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کے حضور متضرعا نہ جھک کر یہ درخواست کرتے رہنا چاہیے کہ ہم کمزور ہیں.ہم کمزور سہی اے ہمارے رب !لیکن ہم نے تیرے دامن کو پکڑا ہے اور تیرے اندر کوئی کمزوری نہیں.اس لئے جب ہم تیری پناہ میں آگئے تو ہمیں ڈرکس بات کا ؟ سوائے اس ڈر کے کہ کہیں اپنی کسی غفلت اور کوتاہی اور کمزوری اور بے ایمانی کے نتیجہ میں تو ہمیں جھٹک کر پڑے پھینک دے اور تیری حفاظت ہمارے شامل حال نہ رہے، جب تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت انسان کے ساتھ ہے جب تک اسے اُس کی نصرت ملتی رہتی ہے جب تک اللہ تعالیٰ کے پیار کا سایہ اُس کے سر پر ہوتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُس کی مدد کے لئے آسمانوں سے اُترتے رہتے ہیں اُس وقت تک مومن جو خدا کی طرف خود کو منسوب کرتا اور اُس کے حضور قربانیاں پیش کرنے والا ہے صبر اور استقلال کے ساتھ اُس مقصد کی طرف ( جو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ ) حرکت کرتا ہے اور آخر کامیاب ہوتا ہے اور اس دنیا میں بھی وہ پاتا ہے جو خدا سے دور رہنے والے کبھی پانہیں سکتے اور عقبیٰ میں بھی وہ اُس کو ملے گا جس تک خود مومن کا بھی تخیل اس دنیا میں نہیں پہنچ سکتا.کہا گیا وہاں وہ ہو گا جو نہ کسی آنکھ نے

Page 518

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۹۸ خطبہ جمعہ ۱۵ / مارچ ۱۹۷۴ء دیکھا نہ کسی کان نے سنا.اُن لذتوں کا تو ذکر ہی کیا کیونکہ ہمارے ادراک سے وہ باہر ہیں اور ہماری عقل وہاں تک پہنچ نہیں سکتی لیکن اس دنیا میں جو جنّت اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لئے پیدا کی اور جسے صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا میں حاصل کیا.یہ جنت آج پھر ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے اور آسمان کے سارے دروازے ہمارے لئے کھول دیئے گئے ہیں.ہمت کر کے عزم کے ساتھ اپنے پورے ایمان اور اخلاص اور قربانی اور ایثار کے ساتھ ہم نے ان دروازوں کی طرف بڑھنا ہے اور ان میں داخل ہو کر اس زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی جنت کو حاصل کر لینا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.اس لئے بے وقوف ہے وہ مخالف ، خواہ وہ سیاسی اقتدار رکھتا ہو، دنیا وی وجاہت رکھتا ہو یا مادی اموال رکھتا ہو.جو یہ سمجھتا ہو کہ چونکہ اُسے الہی وعدوں پر یقین نہیں اس لئے وہ جماعت احمدیہ کو بھی الہی وعدوں سے پرے ہٹانے میں کامیاب ہو جائے گا یہ تو ہو نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی رحمت سے ہمیں ایمان اور یقین اور معرفت اور محبت اور ایثار کے مقام پر کھڑا کیا ہے اگر اس کا فضل نہ ہوتا تو یہ کمز ور انسان ایک لحظہ کے لئے بھی ان تمام مخالفتوں کے ہوتے اس مقام پر کھڑا نہ رہ سکتا.ہمارے سر اس کے حضور جھکتے ہیں ہماری روح اُس کی حمد سے بھری ہوئی ہے ہم اس کے پیار کو دیکھتے ہیں ایک لحظہ کے پیار کو دنیا کی ساری دولتوں سے زیادہ قدر والا اور زیادہ قیمتی پاتے ہیں اور اُسے چھوڑ کر کسی اور طرف منہ نہیں کر سکتے.دھو کہ میں ہیں وہ جو جماعت کے متعلق اس کے خلاف کچھ سمجھتے ہیں اور مجنون ہیں وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی دھن کے پکے لوگوں کا یہ گروہ جو احمدیت کے نام سے موسوم ہوتا ہے یہ نا کام ہو سکتا ہے جو پیدا کرنے والے رب کی گود میں بیٹھ کر زندگی گزارنے والا جو اس کے پیار کے ہاتھ کو اپنے سر پر اور اپنے سینہ پر اور اپنی پیٹھ پر پھرتے محسوس کرنے والا ہے جس کے کان میں اُس کی آواز آرہی ہے کہ اسلام غالب آکر رہے گا اور تمہارے ذریعہ سے غالب آئے گا.جس کے دل میں یہ یقین ہے کہ اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ خدا تعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے ہیں وہ قربانیوں سے ڈرا نہیں کرتا.وہ اپنے مقام کو چھوڑا نہیں کرتا.اس لئے میں کہتا ہوں کہ مجنون ہے وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ جماعت احمد یہ اپنے مشن ، اپنے مقصد میں

Page 519

خطبات ناصر جلد پنجم ۴۹۹ خطبہ جمعہ ۱۵ / مارچ ۱۹۷۴ء کہ اسلام پھر دُنیا میں غالب آئے ، ناکام ہوگی اسلام غالب آئے گا انشاء اللہ.اور احمدیت خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے گی.انشاء اللہ.اس کے راستہ میں کوئی روک نہیں ہے چند دنوں میں آپ نے یہ نظارہ دیکھا.آپ میں سے بھی کئی ہوں گے جو یہ سمجھتے ہوں گے کہ اڑھائی کروڑ کی اپیل کر دی ہے.اتنی بڑی مالی قربانی تو شاید یہ جماعت نہ دے سکے لیکن ایسے بھی تھے جنہوں نے مجھے یہ پیغام بھیجے.اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے کہ آپ نے تھوڑی قربانی مانگی ہے اڑھائی کروڑ سے بہت زیادہ مانگنی چاہیے تھی.اپنے عمل سے انہوں نے ثابت کیا کہ جو کہا گیا تھا وہ بھی دیا ( یعنی اڑھائی کروڑ کے وعدے کر دیئے ) اور جو امید ظاہر کی گئی تھی کہ پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گا اُس خواہش کو بھی پورا کر دیا اور اس اصول کو بھی عملاً ظاہر کر دیا جو اللہ تعالیٰ کا ایک اصول ہے.ایک بنیادی چیز ہے، بنیادی سلوک ہے اس کا ہمارے ساتھ کہ جتنی ضرورت ہوتی ہے اُتنا وہ سامان کر دیتا ہے.اس لئے میں نے پچھلے خطبہ میں لاہور کی جماعت سے کہا تھا.لاہور میں میں نے خطبہ دیا کہ دراصل تو اڑ ہائی کروڑ یا پانچ کروڑ کا سوال نہیں.اگر خدا تعالیٰ کے علم غیب میں غلبہ اسلام کے لئے ان پندرہ سالوں میں بیس کروڑ کی ضرورت ہوئی تو اللہ تعالیٰ اپنے علم غیب کے نتیجہ میں جتنی بھی ضرورت ہوگی وہ تمہیں دے دے گا اور اس کے راستہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکے گی لیکن جو ہماری ذمہ داری ہے جس کی طرف میں بار بار توجہ دلاتا ہوں وہ یہ ہے کہ فخر نہ پیدا ہو، غرور نہ پیدا ہو، تکبر نہ پیدا ہو، سر ہمیشہ زمین کی طرف جھکے رہیں تا کہ وہ حدیث ہمارے حق میں بھی پوری ہوجس میں کہا گیا تھا کہ جب خدا کا ایک مخلص بندہ عاجزی اختیار کرتا ہے اور تواضع کی راہوں پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان تک اُس کی رفعتوں کا سامان کر دیتا ہے.ساتویں آسمان تک پہنچ کر بھی ہمارا دل خوش نہیں بلکہ اس سے بھی بلند تر اور ارفع جو چیز ہے یعنی خدا تعالیٰ کا پیار وہ ہمیں ملنی چاہیے اس میں یہی اشارہ ہے کہ تمہاری کوشش کے نتیجہ میں ساتواں آسمان تمہیں ملے گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نتیجہ میں اس کا ثواب جو کوشش سے زیادہ ملا کرتا ہے یعنی اُس کی رضا وہ تمہیں مل جائے گی.پس ہم تو خدا کے پیار کے بھوکے ہیں اور ہمارے دل میں تو یہ خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ کی

Page 520

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۱۵ / مارچ ۱۹۷۴ء توحید دنیا میں قائم ہو اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظمت قائم ہوانسان کے دل میں جس عظیم مقام پر اللہ نے آپ کو کھڑا کیا.ہماری تو یہ خواہش ہے ہم تو نا چیز ذرے خدا تعالیٰ کے پاؤں کی گرد سے بھی حقیر ہیں (اگر تمثیلی زبان میں خدا تعالیٰ کے پاؤں کا ذکر کیا جائے تو خدا تعالیٰ کے پاؤں کے ساتھ جو ذرے مٹی کے لگ سکتے ہیں ہم میں تو وہ بھی طاقت نہیں ہے ) لیکن یہ اس کی رحمت ہے کہ وہ پیار سے ہمیں پکڑتا پیار سے ہمیں اٹھاتا اور اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور ہمیں یہ تسلی دیتا ہے کہ ادھر اُدھر کیوں دیکھتے ہو.ساری دنیا مل کر بھی تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتی.ساری د نیامل کر بھی تمہیں نا کام نہیں کر سکتی.پس ہمارے دل حمد سے لبریز ہیں کہ چھ کروڑ سے اوپر تک وعدے پہنچ گئے اور ہماری روح اور ہمارا ذہن اُس کے حضور نہایت عاجزی سے جھکا ہوا یہ دعائیں کرتا ہے کہ وہ اپنی رحمت سے، نہ ہمارے کسی فعل سے اور ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں ہمیں کامیاب کرے اور ہمیں غلبہ اسلام کے دن دیکھنے نصیب ہوں.روزنامه الفضل ربوه ۱۱ را پریل ۱۹۷۴ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 521

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۰۱ خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۷۴ء انسانی قومی کی تین قوتیں قوت بیان ، قوت تصدیق و انکار اور قوت عمل صالح فرمائی:.خطبه جمعه فرموده ۲۹ / مارچ ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت تلاوت أَمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ - (البقرة : ۲۸٦) پھر حضور انور نے فرمایا:.انسانی قومی میں سے ایک قوت بیان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی قوت جوان باتوں کے اظہار پر قدرت رکھتی ہو جن کا اظہار ایک انسان کو کرنا چاہیے اور جس رنگ میں اظہار کرنا چاہے.قوت بیان، نطق سے مختلف اور زیادہ وسیع قوت ہے.قوائے انسانی میں سے دوسری قوت قوت تصدیق و انکار ہے جس کا انسانی دل سے تعلق ہے یعنی ایسی قوت جو حق سے ،صداقت سے، حقائق الاشیاء سے اور حقائق الوجود سے لگی اور تام مطابقت بھی رکھ سکتی ہو اور اختلاف بھی رکھ سکتی ہو یعنی گلی و تام مطابقت سے انکار بھی کر سکتی ہو.تیسری قوت قوائے انسانی میں سے یہ ہے کہ دل کی کیفیت کے مطابق ( اگر دل کی کیفیت تصدیق اور تحقیق کی ہے تو ) اعمالِ صالحہ بجالانا جسے ہم قوت عمل صالح کہتے ہیں یا اگر انکار کی کیفیت ہو تو عمل غیر صالح بجالا نا یہ ایک طاقت ہے.ان

Page 522

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۰۲ خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۷۴ء تینوں طاقتوں کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ نے انسان بنایا.ان میں بنیادی قوت دل کی طاقت ہے اور یہ تصدیق کی تحقیق کی موافقت کی یا عدم موافقت اور انکار کی طاقت ہے.یہ ان تین طاقتوں کا اصل اور جڑ ہے.اگر فطرت کی حقیقت کچھ اور ہو اور انسان کے دل کی حقیقت کچھ اور ہوا گر یہ کیفیت ہو اور اسی کے مطابق بیان کی قوت بھی دل کے ساتھ چل رہی ہو یعنی تکذیب کا اعلان کرنا اور عمل کی قوت بھی ایسے کافرانہ دل کی کیفیت کے ساتھ مطابقت کھاتی ہو یعنی عمل غیر صالح صادر ہونا تو اس کو اسلامی اصطلاح میں گفر کہتے ہیں.مگر دل کی اس کیفیت کی صرف یہ شکل نہیں بنتی بلکہ یہ شکل بھی بنتی ہے کہ دل انکار کر رہا ہے اور زبان اقرار کر رہی ہے جیسا کہ قرآنِ کریم نے فرمایا کہ منافق کہتے ہیں إِنَّكَ لرسول اللہ کہ تو اللہ کا رسول ہے.حقیقت یہی ہے.وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ (المنافقون: ٢) حقیقت یہی ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے لیکن منافق کا ذب ہے جھوٹا ہے یعنی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے بھی وہ اس لئے جھوٹا ہے کہ اصل چیز انسان کو جو دی گئی وہ ایک قلب سلیم تھا.جب قلب سلیم نہ رہا اور دل گفر کی طرف مائل ہو گیا اور ظاہری حالات میں زبان نے اس کافرانہ دل کا ساتھ نہ دیا تو یہ ایمان نہیں بلکہ نفاق ہے.ایک تو یہ حقیقت ہے ایسے انسان کی حقیقت جس کے دل نے حق سے موافقت نہیں کی اور حق کی تصدیق نہیں کی اور حق کو قبول نہیں کیا اور حق کو اپنایا نہیں کا فر بن گیا یا منافق بن گیا لیکن جس غرض کے لئے ان طاقتوں کو پیدا کیا گیا تھا وہ یہ نہیں تھی کہ انسان گفریا نفاق کی راہوں کو اختیار کرے.وہ حقیقت یہ تھی کہ انسان کے اندر دنیا کے کفر اور نفاق کی جو Temptation یعنی میلان ہے اس کو دھتکارے خدا کی خوشنودی کے لئے اور اپنے ایمان اور ایثار کی رفعتوں کے لئے اور اپنی روحانی پرواز کا مظاہرہ کرے اور فرشتوں سے آگے جائے جس طرح اُسے کافر ہونے کی حیثیت میں قرآن نے کہا کہ زمین کی طرف جھک گیا.اس لئے کہ اُسے زمین کی گہرائیوں میں دھنسنے کی طاقت دی گئی تھی.اگر وہ زمین کی طرف نہ جھکے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف اُس کی توجہ ہو وہ خالصتاً اُسی کا ہو جائے تو پھر وہ آسمانوں کی اُن بلندیوں کو چھوتا ہے جہاں تک فرشتوں کو پہنچنے کی تاب نہیں اُن سے بڑھتا ہے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو وہ حاصل کرتا ہے.پس جو طاقتیں انسان کو دی گئیں ان میں دو پہلو ر کھے گئے.ایک تکذیب کا اور ایک

Page 523

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۰۳ خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۷۴ء تصدیق کا.میں ایک ہی چیز کو لے لیتا ہوں.اس کے دو مختلف نتائج نکلتے ہیں جن پر میں نے مختصراً روشنی ڈالی ہے.یہ اس لئے تھا کہ انسان اللہ تعالیٰ کے پیار کو فرشتوں سے بھی زیادہ حاصل کر سکے.مومنانہ دل کی کیفیت یہ ہے کہ وہ حق کو حق تسلیم کرتا ہے اس کی تصدیق کرتا ہے اس کو اپنا تا ہے.اُس سے پیار کرتا ہے اپنی فطرت کو بالکل اُس کے موافق پا تا اور اُسی کے مطابق اپنی زندگی ڈھالتا ہے.وہ حق کو پہچاننے کے بعد حق کا ہو جاتا ہے اور کسی اور کی طرف اُس کی توجہ باقی نہیں رہتی.یہ مومنانہ دل ہے اور یہ دل کی اصل کیفیت ہے.یہ جڑ ہے اس سے دو شاخیں نکلتی ہیں.ایک شاخ بیان کی طرف نکلتی ہے اور پھر ایسے مومن کا بیان جو کچھ اُس کے دل نے محسوس کیا اُس کا اعلان وہ قولِ سدید سے بھی کرتا ہے قولِ طیب سے بھی کرتا ہے اور اسلام کی تعلیم کے مطابق سچ کے عام معیار سے او پر بھی نکلتا ہے اور پھر اُس کا بیان دنیا میں ایک طبیب انقلابی تحریکیں پیدا کرتا اور روح کو جھنجھوڑ دینے والے انقلابی نتائج پیدا کرتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایک دنیا کو لے جانے والا بن جاتا ہے.دوسری شاخ جو اس اصل سے نکلتی ہے وہ اعمال کی شاخ ہے.قلب سلیم سے عمل صالح کی شاخ نکلتی ہے یعنی ہر وہ عمل جو اُس دِل سے موافقت بھی رکھتا ہو اور اُس کے ذریعہ سے حق سے موافقت رکھتا ہو.حق کے ایک معنی اللہ کے بھی کئے گئے ہیں.حق کے معنی ہیں قائم رہنے والی چیز.خواہ وہ ابدی قائم رہنے والی چیز ہو.ایک حقیقت تامہ کا ملہ مستقلہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یا خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق عارضی طور پر قائم رہنے والی اور بعض پہلوؤں سے تبدیل ہو کر بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے والی چیزیں اُس کی مخلوقات میں ہمیں نظر آتی ہیں.جہاں تک شریعت کا سوال ہے حق کو تسلیم کرنا مختلف پہلو اپنے اندر لئے ہوئے ہے.ایسا دل شریعت حقہ کو سمجھتا اور اُسے قبول کرتا ہے اور اُس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتا ہے ایسا دل بشاشت سے تعلیم حق کو پہچانتا اور قبول کرتا ہے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتا ہے.ایسا دل بشاشت سے تعلیم حق کو پہچانتا اور قبول کرتا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ جو رسول کی طرف نازل کیا گیا اُس پر ہم ایمان لاتے ہیں.ایمان کے یہی معنی کئے گئے ہیں کہ جب یہ تین کیفیتیں پیدا ہو جا ئیں اصل اور بنیاد یہ کہ دل میں تصدیق حق کرنے کی کیفیت ہو اور انسان کی جو قوتِ اظہار و بیان ہے

Page 524

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۰۴ خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۷۴ء اس میں حق کے بیان کرنے کی کیفیت ہو اور اُس کے جوارح میں اعمالِ صالحہ بجالانے کی طاقت ہو.تو ان تین چیزوں کا نام اسلامی اصطلاح میں ایمان رکھا گیا ہے.پس میں بتا رہا ہوں کہ اصل چیز اور جڑ دلی کیفیت ہے اور اللہ نے رسول پر جو نازل کیا اُس پر وہ ایمان لائے ہیں یعنی اُس کے متعلق مومنوں کی دلی کیفیت اُسے قبول کر رہی ہوتی ہے (اس کے تین پہلو میں بتا رہا ہوں ) ایک شریعت کا پہلو ہے ایک عام تعلیم کا پہلو ہے اس میں دنیوی تعلیم بھی آجاتی ہے ایک بشارتوں کا نزول ہوتا ہے رسول پر.مثلاً حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی گئی کہ اسلام اب قیامت تک کے لئے قائم رہے گا.یہ ایک بشارت ہے جو اسلامی شریعت نے اسلامی ہدایت نے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اُس وحی نے ہمیں دی مثلاً ہمیں یہ بشارت دی گئی کہ تمام دُنیا اُمتِ واحدہ بن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے مہدی معہود کے زمانہ میں جمع ہوگی.یہ ایک عظیم بشارت ہے پھر اس عظیم بشارت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب اسلام کو انتہائی کامیابی اور آخری غلبہ حاصل ہو جائے گا تو جو اُس وقت بھی مسلمان نہیں ہو سکیں گے اُن کی مثال ایسے ہی ہوگی جیسے کسی ملک میں چوہڑوں چماروں کی ہوتی ہے کہ شاید وہ ہزار میں سے ایک ہوتا ہے.وہ محروم رہتا ہے.بدقسمت ہوتا ہے لیکن اتنی بھاری اکثریت دوسروں کی ہوتی ہے کہ اُس ملک کے باشندے چو ہڑوں اور چماروں کو کسی شمار میں نہیں لاتے یہی حالت مسلم اور غیر مسلم کی ہو جائے گی.اتنا غلبہ حاصل ہوگا.ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے کے لئے اس کی آگے شاخیں ہیں.اور ہمارے دلوں میں ایک قوت پیدا کرنے کے لئے ہمیں ان خطہ ہائے ارض کے متعلق کہا گیا بڑے بڑے مخالف علاقے جو تھے جہاں اسلام کے لئے کوئی میدان نہیں تھا نہ داخل ہونے کا نہ کامیاب ہونے کا.مثلاً رشیا (Russia) ہے کہہ دیا گیا.وہ رشیا جو کمیونسٹ (Communist) ہے جس نے اعلان کیا تھا کہ میں زمین سے خدا کے نام کو اور آسمانوں سے خدا کے وجود کو مٹا دوں گا.اُس ملک

Page 525

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۷۴ء کے لئے اُسی بشارت کے ماتحت کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا یہ بشارت دی کہ میں رشیا میں اپنی جماعت کے افراد کو ریت کے ذروں کی طرح دیکھتا ہوں“ یہ بڑی زبر دست بشارت ہے اور اسی عظیم بشارت کے ماتحت ہے کہ ساری دنیا میں اسلام غالب آئے گا.دُنیا کا ایک حصہ رشیا ہے اُس کے متعلق پیش گوئی کر دی کیونکہ اس کے متعلق بظاہر ایک ناممکن چیز نظر آ رہی تھی.اسی طرح دوسرے ہمارے بھائی مسلمان اپنی ناسمجھی کی وجہ سے ہمارے خلاف ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے مکہ کو مرکز بنا لیا احمدیت کے خلاف منصوبے بنانے کا.وہ ( مکہ اور مدینہ ) جو مرکز ہے اور بنے گا غلبہ اسلام کے منصوبوں کا.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی کہ اہلِ مکہ اور اہل حجاز فوج در فوج احمدیت میں داخل ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں یہ نظارہ دکھایا.اصل پیشگوئی وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی کہ اسلام مہدی معہود کے زمانہ میں ساری دنیا میں غالب آئے گا اور اُسی کی ذیل میں اُس کی تفاصیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں میں بتائی گئیں اور ہمارا پختہ یقین ہونا چاہیے اس پر.اُن کو صداقتیں سمجھ کر ہمارے دل کو تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا کے حالات جیسے بھی ہیں رہیں اور مخالفانہ طاقتیں جس قدر بھی مضبوط ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا.خدا نے کہا ہے کہ یہ ہو گا اس لئے یہ ضرور ہوگا اور جب قلب سلیم کی یہ کیفیت ہو.ایک مومن کی یہ کیفیت ہو تو مومنانہ جرأت کے ساتھ وہ تبلیغ بھی کرتا ہے اور انتہائی قربانی اور ایثار اور بشاشت کے ساتھ اعمالِ صالحہ بجالا رہا ہوتا ہے اور عام طور پر جماعت احمدیہ کی اللہ کے فضل سے اُسی کی رحمت سے یہ کیفیت ہے کہ دنیا مخالفت میں لگی ہوئی ہے اور احمدی دل اس یقین پر قائم ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت غلبہ اسلام کی اس تحریک کو روک نہیں سکتی اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت سے جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہوگا اور جماعت احمدیہ کے دل میں ایک بشاشت ہے، بشاشت اس لئے کہ کمزور جماعت ہے دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت ہے.دنیا کی دولتوں سے محروم جماعت ہے دنیا کا سیاسی اقتدار اُس کے پاس بھی نہیں پھٹکا اس کے باوجود خدا نے اسے اٹھایا اور کہا میں تیرے ذریعہ سے اسلام کو دنیا میں غالب کروں گا.کتنے بڑے پیار کا اظہار ہے جو خدا نے ہم سے کیا اور اس

Page 526

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۷۴ء کے مقابلے میں کتنا عظیم ایثار اور قربانی کا جذبہ ہمارے دل میں پیدا ہوتا ہے.دنیا حیران رہ جاتی ہے.بعض دفعہ خود ہم بھی حیران رہ جاتے ہیں.گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے ایک منصوبہ جماعت کے سامنے پیش کیا اور بعد میں اس کا نام ”صد سالہ احمد یہ جو بلی منصوبہ رکھا گیا.اُس کی تفصیل جیسا کہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ آج شوری کے سامنے پیش کر کے کوئی لائحہ عمل تیار کر لیا جائے گا انشاء اللہ تعالی." جلسہ سالانہ میں میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ میں شوریٰ تک یعنی مارچ کے آخر تک وقت دیتا ہوں.دوست مارچ کے آخر تک صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے لئے اپنے وعدے پہنچادیں اور اُس وقت میرے دل کی جو کیفیت تھی وہ اپنے اندر دو پہلو رکھتی تھی اور اُس کے مطابق میں نے اُس وقت اعلان کیا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو دیکھتے ہوئے میرے دل میں کچھ اور خواہشات بھی پیدا ہوئیں اور پھر میں نے ان کا اعلان کیا.جلسہ سالانہ پر میں نے کہا کہ میں اس منصوبہ کے لئے اڑھائی کروڑ روپے کی اپیل کرتا ہوں اور اُسی وقت میں نے یہ اعلان بھی کیا کہ میری یہ خواہش ہے اور مجھے امید ہے کہ ایسا ہو جائے گا کہ اس فنڈ میں پانچ کروڑ کی رقم آجائے گی.بعد میں اللہ کے فضلوں کو دیکھ کر گذشتہ دنوں اپنے چند روزہ قیام لاہور کے دوران (۸ / مارچ ۱۹۷۴ ء کے ) خطبہ جمعہ میں میں نے یہ اعلان کیا کہ نظر ایسا آرہا ہے اور میں اُمید کرتا ہوں کہ یہ فنڈ نو کروڑ تک پہنچ جائے گا اور ساتھ میں نے یہ کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ سوال اڑھائی کروڑ یا پانچ کروڑ یا نو کروڑ کا نہیں.سوال ہے اسلام کو غالب کرنے کے منصوبے اور تدابیر جو ہمارے ذہن میں آتی ہیں اُن کو عملی جامہ پہنانے کا.چونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام ساری دنیا پر غالب آئے اور چونکہ اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جماعت احمدیہ کو بچنا ہے اس لئے اصول یہ ہے کہ اس منصوبہ کو کامیاب کرنے کے لئے جتنی بھی رقم کی ضرورت ہوگی اللہ تعالیٰ اُس کا سامان پیدا کرے گا خواہ وہ رقم بیس کروڑ تک کیوں نہ ہو.ضرورت کا ہمیں علم نہیں ان پندرہ سالوں میں پندرہ مختلف گروہ جماعت میں داخل ہونے والے ہیں جو نئے سرے سے کمانے لگیں گے.اُن کی قربانیاں تو ہمارے سامنے نہیں آئیں.پھر اللہ تعالیٰ کس رنگ میں کتنی رحمتیں

Page 527

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۰۷ خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۷۴ء کرتا ہے اس کا بھی ہمیں علم نہیں.لوگ اب بھی اپنے وعدے بڑھا رہے ہیں.دو مہینے میں بھی بعض لوگوں نے اپنے وعدے بڑھا دیئے ہیں.اس عرصہ میں بھی بڑھاتے رہیں گے.پس میں یہ بتا رہا تھا کہ جب انسان کا دل اللہ اور اُس کی بنائی ہوئی فطرت سے موافقت رکھتا ہے جسے ہم قلب سلیم کہتے ہیں تو مومنانہ جرات کے ساتھ بیان کی بھی اُسے توفیق ملتی ہے اور مومنانہ قربانی اور ایثار سے بشاشت کے ساتھ اعمالِ صالحہ بجالانے کی بھی اُسے قوت عطا کی جاتی ہے.چنانچہ آج میں اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہو کر اور اُس کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ابھی شوری نہیں شروع ہوئی اس میں چند گھنٹے باقی ہیں اور صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں عطایا کے وعدے نو کروڑ بیس لاکھ تک پہنچ گئے ہیں اور اس میں بھی وہ وعدے شامل نہیں جن کا مجھے علم ہے لیکن جن کی اطلاع متعلقہ دفتر کو ابھی نہیں پہنچی اور وہ بھی میرا خیال ہے کہ شاید ۵۰لاکھ کے لگ بھگ ہوں گے اور ابھی وعدے آ رہے ہیں اندرونِ ملک سے بھی آرہے ہیں باہر سے بھی آ رہے ہیں.دیکھو! خدا کتنا پیار کرنے والا ہے.اُس نے مجھ سے اعلان کروایا کہ جماعت اڑھائی کروڑ کی قربانی دے اور مجھے اور جماعت کو توفیق دی کہ وہ یہ قربانی دے.پھر مجھ سے اس خواہش کا اظہار کر وایا کہ پانچ کروڑ تک یہ رقم پہنچ جائے اگر چہ میں اپیل اس کی نہیں کرتا.اُس وقت میں نے صرف خواہش کا اظہار کیا تھا.جماعت نے پانچ کروڑ کے وعدے کر دیئے.پھر میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس رنگ میں نازل ہوتی مجھے نظر آ رہی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ نو کروڑ تک پہنچ جائیں گے پھر میں نے کہا تھا جتنی ضرورت ہوگی پہنچیں گے ضرورت کا مجھے علم نہیں مگر میرے رب کو اس کا علم ہے.اُس کے مطابق خدا تعالیٰ مال کا انتظام کرتا چلا جائے گا اور اس وقت جو دفتر میں رجسٹر میں لکھے جاچکے وہ وعدے نو کروڑ بیس لاکھ تک چلے گئے یعنی نو کروڑ سے آگے نکل گئے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ان وعدوں کا رُخ اُس ضرورت کی طرف ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے ہمارے علم میں نہیں.پس مخلصانہ طور پر تہہ دل سے اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہو کر زبان سے اور اپنے افعال سے

Page 528

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۰۸ خطبہ جمعہ ۲۹ / مارچ ۱۹۷۴ء اور اپنے خیالات سے اور جذبات سے سُبحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر اور اُس کے پیار کے بغیر اور اُس کی رحمت کے بغیر اور اُس کی قدرت کے بغیر انسان کو اُس کی راہ میں قربانیاں دینے کا موقع بھی نہیں ملتا اور درود پڑھیں اُس عظیم ہستی پر جس کے طفیل دنیا آہستہ آہستہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو پہچاننے لگی ہے یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم.اللہ تعالیٰ ہمیں اس حمد کے ساتھ اُس عزم کی بھی توفیق دے کہ جو میں نے اس پندرہ سالہ عرصہ کا ایک ماٹو جماعت کے سامنے رکھا تھا کہ اگلے پندرہ سال میں حمد اور عزم ان دوستونوں کے اوپر ہم نے زندگی کی عمارت تعمیر کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا کرے کہ اُس کی توفیق کے بغیر ہم اپنے پیدا کرنے والے رب کا شکر بھی ادا نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ ہمیں مخلصانہ شکر ادا کرنے کی توفیق دے تا کہ یہ جو وعدہ دیا گیا ہے کہ تم شکر کرو گے تو میں مزید دوں گا.وہ مزید ہمیں ملے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ جب مزید ہمیں ملے تو ہم مزید قربانیاں اُس کے حضور پیش کر کے اُس سے بھی بڑھ کر حاصل کرنے کی توفیق پائیں اور یہ ایک تسلسل ایک چکر چلتا ہی رہے اور ہما را قدم بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے.اللَّهُم آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 529

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء روحانی بند کے نتیجہ میں انسان کی روحانی حرکت نہایت تیزی کے ساتھ بلندی کی طرف محو پرواز ہوتی ہے خطبه جمعه فرموده ۵ را پریل ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.چند ہفتوں سے بیماری چلی آرہی ہے اور بار بار تکلیف ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے کمزوری ہو گئی ہے.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت دے اور زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں (انسان کے علاوہ جو مخلوق ہے ) مختلف وجودوں میں دو مختلف اور متضاد طاقتیں پائی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ بعض ایسی چیزیں ہیں جن کی فطرت میں یہ ودیعت کیا گیا ہے کہ وہ نشیب کی طرف حرکت کریں مثلاً پانی ہے.پانی فراز یعنی بلندی کی طرف نہیں بہتا بلکہ ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے.اس کے برعکس بعض گیسز (Gases) ہیں جو متضاد فطرت رکھتی ہیں مثلاً ربڑ کے غباروں میں ہوا بھر دیں تو وہ آسمان کی طرف اُڑنے لگتے ہیں.پس یہ دو متضاد صفات ہیں جو مختلف قسم کی چیزوں میں ہمیں نظر آتی ہیں لیکن انسان میں ایک ہی وقت میں گہرائیوں کی طرف لڑھکنے کی صفت بھی پائی جاتی ہے اور بلندیوں کی طرف پرواز کرنا بھی اس کی فطرت میں داخل ہے.روحانیت کے علاوہ انسان کے اندر جو دوسری طاقتیں ہیں وہ

Page 530

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۱۰ خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء نیچے جانے کی طاقتیں ہوں یا بلند ہونے کی طاقتیں ہوں ، انسان ہر دو طاقتوں سے دُنیوی فوائد حاصل کرتا ہے.وہ سمندر کی گہرائیوں میں بھی اُترتا ہے اور چاند کی بلندیوں پر کمندیں بھی ڈالتا ہے اور اس طرح وہ اپنے علم میں اضافہ کرتا اور مختلف فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.جہاں تک روحانیت، رُوحانی رفعتوں کا سوال ہے بعض انسان اپنی فطرت کو بھول جاتے ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص دائرہ میں صاحب اختیار بنایا ہے اس لئے وہ بعض اوقات فطرت صحیحہ اور قلب سلیم کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بجائے رفعتوں سے دُور نشیب یعنی تنزل کی طرف حرکت کرتا ہے.قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے.وکو شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّةَ اخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: ۱۷۷) گویا خُلُود الَى الْأَرْض کی طاقت ہلاکت کی طرف لے جانے والی ہے اور انسان چونکہ صاحب اختیار ہے اس لئے وہ بعض اوقات ہلاکت کی راہ کو اختیار کر لیتا ہے لیکن.فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم : ۳۱) کی رُو سے ظاہر ہے کہ انسانی فطرت کو اس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ رفعتوں کی طرف پرواز کرے.رُوحانی طور پر بلند ہوتے ہوئے دنیا کی ہر مخلوق کو پیچھے چھوڑ دے اور اپنے رب کریم تک پہنچ جائے اور اس کا قرب حاصل کر لے.ہم پانی کی مثال لیتے ہیں اگر چہ میرے نفس مضمون سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن ہمیں اس کا علم ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایک بہت بڑا نظام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے جاری کیا ہے اور وہ یہ کہ سمندروں سے بخارات اُٹھتے ہیں.ہوا اُن کو اُڑا کر لے جاتی ہے پھر ایک خاص نظام کے ماتحت وہ بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ جہاں چاہے وہاں برستے ہیں اور دریاؤں میں پانی آجاتا ہے.بادل عموماً مخلوق کے فائدہ کے لئے برستے ہیں تاہم بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق بعض لوگوں کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں.پھر برف باری ہوتی ہے اور قدرتی ریزروائر (Reservoir) میں پانی اکٹھا کیا جاتا ہے اور پھر موسموں کی تبدیلی کے ساتھ وہ پگھلتا ہے اور دریاؤں میں بہنے لگتا ہے.بہر حال میرے مضمون کے ساتھ اس کا جو تعلق ہے وہ صرف اتنا ہے کہ دریاؤں میں پانی

Page 531

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۱۱ خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء بہتا ہے.پانی پہاڑوں میں سے بہہ کر آتا ہے اور اپنی فطرت کے مطابق نشیب کی طرف بہتا ہے اور مختلف علاقوں میں سے گذرتا اور لوگوں کے لئے تازہ بتازہ پانی کی سہولت پیدا کرتا ہے کنوؤں کے ذریعہ نیز کھانے پینے کے سامان پیدا کرتا ہے فصلوں کے ذریعہ.غرض پانی نشیب کی طرف جاتا ہے اور یہ حرکت اپنے معمول کے مطابق ہوتی رہتی ہے دریا کے پاس کھڑے ہو کر دیکھیں تو ( طغیانی کے دنوں کے علاوہ) ایسا لگتا ہے کہ پانی ٹھہرا ہوا ہے سوائے تنکے یا درخت کی ٹہنی کے بہنے یا بلبلے اٹھنے کے پانی کی حرکت نظر نہیں آتی.پانی بالعموم چند میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بہہ رہا ہوتا ہے لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ پانی کتنی رفتار سے بہہ رہا ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں نشیب کی طرف حرکت رکھ دی ہے اس لئے جتنا نشیب زیادہ ہو گا اس کی حرکت میں اتنی ہی تیزی آجائے گی.یہ قانونِ قدرت ہے.انسان نے پانی کی اس فطرت سے فائدہ اٹھانے کی ترکیب سوچی تو اُسے بند (Dams) باندھنے کا خیال آیا.”بند میں پانی ایک جگہ دریا کی نسبت زیادہ اکٹھا ہو جاتا ہے اور پھر ڈیم سے پانی کے نکاس کی طرف انسان نے زیادہ نشیب بنادیا اسے ہم Fall یعنی آبشار کہتے ہیں.بعض جگہ لوگوں نے کئی سوفٹ بلند پہاڑوں سے پانی نیچے گرایا ہے.پانی نے چونکہ نشیب کی طرف جانا ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے زور ، اپنی فطرت اور اپنے وزن کے مطابق بڑی تیزی سے زمین کی طرف آتا ہے لیکن چونکہ اس میں روحانیت نہیں ہوتی اس کا یہ خلود انسان کے فائدہ کے لئے ہوتا ہے انسان اس سے بجلی کی طاقت پیدا کرتا ہے جو اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی تھی.اس سے مختلف نہریں نکال کر وہاں تک پانی لے جاتا ہے جہاں تک دریا پانی نہیں پہنچا سکتا تھا.اسی طرح جب الہی سلسلے قائم ہوتے ہیں تو روحانی طور پر بھی بند باندھنے پڑتے ہیں اور چونکہ فطرت انسانی کی روحانی حرکت بلندی کی طرف ہوتی ہے اس لئے جب یہ بند باندھا جاتا ہے تو جس طرح پانی کئی سوفٹ کی بلندی سے بڑی تیزی کے ساتھ نیچے بہتا ہے اسی طرح روحانی بند کے نتیجہ میں انسان کی روحانی حرکت عام معمول کی نسبت بہت زیادہ تیزی کے ساتھ بلندی کی طرف محو پرواز ہوتی ہے جس طرح پانی ۳.۴ سوفٹ کی بلندی سے بڑی تیزی کے ساتھ نیچے بہتا

Page 532

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۱۲ خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء ہے اور انسان نے اس سے Tunnels کے ذریعہ بے تحاشا بجلی پیدا کر لی ہے اسی طرح روحانی Dam کے نتیجہ میں طاقت Generate پیدا ہوتی ہے اور وہ انسان کو انفرادی لحاظ سے بھی اور الہی سلسلوں کو اجتماعی طور پر بھی بڑی تیزی کے ساتھ بلندی کی طرف لے جاتی ہے.ہمارے عام بجٹ کی مثال اس پانی کی ہے جو آہستہ آہستہ نشیب کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے.ہمارا بجٹ جماعت احمدیہ کو آہستہ آہستہ بلندی کی طرف لے جارہا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ دو سے پانچ روپے بن گئے میں یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو جن برکتوں سے نوازتا ہے وہ اسے معمول کے مطابق بلندی کی طرف لے جانے والی ہیں اور اُسے بہر حال نا کام نہیں ہونے دیتیں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ فرائض کیا ہیں؟ آپ نے بتائے تو اس نے کہا.میں نہ اس فرائض کو چھوڑوں گا (وَلَا اَنْقُصُ ) اور نہ نوافل پڑھوں گا (لا آزید ) آپ نے فرمایا اگر یہ شخص اس بات پر قائم رہا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا کیونکہ ایمان اور قربانی کا ایک عام معیار جو ہے اُس پر قائم ہونے کی وجہ سے وہ جنت کا حقدار ہو گیا ہے لیکن ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم سب سے کم نمبر لے کر تھر ڈ ڈویژن میں پاس نہ ہوں جولڑ کا سب سے کم نمبر لے کر پاس ہوتا ہے اس کی بھی یہ خواہش نہیں ہوتی کہ وہ تھرڈ ڈویژن لے کیونکہ انسان کے اندر بلندیوں اور رفعتوں کے حصول کی خواہش پیدا کی گئی ہے اور انسان کو بلندیوں اور رفعتوں کے حصول کی طاقت عطا کی گئی ہے.وہ اپنی معمول کی حرکت کے مطابق بھی بلندی کی طرف بڑھتا ہے اور وہ بند بھی باندھتا ہے تا کہ اس کی حرکت میں اور تیزی پیدا ہو جائے.ہماری جماعت کے ایک تو عام چندے ہیں چندہ عام ہے، چندہ وصیت ہے، چندہ جلسہ سالانہ ہے یہ عام چندے ہیں جن کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روحانی لحاظ سے بلند سے بلند تر ہورہی ہے لیکن بلندی کی طرف اس کی حرکت میں اتنی تیزی نہیں جتنی روحانی بند باندھنے کے ساتھ آنی چاہیے.پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ میں نظام خلافت قائم فرمایا.خلیفہ وقت کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ روحانی بند (Dam) بنائے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ

Page 533

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۱۳ خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء نے علاوہ اور بہت سے اہم کاموں کے تحریک جدید کے نام سے ایک بہت بڑا روحانی بند تعمیر کیا، تحریک جدید کی مالی قربانیاں عام چندوں سے مختلف تھیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کو اتنی روحانی رفعتیں عطا ہوئیں کہ روئے زمین پر جماعت احمدیہ کی شکل بدل گئی.گو پہلے چند بڑے بڑے ملکوں میں جماعت قائم تھی لیکن اس میں وسعت نہیں تھی.پھر جب تحریک جدید کا روحانی بند تعمیر ہوا تو جس طرح نہریں نئے سے نئے بنجر علاقوں میں پانی لے جا کر اُن کو آباد کرتی ہیں اسی طرح تحریک جدید کے اس بند کے ذریعہ احمدیت نے افریقہ میں دور دور تک اسلام کے روحانی پانی کو پہنچا یا.پھر یورپ میں پہنچایا امریکہ میں پہنچایا اور جزائر میں پہنچایا.یہ ایک عظیم الشان روحانی بند تھا جس سے جماعت احمدیہ کو اسی طرح طاقت حاصل ہوئی جس طرح مادی پانی کے بند ہوتے ہیں اور ان کے ذریعہ بجلی کی طاقت بھی پیدا ہوتی ہے اور اس سے انسان دوسرے فائدے بھی اٹھاتا ہے.پھر خلافت ثالثہ کے زمانہ میں ”فضل عمر فاؤنڈیشن“ کے نام سے ایک چھوٹا سا روحانی بند تعمیر کیا گیا.اس سے بھی خدا کے فضل سے جماعت کو بہت ترقی مل رہی ہے.اس سے ذرا بڑا بند نصرت جہاں ریز روفنڈ“ کے نام سے بنایا گیا اس روحانی بند کے ذریعہ مغربی افریقہ میں ایک سال کے اندراندر سولہ ہسپتال قائم ہو گئے اور بہت سے نئے سکول اور کالج کھل گئے.اس مالی قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے برکتیں عطا فرما ئیں لوگوں کو خدمت دین کا شوق پیدا ہوا مجھے نائیجریا سے ایک دوست کا خط آیا ہے کہ سعودی عرب کے سفیر کہتے ہیں کہ احمدیوں کو حج پر نہیں جانا چاہیے مگر ہم ایک کے بعد دوسری مسجد بنارہے ہیں اس وقت تک انہوں نے درجنوں نئی مسجد میں بنا دی ہیں ان میں اسلام کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی ہے.وہاں کئی نئی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور یہ اس روحانی بند کی برکت ہے جسے نصرت جہاں منصوبہ اور ریز روفنڈ کا نام دیا گیا تھا.جماعت احمدیہ کی روحانی ترقی میں شدت پیدا کرنے کے لئے اور اس کی رفتار ترقی کو بڑھانے کے لئے اب ایک اور زبردست روحانی بند’صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ“ ہے.اس منصوبہ کے لئے فنڈ ا کٹھا ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو اس منصو بہ میں

Page 534

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۱۴ خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء مالی قربانی پیش کرنے کی بے مثال تو فیق عطا فرمائی ہے.پچھلے جتنے بھی بند تھے اُن سے روحانی نہریں نکلیں اور بنجر علاقے سیراب ہوئے اور جماعتِ احمدیہ نے انفرادی اور اجتماعی ہر دورنگ میں روحانی ترقی کی اور اس کے نتیجہ میں اس نئے بند کی تعمیر ممکن ہوئی اور جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کی ایک نئی روح پیدا ہوگئی ہے.نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے وقت بہت سے دوستوں کا یہ خیال تھا کہ شاید میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکے گی کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی خلافت کے جتنے سال ہیں اُتنے لاکھ روپے جمع ہو جائیں.مگر جماعت نے اس فنڈ میں بڑی قربانی دی.چنانچہ میری خواہش تو ۵۱ لاکھ روپے کی تھی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے تین سالوں میں قریباً ۵۳ لاکھ روپے جمع ہو چکے ہیں.فالحمد لله على ذالك - یہ ان رفعتوں کا نتیجہ ہے کہ جماعت احمدیہ میں روحانی طور پر بصیرت پیدا ہو گئی قوم کو دور بین نگاہ ملی اور ان کی فراست تیز ہو گئی اور اُن کے ایمان بڑھ گئے اور تقویٰ کی راہوں پر چلنے سے اُن کے دلوں میں بشاشت پیدا ہوگئی.چنانچہ دوستوں نے صد سالہ احمد یہ جو بلی منصوبہ میں اب تک قریباً دس کروڑ کے وعدے کر دیئے ہیں.میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ نو کروڑ بیس لاکھ روپے کے وعدے آچکے ہیں اور پھر دو گھنٹے کے بعد مجلس مشاورت کے افتتاحی اجلاس میں نو کروڑ چون لاکھ کا اعلان کیا تھا.میرا خیال ہے اب تک نو کروڑ ستر اسی لاکھ تک وعدے پہنچ چکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے اب کبھی تو یہ حال تھا کہ بڑی تگ و دو کے بعد اور بڑی فکر کے بعد بڑی دعاؤں کے بعد جماعت نے نصرت جہاں ریز روفنڈ میں ۵۳ لاکھ روپے کی مالی قربانی دی لیکن اب ایک نیا بند باندھنے کا منصوبہ خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھا تو جماعت نے بڑی بشاشت کے ساتھ ۵۳ لاکھ کے مقابلے میں قریباً دس کروڑ روپے کی قربانی کے وعدے کر دیئے اور جیسا کہ میں نے مجلس مشاورت پر بھی بتایا تھا دراصل یہ ایک زبر دست تیاری ہے نئی صدی کے استقبال کی.اس پندرہ سولہ سال کے عرصہ میں ہم نے نئے مشن کھولنے ہیں.نئی مساجد بنانی ہیں.قرآن کریم کی کثرت سے اشاعت کرنی ہے کم از کم سوز بانوں میں اسلام کی بنیا دی تعلیم پر مشتمل کتاب شائع

Page 535

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۱۵ خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء کرنی ہے اور جیسا کہ میں نے اعلان کیا تھا کہ میں علی وجہ البصیرت (انسان ہوں اس لئے غلطی کر سکتا ہوں ) اس یقین پر قائم ہوں کہ جب ہم دوسری صدی میں داخل ہوں گے تو جماعت احمدیہ کی زندگی کی یہ دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہو گی.اس دوسری صدی میں ہم غلبہ اسلام کے اتنے زبر دست جلوے دیکھیں گے کہ ان کے مقابلے میں پہلی صدی ہمیں یوں نظر آئے گی کہ گویا ہم نے غلبہ اسلام کے لئے تیاری کرنے میں سو سال گزار دیئے.دوسری صدی میں ہم کہیں گے کہ پہلی کوششوں کے نتائج اب نکل رہے ہیں.جو باغ پہلی صدی میں لگایا گیا تھا اب ہم اس کا پھل کھا رہے ہیں.گویا دوسری صدی میں اسلام غالب آ جائے گا اور اس کے بعد کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے علاقے ایسے رہ جائیں گے جن میں اسلام کی تبلیغ کا کام کرنا پڑے گا.تاہم اُس وقت ایک بڑا کام جو باقی رہ جائے گا وہ ہر نسل کی تربیت کا کام ہوگا.خدا کرے اس وقت تک کہ جب کافروں پر قیامت آنا مقدر ہو سو سال تو نہیں پانچ سو سال بلکہ ہزار سال تک احمدیت کی ایک نسل کے بعد دوسری نسل پوری تربیت یافتہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والی بن جائے.اب بند اور دریا کا جو تعلق ہے وہ واضح ہو چکا ہے یعنی اگر بند نہ باندھے جائیں تو پانی کی رفتار میں تیزی نہیں پیدا ہوگی جس طرح ایک ہوا خوری کرنے والا آدمی خراماں خراماں چلتا ہے اسی طرح دریا کا پانی بھی آہستہ آہستہ بہتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے جو پانی کی شکل ہے وہی روحانی طور پر رفعتوں کی طرف روحانی حرکت کی حالت ہے اگر روحانی بند نہ باندھے جائیں تب بھی جماعت ترقی تو کرے گی لیکن بہت آہستہ آہستہ ترقی کرے گی لیکن جس طرح دریاؤں کو بند باندھنے سے پانی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے مختلف نہریں نکالنے کی سہولتیں میسر آتی ہیں.لاکھوں کلو واٹ بجلی مہتا ہوتی ہے اسی طرح روحانی طور پر بھی مختلف منصوبے (جنہیں میں روحانی بند کہتا ہوں) بنائے بغیر تیزی اور شدت نہیں پیدا ہو سکتی لیکن اگر دریا میں بھی پانی نہ ہو تو بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں بند کا فائدہ تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ دریا میں پانی ہو اُسے ایک خاص جگہ پر روک کر اکٹھا کیا جائے اور پھر بلندی سے نیچے گرا کر اس میں غیر معمولی تیزی پیدا کی جائے اور اس سے کئی فوائد

Page 536

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۱۶ خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء حاصل کئے جائیں اور اگر دریا میں پانی ہو اور اس پر بند نہ باندھا جائے تو دریا کے پانی میں تیزی نہیں پیدا ہوتی اس لئے ترقیات کے لئے ہر دو کا وجود آپس میں لازم و ملزوم ہے.دریا میں عام معمول کے مطابق پانی بھی ہونا چاہیے ورنہ بند کے اندر پانی حسب ضرورت جمع نہیں ہو سکے گا اور اگر بند نہ ہوں تو پانی کا ضیاع ہے مثلاً جہاں ضرورت نہیں یا کم ضرورت ہے وہاں پانی زیادہ پہنچے اور جہاں پانی کی زیادہ ضرورت ہے وہاں پہنچ نہ سکے.گویا اس کے مختلف فوائد ہیں.یہی حالت روحانیت کی ہے.اگر ہم روحانی بند نہ بنائیں تو ہمارے کاموں میں شدت اور تیزی پیدا نہیں ہوگی رفعتوں کی طرف ہماری حرکت میں اگر تیزی پیدا نہیں ہوگی ہماری ترقی کی رفتار بہت ست پڑ جائے گی.میں نے ابھی تحریک جدید اور نصرت جہاں ریز روفنڈ کی مثالیں دی ہیں.ہر آدمی کو یہ نظر آرہا ہے کہ ان کی وجہ سے جماعت کی ترقی کی رفتار میں غیر معمولی تیزی آگئی ہے لیکن اگر عام چندے نہ ہوں تو پھر بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ بند میں جمع ہونے کے لئے پانی نہیں جائے گا یعنی بند باندھنے کے باوجود اس میں شدت پیدا نہ ہوگی اس لئے معمول کے مطابق جس طرح دریا میں پانی رہنا چاہیے اسی طرح عام چندوں کی ادائیگی بھی از بس ضروری ہے جس طرح مختلف موسموں میں دریا کا پانی بڑھتا رہتا ہے اسی طرح عام چندوں کو بھی آہستہ آہستہ بڑھتے رہنا چاہیے کیونکہ جماعت احمدیہ کا قیام بتاتا ہے کہ بہار آ گئی ہے.ہمارے لئے عید کا سماں پیدا ہو گیا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے عید کی مبارک بادمل گئی ہے.پس جس طرح سورج کی تمازت بڑھتی ہے تو برف زیادہ پگھلتی ہے اور دریاؤں میں پانی زیادہ آ جاتا ہے اسی طرح ہماری جماعتی زندگی کا یہ سماں متقاضی ہے کہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی گرمی جوش مارے تا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ریز روائر کی برف پگھلے اور ہمارے پانی (یعنی مالی قربانی ) میں زیادتی کا موجب بنے اور ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ ہماری اجتماعی فطرت کا تقاضا یہی ہے.اگر ہم اس میں کمزوری دکھا ئیں یعنی ہماری ترقی تدریجی رنگ میں اور آہستہ آہستہ ہو رہی ہو یعنی چندہ عام، حصہ آمد یا چندہ جلسہ سالانہ کی ادائیگی کی رفتارست ہو تو پھر بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اگر بند نہ باندھیں تو عام چندوں

Page 537

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۱۷ خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکتے اس لئے بند باندھنے کی بھی ضرورت ہے.اب ایک نیا روحانی بند بن رہا ہے.ہم نے پہلے جو روحانی بند باندھے تھے ہم اُن سے رُوحانی فیض حاصل کر رہے ہیں.اس وقت تحریک جدید بھی بڑا کام کر رہی ہے.وقف جدید اور فضل عمر فاؤنڈیشن بھی اپنے اپنے رنگ میں بڑا کام کر رہی ہے مثلاً فضل عمر فاؤنڈیشن نے پہلے جماعت کو ایک لائبریری بنا کر دی تھی.اب اس کے زیر اہتمام باہر سے آنے والے مہمانوں کے لئے ایک گیسٹ ہاؤس کا ایک بہت بڑا منصوبہ زیر تکمیل ہے.اس کے پہلے مرحلے پر شاید پانچ سات لاکھ روپے خرچ ہوں گے.پھر اس کا ایک دوسرا مرحلہ ہے جو بعد میں تعمیر ہوگا اس پر بھی بہت خرچ آئے گا.پھر نصرت جہاں ریزروفنڈ کا منصوبہ ہے جس کے تحت کئی ہسپتال بن گئے ہیں.سکول گھل گئے ہیں.اس عرصہ میں کئی مخالفانہ روکیں پیدا ہوئیں ہمارے صبر کی آزمائش ہوئی.پھر ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوا.بعض متعصب افسروں کی وجہ سے (وہ ملک متعصب نہیں لیکن بیچ میں کوئی بلجیئم کا باشندہ یا بنگال کا متعصب ہند و آجاتا ہے ) ایک جگہ ہمارا ہسپتال نو مہینے تک بند پڑا رہا.لوگوں نے ہمارے ڈاکٹر کو یہ مشورہ دیا کہ تم اس ملک سے چلے جاؤ.اس نے مجھے لکھا تو میں نے کہا آرام سے بیٹھے رہو.یہ مقابلہ ہمارے صبر اور ہمت کا اور اُن کے تعصب کا ہے اُن کا تعصب کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے ہمارا صبر اور ہماری قوت برداشت ہی بالآخر کامیاب ہوگی چنانچہ ہم نے نو مہینے تک ڈاکٹر اور اس کے سٹاف کو فارغ نہیں کیا.میں نے ہدایت کی تھی کہ سب کو تنخواہیں دیتے چلے جاؤ.ہمیں خدا تعالیٰ دیتا ہے تو تم بھی لوگوں کو دیتے چلے جاؤ.اگر متعصب لوگ یہ تماشا دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ بھی دیکھ لیں کہ خدا تعالیٰ کی جماعت کا قدم پیچھے نہیں ہٹا کرتا.چنانچہ نو مہینے کے بعد اب وہاں کی حکومت نے ہسپتال کی اجازت دے دی ہے.وہ لوگ ہمارے ہسپتال کی عمارتوں کے متعلق عجیب و غریب شرطیں لگا دیتے ہیں ہم وہ بھی پوری کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ خدمت دین کے لئے ہمیں پیسے دیتا ہے ہم خرچ کر دیتے ہیں اور بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہو جاتے ہیں.بہرحال افریقی ممالک میں بڑی زبر دست حرکت ہے اور یہ نصرت جہاں منصوبے کی

Page 538

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۱۸ خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء برکت ہے.وہاں سے ہمارے چیف گا مانگا صاحب جلسہ سالانہ پر آئے تھے.وہ بڑے زیرک اور صاحب فراست اور بڑے مخلص احمدی ہیں.انہوں نے مجھے بتایا کہ نصرت جہاں سکیم کے بہت ہی خوشکن نتائج نکل رہے ہیں اور اب تو یوں لگتا ہے کہ سارا ملک ہی بڑی جلدی احمدی مسلمان ہو جائے گا.دوست دعا کریں کہ یہ ملک بھی جلد احمدی مسلمان ہو جا ئیں دوسرے ممالک بھی احمدی مسلمان ہو جاتے لیکن ہماری دعا یہ ہے کہ جلدی جلدی احمدی ہو جائیں تا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والا بن جائے.پس جس طرح دریا میں مادی پانی کا ہونا ضروری ہے اسی طرح روحانی پانی کا ہونا بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم کشف میں دُودھ دکھایا تھا اب جماعت احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دُودھ کی نہریں چلائی ہیں لیکن دُودھ کی بھی مادی فطرت نشیب کی طرف ڈھلک جانے کی ہے لیکن جو روحانی دُودھ ہے وہ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ علَيْهَا کا مصداق ہے اور اس کی فطرت کا تقاضا لرفعنہ کی رو سے بلندیوں کی طرف پرواز کرنا ہے.اس بلند پروازی میں رُوحانی بند کے ذریعہ شدت اور تیزی پیدا کرنے کی ضرورت ہے.گو یا مادی اور روحانی طور پر بند باندھنے کے دو متضاد نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں.مادی بند کے نتیجہ میں پانی میں نشیب کی طرف جانے کی حرکت میں شدت پیدا ہوتی ہے اور روحانی بند باندھنے کی وجہ سے الہی سلسلوں اور جماعتوں میں بلندیوں کی طرف پرواز کرنے میں تیزی اور شدت پیدا ہوتی ہے اس لئے ان ہر دو کا وجود ضروری ہے ہم نے ایک بڑا ز بر دست بند باندھا ہے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے نام سے یہ ایک عالمگیر منصوبہ ہے اس کو پورا پانی بہم پہنچانے کے لئے ہمارے رُوحانی دریا میں جسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری فرمایا تھا ور جس کی غرض بنی نوع انسان کو روحانی طور پر سیراب کرنا تھا اس میں پہلے کی نسبت پانی بڑھ جانا چاہیے تا کہ اس بند کے پُر ہو جانے سے غلبہ اسلام کے حق میں شاندار نتائج برآمد ہوں.جماعتی چندوں کا سال اب ختم ہو رہا ہے.ہمارے دفتر والے ڈرتے ہیں کہ کہیں کمی نہ واقع ہو جائے.میں نے پچھلے سال غالباً ۱/۲۰ پریل کو ایک خطبہ جمعہ میں دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ

Page 539

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۱۹ خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء چند دن رہ گئے ہیں اور پانچ لاکھ روپے کا ابھی بقایا ہے اسے پورا کریں چنانچہ دوستوں نے میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے پانچ لاکھ سے زائد رقم ادا کر دی تھی اب اس دفعہ بھی مالی سال ختم ہونے میں ایک مہینہ باقی رہ گیا ہے اور پانچ سات لاکھ روپے کی کمی ہے یہ بھی انشاءاللہ پوری ہو جائے گی.اس کی مجھے فکر نہیں لیکن مجھے یہ بھی حکم ہے وَذَكَرُ فَإِنَّ الذِكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الدريت : ۵۶) اور اطاعت میرا فرض ہے پس میرا فرض ہے کہ احباب جماعت کو یاد دہانی کراؤں کیونکہ یاددہانی ایمان کا ثبوت ہے.قرآنِ کریم بڑی حسین کتاب ہے اس نے یہ نہیں کہا کہ کمزورں اور جاہلوں کو یاد دہانی کراؤ بلکہ کہا ہے کہ مومنوں کو یاد دہانی کراؤ.پس چونکہ جماعت احمد یہ خدا کی بڑی پیاری جماعت ہے.یہ ایمان میں بڑی پختہ جماعت ہے لیکن چونکہ وہ ایمان میں پختہ ہے اس لئے میرا فرض ہے کہ میں اُن کو یاد دہانی کراؤں اور پھر دنیا یہ تماشا دیکھے ( وہ تو اسے تما شا ہی سمجھتی ہے ) کہ یہ ایک عجیب قوم ہے ان کے سالانہ بجٹ میں اتنی بڑی کمی تھی جسے انہوں نے چند دنوں میں پورا کر دیا ہے.مجھے امید ہے یہ کی بھی انشاء اللہ پوری ہو جائے گی.دوست اپنی طرف سے پوری کوشش کریں کہ نہ صرف یہ کہ سالانہ بجٹ پورا ہو بلکہ ہم اس سے آگے بڑھیں مثلاً کراچی کی جماعت نے بھی صدرانجمن احمدیہ کے بجٹ کی مختلف مذات میں کم و بیش ایک لاکھ روپے کی رقوم بھجوائی ہیں لیکن انہوں نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ وہ صرف اپنا بجٹ ہی پورانہیں کریں گے بلکہ اس سے دس فی صد زائد ادا کریں گے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے بجٹ سے کم و بیش ۴۰ ہزار روپے زائد بھجوائیں گے یہ ایک بہت بڑی جماعت ہے اور بڑی مخلص جماعت ہے اور بڑے چندے دینے والی جماعت ہے.ان کا مجموعی بجٹ چار لاکھ سے زیادہ ہے.دس فی صد کا مطلب یہ ہے کہ وہ مزید ۴۰ ہزار روپے وصول کر کے مرکز میں بھجوائیں گے.پھر لاہور کی جماعت ہے اس کے اندر بھی بیداری کی رُوح پیدا ہو گئی ہے.کسی زمانہ میں راولپنڈی کی جماعت کی طرح یہ بھی بہت کمزور جماعت تھی.اللہ تعالیٰ نے لاہور والوں پر فضل فرمایا اور وہ بیدار ہو گئے مگر راولپنڈی والوں میں ابھی تک وہ جان اور وہ طاقت نہیں آئی جو

Page 540

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲۰ خطبه جمعه ۱٫۵ پریل ۱۹۷۴ء کمزوری کے بعد لاہور والوں میں آگئی ہے اس لئے ان کی مجھے زیادہ فکر رہتی ہے اور اب میں ان کا نام لے کر اُن کو یہ یاد دہانی کراتا ہوں کہ تمہارے دوسرے بھائی جو مختلف علاقوں میں رہتے ہیں جب وہ اپنے بجٹ سے دس فیصد زائد دے سکتے ہیں تو تم دس فی صد کم پر کیسے تسلی پالو گے.اس لئے میں احباب جماعت سے یہ کہوں گا کہ جو اُن کے بجٹ ہیں وہ تو بہر حال پورے ہونے چاہئیں.اگر ہمارے بجٹ پورے نہیں ہوں گے یا دریا میں عام پانی نہیں ہوگا تو ہم جو بند باندھ رہے ہیں اُن کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا حالانکہ ہماری کوشش اور خواہش یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا ئیں.اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں ان صداقتوں کے سمجھنے اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے.(روز نامه الفضل ربوه ۱۸ را پریل ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 541

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲۱ خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء مومن کی زندگی کی نمایاں علامت ہے کہ وہ کسی منزل پر رکتا نہیں بلکہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے خطبہ جمعہ فرموده ۱۲ را پر میل ۱۹۷۴ء بمقام مسجد تھی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.طبیعت ابھی کمزور ہی چلی آرہی ہے.گو پہلے سے بہتر ہے.الْحَمْدُ لِلهِ.قرآن کریم نے ہمیں صرف یہ دعا نہیں سکھائی کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں صراط مستقیم کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ راستہ جو کم سے کم کوشش کے نتیجہ میں منزل مقصود تک پہنچانے والا ہو.دنیا کی ہر خواہش کے پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ایک راستہ ہے اور جب تک اُس راہ کا علم انسان کو نہ ہو وہ منزلِ مقصود تک نہیں پہنچتا یا بہت تکالیف اُٹھانے کے بعد بہت چکر کاٹ کر اور تکلیف اُٹھا کر اپنی منزل تک پہنچتا ہے.ہمیں صرف یہ دعا نہیں سکھائی بلکہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ کی دعا کی قبولیت کے ساتھ جو ذمہ واری ہم پر عائد ہوتی ہے اُس کے نبھانے کے لئے دعا ہمیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں پہلے سکھائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ اے خدا! ہمیں توفیق عطا کر کہ جو طاقتیں تو نے صراط مستقیم پر چل کر منازل مقصودہ تک پہنچنے کے لئے عطا کی ہیں

Page 542

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲۲ خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء ہم ان کا صحیح اور پورا استعمال کر سکیں.اس تفسیر کی روشنی میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے یہ معنی ہیں.پھر وَايَّاكَ نَسْتَعِينُ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ بتدریج ارتقا کا قانون اس مادی دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے اور کسی منزل کو بھی آخری منزل سمجھ کر تسلی پا جانے کی فطرت ہمیں تو نے دی نہیں اس لئے ہر منزل پر پہنچ کر اگلی منزل کی تلاش دل میں پیدا ہوتی ہے اور تیری محبت کی جس منزل پر بھی ہم پہنچے ہوتے ہیں اُس سے زیادہ کے حصول کی خواہش ہمارے دل میں مچلتی ہے اس لئے ہر منزل جس تک ہم پہنچیں ( ان طاقتوں اور کوششوں اور تدابیر کو انتہا تک پہنچا کر ان طاقتوں کے ذریعہ جو تو ہمیں دے چکا ہے یعنی اپنی انتہائی کوشش کے نتیجہ میں ) وہ تیری پیدا کردہ فطرت کے مطابق ہماری آخری منزل نہیں بلکہ اگلی منزل کی خواہش پیدا ہوتی ہے جس کے لئے پہلے سے زیادہ قوت اور طاقت کی ضرورت ہے اور جب تیری توفیق سے اپنی طاقتوں کا صحیح اور پورا استعمال کر کے ہم ایک جگہ پہنچیں تو پھر ہماری دعا ہے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں مزید طاقتیں عطا کر.چنانچہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں اس طرف اشارہ ہے اور اس طرح پر یہ صراط مستقیم جو ایک معنی میں منزل به منزل انسان کی خوشیوں کے سامان بھی پیدا کرتا ہے اور دوسرے معنی میں ہر منزل اگلی منزل کی نشاندہی کرتی ہے اور اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو مزید حاصل کرنے کی جو خواہش دل میں مچلتی ہے اُس کے لئے مزید طاقتوں کی ضرورت ہے جس کے لئے ہمیں دعا سکھائی.پس صرف یہ نہیں کہا کہ ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ صراط مستقیم کی ہدایت ملنے کے بعد بھی بعض بد قسمت راہ راست کے کنارہ پر گر کر مر جاتے ہیں اور ان کا جسم اور رُوح سرگل جاتی ہے اور تعصب اُن میں پیدا ہو جاتا ہے.آخر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زندگی میں ہمیں یہ نظارہ نظر آیا کہ بعض ایسے بدقسمت تھے جن کو یہ کامل اور مکمل ہدایت ملی یعنی قرآنِ عظیم کی شریعت اور جن کو ایک بہترین اُسوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ملا اُ نہوں نے اس کو ایک حد تک پہچانا اور اس سے فائدہ حاصل کیا اور ایک وقت کے بعد وہ مرتد ہو گئے.پس صراط مستقیم کے کنارے پر ان کی رُوحانی یا بعض دفعہ رُوحانی اور جسمانی ہلاکت واقع ہوئی.پس محض صراط مستقیم کا عرفان حاصل کر لینا کافی نہیں یعنی اس ہدایت کا مل جانا کہ یہ سیدھا راستہ ہے

Page 543

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲۳ خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء بلکہ اس پر چلنا ضروری ہے اور محض چلنا ضروری نہیں بلکہ ہرلمحہ اور ہر آن پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ راہ راست پر حرکت کرنا ضروری ہے تب انسان کو آخری خوشیاں اور جو انتہائی لذتیں ہیں اور انتہائی خوشی ہے وہ ملتی ہے جس کا نام اس دنیا کی جنت بھی رکھا گیا ہے اور جس کی آخری شکل اس جہان سے گذرنے کے بعد دوسری زندگی کے اندر انسان کے سامنے آئے گی لیکن وہاں بھی صراط مستقیم کی منازل کی انتہا نہیں ہو گی.قرآنِ کریم نے بھی اور احادیث نے بھی قرآنِ کریم کی تفسیر کرتے ہوئے بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے یہ بات رکھی ہے کہ وہاں بھی اگر چہ امتحان نہیں ہو گا مگر عمل ہوگا.امتحان کا مطلب ہے کہ جہاں یہ خطرہ ہو کر عمل درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہوسکتا ہے.عمل اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل بھی کر سکتا ہے یعنی عملِ صالح بھی ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھی بھڑکا سکتا ہے یعنی عمل غیر صالح بھی ہوسکتا ہے.پس یہاں عمل ہے اور امتحان ہے اور دوسری زندگی میں عمل تو ہے ( نکتا پن نہیں کہ پوستیوں کی طرح افیم کھا کر بیٹھ گئے اور اونگھتے رہے ) عمل ہے مگر امتحان نہیں.یہاں عمل ہے اور امتحان ہے.وہاں عمل ہے اور ترقیات کے دروازے کھلے ہیں.وہاں پیچھے ہٹنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے آگے ہی آگے بڑھنا ہے ہر روز زیادہ ترقیات ملتی ہیں اور ہر روز زیادہ عمل کی توفیق ملتی ہے.پس یہ شکل ہے ایک مومن کی زندگی کی.پھر دنیا میں اُس کے اعمال بھی یہی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں.اور دوسری دنیا میں بھی اُس کے اعمال یہی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں.اس دنیا میں انسان مومن صالح ، خدا کا محبوب اور مغترب دو قسم کا عمل کرتا ہے.ایک عمل ہے اُس کا شکر ادا کرنے کے لئے اور ایک عمل ہے مزید شکر کے سامان کے حصول کے لئے یعنی پہلے سے زیادہ ملے اور زیادہ وہ شکر ادا کرے.ہمیں اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً (البقرة : ۲۰۲) کی دعا سکھائی کہ ہمیں ایسے اعمال کی توفیق عطا کر کہ اس دنیا کی حسنات بھی ہمیں ملیں ( مثلاً درخت لگے ہوئے ہوں اور گرمی کم ہو.یہ دنیا کے حسنات میں سے ہے ) اور ہمیں ایسے مقبول اعمال کی توفیق عطا کر کہ تیری جنتیں ہمیں یہاں سے جانے کے بعد حاصل ہوں.جنتوں کے ہم حقدار ٹھہریں وہاں جانے کے بعد ایک ہی زندگی ہے یہاں ہمارے سامنے دو زندگیاں ہیں.ایک اس دنیا کی زندگی

Page 544

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲۴ خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء اور ایک اُس دنیا کی زندگی اس لئے اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ہمیں سکھا یا لیکن اُس دنیا میں ایک ہی زندگی ہے یعنی جنت کی زندگی اور اس میں امتحان نہیں ہے لیکن ترقیات ہیں اس لئے وہ ایک ہی قسم کے اعمال ہیں.وہ اعمال شکر بھی ہیں اور مزید ترقیات کے حصول کے بھی ہیں یہاں فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کی جو دعا ہے وہ شکر کے لئے ہے اور ناکامیوں سے بچنے کے لئے بھی ہے کہ جو تو نے دنیا کی نعمتوں کے حصول کے دروازے ہمارے لئے کھولے ہیں.ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیں توفیق دے کہ ان پر تیرا شکر ادا کر سکیں اور کبھی محروم نہ رہ جائیں.بہر حال یہ مومن کی زندگی کی تصویر ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ مومن جب حقیقی مومن بن جاتا ہے تو اس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ استقامت اور صراطِ مستقیم قریباً ایک مفہوم میں استعمال ہو جاتے ہیں.پس استقلال کے ساتھ اور استقامت کے ساتھ کام کرتے چلے جانا یہ مومن کی زندگی کی ایک نمایاں علامت ہے.ہم نے یہاں رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے ماتحت کام شروع کیا درخت لگانے کا پانی مہیا کرنے کا اور نہ صرف یہ کہ اس کام میں آگے ہی آگے بڑھنا چاہیے بلکہ اس سلسلہ میں جو حرکت ہے اُس میں سستی نہیں پیدا ہونی چاہیے لیکن سستی پیدا ہو جاتی ہے.انسان بھول جاتا ہے اسی لئے دعا سکھائی کہ جو ہم بھول جائیں اس پر ہماری گرفت نہ کر اور جوغلطی ہم کر جائیں تو اس کے کفارہ کے سامان ہمارے لئے پیدا کر دے میں کچھ عرصہ سے محسوس کر رہا ہوں کہ جو ہم نے یہاں درخت لگانے کا کام شروع کیا تھا اور پانی کی جو ضرورت تھی.اُسے پورا کرنے کے لئے ٹیوب ویل لگانے کا پروگرام بنا تھا اور یہ مشترکہ کوشش یعنی نظام کی کوشش اور اہل محلہ کی رضا کارانہ کوشش کا پھل ہم نے حاصل کرنا تھا.اس میں کچھ کمی واقع ہوگئی ہے میرے علم کے مطابق اس منصوبہ کے ماتحت تین کنوئیں لگ چکے ہیں اور ایک ابھی اپنی آخری شکل میں نہیں آیا یعنی وہاں ٹینکی نہیں بنی اور محلہ دارالیمن کے غربی حصّہ میں پانی کی تکلیف ہے اور دوسرے اس محلہ میں جہاں ہمیں پانی ملا ہے وہ دریا کے قریب کا علاقہ ہے اور وہ محلہ پہاڑی کے دامن کے ساتھ ساتھ درہ تک پھیلا ہوا ہے وہاں میں نے سروے وغیرہ کروایا تھا.میں نے کہا تھا کہ وہاں جائزہ لو اور دیکھو

Page 545

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲۵ خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء کہ زمین کی شکل کیسی ہے اور جتنے فٹ اونچا ہمیں اٹھانا پڑے اٹھانا چاہیے تا کہ میٹھا پانی اُس محلہ کے غربی کنارے تک ہم پہنچاسکیں اس میں بھی پوری تیز رفتاری اور مستعدی کے ساتھ کام نہیں ہوا کچھ کام تو ہوا ہے لیکن میری تسلی کے مطابق نہیں ہوا.پھر یہ ہے کہ نیا سال آ رہا ہے اس لئے نئی سکیم ہمارے سامنے آنی چاہیے.اگر اور ضرورتیں ربوہ میں کسی جگہ بجلی کے کنوئیں لگانے کی ہیں تو وہ ابھی سے ہمارے علم میں آنی چائیں تا کہ اگلے سال میں ہم وہ ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کریں.کنوئیں کی سکیم کے ساتھ بہت سے درخت لگائے گئے تھے.کچھ تو بڑے اچھے پل رہے ہیں اور کچھ مر گئے اور جب درخت لگائے جاتے ہیں تو ان میں سے پلتے بھی ہیں اور کچھ مرتے بھی ہیں.یہ قانونِ قدرت ہے کہ کچھ زندہ رہتے ہیں کچھ مرتے ہیں.قانونِ قدرت کا ایک پہلو یہ ہے کہ عام طور پر جتنے فی صد درخت عام قانون کے مطابق مرتا ہے اس سے زیادہ نہیں مرنا چاہیے اور اس کے لئے کوشش ہونی چاہیے.جہاں زیادہ مرتا ہے.وہاں ہمیں کوشش کی کمی نظر آتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ مرجاتا ہے یا پھر بکریاں چر لیتی ہیں ربوہ میں بکریوں کو رہنے کی اجازت صرف اس صورت میں مل سکتی ہے کہ وہ ہمیں گوشت دیں اس شکل میں نہیں مل سکتی کہ ہمارے درختوں کو وہ کھا لیں.آپ خیال رکھیں سب اہلِ ربوہ کا یہ کام ہے نیز درخت مرجاتے ہیں اس لئے کہ بچہ بعض دفعہ عدم تربیت کے نتیجہ میں شرارت کی وجہ سے بعض دفعہ بے خیالی میں مثلاً سکول سے گھر آتے ہوئے بے خیالی میں کسی پودے کو پکڑ کر جھٹکے سے کھینچتا ہے اور بعض دفعہ پودا اس کے ہاتھ میں آجاتا ہے یا اس طرح پر اُسے تکلیف اور صدمہ پہنچتا ہے کہ اس کے لئے پوری طاقت کے ساتھ آگے بڑھنا ممکن نہیں رہتا یا چند دنوں کے بعد وہ مرجائے گا.پس ہمارے بچوں کی یہ تربیت ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے درخت ہمارے لئے پیدا کئے ہیں اور درختوں کے سائے سے اور ان کے پھلوں سے فائدہ اُٹھانا ہمارا کام ہے اس وقت اگر چہ موسم نہیں لیکن کوشش کر کے ہم اس میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں مسلمانوں کی تو ذہنی حالت یہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے.مغلیہ دور کے بادشاہ جنہوں نے ہندوستان پر حکومت کی تھی ان میں بہت

Page 546

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲۶ خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء سی علمی کمزوریاں پیدا ہوگئی تھیں یہ تو درست ہے لیکن اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کے بعض ایسے عجیب نظارے ہمارے سامنے آتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.میں اس وقت روحانی ترقیات کا ذکر نہیں ( کر ) رہا صرف (حسنات دنیا کے سلسلہ میں ) مثال دے رہا ہوں.روحانی ترقیات بھی اُن میں سے بہتوں نے کیں اور ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں کہ جن کو علمائے وقت نے مجدد وقت تسلیم کیا لیکن میرا مضمون وہ نہیں ہے میں اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے متعلق کہہ رہا ہوں.اُنہوں نے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول کے لئے بے حد کوشش کی اور اُس کے شکر کے طور پر اُس کی شان کو اور عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے کام کیا.مغل بادشاہوں کی تاریخ میں ذکر آتا ہے کہ بادشاہ کسی سفر پر جا رہا ہے.کسی جگہ بنجر علاقہ میں پہاڑی کے دامن میں بڑا سا چشمہ دیکھا.اُس زمانہ میں ہوائی جہاز تو تھے نہیں.مہینوں کے سفر ہوتے تھے مثلاً آگرہ سے بادشاہ چلا ہے تو دکن سے واپسی بعض دفعہ ڈیڑھ سال میں ہوتی تھی لیکن انتظام ایسا تھا کہ وہ بادشاہ افسر متعلق کو کہتا تھا دیکھو! یہاں اچھی آبشار ہے لیکن یہ علاقہ بنجر پڑا ہوا ہے.میں آگے جا رہا ہوں جب میں واپس آؤں تو اس جگہ حوض بنا ہوا ہوا اور سو دو سو ایکٹر میں باغ لگا ہوا ہو.یہ حکم دے کر وہ آگے چلا جاتا تھا پھر وہ مزے سے بیل گاڑیوں پر سفر کرتا اگر فوج ساتھ ہے تو کئی لاکھ آدمیوں کا اس طریقہ پر سفر کرنے میں بڑا وقت لگتا تھا.ان کے سامان آگے جاتے تھے بازاران فوجوں کے ساتھ ساتھ چلتے تھے اور دوحصوں میں بٹ کر چلتے تھے.ایک حصہ پڑاؤ کے ساتھ رہ جاتا تھا اور دوسرا حصہ آگے نکل جا تا تھا.ہیں ہیں ہزار گھوڑے کے چارے اور دانے کا انتظام بڑا انتظام ہے جو ان کو کرنا پڑتا تھا اس کے نتیجہ میں ان کے سفر کی رفتار سست پڑ جاتی تھی.میں نے پڑھا ہے کہ جاتے ہوئے بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ یہاں حوض بنا ہوا ہو اور پورا باغ لگا ہوا ہو اور جب واپس آئے تو پھلدار پودے وہاں لگے ہوئے تھے.اس لئے کہ اگر ہم پودے کو Transplant کریں یعنی ایک جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ لگائیں تو پودا لگ جاتا ہے لیکن ہر شخص کی اپنی اپنی ہمت ہے کسی میں اتنی ہمت ہے کہ صرف چار مہینے کے پودے کو ایک جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ لگا سکتا ہے اور کسی میں اتنی ہمت ہے کہ چار سال کے پودے کو لگا سکتا ہے.اپنی عمر کے لحاظ سے پودے کی جڑوں کا

Page 547

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲۷ خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء پھیلاؤ ہے چھ مہینے کا پودا ایک فٹ کی گاچی نکالنے سے دوسری جگہ لگ سکتا ہے اور پل سکتا ہے لیکن چار سال کا پودا ایک فٹ کی گاچی نکالنے سے نہیں ہلے گا کیونکہ اس کو زندہ رکھنے کے لئے جتنی جڑوں کی ضرورت ہے وہ چار یا پانچ یا سات فٹ کے گھیر میں اور پانچ یا سات فٹ کی گہرائی میں ہے.پس جب اُن بادشاہوں کا حکم ہوتا تھا وہ پورا کیا جاتا تھا.بادشاہ کہ دیتا تھا جب میں واپس آؤں تو یہاں پھلدار پودے بھی ہوں وہ آٹھ آٹھ فٹ کی گا چیاں نکالتے تھے اور اُن کے پاس ہاتھی اور دوسرے ایسے سامان تھے کہ ان پودوں کو اس طرح باندھتے تھے کہ گاچ ٹوٹتی نہ تھی.اس کے لئے ایک تو وتر ، صحیح ہونا چاہیے ورنہ مٹی بھر جائے گی اور اگر صحیح و تر ہو اور مٹی گرے نہیں اور جڑیں نگی نہ ہوں تو چار سال کا پودا بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی لگ سکتا ہے.مغل بادشاہوں نے ایسا کر دکھایا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کا یہ مطلب نہیں کہ انسان تدبیر نہ کرے مثلاً کوئی شخص دو مہینے کے آم کے پودے کے نیچے منہ کھول کر لیٹ جائے اور آم کا رس اس کے منہ میں ٹپکے.یہ مطلب تو نہیں کہ قوانین قدرت الہی قوانین کو توڑے بھی اور بھلائی کی امید بھی رکھے.بنیادی طور پر اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے اور اسے اچھی طرح ذہن نشین کرو کیونکہ آج کے کمیونسٹ دہریہ کا جو اعتراض مذہب پر ہے اس کی بڑی وجہ اس مسئلہ کو جو اسلام نے پیش کیا ہے نہ سمجھنا ہے کیونکہ دوسرے مذاہب نے اس چیز کو اُن کے سامنے نہیں رکھا نہ اپنی زندگیوں میں اس پر عمل کیا.بنیادی تعلیم اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے متعلق بھی یہ ہے کہ اس دنیا اور عالمین میں جو چیز بھی پائی جاتی ہے اس کے متعلق فرما یا سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية: ۱۴) کوئی استثنا نہیں.بغیر استثنا کے ہر چیز تمہاری خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے یہ اعلان کیا لیکن یہ نہیں کہ تم سکتے بیٹھ جاؤ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھے رہو، اونگھتے رہو، افیم کھانی شروع کر دو، زندگی میں تمہیں کوئی دلچسپی نہ ہو ، تم محنت نہ کرو تم وہ قانون جو فائدہ اٹھانے کے ہیں نہ سیکھو اور مشاہدات تمہارے کمزور ہوں پھر بھی تم اس سے فائدہ اٹھا لو گے اور مخلوق تمہاری خادم بنی رہے گی جہاں ایک طرف یہ اعلان کیا کہ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ وہاں دوسری طرف یہ اعلان کیا کہ ليْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعى (النجم :۴۰) کہ یہ چیزیں تمہاری خادم تو ہیں

Page 548

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲۸ خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء لیکن جتنی خدمت تم اپنی محنت سے ان سے لو گے اُتنی خدمت کریں گی اس سے زیادہ نہیں کریں گی.مغل بادشاہ نے پانچ برس کا پھل دینے والا درخت اپنے حکم سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لگوا دیا اور قانونِ قدرت جو درختوں اور اُن کی جڑوں اور اُن کے پھیلا ؤ اور ان کو پانی دینے کے متعلق ہے کہ اتنا پانی ملنا چاہیے اور اتنے وقت کے بعد ملنا چاہیے.غذا اتنی ہونی چاہیے ان سب چیزوں کے متعلق قانون ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے.اس قانون کو ان بادشاہوں نے سمجھا اور اس کے مطابق اُسے پچاس میل یا دوسو میل دور لے جا کر دوسری جگہ لگوا دیا.فرقان بٹالین جب کشمیر کے محاذ پر رضا کارانہ طور پر اپنے ملک کی خدمت کر رہی تھی تو ہماری دائیں طرف ایک قلعہ تھا جس کی دیواریں اس محراب کی اونچائی کے برابر اگر کبھی جائیں تو اس میں تین یا چار پتھر تھے اور وہ پتھر اس علاقہ کے نہیں تھے ہم نے پتہ لیا.صحیح اور علی وجہ البصیرت تو ہمیں پتہ دینے والے نہیں تھے لیکن جتنا پتہ لگ سکا وہ یہ تھا کہ سینکڑوں میل سے ہاتھیوں کے اوپر اتنے بڑے بڑے پتھر اٹھا کر لائے اور وہاں قلعہ بنا دیا.وہ دیوار اتنی مضبوط تھی کہ ہندوستان کے ۲۵ پاؤنڈ کے گولے اُس دیوار پر پڑتے تھے.تو ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوتا تھا اور بغیر نقصان پہنچائے دوسری طرف جا کر گر جاتے تھے تو جو اتنے اتنے وزنی پتھر اُٹھا کر لے آئے اُن کے لئے درختوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا کیا مشکل تھا.درخت کی عمر کے مطابق جتنی بڑی گاچ کی ضرورت ہوتی تھی وہ جانتے تھے اور اس طرح وہ درخت پھلدار ہو جاتے تھے.بادشاہ سلامت واپس آئے تو وہاں باغ لگا ہوا تھا.پھلدار درخت لگے ہوئے تھے موسم کے مطابق پھل لگے ہوئے تھے ، پھول لگے ہوئے تھے ہر چیز وہاں تھی اور جہاں تک مجھے یاد ہے کم و بیش ایک سال میں یہ سب کچھ ہوا.پس جو چیز ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ بے شک اس عالمین کی ہر چیز انسان کی خادم ہے لیکن انسان پر اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگائی ہے کہ محنت سے اپنی عقل کو استعمال کر کے تجربہ حاصل کرنے اور مشاہدہ حاصل کرنے کے بعد قانونِ قدرت کی اتباع کرتے ہوئے وہ جو کوشش کرے گا اس کا پھل اس کو مل جائے گا.کیيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى - وَ أَنَّ سَعْيَه سَوفَ يُڑی میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے کہ انسان کو اُس کی کوشش کا پھل ملے گا لیکن خدا تعالیٰ نے جس طرح کہا کہ سخر لكم اسی

Page 549

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۲۹ خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء کے اندر یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ ہم نے قانونِ قدرت اور احکام الہی کی زنجیروں میں باندھ کر ہر شے کو تمہارا خادم بنایا ہے ان قوانین کا علم حاصل کرو.ان کے مطابق کوشش کرو تو پھل تمہیں ملے گا سوائے اس کے جو دوسرا قانون ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرو گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عام قانون کو تمہارے حق میں استعمال نہیں ہونے دے گا اور درختوں کو کہے گا نہیں اب میرا وہ قانون نہیں چلے گا کیونکہ انہوں نے میرے مقابلہ پر کھڑے ہو کر بغاوت کی ہے اس لئے اب اگر یہ عام قانون کی بھی پابندی کریں گے تب بھی ان کو پھل نہیں ملے گا.وہ تو عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ سے منہ موڑنے والوں اور انبیاء کے مخالفوں پر ہمیشہ آتے رہے ہیں اور قرآنِ کریم نے اس کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.قرآنِ کریم یقیناً بڑی عظیم کتاب ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے.بہر حال جو کام ہم نے درخت لگانے کا شروع کیا ہے قانونِ قدرت کے مطابق ہم اگر محنت کریں گے تو ہمیں ان کا سایہ ملے گا اور پھل ملے گا ورنہ نہیں ملے گا قانونِ قدرت یہ کہتا ہے کہ اگر درخت بچہ ہو اور اُس کی جڑوں کو ہلا دیا جائے تو وہ درخت بڑھ نہیں سکتا اور مرجاتا ہے اس کی جڑیں تنگی ہو جائیں تب بھی مر جاتا ہے جڑیں ہل جائیں اور ہوا اندر پڑ جائے تب بھی مرجاتا ہے جڑیں کٹ جائیں تب مرجاتا ہے مثلاً اگر ایک سال کا درخت ہے اور آپ نے اُس کی گاچی دو مہینے کے پودے جتنی بنائی ہے جس کے نتیجہ میں اس کی موٹی جڑیں کٹ جائیں گی تو قانونِ قدرت کی خلاف ورزی کر کے آپ کو پھل نہیں ملے گا.پس قانونِ قدرت کی پابندی کرنی پڑے گی.اب میں نے آپ سے کہا کہ یہ جو بنیادی تعلیم ہے اس کو یا درکھیں تا کہ کوئی کمیونسٹ دہر یہ آپ سے بات کرے تو آپ جواب دے سکیں.میں حیران ہوا جب ایک کمیونسٹ رسالہ کے ایک مضمون میں میں نے یہ پڑھا کہ یہ صرف عزم یعنی انسانی ارادہ ہے جو نتائج پیدا کرتا ہے آسمانی قانون نتائج پیدا نہیں کرتا.میں نے کہا واہ ! تم نے تو ۲ /۱ علم بھی حاصل نہیں کیا.انسانی کوشش اور عزم صرف اُس وقت کامیاب ہوتا ہے جب عام حالات میں قانونِ قدرت کی پابندی کر رہا ہو اور خاص حالات میں ( یعنی اگر کوشش کرنے والا خدا کا برگزیدہ ہے تو عام حالات میں جتنی فصل ہوگی اس سے ) زیادہ خدا تعالیٰ دے دے گا اور اگر اس نے خدا کو ناراض کیا ہے تو عام حالات

Page 550

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۳۰ خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء میں اُس کوشش اور تد بیر کا وہ نتیجہ اس کے حق میں نہیں نکلے گا جو اس جیسی تدبیر کا نتیجہ زید اور بکر کے حق میں نکلے گا کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کو ناراض کر لیا.اگر چہ زید اور بکر نے خدا تعالیٰ کو نہ خوش کیا نہ ناراض کیا لیکن خدا تعالیٰ کو چونکہ ناراض نہیں کیا اس لئے ان کے حق میں عام قانون چلتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا وہ پھل جلدی حاصل کرتا ہے اور زیادہ حاصل کرتا ہے اس وقت میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ جس مذہب نے یہ کہا ہو کہ ہر چیز جو پیدا کی گئی ہے وہ انسان کے فائدے کے لئے اور انسان کی خادم بنا کر پیدا کی گئی ہے اُس کو یہ کہنا کہ ہو ینز (Heavens) نے یا اللہ تعالیٰ نے انسان کا کوئی خیال ہی نہیں کیا تھا.انسان نے اپنے عزم سے اور قوتِ ارادی کے ساتھ نتائج حاصل کرنے ہیں یہ بات عقل میں نہیں آتی.بہر حال اس وقت جو بات میں کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے ربوہ میں ایک کام شروع کیا ہے.آپ اپنے بچوں کی تربیت کریں کہ وہ درختوں کی حفاظت کریں اور ان کی ہلاکت کا باعث نہ بنیں.آپ خود بھی خیال رکھیں.وقت پر پانی دیں اسی طرح ان کی اور بہت سی حفاظتیں ہیں وہ کرنی پڑتی ہیں اگر مثلاً درخت کے ساتھ گھاس پھوس اُگ آیا ہے تو محلے والے اس کو صاف کریں درخت کے ارد گرد ایک دائرہ کے اندر زمین کو نرم کریں وقت پر اس کو کھاد دیں اور جو گرمی اور سردی کے مطالبات ہر درخت کے ہیں ان کو پورا کریں اور جو منتظمین ہیں وہ اہل محلہ کو اس سلسلہ میں معلومات فراہم کریں ہدایات دیں ،مشورے دیں.میں ایک مثال دیتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ تو جہ اور صیح نگہداشت سے کتنا فرق پڑتا ہے.میں جب گذشتہ سال انگلستان کے دورہ پر گیا تو کچھ بیماری کی وجہ سے وہاں آرام بھی کرنا تھا لیکن بہت سا کام بھی کرنے کی توفیق خدا تعالیٰ نے دی بہر حال یہاں ایک نیم کا پودا ہم نے انجمن کے اس مکان کے صحن میں جہاں ہماری آج کل رہائش ہے لگایا تھا اور میں اس کو کوئی تین فٹ اونچا چھوڑ کر گیا تھا وہ دو مہینے کا پورہ تھا یوں بھی بکائین کی نسبت نیم دیر میں پلتی ہے جب میں چند ماہ کے بعد آیا تو میں نے دیکھا کہ اس نیم کا قد دس گیارہ فٹ تک گیا ہوا تھا میں بڑا حیران ہوا کہ یہ درخت بدلا گیا ہے یا کیا بات ہوئی ہے غیر معمولی قد اس نے نکال لیا ہے تو پتہ لگا میرے بچے نے اس میں انگریزی کھا د دی اور اس میں کچھ دوسری کھاد ملا کر مشورہ سے ڈالتا اور خیال رکھتا رہا اور یوں یہ

Page 551

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۳۱ خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۷۴ء بڑھ گیا ہے حالانکہ عام قانون کے مطابق اس کو دو سال میں وہاں پہنچنا چاہیے تھا.پس اس کا بھی علم ہونا چاہیے.درختوں کو عام طور پر لوگ یہ سمجھ کر کہ ان کو ضرورت نہیں کھا د نہیں دیتے ٹھیک ہے اگر اس نے دس فٹ تین سال میں ہونا ہے تو اس کو کھاد کی ضرورت نہیں وہ تین سال میں اُتنا ہو جائے گا لیکن اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایک سال میں دس فٹ تک پہنچ جائے (ایسے درخت ہیں ہمارے گھر کے صحن میں لگا ہوا ہے ) تو اُس کو آپ کھاد دیں وہ ایک سال کا بھی انتظار نہیں کرے گا.چھ مہینے کے اندر اس تک پہنچ جائے گا.پس درختوں کی حفاظت کریں اور نئے درخت لگا ئیں.جو میں نے مغل بادشاہوں کی مثال دی ہے اُس وقت میں تعلیمی لحاظ سے ایک اصولی بات بتا رہا تھا.اس سلسلہ میں استدلال کیا تھا اس سے آپ یہ بھی استدلال کر سکتے ہیں کہ جہاں درخت مر گئے ہیں اگلے موسم کا ہم انتظار نہیں کر سکتے.اس لئے کہیں ذخیروں میں درخت مل جائیں تو بڑی بڑی گا چیاں نکالیں اور یہاں لگا دیں.پاپکر کا درخت اپنی پت جھڑ کے وقت سو یا ہوا ہوتا ہے.اگر فروری میں اس کو جڑوں سمیت اُکھاڑ کر جھاڑ کر مٹی کے بغیر دوسری جگہ لگا ئیں تو وہ ہو جائے گا لیکن جب اس نے پتے نکال لئے ہیں اسے اُکھاڑ کر اور جھاڑ کر لگا ئیں گے تو نہیں لگے گا لیکن آپ ڈیڑھ یا دوفٹ کی یا جو بھی مناسب ہو گا گا چی نکال کر لگا ئیں تو وہ ہو جائے گا کیونکہ اس نے ایک معنی میں اپنا مقام چھوڑا اور دوسرے معنی میں اپنی زمین نہیں چھوڑی وہ اس کے ساتھ ہی آگئی.پس نئے درخت لگا ئیں جو دوست آج کے بعد مجھے بتا کر اپنے محن سے باہر عام قسم کے پانچ درخت پال لے یا دو پھلدار درخت اپنے صحن کے اندر بڑی گا چیاں لگا کر پال لے تو ہر دو درخت پالنے والے کو میں انعام دوں گا لیکن میں اب انعام کی شکل معین اس لئے نہیں کر سکتا کہ اگر سب کو ہی میں نے انعام دینا ہے تو اس کی شکل کچھ اور ہوگی اور اگر دو یا چار ہیں تو پھر اس کی شکل اور ہوگی اگر وہ دوسو یا سات سو گھر ہیں تو ان سب کو انعام دوں گا لیکن اس کی شکل بہر حال بدل جائے گی.انجیر یا شہتوت کا درخت بہت جلدی پھل دیتا ہے انجیر تو چند مہینوں کے اندر پھل دے دیتا ہے اگر وہ تھوڑا ہی ہوگا کیونکہ شروع میں تو ایک ہی شاخ ہو گی لیکن پھل آ جائے گا.شہتوت بھی اگر آپ

Page 552

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۳۲ خطبه جمعه ۱۲ ۱٫ پریل ۱۹۷۴ء بڑی گاچی لگائیں گے تو اگلے سال پھل دے دے گا.میں نے احمد نگر میں اپنی زمین پر شہتوت کا پودا لگایا ہے لیکن وہ اپنے وقت پر لگا یا تھا یعنی جب شہتوت کی پت جھڑ ہوتی ہے یعنی فروری کے آخر اور مارچ کے شروع میں اُس کے پتے بڑے اچھے نکلے ہیں اللہ نے خیر کی اور وہ آفات سماوی سے بچا رہا اور ہماری کسی غلطی اور غفلت کے نتیجہ میں ہمیں سزا دینے کے لئے اس پودہ کو اللہ تعالیٰ نے نہ مارا تو اگلے سال اس کا پھل آجائے گا یعنی ڈیڑھ سال بعد.پس آپ اپنے چھوٹے سے محن میں بھی پھلدار پودے لگا سکتے ہیں.لگائیں اور پھل کھائیں.اگر صحن بڑا ہے اور دس دس فٹ کے فاصلہ پرانجیر اور شہتوت لگادیں تو تین چار درخت لگا سکتے ہیں.جس کا مطلب ہے کہ اگر ۱۵ فٹ مربع جگہ ہے تو اس میں آسانی سے دس دس فٹ کے فاصلہ پر ۴ درخت لگ سکتے ہیں کچھ دیوار کے قریب آجا ئیں گے.دیوار میں اگر اپنے والی ہیں تو ادھر آپ جھاڑیاں کھڑی کر دیں.مری ہوئی جھاڑیاں بھی دیواروں کی تپش کو روکتی ہیں بہر حال مشورہ کریں اور لگائیں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ ہر گھر اپنے صحن کا پھل دو سال کے اندر اندر کھا رہا ہو.انشاء اللہ کوشش تو کریں دیکھیں کتنا مزہ آئے گا.اللہ تعالیٰ کے حسن کو اُس کے قدرت کے جلوؤں میں آپ دیکھیں گے گند کے اندر پلا ہوا درخت اتنا ستھرا پھل آپ کو دے رہا ہو گا.میں نے کلر اور شورہ والی زمین میں پہلے ہوئے درخت دیکھے ہیں کہ اتنے میٹھے اور شیریں پھل دیتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ جس زمین سے غذا اس درخت نے لی تھی وہ تو کر والی اور کھاری تھی اور جو پھل ہمیں ملا ہے وہ میٹھا ہے.اگر کسی کا بالکل ہی چھوٹا صحن ہے اور وہ زیادہ درخت نہیں لگا سکتا تو فالسے کے پانچ سات درخت لگا لے اسے فالسہ ملے گا.خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ تمہارے لئے ہر چیز پیدا کی ہے جس کا مطلب میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمہارے لئے چیز پیدا ہوئی ہے اس میں سے زیادہ سے زیادہ تم فائدہ اُٹھاؤ مگر جائز طریقوں پر خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے دعائیں کرتے ہوئے اُس کی قدرت کے نشان ان درختوں میں اور ان کی پرورش میں دیکھتے ہوئے اس دنیا میں بھی حسنات حاصل کرو.اور پھر دوسری زندگی جو اصل زندگی ہے.یہ زندگی تو کوئی چیز ہی نہیں ہے.جس طرح ایک سیکنڈ میں ایک بلبلا پانی کے او پر بنتا ہے اور مٹ جاتا ہے اسی طرح یہ زندگی ہے.ہم آئے ہیں اور

