Khutbat-eNasir Vol 4

Khutbat-eNasir Vol 4

خطباتِ ناصر (جلد4۔ 1972ء)

Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات ناصر خطبات جمعہ از جنوری ۱۹۷۲ء تا دسمبر ۱۹۷۲ء فرمودہ سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جلد چهارم

Page 2

הוד - ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خطبات ناصر خطبات جمعہ ، خطبات عیدین، خطبات نکاح ار شاد فرمودہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی (جلد چہارم) Khutbaat-e-Nasir - Volume 4 Friday, Eid and Nikah Sermons delivered by Hazrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul-Masih III, Allah have mercy on him.may (Complete Set Volume 1-10) First edition published between 2005-2009 Present revised edition published in the UK, 2023 © Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in Turkey at: For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-701-3 (Vol.1-10)

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الکریم عرض حال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ خطبات جمعہ و عیدین اور خطبات نکاح کچھ عرصہ قبل شائع کئے گئے تھے.یہ مجموعہ دس جلدوں پر مشتمل تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن کے دوبارہ شائع کرنے کی درخواست کی گئی اور عرض کیا گیا بعض خطبات ایسے ہیں جو قبل ازیں شامل اشاعت نہیں ہو سکے تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے ایڈیشن کی اجازت فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ جو خطبات پہلے شامل اشاعت نہیں ہو سکے ان کو بھی شائع کر دیا جائے.تعمیل ارشاد میں میٹر ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا چنانچہ ۵۰ خطبات دستیاب ہوئے جو ہے مجموعہ میں شامل نہیں ہیں.اسی طرح بعض خطبات کا خلاصہ شائع ہوا اور اب ان کا مکمل متن مل گیا ہے ان خطبات کو زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ درج کر دیا گیا.نیز آیات قرآنیہ کے حوالہ جات متن میں دیئے گئے اور خطبات کے مآخذ کا خطبہ کے آخر پر حوالہ درج کر دیا گیا ہے اور خطبات میں درج احادیث اور عربی تفاسیر کے حوالہ جات کو کتاب کے آخر پر درج کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.اس کی تیاری میں جن احباب کو شریک کار ہو کر خدمت کا موقع میسر ہوا اور سعادت پائی.اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف اپریل ۲۰۲۳ء

Page 4

Page 5

||| بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ میں لفظ سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ کی چوتھی جلد پیش خدمت ہے.یہ جلد ۱۹۷۲ء کے فرمودہ ۴۳ خطبات جمعہ پر مشتمل ہے جن میں سے تین خطبات پہلی دفعہ اشاعت پذیر ہور ہے ہیں.جن مقدس وجودوں کو خدائے قادر مقام خلافت پر فائز کرنے کے لئے منتخب فرماتا ہے انہیں اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے نوازتا ہے.ان کی زبانِ مبارک سے حقائق و معارف اور دقائق و لطائف کے دریا بہا دیتا ہے.اس جلد میں مندرجہ ذیل خطبات جماعتی نقطۂ نگاہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں.۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس صحت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا.”ربوہ کا ہر شہری روزانہ ورزش کیا کرے...سب سے اچھی اور سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ کی جانے والی ورزش تو سیر ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت بھی ہے.اس لئے ربوہ کے دوست روزانہ سیر کے لئے چاروں طرف نکل جایا کریں.ایک ہفتہ کے اندراندر مجلس انتظامیہ یا جسے میں نے ”مجلس صحت ربوہ کا نام دیا ہے وہ بن جانی چاہیے اور اس کے اراکین کو

Page 6

IV سر جوڑ کر ایک ابتدائی سکیم بنا دینی چاہیے.اگر آپ کو ( یعنی اراکین مجلس کو ) ضرورت ہو تو مجھے بھی 66 ساتھ لے جائیں اور ساری Open Places (اوپن پلیسز دکھا ئیں.“ ۲ ۱۰ مارچ ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کی اہمیت اور برکات پر عظیم الشان تاریخی خطبہ ارشاد فرما یا حضور نے فرمایا:.بڑی سہولت سے انتخاب عمل میں آیا اور جس کے نتیجہ میں خلافت کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی.میرے تو وہم و گمان میں بھی کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے اتنی بھاری ذمہ داری کے نیچے رکھے گا جو کچل دینے والی ہے.لوگ اس کو مذاق سمجھتے ہیں مگر یہ اتنی بھاری ذمہ داری ہے کہ میں سمجھتا ہوں کوئی آدمی اپنے ہوش و حواس میں ایک لمحہ کے لئے بھی اس ذمہ داری کو اُٹھانے کی خواہش نہیں کر سکتا.اور جہاں تک میرا تعلق ہے.میں اُس خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر جس کی جھوٹی قسم کھانالعنتیوں کا کام ہے اس مسجد میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے بڑے پیار سے فرمایا:.وو يدَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ “ پس میں خلیفہ اس لئے نہیں ہوں کہ تم میں سے کسی گروہ نے مجھے منتخب کیا ہے.میں خلیفہ اس لئے ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے منتخب کیا اور خلیفہ بنایا اور پیار کے ان الفاظ سے یاد فرمایا ہے.غرض خلیفہ خدا ہی بنایا کرتا ہے.انسانوں کا یہ کام ہی نہیں اور جن کو خدا خلیفہ بناتا ہے وہ انسانوں کے کام پر تھوکتے بھی نہیں اور نہ اُن کی کوئی پرواہ کرتے ہیں.خلافت حقہ اصولی طور پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید سے پہچانی جاتی ہے.“ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ربوہ میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا ذکر.کرتے ہوئے فرمایا:.' آج ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء سے اس لئے بھی لبریز ہیں کہ اُس نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کے بہت سے دوستوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی اور انہوں نے اس مسجد کے لئے مال بھی دیا ، وقت بھی دیا، تو جہ بھی دی اور محنت بھی کی اور ساری جماعت نے دعائیں بھی کیں.جس کے نتیجہ

Page 7

V میں ہمیں ایک نئی اور بڑی اور اچھی مسجد مل گئی ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ - تاہم یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ پانچ دس سال تک یہی مسجد ہمارے لئے کافی رہے گی لیکن چونکہ سامنے جلسہ سالانہ کا میدان ہے.اس لئے امید ہے کہ کچھ وقت تک یہی مسجد ربوہ کی بڑی مسجد بنی رہے گی.پھر اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو اور مسجد میں بھی بنتی رہیں گی.“ ۴.۷ جولائی ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اشاعت قرآن کے ذکر پر اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا.آپ دعا کریں کہ اگلے پانچ سال میں امریکہ دس لاکھ قرآن کریم کا خریدار بن جائے اور اس طرح ہم اس کی آمد سے مزید قرآن کریم شائع کر کے افریقہ میں مفت تقسیم کروا دیں.پھر تو انشاء اللہ بہت کام ہو جائے گا.افریقہ کے بعض ملکوں میں فرانسیسی ترجمہ قرآن کریم کی بڑی مانگ ہے، اس کے لئے بھی دوست دعا کریں کہ جلدی تیار ہو جائے.دوست یا درکھیں میں پھر دُہرا دیتا ہوں کہ آپ کی ذمہ داری اشاعت ہدایت نہیں بلکہ تکمیل اشاعت ہدایت ہے اور یہ بڑی بھاری ذمہ داری ہے.“ ۵ ۱۸ اگست ۱۹۷۲ ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے امام پر بڑی سخت ذمہ داری ڈال دی ہے اسے لوگوں کی تربیت کے لئے کچھ نہ کچھ بیان کرنا پڑتا ہے.یہ بڑی سخت ذمہ داری ہے میری زندگی میں خلافت کے بعد ہفتے کے سات دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے سخت دن ہوتا ہے کیونکہ میرے مقام کے لحاظ سے کوئی ایسی بات منہ سے نہیں نکلنی چاہیے جو ٹھیک نہ ہو یا درست نہ ہو یا مفید نہ ہو یا ضروری نہ ہو یا پھر جماعتی تربیت اس کی محتاج نہ ہو.اس لئے مجھے بڑی استغفار کرنی پڑتی ہے.بڑی دعائیں کرنی پڑتی ہیں بڑا غور کرنا 66 پڑتا ہے.بڑا سوچنا پڑتا ہے اس لئے میرے لئے یہ دن بڑا سخت ہوتا ہے.“ ۲۵ اگست ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں اسلامی انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.جس وقت سرمایہ داری کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہو رہا تھا.اس وقت اشتراکیت کا انقلاب اپنی جوانی کے زمانہ میں داخل ہو رہا تھا.جس وقت اشتراکیت کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں

Page 8

VI داخل ہو رہا تھا.اس وقت چینی سوشلزم کا انقلاب اپنی جوانی میں داخل ہو رہا تھا اور انشاء اللہ اور اسی کے فضل سے اور جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں یہ ایک خاص سلسلہ ہے جو ایک زبردست الہی منصوبے کے تحت تیار کیا گیا ہے.اس لئے میں علی وجہ البصیرت اور پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ جس وقت چینی سوشلزم کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہور ہا ہوگا اسلام کا عظیم انقلاب اپنی جوانی میں داخل ہو رہا ہوگا.اس لئے ہماری جماعت پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں.“ ۷.یکم دسمبر ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.ایک کام آپ کو کرنا چاہیے اور وہ آپ کر سکتے ہیں وہ پانی کو ابال کر استعمال کرنا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ پانی ابال کر پئیں تو آپ ہمارے ملک کی آدھی بیماریوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں.میرا تو دل کرتا ہے کہ ثواب کی خاطر خود مثلاً الف محلے میں پندرہ بیس دن بلکہ مہینہ تک خدا تعالیٰ مجھے طاقت دے اور کچھ رضا کار میرے ساتھ تعاون کریں تو میں دیگوں میں پانی اُبال کر مختلف جگہوں پر رکھ دوں اور یہ ابلا ہوا پانی گھروں میں سپلائی کروں“ ۸ ۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے ایک عظیم الشان تمنا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.ایک لمبا عرصہ ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش پیدا کی کہ ایک ایسا بڑا ہال ہو جہاں لیکچروں کا انتظام کیا جا سکے اور جس میں ایک صد سامعین سما سکیں.آپ نے اس زمانے کی ضرورت کے مطابق فرمایا تھا.پھر ۱۹۴۵ء میں حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تحریک کی کہ ایک لاکھ سامعین کے بیٹھنے کے لئے انتظام کیا جائے اور آج خلیفہ اسیح الثالث تمہیں کہتا ہے کہ اس وقت ہمیں ایک ایسی جلسہ گاہ کی ضرورت ہے جس میں کم از کم دو اڑھائی لاکھ آدمی بیٹھ سکیں.سٹیڈیم کی شکل کی کوئی ایسی جلسہ گاہ بن جانی چاہیے جو ایام جلسہ میں دو اڑھائی لاکھ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے جلسہ گاہ اکٹھا کرنا پڑے گا بیچ میں پردے کا انتظام ہو جائے گا) کے لئے بیٹھے کا انتظام ہو جائے.یعنی سٹیڈیم کی طرز پر بنی ہوئی سیڑھیاں اور زمین پر کم از کم دو اڑھائی لاکھ نفوس کے بیٹھنے کی گنجائش ہو...اگلے دس سال کی ضرورتوں کو مد نظر رکھنا پڑے گا دس سال کے بعد خدا تعالیٰ جماعت کو یہ توفیق دے گا کہ اس وقت کی جماعت

Page 9

VII 66 اس سے بھی بڑا اسٹیڈیم بنالے گی.“ الغرض حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات جمعہ بھی ہر پہلو سے انسانیت کی ضرورت ہیں.ان میں خدا تعالیٰ کی خاطر ہر جہت سے ترقیات کے لئے قربانیوں اور کامل اطاعت کی تیاری کے سامان ہیں.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا طریق کار یہ تھا کہ حضور اپنی تقریر اور خطبہ کے لئے Notes ( نوٹس) تیار فرماتے تھے.حضور کے دست مبارک سے لکھے ہوئے چند خطبات کے نوٹس بطور تبرک اس جلد میں دیئے جارہے ہیں.۸ /نومبر ۲۰۰۶ء والسلام سید عبدالحی ناظر اشاعت

Page 10

Page 11

خطبات ناصر جلد چہارم نمبر شمار 1 3 ۶ IX فہرست خطبات جمعہ عنوان فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه وقف جدید کے قیام کی غرض انسان کی خدمت میں وسعت ہے ۷ /جنوری ۱۹۷۲ء 1 = 11 پاکستان کے احمدی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلائیں ۱۴ / جنوری ۱۹۷۲ ء | انعامات کا وارث بننے کے لئے جماعت اپنی قربانی کو انتہا تک پہنچا دے ۲۸ / جنوری ۱۹۷۲ء ۲۳ ہر مسلمان اپنی قوتوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچا دے ۴ رفروری ۱۹۷۲ء ٣١ اللہ تعالیٰ کی مدد انتہائی قربانی پیش کرنے کے بعد نازل ہوتی ہے ۱۸ فروری ۱۹۷۲ ء ۴۱ مالی قربانیوں کو کمال تک پہنچانے کی انتہائی کوشش کریں ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء ۵۷ L مومن کو قوی بھی ہونا چاہیے اور امین بھی ہونا چاہیے ۳ مارچ ۱۹۷۲ء اے ۹ 1.= ۱۲ خلافت حقہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے پہچانی جاتی ہے ۱۰/ مارچ ۱۹۷۲ء آپ کو ہمیشہ عاجزانہ را ہیں اختیار کرنی چاہئیں ۱۷/ مارچ ۱۹۷۲ء ۸۳ ۱۱۵ غلبہ اسلام کے لئے پوری ہمت اور اخلاص سے حصہ لیتے چلے جائیں ۲۴ مارچ ۱۹۷۲ء ۱۳۳ نئی مسجد کی عطا پر ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے لبریز ہیں ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء ۱۴۷ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو اُسی کی راہ میں خرچ کیا جائے ۱۴ ۱۷ اپریل ۱۹۷۲ء ۱۶۱ ا ۱۳ آج پاکستان میں قانون اور عوام کی حکومت کا سورج طلوع ہوا ۲۱ را پریل ۱۹۷۲ء ۱۷۵ زندگی میں محاسبہ نفس کے بغیر کامیابی کی راہیں نہیں کھل سکتیں ۲۸ اپریل ۱۹۷۲ء ۱۸۷ ۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبد اور رسول ہونے کے لحاظ سے درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے ۵ مئی ۱۹۷۲ء احمدی جماعتوں نے مالی قربانی کا نہایت شاندار نمونہ پیش کیا ۱۲ رمئی ۱۹۷۲ء ۱۴ 17 ۱۷ ہمیں عزم کر لینا چاہیے کہ ہمارا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء ۱۹۷ ۲۱۵ ۲۲۵

Page 12

خطبات ناصر جلد چہارم نمبر شمار عنوان X فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کامل، اعلیٰ اور حسین نمونہ ہے ۱۶ جون ۱۹۷۲ء ۲۳۷ ۱۹ وارشاد اصلاح و ارشاد اور تبلیغ و اشاعت کے کام میں تیزی پیدا کرنی چاہیے ۲۳ جون ۱۹۷۲ء ۲۴۵ ۲۰ ۲۱ ۲۲ } ۲۵ ۲۶ ۲۷ قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ دلی لگاؤ ہو اور اس کا اثر قبول کریں ۳۰/ جون ۱۹۷۲ء ۲۵۹ ہمارا مقصد قرآن کریم کی عظمت کو دُنیا میں دوبارہ قائم کرنا ہے ۷ جولائی ۱۹۷۲ء ۲۶۷ قرآن کریم انسان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے والا اور پرورش کرنے والا ہے ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء ۲۹۳ خدا کی رضا کے حصول کے لئے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دیں ۲۱ ؍ جولائی ۱۹۷۲ء ۳۰۵ ۲۴ فتنہ و فساد اسلامی شریعت اور فطرتِ صحیحہ کے سراسر خلاف ہے ۲۸ / جولائی ۱۹۷۲ء ۳۲۷ فتنہ و فساد انسان کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد بنا دیتا ہے ۱۱ اگست ۱۹۷۲ء ۳۳۳ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک سے فتنہ وفساد کو دور کر دے ۱۸ اگست ۱۹۷۲ء ۳۵۷ موجودہ انقلابی تحریکیں عظیم اسلامی انقلاب کی تمہید ہیں ۲۵ اگست ۱۹۷۲ء ۳۷۱ ۲۸ غلبہ اسلام کا خدائی وعدہ نشاۃ ثانیہ میں بھی پورا ہو کر رہے گا یکم ستمبر ۱۹۷۲ء ۳۸۵ ہمیں زندہ رہنے اور زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے ۸ ستمبر ۱۹۷۲ء ۴۰۷ استحکام پاکستان کے لئے دعائیں بھی کریں اور صدقات بھی دیں ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ء ۴۲۷ پاکستان کی بقا اور استحکام کے لئے خاص طور پر دعائیں کی جائیں ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء ۴۳۳ ۳۲ ایمان کی نشوونما کے بہت سے ذرائع رمضان المبارک میں موجود ہیں ۶ اکتوبر ۱۹۷۲ء ۴۴۵ روحانی انقلاب کا تسلسل آج بھی قائم ہے اور آئندہ بھی قائم رہے گا ۱۳ اکتوبر ۱۹۷۲ء ۴۵۹ ۳۴ رمضان میں الہی برکتوں کے حصول کے خاص سامان پیدا کئے گئے ہیں ۲۰/اکتوبر ۱۹۷۲ء ۴۶۹ ۳۵ تحریک جدید کے انتالیسویں ، انتیسویں اور آٹھویں سال کا اعلان ۳ نومبر ۱۹۷۲ء ۳۶ خدائی جماعتوں کے خلاف ہمیشہ ہی طرح طرح کی ایذا رسانی کی جاتی ہے ۱۰ نومبر ۱۹۷۲ء ۴۹۹ ۲۹ ۳۰ ٣١ ۳۳ ۳۷ سال کے وقفہ کے بعد اس سال ہمارا جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے ۱۷/ نومبر ۱۹۷۲ء امراض سے بچنے کے لئے انسان دوا بھی کرے اور خدا کے حضور بھی جھکے ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء ۴۸۱ ۵۱۵ ۵۲۷

Page 13

خطبات ناصر جلد چہارم نمبر شمار عنوان XI فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۳۹ ہر احمدی مرد اور عورت کے خُدا دا د قومی کی پوری طرح نشو ونما ہو تیم دسمبر ۱۹۷۲ء ۵۴۷ ۴۱ ۴۲ احباب جماعت لازمی چندوں کا دو تہائی ۳۱ دسمبر تک ضرور ادا کر دیں ۱۸ دسمبر ۱۹۷۲ء ۵۶۵ ہمارا ہر کام محبت الہیہ کو جذب کرنے والا اور الفت واخوت کو مضبوط بنانے والا ہو ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء ۵۷۷ ۵۹۱ جلسہ سالانہ خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں اور پیار کی شہادت ہے ۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ء جلسہ سالانہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار برکتوں سے نوازا ۲۹ / دسمبر ۱۹۷۲ء ۶۰۵

Page 14

Page 15

عيده و رسوله قل تبرکات نہیں.بشارت و لا اقول لكم عندي خزائن الله به علم غیب نہیں - و عنده معالم النب جنگ القول لكم رائی ولا اعلم الغيب دون الحمال الله ملک - ان النبع الا ما نوشتی الی يوحى إلى قل هل التوى الاعمى والبصير افلا تتفکرون الهام عبده - اللہ اور اسکی صفات کی کاملہ نامہ موقت رکھنیکی وجہ سے اسکی حضور انتہائی ها جهڑی اور نزنل اور اسکی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کو خواہ.پاس غیب کی کنجیاں میں اسکے قرب کی را ہیں دیکھا تو الل - (60) جر فرشتہ نہیں.پاکیزگی کا دعوی دار این طور نگر مردم بود و هو القاهر فوق عباده > و پر مل علم حفظة (62) اپنے بندوں پر غالب ہے.اور انکی پالیز کی کی حفاظت کے لئے نگران رسول بھیجتا رہتا ہے میں اسکی عرف سے پاکیزگی کے طریق اور تھا کے اصول سکھانے کے لئے معلم اعظم و پریم

Page 16

12.5.72 کی دبل خالص کا بیٹ و هولین بیشی پریم چشتی با ایشان 37, 41, 171 37, 75,028 33, 858 1,96,770 ان حالات میں زائد اسد السلام کا میرا لذا ۶ غرور ایمان والے اور منافق کہتے تھے کہ کہ C اس خلیفہ کی تالا کیا ہوں کیوجہ سے جماعت می شاشت گن رہی.بد دلی پیدا ہوگئی ہے 141,470 1964 میں کسی لیاقت کا دعویدار نہیں میں و مرد از این 55,000 گذشته بالی سنگاهی تھا بینک سے مشائرہ مائیں اور لوالد شته داروں پر پوچھا.تاخیره به خود نوشت که خداہم کی جنبه های میں کو تالا تقا میں اتاری W میچ مجری اور مھدی محمود کے وجود کی -3 اقتصادی طهران تاجر منمت نام بارآور اور تحرت حسنہ سے لدی ہوئی شاید تاثر ہوگا میرے رب کریم کی بے شمار چون ولائم اور اس عالی بهداد

Page 17

6,107 جمعه قلوهم و تشکر كتب في قلو الایمان و اید هم میروم آپ اس میں اسبات کی اور رات جو ہے کہ دہ انسان کی مچی طہارت اور پاکہ ترکی کبھی حاصل کیں بپا آسمانی خود کو جذب کردکھی جو آن عظیم نے بہت سے طریق بتاتے ہیں اور جب ہم اسوۂ نبی کو دیکھتے ہیں کو معلوم کرتے نوع که مادر حضان میں بہت سے طریق جذب نیروم الہی کے جمع کئے گئے مع جانا چاہئے کہ ایمان کی پرستی جنگ آسمانی علاه درد.اسکے شامل حال نہ ہو 226 ام مثال ایک درخت کی اسی ہے جسے الحال ما که کا پانی نمیشود و غار متاع اور اس قابل بنا دیتا ہے کہ آئے

Page 18

بجلی گھر کیں.ہر موجب اعلم - علم فرض آسمان سے اترنا اور اس درخت کو گھر اور بنا دیا ہے اور اس سے پہلے پھولوں کا حسن اسپید چڑھاتا ہے.ا.ینی ا ایمان کے پیچ کے لئے خشوع بھی عاجزانہ تنوع خواری 4 اس سے پیچھے کی صفات زئورنیا قائم وچیتی نہیں ، درخت کی ساری عمر تک ماه را همتان من به حالت از باده مصیر آتی ہے.جیسا کہ صاحب تجربه بانی خوبه جانتے ہیں 10 نفر باتوں کو چھوڑنے سے اجڑی دونیاں نکال دینے سے ایمان اپنا قرم میرم سبزہ نکالتا ہے.اتحضرت مسلم نے رمضان کے ایام میں لغو پاؤں اور لڑائی جھگڑے نے خاص طور پر ضلع دبایا 4 ماہ رمضان میں اپنے مالوں کے خدا کی راہ میں تیز ھواؤں سے بھی زیادہ

Page 19

سخاوت کے راہ مولی خوام از یک ها آورده اور نمونہ کام کیا ہے.اس سخاوت کے نتیجہ میں ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکلی ہوئی ہیں جو اسکو کسی قدر مضبوط کرتی مسلم ه مشهوات نفسانیہ کا مقابلہ کرین کے.سے مسروق دریا نیا ۶- امن آن منزل می دو سو حد و حیرت و زمانی نکلی میں خوب مضبوطی اور کئی پیدا ہو بھائی ہے 3 کثرت کونڈوں کا حکم 4 س ایسے نتیجہ ما انسان کے ذہن عہد میں اللہ سے کئے گئے یہ ریمان ارو بفرد کی کا مائیں حاضر ہو جاتی 4 اور اپنے عید اور امانتوں کی نام شاخوں کی حفاظت کرتے.ایمان کا درخت مضبوط تا پر کھڑا ہو جاتا ہے ۶ اور پھر پھل لان کے وقت ایک اور طاقت کا فیضان

Page 20

جربی پہلوان کی مرام مقابلہ اپر ہوتا ہے.اور یہ حسین بھوری کی نقاب اور ھتا وہ کرکے اور ثمر آور ہو جاتا ہے نجات کا مدد اللہ کی وحشت 45 افغانی عملی موضوع می ماه رمضان من اپنے عہدوں اور امانتوں کی نا) شاخوں کی تلاوت قرآن اور اسکے مضا مینی پر فکر اور توایر انکے حفاظت کر کے 1 عاجزانہ راہوں کا اختیار کرکے 2 اور منتظر مانہ دعاؤں سے ه لغو اور بیہودہ باتوں اور اعمال نے اجتناب کرکے ھ اپنے اعمال کو راہ خدا میں خرچ کرکے 0 فیض رب و دود کی حدیں کے اپنے درخت وجود کے غمر اور بناؤ اور خدا کی جنتوں میں ان شہرات اور پھلوں سے لذت شهوات انشائیہ سے ایک پاؤ اور طاقت حاصل کرو

Page 21

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ کے جنوری ۱۹۷۲ء فرمائی:.وقف جدید کے قیام کی غرض بنی نوع انسان کی خدمت میں وسعت ہے خطبہ جمعہ فرموده ۷ /جنوری ۱۹۷۲ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت وَمَا لَنَا الَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللهِ وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا أَذَيتُمُونَا وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ - (ابراهيم : ١٣ ) اور پھر فرمایا:.اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تین اصولی باتیں بیان فرمائی ہیں پہلی بات یہ کہ عقلاً صرف ایسی ہستی پر تو گل کیا جا سکتا ہے (کہ اس کے بغیر کوئی سہارا نہیں اور اس کی مدد سے کامیابی اور فلاح حاصل ہوگی اور عمل کے نتائج اچھے نکلیں گے ) جو ہمیں عمل کی راہیں بھی بتائے یعنی وہ شروع سے ہماری انگلی پکڑے.فرمایا وَ مَا لَنَا اَلا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللهِ وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنَا اللہ تعالیٰ جس نے ہماری انگلی پکڑی اور ہمیں ہدایت کی راہ یعنی صراط مستقیم پر چلایا اُس پر ہم کیسے تو گل نہ کریں.دوسری بات اس آیت میں یہ بتائی کہ مخالف اور دشمن کی ایذارسانی پر صبر اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ جب انسان نے کسی قادر ہستی کی انگلی پکڑی ہوئی ہو.اگر کوئی ایسا قابلِ اعتماد

Page 22

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۷ رجنوری ۱۹۷۲ء بھروسہ ہی نہ ہو تو انسان بے صبرا ہو جائے گا کیونکہ انتہائی دُکھوں میں ڈالے جانے کے بعد انتہائی تو گل وہی انسان کر سکتا ہے.(اور پھر تو گل ہی کے نتیجہ میں صبر پیدا ہوتا ہے) جسے یہ معلوم ہو اور جس کا یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ہستی ہے جس نے شروع ہی سے ہماری راہنمائی اور کامیابی کے سامان پیدا کر رکھے ہیں.ہماری استطاعت کے مطابق اور ہمارے ماحول کے لحاظ سے اور جو وقت کا تقاضا تھا اُسے سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہدایت کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.اگر ہم اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلیں گے، اُس کی ہدایتوں پر عمل کریں گے، تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم نا کام ہوں.غرض جب انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنی کمزوری اور اپنے گناہ اور اپنی بے مائیگی کا احساس انتہا ء تک پہنچتے ہوئے بھی ایک انتہائی قادر مطلق خدا پر اُس کا ایمان ہوتا ہے.اس کی صفات کی معرفت اُسے حاصل ہوتی ہے پھر جب وہ خدا کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتا ہے تو غیر کی قائم کردہ روکیں اُسے ڈراتی نہیں.وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا اذیتمونا میں مومنوں کی یہی صفت بتائی گئی ہے.اس آیت میں تیسری بات وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَحَمُونَ ہے.اس میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے نہ عقلاً نہ فطرتا ، نہ شرعاً اور نہ مشاہدہ کے لحاظ سے کسی اور پر تو گل ہو سکتا ہے.ایسا ہو ہی نہیں سکتا.حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ایک یہی صداقت ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا.تو کل اُسی پر کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہی حقیقی سہارا ہے.پس وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَمِنُونَ کی رو سے جس آدمی نے تو گل کرنا ہو خواہ وہ ایک فرد ہو یا قوم، جس کو بھی یہ احساس ہو کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا.مجھے کسی سہارے کی ضرورت ہے.تو اس کی عقل بھی اُسے یہی مشورہ دے گی ، اُس کی فطرت کا بھی یہی تقاضا ہوگا اور بنی نوع انسان کی تاریخ کا بھی یہی نتیجہ نکلے گا کہ ایک ہی ہستی ہے جس پر تو گل کیا جا سکتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے.ہم زندہ خدا کی زندہ تجلیات کو دیکھنے والے اور اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمیں بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ

Page 23

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ کے جنوری ۱۹۷۲ء نے قائم کیا ہے.جس طرح بحیثیت فرد اس نے ہمیں پیدا کیا ہے.اسی طرح بحیثیت جماعت اس نے ہمیں قائم کیا ہے اور جن اغراض کے لئے اُس نے ہمیں قائم کیا ہے اور جن را ہوں پر وہ ہمیں چلانا چاہتا تھا وہ وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنا کی رو سے واضح ہیں.اُس نے ہمیں اپنے راستے دکھائے ہیں.انسانی فطرت کے نئے تقاضے ہوتے ہیں.البتہ فطرت کے نئے تقاضے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انسانی فطرت ہی بدل گئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں جو کچھ رکھا گیا تھا، اس کا استعمال بدل گیا کیونکہ انسان کی فطرت میں تھا دوسرے آدمی سے ہمدردی کرنا اور اس کے دُکھوں کا مداوا کرنا.اگر دُنیا کے دُکھ بدل جائیں تو گویا فطرت کے تقاضے بھی بدل گئے.پھر ایک نئے طریقے پر ، نئے دُکھوں کا نیا علاج سوچنا پڑے گا.پھر وقت کا تقاضا ہے.بدلے ہوئے حالات میں ہماری قربانیاں اور ہمارے خدمت کے طریق بدل جاتے ہیں.تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اور اپنی محبوب جماعتوں کونئی راہیں بتا تا ہے اور انہیں نئے طریقے سکھاتا ہے.نئے نئے طریقوں سے انہیں ترقی پر ترقی دیتا چلا جاتا ہے.66 چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی ایک طریقہ یا ایک سبیل یا ایک راہ یا ایک صراط مستقیم وقف جدید کی شکل میں ہمارے سامنے رکھی ہے اور وقف جدید کی روح یہ ہے کہ وقف کی روح کے ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت میں وسعت پیدا کی جائے چنانچہ حضرت الصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دراصل یہی منشاء تھا کیونکہ اس سے پہلے جماعتی نظام تو موجود تھا.تحریک جدید بھی قائم تھی اور وہ اپنے کاموں میں لگی ہوئی تھی.جماعت کی ہر ایک تنظیم کا اپنا انتظام تھا اور وہ اپنے کام میں لگی ہوئی تھی لیکن میں نے جہاں تک غور کیا اور میں سمجھتا ہوں یہ میرا اپنا تجزیہ اور استدلال ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک طرف تو یہ بات تھی کہ تحریک جدید کا اپنا ایک طریق متعین ہو گیا ہے اور تحریک جدید کے کام کا تقاضا یہ ہے کہ بہت بڑے عالم ہوں ( خدا کرے کہ ہمیں ایسے عالم میں اور ہمیشہ ملتے رہیں) کیونکہ انہیں باہر بھی جانا پڑتا ہے.جہاں انہیں بڑے بڑے پادریوں سے جو اپنے آپ کو دنیا کا معلم سمجھتے ہیں.خواہ وہ معلم ہوں یا نہ ہوں بہر حال وہ اپنے آپ کو دنیا کا معلم سمجھتے ہیں ان کے ساتھ باتیں کرنی پڑتی ہیں.اس غرض کے لئے جامعہ احمد یہ قائم

Page 24

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ کے رجنوری ۱۹۷۲ء ہے.جامعہ احمدیہ کو بھی اپنی ترقی کے لئے سوچنا چاہیے اور بہتری کے لئے سامان کرنا چاہیے.جامعہ احمدیہ سے شاہد کرنے کے بعد پھر ہم ان کو ریفریشر کورسز کرواتے ہیں.پھر بعض کو زبانیں سکھاتے ہیں.اس کے اوپر بڑا خرچ آتا ہے.ہمیں اس وقت جتنی ضرورت ہے اس کے مطابق ہمارے پاس وسائل نہیں.ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں حالانکہ کام بڑھ گیا ہے.مبلغین کے علاوہ ہمارے پاس پاکستان میں جو شاہد اور معلم ہیں جو پرانے اصلاح کرنے والے ہیں وہ بھی اسی طرح بڑے پایہ کے ہونے چاہئیں.یہ سارے اس پایہ کے نہیں جس پایہ کے ان کو ہونا چاہیے.اس لئے انہیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اعلیٰ پایہ کے مربیان و معلمین بن جائیں اور وہ بن سکتے ہیں اگر چہ جامعہ احمدیہ کی پڑھائی کے نتیجہ میں تو نہیں بنتے لیکن وہ اپنی دُعاؤں کے نتیجہ میں پایہ کے مبلغ ضرور بن سکتے ہیں کیونکہ دعاؤں کے نتیجہ میں اگر ہر چیز حسب منشاء بن سکتی ہے تو اس لحاظ سے ہر شخص پایہ کا مبلغ بھی بن سکتا ہے.جو شخص خدا تعالیٰ سے پیار کا تعلق پیدا کرے گا اور دعائیں کرے گا تو خدا تعالیٰ خود اسے سکھائے گا اور اس کا معلم بنے گا.پس جہاں انتظامیہ کو اس طرف توجہ دینی چاہیے.وہاں ہر شاہد کو بھی اپنی ذات کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہیے ورنہ اگر دوسرے عریبک ٹیچر ز کی طرح زندگی گزارنی ہے ( میں شاہدین سے کہہ رہا ہوں ) تو پھر آپ نے کیا زندگی گزاری؟ اگر آپ نے سکولوں کے عام عربی معلّم اور مدرس کی طرح زندگی گزاری تو پھر آپ نے یہ تو بڑا ظلم کیا.اس معلم کو تو علم ہی نہیں کہ وہ خدا کا پیار کس طرح حاصل کر سکتا ہے اور کتنا حاصل کر سکتا ہے.پس شاہدین کو یہ علم ہوتے ہوئے اور دوسروں کو دیکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کتنا پیار کرنے والا ہے اور یہ کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکتے ہیں پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کے پیار سے محروم رہیں تو میرے نزدیک اس سے زیادہ بد قسمتی اور کوئی نہیں ہو سکتی.بہر حال جامعہ احمدیہ پر بھی بڑے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں.میٹرک پاس طلباء لیتے ہیں اور پھر ان کو آگے پڑھاتے ہیں.پھر جس طرح ہر زندہ اور ہرے بھرے درخت کی ٹہنیاں سوکھ جاتی ہیں.اسی طرح شاہدین میں سے بھی کچھ کاٹنے پڑتے ہیں.ہر سال کچھ چھانٹی کرنی پڑتی

Page 25

خطبات ناصر جلد چہارم ہے.نتیجہ بہت تھوڑا نکلتا ہے.خرچ بڑا ہوتا ہے.خطبہ جمعہ ۷ رجنوری ۱۹۷۲ء ہمارے وسائل محدود تھے اور جو مبلغین ہم تیار کر رہے تھے ، ان پر فی کس خرچ بہت زیادہ تھا لیکن یہ کام اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑا اہم ہے.اس لئے اسے جاری رکھنا ضروری تھا.پس ایک طرف یہ چیز تھی اور دوسری طرف وسعت پیدا کرنی تھی.اب میں سوچتا ہوں کہ جس طرح میرے دماغ میں آیا ہے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دماغ میں بھی یہی بات آئی تھی کہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے کام میں وسعت پیدا کریں اور وسعت پیدا کریں.ان لوگوں کے ذریعہ جو تھوڑا گزارہ لیں اور وقف کی روح کے ساتھ آئیں چنانچہ آپ نے ایک خطبہ میں ہزاروں کی سکیم بنادی.آپ نے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا.اب وہ بین سال کے بعد پوری ہوتی ہے یا پچاس سال کے بعد پوری ہوتی ہے.یہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن آپ نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کر دیا کہ ۷۲ لاکھ روپے آمد ہو سکتی ہے اور اس کے مطابق ساٹھ روپے ماہوار پر کئی ہزار آدمی رکھے جا سکتے ہیں.ویسے اب تو حالات بدل گئے ہیں.میرے خیال میں اب ساٹھ روپے کی بجائے نوے روپے دیئے جار ہے ہیں.بایں ہمہ آدمی کم آرہے ہیں.انسان سوچتا ہے تو اور فکر و تدبر کرنے والا انسان بالعموم ایک منصوبہ بناتا ہے کہ اگر وہ اس طرح کام کرے تو اپنے وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکتا ہے.مگر وقف جدید کے کام کے لحاظ سے جماعت کو اس طرف توجہ نہیں.کچھ تو تو جہ ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ بالکل توجہ نہیں ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ جتنی اس حصے کی طرف توجہ کرنی چاہیے تھی اس کا دسواں حصہ تو جہ ہے، نوے فی صد توجہ نہیں ہے.معلّمین اصلاح وارشاد جماعتی تنظیم کے ماتحت کام کر رہے ہیں.ان سے زیادہ پڑھے لکھے شاہدین بھی کام کر رہے ہیں مگر پچاس، ساٹھ شاہدین کے علاوہ صرف ساٹھ ،ستر نیم پڑھے معلمین وقف جدید رکھنے سے کیا فائدہ ہے کیونکہ جو اصل غرض تھی وہ تو ان کے ذریعہ پوری نہیں ہوئی.اصل تخیل تو یہ تھا کہ کام میں یک دم وسعت پیدا کرو.آپ جو معلم لیتے ہیں وہ آٹھویں جماعت تک پڑھے ہوتے ہیں.انہیں ایک سال کا یہاں کورس کراتے ہیں.ان کی حالت تو تیلی

Page 26

خطبات ناصر جلد چہارم ۷۰ خطبہ جمعہ کے جنوری ۱۹۷۲ء سی شاخ کے مانند ہے جس طرح آم کی ٹہنی جب نکلتی ہے تو بڑی کمزور ہوتی ہے.تاہم یہ بیج لگانا ہمارا مقصد ہے تنا تو بعد میں بنے گا، پھل تو بعد میں آئیں گے لیکن آپ نے تو وہ بیچ بھی نہیں اُگا یا.ستر ، اشی کے اوپر آ کر ٹھہر گئے.شتر، اشی معلمین وقف جدید کی تعدا داس وسیع منصوبے کے لحاظ سے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بتایا تھا.ایک ضلع کے لئے بھی کافی نہیں ہے، ایک تحصیل کے لئے شاید کافی ہو.وہ بھی شاید ہی ایسا ہوتا ہم سمجھتے ہیں کہ ایک تحصیل کے لئے کافی ہے جس کا سب یہ ہے کہ جو موجودہ کوشش اور جدو جہد اور منصوبہ ہے اس میں اگر ہم مغربی پاکستان ہی کو لے لیں کیونکہ اس وقت مشرقی پاکستان میں ہم نہیں جاسکتے.( ہم نے مسلم بنگال کو نہ ذہنی لحاظ سے چھوڑا ہے اور نہ عملی لحاظ سے) لیکن موجودہ حالات ایسے رونما ہوئے ہیں کہ ہم وہاں جانہیں سکتے اس لئے اگر ہم وقتی طور پر مغربی پاکستان ہی کو لے لیں تب بھی اس سے ۱۵۲ گنا زیادہ ہماری کوشش ہونی چاہیے تھی کیونکہ پاکستان کے اس مغربی حصے کی کم و بیش ۱۵۲ تحصیلیں ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے کام کا ایک فی صد بھی نہیں کیا بلکہ ہم نے اپنا کام 4 فی صد کیا ہے یہ تو کوئی کام نہ ہوا.جماعت کو اس وقت میں دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس اعلان کے بعد کہ یکم جنوری سے وقف جدید کا نیا سال شروع ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے اور ہمارے عمل میں برکت ڈالے.جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے اس اعلان کے بعد میں جماعت کو دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.ایک یہ کہ وقف جدید کے لئے جماعت زیادہ آدمی دے اور اسے جماعت محض وعظ تصور نہ کرے بلکہ وہ ایک سکیم بنائے کہ ہر سال موجودہ معلمین کا دس یا ہیں فیصد دے گی مثلاً اگر فرض کرو اس وقت اشی معلمین وقف جدید ہوں تو جماعت ہر سال آٹھ مزید دے گی.یہ میں نہیں کہہ رہا کہ جماعت دس فی صد دے یہ تو جو منصوبہ بندی کمیٹی ہے وہ سوچے گی لیکن میں مثال دے رہا ہوں.شاید اس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے چلیں میں فی صد کر دیتے ہیں چنانچہ اس لحاظ سے موجودہ اتنی معلمین کی تعداد پر بیس فیصد کے حساب سے سولہ مزید دینے پڑیں گے پھر اگلے سال

Page 27

خطبہ جمعہ کے رجنوری ۱۹۷۲ء خطبات ناصر جلد چہارم ۹۶ کا بیس فیصد ہوگا اور پھر اس سے اگلے سال ۱۱۰ کا بیس فیصد ہوگا اور پھر اسی طرح تعداد بڑھتی چلی جائے گی.تب آپ کام کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ کھڑے رہیں تو پھر کام نہیں کر سکتے.اس نسبت سے آپ آگے بڑھیں تب بھی کم ہے لیکن اگر آپ ہیں کی بجائے تیں یا چالیس فی صد کر دیں تو پھر ٹھیک ہے.اگر آپ دُگنا کرتے جائیں تو پھر یہ بہت ہی اچھا ہے.اس طرح تو پھر ہم دس سال میں اپنا مقصد حاصل کر لیں گے یعنی ۸۰ سے ۱۶۰ اور اس سے اگلے سال ۳۲۰ اور پھر اس سے اگلے سال ۶۴۰ اور پھر اس سے اگلے سال ۱۲۸۰ علی ہذا القیاس اس طرح ہم بڑی جلدی آگے نکل جائیں گے.یہ تو (( یعنی وہ پہلی بات) ہے جو میں جماعت سے کہنا چاہتا ہوں.(ب) یہ ہے کہ آپ جو آدمی دیں اُن میں کچھ تو صلاحیت ہونی چاہیے.اس وقت م معلمین کا ایک حصہ ایسا ہے ( سب کے متعلق تو میں یہ نہیں کہتا لیکن ایک حصہ ضرور ایسا ہے ) جو یہ سمجھتا ہے کہ ہماری کہیں اور جگہ کھپت نہیں ہو سکتی ، اس واسطے یہاں آ جاؤ.اگر اس طرح کے آدمی آئمیں تو ہمارا کام کیسے ہو گا.ہم نے اُن سے کام تو یہ لینا ہے کہ جب کسی کو کہیں سے بھی کامیابی نصیب نہ ہو تو وہ ان سے حاصل کرے لیکن وہ آدمی جو اس ذہنیت سے آیا ہے کہ اس کی کہیں کھپت نہیں ہو سکتی اس لئے وہ یہاں آجائے اُس نے کام کیا کرنا ہے.وہ آدمی جو ساری دُنیا کی ناکامیاں دیکھ کر آتا ہے وہ دُنیا کی ہدایت کا سامان کیسے پیدا کر سکتا ہے.یہ ایک سرے پر ہے اور جس کی اس نے ہدایت کرنی ہے وہ دوسرے سرے پر ہے یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ یہ بائیں سرے پر ہے اور دوسرے آدمی کی ضرورت دا ئیں سرے پر ہے یعنی دو چیزوں میں جو زیادہ سے زیادہ بعد ہو سکتا ہے وہ ان میں پایا جاتا ہے.پس جماعت سے میں یہ کہتا ہوں کہ جو آدمی وقف جدید کے لئے دیں وہ قابل اور اہل ہونا چاہیے اور پھر جب آدمی دیں تو اُن کو خرچ بھی دیں.جتنے زیادہ آدمی دیں گے اُن پر اتنا زیادہ خرچ بھی آئے گا.اس کے مطابق آپ کو چندہ دینا چاہیے.اب پچھلے سال وقف جدید کا دولاکھ چالیس ہزار روپے کا بجٹ تھا اور دسمبر کے آخر تک ایک لاکھ بہتر ہزار روپے آمد ہوئی ہے اور اب نیا سال شروع ہو گیا ہے گذشتہ سال جو کام آپ نے

Page 28

خطبات ناصر جلد چہارم Δ خطبہ جمعہ کے رجنوری ۱۹۷۲ء اپنے لئے تجویز کئے تھے آپ اُن کو پورا نہیں کر سکتے.وقف جدید کے متعلق منصو بہ بنانے والے دماغ میں جو کام تھا وہ تو یہ نہیں تھا.وہ تو اس سے کہیں زیادہ کام تھا.پس وہ پیارا وجود جس کے ساتھ آپ کو پیار اور عشق کا دعوی ہے اُس نے آپ کو جو کام دیا تھا، اُس سے کہیں تھوڑے کام کا آپ نے منصوبہ بنایا اور وہ بھی پورا نہیں کیا.یہ تو بڑے شرم کی بات ہے.اس لئے جماعت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے.دوسری طرف میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جو ہمارا وقف جدید کا دفتر ہے اس کو اپنا حساب درست کرنا چاہیے.گذشتہ دو چار دن میں ہی میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ جو رقمیں وصول ہو چکی ہیں اُن کا بھی ٹھیک طرح حساب نہیں رکھا گیا.(پیسوں کا ضیاع تو نہیں ہوا) لیکن اگر ایک شخص تین مہینے کے بعد اپنا چندہ دے دیتا ہے اور اپنا وعدہ پورا کر دیتا ہے اور آپ چھ مہینے کے بعداُ سے کہیں کہ تم نے کبھی چندہ نہیں دیا تو آپ نے اس کا وقت ضائع کیا.آپ کو یہ کس نے حق دیا ہے؟ پس میں دفتر سے کہتا ہوں کہ آپ مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والوں کا وقت ضائع نہ کریں یہ سننے کے بعد اور اس بات کو تقریروں میں دُہرانے کے بعد کہ آپ کے متعلق یہ کہا گیا ہے.انْتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُهُ | کہ تیرا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.آپ خود اس مسیح کی طرف منسوب ہونے والوں کا وقت ضائع کر رہے ہیں اور اُن کو پریشانی میں ڈال رہے ہیں اس لئے اپنے گھر کو درست کریں اور اس کی صفائی کریں اور اہلیت کو بڑھا ئیں.مرکزی دفتر کو کسی ایک آدمی کے لئے بھی پریشانی کا موجب نہیں ہونا چاہیے.وقف جدید والوں نے رسالے اور کچھ کتب اور پمفلٹ وغیرہ شائع کرنے کی بھی ایک سکیم بنائی ہوئی ہے اور غالب وہ اس سلسلہ میں کچھ کام بھی کرتے ہیں لیکن وہ تسلی بخش نہیں ہے.دراصل کسی کا کام بھی تسلی بخش نہیں ہے.اس وقت مجھے سب سے زیادہ پریشانی اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ہم کتب وغیرہ شائع تو کر دیتے ہیں مگر ان کی تقسیم کا کوئی معقول اور مناسب اور حسب ضرورت

Page 29

خطبات ناصر جلد چہارم انتظام نہیں ہے.خطبہ جمعہ ۷ رجنوری ۱۹۷۲ء تا ہم اس کام کے لئے تو میں شاید ایک کمیٹی بناؤں.ہماری اس وقت جو مختلف انجمنیں ہیں، وہ کمیٹی ان کے متعلق غور کرے گی لیکن اس کی طرف فوری توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور فوری سے میری مراد یہ ہے کہ ایک مہینے کے اندر اندر ہماری آبادی کے ایک فیصد کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہو جائے.شاید آپ حیران ہوں کہ اتنی معمولی سی سکیم کیوں بنادی.دراصل میں یہ چاہتا ہوں کہ چھ لاکھ ایسے بھائیوں کے ساتھ ہمارا تعلق پیدا ہو جائے کہ جب اور جو چیز ہم ان تک پہنچانا چاہیں وہ ایک ہفتہ کے اندراندران تک پہنچ جائے.آپ یشن کر حیران ہوں گے کہ ہم اس وقت چھ لاکھ تو کجا چھ ہزار تک بھی اپنی بات ایک ہفتہ کے اندر اندر نہیں پہنچا سکتے اور یہ بڑی خامی ہے.اس طرف پہلے کسی نے توجہ نہیں کی.ہمارے جو مبلغ ہیں اُن کا یہ حال ہے کہ دیر کی بات ہے خلافت سے پہلے میں ایک دفعہ مری گیا.حضرت صاحب کے نام خیبر لاج الاٹ ہوئی ہوئی ہے.اس کا جھگڑا چل رہا ہے.ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا.جو فیصلہ ہوگا ٹھیک ہوگا.وہ ہمیں ملے یا نہ ملے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بہر حال وہ اس وقت بھی ہمارے پاس تھی اور وہاں ہمارے مربی صاحب رہ رہے تھے کیونکہ وہ خالی پڑی ہوئی تھی.ہم یعنی حضرت صاحب کے بچوں میں سے بہت سارے وہاں جانا چاہتے تھے یا شاید حضرت صاحب خود تشریف لے جانے والے تھے.یہ تفصیل مجھے یاد نہیں رہی چنانچہ اس کو خالی کروانے کے لئے جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک کمرہ قریباً چھت تک بھرا ہوا تھا اُن کتب اور رسائل سے جو پچھلے چار پانچ سال سے اصلاح وارشاد والے اس مبلغ کو تقسیم کرنے کے لئے بھجواتے رہے تھے.یہ دیکھ کر میرے ہوش گم ہو گئے کہ اتنا ظلم ! ہماری ایک غریب جماعت ہے.پھر اس پر ظلم یہ کہ ہم سے سُستیاں غفلتیں اور گناہ ہو جاتے ہیں.جتنا ہم شائع کرنا چاہتے تھے وہ بھی نہیں شائع ہوا اور جو شائع ہوا ہے اس کا یہ حشر کہ کئی سالوں کا اکٹھا کیا ہوالٹریچر جس کو اٹھانا مشکل ہو گیا پس ہمیں اس طرف فوری توجہ کرنی چاہیے.اب مثلاً ہم ایک رسالہ شائع کرنا چاہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اور عشق

Page 30

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ کے جنوری ۱۹۷۲ء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ.چنانچہ قاضی محمد نذیر صاحب یا عبدالمالک خاں صاحب میرے پاس بڑے فخر سے یہ رپورٹ کر دیں گے کہ انہوں نے پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کر دیا ہے اول تو یہ ہے کہ ۱۲ کروڑ آبادی کے ملک میں پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کر دینا تو ویسے ہی بڑے شرم کی بات ہے اور دوم اس سے بھی بڑے شرم کی بات یہ ہے کہ پانچ ہزار جو شائع کیا اس میں سے پانچ صد تقسیم ہوا اور باقی چار ہزار پانچ صد اصلاح وارشاد کے گودام میں یا مبلغین کے چولہوں کے پاس پڑا ہوا ہے.ہمارا اس طرح تو کام نہیں چلے گا.یہ تو کوئی کام نہیں کہ ۱۲ کروڑ کی آبادی کے ملک میں پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہونے والی کتاب صرف پانچ صد کی تعداد میں تقسیم ہو.کیا ہم اپنی عزت کے لئے زندہ ہیں؟ کیا ہم اس لئے زندہ ہیں کہ ساری دُنیا کی دولتیں ہمارے قدموں میں آکر جمع ہو جائیں.اگر یہ نہیں اور یقیناً نہیں کیونکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری پائی پائی دُنیا کے قدموں میں جا کر پڑ جائے اور لوگوں کے فائدہ کا موجب بنے تو پھر دُنیا کی بھلائی کے لئے تم سے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ تم کرو ورنہ تم اپنے رب کو کیا منہ دکھاؤ گے؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.(روز نامه الفضل ربوه ۶ فروری ۱۹۷۲ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 31

خطبات ناصر جلد چہارم 11 خطبہ جمعہ ۱۴ ؍ جنوری ۱۹۷۲ء پاکستان کے احمدی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا ئیں تو ملک کی کایا پلٹ جائے گی خطبه جمعه فرموده ۱۴ جنوری ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ایک انسان کی اصل دولت اس کی خداداد صلاحیتیں ہیں اور ایک قوم کی اصل دولت اس قوم کے افراد کی صلاحیتوں کے مجموعہ کا نام ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق میں اپنی صفات کے جلوے رکھے ہیں اور اس کی صفات کے جلوے سب سے زیادہ ہمیں انسانی وجود ہی میں نظر آتے ہیں.اسی لئے انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے.ہمیں مختلف قوتیں مختلف اندازوں کے مطابق انسان میں نظر آتی ہیں.اصولی طور پر یہ قوتیں اور استعداد میں چار قسموں کی ہوتی ہیں.(۱) جسمانی (۲) ذہنی (۳) اخلاقی اور (۴) روحانی.میں آج کی اس گفتگو میں ان سب قوتوں اور استعدادوں کو صلاحیتوں کا نام دوں گا.پس فرد واحد کی دولت اس کی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور ہمیں صلاحیتوں کے متعلق یہ نظر آتا ہے کہ وہ بالغ شکل میں انسان میں نہیں پائی جاتیں بلکہ وہ درجہ بدرجہ بڑھتی ہیں اور اس تدریجی نشوونما میں بہت سے عوامل اُن پر اثر انداز ہوتے ہیں.بہر حال اصول یہ ہے کہ انسان کو جو صلاحیت ملتی ہے ، وہ تدریجی طور پر نشو نما پاتی ہے.مثلاً انسان اپنی کچھ نشوونما ماں کی گود میں اور

Page 32

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۲ خطبہ جمعہ ۱۴ /جنوری ۱۹۷۲ء کچھ نشو و نما باپ کی تربیت سے حاصل کرتا ہے اور اس کی کچھ نشو ونما اچھے ماحول کے اچھے اثرات سے ہوتی ہے اور اُس کی بہت کچھ نشو ونما اُس کی اپنی کوشش اور جدو جہد پر منحصر ہوتی ہے.بہر حال صلاحیت ایک بیج ہوتا ہے جس کی شکلیں اور اس کے مختلف پہلو آہستہ آہستہ Unfold ( آن فولڈ ) ہوتے ہیں یعنی ہمارے سامنے آتے ہیں.گویا پہلے وہ چھپی ہوئی چیزیں تھیں جو بعد میں سامنے آگئیں.اصولی طور پر صلاحیت ایک دولت ہے اس زندگی کی بھی اور اُس زندگی کی بھی.مثلاً دو ڈاکٹر ہیں.اب اُن کی فطرت اور طبیعت کا میلان اور ذہنی رحجان طب کی طرف تھا.اُنہوں نے ایک دوسرے کے مقابلے پر آکر محنت کی پھر وہ پاس ہو گئے.پھر انہوں نے پریکٹس شروع کر دی چنانچہ وہ مالدار بن گئے.دیکھو ایک ڈاکٹر کی دولت اس کی طبی صلاحیت کا نتیجہ ہے لیکن اس میں ہمیں ایک اور چیز بھی نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر شخص محدود صلاحیتیں رکھتا ہے اور یہ چیز حد باندھنے والی یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف راہنمائی کرنے والی ہے.ہر شخص کی صلاحیتوں کا دائرہ ایک جیسا نہیں ہوتا.ہر شخص کی صلاحیتوں کا دائرہ مختلف ہوتا ہے.مثلاً طبی میدان میں ہی دیکھو.ایک ڈاکٹر ہے، وہ دس ہزار روپے ماہوار کمارہا ہے اور اسی کی کلاس میں پڑھا ہوا اس کا ایک دوسرا ساتھی اور دوست ڈاکٹر ہے جو ہمیشہ روتا رہتا ہے کہتا ہے میں تو بھوکا مررہا ہوں میری آمدنی کافی نہیں ہے میں اپنی پوری کوشش کے باوجود ہزار روپے کما رہا ہوں.پس یہ تفاوت دراصل اس واسطے ہے کہ حد باندھنے والا اللہ تعالیٰ تھا اور اُس نے ہر ایک ڈاکٹر کی صلاحیت کا ایک دائرہ بنادیا ہے اور فرمایا ہے کہ تم اس سے آگے نہیں جاؤ گے.اس سے آگے جانا تمہارے لئے ممکن ہی نہیں.اس کو ہم دائر کہ استعداد بھی کہتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں ساری قوتوں اور استعدادوں کو صلاحیت کے نام سے ذکر کروں گا.پس ہر ایک آدمی کا ایک دائرہ صلاحیت ہوتا ہے اور وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا لیکن دائرہ صلاحیت سے ورے ورے رہ سکتا ہے اور یہیں انسان اپنے اوپر ظلم کرتا ہے جس سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں.اگر کوئی فردا اپنی صلاحیتوں کی نشو ونما کو اپنے دائرہ استعداد کی آخری حد تک پہنچا دیتا ہے تو وہ اپنی نجات کی معراج

Page 33

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۳ خطبہ جمعہ ۱۴ جنوری ۱۹۷۲ء تک پہنچ جاتا ہے.لیکن اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو نشوونما کے کمال تک نہیں پہنچا تا تو وہ بڑا بد قسمت ہے.اُسے تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے کسی میں یہ صلاحیت رکھی ہو کہ وہ رات کے اندھیروں میں چھ گھنٹے اپنے رب کے حضور دعائیں کرنے کے باوجود اپنی دن کی ذمہ داریوں میں کوتا ہی نہیں ہونے دیتا.تو ایسا انسان اگر چھ گھنٹے کی بجائے چار گھنٹے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گذارتا ہے تو وہ اپنے دائرہ استعداد کی انتہا کونہیں پہنچا.اُس نے اپنے اوپر ظلم کیا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے جو ایک تہائی زائد انعام لے سکتا تھا اس سے اُس نے خود کو محروم کر دیا.اگر کوئی قوم ایسی ہو کہ اس کے سارے شہری، اس میں بسنے والے سب افراد اپنی صلاحیتوں کو اپنے اپنے دائرہ استعداد کی آخری حدود تک پہنچا دیں تو اس سے زیادہ کامیاب اور اس سے زیادہ شاندار نتائج دکھانے والی دُنیا میں اور کوئی قوم نہیں ہو سکتی.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر جب ہماری نگاہ پڑتی ہے تو ( یہ تو درست ہے کہ اُس وقت بھی منافق تھے اور کمزور ایمان والے بھی تھے لیکن ) ہم دیکھتے ہیں کہ اُس وقت بڑی بھاری اکثریت ایسی تھی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور تربیت میں اپنی صلاحیتوں کی نشوونما کو اپنی استعدادوں کے دائرہ کی جو آخری حد تھی، وہاں تک پہنچادیا تھا چنانچہ وہ قوم جو شروع میں مٹھی بھر تھی اور جس کا دُنیا کی آبادی کے لحاظ سے کوئی شمار تھا اور نہ اُن کی کوئی حقیقت تھی ، انہوں نے جب کسری سے ٹکر لی.اُس وقت حضرت خالد بن ولید کے پاس اٹھارہ ہزار فوج تھی.تھے تو وہ اٹھارہ ہزار مگر وہ ایسے تربیت یافتہ افراد تھے جنہوں نے اپنے دائرہ استعداد کی انتہا کو پالیا تھا ( جس کو میں نجات کی معراج کہتا ہوں ) اس لئے اُنہوں نے لاکھوں کی تعداد میں اور دنیوی اموال کی کثرت رکھنے والوں کے مقابلے میں اپنی برتری کو ثابت کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ جو ایران کے باشندوں کی مجموعی صلاحیت تھی باوجود اس کے کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے مگر اُنکی مجموعی صلاحیت مسلمانوں کی صلاحیت کے مجموعہ سے کم تھی ورنہ مسلمان کبھی کامیاب نہ ہوتے پس جو قوم ایسی ہو کہ اس کے افراد خدا داد صلاحیتوں کی نشوونما اپنے دائرہ کے اندر انتہا کو پہنچادیں تو اس سے زیادہ کامیاب اور زیادہ خوبصورت اور حسین اور کوئی قوم نہیں ہو سکتی.غرض یہ

Page 34

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۴ خطبہ جمعہ ۱۴ /جنوری ۱۹۷۲ء صحابہ رضوان اللہ علیہم ایک ایسی قوم تھی جس میں ہمیں یہ خوبی نظر آتی ہے.اگر کوئی شخص اپنے دائرہ استعداد سے نصف ورے رہ جاتا ہے یا دو تہائی ورے رہ جاتا ہے اس لکیر سے جو اس کے دائرہ کو معین کر رہی ہے تو وہ نا کام ہوجاتا ہے.اگر وہ نصف تک رہ جاتا ہے تب بھی ناکام ہو گیا اور اگر وہ ۸۰ فی صد کی حد تک پہنچ جاتا ہے تب بھی وہ ایک لحاظ سے ناکام ہو گیا.ہماری یو نیورسٹیاں ۳۳ فی صد نمبر لینے والوں کو پاس کر دیتی ہیں اس لئے میں نے یہ مثال دی ہے تا کہ بچے بھی سمجھ جائیں.جو فرد اپنے دائرہ استعداد کے ایک تہائی تک بھی نہیں پہنچاوہ فیل ہے.اگر چہ یہ غلط معیار ہے لیکن بہر حال وہ اس معیار کے مطابق فیل ہے ہمارا بچہ بھی اس کو سمجھ جائے گا کہ جس لڑکے نے ۳۰ فیصد نمبر لئے وہ نا کام ہو گیا.اسی طرح جس قوم کے ۲۵ فی صد افراد نے اپنی صلاحیتوں کی ۸۰ فیصد نشوونما کی وہ قوم ہلاک ہو گئی.غرض نجات کی معراج صلاحیتوں کی نشوونما کو انتہاء تک پہنچانا ہے.یہ انسان کی دولت ہے.یہ مادی دولت بھی ہے.یہ ذہنی دولت بھی ہے.یہ اخلاقی دولت بھی ہے اور یہ روحانی دولت بھی ہے.اگر پاکستان کے سارے کے سارے شہری اپنی اپنی استعداد کے دائرہ کے اندر اپنی صلاحیتوں کی نشو ونما کو اپنی انتہا تک پہنچا دیں، تو ہمارا ملک دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ہو جائے گا اور دُنیا کے حسین ترین ملکوں میں سے بھی ہو جائے گا کیونکہ اخلاقی لحاظ سے بھی ہم ایک ایسی مذہبی جماعت ہیں جس کا اسلام کے ساتھ تعلق ہے.اس لئے اگر ہماری ذہنی اور ہماری اخلاقی اور ہماری روحانی نشوونما ہو گی تو مادی نشو ونما کے لحاظ سے اور مادی دولت کے لحاظ سے امریکہ بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکے گا.روس بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکے گا، اور چین بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکے گا کیونکہ اگر چہ یہ قومیں ڈ نیوی لحاظ سے بڑی آگے نکل چکی ہیں لیکن میں نے بڑا غور کیا ہے اور بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ ابھی بحیثیت مجموعی اپنے دائرہ استعداد کی انتہا تک نہیں پہنچے یعنی مادی لحاظ سے بھی، ذہنی لحاظ سے بھی ، اخلاقی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی اپنی نشو و نما کے کمال تک نہیں پہنچے.اخلاقی اور روحانی لحاظ سے تو وہ بہت ہی پیچھے ہیں لیکن جسمانی اور ذہنی لحاظ سے بھی اپنے دائرہ استعداد کی انتہا تک نہیں پہنچے.اگر ان کے مقابلے میں پاکستان بحیثیت مجموعی اپنے دائرہ استعداد کی انتہا کو

Page 35

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۵ خطبہ جمعہ ۱۴ /جنوری ۱۹۷۲ء پہنچ جائے تو وہ ان ملکوں سے آگے نکل جائے گا.ہم نے اگر سو میں سے دین نمبر لئے اور انہوں ( یعنی امریکہ، روس، چین وغیرہ) نے سو میں سے پچاس نمبر لئے تو اس لحاظ سے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہم سے بہت آگے ہیں.وہ ہم سے پانچ گنا آگے ہیں لیکن اگر ہمارے اندر اللہ تعالیٰ نے دس کی بجائے سونمبر لینے کی صلاحیت رکھی تھی اور ہم یہ سونمبر حاصل کر لیں تو گویا ہم اُن سے دو گنا آگے نکل گئے.پس انسان کی اصل دولت اس کی صلاحیت ہے یعنی وہ قوتیں اور استعداد میں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں.یہی اصل دولت ہے.اب ایک قوت ہے جو مٹی سے کھیل رہی ہے اور ہم اس کو زراعت کہتے ہیں.ایک انسان کی قوت ہے جو سونے سے کھیل رہی ہے ہم اس کو سنار یعنی زیور بنانے والا کہتے ہیں اور وہ اس کے ذریعہ پیسے کما رہا ہوتا ہے.ایک قوت ہے سرجری یعنی جراحی کی.مثلاً ایک ڈاکٹر ہے وہ اپنے اوزار پکڑتا ہے اس کے جسم کی بھی اور ذہن کی بھی ایسی نشو ونما ہوتی ہے ( بہت سی قوتیں مل کر اس دُنیا میں کام کرتی ہیں ) کہ جس وقت وہ چاقو چلاتا ہے تو ایک سیدھی لکیر کھینچتا ہے.ذرا بھی ادھر اُدھر نہیں ہوتا لیکن اس کے مقابلے پر ایک دوسرا ڈاکٹر تھا جس میں پوری طاقت تھی لیکن وہ اپنے علم میں نہیں بڑھا اور اپنی صلاحیت کی صحیح نشوونما نہیں کی وہ آپریشن کرتا ہے گردے کا، تو ساتھ ہی دو تین اور جگہ زخم لگا جاتا ہے اس واسطے کہ اس کی صلاحیت کی پوری نشو ونما نہیں ہو پائی اور اس قسم کے جو کام ہیں اُن میں تو کسی زندہ قوم کو سو فی صد صلاحیت سے کم پر راضی نہیں ہونا چاہیے.لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوسکتا بعض دفعہ میں سمجھانے کے لئے مذاق میں بات کرتا ہوں تو وہ حیران ہو جاتے ہیں.مثلاً اگر ہمارا لا ہور کا طبی کالج چالیس فی صد نمبروں پرلڑکوں کو پاس کرتا ہے تو وہاں سے ایک فارغ التحصیل ڈاکٹر اگر پانچ میں سے تین مریضوں کو نا اہلیت کی بنا پر مارتا ہے تو آپ اس پر الزام نہیں لگا سکتے.وہ آرام سے کہہ دے گا کہ مجھے چالیس فی صد نمبر دے کر پاس کیا گیا تھا.دیکھو میں اب بھی پاس ہوں.میرے چالیس فی صد مریض اچھے ہورہے ہیں.تم نے میری ساٹھ فی صد جو خامی تھی ، اس کو جب نظر انداز کیا تھا تو جو ساٹھ فی صد مریض مر رہے ہیں ، ان کو نظر انداز کرنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے.پس اس

Page 36

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۶ خطبہ جمعہ ۱۴ /جنوری ۱۹۷۲ء قسم کے جو کام ہیں اُن میں عقل ہمیں یہی کہتی ہے کہ سو فی صد نتیجہ ہونا چاہیے.اسی طرح ایک انجینئر ہے.آپ نے اُس کو چالیس فی صد نمبر دے کر پاس کر دیا.وہ پانچ مکان بناتا ہے جن میں دو کی چھتیں قائم رہتی ہیں اور تین مکانوں کی چھتیں گر جاتی ہیں مگر آپ اُسے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ کہے گا میں پاس ہوں مجھے اسی معیار کے مطابق نمبر دے کر پاس کیا گیا تھا.اگر تین مکانوں کی چھتیں گر گئی ہیں تو مجھ پر الزام نہیں بلکہ اس ادارے پر الزام ہے جس نے پاس کیا تھا.بہر حال یہ مثال میں اس لئے دے رہا ہوں کہ بعض صلاحیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اگر ان کی نشوونما سو فی صد نہ ہو تو وہ قوم کے لئے نقصان دہ بن جاتی ہیں گو بعض صلاحیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اگر ان کی نشو و نما پچاس فی صد ہو تو اس طرح کا نقصان نہیں ہوتا البتہ یہ نقصان ضرور ہوتا ہے کہ اُس کے ذریعہ جو قومی دولت کا پچاس فی صد اور اضافہ ہونا تھا اس سے قوم محروم ہوگئی.پس صلاحیتوں کا ایک دائرہ ہوتا ہے اور اس دائرے سے انسان آگے نہیں جاسکتا.اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن اس دائرے تک پہنچ سکتا ہے تبھی وہ صلاحیت کا دائرہ بنا اور اس سے کم بھی رہ سکتا ہے اور جو کمی ہے وہ اس فرد اور اُس کی قوم کے نقصان کا باعث بنتی ہے.یہ سوچ کر بڑی شرم آتی ہے کہ جس قوم کو یا جس امت کو اس قسم کی حسین تعلیم دے کر ان مسائل کو واضح کیا گیا تھا وہ اس مادی دنیا میں مادی دولت اور ذہنی دولت اور ذہنی نشو ونما کے لحاظ سے چین یا امریکہ یا روس یا یورپ سے پیچھے رہ گئی ہے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے آپ اُن سے آگے بڑھ سکتے ہیں اس لئے کہ ( یہ میری خوش فہمی ہی نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ) یہ قو میں بھی بحیثیت مجموعی اپنے اپنے دائرہ استعداد یا دائرہ صلاحیت کی آخری حد سے ابھی ورے ہیں.ابھی اس لکیر تک نہیں پہنچیں جو اس دائرے کو معین کرتی ہے.اگر آپ اُس آخری حد تک پہنچ جائیں تو آپ اُن سے آگے نکل جائیں گے.اس واسطے اُمت محمدیہ کی زندگی میں لغو کی کوئی گنجائش نہیں ہے.هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ.(المؤمنون : ۴) جس کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ یہ امت اور اس کے افراد ہر اس کام سے اجتناب کرتے

Page 37

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۷ خطبہ جمعہ ۱۴ /جنوری ۱۹۷۲ء ہیں جس کے نتیجہ میں صلاحیت کی حقیقی اور کامل نشو ونما میں روک پیدا ہوتی ہو.اب موجودہ چین ہم سے آگے نکل گیا ہے حالانکہ اس کا وجود پاکستان سے کم عمر ہے.ہم نے ۱۹۴۷ء میں آزادی حاصل کی تھی اُنہوں نے غالباً ۴۸ء یا ۴۹ء میں آزادی حاصل کی تھی وہ ملک ہم سے سال دو سال چھوٹا ہے.مجھے صحیح طور پر تو یاد نہیں لیکن یہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کی عمر ہمارے ملک سے چھوٹی ہے لیکن ہم سے وہ مادی اور ذہنی لحاظ سے آگے نکل گیا ہے اور یہ اس لئے ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ایک مسلمان کو یہ نہیں فرمایا تھا کہ اگر تو کوشش نہیں کرے گا تب بھی میں تیری صلاحیتوں کی نشو و نما کر دوں گا اور ایک غیر مسلم کو اُس نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تیری نشو و نما تیری کوشش کے باوجود دائرہ استعداد کے قریب سے قریب تر نہیں ہوگی.یہ دُنیا کا قانون ہے.یہ قانونِ قدرت اور قانونِ فطرت ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے کہ جو شخص اپنی صلاحیتوں کے نور کو اُجاگر کرنے کی انتہائی کوشش کرے گا وہ منور ہو جائے گا.یہ زندگی صرف مادی اور ذہنی ہی نہیں بلکہ دنیا میں اخلاقی اور روحانی زندگی بھی ضروری ہے اور اخلاقی اور روحانی لحاظ سے ( جیسے بھی ہم ہیں) پھر بھی وہ ہم سے پیچھے ہیں لیکن انہوں نے جس صلاحیت یا صلاحیت کے جس میدان میں (اور میں نے بتایا ہے کہ یہ چار میدان ہیں ) کوشش کی اس میں وہ ہم سے آگے نکل گئے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے.خدا تعالیٰ کا یہ قانون نہیں ہے اگر تم صحیح وقت پر گندم نہ بھی بیجو تب بھی تمہارے اسلام کی طرف منسوب ہونے کے نتیجہ میں تمہارے کھیتوں میں گندم اُگ آئے گی.کبھی آپ گندم کا بیچ مارچ یا اپریل میں لگا کر تو دیکھیں.خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ اُس نے تمہارے اندر جو صلاحیتیں رکھی ہیں اگر تم ان کو نشوونما کے لئے اسی کے بتائے ہوئے طریق پر کوشش کرو گے تو اس کا نتیجہ نکلے گا.ان صلاحیتوں کے نتائج نکالنے کے لئے یہ ساری دنیا بنی ہے اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اس عالمین کو تمہارے لئے مسخر کر دیا گیا ہے.زمین کو مسخر کیا کہ وہ تمہارے لئے اناج اُگائے اور تمہارے لئے کپڑوں کا سامان پیدا کرے یا تمہارے لئے چکنائی کا سامان پیدا کرے یا تمہارے لئے ایندھن کا سامان پیدا کرے وغیرہ وغیرہ.ہم زمین سے ہزار ہا اشیاء حاصل کر رہے ہیں اور پھر بھی ہم نے کبھی غور

Page 38

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۸ خطبہ جمعہ ۱۴ /جنوری ۱۹۷۲ء نہیں کیا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتنی حمد کرنی چاہیے.غرض یہ اسی تسخیر کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دُنیا کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا دیا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے ایک مسلمان کو تو یہ بھی فرمایا تھا کہ اُس نے تمہارے لئے یورینیم کو مسخر کر دیا ہے.خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق مسلمانوں کو بڑی وضاحت سے فرمایا تھا مگر اس کا فائدہ اُٹھا گیا امریکہ اور روس اور یہ بڑے شرم کی بات ہے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں سے یہ فرمایا تھا کہ اس زمین میں جو کچھ بھی پایا جاتا ہے خواہ یہ یورینیم ہو یا ایک ایسا ذرہ ہو جس سے تم شیشہ بناتے ہو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے.جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ تمام صلاحیتیں عطا کر دی ہیں کہ جن کے صحیح استعمال کے نتیجہ میں تم اس مادی دنیا میں زیادہ سے زیادہ دولت کما سکتے ہوا اور پھر تدریج کا اصول بنایا یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نشو و نما کی ذمہ داری تمہارے ماں باپ ،تمہارے ماحول اور تمہارے نفسوں کے اوپر ڈال دی گئی ہے.تم ترقی کرو اور میرے انعامات کو حاصل کرتے چلے جاؤ.اب اس تمہید کے بعد میں اپنے بڑوں اور چھوٹوں ، مردوں اور عورتوں، بچوں اور بالغوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور محنت کی عادت ڈالیں.محنت سے میری مراد صرف محنت کا وہ لفظ نہیں کہ جس کو میں بولتا ہوں تو ہمارے کان اس کی لہریں سنتے ہیں مگر نہ تو لوگ سمجھتے ہیں اور نہ کام کرنے کا عزم کرتے ہیں.محنت سے میری مراد اس تمہید کی روشنی میں یہ ہے کہ ہم نے ہر اس صلاحیت پر جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بخشی ہے زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالنا ہے اور اچھے سے اچھے نتائج نکالنے ہیں.جب میں کوشش کا لفظ بولتا ہوں تو اس سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ ہمیں دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کی ضرورت نہیں ہے.دراصل دعا بھی ایک کوشش ، ایک تدبیر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فقرہ مجھ پر تو وجد طاری کر دیتا ہے آپ فرماتے ہیں ( صحیح لفظ تو مجھے یاد نہیں مگر ان کا مفہوم یہی ہے کہ ) دعا تد بیر ہے اور تدبیر دعا ہے.غرض دنیا بھی ایک کوشش ہے البتہ یہ صحیح ہے کہ یہ روحانی کوشش ہے مثلاً ہاتھ کی چار انگلیاں ہیں.یہ علیحدہ علیحدہ ہوتی ہیں اور اگر ان میں سے دو کی نشوونما نہ ہو تو چار کی طاقت نہیں

Page 39

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۹ خطبہ جمعہ ۱۴ ؍جنوری ۱۹۷۲ء رہتی یعنی وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو چاروں انگلیوں کے ملنے سے نکلنا تھا اب اگر کسی کی صلاحیت کی چھوٹی انگلی جسمانی طور پر اور شہادت کی انگلی ذہنی طور پر ترقی کر گئی اور مضبوط ہوگئی اور بڑی طاقتور بن گئی لیکن اگر بیچ کی دو انگلیوں نے اخلاقی اور روحانی طور پر ترقی نہیں کی یا ان میں کوئی نشوو نما نہیں ہوئی تو ان انگلیوں کے ذریعہ گرفت کیسے ہوگی.جس شخص کی اس طرح کی انگلیاں ہوتی ہیں ہم اسے مفلوج کہتے ہیں.پس جن قوموں نے صرف مادی لحاظ سے اور ذہنی لحاظ سے ترقی کی ہے اسلام کی اصطلاح میں وہ قو میں مفلوج ہیں کیونکہ انہوں نے اخلاقی اور روحانی لحاظ سے ترقی نہیں کی لیکن وہ تو ناواقف ہیں.ان کو پتہ ہی نہیں وہ اسلام کی تعلیم سے بے بہرہ ہیں.کسی نے اُن کو قرآن کریم نہیں سکھایا.کسی نے اس کے معارف اُن کے سامنے نہیں رکھے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے اُن کا تعلق نہیں پیدا ہوا.وہ اس کے پیار کو نہیں پہچانتے کہ وہ کس طرح اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے انہوں نے وہ نظارے دیکھے ہی نہیں.وہ ایک حد تک معذور ہیں مگر جہاں تک صلاحیتوں کا تعلق تھا وہ معذور نہیں لیکن جہاں تک ماحول کا تعلق ہے وہ معذور ہیں.مگر کیا یہ معذرت آپ کی زبان سے نکل سکتی ہے؟ کیونکہ آپ کو تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب عطا فرمائی ہے.آپ کو تو خدا تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم نور عطا فرمایا ہے اور آپ کے سامنے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ایک عظیم اسوہ کے رکھا ہے لیکن دوسری قوموں کی آنکھ کے سامنے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی اُسوہ حسنہ نہیں ہے.اُن کے پاس تو قرآن کریم جیسی کوئی کتاب نہیں ہے.اُن کی ایک حد تک دنیوی لحاظ سے معذرت قبول ہوسکتی ہے.باقی یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے وہ جانے.ہمیں اس سے تعلق نہیں تاہم ہمارے دماغ بھی ایک حد تک اس معذرت کو قبول کر لیتے ہیں لیکن دنیا کا کون سا دماغ ہے جو ایک مسلمان کی معذرت کو قبول کرے گا.کوئی شخص نہیں جو اس کی معذرت قبول کرے اس لئے صرف دوسروں کو مفلوج کہہ دینے سے ہمیں کوئی فائدہ، کوئی خوشی نہیں ہوتی کیونکہ اگر ان کی دو انگلیاں کام کر رہی ہیں اور باقی دو مفلوج ہیں اور آپ کی اُن سے آگے نکلنے کی صلاحیت اور بہتر ماحول رکھتے ہوئے بھی چاروں انگلیاں

Page 40

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۱۴ /جنوری ۱۹۷۲ء مفلوج ہیں تو پھر ان کے جزوی فالج کا ذکر ہمیں کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ پھر تو ہم شاید اس بات کے قابل بھی نہ رہیں کہ اُن کے لئے اپنے دل میں رحم کے جذبات پیدا کر سکیں کیونکہ ہماری حالت اُن سے بھی زیادہ گری ہوئی ہے.پس جس رنگ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے اُس رنگ میں ہر احمدی کو محنت کرنی چاہیے اور اپنی جد و جہد کو انتہا تک پہنچانا چاہیے.ہر فرد کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے صلاحیت کی شکل میں اُسے جو اصلی قوت اور اصلی دولت عطا فرمائی ہے اس سے وہ اپنے دائرہ صلاحیت کے اندر زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے اگر آج پاکستان میں بسنے والے احمدی ہی اپنی صلاحیتوں کی نشو ونما کو ان کی انتہا تک پہنچا دیں تو اسی سے ہمارے اس پیارے ملک کی کا یا پلٹ جائے گی حالانکہ ہم بہت تھوڑے ہیں لیکن اگر ہم اپنی تھوڑی تعداد کے باوجود بھی اپنی صلاحیتوں کی نشوونما آخری حد تک پہنچا دیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو زیادہ سے زیادہ دولت ہر چہار لحاظ سے کسی کو مل سکتی ہے وہ ہمیں مل جائے تو پاکستان کی دولت میں اتنا اضافہ ہو جائے گا کہ دُنیا کی کوئی اور طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی لیکن اگر ہم وعظ تو سنتے رہیں مگر عمل نہ کریں اور اپنے اوقات کو ضائع کرتے رہیں اور ہمارے نوجوان جنہیں خدا تعالیٰ نے ذہن عطا فرمائے تھے وہ اپنے ذہنوں کو کند چھری کے ساتھ ذبح کرنے والے ہوں اور ہمارے وہ پیشہ ور دوست جنہیں اللہ تعالیٰ نے حسن عمل کی صلاحیت عطا فرمائی تھی وہ اس دنیا میں خوبصورتی اور محسن پیدا نہ کر سکیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے لیکن اگر ہم ایسا کر دیں تو پھر ہمارا ملک (اور پھر ساری دُنیا لیکن اس وقت میں اپنے ملک کی بات کر رہا ہوں.ویسے ہماری ذمہ داری ساری دُنیا کی خوشحالی کی ہے ) دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک امیر ملک بن جائے گا.اسلئے کہ ہم تھوڑے ہیں لیکن اگر پاکستان کے سارے باشندے خدا تعالی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے غلبہ اسلام کی یہ ایک عظیم مہم جو دنیا میں جاری کی گئی ہے اس میں شامل ہو جائیں تو پھر میں کہوں گا کہ ہم ساری دنیا سے آگے نکل جائیں گے.لیکن ہم احمدی جو اس مملکت کے شہری ہیں ، ہماری تعداد گو بہت تھوڑی ہے لیکن اگر ہم اپنی نجات کی معراج کو پالیں یعنی ہماری قوتوں، ہماری استعدادوں اور ہماری صلاحیتوں کی نشوونما اپنے کمال تک پہنچ جائے تو

Page 41

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۱ خطبہ جمعہ ۱۴ /جنوری ۱۹۷۲ء ہمیں ہر پہلو سے اتنی دولت ملے ! اتنی وافر دولت کہ ہمارے ملک کا نقشہ بدل جائے.پس اپنے نفسوں پر رحم کرتے ہوئے اور بنی نوع انسان سے محبت کا اظہار کرنے کے لئے تم خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کی زیادہ سے زیادہ نشو و نما کرو اور اپنے اپنے دائرہ استعداد کی آخری حدود پر کھڑے ہو کر تم اپنے رب سے یہ کہو اے ہمارے رب !تو نے ہمیں انتہائی پیار سے صلاحیتیں دیں اور اُن کا ایک دائرہ مقرر فرمایا.پھر تو نے ہمیں یہ توفیق بخشی کہ ہم درجہ بدرجہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں اب ہم اپنی حد پر پہنچ گئے ہیں.اب ہم اندر کی طرف منہ کرتے ہیں اور یہ دُعا کرتے ہیں کہ جس طرح تو نے ہمیں ہمارے دائرہ استعداد اور صلاحیت میں انتہا تک پہنچنے کی توفیق عطا کر کے ہمیں نجات کی معراج تک پہنچایا ہے.اسی طرح تو ہمیں یہ توفیق بھی عطا فرما کہ اب ہم زیادہ سے زیادہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ جنوری ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 42

Page 43

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۳ خطبه جمعه ۲۸ جنوری ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ کے انتہائی انعامات کا وارث بننے کیلئے جماعت اپنی قربانی کو انتہا تک پہنچا دے فرمائی:.خطبه جمعه فرموده ۲۸ / جنوری ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا - (البقرة : ۲۸۷) أَفَرَعَيْتَ الَّذِي تَوَلَّى - وَ اَعْطَى قَلِيلا و اندی - (النجم : ۳۵،۳۴) اللَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى - وَ اَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى - وَ أَنَّ سَعْيَه سَوْفَ يُرى - ثُمَّ يُجْزَهُ الْجَزَاء الْأَوْقَى - وَأَنَّ إلى رَبَّكَ الْمُنْتَهى - (النجم : ۳۹ تا ۴۳) اس کے بعد فرمایا:.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا میں ہر دو پہلو بیان ہوئے ہیں.ایک یہ کہ اللہ کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا.یہاں طاقت سے مراد دائرۂ استعداد ہی ہے جس پر میں متعدد بار روشنی ڈال چکا ہوں.پس کسی کا جتنا دائرہ استعداد یا دائرہ صلاحیت یا دائرہ قوت و طاقت ہو، اس سے زیادہ بوجھ فرد، گروہ یا نوع پر نہیں ڈالا گیا.دوسرا پہلو یہ ہے کہ دائرہ استعداد میں جتنی بھی طاقت تھی ، اس پر پورا سو فیصد بوجھ ڈال دیا گیا اور انسان کو اس کا مکلف بنادیا گیا.اللہ اس سے کم پر

Page 44

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۴ خطبہ جمعہ ۲۸ ؍ جنوری ۱۹۷۲ء راضی نہیں ہوتا اور نہ وہ اس کا مطالبہ کرتا ہے اور جو طاقت سے باہر ہے وہ اس کا بھی مطالبہ نہیں کرتا.وہ اپنے کسی بندے پر اس وجہ سے بھی خوش نہیں ہو گا کہ اس نے اپنے بھائیوں سے طاقت سے زیادہ مطالبہ کیا لیکن طاقت اور اس دائرہ کے اندر ذمہ داریوں کا جو زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالا جاسکتا ہے، وہ ڈالتا ہے چونکہ قوت و طاقت کی نشو ونما ہوتی رہتی ہے اس لئے افراد کے بوجھ اور ان کی ذمہ داریاں بڑھتی چلی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ تیری وحی سے منہ پھیر لیتے ہیں وہ بھی دو قسم کے ہیں.ایک تو مقر اور ایک وہ جو ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کو جان بوجھ کر یا غفلت کے نتیجے میں نباہنے کی کوشش نہیں کرتے اور ان کا حال یہ ہے وَ اعْطَى قَلِيلًا و اندی کہ تھوڑا سا دیتے اور بقیہ کے متعلق بخل کرنے لگتے ہیں.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا میں جو بات بتائی گئی تھی وہ یہاں کھول کر بتادی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تھوڑا دینے پر راضی نہیں بلکہ وہ طاقت کے مطابق پورا دینے پر راضی اور خوش ہوتا اور اس کی جزا دیتا ہے.باقی اس کی رحمت وسیع ہے وہ اپنے بندوں سے بعد میں جزا سزا کے وقت جو چاہے سلوک کرے ( بعد میں سے یہ مراد ہے کہ اس زندگی کے بعد اُخروی جزا کا وقت یا اسی زندگی میں جزا کا وقت یعنی ایک محدود کوشش کا نتیجہ نکلنے کا وقت ) وہ مالک ہے جو مرضی ہو کرے اس کے متعلق ہم بات نہیں کیا کرتے لیکن جو خدا نے ہمیں کہا اور تعلیم دی ہے، ہم سے جو چاہتا اور خواہش رکھتا ہے اور جس بات پر وہ کہتا ہے کہ میں راضی ہوتا ہوں.وہ یہ ہے کہ جتنا دے سکتے ہو ا تنا دے دو تو میں راضی ہوں گا ورنہ نہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ بوجھ ڈالا ہے اور اس کو پسند نہیں کرتا کہ انسان اپنی قوت اور طاقت کے مطابق کام نہ کرے بلکہ اس سے کم کرے.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کی لغوی بحث میں امام راغب نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان کی طاقت سے جو زائد ہے، وہ اس کا مکلف نہیں لیکن اس دائرے کے اندر مکلف ہے.سورہ نجم میں یہی چیز کھول کر بیان کر دی گئی ہے کہ تھوڑا دینا اور بقیہ کے متعلق بخل کرنا.اگر تمہاری قوتِ استعداد تو اکائی ہو اور تم خدا کی راہ میں خدا کے بتائے ہوئے طریق اور

Page 45

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۵ خطبہ جمعہ ۲۸ /جنوری ۱۹۷۲ء اس کی تعلیم کے مطابق اور اس کی شریعت کے اصول کے لحاظ سے ننانوے اکائیاں دے دو اور ایک کے متعلق روگردانی اور بغاوت کا طریق اختیار کرو تو تم باغی ہو.اگر بھول جاؤ تو تم خدا تعالیٰ کے بعض فضلوں کو کھونے والے ہو سوائے اس کے کہ پھر ایک اور کوشش کرو یعنی استغفار اور دعاؤں اور خدا کے سامنے عاجزانہ تڑپنے کی.یہ ایک اور کوشش ہے جو اس کمی کو پورا کرتی ہے پس کوشش بہر حال کرنی پڑے گی.آدمی Indifferent ( ان ڈفرینٹ ) اور بے پرواہ نہیں رہ سکتا.یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے پر واہ کوئی نہیں.جہاں اس نے یہ کہا کہ مجھے پرواہ کوئی نہیں ، وہاں وہ مارا گیا اور اس کے ننانوے بھی اس کے منہ پہ پھینک دئے گئے لیکن اگر کوئی بشری کمزوری ہے یا غفلت ہے یا عدم علم یا ناواقفیت کی وجہ سے کوئی مجبوری سمجھی گئی ( یہ جہالت کے بعض پہلو اور اندھیرے ہیں جو بعض دفعہ انسان کے اوپر چھا جاتے ہیں) حالانکہ وہ مجبوری نہیں تھی اور اس پر اللہ تعالیٰ فضل کر دے تو اور بات ہے لیکن مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنی قوت اور طاقت، استعداد اور صلاحیت کے مطابق جتنا زیادہ سے زیادہ کر سکتا ہے وہ کرے اور اگر وہ خُدا کے حقوق اور خدا کی طرف سے عائد کردہ اس کے بندوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے انہیں خدا کے حضور پیش کر دے تو اس کے لئے بہترین جزا مقدر ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ سورہ نجم کی ان دو آیات کے بعد ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے جو کچھ دیتے اور بقیہ کے متعلق بخل کرتے ہیں کہ کیا ان کو علم نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل قانون ہے.جو پہلی الہامی کتب میں بھی نظر آتا ہے.یعنی اَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْری.وزر کے ایک معنے تو گناہ کے ہیں لیکن میں جو تفسیر کر رہا ہوں وہاں گناہ کے معنی چسپاں نہیں ہوتے.میری تفسیر کے مطابق بوجھ کے معنی ہیں یعنی خدا تعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے کہ کوئی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی جس کی استعداد پچاس اکائیاں ہے وہ اتنی اکائیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی جو پچاس اور ساٹھ کے درمیان فرق ہے یا ۵۰ اور ۱۰۰ کے درمیان فرق ہے وہ تو دوسرے کا بوجھ ہے (جس کی طاقت زیادہ ہے اور ) اس کے اوپر نہیں پڑ سکتا.اس کی جان پر اتنا ہی بوجھ پڑے گا جتنا کہ وہ اللہ تعالیٰ

Page 46

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۶ خطبہ جمعہ ۲۸ /جنوری ۱۹۷۲ء کی عطا کردہ صلاحیتوں کے مطابق اٹھانے کے قابل ہے اس سے زیادہ نہیں لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ میں نے جو کوتاہی کی ، میں نے جو غفلت کی ، میں نے جو کمزوری دکھائی اور جو قربانی مجھے پیش کرنی چاہیے تھی، میں نے پیش نہیں کی تو کوئی اور شخص اس کی خاطر اس کمی کو پورا کر دے گا.یہ ناممکن ہے اس واسطے کہ اس میں بھی تو اپنی استعداد سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی اہلیت نہیں ہے اگر اس کی ذمہ داری اتنی اکائیاں ہے تو اسی اکائیوں پر اس کی طاقت ختم ہوگی.وہ دوسرے کی دس اکائیاں کہاں سے پوری کرے گا اگر اس کی طاقت نوا کائیاں ہے تو سو اس نے دے دینی ہیں ایک سو دس وہ کہاں سے لائے گا.پس الا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْری یہ ایک اٹل قانون ہے.اگر زید اپنی پوری طاقت کے مطابق خدا کے حضور پیش نہ کرے تو زید کی طاقت کے اظہار یعنی محنت اور جانفشانی میں جو کمی رہ گئی ہے یہ کی کوئی دوسرا پوری نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا اپنا ایک دائرہ استعداد ہے اور اس دائرہ استعداد کی انتہا تک اس کی ذمہ داری ہے.دوسرے کی ذمہ داری وہ کیسے اُٹھائے گا.اَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اخری.دوسرے کا بوجھ تو وہ اُٹھا ہی نہیں سکتا یہ ناممکن ہے کیونکہ یہ اٹل قانون ہے کہ کوئی انسان دوسرے کا بوجھ اور ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا.زید بکر کی ذمہ داریاں نہیں اُٹھا سکتا اور بکر زید کی ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا.ہر شخص کو اپنی ذمہ داریاں خود ہی ادا کرنی پڑیں گی اور ادا بھی اس طرح نہیں کرنی ہوں گی کہ کچھ دیا اور بقیہ کے متعلق بخل کر دیا بلکہ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اپنی طاقت کو انتہا تک پہنچا کر اس کا آخری حصہ تک ادا کرنا پڑے گا کیونکہ دوسرا کوئی ہے ہی نہیں جو کمی کو پورا کر سکے.عقلاً بھی کوئی دوسرا اس کمی کو پورا نہیں کرسکتا.یہ خدا کا اٹل قانون ہے کیونکہ جو دوسرا ہے اس کو جتنی طاقت دی گئی تھی اس کے مطابق کام کرنے کی تو اس کی اپنی ذمہ داری تھی اور دوسرے کی ذمہ داری اُٹھانے کی اسے طاقت ہی نہیں ملی.اس کی طاقت کا کوئی حصہ ایسا نہیں رکھا گیا جس کے بارہ میں اسے کہا گیا ہو کہ تو دوسرے کی ذمہ داری اٹھالے.وہ دوسرے کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا.ہر گز نہیں اٹھا سکتا.پس جو قوم اپنے مقام کی انتہا کو پہنچنا چاہے، اس کے ہر فرد کی ایسی تربیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو انتہا تک پہنچانے والا ہو.فرض کرو ایک لاکھ کی کوئی قوم

Page 47

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۷ خطبہ جمعہ ۲۸ جنوری ۱۹۷۲ء ہے اگر ان میں سے نوے ہزا ر اپنے دائرہ استعداد کے مطابق یعنی لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا میں جس قسم کے مکلف ہونے کا ذکر ہے اس کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو اپنے دائرہ استعداد کی انتہا تک پہنچا دے اور دس ہزار نہ پہنچا ئیں تو جو کام دس ہزار سے رہ گیا ہے، کسی اور کی طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ پورا کر سکے.یہ بالکل ناممکن ہے خدا تعالیٰ نے اس کو پورا کرنے کی طاقت ہی نہیں دی پس اگر یہ کمی رہ گئی تو ایک لاکھ آدمی اپنے مقام کی انتہا کو نہیں پہنچ سکے گا کیونکہ دس ہزار نے کمزوری دکھا دی.پھر فرمایا کہ انسان کو اس کی سعی کے مطابق ہی ملا کرتا ہے.میں اب یہاں یہ معنی کروں گا کہ بنی نوع انسان کیونکہ ان کی سعی کا جو مجموعہ ہے اس کی انتہا کے مطابق قوم ترقی کرتی ہے ویسے ہر فرد بھی اپنی سعی کے مطابق ہی پاتا ہے.بچوں کو سمجھانے کے لئے میں ایک مثال دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی کو نتوار و پیہ دینا چاہے اور وہ دو پر راضی ہو جائے تو اس نے خود کو اٹھانوے سے محروم کر دیا.اگر کوئی فرد خدا تعالیٰ کی اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتوں کے حصول کی استعداد رکھتا تھا یعنی اتنی استعدا د رکھتا تھا کہ وہ خدا کے حضور ایسی قربانیاں پیش کر سکے کہ خدا تعالیٰ کے اعلیٰ سے اعلیٰ انعام جو امت محمدیہ میں کسی کومل سکتے ہیں، وہ پالے اگر اس نے وہ کوشش نہیں کی تو وہ خود کو محروم کرتا ہے اور جو قوم بحیثیت قوم اس لئے پیدا کی گئی کہ وہ دنیا کی معلم اور ہادی بنے اس قوم کے ہر فرد کو اپنی قوت کے مطابق اپنی قربانی انتہا تک پہنچا دینی چاہیے اور قوت تو بدلتی رہتی ہے (اس تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں.میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں ) کیونکہ نشوونما ہورہی ہے اور طاقت بڑھتی چلی جارہی ہے.آپ کوئی وقت لے لیں اگر انہوں نے اس وقت کی طاقت کے مطابق اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا دیا تو وہ قوم اس وقت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے انتہائی انعامات کی وارث بن گئی لیکن اگر بعض نے خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچادیا اور وہ دائرہ استعداد کی حد بندی کرنے والی آخری لکیر تک پہنچ گئے اور بعض نے اپنی طاقت کی انتہا تک قربانیاں نہ دیں تو بحیثیت مجموعی قوم یا جماعت ان انعامات کی وارث نہیں بن سکتی ، جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے (اس حساب میں منافقین کو اس گروہ سے باہر

Page 48

خطبات ناصر جلد چہارم سمجھنا پڑے گا).۲۸ خطبہ جمعہ ۲۸ /جنوری ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَ أَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُری.ایسا شخص جوا اپنی استعداد کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے وہ اپنی کوشش کا نتیجہ ضرور دیکھے گا اور اس کی سعی کے مطابق جَزَاء اوٹی یعنی پوری جزاء اسے ضرور ملے گی.وَ أَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهی.اسے اپنی کوشش پر نازاں نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بعض ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں جو انسان کی نظر میں نہیں ہوتیں اور اس کی عقل میں نہیں آسکتیں لیکن کمزوری ہوتی ہے.یہ فیصلہ کرنا کہ اس شخص یا جماعت نے اپنی طاقتوں اور وقتی نشو ونما کے مطابق بغیر کسی کمزوری کے ( کمزوری ایمان ہو یا کمزوری عمل یا کمزوری فہم خدا کے حضور اپنی انتہائی قربانی پیش کر دی ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.انسان یہ کر ہی نہیں سکتا اس کی نگاہ دوسروں کے سلسلہ میں بھی متعصبانہ ہوسکتی ہے اور اپنے حق میں تو انسان بڑا سخت متعصب بن جاتا ہے کرتا تھوڑا ہے اور سمجھتا ہے میں نے بہت کیا.کچھ بھی نہیں کرتا اور سمجھتا ہے میں نے کچھ کر لیا.قرآن کریم میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے کہ کرتے کچھ نہیں اور دعوے بڑے کر رہے ہوتے ہیں.ایسی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں.پس فرما یا تم انتہائی کوشش کرو جس قدر تم کر سکتے ہو لیکن تکبر نہ کرنا.ہمارا وعدہ یہ ہے کہ تمہاری انتہائی کوششوں کا انتہائی نتیجہ نکلے گا بشرطیکہ تمہاری کوششیں ہماری نگاہ میں بھی انتہا تک پہنچی ہوئی ہوں اور تم اس شرط کو کبھی نہ بھولنا.آج میں ایک اور خطبے کے تسلسل میں ہی محنت پر زور دینا چاہتا ہوں گو محنت سے مراد ہر قسم کی محنت ہوتی ہے لیکن ہر فرد اور قوم میں اصولاً دو قسم کی محنتیں ہوتی ہیں.ایک فرد یا قوم کی استعدادوں کی نشوونما کے لئے محنت اور ایک یہ کہ پہلے کی نشوونما کے بعد اُس وقت (معین کوئی وقت یا تاریخ لے لیں) کی طاقتوں اور استعدادوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ، اس کی شریعت کی روشنی میں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے روشنی حاصل کرتے ہوئے پورے طور پر کام میں لگا دینا اور اس وقت کے لحاظ سے اپنی ساری طاقت اور استعداد کے مطابق خدا اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کو انتہا تک پہنچادینا.یہ دونوں کوششیں اپنی انتہائی شکل میں ہونی

Page 49

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۹ خطبہ جمعہ ۲۸ /جنوری ۱۹۷۲ء چاہئیں یعنی ایک تو تربیت کی کوشش جسے ہم مختصراً دوسرے الفاظ میں استعدادوں کی نشونما کہتے ہیں.ہر وہ فرد واحد جو خدا اور اس کے رسول اور خدا کے رسول کے روحانی فرزند عظیم مہدی معہود کی طرف منسوب ہو رہا ہے اس کی تربیت کے لئے انتہائی کوشش ہونی چاہیے اور دوسرے جماعت بحیثیت جماعت ( بحیثیت جماعت کا مطلب ہے افراد کا مجموعہ ) اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کی جتنی طاقت رکھتی ہے اسے اس طاقت کے مطابق انتہائی قربانی دیتے رہنا چاہیے یہ طاقت بڑھتی رہے گی اور پہلے سے بڑی قربانی کا مطالبہ ہوتا رہے گالیکن آج ۲۸ /جنوری کو ہماری جتنی طاقت ہے اس کے مطابق ہمیں انتہائی قربانی دے دینی چاہیے.اللہ تعالیٰ فضل کرے اور کل ہماری طاقت آج سے کہیں بڑھ کر ہو اور خدا کرے کہ کل ہماری قربانیاں بھی اسی نسبت سے آج سے کہیں بڑھ کر ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے.روزنامه الفضل ربوه ۹ را پریل ۱۹۷۲ ء صفحه ۲، ۳)

Page 50

Page 51

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۱ خطبہ جمعہ ۴ رفروری ۱۹۷۲ء ہر مسلمان اپنی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشو ونما کو کمال تک پہنچا دے فرمائی:.خطبه جمعه فرموده ۴ فروری ۱۹۷۲ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کی تلاوت قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً - الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمُ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا و و و و و دور وَهُم يحسبون انهم يحسنون صنعا - (الكهف : ۱۰۴، ۱۰۵) مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ تُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يصليها مَنْ مُومًا مَّدْحُورًا - وَمَنْ اَرَادَ الْأَخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَبِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُورًا - كُلًّا تُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبَّكَ وَ مَا كَانَ عَطَاءُ ط رَبَّكَ مَحْظُورًا - انْظُرُ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَ لَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَتٍ وَ أَكْبَرُ تَفْضِيلاً.(بنی اسراءیل : ۱۹ تا ۲۲) ج اور پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے ہمیں محنت کرنے کے متعلق جو حسین تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو جو بھی قوتیں اور طاقتیں دی گئی ہیں ان کی نشو ونما کا انحصار اُس کی انتھک محنت اور انتہائی کوشش پر ہے.

Page 52

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۲ خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۷۲ء اس لئے انسان کو اپنی قوتوں اور طاقتوں کی کامل نشو و نما کے لئے انتھک کوشش اور انتہائی جدوجہد کرنی چاہیے.جیسا کہ قرآن کریم پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے اصولی طور پر ہمیں چار قسم کی قوتیں اور صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں.(۱).جسمانی (۲).ذہنی (۳).اخلاقی اور (۴).روحانی.اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہر قسم کی قوت کی نشو ونما کو کمال تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرنی ضروری ہے اور ان چاروں قسموں میں سے کسی قسم کی قوت اور صلاحیت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَق کی رُو سے انسان کی تمام طاقتوں اور قوتوں کی صحیح اور کامل نشو و نما ہونی چاہیے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ہے کہ اگر چین سے علم حاصل ہو سکے تو چین جانا ضروری ہے یعنی ذہنی اور علمی قوتوں اور استعدادوں کی کمال نشوونما کے لئے انتہائی سختیاں برداشت کرنی چاہئیں.پھر اخلاق پر بڑاز ور د یا.فرمایا کھانا کھاتے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا کہ تمہارے کھانے پینے کا کہیں تمہارے اخلاق پر برا اثر نہ پڑے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ اسلام میں جو ممنوعات ہیں وہ اس لئے ہیں کہ اخلاق درست رہیں.آپ نے فرمایا کہ سور کے گوشت کی ممانعت اس لئے ہے کہ یہ انسانی جسم اور انسانی اخلاق پر اچھا اثر نہیں کرتا اور پھر ممنوعات میں صرف وہ چیز میں ہی نہیں آتیں کہ جن کے نہ کھانے کا حکم ہے بلکہ جس رنگ میں کھانے کا تعلق ہے اس کے بھی بعض پہلوؤں میں ممانعت ہے مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ابھی بھوک کا احساس ہو تو کھانا چھوڑ دو.ایک مسلمان طیب ہی کھا رہا ہوگا لیکن اس میں بھی اسراف سے منع کیا.پھر ایسے کھانے سے بھی منع کیا جس کی مقدار ذہن یا اخلاق پر اثر کرنے والی ہو.اس لئے جو لوگ اُس وقت تک کھاتے رہتے ہیں جب تک بھوک کا احساس قائم رہتا ہے بلکہ اُس کے بعد بھی ، ان کے جسم پر بھی اثر پڑتا ہے، اُن کے اخلاق پر بھی اثر پڑتا ہے.اخلاقی طاقتیں دراصل وہ فطرتی طاقتیں ہیں جو انسان کے اندر پائی جاتی ہیں.ان کے صحیح استعمال کو اخلاقی طاقت کہتے ہیں مثلاً ایک فطرتی طاقت یہ بھی

Page 53

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۳ خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۷۲ء ہے کہ انسان بری چیز کو برا سمجھتا اور اس کے متعلق اس کے دل میں غصہ پیدا ہوتا ہے.پس غصہ انسانی فطرت کی ایک طاقت ہے اس لئے یہ کم و بیش ہر انسان کے اندر (سوائے ان لوگوں کے جو مفلوج ہوں ) کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی ہے لیکن انسان کو محض نفرت کرنے یا غصہ کرنے کی طاقت ہی نہیں دی گئی بلکہ نفرت اور غصے کے صحیح استعمال کی طاقت بھی دی گئی ہے اور اسی کو ہم اخلاقی طاقت کہتے ہیں.صحیح استعمال کی یہ طاقت انسان کے علاوہ دوسری مخلوق میں نظر نہیں آتی کیونکہ انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی.مثلاً فرشتے ہیں، اُن کو یہ طاقت ہی نہیں دی گئی کیونکہ اُن کا اپنا ایک ایسا دائرہ ہے جس میں اُن کی فطرت خود ہی اپنے ماحول کے مطابق تھوڑی بہت لچک پیدا کر دیتی ہے اور اس سے زیادہ کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی یا مثلاً خوف ہے یعنی کسی چیز سے ڈرنا یہ بھی انسانی فطرت کا ایک حصہ اور اس کی ایک طاقت ہے.اس کے صحیح استعمال کے لئے جو چیز ہمیں دی گئی ہے.وہ اخلاقی قوت ہے مثلاً جو شخص ڈرتا اور خوف کھاتا ہے اُسے ہم نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.(اس معنی میں جو اسلام نے اخلاقی نفرت بیان کی ہے ) اور دوسرا شخص جب ڈرتا ہے وہ ہمارا محبوب بن جاتا ہے یعنی جو شخص شیطان سے ڈرتا ہے جو شخص دنیوی معبودوں کی پرستش کرنے سے ڈرتا ہے وہ دراصل ایک عقل مند صاحب فراست اور با اخلاق مسلمان ہے جس کی قوتوں کی گویا صحیح نشوونما ہو چکی ہے.اس لئے وہ شیطان وغیرہ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اُن سے خوف کھاتا ہے البتہ انسانوں سے نفرت کرنا اسلام نے ہمیں نہیں سکھایا.اُن کی بداخلاقیوں سے نفرت کرنے کا حکم ہے لیکن اس خوف کو جو اس شخص کے دل میں پیدا ہوا ہم اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہی خوف ایک اور شکل میں بھی ظاہر ہوتا ہے یعنی خشیت اللہ کے رنگ میں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائے ہم اللہ تعالیٰ سے اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ہم اُس نعمتوں اور فضلوں سے محروم نہ ہو جا ئیں.ہم اس بات سے خوف کھاتے ہیں کہ اُس کے پیار سے محروم نہ ہو جا ئیں پس جو شخص اس رنگ میں خوف کا مظاہرہ کرتا ہے وہ ہماری نظر میں بڑا پیارا بن جاتا ہے چنانچہ سب سے زیادہ خشیت اللہ کے مالک ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے.ہمارے اس

Page 54

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۴ خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۷۲ء محبوب نے انتہائی خوف کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا کامل پیار حاصل کیا.دوسری طرف انتہائی خوف ایک اور شکل میں ابو جہل کے دل میں تھا.اُسے ہر وقت یہ خوف لاحق تھا کہ میری سرداری نہ چھن جائے یعنی اس کے دل میں یہ خوف رہتا تھا کہ حق صداقت کے حق میں یہ بات کرنے سے یا بتوں کے خلاف آواز اٹھانے سے اس کی سرداری نہ جاتی رہے لیکن یہ خوف قابل نفرت ہے پس اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں جو قو تیں اور استعداد میں رکھی ہیں ان کا ایسا استعمال ہو کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے یا اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو جائے اور یہی ہماری اخلاقی قوت ہے.پھر روحانی قوت ہے جس سے ہم اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتے ہیں اور جس کے نتیجہ میں ہم اس ورلی زندگی کے محدود ہونے کے باوجود ابدی نعمتوں کے وارث بن جاتے ہیں.میں اس تفصیل میں اس وقت نہیں جانا چاہتا کیونکہ یہ ایک لمبا مضمون بن جاتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے ہمیں چار قسم کی قوتیں اور استعداد میں اور صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ساری قوتوں اور صلاحیتوں کو نشوونما کے کمال تک نہیں پہنچاؤ گے تو تم خسران میں ہو گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً کیا ہم تمہیں بتائیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ گھاٹا پانے والا ، سب سے زیادہ گمراہ اور ہلاکت میں پڑنے والا کون ہے؟ فرماتا ہے.ہلاکت میں پڑنے والا اور راہ گم کرنے والا وہ شخص ہے جس نے اگر چہ اپنی جسمانی اور ذہنی طاقتوں کی نشونما کو انتہاء تک پہنچا دیا.مگر ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا اس نے اپنی اخلاقی اور روحانی طاقتوں کی طرف اور ان کی نشو و نما کی طرف توجہ نہ دی.غرض اس آیت میں ہمیں بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ اگر ہم چاروں قسم کی قوتوں میں سے ہر قسم کی تمام قوتوں کی نشو و نما نہیں کریں گے تو ہم گھاٹے میں رہیں گے مثلاً انسان کو چار قسم کی قوتیں دی گئی تھیں مگر اس آیت کی رو سے انسان نے دو قوتوں پر زور دیا اور باقی دو یعنی اخلاقی اور روحانی قوتوں کو نظر انداز کر دیا مگر آج تو ہمیں یہ سوچ کر شرم آتی ہے کہ جہاں تک ان دو کا تعلق تھا یعنی جسمانی اور ذہنی قوتوں کی نشوونما کا اس میں بھی غیر مسلم دنیا مسلمان کہلانے

Page 55

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۵ خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۷۲ء والوں سے آگے نکل گئی ہے.ان کی جسمانی اور ان کی ذہنی قوتوں کی نشو و نما ایک مسلمان سے بہتر تھی تبھی تو وہ اس دنیا میں ترقی کر گئے لیکن خدا تعالیٰ نے ان غیر مسلموں کو دھتکارا اور فرمایا.پرے ہٹ جاؤ میرے سامنے سے کیونکہ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنیا میں یہی خسران کے معنے ہیں یعنی ان کی کوشش اور ان کی جدو جہد اور ان کی محنت اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کی نشوونما کے لحاظ سے ادھوری تھی.انہوں نے دو قسم کی نشو ونما کی اور دوسری دو کو چھوڑ دیا.دنیا کے متعلق ان کی کوششیں تھیں مگر اخلاقی اور روحانی قوتوں کا فقدان تھا حالانکہ دنیا میں جب تک اخلاقی حسن نظرنہ آئے اس وقت تک انسانیت میں حسن نظر نہیں آ سکتا.جسمانی اور ذہنی قوتوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی استعدادوں کی بھی نشو و نما ہونی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس طرف ارشاد فرمایا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ مذہب کے بغیر صحیح اخلاق پیدا ہو ہی نہیں سکتے.جن لوگوں نے مذہب کو چھوڑ دیا اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کو یہ فرمانا پڑا کہ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وہ مفلوج ہیں.وہ خسران میں ہیں وہ ہلاکت اور ضلالت میں پڑے ہوئے ہیں.پس ان آیات میں علاوہ اور بہت سی باتوں کے یہ بھی بتلایا گیا تھا کہ اگر ساری طاقتوں کی کمال نشوونما کے لئے تمہاری طرف سے انتہائی جدو جہد نہیں ہوگی تو تم گھاٹے میں رہو گے یا اگر تم نے دو قسم کی قوتوں کی نشوونما پر زور دیا اور دوسری دو بالکل بھول گئے تو یہ بات تمہارے لئے اور بھی زیادہ نقصان اور ہلاکت کا موجب ہوگی لیکن اگر تم نے اپنی قوتوں کی صحیح اور انتہائی نشوونما کے لئے آخری کوشش نہ کی تو پھر بھی تم گھاٹے میں رہو گے جس حد تک تمہاری کوشش میں کمی ہوگی ، اسی حد تک تمہارا نقصان بھی ہوگا.غرض خدا تعالیٰ تمہیں بہت کچھ دینا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں اس حد تک دینا چاہتا ہے جس حد تک اس نے تمہارے اندر لینے کی قوت اور طاقت پیدا کی ہے.اگر تم اس سے لینے کی طاقت کو انتہا تک نہ پہنچاؤ گے تو وہ تمہیں کچھ نہیں دے گا اس لئے کہ تم نے اس سے لینے کا خود کو اہل ہی نہیں بنایا.اگر تم محض دنیا کے لئے کوشش کرو گے تو دنیا تمہیں مل جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا

Page 56

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۶ خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۷۲ء ہے مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ يه ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيوة الثا نیا ہی ہے پس اگر تم محض دنیا کے لئے اپنی جسمانی اور ذہنی طاقتوں کی نشو ونما کو انتہا تک پہنچانے کے لئے محنت کرو گے تو دنیا تمہیں مل جائے گی.لیکن مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ کی رو سے اس عارضی چند روزہ اور بے وفا دنیا کے بعد تمہیں کچھ نہیں ملے گا لیکن ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا کی رُو سے اس عارضی چند روزہ اور بے وفا دنیا کے بعد تمہیں کچھ نہیں ملے گا لیکن وَمَنْ اَرَادَ الْأَخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ کی رو سے جو شخص اس دنیا کی بعد کی زندگی کے لئے بھی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دنیا کے انعامات کے علاوہ اخروی زندگی کی نعمتوں سے بھی اسے نوازتا ہے.در اصل قرآن کریم میں جہاں بھی اس ضمن میں یعنی اس Context (کن ٹیکسٹ) میں سعی “ کا لفظ آئے گا اس کا مطلب یہی ہو گا کہ جو شخص اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ان کی نشوونما کو کمال تک پہنچانے کے لئے محنت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو چار قسم کی بنیادی صلاحیتیں عطا کر کے فرمایا ہے کہ اگر تم اس دنیا کے انعامات اور اُخروی زندگی کے انعامات کے حصول کیلئے جو را ہیں مقرر کی گئی ہیں ان پر چل کر انتہائی کوشش کرو گے تو اس دنیا میں بھی تم اللہ تعالیٰ کے بہترین انعاموں کے وارث بنو گے اور اُخروی زندگی میں بھی اس کے بہترین انعاموں کے وارث بنو گے.مگر یہ سب کچھ تم اپنے اپنے دائره استعداد کے اندر رہ کر حاصل کرو گے کیونکہ اپنے دائرہ استعداد سے آگے تو کوئی شخص نہیں بڑھ سکتا نہ اس دُنیا میں اور نہ اُخروی زندگی میں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ في شَانِ (الرحمن: ٣٠) اس کا ایک نظارہ ہمیں یہاں بھی نظر آتا ہے.بہر حال اپنے دائرہ استعداد اور دائرہ صلاحیت کے اندر ہر شخص اور (پھر ان کا مجموعہ جس کا نام قوم رکھتے ہیں ) ہر قوم اس دُنیا میں آگے سے آگے نکلتی چلی جائے گی اور اس طرح انسان بحیثیت انسان دوحصوں میں منقسم ہو جائے گا.ایک وہ انسان جس کا آدھا دھڑ مارا ہوا ہے یعنی اس کے وجود کا دُنیوی حصہ ہے اس میں تو زندگی کے آثار ہیں لیکن اس کے وجود کے اخلاقی اور روحانی حصوں میں ہمیں ایک بے حسی نظر آتی ہے یا جان نظر

Page 57

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۷ خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۷۲ء نہیں آتی اور دوسرا وہ جس کے دونوں حصوں میں جان نظر آتی ہے اور یہ وہ مسلمان ہے جس کی چاروں بنیادی قوتوں کی ارتقاء نہ صرف اس دُنیا تک محدود ہے اور نہ صرف اس دُنیا میں بندھی ہوئی یا محصور ہے بلکہ ایک مسلمان کی قوتوں کی ارتقاء کا تعلق ، ان کی نشو ونما کا تعلق اور پھر اس کے نتیجہ میں اس کا اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث ہونے کا جو تعلق ہے وہ اس دُنیا کے ساتھ بھی ہے اور اُس دُنیا کے ساتھ بھی ہے چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے آپ کی قوتِ قدسیہ اور تربیت کا ملہ کے نتیجہ میں اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کی نشو و نما کو ان کے کمال تک پہنچایا تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس مادی دنیا کی سب دولتیں ان کے قدموں پر لا ڈالی گئیں اور انہوں نے اخروی زندگی کے مزے اس دنیا میں لینے شروع کر دیئے کیونکہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ یہ بشارت دیتا ہے کہ میں تجھ سے خوش ہوں میں تجھ سے راضی ہوں تو گویا اس نے اس دنیا میں اخروی زندگی کے مزے لے لئے اسے اور کیا چاہیے؟ اصل چیز تو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی ہے باقی سب کچھ اسی رضا اور خوشنودی کی تفصیل ہے.اس لئے جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا پیار مل جائے ، اسے اور کیا چاہیے.جیسا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ اپنا پیار دیتا ہے اور اتنا دیتا ہے اور اس طرح دیتا ہے کہ ہماری عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی.غرض اللہ تعالیٰ اپنا پیار تو دے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اس لذت اور اس سرور کا نچوڑ اس طرح دے دیا کہ فرمایا.میں تم سے خوش ہوں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ میں تیرے صحابہ سے خوش ہوں.آپ نے ان کو بشارتیں دے دیں اور اس گروہ کے ایک حصہ کا نام مبشرہ رکھا گیا.مختلف موقعوں پر مختلف معنوں میں ان کو مبشرہ کہا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو یہ بشارت دی گئی تھی اگر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ بشارت نہ ملتی تو کوئی کہ سکتا تھا پتہ نہیں یہ نفس ہی کا خیال نہ ہو یا دھوکا نہ ہو یا خود ان کے نفس کہتے کہ پتہ نہیں نفس کی کمزوری کے نتیجہ میں کہیں یہ شیطانی وسوسہ نہ ہو اور شیطان ان کے دل میں کبر اور غرور پیدا نہ کرنا چاہتا ہو.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر کامل یقین رکھنے والے اور آپ کی باتوں کو خدا تعالیٰ کی وحی یا اس کی تفسیر

Page 58

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۸ خطبہ جمعہ ۴ فروری ۱۹۷۲ء سمجھنے والے اس گروہ کو جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ بشارت ملی تو پھر ان کے لئے کوئی شبہ اور ابہام باقی نہ رہا.پس اس دنیا میں بھی روحانی لذتوں اور سرور کے ہزار ہا سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں.میں تو اس وقت مثال دے کر بعض باتیں بیان کر رہا ہوں ورنہ روحانی نعمتوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہو سکتا.اس اگلی زندگی کے جو ٹھنڈے جھونکے ہیں وہ تو یہاں مل جاتے ہیں اور بے شمار ملتے ہیں لیکن بہر حال ایک مسلمان کی زندگی جو اللہ تعالیٰ کے انعامات سے بھری ہوئی ہے اور جو اخلاقی روحانی لذتوں اور سرور کی آماجگاہ ہے.اس زندگی کا تعلق اس لذت کا تعلق اور اللہ تعالیٰ کے اس پیار کا تعلق اس دنیا کی زندگی کے ساتھ بھی ہے لیکن اس اگلی زندگی کے ساتھ حقیقی اور شدید تعلق ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جنتیں دو ہیں.ایک اس دنیا کی جنت اور ایک اس اُخروی دنیا کی جنت جو شخص اللہ تعالیٰ کے پیار کو پالیتا ہے.اسے اس دنیا میں بھی جنت مل جاتی ہے.ان ساری باتوں سے ایک یہ نتیجہ بھی بڑا واضح اور نمایاں طور پر نکلتا ہے کہ ایک احمدی بچے ، بوڑھے اور جوان مرد و زن کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کی نشوونما کو انتہا تک پہنچانے کے لئے انتہائی محنت اور جفاکشی کی زندگی گزارے.اس کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں.اس کے بغیر زندگی کی کوئی لذت نہیں اور اس کے بغیر زندگی کا کوئی سرور نہیں.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ اگر ہمارا رب مثلاً کسی سے یہ کہے کہ میں تجھے اپنا سو پیار دینا چاہتا ہوں اور وہ کہے کہ اے ہمارے پیدا کرنے والے پیارے محبوب خدا ! میں تو تیرے صرف ہیں پیارلوں گا اور باقی کو چھوڑ دوں گا تو اس میں زندگی کا کیا مزہ ہے.پس اللہ تعالی تمہیں جتنا پیار دینا چاہتا ہے وہ تم حاصل کرو مگر اس کا انحصار تمہاری صلاحیتوں اور قوتوں کے پیمانے پر ہے.اس لئے تم اپنے اس پیمانے کو آدھا نہ بھرو اور نہ اس میں کوئی سوراخ ہونے دو کہ کہیں وہ چیز بھی بیچ میں سے بہہ نہ جائے جو تم نے حاصل کی ہے.غرض جس حد تک تم خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے اہل اور قابل بنائے گئے ہو تم انتہائی کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ

Page 59

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۹ خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۷۲ء کی محبت کو اپنی اہلیت کے مطابق انتہائی طور پر پالو تا کہ اس دُنیا کے انعامات بھی ملیں اور اُس دُنیا کے انعامات بھی ملیں.پس یہی محنت ہے ، یہی جد و جہد ہے، یہی جہاد ہے ، یہی کوشش ہے اور یہی جفاکشی ہے جس کی طرف اسلام ہمیں بلاتا ہے اور جس پر قرآن کریم نے مختلف پہلوؤں سے مختلف رنگوں میں بار بار زور دیا ہے اور اس کی تاکید فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ عمل میں احسان کو مدنظر رکھیں.اس عمل کی خوبصورتی کو انتہا تک پہنچانے کے لئے جس حُسنِ علم کی ضرورت ہے ہم اُس کو بھی حاصل کر سکیں عربی لغت میں آحسَنَ فِی الْعَمَلِ “ کے یہ معنے کئے گئے ہیں کہ وہی شخص اچھا ہے جس کے کام میں حسن علم بھی ہے اور حسنِ عمل بھی ہے.اصل بات یہ ہے کہ حسن علم کے بغیر حسن عمل ہو ہی نہیں سکتا.جب ہمیں یہ پتہ ہی نہ ہو کہ اپنے عمل کو یا اپنی کوشش کو یا اپنی قربانیوں کو کس طرح ، کس رنگ میں اور کن جہات سے ہم خوبصورت سے خوبصورت بنا سکتے ہیں تو ہمارا عمل ادھورا رہ جائے گا کیونکہ ہمیں اپنے عمل کو خوبصورت بنانے کا علم نہیں ہے.اس واسطے جن راہوں پر چل کر انتہائی کوشش کرنی چاہیے اُن راہوں کا علم بھی ہونا چاہیے اور اُن پر چلنا بھی چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِانْفُسِكُم - (بنی اسراءیل : ۸) یعنی اگر تم اچھا کام کرو گے تو اس کا بہترین نتیجہ تمہیں مل جائے گا.اس میں ”اِحْسَان في الْعَمَلِ “ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر تم اپنے کاموں میں حُسنِ علم اور حسن عمل پیدا کرو گے تو تم اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حسین ترین جلوہ دیکھو گے.تم اپنے جسمانی اور روحانی حواس سے اُس کے حُسن کو اس کے پیار کو اور اس کی محبت کو محسوس کرو گے اور اس سے زیادہ نہ کچھ اور ہوسکتا ہے اور نہ عقلاً ممکن ہے.پس اگر تم اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیار اس کے انتہائی انعام اور اس کی انتہائی رحمتوں اور اس کے انتہائی فضلوں کے وارث بننے کے اہل ہو گے تو تمہیں یہ سب کچھ ملے گا لیکن ایک مسلم کی محنت

Page 60

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۰ خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۷۲ء اور ایک غیر مسلم کی محنت میں یہ فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور اسی کے مطابق ہمیں عمل کرنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ ایک غیر مسلم سب صلاحیتوں کی کمال نشوونما کی طرف متوجہ نہیں ہوتا لیکن ہمیں اپنی ساری قوتوں کو ( یعنی ہر چہار قسم میں سے ہر قسم میں جتنی قو تیں اور صلاحیتیں ملی ہیں ان میں سے ہر ایک کو ) نشو و نما کے کمال تک پہنچانے کے لئے جس محنت کی ضرورت ہے اس کی ہم انتہا کر دیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا پیار ہمارے لئے انتہائی اعلیٰ شکل میں ظاہر ہوگا اور ہمیں دُنیا کی اور دین کی اور اس زندگی کی اور اس انگلی زندگی کی ساری ہی خوشیاں مل جائیں گی.خدا کرے کہ جس طرح صحابہ کرام نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اللہ تعالیٰ کے انتہائی انعاموں کو پا لیا تھا اسی طرح ہم عاجز بندے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے طفیل اللہ تعالیٰ کے انتہائی انعاموں کو حاصل کرنے والے بن جائیں.آمین (روز نامه الفضل ربوہ ۷ مارچ ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۴ )

Page 61

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۱۸ ؍فروری ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ کی مدد انتہائی قربانی پیش کرنے اور صبر و ثبات دکھانے کے بعد نازل ہوتی ہے خطبه جمعه فرموده ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں :.وَ اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ.(ال عمران : ۱۴۰) وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصّلِحَتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخْفُ ظُلْبًا وَ لَا هَضْبًا - ( طه : ۱۱۳) وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرُ إِطْمَانَ بِهِ ۚ وَ إِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ إِنْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ - (الحج:۱۲) فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُتُ لَهُمْ عَدا - ( مريم : ۸۵) اور پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو نباہیں گے تو اللہ تعالیٰ اُن کی نصرت اور مدد فرمائے گا اور دُنیا کی کوئی طاقت اور شیطان کا کوئی منصو بہ اُن کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نیک عمل کرو گے، مناسب حال عمل کرو گے تو نہ تمہیں یہ خوف باقی رہے گا کہ کوئی طاقت تم پر ظلم کر سکے اور نہ تمہیں یہ خطرہ رہے گا کہ تمہارے وہ

Page 62

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۲ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء حقوق جو تمہارے نیک اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق قائم ہوں گے اُن کو تلف کیا جائے گا.گویا نہ ظلم کا خطرہ باقی رہے گا اور نہ حق تلفی کا.تا ہم اللہ تعالیٰ زبانی دعوی کو نہیں مانتا.زبان سے تو ہر وہ شخص جسے خدا تعالیٰ نے زبان دی ہے کوئی نہ کوئی دعوی کر سکتا ہے.اُس کے لئے دعویٰ کرنا محال نہیں ہے لیکن اس کے دعوئی میں کہاں تک صداقت ہے یہ اس شخص کے عمل سے ثابت ہوتا ہے.کیونکہ محض زبانی دعوی بے فائدہ ہے فلاح اور کامیابی پر منتج نہیں ہوا کرتا.اس لئے دعوئی ایمان بھی ہو اور عمل صالح بھی ہو اور نیک اعمال میں پختگی بھی ہو.اللہ تعالیٰ سے محبت کا رشتہ بھی اُستوار ہو اور اس رشتہ میں وفا اور ثبات قدم بھی ہو.انسان تمام امتحانوں اور آزمائشوں پر پورا بھی اُترے تب انسان اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کو حاصل کیا کرتا ہے اگر ایسا نہیں تو پھر صرف دعووں کے نتیجہ میں یہ عظیم نعمتیں کہ جن سے بڑھ کر دُنیا میں اور کوئی نعمت نہیں ، انسان کو نہیں ملا کرتیں.چنانچہ مومن کی جو آزمائش کی جاتی ہے اور اس کا جو امتحان لیا جاتا ہے وہ ہمیں قرآن کریم میں کئی قسم کا نظر آتا ہے.قرآن کریم نے اس پر بہت روشنی ڈالی ہے مثلاً ایک امتحان قضا وقدر کی صورت میں ہمیں نظر آتا ہے.ایک امتحان شیطانی وساوس کے مقابلہ میں کمزور ایمان والوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوہ نہ بنانے اور پختہ ایمان والوں کا اس فتنہ کو دور کرنے کی کوشش میں ہمیں نظر آتا ہے.ایک امتحان منافق کے منافقانہ حملوں کا مقابلہ کرنے میں ہمیں نظر آتا ہے.ایک امتحان کافر کے اس منصوبے میں مومن کا لیا جاتا ہے کہ دشمن اسے اس دُنیا میں مٹا دینا چاہتا ہے.چنانچہ جہاں تک اس آخری امتحان کا تعلق ہے یعنی اسلام کا دشمن ، اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں کو دنیوی اور مادی طاقت کے ساتھ مٹا دینا چاہتا ہے، ایسے امتحان میں (میں اکثر مثال دیا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کی مدد عصر کے وقت نازل ہوتی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک لمبا عرصہ ابتلاء میں ، امتحان میں ، دُکھ میں ، کرب عظیم میں اور مصیبت میں گذرتا ہے.انسان کو تکلیف سہنی پڑتی ہے.جان دینی پڑتی ہے یعنی جب قومی یا اجتماعی زندگی کا امتحان لیا جارہا ہو تو ہر

Page 63

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۳ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء قسم کے دُکھ سہنے پڑتے ہیں.پھر یہ کرب عظیم جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور مومن انسان کو نظر آتا ہے کہ رات کے اندھیرے سر پر آگئے.دن ختم ہو رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی مدد ہمیں نظر نہیں آ رہی.کیا رات کے یہ اندھیرے، یہ تاریکیاں اور یہ ظلمتیں ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اور ہم ناکامیوں کا منہ دیکھیں گے؟ غرض جب تکلیف اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو اُس وقت مومن اپنے ایمان کی پختگی سے یہ نعرہ بلند کرتا ہے.مَتى نَصُرُ اللَّهِ - (البقرة : ۲۱۵) کہ اے میرے رب ! تو نے میرا امتحان لیا اور میں نے اپنی طرف سے تیری راہ میں انتہائی قربانی بھی پیش کر دی اور آئندہ بھی دریغ نہیں کروں گا لیکن خواہ میں مرجاؤں یا مٹ جاؤں تب بھی میں تیری راہ میں آخری وقت تک قربانی دیتا چلا جاؤں گا لیکن اے خدا! تیرے وعدے بھی تو تھے ؟ کیا میں اپنے امتحان میں ناکام رہا؟ نہیں! میں اسے برداشت نہیں کر سکتا.میں اس ذلت کے داغ کو برداشت نہیں کر سکتا.اگر اجتماعی زندگی میں آخری آدمی بھی مارا جائے گا تو قوم کہتی ہے یا اُمت کہتی ہے کہ میں تیری راہ میں قربانی دیتی چلی جاؤں گی لیکن اے خدا! اب تو رات سر پر آگئی.کیا یہ اندھیرے ہمیں نگل لیں گے؟ کیا وہ نور جس کا تو نے وعدہ دیا ہے وہ نور ہمارے لئے ہماری راہوں کو روشن اور منور نہیں کرے گا ؟ غرض مَتی نَصُرُ اللہ کی پکار کا وقت وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کرب عظیم کی حالت کو پہنچ جاتا ہے یعنی تکلیف اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور جب قربانی انتہائی طور پر پیش کر دی جاتی ہے.اُس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے میرے بندے ! تو کیوں گھبراتا ہے؟ میں نے تیرا امتحان لیا ہے.تو نے عہد کیا تھا کہ پیٹھ نہیں دکھاؤں گا.تو اپنے عہد پر قائم رہا تو میں اپنے عہد سے کیسے پھر جاؤں گا جو سچے وعدوں والا ہوں اور تمام قدرتوں کا مالک ہوں.میں تیرے قریب ہوں.میری مدد تجھے پہنچ رہی ہے چنانچہ پھر کامیابی پر کامیابی حاصل ہوتی ہے.لیکن مسلمان کہلانے والے جس زمانہ میں بھی عصر کے وقت کا انتظار نہیں کرتے اور اپنی

Page 64

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۴ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء طرف سے انتہائی قربانی پیش نہیں کرتے یعنی ایسے وقت کا انتظار نہیں کرتے کہ جب یہ سمجھا جائے کہ وہ مٹ گئے اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت نہ آئی تو اس حالت کے وارد کئے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کیسے آجائے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کہلانے والوں میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو بد دلی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں.اُن کا رشتہ محبت و عشق اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ کمزور ہوتا ہے.اگر تو خدا تعالیٰ کے پیار کے نتیجہ میں آزمائش کے طور پر دُنیا کی کچھ نعمتیں مل جائیں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچے تو تکلیف کے ابتدائی دور ہی میں اُن کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں اور وہ پیٹھ دکھا جاتے ہیں اور سارے وعدوں کو بھول جاتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دُنیا میں بھی وہی لوگ ترقی کرتے ہیں کہ جودُنیا کی خاطر اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں مگر تم نے بد دلی کا مظاہرہ کیا اس لئے تم دُنیوی لحاظ سے بھی نا کام ہوئے اور تم نے دعوی کیا تھا اُخروی زندگی کی بھلائی کے حصول کا اور اُس کے لئے انتہائی طور پر جد و جہد کرنے کا مگر تم اس میں بھی نا کام ہوئے اور اس طرح تم خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ کے مصداق بن گئے.تمہیں دنیا اور دین کی ناکامیاں ملیں.تم دوسروں سے بھی بدتر ہو گئے اس لئے کہ جو غیر ہے وہ اگر دُنیوی انعامات کے حصول کے لئے محنت میں کوتاہی کرتا ہے تو دین کی نعمتیں تو ویسے بھی اُسے نہیں ملتیں.نہ اُس نے اُخروی زندگی کے لئے کوشش کی ہوتی ہے اور نہ اُس کی کوشش کی نا کامی کا سوال پیدا ہوتا ہے.اُسے اُخروی انعامات نہیں ملتے کیونکہ اُن کے لئے اُس نے کوشش نہیں کی.اُس نے خدا تعالیٰ کو پہچانا ہی نہیں.اُس نے خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت ہی حاصل نہیں کی.اُس نے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے کا ارادہ ہی نہیں کیا.اس واسطے اس کی کوشش اور اس کے ارادے کی ناکامی کا سوال پیدا نہیں ہوتا.گو اس میں شک نہیں کہ ایسا انسان بڑا بدنصیب ہے کیونکہ ایک بہت لمبی اور ایک بہت پیاری زندگی کے انعامات اس کو حاصل نہیں ہوئے لیکن یہ درست ہے کہ ہم کہیں گے کہ کوئی کوشش نہیں تھی جس کی ناکامی کا سوال پیدا ہوتا ہولیکن یہاں ایک وہ شخص ہے جو اگر صحیح طور پر کوشش کرتا اور اُخروی زندگی کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور انتہائی

Page 65

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۵ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء قربانیاں پیش کر دیتا تو اس دُنیا میں بھی اُس کو انعام مل جا تا یعنی اگر اس کی نیت خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتی ہے تو اُسے اُخروی زندگی کا انعام بھی مل جاتا اور اس دُنیا کا انعام بھی مل جاتا لیکن وہ شخص جو عبادت کرتا ہے علی حرف تعلق رکھتا ہے بد دلی کا مگر دعویٰ کرتا ہے محبت کا.لیکن محبت جس روح، ایثار، قربانی اور جنون کا تقاضا کرتی ہے وہ اس کے اندر پیدا نہیں ہوتا تو پھر اس کا نتیجہ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب میں ایک مثال دی ہے اس بات کی کہ جو آدمی ابتلاء کے وقت ، کرب عظیم کی حالت میں بھی اپنے رب رحیم کے ساتھ پختہ تعلق رکھتے ہیں وہ ناکام نہیں ہوا کرتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَ تَكُمْ جُنُودُ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوهَا وَ كَانَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا - إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ إِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظنونا - هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا - (الاحزاب : ۱۰ تا ۱۲ ) وَ لَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ وَ كَانَ عَهْدُ اللهِ مسْئُولًا - (الاحزاب : (١٦) وَلَمَّا ذَا الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا - مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالُ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَنْ يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً.(الاحزاب : ۲۳ ، ۲۴) جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری عبادت علی حرف یعنی بد دلی سے کرنا تو سراسر بے نتیجہ ہے.تمہیں آزمایا جائے گا.تمہیں باساءِ اور ضَرَّآءِ دیکھنی ہوں گی.تمہیں اس طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا جائے گا کہ اُس وقت سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد کے تمہاری زندگی اور بقاء کا اور کوئی سہارا نہیں ہوگا.دوسری طرف تمہاری کیفیت یہ ہو گی کہ تم سمجھو گے کہ سب دُنیوی سہارے ٹوٹ

Page 66

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۶ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء گئے ہیں.کامیابی تو کجا تمہاری بقا کا سوال بھی باقی نہیں رہا ہے.اُس وقت تم سمجھو گے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ہم نہ زندہ رہ سکتے ہیں اور نہ کامیاب ہو سکتے ہیں چنانچہ اس طرح جھنجھوڑے جانے کے بعد اور اس امتحان میں کامیاب ثابت ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی اِس آواز أَلا إِنَّ نَصُرَ اللهِ قريب.(البقرۃ: ۲۱۵) کو تم عصر کے وقت سنو گے کہ دیکھو! اللہ تعالی کی مددتمہارے قریب ہے.اگر ہم اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ میں نے تمثیلی رنگ میں جس عصر کے وقت کا ذکر کیا ہے، اس وقت بالعموم اللہ تعالیٰ کی مرد نازل ہوتی رہی ہے چنانچہ کی زندگی کے بعد بدر کی جنگ تمثیلی رنگ میں عصر کے وقت لڑی گئی ہے کیونکہ اس سے پہلے کی زندگی میں مسلمانوں کو ہر قسم کے دُکھ پہنچائے گئے یہاں تک کہ اڑھائی سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو شعب ابی طالب میں بند رکھا گیا اور آپ کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا حتی کہ کفار مکہ کھانے پینے کی چیزوں تک کو اندر نہیں جانے دیتے تھے.گو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو زندہ رکھنے کے سامان تو پیدا کر رہا تھا مگر آزمائش تھی امتحان تھا ( جو خدا ان کو زندہ رکھنے کے لئے کھانے کا انتظام کر سکتا تھا وہ ان کو صحت مند اور طاقتور رکھنے کا انتظام بھی کر سکتا تھا لیکن چونکہ مسلمانوں کی آزمائش تھی ) اس لئے ان کی تکلیف کی یہ حالت تھی کہ ایک بزرگ صحابی کہتے ہیں ایک دفعہ رات کے وقت میرا پاؤں ایک ایسی چیز کے اوپر پڑا جسے میرے پاؤں نے نرم محسوس کیا چنا نچہ میں نے اُسے اُٹھایا اور کھا لیا لیکن مجھے آج تک پتہ نہیں لگا کہ وہ تھی کیا چیز.غرض اس تکلیف دہ حالت تک وہ پہنچے ہوئے تھے.گواڑھائی سال تک انسان بھوکا نہیں رہ سکتا.ظاہر ہے محض زندہ رکھنے کے لئے ان کو جتنی غذا کی ضرورت تھی وہ ان کو مل گئی لیکن بھوک کی آزمائش بڑی سخت تھی علاوہ دوسری آزمائشوں کے جن کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جا سکتا.پھر جب ہجرت کی اجازت ملی تو انہی کفار نے مسلمانوں کا پیچھا کیا اور کہا کہ یہ باہر نکل کر کیسے جاسکتے ہیں.ہم ان کو مٹا دیں گے چنانچہ یہ وہ وقت تھا جب دُکھ اور تکلیف، کرب اور ایذاء، آزمائش اور امتحان اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا چنانچہ پھر دُنیا نے بدر کے میدان میں یہ نظارہ دیکھا کہ تین سو اور کچھ مسلمانوں کے مقابلے میں جو اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے آئے

Page 67

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۷ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء وہاں تھے ، وہ اپنے قریباً سب بڑے بڑے سرداروں کے سر چھوڑ کر واپس بھاگے.غرض الا ان نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ کا ایک عجیب نظارہ تھا جو دُنیا نے بدر کے میدان میں دیکھا اور پھر یہی نظارہ ہم بعد کی لڑائیوں میں بھی دیکھتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے مسلمانوں کے لئے بہت سے امتحان اور آزمائشیں ہوتی ہیں لیکن جن آزمائشوں کا بطور خاص میں اس وقت ذکر کر رہا ہوں وہ مادی طاقت اور زور کے ساتھ اور مادی ذرائع سے دشمن کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل اور اسلام کو مٹانے کا منصوبہ اور آزمائش ہے یعنی یہ آزمائش کہ دشمن مٹانا چاہتا تھا لیکن مسلمانوں نے صبر وثبات دکھایا اور دشمن ناکام ہوا مثلاً جنگ احزاب ہے جس کا ان آیات میں ذکر ہے جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ دشمن کو پیٹھ نہیں دکھا ئیں گے خواہ کیسے ہی حالات کیوں نہ پیدا ہو جائیں.وہ ہر صورت میں دشمن کا مقابلہ کریں گے اور اسے پیٹھ نہیں دکھا ئیں گے چنانچہ کیسے ہی حالات احزاب کے موقع پر پیدا ہو گئے.قریباً سارا عرب اکٹھا ہو کر ان غریبوں اور مفلسوں اور نہتوں کو قتل کرنے کے لئے وہاں جمع ہو گیا اور انہوں نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا.مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ بھوک کے مارے وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر چلتے تھے.دوسری طرف مسلمان عورتوں کی یہ حالت تھی کہ جس جگہ وہ اکٹھی کی گئیں وہاں ان کی عزت اور عصمت کی حفاظت کے لئے بھی مسلمان سپاہی میسر نہیں تھا کیونکہ دوسری جگہ اس کی زیادہ ضرورت تھی.مسلمان عورت سے فرمایا کہ اگر آج تیری عزت کی آزمائش ہے اور خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ایک مسلمان عورت میرے راستے میں اپنی عزتوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں تو وہ اس امتحان میں پورا اترنے کے لئے تیار ہو جا ئیں چنا نچہ وہ تیار ہو گئیں.پھر جس وقت یہ سارا جم غفیر اور یہ سارا مجمع جو اسلام کو مٹانے کیلئے جمع ہوا تھا اور اُن کفار کی اُمید اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ بس اب وہ غالب آئے اور مسلمان مغلوب ہوئے.ادھر مسلمانوں کے حالات کرب عظیم کو پہنچ گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ اگر اس وقت خدا تعالیٰ کی مدد نہ آئی تو وہ مارے جائیں گے، اس وقت خدا کی مدد آئی اور فرشتے اس مدد کو آسمان سے لے کر آئے تو اُنہوں نے

Page 68

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۸ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء انہی زمینی عناصر میں تبدیلیاں پیدا کر دیں.وہ عناصر کہ جن کے ذرے ذرے کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ ان کی تسخیر اور ان پر حکمرانی کرے، اُن کو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حاکم اعلیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور آپ کی کامیابی کے لئے حکم ملا چنانچہ مسلمان جن کے جسم کا ذرہ ذرہ اور رواں رواں متى نصر اللہ پکار رہا تھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ تمام عناصر، یہ زمین اور اس کے ذرات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے تمہیں آزمایا اور تم اس آزمائش میں کامیاب ہوئے کیونکہ تمہارے اس کرب کو میں نے عظیم بنا دیا ہے اور تمہارا امتحان اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے، تمہارے دکھوں کا انسان تصور نہیں کر سکتا.میں نے تمہاری یہ آزمائش اس لئے نہیں کی کہ تمہیں دنیا سے مٹا دیا جائے بلکہ یہ میں نے اس لئے کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ ظاہر ہو اور دُنیا خدا تعالیٰ کے اس پیار کا جلوہ دیکھے جو اُسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین کے ساتھ ہے.اب دیکھیں سارے عرب قبائل اکٹھے ہو کر کمزوروں کو مٹانے کے لئے آگئے تھے.ان کمزور مسلمانوں نے پیٹ پر پتھر باندھے مگر دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائی.وہاں سے بھاگے نہیں.اُنہوں نے بے عزت صلح کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا.کمزوری نہیں دکھائی.شرک کی طرف مائل نہیں ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور سہارا ڈھونڈیں.انہوں نے کہا ہمارا ایک ہی سہارا ہے اگر وہ مل گیا تو اس دُنیا میں بھی کامیاب اور اگر اس دُنیا سے چلے بھی گئے تو ہمیں اُخروی انعامات تو ضرور ملیں گے اور پھر اس حقیقی سہارے نے ان کو بے سہارا نہیں چھوڑا چنا نچہ اس وقت جب کہ دشمن غالب آنے کی اُمید لگائے بیٹھا تھا اور وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا تھا.اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ سے زمین و آسمان میں ایک تغیر پیدا ہوا اور وہ جو مسلمانوں کو مٹانے کے لئے آئے تھے بھاگ نکلے.ریت کے چند ذرے کہہ لو، ہوا کی تھوڑی سی شدت کہہ لو یا اُن کے دلوں کے اندر فرشتوں نے جو بزدلی پیدا کی اور مسلمانوں کا جوڑ عب پیدا کیا وہ کہہ لو.غرض یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلوے تھے جو انسان کو نظر آئے لیکن وہ اپنے محاصرے کے پہلے دن ہی نہیں بھاگے، وہ دوسرے اور تیسرے دن بھی نہیں بھاگے.اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ نظارہ کئی دن کے بعد رونما ہوا.

Page 69

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۹ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء یرموک کی جنگ کو لیں.یہ پانچ دن کی جنگ ہوئی ہے اور خدا کی شان یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولید کوطفیل محمد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتادیا گیا تھا کہ چار دن تک آزمائشوں کا دور ہو گا یعنی ان کے ذہن میں پہلے سے یہ تصور موجود تھا کہ چار دن دشمن کے اور پانچواں دن ہمارا ہوگا یعنی تین پہر دشمنوں کے ہوں گے اور چوتھا پہر ہمارا ہو گا چنانچہ دشمن اپنے وزن ، اپنی تعداد اور اپنے ہتھیاروں کے زور کے ساتھ مسلمانوں کو دھکیلتے ہوئے ان کے خیموں تک لے جاتا تھا.مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر ایثار پیشہ فدائی مسلمان عورتیں خیموں کے ڈنڈے لے کر مسلمانوں کے سر پر مارتی تھیں کہ واپس جاؤ.یہاں کیا لینے آئے ہو چنانچہ اگلے دن اور پھر اس سے اگلے دو دن بھی یہی حال ہوا.اس معرکے میں کئی مسلمان شہید ہو گئے جن میں عکرمہ اور اس کے ساتھی بھی شامل تھے مگر کسی مسلمان نے پیٹھ نہیں دکھائی حتی کہ عکرمہ جیسے شخص نے پیٹھ نہیں دکھائی جو فتح مکہ تک اسلام کا دشمن رہا تھا کیونکہ عکرمہ اور اس جیسے دوسرے مسلمانوں کے دل بدل گئے.حالات مختلف ہو گئے.اندھیروں کی جگہ نور نے لے لی.وہ جو اسلام کے دشمن تھے ان کے دل میں محبت پیدا ہو چکی تھی.عکرمہ اور اس کے ساتھی اس خیال سے جلتے تھے کہ اُنہوں نے اپنے چہروں پر اسلام دشمنی کے داغ لگا رکھے ہیں.ان داغوں کو دھونے کے لئے خدا جانے ہمیں کوئی موقع ملتا ہے یا نہیں.پس یہ لوگ بھی جو بعد میں آنے والے تھے ، دشمن کے مقابلے میں بھاگے نہیں.کسی نے بزدلی نہیں دکھائی.وہ خدا تعالیٰ سے نا امید نہیں ہوئے.اُنہوں نے اللہ تعالیٰ پر بدظنی نہیں کی بلکہ کئی ایک نے اپنی جان دے کر مَنْ قَضَى نَحْبَةُ (الاحزاب: ۲۴) خدا تعالیٰ سے اپنا عہد پورا کر دیا اور اس طرح اُنہوں نے اپنے لئے جنتوں کے سامان پیدا کئے اور پیچھے رہنے والوں کے لئے فتح کے سامان پیدا کر دیئے.غرض اس جنگ میں جب مسلمانوں کا کرب اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور تمثیلی زبان میں وہ آخری وقت یعنی عصر کا وقت آگیا تو کہنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت یرموک کے میدان میں رومی اپنے پیچھے شاید ڈیڑھ لاکھ لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے حالانکہ پہلے چار دنوں میں رومی یہ سمجھتے تھے کہ

Page 70

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء مسلمان تو مٹھی بھر ہیں یہ بیچ کر کیسے جائیں گے وہ سمجھتے تھے کہ ہم اڑھائی لاکھ ہیں اور مسلمان صرف چالیس ہزار اس لئے وہ مسلمانوں کو مٹادیں گے غرض اس نیت کے ساتھ رومی آئے تھے کہ اس میدان میں سارے مسلمانوں کو قتل کر دیں اور اس فتنے کو (جو اُن کے نزدیک فتنہ تھا ) ہمیشہ کے لئے مٹادیں گے مگر جسے وہ فتنہ سمجھتے تھے اور جس کے مٹانے کے درپے تھے، اس نے اُن کے خون کو کھاد بنا کر انہی کے علاقوں میں اسلام کے درختوں کو بویا.جنہوں نے بڑے اچھے پھل دیئے کھا دہی پڑی نا! کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ بکرے کا خون اگر Decomposed (ڈی کمپوزڈ ) ہو کر درختوں کی جڑوں میں ڈالا جائے تو بڑی اچھی کھا د ثابت ہوتا ہے.چنانچہ اسلام کا یہ دشمن انسانیت کے لئے اور تو کسی کام نہیں آیا مگر جب اسلام کا باغ ان علاقوں میں لگا تو اس وقت اس نے کھاد کا کام دیا.ان کی نسل سوچتی ہوگی کہ یہ لوگ کن بلند نعروں کے ساتھ اور بظاہر کس ہمت کے ساتھ اور کس ولولے اور عزم کے ساتھ اور پادریوں کے ہر قسم کے جوش دلانے کے بعد اسلام کو مٹانے کے لئے وہاں گئے تھے مگر ناکام ہوئے اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ اور اس کے پیار کے جلوے جنگ کے میدانوں میں بھی ہمیں نظر آتے ہیں.دشمنانِ اسلام تو بد بخت تھے لیکن ہمارے لئے خوش بختی کے سامان پیدا کر گئے اور ہمارے لئے خوش قسمتی کے محلوں کے دروازے کھول گئے.تا ہم یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب مسلمانوں کا کرب، کرب عظیم بن گیا تھا.دُکھ اور تکلیف اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی.اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا انعام نازل نہیں ہوتا ور نہ ایک کمزور ایمان والے اور ایک پختہ اور سچے ایمان والے آدمی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوسکتا.بہر حال ایک مسلمان نے خدا تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ وہ دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائے گا چنانچہ جب تک اللہ تعالیٰ اس دعوی کی پوری طرح آزمائش نہ کرے، اس کی نصرت نازل نہیں ہوتی.پیٹھ نہیں دکھائے گا“ کا عہد وہی آدمی کرتا ہے جس کا خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر کامل بھروسہ ہوتا ہے.تبھی وہ کہتا ہے کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں دشمن کو پیٹھ نہیں دکھاؤں گا.وہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے کیونکہ وہ سچے وعدوں والا اور کامل قدرتوں والا ہے.یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ

Page 71

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۱ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء کسی وقت یہ فیصلہ کرے کہ میں اپنے وعدوں کو پورا نہیں کروں گا.یہ تو ایک عیب ہے اور خدا تعالیٰ ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے.اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ کہے کہ میں اپنا وعدہ پورا کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ میری قدرت سے باہر ہے کیونکہ وہ تو ساری قدرتوں کا مالک ہے.پس وہ سچے وعدوں والا بھی ہے اور کامل قدرتوں والا بھی ہے، اس لئے اس کی صفات کی اسی معرفت کے بعد یہ عہد کیا جاتا رہا ہے کہ مسلمان اپنے دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو ٹھیک ہے کہ میں تمہیں آزماؤں گا چنانچہ قرونِ اولیٰ کے بعد کی تاریخ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہر آزمائش کے وقت سچے مسلمان نے پیٹھ نہیں دکھائی.یوسف بن تاشفین کا واقعہ ہے جو سپین میں رونما ہوا.وہ افریقہ کے رہنے والے تھے.میں نے تمثیلی رنگ میں عصر کے وقت کا ذکر کیا ہے مگر ان کے اس واقعہ میں عملاً عصر کا وقت ہی تھا جب انہیں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوئی.یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ جب سپین کے حالات خراب ہو گئے تو مسلمانوں نے یوسف بن تاشفین سے درخواست کی کہ ہماری مدد کریں چنانچہ وہ قریباً بارہ ہزار گھوڑ سوار فوج لے کر وہاں پہنچ گئے ، عیسائی بادشاہ ساٹھ ستر ہزار کی فوج لے کر حملہ آور ہوا.بڑی زبر دست جنگ ہوئی جس میں بظاہر دشمن کا پلہ بھاری تھا.تاریخ بتاتی ہے کہ اس موقع پر یوسف بن تاشفین نے یہ سمجھا کہ آج مجھے اپنی عمر میں شاید پہلی شکست نہ ہو جائے کیونکہ دشمن کا دباؤ بڑا شدید تھا.عیسائی مسلمانوں کو مار رہے تھے.انہیں قتل کر رہے تھے اور پیچھے ہٹا رہے تھے مگر اس سارے دباؤ اور ان تیزیوں کے با وجود جود شمن مسلمانوں کے خلاف دکھا رہا تھا اس پر اُنہوں نے پیٹھ نہیں دکھائی عیسائی سمجھتے تھے کہ آج وہ غالب آگئے اور سپین سے مسلمان کو گو یا مٹا دیا.یوسف بن تاشفین کا یہ واقعہ مسلمان کی سپین میں ہلاکت سے کئی صدی پہلے کا ہے گو اس وقت بھی یہی حالات پیدا ہو گئے تھے.جو بعد کی صدی میں زیادہ بگڑ گئے اور مسلمانوں کو ان کی غفلتوں اور کوتاہیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں ایک عذاب کا اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا.بہر حال یوسف بن تاشفین سمجھتے تھے کہ عمر میں پہلی شکست ہورہی ہے اور ادھر عیسائی بادشاہ

Page 72

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۲ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء یہ سمجھتا تھا کہ آج ( بزعم خویش ) عیسائیت اور اسلام کا فیصلہ ہو گیا ہے.ہم نے مسلمانوں کو مٹا دیا ہے.یہ باہر سے مدد دینے آئے تھے اپنے مسلمان بھائیوں کو.ہم نے ان کو بھی شکست دے دی ہے.چنا نچہ عصر تک یہی حال رہا پھر اللہ تعالیٰ کے فرشتے ایک نئی شان میں آئے کیونکہ كُلّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن :٣٠) اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہر جلوہ نئی شان رکھتا ہے چنانچہ عصر کے وقت عیسائی فوج بھاگ نکلی حالانکہ اس سے پہلے وہ سارا دن مسلمانوں کو مارتے اور دباتے رہے تھے لیکن مسلمانوں کی تکلیف جب اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا اور کامل قدرتوں والا ہے وہ مسلمانوں کی مددکو آیا.اُس نے ان کا امتحان لے لیا تھا اس لئے فرمایا تم کامیاب ہو گئے.اب لو میرا انعام چنانچہ رومی بھاگے اور یوسف بن تاشفین اور اس کے آدمی ( باوجود اس کے کہ کچھ تو شہید ہو گئے تھے اور کچھ ویسے بھی تعداد میں کم تھے مگر چونکہ وہ ایمان پر قائم تھے اس لئے ) ساری رات دشمن کو مارتے مارتے ان کا پیچھا کیا اور قریباً پچاس میل کے فاصلہ پر ایک دریا تھا اُن کا خیال تھا کہ ہم وہاں تک اُن کا پیچھا کریں گے چنانچہ دشمن کا ساٹھ ستر ہزار فوج میں سے کل پانچ سو عیسائی دریا پار کر سکے.شاید کچھ دائیں بائیں سے بھی نکلے ہوں گے لیکن ان کی اکثریت ماری گئی.چنانچہ وہ دشمن جو عصر کے وقت تک اپنے خیال میں غالب تھا، وہ مغلوب ہی نہیں ہوا بلکہ ہلاک ہو گیا اس لئے کہ صبح سے لیکر عصر تک جو ظلم اُنہوں نے مسلمانوں پر کیا تھا وہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا.مسلمان تو صبح کے وقت یہ کہتے ہوں گے کہ خدا کا وعدہ جلدی کیوں نہیں پورا ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: - فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ تم ان کے خلاف جلدی نہ کرو.مطلب یہی ہے کہ تم خدا سے یہ نہ کہو کہ وہ نصرت و مدد کو جلدی آئے اور ان کا فروں کو مار دے جو ہمیں دکھ دے رہے ہیں، ایذا پہنچا رہے ہیں.زخمی کر رہے ہیں اور بعض کو قتل کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّمَا نَعتُ لَهُمْ عَدا یعنی تمہارے ساتھ بھی ایک وعدہ ہے کہ فلاں وقت مدد آئے گی اور اُن کفار کے ساتھ بھی وعدہ ہے کہ ایک وقت تک ان کو ڈھیل دی جائے گی.دراصل یہ دونوں وعدے اکٹھے ہو جاتے ہیں.اگر مسلمان کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ اُسے عصر کے وقت اللہ تعالیٰ کی مدد ملے گی تو یہ

Page 73

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۳ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء بات لازمی ہے کہ کافر کے ساتھ بھی یہ وعدہ ہو گا کہ عصر کے وقت تک اُس پر الہی گرفت نہیں ہوگی اور اصلاح کے لئے اسے مہلت دی جائے گی تبھی وہ اپنا کام کر سکتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا نَعتُ لَهُمْ عَذَا ہم نے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے اور یہ وہی وقت ہے جو ایک مسلمان کا اور ایک کافر کا اکٹھا ہو جاتا ہے.جس وقت مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد آتی ہے، کافر کی ہلاکت کے سامان پیدا ہوتے ہیں.اس لئے تمہارا جلدی کرنا ، یا قبل از وقت گھبرا جانا اور دعائیں کرنا کہ اے خدا! ہم تکلیفیں برداشت نہیں کر سکتے.تو ہماری مدد فرما.یہ غلط ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمُ کہ ان کے خلاف جلدی ہلاکت کی دعائیں کر نا غلط بات ہے.یہ نہیں ہو سکتا جس وقت تمہاری آزمائش پوری ہو جائے گی امتحان میں پورے اُتر و گے.ان کی ڈھیل کا وقت بھی پورا ہو جائے گا.ایک ہی وقت میں تمہاری مدداوران کی ہلاکت کے سامان پیدا ہو جائیں گے.ط پس فَلا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں جلدی نہیں چلے گی اللہ تعالیٰ کی مدد کے آنے تک تمہیں صبر و ثبات کا مظاہرہ کرنا ہو گا چنانچہ ساری اسلامی تاریخ دیکھ لیں.اُس وقت بھی جب مسلمان اپنے ایمان کی رفعتوں پر پہنچا ہوا تھا اور اس وقت بھی جب مسلمان اپنے ایمان میں نسبتاً بہت کمزور ہو چکا تھا.ہر دوصورتوں میں مسلمان اگر عصر تک قربانیاں دیتا رہا تو کامیاب ہوتارہا اور جب بھی اس نے صبح سات بجے یا آٹھ بجے یا نو بجے یا دس بجے یا بارہ بجے یا دو بجے خدا تعالیٰ سے یہ کہا کہ اے خدا! تو نے ہماری مدد کرنے میں جلدی نہیں کی اب ہم پیٹھ دکھا رہے ہیں تو وہ ہلاک ہو گئے.جو جنگ اس وقت ہندوستان کے خلاف لڑی گئی ہے میرا اندازہ ہے کہ صبح سات بجے ہمارے فوجیوں سے ظالم حکومت نے جنگ بند کروادی.ہمارا سپاہی بڑی بے جگری سے لڑا ہے.اُس نے اپنے خون سے یہ ثابت کیا ہے کہ اُس پر بزدلی یا نا اہلی کا دھبہ نہیں آتا.اس لئے میں اُن کی بات نہیں کر رہا لیکن جن کا بھی قصور تھا اور جہاں بھی وہ فتنہ تھا اس کی وجہ سے ہتھیار ڈالے گئے تو عصر کا وقت نہیں تھا ، ظہر کا وقت بھی نہیں تھا.بارہ بھی نہیں بجے تھے.دس بجے کا بھی وقت نہیں

Page 74

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۴ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء تھا.صبح سات بجے ہتھیار ڈال دیئے اور پھر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں آئی ؟ قرآن کریم کی واضح تعلیم کے خلاف ہے.پس ہم جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم قرآن کریم کو سمجھتے ہیں، ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ انتہائی قربانیوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی مدد ملا کرتی ہے.یہ سمجھنا کہ تمہارے مخالف اور اسلام کے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ جلد تباہ کر دے گا فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ کی رو سے صحیح نہیں.اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم ایسا تصور بھی نہ کریں اور نہ ایسی دعائیں کریں.ہمیں تو یہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اے خدا! ہمیں یہ توفیق عطا فرما کہ ہم تیری راہ میں اور تیرے دین کو غالب کرنے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ساری دُنیا کے دل میں بٹھانے کے لئے انتہائی قربانیاں پیش کریں اور ہمیں یہ توفیق بھی عطا فرما کہ تیرے علم کامل میں جو عصر کا وقت ہے یعنی انتہائی قربانیوں کا وقت ہے وہ ہمیں نصیب ہو.ہم رستے میں کٹ نہ جائیں ہم تیرے دشمن کے ہاتھ سے ہلاک نہ ہو جائیں.اے خدا! ہمیں معلوم ہے کہ اگر ہم تیری توفیق سے عصر کے وقت تک تیری راہ میں انتہائی قربانیاں دیتے رہیں گے تو تیری مدد ہمیں ضرور ملے گی چنانچہ جب ظاہری حالات دو میں زبان سے بے اختیار مَتى نَصْرُ اللہ نکلے گا تو اسی وقت ہمیں پتہ لگے گا کہ الا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قريب (البقرة : ۲۱۵) یعنی اللہ تعالیٰ کی مددمل جائے گی.ہم دشمن کے لئے بددعائیں کیوں کریں کیونکہ ہماری کامیابی میں اس کی ہلاکت ہے اس کی دشمنی کا خاتمہ ہے خواہ وہ جسمانی لحاظ سے مارا گیا ہو یا دنیوی طور پر وہ اپنے اس منصوبہ میں ناکام ہو گیا ہو کہ وہ اسلام کو مٹا دے گا.بعض انبیاء علیہم السلام کی قو میں پہلے بھی (یا تو ان کا کثیر حصہ اور یا بعض مثالوں میں ساری کی ساری) ہلاک ہوگئیں یا نا کام ہو گئیں یعنی جب کا فرنہ رہے تو قوم گو یا ہلاک ہوگئی.وہ قوم جو نبی کی دشمن تھی وہ قوم نہیں رہی کیونکہ وہ اسلام لے آئی.اس لئے وہ قوم کہاں رہی جس نے کہا تھا کہ ہم نبی کو مٹادیں گے.غرض یہ بھی ناکامی اور ہلاکت کی ایک شکل ہے جب کسی قوم یا فرد کا منصوبہ نا کام اور مقصد فوت ہو جاتا ہے تو یہ بھی اس کی ایک قسم کی ہلاکت ہے پس ہمیں اپنے دشمن کی جلد ہلاکت کی دعا کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ دعا کرنے کی ضرورت ہے کہ اے خدا! تو ہمیں انتہائی قربانیاں ۱

Page 75

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۵ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۷۲ء دینے کی توفیق عطا فرما.جس وقت تیری نگاہ میں کرب عظیم کے حالات پیدا ہو جائیں اور ہر طرف سے نا امیدی نظر آنے لگے تو اس وقت بھی ہم تیرے باوفا بندے ثابت ہوں.ہمارے دلوں میں تجھ سے بے وفائی کا خیال پیدا نہ ہو.وہ وقت جب تیری اہل تقدیر تیرا اٹل قانون کہتا ہے کہ تیری مدد آئے گی وہ وقت ہمیں نصیب ہوتا کہ ہم تیری مدد و نصرت کے سایہ میں اس دُنیا میں بھی اور اُس دُنیا میں بھی اپنی زندگی کے لمحات گزارنے والے ہوں اور وہ قوم یا شخص جو خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ہے وہ ناکام ہو خواہ وہ اس رنگ میں ہلاک ہو کہ وہ جسمانی طور پر تباہ ہو جائے یا اس رنگ میں ناکام ہو کہ اس کے سارے کے سارے منصوبے خاک میں مل جائیں اور پھر وہ دن بھی آجائے کہ وہ دل جو بغض محمد سے بھرا ہوا تھا وہ عشق محمد سے لبریز ہو جائے.یہ ہمارے لئے اور بھی زیادہ خوشی کی بات ہے.پس یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ صبح ۸ بجے یا دس بجے یا بارہ بجے یا دو بجے یا تین بجے اللہ تعالیٰ کی مدد تمہیں مل جائے گی.در آنحالیکہ ابھی تمہارے امتحان مکمل نہیں ہوئے.ابھی تمہاری آزمائشوں کے دن نہیں گزرے.ابھی تم نے خدا کی راہ میں انتہائی قربانیاں نہیں دی ہوں گی.یہ نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ اس کی اب امید ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا.قرآن کریم اس بات کی علی الا علان منادی کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اسی وقت ملتی ہے جب تم مٹی نصر اللہ کی کیفیت پیدا ہونے تک قربانی پر قربانی پیش کرتے چلے جاؤ اور خدا تعالیٰ کے دامن کو نہ چھوڑو، پھر تمہیں اللہ تعالیٰ کی مدد ملے گی.یہ ویسی ہی مدد ہو گی جو آج سے چودہ سو سال پہلے مسلمانوں کو ملی تھی جس کی چمک آج بھی اپنوں اور غیروں کی آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے.پس یہ وہ مدد ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا ہے اور یہ وہ طریق ہے جو اس مدد کے حصول کے لئے ہمیں بتایا گیا ہے اگر یہ طریق ہم اختیار نہیں کریں گے تو وہ مدد ہمیں نہیں ملے گی.پھر خدا تعالیٰ پر کیا شکوہ! کیونکہ جب تم نے سات بجے کے بعد یا دس بجے کے بعد جانی یا جسمانی قربانی دینے سے انکار کر دیا تو پھر تم اللہ تعالیٰ کی مدد کے کیسے امیدوار بن بیٹھے.یہ چیز قرآن کریم کی ہدایت اور روشنی سے باہر ہے.قرآن کریم میں ہمیں یہ کہیں نظر نہیں آتا کہ قربانی دیئے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کا وعدہ دیا گیا ہو.

Page 76

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۶ خطبه جمعه ۱۸ ؍فروری ۱۹۷۲ء تا ہم جو احمدی ہیں جنہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فرزند کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے اور جو اس وجود کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو مہدی معہود تھا جس کی ہدایت کے سامان خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے فضل نے کئے تھے اور جو محبوب تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص طور پر سلام پہنچایا تھا.ویسے آپ کی عام دعا ئیں تو ساری اُمت کے لئے ہیں اور ہر زمانے کے لئے ہیں لیکن اس دُعا کے لئے اور سلام کے لئے آپ نے جس کو چنا وہ ایک ہی وجود ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام.اس وجود کے ساتھ ہم وابستہ ہیں اور ہم زندہ خدا کی زندہ تجلیاں دیکھتے ہیں اس لئے اگر ہمیں تکلیفیں پہنچتی ہیں تو کیا ہم گھبرا جائیں گے ہم جو حقیقی معنوں میں احمدیت کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا کی رو سے صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شامل ہو گئے ہیں.کیا ہم ان تکلیفوں سے ہم ان دشمنیوں سے، ہم اس قتل و غارت سے اور دشمن کے دوسرے خطر ناک منصوبوں سے گھبرا جائیں گے؟ ہم جن کو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دُنیا میں دُور دُور تک نکل جاؤ اور اسلام کو غالب کرو.کیا ہم اس غلبہ سے پہلے یعنی اس عصر کے وقت سے پہلے ہمتیں چھوڑ بیٹھیں گے؟ نہیں! خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو.انشاء اللہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ آسمان نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام تمام دُنیا پر غالب ہو.زمین اس فیصلے کو بدل نہیں سکتی.پس ہمیں یہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں انتہائی قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ یہ فضل بھی فرمائے کہ ہم میں سے بھاری اکثریت ان انتہائی قربانیوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اسی دُنیا میں دیکھنے والی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۱۱/ مارچ ۱۹۷۲ء صفحه ۱ تا ۵)

Page 77

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۷ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء مالی قربانیوں کو کمال تک پہنچا ئیں اور نئے سال کے لئے انتہائی کوشش شروع کر دیں خطبه جمعه فرموده ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ ، سورۃ فاتحہ اور فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبُ.(الم نشرح:۸) کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.دنیا میں انسان کی زندگی مختصر ہے.اس کے باوجود انسانی فطرت جب مستقبل کی طرف دیکھے اس کی لمبائی سے اکتا جاتی ہے لیکن جب وقت گذر جاتا ہے اور انسان پیچھے کی طرف دیکھتا ہے تو اسے اپنی زندگی بڑی مختصر نظر آتی ہے اور جب وہ آگے دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ شاید اس نے کبھی مرنا ہی نہیں مثلاً ایک بچہ ہے وہ سمجھتا ہے کہ اس نے کبھی جوان ہی نہیں ہونا اور ایک نو جوان ہے وہ سمجھتا ہے کہ اس نے شاید بڑھاپے کی عمر تک نہیں پہنچنا اور پھر جب آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس نے قیامت تک شاید مرنا ہی نہیں.کم از کم بہت سے لوگوں کے اعمال ہمیں یہی بتاتے ہیں.چونکہ انسان مختلف ادوار میں سے گزر کر اپنی زندگی کے دن پورے کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت کو ایسا بنایا ہے مثلاً ایک طالب علم ہے وہ پہلی میں پڑھتا ہے پھر دوسری میں اور پھر دسویں تک پہنچتا ہے.پھر گیارہویں میں، بارہویں میں اور پھر ایف اے، ایف ایس سی

Page 78

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۸ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء کے بعد بی اے، بی ایس سی میں اور پھر ایم اے، ایم ایس سی میں پہنچتا ہے پھر جس طالب علم نے مزید پڑھنا ہوتا ہے وہ ایم اے ، ایم ایس سی کرنے کے بعد ایک سال یا دو سال یا تین سال کا کورس بھی پاس کرتا ہے.بہر حال انسان اپنی زندگی کے دن درجہ بدرجہ گزارتا ہے اور درجہ بدرجہ اپنی ترقیات کی طرف حرکت بھی کر رہا ہوتا ہے چنانچہ انسان جب بڑا ہوا اور حکومت کے کام میں شامل ہونے لگا تو پھر اس نے مثلاً تین سالہ منصوبے بنانا شروع کر دیئے، پانچ سالہ منصوبے اور پھر سات سالہ منصوبے بنائے گئے اور یہ نہیں کہا گیا کہ اس نسل کے لئے ایک ہی منصوبہ کافی ہے اور یہ نسل آخری وقت تک اس پر کام کرتے ہوئے اسے کامیاب بنانے کی کوشش کرے گی.تاہم انسان نے وقت کے لحاظ سے اپنی زندگی کے ہر کام کو زندگی کے مختلف ادوار میں بانٹ دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی بانٹا ہے.مثلاً کچھ عرصہ کے لئے فرمایا دودھ پیو اور کچھ نہیں کھانا.پھر فرمایا کچھ تھوڑی سی اور چیز ساتھ ملا کر کھاؤ لیکن چنے اور مکئی کے دانے نہیں کھانے.چنانچہ کھانے کے لحاظ سے ہر عمر میں ایک تدریج پیدا کی گئی اور اس طرح انسانی زندگی کے اس پہلو کو مختلف صورتوں میں بانٹ دیا گیا.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کھیل کے میدان میں بھی یہی نظر آتا ہے.غرض زندگی کے ہر میدان میں ہمیں یہی اصول نظر آتا ہے کہ زندگی کو بانٹا گیا اور درجہ بدرجہ ارتقاء اور رفعتوں کے سامان پیدا کئے گئے ورنہ شاید انسان اپنی فطری کمزوری کے نتیجہ میں ان رفعتوں کو نہ پاسکتا جنہیں وہ درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے پالیتا ہے.اسی طرح عبادات میں بھی درجہ بدرجہ ترقی کرنے کے لئے نمازوں کے درمیان وقفے پیدا کر دیئے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم سارے دن کی نمازیں ایک ہی وقت میں پڑھ لو.اس غرض کے لئے اس نے دن کو پھر آگے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور پھر رات اور دن کی عبادات کو الگ کر دیا چنانچہ سارے دن کے کام سے تھکنے کے بعد جب رات کی عبادت آئی تو اُسے مشقت والی بنادیا.غرض یہ اصول ہمیں انسانی زندگی میں کچھ اس طرح نظر آتا ہے کہ ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے

Page 79

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۹ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر درجہ کے بعد یعنی پہلے درجے میں یا پہلے دائرہ میں یا پہلے دور کے اندر ایک کام مکمل بھی ہو رہا ہے اور اگلے درجہ کے کام کا بیج بھی بویا جا رہا ہے مثلاً نویں کا کورس مکمل بھی ہو رہا ہے اور دسویں میں داخلہ بھی ہو رہا ہے.میٹرک کا کورس مکمل بھی ہو رہا ہے اور پھر ایف اے، ایف ایس سی ( جسے انٹر میڈیٹ کہتے ہیں) کی تیاری کے لئے بھی سامان ہو رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیہ کریمہ میں فرمایا ہے کہ ایک دور کے کام سے فارغ بھی ہو گے اور ایک دوسرے دور میں داخل بھی ہورہے ہو گے.اگر تم میری محبت کی انتہا کو (اپنے دائرہ استعداد میں ) پہنچنا چاہتے ہو تو پھر اس اصول کو یا درکھو کہ جب فرغت کا سوال ہو.یعنی ایک دور پورا ہو رہا ہو تو بنیادی طور پر تمہیں ایک سبق تو یہ دیا جاتا ہے کہ وہ کام فرغت کے معیار پر پورا اترتا ہو.فَرغ کے معنے عربی زبان میں کسی کام کو یا کسی چیز کو اس کے کمال تک پہنچانے کے ہوتے ہیں چنانچہ منجد نے لکھا ہے کہ فَرَغَ مِنَ الشَّيْءِ کے معنے ہوتے ہیں اللہ یعنی کسی کام یا چیز کو کامل اور مکمل بنا دیا.اس کے سارے اجزاء پورے ہو گئے تب وہ عربی زبان کے لحاظ سے فرغت ہے مثلاً دسویں کا وہ طالب علم جود و پرچوں میں فیل ہو جاتا ہے اس کو فرغت نہیں کہا جائے گا یعنی اس کا کام مکمل نہیں ہوا کیونکہ جہاں تک دسویں کے امتحان کی تیاری کا سوال تھا اس نے اپنی ذمہ داری کو کمال تک نہیں پہنچایا اس لئے اس کے اگلے دور کی ترقی یا اس کے لئے جد و جہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فَإِذَا فَرَغْت یعنی جب تم ایک دور کے کام سے اور اس کی ذمہ داری سے پورے طور پر فارغ ہو جاؤ اس معنے میں کہ جس ذمہ داری کو جس حد تک نباہنا ممکن تھا وہ تم نباہ لو، اس میں کوئی پہلو کمزوری کا یا کوئی پہلو خامی کا باقی نہ رہ جائے تم اسے مکمل اور پورا کر دو اور اس کے سارے اجزاء نمایاں طور پر نشو و نما پا چکیں تو پھر وہاں ٹھہر نانہیں کیونکہ زندگی کی کوششوں میں ٹھہراؤ تو موت کے مترادف ہے.فرمایا فانصب ایک اور دور شروع ہو گیا پھر اس کے لئے تمہیں انتہائی کوشش کرنی پڑے گی.نصب کے ایک معنے رفعت اور مضبوطی سے قائم کرنے کے ہیں اور ایک معنے ( جو فانصب

Page 80

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۰ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء اس صیغے میں آیا ہے اس کے معنے ہیں ( جَهَدَ وَ اجْتَهَدَ.یعنی پورا زور لگا کر کام کو کیا اس لئے اگر ہم اس کے مصدری معنے کو لیں.تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پھر ذمہ داری کا جو اگلا دور ہے ایک تو وہ رفعت کا دور ہوگا یعنی ایک بنیاد پہلے بن چکی ہے.اب اس کے اوپر دوسری منزل بنے گی اور دوسرے یہ بتا یا کہ دوسری منزل پہلی منزل کی مضبوطی کا باعث ہوگی.اس دنیا کی عمارتیں تو بعض دفعہ دوسری منزل کو برداشت نہیں کرتیں مثلاً کسی عمارت کے متعلق انجینئر سے پوچھیں تو وہ کہہ دیتا ہے کہ اس کی بنیاد میں دومنزلہ عمارت کے لئے نہیں بنائی گئیں.بعض دفعہ وہ کہہ دیتا ہے کہ چار منزلیں بن سکتی ہیں.پانچویں منزل نہیں بن سکتی پس اس سے پتہ لگا کہ ہر دوسری منزل پہلی منزل کو مضبوط نہیں کرتی بلکہ اس کی کمزوری کا باعث بن جاتی ہے لیکن روحانی دنیا میں ہر دوسری منزل پہلی منزل کی مضبوطی اور ارتقاء کا سامان پیدا کرتی ہے.فَانْصَب میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.پس مادی اور روحانی کاموں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ روحانی لحاظ سے جو دوسری منزل بنتی ہے وہ پہلی منزل کی مضبوطی کا بھی سامان پیدا کرتی ہے اور اسی کی انتہا کو ہم انجام بخیر کہتے ہیں.اس لئے کسی انسان یا فرد واحد کی زندگی جو کہ مختلف ادوار سے گزرتی ہے اگر اس کی آخری منزل کمزور ہو تو نچلی ساری منزلیں کمزور ہوں گی اس لئے یہ سمجھا جائے گا کہ اس کا انجام بخیر نہ ہوا.غرض اس لحاظ سے بھی مادی اور روحانی تصور میں بالکل نمایاں فرق ہے مثلاً مادی طور پر ایک منزل بنائی جاتی ہے مگر اس پر دوسری منزل نہیں بن سکتی کیونکہ پہلی منزل مضبوط نہیں ہے یا انجینئر کہتا ہے کہ اس کی بنیاد دو منزلوں کو برداشت کر سکتی ہے اور بنتی ایک منزل ہے یعنی ایک منزل کے بوجھ سے زیادہ برداشت کر سکتی ہے.یہ بھی ممکن ہو گا کہ اس ایک منزل کی شکل میں وہ زیادہ طاقت کی ہوگی لیکن روحانی طور پر دوسری منزل کے بغیر پہلی منزل کمزور رہ جاتی ہے اور تیسری منزل کے بغیر پہلی اور دوسری منزلیں کمزور رہ جاتی ہیں اور آخری منزل کے بغیر تو ساری ویرانی ہے کیونکہ اس طرح انجام بخیر نہیں ہوتا گویا اللہ تعالیٰ کی انتہائی رضا کے پانے کا جب وقت آیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی انتہائی ناراضگی مول لے لی.

Page 81

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۱ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری فطرت کے لحاظ سے مختلف دور مقرر کئے ہیں اس لئے تم ان میں سے گزر کر اور انتہائی جدوجہد کے بعد آخری منزل تک پہنچ سکتے ہو چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی کو آپ غور سے دیکھیں تو وہاں بھی یہ نظر آئے گا کہ آپ کے دور میں بھی مسلمانوں نے آہستہ آہستہ تدریجی ترقی کی.وہ آپ کی قوت قدسیہ اور تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں منزل بمنزل آگے بڑھتے رہے اور منزل بمنزل بلند ہوتے اور رفعتوں کو حاصل کرتے چلے گئے اور پھر اپنی آخری منزل کو اُنہوں نے پوری جدو جہد اور کوششوں اور قربانیوں کو انتہا تک پہنچا کر بنایا اور اس طرح اُن کا انجام بخیر ہوا اور اللہ تعالیٰ کی یہ آواز ان کے کان میں آئی.میرے بندے! میری جنتوں میں داخل ہو جاؤ.اس آخری عمارت یا منزل کے بعد جنت نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد جو عمارت ہے وہ تو دھڑام سے دوزخ میں جا گرتی ہے.اس لئے اس لحاظ سے یہ بڑے خوف کا مقام ہے.غرض اس چھوٹی سی آیت میں بڑی حکمت کی بات بیان ہوئی ہے.فرما یا کسی دور میں بھی تمہارے سپر د جو کام کیا جائے اس دور کے کام کو فرغت کے طور پر کرنا ہے یعنی اس کو تمام کرنا ہے.اس کو کامل اور مکمل کرنا ہے اس کے تمام اجزاء کو پورا کرنا ہے.لغت عربی کے لحاظ سے فرغت کے یہی معنے ہیں.فرمایا.جب کام مکمل ہو جائے تو پھر وہاں بیٹھ نہیں جانا اور یہ نہیں سمجھنا کہ بس جو کام کرنا تھا وہ کر لیا.تم جب تک اس دنیا میں زندہ ہو تمہیں اپنی زندگی کے مختلف ادوار کی ذمہ داریوں کو نباہنا ہوگا البتہ اُس دُنیا یعنی اُخروی زندگی کی ہم بات نہیں کر سکتے.انسان کا تصور یہی ہے کہ وہاں دنیوی قسم کا عمل نہیں ہو گا ویسے وہاں بھی عمل تو ہو گا لیکن یہ عمل امتحان کے طور پر نہیں ہوگا کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ کا بندہ اس کا شکر ادا نہیں کرے گا؟ شکر ادا کرنا بھی تو آخر ایک عمل ہے یا کیا وہ الْحَمدُ لِلہ نہیں پڑھے گا؟ اگر چہ وہ الْحَمْدُ لِلهِ پڑھے گا تو یہ بھی ایک عمل ہے اگر چہ وہ الحمدُ للهِ اُس سے زیادہ بصیرت کے ساتھ پڑھے گا جتنا اس دنیا میں پڑھتا ہے اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو اس سے زیادہ بصیرت کے ساتھ دیکھے گا جتنا وہ اس دنیا میں دیکھ رہا ہے اس لئے اس کی حمد تو اس دنیا کی حمد سے بہتر اور احسن ہوگی.

Page 82

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۲ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء غرض جب ہم کہتے ہیں کہ یہ عمل کی دنیا ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ اس عمل کی دنیا ہے جسے ہم امتحان کہتے ہیں.یعنی یہ آزمائش کی دنیا ہے.اس آزمائش اور امتحان کی دُنیا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اگر شیطان سے تمہیں کوڑے بھی لگواؤں تو پھر بھی تم نے میری حمد کرنی ہے اگر تم اس صورت میں بھی میری حمد نہیں کرو گے تب بھی میں تم سے ناراض ہو جاؤں گا اور دوسری طرف اُخروی زندگی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہاں لغویات بھی تمہارے کان میں نہیں پڑیں گی گویا وہ دنیا ہی اور ہوگی لیکن وہاں بھی ایسا عمل تو بہر حال جاری رہے گا جس کو امتحان نہیں کہا جاسکتا.اب مثلاً ایک آزمائش بچے کی یہ ہوتی ہے ( اور یہ آزمائش ماں باپ لیتے ہیں مگر جہاں تک اس امتحان یا آزمائش کا سوال ہے) ماں باپ نے اپنے ذہن میں یا اعلانیہ اظہار کیا ہوتا ہے کہ اگر تو فرسٹ ڈویژن میں پاس ہو گیا تو ہم تجھے یہ تحفہ دیں گے.یہ بھی آخر ایک عمل اور اس کا نتیجہ ہے نا.انہوں نے اپنے بچے کا امتحان لیا یا انہوں نے امتحان کے ساتھ خود کو وابستہ کر دیا اور ایک وہ پیار ہے جو ایک، دو، تین سال کا چھوٹا بچہ ماں کی گود میں پاتا ہے وہ اپنی ماں کی گردن میں باہیں ڈال کر اس کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اُس وقت ماں اسے جو پیار دے رہی ہوتی ہے وہ اگر چہ عمل کا جواب تو ہے مگر کسی امتحانی عمل کا نتیجہ نہیں اور عمل اس لحاظ سے ہے کہ بچہ آتا ہے، ماں کی گردن میں باہیں ڈالتا ہے اور پھر بڑے پیار کے ساتھ اپنے کلے کو ماں کے کلے کے ساتھ لگا دیتا ہے.ماں اس سے پیار کرتی ہے چنانچہ اسی طرح اس انگلی اُخروی دنیا میں اللہ تعالیٰ کا پیار عمل کے ساتھ تو وابستہ ہے لیکن ایسے عمل کے ساتھ وابستہ نہیں ہے جسے ہم امتحان یا آزمائش کہ سکیں.مگر یہاں اس دنیا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں بأْسَاء اور ضَر آم دیکھنی پڑیں گی یا تم ایسے الفاظ سنو گے جنہیں تم برداشت نہیں کر سکو گے لیکن میری خاطر تمہیں برداشت کرنے پڑیں گے پس امتحان اور آزمائش کے لحاظ سے انسانی زندگی پر مختلف دور آتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانی جد و جہد کو مختلف ادوار میں تقسیم کر دیا ہے.چنانچہ اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے منصوبے بنادیئے ہیں.بعض دینی منصوبے ایسے ہیں

Page 83

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۳ خطبہ جمعہ ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء جن کا تعلق ایک دن کے ساتھ ہے بعض دینی منصوبے اس قسم کے ہیں جن کا تعلق سال میں ایک مہینے کے ساتھ ہے.اب مثلاً نماز ہے، اس کا دن کے اوقات کے ساتھ تعلق ہے دن بھی پورا نہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ایک دن کی نماز پڑھنی ہے بلکہ فرمایا کہ دن میں پانچ دفعہ لازماً اور چھٹی دفعہ پیار کے جوش میں پڑھنی ہے ( دن میں پانچ نمازوں کے بعد رات کو ہم تہجد کی نماز ادا کرتے ہیں) یہ گویا دن (۲۴ گھنٹے ) کا ایک دور ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما تا کہ ایک دن با قاعده صبح دوپہر ، عصر شام اور عشاء اور پھر تہجد کی نماز پڑھ لو اور پھر آرام سے بیٹھ جاؤ یہ کہتے ہوئے کہ ہمارا جو کام تھا وہ ختم ہو گیا.فرمایا یہ نہیں تمہارا کام فرغت کے مطابق پورا بھی کیا گیا ہو یعنی اس کے ساتھ جو ذیلی چیزیں تھیں ان کو بھی مدنظر رکھا گیا ہو.مثلاً تم نے ہر نماز کے ساتھ نفل بھی پڑھے ہوں.نمازوں سے پہلے بڑی احتیاط کے ساتھ وضو بھی کیا ہو.نمازوں میں خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں بھی کی ہوں.پھر رات کو تہجد کی نماز بھی ادا کی ہو اس طرح گویا نماز کے لحاظ سے دن کی ذمہ داری کے سارے اجزاء پورے ہو گئے لیکن اس پر تمہاری ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اگلے دن کی جب پو پھوٹی تو وہ تمہارے لئے نئی ذمہ داریاں لے کر آئی اور مثلاً نمازوں کے لحاظ سے ایک نیا دور شروع ہو گیا.تا ہم روزے کے لحاظ سے تو نیا دور شروع نہیں ہوا اس کے لئے تو آپ کو گیارہ مہینے انتظار کرنا پڑتا ہے.پھر ایک مہینہ رمضان کی عبادت کا ہے.یہ بھی ایک دوسری قسم کی عبادت کا دور ہے.پھر جب آپ ایک مہینے کا یہ دور پورا کر لیتے ہیں تو یہ نہیں کہتے کہ اللہ قسم ! اب میں ساری عمر روزے نہیں رکھوں گا کبھی کسی مومن کے دل سے یا اس کی زبان سے یہ آواز نکلی ہے؟ اس لئے نہیں نکلی کہ اسے پتہ ہے کہ میری زندگی کا ایک دور یا ایک منصو بہ سال کے ایک مہینے کے ساتھ تعلق رکھتا تھا وہ ختم ہو گیا اب دوسرا منصوبہ اگلے سال کے لئے شروع ہو گیا ہے.اس سے ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ ہمیں رمضان کے لئے گیارہ مہینے تیاری کرنی چاہیے.پھر اس کا Climax (کلائمیکس ) اس کی انتہا اور اس کا انجام رمضان کے مہینے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے.

Page 84

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۴ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء پھر حج ہے یہ بھی اصل میں تو ایک دفعہ ساری عمر میں فرض ہوتا ہے گو یا ساری زندگی میں ایک دور اس کا آتا ہے لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتا ہے وہ ایک سے زائد دفعہ بھی حج کرتے ہیں.بہر حال عبادت کے لحاظ سے بھی میں جس چیز کو اچھی طرح واضح کر کے بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مختلف دور ہیں کسی چیز کا دور ایک دن سے تعلق رکھتا ہے.کسی کا ایک سال سے تعلق رکھتا ہے.کسی کا ساری عمر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.سال سے تعلق رکھنے والا دور مثلاً زکوۃ بھی ہے.اس کا تعلق گو سال کے ختم ہونے سے ہے لیکن خرچ کرنے کے لحاظ سے ایک دور ایسا آ جاتا ہے کہ دو دن کے بعد بھی ضرورت پڑ سکتی ہے مثلاً جہاد کے لئے مال دینا چنا نچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جو جنگیں لڑی گئی ہیں ، ہر جنگ کے وقت یہ اعلان کیا جا تا تھا کہ مالی قربانی دو اور جانی قربانی دو کوئی ایک ہفتہ کے بعد جنگ ہوئی.کوئی ایک سال کے بعد جنگ ہوئی.کوئی لمبے عرصے کے بعد اور کوئی تھوڑے عرصے کے بعد جنگ ہوئی یعنی مختلف جنگوں کے درمیان ایک جیسا وقفہ نہیں ہے.پھر ایک اور دور ہے جو پورے کا پورا مظلومیت کا دور نظر آتا ہے.یعنی مکی زندگی کا پورا ایک دور ہے اور کیونکہ مسلمانوں نے اس دور میں فرغت پر عمل کیا تھا یعنی اس دور مظلومیت کی زندگی میں عاید ہونے والی ذمہ داریوں کو انہوں نے پورے طور پر ادا کر دیا تھا.اُن کا کوئی جز وایسا نہیں تھا کہ جس کو انہوں نے نظر انداز کر دیا ہو اور ادا نہ کیا ہو.غرض انہوں نے اپنی قربانیوں کو مکمل بنادیا تھا چنانچہ ان کا نتیجہ شاندار کامیابی کی شکل میں نکلا.گواس کامیابی میں بہت ساری اور چیزیں بھی شامل تھیں لیکن اس ایک خطبہ میں ان کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی لیکن ایک شکل جو بڑی نمایاں تھی وہ یہ تھی کہ مکہ کے ظالم سرداران نے مکہ سے باہر نکل کر جنگ کے ذریعہ اسلام کو مٹانا چاہا تو اپنا سر اور دھڑ چھوڑ کر وہ قوم واپس مکہ کو لوٹی.ان کے بڑے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے تھے جس طرح خواب میں یا کہانیوں میں بے دھڑ کے انسان کا منظر دکھائی دیتا ہے یعنی بعض دفعہ بغیر سر کے دھڑ چلنا شروع کر دیتا ہے.حقیقتا کفار مکہ بغیر دھڑ کے واپس لوٹے

Page 85

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء اس لئے کہ جس سر نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ مسلمانوں کو قتل کر دیا جائے یا جس دماغ نے اسلام کو مٹانے کے متعلق سوچا تھا ، اس کو اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا مگر اسلام ختم نہیں ہوا.غرض اس دور میں اُمت محمدیہ نے جب کہ وہ ایک چھوٹی سی اُمت تھی اور بڑے نازک دور سے گزر رہی تھی اس وقت اپنی ذمہ داریوں کو ان کے تمام اجزا کے ساتھ نباہا اور انتہائی قربانیاں دیں.پس واقعہ میں انہوں نے اس حکم پر عمل کیا اور فرغت کی رو سے ایک دور کی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا کر فانصب کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اگلے دور کی طرف متوجہ ہو گئے.یعنی بدر کی جنگ جس میں پہلے دور کی انتہا اور انجام تھا اور نہایت شاندار انجام تھا اور خدا تعالیٰ کی محبت کا ایک عظیم الشان اظہار تھا.اُس وقت گویا ایک دور ختم ہوا.اگلا حکم کیا ہے! آرام سے بیٹھو اور سو جاؤ تمہیں مزید قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں.فرمایا فانصب.ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے.اس دور میں بھی انتہائی جدو جہد کرنی پڑے گی اور جہاد سے کام لینا پڑے گا اور رفعتوں اور مضبوطی کے سامانوں کے لئے کوشش کرنی پڑے گی.غرض اس طرح اُمت محمدیہ کی فردی اور اجتماعی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوا.پہلے دور کے بعد دوسرا، پھر تیسرا، پھر چوتھا وَ عَلى هذا القیاس.لیکن جس وقت امت محمدیہ نے فَرَغْت پر عمل کیا لیکن فَانْصَبُ پر عمل نہیں کیا وہ سمجھے کہ ہم ساری دنیا کے حاکم بن گئے ، اب ہمیں فانصب پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے تو تباہ ہو گئے، مثلاً پین اسلامی سلطنت کا ایک حصہ تھا اور اس پر مسلمان حکومت کرتے تھے ،مگر کجا یہ کہ طارق کی فوج بارہ ہزار کے قریب تھی اور اس نے سپین میں جا کر ایک لحاظ سے سارے یورپ کے ساتھ ٹکر لی اور انتہائی قربانی دی.وہاں سمندر کے ساحل پر کشتیاں نہیں جلائی گئی تھیں وہاں خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت کے شعلے بھڑ کے تھے.انہوں نے کہا تھا کہ یہ دنیوی قربانیاں کیا چیز ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کے شعلوں میں ہر چیز کو جلا دیتے ہیں تا کہ ہمیں اس کے پیار کی ٹھنڈک ملے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پیار کی ٹھنڈک پہنچائی.جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج کے سامنے عیسائی فوج نہیں ٹھہری اور وہ شکست کھا گئی حالانکہ سارے یورپ والے مسلمانوں کو مٹانے کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے.خود سپین کے عیسائی بادشاہ کے پاس بے تحاشا

Page 86

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۶ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء فوج تھی.اسی طرح ترکی کی طرف سے مسلمان پولینڈ تک چلے گئے.چنانچہ اس دور میں جب فرغت کے ساتھ ساتھ فانصب پر بھی عمل ہو رہا تھا.ہر وہ طاقت جس نے مسلمانوں سے ٹکر لی نا کام ہوئی اور ہر وہ دشمن جس نے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی ہلاک ہو گیا.پھر مسلمانوں پر ایک وقت ایسا آیا کہ جب انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب ساری دنیا ہمیں مل گئی.ہم نے اجتماعی زندگی میں جو کام کرنا تھا وہ کر لیا اس لئے اب ہمیں قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں رہی حالانکہ یہ نہیں سوچا کہ امت محمدیہ کی اجتماعی زندگی تو قیامت تک ممتد ہے.قیامت سے پہلے تو اُمت محمدیہ کی اجتماعی زندگی ختم نہیں ہوتی.اس واسطے اُمت محمدیہ کی اجتماعی زندگی میں کوئی ایسا مقام نہیں جب انسان یہ سمجھے کہ فَإِذَا فَرَغْت پر پورا اترنے کے بعد فَانْصَب کا حکم نہیں رہا بلکہ اس آیت کی رو سے قیامت تک ایک دور کے بعد دوسرا دور شروع ہوگا.ایک نسل کے بعد دوسری نسل کو قربانیاں دینی پڑیں گی.بہر حال جب بھی مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ انہوں نے اپنے دور میں قربانیوں کے ہر جزو کو مکمل کر دیا.اب انہیں مزید قربانیاں دینے کی کیا ضرورت ہے تو وہ ہلاک ہو گئے مگر یہ ہلاکت دنیوی طور پر ہے روحانی لحاظ سے اس لئے نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ فیج اعوج کے زمانہ میں بھی اُمت محمدیہ میں اولیاء اس کثرت سے تھے کہ جس طرح سمندر میں پانی کے قطرے ہوتے ہیں لیکن وہ امت محمدیہ کے کچھ فرد تھے یا وہ کچھ حصے تھے یا وہ کچھ ٹولیاں تھیں.ساری اُمت محمدیہ تو ایسی نہیں تھی جس طرح چراغ سے چراغ جلتے ہیں اور تھوڑی سی جگہ کو روشن کر دیتے ہیں یہی اُن کا حال تھا مگر ساری اُمت یا ساری قوم پر جو ذمہ داری تھی اس سے صرف پاکستان کے مسلمان یا افریقہ کے مسلمان یا مصر کے مسلمان یا عراق کے مسلمان یا عرب کے مسلمان یا شام کے مسلمان یا ایران وغیرہ کے مسلمان مراد نہیں بلکہ ساری اُمت پر جو ذمہ داریاں عاید ہوتی تھیں انہیں نباہا نہیں گیا چنانچہ اسلامی تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی ہمیں نظر آتا ہے کہ جب مسلمانوں نے فَإِذَا فَرَغْت کے بعد فانصب کا خیال نہیں رکھا.جب ایک دور ختم ہوا

Page 87

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۷ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء تو انہوں نے دوسرے دور کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ نہیں کی.پس اگر امت محمدیہ نے یا جماعت احمدیہ نے ترقی کرنی ہے تو ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو سبق ہمیں اس چھوٹی سی آیت میں سکھائے گئے ہیں ہم ان کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اس کے مطابق ہم ہر دور کی قربانیوں کو کمال تک پہنچانے کے بعد نئے دور کی ذمہ داریوں کو نباہنے کے لئے انتہائی جدو جہد اور پوری کوشش کرنی شروع کر دیں.پھر ہم آگے ہی آگے بڑھتے چلے ئیں گے.خدا نہ کرے کہ ہم پہلے لوگوں کے انجام سے سبق نہ لیں اور جو اُن پر گذری تھی خدانہ کرے کہ وہی ہم پر بھی گذرے.خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو.ایک چھوٹی سی بات جو آج میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں اور جس کی طرف میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ غلبہ اسلام کے لئے ہماری جو عظیم جد و جہد اور عظیم مہم ہے اس کا بھی ایک دور ہے جس میں جانی اور مالی قربانیاں پیش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے.یہ اتنا عظیم الشان کام ہے کہ بعض کمزور دل اور کمزور ایمان آدمی ڈر جائیں گے.وہ سمجھیں گے کہ یہ اتنا بڑا کام ہے یہ کیسے سرانجام پائے گا؟ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں جتنا کام اس وقت تک ہو چکا ہے وہ بھی کیسے ہو سکنے والا سوال تھا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو قبل اس کے کہ کوئی ایک شخص بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا دوسو علماء نے آپ پر کفر کے فتوے لگا دیئے.آپ کی محفل میں دو سو علماء کے کفر کے فتوے تو تھے لیکن احمدی کوئی نہیں تھا کیونکہ ابھی آپ نے بیعت لینی شروع نہیں کی تھی لیکن آج دیکھو وہ اکیلی آواز ، وہ خدا اور اس کے رسول کے پیار سے لبریز آواز ساری دنیا میں چکر لگارہی ہے.پس جو کچھ ہو چکا ہے وہ بھی دراصل ایک معجزہ ہے.اس لئے جب ہم ایک معجزہ دیکھ چکے ہیں تو ہم آئندہ ظاہر ہونے والے معجزوں سے مایوس کیوں ہوں ؟ خدا تعالیٰ وہ بھی ضرور دکھائے گا البتہ ضرورت اس بات کے سمجھنے کی ہے کہ جب امت محمدیہ نے یا جماعت احمدیہ نے اس سے پہلے اپنی ذمہ داریوں کو نباہا ہے تو پھر ہم اپنی ان ذمہ داریوں کے نباہنے سے کیوں انکار کریں جو آئندہ نئے دور میں ہم پر پڑنے والی ہیں.

Page 88

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۸ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء میں نے بتایا ہے کہ انسانی زندگی میں چھوٹا بڑا دور آتارہتا ہے.ہمارا ایک دور مالی سال پر مشتمل ہے اور وہ اب ختم ہو رہا ہے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ہر سال کے پورا ہونے پر فرغت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے یعنی جب ذمہ داری پوری ہوگئی ، سارے اجزاء کے مطابق ذمہ داری نباہ لی تو پھر اس کے ساتھ لگتا ہوا دوسرا دور جو ہے اس کے متعلق یہ حکم ہے.فانصب یعنی ہر دور کے اختتام پر فرغت والی کیفیت پیدا ہونی چاہیے.انسانی کوشش مکمل ہونی چاہیے ادھوری نہیں رہنی چاہیے اور ہر دور کے آخر پر جو اگلے دور کی ابتداء ہے اس کے لئے فانصب کا حکم ہے کہ اس میں پہلے سے بھی زیادہ زور لگانا چاہیے.چنانچہ جب ہمارا پچھلا مالی سال ختم ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت جماعت پر یہ بڑا فضل کیا تھا کہ جو ہمارا بجٹ تھا احباب نے اس سے کہیں زیادہ چندے دیئے تھے اب جو بچے ہیں یا جو لوگ جماعت کے اندر نئے داخل ہونے والے ہیں وہ سمجھتے ہیں صرف مالی قربانی دے دی یہ صیح نہیں ہے اس لئے ہماری جماعت کے علماء کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ دو چیزوں کو جماعت کے سامنے پیش کیا کریں ایک یہ کہ جماعت نے ہر مالی سال کے شروع میں ایک اندازہ لگا کر کہ مثلاً اتنی ہماری مالی طاقت ہے اس کے مطابق جتنا منصوبہ بنایا یعنی بجٹ تیار کیا تھا اس سے زیادہ انہوں نے مالی قربانیاں دیں اور دوسرے یہ کہ ان مالی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے جتنے پیار کی وہ توقع رکھتے تھے اس سے کہیں زیادہ پیار اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا - فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - اب یہ جو نیا مالی سال ہے جو اب گذر رہا ہے اس کے شروع میں بھی ہم نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم اس سال کے دوران فانصب کے حکم پر عمل کریں گے اور پہلے سے زیادہ جد و جہد کریں گے اور اس سال یا اس دور کو بھی اس کے اتمام یعنی کمال تک پہنچا ئیں گے.اب اس مالی سال کے دور کے صرف دو مہینے باقی رہ گئے ہیں.ویسے یہ درست ہے کہ دنیوی لحاظ سے یہ بڑی پریشانیوں کے دن رہے، تاجروں کے لئے بھی پریشانی ہے زمینداروں کے لئے بھی پریشانی ہے.علاوہ ازیں بعض لوگوں کو اپنے علاقوں سے اٹھنا پڑا ہے.اس لئے ملکی اقتصادیات پر بڑا برا اثر پڑا ہے لیکن کیا اقتصادی دُنیا کے بحران ہمارے عزم اور ہمارے ارادوں پر برا اثر ڈالیں گے؟ ایک مومن تو

Page 89

خطبات ناصر جلد چهارم ۶۹ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء اقتصادی بحران کی کبھی پرواہ نہیں کرتا کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ آسمان سے امتحانا بلائیں نازل ہوتی ہیں یا ہم خود ہی اپنے لئے بلائیں پیدا کر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یعنی ہمارا تکلیف اٹھانا یا قربانیاں دینا یا خود کو تکلیف میں ڈالنا اس لئے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے.پس دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اقتصادی بحران جماعت احمدیہ کی قربانیوں میں کبھی روک نہیں بن سکتے.اس واسطے تم ان دو مہینوں کے اندر خدا کی راہ میں قربانیاں دو اس یقین کے ساتھ کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں دو گے تو دنیوی دولت کے لحاظ سے غریب نہیں ہو جاؤ گے کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں پیسے دیتا ہے وہ غریب نہیں ہوتا بلکہ اور زیادہ مال دار ہو جاتا ہے تم نے دنیا کو یہ بتانا ہے کہ ہمیں اپنے رب کی طرف سے جو پیار ملا ہے ہم اس کی قدر کرتے ہیں کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے ہیں.غرض ہمیں اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ دنیا میں اقتصادی بحران آئیں، دنیا میں حوادث کی شکل میں طوفان برپا ہوں یا دریاؤں میں طغیانیاں آئیں یا خشک سالی ہو، دنیا میں خواہ کچھ بھی ہوتا رہے ہمارے عزم اور ہمارے ارادے اور ہماری قربانیوں میں کوئی رخنہ اور کوئی نقص پیدا نہیں ہوگا.ہم پہلے سے زیادہ آگے بڑھیں گے کیونکہ میں نے بتایا ہے فَانْصَبُ میں خالی نئے سرے سے پورے جوش کے ساتھ جد و جہد اور جہاد کرنانہیں بلکہ یہ سب کچھ اس نیت سے کرنا ہے کہ پہلی منزل زیادہ مستحکم ہو جائے اور اس کے اندر اور بھی زیادہ ثبات پیدا ہو جائے اور اسے اور بھی زیادہ رفعت حاصل ہو.اس طرح ہم اوپر سے اوپر نکلتے چلے جائیں گے اور خدا تعالیٰ سے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اس بنیادی اصول کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو سدھانے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ / مارچ ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 90

Page 91

خطبات ناصر جلد چہارم اے خطبه جمعه ۳/ مارچ ۱۹۷۲ء جو خود کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے اُسے قوی بھی ہونا چاہیے اور امین بھی خطبه جمعه فرموده ۳ مارچ ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انبیاء علیہم السلام قوی بھی ہوتے ہیں اور امین بھی اور پھر انبیاء میں سب سے زیادہ قوی اور سب سے زیادہ امین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے.اسی لئے ہمیں اسوۂ نبوی کی پیروی کی طرف توجہ دلائی گئی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے.پس ہر وہ شخص جو خود کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے، اُسے قوی بھی ہونا چاہیے اور امین بھی.قوی کے معنے صرف یہی نہیں ہوتے کہ کوئی آدمی زیادہ بوجھ اُٹھا لے.قومی کے معنی دراصل یہ ہوتے ہیں کہ آدمی ہر اُس ذمہ داری کو حسن و خوبی سے ادا کر سکے جس کے اُٹھانے کی اُسے تلقین کی گئی اور جس کے نباہنے کی اُسے تعلیم دی گئی ہے.غرض صرف Weight Lifting ویٹ لفٹنگ) یعنی مادی بوجھ کو اُٹھانے ہی کے معنے میں قوی کا لفظ استعمال نہیں ہوتا مثلاً قوت برداشت ہے.جس آدمی میں قوت برداشت ہوتی ہے وہ بھی قوی ہوتا ہے.پھر عزم ہے یہ بھی دراصل اسی قوت کی ایک جھلک ہوتی ہے.

Page 92

خطبات ناصر جلد چہارم ۷۲ خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۷۲ء پس انبیاء علیہم السلام کے سچے متبع قوی بھی ہوتے ہیں اور امین بھی.یعنی وہ ہر قسم کی قوت کو ترقی دیتے ہیں اس کی نشوونما کرتے ہیں اور اس طرح اپنے دائرہ میں ایک حسین ترین وجود بن جاتے ہیں.جہاں تک امانت کا تعلق ہے یہ تو دنیا نے انبیاء علیہم السلام سے سیکھی ہے اور خیانت اسوۂ نبوی سے دوری کا نام ہے.آج پاکستان کو جو ذلت دیکھنی پڑی ہے، اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ امین نہ ہونا ہے یعنی امانت کا فقدان اور خیانت میں اتنی وسعت کہ تصور میں بھی نہیں آسکتی.اگر یہ حال نہ ہوتا تو ہمیں آج یہ دُکھ برداشت نہ کرنا پڑتا.پھر جہاں تک قوت کا تعلق ہے، اس کے بعض پہلو ورزش سے نشو و نما پاتے ہیں.اس لئے جسمانی ورزش کی طرف توجہ دینا ضروری ہے.جو ان کو بھی اور بوڑھے کو بھی.( بوڑھا تو میں کسی کو نہیں کہا کرتا اس لئے میں کہوں گا) جو ان کو بھی اور جوانوں کے جوان یعنی انصار اللہ کو بھی.مرد کو بھی اور عورت کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے.کبھی تو جہ ہو جاتی ہے کچھ اور کبھی بھول ہو جاتی ہے بہت سی.اس لئے چند دن ہوئے بچوں کے ایک اجتماع میں میں نے ایک اعلان کیا تھا.میں آج اسے دُہرانا چاہتا ہوں کیونکہ یہ ساری جماعت کی ذمہ واری ہے.میں نے اُس اعلان میں بچوں سے یہ کہا تھا کہ تم ربوہ میں کھیلوں کو منظم کرنے کا کام سنبھالو کیونکہ اس انتظام میں اکثر نو جوان ہی آگے آئیں گے اور ان کو میں نے اس انتظام کی یہ شکل بھی بتائی تھی کہ دو نمائندے تعلیم الاسلام کالج کے، دو جامعہ احمدیہ کے، دو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے، دو خدام الاحمدیہ کے اور دو انصار اللہ کے مل کر سر جوڑیں اور ایسا انتظام کریں کہ ربوہ کا ہر شہری روزانہ ورزش کیا کرے.ورزش کے لئے باسکٹ بال کھیلنا ہی ضروری نہیں ہے.سب سے اچھی اور سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ کی جانے والی ورزش تو سیر ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت بھی ہے.اس لئے ربوہ کے دوست روزانہ سیر کے لئے چاروں طرف نکل جایا کریں.میں جب آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا تو ہمارا Balliol کالج Active (ایکٹو ) ہونے

Page 93

خطبات ناصر جلد چہارم ۷۳ خطبہ جمعہ ۳/ مارچ ۱۹۷۲ء کے لحاظ سے ایک خاص مقام رکھتا تھا.میں نے دیکھا کہ جس طرف بھی سیر کو جائیں ، اگر سو طلباء راستے میں سیر کرتے ہوئے ملے ہیں تو اُن میں پچاس سے زیادہ Balliol کالج کے ہوتے تھے، غرض وہ بڑا Active (ایکٹو ) کالج تھا.وہ سویا نہیں رہتا تھا یعنی ” پوستی کا لج نہیں تھا بلکہ ہر چیز میں آگے تھا.پس سیر ایک بڑی اچھی ورزش ہے اور اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مختلف نظارے سامنے آتے ہیں.شہر کے اندر رہتے ہوئے جو چیز میں نظر نہیں آتیں وہ باہر نکل کر نظر آ جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی جتنی صفات اس کا ئنات میں جلوہ گر ہیں ہمیں اُن کو دیکھنا چاہیے اور اُن کے متعلق غور کرنا چاہیے اور اُن سے لذت حاصل کرنی چاہیے اور اُن سے فائدہ اُٹھانا چاہیے.اگلے جمعہ سے پہلے یہ کام شروع ہو جانا چاہیے یعنی اس کام کے متعلق پروگرام بنانے کے لئے کمیٹی بیٹھ جائے.یہ دیکھ کر مجھے بڑی شرم آتی ہے.( میں بھی اس کا ذمہ وار ہوں ) کہ پچھلے ۲۰ سال سے وہ جگہیں جن کو ہم ربوہ کے کھلے میدان کہتے ہیں یا جس نے ربوہ کا نقشہ بنایا تھا اس نے نقشے میں ان جگہوں کو Open Spaces (اوپن سپیسر ) دکھایا تھا مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کبھی یہاں عمارتیں ہوتی تھیں اور اب اُن کے کھنڈرات رہ گئے ہیں اور جن کی بنیادوں کے نشان بھی مٹ گئے ہیں.غرض وہ جگہیں آبادی کا حصہ معلوم نہیں ہوتیں اور یہ بڑے شرم کی بات ہے.پس تمام کھلی جگہوں یعنی Open spaces (اوپن سپیسر ) کوکھیل کے میدان بننا چاہیے.تم ان کو کھیل کے میدان میں تبدیل کر دو مگر اس شخص کی طرح نہ کرنا جو جون ، جولائی میں دھوپ میں پڑا ہوا تھا اور جسے کسی بھلے مانس راہی نے کہا تھا کہ سامنے ٹھنڈے سایہ دار درخت کے نیچے چلے جاؤ تو اس پر اس نے کہا تھا کہ پھر تم مجھے کیا دو گے؟ تم اس سلسلہ میں محنت کرو.محنت ہی اصل دولت ہے محنت کی جو دولت ہے وہی دراصل ہمارا سرمایہ اور عزت ہے جس کے گرد امانت کی فصیل کھینچی گئی ہے.محنت میں اگر خیانت ہو تو یہ ضائع ہو جاتی ہے.بے نتیجہ اور بے شمر ٹھہرتی ہے یا اس کے ثمر کو کیڑ الگ جاتا ہے لیکن جس دولت کو انسان کی محنت کماتی ہے اُسے اس کی امانت قائم رکھتی ہے.پس تم محنت کرو اور ساری کھلی جگہوں کو (جو نقشے میں کھلی جگہیں دکھائی گئی

Page 94

خطبات ناصر جلد چہارم ہیں) باغ کی شکل میں تبدیل کر دو.۷۴ خطبہ جمعہ ۳/ مارچ ۱۹۷۲ء ویسے تو بہت ساری جگہیں ایسی بھی ہیں جن کو بعض دوستوں نے مکان کے لئے خریدا تھا.مگر سمجھ نہیں آتی کہ وہ کھلی جگہیں ہیں یا مکانوں کی زمینیں ہیں.ایسے دوستوں کو توجہ کرنی چاہیے.اُن پر مکان بن جانے چاہئیں.جب کبھی ہنگامی حالات پیدا ہوتے ہیں تو پھر لوگ ربوہ کی طرف دوڑتے ہیں اور اس طرح ہمیں بھی ایک اچھا خاصا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے.بعض لوگ جن کو مکان کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ہنگامی حالات تو نہیں ہوتے ویسے ان کو مکان کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ مالک مکان سے کہتے ہیں کہ مکان کا ایک حصہ کرایہ پر دے دو ( بعض لوگ مفت بھی دے دیتے ہیں) لیکن فرض کرو کرایہ پر مانگا اور وعدہ کیا کہ جس وقت کہو گے ہم خالی کر دیں گے مگر جب ہنگامی حالات پیدا ہوئے اور مالک مکان ربوہ کی طرف دوڑا اور اس نے کہا مکان خالی کرو.مگر انہوں نے کہا ہم کہاں جائیں؟ اب یہ جواب دینا کہ ہم کہاں جائیں یہ بھی ایک قسم کی خیانت ہے.تم ایسا وعدہ کیوں کرتے ہو جسے تم پورا نہیں کر سکتے اور اگر اپنا وعدہ پورا کر سکتے ہو تو باہر میدان میں نکل آؤ.تمہارے جسم کو اگر کوئی تکلیف پہنچ جائے تو اس کا کوئی حرج نہیں لیکن تمہاری روح کو کوئی گزند اور تمہارے اخلاق پر کوئی دھبہ نہیں آنا چاہیے.اس لئے جو تم نے وعدہ کیا ہے وہ تم پورا کرو یا وعدہ نہ کرو.آخر جس دن تم نے یہ کہا تھا کہ جب کہو گے ہم مکان خالی کر دیں گے.اس وقت تم نے جہاں بھی جانے کے متعلق سوچا تھا وہاں چلے جاؤ.خیر یہ تو ایک ضمنی بات ہے.میں یہ کہ رہا تھا کہ تم محنت کر کے ساری کھلی جگہوں کو باغ کی شکل میں تبدیل کر دو.محنت کے علاوہ جہاں تک تمہیں خرچ کرنا پڑے اور تم خرچ کرنے کی مقدرت بھی رکھتے ہو تو خرچ بھی کرو اور جہاں مقدرت نہیں رکھو گے اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.تمہارے لئے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہو جائے گا لیکن ابتداء کرنا تمہارا کام ہے اور انجام تک پہنچا نا خدائے رحیم کا کام ہے.پس اگلے جمعہ سے پہلے یہ کام شروع ہو جانا چاہیے یعنی انتظامیہ بن جانی چاہیے.ورزش کی طرف توجہ دینی چاہیے.میں نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد یہاں کسی نہ کسی کھیل کا ٹورنامنٹ

Page 95

خطبات ناصر جلد چہارم ۷۵ خطبہ جمعہ ۳/ مارچ ۱۹۷۲ء کر وایا جائے تاکہ کھیلوں کی طرف دلچسپی پیدا ہو.سیر کا بھی ٹورنامنٹ ہوسکتا ہے اس کے لئے میں انعام مقرر کر دیتا ہوں مثلاً پانچ میل سیر کا مقابلہ ہو اور دوست آکر یہ بتائیں کہ انہوں نے سیر میں خدا تعالیٰ کی قدرت کے کیا کیا جلوے دیکھے.جب وہ یہ لکھ کر دیں گے یا جسے لکھنا نہیں آتا وہ زبانی بتا ئیں گے تو اس مقابلہ میں جو اول آئے گا.اس کو پچاس روپے کا انعام میری طرف سے دیا جائے گا.آخر خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے اسی لئے ہیں کہ ہم ان کو دیکھیں اور ان پر غور کریں.اس طرح خدا تعالیٰ کے ساتھ پیار بڑھتا ہے.بعض دفعہ ایک چھوٹی سی چیز ہوتی ہے لیکن اس میں بھی بڑا حسن نظر آتا ہے مثلاً یہ چھوٹی سی تلی جو ادھر سے اُدھر اُڑ رہی ہوتی ہے.اس کے او پر رنگ اس قدر خوبصورت اور خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے مختلف رنگوں کے بیل بوٹے اس ہوشیاری کے ساتھ بنائے ہوتے ہیں کہ اگر انسان بنائے تو وہ کہے کہ میں اس کو شاید دس ہزار روپے میں بیچوں گا کیونکہ اس پر میرا بڑا وقت لگا ہے.اس پر میں نے بڑا خرچ کیا ہے اور بڑی دماغ سوزی کی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور اس مادہ کو حکم دیا تو وہ خوبصورت تتلی کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتی ہے لیکن آپ گزر جاتے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.حالانکہ یہ اتفاق سے آپ کے سامنے نہیں آگئی ( دُنیا میں اتفاق کا لفظ غلط طور پر استعمال ہوتا ہے ) اُسے تو متصرف بالا رادہ ہستی نے پیدا کیا ہے یہ کسی اندھے اور اندھیرے میں بسنے والے آدمی کا اتفاق نہیں ہے.یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے جلوے ہیں جو تمہارے سامنے آتے ہیں تا کہ تم ان پر غور کرو اور اُن سے فائدہ اُٹھاؤ.جہاں تک امین ہونے کا تعلق ہے اس کی طرف ہر مسلمان اور ہر انسان کو متوجہ ہونا چاہیے.جن لوگوں کی کوششیں دُنیا میں ضائع ہو گئیں کچھ دُنیا میں بھی وہ ناکام ہو گئے اور جو کامیاب ہوئے ان کی کوشش کا نتیجہ تب نکلا کہ جب وہ دُنیوی معیار کے لحاظ سے امین تھے.اگر وہ امین نہ ہوتے اگر اُن میں رشوت کا ایسا ہی زور ہوتا جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے ہمارے ملک میں رہا ہے.(اللہ تعالیٰ فضل کرے اور یہ اندھیرے دُور ہو جائیں ) تو وہ تو میں کبھی ترقی نہ کر سکتیں.دُنیا قومیں میں ہر جگہ ہمیں خیانت بھی نظر آتی ہے اس لئے کہ دنیا مذہب سے دُور ہو گئی ہے.خود مذہب میں

Page 96

خطبات ناصر جلد چہارم ۷۶ خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۷۲ء بھی ہمیں بعض استثنائی صورتوں میں خیانت نظر آتی ہے کیونکہ ہر مذہب میں اور اسلام میں بھی یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ہمیں منافق نظر آتے ہیں اور مذہبی لحاظ سے سب سے بڑا خائن منافق ہے.جس آدمی نے اپنے رب کے ساتھ خیانت کی وہ اپنے بھائی کے ساتھ کیسے خیانت نہیں کرے گا ؟ بعض دفعہ میں سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ یہاں خیانت کا اتنا زور تھا کہ اگر ہم احمدیت کے وجود کو علیحدہ کر دیں تو ایک چھوٹی سی جگہ میں بھی مشکل سے کہیں امانت نظر آتی تھی.اس حالت میں قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے؟ خیانت صرف یہی نہیں ہوتی کہ کسی کے کچھ پیسے کھا لئے بلکہ اگر کام پورا نہ کیا جائے تو یہ کام میں خیانت ہے یا پھر ذمہ داری کی ادائیگی میں خیانت ہے پھر ذمہ داریاں محض حکومت کی یا قانون ہی کی نہیں ہوتیں بلکہ اخلاقی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں.مذہبی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں.ایک ذمہ داری یہ تھی کہ اسلام نے بھائی کو بھائی سے پیار کا حکم دیا تھا مگر بعض لوگوں نے اس میں بھی خیانت کی اور وہ اپنے بھائیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگ گئے.چنانچہ حکومت نے پرسوں زراعت کے متعلق جس نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے اس پر بھی سٹ پٹارہے ہیں حالانکہ ان سے روزی تو نہیں چھینی گئی البتہ ان کے عیش کے کچھ حصے ہیں جنہیں کاٹ دیا گیا ہے.۱۵۰ ایکٹر بڑی زمین ہے اگر اس میں پہلے سے زیادہ محنت کی جائے اور عقل سے اس سے فائدہ اُٹھایا جائے تو اس سے بھی بہت کچھیل جاتا ہے.اس سے کہیں زیادہ مل جاتا ہے جتنا کہ اس اعلان سے ( جسے زرعی انقلاب کہا گیا ہے اس کے نتیجہ میں ) ان کروڑوں کو ملے گا جن کو آج تک تم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آرہے تھے.گواب بھی فرق ہے لیکن یہ صحیح ہے کہ اس سے عزت کی زندگی کے پہلے سے زیادہ سامان میسر آگئے اور آسودہ زندگی کے کچھ بہتر سامان پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ اب بھی جن لوگوں کے خاندان کے پاس آٹھ یا دس ایکٹر زمین رہے گی.ان کو پھر بھی روکھی روٹی کھانی ہے لیکن الا ما شاء اللہ وہ ان کی حقارت کی نگاہ سے محفوظ ہو جائے گا.پس اسلام نے تو سب کو برابر کر دیا تھا چنانچہ جہاد کے ایک سفر میں ایک موقع پر کھانے کی تنگی کے پیش نظر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ ساری کھجور میں لے آؤ.