Page 553

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۳۳ خطبه جمعه ۱۲ ۱٫ پریل ۱۹۷۴ء چلے جائیں گے لیکن اگر ہمیں اُخروی زندگی کی جنت مل جائے جو نہ ختم ہونے والی جنت ہے اور اس کے لئے ہم نے یہاں کام کیا ہو اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شامل حال ہو اور اُس کی مغفرت کی طاقتیں ہماری خطائیں اور کمزوریوں کو دُور کر کے ہمیں اپنی جنت میں لے جائیں تو اُس سے اچھی کوئی چیز نہیں وہ بھی ملے گی.لیکن رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً پہلے کہا گیا اور وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً بعد میں کہا گیا اس لئے کہ دنیا کی حسنات پر ہم نے اُخروی زندگی کے محلات کی بنیادیں رکھنی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے اور جن کو میں نے منتظم بنایا ہے اُن کو اللہ تعالیٰ سمجھ اور توفیق دے کہ اگلا منصوبہ مزید بجلی کے کنوئیں اور درخت لگانے کا وہ بنا سکیں.یہ ایک نئی چیز ہے اور سمجھانے والی بات ہے.ہر ایک کو تو علم نہیں ہوتا جو لوگ گھروں میں درخت لگا ئیں گے اور دوسال کے بعد جب ٹرے بھری ہوئی اُن کے سامنے انجیروں کی ہوگی تو وہ بڑے خوش ہوں گے کہ خدا کی شان ہے یہ حصہ محن کا ہمارا یونہی پڑا ہوا تھا اب اتنی انجیر یں مل رہی ہیں اور یہاں ربوہ میں تو درخت کا چناؤ اور انتخاب اچھا ہو تو بہت اچھا پھل دیتا ہے.میں نے کالج کی کوٹھی میں دو درخت لگائے تھے اتنے اچھے انجیر کہیں میں نے دنیا میں نہیں کھائے جتنے وہاں ہوئے.باہر سے ہمارے مہمان پروفیسر وغیرہ آتے تھے اور حیران ہوتے تھے اتنا اچھا اور لذیذ اور خوشبودار اور شیر میں انجیر بھی دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا رحم کرنا چاہتا ہے آپ اُس کی رحمت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں اور منتظمین نئے کنوئیں اور درخت لگانے کے متعلق سکیم اور منصوبہ بنا کر کچھ بہار میں اور کچھ خزاں میں (وہ بھی درختوں کے لگانے کا ایک موسم ہے) درخت لگا ئیں اور یہاں تو جو ریل میں آئے اُسے بھی اور جو بسوں اور موٹروں پر آئے اُسے بھی اور جو ہوائی جہاز سے گذرے اُسے بھی نظر آئے کہ یہاں ایک باغ لگا ہوا ہے جس میں اس دنیا کی جنت کے لوگ بس رہے ہیں اور دنیا جو مرضی کرتی رہے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کو آپ حاصل کرنے والے ہوں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(روز نامه الفضل ربوه ۱۵ رمئی ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 554

Page 555

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۳۵ خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۷۴ء دیگر مذاہب کی تعلیم اتنی واضح نہیں جتنی اسلام نے واضح اور روشن تعلیم دی ہے خطبه جمعه فرمود ه ۱۹ را پریل ۱۹۷۴ء بمقام مسجد نور.راولپنڈی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گرمی مجھے تکلیف دیتی ہے.اس لئے پہلے تو میرا خیال تھا کہ میں یہاں جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے بھی شاید نہ آسکوں لیکن آپ کی محبت کی گرمی زیادہ ہوگئی اور میں موسمی گرمی کے باوجود یہاں آپ کو سلام کہنے، آپ کے لئے دُعائیں کرنے اور اسلامی تعلیم کے بعض حسین پہلوؤں کو آپ پر اجاگر کرنے کے لئے آ گیا ہوں.ہمارے زمانہ میں بد مذہب اور لا مذہب لوگوں کی طرف سے مذہب پر ایک یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ مذہب افیون کی خاصیت رکھتا ہے اور یہ انسان کو بے حس اور بے عمل بنا دیتا ہے.Heavens( یہ مختلف زبانوں کا محاورہ ہے جسے دہر یہ استعمال کرتے ہیں.وہ اللہ کا لفظ استعمال نہیں کرتے کیونکہ وہ اس پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے وہ کہہ دیتے ہیں Heavens) ہمیں کیا دیتی ہیں.انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ اپنی کوشش اور اپنی محنت اور اپنے عزم کے ذریعہ حاصل کرتا ہے.جہاں تک اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کا تعلق ہے، اس مسئلہ کے بارہ میں اُن کی تعلیم اتنی

Page 556

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۳۶ خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۷۴ء واضح اور روشن نہیں جتنی اسلام نے واضح اور روشن تعلیم دی ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ دوسرے مذاہب کی تعلیم کو دیکھ کر دہر یہ دماغ میں یہ بات آئی ہو کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے تو کچھ نہیں ملتا جو کچھ ملتا ہے وہ انسان کی اپنی کوشش کے نتیجہ میں ملتا ہے.غرض مذہب کے خلاف یہ جو پرو پیگنڈا کیا جارہا ہے اور ایک شور مچایا جا رہا ہے کہ مذہب تو محض ایک افیون ہے.انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ اس کی اپنی کوششوں کا مرہونِ منت ہے اور اس بارہ میں اسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اور جو حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر قرآن کے ذریعہ ہمیں حاصل ہوئی ہے اُسے میں اس وقت مختصر بیان کروں گا.اس تعلیم کا ایک حصہ وہ ہے جس کا کسی دوسرے مذہب نے ذکر نہیں کیا کم از کم میرے علم میں نہیں کہ کوئی انسانی دماغ وہاں تک پہنچا ہو.بعض دفعہ لوگ تفاصیل میں گئے بغیر اسلامی تعلیم سے ملتی جلتی باتیں کہہ دیتے ہیں لیکن جو حصہ میں ابھی بیان کروں گا وہ میں نے کسی ازم میں نہیں دیکھا.اسے میں نے نہ کمیونزم میں دیکھا نہ چینی سوشلزم میں دیکھا اور نہ کیپیلزم میں دیکھا ہے حالانکہ ایک وقت میں سرمایہ دارانہ نظام بڑی بلندی پر پہنچا ہوا تھا.اس نظام نے بڑے بڑے فلاسفر پیدا کئے جنہوں نے میٹا فزکس (Metaphisics) یعنی ما بعد الطبیعیات پر بھی فلسفیانہ کتب لکھیں اور اخلاقیات پر بھی بظاہر بڑے گہرے مضامین بیان کئے.ہم نے ان مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا ان پر غور کیا اور بالآخر ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ جو تعلیم ہمیں اسلام نے دی ہے اور انسان کے ہاتھ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو شریعت پہنچائی گئی ہے وہ ان حسین گوشوں اور زاویوں کو بھی نمایاں کرتی ہے جو انسانی عقل سے پوشیدہ رہتے ہیں اور انسان کا دماغ وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے یہ تعلیم بیان کی ہے اور احادیث میں اس کی تفسیر بیان ہوئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھول کر یہ چیزیں ہمارے سامنے رکھی ہیں.میں اُن کو مختصراً بیان کرنے کی کوشش کروں گا.اسلام نے پہلی بات ہمیں یہ بتائی ہے کہ اس یو نیورس (Universe) اس عالمین کی

Page 557

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۳۷ خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۷۴ء ہر چیز بلا استثنی انسان کی خدمت کے لئے اور اسے فائدہ پہنچانے کے لئے پیدا کی گئی ہے.آج سے چودہ سوسال پہلے جب کہ چاند سے فائدہ حاصل کرنے کا تخیل بھی انسان کے ذہن میں نہیں آیا تھا، قرآن کریم نے یہ اعلان کیا.أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (لقمان: ٢١) اور ایک دوسری جگہ فرمایا وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے.اس کا ئنات کی ہر چیز تمہارے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہے اور اُسے تمہاری خدمت پر لگا دیا گیا ہے.اس سلسلہ میں اسلام نے ہمیں ایک بہت ہی عظیم اور بڑی ہی حسین بات یہ بتائی ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز کے فوائد غیر محدود ہیں.میں نے یہ کہیں نہیں پڑھا کہ کسی شخص نے اس مسئلہ پر اس رنگ میں روشنی ڈالی ہو.اسلام کے مقابلہ پر کوئی انسان کسی مقام پر کسی زمانہ میں کھڑے ہو کر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا.اگر کوئی بیوقوف یہ دعوی کرے تو ہم اس کو ٹھٹلانے کے لئے کافی ہیں.مثلاً کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ چیونٹی کے پاؤں کی جو خاصیتیں ہیں یا اللہ تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے چیونٹی کے پاؤں کی خلق کے ذریعہ ظاہر ہوئے ہیں وہ گنے جاسکتے ہیں یا ہم نے گن لئے ہیں اور اب اور کوئی خاصیت باقی نہیں رہی جسے معلوم کیا جا سکے.میں تو کسی خاص فن کا ماہر نہیں ہوں اور نہ سپیشلسٹ ہوں کسی مضمون کا.لیکن اللہ تعالیٰ نے علم حاصل کرنے کا شوق عطا فرمایا ہے اور آنکھیں کھلی رکھنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.آنکھوں سے مشاہدہ بھی کیا ہے اور لوگوں کے مشاہدات کو بھی پڑھا ہے.چنانچہ دیکھنے میں یہ آیا کہ ایک وقت میں تجزیہ کرنے والوں نے کہا کہ افیون میں ۸ است ہیں اور بس.اور پھر اور آگے آئے اور کہا ہم نے کچھ اور ست نکال لئے ہیں.میرا خیال ہے اب تک ۳۵.۴۰ یا شاید اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں.جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو اس وقت میں نے ایک مضمون میں پڑھا تھا کہ افیون کے ۱۸ یا ۲۰ ست معلوم ہوئے ہیں مگر پھر اورست نکلتے چلے گئے.اسی طرح عورتوں کا اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا مسئلہ ہے.انسان نے ایک وقت میں یہ

Page 558

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۳۸ خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۷۴ء کہہ دیا کہ اس کے بڑے فائدے ہیں دوسرے وقت میں کہہ دیا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے.جب کہا ماں کا دودھ پلانے کے فائدے ہیں یا جس نے کہا فائدے ہیں تو اس نے گویا قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کہا کیونکہ دودھ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ہر چیز میں اللہ تعالی نے انسان کے لئے فائدہ رکھا ہے اس لئے ظاہر ہے کہ ماں کی چھاتیوں کے دودھ میں بچے کے لئے فائدہ ہے.مگر جب اس دودھ کو بے فائدہ قرار دے کر عورتوں کی ایک یا دونسلوں کی صحتیں اپنی تھیوریز اور اصول بیان کر کے اور اُن پر عمل کروا کر خراب کر دیں تو پھر انسان نے بڑے آرام سے یہ کہہ دیا کہ اوہ ہو! ہم سے غلطی ہو گئی تھی.اب تو ہماری نئی ریسرچ یہ ہے کہ اگر ماں بچے کو دودھ نہ پلائے گی تو نہ بچہ صحتمند ہوگا اور نہ زچگی کے بعد ماں کی صحت عود کرے گی.اور یہ سب کچھ اس انداز میں کہا کہ گویا انسان نے ہلاکت کا کوئی کام ہی نہ کیا تھا.میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم نے جو فیملی پلاننگ ( خاندانی منصوبہ بندی) کی ہے اس کی اپروچ (Approach ) اور طریق تعلیم آج کل کے سائنسدانوں، ڈاکٹروں اور سیاستدانوں سے بالکل مختلف ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جو شخص اپنے بچے کی رضاعت کو مکمل کروانا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ دو سال تک بچے کو ماں کا دودھ پلائے اور دودھ پلانے کے زمانہ میں عورت کو حمل نہیں ہونا چاہیے.اس طرح دو بچوں کے درمیان قریباً ۳ سال کا وقفہ پڑ جاتا ہے.اب کل ہی ایک دوست ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے ایک کتاب کا ذکر کیا جو حال ہی میں چھپی ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ بچے کی نوے فیصد سے زیادہ ذہنی طاقتیں دو سال کے اندر بتدریج ترقی کر رہی ہوتی ہیں گویا نوے فیصد سے زیادہ ذہنی طاقت پہلے دوسال کے اندر نشوونما پاتی ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جسے قرآنِ کریم نے رضاعت کا زمانہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ماں بچے کو دو سال تک دودھ پلائے.دودھ ویسے بھی بڑی اچھی غذا ہے لیکن ماں کا دودھ بچے کی نشوونما کے لئے بہترین غذا ہے مگر ایک وقت میں ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں.اس طرح ماں بھی بیمار ہو جائے گی اور بچے کو بھی فائدہ نہ ہوگا.جب دیکھا کہ اس طرح عورتوں کی صحت تباہ ہورہی ہے تو پھر کہہ دیا کہ اس میں فائدہ ہے اور پھر اب حال ہی میں یہ کہہ دیا کہ بچے

Page 559

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۳۹ خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۷۴ء کے نوے فیصد سے زیادہ ذہنی قومی دو سال کے اندر نشو و نما پاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسال تک اس کو بہترین غذا ملنی چاہیے تا کہ اس کے دماغ کی بہترین نشو ونما ہو اور بہترین غذا ماں کا دودھ ہے.پس قرآن کریم کی تعلیم پر لوگوں نے اعتراض شروع کر دیئے پھر وہ اعتراض واپس لے لئے.پھر خود ہی ریسرچ کی اور قرآنِ کریم نے جو پر حکمت تعلیم دی تھی اس کی تائید میں باتیں کرنی شروع کر دیں.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قرآن کریم نے ہمیں صرف یہ نہیں کہا کہ اس کائنات کی ہر چیز انسان کی خدمت پر لگادی گئی ہے یعنی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ ہر مخلوق میں انسان کے لئے بے شمار فائدے رکھے گئے ہیں ( بے شمار کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کا شمار نہیں کر سکتے ورنہ ہر مخلوق محدود ہے ) اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اسلامی تعلیم بہت لیم ہے اس پر کوئی جتنا زیادہ غور کرتا ہے اس پر اس کی عظمت اور زیادہ کھلتی چلی جاتی ہے.دوسرے ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اس عالمین کی ہر چیز کے اندر جو فائدے ہیں اُن میں وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے مثلاً گندم کا دانہ اپنے اندر جو خواص آج رکھتا ہے وہ پانچ ہزار سال پہلے نہیں رکھتا تھا.گو اس کے حق میں بہت سے دلائل دیئے جاسکتے ہیں لیکن ایک موٹی دلیل دینا بہتر ہوگا اور وہ یہ ہے کہ سائنسدان کہتے ہیں کہ ستاروں کی روشنی کی جو شعاعیں زمین تک پہنچتی ہیں وہ ہماری فصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور یہ علم اب عام ہو گیا ہے میرے خیال میں بچے بھی اسے جانتے ہیں.پھر سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ نئے سے نئے ستاروں کی شعاعوں کا اضافہ ہو رہا ہے.بعض ایسے ستارے ہیں جو اتنے فاصلہ پر ہیں کہ ہزاروں سال پہلے پیدا ہونے کے با وجود آج پہلی بار اُن کی روشنی زمین تک پہنچی ہے.سینکڑوں ہزاروں ستارے ایسے ہیں جن کی شعاعیں پچھلے پانچ دس سال میں زمین تک پہنچی ہیں.ہم اُن کا حساب نہیں رکھ سکتے.اگر ستاروں کی شعاعوں کا اثر ہماری فصلوں پر پڑتا ہے اگر ستاروں کی شعاعوں میں زیادتی ہو رہی ہے تو ظاہر ہے خواص اشیاء میں بھی زیادتی ہورہی ہے.چنانچہ فصلوں کو لے لیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ آج کی گندم

Page 560

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۴۰ خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۷۴ء پانچ ہزار سال پہلے کی گندم سے مختلف ہے یہی حال دوسری فصلوں کا ہے.اس دنیا کی ہر مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے نئے سے نئے جلوے ظاہر ہوتے رہتے ہیں.انسان کے جسم پر بھی ظاہر ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا ہے کہ انسان اپنی نالائقیوں اور بے احتیاطیوں کی وجہ سے اپنے جسم کو ایسا بنالیتا ہے کہ جسم کے اجزا دوائی کے اثرات کو قبول کرنے کے قابل نہیں رہتے.آپ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں دوائی کا اثر معجزانہ طور پر کیسے ظاہر ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں ڈاکٹر کہ رہا ہے کہ میں ۲۰ دن سے دوائیاں دے رہا ہوں اور کوئی اثر نہیں ہورہا کیونکہ دوا کے اثر کو قبول کرنے کے لئے جسم تیار نہیں ہوتا اور اس طرح گو یا دلوں میں بڑی مایوسی پیدا ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جب ڈاکٹر کے دل میں بھی مایوسی پیدا ہو چکی ہوتی ہے تو مریض کے جسم کے اجزا پر اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوتا ہے کہ دوائی کے اثر کو قبول کریں تو مریض کو صحت مل جاتی ہے کیونکہ دوا بھی تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہے اس لئے جب جسم کے اجزا دوائی کے اثر کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں تو مریض اور اس کے رشتہ داروں اور ڈاکٹروں کے دل میں جو مایوسی پیدا ہوئی ہوتی ہے وہ دور ہو جاتی ہے اور بیمارا چھا ہو جاتا ہے.پس اسلام نے ہمیں ایک تو یہ تعلیم دی کہ اس یو نیورس کی ہر چیز انسان کی خدمت پر لگی ہوئی ہے.اس عالمین کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے اور دوسرے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے اندر جو خواص ہیں وہ تمہارے شمار میں نہیں آسکتے.تم کسی جگہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ کر لیا اور اب کچھ باقی نہیں رہا مثلاً یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ گندم کے خواص سے یا آم کے خواص سے یا گوشت کے خواص سے سب کچھ حاصل کر لیا ہے اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں اپنی صفات کے جلوؤں کے ذریعہ بے شمار خواص پیدا کر دیئے ہیں.تیسرے میں نے یہ بتایا ہے کہ جب تک انسان کوشش کرتا رہے گا مثلاً اگلے دوکروڑ سال تک بھی ہر روز ایک نئی سے نئی چیز اور اس میں ایک نئے سے نیا خاصہ دریافت ہوتا رہے گا پس اگلے

Page 561

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۴۱ خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۷۴ء دو کروڑ سال تو کیا ان گنت سالوں تک خدا تعالیٰ کی مخلوق کے خواص معلوم ہوتے رہیں گے.اشیاء میں آج جو خواص پائے جاتے ہیں وہ محدود بھی ہوں تب بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے نئے سے نئے جلوے ظاہر ہوتے رہتے ہیں یہ ختم نہیں ہو سکتے.ہمیشہ نئی سے نئی مخلوق خدا کے بندوں کی خدمت کے لئے تیار ہوتی رہتی ہے.پس اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے اور اس بات کو اچھی طرح بتا کر ذہنوں میں بٹھایا ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے.اس سے فائدہ حاصل کرنا انسان کی اپنی کوشش پر منحصر ہے.کوشش کے ساتھ ساتھ اسلام نے دعا کرنے پر بھی زور دیا اور یہ دعا سکھا دی رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً (البقره: ٢٠٢) اس دعا میں صرف یہی نہیں کہا کہ اتِنَا فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ بلکہ آخرت کی بھلائی کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھلائی چاہنے کی بھی دعا سکھلا دی.ظاہر ہے دنیا کی حسنات ہم نے دنیوی مخلوقات سے حاصل کرنی ہیں.انہی سے فائدہ اٹھا کر اپنی آخرت سنوارنی ہے.اس لئے اسلام نے یہ اعلان کیا کہ مذہب افیون نہیں ہے.وہ شخص بڑا بیوقوف ہے جو یہ کہتا ہے کہ مذہب اسلام بھی افیون کا کام دیتا ہے.اسلام نے تو یہ کہا ہے کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے اور انسان کی خدمت پر لگا رکھی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق کہ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم :۴۰) کی رُو سے انسان کو اتنا فائدہ ملے گا جتناوہ اس کے لئے کوشش کرے گا.تب سعیه سَوْفَ يُرى (النجم : ۴۱) کی رو سے اور عام قانون کے مطابق کوشش نتیجہ خیز ہوگی.انسان کو محنت کا پھل مل جائے گا ایک شخص مثلاً ہزار یونٹ کوشش کرتا ہے اس کو ہزار یونٹ کا پھل مل جاتا ہے.میں عام تقدیر کے مطابق بات کر رہا ہوں جو اس دنیا میں کارفرما ہے خاص تقدیریں جن کو ہم معجزات کہتے ہیں اُن کے متعلق میں بات نہیں کر رہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ افیون کھا کر سو نہ جانا اور تقدیر کا یہ مطلب نہ لینا کہ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اگر تم نے اپنی جھولیاں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق سے فائدہ اُٹھا کر بھرنی ہیں تو تمہاری جھولیاں تبھی بھریں گی جب تم اس کے لئے محنت ، کوشش اور مجاہدہ کرو گے.محنت نہیں کرو گے تو تمہیں کچھ نہیں ملے گا.پس یہ مذہب جو اتنی عظیم اور حسین تعلیم دیتا ہے وہ افیون کیسے بن گیا.یہ تو ہمیں ہر آن خدا

Page 562

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۴۲ خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۷۴ء کی باتیں یاد دلاتا ہے.یہ تو ہمیں ہر صبح جھنجھوڑتا ہے کہ تمہارے کام کے اوقات آگئے.یہ تو ہر لحظہ لوگوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ انہیں خدا تعالیٰ کی مخلوق سے صرف وہی فوائد حاصل ہوں گے جن کے لئے وہ کوشش کریں گے.قرآن کریم نے چونکہ بدی کو بھی روکنا تھا اس لئے یہ بھی کہا کہ جو کوشش کرو گے اس کے مطابق تمہیں اجر ملے گا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ تمہاری کوششوں کے دو راستے ہیں جو تم پر کھولے گئے ہیں.ایک وہ سیدھی راہ ہے جسے صراط مستقیم کہا گیا ہے جو نیکی کی راہ ہے اور جو بھلائی کی راہ ہے اور جو صلاح کی راہ ہے اور جو خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے حصول کی راہ ہے.فرمایا تمہاری طرف سے کوشش ضرور ہونی چاہیے لیکن یہ کوشش صراط مستقیم پر ہونی چاہیے.یہ کوشش صحیح راستے پر ہونی چاہیے.ایک دوسرا راستہ بھی تمہارے لئے کھولا گیا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے غضب کی راہ ہے وہ مغضوب علیہم کی راہ ہے.اس کو اختیار نہ کر ناور نہ تمہیں جہنم ملے گی.اگر صراط مستقیم پر چلو گے تو تمہاری کوشش کا نتیجہ تمہیں ملے گا اور ساتھ جنت بھی ملے گی کیونکہ سیدھی راہ اختیار کرنے والوں کے لئے دوسری دنیا کی بھلائی بھی مقدر ہے.دراصل مذہب پر اعتراض کرنے والے لوگوں میں ایک کمزوری یہ پائی جاتی ہے کہ وہ صراط مستقیم اور راہ ضلالت میں فرق اور تمیز کرنے کے قابل نہیں ہوتے مثلاً ایک شخص ہے جو اپنے کھیتوں میں جا کر دن رات محنت کرتا ہے اور ساتھ دعائیں بھی کرتا ہے اور اس طرح اس کو بہت اچھی فصل میٹر آتی ہے اس کو ایک ایکٹر میں سے دو ہزار کی پیداوار ہوتی ہے ( ویسے دنیا میں پانچ پانچ اور سات سات ہزار فی ایکٹر کمانے والے لوگ بھی ہیں) خرچ کرنے کے بعد ا سے ۳.۴ ہزار روپیہ بیچ جاتا ہے.اس نے صراط مستقیم پر چل کر یعنی جائز ذرائع سے محنت کر کے یہ دولت کمائی.زمین اس کے لئے پیدا کی گئی تھی.اُس نے اس کے خواص مثلاً یہ کہ وہ گندم بھی پیدا کر سکتی ہے اس نے زمین کے اس خاصہ سے فائدہ اُٹھایا.اُس نے خدا کا شکر ادا کیا اور بڑی الحمد پڑھی.خدا تعالیٰ نے اس کو ایک اور سبق دینا تھا رات کو چور آیا اور وہ اس کی جمع شدہ پونجی چرا کر لے گیا.اب ایک ماہ پہلے چار ہزار روپے کی رقم جو زمیندار کے پاس تھی وہ چور کے پاس چلی گئی اور چوراس کا مالک بن گیا.مگر ان دو ملکیوں میں فرق کرنا پڑتا ہے.چور کی کوشش جہنم کی طرف لے جانے والی کوشش ہے

Page 563

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۴۳ خطبہ جمعہ ۱۹ را پریل ۱۹۷۴ء یعنی چوری کے ذریعے مال کو حاصل کر لیا یا رشوت کے ذریعہ حاصل کیا یا کر پشن (Corruption) کے ذریعے حاصل کر لیا یا ذہنی بددیانتی کے ذریعہ حاصل کر لیا غرض ہزار قسم کی غلط راہیں ہیں جن پر انسان بہک جاتا ہے اور اپنی جہالت سے اُن کو اختیار کر لیتا ہے لیکن اسلام نے ہمیں یہ کہا کہ ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے.ہر چیز میں بے شمار خاصیتیں رکھی گئی ہیں.گویا اس کا ئنات کی ہر چیز انسان کی خدمت پر لگا دی گئی ہے.مگر یہ پکے ہوئے پھل کی طرح کسی آدمی کی گود میں آکر نہیں گرے گی پکا ہوا پھل بھی گود میں نہیں گرتا اس کے لئے بھی بسا اوقات درخت پر چڑھنا پڑتا ہے.اُسے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے.اس لئے فرمایا تم جتنی کوشش کرو گے اس کے مطابق اشیاء سے خدمت لے لو گے لیکن ساتھ ہمیں یہ بھی کہہ دیا ( ہمارا ربّ بڑا پیار کرنے والا ہے ) کہ میری مخلوق سے خدمت تم لے سکتے ہو صحیح ذریعہ سے بھی اور خدمت تم لے سکتے ہو غلط ذرائع کو اختیار کر کے بھی.فرمایا غلط ذرائع کو اختیار نہ کرنا.جو جائز اور ٹھیک ذرائع ہیں جن کو دینی اصطلاح میں صراط مستقیم کہا جاتا ہے اُن کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کرو گے تو کس نتیجہ پر پہنچو گے.اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةٌ وَبَاطِنَةً (لقمان: ۲۱) اللہ تعالیٰ نے اس عالمین کی ہر چیز کو تمہاری خدمت پر لگا دیا اور تمہارے اندر طاقتیں پیدا کیں کہ تم اس کی مخلوق سے فائدہ حاصل کر سکو.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں صراط مستقیم کو کھول کر بیان کر دیا اور تمہیں اس قابل بنا دیا کہ نہ صرف یہ کہ تم بے شمار نعمتوں کے وارث بنو بلکہ اس مقام تک بھی پہنچو کہ اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً دُنیا میں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے.کسی انسان نے اپنی ول پاور (Will Power) اور خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر حاصل نہیں کیا.پس خدا تعالیٰ کی یہ بے شمار نعمتیں اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہم خدا کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیاں گزاریں اور خدا تعالیٰ کے مزید فضلوں کے وارث بنیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 564

Page 565

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۴۵ خطبہ جمعہ سرمئی ۱۹۷۴ء حمد اور شکر کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض ہے خطبه جمعه فرموده ۳ رمئی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:.رَبُّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَ رَبُّ الْمَشَارِقِ - ( الصُّفت : ٦ ) پھر حضور انور نے فرمایا:.جہاں کہیں بھی روشنی کی کرن چمکتی ہے اُس کا منبع رب المشارق ہی ہمیشہ ہوتا ہے.طلوع ٹور مختلف شکلوں میں اس دُنیا میں نظر آتا ہے.سورج کا طلوع ہے، چاند کا نکلنا ہے.تاروں کی چمک ہے.چہروں پر مسکراہٹوں کا آنا ہے دلوں میں بشاشت کا پیدا ہونا ہے یہ سب نور ہیں.نور سے ان کا تعلق ہے اور سب کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو رب المشارق ہے.اہل پاکستان ایک لمبا عرصہ تک امتحان اور ابتلا میں مبتلا رہے.ایک جنگ ہوئی ایک عالمگیر سازش کے نتیجہ میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے اور مشرقی حصہ میں ہماری افواج اور پولیس اور شہریوں میں سے قریباً ۹۰ ہزار قیدی بنالئے گئے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حصہ میں جو مغربی پاکستان تھالا کھوں خاندان اور گھرانے ایسے تھے جنہوں نے ایک لمبا عرصہ پریشانی میں اپنے دن گزارے اور انہیں یہی احساس تھا کہ کچھ روشنیاں اُن سے چھین لی گئیں اور اللہ تعالیٰ

Page 566

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۴۶ خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۷۴ء نے اپنے نور کے کچھ دروازے ان پر بند کر دیئے اور ایک لمبے ابتلا کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ وہ قیدی واپس آگئے.ان گھروں میں ایک نور چمکا وہ غمگین احساس جو لمبا عرصہ روشنی کا منتظر تھا اُسے تسکین پہنچی اور انہیں اس لحاظ سے بھی خوشیوں کے دن دوبارہ ملے.ویسے تو اللہ تعالیٰ انسان کی خوشی کے ہزاروں سامان پیدا کرتا ہے لیکن یہ خوشی جو اپنے عزیزوں کی جدائی کی وجہ سے چھینی گئی تھی.یہ روشنی ، یہ چہروں کی بشاشت یہ احساسات کی تسکین جس سے وہ محروم تھے.وہ حالات بہتری کے اور نور کے اور بشاشتوں کے اور چہروں کی مسکراہٹوں کے دوبارہ پیدا ہوئے.اس کے لئے سارا پاکستان آج اپنے اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گا رہا ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی ذات وصفات کا عرفان اُس سے زیادہ بخشا ہے جو کسی اور جماعت کو ملا ہوا ہمیں نظر آتا ہے.ہمارے حمد کے جذبات اور شکر کے احساسات شاید مختلف ہوں لیکن حمد اور شکر کے جذبات آج اہلِ پاکستان کے ہر گھر میں پائے جاتے ہیں اور اپنے اپنے رنگ میں سب نے اللہ تعالیٰ کی حمد بھی کرنی ہے.اُس کا شکر بھی ادا کرنا ہے اور جب ہم سوچتے ہیں تو ایک سبق بھی ہمیں ملتا ہے کہ یہ جو دنیا کی خوشیاں ہیں اس میں تو اللہ تعالیٰ مومن و کافر میں فرق نہیں کرتا جیسا کہ قرآن کریم میں وضاحت سے بیان ہوا ہے.رَبُّ الْعَلَمِینَ اپنی مخلوق میں سے مومن کے لئے بھی تسکین اور خوشیوں اور ظاہری و مادی ودنیاوی روشنیوں کے اور نور کے سامان پیدا کرتا ہے.وہ سامان مومن کے لئے بھی ہوتے ہیں.مومن اور کافر میں فرق دُنیا کے نور یا دنیا کی تسکین یا دنیا کی بشاشتوں کا نہیں، فرق تو دین اور دنیا کا ہے.فرق تو اس دنیا کی اُن بشاشتوں کا ہے جو یہیں ختم ہو جاتی ہیں اور فرق اس دنیا کی اُن بشاشتوں کا ہے جو ابد الآباد اور نہ ختم ہونے والے زمانہ پر پھیلتی چلی جاتی ہیں.یہ فرق ہے جو مومن اور کافر میں ما بہ الامتیاز اور ایک فرقان پیدا کرتا ہے لیکن جہاں تک دنیا کی تسکین اور دُنیاوی زندگی کے آرام کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں کافروں کو بھی دیتا ہوں اور بعض حالات میں مومنوں سے زیادہ ان کو مل جاتا ہے

Page 567

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۴۷ خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۷۴ء اس میں کوئی فرق نہیں.بہر حال یہ ایک فرق ہے.ان جنگی قیدیوں میں شاید بعض عیسائی افسر اور سپاہی بھی ہوں گے دوسرے بھی شاید ہوں لیکن عیسائی تو یقینا ہوں گے اور اہل پاکستان کی حیثیت سے اُن کا یہ حق ہے جو ان کو ملتا ہے.بہر حال عقیدہ کو نظر انداز کرتے ہوئے خوشی اور نور کی یہ لہر پاکستان کے ہر گھر میں داخل ہوئی اور تسکین قلب کا سامان پیدا کیا اس سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ وہ باتیں جو مشترک ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے فیصلے مشترک طور پر ہوتے ہیں اور جن فیصلوں میں عقائد وغیرہ کا فرق اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے نہیں کرتے اس فرق کو نظر انداز کر کے دنیا کی خوشیوں کے سامان ایک دوسرے کے لئے پیدا کرنے چاہئیں اور ایک مسلمان اور ایک احمدی کے لئے تو یہ نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کے صحیح معنی مہدی معہود کے ذریعہ اسے سکھائے ہیں اور سے علم ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران:١١١) کے کیا معنی اور کیا مفہوم ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ کسی کو دُ کھ پہنچائے بلکہ حکم یہ ہے کہ ہر ایک کے دکھوں کو دور کرنے ہر ایک کی خدمت کرنے ہر ایک کے سکون کا انتظام کرنے ہر ایک کی خوشی کے لئے جد و جہد کرنے کے لئے اُمت محمدیہ، اُمتِ مسلمہ اور اس کے دائرہ کے وسط میں جماعتِ احمد یہ پیدا کئی گئی ہے.اس لئے ہم آج خدا تعالیٰ کی حمد سے پر ہیں اور نماز میں بھی اور باہر بھی اس غرض سے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل بھی کیا اور ہمارے قیدی واپس آگئے ویسے تو اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہم پر نازل ہوتی ہیں بارش کے قطروں سے بھی زیادہ اور ہمیں ہر ایک نعمت کے مقابلہ میں اُس کی حمد کرنی چاہیے اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر کوئی انسانی کوشش اس سکون کے لانے میں بروئے کار آئی ہے تو ان انسانوں کا بھی ہمیں ممنون ہونا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذمہ داری کے نباہنے کی توفیق عطا کرے.دوسری بات جو اس وقت میں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی حمد باری سے تعلق رکھتی ہے.وہ بھی عزم مومنانہ سے تعلق رکھتی ہے.”صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ ، جس کا اعلان جلسہ سالانہ پر ہوا تھا اور جس کے لئے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ قائم کیا گیا تھا.اس کے وعدے دس کروڑ سترہ لاکھ سے

Page 568

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۴۸ خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۷۴ء او پر نکل چکے ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِكَ اور ابھی تیره بیرونی ممالک کے وعدے ہمیں نہیں پہنچے.ان کا انتظار ہے اور جب مجھے یہ رپورٹ ملی ہے اُس کے بعد بھی کئی لاکھ کے وعدے آچکے ہیں جو میرے علم میں ہیں لیکن میں نے ان کو شامل اس لئے نہیں کیا کہ بعض دفعہ دو جگہ اطلاع آجاتی ہے.ممکن ہے انہیں پہلے اطلاع ہوگئی ہو اور مجھے بعد میں ملی ہولیکن جو وعدے دفتر کے رجسٹر کے مطابق پہنچے ہیں وہ دس کروڑ سترہ لاکھ سے اوپر جاچکے ہیں اور ہمارے دل اس وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں.کل میں نے اپنے بچوں سے (ان کی تربیتی کلاس کے اختتام کے موقع پر ) کہا تھا کہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نئی ذمہ داریاں اپنی قائم کردہ جماعت یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر ڈالی ہیں تو اس سے ہم قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ نئی ذمہ داریاں اُمت محمدیہ کو جماعت احمدیہ کو بحیثیت مجموعی نئی طاقتیں بھی عطا کریں گی کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا کہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ ذمہ واری نہیں ڈالی جاتی.تو نئی ذمہ داریاں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ کچھ نئی طاقتیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اُس کے بندوں کو اور اس کی جماعت کو ملیں گی اور جب کسی نئی طاقت کا مظاہرہ ہم دیکھتے ہیں مثلاً یہی کہ سن ۷۰ء میں جماعت نے ایک منصوبہ کے لئے صرف ۵۳ لاکھ کے وعدے کئے اور پھر اپنے وقت میں وہ وعدے پورے کر دیئے.اس کے مقابلہ میں تین ساڑھے تین سال کے بعد جماعت کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت عطا کی ( جو پہلی طاقت کے مقابلہ میں ہیں گنازیادہ ہے ) کہ دس کروڑ سے زیادہ مالی قربانی میں دے دے ویسے تو جماعت کی جد و جہد اور کوشش مالی قربانی کے مقابلہ میں دوسرے میدانوں میں بیسیوں گنا زیادہ ہے لیکن یہ ایک چیز ہم لیتے ہیں جو ایک نشان دہی کرنے والی چیز ہے.ہیں گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تین سال کے بعد مالی میدان میں اپنی حقیر قربانیاں اپنے رب کے حضور پیش کرنے کی طاقت دے دی.اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اس تین سالہ عرصہ کے بعد ایک ایسے زمانہ میں داخل ہو چکے ہیں جب ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۷۰ ء کے مقابلہ میں بیس گنا زیادہ

Page 569

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۴۹ خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۷۴ء ذمہ واریاں ڈالی جائیں گی اور اس کے لئے اُس نے طاقت دے دی اور اس عطا کردہ طاقت نے ہمیں یہ بتا یا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں اور ہاں اس حقیر جماعت اس دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت اس بے کس جماعت اس جماعت کو جس کو ہر طرف سے ایڈا کی باتیں سننی پڑتی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس پر اتنا فضل کیا کہ اس کو تین سال کے اندر پہلے سے ہیں گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ طاقت عطا کی ہے.یہ اُس کا فضل ہے.اس کی وجہ سے ہمارے دل اُس کے شکر سے معمور ہیں اور ہماری زبانیں اُس کی حمد کے ترانے گا رہی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قدر فضل جماعت احمدیہ پر کر رہا ہے اُس کا شکر نہ فرد کے بس کی بات ہے نہ جماعت کے بس کی بات ہے لیکن جس قدر ہم حمد کر سکیں اور اُس کا شکر کر سکیں وہ تو ہمیں کرنا چاہیے یعنی حمد اور شکر کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض ہے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ زندگی بھر بھی جتنے اُس کے فضل ہو چکے ہیں ان کا حمد اور شکر نہیں کر سکتے.تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عام انسانوں کی بھلائی کے لئے پیدا کیا ہے اور اس بھلائی کے لئے جو مختلف منصوبے جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیئے جاتے ہیں اور جماعت لبیک کہتی ہے اور قربانیوں کے لئے آگے بڑھتی ہے.اس میں سے ایک چھوٹا سا منصوبہ ”وقف عارضی ہے.وقف عارضی والوں کو اور سائیکل چلانے والوں کو میری نصیحت ہے ( میں مختلف رنگوں میں بات کیا کرتا ہوں بہر حال ) جو بنیادی چیز ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں خادم بنایا گیا ہے اُخْرِجَتْ لِلنَّاس کا مفہوم بھی خدمت کی طرف اشارہ کرتا ہے لوگوں کی بھلائی اور خیر خواہی اور ان کی خدمت اور ان کے دکھوں کو دُور کرنے اور اُن کو سکھ پہنچانے کے لئے اُمت محمدیہ پیدا کی گئی ہے پس خادم کے لئے اگر اُس نے صحیح خدمت کرنی ہو تو یہ ضروری ہے کہ اپنے مخدوم کی ضرورتوں اور دکھوں کا اور جس رنگ میں اُس کو خوشیاں اور سکھ پہنچایا جاسکتا ہے پہنچایا جانا چاہیے اور ان حالات اور ذرائع کا علم ہونا چاہیے.اگر علم نہیں تو خدمت نہیں ہو سکتی پس خادم کا مخدوم کے ساتھ قریبی تعلق ہونا ضروری ہے اور مخدوم ہیں ساری دنیا کے انسان اور خادم

Page 570

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۷۴ء ہے یہ ایک چھوٹی سی جماعت.اپنی سی کوشش کر کے ہر ایک کے ساتھ ایک تعلق پیدا کرنا چاہیے.سائیکل سواروں کو میں نے کہا ہر گاؤں میں جاؤ ان کے حالات معلوم کرو کیونکہ ہر گاؤں کے تم خادم ہو.سرگودھا اُس وقت آگے نکلا اور سرگودھا نے قریباً ہر گاؤں سے ملاپ کیا اور ان کی ضروریات اور دکھ کے متعلق رپورٹیں دیں.اسی طرح وقف عارضی ہے.واقفینِ عارضی بھی ایک پہلو سے بعض باتوں میں خدمت کے لئے باہر نکلتے ہیں.اب اس کے دو بازو بن گئے ہیں ایک وہ جو عام ذرائع سفر کو اختیا ر کر کے بسوں میں یا گاڑی کے ذریعہ سفر کر کے اپنے اپنے مقامات تک جاتے ہیں جو ان کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں اور کم از کم چودہ دن وہاں رہتے ہیں اور جب’سائیکل سوار واقفین“ کی تحریک کی گئی تو دوسرا باز و بن گیا.میں نے کہا تھا کہ سائیکل سوار واقفین عارضی بھی چاہئیں کیونکہ وہ زیادہ وسیع علاقہ اور دائرہ میں کام کر سکتے ہیں.میں نے کچھ عرصہ سے اس کی تحریک نہیں کی تھی اب یاد کراتا ہوں (ویسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی ہزار احمدیوں نے اس عرصہ میں کام کیا ہے ) لیکن ہمارا قدم آگے بڑھنا چاہیے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے.میں اپنے پیارے احباب جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کام کے لئے آگے آئیں.اب چھٹیوں کے دن آرہے ہیں.ہماری قوم کا ایک حصہ اور اُسی نسبت سے جماعت کا ایک حصہ ایسا ہو گا جن کو چھٹیاں ملیں گی.جو چھٹیوں سے فائدہ اُٹھانا چاہیں وہ وقف کریں اور وقف عارضی کے منصوبہ کے ماتحت مختلف علاقوں میں جائیں یا سال کے دوسرے اوقات میں جائیں.زمینداروں کے بعض دوسرے اوقات نسبتاً خالی ہوتے ہیں اور مصروفیت بڑھ جاتی ہے تو زمینداروں کے لئے نسبتاً جو سہولت کے دن ہیں اُن میں وہ یہ کام کریں تا کہ دُنیاوی سہولت سے فائدہ اُٹھا کر اُخروی سہولت کے سامان اپنے لئے اور اپنے عزیزوں کے لئے وہ پیدا کر سکیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.میری بیماری مختلف عوارض کی وجہ سے کچھ لمبی ہو گئی ہے اور اب وہ دن آگئے جو گرمی کے ہیں.گرمی میری مستقل بیماری ہے.کل شام کو میں اپنے خدام واطفال سے ملنے چلا گیا تھا.اس کے بعد مجھے تکلیف ہوگئی.کچھ عرصہ سے یہاں آپ کے سامنے خطبہ نہیں دے سکا تھا اس لئے

Page 571

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۵۱ خطبہ جمعہ ۳ رمئی ۱۹۷۴ء خواہش پیدا ہوئی کہ آنا چاہیے.یہ گرمی جتنی بھی ہے یہ بھی مجھے تکلیف دیتی ہے کیونکہ کئی دفعہ مجھے کو لگ چکی ہے.جسے انگریزی میں Heat Stroke کہتے ہیں.پچھلے سال بھی تین مرتبہ مجھے تکلیف ہوئی جو بہت کمزور کر دیتی ہے اور بہت پریشان کرتی ہے.بہر حال یہ بات میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ دوست میری صحت کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ صحت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ خدمت دین کی اور خدمت انسان کی تو فیق عطا کرے جو ہمارے نزدیک دونوں ایک ہی چیز ہے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 572

Page 573

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۵۳ خطبہ جمعہ ۱۰ رمئی ۱۹۷۴ء جماعت نے نہ صرف بجٹ کو پورا کر دیا بلکہ آٹھ فیصد زیادہ ادا کیا خطبه جمعه فرموده ۱۰ رمئی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں:.هذا ما تُوعَدُونَ لِيَوْمِ الْحِسَابِ - إِنَّ هَذَا لَرِزُقُنَا مَا لَهُ مِنْ نَفَادِ - (ص: ۵۵،۵۴) پھر حضور انور نے فرمایا:.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بھی تمام انبیاء علیہم السلام کی جماعتوں میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اور اُن انبیاء علیہم السلام کی دُعاؤں اور تدابیر کے نتیجہ میں اُن کی امتیں اس صداقت پر قائم تھیں کہ یہ دنیا اور اس کی دولتیں اور اس کی عزتیں فانی اور لایعنی ہیں لیکن وہ رزق، وہ دولت اور وہ سب کچھ جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے اور جس کا حقیقی تعلق اُخروی زندگی سے ہے، وہ رزق جب انسان کو ملے تو وہ ختم نہیں ہوا کرتا بلکہ ہمیشہ جاری رہتا ہے اور انسان پھر کبھی محرومی کا منہ نہیں دیکھتا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ اپنی عظمت و جلال کے لحاظ سے گذشتہ تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور اعلیٰ تھے اس لئے آپ کی قوت قدسیہ اور آپ کی دُعاؤں نے یہ اثر کیا کہ اُمت محمدیہ میں کروڑوں انسانوں کی جماعتیں ایسی پیدا ہوتی رہیں

Page 574

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۵۴ خطبہ جمعہ ۱۰ رمئی ۱۹۷۴ء کہ جو اس حقیقت وصداقت پر علی وجہ البصیرت قائم تھیں، قائم رہی ہیں اور آئندہ بھی جماعت احمد یہ میں یہ جماعتیں نسلاً بعد نسل پیدا ہوتی رہیں گی انشاء اللہ تعالی.پھر یہ جماعت یہ امت جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہے اس کی شان ہی کچھ نرالی ہے اور پہلی امتیں جہاں اُن کا دائرہ عمل محدود، جہاں اُن کی تعلیم وقتی اور زمانی تھی اُسی کے مطابق اُن کی کوششیں تھیں ، اُن کی قربانیاں تھیں.خدا کی راہ میں اُنہوں نے تکالیف برداشت کیں اور لافانی نعمتوں کے حصول کے لئے وہ فانی چیزوں کو خدا کے حضور پیش کرتے رہے.یہ ٹھیک ہے لیکن اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی شان بڑی عظیم اور دوسروں کے مقابلہ میں نرالی ہے.جب ہم اُمت کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو اس عظمت اُمت مسلمہ کا عظیم جلوہ اُمت کے اندر صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گروہ میں ہم دیکھتے ہیں.پھر اس کے ساتھ ملی ہوئی نسلوں نے پہلی تین صدیوں میں اتنی عظیم قربانیاں دی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انہوں نے وہ قربانیاں اس لئے دیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور قرآنِ کریم کی ہدایت کے نتیجہ میں علی وجہ البصیرت وہ اس مقام پر کھڑے تھے کہ اس دنیا کی دولتیں بھی اور اس دنیا کی عزتیں بھی اور دنیاوی اقتدار بھی فانی ہے اور ہم نے اللہ تعالیٰ سے جو حاصل کرنا ہے اور جس کی ہم اُمید رکھتے اور جس کے لئے ہم نے دعا اور تدبیر سے کوششیں کرنی ہیں وہ ایک لافانی اور ایک نہ ختم ہونے والا رزق ہے.اس کے بعد اگر چہ اُمت میں وسعت پیدا ہوئی اور اگر چہ بعض مقامات پر بعض زمانوں میں تنزل کے حالات بھی پیدا ہوئے لیکن پھر بھی اس اُمت کے وہ بزرگ ، خدا تعالیٰ کے وہ پیارے جو اپنے پیدا کرنے والے رب سے پیار کرنے والے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق اور فدائی تھے انہوں نے اسی مقام پر کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں پیش کیں کہ جو پیش کر رہے ہیں وہ فانی اور لایعنی اور نا قابل اعتبار چیزیں ہیں اور جن اشیاء کے ملنے کا وعدہ ہے.اس کے متعلق کہا گیا کہ مَا لَهُ مِنْ تَفَادٍ.اس میں کمی نہیں آتی.اس میں ضعف نہیں پیدا ہوتا.کہیں جا کر اس نے ختم نہیں ہو جانا.وہ ابدی رزق ہیں ، وہ ابدی نعماء ہیں.وہ ہمیشہ رہنے والا پیار ہے جو انسان اپنے رب کی نگاہ میں دیکھے گا.بہر حال اس تنزیل

Page 575

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ۱۰ رمئی ۱۹۷۴ء کے زمانہ میں بھی اُمت محمدیہ کی شان اتنی عظیم ہے کہ کوئی اور گروہ مقتر بین جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہوا وہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن جیسا کہ وعدہ دیا گیا تھا جیسا کہ قرآن کریم میں بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی ہمیں یہ بشارت دی گئی تھی کہ اس امت کے آخری حصہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا فدائی پیدا ہو گا جو مسیح اور مہدی (علیہ السلام) کا لقب پائے گا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ اندھیروں کے خلاف شیطانی طاقتوں کے خلاف جو جنگ شروع ہوئی اس کا آخری معرکہ اس نے اور اس کی جماعت نے سر کرنا ہے.اور ان کی قربانیاں اور ان کے ایثار اور ان کی جاں نثاری اور ان کی دین کے لئے فدائیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد اور مشن کے لئے ان کا فنا ہو جانے کا جذ بہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا جلتا ہوگا.یہ بشارتیں تھیں جو امت محمدیہ کو دی گئیں یہ قوم تھی جس نے پیدا ہونا تھا.جس نے علی وجہ البصیرت فانی اشیاء کو دے کر دنیا کی دوستیں دنیا کے مال، دنیا کی عزتیں اور دنیا کے اقتدار اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے ایک ابدی لذت اور سرور کے حصول کے لئے اس نے کوشش کرنا تھی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سے اُسے حاصل کر لینا تھا.یہ جماعت قائم ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو یہ اس رنگ میں جذب کر رہی ہے اُسی کی توفیق سے وہ رنگ اتنا حسین اور اس کی شان اتنی عظیم ہے کہ مخالف حیران ہوتا ہے اور ہماری گردنیں تو جھکتی ہوئی (اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو دیکھ کر ) زمین کے ساتھ لگ جاتی ہیں.ہر روز ہی ہم یہ نظارہ دیکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا تھا:.تیری نعمت کی کچھ قلت نہیں ہے تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے شمار فضل اور رحمت نہیں ہے مجھے اب شکر کی طاقت نہیں ہر آن ، ہر مہینہ، ہر سال ہمیں یہ نظارہ نظر آتا ہے اس سال اس قسم کے نظاروں میں سے 66.ہے ایک یہ ہے کہ گذشتہ ماہ ۱/۵ پریل کو جمعہ کے روز میں نے فذكر “ کے حکم کے ماتحت جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ آپ نے مجلس شوری میں سر جوڑ کر ہر ضلع اور تحصیل اور بڑے شہر اور قصبوں

Page 576

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۱۰ رمئی ۱۹۷۴ء سے نمائندے بھجوا کر مجوزہ بجٹ پر غور کیا اس پر بخشیں کیں.کمیٹی میں وہ بجٹ گیا پھر آپ نے ایک بجٹ بنایا اور اس کے مقابلہ میں خرچ کی راہوں کی تعیین کی کہ اتنی رقم اس حصہ میں خرچ ہوگی (اُس وقت میں نے کہا تھا کہ ) اب قریباً ایک ماہ رہ گیا ہے لیکن آپ کے بجٹ میں ساڑھے چھ لاکھ روپے کی کمی ہے دفتر بعض دفعہ گھبرا جاتا ہے لیکن چونکہ میں اپنے بھائیوں اور دوستوں کے اخلاص سے واقف ہوں اس لئے مجھے میں گھبراہٹ پیدا نہیں ہوتی لیکن یاد کرانا فذكر “ کے حکم کے مطابق ضروری سمجھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہ جماعت ایک ایسی جماعت ہے جس کا قدم کبھی پیچھے نہیں ہتا لیکن دعاؤں کی ضرورت ہے میں دعائیں کرتا ہوں.جماعت بھی دعائیں کرتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ بجٹ پورا ہو جائے گا.بہر حال ۱/۵ پریل کو ساڑھے چھ لاکھ کی کمی تھی اور آج جماعت نے (ابھی کچھ رقمیں جمعہ کے بعد بھی وصول ہونے والی رہتی ہیں ) محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے وہ ساڑھے چھ لاکھ بھی پورا کیا اور اُس سے زائد ساڑھے تین لاکھ روپے کی رقم بھی بھجوادی.فَالْحَمْدُ لِلّهِ عَلى ذلِكَ یہ رقم مجوزہ بجٹ سے قریباً آٹھ فیصد زائد ہے، میں نہیں کہہ سکتا کہ جمعہ کے بعد کس قدر وصولی ہوگی.ہمارا وصولی کا سال ۱۰ رمئی کو ختم ہوتا ہے پس یہ نہیں کہ یہ ایک سال اور دس دن کی رقمیں ہیں.یہ پورے سال کی رقمیں ہیں پچھلے سال بھی ۱۰ رمئی تک جو رقوم موصول ہوئی تھیں وہ اس سے پچھلے سال کے اندر پڑ گئی تھیں اور اس سال بھی دس مئی تک کی مہلت دی گئی تھی تا کہ پورا سال ہو جائے اس لئے کہ یکم کو تنخواہیں ملتی ہیں آمدنیاں ہوتی ہیں بعض تاجروں کو بھی یکیم دو کو پیسے دینے کی عادت ہو گئی ہے.وہ رقوم دراصل پچھلے مہینے کی ہیں اللہ تعالیٰ کتنا فضل کرنے والا ہے کمی تھی اور جب جماعتوں کو احساس دلایا گیا تو ایک مہینے میں دیوانہ وار اُنہوں نے مالی قربانیاں دیں.میں بتاتا رہتا ہوں کہ ہماری جماعتی زندگی کا اصل مقصد مالی قربانی نہیں یہ تو ذریعہ ہے دوسرے مقاصد کے حصول کا.جماعت غلبہ اسلام کی جدو جہد کے دیگر میدانوں میں اس سے کم قربانی نہیں دیتی بہر حال ہر میدان میں قدم آگے ہے تو (ساڑھے چھ لاکھ جمع ساڑھے تین لاکھ ) دس لاکھ کی رقم اس عرصہ میں جماعت نے انتہائی بشاشت کے ساتھ دی ہے اور ابھی مجھے ناظر بیت المال

Page 577

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۵۷ خطبہ جمعہ ۱۰ رمئی ۱۹۷۴ء نے بتایا ہے کہ بعض شہروں سے جو دوست رقوم لے کر آئے ہیں انہوں نے بتایا کہ اتنا جوش اور بشاشت اور اخلاص جماعت میں بڑھ رہا ہے کہ وہ کمزور مگر مخلص احمدی جو چندوں کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے اگر سارے سال کا چندہ بھی ان کے ذمہ تھا تو بشاشت سے انہوں نے اس عرصہ میں وہ پورا کر دیا.انسان کمزور ہے اور اُسے ان طاقتوں کے صحیح استعمال کا بھی شعور نہیں جو اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہیں سوائے اس کے کہ خود اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتوں کے نزول کے ساتھ اس کی رہبری کرے.پس جب آپ کے سامنے اس قسم کی قربانیوں کی اپنے ہی متعلق مثالیں آئیں تو آپ کے دل میں کبر اور غرور اور فخر نہیں پیدا ہونا چاہیے بلکہ آپ کے سر اور بھی جھک جانے چاہئیں.اللہ تعالیٰ کے حضور اور بھی عاجزی کے ساتھ آپ کو دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ وہ غفور اور پردہ پوش ہے.اگر وہ اپنی رحمت سے پردہ پوشی نہ کرے تو ہماری کمزوریاں تو دیمک کی طرح ہمیں کھا جائیں.وہ پردہ پوشی کرتا ہے اور پھر اس پردہ کے اندر ہی ہمارے لئے پہلے سے بڑھ کر اعمال صالحہ بجا لانے کے سامان پیدا کر دیتا ہے.ہم بھی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے زور سے ایسا نہیں کیا اور جو ہمیں پہچانتا نہیں اور صرف دنیا وی نگاہ رکھتا ہے اور دینی بینائی اُسے حاصل نہیں اُس کے لئے بڑی حیرانی کی بات ہوتی ہے کہ یہ کیا ہو گیا لیکن جماعت کے لئے یہ حیرانی کی بات نہیں جماعت کے لئے عاجزی اور انکساری کا لمحہ ہے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کتنا رحم کرتا ہے کہ کس طرح وہ بشاشت کے ساتھ ان فانی چیزوں کو پیش کرنے کی ہمیں توفیق دیتا ہے اس وعدہ کے ساتھ جسے ہم علی وجہ البصیرت درست اور صحیح سمجھتے ہیں کہ فانی اشیاء دے کر لافانی رزق ہمیں ملے گا جس کے متعلق آیا ہے مَالَهُ مِنْ نَّفَادِ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ ملے گا.ہم یقین رکھتے ہیں کہ جن جنتوں کا اس دنیا میں اس نے وعدہ دیا وہ اپنے وعدوں کو پورا کرے گا اور جن جنتوں کا اس دنیا سے گذر جانے کے بعد انسان کو وعدہ دیا گیا ہے وہ وعدے بھی اسی کے فضل سے ہمارے حق میں پورے ہوں گے.پس یہ اللہ تعالیٰ سے پیار کی علامت ہے.یہ تمہاری طاقت کا مظاہرہ نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کی آنکھ سے تمہیں دیکھا اور اس کی راہ میں وہ چیز پیش کرنے کی تم نے توفیق پائی کہ جس کے

Page 578

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۵۸ خطبہ جمعہ ۱۰ رمئی ۱۹۷۴ء نتیجہ میں وہ رزق ملتا ہے جو ابدی ہے فانی نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں آئندہ بھی ہمیشہ اپنی راہ میں ان قربانیوں کے پیش کرنے کی توفیق دے جنہیں وہ اپنی رحمت سے قبول کرے اور اُن کے وہ نتائج نکالے جو اُس نے صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے نکالے تھے اور جو ہماری دلی خواہش ہے اور ہماری روح کے اندر ایک تڑپ ہے کہ ہماری زندگیوں میں اسلام ساری دنیا میں غالب آجائے اللہ کرے کہ وہ دن ہمیں دیکھنا نصیب ہو.(روز نامه الفضل ربوه ۲۲ رمئی ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 579

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۵۹ خطبہ جمعہ ۱۷ رمئی ۱۹۷۴ء غلبہ اسلام اور دنیا کو اُمتِ واحدہ بنانے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے خطبه جمعه فرموده ۷ ارمئی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گذشتہ ہفتہ بیماری کی وجہ سے بہت تکلیف میں گذرا ہے.اس وقت بھی میں کمزوری محسوس کر رہا ہوں لیکن میں چاہتا تھا کہ جماعت کو دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلاؤں اس لئے میں جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے آ گیا ہوں.جیسا کہ ہمیں قرآنِ عظیم سے معلوم ہوتا ہے اور جیسا کہ میں پہلے بھی متعدد بار توجہ دلا چکا ہوں کہ جس قدر عظیم ذمہ داریاں ہوتی ہیں اُسی کے مطابق بشارتیں ملتی ہیں اور جس قدر عظیم بشارتیں ملیں اسی کے مطابق انسان کو ذمہ داریاں اٹھانی پڑتی ہیں.یہ حقیقت ہے کہ امت محمدیہ کو جس قدر بشارتیں ملی ہیں پہلی کسی اُمت کو اس قدر بشارتیں نہیں ملیں.اُمت محمدیہ کے اندر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلام قبول کرنے والوں اور آپ کی صحبت میں رہ کر تربیت حاصل کرنے والوں کو جو بشارتیں ملیں اور جن کے مطابق انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا اور نباہ اس قدر بشارتیں بعد میں آنے والے افراد امت کو نہیں ملیں اور نہ اُس قدر ذمہ داریاں اُن پر ڈالی گئیں اس لئے کہ جب کام شروع کیا جاتا ہے تو ابتدا میں کام کرنے والوں پر بہت زیادہ

Page 580

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۶۰ خطبہ جمعہ ۱۷ رمئی ۱۹۷۴ء بوجھ پڑتا ہے.ایک چھوٹی سی مثال ، بالکل ہی چھوٹی سی مثال میں دیتا ہوں اور چونکہ میری زندگی کا مشاہدہ ہے اس لئے مختصر بیان کر دیتا ہوں.کچھ باتیں آپ کے سامنے آجائیں گی.اس وقت مجلس خدام الاحمدیہ کا فی فعال مجلس ہے.اس کا ایک اپنا دائرہ عمل اور دستور ہے اس کے جوا بتدائی کام تھے وہ بڑی حد تک مکمل ہو چکے ہیں.اب بھی ہمارا نو جوان بہت ہمت اور بڑی قربانی سے کام لینے والا ہے اور شروع میں بھی یہی حال تھا.جب میں ۱۹۳۸ء میں ولایت سے واپس آیا تو اس وقت مجلس خدام الاحمدیہ کی نئی قائم ہوئی تھی.اس کا کوئی دستور بھی نہیں تھا نیا نیا کام تھا.اس کو چلانے کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا مجھے یاد ہے کہ شروع میں جب قادیان میں باہر کیمپ کی شکل میں خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع کیا تو اس وقت چونکہ یہ نیا نیا کام تھا اور تجربہ نہیں تھا اس لئے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ مقام اجتماع کے گرد بانس کیسے لگانے ہیں اور ان پر رسیاں کس طرح باندھنی ہیں.میں اس وقت جامعہ احمدیہ کا پرنسپل تھا.جامعہ احمدیہ کے میرے شاگرد اور میں خود بھی کئی دن خرچ کرتے اور چھوٹے رنبوں کے ساتھ گڑھے کھود کر اُن کے اندر بانس لگاتے تھے بیچارے خدام کے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے.پھر ایک دو سال کے تجربہ کے بعد یہ پتہ لگا کہ اتنی کوفت اور تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے بس ایک کلہ“ بنا لیا دو چار ضر میں لگائیں بانس کے لئے سوراخ بن گیا اُس کو نکالا آگے چلے گئے.اس طرح جس کام پر ہفتے لگے تھے وہ دو گھنٹوں میں مکمل ہو گیا.میں نے یہ ایک چھوٹی سی ظاہری مثال دی ہے خدام الاحمدیہ کے کام کی تا کہ بچے بھی سمجھ جائیں.غرض جس کام کو شروع کیا جاتا ہے اس کو معیار پر لانے کے لئے بڑی کوفت اُٹھانی پڑتی ہے.بڑی قربانی دینی پڑتی ہے.بعد میں آنے والوں کو اس قسم کی قربانیاں نہیں دینی پڑتیں.چنانچہ ساری دنیا کو اللہ تعالیٰ کے نور اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دائرہ میں لانے کا کام جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شروع ہوا تو یہ اتنا عظیم کام تھا اور بھاری ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں اور بڑا بوجھ اُٹھانا تھا اس لئے اس ابتدائی زمانہ کے مسلمانوں

Page 581

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۶۱ خطبہ جمعہ ۱۷ رمئی ۱۹۷۴ء کو عظیم بشارتیں دی گئیں اور ایسے وقت میں دی گئیں جب کہ غربت کا زمانہ تھا.مسلمان ایک ایسی جنگ میں گھرے ہوئے تھے جسے ہماری تاریخ جنگ احزاب کے نام سے یاد کرتی ہے احادیث میں آتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر بھوک کے احساس کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے تھے مگر اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ذریعہ آپ کے صحابہ کو بشارت یہ دی گئی کہ کسریٰ اور قیصر کی سلطنتوں پر اسلام غالب آئے گا.چنانچہ بعد میں مسلمان کسری اور قیصر کی سلطنتوں پر غالب آئے.جس طرح چند سال پہلے امریکہ اور روس دنیا کی دو عظیم سلطنتیں کہلاتی تھیں اسی طرح اُس زمانے میں کسرئی اور قیصر کی دو عظیم سلطنتیں تھیں.اب دیکھو مسلمانوں کو کھانے کو میٹر نہیں تھا مگر ان کو بشارت دی گئی تھی کسری اور قیصر کی دو عظیم سلطنتوں پر اسلام کے غالب آنے کی.چنانچہ بتایا گیا تھا کہ مسلمان ان کی دولت سے فائدہ اٹھائیں گے اور کسری اور قیصر کے پاس جو د نیوی حسنات ہیں وہ مسلمانوں کو ملیں گی.اس موقع پر یہ بشارت دینا گویا مسلمانوں کو یہ سبق سکھانا تھا کہ جو قربانیاں تم دے رہے ہو اس سے زیادہ ہماری طرف سے تمہیں بشارتیں دی گئی ہیں اور تمہیں یہ چیزیں ملنے والی ہیں.اُمت محمدیہ میں بڑا ہی عظیم وہ گروہ ہے جس نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت حاصل کی.اُمت مسلمہ کی زندگی سنوارنے اور اُمتِ مسلمہ کے محلوں کی بنیا دوں کو مضبوط بنانے اور ان کو مضبوط کرنے اور پھر اُن پر اسلام کے عظیم قلعے بنانے کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا اور بڑی عظیم بشارتوں کے وارث بنے چنانچہ انہیں جب بھی بشارتیں ملتی تھیں اُن کو تسلی ہو جاتی تھی اور وہ یقین رکھتے تھے کہ یہ اپنے وقت پر پوری ہو کر رہیں گی مگر ان کے بعد میں آنے والوں نے اُن قلعوں پر جو منزلیں تعمیر کی ہیں ان منزلوں کی تعمیر کے لئے ویسی ہی قربانیوں کی ضرورت نہیں پڑی جیسی قربانیوں کی بنیادوں کو قائم کرنے اور اُن کو مضبوط کرنے اور ابتدائی عظیم قلعوں کی تعمیر کے لئے شروع میں ضرورت پڑی تھی.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اور بشارت دی گئی تھی اور وہ یہ تھی کہ آپ کی بعثت کا

Page 582

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۶۲ خطبہ جمعہ ۱۷ رمئی ۱۹۷۴ء جو آخری مقصد ہے یعنی تمام اقوام عالم کو امت واحدہ بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کیا جانا اور ہر قوم اور ہر ملک کے لئے ایسے حالات پیدا کرنا کہ اللہ تعالیٰ کے پیار سے اسی طرح حصہ لے رہا ہو جس طرح کوئی اور ملک یا کوئی اور قوم حصہ لے رہی ہے.یہ کام اب جماعت احمدیہ کے سپر دہوا ہے جو مہدی معہود اور مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے.یہ کام اتنا عظیم ہے اور یہ بوجھ اتنا بھاری ہے کہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت محمدیہ کے کسی اور گروہ پر اس قدر عظیم اور اس قدر وزنی اور اس قدر اہم ذمہ داری نہیں پڑی.مگر اس عظیم ذمہ داری کے ساتھ بہت بڑی بشارتیں بھی دی گئی ہیں جنہیں سُن کر آج ہمارے وہ احمدی دوست بھی جنہوں نے تھوڑی بہت تربیت حاصل کر لی ہے اُن کے دماغ بھی شاید انہیں قبول نہ کریں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا تھا کہ کسریٰ اور قیصر مغلوب ہوں گے.آپ کے روحانی فرزند جلیل حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کشف میں رشیا (Russia) ( جو اس وقت دنیا کی طاقتور حکومتوں اور ملکوں میں سے ایک ہے اس میں ریت کے ذروں کی طرح احمدی دکھائے گئے ہیں اسی طرح مغربی اقوام ( جو بہت طاقتور حکومتیں ہیں ) جو کسی زمانہ میں سفید فام قو میں کہلاتی تھیں ان کے کثرت کے ساتھ اسلام میں داخل ہونے کی بشارت دی گئی ہے.حالات میں ایک نئی تبدیلی ہو چکی وہ یہ کہ خود مسلمان کہلانے والے بھی مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت میں غفلت برت رہے تھے اور یہ بھی اُمت محمدیہ کے اندر ایک بہت بڑا فتنہ تھا کہ مہدی آگئے لیکن جن کو شناخت کرنا چاہیے تھا انہوں نے شناخت نہیں کیا.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک اور کشف بھی دکھایا گیا کہ مکہ میں احمدی ہی احمدی پھر رہے ہیں اس لئے اگر آج مکہ سے ہمارے خلاف کفر کا فتویٰ جاری ہو جائے تو اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے.یہ ایک عارضی حالت ہے لیکن جو ہمیشہ رہنے والی صداقت ہے وہ یہ ہے کہ مکہ و مدینہ پر اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور وہ مہدی اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت کریں گے اور اس کے جھنڈے تلے جمع ہو کر اپنی ہر چیز کو قربان کر دیں گے اور دنیا میں

Page 583

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۶۳ خطبہ جمعہ ۱۷ رمئی ۱۹۷۴ء اسلام کو غالب کرنے کی مہم میں اسلام کے سب فرقے ایک ہو جائیں گے.پس یہ وہ عظیم بشارتیں ہیں جو ہمیں دی گئی ہیں یہ بشارتیں بتاتی ہیں کہ بڑی عظیم ذمہ داریاں ہیں جن کو ہم نے اٹھانا ہے ان عظیم ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے اور بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کرنے کے لئے جتنی عظیم ذمہ داریاں ہیں اُن سے کہیں زیادہ عظمت ان بشارتوں کی ہے جو اس کے مقابلے میں ہمیں دی گئی ہیں اس لئے اس تمہید کے بعد جو بات میں کہنا چاہتا ہوں اور جسے آپ کے ذہن میں بٹھانا چاہتا ہوں اور جس کے لئے میں آپ کی روح کو جھنجھوڑ نا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ انسان کمزور ہے وہ اپنی طاقت سے کچھ نہیں کر سکتا اس لئے میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.ہر وقت دعاؤں میں مشغول رہیں.جماعت کے بڑے بھی اور چھوٹے بھی ، مرد بھی اور عورتیں بھی اور بچے بھی اور بچیاں بھی سب دعاؤں کی عادت ڈالیں اور خدا سے یہ دعا کریں کہ اے خدا تو نے ہمیں اتنی عظیم بشارتیں دی ہیں.ان بشارتوں کو دیکھ کر ہم یہ سمجھتے ہیں اور ہمارا ذہن اور ہماری عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اسی کے مقابلے میں اور اسی نسبت سے ہم پر ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں لیکن اے خدا ! ہم تیرے عاجز بندے ہیں تیری مدد کے محتاج ہیں.اگر تیری نصرت ہمیں حاصل نہ ہو تو ہم ان ذمہ داریوں کو نباہ نہیں سکتے اور ان بشارتوں کے وارث نہیں بن سکتے اس لئے اے ہمارے خدا! آسمانوں پر اپنی رحمت کے دروازوں کو کھول اور فرشتوں کو ہماری مدد کے لئے نازل فرما.ہمیں طاقت عطا فرما کہ ہم بشاشت کے ساتھ ان ذمہ داریوں کو نباہتے ہوئے تیری بشارتوں کے وارث بن جائیں.پس دوست بہت دعائیں کریں اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان عظیم بشارتوں کا وارث بنے کی توفیق بخشے.خدا کرے کہ ہماری زندگیوں میں ہمارے یہ بھٹکے ہوئے راہی جنہوں نے اُمت مسلمہ میں ہوتے ہوئے بھی مہدی کو شناخت نہیں کیا، اللہ تعالیٰ انہیں مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کو شناخت کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ وہ بھی ہم میں شامل

Page 584

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۶۴ خطبہ جمعہ ۱۷ رمئی ۱۹۷۴ء ہو کر اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے جدو جہد کرنے والے بن جائیں کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے، اس کے لئے کوشش کرنی ہے، اس کے لئے تدابیر کرنی ہیں اس کے لئے دعائیں کرنی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اس میں کامیاب ہونا ہے.(انشاء اللہ تعالی) روزنامه الفضل ربوه ۲۹ مئی ۱۹۷۴ء صفحه ۳ تا ۴) 谢谢谢

Page 585

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۶۵ خطبہ جمعہ ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء مامورین کی جماعتوں کی طرح جماعت احمدیہ کو بھی ابتلاؤں میں سے گزرنا پڑے گا خطبه جمعه فرموده ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں:.ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ.(ص:۲) انْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْ ذِكْرِى بَلْ لَمَّا يَذُوقُوا عَذَاب - اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَابِنُ رَحْمَةِ رَبَّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ - ( ص : ١٠٩) فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ - (المؤمن : ۷۹ ) پھر حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذکر و ہدایت اور نصیحت کی باتیں (خواہ شریعت اور ہدایت سے تعلق رکھنے والی ہوں یا شریعت و ہدایت کی یاددہانی کے طور پر ہوں) خدا تعالیٰ کے انبیاء اور مامورین کی بعثت کے ذریعہ دنیا میں نازل ہوتی ہیں اُس وقت وہ دنیا جس کی طرف کوئی نبی یا مامور مبعوث ہوتا ہے دو گروہوں میں منقسم ہو جاتی ہے.ایک گروہ ایمان لے آتا ہے

Page 586

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۶۶ خطبہ جمعہ ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء ایک گروہ انکار کرتا ہے.جو گروہ انکار کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا مشاہدہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں ایک عرصہ تک ڈھیل دیتا ہے.چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم یہ نظارہ دیکھتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی بعثت اور مامورین کا آنا دنیا کی بھلائی اور دنیا کی خیر خواہی کے لئے ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں چونکہ یہ غرض ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی گرفت فوری طور پر نہیں آتی جو دوسرے جو ایمان لانے والے ہیں ان کی تربیت اور امتحان مقصود ہوتا ہے اور منکرین کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں اور نبیوں پر ایمان لانے والوں کی تربیت ہی اس رنگ میں کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اُس کی رضا کے حصول کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں.پس چونکہ منکرین کی بھی خیر خواہی مقصود ہوتی ہے اور چونکہ مومنین کا امتحان مقصود ہوتا ہے اس لئے فوری طور پر اللہ تعالیٰ کی گرفت نازل نہیں ہوتی کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ فوری طور پر منکرین کو پکڑے اور ان پر عذاب نازل کر دے تو پھر تو بہ کا موقع جو انہیں میسر آ سکتا تھا اُس سے وہ محروم ہو جاتے ہیں.اب دیکھو سب سے عظیم اور افضل اور آخری اور کامل اور مکمل شریعت لانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قریش مکہ نے جس قسم کی حرکتیں کیں اور جس قسم کے شیطانی منصوبے بنائے اور جس قسم کے انتہائی دُکھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیئے ان کی گرفت پر بھی ایک لمبا عرصہ لگا وہ فوری طور پر نہیں پکڑے گئے.پھر جب گرفت ہوئی تو سب نہیں پکڑے گئے بلکہ کچھ پکڑے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ زمانہ جس میں آپ اپنے وصال سے قبل صحابہ رضی اللہ عنہم کی تربیت میں مصروف تھے اس وقت کا نقشہ یہ ہے کہ سوائے گنتی کے چند مومنوں کے اہل مکہ کی بڑی بھاری اکثریت انتہائی مخالفت اور ظلم کرنے پر نکلی ہوئی تھی.پھر ایک عرصہ کے بعد جب عذاب آیا اور ان کو اللہ تعالیٰ نے جھنجھوڑا اور اللہ تعالیٰ کا قہران پر نازل ہوا تو اگر چہ بدر کے میدان میں چوٹی کے سردارانِ قریش میں سے بہتوں کے سرکاٹ دیئے گئے کیونکہ انہوں نے تلوار کے ذریعہ اسلام کو مٹانا چاہا اور تلوار کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ نے اُن کی ہلاکت کا ان پر عذاب نازل کرنے کا ارادہ کیا.یہ درست ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ مخالفین کی جو تعداد تھی

Page 587

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء اُس کا وہ شاید آٹھ فی صد یا پانچ فی صد بھی نہ ہوں.پھر اللہ تعالیٰ نے چونکہ ان لوگوں کی خیر خواہی کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت فرمائی تھی جس طرح ہر نبی اور مامور کی بعثت ہوتی ہے.ان کو ڈھیل دی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے ایک لمبے عرصہ کی گمراہی اور اندھیروں میں بھٹکنے کے بعد ان کے لئے ہدایت اور روشنی کے سامان پیدا کئے اور وہ ایمان لائے.پھر جو باقی بچے ان میں س إِلا مَا شَاءَ الله فتح مکہ کے وقت سب ایمان لے آئے اور ان میں خدا تعالیٰ نے بڑا اخلاص پیدا کیا اور بعد میں جو خلافتِ راشدہ کے زمانہ میں اس وقت کی دو بڑی طاقتوں کے خلاف مسلمانوں کو اس لئے لڑنا پڑا کہ وہ حملہ آور ہوئے تھے اور اسلام کو مٹانے کے منصوبے بنا رہے تھے اُس زمانہ میں میدان جنگ میں انہوں نے اس قسم کی مخلصانہ قربانیاں دی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.پس اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے معا بعد خدا تعالیٰ کے قہر کی گرفت اہل مکہ پر ہو جاتی تو یہ مخلصین ہدایت ملنے سے پہلے ہی دوزخ کا ایندھن بن جاتے.نبی کی بعثت ہلاکت کے لئے نہیں ہوتی.ہلاکت کا سامان تو مخالف خود اپنے ہاتھ سے پیدا کرتا ہے وہ تو بھلائی اور خیر خواہی کے لئے آتا ہے اور جنتوں کے دروازے ان کے لئے کھولنے آتا ہے لیکن بعض بد بخت قبل اس کے کہ ان کو ہدایت ملے اللہ تعالیٰ کی ہلاکت کی گرفت میں آجاتے ہیں اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو ایک لمبا عرصہ کی مخالفت کے بعد ایمان کی دولت سے متمتع ہوتے ہیں ایمان لاتے ہیں اور پھر ان کے دل میں اخلاص پیدا ہوتا ہے.وہ اخلاص قربانیوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نتیجہ میں اس کی جنتوں کے وارث ہو جاتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بھی جو میں نے مختلف مقامات سے لی ہیں.تین آیات سورہ ص کی ہیں اور ایک سورہ مومن کی ہے جو ایک مضمون کی کڑیاں ہیں وہ میں نے یہاں ملائی ہیں.یہاں یہی بتایا گیا ہے کہ جب مخالفت شروع ہوتی ہے خدا تعالیٰ کے نبی یا مامور کی تو اس وقت ڈھیل دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ چونکہ ہم ڈھیل دیتے ہیں اس کے نتیجہ میں تم یہ سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ و قاب تو ہے مگر عزیز نہیں ہے اور شوخیوں میں بڑھ جاتے ہو.ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بعثت نبوی

Page 588

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۶۸ خطبہ جمعہ ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء اور مخالفانہ منصوبوں اور عذاب کے درمیان اپنی حکمتِ کاملہ سے ایک فاصلہ رکھا ہوتا ہے.ایک زمانہ گذرتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی قہری گرفت پکڑتی ہے.چونکہ ابھی عذاب کا وقت نہیں آیا ہوتا اس لئے شوخیوں میں یہ آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں اور چونکہ اس زمانہ میں دنیوی 66 حسنات بھی ان کو مل رہی ہوتی ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انہی کو خیر “ دی گئی ہے ( اور وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بہت بزرگ ہیں ) اور دنیا کی حسنات اور دنیا کی دولتیں جو انہیں دی گئی ہیں وہ اس لئے دی گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے آگے تقسیم ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ام عِندَهُمْ خَزَابِنُ رَحْمَةِ رَبِّ اُن کی ذہنیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے صرف اُن کے پاس ہیں کیونکہ جو تبعین ہیں وہ غربت کی حالت میں ہوتے ہیں وہ کسمپرسی کی حالت میں ہوتے ہیں وہ دھتکارے ہوئے ہوتے ہیں اور جو منکرین ہیں ان میں سے اکثر دولت اور اقتدار کے لحاظ سے بڑے بلند دنیوی مقام پر فائز ہوتے ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے صرف انہی کو مل سکتے ہیں اور دوسروں کو نہیں مل سکتے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جو خزانوں کا دینے والا ہے وہ عزیز بھی ہے.اور وہ وھاب بھی ہے.یہ لوگ خدائے و قاب کی رحمتوں سے جب حصہ لیتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ عزیز نہیں اور اُس کے مقرب بندے کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خدا عزیز بھی ہے اور جب خدا تعالیٰ کا غالب ہاتھ قہر کا طمانچہ لگاتا ہے تو پھر وہ مایوس ہو جاتے ہیں.پھر وہ کہتے ہیں کہ خدا و قاب نہیں لیکن مومن خدا تعالیٰ کو وھاب بھی سمجھتا ہے اسی لئے اس کی راہ میں قربانیاں دے رہا ہوتا ہے اُسے معلوم ہے کہ جو ہم قربانیاں دیں گے خدا تعالیٰ کسی کا قرض نہیں رکھتا ان قربانیوں سے ہزاروں گنا بلکہ بے شمار گنا واپس (اسی دنیا میں بھی) کرتا ہے لیکن جو اس کے مقابلے میں اُخروی زندگی کے معاملات ہیں ان کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں.اس زندگی اور یہاں کی حسنات اور یہاں کی لذتوں اور یہاں کے آراموں سے بہر حال وہ و قاب خدا کا عرفان بھی رکھتے ہیں لیکن اس حالت میں وہ خدا تعالیٰ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں.اُسے عزیز بھی جانتے ہیں.اُن کے دل میں تکبر اور غرور نہیں پیدا ہوتا لیکن جو منکر ہے جس وقت خدا تعالیٰ کی رحمت کا سلوک امتحان کے طور پر اس دنیا

Page 589

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۶۹ خطبہ جمعہ ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء میں ابتدائے مخالفت میں اس کے ساتھ کیا جاتا ہے تو وہ خدائے وھاب کو تو پہچانتے ہیں لیکن وہی اللہ جس کی دوسری صفت العزیز بھی ہے اس کو پہچانتے نہیں اور جب خدائے عزیز کی گرفت میں آجاتے ہیں پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت کا کوئی جلوہ اب ظاہر نہیں ہو گا.جیسا کہ وہ واقعہ آتا ہے ( میں مختصر بیان کروں گا ) حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تلوار لے کر ایک شخص حملہ آور ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اُس نے پوچھا کہ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ آپ نے فرمایا میرا خدا.اور اُس پر اتنا رعب طاری ہوا کہ تلوار اُس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور جس وقت تلوار اس کے ہاتھ سے گری تو آپ نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر اُس سے پوچھا تمہیں اب میرے ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ کہنے لگا آپ ہی رحم کر دیں.وہ یہ سمجھا ہی نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت کے ذریعہ بچانے والا ہے تو اُسے بھی خدا ہی بچانے والا ہے تو جو سبق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُس شخص کو سکھانا چاہتے تھے وہ اس نے نہیں سیکھا اور اشارہ نہیں سمجھا.پس مخالفین جب رحمت کا جلوہ دیکھتے ہیں تو مخالفت میں تیزی دکھاتے ہیں اور جب خدا تعالیٰ کا عذاب چکھتے ہیں تو اس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ وھاب بھی ہے.اُس کی رحمتوں کے جلوے بھی انسان پر آتے ہیں اور نبی کی تو بعثت ہی اس لئے ہوتی ہے کہ رحمت کے جلوے انسان دیکھے تو ان کا ایک حصہ عذاب کے وقت بھی اس طرف توجہ نہیں دیتا.قرآن کریم نے کہا ہے کہ عذاب بار بار آتا ہے کچھ لوگ عذاب کی شکل میں آنے والے پہلے ہی امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں کچھ دوسرے جھٹکے میں ہو جاتے ہیں کچھ تیسرے جھٹکے میں ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ آخری وقت تک انتظار کرتے اور اُن کا ایک حصّہ سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ( القمر : ٤٦) کے نظارے دیکھتا اور پھر وہ فتح مکہ کی شان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھتا ہے وہاں وہ مارا جاتا ہے اور یہاں وہ کہتا ہے کہ آپ ہمیں معاف کر دیں.فتح مکہ میں ایسا ہی ہوا.یہ نہیں کہا کہ ہم خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور وہ ہمیں معاف کر دے گا انہوں نے کہا کہ آپ ہم پر رحم کریں اور اسی واسطے اُن کے بعض سرداروں کو بنانے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ کتنا رحم کرنے والا ہے.میں تو ودرو

Page 590

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۷۰ خطبہ جمعہ ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء اس کا ایک کارندہ ہوں اور اُس کے حکم سے کرتا ہوں جو کرتا ہوں.اُن سے کہا اچھا تمہارے گھر میں جو داخل ہو جائے گا اُس کو ہم پناہ دیں گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دو گروہ ہو جاتے ہیں.ایک مومنوں کا گروہ ہے.ایک کافروں کا گروہ ہے.جو کافر ہیں وہ انکار کرتے ہیں اور حقیقتاً اس لئے انکار نہیں کرتے کہ وہ اُس نبی کے منکر ہیں اور پہلوں کے وہ ماننے والے ہیں بلکہ ایک زمانہ گذرنے کے بعد حقیقت یہ ہے کہ قصے رہ جاتے ہیں اور حقیقی ایمان دل میں نہیں ہوتا کیونکہ اگر حقیقی ایمان ہو تو نئے آنے والے پر بھی فوراً ایمان لے آئیں کیونکہ وہی سلوک جو پہلوں سے تھوڑا یا بہت اللہ تعالیٰ کا ہوا وہی سلوک بعد میں آنے والے سے ہوا.اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے انتہائی پیار کیا.اس میں شک نہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ پہلے انبیاء سے بھی اللہ تعالیٰ نے پیار کیا.ان کے حالات کے مطابق ان کے ذریعہ جو ذمہ داریاں اُن کی اُمت کی اُن پر ڈالی گئی تھیں اس کے مطابق پیار کیا لیکن جس نے انتہائی قربانی اپنے پیدا کرنے والے رب کے حضور پیش کی اور جو انتہائی محبت اور عشق کے مقام پر پہنچا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انتہائی تعلق اور محبت اور پیار کا سلوک کیا لیکن اس کا جو خا کہ بنتا ہے اور جو تصویر بنتی ہے وہ شروع سے ایک ہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا پیار نبی اور اس کے ماننے والوں کو حاصل ہوتا ہے.آدم سے لے کر اس وقت تک ہم نے یہی دیکھا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو شک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ذکر نازل بھی ہوتا ہے یا نہیں اور اس شک کی وجہ سے وہ آنے والے کو بھی نہیں مانتے اور حقیقت یہ ہے کہ بک لیا يَذُوقُوا عَذَاب (ص : 9) اُس وقت تک یہ مخالفت کرتے رہیں گے، منصوبے بناتے رہیں گے، تکالیف دیتے رہیں گے.نا کام کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کا جلوہ گرفت کی صورت میں نہیں دیکھیں گے اور اس عرصہ میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے خزانے صرف ان کو دیئے گئے ہیں اور مومنین کو وہ نہیں مل سکتے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے مومن کو اللہ تعالیٰ ابتلا میں ڈالتا ہے ایک تو اس کا یہ امتحان لیتا ہے کہ جو تر بیت خدا تعالیٰ کے نبی اور مامور کے ذریعہ سے اس کی کی گئی ہے وہ تربیت اُس نے حاصل

Page 591

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۷۱ خطبہ جمعہ ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء کی یا نہیں.دوسرے دنیا کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ دیکھو میرے بندے میری خاطر دنیا کا ہر ظلم سہنے کے لئے تیار ہیں لیکن مجھ سے بے وفائی کرنے کے لئے تیار نہیں.خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کا یہ نظارہ دنیا کو دکھانا چاہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب عذاب کی شکل میں اس کا حکم نازل ہوتا ہے تو اُس وقت مومن بھی اور کا فر بھی اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہتے اور اُس کے مامورین اور اُس کے انبیاء کو جھٹلاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے مختلف پیراؤں میں یہ مضمون قرآن کریم میں بیان کیا اور ہمارے سامنے رکھا ہے.ماننے والوں کو خدا نے حکم دیا ہے کہ جلدی نہ کرنا اور جو تمہیں دُکھ پہنچانے والے تم پر ظلم کرنے والے تمہیں ہلاک کرنے کی تدابیر کرنے والے تمہیں بے عزت کرنے والے تمہیں حقیر سمجھنے والے ہیں اُن کے لئے دعائیں کرو.اُن کے لئے یہ دعا کرو کہ وہ عظیم نعمت جو اللہ تعالیٰ کے پیار کی شکل میں تم نے دیکھی اور اس سے مخالف محروم رہے اللہ تعالیٰ اُن کے لئے بھی یہ سامان پیدا کرے.ہماری جماعت اس وقت مہدی اور مسیح علیہ السلام کی جماعت ہے اور وہ احمدی جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں دُکھ نہیں دیئے جائیں گے ہم پر مصیبتیں نازل نہیں کی جائیں گی ، ہماری ہلاکت کے سامان نہیں کئے جائیں گے ہمیں ذلیل کرنے کوششیں نہیں کی جائیں گی اور آرام (کے ) ساتھ ہم آخری غلبہ کو حاصل کر لیں گے وہ غلطی خوردہ ہے اُس نے اُس سنت کو نہیں پہنچا نا جو آدم سے لے کر آج تک انسان نے خدا تعالیٰ کی سنت پائی.ہمارا کام ہے دعائیں کرنا.اللہ تعالیٰ کا یہ کام ہے کہ جس وقت وہ مناسب سمجھے اُس وقت وہ اپنے عزیز ہونے کا اپنے قہار ہونے کا جلوہ دکھائے اور کچھ کو ہلاک کر دے اور بہتوں کی ہدایت کے سامان پیدا کر دے.دیکھو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال ابھی میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے جو مخالف تھے اُن میں کتنے فی صد خدا تعالیٰ کے قہر کا نشانہ بنے ؟ اور مارے گئے؟ بہت کم.باقیوں کے لئے وہ عذاب جو بار بار مختلف شکلوں میں آتے تھے وہ ان کے لئے عبرت کا موجب بنے اور ہدایت کا ذریعہ بن گئے.پس ہمارا کام اپنے لئے یہ دعا کرنا ہے کہ جو ہمیں دوسروں کے لئے دعائیں کرنے کی تعلیم

Page 592

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۷۲ خطبہ جمعہ ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء دی گئی ہے کہیں ہم اس کو بھول نہ جائیں.ہمارا کام غصہ کرنا نہیں.ہمارا کام غصہ پینا ہے ہمارا کام انتقام اور بدلہ لینا نہیں ہمارا کام معاف کرنا ہے ہمارا کام دعائیں کرنا ہے اُن کے لئے جو ہمارے اشتد ترین مخالف ہیں کیونکہ وہ پہچانتے نہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں اور اُس کے پیار کی راہوں سے وہ بھٹک گئے ہیں یہ ہمارا کام ہے اور جس وقت پھر خدا تعالیٰ ایک لمبے سلسلہ کے بعد جو صفت عزیز کے جلوؤں کا سلسلہ ہے یعنی کبھی کہیں تھوڑی گرفت ہوتی ہے اور کسی اور مقام پر اور کسی اور زمانہ میں زیادہ سخت گرفت ہوتی ہے ان سب کا نچوڑ یہ ہے کہ دو چار فیصد لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن باقیوں کے لئے ہدایت کا سامان پیدا ہو جاتا ہے آخر خلافت راشدہ میں اسلامی مہم میں کتنی وسعت پیدا ہو گئی تھی اور جہاں جہاں اسلام کا اثر ونفوذ پھیلا کسری کے ساتھ لڑائیوں میں ایران کے باشندوں میں سے ایسا تو نہیں ہوا کہ نوے فیصد لوگ مارے گئے ہوں یہ بھی نہیں کہ ان میں سے پانچ فیصد ہلاک ہوئے ہوں.میرا خیال ہے کہ شاید ایک فیصد بھی ہلاک نہ ہوئے ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر اپنی گرفت کے جلوے اپنے عزیز ہونے کے جلوے ظاہر کئے اور ان کے لئے ہدایت کا سامان پیدا کر دیا اور ان کی بھاری اکثریت مسلمان ہوئی.پھر ان لوگوں نے بڑے اخلاص کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے اپنی قوتوں اور استعدادوں کو اللہ کی راہ میں وقف کر دیا تھا.سپین کے فاتحین موسیٰ اور طارق بھی جہاں تک مجھے یاد ہے ایران سے وہاں گئے ہوئے تھے اور اُن لڑائیوں میں غلام بن کر آئے تھے وہ جنگی قیدی تھے پھر اسلام کے اندر ان کی تربیت ہوئی پھر ان کی جتنی ذہنی طاقتیں اور استعداد میں تھیں وہ اسلام کے لئے وقف ہو گئیں اور اپنا کچھ باقی نہ رہا اور انہوں نے اطاعت امام کا اعلی نمونہ قائم کیا حالانکہ ان کے زمانہ میں تو خلافت نہیں تھی ملوکیت آگئی تھی لیکن پھر بھی اسلام کے نظام کی اطاعت کے لئے انہوں نے اپنی غلط فہمی کے نتیجہ میں جو سزائیں دی تھیں اُس سلسلہ میں انہوں نے اپنی جانیں تک قربان کر دیں لیکن اسلام سے جو انہیں پیار اور محبت تھی اس پر انہوں نے حرف نہیں آنے دیا.بہر حال یہ دوسری باتیں ہیں مجھے جو فکر رہتی ہے وہ یہ ہے کہ احباب جماعت میں نئے آئے ہوئے بھی ہیں.ان کو کہیں اپنے مخالف کے خلاف اس قسم کا غصہ نہ آئے کہ جس کی اجازت ہمیں

Page 593

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۷۳ خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء ہمارے رب نے نہیں دی.خدا تعالیٰ نے کہا ہے میری خاطر تم ظلم سہو میں آسمانی فرشتوں کو بھیجوں گا تا کہ تمہاری حفاظت کریں.اب ظاہر ہے اور موٹی عقل کا آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ اگر کسی فرد پر کوئی دوسرافر دحملہ آور ہو اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کو اپنے دفاع کے لئے ان دو چار ہتھیاروں میں سے جو میٹر ہیں کسی ایک ہتھیار کے منتخب کرنے کا موقع ہو تو عقل کہتی ہے کہ اُس کے نزدیک جو سب سے زیادہ مضبوط اور مؤثر ہتھیار ہو گا وہ اسے منتخب کرے گا تو اگر ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ ایک مومن کی عقل کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اگر دنیا کے سارے دلائل بھی ہمارے پاس ہوں اور ان کے ساتھ ہم اپنے مخالف کا مقابلہ کریں تو ہماری اس تدبیر میں وہ قوت اور طاقت نہیں جو ان فرشتوں کی تدبیر میں ہے جنہیں اللہ تعالیٰ آسمان سے بھیجے اور کہے کہ میرے بندوں کی حفاظت کرو اور اُس کی خاطر مخالفین سے لڑو.پس جب یہ بات ہے تو ہماری عقل کہتی ہے کہ ہمیں کمزور ہتھیار سے اپنے مخالف کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے.جب ہمیں ایک مضبوط ہتھیار بھی میسر آ سکتا ہے اور آرہا ہے تو ہمارے خدا نے ہمیں یہ کہا کہ تمہارا کام ہے دعائیں کرنا اور میرا کام ہے (۱) تم سے قربانیاں لینا تا کہ تم میرے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بن جاؤ اور (۲) تمہاری اجتماعی زندگی کی حفاظت کرنا.خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور اس کے بعد ہمیں اپنے غصے نہیں نکالنے چاہئیں.تمہارا کام ہے دعائیں کرو.گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام دو جہاں کہیں تمہیں کوئی تکلیف دینے والا ہے وہاں خودسوچو کہ کوئی ایسی صورت نہیں ہوسکتی کہ ہم اس کی کسی تکلیف کو دور کر کے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ماننے والے ہوں.اب یہاں بھی ہماری بڑی مخالفت ہوتی رہتی ہے لیکن اجتماعی طور پر احمدیوں کے دلوں کی کیفیت یہ ہے کہ ہمیں ہر وقت یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں ہمیں کوئی ایسا انسانی دُکھ ملے جس کو ہم دُور کر سکیں تو اس کو دُور کرنے کی کوشش کریں.اب اخبار میں ایک دن یہ خبر آئی کہ دریائے سندھ نے اپنے بہاؤ کا رُخ موڑا ہے اور پچاس گاؤں اُس کی زد میں آگئے ہیں اور لوگ بڑی تکلیف میں ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں میں ایک مثال دے رہا ہوں ہماری کیفیت یہی رہنی چاہیے.اسی میں برکت ہے) میں نے

Page 594

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۷۴ خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء خدام الاحمدیہ کو کہا کہ وہاں آدمی بھیجو اور پتہ لو کہ اُن کو کس چیز کی ضرورت ہے تا کہ ہم ان کی ضرورتیں پوری کریں.ہمارے دو نوجوانوں کا وفد وہاں گیا اور انہوں نے وہاں سارے حالات کا جائزہ لیا اور ایک مفصل رپورٹ اپنے دفتر میں پیش کی وہ مجھے بھجوائی گئی ہمیں پتہ لگا کہ وہ لوگ تکلیف میں تو ہیں لیکن اس تکلیف کو ہم جماعتی طور پر ڈور نہیں کر سکتے حکومت دور کر سکتی ہے میں نے دفتر کو کہا ہے کہ ”مساوات کو جس نے یہ خبر دی تھی لکھو کہ ہم نے خدام بھیجے تھے اُن کی یہ رپورٹ ہے اور ان کی تکلیف حکومت کے سوا اور کوئی ذریعہ دُور نہیں کرسکتا.کیونکہ ان کی تکلیف یہ ہے کہ اس علاقہ میں بڑے بڑے زمیندار ہیں اور یہ جو بیچارے غریب کسان ہیں ان کا پچھلے سال کے سیلاب میں بھی نقصان ہوا مکانات گر گئے.اب پھر ان کے مکانات گر گئے ہیں اور بڑے زمینداران غریبوں کو کوئی اونچی جگہ دینے کے لئے تیار نہیں جہاں وہ اپنا گاؤں آباد کر سکیں اور پانی سے بچ سکیں.اب یہ کام میں یا آپ تو نہیں کر سکتے کہ زمینداروں سے زمین چھین کر ان غریبوں کو دے دیں.حکومت کو تو جہ کرنی چاہیے.پس میں نے انہیں ہدایت کی ہے کہ ”مساوات کو خط لکھیں کہ وہ اس امر کو شائع کرے یا اپنے کسی ذریعہ سے حکومت کو توجہ دلائے کہ اس طرح پاکستان کے کچھ دیہات تکلیف میں ہیں اور صرف حکومت اس تکلیف کو دور کر سکتی ہے کوئی اچھی جگہ سروے کر کے جہاں گذشتہ سال پانی نہیں آیا اور اب بھی نہیں آیا وہ جگہ منتخب کر کے انہیں دیں تا کہ وہ اپنا گاؤں آباد کریں اور سکھ اور چین کی زندگی گزار سکیں.یہ ہماری ذہنیت اور رُوح ہے کہ ہم نے کسی کو دکھ نہیں دینا بلکہ یہ کوشش کرنی ہے کہ جتنے بھی دُکھ ہمارے ذریعہ سے دور ہوسکیں وہ ضرور دور ہو جائیں.گذشتہ سال سیلاب کے دنوں میں اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا اور ہمارے دل اس کی حمد سے معمور ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں سے درجنوں بلکہ بیسیوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اُن لوگوں کی جانیں بچائیں جو جہالت کی وجہ سے ہر وقت ہماری اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے تیار رہتے تھے کیونکہ اگر وہ اس نور کو دیکھ لیں جو نور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا آج مہدی علیہ السلام پر نازل ہوا ہے تو پھر تو سارے جھگڑے ہی ختم ہو جاتے ہیں.

Page 595

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۷۵ خطبہ جمعہ ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء پس ہمیں خدا تعالیٰ نے بڑا عظیم وعدہ دیا ہے اور بڑی عظیم بشارت دی ہے کہ ہمارے ذریعہ ہم جو بالکل کمزور ہیں اور اس دنیا میں ایک دھیلہ بھی ہماری قیمت نہیں ہے.ہمارے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرے گا اور جب دنیا کے بادشاہوں کے جرنیل اس کے کروڑواں حصہ کا رنامہ کرتے ہیں تو اُن کو بادشاہوں کی طرف سے انعام ملتا ہے تو وہ جو حقیقی بادشاہ اور عالمین کا بادشاہ ہے اُس کی خاطر سب جماعت کے افراد اور جماعت بحیثیت مجموعی یہ کام کرے گی اور دنیا میں اسلام کو غالب کرے گی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار دنیا کے دل میں مسخ کی طرح گاڑ دے گی تو جو تمام خزانوں کا مالک ہے اور بادشاہوں کا بادشاہ اور حقیقت میں ہے ہی وہی بادشاہ باقی تو سب یو نہی ہیں.اُس کی طرف سے ہمیں کتنا بڑا انعام ملے گا جس کی ہم توقع رکھتے اور اُمید رکھتے ہیں.اس لئے غصہ میں نہ آیا کرو اور یہ سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے جب بَلْ لمَّا يَذُوقُوا عَذَاب جو کہا تو اس وقت جو خدا تعالیٰ کے قہر کا ہاتھ حرکت میں نہیں آیا تو میرا کیا حق ہے کہ میرا ہاتھ خدا تعالیٰ کے منشا کے خلاف حرکت میں آجائے؟ تو جب وقت آئے گا اور جس قدر وہ گرفت کرنا چاہے گا جن پر وہ ہلاکت کی گرفت کرنا چاہے گا اور جن کو دوسروں کے لئے عبرت کا مقام بنانا چاہے گا وہ خود اس کا انتظام کرے گا.ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں جس چیز کی ہمیں فکر ہے وہ ہمارے اپنے نفوس اور اپنی جانیں ہیں کہ ہماری کسی کمزوری اور کسی غفلت کے نتیجہ میں ہمارا رب کریم ہم سے کہیں ناراض نہ ہو جائے خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو.خطبہ ثانیہ سے قبل حضور نے اپنی صحت سے متعلق فرمایا.میں نے پچھلے خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ گرمی میں میرے خون کی شکر بڑھ کر بیماری بن جاتی ہے گرمی جب سے ہوئی ہے مجھے یہ تکلیف ہے.میں ابھی انگریزی دوائیاں استعمال نہیں کرتا.ہومیو پیتھک یاطب یونانی کی کوئی دوائی استعمال کر لیتا ہوں کیونکر تد بیر کرنی ضروری ہے.انگریزی دوائیاں اس لئے استعمال نہیں کرتا کہ اُن کی پھر عادت پڑ جاتی ہے اور خدا تعالیٰ مجھے توفیق دیتا رہے.کام میرے ایسے ہیں کہ جن میں کوئی عادت میرے ساتھ چل نہیں سکتی نہ کھانے کا کوئی وقت نہ کچھ یعنی کوئی بھی عادت مجھے نہیں پڑنی چاہیے تو جس دوائی کی عادت پڑ جائے وہ پھر

Page 596

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۷۴ء کام میں روک بنے گی اس لئے میں انگریزی دوائیوں سے بیچ رہا ہوں ورنہ تو اگر خدا کا منشا یہ ہو کہ انگریزی دوائیاں کھاؤ تو کھا ئیں گے.اس ہفتہ میں خون کی شکر پہلے سے کمی کی طرف مائل ہے لیکن ابھی کافی بیماری کی شکل میں ہے اس لئے دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس بیماری کو دور کرے اور کام کی زیادہ سے زیادہ تو فیق عطا کرے.روزنامه الفضل ربوه ۸ / جولائی ۱۹۷۴ء صفحہ ۲ تا ۶ )

Page 597

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۷۷ خطبہ جمعہ ۳۱ مئی ۱۹۷۴ء ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی غلبہ اسلام کے خدائی منصو بہ کو نا کام نہیں بناسکتیں خطبه جمعه فرموده ۳۱ رمئی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت فرمائیں :.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ - فَلَا تَهِنُوا وتدعُوا إِلَى السَّلْمِ وَ اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ * وَاللهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ.پھر حضور انور نے فرمایا:.(محمد : ۳۶،۳۴) اُمت مسلمہ کو ان آیات میں ان بنیادی صداقتوں سے متعارف کرایا گیا ہے.ایک تو یہ کہ اگر اُمت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے عملاً باہر نکلنے کی کوشش کرے تو ان کے اعمال کا موعود نتیجہ نہیں نکلے گا اور ان کے اعمال باطل ہو جائیں گے اور دوسرے یہ کہ دنیا جتنا چاہے زور لگا لے وہ اُمت مسلمہ پر، اگر وہ امت اسلام پر حقیقی معنی میں قائم ہو کبھی غالب نہیں آسکتی.علوا اور غلبہ امت مسلمہ کے ہی مقدر میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے فرمایا وَ اللهُ مَعَكُمْ کہ ان کا ایک حقیقی تعلق اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے اور جس کا حقیقی عاشقانہ اور عاجزانہ تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو

Page 598

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۷۸ خطبہ جمعہ ۳۱ مئی ۱۹۷۴ء اس کے نیک اعمال ، وہ اعمال جن کے اچھے نتیجے نکلتے ہیں.جن اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا پہلے سے زیادہ حاصل ہوتی رہتی ہے اُن اعمال میں کمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ہوتا رہتا ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کا ہر دوسرا جلوہ پہلے سے بڑھ کر حسین ، پہلے سے زیادہ عظیم ان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے.پس ہمارے مقام کی پہلی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے.ہمیں سختی سے اس بات کی تاکید کی گئی تھی کہ گالیوں کا جواب دعاؤں سے دینا اور جب کسی کی طرف سے دکھ دیا جائے تو اس کا جواب اس رنگ میں ہو کہ اس کے لئے سکھ کا سامان پیدا کیا جائے.اسی لئے پچھلے جمعہ کے موقع پر بھی میں نے ایک رنگ میں جماعت کو خصوصاً جماعت کے نوجوانوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ یہ تمہارا مقام ہے اسے سمجھو اور کسی کے لئے دکھ کا باعث نہ بنو اور دنگا فساد میں شامل نہ ہو اور جو کچھ خدا نے تمہیں دیا ہے وہ تمہارے لیے تسکین کا بھی باعث ہے، ترقیات کا بھی باعث ہے.وہ ہے صبر اور دعا کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گزارنا.صبر اور دعا کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گزار و مگر اہلِ ربوہ میں سے چند ایک نے اس نصیحت کو غور سے سنا نہیں اور اس پر عمل نہیں کیا اور جو فساد کے حالات جان بوجھ کر اور جیسا کہ قرائن بتاتے ہیں بڑی سوچی سمجھی سکیم اور منصوبہ کے ماتحت بنائے گئے تھے اس کو سمجھے بغیر جوش میں آکر وہ فساد کی کیفیت جس کے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی مخالفت کی اس تدبیر کو کا میاب بنانے میں حصہ دار بن گئے اور فساد کا موجب ہوئے.۲۹ مئی کو اسٹیشن پر یہ واقعہ ہوا.اس وقت اس واقعہ کی دو شکلیں دنیا کے سامنے آتی ہیں.ایک وہ جو انتہائی غلط اور باطل شکل ہے مثلاً ایک روز نامہ نے لکھا کہ پانچ ہزار نے حملہ کر دیا.مثلاً یہ کہ (احمدیوں کی طرف سے.ناقل ) سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت ایسا کیا گیا.وغیرہ وغیرہ.یہ بالکل غلط ہے اس میں شک نہیں لیکن دوسری شکل یہ ہے کہ کچھ آدمیوں نے بہر حال اپنے مقام سے گرکر اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کو چھوڑتے ہوئے فساد کا جو منصو بہ دشمنوں کی طرف سے بنایا گیا تھا اسے کامیاب کرنے میں شامل ہو گئے.اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور چونکہ ایسا ہوا اور اگر دشمن کو آپ کے دس آدمی ایک ہزار نظر آتے ہیں تو اس سے آپ کی برات نہیں ہوتی یہ تو

Page 599

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۷۹ خطبہ جمعہ ۳۱ مئی ۱۹۷۴ء اللہ تعالیٰ کی شان ہے لیکن آپ کی برات اس سے نہیں ہوتی جتنے بھی اس جھگڑے میں شامل ہوئے.انہوں نے غلطی کی اور سوائے نفرت اور مذمت کے اظہار کے ان کے اس فعل کے خلاف ہم کچھ کر نہیں سکتے ، نہ امام جماعت احمدیہ اور نہ جماعت احمد یہ.اس لئے انہوں نے تو غلطی کی اور چونکہ وہ دشمن کی سوچی سمجھی تدبیر تھی اور ایک نہایت بھیانک منصو بہ ملک کو خراب اور تباہ کرنے کے لئے بنایا گیا تھا اب اس میں آپ کا ایک حصہ شامل ہو گیا اور اب ملک کے ایک حصہ میں آگ لگی ہوئی ہے اور اس آگ کو اس رنگ میں ہوا دی جارہی ہے کہ یہ شدت اختیار کرے گی.یہ آگ جہاں لگی ہے وہاں ۱۹۵۳ء کی آگ سے زیادہ شدید طور پر لگی ہوئی ہے.اس وقت حکومت وقت زیادہ تدبر اور زیادہ انصاف سے کام لے رہی تھی.اس وقت جو رپورٹیں آرہی ( ہیں ) اگر وہ درست ہیں تو ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت وقت نہ تدبر سے کام لے رہی ہے اور نہ انصاف سے کام لے رہی ہے.بہر حال یہ تو تحقیق کے بعد ہی پتہ لگے گا لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن حصوں میں آگ لگی ہے وہاں ۱۹۵۳ء سے زیادہ شدت کے ساتھ اس فساد کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض احمدیوں کے دلوں میں گھبراہٹ بھی پیدا ہوسکتی ہے.میں حقیقت بیان کرنے کے لئے یہ کہتا ہوں ورنہ میرا یہ کام نہیں تھا کہ میں یہ بتاؤں کہ ان کو کیا کرنا چاہیے.جو سیاستدان ہیں ان کو اپنا مفاد خود سمجھنا چاہیے.اگر نہیں سمجھیں گے تو دنیا میں حکومتیں آتی بھی ہیں جاتی بھی ہیں.میری اس سے کوئی غرض نہیں میں تو مذہبی آدمی ہوں.نصیحت کرنا میرا کام ہے ان کو بھی ایک رنگ میں نصیحت کر دی ، سمجھنا نہ سمجھنا ان کا کام ہے لیکن اصل چیز میں آپ کے سامنے اول یہ لانا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے بھی غلطی کی غلطی کی ہے اور ہمیں اس چیز کو تسلیم کرنا چاہیے.دوسرے یہ کہ صرف انہوں نے غلطی نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنی ناسمجھی کے نتیجہ میں دشمن کے ایک سوچے سمجھے منصوبہ میں شمولیت کی اور جماعت کے لئے بھی پریشانی کے سامان پیدا کرنے کے موجب بنے اور ملک کے لئے بھی کمزوری کا سامان پیدا کرنے کا موجب بنے.میں سمجھتا ہوں اور میں انہیں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کم از کم دس ہزار مرتبہ استغفار کریں اور توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگیں.جو بھی اس معاملہ میں

Page 600

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۸۰ خطبہ جمعہ ۳۱ مئی ۱۹۷۴ء شامل ہوئے ہیں.مجھے ان کا علم نہیں لیکن جو بھی شامل ہوئے ہیں وہ کم از کم دس ہزار مرتبہ استغفار کریں اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکیں اور اپنی بھلائی کے لئے اور خود کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچانے کے لئے دس ہزار مرتبہ اس سے معافی مانگیں اور اس کے حضور عاجزانہ جھکے رہیں جب تک اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہ کر دے.دوسری بات میں جماعت کے مخلص، سمجھدار، فدائی حصہ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آگ تو بڑی شدت سے بھڑکائی گئی ہے لیکن یہ آگ نا کام ہوگی.ان شاء اللہ تعالی ناکامی اس معنی میں نہیں کہ کسی احمدی کو بھی مختلف قسم کی قربانیاں نہیں دینی پڑیں گی.وہ تو دینی پڑیں گی جب تک جماعت احمدیہ کے احباب وہ اور اس قسم کی تمام قربانیاں خدا کے حضور پیش نہیں کرتے جو قربانیاں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے خدا کے حضور پیش کی تھیں اس وقت تک وہ ان انعامات کو بھی حاصل نہیں کر سکتے جو صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کریم سے حاصل کئے تھے لیکن دنیا کے کسی دماغ میں اگر یہ بات آئے کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اللہ تعالیٰ کی غلبہ اسلام کی اس تدبیر اور اللہ تعالیٰ کے غلبہ اسلام کے اس منصوبہ کو ناکام بنا سکتی ہیں جس غرض کے لئے کہ جماعت احمدیہ قائم کی گئی تھی تو ہمارے نزدیک وہ روحانیت سے دور ہونے کی وجہ سے نا سمجھی کے خیالات رکھنے والا ہے.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ منصوبہ نا کام ہو جائے.قرآن کریم نے جس کے متعلق ہمارا ایمان ہے اور ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور جس کے اندر کوئی دوسری چیز شامل نہیں ہوئی نہ ہو سکتی تھی اور شیطانی دخل سے اسے خدا تعالیٰ نے محفوظ کر رکھا ہے.یہ ہمارا عقیدہ ہے اور ہمارا یہ عقیدہ صرف نظریاتی عقیدہ نہیں بلکہ ہماری زندگیوں نے اس صداقت کو سینکڑوں بار مشاہدہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام بہر حال کلام اللہ ہے اور غیر اللہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے ہم علی وجہ البصیرت اپنی زبان سے بھی ، اپنے عمل سے بھی ، اپنے جذبات سے بھی ، ہم اپنی روح کے ہر پہلو سے دنیا میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس خدا کے کلام میں غیر اللہ کو کوئی دخل نہیں ہے اور یہ کلام ہم میں سے ہر ایک کے کان میں بڑے پیار کے ساتھ یہ کہہ رہا ہے.انتم الاعلون آخر کا رتم ہی غالب رہو گے.جو خدا تعالیٰ سے دور ہونے

Page 601

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۸۱ خطبہ جمعہ ۳۱ رمئی ۱۹۷۴ء والے ہیں جو خدا تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتے جو غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں وہ نا مجھیوں کے نتیجہ میں غلط اعلانات کرتے ہیں.ان کی باتیں باطل ہیں اور وہ مٹ جائیں گی.آج جو ہمارا دشمن ہے وہ یہ حقیقت یا در کھے کہ کل وہ ہمارا دوست ہو گا.وہ اپنے کئے پر پچھتا رہا ہوگا وہ ہم سے مصافحہ کرنے میں فخر محسوس کر رہا ہو گا کہ یہ وہ قوم ہے جس کو پہچانا نہیں گیا، یہ وہ جماعت ہے جس کو دھتکارا گیا اور کمزور سمجھا گیا اور دکھ دینے کی کوششیں کی گئیں اور ایذا پہنچائی گئی اور اللہ تعالیٰ کے فعل نے یہ ثابت کر دیا کہ یہی جماعت صداقت پر قائم ایک جماعت ہے.خدا تمہیں کہتا ہے انتم الاعلون کہ بحیثیت جماعت غالب تم نے ہی آنا ہے اگر کسی جماعت کو یہ یقین ہو اگر کسی جماعت کا یہ پختہ عقیدہ ہو کہ خدا تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ غالب انہوں نے ہی آنا ہے اگر وہ شرائط ایمان اور شرائط اسلام پوری کرنے والے ہوں پھر ان ( کو ) کیا ڈر اور ان کو خدا تعالیٰ کے حضور قربانیاں دینے میں کیا جھجک؟ افراد تو قربانیاں دیا ہی کرتے ہیں ابتدائے اسلام میں بہتوں نے ایسی قربانیاں دیں.جب ابھی یہ جھگڑے اور لڑائیاں مخالفین اسلام کی طرف سے شروع نہیں کی گئی تھیں مکی زندگی میں جو ظاہری حالات کے لحاظ سے کمزور زندگی تھی ( ور نہ مومن کی روحانی زندگی تو کمزور نہیں ہوتی کیونکہ ساری شیطانی طاقتوں کا وہ مقابلہ کر رہی ہوتی ہے ) بہر حال ظاہری لحاظ سے وہ کمزور تھے.حالت یہ تھی کہ ان کی اور ہماری بزرگ مستورات میں سے بعض کو نگا کر کے ان کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر ان کو ہلاک کر دیا گیا اور اس وقت کے مسلمانوں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنی خاتون کی عزت کی حفاظت کر سکتے اور خدا نے کہا تھا کہ ہماری اس مخلصہ کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری تم پر اتنی نہیں جتنی تم پر اس بات کی ذمہ داری ہے کہ تم ہمارا حکم سنو اور بجالا ؤ اور تمہیں حکم یہ ہے کہ صبر اور دعا کے ساتھ ان آفات کا، ان تکالیف کا ، دشمن کے ان منصوبوں کا مقابلہ کرو.گالی کا جواب گالی سے دے کر نہیں پتھر کے مقابلہ میں پتھر پھینک کر نہیں بلکہ پتھر کھاؤ اور صبر کرو، اور دعا کرواپنے لئے بھی اور ان کے لئے بھی جو پتھراؤ کرتے ہیں.یہ مقام ہے ایک احمدی کا اس مقام کو نہ چھوڑیں اور یہ نہ بھولیں کہ انتم الاعلون کا وعدہ اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جب اطاعت خدا اور اطاعتِ رسول کے

Page 602

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۸۲ خطبہ جمعہ ۳۱ مئی ۱۹۷۴ء مقام سے آپ کا قدم ادھر اُدھر نہ ہو جائے اور خدا تعالیٰ نے پھر عجیب وعدہ دیا ہے کہ اگر تم اطاعت خدا اور اطاعت رسول پر مضبوطی کے ساتھ اور ثبات قدم کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہوگے اور اللہ تعالیٰ کے دامن کو انتہائی پختگی کے ساتھ اور انتہائی عشق اور محبت کے ساتھ تم نے تھاما ہوا ہوگا تو نہ صرف یہ کہ تم اعلیٰ ہو گے بلکہ تمہیں اللہ تعالیٰ پہلے سے زیادہ حسین اور مقبول اعمال کی توفیق دیتا چلا جائے گا.وَلَنْ يَتِرَكُم اَعْمَالَكُمْ ان کے اندر کوئی کمی واقع نہیں ہوگی بلکہ اضافہ ہوتا چلا جائے گا.انعام کی عطا کہیں ٹھہرے گی نہیں حصولِ انعام کی کوئی آخری منزل نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں اس قوم پر انعام پر انعام کرتا چلا جاؤں گا جس کے افراد انتہائی قربانیاں دے کر میری محبت اور پیار اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا سکہ دنیا میں بٹھانے والے ہوں گے.غصہ تم ان لوگوں پر کرتے ہو جن کی اولادیں تمہارے کندھے سے کندھا ملا کر اسلام کی راہ میں قربانیاں دینے والی ہیں؟ کیسی نا معقول بات ہے کس نے تم سے کہا ؟ قرآنِ کریم کی کون سی آیت بتاتی ہے کہ مخالف کو اس کی زندگی میں ابدی لعنت کا طوق پہنا دیا جاتا ہے؟ قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ جو اسلام کا مخالف ہے اور جو صداقت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے اس کو ہم ڈھیل پر ا ڈھیل دیتے جاتے ہیں، کبھی پکڑتے ہیں کبھی چھوڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے منصوبہ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لیں.آپ کی بھی یہی کوشش ہونی چاہیے اگر آپ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں.پس دشمنوں کے لئے بھی دعائیں کرو اور اپنے لئے بھی دعائیں کرو اور صبر کا نمونہ دکھاؤ اور خدمت اور خیر خواہی کی ایسی مثال قائم کرو کہ جو آج اشد ترین دشمن ہے وہ بھی اس خیر خواہی اور خدمت اور اس پیار کی تیز دھار سے گھائل ہو اور پھر ہم سب مل کر یہ کوشش کریں کہ جو آج غیر ہیں وہ بھی غیر نہ رہیں اور ہم سب مل کر اسلام کی کچھ اس طرح خدمت کریں کہ جلد تر ساری دنیا پر اللہ تعالیٰ کے اس منصوبہ کے باعث اسلام غالب آئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہر ملک میں بلند ہوا اور آپ کی محبت ہر دل کے اندر اس دل کی دھڑکن کے طور پر دھڑک رہی ہو.مادی دل کی دھڑکن

Page 603

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۸۳ خطبہ جمعہ ۳۱ مئی ۱۹۷۴ء تو کوئی چیز نہیں ہے جس دل میں مادی دھڑکن سے زیادہ نمایاں اور زیادہ مؤثر طریقہ پر خدا اور اس کے رسول کی محبت اور عشق کی دھڑکن ہو وہ دل ہے جس کے اوپر یہ عالمین قربان کر دیئے جاتے ہیں.وہ دل اپنے سینوں میں پیدا کرو اور محبت اور پیار کے ساتھ ان لوگوں کے دلوں کو جیتو جوا اپنی ناسمجھی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کے دشمن ہیں.تم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ تم ان کے دشمن نہیں ہو بلکہ تم ہی ان کے خیراہ ہو، تم ہی ان سے حقیقی پیار کرنے والے ہو تم ہی ان کے دکھوں کو دور کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو.تم نے ان کے او پر اتنا احسان کرنا ہے کہ ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کی معرفت حاصل ہو جائے.وہ چوٹی بہت ہی بلند ہے جہاں تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان پہنچا لیکن خاردار جھاڑیاں بیچ میں ہیں وہ نظر نہیں آرہیں ان خار دار جھاڑیوں کو تم نے محبت اور پیار کے ساتھ صاف کرنا ہے اور پھر اس محبت اور پیار کے نتیجہ میں جو ایک نورانی فضا پیدا ہوگی اس سے انہیں پتہ لگے گا کہ ہمارا محسن اعظم جو تھا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کا کیا مقام تھا.اس کے لئے کوشش کرنی ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے پڑ کر اپنے اوقات ضائع نہ کرو اور خواہ وقتی طور پر ہی کیوں نہ ہو دوسروں کو ابتلا میں نہ ڈالو اور جو ایسے منصوبے ہیں جو غلبہ اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانے والے ہیں ان منصوبوں میں خود کو شامل نہ کرو.تم اس کام کے لئے نہیں پیدا کئے گئے.دعائیں کرو اور صبر سے کام لو اور ہمہ وقت خدمت کے لئے تیار رہو اور جس شخص کو یہ وہم ہے کہ وہ آپ کا اشد ترین دشمن ہے اپنی پیاری خدمت کے ساتھ اس کے اس وہم کو دور کرنے کی کوشش کرو تا کہ جو ہم چاہتے ہیں وہ ہمیں جلد تر مل جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۲۹ جون ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 604

Page 605

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۸۵ خطبہ جمعہ ۷ /جون ۱۹۷۴ء انسانی قوی ، طاقتوں اور استعدادوں کو موقع ومحل کے مطابق استعمال کرنا تقویٰ ہے خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ /جون ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی:.إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ.(النحل : ۱۲۹) پھر حضور انور نے فرمایا:.قرآنِ عظیم کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے ، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے سے محبت اور عشق کے لئے ، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے لئے ، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات سے متصف ہونے کے لئے پیدا کیا ہے، وہ اپنے اعمال کے نتیجہ میں دوحصوں میں منقسم ہو جاتا ہے.ایک وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جیسا کہ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقُوا اور دیگر آیات میں بیان ہوا ہے اور ایک وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نہیں ہوتا ، جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ اُس معنی میں نہیں ہوتا جس معنی میں کہ قرآنِ عظیم نے اس فقرہ کو استعمال کیا ہے تاہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے وہ جلوے جن کا تعلق الہی معیت سے نہیں ہوتا ، وہ ان لوگوں پر بھی ظاہر ہوتے رہتے ہیں یعنی جو مفہوم اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا میں بیان ہوا ہے اس کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا مثلاً سورۃ فاتحہ

Page 606

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۸۶ خطبہ جمعہ ۷ /جون ۱۹۷۴ء میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جو صفت رَبُّ الْعَلَمِینَ بتائی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جو قوی دیئے ہیں.اس عالمین میں موجود ہر مخلوق کو جو استعدادیں عطا کی ہیں، اُس نے اُن کی ربوبیت کے سامان بھی پیدا کئے ہیں یعنی جہاں تک کھانے کا تعلق ہے، غذا کا تعلق ہے یا گندم اور دوسری اشیاء کا تعلق ہے، جیسے ان لوگوں کے لئے زمین پیدا کرتی ہے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہے ویسے ہی ان لوگوں کے لئے بھی پیدا کرتی ہے جن کے ساتھ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق اللہ نہیں ہے لیکن ایک ایسی دنیا بھی ہے اور ایک وہ صفات بھی ہیں جو صرف ان لوگوں پر ظاہر ہوتی ہیں ، جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے.اس وقت گرمی بہت ہے چونکہ گرمی مجھے تکلیف دیتی ہے اس لئے گرمی کی وجہ سے لمبا خطبہ نہیں دے سکتا.میں مختصراً ایک موٹی مثال دیتا ہوں جو میری آب بیتی سے متعلق ہے اور جس کے مطابق میں علی وجہ البصیرت یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ سرور جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور رحمت سے انسان کو حاصل ہوتا ہے، ساری دنیا کی لذتیں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.یہ وہ چیزیں ہیں جو ان لوگوں کے حق میں ظاہر ہوتی ہیں جو اس رنگ میں اللہ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے.چنانچہ ایک دفعہ پتہ نہیں مجھے کیا سوجھی ( شاید کوئی کہے گا یہ پاگل پن تھا ) میں نے یہ دعا کی کہ اے خدا! مجھے وہ لذت عطا فرما جس کا تعلق کسی مادی چیز سے نہ ہو مثلاً ایک پیاسا آدمی ہے اس کے لئے گرمیوں کے دنوں میں ٹھنڈا پانی سرور پیدا کرتا ہے پانی ایک مادی چیز ہے اسی طرح ایک بھو کا آدمی ہے اس کو کئی دن کے بعد کھانا ملے تو اسے سرور حاصل ہوتا ہے.پچھلے سال جب سیلاب آئے تھے تو ہمارے بعض نوجوان ۳۶،۳۶ گھنٹے بھوکے رہ کر اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اپنے اپنے علاقے کی آبادی کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کے لئے کام کرتے رہے.وہ جب واپس آئے ہوں گے اور اُنہوں نے کھانا کھایا ہو گا تو اُنہیں کھانے میں غیر معمولی لذت حاصل ہوئی ہوگی.چنانچہ میں نے یہ دعا کی کہ اے میرے رب کریم ! تیرے قانون کے مطابق مادی اشیاء سے سرور حاصل ہوتے ہیں ان کا مشاہدہ کرنے کے لئے میں دعا نہیں کرتا یہ تو مجھے روز ملتے ہیں.

Page 607

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۸۷ خطبہ جمعہ ۷ /جون ۱۹۷۴ء اے خدا! مجھے ایسی لذت عطا فرما جس کا تعلق مادی طور پر لذت پہنچانے والی اشیاء سے نہ ہو.خدا تعالیٰ کی شان تھی کہ دعا کرنے پر ابھی ایک گھنٹہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ میرے جسم کے روئیں روئیں میں ایک ایسی لذت اور سرور پیدا ہوا جس کی کوئی مادی وجہ نہ تھی ، صرف دعا کی قبولیت تھی.میں اس غیر معمولی لذت اور سرور کو ۲۴ گھنٹے تک محسوس کرتا رہا یعنی میرا دل بھی اور میرا دماغ بھی میرا جسم بھی اور میری روح بھی اور میرا ذہن بھی اس سے لطف اندوز ہوتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ حقیقی معنے میں اللہ تعالیٰ کے عاشق ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ دونوں جہان اُن کو دے دیتا ہے مگر جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حقیقی عاشق ہیں وہ ان دو جہانوں کو لے کر کیا کریں گے.پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا دار کی نگاہ میں صرف دنیا ہی کا سرور ہے مثلاً اچھے کھانے اور آرام دہ گھر ہیں دولتیں ہیں آپس میں بڑی بڑی سوسائٹیاں ،مجلسیں اور کلب بنارکھے ہیں.غرض انسان نے ہزار قسم کی لذت کے سامان بنالئے ہیں اور ان میں وہ بڑی تفصیل میں گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے بندہ کو جو لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے اس رنگ میں دوسروں کو نہیں ملتا.ویسے جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا تعلق ہے مومن کو بھی اس سے حصہ ملتا ہے اور کا فر کو بھی لیکن جو سر ور خدا کا بندہ حاصل کرتا ہے وہ دوسروں کو حاصل نہیں ہوتا.اس لئے ہم علی وجہ البصیرت یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مبالغہ نہیں کیا بلکہ جب آپ نے یہ پیچ فرمایا کہ اے خدا! جوشخص تیرا ہو جاتا ہے.جوشخص تیرا عاشق زار بن جاتا ہے جو شخص تیری محبت میں فنا اور تجھ پر فدا ہو جاتا ہے، اس کے سامنے تو دونوں جہان پیش کر دیتا ہے لیکن اس کے لئے یہ دونوں جہان بھی غیر ہیں وہ ان کو لے کر کیا کرے گا کیونکہ اے خدا! جب تو مل گیا جب تیرا پیار مل گیا جب تیری رضا مل گئی تو پھر کسی اور چیز کی ضرورت ہی کیا ہے.معیت کا یہی وہ مفہوم ہے جس کا قرآن کریم نے متعدد جگہ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِینَ کے الفاظ میں بیان کیا ہے.کبھی اس کی کوئی صفت بیان کی ہے اور کبھی کوئی اور صفت بیان کی ہے.اس وقت میں صرف دو باتوں کولوں گا.

Page 608

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۸۸ خطبہ جمعہ ۷ /جون ۱۹۷۴ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ کہ اللہ تعالیٰ کی معیت ایک تو متقیوں کو حاصل ہوتی ہے دوسرے محسنین کو.چنانچہ تقویٰ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کے میں ایک دو حوالے اس وقت پڑھوں گا تا کہ احباب پر اس کا مفہوم واضح ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں:.حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہوسکتی.حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُمْ - (الانفال: ۳۰) وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِه - (الحديد : ۲۹ ) یعنی اے ایمان والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا.وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آجائے گا.تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا اور تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قومی کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے.66 پھر آپ ملفوظات میں فرماتے ہیں:.دو متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلف حقوق ، ریا، نعجب ،حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پر ہیز کر کے

Page 609

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۸۹ خطبہ جمعہ ۷ /جون ۱۹۷۴ء اُن کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے.66 یعنی متقی کے لئے یہی کافی نہیں کہ وہ صرف بڑے اخلاق سے بچے.متقی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم میں جو اچھے اور نیک اخلاق بیان فرمائے ہیں اور جن کی تفصیل ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ میں ملتی ہے اُن اخلاق میں ترقی کرتا چلا جائے.چنانچہ اسی تسلسل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.لوگوں سے مروت، خوش خلقی ، ہمدردی سے پیش آوے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا وفا اور صدق دکھلاوے.خدمات کے مقام محمود تلاش کرے.ان باتوں سے انسان منتقی کہلاتا ہے اور جولوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں وہی اصل متقی ہوتے ہیں یعنی اگر ایک ایک خلق فردا فردا کسی میں ہو تو اسے متقی نہ کہیں گے.مثلاً ایک شخص عام طور پر سچ بولتا ہے.لیکن دیانت سے کام نہیں لیتا تو وہ متقی نہیں بلکہ تمام انسانی قوی اس کی تمام طاقتوں اور استعدادوں کو موقع اور محل کے مطابق استعمال کرنا یہ تقویٰ ہے اگر کسی شخص میں کوئی ایک خاص خلق فرداً فرداً پایا جاتا ہے تو اسے متقی نہ کہیں گے.فرمایا:.” جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں اور ایسے ہی شخصوں کے لئے لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ٦٣) ہے اور اس کے بعد اُن کو کیا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولی ہو جاتا ہے.جیسے کہ وہ فرماتا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ (الاعراف: ۱۹۷) حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں.اُن کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں.اُن کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں.اُن کے پاؤں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتے ہیں اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے.میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو.اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اُس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی بچہ اس کا چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے.پس اس آیہ کریمہ میں جو مَعَ الَّذِینَ کہا گیا ہے یہ دو صفات کا مطالبہ کرتا ہے ایک اُس

Page 610

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۹۰ خطبہ جمعہ ۷ /جون ۱۹۷۴ء تقویٰ کا جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جس کے متعلق میں نے اس وقت دو حوالے پڑھ دیئے ہیں.تفسیر آپ خود سمجھ جائیں گے اور دوسرے یہ کہ وہ احسان کرنے والے ہوں.احسان کے دو موٹے معنی ہیں وہ میں اس وقت بیان کر دیتا ہوں.احسان کے ایک معنے یہ ہیں کہ انسان اپنی قوتوں اور استعدادوں کو موقع ومحل کے لحاظ سے استعمال کر کے جو اچھے خلق بجالاتا یا بجالا سکتا ہے اُن کو پورے محسن کے ساتھ بجالائے.اُن کو اچھی طرح ادا کرنے کے لئے بھر پور کوشش کرے.ایسی کوشش کہ اس میں کوئی خامی اور کوئی کمی نہ رہے مثلاً خدمت خلق ہے.انسان کو اس کی طاقت دی گئی ہے.اس لحاظ سے احسان کے معنی یہ ہوں گے کہ خدمت خلق کے سارے پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر اور اپنی بساط کے مطابق اس خدمت کو کمال تک پہنچانا.اسی لئے ہماری جماعت جو ایک غریب اور چھوٹی سی جماعت ہے جب کبھی خدمت خلق کا موقع پیدا ہوتا ہے تو یہ کوشش یہ کرتی ہے کہ جہاں تک اس سے ہو سکے قطع نظر اس کے کسی کا عقیدہ کیا ہے یا کسی کا سیاسی مسلک کیا ہے، خدمت کے لئے باہر نکلتی ہے اور لوگوں کی بے لوث خدمت بجالاتی ہے اور خدمت کے ہر موقع کو اس کے کمال تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہے.گویا احسان کے ایک معنی ہر اچھے فعل کے کرنے اور ہر اچھے خُلق کے اظہار کو انتہا تک پہنچانے کے ہوتے ہیں.احسان کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں رنگین ہو کر بنی نوع انسان پر احسان کرنا.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ایک صفت اس کا صمد ہونا ہے یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں اور ہر شخص اس کا محتاج ہے.انسان کلی طور پر یہ صفت اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی اسے طاقت نہیں دی گئی.کسی انسان کو یہ استعداد نہیں دی گئی کہ وہ کلی طور پر یہ کہے کہ کسی کی اُسے ضرورت نہیں اور ہر ایک کو اس کی ضرورت ہے.یہ تو ایک عجیب خیال ہوگا بلکہ یہ تو پھر خدائی کا دعوئی بن جائے گا کیونکہ اب بھی دیکھ لو یہاں جتنے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں اُنہوں نے جو کپڑے پہنے ہوئے ہیں ، ان کپڑوں کے بنانے والے آدمی کی انہیں احتیاج تھی اسی طرح اور ہزاروں مثالیں ہیں جو انسانی زندگی میں ہمیں ملتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ صمد ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے.اس

Page 611

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۹۱ خطبہ جمعہ ۷ /جون ۱۹۷۴ء صورت میں تو کوئی انسان اس صفت کی نقل نہیں کر سکتا کیونکہ انسان اپنی تمام کمزوریوں کے ساتھ آخر انسان ہے لیکن وہ اس معنی میں خدا تعالیٰ کی اس صفت کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کی کوشش کرتا ہے.دوسروں پر اس کے جو حقوق ہوتے ہیں ، وہ اُن سے پورے حقوق نہیں لیتا یعنی جن حقوق کی اُسے احتیاج ہے اور وہ دوسروں پر واجب ہیں اور ضرورت ہے کہ اس کے جو حقوق دوسروں پر واجب ہیں وہ سارے اُسے ملیں لیکن خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کی غرض سے وہ یہ کہتا ہے کہ میرے حقوق کی سو یونٹ یا اکائیاں دوسرے شخص پر واجب ہیں لیکن میں ان میں سے صرف ۸۰ لوں گا اور ۲۰ چھوڑ دوں گا اور جو اس کا دوسرا پہلو ہے کہ ہر ایک شخص خدائے صمد کا محتاج ہے اس رنگ میں ہر ایک انسان کا محتاج نہیں ہوتا.کچھ ہلکی سی جھلک اس میں آجاتی ہے اور وہ اس طرح پر کہ وہ یہ کہتا ہے کہ جو حقوق دوسروں کے اس پر واجب ہیں ، اُن سے زیادہ میں دوسروں کو دوں گا یا اُن سے زیادہ حسن سلوک کروں گا.پس پورے طور پر تو انسان صدر نہیں بن سکتا اور نہ دوسروں کی محتاجی سے وہ نجات حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہر ایک لحاظ سے اور ہر معنی میں اس کا محتاج بن سکتا ہے لیکن انسان کو جتنی طاقت دی گئی ہے اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ وہ اس صفت (صمد ) کا رنگ بھی اپنے اوپر چڑھائے.اس لئے جو لوگ یہ گلہ شکوہ کرتے ہیں کہ فلاں نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور وہ کیا یا اُن پر ہمارا حق ہے وہ ہمیں ملنا چاہیے، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم محسن ہو تو یہ مطالبہ نہ کرو.جو تمہارے حقوق ہیں ، اُن میں سے بہتوں کو چھوڑ دو.اُن کا مطالبہ نہ کرو لیکن تم نے دوسروں کے جو حقوق دینے ہیں، وہ تم زیادہ دو.اگر تم ایسا کرو گے اور ان دوطریقوں سے تم اپنی زندگی گزارو گے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میری معیت تمہیں حاصل ہو گی.اگر تم متقی اور محسن بنو گے تو میں تمہارا متولی اور متکفل بن جاؤں گا.تم کسی اور کی طرف نگاہ نہ کرو میں ہر ضرورت کے وقت تمہاری مدد کروں گا اور تمہاری ہر ضرورت کو پورا کروں گا اور تمہیں یہ توفیق دوں گا کہ تم غیروں پر احسان کرو اور احسان کے ذریعہ اُن کے دلوں کو جیتو.خدا کرے کہ ہم جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور جن پر یہ ذمہ داری

Page 612

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۹۲ خطبہ جمعہ ۷ /جون ۱۹۷۴ء عائد کی گئی ہے کہ ساری دنیا کے دل، محبت اور پیار اور خدمت کے ذریعہ سے خدا اور اس کے رسول خاتم النبيين محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتیں.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم وہ تمام صفات اپنے اندر پیدا کریں جن کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ جب یہ باتیں تمہارے اندر پیدا ہو جائیں گی تو میں تمہارے ساتھ ہوں گا.تم میری معیت اور میری پناہ میں ہو گے.تم میری محبت اور میری رحمت کے سایہ میں ہو گے.خدا تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 613

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۹۳ خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۷۴ء خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے لئے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاگتے ہر وقت استغفار کرو خطبه جمعه فرموده ۱۴ / جون ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہمارا رب رب العلمین ہے سب جہانوں ( اس یو نیورس Universe) میں جو کچھ بھی ہے اسے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس نے اپنی مخلوق کو جس غرض اور جس کام کے لئے پیدا کیا اس کے مطابق اس کو شکل اور صورت اور طاقت عطا کی لیکن انسان کے سوا کسی مخلوق کو بھی روحانی ترقیات کی طاقتیں اور استعدادیں عطا نہیں ہوئیں فرشتوں کو بھی یہ طاقتیں عطا نہیں ہو ئیں صرف انسان یا جیسا کہ قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگتا ہے انسان جیسی کامل فطرت اور عادات رکھنے والی ہستی خواہ وہ اس زمین پر ہو یا دوسرے ستاروں میں ہو، اسے اللہ تعالیٰ نے روحانی رفعتوں کی ایسی طاقتیں دی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں دیں.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے جلوؤں کا تعلق ہے وہ انسان کے علاوہ دوسری مخلوق پر بھی ہوتے ہیں مثلاً آم کے ایک درخت کو بھی پنپنے اور بڑھنے کے لئے اور اچھے پھل دینے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ضرورت ہے اور ایک انسان کو بھی اس کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کے ایک تو وہ جلوے ہیں جن میں انسان اور غیر انسان سبھی شامل ہیں اور ایک وہ

Page 614

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۹۴ خطبہ جمعہ ۱۴ /جون ۱۹۷۴ء جلوے ہیں جن میں غیر انسان انسان کے ساتھ شامل نہیں ہوتے.غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس قدر انتہائی رفعتوں تک پہنچنے کی طاقت ، قوت اور استعداد عطا کی ہے کہ ہماری اصطلاح میں عام طور پر اس کو اس طرح بھی بیان کیا جاتا ہے کہ انسان وہاں تک جا پہنچتا ہے جہاں تک کہ فرشتوں کی بھی رسائی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جہاں وہ تمام قوتیں اور استعداد میں عطا کیں جو روحانی رفعتوں کے حصول کے وقت اسے فرشتوں سے بھی آگے لے جانے والی ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں آزادی بھی رکھی ہے اسے صاحب اختیار بنایا ہے یعنی اگر وہ چاہے تو ان رفعتوں کو حاصل کرے اور اگر ان رفعتوں کو حاصل کرنا نہ چاہے یا غفلت برتے تو جس طرح وہ انتہائی رفعتوں کو حاصل کر سکتا ہے اسی طرح وہ روحانی طور پر اور اخلاقی لحاظ سے انتہائی تنزل تک بھی پہنچ سکتا ہے اور یہی وہ کمزوری ہے جسے ہم بشری کمزوری کہتے ہیں.دراصل انسان کی ہر وہ طاقت جو اس کو روحانی رفعتوں تک اور ان مقامات تک لے جانے والی ہے جہاں خدا تعالیٰ کی کوئی دوسری مخلوق نہیں پہنچ سکتی.وہ اللہ تعالیٰ کا اتنا پیار حاصل کر سکتا ہے کہ کوئی دوسری مخلوق اس قسم کے پیار کے جلوے پانہیں سکتی لیکن چونکہ انسان کو آزادی دی گئی ہے.اس لئے اگر وہ اپنی اس طاقت کو غلط طور پر استعمال کرے تو تنزل کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتا ہے اور یہ اس کی کمزوری ہے.پس ایک طرف اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتہائی رفعتوں تک پہنچنے کی طاقتیں اور استعدادیں دینے کے بعد اس کی فطرت کو آزاد بنایا تو دوسری طرف اپنی مخلوق سے کہا کہ دیکھو! میرے بندے جو اس آزادی کے باوجود کہ میری خاطر اگر وہ مجاہدہ نہ کرتے تو ان کے لئے کوئی مجبوری نہیں تھی لیکن انہوں نے میرے پیار میں محو ہو کر میری خاطر ہر قسم کی کوشش کی انہوں نے اپنے نفس کی تربیت کے لئے مجاہدہ کیا اپنے ماحول کو پیارا اور حسین بنانے کے لئے جدو جہد کی اور دنیا کے دلوں کو خدا تعالیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کی جدو جہد میں لگے رہے حالانکہ ان کو اختیار دیا گیا تھا.وہ صاحب اختیار تھے اگر وہ چاہتے تو اپنی طاقتوں کو رفعتوں کے حصول میں خرچ کرنے کی بجائے غلط راہوں پر خرچ کر دیتے لیکن اس

Page 615

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۹۵ خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۷۴ء اختیار کے باوجود انہوں نے ایسا نہیں کیا اور میرے پیار اور میری رضا کو انہوں نے حاصل کیا.ہم جس چیز کو عام طور پر بشری کمزوری کہتے ہیں وہ اس کے علاوہ اور کوئی کمزوری نہیں ہوتی یعنی انسان کی ہر طاقت اسے روحانی اور اخلاقی رفعتوں تک لے جا کر اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے زیادہ سے زیادہ سامان بھی پیدا کرتی ہے اور کسی وقت یہی طاقت اس کے لئے کمزوری بھی بن جاتی ہے کیونکہ جب اس طاقت کا صحیح استعمال نہیں ہوگا یا جب اس کا با موقع استعمال نہیں ہوگا یا جب عمل صالح نہیں ہوگا یا جب ان طاقتوں کو صیقل نہیں کیا جائے گا یعنی ان کو ہر مشقت اٹھا کر ہر ابتلا اور ہر ایمان میں سے گزار کر اس بات کی تربیت نہیں دی جائے گی کہ وہ صحیح راہ یعنی صراط مستقیم پر چلیں تو پھر انسان تنزل کی طرف گرے گا.پس وہ ساری طاقتیں جو انسان کو دی گئی ہیں جن کو ہم روحانی طاقتیں کہتے ہیں.یہ طاقتیں مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ کی ان تمام صفات سے تعلق رکھتی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے ہمارے سامنے کیا ہے اور جن کا تعلق انسان سے ہے یعنی ہماری کچھ طاقتیں اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت سے تعلق رکھتی ہیں کچھ طاقتیں صفت رحمانیت سے تعلق رکھتی ہیں ہماری کچھ استعدادیں صفت رحیمیت سے تعلق رکھتی ہیں ، ہماری کچھ قابلیتیں مالکیت یوم الدین سے تعلق رکھتی ہیں.کچھ اللہ تعالیٰ کی صفت مغفرت سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ اللہ تعالیٰ کی حی وقیوم ہونے کی صفات سے تعلق رکھتی ہیں.انسان اپنے محدود دائرہ استعداد میں ( ہر انسان کے دائرہ استعداد میں فرق ہوتا ہے ) اپنی ساری طاقتوں کے ذریعہ جو اسے اپنے پر خدا تعالیٰ کے اخلاق اور صفات کا رنگ چڑھانے کے لئے دی گئی تھیں وہ رنگ جب انسان اپنے اوپر نہیں چڑھا تا اور شیطان کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور شیطانی اخلاق اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے تو وہی طاقت جو اس کے لئے رفعت کا باعث تھی اس کے تنزل کا ، اس کی محرومی کا اور خدا تعالیٰ سے اس کی دوری اور بعد کا باعث بن جاتی ہے.غرض وہ تمام طاقتیں جن کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ وہ صرف انسان کو دی گئی ہیں دوسری مخلوق کو نہیں دی گئیں اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کو حاصل کرنے والی ہیں ساری طاقتیں خدا تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت سے تعلق رکھتی ہیں جس کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے.جب ان

Page 616

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۹۶ خطبہ جمعہ ۱۴ /جون ۱۹۷۴ء طاقتوں کا غلط استعمال ہو اور جب انسان کی اور اس کی زندگی ” تَخَلَقُوا بِأَخْلَاقِ اللهِ“ کی مظہر نہ ہو جب انسانی خلق پر خدا تعالیٰ کے نور کی چادر نہ ہو تو پھر جب نور نہیں ہوگا تو اندھیرا یه خطره ہوگا جب خدا تعالیٰ کا پیار نہیں ہوگا تو اس کا غصہ اور قہر ہوگا.بہر حال انسان کے لئے یہ موجود ہے یعنی جہاں اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بڑی ترقیات کے سامان پیدا کئے ہیں وہاں یہی ترقیات کے سامان اس کے لئے یہ خطرہ بھی پیدا کر دیتے ہیں کہ مثلاً انسان کی وہ استعداد یں جو صفت ربوبیت باری تعالیٰ سے تعلق رکھتی تھیں اگر ان کی پرورش ربوبیت کے رنگ میں رنگین ہو کر نہیں کئی گئی تو گویا انسان بجائے اس کے کہ وہ اپنے رب کریم کی گود میں بیٹھ سکے تنزل کی طرف چلا گیا.اس طرح ہر وہ طاقت جو انسان کی خیر اور بھلائی کے لئے تھی وہی اس کے لئے بشری کمزوری بن جاتی ہے اس بشری کمزوری سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ) اسلام کی عظیم اور نہایت ہی حسین شریعت اور ہدایت میں ہمارے لئے راہنمائی کے سامان مہیا کر دیئے ہیں.ان میں سے ایک استغفار ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی جائے کہ وہ ہماری فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے کیونکہ اس سہارے کے بغیر ہماری فطرت بلندیوں کی طرف حرکت نہیں کر سکتی بلکہ تنزل اور پستیوں کی طرف حرکت پیدا ہو جائے گی.استغفار کے دو معنے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے ان پر روشنی ڈالی ہے.ایک معنی یہ ہے کہ استغفار کرنے والا اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے میرے رب! مجھ سے جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہو چکیں تو انہیں معاف کر دے اور مجھے ان کی بداثرات اور بدنتائج سے محفوظ رکھ.عام طور پر عام انسانوں کے لئے اسی معنی میں مغفرت اور غفر اور استغفار کا لفظ بولا جاتا ہے لیکن انسانوں میں وہ انسان بھی پیدا ہوئے جو اپنے مقام کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت کے نتیجہ میں معصوم بنائے گئے تھے اور ان معصومین کے سردار ہمارے محبوب آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں باوجود اس کے کہ آپ کی ہر وہ طاقت جو آپ کو بلندیوں کی طرف پرواز کرنے کے لئے دی گئی تھی تنزل کی طرف کبھی بھی مائل نہیں ہوئی ، پھر بھی قرآن کریم نے آپ کو کہا استغفار کرو.پس استغفار کرنے کے بارہ میں قرآن کریم کی جن آیات میں یہ مضمون بیان ہوا ہے

Page 617

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۹۷ خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۷۴ء وہ سیاق و سباق کے لحاظ سے دو مختلف معانی میں بیان ہوا ہے.جہاں یہ لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استعمال ہوا ہے وہاں یہ معنی ہر گز نہیں ( کر) سکتے کہ نعوذ باللہ وہ روحانی طاقتیں جو آپ کو خدا تعالیٰ کے قرب کی طرف پرواز کرنے کے لئے دی گئی تھیں آپ نے ان کا صحیح استعمال نہیں کیا.اس کے یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اس معنی میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کہ جو معصومین کے سردار ہیں نہ ان کے لئے یہ لفظ اس معنی میں استعمال کیا جاسکتا ہے ، نہ ان دوسرے بزرگوں کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سایہ کے نیچے ہیں مثلاً دیگر انبیاء علیہم السلام ہیں اور بعض اور لوگ بھی ہوں گے اور بھی ہیں.ہوں گے کا امکان ہے اور ہیں، میں اس لئے کہتا ہوں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض ایسے گروہ تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ جو مرضی کریں وہ جنت میں جائیں گے اب جو مرضی کریں کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ (کسی ) کی ناجائز جان لے لیں یا کسی کا مال کھا جائیں اور بددیانتی کریں وغیرہ وغیرہ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ بھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں آکر اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ ان کی وہ طاقتیں اور استعداد میں جو انسان کو انسان بنا کر رفعتوں کی طرف اس کی پرواز میں ممد و معاون ہوتی ہیں، وہ دوسری طرف یعنی تنزل کی طرف حرکت ہی نہیں کر سکتیں.اس لئے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں انہیں کامل تربیت حاصل ہوگی لیکن استغفار کے ایک دوسرے معنے بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی جائے کہ ہر وہ قوت اور استعداد جواے ہمارے رب ! تو نے ہمیں روحانی رفعتوں کے حصول کے لئے اور اپنی رضا کی جنتوں میں جانے کے لئے دی تھی.ہمیں اختیار دے کر ( فرشتوں کو اختیار نہیں دیا گیا.انسان کو اختیار دیا گیا ہے ) تو نے ہماری ہر قوت، ہماری بشری کمزوری بنادی ہے.ہم عاجز بندوں کو ، ہم کمزور بندوں کو تو نے یہ اختیار دیا اور یہ اختیار اس لئے دیا کہ ہم روحانی ترقیات کر سکیں لیکن اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ ہر وہ قوت اور استعداد جو تُو نے عطا کی تھی وہ ہمارے لئے ایک بشری کمزوری بن گئی اس لئے اے ہمارے رب ! ہمیں اپنی بشری کمزوریوں کے بدنتائج سے محفوظ رکھ اور تو نے ہمیں روحانی رفعتوں کے

Page 618

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۹۸ خطبہ جمعہ ۱۴ /جون ۱۹۷۴ء حصول کے لئے اور اپنے پیار کو پانے کے لئے جو طاقتیں عطا کی ہیں وہ ہمیشہ اس رنگ میں حرکت میں آئیں کہ ہم روحانی رفعتوں کو حاصل کرنے والے ہوں اور تیرے پیار کو پانے والے ہوں.پس انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اگر وہ خود کو انسان سمجھتا ہے اور عبد سمجھتا ہے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کے لئے اسے پیدا کیا ہے اور بلندیوں کے لئے اس کی خلق کی گئی ہے تو استغفار اس کو اٹھتے بیٹھتے کرنی چاہیے کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر وہ قوت اور وہ استعداد جو رفعتوں کی طرف لے جانے والی ہے، بوجہ صاحب اختیار ہونے کے وہ ہماری کمزوری بن گئی ہے.پس مغفرت کے معنے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ وہ اپنے فضل سے ہماری بشری کمزوریوں کو ڈھانپ لے.وہ ہماری فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے.ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں یہ توفیق بخشے کہ صاحب اختیار ہونے کے باوجود ہم اپنی طاقتوں کو الہی منشا کے مطابق ہمیشہ رفعتوں کے حصول کی راہوں پر لگانے والے ہوں ہم اس کے قرب میں بڑھتے چلے جائیں.ہمیں ہر روز پہلے سے زیادہ پیار ملے اور ہم کبھی بھی غافل ہو کر کبھی بھی ست ہو کر کبھی بھی لا پرواہ ہو کر، کبھی بھی بے احتیاط ہو کر کبھی بھی بھول کر اور کبھی بھی جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہوں کہ یہ طاقتیں رفعتوں کے حصول کے لئے ہیں تنزل کی طرف لے جانے کے لئے نہیں دی گئیں.غرض خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا! تو نے ہمیں اختیار دیا لیکن ہم تجھ سے یہ طاقت مانگتے ہیں کہ تو اپنی مغفرت کی چادر میں ہمیں ڈھانپ لے اور ہمیں تو فیق عطا کر کہ وہ تمام قو تیں جو تو نے ہمیں اس لئے عطا کی تھیں کہ ان پر تیرے اخلاق اور تیری صفات کا رنگ چڑھے.تیرے نور کی چادر میں وہ لیٹی رہیں اور اس طرح ہر طاقت تیری کسی نہ کسی صفت کی پناہ میں آجائے اور ہر طاقت جو تو نے ہمیں دی ہے، وہ ہماری رفعتوں کے سامان پیدا کرنے والی ہو ہمیں آسمان پر لے جا کر وہاں سے زمین پر گرانے والی نہ ہو کیونکہ جتنی بلندی پر کوئی جاتا ہے اتنا ہی اس کے لئے یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اگر گرے گا تو اس کی ہڈیاں بھی قیمے کی طرح پس جائیں گی اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گی جو آدمی دوفٹ سے گرتا ہے اس کے لئے اتنا خطرہ نہیں ہوتا جتنا

Page 619

خطبات ناصر جلد پنجم ۵۹۹ خطبہ جمعہ ۱۴ /جون ۱۹۷۴ء دس ہزارفٹ کی بلندی سے گرنے والے شخص کو ہوتا ہے مثلاً ہوائی جہاز اڑ رہا ہے اس میں اگر کوئی باہر جا پڑے تو اس کے لئے بہت زیادہ خطرہ ہے.اسی طرح جو پہلے آسمان سے گرتا ہے اس کے لئے اس سے بھی زیادہ خطرہ ہے لیکن جو شخص روحانی رفعتوں کو حاصل کرتے ہوئے دوسرے آسمان تک جا پہنچتا ہے اور پھر شیطان سے مغلوب ہو کر وہاں سے گرایا جاتا ہے اس کے لئے اور بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے.جو تیسرے آسمان تک پہنچتا ہے اس کے لئے اس سے بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے جو چوتھے آسمان تک پہنچتا ہے اس کے لئے اس سے بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے اسی طرح جو پانچویں چھٹے آسمان تک پہنچتا ہے اس کے لئے اس سے بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور جیسا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے وہ لوگو جو میری طرف منسوب ہوتے ہو اور میری اُمت میں داخل ہو تم میں سے جو شخص تو اضع اور انکساری کو اختیار کرے گا عاجزانہ راہوں پر چلتے ہوئے عجز اور انکسار کو اپنا شیوہ بنائے گا تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اسے ساتویں آسمان کی بلندی تک لے جائے گا.مگر جہاں یہ بشارت ہے وہاں یہ خوف بھی ہے کہ خدانخواستہ خدانخواستہ! اگر ہم میں سے کوئی ساتویں آسمان سے نیچے گر جائے تو پھر تو اس کے ذرے خوردبین سے بھی نظر نہیں آئیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے لئے استغفار ہے اس لئے تم اٹھتے بیٹھتے ہر وقت خدا سے مدد مانگو.پچھلے جمعہ کے دن پریشانی تھی لیکن بشاشت بھی تھی اور گھبراہٹ کا کوئی اثر نہیں تھا لیکن بہر حال ہمارے کئی بھائیوں کو تکلیف پہنچ رہی تھی جس کی وجہ سے ہمارے لئے پریشانی تھی.میں نے نماز میں کئی دفعہ سوائے خدا تعالیٰ کی حمد کے اور اس کی صفات دُہرانے کے اور کچھ نہیں مانگا.میں نے خدا سے عرض کیا کہ خدایا تو مجھ سے بہتر جانتا ہے کہ ایک احمدی کو کیا چاہیے اے خدا! جو تیرے علم میں بہتر ہے وہ ہمارے ہراحمدی بھائی کو دے دے.میں کیا مانگوں میرا توعلم بھی محدود ہے میرے پاس جو خبریں آ رہی ہیں وہ بھی محدود ہیں اور کسی کے لئے ہم نے بددعا نہیں کرنی ہاں یا درکھو بالکل نہیں کرنی.خدا تعالیٰ نے ہمیں دعا ئیں کرنے کے لئے اور معاف کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.اس نے ہمیں نوع انسان کا دل جیتنے کے

Page 620

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۰۰ خطبہ جمعہ ۱۴ /جون ۱۹۷۴ء لئے پیدا کیا ہے.اس لئے ہم نے کسی کو نہ دکھ پہنچانا ہے اور نہ ہی کسی کے لئے بددعا کرنی ہے.آپ نے ہر ایک کے لئے خیر مانگنی ہے.یا درکھو ہماری جماعت ہر ایک انسان کے دکھوں کو دور کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہے لیکن اپنے اس مقام پر کھڑے ہونے کے لئے اور روحانی رفعتوں کے حصول کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے اور سوتے جاگتے اس طرح دعائیں کی جائیں کہ آپ کی خواہیں بھی استغفار سے معمور ہو جائیں.آپ کی خاموش اور سوئی ہوئی دنیا بھی استغفار سے معمور ہو جائیں.ہمارے گھروں میں بچے سوتے ہوئے عموماً خواب میں بول رہے ہوتے ہیں اور جب آپ کسی بچے سے یہ کہتے ہیں کہ تم سوتے وقت یہ یہ باتیں کر رہے تھے تو وہ کہہ دیتا ہے مجھے تو کوئی پتہ نہیں.اس لئے انسان کو پتہ ہو یا نہ ہو تمہارے رب کریم سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ تمہاری نیند کی گھڑیاں بھی فرشتوں نے استغفار کے لمحات شمار کی ہیں.پس تم ہر وقت استغفار کرو اور خدا تعالیٰ کی پناہ میں آجاؤ.تم خدا تعالیٰ سے بہت دعائیں کرو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے تم یہ دعا کرو کہ خدا تعالیٰ تمہاری فطری قوتوں کو اپنی طاقت کا سہارا دے تاکہ تم بلندیوں کی طرف جانے والے بن جاؤ اور تمہاری زندگی ایک مثال بن جائے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اپنی فطرت پر میرے خلق اور میری صفات کا رنگ چڑھاؤ.انسان نے بزبانِ حال کہا کہ اے خدا! تو تو ہمیں نظر نہیں آتا.ہم تیری صفات کے جلوے اس مادی دنیا میں مادی اشیاء میں لیٹے ہوئے دیکھتے ہیں.ہم اس اندھیرے میں کیا کوشش کریں گے.کوئی کوشش نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ میرے خاتم الانبیاء یہ میرے محبوب محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں یہ ہر انسان کے لئے ایک نمونہ اور اُسوہ ہیں یہ بتانے کے لئے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اخلاق کے اوپر چڑھایا جاسکتا ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو.آپ کے اسوۂ حسنہ کو ہمیشہ سامنے رکھو.آپ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرو کیونکہ آپ کے اُسوہ حسنہ کو جانے بغیر اسے سمجھے بغیر اور اس کا مطالعہ کئے بغیر اسے کیسے اپنا یا جا سکتا ہے.جب تک آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو جانتے

Page 621

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۰۱ خطبہ جمعہ ۱۴ /جون ۱۹۷۴ء نہیں.آپ کے نمونے کو پہچانتے نہیں.آپ کی طبیعت کے رنگ کو دیکھتے نہیں اور اس پاک اور أرفع وجود ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے نوع انسان پر جو احسانِ عظیم کیا اور کرتا چلا گیا اور قیامت تک کرتا چلا جائے گا جب تک یہ حقیقت آپ کے سامنے نہ ہو اس وقت تک آپ اپنے اخلاق پر اور اپنی طاقتوں پر خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ نہیں چڑھا سکتے.پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دل میں سوچیں اور اس حقیقت کو یاد کریں کہ جس غرض کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے صاحب اختیار ہونے کے باوجود کیا ہم اس مقصد پیدائش کو پورا کر رہے ہیں؟ آج خدا تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالا یا ہوا مذ ہب اسلام دنیا میں اپنی قوت قدسیہ اور حسن و احسان کے نتیجہ میں اور اپنی خدمت کے نتیجہ میں اور بنی نوع انسان پر اپنی شفقت کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کے دل جیت کر غالب آئے گا اور نوع انسانی کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے گا.یہ آسمانوں کا فیصلہ ہے اس لئے استغفار کرو اور دعائیں کرو اور اپنی فطرت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طاقت کا سہارا مانگو اور اس وقت تک بس نہ کرو جب تک خدا تعالیٰ کی طاقت کا وہ سہارا تمہیں مل نہ جائے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم میری ان باتوں کو مانو گے ان کی اطاعت کرو گے اور قرآن کریم کی شریعت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو گے تو تمہیں یہ فخر نصیب ہوگا کہ تم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار لو کیونکہ تم نے آپ کی محبت نوع انسان کے دل میں ڈالی مشرق میں بھی اور مغرب میں بھی اور شمال میں بھی اور جنوب میں بھی.پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی اور سمندر کی سطح سے نیچے بھی ( بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں لوگ سطح سمندر سے نیچے بستے ہیں) تم گئے اور تم نے وہاں جا کر اس مقصد کو پورا کیا جس کا وعدہ اُمت مسلمہ کو اس بشارت کے حصول کے لئے دیا گیا تھا کہ تمام دنیا پر اسلام غالب آئے گا اور نوع انسان کے دل ایک مہدی کی جماعت کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جائیں گے اور محبت اور پیار کے ساتھ انسان کو اسلام کی حسین تعلیم کا دیوانہ و مجنون بنادیا جائے گا.اسلام کے عالمگیر غلبہ کی بشارت بتاتی ہے کہ یہ کام صرف اور صرف مہدی کی جماعت کے ذریعہ سے ہوسکتا

Page 622

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۰۲ خطبہ جمعہ ۱۴ / جون ۱۹۷۴ء ہے اس سے صاف نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بشارت یہ کہتی ہے کہ مہدی کی جماعت کو یہ طاقت دی جائے گی لیکن قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب کسی کو طاقت دی جائے تو چونکہ انسان صاحب اختیار ہے اس لئے سب سے زیادہ خوف اسی کے لئے ہے.جتنی بلندیوں کی بشارتیں دی گئی ہیں اتنا ہی تنزل سے ڈرایا اور خوف دلایا گیا ہے.پس تم اس حقیقت کو ہر وقت سامنے رکھو.خدا تعالیٰ سے چمٹ جاؤ اور اس کے دامن کو نہ چھوڑو پھر دیکھو اللہ تعالیٰ کن راہوں سے اپنے پیار کے جلوے تم پر ظاہر کرتا ہے.اللهم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ جون ۱۹۷۴ء صفحه ۳ تا ۶)

Page 623

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۰۳ خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء حقوق انسانی کا منشور اور پاکستان کا آئین دونوں ہر شخص کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب اور عقیدہ کا خود اعلان کرے خطبه جمعه فرموده ۲۱ جون ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے چند دن بڑی شدید گرمی پڑی اور آج گوموسم نسبتا بہتر ہے لیکن دوست جانتے ہیں کہ گرمی مجھے تکلیف دیتی ہے اور بیمار کر دیتی ہے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالی گرمی سے کہہ دے کہ وہ مجھے تکلیف نہ دیا کرے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے.نیز اللہ تعالیٰ مجھے ایسی خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے جو اس کے نزدیک مقبول ہو اور سبھی احباب جماعت کی پریشانیاں اور ابتلا جلد تر دور ہوجائیں.اس وقت میں اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش تو کروں گا مگر کہ نہیں سکتا کہ اس میں کامیاب ہوں گا یا نہیں.پہلی بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے یہ تعلیم دی ہے اور بڑی تاکید سے ہمارے سامنے یہ مسئلہ رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم کو اور ظالم کو پسند نہیں کرتا اور نہ رضا اور محبت کا تعلق ظالموں سے رکھتا ہے.فرمایا وَ اللهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ (ال عمران: ۵۸).قرآنِ کریم نے کئی جگہ بعض دوسری باتوں کے ذکر میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے پیار نہیں کر سکتا مثلاً مُعْتَدِین ( حد سے بڑھنے والوں) سے پیار نہیں کرتا.قرآنِ کریم نے کئی جگہ یہ کہا ہے کہ یہ یہ صفات

Page 624

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۰۴ خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پیاری ہیں مثلاً کہا خدا تعالیٰ متوکلین سے پیار کرتا ہے.خدا تعالیٰ صبر کرنے والوں سے پیار کرتا ہے یا مثلاً یہ کہا کہ خدا تعالیٰ متقیوں سے پیار کرتا ہے.میں اس وقت ظلم کے متعلق یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تو فر مایا کہ وہ ظالم سے پیار نہیں کرتا مگر یہ نہیں فرمایا کہ اس کے پیار کے حصول کے لئے محض مظلوم بن جانا کافی ہے بلکہ جو شخص مظلوم بھی ہے اور اس کے اندر دوسری صفات بھی ( جواللہ کو پیاری ہیں ) پائی جاتی ہیں مثلاً وہ متقی ہے، وہ صابر ہے، وہ متوکل ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے والا ہے وہ آزمائشوں اور امتحانوں اور ابتلاؤں کے وقت ثبات قدم دکھاتا ہے اور وفا کی راہوں کو نہیں چھوڑتا.وہ خدا تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دامن پر اس کی گرفت کبھی ڈھیلی نہیں پڑتی اللہ اس سے پیار کرتا ہے.پس قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ ظالموں سے بہر حال پیار نہیں کرتا اور قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ ایسے مظلوم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس وقت تک ہوتے چلے آئے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں ڈھالا کہ خدا تعالیٰ نے ان سے پیار کیا.پھر قرآنِ کریم یہ بھی کہتا ہے کہ تمہیں آزمایا جائے گا تمہارے لئے خوف کے آثار، خوف کے حالات پیدا کئے جائیں گے اور تمہارا بائیکاٹ کیا جائے گا.ایسی تدابیر کی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والوں، اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے والوں، اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے اسلام، قرآنِ عظیم اور حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے والوں کی آزمائش کی جائے گی اور ایسی تدابیر کی جائیں گی کہ ان کو کھانے پینے کو کچھ نہ ملے.پچھلے دنوں جو حالات گزرے ہیں وہ بڑے تکلیف دہ ہیں مگر اب یہ بھی رپورٹیں آرہی ہیں کہ جہاں دیکھا کہ کمزور اور تعداد میں کم احمدی ہیں تو کہا ان کا بائیکاٹ کر دو، ان کو کھانے کو کچھ نہ دو، ان کو پانی نہ لینے دو ( دکانوں سے سودا سلف خرید نے اور ماشکیوں کو پانی بھرنے سے منع کر دیا گیا وغیرہ ) ہمیں اس لئے گھبراہٹ نہیں کہ جُوع ( بھوک ) کے سامان پیدا کئے گئے ہیں اس کی خبر تو قرآن عظیم نے ہمیں پہلے سے دی ہوئی ہے جو گھبراہٹ ہے اس کا میں آگے ذکر کروں گا.اسی

Page 625

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ (البقرۃ:۱۵۶) مال کے نقصان سے تمہارا امتحان لیا جائے گا اور تمہیں جانوں کی قربانی بھی دینی پڑے گی.پھر اس کے ساتھ ہی فرمایا دنیا کی حسنات کے حصول کے لئے تمہاری جو کوشش ہوگی اور اس کے عام حالات میں جو نتائج نکلنے چاہئیں یا کوشش کا ثمرہ ملنا چاہیے اس سے تم محروم کئے جاؤ گے گویا تمہاری کوشش کے ثمرہ یا نتیجہ سے تمہیں محروم کر دینے کی صورت میں بھی تمہاری آزمائش کی جائے گی.اس وقت باہر سے جو اطلاعات آرہی ہیں ان سے یہ پتہ لگتا ہے کہ ہمارے بھائیوں کی جوع ( بھوک ) کے امتحان میں ڈالنے کی طرف زیادہ توجہ ہے.یہ کوشش کی جارہی ہے کہ احمدیوں کو کھانے کو نہ ملے، پینے کو نہ ملے.جب میرے پاس باہر سے ایسی رپورٹیں آتی ہیں تو میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں اور اپنے ملنے والوں کو بھی یہ سمجھا تا ہوں کہ دیکھو ہمارے پیارے اور محبوب آقا حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکی زندگی میں بعض تاریخوں کے مطابق اڑھائی سال تک اور بعض کے مطابق تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا اور اس وقت جتنے بھی مسلمان تھے وہ بھی آپ کے ساتھ تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب کی آزمائش کی گئی.ان کا امتحان لیا گیا اور اڑھائی سال تک یہ کوشش کی گئی کہ نہ ان کو کھانے کے لئے کچھ ملے اور پینے کے لئے.گو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے یہ انتظام تو کیا کہ کھانے کو اتنا ملتا رہے کہ وہ زندہ رہ سکیں لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ ان کا امتحان لینا تھا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان کے صدق و وفا کا دنیا میں اعلان ہونا تھا اور اس نشانِ عظیم کو قیامت تک کے لئے قائم رکھنا تھا اس لئے باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سب کچھ دے سکتا تھا کیونکہ دنیا میں حکم اسی کا چلتا ہے اور دنیا کی سب طاقتیں اسی کے ہاتھ میں ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر سکتا تھا کہ اس قید کے زمانہ میں بھی مسلمانوں کو معمول کے مطابق کھانا ملتا رہے مگر ایسا نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اتنا ہی دیا جس سے ان کی زندگی قائم رہ سکے.اس کے لئے مادی ذرائع کی بھی ضرورت نہیں تھی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا ایک کے بعد دوسرے دن لگا تار روزے نہ رکھا کر و صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ تو اسی طرح روزے رکھتے ہیں.

Page 626

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۰۶ خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء آپ نے فرمایا مجھے تو خدا کھلاتا پلاتا رہتا ہے اس معاملہ میں تم مجھے اُسوہ نہ بناؤ بلکہ ظاہری تدابیر اور مادی دنیا کے جو قوانین ہیں ان میں مجھے اپنا اُسوہ بناؤ.میرے کچھ ایسے مقام بھی ہیں جو میرے ساتھ خاص ہیں مثلاً خود ختم نبوت کا مقام ایک ایسا مخصوص مقام ہے جو دنیا کے کسی دوسرے انسان سے تعلق نہیں رکھتا.اس کا تعلق صرف اس پیاری اور حسین ترین ہستی سے ہے جسے دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے یاد کرتی ہے.بہر حال میں سوچتا بھی ہوں اور دوستوں کو اس طرف توجہ بھی دلاتا ہوں کہ دیکھو اگر تین سال نہیں تو کم از کم اڑھائی سال تک تو ضرور لگاتار بغیر کسی وقفہ کے اس وقت کے منکرین اور مخالفین نے یہ کوشش کی تھی کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے مسلمانوں کو قید کر دیا جائے یہاں تک کہ ان کو کھانے کو نہ ملے اور ان کو پینے کو نہ ملے.ایک بزرگ صحابی نے بعد میں جب کہ ساری دنیا کے اموال مسلمانوں کے قدموں میں لا کر ڈال دیئے گئے تھے ، ایک دفعہ ذکر کیا کہ میں شعب ابی طالب میں قید کے زمانے میں رات کے اندھیرے میں کہیں جارہا تھا کہ میرے پاؤں کے نیچے ایک چیز آئی جسے میں نرم محسوس کیا.وہ کہتے ہیں میں نیچے جھکا اور اسے اٹھا کر کھالیا مگر آج تک پتہ نہیں کہ وہ تھی کیا چیز.گویا اس قدر بھوک کی شدت تھی.مکی زندگی قریباً ساری ہی تکالیف کی زندگی تھی اس لئے اگر ہمارے دل میں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ہے اور یقینا ہے تو پھر آپ نے تو خدا کی راہ میں دس سال تک تکالیف برداشت کیں اس محبت کا یہ تقاضا ہے کہ ہم دس نہیں بلکہ دسیوں سال تک بھی اگر خدا ہمیں آزمائے تو ہم اس پیار کے نتیجہ میں دنیا پر یہ ثابت کر دیں کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی معرفت رکھتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیار کرتے ہیں جوع (بھوک ) کی حالت ان کی وفا کو کمزور نہیں کرتی وہ اسی طرح عشق میں مست رہتے ہیں جس طرح پیٹ بھر کر کھانے والا شخص مست ہوتا ہے.وہ مست رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے عشق میں اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار میں.پس ہر احمدی کو چاہیے کہ وہ مظلومانہ زندگی کو بشاشت کے ساتھ قبول کرے.اگر وہ مظلومانہ زندگی کو بشاشت کے ساتھ قبول کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ انہی انعامات کا

Page 627

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۰۷ خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء مستحق ہوگا جن کے مستحق وہ لوگ ہوتے رہے ہیں جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اس قسم کی تکالیف کو بشاشت کے ساتھ قبول کرتے تھے.اسلامی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام جو جوتیوں کے نیچے مسلی ہوئی نرم چیز کو بغیر دیکھے کھا جاتے تھے خدا تعالیٰ نے دنیا کی دولتیں ان کے قدموں میں ڈال دیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک خطبہ جمعہ میں ذکر کیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اے خدا! جو شخص تیرا ہو جائے تو اسے دو جہان بخش دیتا ہے لیکن جو تیرا ہو گیا وہ ہر دو جہان لے کر کیا کرے گا.اس کے لئے تو کافی ہے.غرض پہلی بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہی ہے کہ تم مظلومانہ زندگی کو بشاشت کے ساتھ قبول کرو تائم اللہ تعالیٰ کی بے انتہا نعمتوں کے وارث بنو ( انشاء اللہ تعالیٰ ) دوسری بات یہ ہے کہ کل کے اخبارات میں ایک خبر چھپی تھی کہ سرحد کی صوبائی اسمبلی نے متفقہ طور پر وفاقی حکومت سے یہ سفارش کی ہے کہ جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے.اس کے متعلق میں ایک دو باتیں کہنا چاہتا ہوں.اس سلسلہ میں پہلی بات تو میں یہ کہوں گا کہ ہمارے حقوق کی حفاظت کرنا حکومت کا اسی طرح فرض ہے جس طرح کسی دوسرے پاکستانی شہری کے حقوق کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہے اور اس حکومت کے لئے ہم دعائیں کرتے آئے ہیں، اب بھی کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو فر است عطا فرمائے اور ان سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس سے دنیا کے لوگوں کی نگاہ میں ان کے لئے ذلت کے سامان پیدا ہو جا ئیں.جہاں تک اقلیت کے سلسلہ میں علمائے ظاہر کے فتاویٰ کا تعلق ہے وہ تو ساری دنیا کے علمائے ظاہر اور ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے علمائے ظاہر جو ہمارے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے وہ ہمارے خلاف کفر کے فتوے دیتے چلے آئے ہیں.ساری دنیا کے علمائے ظاہر کے فتاوی کفر کے بعد حکومت پر یہ زور دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ حکومت احمد یہ فرقہ کے مسلمانوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے.یہ سوچنے کی بات ہے.میں نے بھی سوچا آپ نے بھی سوچا ہوگا اور پاکستان کی ۹۹ فیصد شریف اکثریت نے سوچا ہوگا کہ یہ کیا قصہ ہے کہ ساری دنیا کے مولویوں نے اعلان

Page 628

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۰۸ خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء کئے اور جماعت احمدیہ پر کفر کے فتوے لگائے لیکن ساری دنیا کے مولویوں کے فتوؤں کے بعد بھی احمدی کا فرنہیں بنے اس لئے اب حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے.دراصل یہ اعلان ہے ساری دنیا کے علمائے ظاہر کا کہ ہم تو احمد یوں کو کافر کہہ کہہ کر تھک گئے مگر ہم سے یہ کا فرنہیں بنتے اب حکومت کچھ کرے تا کہ ہمارے دل خوش ہوں.گویا ساری دنیا کے علماء کی کوششوں کی ناکامی کے مقابلے میں حکومت کچھ کرے تا کہ مولویوں کے دلوں میں ٹھنڈ پڑے.پس دنیا کے علمائے ظاہر کی طرف سے یہ اعلان در حقیقت اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے سارے فتوے ناکام ہو گئے ہیں.میں آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں ۱۹/۱۸ سال کی بات ہے حکومت پنجاب کے ایک سیکرٹری جو ہمارے ساتھ آکسفورڈ میں پڑھا کرتے تھے، ایک دن مجھے کہنے لگے کہ علماء میرے پاس آرہے ہیں اور وہ مجھ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ حکومت ایک تو جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے اور دوسرے یہ قانون بنایا جائے کہ کوئی شخص آئندہ احمدی نہیں بنے گا.میں نے انہیں جواب دیا کہ جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے یہ قانون بنانے سے پہلے کہ آئندہ کوئی شخص جماعت احمدیہ میں داخل نہیں ہو گا آپ کو ایک اور قانون بنانا پڑے گا کہنے لگے وہ کیا؟ میں نے کہا کہ آپ کو پہلے یہ قانون بنانا پڑے گا کہ ہم پاکستان میں ”منافقین“ کا ایک ایسا گروہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جو دل سے احمدی ہوں اور زبان سے اس کا انکار کریں کیونکہ دنیا کی کوئی مادی طاقت دل کا عقیدہ نہیں بدل سکتی.کسی کے زبان سے اظہار پر آپ پابندی لگا سکتے ہیں اس کے دل کے عقیدہ پر نہیں لگا سکتے.اگر اس قسم کا قانون بنادیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہزاروں لاکھوں آدمی دل سے تو احمدی ہوتے چلے جائیں گے لیکن زبان سے کہیں گے کہ وہ احمدی نہیں ہیں.اس لئے پہلے یہ قانون بناؤ کہ ہم اس قسم کے منافقوں کی ایک جماعت پیدا کرنا چاہتے ہیں جو دل سے احمدی ہوں گے لیکن زبان سے انکار کر رہے ہوں گے.باقی رہی پہلی بات یعنی احمدیوں کو ، غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تو انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ مولوی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے سارے فتوؤں کے باوجود عوام کی بہت بھاری

Page 629

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء اکثریت پھر بھی ان کو مسلمان سمجھتی ہے.گویا انہوں نے خود اعتراف کیا کہ ان کے فتوے غیر مؤثر ثابت ہوئے.چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ اگر ساری دنیا کے علماء کے فتوؤں کے باوجود پاکستان کی بھاری اکثریت احمدیوں کو مسلمان سمجھتی ہے تو پھر جو آپ قانون بنائیں گے اور ایک اور فتویٰ صادر کریں گے اس کی ایک فتوے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہوگی.ماضی کے بے شمار فتاوی پر ایک فتویٰ اور زائد ہو جانے سے مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہمیں غیر مسلم کیسے سمجھنے لگ جائے گی.ہم نمازیں پڑھ رہے ہوں گے ایک مسلمان کی طرح ہمارے گھروں سے قرآن مجید کی تلاوت کی آوازیں باہر پہنچ رہی ہوں گی اور وہ سن رہے ہوں گے اور ہماری زندگیوں میں وہ اس کوشش کو دیکھ رہے ہوں گے کہ اسلام کے مطابق انہیں ڈھالا جائے، دنیا میں تبلیغ اسلام کے کارنامے ان کے کانوں میں پڑیں گے تو وہ تمہارے ایک اور فتوی کی زیادتی سے ہمیں کافر کیسے سمجھنے لگ جائیں گے.اس پر وہ سوچ میں پڑ گئے اور کہنے لگے بات تو ٹھیک کہتے ہو.پس ساری دنیا کے علمائے ظاہر جو ہمیں کا فرقرار دے چکے ہیں، ان کو یہ فکر کیوں لاحق ہوئی کہ ساری دنیا ہمیں اب بھی مسلمان سمجھتی ہے یا تو وہ یہ اعلان کریں کہ ہمارے سارے فتوے غیر مؤثر اور نا کام ہیں اور ہم یہ اعلان کریں گے کہ حکومت کا کوئی فتوی قانونی حیثیت نہیں رکھتا دنیا کا جو قانون ہے اور ہمارے ملک کا جو دستور ہے وہ تو اس قسم کے مسئلہ پر غور کرنے سے بھی منع کرتا ہے.ملکی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ، بین الاقوامی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا.بہر حال ایک تو یہ لوگ اس وجہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت قانون بنائے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے فتاوی ناکام ہو گئے ہیں، ان کا کوئی اثر پیدا نہیں ہوا.دنیا احمدیوں کو اب بھی مسلمان سمجھتی ہے.دوسری وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ اگر حکومت کا فتویٰ نہ ہو اور صرف علمائے ظاہر کا فتویٰ ہو تو جیسا کہ جسٹس منیر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان فتاویٰ کو دیکھ کر تو ہر فرقہ کا فر ٹھہرتا ہے مثلاً ہمارے وہ بھائی جن کو لوگ وہابی کہتے ہیں یعنی امام محمد بن عبدالوہاب کے متبعین ( بعد میں آنیوالوں نے ان کی تعلیم کی پرواہ نہیں کی اور ان کی تعلیم کے مطابق بدعات سے پاک معاشرہ قائم نہیں کیا ) بہر حال جو لوگ امام محمد بن عبدالوہاب کی اتباع کرنے والے ہیں

Page 630

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۱۰ خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء اور ان سے منسلک ہیں ، ان کے متعلق دوسرے تمام فرقوں کے علماء نے کفر کا فتویٰ دیا.پھر شیعہ ہیں.ان کی حکومتیں بھی ہیں ان کے اپنے عقائد ہیں بعض تفاصیل میں وہ دوسرے مسلمانوں سے بڑے مختلف ہیں.ان کی نماز میں بھی سنیوں کی نماز سے اختلاف ہے.پھر سنیوں میں آگے مالکی ہیں.بعض دفعہ وہ افریقہ میں ہمارے ساتھ یہ بحث کرتے ہیں کہ تم کہاں سے مسلمان ہو گئے تم تو سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہو.چنانچہ ان میں سے کئی دوست جن کو حج کرنے کی توفیق ملی اور انہوں نے مکہ معظمہ کے علماء اور مقتدیوں کو ہاتھ باندھے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ انہوں نے ایک غلط مسئلہ بنا کر بحث چھیڑ رکھی تھی پھر جب وہ حج کر کے واپس گئے تو احمدی ہو گئے.اگر کسی دماغ نے یہ سوچا ہو کہ احمدیت کو پھیلنے سے روکا جائے تو پھر اس کے لئے احمدیوں کو حج سے روکنے میں اتنا فائدہ نہیں جتنا افریقن ممالک کے غیر احمدیوں کو حج سے روکنے کا فائدہ ہے کیونکہ ان فروعی مسائل میں سے بعض ( مثلاً ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا وغیرہ) وہاں جا کر خود بخود حل ہو جاتے ہیں اور اس طرح لوگ احمدی ہوجاتے ہیں.اسی طرح اہل حدیث کو لے لیں اور ان کو علماء ظاہر کے مختلف فرقوں سے علیحدہ کرلیں اور باقیوں کے فتاویٰ کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اہل حدیث غیر مسلم اقلیت ہیں.محمد بن عبد الوہاب سے تعلق رکھنے والے یعنی وہابی غیر مسلم اقلیت ہیں.یہ میں وہی کچھ بتا رہا ہوں جو جسٹس منیر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے اور میں سمجھتا ہوں انہوں نے ٹھیک لکھا ہے کہ پھر مسلمان تمہیں کہاں نظر آئے گا پس چونکہ محض علماء کے فتاویٰ پر انحصار کر کے کوئی فرقہ بھی مسلمان نہیں رہتا تھا اور یہ ان علماء کے لئے بڑی مصیبت بنی ہوئی تھی اس لئے انہوں نے سوچا کہ ایک فتویٰ ایسا ہو جائے جو صرف ایک فرقہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے اور پھر ہم شور مچا کر دوسروں کو یہ بات بھلا دیں گے کہ سارے فتاویٰ کا اثر امت مسلمہ پر کیا پڑا ہے.یہ ایک دوسری وجہ ہے علماء کے اس بات پر زور دینے کی کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فتوی دے دے.تیسرے وہ حکومت کو اس لئے مفتی بن کر بیچ میں آنے کے لئے کہتے ہیں کہ اگر ان کے فتاوی کفر کو دیکھا جائے تو ان کے فتاویٰ میں قرار نہیں ہے کچھ عرصہ پہلے ہمارے محترم شاہ فیصل اور

Page 631

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۱۱ خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۷۴ء ان کے خاندان اور ان کے ہم عقیدہ لوگوں کو کم از کم بارہ سال تک حج سے روکا گیا اور ان کے بعض ہم خیال یا ملتے جلتے خیالات رکھنے والے لوگ جو ہندوستان سے حجاز چلے گئے تھے ان سب پر اس وقت کی حکومت نے بڑی سختیاں شروع کر دیں جس پر انگریزوں کو دخل دے کر ان کی جانیں بچانی پڑیں لیکن پھر بھی چوٹی کے بعض علماء جو ہندوستان سے وہاں گئے تھے ان کو ۳۹-۳۹ کوڑوں کی سزا دی گئی اور باقیوں کو انگریزی حکومت کے دباؤ پر زبردستی ہندوستان واپس بھیج دیا گیا اور اب ان کی وہاں حکومت ہے اور موجودہ علماء کے فتوے اس سے مختلف ہیں جو پہلے دیئے گئے تھے.حکومتیں بدل جانے کی وجہ سے اور حالات میں تبدیلی آجانے کے نتیجہ میں علمائے ظاہر کے وہ فتاوی جو چودہ سو سال سے کفر کے متعلق دیئے جاتے رہے ہیں ان میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں اور کوئی عقلمند انسان صرف اسی نقطۂ نگاہ سے دیکھے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ علماء کے فتاویٰ قابل قبول نہیں کیونکہ آج ایک فتویٰ دیا دس دن کے بعد دوسرا فتویٰ دے دیا.آج ایک فتویٰ دیا بارہ سال کے بعد ایک دوسرا فتویٰ دے دیا.حرمین شریفین کا ہمارے دل میں احترام کا یہ حال ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ساری آبادیاں ان مٹی کے ذروں پر قربان ہونے کے قابل ہیں جن پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں پڑا تھا لیکن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا احترام اپنی جگہ اور ان علمائے ظاہر کا احترام اپنی جگہ جنہوں نے ایک وقت میں محمد بن عبدالوہاب اور ان کے متبعین پر کفر کا فتویٰ لگایا اور بڑا سخت فتویٰ لگایا اور دوسرے وقت میں ان کے مسلمان ہونے اور کسی دوسرے کے کافر ہونے کا فتویٰ لگا دیا اور یہ دونوں فتوے ہمارے کتب میں حرمین شریفین کے فتاوی کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں.بہر حال چونکہ ان کے اپنے فتوؤں کو قرار نہیں اس لئے دنیا جو د نیوی لحاظ سے کافی حد تک صاحب فراست بن چکی ہے گودین کا علم اس کو حاصل نہیں.اس کا ایک زبر دست اعتراض ان علماء کے فتاویٰ پر یہ ہے کہ آج تم ایک فتویٰ دیتے ہو پھر پچاس سال کے بعد دوسرا اور متضاد فتویٰ دے دیتے ہو مثلاً ایک وقت میں سید عبدالقادر جیلانی پر علماء نے یہ کہہ کر کفر کا فتوی لگا یا کہ آپ قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے وہ باتیں کرتے ہیں جو آپ سے پہلے علماء اور بزرگوں نے نہیں

Page 632

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۱۲ خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء کیں اور پھر پچاس یا سو سال کے بعد پیدا ہونے والے جو بزرگ تھے ان پر یہ کہ کر فتوی لگا دیا کہ آپ جو باتیں کرتے ہیں وہ سید عبد القادر جیلانی سے مختلف ہیں.پہلے ان پر فتوی لگا یا کہ تم پہلے بزرگوں سے مختلف باتیں کرتے ہو.پھر بعد میں آنے والے بزرگ اولیاء پر فتویٰ لگا یا کہ تم سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اسلام کی جو تفسیر دنیا کو بتائی تھی اس سے مختلف تفسیر بتارہے ہو.بہر حال علماء اب یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا فتویٰ ہو یعنی حکومت کا فتویٰ ہو جس میں یہ اختلاف نہ ہو کہ صبح کچھ اور شام کو کچھ کہ دیا جائے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کیوں فتویٰ دے؟ حکومت کو نہ انسانی عقل، نہ انسانی شرافت، نہ انسانی فطرت اور نہ وہ مذاہب جو کسی وقت خدا کی طرف سے زمین پر نازل ہوئے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ لوگوں کے دلوں پر حکم لگائے.ایک جنگ کے موقع پر ایک شخص جو اسلام کے خلاف لڑ رہا تھا جب ایک مسلمان کی تلوار اس کے سر پر کوندی تو اس نے کہا لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ مگر اس مسلمان نے اسے یہ کہتے ہوئے قتل کر دیا کہ تم جان کے خوف سے اسلام لائے ہو.جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا آپ اس صحابی سے سخت ناراض ہوئے اور اس سے فرمایا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا.آپ نے فرمایا خدا جب یہ پوچھے گا کہ اس نے جب کلمہ پڑھا تو تم نے کس اصول اور کس عقیدہ اور کسی تعلیم کے مطابق اس کی گردن کاٹی تو بتاؤ تم خدا کو کیا جواب دو گے؟ پس دنیا کا کوئی مذہب کسی حکومت کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ اگر کوئی شخص یا کوئی جماعت یہ کہے کہ وہ مسلمان ہے تو حکومت یہ کہے کہ نہیں تم مسلمان نہیں ہو.یہ تو اتنی موٹی اور بڑی واضح بات ہے کہ وہ لوگ بھی جو خدا کی ہستی کا انکار کرتے ہیں ، حیات انسانی کی اس صداقت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکے.ہماری دنیا میں اس وقت کچھ تو غیر جانبدار قسم کے ملک ہیں لیکن جو طاقتور اور دولت مند دنیا ہے وہ دوحصوں میں منقسم ہے.ایک کو دائیں دنیا یعنی Rightist کہتے ہیں اور دوسری کو بائیں دنیا یعنی Leftist کہتے ہیں.چنانچہ Rightist بھی اس صداقت کو تسلیم کرتے ہیں اور

Page 633

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۱۳ خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۷۴ء Leftist بھی اسے تسلیم کرتے ہیں.چیئر مین ماؤزے تنگ ایک بہت بڑے ملک کے ایک عظیم رہنما ہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں فراست دی ہے اور جہاں تک میں نے پڑھا ہے میں سمجھتا ہوں انہوں نے انسانیت کی بڑی خدمت کی ہے لیکن وہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان نہیں رکھتے البتہ اخلاقی قدروں پر ایمان رکھتے ہیں.انہوں نے بڑے زور سے لکھا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھے ہوئے نوجوان پوری طرح با اخلاق ہونے چاہئیں اور انہی اخلاق کا نام لیا ہے جو اسلام نے ہمیں بتائے ہیں.وہ خدا کو نہیں مانتے لیکن یہ اخلاقی تعلیم دیتے ہیں کہ دیکھو! کبھی کبر اور غرور تم میں پیدا نہ ہو.ان کا یہ فقرہ جو دراصل اسلام کا فقرہ ہے اور اسلام کی تفسیر کرنے والے حضرت مہدی علیہ السلام کا فقرہ ہے، فرشتوں نے چیئر مین ماؤ کو سکھا دیا ہوگا.چنانچہ انہوں نے اسی ضمن میں یہ بھی کہا ہے ” تمہارے سر ہمیشہ زمین کی طرف جھکے رہیں یہ چیئر مین ماؤزے تنگ کے الفاظ ہیں.ان کی ایک کتاب ہے جس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے جو چیئر مین ماؤ کی تصانیف اور مضامین میں سے بعض لمبے لمبے اقتباسات پر مشتمل ہے.وہ ایک جگہ لکھتے ہیں :."Our Constitution lays it down that citizens of the People's Republic of China enjoy freedom of speech, of the press, assembly, association, procession, demonstration, religious belief." کہ ہمارا آئین مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے.پھر وہ لکھتے ہیں :."We cannot abolish religion by adminstative decree or force people not to believe in it." ان کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ مذہب دل کا معاملہ ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا جو ظاہری اور مادی طاقت ہے وہ دل کو تبدیل نہیں کر سکتی زبان کو تو مجبور کر سکتی ہے مگر دل کو مجبور نہیں کر سکتی.اس حقیقت کو انہوں نے سمجھا اور ان الفاظ میں اس کا اظہار کیا

Page 634

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۱۴ خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۷۴ء کہ ہم مذہب کو انتظامی قوانین کے ذریعہ مٹا نہیں سکتے اور ہم کسی شخص کو مادی طاقت کے ذریعہ مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ اس عقیدہ پر ایمان نہ رکھے جو اس کا عقیدہ ہے.پس ایک دہر یہ بھی یہ جانتا ہے اور دہر یہ بھی وہ جس کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ وہ اپنی قوم کے لئے ایک عظیم انسان ہے.اس نے بڑی خدمت کی ہے وہاں کے مظلوموں کی اور ان کو استحصال سے بچایا ہے اور دنیوی حسنات کے سامان ان کے لئے پیدا کئے ہیں اور بڑی ذہانت اور عقلمندی سے پیدا کئے ہیں.ان لوگوں کا وہ محبوب لیڈر ہے اور ہم سب کے دل میں بھی اس کا احترام ہے کیونکہ اس نے نوع انسانی کی خدمت کی ہے.اگر چہ وہ مذہب اور خدا پر ایمان نہیں رکھتا لیکن انسان کا وہ خادم ہے.وہ ہے تو دہر یہ مگر وہ اخلاق پر زور دے رہا ہے اور اس حقیقت کو وہ پا گیا کہ کوئی دنیوی طاقت خواہ وہ چین جیسی بڑی طاقت ہی کیوں نہ ہو.پاکستان تو چین جیسی بڑی طاقت نہیں ہے.خواہ وہ چین جیسی بڑی طاقت ہی کیوں نہ ہو کوئی دنیوی طاقت قانون بنا کر اور انتظامیہ کے احکام کے ذریعہ کسی شخص کو بھی اس بات پر مجبور نہیں کرسکتی کہ وہ اس عقیدہ کو چھوڑ دے جو اس کا اپنا عقیدہ ہے.وہ کہتے ہیں کوئی طاقت ایسا کر ہی نہیں سکتی.یہ ناممکن بات ہے.پس پاکستانی حکومت کے لئے یہ بات کیسے ممکن ہو جائے گی.یہ نا معقول بات ہے.اس میں ان کو الجھنا نہیں چاہیے.کیا کہے گا چین؟ اور کیا کہے گا روس؟ اور کیا کہے گا امریکہ؟ اور کیا کہے گی ساری دنیا ؟ اور کیا کہے گا وہ شریف انسان جو اکثریت میں ہے اور اس ملک میں بستا ہے کہ جو چیز غیر معقول ہے تمہارے اختیار میں نہیں اس کا فیصلہ کرنے کی طرف تم کیوں مائل ہورہے ہو؟ دنیا کی میں نے پہلے بات کی ہے پاکستان کی بعد میں کروں گا.دوسرے دنیا نے یو این او میں (جس تنظیم سے صرف چند ممالک باہر ہیں ) جو ایک Human Rights (انسانی حقوق کے منشور ) کا اعلان کیا اور ہر سال انسانی حقوق کے لئے ایک دن منایا جاتا ہے.ان حقوق انسانی کے منشور پر پاکستان نے دستخط کئے ہیں اور ان کو تسلیم کیا ہے.ان Human Rights انسانی حقوق“ میں یہ کہا گیا ہے کہ دنیا کے ممالک مل کر یہ ضمانت دیتے ہیں کہ ہر انسان کو مذہبی آزادی ہوگی ( میں اس وقت عمد أصرف مذہبی آزادی کا ذکر کر رہا ہوں ) کس معنی میں مذہبی آزادی ہوگی ؟ ( جب میں

Page 635

خطبات ناصر جلد پنجم ܙܪ خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء پاکستان کی بات کروں گا تو وہاں بیان کرونگا دہرانے کی ضرورت نہیں ) چین جیسا ملک جو د نیوی لحاظ سے ایک عظیم ملک ہے ان کا رہنما چیئر مین ماؤ جس نے اپنی ساری عمر اپنی قوم کی بہبودی کے لئے وقف کر دی اور جس کو خدا تعالیٰ نے یہ فراست عطا فرمائی کہ بعض دوسرے کمیونسٹ ممالک کی طرح اس نے یہ نہیں کہا کہ اخلاق کیا ہوتے ہیں؟ بلکہ اس نے یہ کہا کہ اخلاق ہوتے ہیں اور یہ اخلاق ہے ہیں.میں وجہ تو نہیں جانتا لیکن جن اخلاق کا انہوں نے نام لیاوہ، وہ اخلاق تھے جو قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائے تھے کہ یہ اچھے خلق ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرہ میں بد اخلاقی کے لئے کوئی جگہ نہیں.یہاں تک کہ ایک امریکی صحافی نے جب ایک چینی کارخانہ میں یہ پوچھا کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پہلو بہ پہلو کام کر رہے ہیں ان کے درمیان کوئی گندے تعلقات تو نہیں پیدا ہو جاتے ؟ تو جو چینی صحافی ساتھ تھا اس نے حیران ہوکر یہ جواب دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ یعنی ان کے دماغ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی.گویا وہ دنیوی لحاظ سے اتنا با اخلاق معاشرہ ہے.اخلاق کی بنیاد ہمارے نزدیک چونکہ مذہب پر ہے اور اس وقت چونکہ قرآنِ عظیم کی شریعت اور ہدایت ہی حقیقی اور کامل شریعت اور ہدایت ہے لہذا تمام اخلاق کی بنیاد قرآن کریم کی ہدایت پر ہے لیکن دنیا کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور چین نے اپنے معاشرہ کی بنیادا چھے اخلاق پر رکھی اور جو اخلاق اس کے ذہن میں آئے وہ وہی اخلاق تھے جن پر اسلام نے زور دیا (فرشتوں نے اس کے ذہن پر القا کیا ہو گا ) کیونکہ ہماری زندگی اور اس کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اس سے باہر تو نہیں جاسکتے.ایک خاص دائرہ میں اختیار تو دیا گیا ہے.وہ لوگ خدا کو تو نہیں مانتے لیکن ان کا دماغ اس صداقت کو پا گیا کہ یہ نامعقول بات ہے کہ ہم کوئی قانون بنا کر کسی کو ان اعتقادات سے روک دیں گے جن کا وہ اعلان کرتا ہے.آخر میں میں اپنے دستور کو لیتا ہوں ہمارا موجودہ دستور جو عوامی دستور ہے، جو پاکستان کا دستور ہے.وہ دستور جس پر ہمارے وزیر اعظم صاحب کو بڑا فخر ہے، وہ دستور جو ان کے اعلان کے مطابق دنیا میں پاکستان کے بلند مقام کو قائم کرنے والا اور اس کی عزت اور احترام میں

Page 636

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۱۶ خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء اضافہ کا موجب ہے، یہ دستور ہمیں کیا بتا تا ہے؟ اس دستور کی ۲۰ ویں دفعہ یہ ہے:.(a)"Every citizen shall have the right to profess, practise and propagate his religion, and (b) Every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institution." (The constitution of the Islamic republic of Pakistan 1973 page 22&23) اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو ہمارا یہ دستور جو ہمارے لئے باعث فخر ہے یہ ضمانت دیتا ہے کہ جو اس کا مذہب ہو اور جس مذہب کا وہ خود اپنے لئے فیصلہ کرے وہ اس کا مذہب ہے ( بھٹو صاحب یا مفتی محمود صاحب یا مودودی صاحب نہیں بلکہ ) جس مذہب کے متعلق وہ فیصلہ کرے وہی اس کا مذہب ہے اور وہ اس کا زبانی اعلان کر سکتا ہے.یہ دستور اسے حق دیتا ہے کہ وہ یہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں اور اگر وہ یہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں تو یہ آئین جس پر پیپلز پارٹی کو بھی فخر ہے ( اور ہمیں بھی فخر ہے اس لئے کہ یہ دفعہ اس میں آگئی ہے) یہ دستور کہتا ہے کہ ہر شہری کا یہ حق ہے کہ وہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں یا مسلمانوں کے اندر میں وہابی ہوں یا اہل حدیث ہوں یا اہل قرآن ہوں یا بریلوی ہوں (وغیرہ وغیرہ تہتر فرقے ہیں) یا احمدی ہوں تو یہ ہے مذہبی آزادی.مذہبی آزادی سے مراد آج کا انسان یہ لیتا ہے کہ ہر انسان کا اپنا کام ہے یہ فیصلہ کرنا کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں ہے عیسائی ہے یا نہیں ہے، یہودی ہے یا نہیں ہے، ہندو ہے یا نہیں ہے، بدھ مذہب والا ہے یا نہیں ہے یاد ہر یہ ہے یا نہیں ہے.یہ اس نے اعلان کرنا ہے کہ میرا کس مذہب سے تعلق ہے اور دنیا کی کوئی طاقت بلکہ دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی اس کا یہ حق نہیں چھین سکتیں.یہ اعلان کرتا ہے ہمارا آئین.پہلے یو.این.او نے اعلان کیا اور اب ہمارا آئین یہ اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کا یہ حق ہے کہ وہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں

Page 637

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۱۷ خطبہ جمعہ ۲۱ / جون ۱۹۷۴ء اور اپنے عقائد کے مطابق وہ عبادات بجالائے اور زندگی کے دن گزارے مثلاً ایک احمدی کہے گا کہ میں نماز پڑھوں گا پانچ وقت ہاتھ باندھ کر ، ایک مالکی کہے گا کہ میں پانچ وقت نماز پڑھوں گا اور ہاتھ چھوڑ کر پڑھوں گا اور شیعہ اپنے مذہب کے مطابق کہے گا.تو مذہب کے متعلق بھی اس کو حق ہے کہ وہ کہے کہ میرا کون سا مذہب ہے.وہ کہے گا میرا مذ ہب اسلام ہے مگر یہ اس کا حق ہے کہ وہ آئین کے مطابق کہے کہ میں شیعہ مسلمان ہوں.میں سنی مسلمان ہوں یا سنیوں میں سے آگے دیو بندی یا بریلوی یا اہل حدیث یا وہابی مسلمان ہوں یا کسی اور دوسرے فرقے سے میرا تعلق ہے ( کہتے ہیں فرقے تہتر ہی رہتے ہیں کچھ مٹ جاتے ہیں اور کچھ نئے پیدا ہو جاتے ہیں) تو مذہبی آزادی کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس کو یہ آزادی ہے کہ وہ یہ کہے کہ میرا یہ مذہب ہے اور اس میں دنیا کی کوئی طاقت کوئی حکومت دخل نہیں دے سکتی اور اس کا قانونی اور دستوری حق ہے کہ وہ اپنی زبان سے یہ فیصلہ دے کہ میرا فلاں فرقے سے تعلق ہے اور اپنے اعتقاد کے مطابق میں اپنی عبادات بھی بجالاؤں گا اور اپنی زندگی بھی گزاروں گا.پھر اس کا یہ حق ہے کہ اپنے اعتقاد کے مطابق وہ تبلیغ کرے اور قانون یہ کہتا ہے کہ اس طرح تبلیغ نہ کرو کہ فساد پیدا ہو.قانون یہ کہے گا کہ دوسرے کی طرف جھوٹے اعتقادات منسوب نہ کرو قانون یہ کہے گا جس فرقہ سے تمہارا تعلق ہے جس مذہب سے تمہارا تعلق ہے وہ مذہب تمہیں کہتا ہے کہ تم بد زبانی نہ کرو تو بد زبانی نہ کرو.وہ کہے گا جوش میں نہ آؤ تو تم جوش میں نہ آؤ لیکن وہ یہ نہیں کہ سکتا کہ تم تبلیغ کرو ہی نہ.کیونکہ Propagate کا مطلب ہی یہ ہے کہ اگر دلائل کسی کو گھائل کریں تو اس کو اس بات کی بھی اجازت ہو کہ وہ ان دلائل کو Profess کرنے کا اعلان کرے یعنی Propagate کا تعلق پھر Profess کے ساتھ ہو جائے گا اور شق (B) یہ ہے کہ ہر مذہب اور مذہب کے ہر فرقہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہبی اداروں کو قائم کرے، ان کا انتظام کرے، ان پر خرچ کرے اور جو دیگر انتظام ہیں وہ کرے.ہمارا دستور ہماری حکومت کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ احمدی مسلمان ہیں یا نہیں؟ ہمارا دستور ایک احمدی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ یہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں اور

Page 638

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۱۸ خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء حکومت پاکستان کو اس کے بعد یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے کہ یہ مسلمان نہیں.حکومت پاکستان کو یہ حق ہے کیونکہ ہم یہ Profess کرتے ہیں (اس عقیدہ کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم احمدی وہائی نہیں ) کہ قانون بنائے کہ جماعت احمد یہ وہابی نہیں ہے.حکومت کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ احمدی شیعہ نہیں ہیں.حکومت کا یہ حق بھی ہے کہ وہ یہ کہے کہ احمدی اہلِ حدیث نہیں ، دیو بندی نہیں ، بریلوی نہیں.یہ نہیں وہ نہیں.جس کا ہم نے انکار کیا ہے وہ انکار ہماری طرف منسوب کر کے اس کا انکار کرے اور جس کا ہم نے اقرار کیا ہے وہ ہماری طرف منسوب کر کے اقرار کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے متعلق یہ اعلان کیا کہ ہم احمدیہ فرقہ کے مسلمان“ ہیں.ایک جگہ آپ نے انہی الفاظ میں یہ جملہ بولا ہے احمدی فرقہ کے مسلمان.ساری دنیا کے احمدی کہیں گے کہ ہم احمدی فرقہ کے مسلمان ہیں اور دنیا کی کوئی حکومت یہ حق نہیں رکھتی کہ وہ یہ کہے کہ تم احمدی فرقہ کے مسلمان نہیں ہو.پس ہزار ادب کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ یہ عقل کی بات ہم حکومت کے کان تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ جس کا تمہیں انسانی فطرت نے اور سرشت نے حق نہیں دیا، جس کا تمہیں دنیا کی حکومتوں کے عمل نے حق نہیں دیا، جس کا تمہیں یو.این.او کے Human Rights نے ( جن پر تمہارے دستخط ہیں ) حق نہیں دیا ، چین جیسی عظیم سلطنت جو مسلمان نہ ہونے کے باوجود اعلان کرتی ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کوئی شخص Profess کچھ کر رہا ہو اور اس کی طرف منسوب کچھ اور کر دیا جائے.میں کہتا ہوں میں مسلمان ہوں، کون ہے دنیا میں جو یہ کہے گا کہ تم مسلمان نہیں ہو.یہ کیسی نا معقول بات ہے.یہ ایسی نا معقول بات ہے کہ جو لوگ دہر یہ تھے انہیں بھی سمجھ آگئی.پس تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس کا تمہیں تمہارے اس دستور نے حق نہیں دیا جس دستور کو تم نے ہاتھ میں پکڑ کر دنیا میں اعلان کیا تھا کہ دیکھو کتنا اچھا اور کتنا حسین دستور ہے.آج اس دستور کی مٹی پلید کرنے کی کوشش نہ کرو اور اس جھگڑے میں نہ پڑوا سے خدا پر چھوڑ دو کیونکہ مذہب دل کا معاملہ ہے.خدا تعالیٰ اپنے فعل سے ثابت کرے گا کہ کون مومن اور کون کا فر ہے.