Page 97

خطبات ناصر جلد چہارم LL خطبہ جمعہ ۳/ مارچ ۱۹۷۲ء آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں جس آدمی کے پاس ایک من کھجور تھی وہ بھی لے آیا اور جس کے پاس دو کھجور میں بچی ہوئی تھیں وہ بھی لے آیا.آپ نے سب میں برابر تقسیم کر دیں.اب جس سے آپ نے ایک من کھجور لی تھی اس کو آپ نے پیسے نہیں دیئے اور نہ اُن سے پیسے لئے تھے جن میں آپ نے تقسیم کیں تھیں.یہ بھی ایک اعتراض ہے کہ دیکھو جی کہتے ہیں پیسے دیئے بغیر زمین لے لینی ہے.مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کے کب پیسے دیئے یا لئے تھے.اگر آج حکومت انہیں پیسے دے تو پھر جن کو حکومت دے گی ان سے بھی پیسے لے گی.مگر جس غریب کو ساڑھے بارہ ایکٹر زمین دی جا رہی ہے اس کے گھر میں تو کھانے کے لئے پہلے ہی کچھ نہیں.وہ ساڑھے بارہ ایکٹر کے پیسے کہاں سے دے گا.اگر آپ کہیں کہ وہ قسط وار دے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگلے دس پندرہ سال تک پہلے سے بھی زیادہ تنگی کے ساتھ زندگی گزارے گا.پس اگر چہ اس زرعی اصلاحات کے اعلان سے چند ہزار آدمیوں کو چبھن ضرور ہے.ان کو تکلیف ضرور ہو گی.لیکن انہیں چاہیے کہ اس تکلیف کا اندازہ لگائیں جو اس وقت کروڑوں آدمیوں کو لاحق ہے اور پھر اس نئے انتظام میں بھی جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے.لوگوں کی ساری تکلیفیں دور نہیں ہوں گی اور نہ ہی عقلاً دور ہو سکتی ہیں.آپ کسی کاغذ پر حساب لگا کر دیکھ لیں کہ کتنے آدمیوں میں زمین تقسیم ہونی ہے اور ان کو کتنی کتنی زمین ملے گی.بڑی تھوڑی زمین ملے گی کیونکہ اب بھی ایک بڑا یونٹ جو باقی رکھا گیا ہے.ان چند ہزار لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جو زمین تمہارے پاس باقی رہ گئی ہے اس سے تم زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھاؤ.اگر تم زیادہ سے زیادہ محنت زیادہ توجہ اور زیادہ ہوشیاری سے سرمایہ لگا کر اور کھاد دے کر اور پانی کا بہتر انتظام اور نگرانی کر کے اُس کی آمد دس گنا تک لے جاؤ تو اس طرح گویا تمہاری زمین ۱۱۵۰ یکٹر سے دس گنا بڑھ گئی یعنی ۱۱۵۰۰ یکٹر ہو گئی اور اسی طرح اگر تم اپنی آمد میں گنا تک لے جاؤ تو پھر تو تم تین ہزار ایکٹر کے مالک بن گئے اب زمین کو تو کسی نے چاٹنا نہیں.زمین کا مطلب وہ آمد ہے جو اس سے حاصل ہوتی ہے.اگر یہ چند ہزار لوگ اپنی

Page 98

خطبات ناصر جلد چہارم ZA خطبہ جمعہ ۳/ مارچ ۱۹۷۲ء باقی زمین بخوشی حکومت کے حوالے کر دیں تو اس سے قوم کو بھی فائدہ ہے اور ذاتی طور پر ان کو اور ان کے خاندان کو بھی فائدہ ہے.اس وقت حال یہ ہے (اور مجھے امید ہے کہ حکومت بھی اس طرف توجہ کرے گی ) کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایکٹر زمین ایسی ہے جس میں مالکوں نے ہل تک نہیں چلا یا مثلاً یہ بڑھ کا علاقہ ہے اس کا ایک حصہ لوگوں نے دس سالہ یا پانچ سالہ لیز پر لیا ہے اور اب پہلی دفعہ وہاں زراعت ہونے لگی ہے چنانچہ جس علاقہ کو کئی سو سال سے نا قابل زراعت سمجھا جا رہا تھا وہ اس وقت بڑا ہی پیدا وار دے رہا ہے اور جو ذاتی یعنی انفرادی ملکیت کے علاقے ہیں وہاں اب بھی بہت سی زمین خالی پڑی ہوئی ہے.چنانچہ لالیاں کے پاس ایک پل ہے اس کے اور لالیاں کے درمیان ایک ایسی جگہ نظر آتی ہے جہاں کبھی پانی ہوتا تھا اب وہاں پانی نہیں رہا کیونکہ ٹیوب ویل لگ گئے ہیں.اس لئے پانی خشک ہو گیا ہے یہ زمین بڑی اچھی ہے کیونکہ کئی سو سال سے اسے جانوروں کا پیشاب اور گوبر کی کھاد ملتی رہی ہے اس لئے یہ زمین ہے تو بڑی اچھی لیکن چونکہ وہ اردگرد کے دیہات والوں کی ملکیت ہے اور اُن کے پاس اس سے بہت اچھی زمین موجود ہے.اس لئے وہ مزے لے رہے ہیں اور یہ زمین خالی پڑی ہوئی ہے.اس کی طرف اُن کو تو جہ ہی نہیں ہے.اس طرح کی جو زمینیں خالی پڑی ہوئی ہیں، ان کو رکھنے کا عقلاً اور شرعا کسی کو حق ہی نہیں ہے.اب جس زمین کو تم استعمال میں نہیں لا سکتے اُسے بخوشی حکومت کے حوالے کر دو کیونکہ ایسی زمین کو تم استعمال میں نہ لا کر اپنے بھائی کا نقصان کر رہے ہو.پس حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طرف بھی توجہ دے اور ایسی زمین جس میں کاشت کی جاسکے اور کاشت سے میری مراد یہ نہیں کہ وہاں کپاس لگ سکے یا وہاں گندم لگ سکے یا وہاں چاول لگ سکے بلکہ اگر وہاں بیریاں لگ سکیں یا جھاڑیاں لگ سکیں جو وہاں لکڑیاں پیدا کریں.ہر وہ چیز جو اس زمین کے درختوں کے نتیجہ میں اور کھاد اور اس کے استعمال کے نتیجہ میں پیدا ہو وہ دراصل اسی کھیتی کی پیداوار ہے بہر حال ایسی زمینوں کو بھی آباد کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نعمت عطا فرمائی ہے اس لئے ہمیں اس کا ناشکرا بندہ نہیں بننا چاہیے.

Page 99

خطبات ناصر جلد چہارم ۷۹ خطبه جمعه ۳ / مارچ ۱۹۷۲ء ان زرعی اصلاحات سے چھ کروڑ کے اس ملک میں چند ہزار آدمیوں کو ( یعنی وہ لاکھوں بھی نہیں ہوں گے بلکہ ہزاروں میں گنے جا سکتے ہیں ) تھوڑی سی تکلیف ہو گی.انہیں اپنے بھائیوں اور پاکستان کی مضبوطی کی خاطر یہ تکلیف برداشت کرنی ہوگی.وہ میری بات سنیں گے تو شاید غصے میں آجائیں اس واسطے اگر وہ چاہیں تو میں ان کو مخاطب ہی نہیں کرتا لیکن میں اپنے احمدی بھائیوں کو ضرور مخاطب کرنا چاہتا ہوں.انہیں چاہیے کہ وہ بشاشت کے ساتھ حکومت کے ساتھ تعاون کریں کیونکہ اگر آپ نے اس ملک کے شہری کی حیثیت سے باعزت زندگی گزارنی ہے تو اس ملک کو باعزت اور مضبوط بنانا پڑے گا اس کے لئے اگر تمہیں کوئی قربانی دینی پڑے تو تم ہنسی خوشی اور بشاشت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ قربانی دو.اسی میں اللہ تعالیٰ برکت کے سامان پیدا کرے گا.اُس پر توکل تو کر کے دیکھو.تم نے کب اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور اس نے تمہاری انگلی چھوڑ دی.پس ہم نے قوی بھی بننا ہے اور امین بھی بننا ہے اور امین کے متعلق جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے یہی معنی نہیں کہ جو خیانت نہ کرے وہ امین ہے.یعنی صرف پیسے میں خیانت مراد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو بھی طاقت دی ہے اگر آپ اس کا صحیح استعمال نہیں کرتے تو آپ خائن ہیں.امین نہیں ہیں.آپ اپنی عقل اور فراست کے ساتھ اپنی تھوڑی سی زمین سے بہت زیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ اپنی عقل اور فراست سے کام نہیں لیتے اور زمین سے پورا فائدہ نہیں اُٹھاتے تو آپ خائن ہیں.آپ اپنے نفس کے غدار ہیں آپ اپنے نفس سے بھی خیانت کرنے والے ہیں اور اپنی قوم سے بھی خیانت کرنے والے ہیں اور اپنے لاکھوں کروڑوں بھائیوں سے بھی خیانت کرنے والے ہیں.اس لئے جہاں تک زمین کا تعلق ہے تم ” تھوڑے“ اور بہتے" کا خیال نہ رکھو لیکن جہاں تک اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنے کا سوال ہے تم بہت اور بہت اور بہت کا خیال رکھو.تم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو اور اس پر توکل رکھو.اپنی قوتوں کا صحیح اور بہتر اور بافراست اور پورا استعمال کرو.اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی برکتوں سے نوازے گا.تھوڑی زمین میں سے تمہیں بہت سامل جائے گا اور اس طرح قوم بھی ترقی کرے گی.دو

Page 100

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۳/ مارچ ۱۹۷۲ء ابھی تک زرعی اصلاحات کا جو اعلان ہوا ہے وہ ایک عام اعلان ہے کہ زرعی اصلاحات کی جا رہی ہیں.اس سلسلہ میں ابھی کوئی قانون نہیں بنایا گیا اس کے متعلق آج اخبار میں آیا ہے کہ دس مارچ کو اس کا اعلان کیا جائے گا.اس کے بعد میں شاید تفصیل سے اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گا لیکن اب جس طرح کا یہ عام اعلان تھا اسی طرح میں نے اس وقت اس مسئلے پر عمومی رنگ میں روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے.یہ بتانے کے لئے کہ آپ امین بنیں اور قومی بنیں.اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے گا.آپ بھو کے نہیں رہیں گے.آپ عزت کے ساتھ عزت کی روٹی کھائیں گے اور عزت کی زندگی گزاریں گے کیونکہ یہ سمجھنا کہ چند ہزار آدمیوں کی عزت ہو اور چند کروڑ بے عزت رہیں اور قابل نفرت سمجھے جائیں یہ غلط ہے یہ سمجھنا کہ اس طرح ان کی عزت قائم رہتی ہے یہ حماقت ہے.اگر دنیا کی نگاہ میں پاکستان کی عزت نہیں ( کیونکہ تم تو دنیا کو دیکھتے ہو ) تو پھر تمہاری عزت بھی نہیں خواہ ارب ہاروپیہ تمہاری جیب میں کیوں نہ ہو اور اگر تمہارے اصول کے مطابق دنیا کی نگاہ میں پاکستان قومی اور باعزت بن جائے اور عزت و احترام کا اپنا حق دنیا سے لینے کے قابل ہو تو پھر تمہاری بھی عزت ہے ورنہ دُنیا میں تمہاری کوئی عزت نہیں ہے.میں اپنے احمدی دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک عزت ملی ہے، اُس کو کھونہ دینا اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ فرمایا ہے کہ میرا کہنا مانو گے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ عزت دوں گا.میں تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھوں گا اور اللہ تعالیٰ کی عزت کی نگاہ یہی ہے نا کہ وہ پیار کرتا ہے وہ ہمارے لئے روحانی اور اخلاقی اور دنیوی لحاظ سے ترقی کی راہیں کھولتا ہے.جب خدا تعالیٰ کی نگاہ میں عزت ہو جائے تو یہ اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً (البقرة: ٢٠٢) کا سماں ہوتا ہے.دُنیا کی نگاہ میں جو عزتیں ہیں گو ہم تو ان کو کچھ نہیں سمجھتے لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں وہ بھی عطا فرماتا ہے لیکن ہماری نگاہ دُنیا کی طرف نہیں اُٹھتی.ہماری نگاہ تو اللہ تعالیٰ جو بڑا ہی پیار کرنے والا ہے اُس کے چہرے کی طرف اُٹھتی ہے اور اگر وہاں ہمیں عزت اور پیار مل جائے تو پھر ہمیں دُنیا اور دنیا داروں سے کیا تعلق؟ لیکن جو دنیا والے ہیں جنہیں ابھی تک اسلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کی پوری طرح سمجھ نہیں اُن کو بھی میں یہ کہوں گا کہ دُنیا کی طرف اگر تمہاری نگاہ اُٹھتی ہے تو

Page 101

خطبات ناصر جلد چہارم ΔΙ خطبه جمعه ۳/ مارچ ۱۹۷۲ء اپنے ملک کو دنیا کی نگاہ میں باعزت بناؤ تب تمہاری عزت ہوگی ورنہ نہیں ہوگی.یہ تو میں نے مختصراً قومی اور امین کی بحث میں ضمناً زرعی اصلاحات کا بھی ذکر کر دیا ہے.ایک ہفتہ کے اندر اندر مجلس انتظامیہ یا جسے میں نے مجلس صحت ربوہ کا نام دیا ہے وہ بن جانی چاہیے اور اس کے اراکین کو سر جوڑ کر ایک ابتدائی سکیم بنا دینی چاہیے.اگر آپ کو ( یعنی اراکین مجلس کو ) ضرورت ہو تو مجھے بھی ساتھ لے جائیں اور ساری Open Places (اوپن پلیسز) دکھا ئیں.پھر ہم مشورہ کریں گے اور اندازہ لگائیں گے کہ آپ کتنا کام اپنی محنت سے بغیر جماعتی مدد کے کر سکتے ہیں اور کتنا کام جماعتی مدد کے ساتھ کر سکتے ہیں.جماعتی مدد سے میری مراد آپ کی تنظیم سے باہر کی مدد ہے لیکن یہ بھی دراصل غیر کی طرف سے مدد نہیں کیونکہ وہ مدد جو ماں باپ کی طرف سے ملا کرتی ہے وہ غیر کی مدد نہیں ہوا کرتی.تاہم یہ بات تو میں آپ کو نظام کے لحاظ سے غیرت دلانے کے لئے کہہ رہا ہوں کہ جتنی جماعتی مدد کی ضرورت ہوگی وہ انشاء اللہ تمہیں مل جائے گی.اس لئے میرے نوجوان بچو! تمہیں چاہیے کہ تم ایک سال کے اندر اندر ان کھلی جگہوں کی شکل بدل کر رکھ دو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور وہ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوہ ۷ رمئی ۱۹۷۲ء صفحہ ۲ تا ۴)

Page 102

Page 103

خطبات ناصر جلد چہارم ۸۳ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء خلافت حقہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے پہچانی جاتی ہے خطبه جمعه فرموده ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ بنصرہ نے یہ آیہ کریمہ پڑھی:.إِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ - (النساء : ۱۴۶) اور پھر فرمایا:.ایک منافق جہنم کے شدید ترین عذاب میں اس لئے مبتلا ہوگا کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ فتنہ و فساد پیدا کرتا رہتا ہے اور مفسد ہونے کے باوجود مصلح کے روپ میں خدا تعالیٰ کی.جماعتوں کے سامنے آتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ منافق کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے اُس کی ہر بات میں جھوٹ کی ملاوٹ ہوتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ایک پورا اور پکا منافق اگر اپنی ماں کی صفات بھی بیان کر رہا ہو تب بھی وہ جھوٹ بول رہا ہوگا اور اگر اپنے بھائی کی خیر خواہی کی باتیں کر رہا ہو تب بھی جھوٹ بول رہا ہوگا کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھوٹ نہیں بول سکتے.آپ نے فرمایا ہے کہ منافق کی ہر بات میں جھوٹ کی ملونی ہوتی ہے.ہر بات جھوٹ نہیں ہوا کرتی مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے آج فلاں وقت

Page 104

خطبات ناصر جلد چہارم ۸۴ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء سورج طلوع ہوتے دیکھا ہے اور وہی وقت سورج طلوع ہونے کا ہو اور اُس نے واقعی سورج طلوع ہوتے دیکھا ہو تو یہ بات صحیح ہے لیکن یہ بات کہ میں نے آج سورج طلوع ہوتے دیکھا پوری نہیں ہوئی کیونکہ ساتھ ہی اُس نے یہ بھی کہا کہ میں نے مسجد کی طرف دس دس سروں والے انسان ہوا میں اُڑتے ہوئے دیکھے.اس کی یہ بات سُن کر آپ یہ نہیں کہیں گے کہ اُس نے کچھ سچ بولا اور کچھ جھوٹ بولا ہے.آپ یہ کہیں گے کہ اُس نے جھوٹ بولا ہے، اس واسطے کہ جو پوری بات ہے وہ جھوٹ ہے اگر چہ اس کے بعض حصے سچ ہیں کہ سورج طلوع ہوا.ہر روز سورج طلوع ہوتا ہے اور یہ بھی سچ ہو سکتا ہے کہ اُس نے سورج طلوع ہوتے دیکھا ہولیکن اُس نے اس کو بنیاد بنایا اپنے جھوٹ کی اس لئے یہ ساری بات جھوٹ ہے.پس ہم یہی کہیں گے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سچ فرمایا ہے کہ منافق جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.إِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی جو دھتکاری ہوئی قوم ہے اس کے اندر کا فر بھی ہیں.اس میں کمزو ایمان والے بھی آجاتے ہیں.غافل بھی آجاتے ہیں اور منافق بھی آجاتے ہیں.غرض اپنے اپنے اخلاق اور کردار اور عمل کے لحاظ سے اُن پر خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں فرمایا میرا سب سے زیادہ غضب منافق پر بھڑ کے گا اور میرا سب سے زیادہ شدید عذاب اُسے ملے گا.چنانچہ جب سے سلسلہ نبوت شروع ہوا ہے یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمیشہ ہی الہی جماعتوں میں منافق رہے ہیں.اُمت محمد یہ بھی منافقین کے وجود سے خالی نہیں ہے.خود حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں منافقین موجود تھے جو بڑے ہی غالی اور خبیث قسم کے تھے.اب ہم اُن کی باتیں سنتے ہیں تو ہماری آنکھوں میں خون اتر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق وہ اس قسم کی بکواس کیا کرتے تھے.غرض اُس وقت جو منافق تھے اُن کے کارنامے یا اُن کی کرتوت اور فتنے اور فساد جن کی

Page 105

خطبات ناصر جلد چہارم ۸۵ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے وہ جماعت کے سامنے آنے چاہئیں تا کہ ہمیں پتہ لگے کہ اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ کیوں کہا گیا ہے.آج کل ایک سے زاید گروہ یا بعض افراد منافقانہ باتیں کر رہے ہیں.اُن میں سے بعض باتوں کے متعلق میں اس وقت کچھ کہوں گا یہ بتانے کے لئے کہ جو باقی باتیں ہیں وہ بھی اسی قسم کے جھوٹ ، افتراء، فتنہ پردازی، اتہام تراشنے ، حقائق کو چھپانے اور عدم علم کی بنا پر اعتراض کرنے وغیرہ سے متعلق ہیں.دراصل یہ سب چالیں ہیں جن سے منافق کام لیتا ہے اور یہ سب ہتھیار ہیں جن سے شیطان اپنا کام لے رہا ہوتا ہے.پس وضاحت کرنے کے لئے میں چند مثالیں دوں گا.باقی رطب و یابس تو وہ بولتے ہی رہتے ہیں جسے سُن کر آپ کو اپنے اپنے ایمان کے مطابق غصہ بھی آتا ہو گا.آپ اُن کے لئے دُعائیں بھی کرتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور اُن کی بد قسمتی کو دور کرے اور اُن کے فتنے سے جماعت کو محفوظ رکھے اور اُن کو عقل دے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت بڑے لمبے زمانہ پر ممتد ہے.بڑی شاندار اور کامیاب بھی ہے لیکن اس دور میں بھی وقفے وقفے کے بعد منافقین کے فتنے آتے رہے ہیں.مثلاً مصریوں کا فتنہ ہے مگر چونکہ ہماری نوجوان نسل شایدان واقعات کو نہیں پڑھتی اس لئے اُن کے کان ان چیزوں سے آشنا کم ہوں گے.پھر فخر الدین ملتانی کا فتنہ تھا.غرض اسی طرح کے چھوٹے اور بڑے فتنے اس لئے آتے رہتے تھے کہ ہم سو نہ جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیں بیدار اور چوکس دیکھنا چاہتا ہے.منافقوں کے مختلف گروہ یا افراد آج کل جو باتیں کر رہے ہیں اُن ہی سے سات کے متعلق میں اس وقت کچھ کہوں گا اور ان کی اہمیت کے لحاظ سے بڑھا تا جاؤں گا.اول.ایک یہ اعتراض سننے میں آیا ہے کہ یہ عجیب خلیفہ ہے جو اپنے خطبات میں بھی گھوڑوں کے متعلق باتیں کرتا رہتا ہے اور جماعت کو کہتا ہے کہ گھوڑے پالو اور یہ اور وہ.بھلا روحانی جماعت کا گھوڑوں سے کیا تعلق؟ اب یہ منافقانہ بات ہے اور محض جہالت کی بناء پر کی گئی ہے.جس وقت میں نے گھوڑوں کے

Page 106

خطبات ناصر جلد چہارم ۸۶ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء متعلق بات کرنی شروع کی تو میں نے بعض دوستوں سے کہا کہ وہ گھوڑوں کے متعلق حضرت نبی اگریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے اقوال اکٹھے کریں.چنانچہ یہ کاپی ہے جسے آپ میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہیں.میں نے اس کا نام ”کتاب الخیل رکھا ہے اور یہ پونے چار سو صفحات پر مشتمل ہے.اس میں اکثر اقوال اور ارشادات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہیں.ان کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے ارشادات ہیں جو ا کٹھے نہیں ہو سکے.پس اگر روحانی آسمان کا بادشاہ گھوڑوں کے متعلق اتنا کچھ کہنے کے باوجود روحانی آسمان کا بادشاہ رہتا ہے تو اس کا ایک ادنیٰ خلیفہ گھوڑوں کے متعلق تمہیں چند باتیں کہتا ہے (اور اس وجہ سے کہتا ہے جو میں ابھی بتاؤں گا ) تو اُس کے متعلق یہ اعتراض کر دینا کہ جی یہ عجیب خلیفہ ہیں.گھوڑوں کے متعلق باتیں کرتے ہیں اور گھوڑے پالتے ہیں سراسر افتراء پردازی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بتایا ہے کہ قیامت تک گھوڑے کی پیشانی میں ایک مسلمان کے لئے برکت رکھی گئی ہے.جب میں اس پیشانی کی برکتیں تمہاری جھولیوں میں ڈالنا چاہتا ہوں تو منافق کہتا ہے.یہ عجیب خلیفہ ہے جو گھوڑوں کی باتیں کرنے لگ گیا ہے.منافقو ! تم اس پاک ذات پر اعتراض کرو جس نے ہے.منافقو گھوڑوں کے متعلق اتنا کچھ فرمایا ہے کہ آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے چنانچہ بڑے بڑے ماہرین جو دن رات اسی شغل میں لگے ہوئے ہیں کہ گھوڑوں کے متعلق تحقیق کریں.اُنہوں نے بھی وہ نہیں کہا اور اتنا نہیں کہا اور اس حقیقت کو بیان نہیں کیا کہ جتنی حقیقت گھوڑوں کے متعلق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ ایک دن مجھے سے غفلت ہو گئی تو مجھے ساری رات یہ کہا گیا کہ تم نے کیوں غفلت کی ؟ گھوڑوں کا کیوں خیال نہیں رکھا ؟ آپ اپنی چادر کے ساتھ گھوڑے کو صاف کر رہے تھے تو کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہ کیوں.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ فرمایا ہے کہ تو نے گھوڑے کا خیال نہیں رکھا اس لئے اب میں اس کی تلافی کر رہا ہوں وہ تو روحانیت لیکن اگر وہی برکت تمہاری جھولی میں ڈالنے کی کوشش کی جائے تو وہ وجہ اعتراض بن گئی.اس قسم کے بے ہودہ اعتراضات کئے جاتے ہیں.

Page 107

خطبات ناصر جلد چہارم ۸۷ خطبه جمعه ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء ویسے یہ ایک معمولی اعتراض ہے لیکن جہاں یہ ایک معمولی اعتراض ہے وہاں اعتراضات کی بے ہودگی کو بڑے نمایاں طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ یہ خدا کا عجیب خلیفہ ہے.اپنے آپ کو روحانی جماعت کا امام کہتا ہے مگر گھوڑوں کی باتیں کرتا ہے.یہ تمہارا خلیفہ جو اس وقت اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ ایک روحانی جماعت کا امام ہے ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کے ذرے کے برابر بھی نہیں ہے.جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑوں کے متعلق اتنا کچھ فرمایا ہے تو آپ کے عظیم روحانی فرزند کا یہ خلیفہ کیوں کچھ نہیں کہے گا.دوم.ایک Whispering ( وس پرنگ ) یعنی کا نا پھوسی جو منافق کرتا ہے کیونکہ وہ دلیر تو ہوتا نہیں اس لئے دلیری کر کے سامنے نہیں آتا مگر در پردہ فتنہ اور فساد پیدا کرتا ہے.چنانچہ ان کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں کا صحیح مصرف نہیں ہورہا.تحریک جدید کے جو چندے ہیں دراصل وہ تو ایک بنیاد ہے.جہاں تک یہاں پاکستان کے چندوں کا تعلق ہے وہ مبلغوں کے کرائے اور کتابوں وغیرہ پر خرچ ہوتے ہیں یا مبلغ بنانے پر خرچ ہوتے ہیں اور جو باہر کے چندے ہیں وہ باہر کے مشنوں پر جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دُنیا میں پھیلے ہوئے اور ترقی کر رہے ہیں اُن پر خرچ ہورہے ہیں.وقف جدید کے زیر انتظام ہمارے یہاں معلمین ہیں.اُن کے سنٹر ہیں.اُن کا اپنا ایک نظام ہے.اس کے اوپر وقف جدید کا چندہ خرچ ہو رہا ہے.شوریٰ میں ہر سال بجٹ پاس ہوتا ہے.کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے.ہر چیز ظاہر ہے.اب اس کے باوجود یہ کہنا کہ جی چندوں کا صحیح مصرف نہیں ہورہا بالکل بے ہودہ بات ہے.پھر اس کے متعلق جو مثال دی گئی ہے وہ بھی سننے والی ہے.کہنے والے نے کہا کہ دیکھو میاں طاہر احمد صاحب کو کراچی جانا ہو تو وہ ہوائی جہاز پر سفر کرتے ہیں اور تحریک جدید کے جو مبلغ وطن سے باہر جاتے ہیں، ان کو یہ سہولت میسر نہیں حلانکہ تحریک جدید کا جو مبلغ باہر جاتا ہے مجھے نہیں یاد که الا ماشاء اللہ کسی نے کسی وقت شاید دوسرے ذرائع سے سفر کیا ہو) وہ بغیر ہوائی جہاز کے

Page 108

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء با ہر جا ہی نہیں سکتا اور پھر میاں طاہر نے وقف جدید کے کام کے لئے کراچی کا ایک سفر بھی نہیں کیا.اب یہ محض اعتراض ہے کہ جس نے وقف جدید کے کام کے لئے کراچی کا کوئی سفر ہی نہیں کیا اُسے مثال کے طور پر پیش کر دیا اور مبلغین جن کے متعلق ہر روز نہیں تو ہر ہفتہ عشرہ یا پندرہ ہمیں دن کے بعد اخبار میں نکلتا ہے کہ فلاں دوست اشاعتِ اسلام کے لئے اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے باہر جار ہے ہیں وہ ہمیشہ ہوائی جہاز کے ذریعہ باہر جاتے ہیں مگر ان کے متعلق محض ایک فتنے والی بات کر دی گئی اور یہ جھوٹی بات کر کے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کی تصدیق کی 66 اور یہ اتنا مسخ شدہ جھوٹ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق ایسے آدمی کو اَسْفَلُ مِنَ النَّارِ " جانا ہی چاہیے.اس بات کے کہنے والے کے الفاظ یہ ہیں :.” جب کہ محض اشاعتِ اسلام کے لئے وطن سے باہر جانے والے مبلغین پر اتنا خرچ نہیں کیا جاتا کہ ان کو ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے کر دیا جائے“ غرض یہ منافقین ( جن کے متعلق میرا یہ اندازہ ہے کہ دس پندرہ ہوں گے کیونکہ ستر اسی لاکھ کی اس جماعت میں اس سے زیادہ کیا ہونے ہیں ) آجکل مختلف جگہوں پر کبھی خط کے ذریعے اور کبھی ویسے موقع مل گیا تو ایک دوسرے کے ساتھ باتوں باتوں میں اس قسم کے فتنے کی باتیں کرتے ہیں.اب جس آدمی کے کان میں یہ بات پڑے گی کہ میاں طاہر ہوائی جہاز سے کراچی گئے اور ہمارے باہر جانے والے مبلغ ہوائی جہاز سے نہیں جاتے تو وہ نہ سہی مگر ہمارے کم عمر بچے جنہیں پتہ نہیں وہ کہیں گے یہ کیا بات ہوئی.اُن کے دماغ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ باہر جانے والا مبلغ ہوائی جہاز سے نہیں جاسکتا.اُن کو یہ پتہ نہیں لگ سکتا اور نہ اُن کو کبھی یہ خیال آیا ہے کہ یہ پوچھیں کہ میاں طاہر احمد صاحب نے کبھی وقف جدید کے لئے کراچی کا ہوائی جہاز کا سفر بھی کیا ہے یا نہیں.باقی اور کاموں کے لئے تو وہ جاتے رہتے ہیں.مشرقی پاکستان بھی وہ گئے ہیں.یہاں سے سارے لوگ ہوائی جہاز سے جاتے تھے اس میں اُن کے لئے کوئی خصوصیت نہیں کیونکہ وہاں جانے کا یہی ایک ذریعہ تھا.سوائے اس کے کہ آپ یہ سمجھیں کہ ہمارے کارکن اتنے نکتے

Page 109

خطبات ناصر جلد چہارم ۸۹ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء ہیں اور اُن کے پاس اتنا فارغ وقت ہے کہ وہ سمندری جہاز پر جائیں.دس دن جانے میں اور دس دن واپس آنے پر لگیں اور اسطرح ایک مہینہ لگ جائے اس کام کے لئے جسے ۳، ۴ دنوں میں کیا جا سکتا ہے.سوم.ایک اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ خلافت ثالثہ نے تمام جماعتی عہدوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد کا قبضہ دلا دیا ہے یعنی ان عہدوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کا قبضہ ہے.اب اس وقت بڑے بڑے جماعتی ادارے مثلاً صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید ، وقف جدید ، فضل عمر فاؤنڈیشن اور نصرت جہاں ریز روفنڈ ہیں.جہاں تک صدر انجمن احمدیہ کا تعلق ہے اس کے بہت سے ناظر ہیں.( یہی بڑے بڑے عہدے ہیں نا) چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک وقت میں چار ناظر تھے جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تھا اور آج جب کہ اس اعتراض کو پھیلا یا جا رہا ہے.دو ناظر ایسے ہیں جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے ہے یعنی تعداد کم ہو گئی ہے اور شور زیادہ مچنا شروع ہو گیا ہے.دراصل یہ خالی خلافت ثالثہ ہی پر اعتراض نہیں ہوا.یہ اعتراض تو منافقین خلافت ثانیہ پر بھی کرتے رہے ہیں.صدر انجمن احمدیہ کا سب سے بڑا عہدہ صدر ،صدر انجمن احمد یہ ہے اور اس وقت صدر ، صدر انجمن احمد یہ مولوی محمد دین صاحب ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے ان کی کوئی رشتہ داری نہیں ہے.صدر انجمن احمد یہ کے کام کے لحاظ سے اس وقت دو نگران ہیں.نگران نمبر دو نظارت علیا ہے جس کا اپنا کوئی شعبہ نہیں، لیکن دوسرے شعبوں میں Coordination ( کو آرڈی نیشن ) کرانا اور ان کی عام طور نگرانی کرنا یہ اس کا کام ہے.اس کے اوپر صدر، صدر انجمن احمد یہ بیٹھا ہے اور نیچے مستقل ذمہ داری کا کام سنبھالنے والے مختلف ناظر ہیں.ناظر بیت المال ( ہر دو آمد و خرچ ) کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں.ناظر امور عامہ کا خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.

Page 110

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء اصلاح وارشاد کے تین ناظر ہیں ان میں سے کسی ایک کا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.ناظر نشر واشاعت ہے.اسکا بھی خاندان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.میں نے بتایا ہے کہ اس وقت دو ناظر ہی ایسے ہیں جن کا خاندان کے ساتھ تعلق ہے.ایک ناظر اعلیٰ اور دوسرے ناظر خدمتِ درویشاں.ہمارے یہاں کی جو عام تنظیم ہے اس کے ساتھ ناظر خدمت درویشاں کا تعلق نہیں ہے لیکن قادیان میں ہمارے جو بھائی قربانی دے کر درویشانہ زندگی گزار رہے ہیں اُن کے خاندان اور عزیز رشتہ دار جو یہاں رہتے ہیں اُن کی دیکھ بھال کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک ناظر مقرر کر دیا تھا.وہ اب بھی ہے.پس جہاں تک انتظام کا تعلق ہے ایک نظارت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے ہاتھوں میں نہیں ہے.اس لئے یہ کہنا کہ سارے کے سارے اور بڑے بڑے عہدے خاندان والوں نے سنبھالے ہوئے ہیں محض جھوٹ ہے.اسی طرح وقف جدید کے جو صدر ہیں وہ شیخ محمد احمد صاحب مظہر ہیں اور خاندان کا ایک آدمی وقف جدید میں ہے یعنی میاں طاہر احمد صاحب.جہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے تحریک جدید کے وکلاء میں سے ایک وکیل ہے اور وہ میاں مبارک احمد صاحب ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ وکیل اعلیٰ ہیں مگر میں نے اُن کو پہلی دفعہ وکیل اعلیٰ مقرر نہیں کیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مقرر فرمایا تھا.میں نے ان کو اس عہدے سے ہٹایا نہیں.اس کا میں قصور وار ہوں اور اپنے قصور کا اعتراف کرتا ہوں لیکن ساری وکالتوں میں صرف ایک شخص ہے مگر منافقین کہتے ہیں کہ سارے عہدے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سنبھال لئے ہیں.پھر فضل عمر فاؤنڈیشن ہے.اس کے نہ صدر اور نہ سیکرٹری ایسے ہیں جن کا تعلق جسمانی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے ہو.روحانی طور پر تو سب کا تعلق ہے.اگر وہ کہیں کہ ہم نے روحانی معنے میں بولا تھا تو پھر ہر ایک احمدی کا حضرت مسیح موعود علیہ ا والسلام کے ساتھ تعلق ہے کیونکہ یہ سب جماعت ایک روحانی خاندان پر مشتمل ہے.الصلوة

Page 111

خطبات ناصر جلد چہارم ۹۱ خطبہ جمعہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۷۲ء باقی رہا نصرت جہاں ریزروفنڈ تو اس کے دراصل تین حصے ہیں.ایک ہے مجلس نصرت جہاں اس کے انچارج یہ میرے سامنے بیٹھے ہمارے عزیز بھائی اسماعیل صاحب منیر ہیں ان کا جسمانی طور پر تو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کوئی تعلق نہیں.ایک حدیقہ المبشرین ہے جس میں تمام شاہدین کو اکٹھا کر دیا گیا ہے ان کے جو انچارج ہیں اُن کا بھی خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے.پھر اس کے چندے وغیرہ کا جو انتظام ہے وہ اپنے چوہدری ظہور احمد صاحب جو ناظر دیوان ہیں ان کے سپر د کیا ہوا ہے اور وہ یہ کام رضا کارانہ طور پر کر رہے ہیں.ان کا بھی خاندان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.پس ایک غلط اور جھوٹی بات کو آنکھیں بند کر کے منہ سے نکال دینا اور اپنی حماقت سے یہ سمجھنا کہ دنیا تمہیں دیکھے گی نہیں یا دُنیا تمہاری شرارت کو سمجھے گی نہیں یا دُنیا سمجھنے کے باوجود تمہیں کچھ کہے گی نہیں یہ تو تمہاری سراسر جہالت ہے لیکن تم یہ کیسے سمجھ لیتے ہو کہ تم خدا تعالیٰ سے اپنی ان حرکتوں کو چھپا لو گے اور اس کے غضب سے بچ جاؤ گے.چہارم.ایک بات ( اور وہ بھی پہلی بار نہیں کہی جا رہی ) یہ ہے کہ خلیفہ خدا نہیں بنا تا انسان بناتا ہے.یہی اعتراض حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ پر کیا گیا.یہی اعتراض حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ پر کیا گیا ہے اور آج یہی اعتراض مجھ پر کیا جا رہا ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو انجمن کے چند آدمیوں نے خلیفہ منتخب کر دیا تھا پھر جماعت نے بھی آپ کی بیعت کر لی تھی.حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کے متعلق زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ جو دوست حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وفات پر قادیان میں موجود تھے ، وہ اکٹھے ہوئے اور جس طرح ایک آندھی آتی ہے اور وہ چیزوں کو ایک طرف کونے میں اڑا کر لے جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے احمدیوں کے دلوں پر تصرف کیا اور وہ سب ( إِلَّا مَا شَاءَ اللہ جن کو ٹھوکر لگی ) ایک ہاتھ پر ا کٹھے کر دیئے گئے.پھر حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے ۱۹۵۶ء میں انتخاب خلافت کی ایک کمیٹی بنائی اور

Page 112

خطبات ناصر جلد چہارم ۹۲ خطبہ جمعہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۷۲ء ایک نظام قائم کر دیا.چنانچہ جب خلافت ثالثہ کے انتخاب کا وقت آیا تو وہ جو ساری عمر کے مخالف تھے اور جماعت مبائعین جن پر اللہ تعالیٰ کی نصرتیں اور فضل نازل ہورہے تھے ، کوحسد ، نفرت اور غصے کی نگاہ سے دیکھنے والے تھے.ان کی زبان سے بھی یہ نکلا کہ کاش حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بھی ایسا انتظام کر جاتے تا کہ یہ فتنہ نہ پیدا ہوتا جو ۱۹۱۴ء میں رونما ہوا.اس فتنہ سے ان کی کیا مراد ہے، یہ تو وہ جانیں یا اللہ تعالیٰ جانے لیکن بہر حال وہ بھی اس انتخاب خلافت کے نظام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے تھے.پس منافقین یہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلافت کمیٹی جو ۱۹۵۶ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قائم کی تھی اُس نے خلیفہ ثالث کو مقرر کیا ہے.اس لئے یہ خدا کا انتخاب کیسے ہو گیا؟ یہ تو انسانوں کا انتخاب ہے اور وہ بھی چند لوگوں کا کیونکہ ساری جماعت کو اکٹھا نہیں کیا گیا حالانکہ ساری جماعت تو جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی اکٹھی نہیں ہوسکتی.بہر حال جو ممکن ہے وہ یہی ہے کہ جو اس وقت آجائے وہ اس میں شریک ہو جائے.اس کا انتظام کر دیا گیا تھا جس کی بنا پر بڑی سہولت سے انتخاب عمل میں آیا اور جس کے نتیجہ میں خلافت کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی.میرے تو وہم وگمان میں بھی کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے اتنی بھاری ذمہ داری کے نیچے رکھے گا جو چل دینے والی ہے.لوگ اس کو مذاق سمجھتے ہیں مگر یہ اتنی بھاری ذمہ داری ہے کہ میں سمجھتا ہوں کوئی آدمی اپنے ہوش و حواس میں ایک لمحہ کے لئے بھی اس ذمہ داری کو اُٹھانے کی خواہش نہیں کرسکتا.کہتے ہیں کہ میں نے باہر جا کر اپنے حق میں پرو پیگنڈہ کیا تھا کہ مجھے خلیفہ بنایا جائے.اب اس وقت جو دوست یہاں بیٹھے ہوئے ہیں جن میں کچھ باہر سے بھی آئے ہوئے ہیں.کوئی ہے جو کھڑے ہو کر قسم کھا کر یہ کہہ سکے کہ میں نے اُسے یہ کہا ہو کہ مجھے خلیفہ بنانا ؟ میں نے بتایا ہے کہ میرے تو دماغ میں بھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا.میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات پر چوہدری انورحسین صاحب لے اس پر سامعین کی طرف سے نہیں ! نہیں !! کی آوازیں بلند ہوئیں.

Page 113

خطبات ناصر جلد چہارم ۹۳ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء میرے پاس آئے اور اُنہوں نے مجھ سے کوئی ایسی بات کی کہ مجھے یہ خیال آیا کہ ان کے دماغ میں ہے کہ آج جماعت شاید خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے باہر کسی کو خلیفہ منتخب کرے.تو یہ نہ ہو کہ خاندان کی وجہ سے کوئی ذراسی بھی بدمزگی پیدا ہو جائے.اس لئے محتاط رہنا چاہیے.میں نے سمجھا ٹھیک ہے انہیں یہ نیک نیتی سے خیال آیا ہے.خیر جب انہوں نے مجھ سے یہ بات کی تو میں نے ایک رؤیا کی بناء پر اُن سے کہا کہ میں تمہیں تسلی دلاتا ہوں اور یہ ذمہ داری لیتا ہوں کہ ہمارے خاندان کے کسی فرد کی وجہ سے بدمزگی پیدا نہیں ہوگی.جماعت جس کو چاہے خلیفہ منتخب کرے.ہم اس پر امَنَّا وَ صَدَّقنا کہیں گے اور نیک نیتی سے اس کی اطاعت کریں گے.کہتے ہیں کہ باہر کے ٹور کئے اور اپنا پروپیگنڈہ کیا اور انتخاب کے وقت بڑی بد انتظامی ہوئی اور زبردستی خلیفہ بن بیٹھا.یہ باتیں میں بڑی دیر سے ٹن رہا ہوں.سوائے اس کے کہ میں لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الكنبین کہوں اور کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے، ہم اس عقیدہ پر قائم ہیں اور ہم سے مراد امت محمدیہ ہے جس میں پہلے بھی خلافت رہی.اب بھی خلافت ہے اور رہے گی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اسی کے رحم سے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور منافق کا یہ عقیدہ ہے یا کم از کم وہ اس عقیدہ کا اظہار یہی کرتا ہے کہ چونکہ انسانوں کے ہاتھ سے یہ فعل ہوتا ہے اس لئے خلیفہ خدا نہیں بناتا.اس کی منشاء نہیں ہوتی چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ کئی بے وقوف لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کو کہا کہ تم جا کر اپنا انتخاب کر لو اور میں یہی سمجھ لوں گا کہ میں نے خلیفہ بنایا ہے.یہ بات تو خدا تعالیٰ کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ پر بھی یہی اعتراض کیا گیا تھا کہ آپ کو خدا نے خلیفہ نہیں بنایا.اس سلسلہ میں آپ کے بہت سارے حوالے ہیں.جن میں سے اس وقت میں چند ایک آپ کو سنا دیتا ہوں.آپ نے ۱۹۱۲ ء میں فرمایا تھا:.یہ رفض کا شبہ ہے جو خلافت کی بحث تم چھیڑتے ہو.یہ تو خدا سے شکوہ کرنا چاہیے کہ

Page 114

خطبات ناصر جلد چہارم ۹۴ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہو گیا.کوئی کہتا ہے کہ خلیفہ کرتا ہی کیا ہے؟ لڑکوں کو پڑھاتا ہے...کوئی کہتا ہے کہ کتابوں کا عشق ہے.اسی میں مبتلا رہتا ہے ہزار نالائقیاں مجھ پر تھو پو.مجھے پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی جس نے مجھے خلیفہ بنایا.اب میں بھی یہی کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے جو نالائقیاں تم مجھ پر تھوپنے کی کوشش کرو گے وہ تم دراصل مجھ پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات پر اعتراض کر رہے ہو گے پھر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا:.اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے.اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہونچاتے ہیں.تم اُن سے بچو.پھرٹن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے ، نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا اور اُس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا ء کو مجھ سے چھین لے.“ پھر آپ فرماتے ہیں:.” خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اُس کو آپ کھڑا کر دے گا.تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دو گے تو یا درکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو 166 تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے.حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کے بھی بہت سے حوالے ہیں کیونکہ آپ ہی کے زمانہ خلافت میں غیر مبائعین نے زیادہ تر خلافت کی بحثیں چھیڑی تھیں.میں آپ کا ایک ہی حوالہ لیتا ہوں اور اس ضمن میں الفضل کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ یہ حوالے اخبار میں بار بار چھاپتے رہیں تاکہ نئی

Page 115

خطبات ناصر جلد چہارم ۹۵ خطبہ جمعہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۷۲ء نسل اور نئے آنے والوں کو یہ پتہ لگے کہ اس سلسلہ میں کیا جھگڑے ہوئے اور کیا فیصلے ہوئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.اسلامی اصول کے مطابق یہ صورت ہے کہ جماعت خلیفہ کے ماتحت ہے اور آخری اتھارٹی جسے خدا نے مقرر کیا اور جس کی آواز آخری آواز ہے وہ خلیفہ کی آواز ہے.کسی انجمن، کسی شوری یا کسی مجلس کی نہیں ہے یہی وہ بات ہے جس پر جماعت کے دوٹکڑے ہو گئے.خلیفہ کا انتخاب ظاہری لحاظ سے بے شک تمہارے ہاتھوں میں ہے.تم اس کے متعلق دیکھ سکتے اور غور کر سکتے ہومگر باطنی طور پر خدا کے اختیار میں ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے خلیفہ ہم قرار دیتے ہیں اور جب تک تم لوگ اپنی اصلاح کی فکر رکھو گے.اُن قواعد اور اصولوں کو نہ بھولو گے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ضروری ہیں.تم میں خدا خلیفہ مقرر کرتارہے گا اور اُسے وہ عصمت حاصل رہے گی جو اس کام کے لئے ضروری ہے.خالی اتنا نہیں کہ خدا خلیفہ بناتا ہے بلکہ ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر خدا خلیفہ بناتا ہے تو یہ بات جو حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے مختصراً کہی اور جس کی وضاحت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے کی وہ بھی ماننی پڑے گی.چنانچہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ آپس کے جھگڑے اور اختلافات کے متعلق فرماتے ہیں:.سنو! تمہاری نزاعیں تین قسم کی ہیں.ان میں سے میں نے دو کو لیا ہے جن کا یہاں تعلق ہے ) اول ان امور اور مسائل کے متعلق ہیں جن کا فیصلہ حضرت صاحب نے کر دیا ہے.جو حضرت کے فیصلے کے خلاف کرتا ہے وہ احمدی نہیں.“ 66 پھر فرماتے ہیں دوسرے وہ یعنی بعض ایسے مسائل جو تفصیل کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور آئندہ سامنے آنے والے تھے کیونکہ بعض مسائل سلسلہ خلافت شروع ہوتے ہی سامنے آجاتے ہیں.سلسلۂ خلافت شروع ہونے سے قبل ظاہر نہیں ہوتے مثلاً یہی مسئلہ کہ خلیفہ وقت اور جماعت احمدیہ کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اس کا ایک یہ حل ہے جو میں نے پیش کیا.ایک رنگ میں اور مجھ سے

Page 116

خطبات ناصر جلد چہارم ۹۶ خطبه جمعه ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء پہلے آنے والوں نے کہا اپنے اپنے رنگ میں.چنانچہ جب مجھ سے ۱۹۶۷ء میں پوچھا گیا کہ آپ کا تعلق جماعت احمدیہ سے کیا ہے؟ تو میں نے کہا یہ سوال غلط ہے.اس لئے کہ میں اور جماعت احمد یہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.ان کو علیحدہ علیحد ہ نہیں کیا جا سکتا.غرض آپ نے فرمایا:.جن پر حضرت صاحب نے گفتگو نہیں کی.ان پر بولنے کا تمہیں خود کوئی حق نہیں.جب تک ہمارے دربار سے تم کو اجازت نہ ملے.پس جب تک خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دنیا میں نہیں آتا.ان پر رائے زنی نہ کرو.مجھ تک یہ رپورٹ بھی پہنچی ہے کہ بعض بیوقوف کمزور ایمان والے یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں کہ مجد دتو اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور خلیفہ انسان بناتا ہے.اس بارہ میں موٹی بات تو یہ ہے کہ مجد دکون بناتا ہے اور کون نہیں بناتا اس کے متعلق ہمیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ملتا ہے.قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی ارشاد نہیں.سارے قرآن کریم میں مجدد کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے.خلیفہ کون بناتا ہے اور کون نہیں بناتا، اس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ نور میں فرماتا ہے.لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم - خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلیفہ میں بنا تا ہوں اب جس کے متعلق قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بناتا ہوں اس کے متعلق تو کہتے ہیں کہ خدا نہیں بنا تا اور جس کے متعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا نہیں بناتا اُس کے متعلق کہتے ہیں کہ خدا بناتا ہے.حالانکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کریم سے زائد کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے تھے ورنہ قرآن کریم کامل اور مکمل نہیں ٹھہرتا.جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ مجدد اللہ تعالیٰ بناتا ہے یا مبعوث کرتا ہے تو آپ کا یہ ارشاد ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ کی تفسیر تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے فرمایا مجددبھی ایک خلیفہ ہے اور خلیفہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُسے میں بناتا ہوں.انسان نہیں بناتا کیونکہ جو خلیفہ آئے گا وہ خدا بنائے گا دوسرے یہ کہ وہ لوگ جنہیں ہمارے دربار سے اجازت نہیں ملی تب بھی خلافت کی بحث میں اُلجھتے ہیں.اُن کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آخر یہ کون کہے گا کہ یہ مجدد ہے.اس کو خدا تعالیٰ نے

Page 117

خطبات ناصر جلد چہارم ۹۷ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء مجدد بنایا ہے.کیا یہ بتانے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے جو انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی نہیں آئے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مانگے گئے لیکن انکار کر دیا گیا کہ اس غرض کے لئے نہیں آئیں گے.کیا کسی زمانہ میں یا کسی وقت میں انسانوں کا کوئی مجموعہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے کہ جس کے متعلق وہ کہیں گے کہ خدا نے مجدد بنایا ہے وہ مجد د بن جائے گا.قرآن کریم میں تو ہمیں یہ بات کہیں نظر نہیں آتی.پھر کون کہے گا ؟ وہ خود کہے گا جب کہے گا.بہتوں نے تو کہا ہی نہیں کہ ہم مجدد ہیں یعنی جن بزرگوں کو ہم مجد دسمجھتے ہیں اُن میں سے اکثر نے یہ کہا ہی نہیں کہ ہم مجدد ہیں.جنہوں نے کہا کہ ہم مجدد ہیں اُنہوں نے بھی یہ کہا ہے کہ خدا نے انہیں بتایا ہے کہ میں نے تمہیں مجدد بنایا ہے.پس اگر خلیفہ کہے کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ میں نے تجھے خلیفہ بنایا ہے تو پھر ؟ کیا تم فیصلہ کرو گے کہ اس نے صحیح کہا ہے یا غلط.فیصلے کرنے کے اصول ہیں یعنی کوئی شخص جھوٹ بھی بول سکتا ہے مگر اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اصول مقر رفر مائے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے جب یہ فرمایا تھا کہ نہ انجمن مجھے خلیفہ بنا سکتی ہے اور نہ کوئی انسان مجھے خلیفہ بنا سکتا ہے میں تو انجمنوں کے خلیفہ بنانے پر تھوکتا بھی نہیں ہوں.تو کیا اُنہوں نے اپنے کسی تکبر اور غرور کے نتیجہ میں کہا تھا یا خدا نے انہیں فرمایا تھا کہ میں نے تمہیں خلیفہ بنایا ہے.یقیناً خدا ہی نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو یہ فرمایا تھا کہ میں نے تجھے خلیفہ بنایا ہے.پھر خلافت ثانیہ آئی.کیا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے یہ کہہ دیا تھا کہ خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے درآنحالیکہ خدا نے آپ کو یہ نہیں فرمایا تھا کہ میں نے تجھے خلیفہ بنایا ہے وہ اتنا محتاط انسان کہ جس نے اُمتِ احمدیہ یعنی اُمت محمدیہ کے علماء اور سمجھ دار لوگوں کے اصرار کے باوجود مصلح موعود ہونے کا دعوی اس وقت تک نہیں کیا کہ جب تک خدا نے اُسے یہ نہیں بتادیا کہ میں نے تجھے مصلح موعود بنایا ہے اس کے متعلق تم یہ اعتراض کرتے ہو کہ اُس نے اپنی طرف سے خلیفہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا.

Page 118

خطبات ناصر جلد چہارم ۹۸ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء اور جہاں تک میرا تعلق ہے، ایک اور تکلیف کے وقت میں نے خدا تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی اور میں اُس خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اس مسجد میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے بڑے پیار سے فرمایا:.يدَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ (ص: ۲۷) پس میں خلیفہ اس لئے نہیں ہوں کہ تم میں سے کسی گروہ نے مجھے منتخب کیا ہے.میں خلیفہ اس لئے ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے منتخب کیا اور خلیفہ بنایا اور پیار کے ان الفاظ سے یاد فرمایا ہے.غرض خلیفہ خدا ہی بنایا کرتا ہے.انسانوں کا یہ کام ہی نہیں اور جن کو خدا خلیفہ بناتا ہے وہ انسانوں کے کام پر تھوکتے بھی نہیں اور نہ ان کی کوئی پرواہ کرتے ہیں.خلافت حقہ اصولی طور پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید سے پہچانی جاتی ہے.اس کی آگے تفصیل ہے جو بہت لمبی ہے جس میں اس وقت میں نہیں جا سکتا.مراد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ خودا اپنی حکمت کا ملہ سے جس کا ہمیں پتہ نہیں ہوتا ، خود مجھے بھی پتہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کیا حکمت تھی لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ اُس نے مجھے خلیفہ بنایا اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ اُس نے اپنی حکمت کا ملہ سے جس کو اس وقت خلیفہ بنایا ہے، اس سے وہ پیار بھی کرتا ہے اور اس کی تائید بھی کرتا ہے.غرض خدا تعالیٰ کی نصرت بتا رہی ہوتی ہے کہ یہ خلافت حقہ ہے.مگر میں اپنے متعلق سوچتا ہوں تو اپنے آپ کو ایک ناکارہ مزدور پاتا ہوں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے متعلق یہی کہا تھا تو میں تو اتنا بھی نہیں.غرض خدا کا ایک ناکارہ مزدور ہوں.ویسے بھی انسان ہے کیا چیز جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اُس کے شامل حال نہ ہو.انبیاء علیہم السلام جس وقت کہتے ہیں یا اُن کے خلفاء جس وقت یہ کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو خود کو بالکل ناکارہ مزدور پاتے ہیں.خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر تو انسان کچھ بھی نہیں.مگر جو خدا تعالیٰ سے ملاپ کے بعد ملتا ہے وہ انسان کا اپنا نہیں ہوتا وہ خدا تعالیٰ کا ہوتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ میری دعاؤں کو سنتا ہے اور اتنی کثرت سے سنتا ہے کہ آپ کو اگر میں ساری باتیں بتا دوں تو آپ حیران رہ جائیں گے.ممکن ہے آپ کے خیالات بھی پریشان ہو جائیں گے.بعض دفعہ ابھی دعا کی نہیں ہوتی ، دل میں خیال ہی آتا.اللہ تعالیٰ اُسے بھی قبول فرما

Page 119

خطبات ناصر جلد چہارم ۹۹ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء لیتا ہے.ویسے یہ ٹھیک کہ اللہ اللہ ہے اور انسان انسان ہی ہے.کبھی وہ ہماری دُعا رد بھی کر دیتا ہے اور نہیں مانتا کیونکہ وہ مالک ہے.ہمارا اُس پر کوئی حق نہیں.ہم پر اس کے سارے حقوق واجب ہیں.اللہ تعالیٰ کبھی ہماری دُعاؤں کو مہینوں کے بعد سنتا ہے کبھی وہ سالوں کے بعد سنتا ہے لیکن کبھی وہ اپنی شان اس رنگ میں بھی دکھاتا ہے کہ ابھی دعا کے الفاظ منہ سے نہیں نکلے ہوتے کہ وہ بات پوری ہو جاتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ دُعا ئنتا ہے اور بات مان لیتا ہے اور کام کر دیتا ہے.چنانچہ بے شمار دفعہ دُعاؤں کو اس رنگ میں بھی قبول ہوتے دیکھا ہے کہ ادھر دل میں خیال آیا اور ادھر وہ بات پوری ہو گئی.پھر بعض دفعہ دعا کے نتیجہ میں اُس نے ناممکن باتوں کو ممکن بنا دیا.دُعا کروانے والے شور مچارہے تھے کہ دُعا کرواتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دعا کرو مگر بظاہر ( مثلاً وکلاء سے مشورہ کیا ہے بچنے کی کوئی صورت نہیں مگر خدا تعالیٰ سے دعا کی تو اُس نے ایسی دعائیں بھی قبول فرما لیں.دراصل خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں اپنی شان اور عظمت کے اظہار کیلئے قبول فرماتا ہے.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی دعا ئیں اسلئے بھی قبول فرماتا ہے کہ وہ اس سے دُنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ میرے بندے ہیں.تم ان سے دشمنی مول نہ لو کیونکہ تم اُنکے مقابلے میں کامیاب نہیں ہو سکتے.اُن کو میں نے اپنے ایک کام کے لئے بچنا ہے.جب تک خدا اُن سے وہ کام لینا چاہتا ہے لیتا ہے پھر مار دیتا ہے اور ایک دوسرا آدمی کھڑا کر دیتا ہے.زندگی اور موت تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.ایک دم کا بھی اعتبار نہیں ہے لیکن جب تک وہ آخری دم نہیں آجا تا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی نصرت کے نظارے اس ایک وجود میں جس کو وہ خلیفہ بناتا ہے دُنیا دیکھتی رہتی ہے.یہ موٹے موٹے نظارے میں بتا دیتا ہوں تاکہ بچوں کو بھی سمجھ آجائے.میری خلافت ہے د پر تھوڑ اسا زمانہ گزرا ہے.ابھی پانچ چھ سال ہی ہوئے ہیں اس تھوڑے سے عرصہ میں صدر انجمن احمد یہ کے چندوں میں ۴۱ فیصد اضافہ ہو چکا ہے.اب یہ میری طاقت ہے؟ نہیں ! میں نے تو کبھی دعویٰ ہی نہیں کیا کہ یہ میری طاقت سے ہوا ہے یا یہ میری کسی مہارت یا میرے کسی ہنر کا نتیجہ ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہے.اللہ تعالیٰ نے جب مجھے خلیفہ بنایا تو اُس نے فرمایا میں تیرا مددگا رہوں.

Page 120

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۱۰ ؍ مارچ ۱۹۷۲ء میں تیرے ساتھ کھڑا ہوں.تجھے کیا فکر ہے جو چیز تو سوچ بھی نہیں سکے گا، وہ میں تجھے دے دوں گا.اگر میں شروع میں اپنے دماغ سے کوئی منصوبہ بناتا تو میں یہ ۴۱ فیصد کا اضافہ کبھی نہ کرسکتا کیونکہ مجھے اپنی کمزوریاں سامنے نظر آتی ہیں.میں کہتا کہ پانچ فیصد کافی ہے تو اس طرح چھ سال میں زیادہ سے زیادہ ۳۰ فیصد کا اضافہ بنتا.پھر میں اس میں سے بھی نکالتا کہ شاید یہ ہو جائے ، شاید وہ ہو جائے.مثلاً زیادہ چندہ دینے والے فوت ہو جائیں.اُن کی جائیدادیں تقسیم ہو جائیں.اُن کے بچے مخلص نہ رہیں.غرض میں ہزار باتیں سوچتا اور میں کبھی یہ اعلان کرنے کی جرات نہ کرتا کہ میں نے اپنی عقل اور مہارت سے یہ طے پایا ہے کہ آئندہ پانچ چھ سال میں انجمن کے چندے۴۱ فیصد زیادہ ہو جائیں گے لیکن خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے کام لینا ہے.تجھے ضرورت کا پتہ نہیں ہو گا.تجھے ضرورت کے لئے جتنی رقم چاہیے.اس کا بھی پتہ نہیں ہوگا.میں اس کا سامان کروں گا.علاوہ ازیں اس تھوڑے سے عرصہ میں جماعت نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے سلسلہ میں بہت بڑی مالی قربانی دی ہے پھر آگے بڑھوں کی سکیم ہے.اس میں بھی جماعت نے بہت بڑی قربانی پیش کی ہے.یہ جو نصرت جہاں ریز روفنڈ ہے یہ خالی رقم ہی نہیں بلکہ اس کے استعمال میں اللہ تعالیٰ نے برکت ڈالی ہے اور یہی اصل الہی نصرت اور برکت ہے.پہلے بھی میں نے شاید بتایا تھا کہ ہم نے مغربی افریقہ کے کچھ ممالک میں طبی امدادی مرا کز کھولے ہیں.ابھی ایک سال پورا نہیں ہوا مگر جتنا سرمایہ اُن کے اوپر لگایا گیا ہے.ایک سال کے اندراندر اس سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ آمد ہوئی ہے.یہ رقم باہر نہیں بھجوائی جا سکتی اور نہ ہماری کہیں باہر لے جانے کی نیت ہے.وہ وہیں خرچ ہوتی ہے.اس سے آپ کے کاموں میں تیزی پیدا ہوتی ہے.غرض ابھی ایک سال پورا نہیں ہوا لیکن ہم نے جتنا سرمایہ خرچ کیا تھا اس سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ آمد ہوئی ہے یعنی اتنی نصرت ہوئی ہے کہ سو کے اڑھائی سو بن گئے ہیں.اب یہ برکت میں نے ڈالی ہے؟ نہیں! یہ برکت اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے.یہ جو منافق باتیں کرتے ہیں کیا ان کی بزرگی کو قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے برکت دی ہے؟ نہیں! ان کو تو

Page 121

خطبات ناصر جلد چہارم 1+1 خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ نے کھڑا ہی نہیں کیا.ان کو تو اس نے ڈانٹا اور سمجھایا ہے کہ تم اپنی حرکتوں سے باز آ جاؤ ور نہ میرے قہر کے نیچے تمہیں شدید عذاب اُٹھانا پڑے گا.پس یہ برکتیں بتاتی ہیں کہ خلیفہ خدا نے مقرر فرمایا ہے کیونکہ ایسی نصرت کے کام ایسی نصرت کے واقعات اور ایسی نصرت کے مظاہرے ہوتے ہیں کہ جن میں انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہوتا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ جس طرح اس نصرت میں انسانی ہاتھ نظر نہیں آرہا اسی طرح انتخاب خلافت میں انسانی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان جو کہے اللہ تعالیٰ مجبور ہو جائے اور اس کی مدد اور نصرت کرنا شروع کر دے.کیا تم اپنے زور سے اللہ تعالیٰ کو مجبور کر سکتے ہو؟ نہیں! جب تک تم اس کے فضل اور رحم کو جذب نہیں کرو گے، تم اس کی مدد اور نصرت کس طرح لے سکتے ہو.غرض اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بے شمار نظارے ہیں.میں نے بتایا ہے دعاؤں کی قبولیت ہے جو ساری دُنیا پر پھیلی ہوئی ہے.قبولیت دعا کے یہ نظارے ساری دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.دنیا اس پر حیران ہو جاتی ہے.کئی ایک کے متعلق میں ذکر کر دیتا ہوں اور کئی ایسے بھی ہیں جن کا میں ذکر نہیں کرتا البتہ جہاں دُعا کے وہ واقعات رونما ہوتے ہیں.وہاں ان نظاروں کو دیکھ کر خود ہی پتہ لگ جاتا ہے.مگر اصل چیز تو یہ ہے کہ ان نظاروں کو دیکھ کر دُنیا کے دل میں اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پیدا کی جائے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی یہ مہم چلائی ہے.چنانچہ افریقہ سے کئی خط آ جاتے ہیں کہ ہم عیسائی ہیں لیکن ہمیں یہ پتہ لگا ہے کہ آپ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.ہماری یہ مشکل ہے آپ اس کے لئے دعا کریں.ایک دفعہ مشرقی افریقہ سے ایک سکھ کا خط آگیا کہ مجھے یہ ابتلاء در پیش ہے اور یوں تو میں غیر مسلم ہوں لیکن میں نے دیکھا ہے یا سنا ہے کہ آپ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، اس لئے آپ میرے لئے دُعا کریں.چنانچہ وہ دعا کے لئے خط لکھتا رہا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کا کام کر دیا اور اس کی پریشانیاں دور کر دیں.پھر جب وہ مجھے خط لکھا کرے تو ساتھ ہی آخر میں مجھے یہ بھی لکھ دیا کرے کہ آپ کی دُعا سے میرا کام ہو گیا ہے.میں نے یہ نظارہ دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی

Page 122

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۰۲ خطبه جمعه ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء دعا میں برکت ڈالی ، اس لئے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے اور میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوتا ہے کہ میں آپ کو خط لکھوں.میں خط لکھ دیتا ہوں مگر آپ کو اس کا جواب دینے کی تو کوئی ضرورت نہیں ہے.میں تو اپنی محبت کا اظہار کرتا ہوں.میں نے دفتر سے کہا کہ اسے کہنے دو جو یہ کہتا ہے.اس کے خط کا جواب ضرور جائے گا کیونکہ اگر خدا کی قدرت کا نظارہ دیکھ کر اس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے تو ہمارے دل میں تو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے.پس یاد رکھو کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے.کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو الہی سلسلہ کے خلفاء بنا یا کرے.پنجم.ایک یہ اعتراض ہے جو پانچ دس آدمی جن کا ہمیں علم ہوا ہے بڑے زور وشور کے ساتھ کر رہے ہیں کہ جو خلافت کمیٹی خلیفہ کے انتخاب کے لئے ۱۹۵۶ء میں بنائی گئی تھی اس کو فوراً تو ڑ دو.ورنہ ہم جماعت احمدیہ میں ایک عظیم انقلاب بپا کر دیں گے.کہتے ہیں کہ ہمارا ادارہ ، یعنی ادارہ منافقین ”اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ خلافت کمیٹی جیسا غیر جمہوری ادارہ قائم ہی اس مقصد کے لئے کیا گیا تھا ( یعنی ۱۹۵۶ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس مقصد کے لئے قائم کیا تھا ) کہ خلافت خاندانِ مقدسہ سے باہر کسی صورت نہ جا سکے اور خلافت کمیٹی کی منطق پر (خلافت ثانیہ پر جو تنقید ہو رہی ہے اس کے الفاظ بھی ذرا ملا حظہ کریں ) مذہب کی خوبصورت چھاپ چڑھا کر پوری کی پوری جماعت کو ہمیشہ کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا گیا ہے.“ زنجیروں میں تو جماعت کو جکڑا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ زنجیریں غلامی کی نہیں.یہ محبت اور پیار کی زنجیریں ہیں اور دونوں طرف سے جکڑے ہوئے ہیں میں بھی جکڑا ہوا ہوں اور آپ بھی جکڑے ہوئے ہیں.باہمی پیار اور محبت میں آپ بھی جکڑے ہوئے تھے اور حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ بھی جکڑے ہوئے تھے.آپ میں سے ہر ایک کو کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی تکلیف ہوتی ہے مثلاً زید کو تکلیف ہوئی بکر کو بھی ہوگی.شمال میں تکلیف ہو گی جنوب میں ہوگی

Page 123

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء ا لیکن میرے اس ایک دل میں تو آپ سب کی ساری تکالیف اور ساری پریشانیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں.پس اس کھتے پر تو آپ نے بہت ساری زنجیریں ڈال دی ہیں.آپ تو ایک ایک فرد تھے مگر یہاں سارے افراد کی تکالیف اکٹھی ہو جاتی ہیں.میں بلا مبالغہ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں آپ کے لئے دُکھ اُٹھاتا ہوں اور تکالیف سہتا ہوں.غرض یہ زنجیریں ہیں جنہوں نے مجھے اور آپ کو جکڑا ہوا ہے لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو غلامی کی زنجیروں میں نہیں جکڑ ا وہ تو غلاموں کو آزاد کرانے کے لئے آیا تھا.جس کے متعلق خدا کا مسیح اور مہدی علیہ الصلوۃ والسلام یہ کہے کہ وہ غلاموں کو آزاد کرانے کے لئے آئے گا.اس کے متعلق یہ منافق کہتے ہیں کہ اس نے ساری جماعت کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے.کیا آپ اور میں خدا تعالیٰ کی بات کو مانیں گے یا ان منافقوں کی بکواس پر کان دھر لیں گے؟ ششم.پھر وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں (اور یہ ان کی عجیب منطق ہے ) کہ خلیفہ کی تنخواہ کا سکیل بند کر دیا جائے حالانکہ خلیفہ کی تنخواہ کا تو سکیل ہی کوئی نہیں.جھوٹ بول دیا یعنی یہ کہنا یا خط میں لکھنا کہ خلیفہ کی تنخواہ کا کوئی سکیل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً سو روپے تنخواہ ہے تو ہر سال دس روپے ترقی ہوگی.پھر جب سکیل ختم ہو گا تو ایفی شینسی بار ملے گا کیونکہ سکیل میں یہ بھی آجاتا ہے تو پھر ناظر دیوان فیصلہ کرے گا کہ خلیفہ وقت کی اہلیت برقرار ہے.اس کی اہلیت ایسی ہے کہ اس کو اگلا سکیل دیا جائے یا نہ دیا جائے.یہ تخیل ہی خلافت کے ساتھ نہیں جاتا اور یہ تصور ہی موجود نہیں مگر انہوں نے اعلان کر دیا کہ خلافت کا سکیل بند کر دو، دوسرے یہ کہا کہ شوریٰ حالات کے مطابق خلیفہ کا الاؤنس مقرر کرے.اس میں بھی خباثت ہے یعنی جو بھی الاؤنس ہے وہ شوریٰ ہی نے مقرر کیا ہوا ہے مگر یہ کہتے ہیں کہ نہیں شوریٰ نے مقرر نہیں کیا ہوا.خلیفہ نے آپ ہی مقرر کر دیا ہے کہ میں اتنے پیسے لیا کروں گا اور عیش کروں گا حالانکہ شوریٰ نے خود ہی یہ مقرر کیا تھا اور جس اجلاس میں اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا اس میں میں موجود بھی نہیں تھا اور جس کے لینے میں میری مرضی بھی نہیں تھی.اس کے متعلق میں آگے چل کر بات کروں گا.پہلے میں اُن کے جو خیالات ہیں اُن کو وضاحت کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دینا چاہتا ہوں.

Page 124

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۰۴ خطبہ جمعہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۷۲ء خلیفہ کی تنخواہ کے سکیل کے متعلق اُنہوں نے تیسرے نمبر پر یہ کہا کہ موجودہ خلیفہ کو صرف ۳۰۰ماہوار الاؤنس دیا جائے.پہلے یہ کہا کہ شوری مقرر کرے.پھر کہا کہ شوری کو بھی اختیار نہیں ہونا چاہیے.ہم الاؤنس مقرر کرتے ہیں.اس لئے موجودہ خلیفہ کو صرف ۳۰۰ ماہوار الاؤنس دیا جائے.غرض ایک خط میں تو انہوں نے یہ لکھا کہ موجودہ خلیفہ کو ۳۰۰ ماہوار ” ہمارے“ کہنے کے مطابق دیا جائے.شوریٰ کو بھی اختیار نہیں.ہم یعنی جماعت منافقین نے شوری سے اختیار واپس لے لیا ہے.مگر دوسرے خط میں یہ لکھ دیا ( دوخط Cyclostyle (سیکلو سٹائل ) کئے ہوئے اُنہوں نے یہاں پندرہ میں آدمیوں کو لکھے ہیں جو ہمارے علم میں ہیں اور یہ پوائنٹس میں نے انہیں خطوط سے لئے ہیں کہ موجودہ خلیفہ کا الاؤنس بالکل بند کر دیا جائے کیونکہ ذرائع آمد لا محدود ہیں.اس واسطے پہلے تو شوری سے ۳۰۰ مقرر کر کے اس کا حق واپس لے لیا ( یہ میں ان کی باتیں کر رہا ہوں ) یعنی پہلے جماعت منافقین نے شوری کو یہ حق دیا کہ وہ حالات کے مطابق خلیفہ وقت کا کوئی گزارہ یا الاؤنس مقرر کرے.پھر کہا کہ نہیں ہم تمہارا حق واپس لے کر خود ہی ۳۰۰ مقرر کر دیتے ہیں.پھر کہا کہ نہیں ہم اپنا یہ فیصلہ بھی بدلتے ہیں خلیفہ وقت کو کوئی الاؤنس نہ دیا جائے کیونکہ اس کے ذرائع آمد لا محدود ہیں.یہ لامحدود کے لفظ پر میں زور دے رہا ہوں.اسے یا درکھنا کیونکہ اس کے متعلق بھی میں آگے کچھ بتانا چاہتا ہوں.پھر کہنا کہ نہ صرف یہ کہ الاؤنس نہ دیا جائے بلکہ موجودہ خلیفہ اپنی ساری جائیداد انجمن کو دے دے.غرض الاؤنس کے طور پر اُسے ایک پیسہ نہ دیا جائے اور جائیدادساری چھین لی جائے اور تیسرے یہ کہ موجودہ خلیفہ کو ( اور پہلے دو جو گزر چکے ہیں یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے بھی غلطی کی ) کمانے کی اجازت نہ دی جائے.مطلب یہ ہے کہ کمائی کے سارے ذرائع محدود کر دیئے جائیں.ان کی جائیداد لے لی جائے اور پیسہ ان کو کوئی نہ دیا جائے اور کہا جائے کہ خوب شان کے ساتھ جماعت احمدیہ کی خلافت اور امامت کرو.پس یہ سارے بہکے ہوئے خیالات ہیں.خود ہی بیوقوف اور اندھے ہیں.منافق بھی اندھا ہوتا ہے اگر منافق کا مقام ” دَرْكِ آسفل میں ہے تو گویا وہ ایک کافر سے بھی زیادہ نیچے ہے تو

Page 125

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۰۵ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء اس کی نابینائی ( جس کے متعلق قرآن کریم میں ”عی “ کہا گیا ہے) کی نسبت منافق زیادہ اندھا ہے.لیکن ہم یہ روحانی طور پر کہہ سکتے ہیں جسمانی طور پر نہیں کہہ سکتے.روحانی طور پر صرف آنکھیں ہی نہیں بلکہ اور بہت سارے روحانی حواس ہیں جو انسان کو بینا اور صاحب فراست بناتے ہیں.غرض جہاں تک موجودہ خلیفہ کے الاؤنس کا تعلق ہے شروع میں میں نے کوئی الاؤنس نہیں لیا پھر شوری ہوئی اور اُس نے اپنے ایک اجلاس میں اڑھائی ہزار روپیہ مقرر کیا جس میں میں موجود نہیں تھا.نہ اس اجلاس سے پہلے نہ اس وقت اور نہ اس کے بعد.میں تو جماعت سے یہ کہہ ہی نہیں سکتا نہ آج اور نہ مرتے دم تک کیونکہ یہ تو میری فطرت اور میرے مقام کے خلاف ہے کہ میں جماعت سے یہ کہوں کہ مجھے اتنے پیسے چاہئیں.آپ ہی اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ اڑھائی ہزار روپے تنخواہ اور مہمان آتے ہیں اُن کا الاؤنس اور نوکر اور پتہ نہیں اور کیا کچھ تھا.چنانچہ شوریٰ کا ایک نمائندہ وفد میرے پاس آیا.مرزا عبدالحق صاحب اُن کے سپوکس مین تھے.وہ زندہ ہیں اگر میری بات کا اعتبار نہ آئے تو اُن سے جا کر پوچھ لو.اُنہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے.میں نے کہا مجھے یہ منظور نہیں ہے.مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے.میں یہ لینا نہیں چاہتا.وہ مجھے کہنے لگے کہ پہلے دو خلفاء نے بھی نہیں لیا اور آپ بھی نہیں لیں گے تو بعد میں آنے والوں میں سے جن کو ضرورت ہوگی وہ یہ سمجھیں گے کہ تیسرے خلیفہ نے بھی نہیں لیا تھا کیونکہ اس کے دماغ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پہلے دو خلفاء نے نہیں لیا تھا اس لئے خلیفہ وقت کو الا ؤنس نہیں لینا چاہیے اور کہیں گے کہ پھر تیسرے خلیفہ نے بھی نہیں لیا.جب تین خلفاء نے نہیں لیا تو اب چوتھا کیوں لے اور اگر چوتھا نہ لے تو پھر پانچواں کیوں لے.اس لئے آپ یہ لے لیں.میں نے کہا.اچھا! اگر یہ بات ہے تو تم نے یہ جو مہمان نوازی کے اور نوکروں وغیرہ کے اور بھی پتہ نہیں کیا کچھ تھا مجھے صحیح یاد نہیں نہ میں نے اس طرف توجہ دی اس کا تو سوال ہی کوئی نہیں.باقی آپ کہتے ہیں تو آپ کا دل رکھنے کے لئے اڑھائی ہزار روپے ماہانہ کے متعلق آپ کا فیصلہ مان لیتا ہوں.اب جو ملاقاتوں والے دن مہمان نوازی کی جاتی ہے اور یہ میں کسی پر احسان نہیں جتا

Page 126

خطبات ناصر جلد چہارم ١٠٦ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء رہا بلکہ میں بڑے پیار سے ایک بات کہہ رہا ہوں.مجھے ایک دن بڑا دکھ پہنچا.ایک دوست تھے اُنہوں نے مجھے چٹھی لکھی گرمیوں کے دنوں میں وہ ملاقات کے لئے آئے تھا.اُنہوں نے لکھا کہ میں ملاقات کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا ( دوست اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے دعا کرتے رہتے ہیں ) مجھے پیاس لگی اور میں پرائیویٹ سیکرٹری (جو اُس وقت تھے.امام رفیق نہیں تھے.نماز کے بعد ان کے پیچھے نہ پڑ جائیں) کے کمرے میں گیا اور اُن سے کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے تو وہ بڑی رعونت سے مجھے یہ کہنے لگے کہ فلاں کمرے میں پانی کا گھڑا رکھا ہوا ہے.وہاں جا کر پی لو.اُنہوں نے لکھا ہے کہ میں ایک پرانا احمدی ہوں پانی کیا چیز ہے ہم احمدیت کی خاطر جانیں بھی دینے کے لئے تیار ہیں.میں نے بالکل محسوس نہیں کیا لیکن بعض غیر احمدی آتے ہیں نئے احمدی آتے ہیں بعض نو جوان آتے ہیں جن کی پوری تربیت نہیں ہوتی.اس لئے کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے آپ ان کو سمجھا دیں.میں نے بڑا استغفار کیا.میں نے کہا میں اس کا ذمہ دار ہوں.پھر میں نے دفتر سے کہا مولوی ابوالعطاء صاحب اس بات کے گواہ ہیں.میں نے ان کو بھی بلا کر کہا کہ یہ جو چائے اور گرمیوں میں شربت اور ٹھنڈا پانی ہے اس کا میں ذمہ دار ہوں.جماعت ذمہ دار نہیں ہے.اس لئے آپ یہ انتظام کریں.میرے پاس وقت اتنا نہیں ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ میں جب کام کروایا کرتا ہوں اسی طرح کروایا کرتا ہوں.غرض میں نے اُن سے کہا کہ میرے پاس بالکل وقت نہیں ہے کہ میں آپ سے حساب کیا کروں.آپ یہ پیسے لیں جب یہ ختم ہو جا ئیں تو مجھ سے اور لے لیں مگر یہ نہ کہیں کہ فلاں چیز پر یہ خرچ ہوا اور فلاں پر یہ خرچ ہوا.بس یہ کہیں کہ اتنے پیسوں کی ضرورت ہے وہ میں دے دیا کروں گا.چنانچہ اس وقت سے یہ انتظام چل رہا ہے.اور یہ میرا اپنا انتظام ہے صدر انجمن احمد یہ کانہیں یہ جماعت کے ساتھ میرے پیار کا نتیجہ ہے اگر آج انجمن مجھ پر زور دے کہ یہ انتظام اس کے حوالے کر دیا جائے تو میں یہی کہوں گا کہ نہیں میں خود ہی ی انتظام کروں گا.پھر وہ جو مقرر کیا گیا تھا اس کے متعلق بھی میں بڑے دُکھ کے ساتھ اور اپنی فطرت کے خلاف بات کرنے پر مجبور ہوا ہوں.جتنا میں نے شوریٰ کا اور آپ کا دل رکھنے کے لئے منظور کر

Page 127

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۰۷ خطبہ جمعہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۷۲ء لیا تھا اس کا پچاس فیصد سے بھی کہیں کم میں نے عملاً وصول کیا ہے اور جتنا وصول کیا ہے اس سے کہیں زیادہ میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خرچ کرنے کے متعلق جو مجھے ستر أ کا حکم ہے اس پر خرچ کیا ہے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا ہے کہ میں تمہارا محتاج نہیں ہوں.حضرت خلیفہ ثانی نے بھی یہی فرمایا تھا اور میں بھی یہی کہتا ہوں کہ میں تمہارا محتاج نہیں ہوں.تمہیں کس احمق نے کہا ہے کہ مجھے نذرانہ دیا کرو یا میرا الاؤنس مقرر کیا کرو.تم نے کہا ہمارا دل دکھے گا اور بعد میں آنے والے خلفاء کے لئے تکلیف ہوگی اس لئے میں نے تمہاری بات مان لی اور تمہیں آج تک یہ بھی نہیں بتایا کہ میں وہ سارا لے بھی نہیں رہا.پچاس فیصد سے بھی کہیں کم لے رہا ہوں تا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ یہ ہمارے ساتھ کیا کیا ہے.تمہارا تو میں نے اتنا خیال رکھا مگر تمہارے اندر جو چند ایک منافق ہیں اُن میں سے کوئی کہتا ہے تین ہزار اور کوئی کہتا ہے اڑھائی ہزار روپے ماہانہ تعقیش کے سامان کے لئے وصول کر رہا ہے.میں نے بتایا ہے کہ جتنا میں وصول کرتا ہوں خدا تعالیٰ اس سے زیادہ مجھے سزا خرچ کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے.جس کے متعلق کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا.یہاں تک کہ میری بیوی کو بھی کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ میں کس کو دیتا ہوں لیکن جو اعلانیہ خرچ ہے وہ آپ میں سے بعض جانتے ہوں گے.اسے میرے گھر سے بھی جانتے ہیں لیکن میں اپنے بھائی پر سات آٹھ ہزار روپے ماہانہ ایسا بھی خرچ کرتا ہوں جس کے متعلق میرے سوا کسی کو پتہ تک نہیں ہوتا اور یہ میں اپنے بھائی کو اس کا حق دینے کے لئے خرچ کرتا ہوں.اس کے اوپر میرا کوئی احسان نہیں ہوتا کیونکہ میں تو خدا تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوں.پس جہاں تک میرا خرج کا تعلق ہے اسے صرف میں جانتا ہوں.اگر میں نے دفتر کے ذریعہ بھی بھجوانا ہوتا ہے تب بھی خود ہی لفافہ بند کرتا ہوں اور خود ہی اس کے اوپر پتہ لکھتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں اور عام طور پر اس میں کامیاب بھی ہو جاتا ہوں کہ دس روپے کا نوٹ نہ ہوتا کہ اگر زیادہ روپے دینے ہیں تو سو روپے کا نوٹ ہوتا کہ کسی کو پتہ ہی نہ لگے کہ اس کے اندر کوئی نقدی

Page 128

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۰۸ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء یعنی نوٹ بھی ہے اور اس طرح خط بھیج دیا کرتا ہوں کیونکہ بعض دفعہ یہ کام میں خود نہیں کر سکتا یا آدمی نہیں مل سکتا لیکن میں مجبور ہو کر اور بڑے دکھ کے ساتھ اس کا اظہار کر رہا ہوں مگر منافق کھڑے ہو کر کہتا ہے دیکھو یہ دنیا کے عیش میں پڑا ہوا ہے اور اڑھائی ہزار روپے لے کر خوب عیش لوٹ رہا ہے.منافق نے یہ کہا ہے کہ میں لا محدود ذرائع کا مالک ہوں میں کہتا ہوں کہ یہ فقرہ تم نے سچ کہا ہے میں لامحدود ذرائع آمد کا اس لئے مالک ہوں کہ وہ جو دنیا کی ساری دولتوں اور خزانوں کا مالک ہے اس نے مجھے فرمایا تھا.تینوں ایناں دیاں گا کہ تو رج جائیں گا“ اس لئے میں لامحدود ذرائع کا مالک ہوں مجھے تمہارے پیسے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کس طرح پیسے دیتا ہے وہ تو محلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن:٣٠) کی رو سے اس کی شان نرالی ہے.اس کے خزانے کا جب منہ کھلتا ہے تو کسی بزرگ کے اس قول کے مطابق وہ چھپر پھاڑ کے دے دیا کرتا ہے.بعض دفعہ انسان ذراسی بات کے لئے دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لیتا ہے.چنانچہ ایک دن مجھے پیسے کی ضرورت تھی میں نے دعا کی خدا یا مجھے پیسے دے کیونکہ تیرا یہ وعدہ ہے کہ تینوں ایناں دیاں گا کہ تو رج جائیں گا“ مجھے خیال آیا کہ کہیں میرے دل کا نفس ( اللہ تعالیٰ تو عالم الکل ہے ) یعنی میرے دل کا چور یہ نہ سمجھتا ہو کہ میں خدا تعالیٰ سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے کسی بندے کا مجھے محتاج نہ کر اور اس کے دل میں ڈال کہ میرے ایک دوسرے بندے کو ضرورت ہے اور وہ اس کو جا کر پیسے دے آئے میں نے دعا کی کہ خدایا میں نے اس طرح کے پیسے نہیں لینے.میں نے کسی آدمی کا محتاج ہو کر پیسے نہیں لینے.مجھے تو دے جس طرح بھی دیتا ہے.چنانچہ میرے ایک بھائی نے مجھ سے اتنی ہی رقم قرض لی ہوئی تھی جتنی کی میں نے دعا کی تھی وہ میرا چھوٹا بھائی تھا اور میری نیت یہ تھی کہ میں نے اس کو واپسی کے لئے نہیں کہنا بے شک وہ واپس بھی نہ کرے.بھائی بھائی کا حق بھی ہوتا ہے اور مجھے اس

Page 129

خطبات ناصر جلد چہارم 1.9 خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء کے حالات کے لحاظ سے یقین تھا کہ اگلے پانچ دس سال تک وہ رقم واپس نہیں کر سکتا مگر میں کیا دیکھتا ہوں کہ شام کے وقت میرے وہی بھائی صاحب میرے پاس آکر کہہ رہے ہیں.بھائی یہ لیں اپنی رقم.اب میں اس کا منہ دیکھوں اور پتہ نہیں میں نے کس طرح اپنے جذبات پر قابو پایا کیونکہ میں نے دعا کی تھی اے خدایا! میں نے کسی بندے کا محتاج نہیں ہونا.تو میرے لئے اپنے فضل سے سامان پیدا فرما کیونکہ تیرا مجھ سے وعدہ ہے.چنانچہ اسی رنگ میں میری دُعا قبول ہوگئی.یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے جس میں کچھ ظاہر کا بھی رنگ ہے وہ میں نے بتا دی ہے باقی تو چونکہ خدا تعالیٰ وراء الوری اور غیب الغیب ہستی ہے وہ وراء الورٹی اور غیب الغیب دروازے کھولتی ہے آپ ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکیں گے.بہر حال میرے لا محدود ذرائع ہیں.مجھے پیسے کی کبھی فکر نہیں ہوئی اور جو خدا دیتا ہے اس میں سے جتنی توفیق ملتی ہے اپنے ضرورت مند احمدی بھائیوں کو دیتا ہوں اور ان پر میں احسان نہیں جتا تا بلکہ اُن کے ساتھ کبھی ذکر تک نہیں کیا.اگر وہ سامنے آجا ئیں تو آپ میری آنکھوں میں کوئی اشارہ بھی نہیں دیکھیں گے.اس لئے کہ میں اس بندے کو خوش کرنے کے لئے نہیں دے رہا میں تو اپنے مالک، اپنے مولیٰ ، اپنے پیار کرنے والے رب العزت کو خوش کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے دے رہا ہوں.میں نے آج مجبوراً اس کا کچھ تھوڑا سا حصہ جو ظاہر ہوسکتا تھا وہ یہاں کر دیا ہے لیکن اس کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو ظاہر نہیں ہو سکتے اور نہ ظاہر کئے جائیں گے.بہر حال یہ تو ان منافقین کا دماغی نقص ہے کہ خلیفہ کے الاؤنس کا مشاورت فیصلہ کرے.پھر کہا مشاورت فیصلہ نہ کرے ہم خود فیصلہ کرتے ہیں.۳۰۰ ماہوار الاؤنس دیں گے.ہم بھی اپنا فیصلہ بدلتے ہیں ایک دھیلہ بھی الاؤنس نہیں ملے گا، نہ صرف ایک دھیلہ نہیں ملے گا.ساری جائیدا دوا پس لے لینی چاہیے.جائیداد تو مجھے ورثہ میں ملی یا جائیداد کچھ تھوڑی سی ایسی ہے کہ جو تھوڑی سی زمینیں قادیان میں خریدی تھیں.کام میں خیال ہی نہیں رہا.بارہ تیرہ ایکٹر کی بجائے تین ایکٹر کے کاغذ بچے.باقی یہاں پارٹیشن کے بعد ضائع ہو گئے.تین ایکٹر زمین ہے وہ بھی جائیداد میں آگئی نا.ساری جائیداد لے لو دھیلہ کوئی نہ دو اور جائیداد ساری لے لو، کمانے پر پابندی لگا دو اور کہو تم چار

Page 130

خطبات ناصر جلد چہارم 11+ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء پانچ دن تک بھو کے زندہ رہ سکتے ہو خلافت کرو.پھر ہم ایک اور خلیفہ بنالیں گے پھر چار پانچ دن اس کو بھوکا رکھ کر ماریں گے پھر اور خلیفہ بنالیں گے تو ٹھیک ہے اس طرح کرو.لیکن میں نے یہ کہہ دیا ہے کہ مجھے تو کوئی ضرورت نہیں.جس کی مجھے ضرورت تھی اُس نے مجھے فرمایا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں.پھر میں آپ کی کیسے ضرورت محسوس کروں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا غالباً یہ حوالہ میں نے پہلے نہیں پڑھا.فرماتے ہیں:.میں کسی کا خوشامدی نہیں.مجھے کسی کے سلام کی بھی ضرورت نہیں اور نہ تمہاری نذور اور پرورش کا محتاج ہوں اور خدا تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ ایسا وہم بھی میرے دل میں گزرے.میں جس کا محتاج ہوں اور جو میری ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے وہی میرے لئے کافی ہے اس کے علاوہ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے.ہفتم.آج یہ لمبا خطبہ ہوگا کیونکہ ضروری ہے اب آخر میں میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں اس پر شاید زیادہ وقت لگ جائے.جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت خلیفہ اول کے بچوں کو ایک لمبا عرصہ چشم پوشی کے بعد جماعت کو فتنے سے بچانے کے لئے علیحدہ کیا تھا تو اس وقت جو دشمنانِ خلافت تھے، اُنہوں نے بہت کچھ فتنے پیدا کئے.بڑے ہاتھ پاؤں مارے.خلافت کو نقصان پہنچانے کی بڑی کوشش کی.غلبہ اسلام کے لئے ساری دنیا میں جو ایک عظیم حرکت اور جد و جہد ہو رہی تھی اس کے راستے میں روک بننے کی کوشش کی.چنانچہ اُس موقع پر ایک غیر مبائع دوست نے یہاں تک لکھ دیا.یہ الفاظ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہیں اور ان غیر مبائعین کی طرف اشارہ ہے آپ فرماتے ہیں:.اور اُن میں سے ایک شخص محمد حسن چیمہ نے بھی ایک مضمون شائع کیا ہے کہ ہمارا نظام ( یعنی غیر مبائعین کا نظام ) اور ہمارا سٹیج اور ہماری جماعت تمہاری مدد کے لئے تیار ہے.شاباش ! ہمت کر کے کھڑے رہو.مرزا محمود سے دینا نہیں.اس کی خلافت کے

Page 131

خطبات ناصر جلد چہارم 111 خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء 66 پر دے چاک کر کے رکھ دو.ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے.یہ غیر مبائعین نے اُس وقت کے فتنے کے موقع پر جو لوگ اُس وقت فتنہ پیدا کر رہے تھے اُن کو مخاطب کر کے کہا تھا اور آج ساری جماعت کو خصوصاً اہلِ ربوہ کو مخاطب کر کے آج کے فتنہ گروں نے یہ کہا ہے اور جسے ذرا غور سے سنتے رہنا.میں بھی جہاں ضرورت پڑی زور دوں گا.در اصل نفاق چونکہ نقاب پوش ہوتا ہے یہ علی الاعلان سامنے نہیں آتا اس لئے ان کی جو لیڈر ہے وہ بھی نقاب پوش "رابعہ انقلابی یعنی عورت کی شکل میں سامنے آئی ہے.اُس نے لکھا ہے :.لہذا اس انقلاب کی تکمیل کے لئے آپ کے تعاون کی اشد ضرورت ہے...یقیناً آج تم اپنے آہنی عزم کے بل بوتے پر تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے والے ہو ( جس طرح بقول محمد حسین چیمہ ۱۹۵۶ ء میں کرنے والے تھے ).دوستو ! قوت کا اصل سرچشمہ تم ہو جماعت کا وجودصرف تم سے قائم ہے اور جب تک تمہیں اپنی قوت کا احساس نہیں ہو گا تمہارے مسائل حل نہیں ہوں گے.لہذار بوہ میں عوامی قانون اور عوامی انصاف لانے کے لئے اپنی جد و جہد کو تیز کر دو.“ اب ربوہ جو دُنیا میں اشاعت قرآن اور حفاظت قرآن اور تفسیر قرآن کا مرکز ہے.اس ربوہ میں عوامی قانون یعنی اسلامی قانون نہیں بلکہ عوامی قانون اور قرآنی عدل وانصاف نہیں بلکہ عوامی انصاف لانے کے لئے اپنی جد و جہد کو تیز کر دو.پھر اس خبیث گروہ کے دل میں ربوہ کی جو قدرومنزلت ہے اور جس فقرہ کو پڑھ کر مجھے آگ لگی اور اب بھی لگی ہوئی ہے اور جسے مردوزن غور سے سنیں وہ یہ ہے:.کیار بوہ معاشی دوڑ کے نتیجہ میں غیر فطری فعلوں اور مردوزن کے ناجائز تعلقات کی آماجگاہ نہیں بن رہا.“ اب ان کے نزدیک ربوہ غیر فطری فعلوں اور مردوزن کے ناجائز تعلقات کی آماجگاہ ہے اور اسی ربوہ سے جو اُن کی خبیثانہ نگاہوں میں غیر فطری فعلوں اور مردوزن کے ناجائز تعلقات کی آماجگاہ ہے اس سے کہتے ہیں کہ اُٹھو اور انقلاب لاؤ.اے منافقو اور جاہلو ! جس کو تم نے خدا کی

Page 132

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۱۲ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء نگاہ میں بدترین ملزم قرار دیا ہے اُس سے تم ہاں تم کیسے خیر کی امید رکھتے ہو؟ محمد حسن چیمہ نے بھی کہا تھا کہ بس ڈرنا نہیں خلافت پر حملہ کر دو اور اس کو تو ڑ کر رکھ دو.اب اُنہوں نے بھی یہی کہا ہے چنا نچہ لکھا ہے :.”میرے بہادر و اور باہمت ساتھیو! ملوکیت کے قلعے میں شگاف پڑ چکا ہے صرف ایک مضبوط دھکے کی ضرورت ہے اُٹھئے اور آگے بڑھئے اور ہامانیت ( یعنی خلافت احمدیہ ) کے ضمیر فروش ایجنٹوں کے گریبانوں کو مضبوط ہاتھوں سے پکڑ کر ثابت کر دیجئے کہ ہامان اب زیادہ دیر تک مذہبی جبہ میں چھپ کر نہیں رہ سکتا....اٹھو اور ہمت کرو آگے بڑھو اور ملوکیت کے تخت کو لات مار کر پرے پھینک دو.“ جس خلافت کے گرد خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت پہرہ دے رہی ہے اس خلافت کے قلعے پر تو تمہاری لات اگر پڑے گی تو تمہاری ہڈیاں بھی اس طرح چور چور ہو جائیں گی کہ اُن کے ذرے بھی دُنیا کو نظر نہیں آئیں گے.اور پھر اس کے بعد اس نقاب پوش انقلابی نے ہمیں یہ اطلاع دی :.عوام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ محترمہ رابعہ انقلابی صاحبہ ۱۵ مارچ کو بروز بدھ ۴ بجے شام گول بازار میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ عوام سے خطاب کریں گی ( یعنی ان عوام سے جو اس قسم کے افعال کی آماجگاہ ہیں ) ہر محنت کش کا فرض ہے کہ وہ ہر خاص و عام کو مطلع کر دے“ اب یہ پندرہ مارچ کی تاریخ تو آنے والی ہے ایک برقعہ پوش منافق چھپ کر وار کرنے والا ایک تو یہ بھی کر سکتا ہے اور ممکن ہے وہ یہ بھی کرے کہ وہ خفیہ طور پر میری ذات پر وار کرے اور مجھے قتل کرنے کی کوشش کرے دوسرے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُس وقت جب کہ امت مسلمہ مومنہ کے دلوں پر ایک اثر طاری ہوتا ہے اور اُن کے دل خدا تعالیٰ کی طرف جھکے ہوتے ہیں اس وقت سے فائدہ اُٹھا کر گول بازار میں آکر دو چار فقرے کہہ دے اور پھر واپس جا کر بڑی بڑھیں مارے کہ ہم نے اپنے وعدہ کے مطابق وہاں بازار میں تقریریں کیں.غرض یہ بھی ممکن ہے لیکن جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں موت سے نہ کبھی ڈرا ہوں

Page 133

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۱۳ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء اور نہ اب ڈرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے میری فطرت کو کچھ ایسا بنایا ہے کہ میں موت سے کبھی نہیں ڈرا.مجھے اس کا کبھی خیال ہی نہیں آیا.۴۷ء میں میں نے کام کیا ہے اس وقت میں نے آگ کے اندر چھلانگیں لگائی ہیں اور ایک لحظہ کے لئے بھی میرے دل میں یہ خوف نہیں پیدا ہوا کہ کہیں یہ آگ مجھے جلا نہ دے.زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.جب تک وہ چاہے گا زندہ رکھے گا اور جب چاہے گا اُٹھا لے گا.یہ نہ میرے اختیار میں ہے اور نہ میرے دشمن کے اختیار میں ہے.نہ میں اپنی مرضی سے اپنی عمر بڑھا سکتا ہوں اور نہ میرا دشمن اپنی مرضی سے میری عمر گھٹا سکتا ہے.اس لئے موت تو اپنے وقت پر آئے گی لیکن ہو سکتا ہے کہ اُن کا کوئی اس قسم کا منصو بہ بھی ہولیکن نہ میں ڈرتا ہوں اور نہ آپ اپنے دل میں کوئی خوف اور دہشت پیدا کریں.تا ہم میں ربوہ کی بہنوں اور بھائیوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج تمہاری عزت اور غیرت کو للکارا گیا ہے.اس عورت کو ہاں اس عورت کو جس نے اپنے عروسی کے زیورات بھی خدا تعالیٰ کا نام بلند کرنے کے لئے اور مساجد کی تعمیر کے لئے چندوں کے طور پر دے دیئے اور جس کی محنتوں کے نتیجہ میں یورپ کے مختلف ممالک میں مساجد کے مینار سے خدائے واحد و یگانہ کی کبریائی کا اعلان کیا جاتا ہے اے جاہلو اور ظالمو! اُس عورت کو تم غیر فطری فعلوں اور مردوزن کے ناجائز تعلقات کی آماجگاہ کہتے ہو یا اس آماجگاہ میں رہنے والی کہتے ہو یا اُسے اس کا حصہ دار بناتے ہو؟ اُس نے تو اپنی محبوب ترین چیزیں بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیں اور خدا تعالیٰ کے پیار کا حسن اس کے ماتھے پر چمک رہا ہے اور اس کی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں اور اے اندھو! تم اُس ماتھے اور اُن آنکھوں میں بدفعلیوں اور غلط قسم کے افعال اور گناہوں کے دھبے دیکھتے ہو؟ پھر یہاں کے رہنے والے وہ مرد جو دین کی خاطر اور جو اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں اور اس مرکز میں سکون ، امن اور سلامتی پاتے ہیں اور جن میں سے بعض بے دھڑک ہوکر یہاں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ جاتے ہیں اور خود دُنیا کمانے کے لئے باہر چلے جاتے ہیں اور پھر وہ بھی ہیں کہ جب وقت آتا ہے تو اپنے جن بچوں سے وہ بے انتہا پیار کرتے ہیں ان بچوں کے پیار کو بھول جاتے ہیں.وہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے سلسلہ اور قرآن اور

Page 134

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۱۴ خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۷۲ء اسلام کی عظمت اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اظہار کے لئے اُن کا پیار اتنا جوش مارتا ہے کہ دوسرے سارے پیار اس نئے اور حقیقی پیار کی لپٹوں میں جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں.مگر اے جاہلو! تم اُن کے متعلق یہ کہتے ہو کہ اُن کے وجود سے ربوہ آماجگاہ بن گیا ہے غیر فطری فعلوں اور مردوزن کے ناجائز تعلقات کی.تم نے ان کو پہچانا نہیں.تمہاری نگاہیں ان کی نبض پر نہیں ہیں.تم نہیں جانتے کہ وہ کس مٹی سے بنے ہیں.تمہیں کیا پتہ کہ وہ خدا کے اس شیر کو ماننے والے ہیں جس نے ساری دُنیا کی مخالفتوں کے باوجود یہ اعلان کیا تھا کہ میری فطرت میں نا کامی کا خمیر نہیں ہے.پس میرے اس بھائی اور میری اس بہن کی فطرت میں بھی ناکامی کا خمیر نہیں ہے.اُن کے کانوں میں تمہاری آواز تو گیڈر کی اس آواز سے بھی زیادہ حقیر نظر آئے گی جو کبھی کبھی رات کے وقت ہمارے کانوں میں آتی ہے.بزدل اور منافق گیدڑ و! تمہاری آواز تو اُن کے کانوں میں کتوں کے بھونکنے کی اس آواز سے بھی زیادہ قابل نفرت محسوس ہوگی جو کبھی رات کے اندھیروں میں ان کے کانوں میں پڑتی ہے.تم نہیں جانتے ہاں تم نہیں جانتے کہ یہ کس قسم کی قوم ہے اور کتنی طاقتور ہے اور اس کی طاقت کا کونسا منبع ہے.یہ کتنی فدائی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور کتنی محبوب ہے آپ کے روحانی فرزند مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی.تم کیا پہچا نو اس پیارے وجود کو جسے ہم جماعت احمد یہ کہتے ہیں تم سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا.کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسا شخص جس کی ہم نے ابھی پوری طرح تربیت نہیں کی بوجہ نوجوان ہونے کے یا بوجہ نئے احمدی ہونے کے ایسا کام کر بیٹھے جو ہمارے لئے ملامت اور تمہارے لئے دنیوی لحاظ سے تباہی کا باعث بن جائے.روحانی لحاظ سے تو تم خود اس گڑھے میں گرے ہو جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس سے نیچے اور کوئی گڑھا نہیں.تم ہاتھوں کو اٹھار ہے اُن لوگوں کی طرف جن کی دعائیہ پرواز خدا تعالیٰ کے عرش تک پہنچتی اور اُسے بھی ہلا دیتی ہے.تم جہنم کے گڑھوں میں رہنے والے ان بلند پرواز کرنے والے وجودوں تک کہاں پہنچ سکتے ہو.پس تم عقل سے کام لو.عقل سے کام لو.عقل سے کام لو.از رجسٹر خطبات ناصر.غیر مطبوعہ )

Page 135

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۱۵ خطبہ جمعہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۷۲ء جس چیز پر ہمیشہ ہی عمل کرتے رہنا چاہیے وہ عاجزی ہے اس لئے آپ کو عاجزانہ راہیں اختیار کرنی چاہئیں خطبه جمعه فرموده ۱۷ مارچ ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ بنصرہ نے یہ آیات پڑھیں :.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ - نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ - حم السجدة : ۳۱، ۳۲) اور پھر فرمایا:.ایک انسان کی حقیقی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے اس مقام کو پہچانے کہ وہ عبد ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا رب ہے.جو لوگ زبانِ حال اور زبان قال سے اور اپنے عمل یعنی فعل اور قول کی رو سے یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے.اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اس نے ہمیں صلاحیتیں اور استعدادیں بخشی ہیں اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ سامانوں اور اسی کی ہدایت کے نتیجہ میں اور اسی کی منشاء اور تصرف سے ہر انسان لمحہ بہ لمحہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہوتے ہوئے اپنی حد کمال تک پہنچتا ہے.تو انسان کو اگر اپنی عاجزی کا شدید احساس ہو اور اللہ تعالیٰ