Page 639

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۱۹ خطبہ جمعہ ۲۱ جون ۱۹۷۴ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی جب اس قسم کے شور پڑتے تھے تو آپ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یہاں کیوں شور مچاتے ہو امن سے ، آشتی سے اور صلح سے زندگی گزارو.جب ہم اس دنیا سے گزرجائیں گے اور خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو خود پتہ لگ جائے گا کہ کون مومن ؟ اور کون کا فر؟ روزنامه الفضل ربوه ۲۳ جون ۱۹۷۴ء صفحه ۱ تا ۸)

Page 640

Page 641

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۲۱ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء ہمارا زمانہ خوش رہنے ،مسکراتے رہنے اور خوشی سے اچھلنے کا زمانہ ہے خطبه جمعه فرموده ۲۸ / جون ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ آل عمران کی یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی:.b افَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللَّهِ وَ مَأْوَلَهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْبَصِيرُ - (ال عمران : ۱۶۳) پھر حضور انور نے فرمایا:.ہمارا زمانہ خوش رہنے، مسکراتے رہنے اور خوشی سے اچھلنے کا زمانہ ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ اس زمانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے ہر ملک میں گاڑا جائے گا اور دنیا میں بسنے والے ہر انسان کے دل کی دھڑکنوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیار دھڑ کنے لگے گا.اس لئے مسکراؤ!.مجھے یہ خیال اس لئے آیا کہ بعض چہروں پر میں نے مسکراہٹ نہیں دیکھی.ہمارے تو ہنسنے کے دن ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح اور غلبہ کی جسے بشارت ملی ہو وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھ کر دل گرفتہ نہیں ہوا کرتا اور جو دروازے ہمارے لئے کھولے گئے ہیں وہ آسمانوں کے دروازے ہیں.

Page 642

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۲۲ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء ابھی جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کرتے ہیں.یعنی ان راہوں پر چلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کے پیار کی طرف لے جانے والی ہیں.کچھ لوگ وہ ہیں جن کے اعمال کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور غصے کی صورت میں نکلتا ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ آسمانوں کے وہ دروازے جو منکرینِ اسلام پر بند کئے گئے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور آپ کی کامل پیروی اور آپ سے کامل محبت اور آپ کے ساتھ فدائیت اور جان شاری کا کامل تعلق رکھنے کے نتیجہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوگی اور اُس کی رحمت تم پر نازل ہوگی اور یہ وعدہ دوحصوں میں منقسم ہوتا ہے.ایک وہ وعدہ ہے جو اس جماعت کے ساتھ ہے جو اُس کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک پیارے جرنیل کی جماعت ہے.جسے (اور صرف اسی کو ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا اور سلامتی کے لئے دُعا ئیں فرمائیں.اُس کی جماعت کو یہ ہے کہ مصائب آئیں گے اور جب وہ جماعت بشاشت کے ساتھ ان مصائب میں سے وعده گذرے گی تو اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور نصرت آسمانوں سے اُن کے لئے نازل فرمائے گا.آج کل جس قسم کے حالات ہیں اُس سے کہیں زیادہ سخت حالات ہماری جماعت پر گذر چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ کی ابتدا میں دس دس گاؤں کے حلقہ میں ایک ایک احمدی ہو گیا اور ان کا بھی اُس وقت یہ محاورہ بڑا عام تھا ) ”حقہ پانی بند کر دیا گیا.حلقہ تو غالباً بہتوں نے خود ہی چھوڑ دیا ہوگا لیکن بہر حال پانی بند کرنے کی کوشش کی گئی.دس گاؤں کے حلقہ میں ایک احمدی گھرانے نے وہ ساری تکالیف برداشت کیں لیکن اُس صداقت کو جسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے حاصل کیا تھا چھوڑنے کے لئے وہ تیار نہیں ہوئے.اُن کے لئے آج کے گاؤں میں رہنے والے احمدی کے مقابلے میں زیادہ خوف تھا.اب تو ایک ایک گاؤں میں ( بچے اور عورتیں ملا کر ) پانچ پانچ سو، سات سات سو، آٹھ آٹھ سو کی جماعت بن گئی.اُس وقت دس دس گاؤں میں صرف ایک ہی خاندان تھا.میاں بیوی ہوں گے اور دو چار چھوٹے بچے ہوں گے.

Page 643

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۲۳ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء اس وقت جو ہماری چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں اُن کو تکلیف بھی اُٹھانی پڑی.بعض کی جائیدادیں بھی جلائی گئیں.بعض کو جان کی قربانی بھی دینی پڑی اور ان کی تعداد بھی (اگر دو گھرانے ہیں تو ) دس پندرہ نفوس پر مشتمل ہو گئی لیکن اب سینکڑوں جماعتیں ایسی ہیں جہاں سینکڑوں کی تعداد میں احمدی بستے ہیں.بعض گاؤں میں ہزار سے بھی اُو پر احمدی ہیں.شہروں میں سے بعض جگہ ایک ایک شہر میں ہیں ہیں، پچیس پچیس ہزار احمدی بستے ہیں.تو اگر عقل اور فراست کی نگاہ سے دیکھا جائے تو آج بھی ہم یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ سختیوں کا زمانہ گذر چکا اور سہولت کا زمانہ آگیا ہے.یہ صحیح ہے کہ کچھ بچے ہیں اور کچھ احمدیت میں نئے نئے داخل ہوئے ہیں اور ان کی تربیت اتنی نہیں ہوئی جتنی اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہوئی تھی.یہ تو صحیح ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ مثلاً آج سے دس دن قبل جو احمدیت میں داخل ہوا اُس نے یہ اعلان کیا کہ میں تو صداقت کو پہچاننے کے بعد اُس سے دور رہنا ایک دن کے لئے بھی برداشت نہیں کرتا.نئے آنے والوں میں سے ایسے بھی ہیں جو پرانوں کو غیرت دلا رہے ہیں اور یہ ایک نہیں متعدد مثالیں ایسی ہیں.کل ایک ہی دن میں مجھے تین طرف سے یہ اطلاع ملی.اس وقت میں جب بظاہر ہر طرف سے شور مچایا گیا ہے اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں اس کے مقابلہ میں ایسے نوجوان نکل رہے ہیں.ایک کو کسی نے کہا کہ تم نے تو ابھی پوری طرح سمجھا نہیں اور مطالعہ کرو.اُس نے کہا میں مہدی علیہ السلام کی جماعت سے ایک دن بھی باہر رہنا نہیں چاہتا اور وہ جماعت میں داخل ہو گیا.بعض نے زبان سے کمزوری دکھائی ہے.خدا کرے کہ وہ دل سے کمزوری دکھانے والے نہ ہوں.ایسے بھی دنیا میں ہوتے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قیصر کے خلاف جنگ یرموک بڑی سخت جنگ تھی.اُس وقت اسلام کی جنگیں تلوار کے ساتھ لڑی جا رہی تھیں.اس وقت اسلام کی جنگیں دلائل اور فراست اور آسمانی نشانوں کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے کے ساتھ اور ایثار پیشہ وجودوں کے ساتھ لڑی جارہی ہیں جو ہر قسم کی قربانی دینے

Page 644

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۲۴ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء کو تیار ہیں اور راتوں کو خدا کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! ہم نے تیرے حضور کچھ بھی پیش نہیں کیا.اس لئے کہ جو پیش کیا وہ گھر سے تو نہیں لائے تھے.تیری ہی عطا تھی.پھر ہم نے خدا کو کیا دیا؟ سوچیں تو سہی.یا تو آپ نے خدا کے علاوہ کسی اور سے لیا ہو تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ اے خدا ! ہم نے لات اور عربی ( جو بت تھے اُن ) سے کچھ حاصل کیا اور تیرے قدموں میں لا ڈالا.لیکن اگر اللہ ہی اللہ ہے اور اُس کے سوا اور کوئی چیز نہیں تو پھر تم نے خدا کے سوا کسی اور ہستی سے کچھ نہیں پایا اور جو کچھ پایا اسی سے پایا وہ اُسی کے حضور پیش کرتے ہوئے ایک عقلمند صاحب فراست مومن کی تو جان نکلتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ اے خدا ہم نے تیرے حضور کچھ پیش کیا.کیا پیش کیا ؟ جو اُس کا تھا، جو اپنے خزانوں میں اس رنگ میں بھی رکھ سکتا تھا کہ تمہیں وہ دیتا ہی نہ ! لیکن ہمارا رب کتنا پیارا ہے جو اُسی کی دی ہوئی عطا اور اُسی کے دیئے ہوئے اموال اور اُسی کی دی ہوئی طاقت اور اُسی کی دی ہوئی فراست سے جب تم کچھ اُس کے سامنے پیش کرتے ہو تو وہ بڑے پیار سے کہتا ہے کہ دیکھو میرے بندے مجھ سے کتنا پیار کرنے والے ہیں کہ اس طرح اپنا سب کچھ میرے حضور پیش کر دیتے ہیں.یہ تو اُس کا فضل ہے.اس میں ہمارے لئے فخر کی تو کوئی بات نہیں.یہ تو اُس کی رحمت ہے ہم نے اس کو کیا دیا؟ اور اُس نے ہم سے کیا لینا ہے؟ پس میں بتارہا تھا کہ جماعت کو اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ غلبہ اسلام کے لئے میں نے تمہیں بچنا اور تمہارے ذریعہ سے نوع انسانی کے دل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر میں جیتوں گا اور اس غرض کے لئے تمہیں اپنا آلہ کار بناؤں گا.ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تمثیلی زبان میں اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان میں ہم بندوں کی نگاہ میں جو حقیر ذرہ ہے پکڑا ہوا ہو اور خدا کہے کہ میں ساری دنیا میں اس ذرۂ حقیر کے ذریعہ تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہوں تو وہ ایسا کر دے گا کیونکہ تبدیلی پیدا کرنے والا اصل میں وہ ذرہ نہیں بلکہ تبدیلی پیدا کرنے والی اللہ تعالیٰ کی وہ طاقتیں ہیں کہ مادی دنیا اُن طاقتوں کے اثر کو قبول کرنے سے انکار نہیں کر سکتی.الْحُكْمُ لِلهِ.اس دنیا پر، اس عالمین میں اللہ تعالیٰ کا حکم چلتا ہے.اَلْعِزَّةُ لِلهِ ، اَلْمُلْكُ لِلہ.بادشاہت اُسی کی ہے اور طاقت

Page 645

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۲۵ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء اور غلبہ اُسی کا ہے.قرآنِ کریم نے بہت سی صفات کے ساتھ اس طرح بھی اس حقیقت کا اظہار کیا ہے.گو الفاظ آگے پیچھے ہیں اور قرآن کریم کے الفاظ ہی زیادہ مؤثر ہیں لیکن انسان مختلف انداز میں اپنی عقل استعمال کرتا ہے.بہر حال ہم نے کہہ دیا الْعِزَّةُ لِلَّهِ اور خدا تعالیٰ نے کہا اِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِيعًا (يونس: ٦٦) الفاظ کا فرق ہے.ویسے یہ الفاظ قرآن کریم کا مفہوم بتا رہے ہیں.اس جہان کا اور اس عالمین کا بادشاہ کون ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.اگر خدا بادشاہ اور اس دنیا کے بادشاہوں کا بادشاہ ہے تو دنیا کی طاقتیں اور بادشاہتیں اگر اللہ تعالیٰ کی بادشاہت سے ٹکرانے کی کوشش کریں گی تو اس کا نتیجہ چھپا ہوا نہیں ہے.ہمارا ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ جو طاقتور سے ٹکراتا ہے وہ اپنا نقصان کرتا ہے.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے دنیا داروں نے اور دنیا کی حکومتوں نے ان فیصلوں کے کرنے کی کوشش کی جن فیصلوں کے کرنے کا جواز کوئی نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کا اختیار نہیں دیا تھا.وہ ایسا کرتے رہے لیکن انسان کی تاریخ میں ایک مثال بتا دو کہ جب دنیا کی طاقتوں نے اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کھڑے ہو کر کوئی کام کرنا چاہا تو دنیا کی طاقتیں تو کامیاب ہو گئیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طاقت نے کمزوری دکھائی اور نا کام ہوگئی.کبھی ایسا نہیں ہوا، نہ ہو سکتا ہے.نہ عقلاً ایسا ممکن ہے اور نہ عملاً ایسا ہوا.نہ عرفان رکھنے والے جو خدا تعالیٰ کے عشق میں مست ہیں وہ ایک لحظہ کے لئے بھی یہ گمان کر سکتے ہیں کہ ایسا ہونے کا کوئی موہوم سا بھی امکان ہے.جو خدا تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتے وہ کچھ اور سوچتے ہوں گے ہمیں اس کا علم نہیں لیکن ہمیں یہ پتہ ہے کہ خدا تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے اور اس نے جماعت احمدیہ کو یہ بشارت دی اور جماعت احمدیہ سے یہ سلوک کیا کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی.دُکھ دے سکتی ہے.پریشانیاں پیدا کرسکتی ہے.ابتلا لاسکتی ہے.لیکن نہ مٹاسکتی ہے نہ نا کام کرسکتی ہے.ایک وہ بشارتیں ہیں جو افراد جماعت احمدیہ کودی گئی ہیں دوسری وہ بشارت ہے جو جماعت کو دی گئی.جس سے بڑی بشارت کسی فرد کو نہیں دی گئی.خدا تعالیٰ نے کہا کہ اگر تم میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے میرے دین اور میری شریعت اسلامیہ کے احکام کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہو گے تو اُن جنتوں کا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جن کا

Page 646

خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء خطبات ناصر جلد پنجم.۶۲۶ تصور اور خیال بھی تمہارے دماغوں میں نہیں آسکتا.ایک فرد کے لئے اتنا عظیم انعام ہے لیکن فرد کے لئے حقیقی اور ایسا انعام جو ہر احمدی مخلص اور قربانیاں دینے والے کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ اگر میرے احکام پر تم کار بندر ہو گے اور میری محبت میں تم زندگی گزارو گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو اپناؤ گے تو جنتوں کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے اور پھر یہ بھی ایک بڑے ہی پیار کا اعلان تھا کہ بہتوں کو اُس نے کہا کہ میں جنت کے آٹھوں دروازے کھول دوں گا اور تم کو کہوں گا کہ جس دروازے سے چاہو اندر داخل ہو جاؤ.اس سے زیادہ پیار اللہ تعالیٰ کا اور کیا ہو سکتا ہے؟ تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ تم میں سے ہر شخص کی زندگی کی میں حفاظت کروں گا.اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ نہیں کہا کہ میں تم میں سے ہر شخص کے اموال کی حفاظت کروں گا.خدا تعالیٰ نے تمہیں ہر گز انفرادی طور پر یہ بشارت نہیں دی کہ تم میں سے ہر ایک کی عزت کی حفاظت کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے اور کسی ایک احمدی کو بھی عزت کی قربانی نہیں دینی پڑے گی یا مال کی قربانی نہیں دینی پڑے گی یا جان کی قربانی نہیں دینی پڑے گی لیکن چونکہ جماعت، افراد کے مجموعہ کا نام ہے اس لئے یہ کہا کہ وہ لوگ جن کو انفرادی طور پر جان کی یا مال کی یا عزتوں کی قربانی دینی پڑے گی.( عزتوں کی قربانی کا حلقہ زیادہ وسیع ہے.اس کے بعد اموال کی قربانی کا حلقہ ذرا تنگ ہے اور جان کی قربانی کا حلقہ اس سے بھی زیادہ تنگ ہے لیکن بہر حال ) وہ تو دینی پڑے گی لیکن اگر تم بحیثیت جماعت نبی اکرم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے چنیدہ اور پیارے گروہ کی حیثیت سے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ گے تو تم میں سے اکثر کی جانیں بھی بچائی جائیں گی اور اموال بھی بچائے جائیں گے اور عزتیں بھی بچائی جائیں گی اور اس دنیا میں بھی دنیا دار جوخدا کو پہچانتا نہیں خدا تعالیٰ کے اُس پیار کے نظارے دیکھے گا جوتم پر نازل ہو گا لیکن قربانیاں تمہیں بہر حال دینی پڑیں گی اور ہمیں اس آیت میں بھی ( جو میں نے ابتدا میں تلاوت کی تھی) اس بات سے ڈرایا گیا ہے کہ دیکھو! اپنے اوپر دو لعنتیں نہ اکٹھی کر لینا.ایسا نہ ہو کہ ایک ہی وقت میں دنیا بھی تم پر لعنت کر رہی ہو اور خدا تعالیٰ آسمان سے بھی تم پر لعنت بھیج رہا ہو.ایسا نہ کرنا !

Page 647

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۲۷ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر جس حد تک تمہارے لئے ممکن ہو چلتے رہنا اور اُن لوگوں کی طرح نہ بن جانا جن کی بداعمالیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا غضب آسمانوں سے نازل ہوا.جو آیت میں نے تلاوت کی اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کی رضا نازل ہوتی ہے یا وہ کون لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کا غضب لے کر لوٹتے ہیں؟ لیکن ہمیں یہ بتا دیا کہ انسان ایسے زمانوں میں کہ جب خدا تعالیٰ کا کوئی مامور ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں ) شریعت حقہ اسلامیہ کو قائم کرنے کے لئے دنیا میں آئے گا تو ایک جماعت انسانوں کی وہ ہو گی جو خدا تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر چلنے والی ہوگی اور ایک جماعت وہ ہوگی جن کے اعمال کے نتیجہ میں ان کو رضا نہیں ملے گی بلکہ خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہو گا.بڑے خوف اور ڈر کا مقام ہے.اسی لئے میں آپ کو بار بار کہتا ہوں کہ عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی دہلیز پر سجدہ ریز رہو اور اُس سے کہو کہ اے خدا! ہم انسان ہیں اور کمزور ہیں تو ہمارے گناہوں کو بخش اور ہم سے اُس پیار کا سلوک کر جس پیار کا تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ کی دی ہوئی بشارتوں کے نتیجہ میں مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں وعدہ دیا اور بشارت دی.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک لمبا سا اقتباس، جو میں نے انتخاب کیا ہے پیش کروں گا.اس میں تو اتنی باتیں آگئی ہیں کہ اگر میں ان سب کو کھول کر بیان کرنے لگوں اور تشریح کرنے لگوں تو یہ وقت اس کے لئے مناسب نہیں اور گرمی جو میری بیماری ہے وہ بھی مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی.میں جب یہاں کھڑا ہوتا ہوں تو تکلیف محسوس کرتا ہوں لیکن جب میں بول رہا ہوتا ہوں تو بالکل تکلیف محسوس نہیں کرتا.جب میں آپ کے چہروں پر بشاشت اور مسکراہٹیں دیکھتا ہوں تو میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے اور جب میں آپ کے چہروں پر اُداسی دیکھتا ہوں تو مجھے فکر لاحق ہوتی ہے اور میں آپ کے لئے دُعائیں کرتا ہوں.یہ زمانہ تو وہ ہے جس میں کہا گیا تھا کہ خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اسلام کے غلبہ کی بشارت آسمانوں سے آگئی.اب ہم اپنی ذاتی تکلیفوں کے نتیجہ میں ان مسکراہٹوں کو اپنے چہروں سے کیسے

Page 648

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۲۸ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء غائب کر سکتے ہیں؟ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھی ہم مسکرائیں گے.اُس یقین کی وجہ سے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کے غلبہ کی ہمیں بشارت دی ہے اور ہماری زندگی کی کوئی حقیقت نہیں.بعض بچوں کو یا بعض غیر تربیت یافتہ احمدیوں یا جن کے اندر ذرا کمزوری میں محسوس کرتا ہوں ان کو سمجھانے کے لئے میں کہا کرتا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ خطر ناک چار پائی ہے.آپ نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ یہ کتنی خطر ناک چیز ہے.دنیا کی کسی بھیا نک ترین جنگ میں اتنے انسان نہیں مرے جتنے ایک سال میں چار پائی پر دم تو ڑ دیتے ہیں.انسان کی موت اکثر چار پائی پر واقع ہوتی ہے نا ! پس اگر مرنے سے خوف کھانا ہے تو پھر سب سے زیادہ خطر ناک اور ہمارے دل میں خوف پیدا کرنے والی چار پائی ہونی چاہیے.جو سب سے زیادہ جانیں لے جاتی ہے.لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ چار پائی ہمارے لئے خوف نہیں پیدا کرتی.وہ ہماری جان نہیں لیتی.اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں زندہ رکھتا ہوں اور میں ہی مارتا ہوں.جب زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے اور موت کا ایک وقت خدا کے علم میں مقدر ہے مثلاً زید ہے.اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ فلاں تاریخ کو اُس نے اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے اُس کے لئے کوچ کی دورا ہیں تھیں.یا وہ چار پائی پرمر جاتا یا دین کے رستہ میں اُس کی جان چلی جاتی.وہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو بدر کے میدان میں شہید ہوئے.اللہ تعالیٰ کے علم میں ان کی موت اس دن مقد رتھی.منافقوں کو خدا نے یہی کہا کہ تم موت سے بھاگ کر کہاں جا سکتے ہو.اگر اُس دن صحابہ بدر کے میدان میں جانے سے ہچکچاتے اور وہاں نہ پہنچتے تو اپنے مکان کے سامنے گلی میں اُن کو ٹھوکر لگتی اور سرکسی سخت جگہ پر لگتا اور وہ مرجاتے کیونکہ اُن کی موت اُس وقت مقد رتھی.کتنی پیاری ہو گئی، کتنی حسین ہو گئی ، کتنی بشارتوں کی حامل ہوگئی وہ موت جو چار پائی پر یا گلی میں گر کر نہیں آئی بلکہ بدر کے میدان میں آئی.موت تو اُس دن آنی ہی تھی.اس لئے زندگی اور موت یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمیں ڈرانے والی ہو یا ایک احمدی کے دل میں خوف پیدا کرنے والی ہو.آگ ہمارے خلاف آج ہی تو نہیں بھڑکائی جا رہی.۱۹۴۷ء میں بھی ہمارے خلاف آگ بھڑ کائی گئی تھی اور اُس کے شعلے آج کے مقابلہ میں زیادہ بھڑک رہے

Page 649

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۲۹ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء تھے.مجھے یاد ہے ہمارے سروں پر سے سکھوں اور ہندوؤں کی گولیاں ”شوں کر کے نکل رہی ہوتی تھیں اور میں اپنے ساتھیوں کے چہروں پر بشاشت پیدا کرنے کے لئے ان کو لطائف سنا تا تھا اور ہم قہقہے لگایا کرتے تھے.میں اپنی ساری عمر میں اتنا نہیں ہنسا جتنا اُن دو مہینوں میں ہنسا ہوں.اس واسطے جب مخالف یہ کہتا ہے یا نادان منکر یہ کہتا ہے کہ ہم تمہارے چہروں سے مسکراہٹیں چھینے کے لئے ایسا کر رہے ہیں تو ایک متقی مومن جو اللہ تعالیٰ کی طاقتوں کو پہچانتا ہے اور اُس کی معرفت رکھتا ہے اُسے کہتا ہے کہ جو مرضی کرو تم میرے چہرے کی مسکراہٹیں نہیں چھین سکتے.کیونکہ ان مسکراہٹوں کا منبع اسلام کو غالب کرنے کا فیصلہ کرنے والے کا وہ پیار ہے جو ظاہراً بھی اور باطنا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں ملتا ہے.اس لذت اور سرور میں زندگی گزار نے والے کے چہرے کی مسکراہٹیں کون چھین سکتا ہے؟ دنیا کی کوئی طاقت نہیں چھین سکتی.یہ جو قہوہ میں پی رہا ہوں یہ پھیکا سبز قہوہ ہے اور آج کل چونکہ ہمارے ملک میں فساد کی وجہ سے ادویہ کا ملنا ذرا مشکل ہو گیا ہے.اس قہوہ سے بہت سی پیٹ کی تکلیفوں سے انسان بچ جاتا ہے.میں نے پہلے بھی جماعت کو کہا تھا کہ جن سے ہو سکتا ہے وہ پانی ابال کر پئیں اور اس میں دو چار پتیاں سبز چائے کی ڈال دیں تو سبز قہوہ بن جائے گا.اور بالکل ہلکا سا موتیا رنگ پانی میں آجائے گا.اور جو اُبلے ہوئے پانی میں بکی کا پن ہوتا ہے وہ بھی نہیں رہے گا بلکہ خوشبو اور ذائقہ چائے کا آجائے گا یہ میں استعمال کرتا ہوں.یہ وہی قہوہ ہے آپ بھی پیا کریں.مجھے خدا تعالیٰ نے جس قدر کڑواہٹوں کو برداشت کرنے کی طاقت دی ہے کم ہی لوگوں کو ملی ہوگی.ان حالات میں ہر دُکھ جو کسی فرد یا خاندان کو پہنچا اُس کا زخم میں اپنے سینے میں بھی محسوس کرتا ہوں.پس کئی ہزار پریشانیاں نیزے کی انی کی طرح میرے سینے میں پیوست ہیں اور میرے جسم کو بھی یہ عادت ہے.مجھے گرمی میں خون کی شکر کے نظام میں خرابی کی وجہ سے تکلیف ہو جاتی ہے.اس کے لئے میں کبھی کبھی نیم کے پتوں کا جو شاندہ استعمال کرتا ہوں.ایک دفعہ میں وہی جوشاندہ پی رہا تھا کہ ہماری ایک عزیزہ اُس وقت آگئیں.وہ سمجھیں کہ پتہ نہیں میں کیا شربت پی رہا ہوں.تو میں نے

Page 650

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۳۰ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء ایک گھونٹ چھوڑ دیا میں نے کہا پئیں گی؟ تو اُنہوں نے کہالا میں پیتی ہوں تو جو نہی نیم کا جوشاندہ منہ کو لگا یا اور چہرے کی حالت بدلی اور اعصاب کھنچے تو وہ حالت دیکھنے والی تھی.ایک دفعہ ہمارے ایک زمنید ارسا تھی تھے.ملیریا کے دن تھے.میں کونین کی گولی کھانے لگا.ہمارے زمیندار بھائی اگر جوش میں ہوں تو اپنے دعوئی میں بڑے سخت بھی ہو جاتے ہیں.میں نے کہا کونین کھائی جائے.کہنے لگے ہاں میاں صاحب کھائی جائے.میں نے کونین کی ایک گولی منہ میں ڈال کر دانتوں سے اچھی طرح چبائی اور پھر منہ کھول کر کہا کہ اس طرح کھائی جائے وہ کہنے لگے ہاں جی ! اسی طرح کھائی جائے.میں نے گولی دے دی اور چونکہ اُنہوں نے کہا ہوا تھا اُسی بیچ میں اُنہوں نے اسی طرح کونین کی گولی چبائی اور مجھے بڑی مشکل سے منہ کھول کر کہا اس طرح؟ اور منہ اور گردن کے سارے پٹھے اکڑ گئے اور اڑتالیس گھنٹے تک وہ ہنستے تھے اور دنیا سمجھتی تھی کہ یہ دور ہے ہیں.یہ حالت ہو گئی تھی.تو مادی کڑواہٹوں کو نین وغیرہ کی برداشت کی طاقت ہر ایک کو خدا نے نہیں دی لیکن زندگی کی دوسری کڑواہٹیں جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیتے ہوئے پیش آتی ہیں وہ ہم ہنستے مسکراتے برداشت کر جاتے ہیں اور دوسروں کو پتہ بھی نہیں لگتا.یہ ہے ایک احمدی کی شان اور جیسا کہ میں نے کہا کوئی احمدی اس بات کے لئے تیار نہیں ہوگا کہ وہ دو لعنتیں اپنے پر اکٹھی کر لے.ایک دنیا کی لعنت اور ایک اللہ تعالیٰ کی لعنت.اگر کوئی ایسا احمدی ہے تو کھڑا ہو جائے ہم بھی اس کی شکل دیکھ لیں.یقیناً کوئی احمدی ایسا نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”اے میرے دوستو ! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو.خدا ہمیں اور تمہیں اُن باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے.آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلا کا وقت تم پر ہے اُسی سنّت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے.ہر یک طرف سے کوشش ہو گی کہ تم ٹھوکر کھاؤ اور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سننی پڑیں گی اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دُکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے.اور کچھ آسمانی ابتلا بھی تم پر آئیں گے تائم

Page 651

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۳۱ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء ہر طرح سے آزمائے جاؤ.سو تم اس وقت سُن رکھو ( غلبہ اسلام کی مہم تمہارے سپرد کی گئی ہے اور نوع انسانی کے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فتح کرنے کا جو کام تمہیں سونپا گیا ہے اُس میں.ناقل ) کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو یا گالی کے مقابل پر گالی دو.کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے.سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کر لو.ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی.یقیناً یا درکھو کہ لوگوں کی لعنت ، اگر خدائے تعالیٰ کی لعنت کے ساتھ نہ ہو کچھ بھی چیز نہیں.اگر خدا ہمیں نابود نہ کرنا چاہے تو ہم کسی سے نابود نہیں ہو سکتے لیکن اگر وہی ہمارا دشمن ہو جائے تو کوئی ہمیں پناہ نہیں دے سکتا.ہم کیونکر خدائے تعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو.اس کا اُس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا کہ تقویٰ سے.سواے میرے پیارے بھائیو کوشش کرو تا متقی بن جاؤ.بغیر عمل کے سب باتیں بیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں.سو تقوی یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بیچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤ اور پر ہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو.سب سے اوّل اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے علیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شر کا پیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اگر تیرا دل شہر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی.اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضا.ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے.سوا اپنے دلوں کو ہر دم ٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور رڈی ٹکڑے کو کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے.اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیر تے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کو رڈی پاؤ اُس کو کاٹ کر باہر پھینکو ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو

Page 652

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۳۲ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء نا پاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے جاؤ.پھر بعد اس کے کوشش کرو اور نیز خدائے تعالیٰ سے قوت اور ہمت مانگو کہ تمہارے دلوں کے پاک ارادے اور پاک خیالات اور پاک جذبات اور پاک خواہشیں تمہارے اعضا اور تمہارے تمام قومی کے ذریعہ سے ظہور پذیر اور تکمیل پذیر ہوں تا تمہاری نیکیاں کمال تک پہنچیں.کیونکہ جو بات دل سے نکلے اور دل تک ہی محدودر ہے وہ تمہیں کسی مرتبہ تک نہیں پہنچا سکتی.خدا تعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو.اور یا درکھو کہ قرآن کریم میں پانسو کے قریب حکم ہیں اور اس نے تمہارے ہر یک عضو اور ہر یک قوت اور ہر یک وضع اور ہر یک حالت اور ہر ایک عمر اور ہر یک مرتبہ فہم اور مرتبہ فطرت اور مرتبہ سلوک اور مرتبہ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے.سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو.جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو بھی ٹالتا ہے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مواخذہ کے لائق ہو گا.اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر اُٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہو گا اور سرکش جہنم میں گرایا جائے گا.پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا.دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے کہ ہمیں یہ ملے اور وہ ملے ) خدا تعالیٰ کی عبادت مت کرو کہ ایسے خیال کے لئے گڑھا در پیش ہے.بلکہ تم اس لئے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے.چاہیے پرستش ہی تمہاری زندگی ہو جاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہو کہ وہ محبوب حقیقی اور محسن حقیقی راضی ہو جاوے کیونکہ جو اس سے مکمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے.خدا بڑی دولت ہے.اس کے پانے کے لئے مصیبتوں کے لئے تیار ہو جاؤ.وہ بڑی مراد ہے.اس کے حاصل کرنے کے لئے جانوں کو فدا کرو.عزیز و!! خدائے تعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو.موجودہ فلسفہ کی زہر تم پر اثر نہ کرے.ایک بچے کی طرح بن کر

Page 653

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۳۳ خطبہ جمعہ ۲۸ جون ۱۹۷۴ء اس کے حکموں کے نیچے چلو.نماز پڑھو، نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے اور جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو ایسا نہ کر کہ گویا تو ایک رسم ادا کر رہا ہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہری وضو کرتے ہو ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو.اور اپنے اعضا کو غیر اللہ کے خیال سے دھو ڈالو.تب ان دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور نماز میں بہت دعا کرو اور رونا اور گڑ گڑانا اپنی عادت کر لو تا تم پر رحم کیا جائے.اے اللہ ! اے ہمارے پیارے!! ہم پر اپنی رحمتوں کے نزول کے سامان پیدا کر.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 654

Page 655

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۳۵ خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۷۴ء ہر احمدی کا فرض ہے کہ ملکی قانون کا پابند ہو اور قانون شکنی نہ کرے خطبه جمعه فرموده ۵ / جولائی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.، جیسا کہ احباب جماعت کو علم ہے میں نے صدرانجمن احمد یہ سے کہہ کر امرائے اضلاع کی میٹنگ جمعرات کو بلوائی تھی لیکن چونکہ ان دنوں بیرونی اضلاع سے بھی پانچ پانچ ، دس دس اور بعض شہروں سے بھی دو دو، تین تین دوست تشریف لائے ہوئے تھے اس لئے میں نے یہ مناسب سمجھا کہ امرائے اضلاع کی میٹنگ سے قبل اپنے ان دوستوں سے ملاقات کروں.اُن کے علاقہ کے حالات معلوم کروں اور جماعت احمدیہ کی تعلیم کے مطابق ان دنوں میں جوطریق کا را پنا نا چاہیے، وہ اُن کے ذہن نشین کراؤں اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہم عاجز ، کمزور اور بے بس بندوں کو جو مہدی معہود علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والے ہیں ، اُن سے اُن الہی بشارتوں کا ذکر کروں جو غلبہ اسلام کے لئے انہیں دی گئی ہیں اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے اُن کو ہدایات دوں اور پھر اس کے بعد امرائے اضلاع سے گفتگو کروں.چنانچہ کل قریباً سارا دن اور رات کا ایک حصہ بھی ان ملاقاتوں میں گزرا.میرا اندازہ ہے کہ آٹھ گھنٹے تک لگا تار میں نے احباب جماعت سے ملاقاتیں کی ہیں جو ابھی تک ختم نہیں ہوسکیں.کچھ ملاقاتیں رہتی ہیں ، وہ جمعہ

Page 656

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۳۶ خطبہ جمعہ ٫۵جولائی ۱۹۷۴ء کی نماز کے بعد ہوں گی.اس لئے جو دوست ملاقات کرنے سے رہ گئے ہیں وہ فکر مند نہ ہوں.تاہم جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اکثر دوستوں سے ملاقاتیں ہو گئی ہیں جو پاکستان کے اکثر حصوں سے آئے ہوئے تھے.اور اُن سے باتیں کر کے حالات معلوم ہوئے اور صورتِ حال نمایاں ہوکر ہمارے سامنے آ گئی.آج صبح بھی میں نے قریباً اڑھائی گھنٹے تک اسی قسم کی انفرادی ملاقاتیں کیں (انفرادی ملاقاتوں کا مطلب صرف ایک فرد کی ملاقات ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ دو چار آدمیوں کی اکٹھی ملاقات بھی انفرادی ملاقات ہی کہلاتی ہے ) اور پھر اس کے بعد امرائے اضلاع کی میٹنگ ہوئی اور اس طرح انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں کے ذریعہ حالات سامنے آگئے.امرائے اضلاع کو میں نے جو نصیحتیں کی ہیں اور اُن کو اپنے اپنے ضلع کے ہر احمدی کے ذہن نشین کرانے کی جو ہدا یتیں دی ہیں، وہ میں اس خطبہ جمعہ کے ذریعہ ساری جماعت کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں تا کہ ان نصیحتوں سے پاکستان والے بھی اور پاکستان سے باہر والے احمدی دوست بھی فائدہ اُٹھا ئیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ملکی قانون کی پابندی کریں اور قانون شکن نہ بنیں.اس لئے ہر شہری کا یہ فرض ہے اور ہر شہری ہونے کے لحاظ سے ہر احمدی مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ ملکی قانون کا پابند ہو اور قانون شکنی نہ کرے.اس لئے جہاں جہاں بھی احمدی بستے ہیں، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انہیں پوری توجہ کے ساتھ اور پوری ہمت کے ساتھ ملکی قانون کی پابندی کرنی پڑے گی اور قانون شکنی سے بہر حال بچنا ہو گا.صرف اس لئے نہیں کہ ہر شہری کا یہ فرض ہے بلکہ اس لئے بھی اور زیادہ تر اسی لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ خواہ حالات کیسے ہی جوش دلانے والے اور غصہ دلانے والے ہی کیوں نہ ہوں ، تم نے قانون شکنی نہیں کرنی.ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ تم اپنے جوش کو ٹھنڈا کرو.اپنے غصہ کو دباؤ اور قانون کا احترام اور پابندی کرو.دوسرے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے انفرادی ملاقاتوں سے یہ بات بڑی نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں بہت سی جگہوں پر حکومت کے افسران نے فرض شناسی سے کام لیا

Page 657

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۳۷ خطبہ جمعہ ٫۵جولائی ۱۹۷۴ء اور جہاں تک اُن کی طاقت میں تھا، اُنہوں نے فتنہ و فساد کو روکا اور امن کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی.اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے.اس سلسلہ میں جماعتِ احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ جہاں بھی افسران حکومت لوگوں کو ملک میں فتنہ وفساد پیدا کرنے سے روک رہے ہوں تو آپ اُن سے انتہائی طور پر تعاون کریں اور اُن کی ہر ممکن مدد کریں.اس لئے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ مفسدوں سے پیار نہیں کرتا دوسرے اس لئے کہ فساد کے نتیجہ میں انسان نہ صرف اللہ تعالیٰ کا پیار کھو دیتا ہے ( اور اصل نقصان تو یہی ہے) بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھو دینے کے مقابلہ میں ایک چھوٹا سا نقصان اور بھی کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ فتنہ و فساد کے نتیجہ میں ملک کو نقصان پہنچاتا ہے، جس کا کوئی بھی محب وطن تصور بھی نہیں کر سکتا.گو بعض لوگ ہم سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سب سے اچھے محبانِ وطن میں سے ہیں.ہم نے اس پاکستان کے لئے ۴۷ ء میں جانی اور مالی قربانیاں دی تھیں.ہم نے پاکستان کے لئے اُس وقت سے لے کر آج تک بھی ہر موقع پر، ہر قسم کی قربانیاں دی ہیں تا کہ ہمارا پاکستان پچھلے پھولے اور اس میں استحکام پیدا ہو.جب کبھی ہمارے خلاف فتنہ وفساد پیدا کیا گیا تو جہاں اس میں ہمارے لئے روحانی رفعتوں کے سامان تھے وہاں ہمارے لئے یہ فکر کی بات بھی تھی کہ اس سے ہمارے ملک کو نقصان نہ پہنچے.اس لئے ہر احمدی نے اور تمام جماعت ہائے احمدیہ نے ہر موقع پر یہ کوشش کی کہ ملک کو فتنہ وفساد اور نقصان سے بچایا جائے کیونکہ یہ اُسی طرح ہمارا ملک بھی ہے جس طرح دوسرے محتانِ وطن کا ملک ہے.پچھلے دنوں بعض اخباروں نے جب یہ اشارے کئے کہ یہ لوگ اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے تو ہمیں ایسی خبریں پڑھ کر بڑی ہنسی آئی.انسان اپنا مٹی کا بنا ہوا گھر چھوڑ کر کسی اور جگہ نہیں جاتا تو ہم اپنے اس پیارے وطن کو چھوڑ کر کہیں باہر جانے کا ارادہ کس طرح کر سکتے ہیں.یہی ہمارا پیارا وطن ہے.ہم یہیں رہیں گے.ہم نے یہیں رہ کر اس کی حتی المقدور خدمت کرنی ہے.ہم نے دوسرے محتانِ وطن کے شانہ بشانہ اس کی ترقی کی راہ میں تمام روکوں کو دُور کر کے اسے جنت نظیر بنانا ہے.یہی ہماری خواہش ہے.یہی ہمارے ارادے ہیں اور یہی ہماری دعائیں ہیں کہ ہمارا یہ ملک پھولے، پچھلے اور ترقی کرے.ہم اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ

Page 658

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۳۸ خطبہ جمعہ ٫۵ جولائی ۱۹۷۴ء وہ ہمارے ہر قسم کے عجز کے باوجود، ہماری بے بسی اور کمزوری کے باوجود وہ ہماری دُعاؤں کو قبول فرمائے گا (انشاء اللہ تعالی).پس ہمارے اس پیار نے ملک کو فتنہ وفساد اور نقصان سے بچانے کے لئے افسران جو کوششیں کر رہے ہیں، جماعت احمدیہ کو چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں اُن سے پورا پورا تعاون کرے.تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں قرآن عظیم میں یہ حکم دیا ہے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ حسنہ بھی یہی ہے کہ کسی سے دشمنی نہیں رکھنی.اس لئے ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بنیادی نقطہ کو ہمیشہ یاد رکھے کہ ہم کسی کے دشمن نہیں.جو شخص خود کو ہمارا دشمن سمجھتا ہے اُس کے متعلق ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی غلطی پر ہے.اس لئے کہ آج نہیں تو کل اُسے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دراصل اس کا مقام بھی دشمنی کا نہ تھا کیونکہ کہا جاتا ہے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی.جب ہم کسی کے دشمن نہیں تو تم ایک ہی ہاتھ سے ہمارے دشمن کیسے بن جاؤ گے.غرض ہم کسی کے دشمن نہیں، مگر یہ تو ایک منفی اعلان ہے.اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں.ہم ہر انسان سے ہمدردی رکھتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ وہ انسان کے دل کو خدا اور خدا کے رسول خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محبت اور پیار کے ساتھ جیتے.اس لئے ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنی نوع انسان کے دل پیار اور محبت کے ساتھ جیتنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قدموں میں دلوں کے ڈھیر لگا دینے ہیں.تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ سینوں سے نکال کر لا ڈالیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل دل تو وہ ہے جو جذبات سے پر ہوتا ہے.لوتھڑے کا دل مراد نہیں ہے یہ تو گائے ، بھینس، بھیڑ ، بکری اور گیدڑ اور لومڑ کے اندر بھی ہوتا ہے.جب مذہب کی زبان میں دل کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ روحانی جذبات ہوتے ہیں جن کو بعض دفعہ انگریزی میں مائنڈ (Mind) کہا جاتا ہے اور ہماری زبان میں اس کو قلب کہتے ہیں.عربی میں بعض اور نام بھی ہیں لیکن اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.بہر حال ہم نے انسان کے دل کے سارے جذبات کو جیت کر خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دینے ہیں اور یہ کام پیار کے ساتھ کرنا ہے سختی سے نہیں کرنا.ہم نے دوسروں کے

Page 659

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۳۹ خطبہ جمعہ ٫۵جولائی ۱۹۷۴ء دُکھ دور کرنے کے لئے خود مصائب جھیلتے ہیں ہم نے لوگوں کے دل پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اور بے لوث خدمت کے ساتھ اور ہمدردی اور غم خواری کے ساتھ خدائے تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے ہیں.سو ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ بھی غلطی خوردہ ہیں.جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن ہیں.غلطی خوردہ اس لئے کہ جو شخص صداقت پر قائم ہوتا ہے، وہ ابدی طور پر صداقت پر قائم رہتا ہے لیکن جو غلط تصورات رکھتا ہے، اس کے تصورات ایک نہ ایک دن مٹ جاتے ہیں اور حقیقت اُس پر آشکار ہو جاتی ہے.اسی معنی میں میں کہتا ہوں کہ بعض لوگ غلطی خوردہ ہیں کیونکہ وہ خود کو ہمارا دشمن سمجھتے ہیں.اُن کی یہ غلطی اُن پر ایک نہ ایک دن ظاہر ہوگی.یہ غلطی کس طرح ظاہر ہوگی.اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں اس سے کسی کا عیب بیان کرنا مقصود نہیں ہے.کسی فردِ واحد کا ذکر کرنے کی بجائے میں پرانے زمانے کی مثال لیتا ہوں.اُمّت مسلمہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جو لوگ ایک وقت میں اسلام کے دشمن تھے دوسرے وقت میں وہی مسلمان ہو کر اسلام کے فدائی بن گئے.اسلام عرب سے نکل کر کئی دوسرے ممالک میں پھیل گیا.ایک طرف مصر اور پھر مغرب میں سے ہوتا ہوا پین تک جا پہنچا اور دوسری طرف شام، عراق، ایران تک پھیل گیا.پھر روم کے ایک طرف سے نکل کر مسلمان یورپ تک جا پہنچے اور اُنہوں نے یورپ کو اسلام کی محبت کی گاڑی میں بیٹھ کر عبور کیا اور پولینڈ کے ان کناروں تک پہنچ گئے جنہیں سمندر تر کرتے تھے.مگر ان سارے علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے دلوں کو پیار سے جیتا.تاہم یہ بھی ٹھیک ہے کہ جب اُن پر حملے کئے گئے تو اس وقت جوابی حملے بھی ہوتے تھے.اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مسلمانوں کو اپنی خود حفاظتی کے لئے تلوار کا مقابلہ تلوار کے ساتھ بھی کرنا پڑا.لیکن تلوار دلوں کو فتح نہیں کیا کرتی ، محبت دلوں کو فتح کیا کرتی ہے.چنانچہ اُن اُن ملکوں میں اسلام پھیلا جو مسلمانوں کے لئے بالکل غیر اور اجنبی تھے.جن کی عادتیں مختلف تھیں.جن کا رہن سہن مختلف تھا.جن کا کھانا پینا مختلف تھا.جن کا کھانے پکانے کا طریق مختلف تھا جن کا کھانا کھانے کا طریق مختلف تھا.گویا ہر لحاظ سے اختلاف پایا جاتا تھا.مگر جب اسلام کے ذریعہ اُن کے دل جیت لئے گئے تو وہ اس طرح باہم

Page 660

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۴۰ خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۷۴ء گھل مل گئے جس طرح ماں جائے بھائی اور حقیقی بھائی دوست ہوتے ہیں.چودہ سو سال سے اسلام کے حسن واحسان کے یہ معجزات ظاہر ہوتے رہے ہیں.اسلام نے محبت اور پیار کے ساتھ لوگوں کو بھائی بھائی بنادیا اور ایک دوسرے سے پیار کرنے والی قوم بنادیا.بہر حال یہ ایک لمبی تاریخ ہے جو سنہری اوراق ، نہایت خوبصورت واقعات اور دل کو موہ لینے والے کلمات پر مشتمل ہے.ہمارے محبوب آقا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ تو حید حقیقی کی معرفت عطا کرنے کے لئے آپ کو دنیا کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اور یہ کہ آپ تمام جہانوں کے لئے ایک مجسم رحمت بن کر تشریف لائے ہیں.چنانچہ آپ کی بعثت سے لے کر آج تک نوع انسانی نے اسلام کے حسن و احسان محبت و پیار اور بے لوث اور بے غرض خدمت کے اتنے حسین اور شاندار نتائج دیکھے ہیں کہ دنیا کا کوئی آلہ یا دنیا کا کوئی مذہب آج تک اس قسم کے نتائج پیدا نہیں ور پس چونکہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں، اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم تمام لوگوں کے لئے دعائیں کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص اُس آدمی کے لئے دُعائیں نہیں کرتا جو خود کو ہمارا دشمن سمجھتا ہے، تو اُس کی دعاؤں کی قبولیت کے متعلق مجھے شک ہے.یہی اسلام کی تعلیم ہے اس لئے جہاں احباب جماعت اپنے لئے دعائیں کرتے ہیں وہاں بڑی عاجزی اور تضرع کے ساتھ ، بڑے خلوص اور پیار کے ساتھ اُن لوگوں کے لئے بھی دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں جو خود کو ہمارا دشمن سمجھتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ اُن کے لئے ہدایت کے سامان پیدا کرے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں اسلام کی اُن راہوں کی شناخت عطا فرمائے جو عارضی طور پر اُن کی آنکھوں سے اوجھل ہو چکی ہیں.میں بتا یہ رہا ہوں کہ میں نے امرائے اضلاع سے بھی اور جو دوست مجھے ملنے آئے تھے، ان سے بھی میں نے یہی کہا ہے کہ واپس جا کر ساری جماعت کو یہ باتیں بتا ؤ اور اب انہی باتوں کا اعادہ اس خطبہ میں بھی کر رہا ہوں.یہاں سے جو دوست واپس اپنے گھروں کو جا رہے ہیں، وہ اپنے ضلع کی جماعتوں یا اپنے ماحول کے احمدیوں تک میرا یہ پیغام پہنچادیں کہ اگر تم احمد یہ فرقہ

Page 661

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۴۱ خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۷۴ء کے مسلمان ہو تو یہ تعلیم ہے جو تمہیں دی گئی ہے تم اس پر عمل کرو.اس میں تمہارے ملک کا فائدہ ہے.اس میں تمہارے خاندانوں کا فائدہ ہے اور اس میں تمہارے نفسوں اور تمہاری روحوں کا فائدہ ہے.چوتھی بات یہ ہے کہ چونکہ ہم کسی کے دشمن نہیں اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمارا دشمن ہے ہم اُسے غلطی خوردہ سمجھتے ہیں.اس لئے ہم نے اُن لوگوں کو بھی پیار کے ساتھ اپنے سینے کے ساتھ لگانا ہے جو ہمارے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ وہ دن دور نہیں جب یہ مسئلہ اُن کی سمجھ میں آجائے گا کہ وہ بھی ہمارے دشمن نہیں ہیں.ہم تو کبھی اُن کے دشمن نہیں ہوئے اور یہ ملک جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارا ملک ہے اور وہ بڑھیا شاید انسانوں میں سے ایک ہی پیدا ہوئی تھی جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے اپنے لئے ایک بڑی خوبصورت انگوٹھی بنوائی اور اس میں ایک قیمتی ہیرا یا پتھر لگوایا اور بڑے شوق سے پہنا لیکن اس کے ہمسائے میں اس کی ملنے والیوں، اور سہیلیوں اور دوسری عورتوں کو اس کی انگوٹھی کی طرف توجہ پیدا نہ ہوئی.وہ بڑی پریشان ہوئی کیونکہ نمائش کی اُسے عادت تھی.وہ بجھتی تھی کہ میں نے پیسے خرچ کر کے انگوٹھی بنوائی ہے مگر اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کرتا.چنانچہ لوگوں کی اس بے تو جنگی سے تنگ آکر اُس نے ایک دن اپنے گھر کو آگ لگادی.جب دور و نزدیک سے واقف عور تیں پوچھنے کے لئے آئیں اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تمہارے گھر کو آگ لگ گئی ہے اور بہت نقصان ہو گیا ہے تو وہ اُن سے کہتی تھی کہ سب کچھ جل گیا ہے.بس یہی ایک انگوٹھی بچی ہے اور اس طرح اُس نے اپنی انگوٹھی کی نمائش کی.ایسی بُڑھیا آدم سے لے کر آج تک ایک ہی پیدا ہوئی ہے.ہم اس بڑھیا کی اولاد نہیں ہیں ہم ان ماؤں کی اولاد ہیں جو چودہ سو سال سے اسلام کی عظمت کے قیام کے لئے اپنی نسل میں اُس محبت کو پیدا کرتی رہی ہیں جو اسلام کو پھیلانے میں کارگر ہوتی تھی اور اسلام سے پیار پیدا کرتی تھی اور یہی وہ محبت ہے جس سے لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں.پس وہ بڑھیا جس نے اپنی انگوٹھی کی نمائش کے لئے اپنا گھر جلا دیا تھاوہ ہماری ماں نہیں ہے.ہم نے پاکستان کی کوئی چیز حتی کہ ایک درخت بھی ضائع نہیں ہونے دینا.ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کا ایک دھیلہ بھی جو

Page 662

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۴۲ خطبہ جمعہ ٫۵جولائی ۱۹۷۴ء ہماری نگرانی میں آجائے گا وہ ضائع نہ ہو.ہمارا ملک غریب ہے.ہم نے اس کے لئے انتہائی قربانیاں دیں اور انتہائی تکالیف برداشت کیں اور غریبانہ زندگی اختیار کی تاکہ ہمارے ملک کی شان وشوکت دنیا پر ظاہر ہو.ہم نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس ملک کو ایک ایسا ملک بنانا ہے کہ جو دنیا کے لئے ایک نمونہ ثابت ہو.ہمارا ملک دنیا کو ہدایت دینے والا ملک بن جائے.دنیا اس سے ہدایت حاصل کرے کہ دیکھو یہ ملک کس طرح غربت سے اُٹھا اور ترقی کر گیا.۴۷ء میں اس کا کیا حال تھا اور اب اپنی محنت سے کیا سے کیا بن گیا ہے.تاہم یہ درست ہے کہ بہت سا وقت ضائع ہو گیا لیکن یہ بھی درست ہے کہ قوموں کی زندگی میں اگر دس پندرہ سال ضائع بھی ہو جا ئیں تو قو میں جب اس نقصان کو پورا کرنا چاہتی ہیں تو وہ پھر درجنوں یا بیسیوں سال کا انتظار نہیں کرتیں بلکہ اپنی محنت، اپنی فراست، اپنے علم اور اپنی دعاؤں سے ( کیونکہ ہم مسلمان احمدی ہیں اور ہمارا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے ) اس کمی کو پورا کرتی ہیں اور ملک کی ترقی کے سامان پیدا کرتی ہیں.انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا.غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے احباب جماعت نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا.حکومت کے افسران سے جو اپنے اپنے علاقہ میں فتنہ وفساد کو دور کرنے کی مخلصانہ کوششیں کرتے ہیں ، اُن سے پورا پورا تعاون کرنا ہے اور وہ افسران جو اپنی فرض شناسی کے لحاظ سے غافل اورست ہیں ، اُن کے لئے واعظ اور ہادی بنتا ہے.تم اُن سے مناسب رنگ میں یہ کہو کہ تمہارا ملک تم سے اخلاص کا مطالبہ کر رہا ہے اس لئے غفلت کو چھوڑو ، سستیوں کو ترک کرو اور ملک کی خدمت کے لئے آگے بڑھو، ہم تمہارے ساتھ تعاون کرتے ہیں.فتنہ وفساد ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے تم فتنہ و فساد کو دور کرنے کی کوشش کرو اس سلسلہ میں ہم سے جو قر بانی لینا چاہتے ہو اس سے ہم دریغ نہیں کریں گے.اسی طرح ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کرنی ہیں اور یہ سمجھتے ہوئے دعا ئیں کرنی ہیں کہ ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے.جو لوگ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں ، ہم نے اُن کے لئے بھی دعائیں کرنی ہیں اور اس ضمن میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت

Page 663

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۴۳ خطبہ جمعہ ٫۵جولائی ۱۹۷۴ء عطا فرمائی ہے اور اس نے ہمیں یہ عرفان بخشا ہے کہ ہماری انفرادی یا اجتماعی طاقت اللہ جَلّ شَانُهُ کی قدرت اور طاقت کے مقابلہ میں اتنی حقیر ہے کہ اس کا نام لینا بھی غلطی ہے.ہم نے اپنے دکھوں کو دور کرنے کے لئے اپنی طاقت یا اپنی دولت یا اپنے جتھے یا کسی جگہ پرا اپنی کثرت کو نہیں دیکھنا.اگر آپ نے اپنے ماحول کو سازگار بنانے کے لئے اپنی طاقت پر بھروسہ کیا تو اللہ تعالیٰ کہے گا کہ پھر مجھے تمہاری مدد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اگر تم نے اپنی طاقت پر بھروسہ نہ کیا.اگر تم اپنے خدائے قادر و توانا کے حضور جھک گئے اور صدق دل سے یہ دعا کی کہ اے ہمارے رب ! ہم اندھے نہیں ، ہم مجنون نہیں کہ خود کو کچھ سمجھیں ، ہم تو ذرہ ناچیز ہیں اور تیرے سوا ہمارا اور کوئی سہارا نہیں.ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ اگر تو ہمارا سہارا بن جائے تو پھر ہمیں کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں.اس لئے اے ہمارے ربّ کریم ! ہم نہایت عاجزی کے ساتھ تیرے دامن کو پکڑتے ہیں، اس دعا کے ساتھ کہ اے خدا! تو اپنا دامن چھوڑا کر ہمیں پرے نہ پھینک دینا.اے خدا! ہم تیرے فضل اور رحم کے ہر آن محتاج ہیں.میں نمازیں جمع کروں گا جمعہ کی نماز کے ساتھ عصر کی نماز بھی پڑھا دوں گا کیونکہ بہت سے دوستوں نے واپس اپنے گھروں کو جانا ہے.اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر ہو.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢

Page 664

Page 665

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۴۵ خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۷۴ء پاکستان ہمارا اپنا ملک ہے جس کے لئے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۹ / جولائی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گذشتہ تین دن بے آرامی میں گزرے.دورا تیں تو سفر بھی کرنا پڑا.سفر سے پہلی رات تو ویسے ہی تکلیف دہ تھی.وہ رات پریشانی میں گذری اور جس انفلوئنزا کی بیماری سے کافی حد تک نجات حاصل ہو چکی تھی سفر کی وجہ سے وہ تکلیف پھر ہوگئی ہے اور گلے کی خراش بڑھ گئی ہے.اللہ تعالیٰ فضل کرے آپ بھی دعا کریں.دنیا میں ہر ملک کے شہری مختلف گروہوں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں ایک تقسیم تو یہ ہے کہ بعض شہری اچھے شہری ہوتے ہیں اور بعض شہری اچھے نہیں ہوتے.دنیا کے ہر ملک میں ہمیں ایسا نظر آتا ہے دوسری تقسیم یہ ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک اچھے شہری سے ایک بات مراد لی جاتی ہے اور بعض دوسرے لوگوں کے نزدیک اچھے شہری سے ایک اور چیز مراد لی جاتی ہے.یعنی بعض کہتے ہیں کہ اچھے شہری کی یہ یہ صفات ہونی چاہئیں اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ اچھے شہری کی (اس سے مختلف ایک حد تک یا بعض دفعہ متضاد) یہ یہ صفات ہونی چاہئیں.اس تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاؤں گا.میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ اسلام کے نزدیک (جیسا کہ ہم نے اسلام کو مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 666

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۴۶ خطبہ جمعہ ۱۹ ؍ جولائی ۱۹۷۴ء کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سمجھا ہے.) اچھے شہری وہ ہیں جو شہری حقوق کی ادائیگی کی کوشش کے علاوہ یہ ایمان بھی رکھتے ہوں کہ اپنے ملک سے پیار بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے اور یہ ادنی ترین شعبہ نہیں کیونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان، ایک کم سوحصوں میں منقسم ہے.( زبان کے یہ محاورے ہیں ضروری نہیں کہ کسی چیز کو یہ اسی عدد کے اندر محدود کر دیں بلکہ کثرت بتانا مقصود ہوتی ہے تو ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان کے بہت سے شعبے ہیں.عربی زبان اور دوسری زبانیں بھی اس قسم کے محاورے استعمال کرتی ہیں.بہر حال جس رنگ میں بھی اسے لیں ، خواہ لفظی معنی میں لیں تب بھی ایمان کا ایک کم سوشعبہ بڑی تعداد ہے اور اگر محاورہ کے معنی میں لیں تو پھر تو مفہوم یہ ہو گا کہ ایمان کا فی تعدا میں مختلف شعبوں میں تقسیم شدہ ہے اور سب سے بلند اور افضل شعبہ ایمان، ایمان باللہ ہے اور ادنی ترین شعبہ ایمان اماطة الأذى عَنِ الطَّرِيقِ ہے یعنی گذرگاہوں سے ایسی چیزوں کا ہٹانا جو وہاں سے گذرنے والوں کو تکلیف پہنچانے والی ہوں اور ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ تو جوسب سے بلند ہے اس کے تو قریب بھی نہیں لیکن جو سب سے ادنی ہے اس سے بہر حال کچھ در جے او پر کا یہ شعبہ ایمان ہے.شہریوں کے فرائض ایک تو حکومتیں خود متعین کرتی ہیں اور مختلف ممالک کی اس تعیین میں فرق بھی ہوتا ہے اور انسانی عقل اس فرق کو اپنے اپنے حالات کے مطابق برداشت بھی کرتی ہے ایک ماحول میں بعض صفات جو اچھے شہری سے متعلق ہیں ان پر زیادہ زور دیا جاتا ہے ایک دوسرے ماحول میں بعض دوسری صفات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے.اگر ہمارے نزدیک بھی یہی تعریف کافی ہوتی کہ قانونِ وقت اچھے شہریوں میں جو صفات دیکھنا چاہتا ہے وہ ایک احمدی میں ہونی چاہئیں گو ہمارے لئے کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی.ہم اپنے قانون دانوں کو کہتے ، اپنے پڑھے لکھوں کو کہتے کہ جماعت کے سامنے ان صفات کو بیان کرتے رہا کرو جو قانونِ وقت کے نزدیک اچھے شہریوں میں پائی جانی چاہئیں لیکن ہماری ذمہ داری اس سے بڑھ کر ہے.ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ جس رب نے اپنے پیارے خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 667

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۴۷ خطبہ جمعہ ۱۹ جولائی ۱۹۷۴ء کے ذریعہ یہ اعلان کیا کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ ہم یہ دیکھیں کہ وہی خدائے عَلامُ الْغُيُوبِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ کے ذریعہ لائی ہوئی شریعت کے مطابق کن چیزوں کو محب الوطنی میں شامل کرتا ہے.( میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے علماء اس کی تفصیل میں جا کر چھوٹے چھوٹے مضامین لفضل کو دیں گے تاکہ دوستوں کے سامنے یہ چیز آجائے.) میں نے اس وقت یہ تمہید اس لئے باندھی ہے کہ اگر چہ حالات ابھی پوری طرح معمول پر نہیں آئے لیکن حکومت نے یہ کوشش شروع کر دی ہے کہ وہ احمدی گھرانے جنہیں بعض حالات سے مجبور ہو کر اپنے شہروں یا اپنے مکانوں کو چھوڑنا پڑا تھا وہ واپس آکر اپنے مکانوں کو آباد کریں.میں نے ہا ہے کہ بعض جگہوں پر یہ کوشش شروع ہو گئی ہے.مثلاً گوجرانوالہ میں یہ کوشش ہوگئی اور بہت سے احمدی گھرانے اس وقت ، جب میں آپ کو یہ بات بتا رہا ہوں اپنے گھروں میں آباد ہو چکے ہیں کچھ رہتے ہیں ان کے لئے کوشش ہو رہی ہے.انشاء اللہ وہ بھی آباد ہو جائیں گے.یہ بڑی اچھی بات ہے جماعت کو چاہیے کہ اس سلسلہ میں قانونِ وقت اور حکومت وقت سے پورا پورا تعاون کریں اپنے گھروں کو نہ چھوڑنے کی ہدایت تو ۵۳ ء میں بھی دی گئی تھی اور اب بھی دی گئی تھی لیکن بعض ایسے حالات ہیں جو استثنائی شکل اختیار کرتے ہیں اور ان کے مطابق اگر کسی نے اس شکل میں اس ہدایت کی تعمیل نہیں کی جو دی گئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مومن احمدی مسلمان کو بڑی فراست دی ہے ان کا جو فیصلہ ہے اگر وہ اپنی عقل کے مطابق درست ہے تو ان پر کوئی الزام نہیں اور اگر دینداری کے ساتھ انہوں نے ایسا فیصلہ کیا جو درست نہیں تو وہ زیر الزام نہیں.اس لئے کہ انہوں نے فیصلہ کرنے میں بددیانتی کا کوئی اندھیرا اپنے ذہن میں گھنے نہیں دیا پوری دیانتداری سے سوچ بچار کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا.خیر یہ تو ایک حد تک ماضی کا قصہ بن چکا.اب مستقبل کو سنوارنے کا سوال ہے.اور پہلی بات یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی حکومت کے ذمہ دار افسران اور وہاں کے مقامی شہری جن کی بہت بھاری اکثریت یقیناً شرفا کی ہے ان سے مل کر آپس میں تعاون کر کے احمدیوں کو ان کے گھروں میں بسانے کی کوشش کریں.یا اگر وہ اس قسم کی کوشش کر رہے ہیں تو ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان سے تعاون کریں اور توہمات کی دنیا سے نکل کر حقائق کی دنیا میں

Page 668

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۴۸ خطبہ جمعہ ۱۹ جولائی ۱۹۷۴ء داخل ہوں اور بنیادی حقیقت یہ ہے ، سب سے بڑی حقیقت یہ ہے اور جاننے والا جانتا ہے کہ یہی حقیقت ہے باقی سب چیزیں اس کی ذیل میں آتی ہیں.وہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر بھروسہ کرنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کے سوا کسی کی طرف مشرکانہ نظر نہیں اٹھانی چاہیے اور اسی پر توکل رکھنا چاہیے اور اسی کی رحمت پر بھروسہ کر کے ان احکام کو پورا کر دینا چاہیے جو اس نے ہمیں دیئے ہیں اور یہ سا یہ سلسلہ جونہ صرف دین کی بہبود کے لئے قائم ہوا ہے بلکہ دنیا اور دنیا داروں کی بہبود اور فلاح کے لئے بھی قائم کیا گیا ہے.اس کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے اگر کہیں سے مدد اور رحمت کی امید کی جاسکتی ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ کے دین کو تقویت پہنچانے کی خاطر تو ہمیں اپنے مکانوں میں جانا چاہیے لیکن دل میں وہم ہوتا ہے کہ پتہ نہیں وہاں جانا ٹھیک ہے یا نہیں یہ ایک احمدی کی سرشت کا مظاہرہ نہیں ہے یہ اس کی صفت نہیں.اس لئے اب یہ کام جب شروع ہو گیا تو اس کو وسعت دی جانی چاہیے اور ہمیں اس سلسلہ میں کوشش کرنی چاہیے.شروع ہو گیا سے میری یہ مراد ہے کہ ایک جگہ تو میرے علم میں ہے کہ وہاں شروع ہو گیا ہے.ممکن ہے کسی دوسری جگہ بھی ہوا ہو اور ابھی تک میرے علم میں یہ بات نہ آئی ہو کیونکہ پچھلے دو تین دن سے مجھے حالات کا اس طرح علم نہیں جس طرح یہاں رہتے ہوئے ہوتا ہے تو اس کے لئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہمیں کیا پتہ ہے یہاں جو دوست یا جو خاندان ضرورت کے مطابق آئے ہوئے ہیں وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کیسے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہاں کے حالات کیسے ہیں.ان کا یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے اور کسی شخص کا یہ حق نہیں کہ ان پر اعتراض کرے.لیکن جماعت کا فرض ہے کہ ان کے لئے ایسے سامان پیدا کرے کہ ان کو پتہ لگ جائے کہ ان کے حالات ابھی ایسے ہیں یا نہیں ہیں.انشاء اللہ ایک دن تو حالات سازگار ہوں ہی جائیں گے.لیکن ہم نے تو آج ہی کی بات کرنی ہے کہ آج کہاں کیا حالات ہیں؟ اس لئے صدر انجمن احمدیہ کو مختلف اضلاع کی کمیٹیاں بنادینی چاہئیں.جس میں اس ضلع کے ذمہ دار احمدی بھی ہوں اور جس میں صدر انجمن احمد یہ کے ذمہ دار افراد بھی ہوں اور وہ حالات کا جائزہ لیں اور اپنے اپنے اضلاع کے خاندانوں کو جو اس وقت یہاں آئے ہوئے ہیں ان کے حالات سامنے رکھ کر منصوبہ بنائیں کہ کس طرح حکومت وقت

Page 669

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۴۹ خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۷۴ء اور شرافت نفس پاکستانی شہری نے جو اچھے حالات پیدا کرنے شروع کر دیئے ہیں اس کے مطابق وہ اپنے گھروں میں واپس جائیں.اور اگر تھوڑی بہت وہاں کوئی تکلیف برداشت کرنی پڑے بھی تو اللہ کی خاطر اسے برداشت کریں.مثلاً بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں زبان سے اذکی دی جاتی ہے ان کو میں سمجھا یا کرتا ہوں کہ جب خدا نے تمہیں کہا کہ تمہیں آدمی ( تکلیف دہ بات ) سننی پڑے گی اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ( میں وعدہ “ اس لئے کہتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں بڑی بشارتیں ہیں ) خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوگا تا تمہیں روحانی ترقیات نصیب ہوں تو تمہارے دل میں کدورت کیوں پیدا ہو؟ یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ہے.آخر تھک جاتی ہے وہ زبان جو خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف بولتی ہے اور وہ زبان جو صداقت کے لئے اور حق کے لئے آواز بلند کر رہی ہوتی ہے وہ ہر حالت میں حق و صداقت کی آواز بلند کرتی رہتی ہے اور کبھی بھی تھکا نہیں کرتی.جیسے آدم سے لے کر آج تک نسل کے بعد نسل پیدا ہوتی رہی ہے جس کی زبانیں قول حق کہنے میں تھکی نہیں.اور نہ رکی ہیں.ٹھیک ہے آدمی سنو.دکھ وہ باتیں سنی پڑتی ہیں.یہ عارضی چیزیں ہیں لیکن تمہارے رب کی وہ پیاری آواز جو تمہارے کانوں میں پڑ رہی ہے وہ عارضی نہیں.اس نے یہ وعد کیا ہے کہ میرے دامن کو تم نہ چھوڑنا اور میری رحمت کا سایہ تمہیں دکھ اور سختی کی تپش میں نہیں رہنے دے گا اس کی رحمت کے بادل تم پر آئیں گے اور وہ تمہارے سکون اور اطمینانِ قلب کے سامان پیدا کرے گا.روحانی معنی میں اس رحمت کے بادل نے اُمت محمدیہ کے اربوں افراد کو جب انہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں وفادکھائی اور ثبات قدم دکھایا سکون اور طمانیت قلب کا سامان پیدا کیا.پہلے دن سے لے کر آج تک ہم یہ بھی دیکھتے چلے آئے ہیں.اور یہ بھی دیکھتے چلے آئے ہیں کہ دنیاوی لحاظ سے بھی مادی دنیا میں مادی بادلوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا مظاہرہ ہماری آنکھوں کے سامنے مادی شکل میں بھی کیا.ایک دفعہ اپنے ملک کے دفاع اور اس کی عزت کے قیام کے لئے احمدی رضا کار ایک محاذ پر ملک کا دفاع کر رہے تھے.اور وہاں ہر رات کو احمدی نوجوان No Man Land میں یعنی جو دشمن کی اور اپنی Lines جہاں انہوں نے اپنی خندقیں کھودی ہوئی تھیں ان کے درمیان کچھ فاصلہ ہوتا ہے اس میں وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اتر تے تھے

Page 670

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۱۹ جولائی ۱۹۷۴ء ان کو حکم تھا کہ اذان سے پہلے یعنی پو پھوٹنے سے قبل واپس آؤ.کیونکہ وہ وادی کافی لمبی چوڑی تھی کہیں آدھا میں کہیں ڈیڑھ میل ، بہر حال چونکہ جس وادی میں سے گذرتے ہوئے دشمن کی دُور بینیں دیکھیں گی تو ان کی تو ہیں چلنے لگ جائیں گی.اس واسطے حکم یہ تھا کہ بلا وجہ جان کو خطرے میں نہیں ڈالنا روشنی ہونے سے پہلے واپس آ جاؤ.ایک صبح ہوئی اور احمدی رضا کا روا پس نہ آسکے پو پھوٹی اور سورج نکل آیا.اور وہ واپس نہ پہنچے تو وہاں جو فوج کے جو مقرر کردہ نگران تھے (ان میں سے بعض احمدی بھی تھے ) انہوں نے کہا کہ دنیا کے حیلے جاتے رہے اب اللہ تعالیٰ کے در کو کھٹکھٹانا چاہیے.چنانچہ انہوں نے اس محاذ کے سب رضا کاروں کو دعا پر لگا دیا اور پھر جب روشنی زیادہ پھیلی تو ہمارے رضا کاروں نے دیکھا کہ رات کو چند نو جوان جوگشت کے لئے گئے ہیں وہ دشمن کی پہاڑی کے دامن میں ہیں اور ساری وادی انہوں نے عبور کر کے واپس آنا ہے.بڑا خطرہ تھا.خیر انسان تو دعا کر سکتا ہے مادی ذرائع میں قدرت متصرفہ ، جوٹل نہیں سکتی ، اس میں تو تبدیلی انسان نہیں کر سکتا یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے.تدبیر انسان کر سکتا ہے مگر ایسی تدبیر جس کی ناکامی کا کوئی امکان ہی نہ ہو یہ انسان نہیں کر سکتا.جب تک خدا تعالیٰ کا پیار بیچ میں شامل نہ ہو جائے انسان کے بس کی بات نہیں اور بہترین تدبیر دعا ہے پس وہ ساری جماعت دعا میں لگ گئی.ان میں پانچ سات سو آدمیوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ نظارہ دیکھا کہ مطلع بالکل صاف تھا اور بادل کی چھوٹی سی ٹکڑی بھی آسمان پر نظر نہیں آرہی تھی.کہ یکدم وادی میں ایک طرف سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا بادل کا نمودار ہوا جس کا سایہ شاید پانچ سات سو گز پر پڑتا ہو.تیزی سے ہوا آئی اور ہوا میں تیزی سے تیرتا ہوا بادل کا وہ ٹکڑا آیا اور عین ان کے سروں پر جب وہ ٹکڑا پہنچا تو ہوا بند ہو جانے کی وجہ سے وہاں رک گیا.اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اس مادی بادل کے سایے میں رضا کا راس وادی کو عبور کر کے اپنی (Lines) لائنز میں محفوظ جگہ پر آگئے اور جس وقت یہ رضا کار محفوظ جگہ پر پہنچ گئے اسی وقت ہوا پھر چلی اور بادل کے اس ٹکڑے کو اڑا کر ان لوگوں کی نظروں سے بھی اوجھل کر دیا اور وہ کہتے ہیں کہ پھر شام تک ہمیں بادل کا کوئی ٹکڑا آسمان پر نظر نہیں آیا.پس اللہ کی رحمت کے یہ نظارے بھی انسان دیکھتا ہے لیکن ان کے ساتھ خدا تعالیٰ کے اس پیار کی حیثیت دنیاوی

Page 671

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۵۱ خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۷۴ء نسبت سے تو ایسی ہے کہ اس کی قیمت کوئی نہیں چکا سکتا.یہ دنیا خدا تعالیٰ کے اس پیار کی قیمت کیونکر چکا سکتی ہے.لیکن جو روحانی لذت اور سرور اور پیار خدا تعالیٰ کے پیاروں کو ملتا ہے.اس دوسرے الہی پیار کی نسبت سے وہ پیار جو روحانی ہے وہ بہر حال اعلیٰ اور افضل ہے لیکن مادی لحاظ سے مادی دنیا میں بسنے والے انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے مادی جلو ے بھی دکھاتا ہے تو اس کی یہ رحمت تلاش کرو اور توہمات میں نہ پڑو اور جیسا کہ میں نے بتایا حکومت اور شرفائے ملک کے مشورے اور تعاون کے ساتھ یہ کوشش جہاں چھوٹے پیمانہ پر شروع ہوئی ہے بڑے پیمانہ پر شروع ہو جانی چاہیے تا کہ ایک طرف جو گھروں سے بے گھر ہو کر ایک تکلیف اور بے اطمینانی کی زندگی گذارنے والے خاندان ہیں وہ واپس اپنے گھروں میں جائیں اور سکون کی زندگی اللہ تعالیٰ ان کے مقدر میں رکھے اور دوسرے یہ کہ بہر حال حکومت کا جو فرض ہے جتنی جلدی وہ اس فرض کو بجالاتی ہے اتنا ہی وہ ہمارے ملک کے لئے بہتر ہے.پس اس میں حکومت کا بھی فائدہ ہے اور آپ کا بھی فائدہ ہے آپ کا فائدہ دنیوی بھی ہے اور دینی بھی ہے اور آپ اگر اس طرح کریں جو میں آپ کو بتا رہا ہوں تو آپ کو خدا تعالیٰ کے پیار کے مادی جلوے دیکھنے بھی نصیب ہوں گے اور روحانی لذتیں بھی آپ کے مقدر میں ہوں گی تو انشاء اللہ آہستہ آہستہ اس کا انتظام ہو جائے گا.پھر اپنے گھروں میں جائیں اور دلیری سے جائیں.دلیری کا مطلب یہ ہے کہ جو قانون شکنی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرتا ہے وہ دلیر ہوتا ہے کیونکہ جو بھی اسے تکلیف پہنچانے والا ہے اس کے عمل میں قانون شکنی کے ہر دو پہلو ہیں ایک یہ کہ وہ قانونِ وقت کو توڑنے والا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہے.ہم تو قانون کے پابند ہیں اور کئی دوست آکر یہ خیالی مثال دیتے ہیں کہ اگر کہیں دنیا میں قانون نہ رہے تو پھر ؟ اگر کے ساتھ ” نہ رہے اوّل تو آج کی دنیا میں ممکن نہیں آج سے پہلے تاریخ میں جو اندھیروں کے زمانے کہلاتے ہیں ان میں ایسے حالات تھے لیکن فرض کر وایسا ہو جاتا ہے کہ قانون نہ رہے اگر دنیا کا کوئی ایسا پسماندہ خطہ اور اس کرہ ارض کا اندھیروں میں مبتلا علاقہ بھی ہے اور وہاں کوئی قانون نہیں رہتا تو پھر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا نہ یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے کہ قانون کوئی نہیں تو ہم قانون کی پابندی کریں

Page 672

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۵۲ خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۷۴ء گے.یہ خیال تو غیر معقول ہے.بعض ایسی چیزیں ہیں جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا استفتِ قلبك تمہیں خدا نے فراست دی ہے تمہیں اسلامی نور نے نورانی زندگی عطا کی ہے اپنے ماحول میں دعائیں کرنے کے بعد اپنے فیصلے کر ولیکن میرے علم میں آج دنیا میں کوئی ایسا خطہ ا نہیں جس میں اچھا یا برا کوئی قانون نہ ہو تو جب ایسا علاقہ ہی کوئی نہیں تو پھر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس قانون کی پابندی دنیا کے ہر خطہ کے احمدی کے لئے لازمی ہے.میرا ایک تو مقام ہے جماعت ہائے احمدیہ پاکستان سے پیار رکھنے اور تعلق رکھنے کا ان کے لئے دعائیں کرنا.ان کی تکالیف دور کرنے کے لئے خود تکالیف برداشت کر لینا.ان کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے مطالعہ کرنا اور ساتھ دعائیں کرتے رہنا.مطالعہ کے نتیجہ میں بہت سی باتیں نکل آتی ہیں.پس ایک میری ذمہ داری ہے جماعت کے نقطۂ نگاہ سے.اس کا تعلق صرف پاکستان سے نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں بسنے والے احمدی سے ہے دنیا کے ہر خطہ میں احمدی موجود ہے اور دنیا کے ہر خطہ کے احمدی کے ساتھ میرا ایک زندہ تعلق ہے.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ زندہ تعلق کا کیا مطلب ہے؟ اگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا تو بحث کرنے کی ضرورت نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے ساتھ میرازندہ تعلق ہے اور بسا اوقات اگر دنیا کے پانچ پانچ ہزار میل پر کسی خطہ میں کسی احمدی کو کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو تو ظاہری مادی ذرائع کے علم کے بغیر میرے سینے میں تڑپ پیدا ہوتی ہے اور ان کے لئے میں دعائیں شروع کر دیتا ہوں.جو نظام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے یعنی علم غیب ، اس جس رنگ میں بھی وہ چاہے دے دیتا ہے.اس کا تعلق اسی سے ہے.اگر کسی کو یہ چیز سمجھ نہیں آتی تو وہ معذور ہے جو کسی کو چے سے واقف ہی نہیں وہ اس کوچے کے حسن کو کیسے جان سکتا ہے.بہر حال دماغ میں جو یہ اعتراض یا سوال آجاتا ہے اس کو میں مختصر احل کرنے کی کوشش کرتا ہوں.باقی جماعت بڑی صاحب فراست ہے اور یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ دنیا میں کوئی خطہ ایسا نہیں یہ بات میں نے اس لئے بتائی ہے کہ آپ یہ کہیں گے کہ دنیا کی باتیں ہم سے کر رہے ہیں اور سات ہزار میل کی دنیا اور نو ہزار میل کی دنیا کی باتیں ہم سے کر رہے ہیں اور ہمارے متعلق جو ہماری تکلیف ہے اس کے متعلق بات کریں

Page 673

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۵۳ خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۷۴ء باقی دنیا کو چھوڑ میں اسے تو میں نہیں چھوڑ سکتا.خدا تعالیٰ نے میرے دل اور میرے ذہن کا تعلق باہر کی دنیا کے ساتھ بھی باندھا ہوا ہے.جس کو یہ کہا گیا ہو کہ بطور نائب مہدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے.وہ ایک لحظہ کے لئے دنیا کے کسی خطہ کو بھول کسے سکتا ہے؟ اور بعض باتیں ایسی ہیں جن کا تعلق پاکستان سے بھی ہے.ان کا تعلق افریقہ سے بھی.یورپ سے بھی ہے انگلستان سے بھی ہے.شمالی اور جنوبی خطہ ہائے امریکہ سے بھی ، جزائر سے بھی ،آسٹریلیا، انڈونیشیا وغیرہ بہت بڑی آبادیاں ہیں.جو سینکڑوں شاہد ہزاروں جزائر پر پھیلی ہوئی ہیں.ان کے ساتھ بھی ہے وہ یہی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جہاں بھی قانون ہو (اور میں نے بتایا ہے کہ ہر جگہ قانون ہے ) جو بھی قانونِ وقت ہو اس قانون کی پابندی کرو اور اسی میں برکت ہے لیکن اس سے بڑھ کر ہم پر ذمہ داری ہے صرف اس کی پابندی نہیں کرنی بلکہ اسلام کے جو احکام ہیں سارے کے سارے ماننے ہیں.جب تک شریعت محمدیہ کے ہر حکم کا خیال رکھنے کے لئے ہمارے طبائع تیار نہیں اس وقت تک ہماری زندگیاں ( اس دنیا کی بھی اور دوسری دنیا کی بھی ) خطرے میں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم قیامت کے دن تم پر قاضی ہو گا یہ قرآن بطور قاضی تمہارے حق میں یہ فیصلہ دے کہ اے اس مخلوق کے ربّ تیرے حکموں پر عمل کرنے کی اس شخص نے اپنی طرف سے انتہائی کوشش کی ہے اور خلوص نیت کے ساتھ کی ہے اور قرآن عظیم کی اس سفارش پر خدائے حکیم اس شخص کے حق میں فیصلہ دے گا.اور آخری فیصلہ تو بہر حال اللہ تعالیٰ نے دینا ہے.اس شخص کے اعمال نے نہیں دینا.قرآنی سفارش بہر حال اس شخص کے اعمال کے مطابق ہوگی.لیکن جو آخری فیصلہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اپنی صفات کے مطابق ہو گا.پس ان احکامات کو سامنے رکھا کرو.دنیا میں ہم یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ وقت کب آئے گا.جب انسان انسان سے پیار کرنا اور اس کی بے لوث خدمت کرنے کا سبق سیکھے گا.اس دنیا میں جو ہمارا اعلان ہے وہ پاکستان میں غائب نہیں ہو جاتا ( احمدی مسلمان ) جو صحیح اسلام پر قائم ہوا پہلے دن سے آج تک اس کو یہی حکم ہے کہ پیار اور محبت کے ساتھ نوع انسانی کے دل اللہ اور اس کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 674

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۵۴ خطبہ جمعہ ۱۹ جولائی ۱۹۷۴ء لئے جیتو ! اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو تعلق ہے جو پیار اور محبت کے نتیجہ میں اور بے لوث خدمت کے نتیجہ میں پیدا ہوا اس کو قائم رکھنا اور اس میں زیادہ حسن پیدا کرنے کی کوشش بھی تو محبت اور پیار کے نتیجہ میں ہی ہو سکتی ہے.بہر حال شریعت محمدیہ کے مطابق اپنی زندگیاں گزار و اور ایک چھوٹا سا حکم یہ دیا گیا کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ اس لئے اپنے اس ملک کی خیر خواہی کے لئے جو کچھ بن آتا ہے وہ کرو.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے یہ ہمارا ملک ہے جس کے لئے لے ہم نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر بڑی قربانیاں دی ہیں اور اس ملک کو ایک نہایت حسین لہلہاتے ثمر آور باغ میں تبدیل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش جماعت احمدیہ اور اس کا ہر فرد کرے گا انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے گھروں میں آبادر کھے اور تمہارے گھروں میں وہ فضا پیدا کر دے جس کا ذکر اسلام میں جنت کے متعلق آیا ہے اور تمہارے گھر اس دنیا میں تمہارے لئے بھی اور تمہارے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے لئے بھی اور پاکستان کے ہر شریف الطبع شہری کے لئے بھی دنیوی جنتیں بن جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.سے ل از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ - سه روز نامہ الفضل ربوه ۱۳ اگست ۱۹۷۴ء صفحه ۳) 谢谢您

Page 675

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء ہمارے دیکھ خواہ کسی رنگ میں ہوں وہ ہماری مسکراہٹیں، مستر تیں اور بشاشتیں نہیں چھین سکتے خطبہ جمعہ فرموده ۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کل بعض دفعہ کام اکٹھے ہو جاتے ہیں اور آرام کا وقت جو خدائی قانون کے مطابق ضروری ہے وہ بھی نہیں ملتا.چنانچہ گذشتہ رات بھی میں نے ایک سیکنڈ کے لئے نیند نہیں لی.صبح کے وقت کچھ آرام کیا مگر اس سے بھی کوفت دُور نہیں ہوئی.اس سے پہلے ایک ضروری کام کے سلسلہ میں دس بارہ گھنٹے تک لگا تار بولنا پڑا.بہر حال جمعہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے ساتھ الہی سلسلہ کے ذمہ دار امام اور اس کے درخت وجود کی شاخوں کے درمیان ایک ملاپ کا ذریعہ بنایا ہے.اس لئے جہاں تک ممکن ہوتا ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ جمعہ میں آ جاؤں اور اپنی سمجھ اور عقل اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور رحمت سے جو ضروری باتیں ہیں وہ دوستوں کے سامنے رکھوں.اسی فلسفہ یا اصول کے مطابق میں اس وقت یہاں آ گیا ہوں اور جو آپ کو بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے ( اور جو پہلی دفعہ نہیں بتارہا) کہ ہماری خوشیاں اور مسرتیں اور ہماری مسکراہٹیں کسی ذاتی خوبی یا ذاتی وجاہت یا ذاتی اثر ورسوخ یا ذاتی دولت کے نتیجہ میں نہیں بلکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل نے مہدی معہود کی شناخت کی توفیق عطا فرمائی اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس

Page 676

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء عظیم روحانی فرزند کے طفیل ہمیں اسلام کا صحیح چہرہ نظر آیا.خدا تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں جو اسلام قائم کیا تھا مرور زمانہ کے ساتھ اس کے نقوش دُھندلے ہوتے رہے مگر زمانہ کی ہر صدی نے اسلام کی خاطر اللہ تعالیٰ کا یہ نشان دیکھا کہ ایسے بندے پیدا ہوتے رہے جوان دھندلے نقوش کو روشن کرتے رہے اور بدعات کو اسلام سے نکالتے رہے.غرض اسلام کے ساتھ شروع ہی سے یہ دونوں باتیں لگی ہوئی ہیں.اسی کو حضرت امام ابوحنیفہ نے اپنی رویاء میں دیکھا.انہوں نے رویاء میں یہ دیکھا کہ گویا انہوں نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کو کھولا اور آپ کے جسد اطہر کو باہر نکالا اور آپ کی بعض ہڈیوں کو پسند کیا اور بعض کو ناپسند کیا.جنہیں نا پسند کیا انہیں پرے پھینک دیا اور جن کو پسند کیا ان سب کو پھر اسی روضہ میں دفنا دیا.حضرت امام ابو حنیفہ ایک مخلص دل رکھتے تھے لیکن تعبیر الرؤیا اُن کی لائن نہ تھی.یہ اُن کا مضمون نہ تھا.اس لئے جب آنکھ کھلی تو سخت گھبرائے اور بڑے بے چین ہو گئے کہ میں نے کیا گناہ کیا.یہ تو میری ہلاکت کا سامان پیدا ہو رہا ہے.میں نے یہ کیا خواب دیکھ لیا.اتفاقاًان کے گاؤں میں ابن سیرین ( جو ہمارے بڑے مشہور معبر ہیں اُن ) کے ایک شاگرد رہتے تھے.حضرت امام ابو حنیفہ اُن کے پاس گئے اور بتایا کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے.میں تو ہلاک ہو رہا ہوں.انہوں نے کہا گھبرانے کی کوئی بات نہیں اس کی تعبیر یہ ہے کہ سنت نبوی میں جو بدعات شامل ہو گئی ہیں اللہ تعالیٰ تمہیں اُن کو باہر نکال پھینکنے کی توفیق عطا فر مائے گا اور خالص سنت نبوی کو اُمت مسلمہ میں رائج کرنے کی تمہیں توفیق ملے گی.اس سے جہاں ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کشوف ورڈ یا پر اُمت مسلمہ اعتراض نہیں کرتی آئی تعبیر کرتی آئی ہے، وہاں یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ اسلامی عقائد میں بدعات کی ملونی ہوتی رہی تو ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا نظام قائم کر دیا کہ خدا تعالیٰ کے پاک اور مقدس رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام پیدا ہوتے رہے جن کے ذریعہ بدعات کو علیحدہ کر دیا جاتا تھا اور خالص سنتِ نبوی ، اسلام کے روشن اور صحیح نقوش امت محمدیہ میں جاری رکھے جاتے تھے.ہمارے اس زمانہ کے متعلق بڑی پیشگوئیاں تھیں.اسے ضلالت کا زمانہ کہا گیا تھا.