Page 136

خطبات ناصر جلد چہارم ١١٦ خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء کے رب ہونے کی سچی معرفت حاصل ہو تو یہی دراصل اس کی ترقی کا زینہ اور فلاح کی کنجی ہے.چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے ایسے بندے ہوتے ہیں یعنی جولوگ استقامت دکھاتے ہیں.حق کے ہر کام میں ثبات قدم ہوتا ہے.جو میرے قریب آکر پھر دُور نہیں ہو جاتے بلکہ میرے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور وہ جو میری صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاتے اور اپنی قوتوں کو جنہیں میں نے عطا کیا ہے میری ہی بیان کردہ ہدایات کے مطابق ان کو نشو و نما دینے کی کوشش کرتے اور اپنی دعاؤں کے ذریعہ میرے فضل کو جذب کرتے ہیں.فرماتا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور انہیں یہ تسلی دلاتے ہیں کہ تمہاری انتہائی کوشش کے باوجود اگر کوئی بشری کمزوریاں رہ گئی ہوں تو حزن نہ کرو.اللہ تعالیٰ ان کمزوریوں کو ڈھانپ دے گا اور ان کے بداثرات سے تمہیں بچالے گا لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کچھ لوگ خدا تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اور اس کی آواز پر لبیک نہ کہتے ہوئے شیطان کی طرف مائل ہوتے ہیں.نیز اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو ذاتی حقوق دیئے ہیں اور اس نے اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کے لئے جو مہمات چلائی ہیں، ان کے راستے میں وہ روک بنتے ہیں تو ان سے ڈرنے کی بات نہیں ہے کیونکہ وہ تمہارے رب نہیں ہیں تمہارا رب تو اللہ تعالیٰ ہے.پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قسم کی قوتیں اور صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں.جن میں بنیادی طور پر جسمانی قوتیں اور صلاحیتیں ہیں اور جن کی صحیح نشوونما ہونی چاہیے اور جن کی حقیقی اور صحیح حفاظت ہونی چاہیے.بہت سے نوجوان اور کم عمر بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو گندی عادتیں پڑ جاتی ہیں.جس سے ان کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور منشاء کے مطابق اور اس کے بتائے ہوئے طریق پر انسان کو اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو اجاگر کرنا چاہیے.ان کو نشوونما دینا چاہیے.دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کر کے اپنی قوتوں کی نشوو نما کو حد کمال تک پہنچانا چاہیے.چنانچہ اس سلسلہ میں میں نے پندرہ دن پہلے ایک مجلس صحت قائم کی تھی اور کہا تھا کہ

Page 137

خطبات ناصر جلد چہارم 116 خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء اگلے جمعہ ( یعنی ۱۰ / مارچ تک یہ کام شروع ہو جانا چاہیے یعنی کام کی ابتداء کر دی جائے.چنانچہ انتظامیہ بن گئی اور گذشتہ جمعہ کو پہلا وقار عمل ہوا.آج صبح دوسرا وقار عمل کیا گیا جس کا کچھ حصہ میں نے بھی جا کر دیکھا تھا.غرض اس سلسلہ میں کام کی ابتداء ہو گئی ہے.اللہ تعالیٰ اسے انتہاء تک پہنچانے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.ویسے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی انتہاء تو ہوتی ہی نہیں.تاہم یہ کام شروع ہو چکا ہے.اب ہم انشاء اللہ خدا کے فضلوں کو جذب کریں گے اور جذب کرتے چلے جائیں گے.صحت کے قیام اور جسمانی قوتوں کی کامل نشو و نما کے لئے صرف ورزش کافی نہیں.ہمارا ماحول بھی ایسا ہونا چاہیے جس میں گندگی نہ ہو کیونکہ ایک صحت مند ماحول کے اندر صحیح طریق پر جو ورزش کی جاتی ہے وہی جسموں کو مضبوط اور محنت کے قابل بناتی ہے اور ذہنی جد و جہد اور اخلاقی کوشش کے لئے سامان پیدا کرتی ہے.پھر یہ قدم ہم اس لئے بھی اٹھاتے ہیں کہ ہمارے لئے اگلا قدم اُٹھانا آسان ہو جائے یعنی ذہنی طور پر بھی ہم محنت کرنے کے زیادہ قابل ہو جائیں.پھر اس کے بعد تیسرا قدم ہے اخلاقی ذمہ داریوں کے نباہنے کا اور پھر اس سے اگلا قدم ہے روحانی ذمہ داریوں کے نباہنے کا.غرض ذہنی، اخلاقی اور روحانی ذمہ داریوں کے نباہنے کے لئے بھی مضبوط جسم کی اشد ضرورت ہے.بہر حال مجلس صحت کے کام کی ابتداء ہوگئی ہے.ان دو ہفتوں میں کچھ ستی بھی نظر آئی ہے جس کی طرف میں آپ کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں.پہلے ہفتہ میں ربوہ کے جتنے احباب وقار عمل میں شامل ہوئے تھے آج اس سے کچھ کم شامل ہوئے ہیں.یہ غلط بات ہے ہر دفعہ زیادہ سے زیادہ احباب کو وقار عمل میں شامل ہونا چاہیے.اگر ہر روز جماعت احمدیہ میں کئی بچے پیدا ہوتے ہیں ( گو یہ ٹھیک ہے کہ ربوہ میں تو روزانہ شاید ایسا نہیں ہوتا ہوگا لیکن جماعت احمدیہ میں بحیثیت مجموعی ) ہر روز کئی بچے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں پہنچنے چاہئیں.جو دوست اپنے بچوں کے مجھ سے نام رکھواتے ہیں ان کی تعداد بھی ہر روز قریباً دس پندرہ تو ضرور ہوتی ہے حالانکہ بہت کم احباب ہیں جو مجھ سے نام رکھواتے ہیں.خود ہی اپنے

Page 138

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۱۸ خطبہ جمعہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۷۲ء گھروں میں بچوں کے نام رکھ لیتے ہیں.کسی کو خیال آتا ہے تو وہ مجھ سے بھی نام رکھوا لیتا ہے کئی دوست مجھ سے پیار کا اظہار کرنے کے لئے یہ بھی لکھ دیا کرتے ہیں کہ بچے کی والدہ یا والد ، دادا یا دادی، نانا یا نانی یا کسی اور عزیز کو خواب آیا ہے کہ اس بچے کا یہ نام رکھا جائے.اس لئے آپ بھی یہ نام رکھ دیں.چنانچہ ایسے دوستوں کے لئے میں دعا کر دیتا ہوں اور ان کو لکھوا دیتا ہوں کہ یہی نام رکھ دو.اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے.پس جب روزانہ پیدا ہونے والے کئی بچوں کے نام رکھے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں بھی ہمارے کئی بچے روزانہ شامل ہورہے ہیں یعنی جو بچے اس مقررہ عمر کو پہنچے وہ اس میں شامل ہو گئے.غرض ہم نے کمی کی طرف نہیں جانا بلکہ آگے ہی بڑھنا ہے.ہم نے بڑھنا ہے، بڑھنا ہے اور ہر جہت میں بڑھنا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.ہم نے اپنی اُن تمام کھلی جگہوں کو جنہیں انگریزی میں Open Spaces (اوپن سپیسر ) کہتے ہیں خوش نما بھی بنانا ہے اور ان کو اس قابل بھی بنانا ہے کہ وہ تعفن کی جگہیں نہ رہیں بلکہ خوشبو دار جگہیں بن جائیں.ہمارے لئے آکسیجن بہت ضروری ہے.اس لئے ان جگہوں پر درخت بھی لگنے چاہئیں.یہ درخت Lungs (لنگز ) بھی کہلاتے ہیں اور یہ ہے بھی حقیقت کیونکہ شہروں میں یہ درخت وہی کام دیتے ہیں جو انسانی جسم کے لئے پھیپھڑے کام دیتے ہیں.اس لئے ہم نے درختوں کو واقع میں اپنی صحت کے قیام کے لئے پھیپھڑے بنانا ہے.پھر ان جگہوں کو ورزش کے لئے ہموار کرنا ہے.ان میں گھاس لگانی ہے.اس لئے یہ لمبا پروگرام ہے.اس کے کچھ حصے انشاء اللہ اسی سال پورے ہو جائیں گے اور کچھ اگلے سال مکمل ہوں گے مثلاً یہ جو چھوٹے درخت ہیں یعنی موسمی نہیں بلکہ مستقل رہنے والے یعنی سدا بہار یہ عموماً تین سال کے بعد قد نکالتے اور شکلیں بدلتے ہیں.اگر ہم نے یہ کام آج سے بیس سال پہلے شروع کیا ہوتا تو آج ربوہ کی شکل ہی اور ہوتی پھر ربوہ کے مکینوں کی صحتیں بھی یقیناً اس سے بہتر ہوتیں جو آج ہمیں نظر آ رہی ہیں.بہر حال یہ کام تو اب شروع ہو چکا ہے اب آپ کو اس میں کسی قسم کی سستی اور غفلت نہیں

Page 139

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۱۹ خطبہ جمعہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۷۲ء برتنی چاہیے.اس کام کے ابتدائی حصے مثلاً زمین کو ہموار کرنا ہے اس کے لئے باقاعدگی سے وقار عمل کئے جائیں.وقار عمل اب اسی کا ایک حصہ بن گیا ہے.ویسے بھی ہم وقار عمل کرتے رہے ہیں لیکن اب یہ وقار عمل مجلس صحت کا حصہ بن گیا ہے کیونکہ جب تک ہم ان جگہوں کو اس قابل نہیں بنائیں گے اس وقت تک وہاں کیسے کھیلا جائے گا.مگر وقار عمل کے لئے سامان کی ضرورت ہے.مجھے یاد ہے جب ہم نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے حکم سے قادیان میں پہلی دفعہ وقار عمل کیا تھا اس وقت خدام الاحمدیہ کے پاس شاید ایک کدال بھی نہیں تھی سب مانگے کا سامان تھا.دوستوں نے بڑے پیار اور محبت سے ہماری ضرورت کے لحاظ سے اپنے اپنے گھروں میں سے رنبے ، کدال ، گستی اور ٹوکریاں وغیرہ دے دی تھیں لیکن یہ سامان وصول کرنے اور پھر جب وقار عمل ختم ہو جاتا تھا تو واپس کرنے پر ہمارا بڑا وقت لگتا تھا.مجھے بعض دفعہ ظہر کی نماز تک بیٹھنا پڑتا تھا.ہر ایک دوست کے گھر اس کا سامان بھیجوانا بڑی ذمہ داری کا کام ہوتا تھا.ویسے ذہنی طور پر بھی یہ تربیت ہونی چاہیے کہ دوسرے آدمی کے سامان کو ہم نے کسی صورت میں نقصان نہیں پہنچنے دینا.چنانچہ اسی لئے میں بھی بڑی ذمہ داری محسوس کرتا تھا اور اپنی نگرانی میں ہر ایک کو سامان واپس بھجواتا تھا لیکن جس وقت ہم نے قادیان چھوڑا ہے اس وقت خدام الاحمدیہ کے پاس ۴، ۵ سو کدالیں اور بیلچے تھے.پانچ سو یا شاید ہزار ٹوکریاں تھیں اور اسی قسم کا دوسرا سامان بھی بہت تھا جس سے ہم کام کرتے تھے.مگر اس وقت خدام الاحمدیہ کے پاس ۷۵ کدالیں ہیں.انہوں نے اپنی ضرورت کے مطابق لی ہوئی ہیں لیکن میں انہیں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس سال ۵۰ کدالیں اور خرید لیں.اس طرح یہ سوا سو ہو جائیں گی.مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے پاس پتہ نہیں کوئی کدال ہے یا نہیں.ان کے پاس بھی ۷۵ کرالیں ہونی چاہئیں.اس طرح یہ کل دوسو کلا لیں ہو جائیں گی لیکن مجلس صحت کا اندازہ ہے کہ چار سو کدال ہونی چاہیے.اس لئے کچھ کرالیں ہمارا کالج خریدے، کچھ سکول خریدے اور کچھ جامعہ احمدیہ خریدے.ان اداروں سے میں یہ نہیں کہتا کہ تم اتنی اتنی کدال خریدو.وہ خود اپنے اپنے حالات کے لحاظ سے خریدیں.تاہم میرا خیال ہے کہ ہمارا کالج ۵۰ کدالیں آسانی سے خرید سکتا ہے لیکن بہر حال یہ میرا خیال ہے.وہ خود اپنا

Page 140

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۲۰ خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء جائزہ لیں اور اپنے حالات کے مطابق اس غرض کے لئے رقم خرچ کریں.دوسرا سامان بھی ہے کچھ وہ بھی خریدیں اور پھر اگلے سال ( بعض اداروں کا آٹھ نو مہینوں کے اندرا گلا سال آ جاتا ہے بلکہ سبھی کا آجاتا ہے ) اور خریدیں.پھر جو کمی رہ جائے گی اسے ہم پورا کر دیں گے.کچھ ٹیوب ویل بھی لگانے پڑیں گے.بہر حال پوری جد و جہد سے تم ربوہ کی شکل اس نیت سے بدل دو کہ باہر سے آنے والے دوست اسے دیکھ کر یہ کہہ سکیں کہ صفائی اور نفاست کے لحاظ سے اسلام نے کسی شہر کا جو معیار مقرر کیا ہے ربوہ اس پر پورا اترتا ہے اور ساتھ ہی یہ نیت بھی ہونی چاہیے کہ ہم اپنی صحتوں کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد ہونے والی بڑی عظیم اور بڑی بھاری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکیں.آخر غلبہ اسلام کی ذمہ داری کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے.ساری دنیا سے روحانی جنگ لڑی جارہی ہے.اس لئے ہمارا یہ پختہ عزم ہونا چاہیے کہ اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے ہم اپنی جسمانی اور ذہنی قوتوں کو پوری طرح صحت مند رکھیں گے تا کہ ہم تبلیغ واشاعت اسلام کا زیادہ سے زیادہ بوجھ اٹھا سکیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے زیادہ سے زیادہ محنت کر سکیں.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صحت کے قیام کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بیماری نہ آئے اور اگر کوئی ایسی بیماری ہو جس کے کیڑوں کا ایک انسان کے جسم میں ہونا ضروری ہو یا جس کے کیڑوں کا روحانی جماعت کے وجود میں رہنا ضروری ہو تو اس کا کوئی بداثر اُس انسان کے جسم یا روحانی جماعت کے وجود پر نہ پڑے غرض یہ امر بھی صحت کے قیام کے لئے ضروری ہے اور اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا کے ہر لحاظ سے ہم پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ ہم ہر قسم کے نفاق سے بچیں.کیونکہ نفاق کی بیماری ہمارے اُس خدا سے جو رب العلمین ہے دور لے جانے والی ہے.نفاق زدہ آدمی اپنے رب کی بجائے دوسری جگہ اپنے سہاروں کی تلاش کرتا اور نا کام ہوتا ہے.کیونکہ خدائے رب العلمین کے سوا اس کی مخلوق کے لئے اور کوئی سہارا نہیں ہے.پس یہ عرفان حاصل کرنا کہ اللہ تعالیٰ واقع میں ہمارا رب ہے ( یعنی جیسا کہ وہ چاہتا ہے ہم

Page 141

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۲۱ خطبہ جمعہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۷۲ء اس کا عرفان حاصل کریں.اس کی صفات کے متعلق علم حاصل کریں ) اور پھر اس اعتقاد اور یقین پر مستقل مزاجی اور ثبات قدم کے ساتھ قائم رہنا یہ روحانی صحت کے لئے بھی بڑا ضروری ہے.پچھلے جمعہ کو میں نے اپنے خطبہ میں منافقین کی بعض فتنہ پردازیوں کی طرف جماعت کو توجہ دلا ئی تھی اور اس قسم کے فتنے چونکہ جماعت کو بیدار کرنے اور بیدار رکھنے کے لئے بھی پیدا ہوتے ہیں.اس لئے میں خوش ہوں اور میرا دل خدا کی حمد سے لبریز ہے کہ اہالیانِ ربوہ کا وہی رد عمل ظاہر ہوا ہے جو ایک الہی سلسلہ کے افراد کا ہونا چاہیے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی احسن جزاء عطا فرمائے.لیکن ہمیں تو یہ یاد ہے ہم بھولے تو نہیں کہ ہماری جماعت قانون شکنی نہیں کرتی.تاہم قانون ہی نے خود حفاظتی کی ہمیں بہت ساری اجازتیں دے رکھی ہیں کیونکہ خود حفاظتی ہمارا انسانی حق ہے.خود حفاظتی ہمارا اخلاقی حق ہے.خود حفاظتی ہمارا قانونی حق ہے اور خود حفاظتی ہمارا شہری حق ہے.غرض جو انسانی حقوق کا دائرہ ہے یا اخلاق کا دائرہ ہے یا قانون کا دائرہ ہے یا شہریت کا دائرہ ہے، اس دائرہ کے اندر رہتے ہوئے ہم اپنی خود حفاظتی کا انتظام کریں گے اور اس پر کوئی عقلمند انسان اعتراض نہیں کر سکتا لیکن ہم قانون شکنی نہیں کرتے اور نہ کبھی کریں گے لیکن اگر ہمارا مخالف یہ سمجھتا ہے کہ وہ سر جو عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکا رہتا ہے اس کا اس طرح جھکنا خشية الله کے نتیجہ میں نہیں بلکہ بزدلی اور کمزوری کے نتیجہ میں ہے تو وہ بیوقوف اور جاہل ہے.ہمارا سر اپنے رب رحیم اور رب غفور کے حضور جھکا ہوا ہے اور خدا کرے کہ ہمارا سر اور ہماری آئندہ نسلوں کا سر ہمیشہ ہی خدا تعالیٰ کے حضور جھکا رہے.لیکن بیوقوف ہے وہ شخص جو ہماری اس عاجزی کو ہماری کمزوری یا بزدلی سمجھتا ہے کیونکہ وہ شخص جس نے خود کو تہی دست سمجھ کر اور خود میں کوئی طاقت اور قوت اور خوبی نہ پا کر اُس خدا کے دامن کو پکڑا ہے جس کے اندر ساری قو تیں جمع اور جس میں ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں، وہ نہ بزدل ہو سکتا ہے اور نہ کمزور.کیونکہ وہ تو حاکم اعلیٰ کے سایہ میں، پیار کرنے والے رب کی گود میں بیٹھا ہے.وہ کمزوری کیسے دکھا سکتا ہے.غرض یہ بزدلی اور کمزوری نہیں تاہم ہمارے سر ہمیشہ خدا کے حضور جھکے ہی رہیں گے کیونکہ ہم خدا کے عاجز بندے اور خود کو کچھ نہیں پاتے.ہم بالکل تہی دست ہیں لیکن ہم نے اس خدا کے

Page 142

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۲۲ خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء دامن کو پکڑا ہے جو سب قدرتوں کا مالک ہے.جو سب دولتوں کا مالک ہے.جو سب خزانوں کا مالک ہے.جو حقیقی عزت کا سر چشمہ ہے اور ہر قسم کا غلبہ اُسی سے ملتا ہے.غرض آپ نے بیداری کا جو مظاہرہ کیا ہے یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ جس کے کرنے کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو تو فیق عطا فرمائی ہے اس پر آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور میری دعائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو احسن جزاء عطا فرمائے.جس چیز پر آپ کو ہمیشہ ہی عمل کرتے رہنا چاہیے وہ ہے عاجزی.اس لئے آپ کو عاجزانہ را ہیں اختیار کرنی چاہئیں.آپ کو چاہیے کہ کبھی ان راہوں سے اِدھر اُدھر نہ ہوں.آپ یہ کبھی خیال نہ کریں کہ آپ کے اندر کوئی طاقت ہے یا کوئی خوبی ہے یا کوئی علم ہے.غرض تکبر اور غرور نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے آپ کو نہایت ہی عاجز بندے سمجھنا چاہیے.اتنے عاجز کہ ہم میں سے ہر شخص یہی سمجھتا ہو کہ اس سے زیادہ کمزور اور کوئی نہیں.اس سے زیادہ ناتواں اور کوئی نہیں.اس سے زیادہ کم علم اور کوئی نہیں اور اس سے زیادہ بے عزت اور کوئی نہیں یعنی جہاں تک ذاتی عزتوں کا سوال ہے.پس ہر احمدی میرے سمیت یہی سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ کمزور اور ذلیل اور ناکارہ اور تہی دست ہے لیکن اس تذلل اور عاجزی کے باوجود ہراحمدی نے اپنی زندگی میں اپنے زندہ خدا کی عظیم صفات کے جلوے دیکھے اور خود اپنی ذات میں محسوس کئے ہیں.چنانچہ جب ہم نے علی وجہ البصیرت خدا تعالی کا دامن پکڑا تو ہمیں یہ تسلی ہو گئی کہ ہم سے کمزوریاں تو سر زد ہونگی لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے لئے حزن کے سامان نہیں پیدا کرے گا.وہ ہمارے لئے رحمت کے سامان پیدا کرے گا دشمن جس رنگ میں بھی آئے ، جس طاقت کے ساتھ بھی آئے اس کا وہی حشر ہوگا جو ہمیشہ صداقت ، نیکی ، ہمدری اور خیر خواہی کے دشمنوں کا ہوا کرتا ہے.پس آپ بھی اور میں بھی اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ ہم کسی کو دکھ نہ پہنچا ئیں.ہم کسی کی برائی نہ سوچیں.ہم کسی کے لئے بددعا نہ کریں.ہم کسی کے لئے برائی نہ چاہیں ہم کسی کا حق نہ ماریں بلکہ حق دلانے کی کوشش کریں اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے جو دوسروں کے ہم پر حق ہیں اُن سے زیادہ ہم ان کو دے دیں تا کہ ہم اپنے رب سے بغیر حساب اجر کی امید رکھ سکیں.اگر تم

Page 143

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۲۳ خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء گن گن کر نیکیاں کرو گے تو گن گن کر تمہیں جزا مل جائے گی مگر گن گن کر جو جزاء ہوتی ہے وہ تو کافی نہیں ہوتی.اگر آپ سمجھیں اور سوچیں تو وہ نہ میرے لئے کافی ہے اور نہ آپ کے لئے کافی ہے.اس چھوٹی سی زندگی میں ہزار غفلتوں اور کوتاہیوں کے بعد انسان آخر کتنی نیکیاں کر لیتا ہے جن کے بدلے کی وہ امید رکھے اور سمجھے کہ وہ ابدی زندگی کے لئے کافی ہو جائے گا مثلاً اگر تم گن کر دس روٹیاں خدا کی راہ میں دو گے تو اس کے وعدہ کے مطابق گنی ہوئی سو روٹیاں تمہیں مل جائیں گی کیونکہ یہ اس کا وعدہ ہے کہ ایک نیکی کے بدلے دس گنا زیادہ ثواب ملے گا لیکن سو روٹیاں تو تمہاری اس تھوڑی سی زندگی کے لئے بھی کافی نہیں ہیں.پس اگر تم خدا تعالیٰ کی راہ میں گن کر دو گے تو تم گھاٹے میں رہو گے.تم ہلاک ہو جاؤ گے اس لئے تم خدا تعالیٰ کی راہ میں کوئی چیز گن کر نہ دو بلکہ ہر وہ چیز جس کے تم مالک ہو تم وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کر دو.پھر تم خدا تعالیٰ سے یہ کہو کہ اے خدا ! حساب کوئی نہیں اگر تو نے ہمارا حساب کیا تو پھر تو ہم مارے گئے.اس لئے ہم نے خلوص کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ جو کچھ ہم کر سکتے تھے وہ ہم نے تیرے حضور پیش کر دیا ہے.اس خیال سے نہیں کہ ہماری اس پیشکش میں کوئی خوبی ہے جسے تو ضرور قبول فرمائے گا بلکہ اس امید اور اس دعا کے ساتھ کہ تو باوجود ہزار کمزوریوں کے ان عاجز بندوں کی پیشکش کو محض اپنے فضل سے قبول فرمائے گا.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک صحیح رد عمل کی توفیق عطا فرمائی ہے وہاں آپ یہ دعا بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عاجزانہ راہوں پر چلنے کی توفیق بخشے اور ہم پر اس کے بے شمار فضل اور بے انتہا رحمتیں ” بِغَيْرِ حِسَابِ نازل ہوتی رہیں.تیسری بات جو میں اس وقت کہنی چاہتا ہوں.وہ ایک اور قسم کے فتنہ کے متعلق ہے جو نفاق کے ساتھ بہت ملتا جلتا ہے البتہ اس کی شکل کچھ بدلی ہوئی ہے اور اس کے متعلق اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ جس وقت واقع میں اور حقیقی طور پر دینا اللہ کہتا ہے اور پھر وہ پوری کوشش اور مجاہدہ کے ذریعہ اور انتہائی عاجزانہ دعاؤں کے نتیجہ میں استقامت دکھاتا ہے تو

Page 144

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۲۴ خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور وہ اُن سے ہمکلام ہوتے ہیں اور ان کو تسلی دلاتے ہیں کہ بے شک تم بشر ہو اور تم سے بعض کمزوریاں سرزد ہوں گی بایں ہمہ غم نہ کرو.تم سمجھتے ہو کہ تمہارا مخالف بڑا طاقتور ہے مگر خدا تعالیٰ سے تو کوئی شخص زیادہ طاقتور نہیں ہے.اس لئے تم اپنے دل میں کوئی خوف نہ لاؤ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ حزن نہ کوئی غم ہوتا ہے اور نہ اندیشہ.وہ نہایت بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں.چنانچہ جب اُن کا کوئی دشمن یا مخالف یہ سمجھتا ہے کہ اُس نے اُن پر انتہائی سخت وار کیا ہے.تو خدا کے یہ بندے سمجھتے ہیں کہ انہیں سب سے زیادہ سرور کے سامان مل گئے.وہ اس مخالفت سے روحانی طور پر ایک لذت حاصل کر رہے ہوتے ہیں.پس الہی سلسلوں پر بالعموم اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں امت محمدیہ پر بالخصوص اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑا فضل اور رحم نازل ہوا.اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے طفیل اپنے فضل سے نوازا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو محبت کی ہے اس سے بڑھ کر کسی سے نہیں کی.چنانچہ اس محبت کا یہ کرشمہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا تم اس وجود سے محبت کرو گے تو میری محبت کو پالو گے.غرض اس محبت کے طفیل اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ملتی ہیں.پس در اصل امت محمدیہ اولیاء کی اُمت ہے.اس میں بڑی کثرت سے ولی اللہ پیدا ہوئے ہیں.اب بھی پیدا ہور ہے ہیں اور انشاءاللہ قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ امت محمدیہ میں ایک ایک وقت میں ہزاروں اولیاء اللہ پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن ایک بات جو آپ کو کبھی نہیں بھولنی چاہیے اور جس کے متعلق خلفاء کو یاد دہانی کرواتے رہنا چاہیے.مجھ سے پہلوں نے بھی یاد دہانی کروائی ہے اور آج میں بھی کروانا چاہتا ہوں اور وہ یہ بات ہے اور بڑی ہی اہم بات ہے کہ امت محمدیہ میں ولایت جاری ہے.ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے اولیاء اللہ پیدا ہوتے رہے ہیں.آج ہماری جماعت

Page 145

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۲۵ خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء میں بھی موجود ہیں مگر یہ ولایت اور چیز ہے اور گدی والی ولایت اور چیز ہے.اس گدی والی ولایت کی اجازت ہی نہیں اور نہ یہ عنداللہ مقبول ہو سکتی ہے کیونکہ یہ نفاق کی حدود پر قائم ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے متعدد موقعوں پر جماعت کو یہ فرمایا ہے کہ بعض لوگ ولایت کی گدی بنا رہے تھے اور خلافت کے زمانہ میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی لیکن میں نے بتایا ہے کہ کئی منافق کہیں گے کہ انہوں نے جماعت میں کسی کے بھی ولی اللہ ہونے کا انکار کر دیا ہے یعنی یہ کہ جماعت میں اب کوئی ولی پیدا نہیں ہوگا.منافق اس قسم کے اعتراض ڈھونڈتے رہتے ہیں.آپ ان کو جواب دیں.جواب میں آپ کو بتا رہا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ اُمت محمدیہ اولیاء اللہ کی اُمت ہے.اس میں ایک ایک وقت میں ہزاروں لاکھوں اولیاء ہوتے رہے ہیں لیکن وہ ولی جو حقیقی معنی میں ولی ہوئے ہیں.جو اپنے عاجزانہ مقام کو پہچانتے ، اپنی عاجزانہ راہوں کو بھولتے نہیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور گرے رہتے ہیں.میں اس ولایت کی بات نہیں کر رہا.میں صرف اس گدی والی ولایت کی بات کر رہا ہوں جس کے متعلق مجھ سے پہلوں نے بھی کہا اور بعد میں آنے والے بھی کہتے رہیں گے کیونکہ یہ فتنہ ساتھ لگا ہوا ہے.اور اس گدی والی ولایت کی دو بڑی نمایاں خصوصیتیں ہیں.وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں.آپ خود ان کے مطابق ایسے لوگوں کو پرکھ لیں.چنانچہ بعض گدی والی ولایتوں میں دونوں خصوصیتیں پائی جاتی ہیں اور بعض میں پہلی یا دوسری خصوصیت پائی جاتی ہے.پس یہ گدی والی ولایت جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مکروہ ولایت ہے.جو دراصل ولایت ہے ہی نہیں.لوگ اپنے آپ ایسے شخص کا نام ولی رکھ دیتے ہیں.تاہم اس ولایت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایسا شخص اپنے خوابوں کو دُنیوی اموال کے حصول کا ذریعہ بنالیتا ہے.اس کے متعلق لوگوں میں یہ غلط طور پر مشہور ہو جاتا ہے کہ یہ بڑے بزرگ ہیں.ان کی دعائیں مقبول اور خوا ہیں سچی ہیں.اس لئے ان کو جا کر یہ دے دو وہ دے دو.ان کو کپڑے بنا کر دے دو.ان کے لئے یہ د کر دو وہ کر دو.پھر ایسے ” بزرگ اشارۂ یا کھل کر مانگتے بھی ہیں.چنانچہ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ فلاں ولی اللہ صاحب ہمارے ہاں آئے تھے.ان کے پاس کپڑے بھی نہیں تھے.انہوں

Page 146

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۲۶ خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء نے اس کا اظہار کیا تو ہم نے ان کو کپڑے بنا کر دیئے.یہ سن کر کہ جماعت احمدیہ میں کوئی ایسا ولی بھی ہو سکتا ہے مجھے تو پسینہ آ گیا کیونکہ ولایت کے معنے ہی اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرنے اور اپنے دل میں اس کی کامل خشیت رکھنے اور اسی کو ربنا، رہنا کہنے اور کسی دوسرے کو کسی قسم کا سہارا نہ سمجھنے کے ہوتے ہیں مگر جو لوگ دعاؤں اور خوابوں کو احتیاج پوری کرنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور خدا کو چھوڑ کر اس کے بندوں کے محتاج بنتے ہیں ایسی ولایت پر ہر احمدی بچہ اور بوڑھا جس نے احمدیت کو پہچانا ہے وہ تھو کے گا بھی نہیں.اسلام آپ کا اور میرا خدا تعالیٰ سے جو تعلق قائم کرنا چاہتا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنی جو محبت ہمارے اندر پیدا فرمائی ہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنی صفات کے جلوے مشاہدہ کروا کر ہمیں جس شدت کے ساتھ اپنی طرف کھینچا ہے اور اُس نے ہمیں اپنا جو حسن دکھایا ہے اس کی موجودگی میں ہماری نگاہ کسی اور کی طرف اٹھتی ہی نہیں.ایسی صورت میں ہم بندوں کے محتاج کیسے بن سکتے ہیں یا بندوں کی طرف راغب کیسے ہو سکتے ہیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے متعلق خود فرمائے مثلاً حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خدا نے فرمایا کہ یہ میرا اتنا پیارا ہے یہ میری راہ میں اسی طرح قربان ہونے والا ہے یہ میری صفات کے رنگ کو اس طرح اپنے اوپر چڑھانے والا ہے کہ اس سے زیادہ حسین شکل میں کسی اور نے میری صفات کے رنگ کو اپنے اوپر نہیں چڑھایا اور میری راہ میں اس سے زیادہ کسی نے قربانی نہیں دی.اس نے سب کچھ میری راہ میں قربان کر دیا.اس نے اپنی ساری قوتیں، طاقتیں اور صلاحیتیں کہ اتنی کسی اور انسان کو نہیں ملیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی وہ تمام قوتیں ، طاقتیں اور صلاحیتیں اپنے رب کی راہ میں قربان کر دیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہارے لئے نمونہ بن گیا ہے.تم اس سے پیار کرو گے.اس کے نقش قدم پر چلو گے اس کو اپنے لئے اسوہ بناؤ گے تو میرے پیار کو حاصل کر لو گے یعنی جو را ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجھ تک پہنچاسکیں اگر تم بھی ان پر چلو گے تو تم بھی کیوں نہیں پہنچو گے.تم بھی اگر مجھ تک پہنچ گئے تو اپنی اپنی طاقت کے مطابق تم بھی میری رحمت سے حصہ پاؤ گے.یا پھر خلفاء کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے

Page 147

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۲۷ خطبہ جمعہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۷۲ء اسوہ کی وجہ سے.آپ نے فرمایا ہے کہ میری اور میرے خلفاء کی سنت تمہارے لئے اسوہ ہے.خلیفہ سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو اپنا کچھ نہیں رکھتا بلکہ وہ نبی متبوع کے وجود کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اسی کا رنگ اس کے اوپر چڑھا ہوا ہوتا ہے.اسی لئے آپ نے فرمایا کہ خلفاء کی سنت بھی تمہارے لئے اسوہ ہے.یعنی اگر کسی وقت کسی مقام پر کسی زمانے میں میرا جوحسن ہے یا مجھ پر خدا تعالیٰ کی صفات کا جو رنگ چڑھا ہوا ہے وہ تمہیں صاف اور واضح طور پر نظر نہ آئے تو میرے خلفاء کی طرف دیکھ لینا کیونکہ جو ان کا رنگ ہے وہ ان کا اپنا نہیں ہے بلکہ میرے نائب ہونے کی حیثیت سے ان میں میرا ہی حسن جلوہ گر ہے.اُن پر میرا ہی رنگ چڑھا ہوا ہے.اگر زمانہ کی دوری یا مکان کی دوری کی وجہ سے تمہیں کوئی شبہ پیدا ہو تو اس وقت جو میرے نائب اور خلفاء ہوں گے اُن کے اندر تمہیں میرے حسن اور میری سنت کا اسوہ نظر آئے گا.اس لئے تم اُن کی پیروی کرنا.پس چونکہ خلفاء کا اپنا کچھ نہیں ہوتا اس لئے ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور یہ اس لئے نہیں کہ اس طرح خدا تعالیٰ اُن کو کوئی رفعت دینا چاہتا ہے.اُن کے لئے تو خدا تعالیٰ کا پیار کافی ہے.اس لئے ان کو تو کسی اور رفعت کی ضرورت نہیں ہوتی.اُنکی اطاعت کا حکم دراصل اس لئے دیا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ خدا تعالی تمہیں رفعت بخشا چاہتا ہے.اگر تم ان کی اطاعت نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ابلیس بن جاؤ گے اگر تم ابلیس نہیں بننا چاہتے تو پھر تمہیں خلفاء کی اطاعت کرنی پڑے گی.تمہیں ان کی کامل طور پر اور بشاشت کے ساتھ اطاعت کرنی پڑے گی.پس خلافت کے زمانہ میں یہ گدی والی ولایت ہو ہی نہیں سکتی.جب خلافت کا زمانہ نہ ہو تو اس وقت گدی والی خلافت سے ملتی جلتی خلافت ہوتی ہے.وہ بھی حقیقتا گدی والی خلافت نہیں ہوتی لیکن ایک تھوڑے سے دائرہ کے اندر ایک نائب رسول اپنی محدود صلاحیتوں کے ساتھ اُمت مسلمہ کے ایک حصے کے شیرازہ کو مضبوط اور ان کے اتحاد کو قائم رکھتا ہے.لیکن ہر خلافت کے زمانہ میں جہاں ہزاروں لاکھوں اولیاء ہو سکتے اور ہوتے ہیں وہاں ایک بھی خدا کا پیارا اور محبوب گدی والا ولی نہیں ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا پیارا کیا ہوا جس نے اپنی دعاؤں اور خوابوں کو اپنی

Page 148

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۲۸ خطبہ جمعہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۷۲ء روزی کا ذریعہ بنالیا ہو.کیا ایسا شخص خدا تعالیٰ کو رزاق نہیں سمجھتا کہ کسی دوسرے کی طرف ہاتھ اُٹھانے کی ضرورت پڑ گئی ؟ گدی والی ولایت کی دوسری خصوصیت جو پہلی سے بھی زیادہ مکروہ ہے اور بات کرتے ہوئے بھی گھن آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے ولی اللہ صاحب کہتے ہیں کہ ہم تو خدا تعالیٰ کی نظر میں بڑے محبوب ہیں.اگر کسی نے ہمارے خلاف بات کی تو آسمان سے قہر الہی نازل ہوگا اور اسے بھسم کر کے رکھ دے گا.میرے پاس ایسے احمقوں کی تحریر میں موجود ہیں جن میں انہوں نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے.بندہ خدا ! تم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑے ہونے کی کیسے اور کس طرح جرات کر رہے ہو.یہ تو خدا تعالیٰ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی وعدہ نہیں تھا کہ آپ کے مخالفوں کے تمام منصوبے نا کام کر دیئے جائیں گے مگر جہاں تک واقعات کا تعلق ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ناکام ہوئے.اسلام پہلے دور میں بھی آگے بڑھا.درمیانی دور میں بھی یہ انسانیت کے لئے فلاح کے سامان اور برکتوں کے سامان اور رحمتوں کے سامان کا موجب بنا رہا اور اب اس دور میں پھر اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اس کے حکم سے غلبہ اسلام کی ایک عالمگیر مہم جاری ہوئی ہے اور وہ آگے ہی آگے بڑھ رہی ہے.غرض حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی خدا تعالیٰ نے نہ یہ وعدہ دیا اور نہ ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ جس نے بھی آپ کے خلاف کوئی بات کی فوراً فرشتوں نے آکر اس کی گردن پکڑ لی.اب دیکھو آج عیسائیت ہزاروں کی تعداد میں ایسی کتابیں بھی شائع کر رہی ہے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اس قسم کی گالیاں دی گئی ہیں کہ ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے.جب ہمیں اُن کا علم ہوتا ہے تو ہمارے دل خون ہو جاتے ہیں.بایں ہمہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں تھا کہ جب بھی کوئی شخص حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواس قسم کی کوئی گالی دے گا تو اس پر فوراً قہر الہی نازل ہوگا اور وہ جلد ہی ہلاک کر دیا جائے گا.تم کہتے ہو کہ فلاں نے میرے متعلق یہ بات کی ہے اس لئے اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو دو چار کا پہلے ہوا ہے مگر اے گدی والے ولیو! تم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑے نہیں ہو اور نہ تمہاری اس بات میں کوئی

Page 149

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۲۹ خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء صداقت ہے.ہر مخلص مومن احمدی تمہاری اس حرکت کو نفرت اور کراہت سے دیکھتا ہے.مومنین کی یہ جماعت قہر الہی کے نتیجہ میں خدا نہ کرے کم نہیں بلکہ روز بروز بڑھ رہی ہے.مگر جو دو ایک ایسے آدمی ہیں جو قضائے الہی سے فوت ہو جاتے ہیں یا ان کے بچوں کی وفات ہو جاتی ہے تو تم کہہ دیتے ہو یہ ہماری وجہ سے ہوئی ہے.جو چیز حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے نہیں ہوسکی تمہاری وجہ سے بھی نہیں ہو سکتی.پس اس قسم کے جو اولیاء بنے بیٹھے ہیں ان کو اپنے دل سے اس قسم کے شیطانی وساوس نکال دینے چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جسے ہم ربنا " کہتے ہیں.اس رب نے اگر کسی انسان کے ساتھ انتہائی پیار کیا تھا تو وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیا تھا.چنانچہ آپ کے دشمنوں کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیئے گئے.جو آدمی آپ کے خلاف تلوار لے کر نکالا تھا اور سوچا تھا کہ میں تلوار کے ساتھ مسلمان کی گردن کاٹوں گا ، تلوار ہی سے اس کی گردن کاٹ دی گئی اور جو تلوار لے کر نہیں نکلا تھا بلکہ جس طرح آجکل کے زمانہ میں ہو رہا ہے جھوٹے ، غلط اور دھوکا دینے والے دلائل پر مشتمل لٹریچر کی اشاعت سے اسلام کے خلاف بدظنیاں پھیلائی گئیں اور جھوٹ بولے گئے اور افتراء پردازی کی گئی.غرض اسلام کو ذلیل کرنے کے لئے بالکل بودے اور فرسودہ دلائل دیئے گئے مگر ان دلائل کے مقابلے میں اور ان گالیوں کے خلاف آسمان سے بجلی نہیں گری.اس کے مقابلے کے لئے آسمان سے خدا کا مسیح نازل ہوا.جس نے دلائل کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسلام کو سچا ثابت کیا.پس جو چیز نا معقول بھی ہے اور جو چیز حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش کے خلاف بھی ہے اسے کس طرح روا سمجھا جا سکتا ہے.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دشمنوں کی بہت ایذا پہنچی تو خدا نے فرمایا اے محمد ! اگر تم کہو تو ہم ان کو تباہ کر دیتے ہیں آپ نے عرض کیا.اے میرے رب ! یہ لوگ ابھی میرے مقام کو پہنچانتے نہیں.آپ نے سوچا ہوگا کہ انہی کی نسل سے میرے فدائی نکلیں گے.پس نہ صرف یہ کہ اس موقع پر آپ نے اُن کے لئے بددعا نہیں کی بلکہ جب خدا تعالیٰ کا اذن ملا بددعا کا ، تب بھی آپ نے اُن کے لئے خدا کا رحم مانگا.

Page 150

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۳۰ خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء اُن کے لئے قہر الہی نہیں مانگا.غرض خدا تعالیٰ نے تو اس قسم کا کسی کے ساتھ وعدہ نہیں کیا ہوا کہ جو نہی وہ کسی کے لئے بددعا کرے وہ ہلاک ہو جائے.پھر یہ بات حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے بھی خلاف ہے.مگر اس قسم کے گدی والے ولی بڑی دلیری کے ساتھ اپنی ولایت کے حق میں وہ دلیل دیتے ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ دنیا میں مقبول ہو جائیں گے.پس قبل اس کے کہ خدا تعالیٰ جس طرح اپنی جماعتوں کے خلاف منصوبوں کو تباہ کرتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کا زبر دست قومی اور طاقتور ہاتھ تمہارے اس فتنہ کو تباہ کر دے اور تمہارے لئے تکلیف کا باعث بن جائے تم استغفار کرو اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہی تمہارا بھی رزاق ہے.تم مانگنا چھوڑ دو.وہ خدا جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار کرنے والا ہے.تم اُس کے پیار کے جلوے دیکھو کہ وہ کس رنگ میں انسان پر ظاہر ہوتے ہیں.تم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا مطالعہ کرو.تم دیکھو گے کہ اس عظیم انسان نے کسی کے لئے کبھی بددعا نہیں مانگی کیونکہ آپ ہر ایک کے لئے رحمت تھے.آپ کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ آپ رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء : ۱۰۸ ) ہیں.آپ پہلوں کے لئے بھی رحمت تھے اور بعد میں آنے والوں کے لئے بھی رحمت ہیں.آپ کی رحمت مکان اور زمان کے حدود کو پھلانگتی ہوئی ہر انسان تک پہنچی.آپ کے وجود سے ہرانسان نے خیر و برکت ہی پائی اور اگر کسی نے نہیں پائی تو اس نے اپنی حماقت کے نتیجہ میں نہیں پائی کیونکہ وہ تو خیر محض تھا.وہ تو خیر لے کر ہر ایک انسان کے پاس پہنچتا تھا.اُس نے رحمت کے سامان لے کر ہر انسان کے دروازے کو کھٹکھٹایا اور فرمایا کہ میں تمہارے پاس خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی برکتوں کے سامان لے کر آیا ہوں.کچھ لوگوں نے اُن رحمتوں اور برکتوں سے اپنے گھروں کو بھر لیا اور وہ خدا تعالیٰ کے پیارے بن گئے.کچھ لوگوں نے اس رحمت اور برکت کو دھتکار دیا اور وہ خدا تعالیٰ کے غضب کا مورد بن گئے.مگر آپ نے کسی کے لئے بددعا نہیں

Page 151

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۳۱ خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء مانگی اور نہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ وعدہ دیا تھا کہ جو بھی تیرے خلاف بدزبانی کرے گا یا غلط بات کہے گا اسے ہم فوری طور پر قہری تجلی سے ہلاک کر دیں گے.یہ تو خدا تعالیٰ کی منشاء کے خلاف ہے.خدا تعالیٰ کے فعل کے خلاف ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے خلاف ہے اور یہ بات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منشاء کے بھی خلاف ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں بھی خدا تعالیٰ کی صفات جلوہ گر ہیں.اس لئے جو بات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کی اس کے متعلق میں علی وجہ البصیرت یہ کہتا ہوں کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کی صفات کے خلاف ہے.اس لئے اے گدی والے ولیو! تم یہ ساری لڑائی عملاً خدا اور اس کی صفات اور خدا کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لڑ رہے ہو.اب اس بے ہودگی کی بناء پر تمہاری ولایت کی گدی کی کیا قدر و قیمت باقی رہ جاتی ہے.میں نے بتایا ہے ہم لاکھوں میں ہیں اور شاید جلد ہی کروڑوں تک پہنچ جائیں گے.ان لاکھوں میں سوائے چند ایک گنتی کے منافقین کے ہر ایک مخلص احمدی اس قسم کی ولایت کی گدیوں کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتوں اور برکتوں سے خدا کے قہر کا مورد نہیں بلکہ اس کے پیار کا مورد ہے.تم سے جو ایک دو نفرت کرنے والے قضائے الہی سے فوت ہو جاتے ہیں وہ تمہاری بزرگی کے ثبوت کی دلیل کیسے بن گئے.حالانکہ لاکھوں، لاکھوں ، لاکھوں اس بزرگی کی تردید کے لئے زندہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سایہ میں روحانی لذت اور سرور کی زندگی بسر کر رہے ہیں.پس اگر کوئی ایسا ولی ہے اور بعض کے متعلق پتہ لگا ہے کہ وہ ایسے ہیں تو ان کو تو بہ کرنی چاہیے اور استغفار کرنا چاہیے ورنہ ان کا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پیار کا دعویٰ ایک لغو دعویٰ بن جاتا ہے کیونکہ جب عمل اس کا ثبوت نہ دے تو دعوی لغو ہوتا ہے لیکن اگر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار کا دعوی ہے تو پھر آپ کی سنت کو اپنا نا پڑے گا.اگر خدا تعالیٰ سے عشق ہے تو پھر خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنی صفات کے جو جلوے دکھائے ہیں وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنی پڑیں گی.

Page 152

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۳۲ خطبہ جمعہ ۱۷ / مارچ ۱۹۷۲ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا بنایا ہے کہ اگر کوئی مخالف ایک سال میرے پاس رہے اور روزانہ صبح سے شام تک مجھے گالیاں دیتا رہے تب بھی میرے چہرے پر ملال نہیں آئے گا.مگر تم اس کے بیٹے بن کر (روحانی طور پر ساری جماعت آپ کے بیٹے ہیں ) اس کے خلاف، اس کی سنت کے خلاف ، اس کے اس جذ بہ کے خلاف اور اس کی اس صداقت کے خلاف اپنی ولایت کی گدی بناتے ہو؟ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے.از رجسٹر خطبات ناصر.غیر مطبوعہ )

Page 153

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۳۳ خطبہ جمعہ ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء غلبہ اسلام کی جو اہم تحریک جاری ہے اس میں پوری ہمت اور اخلاص سے حصہ لیتے چلے جائیں لب وو خطبه جمعه فرموده ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ بنصرہ نے یہ آیات پڑھیں :.وَلَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ وَكَانَ عَهْدُ اللهِ مَسْئُولًا - (الاحزاب : ۱۶) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرُكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ - (محمد : ۸) طَاعَةً وَ قَوْلُ مَعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللهَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم (محمد : ۲۲) فت وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجْهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصُّبِرِينَ وَنَبْلُوا أَخْبَارَكُمْ - (محمد: ۳۲) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ - ( محمّد : ۳۴) اور پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے مومن بندوں سے ایک پختہ عہد لیا تھا اور جو ہمیشہ لیا جاتا رہا ہے اور آپ پر ایمان لانے والے قیامت تک جس عہد

Page 154

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۳۴ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء کے پابند ہیں، وہ یہ ہے کہ جو لوگ حقیقی طور پر ایمان لائے ہیں، خدا تعالیٰ کی راہ میں انہیں جو مجاہدہ اور جد و جہد کرنی پڑے گی وہ اس سے منہ نہیں پھیریں گے، وہ اس سے پیٹھ نہیں دکھا ئیں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ عہد یاد دلایا ہے.قرآن عظیم جو قیامت تک کے لئے ایک کامل شریعت ہے ، وہ ہر صبح و شام ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ تم نے اس عہد کو بھولنا نہیں کیونکہ یہ ایک ایسا عہد ہے جو خدا تعالیٰ سے باندھا گیا ہے اور اس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا.حدیث میں آتا ہے کہ جس سے واقعی جواب طلبی کی گئی تم سمجھو کہ وہ ہلاک ہو گیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جب کسی پر رحم کرنے پر آتا ہے تو اس کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے وہ انہیں یہ جتاتا بھی نہیں ہے کہ اُن کے کیا گناہ تھے.وہ اپنی رحمت میں انہیں لپیٹ لیتا ہے اور نور کی چادر اُن کے گرد باندھ دیتا ہے.اُس انگلی دُنیا میں بھی کسی دوسرے کو بھی بلکہ خود اپنے آپ کو بھی پتہ نہیں لگے گا.خدا تعالیٰ کے نور اور اس کی رحمت کی چادر انسان اور اس کی بداعمالیوں کے درمیان کچھ اس طرح آجائے گی کہ خود انسان اپنے گناہوں ،غلطیوں ، کوتاہیوں، بے ادبیوں اور نافرمانیوں کو بھول جائے گا.کیونکہ اگر وہ نہ بھولے تو پھر جنت کا وہ تصور باقی نہیں رہتا جسے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے.لیکن مَنْ حُوَسِبَ عُذِّبَ یعنی جس کا واقعی ساب لیا گیا وہ ضرور ہلاک ہو گیا.مگر یہ عہد ایسا ہے جس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور چیزوں کے متعلق بھی فرمایا ہے کہ) تمہارا حساب لیا جائے گا.غرض یہ عہد ایک ایسا عہد ہے کہ یہ مسولا“ ہے یعنی تم سے اس کی جواب طلبی کی جائے گی.تمہیں اس کا حساب دینا پڑے گا.تم سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا اور تم سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا کہ تم نے یہ عہد کیا تھا اسے تم نے کیوں نہیں نباہا.پس یہ ایک بڑا پختہ عہد ہے جو بندوں سے لیا گیا ہے.مگر خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی ہلکا کام ہے جسے ہم نظر انداز کر دیں.انسان سوچتا ہے اتنی بڑی ذمہ داری میں نے نباہنی ہے.اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اس کی مہربانی کے بغیر میں 66

Page 155

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۳۵ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء اس عہد سے کیسے عہدہ برآ ہوں گا.چنانچہ اس کے متعلق بھی قرآن کریم ہی نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اگر تم ثبات قدم چاہتے ہو تو اس کا ایک طریق یہ ہے کہ إن تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرُكُمْ وَيُثَبِّتُ أَقْدَامَكُمُ یعنی اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط کرے گا.لَا يُولُونَ الْأَدْبَارَ میں بھی یہی بتایا گیا تھا ہمارا اپنے رب سے عہد ہے کہ ہم خدا کی راہ میں ثبات قدم دکھا ئیں گے اور مختلف رنگ کے مختلف جہاد میں سے کسی میں بھی ہم منہ نہیں پھیریں گے اور پیٹھ نہیں دکھا ئیں گے.اگر چہ ان آیات میں خاص طور پر جنگ کا ذکر ہے جو ظاہری سامانوں کے ساتھ لڑی جاتی ہے لیکن اس میں جو اصولی بات بیان ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیٹھ نہیں دکھانی.اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہیں پھیرنا بلکہ ہر حال میں ان کو نباہتے چلے جانا ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری ذہنیت ایسی ہونی چاہیے کہ تم ہر حالت میں اور ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو گے.اگر تمہارا یہ پختہ عزم ہوگا کہ تم خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو گے اور کسی صورت میں بھی اس عہد کے خلاف کام نہیں کرو گے تو آسمان کے فرشتے نازل ہوں گے جو تمہارے قدموں میں ثبات پیدا کر دیں گے اور پھر تم خدا تعالیٰ کی مہربانی سے اپنے عہد پر پورا اُتر و گے.پس يَنْصُرُكُمْ وَيُثَبِتُ اَقْدَامَكُمُ میں اس نصرت الہی کا وعدہ ہے جو خدا تعالیٰ کے فرشتے ثبات قدم پیدا کریں گے.کیونکہ اس کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا.اور اِنْ تَنْصُرُوا اللہ کے ظاہری طور پر صرف یہی معنے ہیں کہ مثلاً لوگ خدا کی راہ میں لڑنے کے لئے ہتھیار لے کر آگئے یا جہاد کے لئے پیسے دے دیئے بلکہ اللہ کے دین کی نصرت سے مراد وہ فدائیت ہے جو انسانی فطرت کا جزو بن جاتی ہے جو اس کی ذہنیت بن جاتی ہے جو انسان کی روح بن جاتی ہے.انسان کی ایمانی روح ہی یہ ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہنا ہے اور پھر دین کی یہ نصرت ہزار قسم کی ہو سکتی ہے.کیونکہ ہزار قسم کے مطالبات ہیں جو ہزار قسم کے مختلف حالات

Page 156

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۳۶ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء میں کئے جاتے ہیں.مثلاً مالی قربانیاں ہیں جان کی قربانیاں ہیں یعنی وقف زندگی کی شکل میں زندگی کی قربانی ہے.پھر اشاعت قرآن کے لئے جد و جہد ہے جو آج کل بڑے زور سے شروع ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں کامیابی عطا فرمائے اور یہ دراصل جہادا کبر ہے.کسی آدمی نے پتہ نہیں یہ کیسے کہہ دیا تھا کہ اسلام کی اشاعت کے لئے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار ہو، تب صحیح نتائج برآمد ہوتے ہیں.لیکن ہمیں تو خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے اور یہی حقیقی الہی آواز ہے جو ہمارے کانوں میں پڑی ہے اور جس کا ہم دنیا میں اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن ہے اور ہمارے دوسرے ہاتھ میں بھی قرآن ہے.قرآن کریم نے ہمارے دونوں ہاتھوں کو مصروف رکھا ہوا ہے.البتہ قرآن کریم جب یہ کہتا ہے تلوار پکڑ لو تو ہم تلوار پکڑ لیتے ہیں.لیکن قرآن کریم ہی جب یہ کہتا ہے کہ مدافعانہ تلوار کا زمانہ گزر گیا اب ہم نے تلوار کا کام قلم سے دکھانا ہے اب ہم نے تلوار کا کام نیکی کی باتوں کو بیان کر کے اپنی زبان سے دکھانا ہے.اب ہم نے میدان تبلیغ میں کو دکر ان لوگوں سے مشابہت حاصل کرنی ہے جو میدانِ جنگ میں کو دجاتے تھے.اب ہم نے میدان تبلیغ اور اشاعت اسلام کے میدان میں ڈٹ جانا ہے اور اس میں ثبات قدم کے ساتھ کوشاں رہنا ہے.ہم نے اس میدان سے منہ نہیں پھیرنا.کمزوری نہیں دکھانی.دُنیا کی لالچ میں نہیں پڑنا کیونکہ ہم نے خدا تعالیٰ کے ساتھ یہ عہد کیا ہوا ہے کہ ہم تیرے دین کی مدد کریں گے.پس یہ وہ ذہنیت ہے جس کی طرف اِنْ تَنْصُرُوا اللہ میں اشارہ کیا گیا ہے.یعنی اگر تم خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے اس طرح تیار ہو جاؤ گے کہ ہر دوسری چیز کو بھول جاؤ گے تو تمہاری یہی ایمانی روح خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کا ذریعہ بن جائے گی.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والے ہیں اور ہم نے آپ ہی کے ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کا مشاہدہ کیا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ جو آدمی خدا تعالیٰ کے عشق میں مخمور ہو جاتا ہے اس کو تو اس بات کی ہوش بھی نہیں ہوتی کہ میری کوئی تعریف کر رہا ہے یا نہیں ، میرے اوپر کوئی لعن طعن کر رہا ہے یا نہیں.وہ تو اللہ تعالیٰ کے عشق میں مست

Page 157

خطبات ناصر جلد چہارم ہوتا ہے.۱۳۷ خطبہ جمعہ ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء دل ریش رفتہ بکوئے دگر تحسین و لعن جہاں بے خبر پس یہ خدا تعالیٰ کے عشق میں مست ہونے کی جو حقیقت ہے اسی کی طرف اِنْ تَنْصُرُوا اللهَ میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی اگر تم اسی فدایا نہ ذہنیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرو گے اور کچھ ادھر اور کچھ اُدھر نہیں جاؤ گے (انہی آیات میں آگے یہ کہا گیا ہے، ان کی میں نے اس وقت تلاوت نہیں کی ان کا مفہوم بیان کر رہا ہوں کہ تم یہ نہیں کہو گے کہ ہم کچھ باتوں کی اطاعت کریں گے اور کچھ میں اپنی مرضی چلائیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم کچھ باتوں میں اپنی مرضی چلاؤ گے اور کچھ میں میری اطاعت کرو گے تو میری ساری لعنت تم پر پڑے گی.فرماتا ہے میں یہ نہیں کہوں گا کہ کچھ میری رحمت سے حصہ لے لو اور کچھ میرے قہر اور غضب سے حصہ لے لو.پس اس ذہنیت کا پیدا ہونا جس کی طرف اِنْ تَنْصُرُوا اللہ میں اشارہ کیا گیا ہے.بڑا ضروری ہے خصوصاً ایک احمدی کے لئے بڑا ضروری ہے اور احمد یوں میں سے اس گروہ کے لئے بڑا ضروری ہے.جنہوں نے خدا تعالیٰ سے ایک نیا عہد باندھا ہے کہ ہم اپنی زندگیاں تیرے دین کے لئے تیری راہ میں وقف کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اِن تَنْصُرُوا اللہ میں جس ذہنیت کی طرف اشارہ ہے اس کی مزید تشریح اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے طَاعَةٌ وَقَوْلُ مَعْرُوفٌ.کامل اطاعت کرنی ہے اور بے چون و چرا اطاعت کرنی ہے اور نیکی کی باتیں کر کے خدا تعالیٰ کی محبت کو دلوں میں پیدا کرنا ہے.قول معروف میں نیک باتوں کے پھیلانے کے معنے بھی آتے ہیں.اشاعت قرآن کے معنے بھی آتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے متعلق اور بنی نوع انسان کے متعلق نیک باتیں کرنے کے معنے بھی پائے جاتے ہیں.پس قول معروف کے صرف نیکی کی باتوں کو پھیلانے کے معنے نہیں جس طرح کہ ہم عام طور پر کہتے رہتے ہیں کہ نماز پڑھنی چاہیے.وضو کے ساتھ پڑھنی چاہیے شرائط کے ساتھ پڑھنی چاہیے،

Page 158

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۳۸ خطبہ جمعہ ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء وقت پر پڑھنی چاہیے، مسجد میں جا کر پڑھنی چاہیے، باجماعت پڑھنی چاہیے، خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنی چاہیے وغیرہ سینکڑوں ہزاروں احکام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا دو 66 ہے یہ بھی قول معروف ہے یہ بھی نیکی کی باتیں ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کو کہتے رہنا چاہیے ”ذکر“ میں بھی اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور امام کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو احکام یاد دلاتا رہے.چنانچہ میرا آج کا خطبہ بھی اسی ”ذکر“ کے نتیجہ میں ، اسی کی روشنی میں اور اسی حکم کے ماتحت ہے اس لئے کسی کے متعلق بدظنی کی بات نہ کی جائے.حسن ظن کی جو بات کی جاتی ہے عزت واحترام کی جو بات کی جاتی ہے.جو حقارت کی بات نہیں ہوتی جو پیارے پیارے نام رکھ کر بات کی جاتی ہے اور برے نام نہیں رکھے جاتے.حقارت، ہنسی اور تمسخر نہیں کیا جاتا، غرض یہ ساری باتیں قول معروف کے اندر آ جاتی ہیں یعنی نیکی کے احکام یاد دلانا اور دوسروں کے متعلق اپنی نیک رائے کا اظہار کرنا.بدظنی نہیں کرنی ، آپس میں بھی نہیں کرنی مگر جس کو خدا تعالیٰ نے امام بنا دیا ہے اس کے متعلق تو بالکل ہی نہیں کرنی کیونکہ اس میں اور بہت ساری ذمہ داریاں آجاتی ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ایک استاد کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے شاگرد کے متعلق اس قسم کی بات کرے اور اسی طرح شاگرد کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے استاد کے متعلق اس قسم کی بات کرے جو قول معروف کے منافی ہے.اسی طرح اگر تم امیر ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا کہ اپنے باور چی یا اپنے گھر میں صفائی کرنے والے کے متعلق قول معروف کے علاوہ کوئی اور بات کر وہ تم ان کے متعلق بھی نیک بات کرو.ان سے بھی پیار کی بات کرو ان سے بھی عزت واحترام سے پیش آؤ ورنہ قول معروف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے.پس ان تنصُرُوا الله کی رو سے تم نے اپنے اندر وہ ذہنیت پیدا کرنی ہے اور تم نے طاعة وَقَوْلُ مَعْرُوف کے لحاظ سے ایک تو کامل اطاعت کا نمونہ دکھانا ہے.دوسرے اپنے معاشرہ میں کامل محسن کا نمونہ دکھانا ہے کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے عظیم نور کی طرح خود بھی ایک عظیم نور تھے.آپ ایک ایسا نور تھے جس کی مثال کہیں نہیں ملتی.ایسا حسن کہ دو خوبصورتیوں میں کوئی دوئی نہیں ہے، کوئی غیریت نہیں ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو وو

Page 159

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۳۹ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء محسن اس کے قول کے ذریعہ ظاہر ہوا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو حسن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے ذریعہ ظاہر ہوا.اس میں یعنی ان دو خوبصورتیوں میں کوئی فرق نہیں ہے.پس اس سے یہ ظاہر ہوا کہ تم نے دوسروں کے متعلق نیکی کی باتیں بھی کرنی ہیں اور نیک باتیں بھی کرنی ہیں تم نے دوسروں کے متعلق بری باتیں نہیں کرنی.تم نے اطاعت کا کامل نمونہ دکھانا ہے.تب تم اِنْ تَنْصُرُوا اللہ کی بنا پر اس گروہ میں شامل ہو سکتے ہو جو يَنْصُرُكُمْ وَ يُثبت اقدامکم کا مصداق ہے.کیونکہ تم نے خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے ایک ایسا عزم کر لیا.ایک ایسا عہد کر لیا.ایک ایسی نیت کرلی اور ایک ایسا ارادہ کر لیا ہے جو تمہاری ساری زندگی کے ارادوں پر محیط ہو گیا ہے.تمہارا کوئی ارادہ اس سے باہر نہیں رہا.تم نے یہ پختہ عزم کر لیا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے باہر نہیں جائیں گے ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں آگے بڑھیں گے، پیچھے نہیں ہٹیں گے.جو تکالیف سامنے آئیں گی ہم ان سے بچنے کی کوشش نہیں کریں گے جو روکیں پیدا ہوں گی ہم ان کو پھلانگیں گے یا ان کو پرے ہٹا دیں گے.اس لئے تم میں سے کسی کا یہ کہنا کہ جی روک پیدا ہوگئی ہے.راہ میں کانٹے بچھ گئے ہیں پاؤں زخمی ہوتے ہیں دل دُکھتے ہیں سینہ چھلنی ہوتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ چھلنی ہو نے دو کیونکہ تم نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے تم خدا کی راہ میں قربانیوں سے منہ نہیں پھیرو گے اور پیٹھ نہیں دکھاؤ گے.میں نے کئی دفعہ کہا ہے اور میں یہ بات بڑی سنجیدگی سے کہتا رہا ہوں اور اسے اب بھی دُہرا دیتا ہوں کہ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تم سے یہ وعدہ نہیں کیا کہ (جب تم خدا کے دین سے پیٹھ پھیر لو گے تو وہ تمہاری پیٹھوں کی حفاظت کرے گا.اللہ تعالیٰ نے تم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ تمہارے سینوں کی حفاظت کرے گا.چنانچہ مسلمانوں کی تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جب بھی دشمن اسلام کے سامنے دعوی اسلام کرنے والے کی پیٹھ آئی اسے چھید دیا گیا اور جب بھی دشمن اسلام کے سامنے ایک مسلمان مومن کا سینہ آیا اور اس کا چہرہ سامنے آیا اور اس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو دشمن نا کام اور ذلیل ہوا.وہ اس دُنیا میں

Page 160

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۴۰ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء بھی ذلیل وخوار ہوا اور جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی ذلت ہے وہ تو اس دُنیا کی ذلت سے بھی زیادہ ہے.ویسے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی بھی چار پائی پر نہیں مرے گا.یا میری راہ میں شہادت نہیں حاصل کرے گا.کیونکہ زندگی اور موت تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے لیکن جہاں تک انسانی زندگی کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ تم اپنی زندگی میں جس نیک مقصد کی خاطر میری راہ میں ثبات قدم دکھاؤ گے اور پیٹھ نہیں پھیرو گے اس مقصد میں کبھی نا کام نہیں ہو گے.باقی بچے بھی مرجاتے ہیں ملیریا بخار سے بھی ٹائیفائیڈ سے بھی اور سل سے بھی بعض دفعہ ٹھوکر لگتی ہے بچے گرتے ہیں سر پر کسی ایسی جگہ چوٹ لگتی ہے جو جان لیوا ثابت ہوتی ہے.پس یہ مرنا تو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے لیکن جو شخص پیٹھ دکھاتا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا.وہ بیٹھ اس لئے دکھاتا ہے کہ اسے ابدی زندگی مل جائے مگر بعض دفعہ وہ پیٹھ دکھا کر اپنے گھر تک نہیں پہنچا ہوتا کہ راستے میں اس کی جان نکل جاتی ہے اگر ایسا کمزور ایمان اور منافق دس گھنٹے اور ایمان پر پختہ رہتا تو وہ جنت میں جاتا لیکن اُس نے آخری دس گھنٹوں میں اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کر لئے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اپنے اندر یہ ذہنیت پیدا کر لو تو تم ہر قیمت پر اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو گے تو میں آسمان سے تمہاری مدد کے لئے فرشتے بھیجوں گا اور وہ تمہارے قدموں کو مضبوط کر دیں گے اور تمہیں اس قابل اور اہل بنا دیں گے کہ تم اپنے وعدہ پر پورے اُتر سکو.تم نے خدا تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ تم پیٹھ نہیں دکھاؤ گے مگر تم بشری کمزوریوں کے ساتھ ہماری مدد کے بغیر اور فرشتوں کے سہارے کے بغیر اپنا یہ عہد پورا نہیں کر سکتے لیکن ہماری مدد یعنی فرشتوں کا جو سہارا ہے وہ تمہیں اس صورت میں مل سکتا ہے کہ اِنْ تَنْصُرُوا الله کی رو سے تم یہ عہد کر لو کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کریں گے یعنی غلبہ اسلام کے لئے جو جد و جہد ہو رہی ہے اور اشاعتِ اسلام کے لئے جو بڑی اہم تحریک شروع ہوئی ہے.ہم اس میں حصہ لینے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور کسی چیز کی پرواہ نہیں کریں گے خواہ کچھ ہو جائے

Page 161

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۴۱ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد سے کبھی باز نہیں آئیں گے.ہمارے دل میں کبھی یہ خیال بھی نہیں آئے گا کہ خدا کے دین سے منہ پھیر لیں.تب آسمان سے فرشتے آئیں گے اور تمہارے پاؤں کو صراط مستقیم پر مضبوطی سے قائم کر دیں گے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اِنْ تَنْصُرُوا اللہ کی کیفیت میں طَاعَةُ وَقَوْلُ مَعْرُوفٌ میں مانی ہوئی ہے.چنانچہ سورہ محمد میں آگے چل کر طاعة کے یہ معنے بیان ہوئے ہیں کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ بعض باتوں میں ہم تمہاری اطاعت کریں گے اور بعض باتوں میں اطاعت نہیں کریں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا نہیں ہو سکتا.تمہیں کامل اطاعت کرنی پڑے گی.اس وقت بھی اطاعت کرنی پڑے گی جب امام نے ابھی عزم نہیں کیا کیونکہ مومن اس وقت بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم اطاعت کریں گے پھر ان کے مشورہ اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق جب ایک فیصلہ ہو جاتا ہے تو وہ شخص جو مومن ہے اور پختہ ایمان والا ہے اور جو ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنا چاہتا ہے.جو کامل اطاعت کا نمونہ دکھا رہا ہوتا ہے.جو نیکی کی باتیں کرتا اور خود اپنے معاشرہ میں نیک باتیں کرتا ہے.وہ اس فیصلہ پر بے اختیار یہ کہہ اُٹھتا ہے.اے خدا! میری روح کی بھی یہی آواز ہے.جو تیرا حکم آیا ہے میں تیرا ممنون ہوں کہ تو نے میرے لئے پہلے ہی ہدایت کےسامان پیدا کر دیئے ہیں.لیکن ایک گروہ کمزور ایمان والوں کا بھی ہوتا ہے چنانچہ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ کی رو سے جس وقت عزم کیا جاتا ہے تو ایسے لوگ اطاعت نہیں کرتے یہاں یہ بات یا درکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فَإِذَا عَزَمْتَ (آل عمران : ۱۶۰) فرمایا ہے یعنی کسی کام کے عزم کا ایک آدمی ذمہ وار ہے اور دینی لحاظ سے ہر کام کے اصل ذمہ وار تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کیونکہ جھوٹا ہے وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پاگئے ہیں آپ زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے.اس لئے فَإِذَا عَزَمْت کی رو سے دراصل عزم انہی کا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میرے جیسے کمزور بندوں کو آپ کی نیابت میں کھڑا کر دیتا ہے.چنانچہ مجھ سے پہلے لاکھوں کروڑوں لوگ مختلف شکلوں میں آئے کئی اولیاء کی شکل میں آئے اور

Page 162

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۴۲ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء کئی محد ثین کی شکل میں آئے اور کئی خلفاء کی شکل میں آئے.دراصل تو خلافت ہی ہے لیکن خلافت کی آگے کئی شکلیں بن جاتی ہیں.غرض جو سلسلہ خلافت اس وقت قائم ہے اور پہلے بھی تھا کئی بزرگ اس شکل میں بھی آئے.لیکن خلافت ہی کی جو دوسری شکلیں ہیں اُن میں بھی آئے جیسے محدثیت ہے یہ بھی خلافت ہی کی ایک شکل ہے یا ان میں سے اولیاء اللہ اور مقربین الہی ہیں.اللہ تعالیٰ جن کو یہ کہتا ہے کہ اس محدود دائرہ میں اس تھوڑے سے وقت میں تم میرے بندوں کی اصلاح کرو اور میرے دین کی مدد کرو تو اگر اُن کا اپنا کوئی وجود ہو یا اگر اُن میں سے کوئی یہ سمجھے کہ میرا کوئی مستقل وجود ہے تو وہ احمق اور ہلاک شدہ ہے.روحانی لحاظ سے زندہ اور قائم اور زندگی دینے والے اور قائم رکھنے والے خدا تعالیٰ کے حکم (اصل تو اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن اس کے حکم ) اور اس کے منشاء اور اس کے فیصلہ کے مطابق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی حی و قیوم صفات کا آپ کو متصف بنادیا ہے.تب ہی تو یہ فرمایا اے محمد ! تو دنیا کا نور ہے.تب ہی تو فرمایا ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز کی طرف آؤ وہ تمہیں زندہ کرتا ہے.اگر آپ حی کی صفت کے مظہر اتم نہ ہوتے تو لوگوں سے یہ نہ کہا جا تا کہ اس آواز پر لبیک کہو کہ یہ تمہیں زندہ کر دے گی.پس عزم تو وہی ہے لیکن طفیلی طور پر نیابت میں دوسرے عزم بھی ہوتے ہیں.چنانچہ فَاِذَا عَزَمَ الأمرُ کی رو سے جس وقت امام وقت کوئی فیصلہ کرتا ہے تو ایک دوسرا گروہ بہک جاتا ہے یا جس وقت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیصلے کیا کرتے تھے تو منافق اور کمزور ایمان والے بہک جاتے تھے.حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللهَ اس عہد کو جو انہوں نے کیا تھا اگر سچ کر دکھاتے اور اس موقع پر جو عزم کیا گیا ہے وہ اگر چہ ان کے خیالات اور ان کی خواہشات اور ان کی مرضی اور ان کی سہولتوں کے خلاف تھا تو پھر بھی وہ کہتے کہ طاعة کا ہمارا عہد ہے.یعنی ہمارا یہ عہد ہے کہ کسی صورت میں ہم اپنے منہ نہیں پھیریں گے اور پیٹھ نہیں دکھائیں گے فرما یا فلو صَدَقُوا اللهَ اگر وہ اپنے اس عہد کو پورا کر کے اپنے عہد میں سچے ثابت ہو جاتے ہیں لگانَ خَيْرًا لَّهُمْ تو ان کے لئے بھلائی ہی بھلائی کے سامان پیدا ہو جاتے لیکن اگر وہ

Page 163

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۴۳ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء ایسا نہ کریں تو پھر اُن کے لئے شر کے سامان پیدا ہوں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہیں اس طرح چھوڑ نا تو نہیں تم یہ سمجھتے ہو کہ جس طرح دُنیا بھول کر تمہیں ثابت قدم سمجھتی ہے کامل اطاعت گزار سمجھتی ہے.قول معروف پر کار بند سمجھتی ہے.اللہ تعالیٰ کے دین کا مددگار مجھتی ہے.اُسی طرح تم اللہ تعالیٰ کو بھی دھوکہ دے لو گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تو تمہیں سمجھتے ہیں ہم دُنیا کو بھی بتا دیں گے کہ تم اپنے دعوی میں جھوٹے ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَنَبْلُونکھ ہم تمہاری ضرور آزمائش کریں گے اور اس سلسلہ میں یہ ابتلاء اور یہ امتحان اللہ تعالیٰ اپنے علم میں زیادتی کے لئے تو نہیں پیدا کیا کرتا یالا یا کرتا.یہ دوسروں کو دکھانے کے لئے لاتا ہے.خدا تعالیٰ کے علم سے تو کوئی چیز پوشیدہ رہ ہی نہیں سکتی.کسی لحظہ بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتی.یہ ابتلاء اور امتحان کیا خدا تعالیٰ خود جاننے کے لئے کرتا ہے (نعوذ باللہ ) کہ کیسی ہے اطاعت کیسا ہے اخلاص؟ کیسا ہے ایثار اور کیسی ہے فدائیت ! خدا تعالیٰ کو تو ان کا پہلے سے علم ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا سمجھ کر تم نے اپنے نفسوں کو دھوکا دیا کہ اگر ہم انسانوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں تو خدا تعالیٰ کو بھی دھوکا دے سکتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے مجھے تو تم دھوکہ دے ہی نہیں سکتے.لیکن میں اپنے بندوں کو بھی تمہارے دھوکے میں پھنسنے نہیں دوں گا.تمہارے لئے ابتلاء پیدا کروں گا.تمہارے لئے امتحان لاؤں گا پھر دُنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ مجاہد اور صابر کون ہے اور وہ جو پارسائی کی چادر اوڑھے ہوئے تھا اس کے اندر کتنا گند بھرا ہوا ہے ایسے شخص کا ظاہر تو تھا لیکن باطن نہیں تھا.اس کا چھلکا تو تھا لیکن مغز نہیں تھا اس کا جسم تو تھا مگر روح نہیں تھی.غرض ایسا شخص انسان کو بھی دھوکہ نہیں دے سکے گا کیونکہ خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ وہ نگا ہو کر بے مغز ہونے کی صورت میں اور ایک ایسے جسم کی شکل میں جس کے اندر روح نہیں ہے.دُنیا میں وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے سامنے آجائے گا اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَوْ صَدَقُوا الله تمہیں چاہیے تھا کہ تم اپنے عہد کو سچ کر دکھاتے اور اس بات کے لئے کہ تم اپنے عہد کو سچ کر دکھاؤ تمہارے لئے ابتلاء اور امتحان کے سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں پھر فرمایا.وَنَبْلُوا اخْبارَكُمْ ہم تمہارے اندرونے کی بھی آزمائش لیں گے یعنی ظاہر بین نگاہ صرف ظاہر کی کمزوریاں نہیں دیکھے گی بلکہ ایک ظاہر بین اور صاحب بصیرت و بصارت

Page 164

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۴۴ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء تمہارے اندر کی یعنی اندرونے کی کمزوریاں بھی دیکھے گا کیونکہ تمہیں ننگا کر کے دُنیا کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور تمہاری ساری شیخیاں کرکری ہو کر رہ جائیں گی.اس لئے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ فرمایا کہ اے ایمان کا دعوی کرنے والو! آطِیعُوا اللهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُول خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے چلے جاؤ.اس وقت تک کہ تم اس دُنیا میں آخری سانس لو اور میں اس تسلسل کا مفهوم وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ سے نکالتا ہوں چنانچہ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ میں فرمایا کہ تم اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو.کیونکہ نیکی کو سوائے بدی کے اور کوئی چیز ضائع نہیں کر سکتی.بہر حال نیکی بدی کو ڈھانپ لیتی ہے.ہر نیکی بدی کا کفارہ بن جاتی ہے.ہر نیکی خدا تعالیٰ کی آنکھ میں قہر کو بدل کر پیار کے جذبات پیدا کر دیتی ہے.لیکن اگر عمر کے آخری حصے میں نیکی کی بجائے بدی اباء اور استکبار ہو تو گویا سب نیکیاں رائیگاں چلی گئیں سب ضائع ہو گئیں.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! آخری وقت تک آخری سانس تک خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اور رسول کے نائبین کی اطاعت کرتے چلے جانا تا کہ ایسا نہ ہو کہ ولا تُبْطِلُوا اعمالکم کی رو سے تمہارا انجام بخیر نہ ہو اور تمہارے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے اور تمہارے اعمال باطل اور ضائع ہو جائیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں شیطان کے اس شر سے محفوظ رکھے.اللہ تعالی محض اپنے فضل سے ہمیں فرشتوں کے پہرے میں رکھ کر ہمارا انجام بخیر کرے اور دُنیا کی کوئی طاقت اور دُنیا کی کوئی قوت اور دُنیا کے سارے اموال مل کر بھی ہمیں جھوٹا ثابت کرنے والے نہ ہوں.( فَلَوْ صَدَقُوا اللہ میں جس کی طرف اشارہ ہے ) کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے مطابق ہم بچے ثابت نہ ہوں بلکہ عِندَ اللہ سچے ثابت نہ ہونے والے گروہ میں شامل ہو جا ئیں بلکہ ہم اس گروہ میں شامل ہوں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے مَنْ قَضَى نَحْبَهُ (الاحزاب: ۲۴) کیونکہ انہوں نے اپنے کام حسن سے، پیار سے، ایثار سے، فدائیت کے ساتھ اور عشق الہی میں مست ہو کر پورے کر دیئے اور اب وہ اپنے نیک انجام کو پہنچ گئے.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے نیک انجام کو پہنچے اور ہمیشہ ہر حالت میں ثابت قدم

Page 165

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۴۵ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۷۲ء رہے اور دُنیا کی ساری طاقتیں مل کر اور دُنیا کے سارے اموال جمع ہو کر اور دُنیا کے سارے جتھے متحد ہو کر بھی ہمارے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کر سکیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیار اس کی رحمت اور برکت سے اس کے فرشتوں کا ہمیں ہمیشہ سہارا ملتا رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی ہی نعمت ہمیشہ عطا روزنامه الفضل ربوه ۲۱ رمئی ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۵) فرمائے.

Page 166

Page 167

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۴۷ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء سے لبریز ہیں اس نے ہمیں ایک نئی بڑی اور اچھی مسجد عطا فرمائی ہے خطبه جمعه فرموده ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات پڑھیں :.وَ إِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَ اِسْعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَكَ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَيْنَا ۚ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَابُ الرَّحِيمُ - رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُم يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ابْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيهِمْ ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - (البقرة : ۱۲۸ تا ۱۳۰ ) b ط وَ مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا ق وُجُوهَكُمْ شَطْرَة لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِى عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ - كَمَا اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ ابْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ - (البقرۃ: ۱۵۱، ۱۵۲) وَ انَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا - وَ أَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ

Page 168

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۴۸ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا - قُلْ إِنَّمَا ادْعُوا رَبِّي وَلَا أَشْرِكْ بِهِ أَحَدًا - (الجن : ۱۹ تا ۲۱) اور پھر فرمایا:.کچھ گونج پیدا ہو رہی ہے کیونکہ لاؤڈ سپیکر کا انتظام عارضی ہے اور یہ دیکھنے کے لئے کہ کس قسم کے لاوڈ سپیکر یہاں زیادہ اچھے رہیں گے اس پر خاصا وقت لگتا ہے.انشاء اللہ اس کا مستقل انتظام ہو جائے گا.کل میں نے بھی آکر چیک کیا تھا.مسجد کے بعض حصوں میں آواز صاف نہیں پہنچتی.پوری توجہ سے سننے کی کوشش کریں جتنا سمجھ سکتے ہیں سمجھیں جتنا اخذ کر سکتے ہیں اخذ کریں.ویسے تو ایک مومن کا دل ہر وقت ہی اپنے رب کی حمد سے بھر پور رہتا ہے مگر آج ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء سے اس لئے بھی لبریز ہیں کہ اُس نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کے بہت سے دوستوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی اور انہوں نے اس مسجد کے لئے مال بھی دیا، وقت بھی دیا، توجہ بھی دی اور محنت بھی کی اور ساری جماعت نے دعا ئیں بھی کیں.جس کے نتیجہ میں ہمیں ایک نئی اور بڑی اور اچھی مسجد مل گئی ہے.فالحمد للہ علی ذالک.تاہم یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ پانچ دس سال تک یہی مسجد ہمارے لئے کافی رہے گی لیکن چونکہ سامنے جلسہ سالانہ کا میدان ہے.اس لئے امید ہے کہ کچھ وقت تک یہی مسجد ربوہ کی بڑی مسجد بنی رہے گی.پھر اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو اور مسجدیں بھی بنتی رہیں گی.در اصل مسجد میں صرف تین ہیں باقی مسجدیں تو ان کے اظلال ہیں اور یہ تین مساجد حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مساجد ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے.ان میں سے پہلی مسجد تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کی بعثت کے وقت بنوا دی تھی اور جسے ہم مسجد حرام بھی کہتے ہیں، خانہ کعبہ بھی کہتے ہیں اور بیت اللہ بھی کہتے ہیں.ویسے جہاں تک بیت اللہ کا تعلق ہے وہ تو ایک لحاظ سے ساری مساجد ہی بیت اللہ ہیں کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے.اَنَّ الْمَسْجِد اللہ لیکن مسجد حرام کو بیت اللہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ مسجد ہے جو خدا تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے بھی

Page 169

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۴۹ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء ہزار ہا سال قبل آپ کے لئے بنوا دی تھی.دوسری مسجد جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق رکھتی ہے وہ مسجد نبوی ہے اور وہ مدینہ میں ہے.تیسری مسجد معنوی لحاظ سے دور کے زمانے کی ایک مسجد ہے جسے مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے.وہ مسجد بھی ہے اور تعبیری معنی میں مسجد کی علامت بھی ہے تاہم اس کا تعبیری پہلو زیادہ نمایاں ہے یعنی اُمت محمدیہ میں سے جس شخص نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کی اور آپ کے عشق میں سب سے زیادہ سوزاں رہا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں جس نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اُمت محمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے جو بزرگ گزرے ہیں ( جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کے جو زندہ جلوے دیکھے ) اُن میں سے جس نے سب سے زیادہ حسین اور سب سے زیادہ احسان سے پر جلوے دیکھے وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محبوب مہدی معہود ہے جس کا زمانہ قرب قیامت کا زمانہ اور آخری زمانہ ہے.اس لئے اس کی مسجد کو بھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مسجد قرار دیا ہے.حدیث میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے.اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے.پھر کسی وقت مجھے یا کسی اور دوست کو موقع ملا تو وہ بڑی وضاحت کے ساتھ یہ باتیں جماعت کے سامنے رکھ دیں گے یا اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی تو میں بتا دوں گا یہ باتیں ہماری تعلیم ، ہمارے لٹریچر اور کتب سلسلہ میں پائی جاتی ہیں.بہر حال حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین مسجد میں ہیں.ایک وہ مسجد ہے جو خدا تعالیٰ نے ہزار ہا سال پہلے بنی نوع انسان سے بنوائی تھی اور پھر اس کی مرمتیں ہوتی رہیں اور جب اسکے نشان مٹ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ حکم دیا گیا کہ وہ اسے از سر نو تعمیر کریں کیونکہ اب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ قریب ہے اور چونکہ آپ کی عظمت اور آپ کا جلال ایسا ہے کہ اس کا انسانی ذہن احاطہ نہیں کر سکتا اور آپ کا نور اتنا عظیم ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بھی جب مستقبل کے افق پر نگاہ ڈالی تو انہوں نے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی جھلک کو دیکھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بھی

Page 170

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء زیادہ روشنی افق پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی دیکھی.اگر چہ اڑھائی ہزار سال بعد میں یہ سورج اپنی ظاہری شکل اور پوری شان میں دنیا پر ظاہر ہونا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی ایک جھلک دکھا دی تھی اور فر ما یا تھا کہ یہ نوراب بہت قریب ہے اتنا قریب ہے کہ گو یا روشنی کے مینار کی طرح نظر آ رہا ہے.غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا گیا تھا کہ اب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بہت قریب ہے اس لئے یہ مسجد ہے اس کے نشان مٹے ہوئے ہیں تم اسے ٹھیک کر دو میں (اللہ ) نے اسے اپنے حکم کے ماتحت اور اپنی منشاء کے مطابق ایک پاک وجود اور اپنے پیارے محبوب کے لئے بنی آدم کے ذریعہ بنوایا تھا اور اس کے ذرے ذرے پر میری برکات نازل ہو رہی ہیں.تم اسے از سر نو تعمیر کرو کیونکہ جس کی یہ مسجد ہے اس کو عنقریب دے دی جائے گی.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک تو وہ مسجد ہے جو خدا تعالیٰ نے بنوا کر آپ کو بالکل اسی طرح عطا فرمائی جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کو کوئی چیز دیتا ہے یا جس طرح پیار کرنے والا رب اپنے بہت ہی پیارے اور پیار کرنے والے بندے کو عطا فرماتا ہے.چنانچہ جب آپ کی بعثت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لو مسجد اس میں میری عبادت بجالا ؤ.آپ کی دوسری مسجد مدینہ کی مسجد تھی جو کہ خود حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بنوائی اور تیسری مسجد آپ کے محبوب ترین روحانی فرزند مہدی معہود کے ساتھ تعلق رکھتی ہے لیکن اس میں نمایاں پہلو تعبیری ہے گو علامت کے طور پر اس مادی دنیا میں مادی ذرائع سے اور ظاہری طور پر اینٹوں اور گارے وغیرہ سے بھی بنی ہے لیکن اصل یہ ہے کہ وہ آخری زمانہ کی مسجد ہے کیونکہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب مہدی معہود تمہاری زندگی میں یا جس نسل میں بھی پیدا ہو اور وہ تمہیں ملے تو میری طرف سے اُسے سلام پہنچا دینا اور معنوی طور پر اس میں اپنی تیسری مسجد کا ذکر ہے جس کے معنی یہی ہیں کہ کہنا کہ تمہاری مسجد کو میں نے اپنی مسجد قرار دے دیا ہے.یہ بھی پیار کا ایک اظہار ہے.اس لئے کہ جو کام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیا جانا تھا.وہی کام آپ کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ لیا جانے والا ہے.گو اس کام میں

Page 171

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۵۱ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء آپ کے ماتحت ہزاروں جرنیل پیدا ہوئے ہر زمانے میں ہزاروں پیدا ہوئے لیکن جس طرح آپ کے زمانہ میں اسلام اس وقت کی ساری دنیا پر غالب ہوا.اسی طرح آپ کی بعثت ثانیہ ( جسے ہم اسلام کی نشاۃ ثانیہ بھی کہتے ہیں) کے زمانے میں بھی اسلام نے ساری دنیا پر غالب ہونا ہے اور غالب ہونا ہے آپ کے محبوب ترین روحانی بیٹے اور آپ کے جرنیلوں میں سے عظیم ترین جرنیل کے ذریعہ جس کے سپاہی میں اور تم ہو.پس یہ وہ تین مسجدیں ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں کہلاتی ہیں.باقی تمام مساجد تو ان کے ظل ہیں.یہ مسجد بھی ظل ہے.اصل میں تو وہی تین مسجدیں ہیں اور اصل میں تو انہیں کے ساتھ حقیقی طور پر اور بلا واسطہ ان برکات اور فیوض کا تعلق ہے.جن کی بنیادی اینٹ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے.آپ کی ذات مجسم نور اور انتہائی بلند اور ا رفع ہے.دراصل جہاں تک روحانیت کا تعلق ہے.ہمیں ہر طرف (حضرت) محمد محمد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی نظر آتے ہیں.آپ کے علاوہ تو کوئی نظر نہیں آتا.کوئی آپ سے پہلے آیا تو اس نے بھی آپ ہی کے طفیل روحانی فیوض اپنے رب سے حاصل کئے اور کوئی بعد میں آیا تو اس نے بھی روحانی فیوض آپ ہی کے ذریعہ حاصل کئے.اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو یہ حکم دیا کہ برکتوں کا سرچشمہ اور فیوض کا منبع تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں.میں نے آپ کے ذریعہ بنی نوع انسان کے لئے تقرب کی راہیں کھول دی ہیں.قرب کی ان راہوں میں ایک بڑی راہ الصلوۃ ، یعنی نماز ہے جسے اس کی شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہوتا ہے اور نماز کی ادائیگی کا تعلق مساجد سے ہے اس لئے فرما یا تم مسجدوں میں اکٹھے ہوکر اجتماعی طور پر اپنے رب کے حضور جھکوتا کہ وہ برکات تم پر نازل ہوں.جن کا اجتماعی رنگ میں امت محمدیہ کو وعدہ دیا گیا ہے اور جن کی بشارتیں ملی ہیں.چنانچہ یہ حکم ان آیات میں ہے جو ابھی میں نے پڑھی ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.حَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ

Page 172

خطبات ناصر جلد چہارم دوسرے اس آیت میں فرمایا :.لئلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةُ اور تیسرے فرمایا:.فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي اور چوتھے فرمایا :.وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ اور پانچویں فرمایا :.وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ۱۵۲ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو.تمہیں اپنی زندگی کا یہ مقصد کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ تمہاری بہتری کے تمام سامان اور تمہارے مقاصد کی یاد دہانی کرانے والی ساری علامتیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد حرام یعنی بیت اللہ سے تعلق رکھتی ہیں.کچھ عرصہ ہوا میں نے بیت اللہ پر متواتر کئی خطبات دیئے تھے جو چھپ چکے ہیں.ان خطبات میں میں نے بتایا تھا ( اور جن کے بتانے کا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن ملا تھا ) کہ مسجد حرام کے ساتھ تئیس مقاصد وابستہ ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مکان کے لحاظ سے یا زمان کے لحاظ سے ( دونوں پہلو اس کے اندر آتے ہیں) تمہیں اپنی وجہ یعنی توجہ کو مسجد حرام کی طرف رکھنا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ فرمایا :.وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ - (الرحمن: ۲۸) اس کے معنے کرتے ہوئے امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے.” جو باقی رہنے والی چیز ہے وہ ایسے اعمال صالحہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کئے جاتے ہیں.یعنی وہ اعمالِ صالحہ جنہیں انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر بجالاتا ہے وہ گو یا وجه ربك کے مترادف ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو کوشش

Page 173

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۵۳ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء کی جاتی ہے.وہ قائم رہتی ہے اور باقی تو ہر عمل ضائع ہو جاتا ہے.چنا نچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک اور جگہ فرماتا ہے:.كُل شَيْءٍ هَالِكُ إِلَّا وَجْهَهُ (القصص: ۸۹) امام راغب نے اس آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَعْمَالِ الْعِبَادِ هَالِكُ وَبُطِلُّ إِلَّا مَا يُرِيدَ بِهِ اللهُ یعنی انسانوں کے اعمال میں سے ہر عمل ہلاک ہونے والا اور لایعنی اور باطل ہے سوائے اس عمل کے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.پس اس اعتبار سے فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَہ کے یہ معنے ہوں گے کہ تم اپنی نیتوں کو ایسا بناؤ کہ وہ ہمیشہ تعمیر بیت اللہ کے مقاصد کی طرف متوجہ اور مائل رہیں.تمہیں چاہیے کہ تعمیر بیت اللہ کے سلسلہ میں قرآن کریم میں جو مقاصد بیان ہوئے ہیں تم اُن سے نظر نہ ہٹاؤ.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُم حُجةٌ عملاً ظاہری طور پر بھی خانہ کعبہ کی حکومت تمہیں مل جائے گی.اس لئے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعویٰ تو یہ ہے کہ میں ابراہیمی دعاؤں کا پھل اور ثمرہ ہوں.اگر میری بعثت کے مقاصد میں بنی نوع انسان کی دینی اور دنیوی ترقیات اور رفعتوں کے حصول خانہ کعبہ کے مقاصد میں بیان ہوئے ہیں اور جن کے آخر میں یہ دعا کروائی تھی کہ ایسا نبی ہو جو تز کیہ کرنے والا ، حکمت سکھانے والا ، آیات بیان کرنے والا ہو وغیرہ اس سچے دعوی کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خانہ کعبہ پر کوئی غیر مسلم یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں کے علاوہ اور کوئی قابض رہے.پس ایک تو اس میں دوبارہ اس کو حاصل کرنے کی سعی کا بھی ذکر ہے کیونکہ اس کے بغیر تو وہ وعدے پورے نہیں ہوتے اور الزام آتا ہے یعنی اگر ایسا نہ ہوا تو غیر لوگ یہ الزام لگا ئیں گے کہ تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم ابراہیمی دعاؤں کے نتیجہ میں مبعوث ہوئے ہیں اور حالت یہ ہے کہ وہ مسجد حرام ، وہ بیت اللہ جو حضرت ابراہیم کے ذریعہ از سرنو تعمیر کروایا گیا تھا اور اس کے جو مقاصد بیان ہوئے تھے ان کے ساتھ تمہارا عملاً کوئی تعلق نہیں وہ تو غیر کے ہاتھ میں ہے.فرمایا یہ تو تمہیں

Page 174

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۵۴ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء ملے گا.تمہیں ملنا چاہیے مگر اس کے لئے تمہیں جد و جہد کرنی پڑے گی اور تمہیں جدو جہد کرنی چاہیے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہو گیا لیکن ابھی بات ختم نہیں ہوئی.اصل بات تو یہ ہے کہ تمہاری توجہ قیامت تک اس خانہ کعبہ کی طرف رہنی چاہیے.تمہاری نگاہ ہمیشہ اس کی طرف اٹھنی چاہیے تاکہ تمہیں معلوم ہوتا رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس عظمت اور جلال کا اعلان بنی نوع انسان کے سامنے کیا ہے، آپ اس کے مستحق ہیں کیونکہ آدم کے وقت میں پہلے نبی کے وقت میں جو انسان کی طرف آیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک گھر تیار کروایا اور ہزار ہا سال تک اس کی حفاظت کروائی.جب آپ کی بعثت کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اس کھوئے ہوئے خزانہ کو ڈھونڈیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی وحی کے ذریعہ انہوں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ حکم دیا کہ اس کی از سر نو تعمیر کرو کیونکہ جس کی یہ چیز ہے وہ مبعوث ہونے والا ہے.پس اس دعوئی کے بعد مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ یا بیت اللہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں کے سوا کسی اور کے پاس رہ ہی نہیں سکتا.اس حقیقت کو جاننے کے بعد وہ مسلمان بڑا ہی ناشکرا ہوگا جو اس کی طرف اپنے وجہ کو نہیں کرتا یعنی اپنی توجہ کو اس طرف نہیں رکھتا اور اپنے اندر یہ احساس نہیں پیدا کرتا کہ ہماری ساری ترقیات کا راز ان مقاصد کے حصول کی کوشش میں ہے جو خانہ کعبہ کے تعلق میں بیان کئے گئے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! خانہ کعبہ کی تعمیر کے جملہ مقاصد حاصل کرنے کی جدو جہد کرتے رہو تا کہ تم پر دشمن کا کسی طور پر بھی الزام نہ آئے نہ ظاہری طور پر کہ خانہ کعبہ تمہارے پاس نہیں اور نہ روحانی طور پر کہ دعویٰ تو کرتے ہو مگر تم اس کے مطابق اپنی زندگیاں نہیں گزارتے اس واسطے تمہارا یہ فرض ہے کہ فولُوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَها تم ہمیشہ اپنی نیست اور مقصد یہ رکھو کہ خانہ کعبہ کے ساتھ جو برکات اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں یا خانہ کعبہ کے جو مقاصد اس نے بیان فرمائے ہیں.ہم اُن مقاصد کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو ڈھالیں گے.

Page 175

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۵۵ خطبه جمعه ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء پھر اللہ تعالیٰ کے اس عظیم اور نہایت پر جلال فعل کو دیکھیں کہ اس نے کس طرح ہزار ہا سال پہلے ایک منصوبہ بنایا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بابرکت ظہور کا.جس سے آپ کی عظمت اور جلال بھی ظاہر ہوتا ہے.انسانوں کو پتہ ہی نہیں تھا.انبیاء علیہم السلام کو اس نور کی صرف ایک جھلک دکھائی گئی تھی یعنی علم الہی میں اس نور کا ادھر بھی اور اُدھر بھی پر تو پڑ رہا تھا.ایک روشنی تھی جو ماضی کو بھی منور کر رہی تھی.ایک روشنی تھی جو مستقبل کو بھی روشن کر رہی تھی اور قیامت تک پھیلی ہوئی تھی.باوجود اس کے کہ ایک لحاظ سے آپ اس مادی دنیا کے مادی بشر تھے مگر روحانی طور پر آپ کی عظمت اور جلال کا اظہار دیکھو.فرمایا میرا وہ محبوب آرہا ہے جو انسانیت کا نچوڑ ہوگا.وہ میرے قریب تر ہونے والا ہے اور عملاً قریب تر رہے گا.کیونکہ روحانی طور پر آپ کی زندگی ماضی حال اور مستقبل پر اثر انداز ہے ایک ابدی حیات.باقی جب سے اور جب تک خدا تعالیٰ نے چاہا آپ کو زندگی عطا فرمائی.ہم تو عاجز بندے ہیں.ہمارا تخیل تو ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا.بہر حال اتنا ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ پہلے نبی کے وقت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا اظہار ہونا شروع ہو گیا تھا اور علم الہی میں تو یہ ہمیشہ سے موجود تھا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس عظمت اور جلال کو دیکھنے کے بعد کیا تم غیر اللہ سے ڈرو گے اور تمہارے دل میں اُن کا خوف پیدا ہو گا.تم خدا تعالیٰ سے ڈرو جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات کو دنیا میں پھیلانے اور بڑھانے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے انسانوں کے ذریعہ اپنا کام شروع کروایا تھا اور کہا تھا کہ میرا پیارا آنے والا ہے تم اس کے لئے تیاری کرو اور پھر اس کی عظمت کو دیکھو کہ ہزار ہا سال تک ایک نبی کے بعد دوسرا نبی ، ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی رہی لیکن اللہ تعالیٰ کی جو سکیم تھی وہ جاری رہی.پس یہ اس کی عظمت اور جلال کا اظہار ہے.اب خانہ کعبہ اور اس کے مقاصد کے ذکر میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد خالی از حکمت نہیں ہے کہ فَلَا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَون یعنی غیر اللہ سے نہیں ڈرنا.صرف میرا خوف تمہارے دل میں ہونا چاہیے.چنانچہ جیسا کہ ہم میں سے سب چھوٹے بڑے جانتے ہیں اور یہ بات اکثر ان کے کانوں

Page 176

خطبات ناصر جلد چہارم ܪܬܙ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء میں پڑتی رہتی ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے تو اس سے ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دل میں یہ خوف ہے کہ کہیں خدا تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائے ہمارے دل میں یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ہم اپنے گناہوں اور غفلتوں کی وجہ سے خود کو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں سے محروم نہ کر لیں جنہیں وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہمیں عطا کرنا چاہتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا یہی خوف ہے جو ہمیں ہر وقت لاحق رہتا ہے اللہ تعالیٰ کی اس عظمت اور جلال کا خوف رہتا ہے جس کے احساس سے انسان خود کو اور ہر دوسری مخلوق کو لاشئی محض سمجھتا ہے.فرمایا تم نے اس عظمت اور جلال کو خانہ کعبہ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں دیکھا ہے اس لئے فَلَا تَخْشُوهُمْ وَاخْشَون کسی اور سے نہ ڈرنا.مجھ سے ڈرتے رہنا پھر فرما یا قرآن کریم میں ہم نے خانہ کعبہ کے جملہ مقاصد بیان کر دیئے ہیں.اس لئے ہر عقلمند آدمی یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ سارا منصوبہ بنی نوع انسان کی بھلائی اور رفعتوں کے لئے ہے اور یہ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ وَلِأُتِمَّ نِعْمَتَى عَلَيْكُمْ تا کہ میں اپنی کامل نعمتیں تم پر بارش کی طرح نازل کروں اور اس اتمام نعمت کے نتیجہ میں وَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ تم ایسی فلاح اور کامیابی حاصل کرو کہ جس سے بہتر اور جس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی ہو ہی نہیں سکتی.جن آیات میں خانہ کعبہ کے مقاصد بیان ہوئے ہیں ان کے آخر میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی دعا کی گئی ہے جو آیات میں نے پڑھی ہیں ان میں اس دعا کی قبولیت کا ذکر ہے.فرمایا:." كما اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمُ ابْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُم الكتب وَالْحِكْمَةَ 66 تا انسان کو یہ یاد دہانی کرائی جائے کہ فوتُوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَہ کے اصل معنے کیا ہیں.قرآن کریم کی ہر آیت کے ایک سے زائد بطون اور بہت سے معانی ہوتے ہیں لیکن مضامین اور معانی کا جو سلسلہ میں اس وقت بیان کر رہا ہوں اس میں فَوَلُوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَہ کے

Page 177

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۵۷ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء معنے کی وضاحت کے لئے آگے یہ نتیجہ آ گیا ہے کہ كما اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمُ ابْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ - فرما یا وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، وہ خدا کا پیارا اور محبوب جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کا نتیجہ اور امیدوں کا مرکز اور جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش گوئیوں پیش خبریوں اور بشارتوں کے مطابق مبعوث ہونا تھا.وہ آ گیا اور جن مقاصد کے لئے اسے مبعوث کیا جانا تھا اُن مقاصد کے پورا ہونے کا زمانہ آ گیا.اس لئے فَوَلُوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَها تم ان مقاصد کو نظر انداز نہ کر دینا ورنہ تم پر الزام بھی آئے گا.تم شیطان کے حربوں سے نقصان بھی اٹھاؤ گے.اتمام نعمت کے راستے میں روکیں بھی پیدا ہوں گی اور اس طرح تم آخری فلاح حاصل نہیں کر سکو گے لیکن اگر تم نے اپنی پوری توجہ خلوص نیت اور پختہ عزم کے ساتھ ان مقاصد کو یا د رکھا اور ان کے حصول کے لئے کوشش کی جن کا تعلق خانہ کعبہ کی تعمیر کے ساتھ ہے تو پھر یا درکھو! د نیا تم پر الزام نہیں دھر سکے گی کیونکہ تم سے خدا تعالیٰ کا پیار اور اس کی محبت کا سلوک دنیا کے سارے الزاموں کو مٹادے گا.پس تم اس پیار کو حاصل کرو.دنیا اگر اِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُم کی رو سے ظلم کی راہ اختیار دوو کرے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو دیکھتے ہوئے بھی تم پر الزام لگائے تو تم اس کی پرواہ نہ کرو کیونکہ بصارت رکھنے والی دنیا ، آنکھیں رکھنے والی دنیا اور عقل رکھنے والی دنیا اعتراض نہیں کر سکے گی.دنیا یہ اعتراض نہیں کر سکے گی کہ تم ان مقاصد کو بھول گئے ہو یا یہ کہ اس زمانے میں خانہ کعبہ تمہارے قبضے میں نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا مسلمانو! خانہ کعبہ یا بیت اللہ تمہیں ملے گا اور پھر قیامت تک تمہارے پاس رہے گا لیکن جن ذمہ داریوں کا تعلق خدا تعالیٰ کے اس گھر سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تحفہ اپنے پیارے بندے، اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا تھا.ان ذمہ داریوں کو ہمیشہ اپنی نگاہ میں رکھنا.ان کو کبھی نظر انداز نہ کر دینا.پھر سوائے ظالموں کے کسی اور کا تم پر اعتراض نہیں رہے گا.کوئی حجت نہیں ہو گی.تم اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے دیکھنے لگو گے.پھر اندھیرے تمہاری نگاہ کے سامنے نہیں آئیں گے کیونکہ جب تم اللہ تعالیٰ کا خوف

Page 178

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۵۸ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء دل میں پیدا کر لو گے تو پھر تم اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے دیکھو گے اور تم پر اس کی نعمتیں نازل ہوں گی.فرما یاو لاتم نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہو نے والی اُمت ( جسے ہم اُمت مسلمہ کہتے ہیں ) تم پر اتمام نعمت ہو جائے گی.پھر دنیا یہ ماننے پر مجبور ہو جائے گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام بنی نوع انسان اور تمام مخلوق کے رب نے وہ پیار جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس اُمت سے کیا وہ پیار اور کسی سے نہیں کیا.پھر فرمایا وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اس پیار کے نتیجہ میں کامل اور آخری کامیابی تمہیں نصیب ہو گی.مگر دامن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک دفعہ پکڑ کر پھر اس کو چھوڑنا نہیں.پھر تم خدا تعالیٰ کی آنکھوں میں اپنے لئے وہ پیار دیکھو گے جو دنیا کے سارے خزانوں اور دنیا کی ساری نعمتوں سے کہیں بڑھ کر ہے پھر تمہیں کسی کی کیا پر واہ رہے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک ذمہ داری تم پر یہ بھی ہے کہ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ.فرماتا ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ تین مساجد جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں ان کے ظل کے طور پر مساجد بھی بنائی جائیں (اگر وہ مسجد ضرار نہ ہوں یعنی وہ مسجد میں جن کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ ذکر آیا ہے کہ بلکہ ایسی مساجد ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اُيْسَ عَلَى التَّقوى - (التوبة: ۱۰۸) یعنی جو پہلے دن ہی خلوص نیت کے ساتھ ، اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اس سے ڈرتے ہوئے اور اس کی پناہ میں آنے کی غرض سے بنائی جاتی ہیں.ایسی مسجدوں کے متعلق خدائی فیصلہ یہ ہے کہ ان کے دروازے ہر موحد کے لئے کھلے ہیں.خواہ وہ اسلام قبول کرتا ہو یا نہ کرتا ہو.وہ موحد ہونا چاہیے.پس یہ وہ عمل کا مقام ہے.اگر خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق عمل کیا جائے تو یہ امر ہر قسم کے شر اور فساد کو دور کرنے والا ہے لیکن اس بات کو پھر واضح کر دیا.فرمایا یا درکھنا فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ احدًا خدا کے اس گھر میں غیر اللہ کی عبادت نہیں ہوگی.اگر چہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے راستے میں بھی روکیں پیدا کی جائیں گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ أَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ ل وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدَ اضِرَارًا وَ كَفَرَا وَ تَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ - (التوبة: ١٠٧)

Page 179

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۵۹ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا - (الجن : ۲۰) یعنی مساجد کے دروازے خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والوں پر بند کر دیئے جائیں گے وہ پرستش کرنے والے جن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ ہوگی.مگر وہ جو آنکھوں سے محروم ہیں.وہ جن کو بصارت عطا نہیں ہوئی اور وہ جن کو روحانی طور پر فراست نہیں ملی وہ ایسے لوگوں پر بھی خدا تعالیٰ کی مسجدوں کے دروازے بند کر دیں گے جن کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ سے سوزاں ہوں گے.لیکن خدا تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اس شخص پر مسجد کے دروازے بند کر تے ہو جو علی الاعلان یہ کہتا ہے إِنَّمَا ادْعُوا رَبّی میں خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والا ہوں.اس لئے ہر وہ شخص جو خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنا چاہتا ہے اس کے لئے مساجد کے دروازے کھلے ہیں.پھر فرما یا تم اس شخص پر مسجد کے دروازے بند کرتے ہو جو کہتا ہے وَلَا اشْرِكُ بِہ اَحَدًا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے نظارے دیکھنے کے بعد شرک کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.پس ہر وہ شخص جو موحد ہے ہم اس کو یہ کہتے ہیں کہ شرک کی باریک راہوں سے بچنے کی کوشش کرتارہ اور ہماری مسجدوں میں آتارہ اللہ تعالیٰ ہمارے طفیل شاید تمہاری بھلائی کے سامان بھی پیدا کر دے گا.غرض یہ بھی ایک مسجد ہے جو مساجد نبوی کے ظل کے طور پر بنائی گئی ہے.یہ ایک اور مسجد ہے جس کے بنانے کی کوشش اور جس کے بنانے میں محنت کرنے والوں کا ایک حصہ تو یقیناً ایسا ہے جنہوں نے شروع ہی سے تقویٰ کے طریق پر اور دعاؤں کے ساتھ اس مسجد کے ذرہ زرہ میں برکت ڈالنے کی کوشش کی.جب کہ دوسرے حصے کے متعلق ہم یہ حسن ظن رکھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اس سلسلہ میں پیسے دیئے تو وہ نیک نیتی کے ساتھ دیئے.اگر محنت کی تو وہ صدق دل کے ساتھ کی اور اگر وقت دیا تو وہ خلوص نیت کے ساتھ دیا تا کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اس عمارت کو ان کے لئے الہی برکتوں کا موجب، اس کی رحمتوں کے حصول کا ذریعہ، اس کے فضلوں کو جذب کرنے کا سبب بنا دے.ہماری یہ دعا ہے کہ خدا کرے ہم سب کی دعائیں قبول ہو جائیں.خدا کرے

Page 180

خطبات ناصر جلد چہارم 17.خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء ہم سب کی محنتیں بار آور ہوں.خدا کرے ہم سب کی قربانیاں اور ہمارا ایثار اور ہماری کوششیں مقبول ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیں ان رحمتوں سے نوازے.جن رحمتوں سے نوازنے کا وعدہ اس نے حضرت محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اتمام نعمت کی بشارت دے کر فرمایا تھا.(اللهم آمین) روزنامه الفضل ربوه ۲۳ را پریل ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 181

خطبات ناصر جلد چہارم F ۱۶۱ خطبہ جمعہ ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کے استعمال کا صحیح طریق یہی ہے کہ انہیں اسی کی راہ میں خرچ کیا جائے خطبه جمعه فرموده ۱۴ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:.b وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا أَللهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَيْطَوَقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَلِلَّهِ مِيْرَاثُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ - (ال عمران : ۱۸۱) اور پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس زاویہ سے بھی دیکھو تمہیں یہی نظر آئے گا کہ زمین و آسمان کی ملکیت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹتی ہے.زمین و آسمان اور ان میں جو چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں ان سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور چونکہ وہ سب کا خالق ہے اس لئے وہ سب کا مالک بھی ہے.پھر اس نقطۂ نگاہ سے دیکھنے سے بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی عطا کی وجہ سے کسی آدمی کی ملکیت نظر آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کی وجہ سے انسان کی ملکیت ٹھہرتی ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ چیز اس کی ملکیت میں رہتی ہے.چنانچہ روز مرہ کی زندگی میں ہم عموماً یہ دیکھتے ہیں کہ ( مثلاً) کچھ تاجر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ

Page 182

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۶۲ خطبه جمعه ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء جن کے متعلق کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ وہ مٹی کو ہاتھ لگا ئیں تو سونا بن جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں برکت رکھی ہوتی ہے اور کچھ تاجر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ سونے کو ہاتھ لگا ئیں تو وہ مٹی بن جاتی ہے.پھر ایک وہ تاجر بھی ہے جو ایک وقت میں بڑی برکتوں والا ہوتا ہے.اس کے کاموں میں اور اس کی کوششوں اور اس کی تجارتوں میں ہمیں بڑی برکت نظر آتی ہے.مگر جب اللہ تعالیٰ جو مالک ہے اس کے بارے میں اس کی نگاہ بدل جاتی ہے تو وہی برکتوں والا تا جرجس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے اس میں برکت کی بجائے نحوست ، نفع کی بجائے نقصان اور خوشحالی کی بجائے بدحالی نظر آتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جس زاویہ نگاہ سے بھی دیکھو گے تمہیں یہی نظر آئے گا کہ زمین و آسمان اور ان میں جو چیزیں ہیں ان سب کی ملکیت اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے وہی ان کا حقیقی مالک ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی ان کا حقیقی مالک نہیں ہے اور یہ ایک ابدی صداقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.اس کے ثبوت کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے جلوے روز مرہ کبھی یہاں اور کبھی وہاں دکھاتا رہتا ہے.یہ جلوے کبھی ایک شکل میں اور کبھی دوسری شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ کی ملکیت کے ثبوت میں ہمیں اس کی صفات کے جلوے نظر آتے ہیں اور بڑی کثرت سے نظر آتے ہیں.پس اس ابدی حقیقت کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے اور اُن لوگوں میں شامل نہیں ہونا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی عطا یعنی وہ مال جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے، اس مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں.بخل کے معنے عربی زبان میں مال کے اس جگہ نہ خرچ کرنے کے ہوتے ہیں جس جگہ وہ مال خرچ کرنا چاہیے.اگر ہم حقائق عالم پر نگاہ ڈالیں (اور اس سلسلہ میں ایک ابدی حقیقت اور ازلی صداقت کی طرف اس آیت میں بھی اشارہ کیا گیا ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ) تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اموال اور اس کی دی ہوئی طاقتوں اور اسی کی عطا کردہ

Page 183

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۶۳ خطبہ جمعہ ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء زندگی اور اوقات کو خرچ کرنے کا ایک ہی صحیح راستہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے.دراصل یہی حقیقی اور نیک اور مفید اور ثمرات پیدا کرنے والا خرچ ہے.باقی اس حقیقی خرچ کے لئے سامان پیدا کرنے والی جو کوششیں ہیں یا اخراجات ہیں تو وہ بھی بالواسطہ نیکی اور بھلائی کا موجب ہیں لیکن اگر کسی کی کوشش یا اخراجات اس کے الٹ ہیں تو پھر یہ بھی اس کے لئے بالواسطہ بدی اور ہلاکت کا موجب ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھی مال تمہارے پاس ہے اور جسے تم نے اس دُنیا میں پایا ہے وہ ہم نے دیا ہے مگر تم اُسے ہماری راہ میں خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے ہو.کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارا یہ فعل، تمہاری یہ ذہنیت تمہارے لئے مفید ہے؟ یہ تمہارے لئے ہرگز مفید نہیں بلکہ یہ تمہارے لئے شر کا موجب ہے اور ہلاکت کا باعث ہے.تم شاید یہ خیال کرتے ہو کہ تمہارے یہ بخل دُنیا میں دُنیا داروں سے چھپے رہیں گے اور لوگ تمہاری اس گندی ذہنیت سے ناواقف رہیں گے یا جب اللہ تعالیٰ اس دُنیا میں جنت کے سامان پیدا کرے گا اور یا اُس اُخروی زندگی میں جو مرنے کے بعد ملتی ہے اور جس میں بہترین شکل میں اور کامل طور پر جزاوسز املتی ہے یعنی جنت کی شکل میں یا جہنم کی شکل میں کامل جزا کے سامان پیدا ہوں گے تو اس وقت بھی تمہاری یہ بدیاں اور تمہاری یہ گندی ذہنیتیں چھپی رہیں گی تو تمہارا یہ خیال درست نہیں ہے کیونکہ تمہارا یہ بخل اور تمہاری یہ گندی ذہنیتیں تمہارے گلے کا ہار بنادی جائیں گی اور تم ان کو چھپا نہیں سکو گے.تمہارے گلے کا یہ ہار تمہارے لئے زینت کا باعث نہیں بنے گا.تمہارے گلے کا یہ ہار تمہارے لئے بدصورتی پیدا کرے گا.تمہاری اندرونی بھیانک بدصورتی کو ظاہر کر رہا ہو گا.یہ تمہارے لئے عزت کا باعث نہیں بنے گا بلکہ تمہارے لئے ذلت کا باعث بنے گا.یہ لوگوں کو بتائے گا کہ تمہیں اس وجہ سے سزا مل رہی ہے اور سزا کی طرف تمہیں دھکیلا جارہا ہے کہ تم نے خدا تعالیٰ کی عطا اور مال کے خرچ کرنے میں بخل کیا اور وہ اس رنگ میں کہ اس کے خرچ کرنے کا جو حقیقی راستہ تھا تم نے اس کو چھوڑ دیا اور جو غلط راہیں تھیں ان کو تم نے اختیار کر لیا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اس میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے مال و دولت بھی

Page 184

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۶۴ خطبه جمعه ۱۴ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ء ہے اور اوقات بھی ہیں.جذبہ ایثار بھی ہے اور محنت کی عادت بھی ہے.کیونکہ محنت کرنے کی طاقت بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے.الہی سلسلوں میں جب تک کہ وہ اپنی کامیابیوں کے عروج تک نہ پہنچ جائیں ان میں بڑی بھاری اکثریت نیک اور خدا ترس لوگوں کی رہتی ہے جو بڑے ایثار پیشہ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قربانی پیش کرنے کے لئے تیار بھی رہتے ہیں اور عملاً قربانی دے بھی دیتے ہیں.تاہم کچھ لوگ سست بھی ہوتے ہیں اور ان کی یہ ستی دونوں طرح بڑی نمایاں ہوتی ہے یعنی ایک تو مال دینے میں بخیل ہوتے ہیں اور دوسرے وقت خرچ کرنے میں بخیل.توجہ دینے میں بخیل اور محنت کرنے میں بھی بخیل ہوتے ہیں.تاہم جب روحانی تنظیم مضبوط ہوتی ہے تو اس کے اندر لوگوں کے لئے یہ امر بسا اوقات ابتلاء کا باعث بن جاتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ تنظیم ہمارے پاس آکر ہماری قربانیاں وصول کرے گی لیکن جب تنظیم ابھی مکمل نہیں ہوتی اس وقت قربانی دینے والا آدمی جس کے دل میں چندہ دینے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے وہ خود پہنچ جاتا ہے اور کہتا ہے یہ میری قربانی ہے.اسے وصول کر لو مثلاً وہ آ کر کہتا ہے کہ یہ وقف عارضی میں میرے وقت کی قربانی ہے یا وہ کہتا ہے کہ میں واقف زندگی بننا چاہتا ہوں.میں اپنی زندگی کی قربانی دیتا ہوں وغیرہ.لیکن جب تنظیم مکمل ہوتی ہے تو جماعت کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ضرورت کے وقت ہمیں یاد دہانی کروائی جائے گی تنظیم ہم سے وقف عارضی کے فارم پر کر والے گی اور تنظیم ہی ہمیں رسید میں دے کر ہم سے چندے وصول کر لے گی.یعنی عام چندوں کی صورت میں یا وصیت کے چندے کی صورت میں یا کئی دوسرے چندے ہیں جنہیں احباب خوشی سے دیتے ہیں اور اس لحاظ سے بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت بہت مالی قربانی دے رہی ہے.غرض جس جگہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ تنظیم ہمارے پاس آئے گی اور وہ ہمیں رسید دے کر ہمارے چندے وصول کرے گی لیکن اگر تنظیم ایسا نہ کرے تو اس جگہ بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ وہ علاقہ یا وہ شہر یا وہ قصبہ یاوہ گاؤں بحیثیت مجموعی جماعتی لحاظ سے مالی قربانی دینے میں پیچھے رہ گیا ہے حالانکہ وہ پیچھے نہیں رہا جو کا رکن تھے ، جو عہد یدار تھے جن کا یہ کام تھا کہ وہ ان کو یاد دہانی کراتے اور ان سے چندہ وصول کرتے وہ اپنی کمزوری اور وقت کی قربانی نہ دینے کی وجہ سے پیچھے

Page 185

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۶۵ خطبہ جمعہ ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء رہ گئے.جماعت کا اکثر حصہ تو پیچھے نہیں رہا.اب ہمارا موجودہ مالی سال چند دنوں تک ختم ہو رہا ہے.اگر ہم اس کا بھی جائزہ لیں تو دوستوں کی بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے جو بحیثیت جماعت ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہے اور وہ عملاً دے بھی رہے ہیں اور بہت بھاری اکثریت ایسے دوستوں کی ہے جو سلسلہ کے کاموں کے لئے اپنا وقت قربان کرتے ہیں اپنے آرام کو قربان کرتے ہیں، اپنی توجہ کو قربان کرتے ہیں مثلاً وہ اپنی توجہ اپنے بیوی بچوں کی طرف پھیر سکتے تھے مگر وہ اپنی اس تو جہ کو الہی سلسلہ کے کاموں کی طرف پھیر دیتے ہیں.وہ درد جو اپنے محدود ما حول کے لئے ان کے دلوں میں پیدا ہو سکتا تھا وہی دردوہ جماعت کے لئے اور پھر بنی نوع انسان کے لئے اپنے دل میں پیدا کرتے ہیں اور خدمت کے جذبہ سے معمور اکثر خدمت خلق میں مشغول رہتے ہیں.چنانچہ ایسی مثالیں کثرت سے ہیں جن میں اس وقت بڑی نمایاں مثال جماعت احمدیہ کراچی کی ہے.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں.جہاں تک مالی قربانی کا سوال ہے ساری جماعت ہی مالی قربانی دینے کے لئے تڑپتی رہتی ہے لیکن جہاں نظام قائم ہو اور نظام میں پختگی پائی جاتی ہو وہاں کے بہت سے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ نظام کے ماتحت محصل جائے گا اور وہ پیسے وصول کرے گا اور رسیدمیں دے گا.پس احباب میں چندے دینے کی تڑپ کی کمی نہیں ہوتی.یہ نظام کی شستی یا نظام میں چستی کی کمی ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے وقتی طور پر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ فلاں حلقہ مالی قربانیوں کے دینے میں پیچھے رہ گیا ہے.جہاں تک وقت کی قربانی کا سوال ہے اس کے متعلق میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا کہ خود میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ وہ لوگ جو بظا ہر اپنے دُنیا کے کاموں میں پڑے ہوئے ہیں وہ پانچ پانچ چھ چھ گھنٹے اور بعض دفعہ تو میرا خیال ہے کہ ہمارے صدر انجمن احمد یہ اور دوسرے اداروں کے کارکنوں سے بھی زیادہ وقت رضا کارانہ طور پر جماعتی کاموں کے لئے خرچ کرتے ہیں اور بڑی محنت اور بڑے پیار اور بڑی توجہ کے ساتھ کام کرتے ہیں اور سلسلہ احمدیہ جسے خدا تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لئے قائم فرمایا ہے.اس کے لئے تڑپ رکھتے ہیں اور اس کی ترقی

Page 186

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۶۶ خطبہ جمعہ ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء کے لئے دن رات محنت میں لگے ہوئے ہیں.اب جس جماعت کے عہد یدار اس قسم کی لگن کے ساتھ کام کرتے ہیں.ظاہر ہے کہ وہ جماعت مالی قربانیوں میں بھی آگے نکل جاتی ہے چنانچہ ابھی کل ہی مجھے جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ انہوں نے اپنے سالانہ بجٹ سے قریباً دس ہزار روپیہ زاید جمع کر دیا ہے حالانکہ ابھی موجودہ مالی سال ختم نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.اب یہ بڑا خوش کن نتیجہ ہے.ہزار ہا دوست مالی قربانی دینے والے کراچی کی جماعت میں شامل ہیں.اُنہوں نے بحیثیت مجموعی بڑی اچھی قربانی دی ہے.انہوں نے جو وعدے کئے تھے ان میں وہ آگے نکل گئے ہیں.پھر جہاں تک وقت کی قربانی کا تعلق ہے اس لحاظ سے بھی کراچی نے بڑی قربانی دی ہے وہاں کا جماعتی نظام پورا چوکس اور بیدار ہے.علاوہ ازیں پورے سال کے کام کو سارے سال پر پھیلا کر کرنے کی بدولت بھی وہ اچھا نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہو گئے.ممکن ہے اسی طرح کی بعض اور جماعتیں بھی ہوں کیونکہ بہت سارے دوستوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اپنا بجٹ پورا کر چکے ہیں.میں نے ہر ایک سے یہی کہا تھا کہ اپنے بجٹ سے دس فیصدی زیادہ چندے دو.اب بجٹ سے دس فیصدی زیادہ چندے دوست دے سکتے ہیں یا نہیں یہ تو خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال کو وصول کرنے کی ایک زائد خواہش ہے اور ان لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں مال دینے کی ایک زائد خواہش ہے تاہم کئی دوسری جگہوں سے بھی اطلاع آئی ہے کہ اُنہوں نے نہ صرف اپنا بجٹ پورا کر دیا ہے بلکہ اس سے آگے نکل گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کو جزائے خیر عطا فرمائے.پس جن جماعتوں نے اپنا بجٹ پورا کر کے دس فیصدی زائد چندے دینے کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے وہاں آپ کو جماعتی نظام یعنی جو عہد یدار ہیں وہ ہر لحاظ سے خصوصاً وقت کی قربانی کے لحاظ سے زیادہ تندہی سے کام کرنے والے یا زیادہ وقت دینے والے نظر آئیں گے.غرض جہاں تک اموال کی قربانی کا سوال ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری جماعت آگے

Page 187

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۶۷ خطبه جمعه ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء بڑھنے کی تمنا، خواہش اور تڑپ رکھتی ہے اسی طرح جہاں تک نظامِ جماعت کا سوال ہے اکثر جگہ بڑا اچھا نظام قائم ہے.عہدیداروں کی اکثریت ایسی ہے جو علاوہ دوسری قربانیوں کے اوقات کی قربانی بھی دے رہے ہیں لیکن بعض جگہیں ایسی بھی نظر آتی ہیں.جہاں باوجود اس کے کہ جماعت کے افراد ہر قسم کی قربانی بشمول اموال کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں.مگر عہد یداروں کی ستی کی وجہ سے نتیجہ ٹھیک نہیں نکلتا.جہاں بھی ایسے عہدیدار ہیں جو اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے یعنی ایمان کی کمزوری کی وجہ سے یا نا اہلیت کی وجہ سے یا احساس ذمہ داری کے فقدان کے نتیجہ میں سستی دکھاتے ہیں ان کا بہر حال کوئی حق نہیں کہ وہ عہد یدارر ہیں ان کو بدلنا پڑے گا.چنانچہ جب میرے سامنے یہ تصویر آئی تو مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ کوئی عدم علم کی وجہ سے شاید یہ نہ سمجھے کہ بعض جماعتیں کمزور ہیں.جماعتیں ہرگز کمز ور نہیں بلکہ وہ عہد یدار کمزور ہیں جو اپنی سستی کی وجہ سے اُن سے صحیح کام نہیں لے سکتے.ایسے سست اور کمز ور عہد یداروں کی اصلاح یا ان کی تبدیلی کے ساتھ انشاء اللہ دنیا دیکھے گی کہ وہ جماعتیں بھی مالی قربانی میں اپنے دوسرے بھائیوں سے پیچھے نہیں رہیں گی بلکہ اُن سے آگے نکلیں گی یہ اللہ تعالیٰ پر ہمارا حسن ظن بھی ہے اور ماضی میں ہمارا مشاہدہ بھی یہی رہا ہے.پیچھے رہنے کے لئے تو احمدی پیدا ہی نہیں ہوالیکن الہی سلسلوں میں بعض لوگ کمزور بھی ہوتے ہیں اور بعض منافق بھی ہوتے ہیں اور یہ منافق عاقبت کے لحاظ سے کمزوروں سے بھی نہیں ، کافروں سے بھی نچلا درجہ رکھتے ہیں.ایسے لوگ تو الہی جماعتوں میں ہوتے ہیں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بھی نظر آتے ہیں اور پھر اس وقت سے لے کر آج تک اسلام میں نظر آتے ہیں.خدا کا ہر وہ پیارا جو تجدید دین کے لئے استحکام ملت اسلامیہ کے لئے اور غلبہ اسلام کے لئے کھڑا کیا گیا تو اُس وقت کے کمزوروں نے بھی اور غیر مومنوں نے بھی اور منافقوں نے بھی اپنے اپنے نظریہ کے مطابق اس کی مخالفت کی البتہ جہاں تک کمزوروں کی مخالفت کا تعلق ہے وہ الہی سلسلہ میں کمزوری پیدا کرنے کی نیت سے یا کمزوری پیدا کرنے کی غرض سے نہیں ہوتی یعنی اُن کی نیت بھی یہ نہیں ہوتی کہ الہی سلسلہ کمزور ہو جائے اور ان کی کوشش بھی یہ نہیں ہوتی کہ الہی سلسلہ کمزور پڑ جائے لیکن منافق کی نیت بھی یہی ہوتی ہے اور کوشش بھی

Page 188

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۶۸ خطبه جمعه ۱۴ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ء یہی ہوتی ہے کہ الہی سلسلہ کمزور ہو جائے.ایک منافق اور کمزور ایمان والے آدمی کے درمیان یہی فرق ہے.ایک منافق کا الہی سلسلہ کو نقصان پہنچانے کی نیت اور ارادہ ہوتا ہے اور اس کی کوشش اور جدو جہد بھی نقصان پہنچانے کیلئے ہوتی ہے مگر ایک کمزور ایمان والا آدمی قربانی دینے میں کمزوری تو دکھاتا ہے لیکن اس کی نیت خراب نہیں ہوتی.کمزوری ہوتی ہے نیت کی خرابی نہیں ہوتی.اس کے اندر ایمان کی کمزوری ہے عمل کی کمزوری ہے لیکن نیت کا فتور نہیں اور نہ اس کی جد و جہد ہی ایسی ہوتی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ وہ سلسلہ کو عملی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے.اس لئے جو آدمی کمزور ایمان والا ہے اس کے لئے ہمارے دل میں انتہائی ہمدردی پیدا ہونی چاہیے اور ہے میرے دل میں بھی ہے اور ہر سمجھدار احمدی کے دل میں بھی ہے.ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ایسے شخص کو پیار سے اور عقلی دلائل دے کر سمجھا ئیں.ہم آئے دن اللہ تعالیٰ کے پیار کے جو نشان دیکھتے رہتے ہیں وہ اس کے سامنے رکھ کر اس کی اصلاح کریں.چنانچہ ہم ایسے لوگوں کو آہستہ آہستہ تربیت کے نتیجہ میں بے صبری دکھائے بغیر ایک اعلیٰ مقام پر لانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر باری باری اعلیٰ مقام پر آ جاتے ہیں.پھر پیچھے ایک اور Queue بنا ہوتا ہے.ایک اور قطار لگی ہوتی ہے یعنی اور کمز ور آ جاتے نئے احمدی ہوتے ہیں یا نئے جوان ہوتے ہیں.جن کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے.کمزوری ایمان اور اس کے نتیجہ میں عمل کی کمزوری در اصل تربیت کی کمی کا نتیجہ ہوتی ہے تاہم ایسے کمز ور ایمان والے لوگوں کی طرف سے یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ وہ مقابلہ پر آکر مخالفت کریں گے یا سلسلہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے.ایسے لوگوں کی تربیت ہونی چاہیے اور انہیں پیار کے ساتھ اور عقلی دلائل دے کر سمجھانا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے نشان ان کے سامنے رکھ کر انہیں بتانا چاہیے کہ یہ دیکھو اللہ تعالیٰ کس طرح جماعت کے کاموں میں برکت ڈال رہا ہے اور بنی نوع انسان کے دل میں اسلام کو قبول کرنے کی ایک عالمگیر رو پیدا کر رہا ہے.اگر آپ یہ باتیں ان کے سامنے رکھیں تو انشاء اللہ اُن کے ایمان بھی پختہ ہو جائیں گے.یاد رکھیں آج ہمیں جن دوستوں کے ایمان پختہ نظر آتے ہیں جب وہ پہلی دفعہ احمدیت میں داخل ہوئے تھے تو اُن کی یہ حالت نہیں تھی.چنانچہ پہلی دفعہ سلسلہ

Page 189

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۶۹ خطبه جمعه ۱۴ /۱ پریل ۹۷۲ میں داخل ہونے والوں میں سے اگر کسی نے ایک چوٹی ماہانہ چندہ دیا تو وہ بڑی قربانی کرنے والا سمجھا گیا اور وہی شخص جس نے اپنے حالات کے لحاظ سے ایک چوٹی چندہ دیا تھا اور بڑا مخلص سمجھا گیا تھا اُس نے بعد میں ایک وقت میں کہا کہ میری ساری جائیداد لے لو.غرض اس وقت کی تربیت کے لحاظ سے وہی چوٹی انتہائی قربانی تھی اور خدا تعالیٰ نے اس قربانی سے پیار کیا اور اس قربانی کے نتیجہ میں قربانی دینے والے آدمی سے بھی پیار کیا اور پھر یہی آدمی تربیت حاصل کرتے کرتے جب ایک ارفع مقام پر پہنچا تو اس نے اپنی ساری جائیداد خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دی جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب اپنے ارفع مقام پر پہنچے تو ایک موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی کی تحریک فرمائی تو آپ اپنا سب کچھ لے آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا ابوبکر گھر میں کیا چھوڑا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا.گھر میں خدا اور اس کے رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں اس کے علاوہ مجھے کسی اور چیز کی ضرورت ہی کیا ہے.پھر خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اور مال عطا فرمایا تو اُنہوں نے وہ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسبت جولوگ آپ سے کم درجے پر پہنچے ہوئے تھے اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریک پر کہ ہم اپنا نصف مال یعنی پچاس فیصدی خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیتے ہیں ( وصیت میں ہم ۱۰/ ا سے ۱/۳ تک یعنی دس فیصدی سے لے کر تینتیس فیصدی تک دیتے ہیں ) لیکن صحابہ کرام کی زندگیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت خدا اور اس کے رسول سے محبت اپنے جوش میں آتی ہے اس وقت سارا مال قربان کروا دیتی ہے یا اُس وقت نصف مال قربان کروا دیتی ہے لیکن وہ گھر جس سے دُنیا کی ساری دولت اور دُنیا کے سارے اموال نکال کر خدا کے رسول کے قدموں میں ڈال دیئے گئے تھے وہ گھر دُنیا کی دولت سے بھی خالی نہیں رہے.جس بٹوہ میں ایک دھیلا باقی نہیں چھوڑا گیا تھا وہ بھی زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے پھر اسے بھر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو نہ ختم ہونے والے خزانوں کا مالک ہے ہم اس کے نہ ختم ہونے والے بھر پور خزانوں کی مقدار اور قسم کا تصور بھی نہیں کر سکتے.ہمیں تو یہ پتہ ہی نہیں کہ اس کے خزانے اپنی کمیت اور

Page 190

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۷۰ خطبہ جمعہ ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء کیفیت کے لحاظ سے کتنے وسیع اور کتنے شاندار ہیں انسان کی عقل اللہ تعالیٰ کے خزانوں کی کیفیت اور کمیت کو گر اسپ نہیں کر سکتی.انسان انہیں اپنے شعور میں بھی نہیں لاسکتا.کیونکہ یہ چیزیں انسان کے فکروتدبر اور اس کی عقل و دانش سے بالا ہیں.بس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی عقل بڑھتے بڑھتے جہاں ختم ہوگئی اس سے بھی ورے اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور وہاں تک انسانی عقل کی پہنچ ہی نہیں ہے.بہر حال جن لوگوں نے اپنا مال بے دریغ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا وہ نقصان میں نہیں رہے مگر جنہوں نے نہیں دیا اور انہیں دینا چاہیے تھا ، وہ نقصان میں رہے.اُخروی زندگی کے لحاظ سے تو یقیناً نقصان میں رہے لیکن اُن میں سے اکثر اس دُنیا میں بھی نقصان میں رہے مثلاً کفار مکہ اور سردارانِ قریش امیر لوگ تھے عرب کے، اُس وقت کے اقتصادی نظام میں ان لوگوں کا بڑا اونچا مقام تھا.ایک ایک آدمی ہزار ہا اونٹوں کا مالک ہوا کرتا تھا.مگر اس ظاہری مال و دولت نے انہیں کچھ بھی فائدہ نہ دیا کیونکہ اُنہوں نے بخل کیا.خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے اُنہوں نے اپنے اموال اسلام کی مخالفت میں خرچ کئے.نتیجہ اُن کے اموال کہاں باقی رہے؟ اُن کا سب کچھ ختم ہو گیا.پھر اُن کو اُس وقت مال و دولت ملی جب اُنہوں نے اس ابدی صداقت کو پالیا کہ سب اموال اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور بہترین اور حقیقی اور سچا خرچ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے.تو پھر ان کو خدا تعالیٰ نے دوبارہ مال و دولت عطا فر ما یا مگر اس صورت میں عکرمہ وہ عکرمہ نہیں تھے.اور نہ خالد بن ولید وہ خالد بن ولید تھے جب دوسری دفعہ ان کو اموال عطا ہوئے تو وہ بالکل بدلی ہوئے شخصیتیں تھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک نئی زندگی عطا فرمائی تھی.ان کے ذہن بدل گئے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نئی حیات بخشی تھی.ان کی پہلی زندگی پر ایک موت وارد ہو چکی تھی.پھر اس نئی زندگی میں اُنہوں نے نئے خزانے پائے اور اس نئی حیات میں اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے ایک نئی لذت اور نیا سرور حاصل کیا.پہلے تو غصے کی ایک عارضی تسلی تھی یعنی غصے کو تسلی ہو گئی کہ ہم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اپنا پیسہ خرچ کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرما یا موتوا بغيظكم (ال عمران : ۱۲۰) تم سمجھتے ہو کہ

Page 191

خطبات ناصر جلد چہارم 121 خطبه جمعه ۱۴ ۱۷اپریل ۱۹۷۲ء اس سے تمہارا غصہ تسلی پاتا ہے یہ تو درحقیقت تمہاری موت کا باعث بھی ہے.اس طرح تمہارا خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت میں خرچ کرنا تمہاری حیات، تمہاری ترقی تمہارے ارتقاء اور تمہاری فلاح اور خوش حالی کا باعث نہیں بنے گا.یہ تمہاری موت کا باعث بنے گا.پھر جہاں تک منافقین کا تعلق ہے ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی بجائے دوسروں پر اعتراض کر دیتے ہیں.چنانچہ اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراض کر دیا کہ پیسے ٹھیک جگہ خرچ نہیں ہور ہے اور یہ ہو رہا ہے اور وہ ہو رہا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے منافقین کی یہ ساری باتیں ہمارے لئے بیان کر دی ہیں.اس کے برعکس ایک کمزور ایمان والا آدمی بہکتا ہے پھر اس کو سہارا ملتا ہے تو وہ کھڑا ہو جاتا ہے اور ترقی کرتا ہے.پھر بہک جاتا ہے اور پھر سہارا ملنے پر آگے بڑھتا ہے اور اس طرح اندرونی اور اخلاقی اور روحانی طور پر اس کے اندر ایک کشمکش جاری رہتی ہے پھر جب اس کی کماحقہ تربیت ہو جاتی ہے تو وہ اپنے نفس امارہ کو کچل دیتا ہے وہ اس سانپ کا سرکاٹ دیتا ہے اور اپنے نفس کے گھوڑے پر سوار ہو کر ایک اچھے سوار کی طرح اس کی لگا میں اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے پھر گھوڑا اپنی مرضی کے مطابق اسے جدھر چاہے نہیں لے جا تا بلکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق گھوڑے کو جدھر چاہے لے جاتا ہے اور اس کی مرضی خدا کی مرضی ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور اسی میں وہ لذت اور سرور پاتا ہے اور اسی میں وہ ایک نئی خوشحالی اور ابدی زندگی کے سامان دیکھتا ہے اور پھر جن کے پانے کے لئے وہ اسی طریق پر کوشاں رہتا ہے.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے موجودہ مالی سال ختم ہو رہا ہے جہاں جماعت کی اکثریت اور بہت بھاری اکثریت مالی قربانی دینے کے لئے تیار بھی ہے اور اکثر نے عملاً قربانی دے دی ہے وہاں کہیں کہیں ہمیں بظاہر غفلت بھی نظر آتی ہے بہت سی جماعتوں نے مالی قربانی دی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اکثر جگہ پر عہدیداروں نے اس سلسلہ میں بھی اپنے وقت کی اور اپنے آرام کی قربانی دی.خدا تعالیٰ کی راہ میں اُنہوں نے اپنا وقت خرچ کیا اور نظام کی وجہ سے ہر احمدی دوست کے دل میں جو ایک امید پائی جاتی ہے کہ ایک چوکس اور بیدار عہدیدار اس کے پاس آئے گا اور وقت پر اس سے

Page 192

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۷۲ خطبہ جمعہ ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء چندہ لے جائے گا.ایسے عہدیدار اس کے اس حسن ظن کو پورا کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بننے والے ہیں.لیکن اگر عہدیداروں کے ایک حصے میں کمزوری کی وجہ سے جماعت کی بدنامی سمجھی جائے تو یہ بات غلط ہے.اس سے جماعت کی کوئی بدنامی نہیں ہوتی.جماعت کی بدنامی تو تب ہوتی جب مقامی عہدیدار اصلاح یا تبدیلی کے نتیجہ میں چوکس ہو جائیں مگر وہ جماعت پھر بھی کمزوری دکھائے مگر عملاً اس صورت میں کسی جماعت نے کمزوری نہیں دکھائی مثلاً کراچی کی جماعت ہے یہ اپنے بجٹ کو سو فی صدی پورا کرنے کے بعد آگے نکل گئی ہے.میں نے کہا تھا کہ تم نے جو سو فیصدی پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ تمہارا مقصود اور معیار نہیں ہے بلکہ ۱۱۰ تک پہنچو.چنانچہ کراچی کی جماعت نے ۱۱۰ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے ۱۰۴/ ۱۰۳ تک وہ پہنچ چکے ہیں ممکن ہے اس وقت تک کچھ اور آگے نکل چکے ہوں (اور ابھی چند دن باقی بھی ہیں ) بہر حال وہ اپنے بجٹ کو سو فیصدی پورا کرنے کے بعد آگے نکل گئے ہیں.اب اسی کراچی کی جماعت پر ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب یہ سو کی بجائے ۳۰/ ۲۵ تک بھی پہنچ نہیں پاتی تھی.اس واسطے کہ اس وقت یہ جماعت تربیت کی محتاج تھی.بعض احمدی دوست تربیت کی احتیاج رکھنے والے تھے لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جماعت سے کام لینے والے عہد یدار جو تھے.وہ یا تو کام لے نہیں رہے تھے یا کام لے نہیں سکتے تھے.بہر حال عہد یدار جماعت سے کام نہیں لے رہے تھے.مگر اب وہی جماعت ہے جو اپنے عہد یداروں کی چوکسی اور بیداری اور رضا کارانہ طور پر کام کرنے کے نتیجہ میں اپنے بجٹ کو سو فیصدی پورا کر کے آگے نکل گئی ہے.پس ایک بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی جماعت یا کوئی حلقہ چندوں کی ادائیگی میں پیچھے رہ جاتا ہے تو اس پر الزام نہ دھرو کیونکہ ان کے اخلاص میں مجھے بظاہر کوئی کمزوری نظر نہیں آتی.دوسرے یہ کہ ایسی جماعتوں یا حلقوں کے عہدیداروں کو ٹھیک کیا جائے کیونکہ مجھے ان عہد یداروں میں کمزوری نظر آتی ہے.پس جماعت کا جو حصہ بھی انہیں ٹھیک کرنے والا ہے وہ

Page 193

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء اس سلسلہ میں ضروری کارروائی کرے.اگر یہ کام میرے ساتھ تعلق رکھتا ہے تو میں اُن کو ٹھیک کروں گا.ہمیں کسی فرد کے ساتھ پیار نہیں اور نہ ہمیں کسی فرد سے دشمنی ہے.ہمیں ہر فرد کے اس فعل سے پیار ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خلوص نیت سے کیا گیا اور ہمیں ہر بڑے عمل سے نفرت ہے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف کیا گیا ہے.ہمیں بد عمل شخص سے کوئی نفرت نہیں اور نہ اس سے کوئی دشمنی ہے لیکن اس سے جو بر اعمل سرزد ہوتا ہے اس سے ہمیں نفرت ہے اور اسی بُرے عمل کو ہم دُنیا سے مٹانا چاہتے ہیں.ہم بدعمل کرنے والے کو ہلاک نہیں کرنا چاہتے اس کے تو ہم خیر خواہ اور ہمدرد ہیں اور اُسے نیکی کی راہ پر چلانے کے لئے بے تاب ہیں اور اس کے لئے ہم ہر وقت کوشاں ہیں.تاہم جو نیک کام ہے اور خوبی کی بات ہے یا جو کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نیک نیتی سے کیا جاتا ہے اس کے لئے ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ نے بڑا پیار پیدا کیا ہے مگر جو جماعتیں یا حلقے چندوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں خلوص نیت کے باوجو د عہد یداروں کی غفلت کے نتیجہ میں بظاہر داغدار سمجھے گئے ہیں انہیں داغدار سمجھنا غلطی ہے.اُن پر کوئی داغ نہیں ہے البتہ ان کے عہدیدار ضرور داغدار بن گئے ہیں.اس لئے ایسے عہد یداروں کی اصلاح ہونی چاہیے.یا پھر اُن کی تبدیلی ہونی چاہیے جو اپنے وقت پر ہو جائے گی لیکن ان چند دنوں میں ایسی جماعتوں یا حلقوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے عہدیداروں کو جو غافل ہیں یا سست ہیں یا نااہل ہیں یا ان میں کوئی اور کمزوری پائی جاتی ہے ان کو پرے ہٹا دیں اور اپنے چندے براہ راست مرکز میں آکر جمع کروادیں.مجھے جماعت کے متعلق پورا وثوق اور یقین ہے کہ وہ اپنے چندوں کی ادائیگی میں مخلص ہیں اس لئے ان پر یہ داغ نہیں آتا کہ وہ اپنے حلقے یا قصبے یا گاؤں میں مالی قربانی میں پیچھے رہ گئے ہیں.اگر عہد یدار اُن کے پاس نہیں پہنچا تو وہ بھی عہد یداروں کے پاس نہ پہنچیں بلکہ مرکز میں آکر اپنا چندہ جمع کرا دیں.تاکہ ان عہدیداروں کو بھی یہ پتہ لگ جائے کہ کتنے پیارے دل تھے جن کی اُنہوں نے قدر نہیں کی اور کتنی حسین ارواح تھیں جن کے حسن کو اُنہوں نے نظر انداز کر دیا.وہ اپنے کاموں میں لگے رہے.اُنہوں نے اپنے دُنیوی آرام کی طرف توجہ دی اور

Page 194

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۷۴ خطبہ جمعہ ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے ان کے کندھوں پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں انہوں نے ان کو نہیں بنایا.اللہ تعالیٰ ان کی بھی اصلاح فرمائے.ان کے دلوں میں بھی نیکی کا بیج پھوٹ آئے.ان کی کمزوریاں دور ہوں.ان کی غفلتیں جاتی رہیں.خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کے حصول کے لئے ان کی جد و جہد پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہو جائے.خدا کرے کہ وہ پیارا احمدی دوست جس کے دل میں خدا اور اس کے رسول کی محبت کے سمندر موجزن ہیں ، وہ کسی کی غفلت کے نتیجہ میں یا کسی کی غلطی کی وجہ سے اپنی قربانی میں پیچھے رہ کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے والا نہ ہو بلکہ عملاً جو ایک بری چیز ، ایک گندی چیز ، ایک بھیانک اور بدصورت چیز نظر آ رہی ہے اور جس کے لئے وہ حقیقتاً ذمہ وار نہیں ہیں اُسے بھی دُنیا کی آنکھ بھی اور دین کی آنکھ بھی نظر انداز کر دے کیونکہ اُن کے اوپر حقیقتاً کوئی الزام نہیں آتا.پس ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ ساری جماعت اپنی اجتماعی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے اور اس کے پیار اور اس کی رضا کو پانے والی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۲۷ مئی ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 195

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۷۵ خطبه جمعه ۲۱ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ء آج کا دن (۱/۲۱ پریل) پاکستان کے لئے بڑا اہم ہے کہ قانون اور عوام کی حکومت کا سورج طلوع ہوا خطبه جمعه فرمود ه ۱/۲۱ پریل ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشهد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.قُلِ اللَّهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلُكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ.ط (ال عمران: ۲۷) فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُ لَهُمْ وَشَاوِرُهُمْ فِي الْاَمْرِ ۚ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ.(ال عمران : ١٦٠) اور پھر فرمایا:.آج کا دن پاکستان کی زندگی میں ایک بڑی ہی تاریخی اہمیت کا دن ہے.ایک لمبے عرصہ کی لاقانونیت کے بعد آج قانون کی حکومت شروع ہوئی اور عوام کی حکومت کا سورج طلوع ہوا ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِكَ - پاکستان کو قائم ہوئے قریباً پچیس سال ہونے کو ہیں.اس عرصہ میں بڑی ہی تلخیاں نظر آتی ہیں.ایک حساس دل ان تلخیوں کو ابھی بھولا نہیں.خدا کرے کہ ان تلخیوں کے بھلانے اور ان

Page 196

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۷۶ خطبه جمعه ۲۱ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ ء زخموں پر مرہم لگنے کے سامان پیدا ہو جائیں.بہر حال یہ زمانہ ایک مذہبی جماعت کی حیثیت میں ہمارے لئے بھی اور ہمارے ان سب بھائیوں کے لئے بھی جنہیں دُنیا عوام کہتی ہے اور جن کو غریب سمجھتے ہوئے اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس دیکھتے ہوئے دھتکار رہی تھی تلخیوں کا زمانہ تھا.اس عرصہ میں اس ساری حسین تعلیم کو جو اسلام نے انسان کو دی اور جسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں رائج کرنا چاہتے تھے.پس پشت ڈال دیا گیا.میں اس وقت گزشتہ پچیس سالہ مختلف حکومتوں کا جو دور ہے، اس میں ان کا کیا کردار رہا.اس کا تجزیہ تو نہیں کرنا چاہتا.میرا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ کسی وقت میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ماضی کے حالات کا بھی، حالیہ واقعات کا بھی اور مستقبل کی اُمیدوں کا بھی تجزیہ کروں گا.لیکن ایک بات بڑی واضح ہے اس کا ذکر میں اس وقت کر دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں جو بالغ یہ.اور ادھیڑ عمر کی سنجیدہ نسل تھی اُس نے بڑی قربانیاں دیں تب جا کر پاکستان کا قیام عمل میں آیا لیکن ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اس نسل کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حکومت کرنے کے قابل نہیں سمجھا گیا.اس کے برعکس ایک نسل تو وہ تھی جو تقسیم ملک کے وقت بچے تھے یعنی جو ۱۹۴۷ء میں پیدا ہوئے تھے اور دوسری وہ جو اُس وقت جوانی کے ابتدائی دور یعنی ۲۱ اور ۲۵ سال کی درمیانی عمر کے تھے.اب ان میں سے جو بچے تھے وہ تو نا سمجھ تھے اور جو ابھی ابھی بالغ ہوئے تھے وہ نا تجربہ کار تھے.اس لئے حکومت کا انتظام لازماً اُن لوگوں کے سپر دہوا جو ذرا بڑی عمر کے تھے یعنی ۳۵،۳۰ سال سے اوپر کے تھے.ان میں سے بھی کچھ لوگ بظاہر کم تجربہ کار اور کچھ زیادہ تجربہ کار تھے اور بڑے سنجیدہ تھے اور ایک وقت میں بڑی قربانیاں دینے والے تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ اس نسل کو دُنیوی لحاظ سے حقیقی طور پر حاکم نہیں بنانا چاہتا تھا چنانچہ اس عرصہ میں ظلم کا ایک چکر چلتا رہا.کسی حکمران نے بعض باتوں میں لوگوں کا کچھ خیال رکھا اور بعض لحاظ سے ظلم روار کھے.کسی نے بعض اور پہلوؤں کا کچھ خیال رکھا اور ساتھ ہی ظلم بھی کرتا رہا.ہم کسی کو پورے طور پر بڑا نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس دُنیا میں کسی کو پورے طور پر برا کہہ دینا نہ درست ہے نہ معقول

Page 197

خطبات ناصر جلد چہارم 122 خطبه جمعه ۲۱ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ ء ہے اور نہ مناسب ہی ہے.اس لئے گذشتہ دور کی مختلف حکومتیں کلی طور پر بری نہیں کہلائی جاسکتیں لیکن کسی صورت اچھی بھی نہیں کہلائی جاسکتیں کیونکہ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اُن کے بڑے کام اُن کے اچھے کاموں سے زیادہ ہیں.ہم برے کام کو بُرا اور اچھے کام کو اچھا کہیں گے کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے شراب کی ممانعت فرمائی مگر ساتھ ہی فرما یا شراب جیسی چیز کو بھی تم کلیتہ بُرا نہ کہو کیونکہ یہ بھی اپنی ذات میں پورے اور کلی طور پر بری نہیں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.فِيهِمَا اثْم كَبِيرُ وَ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ (البقرة : ٢٢٠) فرمایا.اس میں گندگی اور گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لئے بھلائی کے سامان بھی ہیں دُنیوی لحاظ سے ہم بہت ساری چیزوں کی Preservation ( پری زرویشن ) یعنی قائم اور محفوظ رکھنے کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں.غرض اس سے بہت سے مفید کام لئے جاتے ہیں مگر جہاں تک کسی آدمی کے شراب کے استعمال کا تعلق ہے اس میں برائیاں زیادہ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا پینا منع کر دیا ہے.اس میں دراصل ہمارے لئے ایک اصول قائم کر دیا گیا ہے کہ Wholesale Condemnation ( ہول سیل کنڈیمنیشن ( یعنی خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ چیز کے متعلق یہ کہہ دینا کہ اس میں برائی ہی برائی ہے، یہ اصولاً غلط ہے کسی چیز میں جو برائیاں ہیں وہ چند خاص اور غلط زاویوں سے پیدا ہوتی ہیں اور جو خوبی ہے وہ صحیح زاویہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہر چیز کا مجموعی جائزہ لینے اور اُسے چاروں طرف سے دیکھنے کے بعد ہی اُس کی اچھائی یا برائی کا حکم لگانا چاہیے.یہ بھی ایک مستقل مضمون ہے اور بیان کرنے کے قابل ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی دی اور توفیق بخشی تو کسی وقت اسے بھی انشاء اللہ بیان کروں گا.بہر حال پچھلے ۲۵ سال میں جن حکومتوں کا دور دورہ رہا اُن میں ہمیں بظا ہر برائیاں زیادہ اور خوبیاں کم نظر آتی ہیں.وہ اس ملک کے حقیقتا حاکم نہیں تھے.ان کی حکومتوں کا نظام صرف پاکستان کو زندہ اور قائم رکھنے کے لئے تھا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کے

Page 198

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۲۱ ۱۷اپریل ۱۹۷۲ ء علم میں ایک وقت ایسا آنے والا تھا جب پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتا.چنانچہ اس وقت تک پاکستان کی حفاظت بھی کی گئی اور پاکستان میں تلخی پیدا کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نئی اور اُبھرنے والی نسل کی تربیت بھی کی گئی اور ان کو مستقبل کے متعلق سوچنے پر مجبور بھی کیا گیا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے پہلے دور میں جو پاکستانی شہری تھے ان کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.ایک تو ۱۹۴۷ ء کے بچے، دوسرے ۱۹۴۷ ء کے نئے نئے اور ناتجربہ کار نوجوان اور تیسرے ۱۹۴۷ء کے ذرا بڑی عمر کے اور زیادہ بڑی عمر کے لوگ جنہیں تجر بہ تو تھا لیکن وہ عملاً قوم کے اندر ترقی کی روح پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے.غرض ۱۹۴۷ء میں جو بچہ تھا وہ اس وقت جوان ہو چکا ہے.۲۳، ۲۴ سال کی عمر کا ہو گیا ہے اور جو اُس وقت ۲۵ سال کے لگ بھگ تھے وہ اس وقت ۴۹،۴۸ سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ شاید دو تہائی سے بھی زیادہ ہیں یعنی جو ۱۹۴۷ء میں بچے تھے اور اب جوان ہو چکے ہیں اور دوسرے جو اُس وقت بالکل نا تجربہ کار نوجوان تھے اور اب ادھیڑ عمر کے قریب پہنچ گئے ہیں ان ہر دو گروہوں کے متعلق خدا کی شان یہ نظر آتی ہے کہ اس پچیس سالہ دور میں ان کو حکومت میں کوئی دخل نہیں ملا.بلکہ حکومت کی باگ ڈور زیادہ تر ان لوگوں کے ہاتھ میں رہی ہے جو اس وقت پچاس سال سے زیادہ عمر کے ہیں.ان میں سے بھی ایک حصہ تو بہت اچھا رہا.مگر دوسرا حصہ ملک کی تباہی اور قوم کی ہلاکت کا باعث بنا البتہ اس گروہ کو بھی ہم کلیۂ بُرا نہیں کہہ سکتے ان میں بعض بڑے اچھے لوگ بھی تھے لیکن خرابی یہ تھی کہ ان کی بات بھی ٹھیک طرح مانی نہیں جاتی تھی کیونکہ ڈکٹیٹر شپ یعنی مارشل لاء کا زمانہ تھا یا پھر Compromise ( کامپرومائز ) کا زمانہ تھا.اس کا مپرومائز یعنی سیاسی طور پر باہمی سمجھوتے کی یہ صورت بن جاتی ہے کہ باہمی سمجھوتہ کر لو.اپنی بعض اچھی چیزیں چھوڑ دو اور دوسرے کی بُری چیزیں لے لو.غرض پچھلے پچیس سالہ دور میں یہی دوخرابیاں کارفرما ر ہیں.بہر حال اس وقت پہلی دفعہ ایک نیا گروہ اُبھرا ہے جو دراصل دو گروہوں پر مشتمل ہے جن

Page 199

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۷۹ خطبه جمعه ۲۱ ۱۷اپریل ۱۹۷۲ء میں سے پہلا گروہ ۴۷ ء اور کچھ عرصہ بعد میں پیدا ہونے والے بچے ہیں یعنی وہ بچے جو ۵۱۷۵۰ء تک پیدا ہوئے اور اب وہ ۲۱ اور ۲۴ سال کی درمیانی عمر کے ہو چکے ہیں (اور ۲۱ سال کی عمر میں انہیں اپنی رائے دینے کا حق بھی مل چکا ہے ) اور دوسرے وہ لوگ جو تقسیم ملک کے وقت ۲۴، ۲۵ سال کے تھے اور اب ۴۹، ۵۰ سال کے ہو گئے ہیں ان دونوں گروہوں کو اب تک حکومت میں کوئی حصہ نہیں ملا تھا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی خاص تقدیر چل رہی تھی کہ انہیں حکومت میں کوئی حصہ نہ ملے تاہم ان کو جس چیز میں حصہ ملا وہ تھا ”سیاست بازی“ اور ”سیاسی جوڑ توڑ کو دیکھنا ، ان کا مشاہدہ کرنا اور ان کو Percieve( پرسیو ) یعنی محسوس کرنا اور پھر اپنے دماغ میں سوچنا کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچنا اور اس نتیجہ پر پہنچ کر کسی خاص قسم کے عمل کے لئے تیار ہو جانا.یعنی ایک طالب علم جو تربیت حاصل کر رہا تھا، جوفر است حاصل کر رہا تھا، جو علم حاصل کر رہا تھا جو علم سے نتائج نکال رہا تھا اور جس کے دل میں ایک خواہش اور امنگ پیدا ہورہی تھی کہ ملک میں ہونا تو یوں چاہیے لیکن ہو کچھ اور رہا ہے.چنا نچہ پچھلے الیکشن پر ملکی آبادی کے اس حصے کو پہلی دفعہ اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملاجس میں اس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا.یہ بھی خدا تعالیٰ کی شان ہے کہ ہمارے ملک کی ہر سیاسی پارٹی کی نظر سے یہ حقیقت اوجھل تھی.اس طرف کسی کو خیال ہی نہیں گیا کہ اس الیکشن کا نتیجہ کن لوگوں کے ووٹوں کی اکثریت سے نکلے گا.بس وہ اپنے پرانے اربعے لگا رہے تھے اور خود ہی اپنے دل میں فیصلے کر رہے تھے کہ یہ نتیجہ نکلے گا وہ نتیجہ نکلے گا.رورو مجھے کسی آدمی نے بتایا ہے واللہ اعلم یہ صحیح ہے یا غلط کیونکہ میرے پاس تو ایسے ذرائع نہیں ہیں کہ میں حکومت کو ملنے والی رپورٹوں کے متعلق یہ کہ سکوں کہ واقعی ایسی رپورٹ کی گئی تھی تا ہم یہ بات مشہور ہے کہ گذشتہ انتخابات سے معا پہلے پنجاب کے متعلق حکومت کی انٹیلی جینس کی رپورٹ یہ تھی کہ دولتانہ صاحب کو پنجاب سے قومی اسمبلی کی ۲۶،۲۵ نشستیں ملیں گی.جماعت اسلامی کو ۱۳ ، ۱۴ نشستیں ملیں گی اور پیپلز پارٹی کو ۷، ۸ نشستیں ملیں گی وغیرہ.اس طرح اُنہوں نے پنجاب کی جو کہ غالباً ۸۲ نشستیں ہیں ان کا تجزیہ کیا ہوا تھا.

Page 200

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۸۰ خطبه جمعه ۲۱ ۱۷اپریل ۱۹۷۲ء جب انتخابات سے شاید ایک دن پہلے کسی نے مجھے یہ بتایا کہ یہ ان کا آخری تجزیہ ہے تو میں نے کہانہ سیاستدانوں کو کچھ پتہ ہے اور نہ یہ جو حکومت کے کان اور آنکھیں ہیں (پولیس و انٹیلی جینس ) انہوں نے صحیح اندازہ لگایا ہے.دراصل وہ اس حصے یا ان دو گروہوں کو جن کے ووٹوں کی اکثریت تھی اور جنہوں نے اس موقع پر فیصلہ کن کردارادا کرنا تھا، بھول گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھ عطا فرمائی ہے.ہمارے مستعد غیر متعصب اور نہایت اچھی تربیت پانیوالے نوجوانوں نے اس موقع پر بڑی سمجھ کے ساتھ کام کئے ہیں.وہ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بات کرنے کے بعد ہر حلقہ انتخاب کے متعلق اپنی ایک رائے بھجواتے تھے اور اُنہوں نے یہ سلسلہ انتخابات سے کوئی ایک مہینہ پہلے سے شروع کر رکھا تھا.مثلاً کسی حلقہ انتخاب میں ۴۰ فیصد آراء ہیں یا اپنی برادری کے لحاظ سے اتنے لوگ ہیں یا اتنے ڈاکٹر ہیں یا اتنے محنت کش ہیں.اسی نسبت سے وہ ہر ایک سے پوچھتے تھے کہ تمہاری رائے کدھر ہے؟ چنانچہ ہر ایک گروہ کی آراء معلوم کرنے کے بعد وہ ہمیں رپورٹ بھجوا دیتے تھے.چنانچہ جہاں حکومت کے کان اور آنکھوں نے یہ رپورٹ کی تھی کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے قومی اسمبلی میں ۷، ۸ نشستیں ملیں گی وہاں ہمارے نو جوانوں نے جن کو سیاسی تجربہ بھی کوئی نہیں تھا کیونکہ ہم ایک مذہبی جماعت ہیں ہم نے سیاست کی طرف کبھی خیال بھی نہیں کیا.ہم تو اپنے نوجوانوں کو بھی یہی کہتے ہیں کہ قرآن پڑھو، حدیثیں پڑھو، نمازیں پڑھو اور دعائیں کرو اپنے لئے بھی ، ملک کے لئے بھی اور سب سے زیادہ غلبہ اسلام کے لئے ، اور بداخلاقی میں نہ پڑو.مغربیت کا اثر نہ لو وغیرہ ، غرض ہمارے نو جوانوں کو تو اس قسم کی دینی تربیت دی جاتی ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فراست عطا فرمائی اور مستعدی بخشی تھی اس لئے ان کی آخری رپورٹ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے قومی اسمبلی میں ۶۲ نشستیں ملیں گی چنانچہ انتخابات میں واقعی انہوں نے ۶۲ نشستیں لیں ایک کی غلطی بھی نہیں ہوئی چنانچہ مجھے کسی نے بتایا کہ خود پیپلز پارٹی کے بعض لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ دُنیا میں اندازے ہوا ہی کرتے ہیں لیکن ایک کی بھی غلطی نہ ہو اور جو ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہمارا یہ انداز ہے اسی کے مطابق نشستیں مل جائیں بڑی حیران کن بات ہے.یہ بات ان کے لئے واقعی حیران کن ہے کیونکہ ہماری جماعت

Page 201

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۸۱ خطبه جمعه ۲۱ ۱۷اپریل ۱۹۷۲ء کے باہر جونو جوان ہیں جن لوگوں کو ان کی تربیت کرنی چاہیے وہ بدقسمتی سے ان کی تربیت کا کما حقہ انتظام نہیں کر سکے یا جس طرح اسلام چاہتا ہے کہ ان کی تربیت کی جائے یعنی کوئی تعصب نہ ہو اور عقل و سمجھ سے کام لیا جائے.اس طرح وہ ان کی تربیت نہیں کر پاتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نو جوانوں کے اندر بھی تعصب راہ پا جاتا ہے حالانکہ تعصب انسانی دماغ کو خراب اور عقل کو مار دیتا ہے.بہر حال جو چیز میں بتا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلی دفعہ ان دو گروہوں کے ووٹوں نے فیصلہ کرنا تھا.ان میں سے ایک وہ گروہ ہے جو ۱۹۴۷ء میں آگے پیچھے پیدا ہوا.یعنی اس وقت بچے تھے یا تھوڑے سال بعد پیدا ہوئے اور دوسرا وہ گروہ ہے جو اس زمانے میں سیاسی بلوغت کی عمر کو پہنچ رہے تھے.یعنی ۲۱ سال کی عمر کو پہنچنے پر ووٹ دینے کا حق مل رہا تھا اور ان دونوں گروہوں کی ۱۹۴۷ء میں بھی بہر حال اکثریت تھی اور چونکہ نسل تو ویسے ہی بڑھ رہی ہے.اس لحاظ سے اب بھی اکثریت ہے.( آپ خود سوچیں اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاتا دیر ہو جائے گی ) اور ۱۹۴۷ء میں جولوگ چالیس، پچاس سال سے زائد عمر کے لوگ تھے ، ان کو خدا تعالیٰ نے یہ موقع نہیں دیا کہ وہ پاکستان کو صیح راہوں پر چلا سکیں.البتہ ان کو یہ موقع ضرور دیا گیا کہ وہ پاکستان کو ہلاکت سے بچاسکیں اور پھر آخر میں تو انہوں نے اس موقع کو بھی ضائع کر دیا.جس کے نتیجہ میں ملک کا ایک حصہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا اور یہ اس گروہ کی دراصل بڑی ہی ناکامی ہے کہ وہ آدھا پاکستان ہم سے کٹ گیا ہے.پس یہ تو پچھلے پچیس سال کی سیاست کے متعلق ایک بنیادی بات ہے جسے میں نے مختصراً بیان کر دیا ہے.پاکستان کی اس اکثریت یعنی ان دو گروہوں نے جوا کثریت میں ہیں اور جو یا تو اس وقت نوجوان ہیں اور یا ۴۷ ء سے نوجوان اور عملی تجربہ حاصل کرتے ہوئے اب ۵۰ سال کے لگ بھگ ان کی عمر ہے دراصل انہوں نے ہی فیصلہ کیا ہے یعنی یہ ساری شکل جواب ہمیں نظر آ رہی ہے کہ فلاں پارٹی کی اتنی طاقت ہے اور فلاں پارٹی کی اتنی ، اس میں بڑا حصہ ان دونوں گروہوں کا ہے جنہیں پہلی دفعہ اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا ہے.

Page 202

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۸۲ خطبه جمعه ۲۱ ۱۷اپریل ۱۹۷۲ ء پس جہاں ہمارے لئے یہ امر انتہائی دکھ وہ ہے کہ مشرقی پاکستان عارضی طور پر ہم سے جدا ہو گیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لے یہ خوشی کا سامان پیدا کر دیا ہے کہ لاقانونیت اور مارشل لاء کا دور ختم ہوا اور قانون اور عوامی حکومت کا دور شروع ہو گیا ہے.عوامی جمہوریہ دراصل مشاورت کے اصول پر قائم ہوتی ہے اسلام کا بنیادی اصول بھی یہی ہے کہ باہم مشورہ کے ساتھ حکومت کا نظم ونسق چلانا ہے چنانچہ یہ مسئلہ تو طے ہو گیا ہے اس وقت میں جماعت کو اس امر کے متعلق توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ان کی دعا کرنے کی ذمہ داری ہے، جماعت کو اس طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے.دراصل جہاں تک مشورہ کا تعلق تھا وہ لیجسلیچر یعنی منتخب نمائندوں کی اسمبلی ( جسے زیادہ تر ان ووٹوں نے منتخب کیا ہے جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ) قائم ہوگئی ، مارشل لاء ختم ہو گیا.اب اُنہوں نے سوچنا بھی ہے،مشورے بھی کرنے ہیں.مشورے تو ہوں گے لیکن دُنیا کا کام محض مشوروں سے کامیابی تک نہیں پہنچتا.پس مشورہ کے علاوہ دو اور چیزوں کی ضرورت ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ فلاح و کامیابی کے لئے ایک تو عزم اور دوسرے تو گل کی ضرورت ہے.اگر کوئی مشورہ عزم پر منتج نہ ہو یعنی اگر لوگ ویسے ہی باتیں بنائیں اور دھواں دھار تقریریں کریں اور پھر منتشر ہو جائیں تو یہ لا یعنی مشورہ ہے، مشورہ اگر صحیح راہ پر ہے تو اسے نتیجہ خیز بنانے کے لئے عزم کا ہونا ضروری ہے ورنہ کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور عزم کے کامیاب ہونے کے لئے تو کل ضروری ہے جس کے بغیر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.پس مجلس مشاورت یعنی لیجسلیچر کے سامان تو پیدا ہو گئے لیکن اگر ہمارے ملک اور ہماری قوم نے ترقی کرنی ہے اور دُنیا میں عزت کا کوئی مقام حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے از بس ضروری ہے کہ مشاورت یعنی لیجسلیچر کے مشوروں کے بعد صحیح عزم اور صیح تو گل پیدا ہو.اس کے لئے ہمیں دعا کرنی چاہیے.عزم کے دو معنے ہیں.ایک پختہ ارادہ کرنے کے یعنی اپنے دل میں یہ عہد کر لینا کہ میں یہ کام ضرور کروں گا.اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ جو پختہ ارادہ کیا گیا ہے اس پر سنجیدگی کے ساتھ اور اپنی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ عمل کرنا.غرض یہ ہر دو قسم کا مفہوم عزم کے

Page 203

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۸۳ خطبه جمعه ۲۱ ۱۷اپریل ۱۹۷۲ء معنوں کے اندر شامل ہے اور پختہ ارادہ جس پر سنجیدگی اور پوری صحت اور طاقت سے عمل کیا جائے اس کو عربی زبان میں ”عزم“ کہتے ہیں.پس موجودہ لیجسلیچر نے جو فیصلے کئے ہیں ان کی حیثیت زیادہ سے زیادہ پختہ ارادہ کی ہے یعنی ایک خاص معاملہ کے متعلق فیصلہ ہو گیا لیکن عزم کا جو دوسرا بنیادی اور اہم حصہ ہے یعنی پوری سنجیدگی کے ساتھ اور ساری طاقت کے ساتھ اپنے اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنا کر نیک نتائج تک پہنچا دینا، یہ یجسلیچر یعنی مقنہ کا کام نہیں ہے، یہ انتظامیہ یعنی حکومت کا کام ہے مثلاً اب ان حالات میں یہ صدر بھٹو کا کام ہے، یہ اُن کے وزراء کا کام ہے، یہ اُن کے مشیروں کا کام ہے، یہ صوبوں کے گورنروں کا کام ہے یا اُن کے وزراء کا کام ہے.غرض لیجسلیچر کے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا ( لیجسلیچر کے باہر ) حکومت کا کام ہے.پس مرکزی لیجسلیچر نے فیصلہ کر دیا ہے اور یہ عزم کا ایک حصہ ہے کہ پختہ عزم کر لیا کہ ہم نے یوں کرنا ہے لیکن اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانا اور پوری ہمت اور کوشش سے کامیاب کرنا یہ عزم کا دوسرا حصہ ہے جس کا تعلق ایگزیکٹو سے ہے یعنی موجودہ شکل میں صدر مملکت اور ان کے وزراء یا حکومت کی دوسری مشینری یعنی کل پرزے جو ہیں یہ اُن کا کام ہے.جہاں تک انتظامیہ کی کارکردگی کا تعلق ہے اس میں دو برائیاں پیدا ہوسکتی ہیں جن سے بچنے کے لئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو ان سے محفوظ رکھے.ایک برائی یہ پیدا ہوسکتی ہے کہ جو عزم کا عملی حصہ ہے یعنی پختہ ارادہ کو پوری سنجیدگی اور ساری طاقت کے ساتھ عملی جامہ پہنانا اس میں کوئی کمزوری نہ پیدا ہو جائے مثلاً ہماری لیجسلیچر یعنی مقننہ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ بس فیصلہ ہو گیا ہے.اب اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں چنانچہ عزم کے اس عملی حصے کی طرف جب پوری سنجیدگی کے ساتھ اور پورے طور پر توجہ نہیں دی جاتی تو اس میں ایک بنیادی نقص پیدا ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے دل کا ارادہ ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی بھی دلی ارادہ اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ حسنِ عمل نہ ہو.عزم کے عملی حصے میں دوسری خرابی یہ پیدا ہوسکتی ہے کہ مثلاً انسان کسی کام کے متعلق یہ پختہ

Page 204

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۸۴ خطبه جمعه ۲۱ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ء ارادہ کرتا ہے کہ میں نے یہ کام کر کے چھوڑنا ہے.میں اس کے لئے تو جہ بھی دوں گا.میرے پاس اس کی تکمیل کے لئے بڑے سامان موجود ہیں.غرض وہ اپنے دل میں کہتا ہے میں یہ کروں گا میں وہ کروں گا.مگر اللہ تعالیٰ کا خانہ خالی رہ جاتا ہے حالانکہ انسانی عزم کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ پر تو کل بھی بڑا ضروری ہے.انسان جب بھی کسی کام کا عزم کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنی طاقت یا اپنے علم یا اپنی خواہش یا اپنے بلند ارادے یا اپنے سامانوں پر بھروسہ نہ کرے بلکہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے محض خدا تعالیٰ اور اس کی صفات پر توکل رکھے اور اس کی طاقتوں پر تکیہ کرے.اگر کوئی آدمی ایسا نہیں کرتا تو شیطان اس کے ارادوں کو ناکام بنا دیتا ہے.پس عزم کے عملی پہلوؤں میں ایک تو کوئی کمزوری نہیں آنی چاہیے.یعنی نہ سنجیدگی سے کام کرنے کے لحاظ سے کمزوری پیدا ہو اور نہ پوری طاقت کے استعمال میں کمزوری پیدا ہو کیونکہ آدھی پیچدھی طاقت خرچ کر دینے سے کوئی کام پورا نہیں ہوسکتا.دوسرے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم اپنی قوتِ بازو سے اپنے ارادوں کو کامیاب بنادیں گے.ہمارے ارادے خواہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں ، ہماری نیتیں خواہ کتنی ہی نیک کیوں نہ ہوں اگر اس ارادے یا نیت نے اللہ تعالیٰ کے دامن کو نہیں تھاما اور اسے مضبوطی کے ساتھ نہیں پکڑا تو پھر کامیابی ممکن نہیں.پس جماعت کو یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے.ہمارے وہ مظلوم، غریب اور مستحق بھائی جن کے حقوق کی ادائیگی کے سامان پیدا ہونے کا امکان ہمیں اُفق سیاست پر نظر آ رہا ہے اُن کے حقوق کی حفاظت کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ میسر آجائیں یعنی مشاورت کے بعد صحیح عزم کا ہونا پھر عزم کے دونوں پہلوؤں کا پایا جانا.پھر عزم یعنی پختہ ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تکبر اور غرور کا پیدا نہ ہونا یعنی اپنے نفس پر، یا اپنی فراست پر یا اپنے علم پر یا اپنے تجربہ پر یا اپنی استطاعت پر یا اپنی دولت پر بھروسہ اور تکیہ نہ کرنا بلکہ محض اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا اور یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی کامیابی عطا ہوتی ہے.خدا کرے کہ ہمارے مظلوم بھائیوں کی خاطر ہماری موجودہ حکومت کو یہ سامان میسر آئیں اور خدا کرے کہ ہمارے غریب اور مظلوم بھائیوں کے اندھیروں کے دن حقیقتا ختم ہو جائیں.یہ محض زبانی

Page 205

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۸۵ خطبه جمعه ۲۱ ۱۷اپریل ۱۹۷۲ء نعرے نہ ہوں کہ ظلمت دور ہو گئی اور نور آ گیا بلکہ ہر گھر میں اس نور سے اُجالا ہو جائے.اسلام نے ہر انسان کے جو حقوق قائم کئے ہیں خدا کرے ان حقوق کی شمعیں ہر گھر میں روشن ہو جا ئیں اور ہمارے ملک میں خوشحالی و خوش بختی اور روشنی و روشن خیالی کے سامان پیدا ہو جا ئیں اور ہر ایک آدمی کو اپنی ذمہ داریوں کے کما حقہ نباہنے کی توفیق ملتی رہے.روز نامه الفضل ربوه ۱۴ رمئی ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 206

Page 207

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۸۷ خطبه جمعه ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۲ء انفرادی زندگی کی طرح اجتماعی زندگی میں بھی محاسبہ نفس کے بغیر کامیابی کی راہیں نہیں کھل سکتیں فرمائی:.خطبه جمعه فرموده ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اِس حصہ آیت کی تلاوت وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة - (البقرة : ٤٦) پھر فرمایا:.ایک سال ختم ہونے کو ہے اور ایک نیا سال شروع ہونے والا ہے.یہ زمانی اور مکانی فاصلے اور منزلیں ، کوشش اور جدو جہد کی انتہا نہیں ہوتے بلکہ ایک کوشش جب ختم ہوتی ہے تو ایک نئی اور ایک بڑی کوشش شروع ہو جاتی ہے اور اس تسلسل کی ہر منزل ٹھہرنے کی جگہ نہیں بلکہ ایک نئی کوشش کے انتظام.ایک نئے عزم کا مقام ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک دور تو ایک سال کا بنایا ہے جس کا میں اس وقت ذکر کر رہا ہوں اور اُس نے بعض دوسرے دور بھی بنائے ہیں جن میں وقت کم یا زیادہ ہوتا ہے.فاصلے اور زمانے کی اس تعیین میں کئی حکمتیں ہیں جن میں ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ ( سال کا ) دور جو گذرا اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا.اس امر کا محاسبہ ہونا چاہیے اور یہ بات کھل کر ہمارے

Page 208

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۸۸ خطبه جمعه ۲۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ ء سامنے آنی چاہیے کہ ہم نے کونسی غلطیاں کیں اور کیا کامیابیاں حاصل کیں.جہاں انفرادی زندگی محاسبہ نفس کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی وہاں اجتماعی زندگی میں بھی محاسبہ کے بغیر ترقی کی راہیں نہیں کھلا کرتیں.اگر انسان یہ سمجھ لے کہ جو کچھ اس نے کیا ہے وہ درست ہے اور کامل ہے اور اس کا صحیح نتیجہ نکلنا چاہیے، تو اس کی غلطیاں دور نہیں ہونگی اور اگر وہ یہ خیال کرے کہ جتنا کام مجھے کرنا چاہیے تھا میں نے کر لیا ہے تو اس کو زیادہ زور کے ساتھ کام کرنے کی توفیق نہیں ملے گی.بہر حال ایک جائزہ لینا چاہیے اور اس بات کا محاسبہ ہونا چاہیے کہ ہم نے کہاں ، کس رنگ میں اور کیوں غلطی کی اور آئندہ اس سے بچنے اور اصلاح کرنے کا پروگرام بنا چاہیے.ہمارا جو سال ختم ہوتا ہے اس میں جو کوششیں کی جاتی ہیں اس دوران خدا تعالیٰ کی راہ میں جو قربانیاں دی جاتی ہیں اور نفس اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے جو جد و جہد اور مجاہدہ کیا جاتا ہے اس کا ایک حصہ ہماری مالی قربانیاں ہیں.میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جب مالی قربانیاں ایک نظام کے ماتحت دی جائیں تو احباب جماعت یہ توقع رکھتے ہیں کہ انتظام چست ہوگا اور سارا سال باہمی مشوروں ، یاد دہانیوں اور نصیحت کے ذریعے ذمہ داریاں ادا کروائی جائیں گی.ایک نقطہ نگاہ سے نظام ذمہ داری ادا کرتا ہے اور ایک دوسرے نقطۂ نگاہ سے ذمہ داری ادا کرواتا ہے.پس احباب جماعت یہ سمجھتے ہیں کہ ذمہ داریاں ادا کرائی جائیں گی اور کسی ایک کو بھی سست ہونے دیا جائے گا نہ غافل.اس طرح سارے مل کر اس انتظام میں آگے سے آگے اور تیز سے تیز تر ہوتے ہوئے بڑھتے چلے جائیں گے لیکن اس کے برعکس بعض جگہ تو بہت بھیا نک حد تک اور بعض جگہ ایک حد تک سستی یہ ہوتی ہے کہ وہ مالی بوجھ جو احباب جماعت پر سارے سال میں پھیل کر پڑنا چاہیے.وہ پھیلاؤ کی بجائے بعض دفعہ آخری چھ ماہ یا آخری دو ماہ پر پڑتا ہے.پس احباب جماعت کے لئے حالات کے لحاظ سے پروگرام بننا چاہیے مثلاً زمیندار ہیں ان کے لئے چھ ماہ کا پروگرام ہو کیونکہ انہوں نے فصلوں کے موقع پر اپنی مالی قربانیاں پیش کرنی ہیں.جب ان کی فصلیں تیار ہوں اور مالی قربانی کے قابل ہوں تو اس وقت ان کو یاد دہانی کرائی جانی چاہیے تا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں وقت پر ادا کر دیں اور بعد میں ان کو بوجھ برداشت نہ کرنا پڑے.جماعت کے بعض دوست ایسے

Page 209

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۸۹ خطبہ جمعہ ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۲ء ہیں کہ جنہیں ماہانہ تنخواہ ملتی ہے.ان کی ماہانہ مالی ذمہ داری ادا ہونی چاہیے.اگر وہ کسی ایک مہینہ میں سستی دکھائیں گے تو دوسرے مہینے ان پر بڑا بوجھ پڑ جائے گا.اگر آپ نے ان کو آٹھ نو مہینے ست رہنے دیا تو گویا دسویں، گیارہویں اور بارہویں ماہ میں سارے سال کے چندے ادا کرنے اور مالی قربانیاں پیش کرنے کا ان پر بڑا بوجھ پڑ گیا.یورپ وغیرہ میں اکثر جگہ ہفتہ وار تنخواہ ملتی ہے لہذا وہاں ہفتہ وار وصولی ہونی چاہیے.مثلاً ایک شخص کو انگلستان میں آٹھ پاؤنڈ ہفتہ وار ملتے ہیں اگر آپ اس سے ہفتہ وار سولہواں حصہ یعنی دس شلنگ نہیں لیتے ( سال کے حساب سے سولہواں حصہ کچھ کم بنے گا ) دوسرے ہفتے بھی نہیں لیتے ، پھر تیسرے ہفتے بھی نہیں لیتے اور چوتھے ہفتے چار ہفتوں کا اکٹھا لینا چاہتے ہیں تو اس صورت میں اس پر بڑا بوجھ ہوگا.مزدور ہیں جو روزانہ کمانے والے ہیں اگر چہ اس معاملہ میں زیادہ سوچنے ،فکروتد بر کرنے اور زیادہ مشورے کرنے کی ضرورت ہے لیکن کسی وقت ہمیں اس طرف آنا پڑے گا اور اس کے بارہ میں کوئی پروگرام بنانا ہوگا.ایک مزدور جو صبح سے شام تک محنت کر کے کما رہا ہے.اگر اس کی کمائی پانچ روپے روزانہ ہے تو پانچ آنے اس کو چندہ عام دے دینا چاہیے.( آنے اگر چہ مروجہ سکوں میں ختم ہو چکے ہیں لیکن میں اس مثال میں آنے ہی لوں گا تا کہ آسانی سے سمجھ آجائے ) پانچ روپے میں سے پانچ آنے دینا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں.لیکن مہینے کے آخر میں روزانہ کمانے والے کے لئے ڈیڑھ سو آنے دینا عملاً ناممکن ہے ، سوائے اس کے کہ وہ بہت قربانی کرنے والا ہواور اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر یہ رقم ادا کر دے اور اس صورت میں آپ ( اور آپ سے میری مراد اس تسلسل میں نظام جماعت ہے ) اُس تکلیف کے ذمہ وارہوں گے.رواز نہ ادا ئیگی اُس کے لئے کوئی بوجھ نہیں ہے کیونکہ پانچ روپے وہ کماتا ہے اور پانچ آنے اُس نے چندہ دینا ہے.اگر چہ جماعت میں اس وقت روزانہ وصولی کا یہ نظام نہیں ہے لیکن اب ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے.اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت جماعت میں وسعت پیدا کر رہی ہے اور انہی سلسلوں میں ابتداء میں غرباء ہی شامل ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری اکثریت مزدوروں

Page 210

خطبات ناصر جلد چہارم 190 خطبه جمعه ۲۸ ا پریل ۱۹۷۲ء اور کسانوں پر مشتمل ہے جن کو روزانہ یا دو دن بعد اجرت ملتی ہے یا بعض دفعہ مزدور کو جب سہولت ہو تو خود ہی کہتا ہے کہ میں نے تین دن تمہارا کام کرنا ہے تین دن کے بعد مجھے اکٹھی مزدوری دے دینا لیکن بہت سارے مزدور ایسے ہیں جو روزانہ کماتے ہیں اور روزانہ ہی ان کا خرچ ہوتا ہے.بہر حال اس کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے اور اس طرف توجہ کرنی چاہیے.خدا تعالیٰ قادر مطلق ہے اسی کا سب کچھ ہے وہ سارا بھی لے لے تو کسی کو اعتراض نہیں.عقلاً نہ کسی اور لحاظ سے جب وہ خدا کہتا ہے کہ جتنا بوجھ تم برداشت کر سکتے ہو میں اس سے زیادہ مشقت تمہارے اوپر نہیں ڈالوں گا جیسا کہ فرما یا لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷) جب قادر مطلق خدا کا یہ ارشاد ہے تو ایک عاجز انسان کو کون حق دے سکتا ہے کہ اپنے بھائی پر اس سے زیادہ بوجھ ڈال دے جتنا وہ برداشت کر سکتا ہے.جب آپ انتظامی سستی کرتے ہیں جب آپ کا بھائی اپنی کمائی میں سے مالی قربانی دینا چاہتا ہے اور آپ اس سے وقت پر نہیں لیتے تو آپ اس پر ایسا بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں جو اس کے لئے تکلیف اور تنگی کا موجب ہے اور نا قابل برداشت بوجھ کے احساس پر منتج ہوتا ہے.اس سے بچنا چاہیے کیونکہ یہ گناہ ہے جس طرح اور دکھ دینا اور ایذاء رسانی منع اور گناہ ہے اسی طرح یہ بھی منع ہے.انتظام ایسا ہونا چاہیے کہ احباب جماعت نا قابل برداشت بوجھ سے بچ سکیں.اس کی کئی شکلیں نکل سکتی ہیں جن کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاتا.بہر حال کئی جگہ نہیں بلکہ اکثر جگہ کچھ نہ کچھ شستی ضرور ہو جاتی ہے اور بعض جگہ تو اتنی شستی ہوئی ہے کہ آدمی سوچ کر کانپ اُٹھتا ہے.مثلاً ایک ضلع کا صدرانجمن احمدیہ کا کل چندہ پونے دو لاکھ کے قریب تھا اور اب اسی آخری مہینے میں مجھے پتہ لگا کہ اس میں سے وصولی پچاس ساٹھ ہزار ہے اور بقایا ایک لاکھ نہیں تیس ہزار کے درمیان ہے.گو یا ضلع کے انتظام نے کام ہی کوئی نہیں کیا اور اب خط لکھ رہے ہیں کہ ہم بڑی کوشش کر رہے ہیں.جو شخص قربانی دینے والا ہے وہ تو اپنے اوپر مصیبت ڈال کر بھی ( ناجائز مصیبت جو تم نے اس کے لئے پیدا کی ہے ) اور انتہائی قربانی دے کر بھی خدا کے حضور اپنے اموال پیش کر دے گا لیکن تم منتظم ہونے کے لحاظ سے اور جماعتی نظام کے عہد یدار ہونے کے

Page 211

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۹۱ خطبه جمعه ۲۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ء لحاظ سے ایک بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہو.تم نے اپنے بھائیوں کے لئے دُکھ کا سامان پیدا کیا ہے.بجائے اس کے کہ تم ان کے لئے راحت اور بشاشت اور سہولت کے سامان پیدا کرتے.اللہ تعالیٰ کا دین ئیسر یعنی سہولت کا سامان پیدا کرتا ہے.سہولت کے یہ معنے نہیں کہ چوری کرو اور کھا لو.کئی تو عملاً ان معنوں کی طرف چلے جاتے ہیں.کیسر کا مطلب ہی یہ ہے کہ سارا ڈھانچہ ایسا ہے کہ جب وہ پختہ اور مضبوط ہو تو ایک مومن ہنستے کھیلتے بشاشت کے ساتھ قربانیاں کرتا چلا جاتا ہے.جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ جس دل میں ایمان کی بشاشت پیدا ہو جاتی ہے اسے پھر کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا تو ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس مومن کا جو ماحول ہے، وہ بشاشتیں پیدا کرنے والا ہے.مومن جس نظام میں بندھ جاتا ہے وہ نظام بشاشت پیدا کرنے والا ہوتا ہے، ناجائز بوجھ ڈالنے والا نہیں ہوتا لیکن جب نظام کی کمزوری ہو یا نظام کی عدم توجہ ہو یا نظام کی غفلت یا نظام کی بے پروا ہی ہو تو نظام ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ بشاشت چھن جاتی ہے.اس کے باوجود نانوے فی صد احمدی ایسے ہیں کہ پھر بھی ان سے بشاشت نہیں چھینی جاتی مگر تم نے ایک گناہ کا ارتکاب کر لیا اور تم سے مراد عہد یداران جماعت ہے.میں نے بتایا ہے کہ اکثر جگہ تھوڑی بہت شستی ہوتی ہے لیکن بعض جگہ اتنی زیادہ سستی اور غفلت سے کام لیا گیا ہے کہ میں بے حد پریشانی کے ایام میں سے گزرا ہوں.تم نے پچیس فی صد کام کیا اور پچھتر فیصد بوجھ اپنے بھائیوں پر ڈال دیا جس کا جواز ہی کوئی نہیں تمہاری غفلت کے نتیجے میں جو تکلیف پیدا ہوئی ہے اس کا کوئی جواز نہیں اور تم خدا کے سامنے اس بات کے ذمہ دار اور جواب دہ ہو.اب ایک مالی سال گزر رہا ہے اور دوسرا مالی سال شروع ہو رہا ہے.سب کو اپنی اپنی جگہ سوچنا چاہیے کہ ہم کم سے کم ناجائز بوجھ ڈالیں.کم سے کم میں اس لئے کہتا ہوں کہ بہر حال انسان کمزور ہے کمزوری بھی ہو سکتی ہے ورنہ، اصولاً تو یہ ہے کہ قطعا کوئی بوجھ نہ پڑے.پس کم سے کم بوجھ ڈال کر احباب جماعت کے لئے زیادہ سے زیادہ بشاشت اور سہولت کے سامان پیدا کریں.یہ سوچنا چاہیے کہ یہ سامان کس طرح مہیا ہو سکتے ہیں.بعض جگہ میں نے دیکھا ہے کہ کاغذ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اور عقل اور عمل سے تھوڑا.یہ

Page 212

خطبات ناصر جلد چهارم ۱۹۲ خطبه جمعه ۲۸ را پریل ۱۹۷۲ ء بھی غلط ہے کیونکہ کاغذی گھوڑے دوڑانے کے ساتھ تو کامیابی نہیں ہوا کرتی.پھر بعض جگہ میں نے دیکھا ہے کہ غلط عمل کرتے ہیں اور غلط عمل کی وجہ سے نتیجہ صحیح نہیں نکلتا اور نہ پھل پیدا ہوتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کوشش تو بڑی کی مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا.یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ کوئی مذہبی جماعت انکار کر سکتی ہے کہ جب سے انبیاء کا سلسلہ شروع ہوا اس وقت سے لے کر آج تک انسان نے یہی دیکھا کہ جب خلوص نیت کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تدبیر کے ماتحت کام کیا جاتا ہے جس تدبیر میں دعا بھی شامل ہو تو وہ کام بے نتیجہ نہیں رہ سکتا.کبھی خدا تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنے حکم اور غلبہ اور عزت کے ثابت کرنے کے لئے ایک مثال قائم کر دیتا ہے کہ کوشش کا نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور پھر چھن جاتا ہے.انفرادی طور پر بھی ایسا ہوتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی لیکن اس میں بھی حکمت ہوتی ہے اور کوئی سبق دینا مقصود ہوتا ہے کوئی اور غفلت ہوتی ہے جسے دور کرنا مقصود ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کا عام قانون یہی ہے کہ اگر اس کے بتائے ہوئے طریق پر اور اس کے قائم کردہ قانون کے مطابق کوشش کرو گے تو پھل پاؤ گے.یہ عام قانون ہے.ناکام ہونے والوں کی غلطی اپنی ہوتی ہے اور سر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ.ہمیشہ ہر نا کا می اپنی طرف منسوب کرو اگر تم نے کامیاب ہونا ہے تو اپنی اصلاح کی کوشش کرو اور محاسبہ کرو.نفس کا بھی محاسبہ اور جماعتی تنظیم کا بھی محاسبہ کوئی کمزوری یا غفلت یا بے ثمر ہونا خدا کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا.پس اسے اپنی طرف منسوب کرو اور اس کو دور کرنے کی کوشش کرو.مجھے تو بڑا سخت غصہ آتا ہے اگر میرے سامنے کوئی ایسی بات کرے کہ ہم نے تو کوشش کی تھی مگر نتیجہ کوئی نہیں نکلا.نعوذ باللہ گو یا اللہ تعالیٰ بڑا ظالم ہے جس نے کوئی نتیجہ نہیں نکالا.یہ تو ناممکن بات ہے اب ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہمارے دل میں جو اللہ تعالیٰ کا پیار ہے اور ہمیں صفات باری کی جو معرفت حاصل ہے وہ اس کی نفی کرتی ہے.پس تمہاری کوشش کے نتیجہ میں جو نا کا می پیدا ہوئی ہے وہ تمہاری بد عملی اور کم عقلی کا نتیجہ ہے اور وہ نتیجہ خدا کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.اگر تم خدا کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق کام کرو

Page 213

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۹۳ خطبه جمعه ۲۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ ء گے.حسن عمل ہو گا جو دعا کے ستونوں کے اوپر کھڑا ہو گا.پھر نا کامی کا سوال ہی نہیں اور رفعت یقیناً حاصل ہو جائے گی لیکن اگر تم بظاہر حسن عمل کرو اور دعا کے ستون اس کے لئے تیار نہ کرو تو وہ بلندی تمہیں نہیں ملے گی اور کامیابی تمہارے نصیب میں نہیں ہوگی لیکن جیسا کہ خدا نے کہا اِسْتَعِينُوا بالصبر والصلوة کہ ایک مسلسل اور نہ تھکنے والے عمل اور دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا تمہیں مل جائے گی.ہم اس کو فلاح کہتے ہیں اور ہماری کوششوں کا یہی پھل ہے صرف سمجھانے کے لئے نام مختلف رکھے جاتے ہیں.پس ایک تو مالی قربانیوں کے سلسلے میں جو کامیابیاں ہوئیں یا ناکامیاں ہوئیں، جو غفلتیں ہوئیں یا جو کمزوریاں ہمیں نظر آئیں، یہ سب کچھ ہمارے سامنے آنا چاہیے اور دوسرے ہمیں ایک نیا عہد باندھنا چاہیے کہ اگلے سال ایسا نہیں ہو گا اور ہم اپنے بھائیوں کے لئے دکھ اور تکلیف کا باعث نہیں بنیں گے بلکہ ان کے لئے سہولتوں کا باعث بنیں گے.جماعت احمدیہ کی جو اجتماعی جدو جہد ہے اس میں مالی قربانیاں ایک چھوٹی سی کوشش ہے.جماعت کی طرف سے جو ایک جہاد شروع ہے اور ایک عمل کا پروگرام جاری ہے، دُنیا کبھی اس کو منصوبہ کہتی ہے اور کبھی کچھ کہتی ہے لیکن میں کہوں گا کہ ہر ایک پہلو سے اپنے رب کے حضور ہماری جو عا جزا نہ پیشکش ہے مالی قربانی تو اس کا صرف ایک نقطۂ نگاہ ، ایک زاویہ اور ایک پہلو ہے.اس کے علاوہ جماعت کی ہزاروں ذمہ داریاں ہیں.آپ مالی قربانی بھی حقوق اللہ کی ادائیگی کے لئے ہی دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کو تو مال کی ضرورت نہیں لیکن اس معنی میں کہ اس کے بندوں کو علم سکھا کر اور عقل دے کر اور قرآن کریم کے نور سے ان کے سینوں کو منور کر کے ان کے لئے ایسے سامان پیدا کریں کہ وہ خدا تعالیٰ کی حمد کریں اگر چہ اللہ تعالیٰ کا یہی حق ہے کہ ہم اس کے عاجز اور شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کو گزاریں لیکن اللہ تعالیٰ کو نہ میری طاقت کی ضرورت ہے نہ اس کو میرے مال کی ضرورت ہے، نہ میری دولت کی ضرورت ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو اس حمد کی ضرورت ہے جو میری زبان سے نکلتی ہے غرض یہ کہ خدا تعالیٰ کو تو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہم اس کے شکر گزار بندے بن کر اس کی رضا کو حاصل کرتے ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا حق ہے.یہ

Page 214

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۹۴ خطبه جمعه ۲۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ء محاورہ تو ہمیں خوش کرنے کے لئے بنا دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے ورنہ اصل تو یہ ہے کہ ہمارا ہی حق ہے کہ ہم اپنے رب کو راضی کر لیں اور یہ اس کی مہربانی ہے کہ اس نے ہمیں یہ حق دے دیا.حقوق اللہ کی طرح حقوق العباد کی ادائیگی بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کے حق اور اس کے بندوں کے حق کو اُسی کے حکم اور منشاء اور قانون اور شریعت کے مطابق اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ادا کرنا یہی اسلام ہے اور یہی مذہب ہے.پہلے مذاہب اور رنگ کے تھے.وہ وقتی، زمانی اور مکانی تھے اب ایک عالمگیر مذہب یعنی اسلام آ گیا ہے جو قیامت تک کے لئے ہے لیکن مذہب کی یہ خصوصیت یعنی اس کا وقتی یا زمانی یا مکانی ہونا یا اس کا ایک عالمگیر اور قیامت تک کے لئے ممتد ہونا ، دونوں میں اس لحاظ سے کوئی تفریق نہیں کرتی کہ اللہ تعالیٰ کا حق اور اس کے بندوں کا حق ادا کرنا ہے یا نہیں.ہر مذہب جو اس دُنیا میں آیا اس نے کہا کہ خدا کے حقوق اُس کو دو اور اس کے بندوں کے حقوق ان کو دو.یہ صحیح ہے کہ اسلام نے عالمگیر مذہب ہونے کے لحاظ سے ایسے حقوق قائم کئے جو عالمگیر نوعیت کے ہیں اور ان کی ادائیگی کے ایسے سامان پیدا کئے کہ ہر زمانہ میں جو حق بنے تو بدلے ہوئے حالات کے لحاظ سے ان حقوق کی ادائیگی کی سمجھ اور ان کا فہم بھی عطا کیا.خدا تعالیٰ نے اسلام میں اپنے بندوں کو کھڑا کیا جنہوں نے قرآن کریم سکھا یا.پھر ان حقوق کی ادائیگی کے لئے جن نئے سے نئے سامانوں کی ضرورت تھی وہ بھی پیدا کئے.دراصل ہم اپنے مال بھی حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہی پیش کرتے ہیں.مثال کے طور پر خدا کے بندے کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے علم قرآن حاصل ہو.یہ ایک بندے کا حق ہے اور کوئی شخص اپنے بھائی کو یہ نہیں کہ سکتا کہ جا تجھے قرآن کریم سے کیا تعلق ہے؟ کیونکہ قرآن کریم نے تو ہر فرد بشر کو مخاطب کر کے کہا کہ مجھے سیکھ مجھے سمجھے، مجھے سے فائدہ اُٹھا اور میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر.پس ہر بندہ خدا کا یہ حق ہے کہ وہ قرآن جانتا ہو اور قرآن کی سمجھ رکھتا ہو.اب ہماری مالی قربانیوں کا ایک حصہ اُس حق کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہر فرد بشر کا قائم کیا کہ وہ قرآن کریم کا علم حاصل کرے اور اس سے استفادہ کرے.ہمیں اس کے متعلق بھی غور کرنا چاہیے

Page 215

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۹۵ خطبه جمعه ۲۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ء که گذشته سال حقوق العباد کی ادائیگی کے اس حصہ میں ہم نے غفلتیں تو نہیں برتیں اور اس مہم میں ہم پر جو ذمہ داریاں تھیں ہم نے وہ پوری طرح ادا کی ہیں یا نہیں؟ میں نے یہ ایک مثال صرف اس لئے دی ہے تا کہ آپ سمجھ جائیں کہ مالی قربانی یا اپنے رب کے حضور جو ہماری مالی پیشکش ہے وہ تو ہماری کوشش ہے وہ تو ہماری کوشش اور جدو جہد کا ایک بالکل تھوڑا سا حصہ ہے پھر وہ خود مقصود بھی نہیں بلکہ مقصود حقوق العباد کی ادائیگی ہے اور اس کے بہت سے پہلو ہیں.اس وقت میں نے زیادہ تفصیل کے ساتھ مالی قربانی کے حصہ کو بیان کیا ہے اور آئندہ مجھے توفیق ملی تو دوسری باتوں کولوں گا ( انشاء اللہ تعالیٰ ) اور ان کے متعلق بتاؤں گا مثلاً تعلیم القرآن ہے اس کی جو ذمہ واری ہمارے اوپر ہے جب اس کا محاسبہ کریں گے تو ساری چیزیں سامنے آئیں گی کہ اس ذمہ واری کی ادائیگی میں روکیں کون سی ہیں ، کن اطراف سے ہیں اور ان کو دور کیسے کیا جا سکتا ہے تا کہ ہماری ذمہ داری پوری طرح ادا ہو سکے وغیرہ وغیرہ.اسی طرح محاسبہ سے یہ بھی علم ہو گا کہ اس کی ادائیگی میں سہولتیں کونسی ہیں؟ آیا وہ سہولت پوری پوری ہمیں میسر آئی ہے یا کچھ مزید میسر آسکتی ہے غرضیکہ درمیان سے روکیں بھی دور ہوں اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے جو سامان ہیں اگر ہم اپنی غفلتوں کے نتیجہ میں ایک حد تک ان سے محروم رہے ہیں تو وہ سامان بھی ہمیں ملنے چاہیں تاکہ تعلیم قرآن جو ایک انسان کا بنیادی حق ہے اس بنیادی حق کو ہم پوری طرح ادا کر سکیں.میں اگلے مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں جماعت کے سامنے ان باتوں کو رکھوں گا اور اس بارہ میں انہیں نصیحت کروں گا.اللہ تعالیٰ مجھے اس کی توفیق دے.بہر حال آج کل ہمارے دفاتر کے ایک حصے نظارت بیت المال آمد کو بھی بڑی پریشانی ہے اور باہر کے نظام کو بھی اپنی غفلتوں اور سستیوں کے نتیجہ میں پریشانی اٹھانی پڑی.میں نے کئی خطوط اپنے دستخطوں سے بھیج کر ان کو یاد دہانی کرائی اور ان پر زور دیا کہ ذمہ داری کو ادا کریں.نظارت بیت المال نے میرے سامنے یہی سفارش کی تھی کہ سو فیصد وعدے پورے کرنے کے بارہ میں لکھا جائے.میں نے انہیں یہ کہا تھا کہ میں تو یہ نہیں لکھوں گا بلکہ میں یہ لکھوں گا کہ اپنے وعدوں کو ایک سو دس فیصد پورا کریں.میں ان دوستوں کو اُس جگہ پر کیوں کھڑا کر دوں

Page 216

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۹۶ خطبه جمعه ۱/۲۸ پریل ۱۹۷۲ء جہاں ایک سال پہلے ہم نے سوچا تھا کہ وہاں کھڑے ہوں گے.ان کو تو اس سے آگے نکلنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں ہم پر بڑے فضل کئے اور بڑی رحمتیں نازل کیں.اب ایک جگہ سے یہ اطلاع ملی ہے کہ اُن کی وصولی ۱۱۸ فیصد پر پہنچ گئی ہے.ایک اور جگہ کی اطلاع ہے ( یہ جماعت بہت بڑی ہے اور کئی لاکھ ان کا چندہ ہے ) کہ ان کا چندہ ایک سو چھ یا ایک سو آٹھ فیصد تک پہنچا ہوا ہے.ابھی وقت ختم نہیں ہوا اور مزید چندہ ابھی آرہا ہے.دیکھیں کہاں تک پہنچتا ہے.یک صدا اٹھارہ ۱۱۸) فیصد تک پہنچ گئے ہیں.پس اگر صحیح کوشش کی جائے تو صحیح نتیجہ نکلتا ہے اور کوشش کا پھل ضرور پیدا ہوتا ہے.اس سے انسان سرور اور لذت حاصل کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے دیکھتا ہے اور اس کے قرب کی راہوں پر زیادہ تندہی کے ساتھ چلنا شروع کر دیتا ہے پھر اور زیادہ لذتوں اور سرور کے سامان پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے لئے ایسے ہی سامان پیدا کرتار ہے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۴ / جون ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۵) 谢谢谢

Page 217

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۹۷ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبد ہونے کے لحاظ سے بھی درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے اور رسول ہونے کے لحاظ سے بھی خطبه جمعه فرموده ۵ رمئی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے نَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوله پڑھا اور پھر اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی:.قُلْ لا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَايِنُ اللهِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكَ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْلَى وَالْبَصِيرُ ۖ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ (الانعام : ۵۱) اس کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو جس رنگ میں ہمارے سامنے رکھا ہے اور آپ کی جو حسین تصویر قرآن کریم میں کھینچی گئی ہے وہ عبد اور رسول کا ایک حسین امتزاج ہے.ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ ہمیشہ اس بات کی شہادت دیتے رہو کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ عليه وآله وسلم عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ہیں یعنی آپ اللہ تعالیٰ کے ایک کامل عبد اور اس کے ایک عظیم رسول ہیں.تاکہ ہم پر آپ کے اسوہ حسنہ کی اتباع کی جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ ہمیشہ ہمارے

Page 218

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۹۸ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء سامنے رہے اور ہم مقدور بھر یہ کوشش کرتے رہیں کہ اس کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالیں اور وہی رنگ اپنے نفسوں پر چڑھانے کی کوشش کریں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات وصفات میں ہمیں نظر آتا ہے.یہ اعلان کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے عبد اور رسول ہیں ان دو پہلوؤں پر قرآن کریم نے متعدد جگہ روشنی ڈالی ہے اور مختلف زاویوں سے ان ہر دو پہلوؤں کو کئی جگہ اکٹھا اور بعض جگہ علیحدہ بھی واضح طور پر بیان کیا ہے.میں نے ابھی جو آیت تلاوت کی ہے اس میں عبدہ کی جو شان ہے ، عبد کامل کا جو مقام ہے، اس کے تین پہلو بیان کئے گئے ہیں اور اس طرح رسُوله کی جو عظمت ہے اس پر بنیادی طور پر روشنی ڈالی گئی ہے.اللہ تعالیٰ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم لوگوں میں یہ اعلان کر دو اور کرتے رہو اور پھر ہمیں چونکہ تلاوت قرآن کریم کا حکم دیا ہے اور علم قرآن سکھانے کی ہدایت کی اور یہ تعلیم دی ہے کہ ہر زمانے اور ہر ملک میں امت محمدیہ کے افراد بھی یہ اعلان کرتے رہیں جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ سے کروایا گیا ہے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں.میں تمہیں یہ بھی نہیں کہتا کہ میں علم غیب رکھتا ہوں.پھر میں تمہیں یہ بھی نہیں کہتا کہ میں کوئی فرشتہ ہوں.میں تو تمہیں یہ کہتا ہوں إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَی یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر جو وحی نازل کی گئی ہے اس کا میں کامل متبع اور اولُ الْمُسْلِمِینَ ہوں.عبد کے معنے عربی لغت میں عاجزی اور تذلل کو اختیار کرنے اور اطاعت اور فرمانبرداری بجالانے والے کے ہیں.ایک اور معنے لغت میں یہ بھی کئے گئے ہیں کہ کامل اتباع اور فرمانبرداری اور کامل عاجزی اور تذلل اس وجود کے سامنے ، اس ہستی کے حضور ہو سکتا ہے جو اپنے وجود میں ہر قسم کا کمال رکھتی ہو.اس لئے کامل عجز اور کامل اطاعت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو زیب نہیں دیتی.اُسی کے سامنے عاجزی اور انکسار کے ساتھ جھکنا چاہیے اور اسی کی کامل اطاعت کرنی چاہیے.پس اسی معنی میں عبدہ کہا گیا ہے.

Page 219

خطبات ناصر جلد چہارم ۱۹۹ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ کی جو شان ہے اور اس کی جو عظمت اور قدر ہے ، وہ اس کی ذات اور صفات کی معرفت پر منحصر ہے.جتنا جتنا کوئی آدمی خدا تعالیٰ کو جانتا اور پہنچانتا ہے اور اس کی صفات کی معرفت رکھتا ہے وہ اسی قدر (اگر وہ اس کا بندہ بننا چاہتا ہے ) اس کے سامنے عاجزی اور انکسار کے ساتھ جھکے گا اور انتہائی خشوع کے ساتھ اطاعت اور فرمانبرداری کا جوا اپنی گردن میں ڈالے گا.جس طرح کہنے والے نے لغت میں یہ کہہ دیا کہ جس کی عظمت زیادہ ہوگی جس کی شان زیادہ ہوگی.جس کی کبریائی زیادہ ہوگی اسی نسبت کے ساتھ اس کے سامنے تذلل بھی زیادہ کرنا پڑے گا اور اس کی اطاعت بھی زیادہ کرنی پڑے گی.چونکہ اللہ تعالیٰ خالق اور قادر اور حکیم اور مالک اور صاحب محسن حقیقی اور احسان کرنے والا یعنی تمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور ہر قسم کی کمزور یوں اور نقائص سے منزہ ہے.اس لئے حقیقی اور کامل اطاعت اللہ تعالیٰ ہی کی ہو سکتی ہے.پس جس طرح اپنی جگہ یہ ایک حقیقت ہے یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے رب عظیم اور رب کریم کی صفات کی کامل معرفت رکھنے والے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے.آپ کے علاوہ دنیا میں نہ کسی ماں نے ایسا بچہ جنا اور نہ کبھی جنے گی ، جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی کامل معرفت حاصل کی ہو اور اس کے نتیجہ میں کامل اطاعت اور فرمانبرداری کی راہ کو اختیار کیا ہو.جب ہم ”عبد“ کے ان معنی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں عبدہ کے تفسیری معنے یہ نظر آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت کا ملہ تامہ رکھنے کی وجہ سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عاجزی اور تذلل کرنے والے اور اس کی کامل اطاعت اور حقیقی فرمانبرداری کرنے والے تھے.کیونکہ آپ خالی عبد نہیں تھے بلکہ عبدہ کے مقام پر فائز تھے.آپ کا مقام اللہ تعالیٰ کے بندے کا مقام ہے یعنی ایک کامل عبد جیسا نہ آپ سے پہلے پیدا ہوا اور نہ آئندہ کبھی پیدا ہوگا.اب ہم ان تین پہلوؤں کو دیکھتے ہیں پہلے بشریت اور عبد ہونے کا پہلو یعنی عاجزی اور تذلل کے اس مقام کا اعلان کہ میں تمہیں کب کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں.

Page 220

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۰۰ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء انہیں لینا چاہو تو میرے پاس آجاؤ.دوسرے میں تمہیں کب کہتا ہوں کہ میں علم غیب جانتا ہوں.مستقبل کے متعلق جانا چاہو تو مجھ سے آکر معلوم کر سکتے ہو.میرا تو یہ دعوی ہی نہیں ہے.تیسرے میں نے تمہیں یہ کب کہا کہ میں فرشتہ ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر اپنی طاقت سے پاک اور معصوم ہوں.اس لئے تم میرے پاس آؤ.غرض پہلا مقام مقام عبودیت ہے جس پر عبد کامل ہمارا محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑا ہے اور آپ کے منہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا کہ میں تمہیں کب کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس اعلان کے بعد احمق ہوگا وہ شخص جو یہ اعلان کرتا پھرے کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں.مجھ سے آکر لےلواور بیوقوف ہوگا وہ آدمی جو یہ اعلان کرے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم غیب بتانے کا ملکہ یا قابلیت یا اہلیت یا مقام عطا ہوا ہے.اس لئے اے لوگو! علم غیب حاصل کرنا چاہو تو تم میرے پاس آؤ.میں تمہیں غیب کی باتیں تمہاری منشاء کے مطابق بتادوں گا اور پھر احمق اور بدقسمت ہوگا وہ انسان جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس آواز اور اس اعلان کے بعد کہ میں نے کب کہا کہ میں فرشتہ ہوں، یہ دعویٰ کرے کہ وہ فرشتہ ہے.کوئی عقلمند انسان ، کوئی آدمی جو محمد اور اس کے خدا سے پیار کرنے والا ہے.کوئی شخص جو الہی صفات کو جاننے والا ہے، کوئی عقل جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ دیکھا ہے، کوئی دل جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عاجزی اور تذلل کے مقام کا مشاہدہ کیا اور اسے محسوس کیا ہے.وہ اس قسم کا دعویٰ نہیں کر سکتا.یہ بڑا خوف کا مقام ہے.میں ایک دن قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا.جب میں اس آیت پر پہنچا تو اس نے میری توجہ کو اپنی طرف کھینچا.یہ چار پانچ روز پہلے کی بات ہے.اس روز سے میں تو اپنے لئے تو بڑا فکر مند ہوں.پتہ نہیں انسان کیا کیا غلطیاں کر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے اور ہر وقت استغفار کرتے رہنا چاہیے کیونکہ ہمارا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ یا آپ کی برکتوں کے نتیجہ میں طفیلی اور ظلی طور پر صرف عبد کا مقام ہے.اس لئے ہمارا مقام نہ عَبدہ کا ہے اور نہ رَسُولُه کا.

Page 221

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۰۱ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء پس جس ہستی کا مقام عَبدُهُ وَ رَسُولُه یعنی ان دو چیزوں کے ایک حسین امتزاج کا مقام ہے.اس نے تو اپنی عبودیت اور عبادت اور اس نے تو اپنی عاجزی اور انکسار کا اعلان اللہ تعالیٰ کے حکم سے بیسیوں جگہ کر دیا اور اس آیہ کریمہ میں بھی تین زاویوں سے اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے یعنی میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں.میرا یہ دعویٰ ہی نہیں ہے کہ میرے پاس کسی اپنی ذاتی خوبی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں میں تو محض اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور تذلیل کرنے والا اور اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا جوا اپنی گردن پر رکھنے والا ہوں.پھر میرا یہ دعویٰ ہی نہیں کہ میں علم غیب رکھتا ہوں.میرا تو مقام یہ ہے کہ میری بیوی جو میری زندگی کا لحظہ بہ لحظہ مشاہدہ کرتی ہے، اگر وہ مجھ سے یہ پوچھے کہ کیا مجھے میرے اعمال کی وجہ سے نجات ملے گی تو میرا جواب یہ ہوگا کہ نہیں عائشہ! مجھے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل ہی سے نجات مل سکتی ہے اور تیسرے فرمایا کہ میرا یہ بھی دعوی نہیں ہے کہ میں فرشتہ ہوں اور کسی ذاتی خوبی کے نتیجہ میں معصوم عن الخطا ہوں گو آپ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے معصوم کا مل بھی ہیں.پس وہ جو خدا کا کامل بندہ بھی تھا اور اس کا کامل رسول بھی تھا وہ تو یہ اعلان کرے مگر ہم میں سے کوئی آدمی با وجود محض عبد ہونے کے اور وہ بھی طفیلی طور پر اور پھر باوجود اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی کامل معرفت نہ رکھنے کے یہ سمجھے اور کہے کہ وہ نعوذ باللہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ گیا ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دے.بعض نوجوان دماغ بہک جاتے ہیں.کئی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں آدمی بڑا بزرگ ہے.فلاں شخص بڑا فرشتہ ہے.میں کہتا ہوں فلاں شخص فرشتہ کیسے ہو گیا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے یہ اعلان کروایا گیا کہ میں یہ دعوئی ہی نہیں کرتا کہ میں فرشتہ ہوں اور پھر فلاں آدمی بزرگ کیسے بن گیا جب کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.فلا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ (النجم : ٣٣) جیسا کہ میں نے بتایا ہے.ہمارا مقام عبد ہونے کا مقام ہے اور وہ بھی طفیلی طور پر کیونکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو خدا اور اس کی صفات کی معرفت کس نے حاصل

Page 222

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۵ مئی ۱۹۷۲ء کرنی تھی اور اس عظمت اور جلال کو دیکھ کر اپنے عبد ہونے کے مقام کو کس نے پہچاننا تھا.پس اللہ کے عبد کے مقام کی حیثیت میں ہمیں جو کچھ ملا ہے وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ملا ہے.اس آیہ کریمہ میں ان تین اعلانوں کے بعد جو عَبدہ سے تعلق رکھتے ہیں.رَسُولُه تعلق رکھنے والا یہ اعلان کروا دیا.إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى اِلی یعنی میں تو اس وحی کی اتباع کرنے والا ہوں جو مجھ پر کی گئی ہے.یہ میرا اعلان ہے اور بس.اس کے بعد فرما یا اندھا اور صاحب بصارت و بصیرت برابر نہیں ہوا کرتے یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت نہیں رکھتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ شخصیت جو عَبدُهُ وَرَسُولُه کے حسین امتزاج سے بنتی ہے اسے نہیں جانتا ، وہ نہ قرب الہی، نہ محبت الہی اور نہ مقامِ عبد پہچان سکتا ہے اور نہ اسے حاصل کر سکتا ہے لیکن وہ شخص جو اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کو قرآن کریم کے بیان کے مطابق جانتا ہے اور جو یہ بھی جانتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبد ہونے کہ لحاظ سے بھی درجہ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں اور رسول ہونے کے لحاظ سے بھی آپ خاتم الانبیاء کا مقام حاصل کئے ہوئے ہیں.آپ یہ اعلان کرتے ہیں :.إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى حالانکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ارفع ، اعلیٰ صاحب کمالاتِ کاملہ نبی تھے.آپ خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب نبی تھے اور آپ اللہ تعالیٰ کے اتنے پیارے نبی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا کہ اگر میرے محبوب بننا چاہتے ہو تو میرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرو.اگر تم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائی ہوئی راہوں سے پرے ہٹ جاؤ گے اور آپ کی برکتوں سے دوری اختیار کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ کی محبت کو نہیں پاسکو گے.جو شخص اس حقیقت کو پہچانتا ہے، وہ بڑا خوش قسمت ہے.پس سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہمارا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام سے کہیں نیچے ہے.ایک معا نچلا مقام تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آگیا یا

Page 223

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۰۳ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا آ گیا.پھر دوسرے انبیاء علیہم السلام کا درجہ بدرجہ مقام ہے.پھر ان کے نیچے ان لوگوں کا مقام ہے جو نبی نہیں بلکہ محض عبد ہیں اور جس میں ہم سب شامل ہیں.پس ہمیں اپنا مقام پہنچانا چاہیے.ہمیں بزرگی یا فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے.ہمیں اللہ تعالیٰ کے خوف سے ڈرتے رہنا چاہیے.اور لرزاں و ترساں اپنی زندگی کے دن گزار نے چاہئیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ مبارک سے جب یہ اعلان کروایا گیا ہے کہ میں تمہیں یہ کہتا ہی نہیں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں.نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس علم غیب ہے اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں تو پھر تم ( یا میں ) کس منہ سے اس کا (جس کا اتنا انکار کیا گیا ہے ) یا اس سے بڑھ کر کسی چیز کا دعویٰ کر سکتے ہو؟ سورۃ انعام میں آگے جا کر بڑی لطیف تفسیر بیان ہوئی ہے.اس کی طرف میں اس وقت اشارہ کر دیتا ہوں.فرمایا تھا قُلْ لا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَابِنُ اللہ کہ اے رسول ! تم یہ اعلان کر دو کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے نہیں ہیں.میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس خزائن اللہ ہیں.اب جہاں تک خزائن اللہ کے نہ ہونے کا تعلق ہے یہ عَبدہ کا حصہ ہے.رَسُولُہ کا جو حصہ ہے بالکل اس کے مقابلے میں جو آیتیں آئی ہیں وہ اس کو اسی طرح کھول رہی ہیں جس طرح گلاب کی پتیاں کھل رہی ہوتی ہیں اور گلاب کا پھول خوبصورت سے خوبصورت تر بنتا چلا جاتا ہے.اسی طرح انکار کیا خزائن اللہ کے ہونے کا.اور اقرار کیا اس بات کا کہ یہ رسول بشارت وانذار کرنے والا ہے.اب سوچنا یہ چاہیے کہ ڈرایا کس چیز سے جاتا ہے اور بشارت کس چیز کی دی جاتی ہے.ڈرایا جاتا ہے اس بات سے ( یعنی جب قرآن کریم ڈرائے.ہم اس کی بات کر رہے ہیں.خوف مختلف قسم کے ہوتے ہیں لیکن اس وقت ہم دین اسلام، خدا تعالیٰ اور قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق بات کر رہے ہیں.پس خدا تعالیٰ کے انبیاء بالخصوص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کامل انذار یہ ہے ) کہ وہ خزائن اللہ جنہیں تم حاصل کر سکتے ہو، اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کے نتیجہ میں تم خود کو اُن خزائن سے محروم نہ کر دینا.بشارت کسی چیز کی دی جاتی ہے بشارت اس چیز کی دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ تمہارے لئے نہ ختم ہونے

Page 224

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۰۴ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء والے دینی اور دنیوی خزائن مشروط طور پر مقدر کر رکھے ہیں.اگر تم قرآنی تعلیم کی اتباع کرو گے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن راہوں پر قدم رکھے، تم بھی ان راہوں پر قدم رکھو گے تو تم بھی ان خزانوں تک پہنچ جاؤ گے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس تو خزانے نہیں لیکن میں اللہ تعالیٰ کے خزانوں کی طرف راہنمائی کر سکتا ہوں.اسی لئے میں دنیا میں رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.بلاغ میرا کام ہے.میں تمہیں اس بات سے ڈراتا ہوں کہ اگر تمہارے اعمال گندے اور قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے جو خزانے پیدا کئے ہیں اور جو نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں تم اُن سے محروم ہو جاؤ گے اور میں تمہیں اس بات کی بشارت بھی دیتا ہوں کہ اگر تم قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرو گے اور میرے اسوہ کی پیروی کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ کے نہ ختم ہونے والے خزائن سے تم حصہ پاؤ گے مگر اپنی اپنی استعداد کے مطابق.میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزائن نہیں ( میں اگلی آیت کو جوڑ کر اس کا اکٹھا خلاصہ بیان کر دیتا ہوں ) میرے پاس وہ انذار ہے کہ جس پر اگر تم کان دھر و تو محرومی سے بچ سکتے ہو.میرے پاس وہ بشارت ہے کہ جس کے مطابق اگر تم عمل کرو تو تم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق خزائن اللہ کے مالک بن سکتے ہو.غرض لا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَابِنُ اللہ کی رو سے اور عبد کامل کی حیثیت میں فرمایا.میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں لیکن چونکہ میں بشیر اور نذیر ہوں (اگلی آیت کی رو سے ) اس لئے اگر تم میرے مقام (اور آپ کا مقام تمام انبیاء میں سب سے ارفع ہے ) کو پہچانو گے اور میرے اسوہ کی پیروی کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے خزانے تمہیں مل جائیں گے اگر چہ وہ خزانے میں محض اپنی طاقت سے تمہیں دے نہیں سکتا.پس انکار کیا خزائن اللہ کے ہونے سے اور اقرار کیا اس بات کا کہ محرومی کے راستوں کو میں بند کرتا اور حصول رحمت باری کی راہوں کو میں کشادہ کرتا ہوں.چنانچہ ان اگلی آیتوں میں یہی مضمون بیان ہوا ہے.