Page 677

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء مہدی معہود کا یہی وہ زمانہ ہے جس میں شیطانی ظلمات کے ساتھ آخری اور شدید جنگ لڑی جائے گی.بدعات کی بھر مار ہو جائے گی.اسلام کو بدعات سے پاک کرنے کا کام مہدی معہود کے سپر د ہوگا.وہ اللہ تعالیٰ سے جو معلم حقیقی ہے، اس سے قرآن کریم کی تفسیر سیکھ کر اور سنت نبوی کے حالات معلوم کر کے دنیا میں قرآن کی تعلیم کو رائج کرے گا اور سنت رسول کی طرف نوع انسانی کو بلائے گا.صرف یہ خبر نہیں دی گئی تھی کہ وہ ایسا کرے گا بلکہ اس خبر کے ساتھ یہ بشارت بھی دی گئی تھی کہ وہ اپنی اس مہم میں اور اس جہاد میں کامیاب بھی ہوگا اور اللہ تعالیٰ اسے ایسے نیک بندوں کی جماعت عطا کرے گا جو خدا کی راہ میں قربانیاں دیں گے.اللہ تعالیٰ کی توحید کے قیام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دلوں میں گاڑنے کے لئے اور اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے لئے وہ اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے.اللہ تعالیٰ ان کو انفرادی طور پر بھی انعامات دے گا لیکن ایسے شخص کا جو اصل انعام ہے وہ تو یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے اسلام کا غلبہ دیکھ لے.اُسے یہ انعام بھی ملے گا.پس ہمارے دُکھ خواہ کسی رنگ میں ہوں، وہ ہماری مسکراہٹیں اور ہماری مسرتیں اور ہماری بشاشتیں ہم سے نہیں چھین سکتے.قضاء و قدر آتی ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں آتی ہیں اور ابتلا آتے ہیں تو بسا اوقات سوکھی ٹہنیاں کاٹ دی جاتی ہیں مگر جن درختوں کی ٹہنیاں ہری ہوتی ہیں ان پر ایک نیا حسن اور ایک نیا جو بن نظر آتا ہے.جو لوگ درختوں کو غور سے دیکھنے والے ہیں کیا وہ دیکھتے نہیں کہ کس طرح آندھیاں درختوں کے نیچے سوکھی ہوئی ٹہنیاں بھی چھوڑ جاتی ہیں اور پھر جب بارشیں ہوتی ہیں تو درختوں کا بالکل رنگ ہی بدل جاتا ہے.درختوں کا جو رنگ ٹو کے زمانہ میں ہوتا ہے کیا تم نے برسات کے زمانہ میں کبھی وہ رنگ دیکھا ہے؟ دراصل لو کا زمانہ اور آندھیوں کا زمانہ سُوکھی ٹہنیوں کے گرانے کا زمانہ ہے اور برسات کا زمانہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نتیجہ میں درختوں میں ایک نیا حسن اور ایک نیا جوبن پیدا کرنے کا زمانہ ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت ہے جسے ہم ہر سال مشاہدہ کرتے ہیں درخت ایک ایسی چیز ہے جس میں روح نہیں ہوتی مگر ٹو کے زمانہ میں ، طوفان کے زمانہ میں جب سوکھی ٹہنیاں ٹوٹ گئی ہوتی ہیں اس وقت بھی

Page 678

خطبات ناصر جلد پنجم ܬܪ خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء اس میں ایک حُسن اور خوبصورتی باقی رہتی ہے.گو برسات کی جو خوبصورتی اور حسن ہے وہ مقابلہ زیادہ ہے لیکن یہ تو نہیں ہوتا کہ وہ درخت ٹنڈ منڈ ہو جاتا ہے.طوفان اور خشکی کے زمانہ میں بھی پہلے پتوں میں جان ہوتی ہے.اس کے اندر ایک روح ہوتی ہے.اس میں اس وقت بھی جب اُسے تھوڑا سا موقع ملے تو وہ نئے پتے نکالتا ہے اس کے اوپر نیا سبزہ آتا ہے.ٹھیک ہے پھر طوفان جب درخت کی خشک ٹہنیاں تو ڑ کر نیچے پھینک دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بادل اس پر اپنی بارش برساتے ہیں تو اس کا رنگ بدل جاتا ہے.پس ہماری جو خوشیاں اور بشاشتیں ہیں وہ اس لئے نہیں تھیں کہ ہم اپنی ماں کے پیٹ سے کچھ خوبیاں لے کر پیدا ہوئے تھے بلکہ ہماری مسکراہٹیں اس بات کی مرہون منت تھیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ تم خوش ہو جاؤ کہ اسلام کے غلبہ کے دن آگئے.اسلام کے بہار کے دن آگئے.اسلام پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے بادلوں کے برسنے کے دن آگئے.چنانچہ اب وہ زمانہ آ گیا جب ساری دنیا پر اسلام غالب ہو گا مگر ان لوگوں کو جو خود کو مہدی معہود کی طرف منسوب کرتے ہیں اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے لئے انہیں قربانیاں دینی پڑیں گی اس مادی دنیا میں آسمانوں سے فرشتے نازل ہو کر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت نہیں کیا کرتے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا بزرگ وجود جس کا ثانی نہ دنیا میں کبھی پیدا ہوا اور نہ ہوگا اُن سے بھی جب کفار مکہ نے کہا کہ اے محمد ! اگر تم سچے ہو تو تمہاری مدد کے لئے آسمان سے فرشتے نازل کیوں نہیں ہوتے؟ آپ نے فرمایا فرشتے نازل تو ہوں گے لیکن اُنہیں تمہاری آنکھ نہیں دیکھ سکے گی.تمہاری آنکھ تو صرف ان مادی ، ٹوٹی ہوئی ہلتی اور بالکل بے بھروسہ تلواروں کو دیکھے گی لیکن تمہاری آنکھ جو نتیجہ دیکھے گی اُس کے لئے تمہیں ماننا پڑے گا کہ وہ فرشتوں کے دخل کے بغیر ممکن نہ تھا.پس ہم اپنی قضاء وقدر کے ابتلا کے نتیجہ میں یا مصیبتوں کے اوقات میں مایوس کیسے ہو سکتے ہیں.کیا ہم نے اپنے زور سے یا اپنی طاقت سے اسلام کو غالب کرنا تھا یا اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ میں اس زمانہ میں ایسا کروں گا.پس گو وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ہے لیکن وہ ہم سے

Page 679

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء قربانیاں ضرور لے گا کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس وقت تک اُس کی یہی سنت چلی آ رہی ہے.اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں جو انبیاء آئے ہیں وہ گنے تو کسی نے نہیں تعداد میں فرق ہے لیکن کہتے ہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے ہیں.تم کوئی ایک پیغمبر بتاؤ جس کے زمانہ میں اس کے ماننے والوں نے قربانی نہ دی ہو.گالیاں نہ کھائی ہوں مصیبتیں نہ جھیلی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کو نہ بھیجا ہو اور اُن کو کامیاب نہ کیا ہو.ہر ایک نبی کے ماننے والوں نے اپنے حالات کے مطابق اپنے کام کے مطابق اور اپنے کام کی وسعت کے مطابق قربانی دی ہے.جو نبی ایک چھوٹے سے شہر میں آیا اس کے لئے چند آدمیوں نے قربانی دی.جو نبی ایک خاص علاقے کے لئے آیا اس علاقے نے اس کے لئے قربانیاں دیں.جو نبی ایک خاص قوم کی اصلاح کے لئے آیا.اُس قوم نے اس کے لئے قربانیاں دیں بغیر قربانیاں دیئے اُن کو خدا تعالیٰ کی نعمتیں اور رحمتیں نہیں ملیں مگر وہ رَحْمَةُ لِلعلمین ہو کر نوع انسانی کی طرف آیا، نوع انسانی اس کے لئے اس وقت تک قربانیاں دیتی چلی آرہی ہے اس لئے تمہیں بھی قربانیاں دینی پڑیں گی اور مجھے بھی قربانیاں دینی پڑیں گی اور بشاشت کے ساتھ ہنستے کھیلتے ہوئے قربانیاں دینی پڑیں گی.ہم نے اسلامی تاریخ میں یہ کہیں نہیں پڑھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مصیبت کے دنوں میں رویا کرتے تھے اور نہ ہی ہماری تاریخ نے یہ ریکارڈ کیا ہے کہ جس وقت اندرونی حملوں کی وجہ سے حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام مالک جیسے بزرگ انفرادی طور پر بڑے سخت ابتلا اور امتحان میں ڈالے گئے تو اس وقت اُن کے چہرے پژمردہ ہو گئے ہوں.جو شخص ایک بار اللہ تعالیٰ کے حسن کو دیکھ لیتا ہے وہ تو اس میں مست ہو جاتا ہے.زمانہ کی تکلیفوں کی وجہ سے اس کے چہرے پر پژمردگی کے آثار نمودار نہیں ہوا کرتے.چنانچہ اب بھی ایسا ہی ہوا.میں نے ایک جگہ دو بچے بھجوائے تھے.راستے میں سات میل تک لوگ ان کو مارتے چلے گئے اور ہنتے چلے گئے.ان میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ جب ہم اُن کے مکے اور چپیڑیں کھا کر بھی مسکراتے تھے تو اُن کو اور غصہ چڑھتا تھا کہ پتہ نہیں یہ کیا قوم ہے.ہم یہی قوم ہیں.ہم خدا کی راہ میں تکلیفیں بھی اُٹھا ئیں گے اور دنیا ہمیں مسکراتے ہوئے اور قہقہے لگاتے ہوئے بھی دیکھے گی.جس

Page 680

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء وقت ہم پر زیادہ مصائب نازل ہوں گے اُس وقت زیادہ قہقہے لگیں گے کیونکہ ہماری خوشی اور مسرت کا منبع وہ بشارتیں ہیں جن کا ہماری ذات سے تعلق نہیں ہے.ان کا تعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت کو نوع انسانی کے دل میں بٹھانے سے ہے اور اس میں کا میاب ہونے سے ہے.اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:.اس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہورہی ہے.اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بے دل نہیں ہونا چاہیے کہ اب کیا کریں.یقیناً سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے.یہ پیشگوئی یا درکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا.حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زورآور حملے کر یں.کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کار اُن کے لئے ہزیمت ہے.میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلی طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کر دے گا.اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہور ہے ہیں.اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں.یہ اقبال روحانی ہے اور فتح بھی روحانی.تا باطل علم کی مخالفانہ طاقتوں کو اس کی الہی طاقت ایسا ضعیف کرے کہ کا لعدم کر دیوے.پس چونکہ ہمیں اس قسم کی بہت سی بشارتیں دی گئی ہیں اس لئے ہم خوش ہیں اور خدا تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے اور اس کے وعدے پورے ہوتے ہیں لیکن جو مقام خوف ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا وعدہ فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ نے 166

Page 681

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۶۱ خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء جماعت احمدیہ کے ذریعہ نوع انسانی کے دل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کامیابی کے ساتھ جیت لینے کا وعدہ دیا ہے لیکن یہ وعدہ مجھے اور آپ کو نہیں دیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا وعدہ پورا ہوگا لیکن اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبا ہو گے تو میں ایک اور قوم لے آؤں گا.ایک اور نسل پیدا ہوگی جو قربانیاں دینے والی اور ذمہ داریوں کو نباہنے والی ہوگی اور اس کے وجود میں میری بشارتیں پوری ہوں گی اور وہی قوم یا نسل اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کرنے والی ہوگی.اس لئے تم دعائیں کرو اور بہت دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ نے جن عظیم رحمتوں اور فضلوں کا وعدہ فرمایا ہے وہ ہم پر نازل ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان رحمتوں اور فضلوں کی عظمت کو یہ کہہ کر بیان فرمایا ہے ะ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا صحابہ رضوان اللہ علیہم کی زندگیوں کو دیکھو وہ کون سی نعمت تھی جو اُن کو نہیں ملی تھی اور وہ کون سی رحمت تھی جو اُن پر نازل نہیں ہوئی تھی اور وہ کون سافضل تھا جو اُن کے شامل حال نہ ہوا تھا.جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کا وعدہ ہے.مگر یہ صحابہ کی طرح قربانیاں دینے کے بعد ہی پورا ہوگا، پہلے نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 682

Page 683

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۶۳ خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۷۴ء انسان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی پیروی کرے خطبه جمعه فرموده ۲ را گست ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورہ فاتحہ کی یہ آیات تلاوت فرمائیں :.ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - (الفاتحة : ۶،۵) پھر حضور انور نے فرمایا:.سورۂ فاتحہ میں ایک حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ انسان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی پیروی کرے اور بندہ اپنے رب کا عبد اُسی وقت بنتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اُس پر چڑھ جائے اور اُس کے رنگ میں وہ رنگین ہو جائے اور چونکہ انسان اپنی طاقت یا اپنے کسی حیلہ یا تدبیر کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں خود کو رنگین نہیں کر سکتا اس لئے سورۃ فاتحہ میں ہمیں یہ دعا سکھلائی.اِيَّاكَ نَعْبُدُ اِس میں دعا کا پہلو ہے اور اس میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی ، جو تمام عیوب اور نقائص سے منزہ ہے اور تمام صفات حسنہ کا جامع ہے، اُس کی صفات کی معرفت حاصل کرو گے تو اس کی عظمت اور جلال تم پر ظاہر ہو گا اور جب اُس کی عظمت اور جلال اور اُس کی صفات کی عظمت اور جلال کا عرفان تمہیں

Page 684

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۶۴ خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۷۴ء حاصل ہو گا تو صرف اُس صورت میں ہی تم اُس کی صفات کی پیروی کر سکتے ہو اور اُس کی عظمت اور جلال کا جلوہ انسان کو یہ سبق دیتا ہے کہ وہ فی ذاتہ کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں رکھتا اور ریا کاری جو تمام نیکیوں کو کھا جانے والا گناہ ہے اُس سے انسان اُس عظمت کے جلوہ کے نتیجہ میں محفوظ ہو جاتا ہے اور اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے پر چڑھانے کی کوشش کرتا ہے.دوسری بدی جو اس سعادت عظمیٰ سے انسان کو محروم رکھتی ہے اور وہ بہت بڑی بدی ہے بلکہ تمام بدیوں کی بسا اوقات وہی جڑ اور موجب بن جاتی ہے.وہ بدی تکبر کی بدی ہے.انسان یہ سمجھتا ہے کہ مجھ میں وہ طاقت، وہ قوت وہ استعداد ہے کہ میں اپنی قوتوں اور طاقتوں اور استعدادوں کے نتیجہ میں کچھ بن سکتا ہوں لیکن اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا تکبر کی جڑ کو کاٹنے والی ہے اس طرح پر کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا ہمیں اُن نعمتوں اور اُن احسانوں کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے ہم پر کئے.اس کی رحمانیت کے جلوے جو بغیر استحقاق کے زی ارواح پر نازل ہوتے ہیں اُن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ جب تک وہ نعمتیں ہمارے کسی عمل کے بغیر ہمیں حاصل نہ ہوتیں ہم کسی قسم کی ذاتی کوشش اور جدو جہد کرنے کے قابل ہی نہیں تھے.مثلاً رحمانیت نے انسان کے لئے روشنی اور اندھیرے کا انتظام کیا ہے.ایک نظام بنایا ہے اس دنیا میں جہاں انسان کی قوتیں اپنی جدو جہد میں مصروف ہوتی ہیں اور جہاں ہماری قوتیں تھک کر رات کے اندھیروں میں سکون کی تلاش کرتی ہیں اور کوفت کو دور کر کے وہ آرام کی حالت اپنی طاقت کو از سر نو زیادہ سے زیادہ کوشش کے لئے تیار کر دیتی ہے.بادلوں کا برسنا، زمین کی یہ ساری قوتیں جو ہماری جسمانی غذا کا سامان پیدا کرتی ہیں اور ہماری بیماریوں کے علاج کے لئے مختلف جڑی بوٹیاں پیدا کرتی ہیں.یہ چیزیں انسان کی پیدائش سے پہلے یہاں تھیں.کوئی احمق کھڑا ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ میں نے نیکیاں کیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورج بنایا اور آسمان بنایا اور یہ پانی بنایا اور یہ زمین بنائی تم تو تھے ہی نہیں جب یہ سب کچھ بنایا گیا.اس لئے ايَّاكَ نَستَعین کی دعا اور یہ دعائیہ فقرہ ہمیں یہ دعا سکھلانے والا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے یہ

Page 685

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ٫۲اگست ۱۹۷۴ء رحمانیت کے مقابلہ پر رکھا گیا ہے اور رحمانیت کے جلوؤں کا احساس اور اُن کا عرفان اور اُن کی معرفت انسان کو اس حقیقت سے آشنا کرتی ہے کہ وہ خود اپنی کوشش اور اپنی جد و جہد سے کچھ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ جن چیزوں پر اُس کی کوشش کی بنیاد ہے وہ اُس کی پیدائش سے بھی پہلے پیدا کر دی گئی تھیں.پس جو نعمتیں اُس کی پیدائش سے بھی پہلے پیدا کر دی گئیں اور جن کے بغیر اس کی کوئی کوشش ممکن ہی نہیں.جب یہ معرفت انسان کو حاصل ہو جاتی ہے تو پھر اُس کے اندر تکبر کا کوئی سوراخ باقی نہیں رہتا جو اُس کے وجود کے اندر، جو اُس کی شخصیت کے اندر داخل ہو اور اُس کی تمام نیکیوں کو اور تمام نیکی کی کوششوں کو جڑ سے اکھیڑ دے.پس ايَّاكَ نَعْبُدُ ریا سے انسان کو بچاتا ہے اور ايَّاكَ نَسْتَعِينُ تکبر سے انسان کو بچاتا ہے لیکن تیسری چیز جو کہ انسان کی روحانی رفعتوں کے لئے ضروری وہ اس معرفت کے علاوہ ایک اور چیز ہے.ہمیں یہ معرفت حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور کوئی نقص اور کمی اُس میں نہیں ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیم میں یہ بتایا ہے خصوصاً سورہ فاتحہ میں اس پر روشنی ڈالی کہ انسان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی پیروی کرے اور تَخَلُقُ بِأَخْلَاقِ اللهِ ہو اور اُس کے رنگ میں وہ رنگین ہونے کی کوشش کرے اور اس عرفان کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں جو انسان کو یہ بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں اُس کے پاس کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو انسان شو (show) کر سکے اور جس پر بنیادرکھ کر ریا کاری کر سکے.پھر اللہ تعالیٰ نے اُس پر اپنی رحمانیت کے جلوے ظاہر کئے اور رحمانیت کے جلوؤں نے اُس کو یہ بتایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار، بے حد و حساب ایسی نعمتیں ملی ہیں جن میں تیرے عمل کا کوئی دخل نہیں ہے.تیری پیدائش سے بھی پہلے وہ نعمتیں تیرے لئے پیدا کر دی گئیں اور یہ اس لئے کیا گیا تھا کہ ان کے بغیر تیری قوتیں اور تیری استعداد میں جو خود خدا داد ہیں وہ اپنا کام نہیں کر سکتی تھیں تو تیری ہر حرکت خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کی محتاج ہے.تو تکبر کس بات پر؟ انسان ایک انگلی نہیں ہلا سکتا اگر رحمانیت کا جلوہ اس سے قبل نہ ہو.اللہ تعالیٰ یہی ظاہر کرنے کے

Page 686

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۶۶ خطبه جمعه ۲/اگست ۱۹۷۴ء لئے بہت سے بچوں کو پیدائش کے وقت اپنی رحمانیت کے جلوؤں سے محروم کر دیتا ہے.بعض دفعہ بڑا تندرست ، بڑا خوبصورت بچہ پیدا ہوتا ہے اور ہوا جو رحمانیت کا جلوہ ہے جو انسان کی پیدائش سے پہلے اُس کے لئے بنائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ اُس کو کہتا ہے کہ تو اس پر وہ اثر نہ کر جو عام انسانوں پر تو کرتی ہے.وہ سانس نہیں لے سکتا.ہمارے ہی گھر میں ، میری بڑی بیٹی کے ہاں پہلا بچہ جب پیدا ہوا تو اُس نے سانس نہیں لیا اور اتنا خوبصورت اور اتنا تندرست اور خوب موٹا تازہ بچہ میں نے اپنی ساری عمر میں کبھی نہیں دیکھا.خدا کی شان تھی کہ عین اُس وقت جب وہ اپنی ماں کے پیٹ سے اس دنیا میں آیا تو رحمانیت کے جلوے اُس بچے کے لئے بند کر دیئے گئے اور یہ میری اُس بچی کو اور دوسری کو سبق دینے کے لئے ہوا کہ جب تک تمہارے عمل سے پہلے کی نعمتیں نہ ملیں اُس وقت تک تمہارا اپنا کام شروع ہی نہیں ہوسکتا.سانس ہم اپنی ماں کے پیٹ سے تو لے کر نہیں آتے.پھر پانی ہے.غذا ئیں ہیں.آب و ہوا ہے.گرمی اور سردی کا ایک متوازن نظام ہے جسے زمین میں مختلف شکلوں میں خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.اس کی تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جا سکتا وہ بڑی عجیب مختلف مؤثرات اور تاثیریں ہیں جن کے نتیجہ میں انسان کے جسم اور اس کے اخلاق بنتے ہیں.بہر حال اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا کو ٹھیک طرح سمجھ لینا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا یہ چیز تکبر کو بالکل مٹا دیتی ہے کیونکہ انسان کو پتہ ہے کہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا.کسی میدان میں بھی میری کوئی حرکت آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک اس حرکت سے پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے موجود نہ ہوں لیکن خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال بھی ہو اور رحمانیت کی صفت کو بھی انسان پہچانے تو پھر بھی خود اپنے لئے اپنی کوشش سے راہِ راست اور صراط مستقیم تلاش نہیں کرسکتا.اس میں بھی اُسے خدا تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے.جس کے بغیر وہ راہ راست پر چل نہیں سکتا.راستہ پر تو وہ چلنا شروع کر دے گا لیکن وہ صرف ”صراط ہوگا صراط مستقیم نہیں ہوگا.راستہ پر اس لئے چلے گا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے اس پر ظاہر ہوئے اور صفت رحمانیت کے جلوے ظاہر ہوئے.

Page 687

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۶۷ خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۷۴ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کا تعلق رحیمیت سے ہے اور نیکوں کی کوششوں کو نقص سے پاک کرنا اور اچھے نتائج نکالنا یہ رحیمیت کا کام ہے.انسان خواہ کتنا ہی جہاد خدا کی راہ میں کر رہا ہواور محاسبہ نفس کر رہا ہو اس کے اعمال میں تھوڑا یا بہت نقص رہ جاتا ہے اور عام قانون یہ ہے کہ تھوڑا یا بہت نقص رہ جائے تو انسان منزلِ مقصود تک پہنچ نہیں سکتا مثلاً ایک موٹی مثال میں اس وقت دیتا ہوں جسے بچے بھی سمجھ جائیں گے کہ ایک شخص نے سو قدم چل کر وہاں پہنچنا ہے جہاں اُس کا مقصوداُ سے حاصل ہوسکتا ہے.اگر وہ نانوے قدم چلے اور سواں قدم نہ چلے تو وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا.تو صرف ایک قدم کی کمی ہے ننانوے قدم اُس نے اُٹھائے ہیں لیکن ایک قدم نہیں اُٹھا سکا اس لئے وہ اپنے مقصود کو نہیں پاسکتا.پس ہر انسان کی کوشش اور عمل صالح میں کوئی نہ کوئی کمی اور غفلت رہ جاتی ہے.اس وقت رحیمیت آتی ہے اور انسان کی انگلی پکڑتی ہے اور کہتی ہے جو قدم تو نے نہیں اُٹھایا وہ میں تمہیں اُٹھا دیتا ہوں اور اُس کے عملِ صالح کی کفیل ہو جاتی ہے.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں یہی دعا سکھائی ہے کہ وہ سیدھا راستہ ہمیں دکھا جو منزل مقصود تک پہنچانے والا ہو.جس کا مطلب ہے کہ سارے قدم اور ساری کوششیں انتہا تک پہنچانے والی ہمیں نصیب ہوں.اس کے بغیر تو کوئی دو قدم سیدھا چل کر ، کوئی ہیں قدم سیدھا چل کر ، شاید کوئی ننانوے قدم سیدھا چل کر بھی اپنے عمل کے نتیجہ سے محروم ہو جاتا ہے پس یہاں بتائی گئی تین دعاؤں کے نتیجہ میں انسان کو ایک طرف ان تمام نقائص اور کمزوریوں سے محفوظ رکھنے کا سامان پیدا کیا گیا جو اس کی کوششوں کو بے نتیجہ اور بغیر شمر کے بنا دیتی ہیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی انگلی پکڑ کر انتہائی کامیابی تک پہنچانے کے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں سامان پیدا کر دیئے.یہ مضمون بیان کرنے کے بعد آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کچھ تفصیلی اور فروعی ذمہ داریوں کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے.وہ چند ہدایات میں پڑھ دیتا ہوں.یہ ان باتوں کا ایک قسم کا خلاصہ ہے جو باتیں میں نے بیان کی ہیں.

Page 688

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۶۸ خطبه جمعه ۲/اگست ۱۹۷۴ء ( ترجمہ ) اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کسی بندہ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اُس وحده لا شریک سے توفیق پانے کے بغیر عبادت کا حق ادا کرے اور عبادت کی فروع میں یہ بھی ہے (میں نے بتایا تھا کہ آپ نے یہاں عبادت کی فروع بتائی ہیں ) کہ تم اُس شخص سے بھی جو تم سے دشمنی رکھتا ہوا ایسی ہی محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے اور اپنے بیٹوں سے کرتے ہو اور یہ کہ تم دوسروں کی لغزشوں سے درگذر کرنے والے اور ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنے والے بنو اور نیک دل اور پاک نفس ہوکر پرہیز گاروں والی صاف اور پاکیزہ زندگی گزارو اور تم بُری عادتوں سے پاک ہوکر باوفا اور باصفا زندگی بسر کر واور یہ کہ خلق اللہ کے لئے بلا تکلف اور تصنع بعض نباتات کی مانند نفع رساں وجود بن جاؤ اور یہ کہ تم اپنے کبر سے اپنے کسی چھوٹے بھائی کو دُکھ نہ دو اور نہ کسی بات سے اس (کے دل ) کو زخمی کرو بلکہ تم پر واجب ہے کہ اپنے ناراض بھائی کو خاکساری سے جواب دو اور اسے مخاطب کرنے میں اس کی تحقیر نہ کرو اور مرنے سے پہلے مر جاؤ اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر لو اور جو کوئی ( ملنے کے لئے ) تمہارے پاس آئے اس کی عزت کرو خواہ وہ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں ہو نہ کہ نئے جوڑوں اور عمدہ لباس میں اور تم ہر شخص کو السلام علیکم کہو خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہواور ( لوگوں کی ) غم خواری کے لئے ہر دم تیار کھڑے رہو.“ پس میں نے مختصر آ ہی تین اصولی باتیں بیان کی تھیں.ایک یہ کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر آن یہ کوشش کرتے رہیں کہ تَخَلُّق بِأَخْلَاقِ اللہ کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ سے ہمارا وجود رنگین ہو اور ریا کاری ہماری زندگی میں داخل نہ ہو.دوسرے یہ کہ ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اُن رحمانیت کے جلوؤں سے ہمیں نوازے جن کی ہمیں ذاتی جدو جہد کے لئے ضرورت ہے.تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تو فیق عطا کرے کہ ہم اُسی کی عطا کردہ قوتوں اور استعدادوں کو اُس کے قرب اور اُس کی رضا کے حصول پر لگا ئیں تو وہ خود ہماری رہنمائی کرے اور ہمیں صراط مستقیم دکھائے اور اُس پر چلنے کی اور انتہا تک پہنچنے کی تو فیق عطا

Page 689

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۶۹ خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۷۴ء فرمائے اور اُس کی فروع وہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چند سطروں میں آئیں ہیں اور میں نے بیان کی ہیں.پس دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نیک بندے بنائے اور وہ تمام نعمتیں ہمیں حاصل ہوں جو اُس کے نیک بندوں کے لئے مقدر ہیں.( آخر میں حضور نے اپنی صحت کے متعلق دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا) گرمی بہت بڑھ گئی ہے اور وہ مجھے بیمار کر دیتی ہے.اس کا مجھ پر اثر ہے.اللہ تعالیٰ فضل کرے آپ بھی دعا سے میری مدد کریں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 690

Page 691

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۷۱ خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۷۴ء ابتلا کے زمانہ اور سخت گھڑیوں میں اللہ تعالیٰ کے پیار کا اظہار خطبه جمعه فرموده ۱۶ راگست ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ ابتلاؤں کا زمانہ ، دعاؤں کا زمانہ ہے اور سخت گھڑیوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت اور پیار کے اظہار کا لطف آتا ہے.ہماری بڑی نسل کو بھی اور ہماری نوجوان نسل اور اطفال کو بھی ، مردوزن ہر دو کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی کے ذریعہ غلبہ اسلام کا جو منصوبہ بنایا ہے اُسے دنیا کی کوئی طاقت نا کام نہیں کر سکتی.اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے منصوبوں کو زمینی تدبیریں نا کام نہیں کیا کرتیں.پس غلبہ اسلام کا یہ منصوبہ تو انشاء اللہ پورا ہوکر رہے گا.جیسا کہ کہا گیا ہے اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا اور جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے نوع انسانی کے دل جماعت احمدیہ کی حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فتح کئے جائیں گے اور نوع انسانی کو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں رب کریم کے قدموں میں جمع کر دیا جائے گا.یہ بشارتیں اور یہ خوشخبریاں تو انشاء اللہ پوری ہو کر رہیں گی.ایک ذرہ بھر بھی ان میں شک نہیں البتہ جس چیز میں شک کیا جاسکتا ہے اور جس کے نتیجہ میں ڈر پیدا ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جو ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے اس کمزور جماعت کے

Page 692

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۷۲ خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۷۴ء کندھوں پر ڈالی ہیں اپنی بساط کے مطابق وہ ذمہ داریاں ادا کی جارہی ہیں یا نہیں؟ پس جماعت اپنے کام میں لگی رہے یعنی تدبیر کے ساتھ اور دُعاؤں کے ساتھ غلبہ اسلام کے جہاد میں خود کو مصروف رکھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیتی چلی جائے.وہ خدا جو ساری قدرتوں کا مالک اور جو اپنے امر پر غالب ہے.اُس نے جو کہا ہے وہ ضرور پورا ہوگا.خدا کرے کہ ہماری زندگیوں میں ہماری کوششوں کو مقبولیت حاصل ہو اور غلبہ اسلام کے وعدے پورے ہوں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.اس زمانہ میں بالخصوص ان ایام میں دُعاؤں پر بہت زور دینا چاہیے.میں نے اجتماعی دعا کی ایک تحریک کی تھی لیکن مختلف اطراف سے ملنے والی خبروں سے پتہ لگا ہے کہ بعض جگہ وہ ایک خشک بدعت کا رنگ اختیار کر گئی ہے.اس لئے میں آج سے اس طریق کو بند کرتا ہوں.اب نماز مغرب اور فجر کے بعد اجتماعی دُعا ئیں نہیں ہوں گی.مسجد مبارک میں تو میں نے مغرب کی نماز کے بعد ہدایت کر دی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات وہیں تک محدود رہی.دراصل اس قسم کی اجتماعی دعا سے قبل حالات پر روشنی ڈالنی چاہیے.حالات کی نزاکت سے احباب جماعت کو آگاہ کرنا چاہیے اور وہ بشارتیں بھی بتانی چاہئیں جو جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کے لئے دی گئی ہیں.اس کے بعد اجتماعی دعا ہونی چاہیے.سلام پھیر کر یہ کہہ دینا کہ آؤ دعا کر لیں یہ تو خشک دعا ہے اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے.بہتوں کو تو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ دعا کس رنگ میں کرنی چاہیے.یہ سمجھ بوجھ رکھنے والوں کا کام ہے کہ وہ دوسروں کو بتائیں کہ اس طرح دعا کرنی چاہیے لیکن چونکہ دوستوں کو اس کا طریق نہیں بتایا گیا اس لئے میں اسے بند کرتا ہوں.باقی رہا دعا کرنا، وہ تو ظاہر ہے کہ ہم اب بھی کریں گے کیونکہ دعا کے بغیر ہماری زندگی نہیں.ہم دُعائیں کریں گے اور بہت دُعائیں کریں گے لیکن مغرب اور فجر کی نماز کے بعد اجتماعی دعا کی جو ہدایت کی گئی تھی اور اس کے مطابق جو دعا ہوتی رہی ہے وہ میرے نزدیک خشک ہو چکی ہے اس لئے میں اسے بند کرتا ہوں لیکن چونکہ دعا کے بغیر ایک احمدی کو زندگی میں کوئی لطف ہی نہیں ہے اس لئے احباب جماعت کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ

Page 693

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۷۳ خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۷۴ء دُعائیں کریں اور بہت دُعائیں کریں.انفرادی طور پر دُعائیں کریں غلبہ اسلام کے لئے، انفرادی طور پر دُعائیں کریں ملک کی بہبود کے لئے.اس وقت ہمارے ملک کو بھی ہماری دُعاؤں کی بے حد ضرورت ہے.احباب اس طرح دعائیں کریں کہ جب ان کی انفرادی دُعا ئیں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچیں تو ساری اکٹھی ہو کر اجتماعی دعا بن جائیں اور خدا کرے کہ وہ قبول ہوں اور اس کے نتیجہ میں ہماری زندگی کا مقصد اور ہماری جماعت کی غرض پوری ہو یعنی اس زمانہ میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوں جو اس زمانہ کے متعلق کی گئی تھیں اور وہ لوگ جنہوں نے اسلام کو پس پشت ڈال رکھا ہے.جو اسلام کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کر رہے اور جو اپنے خدا کو نہیں پہچانتے اور جو اپنے خدا سے دُور ہو چکے ہیں اور خدا تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں اور اس کی محبت سے لا پرواہ ہو گئے ہیں.ان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اسلام کی نعمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض سے حصہ عطا فرمائے گا مثلاً کمیونسٹ ممالک ہیں.اُنہوں نے نعرہ یہ لگایا کہ وہ زمین سے خدا تعالیٰ کے نام کو اور آسمان سے خدا تعالیٰ کے وجود کو مٹادیں گے لیکن جس وجود کو آسمانوں سے مٹانے کا وہ نعرہ لگا رہے ہیں ، آسمانوں سے اُسی وجود نے ہمیں بتایا ہے کہ ریت کے ذروں کی طرح وہاں مسلمان نظر آئیں گے.پس یہ دونوں باتیں ایکسٹریم (Extreme) پر دلالت کرتی ہیں.ایک وہ جو اس منہ سے نکلی جس کو اس وقت دنیوی طاقت حاصل ہے اور ایک وہ جو اس منبع سے نکلی جسے حقیقی طاقت حاصل ہے اور حکم اُسی کے پورے ہوا کرتے ہیں.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے انسان نے اسی کے حکم پورے ہوتے دیکھے ہیں.ہر مخلوق نے یہی دیکھا کہ حکم اسی کا چلتا ہے.پس جس ہستی کا دنیا میں حکم چلتا ہے وہی کہتا ہے کہ میرے وجود کو آسمانوں سے مٹانے والے میرے وجود کی معرفت حاصل کریں گے اور تب اُن کے دل میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتہائی پیار پیدا ہو گا اور وہ یہ دیکھ کر خوشی محسوس کریں گے کہ اس پاک وجود کے ذریعہ انہوں نے اپنے ربّ کریم کو پایا جو تمام قدرتوں کا سر چشمہ اور تمام طاقتوں کا مالک ہے.اس کی بنائی ہوئی مخلوق میں مرضی اسی کی چلتی

Page 694

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۷۴ خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۷۴ء ہے کسی اور کی نہیں چلتی.اس لئے تم زمین والوں کو بولنے دو.ہوگا وہی جو آسمانوں نے فیصلہ کیا.ہوگا وہی جو ہمارے رب کریم نے ہمیں بتایا ہے.کتنی زبر دست پیشگوئیاں ہیں جو پوری ہو رہی ہیں.اتنی زبر دست پیشگوئیاں ہیں کہ اگر ہم نے یہ سوچا ہوتا کہ اپنی طاقت یا اپنی کوشش یا اپنی دولت یا اپنے علم یا اپنے زور کے ساتھ ان پیشگوئیوں کو پورا کرلیں گے تو لوگ ہمیں پاگل کہتے اور وہ ہمیں پاگل کہنے میں حق بجانب ہوتے لیکن ہمارے رب کریم نے جو کچھ کہا اسے سچا کر دکھایا.ہم نے تھوڑی سی طاقت خرچ کی اور ذرہ سازور لگایا مگر اس کا نتیجہ خدائے تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اتنا زبر دست نکال دیا کہ انسانی عقل حیران ہو جاتی ہے.ہم ہر وقت سوچتے رہتے ہیں اور دُعا ئیں کرتے رہتے ہیں مگر ہمیں تو کوئی جوڑ کوئی تعلق اپنی کوشش اور اس کا جو نتیجہ نکلا ہے اس میں نظر نہیں آتا.میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یورپ کے ممالک ہیں امریکہ ہے، جزائر ہیں.ان میں سے اکثر وہ علاقے ہیں جہاں لوگوں نے اسلامی تعلیم کا ایک دھندلا سا خاکہ بھی نہیں پایا.مخالفین اسلام نے اُن کے کان میں جو باتیں ڈالیں وہ جھوٹ اور افتراء تھا.یورپ میں اگر چہ نوجوان نسل عیسائیت کو چھوڑ چکی ہے لیکن اُن کے اذہان اُن افتراؤں سے پاک نہیں ہوئے جو عیسائیوں نے اسلام کے خلاف باندھے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مظہر ذات بابرکات پر تہمتیں لگائی تھیں.یہ افتراء اور یہ ناپاک الزامات ابھی تک اُن کے دماغ میں ” رڑک رہے ہیں.جب میں پچھلے سال مختصر سے دورے پر یورپ گیا تو دو جگہ مجھے یہ طعنہ ملا کہ آپ اسلام کی اتنی حسین تعلیم پیش کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ تو بتائیں کہ ہمارے ملک کے عوام تک آپ نے اس کے پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہے؟ یہ طعنہ دینے والا عیسائی تھا یا دہر یہ یہ تو میں نے نہیں پوچھا لیکن جہاں تک اس طعنے کا تعلق ہے یہ اتنا ز بر دست طعنہ تھا کہ اس نے میرے وجود کو ہلا کر رکھ دیا.چنانچہ میں نے اپنے مبلغین سے مشورہ کیا.میں نے کہا جماعت احمد یہ ایک غریب جماعت ہے جتنی طاقت ہے اس کے مطابق کام کی ابتدا کر دیتے ہیں.میں نے مبلغین سے کہا کہ تم یہ اندازے لگاؤ کہ اگر تمہارے ملک کے ہر گھر میں ایک خط پہنچا نا ہو جس میں صرف یہ لکھا ہو کہ

Page 695

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۷۵ خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۷۴ء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے جس مہدی کا دنیا انتظار کر رہی تھی وہ مہدی آگئے.جماعت احمد یہ اُن کی جماعت ہے اور مہدی یہ بشارتیں لے کر آئے ہیں کہ دنیا میں انسانی شرف قائم کیا جائے گا اور انسانی دکھوں کو دور کیا جائے گا.غرض میں نے مبلغین سے کہا کہ اس قسم کا ایک مختصر سا مضمون لکھیں جو ایک خط پر مشتمل ہو اور اسے ہر گھر میں پہنچا دیں تا کہ کم از کم ہر گھر کے مکینوں کے کان میں یہ آواز پڑ جائے کہ مہدی آگئے.چنانچہ جب اس کام پر خرچ ہونے والی رقم کا اندازہ لگوایا گیا تو ایک چھوٹے سے ملک کا اندازہ سولہ لاکھ روپے تھا یعنی صرف ایک ملک کے ہر گھر تک یہ پیغام پہنچانے پر سولہ لاکھ روپے درکار تھے.ایک اور ملک کے مبلغ نے کہا کہ پندرہ بیس لاکھ روپے کی ضرورت ہے.پھر جب مجموعی اندازہ لگا لیا گیا تو معلوم ہوا کہ صرف اس قسم کے ایک خط کو دنیا کے ہر گھر تک پہنچانے پر کئی ارب روپے کی ضرورت ہے اور یہ بھی کافی نہیں.پھر کچھ اور سوچا کیونکہ انسان اپنی طرف سے اپنی عقل و سمجھ کے مطابق تدبیر کرتا ہے چنانچہ کچھ اور تدبیریں ذہن میں آئیں اور پھر ہمارے ملک میں یہ حالات پیدا ہو گئے.ہمیں نہیں پتہ اور میں آپ کو سچ بتا رہا ہوں کہ مجھے نہیں علم کہ کن فرشتوں نے کہاں کہاں جا کر تاریں کھینچیں کہ دنیا کے ہر انسان نے بلکہ بعض دفعہ دن میں چار چار دفعہ مہدی معہود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کا نام سنا.چند ارب روپے ایک خط پہنچانے پر خرچ ہوتے تھے مگر خدا نے ایسا سامان کر دیا کہ ایک دن میں چار چار پانچ پانچ بلکہ دس دس دفعہ مہدی معہود علیہ السلام، اسلام اور جماعت احمدیہ کا نام لوگوں کے کانوں میں پڑا.اخبارات روزانہ لکھ رہے تھے.ہمارے ہاں رواج نہیں لیکن بہت سے ملکوں میں اخبارات کے قد آدم پوسٹر چھپتے ہیں.ایک دوست جو چند دن کے لئے باہر گئے ہوئے تھے وہ جن جن ممالک میں گئے وہاں اُنہوں نے دیکھا کہ ہر صبح اخبارات کے پوسٹر پر جماعت احمدیہ کا ذکر ہوتا تھا.جب ہم ان دکھوں کو دیکھتے ہیں اور اُن تکالیف پر نظر ڈالتے ہیں جن میں سے اس وقت جماعت گزری ہے تو ہمیں دُکھ ہوتا ہے.اس میں شک نہیں مگر حقیقی احساس درد جس دل میں پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنے بھائی کا شریک بن جاتا ہے.اسی لئے جب یہ حالات رونما ہوئے تو ساری جماعت ایک دوسرے کے

Page 696

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۷۶ خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۷۴ء دکھوں میں شریک ہوگئی لیکن جب میں نے یہ سوچا کہ اتنی سی قربانی لے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اربوں نہیں کھربوں روپے کا کام کر دیا تو میرا سر اس کے آستانے پر جھک گیا اور میں نے کہا اے میرے رب کریم! تیری نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ جیسا کہ تو نے خود قرآنِ کریم میں فرمایا ہے، انسان کی یہ طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ ان کو گن سکے.اس لئے جن نعمتوں کو انسان گن بھی نہیں سکتا اُن کا شکر کیسے ادا کرے گا.پس اے خدا! تیری جتنی بھی نعمتیں ہیں ، اُن پر ہماری طرف سے شکریہ قبول کر.ہمیں اتنی زیادہ طاقت نہیں ہے کہ تیری نعمتوں، تیرے فضلوں اور تیری رحمتوں کو ہم شمار میں بھی لاسکیں.ہمارے ملک کی اکثریت اور بہت بڑی اکثریت نہایت شریف ہے.وہ کسی کو دُ کھ پہنچانے کے لئے تیار نہیں لیکن ملک ملک کی عادتیں ہوتی ہیں.کسی جگہ شریف آدمی مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور کسی جگہ شریف آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میری شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ خاموش رہوں.جن لوگوں نے یہاں تکلیف کے سامان پیدا کئے ہیں وہ دو چار ہزار یا پانچ دس ہزار سے زیادہ نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ اُن کو بھی ہدایت نصیب ہو.ہمارے دل میں تو کسی کی دشمنی نہیں ہے لیکن آج ملک کو بھی آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے.اس لئے احباب جماعت جہاں غلبہ اسلام کے لئے دُعائیں کریں وہاں پاکستان جو ہمارا پیارا اور محبوب ملک ہے.اپنے اس پیارے وطن کے لئے بھی بہت دُعائیں کریں.اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور یہ دعا کریں کہ اے اللہ ! تو اپنے فضل سے پاکستان کو ان تمام باتوں سے محفوظ رکھ جو اس کو کمزور کرنے والی ہیں یا جو اس کے استحکام میں روک بننے والی ہیں اور ہمیں وہ دن نصیب ہو کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کے پہلو بہ پہلو کھڑا ہو اور وہ حقوق انسانی جو اسلام نے قائم کئے ہیں وہ اس ملک میں بسنے والے انسانوں کو ملنے لگ جائیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو.پس وہ اجتماعی دعا جس کا اعلان کیا گیا تھا وہ تو آج سے بند کی جاتی ہے مگر اس کے بدلہ میں انفرادی دعاؤں پر پہلے سے بھی زیادہ توجہ دیں اور پہلے سے بھی زیادہ تضرع کے ساتھ اور عاجزی اور انکساری کے ساتھ اور پہلے سے بھی زیادہ چوکس ہو کر اور خدا تعالیٰ کی طاقتوں کی

Page 697

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۷۷ خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۷۴ء معرفت رکھتے ہوئے اور اُن کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس سے یہ دعا کریں کہ اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا تجھ کو سب قدرت ہے اے رب الوریٰ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 698

Page 699

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۷۹ خطبہ جمعہ ۶ رستمبر ۱۹۷۴ء احمدیوں کا فرض ہے کہ نفسانی جذبات کو فنا کر دیں اور اپنے آپ کو طیش میں نہ آنے دیں خطبه جمعه فرمود ه ۶ رستمبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے دنوں مجھے دورانِ سر کی شدید شکایت رہی.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اب کافی آرام ہے کچھ تھوڑ اسا بقایا اس کا رہ گیا ہے دعا کریں اللہ تعالیٰ بقیہ تکلیف کو بھی دور کرے.ہمارا کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ اپنے اندر بڑے عمیق اور وسیع معانی رکھتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ خلق عالمین کا منبع اور سر چشمہ بھی یہی ہے.اس کے دوا جزاء ہیں پہلا جز ولا إلهَ إلا الله ہے.جس کے معانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بتا کر کہ محاورہ عرب اور لغت عربی کو سامنے رکھیں تو اس کے جو معنی ہمیں معلوم ہوتے ہیں وہ چار ہیں.ایک یہ کہ سوائے اللہ کے اور کوئی انسان کا مطلوب نہیں.دوسرے یہ کہ بجز اللہ کے کوئی اور ہمارا محبوب نہیں اور تیسرے یہ کہ اللہ کے سوا ہمارا کوئی اور معبود نہیں اور چوتھے یہ کہ اللہ کے سوا ہمارا کوئی مطاع نہیں ہے.مطاع کے معنوں کو اگر ہم ذہن میں رکھیں تو دوسرا جز وسامنے آجاتا ہے مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ.اگر انسان نے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بننا ہو اور اس کے لئے اس نے کوشش کرنی ہو تو فرمانِ الہی اس کو معلوم ہونا چاہیے اور جب ہم فرمان کو معلوم کرنے کی کوشش کریں تو فرمان لانے والے کا

Page 700

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۸۰ خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۷۴ء ہمیں پتہ لگتا ہے اور نوع انسانی کی زندگی کے آخر میں وہ کامل ہدایت لانے والا خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آیا تو فرمان لانے والے آج دنیا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور فرمان کی حقیقت کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کو گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ فرمان لانے والا اپنی اُمت کے لئے اُسوہ بنے.پس بطور رسول کے اور بطور اسوہ کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے تا اللہ تعالیٰ جو صرف وہی مطاع ہے اس کی فرمانبرداری صحیح معنوں میں ہو سکے.یہ اس وسیع مضمون کا خلاصہ ہے.جب ہم ان چار باتوں کی طرف دیکھتے ہیں جو لا إِلهَ إِلَّا الله یعنی پہلے حصہ میں پائی جاتی ہیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ سوائے اللہ کے انسان کا کوئی مطلوب نہیں ہے.اسی کو ہم نے طلب کرنا ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ معرفت حاصل ہو.ہم پہنچا نہیں کہ اللہ کسے کہتے ہیں؟ کس ہستی کو اسلام نے اللہ کہا ہے؟ معرفتِ باری کا پایا جانا اور اس کی تلاش کرنا یہ مطلوب کے مفہوم میں پایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ عظیم میں اپنا تعارف یوں کروایا ہے اور اپنی معرفت پیدا کرنے کے لئے ہمیں یہ کہا کہ اللہ وہ ذات ہے کہ جو تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے اور جو تمام نقائص اور کمزوریوں سے منزہ ہے.کوئی کمزوری یا نقص اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا اور ہر وہ خوبی جو ایک فطرت صحیحہ کے نزدیک ایک کامل ہستی کے اندر پائی جانی متصور ہوسکتی ہے وہ اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت ہے اور معرفت کے نتیجہ میں محبت پیدا ہوتی ہے.جب تک انسان کسی کے حسن و احسان سے واقف نہ ہو، اس کا عرفان نہ رکھے اس وقت تک محبت پیدا ہی نہیں ہوسکتی.مجازی محبت پیدا نہیں ہو سکتی تو جو حقیقی ہے وہ کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ پس محبت کے لئے معرفت کا پایا جانا ضروری ہے اور لا اله الا اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کا مطلوب سوائے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے اور کوئی نہیں ہو سکتا اس واسطے انسان کے لئے فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا عرفان رکھے.اس کی معرفت حاصل کرے اس کو جانے پہچانے.علم رکھے کہ وہ ہے کیا ( کن صفات کی مالک وہ ہستی ہے ) اور جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے اللہ کی عظمت، اس کا جلال، اس کی کبریائی ، اس کا حسن اور اس کا احسان آتا

Page 701

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۸۱ خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۷۴ء ہے وہ عظیم ہستی ہے جب انسان کے دماغ میں اس کا صحیح تصور آئے تو انسان کی روح تڑپ اٹھتی ہے، محبت کا ایک سمندر اس کے اندر موجزن ہوتا ہے.اور دوسری بات لا اله الا اللہ میں یہ ہے جو معرفت کے بعد پیدا ہوتی ہے کہ سوائے اللہ کے ہمارا محبوب کوئی نہیں.محبت دو باتوں کا تقاضا کرتی ہے ایک تقاضا ہے محبت کا اس خوف کا پیدا ہو جانا کہ ہمارا محبوب ہم سے کہیں ناراض نہ ہو جائے اس کو اسلام کی زبان میں خشیت اللہ کہتے ہیں.خشیت وہ خوف نہیں جو ایک خونخوار درندے کو دیکھ کر انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے خشیت وہ جذبہ ہے جو اللہ ، اس عظیم ہستی کے جلال کو دیکھ کر اور اس کے حسن کا گرویدہ ہو کر اس کے احسان تلے پس کر اس احساس کے ساتھ کہ اتنے احسانات ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں اس کا شکر بھی ادا نہیں کر سکتے.یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ عظیم اور صاحب جلال و اقتدار ہستی ہم سے ناراض نہ ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں ہم اس کی محبت کو کھو بیٹھیں اور اپنی اس کوشش میں کہ ہم اس کی رضا کو حاصل کریں نا کام ہو جائیں.یہ ہے خشیت جو اللہ تعالیٰ کی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ میری معرفت کے حصول کے بعد جب تم محبت کے میدانوں میں داخل ہو گے.فَلَا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَونِ (البقرۃ: ۱۵۱) اس وقت یہ یا درکھنا کہ صرف میری ہی ذات وہ صاحب جلال ذات ہے کہ جس کے متعلق جذ بہ خشیت انسان کے دل میں پیدا ہونا چاہیے کسی اور ہستی میں نہ وہ جلال ہے نہ وہ عظمت نہ اس کا وہ حسن نہ اس کا وہ احسان کہ انسان کے دل میں اس کے لئے خشیت پیدا ہو.ایک جابر اور ظالم بادشاہ کے لئے دل میں خوف پیدا ہوتا ہے خشیت نہیں پیدا ہوتی یعنی دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں اس کے ظلم کا نشانہ ہم نہ بن جائیں لیکن اللہ تعالی تو ظالم اور جابر نہیں وہ تو رحیم اور رحمان ہے.ہم کچھ بھی نہیں کرتے تب بھی وہ ہمیں اپنی عطا سے نوازتا ہے وہ رحمان ہے.اور جب ہم اس کے حضور کچھ پیش کرتے ہیں تو وہ کمال رحیمیت کی وجہ سے نہ ہمارے کسی حق کے نتیجہ میں ہمارے اعمال کو قبول کرتا اور بہتر جزا ہمیں دیتا ہے اور انسان کے دل میں یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ اس کے کسی گناہ کے نتیجہ میں اس کی کسی کمزوری کی وجہ سے وہ عظیم حسن و احسان کا مالک ہم سے ناراض نہ ہو جائے اور اس کی محبت اور اس کی رضا سے ہم محروم نہ ہو جائیں.

Page 702

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۸۲ خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۷۴ء پس محبت کا ایک پہلو تو خشیت کا ہے یعنی ہر وقت انسان لرزاں و ترساں رہے کہ کسی گناہ اور کمزوری کے نتیجہ میں کہیں ہمارا رب کریم ہم سے ناراض نہ ہو جائے اور محبت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان پورے عزم کے ساتھ ان اعمال کے بجالانے کی کوشش کرتا رہے کہ جن کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ ان کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے پیار اور رضا کو تم حاصل کر سکتے ہو.یہ دوسرا پہلو ہے ایک یہ کہ اس کی ناراضگی کہیں مول لینے والے نہ بن جائیں اور دوسرے یہ کہ اس کی رضا اور اس کی محبت کو حاصل کرنے والے ہم بنیں ورنہ یک طرفہ اور ناقص محبت جس کے نتیجہ میں محبوب کے دل میں مُحِب کی محبت پیدا نہیں ہوتی لا یعنی چیز ہے اور یہاں یہ سوال نہیں کہ جس سے انسان فطرتاً پیار کرتا ہے وہ اس سے پیار کرنے کے لئے تیار ہی نہیں.یہ نہیں اس نے تو اپنے پیار کے لئے انسان کو پیدا کیا.یہاں سوال یہ ہے کہ جو انسان سے پیار کرنا چاہتا ہے اور انسان جس کے پیار کو فطرتاً حاصل کرنے کا خواہش مند ہے کہیں وہی انسان اپنی کوتاہی یا غفلت یا گناہ یا اباء اور استکبار کے نتیجہ میں اپنے پیارے کو ناراض نہ کر لے اور اس سے دوری کے سامان نہ پیدا ہو جا ئیں اور جو محبت اس سے ملنی چاہیے جس کا اس نے وعدہ کیا ہے جس کی اس نے بشارت دی ہے اس سے ہم کہیں محروم نہ ہو جا ئیں.پس ” سوائے اللہ کے اور کوئی معبود نہیں“ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کے متعلق ہمارے دل میں خشیت کا جذبہ نہ پیدا ہو.انسان جب خدا کا ہو جائے تو پھر دنیا کی طاقتیں اسے مرعوب نہیں کیا کرتیں اور جو شخص یہ کہے کہ میں دنیا کی طاقتوں سے مرعوب ہو گیا.دوسرے لفظوں میں وہ یہ اعلان کر رہا ہے کہ میرا خدا کے ساتھ واسطہ کوئی نہیں.ورنہ آدم سے لے کر معرفت حاصل کرنے والوں نے خدا تعالیٰ کے پیار کے سمندر اپنے دلوں اور سینوں میں موجزن کئے اور سوائے خدا تعالیٰ کی خشیت کے اور کوئی خوف اور خشیت تھی ہی نہیں ان کے دلوں میں.یہ جو خشیت اللہ ہے یہ غیر اللہ کے خوف کو مٹا دیتی ہے.اللہ سے یہ ڈر کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے وہ ہر دوسرے کے خوف کو دل سے نکال دیتا ہے کیونکہ مثلاً ایک جابر با دشاہ کا یہ خوف ہوگا کہ کہیں ہم پر وہ ظلم نہ کرے اور اس لئے خدا سے منہ موڑ کر کوئی جاہل انسان اس ظالم کے ظلم سے بچنے کے لئے اس کی خوشامد کرسکتا ہے مگر ایک مومن اور خدا کا عارف بندہ

Page 703

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۸۳ خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۷۴ء خوشامد نہیں کر سکتا.بڑی دیر کی بات ہے.شاید سات آٹھ سال گزر گئے غالباً ۱۹۶۶ء - ۱۹۶۷ء کی بات ہے ایک موقع پر مجھے حاکم وقت سے ملنا تھا تو مجھے بڑے زور سے اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ وَارْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ اَ اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ :(يوسف : (۴۰) اور یہ میرے لئے عنوان تھا.ہدایت تھی کہ اس رنگ میں جا کر باتیں کرنی ہیں.پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کمزوری سے بچانے کے لئے وقت سے پہلے ہی راہ بتا دی.ہم احمدی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک محبوب روحانی فرزند کی بیعت میں آکر ہم نے اللہ تعالیٰ کی معرفت اپنے اپنے دائرہ استعداد میں حاصل کی.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ دعوی کرتے ہیں اور اس کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم پورے اور کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو پہچانتے ہیں.لا إِلهَ إِلَّا الله کو سمجھتے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں.(اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں جو میں آپ کو بتارہا ہوں) ایک احمدی کا دل ہے.اس کے اندر سوائے خدا کی خشیت کے اور کسی کی نہ خشیت ( پیدا) ہوسکتی ہے کیونکہ اس جیسا کوئی نہ حسن رکھتا ہے نہ احسان کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور نہ کسی اور کا خوف پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ اس کی عظمت اور اس کے جلال کو دیکھنے کے بعد دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتیں خدا کے ایک عارف بندے کو کیڑے کی مانند نظر آتی ہیں اور محبت و رضائے الہی کے لئے ہی تو یہ جماعت اور اس کے افراد اس قدر قربانی دے رہے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور پھر یہ جماعت خدا تعالیٰ کے پیار کو بھی حاصل کرتی ہے.اب پریشانی کے حالات پیدا ہوئے اور کچھ تجارت پیشہ لوگوں کو بھی پریشانی اٹھانی پڑی لیکن اس کا رد عمل یہ نہیں ہوا کہ کسی ایک نے بھی جماعت کو یہ کہا ہو کہ ہمارے چندے معاف کر دو یا کم کر دو.یہ تو ہمارے علم میں ہے کہ بہتوں نے یہ کہا کہ اس وقت قربانی کا وقت ہے ہم ماہ بماہ چندے دینے کی بجائے آئندہ پانچ چھ مہینوں کا بھی اکٹھا چندہ دے دیتے ہیں اور انہوں نے دیا تو جماعت احمد یہ جو ہے وہ کس غرض کے لئے زندہ ہے؟ آپ سوچا کریں کہ کیوں آپ نے مہدی معہود کو قبول کیا؟ کوئی مقصد ہونا چاہیے ساری دنیا کو چھوڑ کر اپنے عزیزوں تک کی گالیاں سننے کے لئے

Page 704

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۸۴ خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۷۴ء تیار ہو گئے اور آپ نے مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا.پس ایک ہی چیز ہے کہ مہدی معہود کے ذریعہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا اور مہدی معہود کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حسین وعدہ ہمارے کانوں میں پڑا کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے اور اس کا منصوبہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرے ایک عام دنیوی عقل اس کو قبول نہیں کرتی عقلاً یہ انہونی بات ہے یہ کیسے ہو جائے گا.دنیا نے ایٹم بم بنالئے.یہ کر لیا وہ کر لیا.چاند پر کمند ڈال لی.دوسرے ستاروں کی طرف اس کی نگاہیں اٹھی ہوئی ہیں اور تم یہ کہتے ہو کہ خدا نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا.سلف صالحین اور پہلے جو صلحاء اور اولیاء اُمت میں گزرے ہیں انہوں نے یہ لکھا ہے کہ یہ زمانہ مہدی کا زمانہ ہے وہ زمانہ آگیا.ہم نے مہدی کو پہچانا اور اس کو قبول کیا.ہم قربانی دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر اس کی خشیت کے باعث.وہ تو ہمیں یہ کہتا ہے کہ میں نے دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے پھر بھی ہم سستی دکھا ئیں اور اس کو ناراض کر لیں.اور وہ تو یہ کہتا ہے کہ میں نے اس زمانہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گھر گھر گاڑ دینا ہے اور تمہارے ذریعہ سے، ناچیز ذروں کے ذریعہ سے اپنی قدرت کے جلوے دنیا کو دکھانے کی خاطر.اور ہم یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی ہمیں ضرورت نہیں.ہم ست ہو جائیں گے غفلت کریں گے لیکن احمدی تو یہ نہیں کہتے.ایک ایسی جماعت خدا تعالیٰ نے پیدا کر دی ہے کہ اسے دنیا پہچان ہی نہیں رہی کہ کس خمیر سے یہ بنی ہے اور خمیر وہی ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے.ایک احمدی کی فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں خدا نے کہا کہ میں دنیا میں اسلام کو غالب کروں گا اور ہم اپنی جانیں تو دے سکتے ہیں مگر اس عقیدہ سے ہٹ نہیں سکتے کہ خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے اور یہ بات پوری ہو کر رہے گی.یہ تو ہو کر رہے گی اور احمدی اس حقیقت کو جانتا ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے وہ اس کے تمام احکام کی پابندی کرنے والا ہے.تیسری چیز لا اله الا اللہ میں اور تیسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ سوائے اللہ کے میرا کوئی معبود نہیں.دنیا میں عالمین میں کوئی ایسی ہستی نہیں جس کی صفات کا رنگ میں اپنے اوپر چڑھاؤں

Page 705

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۸۵ خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۷۴ء میں صرف اس کا بندہ ہوں اور اس کی صفات میں میں رنگین ہونے کی کوشش کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کی صفت جو ہے اس کے متعلق آیا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) اللہ تعالیٰ کو جو گالیاں دینے والے دہر یہ ہیں خدا تعالیٰ ان کو بھوکا نہیں مارتا بلکہ قرآن کریم نے تو یہ کہا کہ اس دنیا میں ہم ان کو بڑے مال دے دیتے ہیں کیونکہ جو روحانی اور دینی معاملات ہیں ان کے فیصلے اور جزاء سزا کے احکام دوسری دنیا میں جاری کئے جاتے ہیں ویسے بعض حکمتوں کے مطابق یہاں بھی جاری کئے جاتے ہیں لیکن عام اصول یہ ہے کہ یہاں نہیں بلکہ وہاں فیصلے ہوں گے لیکن جب ظلم آخری حد تک پہنچ جاتا ہے اور خدا کے بندوں پر انتہائی تکالیف نازل کی جاتی ہیں اس وقت خدا تعالیٰ اپنی قدرت اور مالکیت کے جلوؤں کی ایک جھلک جو آخری فیصلہ ہے اس کی جھلک اس دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے لیکن جب تک ظلم اس حد تک نہ پہنچے اس کی یہی سنت ہے.قرآنِ کریم نے یہی بیان فرمایا ہے.ہماری انسانی تاریخ نے یہی ریکارڈ کیا اور یہی محفوظ رکھا.خدا تعالیٰ کی رحمت ہر دوسری چیز پر وسیع ہے اور اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے.پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سوائے اس کے ہمارا کوئی معبود نہیں اور اس کی صفات اپنے اندر پیدا کریں گے تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ کے حکم کے ماتحت اس کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کی رحمت وسعت كُلَّ شَيْءٍ ہے اس کے بندے کا بھی رحم کا سلوک وَسِعَتْ كُل شَيْءٍ کے ماتحت ہونا چاہیے اور کسی پر غصہ یا کسی کو دکھ پہنچانے کا خیال بھی ایک احمدی کے دماغ میں پیدا نہیں ہونا چاہیے.کجا یہ کہ اس کا ہاتھ دکھ پہنچانے لگے دماغ کو بھی اس گندے خیال سے پاک رکھنا ایک احمدی کا فرض ہے.اس لئے کہ لا اله الا اللہ کے مفہوم کو ہم سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معرفت ہمیں حاصل ہے اور خدا تعالیٰ کا عبد بننا، اس کے لئے اپنی اس دنیاوی ظاہری زندگی سے عملاً ہاتھ دھو بیٹھنا.فنا کے لبادہ کو اپنے اوپر اوڑھ لینا اور اسی رنگ میں رنگین ہونا اور نفسانی رنگوں اور جذبات کو مٹا ڈالنا یہ ہو نہیں سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت نہ کی جائے.اس لئے چوتھے معنی لا الہ الا الله کے جو ہمیں سمجھائے گئے وہ یہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی ہمارا مطاع نہیں اس کے احکام اس کے اوامر ونواہی پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ اس کے بغیر

Page 706

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۸۶ خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۷۴ء خدا تعالیٰ کا رنگ ہم پر نہیں چڑھ سکتا.تَخَلَقُوا بِأَخْلَاقِ الله یہ لفظ ہمیں بتاتا ہے.اس سلسلہ میں میں بتا دیتا ہوں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیا ہیں تو آپ نے کہا قرآن کریم (خُلُقُهُ الْقُرآن).قرآنِ کریم کیا ہے؟ ( یہ اب میں پوچھتا ہوں.) اوامر و نواہی یعنی احکام کا مجموعہ ہے.برکات کا مجموعہ اور احسان کا مجموعہ ہے.پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ قرآنِ کریم سارے کا سارا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جلوہ گر ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی قرآنی اخلاق سے مزین اور خوبصورت بنی ہوئی ہے اور ہمارے لئے وہ اُسوہ ہے اس لئے دوسرے جزو کی ضرورت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی کامل اتباع بندے نے کرنی ہو اس کا پورا اور حقیقی فرمانبردار بننا ہو تو اس کے فرمان کا علم ہونا چاہیے.فرمانبردار تبھی بنے گا کہ جو اس کا حکم ہے اس کا پتہ ہو.اگر فرمانبردار ہم نے بننا ہے اور حقیقی فرمانبردار بنتا ہے تو اس کے فرمان کا ہمیں علم ہونا چاہیے اور ساری دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کا فرمان لانے والے حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.تو فرمان کے علم کے لئے فرمان لانے والے پر یقین ہونا چاہیے کہ جو یہ کہہ رہا ہے کہ خدا تعالیٰ یہ احکام ، یہ اوامر، یہ نواہی ، یہ سبق اور زندگی کے مختلف شعبوں کے یہ اصول بیان کئے ہیں وہ سچا ہے.اس کے بغیر تو آپ فرمان پر ایمان نہیں لائیں گے اور نہ آپ اس کے بغیر اتباع کر سکتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کو اپنا مطاع بنا سکتے ہیں.پس لا اله إلا الله نے تقاضا کیا کہ اس عظیم اور جلیل القدر ہستی پر ہم ایمان لائیں.جو خدا تعالیٰ کی کامل شریعت اور کامل ہدایت دنیا کی طرف لانے والا تھا یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم.پس کلمہ طیبہ کا دوسرا حصہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہے اس میں دو ایمانوں کی طرف اشارہ ہے.خالی حکم انسان کو پوری طرح عمل کرنے کا اہل نہیں بنا تا جب تک کوئی نمونہ سامنے نہ ہو.تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حیثیتیں ہیں اور دونوں بڑی پیاری حیثیتیں ہیں دونوں ہمیں آپ کا عاشق بنانے والی ہیں.ایک یہ کہ آپ کامل ہدایت اور شریعت لے کر آئے اور دوسرے یہ کہ ان احکام کی بجا آوری میں نوع انسانی کے لئے آپ ایک کامل نمونہ بنے.آپ اُسوہ حسنہ تھے.

Page 707

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۸۷ خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۷۴ء آپ جیسا اُسوہ نہ پہلوں نے کبھی دیکھا نہ بعد میں کوئی دیکھ سکتا ہے.پس خالص اتباع کا کامل نمونہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ یہ دونوں معنی ہمیں بتاتا ہے.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ نے تقاضا کیا کہ فرمان آئے گا.جب کامل بندہ بننا ہے اور خدا تعالیٰ کے اخلاق کے رنگ میں رنگین ہونا ہے تو ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ خدا چاہتا کیا ہے؟ اس کا حکم کیا ہے اس کا فرمان کیا ہے؟ اس واسطے فرمان لانے والے عظیم وجود پر ایمان لانا ضروری ہو گیا اور فرمان لانے والے کے عظیم اُسوہ حسنہ پر ایمان اور اعتقاد اور یقین بھی ضروری ہو گیا اس کے بغیر تو کوئی شخص اپنے محدود دائرہ استعداد کے اندر روحانی ترقی کر ہی نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نبوت اور صدیقیت اور دوسرے جو بزرگی کے القاب اور مقامات ہیں صرف وہ ہی نہیں بلکہ روحانیت کا ادنیٰ سے ادنی درجہ بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیض کے بغیر انسان حاصل نہیں کر سکتا اور یہی ایک حقیقت ہے اس واسطے ہر شخص کے لئے خواہ وہ عالم ہو یا جاہل خواہ اس کی روحانی استعداد بڑی ہو یا چھوٹی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ اُسوہ ہیں جو اس کے دائرہ استعداد میں اس کی روحانیت کو ممکن کمال تک پہنچا سکے ( ممکن کمال“ میں نے دائرہ کی وجہ سے کہا ہے اس اُسوہ کے بغیر ایسا ممکن نہیں ).پس میں نے بتایا ہے کہ یہ ہمارا عظیم کلمہ ہے جس کا ایک جز إله إلا الله اور دوسرا جز و مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ ہے اور سوائے اللہ کے کوئی ہمارا مطلوب نہیں اور اس طلب میں ( مطلوب کا مطلب ہے جس کے لئے طلب ہو ) ہم نے اس کی معرفت حاصل کی اور اس معرفت کے نتیجہ میں ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہوئی اور اس کی رضا کے حصول کی ایک بہت بڑی تڑپ بھی پیدا ہوئی تا کہ اس کا پیار ہمیں حاصل ہو.صرف یکطرفہ ہمارا پیار نہ رہے اس کا پیار بھی ہمیں حاصل ہو اور اس کے پیار کے حصول کے لئے عبد بنا ضروری ہے.اس واسطے سوائے اس کے کوئی معبود نہیں.جب تک خدا تعالیٰ کے اخلاق اور اس کی صفات کے رنگ میں انسان رنگین نہ ہو خدا تعالیٰ کا پیارا انسان حاصل ہی نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور پہلو سے اس کو بیان کیا ہے.ایک اور طریق سے آپ نے فرمایا ہے کہ وہ پاک ہے

Page 708

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۸۸ خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۷۴ء اور جب تک تم پاک نہیں ہو گے اس کی محبت کو پا نہیں سکتے.وہ تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے.جب تک تم اور میں اس کے مطابق اخلاق اپنے اندر پیدا نہ کریں اس کی محبت کو نہیں پاسکتے.وہ تمام کمزوریوں سے منزہ ہے.جب تک ہم استغفار کی چادر میں لپٹ کر اس کے فضل کے ساتھ اپنی بشری کمزوریوں کو چھپا نہ لیں اس وقت تک ہم اس کے پیار کو حاصل نہیں کر سکتے اور عبد بننے کے لئے اس کے فرمان کے سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ مجھے یہ کہنا چاہیے کہ اس کے فرمان کی موجودگی کی ضرورت ہے اور وہ پاک وجود جو کامل شریعت اور ہدایت لا یا اس پر ایمان کی ضرورت ہے اور ان احکام کے مطابق، ان اوامر و نواہی کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کے لئے ایک بہترین ایک اعلیٰ ترین نمونہ کی ضرورت ہے جو ہمارے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں رکھا گیا.پس یہ دنیا جس میں دنیا کے لوگ بستے ہیں ایک اور دنیا ہے اور وہ دنیا جس میں احمدی بستے ہیں وہ ایک اور ہی دنیا ہے اور احمدیوں کا فرض ہے کہ اپنے نفسانی جذبات کو بالکل فنا کر دیں اور کسی صورت میں کسی حال میں غصہ اور طیش میں نہ آئیں اور نفس بے قابو ہو کر وہ جوش نہ دکھلائے جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا ہے بلکہ تواضع اور انکسار کی انتہا کو پہنچ جائیں اور اپنی پیشانیاں ہمیشہ خدا تعالیٰ کے حضور زمین پر رکھے رہیں.عملاً اس مادی زندگی میں یہ ممکن نہیں لیکن روحانی زندگی میں نہ صرف یہ کہ اس کا امکان ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کی پیشانی خدا تعالیٰ کے حضور ہمیشہ زمین پر پڑی رہی اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنی رحمتوں سے انہیں نوازا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو تیرے عشاق بن جاتے ہیں تو ہر دو عالم ان کو دے دیتا ہے ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ایک شعر کے دو مصرعوں میں لفظوں کی تبدیلی کر کے عجیب شان پیدا کی ہے ) جو تیرے عاشق حقیقی بن جائیں تو ہر دو جہاں ان کو دے دیتا ہے لیکن جو خود کو تیرے غلام سمجھتے ہیں وہ ان جہانوں کو لے کر کیا کریں؟ وہ تو تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں اور اسی میں خوش ہیں.ہم بھی اس کے در پر پڑے ہوئے ہیں اور اسی میں خوش ہیں

Page 709

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۸۹ خطبہ جمعہ ۶ رستمبر ۱۹۷۴ء اور سوائے اس کے ہمارے دل میں کسی ہستی کی خشیت یا اس کی محبت کے حصول کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنے در پر ہی پڑا رہنے دے اور کبھی شیطانی وسوسہ ہمارے ماحول میں گھنے نہ پائے کہ سب قدرتیں اسی کو ہیں.(روز نامه الفضل ربوه یکم اکتو بر ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 710

Page 711

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۹۱ خطبہ جمعہ ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء قومی اسمبلی کی قرارداد پر کسی احمدی کے رد عمل میں ظلم اور فساد کا شائبہ نہ پایا جانا چاہیے خطبه جمعه فرموده ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.۷ استمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی نے مذہب کے متعلق ایک قرارداد پاس کی ہے.اس پر جماعت احمد یہ مجھ سے دوسوال دریافت کرتی ہے.اول یہ کہ جو قرارداد پاس ہو چکی ہے اس پر جماعت احمدیہ کے خلیفہ لمسیح الثالث کا تبصرہ کیا ہے یعنی جماعت احمدیہ کو یہ بتایا جائے کہ اس قرارداد کے معانی کیا ہیں؟ دوم یہ کہ اس قرارداد کے پاس ہونے کے بعد جماعت احمد یہ جس کا صحیح نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے " احمد یہ فرقہ کے مسلمان رکھا ہے.تو اب احمدیہ فرقہ کے مسلمانوں کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ پس یہ دو سوال ہیں جو پوچھے جارہے ہیں.جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے یعنی جو قرار داد پاس ہوئی ہے اس پر جماعت احمدیہ کے خلیفہ وقت کا تبصرہ کیا ہے؟ اس پر تنقید کیا ہے؟ کیا پاس ہوا ہے؟ اس کے متعلق جماعت کو بتایا جائے.اس میں اس لئے بھی الجھن پڑتی ہے کہ مختلف اخبارات مختلف باتیں لکھ دیتے ہیں اور بعض اخبار بعض باتیں چھوڑ دیتے ہیں.اس کے متعلق اس وقت تو میں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ

Page 712

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۹۲ خطبہ جمعہ ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء No Comment کوئی تبصرہ نہیں ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر تبصرے سے قبل بڑے غور اور تدبر کی ضرورت ہے اور مشورے کی ضرورت ہے.پس مشورے اور تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد پھر میں جماعت احمدیہ کو بتاؤں گا کہ جو پاس ہوا ہے وہ اپنے اندر کتنے پہلو لئے ہوئے تھا.کیا بات صحیح ہے اور کیا بات صحیح نہیں ہے وغیرہ وغیرہ.بہر حال اس وقت اس پر کوئی تبصرہ نہیں ہے.اس کے لئے آپ کچھ دن اور انتظار کر لیں.کوئی جلدی بھی نہیں ہے.اصل تو یہ ہے کہ آپ کو حقیقت معلوم ہو جائے.اس لئے حقیقت کو اُبھر نے دیں.حقیقت کو ان فولڈ (Uufold) ہونے دیں.اس کو پتیاں نکالنے دیں پھر اس کے اوپر تبصرہ بھی آ جائے گا.دوسرا سوال یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا رد عمل کیا ہونا چاہیے یا جماعت احمدیہ کا کیا رد عمل ہے؟ کیونکہ ہر احمدی باوجود اس بات کے کہ وہ بڑا تربیت یافتہ ہے پھر بھی مرکز کی طرف دیکھتا ہے اور بہر حال مرکز سے ہدایت طلب کرتا ہے اور یہ جاننا چاہتا ہے کہ ہمارا کیا ردعمل ہونا چاہیے؟ اس کا جواب لمبا ہے اور یہ ایک خطبہ میں ختم ہونے والا نہیں ہے.اس کے جواب میں دو پہلو مذنظر رکھنے پڑتے ہیں.اس بنیادی حقیقت کی بنا پر جو ہماری زندگی کی حقیقت ہے اور جس کے بغیر ایک احمدی کی زندگی ، زندگی ہی نہیں اور وہ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا یہ دعویٰ ہے اور ہم پورے وثوق کے ساتھ اور پورے عرفان کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر پورا اور کامل ایمان رکھتے ہیں.اس اللہ پر جسے اس کی ذات کے لحاظ سے اور اس کی صفات کے لحاظ سے قرآن عظیم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.ہم اس اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر جیسا کہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے واقعہ میں عارفانہ ایمان رکھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل اور بے مانند ہے اس یو نیورس، اس عالمین میں اس جیسا کوئی نہیں ہے ذات کے لحاظ سے اور نہ اس کا مثیل ہے صفات کے لحاظ سے.یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو اسلام نے قرآنِ عظیم کے ذریعہ ہمارے سامنے رکھی ہے.پھر قرآن کریم نے شروع سے لے کر آخر تک ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس کے اندر یہ صفت

Page 713

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۹۳ خطبہ جمعہ ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء پائی جاتی ہے.یہ صفت پائی جاتی ہے اور یہ صفت پائی جاتی ہے کبھی نام لے کر اور کبھی کام کا ذکر کر کے.قرآنِ کریم نے شروع سے لے کر آخر تک ہمیں یہ بتایا ہے کہ قرآن کریم جب اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو کس معنے میں لیتا ہے مثلاً سورۃ فاتحہ کو لیں تو اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی چار بنیادی صفات ہمارے سامنے رکھی گئی ہیں.سورۃ فاتحہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تمام تعریفوں کا مرجع اللہ ہے.فرمایا کہ اللہ وہ ہے جو رب العلمین ہے.اللہ وہ ہے جو رحمن ہے، اللہ وہ ہے جو رحیم ہے، اللہ وہ ہے جو مالک یوم الدین ہے.قرآنِ کریم نے اور پھر ان مطہر بزرگوں نے جن کا ذکر خود قرآن کریم نے ان الفاظ میں کیا ہے.اِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ - فِي كِتَبِ مَكْنُونٍ - لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ۷۸ تا ۸۰) گویا خود قرآنِ کریم نے ایک گروہ کو مطہرین کا گروہ قرار دیا ہے.پس ایک تو خود قرآن عظیم نے الہی صفات بیان کیں دوسرے مطہرین کے گروہ نے اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کر کے دنیا کے سامنے الہی صفات کو بیان کیا.ان کی تفصیل بتائی.ان پر روشنی ڈالی اور پھر اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے جیسا کہ کہا گیا تھا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات کے نتیجہ میں آپ کے عشق میں فانی ہو کر خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کیا.اللہ تعالیٰ کی ذات کو جس رنگ میں قرآنِ کریم نے بیان کیا ہے اور جس طرح حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہی صفات کی تشریح کی ہے ہم اسی معنے میں اللہ کو مانتے ہیں مثلاً ہم سبحان اللہ پر یقین رکھتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے اندر کوئی نقص نہیں ، کوئی کمزوری اور کوئی عیب پایا ہی نہیں جاسکتا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.یہ نہیں کہ کوئی نا سمجھ کھڑے ہو کر یہ کہہ دے کہ مثلاً نعوذ باللہ خدا چوری کر سکتا ہے مگر ہمارا سبحان اللہ کہنا اس کی تردید کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی ذات میں کوئی عیب یا نقص متصور ہی نہیں ہو سکتا.میں اس اللہ کی بات کر رہا ہوں جس کو اسلام نے پیش کیا ہے.بعض مذاہب بگڑ گئے انہوں نے ایک (انسانی) وجود کو خداوند بھی کہا اور اسے پھانسی پر بھی لٹکا دیا.یہ مذہب کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں مثلاً ایک وجود کو لوگوں نے خدا وند بھی کہا اور یہ بھی تصور کر لیا کہ وہ خدا ہونے کے باوجو درحم مادر کی تنگ کو ٹھری میں نو مہینے تک قید بھی رہا.یہ تو بگڑے ہوئے مذہب کی حالتیں ہیں مگر ہمارا اسلام تو بگڑا ہوا نہ ہب نہیں

Page 714

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۹۴ خطبہ جمعہ ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء ہے اس کی تو چمکتی ہوئی اشکار ہر زمانے میں ظاہر ہوتی رہی ہے اس کی ذات کے متعلق بھی اور صفات کے متعلق بھی.اُمت محمدیہ میں ایسے کروڑوں بزرگ پیدا ہوئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا عرفان حاصل کیا اور خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے اپنی ذات وصفات کی کیفیت اور ماہیت انہیں بتائی.( جہاں تک انسان کو اس کی ضرورت تھی ) پس جب یہ ہمارا دعویٰ ہے اور اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے اور یقیناً یہی ہمارا دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا کر ہم نے اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات کے ساتھ پہچانا ہے تو پھر آپ کو سمجھانے کے لئے دلیل میں نے پہلے دے دی ہے، اگر یہ درست ہے اور یہ درست ہے اور اگر اس کے نتیجہ میں ایک احمدی کے دل میں اپنے رب کریم کے لئے ایک محبت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کے معنی ہیں کہ وہ ہر وقت ڈرتا رہتا ہے کہ میرا محبوب خدا مجھ سے کہیں ناراض نہ ہو جائے.یہ خشیت کا مقام ہے اور وہ ہر وقت اس امید میں رہتا ہے کہ میرا پیارا خدا میری طرف محبت کی نگاہ سے دیکھے گا.گویا یہ محبت کے دو پہلو ہیں اور یہ ہر دو پہلو ہر مخلص احمدی کے دل میں پہلو بہ پہلو کھڑے ہوئے ہیں تو پھر یہ دلیل یا ایک احمدی کی زندگی کی جو حقیقت ہے وہ ہمیں بتاتی ہے کہ ان حالات میں اصولی طور پر ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے.جو نہیں ہونا چاہیے اس کے متعلق میں آج صرف دو باتوں کولوں گا.قرآن کریم احکام کی کتاب ہے یہ اسلامی شریعت اور ہدایت ہے اس میں بیان ہونے والے احکام کو ہماری اصطلاح میں دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک اوامر ہیں اور دوسرے نواہی ہیں، کچھ کرنے کی باتیں ہیں اور کچھ سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے گویا کچھ باتیں ایسی ہیں جو کرنی چاہئیں اور کچھ ایسی ہیں جن سے بچنا چاہیے.پس جہاں تک نواہی کا تعلق ہے قرآن کریم نے ہمیں کئی جگہ بتایا ہے کہ اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہو جائے گا.یوں کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کو نہیں پاسکو گے.اس قسم کا فعل صادر ہوا تو تم پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوگا.یہ کام کیا تو خدا تعالیٰ سے دوری پیدا ہو جائے

Page 715

خطبات ناصر جلد پنجم گی.وغیرہ وغیرہ ۶۹۵ خطبہ جمعہ ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء غرض بہت سی باتیں نواہی میں شامل کر کے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کر دیں.ان باتوں میں سے دو کو میں اس وقت لوں گا.ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا.وَاللهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ (آل عمران: ۵۸) که خدا تعالیٰ ظالموں سے پیار نہیں کرتا.اگر یہ سچ ہے اور اس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ یہ سچ ہے کیونکہ قرآنِ کریم نے یہ اعلان کیا ہے کہ ظلم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انسان سے ناراض ہو جاتا ہے تو پھر کسی احمدی کا کسی واقعہ کا رد عمل ظالمانہ ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے کہ یہ دنیا اور اس کے جو حوادث ہیں یا اس کے جو زوال پذیر واقعات ہیں ان کی طرف تو ہم تو جہ ہی نہیں دیتے ہماری نگاہ تو صرف ایک ہی مرکزی نقطے پر مرکوز رہتی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات جَلّ شانہ.ہمارے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پاک ذات کے ساتھ تعلق پیدا کیا جسے قرآن کریم نے اللہ کہا ہے اور جسے ہم نے پہچانا اور اس کا عرفان حاصل کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا عشق پیدا کیا ہے کہ جس کی مثال اسلام سے باہر مل ہی نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تعلق کی مضبوطی کا ایک جگہ بڑی سادگی اور آرام کے ساتھ اس طرح بھی اظہار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا آسان ہے.اس میں کیا مشکل ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت مل جائے کوئی مشکل ہی نہیں ہے وہ جان مانگتا ہے جان دے دو.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے ساتھ اتنا گہرا اور مضبوط رشتہ قائم کیا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے.اس لئے جس چیز کو خدا تعالیٰ پسند نہیں کرتا اور جس حقیقت کا عام اعلان قرآن کریم نہیں کرتا وہ ہمارا رد عمل نہیں ہوسکتا.اگر کوئی شخص احمدی کہلا تا ہو اور اس کا ایسا رد عمل ہو جو ظلم کی تعریف کے اندر آتا ہو اور جس کے نتیجہ میں اس شخص پر انفرادی طور پر اللہ تعالیٰ کا غصہ ظاہر ہو اور وہ خدا کی محبت سے دور ہو تو وہ احمدی نہیں ہے.چاہے وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہو.اس لئے کسی احمدی کا کوئی رد عمل خواہ دنیا کے حالات کیسے ہی کیوں نہ رونما ہوں ایسا ہو ہی نہیں سکتا جس پر ظلم کی مہرلگی ہو.پسے ستمبر کو ہماری قومی اسمبلی نے جو قرار داد پاس

Page 716

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۹۶ خطبہ جمعہ ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء کی ہے اس کا رد عمل ایک بچے اور حقیقی احمدی کا ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ جس سے کسی پر ظلم وارد ہو.ظلم کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَحَلَّه کی چیز کا غیر محل میں رکھ دینا یعنی مناسب حال کام نہ کرنا بھی ظلم میں شامل ہے.ظلم کے معنی مفردات امام راغب کی رُو سے حق تلفی کرنا ہوتے ہیں گو یا ظلم کے معنی میں حقوق کو تلف کر دینا اور حق کے معاملہ میں تجاوز کی راہ کو اختیار کرنا شامل ہے.امام راغب نے مزید لکھا ہے کہ جب ظلم کا لفظ گناہ کے معنوں میں استعمال کیا جائے تو اس معنی کے لحاظ سے وہ گناہ کبیرہ پر بھی استعمال ہوتا ہے اور گناہ صغیرہ پر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی حق سے چھوٹے سے چھوٹا تجاوز بھی ظلم ہے اور بڑے سے بڑا تجاوز بھی ظلم ہے.اس میں چھوٹے بڑے کا کوئی فرق نہیں ہے.پھر انہوں نے لکھا ہے کہ ظلم کی تین قسمیں کی گئی ہیں.بَيْنَ الْإِنْسَانِ وَبَيْنَ اللہ انسان کے جو تعلقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہیں ، ان میں ظلم ہو جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں.انسان ظالم بن کر انہیں ادا نہیں کرتا.(پس) اس ظلم کی ایک بھیا نک تو جیہہ یہ ہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں ، وہ ادا نہیں کئے جاتے.وہ حقوق اس معنی میں نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کسی انسان کی ضرورت ہے.وہ تو خالق اور مالک ہے اس نے دنیا کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے وہ صد اور غنی ہے اسے کسی چیز کی احتیاج نہیں ہے.وہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے.ہر چیز اس کی ملکیت ہے.ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے لیکن اس کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے جب خدا تعالیٰ کی یہ دو تین صفتیں ہمارے سامنے آتی ہیں تو خدا تعالیٰ کی (ان) صفات کی یہ شکل بنتی ہے کہ اس نے ہر چیز کو پیدا بھی کیا.وہ ہر چیز کا مالک بھی ہے لیکن وہ صدر اور غنی بھی ہے اس لئے اسے کسی چیز کی حاجت نہیں.اس نے اپنی حکمت کا ملہ سے جو کیا وہ کیا مگر اسے کسی چیز کی احتیاج اور ضرورت نہیں تھی اسے ضرورت نہ تھی کہ انسان اس کی حمد کرتے ، اس کی تسبیح کرتے ، اس کے شکر گزار بندے بنتے ، اس کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاتے یعنی مظہر صفات الہیہ بنتے اور تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللہ کا نظارہ دکھاتے.غرض خدا تعالیٰ کو دنیا کی کسی چیز کی احتیاج نہیں ہے احتیاج تو ہمیں ہے لیکن حقوق اللہ کی ادا ئیگی کا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کا حق ہے.

Page 717

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۹۷ خطبہ جمعہ ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء انسان پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ وہ اس کی تسبیح کرے ، تحمید کرے شرک نہ کرے اور فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو.اس کا کہنا مانے اس کے حکم کو توڑنے والا نہ ہو.خدا تعالیٰ جو کہتا ہے یعنی جو اوامر ہیں ان کے مطابق کام کیا جائے اور جو کہتا ہے نہ کر و یعنی نواہی ہیں ان کے مطابق قطع تعلق کرلو، تو پھر خدا تمہیں مل جائے گا.گو یا ظلم کے ایک معنی حقوق اللہ کوا دا نہ کرنے کے ہیں.پس وہ حق جو خدا کا بندہ پر ہے اس میں تجاوز نہ ہو.اس کو تلف نہ کیا جائے.- بَيْنَ الْإِنْسَانِ وَبَيْنَ النَّاسِ کہ وہ حقوق جو ایک شخص پر النَّاس، یعنی عوام کے ۲ ہیں انسان ان حقوق کو تلف نہ کرے.اگر تلف کرے گا تو ظالم بن جائے گا.بَيْنَ الْإِنْسَانِ وَبَيْنَ نَفْسِه که انسان پر اس کے نفس کے بھی کچھ حقوق ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی لوگوں کو فرمایا ہے کہ تم اپنے نفس کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کیا کرو مثلاً نفس کا سب سے بڑا حق تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس قدر روحانی قوتیں اور استعداد میں دی ہیں ان کو صحیح اور کامل نشو ونما دے کر وہ اپنے دائرہ کے اندر خدا تعالیٰ سے قریب سے قریب تر ہو جائے.یہ نفس کا ایک حق ہے.اس حق کی ادائیگی کے لئے پھر دنیا کے حقوق ہیں مثلاً انسان جان کر اتنا بھوکا نہ رہے کہ کمزوری پیدا ہو جائے اور وہ نفس کے روحانی حقوق نہ ادا کر سکے یا اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ دوسرے انسانوں کا یہ حق ان کو ملتا رہے کہ وہ بھوک، پیاس یا بیماری جس کا علاج نہ ہوان تکالیف کو دور کرنے کے نتیجہ میں جو روحانی رفعتیں وہ حاصل کر سکتے تھے عبادات زیادہ غور اور توجہ اور انہماک کے ساتھ اور زیادہ وقت دے کر اور روحانی طور پر زیادہ سختیاں برداشت کر کے اس میں کمی واقع ہو جائے اور وہ اپنے دائرہ استعداد میں ان روحانی رفعتوں کو حاصل نہ کر سکے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ہے.یہ پہلو بھی نفس کے حقوق کے اندر آجاتا ہے اور یہ نفس کے حقوق کے اندر اس لئے آجاتا ہے کہ بَيْنَ الْإِنْسَانِ وَبَيْنَ النَّاسِ کی رو سے عوام کے حقوق جو ایک شخص واحد پر ہیں، اس میں بھی آتا ہے اور وہ الناس کے نقطۂ نگاہ سے ہے اور بَيْنَ الْإِنْسَانِ وَبَيْنَ نَفْسِه میں اس کے اپنے نقطۂ نگاہ سے کیونکہ وہ شخص جو اپنی شخصیت

Page 718

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۹۸ خطبہ جمعہ ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء کو روحانی طور پر نشو ونما دینے کی کوشش کر رہا ہے اگر وہ اس بات کا خیال نہیں رکھتا کہ اس کا جو ماحول ہے اس میں اس کے حقوق مل رہے ہیں.اگر نہیں تو نشوونما کے اندر کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.پس ہر انسان اپنی نشو ونما کی خاطر غیر کی نشوونما میں تعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة : ٣) کے حکم کے مطابق کوشش کرتا ہے.پس ظلم کے یہ تین معنے کئے گئے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاللهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ ظلم کے کسی معنی میں بھی خدا تعالیٰ ظالم سے پیار نہیں کرتا.اس لئے جماعت احمد یہ اور جماعتِ احمد یہ کے افراد کا کوئی رد عمل کے رستمبر کی قرارداد پر ایسا نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں وہ ظالم ٹھہر جائیں.انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا ان کا رد عمل ایسا ہو گا کہ خدا تعالیٰ انہیں یہ کہے گا کہ میرے پیارو! میرے اور قریب آجاؤ کہ جب تمہیں دکھ دیا گیا تو تم نے میرے حقوق نہیں بھولے بلکہ میرے پیارا اور رضا کو حاصل کرنے کے لئے اور زیادہ کوشش کی.دوسری چیز جس کے نتیجہ میں انسان خدا تعالیٰ کے پیار اور محبت سے محروم ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت ۲۰۶ میں فرمایا ہے واللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ( البقرة : ۲۰۶) کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا.فساد کے معنے ہیں : "خُرُوجُ الشَّيْءِ عَنِ الْإِعْتِدَالِ‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بیچ کا راستہ ہے یا خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے صراط مستقیم یعنی سیدھی راہ بنائی ہے اس سے بھٹک کر انسان اگر دائیں چلا جائے تب بھی اور بائیں چلا جائے تب بھی خدا تعالیٰ کے پیار سے محروم ہو جاتا ہے.فساد کے مقابلہ میں صلاح کا لفظ آتا ہے کیونکہ فساد منفی معنوں میں دلالت کرتا ہے.اس لئے گویا صلاح کا نہ ہونا صلاح کا فقدان فساد کہلاتا ہے اور صلاح کے معنے فساد کے معنوں پر روشنی ڈالتے ہیں اور صلاح کے معنے ( جب یہ لفظ صالح اسم فاعل کے طور پر استعمال ہوتا ہے ) تو اس وقت اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ الْقَائِمُ بِمَا عَلَيْهِ مِنَ الْحُقُوقِ وَالْوَاجِبَاتِ “ کہ ہر وہ انسان جس پر اللہ تعالیٰ نے جو حقوق اور واجبات مقرر کئے ہیں اور یا اس کی صلاحیت میں رکھے ہیں وہ ان سے منحرف نہ ہو بلکہ مضبوطی کے ساتھ وہ اپنے اس مقام پر کھڑا ہو جو مقام کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا ہے.چنانچہ دنیا میں جتنا فتنہ وفساد، لڑائیاں،

Page 719

خطبات ناصر جلد پنجم ۶۹۹ خطبہ جمعہ ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء جھگڑے اور ظلم ہوتے ہیں دراصل ان کی جڑ یہ فساد ہی ہوتا ہے.انسان کسی (دوسرے) کا حق دینے سے گریز کرتا ہے اور اپنا حق لینے کے لئے دوسرے کا سر پھوڑنے کے لئے ) تیار ہو جاتا ہے.پس ہر ایک احمدی کا جو حق ہے وہ اسے ملنا چاہیے خواہ وہ کوئی ہو.ہمارا اشد ترین مخالف بھی ہے تب بھی ہر احمدی یہ کہتا ہے کہ اس کے جو حقوق خدا تعالیٰ نے اور ہمارے دستور نے اور قانون نے بنائے ہیں وہ انکو ملنے چاہئیں.کسی احمدی یا کسی جماعت احمد یہ یا مرکز احمدیت کا یہ مطالبہ نہ کبھی ہوا نہ کبھی ہمارے دماغوں میں آیا بلکہ ہم تو ہمیشہ اپنے بھائیوں اور دوستوں کو جو احمدی نہیں اور جن پر انتظامی ذمہ داریاں ہیں ان سے باتیں کرتے ہوئے انہیں سمجھایا کرتے ہیں کہ دیکھو ہر آدمی کا جو بھی حق ہے وہ اسے ملنا چاہیے.قطع نظر اس کے کہ وہ احمدیت کی مخالفت کرتا ہے یا احمدی ہے یا احمدیت کے متعلق نہ مخالفانہ رائے رکھتا ہے اور نہ اسے قبول کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کے جو حقوق قائم کئے ہیں وہ اسے ملنے چاہئیں ورنہ تو ساری دنیا میں فساد پیدا ہو جائے گا.پس لڑائی جھگڑے جنہیں ہم عام معنوں میں فساد کہتے ہیں ان کی جڑ ہی یہ ہے کہ انسانوں کے ایک گروہ کو ان کے حقوق نہیں ملتے اور وہ بے چین ہو جاتے ہیں.ان کو اتنا غصہ چڑھتا ہے کہ وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے دوسروں کے حقوق مارنے شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح غلط قسم کا چکر چل پڑتا ہے.پس ایک احمدی چونکہ اپنے دل میں خَشْيَتُ اللہ رکھتا ہے اور چونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جائے اس لئے وہ کہتا ہے کہ مجھے کوئی کام ایسا نہیں کرنا چاہیے جو فساد کا موجب ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَاللهُ لا يُحِبُّ الْفَسَادَ اللہ تعالیٰ فساد سے پیار نہیں کرتا.اگر اللہ تعالیٰ فساد سے پیار نہیں کرتا تو فسادی سے پیار کیسے کرے گا.پس ایک احمدی کا رد عمل کے رستمبر کی قرارداد پر ایسا نہیں ہوگا کہ اس میں دنیا ظلم کا شائبہ دیکھے اور نہ ایسا ہو گا کہ اس کے نتیجہ میں فساد پیدا ہو اور لوگوں کی حقوق تلفی ہو یا ان کے حقوق تلف ہونے کے حالات پیدا ہو جائیں کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض جگہ فساد کے نتیجہ میں وہ لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں جو فسادی نہیں ہوتے اور نہ وہ کسی کے حقوق تلف کر رہے ہوتے ہیں مگر

Page 720

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء وہ بھی فساد کی زد میں آجاتے ہیں مثلاً دو ہمسائے لڑ پڑتے ہیں تو ان میں سے ایک بہر حال حق پر نہیں ہوتا یا بعض دفعہ جب دو آدمی لڑ پڑتے ہیں تو تین شکلوں میں سے ایک شکل ضروری ہوتی ہے یا دونوں حق پر نہیں ہوتے.ہر دو اپنے حقوق سے زیادہ کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں یا ان میں سے ایک حق پر ہوتا ہے مثلاً زید حق پر ہوتا ہے اور بکر حق پر نہیں ہوتا یا بکر حق پر ہوتا ہے اور زید حق پر نہیں ہوتا.اب بکر اور زید کی لڑائی میں ان کے ہمسائے جو دو گھر پرے ہٹ کر ہوتے ہیں اور ان کی لڑائی میں شامل نہیں ہوتے وہ بھی متاثر ہوتے ہیں اور وہ اس طرح کہ لڑائی کرنے والوں میں سے غصہ میں آکر کوئی ایک آدمی بجلی کا پول اڑادیتا ہے.جس سے ساری گلی میں اندھیرا ہو جاتا ہے.کئی گھروں کے معصوم بچے امتحان کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں ان کا وقت ضائع ہونے کی وجہ سے ان پر ظلم ہو رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ فساد میں شامل ہی نہ تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ ایک بڑی پیاری اور حسین آیت کے ایک ٹکڑے میں فرمایا ہے کہ ایسے گناہ کرنے سے بچا کرو کہ جب ان پر گرفت کی جاتی ہے تو وہ لوگ بھی سزا اور عذاب کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں جن کا کوئی گناہ نہیں ہوتا.یہ ایک حقیقت زندگی ہے.اس سے اللہ تعالیٰ پر اعتراض نہیں ہوتا البتہ اس سے انسان پر اعتراض واقع ہوتا ہے کہ اس نے اپنے ماحول کو مومنانہ اور صالحانہ کیوں نہیں رکھا.بہر حال یہ ایک لمبی تفصیل ہے.میں اس وقت مختصراً دو منفی پہلوؤں پر روشنی ڈال رہا ہوں.جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ جماعت احمد یہ مجھ سے ایک سوال یہ کر رہی ہے کہ مذکورہ قرارداد پر تبصرہ کیا جائے.اس کا جواب میں دے چکا ہوں کہ میرے تبصرہ کو سننے کے لئے کچھ دیر انتظار کرو.میں غور کر رہا ہوں میں دعائیں کر رہا ہوں.میں مشورے لے رہا ہوں اس کے بہت سے پہلو ہیں.اگر خدا نے چاہا تو اسی کی توفیق سے اگلے جمعہ کے خطبہ میں یا جب خدا چاہے گا.انشاء اللہ تبصرہ ہوگا.دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ تمہارا رد عمل یہ ہونا چاہیے کہ نہ تم ظالم بنو خدا کی نگاہ میں اور نہ تم مفسد بنو خدا کی نگاہ میں.اس لئے جماعت احمدیہ کا کوئی رد عمل ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ جس میں سے ظلم کی بُو آتی ہو یا اس کے اندر فساد کی سٹراند پائی جاتی ہو ہمارا رد عمل بالکل ایسا نہیں ہوگا.اور بھی باتیں ہیں لیکن آج کے

Page 721

خطبات ناصر جلد پنجم 2+1 خطبہ جمعہ ۱۳ رستمبر ۱۹۷۴ء لئے یہی دو کافی ہیں.یہ میرا کام ہے کہ اسے آہستہ آہستہ واضح کرتا چلا جاؤں.رد عمل کے منفی پہلو پر بھی شاید مجھے کچھ اور کہنا پڑے گا.پھر اس کے مثبت پہلو بھی بتاؤں گا اور اپنے وقت پر انشاء اللہ تبصرہ بھی کروں گا.مجھے خوشی ہے کہ آج بہت سارے لوگ باہر سے بھی آئے ہوئے ہیں ان کو ایک حصہ مل گیا ہے.باقی حصوں کے متعلق سننے کے لئے بھی وہ ہر جمعہ کو آیا جایا کریں اور احباب دعا ئیں بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے صحت سے رکھے اور مجھے توفیق دے کہ میں اپنی ذمہ داریوں کو نباہ سکوں.جیسا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تھا آپ کا وجود اُمت محمدیہ کے وجود سے علیحدہ نہیں تھا.اس لئے آپ کے نائبوں کے جو نا ئب ہیں ان کے مبائع کا وجود اور خلیفہ وقت کا وجود علیحدہ علیحدہ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.پس جو میں سمجھا اور جو خدا نے مجھے بتا یا اس کے آگے سارے جسم پر اثر ہونا چاہیے.حتی کہ اس کا اثر انگلیوں کے ناخنوں اور پاؤں کی انگلیوں تک سرایت کرنا چاہیے یہ ایک حقیقت ہے اس کا سمجھنا ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر ایسا نہ ہو کہ ہماری انگلی کسی اور طرف منہ کر کے ہل رہی ہو اور ہمارا دماغ خدا کی طرف نگاہ کئے اللہ تعالیٰ کی حمد میں مشغول ہو.اس طرح کرنے پر تضاد پیدا ہو جائے اور ہماری انگلی اتنی بیمار سمجھ لی جائے کہ اسے کاٹنا پڑ جائے انشاء اللہ یہ نہیں ہوگا.باقی جہاں تک کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا سوال ہے یہ تو میں شروع سے کہہ رہا ہوں اس قرار داد سے بھی بہت پہلے سے کہتا چلا آیا ہوں کہ جس شخص نے اپنا اسلام لاہور کی مال (روڈ ) کی دکان سے خریدا ہو، وہ تو ضائع ہو جائے گا لیکن میں اور تم جنہیں خدا خود اپنے منہ سے کہتا ہے کہ تم (مومن ) مسلمان ہو تو پھر ہمیں کیا فکر ہے دنیا جو مرضی کہتی رہے تمہیں فکر ہی کوئی نہیں.باقی تبصرے بعد میں ہوتے رہیں گے.روزنامه الفضل ربوه ۱۴ را کتوبر ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 722

Page 723

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۰۳ خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء امتحان کے وقت مومن کے اندر ضعف نہیں پیدا ہوتا بلکہ وہ ایمان میں ترقی کرتا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۰ رستمبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ماہ رمضان اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آگیا ہے.اس مہینہ میں قریباً ہر قسم کی عبادات جمع کی گئی ہیں.صدقہ وخیرات ، قربانی ، روزہ رکھنا، قرآن کریم کی تلاوت کثرت کے ساتھ کرنا ( جو منبع اور سر چشمہ ہے تمام علوم کا اور بنیادی طور پر دنیوی علوم کا بھی منبع ہے اور روحانی علوم کا سر چشمہ تو ہے ہی ) اسی وجہ سے صوفیائے کرام کا یہ قول ہے کہ اس ماہ میں تنویر قلب کے بہت سے سامان رکھے گئے ہیں یعنی اگر خلوص نیت کے ساتھ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور میں قربانیاں دے تو کشف کا دروازہ کھلتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر سال میں ایک ماہ ایسا رکھ دیا کہ جس میں اس قسم کی عبادتیں اکٹھی ہو گئیں کہ ( جن کے نتیجہ میں ) اللہ تعالیٰ اپنی رضا کی راہوں کو فراخ کر دیتا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالی آسمان سے (اُتر کر ) انسان کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے.یہ ایک تمثیلی زبان ہے ( بعض لوگوں کو اس کی سمجھ نہیں آتی اور دماغ میں اعتراض پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے لیکن تمثیلی زبان میں ہم یہ کہتے ہیں کہ آسمان سے نیچے اتر آتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ کشف کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کی راہیں اس پر آسان ہو جاتی

Page 724

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۰۴ خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء ہیں اور اس طرح پر خدا تعالیٰ کا ایک مخلص اور مومن بندہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طفیل کشف حاصل کرتا اور محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے قریب ہے اور بعد کے خطرات اور توہمات سے وہ نجات حاصل کر لیتا ہے.پس اس ایک مہینہ میں اگر ہم سمجھ کے ساتھ اور عرفان کے ساتھ ان عبادات کو بجالائیں جن کو اس مبارک مہینہ میں اکٹھا کیا گیا ہے تو روحانی طور پر زیادہ ذوق اور شوق پیدا ہوتا ہے اور عام دنوں اور عام موسموں کے علاوہ ان دنوں میں روحانی طور پر محبتِ الہی کی ایک آگ بھڑکتی ہے اور یہ روحانی تپش اور آگ ایسے سامان پیدا کرتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کو زیادہ روشن طور پر اپنی زندگی میں دیکھتا ہے اور اس کے پیار پر وہ خوش ہوتا ہے اور اس کا شکر اور حمد کرنے کا اور اس کی راہ میں قربانیاں دینے کا سلسلہ اور بھی تیز ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے مہینے سے زیادہ سے زیادہ برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے.پچھلے خطبہ میں میں نے جماعت کو یہ بتایا تھا کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور مہدی معہود ( جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محبوب ترین روحانی فرزند ہیں ) کی وساطت سے نئے سرے سے وہ معرفت عطا ہوئی جو صحابہ کرام کو اسلام کی نشاۃ اولی کے زمانہ میں ملی تھی اور اس معرفت کا نتیجہ یہی ہوتا ہے خواہ وہ دنیوی معرفت ہو یعنی یقینی علم ہو یا روحانی معرفت ہو کہ اس سے محبت پیدا ہوتی ہے یعنی جب انسان کو اللہ تعالیٰ کے حسن اور اس کے احسان کا علم ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی اس معرفت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے انسان کے دل میں محبتِ ذاتی پیدا ہوتی ہے محبت ذاتی کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی محبت نہیں ہوتی جو دنیا دار مثلاً انگلستان یا ہندوستان یاکسی اور ملک کا رہنے والا اپنے افسر سے محبت یا لگاؤ کا اظہار اس لئے کرتا ہے کہ اس سے کچھ دنیاوی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے.ایک اس قسم کی (میں کہوں گا ) بیہودہ سی محبت بھی دنیا میں پائی جاتی ہے لیکن جس وقت خدا تعالیٰ کی معرفت انسان کو حاصل ہو جائے اور اس کی عظمت اور اس کے جلال کا علم مل جائے اور یقینی طور پر انسان کے سامنے خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال اور اس کا حسن اور اس کا احسان آجائے تو خدا تعالیٰ کا پیار پیدا ہوتا ہے.محبت دل میں پیدا ہوتی ہے اور میں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ جب انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی اس طور پر ذاتی محبت

Page 725

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۰۵ خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء پیدا ہو جائے تو یہ محبت، محبت ذاتی جو انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے دو نقاضے کرتی ہے.ایک یہ کہ انسان کوشش کرتا ہے کہ میرا یہ محبوب میری کسی غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں مجھ سے ناراض نہ ہو جائے اور دوسرے یہ کہ انسان کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ میں وہ اعمال بجالاؤں جن کے نتیجہ میں میری یہ محبت یکطرفہ نہ رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کی رضا بھی مجھے حاصل ہو.میں نے بتایا تھا کہ ۷ ستمبر کو جو بھی ایک مذہبی فیصلہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے کیا اس کا رد عمل احمدی کی طرف سے جس کے دل میں اپنے رب کا پیار ہے ایسا ہو ہی نہیں سکتا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خدشہ ہو اور یہ بات ہمیں قرآنِ کریم نے بتائی ہے کہ کن باتوں سے وہ ناراض ہوتا ہے اور کن اعمال کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کو حاصل کرتا ہے.میں نے بتایا تھا کہ وہ کام جن کے متعلق قرآنِ عظیم نے کہا ہے کہ اگر انسان ان کا مرتکب ہو تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے والا ہے ان میں سے میں نے دو کا ذکر کیا تھا.ایک ظلم اور دوسرے فساد کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ظلم کو پسند نہیں کرتا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں فساد سے پیار نہیں کرتا تو ہر وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ظالم ہو یا فسادی ہو وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل نہیں کر سکتا بلکہ اس کی ناراضگی مول لینے والا ہوتا ہے.اس لئے جماعت احمدیہ اور احباب جماعت احمدیہ ( سوائے چند منافقوں کے ) یا پھر بہت ہی نئے نئے جوان احمدیوں کے جن کی تربیت ابھی صحیح نہیں ہوئی جو لاکھ میں شاید ایک ہوان کے سوا اور کسی کا رد عمل ایسا نہیں ہوگا کہ جس کے متعلق قرآنِ عظیم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لو گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کو تم حاصل نہیں کر سکو گے تو میں نے اس قسم کے دو بد اعمال کا پچھلے خطبہ میں ذکر کیا تھا.میں نے بتایا ہے کہ قرآنِ عظیم نے بہت سے ایسے اعمال کا ذکر کیا ہے جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور بہت سے ایسے اعمال کا ذکر کیا ہے جن پر اللہ تعالیٰ کی رضا مترتیب ہوتی ہے اور انسان کو اپنے اس عظیم اور پاک اور عظمت اور جلال کے سرچشمہ اور تمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور ہر ایک عیب سے پاک ذات کی محبت اس کومل جاتی ہے.

Page 726

خطبات ناصر جلد پنجم 2.4 خطبه جمعه ۲۰؍ ستمبر ۱۹۷۴ء آج میں مختصراً دو ایسی مثبت باتیں لوں گا جن کے متعلق قرآنِ کریم نے کہا ہے کہ اگر تم یہ اعمال بجالا ؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی محبت تمہیں مل جائے گی یعنی معرفت کے نتیجہ میں پیدا کرنے والے رب کریم کے لئے جو تمہارے دل میں پیدا ہو گا وہ یکطرفہ نہیں رہے گا بلکہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ پیار کا سلوک کرے گا اور اس کی رضا کو تم حاصل کرو گے.ان میں سے پہلی چیز صبر ہے.سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وَاللهُ يُحِبُّ الصُّبِرِينَ (آل عمران: ۱۴۷) اور اس آیت میں صبر کے دو پہلو نمایاں کئے ہیں اسی آیت میں جس کے آخر میں فرمایا وَ اللهُ يُحِبُّ الطبرین اس کے شروع میں دو معنی بتائے ایک یہ کہ وہ تکالیف جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہنچی ہیں ان کے نتیجہ میں انسان ست ہوتا ہے نہ ضعف کے آثار اس کے اندر پیدا ہوتے ہیں یعنی ضعف اور کمزوری پیدا نہیں ہوتی اور سستی پیدا نہیں ہوتی تو جوں جوں اللہ تعالیٰ کی آزمائش میں ( آفات کے ذریعہ اور ابتلا کے ذریعہ اور بأساء کے ذریعہ ضراء کے ذریعہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان کیا ہے ) خدا تعالیٰ کے بندے کی اس کے محبوب کی طرف سے آزمائش کی جاتی ہے اسی نسبت سے اس کے اعمالِ صالحہ میں وھن اور ستی کی بجائے زیادہ شدت پیدا ہوتی ہے اور ضعف و کمزوری اور ناتوانی کی بجائے طاقت پیدا ہوتی ہے وہ اور اُبھرتا ہے جس طرح بچے ٹینس کی گیند اور ربڑ کی گیند کے ساتھ کھیلتے ہیں ( بچپن میں ہم بھی بہت کھیلا کرتے تھے اب وہ عمر گزرگئی ) جتنے زور سے گیند کو زمین پر آپ پھینکیں اتنے ہی زور کے ساتھ وہ زیادہ اونچا اُبھرے گا تو انسان جب اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کی آزمائش کے لئے اور اس کے ثواب میں زیادتی پیدا کرنے کے لئے اور اپنی محبت کا زیادہ حسین رنگ میں اظہار کرنے کے لئے اپنی مخلوق میں سے بعض کو اپنے اس بندے کو زمین پر پٹخنے کی اجازت دے دیتا ہے کہ میرے اس بندے کو زمین پر زور سے پٹھو! اور جب وہ پنجا جاتا ہے تو وہ ایک کمزور ایمان والے کی طرح یا غافل کی طرح زمین کے ساتھ چپک نہیں جاتا بلکہ جتنے زور سے بیچا جاتا ہے اتنا بلند ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے تو اس آیت میں صبر کے ایک معنی یہ بتائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے پیار کرتا ہے میں اس کی آزمائش کرتا ہوں اور اس کو

Page 727

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۰۷ خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء مصیبتوں میں ڈالتا ہوں، اگر میرے ساتھ پیار سچا ہو تو اس ابتلا اور امتحان کے اوقات میں میری محبت کے اظہار میں نہ ستی پیدا ہوتی ہے اور نہ میرے ساتھ عشق کے تعلق میں کمزوری اور ضعف پیدا ہوتا ہے بلکہ جوں جوں اسے مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے اور پیسا جاتا ہے اسی نسبت سے اس کا پیار زیادہ ابھرتا ہے اور وہ ایسے اعمال بجالاتا ہے جن کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت جو وہ خدا سے حاصل کرتا ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے.اس کے جلوے زیادہ حسین اور اس کا عرفان ( بندہ کے دل میں ) نسبتاً بہت زیادہ عظمتوں والا بن جاتا ہے.کلیۂ (اور کامل طور پر ) تو محسن اور احسان کا مالک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے مگر اس کی صفات کے جلوے اپنے بندوں کے ساتھ ان کے پیار اور ان کے اعمال کے مطابق ظاہر ہوتے ہیں اس لئے ہر شخص پر خدا تعالیٰ کے پیار کا جلوہ ایک جیسا نہیں ہوتا بلکہ ہر شخص پر اس کی محبت اور اس کی قربانی اور ایثار اور اس کے صبر اور دوسری وہ چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے ان کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی استعداد کے مطابق ہوتا ہے.یہ ایک دوسرا رنگ ہے.کسی کی استعداد تھوڑی ہے کسی کی زیادہ ہے اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے جو اس کے حسن اور احسان کے جلوے جو اس کے پیار اور رضا کے جلوے اسی کے مطابق نسبتاً کم یا زیادہ صورت میں اس پر ظاہر ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس صبر کرنے والے سے پیار کرتا ہوں جسے میری راہ میں دکھ دیا جاتا ہے.اس میں نہ کمزوری واقع ہوتی ہے نہ ضعف واقع ہوتا ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بشاشت کے ساتھ اور پہلے سے بھی زیادہ ذوق اور شوق کے ساتھ (جیسا کہ میں نے بتایا رمضان کی عبادتوں میں یہ انسان کی حالت روحانی ہو جاتی ہے) میرا بندہ میری طرف بڑھتا ہے اور جتنی تیزی سے وہ میری طرف بڑھتا ہے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ میں اس کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہوں.یہ اس کی جزا ملتی ہے.اور اس آیت میں صبر کے دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ مخالف کے سامنے تذلیل اختیار نہ کرنا بلکہ غیر اللہ کے سامنے تذلل توحید سے بعد کا نام ہے کیونکہ جو تو حید خالص پر قائم ہوتا ہے وہ تو غیر اللہ کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی مانند بھی نہیں سمجھتا اور حقیقت بھی یہی ہے.آپ خود بھی سوچیں کہ جس پاک وجود یعنی ہمارے اللہ نے اتنے بڑے عالمین (Universe)

Page 728

خطبات ناصر جلد پنجم 2.1 خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء کو پیدا کیا.اتنے بڑے عالمین کی وسعت کو ہمارا دماغ اور قوت فکر اپنے احاطہ میں نہیں لے سکتی.ایک لمبے مضمون کو مختصر کر کے میں اس کی مثال دے دیتا ہوں کہ ) ہمارا جو نظام شمسی ہے ( بہتوں کو اس سے واقفیت ہوگی بعض بچوں کو نہیں ہوگی ) ان گنت اور بے شمار نظام ہائے شمسی سے ایک قبیلہ بنتا ہے.وہ قبیلہ اس عالمین کی ایک اکائی ہے.اس کا اپنا ایک وجود ہے اور اس کو انگریزی میں کیلیکسی (Galaxy) کہتے ہیں اور یہ یہ در گیلیکسی Galaxy)(صرف) اپنی وسعتوں کے اندر قائم اور ( محدود) نہیں بلکہ جب سے گیلیکسیز (Galaxies) پیدا ہوئی ہیں اور جو سیلیکسی پیدا ہو جائے وہ ایک خاص معین اور نامعلوم جہت کی طرف حرکت کر رہی ہے اتنی وسعت ہے اور لیلیکسی (Galaxy) کے متعلق ان سائنسدانوں کا ( جن کا تعلق ستاروں کا علم حاصل کرنے سے ہے) کہنا ہے کہ ہم ان نظام ہائے شمسی کو شمار ہی نہیں کر سکتے جن سے ایک سیلیکسی (Galaxy) یا ایک قبیلہ بنتا ہے گویا ان گنت سورج کے نظاموں سے مل کر ایک قبیلہ بنتا ہے.سورج کے ایک نظام کو ایک خاندان سمجھیں اس سے پھر ایک قبیلہ بنتا ہے اور اس قبیلہ میں سورج کے بے شمار نظام ہیں اور اس ساری چیز کا ایک وجود ہے اور وہ سب کے سب اپنی اپنی نسبتیں ( جو ایک دوسرے سے ہیں ) قائم رکھتے ہوئے ایک جہت کی طرف حرکت میں ہیں مثلاً ہمارا سورج اور اس کے نظام کے ستارے اپنے اپنے محور پر بھی ایک خاص زاویہ میں ایک خاص تیزی کے ساتھ حرکت کر رہے ہیں اور سورج کے گرد بھی ان کی حرکت جو ایک مخصوص فاصلہ پر ہو رہی ہے اپنی جگہ قائم ہے اور ایک نظام شمسی کی نسبت وسعت کے لحاظ سے دوسرے نظام شمسی کے ساتھ ہے.یہ بے شمار اور ان گنت نسبتیں اللہ تعالیٰ نے ان خاندانوں کی آپس میں رکھی ہیں اور سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ جو گیلیکسی ہے جس میں ان گنت اور بے شمار نظام ہائے ستمسی ہیں ان ” قبائل کی تعداد بھی بے شمار ہے اور اَن گنت ہے آپ کا دماغ چکرا جائے گا.ہم اس وسعت کو دماغ میں لا ہی نہیں سکتے.پھر خالی یہ نہیں بلکہ ان بے شمار نظام ہائے شمسی کے بے شمار قبائل کی حرکت آپس میں (Parallel ) یعنی متوازی نہیں بلکہ ہرلمحہ ان کے آپس کے فاصلے بڑھ رہے ہیں.ان بے شمار اور ان گنت قبائل کے درمیان کا فاصلہ ہر آن بڑھتا چلا جارہا ہے.تو جس خلا (Space) میں یہ ان گنت گیلیکسیہ سیز (Galaxies)

Page 729

خطبات ناصر جلد پنجم 2.9 خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء ہیں اس کی وسعت کا تصور کون کر سکتا ہے اور یہ فاصلہ بڑھتے بڑھتے ایک وقت میں اتنا ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر بے شمار اور انگنت ” خاندانوں کی ایک مسی گیلکسی (Galaxy) سما سکے تو آدھے سائنسدان اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ اس وقت خدا تعالیٰ کُن کہتا ہے اور یک دم بے شمار اور ان گنت خاندانوں کا ایک قبیلہ وہاں پیدا ہو جاتا ہے.اور چونکہ یہ حرکت ایسی ہے کہ ان کا باہمی فاصلہ ہر وقت بڑھ رہا ہے تو گویا ہر وقت ان بے شمار سیلیکسیز (Galaxies) کے درمیان اور بے شمار سیلیکسیز (Galaxies) پیدا ہورہی ہیں اور ان کا کوئی خاتمہ نہیں.پس خدا تعالیٰ کی صرف صفت خلق میں اتنی وسعت ہے تو خدا تعالیٰ کو ہماری عقل اپنے احاطہ میں لے ہی نہیں سکتی اور جب ہم نے اس عظیم ہستی پر کامل تو گل کر کے اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالا تو پھر کسی اور کے سامنے تذلل کے ساتھ ہم جھک کیسے سکتے ہیں؟ تو یہ ہے صبر جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے.صبر کے متعلق بہت سی آیات ہیں جن پر درجنوں خطبے دیئے جاسکتے ہیں لیکن میں آپ کو ایک احمدی کی حقیقت حیات سمجھانے کے لئے مثالیں دے رہا ہوں کہ ایک احمدی ایسا ہے جو صبر کرتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جوصبر کرے گا وہ میرا پیار حاصل کرے گا.دوسری جگہ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا.يَايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ ( البقرۃ : ۱۵۴) پہلے جو آیت میں نے پڑھی ہے اس کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ صبر کرنے والے سے پیارا اور محبت کرتا ہے اور یہاں یہ مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا صبر کرنے والے سے ہر قسم کا اچھا تعلق ہے.اِنَّ اللهَ مَعَ الصّبِرِينَ میں اس پہلے تصور سے بڑھ کر ایک تصور پیش کیا گیا ہے اور صبر کی جو صفت مومن کو اپنے اندر پیدا کرنے کو کہا اس سے ایک اور امر کی طرف توجہ دلائی اور گویا ساری زندگی کی روحانی کوشش کو ان دو چیزوں کے اندر محدود کر دیا یعنی صبر اور صلوٰۃ ( یعنی دعا) کہ اگر تم صبر اور دعا سے میری مدد چاہو گے تو میں ہر وقت تمہارے ساتھ رہوں گا.ایک تو اس سے ہمیں یہ پتہ لگا کہ خالی دعا ( بغیر تدبیر کے ) بالکل بے نتیجہ ہے کیونکہ یہ نہیں کہا کہ جو محض صلوۃ سے کام لیتا ہے دعا کرتا ہے اس کی زندگی کی کوششیں ثمر آور ہوں گی.یہ کہا کہ

Page 730

خطبات ناصر جلد پنجم 41° خطبه جمعه ۲۰ ر ستمبر ۱۹۷۴ء جو دعا بھی کرتا ہے اور صبر بھی کرتا ہے (وہ کامیاب ہو گا.) صبر کے جیسا کہ میں نے ابھی معنی بتائے ہیں یہ ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے روحانی عمل کے اندر کمزوری نہیں پیدا کر سکتی.جب انسان آزمایا جاتا ہے تو اس کی تدبیر کمزور ہونے کی بجائے زیادہ طاقتور ہو جاتی ہے.اس لحاظ سے یہاں یہ مفہوم ہوگا کہ جو دعا اور جو تد بیر وہ تدبیر جو صحیح معنی میں ہو اور ان راہوں پر ہو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی محبت انسان حاصل کرتا ہے.ویسی تدبیر اور دعا اللہ تعالیٰ کی ہر قسم کی معیت جو انسان کی جسمانی اور روحانی زندگی کے لئے چاہیے.وہ معیت اسے میسر آجاتی ہے اور جب اِنَّ اللهَ مَعَ الصّبِرِینَ کے معنی دوسری جگہ سورہ بقرہ میں ہی ہمیں یہ بتائے کہ یہ آیات صبر ، مصیبت اور آزمائش اور امتحان اور اس کی جزاء سے متعلق ہیں ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مصیبت کے وقت اور امتحان کے زمانہ میں.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ (البقرۃ: ۱۵۷) کا زبانی اور عملی ورد کرتا ہے.انا للہ کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا ہم نے تو سارا کچھ تیرے سپر دکر دیا.ہم سارے کے سارے خدا کے ہیں.لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْاَرْضِ (البقرة: ۱۰۸) زمین و آسمان خدا کی ملکیت ہے.یہ ل“ کے معنوں میں داخل ہے.انسان کو خدا نے کچھ تھوڑا سا اختیار دیا تھا انسان کہتا ہے انا للہ ہم سارے کے سارے ہر پہلو سے تیرے ہی ہیں اور ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ زندگی یہاں ختم ہونے والی نہیں اور ہم تیری طرف رجوع کرنے والے ہیں.اس زندگی میں بھی اس رجوع کا مطلب یہ ہے کہ تو ہمیں اپنی حفاظت میں رکھ اور ہمارے اعمال کا نتیجہ اچھا نکال اور اُخروی زندگی میں ہمیں پچھتاوا نہ ہو کہ ہم نے دنیا میں جو نیک کام کر کے اللہ تعالیٰ کی جنتوں کو حاصل کرنا تھا اس میں کوتاہی اور غفلت اور وھن اور ضعف پیدا نہ ہو.وہ آیات جن میں مختلف آزمائشوں کا ذکر ہے مثلاً وَ لَنَبْلُونَكُم بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوفِ....الخ وہ آزمائشیں اس وقت میرے مضمون کا حصہ نہیں.میرا مضمون یہ ہے کہ ہر آزمائش کے وقت خدا تعالیٰ کے ان احکام کو سامنے رکھ کر انا لہ کا احساس (ذہنی احساس اور عملی احساس) قائم رکھنا کہ جس کے ہم ملک ہیں اور ایک زبر دست ہستی اپنی ملکیت کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے وہ سلوک ہم اس سے متوقع رکھتے ہیں اور ہم اس کی پناہ میں ہیں وہ ہمیں آزمائے گا تو سہی لیکن ہمیں بے سہارا نہیں چھوڑے گا.وہ ہمیں 66

Page 731

خطبات ناصر جلد پنجم خطبه جمعه ۲۰ ر ستمبر ۱۹۷۴ء ہلاک نہیں کرے گا بلکہ وہ ہماری ترقیات کے اور دروازے کھولنے والا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ - أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کی رحمتیں حاصل کرنے والے ہیں.وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرۃ:۱۵۸) اور یہ وہ لوگ ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ ان کی انگلی پکڑ کر ان کے نیک انجام تک ان کو پہنچا دیتا ہے اور منزل مقصود تک وہ پہنچ جاتے ہیں اور انتہائی کامیابی ان کو مل جاتی ہے اور چونکہ صبر کے ساتھ آزمائشوں کا بھی ذکر ہے اس لئے ساتھ ہی یہ بھی ہمیں بتا دیا کہ فَاصْبِرُ اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ (الروم :۶۱) ایک تو اصول ہے تعلیم یہ ہے کہ تم خدا کے ہو جاؤ گے اور اپنے قول اور فعل سے انا للہ کہنے والے ہو گے اور تمہارا تو گل اور تمہاری نگاہیں الیہ رجعون کی طرف ہوں گی.آخری انجام خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو اللہ تعالیٰ سورہ روم میں فرماتا ہے کہ اگر تم استقلال سے اپنے ایمان پر قائم رہو تو اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ ضرور پورا ہوگا اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ ہمیں بھر پور وعدے دیئے ہیں جو ہماری زندگی کے ہر پہلو میں برکتوں کے وعدے ہیں اور نیک انجام کے وعدے ہیں اور ترقیات کے وعدے ہیں.اس زمانہ میں تو خدا تعالیٰ نے اُمت محمدیہ اور اس زمانہ کے مومنوں کو اتنا ز بر دست وعدہ دیا ہے کہ ویسا وعدہ صرف صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا تھا ورنہ دنیا کی تاریخ میں نوع انسانی کو اتنی زبر دست بشارت آج تک نہیں ملی ( آج سے میری مراد اسلام سے قبل ہے ) اور اسلام کے دو حصوں پر یہ بشارت بٹی ہوئی تھی.ایک وہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت آپ کی تربیت حاصل کر کے اس وقت کی ساری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے والے بنے.وَ اخَرِينَ مِنْهُمُ (الجمعة: ۴) اور ایک وہ دوسرا گروہ جس کا تعلق (ہمارے پہلے بزرگوں کے نزدیک بھی ) مہدی معہود علیہ السلام کے ساتھ تھا یعنی تم ! جماعت احمدیہ ( کیونکہ ہمارے عقیدہ کے مطابق مہدی آگئے ) تم سے خدا تعالیٰ نے آج وعدہ کیا ہے.اتنی بڑی بشارت دی ہے کہ انسان اس بشارت کو دیکھ کر پھر اپنی کمزوریوں پر نگاہ کر کے کانپ اٹھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کمزور اور دھتکاری ہوئی جماعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کر دے گا اور کشفی حالت میں اور الہام میں اس

Page 732

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۱۲ خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء کی شکلیں یہ دکھا ئیں.(اس کی بھی میں ایک مثال دے دیتا ہوں ) مثلاً روس ہے.روس میں جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ریت کے ذروں کی طرح دکھائی گئی.سارے روس کے ریت کے ذرے کون گن سکتا ہے.یہاں دریا کے کنارے پر جا کر کسی دن کھڑے ہو کر اپنے پاؤں کے نیچے جو ریت کے ذرے آئیں ان کو گنے کی کوشش کرنا ، وہ بھی تم سے نہیں گنے جائیں گے.یہ تو ایک چھوٹا سا حصہ ہے.یہ زمانہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا ہے.اس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ کن لوگوں کے ذریعہ سے یہ کام ہوگا.پس بڑی ذمہ داریاں ہیں اور اپنے نفوس کی بڑی اصلاح کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ سے بہت پختہ تعلق قائم کرنے اور قائم رکھنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا کرے.اور جہاں یہ کہا کہ استقلال سے ایمان پر قائم رہو وہاں یہ بھی کہا کہ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو ان وعدوں پر یقین نہیں رکھتے.فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ الله حق تو ساتھ یہ کہا کہ جو ان وعدوں پر یقین نہیں رکھتے (ان سے ہوشیار رہو ) یہ یادرکھو کہ وہ تمہیں دھوکہ دے کر اپنی جگہ سے ہٹا نہ دیں.ہر وقت محتاط رہنا.اور دوسری چیز بنیادی طور پر جو اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرتی ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے قُل اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) اگر تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس کی معرفت اور احسان کے بعد پیدا ہو چکی ہے تو یہ نہ سمجھنا کہ محض اس محبت کے پیدا ہو جانے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی تم سے پیار کرنے لگ جائے گا.ایسا نہیں ہوگا.اگر تمہارے دل میں سچی محبت ہے تو قرآن کہتا ہے کہ تمہیں یقین رکھنا چاہیے کہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت کو جواب میں بھی حاصل کرو گے مگر اس کے لئے ایک شرط ہے قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي - اس کے لئے یہ شرط ہے کہ انسان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتباع کرنے کی کوشش میں ہر وقت لگا رہے.اس اتباع کے بغیر اور محض معرفت کے نتیجہ میں کسی سینہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جانے کی وجہ سے خدا تعالیٰ محبت کا سلوک نہیں کرتا.بیچ میں اتباع محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے.

Page 733

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۱۳ خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء بات یہ ہے کہ کوئی چیز بھی اور خصوصاً جو بڑے بڑے سائنس کے علوم ہیں وہ عمل ( اور عملی تجربات) کے بغیر بے نتیجہ ہیں یعنی محض علم کا ہونا انسان کو اس کا پھل نہیں دے سکتا جب تک عمل نہ ہو.اس کی عام فہم مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دی ہے ( بچے بھی سمجھ لیں گے ) اگر ڈاکٹر یہ کہے کہ بچے کوملیر یا بخار ہے اسے کونین دو لیکن بچہ کہے کہ کونین کڑوی ہے میں نہیں کھاؤں گا اور نہ کھائے تو ( کیا) کونین کا فائدہ اس بچہ کو ہو گا ؟ صرف اس علم کی وجہ سے کہ کونین سے ملیر یا کا بخار اتر جاتا ہے وہ بخار نہیں اترتا.محض علم بخار نہیں اتارتا.علم کے مطابق عمل کرنا بخارا تارتا ہے.یہ علم اب عام زمینداروں کو بھی ہو گیا ہے کہ گندم کے بہت سے بیچ ایسے ہیں جن کے لئے زیادہ مقدار میں مصنوعی کھاد کی ضرورت ہے اور مصنوعی کھاد زیادہ پانی مانگتی ہے.اگر انسان گندم کے لئے بیج لگا دے اور تجربوں سے جو ثابت ہوا ہے کہ اتنی کھاد چاہیے اس کا پتہ تو ہومگر اس پر عمل نہ کرے ( انسان کا علم ہر روز ناقص ہی رہتا ہے نئے نئے تجربے ہوتے رہتے ہیں اور نیا علم انسان کو بتا تا ہے کہ پہلا علم ناقص تھا جس پر تو نازاں ہوا کرتا تھا، بڑا فخر کرتا تھا بہر حال ) اب ماہرین یہ کہتے ہیں کہ نئے بیج کے لئے ایک اور دو کی نسبت سے کھاد کی ضرورت ہے یعنی تین میں سے ایک فاسفورس اور دو یوریا کی نسبت ضروری ہے.اگر ایک بوری فاسفورس کی ڈالی ہے تو دو بوری یوریا یا اگر سو پاؤنڈ فاسفورس ڈالا ہے تو دو سو پاؤنڈ یوریا چاہیے.اگر کوئی ایسا بیج لگائے اور اس کو صحیح مقدار میں کھا د اور وقت پر پانی ملتا رہے تو پچاس یا ساٹھ من ایک ایکڑ میں سے گندم ہو جائے گی.بیج تو وہ لگا دے لیکن کھا د دینے کا وقت آئے تو وہ سوچے کہ کون رقم خرچ کرے بس اسی طرح ٹھیک ہے، اللہ مالک ہے، تو خدا کا قانون اور حکم کہتا ہے کہ جو علم میرے قانون کا تم نے حاصل کیا اگر اس کے مطابق تم عمل نہیں کرو گے تو نتیجہ وہ نہیں نکلے گا جس کی تم توقع رکھتے ہو یا جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے.محکمہ زراعت والے مشورہ دیتے ہیں کہ اتنی کھاد ڈال دو اور اگر آپ اتنی کھاد ڈال دیں اور محکمہ آبپاشی آپ کو وقت پر پانی مہیا نہ کرے جیسا کہ بسا اوقات احمدی میرے پاس یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں وقت پر پانی نہیں دیا اور نہر یا سوئے بند کر دیئے اور درمیان میں کوئی ایسی روک آجاتی ہے تو سوکھے کی وجہ سے گندم کے جلنے کا امکان زیادہ ہے پچاس ساٹھ من گندم

Page 734

خطبات ناصر جلد پنجم پیدا ہونے کا امکان کم ہے.۷۱۴ خطبہ جمعہ ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء میں آپ کو یہ دو مثالیں دے کر یہ سمجھا رہا ہوں کہ محض علم اور معرفت کا حاصل ہونا نتیجہ خیز نہیں.اس کے لئے اس کے مطابق عمل ہونا چاہیے.پس معرفت صرف علم ہے اس سے انسان اللہ تعالیٰ کی اس شان کو جو فی الواقعہ ہے جیسا کہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا اور اس کی عظمت اور اس کا جلال اور اس کی کبریائی اور اس کی وحدت، ان چیزوں کی جب انسان معرفت حاصل کرتا ہے تو پھر اس میں ایک تڑپ پیدا ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کی حقیقی معرفت تو بہر حال عمل کروا دیتی ہے کیونکہ پھر دوری نا قابل برداشت ہو جاتی ہے لیکن ہم یہ ممکن مثال لے رہے ہیں کہ ) اگر معرفت ہو اور عمل نہ ہو، قریب جانے کی کوشش نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اعمالِ صالحہ کی طرف توجہ نہ ہو جہاں سے ہمیں ان اعمال کا علم مل رہا ہے یعنی قرآن کریم ، وہ ہم پڑھیں نہ، اس پر غور نہ کریں، قرآن کریم کے علم کے مطابق کوئی نمونہ ہمارے سامنے نہ ہو اور اسوۂ حسنہ کو نظرانداز کر دیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام دنیا کے لئے اور تمام ان لوگوں کے لئے جو خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا چاہتے ہیں ایک اُسوہ حسنہ ہیں.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ (الممتحنة: ٧) جو خدا کو چاہتا ہے اور اس کی محبت حاصل کرنے کی توقع رکھتا ہے اور امید رکھتا ہے اور رجاء رکھتا ہے اس کے لئے محض معرفت کے نتیجہ میں سینوں میں اور دلوں میں محبت کا پیدا ہو جانا کافی نہیں اور حقیقتا تو وہ محبت ہے ہی نہیں جو عمل کی طرف انسان کو اکساتی نہیں.قرآنِ کریم نے کہا اِن كُنتُم تُحِبُّونَ الله اگر معرفتِ باری تمہیں حاصل ہوگئی اور خدا تعالیٰ کی معرفت کے بعد تمہارے دل میں اس کا پیار پیدا ہو گیا تو پھر بھی تمہیں اس کا ود پیار نہیں ملے گا جب تک تم فَاتَّبِعُونِي يُحبكم الله کے مطابق میری ( یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ) کامل اتباع نہیں کرو گے.یہ اعلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کروایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے اسوہ بنایا ہے اگر اپنی محبت کے بدلے میں خدا تعالیٰ کی محبت کی توقع اور رجاء رکھتے ہو تو میری اتباع کرنی پڑے گی، میرے پیچھے چلنا پڑے گا ، نمازیں اس طرح ادا کرنی

Page 735

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۱۵ خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء پڑیں گی جس طرح میں نے کیں، روزے اس طرح رکھنے پڑیں گے جس طرح میں نے رکھے.یہ درست ہے کہ آپ کی استعداد تمام بنی نوع انسان سے زیادہ تھی.اُسوہ اور مثال یہ نہیں کہ آپ اگر ساتویں آسمان سے اوپر نکل گئے (اور آپ کا مقام عرشِ ربّ کریم پر ہے ) تو ہر مسلمان کو ساتویں آسمان سے اوپر نکلنا چاہیے، یہ نہیں کہا، یہ اُسوہ نہیں ہے.اُسوہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے صرف ایک ہستی کو ساتوں آسمان پار کر کے عرشِ ربّ کریم کے پاس جگہ دینی تھی تو وہ شخص اپنی استعداد اور قوت کی کامل نشو ونما کے نتیجہ میں وہاں پہنچ گیا تو جس کی جتنی جتنی استعداد اور قوت ہے اپنی استعداد اور قوت کے دائرہ کے اندر سب سے زیادہ جو روحانی اور جسمانی مقام انسان کو حاصل ہوسکتا ہے وہ اس کو حاصل ہونا چاہیے اور وہ جو اتباع کرے گا اس کے نتیجہ میں جو اس کی طاقت اور اس کی روحانی استعداد ہے اس کے مطابق وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا اور اسی استعداد کے مطابق وہ خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے والا ہے اور یہ چیز مَحَلَّ اعتراض نہیں کیونکہ جس برتن میں صرف ایک سیر دودھ سا سکتا ہے اس میں اگر تم ڈیڑھ سیر ڈالو گے تو آدھ سیر بہہ جائے گا اور ضائع ہو جائے گا کیونکہ اس برتن میں سیر سے زیادہ گنجائش ہی نہیں ہے.یہی حالت انسان انسان کی ہے.انسان کا جو ظرف ہے (انسان کے معاملہ میں ہم ظرف کہتے ہیں ) جس طرح دودھ کے برتن ہیں اور گھی کے برتن ہیں اور آٹا رکھنے کے برتن ہیں اور پھر توڑی رکھنے والے بڑے بڑے چھتوں والے کمرے بنائے ہوئے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ لپائی کر کے گم سم چھپا ہوا ایک گھر بنالیا جاتا ہے جس میں تو ڑی بھر لی جاتی ہے.تو اگر وہ دس گز کے رقبہ میں بنا ہوا ہے تو اتنی ہی تو ڑی آئے گی.اگر وہ سو گڑوں کی گنجائش والی جگہ ہے تو اتنی بلندی تک لے جا کر آپ سو گڑے تو لپائی کر سکتے ہیں اس میں دو سو گڈے نہیں سما سکتے.اسی طرح ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے ایک ظرف دیا ہے اور ہر فرد واحد کے لئے انتہائی خوشی کے سامان یہ ہیں کہ جتنا اس کے اندر سما سکتا تھا اس کو مل گیا.جس طرح ان سو برتنوں میں سے جن میں ایک سیر دودھ پڑسکتا ہے.زبانِ حال سے سب سے زیادہ خوش وہ برتن ہے جس میں ایک سیر دودھ پڑ گیا اور ان سو میں

Page 736

خطبات ناصر جلد پنجم 217 خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء سے مثلاً دس برتنوں میں سیر سیر دودھ پڑ گیا.باقی ماندہ میں سے مثلاً کسی کے پیندے کے ساتھ لگا ہوا ہے.جس برتن میں پیندے کے ساتھ دودھ لگا ہوا ہے وہ برتن ”خوش نہیں.قرآن نے کہا کہ جہنم بھی شور مچا دے گی کہ کوئی اور ہے تو اور مجھے دے دو.وہاں ایک علیحدہ فلسفہ بیان ہوا ہے وہ اس مضمون کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جس کام کے لئے جس مقدار اور جس حد تک جانے کے لئے بنائی گئی ہے اتنی پوری مقدار اس کو نہ ملے تو پوری خوشی اس کو حاصل نہیں ہوسکتی.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کی عبادات اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رنگ میں کیں کہ آپ کی استعداد جہاں تک آپ کو پہنچا سکتی تھی وہاں تک آپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور اپنی استعداد کے مطابق کامل خوشی حاصل کی.اگر چہ دوسروں کے مقابلے میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اکثر لوگ تو زمین پر ہی روحانی مسٹر تیں حاصل کر رہے ہیں ، پہلے آسمان تک بھی نہیں پہنچے اور آپ ساتویں آسمان کو بھی پھلانگ کر عرشِ ربّ کریم کے پاس پہنچے اور خدا تعالیٰ نے بڑے پیار کے ساتھ اٹھا کر اپنی دائیں طرف اپنے عرش پر بٹھا لیا.اس حقیقت کے بیان کے لئے یہ ایک تمثیلی زبان ہے ورنہ سمجھ ہی نہیں آسکتی اور ایک وہ شخص ہے جس کی استعداد اور ظرف صرف پہلے آسمان تک جاتا ہے.جب اس کا پیمانہ بھر گیا تو جس طرح دودھ کا برتن منہ تک بھر جانے سے ایک حسن پیدا ہوتا ہے، بھینسوں والوں میں سے جس نے پہلے کبھی یہ حسن نہیں دیکھا وہ جا کر دیکھے کہ سیر والا پیمانہ جب بھر جاتا ہے تو اس میں ایک حُسن پیدا ہوتا ہے، جب پیندے میں دو چھٹانک دودھ پڑا ہوا ہو تو اس میں کوئی حسن پیدا نہیں ہوتا.ہماری یہ ظاہری آنکھ بھی اس حسن کو دیکھتی ہے.پھر جانوروں کی خوبصورتیاں ہیں مثلاً بڑی خوبصورت وہ بھینس ہے جس کا جسم پوری طرح ڈیویلوپ (Develop) ہوا ہو.وہ بہت اچھی لگتی ہے.یہاں بہت سے زمیندار آئے ہوئے ہیں.وہ خیر اور برکت کے ساتھ واپس جائیں اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور امان کے اندر وہ جائیں.( موسم اب بدل رہا ہے اور شرافت کا موسم اور حقوق کی ادائیگی کا موسم آ رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر فضل کرے.یہ تو ضمنی بات تھی )

Page 737

خطبات ناصر جلد پنجم 212 خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء ہر انسان اپنے اپنے ظرف کے مطابق جب پوری نشو و نما حاصل کر لیتا ہے تو پوری لذت اور سرور جتنا وہ محسوس کرتا تھا اور جس قدر ممکن الحصول تھا ) اتنا اسے مل گیا.اسی کے مطابق اس نے محسوس کرنا تھا.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے ( دوسری بات جو مثبت رنگ کی ہے یعنی ) یہ کرو گے تو خدا تعالیٰ راضی ہو جائے گا.( پچھلے خطبہ میں میں نے کہا تھا کہ یہ نہ کرنا اللہ ناراض ہو جائے گا ) اب میں دو باتیں قرآن کریم کے مطابق ایسی بتا رہا ہوں کہ قرآنِ کریم نے کہا یہ کرو گے تو میرا پیار حاصل کرو گے.دوسری بات یہ ہے کہ معرفت کے نتیجہ میں محبت اور محبت کے نتیجہ میں خشیت پیدا ہوتی ہے یعنی خدا کہیں ناراض نہ ہو جائے.اس کے متعلق میں نے پہلے خطبہ میں بتایا تھا لیکن ایک جذ بہ یہ ہے کہ جب میں اپنے پیدا کرنے والے رب سے محبت اور پیار کر رہا ہوں تو میرا دل چاہتا ہے کہ جو میرا محبوب ہے وہ مجھ سے پیار کرے اور مجھ سے محبت کرے، اس کی رضا مجھے حاصل ہو، یہ انسانی فطرت کے اندر ہے.قرآنِ کریم نے کہا اس کا سامان ہم نے کر دیا.اس محبت کے پیدا ہونے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو میری محبت ہر ایک کو اس کے ظرف کے مطابق مل جائے گی.اگر اتباع نہیں کرو گے، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُسوہ نہیں بناؤ گے تو میری محبت نہیں ملے گی اور مجموعی طور پر جب ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے.ایک کو ہم مکی زندگی کہتے ہیں اور ایک کو مدنی زندگی کہتے ہیں.ہمارا یہ زمانہ آپ کی اس زندگی سے مشابہ ہے جو مکی زندگی تھی.امتحان اور ابتلا اور مصائب خدا کی خوشنودی اور محبت کی خاطر برداشت کرنے کی زندگی تھی.یہ نمونہ سامنے رکھ کر اپنی زندگی گزارو! جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنی تمام برکتیں بھیج کر اور محبت کے سامان پیدا کر دیے تھے اسی طرح تمہارے لئے بھی پیدا ہوں گے کیونکہ اسلام کے ذریعہ جس خدا سے ہمارا تعارف کرایا گیا ہے نہ اس خدا کی طاقتیں کم ہوتی ہیں نہ معطل ہوتی ہیں ، نہ اسے نیند آتی ہے نہ وہ اونگھتا ہے، نہ وہ بوڑھا ہوتا ہے وہ تو ازلی ابدی خدا اپنی طاقتوں کے انتہائی جلوؤں کے ساتھ جو خدا میں ہونے چاہئیں موجود ہے.جس رنگ میں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اپنے فدائین اور جاں نثاروں

Page 738

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۱۸ خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء کی مدد کر سکتا تھا اسی طور پر بغیر ایک ذرہ کمی کے وہ آج بھی (اگر آپ کا اخلاص ویسا ہو اور اس مقام تک پہنچ جائے جہاں ان کا پہنچا تھا ) ویسی ہی مدد وہ آپ کی کر سکتا ہے اور آپ وفا کے دامن کو نہ چھوڑیں وہ اپنی محبت کا دامن آپ کے اوپر سے کبھی نہیں اٹھائے گا اور اس کی رحمتیں آپ پر نازل ہوں گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۴ ء صفحه ۱ تا ۷ )

Page 739

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۱۹ خطبه جمعه ۴/اکتوبر ۱۹۷۴ء تکبر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ وہ عاجزی کو پسند کرتا ہے خطبه جمعه فرموده ۴ را کتوبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے مہینے خطبات کا جو سلسلہ میں نے شروع کیا تھا اس میں میں نے بتایا تھا کہ جو مذہبی فیصلہ ہوا ہے اس کے متعلق جماعت احمدیہ مجھ سے دو سوال پوچھ رہی ہے.ایک تو یہ کہ اس فیصلہ پر میرا تبصرہ کیا ہے اور دوسرا یہ کہ اس فیصلہ پر ہماری جماعت کا رد عمل کیا ہوگا ؟ میں نے اس وقت بتایا تھا کہ جہاں تک تبصرہ کا سوال ہے شاید دو تین ہفتہ کے بعد میں تبصرہ کروں لیکن اب میں بڑے غور اور دعا کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں ابھی یہ تبصرہ نہ کروں بلکہ آئندہ جنوری یا فروری میں تبصرہ کروں جہاں تک رد عمل کا تعلق ہے اس سلسلہ میں دو خطبے میں پہلے دے چکا ہوں ، تیسرا آج دے رہا ہوں.میں نے بتایا تھا کہ اسلام ایک نہایت ہی حسین اور ہر لحاظ سے کامل اور مکمل شکل میں ”حق“ کا یعنی اللہ تعالیٰ کا تصور ہمارے سامنے پیش کرتا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسان کے لئے تو حید کا جو پیغام لائے اور آپ نے بنی نوع انسان کے سامنے اسے جس شکل میں پیش کیا ہم نے اس کی معرفت اس زمانہ میں حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ

Page 740

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۲۰ خطبه جمعه ۴/اکتوبر ۱۹۷۴ء حاصل کی.اس معرفت کے نتیجہ میں ایک طرف خدا تعالیٰ کی عظیم کبریائی کا احساس اور دوسری طرف اس کا ایسا حسن جلوہ گر ہوا جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا.یہی وہ معرفت ہے جس کے نتیجہ میں ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوئی جس نے دو رخ اختیار کئے.ایک یہ کہ ہم جو احمدیت کی طرف منسوب ہونے والے ہیں ہر لحظہ اور ہر آن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں اپنی کسی غفلت یا گناہ یا کوتاہی کے نتیجہ میں یا نا فرمانی کی وجہ سے ہمارا محبوب ہم سے ناراض نہ ہو جائے.یہ کیفیت اس خشیت کی وجہ سے ہے جو ہر احمدی کے سینہ میں پائی جاتی ہے.دوسری طرف ہمارے دل میں ہر وقت یہ جوش اور جذبہ پیدا ہوتا رہتا ہے کہ ہم ایسے کام بجالائیں اور ہم سے ایسے افعال سرزد ہوں جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صالحہ ہوں اور جن کے نتیجہ میں ہمیں اس محبت کا جواب ملے جسے اللہ نے ہمارے دل میں پیدا کیا ہے یعنی جو معرفت کے نتیجہ میں ہمارے سینوں میں پیدا ہوئی ہے، ہماری محبت کے جواب میں خدا تعالیٰ بھی ہم سے محبت کرنے لگے.میں نے اس سلسلہ میں اپنے پہلے خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ جن اعمال سے یا جن باتوں سے انسان اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتا ہے ان کا علم بھی ہمیں قرآن عظیم ہی سے مل سکتا ہے اور قرآن عظیم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم سے پیار نہیں کرتا اور نہ ظالم سے پیار کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فساد سے پیار نہیں کرتا اور نہ فسادی سے پیار کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں جو خشیت پیدا کی ہے وہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم خود کو ظلم سے کلی طور پر بچائیں اور ہم فساد کی کسی صورت میں شریک نہ ہوں اور اس داغ سے جو خدا تعالیٰ کا غضب مول لینے والا ہے یعنی فساد کا داغ وہ ہمارے اعمال پر اور ہماری روح پر نہ پڑے تا کہ ہم خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے نہ ہوں.غرض میں نے اپنے پہلے خطبہ میں صرف انہی دو باتوں کو بیان کیا تھا اور دوسرے خطبہ میں میں نے دو باتیں وہ بیان کی تھیں جن کے متعلق قرآنِ عظیم نے بتایا ہے کہ جو لوگ ایسے اعمال بجالاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے پیار کرتا ہے.گویا پہلے دو اعمال ایسے ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نفرت کرنے لگتا ہے ، اس کا غضب بھڑکتا ہے اور دوسرے دو اعمال ایسے بتائے تھے جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے.آج میں پھر پہلے خطبہ والے مضمون کی طرف لوٹتا ہوں لیکن چونکہ میری

Page 741

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۲۱ خطبه جمعه ۴/اکتوبر ۱۹۷۴ء طبیعت میں کمزوری ہے اس لئے مختصر صرف ایک بات بیان کرنے کی کوشش کروں گا.خشیت اللہ جس چیز سے ہمیں باز رکھتی ہے یا قرآن کریم کی رُو سے اللہ تعالیٰ جس بات سے ناراض ہو جاتا ہے اور نفرت کرنے لگتا ہے وہ ہے تکبر.یعنی عاجزی کا فقدان گو یا کسی آدمی کا مختلف شکلوں میں خود کو بڑا سمجھنا یا خود کو دوسروں سے بلند قرار دینا تکبر ہے مثلاً کسی کے پاس بہت پیسہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل میں غرور اور کبر پیدا ہو جاتا ہے یا کسی کے پاس سیاسی اقتدار ہوتا ہے وہ ( بعض اوقات ) متکبر بن جاتا ہے.کسی کے پاس علم ہوتا ہے یا کسی کو مہارت حاصل ہوتی ہے جو اسے متکبر بنادیتی ہے وغیرہ وغیرہ.بیسیوں باتیں ہیں جن کے نتیجہ میں بعض دفعہ انسان تکبر کرنے لگتا ہے تاہم ہر علم ، ہر سیاسی اقتدار، ہر دولت ، ہر جتھہ اور ہر جسمانی طاقت کے نتیجہ میں کبر نہیں پیدا ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کے بندے انہی چیزوں کی بدولت خدا تعالیٰ کے مزید فیوض کو حاصل کرتے ہیں لیکن دولت، اقتدار اور علم و مہارت کی وجہ سے بعض دفعہ تکبر بھی پیدا ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اِنَّ الَّذِينَ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ - (الاعراف:۴۱) دوسری جگہ فرمایا:.إنَّه لا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ.(النحل : ۲۴) یعنی اللہ تعالی تکبر کرنے والے سے پیار نہیں کرتا.وہ ایسے لوگوں سے نفرت کرتا ہے جیسا کہ سورہ اعراف کی مذکورہ بالا آیت میں فرمایا کہ جو لوگ ہمارے احکام کو جھٹلاتے ہیں اور ہمارے نشانات سے اعراض کرتے ہیں اور وہ اس وجہ سے اعراض کرتے ہیں کہ وہ خود کو ان احکامات اور نشانات کے لانے والوں سے بڑا سمجھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا کہ جب رسول آتے ہیں اور ہمارے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے بڑے رسول اور خاتم الانبیاء تھے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے جیسا انسان ہمارے اوپر روحانی حکومت چلانے آ گیا ہے.پس خود لوگوں کا یہ تکبر اور فخر یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھنا یا اپنے نفس کو ایسی

Page 742

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۲۲ خطبه جمعه ۴/اکتوبر ۱۹۷۴ء عظمت دینا جو موجود ہی نہ ہو تصنع سے یا میں کہوں گا حماقت سے تصنع سے تو لغت نے کہا ہے اور حماقت سے ایسا سمجھنا تکبر کی حقیقت ہے یعنی آدمی خود کو کچھ سمجھ لے، یہ میرے نزدیک حماقت ہے.غرض خدا تعالیٰ کی طرف سے جو احکام نازل ہوں ان کے مقابلہ میں تکبر کر کے ان کا انکار کرنا یا قبول کر کے ان کے مطابق اعمال نہ بجالانا یہ تباہی کا موجب ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی نفرت کا باعث بنتا ہے.ہم جو احمدی ہیں ہمیں سارے کے سارے احکامات یعنی اوامر ونواہی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ملے ہیں اور وہ قرآنِ عظیم میں بیان ہوئے ہیں.یہ وہ کتاب ہے جس کی عظمت کا انسانی عقل احاطہ نہیں کر سکتی اور جس کے معانی پر انسانی علم پوری طرح حاوی نہیں ہوسکتا.اس آخری ہدایت اور ابدی شریعت نے ہمیں وہ تمام احکام دیئے جو انسان کو جسمانی اور روحانی طور پر انتہائی رفعتوں تک پہنچانے والے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ اعلان فرمایا کہ خدا کے مقرب بندے میرے لائے ہوئے احکام یعنی میری شریعت اور ہدایت پر عمل کر کے پہلوں کی نسبت بہت زیادہ تعداد میں بھی اور قرب میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کو پائیں گے.اللہ تعالیٰ کی محبت اور تقرب یہ تقاضا کرتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے پیار کی باتیں سنے کیونکہ ایک ایسا پیار یا پیار کے حصول کا ایک ایسا دعویٰ جس کے لئے کوئی دلیل نہ ہو، بے معنی دعوئی ہے.یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ کسی سے پیار کرے تو اس سے گفتگو بھی کرے.یہ بات انسانی فطرت میں داخل ہے کہ جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا محبوب اس سے پیار اور گفتگو کرے.فطرت کی پہلی آواز کہ جس سے انسان پیار کرے اس سے باتیں بھی کرے، دعا ہے.اسلام نے دعا کرنے کا حکم دیکر ہمیں ایک عجیب چیز عطا کی ہے.انسان اپنے خدا سے دعا کرتا ہے اور وہ ایک ایسی ہستی ہے جس کی معرفت تو ہمیں حاصل ہوتی ہے لیکن بوجہ اس کے کہ وہ اپنے وجود اورا اپنی کیفیت میں اتنا مختلف ہے کہ ہماری آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی اس لئے وہ اپنی صفات کی تجلیات سے خود کو شناخت کرواتا ہے وہ اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے.یہ نشانات ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ حسن ، حسن از لی کا ہے.جس طرح پھول پس پردہ ہوتے ہوئے بھی خوشبو سے اپنی شناخت کروا

Page 743

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۲۳ خطبه جمعه ۴/اکتوبر ۱۹۷۴ء دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے نشانات سے اپنے وجود کا پتہ دیتا ہے.آج کل کے جو رنگ برنگ گلاب کے پھول نظر آتے ہیں ان میں خوشبو نہیں ہوتی لیکن دیسی گلاب میں خوشبو ہوتی ہے یا اسی طرح کے اور کئی پھول ہوتے ہیں جن کی خوشبو ہوتی ہے.اگر اس قسم کے پھولوں کے باغ کے پاس سے آپ گزریں جس کی چاردیواری ۶.ے فٹ اونچی ہے آپ کی نظر اندر نہیں جاتی ، آپ ان پھولوں کو دیکھ نہیں سکتے لیکن آپ کا ناک آپ کو بتادے گا کہ یہاں یہ پھول ہے مثلاً موتیا ہے یا چنبیلی ہے وغیرہ حالانکہ آپ نے اس کو دیکھا نہیں ہوتا.پس وہ خدا جوانسان کو نظر نہیں آتا اور نہ آسکتا ہے وہ اپنے نشانات سے اپنے وجود کا پتہ دیتا ہے.وہ اپنے نشانات سے اور اپنے پیار سے اپنے حسن و احسان کی خبر دیتا ہے.میں اس وقت بتا یہ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت کے بعد انسان کے دل میں اپنے پیدا کرنے والے خدا کے لئے محبت جوش مارتی ہے، اس محبت کا تقاضا ہے کہ خدا اس سے باتیں کرے، اس کے لئے اسلام نے ہمیں دعائیں سکھائیں اور ہمیں دعا کرنے کی تعلیم دی.دعا کرنے کی تعلیم کے نتیجہ میں ہم اپنی زبان میں ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کی اجازت پاتے ہیں.اسلام نے ہمیں اور بہت سی دعا ئیں سکھا دیں ، ایسی عظیم دعا ئیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے.وہ ایک قسم کے نشانِ راہ ہیں.وہ علامات ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ خدا کے حضور جا کر انسان پناہ لے.ایک طرف ہمیں یہ دعا سکھا دی رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنا اے خدا ! ہم جو بھی تیرے حضور پیش کریں تو اسے قبول فرما اور ایک نبی کے منہ سے یہ کہلوایا: وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ ہمارے اسلام کو سلامت رکھ اور قائم رکھ.یہ کتنی بڑی دعا ہے جس میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اسلام کی سلامتی کے لئے انسان خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنے کا محتاج ہے نہ کہ کسی اور کا.اور دوسری طرف حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ اپنے بوٹ کا تسمہ بھی لینا ہو تو خدا سے مانگو.اب تو پتہ نہیں تسمے کی کیا قیمت ہے.میں نے خود بھی تمہ نہیں خریدا.جب ہم چھوٹے بچے تھے تو ایک آنے یا چھ پیسے کا تسمہ ملتا تھا.گو تسمے کی عمر جوتے سے چھوٹی اور بوٹ کی عمر تسمے سے بڑی ہوتی ہے اور پھر یہ بھی کہ بچے کے ایک بوٹ کے لئے بعض دفعہ ماں باپ کو پانچ پانچ ، دس دس دفعہ

Page 744

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۲۴ خطبه جمعه ۴/اکتوبر ۱۹۷۴ء تسمے خرید کر دینے پڑتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں یہی کہا گیا کہ اگر تمہیں اتنی چھوٹی چیز کی بھی ضرورت پڑے تو اپنے خدا سے مانگو.چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے بھی تم خدا کے حضور جھکو اور دعا کرو کہ اے خدا! ہمیں فلاں چیز کی ضرورت ہے.اپنے فضل سے وہ ہمیں عطا فرما.میں نے بتایا ہے کہ جو شریعت آنی تھی وہ تو کامل اور مکمل شکل میں آگئی لیکن بعد میں قیامت تک کی آنے والی نسلوں کی پیاس تو نہیں بجھتی.ہر انسان کہتا ہے کہ میرا پیارا خدا مجھ سے کلام کرے تو اس کے لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا کلام دو قسم کا ہوتا ہے.ایک شریعت و ہدایت کا حامل ہوتا ہے اور وہ آگیا ہے ( اور کامل و مکمل ہو گیا ہے ) وہ اب نہیں آئے گا اور ایک خدا کا کلام صرف بشارتوں پر مشتمل ہوتا ہے اور وہ قیامت تک آتارہے گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا ہی ) فرمایا ہے.اس لئے محبت کا یہ حصہ تو دونوں طرف ہے ایک یہ کہ وہ پیار کرے اور بات کرے.خشیت اللہ محبت کی بنیاد بنتی ہے اور محبت تقاضا کرتی ہے اپنے محبوب سے باتیں سنے کا.ہمیں جو اسلامی شریعت ملی ہے اس میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ خدا تعالیٰ کا کلام بند ہو گیا ہے بلکہ قرآنِ کریم ایسے ارشادات اور آیات سے بھرا ہوا ہے کہ خدا اپنے پیارے بندوں سے باتیں کرتا ہے.یہ انسانی فطرت ہے جس کا یہ تقاضا ہے کہ بندہ اپنے خدا سے دعا کرے اور وہ اپنے بندہ سے ہم کلام ہو.فطرت کا یہ تقاضا ویسے ہی ہے جیسے ایک ماں اپنے دو تین ماہ کے بچے کو کندھے سے لگائے باتیں کر رہی ہوتی ہے.ظاہر ہے دو تین ماہ کا بچہ تو ایک لفظ بھی نہیں سمجھتا تا ہم اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ماں پاگل ہوگئی ہے اس لئے وہ چھوٹے بچے کے ساتھ باتیں کرتی ہے، ماں کو پتہ ہوتا ہے کہ بچہ باتیں نہیں سمجھتا لیکن ماں کو پتہ ہے کہ اس کے دل میں بچے کے لئے محبت ہے اور وہ محبت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے بچے سے باتیں کرے.اسی طرح خدا کے بندے خدا سے باتیں کرتے ہیں اور اس کی باتیں سنتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور ان کا جواب دیتا ہوں.اب دعاؤں کا سننا کوئی ایسا فلسفہ تو نہیں جس کے لئے کوئی دلیل نہیں یا جس کا کوئی ثبوت نہیں.پس خدا تعالیٰ اپنے بندہ کی دعا سنتا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب انسان دعا کرتا ہے تو

Page 745

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۲۵ خطبه جمعه ۴/اکتوبر ۱۹۷۴ء اس کا اسے جواب مل جاتا ہے ورنہ پھر تو ہماری دعا کا نتیجہ ایک بت کے سامنے دعا کرنے کے مترادف ہے.نہ بت بولے نہ خدا بولے (نعوذ باللہ ) مگر قرآنِ کریم نے کہا کہ تم ان ہستیوں کی باتیں کرتے ہو جو تمہیں جواب تک نہیں دے سکتیں اور جو تمہاری دعا ئیں نہیں سن سکتیں اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ صرف خدا تعالیٰ ہی ہے جو انسان کی دعاؤں کو سنتا اور جواب دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ میری آیات کا انکار کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر ہماری لائی ہوئی ہدایت یعنی قرآن عظیم جیسی ہدایت سے بھی اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے : لا تُفتَحُ لَهُمُ ابْوَابُ السَّمَاءِ ان پر آسمان کے دروازے کھولے نہیں جاتے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ قرآنِ کریم پر ایمان لاتے اور اس کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالتے ہیں ان کے لئے آسمانوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں.اس آیت سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے لیکن ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے کہ وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى امَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَةٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ (الاعراف :۹۷) کہ اگر یہ بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو آسمان اور زمین کی برکات ان کے اوپر کھول دی جاتیں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے ان پر کھول دیئے جاتے.پس تکبر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور جو اس کا اُلٹ ہے، اس کی ضد ہے.یعنی عاجزی وہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے لئے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو.آپ نے فرمایا :.ع بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں یعنی اپنے آپ کو سب سے زیادہ عاجز سمجھو، سب سے زیادہ حقیر اور ساری دنیا کے نیچے سمجھو.اس سے تمہارا خدا تعالیٰ سے وصال اور پیار کا تعلق قائم ہو جائے گا.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے، ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر بیٹھے بیٹھے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے جھکنا شروع کیا.آپ کا سر جھکتا رہا ، جھلکتا رہا.یہاں تک کہ سواری کی کاٹھی پر جالگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا سر اتنا جھک گیا کہ اس سے زیادہ جھک

Page 746

خطبات ناصر جلد پنجم ہی نہیں سکتا تھا.خطبه جمعه ۴/اکتوبر ۱۹۷۴ء پس جب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہے تو وہ لوگ جو خود کو آپ کے غلاموں کے بھی غلام سمجھتے ہیں ان کا مقام تو نہایت عاجزی کا مقام ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اور آپ کے مقابلہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کا مقام احقر الغلمان کا ہے اور ہماری نسبت سے حضرت مہدی معہود علیہ السلام کا مقام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم تر روحانی فرزند کا ہے یعنی ایک ایسا سالار جس کے زمانہ میں حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ساری دنیا میں اسلام نے غالب آنا ہے.ہمارے مقابلہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کا بڑا اونچا مقام ہے لیکن حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت مہدی علیہ السلام نے خود اپنے مقام کی تعیین اَحْقَرُ الْغِلْمَان کی کی ہے اور میں سمجھتا ہوں اور اس یقین اور معرفت پر قائم ہوں کہ کہ اگر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس قسم کا عاجزانہ رشتہ قائم نہ کر سکتے جو انہوں نے قائم کیا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ظلّ اور کامل انعکاس نہ بن سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل انعکاس بننا یا آپ کی پوری تصویر پورے خدوخال کے ساتھ نمایاں طور پر اپنی زندگی میں ظاہر کرنا کامل عاجزی کو چاہتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اپنے نفس کا ایک دھبہ بھی اس کے اوپر نہ پڑے.جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرتا اور کامل طور پر عاجزانہ راہوں کو اختیار نہیں کرتا، اور کچھ دیتا ہے اور کچھ اپنے پاس رکھ لیتا ہے اس کا شیشہ ایسا ہی ہے جیسا کہ برسات کے موسم میں بعض خراب شیشوں کے پیچھے جب نمی چڑھتی ہے تو اس میں دھبے آجاتے ہیں لیکن جب حضرت مہدی معہود علیہ السلام نے اپنا سب کچھ مٹا دیا اور کامل طور پر فنافی الرسول کا مقام حاصل کیا تو اس وقت آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ظل اور کامل انعکاس بنے.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کا مقام اَحْقَرُ الْغِلْمَانِ یعنی کامل عاجزی کا مقام تھا اور جو ہمارے ساتھ آپ کا رشتہ ہے ، وہ ہم سمجھتے ہیں کہ عقلاً بھی حکماً بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب روحانی فرزند کی حیثیت سے ہے.حکم سے میری مراد

Page 747

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۲۷ خطبه جمعه ۴/اکتوبر ۱۹۷۴ء ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خبر دی ہے وہ ہمارے لئے حکم ہے کہ مہدی معہود علیہ السلام، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پیارے اور بہادر اور محبوب روحانی فرزند اور اسلام کے جرنیل ہیں.آپ اس اُمت کے جرنیل ہیں اس لئے کہ اُمت مسلمہ میں ہم سے پہلے جو بزرگ گزرے ہیں ، ان سب نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام ساری دنیا کے انسانوں کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دے گا.تمام ادیان باطلہ پر اسلام کا کامل غلبہ مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں مقدر ہے.اس لئے مہدی علیہ السلام کی بڑی شان ہے لیکن بڑی شان ہے ہمارے مقابلہ میں کیونکہ آپ نے جو کچھ لیا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آپ کا مقام احقر الغلمان ہے اور ہماری نسبت سے آپ کا مقام بڑا بلند ہے.بہر حال جو بات میں اس وقت آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارا اس واقعہ پر ہی رد عمل نہیں بلکہ زندگی کے ہر واقعہ پر ہمارا رد عمل ایسا ہوتا ہے اور ایسا ہونا چاہیے کہ جس میں اپنے نفسانی جوش کا شائبہ نہ ہو اور جس میں تکبر اور فخر اور غرور بالکل نہ ہو اور انسان یہ سمجھے کہ میں نیست ہوں.میں لاھی محض ہوں.جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو میرا اپنا ہے ہی کچھ نہیں اور اگر آپ (احمدیوں) کی زندگی کا سہارا اللہ تعالیٰ کا فضل ہو اور آپ کو اس حقیقت کا احساس ہو تو پھر آپ کو کسی اور چیز کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا ہی بنا دے.روزنامه الفضل ربوه ۲ / نومبر ۱۹۷۴ ، صفحه ۲ تا ۵)

Page 748

Page 749

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۲۹ خطبہ جمعہ ۱۱ را کتوبر ۱۹۷۴ء اصل چیز ایمان ہے اور اس میں تمام گناہوں سے بچنا اور تمام نیکیوں کا بجالا نا شامل ہے خطبه جمعه فرموده ۱/۱۱ اکتوبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج جمعہ ہے.یہ جمعہ ماہِ رمضان کا جمعہ ہے اور ماہِ رمضان کے یہ ایام رمضان کے آخری عشرہ کے ایام ہیں.رمضان کا مہینہ دعاؤں کا مہینہ ہے رمضان کا مہینہ قبولیت دعا کا مہینہ ہے.رمضان کا مہینہ انسان کو انسان کے پہلو پر لا کھڑا کرنے کا مہینہ ہے.رمضان کا مہینہ شرف انسانی کے قیام کا مہینہ ہے.رمضان کا مہینہ اخوت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا مہینہ ہے.رمضان کا مہینہ بہت ہی ذکر الہی کرنے کا مہینہ ہے.مختلف قسم کی عبادات بجالانے کا مہینہ ہے.بہت ہی بابرکت مہینہ ہے جس میں سے گزرتے ہوئے اب ہم اس کے آخری عشرہ میں داخل ہو چکے ہیں.اس آخری عشرہ کی بھی بعض خصوصیات ہیں مثلاً یہ کہ اس عشرہ میں لیلۃ القدر کی تلاش کا حکم دیا گیا ہے یعنی اس کی ہر رات کو تلاش کی رات بنا دیا.ہر رات کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے اور متضرعانہ دعاؤں کی گھڑیاں بنا دیا اور عام طور پر بہت سے لوگوں کو وہ گھڑیاں نصیب ہو جاتی ہیں.جن میں دعائیں قبول ہوتی ہیں اور وہ لوگ اپنی ذہنیت اور ایمانی کیفیت کے لحاظ سے ایسے ہوتے ہیں کہ جو نوع انسانی کے لئے دعائیں کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کی دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں انسانیت اور

Page 750

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۳۰ خطبہ جمعہ ۱۱ را کتوبر ۱۹۷۴ء نوع انسانی کی تقدیریں بھی بعض دفعہ بدل جاتی ہیں.اس عشرہ میں یہ ہمارا جمعتہ (الوداع) واقع ہے.جمعہ خود بہت سی برکتیں اپنے ساتھ لاتا ہے.خواہ وہ رمضان میں ہو یا رمضان سے باہر ہو.خواہ وہ ( رمضان کے ) پہلے ہیں دنوں میں ہو یا رمضان کا آخری جمعہ ہو.یہ تو صحیح ہے کہ رمضان کے بابرکت ایام کے آخری عشرہ کے بہت ہی زیادہ با برکت ایام میں یہ خصوصی برکتوں والا دن جسے ہم جمعہ کہتے ہیں آیا ہے لیکن جماعت احمدیہ اور اس کے افراد کو جنہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان نصیب ہوا ہے.ہمیشہ اس چیز سے بچتے رہنا چاہیے کہ ایسی بدعتیں جو نا پسندیدہ ہوں اور شریعت اسلامیہ کے خلاف ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ہمیں ان کا پتہ نہ ملتا ہو وہ بدعتیں کسی چیز میں بھی شامل نہ ہوں اس جمعہ میں بھی شامل نہ ہوں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں یہ تو علم حاصل ہوتا ہے کہ جمعہ ایک برکت والا دن ہے اس میں بعض گھڑیاں ایسی ہیں جن میں خاص طور پر دعا قبول ہوتی ہے اور یہ ایک ایسا دن ہے جو پہلے چھ دنوں میں ایک مومن اپنی ذمہ داریاں دنیوی بھی اور دینی بھی ادا کرتے ہوئے جو کمزوریاں اپنی اس کوشش میں چھوڑ جاتا ہے اللہ تعالیٰ جمعہ کی انہی بابرکت گھڑیوں میں ان کمزوریوں کے بداثرات کو دور کر دیتا ہے اور وہ معاف کر دیتا ہے.دعاؤں کی یہ بابرکت گھڑیاں کفارہ بن جاتی ہیں عبادات اور فرائض کی ان خامیوں اور کمزوریوں کے لئے جو انسان بشری کمزوری کی وجہ سے پچھلے چھ دنوں میں کرتا آیا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی تم پر دینی اور دنیوی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں اور دو نمازوں کے درمیان یہ ذمہ داریاں تم بہر حال ادا کر تے ہو جو نماز کے علاوہ ذمہ داریاں ہیں وہ نماز کے اندر تو نہیں ادا ہوتیں.جس وقت آدمی نماز پڑھ رہا ہو اس وقت تو نماز کی یعنی الصلوۃ کی ذمہ داری، با جماعت فرض نماز کی ذمہ داری اور سنت اور نوافل کی ذمہ داری ادا کرتا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پر صرف نماز پڑھنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے عائد نہیں کی بلکہ حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی کی (نماز کے علاوہ) دوسری ذمہ داری ہے.نماز میں بھی حقوق العباد کی ایک ذمہ داری ہم پر پڑتی ہے کہ ہم ان کے لئے دعائیں کریں.سب انسانوں کے لئے دعائیں کرنا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ہیں.حقوق اس معنی

Page 751

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۳۱ خطبہ جمعہ ۱۱ را کتوبر ۱۹۷۴ء میں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں، اس کی بڑائی بیان کرتے ہیں، اس کی تسبیح کرتے ہیں ، اس کی تحمید کرتے ہیں اور اس طرح کہنے کو تو ہم اللہ کے حقوق ادا کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی جھولیاں اس کے فضل سے بھر رہے ہوتے ہیں.انسان کو خوش کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے کہا کہ میں ان کا نام حقوق اللہ رکھتا ہوں فائدہ صرف تمہیں ہے مجھے تو نہیں.میں تو غنی اور صد ہوں مجھے کسی کی احتیاج نہیں ہے لیکن چونکہ نماز کے علاوہ اور بھی دینی اور دنیوی ذمہ داریاں ہیں اور وہ بہر حال بَيْنَ الصَّلوتین یعنی دو نمازوں کے درمیان ادا کی جاتی ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ہر نماز اپنے اور پچھلی نماز کے درمیان کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بشری کمزوریوں کی وجہ سے جو نقائص رہ جاتے ہیں ان کے لئے کفارہ بن جاتی ہے.اسلام بڑا پیارا مذہب ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف بڑی رحمتیں لے کر آئے ہیں تو ہر نماز کے متعلق آپ کا یہ ارشاد ہے کہ ہر نماز پہلی نماز اور اس کے درمیان ( مثلاً اب جمعہ کی نماز ہم پڑھیں گے اس سے پہلے صبح کی نماز ہم نے ادا کی تو اس کے درمیان ) خدا تعالیٰ نے دنیوی لحاظ سے اور دینی لحاظ سے جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں ان میں سے کچھ کو تم نے ادا کیا اور تم بشر ہو اور کمزور ہو خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر اور اس کی مغفرت کی چادر میں آئے بغیر تم اپنی کمزوریوں کے بدنتائج سے بچ نہیں سکتے.اپنی کمزوریوں کے واقع ہونے سے بچ نہیں سکتے.پس ایک تو آپ نے یہ فرمایا کہ ہر نماز اپنے سے پہلی اور اپنے درمیان کی کمزوریوں اور گناہوں اور غفلتوں اور کوتاہیوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور معاف کروادیتی ہے.اگر خلوص نیت کے ساتھ تضرع اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور انسان جھلے تو اس کی یہ غفلتیں اور کوتاہیاں جو بَيْنَ الصَّلوتین ہوں دور ہو جاتی ہیں.اس کے علاوہ آپ نے فرمایا کہ جو رہ جائیں اس کے لئے کسی بڑی جدوجہد کی ضرورت ہو تو ہم نے جمعہ کی بعض گھڑیاں قبولیت دعا کی ایسی رکھی ہیں کہ ایک جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان کی کوتاہیاں جو نمازوں کی ادائیگی کے باوجود مغفرت کی چادر میں نہیں آسکیں وہ جمعہ ان کو دور کر دیتا ہے اور آپ نے فرمایا کہ بعض ایسی تمہاری کوتاہیاں ہوں گی کہ جو ایک جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان جمعہ کی دعا ئیں اور جمعہ کی تضرع اور عاجزی

Page 752

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۳۲ خطبه جمعه ۱۱ اکتوبر ۱۹۷۴ء دور نہیں کر سکے گی تو فکر نہ کرو ہم نے رمضان کا مہینہ اس کے لئے مقرر کیا ہے اور ایک رمضان اور دوسرے رمضان کے درمیان کے گیارہ ماہ کی کوتاہیاں اور غفلتیں رمضان کی عبادات کے ذریعہ دور ہو جاتی ہیں بشرطیکہ خلوص نیت ہو اور انسان سارے کا سارا اپنے رب کے لئے ہوکر زندگی گزارنے والا ہو.اپنی زندگی کو دوحصوں میں بانٹ کر ایک حصہ شیطان کو دینے والا اور دوسرا حصہ خدا کے حضور پیش کرنے والا نہ ہو کیونکہ پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جس کو تم نے میرے حصہ میں سے دیا ہے اسی کو جا کر سارا دے دو میری تمہیں اب ضرورت نہیں.پس ہر نماز پہلی نماز اور اپنے درمیان کی غفلتیں اور کوتاہیاں دور کرتی ہے اور ہر جمعہ پہلے جمعہ اور اپنے درمیان کی کوتاہیوں اور غفلتوں کو (جو باقی رہ جاتی ہیں ) دور کرتا ہے اور ہر ماہ رمضان پہلے رمضان اور اپنے درمیان کے گیارہ مہینوں کی غفلتیں اور کوتاہیاں دور کرتا ہے.یہ تو آپ نے فرمایا ہے لیکن آپ نے ایک اور وضاحت کی ہے اور عام طور پر لوگ اسے بھول جاتے ہیں.یہ غفلتیں اور کوتاہیاں کبائر نہیں ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تک انسان، خدا کا بندہ کبائر سے اجتناب کرتا رہے اس وقت تک خدا تعالیٰ اس کو یہ توفیق دے گا مثلاً نماز کو ترک کر دینا کبائر میں سے ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایک رمضان اور دوسرے رمضان کے درمیان کے یہ کبیرہ گناہ کہ نماز کو اس نے ترک کیا معاف نہیں ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ معاف نہیں ہو گا.جو ایسا نہیں سمجھتا وہ بدعت کا عقیدہ رکھتا ہے اور بدعت کا عمل کرتا ہے.آپ نے فرمایا کہ اس عرصہ میں اگر زکوۃ تم پر واجب ہوتی ہے اور جو خدا کی راہ میں زکوۃ نہیں دیتا اور خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ کبائر کا ارتکاب کرنے والا ہے اور یہ بالکل معاف نہیں ہو گا.رمضان اور رمضان کے درمیان اگر کوئی شخص کبائر کا مرتکب ہوا ہے تو رمضان کی دعائیں، رمضان کی برکتیں، رمضان کی رحمتیں ، رمضان میں اللہ تعالیٰ کا بندہ کے قریب ہو جانا.یہ وعدہ کرنا کہ رمضان کی تمہاری عبادات کے نتیجہ میں میں ایک خاص جزا دوں گا.میں ہوں تمہاری جزا اتنی بڑی بشارت کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غلط فہمی میں نہ رہنا.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم کبائر کے مرتکب ہوتے رہو اور اللہ تعالیٰ تمہیں

Page 753

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۳۳ خطبہ جمعہ ۱۱ را کتوبر ۱۹۷۴ء معاف کر دے.جب تک بندہ مَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِر * کے مطابق کبائر سے اجتناب نہیں کرتا اس وقت تک یہ برکتیں، یہ وعدے اس کے حق میں پورے نہیں ہوں گے.اس قسم کی جو بدعتیں ہیں وہ ہمارے لئے نہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ نے عقل دی ، ہمیں اللہ تعالیٰ نے سمجھ دی ، ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھنے اور ان پر غور کرنے کی توفیق عطا فرمائی.جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ اگر کبائر سے اجتناب ہو تو پھر ایک نماز اپنے سے پہلی نماز کے درمیان کی کوتاہیاں معاف کروادے گی.جمعہ اپنے اور پہلے جمعہ کے درمیان کی کمزور یاں خدا تعالیٰ سے معاف کروا دے گا.(مگر خلوص نیت ہونا چاہیے.) اور رمضان ، رمضان کے درمیان جو کوتاہیاں اور غفلتیں ہیں اللہ تعالیٰ سے ان کی معافی مل جائے گی.لیکن کبائر کے متعلق یہ اصول نہیں ہے اور سب سے بڑا کبیرہ گناہ تو شرک ہے.شرک کی پھر آگے شاخیں ہیں که انسان بعض دفعہ سمجھتا ہی نہیں.اسی لئے خدا نے کہا کہ شرک کی باریک سے بار یک قسموں سے بھی بچو اور کامل تقویٰ اختیار کرو.انسان اپنے نفس کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے.اپنی عقل کو کچھ مجھنے لگ جاتا ہے اپنے علم کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے اپنے جتھے اور قوم کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے.اپنے ملک اور اپنی ایجادات کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے.جس طرح مثلاً امریکہ اور روس نے ایٹم بم کیا ایجاد کر لیا.یہ لوگ اپنے آپ کو انسان سے ایک بالا مخلوق سمجھنے لگ گئے اور ان کا خیال یہ ہے کہ ساری دنیا کو ان کی غلامی کرنی چاہیے.پاکستان تو ان کی غلامی کرنے کے لئے تیار نہیں جہاں تک ہم اپنے ذہنوں کا مطالعہ کرتے ہیں.ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ملک ہے اور ہم نے قربانیاں دے کر اس کو بنا یا ہے اور ہم اس کے لئے دعائیں کرنے والے ہیں اور اس رمضان میں بھی ہم نے اس کے لئے بڑی دعائیں کی ہیں اور اب بھی آپ دعائیں کرتے رہیں.رمضان کے ایام میں ( بھی اور بعد میں بھی) کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر اس اندرونی یا بیرونی منصوبہ سے جو اس کے ( نوٹ : پوری حدیث یوں ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ وَ رَمَضَانُ إِلى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ مَّا بَيْنَهُنَّ مَا اجْتَنَبَتِ الكَبَائِرَ (مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۲ صفحه ۴۰۰)

Page 754

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۳۴ خطبہ جمعہ ۱۱ را کتوبر ۱۹۷۴ء استحکام کو کمزور کرنے والا ہو اور اسے انصاف اور عدل کی بنیادوں سے ہٹا کر بے انصافی اور ظلم کی طرف دھکیلنے والا ہے.اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس سے محفوظ رکھے.پس شرک کبیرہ گناہ ہے اور اس کے مقابلہ میں لا الہ الا الله ہے یعنی خدائے واحد و یگانہ کی ذات اور صفات کو سمجھنا اور اس کی معرفت حاصل کرنا اور کسی چیز کو بھی کسی رنگ میں کسی طور پر اس کی ذات اور صفات میں شریک نہ ٹھہرانا یہ ہے لا إِلهَ إِلَّا الله ) کا صحیح معنی میں اقرار ) پھر نماز ہے، روزہ ہے، زکوۃ ہے، حج ہے اگر شرائط حج پوری ہو جائیں.اسی طرح دیگر احکامات ہیں.مثلاً جہاد ہے.یہ بڑا ضروری حکم ہے.لیکن اس کے لئے بہت سی شرائط ہیں.جماعت احمدیہ سے پہلے بزرگوں نے بھی کہا ہے کہ جہاد کی پہلی شرط یہ ہے کہ ساری اُمت مسلمہ کا ایک امام اکبر ہو یعنی ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کا ایک امام اکبر ہو اور اس کے بغیر جہاد نہیں ہے.جہاد کی کئی قسمیں ہیں لیکن اس وقت یہ میرا مضمون نہیں ہے.فرائض میں بھی آپس کا فرق ہے لیکن بنیادی طور پر جو فرض ہے وہ ہے خدا تعالیٰ کے حکم کو ماننا یعنی خدا تعالیٰ کے حکم کے سامنے باغیانہ رویہ اختیار نہ کرنا.اس کے حضور جھکے رہنا اور تمثیلی زبان میں یہ کہ ) اس کے پاؤں پر اپنے ماتھے کو ہر وقت لگائے رکھنا اور اسی کے ہو جانا اور غیر اللہ کی طرف نگاہ نہ کرنا یہ ایمان کی بنیاد ہے اور یہ جو اصولی تعلیم ہے اس کو ترک کرنا کبائر میں سے ہے.میں تفصیل میں نہیں جارہا.تفصیل میں پھر بعض صفا ئر بھی آجاتے ہیں.مثلاً چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ یعنی رستہ میں کوئی ضرر رساں چیز پڑی ہو اس کو ہٹادینا یہ چھوٹے سے ایمان کا ایک فعل ہے تو جو شخص راستہ میں مثلاً کیلے کا چھلکا پھینک دیتا ہے یا اور کوئی گند پھینکتا ہے تو وہ گناہ کرنے والا ہے لیکن ہر گناہ کبیرہ نہیں ہے صغیرہ ہے لیکن ہمیں یہ بھی حکم نہیں کہ کبائر سے بچو اور صغائر کرتے رہا کرو.ہمارے ایمان کا یہ تقاضا نہیں.حکم یہ ہے کہ کبائر سے بھی بچو اور صغائر سے بھی بچو ہر دو سے بچنے کا حکم ہے لیکن انسانی کمزوریاں ہیں وہ بعض دفعہ سہو بے خیالی میں چلتے چلتے چھلکا پھینک دیتا ہے اور بے خیالی میں اپنے دھیان میں کچھ سوچتا چلا جا رہا ہے اور سامنے راستہ میں چھلکا آیا وہ اس نے دیکھا نہیں اور اٹھایا نہیں اور اماطة الأذى

Page 755

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۳۵ خطبہ جمعہ ۱۱ را کتوبر ۱۹۷۴ء نِ الطَّرِيقِ والا ثواب اس نے حاصل نہیں کیا.یہ چیزیں ہیں جو بین الصلوتین اور دو جمعوں کے درمیان اور دور مضان کے درمیان معاف ہوتی ہیں اور نہ بنیادی طور پر ایمان پر بکلی یعنی شاخوں سمیت قائم رہنا ضروری ہے اور ہمیں خدا تعالیٰ نے ایک دعا سکھائی ہے اور وہ یقیناً بنیادی چیز ہے کہ ایمان پر مضبوطی سے قائم رہا جائے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ اپنے ایمان کی حفاظت اور سلامتی کے لئے تمہیں میرے حضور عاجزانہ دعاؤں کی ضرورت ہے.اس لئے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہا السلام کے اُسوہ کے مطابق اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں اور آپ کے اُسوہ کے مطابق ہمیں ہر وقت خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے ہمارے پیارے ربّ! ہمارے ایمانوں کو محفوظ رکھ اور سلامت رکھ کہ تیرے فضل کے بغیر ہمارے ایمان ہر وقت خطرہ میں پڑے رہتے ہیں.پس اپنے ایمانوں کی سلامتی اور حفاظت کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کی احتیاج ہے.اس کے بغیر کسی اور کی احتیاج نہیں ہے.اسی کے ذیل میں میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن میرا خیال ہے وہ مضمون بہت لمبا ہو جائے گا.آدھ پون گھنٹے کا مضمون ہے اس کو ادھورا چھوڑ نا نا درست نہیں (اس لئے وہ پھر کسی موقع پر بیان ہو جائے گا ) بہر حال میں نے آپ کو یہ بتایا ہے.بچوں کو بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ ہر نماز پہلی نماز اور اپنے درمیان کے وقفہ ( میں سرزد ہونے والی خطاؤں کو معاف کرواتی ہے ) اس درمیانی وقفہ میں جہاں نماز کی عبادت کی علاوہ دوسری ذمہ داریاں انسان نباہتا ہے.ان میں کوئی ایسا وقفہ نہیں جو دو نمازوں کے درمیان نہ ہو.صبح کی نماز اور ظہر کے درمیان ، ظہر اور عصر کے درمیان ، عصر اور مغرب کے درمیان، مغرب اور عشاء کے درمیان ،عشاء اور صبح کی نماز کے درمیان ، یہی ہماری زندگی ہے.دن اسی کا مجموعہ ہے.پانچ نمازوں کے اوقات مل کر ایک دن بن جاتے ہیں اور یہ دن مل کر ہفتے بن جاتے ہیں اور ہفتے پھر سال بن جاتے ہیں اور کئی سال اکٹھے ہو کر ہماری عمر بن جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ہمیں یہ بشارت دی کہ نماز، نماز کے درمیان کی جو کوتاہیاں اور غفلتیں ہیں ان کے لئے نماز میں دعا کرو اور اللہ تعالیٰ سے کہو کہ جو ہم سے غفلتیں ہوگئی ہیں وہ دور کر اور ہمیں معاف

Page 756

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۳۶ خطبہ جمعہ ۱۱ را کتوبر ۱۹۷۴ء کر دے لیکن غفلتوں سے مراد کبائر نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جو انسانی کمزوریوں کے نتیجہ میں اس سے سرزد ہو جاتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ اور جمعہ کے درمیان کے وہ صغائر ، وہ چھوٹے چھوٹے گناہ جو ہماری نمازیں معاف نہیں کروا سکیں جمعہ کی بعض گھڑیاں ایسی ہیں جن میں خدا کے حضور جھکو اور کہو کہ اے خدا ہم نے کوشش کی لیکن ہماری کمزور کوششوں کے نتائج پورے نہیں نکل سکتے جب تک تیر افضل شامل حال نہ ہو.جو خامیاں رہ گئی ہیں.اب اس ہفتہ کی کوتاہیوں کو آج معاف کر دے اور اگر خلوص نیت ہو اور اگر انسان کے اندر ایک عاجزانہ تڑپ ہو اور تضرع ہو اور حقیقی توحید پر وہ قائم ہو اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات اس کی آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوں گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے تو پھر اسے امید رکھنی چاہیے کہ ہر جمعہ سے پہلے سات دنوں کے اس کے اس قسم کے صغائر جو پہلے معاف نہیں ہو سکے وہ اس جمعہ کی پاک گھڑیاں معاف کروا دیتی ہیں پھر بھی کچھ رہ سکتا ہے.انسان کمزور ہے (میں یہ بتا رہا ہوں کہ کتنا پیار ہے بندے سے اللہ کا اور کتنی رحمت کا جلوہ ہے بندے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کہا پھر بھی ہو سکتا ہے تمہارے کچھ صغائر معاف ہونے سے رہ جائیں تو رمضان کا مہینہ ہے.رمضان کے مہینہ کا ہر دن اپنے سے پہلے بارہ مہینوں کی خطائیں معاف کرواتا ہے.سارا مہینہ مل کر سارے سال کی خطاؤں کی معافی کے سامان پیدا کرتا ہے لیکن کبائر معاف نہیں ہوتے.شرک معاف نہیں ہوتا.نمازیں چھوڑی ہوئی ہیں تو وہ معاف نہیں ہوتیں کیونکہ جو پانچ ارکان اسلام ہیں.توحید کا اقرار، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ ان کو چھوڑ نا کبائر میں شامل ہے.ان کے متعلق آپ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ جو ان کو چھوڑے گا اس کی کوئی معافی نہیں ہوگی سوائے حقیقی تو بہ کے.ہاں صغائر جو انسان کی بشری کمزوریوں کے نتیجہ میں سرزد ہوتے ہیں ان کی معافی کے یہ سامان ہیں.اسی طرح بڑی عید ہے اس کے متعلق کہا.اس رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ کا اپنی اُمت کے لئے لائی ہوئی تعلیم کا اور آپ کی دعاؤں اور آپ کے جذبات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے اور خدا تعالیٰ نے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) کہہ کر جو ایک عظیم ارشاد فرمایا تھا اسی ارشاد کی روشنی میں یہ ساری چیزیں ہیں کہ دو نمازوں کے درمیان کی خطائیں معاف، جمعہ

Page 757

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۳۷ خطبہ جمعہ ۱۱ را کتوبر ۱۹۷۴ء اور جمعہ کے درمیان کی خطائیں معاف ، رمضان اور رمضان کے درمیان کی خطائیں معاف لیکن شیطان کی راہ پر چل کر اباء اور استکبار نہیں کرنا، کبائر کا مرتکب نہیں ہونا.باقی انسان کمزور ہے ہزار بھول چوک انسان سے ہو جاتی ہے.اس کے لئے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں خدا کے حضور جھکنے ( کی ) ضرورت ہے اور تضرع سے اپنی خطاؤں کومعاف کروانے کی ضرورت ہے اور میں نے بتایا ہے کہ اصل جو چیز ہے وہ تو بحیثیت مجموعی ایمان ہے.ایمان کے لفظ کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں قریباً آٹھ سو مرتبہ استعمال کیا ہے.اس کی تفصیل میں میں نہیں گیا.وہ مضمون میرے ذہن میں ہے اس کو دیکھ رہا ہوں.بہر حال اصل چیز ایمان ہے اور بحیثیت مجموعی اس میں صغائر سے بچنا بھی شامل ہے.کبائر سے بچنا بھی شامل ہے.اس ایمان میں چھوٹی نیکیاں کرنا بھی شامل ہے اور بڑی نیکیاں کرنا بھی شامل ہے.انسان کوشش کرتا ہے اور دعا کرتا ہے.خدا ان نیکیوں کو قبول کرے تو اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ جو ایمان لاتے ہیں اور بحیثیت مجموعی ان کا ایمان خالص رہتا ہے اور اس کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہیں ہوتی تو ایسے ایمان کو اللہ تعالیٰ قبول کرتا اور اس پر اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے.اسی لئے میں نے کہا کہ آپ کی اصل اور بنیادی دعا ہر وقت کی یہ ہونی چاہیے کہ اے خدا اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ہمارے ایمانوں کی سلامتی اور ان کی حفاظت کے سامان پیدا کر دے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روز نامه الفضل ربو ۹۰ / نومبر ۱۹۷۴ ، صفحه ۲ تا ۵)

Page 758

Page 759

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۳۹ خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ وحشی کو انسان، انسان کو با اخلاق اور پھر با خدا انسان بناتی ہے خطبه جمعه فرموده ۱۸ ۱۷ کتوبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر جو ہدایت اور شریعت نازل کی وہ ایک عظیم شریعت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآنِ کریم کی شریعت اور ہدایت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور روحانی تاثیریں ایک وحشی کو انسان بنانے کی طاقت رکھتی ہیں اور انسان کو با اخلاق بنانے کی طاقت رکھتی ہیں اور بااخلاق انسان کو با خدا انسان بنانے کی طاقت رکھتی ہیں.جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ایک بڑا ہی عجیب اور بڑا ہی حسین نظارہ دنیا نے عرب کے ملک میں دیکھا.عرب میں بسنے والے ایک وحشی قوم کی حیثیت سے زندگی گزار رہے تھے.اُن میں سے بہت سے اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے.عیش و عشرت کی زندگی تھی.اپنی راتیں شراب کے نشہ میں اور عیش میں گزار نے والی قوم تھی.معاف کرنا اُن کو آتا ہی نہیں تھا.ظلم بے انتہا کرتے تھے.غلام بناتے تھے اور غلاموں پر بے اندازہ مظالم ڈھاتے تھے پھر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو...قرآنِ کریم کی شریعت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور آپ کی رُوحانی تأثیر اور قوت قدسیہ نے

Page 760

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۴۰ خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء ان ہی وحشیوں کو انسان بنایا.انسان اگر سوچے تو با اخلاق بننے سے پہلے اُسے انسان بننا پڑتا ہے.اس لئے کہ ہزار ہا سال قبل جب سے آدم پیدا ہوئے اور انسان اپنی مہذب شکل میں دنیا میں ظاہر ہوا اُس وقت سے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی شریعت ہمیشہ انسانوں پر نازل ہوتی رہی.حیوانوں پر نازل نہیں ہوتی رہی اور قرآن کریم کے جو احکام ہیں اُن میں سے درجنوں ایسے ہیں جن کا تعلق مسلمان سے نہیں بلکہ انسان سے ہے.میں جب ۶۷ء میں دورہ پر انگلستان گیا تو لندن کے ایک حصہ میں سینکڑوں کی تعداد میں بالغ احمدی بستے ہیں انہوں نے ایک دن مجھے اپنے ہاں بلایا اور مجھے علم نہیں تھا لیکن انہوں نے ایک ہال کرایہ پر لے کر میری مختصر سی تقریر کا بھی انتظام کیا ہوا تھا.وہاں جا کر مجھے پتہ لگا اُس ہال میں زیادہ مجمع نہیں تھا چھوٹا سا ہال تھا.اس ہال میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی.مجھے خیال آیا کہ ان کا اسلام سے تعارف کرایا جائے.میں نے اپنے رنگ میں سات آٹھ ایسے نکات بچنے تعلیم کے وہ حصے لئے جن کا تعلق انسان سے بحیثیت انسان ہے مثلاً اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.مختصر یہ کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ صرف مسلمان پر افترا باندھنا ناجائز اور حرام ہے اور غیر مسلموں پر جھوٹ باندھو اور افترا باندھو.اسلام کی یہ تعلیم نہیں.اسلام یہ کہتا ہے کہ کسی انسان پر تم نے افتر انہیں باندھنا اُس کے خلاف جھوٹ نہیں بولنا.اسلام یہ کہتا ہے کہ کسی انسان پر ظلم نہیں کرنا بلکہ اس سے آگے جاتا ہے کہتا ہے کسی مخلوق پر ظلم نہیں کرنا.وہ چونکہ غیر مسلم تھے میں نے ان کو اس طرح سمجھایا کہ دیکھو تم لوگ اسلام کے منکر ہو اسلام پر ایمان نہیں رکھتے.جو اللہ کا تصور اسلام نے پیش کیا ہے وہ تم تسلیم نہیں کرتے لیکن یہ اُس اللہ کی شان ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے اور یہ شان ہے قرآنِ عظیم کی شریعت کی کہ تم اس کے منکر اور یہ تمہارا خیال رکھنے والی ہے.اس طرح مختصر سات آٹھ باتیں میں نے بیان کیں اور اُن کے اُو پر اثر ہوا اور بعد میں اُنہوں نے میرا قریباً گھیراؤ کر لیا اور کہا ہمارے ہاں آئیں اور تقریر کریں.اسلام کے حسن اور احسان کی یہ باتیں تو ہم آج پہلی مرتبہ ٹن رہے ہیں.پس اسلام میں یہ قوت اور طاقت ہے اور اسلام میں وہ تعلیم سکھائی گئی ہے جو وحشیوں کو