Page 225

خطبات ناصر جلد چہارم فرما یا:.۲۰۵ خطبه جمعه ۵ مئی ۱۹۷۲ء وَ انْذِرُ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْ يُحْشَرُوا إِلى رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُمْ مِّن دُونِهِ وَلِيُّ وَلَا شَفيع - (الانعام : ۵۲) پھر فرمایا:.وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدُوةِ وَالْعَشِي يُرِيدُونَ وَجهَه.اور پھر فرمایا:.(الانعام : ۵۳) وَ إِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِأَيْتِنَا فَقُلْ سَلامُ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبِّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ - (الانعام : ۵۵) جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ رسوله کی حیثیت میں یہ اعلان کیا گیا تھا اِنْ اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى ائی اس کی آگے تفصیل بیان فرمائی جو ان تین باتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہے جن کا انکار کیا گیا تھا یعنی پہلے انکار کیا گیا تھا کہ میرے پاس خزائن ہیں کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہوں اور اپنے اس مقام کے لحاظ سے میں کچھ بھی نہیں ہوں.پس عَبدہ کی حیثیت سے اس بات کا انکار کیا گیا تھا کہ میرے پاس خزانے ہیں لیکن رسولہ کے مقام سے یہ اعلان کیا گیا کہ میں محرومی کی راہوں کو بند کرنے والا اور حصولِ رحمت کی راہوں کو کھولنے اور اُن کو کشادہ کرنے والا ہوں.دوسرے فرمایا تھا کہ اے رسول! یہ اعلان کرو وَ لَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ میں غیب نہیں جانتا یہ آپ کی عبودیت کا ملہ کا مقام ہے.آپ کی اس حیثیت سے یہ اعلان کروایا گیا کہ میں غیب نہیں جانتا اور یہ صرف فلسفیانہ باتیں نہیں.آپ اپنے ماحول میں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کئی لوگ غیب کے علم کے جاننے کا دعوی کر دیتے ہیں.ہماری جماعت میں بھی کئی ناسمجھ لوگ یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ شام کے وقت ہم سے دعا کے لئے کہو اور عشاء کے وقت ہم سے جواب لے جاؤ.جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان کا نوکر بن کر ہر وقت اُن کے دروازے پر بیٹھا رہتا ہے.العیاذ باللہ ! العیاذ باللہ ! لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان دیکھیں.آپ عَبدہ یعنی

Page 226

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۰۶ خطبه جمعه ۵ مئی ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ کے عبد کامل تھے اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، بچوں کے سمجھانے کی خاطر میں پھر دہرا دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے وہ عبد تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کی کامل معرفت حاصل کی تھی مگر اُس کی عظمت اور جلال کلی طور پر جاننے کے بعد انتہائی عاجزی اور تذلل، انتہائی اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ اپنا سر اُس کے حضور جھکا دیا.پس آپ تو یہ اعلان کرتے ہیں کہ میں غیب جاننے کا کوئی دعوی ہی نہیں کرتا تو پھر آپ کی اُمت میں سے کسی شخص کا غیب کے جانے کا دعوی کرنا تو سراسر جہالت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا مقام رسوله کا مقام ہے یعنی رسول کامل کا اور آپ کے اس مقام کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ - (الانعام :٢٠) فرما یا یہ صحیح ہے کہ خدا کا یہ بندہ غیب نہیں جانتا لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ یہ خدائے قادر و توانا کا رسول کامل ہے.یہ اس ہستی کا رسول ہے جو غیب کو جانتا ہے اور جس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں.اس واسطے اسے غیب کی بہت سے باتیں رسول ہونے کی حیثیت میں سکھائی جاتی ہیں تا کہ یہ تمہاری اصلاح کر سکے لیکن عبد ہونے کی حیثیت میں تمہیں غیب کی باتیں نہیں بتائے گا.پس جو محض عبد ہیں ان کو بہکنا نہیں چاہیے.چنانچہ عبدہ کے مقام سے انکار کر وایا اور رسول کے مقام سے اقرار کروایا کہ وَعِندَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ کہ اس کے پاس غیب کی چابیاں ہیں.یہاں علم غیب نہیں کہا کیونکہ اس میں بھی ایک مصلحت ہے اور یہ ایک الگ مضمون ہے.ویسے قرآن کریم کے مضامین کے بطون تو لا محدود ہیں لیکن اس کا ایک بطن یہ ہے کہ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ وہ غیب کا علم رکھتا ہے (جیسا کہ انکار کیا گیا تھا) بلکہ فرمایا وہ غیب کی چابیاں رکھتا ہے.وہ صاحب مَفَاتِحُ الْغَيْبِ ہے.غیب کا علم رکھنے میں یہ تو نہیں آتا تھا کہ وہ کسی کو غیب سکھائے گا بھی لیکن چابی رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ کسی کے لئے اسے کھولے گا.تاہم جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے اُسے تو چابی کی ضرورت نہیں کیونکہ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے.مَفَاتِحُ الْغَیب کا تعلق تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے

Page 227

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۰۷ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء ہے اور جب کوئی چیز کھولی جاتی ہے تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ دوسرے کو دینے کے لئے ایسا کیا گیا ہے مثلاً اگر کوئی ایسی چیز ہے جو کسی صندوق یا کمرے میں بند پڑی ہے اور جس کے پاس وہ چیز نہیں اُسے دینی مقصود ہے یا جس کا علم دوسرے کے پاس نہیں اسے یہ بتانا ہو تو تب مفتاح کی ضرورت پڑتی ہے.خدا تعالیٰ کو تو مفتاح کی ضرورت نہیں وہ تو علام الغیوب ہے قرآن کریم کہتا ہے اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.کسی وقت، کسی آن ، کسی لحفظہ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے.اس لئے اس مفتاح یا مَفَاتِحُ کی ضرورت تو انسان کو پڑتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.وَ عِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْب - عبد کے مقام سے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ سے یہی سجتا تھا کہ لا اَعْلَمُ الْغَيْب اور اس رسول کے مقام سے ( میں نے بتایا ہے کہ آپ کی ذات میں عَبْدُهُ وَرَسُولُہ کا ایک بڑا ہی حسین امتزاج ہے ) یہ اعلان کروایا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس مَفَاتِحُ الْغَيْبِ ہیں.میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اس لئے تم میرے ذریعہ بھی غیب کا علم حاصل کر سکتے ہو اور جو راہیں میں بتاتا ہوں ان کے ذریعہ براہ راست بھی حاصل کر سکتے ہو.معلوم ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی الجھنوں، غیب کی تکلیفوں اور غیب کی ناکامیوں کو (جوا بھی نہیں آئیں ) دور کرنے کی چابی دی گئی ہے.اس واسطے اپنی دعا کے ساتھ اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے اپنی بدقسمتی کو خوش قسمتی میں بدلنے کا سامان بھی میں نے تمہیں دے دیا ہے.پس جہاں عبدہ میں لَا اَعْلَمُ الْغَيْبَ کہا تھا وہاں رَسُولُہ میں کہا کہ اگر چہ میں اپنی ذات میں علم غیب نہیں رکھتا لیکن میرا ایک ایسی ہستی کے ساتھ تعلق ہے جو اپنی صفات میں کامل ہے اور جس نے اپنی رحمتوں سے بنی نوع انسان کو نوازنے کا ارادہ کر رکھا ہے.اُس نے مجھے اس دنیا میں لوگوں کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے.میں اس کا رسول ہوں ختم المرسلین ہوں اس لئے میں نے تمہارے لئے ہر دو طریق سے پیشگوئیاں کی ہیں.چنانچہ غیب کے متعلق یہ پیشگوئیاں قرآن کریم میں بھی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی ہیں اور آپ کے ارشادات بھی دراصل قرآن کریم کی تفسیر ہیں.چنانچہ تیرہ سو سال پہلے کسی نے کہا تھا کہ امت محمدیہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک

Page 228

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۵رمئی ۱۹۷۲ء محبوب مهدی ظاہر ہوگا.یہ اسی محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا اور یہ ایک ایسی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو ایک لمبے عرصہ کے بعد پوری ہوئی ہے اور تم اس کے خود شاہد ہو.آپ نے فرمایا تھا کہ میں تمہیں مہدی کے ظہور کی ایک ایسی علامت بتاتا ہوں کہ جس کے پورا ہونے پر کوئی سمجھدار آدمی انکار نہیں کرے گا اور وہ یہ علامت تھی کہ رمضان کے مہینے میں مقررہ تاریخوں میں سورج اور چاند کو گرہن لگے گا اور جب سے دنیا قائم ہوئی ہے کسی شخص کے دعوی کی صداقت کے لئے رمضان میں مقررہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن نہیں لگا.دوسرے فرمایا کہ میں تمہیں یہ بھی بتا تا ہوں کہ اس مہدی کے سچائی کے یہ دو گواہ دو دفعہ گواہی دیں گے اور یہ اس لئے کہ دنیا نے خود کو دوحصوں میں بانٹ دیا ہوگا.ایک یہ Hemisphere کہلائے گا جس میں ہم رہتے ہیں اور دوسرا وہHemisphere جس میں امریکہ واقعہ ہے اور اس میں دراصل اس کی صداقت کو لینے پر اتناز دور تھا کہ کہیں امریکہ میں رہنے والوں کو یہ غلط نہیں نہ پیدا ہو جائے کہ ہم نے معینہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن لگتے نہیں دیکھا یا ہندوستان میں رہنے والوں کو ( پاکستان تو اس وقت بنا نہیں تھا ) یہ غلط فہمی نہ پیدا ہو جائے کہ امریکہ کا کیا ہے یہاں تو چاند اور سورج کو گرہن لگتے نہیں دیکھا گیا.اب تو یہ لوگ ہمیں نعوذ باللہ انگریز کا ایجنٹ کہتے ہیں پھر کہہ دیتے کہ یہ امریکہ کے ایجنٹ ہیں انہوں نے امریکیوں سے مل کر یہ جھوٹ بنالیا ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں کی چھتوں پر سے ا میرے اس نشان کو دیکھو گے.کس نے یہ پیشگوئی کی تھی.یہ کون تھا جو اپنے ربّ کریم کی طرف سے ہمارے لئے یہ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لے کر آیا تھا.یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے جو عَبدہ کے باوجود رسوله بھی ہیں اور ہر دولحاظ سے آپ کی بڑی شان ہے.ہماری تاریخ اور ہمارا قرآن آئندہ کی خبروں ، پیشگوئیوں اور علم غیب کے متعلق ہمیں بہت کچھ بتا یا ہے.یہاں تک بتایا ہے کہ ہم دعا اور لے اس پیشگوئی کے اصل الفاظ یہ ہیں.إِنَّ لِمَهْدِيْنَا أَيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ - (دار قطنی جلد اول صفحه (۱۸۸)

Page 229

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۰۹ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء صدقہ کے ساتھ کس طرح اپنی قسمتوں کو بدل سکتے ہیں.استغفار بھی دعا ہے.پس دعا اور صدقہ کے ساتھ انسان غیب کی بدحالی کو خوشحالی سے بدل سکتا ہے.مثلاً یہ جو منذر خواب آجاتی ہے یہ تمہیں ڈرانے کے لئے نہیں آتی.یہ تمہاری بہبود کے لئے آتی ہے.یہ اس لئے آتی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے حضور صدقہ دو، مالی قربانی دو، اپنے جذبات اور روح کی قربانی دو تا کہ وہ خطرہ جو منذر خواب میں نظر آیا ہے وہ ٹل جائے.یہ بھی دراصل ایک مِفْتَاحُ الْغَيْبِ ہے.مَفَاتِحُ الْغَيْبِ تو بے شمار ہیں مگر اس وقت ان کی تفصیل میں میں نہیں جاسکتا.غرض فرمایا تھا کہ وَلَا اَعْلَمُ الْغَيْبَ میں غیب نہیں جانتا.یہ عبدہ کی صدا تھی کیونکہ عبد کی حیثیت میں مقام تذلل و عاجزی اور اطاعت و فرمانبرداری کے لحاظ سے آپ کے منہ سے یہی نکلے گا لا أَعْلَمُ الْغَيْبَ.میری ذات میں کیا خوبی ہے.اس لئے میں کسی غیب کو نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہمارا رسول بھی ہے.یہ ہمارا محبوب بھی ہے یہ ہمار محمد اور خاتم النبیین بھی ہے.ہم اس کے ہاتھ میں غیب کی چابیاں پکڑا دیں گے.سارا قرآن غیب کی چابیاں ہی تو ہے.پھر جہاں تک غیب کا تعلق ہے سب سے بڑا غیب ،سب سے اہم غیب اور سب سے زیادہ جس غیب کی ہمیں فکر کرنی چاہیے وہ مرنے کے بعد آخرت کی زندگی کے متعلق غیب ہے.اس غیب کے متعلق قرآن کریم کی ایک ایک آیت ہی نہیں بلکہ میں کہتا ہوں ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اس کی چابی ہے.پس فرمایا یہ چابیاں ہیں.ان کو لگاؤ اور قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارو.جنت کے قفل تمہارے لئے کھول دیئے جائیں گے.جنت غیب ہی تو ہے.حاضر کہاں ہے.مرنے کے بعد کی زندگی غیب ہے.یہاں تو کوئی ارواح نہیں.وہ تو اپنے اپنے مقام پر ہیں.اس آیت میں تیسرا اعلان ایک تیسرے نقطہ نگاہ سے یہ کیا گیا تھا کہ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكَ میں یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں.اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میں تمہاری حفاظت کروں گا کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ ہم فرشتے بھیجتے ہیں.ہماری تعبیر الرویاء

Page 230

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۱۰ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء کی کتابوں میں بھی یہی لکھا ہے اور ہمارے احمدی مردوں اور عورتوں کا تجربہ بھی یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے ہماری حفاظت کے متعلق بتانا ہو تو اللہ تعالیٰ اس طرح بھی بتایا کرتا ہے کہ میں اپنے فرشتوں سے تمہاری حفاظت کرواؤں گا یا یہ فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری حفاظت کے لئے فرشتے بھیج دیئے ہیں.پس اس معنی میں ولا أَقُولُ لَكُمْ اِنِّى مَلَكَ میں یہ اعلان ہوگا کہ میں بحیثیت عبد ہا تمہاری حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتا.إنِّي مَل کے دوسرے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ میں اپنی پاکیزگی کا اعلان نہیں کرتا.اس لئے ہم میں سے کسی آدمی کا یہ کہنا کہ فلاں شخص تو فرشتہ ہے.یہ غلط ہے کیونکہ اس کا تو یہ مفہوم بنتا ہے کہ فلاں آدمی بالکل معصوم ہے اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ ہے حالانکہ اس چیز کا دعویٰ تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی نہیں کیا.اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ اگر میرے محبوب بندے بننا چاہتے ہو تو تم اپنی طرف سے یہ اعلان نہ کرنا کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ یہ اعلان کرنا ہے کہ میں لوگوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں.یہ عبدہ کا اعلان تھا جو وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكُ کی صورت میں کیا گیا.رسولہ کا اعلان سورہ انعام میں آگے جا کر یوں آتا ہے :.وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً - (الانعام : ۶۲) یعنی جس ہستی کا یہ رسول ہے وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور عربی زبان میں اس غلبہ کے ساتھ عاجزی اور تذلل کے معنے بھی لگے ہوئے ہیں.اسلئے ہم اس کے یہ معنے بھی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے.اُس نے اپنی مخلوق کے ایک حصے کو عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے پر جبراً مجبور کر دیا ہے.مثلاً یہ ہوا ئیں ہیں، یہ فرشتے ہیں مگر انسان کے لئے یہ حکم دیا کہ اللہ کے سامنے عاجزی اور تذلل کی راہوں کو اختیار کیا جائے کیونکہ وہ غالب ہے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تو بندہ ہوں.میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میں تمہاری حفاظت کا ذمہ دار ہوں اور اپنے اندر کوئی غلبہ اور طاقت رکھتا ہوں لیکن میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ جس خدا کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں.وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِہ وہ انسانوں پر غلبہ رکھتا ہے

Page 231

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۱۱ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء اور اُن سے تذلل اور عاجزی کا مطالبہ کرتا اور خواہش رکھتا ہے گو انسان کو اختیار دے دیا گیا.مگر خدا تعالیٰ چاہتا یہی ہے کہ انسان اس کے سامنے عاجزانہ طور پر جھکے اور اس کی بتائی ہوئی عاجزانہ راہوں کو اختیار کرے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً یعنی وہ نگران رسول بھیجتا ہے.وہ بندوں کی طرف نگران رسول ہو کر آتے ہیں.ان کی طرف خدا کا پیغام لے کر آتے ہیں اسی لئے ان کو پیغمبر بھی کہا گیا ہے اور نگران کی وجہ سے شہید اور شاہد بھی کہا گیا ہے.وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کہاں غلطی ہوئی.کس رنگ میں غلطی ہوئی اور پھر کس طرح اس کی اصلاح کرنی چاہیے.وہ نگران کے طور پر انذار بھی کرتے ہیں اور تبشیر بھی.اس کے وہ حفظ یعنی نگران ہونے کے لحاظ سے اور پھر اس لحاظ سے بھی کہ ان کے ذمہ یہ فرض عاید کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو عاجزانہ راہوں سے بھٹکنے نہ دیں یعنی ان کو عاجزانہ راہیں چھوڑنے نہ دیں.اس لئے وہ بندوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں.پس حَفَظَةً یعنی نگر ان کے معنے میں پیغام لانے والا بھی ہو گیا اور جس کے معنے بشیر اور نذیر کے بھی ہیں اور یہ نگرانی اس معنے میں بھی ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کی راہوں سے بھٹک نہ جائیں.قرآن کریم نے ہمیں دوسری جگہ یہ بتایا ہے کہ انسان کی یہ کوشش کہ کوئی آدمی صراط مستقیم سے بھٹک نہ جائے بالکل لا یعنی ہے اور اس کا نتیجہ کبھی نہیں نکل سکتا.کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ میرا کام ہے.یعنی اس چیز کی حفاظت کہ کوئی شخص صراط مستقیم سے بھٹک نہ جائے خدا تعالیٰ کی ذمہ داری ہے.یہ چیز انسان کے اختیار ہی میں نہیں ہے.جب انسان کو اس کے کہنے کے مطابق رسول یا نگران یا شہید یا حافظ ( حفاظت کرنے والا ) کہا جائے گا تو یہ اس معنی میں کہا جائے گا کہ وہ دن رات دعائیں کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچتا اور انسان کو گمراہ ہونے سے بچنے کی تبلیغ کرتا ہے.غرض عبده میں یہ اعلان کیا تھا کہ میں نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں اور رسولہ میں یہ اعلان کیا کہ میں خدا کا رسول اور حافظ بنا کر شہید اور شاہد بنا کر تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں.پھر ملک کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میں پاک ہوں درحقیقت یہ ایک بڑا ہی عظیم اعلان ہے اور

Page 232

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۱۲ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء بڑا ہی حسین بھی ہے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی عظیم ہستی کی زبانِ مبارک سے یہ کہلوانا کہ میں فرشتہ نہیں دراصل یہ ہمیں سبق دینے کے لئے ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا عَبْدُهُ وَرَسُولُه کے حسین امتزاج کی رو سے جو بھی مقام ہے آپ اس مقام کو پہنچ گئے تھے.پس عَبدُةُ میں یہ اعلان کیا کہ میں فرشتہ نہیں ہوں.میں اپنے آپ کو معصوم اور بے خطا نہیں کہتا کیونکہ اگر مَعْصُوم عَنِ الْخَطاء ہونے کا دعویٰ ہوتا تو پھر آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اے عائشہ ! میں بھی جنت میں اللہ تعالیٰ کے فضل ہی سے جاؤں گا.دوسری طرف یہ فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.آپ کے متعلق پہلے انبیاء نے بھی دعائیں کی تھیں اور یقین کیا تھا کہ آپ ایسے رسول ہوں گے جو ویڈ کیکھ کے مصداق ہوں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! وہ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایسے رسول ہوں گے جو اپنی طہارت اور پاکیزگی کے بلند مقام پر فائز ہوں گے اور یہ مقام انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوگا اور اس اعلیٰ مقام کی وجہ سے وہ تمہاری پاکیزگی اور طہارت کے سامان پیدا کرنے والے ہوں گے.یہ رسُوله کی ندا ہے.هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً کے ایک معنی تو وہ ہیں جو ملک کے دونوں معنوں پر ہاوی ہے.یہ آگے تفسیر کے طور پر میں نے بتا دیا ہے.دوسری جگہ زیادہ وضاحت کے ساتھ ، زیادہ تکرار کے ساتھ اور زور دینے کے لئے یزکیھم اور یزکیکم کے الفاظ آگئے ہیں.پس عبدہ کے مقام کی رو سے یہ اعلان کروایا گیا کہ میں فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا.میں یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں جب کہ رسوله کے مقام کی رو سے یہ اعلان کروایا گیا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے قرب کا مجھے وہ مقام عطا فرمایا ہے کہ میں تمہارے گند دور کروں گا اور غلاظتوں کو دھو کر انہیں صاف کر دوں گا اور تمہیں پاک اور مطہر بنادوں گا.چنا نچہ اُمت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ امت میں سے جس شخص نے بھی آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے آپ کے عَبدہ کے مقام میں اسوہ‘ کے جو تقاضے تھے ان کو پورا کیا تو اس نے آپ کی وہ برکتیں جو رَسُولُہ کے مقام کی وجہ سے آپ کو حاصل تھیں و،

Page 233

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۱۳ خطبه جمعه ۵رمئی ۱۹۷۲ء ان کو طفیلی طور پر پالیا مگر جن لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عبد کامل ہونے کے مقام کو پہچانا نہیں اور اباء اور استکبار سے کام لے کر خود کو اس اعلان سے بھی بڑھ کر اعلان کرنے کا اہل سمجھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کروایا گیا تھا تو انہوں نے رَسُولُه کی برکتوں سے خود کو محروم کر دیا.ہماری تاریخ اس بات پر شاہد ہے اور ہمارے دل اس بات کے لئے تڑپ رہے ہیں کہ خدا کرے ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عبدہ ہونے میں جو اسوہ ہمارے سامنے رکھا گیا ہے اس کی پیروی کرنے والے ہوں تا کہ خاتم الانبیاء اور افضل الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رسول کے مقام سے جن برکتوں کا اعلان کرتے ہیں ان برکتوں سے ہم حصہ لینے والے ہوں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.از رجسٹر خطبات ناصر.غیر مطبوعہ )

Page 234

Page 235

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۱۵ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۷۲ء احمدی جماعتوں نے سخت نا موافق ہنگامی حالات کے با وجود مالی قربانی کا نہایت شاندار نمونہ پیش کیا خطبه جمعه فرموده ۱۲ رمئی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.وَ مِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمَا وَ يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَابِرَ عَلَيْهِمْ ط b دَابِرَةُ السَّوءِ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ - وَ مِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ود دوو وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبَتِ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَوتِ الرَّسُولِ ، أَلاَ إِنَّهَا قُرُبَةٌ لَهُم - اللهُ فِى رَحْمَتِهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - (التوبة : ٩٩،٩٨) اور پھر فرمایا:.ہم نے ۳۰ اپریل کو پچھلے مالی سال کو ختم کیا ہے اور یکم مئی سے جماعتی چندوں کے لحاظ.سے ہم نئے مالی سال میں داخل ہو گئے ہیں.یہ گزرنے والا سال ہنگامی نوعیت کا سال تھا.ملک میں سٹرائیکس ہو رہی تھیں، ہنگامے ہور ہے تھے.کارخانے اپنے معمول کے مطابق چل نہیں رہے تھے.جو تجارتیں تھیں وہ بھی کچھ غیر یقینی حالات میں سے گذر رہی تھیں.خریدار چیزوں کو خریدتے ہوئے گھبراتے تھے اور جو تھوک فروش تھے وہ بیچتے ہوئے گھبراتے تھے.کچھ عجیب سے حالات تھے جن میں سے ہمارا ملک گذرر ہا تھا.

Page 236

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۱۶ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۷۲ء ملک کا ایک بڑا حصہ کٹ گیا اس کا تجارتوں پر بھی اثر پڑا.پھر جنگ سے متاثر ہونے والےلوگ تھے جنہیں اپنے گاؤں ، اپنے گھروں اور بہتوں کو اپنے سامان تک چھوڑنے پڑے.جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو جنگ سے متاثر ہونے والے اپنے بھائیوں، رشتہ داروں اور اپنے دوستوں کو پناہ دینی پڑی اور ان پر خرچ بھی کرنا پڑا.ان ساری باتوں کو دیکھ کر اور ان حالات کی وجہ سے طبیعت فکرمند بھی ہوتی تھی اور دُعا کی طرف بڑی راغب بھی ہوتی تھی.دراصل الہی سلسلے ٹھہر نا نہیں جانتے اور نہ آگے بڑھ کر پیچھے ہٹنا اُن کی فطرت میں ہے.وہ تو آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے اور جب تک وہ اپنی قربانیوں میں اور اپنے ایثار میں اور اُس بے لوث محبت میں جو انہیں اپنے رب اور اپنے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتی ہے ترقی کرتے چلے جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ بھی انہیں اپنے فضلوں سے نوازتا چلا جاتا ہے.بہر حال ملک میں ایک ہنگامہ تھا.ایک غیر یقینی حالت تھی.دُکھ کے سامان تھے.بے چینی اور گھبراہٹ تھی.گاؤں کے گاؤں اپنی جگہ سے اُٹھ گئے.اس افراتفری کا تجارتوں پر اثر تھا.کارخانوں پر اثر تھا.پیشہ وروں کے پیشوں پر اثر تھا.غرض اقتصادی زندگی در حقیقت درہم برہم ہو چکی تھی.ہمارے احمدی دوست بھی ساری قوم کے ساتھ ان تکلیفوں میں حصہ دار تھے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے بڑی فکرمندی تھی کہ کہیں ان حالات کے نتیجہ میں جماعت کی مالی قربانیوں میں کمی نہ پیدا ہو جائے کیونکہ اس کے دو بداثرات پیدا ہوتے ہیں.ایک تو جماعت کا جو کمز ورحصہ ہوتا ہے (ابھی میں اس کمزوری کی بات نہیں کر رہا جو نفاق سے مشابہت رکھتی ہے ) یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ جماعت کا جو کم تربیت یافتہ حصہ ہوتا ہے.اس کے دماغ پر یہ اثر ہوتا ہے کہ شاید جماعت کا قدم ایک جگہ آکر ٹھہر گیا ہے یا پیچھے کی طرف ہٹ گیا ہے.شیطان اُن کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے.گواُن میں سے اکثر شیطان کے وسوسے سے اثر نہیں لیتے لیکن بعض لے بھی سکتے ہیں.دوسرے ان حالات میں منافق اور کمزور ایمان والوں پر اس کا ایک تو یہ اثر پڑتا ہے کہ وہ

Page 237

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۱۷ خطبہ جمعہ ۱۲ رمئی ۱۹۷۲ء - اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں.دوسرے وہ سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں موقع مل گیا ہے مالی قربانیوں میں کمزوری دکھانے کا.وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بڑا اچھا موقع ہے پیسے بچالو.اگر کسی نے پوچھا تو کہہ دیں گے تجارتوں پر بڑا اثر پڑا ہے یا کہہ دیں گے پیشے پر برا اثر پڑا ہے یا کہہ دیں گے صنعت وحرفت پر برا اثر پڑا ہے یا کہہ دیں گے کہ جنگ کی وجہ سے ہمیں اُٹھنا پڑا یا ہمارے دوستوں کو اُٹھنا پڑا ہے.سورہ تو بہ کے شروع میں منافقوں کا ذکر ہے پھر منافقوں کے متعلق بہت ساری باتوں کے ذکر کے بعد ( جن کا بیان کرنا میرے اس مضمون کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا ) اللہ تعالیٰ ان آیات میں جن کی میں نے تلاوت کی ہے فرماتا ہے کہ اعراب یعنی دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں میں سے بھی بعض منافق ہوتے ہیں.اصل مضمون یہ نہیں کہ دیہات میں رہنے والے منافق ہوتے ہیں بلکہ اس سے مراد نفاق کی ایک علامت ہے جس کا یہاں ذکر ہورہا ہے اور اس سے دونوں قسم کے منافق مراد ہیں یعنی دیہاتی بھی اور شہری بھی.دیہات میں بھی جہالت کی وجہ سے کمزور ایمان والے یا منافقت رکھنے والے پائے جاتے ہیں کیونکہ منافقت کی اجارہ داری شہروں نے تو نہیں لی ہوئی.منافق تو ہر جگہ ہوتا ہے.غرض منافق اور کمزور ایمان والے آدمی کو تو بہانہ چاہیے.قرآن کریم نے ان کی اسی ذہنیت کی طرف اشارہ کیا ہے.فرماتا ہے:.يَتَرَبَّصُ بِكُمُ اللوَاہر ایسے لوگ گردشوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ایک تو اس لئے کہ باتیں بنانے اور اعتراض کرنے کا موقع ملے اور دوسرے اس لئے بھی کہ ان کے دلوں میں جو مخالفت کا پہلو ہے اس کی تسلی کے سامان پیدا ہو جائیں اور زیادہ تر اس لئے بھی کہ ایسے حالات میں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پہلے وہ جماعتی نظام کے دباؤ کے نیچے مجبور ہو کر خدا کی راہ میں مالی قربانی دیتے تھے تو اب بچاؤ کی ایک صورت پیدا ہو گئی ہے چنانچہ وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کے جو لوگ ہیں، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ الہی سلسلوں پر گردشیں تو آتی ہی رہتی ہیں لیکن مومن کے اوپر جب گردش آئے تو یہ اس کو امتحان سمجھتا ہے اور فرسٹ ڈویثرن یعنی اول آنے کی کوشش کرتا ہے اور جو منافق ہوتا ہے وہ اس کو قربانی سے بچنے کا

Page 238

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۱۸ خطبہ جمعہ ۱۲ رمئی ۱۹۷۲ء ایک حیلہ بناتا ہے مگر حقیقی معنوں میں روحانی طور پر وہ خود اس بری گردش میں جو اس کو اس دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی نقصان پہنچانے والی ہوتی ہے مبتلا ہوجاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرما یا گردش تو آئے گی مگر ساتھ ہی تم بھی اس کی لپیٹ میں آؤ گے مومن جب اس گردش کے گردوغبار سے اپنا سر باہر نکالے گا تو اس کا رب اسے زیادہ حسین پائے گالیکن تم جب اس کے گردوغبار سے سر نکالو گے تو شیطان تمہیں زیادہ قریب پائے گا.اس لئے بری گردش تو درحقیقت تم پر آئے گی.مومن کے اوپر ان گردشوں کا کوئی اثر نہیں پڑے گا.عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السوء کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.میں آج تلاوت کر رہا تھا تو اس آیت کے ایک معنی میری سمجھ میں یہ آئے کہ یہ منافق سمجھتے نہیں.گردش انہی کے اوپر آکر پڑتی ہے.اس سے نقصان انہی کو ہوتا ہے.جو لوگ حقیقی مومن ہوتے ہیں ان کو تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آسمانی گردش کے بداثرات منافق پر پڑتے ہیں اور یہ اس لئے پڑتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے وہ ان کے زبانی دعووں کو بھی سنتا اور جانتا ہے اور ان کے دلی خیالات سے بھی واقف ہے ان کے زبانی دعووں اور دلی خیالات میں جو تضاد پایا جاتا ہے ، وہی ان کی ہلاکت کا موجب بنتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے اس تضاد کو جانتا ہے اس واسطے عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السوء کی رو سے بڑی گردش میں وہی مبتلا ہوں گے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الہی سلسلوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی ایمان لاتے ہیں یعنی خدا اور اس کے رسول پر ان کا ایمان بڑا پختہ ہوتا ہے اور وہ آخرت کی زندگی کو سنوارنے کے لئے بڑی قربانیاں دیتے ہیں اور اس دُنیوی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلتے ہیں اور خدا کی راہ میں جو مال خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ تعالیٰ کی قربت اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّا إِنَّهَا قُرُبَةٌ لَهُمْ سَيْدُ خِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ یعنی ان کا ایمان لانا اور خدا کی راہ میں اموال خرچ کرنا ان کے لئے ضرور خدا تعالیٰ کی

Page 239

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۱۹ خطبہ جمعہ ۱۲ رمئی ۱۹۷۲ء قربت کا ذریعہ ہوگا.اللہ تعالیٰ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا.اس سے پہلے فرمایا تھا قربتِ عِنْدَ اللهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ.یعنی اُنہوں نے ذریعہ بنایا تھا.محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور آپ کے فیوض کو جذب کرنے کا اور آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو فیوض کا ایک دریا چلایا ہے.ان فیوض سے حصہ لینے کا اور اس کی رحمت میں شریک ہونے کا جو رَحْمَةٌ لِلعلمین کے ذریعہ دُنیا کی طرف نازل ہوئی تھی.فرمایا کہ ہاں قُربَةٌ لَّهُمْ یعنی اسے انہوں نے قربت کا ذریعہ بنایا ہے.انہوں نے اسے اللہ تعالیٰ کی قربت اور اس کی رضا کے حصول اور اس کے مقرب ہونے کا ذریعہ سمجھا ہے.یعنی جولوگ ایمان پر پختگی سے قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں جو مال دیتا ہے وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے متعلق فرمایا.الا إِنَّهَا قُرُبَةً لَّهُم اللہ تعالیٰ کی رضا انہیں ضرور حاصل ہو گی.دوسرے فرمایا تھاوَ صَلَواتِ الرَّسُولِ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور ان کی قبولیت کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے کے لئے وہ دعائے مغفرت کرتے ہیں.پس گو ظاہری لحاظ سے اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور آپ کے فیوض سے بہرہ ور ہوں گے لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ ہیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو رَحْمَةٌ لِلعلمین کے فیوض سے حصہ پائے.پس چونکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض سے حصہ لئے بغیر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل نہیں ہوسکتا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرما یا سَید خِلْهُمُ اللهُ فِي رَحْمَتِهِ تو ساتھ ہی یہ اعلان بھی فرمایا کہ ان کی قربانیوں کی جو غرض تھی یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور آپ کے روحانی فیوض کا ورثہ ملے.یہ ان کو حاصل ہو جائے گا، کیونکہ اس کے بغیر وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ نہیں لے سکتے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک تو یہ لوگ ہیں مگر ایک وہ بھی ہیں جو امت محمدیہ میں الہی سلسلہ کے لئے گردشوں کے انتظار میں رہتے ہیں.گردشیں آتی ہیں مگر امتحان کے لئے یہ مومن کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں لیکن ایک منافق اور کمزور ایمان والے آدمی کو ضرور نقصان پہنچاتی ہیں وہ گردش

Page 240

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۲۰ خطبہ جمعہ ۱۲ رمئی ۱۹۷۲ء جس کا الہی سلسلہ کے لئے وہ انتظار کرتے تھے عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السَّوء کی شکل میں ظاہر ہو کر ان کو نقصان پہنچا دیتی ہے.وہ ان کے لئے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے.الہی سلسلوں میں اکثر لوگ تو مومن ہوتے ہیں.وہ اپنے دلوں میں اخلاص رکھتے ہیں.وہ اپنے سینوں میں ایثار کا جذبہ رکھتے ہیں وہ صاحب فراست ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت رکھتے ہیں اور اس کی رضا پر اپنی ہر چیز کو قربان کر دیتے ہیں.اس لئے وہ تنگی اور ترشی میں بھی اپنے وعدوں کو پورا کرتے اور اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کو حاصل کرتے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور آپ کے فیوض کے وارث بنتے ہیں.پس الہی سلسلوں میں یہ بات ہمیں نظر آتی ہے اور ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ جماعت احمد یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ ایک الہی سلسلہ ہے جو اس لئے قائم ہوا ہے کہ اس کے ذریعہ غلبہ اسلام کی پیشگوئی پوری ہو.غرض احمدیت کی شکل میں ایک مہم جاری کی گئی ہے جس کے ذریعہ اسلام غالب آئے گا.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ساری دُنیا میں قائم ہوگی اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند مقام لوگوں پر ظاہر ہو گا.جو دلوں میں ایک نور اور سرور پیدا کرنے والا بنے گا.انشاء اللہ العزیز میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ اس قسم کی منافقانہ باتیں درحقیقت الہی سلسلوں کی راہوں میں رکاوٹیں نہیں بنا کرتیں لیکن ایسے لوگ ہر الہی سلسلہ میں پائے جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بھی تھے اور بعد میں بھی اسلام میں ہر زمانے میں رہے ہیں اور اب بھی ہیں.چنانچہ کئی کمزور اور منافق طبع لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ سال گردشوں کا سال ہے تو انہوں نے سمجھا کہ شائد اس کے نتیجہ میں مجبور ہوکر ، دنیوی حوادث اور مصیبتوں کے نیچے آکر جماعت احمدیہ مالی لحاظ سے یا بعض دوسرے لحاظ سے اپنی ذمہ داریوں کو اپنی اس کیفیت اور کمیت میں اس طرح ادا نہ کر سکے گی جس طرح وہ پچھلے سالوں میں ادا کرتی رہی ہے چنانچہ اس قسم کی باتوں میں سے ایک بات مجھ تک یہ بھی پہنچی کہ بعض منافق کہتے ہیں کہ اس

Page 241

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۲۱ خطبہ جمعہ ۱۲ رمئی ۱۹۷۲ء خلیفہ کی نالائقیوں کی وجہ سے جماعت میں بد دلی پیدا ہوگئی ہے.ان میں بشاشت نہیں رہی بلکہ کمزوری آگئی ہے.انہوں نے سمجھا کہ ایسی باتیں کر دو کیونکہ ملکی صنعت و حرفت پر اثر پڑا.تجارتوں پر اثر پڑا.لوگوں کو گاؤں کے گاؤں چھوڑنے پڑے.وہ بے گھر ہو کر دوسروں کے اوپر بوجھ بن گئے غرض ان کے دماغ میں تھا کہ اس سے کچھ نہ کچھ تو جماعتی چندوں پر بھی اثر پڑے گا اس لئے ایسی باتیں کر دیتے ہیں.پھر کہیں گے ہم نے کہا نہیں تھا اب دیکھ لو اثر پڑ گیا ہے.جہاں تک میری لیاقت یا نالائقیوں کا سوال ہے، اس عاجز بندے نے کبھی لیاقت کا دعویٰ ہی نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل، اس کی رحمت اور اس کی فعلی شہادت نے ہر موقع پر یہ ثابت کیا ہے کہ میں تو نالائق بھی ہو کر یا گیا درگاہ میں بار لیاقت کا دعویٰ کرنے کا تو مطلب ہی کوئی نہیں.کوئی آدمی جو روحانی طور پر عقلمند اور صاحب فراست ہے، وہ اپنی لیاقت کا دعوی نہیں کیا کرتا.وہ تو اپنی عاجزی کا اظہار کیا کرتا ہے.وہ تو اپنی نیستی کا مظاہرہ کرتا ہے.وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا سمجھتا ہے.اُسے تو نہ اپنی اور نہ کسی اور چیز کی ہوش ہوتی ہے اس نے اپنی لیاقتوں یا علمیت کا دعوی کیا کرنا ہے.لیکن وہ خدا جو قادر وتوانا ہے، وہ ناچیز ذروں کو اپنے ہاتھ میں پکڑتا اور ان کے ذریعہ دنیا کو اپنی قدرتوں کے جلوے دکھا تا ہے.میں نے بتایا ہے کہ گذشتہ سال بڑا سخت سال تھا.میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ میرے لئے فکر بھی پیدا ہوئی اور یہ امر میرے لئے دعائیں کرنے کا ایک سبب اور وسیلہ بھی بن گیا اور ذکر کے حکم کے ماتحت میں نے دوستوں کو اس طرف توجہ بھی دلائی تھی اور میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اس قسم کی تکلیفیں اور ہنگامے الہی سلسلوں کی راہوں میں روک نہیں پیدا کیا کرتے.چنانچہ جب مالی سال ختم ہوا تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے جماعت احمدیہ کی مالی قربانی اس شکل میں ہمارے سامنے آئی کہ پچھلے سال مجلس شوری کے مشورہ سے صدرانجمن احمدیہ کا جو بجٹ منظور ہوا تھا، اس میں اُس وقت کے حالات کے مطابق مشرقی پاکستان کی آمد اور خرچ بھی

Page 242

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۲۲ خطبہ جمعہ ۱۲ رمئی ۱۹۷۲ء شامل تھا لیکن بعد میں حالات بدل گئے تاہم مشرقی پاکستان میں خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ زندہ اور قائم ہے وہ اپنے کاموں میں مصروف ہے وہ غلبہ اسلام کے لئے کوششیں کر رہی ہے.لیکن وہ اپنے چندے وہیں وصول اور خرچ کرتے ہیں.حالات ہی ایسے ہو گئے ہیں کہ ان کے چندے ہمارے حساب میں نہیں آسکتے.اس واسطے شوری ۱۹۷۱ء کے پاس کردہ بجٹ سے مشرقی پاکستان کا جو حصہ تھا وہ اب ہمیں نکالنا پڑا کیونکہ یہ مغربی پاکستان کے بجٹ کا حصہ نہیں بن سکتا.ویسے یہ حصہ وہاں وصول ہو رہا ہے اور خرچ بھی ہو رہا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہاں بھی زیادہ آمد ہوئی ہوگی.غرض مشرقی پاکستان کے حصہ کی میزان - ۱,۴۱٫۴۷۰۱ روپے بنتی تھی.اس کے متعلق میں نے متعلقہ نظارت کو کہا کہ گو یہ آمد تو وہاں ہو رہی ہے لیکن اس کے اعداد و شمار کا ہمیں پتہ نہیں اس لئے اسے اپنے سالانہ بجٹ میں کیسے شامل کرو گے.اس لئے بجٹ سے خارج کر دو.اسی طرح کچھ زمین کی آمد ہے.جس کا جماعت کے اخلاص پر تو اثر نہیں پڑا یعنی اگر خدانہ کرے! خدا نہ کرے! کبھی جماعت اپنی مالی قربانی میں مثلاً پچاس ہزار روپے پیچھے رہ جائے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمین کی آمد ساٹھ ہزار روپے زیادہ ہو جائے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہو گا کہ جماعت نے مالی قربانی میں قدم آگے بڑھایا ہے بلکہ فکر کی بات پیدا ہو جائے گی.اس واسطے میں نے کہا کہ زمین کا حصہ بھی علیحدہ کر دو.کیونکہ اس کو منہا کئے بغیر تو ہم صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے.چنانچہ جب ہم نے بجٹ کا جو محاصل خالص ہے اس سے آمد زمین بقدر - / ۵۵,۰۰۰ اور مشرقی پاکستان سے متعلقہ - ۱٫۴۷۰۱ ۴ اروپے کی رقوم کو علیحدہ کیا اور علیحدہ کرنا چاہیے تھا تو بقیہ جو بجٹ رہ گیا وہ -۳۷,۴۱,۱۷۱۱ روپے کا تھا.چنانچہ ان تمام ہنگاموں کے بعد اور تمام تکالیف کے بعد اور تمام پریشانیوں کے بعد اور گاؤں چھوڑنے کے بعد اور مہمانوں، بھائیوں اور دوستوں کو اپنے گھروں میں ٹھہرا کر زیادہ بار اٹھانے کے بعد جو آمد ہوئی وہ -/۳۷,۷۵,۰۲۸ روپے کی ہے یعنی جو مجوزہ بجٹ تھا اس سے.۳۳,۸۵۷۱ روپے زیادہ ہے.اَلْحَمدُ لِلهِ - پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے چندوں میں کمی نہیں آئی حالانکہ منافق یہ سمجھتا تھا کہ کمی آجائے گی.منافق اپنے اخلاص ( آخر کچھ نہ کچھ تو اخلاص اس کے اندر ہوتا ہے.اخلاص

Page 243

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۲۳ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۷۲ء سے بالکل عاری تو ہم اسے نہیں کہہ سکتے ورنہ تو وہ ارتداد اختیار کر کے جماعت سے نکل جائے.اس کا کوئی پہلو تو ایسا ہوتا ہے جو ہمیں یہ امید دلاتا ہے کہ شاید ہماری تربیت سے اس کا نفاق دور ہو جائے بہر حال وہ اپنے اخلاص) کی کم مائیگی کو دوسروں کے اخلاص کو ماپنے کی کسوٹی بناتا ہے چنانچہ اب بھی اس نے سوچا.چلو پیشگوئی کر دو کہ جماعت احمد یہ بہت بد دل اور پریشان ہوگئی ہے اور اپنے اس خلیفہ کی نالائقیوں کی وجہ سے بشاشت کھو بیٹھی ہے.انہوں نے چندوں کا بھی ذکر کیا مجھے بھی رپورٹیں پہنچیں کہ دیکھ لینا اب ان کو پیسے نہیں ملیں گے.مگر اے منافقو! تم نے یہ بات کرتے وقت اندازہ لگایا تھا دُنیا کے حالات کا لیکن مومنوں کی اس جماعت نے اپنے عمل کی بنیاد اپنے ایمان پر رکھی ہوئی ہے.اس لئے مومنوں نے کہا یہ تکالیف یہ ابتلاء اور یہ ضرآء تو آتے ہی رہتے ہیں.ایسے موقع پر مومن کی گردن کٹ تو سکتی ہے لیکن وہ ایک جگہ پر کھڑا نہیں رہا کرتا اور نہ پیچھے ہٹتا ہے.دراصل منافق ایک مخلص مومن کو سمجھ ہی نہیں سکتا.اس لئے اس کی اپنی ذہنیت ،اس کا اپنا دل اور اس کی اپنی روح بنیادی طور پر ایک مومن کی ذہنیت اور اس کے اخلاص اور اس کی روح سے مختلف ہوتی ہے.پس اے منافقو ! تم نے سمجھا تھا چندوں میں کمی آجائے گی.مگر مومنوں کی اس جماعت نے کہا چندوں میں کمی نہیں آئے گی.بلکہ جو وعدے کئے گئے تھے اس سے زیادہ پیش کئے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ جماعت کو میرے درخت وجود کی شاخو! کہہ کر جماعت سے بڑے ہی پیار کا اظہار فرمایا ہے.میں بھی آج خدا کی حمد سے معمور ہوں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے کو اپنی دُعا کے فقرہ میں شامل کر کے یوں دعائیہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اے مسیح محمدی اور مہدی معہود علیہ السلام کے درخت وجود کی وہ شاخو جو ثمرات حسنہ سے لدی اور جھکی ہوئی ہو، میرے رب کریم کا تم پر سلام ہو.“ 66 روزنامه الفضل ربوه ۱۸ جون ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 244

Page 245

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۲۵ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء ہمیں یہ عہد اور عزم کر لینا چاہیے کہ موجودہ مالی سال میں ہمارا قدم ہر لحاظ سے آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا خطبه جمعه فرموده ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة : ٢٠٢) پھر حضور انور نے فرمایا:.گذشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ نامساعد حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی اس پیاری جماعت کو مالی قربانیوں میں پیچھے رہنے سے بچالیا ہے.چنانچہ جو مجوزہ بجٹ تھا یعنی یہ اندازه که جماعت دورانِ سال اس قدر مالی قربانی دے گی ، اس سے زیادہ قربانی دوستوں نے پیش کی.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس لئے ہمارے دل اس کی حمد سے لبریز ہیں.اب ہمیں یہ عہد اور عزم کرنا چاہیے کہ جس مالی سال میں ہم ابھی ابھی داخل ہوئے ہیں ،اس میں بھی ہمارا قدم کسی لحاظ سے پیچھے نہیں رہے گا بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عطا میں سے اس کے حضور پیش کرنے کا جو مطالبہ ہے، ہماری مالی قربانی تو اس کا ایک چھوٹا سا جزو ہے.حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اُس

Page 246

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۲۶ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء نے انسان کو جتنی بھی قوتیں اور صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، وہ اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان قوتوں اور صلاحیتوں کی نشوونما کے لئے جو بھی سامان پیدا کئے ہیں، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ ہے کہ اُن سب کو میرے حضور پیش کر دو.یہ دُنیا کی تمام اشیاء اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ جتنی بھی نعمتیں ہیں وہ دراصل مقصود بالذات نہیں.وہ تو اس لئے پیدا کی گئی ہیں تا کہ انسان کو جو چار قسم کے مختلف بنیادی قومی دیئے گئے ہیں اور بنیادی طور پر چار قسم کی صلاحیتیں اسے عطا کی گئی ہیں ، اُن سے تعلق رکھنے والی ہر قوت اور ہر صلاحیت کی صحیح اور کامل نشو ونما ہو سکے.غرض ہم نے اپنے مالوں میں سے ایک حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کیا ہے.یہ مال و دولت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، جو اس دُنیا کے عام قاعدہ کی رو سے ملتی ہے.گو بعض استثی بھی ہوتے ہیں لیکن اصولی طور پر اور دنیوی قاعدہ کے لحاظ سے یہ جو مال کی عطا ہے یہ انسان کو براہ راست نہیں ملتی بلکہ کوشش اور محنت کے نتیجہ میں جب اللہ تعالیٰ کا اس پر فضل نازل ہوتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے مال اور دولت عطا ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے..اس کا اصولی طور پر ایک مفہوم تو یہ ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.ہم ماں کے پیٹ سے تو کچھ نہیں لائے.دوسرے اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی جو عطا کردہ قو تیں ہیں اور جو طاقتیں ہیں مثلاً سمجھ ہے، فراست ہے، تجارت کرنے کی ایک صلاحیت عطا کی جاتی ہے یا زمیندارے کی صلاحیت ہے یا دنیا کے دوسرے کام ہیں جن کے نتیجہ میں دولت پیدا ہوتی ہے.چنانچہ انسان کی ساری قوتیں جن کا تعلق اس دُنیوی دولت کے ساتھ ہے اور جن کے نتیجہ میں دولت پیدا ہوتی ہے، ان کی بنیادی چیز یہ ہے کہ محنت کی جائے.پس یہ محنت ہی ہے جس سے ہر قوت اور صلاحیت طاقت حاصل کرتی ہے.جس طرح انسانی جسم محنت سے طاقت حاصل کرتا ہے اسی طرح دوسری صلاحیتیں بھی محنت سے قوت اور طاقت حاصل کرتی ہیں اور نشو و نما پاتی ہیں.

Page 247

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۲۷ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء غرض یہ محنت ہی ہے جس کے نتیجہ میں دنیوی حسنات اور نعمتیں ملتی ہیں.مثلاً اگر دولت نہ ہو گی تو مالی قربانی نہیں ہوگی اگر علم اور فراست نہیں ہوگی تو دوسروں کو علم سکھانا اور عقل کی باتیں بتانا ممکن نہیں ہو گا.اگر اخلاقی قوتوں کی صحیح نشو ونما نہیں ہوگی یا اخلاقی قوتوں کی صحیح نشوونما کے لئے محنت نہیں کی جائے گی تو انسان دوسروں کے لئے اچھے اخلاق کا نمونہ پیش نہیں کر سکے گا کیونکہ لوگ اُسے کہیں گے تمہاری اپنی اخلاقی تربیت اور نشو و نما نہیں ہوئی تم ہمیں کیا بتاؤ گے.اگر روحانی طاقتوں کی نشوونما کے لئے مجاہدہ نہیں ہو گا تو روحانی صلاحیت روحانی ثمرات پر منتج نہیں ہوگی، اس کا کوئی پھل نہیں ملے گا.اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا یا اتنا نتیجہ نہیں نکلے گا جتنا نتیجہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ نکلے.پس یہ تمہید ہے.میں نے اسے مختصر بیان کیا ہے.کیونکہ آج میں خطبہ کو مختصر کرنا چاہتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پانچ سات دن سے گرمی لگنے کی وجہ سے میں پھر بیمار ہو گیا ہوں.ایک تو میرے خون میں شکر زیادہ ہوگئی ہے.دوسرے پانچ سات دن سے اتنی شدید سر درد ہے کہ عمر میں ایسی سر درد کم ہوئی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.جمعہ کی نماز سے دو چار گھنٹے پہلے یہ درد اچانک غائب ہو گئی لیکن پہلے جو بیماری تھی اس کا اب بھی اثر ہے.دراصل خود گرمی میرے لئے ایک بیماری ہے.جس طرح نزلہ اور زکام اور کھانسی اور ٹائیفائیڈ اورفلواور ملیر یا یا اور ہزار قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں اسی طرح بعض لوگوں کے لئے گرمی بھی بیماری بن جاتی ہے.بہر حال آج میں مختصر خطبہ دینا چاہتا ہوں اور میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ اس زاویہ نگاہ سے ( جسے میں نے ابتدا میں مختصر بیان کیا ہے اور جسے اکثر دوست سمجھ گئے ہوں گے ) قربانی کی ماں در اصل محنت ہے.اگر آج محنت نہیں کریں گے تو آپ کو وہ چیز حاصل نہیں ہوگی جسے قربان کر کے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا کرتا ہے.اگر آپ دنیوی حسنات کے لئے خلوص نیت کے ساتھ محنت نہیں کریں گے اور محنت کو اس کی انتہا تک نہیں پہنچائیں گے تو آپ کو دولت نہیں ملے گی.تاہم دُنیا میں ایک وہ انسان ہے جو دُنیا کے لئے دُنیا کماتا ہے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے.

Page 248

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۲۸ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء ضَلَّ سَعْيُهُمُ فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا (الكهف : ۱۰۵) یعنی ان کی تمام تر کوشش اس دُنیوی زندگی کے لئے ہوتی ہے.ان کے مقابلے میں ایک وہ انسان ہے جو دین کی خاطر اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال قربان کرنے کے لئے دُنیا کماتا ہے.اب جہاں تک دُنیا کے کمانے کا سوال ہے.دونوں برابر ہیں لیکن جہاں تک دولت کے خرچ کرنے کا سوال ہے ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ ایک تو دنیا کما کر زمینی بن گیا اور دوسرے نے دُنیا کمائی اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے.اس لئے ہر دو میں زمین و آسمان کا فرق ہے.پس رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کی جب دُعا سکھائی گئی تو اس کے ایک معنے یہ ہوئے کہ ہم خدا سے یہ کہیں کہ اے خدا! ہم نے انتہائی محنت اور انتہائی تدبیر کر دی دُنیا کمانے کے لئے ہم نے اپنی تدبیر کو انتہا تک پہنچا دیا اور اسی طرح دعا کو بھی انتہا تک پہنچا دیا ہے اور اب اس مقام پر کھڑے ہو کر ہم یہ کہتے ہیں رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کہ اے ہمارے رب! ہماری تدبیر اور ہماری دُعا تیرے فضل اور تیری رحمت کے بغیر نتیجہ نہیں پیدا کرسکتی اس لئے تو اپنے فضل سے اس کا نتیجہ پیدا کر اور اس دُنیا کی حسنات میں ہمیں شریک اور حصہ دار بنا اور ہمیں اس کا وارث قراردے تا کہ ہم دُنیا کی نعمتوں کو حاصل کر کے اور پھر ان نعمتوں کو تیری راہ میں قربان کر کے اپنی روحانی اور اُخروی حسنات کے لئے سامان پیدا کریں.غرض حقیقت یہی ہے کہ دُنیا کی حسنات کے بغیر اُخروی حسنات مل نہیں سکتیں.میں اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں تاکہ بچے بھی سمجھ جائیں.جو شخص دُنیا کی حسنات سے کلی طور پر محروم ہو جاتا ہے اس کے اوپر روحانی حکم لگتا ہی نہیں.اس کے متعلق لوگ کہہ دیتے ہیں کہ وہ پاگل ہے.اس لئے جہاں تک ایک مجنون کی دنیوی حسنات کے بارے میں محنت اور کمائی کا تعلق ہے یا اس کی کوشش اور مجاہدہ کا سوال ہے وہ یہ کام کر ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ پاگل ہے.اس لئے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جسم اور زندگی بخشی.اللہ تعالیٰ نے اس کو بھائی دیئے ، اس کو دوست دیئے اور اس کے اردگرد خیال رکھنے والے انسان بنائے.چنانچہ وہ اس کا خیال رکھتے ہیں لیکن جہاں تک اس کی اپنی طاقتوں کا سوال ہے.اس کی کسی طاقت کے اوپر کوئی حکم نہیں چلا سکتا.وہ

Page 249

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۲۹ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء اپنے جنون میں کسی آدمی کو قتل کر دیتا ہے تو جج کہتا ہے کہ پاگل تھا اس سے قتل ہو گیا.ظلم ہو گیا لیکن اس کے اوپر کوئی الزام نہیں پس جو شخص مجنون ہے اس کے لئے دنیوی حسنات کی کمائی کے دروازے بند ہیں اور چونکہ دنیوی حسنات کی کمائی کے دروازے اس کے لئے بند ہیں اسی لئے اُخروی حسنات کی کمائی کا دروازہ بھی اس کے لئے نہیں کھولا جائے گا.پس ہم ایسے شخص کو مرفوع القلم کہہ دیتے ہیں.ہم اس پر نہ نیکی کا حکم لگاتے ہیں اور نہ بدی کا ، نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس نے مالی قربانی دی اور نہ یہ کہ اُس نے مالی قربانی نہیں دی مثلاً اگر کوئی مجنون یا مرفوع القلم آدمی اپنے باپ کی تجوری کو گھلا پائے اور وہاں سے دس ہزار روپے نکال کر جنون کی حالت میں کسی مستحق کو دے دے تو یہ نیکی شمار نہیں ہوگی کیونکہ اس نے جنون میں آکر ایسا کیا ہے یہ نیکی نہیں جنون ہے.غرض یہ ایک حقیقت ہے اور قرآن کریم نے اسے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ دنیوی حسنات کے بغیر اُخروی حسنات کے سامان پیدا نہیں ہوتے ، اس لئے کہ اُخروی حسنات کے سامان اللہ تعالیٰ کی راہ میں دُنیوی نعمتوں کو خرچ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں.جس کے پاس نعمت ہی کوئی نہیں وہ خرچ بھی نہیں کر سکتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص نامرد ہے وہ پاک باز ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا.کیونکہ اُسے طاقت ہی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو چار قسم کی طاقتیں اور صلاحیتیں بخشی ہیں اور ان کے اوپر اُخروی نعمتوں کا انحصار ہے، یہ طاقتیں ماں ہیں اُخروی نعمتوں کے حصول کی ، ان کے بغیر کوئی اُخروی نعمت نہیں مل سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة: ٤) اور بعض دوسری آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی طاقتیں اور صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں اور ہر طاقت اور صلاحیت سے یہ مطالبہ فرمایا ہے کہ وہ میری راہ میں قربان ہو جائے.میں آپ کی بیان کردہ تفسیر کا مفہوم بیان کر رہا ہوں.الفاظ میرے اپنے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت تو بڑی حسین ہے مگر ہم عاجز بندے ہیں اور اپنا فرض ادا کر رہے ہیں.

Page 250

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۳۰ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء غرض ہر انسانی طاقت خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہونی چاہیے.اسی واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے دُنیوی رشتوں کے ساتھ پیار خدا تعالیٰ کے لئے کرو گے تو نیکی حاصل کرو گے مثلاً اگر تم خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے اپنی بیوی کے منہ میں پیار سے لقمہ ڈالو گے تو تمہیں اس کا ثواب مل جائے گا.اب تو ویسے ہی دُنیا عیش وعشرت میں پڑی ہوئی ہے.ان کو تو کوئی ثواب نہیں ملتا کیونکہ نیت کا فرق پڑ گیا ہے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا جو مقصد ہے اس مقصد میں فرق پڑ گیا ہے.ایک آدمی نے اپنی عیش کے لئے ایک کام کیا.دوسرے نے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک کام کیا.ان دونوں میں بڑا فرق ہے.پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جو بھی قو تیں اور صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں.ان سب کو پوری طرح نشو ونما دینا یعنی انتہائی محنت کرنا ہمارا فرض ہے اگر ہم محنت نہیں کرتے تو ہم دُنیا کی نگاہ میں ۱٫۴ دولت دینے والے ہیں.اگر ہم نے ۱/۴ دولت دی اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہم صرف ۱/۸ دولت دینے والے ہیں تو اس کی شکل یہ بنے گی کہ اگر ہم نے دولت کی کمائی کے لئے اپنی طاقتوں کی نشو و نما صرف پچاس فیصد کی اور پچاس فیصد جونشو نما ہوئی اس کے نتیجہ میں اگر ہم نے سوروپے حاصل کئے اور اگر سو فیصد نشو نما ہوتی تو دوسوروپے حاصل کرتے.مگر ہم نے پچاس فیصد نشوونما کر کے اسی نسبت سے دُنیا کی دولت کمائی اور پچیس روپے یعنی ۱٫۴ خدا کی راہ میں دے دیا لیکن خدا تعالیٰ نے جو قو تیں اور صلاحیتیں پیدا کی تھیں وہ تو دوسوروپے کمانے کی تھیں.اس لحاظ سے خدا تعالیٰ نے اپنی عطا کے مقابلے میں اگر یہ فرمایا کہ مثلاً ۱٫۴ دو تو یہ پچاس روپے بنتے تھے لیکن آپ نے پچاس میں سے چھپیں دیئے تو گویا باقی پچیس کی حد تک آپ نے اپنے کو نیکیوں سے محروم کر دیا.غرض اللہ تعالیٰ آپ سے جو پیار کرنا چاہتا ہے اور اپنی رضا کی جو جنتیں آپ کے لئے پیدا کرنا چاہتا ہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی عطا کردہ تمام قوتوں اور صلاحیتوں کی صحیح اور کامل نشو و نما ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ محنت انتہائی طور پر کی جائے.چنانچہ لغت عربی میں یہ جو جہاد اور مجاہدہ کا لفظ آتا ہے اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ انسان

Page 251

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۳۱ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء اتنی محنت کرے کہ اس کے قومی تھک جائیں اور وہ زبانِ حال سے یہ کہ اُٹھیں کہ اس سے زیادہ کام نہیں کر سکتے.پس انتہائی محنت نام ہے پوری اور وسیع قوت کو ہر لحاظ سے خرچ کر دینے کا اور اسلام ہم سے اسی قسم کی محنت کا مطالبہ کرتا ہے اور اس سلسلہ میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ محنت کے بغیر نہ دُنیا میں کوئی ترقی ہوتی ہے اور نہ دین میں محنت کے بغیر کوئی ترقی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے ایک شخص کو اپنے مقربین کے گروہ میں شامل کرنا چاہا لیکن اُس نے اپنی جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی اور روحانی قوتوں کی کمال نشود نما نہیں کی تو وہ دوسرے درجے میں چلا گیا یا تیسرے درجے میں چلا گیا تو گویا خود کو اُس نے کئی نیکیوں سے محروم کر دیا یا مثلاً ایک کند ذہن طالب علم ہے وہ سکول کے امتحان میں تھرڈ ڈویژن لیتا ہے تو (اے بچو! ) ماسٹر کہے گا.الْحَمدُ لِلهِ.شکر ہے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا پاس ہو گیا.اس کے مقابلے میں ایک ذہین طالب علم ہے مگر اس نے پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دی.وہ امتحان میں سیکنڈ ڈویژن لیتا ہے لیکن سیکنڈ ڈویژن لینے کے باوجو د استاد کہتا ہے یہ بڑا ہی نالائق ہے.ہیڈ ماسٹر کہتا ہے یہ بہت ہی نالائق ہے.اگر یہ محنت کرتا تو یو نیورسٹی میں فرسٹ آسکتا تھا لیکن اس نے اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کو ضائع کر دیا.اس طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے فرمائے گا کہ میں نے تمہارے لئے کہیں آگے نکلنے کے لئے مواقع بہم پہنچائے تھے اور تمہارے اندر طاقتیں اور صلاحیتیں رکھی تھیں مگر تم نے میری اس عطا سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور جس طور پر میں تم پر فضل کرنا چاہتا تھا.اس طرح تم نے میرے فضلوں کو حاصل نہیں کیا.پس قربانیاں دینے کی ماں دراصل محنت شاقہ ہے اور جہاں تک جنتوں کے حصول کے لئے انسانی کوشش کا تعلق ہے انتہائی قربانی کا مطالبہ کیا گیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے تم تدبیر کو اس کی انتہا تک پہنچاؤ.پھر دعا کو اس کی انتہا تک پہنچا ؤ اور پھر تد بیر اور دعا کے انتہائی مقام پر کھڑے ہو کر کہو اے خدا! ہم تجھ پر توکل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تیرے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا.

Page 252

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۳۲ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء پس یہ ہے ایک مسلمان کی ذہنیت.یہ ہے ایک مسلمان کی شان اور یہ ہے ایک احمدی کا طر کا امتیاز.اس لئے تم محنت کرو، محنت کرو، محنت کرو، اور اسے بچو تم بھی محنت کرو، پھر علم کے میدان میں، اخلاق کے میدان میں اور ہدایت پانے اور دینے کے میدان میں تم کسی سے پیچھے نہیں رہو گے بلکہ آگے ہی آگے نکلتے چلے جاؤ گے میرے بھائی اور بزرگ بھی محنت کریں.وہ دُنیا کمائیں تو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور پھر جو کمائیں وہ خدا تعالیٰ کے قدموں میں قربانی کی شکل میں لا رکھیں کیونکہ اسی میں ہماری راحت ، اسی میں ہمارا سکون ہے اور یہی ہماری جنت ہے.ہمارا نیا مالی سال شروع ہو چکا ہے.اس میں بھی ہمارا قدم پیچھے نہیں بلکہ آگے بڑھنا چاہیے لیکن اگر ہمارا قدم آگے بڑھنا ہے تو ہمارے زمیندار کی زمین کی پیداوار زیادہ ہونی چاہیے.ہمارے مزدور کو مزدوری زیادہ ملنی چاہیے تاہم مزدوری زیادہ ملتی ہے فراست کی زیادتی کی وجہ سے مثلاً ایک شخص اپنی فراست اور توجہ اور دُعا کے نتیجہ میں Unskilled Labour ( ان سکلڈ لیبر ) کے گروپ میں سے نکل کر سکلڈ لیبر میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کی تنخواہ ڈیڑھ گنا زیادہ ہوتی ہے.اسی طرح مثلاً ایک ڈاکٹر ہے، وہ خلق خدا سے پیار کرنے کے نتیجہ میں زیادہ کما لیتا ہے کیونکہ ساٹھ روپے فیس رکھنے سے ڈاکٹر زیادہ نہیں کما یا کرتے جب کسی ڈاکٹر کی ساٹھ روپے فیس ہوتی ہے تو اس کے پاس دو چار مریض جاتے ہیں کیونکہ جس کے پاس بہت زیادہ مال و دولت ہو گی وہی ساٹھ روپے فیس دے سکتا ہے اور وہی اس کے پاس جائے گا.غریب تو نہیں جاسکتا.جرمنی میں ایک بوڑھے ڈاکٹر تھے جنہوں نے آپریشن کر کے میرے گلے سے غدود نکالے تھے اور یہ غالباً ۶ ۳ ء کی سردیوں کی بات ہے.میں حیران ہو گیا.اُنہوں نے اتنے امیر ملک میں اپنی فیس صرف دو روپے رکھی ہوئی تھی مگر ان ساٹھ روپے فیس لینے والے ظالم ڈاکٹروں سے وہ زیادہ کما رہے تھے.کیونکہ وہ خدمت خلق کے جذبہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ حاصل کر رہے تھے.ان ساٹھ روپے فیس لینے والے ڈاکٹروں کے پاس تو دو تین مریض آتے ہیں.مگر ان کے پاس روزانہ سود وسو مریض آتے تھے اور اس طرح روزانہ ۳، ۴ سو مارک کی کمائی تھی

Page 253

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۳۳ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء اُس زمانے میں روپے اور مارک میں تھوڑا سا فرق تھا.فرض کریں اگر تین سو روپے یومیہ ہو تو بارہ ہزار مہینے کی آمد تھی لیکن جو حریص ڈاکٹر ہے، اس نے یہ ہنر تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل کیا مگر خدمت خلق کے جذبہ سے محروم رہنے کی وجہ سے وہ دُنیوی لحاظ سے بھی نا کام ہوا.یہ اس کی اپنی غلطی ہے.میں کہتا ہوں اگر ہمارا احمدی ڈاکٹر خدمت خلق کے جذبہ سے اور پیار کے ساتھ اور اس تڑپ کے ساتھ کہ غریب سے غریب بیمار بھی آئے گا تو میں اُسے بہتر سے بہتر مشورہ دوں گا.اگر اس طرح وہ کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت ڈال دے گا.پس اگر آپ کا یہ خلوص، اگر آپ کا یہ جذبہ گذشتہ سال کی نسبت زیادہ اعلیٰ ، زیادہ اچھا اور زیادہ حسین ہو جائے گا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو آپ پہلے سے زیادہ حاصل کریں گے.میں ڈاکٹروں کے متعلق بات کر رہا تھا.ہماری حکومت نے اب ڈاکٹروں پر کچھ پابندیاں لگائی ہیں.ایک احمدی ڈاکٹر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ان پابندیوں کی وجہ سے ہماری کمائی میں کمی واقع ہو جائے گی.میں نے کہا ٹھیک ہے آپ کی موجودہ ذہنیت کے مطابق کمی ہو جائے گی لیکن اگر آپ اپنی ذہنیت بدل دیں تو زیادتی ہو گی کمی نہیں ہوگی.ان کو میں نے یہی خدمت خلق کے جذبہ سے کام کرنے والی بات بتائی تو کہنے لگے یہ تو ٹھیک ہے اس سے تو ڈاکٹروں کی آمدنی میں زیادتی ہوگی.غرض ایک احمدی ڈاکٹر کو کس نے یہ کہا ہے کہ وہ زیادہ نہیں لے.اُس نے تو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے.یہ ہے اس کی اصل فیس یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ اس دُنیا میں بھی مال دے دیتا ہے اور پھر کہتا ہے.اسے میری راہ میں خرچ کر دو.پس ہر احمدی ڈاکٹر کو ضمنا میں یہ کہہ دیتا ہوں کہ اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ غریب سے غریب مریض بھی جسے اس کے طبی مشورہ کی ضرورت ہو ، وہ اس کے طبی مشورہ سے اس لئے محروم نہ رہے کہ اس کی فیس زیادہ ہے.ہمارے اطباء نے پہلے زمانے میں یہ طریق رکھا ہوا تھا کہ وہ غریب آدمی سے فیس نہیں لیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ جو بہت زیادہ غریب ہوتا تھا اس سے

Page 254

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۳۴ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء دوائی کی قیمت بھی نہیں لیتے تھے لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے سونا چاندی عطا کیا ہوتا تھا وہ جب اُن سے علاج کروانے آتے تھے تو ان سے کہتے تھے کہ نکالو پانچ ہزار یا دس ہزار یا پندرہ ہزار روپے یعنی جتنا جتنا کوئی امیر آدمی ہوتا تھا اس سے اتنے ہی زیادہ پیسے وصول کر لیتے تھے.اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں ان کے اموال میں برکت بخشی تھی.ان کے دل میں ایک جذبہ تھا کہ ہم نے غریب آدمی کی خدمت کرنی ہے.ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ کوئی غریب بیمار محض غربت کے نتیجہ میں ہماری مہارت اور ہنر سے ( جو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے ) محروم نہ رہے.یہ تو میں نے احمدی ڈاکٹروں کا نام لے کر کہا ہے.میری مراد اس سے وہ پیشہ ہے جسے ایک احمدی نے اختیار کر رکھا ہے.اس کو ایک تو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ خدمت خلق کا جذبہ برقرار ر ہے.دوسرے محنت کو اس کی انتہا تک پہنچادیا جائے.پس احباب جماعت کو چاہیے کہ اس نئے مالی سال میں اپنی محنت کو اپنی تدبیر کو اور اپنی دعا کوانتہا تک پہنچادیں.پچھلے سال کی تدبیر اور دعا کے نتیجہ میں (اگر وہ مقبول ہوئی تو ) آپ کو زیادہ تدبیر اور زیادہ دعا کرنے کی توفیق ملے گی.اس لئے تم اس توفیق سے فائدہ اُٹھاؤ.زیادہ تدبیر کرو، زیادہ دعائیں کرو اور اس چیز کو نہ بھولو کہ دنیا کی جو نعمتیں ہیں اُن سے اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کو محروم نہیں کیا بلکہ اُسے دُنیا کی ساری نعمتیں دے کر فرمایا کہ دیکھو! یہ اُخروی جنتوں کے دروازے کھولنے کی چابیاں ہیں ان سے فائدہ اُٹھاؤ اور اپنے لئے جنتوں کے سامان پیدا کرلو.اگر دُنیا کی نعمتوں سے ہم محروم کر دیئے جاتے تو پھر جنتوں کے دروازے کھولنے کے لئے مسلمان کے ہاتھ میں کوئی چابی نہ رہتی.اس واسطے اللہ تعالیٰ نے رہبانیت سے منع فرمایا ہے کیونکہ رہبانیت جس شکل میں اس وقت دنیا میں رائج ہے وہ جنت کے دروازہ کو بند کرتی ہے.ویسے تو ذہنی طور پر ایک مسلمان کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ دُنیا سے اس کا کوئی تعلق اور کوئی دلچسپی نہ ہولیکن جیسا کہ دُنیا میں اس وقت رہبانیت رائج ہے.اس شکل میں یہ جنت کے دروازوں کو بند کرتی ہے جیسا کہ دنیا کی ساری نعمتیں اگر ان کو اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احکام کے مطابق خرچ کیا جائے تو یہ جنت کے دروازوں کو کھولتی ہیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیوی حسنات جنت کی حسنات یا

Page 255

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۳۵ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۷۲ء اُخروی زندگی کی حسنات کی جنتوں کے دروازوں کو کھولنے کی چابی ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہم میں سے ہر شخص کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے محبوب فرزند مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والا ہے، اس کو دُنیا کی نعمتوں سے بھی سرفراز فرمائے اور دُنیا کی نعمتوں کو جنتوں کے دروازے کھولنے کی چابیاں بنانے کی بھی اسے توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ ہو نہیں سکتا اور اس کے فضل سے ہر چیز ممکن ہے.روزنامه الفضل ربوه ۳ ستمبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 256

Page 257

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۳۷ خطبہ جمعہ ۱۶/جون ۱۹۷۲ء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی تمام بنی نوع انسان کے لئے کامل ، اعلیٰ اور حسین نمونہ ہے خطبه جمعه فرموده ۶ ارجون ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:.وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ - (النحل : ١٢٦ ) وَ لَقَد أَتَيْنَا مُوسى وَ هُرُونَ الْفُرْقَانَ وَ ضِيَاء وَ ذِكْرًا لِلْمُتَّقِينَ - الَّذِينَ يَخْشَونَ رَبِّهُمُ بِالْغَيْبِ وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ.(الانبياء :۵۰،۴۹) لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا - (الاحزاب : ۲۲) اور ازاں بعد فرمایا:.پچھلے دنوں گرمی کی وجہ سے مجھے کافی تکلیف رہی ہے.شروع میں تو دوران سر کی بہت تکلیف رہی چنانچہ چکروں کے احساس کا یہ عالم تھا کہ بستر پر اُٹھ کر بیٹھتا تھا تو ساری دنیا گھوم جاتی تھی.اسی طرح جب لیٹتا تھا تو زمین و آسمان چکر کھانے لگتے تھے.چکروں کی تکلیف سے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی آرام آ گیا ہے لیکن کچھ تو بیماری کی وجہ سے ضعف پیدا ہو گیا اور کچھ دوائیں جو چکر دور کرنے کے لئے دی گئی تھی انہوں نے اتنا ضعف

Page 258

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۳۸ خطبہ جمعہ ۱۶ / جون ۱۹۷۲ء پیدا کیا کہ ضعف پیدا کرنے میں ان کا مقابلہ کوئی اور دوائی شاید کم ہی کرتی ہو.یہ گرمی جو میری بیماری بن چکی ہے.اس کی تکلیف تو ابھی تک جاری ہے لیکن چونکہ چند دنوں تک ربوہ سے باہر جانے کا ارادہ ہے اس لئے دل نے یہ نہیں چاہا کہ اس جمعہ سے بھی غیر حاضر ہو جاؤں اور اپنے بھائیوں اور دوستوں سے ملاقات نہ کروں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ اہلِ ربوہ کا حافظ و ناصر ہو اور اس کے فرشتے ہمیشہ اہل ربوہ (مردوزن ) کی مدد کے لئے تیار رہیں.میری آپ سے یہ بھی درخواست ہے کہ آپ میری غیر حاضری میں بھی دعائیں کرتے رہیں کہ میں بھی خدا تعالیٰ کی حفاظت اور امان میں رہوں اور اس کی مدد اور نصرت میرے بھی شامل حال رہے.ایک لمبا مضمون ذہن میں آیا تھا جس کی میں آج مختصراً ابتداء کر دینا چاہتا ہوں.گذشتہ جمعہ جس دوست کو میں نے خطبہ پڑھنے کے لئے کہا تھا انہیں یہ بھی ہدایت دی تھی کہ وہ سات منٹ سے زیادہ خطبہ نہ دیں.اب یہی پابندی خود اپنے اوپر کس حد تک عاید کرتا ہوں یا کر سکتا ہوں یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لیکن میری کوشش یہی ہوگی کہ بہت ہی مختصر خطبہ دوں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ آیت کے اس مختصر سے فقرے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ دوسرے لوگ جو آپ سے اختلاف رکھتے ہیں ، ان سے تبادلۂ خیالات کرتے ہوئے اُن کے نقطۂ نگاہ اور ان کی ذہنیت کے لحاظ سے جو سب سے اچھا جواب اور اچھی دلیل ہے اس کی رو سے تم ان کو مخاطب کیا کرو اور ان سے تبادلہ خیال کیا کرو.وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ سے ہمیں تین باتوں کا علم ہوتا ہے.ایک یہ کہ جہاں تک مذاہب کا سوال ہے اور جہاں تک منکرینِ اسلام کا سوال ہے مخالفین اور منکرین کا صرف ایک گروہ نہیں بلکہ ان کے ایک سے زائد گروہ پائے جاتے ہیں.کوئی کسی جہت سے اسلام کی مخالفت کرتا ہے کوئی کسی وجہ سے اس کا انکار کرتا ہے گو یا کئی وجوہ سے اسلام کا انکار اور مخالفت ہوتی ہے.غرض ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ جہاں تک مخالفین اسلام کا تعلق ہے وہ ہمیں ایک سے زائد خیالات اور ایک سے زائد اختلافات رکھنے والے نظر آئیں گے.دوسری بات جس کا اس حصہ آیت سے پتہ لگتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر قسم کے گروہ کے ساتھ

Page 259

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۳۹ خطبہ جمعہ ۱۶ / جون ۱۹۷۲ء بحث کرنے کے لئے جن دلائل کی ضرورت تھی وہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ہدایت کی شکل میں مہیا کر دیتے ہیں.تیسری بات ہمیں یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے اور اصلاح وارشاد کے کام میں دوسرے شخص کے خیالات کا علم رکھے اور ان کو اپنی باتوں اور دلائل کے بیان میں مد نظر رکھے.اس تیسری بات میں دراصل دوسروں کے خیالات کے مطالعہ کا بھی حکم پایا جاتا ہے ورنہ جب تک ہم ان کو سمجھ نہ جائیں ہم کوئی دلیل نہیں دے سکتے.پس اس حصہ آیت میں ہمیں یہ تین چیزیں نظر آتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ تین باتیں بیان فرمائی ہیں اب آج اگر چہ یہ دنیا ماضی کی دنیا سے بڑی مختلف ہو چکی ہے تا ہم اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ ایک سے زائد گروہ ہیں جو اپنی اپنی آراء رکھتے ہیں.یہ اختلافات ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں نہیں بلکہ شیطان کی بہت سی زنجیریں ہیں.جن میں اس نے اپنے ساتھیوں کو باندھ رکھا ہے کسی کے دماغ میں اسلام کے خلاف ایک اعتراض پیدا کر دیا اور کسی کے دماغ میں کوئی دوسرا اعتراض پیدا کر دیا.جہاں تک ان مخالف گروہوں کا تعلق ہے.ان میں کوئی فرق نہیں پڑا یعنی وہ گروہ جس طرح پہلے زمانے میں تھے اسی طرح آج بھی ہیں اگر کوئی فرق پڑا ہے تو شاید مقدار میں یعنی کمیت میں پڑا ہے.ایسے گروہ زیادہ ہو گئے ہیں کم نہیں ہوئے کیونکہ انسان نے جب مختلف دنیوی ترقیات کیں تو اس کے دماغ میں مذہب کے خلاف مختلف اعتراضات بھی پیدا ہوئے.جہاں تک مذہب کا سوال ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد حقیقی معنی میں ایک ہی مذہب ہے یعنی مذہب اسلام.اس لئے ہم جو احمدی ہیں اور جن پر ساری دنیا کی اصلاح وارشاد کی ذمہ داری ہے.ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیتے رہیں کہ اسلام کے مخالفین کس قسم کے لوگ ہیں.کوئی نئے خیالات کے لوگ تو پیدا نہیں ہو گئے وغیرہ وغیرہ.پس ہمیں اپنی تبلیغ میں اور اصلاح وارشاد کے کام میں نئے سرے سے ایک جائزہ لینا ہوگا

Page 260

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۴۰ خطبہ جمعہ ۱۶/جون ۱۹۷۲ء اور اس کے ہمیں دو فائدے ہوں گے.ایک یہ کہ پہلے جائزہ کے وقت جو چیزیں سامنے آئی تھیں اور اب بھول چکی ہیں وہ پھر دوبارہ ہمارے سامنے آجائیں گی اور دوسرے یہ کہ جو نئے معترضین کے گروپ پیدا ہو چکے ہیں.وہ اب ہمارے سامنے آجائیں گے اور اس کے مطابق ہمیں نئے سرے سے اصلاح وارشاد کے کام کے لئے خود کو تیار کرنے میں مدد ملے گی.تاہم یہ جو دو گروہ ہیں (یعنی نئے اور پرانے معترضین اسلام ) ان کے متعلق ہمیں قرآن کریم ہی سے تلاش کرنی پڑے گی اور تلاش کرنی چاہیے.انشاء اللہ ان کے متعلق قرآن کریم ہی سے ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ مختلف گروہ کیسے ہیں..یہ ایک لمبا مضمون ہے آج کا یہ خطبہ اس کی تمہید ہے یا صرف یہی سمجھیں کہ میں آج اس کے بعض عنوان بیان کرنا چاہتا ہوں.حضرت موسی علیہ السلام کے وقت میں بھی دو ایسے گروہ تھے جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے.ایک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے منکر تھے اور دوسرے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے منکر بھی تھے یا اللہ تعالیٰ کے منکر تو نہیں تھے مگر آخرت کے منکر تھے.دراصل جو شخص خدا تعالیٰ کا منکر ہوتا ہے وہ ساتھ ہی آخرت کا منکر بھی ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں.خصوصاً یہودیوں میں جن کے متعلق قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ وہ اب بھی ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو پیدا کیا اور اس نے قانون بنا دیئے.وہ تو اتنی بڑی ہستی ہے.اسے کیا پڑی ہے کہ زید یا بکر کے حالات کے متعلق ذاتی طور پر دلچسپی لے کر اس کا جو علم ہے اس کے مطابق وہ کام کرے اور احکام دے.بہر حال بیسیوں غلط دلائل ہیں جو ان کے ذہن میں آتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ” پرسنل گاڈ“ نہیں ”ام پرسنل گاڈ ہے، یعنی ایسا خدا نہیں ہے جس کے ساتھ زید یا بکریا میں اور آپ میں سے ہر ایک ذاتی تعلق پیدا کر سکے اور وہ اس کی ذاتی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہو اور اس کی دعاؤں کے نتیجہ میں اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل کرتا ہو.چنانچہ یہ جو آیت میں نے پڑھی ہے.جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت کا ذکر ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ ہدایت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے.

Page 261

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۴۱ خطبہ جمعہ ۱۶/جون ۱۹۷۲ء وہ اصلی تو رات میں موجود ہے لیکن وہ ان لوگوں کے لئے ہدایت ہو سکتی ہے جو يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بالغیب کے مصداق ہیں یعنی وہ لوگ جو اپنے رب کے مقام کو پہچان کر اس کے سامنے عاجزانہ طور پر جھکتے ہیں اور هُم مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ یعنی اخروی زندگی اور اس کے متعلق جزا وسزا کا جو قانون ہے وہ اسے سمجھتے ہیں اور اس کا خوف ان پر طاری رہتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ اس ور لی مختصر اور نا پائیدار زندگی کے بعد ایک ابدی حیات ملنی ہے اور اس کے لئے ہمیں نیک کام کرنے چاہئیں تا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے اپنی رضا کا سلوک کرے.پس اس آیت میں یہ بتا یا گیا ہے کہ ۱.جو شخص خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا یا ۲.جو شخص اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتا اس کے لئے یہ تورات اور قرآن کریم ) " ذكرا نہیں ہے.یہ اس کے لئے ہدایت کا موجب نہیں ہے یہ اس کے لئے نصیحت کا موجب نہیں ہے البتہ یہ ان متقیوں کیلئے ہدایت کا موجب ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے اور اس کی صفات کی معرفت رکھتے ہیں.جو آخرت پر بھی ایمان رکھتے اور اس کی جزا وسزا پر بھی یقین رکھتے ہیں وہ اس خوف میں رہتے ہیں کہ پتہ نہیں خدا تعالیٰ کا پیار ملے گا یا خدا جانے ہم اس کے غضب کا مورد بن جائیں گے.اس لئے ان کو یہ کہا گیا تھا کہ آخرت کے خوف سے ہمیشہ ڈرتے رہنا (اور چونکہ یہ ایک ہی بات ہے جو ان کو بھی کہی گئی تھی اور ہمیں بھی کہی گئی ہے اور ہمارے سامنے بھی یہی مضمون ایک اور رنگ میں دہرایا گیا ہے اس لئے جو ہمیں کہا گیا ہے میں اس کو لے لیتا ہوں ) اللہ تعالیٰ سورۃ احزاب میں فرماتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے لئے ایک اعلیٰ نمونہ ہیں.لکھ، میں تمام بنی نوع انسان مخاطب ہیں.اس لئے سب انسانوں کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ایک کامل اسوہ اور ایک اعلیٰ اور حسین نمونہ ہے لیکن اس سے فائدہ وہی اٹھائے گا جو يَرْجُوا اللہ کی رو سے اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید رکھتا ہو اور اس کے قُرب کے پانے کی امید رکھتا ہو.نیز وَالْيَوْمَ الأخر یعنی وہ اُخروی زندگی پر بھی ایمان لاتا ہو اور یہ یقین رکھتا ہو کہ اس دنیا میں موت کے بعد ایک نئی زندگی ملے گی اور اس لئے وہ ذکر اللهَ كَثِيرًا اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرتا ہے.د

Page 262

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۴۲ خطبہ جمعہ ۱۶/جون ۱۹۷۲ء غرض جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کے قرب کی امید نہیں رکھتا یوم آخر پر ایمان نہیں لاتا اور اس کے نتیجہ میں ذکر الہی نہیں کرتا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے متاثر نہیں ہے اور اس کامل اسوہ سے فائدہ نہیں اٹھاتا.آپ کا اسوہ حسنہ تو بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہے مگر وہ اس سے کام نہیں لیتا.وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا.پس اگر کسی ایسے شخص کے سامنے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتا.آپ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے حالات پیش کریں گے تو اپنا وقت بھی ضائع کریں گے اور اس کا وقت بھی ضائع کریں گے کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی نہیں لاتا.اس واسطے اس کے نزدیک یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہو یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاتم النبیین آئے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو نہیں مانتا.اگر آپ ایسے شخص کے سامنے جا کر کہتے ہیں کہ دیکھو! اسلام کی تعلیم کتنی احسن اور کتنی اچھی ہے.اس پر چلنے سے اُخروی زندگی کی ساری نعمتیں مل جاتی ہیں تو وہ کہے گا جاؤ آرام سے بیٹھو.مجھے اُخروی زندگی کے متعلق کیا بتاتے ہو.میرا اس پر ایمان ہی نہیں ہے.اس لئے اگر آپ نے ان ہر دو گروہوں کو تبلیغ کرنی ہو اور اسلام کی طرف لانا ہو تو آپ کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے آپ اُن کا اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی صفات کا یقین پیدا کریں.جس رنگ میں اسلام نے اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کو پیش کیا ہے.اس رنگ میں ان کے سامنے پیش کریں اور دلائل دیں.جب وہ ان دلائل کو مان جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی جو صفات اسلام نے بیان کی ہیں اور جن سے خود قرآن کریم نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان صفاتِ حسنہ کا مالک ہے مثلاً وہ جزا وسزا کا مالک ہے.اگر جزا و سزا نہ ہو تو ماننا پڑے گا کہ یہ دنیا اور اس کی پیدائش ایک کھیل ہے اور چونکہ دنیوی اعمال کی جزا و سزا مقرر ہے اس لئے یہ دنیا کھیل نہیں ہو سکتی اللہ تعالیٰ تمام صفات حسنہ کا مالک ہے.اس کی کوئی پیدائش کھیل نہیں ہو سکتی اس لئے آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے.پس ایسے شخص کے سامنے پہلے اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات پیش کریں گے تاکہ پہلے وہ اللہ تعالیٰ

Page 263

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۴۳ خطبہ جمعہ ۱۶ / جون ۱۹۷۲ء پر ایمان لائے.قرآن کریم نے ہستی باری تعالیٰ کے بے شمار دلائل دیئے ہیں.پھر وہ آخرت پر ایمان نہیں لاتا.وہ کہے گا ٹھیک ہے میں خدا تعالیٰ کو مانتا ہوں لیکن میں یہ نہیں مانتا کہ اللہ تعالیٰ یا اس کی صفات حسنہ کا یہ مطالبہ تھا کہ اُخروی زندگی ہو.یہ دنیا کھیل نہ ہو.وہ کہتا ہے یہی دنیا ہے.یہی کھیل ہے اور یہی سنجیدہ زندگی ہے اور جب ہم اس دنیا میں مر جائیں گے تو پھر اٹھائے نہیں جائیں گے.اب ایسے شخص سے اگر آپ یہ کہیں گے کہ اسلامی تعلیم پر چل کر تمہیں خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتیں مل جائیں گی تو اس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا.وہ کہے گا میں تو اُخروی زندگی پر ایمان ہی نہیں لاتا.اس لئے تمہارے سارے دلائل بیچ ہیں ایسے شخص کے سامنے آپ اُخروی زندگی کے دلائل پیش کریں گے.یہی ایک طریق ہے جس کی بدولت آپ اس کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لا سکتے ہیں اس کے بغیر آپ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہیں لا سکتے.پس یہ آیات جو میں نے شروع میں تلاوت کی تھیں اُن میں سے پہلی آیت اصولی تھی اور وہ در اصل عنوان ہے اس سارے سلسلہ ہائے خطبات کا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل سے میں امید کرتا ہوں کہ میں انشاء اللہ آئندہ دوں گا.چونکہ یہ مختلف قسم کے لوگوں کے گروہ ہیں اور وہ مختلف خیالات رکھتے ہیں.اس لئے ان کے متعلق مختلف رنگ میں تیاری کرنی پڑے گی.ہم نے ہستی باری تعالیٰ کے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہستی باری تعالیٰ کے اوپر جتنا مواد ہماری کتب میں پایا جاتا ہے اتنا شاید کسی اور جگہ نہ ہولیکن یہ مضمون جتنا اور جس رنگ میں قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اس کی پوری تفصیل یکجائی طور پر ہمارے نوجوانوں کے سامنے ابھی تک نہیں.یہ تفصیل اُن کے سامنے آنی چاہیے.اسی طرح اُخروی زندگی کے متعلق اسلام کی تعلیم اور قرآن کریم کا حکیمانہ بیان یعنی جو اس نے اس سلسلہ میں دلائل دیئے ہیں وہ بھی ان کے سامنے آنے چاہئیں.پس ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے تم انہیں پہلے اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اُخروی زندگی کا قائل کرو.اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے کی توفیق کے حصول کے لئے تم اُن کے

Page 264

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۴۴ خطبہ جمعہ ۱۶ / جون ۱۹۷۲ء مددگار بنوتا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے تب وہ اس بات کے سمجھنے کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم الشان نبی تھے.جو خاتم النبیین کی حیثیت سے پوری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور قرآن کریم ابدی صداقتوں پر مشتمل ایک کامل الہی کتاب ہے.غرض یہ دو گروہ ہیں جن کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے.میں نے اپنی ایک خواہش کے مطابق ان کا مختصر ذکر کر دیا ہے.یہ صرف عنوان ہیں تفصیل انشاء اللہ بعد میں آجائے گی.ہمیں ان حالات کا پورا تجزیہ کر کے پھر اس کے مطابق اپنے آپ کو اصلاح و ارشاد کے کام کے لئے تیار کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.روز نامه الفضل ربوه ۲۱ جولائی ۱۹۷۲ء صفحه ۲ تا ۴) 谢谢谢

Page 265

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۴۵ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء ہمیں اصلاح وارشاد اور تبلیغ و اشاعت کے کام میں تیزی پیدا کرنی چاہیے خطبه جمعه فرموده ۲۳ جون ۱۹۷۲ ء بمقام سعید ہاؤس.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:.يَايُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللهَ وَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَالْمُنْفِقِينَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا - ط وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ إِنَّ اللهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا - وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ و کفی بِاللهِ وَكِيلا - (الاحزاب : ۲ تا ۴) اور پھر فرمایا:.چند ہفتوں سے گرمی لگ جانے کی وجہ سے مجھے کافی تکلیف رہی ہے.بہت سے جمعے تو میں پڑھا بھی نہیں سکا.گذشتہ جمعہ گرمی کی وجہ سے ضعف کی تکلیف تھی مگر اس کے باوجود میں نے جمعہ پڑھایا کیونکہ میں ربوہ سے باہر سفر کرنے سے قبل اپنے بھائیوں سے ملاقات بھی کرنا چاہتا تھا اور ایک نئے مضمون کی ابتداء بھی کرنا چاہتا تھا.میں نے گذشتہ خطبہ جمعہ میں جَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ اَحْسَنُ (النحل :۱۲۶) کا جو مضمون ہے (اسے عنوان ہی سمجھنا چاہیے ) اس کے متعلق مختصراً بیان کیا تھا.تفصیل تو ان مضامین کی بہت لمبی ہے.ساری تو بیان نہیں ہو سکے گی.لیکن جس حد تک ضروری سمجھوں گا، اللہ تعالیٰ کی تو فیق اور اس

Page 266

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۴۶ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء کے فضل سے بیان کروں گا.میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں یہ بتایا تھا کہ جادِلُهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ میں تین بنیادی باتیں بیان کی گئی ہیں.جن میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام کے مخاطب ایک ہی ذہنیت رکھنے والے لوگ نہیں ہیں.بلکہ وہ مختلف ذہنیتوں کے مالک ہیں.وہ مختلف طبیعتیں رکھتے ہیں.اُن کے عقائد مختلف ہیں اور پھر چونکہ غلط باتیں بھی کئی قسم اور نوع کی ہوتی ہیں.اس لئے مختلف قسم کی غلط باتوں کو صحیح سمجھنے والے لوگ بھی ہیں.اس لئے غلبہ اسلام کی مہم میں اگر ہم کامیاب حصہ لینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ہر ایک گروہ سے اس کی سمجھ اور عقل کے مطابق بات کرنی چاہیے دو گروہ جن کا قرآن کریم نے دوسری جگہ ذکر کیا ہے اُن کے متعلق میں نے پچھلے جمعہ مختصراً بتایا تھا کہ ایک گروہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتا.اب جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہیں ، اُسے آپ اللہ تعالیٰ پر ایمان سے قبل حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر ایمان لانے پر راضی کر ہی نہیں سکتے.جو شخص خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا اس کے لئے رسول کے ماننے کا سوال ہی نہیں ہے.وہ کہے گا جب اللہ ہی نہیں ہے تو رسول اللہ کیسے بن گئے.دوسرا گروہ اُن لوگوں کا ہے جو خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں.خالق اور رب کا ایک مبہم سا مفہوم اُن کے دماغ میں ہوتا ہے لیکن اُخروی زندگی پر اُن کا یقین نہیں ہوتا.اگر ایسے شخص کے سامنے کوئی یہ کہے کہ تمام مذاہب خصوصاً اسلام نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ قرآن کریم کی شریعت پر اگر عمل کیا جائے تو یہ انسان کو اُخروی زندگی کی نعماء کا وارث بنادیتی ہے.تو وہ کہے گا کہ میں اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتا لہذا مجھے قرآن کریم کی ضرورت ہی نہیں ہے.پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ وہ اُخروی زندگی کوسنوارتا ہے.اُس شخص کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا، جو اُخروی زندگی پر یقین ہی نہیں رکھتا.وہ کہے گا میں اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتا اس لئے قرآن کریم کی میں ضرورت نہیں سمجھتا.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جوتعلیم نازل کی گئی تھی ، اس کے متعلق بھی قرآن کریم نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ اس میں بھی یہی دعوی کیا گیا تھا کہ یہ انہی لوگوں کو فائدہ پہنچائے گی جو خدا تعالیٰ

Page 267

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۴۷ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء پر ایمان لاتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں.پھر جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کریم نے ایک حسین اُسوہ کی شکل میں پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا: - اسْوَةٌ حَسَنَةٌ يمَن كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ (الاحزاب : ۲۲) جو شخص خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لئے آپ اُسوہ حسنہ ہیں اور جو ایمان نہیں رکھتا اُس بد قسمت کے لئے آپ کا اسوۂ حسنہ ہونا فائدہ مند نہیں ہوگا.پس یہ دو گروہ بن گئے.ایک دہریوں کا اور دوسرے اُخروی زندگی پر ایمان نہ لانے والوں کا.ایسے لوگوں کو پہلے تم خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل کرو.پھر اُخروی زندگی کا قائل کرو اور پھر اُن کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ پیش کرو تو اُن پر اثر ہو گا ورنہ نہیں ہوگا.بہر حال پچھلے جمعہ کو جو میں نے مختصر سا خطبہ دیا تھا، اسے میں نے خلاصہ کے طور پر بیان کر دیا ہے.جو آیات میں نے ابھی پڑھی ہیں ، ان میں بھی بڑا وسیع مضمون بیان ہوا ہے لیکن چونکہ میری طبیعت خراب ہے.مجھے اس گرمی میں بھی تکلیف ہورہی ہے.اس لئے زیادہ لمبا خط بہ نہیں دے سکتا.ان آیات میں دو اور گروہوں کا ذکر ہے.دراصل میں چاہتا ہوں کہ اگر سارے گروہ بیان نہ ہو سکیں تو ان میں سے بنیادی طور پر جو اہم گروہ ہیں پہلے ان کو اور پھر ان کے متعلق قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے اس پر روشنی ڈالوں.میں بتا چکا ہوں کہ ایک وہ گروہ ہے جود ہر یہ کہلاتا ہے.دوسرا وہ گروہ ہے جو خدا تعالیٰ کو تو کسی حد تک مانتا ہے لیکن اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتا.قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے بعض آیات کا میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں ذکر کیا تھا.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دو گروہوں کا ذکر فرمایا ہے جولوگ خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں وہ رسول پر بھی ایمان لائیں گے.جو لوگ رسول پر ایمان لائیں گے اور اُخروی زندگی پر ان کو یقین ہوگا.ان کو فکر ہوگی کہ اس دُنیا کی چند روزہ زندگی کی بجائے اُخروی زندگی کی فکر کرنی چاہیے.کیونکہ وہ ابدی زندگی ہے.وہ نہ ختم ہونے والی زندگی ہے.جس کی نعمتیں بھی اس دُنیوی زندگی کے مقابلے میں بہت ہی اچھی، بہت ہی بہتر اور بہت ہی زیادہ لذتوں اور مسرتوں والی ہیں.غرض

Page 268

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۴۸ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء جو لوگ خدا تعالیٰ اور اُخروی زندگی پر ایمان لاتے ہیں.ان کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی (جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے ) اسوۂ حسنہ ہے.اس طرح جو لوگ خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اُخروی زندگی پر بھی ایمان رکھتے ہیں مگر مسلمان نہیں وہ آگے دو گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں.ایک کو قرآنی اصطلاح میں کافر کہتے ہیں اور دوسرے کو منافق کہتے ہیں.ان ہر دو گروہ نے خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اُخروی زندگی کے لئے دُنیا میں آسمانی ہدایت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بھی ہر وہ آسمانی ہدایت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل ہوئی اس کا بھی ان میں سے بہتوں نے انکار کیا اور اس کے خلاف بڑی جدو جہد کی اور بڑا مقابلہ کیا یہاں تک کہ اس کے خلاف روحانی جنگ اور بعض موقعوں پر جسمانی جنگ بھی لڑی گئی.اسی طرح پھر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل ہونے والی شریعت کا بھی انکار کیا گیا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں قرآن اور اسلام کے مقابلے میں بھی دو گروہ ہیں.ایک کافروں یعنی منکرین اسلام کا گروہ ہے اس گروہ میں شامل لوگ اسلام کا انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تو ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول نہیں اُخروی زندگی تو ہے اور اس کے لئے آسمانی ہدایت کی بھی ضرورت تو ہے.لیکن یہ آسمانی ہدایت نہیں ہے.ں ہے.جسے تم اسلام کہتے ہو.ایک دوسرا گروہ وہ ہے جو اسلام میں شامل ہو جاتا ہے.اس کے شامل ہونے کی بہت سی وجو ہات ہوتی ہیں.بعض لوگ دنیوی لالچ کے لئے شامل ہو جاتے ہیں.بعض لوگ دنیوی عزتوں کے لئے شامل ہو جاتے ہیں.بعض لوگ دنیوی مشکلات سے بچنے کے لئے اسلام میں شامل ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ.وہ اسلام میں شامل تو ہو جاتے ہیں.لیکن حقیقی ایمان نہیں لاتے.ان کی زبان پر ایمان کا لفظ ہوتا ہے لیکن دل میں ایمان نہیں ہوتا ایسے شخص کو کہتے ہیں کہ وہ دور نگ یعنی منافق ہے.یک رنگی اس کی طبیعت میں نہیں ہوتی وہ کسی رنگ میں صاف اور سیدھا نہیں ہوتا.نہ قول سدید کا پابند اور نہ صراط مستقیم پر چلنے والا ہوتا ہے.ان دو گروہوں کے متعلق بھی قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر تفصیلی طور پر روشنی ڈالی گئی ہے.