Page 761

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۴۱ خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء انسان بنانے والی ہے اور میں نے بتایا کہ آج تک کسی جانور پر گھوڑے پر یا بیل پر یا پرندوں میں سے کبوتر پر شریعت نازل نہیں ہوئی.صرف انسان پر ہمیشہ سے شریعت نازل ہوتی رہی ہے.اس سے ہمیں پتہ لگا کہ روحانی ترقیات سے پہلے بلکہ اخلاقی منازل طے کرنے سے پہلے انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے اندر انسانی اقدار پیدا کرے.اگر کسی میں انسانی اقدار نہیں جیسا کہ خود قرآنی شریعت نے بتایا تو اُس کے لئے یہ عقلاً ممکن نہیں ہے کہ وہ با اخلاق بھی ہو اور باخدا بھی ہو.پہلے اس کے لئے انسان بننا ضروری ہے اور انسانی اقدار میں سے جو قرآنِ کریم نے ہمیں بتائیں یہ ہے کہ جیسا کہ ابھی میں نے بتایا کہ ظلم کسی انسان پر نہیں کرنا اور حقارت اور گالیاں اور بُرا بھلا کسی انسان کو نہیں کہنا.یہاں تک کہہ دیا، اتنی دلجوئی کی ، جذبات کا اتنا خیال رکھا کہ وہ لوگ جو انسان تو ہیں لیکن اُن کے اندر انسانی اقدار نہیں وہ خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے بلکہ شرک کرتے ہیں تو مشرکین کے خداؤں کو بھی گالی نہیں دینی جن کو وہ خدا کے شریک بناتے ہیں.ان کے جذبات کا خیال رکھا.پتھر کے تراشے ہوئے بت تو نہ گالی سنتے ہیں نہ اُن کے جذبات ہیں، نہ اُن کے اُو پر اس کا کوئی اثر ہوتا ہے.اثر تو انسان پر ہوتا ہے جس نے اُس بت کو تراشا.اگر کوئی اس کے بت کو گالی دے تو اس کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے تو جو خدا تعالیٰ کے مقابلے میں بت تراشتے ہیں اور شرک میں مبتلا ہیں قرآنِ کریم نے ان کے جذبات کا بھی خیال رکھتا ہے.یہ وحشی کو انسان بنانے کا سبق ہے.پس درجنوں ایسی تعلیمات قرآنی ہیں جو وحشی سے انسان بناتی ہیں اور میں نے بتایا کہ قرآنی شریعت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تأثیرات اور فیوض کا یہ نتیجہ تھا کہ وہ وحشی قوم جو اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتی تھی.وہ وحشی قوم جو ظلم کے چشمہ سے پانی کی طرح ظلم پی پی کر سیر ہوتی تھی.وہ لوگ جو افترا کرنے والے تھے.جھوٹ باندھنے والے تھے عیش میں زندگی کے دن گزار نے والے تھے جو پاکدامن عورتوں کے متعلق اپنے عشق کی جھوٹی داستانوں کا اعلان خانہ کعبہ میں لٹکائے گئے عشقیہ اشعار میں کرتے تھے.جن میں معصوم عورتوں کے ساتھ جھوٹا عشق جتایا جاتا تھا اور بڑے فخر سے باتیں کی گئی تھیں.اس قسم کی ان کی وحشیانہ حالت تھی.وہ وحشیانہ زندگی گذار رہے تھے.پھر اس

Page 762

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۴۲ خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء شریعت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض نے ان رسمی انسانوں کو (حقیقی ) انسان بنایا پھر انسان بننے کے بعد اُن کو با اخلاق انسان بنایا اور با اخلاق انسان بننے کے لئے ضروری ہے کہ آسمان سے وحی نازل ہو اور اخلاق سکھائے کیونکہ حقیقی اخلاق جن پر انسان پختگی سے قائم ہوسکتا ہے وہ وحی کے طفیل ہی انسان کو ملتے ہیں مثلاً آج کل کی دنیا کو لے لو.اس دنیا میں بڑی مہذب قوموں میں ظاہراً تو دیانتداری پائی جاتی ہے یہ ایک انسانی قدر ہے کہ کسی سے بھی دھوکہ نہیں کرنا اور اس کا مال نہیں کھانا.اسلام نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان کا مال نہ کھاؤ.اسلام نے کہا ہے کسی کا بھی مال نہ کھاؤ مگریہ ( یہ قومیں ایسی ہیں کہ ) جب تک ان کا فائدہ ہو اُس وقت تک یہ بڑی دیانتدار ہیں.جتنے کالونیز (Colonies) آباد کرنے والے ممالک ہیں مثلاً سلطنت برطانیہ جس کا دعویٰ تھا کہ اُس کی ایمپائر پر سورج غروب نہیں ہوتا اس ایمپائر کے بانی یعنی انگلستان جو ان کی کالونیز (Colonies) کے ماں باپ کی حیثیت رکھتا تھا جب تک ان کا فائدہ ہوتا تھا یہ بڑے دیانتدار تھے اور جہاں اُن کا فائدہ نہیں ہوتا تھا وہاں وہ دیانتدار نہیں تھے.تقسیم ہند کے وقت جب پاکستان علیحدہ ہوا اُس وقت کا مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ انگریز کی حکومت کے افسروں نے بددیانتی کی اور پیسے کھائے اور اس طرح پاکستان کو نقصان پہنچایا.بہر حال اسلام نے وحشی کو انسان بنانے کے بعد بااخلاق انسان بنایا اور قرآنِ عظیم کی ہدایت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ نے اخلاق بھی وہ سکھائے کہ اُس حُسن اور احسان کے جلوے انسانی عقل کی حدو حدود سے بھی باہر تھے اسلام انسان کے اخلاق کی اتنی باریکیوں میں گیا ہے کہ انسانی عقل وہاں نہیں پہنچتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو بڑی وضاحت سے اسلامی اصول کی فلاسفی میں بیان فرمایا ہے اور بعض دوسری کتب میں بھی اس پر روشنی ڈالی ہے یہ بہت لمبا مضمون ہے جو کئی خطبوں پر مشتمل ہوسکتا ہے لیکن میں اس وقت مختصراً آپ کو اس قسم کے عنوان بتا رہا ہوں.پس وحشی سے انسان بنایا انسان سے با اخلاق انسان بنایا.دیانت (جو اخلاق کی کسوٹی پر پوری اترتی ہے )، تکبر سے پر ہیز ، ریا نہیں کرنا لیکن جو یہ حصے دوسرے انسانوں سے تعلق رکھنے والے ہیں اُن کو ہم اخلاق کہتے ہیں یعنی انسان سے تکبر سے پیش نہ آنا، اپنے آپ کو بڑا نہ سمجھنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 763

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۴۳ خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء نے فرمایا ہے کہ بڑے ہو کر چھوٹوں سے محبت اور پیار کا سلوک کرو نہ یہ کہ اُن پر تکبر کا اظہار کرو.پس جو عالم ہے وہ اپنے علم پر غرور نہ کرے.جو مالدار ہے وہ اپنے مال پر غرور کر کے اپنے بھائیوں کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش نہ آئے لیکن یہی تکبر سے پر ہیز ایک منفی پہلو ہے اور اس کے مقابلہ میں مثبت اخلاق بھی ہیں.جس وقت اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو تو وہ پھر نہایت درجہ کی عاجزی بن جاتی ہے اور انسان خدا کے مقابلہ اپنی نیستی کی حقیقت کو پہنچانے لگتا ہے.پس انسان سے با اخلاق انسان بنایا اور پھر با اخلاق سے باخدا انسان بنایا.اسلام کے اندر یہ طاقت پائی جاتی ہے.اسلام اور قرآن کریم کی ہدایت نے اپنی اس قوت و طاقت کا عملی نمونہ دکھایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بڑی شان سے یہ چیز ہمیں نظر آتی ہے لیکن آج تک قرآنی شریعت و ہدایت نے عملی نمونہ دکھایا ہے.وہ جو ایک ایک آدمی دُنیا کے کناروں تک چلا گیا تھا اور وہاں انسان کا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے لئے جیتے تھے اُس نے اپنے نمونہ سے، اپنے اخلاق سے، اپنے کردار سے، اپنے فعال اور نیک اعمال سے اور حسن کے جلوے لوگوں کو دکھا کر احسان کی طاقت کا مظاہرہ لوگوں کے سامنے کر کے اُن لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کیا.ایک بڑا مشہور تاریخی واقعہ ہے.سینیگال جس کے جغرافیائی حدود اُس وقت آج کی نسبت مختلف تھے اُس وقت بہت بڑا علاقہ تھا.اس میں بعض بہت بڑے بڑے دریا ہیں.وہاں ہمارے ایک بزرگ گئے.انہوں نے وہاں تبلیغ کی لیکن کوئی اُن کی بات نہ سنتا تھا اور ایک لمبا عرصہ تبلیغ کے بعد مایوس ہو کر اُنہوں نے سوچا کہ میں ان لوگوں کی خاطرا پنا وقت ضائع کر رہا ہوں.اصل چیز تو یہ ہے لَا يَضُرُكُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمُ (المائدة : ١٠٦ ) اگر ہدایت اُن کے نصیب نہیں تو میں جا کر اپنی عاقبت سنواروں.وہ ایک بہت بڑے جزیرہ میں چلے گئے اور وہاں جا کر عبادت شروع کر دی خدا تعالیٰ نے اُن کو ایک معجزہ دکھانا تھا.خدا تعالیٰ نے اُن پر قرآنِ عظیم کی تأثیر ظاہر کرنی تھی.انہوں نے وہاں ایک جھونپڑا بنایا کچھ شاگر د ساتھ ہی گئے ہوئے تھے.وہ چند آدمی وہاں رہنے لگے اور غریبانہ درویشانہ زندگی گزارنی شروع کی.تب خدا نے فرشتوں کو کہا کہ

Page 764

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۴۴ خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء اس شخص کو ، میرے اس بندے کو یہ سمجھ آگئی کہ اس کی کوششیں بے نتیجہ ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو.پس خدا تعالیٰ نے اس علاقہ کو اپنی قدرت کی یہ شان دکھائی کہ اس سارے علاقہ میں بیسیوں بلکہ شاید سینکڑوں قبائل ارد گرد آباد تھے.ان میں سے ہر قبیلہ میں سے دو چار کے دل میں فرشتے تحریک پیدا کرتے تھے کہ اُن کے پاس چلے جاؤ تو وہ ان کے پاس مسلمان ہو کر آجاتے تھے.وہ غیر مسلموں کا علاقہ تھا اور پھر انہوں نے وہاں قرآنِ کریم اُن کو پڑھانا شروع کیا اور درس دینا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اُن کے دماغوں کو کھولا اور قرآن کریم کا علم اُن کو حاصل ہوا.معلم حقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے وہ لوگ جو اس غلطی میں مبتلا ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے نئے اسرار روحانی کسی پر ظاہر نہیں ہو سکتے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کے معلم حقیقی ہونے سے انکار کر رہے ہیں معلم حقیقی اُس تعالیٰ کی ذات ہے.وہ اس بزرگ کو قرآن کریم سکھا رہا تھا اور یہ آگے اُس زمانہ کے حالات کے مطابق جو ابدی اور بنیادی صداقتیں تھیں وہ اُن کو سکھا رہے تھے.کئی سال تک یہ مدرسہ انہوں نے لگایا اور قرآن کریم پڑھایا اس استاد کی اپنی کوششیں تو نا کام ثابت ہوئیں لیکن جب ان کے شاگرد اپنے اپنے قبیلہ میں گئے تو ہزاروں کی تعداد میں اُن کے قبائل دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہونے شروع ہوئے اور وہ سارا علاقہ مسلمان ہو گیا.پس ہم کہتے ہیں با اخلاق سے باخدا انسان بنایا.باخدا کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا اُس سے تعلق ہے.خدا کا قرب اُسے حاصل ہے وہ خدا کی آواز سنتا ہے.خدا تعالیٰ اس کا معلم بنتا ہے.خدا تعالیٰ اُس کا بادی بنتا ہے.خدا تعالیٰ اُس کا رہنما بنتا ہے.خدا تعالیٰ اس کو غلطیوں اور کبائر سے جو چھپے ہوئے ہیں یا جو صغائر ہیں ( بزرگوں کے لئے وہ بھی کبائر بن جاتے ہیں وہ علیحدہ مسئلہ ہے ) اس لغزش سے اُن کو بچاتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ نہ جسمانی زندگی نہ روحانی زندگی اللہ کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.پس اسلام نے اور قرآن کریم کی ہدایت نے وحشی کو انسان بنایا انسان کو با اخلاق انسان بنایا.با اخلاق انسان کو با خدا انسان بنایا اور کسی کا یہ سمجھنا کہ قرآن کریم کی تأثیریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قوائے روحانیہ ایک وقت تک تو کام کر رہے تھے اور اس کے بعد پھر وہ نعوذ باللہ مردہ

Page 765

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۴۵ خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء ہو گئے یہ غلط ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کی جس رنگ میں ہمیں مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ معرفت حاصل ہوئی وہ ایک زندہ رسول ہیں اور ان کے اوپر کبھی موت نہیں آسکتی.قیامت تک آپ کی روحانی زندگی اس دنیا میں اپنے جلوے دکھاتی اور نوع انسان کو ہدایت کی طرف جذب کرتی اور کھینچتی ہے.آج بھی خدا اُسی طرح بولتا ہے جس طرح وہ پہلے بولا کرتا تھا.آج بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کی اتباع خدا کے بندوں کو خدا کا محبوب بناتی ہے.آج بھی جو خدا کے بندے ہیں وہ اس قدر عظیم اخلاقی رفعتوں کو پہنچے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے اخلاق اور نمونہ کے ذریعہ سے نوع انسانی کو اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور قرآنی ہدایت کی طرف کھینچنے والے ہیں.پس وہ عظیم ہدایت اور شریعت ہے جس پر ہم ایمان لائے ہیں.یہی چیزیں تھیں جنہیں دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :.ع قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے ایک عظیم شریعت آپ کو ملی ہے جس کے فیوض پیچھے نہیں رہ گئے بلکہ وہ قیامت تک نوع انسانی کی انگلی پکڑ کر خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچانے والے ہیں.پس دُعائیں کرو.بہت دُعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو، جماعت احمدیہ کے مردوزن کو خود معلم حقیقی بن کر قرآن کے اسرار روحانی سکھانے والا ہو اور اپنے فضل سے انسان، پھر با اخلاق انسان ، پھر باخدا انسان بنانے والا ہو اور خدا کرے کہ احمدی کا نمونہ انسان کو جذب کر کے اور کھینچ کر اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پہنچانے والا بنے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ نومبر ۱۹۷۴ صفحه ۲ تا ۵)

Page 766

Page 767

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۴۷ خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۷۴ء اسلام کے نزدیک انسان اور غیر انسان میں فرق کرنے والی چیز خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوت دعا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۵ اکتوبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَ مَنْ فِيهِنَّ وَ إِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ ط ط بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا - (بنی اسرآءيل: ۴۵) أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.(البقرة: ۱۸۷) وو اَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ (النمل : ٦٣ ) قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا - (الفرقان : ۷۸) پھر حضور انور نے فرمایا:.اس سے قبل ( بعض خطبات میں ) میں تین ایسی باتیں بیان کر چکا ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم میں یہ فرمایا ہے کہ ان کے کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ پیار نہیں کرتا.ایسے اعمال کے نتیجہ میں لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب کو مول لیتے ہیں اور پچھلے خطبہ میں دو باتیں میں نے ایسی بیان

Page 768

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۴۸ خطبه جمعه ۱٫۲۵ کتوبر ۱۹۷۴ء کی تھیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے کہ یہ ایسے اعمال ہیں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب اور پیارے ہیں.ان پر عمل کرنے والے اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کو حاصل کرتے ہیں.آج میں ایک تیسری بات بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے متعلق قرآنِ کریم نے بتایا ہے کہ اس کام کے کرنے سے اور اس عمل کے بجالانے سے انسان اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا پیار اور اس کی رضا حاصل کر لیتا ہے اور اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اس کا ایک پہلو ایسا ہے جس میں ہر مخلوق شامل ہے اور اس کا ایک پہلو ایسا ہے جو انسان کو اس کائنات کی ہر دوسری مخلوق سے ممتاز کرنے والا ہے یعنی یہ پہلو انسان اور کائنات کی ہر دوسری مخلوق کے درمیان امتیاز پیدا کرنے والا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین اور ان کے اندر جو کچھ بھی ہے یعنی انسان اور دوسری سب چیزیں خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کرنے والی ہیں.فرما یا :.ان من شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمدِہ کائنات کی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی تسبیح نہ کرتی ہوا سے پاک نہ قرار دیتی ہو اور اس کی تعریف نہ کرتی ہو اور ہر تعریف زبانِ حال سے اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی طرف پھیرتی نہ ہو اس کا ئنات میں صرف انسان ہی کام نہیں کرتا بلکہ ہر مخلوق کسی نہ کسی کام پر لگی ہوئی ہے اور اُن کے یہ کام خدا تعالیٰ کی ذات کو پاک بھی قرار دیتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کوئی نقص نہیں یا کوئی کمزوری نہیں ہے.پس جہاں تک تسبیح و تحمید کا تعلق ہے انسان اور غیر انسان میں کوئی فرق نہیں ہے.غیر انسان میں حیوان ہوں، حیوانوں میں چرند، پرند اور درند ہوں یا غیر انسان میں غیر حیوان ہوں مثلاً نباتات ہوں یا جمادات ہوں ، نباتات کی اپنی زندگی ہے، جمادات کی اپنی زندگی ہے.زمین کی اپنی زندگی ہے.ستاروں کی اپنی زندگی ہے.ستاروں کے خاندانوں کی اپنی زندگی ہے.غرض اس کا ئنات میں ہمیں مختلف زندگیاں نظر آتی ہیں اور ہر چیزا اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کی تسبیح بھی کر رہی ہے اور اس کی تحمید بھی بیان کر رہی ہے مگر اس زبان میں کر رہی ہے جو انسان کی زبان سے مختلف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ لكِن لاَ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ تم ان کی تسبیح اور تحمید کو سمجھ نہیں سکتے اور اُن کی زبان ہے اطاعت کی اور انسان کی زبان ہے محبت اور عشق کی اور ان

Page 769

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۴۹ خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۷۴ء دوزبانوں میں بڑا فرق ہے.اطاعت پر مجبور ہو جانا، یہ اور چیز ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت میں مست ہو کر اس کے حضور قربان ہو جانا، یہ بالکل اور چیز ہے.فرمایا ہر دو یعنی انسان بھی اور غیر انسان بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح بھی کر رہے ہیں اور اس کی حمد میں بھی لگے ہوئے ہیں لیکن جس زبان میں غیر انسان تسبیح و تحمید کر رہے ہیں انسان اس زبان کو سمجھ نہیں سکتا.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرشتے وہی کچھ کرتے ہیں جس کا ان کو حکم دیا جاتا ہے اور یہی ان کی تسبیح وتحمید ہے.وہ خدا کے حکم سے ایک ذرہ بھی ادھر اُدھر نہیں ہوتے.انہیں جو بھی حکم ہوتا ہے وہ اُسے بجالاتے ہیں.وہ حکم عدولی کر ہی نہیں سکتے حکم بجالانے پر وہ مجبور ہیں.اسی لئے انسان اپنے علم کے لحاظ سے بھی اور اپنی مخصوص رو جہد اور مجاہدے کے لحاظ سے بھی فرشتوں سے آگے نکل گیا کیونکہ فرشتوں کی پیدائش اطاعت کے لئے تھی اور انسان کی پیدائش مظہر الوہیت بننے کے لئے تھی یعنی وہ اختیار رکھتے ہوئے رضا کارانہ طور پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھائے.میرے مضمون کا پہلا نکتہ یا پہلا حصہ یہ ہے کہ انسان اور غیر انسان سب ہی اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں لگے ہوئے ہیں.وہ اُسے پاک بھی قرار دیتے ہیں اور سب تعریفوں کا مستحق اُسی کو سمجھتے ہیں.اگر چہ ہر ایک کی تسبیح و تحمید میں رنگ بدلا ہوا ہے لیکن پھر بھی جہاں تک تسبیح کرنے اور خدا تعالیٰ کی حمد کے گیت گانے کا سوال ہے انسان اور غیر انسان میں کوئی فرق نہیں ہے.چنانچہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات میں یہ مضمون بیان ہوا ہے.میں نے اس وقت جو چند آیات منتخب کر کے پڑھی ہیں، ان میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان بھی اور دوسری مخلوقات بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں لگے ہوئے ہیں.( من “انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے.ہما میں دونوں چیزیں آجاتی ہیں مگر بعض دفعہ من کے معنے ما کے بھی ہو جاتے ہیں ) اس لئے انسان اور غیر انسان کے متعلق فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بھی کر رہے ہیں اور تحمید بھی کر رہے ہیں.جب انسان اور غیر انسان ہر دو خدا تعالیٰ کی حمد بھی بجالا رہے ہیں اور شبحان اللہ کہنے والے بھی ہیں تو اس طرح ہر دو میں کوئی فرق نہیں رہتا لیکن میرے مضمون کا دوسرا نکتہ یا دوسرا حصہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو چیز نمایاں طور پر بیان کی ہے اور جو انسان اور غیر انسان میں مابہ الامتیاز ہے، وہ

Page 770

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۵۰ خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۷۴ء خدا کی محبت کے حصول میں اس کی وہ ایفرٹ (Effort) اور اس کی وہ کوشش اور اس کا وہ مجاہدہ ہے جس کے نتیجہ میں وہ مظہر صفات باری بن کر اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس اپنے اندر پیدا کر کے خدا تعالیٰ کا محبوب اور پیارا بندہ بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے اندر یہی ایک چیز ہے جو فرق پیدا کرتی ہے انسان میں اور حیوانات میں، انسان میں اور نباتات میں، اور انسان میں اور جمادات میں.اور یہ شرف انسان کو قوت دعا کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ طاقت عطا فرمائی ہے کہ وہ اُس کے حضور مفطر کی حیثیت میں حاضر ہو کر اس سے دعائیں کرے تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس پر رجوع برحمت ہو اور اس کی دعاؤں کو قبول کرے.غرض یہ دعا اور دعا کی قبولیت ہی ہے جو انسان اور غیر انسان میں فرق کرتی ہے البتہ تسبیح و تحمید میں کوئی فرق نہیں.دونوں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں لگے ہوئے ہیں لیکن انسان کے علاوہ دنیا کی کوئی چیز اپنے لئے دعا نہیں کر رہی.میں نے یہ جان کر کہا ہے کہ انسان کے علاوہ دوسری مخلوق اپنے لئے دعا نہیں کرتی تاکہ کسی عالم کے دماغ میں یہ اعتراض نہ آئے کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے انسان کے لئے دُعائیں کرائی ہیں.ٹھیک ہے مگر فرشتوں کی دعا اس دعا سے مختلف ہے جو انسان کرتا ہے کیونکہ فرشتوں کی تو خصلت ہی یہ ہے کہ وہ وہی کچھ کریں جو خدا انہیں کہے.خدا نے کہا کہ میرے بندوں کے لئے دُعائیں کرو.اُنہوں نے دُعائیں کرنی شروع کر دیں.وہ انکار کر ہی نہیں سکتے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس معنی میں فرشتہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو بہر حال مانتا ہے.اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہوتا ہے وہ اس کے مطابق کام کرتا ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا اس معنی میں دنیا کی ہر مخلوق فرشتہ ہے کیونکہ دنیا کی کوئی بھی مخلوق ایسی نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی بات کے کرنے کا حکم ہو اور وہ اباء اور استکبار کرے اور کہے کہ اے خدا! میں نے تیرا حکم نہیں مانتا.جہاں بھی ہمیں اباء اور استکبار نظر آتا ہے وہاں اس لئے نظر آتا ہے کہ جیسا کہ قرآنِ کریم سے ظاہر ہے شیطان کو یہ اجازت اور ڈھیل دی گئی تھی کہ وہ اباء اور استکبار کرے اور یہ بھی دعا بہر حال نہیں ہے.اباء ہے اور استکبار ہے یعنی ”خدا تعالیٰ کی بات کو نہ ماننا یہ بات مان کر کہ بات نہ مانے.یہ ایک لمبا مضمون ہے اس کی تفصیل میں میں اس

Page 771

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۵۱ خطبه جمعه ۱٫۲۵ کتوبر ۱۹۷۴ء وقت نہیں جانا چاہتا بعض لوگوں کے دماغ میں ایک خیال پیدا ہوسکتا تھا اُس کو میں نے دُور کرنے کے لئے اشارہ کر دیا ہے.بہر حال جو چیز انسان اور غیر انسان میں فرق والی ہے وہ اسلام کے نزدیک قوتِ دعا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ طاقت دی ہے اور یہ سمجھ عطا کی ہے اور یہ معرفت بخشی ہے کہ دعا کے بغیر اس کی زندگی کوئی زندگی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ وعدہ دیا ہے کہ جب وہ شرائط دعا کے ساتھ خدا کے حضور عاجزانہ طور پر جھک کر دعا کرے گا تو وہ اس کی دعا کو قبول کرے گا یہاں تک کہ اگر وہ نادانستہ طور پر اپنی ہلاکت کے لئے دعا مانگ رہا ہو گا تب بھی اس کی دعا کو قبول کرے گا مگر اس کو ہلاک کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس صورت میں کہ اس کی دعا اس کے لئے بھلائی کا باعث بن جائے گی.مثلاً جس طرح بچہ آگ کا انگارہ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح بہت سارے لوگ خدا تعالیٰ کے حضور ایسی دُعائیں کرتے ہیں جو دراصل اُن کی تباہی کا باعث بننے والی ہوتی ہیں اس لئے بظاہر وہ دُعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن کو تباہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ اُن کو ہلاکت سے بچانا چاہتا ہے اس لئے ایسی دُعائیں کسی اور رنگ میں قبول ہو جاتی ہیں.سچی بات یہ ہے اور ہر عارف اسے جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور شرائط کے ساتھ عاجزانہ اور متضرعانہ دعائیں قبول ہو جاتی ہیں قبولیت کے وقت میں فرق ہے.قبولیت کی شکل میں فرق ہے لیکن قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دعا کے متعلق ہمیں بڑی وسیع تعلیم دی ہے اور ہر طرح سے اس کی حکمت سمجھائی ہے.میں نے اس ضمن میں تین آیات منتخب کی ہیں.پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخاطب کر کے فرما یا أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں اور اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہوں بشرطیکہ وہ میرے حضور جھکے اور مجھ سے دعائیں کرے.اِذَا دَعَانِ میں دراصل شرائط دعا ہی کا ذکر ہے.پھر فرمایا فَلْيَسْتَجِيبُوا نِی انسان کو میں نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے حکم کو مانے اور پھر فرمایا وَلْيُؤْمِنُوا فِی ایمان کے اُن تقاضوں کو بھی پورا کرے جو میں نے قائم کئے ہیں اور ایمان ہے زبان سے اقرار کرنا اور دل سے تسلیم کرنا اور اعمال سے اس اقرار اور تسلیم پر مہر لگانا.

Page 772

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۵۲ خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۷۴ء پھر اس ضمن میں اللہ تعالیٰ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ جب ایک مضطر عاجزانہ طور پر اور بڑے اضطرار کے ساتھ خدا کے حضور دعائیں کرتا ہے تو يَكشِفُ السُّوءَ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرتا ہے، اس کی دُعاؤں کو قبول کر کے اس کی تکلیف کو دُور کر دیتا ہے اور اس کی بے چینی کوسکون میں بدل دیتا ہے.بے چینی کی ایک حالت یہ بھی ہے کہ مثلاً ایک شخص کو ابھی تک خدا کا پیار نہیں ملا یا اُسے خدا کا پیار تو ملا ہے لیکن وہ اس سے زیادہ پیار چاہتا ہے اور اس کے لئے بے چین ہو جاتا ہے تو یہ چیز بھی مضطر کے اندر آجاتی ہے چنانچہ اگر دعا میں دل نہیں لگتا.رفت نہیں پیدا ہوتی توجہ نہیں قائم رہتی یا اور بہت سی وجوہات ہیں جن کو لوگ بیان کرتے رہتے ہیں تو اس صورت میں یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کے میدان میں ایک مبتدی کے لئے بڑی حکیمانہ تعلیم دی ہے.آپ فرماتے ہیں :.از دعا کن چاره آزار انکارِ دُعا بچوں علاج کے زکے وقت خمار والتہاب فرمایا اگر انسان میں دعا سے انکار یا دعا سے بے رغبتی پیدا ہو جائے تو اس بیماری کا علاج دعا سے کرو اور یہ علاج اسی طرح ہوگا جس طرح ایک دنیا دار شرابی جب اس کی شراب کا نشہ ٹوٹ جائے اور خمار پیدا ہو تو اس کی تکلیف کا مداوا شراب سے کر لیتا ہے.اسی طرح تم دعا سے انکار اور دعا سے بے رغبتی سے بچنے اور دعا میں اور زیادہ توجہ کو قائم کرنے کے لئے دُعائیں کرو اور بہت دُعائیں کرو.اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں ہے.یہ ایک گہرا نکتہ ہے اور ایک بہت بڑی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآنِ کریم کی روشنی میں واضح کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تم خدا کے حضور یہ دعا کرو کہ وہ صحیح شرائط کے ساتھ اور پوری رغبت کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.پس خدا تعالیٰ نے انسان کو جو قوت دعا عطا کی ہے اور اُسے دعا کی جو سمجھ بخشی ہے اور دعا کی جو معرفت دی ہے اور انسان کے اندر (وصل الہی کے لئے جو ) ایک بے چینی اور جذبہ پیدا کیا ہے یہی انسان اور غیر انسان میں ما بہ الامتیاز ہے نہ صرف یہی بلکہ جب انسان صحیح حالت میں خدا کے حضور جھکتا ہے تو وہ اپنے فضل سے اس کی دعا کو قبول کر لیتا ہے اور یہ بھی انسان اور اس کے غیر میں

Page 773

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۵۳ خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۷۴ء بہت بڑا امتیاز پیدا کرنے والی بات ہے.اُمت محمدیہ میں مختلف مقامات پر بعض ایسے لوگ بھی پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اپنی بدقسمتی سے یہ کہہ دیا کہ دعا کا قبولیتِ دعا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں یہ تو ایک عبادت ہے اور بس.در اصل عبادت اور چیز ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا اور محبت کو پالینا اور چیز ہے.اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید میں تو ہر غیر انسان بھی شامل ہے.ایک کتا بھی اپنی زبان میں خدا کی تسبیح کر رہا ہے یعنی کتے کی پیدائش اور اُس کے کاموں میں کوئی ایسی چیز ہمیں نظر نہیں آتی جس کے نتیجہ میں ہم اللہ تعالیٰ کو ہر عیب سے پاک سمجھنے میں کوئی روک دیکھیں.اپنے کام کے لئے وہ ایک پرفیکٹ (Perfect) یعنی کامل چیز ہے.اس کے ذمہ کام تھا مثلاً انسان کی حفاظت کے لئے بیدار رہنے کا کام.وہ یہ کام کرتا ہے.اسی طرح اس کے ذمہ یہ کام تھا کہ انسانوں کی غذا کے لئے بعض موقع پر شکار پکڑے اور اس رنگ میں بھی بڑا اچھا کام کرتا ہے.قرآنِ کریم کہتا ہے کہ سدھائے ہوئے کتے تمہارے لئے جو شکار پکڑیں اس کے کھانے کی تمہیں اجازت ہے.میں نے مثلاً دو باتوں کا ذکر کیا ہے.ہو سکتا ہے کتے کے ذمہ اور بھی کام ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے کام میں کوئی شخص حد بندی نہیں کر سکتا.پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس کام کے لئے کتے کو پیدا کیا گیا ہے وہ اُسے کر رہا ہے.اسی طرح جس کام کے لئے سانپ کو پیدا کیا گیا ہے وہ بھی اُس کام کو کر رہا ہے.ہماری بہت سی بیماریاں سانپ کے زہر سے شفا پاتی ہیں.اس کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں.پس کائنات کی بے شمار چیزوں میں سے میں نے اس وقت دو کا نام لیا ہے.ایک کتا ہے جس کی گندگی کی وجہ سے کراہت آتی ہے اور ایک سانپ ہے جو ہمارا دشمن ہے اور بڑا ز ہر میلا ہے اور بہت سے انسانوں کو ان کی غفلت کے نتیجہ میں مار بھی دیتا ہے مگر خدا تعالیٰ نے کب کہا تھا کہ تم غافل ہو کر سانپ سے ڈسوا لو یہ تو ہماری کمزوری ہے.کئی آدمی بھوک ہڑتال کرتے ہیں اور مرجاتے ہیں لیکن یہ تو نہیں کہ خدا تعالیٰ نے کھانے کا حکم نہیں دیا انسان پاگل ہو کر کھانا چھوڑ دے اور اپنا جسم نہ پالے تو اس کا اعتراض اللہ تعالیٰ پر تو نہیں ہو سکتا.اسی طرح انسان اگر غافل ہو کر خود کو ) سانپ سے ڈسوالے تو اس کا خدا پر اعتراض نہیں پڑتا.تاہم سانپ کو ڈسنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا

Page 774

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۵۴ خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۷۴ء ور نہ ہر سانپ ڈس رہا ہوتا یعنی اگر اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ سانپ کو پیدا کرتا کہ وہ انسان کو ڈس لے یا اُسے کاٹ کھائے تو ہر سانپ خدا تعالیٰ کا حکم مان کر انسان کو ڈس رہا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو بعض دفعہ انسان کا اس طرح کہنا مانتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے.سندھ کے علاقے شروع شروع میں آباد ہونے لگے تھے پنجاب کے کئی لوگوں نے جا کر سندھ کی بڑی خدمت کی ہے چنانچہ انہی دنوں و نجواں (گاؤں) کے ایک دوست جو صحابی تھے ، ان کے کچھ غیر احمدی رشتہ دار بھی وہاں چلے گئے تھے.انہوں نے وہاں سے لکھا کہ اس علاقے میں سانپ بہت ہیں بعد میں جب انجمن نے وہاں زمینیں لیں.تحریک نے زمینیں لیں.حضرت صاحب نے زمینیں لیں اور بھی بہت سے احمدیوں نے وہاں زمینیں لیں تب بھی شروع شروع میں وہاں سانپ بہت تھے مگر آہستہ آہستہ آبادی کے ساتھ کم ہوتے چلے گئے لیکن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات کر رہا ہوں اور ونجواں“ کے ایک بزرگ کا واقعہ بتا رہا ہوں کہ اُن کے غیر احمدی رشتے دار جو سندھ میں جا کر آباد ہو گئے تھے اُن کے آپس میں جھگڑے پیدا ہو گئے اور اُن کو چونکہ خدا تعالیٰ نے سمجھ اور عقل اور دیانت عطا فرمائی تھی اس لئے غیر احمدی بھی انہی سے فیصلے کروایا کرواتے تھے چنانچہ انہوں نے لکھا کہ اس اس طرح ہمارے درمیان فساد جھگڑے پیدا ہو گئے ہیں تم آ کر ہمارے جھگڑے دُور کر وا ؤ مگر چونکہ ان کو خبر میں آ رہی تھیں کہ وہاں بہت سانپ ہوتے ہیں اور یہ سانپوں سے بہت ڈرتے تھے اس لئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کیا.کہنے لگے حضور اگر مجھے کوئی کہہ دے سانپ ! تو میں تو ڈر کے مارے چھلانگ لگا کر چار پائی پر چڑھ جاتا ہوں.سانپ کو دیکھنا تو در کنار سانپ ا کے متعلق آواز سُن کر ڈر جاتا ہوں.آپ نے فرمایا تم سندھ چلے جاؤ.تمہیں سانپ سے ڈر نہیں لگے گا بلکہ سانپ تم سے ڈریں گے.وہ چونکہ بڑے مضبوط ایمان والے صحابی تھے.وہ حضور کے ارشاد پر سندھ چلے گئے.تربیت یافتہ ذہن تھا.میرا بھی ان سے واسطہ پڑا ہے.وہ بتا یا کرتے تھے کہ میں اتنا نڈر ہو گیا تھا کہ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ میں نے سانپ دیکھا.میں اپنے رستہ پر چل

Page 775

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۵۵ خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۷۴ء رہا ہوتا اور سانپ آگے آگے بھاگ رہا ہوتا تھا.ایک دفعہ میں بھی یہاں اپنی زمینوں پر پھر رہا تھا کہ یکدم آواز آئی سانپ ! میں چوکنا ہو گیا اور دیکھتا رہا.ذرا آگے گیا تو ایک سانپ نظر آیا.میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے تو فلاں جگہ سے آواز آئی تھی وہ کہنے لگے آپ تو آگے آگے تھے، وہاں بھی ہم نے ایک سانپ مارا ہے.پس نہ صرف یہ کہ سانپ کو ڈسنے کا حکم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے پیار کا اظہار کرتے ہوئے وقت سے پہلے تنبیہ بھی کر دیتا ہے کہ یہاں سانپ ہے، اس سے بچو.ورنہ اگر سانپ کو حکم ہوتا انسان کو ڈسنے کا تو اس نے تو حکم الہی کو بہر حال ماننا تھا.غرض میں یہ بتا رہا ہوں کہ سانپ کو ڈسنے کا حکم نہیں ورنہ سارے سانپ انسان کو ڈسا کرتے.میرے خیال میں شاید لاکھ میں سے ایک سانپ ڈستا ہوگا یورپ نے یہ ریسرچ کی ہے کہ جن لوگوں کو سانپ ڈس لیتے ہیں (اور اس سے وہ مرجاتے ہیں ) اُن میں سو میں سے ایک آدمی ایسا ہوتا ہے جس کو زہریلا سانپ کاٹتا ہے.اکثر سانپ ایسے ہوتے ہیں جن میں زہر ہی نہیں ہوتا ہے مگر ایسے سانپوں سے ڈسے ہوئے لوگوں میں سے بھی کچھ مر جاتے ہیں.زہر کی وجہ سے نہیں بلکہ دہشت سے اُن کی حرکت قلب بند ہو جاتی ہے.اگر ایسے لوگ خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور ڈریں نہیں تو اُن کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا.بہر حال سانپ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ مظہر صفات باری بنے اور نہ کتے کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ صفات الہیہ کا مظہر بنے لیکن وہ خدا کی مخلوق ہے اُسے جو خدا تعالیٰ کہتا ہے وہی کرتا ہے.اُس کے حکم سے ایک ذرہ بھر ادھر اُدھر نہیں ہو سکتا مگر انسان اشرف المخلوقات ہے.اُسے خدا تعالیٰ نے دعا کرنے کی طاقت بھی دی ہے اور یہ اختیار بھی دیا ہے کہ چاہے تو وہ دعا کرے اور چاہے تو نہ کرے لیکن اگر وہ دعا کرتا ہے اور شرائط دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھکتا اور دعا کرتا ہے تو اس کی قبولیت کا اُسے وعدہ بھی دیا گیا ہے تاہم ساتھ ہی اُسے یہ انذار بھی کیا ہے کہ اگر تم شرائط دعا پوری نہ کرو گے اور میرے پیار کے حصول کے لئے پورے انہماک اور پوری توجہ سے اور انتہائی پیار کے ساتھ دعائیں نہ کرو گے تو میں تمہاری دُعاؤں کو قبول نہیں کروں گا.خدا تعالیٰ نے ایک عاجز انسان کو یہ چیز دے کر در حقیقت اس پر اتنا احسان کیا ہے کہ وہ اس کا

Page 776

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۵۶ خطبه جمعه ۱٫۲۵ کتوبر ۱۹۷۴ء اندازہ نہیں لگا سکتا.آخر انسان ہے کیا چیز.ایک ذرہ نا چیز ،مگر خدا تعالیٰ نے اُسے فرمایا کہ جب تو میرے پیار میں مست ہو کر مجھے پکارے گا تو میں تیرے ساتھ پیارکروں گا اور تیری پکار کا جواب دوں گا.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اُمت محمدیہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے یہ کہا کہ دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ جس طرح ہم الحمد للہ کہتے ہیں یا جس طرح سبحان اللہ کہتے ہیں، اسی طرح ہم دعا کرتے ہیں.یہ عبادت ہے اور بس.اس کا قبولیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.لیکن اگر میہ اسی طرح عبادت ہے جس طرح تسبیح و تحمید عبادت ہے تو پھر تو انسان اور غیر انسان میں کوئی فرق ہی نہیں رہتا.یہی تو ایک بنیادی فرق ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسی بہت سی قوتیں عطا کیں ( جن میں ایک بنیادی قوت دعا کرنے کی قوت ہے) انسان کے علاوہ دوسری مخلوق ان قوتوں سے محروم ہے.وہ نہ دُعائیں کرتی ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ طور پر جھکتی ہے یعنی رضا کارانہ طور پر اختیار رکھتے ہوئے مگر انسان کو تو اللہ تعالیٰ نے ہر دو اختیار دیئے ہیں دعا کرنے کا بھی اور دعا نہ کرنے کا بھی.نمازیں پڑھنے کا بھی اور نمازیں نہ پڑھنے کا بھی.اعمالِ صالحہ بجالانے کا بھی اور اعمال سیئہ کا مرتکب ہونے کا بھی.مگر انسان جب ان دونوں اختیارات میں سے صراط مستقیم کو اختیار کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے حصول میں بڑی کوشش کرتا ہے اور سخت تکلیف اٹھاتا ہے اور انتہائی جہدو جہد کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کے پیار کی آواز اس کے کان میں پڑتی ہے اور خدا تعالیٰ کی برکات اور اُس کی رحمتیں اُسے حاصل ہوتی ہیں تب وہ ایک ایسا ممتاز اور صاحب فرقان انسان بن جاتا ہے کہ دنیا اُسے دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے لیکن ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے دعا کی قبولیت سے انکار کیا مثلاً سر سید بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھے گوانہوں نے تعلیمی ( دنیوی تعلیم پھیلانے میں ) میدان میں مسلمانوں کی بڑی خدمت کی ہے لیکن روحانی میدان میں انہوں نے یہ کہہ دیا کہ دعا کوئی چیز نہیں ہے.ان کے نزدیک گویا دعا تو اسی طرح ہے جس طرح الحمد للہ کہہ دیا یا سبحان اللہ پڑھ دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ دعا اسی طرح ہے جس طرح خدا تعالیٰ کی ہر دوسری مخلوق تسبیح وتحمید کر رہی ہے.لیکن قرآن کریم تو یہ کہہ رہا ہے.قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَو لَا دُعَاؤُكُمْ کہ اگر انسان کو دعا کرنے کی قوت نہ دی جاتی اور دعا

Page 777

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۵۷ خطبه جمعه ۱٫۲۵ کتوبر ۱۹۷۴ء کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہ دیا جاتا اور انسان دعا نہ کرنے کے اختیار کو چھوڑ کر دعا کرنے کی طرف متوجہ نہ ہوتا اور خدا تعالیٰ کو نہ پکارتا تو خدا تعالیٰ کو اس کی کیا پرواہ ہے؟ خدا تعالیٰ نے اپنی کسی اور مخلوق یا کسی اور جانور سے اس طرح اپنے غصہ کا اظہار نہیں فرمایا کہ اگر وہ خدا کی تسبیح نہ کرے اور اس کی تحمید نہ کرے تو خدا کو اس کی کیا پرواہ ہے؟ اور یہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بنا یا ہی اس صورت میں ہے کہ وہ بہر حال تسبیح و تحمید کرتے ہیں ان کو یہ اختیا ر ہی نہیں دیا گیا کہ وہ کسی وقت تسبیح اور تحمید کو چھوڑ دیں لیکن انسان کو خدا نے یہ کہا ہے کہ اگر تو صاحب اختیار ہونے کے نتیجہ میں میرے قُرب کی راہوں کو تلاش کرنے کی بجائے اور اُن کے حصول کے لئے قربانیاں دینے کی بجائے دعا کرنے سے لا پرواہ ہو جائے گا اور دعا کرنے میں رغبت نہ ہوگی اور خدا کی رضا حاصل کرنے کی طرف متوجہ نہ ہوگا تو مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ اللہ تعالیٰ کو تمہاری کیا پرواہ ہے.غرض قُلْ مَا يَعْبَوُا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاو سمر کی آواز انسان کے سوا کسی اور مخلوق نے نہیں سنی لیکن اس کے ساتھ اور اس کے پہلو میں وہ عظیم بشارت بھی ہے کہ اگر تم دعا کرو گے تو تمہارا قادر وتوا نا خدا جو تمہارا خالق اور مالک ہے ، وہ تمہاری پر واہ کرے گا کتنا حسین کلمہ ہے جس میں خدا تعالیٰ کی محبت پنہاں ہے اور یہی وہ تیسری بات ہے جس کے متعلق میں نے اس خطبہ کے شروع میں کہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم دُعائیں کرو تا میرا پیار تمہیں حاصل ہو، دُعائیں کرو تا میری آواز سنو! دُعائیں کرو تا میری قدرت کے معجزات دیکھو.دُعائیں کرنے سے لا پرواہ نہ ہو جاؤ ورنہ تمہارے کان میں میرے غضب کی وہ آواز آئے گی جو کسی اور مخلوق مثلاً کتے اور شور نے بھی نہیں سنی ہوگی.کبھی کہتے ، گھوڑے، بیل اور بکری کے کان میں یہ آواز نہیں آتی اور نہ ہی خار دار جھاڑیوں یا کیکر کے درختوں نے جن کے لمبے لمبے کانٹے ہوتے ہیں، یہ آواز سنی ہے کہ.قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ - غرض انسان کے علاوہ دوسری مخلوق میں سے کسی کے کان میں یہ آواز نہیں پڑی کہ اگر تم دعا نہیں کرو گے تو خدا تمہاری کیا پرواہ کرے گا لیکن انسان کے کان میں یہ آواز پڑی اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل انسان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مخاطب کر کے

Page 778

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۵۸ خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۷۴ء فرما یا : - قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ اس سے انسان کا اتنا بڑا امتیاز قائم کر دیا اور اُسے اتنی عظیم بشارت دی کہ انسان خدا تعالیٰ کی محبت میں دیوانہ ہو جاتا ہے اور خشیۃ اللہ سے اُس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.یہ کپکپاہٹ اور خشیت دراصل الہی پیار کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوتی ہے.اسے ابتر از کہتے ہیں.انسان کے جسم میں سر سے پاؤں تک محبت کی ایک لہر اٹھتی ہے جو اس کے جسم اور روح کے گوشہ گوشہ میں سرور بھر دیتی ہے گو یا اللہ تعالیٰ نے انسان سے یہ کہا کہ اگر تم شرائط کو پورا کرتے ہوئے میرے حضور عاجزانہ تجھکو گے تو میں تم پر رجوع برحمت ہوں گا.یہ کتنا ہی پیارا فقرہ ہے جو قرآنِ کریم کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہمارے کان میں پڑا.پس ہر احمدی کو آج اس دنیا میں یہ موقع ملا ہے کہ وہ دُعائیں کرے اور پھل پائے کیونکہ وہ اس مہدی معہود علیہ السلام پر ایمان لایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ایمان کو ثریا سے زمین پر لانے والے ہیں حضرت مہدی معہود علیہ السلام نے ہمیں بار بار اور بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ دعا بہت بڑا اثر رکھتی ہے.دعا اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھینچنے والی ہے شاید ہی کوئی احمدی ہو گا جس نے دُعاؤں کے اثر کو اپنی زندگی میں نہ دیکھا ہو ظاہر ہے اگر کوئی ایسا ہے تو وہ نہایت ہی بد قسمت اور بد بخت ہے.غرض احباب جماعت کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دیکھو! دُعاؤں کے رنگ میں اتنی بڑی بشارت تمہیں دی ہے تم اس سے فائدہ اٹھاؤ اور دُعاؤں میں لگ جاؤ اور اس طرح دُعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ کی آواز نہ صرف بشارت کے رنگ میں بلکہ عملاً تمہارے کانوں میں آئے کہ تمہیں (کسی کی اور کیا پرواہ ہے.میں جو تمہاری پر واہ کرنے والا ہوں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(روز نامه الفضل ر بوه ۲۳ /نومبر ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 779

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۵۹ خطبه جمعه یکم نومبر ۱۹۷۴ء دعائیں کرو کہ توحید کے قیام کے لئے اموال مہتا اور خرچ کرنے کی ہمیں توفیق ملے خطبه جمعه فرموده یکم نومبر۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج جمعہ کی عید سے تحریک جدید کا سال کو شروع ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہر جہت اور ہر لحاظ سے سارا سال ہی ہمارے لئے مختلف الانواع عیدوں کا اہتمام کرتا رہے.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ ہم جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے دو مقاصد ہوتے ہیں.فرمایا.وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ - (البقرة: ۲۶۶) ایک تو اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا مطلوب ہوتا ہے اور دوسرے انسان خود کو ان اخراجات کے ذریعہ جو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کرتا ہے مضبوط کرتا ہے.سچی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے اموال کی ضرورت نہیں.وہ خود خالق اور مالک ہے.ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے اُس کا ہے اور اُس کا عطیہ ہے.ہم فُقَرَاء ہیں اور وہ غنی ہے.ہم محتاج ہیں اور اُس کو کسی چیز کی احتیاج نہیں.ہم اسلام اور مذہب اور اللہ تعالیٰ کی وحی کے محاورہ میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی

Page 780

خطبات ناصر جلد پنجم 24.خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء راہ میں خرچ کیا.اس اصطلاح اور محاورہ کی حقیقت ہمارے ذہن نشین رہنی چاہیے.ہم کہنے کو تو خدا کے حضور پیش کرتے ہیں مگر چونکہ وہ غنی ہے اور اُس کو کوئی احتیاج نہیں اور وہ خالق اور خود ہی مالک ہے اِس لئے اُس کے حضور پیش کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ اُس کی رضا ہمیں حاصل ہو اور یہ کہ الہی سلسلہ میں ایک مضبوطی پیدا ہوا اور نوع انسانی میں ایک حسین اتحاد قائم ہو جائے.ان کو ہم دو حصوں میں اس وجہ سے تقسیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے اللہ کی راہ میں جو اخراجات ہوتے ہیں وہ دو قسموں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں.اس معنی میں کہ ایک قسم کا خرچ ایک خاص چیز پر زور دے رہا ہے اور دوسری قسم کا خرچ ایک دوسری چیز پرزور دے رہا ہے.یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جائے.اس میں زیادہ تر زور روحانیت پر ہے اور یہ وہ خرچ ہے جو انسان خدا کے حضور پیش کر کے اُس کے بندوں پر اس غرض کے لئے خرچ کرتا ہے کہ اُس کے جو بندے توحید پر قائم ہو چکے ہیں وہ توحید پر قائم رہیں یعنی تربیت کے اخراجات ہیں اور اس کے جو بندے تو حید پر قائم نہیں اور اللہ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت نہیں رکھتے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل کریں.اسے ہم اصلاح وارشاد کا خرچ کہہ سکتے ہیں.بہر حال جو خرچ تربیت پر ہے یا اصلاح نفوس انسانی کے لئے ہے اس معنی میں کہ وہ انسان جو دُوری اور بعد میں زندگی گزار رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب اور پیارا نہیں حاصل نہیں وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے اُس کا قرب اور اُس کا پیار حاصل کریں.اس کو ایک یہ ہم اس طرح بیان کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضات کے حصول کے لئے یہ خرچ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری راہ میں جو خرچ ہوتے ہیں اُن کا ایک حصہ ایسا ہے جس کے نتیجہ میں الہی سلسلہ میں اتحاد اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے اور وہ اُن کوششوں کے نتیجہ میں بُنْيَان مرصوص بن جاتے ہیں اور ایک حصہ اس خرچ کا ایسا ہوتا ہے کہ جو نوع انسانی میں اختلافات کو دُور کرنے کے لئے اور اتحاد کے قیام کے لئے ہوتا ہے.آخر کار یہ حرکت بھی پہلے حصہ کی طرف ہی ہوتی ہے اور جب انسان اُمتِ واحدہ بن جائے گا اور اسلام تمام ائم پر غالب آ کر نوع انسانی کی ایک اُمت مسلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.پس یہ بھی اسی جہت کی طرف

Page 781

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۶۱ خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء حرکت ہے.توحید کے قیام کے لئے جو کوششیں ہو رہی ہیں اس سلسلہ میں میں اُس بہت لمبے مضمون کی طرف آج کے خطبہ میں اشارہ کر دیتا ہوں.یہ بد خیال اور وسوسہ آج کے زمانہ میں انسانی ذہن میں شیطان نے ڈالا ہے کہ اسلام صرف انفرادی عبادات پر توجہ دیتا ہے اور جو اجتماعی ذمہ داریاں ہیں ان کو نظر انداز کرتا ہے حالانکہ یہ بات حقیقت سے کوسوں دُور ہے.کچھ احکامات اسلامی اجتماعی زندگی اور اجتماعی ذمہ داریوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جو احکام، جو اوامر انفرادی عبادت کے رنگ میں ہیں ان میں بھی اجتماعی زندگی کو استوار کرنے کے لئے بہت زبر دست سبق ہمیں ملتے ہیں، اچھے، سمجھدار، پڑھے لکھے آدمیوں سے میں نے سنا ہے کہ اسلام بس انفرادی عبادات پر زور دیتا ہے اور اجتماعی ذمہ داریوں سے بالکل اعراض کرتا ہے اسی وجہ سے دنیا میں فساد ہو جاتے ہیں اور ایک نے تو مجھے کہا کہ پچھلے دنوں جماعت کے خلاف جو ہوا وہ بھی اسی کا نتیجہ تھا کہ لوگ اسلام کی تعلیم کے مطابق انفرادی عبادات کی طرف توجہ کرتے تھے اور اجتماعی ذمہ داریاں، جو انسان کے انسان پر حقوق ہیں ان کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے.بات یوں نہیں ہے.بات یہ ہے کہ اسلام نے جہاں ہر فردِ واحد کے لئے روحانی ترقیات کے سامان پیدا کئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی راہیں متعین کیں اور ان کی راہنمائی کی وہاں اللہ تعالیٰ نے اس قدر حسین معاشرہ نوع انسانی میں پیدا کیا کہ میں نے اپنی خلافت کے زمانہ میں جو یورپ اور افریقہ کے تین سفر کئے ہیں وہاں میں نے پریس کا نفرنسز کیں اور اُن میں اسلامی معاشرہ اور کمیونزم اور بڑے بڑے تمدنی ممالک امریکہ وغیرہ یا سوشلزم کا موازنہ اور مقابلہ کیا تو سوائے اس کے کہ وہ خاموشی کے ساتھ اسلام کی برتری کو تسلیم کریں ان کے لئے اور کوئی چارہ میں نے نہیں دیکھا لیکن وہ تو ایک لمبا مضمون ہے میں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ ایک جگہ بہت سے غیر مسلم تھے تو آٹھ دس نکات نکال کر میں نے اُن کے سامنے رکھے کہ دیکھو تم اسلام کے منکر ہومگر پھر بھی تمہاری مخالفت کے باوجود اور بہتوں میں تم میں سے بغض اور عناد بڑا سخت ہے اس کے با وجود تمہارے جذبات کا بھی خیال رکھا اور تمہارے دنیوی مفاد کا بھی خیال رکھا اور انشاء اللہ، اللہ نے جب بھی توفیق دی (اس کی طرف بھی ایسی باتیں سن کر میری توجہ پھری ہے ) اس مضمون

Page 782

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء پر روشنی ڈالوں گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ تم جو بھی خرچ کرتے ہو اسلامی تعلیم کی روشنی میں تم اس سے دو مقصود حاصل کرنا چاہتے ہو.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل ہو اور دوسرے یہ کہ تمہارا آپس میں اتحاد اور ثبات پیدا ہو.تَثْبِيتًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ سے یہی مراد ہے.جماعت احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں سے جو خرچ کرواتا ہے وہ خرچ بھی ان دوحصوں میں بٹا ہوا ہے جو تو حید کے قیام کے لئے خرچ کیا جاتا ہے وہ پاکستان میں بھی ہے اور بیرون پاکستان کے بہت سے ممالک میں بھی ہے اور ہماری خواہش ہے کہ اگلے دس پندرہ سال میں ہر ملک میں توحید کے قیام کے لئے ہماری کوششیں تیز ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے بھولے بھٹکے بندوں کو واپس لانے کے لئے ہماری تدبیر اللہ کے فضل سے ہماری حقیر کوششوں کے نتیجہ میں کامیاب ہو.باہر جو جماعت احمدیہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تدبیر جل رہی ہے اس میں زیادہ حصہ اُن اموال کا ہے جو تحریک جدید کے نام سے خدا کی راہ میں خرچ کئے جاتے ہیں.ان اموال میں میرا خیال ہے کہ کوئی دسواں حصہ پاکستان کی جماعت ہائے احمد یہ دیتی ہیں اور ۹حصے بیرون پاکستان کی جماعتیں دیتی ہیں.اللہ کے فضل سے بڑی ترقی ہو گئی ہے.جماعت احمدیہ کی کوششوں کے نتائج اللہ تعالیٰ نے عظیم نکالے ہیں.کجا یہ حال تھا کہ اس خرچ کا سو فیصد اس برصغیر کا تھا جب تحریک جدید شروع ہوئی ہے اُس وقت پارٹیشن نہیں ہوئی تھی تو ہندو پاک کی جماعتیں سارے ثواب خود ہی حاصل کر رہی تھیں.پھر اللہ تعالیٰ نے اس ثواب میں اوروں کو بھی شریک کیا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے دسواں حصہ ان اخراجات کا ، ان مالی قربانیوں کا، اِس دولت کو خدا کی راہ میں قربان کر دینے کا پاکستان سے تعلق رکھتا ہے اور ۱۰/ ۹ بیرون پاکستان سے تعلق رکھتا ہے اس لئے نہیں کہ ہم یہاں کے رہنے والے پیچھے ہٹ گئے بلکہ اس لئے کہ بیرون پاکستان کی جماعتوں کی تعداد میں ایک وسعت پیدا ہوئی اور ان کے ایثار اور قربانیوں اور اخلاص میں بھی ایک مضبوطی اور روشنی پیدا ہوئی، پس یہ جو تھوڑا سا ہمارا حصہ ہے اس کی طرف تو ہمیں توجہ دینی چاہیے.

Page 783

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء پاکستانی جماعتوں کا صرف ۱۰ / ۱ اس کوشش میں حصہ ہے اور ۱۰ / ۹ بیرونِ پاکستان سے اکٹھا ہوتا ہے اور چونکہ پاکستان بہر حال دنیا کی آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جوں جوں بیرون پاکستان جماعتہائے احمد یہ عددی اور مالی ہر لحاظ سے ترقی کرتی چلی جائیں گی ہمارا حصہ دنیا میں نسبتا کم ہوتا چلا جائے گا.یہ ایک حقیقت ہے جو ایک لحاظ سے ہمیں نظر آ رہی ہے اور جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے جس کے بغیر دنیا میں کوئی چارہ نہیں یعنی ساری دنیا کی آبادی نے سمٹ کر پاکستان میں تو نہیں آ جانا اور ساری دنیا کی آبادی کے لئے مقدر ہے کہ وہ مہدی معہود کے اُن فیوض کے نتیجہ میں جو مہدی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کر کے دنیا میں تقسیم کرنے کے سامان پیدا کئے ساری دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونا ہے تو بجوں جوں اُن کی تعداد بڑھتی جارہی ہے توں توں جماعت احمد یہ میں پاکستانی احمدیوں کی نسبت کم ہوتی چلی جارہی ہے.اگر ہر سال دنیا کی آبادی کا دو فیصد احمدی ہوتو بیرون پاکستان دنیا کی آبادی کا دو فیصد بہت بڑی تعداد ہے پاکستان کی آبادی کے دو فی صد کے مقابلہ میں.یہ ایک حقیقت ہے یہ تو انشاء اللہ اس کے فضل اور اُس کی رحمت سے ہونی ہی ہے.لیکن میں جب سوچتا ہوں تو مجھے گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے کیا ہم محض اس لئے کہ ہماری نسبت تعداد کے لحاظ سے بیرونِ پاکستان کے مقابلہ میں تھوڑی ہو رہی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے کیا ہماری قربانیوں کی نسبت بھی کم ہو جائے گی ؟ اس سے طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے ایک ہی صورت ہے کہ ہم اپنی قربانیاں زیادہ تیز کریں یہ مقابلہ ہے.فَاسْتَبِقُوا الْخَيِّرات (البقرۃ: ۱۴۹) خیرات میں آگے بڑھنے کے لئے ہماری کوشش ہونی چاہیے.بہر حال یہ تو آئندہ کی فکر ہے اور وہ ہمیں کرنی چاہیے کیونکہ ایک مومن ماضی سے سبق حاصل کرتا اور حال میں ان اسباق کے بہتر نتائج پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مستقبل میں زندہ رہتا ہے.یہ ماضی حال اور مستقبل کی جہتوں کے لحاظ سے ایک مومن کی حیات کا نقشہ ہے.دو ایک سال پہلے میں نے ایک معیار تحریک جدید کی مالی قربانیوں کا جماعت کے سامنے پیش کیا تھا لیکن اس میں کچھ تاخیر ہو گئی اور پچھلے سال میں نے وہی معیار جب جماعت کے سامنے

Page 784

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۶۴ خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء رکھا تو ان کے وعدے تحریک جدید کے نظام کی زندگی میں پہلی بار اُس معیار سے آگے بڑھ گئے.الْحَمْدُ لِلهِ ، لیکن یہ ایک ظلم و تشدد کا لمبا زمانہ جماعت کو دیکھنا پڑا اور جماعت کے اخلاص میں برکت ہوئی اور اس میں خدا تعالیٰ نے) بڑی پختگی اور تطہیر کی اور نیکی کو مضبوط بنانے کے سامان پیدا کئے.خصوصاً ان علاقوں میں جہاں خدا کے لئے احمدی احباب مرد و زن نے تکالیف برداشت کیں اور بعض دفعہ میں حیران ہوتا تھا کہ کس خمیر سے مہدی معہود کی یہ جماعت بنی ہے کہ اپنا سب کچھ لٹا کر ہنستے ہوئے آجاتے تھے اور کہتے تھے الْحَمْدُ لِلَّهِ ہمارے مال لوٹے گئے مگر ہمارے ایمان سلامت رہے.ان حالات کی وجہ سے تحریک جدید کے وعدوں میں اضافے کے باوجود اور اس زمانہ کی تحریک جدید کی وصولیوں کے باوجود جو پہلے سال سے زیادہ نہیں پھر اس عرصہ میں کچھ کمی آئی لیکن مومن کو اگر دھگا دیا جائے تو وہ تھوڑا سا لڑھکتا تو ضرور ہے یہ تو قدرتی بات ہے لیکن رک نہیں جاتا.اُس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا ہے.اس لئے مجھے یقین ہے کہ قبل اس کے کہ وہ تاریخ آئے جب اس سال کے حسابات بند کر دیئے جائیں اور آئندہ سال کے حسابات جن کا ابھی میں اعلان کروں گا وہ کھولے جائیں.اپنے وعدے جماعت پورے کر چکی ہوگی بحیثیت مجموعی یقیناً ایسا ہی ہوگا.ہوسکتا ہے بعض ایسے دوست ہوں جو اپنے مالی نقصانات کی وجہ سے اپنے وعدے پورے نہ کرسکیں.اُن پر کوئی الزام نہیں ہے لیکن کچھ اور دوست ہوں گے جو یہ وعدے پورے کر دیں گے.اللہ تعالیٰ نے جس طرح میرے لئے خوشی کا سامان پیدا کیا آپ کے لئے بھی خوشی کا سامان ہے.آپ کو بتادیتا ہوں.مغربی افریقہ کے ایک دوست نے لکھا کہ ( پاکستان میں ) فلاں جگہ کی مسجد جب جلائی گئی اور ہمیں پتہ لگا تو ہم نے کہا کہ اچھا وہاں مسجد جلائی گئی ہے ہمارے پاس یہاں مسجد نہیں ہے ہم یہاں بنا دیتے ہیں اور باوجود سامان نہ ہونے کے اُس دوست نے لکھا پہلے میں نے نیت کی پھر خدا نے اور سامان پیدا کر دیے اب ہماری مسجد ( جس کی انہوں نے تصویر بھی بھیجی ہے) قریباً مکمل ہو گئی ہے.اُن کے ذہن میں خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے یہ ڈالا کہ دنیا میں بحیثیت مجموعی جماعت احمدیہ کی مساجد کم نہیں ہونی چاہئیں، اگر ایک جگہ عارضی طور پر کمی آئی ہے تو

Page 785

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء دوسری جگہ مستقل طور پر اضافہ ہو جائے کیونکہ جو کمی ہے وہ بہر حال عارضی ہے اور جو مسجد جلائی گئی ہے وہ انشاء اللہ، اللہ کی توفیق سے بہر حال اُس جگہ بنے گی لیکن اس وقتی کمی کو بھی مخلص دلوں نے جو غیر ممالک میں بسنے والے ہیں.انہوں نے محسوس کیا.اُنہوں نے کہا یہ عارضی کمی بھی نہیں رہنے دیں گے.وہاں مسجد کی ضرورت بھی تھی پیسہ نہیں تھا اس لئے نہیں بنی تھی.چند آدمی وہاں کھڑے ہوئے اُنہوں نے کہا پاکستان میں ایک مسجد اور علی بیرون پاکستان میں ایک مسجد اور بنے گی تا کہ مجموعی تعداد مساجد احمدیہ کی کم نہ ہو.یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں دیکھ کر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فرمان کی صداقت معلوم ہوتی ہے کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں اور جماعت کو آپ نے فرمایا ” میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو!‘ پس جماعت اور مہدی معہود ایک روحانی وجود کا نام ہے اور ہماری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے.ٹھیک ہے ہم پر وہ پابندیاں ہیں جو دوسرے نہیں اٹھاتے.مثلاً ہم پر پابندی ہے ظلم نہیں کرنا.فساد نہیں کرنا.غلط قسم کے انتظامات نہیں لینے.ایک شیریں انتقام Sweet Revenge ) کا محاورہ میرے دماغ میں آیا تھا جب میں ۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کا دورہ کر رہا تھا.کتنا بڑا انتقام ہے اور کتنا حسین انتقام ہے جو رؤسائے مکہ سے جو فتح مکہ کے موقع پر بچ گئے تھے لیا گیا یعنی لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ اليوم.میں نے مغربی افریقہ میں بسنے والے اُن دوستوں کو جن کی میرے ساتھ ملاقات ہوئی اور جن سے میں نے خطاب کیا.میں نے ان کو یہ کہا کہ جو یوروپین ممالک اور حکومتیں یہاں آئی تھیں اور انہوں نے یہاں کا لو نیز بنالی تھیں وہ تمہاری دولتیں لوٹ کر چلے گئے اس میں کوئی شک نہیں لیکن ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان لوگوں سے ایک (Sweet Revenge) یعنی شیر میں انتقام لینا ہے.بہت میٹھا انتقام اور وہ یہ ہے ( یہ اُس وقت ۱۹۷۰ء میں میں نے وعدہ کیا تھا ) میں نے کہا سفید فام یا بے رنگ آئے اور تمہاری دولت لوٹ کر لے گئے.تمہیں میں اُن ملکوں میں مبلغ کے طور پر بھیج دوں گا اور تم جا کر اُن میں روحانی خزائن تقسیم کرو گے وہ دنیا لے گئے.تم روحانی خزائن اُن کے اندر جا کر تقسیم کرو گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور عبدالوہاب بن آدم جو ہمارے غانا کے مبلغ ہیں وہ کئی سال سے انگلستان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور

Page 786

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء.انگریزوں کو تبلیغ کر رہے ہیں اور وہ بڑا ہی ذہین انسان اور بڑا ہی بے نفس انسان اور مجھے کہنا چاہیے کہ بڑا ہی بزرگ انسان ہیں اور Top کے احمدیوں میں سے.پاکستانیوں نے کوئی اجارہ داری تو نہیں لی ہوئی.قربانیاں دو گے تو خدا کے پیار کو اُس معیار کے مطابق حاصل کرو گے.بہر حال یہ ہے ہمارا انتقام جب ہم انتقام لیتے ہیں.خواہ مخواہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ تمہارا رد عمل کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ.ہم نے جب بھی انتقام لیا ہمارا حسین انتقام ہو گا ہمارا شیر میں انتقام ہو گا.تمہیں جنہوں نے ہمارے اموال کو جلایا اُن میں ہم دنیوی اور دینی اور جسمانی اور روحانی نعمتیں تقسیم کریں گے مگر اللہ کی توفیق سے.یہ ہے ہمارا انتقام.دُکھ دینا اور فساد کرنا یہ ہمارا انتظام نہیں.میں تو بیعت میں تم سے یہ عہد لیتا ہوں کہ کسی کو بھی دُکھ نہیں پہنچاؤں گا.دُکھ پہنچانے کے لئے ہم پیدا نہیں ہوئے ، مارنے کے لئے ہم پیدا نہیں ہوئے ہم زندہ رکھنے اور زندگی دینے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور خوشحالی کے سامان پیدا کرنے کے لئے ہم پیدا ہوئے ہیں.پس یہ ہے ہمارا انتقام.جس کی ہمیں امید ہے.خدا کی توفیق سے ہم یہ انتقام لیں گے لیکن وہ دُکھ پہنچانے والا انتقام نہیں ہو گا.وہ ناک کے بدلے ناک اور آنکھ کے بدلے آنکھ نہیں بلکہ فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری:۴۱) والا انتقام ہے.بہر حال میں تحریک جدید کے متعلق یہ کہ رہا تھا کہ جن دو اغراض کے لئے ایک مومن خدا کے حضور اموال پیش کرتا ہے ایک یہ کہ اس کی مرضات حاصل ہوں یعنی اُس کی تو حید دنیا میں قائم ہو اور جیسا کہ ہم خدا تعالیٰ کی تسبیح اور اُس کی تحمید کرنے میں ایک سرور محسوس کرتے ہیں ہمارے دل میں ایک تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر بندہ خدا کے حضور جھکنے والا اور اُس کی تسبیح کرنے والا اور اُس کو پاک قرار دینے والا اور اُس کی حمد کرنے والا.تمام تعریفوں کو اُسی کی طرف پھیر نے والا ہو، نہ اپنی طرف نہ غیر اللہ کی کسی اور ہستی کی طرف.یہ ہماری خواہش ہے.اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہم خدا کی راہ میں اموال دیتے ہیں اور اُن کا ایک دور تحریک جدید کی شکل میں آیا ہے.لاکھوں عیسائی تثلیث پرست جو خدائے واحد و یگانہ کو نہیں مانتے تھے یا بُت پرست جنہوں نے اپنے ہاتھ سے پتھر اور لکڑی کے اور اسی طرح دوسرے مادوں سے بت بنائے اور اُن

Page 787

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۶۷ خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء کی پوجا کر رہے تھے وہ لاکھوں کی تعداد میں جماعت احمدیہ کے طفیل ( اللہ تعالیٰ کے محض فضل اور رحمت سے کہ ہم بالکل لاشے محض ہیں ) افریقہ میں مسلمان بنے لیکن ہماری سیری تو نہیں ہوئی.لاکھوں بن گئے.جب تک ہم کروڑوں نہ بنا لیں.جب تک ہم بنی نوع انسان کو تو حید کی طرف کھینچ کر نہ لے آئیں.اُس وقت تک ہماری پیاس نہیں بجھ سکتی پس دُعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ آپ کی اور میری پیاس کو بجھانے کے سامان پیدا کرے اور جس کے لئے جن اموال کی ضرورت ہے اُن کو دینے اور خرچ کرنے کی ہمیں تو فیق عطا کرے.آج یکم نومبر کو تحریک جدید کے تین دفاتر دفتر اول کے اکتالیسویں سال کا اور دفتر دوم کے اکتیسویں سال کا دفتر سوم کے دسویں سال کا میں افتتاح کرتا ہوں.جو معیار میں نے پچھلے سال دیا تھا.وہی قائم رہے گا اور جو ادائیگیوں میں میں نے بتایا کہ عارضی طور پر کمی ہے وہ انشاء اللہ دُور ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے اور اسی پر بھروسہ رکھتے ہوئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اللہ آپ کو توفیق عطا کرے گا کہ جو عارضی کمزوری ہے.بیرونی ظلم اور تشدد کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس کمزوری کو اپنے فضل سے دُور کرے گا اور آپ کے اخلاص کے مدنظر آپ کو مالی قربانیوں کی بھی توفیق عطا کرے گا.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں.وہ جلسہ سالانہ کے متعلق ہے.اس سلسلہ میں دو باتیں میں کہنا چاہتا ہوں.ایک تو چونکہ جو اس قوم پر ظلم ہوا کہ بھائی بھائی اور انسان انسان کے درمیان نفرت پیدا کی گئی ہے اس کے نتیجہ میں ہو سکتا ہے کہ ہمیں روٹی پکانے والے پوری تعداد میں نہ ملیں.گو یہ یقینی بات نہیں لیکن دنیا کی کوئی چیز ہماری راہ میں اس طرح روک نہیں بن سکتی کہ ہم ناکام ہو جائیں.اول تو یہ جماعت اتنی پیاری ہے کہ دو تین سال ہوئے جلسہ کے موقع پر آپس میں نان بائی لڑ پڑے تھے اور روٹیوں میں کچھ کمی واقع ہوگئی تو صبح کی نماز سے پہلے اطلاع مجھے ملی ، میں نے صبح کی نماز کے وقت یہ اعلان کیا کہ آج ہر آدمی خواہ مہمان ہے یا مقیم ہے ایک روٹی فی کس کھائے گا اور ہم نے بھی اپنے گھروں میں یہی کیا تو کوئی تکلیف نہیں ہوئی.ایک روٹی کھالی بلکہ بعض دوستوں نے مجھے کہا کہ بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے کہا کیا فرق پڑتا ہے ہم سارا جلسہ ہی

Page 788

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۶۸ خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء ایک روٹی کھائیں گے ٹھیک ہے کوئی ایسی بات نہیں ویسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع میں لگا تار روزے رکھے تو اُس وقت آپ نے فرمایا کہ میں نے کہا چلو یہ بھی تجربہ کرتے ہیں کہ کم سے کم کتنا کھا کر آدمی صحت کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے تو کھانا کم کرتے رہے اور ایک روٹی کے اوپر آگئے یا شاید آدھی روٹی کے اوپر آگئے بعض دفعہ بیماری میں ( ہمیشہ تو نہیں ) میرا بھی کبھی کبھی خون کی شکر کا نظام Upset ہو جاتا ہے.ابھی پچھلے دنوں جو پتلا پھل کا ہمارے گھروں میں پکتا ہے وہ نصف پھل کا میں کھا تا تھا اور میں نے اندازہ لگایا کہ چوبیس گھنٹے میں میرے آٹے کی خوراک سوا چھٹانک ہے تو میں بہت ٹھیک رہا.نا معلوم سی کمزوری ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن خدا نے فضل کیا.اصل تو اللہ ہی فضل کرنے والا ہے آج میں بتاتا ہوں کہ میری شکر کافی بڑھ گئی تھی اور ۲۳۰ تک چلی گئی تھی اور انگریزی دوائی میں کھاتا نہیں اور کل جو ٹیسٹ (Test) کوئی چار ہفتہ کے بعد لیا تو وہ ۲۳۰ سے گر کر ۱۶۰ پر آ گیا ہے اَلْحَمدُ لِلهِ.تھوڑی سی ابھی زیادتی ہے.میرا خیال ہے ایک دو ہفتوں میں بغیر انگریزی دوائی کھانے کے اسی طرح کھانے کا پر ہیز کر کے وہ ٹھیک ہو جائے گا.میں بتا یہ رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر کا نظام یعنی دارالضیافت کو ہنگامی حالات کے لئے چاول زیادہ خرید نے چاہئیں.وہ جلدی پک جاتے ہیں.دوسرے یہ کہ اس سال ہمارا کوئی مہمان اعتراض نہیں کرے گا.اگر اُن کو باسمتی کی بجائے آپ موٹا چاول دیں کیونکہ قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور کھانے کے سلسلہ میں روٹی پکانے کے لئے سارے ربوہ کا ہر گھر تیار ہو.ربوہ میں ایک ہزار اور دو ہزار کے درمیان چولھے گرم ہوتے ہیں اگر ضرورت پڑی، خدا کرے کہ ضرورت نہ پڑے لیکن اگر ضرورت پڑے تو ہر گھر سو روٹیاں پکا کر دے دے تو ایک ہزار گھروں سے ایک لاکھ روٹی مل جائے گی اور ہمارا ایک ایک روٹی ( فی کس ) والا حساب ٹھیک ہو جائے گا کچھ چاول ہو جائیں گے.دوسرے یہ کہ جو بیرون ربوہ اپنے احمدی دیہاتی ہیں ( شہریوں کے لئے مشکل ہے ) دیہاتی احمدی پیڑے بنا کر روٹی گھڑ کے مشینوں پر ڈالنے کے لئے احمدی مرد یا احمدی عورتیں ابھی سے تیار کی جائیں اور مرد بھی ساتھ ساتھ ہوں.

Page 789

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۶۹ خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء اس طرح جو ہماری روٹی پکانے کی مشینیں چلتی ہیں یا جو دوسرا اگر کوئی انتظام ہو تو ہمیں وہ روٹیاں مل جائیں اور بہر حال عورتوں کے لئے روٹی پکانے کا لجنہ اماءاللہ انتظام کرے.دوسری چیز میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اتفاقاً ہماری ایک تو جو بڑی عید کہلاتی ہے وہ بھی ۲۵ دسمبر یا ۲۶ / دسمبر کو آرہی ہے.میرا خیال ہے ۲۵ / دسمبر کو ہوگی انشاء اللہ.تو ۲۵.۲۶ اور ۲۷ کو جماعت نے قربانیاں دینی ہیں ربوہ میں بھی اور باہر بھی.ان قربانیوں کو ایک نظام کے ما تحت تین دنوں پر تقسیم کر کے ان کا سارا گوشت (سارے گوشت سے میری مراد ہے ان کے اُن دو حصوں کے علاوہ جو اپنا اور قریبی دوستوں کا ہوتا ہے تیسرے حصہ کا ) سارا گوشت جلسہ کے نظام کو دے دیں اور جو بیرونِ ربوہ ہیں ان میں سے بعض اپنی قربانیاں پہلے بھی ربوہ بھیج دیتے ہیں جماعتی نظام کے تحت لیکن پرائیویٹ طریق پر وہ کسی نظارت یا لنگر کو بھیج دیتے ہیں کہ ہماری طرف سے قربانی دی جائے پس جہاں تک ممکن ہو ئیں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر قربانی یہاں آجائے ہر ایک نے اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرنا ہے.فیصلہ آپ نے کرنا ہے جہاں تک آپ کے حالات اجازت دیں آپ باہر والے لوگ ربوہ میں قربانیاں کروائیں اور ر بوہ کے مکین جتنا ہو سکے زیادہ سے زیادہ گوشت جلسہ کے انتظام، دار الضیافت، یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر کا انتظام ان دنوں میں ہو گا وہ ان کو دے دیں.خرچ بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں.مگر دنیا کا کوئی خرچ ہمارے رستہ میں روک نہیں لیکن اس سال کے لئے یہ تجربے بھی ہو جائیں گے.جن تجربوں کا موقع ملے وہ کر لینے چاہئیں اور آخری بات جلسہ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس جلسہ پر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اُس کی برکت اور اُس کی رحمت کے نتیجہ میں میں امید کرتا ہوں کہ جلسہ پر آنے والوں کی تعداد پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہو گی انشاء اللہ اور ان ہنگاموں کے دنوں میں جنہوں نے مکان بنانے تھے وہ بھی نہیں بنوا سکے ہر سال مکان بنتے رہتے ہیں.بیسیوں ، بعض دفعہ سینکڑوں بن جاتے ہیں اس لئے میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کے پاس زمین ہو لیکن اُس نے ابھی تک مکان نہ بنایا ہو وہ ( قانونی اجازت لے کر فوری طور پر جلسہ سے قبل اپنی زمین میں اگر ممکن ہو تو دو تین فٹ کی چار دیواری بھی بنالے اور اگر یہ اس کے لئے ممکن نہ ہو تو ایک

Page 790

خطبہ جمعہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء خطبات ناصر جلد پنجم 22.مشتمل کمرہ بنالے اس نیت کے ساتھ کہ جلسہ کے مہمان وہاں ٹھہریں.اللہ تعالیٰ آپ کے اُس مکان میں اس خلوص نیت کی وجہ سے بہت برکتیں دے گا.پس آج ہی یہ کام شروع کر دو یعنی آج سے مراد ہے جس کے کان میں جس دن یہ آواز پہنچے.کمرہ بنانا ہے بے شک ایسا بنا دیں جس کی آپ کو بعد میں ضرورت نہ ہو یا جوامیر لوگ ہیں وہ اپنے کام کرنے والوں کے لئے کمرے بناتے ہیں.بےشک کچے کمرے بنا دیں مگر مہمانوں کے لئے بنائیں اور قانونی اجازت لے کر بنا ئیں.میری اس تحریک کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس دن قومی اسمبلی کے سارے ایوان پر خصوصی کمیٹی بنی اُس دن جب اعلان ہوا کہ اس کمیٹی کا اجلاس In-camera ( یعنی خفیہ ) ہوگا.اس بات نے کہ اجلاس خفیہ ہو گا مجھے پریشان کیا اور اس اطلاع کے ملنے کے بعد سے لے کر اگلے دن صبح چار بجے تک میں بہت پریشان رہا اور میں نے بڑی دُعائیں کیں.یہ بھی دعا کی کہ اے خدا خفیہ اجلاس ہے پتہ نہیں ہمارے خلاف کیا تدبیر کی جائے.تیرا حکم ہے کہ میں مقابلہ میں تدبیر کروں تیرا حکم ہے میں کیسے مانوں.مجھے پتہ ہی نہیں اُن کی تدبیر کیا ہے تو ان حالات میں میں تیرا حکم نہیں مان سکتا.بتائیں کیا کروں.سورۂ فاتحہ بہت پڑھی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ بہت پڑھا.ان الفاظ میں دعا بہت کی اور صبح اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے مجھے یہ کہا وَشِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهر ین کہ ہمارے مہمانوں کا تم خیال کرو اور اپنے مکانوں میں مہمانوں کی خاطر وسعت پیدا کرو اور جو یہ منصوبے جماعت کے خلاف ہیں ان منصوبوں کے دفاع کے لئے تیرے لئے ہم کافی ہیں تو تسلی ہوئی.وَشِعْ مَكَانَكَ جو خاص طور پر کہا گیا اس لئے میرا فرض تھا کہ جماعت کو کہوں کہ وسعتیں پیدا کرو.جو اپنے مکانوں میں کمرے بڑھانا چاہتے تھے وہ بنا ئیں اور ہر پلاٹ میں جلسہ کے مہمانوں کو ایک کمرہ بنا دو.رہائش کے لئے عارضی طور پر انہیں تحفہ دو اور عارضی تحفہ کے نتیجہ میں اپنے لئے ابدی ثواب کے حصول کے سامان پیدا کرو اللہ تعالیٰ سب کو نیکیوں کی توفیق عطا کرے.(آمین) روزنامه الفضل ربوه ۱۱ / دسمبر ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 791

خطبات ناصر جلد پنجم 221 خطبہ جمعہ ۸ / نومبر ۱۹۷۴ء ولی بن جاؤ اور خدا کے اتنے قریب ہو جاؤ کہ ذرہ بھر بھی دوری نہ رہے خطبه جمعه فرموده ۸ /نومبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.وَاللهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ - (ال عمران : ٦٩) الم تَعلَمُ اَنَّ اللهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِي وَلَا نَصِيرٍ - (البقرة : ١٠٨) الا اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ - هُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ - وَلَا يَحْزُنُكَ قَولُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا - هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - (یونس : ۶۳ تا ۶۶) پھر حضور انور نے فرمایا:.ایک تو میں جلسہ سالانہ کے لئے مکانات کی دوبارہ یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں.اس میں شک نہیں کہ جن دوستوں کے یہاں مکان ہیں (اپنے ہیں یا کرایہ کے مکانوں میں وہ رہ رہے ہیں ) اُن کے اپنے مہمان بھی بڑی کثرت سے اُن مکانوں میں ٹھہرتے ہیں.میں خود کئی سال تک

Page 792

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۷۲ خطبه جمعه ۸ / نومبر ۱۹۷۴ء افسر جلسہ سالا نہ رہا ہوں اور مجھے ذاتی علم ہے کہ ایک چھوٹے سے کمرہ میں اتنے مہمان ٹھہرے ہوئے ہوتے ہیں کہ عام حالات میں اُتنے مہمانوں کا اُس چھوٹے کمرہ میں ٹھہر نا متصورہی نہیں ہوسکتا.آدمی سوچ ہی نہیں سکتا کہ اتنے چھوٹے سے کمرہ میں ٹھہر سکتے ہیں لیکن قربانی اور ایثار کرنے والے اللہ کے دوست اور ولی خدا تعالیٰ کی باتیں سننے کے لئے یہاں آتے ہیں انہیں اپنے آرام کا خیال نہیں ہوتا وہ ہر قسم کی بے آرامی کو بھول جاتے ہیں.انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ رہائش کی تکلیف ہے، کھانے پینے کی تکلیف ہے.عادتوں کے خلاف کھانا ملتا ہے اور گزشتہ سال تو بیرونِ ملک سے جو احمدی دوست آئے تھے وہ حیران ہوتے تھے (جیسا کہ کئی دوستوں نے مجھے کہا کہ اس قدر سردی پڑ رہی تھی اور گہر تھی اور اس طرح خاموشی کے ساتھ اتنا بڑا مجمع خدا تعالیٰ کی اور خدا تعالیٰ کے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کوشن رہا ہوتا تھا تو اس نظارہ اور اس کیفیت کا مشاہدہ ایسے جلسوں کے علاوہ کہیں اور انسان کو نظر نہیں آتا.پس یہ تو درست ہے کہ دوست اپنے گھروں میں اپنے عزیز واقارب، اپنے دوستوں اور شناساؤں کو بطور مہمان کے رکھ لیتے ہیں.وہ مہمان جو حقیقتا مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ بہت سے ایسے دوست یہاں تشریف لاتے ہیں جن کی واقفیت اور دوستی نہیں ہوتی اور وہ بہر حال یہاں ٹھہرتے ہیں اور اُن کا انتظام ہونا چاہیے.انہیں جماعتی نظام کے ماتحت ٹھہرایا جاتا ہے اور پھر یہ انتظام آگے دو شکلیں اختیار کرتا ہے ایک تو وہ عمارتیں ہیں جن میں جماعتوں کو ٹھہرایا جاتا ہے.مرد علیحدہ ٹھہرتے ہیں اور ہماری بہنیں علیحدہ ٹھہرتی ہیں اور ایک وہ خاندان ہیں جنہیں جلسہ سالانہ کے انتظام کے ماتحت اُن کمروں میں جو دوست جلسہ سالانہ کے انتظام کو پیش کرتے ہیں یا اُن خیموں میں جو اس موقع پر اس غرض کے لئے لگائے جاتے ہیں ٹھہرایا جاتا ہے اور سینکڑوں ایسے خاندان ہیں جنہیں بڑی کوفت اور تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.اس لئے میں تحریک کرتا ہوں کہ اپنے مکانات میں سے جس قدر ممکن ہو خواہ چھوٹا ہی کمرہ کیوں نہ ہو، دوست جماعتی نظام کو دیں اور چونکہ ہر سال جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے.ربوہ میں ہر سال عمارتوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے لیکن چونکہ یہ سال پریشانی اور ہنگاموں کا گزرا اس لئے

Page 793

خطبات ناصر جلد پنجم 22M خطبہ جمعہ ۸ /نومبر ۱۹۷۴ء میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ عام حالات میں جس قدر مکانات بنتے رہے اس سال شاید نہ بنے ہوں.بہر حال میرا یہ تاثر ہے میں نے کوئی اعداد و شمار اکٹھے نہیں کئے اس لئے میں نے یہ توجہ دلائی تھی کہ جن دوستوں کے یہاں رہائشی پلاٹ ہیں اُن میں چھوٹی سی چار دیواری اور ایک کمرہ بنادیں.اس نیت کے ساتھ کہ اُن کے تو کام آئے گا ہی لیکن اُس زمین اور اُس تعمیر میں برکتیں ہوں گی خدا تعالیٰ کی خاطر جمع ہونے والوں کے استعمال میں سب سے پہلے وہ کمرے آئیں.مجھے امید ہے کہ اس طرف دوستوں نے توجہ کی ہوگی کیونکہ مکان بنانے کی نیت کے معابعد تو تعمیر شروع نہیں ہو سکتی اس کے لئے سامان خریدنا اور پھر اُس کو تعمیر کی جگہ لے کر آنا اس میں وقت لگتا ہے اور اگر ہماری ربوہ کی ٹاؤن کمیٹی جو حکومت نے قائم کی ہوئی ہے.اس کا یہ قانون ہو کہ چار دیواری اور سروس روم کے لئے بھی اُن کی اجازت لینی چاہیے تو اس میں بھی چار پانچ دن لگیں گے اور گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ بہر حال وہ قانون ہے اور قانون کی پابندی کرنا ضروری ہے اور بہر حال یہ عوامی حکومت ہے اور عوامی خدمتگار کہلانے والے جو خود کو آج سے قبل خدام عوام نہیں سمجھتے تھے اب بار بار وزیر اعظم صاحب نے ان کو تو جہ دلائی ہے کہ تم عوام کے خادم بن کر کام کرو.آپ نے متعدد بار ایسی نقار پر اخباروں میں پڑھی ہوں گی.پس میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ اس دنیوی ہدایت بالا کو سامنے رکھ کر ربوہ کے شہریوں کو ہر قسم کی سہولت جلد تر بہم پہنچانے کی خاطر اور پریشانیوں سے ان کو بچانے کے لئے جب اس قسم کی درخواستیں اُن کے پاس آئیں گی تو دو چار دن کے اندر اندر وہ ان کے فیصلے کر کے ان کو اجازت دیں گے کہ اپنے قطعات میں چار دیواری بھی بنائیں اور سروس روم بھی.سروس روم میں نے اس لئے کہا کہ نقشہ بنانا اور پھر اس کی اجازت لینا اس میں لمبا وقت لگتا ہے لیکن ساری دنیا کا یہ قاعدہ ہے کہ جب تعمیرات ہوتی ہیں اور مکان بنتے ہیں تو ایک عارضی کمرہ بنا دیا جاتا ہے جہاں سیمنٹ اور دوسرا سامانِ تعمیر رکھا جاتا ہے اُسے سروس رُوم کہتے ہیں اور وہ عارضی ہوتا ہے.اسی لئے میں نے کہا تھا کہ آپ عارضی انتظام کریں گے لیکن ہمیشہ کے ثواب کے آپ وارث بن جائیں گے.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ جنہیں عوامی حکومت نے عوام کی خدمت کے لئے ربوہ میں مقرر کیا ہے

Page 794

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۷۴ خطبہ جمعہ ۸ /نومبر ۱۹۷۴ء وہ لوگوں کے ساتھ پورا تعاون کرتے ہوئے دو ایک دن کے اندراندران کو اجازت دیں گے کہ وہ چار دیواری بنالیں اور سروس رُوم بنا لیں.میں نے تو قواعد وغیرہ نہیں پڑھے.ہماری ٹاؤن کمیٹی کے بہت سے By-laws یعنی ذیلی قوانین ہیں اگر ذیلی قوانین میں یہ ہو کہ چار دیواری اور سروس روم کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں تو اُن کی طرف سے اس کا اعلان ہو جانا چاہیے تا کہ سب دوستوں کو پتہ لگ جائے اگر اس کے لئے اجازت کی ضرورت ہے تو جو بھی درخواست آئے اس کو فوری طور پر منظور کرنے کا انتظام ہونا چاہیے تا کہ جو وعدے علی الاعلان پبلک جلسوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے لوگوں سے کئے ہیں لوگ محسوس کریں کہ وہ وعدے پورے ہو رہے ہیں اور انتظامیہ ان وعدوں کے پورا ہونے میں روک نہیں بن رہی.بہر حال اب میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں گے.جو مضمون آج کے خطبہ میں میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قرآنِ عظیم نے مومن سے کہا کہ خد تعالیٰ کا ولی بنو اور اگر تم اللہ کے ولی بنو گے تو اللہ تمہارا ولی بن جائے گا.ولی کے معنی صرف پیار کرنے والے یا دوستی کرنے والے کے نہیں ہوتے.ولی کے معنی یا ولایت کے معنی یا ولی کے معنی اُس قرب کے ہیں کہ دو چیزوں کے اُس قُرب کے بعد اُن کے درمیان کوئی اور چیز آہی نہ سکے ، اس کا آنا ممکن ہی نہ ہو یعنی اللہ سے قریب تر ہو جانا.تو قرآنِ کریم نے فرمایا ہے کہ تم اولیاء اللہ بنو.اس سلسلہ میں بہت سی آیات ہیں.فرمایا اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اور جن کا یہ دعوی ہے کہ قرآنِ کریم کی ہدایت اور شریعت پر ہم ایمان لائے یعنی ہم زبان سے اس کا اقرار کرتے ہیں اور قلب صمیم اور قلب سلیم کے ساتھ یہ اعتقا در کھتے ہیں اور ہمارا عمل یہ ظاہر کرے گا کہ ہم یہ ایمان لاتے ہیں کہ کامل اور مکمل شریعت خدا تعالیٰ نے قرآن عظیم کی شکل میں انسان کے ہاتھ میں دی اور اس پر عمل کرنا انسان کے دین اور انسان کی دنیا کے لئے ضروری ہے اور اس کے بغیر دین و دنیا کی حقیقی حسنات انسان کو مل ہی نہیں سکتیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میرے ولی بنو میں تمہارا ولی بنوں گا اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا (البقرة : (۲۵۸) دوسری بہت سی آیات میں زیادہ تفصیل سے بھی بتایا.جو متعدد آیات اکٹھی میں نے پڑھی ہیں ان میں سے پہلی میں ہے واللہ

Page 795

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۷۵ خطبہ جمعہ ۸ /نومبر ۱۹۷۴ء وَلِيُّ الْمُؤْمِنین کہ مومنین کا خدا ولی بن جاتا ہے لیکن بعد میں جو تین چار آیات اکٹھی میں نے پڑھی ہیں پہلے میں اُن کے معنی بیان کرتا ہوں پھر ان کے اندر بیان شدہ مضمون آپ کے سامنے کھول کر بیان کروں گا.الا ان اولیاء اللہ اگر تم خدا کے حکم کو مان کر اللہ تعالیٰ کے ولی بن جاؤ گے اور اُس سے محبت رکھنے لگو گے اور اس کے اتنے قریب ہو جاؤ گے کہ تمہارے اور خدا کے درمیان کوئی اور وجو د ساہی نہیں سکے گا (بالکل ساتھ جڑے ہوئے ہونے کے تعلق کو ولایت کہتے ہیں ) جو خدا کے ولی ہو جاتے ہیں اُن پر نہ کوئی خوف مستولی ہوتا ہے اور نہ غمگین ہوتے ہیں اور پھر فرمایا اولیاء اللہ وہ ہیں جو ایمان لائے یعنی زبان اور دل سے اقرار اور تسلیم کیا اور اعمال سے اُس کا اظہار کیا اور تقویٰ کو ہمیشہ لازم حال رکھتے ہیں.ان کے لئے اس ورلی زندگی میں بھی خدا کی طرف سے بشارت پانے کا انعام مقرر ہے.اللہ تعالیٰ کی بشارتیں وہ سنتے ہیں اس لئے کہ اُن کو قرب کامل و تام حاصل ہے جس سے زیادہ قرب کوئی متصور ہو ہی نہیں سکتا اور بعد والی زندگی میں بھی اُن کا یہی حال ہوگا کہ فرمایا اور اللہ کی فرمودہ باتوں میں قطعاً کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور پھر فرما یا کہ خدا کا ولی بن جانا اور خدا کی ولایت حاصل کر لینا کہ اللہ بھی ولی بن جائے یہ ایک ایسی کامیابی ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی کامیابی متصور ہو ہی نہیں سکتی اور چاہیے کہ اُن ( مخالفوں ) کی کوئی مخالفانہ تمسخر اور استہزاء کی بات تمہیں غمگین نہ کرنے پائے.مخالفت کی کوئی بات تمہیں اس لئے غمگین نہ کرے کہ غلبہ اللہ کا ہی ہے.اس کے علاوہ اُس کے ارادہ اور منشا کے خلاف کوئی طاقت ہے ہی نہیں جو اُس کے مقابلہ میں کامیاب ہو سکے کیونکہ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (یونس: ۶۶) اور تمسخر اور استہزاء دونوں معنی اس کے میں نے کر دیئے ہیں.قرآنِ کریم نے اشارہ کیا ہے اس کو جب واضح کیا جائے تو اس میں مخالفانہ بات اور تمسخر اور استہزا کی بات دونوں مفہوم آ جاتے ہیں اور آگے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ عربی زبان اور قرآن کریم کے محاورہ میں دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ نہ اُس کے علاوہ کسی اور کا حقیقی غلبہ ہے اور نہ اُس کے علاوہ عزت کے حصول کا کوئی اور سر چشمہ ہے.پس دنیا اولیاء اللہ سے اگر تمسخر اور استہزاء سے پیش آئے تو غم کی کوئی بات نہیں اس لئے کہ عزت ، مخالفانہ تمسخر اور استہزا کو حاصل نہیں بلکہ عزت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.

Page 796

خطبات ناصر جلد پنجم 22Y خطبہ جمعہ ۸ /نومبر ۱۹۷۴ء دنیا خواہ کتنا ہی ذلیل کیوں نہ کرنا چاہے اگر اللہ تعالیٰ عزت دینا چاہے تو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ میں دنیا کی کوششیں حائل نہیں ہو سکتیں.وہ خوب سننے والا بھی ہے اُس کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں اور خوب جاننے والا بھی ہے کہ تمہاری دُعاؤں کو کس شکل اور کس رنگ میں وہ قبول کرے گا.میں جو سلسلہ مضامین بیان کر رہا ہوں جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا اس کے دو پہلو ہیں.ایک خوف اور خشیت کہ اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے اور دوسرے یہ خواہش اور شدید جذبہ اور تڑپ کہ ہم سے ایسے کام سرزد ہوں کہ جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار ہم حاصل کریں.یہ اسی دوسرے حصہ کے تسلسل میں ایک مضمون ہے.اگر ہم خدا تعالیٰ کی ولایت، ایسا قرب کہ ہمارے اور اُس کے درمیان کوئی فاصلہ نہ رہے، حاصل کرنا چاہتے ہیں.( پیار پیار میں بھی فرق ہوتا ہے ) ایسا پیار جس سے بڑھ کر کوئی اور پیار ہو ہی نہیں سکتا ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں گزاریں اور انتہائی کوشش کے نتیجہ میں اِس بات کو حاصل کر لیں کہ اللہ ہی اللہ ہو.بندے اور اللہ کے درمیان اور کوئی چیز باقی نہ رہے.جب تک ہماری یہ کوشش نہیں ہو گی اُس وقت تک خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ اگر تم میرے قریب آنا چاہو گے تو میں تمہارے قریب آؤں گا.اگر تم یہ کوشش کرو گے کہ اتنے قریب آجاؤ کہ غیر اللہ نیست ہو جائے اور تمہاری کوشش یہ ہو کہ میرے اور تمہارے درمیان غیر اللہ نہ رہے تو میں تمہارے اتنا قریب آ جاؤں گا کہ پھر اس طرح ملاپ ہو جائے گا کہ کوئی چیز بیچ میں آہی نہ سکے.یہ ولایت کے معنے ہیں جس کا یہاں اعلان کیا گیا ہے.اس کے لئے بڑا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے.اس کے لئے بڑا جہاد کرنا پڑتا ہے.اس کے لئے بڑی کوشش کرنی پڑتی ہے.اس کے لئے انتہائی چوکس رہ کر اپنے اعمال کو سنوارنا پڑتا ہے.اس کے لئے ہر محبت، ہر پیار اور ہر تعلق ، رشتہ داری کا اور دوسرا جس کا تعلق خدا سے نہیں اُن سارے علائق کو چھوڑنا پڑتا ہے.لیکن خدا میں ہو کر خدا کے حکم سے اقرباء پروری بھی کرنی ہوتی ہے، دوست نوازی بھی ہوتی ہے.ہمسایہ کے حقوق بھی ادا کرنے ہوتے ہیں.بنی نوع انسان کی خدمت بھی کرنی ہوتی ہے لیکن خدا میں ہوکر، خدا کی ولایت کے بعد، پہلے

Page 797

خطبات ناصر جلد پنجم LLL خطبہ جمعہ ۸ /نومبر ۱۹۷۴ء نہیں کیونکہ دنیا میں ہمیں یہ نظر آتا ہے.انسان نے اپنی پیدائش سے اس وقت تک یہی دیکھا کہ انسان کے جوانسان کے ساتھ تعلقات ہیں وہ دو قسم کے ہیں.ایک وہ ہے جو خدا کو چھوڑ کر انسان ان تعلقات کو نباہتا ہے.اپنے بھائی کے لئے ، اپنے عزیزوں کے لئے ، اپنے دوستوں کے لئے ہر قسم کے ناجائز حربے استعمال کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.ایک یہ تعلق دو انسانوں کے درمیان انسان کی زندگی میں ہمیں نظر آتا ہے لیکن ایک وہ تعلق ہے کہ جب انسان کہتا ہے کہ میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں سوائے اُس تعلق کے جو میرے رب نے قائم کیا ہے.یہ بھی ایک تعلق ہمیں نظر آتا ہے اور دراصل انسان انسان کے درمیان قابلِ اعتبار تعلق صرف یہی ہے.جس شخص کو یہ پتہ ہو کہ زید میری خدمت میں اس لئے نہیں لگا ہوا کہ اُس نے مجھ میں کوئی خوبی دیکھی.اگر ایسا ہے تو پھر تو خطرہ ہے کہ جس وقت وہ خوبی نظر سے اوجھل ہو جائے اُس کی خدمت بند ہو جائے گی بلکہ میری خدمت میں وہ اِس لئے لگا ہوا ہے کہ خدا نے اسے کہا.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ للنَّاسِ (ال عمران : ۱۱۱).میرے حکم کی بنا پر میرے بندوں کے دُکھوں کو دُور کرنے کے لئے اور اُن کو سکھ پہنچانے کیسے ہر دم تیار رہتا ہے، جسے وہ دُکھ سے بچا رہا ہے اور جسے سکھ پہنچانے کی وہ کوشش کر رہا ہے اُس کو یہ یقین ہو کہ دنیا کچھ سے کچھ ہو جائے اس شخص کی خدمت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ میری وجہ سے میری خدمت نہیں بلکہ ہمارے ربّ کریم کی خوشنودی کے حصول کے لئے یہ خدمت ہو رہی ہے.پس تعلقات تو قائم رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہی ایسا ہے خدا تعالیٰ نے اِس کائنات کو سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (لقمان :۲۱) کہہ کر انسان کا خادم قرار دیا ہے یعنی جو چیز بھی کائنات میں پائی جاتی ہے وہ انسان کی خدمت کے لئے ہے اور انسان اپنے ”خادم“ سے بھی اگر اپنی نالائقیوں کے نتیجہ میں انسانیت کے درجہ سے بھی نیچے گر جائے جس طرح کسی وقت میں انسان کو دوسرے انسان غلام بنا لیتے تھے.اسلام غلامی کے خلاف ہے لیکن کہا کہ جن کو تم نے غلطی سے احکام شریعت کے خلاف غلام بنارکھا ہے.وہ اس معاشرہ میں آزاد ہو کر اگر لکھے بیٹھ رہنا چاہتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر وہ آزاد معاشرہ کا مفید اور فعال حصہ نہ بن سکتے ہوں تو اُن کو بیشک آزاد نہ کرو لیکن اگر وہ آزاد ہو کر

Page 798

خطبات ناصر جلد پنجم 227 خطبہ جمعہ ۸ /نومبر ۱۹۷۴ء معاشرہ میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں تو تمہیں بہر حال آزاد کرنا پڑے گا یہ پرانے غلاموں کی بات تھی اور آئندہ کے لئے ایسے احکام دے دیئے کہ غلامی کو مٹادیا.یہ درست ہے کہ عملاً بعض علاقوں میں نا سمجھی سے بعض مسلمانوں نے غلامی کو جاری رکھا مگر قرآن کریم میں اس قسم کی غلامی کا کوئی جواز ہمیں نہیں ملتا لیکن جس وقت قرآن کریم نازل ہورہا تھا اُس وقت جو غلام تھے اُن میں سے ایسے غلام جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے تھے قرآنِ کریم نے اُن کے لئے ایسے اصول وضع کر دیئے کہ وہ آزادی حاصل کر سکیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں لیکن اس کے با وجود کچھ ایسے غلام بھی تھے کہ اگر ان کو کہا بھی جاتا کہ آزاد ہو جاؤ تو وہ کہتے تھے نہیں ہم آزاد ہو کر کیا کریں گے.ایسے غلام جہاں بھی پائے جاتے اُن کے لئے قرآنِ کریم کی ہدایت کی روشنی میں انسانی شرف کو قائم کیا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس کے لئے بھی اپنے گھر جیسا اقتصادی ماحول پیدا کرو.جیسا خود کھاتے ہو اُسے بھی کھلاؤ.جیسا خود پہنتے ہوا سے بھی پہناؤ.ہر گھر کا اپنا ایک معیار ہے کوئی دوسور و پیہ ماہانہ کمانے والا ہے کوئی دس ہزار روپیہ ماہانہ کمانے والا ہے.کوئی اپنے گھر پر میں ہزار روپیہ ماہانہ خرچ کرتا ہے اگر اُن حالات میں کہ پرانے غلام موجود ہیں اور اُن کی آزادی کا کوئی سامان نہیں دو سو روپیہ کمانے والے کو کہا جو تیرے گھر کا ماحول ہے وہی اُسے دو.جس طرح تم اپنے بچے کو کھلاتے ہو اور پہناتے ہو اسی طرح غلام کو بھی کھلاؤ اور پہناؤ اور بعض خاندان ہیں ہزار یا تیس ہزار روپیہ بھی خرچ کر جاتے ہیں اُن کو کہا اس کے مطابق غلام کو بھی رکھو.پس ہر انسان کو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق وہ ملنا چاہیے جو اس کا حق ہے لیکن جو حقوق انسان بناتا ہے اُس میں تو وہ چالا کی کر جاتا ہے.اپنے لئے کچھ بنا لیتا ہے اور غیر کے لئے کچھ بنالیتا ہے اُس کے لئے اُس نے حیلہ سازی پہلے ہی کی ہوتی ہے.میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ کمیونزم نے اعلان کیا اس کے الفاظ بظاہر ایسے ہیں جو بڑے پیارے لگتے ہیں وو "To each according to his needs' یعنی ہر ایک کو اُس کی ضروریات کے مطابق دیا جائے گا اور جب اُن کے سارے لٹریچر اور کتب میں Needs یعنی ضروریات کی تعریف نہیں کی گئی اور جب عمل کرنے کا وقت آیا تو کمیونسٹ

Page 799

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۷۹ خطبہ جمعہ ۸ /نومبر ۱۹۷۴ء چیکوسلواکیہ میں اُن کے قتل و غارت کے لئے اپنی فوجیں لے کر آگئے حالانکہ وہ بھی کمیونسٹ تھے اور اُن کا اقتصادی معیار وہ نہیں بننے دیا جو ان کے اپنے ملک کا تھا اور جو روس کے مشرق میں مسلمانوں کے علاقے ہیں ان کا اقتصادی معیار اور جو وائٹ رشیا (White Russia) کہلاتا ہے اس کا " ر اقتصادی معیار.اس نعرہ کے باوجود کہ ” To each according to his needs بالکل اور کر دیا.بھلا دو انسانوں کی ضروریات بنیادی طور پر مختلف کیسے ہو گئیں؟ فروعی طور پر تو مختلف ہو سکتی ہیں مثلاً جو چھ فٹ کا جوان ہے اُس کے لباس پر زیادہ کپڑ ا خرچ آئے گا بہ نسبت اس انسان کے جس کا قد ساڑھے چارفٹ ہے.یہ تو فروعی فرق ہوا.لیکن اصول یہ ہے کہ ہر ایک کو ایک جیسا ایک ہی قسم کا کپڑا ملے.اُس کپڑے کی کمیت میں تو فرق ہو گا لیکن کیفیت اور قسم میں فرق نہیں ہونا چاہیے.میں بتایہ رہا ہوں کہ جو انسان نے انسان کے لئے قوانین بنائے اول تو وہ ناقص ہیں پھر ان پر عمل ناقص.اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ایک تعریف کر دی اور پھر جب چاہا وہ تعریف بدل دی.پس وہ قانون جو بنیادی اصول سے بندھا ہوا نہ ہو وہی قانون ہے کہ جو اپنی مرضی سے جب چاہے بدل دیا.اسی لئے اسلام کو ہر دوسرے قانون پر فوقیت حاصل ہے کہ مسلمان کا یا مومن احمدی کا جو قانون ہے وہ قرآنِ کریم کی ہدایت سے بندھا ہوا ہے اور اس وجہ سے وہ محفوظ ہے اور اُس کے حسن پر کوئی داغ نہیں لگتا لیکن جو قانون انسان نے بنایا ہے وہ بدلتا رہتا ہے.آج کچھ قانون بنا یا کل کچھ بنادیا.جیسے جیسے حالات بدلے ویسے ویسے چالاکیاں کر کے بعض لوگوں کو فوائد سے محروم کرتے رہے یا بعض کو زیادہ فوائد دے دیئے ساری دنیا میں یہ ہو رہا ہے.امریکہ میں بھی ، روس میں بھی ، یورپ میں بھی، کیونکہ انسانی قانون کا حسن الہی حُسن کے ساتھ بندھا ہوا نہیں ہے.اس لئے قرآن کریم نے تو کہا کہ یہ نہیں کرنا کسی شخص کو یہ نہیں کہا کہ جو مسلمان نہیں اُس کا آدھا پیٹ بھرنے کی تجھے اجازت ہے.جن غلاموں کے متعلق شروع میں اسلامی شریعت اور قانون کے مطابق عمل ہونا تھا اُن میں سے تو بہت سے مسلمان نہیں تھے اور غلام تھے اور اُن کے متعلق کہا کہ ٹھیک ہے یہ تمہارے ہم عقیدہ نہیں ہیں لیکن تمہارے ہم جنس اور ہم نوع ہیں.اس

Page 800

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۸۰ خطبہ جمعہ ۸ /نومبر ۱۹۷۴ء لئے جیسا تم نے کھانا ہے ویسا ہی اُن کو دینا ہے لیکن انسان جب قانون بنا تا ہے تو اپنے مطابق ، اپنی ضرورت کے مطابق ، اپنے خیالات کے مطابق.اپنے تعصبات کے مطابق اس میں ایک چک رکھتا ہے لیکن پیدا کرنے والے رب کو تو کسی سے بھی کوئی تعصب نہیں ہے.اُس نے تو ہر انسان کو پیدا کیا اور ہر انسان کے انسانی حقوق قائم کئے.ایسے حسین قوانین ہیں (میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے اس وقت موقع نہیں پھر موقع ہوا تو پھر یاد دھانی کرا دوں گا) کہ اپنے بیرونی ممالک کے دوروں کے دوران بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات سے میں نے باتیں کی ہیں.میں نے اسلامی تعلیم پیش کر کے کہا یہ ہے اسلام کی اقتصادی تعلیم.اس سے بہتر یا اس جیسی تعلیم مجھے دکھا دو تو میں سمجھوں گا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو وہ آگے سے بات نہیں کرتے.میں نے پہلے بتایا تھا کہ ۷۳ء کے دورہ کے دوران یورپ کے دوملکوں میں مجھے شرمندہ ہونا پڑا کہ جب میں نے اسلامی تعلیم بیان کی تو مجھ سے پوچھا گیا کہ اتنی حسین تعلیم ہے.یہ تو ہم مانتے ہیں لیکن یہ بتائیں کہ اس حسین تعلیم کو جانتے ہوئے بھی آپ نے ہمارے عوام تک اسے پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہے؟ ٹھیک ہے ابھی ہمارے پاس اتنی دولت نہیں.ہمارے پاس اتنے انسان نہیں جو ہر جگہ پہنچ کر اُن کو بتائیں لیکن ہما را قدم اس جہت کی طرف اُٹھ رہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اسلامی تعلیم کا پیغام گھر گھر میں پہنچایا جائے گا اور اسلام کے حسن اور احسان سے اُن کے دل جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے انہیں جمع کر دیا جائے گا.پس قرآنِ کریم نے فرمایا کہ خدا کا ولی بن جاؤ یعنی یہ کوشش کرو کہ خدا سے ذرہ برابر بھی دوری نہ رہے کہ کسی غیر کی بیچ میں گنجائش نکل آئے تمہارے دل میں یہ جذبہ اور خواہش ہونی چاہیے کہ میں خدا کا ایسا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ میرے اور خدا کے درمیان ایک ذرہ برابر بھی فرق نہ رہ جائے کیونکہ اگر ذرہ برابر بھی فرق ہو تو میرے اور خدا کے درمیان وہ ذرہ آجائے گا اور وہ دُوری اور مہجوری ہوگی ، ناکامی کا احساس ہوگا کہ میں نے اپنا مقصد حاصل نہیں کیا.میں اتنا قریب نہیں ہوا.خدا تعالیٰ نے کہا تم ایک دفعہ قریب آ کر تو دیکھو میں تمہارے قریب آجاؤں گا اور سچی بات یہ ہے کہ جو انسان خدا تعالیٰ کا اس طرح قرب حاصل کر لیتا ہے جس طرح دو باہم

Page 801

خطبات ناصر جلد پنجم 2^1 خطبہ جمعہ ۸ /نومبر ۱۹۷۴ء جڑی ہوئی انگلیوں کے درمیان کسی اور کی گنجائش نہیں اُس کے بعد خدا تعالیٰ چھوڑا نہیں کرتا یعنی پھر وہ اپنے اس بندے سے جو اُس کے اتنا قریب ہو جاتا ہے جس کو ہم ولی کہتے ہیں جو اس کا ولی بن جاتا ہے.جو عملاً اپنے مجاہدہ کے بعد اس کے قریب تر آ جاتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اُس کے قریب آجاتا ہے اور اُس سے اس قسم کا پیار کرتا ہے اُس سے اس قسم کا لگاؤ رکھتا ہے.اُس کا اس قسم کا خیال رکھتا ہے اُس کو اس قسم کی ہدایت دیتا ہے اور رحیمیت کے جلوؤں سے اُس کی کمزوریوں کو دور کرتا ہے اور اُس کی کوششوں میں کامیابی کی راہیں اُس پر کھولتا رہتا ہے اور ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی حیثیت سے اس دنیا میں بھی لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ (يونس: ۲۵ ).اس دنیا میں بھی خدا تعالیٰ کی بشارت اُن کے لئے ہے اور جوفو ز عظیم کہا کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی نہیں سوچو وہ فوز عظیم کیا ہو سکتی ہے وہ فوز عظیم یہی ہے.اس سے بڑھ کر اور کوئی فوز عظیم نہیں کہ ہر وقت خدا تعالیٰ کے پیار کی آواز انسان کے کان میں پڑتی رہے.پیار کا احساس اُس کے دل میں پیدا ہوتا رہے اُس کے پیار کے جلوے اپنی زندگی میں وہ دیکھے اور اس کے پیار کے جلوے صرف وہ شخص نہیں بلکہ اس کے ماحول کے لوگ بھی اس شخص کی زندگی میں دیکھیں کہ خدا تعالیٰ اس شخص یا اس خاندان سے یا اُس قوم سے یا اُس جماعت سے جیسا کہ یہ جماعت احمد یہ ہے.خدا تعالیٰ کا کتنا پیار ہے.جب دنیا خدا تعالیٰ کو جماعت احمدیہ کے افراد سے اس طرح پیار کرتے دیکھے گی.تو اُن کے دلوں میں خود بخود تمہارے لئے محبت پیدا ہوگی.جب دنیا یہ دیکھے گی کہ یہ جماعت وہ ہے جنہوں نے ہم سے خدمت کا اور اُلفت کا اور ہمارے دُکھوں کو دُور کرنے کے لئے کوششوں کا وہ تعلق پیدا کر لیا ہے جس کی بنیاد خدا تعالیٰ کے قرب پر ہے اُن کو تسلی ہوگی کہ ان سے ہمیں کوئی دُکھ نہیں پہنچ سکتا.یہ ہم پر ظلم نہیں کر سکتے.یہ ہمارے حقوق کو تلف نہیں کر سکتے.ہمیشہ ان سے ہمارے لئے خیر کے چشمے پھوٹیں گے.ہمیشہ یہ ہمارے دُکھوں کو دُور کرنے کے بعد ہمارے لئے سکھ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے.پھر جس شخص کو یہ سمجھ آ جائے گی وہ تو آپ کے قریب آجائے گا اور جو آپ کے قریب آیا چونکہ آپ خدا کے قریب ہوں گے لہذاوہ بھی خدا کے قریب ہو جائے گا اور پھر اس طرح ہم نے دنیا کو اسلام کے لئے اللہ کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 802

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۸۲ خطبہ جمعہ ۸ / نومبر ۱۹۷۴ء کے لئے جیتنا ہے جو اصل غرض ہے.ہماری یہ غرض تبھی پوری ہو سکتی ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں متعدد آیات میں بیان ہوا ہے اُن میں سے چند ایک کا میں نے انتخاب کیا ہے جو اس وقت میں نے بیان کی ہیں یہ ولایت کا تعلق کہ ہم میں سے ہر شخص خدا تعالیٰ کا ولی بن جائے اور اللہ اُس کا ولی بن جائے ، یہ تعلق پیدا ہو جائے کہ ہم میں سے ہر ایک کے اور خدا کے درمیان ایک ذرہ بھی جگہ نہ رہے جہاں غیر اللہ کے داخل ہونے کا امکان رہ جائے ، جہاں شیطانی وسوسہ ( جو ذرہ سے بھی بار یک جگہ میں چلا جاتا ہے ) اور اُس کے اندر داخل ہونے کا سوال پیدا ہو.پھر شیطانی حملوں سے ہر طرح محفوظ ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حُسن و احسان کے جلوے ہر دم اور ہر آن اپنی زندگی میں وہ دیکھ رہا ہوتا ہے.یہ وہ مقام ہے جس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی نے آپ لوگوں کو اور مجھے بلایا.یہ وہ زندگی ہے جس کی طرف قرآنِ کریم نے یہ کہہ کر بنی نوع کو مخاطب کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہو اس لئے کہ وہ تمہیں اس لئے بلاتا ہے کہ تمہیں زندہ کر دے ہر وہ زندگی ہر وہ حیات جس میں خدا اور بندے کے درمیان بعد اور ہجر پایا جاتا ہے، دُوری پائی جاتی ہے وہ زندگی زندگی نہیں ہے.زندگی اپنے کمال کو تبھی پہنچتی ہے جب بندے اور خدا کے درمیان کوئی فرق نہ رہے اور اس لئے اس غرض کی خاطر مہدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ( جنہیں پہلوں نے محمد مہدی بھی کہا ہے انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا.اپنی طرف نہیں بلایا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا تا کہ آپ حقیقی حیات اور زندگی پائیں تا کہ آپ کی وجہ سے اور آپ کی کوششوں اور تدبیر اور دعاؤں کے نتیجہ میں تمام بنی نوع انسان حقیقی حیات اور زندگی حاصل کریں.خدا کرے کہ ہمیں اپنے مقام کی سمجھ اور معرفت حاصل ہوا اور کبھی بھی ہم اُس غرض کو جس کے لئے ہمیں اجتماعی طور پر پیدا کیا گیا اور اکٹھا کیا گیا ہے، نہ بھولیں اور ہماری نظر سے یہ مقصد اوجھل نہ ہو.اور خدا کرے کہ حقیقی معنی میں اور سچ مچ خدا تعالیٰ کے ولی بن جائیں اور خدا تعالیٰ اُس کے نتیجہ میں ہمار ا ولی ہو جائے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ جنوری ۱۹۷۵ ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 803

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۸۳ خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ بغض و عداوت کو اپنے قریب نہ آنے دو خطبه جمعه فرموده ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.أدعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ - وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بعد اصلاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ - (الاعراف:۵۷،۵۶) پھر حضور انور نے فرمایا.پہلے تو میں اپنے دوستوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ عملِ صالح کے معنے موقع محل پر عمل کرنے کے ہوتے ہیں.غلط جگہ پر صحیح کام بھی اسلام میں پسندیدہ نہیں اس لئے موقع اور محل کے مطابق کام کرنے کا حکم ہے مقام بھی صحیح ہونا چاہیے اور کام بھی صحیح ہونا چاہیے.اگر کسی دوست نے مجھے کوئی خط دینا ہو تو اس کے لئے صحیح جگہ میرا دفتر ہے مسجد اقصی نہیں ہے، بہر حال دوستوں کو یہ یادرکھنا چاہیے کہ اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اعمالِ صالحہ بجالا و یعنی ایسی نیکیاں بجالانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے جو موقع اور محل کے مطابق ہوں.اس حکم کو ہمیشہ مذنظر رکھنا چاہیے اور اس کے مطابق اعمال بجالانے چاہئیں تا کہ ثواب حاصل ہو.

Page 804

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۸۴ خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء ایک سلسلہ مضامین پر میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں، یہ سلسلہ اس وجہ سے شروع ہوا کہ نیشنل اسمبلی نے ایک فیصلہ کیا اور میں نے بتایا تھا کہ جہاں تک اس پر تبصرہ کا سوال ہے میں جنوری یا فروری کو اس پر تبصرہ کروں گا لیکن جہاں تک رد عمل کا سوال ہے، میں یہ بتا رہا ہوں کہ ہم قرآنی شریعت کو شریعت حقہ سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرنا ضروری اور واجب سمجھتے ہیں.قرآنِ کریم نے قرب الہی اور رضائے الہی کے لئے جو راہیں متعین کی ہیں ہم اُن پر چلنا ضروری سمجھتے ہیں بلکہ ان پر چلنے میں اپنی خوشحالی اور کامیابی کا راز سمجھتے ہیں.قرآن کریم نے ہمیں بنیادی طور پر دو قسم کی باتیں بتائی ہیں.ایک وہ جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور اُن سے بچنا ضروری ہے دوسرے وہ احکام ہیں جن کے متعلق فرما یا کہ ان کے بجالانے سے اللہ تعالیٰ کا پیار، اس کی محبت اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہوتی ہے.بعض خطبات میں میں نے ایک پہلو کے متعلق بات کی اور بعض میں دوسرے پہلو کے متعلق بات کی.آج میں ایک اور ایسی بات بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے متعلق قرآنِ کریم بتا تا ہے کہ اس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ انسان سے خوش نہیں ہوتا وہ اس سے پیار نہیں کرتا.انسان رضائے الہی کو حاصل نہیں کر سکتا اور وہ ہے اعتدا یعنی حد سے بڑھنا.میں نے سورۃ اعراف کی جو آیات ابھی پڑھی ہیں اُن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو پکارو.اُس سے دُعائیں کرو.گڑ گڑا کر بھی اور چپکے چپکے بھی ، اجتماعی طور پر بھی دُعائیں کرو اور انفرادی طور پر بھی اور اُس سے یہ دعا مانگو کہ اے اللہ تو ہمارا رب ہے.تو نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری پیدائش کو احسن بنایا ہے تُو نے ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق قو تیں عطا کیں اور ان قوتوں کی نشو و نما کے سامان پیدا کئے ہیں.گویا ہمارے قوی میں درجہ بدرجہ ترقیات عطا کر کے خدا تعالیٰ ہمیں بلندیوں اور کامیابیوں کی طرف لے جانے والا ہے.اسی غرض کے لئے اُس نے شریعت حقہ کو قرآن کریم کی شکل میں نازل فرمایا.اس لئے اس سے دعا کرو کہ وہ ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اُن حدود کے اندر رہ کر اور اُن حقوق کو ادا کر کے جو اُس نے مقرر کئے ہیں اپنی ربوبیت اور نشوونما کے سامان پیدا کریں اور یہ دعا گڑ گڑا کر بھی کرو اور خفیہ بھی،

Page 805

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۸۵ خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء اجتماعی طور پر بھی کرو اور انفرادی طور پر بھی اور یہ یاد رکھو کہ جب تک اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے اُس کے فضل کو جذب نہیں کیا جاتا ، انسان حقوق کے دائرہ میں نہیں رہتا ، وہ اُن کو پامال کرتا ہے.جو شخص حقوق کو پامال کرتا ہے اُس کے متعلق فرمایا:.اِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ اللہ تعالیٰ اعتدا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.وہ ان سے پیار اور محبت نہیں کرتا.اعتدا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا انسان کو حاصل نہیں ہوتی اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے: "وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا “ دین حق کے نزول کے بعد ، حقوق کی تعیین کے بعد ، حقوق کی وضاحت کے بعد اور اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے بعد کہ حقوق کی ادائیگی کے لئے مادی اور غیر مادی سامان پیدا کئے گئے ہیں اور ان کی تقسیم ان اصول پر ہونی چاہیے جن کے نتیجہ میں اس دنیا میں اصلاح کے حالات پیدا ہوتے ہیں اور فساد کے حالات مٹ جاتے ہیں، امن کے حالات پیدا ہوتے ہیں اور خوف کے حالات دور کر دیئے جاتے ہیں.ان حالات کے پیدا ہونے کے بعد لا تُفْسِدُوا في الْأَرْضِ کی رُو سے اس زمین میں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک نیا روپ لے کر دنیا کے سامنے آئی ہے.اس میں فساد کے حالات پیدا نہ کرو.پھر تاکیداً فرمایا کہ وَادْعُودُ کہ خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعائیں کر کے اس کی برکتوں اور رحمتوں کو حاصل کرو اور اس کی نصرت اور مدد پاؤ تا کہ تم خوفا اس خوف سے نجات پاؤ جو حق تلفی کے بعد پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے وطمعا اور اس رَجَاء اور امید کے ساتھ دُعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تمہیں حقوق کی ادائیگی کے دائرہ میں رکھ کر خدا تعالیٰ کے پیار کو پانے والا بنادے.فرمایا اگر تم محسن بنو.اگر تم ہمارے احکام کو تمام بیان کردہ شرائط کے ساتھ بجالا ؤ تو یا درکھو کہ تم خدا تعالیٰ کی رحمت کو اپنے قریب پاؤ گے.پس آج کا میرا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اعتدا کو پسند نہیں کرتا انسان اعتدا کے بعد (جس کے معنے میں ابھی بتاتا ہوں) خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنی زندگی میں کامیاب ہوسکتا ہے.عربی کے لفظ عدو (ع-د-و) کے مختلف معانی ہیں اور قریباً سارے معانی کا عکس اور اُن

Page 806

خطبات ناصر جلد پنجم ZAY خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء کی جھلک اعتداء میں آجاتی ہے.اعْتَدَوا کے معنے ہیں حق سے تجاوز کرنا.گولغت میں یہ لفظ تین طرح بیان ہوا ہے لیکن میں اس وقت صرف دو کولوں گا.حد سے تجاوز کرنے کے ایک معنے یہ ہوتے ہیں کہ حق تو نہیں ہوتا.مگر اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے.حق سے تجاوز کرنے کے ایک معنی یہ ہیں کہ دوسرے کا حق ہوتا ہے مگر اسے دینے سے انکار کیا جاتا ہے گویا اپنے لئے یا غیر کے لئے.اپنے دوست کے لئے یا اپنے عزیز کے لئے.اپنے ہم خیال کے لئے ، اپنے ہم عقیدہ کے لئے اُن حقوق کا مطالبہ کرنا جنہیں اللہ تعالیٰ نے قائم نہیں کیا یہ حق سے تجاوز کرنا ہے.دوسری طرف اُن حقوق کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات اور اُس کے عزیزوں کے لئے قائم کیا.جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہمسایوں کے لئے قائم کیا.جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہم عقیدہ لوگوں کے لئے قائم کیا.جنہیں اللہ تعالیٰ نے مخالفوں کے لئے قائم کیا گویا وہ حقوق جو خدا کے قائم کردہ ہیں ، اُن کو ادا نہ کرنا اور ان کی ادائیگی میں روک بننا، یہ بھی حد سے تجاوز کرنا ہے اور اس وجہ سے جب دوسرے کی حق تلفی کے معنی میں یہ تجاوز ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں ظلم اور دشمنی کے ساتھ اور بغض سے دوسرے کو ایذا پہنچانا.یعنی دشمنی اور بغض کی وجہ سے کسی کو دکھ دینے کی خواہش رکھنا اور دکھ پہنچانے کے لئے کوشش کرنا اعتدا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص حق سے تجاوز کرے گا اور حق تلفی کرے گا اور دشمنی اور بغض کے نتیجہ میں دُکھ پہنچانے کی کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ اُس سے پیار نہیں کرے گا اور یہ ایک بڑاز بر دست اعلان ہے جو ان آیات میں کیا گیا ہے.ان آیات سے جو مطلب ہم اخذ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اجتماعی اور انفرادی دعاؤں کے ساتھ جب تک ہم اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کو مدد کے لئے نہ پکاریں اُس وقت تک ہم اُن حدود میں جو خدا تعالیٰ نے قائم کی ہیں، رہ نہیں سکتے یعنی اپنی حدود میں رہنے کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.آج کی اندھی دنیا دعاؤں پر زور دینے کی بجائے اپنی عقل پر فخر کرتی ہے.قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ اللہ کے قائم کردہ دائرہ حدود میں رہنے کے لئے تمہیں عقل کی ضرورت تھی اور وہ تمہیں ہم نے عطا کر دی.قرآن کریم نے فرمایا کہ حقوق کی ادائیگی کے لئے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کے حصول کے لئے اعمال تم بجالاتے ہو اس میں تم کامیاب تبھی

Page 807

خطبات ناصر جلد پنجم 2A2 خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء ہو سکتے ہو، جب دعائیں کرو، ٹھیک ہے عقل بھی ایک عطاء الہی ہے اور اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے لیکن عقل اسی وقت صحیح کام کر سکتی ہے جب اُسے خدا تعالیٰ کی ہدایت اور تعلیم اور وحی کی روشنی حاصل ہو.الہی نور کے بغیر عقل کو وہ روشنی نہیں ملتی جو عقل کو صحیح راستوں پر چلا سکے اور کامیابیوں تک عقل مندوں کو لے جاسکے.اس سے ایک تو ہمیں یہ پتہ لگا کہ اپنے حقوق لینے ہوں تو بھی دوسروں کے لئے سکھ پیدا کرنے ہوں گے اور دُکھوں سے بچا نا ہو تو بھی دعاؤں کی ضرورت ہے نہ کہ کسی اور چیز کی کیونکہ جب تک عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اور جب تک اجتماعی اور انفرادی دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو انسان جذب نہیں کرتا، اُس وقت تک وہ حق کے دائرہ کے اندر نہیں رہ سکتا.نہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے اس کی کوششیں جائز ہوں گی نہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اس کے اندر ایک جذبہ اور جوش پیدا ہو گا.دوسری بات ہمیں یہ بتائی گئی ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنے حقوق کے دائرہ میں نہیں رہتا اور زیادتی کرتا ہے اور تجاوز کرتا ہے اور حق تلفی کرتا ہے اور دشمنی اور بغض سے دوسرے کو ایذا پہنچاتا ہے اور اپنے لئے وہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کا حق نہیں.وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھو بیٹھتا ہے.اس ضمن میں ہمیں دنیا میں دو قسم کے لوگ نظر آتے ہیں.ایک وہ جو عادتاً دوسروں کو سکھ پہنچانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو اپنی بدقسمتی سے دوسروں کو دُکھ پہنچانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو کم و بیش دنیا کے ہر خطہ میں نظر آتی ہے.اس وقت دنیاوی لحاظ سے جو ترقی یافتہ ممالک ہیں انہوں نے جو ترقی کی ہے اُس کا راز بھی یہی ہے کہ انہوں نے اس حقیقت کو پہچانا کہ دوسروں کو سکھ پہنچانے کے نتیجہ میں اور اُن کے دُکھ دور کرنے کی وجہ سے قومیں ترقی کیا کرتی ہیں.میں نے کئی ایسے واقعات پڑھے ہیں مثلاً انگریز قوم کو ایک وقت میں برطانوی سلطنت پر بڑا ناز تھا.دنیا میں انگریزوں کی طاقت پھیلی ہوئی تھی.دنیا کے ایک بڑے علاقے کو انہوں نے

Page 808

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۸۸ خطبہ جمعہ ۱۵ /نومبر ۱۹۷۴ء اپنے ماتحت کر رکھا تھا چنانچہ اگر سنگا پور یا ملائشیا یا کسی اور دور دراز علاقے میں کسی انگریز کی دس ہزار پاؤنڈ کی حق تلفی ہوتی یعنی کوئی شخص کسی انگریز کے دس ہزار پاؤنڈ مار لیتا تو برطانوی حکومت اس دس ہزار پاؤنڈ کے حق کی ادائیگی کے لئے تیار ہو جاتی تھی اور پورا زور لگاتی تھی اور اپنی طاقت کے بل پر اُس کو دس ہزار پونڈ دلواتی تھی چاہے اس کے او پر اُسے کتنا بھی خرچ کیوں نہ کرنا پڑے گویا فرد واحد کو ذہنی ، جسمانی اور دنیاوی حقوق کے لحاظ سے دس ہزار پاؤنڈ کے ضیاع سے جودُ کھ پہنچا تھا، اس کو دور کرنے کے لئے ساری ایمپائر (Empire) متوجہ ہو جاتی تھی.وہ یہ نہیں کہتی تھی کہ اتنی بڑی ہماری سلطنت ہے اور اتنی دولت ہمارے پاس جمع ہو چکی ہے ایک آدمی کے دس ہزار پاؤنڈ ضائع ہو گئے تو کیا بات ہے.اس لئے کہ جو قوم اور مملکت اپنے شہریوں کو حقوق دلانے کے لئے ہر وقت چوکس اور بیدار نہیں رہتی وہ قوم اس دنیا میں ترقی نہیں کرسکتی، یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے کوئی عقل مند انکار نہیں کر سکتا.اس حقیقت کے باوجود استثنائی طور ہمیں انگریزوں میں سے ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جو دوسروں کو ایذا پہنچا کر اور دُکھ دے کر خوشی اور مسرت حاصل کرتے ہیں.اب تو اُن کی حالت بدل گئی ہے لیکن کسی وقت میں اُن کی بہت بڑی سلطنت تھی جس کے متعلق اُن کا یہ دعویٰ تھا کہ اُس پر سورج غروب نہیں ہوتا.(اب تو غروب ہونے لگ گیا ہے ) تاہم غروب ہوتا ہے یا نہیں ، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں دراصل دیکھنے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے جو ترقی کی ہے اس کے لئے انہوں نے رکن اصولوں کو اپنا یا تھا نیز ان میں سے ایک اصول یہ تھا کہ قوم کے دکھوں کو اور افراد کے دُکھوں کو دور کرنے میں قوم کی زندگی اور ترقی کا راز پوشیدہ ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ کچھ لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کو دُکھ پہنچا کر خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں یعنی بگڑی ہوئی فطرت غلط رنگ میں دُنیا کے سامنے اپنی طاقت اور کوشش کا مظاہرہ کرتی ہے.جو قومیں ترقی یافتہ نہیں ، اُن میں ہمیں یہی دو قسم کے لوگ نظر آتے ہیں.ایک وہ جن کو اس راز کا علم نہیں ہے اور وہ اپنے ہی بھائی بند کو دکھ پہنچانے میں خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں گویا وہ اپنی خوشی اور مسرت کے حصول کے لئے دوسروں کو دُ کھ پہنچاتے

Page 809

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۸۹ خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء ہیں لیکن ان کا ایک حصہ ایسا بھی ہوتا ہے جس کی یہ ذہنیت نہیں ہوتی وہ ملک میں رہنے والے ہر شہری کو سکھ پہنچانے کی کوشش کرتے اور دُکھوں کو دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.غیر ترقی یافتہ اور ترقی کی خواہش رکھنے والی اقوام میں مختلف نسبتوں کے ساتھ یہ ذہنیت ہمیں نظر آتی ہے.اس تمہید کے بعد میں اپنے ملک کی طرف آتا ہوں.ہمارے ملک میں یہ گندی ذہنیت بہت زیادہ پائی جاتی ہے اور اس میں صرف احمدیت کا تعصب نہیں بلکہ جہاں کہیں بھی آپ کو کوئی دُکھ پہنچانے والا ملتا ہے وہ عام شہری ہے یا حکومت کا کوئی کارندہ ، اسے دیکھ کر آپ یہ نہ سمجھ لیا کریں کہ وہ صرف احمدیت کی وجہ سے آپ کو دُ کھ پہنچارہا ہے.ہمارے اس ملک میں کثرت کے ساتھ وہ لوگ بھی ہیں جو ایک دوسرے کو دُکھ پہنچانے میں مصروف ہیں مثلاً سنی سنتی کو دُکھ پہنچا رہا ہے اور شیعہ شیعہ کو دُکھ پہنچا رہا ہے اور اپنے ہی گھر والا اپنے بھائی کو دُکھ پہنچا رہا ہے.کیا آپ اخباروں میں بھائیوں کی آپس میں لڑائیوں کے متعلق پڑھتے نہیں ؟ تو وہاں تو عقیدہ کے اختلاف کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا.ایک ہی گھر میں پیدا ہوئے ایک ماں باپ کی اولا د لیکن اُن کی ذہنیت ایسی ہے کہ ہر بھائی دوسرے کو دُکھ پہنچانے میں لذت اور سرور محسوس کرتا ہے.بدقسمتی سے اس قسم کی ذہنیت والے لوگ حکومت کے نوکر اور عوام کے خادموں میں بھی ہیں لیکن ان کی کثرت نہیں ہونی چاہیے.استثنائی طور پر تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے انگریز کے زمانہ میں بھی جب کہ برٹش ایمپائر پر سورج غروب نہیں ہوا کرتا تھا شاید لاکھوں میں ایک آدمی اُن میں بھی ہو جو اذیت پسند ہولیکن جب قوم میں کثرت اس ذہنیت کے لوگوں کی ہو جائے کہ کسی کو سکھ نہیں پہنچانا، دوسروں کو دُکھ پہنچانا ہے اور دُکھوں کو دور نہیں کرنا اور اگر کسی کو سکھ پہنچا ہوا ہو اور وہ چین سے زندگی بسر کر رہا ہو تو اس کو اس سے محروم کرنے کی کوشش کرنی ہے تو پھر قوم ترقی کر ہی نہیں سکتی اس لئے کہ مملکت کے شہریوں کے مجموعہ سے مملکت اور ملک بنتا ہے.مثلاً اگر ہر فرد کو ایک ایک کر کے اور چن چن کر ނ غریب بنادیا جائے تو سارا ملک غریب ہو جائے گا.اگر ایک ایک آدمی کو پڑھائی سے اور علم - محروم کر دیا جائے تو وہ جاہلوں کی قوم بن جائے گی لیکن اگر انفرادی طور پر ہر فرد کو علم سکھا یا جائے اس کی علمی ترقی کے لئے کوشش کی جائے.اگر وہ روزی کمانے کے لئے جدو جہد کرتا ہے تو اس

Page 810

خطبات ناصر جلد پنجم 490 خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء میں اس کی مدد کی جائے ، حصول رزق کے لئے اس کی رہنمائی کی جائے ، ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ اس کی کوششیں بار آور ہوں اور وہ امیر بن جائے.اگر ہر فردا میر ہو جائے تو گویا ملک امیر بن جائے گا.اگر پچاس فی صد لوگ امیر ہوں اور پچاس فی صد غریب ہوں تو وہ ملک درمیانہ درجہ کا ہوتا ہے.اقتصادی لحاظ سے وہ کوئی دولت مند ملک نہیں کہلائے گا.اسی لئے جمہوریت کی یہ تعریف کی گئی ہے.( طالب علمی کے زمانہ میں یہ میرا مضمون رہا ہے ) کہ جمہوریت کچھ اس قسم کی حکومت ہے کہ جس میں One for all and all for one) کا اصول کارفرما ہوتا ہے یعنی ہر فرد قوم کی خاطر زندگی گزار رہا ہوتا ہے اور ساری قوم اُس ایک فرد کے لئے زندگی گزار رہی ہوتی ہے.یہ ہے جمہوریت کی صحیح تعریف.بڑے بڑے ماہرین سیاست نے اپنی فلسفیانہ بحثوں میں یہ کہا ہے کہ فرد واحد یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں سب کے لئے قربانی دے کر بہت سی باتوں سے محروم ہو جاؤں گا اس لئے کہ ایک سب کے لئے اور سب اُس ایک کے لئے“ کے اصول کی رُو سے فرض کرو کسی ملک کی آبادی چھ کروڑ ہے تو اگر ایک شخص چھ کروڑ کے لئے قربانی دے رہا ہے تو اس کو اس لئے نقصان نہیں کہ چھ کروڑ اُس ایک کے لئے قربانی دے رہے ہوں گے اور اس کو بہر حال فائدہ ہے کیونکہ اُس ایک نے جو کچھ قوم کی خاطر کھو دیا اور چھ کروڑ سے کچھ حاصل کر لیا.پس اس ایک نے جو کچھ کھویا اس کے مقابلہ میں چھ کروڑ سے جو حاصل کیا وہ بہر حال زیادہ ہے.وہ عقلاً بھی زیادہ ہے اور عملاً بھی زیادہ ہے.جمہوریت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ چھ کروڑ میں سے پانچ کروڑ نوے لاکھ کی اکثریت دس لاکھ کو کھا جائے اور کہے کہ جوا کثریت ہے وہ اقلیت کو دُکھ ہی پہنچایا کرتی ہے اور کھا ہی لیا کرتی ہے، یہ جمہوریت نہیں.یہ ایذا دہی ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے :.اِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ جب قوم کی اکثریت اعتدا کے گناہ میں ملوث ہو جائے اور اکثریت ایک دوسرے کو دُکھ پہنچانے لگے اور اعتقاد اعتقاد کا فرق ، قوم قوم کا فرق، خاندان خاندان کا فرق ، علاقے علاقے کا فرق اور خطے خطے کا فرق ہونے لگے اور ایذا دہی کی بنیا د بنے تو اس قسم کا تعصب اور اس قسم کی ذہنیت جس کا مقصد ایک دوسرے کو ایذا اور نقصان پہنچانا ہوتا ہے، ملک وملت کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے.ایسی ذہنیت اعتقادات کی حدود کو پھاند کر

Page 811

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۹۱ خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء بہت آگے نکل جاتی ہے.ملک کی اکثریت یا ایک بڑے بھاری حصہ میں جب یہ ذہنیت پیدا ہو جائے تو قوم کی ہلاکت کے سامان تو پیدا ہو سکتے ہیں قوم کی نجات اور اس کی فلاح اور ترقیات کے سامان نہیں پیدا ہو سکتے کیونکہ کوئی قوم دین و دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی جب تک دینی معاملات میں خدا تعالیٰ کے پیار کو اور دنیوی معاملات میں خدا تعالیٰ کی مدد کو حاصل نہ کرے، ہماراللہ صرف رحیم نہیں جو مومن کو اُس کے اعمال کا بہترین پھل عطا کرتا ہے.ہمارا اللہ رب بھی ہے جو مومن و کافر کی بھلائی کے سامان پیدا کرتا ہے.جو لوگ اُس کو گالیاں دینے والے ہیں انہیں بھی وہ بھوکا نہیں مارتا.دُنیوی لحاظ سے ان کی ترقیات کے راستہ میں فرشتوں کی فوجیں کبھی حائل نہیں ہوتیں.ان کو ترقی کی اجازت ہے.اللہ تعالیٰ کا غضب صرف اس لئے نہیں بھڑکتا کہ ان لوگوں نے اپنے ربّ کو پہچانا نہیں بلکہ جس وقت اس کی مخلوق اور اس کا پیدا کردہ انسان ظلم کی انتہا کو پہنچتا ہے تو اپنے دوسرے بندوں کو ان نا سمجھ انسانوں کے ظلم سے اور اُن کے اعتدا سے بچانے کے لئے اُس کا قہر بھڑ کا کرتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: - رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) ویسے قرآنِ کریم نے یہ بھی کہا ہے کہ جن لوگوں کی ساری توجہ اور کوشش اور اعمال دنیا کے لئے ہو گئے خدا نے اُن کو دنیا دے دی کیونکہ دینی عقائد کی رُو سے اعمال صالحہ بجالانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے پیار اور اُس سے محبت رکھنے کے اور اس کی راہ میں قربانیاں دینے کے نتائج اور ثواب اگلی دنیا میں ملتے ہیں.یہاں اس دنیا میں تو اعمال کے نتائج اور ثواب کی ایک چھوٹی سی جھلک ہمیں نظر آتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی تشریح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کا تعلق ان اعمال کے ساتھ ہے جو دین کی حالت میں انسان بجالاتا ہے یا جو خدا کی راہ میں اُس کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے انسان کچھ پیش کرتا ہے اپنے مال سے، اپنے وقت سے اور اپنے سکھ اور آرام کو چھوڑ دینے سے، جو اس کی جزا انسان کو مرنے کے بعد ملتی ہے، وہ جنت ہے جہاں خدا تعالیٰ کا پیارا ایسے رنگ میں سامنے آجائے گا کہ انسان حقیقی مسرت اور خوشی سے سرشار ہو جائے گا.ہم سب اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے فضل سے ہم سب کے لئے حقیقی خوشی کے سامان پیدا کرے گا.

Page 812

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۹۲ خطبہ جمعہ ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء بہر حال اس وقت ہماری آنکھ وہ چیز دیکھ نہیں سکتی جو اُخروی زندگی میں خدا رسیدہ انسان کے لئے مقدر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے.یہ ایک علیحدہ مضمون ہے.اس وقت میں بتا یہ رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس دنیا میں صرف مومن ہی کو اُس کے دین اور دنیوی اعمال کی وجہ سے جزا نہیں دیتا بلکہ جولوگ مومن نہیں اُن کے جو اعمال ہیں اُن کا بھی نتیجہ ربّ ہونے کے لحاظ سے اور رحمن ہونے کے لحاظ سے نکالتا ہے یعنی وہ کوششیں ابھی اُن کی شروع بھی نہیں ہوئی تھیں کہ اُن کی کامیابی کے سامان اُس نے پیدا کر دیئے تھے اور درجہ بدرجہ اُن کو دُنیوی کامیابیوں کی طرف دنیوی کوششوں کے نتیجہ میں لے جا رہا ہے.پس جس ملک میں خدا تعالیٰ کی منشا کے خلاف دُکھ پہنچانے کی ذہنیت زیادہ ہو جائے وہ قوم ترقی نہیں کیا کرتی اور خدا کو نہ پہچاننے والے اور اس کا عرفان نہ رکھنے والے بھی اگر اس اصول کو سمجھنے لگیں (خواہ وہ یہ نہ بھی سمجھیں کہ خدا نے یہ اصول قائم کئے ہیں ) لیکن اس اصول کو سمجھنے لگیں کہ دنیوی ترقیات کے لئے اجتماعی کوششیں ضروری ہیں تا کہ ہر فرد کے دُکھوں کو دُور کیا جائے تب ہی ملک کی حالت سدھر سکتی ہے کیونکہ اگر ہر فرد دکھی ہو گا تو وہ قوم خوشحال کیسے ہوگی ، اُس کے چہروں پر مسکراہٹیں کیسے آئیں گی.یہ تو الہی جماعتوں کی استثنائی حالت ہے کہ دنیا والے سمجھتے ہیں کہ ہم اُنہیں دُکھ پہنچارہے ہیں مگر ان کے چہروں پر اسی طرح مسکراہٹیں ہوتی ہیں جس طرح پہلے تھیں.میہ اس لئے ہوتا ہے کہ الہی سلسلوں کی مسکراہٹوں کا سرچشمہ خدا تعالیٰ کا پیار اور اُس کی رحمت ہوتی ہے.کوئی دنیوی وجہ اُن کی مسکراہٹوں کی نہیں ہوتی اس لئے دنیا اُن کی مسکراہٹیں نہیں چھین سکتی.خدا تعالیٰ کا پیار اُن کی مسکراہٹوں کا منبع ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو دنیا کی کوئی طاقت اُن سے چھین نہیں سکتی.دنیا سمجھتی ہے کہ اُس نے انہیں عذاب میں مبتلا کیا مگر اُن کے دل خدا تعالیٰ کے پیار سے اس طرح بھرے ہوتے ہیں کہ اُن کے رُوئیں روئیں سے اُس کی لذت اور سرور پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہا ہوتا ہے.پس ان دو آیات کی تفسیر سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں

Page 813

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۹۳ خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء ایک وہ جو دوسروں کو دکھ دینے میں لذت محسوس کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی ہدایت کے سامان پیدا کرے اور قوم کو ایسی ذہنیت سے محفوظ رکھے.دوسرے وہ لوگ ہیں جو ہر غیر کو بھی سکھ پہنچانے کے لئے تیار رہتے ہیں.وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اپنا ہے یا بیگا نہ بلکہ ہر ایک کوشکھ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے کسی احمدی کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ سکھ پہنچانے کے لئے کسی احمدی کی تلاش کی جائے بلکہ اُسے یہ دیکھنا چاہیے کہ اُسے سکھ پہنچانے کے لئے کسی انسان یا کسی حیوان یا کسی جس رکھنے والی مخلوق کی ضرورت ہے.دنیا سے دُکھ کو دُور کرنا اُس کا نصب العین ہونا چاہیے.اگر اس نے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے تو اُسے یہ طریق اختیار کرنا پڑے گا کیونکہ اگر وہ دنیا میں دُکھ پیدا کرنے کا موجب بنے گا تو خدا تعالیٰ کی رحمت اور اُس کے پیار سے اور اس کی محبت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا.تیسری بات ہمیں ان آیات سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ قرآنِ عظیم ایک عظیم شریعت ہے اس نے مخلوق کے حقوق قائم کئے اور اصلاح کے سامان پیدا کئے.اسی لئے فرما یا بعد اصلاحِهَا.تو اصلاح کے سامان خود قرآن کریم نے پیدا کئے ہیں.گویا ہر انسان کے حقوق کی اور حیوانات کے حقوق کی اور نباتات کے حقوق کی اور جمادات کے حقوق کی یعنی ہر مخلوق کے حقوق کی تعیین قرآنِ عظیم میں پائی جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں اس عالمین میں اصلاح اور صلاحیت امن اور آشتی کی ایک فضا پیدا ہوتی ہے.پس قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخاطب کر کے اور پہلے مسلمان کو مخاطب کر کے یہ فرمایا کہ انسانی حقوق قائم کر دیئے گئے.انسان اپنے حقوق کے دائرہ کے اندررہ کرفساد کے حالات سے بچے اور اصلاح کے حالات پیدا کرے کیونکہ حق سے تجاوز کرنا ہر دو معنی میں جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے فساد کے حالات کے پیدا کرنے کے مترادف ہے.پھر فرمایا تم دعائیں کرو اور بہت دعائیں کرو کہ تم خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے والے نہ بن جاؤ.خوفا اس سے کہ اللہ تعالیٰ کہیں ناراض نہ ہو جائے ، حقوق کے دائرہ کے اندر اپنے اعمال کو رکھو یعنی اپنے حق سے زیادہ نہ مانگو اور نہ لو.کسی اور کی حق تلفی کرنے پر جرات نہ کرو.تمہارے

Page 814

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۹۴ خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء دلوں میں یہ خوف پیدا ہونا چاہیے کہ اگر ایسا کیا تو پھر اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا اور ہم اس کی جنت کو نہیں پاسکیں گے اور طمعا اس امید پر، اس طمع سے کہ اگر ہم شرائط کے ساتھ عمل کریں گے تو محسن ہونے کی صورت میں اُس کی رحمت پائیں گے.دراصل مُحْسِن کے معنی ہیں تمام شرائط کے ساتھ حسن عمل کرنے والا.صرف عمل کرنے والا نہیں بلکہ شرائط کے ساتھ جو عمل ہو گا وہ حسن عمل بن جائے گا.غرض جو شخص تمام شرائط پوری کرتے ہوئے حسنِ عمل بجالانے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو قریب پائے گا.جو شخص دُکھ کے مقابلہ میں دوسروں کے لئے سکھ کے سامان پیدا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا بڑا پیار حاصل کرتا ہے.بعض دفعہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جی ! لوگوں نے ہمیں بڑا دکھ پہنچایا ہے اس لئے اس کا بدلہ (اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ) ہم لے لیں تو کیا کوئی حرج تو نہیں؟ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ دیکھو! قرآن کریم نے بدلہ لینے کے لئے بھی اصول وضع کئے ہیں اور اس کے لئے بھی احکام جاری کئے ہیں.قرآنِ کریم نے یہ نہیں کہا کہ تم اپنی مرضی سے جس قسم کا بدلہ لینا چاہو وہ لے لو.مثلاً قرآن کریم نے ایک بڑا حسین اصول یہ وضع کیا ہے کہ بدلہ لینے کا اصل مقصد اصلاح ہونی چاہیے.اگر کسی کو معاف کرنے سے اصلاح ہوتی ہے تو بدلہ لینے کا تمہیں حکم ہی نہیں.نہ قانون شکنی کی تمہیں اجازت ہے.اس کی بڑی لمبی تفصیل ہے.میں اصولاً یہ بتا رہا ہوں کہ خود بدلہ لینے کے قوانین وضع نہیں کرنے.قرآنِ کریم کہتا ہے کہ بدلہ اس رنگ میں نہ لو کہ حق سے تجاوز کر جاؤ.تم کسی سے اس رنگ میں بدلہ نہ لو کہ جس نے تم پر ظلم کیا مقابلہ میں بدلہ لیتے وقت تم نے بھی ظلم کر دیا اور اس کی حق تلفی کر دی.خدا نے اس کی اجازت نہیں دی.تم بدلہ لیتے وقت یہ خیال رکھو کہ اگر اس کی اصلاح کی اُمید ہو تو اپنا حق چھوڑ کر بھی اُس شخص کی اصلاح کی کوشش کرو.تم کسی کی خوشی اور سکھ کے لئے اپنے حق کی قربانی دے دو.پس ہمیں قرآنِ عظیم کی ہدایات پر ہر وقت غور کرتے رہنا چاہیے اور اپنے اعمال کو ان احکام کے مطابق ڈھالنا چاہیے، یہی انسانی زندگی کا اصل مقصد ہے کہ خدا تعالیٰ کا پیار اور اس کی رضا

Page 815

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۹۵ خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۷۴ء حاصل ہو.اس کے لئے اس چھوٹی سی زندگی میں ہر قسم کی تکلیف اُٹھا کر اور ہر قسم کی قربانی دے کر اعمالِ صالحہ بجالانے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ وہ زندگی جو نہ ختم ہونے والی زندگی ہے اُس میں ہمیشہ کے لئے خوشی اور مسرتوں کے سامان میسر آجا ئیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روز نامه الفضل ربوه ۱/۵ پریل ۱۹۷۵ ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 816

Page 817

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۹۷ خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء جو شخص تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے غیر میں ایک امتیاز پیدا کر دیتا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سورة ال عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (ال عمران : ۷۷) اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت کرتا ہے.قرآن کریم کی اصطلاحی لغت میں بتایا گیا ہے کہ جب لفظ محبت کا فاعل انسان ہو اور یہ مفہوم ہو کہ انسان نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے اُس نے کوشش کی اور جب قرآن کریم میں اس لفظ کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ اللہ نے اپنے بندے سے محبت کی تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو پسند کیا اور اُس کو اپنے انعامات اور رحمتوں سے نوازا.یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں اور تقوی کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں وہ متقی ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے متقیوں سے یقیناً محبت رکھتا ہے اور اپنے انعامات اور رحمتوں سے انہیں نوازتا ہے.اپنے عہد کو پورا کرنے کے کیا معنی ہیں؟ عہد کے معنی ہیں حفاظت اور نگہداشت اور بار بار

Page 818

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۹۸ خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء اور ہر حالت میں کسی چیز کی حفاظت کرنا اور مفردات راغب نے اوفُوا بِالْعَهْدِ کے معنی یہ کئے ہیں اَوْ فُوا بِحِفْظ الایمان اپنے عہد کی حفاظت کرو، اپنے ایمان کی حفاظت کرو اور ایمان کے معنی مفردات راغب نے یہ کئے ہیں کہ کبھی یہ اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے،اِسْمًا لِلشَّرِيعَةِ الَّتِي جَاءَ بِهَا مُحَمَّدٌ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ - یعنی ایمان اُس شریعت کا نام ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے.جو شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی شکل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس شریعت کا نام اور اسم ایمان ہے.لفظ ایمان بطور اسم اس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے.پس آوفُوا بِالْعَهْدِ کے یہ معنی ہوں گے کہ شریعت محمدیہ نے جو احکام اوامر ونواہی کی شکل میں دیئے ہیں اُن کی نگہداشت کرو.ایسا نہ ہو کہ کسی کام کے نہ کرنے کا حکم ہو اور غلطی سے تم وہ عمل بجالاؤ جس سے روکا گیا ہے اور کسی کام کے کرنے کا حکم ہو اور غفلت سے تم اُسے چھوڑ دو اور عمل نہ کرو.پس فرمایا کہ جو شریعت محمدیہ کے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور اس عہد کی حفاظت کرتے ہیں یعنی ہر وقت چوکس اور بیدار رہ کر اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی حکم بجا آوری سے رہ نہ جائے اور کسی نہی کا انسان غفلت کے نتیجہ میں مرتکب نہ ہو جائے.وَاتَّقَوا اور جو تقویٰ کو اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے متقیوں پر اپنے انعامات اور رحمتیں نازل کرتا ہے ایمان کی حفاظت کے تین رُخ ہیں ایک مومن مذہبی رنگ میں اُس وقت مومن کہلاتا ہے جب اُس میں تین باتیں پائی جائیں.ایک تو یہ کہ وہ دل سے حق کو حق سمجھے.دوسرے زبان سے حق کا اقرار کرے اور تیسرے اسی کے مطابق یعنی حق اور ہدایت کے مطابق اُس کے جوارح یعنی اُس کی عملی قوتیں عمل میں مصروف ہوں.یہ لغوی باتیں میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ چیزیں بہت سے دوستوں کے ذہن میں نہیں ہیں.ایک تو میں یہ بتا رہا ہوں کہ ایمان نام ہے شریعت محمدیہ کا.جس طرح میرے سامنے دوست بیٹھے ہیں.ان کے اپنے اپنے نام ہیں.میرا نام ناصر ہے.اسی طرح ایمان شریعت محمدیہ کا نام ہے.دوسرے میں نے بتایا کہ تین چیزیں اس میں پائی جاتی ہیں یعنی زبان کا اقرار اور دل کی تصدیق یعنی حق کو حق سمجھنے کی کیفیت قلبی اور ذہنی اور جو قوائے علیہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کئے ہیں ان کے ذریعہ سے بھی عمل

Page 819

خطبات ناصر جلد پنجم ۷۹۹ خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء اس تصدیق ، اس حقیقت، اس حقانیت، اس ہدایت اس شریعت کے مطابق ہو اور مفردات راغب میں لکھا ہے ان تینوں میں سے ہر ایک کو ایمان کہا جاتا ہے.وَيُقَالُ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنَ الْاِعْتِقَادِ وَالْقَوْلِ الصّدقِ وَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ اِيْمَانًا اور تقویٰ کے معنی ہیں کہ اپنے نفس کو اُن باتوں سے محفوظ رکھنا جو گناہ ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور اِتَّقَى فَلَانَّ بِكَذَا إِذَا جَعَلَهُ وِقَايَةً لِنَفْسِه.اس واسطے ہم تقویٰ کے معنی یہ کیا کرتے ہیں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کا مطلب ہے کہ اللہ کو اپنے لئے ڈھال کے طور پر حفاظت کا ذریعہ بناؤ.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں پر فرمایا کہ جو شریعت محمدیہ یعنی ایمان کی نگہداشت اور حفاظت کرتا ہے یعنی شریعت محمدیہ پر ایمان رکھتے ہوئے یہ حفاظت کرتا ہے کہ اُس کا نفس کوئی ایسا کام نہ کرے جس کی شریعت محمدیہ نے اجازت نہیں دی اور کوئی ایسا کام کرنے سے رہ نہ جائے جس کا حکم اُس شریعت کی طرف سے دیا گیا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور اس کے ساتھ جو تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اپنے لئے بطور ڈھال کے اور ذریعۂ حفاظت بنالیتا ہے یعنی دُعائیں کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو اور خدا تعالیٰ کی پناہ میں وہ آ جائے تاکہ شیطان کے ہر قسم کے حملوں سے وہ محفوظ رہ سکے تو ایسے متقیوں سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے یعنی اپنے انعاموں اور اپنی رحمتوں اور اپنی رضا سے انہیں نوازتا ہے.تقویٰ پر قرآن کریم نے یعنی شریعت محمدیہ نے بڑا زور دیا ہے اور دراصل انسان کی روحانی ترقیات کی ابتدا گناہوں سے بچنے کے ساتھ شروع ہوتی ہے.کیونکہ جب تک زمین کو اعمالِ صالحہ کے بیچ لگانے کے لئے تیا نہ کیا جائے اُس وقت تک وہ بیج اگر لگائے بھی جائیں پنپ نہیں سکتے.اس میں شک نہیں کہ انسان اپنی فطرت میں کمزور ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اس کمزوری کے بد نتائج سے بچنے کے لئے شریعت محمدیہ نے ہمیں تعلیم دی ہے اور وہ راہیں بتائی ہیں کہ جن پر چل کر انسان یا ان کمزوریوں سے بچ جاتا ہے یا اگر کوئی بشری کمزوری سرزد ہو جائے تو اس کے بدنتائج سے وہ محفوظ ہو جاتا ہے مثلاً تو بہ ہے اور استغفار ہے.بہر حال انسان کی سیر روحانی بدیوں سے بچنے کی کوشش سے شروع ہوتی اور اس کی انتہا اپنے اپنے ظرف کے مطابق قرب الہی کے

Page 820

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء حصول پر ختم ہوتی ہے اور پھر اس کی ترقیات اُس نقطہ سے ایک اور رنگ میں آگے بڑھتی ہیں.مثلاً جنت کا جو تصور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان یعنی شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ) میں دیا ہے وہ یہ نہیں کہ جنت میں عمل نہیں ہو گا بلکہ وہ یہ ہے کہ جنت میں کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا.عمل تو ہوں گے لیکن ایسے اعمال وہاں نہیں ہوں گے جیسے امتحان کا عمل ہے کہ جس کے نتیجہ میں سزا اور انعام ہر دو کا امکان ہو.ایک طالبعلم جب امتحان میں بیٹھتا ہے تو اس کے لئے یہ بھی امکان ہے کہ وہ نا کام ہو جائے اور یہ بھی امکان ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے تو جنت کے اعمال اپنے اندر امتحان کا رنگ نہیں رکھتے لیکن کسی کا یہ تصور کہ جو اسلام نے جنت بتائی ہے اس میں انسان غفلت اور کسل کی بیماری میں مبتلا ہو گا اور کوئی کام نہیں کرے گا.یہ قرآنِ کریم کا تصور نہیں ہے بلکہ قرآنِ کریم نے اور اس کی تفسیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نے تو یہ بتایا ہے کہ جنت میں انسان روزانہ اس قدر کام کرے گا کہ اگلے دن اس کا مقام پہلے دن سے بلند ہوگا ، اس دنیا میں ساری عمر جو ہم کام کرتے ہیں ( یہ ٹھیک ہے کہ ایک آدمی کی جنت اور دوسرے کی جنت میں فرق ہے لیکن ) اس کا نتیجہ بظاہر یہی نکلتا ہے کہ خدا نے فضل کیا اور اس کی رحمت سے انسان جنت کا مستحق ہو گیا اور کئی ہیں جو نا کام ہوئے اور ناکامی کی سزا انہیں مرنے کے بعد بھگتنی پڑی لیکن جو کامیاب ہوئے ساری عمر کی کوششوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی رحمتوں کی جنت انہوں نے حاصل کی لیکن جنّت کے شب و روز غفلت کے شب و روز نہیں.وہاں جو اعمال انسان کو کرنے کے لئے بتائے جائیں گے وہ اس قسم کے ہیں کہ روزانہ ہی درجات کو بلند کرنے والے اور انسان کو اپنے رب کے قریب سے قریب کرنے والے ہوں گے بہر حال اس دنیا میں ہماری سیر روحانی یہاں سے شروع ہوتی ہے گو گنا ہوں سے اور غفلتوں سے اور کوتاہیوں سے ایسے اعمال سے جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے انسان بچنے کی کوشش کرے اور تقویٰ کا ایک پہلو یا بڑا پہلو یہی ہے.اس کی تفصیل میں تو اس وقت میں نہیں جاؤں گا لیکن یہ کہنا یقیناً درست ہوگا کہ انسان کی سلامتی کے لئے یعنی خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہنے کے لئے اور غفلت کے نتیجہ خدا تعالیٰ کے قہر کے وارث ہونے سے بچنے کے لئے تقویٰ تعویذ کا کام دیتا ہے اور حفاظت کرتا ہے اور ہر قسم کے فتن اور

Page 821

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۰۱ خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء فسادات سے اور ہر قسم کی بداعمالیوں سے محفوظ رہنے کے لئے تقویٰ ایک مضبوط قلعہ کا کام دیتا ہے.جو تقویٰ کی چاردیواری کے اندر داخل ہو گیا وہ اس قسم کے فتنوں اور فسادوں اور بدعملیوں اور کوتاہیوں اور غفلتوں سے محفوظ ہو گیا اور تقویٰ کی باریک در باریک راہیں ہیں.انسان ، انسان کے لحاظ سے تقویٰ میں فرق ہے.بعض انسانوں کی استعدادیں موٹی موٹی ہیں بعض کی استعدادیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ باریکیوں میں جاتے ہیں اور زیادہ روحانی ترقیات کر سکتے ہیں.جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے کی قوت بھی دی اور تقویٰ کی باریک راہوں کی شناخت بھی عطا کی.تقویٰ کی یہ باریک راہیں ان کی روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خدّ و خال ظاہر کرنے والی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا تقویٰ کی اصل یہ ہے کہ وہ فتنہ و فساد اور ظلم اور نواہی میں مبتلا ہونے کے خطرہ سے حفاظت کا کام دیتا ہے اور جب انسان ہر پہلو سے متقی بن جائے یعنی کسی پہلو سے بھی کوئی گناہ اور گندگی اُس کے قریب نہ آئے تو چونکہ گندگی اور بدصورتی سے اُس نے خود کو محفوظ کر لیا اس لئے روحانی طور پر اُس کے جو نقوش اور خد و خال تھے وہ نمایاں ہو کر سامنے آگئے اور اُبھر آئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے متقیوں سے میں پیار کرتا ہوں اور قرآن کریم پر غور کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اللہ کے پیار کرنے کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنے انعامات اور اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نوازتا ہے.قرآنِ کریم نے ہمیں خود بتایا کہ متقی پر اللہ تعالیٰ کے کس قسم کے فضل نازل ہوتے ہیں کون سے انعام ہیں جو اسے دیئے جاتے ہیں کن رحمتوں سے اُنہیں نوازا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ (الانفال:۳۰).فرمایا کہ جو شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے مجھے پناہ بنا لیتے ہیں اور ڈھال بنا لیتے ہیں میں اُن لوگوں سے اس رنگ میں محبت کرتا ہوں یعنی اس طور پر میرے انعام اور رحمتیں اُن پر نازل ہوتی ہیں کہ اُن میں اور اُن کے غیر میں ایک امتیاز پیدا کیا جاتا ہے.مومن اور غیر مومن میں روحانی محسن کے لحاظ سے تو بہر حال فرق ہے لیکن ظاہر میں بھی وہ پہچانے جاتے ہیں اور دنیاوی لحاظ سے صاحب فراست انسان پہچان لیتا ہے کہ یہ شخص کس قسم کا ہے.اُن کے اخلاق میں ، اُن کے بات کرنے کے

Page 822

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۰۲ خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء طریق میں ، اُن کے تخاطب میں ، اُن کے سلوک میں اُن کے دل میں خالقِ خدا کے لئے جو پیار اور ہمدردی ہے وہ ظاہر ہو رہی ہوتی ہے اور ایک نمایاں فرق ہوتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جو ابھی زیر تربیت احمدی ہیں بوجہ اس کے کہ نئے نئے جوان ہوئے یا بوجہ اس کے کہ وہ احمدیت میں نئے نئے داخل ہوئے ہیں اُن میں بھی تھوڑی سی تربیت کے بعد اس رنگ کی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے کہ فوراً پتہ لگ جاتا ہے بعض دفعہ دوست اپنے ساتھ اپنے دوستوں کو لے آتے ہیں اور ایک دو فقروں میں ہی میں سمجھ جاتا ہوں کہ ان کو بہت سی تربیت کی ضرورت ہے یعنی ابھی احمدیت کی تربیت ، اسلام کی تربیت، ایمان کی تربیت کے حصول کی ابتدا انہوں نے نہیں کی گفتگو ہے، چلنے کا طریق ہے.چلنے کے طریق سے مجھے یاد آیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں شامل ہونے کے لئے دوڑتے ہوئے آتے دیکھ کر فرمایا الوَقَارَ الوَقَارَ کہ تمہاری چال میں ایک مومن کا وقار نہیں نظر آتا تو معلوم ہوا کہ مومن کی چال ایک غیر مومن کی چال سے امتیاز رکھتی ہے ان کے درمیان ایک فرقان پایا جاتا ہے.پھر مثال کے طور پر کپڑوں کی نگہداشت ہے.ٹھیک ہے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بہت سی کمزوریاں ہیں بہت سے مومنوں سے بھی کمزوریاں سرزد ہو جاتی ہیں لیکن ایک امتیاز ہے.اکثریت کو جب ہم دیکھتے ہیں تو جو مومن ہے وہ کپڑے کو اُس سے بہتر جوعمل صالح ہے اُس پر ترجیح نہیں دے گا اور وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ بي اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یہ آپ کا اُسوہ ہے کہ میری زندگی اور میرے رہن سہن میں تمہیں کوئی تکلف نظر نہیں آئے گا اور آپ نے دیکھا ہوگا اور یہ میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ جو احمدی ایسے ہوں جن میں یہ چھوٹی سی کمزوری ہو اس کو بھی دُور ہونا چاہیے کیونکہ اُس سے فرقان میں اور امتیاز میں فرق آتا ہے بعض لوگ ہوتے ہیں کہ کپڑا پہنا ہو گا اور مٹی پر بیٹھنے سے پر ہیز کریں گے.حالانکہ کئی دفعہ زمین پر بغیر کپڑا بچھائے بیٹھنا ثواب کا موجب بن جاتا ہے، یا اگر اُن کے کپڑوں پر کہیں مٹی لگ جائے تو فوراً جھاڑ پھونک شروع کر دیتے ہیں اور اپنے کپڑوں سے مٹی اڑانے لگ جاتے ہیں.جس چیز سے بنے ہیں اُسی سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں.بہر حال بعض دفعہ مٹی پر بیٹھنا بھی ثواب کا کام بن جاتا ہے ایک دفعہ مجھے یاد ہے سٹھیالی میں ہمارے احمدیوں کے دو گروہوں میں آپس کا

Page 823

خطبات ناصر جلد پنجم ٨٠٣ خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء اختلاف پیدا ہوا اور وہ نا معقول حد تک پہنچ رہا تھا.ہم وہاں گئے لمبا قصہ ہے مختصر کروں گا تو میں نے دونوں گروہوں کے لیڈروں کو کہا آؤ چلو میرے ساتھ اُن کے ساتھی ایک دوسرے کو غصہ دلانے کی باتیں کر کے بھڑکا رہے تھے اور وہ صلح کی طرف مائل نہیں ہو رہے تھے ، میں اُن کو باہر لے گیا.ایک کھیت میں ہم آرام سے بیٹھ گئے اور میرے دماغ کے کسی کو نہ میں بھی یہ خیال نہیں آیا کہ کپڑوں کو مٹی لگ جائے گی.زمین پر بیٹھ گئے اُن سے باتیں شروع کیں آدھ پون گھنٹہ میں آرام کے ساتھ اُن کی صلح ہوگئی ، کیونکہ اکیلے تھے اور اُن کو جوش دلانے والا کوئی نہیں تھا کپڑے کی صفائی ضروری ہے لیکن یہ سمجھنا کہ کپڑے کو صاف ستھرا رکھنا کہ مٹی بھی نہ لگے یہ اتنا بڑا ثواب ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی ثواب ہی نہیں ، یہ غلط ہے.جب تکلف بیچ میں آجائے گا تو کپڑے کی صفائی بھی گناہ بن جائے گی ، یعنی اس حد تک صفائی کہ مٹی لگی ہی نہ ہو کوئی داغ نہ لگا ہوا ہو یہ صحابہ کرام کی زندگیوں میں نظر آتا ہے کہ ایسا زمانہ بھی تھا کہ وہ کوئی کپڑا بھی نہیں بچھا سکتے تھے نماز کا وقت ایسی جگہ آ گیا ہے کہ مسجد نہیں جا سکتے وہیں زمین پر ہی نماز پڑھ لیتے تھے کیونکہ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.بڑی بے تکلف زندگی ہے جو اسلام نے ہمارے سامنے پیش کی ہے جو قر آنی ہدایت نے ہمیں بتائی ہے.پس جو شخص تقویٰ سے کام لیتا ہے یعنی جن برائیوں سے جن کمزوریوں سے اسلام نے روکا ہے اُن سے بچتا ہےاوران راہوں کو اختیار کرتا ہے.مثلاً استغفار کثرت سے کرنا دعا کثرت سے کرنا.خدا تعالیٰ سے دعائیں کثرت سے کرنا کہ خدا تعالیٰ ہر قسم کی بدی اور برائی سے محفوظ رکھے اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرقان کا سامان ایک امتیاز کا سامان پیدا کر دیتا ہے اور جو شخص اس قسم کا ہو کہ وہ ہر وقت چوکس رہ کے گناہوں سے بچنے والا اور اعمالِ صالحہ بجالانے والا اور مخلوق کی خدمت کرنے والا اور انسان سے ہمدردی کرنے والا ہے اس کی زندگی اور غیر کی زندگی میں تو زمین اور آسمان کا فرق ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دیکھو کتنا بڑا انعام میں تمہیں دوں گا.اگر تم عہد شریعت محمدیہ کو نبا ہو گے اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرو گے تو تم میں اور غیر میں زمین اور آسمان کا فرق پیدا کر دیا جائے گا اور سیئات کو ڈھانپ دیا جائے گا اور ڈھانپنے کے بھی دو معنی ہیں جس طرح استغفار

Page 824

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۰۴ خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء کے اندر آتا ہے کہ یا گناہ سرزد نہیں ہوگا یا بدنتائج سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھ لے گا.قرآن کریم نے مختلف انسانوں کے لئے مختلف معانی کئے ہیں.فرمایا اور نور دیا جائے گا.نور کے معنی ہیں کہ ہر کام میں تمہیں ایک بشاشت نورانی دی جائے گی اور علی وجہ البصیرت تم نیکی کے کام کرو گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہارے افعال میں نور ہو گا.تمہارے اقوال میں نور ہو گا.تمہارے قویٰ میں نور ہوگا، تمہارے حواس میں نور ہو گا.تم نور کامل بن جاؤ گے اور جن راہوں پر تم چلو گے وہ روشن اور چمکدار ہوں گی اور جن راہوں سے تم نے بچنا ہوگا اور جن سے خدا تعالیٰ نے شریعت محمدیہ میں بچنے کا حکم دیا ہے وہ اندھیرے ہوں گے.نور اور اندھیرے کا فرق تمہارے اور غیر کے درمیان ہو گا کہ تم روشن راہوں پر علی وجہ البصیرت بشاشت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کو حاصل کرنے میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ گے اور جو غیر ہیں اور خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور وہ اندھیروں میں بھٹکنے والے ہوں گے.اُن کو پتہ ہی نہیں ہو گا کہ کون سی راہ خدا تک لے جاتی اور کون سی راہ اُس کے دور کرنے والی ہے.یہ اُسی سلسلۂ مضامین کا حصہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی سے محبت کرتا ہے اور جو متقی نہیں ہے اُس سے پیار نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس عہد پر کامیابی کے ساتھ اور وفا کے ساتھ قائم رہنے والے سے محبت کرتا ہے.اُس عہد پر جس کے معنی قرآن کریم کے سمجھنے والوں نے شریعت محمدیہ کے کئے ہیں.پس جو احکام اوامر و نواہی قرآنِ کریم کی شریعت میں ہمیں بتائے گئے اگر ہم نے جو عہد بیعت کیا ہم نے جو یہ عہد کیا کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھیں گے اور اُس پر عمل کریں گے ہم نے جو یہ عہد کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ ہم اپنے لئے اسوۂ حسنہ بنائے رہیں گے.ہم نے جو یہ عہد کیا کہ ہم آپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں گے اور جن راہوں پر ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں پڑا ہم ان راہوں پر قدم نہیں ماریں گے اگر اس عہد کو ہم نبا ہیں گے اگر ہم خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کو اپنے لئے ڈھال بنائیں گے اور سلامتی کا اور بھٹکنے سے حفاظت کا ذریعہ اسے قرار دیں گے.اس کی انگلی پکڑیں گے تمثیلی زبان ہے ٹھیک ہے لیکن تمثیلی زبان کے بغیر ہم سمجھ نہیں سکتے ) ہم اُس سے یہ عاجزانہ دعائیں کریں گے

Page 825

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۰۵ خطبہ جمعہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء کہ وہ خود ہمارا رہبر بنے اور اگر تقویٰ کی باریک راہوں کو اختیار کر کے اپنے روحانی وجود کے حسن کے نقوش ابھاریں گے تو اللہ تعالیٰ ہم میں اور غیر میں فرق کر دے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہم میں اور غیر میں ایک فرق کرے گا اس طرح ہم سے پیار کرے گا تو ہم سے غلطیاں یا سرزد نہیں ہوں گی یا ہمیں تو بہ اور استغفار کے ساتھ ان غلطیوں کی معافی کی توفیق ملے گی اور اللہ تعالیٰ نیکیوں کی راہوں کو ہمارے لئے منور کر دے گا اور ہمارے قومی کو اور ہماری طاقتوں کو اور ہماری استعدادوں کو یہ عادت پڑ جائے گی کہ صرف انہی راہوں پر وہ چلیں جن راہوں کو اللہ تعالیٰ کے نور نے اُس کی رحمت کے ساتھ منور کیا ہوا ہے.یہ وہ امتیاز ہے، یہ وہ فرقان ہے جس کے نتیجہ میں احمدیت کے ذریعہ انسانوں کے دل جیتے جاتے رہے اور جیتے جائیں گے.انشاء اللہ تعالی.یہ وہ ذمہ داری ہے جو آپ پر ڈالی گئی ہے.اس کے بغیر اس دعوی میں آپ سچے نہیں ہو سکتے کہ ہماری زندگیاں نوع انسانی کے دلوں کو جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے ہیں.یہ ہماری زندگی کا مقصد ہے اس لئے جو خدا نے کہا کہ عہدوں کو پورا کرو اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرو تم میں اور غیر میں ایک امتیاز ایک فرقان پیدا کیا جائے گا اور تمہاری کمزوریوں کو اُن ہر دو معنی میں جو میں نے بتائے ڈھانپ دیا جائے گا اور نور کے سامان تمہارے لئے پیدا کئے جائیں گے.یہ امتیاز ہے.یہ امتیاز اگر آپ پیدا کر لیں تو کسی کو کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں رہے گی ، ہر شخص یہ سمجھے گا کہ غیروں میں اور اُن میں فرق ہے اور ہر شخص یہ سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ کے نور کی طرف یہ قوم لے جانے والی ہے اس لئے تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى (المآئدۃ : ٣) کے مطابق اپنے نفوس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے ماحول کی اصلاح بھی کرو اور اُسے نورانی بنانے کی کوشش کرتے رہو، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.(روز نامه الفضل ربوده یکم مارچ ۱۹۷۵ صفحه ۲ تا ۵)

Page 826

Page 827

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۰۷ خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۴ء نجات کا حسین تصور اور اس کے حصول کے ذرائع اسلام نے پیش کئے ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء بمقام جلسہ گاہ مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسان کی طرف یوں تو ہزاروں بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ پیغمبر، نبی اور رسول آئے جنہوں نے اپنے اپنے وقت کے تقاضوں کو پورا کیا اور ملک ملک کے حالات کے مطابق وقت وقت کی انسانی استعداد کے مد نظر انسان کے لئے خوشحالی کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب کچھ ان انبیاء پر ایمان کے بعد میسر آیا اور اب بعثت نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بعد ایمان کا لفظ اس جگہ میں بطور اسم استعمال کر رہا ہوں.بطور مصدر استعمال نہیں کر رہا.مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ عربی زبان میں ایمان کا لفظ جب بطور اسم استعمال ہو تو اس کے معنی ہیں وہ شریعت جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی.گویا ایمان ، شریعت محمدیہ کا دوسرا نام ہے.اس کامل اور مکمل اور ابدی شریعت کے بعد جو قیامت تک قائم رہنے والی ہے نجات کا تعلق ”ایمان“ سے وابستہ ہے.پہلی شریعتیں منسوخ ہو گئیں کیونکہ اس کامل شریعت اور مکمل ہدایت کے بعد انسان کے لئے پہلی ہدایتوں کی ضرورت باقی نہیں رہی.اب نجات ایمان سے ، شریعت محمدیہ سے وابستہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نجات کہتے کسے ہیں؟ جہاں تک پہلے مذاہب کا تعلق ہے.اُن

Page 828

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۰۸ خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۴ء کی شریعتیں محترف و مبدل ہو گئیں، انسانی ہاتھ نے اُن میں ملاوٹ کر دی.اس لئے مذہب کے ہر پہلو پر اس تحریف کا اثر پڑا مثلاً ایک مذہب نے یہ کہا کہ نجات وابستہ ہے حضرت مسیح علیہ السلام کے کفارہ پر ایمان لانے کے ساتھ ، حالانکہ وہ وحی جو حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی اور وہ شریعت جس کے قیام کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے یعنی شریعت موسویہ، اس میں تو کہیں بھی نجات کو مسیح علیہ السلام کی صلیب کے ساتھ وابستہ نہیں سمجھا گیا تھا لیکن چونکہ انسانی ہاتھ نے تبدیلیاں کر دیں اور غلط باتیں بیچ میں ملا دیں اس لئے اس ملاوٹ اور تحریف کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ نجات کو مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا لیکن نجات کے معنے اُن کی نظر سے اوجھل ہیں اور نجات کی حقیقت سے انہیں آگا ہی نہیں.ہم نے عیسائی لٹریچر کا بڑا مطالعہ کیا ہے.ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وہ اس بات کو سمجھتے ہی نہیں کہ نجات ہے کس چیز کا نام مگر یہ صرف شریعت محمدیہ کا کمال ہے کہ نجات کی تعریف بھی ہمیں ایمان نے سکھائی.نجات کے معنے بھی ہمیں شریعت محمدیہ نے سکھائے اور نجات کے حصول کے ذرائع بھی ہمیں شریعت محمدیہ نے بتائے چنانچہ شریعت محمدیہ کی رُو سے نجات کے معنی ہیں وہ خوشحالی جس کا تعلق ابدی مسرت کے ساتھ ہوتا ہے.گویا نجات کے معنے انسان کی وہ خوشحالی اور وہ لذت اور وہ سرور ہے جو اس کی تمام قوتوں کی سیری کے بعد اُسے حاصل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کے مادی اور جسمانی حقوق قائم کئے ہیں وہاں اُس نے انسان کے ذہنی اور علمی حقوق بھی قائم کئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو ذہنی قوتیں عطا کیں اور اُن کی سیری کے سامان پیدا کئے.اُن کی کمال نشو و نما کے سامان پیدا کئے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو اخلاقی طاقتیں اور استعداد میں عطا کیں اور اُن کی سیری اور کامل نشو ونما کے سامان پیدا کئے شریعت محمدیہ نے اس کی طرف بھی رہنمائی کی.اللہ تعالیٰ نے انسان کو چوتھی قسم کی طاقتیں اور قوتیں دیں اور وہ روحانی طاقتیں اور قوتیں ہیں.روحانی طاقتوں اور قوتوں کی سیری اور کمال نشو و نما کے لئے اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کئے اور شریعت محمدیہ نے وہ راہیں بتائیں جن پر چل کر انسان دنیوی خوشحالی اور ابدی لذتیں اور سرور بھی حاصل کر سکتا ہے.نہ صرف روحانی سرور بلکہ بقیہ طاقتوں سے تعلق رکھنے والی اور بقیہ استعدادوں سے وابستہ جو

Page 829

خطبات ناصر جلد پنجم 1+9 خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۴ء خوشحالیاں اور جائز لذتیں اور سرور ہیں اور جن کے متعلق خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ میرے بندے ان کو حاصل کریں ، اُن کی طرف بھی اسلام نے رہنمائی کی اور اُن کے اصول کے لئے وسیع سامان بھی پیدا کئے.یہ ایک لمبا مضمون ہے جس کو مختصر طور پر یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی ابدی خوشحالی کا تعلق اللہ تعالیٰ کی معرفت کے ساتھ ہے جب انسان کو اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے یعنی اُسے یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس قسم کی ہستی ہے اور وہ کن صفات کی مالک ہے قرآن کریم نے صفات الہیہ کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت اس کی مخلوق کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے.اور کس طرح اُس کی وسیع رحمت ہر چیز پر حاوی ہے کس طرح اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ہر حصہ کے حقوق کی تعیین کرتا اور اُن کی حفاظت کرتا ہے اور کس طرح اُس نے انسان کے علاوہ اپنی مخلوق کو انسان کا خادم بنا رکھا ہے.کس طرح اللہ تعالیٰ کی حمتیں انسان پر نازل ہوتیں اور کس طرح ان رحمتوں کے بعد انسان اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے آشنا ہوتا ہے کس طرح اس معرفت کے بعد انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اس کی عظمت کو دیکھ کر انسان کا دل لرزاں و ترساں ہو کر اللہ کی طرف جھکتا ہے، اس خوف سے نہیں کہ وہ کوئی ڈراؤنی چیز ہے بلکہ اس خوف سے کہ اتنی عظمتوں والی ہستی اگر ناراض ہو گئی تو انسان کا باقی کچھ نہیں رہے گا.پس نجات کا تعلق اللہ تعالیٰ کی معرفت سے وابستہ ہے اور یہی معرفت ہے جس کے نتیجہ میں محبت اور خشیت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا ہوتا ہے.اس زندہ تعلق کے نتیجہ میں انسان کو اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی اتنی خوشیاں مل جاتی ہیں کہ اسے کسی اور چیز کی کوئی احتیاج باقی نہیں رہتی اور نہ کسی چیز کی کمی کا کوئی احساس باقی رہتا ہے.پس اسلام نے نجات کے حقیقی معنوں کو کھول کر بیان کیا اور بتایا کہ انسان کو حقیقی خوشی اور خوشحالی.ابدی لذتیں اور سرور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے نتیجہ میں ملتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت کے نتیجہ میں خشیت اللہ اور محبت الہیہ پیدا ہوتی ہے.محبت خود ایک بڑا سرور ہے.جولوگ روحانی محبت کا تجربہ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس میں کتنا عظیم سرور ہے.اس کے مقابلہ میں مادی دنیا سے جو لذتیں تعلق رکھتی ہیں وہ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں.مثلاً پسندیدہ کھانا

Page 830

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۱۰ خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۴ء ہو، بھوک لگی ہوئی ہو انسان کی طاقتیں فعّال ہونے کی وجہ سے مزید طاقتوں کا حصول چاہتی ہوں اور وہ شوق سے کھانا کھا رہا ہو تو یہ بھی ایک لذت ہے لیکن وہ لذت جو خدا تعالیٰ کے پیار سے انسان حاصل کرتا ہے اس کے مقابلے میں دنیوی کھانے پینے کی لذت کوئی چیز ہی نہیں.غرض نجات اس خوشحالی کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بعد خشیت اللہ اور محبت الہی کے پیدا ہونے کے نتیجہ میں اور خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق کی بنا ( پر ) انسان کو حاصل ہوتی ہے اسی خوشحالی اور رضائے الہی کو ہم جنت کہتے ہیں.قرآن کریم نے بتایا ہے کہ انسان کے لئے اس دنیا میں بھی جنت کے سامان پیدا کئے گئے ہیں اور مرنے کے بعد یعنی اس دنیا سے دوسری دنیا کی طرف منتقل ہو جانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی رضا کی جنتوں میں انہیں داخل کرے گا.یہی حقیقی نجات ہے.اب یہ بات کہ خدا تعالیٰ کا پیارا انسان کو حاصل ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں ہر قسم کی خوشحالی کے سامان پیدا ہو جائیں.یہ کسی اور کے مجاہدہ اور قربانی کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی.یہ خود انسان کے اپنے عمل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.کہ وہ خدا کی راہ میں انتہائی کوشش کر کے.خدا کے سوا کسی اور کی طرف ذرہ بھر میلان نہ ہو.دل میں غیر اللہ کے ہر نقش اور ہر دُوئی کو مٹا کر خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک سچا اور زندہ تعلق قائم کرے.خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق کے نتیجہ میں جو خوشحالی پیدا ہوتی ہے، وہ اس دنیا میں بھی جنت کے سامان پیدا کر دیتی ہے اور اُخروی جنتوں کا بھی انسان کو وارث بنادیتی ہے.یہ ہے وہ حقیقی نجات اور اس کا حسین تصور جو اسلام نے پیش کیا ہے اور یہی وہ نجات ہے جس کے حصول کے ذرائع اسلام نے بیان کئے ہیں اور یہی وہ نجات ہے جس کی حقانیت کی خدا تعالیٰ کے کروڑوں محبوب بندوں نے پچھلے چودہ سو سال میں گواہی دی.اللہ تعالیٰ کے پیار کو انہوں نے حاصل کیا.اللہ تعالیٰ کی اس شیریں آواز کو انہوں نے سنا جس کے مقابلہ میں دنیا کی ہر آواز بھری معلوم ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کے حسن کے جلوے دیکھے تو انسان کو معلوم ہوا کہ حسن کا اصل سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.اگر ہمیں اور کہیں خوبصورتی نظر آتی ہے.مثلاً گلاب کے پھول میں یا مثلاً برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑیوں کی چوٹیوں کی طرف ہم دیکھتے ہیں تو

Page 831

خطبات ناصر جلد پنجم خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۴ء وہاں خوبصورتی نظر آتی ہے یہ ساری چیزیں تو ذیلی ہیں یہ تو ایک ہلکا سا جلوہ ہے خدا تعالیٰ کی صفات کا.حسن کا اصل منبع اور سر چشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.دنیا کی چیزیں جو ہماری خدمت میں لگی ہوئی ہیں اور کسی نہ کسی رنگ میں دنیا کی ساری مخلوقات انسان کی خدمت کر رہی ہیں.ان کا ہم پر احسان نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اُس نے اپنے فضل سے ایک طرف ان کو خادم بنایا.دوسری طرف ہمیں خدمت لینے کی طاقتیں عطا کیں اور تیسری طرف اس نے ہمیں یہ توفیق دی کہ ہم اپنی طاقتوں کا صحیح استعمال کر کے خدا تعالی کی پیدا کردہ مخلوقات سے خدمت لے سکیں.پس نجات کا مدار ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت پر.اس کے بغیر نجات حاصل ہی نہیں ہوسکتی.خدا تعالیٰ کی معرفت کے سوانجات کے حصول کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے.یہی ایک ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور خشیت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا ہوتا ہے.اسلامی شریعت کی یہی غرض ہے.یوں تو ہر مذہب کی یہی غرض ہوتی رہی ہے لیکن جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں اسلام سے پہلے کے مذاہب اپنے وقت اور زمانہ میں ایک خاص حلقہ میں اور انسانوں کی محدود بستیوں میں اس مقصد کو پورا کرتے رہے کیونکہ گذشتہ انبیاء علیہم السلام زمانی اور مکانی لحاظ سے محدود ذمہ داریاں لے کر آتے تھے.انسان نے بہت سی تدریجی منازل طے کر کے اپنی استعدادوں کو جلا دینی تھی.پس انسانوں کی استعدادوں کے مطابق نجات کے سامان پیدا کئے گئے لیکن محمدی شریعت کے نزول کے بعد دنیا نے رَحمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ کا نظارہ دیکھا.شریعت محمدیہ کے فیضان کا دائرہ قیامت تک وسیع ہو گیا.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ بنایا.آپ سے پہلے کسی اور نبی کا یہ کام نہیں تھا.اس سلسلہ میں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک چھوٹا سا اقتباس پڑھ کر سناتا ہوں.آپ فرماتے ہیں :.مذہب کی اصلی غرض اُس بچے خدا کا پہچاننا ہے جس نے اس تمام عالم کو پیدا کیا ہے اور اس کی محبت میں اس مقام تک پہنچنا ہے جو غیر کی محبت کو جلا دیتا ہے اور اس کی مخلوق سے ہمدردی کرنا ہے اور حقیقی پاکیزگی کا جامہ پہننا ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ غرض اس زمانہ

Page 832

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۱۲ خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۷۴ء میں بالائے طاق ہے اور اکثر لوگ دہر یہ مذہب کی کسی شاخ کو اپنے ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں اور خدا تعالیٰ کی شناخت بہت کم ہو گئی ہے اسی وجہ سے زمین پر دن بدن گناہ کرنے کی دلیری بڑھتی جاتی ہے کیونکہ یہ بدیہی بات ہے کہ جس چیز کی شناخت نہ ہو نہ اس کا قدر دل میں ہوتا ہے اور نہ اس کی محبت ہوتی ہے اور نہ اس کا خوف ہوتا ہے.تمام اقسام خوف و محبت اور قدر دانی کے شناخت کے بعد پیدا ہوتے ہیں.پس اس سے ظاہر ہے کہ آج کل دنیا میں گناہ کی کثرت بوجہ کی معرفت ہے.اور سچے مذہب کی نشانیوں میں سے یہ ایک عظیم الشان نشانی ہے کہ خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کی پہچان کے وسائل بہت سے اس میں موجود ہوں تا انسان گناہ سے رُک سکے اور تا وہ خدا تعالیٰ کے حسن و جمال پر اطلاع پاکر کامل محبت اور عشق کا حصہ لیوے، اور تا وہ قطع تعلق کی حالت کو جہنم سے زیادہ سمجھے.یہ سچی بات ہے کہ گناہ سے بچنا اور خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو جانا انسان کے لئے ایک عظیم الشان مقصود ہے اور یہی وہ راحت حقیقی ہے جس کو ہم بہشتی زندگی سے تعبیر کر سکتے ہیں.تمام خواہشیں جو خدا کی رضامندی کے مخالف ہیں دوزخ کی آگ ہیں اور ان خواہشوں کی پیروی میں عمر بسر کرنا ایک جہنمی زندگی ہے مگر اس جگہ سوال یہ ہے کہ اس جہنمی زندگی سے نجات کیونکر حاصل ہو؟ اس کے جواب میں جو علم خدا نے مجھے دیا ہے وہ یہی ہے کہ اس آتش خانہ سے نجات ایسی معرفت الہی پر موقوف ہے جو حقیقی اور کامل ہو.کیونکہ انسانی جذبات جو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں وہ ایک کامل درجہ کا سیلاب ہے جو ایمان کو تباہ کرنے کے لئے بڑے زور سے بہ رہا ہے.اور کامل کا تدارک بجز کامل کے غیر ممکن ہے.پس اسی وجہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک کامل معرفت کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ فضل اور رحمت سے ہم سب کو اس کامل معرفت سے حصہ کاملہ عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه یکم فروری ۱۹۷۵ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 833

۸۱۳ حوالہ جات جلد پنجم حوالہ جات الكُفْرُ مِلَةٌ وَاحِدَةٌ، انوار العلوم جلد ۱۹ صفحه ۵۷۳،۵۷۲ ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸۲ ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۶،۲۵۵ ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۷ تا ۲۶۱ ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۴ تا ۴۶۷ ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۸۸ صفحہ نمبر ۲۹۳ ۳۴۵ ۳۴۵ ۳۴۶ ۳۴۸ ۴۱۷ ۵۸۸ ۵۸۹ ۵۸۹ ۵۸۹ ۶۳۳ ۶۶۰ ۶۶۸ ۸۱۲ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۷ ۱۷۸ ملفوظات جلد ۴ صفحه ۶۰ ملفوظات جلد ۴ صفحه ۶۰ ملفوظات جلد ۴ صفحه ۶۱،۶۰ ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۴۶ تا ۶۴۹ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۵۴، ۲۵۵ حاشیه اعجاز اصیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۶۵ تا ۱۶۹ ترجمه از مرتب مطبوعه تفسیر سورۃ فاتحه صفحه ۲۲۳ لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۴۹،۱۴۸ خطبات ناصر جلد پنجم نمبر شمار 1 ۶ ۹ 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴

Page 834

Page 835

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۱۵ خطبات جمعہ فہرست خطبات جمعہ جو حضور انور نے ارشاد نہیں فرمائے.یا ارشاد فرمائے لیکن متن دستیاب نہیں ہوا.یا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشادفرمایا یا نہیں.نمبر شمار وہ خطبات جو جلد میں شامل نہیں اس کی وجہ تاریخ خطبہ حوالہ ا حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۲ جنوری ۱۹۷۳ء الفضل ربوه ۱۴ جنوری ۱۹۷۳ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲ فروری ۱۹۷۳ء الفضل ربوه ۴ فروری ۱۹۷۳ ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۳ فروری ۱۹۷۳ء الفضل ربوه ۲۵ فروری ۱۹۷۳ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۹ / مارچ ۱۹۷۳ء | الفضل ربوہ ۱۱ / مارچ ۱۹۷۳ء صفحہ ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱/۲۷ پریل ۱۹۷۳ء الفضل ربوہ ۲۹ اپریل ۱۹۷۳ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۸ جون ۱۹۷۳ء | الفضل ربوه ۱۰ / جون ۱۹۷۳ ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۵ جون ۱۹۷۳ء الفضل ربوہ ۷ ارجون ۱۹۷۳ء صفحہ ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۷اراگست ۱۹۷۳ء الفضل ربوه ۱۹ / اگست ۱۹۷۳ صفحه ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۴ اگست ۱۹۷۳ء الفضل ربوه ۲۶ / اگست ۱۹۷۳ صفحه ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۳۱ / اگست ۱۹۷۳ء | الفضل ربوہ ۲ ستمبر ۱۹۷۳ء صفحه ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۷ ستمبر ۱۹۷۳ء الفضل ربو ۹۰ رستمبر ۱۹۷۳ صفحه ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۴ ستمبر ۱۹۷۳ ء الفضل ربوہ ۱۶ رستمبر ۱۹۷۳ء صفحہ ۱ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۱ ستمبر ۱۹۷۳ ء الفضل ربوه ۲۳؍ ستمبر ۱۹۷۳ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۲ اکتوبر ۱۹۷۳ء الفضل ربوه ۱۴ / اکتوبر ۱۹۷۳ صفحه ۱ ۱۵ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۶/ نومبر ۱۹۷۳ء الفضل ربوه ۱۸/ نومبر ۱۹۷۳ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۴ جنوری ۱۹۷۴ ء الفضل ربوه ۸ /جنوری ۱۹۷۴ ء صفحه ۱ ۱۷ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۱ ؍ جنوری ۱۹۷۴ء الفضل ربوه ۱۴ جنوری ۱۹۷۴ ء صفحه ۱ ۱۸ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا یکم مارچ ۱۹۷۴ ء الفضل ربوه ۳ مارچ ۱۹۷۴ صفحه ۱ ۹ ۱۰ ۱۱ ± ۱۴ 17

Page 836

خطبات ناصر جلد پنجم ۸۱۶ نمبر شمار وہ خطبات جو جلد میں شامل نہیں اس کی وجہ تاریخ خطبہ ۲۲ ۲۳ حوالہ خطبات جمعہ ۱۹ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۲ مارچ ۱۹۷۴ء الفضل ربوه ۲۶ مارچ ۱۹۷۴ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۶ اپریل ۱۹۷۴ء الفضل ربوه ۲۸ را پریل ۱۹۷۴ء صفحه ۱ ۲۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۲؍ جولائی ۱۹۷۴ء الفضل ربوہ ۱۳ / جولائی ۱۹۷۴ء صفحہ ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ور اگست ۱۹۷۴ء الفضل ربوه ۱۰ار اگست ۱۹۷۴ ، صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۳ اگست ۱۹۷۴ء الفضل ربوه ۲۴ راگست ۱۹۷۴ صفحه ۱ ۲۴ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۳۰ اگست ۱۹۷۴ء الفضل ربوه ۳۱ / اگست ۱۹۷۴ ، صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۷ ستمبر ۱۹۷۴ء الفضل ربوه ۲۸ ستمبر ۱۹۷۴ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۹ نومبر ۱۹۷۴ء الفضل ربوه ۳۰ نومبر ۱۹۷۴ء صفحه ۱ ۲۷ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ر دسمبر ۱۹۷۴ ء الفضل ربوہ ۷ / دسمبر ۱۹۷۴ء صفحہ ۱ ۲۸ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۳ دسمبر ۱۹۷۴ء | الفضل ربوه ۱۴ ؍ دسمبر ۱۹۷۴ء صفحه ۱ ۲۹ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۰ دسمبر ۱۹۷۴ء | الفضل ربوه ۲۱ / دسمبر ۱۹۷۴ء صفحه ۱ ۲۵

Page 836