Page 269

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۴۹ خطبه جمعه ۲۳ جون ۱۹۷۲ء اس مضمون کو میں اپنے وقت پر انشاء اللہ بیان کروں گا.لیکن یہاں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں ک يَايُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللهَ میں دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی طرف اشارہ ہے.تقویٰ کے معنے ہیں جو چیز ایذا دینے والی یا ضرر پہنچانے والی ہے اس سے حفاظت کرنا.ان چیزوں سے حفاظت کا نام وقاية ہے.عربی کے بعض قواعد کے لحاظ سے واؤ.ت سے بدل جاتی ہے.اس کا اصل مصد روقی ہے.چنا نچہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا ہے کہ کافروں کو دیکھو، وہ تعداد میں زیادہ ، دنیوی سامانوں میں زیادہ ، جتھہ بندی میں زیادہ ، سیاسی اقتدار میں زیادہ اور رعب میں زیادہ ہیں.پھر تاریخی روایات ان کے حق میں زیادہ ہیں.جہاں تک تاریخی روایات کا تعلق ہے وہ ان کے نتیجہ میں کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے آباؤ اجداد کو ایسے عقائد کا پابند نہیں پایا.ان کو تو ہم نے بتوں کی پرستش کرتے ہی دیکھا ہے.ان کو تو ہم نے یہ کرتے اور وہ کرتے دیکھا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ شیطان ان کو اس قسم کی احمقانہ بات بھی سکھا سکتا ہے کہ ہم نے تو اپنے بڑوں کو ہر رسول کی مخالفت کرتے دیکھا ہے.ہم نے ہر رسول کا انکار کرتے دیکھا ہے اور ہم نے ہر رسول کا استہزاء کرتے دیکھا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے بھی کہا ہے کہ جو بھی رسول آیا.خدا کے بندوں میں سے بہتوں نے شروع میں اس سے استہزاء ہی کیا.بہر حال ایک تو یہ گروہ ہے جو جتنے میں زیادہ مال میں زیادہ ، سیاسی اقتدار میں زیادہ، رعب میں زیادہ ، رعب کے غلط فوائد حاصل کرنے میں زیادہ ہوتا ہے.( مسلمان تو اپنے اقتدار اور اثر و رسوخ کا غلط فائدہ اٹھا ہی نہیں سکتے ) اور پھر اسلام کے خلاف منصو بہ انتہائی طور خطر ناک اور دل میں بڑی سخت مخالفت کہ اسلام کو مٹا دینا ہے.دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو ظاہر میں اسلام لے آتے ہیں.لیکن اندر ہی اندر ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے ہیں.وہ اندر سے اسلام کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.وہ اسلام کی ترقی میں رخنہ ڈالتے ہیں.جس طرح پانی آہستہ آہستہ بنیادوں میں مار کرتا ہے اور مکان کو گرا دیتا ہے اسی طرح ان کا اثر بھی آہستہ آہستہ رونما ہوتا ہے.ان کی خفیہ طور پر یہ کوشش

Page 270

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۵۰ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء ہوتی ہے کہ الہی سلسلوں میں کمزوری پیدا ہو.ایسے لوگ ظاہر میں مسلمان بھی ہوتے ہیں اور ایمان کا دعویٰ بھی کرتے ہیں.یہ دونوں فتنے یا اسلام کے خلاف دونوں قسم کے منصوبے اتنے خطرناک ہیں کہ کفر کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے لئے بڑے پختہ ایمان کی ضرورت ہے.ورنہ پاؤں ڈگمگا جائیں گے.دوسرا نفاق کا فتنہ ہے اس فتنہ سے بچنے کے لئے جہاں بڑی ہمت درکار ہے وہاں اس سے بچنا ایک اچھا نمونہ چاہتا ہے.کیونکہ جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے.منافق مصلح کے روپ میں آتا ہے وہ دوست کی شکل میں سامنے آتا ہے وہ ایک پیار کرنے والے ساتھی یا بھائی کی شکل میں سامنے آتا ہے وہ اپنے آپ کو چھپاتا ہے.اس کا ظاہر بڑا حسین مگر اس کا باطن ہر لحاظ اور ہر رنگ میں نہایت بے ہودہ ، بھیانک اور بدصورت ہوتا ہے.غرص اس آیت کے لفظی اور ظاہری معنے یہ بنتے ہیں کہ اے نبی! کافرانہ منصوبوں اور منافقانہ ریشہ دوانیوں سے اسلام کو بچانے کی خاطر حفاظت کا ذریعہ خدا تعالیٰ کو بناؤ اور مسلمان کو یہ کہا ( جب میں یہ کہتا ہوں تو میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمان بہر حال زیادہ ہو گئے ہیں.اس لئے فرمایا ) تم بہت ہو گئے.پھر تم مخالفین سے کیوں ڈرتے ہو.فرمایا:.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : ۲۲) تمہارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ موجود ہے.آپ اکیلے تھے مگر مخالفین سے بالکل نہیں ڈرے.حالانکہ کفر کے سارے منصوبے آپ کے خلاف اور کفر کے سارے وار آپ کی ذات پر تھے.ہر قسم کی مخالفتوں کا آپ ہی نشانہ تھے.اس وقت بندوق تو نہیں تھی.مگر ہر تلوار جو میان سے باہر نکلتی اور وار کرتی تھی اس کا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن ہوا کرتی تھی.فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کو دیکھو.آپ اکیلے تھے مگر آپ نے کا فروں کی کبھی پرواہ نہیں کی.آپ اکیلے تھے اور آپ نے منافقوں کا مقابلہ کیا.حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بہت سے منافقین کے متعلق اطلاع دی گئی تھی.لیکن آپ نے اپنے ساتھیوں اپنے بھائیوں اور دوستوں کو بتایا نہیں تھا.آپ نے اکیلے ہی منافقین کے ساتھ مہم جاری

Page 271

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۵۱ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء رکھی.آخر جب نشانے کا پتہ ہی نہ ہو تو نشانہ لگانے میں کوئی دوسرا آدمی تو شریک نہیں ہوسکتا تھا.جب اس بات کا کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وار کہاں سے آرہا ہے.تو دوسروں کیلئے اس کے روکنے اور نا کام بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.منافقین کے متعلق صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ تھا اس لئے آپ نے خود ہی ان کا مقابلہ کیا.یہی کہنا پڑے گا اور یہی معقول بات ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے کا فروں کا بھی مقابلہ کیا اور منافقوں کا بھی مقابلہ کیا.اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور اس کی صلوت آپ پر ہمیشہ ہمیش ہوتی رہیں (کسی اور پر نہ اتنی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوئیں اور نہ ہوں گی ) اللہ تعالیٰ کی وہ محبت اور پیار آپ کو حاصل ہوا جو کسی اور آدمی کو حاصل نہیں ہوا اور یہ اللہ تعالیٰ کی وہ محبت اور پیار ہے جو امت مسلمہ چودہ سوسال سے آپ کے لئے مانگتی چلی آرہی ہے اور قیامت تک مانگتی چلی جائے گی.بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے ایک عظیم نمونہ ہیں.آپ کا فروں کے مقابلے میں اکیلے کھڑے ہو گئے.آپ کے مخلص ساتھی تھے مگر آپ نے اُن کو نہیں بتایا کہ خدا تعالیٰ نے کن کن منافقوں کے متعلق اطلاع دی ہے کہ یہ لوگ منافق ہیں اور ان کا مقابلہ کرنا ہے.آپ نے ایک آدھ آدمی کو بتایا اور وہ بھی اس لئے کہ اُس نے آپ کے بعد ایک لمبے عرصہ تک زندہ رہنا تھا.اس کو علیحدہ کر کے اور اعتماد میں لے کر اور اس سے وعدہ لے کر کہ وہ آگے اس بات کو عام نہیں کرے گا منافقین کے متعلق بتادیا کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ میری وفات کے بعد منافقین کی ریشہ دوانیاں ہوں گی.اس لئے کوئی نہ کوئی آدمی تو گواہ رہنا چاہیے تا کہ وہ بوقت ضرورت گائیڈنس دے سکے.اور امت کو اُن سے متنبہ کر سکے.جب ایسا شخص ننگا ہو کر باہر آجائے.( منافق بعض دفعہ ننگا ہو کر سامنے بھی آجاتا ہے ) تو اس وقت لوگوں کو بتا سکے کہ یہ مومن نہیں یہ منافق ہے.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ منافقین کے خلاف بھی اصل جنگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے لڑی ہے.پس اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ اور بھی دوگروہ ہیں.ایک منکرینِ اسلام کا گروہ ہے اور دوسرا منافقین کا گروہ ہے.منکرین اسلام کے ساتھ ہمارا جو مجادلہ ہے اور ان کو مغلوب

Page 272

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۵۲ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء کرنے اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو ہماری جنگ اور جہاد ہے وہ اور قسم کا ہے اور جو منافق کے ساتھ ہماری جنگ ہے وہ اور قسم کی ہے ویسے اصولاً تو ہم تلوار کے ساتھ جنگ نہیں کرتے ہم نے تو ان کی روح کو اپنے قبضے میں لینا ہے ان کے جسموں کو چیلوں کے آگے ڈالنا ہمارا مقصد نہیں ہے.ہم نے ان کی روح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھیلے میں لے لینا ہے.جس طرح لوگوں نے بعض بزرگوں کے متعلق غلط سلط کہانیاں بنا رکھی ہیں (اس کی تفصیل میں میں تو اس وقت نہیں جا سکتا جس دوست کو کوئی کہانی یاد آ گئی ہو وہ حظ اٹھا لیں ) بہر حال ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اُن کی روح جیتیں.ہمارا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم ان کی گردن کاٹیں.تاہم یہ جو مقابلہ ہے یہ جو جیتنے کا ایک فعل ہے اس کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی ہے اس کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں اس کے لئے انتہائی ایثار کے نمونے خدا کے حضور اور دنیا کے سامنے پیش کرنے پڑتے ہیں.غرض یہ بڑی سخت جنگ ہے اس کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے.وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (التوبة: ۷۳) جس کے معنے یہ ہیں کہ کفار اور منافقین کے مقابلے میں سخت رویہ اختیار کرو.یہاں بھی اس پوری آیت کی رو سے یا ایها النبی کہہ کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کونمونہ بتا یا ہے.میں اس مضمون کے متعلق ابھی مزید غور کر رہا ہوں.میرا خیال ہے کہ جہاں بھی یايُّهَا النَّبِيُّ کہہ کر کوئی حکم دیا گیا ہے وہاں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے.کہ اس میں بڑا سخت حکم تھا.ایک پابندی تھی اس سے گھبرانا نہیں تمہارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ موجود ہے اس کی طرف دیکھ لینا.وہ تمہارا سہارا بن جائے گا.پس يايها النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنْفِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (التوبة : ۷۳) میں لفظ غلظ “ کے معنے ایسی سختی کے ہیں کہ جس کے اندر کوئی چیز اثر انداز نہ ہو سکے.مثلاً اسپینج ہے.یہ بھی نسبتاً سخت ہے.پانی کی نسبت زیادہ سخت ہے اس کو نیچے دبانے کے لئے بھی کچھ زور لگانا پڑتا ہے لیکن اس کے اندر پانی کا اثر چلا جاتا ہے.اس کے اندر خلا ہے جس میں دوسری

Page 273

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۵۳ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء چیز داخل ہو جاتی ہے.پانی میں مٹی کے جو چھوٹے چھوٹے ذرے ہوتے ہیں وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے ہیں.پس سختی تو نسبتا ہے لیکن اسپنج کی سختی ایسی سختی نہیں کہ باہر سے کسی چیز کا اثر اس کے اندر داخل نہ ہو سکے.مگر غلظ “ کی رو سے کسی چیز میں ایسی سختی مراد ہے جس پر کسی چیز کا اثر نہ ہو سکے.چنانچہ وَ اغْلُظ عَلَيْهِمْ “ کے اس فقرے یا الفاظ کے اس مجموعہ میں دراصل دو معنے پائے جاتے ہیں.اُس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ خود اتنے سخت ہو جاؤ کہ کفر اور نفاق کا اثر تمہارے اندر گھس نہ سکے اور دوسرے یہ کہ خود اتنے سخت بن جاؤ کہ کفر اور نفاق کی سختی کے باوجود تمہارا اثران کے اندر چلا جائے اُن میں نفوذ کر جائے اور اُن کی جو ہیئت کذائی ہے اور ان کی (چونکہ انسان ہیں اس لئے ہم کہیں گے ) جو ذہنیت اور اخلاق ہیں.اُن کے جو منصوبے ہیں، اُن کے اندر ایک تبدیلی پیدا ہو اور جو آج کا فر ہے، وہ کل کو مخلص مومن بن جائے جس طرح حضرت عکرمہ بن گئے تھے.اور جو آج منافق ہے وہ کل سب کچھ قربان کرنے والا سچا مسلمان بن جائے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہت سے لوگ نفاق چھوڑ کر سچے مومن بن گئے تھے.تا ہم کئی بد بخت نفاق کی حالت میں فوت بھی ہو گئے تھے.لیکن کئی ایک کو اللہ تعالیٰ نے تو بہ کی توفیق عطا فرمائی اور کمزور ایمان والے پختہ ایمان والے بن گئے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دو گروہ تو وہ تھے جن میں پہلا خدا کا انکار کرنے والا اور دوسرا اُخروی زندگی پر ایمان نہ لانے والا اور اُس کا منکر.ان کے علاوہ دو اور گروہ ہیں.پہلا گر وہ خدا کو مانتا ہے.اُخروی زندگی کو بھی مانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آسمانی شریعت بھی آنی چاہیے تا کہ اُخروی زندگی سنور جائے لیکن وہ اپنی بدبختی کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا.دوسرا گروہ منافقوں کا گروہ ہے.وہ اسلام میں دُنیوی اغراض کے لئے شامل ہو جاتے ہیں.اُخروی زندگی کے سنوارنے کے لئے شامل نہیں ہوتے پس یہ دو گروہ اور آگئے ان کے متعلق ہمیں مزید تجزیہ کرنا پڑے گا کیونکہ قرآن کریم نے ہستی باری تعالیٰ کے متعلق بے شمار دلائل دیئے ہیں.سارے دلائل کا احاطہ کرنا تو ایک عمر کا بھی کام نہیں اس مضمون کا احاطہ ساری عمر کی محنت بھی نہیں کر سکتی.تا ہم

Page 274

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۵۴ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء تفصیلی نہیں تو کچھ انشاء اللہ بیان کروں گا.جہاں تک کا فروں کا تعلق ہے، وہ بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.لیکن میرے اس مضمون کے لحاظ سے وہ منکر مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُخروی زندگی پر بھی ایمان لاتے ہیں.ویسے جولوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے ان کے متعلق جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ بھی منکر ہیں.لیکن اس وقت وہ منکرین مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُخروی زندگی پر بھی ایمان لاتے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآنی شریعت پر ایمان نہیں لاتے یا وہ لوگ جو نفاق کے طور پر اسلام میں داخل ہوتے ہیں.پھر قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ منکرین یعنی کا فر بھی آگے کئی قسم کے ہوتے ہیں.اُن کا بھی ہمیں تجزیہ کرنا پڑے گا لیکن اس وقت میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے اصلاح وارشاد اور تبلیغ واشاعت اسلام کے کام کا از سر نو جائزہ لے کر اس میں تیزی پیدا کرنی چاہیے ان طریقوں سے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں.اب مثلاً ایک دہر یہ شخص ہے ہمارے پاکستان میں بھی اشتراکیت کے بڑے نعرے لگ رہے ہیں.اگر ایسے شخص کے سامنے آپ جا کر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ پیش کریں تو وہ کہے گا میں خدا تعالیٰ کو مانتا نہیں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو کیسے مان لوں.پس جب ہم ایسے لوگوں کے پاس جائیں گے تو ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں وہ دلائل پیش کریں گے جو قرآن کریم نے دیئے ہیں اور جنہیں اگر کسی کے سامنے صحیح طور پر پیش کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند انسان انکار نہیں کر سکتا.پھر اُن پر یہ ثابت کریں گے کہ اُخروی زندگی بھی ماننی پڑے گی.ورنہ اس دنیوی زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے.اُس نے ہمیں گدھے کتے اور سور تو نہیں بنایا.ہمارے اندر ہماری فطرت میں ایک Urge (ارج) رکھی گئی ہے.ایک جذبہ پیدا کیا گیا ہے.کہ ہم اُخروی زندگی کے لئے کام کریں.اگر اُخروی زندگی نہیں تھی تو پھر جو فطرت کے اندر ایک جذبہ ہے یہ خود بخود کیسے آگیا.سؤر اور کتے میں کیوں نہیں آیا.

Page 275

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۵۵ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء پھر کفر کفر میں فرق ہے.قرآن کریم نے اسے بیان کیا ہے.قرآن کریم کی تفسیر میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا ہے اسی طرح نفاق نفاق میں فرق ہے کسی آدمی کا دل پتھر کی طرح سخت ہوتا ہے اس کے دل کو نرم کرنے کے لئے وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ پر عمل کرنا پڑے گا.کسی کے متعلق فرمایا کہ ان کے کان بہرے یا ان کے کانوں میں ثقل اور بوجھ ہے.یا کسی کے متعلق فرمایا وہ اندھے ہیں.اُن کی آنکھیں نہیں.پس جس شخص کا کفر یا نفاق اندھے آدمی کے مشابہ ہے.پہلے اس کی بینائی کی فکر کرنی پڑے گی.یعنی وہ طریق اختیار کرنا پڑے گا جس کی اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے جو آدمی سنتا نہیں اس کے سامنے وہ تعلیم پیش کرنی پڑے گی جو قرآن کریم نے یہ کہہ کر ہمارے سامنے رکھی ہے کہ جو نہیں سنتے اُن کے سامنے یہ تعلیم رکھو.پس اگر ہم نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں کامیاب ہونا ہے تو ہمیں اپنے اصلاح وارشاد کے کام کا ایک نئے سرے سے جائزہ لے کر ایک نئی مہم چلانی پڑے گی.بعض دوستوں کا ابھی تک یہ حال ہے کہ اگر کسی سے جا کر ملیں تو جاتے ہی مثلاً حیات و وفات مسیح کے مسئلے پر بحث شروع کر دیتے ہیں.کوئی شریف آدمی ہو تو وہ چپ کر کے سنتا رہتا ہے.جب آدھا گھنٹہ گزر جائے تو وہ کہتا ہے میں تو پہلے ہی وفات مسیح کا قائل چکا ہوں آپ نے خواہ مخواہ آدھا گھنٹہ ضائع کیا.غرض اب ایک تبدیلی رونما ہوئی ہے.سوائے چند سخت متعصب لوگوں کے کسی بھی سمجھدار پڑھے لکھے آدمی کے ساتھ آپ بات کریں گے تو وہ کہے گا میں پہلے ہی حضرت مسیح کو وفات یافتہ سمجھتا ہوں.یہ تو پاگلوں والی بات تھی کہ کسی انسان کو زندہ سمجھا جاتا اور آسمان پر بٹھا دیا جاتا.ستر ، اسی فیصد بلکہ اس سے بھی شاید زیادہ لوگ اس مسئلے پر ہمارے مؤقف کے قائل ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے.ہم اس حد تک کامیاب ہو گئے ہیں.اب ایک اور بڑی اچھی رو پیدا ہو رہی ہے خصوصاً پاکستان کے نوجوانوں میں.وہ کہہ رہے ہیں کہ ختم نبوت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے.زیادہ سے زیادہ یہ فرق ہے کہ احمدیوں سے پہلے اسلام میں مختلف فرقوں نے خاتم النبیین کے مختلف معانی کئے ، احمدیوں نے بھی اپنا ایک معنی کر

Page 276

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۵۶ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء دیا.اس کو کوئی صحیح سمجھتا ہے تو مان لے اور صحیح نہیں سمجھتا تو نہ مانے لیکن ایک احمدی کو خاتم النبیین کے اس معنے کی وجہ سے منکر ختم نبوت نہیں کہا جا سکتا یہ بڑی اچھی رو ہے جو ہمارے حق میں پیدا ہو چکی ہے.میرا خیال ہے کہ آئندہ پانچ سات سال میں یہ مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا.کیونکہ وہ ہمارے معنے مانیں یا نہ مانیں، وہ ہمیں اس وجہ سے منکر ختم نبوت نہیں کہہ سکتے.ایسے شخص کے ساتھ آپ کی بحث اور قسم کی ہوگی.میں نے نوجوانوں کو پہلے بھی کہا تھا کہ آپ لوگوں کے لئے ایک مشکل سامنے آرہی ہے.تم اس کے لئے تیاری کرو.جب یہ فلسفیانہ اور نظریاتی مسئلے ختم ہو گئے تو پھر لوگوں نے کہنا ہے کہ ہم میں اور تم میں عملاً کیا فرق ہے.اسلامی تعلیم پر جو تم عمل کر رہے ہو تو جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمونہ دکھایا تھا تم بھی اس کا نمونہ دکھاؤ.پس اس کے لئے ہمیں تیار ہونا چاہیے.دُنیا کی طرف نہیں جھکنا چاہیے.یوں تو اس کی سب پر ذمہ داری ہے لیکن نوجوان نسل پر سب سے زیادہ ذمہ داری ہے.اس لئے کہ زیادہ شدت کے ساتھ یہ سوال انہی سے پوچھا جائے گا.ابھی کچھ عرصہ تو اس سوال میں وہ شدت پیدا نہیں ہوگی کچھ تھوڑے بہت لوگ ابھی تک حیات و وفات مسیح کے مسئلے پر الجھتے ہیں.تاہم یہ دس پندرہ فی صد سے زیادہ نہیں ہیں.اس طرح ختم نبوت کے مسئلے پر بھی لوگ الجھتے ہیں.لیکن یہ چالیس پچاس فیصد سے زیادہ نہیں ہیں.لیکن ایک وقت آتا ہے کہ یہ مسئلہ بھی کلی طور پر نہیں تو ستر ، اسی فیصد تک ضرور صاف ہو جائے گا.پھر لوگ پوچھیں گے کہ ہم میں اور تم میں کیا فرق ہے.اسلام سے ہم نے جو حاصل نہیں کیا وہ تم نے حاصل کیا ہے تو کیا کیا ہے.اس واسطے اسلامی تعلیم کا نمونہ بننے کے لئے تمہیں تیار رہنا چاہیے.اگر تم احمدیت کو واقعی سچا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نہایت ہی بابرکت مہم سمجھتے ہو.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو تم واقعی پہچانتے ہو جو آج ہم پر نازل ہو رہے ہیں اور وَلا فَخْرَ کیونکہ وہ ہماری کسی نیکی اور خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی رحمت جوش میں ہے.وہ اسلام کو غالب کرنا چاہتا ہے.اگر یہ ساری چیزیں ہیں تو پھر تمہیں اسلام کو غالب کرنے کے لئے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگین

Page 277

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۵۷ خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۷۲ء کر کے لوگوں کے لئے ایک نمونہ بننا پڑے گا ورنہ جو اعتراض ہوگا اس کا آپ جواب نہیں دے سکیں گے.اب بھی نمونہ بننا چاہیے.لیکن کل آپ کو زیادہ مشکل پڑ جائے گی.اب اتنی مشکل نہیں پڑتی.پھر ذمہ داری کے نہ نباہنے کے نتیجہ میں گناہ بھی ہے اور کفرانِ نعمت بھی ہے.تاہم ابھی اتنی مشکل نہیں کیونکہ سوال کرنے والے اتنے نہیں اور اچھا نمونہ دکھانے والے بہت ہیں نو جوان نسل پر بڑی کثرت سے سوال کئے جائیں گے.جتنی کثرت سے یہ سوال ہوں گے اتنی شدت سے انہیں اُن کے جواب دینے کے اہل بننا چاہیے.اور قابل ہونا چاہیے.بہر حال یہ چار گروہ ہو گئے.پھر آگے دیکھیں گے کہ قرآن کریم نے کفر کی کتنی قسمیں بیان کی ہیں اور ہر ایک قسم کے متعلق کیا کیا دلائل پیش کئے ہیں.اسی طرح نفاق کی کتنی قسمیں بیان کی ہیں اور ان کے متعلق کیا کیا دلائل پیش کئے ہیں.اسلام کی اس مہم میں ہم غالب آئے تب ساری اُمت بہت صاف ستھری، نیک، پاک اور مطہر بنتی ہے ورنہ نہیں بنتی.( ان کو ایسا بنانا ہمارا کام ہے) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں نباہنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بھی اور مجھے بھی صحت اور توفیق دے تا کہ اللہ تعالیٰ جو مضمون سکھاتا ہے، میں اس کو احسن طریق پر ضرورت کے مطابق تفصیل سے بیان کرسکوں.روزنامه الفضل ربو ه ۲۸ / جولائی ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 278

Page 279

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۵۹ خطبہ جمعہ ۳۰/ جون ۱۹۷۲ء محض قرآن کریم کی تلاوت کافی نہیں اس سے دلی لگاؤ ہو اور اس کا اثر قبول کریں خطبه جمعه فرموده ۳۰/جون ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہاؤس.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ - (الزمر : ١٢) قُلِ اللهَ اعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي - (الزمر : ۱۵) اللهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَبًا مُتَشَابِهًا مَتَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكرِ اللَّهِ - (الزمر : ۲۴) اور پھر فرمایا:.ہماری فضل عمر تعلیم القرآن کلاس جولائی کے وسط میں شروع ہو رہی ہے.اس دفعہ گذشتہ سال کے اعلان کے مطابق اس کلاس کے انعقاد میں ایک بنیادی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اس کے لئے چار ہفتوں کا جو کورس مقرر ہے اس میں سے پہلا ہفتہ ضلع کی جماعتوں نے یہ کلاس لینی ہے.گذشتہ سال ہمارے وہ دیہاتی بچے جن کی تربیت کو نظر انداز کیا گیا تھا ، جب ربوہ آئے تو وہ آداب مسجد سے بھی واقف نہیں تھے اور لطف یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے ضلع کے ایک ذمہ دار عہد یدارہی تھے جنہوں نے ان کی صحیح تربیت نہیں کی تھی.

Page 280

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۶۰ خطبه جمعه ۳۰/ جون ۱۹۷۲ء پس ایک تو ربوہ میں رہ کر اس کلاس سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی خاطر اور دوسرے عہدیداران ضلع کو احساس ذمہ داری دلانے کی خاطر میں نے یہ حکم دیا تھا کہ پہلا ہفتہ اضلاع یہ کلاس لیں اور پھر دوسرا، تیسرا اور چوتھا ہفتہ یہ کلاس ربوہ میں منعقد ہو.ربوہ میں جب یہ کلاس شروع ہوگی تو اس میں ہمارا وہی نوجوان شامل ہو سکے گا جو پہلے ہفتہ کا کورس اپنے ضلع میں مکمل کر چکا ہوگا.ورنہ اسے وہاں سے واپس کر دیا جائے گا.اس لئے اضلاع کو چاہیے کہ وہ ایسے بچوں کو ربوہ بھیجنے کی خواہ مخواہ تکلیف نہ کریں.میں اس کلاس میں شامل ہونے والوں کو خصوصاً اور ہر احمدی مسلمان کو عموماً اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی محض تلاوت کافی نہیں ہے.بلکہ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن عظیم کے ساتھ ہمارا تعلق ہو.پھر اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کا اثر قبول کریں.یہ کوئی جادو یا ٹو نہ نہیں ہے کہ آپ نے اس کی تلاوت کی اور اس کا آپ کو فائدہ پہنچ گیا.گو قر آن کریم سرا پا برکت ہے.اس کے پڑھنے سے کچھ نہ کچھ تو برکت مل جائے گی.اس سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا.لیکن وہ برکت نہیں ملے گی جس کے لئے قرآن کریم کا نزول ہوا تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے قرآن کریم کا اثر قبول کرنے کے لئے دو بنیادی باتیں بتائی ہیں.ایک خشیت اللہ کا ہونا اور دوسرے محبت الہی کا دل میں پایا جانا.جہاں تک خشیت کا تعلق ہے، عربی زبان میں صرف خوف یا ڈرکا نام خشیت نہیں ہے.بلکہ اُس خوف کو خشیت کہتے ہیں جو کسی کی عظمت اور جلال کے عرفان کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے یعنی کسی کی عظمت اور جلال کی معرفت کے بعد اس کا خوف کھانا خشیت“ کہلاتا ہے.پھر اسی طرح محبت سے میری مراد د نیوی محبت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے جب محبت کا تعلق ہو تو اسے محبت الہی کہتے ہیں اور یہ محبت، اللہ تعالیٰ کی جمالی صفات کے نتیجہ میں اور اس کے احسان کو دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتی ہے.چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ

Page 281

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۶۱ خطبه جمعه ۳۰/ جون ۱۹۷۲ء میں صرف اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کروں.عربی محاورہ اور اردو ترجمہ کے لحاظ سے عبادت کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کے حضور تذلل اور فروتنی اختیار کروں.غرض عربی لغت میں عبادت کے معنے ”غَايَةُ التَّذَلُل “ کے ہوتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے انتہائی تذلل اور فروتنی کی راہوں کو اختیار کیا جائے.مگر یہ تذلل اسی وقت نفس انسانی میں پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی جلالی صفات اور اس کی عظمت کا عرفان ہو.اس کے بغیر تذلل اختیار نہیں کیا جا سکتا.در حقیقت اللہ تعالیٰ کی اس قدر عظمت اور جلال ہے کہ جب لوگ ان صفات کو پہنچانے لگتے ہیں تو اُن کا سر پھر بامر مجبوری ہی اٹھتا ہے ورنہ جھکا ہی رہتا ہے.ایک حدیث میں آیا ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوار تھے (اس وقت مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ گھوڑے پر سوار تھے یا اونٹنی پر ) اور آپ دعا میں لگے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا آپ کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ کا سر جھکنا شروع ہوا یہاں تک کہ کاٹھی کے ساتھ لگ گیا اور اس سے نیچے تو جاہی نہیں سکتا تھا.پس یہ ہے غایت تذلل یعنی انتہائی فروتنی اور اس کا ظاہری کمال.آپ کا سر کاٹھی کے ساتھ لگ گیا.اس سے نیچے جاہی نہیں سکتا تھا.اور یہ اتنا تذلل اور فروتنی ہے جس سے زیادہ ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے یہ قلبی، روحانی اور ذہنی کیفیت پیدا ہو ہی نہیں سکتی جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے نہ دیکھے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم جلالی صفات کی معرفت نہ رکھتا ہو.اسی لئے فرمایا يَخْشَوْنَ رَبَّهُم جو لوگ اپنے رب کی خشیت رکھتے ہیں یعنی اس کی عظمت کو دیکھ کر اس کے سامنے تذلل اختیار کرتے ہیں ان کو قرآن کریم کی تعلیم اس رنگ میں اور اس طور پر متاثر کرتی ہے کہ ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اگر کسی آدمی کے سامنے یکدم جنگل میں مثلاً شیر آ جائے یا کسی اور چیز سے وہ ڈر جائے ( اور عام زندگی میں بھی کئی دفعہ ہر انسان کو ایسا تجر بہ ضرور ہوتا ہے ) تو ایک سنسنی سی پیدا ہوتی ہے اور انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.جسم میں خوف کی ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے.تَقْشَعِر کے یہی معنے ہیں یعنی خوف کے مارے جسم میں لہر دوڑ نے اور سنسنی

Page 282

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۶۲ خطبہ جمعہ ۳۰/ جون ۱۹۷۲ء پیدا ہونے کے معنوں میں تَقْشَعِر کا لفظ استعمال ہوتا ہے.پس ہمارے رب کے مقابلے میں شیر کی کیا حیثیت ہے یا اگر پہاڑ کی بلند چٹانیں ہوں اور ان کے نیچے آپ کھڑے ہوں تو آپ کا دماغ چکرا جاتا ہے اس کی تھوڑی سی بلندی دیکھ کر تو اللہ تعالیٰ کی بلندی اور اس کی رفعت اور اس کی عظمت کا تو انسان تصور بھی نہیں کر سکتا.کیونکہ وہ تو نہ ختم ہونے والی صفات ہیں.غرض جیسا کہ ان آیات میں بیان کیا گیا ہے ہمیں اپنے اندر خشیت یعنی تذلل پیدا کرنا چاہیے.پھر قرآن کریم کی تعلیم اثر کرے گی اور وہ کیفیت جو عظمت کے مشاہدہ کے بعد پیدا ہوتی ہے.وہ پیدا ہونے لگ جائے گی.لیکن اگر خشیت اللہ نہ ہواگر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا احساس ہی نہ ہو اور اس کے سامنے تذکل اختیار کرنے کا عہد نہ ہو تو پھر قرآن کریم کی تعلیم کا کوئی اثر نہیں ہوگا.پس انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خشیت اللہ پیدا کرے.خشیت اللہ صرف کسی انتہا کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی ابتداء بھی ہے اور اس کی انتہاء بھی ہے.نیز اس کی ابتداء اور اس کی انتہاء میں بڑے فاصلے ہیں اور بڑی دوری ہے.انسان اسے شروع کرتا ہے اور پھر وہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے.وہ آہستہ آہستہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے.آخر حضرت خالد بن ولید اسلام لانے کے بعد پہلے دن تو اتنی خشیت اللہ نہیں رکھتے تھے جتنی مثلاً یرموک کے میدان میں انہوں نے دکھائی تھی.اور اللہ تعالیٰ کے رعب کے نیچے آکر انتہائی عاجزی کی راہوں کو اختیا رکیا تھا.وہ جرنیل تھے مگر خلیفہ وقت کا حکم آیا تو سپاہی بن گئے اور دل میں قطعاً کسی قسم کا کوئی احساس پیدا نہیں ہونے دیا.اس واسطے کہ جہاں ان کو خلافت کے حکم نے لا کر کھڑا کیا تھا اس سے بھی نیچے انہوں نے خود اپنے آپ کو کھڑا کیا ہوا تھا اور یہی انتہائی تذلیل کا مقام ہے.پس یہ تو ہے خشیت.دوسرے محبت الہی ہے جو ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ سے مستنبط ہے اور یہ محبت اللہ تعالیٰ کے احسان اور دوسری جمالی صفات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.پس ان ہر دو یعنی خشیت اور محبت کی ایک ابتدا بھی اور ایک انتہا بھی ہے.لیکن کوئی فاصلہ حرکت کے بغیر طے نہیں کیا جا سکتا اور کسی منزل پر آپ چلے بغیر پہنچ نہیں سکتے.اس لئے جب آپ اس کی ابتداء کریں اور پھر ވ

Page 283

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۶۳ خطبه جمعه ۳۰/ جون ۱۹۷۲ء حرکت کریں یعنی اپنی ذہنی ، اخلاقی اور روحانی تربیت کریں تب آپ یہ فاصلہ طے کر سکیں گے اور اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اس کی انتہا تک پہنچ سکیں گے.چونکہ ہر ایک آدمی کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے.اس لئے ہر ایک آدمی نے اپنے دائرہ صلاحیت میں ترقی کرنی ہے.تا ہم اس دائرہ کے اندر رہتے ہوئے اپنے لحاظ سے چھوٹی سی ابتداء کر کے اس کی انتہا تک پہنچنا ہے.پس قرآن کریم محض پڑھنے کی کتاب نہیں ہے.یہ تو ایک ایسی کتاب ہے جس سے زندگیوں میں اس سے بھی بڑا انقلاب آتا ہے جو انسان کی ظاہری آنکھ نے اشترا کی انقلاب کی شکل میں روس میں یا سوشلسٹ انقلاب کی شکل میں چین میں دیکھا ہے.انسان دراصل خود ایک عالم ہے.ہمارے صوفیاء نے انسان کو ایک یونیورس قرار دیا ہے.ایک زاویہ نگاہ سے حقیقت بھی یہی ہے که انسان خود ایک عالم ہے اس کے اندر ایک انقلاب آ جاتا ہے لیکن اس انقلاب کے لئے یہ ضروری ہے کہ خشیت اللہ ہو.پھر یہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال اور دوسری صفات کا عرفان دیتی اور اس میں بڑھاتی چلی جاتی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت بھی ہونی چاہیے.آپ کتے کو دس دن روٹی دیں تو وہ دم ہلاتے ہوئے آپ کے پیچھے چل پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہری اور باطنی نعماء سے مالا مال کر دیا مگر پھر بھی انسانوں میں سے بعض ناشکرے ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے رسول کے پیچھے نہیں چلتے ، اس کی آواز پر لبیک نہیں کہتے.غرض ذاتی محبت انتہائی احسان کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.جب انسان خود کو اللہ تعالیٰ کی نعماء میں اس طرح گھرا ہوا پاتا ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کے احسان کے علاوہ اور کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی.تب وہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے بھر جاتا ہے پھر دنیا کی کوئی طاقت اس رشتہ محبت کو جسے وہ اپنے رب سے باندھتا ہے.قطع نہیں کر سکتی.ہماری (انسان کی ) تاریخ میں اس قسم کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، انبیاء علیہم السلام کی بھی اور اولیاء اللہ کی بھی پھر سب سے بہتر اور اعلیٰ اور احسن مثال حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی ہے.آپ کی مکی زندگی کا وہ واقعہ تو بڑا مشہور ہے جب سرداران مکہ نے آپ کو اور آپ کے چند ماننے والوں کو قریباً ۲۱ ( اڑھائی ) سال کے لئے شعب ابی طالب میں بند کر دیا تھا.اُن پر رسد کی ساری راہیں بھی بند کر دی تھیں.تاہم اللہ تعالیٰ

Page 284

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۶۴ خطبه جمعه ۳۰/ جون ۱۹۷۲ء نے انہیں زندہ رکھنے کے لئے کچھ کیا تو تھا.مگر اس کی تفصیل ہماری تاریخ نے محفوظ نہیں رکھی.لیکن ان کی حالت یہ تھی کہ ایک بزرگ صحابی کہتے ہیں ایک دفعہ رات کے وقت میرا پاؤں ایک ایسی چیز پر پڑا جسے میرے پاؤں نے نرم محسوس کیا میں نیچے جھکا اسے اٹھایا اور کھا لیا.بعد میں مدینہ میں انہوں نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے آج تک پتہ نہیں وہ چیز کیا تھی بھوک کی یہ حالت تھی کہ ان کو یہ دیکھنے کا خیال ہی نہیں آیا کہ یہ چیز کھانے کے قابل بھی ہے یا نہیں.غرض اڑھائی سال تک اس شدید تکلیف کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے ان کا رشتہ قطع نہیں ہوا.بلکہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا.کیونکہ اس عرصہ میں خدا جانے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جمالی صفات کے کیا کیا جلوے دیکھے تھے.ہر آدمی اپنی زندگی میں یہ جلوے دیکھتا ہے ہم نے اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کی صفتِ احسان کے وہ جلوے دیکھے ہیں جن کا مادی سامانوں کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے حکم کے اجراء میں مادی اسباب کا محتاج نہیں ہے.اُس نے یہ اسباب ہمارے لئے پیدا کئے ہیں اور ہم شکر کے ساتھ ان سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ ان کا محتاج نہیں ہے.خدا تعالیٰ تو کسی چیز کا محتاج نہیں ہے.خدا تعالیٰ یہ بھی کر سکتا ہے کہ ایک آدمی کو گرمی سے بچانے کے لئے بھری محفل میں صرف اس کے لئے ٹھنڈی ہوا چلا دے اور وہاں اس کے جو ساتھی بیٹھے ہوں ، اُن کو محسوس ہی نہ ہو رہا ہو.خدا تعالیٰ یہ بھی کر سکتا ہے.( مثلاً حافظ روشن علی صاحب تھے ) اُن کو کھانا بھی کھلا رہا ہو اور کسی کو نظر بھی نہ آ رہا ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ مادی اشیاء کا محتاج نہیں اور نہ اپنے بنائے ہوئے مادی قوانین کا محتاج اور قیدی ہے وہ تو غالب علی آمرہ (یوسف:۲۲) ہے.اس کے جو قوانین ہیں، اُن کے اوپر بھی اس کا حکم غالب ہے.جب چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے وہ کرتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کے پیار کے اُن جلووں کا یہ کرشمہ تھا ( جو مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ نے اڑھائی سال میں دیکھے تھے ) کہ پھر دنیا کی کوئی طاقت دنیا کا کوئی ظلم اور دنیا کی کوئی سختی محبت کے اس تعلق کو قطع نہ کر سکی جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے باندھا تھا.پس سورہ زمر کی ان آیات میں جو میں نے اس وقت پڑھی ہیں اور اپنے مضمون کے لحاظ

Page 285

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۶۵ خطبه جمعه ۳۰/ جون ۱۹۷۲ء سے میں نے ان کو اکٹھا کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف میری عظمت کے سامنے تم نے جھکنا ہے کسی اور کے سامنے اپنے سروں کو نہیں جھکانا اور خالصتاً صرف میری اطاعت کرنی ہے اور کسی کی اطاعت نہیں کرنی.میں نے محبت کا جو ذکر کیا ہے وہ دراصل سارا اطاعت کا کرشمہ ہے کیونکہ اصل اطاعت محبت کے زور ہی سے کروائی جاتی ہے.یہ جو ڈنڈے کے زور سے اطاعت کروائی جاتی ہے یہ اطاعت نہیں ہوتی.بلکہ اطاعت کا چھلکا ہوتی ہے.محبت کے زور سے جو اطاعت کروائی جاتی ہے وہ ظاہر میں بھی اطاعت ہوتی ہے اور باطن میں بھی اطاعت ہوتی ہے وہ برسر عام بھی اطاعت ہوتی ہے اور بالکل تنہائی کے لمحات میں بھی اطاعت ہوتی ہے کیونکہ اس اطاعت کا تعلق اور اظہار ہی اور ہوتا ہے.پس حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکوں اور تذلل اختیار کروں.اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں صرف اسی کی اطاعت کروں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی دوسری جگہ یہ اعلان بھی کروا دیا.اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام : ۱۶۴) کہ پہلا مخاطب بھی میں اور سب سے بڑھ کر اطاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں اور پہلا مسلم اور مومن بھی میں ہی ہوں اسی لئے یہ اعلان بھی کروا دیا کہ اے نبی ! کہہ دو.قُلِ اللهَ اعْبُدُ مُخْلِصًا لَهُ دِینی خدا تعالیٰ کے حضور کامل اور انتہائی تذلیل کے ساتھ جھکنے والا اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر اس کی خالص اطاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں.باقی میں اور آپ ہم سب لوگ اور جو پچھلے چودہ سو سال میں پیدا ہوئے ہیں ، ہمیں ہر چیز ظلی اور طفیلی طور پر ملی ہے.خلی اور طفیلی کے اسی مسئلے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہماری جماعت کے بعض دوستوں نے دھوکا کھایا ہے.کچھ بھی بغیر ظل اور طفیل کے نہیں ملتا اور اگر خلتی اور طفیلی رشتہ قائم ہو تو پھر سب کچھ پل جاتا ہے.غرض سورہ زمر کی اس آیہ کریمہ اللهُ نَزِّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ الح کی رو سے یہ پتہ لگتا ہے کہ

Page 286

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۶۶ خطبه جمعه ۳۰/ جون ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی شکل میں ایک بہترین کتاب اتاری ہے ، جس نے پہلی صداقتوں کو بھی اپنے اندر لیا ہوا ہے اور ایک نئی اور عظیم تعلیم بھی اس کے اندر پائی جاتی ہے.انسان کو یہ حکم دیا پہلے ذکر آچکا ہے ) کہ کامل عبادت اور حقیقی اطاعت کے سب سامان اور وسائل اس کتاب میں رکھ دیئے گئے ہیں.لیکن اس کے اثر کو قبول کرنے کے لئے دو چیزیں بڑی ضروری ہیں.ایک اللہ تعالیٰ کی خشیت اور دوسرے اللہ تعالیٰ سے ذاتی اور خالص محبت اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ان دونوں چیزوں کی بھی ایک ابتداء ہے اور ایک انتہا ہے جسے پانا( ہر شخص کے دائرہ استعداد میں ) ممکن ہے.لیکن جو شخص ابتدا نہیں کرتا وہ انتہا تک پہنچنے کی امید نہیں رکھ سکتا.پس ہمارے وہ بچے جو میرے آج کے خطبہ کے پہلے مخاطب ہیں خصوصاً اور ہر احمدی عموماً یا در کھے کہ وہ اپنی عمر اور تربیت کے لحاظ سے اس سلسلہ میں ابتداء کر چکے ہیں.اب اُن کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی حرکت میں کمی واقع نہ ہونے دیں.بلکہ خشیت اللہ اور محبت ذاتیہ الہیہ میں ترقی کرتے چلے جائیں تا کہ وہ ہر روز اللہ تعالیٰ کے ایک نئے اور بڑے پیار کو حاصل کریں اور اس کے حسن کا نیا جلوہ دیکھیں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے نئے سے نئے جلوے متواتر دیکھتے چلے جائیں تا کہ ایک طرف ان کی ذات اور اُن کا وجود فنا ہو جائے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کے پیار کے نتیجہ میں وہ ابدی زندگی کو حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.قرآن کریم کے پڑھنے کی بھی توفیق بخشے اور قرآن کریم کے اثر کو قبول کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنی خشیت بھی پیدا کرے اور ہمارے دلوں میں اپنی محبت ذاتی بھی پیدا کرے اور وہ اپنے فضل سے ہماری اس خشیت اور محبت الہی کو دن بدن بڑھاتا چلا جائے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہماری حفاظت کرنے والے ہوں تا کہ شیطان کا کوئی منصوبہ اس خشیت اور محبت کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہو.(روز نامه الفضل ربوه ۱۳ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۲ تا ۴)

Page 287

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۶۷ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء مجھے اور آپ کو خدا نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ قرآن کریم کی عظمت کو دُنیا میں دوبارہ قائم کیا جائے خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہاؤس، کاکول.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں :.وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا - (الفرقان: ۳۱) وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيْهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ - (النحل : ۶۵) اور پھر فرمایا:.انسان کے ساتھ بیماری لگی ہوئی ہے.دو ایک روز سے مجھے انفلوئنزا کی تکلیف ہے.گو پہلے سے کچھ افاقہ ہے لیکن ابھی تکلیف جاری ہے.سر بھاری اور طبیعت بے چین رہتی ہے.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے صحت عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ رسول نے کہا اے میرے رب ! میری یہ قوم قرآن کریم کو مہجور بنا رہی ہے.مہجور کا مصدر ہجر ہے اور عربی لغت کے لحاظ سے اس کے معنے زبان سے یا دل سے یا دونوں سے قطع تعلق کرنے کے ہوتے ہیں.اس لحاظ سے ھجر کے تین معنے ہو جائیں گے.ایک یہ کہ زبان سے کہنا کہ قرآن کریم

Page 288

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۶۸ خطبہ جمعہ ۷ / جولائی ۱۹۷۲ء ނ کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں.دوسرے یہ کہ انسان کی دلی کیفیت یہ ہو کہ اُس کا قرآن عظیم.کوئی تعلق نہ ہو اور تیسرے یہ کہ زبان سے بھی کہنا اور دل سے بھی زبانِ حال سے یہی تاثر دینا کہ کوئی تعلق نہیں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس عظیم قرآن کے ساتھ بھی لوگ تعلق قائم نہیں رکھتے اور اس.قطع تعلق کر لیتے ہیں حالانکہ قرآن کریم کی تو یہ عظمت اور شان ہے کہ وہ اپنی عظمت کا خود دعویٰ کرتا اور پھر اس کے حق میں دلائل بھی دیتا ہے.قرآن عظیم اللہ تعالیٰ کی آخری ہدایت اور ایک کامل اور مکمل شریعت ہے.اس نے اپنی عظمت کے متعلق اور اپنی شان کے متعلق اور اپنی افادیت کے متعلق اور اپنی ہمہ گیری کے متعلق اور تمام اقوام سے اپنے تعلق کے بارے میں اور پھر ہر زمانے سے اس کا جو تعلق ہے اس کے بارے میں خود دعوی کیا ہے اور پھر دلائل سے اس کو ثابت بھی کیا ہے.قرآن کریم نے ایک بڑا ہی عجیب اور حسین دعوی یہ کیا ہے کہ انسان کی عقل ناقص ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ دیکھو چوٹی کے عظمند ہر مسئلہ کے متعلق اختلاف کرتے ہیں چنا نچہ انسانوں کا باہمی اختلاف خصوصاً اُن انسانوں کا جو صاحب عقل وفراست سمجھے جاتے ہیں، بڑے علم و تدبر والے سمجھے جاتے ہیں.اُن کا باہمی اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کی عقل ناقص ہے.اگر انسانی عقل ناقص نہ ہوتی تو وہ ایک ہی نتیجہ پر پہنچتی لیکن چونکہ وہ ناقص ہے اور صراط مستقیم کو کبھی چھوڑ بھی دیتی ہے اور راہ راست سے بھٹک جاتی ہے اس لئے وہ متضاد نتائج پر پہنچتی ہے.اسی واسطے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عقلی دلیل کو بار بار اور بڑی وضاحت سے مختلف پیرایوں میں بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ”خدا ہونا چاہیے اور ”خدا ہے میں بڑا فرق ہے.اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق انسانی عقل زیادہ سے زیادہ صرف ” خدا ہونا چاہیے تک پہنچتی ہے یعنی انسانی عقل دنیا کی مختلف چیزوں کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ خدا ہونا چاہیے.جب کہ دوسرے انسان کہتے ہیں کہ خدا نہیں ہونا چاہیے اور یہ بھی اپنے حق میں عقلی دلیلیں دیتے ہیں.

Page 289

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۶۹ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء چنانچہ اب انسان نے ایک نئی سائنس نکالی ہے جسے انگریزی میں ”سائنس آف چانس“ کہتے ہیں.پہلے تو دہریے کہتے تھے یہ بھی اتفاق ہے اور وہ بھی اتفاق ہے.ہزار بار بلکہ اس سے بھی زیادہ اتفاق ! اتفاق !! کہتے چلے جاتے تھے.مگر پھر انہوں نے سوچا کہ آنکھیں بند کر کے اتفاق، اتفاق کہہ دینا، درست نہیں ہے.بالآخر انہوں نے اس کائنات اور اس کی اشیاء کی پیدائش اور ارتقاء پر فکر و تدبر کے نتیجہ میں جب سائنس آف چانس“ بنائی تو آدھے سائنسدان اس نتیجہ پر پہنچے کہ خدا پر ایمان لانا پڑے گا.ہر چیز کو اتفاق کہ کر ٹالا نہیں جا سکتا.میں ایک دو دفعہ اس کی تفصیل بیان کر چکا ہوں.اس وقت اس کو دُہرانا نہیں چاہتا.بہر حال ”سائنس آف چانس“ کے نتیجہ میں آدھے سائنسدان اس گروہ سے تعلق رکھنے لگے جنہوں نے یہ کہا کہ ایک قادر مطلق ، خالق اور رب ماننا پڑے گا.جبکہ دوسرے گروہ نے کہا کہ نہیں ! خدا کے ماننے کی پھر بھی کوئی ضرورت نہیں.وو جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ سائنسدان صرف ”چاہیے تک پہنچتے ہیں کہ خدا ہونا چاہیے لیکن چاہیئے“ اور ” ہے میں بڑا فرق ہے.صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے کہ ” خدا ہے جس نے خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کیا ہو اور زندہ خدا کے ا ساتھ اس کا زندہ تعلق ہو.وہ ” خدا ہونا چاہیئے“ پر نہیں رہتا.وہ کہتا ہے خدا موجود ہے.اب مثلاً راولپنڈی میں ایک احمدی یہ کہ سکتا ہے کہ آج کا خطبہ ایبٹ آباد میں خلیفہ اسیح الثالث نے دیا ہو گا.اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن کوئی دوسرا آدمی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ بیماری سے اُٹھ کر آئے ہیں.بعض دفعہ بیمار کو اور بیماریاں لگ جاتی ہیں.اس لئے انہوں نے خطبہ جمعہ نہیں دیا ہوگا.پس دونوں کے لئے ایک جیسا امکان ہے.ایک کہے گا کہ خطبہ دیا ہو گا.( یہ بات بھی ہونا چاہیے کے درجہ میں آتی ہے ) دوسرا کہے گا کہ نہیں دیا ہو گا لیکن آپ دوست جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں آپ میں سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت صاحب نے خطبہ دیا ہوگا.آپ کہیں گے حضرت صاحب نے خطبہ دیا ہے.ہم نے خود اُن کا خطبہ سنا ہے.

Page 290

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۷۰ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء غرض جو شخص اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق رکھتا ہے وہ کہتا ہے کہ خدا ہے.مگر جس کا خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق نہیں ہوتا بلکہ عقلی دلائل سے وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہستی باری تعالیٰ کو ماننا چاہیے وہ کہتا ہے کہ خدا ہونا چاہیے.کیونکہ اس کے بغیر بہت سی باتیں Explain (ایکس پلین ) نہیں کی جاسکتیں.اس سے پتہ لگتا ہے کہ عقل ہمیں ” خدا ہے تک نہیں پہنچاتی بلکہ ”خدا ہونا چاہیے‘ تک پہنچاتی ہے.تاہم جہاں تک خدا ہے“ کا تعلق ہے یہ تو خدا تعالیٰ اپنے عاجز بندے کو رحمت کے ہاتھ سے اُٹھاتا اور اُس کے ساتھ اپنے زندہ تعلق کو قائم کرتا ہے.پھر وہ بندہ کہتا ہے کہ ” خدا ہے کیونکہ میں اس کا گواہ ہوں.میرا مشاہدہ ہے کہ خدا ہے.میں نے اس سے غیب کی خبر میں معلوم کیں.اُس نے گھبراہٹ کے اوقات میں مجھے پیار سے تسلیاں دیں.اُس نے میری دُعاؤں کو سنا اور بسا اوقات اُس نے قبولیتِ دعا کی قبل از وقت اطلاع دے دی وغیرہ وغیرہ.زندہ تعلق کے 66 بہت سے مظاہرے ہوتے ہیں.پھر وہ کہے گا کہ ” خدا ہے.میں اس کا گواہ ہوں.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے.میں نے ۱۹۶۷ ء میں یورپ کے دورے کے دوران سوال کرنے والی ایک عیسائی عورت سے کہا تھا کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں ایک احمدی عورت کی ایک رات کی دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اُسے تین خبریں دیں.میں نے اُس سے کہا کہ تم ساری عیسائی دُنیا میں اس قسم کی کوئی مثال یا اس قسم کا کوئی تجربہ نہیں دکھا سکتے.پھر میں نے اُس سے کہا کہ یہ عورت جسے ایک رات میں اللہ تعالیٰ نے تین باتیں بتا ئیں اور وہ پوری بھی ہوگئیں.اب اگر اس کے سامنے ساری دُنیا کے فلاسفر ا کٹھے ہو کر اللہ تعالیٰ کے وجود کے خلاف دلائل دیں تو وہ کہے گی تم پاگل ہو.جس قادر مطلق ہستی کی صفات کا میں نے اپنے وجود میں مشاہدہ کیا ہے میں اُس کا انکار کیسے کرسکتی ہوں.بہر حال جو بات میں اس وقت بتا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ انسانی عقول کا اختلاف و تضاد انسانی عقول کے نقص کی بڑی زبردست دلیل ہے.کیونکہ اگر انسانی عقول ناقص اور کمزور نہ ہوتیں تو مسائل کے بارے میں ان کا آپس میں اختلاف نہ ہوتا.چنانچہ آج کی دنیا نے اقتصادی

Page 291

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۷۱ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء حقوق کے متعلق بڑا شور مچا دیا ہے.امریکہ کے چوٹی کے اکانومسٹ یعنی چوٹی کے ماہرین اقتصادیات یہ سمجھتے ہیں کہ دُنیا میں اُن جیسی عقل کسی اور کو حاصل نہیں ہے.ایک گروہ تو امریکہ کے ماہرین کا ہے.دوسرا گروہ روس میں بستا ہے وہ کہتے ہیں کہ اتنی عقل جتنی روسی ماہرین کو حاصل ہے دُنیا کے کسی اور خطے میں تمہیں نظر نہیں آئے گی.غرض وہ بھی ماہرین اکانومسٹ اور یہ بھی ماہرین اکانومسٹ.وہ امریکہ میں رہنے والے ہیں اور یہ روس میں بسنے والے اور ہر دو اپنی مادی طاقت کے نتیجہ میں خود کو بڑا عقلمند سمجھتے ہیں.جو لوگ ان کو جانتے ہیں، اُن سے بھی کہلوا لیتے ہیں کہ جی یہ بڑے عقلمند ہیں ان کی نقل کرنی چاہیے مثلاً پاکستان والے آنکھیں بند کر کے امریکہ کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں یا پاکستان والے روس کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں یا پاکستان والے چین کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں.اس طرح وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم گدھے ہیں.ہمارے اندر عقل نہیں ہے اور وہ (امریکن اور روسی ) عقلمند ہیں اور ان عقلمندوں کا حال یہ ہے کہ امریکہ، روس اور چین کے لوگوں کی عقلوں کو جب اکٹھا کیا جائے تو سوائے اختلاف کے اس کا کوئی نچوڑ نہیں نکلتا یعنی جس طرح ایک طبیب ادویہ بنانے کے لئے بعض چیزوں کا نچوڑ نکالتا ہے اسی طرح اگر ان کی عقلوں کو اکٹھا کر کے ان کا نچوڑ نکالا جائے تو وہ اختلاف ہوگا.پھر ہر ایک کا اپنے اپنے ملک کے اندر اختلاف ہے.میں آکسفورڈ میں اقتصادیات بھی پڑھتا رہا ہوں.وہاں اقتصادیات پر ایک کنیز “ کا نظریۂ اقتصادیات تھا اور اسی طرح کے مختلف سکولز ہیں جو اپنی اپنی تھیوریز بناتے چلے جاتے ہیں اور یہی مختلف تھیوریز ہی دراصل ان کی ناقص عقل کی زبردست دلیل ہے.ان عقلوں نے ہماری عقل تو اندھی کر دی ہے.اسی لئے بعض لوگوں نے کہ دیا کہ جی بس عقل کافی ہے یعنی اسلام میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ اب مسلمان کے لئے الہام کی ضرورت نہیں ، عقل کافی ہے.مگر کیا وہ عقل کافی ہے جو امریکہ اور روس کو آپس میں لڑا رہی ہے روس اور چین کو آپس میں لڑا رہی ہے.پس ان کا اختلاف بتا رہا ہے کہ عقل کافی نہیں ہے بلکہ یہ تو خود ناقص ہے اس کے ساتھ

Page 292

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۷۲ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء انسان کو کسی دوسری چیز کی ضرورت ہے.چنانچہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے عقل خود اندھی ہے گر نیر الہام نہ ہو یہ دراصل قرآن کریم کی تفسیر ہے.قرآن کہتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے کہ انسانی عقول ناقص ہیں اور اس کمزوری اور نقص کے نتیجہ میں آپس میں اختلاف کرتی ہیں.جب دو ایک جیسی چیزیں اختلاف کر رہی ہوں تو ویسی ہی تیسری چیز اُن کا اختلاف دُور نہیں کر سکتی.مثلاً اگر دو عقول کی کشتی ہو جائے یا آپس میں اختلاف کرنے لگ جائیں تو تیسری عقل آکر اُن کا اختلاف دُور کر ہی نہیں سکتی.اس لئے لوگوں نے ایک اور اصول وضع کیا اور وہ بھی بڑا ناقص ہے اور وہ ” کمپرومائز کا اصول ہے کہا کچھ تم چھوڑ دو، کچھ میں چھوڑ دیتا ہوں.جس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے خود تسلیم کر لیا کہ عقل ناقص ہے کیونکہ اگر کوئی چیز ناقص نہ ہوتی تو اس کے لئے کچھ چھوڑنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا.آخر اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنی کو کیوں اختیار کیا جائے.غرض جن لوگوں نے کمپرومائز کا اصول بنایا ہے اُنہوں نے بھی اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہماری عقلیں ناقص ہیں.اس لئے کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے کچھ تم قربانی کرو.کچھ ہم قربانی دیتے ہیں.مگر قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ جورب العلمین ہے وہ تمہیں تمہاری عقلوں پر کیسے چھوڑ سکتا تھا کہ تم ہر وقت لڑتے ہی رہو کیونکہ عقل عقل سے اختلاف کرتی ہے اس واسطے فرمایا کہ اے رسول! ہم نے تجھ پر یہ کامل کتاب اس لئے اُتاری ہے کہ لوگوں کی ناقص عقول اور ان کے فکر و تدبر کے نتیجہ میں اختلافات پیدا ہوں تو یہ اُن کو دور کر دے.عقل عقل کے باہمی اختلاف کو اللہ تعالیٰ کا الہام دور کر سکتا ہے.کیونکہ وہ خدائے علام الغیوب کے سرچشمہ سے نکلتا ہے.پس عقل عقل کے اختلاف کو ( دونوں عقول ناقص ہیں تبھی اختلاف پیدا ہوا نا!) ایک تیسری ناقص عقل دُور نہیں کر سکتی.البتہ وہ یہ کہتی ہے کہ آپس میں کا مپرومائز یعنی کچھ چھوڑ و اور کچھ لو کے اصول پر سمجھوتہ کر لیکن وہ ان کا فیصلہ نہیں کر سکتی.وہ ان کے او پر حکم نہیں بن سکتی.وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ درست ہے اور وہ درست نہیں ہے.اس طرح تو جس کے خلاف فیصلہ ہوگا وہ اس کے

Page 293

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۷۳ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء پیچھے پڑ جائے گا کہ تم کہاں کے بڑے عقلمند بنے پھرتے ہو.غرض زید یا بکر کی عقلوں کا سوال نہیں.دُنیا کے چوٹی کے دماغ اور خود کو عقلمند اور صاحب فراست کہنے والے لوگ مسائل میں آکر قریباً ہر مسئلہ میں اختلاف کر گئے ہیں.بین الاقوامی سطح پر بھی اور اندرون ملک بھی.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ مثلاً اقتصادیات کے معاملہ میں انگلستان گو ایک چھوٹا سا ملک ہے.یہاں بھی بڑے بڑے ماہر ،عقلمند اور بڑے اچھے لکھنے والے اکانومسٹ پیدا ہوئے مگر آپس میں اختلاف کر گئے.ایک ایک تھیوری بنا رہا ہے.دوسرا دوسری تھیوری بنا رہا ہے.یہ تو اندرونِ ملک حال ہے بین الاقوامی سطح پر امریکہ، روس اور چین کا باہمی فرق تو بڑا نمایاں ہے.اب مثلاً کمیونزم (اشتراکیت ) اور چینی سوشل ازم کو اگر لیں تو چونکہ عقل ناقص ہے.اس لئے جس نتیجہ پر روسی کمیونسٹ پہنچا اس نتیجہ پر چینی سوشلسٹ نہیں پہنچا.چین نے اپنی اور تھیوریز بنالیں اور اس طرح ان کا آپس میں اختلاف پیدا ہو گیا.گو عام طور پر لوگوں کے سامنے یہ اختلاف نہیں آیا لیکن میں آپ کو علی وجہ البصیرت بتاتا ہوں کہ ان کا آپس میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے روسی اور چینی اختلاف سے پہلے یوگوسلاویہ کے ٹیٹو کے کمیونزم اور روسی کمیونزم میں اختلاف پیدا ہو گیا.یوگوسلاو یہ والے کہتے ہیں کیا تم ہی بڑے عقلمند ہو؟ ہمیں بھی تو عقل دی گئی ہے.ہم بھی اختلاف کر سکتے ہیں.غرض یہ تو صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو عقل دی ہے لیکن ایسی عقل دی ہے جو غیر محدود وسعتوں میں جولانی نہیں کر سکتی کیونکہ عقل محدود ہے.جس وقت وہ اپنی حدود کو پھلانگتی ہے، وہ نقص کو پیدا کرتی ہے.وہ بطلان کو پیدا کرتی ہے.وہ صداقت کو پیدا نہیں کرتی کیونکہ وہ اپنی حدود سے آگے نکل جاتی ہے حالانکہ وہ ایک محدود چیز ہے لیکن جو کلام، جو بیان، جوصداقتیں اور اختلاف کو دور کرنے والے جو اصول علام الغیوب کے کامل علم کے سرچشمے سے نکلتے ہیں وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ عقل اور عقل کے درمیان اختلافات کو دور کرائیں.

Page 294

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۷۴ خطبہ جمعہ ۷ / جولائی ۱۹۷۲ء پس یہ عظیم قرآن اس لئے نازل ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے الہام کے ذریعہ عقول ناقصہ کے اختلافات کو دور کیا جا سکے اور یہ قرآن کریم کی بے شما ر صفات میں سے ایک صفت ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مقام اور شان کو مختلف جگہوں پر بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے.ہم کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے.اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی بیان کرنے والا ہے.جس نے قرآن کریم نازل کیا ہے.دراصل اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اپنے کلام کی شان کو بیان کیا ہے جسے عام فہم زبان میں ہم کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم نے خود بیان کیا ہے یہ محاورہ بھی درست ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس محاورہ کو استعمال کیا ہے.تاہم یہ ایک عام فہم محاورہ ہے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کی عظمت کو اپنے کلام یعنی قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے.لیکن اتنی عظیم کتاب ہونے کے باوجو درسول نے فرما یا کہ میری قوم نے اس کتاب سے زبانی اور دلی طور پر قطع تعلق کر لیا ہے.چنانچہ اب ابھی آپ اپنی زندگیوں میں دیکھیں ، ہمارے پاکستان میں بھی مسلمان کہلانے والوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو بسا اوقات زبان سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ چودہ سوسالہ پرانی کتاب آج کے نئے مسائل کس طرح حل کرے گی؟ وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے اسلام ہمارا دین ہے لیکن ہم یہ نہیں مانتے کہ قرآن کریم ہمارے مسائل کے حل کے قابل ہو.کئی لوگ تو بڑی دلیری سے کھلے طور پر یہ کہہ دیتے ہیں اور کئی اشاروں میں یہ بات کرتے ہیں اور دل سے تو قرآن کریم کی عظمت کو بہت کم لوگ مانتے ہیں کیونکہ دل کا ایمان تو جوارح کی حرکتوں کو پکڑ لیتا ہے اور ادھر اُدھر نہیں جانے دیتا وہ یقین جو دل میں پیدا ہوتا ہے اس کے بعد عمل میں گمراہی نہیں پیدا ہوسکتی لیکن اب حالت یہ ہے کہ قرآن کریم پر ایمان بھی ہے اور اسی فیصد اعمال قرآنی ہدایت کے خلاف بھی ہیں.یہ طریق عمل قرآن کریم کو دلی طور پر مہجور قرار دینے یعنی قطع تعلق کرنے کے مترادف ہے زبان سے قرآن کریم کی صداقت کا اقرار ہے لیکن دل سے قطع تعلق ہے.اس کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب فی الواقعہ عظیم ہے.

Page 295

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۷۵ خطبہ جمعہ ۷ / جولائی ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر بڑا فضل فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ علاوہ اور بہت سی روشنیوں کے ایک یہ صداقت بھی ملی ہے کہ قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے.یہ ابدی صداقتوں پر مشتمل اور ہر زمانے کی عقول نا قصہ کے اختلافات کو دور کرنے والی کتاب ہے الحمد للہ ثم الحمد للہ.پس ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر گزار ہونا چاہیے اور اس کی حمد کرتے رہنا چاہیے.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ اتنا عظیم احسان ہے کہ اگر ہم اپنی ساری عمر الحمد للہ پڑھتے رہیں تب بھی صرف اس احسان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں ہو سکتا.لیکن اس نے ہمیں یہ کہہ کر تسلی دی.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: ۲۸۷) فرمایا تمہاری جتنی طاقت ہے اتنا کام کر لو گے تو میں سمجھوں گا تم نے سارا کام کر لیا اور یہ گویا اس کا ہم پر ایک اور احسان ہو گیا.پس ہم نے قرآن کریم کی عظمت کو پہچانا ہے اور صرف یہی نہیں کہ ہم نے قرآن کریم کی عظمت کو پہچانا بلکہ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم ساری دُنیا کے دل میں قرآن کریم کی عظمت کو قائم کر دیں.اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پھر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی بالکل بے معنی ہے.چنانچہ اشاعت قرآن کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو توفیق بخشی.اللہ تعالیٰ نے بڑی رحمتیں نازل کیں.میری خلافت سے پہلے بہت کام ہوا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے دُنیا کا ذہن بدل دیا مثلاً جس وقت جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ ہوا اس وقت جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے دُنیا کی حالت یہ تھی کہ جو عوام تھے اُن کو تو علم ہی نہیں تھا کہ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب انسان کی طرف دُنیا میں نازل ہو چکی ہے.جو متوسط طبقہ کے پڑھے لکھے لوگ تھے اُنہوں نے شاید قرآن کریم کا نام تو سنا ہو لیکن اُن کے دل میں اس سے کوئی محبت یا دلچسپی نہیں تھی.جو لوگ زیادہ پڑھے لکھے تھے اور سکالرز کہلاتے تھے جن کا عملی مجالس میں اُٹھنا بیٹھنا تھا اور اُن کا آپس میں تبادلہ خیال ہوتا تھا.اُن کو قرآن کریم کے ساتھ محض اس قدر دلچسپی تھی اور اُن کے دل میں قرآن کریم کی صرف اتنی قدر تھی کہ

Page 296

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء اگر قرآن کریم کا ترجمہ انگریزی کے طریقہ پر اُن کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ شاید قرآن کریم پر احسان کر کے کبھی کبھی اُسے دیکھ لیا کریں.اب ویسے تو یہ طریق درست نہیں ہے کہ قرآن کریم کا متن اس کے ترجمے کے پیچھے چلے اصل طریق تو یہ ہے کہ ترجمہ متن کے پیچھے چلے لیکن میں آپ کو بتارہا ہوں کہ اس وقت دنیا کی حالت یہ تھی کہ اگر قرآن کریم کا ترجمہ ہماری تحریر یا رسم الخط کی طرز پر دائیں بائیں ہوتا تو صرف اتنی سی وجہ سے کہ ہمیں عادت نہیں ہے دُنیا کے انگریزی خواں طبقہ نے بھی قرآن کریم کو ہاتھ نہیں لگا نا تھا.پھر تراجم ہوئے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زیر نگرانی بھی ایک ترجمہ ہوا اور ہمارے خیال میں وہ ضائع ہو گیا.واللہ اعلم.پھر حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کی تفسیر کی اور آپ کی زیر نگرانی انگریزی کے علاوہ اور بھی مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے مثلاً ڈچ زبان میں ترجمہ ہوا، جرمن زبان میں ترجمہ ہوا، سواحیلی زبان میں ترجمہ ہوا، روسی اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ترجمے ہو چکے ہیں.لیکن چونکہ روسی اور فرانسیسی جاننے والے احمدی ہمیں نہیں ملے اور یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اس واسطے ان کے مسودے پڑے ہوئے ہیں.ہم نے ابھی تک اُن کو شائع نہیں کیا.اب چند سال پہلے فرانسیسی ترجمہ کی Revision ( ری ویژن ) کے ہم قابل ہوئے تھے.اس کا مسودہ اشاعت کے لئے تیار ہے.انشاء اللہ دو ایک سال میں مارکیٹ میں آجائے گا لیکن روسی ترجمہ قرآن کریم کی نظر ثانی ہم نہیں کروا سکے.میرے خیال میں بعض اور زبانوں میں بھی تراجم کے مسودے تیار ہیں لیکن اس وقت میرے ذہن میں نہیں.بہر حال میں یہ بتا رہا ہوں یہ جو ڈچ زبان یا جرمن زبان یا انگریزی زبان بائیں سے دائیں کو چلتی ہے اس کے مطابق ہم نے متن کو رکھا اور اس طرح جہاں سورۃ الحمد ہونی چاہیے تھی وہاں سورۃ الناس آ گئی.غرض ابتداء میں متن نے ترجمہ کا پیچھا کیا.صرف اس نیت سے کہ ان لوگوں میں قرآن کریم کے ساتھ کوئی دلچسپی پیدا ہو.اس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم کامیاب ہو گئے.یہ خدا تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ لوگوں کے ذہن میں ایک انقلاب آ گیا گو یہ ایک چھوٹا سا انقلاب ہے مگر ہے یہ بھی انقلاب جس طرح سمندر میں طوفان آئے تو کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ پہاڑ جیسی اُٹھنے والی ایک لہر طوفان کا حصہ نہیں ہے.وہ طوفان کا حصہ ہے لیکن طوفان نہیں ہے.اسی ا

Page 297

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۷۷ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء طرح قرآن کریم کے حق میں یہ تبدیلی اپنی جگہ ایک صداقت ہے اور دُنیا میں جو ایک انقلاب بپا ہو رہا ہے یہ اس کا ایک اہم حصہ ہے.قرآن کریم کی تفسیر واشاعت پر ایک لمبا زمانہ گزر گیا.اس عرصہ میں ہم نے قرآن کریم میں اتنی دلچسپی پیدا کر دی کہ اگر ترجمہ متن کے پیچھے چلے تو یہ اس کی اشاعت میں روک نہیں بنے گا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زیر نگرانی تیار ہونے والا وہ انگریزی ترجمہ جس کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ وہ ضائع ہو گیا تھا وہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنا کر کے شائع کیا تھا میرے خیال میں ۱۹۵۵ ء تک اس انگریزی ترجمہ کے چالیس پچاس ہزار نسخے شائع کئے جاسکے ان کے اعداد و شمار اکٹھے کروا رہا ہوں.خود ہمارا جو پہلا ترجمہ تھا وہ بھی چند ہزار کی تعداد میں چھپا تھا اس سے زیادہ نہیں چھپ سکا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ جو چوٹی کے پڑھے لکھے لوگ تھے ہم صرف ان تک انگریزی اور چند دوسری زبانوں میں ترجمہ قرآن کریم پہنچا سکے.اب پہلی دفعہ میں نے حالات کو دیکھ کر ترجمہ کی طرز میں تبدیلی کی چنانچہ اب قرآن کریم کا ترجمہ متن کے پیچھے چل رہا ہے یعنی سورۃ الحمد پہلے صفحہ پر ہے آخری صفحے پر نہیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ابھی اس کی پہلے کی طرح تو اشاعت نہیں ہوئی.اس پر کچھ وقت لگے گا.قرآن کریم کے ہزاروں نسخے سمندروں کی لہروں پر موجیں کر رہے ہیں اور ابھی تک منزل مقصود پر نہیں پہنچے تاہم پچھلے تین چار مہینوں میں چالیس ہزار سے زیادہ تعداد میں بک چکے ہیں.اَلحَمدُ لِلهِ.تاہم یہ تو میرا ایک جائزہ تھا ایک Assessment(ایس منٹ ) تھی، ایک خیال تھا کہ ہم نے یہ انقلاب پیدا کر دیا اور قرآن کریم سے اتنی دلچسپی پیدا ہو چکی ہے کہ اگر ہم دائیں سے بائیں انگریزی لکھنا شروع کر دیں گے تو ان کو اس کا کوئی احساس نہیں ہو گا.چنانچہ افریقہ میں ہم نے جو نمونے بھیجے تھے وہ پڑھے لکھے افریقنوں نے زبردستی چھین لئے.کچھ قرآن کریم کے انگریزی ترجمے کے نسخے یورپ میں بھیجے تھے.جرمنی کے نو مسلم نواحمد یوں میں سے بعض کے مجھے خط آئے ہیں کہ ہم نے کیا قصور کیا ہے.آپ نے حمائل سائز میں انگریزی ترجمہ شائع کر دیا ہے مگر جرمن ترجمہ قرآن کریم ابھی تک شائع نہیں کیا.ان کے خطوط سے علاوہ اور

Page 298

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۷۸ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء چیزوں کے میں نے یہی نتیجہ نکالا کہ ان کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ترجمہ کی طرز میں کیا تبدیلی ہو گئی ہے.بعض لوگوں کو میں خود بتاتا ہوں کہ دیکھو یہ انقلاب رونما ہو چکا ہے.چند دن ہوئے ایک بڑے افسر ملنے آئے ہوتے تھے.میں نے ان کو انگریزی ترجمہ قرآن کریم دکھایا.تو میں نے جیسا کہ میری عادت ہے اور ہر عقلمند احمدی کی ہونی چاہیے ہم کوئی بات دھڑلے کے ساتھ پورے علم کے بغیر نہیں کر سکتے.میں نے انہیں بڑے محتاط الفاظ میں بتایا کہ میرے علم میں پہلی دفعہ یہ واقع ہوا ہے کہ قرآن کریم کے ترجمہ کرتے وقت ترجمے کے متن کو Follow(فالو ) کیا ہے.وہ کہنے لگے کہ آپ کے علم میں ہی نہیں بلکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے.میں نے کہا میرے علم میں نہیں ممکن ہے کہیں سے کوئی ترجمہ نکل آئے اس لئے ہم حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے لیکن اگر ہے بھی تو وہ بہت تھوڑا ہوگا.پس جہاں تک قرآن کریم کی اشاعت کا تعلق ہے ایک انقلاب آ گیا ہے.گو اس انقلاب کی اس وقت ہمیں ایک موج نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک انقلاب پیدا ہو رہا ہے دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.ہمارا اپنا پریس جلدی لگ جائے.چونکہ ملک میں ایک سیاسی ہنگامہ اور انتشار پیدا ہوا اور پھر اس کو درست کرنے کے لئے ایک حکومت قائم ہوئی جو حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس پر کچھ وقت لگے گا ورنہ ہمارے پریس کے لئے باہر سے مشینیں منگوانے کا کیس قریباً تیار تھا.اس روک کی وجہ سے کچھ دیر ہمیں اور انتظار کرنا پڑے گا لیکن میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے راستے میں مستقل روکیں پیدا نہیں ہوا کرتیں.چنانچہ میں پریس کے بارے میں پریشان تھا اور دعائیں کر رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک اور راستہ بتا دیا.یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں وہ خود ہی راہیں کھول دیتا ہے دو، چار مہینے یا سال کی تاخیر ہو جانے سے کیا فرق پڑتا ہے.ملک غلام فرید صاحب نے چھوٹے نوٹوں کے ساتھ قرآن کریم کا جو ترجمہ شائع کیا ہے اس کی طباعت پر پاکستان کے ایک پریس نے چارسال لئے ہیں.میں نے تحریک جدید سے کہا کہ

Page 299

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۷۹ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء فرانسیسی ترجمہ یہاں بالکل نہیں چھپوانا اور نہ باہر سے چھپوانا ہے کیونکہ اگر اس کے چھپنے پر چار سال ہی لگتے ہیں تو ہم تین سال تک اپنے پریس کا انتظار کر سکتے ہیں اپنے پریس میں انشاء اللہ تین مہینے میں چھپ جائے گا اور اس طرح تین سال انتظار کرنے کے بعد نو مہینے پھر بھی بچ جائیں گے.اس واسطے کوئی فرق نہیں پڑتا.یہ کام اپنے وقت پر انشاء اللہ مکمل ہو جائے گا.میں نے بعض بنیادی باتیں بطور تمہید کے بیان کی ہیں.قرآن کریم کی اشاعت کے سلسلہ میں مجھ پر اور آپ پر ایک ذمہ داری عاید ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے اس ذہنی کیفیت کو بدلنا ہے جو وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا - (الفرقان : ۳۱) میں بیان کی گئی ہے.غرض قرآن کریم کو مہجور و متروک سمجھنے کی اس ذہنی کیفیت کو بدلنے کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ڈالی گئی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام کی نشاۃ اولی تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا اور نشاۃ ثانیہ میں تکمیل اشاعت ہدایت مقدر ہے.بعض لوگ خواہ مخواہ آنکھیں بند کر کے ہم پر اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام فنافی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں کسی شخص نے اپنے نفس کو اس طرح فنا نہیں کیا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے نفس کو فنا کیا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے زمانہ میں تکمیل اشاعت ہدایت ہوگی کیونکہ ہدایت تو الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْبَمُتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَام دينا - (المائدة : ٤) کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ مکمل ہو گئی تھی اور اس وقت کی معروف دنیا میں اسلام غالب بھی آ گیا تھا.وہ معروف دُنیا میں تو غالب آ گیا لیکن اس وقت کی معروف دنیا بہت چھوٹی تھی.بعض علاقے غیر آباد پڑے ہوئے تھے مثلاً جزائر میں آبادی نہیں تھی.آسٹریلیا

Page 300

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۸۰ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء میں آبادی نہ ہونے کے برا برتھی.بہر حال چودہ سو سال میں دُنیا کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے.افریقنوں نے پچاس پچاس بیویاں رکھ لیں.اسلام لانے سے پہلے بھی اور اب اسلام میں بھی.وہاں ایسا ہی چلتا ہے کیونکہ ان کی زیادہ تربیت نہیں ہو سکی.وہاں کی ہماری جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب مسلمانوں سے احمدی ہوئے ہیں.قبولِ احمدیت سے پہلے انہوں نے اتنی بیویاں کیں اور اتنے بچے پیدا کئے کہ انہیں یہ یا دہی نہیں کہ کون میرا بچہ ہے.ویسے وہ ہیں بڑے امیر آدمی.ان کے متعلق یہ لطیفہ بیان ہوتا ہے ( اور لوگ ان سے مذاق کرتے ہیں ) کہ ایک نوجوان آجاتا ہے اور کہتا ہے میں تھر ڈائیر میں داخل ہوں اور میں آپ کا بیٹا ہوں.آپ میر ا خرچ برداشت کریں وہ چپ کر کے جیب سے پیسے نکال کر اسے دے دیتے ہیں.ان کو یہ بالکل پتہ نہیں ہوتا کہ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ بول رہا ہے.اسلام نے بھی چار شادیوں کی اجازت دی تھی مگر شرائط کے ساتھ اور ویسے دُنیا میں جائز و ناجائز طریقوں سے انسانوں نے بچے پیدا کئے.چنانچہ آج کل اخباروں میں عموماً آتا رہتا ہے کہ بیسویں صدی کے آخر میں دُنیا کی اتنی آبادی بڑھ جائے گی.پس پچھلے چودہ سو سال میں دُنیا بہت بڑھ گئی.دُنیا بہت پھیل گئی غیر آباد علاقے آباد ہو گئے.نئے سے نئے ملک اُبھرے.آپس میں ملاپ کی راہیں گھل گئیں.پھر ایک خاندان بننے کا وقت آ گیا.اب دُنیا کو ایک خاندان بنانا آپ کا کام ہے تکمیل اشاعت قرآن آپ کا کام ہے.میرے دل میں یہ شدید خواہش ہے کہ اگلے پانچ سال میں قرآن کریم کی کم از کم دس لاکھ کا پیاں دس لاکھ افراد کے پاس یایوں کہنا چاہیے کہ دس لاکھ گھروں میں پہنچ جانی چاہئیں.اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.میں نے یہ کام کروا دیا ہے.میں خود حیران ہوں میرا زمانہ خلافت ابھی بہت تھوڑا ہے.پانچ چھ سال کے اس تھوڑے سے عرصہ میں قرآن کریم کی ایک لاکھ کا پیاں چھپ چکی ہیں.میرا خیال ہے آپ میں سے کسی دوست کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ کتنا بڑا انقلاب آگیا ہے.میں نے آپ سے یہ بات کہی تھی لیکن آپ لوگ میرے ساتھ کما حقہ تعاون نہیں کرتے

Page 301

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۸۱ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی اور آپ پر بھی فضل فرمائے.میں نے امرائے ضلع کو ایک آسان سکیم بنا کر دی تھی کہ ہر تحصیل اشاعت قرآن کے لئے دو ہزار روپے جمع کرے بعض تحصیلوں کے لئے تو یہ بالکل معمولی بات ہے مثلاً تحصیل لاہور میں سے ایک آدمی بھی دو ہزار روپے دے سکتا ہے.وہ اگر ہمت کریں تو اس سے زیادہ جمع کر سکتے ہیں.بعض تحصیلوں میں ہمارے احمدی دوست اتنے تھوڑے ہیں کہ ان تحصیلوں میں دو ہزار روپیہ اکٹھا کرنا بظاہر مشکل ہے.تاہم یہ ایک عام پروگرام بنایا گیا ہے.تکلیف مالا يطاق کے بغیر جو کام ہم کر سکتے ہیں وہ ہمیں کرنا چاہیے لیکن اگر ہم اوسطاً فی تحصیل دو ہزار روپیہ بطور سرمایہ اشاعت قرآن کے لئے جمع کریں تو مغربی پاکستان کی کل ۱۵۲ تحصیلیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ۳ لاکھ ۴ ہزار روپے جمع ہو سکتے ہیں.میں نے امرائے ضلع کو کہا تھا کہ یہ اپنا سرمایہ رکھو اور اس سے حمائل سائز میں سادہ اور اردو تر جمہ والا قرآن کریم خرید کر فروخت کرو.ہم نے یہ قرآن کریم مارکیٹ میں اتنا سستا دے دیا ہے کہ بعض لوگ مانتے نہیں.حتی کہ بعض احمدیوں کو بھی شاید شک ہوگا کہ اپنی طرف سے ڈالا ہے حالانکہ ہم اسے اصل لاگت پر دے رہے ہیں.اس کا اصل خرچ چھ روپے فی کاپی ہے.گو بعض ملکوں میں اس سے بھی کم قیمت پر دے رہے ہیں اور بعض ملکوں میں اس سے زیادہ قیمت پر بھی دے رہے ہیں تا کہ اسے سمویا جائے اور ہماری اپنی اصل قیمت وصول ہو جائے.اُمت محمدیہ میں دراصل قرآن کریم کی اشاعت دورنگ میں کی گئی ہے ایک اس کو تجارت کا مال بنا کر منڈی میں پھینکا گیا اور اس سے مادی فائدہ اُٹھایا گیا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے تاجر نہیں بنایا.مجھے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نائب بنایا ہے اس واسطے میں نے تجارت نہیں کرنی.تفسیر صغیر کی طرز پر اردو ترجمہ قرآن کریم بھی چھپ چکا ہے.بعض دوستوں نے دیکھا بھی ہوگا.یہاں بھی کچھ کا پیاں پڑی ہوئی ہیں.شروع میں جب دفتر والوں نے مجھے تین کا پیاں لا کر دیں کہ میں دیکھ لوں.تو میں نے خاندان کے افراد جو مجھے ملنے کے لئے شام کو آ جاتے ہیں ان کو دکھایا تو سب نے بڑا پسند کیا.میں نے کہا مجھے بڑا افسوس ہے کہ اس کی قیمت میں چھ روپے نہیں

Page 302

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۸۲ خطبہ جمعہ ۷ / جولائی ۱۹۷۲ء رکھ سکتا.کیونکہ اس پر خرچ چھ روپے سے کچھ زیادہ ہو گیا ہے اور کچھ ہم لوگوں کو مفت دے دیتے ہیں.یہ ٹھیک ہے اس سلسلہ میں کام کرنے والوں نے رضا کارانہ طور پر کام کیا.ہم نے تنخواہ دار آدمی نہیں رکھے ہوئے اگر اس کی قیمت میں تھوڑا سا اضافہ کر دیا جائے تو پھر بھی اصل خرچ کے اندر ہی رہتا ہے.میں نے کہا میں اس کی قیمت سات روپے رکھنا چاہتا ہوں.اس پر ہمارے گھر سے ایک عزیز کہنے لگے کہ یہ تو بہت کم قیمت ہے.اس کی قیمت کم از کم دس بارہ روپے ہونی چاہیے.میں نے کہا میں اتنی زیادہ قیمت کیوں رکھوں میں کوئی تاجر تو نہیں.میری تو یہ خواہش ہے که قرآن کریم ہر آدمی کے ہاتھ میں پہنچادیا جائے اور یہ خواہش تبھی پوری ہوسکتی ہے جب ہم دُنیا کی تجارت نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ سے تجارت کریں.یہ تجارت تو ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے میرے ساتھ تجارت کرو.چنانچہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اے ہمارے پیارے رب ! ہم تیرے ساتھ تجارت کریں گے.پس اگر دوست اس سلسلہ میں کوشش کریں تو الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ “ کی رُو سے ہمیں انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی بڑی برکت ملے گی.ابوظہبی وغیرہ عرب ریاستیں جو پٹرولیم کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتی ہیں.وہاں بھی خدا کے فضل سے احمدی دوست کام کرتے ہیں.وہاں سے پچھلے سال مجھے دوستوں کے کئی خط آگئے کہ پنجاب کے جو علماء وہاں گئے ہوئے ہیں اُنہوں نے ہمارے خلاف ایک ہی بڑی زبر دست دلیل دی ہے اور اس کا ہمیں جواب چاہیے اور انہوں نے ہمارے خلاف دلیل یہ دی ہے کہ احمدیوں کا قرآن کریم اور ہے.اس لئے ہمیں ربوہ کا چھپا ہوا قرآن کریم بھیج دیں تا کہ ہم ان کو دکھا سکیں کہ ہمارا قرآن اور نہیں ہے بلکہ وہی قرآن ہے جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا.اُس وقت تو یہ قرآن کریم ابھی چھپے نہیں تھے اب چھپ گئے ہیں.ایک دوست وہاں سے آئے ہوئے تھے.میں نے اُن سے کہا تم جتنے لے جاسکتے ہو لے جاؤ اور ان کو بتا دو کہ قرآن عظیم جو اللہ کی کتاب ہے نہ ہماری نہ تمہاری اور اللہ کی یہ عظیم کتاب ایک ہی ہے.اس میں کوئی فرق نہیں ہے.غرض ربوہ کا چھپا ہوا قرآن ہو تو ہر جگہ کے احمدی ایسے اعتراض کرنے والے لوگوں

Page 303

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۸۳ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ بتاؤ کون سی آیت نئی ڈالی ہے اور کون سی نکالی گئی ہے.یہ تو وہی قرآن کریم ہے جو اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا.پس ہم نے اس کی تجارت اللہ تعالیٰ سے کرنی ہے.ہم نے پانچ دس فیصدی نفع نہیں لینا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے ساتھ تجارت کرے گا اسے دس گنا زیادہ دوں گا اور اگر چاہوں تو اس سے بھی زیادہ دوں گا.اس لئے ہم نے یہ دعا کرنی ہے کہ اے ہمارے خدا! ہمارے لئے یہ پسند فرما اور توفیق دے کہ ہم اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کریں اور زیادہ سے زیادہ ثواب اور اجر کے مستحق ٹھہریں.اس وقت آپ دوست جو میرے سامنے بیٹھے ہیں جن میں کچھ دوست باہر سے بھی آئے ہوئے ہیں جہاں جہاں سے بھی آپ کا تعلق ہے وہاں قرآن کریم کی اشاعت کریں.جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے ہر تحصیل اگر دو ہزار روپے کا سرمایہ جمع کرے امراء ضلع کو تو میں نے پوری سکیم بتائی تھی کہ دو ہزار روپے فی تحصیل جمع کر کے اس سے قرآن کریم خرید لو اور کوشش یہ کرو کہ پوری قیمت یعنی چھ روپے جو اصل لاگت ہے اس پر فروخت کر دو اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو ایک دوروپے رعایت دے کر بھی قرآن کریم کو ہر آدمی کے ہاتھ میں پہنچانے کی کوشش کرو.یہ رعایت ہمیں اس لئے بھی دینی پڑتی ہے کہ رسول نے فرمایا تھا:.يُرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا - یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کریم اس وقت متروک و مہجور ہے.ایک شخص جو مسلمان کہلاتا ہے وہ ایک شام کی عارضی اور متنوعی اور بے معنی لذت حاصل کرنے کے لئے تیس روپے خرچ کرتا اور اپنے بیوی بچوں کو سینما دکھانے چلا جاتا ہے مگر چھ سات روپے قرآن کریم اور اس کے ترجمے کے لئے خرچ نہیں کرتا جو اس کے لئے ساری عمر برکت کا موجب ہے.پس يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًاً ایک صداقت ہے جسے دُنیا جھٹلا نہیں سکتی لوگوں کا عمل بتا رہا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجھے اور آپ کو خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ قرآن کریم کی عظمت کو دوبارہ قائم کیا جائے.اس لئے اب قرآن کریم

Page 304

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۸۴ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء مہجور نہیں رہے گا بلکہ یہ ہماری ہی نہیں ہر انسان کی روح کا سرور، ذہنوں کا نور اور سپنوں کی ٹھنڈک بن جائے گا.انشاء اللہ.ایک سادہ بغیر ترجمہ کے قرآن کریم ہے جو ہمارے اطفال الاحمد یہ یعنی چھوٹے بچوں کے لئے ہے وہ اس سے ناظرہ قرآن پڑھنا سیکھ سکتے ہیں.یہ سادہ قرآن کریم ایک لاکھ سے زیادہ لگنا چاہیے کسی اور کے چھپوائے ہوئے قرآن کریم سے ہم نے مقاطعہ نہیں کیا ہوا.ہم اپنے اس سادہ قرآن کریم کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں کہ ہمارے بچے قاعدہ یسرنا القرآن سے قرآن کریم سیکھتے ہیں اور یہ حمائل سائز سادہ قرآن کریم ، قاعده سیسرنا القرآن کے رسم الخط پر شائع کیا گیا ہے اس سے بچوں کو سہولت رہتی ہے اور آسانی سے قرآن کریم کی طرف اُن کی علمی جدوجہد منتقل ہو جاتی ہے چنانچہ شروع میں جب اس رسم الخط پر حمائل سائز پیج قرآن کریم چھپ کر آیا تو مجھے فکر تھی کہ چھوٹا سائز ہونے کی وجہ سے بچے شاید اس کو پڑھ نہ سکیں.میں نے اپنے گھر میں اپنی ہمشیرگان سے کہا کہ جو بچے گھروں میں قاعدہ میسر نا القرآن پڑھتے ہیں اور ان کی پڑھائی قرآن کریم کی طرف منتقل ہونے والی ہے ان کو حمائل سائز میں یہ قرآن کریم پڑھا کر دیکھیں وہ انکیں گے تو نہیں ؟ لیکن مجھے کسی کی طرف سے یہ رپورٹ نہیں ملی کہ اسے پڑھتے وقت کوئی بچہ اٹکا ہو.سب نے یہی کہا کہ قاعدہ میسر نا القرآن کی وجہ سے بچے اس قرآن کریم کو آسانی کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں.پس ایک لاکھ سے زیادہ تو ہمیں یہی سادہ قرآن کریم پھیلا دینا چاہیے میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے تنگ کریں اور کہیں کہ شائع کرنے والے سستی کیوں کرتے ہیں؟ ہماری ضرورت کیوں پوری نہیں ہوتی ؟ بہر حال میری سکیم یہ تھی کہ دو ہزار روپے فی تحصیل جمع ہوں اور یہ اُن کا سرمایہ ہوگا اور اس میں اگر کچھ کم ہو جائے تو اتنا ہر سال پورا کر لیا جائے مثلاً اگر آپ نے سو آدمیوں کو چھ روپے کی بجائے پانچ روپے میں قرآن کریم دیئے تو اس طرح سورو پہیہ آپ کے اصل سرمایہ میں سے کم ہو جائے گا.اگلے سال اس کو آپ نے پورا کرنا ہے.دو ہزار روپے نہیں جمع کرنے ایک سوروپے مزید جمع کر کے دو ہزار روپے کے اصل سرمایہ کو برقرار رکھنا ہے ایک سال میں دو ہزار کیا اس کو چکر

Page 305

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۸۵ خطبہ جمعہ ۷ / جولائی ۱۹۷۲ء دے کر اس سے زیادہ بھی اشاعت ہو سکتی ہے مثلاً اصل سرمایہ سے آپ نے جو قرآن کریم خریدے ہیں اُن کو بیچیں، پھر منگوائیں اور اس طرح فروخت کرتے چلے جائیں.اگر کسی دوست کو مفت دینا چاہیں تو بجائے اشاعت قرآن کے اس اجتماعی فنڈ سے دینے کے اپنے پاس سے ساری یا آدھی قیمت دے دیں.غرض یہ سادہ قرآن کریم ہے جو بچوں کے لئے ہے.پھر اردو ترجمہ ہے ایک حصہ انگریزی پڑھنے والوں کا ہے ان ہر سہ قسم کے قرآن کریم کی کئی لاکھ کی مانگ تو صرف پاکستان میں ہے.ویسے جو دعاؤں کے محتاج ہماری کوششوں کے حصے ہیں ان میں سے ایک وہ ہے جو امریکہ میں کوشش ہو رہی ہے.خدا کرے کہ وہ ہمیں قرآن کریم کا بڑا آرڈر دیں جو کم از کم ایک لاکھ کاپی کا ہو.امریکہ تجارتی لحاظ سے بڑا منظم اور امیر ملک ہے اس واسطے امریکن دوستوں نے مجھے کہا کہ انگریزی ترجمہ قرآن کریم کی قیمت وہ نہ رکھیں جو پاکستان میں رکھی ہے ورنہ امریکن لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ چیز اتنی سستی مل رہی ہے اس لئے یہ کوئی قیمتی اور اچھی چیز نہیں ہے.چنانچہ ایک دوست نے کہا کہ اس کی کم از کم قیمت دس ڈالر رکھیں.( آج کل نرخ کے مطابق دس ڈالروں کے.۱۱۰ روپے بنتے ہیں) میں نے کہا نہیں تو پھر وہ کہنے لگا پانچ ڈالر رکھ لیں.اب مجھے یاد نہیں رہا کہ اس کی کتنی قیمت مقرر ہوئی ہے لیکن زائد قیمت کا فیصلہ ہمیں دو وجہ سے کرنا پڑا.ایک اس لئے کہ ہم امریکہ سے کمانا چاہتے ہیں اور کمانا اس لئے نہیں کہ اس سے نفع حاصل کرنا مقصود ہے.میں اس لئے کمانا چاہتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس کی تجارت بڑھا سکوں.دوسرے اس لئے بھی قیمت بڑھانی پڑی کہ جس امریکی فرم سے ہماری خط و کتابت ہو رہی تھی ( گو وہ اتنی اچھی ثابت نہیں ہوئی تاہم ) اُس نے ہمیں کہا کہ ہم ساٹھ فی صد کمیشن لیں گے.اس لئے آپ جو بھی قیمت رکھنا چاہتے ہیں اس میں یہ کمیشن اور امریکہ تک پہنچے کا کرایہ جمع کر دیں.وہ آگے چالیس فیصد رعایت پر دوکانداروں کو Retail ( ری ٹیل ) پر دیتے ہیں غرض اُنہوں نے کہا کہ ہم قیمت میں اس اضافے کے ساتھ لے لیں گے اور ہم خود ہی اشتہار وغیرہ دے کر فروخت کریں گے.دوست دعا کریں.اگر میں اس طرح ایک لاکھ کا پی امریکہ میں بھجوا سکوں تو ایک لاکھ نسخے مفت

Page 306

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۸۶ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء افریقہ میں دے سکتا ہوں ہم اس کے نفع سے مزید قرآن کریم شائع کر کے افریقہ میں مفت تقسیم کریں گے کیونکہ افریقہ اس کا مستحق ہے.بعض دفعہ مجھے اُن پر بڑا رشک آتا ہے، اُن میں سے آٹھویں، دسویں، گیارہویں، بارہویں میں پڑھنے والے بچے کیا اور نو جوان کیا سبھی کے دل میں قرآن کریم اور عربی زبان سے بڑی محبت ہے وہ مجھے یہاں خط لکھتے رہتے ہیں کہ آپ ہمیں قرآن کریم با ترجمہ بھیج دیں یہ اُن کے اسی جذبہ کا اظہار ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اگر یہاں جماعت احمدیہ کے مبلغ انچارج کو کہا ( وہ سارے احمدی نہیں ہوتے.اکثر ان میں وہ ہوتے ہیں جو احمدی نہیں ہوتے ) تو یہ دیر کر دے گا یا ستی کر دے گا.اس واسطے ہم براہ راست کیوں نہ لکھ دیں.پھر میں ان کے خطوط اپنے مبلغین کو بھجوا دیتا ہوں کہ ان کے لئے قرآن کریم کا انتظام کر غرض اگر ہم پھر پڑھے لکھے افریقن کے ہاتھ میں اپنے انگریزی ترجمہ والا قرآن کریم دے دیں تو اس افریقن کے پاس جا کر کوئی مولوی صاحب یہ نہیں کہیں گے کہ احمدیوں کا قرآن اور ہوتا ہے اور ہمارا قرآن اور.کیونکہ اگر وہ ایسا کہیں گے تو وہ اپنی جیب سے نکال کر دکھا دیں گے کہ بتائیں کہاں اختلاف ہے؟ اسی طرح میں یہ چاہتا ہوں اور میرے چاہنے سے مراد میری یہ خواہش ہے.باقی خواہشات کو پورا کرنا یا کب پورا کرنا یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے.ہمارا کام صرف نیک خواہش پیدا کر کے اس کے پورا ہونے کے لئے دُعائیں کرنا ہے.یہ میری اور آپ کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے جہاں تک ہماری طاقت ہے کوشش کرنا ہے.ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے ہر گھر میں ( ہر فرد کے لئے میں نہیں کہہ رہا ) ہمارا چھپا ہوا قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پہنچ جائے.یہ کام وقت لے گا.یہ کام پیسے چاہتا ہے اس لئے سر دست ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ پاکستان کے ہر گاؤں میں ہمارا ایک قرآن کریم سادہ اور ایک اردو ترجمہ والا ضرور پہنچ جائے.مجھے صحیح یاد نہیں رہا کہ پاکستان میں کل کتنے گاؤں ہیں.جب بی.ڈی کے کام ہوا کرتے تھے اس وقت میں نے تعداد نکالی تھی.اب یاد نہیں رہی.کہیں سے پتہ لگ جائے گا.اس کام کے لئے بھی محنت کرنی

Page 307

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۸۷ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء پڑے گی.جب ہر تحصیل میری سکیم کے مطابق کام آئے گی تو بہت ساری چیزیں اُن کے سامنے ایسی بھی آئیں گی جن کو میں بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا.اُن کو خود ہی سمجھ آجائے گی.بہر حال ہر تحصیل کے احمدیوں کو چاہیے کہ وہ پندرہ دن میں دو ہزار روپے جمع کریں.دو ہزار میں سے فرض کریں چار سو کے قرآن کریم دے دیتے ہیں تو اتنی رقم گویا آپ کو واپس آگئی.اس کے آپ اور قرآن کریم منگوا لیں آپ نے دو ہزار سے نیچے نہیں جانا.دو ہزار روپے گویا آپ کا ریز رو ہے.ضمنا میں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ مثلاً نصرت جہاں آگے بڑھو کی سکیم کے ماتحت جو کام ہور ہے ہیں.اس سلسلہ میں مجھے ایک دن خیال آیا کہ ایک خاص رقم سے نہ یہاں کا ہمارا فنڈ نیچے جا رہا ہے اور نہ غیر ملکی فنڈ سے نیچے جا رہا ہے حالانکہ یہ کوئی منصو بہ نہیں تھا کہ اس سے نیچے نہ جائے.چونکہ میرے پاس ہر ہفتے رپورٹیں آتی ہیں چنانچہ میں نے دیکھا کہ یہ فنڈ ایک خاص رقم سے نیچے نہیں جا رہا.میں نے سوچا کہ اس حد تک خدا تعالیٰ نے اسے سلسلہ کے لئے ریز رو بنا دیا ہے اور اس طرح پاکستان میں دس لاکھ روپے بطور ریز رور ہیں گے.پچھلے ایک مہینے میں نوے ہزار اور ایک لاکھ کے درمیان خرچ کرنا پڑا اور پھر جب آخری رپورٹ میرے سامنے آئی تو دس لاکھ اور چند ہزار کے قریب رقم باقی تھی.اسی طرح ہماری ہیں ہزار پونڈ کی رقم غیر ملکوں میں ریزرو ہے جو وہاں کے باشندوں نے جمع کی ہے.حالانکہ وہاں سے ایک ایک وقت میں پانچ پانچ ہزار پونڈ افریقہ میں بھجوائے جاچکے ہیں.ہماری جماعتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دُنیا میں پھیلی ہوئی ہیں.ہر ایک جماعت نے نصرت جہاں ریز روفنڈ میں حصہ لیا ہے.اس لئے ہماری کوشش یہ تھی کہ ساری رقمیں اکٹھیں ہو جائیں تا کہ ان کے Operate کرنے میں مشکل پیش نہ آئے اور وقت ضائع کئے بغیر اُن سے فائدہ اُٹھایا جا سکے.چنانچہ میں نے یہ ہدایت کی تھی کہ اس فنڈ کا کچھ حصہ انگلستان میں اور کچھ حصہ امریکہ میں رکھ کر باقی سوئٹزرلینڈ میں بھجوا دیا جائے.چنانچہ اس وقت ۱۴ / ۱۳ ہزار پونڈ سوئس فرانک کی شکل میں ریزرو ہیں.اور ۵/۶ ہزار پونڈ انگلستان میں ریز روتھا.وہاں سے کچھ رقم سوئٹزرلینڈ بھجوا دی گئی تھی.باقی اور بھی ۲۴/ ۲۳ ہزار پونڈ کی رقمیں دُنیا میں پھیلی ہوئی ہیں.تاہم میں نے یہ دیکھا ہے کہ اس سے پہلے بھی اور بعد بھی ہیں ہزار پونڈ

Page 308

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۸۸ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء سے رقم نیچے نہیں گئی.گویا یہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ریز رو قائم کر دیا ہے.تا کہ ہم گھبرا نہ جائیں.میں تو جو ضرورت ہوتی ہے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے راستے میں مالی قربانی کی شکل میں پیش کرو میں اپنا کام تو نہیں کر رہا کہ مجھے فکر ہو.جس کا یہ کام ہے وہ آپ ہی ضرورت کو پوری کر دے گا.غرض دوست دعا کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں تو فیق عطا فرمائے اور ہم اگلے پانچ سال میں قرآن کریم کے دس لاکھ نسخے دُنیا بھر میں پھیلا دیں.اس کارِ خیر میں حصہ لینا ہم سے کے لئے موجب برکت ہوگا.دوست اپنے ایک مجاہد بھائی کے لئے بھی دعا کریں.ڈاکٹر حسن پچھلے سال سیرالیون گئے تھے.ان کے متعلق پہلے بھی تار آئی تھی.آج پھر تار آئی ہے کہ اُن کی حالت تسلی بخش نہیں.اُن کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور اندیشہ یہ ہے کہ شاید گردے کے کسی پتھر نے راستہ بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے ”ٹاکسین جمع ہورہے ہیں.اللہ تعالیٰ جو شافی مطلق ہے وہ اپنے فضل سے ان کو صحت اور زندگی عطا فرمائے.پھر اپنے لئے بھی دعا کریں اور سب سے زیادہ تکمیل اشاعت قرآن کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کام میں کامیابی بخشے.آپ یا درکھیں اس وقت ہمارے سامنے خالی اشاعت قرآن نہیں کہ آپ سمجھیں کہ ہم نے بھی تاج کمپنی کی طرح اشاعت کر دی اور کافی ہو گیا.تکمیل اشاعت ہدایت ہماری ذمہ داری ہے صرف اشاعتِ ہدایت ہماری ذمہ داری نہیں اور اس تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ہر انسان کے ہاتھ میں قرآن کریم کی ہدایت پہنچانی ہے.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری کمزوریوں کے باوجود، مال کی کمی کے باوجود اور اثر و رسوخ کی کمی کے باوجود اور اندرونی اور بیرونی فتنوں کے باوجود ہمیں اس کار خیر کی کماحقہ تو فیق عطا فرمائے.جہاں تک اندرونی فتنوں کا سوال ہے منافق بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ لگایا ہوا ہے تاکہ ہم بیدار رہیں.شیطان نے بھی ایک بزرگ کو تہجد کے لئے اُٹھا دیا تھا.پہلے دن سلائے رکھا اور دوسرے دن خود اٹھا دیا.اس بزرگ نے کہا شیطان ! تو مجھے اُٹھانے کیسے آگیا؟

Page 309

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۸۹ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء اس نے کہا کل تہجد نہ پڑھنے کے نتیجہ میں تمہاری روح میں جو اضطراری کیفیت پیدا ہوئی تھی اس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں تہجد پڑھنے سے زیادہ ثواب دے دیا.اس لئے اس سے زاید ثواب سے محروم کرنے کے لئے میں نے یہی بہتر سمجھا کہ تمہیں تہجد کے لئے اُٹھا دیا جائے.پس یہ منافق ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں.ان سے گھبرانا نہیں چاہیے وہ خود تو اپنے لئے جہنم کے فرشتوں سے جہنم کی سب سے نچلی جگہ (آسفل سفلین ) کی تیاری کروا ر ہے ہیں لیکن ہمارے لئے وہ جنت کے دروازے کھول رہے ہیں.وہ تو بد قسمت ہیں خدا کرے کہ اُن کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ہم خوش قسمت بن جائیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کے نباہنے کی مقدور بھر کوشش کریں.ہیں.بہر حال اس وقت یہ تین نسخے قرآن کریم کے ایک سادہ دو مترجم اشاعت کے لئے موجود (۱) ساده قران کریم جو اپنوں اور اپنے غیر از جماعت دوستوں کے بچوں کو قرآن کریم سادہ یا ناظرہ پڑھنے کے لئے بہت اچھا ہے اور پھر خود بڑوں کے ہر وقت کے پڑھنے کے لئے بھی کام آ سکتا ہے.اس کی قیمت چھ روپے ہے.(۲) اردو ترجمہ قرآن کریم ہے.یہ تفسیر صغیر والا با محاورہ ترجمہ ہے.صرف نیچے نوٹ نہیں ہیں کیونکہ میں نے اندازہ لگایا تھا کہ ان نوٹس کو پڑھنے والے صرف پانچ دس فیصدی دوست ہوتے ہیں.جو ان تفسیری نوٹوں کو پڑھنے اور اُن سے فائدہ اُٹھانے کے قابل ہوتے ہیں.نوے فیصدی دوست ان سے یا فائدہ اُٹھا نہیں رہے یا اُٹھا نہیں سکتے.ان کے لئے جمائل کی شکل میں ترجمہ قرآن کریم چھپوایا گیا ہے.خود ترجمہ بھی تفسیری ہے اب تک جتنے غیر از جماعت دوستوں کے پاس یہ حمائل گئی ہے وہ اسے دیکھ کر حیران بھی ہوئے ہیں اور خوش بھی.یہاں تک کہ مطبع میں کام کرنے والے دوست کہتے تھے کہ ہم نے پہلی دفعہ یہ ترجمہ دیکھا ہے جس سے قرآن کریم کے معنے سمجھ آ رہے ہیں.(۳) انگریزی ترجمہ قرآن کریم ہے.یہ بھی ایک تو حمائل سائز ہے اور ایک پاکٹ سائز

Page 310

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۹۰ خطبہ جمعہ ۷ / جولائی ۱۹۷۲ء میں.اسے انگریزی دان طبقہ میں پہنچا دینا چاہیے.غرض یہ قرآن کریم شائع ہو چکے ہیں.اب ان کی اشاعت کی ذمہ داری جماعت پر عاید ہوتی ہے.ہمارے ملک میں بھی تھوڑی یا بہت اشاعت ہو سکتی ہے.اپنا پریس لگ گیا تو بیرونی ملکوں کا شکوہ بھی دُور کرنا ہے.انشاء اللہ جرمن اور ڈچ زبانوں میں بھی تراجم کے نئے ایڈیشن شائع ہوں گے اور وہاں لاکھوں کی تعداد میں بھجوائے جائیں گے.آپ دعا کریں کہ اگلے پانچ سال میں امریکہ دس لاکھ قرآن کریم کا خریدار بن جائے اور اس طرح ہم اس کی آمد سے مزید قرآن کریم شائع کر کے افریقہ میں مفت تقسیم کروا دیں.پھر تو انشاء اللہ بہت کام ہو جائے گا.افریقہ کے بعض ملکوں میں فرانسیسی ترجمہ قرآن کریم کی بڑی مانگ ہے، اس کے لئے بھی دوست دعا کریں کہ جلدی تیار ہو جائے.دوست یادرکھیں میں پھر دُہرا دیتا ہوں کہ آپ کی ذمہ داری اشاعت ہدایت نہیں بلکہ تکمیل اشاعت ہدایت ہے اور یہ بڑی بھاری ذمہ داری ہے.اس کیلئے جہاں دوسری سکیموں پر آپ نے عمل کرنا ہے وہاں میری آپ کو یہ بھی ہدایت ہے کہ آپ میں سے ہر آدمی اپنے دوست بنائے.میرا یہ تجربہ ہے کہ جو آدمی آپ سے ایک دفعہ مل لیتا ہے وہ جب آپ سے دوبارہ ملے تو وہ بدلا ہوا انسان ہوتا ہے کیونکہ اُس نے ہمارے خلاف بہت کچھ جھوٹ سنا ہوتا ہے لیکن جب وہ ہم سے ملتا ہے تو ہمارے ملنے میں ہمارے اخلاق میں اور ہماری ذہنیت میں اُسے بالکل برعکس چیز میں نظر آتی ہیں.اس تضاد پر اُسے ایک اچھا خاصہ شاق پہنچتا ہے.وہ ہل جاتا ہے وہ کہتا ہے میں نے احمدیوں کے متعلق کیا ئنا تھا اور اب دیکھ کیا رہا ہوں.پس احباب جماعت کو چاہیے کہ وہ غیر از جماعت دوستوں سے ملتے رہیں.اس میں کبھی سستی نہ کریں.ہر سال دس نئے دوست بنا ئیں اور ان کے ہاتھ میں قرآن کریم کی کا پیاں پکڑا دیں.اس وقت میرے سامنے ماشاء اللہ سینکڑوں دوست بیٹھے ہوئے ہیں اگر اس اصول پر عمل کریں تو دو چار ہزار تو یہی تقسیم کر سکتے ہیں.بعض دوستوں کے متعلق مجھے علم ہے کہ وہ ماشاء اللہ سوسو کا پیاں بھی تقسیم کرتے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر زید سو کا پیاں تقسیم کر سکتا ہے تو پھر بکر بھی

Page 311

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۹۱ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۷۲ء سوکر سکتا ہے.اگر نہیں کرتا تو یہ اس کی سستی ہے.اللہ تعالیٰ ہماری مستیاں دور کرے.میری صحت کے لئے بھی دعا کریں اور اس کام کے لئے بھی کہ جو میری ذمہ داریاں ہیں وہ میں نباہ سکوں.(روز نامه الفضل ربوه ۲۸ نومبر ۱۹۷۲ء صفحه ۱ تا ۸)

Page 312

Page 313

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۹۳ خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء قرآن کریم انسان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے والا اور اُس کے درخت وجود کی ہر شاخ کی پرورش کرنے والا ہے خطبہ جمعہ فرموده ۱۴ جولائی ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہاؤس.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم بڑی عظمت اور شان کا مالک ہے.اس نے اپنی عظمت اور علو شان کے متعلق خود دعوی بھی کیا ہے اور اس کے دلائل بھی دیئے ہیں.چنانچہ پچھلے خطبہ میں میں نے قرآن کریم کی اِس شان کو مختصراً بیان کیا تھا اور بتایا تھا کہ قرآن کریم انسان کی ناقص عقل کے اختلافات کو دور کرنے کا دعوی بھی کرتا ہے اور اس کے حق میں دلائل بھی دیتا ہے اور عقول ناقصہ کے اختلافات دُور کر دیتا ہے.آج قرآن کریم کی ایک اور عظمت ایک اور شان کے متعلق میں مختصراً کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک انسان کی طرف جتنی بھی آسمانی ہدایتیں نازل ہوئی ہیں ان میں سے ہر ایک میں ایک چیز نمایاں طور پر ہمیں نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کے تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیم انسان کی مجروی ترقیات کے سامان پیدا کرتی تھیں.وہ انسان کی کامل ترقی کے سامان نہیں پیدا کرتی تھیں.اس لئے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے ابھی اپنے ارتقاء کو، اپنے عروج

Page 314

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۹۴ خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء کو نہیں پہنچا تھا.تاہم یہ بات ہم تسلیم کرتے ہیں کہ انسان اپنے ارتقائی ادوار میں جس مقام ، جس وقت ، جس زمانے اور جس ملک میں رہتا تھا اُس زمانے ، اُس ملک اور اُن حالات میں اُس کے مناسب حال جو بھی تعلیم تھی وہ اللہ تعالیٰ نے اُس قوم کی طرف اُس زمانے کے نبی کے ذریعہ نازل کی اور اس طرح انسان کی جزوی ترقی کے درجہ بدرجہ سامان پیدا کئے جاتے رہے تا کہ انسان جزوی ترقیات کے نتیجہ میں ارتقائی مدارج میں سے گذرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کے عروج کے لحاظ سے اس زمانے میں پہنچ جائے جس میں انسانِ کامل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہونے والی تھی.پس قرآن کریم سے پہلے کی جس قدر بھی ہدایتیں اور شریعتیں ہیں وہ انسانوں کی حالت کے لحاظ سے اور اُن کی ضرورت کے لحاظ سے، اُن کی جزوی ترقی کے سامان پیدا کرتی چلی آرہی تھیں.اس سے زیادہ وہ کچھ کر ہی نہیں سکتی تھیں.اس نقطہ نگاہ سے انسانی تاریخ کا مطالعہ اپنی ذات میں ایک بڑا لطیف مضمون ہے.اس سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر اپنے اپنے زمانہ میں انسان کی جزوی ترقی اور اس کے تدریجی ارتقاء میں پوری کوشش کی.تاہم یہ چیز بڑی نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کسی نبی کی شریعت میں انسان کی کلی ترقی کے سامان نہیں پائے جاتے تھے.غرض انبیاء علیہم السلام اور آسمانی شرائع کا سلسلہ تو اپنے عروج اور کمال اور افضیلت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہو گیا لیکن فلسفیوں کا جو سلسلہ ہے وہ کسی پر ختم ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس سلسلہ کو کمال حاصل ہے نہ ہو سکتا ہے.اس لئے جب ہم فلاسفروں اور مفکرین کے حالات کا مطالعہ کرتے اور ان کے نظریات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ ان کی فکر اور تدبر کے نتیجہ میں ( گو اس میں شک نہیں اُنہوں نے بعض اچھی باتیں بھی کہی ہیں مگر مجموعی لحاظ سے ) انسان کو جو کچھ ملا ہے وہ محض جزوی بھلائی اور خیر تھی.اس میں ایک تو انسان کی کامل ترقیات کے سامان نہیں تھے.دوسرے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی انسان کی کوئی ایسی آزادانہ فکر اور اس کے نتیجہ میں کوئی نظریہ قرآن کریم سے بہتر ہمیں نظر نہیں آتا.

Page 315

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۹۵ خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی فکر وتدبر نے کام تو ضرور کیا.بعض لوگ بڑے اچھے دل رکھنے والے تھے.ان کی طبیعت میں انسانیت کی خیر خواہی بھی پائی جاتی تھی.ہم یہ ساری باتیں تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اُن کا دُنیوی فکر و تد بر اپنے کمال کو نہیں پہنچا تھا.انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ پر جب ہم غور کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جو چیز نمایاں ہوتی ہے اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں مختلف مثالیں دے کر واضح کیا ہے وہ یہ ہے کہ پہلی شریعتوں نے انسان کو جو وی ترقی کے سامان دیئے تھے.گلی ترقی یا کامل ارتقاء کا سامان یعنی وہ علوم جن سے انسان اپنی صلاحیتوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچا سکے وہ علوم صرف اسلام نے ہمیں سکھائے ہیں، پہلوں نے نہیں سکھائے.چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بائیبل کی یہ مثال دی ہے کہ یہودیوں کی تاریخ کی ابتداء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ اگر کوئی شخص تیرے گال پر تھپڑ لگا تا ہے تو اس کی گال پر ضرور تھپڑ لگے معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پھر یہودیوں کی تاریخ کے آخری دور میں کہا گیا.اگر کوئی آدمی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارتا ہے تو تو دوسرا گال بھی اُس کے سامنے کر دے.دراصل وہ بھی ایک جزوی حکم ہے اور یہ بھی ایک جز وی حکم ہے.اس کے مقابلے میں اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ اگر کوئی شخص تیرے منہ پر تھپڑ لگاتا ہے تو ایسے موقع پر تیرے ذہن میں دو چیزیں آنی چاہئیں.ایک یہ کہ اپنی صلاحیت کو دیکھو.خدا تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا ہے.تجھے اسلام کی تعلیم دی جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک انتہائی حسین اور ارفع نعمت ہے.اس عمدہ تعلیم کے ذریعہ تیری بریت کی گئی اور دوسرے یہ کہ تیرے بھائی کا درد تیرے دل میں پیدا کیا گیا.ان دو پہلوؤں کے لحاظ سے ایک چیز نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے اور وہ تیرا یہ ردعمل ہے کہ میں اپنے نفس اور اس کے جذبات کو قربان کرتے ہوئے معاف کرتا ہوں.اس قسم کا رد عمل کہ خدا تعالیٰ کے لئے جذبات کو قربان کر دیا جائے.اسلامی تعلیم ہی کا نتیجہ ہوسکتا ہے.دوسرے یہ کہ اگر بدلہ لینے کی صورت میں گال پر تھپڑ لگانے کی ضرورت ہے تو یہ کام اپنی نفسانی خواہشات یا حیوانی جذبہ کے ماتحت نہیں کرنا.اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ اگر کسی سے بدلہ

Page 316

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۹۶ خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء لینے کی ضرورت ہے تو پھر تم نے اس طرح نہیں لڑنا.جس طرح بکریاں لڑتی ہیں یا شیر لڑتے ہیں یا مینڈھے لڑتے ہیں اور یہ اتنے زور سے ٹکر مارتے ہیں کہ انسان سمجھتا ہے کہ اگر وہ اتنے زور سے ٹکر مارے تو اس کی کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ جائے.پس جس طرح دوسری چیزوں کی آپس میں لڑائی ہورہی ہے.اس طرح تم نے دوسرے انسان سے بدلہ نہیں لینا لیکن اگر کوئی کہے کہ جس طرح دوسرے لوگ لڑتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی لڑتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا یہ عمل اسلامی تعلیم پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے دوسرے ایسی صورت میں تو وہ حقیقی انسان بھی نہیں ہوتے مثلاً حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص چوری کرتا ہے وہ چوری کرنے کی حالت میں مسلمان نہیں رہتا.اسی طرح جو شخص بھیٹروں کی طرح ایک دوسرے سے لڑتا ہے، وہ اس وقت انسان کی حیثیت میں نہیں لڑ رہا ہوتا.وہ اس وقت گویا انسانی معیار سے نیچے گرا ہوا ہوتا ہے.پس ایسی صورت میں ہر سچے مسلمان کے سامنے ایک تو یہ چیز آتی ہے کہ اسے اپنے جذبات کو خدا اور اس کی رضا کے حصول کے لئے قربان کر دینا چاہیے اور دوسرے یہ کہ اس کا اصل مقصود اس کے بھائی کی اصلاح کرنا ہے یعنی اگر کسی کو معاف کر دینے میں اس کی اصلاح ہوتی ہے تو معاف کر دو.اگر بدلہ لینے میں اس کی اصلاح ہوتی ہے تو بدلہ لو مگر ان ہر دو پہلوؤں کے متعلق انسان کو اپنی سمجھ اور ذہنی قابلیت کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے.جہاں تک سمجھ اور قابلیت کا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷) جو چیز انسان کی سمجھ سے بالا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا مکلف نہیں ٹھہرا یا غرض انسان اگر یہ سمجھے کہ میں بدلہ لوں تو دوسرے کی اصلاح ہوتی ہے تو پھر بھی غصہ کی حالت میں نہیں بلکہ اصلاح کی غرض سے بدلہ لینا ہے لیکن اگر وہ یہ سمجھے کہ میں معاف کر دوں تو شاید اس کی اصلاح ہو جائے گی.اس کے اندر شرمندگی کے جذبات پیدا ہو جائیں گے کیونکہ انسانی طبیعت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ندامت محسوس کرتی ہے تو پھر وہ اس کو معاف کر دے.چنانچہ مسلمان عموماً معاف کر دیتا

Page 317

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۹۷ خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب وہ کسی سے بدلہ لیتا ہے تو وہ اپنی خواہش نفس کے طور پر نہیں لے رہا ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق لے رہا ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کسی وقت بھی معاف نہ کرتا.بہر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق لوگوں کی ایک مخصوص صلاحیت کی پرورش اور اس کی نشو نما کے لئے بدلہ لینے کی تعلیم دی.حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق ایک دوسری صلاحیت کی پرورش اور نشوونما کے لئے صرف معاف کر دینے کی تعلیم پر زور دیا.اسی طرح برصغیر پاک و ہند کی پرانی تاریخ کو لے لیں.برصغیر میں جو انبیاء آئے ہیں اُن میں سے ایک حضرت گوتم بدھ ہیں دھیمی طبیعت والے اور دوسری طرف وہ ہیں جو اگر وید کی آواز کان میں پڑ جائے تو سیسہ پگھلا کر کانوں میں ڈالنے والے ہیں.یہ ہدایتیں اپنے زمانہ میں انسان کی اصلاح کرنے کے لئے آئی تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بگڑ کر بھیانک شکلیں اختیار کر گئیں.لیکن جس طرح پھول بگڑتا ہے تو وہ گا جر نہیں بنا کرتا اور جب گا جر بگڑتی ہے تو وہ گلاب کے پھول کی شکل اختیار نہیں کرتی اسی طرح ان کی بگڑی ہوئی شکل بگڑے ہوئے ہونے کے باوجود اپنی اصلی ہیئت کذائی کی طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہے اور نہ حضرت گوتم بدھ کی تعلیم جو ہے وہ بگڑ کر سیسہ پگھلا کر ڈالنے والی بن جاتی.حضرت گوتم بدھ نے نرمی پر زور دیا تھا وہ نرمی کی طرف بگڑی دوسری طرف سختی پر زور دیا گیا تھا وہ جب بگڑی تو سختی کی طرف بگڑی.بہر حال انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ انسان کی صلاحیتوں کی جزوی نشوونما کے سامان پیدا کئے گئے مثلاً ایک بلند مینار ہے اس کے اوپر چڑھنے کیلئے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں ہر سیڑھی کو اگر ہم ایک زمانہ سمجھ لیں تو انسان گویا اُس زمانے میں خدا تعالیٰ کے نبی کی انگلی پکڑ کر ایک سیڑھی چڑھ گیا.پھر ایک اور نبی آیا اُس نے انسان کو اگلی سیڑھی چڑھا دی اور اس طرح اُس بلند مینار پر چڑھنے کے لئے جزوی طور پر مدد کی گئی لیکن اس مینار کے اوپر تک پہنچنے کے سامان نہیں پیدا کئے گئے.جہاں تک فلسفے کا تعلق ہے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس سلسلہ میں انسانی فکر و تدبر کے

Page 318

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۹۸ خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء نتیجہ میں نئی سے نئی فلسفیانہ بخشیں بڑی نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آرہی ہیں.خاص طور پر اقتصادی اور معاشرتی تعلقات کے بارے میں نئے سے نیا فلسفہ سامنے آ رہا ہے.مذہبی لحاظ سے بھی مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہود سے کہا تھا کہ دیکھنا کسی یہودی سے سود نہ لینا اس حکم کے اندر اقتصادی اور معاشرتی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں لیکن اسلام کا یہ کمال ہے کہ اس نے کہا کسی سے بھی سود نہیں لینا.پس آج کا جو معاشرہ ہے اس کی تفصیل میں تو اس وقت جانے کا وقت نہیں لیکن اتنی بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس وقت اقتصادی اور معاشرتی تعلقات کے لحاظ سے جو سرمایہ دارانہ نظام ہے اس کا اشترا کی نظام سے بڑا ز بر دست Clash (کلیش ) ہے.اس ٹکراؤ کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے بہر حال خیر خواہ نہیں ہیں.وہ اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے لئے اگر دوستی کا ہاتھ بڑھا ئیں تو یہ خیر خواہی نہیں اور چیز ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے.میں جب ۱۹۷۰ء میں افریقہ کے دورے پر گیا تھا تو فرینکفورٹ سے لیگوس تک چھ گھنٹے دس منٹ کی بڑی لمبی فلائٹ تھی.ہماری پچھلی سیٹ پر دو بوڑھے امریکن بیٹھے ہوئے تھے ان سے تعارف ہوا.پھر باتیں شروع ہوگئیں.باتوں باتوں میں میں نے اُن سے کہا کہ یہ سوچ کر انسان حیران ہوتا ہے کہ انسان انسان سے پیار کرنا کب سیکھے گا چونکہ وہ پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ ہیں فوراً سمجھ گئے کہ اس نے ہم پر سخت طعن کیا ہے.چنانچہ ان میں سے ایک کہنے لگا اب تو ہمارے تعلقات روس سے اچھے ہو رہے ہیں.میں نے کہا.Out of fear, Not of love خوف کی وجہ سے تمہارے تعلقات اچھے ہو رہے ہیں پیار کی وجہ سے تو تمہارے تعلقات اچھے نہیں ہو رہے.وہ بے اختیار کہنے لگا کہ یہ بات آپ ٹھیک کہتے ہیں.تاہم یہ تسلیم کر لیں کہ ایک قدم صحیح جہت کی طرف اُٹھایا گیا ہے میں نے کہا ہاں! میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ایک قدم صحیح جہت کی طرف اُٹھایا گیا ہے لیکن ایک ہی قدم اٹھایا گیا ہے یعنی میری وہی بات آگئی کہ یہ ایک جزوی حرکت ہے کلی حرکت نہیں ہے.پھر اسی طرح آج کا جو فلاسفر ہے وہ مختلف گروہوں میں بٹ گیا ہے اور اپنے اپنے حالات کے

Page 319

خطبات ناصر جلد چہارم ۲۹۹ خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء مطابق انہوں نے اپنے ساتھ تعلق رکھنے والے انسانی گروہ کی جزوی ترقیات پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن کلی ترقیات کے سامان پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی.انسان کو اللہ تعالیٰ نے جہاں اور بہت ساری صلاحتیں دی ہیں وہاں روحانی طور پر بھی استعدادیں بخشی ہیں.اب نہ سرمایہ دارانہ نظام انسان کی روحانی استعدادوں ، روحانی قدروں اور روحانی صلاحیتوں کی نشوونما کی طرف متوجہ نظر آتا ہے اور نہ اشترا کی نظام اس طرف متوجہ نظر آتا ہے.پھر روس نے تو اخلاقیات کو بھی بالکل چھوڑ دیا تھا.ان کے نزدیک اخلاقی طاقتیں گویا موجود ہی نہیں.اُنہوں نے اخلاقی طاقتوں کو پہچاناہی نہیں تو پھر ان کے متعلق اُنہوں نے کوشش کیا کرنی تھی.چین نے اخلاقیات کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے لیکن روحانی استعدادوں کو اُنہوں نے بھی بالکل نظر انداز کر دیا ہے.غرض روس اور چین یہ بات کھلم کھلا کہتے ہیں کہ روحانی استعدادوں کا تو وجود ہے ہی نہیں لیکن حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک انسانوں میں سے لاکھوں بزرگوں اور مقربین الہی کا یہ مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ اللہ ہے اور روحانی اقدار ہیں اور ان کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق بڑھانا چاہیے.غرض یہ ایک مختصر تاریخی پس منظر ہے قرآن کریم کی عظمت اور نشان کو سمجھنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کو لیں.ہر نبی کی تعلیم انسان کی جزوی ترقیات کے سامان پیدا کر رہی ہے اور انسان کو درجہ بدرجہ اعلیٰ مقام کی طرف لے جا رہی ہے چنانچہ ایک کے بعد دوسرا نبی آیا اور اُس نے انسان کے لئے جزوی ترقیات کے سامان فراہم کئے.کہتے ہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی دُنیا کی طرف مبعوث ہوئے تو ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار سیڑھیاں چڑھا کر انسان کو بلند ترین مینار کی اس چوٹی پر لے گئے جو انسانِ کامل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے.موجودہ زمانہ کے فلاسفر اور تھنکر زیعنی حقائق اشیاء کے متعلق غور اور تدبر کرنے والے لوگوں میں کچھ خوبیاں بھی نظر آتی ہیں.آخر وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے.کلی طور پر عیب تو ان کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا گوان کے اندازِ فکر میں برائی زیادہ ہے، کم عقلی زیادہ ہے.اُن میں

Page 320

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء فراست کی کمی ہے لیکن کچھ اُن میں اچھی باتیں بھی ہیں البتہ اُن کی جو اچھی چیزیں ہیں.وہ انسان کی ساری ضرورت کو مکمل طور پر پورا نہیں کر سکیں.انسان کی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے کا دعویٰ صرف قرآن کریم کرتا ہے اور کہتا ہے.وَكُلَّ شَيْءٍ فَضَلْنَهُ تَفْصِيلًا - ( بنی اسراءیل : ۱۳) اس آیہ کریمہ کے اس ٹکڑے کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس کے ایک معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم کی ہدایت اور شریعت اور تعلیم انسان کی جزوی ترقی کے لئے نہیں آئی بلکہ کلی ترقی کے لئے آئی ہے چنانچہ ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اسلام انسان کے درخت وجود کی ہر شاخ کی پرورش کرنے والا ہے.انسان کے درخت وجود کی جس قدر ہمہ گیر ترقی ہوسکتی تھی یعنی اس کی ہر شاخ خوبصورت ہو اس کے لئے قرآن کریم میں مکمل تعلیم موجود ہے ہم اس حسین تعلیم پر عمل نہ کریں تو اس کے ہم ذمہ دار ہیں.اس کا الزام ہم پر آئے گا.اسلام کی تعلیم پر اس کا الزام نہیں آئے گا لیکن سوال یہ ہے.ہم کیوں اس پر عمل نہ کریں ہمارے سامنے اچھی گرم گرم روٹی آئے تو اپنی عادت سے بھی زیادہ کھا جاتے ہیں ایک وقتی لذت کے لئے اپنا پیٹ خراب کر لیتے ہیں.کسی آدمی کو کوئی چیز پسند ہے، کسی کو کوئی چیز پسند ہے.جن لوگوں کو آم پسند ہیں کھانا کھا چکنے کے بعد اگر ان کے پاس آم آجائیں تو وہ سارے کھا جائیں گے.کسی آدمی کو انگور پسند ہیں تو وہ بے تحاشہ انگو رکھا جائے گا.غالباً ہمارے بابر بادشاہ کا واقعہ ہے ایک دفعہ قندھار کی طرف سے اونٹوں پر بڑے موٹے موٹے آڑوؤں کے ٹوکرے آئے جن کی تعداد شاید ۱۶۵ تھی ( پہلے تو صوبہ سرحد میں بھی بڑے موٹے موٹے آڑو ہوا کرتے تھے ) بابر آخر بادشاہ تھے.اُنہوں نے دُنیا کو بھی کھلانا ہوتا تھا اور پھر ان کی فطرت پر اسلام کا بھی اثر تھا.اُنہوں نے ہر ایک ٹوکرے میں سے ایک ایک آڑو نکال کر کھا لیا ور اس طرح ایک اندازہ کے مطابق اُنہوں نے قریباً ۲۴ سیر آڑو کھائے.یہ دیکھنے کے لئے کہ کس قسم کے آڑو میری طرف بھیجے گئے ہیں پس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس کو آڑو پسند ہیں وہ بے تحاشہ آڑو کھا جاتا ہے جس کو آم پسند ہیں وہ آم کھا جاتا ہے اور جس کو گرم گرم مزے دار روٹی

Page 321

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء مل جائے وہ بہت ساری روکھی روٹی کھا جاتا ہے.مگر اسلامی تعلیم جو کامل لذت اور کامل افادہ کا ذریعہ ہے اُسے لوگ ساری کی ساری کیوں نہیں لیتے ؟ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی آدمی اپنے شوق میں آم کھا گیا یا آڑو کھا گیا یا گرم گرم روٹی کھا گیا تو اس سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اسلام اور اس کی تعلیمات کو بھی پورے کا پورا لے لینا چاہیے کیونکہ اس سے اچھی اور لذیز چیز اور کوئی نہیں.یہ اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے کا ذریعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار سے زیادہ لذت والی چیز تو کوئی اور نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کو بڑی کثرت سے بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا پیار ملتا ہے اور یہ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے اس لئے قرآن کریم پر ہم کیوں عمل نہ کریں.پس قرآن کریم کا دعویٰ یہ ہے اور ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ یہ انسان کے درخت وجود کی ہر شاخ کی پرورش کرنے والا ہے.یہ انسان کی جزوی ترقی کے لئے نازل نہیں ہوا بلکہ اس کی کلی ترقی کے لئے نازل ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جتنی بھی استعداد یں، قوتیں اور صلاحیتیں دی ہیں، ان کی کامل پرورش کے لئے قرآن کریم میں مکمل تعلیم موجود ہے.اس واسطے یہ ایک عظیم.کتاب ہے.ہر احمدی بچے، جوان، بوڑھے اور ہر احمدی مرد اور عورت کو چاہیے کہ وہ اس عظیم کتاب پر غور کیا کرے.تمام احمدی اس پر غور کریں اور غور کریں اور اس میں سے اپنی جسمانی، ذہنی ، اخلاقی اور روحانی لذتوں کے سامان تلاش کریں کیونکہ حقیقت یہی ہے اور اسی کی طرف آج ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پکڑ کر سختی کے ساتھ جھنجھوڑ کر لایا گیا ہے.فرمایا " الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ ہر قسم کی بھلائی قرآن کریم میں ہے اس پر غور کرو اور ہر اچھی بات اس میں سے تلاش کرو.پس قرآن کریم بڑی عظمت والی اور بڑی بلندشان والی کتاب 66 ہے.اب اس کے متعلق آج میرا یہ دوسرا خطبہ ہے.میرے پہلے خطبہ کا عنوان تھا 19991 ا - وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا - (الفرقان : ۳۱) ٢ - وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ - (النحل : ۶۵) لے اللہ تعالیٰ ہمیں اس بنیادی حکم کو بجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 322

خطبات ناصر جلد چہارم ٣٠٢ خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء اس قسم کی عظیم کتاب سے انقطاع لسانی یا انقطاع قلبی نہیں ہوسکتا.اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ اس کی حماقت کی انتہا ہو گی جس طرح اسلام حسن و احسان کی انتہا ہے اسی طرح قرآن کریم کو چھوڑ نا انسانی فعل کے لحاظ سے یعنی قرآن کریم کو چھوڑنے کے لحاظ سے حماقت کی انتہا ہے.حماقت تو تھوڑی بھی نہیں کرنی چاہیے چہ جائیکہ حماقت کی انتہا کر دی جائے.پس اس قسم کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے.غرض قرآن کریم سے کما حقہ مستفید ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں اور اس پر غور کرتے رہنا چاہیے اور اس کو حرز جان بنا لینا چاہیے.اس کو اپنی روح سمجھنا چاہیے تمام تو ہمات کو دور کر کے اس کو اپنے سینے سے لگائے رکھنا چاہیے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے.بعض مسلمان یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو اپنے ساتھ نہ رکھو شاید تم سو جاؤ اور اس کی طرف تمہاری پیٹھ ہو جائے.کیا عجیب خیال ہے.جب تم جاگ رہے ہوتے ہو تو تم نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا ہوتا ہے اس کی تعلیم کو قبول نہیں کرتے.لیکن جب تم سوئے ہوئے ہوتے ہو اور خد تعالی کی گرفت کے نیچے نہیں ہوتے اس وقت تمہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ قرآن کی طرف پیٹھ نہ ہو جائے.یہ خیال تو درست نہیں.بہر حال اس وقت تو میرے بھائی اور بہنیں، میرے عزیز بچے اور میرے بزرگ میرے مخاطب ہیں میں آپ سب سے یہ کہوں گا کہ قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے یہ بڑی عظمتوں والی کتاب ہے.اس کتاب کی برکت اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فیض تھا کہ جس نے اُس گمنام شخص کو جو ایک گمنام بستی میں پیدا ہوا تھا اور جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی پیار کیا تھا اس کو اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فیض اور قرآن کریم کی برکت نے ساری دُنیا میں معروف و مشہور کر دیا.چنانچہ پانچ پانچ ہزار میل دور لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہیں جن کے دل میں مہدی معہود علیہ السلام کا پیار سمندر کی لہروں کی طرح اُٹھ رہا ہے.اس لئے کہ مہدی معہود اور مسیح موعود جو ایک امتی نبی کی حیثیت سے ہماری طرف آئے تھے ان کی بدولت ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسین چہرہ دیکھا اور اُنہوں نے ہمیں پکڑ کر کہا ہے کہ

Page 323

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۷۲ء قرآن کریم کی طرف منہ کر لو گے تو ساری بھلائیاں تمہارے نصیب اور مقدر میں آجائیں گی.اللہ تعالیٰ کا پیار تمہیں حاصل ہو جائے گا اور اس طرح ساری لذتیں اور سرور تمہیں مل جائے گا.اس دُنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی.(روز نامه الفضل ربوه ۲۵ / اگست ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 324

Page 325

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۰۵ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء خدا کی خوشنودی اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دیں خطبه جمعه فرموده ۲۱ / جولائی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام میں محنت کرنے پر بڑا زور دیا گیا ہے.چنانچہ جب ہم قرآنِ عظیم پر غور کرتے ہیں تو دو با تیں اس مضمون کو واضح کرتی نظر آتی ہیں.ایک یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اللہ تعالیٰ کے لئے جہاد کا حق ادا کرو اور دوسرے یہ حکم دیا گیا ہے کہ احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت اور پیار کرتا ہے.لفظ ”جہاد“ اور احسان پر جب ہم مجموعی طور پر غور کرتے ہیں تو محنت کرو! محنت کرو!! محنت کرو!!! کا مضمون واضح ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے.جہاں تک جہاد کا تعلق ہے اسے تین اقسام میں منقسم کیا گیا ہے.پہلا جہاد تو بنیادی طور پر نفس کے خلاف جہاد ہے یعنی ایسی خواہشات نفسانیہ جو فطرتِ انسانی اور رضائے الہی کے خلاف ہوں اُن کا مقابلہ کرنا، اُن کو دبا دینا اور اُن کا اثر قبول نہ کرنا.اس سے بڑھ کر یہ کہ اُسے اپنے دائرہ استعداد کے اندر رفعت کے انتہائی مقام پر پہنچا کر اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیار کو حاصل کرنا یہ ایک بنیادی جہاد ہے جسے جہاد کبر کہتے ہیں.یہیں سے جہاد کی بنیا د شروع ہوتی ہے اور اس کے اوپر پھر دوسرے جہاد کی عمارت کھڑی ہوتی ہے.

Page 326

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء جب تک نفس سے کامیاب جہاد نہ ہو دوسرے دو جہاد عقلاً ممکن ہی نہیں.پس نفس کے خلاف انسان کا جہاد یعنی شیطانی وساوس اور شیطان کی پیدا کردہ اہواء اور خواہشات کے خلاف جہاد کی کامیابی اور اصلاح نفس پر دوسرے ہر دو جہاد کی کامیابی کا دارو مدار ہے کیونکہ سب سے بڑا جہاد یہی ہے.دوسرے دو جہاد اسی کی بنیاد پر اُٹھتے ہیں.اس لئے اگر یہ بنیادی جہاد کا میاب نہ ہو تو دوسرے دو جہاد کی کامیابی کا امکان ہی نہیں.اس لئے سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح ضروری ہے.دوسرا جہاد قرآن کریم اور اس کی اشاعت کا جہاد ہے اور اس کو جہاد کبیر کہتے ہیں.یہ جہاد اکبر یعنی نفس کے جہاد سے اُبھرتا ہے.ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے کیونکہ نفس کے خلاف جہاد قرآنی تعلیم اور قرآنی انوار کے بغیر ممکن ہی نہیں.تاہم جہاں تک نفس کے خلاف جہاد کا تعلق ہے یہ بہر حال مقدم ہے.ورنہ تو یہ ماننا پڑے گا کہ خود عمل نہیں کرتے اور دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں.اس لئے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہوائے نفس کے خلاف جہاد یعنی اصلاح نفس اور قرآنی انوار کے ذریعہ شیطانی ظلمات کے خلاف جہاد آ پس میں لازم وملزوم ہیں.جب انسانی خواہشات اور شیطانی وساوس انسانی نفس کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اُس کے اور اُس کے پیدا کرنے والے رب کے درمیان بعد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان سے بچنے کے لئے یعنی نفس کی اصلاح کے لئے انسان قرآن کریم کو ذریعہ بناتا ہے.پھر قرآنی انوار کو پھیلا نا قرآنی انوار ہی کے ذریعہ ممکن ہے جیسا کہ کہا گیا ہے.ع محمد هست بُرہان محمد اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ (جیسا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ) قرآنی انوار کی اشاعت اور قرآن کریم کی حکومت کو قائم کرنا قرآنی انوار کے بغیر ممکن نہیں.چنانچہ جب اپنے نفس میں ان انوار کو جذب کر لیا تو پھر انہی انوار کو لے کر دنیا کی اصلاح کے لئے باہر جانا ہے اور اشاعت قرآن کرنی ہے اور یہ دوسری قسم کا جہاد ہے یعنی اصلاح نفس انسانی با نوار قرآنی.تیسری قسم کا جہاد وہ ہے کہ جب شیطان اپنی تلوار میان سے نکالے اور مادی اور دُنیوی

Page 327

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۰۷ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء طاقت کے ساتھ روحانی اقدار کو کچلنے کی کوشش کرے تو اس تلوار کو خدا تعالیٰ کی استمداد سے اور دُعاؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر کے توڑ دینا اور نا کام بنادینا.یہ سب سے چھوٹا جہاد ہے اسی لئے اسے جہادِ اصغر کہتے ہیں.میں یہ مختصراً بیان کر رہا ہوں.اس لئے کہ ان تین قسم کے جہاد کے متعلق میں ایک بنیادی بات بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خواہ نفس کے خلاف جہاد اکبر ہو یا قرآن عظیم کو ہاتھ میں پکڑ کر دُنیا میں نکل جانا یعنی جہاد کبیر ہو یا شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں جب اللہ تعالی طاقت کے مقابلے میں طاقت استعمال کرنے کی اجازت دے یعنی جہادِ اصغر ہو، ایک چیز ان تینوں قسم کے جہاد میں مشترک ہے اور اسی کی طرف میں اس وقت اپنے مضمون کے سلسلہ میں یعنی محنت کے متعلق آپ کو تو جہ دلا نا چاہتا ہوں اور وہ ہے انتہائی کوشش کرنا.پس اگر ہم اصلاح نفس کے جہاد میں جو جہاد اکبر ہے کوشش تو کریں مگر انتہائی کوشش نہ کریں.اگر ہم اشاعت قرآن جو جہاد کبیر ہے اس میں کوشش تو کریں لیکن انتہائی کوشش نہ کریں.اگر ہم دشمن اسلام کے مقابلے میں جو طاقت کے بل بوتے پر اسلام کو مٹانا اور مغلوب کرنا چاہتا ہے کوشش تو کریں مگر اپنی کوشش کو انتہا تک نہ پہنچائیں تو اس صورت میں کوئی سا بھی جہاد جہاد نہیں ہوگا.عربی لغت کی رو سے وہ ایک عام کوشش تو ہوگی ، جہاد نہیں ہوگا.کیونکہ جہاد کے معنے انتہائی کوشش کے ہوتے ہیں.پس خدا تعالیٰ نے ہمیں جہاد کا حکم دیا ہے.یہ ہماری اور ہمارے معاشرہ کی زندگی پر حاوی ہے.جہاد کے اس حکم کی رو سے خدا تعالیٰ نے ہمیں صرف یہی نہیں فرمایا کہ کوشش کرو اور محنت کرو.بلکہ اُس نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ انتہائی کوشش کرو اور انتہائی محنت کرو.اگر کسی آدمی کی کوشش اور محنت اپنی انتہا کو نہیں پہنچتی تو اُس کا جہاد کوئی جہاد نہیں ہے.ہمارا ہر نیک فعل جو اپنی کوشش اور محنت کے لحاظ سے اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہو وہ اسلام میں آکر جہاد بن سکتا ہے یعنی رضائے الہی کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے.لیکن اگر ہمارا کوئی فعل اپنے اندرستی اور غفلت رکھتا ہو یا اس میں لا پرواہی کا عصر پایا جاتا ہو اور یہ بات ذہن میں حاضر نہ ہو کہ ہمیں محض محنت کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ

Page 328

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۰۸ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء محنت کو انتہاء تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے تو یہ اسلامی جہاد نہ ہوگا.قرآن کریم ایک عمدہ شریعت اور بڑی عظیم ہدایت ہے.اسلام اسی پر نہیں ٹھہرا کہ کوشش اور محنت کرو بلکہ وہ انتہائی کوشش اور محنت پر زور دیتا ہے.محض یہ نہیں فرمایا کہ اپنی زندگی ایک مجاہد کی زندگی کی طرح گزارو.بلکہ ہمارے سامنے تین قسم کے محاذ کھول دیئے.ایک نفس کی اصلاح کا محاذ ہے.دوسرا قرآنی انوار کے ذریعہ شیطانی ظلمات کو دور کرنے کا محاذ ہے اور تیسرا محاذ ہے اسلام کے خلاف مادی طاقت کے مقابلے میں طاقت کے استعمال کا.جہاں تک طاقت کے مقابلے میں طاقت کے استعمال کا تعلق ہے میں نے تو تلوار کی مثال دی ہے لیکن بعض دفعہ شیطان اس قسم کی طاقت کا استعمال نہیں کرتا بلکہ بعض اور طاقتیں ہیں جو اسلام کے خلاف مختلف شکلوں میں صف آراء ہوتی ہیں.اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ جہادِ اصغر جو ہے وہ دفاع اسلام ہے.اور جہاد کبیر جو ہے وہ قرآنی انوار کے ساتھ جارحانہ طور پر ادیان باطلہ کو مغلوب کرنے کی بھر پور کوشش ہے اور جہاد کبیر کے لئے ایک فوج تیار کرنا یہ جہا دا کبر کا کام ہے.کیونکہ اگر اصلاح نفس نہ ہو تو اسلام کی یہ فوج تیار نہ ہو سکے گی.اسلام کی فوج کی لیاقت اور اس کی صفت یہی نہیں کہ اُسے تلوار چلانا آتا ہے بلکہ اُس کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے سارے اعمال بجا لاتی ہے.جہاں تلوار نہیں چلانی تھی وہاں اُنہوں نے تلوار نہیں چلائی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تلوار نہیں چلانی تو اُنہوں نے نہیں چلائی.مگر جب خدا تعالیٰ کے اذن کے مطابق تلوار چلانے کا وقت آیا تو پھر انہوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ وہ تعداد میں کتنے ہیں.اُنہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ اُن کی تلوار میں لوہے کی ہیں یا لکڑی کی.انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میدانِ جنگ میں کود جانے کے بعد اُن کے بیوی بچوں کا کیا حال ہوگا.اُنہوں نے اس بات کا بھی خیال نہیں کیا کہ اُن کے پاس جو تھوڑے بہت اموال ہیں وہ سارے ضائع ہو جائیں گے.اُنہوں نے صرف ایک چیز دیکھی اور وہ تھی اللہ تعالیٰ کی آواز.اس پر اُنہوں نے صدقِ دل سے لبیک کہا.غرض یہ فوج تیار کرنا جہاد اکبر کا کام ہے.جہاد اکبر کے نتیجہ میں اسلامی فوج تیار ہوتی ہے.

Page 329

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۰۹ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء جہاد کبیر کے نتیجہ میں وہ ادیان باطلہ پر حملہ آور ہوتی ہے.اس فوج کو حملہ آور ہوتے وقت کسی مادی ذریعہ کی ضرورت نہیں ہے.اسے نہ لوہے کی تلوار کی ضرورت ہے اور نہ ایٹم کی توانائی اور طاقت کی ضرورت ہے.اس کو صرف قرآن کریم کی رُوحانی طاقت کی ضرورت ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ جہاد کبیر کے لئے ہمارے دائیں ہاتھ میں بھی قرآن اور ہمارے بائیں ہاتھ میں بھی قرآن ہونا چاہیے.پس جہادا کبر نے اسلامی فوج تیار کی.جہاد کبیر میں اس فوج نے قرآنی انوار کے ہتھیاروں سے ادیان باطلہ پر حملہ کیا اور جب ظلمات نے یہ دیکھا کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو اُس نے اس نور کو بجھانے کی کوشش کی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تم اپنے مونہوں سے اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھانا چاہتے ہو.مگر اللہ تعالیٰ کا نورمنہ کی پھونکوں سے نہیں بجھایا جا سکتا اور نہ ہی لوہے کی تلوار یا ایٹم ( ذروں) کی طاقت سے مٹایا جا سکتا ہے.غرض قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے ایک فوج کی حیثیت سے مادی ذرائع کا مادی ذرائع سے مقابلہ کیا اور اسلام کی برتری کو ثابت کر دکھایا.اُنہوں نے اسلام کی خدمت میں کار ہائے نمایاں انجام دیئے.بایں ہمہ کبر اور غرور اُن کے پاس بھی نہیں پھٹکتا تھا.وہ انتہائی عاجزی اور تضرع کرتے اور اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے اور چونکہ خدا تعالیٰ کو وہ سب کچھ سمجھتے تھے اس لئے دُنیا کی کسی طاقت کی پرواہ نہیں کرتے تھے.دنیوی طاقتوں سے بے خوفی کا جو جذ بہ پیدا ہوتا ہے یعنی کسی کی کچھ پر اوہ ہی نہیں ہوتی یہ جذبہ محض خشیت اللہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مجھ سے ڈرو اور میرے سوا کسی سے نہ ڈرو.پس اس قسم کی فوج جو اس قسم کے روحانی ہتھیاروں سے لیس ہوتی ہے یہ جہادا کبر کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.وہ پھر یہ نہیں دیکھتی کہ قیصر کے پاس فوجیں تعداد میں زیادہ، ساز وسامان میں بہتر ہیں یا کسری کے خزانے ہیرے جواہرات سے بھرے ہوئے ہیں.اتنے ہیرے اور جواہرات اور اتنی دولت اور مال کہ بادشاہ سلامت کو اس کا اور کوئی خرچ نظر نہ آیا تو کہا کہ میرے بڑے بڑے جرنیلوں کی ٹوپیوں پر ایک ایک لاکھ کے جواہرات جڑے ہوئے ہوں گے.چنانچہ

Page 330

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء کم و بیش ایک ایک لاکھ کے جواہرات جڑ کر جرنیل کو ٹوپی پہنانے سے میں تو یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ اُن کو یہ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی اُن ہیرے اور جواہرات سے وہ کیا کام لیں.پھر اسی طرح جب مسلمانوں کو بھی بڑی کثرت سے ہیرے اور جواہرات ملے تو اس قیمتی پتھر سے اُنہوں نے اپنی اور اپنے جرنیلوں کی ٹوپیاں نہیں سجائیں بلکہ انہوں نے مسجدوں کے ماتھے سجا دیئے.اُن کے محراب سجا دیئے.اُن کا یہ کام کس حد تک اچھا تھا اس سلسلہ میں میں کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن اتنی بات تو ضرور ہے کہ جرنیل کی ٹوپی سجانے کی نسبت یہ بہتر ہے کہ مسجد کی محراب اور اس کی دیواروں پر ہیرے جواہرات جڑ دیئے جائیں.بہر حال جہاد اکبر کے نتیجہ میں جو فوج تیار ہوتی ہے وہ مادی ہتھیاروں کے ساتھ حملہ نہیں کرتی.اُس کے ہاتھ میں مادی ہتھیار نہیں ہوتے بلکہ اُس کے ہاتھ میں قرآنی انوار ہوتے ہیں.جب وہ اسلام کا دفاع کرتی ہے تو وہ کسی مادی ہتھیار سے دفاع نہیں کرتی خواہ اُس کے مقابلے میں کسری کی عظیم طاقت ہی کیوں نہ ہو.خواہ اُس کے مقابلے میں قیصر کی عظیم طاقت ہی کیوں نہ ہو.اُس زمانہ میں یہی دو عظیم طاقتیں تھیں اُن کے مقابلے میں اور کوئی طاقت نہیں تھی.اُن کی آپس میں بھی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں.کبھی ایک طاقت جیت جاتی اور کبھی دوسری جیت جاتی تھی.مگر جہادا کبر کے نتیجہ میں اسلام کی جو فوج اب پیدا ہو رہی ہے، اگر ضرورت پڑی تو وہ ایٹم کی طاقت سے بھی لڑے گی.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جو سب طاقتوں کا سر چشمہ اور منبع ہے، اِس فوج کو اُس کی طاقتوں کا عرفان حاصل ہوتا ہے.یہی جہاد اکبر کا نتیجہ ہے یعنی خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق اور اُس کی صفات اور قدرتوں کا کامل عرفان حاصل ہوتا ہے.میں نے بتایا ہے اسلام نے ہمیں انتہائی محنت کرنے کا حکم دیا ہے یہ ایک بڑا لطیف مضمون ہے جہاں تک انتہائی محنت کرنے کا تعلق ہے اس پر میں نے ابھی مختصر روشنی ڈالی ہے.دوسرے یہ فرمایا کہ تم احسان کرو.احسان کے دو معنے ہیں.ایک یہ کہ کس کو کچھ دینا یا انعام کرنا وغیرہ یہ بھی احسان ہے.دوسرے یہ کہ عربی لغت میں احسان کا لفظ احسان فی العمل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.چنانچہ مفردات امام راغب نے احسان فی العمل کے معنے یہ کئے ہیں کہ جب

Page 331

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء اَحْسَنَ فِي فِعْلِه “ کہا جائے تو اس سے مراد ایسا شخص ہوتا ہے.66 إِذَا عَلِمَ عِلْمًا حَسَنًا وَعَمِلَ عَمَلًا حَسَنًا ، یعنی وہ حسین علم رکھتا ہو اور حسین عمل کرنے والا ہو اور حسن عمل خدا داد استعدادوں کی تدریجی نشو ونما کو چاہتا ہے.حسن کا سر چشمہ اور منع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.اس سے تعلق پیدا کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے سخت مجاہدہ انتہائی محنت درکار ہے.اس محنت کے ذریعہ طاقتوں کو جلا دینے اور ان کو زیادہ مضبوط بنانے کا گر ہمیں سکھایا گیا ہے اور طاقت وقوت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے جہاد کی رو سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم میں جتنی طاقت ہے تم اس کا انتہائی طور پر استعمال کرو.تب تم مجاہد بنو گے.احسان کی رو سے فرمایا تم میں جتنی طاقت ہے تم اس سے کہیں زیادہ طاقت ور بن سکتے ہو اور تم کو بننا چاہیے ورنہ تم صحیح معنوں میں ایک مسلمان مجاہد نہیں بن سکو گے اور جو محنت کا حکم ہے تم اس کی پوری طرح پابندی نہیں کر سکو گے اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو تمہاری طاقتوں کی نشو و نما نہیں ہو سکے گی.انسان کی طاقتوں کی نشو و نما کے لئے دو چیزوں کی ضرورت تھی.ایک عرفان ذات وصفات باری تعالیٰ اور یہ علم کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیز ہے اور حسین علم پر اس کا دارو مدار ہے.صرف اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا علم ہی حسین ہوسکتا ہے.باقی جتنے علوم ہیں وہ طفیلی اور خالی ہیں اصل علم اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت ہے.اس لحاظ سے قرآن کریم نے فرمایا کہ احسان کرو.کیونکہ خدا تعالیٰ محسن ہے اور وہ اپنے محسن بندوں سے پیار کرتا ہے.اس کے معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اس کی ذات کی معرفت اور اس کی صفات کا عرفان حاصل کیا جائے.کیونکہ انسان جب اس کی ذات وصفات کا عرفان حاصل کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے پیار کرنے لگ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ خود حسین ہے تاہم یہ حسن وہ نہیں جو عام دُنیا کی نگاہ میں ہوتا ہے.بلکہ یہ وہ حسن ہے جس کی انسانی فطرت اور بصیرت گواہی دیتی ہے اور یہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات میں نظر آتا ہے.پس اگر انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت

Page 332

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۱۲ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء کے بعد اس کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرے اور اس کے مطابق عمل کرے تو جس طرح خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے دُنیا میں ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح الہی صفات سے ملتے جلتے جلوے اس کی زندگی میں بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں.چنانچہ یہی وہ حقیقت ہے جو احسان والے مضمون میں بیان ہوئی ہے اور جس کا میرے آج کے اس مضمون یعنی محنت کرو کے ساتھ تعلق ہے.محنت کرو کا یہ مضمون یا دوسرے لفظوں میں جہاد کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر آج جتنی طاقت ہے اس کے مطابق وہ انتہائی کوشش کر دکھائے.پھر خدا تعالیٰ بڑے پیار سے فرماتا ہے کہ دیکھنا وہیں کھڑے نہیں ہو جانا.انتہائی کوشش کے بعد احسان کرنا ہے، ذات وصفات باری تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنی ہے.چونکہ صفات الہیہ غیر محدود ہیں.اس لئے ان کے جلوے بھی غیر محدود ہیں.اگر انسان الہی صفات کا مظہر بن جائے تو علمی فضاؤں میں اور عملی میدانوں میں اس کی ترقی اور رفعتیں بھی غیر محدود ہوں گی.پس صفاتِ باری تعالیٰ کی معرفت کے نتیجہ میں انسان کی قوت اور صلاحیت بڑھ جاتی ہے.وہ زیادہ محنت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے.کیونکہ حسن علم و عمل کے نتیجہ میں انسانی طاقتوں میں اور زیادہ شدت اور اس کی قوت میں اور زیادہ اضافہ ہوتا ہے.غرض جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا ہے جس کی رو سے انتہائی محنت اور انتہائی کوشش کرنے کا حکم ہے.یعنی آج کے دن انتہائی کوشش کی کل کے دن کے لئے اپنی طاقت کو احسان کے ذریعہ بڑھایا.پھر انتہائی کوشش کی پھر اگلے دن کے لئے طاقتوں کو احسان کے ذریعہ بڑھایا اور پھر انتہائی کوشش کی.نتیجہ یہ نکلا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ محنت کرو تو قرآن کریم کی روشنی میں دوسرے لفظوں میں یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مختلف قوتیں اور صلاحیتیں اور استعدادیں بخشی ہیں ان صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق انتہائی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دائرہ استعداد میں نشو ونما کا اصول قائم فرماتا ہے.انسان پہلے ہی دن اپنی کوششوں کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا.جہاد ابتداء ہے یا ابتداء کے قریب آگے بڑھنے کا زمانہ ہے.احسان طاقت اور قوت میں اضافہ کرتا اور استعدادوں اور صلاحیتوں میں

Page 333

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۱۳ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء ایک نئی قوت اور طاقت بخشتا ہے زیادہ محنت کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے.پس احباب جماعت سے میں یہ کہتا ہوں کہ محنت کرو! محنت کرو!! آج جماعت احمدیہ میں جتنی طاقت ہے اس کے مطابق کام کریں.کیونکہ اسلام کا یہی منشاء ہے کہ تم میں آج جتنی طاقت ہے اس کے مطابق محنت کرو اور کل کی محنت اس سے بڑی ہونی چاہیے.اس کے لئے تیاری کرو.کیونکہ جہاد اور احسان نے مل کر ہمارے سامنے محنت کرنے کی تعلیم رکھی ہے.جہاد کہتا ہے طاقت کے مطابق انتہائی کوشش کرو اور احسان کہتا ہے کہ اپنی طاقت میں وسعت اور شدت پیدا کرنے کی سعی کرو.حسن علم و عمل کا یہی تقاضا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی نئی سے نئی صفات کا عرفان حاصل ہوتا ہے.صفات باری کا عرفان ایک جگہ ٹھہرا ہوا نہیں ہے.اگر ہم فکر وتد بر کرنے کے عادی ہوں اور ہمارا تعلق اپنے رب سے قائم ہو تو اس تعلق میں ہم ہر روز زیادہ شدت اور زیادہ مضبوطی پائیں گے ہمارا علم زیادہ خوبصورت ہو جائے گا.اس حسین علم کے نتیجہ میں ہمارے عمل کے زیادہ سے زیادہ حسین ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ زیادہ اچھا ہو جائے گا.کیونکہ عمل کی اچھائی تو کام کرنے والے کی ہمت پر منحصر ہے اگر کسی آدمی نے جہاد کا اصول اپنایا اور انتہائی کوشش کے نتیجہ میں اس کی طاقت، صلاحیت اور استعداد بڑھ گئی ہے تو اس کا عمل بھی پہلے دن سے زیادہ حسین اور زیادہ حسین نتائج نکالنے والا بن جائے گا.پس اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ محنت کرو اور محنت کو اپنی طاقت کے مطابق انتہاء تک پہنچاؤ.پھر اسلام ہمیں یہ بھی کہتا ہے کہ تمہاری طاقت ایک جگہ کھڑی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس طاقت اور قوت میں روز بروز اضافہ ہونا چاہیے تاکہ تمہاری قوت اور طاقت تمہاری استعدادوں اور صلاحیتوں کی کامل نشو و نما ہو سکے اور اس کے نتیجہ میں تمہارے علم و عمل میں استحکام ، شدت اور مضبوطی پیدا ہو جائے.اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ تمہیں اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو کمال نشو ونما تک پہنچانے کے لئے ہر روز پہلے سے زیادہ عرفانِ الہی اور پہلے سے زیادہ حسنِ عمل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا.

Page 334

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۱۴ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء پس یہ وہ حکم ہے جو ہمیں دیا گیا ہے، اسے محنت کا فلسفہ کہہ لیں یا محنت کی تعلیم کہ لیس یا محنت کرنے کا حکم کہہ لیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی استعداد کو محدود کر دیا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بنی نوع انسان کی مجموعی طور پر جو استعداد اور صلاحیت تھی اس کو بھی محدود کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کی ہر خلق یعنی اشیاء عالم کی پیدائش کا جو عمل ہے اس میں ہمیں ہر جگہ حد بندی کا اصول نظر آتا ہے جس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ کوئی ہستی محمد دیعنی حد باندھنے والی بھی ہے.یہ نہیں کہ اتفاقاً بعض جگہ تو حد بندی کی گئی اور بعض جگہوں میں حد بندی کا خیال ہی نہیں رکھا گیا ہو.ویسے اگر یہ دُنیا اتفاق کے نتیجہ میں معرض وجود میں آتی تو کسی جگہ تو ہمیں الٹ بھی نظر آتا.یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے لیکن ہر استعداد کی نشوونما اور ہر استعداد کو کمال نشو ونما تک پہنچانے کا ایک فعل اور عمل شروع ہو جاتا ہے.جس طرح ہر عمل کی ایک انتہا ہے اسی طرح ایک ابتداء بھی ہے اور ان کے درمیان بڑا فاصلہ ہے.انسانی عمل کی ابتداء پیدائش کے دن سے شروع ہوتی ہے اور جب انسان آخری سانس لیتا ہے اس وقت نشو ونما کا یہ عمل ختم ہوتا ہے.مثلاً حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اُسوہ حسنہ ہیں.آپ کی مثال ذہن میں لائیں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام محبت اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کے یومِ وصال سے ایک روز پہلے تھا اس سے بڑھ کر ایک مقام محبت تھا یومِ وصال پر غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور برکتیں اپنی شدت اور وسعت کے اعتبار سے کسی گھڑی کم ہوئیں نہ ایک جگہ ٹھہر ہیں.اگر ہمیں اپنے بارے میں کوئی حد بندی نظر آتی ہے تو یہ ہماری صلاحیتوں کا نقص ہے.مثلاً جب ہم افق پر نگاہ ڈالتے ہیں تو جہاں ہماری نظر کام کرنا چھوڑ دیتی ہے وہاں ہم کہہ دیتے ہیں کہ اس کے آگے بس کچھ نہیں حالانکہ اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے.چنانچہ ہماری آنکھ ایک دوسرے وجود کی طاقت کی انتہا اس جگہ کو سمجھ لیتی ہے جو ہماری طاقت کی انتہا ہے کیونکہ اسے اس کے باہر کا علم تو حاصل ہی نہیں ہوسکتا.اس لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنا اس وجہ سے مشکل ہے کہ جتنی نعمتوں کے آپ وارث ہوئے تھے اتنی نعمتوں کا بنی نوع انسان میں سے کوئی وارث ہوا نہ ہو سکتا ہے.

Page 335

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۱۵ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بہت بلند ہے.اس کے متعلق کچھ ہم سمجھ سکتے ہیں اور کچھ ہمارے لئے سمجھنا مشکل ہے.کیونکہ ہماری اتنی استعداد ہی نہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا کما حقہ علم حاصل کر سکیں.اس لئے کہ پیدائش کے وقت سے لے کر یومِ وصال تک حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں روز بروز ترقی ہوتی چلی گئی.ور نہ اگر ترقی نہ ہوتی تو حصول نعمت پہلے سے زیادہ ممکن نہ ہوتا.خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں ترقی کا ہونا ہمیں بتاتا ہے کہ قبول کرنے والی ، متاثر ہونے والی طبیعت اور نفس کی صلاحیت میں بھی ترقی ہوتی ہے.ہر آدمی کے اپنے دائرہ استعداد میں اس کی صلاحیتوں کی کمال نشو و نما تب ہی ممکن ہے که یوم پیدائش سے لے کر اس کے یومِ وصال تک اس کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں نشود نما ہوتی رہے اور وہ ایک جگہ کبھی نہ ٹھہرے.اس کا خدا تعالیٰ نے سامان پیدا کر دیا ہے.اسی واسطے فرمایا:.دعا کرتے رہو کہ تمہارا انجام بخیر ہو یعنی یوم وفات کے وقت نفس انسانی روحانی طور پر پہلے سے زیادہ آگے پہنچ چکا ہو.اگر وہ کسی جگہ ٹھہرا تو گیا.آج دنیا کا ایک بڑا حصہ (ساری دُنیا تو نہیں ) ترقی پذیر ممالک پر مشتمل ہے اور اس میں ہمارا ملک بھی شامل ہے اس وقت دُنیا کو دراصل دو حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے.ایک تو ترقی پذیر ملک ہیں اور دوسرے ترقی یافتہ مگر تنسڈل پذیر ملک.جو ترقی پذیر ملک ہیں ان میں ترقی کی رفتار مختلف ہے مثلاً اگر یہ ترقی آسمانوں کی طرف ہو تو آپ کو ایک ملک سطح زمین سے دس فٹ اونچا نظر آئے گا دوسرا دس ہزار فٹ اونچا نظر آئے گا اور تیسرا دس کروڑ فٹ اونچا نظر آئے گا.پھر جو ترقی یافتہ تنزل پذیر ملک ہیں وہ اگر چہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتے ہیں مگر اب دُنیوی لحاظ سے اُن میں سخت اختلاف پیدا ہو چکا ہے.ویسے تو روحانی لحاظ سے بھی انسانی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے لیکن اس کے ساتھ میرے اس مضمون کا اس وقت تعلق نہیں تاہم ایسے ممالک کو ہم تنزل پذیر اس لئے کہتے ہیں کہ ایک تو ان میں باہمی اختلاف پیدا ہو گیا ہے.دوسرے ان کی صلاحیتوں کی جو ایک حد تک نشو و نما ہوئی تھی وہ

Page 336

خطبات ناصر جلد چہارم ٣١٦ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء اب ٹھہر گئی ہے یعنی جو شخص رفعتوں کو حاصل کرتا ہے اگر وہ ٹھہر جائے اتو اس کی حرکت نیچے کی طرف گرنی شروع ہو جاتی ہے.اس کی صلاحیتوں میں کمزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.یہی حال تنزّل پذیر ملکوں کا ہے وہ ملک دُنیوی ترقیات کے اس نقطہ عروج پر آج نظر نہیں آتے جہاں پہلے نظر آیا کرتے تھے.مثلاً آج کے انگلستان اور ڈیڑھ سو سال پہلے کے انگلستان میں بڑا فرق ہے.میں جب ۱۹۶۷ ء میں یورپ گیا تو لندن ائیر پورٹ پر اخبار کے ایک نمائندہ نے مجھ سے ایک سوال کر دیا کہ آپ یہاں پہلے طالب علمی کے زمانہ میں بھی رہے ہیں.اب یہاں پھر آئے ہیں.فوری طور پر کیا آپ کو کوئی تبدیلی نظر آئی ہے؟ میں نے کہا مجھے انگریز قوم میں تنزل نظر آیا ہے میرے ساتھ مکرم محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کھڑے تھے کہنے لگے آپ تو بڑی دیر کے بعد یہاں آئے ہیں اور آپ کو تنزل نظر آیا ہے.ہم تو یہیں رہتے ہیں.ہمیں تو روزانہ تنزل نظر آتا ہے.غرض وہ ملک جو کبھی بہت ترقی پر تھے اب رو بہ تنزل ہیں.دوسری طرف جو ترقی کرنے والی اقوام ہیں.اُن کے اندر ایک حرکت تو ہے لیکن وہ جہاد نہیں کہلا سکتی.یعنی اُن کی انتہائی حرکت نہیں یا انتہائی کوشش نہیں ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں جو بہت جلد حاصل کی جاسکتی ہیں ممکن ہے دس ہزار سال کے بعد حاصل کریں.پھر تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.اس کا تو یہ مطلب ہے کہ اس عرصہ میں سینکڑوں نسلیں گزر جائیں گی اور پھر جا کر یہ مقام حاصل ہوگا.ہمارا ملک مسلمان ملک بھی کہلاتا ہے اور اسلام نے محنت کرنے کے اصول اور طریق کار کے متعلق جو حسین تعلیم دی ہے اس سے واقفیت بھی نہیں رکھتا.ترقی کرنے والی اقوام میں سے کوئی تو جوں کی چال چل رہی ہے اور کوئی راکٹ کی چال چل رہی ہے لیکن جو مسلمان ہے اس کی حرکت اللہ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق خدا داد طاقت کے مقابلہ میں آدھی نہیں ہونی چاہیے یا اسی فیصد نہیں ہونی چاہیے یا نوے فیصد نہیں ہونی چاہیے حتی کہ نانوے فیصد بھی نہیں ہونی چاہیے بلکہ سو فیصد ہونی چاہیے.ورنہ ان کی کوشش جہاد نہیں کہلا سکتی.یہ بات اچھی طرح یا درکھنی چاہیے کہ جہاد کہتے ہی اس کوشش کو ہیں جس میں انسان اپنی طاقت کو انتہائی طور پر اور پورے اور مکمل رنگ

Page 337

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۱۷ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء میں خرچ کر دے.یعنی انسان اپنی ساری طاقتیں خدا کی راہ میں خرچ کر دے.غرض خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول میں انسان جب اپنی طاقتوں کو انتہائی طور پر خرچ کر دیتا ہے تو پھر اسلامی تعلیم کے مطابق حقیقی معنوں میں وہ مجاہد کہلاتا ہے.پس جو ترقی کرنے والی قومیں ہیں اور مسلمان ہیں ان کو تو میں کہوں گا کہ قرآن کریم نے آپ کو ایک حکم دیا ہے.قرآن کریم نے آپ کو ایک راہ دکھا دی ہے.قرآن کریم نے آپ کو جلد از جلد رفعتوں تک پہنچنے کا ایک راستہ بتا دیا ہے اس لئے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اپنی طاقتوں کو خرچ کرو.تا ہم جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قرآن کریم نے خالی یہ نہیں فرمایا کہ محنت کرو بلکہ فرمایا ہے کہ اپنی محنت کو انتہا تک پہنچاؤ.اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچاؤ کیونکہ اس طرح تمہاری طاقتوں اور استعدادوں میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جائے گا.قرآن کریم کی ہدایت پر عمل کرو گے اور صفات باری کی معرفت میں روز بروز ترقی کرتے چلے جاؤ گے تو تمہارے علم میں ترقی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں تمہارے عمل میں روزانہ ترقی کا امکان اور روزانہ ترقی کے سامان پیدا ہوتے چلے جائیں گے.جب مزید ترقی کرنے کے سامان پیدا ہو گئے تو اس صورت میں بھی خدا تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ جہاد کرو یعنی آج جو نئی طاقت پیدا ہوئی ہے اس کو بھی اپنی کل کی طاقت میں شامل کرو پھر اور آگے بڑھو.پھر اور زیادہ محنت کرو اور زیادہ محنت کرو یہاں تک کہ تم اپنی محنت کو انتہا تک پہنچا دو.قرآن کریم نے ہمیں یہ نہیں فرمایا کہ جو طاقت تم میں نہیں ہے اس کے مطابق کام کر ولیکن قرآن کریم ہمیں یہ ضرور کہتا ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے جتنی طاقت دی ہے اس کے مطابق سو فیصد کام کرو اور یہ کام تین محاذوں پر ہونا چاہیے مثلاً اگر انسان جہادا کبر میں کا میاب ہو جائے تو اس نے اپنے نفس کو جو فائدہ پہنچایا سو پہنچایا اس کے نتیجہ میں ظاہر ہے ایک عظیم اسلامی فوج بھی تیار ہو گئی جو قرآنی انوار کے ساتھ جہاد کبیر کرے گی.اور یہ جارحانہ جہاد ہے.لوگ کہتے ہیں اسلام تلوار سے پھیلا.میں کہتا ہوں کہ قرآن کریم نے اسلام کو تلوار کے ذریعہ پھیلانے کا کہیں حکم نہیں دیا یعنی میں صرف یہ نہیں کہتا کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلائیں یہ بھی کہتا ہوں کہ خالی یہ ہی نہیں کہ

Page 338

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۱۸ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء اسلام تلوار سے نہیں پھیلا بلکہ خدا تعالیٰ نے واضح طور پر ہمیں یہ فرمایا ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے ہاتھ میں تلوار نہیں پکڑنی کیونکہ اس کام کے لئے تمہیں اس کا اختیار ہی نہیں دیا گیا.اس کی اشاعت کے لئے تمہیں قرآنی انوار دیئے گئے ہیں تم قرآنی انوار کے ذریعہ اسے ادیان باطلہ پر غالب کرو.چنانچہ اس فوج نے قرآن کریم کو ہاتھ میں پکڑا اور ادیان باطلہ کو مغلوب کرنے کے لئے جارحانہ کاروائیاں کیں.مگر یہ حملہ اس لئے نہیں تھا کہ کسی کا سرتن سے جدا کیا جائے وہ تو مادی ہتھیاروں سے ہوتا ہے یہ حملہ اس لئے تھا کہ وہ سینے جو ظلمات سے بھرے ہوئے ہیں ان کو قر آنی انوار سے منور بنادیا جائے.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کیا اس کام کے لئے تلوار یا ایٹم بم استعمال کیا جا سکتا ہے؟ تو اس کا یہ سوال بڑا نا معقول ہو گا.کسی شخص کے سینے کو اگر قرآنی انوار سے منور کرنا ہو تو لوہے کی تلوار یا ایٹمی ذرات کی جو طاقت ہے اس کی ہمیں ضرورت نہیں ہے اس کے لئے ہمیں قرآنی انوار کی ضرورت ہے.تاہم اگر کوئی بیوقوف منکر اسلام تلوار کے ساتھ اسلام کو مغلوب کرنا چاہے تو پھر جو تمہاری طاقتیں ہیں یا مادی ذرائع ہیں اُن کو تم دفاعی طور پر استعمال کرو.یہ طاقتیں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں زیادہ دے رکھی ہیں.جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کو جانتا ہوگا.اس کی فراست بھی بہت ہوگی اور دوسروں سے مختلف اس کی شجاعت بہت زیادہ اور دوسروں سے مختلف ہوگی.یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مٹھی بھر مسلمانوں نے ان تلواروں کو جو اُن سے ہزاروں گنا زیادہ تھیں اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے میانوں سے باہر نکلی تھیں انہیں واپس میانوں میں نہیں جانے دیا جو تلوار میان سے نکلی تھی اس نیت کے ساتھ کہ جب تک اسلام کو مغلوب نہ کرے گی واپس میان میں نہیں جائے گی.اس کو دوبارہ میان میں جانا نصیب نہیں ہوا.کیونکہ قبل اس کے کہ وہ اپنی میان کی طرف جاتی وہ نہتی فوج جو خدا تعالیٰ کی صفات کے علم اور معرفت کے نتیجہ میں تیار ہوئی تھی اس نے دشمن کا غرور خاک میں ملا کر رکھ دیا.جب ظلم حد سے بڑھ گیا اور اللہ تعالیٰ نے ظالم کے ہاتھ کو روکنے کی اجازت دی تو مسلمانوں کی تلواریں بھی میان سے باہر نکل آئیں.مسلمان ظالم منکرین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے بے چین ہو گئے.یہاں تک کہ ان کو آرام کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا.ایک دفاعی جنگ کے بعد دوسری دفاعی جنگ لڑی جاتی

Page 339

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۱۹ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء رہی.حضرت خالد بنی ولید کسری ایران کے ساتھ جب نبرد آزما تھے تو کسریٰ کی بھگوڑی فوج ابھی پچھلی فوج کے ساتھ ملتی نہیں تھی کہ دوسری جنگ شروع ہو جاتی تھی.اسی طرح پھر تیسری جنگ اور پھر چوتھی جنگ چھڑ جاتی تھی.غرض مسلمانوں نے خود آرام کیا نہ دشمن کوسنبھلنے کا موقع دیا.پس یہ کہنا تو غلط اور بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے لیکن یہ صحیح اور یقیناً صحیح ہے کہ اسلام کو مٹانے کے لئے جو تلوار میان سے نکلی تھی اس کو واپس میان میں نہیں جانے دیا گیا یہاں تک کہ کفر کی دُنیوی اور مادی طاقت کو پاش پاش کر دیا گیا اور یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ دشمن اسلام جس وقت اپنے مادی ذرائع کے ساتھ ظلم کرتا اور خدا تعالیٰ کے دین کو اپنے مونہہ کی بکو اس سے روکنا چاہتا ہے اور اسلام کے جسدِ مطہر کو لو ہے کی تلوار سے کاٹنا چاہتا ہے تو اس وقت نہ مونہہ کی پھونک اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا سکتی ہے نہ دین متین اسلام کی ترقی کو روک سکتی ہے اور نہ تلواروں کی دھار اسلام کے روحانی نور کومٹاسکتی ہے.پس اسلام تلوار سے نہیں پھیلا.لیکن اسلام تلوار کے زور سے مٹایا بھی نہیں جاسکا.یہ ایک حقیقت ہے اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.اگر کوئی انکار کرے تو وہ ان لوگوں سے جا کر پوچھے جنہوں نے تلوار یا دوسری مادی طاقتوں سے اسلام کو مٹانا چاہا تھا.اُنہوں نے کن مادی ذرائع کو مذہب کے مقابلے پر کھڑا کیا تھا اور کہاں گئیں ان کی وہ تلواریں جن کے ذریعہ بزعم خویش اُنہوں نے اسلام کو مٹانا چاہا تھا.پس میں جماعت کے دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ تم بھی خدا کے سپاہی بنو.جہاد اکبر میں تم اپنی محنتوں کو انتہا تک پہنچاؤ اور اپنی محنتوں کو روزانہ زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانے کے لئے اپنی قوتوں اور استعدادوں کو اِحْسَان في العَمَل کے حکم میں جو ہدایت دی گئی ہے اس کے مطابق کام کرتے ہوئے ان کو آگے سے آگے لے جاؤ.پھر جب تم اصلاح نفس کر لو گے پھر جب تم اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اپنے سینوں کو قرآنی انوار سے بھر لو گے.تمہاری زبانیں جب بولتے وقت اس ہوا میں آواز کی لہریں پیدا کریں گی تو وہ محض آواز کی لہریں نہ ہوں گی بلکہ ان لہروں کے ساتھ قرآن کریم کے نہایت ہی اچھے اور عمدہ عطر کی خوشبو بھی دُنیا کی طرف جائے گی.

Page 340

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۲۰ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء غرض اس جہاد کبیر میں ہمیں انتہائی کوشش کرنی چاہیے تا کہ قرآن کریم کی عظمت دلوں میں بیٹھ جائے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اعلیٰ مقام اور بلند ترین مرتبہ ہے، دُنیا اس سے آگاہ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑ دیا جائے.پس دوست اس اہم اور بابرکت کام کے لئے انتہائی کوشش کریں ورنہ یہ جہاد جہاد کبیر نہیں ہوگا.اس میں ہماری پوری کوشش صرف ہونی چاہیے.اگر دو فیصد کمی رہ گئی تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے نزد یک جہاد نہیں ہو گا.عربی لغت کے لحاظ سے بھی جہاد نہیں ہوگا.اسلامی اصطلاح کے لحاظ سے جہاد نہیں ہو گا.اگر دنیا یہ سمجھے کہ یہ غریب، بے کس اور بے سہارا جماعت ہے.اس کے پاس مادی سامان نہیں ہیں.اس لئے مادی سامانوں کے ساتھ ہم اسلام کی اس فوج کو مٹا سکتے ہیں تو یہ اُن کی بڑی غلطی ہو گی.اگر وہ عملاً ایسا کرنا چاہیں تو محض خدائے قادر و توانا پر بھروسہ رکھ کر محض اس کی طاقتوں پر کامل یقین کر کے اس کی قدرتوں کا عرفان رکھتے ہوئے اور دعاؤں کے ذریعہ اس کے فضل کو جذب کر کے دُنیا کو یہ نظارہ دکھا دو کہ مادی طاقتیں الہی منصوبوں کو کبھی پاش پاش نہیں کر سکتیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا منصو بہ اور تدبیر ہی ہے جو ظلمات اور شیطانی منصوبوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیتی ہے.یہ تو ایک ذیلی چیز تھی.میرا اصل مضمون محنت ہے.ہماری محنت یعنی ایک احمدی مسلمان کی محنت اور ایک اس شخص کی محنت میں جو اسلام پر ایمان نہیں لا تا زمین و آسمان کا فرق ہونا چاہیے.محنت کو اپنی شدت میں بھی اور وسعت میں بھی اور اپنے اثر میں بھی انتہاء تک پہنچانا چاہیے ہر کام ایک ہی وار میں مکمل نہیں ہو جا تا بلکہ دنیا کے اکثر کام مرحلے وار مکمل ہوتے ہیں.دُنیا میں ایسے لوگوں کی بڑی بھاری اکثریت ہے جو محنت کر کے آہستہ آہستہ ترقی کرتے اور اپنے انجام کو پہنچتے ہیں.اسلامی تاریخ میں ہمیں مسلمان کی یہی شان نظر آتی ہے کہ جب وہ کوئی کام شروع کرتا ہے تو اسے انتہا تک پہنچاتا ہے جس طرح خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے انجام بخیر ہونے کے لئے دُعا کرواسی طرح یہ بھی فرمایا ہے کہ خدا سے یہ بھی دُعا کرتے رہو کہ تمہارے ہر فعل کا انجام بخیر ہو تم اسے کامیابی کی آخری حد تک پہنچا سکو.

Page 341

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء اس وقت دنیا کے ترقی پذیر ملک یعنی جو آہستہ آہستہ ترقی کی طرف جا رہے ہیں اُن میں ایک بنیادی خامی یہ نظر آتی ہے کہ وہ کام شروع تو کر دیتے ہیں لیکن اسے انتہا تک نہیں پہنچاتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض کی ۴۰ فیصد محنت ضائع ہو جاتی ہے.بعض کی ۸۰ فیصد محنت ضائع ہو جاتی ہے بعض کی ۹۰ فیصد محنت ضائع ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ بعض ملک تو ایسے بھی ہیں جن کی ۹۹ فیصد محنت ضائع ہو جاتی ہے.آپ باہر نکلا کریں اور دیکھا کریں کہ کس طرح محنت رائیگاں جاتی ہے.مثلا ایک سٹرک اسلام آباد سے بنی شروع ہوئی اس کا دوسرا حصہ خانپور سے بننا شروع ہو گیا دونوں طرف چند میل تک سڑک بنی مگر بیچ کے کئی میل ویسے ہی پڑے ہوئے ہیں.کہتے ہیں ہم نے یہ منصوبہ بدل دیا ہے.بھلا تمہیں کس احمق نے کہا تھا کہ تم یہ منصوبہ بناؤ اور خواه خواہ قوم کے پیسے ضائع کرو.یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ ہر کام میں کم و بیش یہی نظر آتا ہے کہ کام شروع کر دیتے ہیں مگر انتہا تک نہیں پہنچاتے.اس کی دوصورتیں بنتی ہیں ایک یہ کہ کلی ناکامی دوسرے یہ کہ وقتی ناکامی ہوتی ہے.ہر دوصورتوں میں محنت اپنی انتہا کو نہیں پہنچتی.وقتی ناکامی سے میری مراد یہ ہے کہ جو کام دس دن میں ہو سکتا تھا اُسے مکمل کرنے میں چار مہینے لگا دیتے ہیں.دور جانے کی ضرورت نہیں ہمارے ناظر صاحب امور عامہ اور ٹھیکیدار صاحب جنہوں نے ربوہ کی سڑکیں بنانی شروع کی ہیں دونوں اس بات کے ذمہ وار ہیں کہ جتنے وقت کے اندر یہ بنی چاہیے تھیں اس میں نہیں بن سکیں.کبھی یہ بہانہ ہے کہ لگ گرم کرنے میں ایندھن زیادہ خرچ ہوتا ہے.اگر بعد میں تم نے یہ سوچنا تھا تو پہلے ٹھیکہ ہی کیوں لیا تھا.پھر یہ کہہ دیا کہ اب اتنی گرمی ہے ٹھیک طرح سے کام نہیں ہو سکتا.حالانکہ ربوہ کا موسم تو بڑی جلد بدلتا رہتا ہے.آج سردی ہے تو کل گرمی ہو جاتی ہے اور کو لگنے لگ جاتی ہے.غرض کبھی کوئی بہانہ کر دیا جاتا ہے اور کبھی کوئی عذر پیش کر دیا جاتا ہے.یہ طریق کار نہ جہاد کے معنوں میں شامل ہے اور نہ عَمَلًا حَسَنًا کے معنے میں شامل ہے.ہمیں دُنیا کے لئے ایک مثال بنا چاہیے مگر اس میں ہمارا ایک اپنا ادارہ ملوث ہے.ایسی صورت میں دوستوں کو ٹوکنا چاہیے کیونکہ کسی ناظر کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ غلطی کرے اور پھر بھی اسے کچھ نہ کہا جائے.جو عوام سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں اُن میں اگر کوئی ناظر غلطی کرتا ہے تو

Page 342

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۲۲ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء بڑے ادب کے ساتھ اس کو یہ کہنا چاہیے کہ آپ یہ کیا حرکت کر رہے ہیں.اس سلسلہ میں بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے.کیونکہ اس طرح انسان کے نفس پر ایک دھبہ لگ جاتا ہے اور یہ جماعت احمد یہ کے اجتماعی عرفان ذات باری کے خلاف ہے، ایک انفرادی عرفان ہوتا ہے اور ایک اجتماعی.اجتماعی عرفان کا مطلب یہ ہے کہ زید اور بکر کا عرفان خالد اور عمر سے مثلاً بیس گنا زیادہ ہے وہ اپنے اجتماعی واقعات بتاتے ہیں.دوسروں کا مشاہدہ نہیں ہوتا.لیکن سماع ہوتا ہے.اس سے بھی ایمان میں تازگی اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے.اب یہ جو جماعت احمدیہ کا اجتماعی عرفان ہے اس کے مقابلہ میں ہمارا یہ عزم ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے جو جہاد کا حکم دیا ہے اس کے مطابق خدا کی راہ میں اس کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے لئے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچانا ہے.اب اگر کوئی کام اس کے خلاف ہوتا ہے تو یہ جماعت کی بدنامی کا باعث ہے.میں تو پچھلے مہینے کڑھتا رہا ہوں کہ ہماری ایک نظارت نے ہمارے اوپر ایک دھبہ لگا دیا ہے.اس قسم کی حرکتیں تو نہیں چلنی چاہئیں.وہ سمجھتے ہیں ہم آرام سے بیٹھے ہیں مگر ہم انہیں آرام سے نہیں بیٹھنے دیں گے.نہ میں انہیں بیٹھنے دوں گا اور نہ آپ ان کو بیٹھنے دیں.دوستوں کو چاہیے کہ اگر کہیں کوئی غلطی دیکھیں تو ذمہ وار آدمی کو جا کر پکڑیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اسے کان سے جا پکڑیں اور ادب و احترام کے ساتھ چار پانچ آدمی جا کر کہیں کہ سڑک کو اس وقت تک مکمل ہو جانا چاہیے تھا.مگر ابھی تک کیوں تیار نہیں ہوئی ؟ میں نے ایبٹ آباد جانے سے پہلے اپنے دفتر سے کہا کہ ناظر امور عامہ کو روزانہ ایک خط لکھتے رہو کہ سڑک کیوں بنی شروع نہیں ہوئی ؟ انہوں نے بچنے کے لئے جواب لکھنے کی بجائے مجھے سے ملاقات کے دوران کہا کہ دراصل یہ وجہ ہوگئی ہے اور وہ وجہ ہوگئی ہے اس لئے کام شروع نہیں ہو سکا.یہ سب بچنے کے لئے جھوٹے بہانے تھے.پرائیویٹ سیکرٹری صاحب پاس کھڑے تھے.میں نے ان سے کہا کہ ان کی اس Explanation کون کر خطوط بند نہیں ہوں گے اس لئے آپ ان کو خط لکھتے رہیں جب تک یہ کام شروع نہ کر لیں.اب یہ تو نہیں کہ ان پر کوئی سختی کی گئی.صرف روزانہ یاد دہانی کروائی جاتی رہی.اسی طرح اگر چار پانچ آدمی روزانہ جا کر

Page 343

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء بڑے پیار سے ناظر صاحب امور عامہ سے یہ کہتے کہ جناب آپ کو خدا تعالیٰ نے سلسلہ کے بڑے اہم کام کرنے کی توفیق دی ہے.ہم آپ کو ذَكِّرْ فَإِنَّ الذكرى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ - (الدريت : ۵۶) کی رُو سے یاددہانی کرانے آئے ہیں.جو کام آپ کروا ر ہے ہیں اس کی رفتار بڑی سست ہے اس کے اندر چستی پیدا ہونی چاہیے.یہ یاد دہانی کرانے کا نسخہ میں تو بڑی دیر سے استعمال کر رہا ہوں.قادیان کے زمانہ کی بات ہے.خدام الاحمدیہ کی بیرونی مجالس جو ماہانہ رپورٹیں نہیں بھجواتی تھیں ان میں سے مثلاً پچاس کو میں نے چن لیا اور دفتر سے کہا پہلے ہر پندرہ دن کے بعد یاددہانی کراؤ اس پر بھی کوئی نتیجہ نہ نکلے تو ہر ہفتہ کے بعد، پھر ہفتہ میں دو دفعہ یاد دہانیاں کراؤ.اگر اس پر بھی ان کو ہوش نہ آئے تو پھر روزانہ یاد دہانی کراؤ اور یہ سلسلہ جاری رہے جب تک ان کو ہوش نہ آ جائے.میں نے دیکھا کہ کئی قائدین میرے پاس آ کر رو پڑے کہ خدا کیلئے ہمیں لکھنا بند کر دیں.ہم آئندہ ستی نہیں کریں گے.کسی جگہ جب متواتر خطوط جاتے ہیں تو اصلی بات چھپی نہیں رہ سکتی.وہاں کے سب لوگ اصل حقیقت کو پا جاتے ہیں.پس ذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِینَ کی رو سے یاد دہانی کرانا کسی فرد واحد ہی کے لئے نفع مند نہیں ہے بلکہ یہ جماعت مومنین کے لئے بھی نفع مند چیز ہے اس سے ہر کام میں چستی پیدا ہو جاتی ہے.بہر حال ہم احمدی مسلمان ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت رکھتے اور جانتے ہیں کہ مجاہدہ (جہاد اور مجاہدہ ایک ہی مصدر سے نکلے ہیں ) کی جو تعلیم دی گئی ہے اور جسے محسن فی العمل کہہ کر اور مضبوط کر دیا گیا ہے.یہ انتہائی محنت اور علم و عمل کے اعتبار سے حسن و احسان کا لطیف امتزاج ہمارا معیار ہے.اس سے ہم نے پیچھے نہیں ہٹنا.ہم نے دُنیا کے لئے ایک نمونہ بننا ہے.خصوصا اس دُنیا کے لئے جو ترقی پذیر تو ہے مگر جوں کی چال چل رہی ہے.میں نے چینی معاشرہ کے متعلق بڑا غور کیا ہے روحانیت کا تو خانہ خالی ہے اس کو چھوڑ دیں

Page 344

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۲۴ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء اس کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے وجود کا ایک حصہ بالکل کمزور ہے.لیکن اُن کا جوڈ نیوی اور مادی حصہ ہے مثلاً جسمانی اور ذہنی طور پر اور ظاہری دُنیوی اخلاق کے لحاظ سے اُن کا معیار بہت بلند ہے.اب تو روس کے برخلاف چین نے اخلاقی اقدار کو بھی اپنا لیا ہے.غرض انتہائی طور پر محنت کرنا چینی معاشرہ کی ایک نمایاں خصوصیت ہے.ایک احمدی مسلمان کو اُن سے بھی زیادہ محنت کرنی چاہیے.اُن کے مقابلے میں ہمارے سامنے محنت کا ایک زاید میدان ہے اور یہ روحانی میدان ہے.یہی اصل میدان ہے.یہ چھت ہے دوسری چیزیں ستون ہیں.لوگوں نے یہ ستون تو بنا لئے مگر ہم نے ان ستونوں پر اکتفا نہیں کرنا بلکہ ان کے اوپر چھت بھی بنانی ہے.چونکہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی منشاء کے مطابق دُنیا کے ہر نفس کے اندر روحانی اقدار قائم کرنی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں جسمانی قوتیں ، ذہنی استعدادیں اور اخلاقی صلاحیتیں بھی عطا فر ما ئیں تا کہ روحانی چھت بناسکیں جو حفاظت کا ذریعہ بنے.بالکل اسی طرح جس طرح یہ جسمانی آسمان بہت ساری جسمانی حفاظتوں اور بالواسطہ روحانی حفاظتوں کا سامان پیدا کرتا ہے، روحانی استعدادوں کے کمال پر مشتمل روحانی چھت سارے افراد بلکہ تمام بنی نوع انسان کو ہر قسم کی تباہی سے (جس میں جسمانی تباہی بھی شامل ہے ) محفوظ رکھتی ہے.بہر حال ہمیں چینیوں سے زیادہ کام کرنا ہے.کیونکہ ہمارے لئے ایک زاید میدانِ عمل ہے.جو ان کے لئے نہیں ہے.اس طرح دوسرے شعبوں میں بھی ہم نے ان سے کم کام نہیں کرنا بلکہ اُن سے زیادہ کام کرنا ہے.ہمارے ہر کام میں زیادہ حسن ہونا چاہیے.ہمارے علم و عمل میں زیادہ حسن و احسان پایا جانا چاہیے.اس کے نتائج ہر اعتبار سے اچھے نکلنے چاہئیں.بنی نوع انسان جہاں جہاں بستے ہیں ان کی خیر خواہی اور بھلائی کے سامان ہماری کوششوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے چاہئیں.ان کے لئے دُکھ اور پریشانی کا سامان پیدا نہیں ہونا چاہیے.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں اُس رنگ میں محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس رنگ میں وہ چاہتا ہے کہ ہم محنت کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں یہ توفیق بخشے کہ ہم اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو روز بروز ترقی دیتے چلے جانے میں کامیاب ہو جا ئیں ، ہماری محنت ہر روز پہلے

Page 345

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۲۵ خطبہ جمعہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۷۲ء کی نسبت زیادہ شدت اور وسعت اختیار کر جائے.ہمارے سب کاموں کے نتائج پہلے سے بڑھ کر شاندار نکلیں.اللہ تعالیٰ ہی کے فضل اور اس کی توفیق سے سب کچھ ہوسکتا ہے.ہم تو عاجز بندے ہیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۱/اکتوبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۱ تا ۶)

Page 346

Page 347

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۲۷ خطبہ جمعہ ۲۸ جولائی ۱۹۷۲ء فتنہ وفساد اسلامی شریعت اور فطرتِ صحیحہ کے سراسر خلاف ہے خطبہ جمعہ فرموده ۲۸ / جولائی ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہاؤس.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم کی پیشن گوئیوں کے مطابق ہر شو اور ہر طرف بڑا ہی فتنہ اور فساد پھیلا ہوا ہے.گھیراؤ اور جلاؤ ، تو ڑو اور پھوڑو، مارو اور پیٹو کا یہ مظاہرہ صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں ہے بلکہ امریکہ میں بھی ہے بہت سے دوسرے ممالک میں بھی ہے.بعض ملک ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس رحجان کو سختی کے ساتھ روکا ہے تاہم یہ فساد اس زمانے کا فیشن بن چکا ہے.غرض قرآن کریم نے اس زمانے کے متعلق یہی خبر دی تھی اور بتایا تھا کہ اسے اسلامی شریعت اور انسان کی فطرت صحیحہ پسند نہیں کرتی.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (البقرة : ۲۰۶) اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے اس نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے.اس لئے اللہ تعالیٰ مفسد یعنی فساد کرنے والے آدمی کو پسند نہیں کرتا.اس عالمین میں صفات باری کے جو جلوے انسان کے لئے ظاہر ہورہے ہیں.فسادان سے متضاد ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے جلووں اور فساد کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے.

Page 348

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۲۸ خطبہ جمعہ ۲۸ جولائی ۱۹۷۲ء ا چنانچہ عربی کی کوئی لغت دیکھیں بعض جگہ علماء صرف اتنا لکھ دیں گے کہ فسادضد الصلاح اور صلاح ضد الفساد ہے.بہر حال یہ دو متضاد الفاظ ہیں فساد صلاح کے بالکل متضاد چیز ہے اور صلاح فساد سے بالکل متضاد چیز ہے.چنانچہ امام راغب نے مفردات میں اصلح کے معنے یہ لکھے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اس کا فاعل ہو اور انسان اس کا مفعول ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں.خَلَقَهُ صَالِحًا یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدائش کے وقت قوت اور اہلیت کے لحاظ سے صالح بنایا ہے.اسے وہ تمام استعداد میں دی گئی ہیں جو ایک صالح آدمی میں ہونی چاہئیں.پھر ”صالح“ کے معنے یہ لکھے ہیں کہ جو شخص حقوق کی ادائیگی کی اہلیت رکھتا ہو اور اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے اپنے حقوق اور واجبات کو عملاً ادا بھی کر رہا ہو.پس ایسے شخص کو عربی میں ”صالح“ کہتے ہیں اور یہ معنے ”فساؤ“ کے الٹ ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ تمام قو تیں اور استعداد میں دے کر پیدا کیا ہے اور اس میں یہ اہلیت پیدا کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عاید کردہ حقوق کو وہ ادا کر سکے.پھر حقوق کو ادا کرنے کے طریقے بھی بتائے گئے یعنی نہ صرف اہلیت پیدا کی گئی بلکہ اس کو یہ ہدایت بھی دی گئی کہ تم نے اس اس طرح اپنے حقوق کو ادا کرنا ہے.چنانچہ اسلامی شریعت نے حقوق کی ادائیگی کے متعلق مفصل احکام بیان کئے ہیں.نہ صرف یہ بلکہ حقوق کی ادائیگی کے راستہ میں جو روکیں پیدا ہو سکتی تھیں.ان کو دور کرنے کے لئے بھی احکام نازل کئے گئے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے انسان کو صالح پیدا کیا ہے اور میں نے اسے وہ تمام طاقتیں، قوتیں، استعداد میں اور صلاحیتیں دے دی ہیں.جن کی اسے ان حقوق کی ادائیگی کے لئے ضرورت تھی.جن کو میں نے اس کے اوپر عاید کیا ہے اور جن کی ادائیگی واجب قرار دی ہے مثلاً انسان کے اپنے نفس کے حقوق کے علاوہ اس پر دوسروں کے حقوق بھی واجب ہیں.ان سب حقوق کی ادائیگی کے لئے جس جس چیز کی انسان کو ضرورت ہے وہ اسے دے دی گئی ہے.غرض فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم : ۳۱) کی رو سے ہماری سب صلاحیتیں اصولی طور پر اس حکم کی بجا آواری کے لئے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر بنیں.یہ ایک بڑا لمبا مضمون

Page 349

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۲۹ خطبہ جمعہ ۲۸ جولائی ۱۹۷۲ء ہے آپ اس کے مختلف حصوں کے متعلق اکثر سنتے رہتے ہیں.غرض نوع انسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے.اگر نوع انسان کا کوئی فرد اس کے الٹ چلے تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ اس سے پیار نہیں کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ مفسد سے پیار نہیں کرتا.اس واسطے کہ انسانی پیدائش کی جو غرض و غایت ہے مفسد اس کے الٹ چلتا ہے.اللہ تعالیٰ نے پیدائشی طور پر اسے صالح بنایا تھا.مگر بڑے ہو کر اس نے اس سے متضاد صفات اپنے اندر پیدا کیں یعنی ایسی راہوں کو اختیار کیا جن سے انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں ادا نہیں ہوتے.اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی اس عظیم شریعت سے منہ پھیر لیا جس نے انسان کے ہر قسم کے حقوق قائم کئے اور پھر یہ بھی بتایا کہ ان حقوق کی ادائیگی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر پوری صلاحیتیں پیدا کی ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ فرمایا ہے کہ جو آدمی مفسد ہے.اس کے اعمال ، اس کی کوشش اور جد و جہد کا نتیجہ صحیح معنی میں کامیابی نہیں ہوسکتا.کیونکہ وہ فساد برپا کرتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ ایک مفسد کے اعمال کو ان کے نتیجہ کے لحاظ سے صالح قرار نہیں دیتا جو صالح اعمال کا نتیجہ نکلتا ہے وہ مفسد کے اعمال کا نتیجہ نہیں نکلتا.جو آدمی خدا تعالیٰ اور اس کی صفات سے دور بھاگتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا نہیں کرتا یعنی جو کام کرنا چاہیے تھا وہ اس نے نہیں کیا اور جو نہیں کرنا چاہیے تھا وہ اس نے کیا تو گو ظاہری اور وقتی طور پر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں مگر حقیقتاً اس کے اعمال کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.مثلاً ایک چور ہے.وہ چوری کر کے آتا ہے اگر وہ صبح پکڑا جائے تو رات کی روٹی تو اس نے اپنے مطلب کے مطابق خوب عیش سے کھائی.مگر کیا یہ بھی کوئی کامیابی ہے کہ ایک وقت کی روٹی کھالی اور اگلے روز ہتھکڑیاں لگ گئیں اور جیل بھیج دیئے گئے یا کہیں ڈا کہ مارا اور ڈکیتی کے دوران قتل ہو گئے یا اس نے اس نا پائیدار اور بے وفا دنیا میں دنیوی طور پر حظ اور مسرت حاصل کر لی لیکن اُخروی زندگی میں لمبے عرصے کی جہنم سہیڑ لی.یہ تو کوئی کامیابی نہیں کم از کم ایک بچے احمدی مسلمان کے لئے تو کوئی کامیابی نہیں ہے.ایک عقلمند کے لئے بھی یہ کوئی کامیابی نہیں ہے.دنیا کا کوئی عقلمند آدمی اگر ہم اسے اُخروی زندگی کا قائل کر سکیں تو وہ

Page 350

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۳۰ خطبہ جمعہ ۲۸/ جولائی ۱۹۷۲ء بھی یہ نہیں کہے گا کہ ایک ایسا فعل جس کے نتیجہ میں چند روزہ تکلیفیں اٹھانے کے بعد ابدی لذتوں اور سرور کا سامان پیدا ہو، وہ اس فعل سے برا ہے جس کے نتیجہ میں چند دن اس کو لذت اور سرور کے ملیں اور پھر ابدی مصیبت، دکھ درد اور بے چینی میں اس کی زندگی گذرے یعنی اگر اُخروی زندگی ہے اور ہمارے نزدیک تو یقیناً ہے تو پھر ہر عظمند یہی کہے گا کہ پہلی چیز بہر حال اچھی ہے.ابدی مسرتوں کے حصول کے لئے چند روزہ تکالیف کا برداشت کر لینا بہر صورت اچھا ہے.بجائے اس کے کہ انسان اس دنیا کی چند روزہ زندگی سے فائدہ اٹھالے اور پھر ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے غضب کا مورد بن کر جہنم کی آگ میں جلتا رہے اس سے بہتر ہے کہ انسان اس دنیا کے مصائب برداشت کرلے اور فتنہ و فساد سے بچ کر اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچ جائے.پس مذہباً بھی انسانی فطرت کے لحاظ سے بھی اور عقلاً بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آدمی صالح بنا رہے تو اچھا ہے کیونکہ جہاں تک ہماری عقل کا تعلق ہے یہ تو متعلقات کے مطابق نتیجہ نکالتی ہے مثلاً اگر یہ ہے اور یہ ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے.دو اور دو جمع کئے جائیں تو نتیجہ چار نکلتا ہے.اس کا آٹھ نتیجہ نہیں نکلے گا.پس عقلاً بھی یہی درست ہے کہ انسان کی صالحیت ہی نتیجہ خیز ہوتی ہے.اگر کوئی مفسد بن جائے اور عارضی اور وقتی طور پر اسے بظاہر کچھ فائدہ بھی پہنچ جائے تو یہ دراصل اس کی کامیابی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مفسدوں کے اعمال کو اللہ تعالیٰ صالح اعمال سمجھ کر یا بنا کر ویسا نتیجہ نہیں نکالا کرتا جیسا صالح اعمال کا نتیجہ نکالتا ہے.پس مفسد لوگ حقیقی طور پر کامیاب نہیں ہوتے.غرض اللہ تعالیٰ نے فساد کرنے سے منع فرمایا کیونکہ فساد صلاح کے متضاد ہے.صلاح کے معنے ہوتے ہیں حقوق کی ادائیگی کی اہلیت کا ہونا ، جیسا کہ فساد مسخ شدہ فطرت کو مستلزم ہے اور ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عاید کردہ حقوق کی ادائیگی کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا اور نہ اس کے اعمال کے کامیاب نتائج نکالتا ہے.عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے اور خدا تعالیٰ کی اس نصیحت پر کہ فساد نہیں کرنا اس وقت عمل پیرا ہو کر ترقی کر گئے مگر جو لوگ خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں وہ اس کی نصیحت کو بھلا بیٹھے ہیں اور اس پر عمل

Page 351

خطبات ناصر جلد چہارم ٣٣١ خطبہ جمعہ ۲۸ جولائی ۱۹۷۲ء کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.مجھے کچھ چکر آتے ہیں اس لئے میں اس مضمون کی مختصراً تمہید ہی آج بیان کرسکوں گا میں نے فساد کے معنے بتا دیئے ہیں.میں نے صلاح کے معنے بھی بتا دیئے ہیں.جب ہم بہت ساری چیزیں اکٹھی سامنے رکھتے ہیں تو حقیقتا اور انجام کارآخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ فساد صلاح کی ضد ہے.صلاح کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی اہلیت رکھنا اور فساد کے معنے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے سے نفرت کرنا.اس کے لئے کوشش بھی نہ کرنا بلکہ اس کے الٹ کوشش کرنا.اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات ہمیں نظر آ رہی ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ یہ ہیں میری صفات تم ان کے مظہر بنو مثلاً صفت خالقیت ہے تم مختلف چیزیں ایجاد کرو تو اس کے مظہر بن جاؤ گے.سائنسدان جو کسی نہ کسی چیز کے موجد ہیں وہ اپنے اپنے دائرہ کے اندر ” خالق کی صفت کے مظہر بن رہے ہیں.مگر انسان حقیقی طور پر اس معنی میں تو خالق نہیں بن سکتا جس معنی میں اللہ تعالی خالق ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت کا کوئی بھی مثل نظر نہیں آتا.یہاں تک کہ انسانی عقل بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کا حقیقی تصور نہیں کر سکتی.بہر حال انسان اپنے دائرہ کے اندر خالق بھی بن سکتا ہے.رازق بھی بن سکتا ہے.وہ اپنے دائرہ کے اندر مالک بھی بن سکتا ہے رب بھی بن سکتا ہے وہ اپنے دائرہ استعداد کے مطابق رحمان بھی بن سکتا ہے اور رحیم بھی بن سکتا ہے انسان جب باپ بن جاتا ہے تو وہ ایک لحاظ سے رحمان بھی بن جاتا ہے.اس کا دو مہینے کا چھوٹا بچہ ہوتا ہے.جب رات کو اٹھ اٹھ کر اس کے آرام اور دودھ کا انتظام کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت وہ بچے کے کس عمل کی جزا دے رہا ہوتا ہے جس وقت وہ بچہ جوان ہوتا ہے اور عمل کرنا شروع کرتا ہے تو پھر وہ اس کے لئے رحیم بن جاتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے انسانی فطرت میں ظاہر ہوتے ہیں.چنانچہ خدا کے نیک بندے اپنی فطرت کے مطالبے کو روحانی مطالبہ بنا کر اس پر عمل کر رہے ہوتے ہیں یعنی وہ جو کام کرتے ہیں صفات باری کی پوری معرفت اور عرفان کے بعد کرتے ہیں ورنہ تو ایک دہر یہ بھی اس فطرت سے مجبور ہو کر کبھی رحمانیت کے جلوے بھی دکھاتا ہے اور کبھی رحیمیت کے جلوے بھی دکھا تا ہے لیکن ایک کامل مومن

Page 352

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۳۲ خطبہ جمعہ ۲۸/ جولائی ۱۹۷۲ء اور ایک دہریہ کے ان صفات کے جلووں میں جو فطرت کے نتیجہ میں اس کے اور عرفان کے نتیجہ میں اس کے ظاہر ہورہے ہیں بڑا فرق ہے.بہر حال فساد سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور یہ اس لئے منع فرمایا ہے کہ اس طرح ایک تو انسان اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے خدا تعالیٰ اس سے پیار نہیں کرتا.دوسرے یہ کہ وہ اپنی فلاح اور بہبود کے لئے جو اچھے اور نیک نتائج نکالنا چاہتا ہے وہ بھی نہیں نکلتے مثلاً اگر مزدور کسی کارخانے کا گھیراؤ کر لیتا ہے اور اس کو توڑ پھوڑ دیتا ہے تو جو اسکا مطلب اور مقصود تھا کہ اس کا معیار زندگی بڑھ جائے اس کا یہ فعل ( یعنی توڑنے پھوڑنے ) اس کی اس خواہش کی تکمیل میں مد و معاون نہیں بن سکتا بلکہ نتیجہ اس کے اپنے ہی خلاف نکلتا ہے.کیونکہ اس طرح جب کارخانے بند ہو جائیں گے اور پیداوار نہیں ہو گی تو مزدور کا معیار زندگی کیسے بڑھ جائے گا ؟ پس توڑ پھوڑ کے نتیجہ میں یہ سمجھنا کہ معیار زندگی بڑھ جائے گا ایک سراسر نا معقول اور خلاف عقل بات ہے.یہ تو میرے مضمون کی تمہید ہے میں آئندہ انشاء اللہ تفصیل سے بتاؤں گا کہ قرآن کریم نے اس مسئلے پر بڑا زور دیا ہے اور فساد کرنے سے منع فرمایا ہے.کیونکہ فسادی اور مفسد اپنے مفسدانہ اعمال کے نتیجہ میں محنت اور کام کو بھی اور ذرائع پیداوار کو بھی نقصان پہنچاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے خود اصولی طور پر ذرائع پیداوار بھی بتائے ہیں قرآن کریم کی یہی تو عظمت ہے کہ وہ ایسے اصول بتا دیتا ہے جس سے انسانی عقل آگے خود نتائج اخذ کر سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں چاہتا ہوں کہ ایک یا دو خطبات میں یہ مضمون ختم ہو جائے لوگ اسے پڑھیں تو شاید ان کی اصلاح ہو جائے اور قرآن کریم کی طرف ان کی توجہ پھر جائے تو وہ فساد سے بچنے اور اصلاح کی طرف لوٹنے کی کوشش کرنے لگ جائیں.سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے.روز نامه الفضل ربوه ۱۳ / اگست ۱۹۷۲ء صفحه ۳ تا ۴)

Page 353

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۳۳ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء فتنہ وفساد، ذرائع پیداوار اور خداداد استعدادوں اور طاقتوں کو تباہ کر کے انسان کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد بنا دیتا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۱ اگست ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہاؤس.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوله في الحيوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ الدُّ الْخِصَامِ - وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ - وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ.وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ - (البقرة : ۲۰۵ تا ۲۰۷) b اور پھر فرمایا:.میں نے اس سے پہلے جو خطبہ دیا تھا اس میں میں نے بتایا تھا، اسلامی تعلیم نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا.وہ اسے اچھا نہیں سمجھتا.وہ اس سے نفرت کرتا ہے.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ عربی زبان میں ” فساد" کا لفظ ”صلاح“ کے مقابلے پر آتا ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں لفظ آپس میں متضاد ہیں.” صلاح“ کے لفظ کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ انسانی حقوق و واجبات کو ادا کیا جائے اور حقوق و واجبات کی ادائیگی کی اہلیت بھی ہو.اس کے مقابلے میں فساد کے معنے یہ ہوں گے کہ

Page 354

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۳۴ خطبہ جمعہ ۱۱ اگست ۱۹۷۲ء حقوق و واجبات کی اہلیت نہیں.یا اُنہیں جان بوجھ کر ادا نہیں کیا جا رہا.تاہم اہلیت نہیں“ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق واجب قرار دیا اور اہلیت پیدا نہیں کی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں اہلیت تو رکھی تھی لیکن اس کی نشو و نما نہیں ہو سکی اور نشو ونما اس لئے نہیں ہو سکی کہ جس شخص کو وہ خدا داد قو تیں ملی تھیں اس نے ان کی نشو نما کی طرف توجہ نہیں کی اور خود گناہگار بنا یا ماحول نے اسے نشو و نما کا موقع نہیں دیا.اس کے لئے سامان میسر نہیں آسکے.اس لئے اس کی نشو و نما نہیں ہوسکی.بہر حال ”فساد کے حقیقی اور بنیادی معنی ادائیگی حقوق کی اہلیت کے فقدان نیز حقوق وواجبات کے ادا نہ کرنے کے ہوتے ہیں.اس کے مقابلے میں صلاح“ کے معنے بنیادی طور پر یہ ہیں کہ " حقوق و واجبات کے ادا کرنے کی اہلیت بھی ہو اور حقوق و واجبات ادا بھی کئے جائیں.غرض فساد اور صلاح کے معنوں پر میں نے پچھلے خطبہ میں بھی مختصر روشنی ڈالی تھی اور بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا فساد کا وہ خوشکن اور حسین نتیجہ نہیں نکلتا جو صلاح کا نکلتا ہے اور جو اس دنیا کو بھی جنت میں تبدیل کر دیتا ہے کیونکہ اگر انسانوں کے حقوق و واجبات ادا نہ ہوں.اگر انسان انسان کے حقوق پامال کر رہا ہو تو وہ جنت پیدا نہیں ہوسکتی جو اس صورت میں پیدا ہوتی ہے کہ جب ہر شخص کے جو بھی حقوق اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ اس کومل جائیں.پھر میں نے اپنے گذشتہ خطبہ میں یہ بھی بتایا تھا کہ فطرتی اہلیت یعنی وہ قو تیں اور استعداد یں جو انسان کو دی گئی ہیں وہ حقیقتا اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے دی گئی ہیں.صلاح میں ہمیں صفات باری تعالیٰ کا عکس نظر آتا ہے.فساد اس کے الٹ ہے.کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابلے پر آتا ہے، اس کے اعمال کا وہ نتیجہ تو نہیں ہو سکتا جو اس شخص کے اعمال کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے جس کے اعمال اللہ تعالیٰ کی صفات کی مظہریت کے جلوے دکھا رہے ہوں.چنانچہ سورہ بقرہ کی ان آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَولُهُ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ، تمہیں دنیا میں ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے

Page 355

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۳۵ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء جو بظاہر بڑی اچھی باتیں کرتے ہیں.سیاست کے متعلق ، سیاسی حقوق کے متعلق ، معاشرہ میں حسن پیدا کرنے کے متعلق اور اقتصادی حقوق کو ادا کرنے کے متعلق بڑی دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں.جن میں حقیقت تھوڑی اور لفاظی زیادہ ہوتی ہے اور پھر یہی نہیں بلکہ وَ يُشْهِدُ اللهَ عَلَى مَا في قلبه “ وہ ساتھ ہی ساتھ قسمیں بھی کھاتے ہیں اور اپنی ہر بات پر خدا تعالیٰ کو گواہ ٹھہراتے ہیں.وہ ہر ایک سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ دیکھو! جس طرح ہماری زبان سے یہ باتیں نکل رہی ہیں اسی طرح ہمارا دل بھی خلوص سے پر ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَهُوَ الدُ الْخِصَامِ “ ایسا شخص سخت جھگڑالو ہوتا ہے.یہ اس کی خصوصیت ہوتی ہے.یہ اس کی طبیعت ہوتی ہے جو اس کی لچھے دار تقریروں کے بعد ہر ایک کے سامنے ظاہر ہو جاتی ہے.اس کے برعکس کوئی بھی شخص جو صلاح چاہتا ہے.وہ ’ آل تُ الْخِصَامِ “ کے زمرہ میں شامل نہیں ہوسکتا کیونکہ صلاح خلوص اور ایثار پر مبنی ہوتی ہے.ایسا شخص دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتا اور اس کے لئے ہر ممکن قربانی بھی دیتا ہے.کیونکہ اس قسم کے خلوص اور ایثار کے بغیر باہمی جھگڑے ختم نہیں ہوتے.مگر جو شخص جھگڑالو ہوتا ہے وہ ایثار کی جڑیں کا تھا ہے.وہ دوسرے کی ہر بات کو اپنی بے عزتی پر محمول کرتا ہے.کہنے والے کے ذہن میں وہ بات نہیں ہوتی مگر یہ اس کی بات کو نئے رنگ میں دوسرے لوگوں کے دماغ میں ڈال دیتا ہے.جس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں اشتعال پیدا ہو اور وہ جھگڑا کریں.اب یہ تو ظاہر ہے کہ جھگڑے کے نتیجہ میں فساد ہوتا ہے.صلاح تو پیدا نہیں ہوتی.پس يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا کی رو سے اس کا دعویٰ تو صلاح کا ہوتا ہے لیکن اس کے قول اور فعل کا تضاد نمایاں ہو کر سامنے آجاتا ہے.گو بعض چیزیں تو لوگ اپنی منافقت کی وجہ سے چھپا لیتے ہیں.تا ہم جو چیز چھپائے نہیں چھپتی.وہ ان کا آلتُ الْخِصَامِ “ ہونا ہے.وہ ذراذراسی بات پر جھگڑا کرنے لگ جاتے ہیں اور اس سے ان کی اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے.اب آج کل جو سیاسی فساد ہمارے ملک میں رونما ہے اگر آپ اسے غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے پس پردہ آل الْخِصَامِ “ کی خصوصیات کارفرما ہیں.مثلاً (اورب دو سیاسی

Page 356

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۳۶ خطبه جمعه ۱۱ اگست ۱۹۷۲ء وو 66 پارٹیاں ہیں ” کہتی ہے ”ب“ نے میرے خلاف یہ کہا ہے اور ”ب“ کے خلاف الزام لگاتی ہے کہ تم نے جو یہ بات کہی ہے اس کا مطلب یہ ہے.چنانچہ جھگڑا کرنے کے لئے اپنے مطلب کی بات نکال لیتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص آل الخِصَامِ کے گروہ میں ہے وہ خواہ کتنا ہی يُعْجِبُكَ قوله في الحیوۃ الدنیا کے زمرہ میں آجائے اور خواہ کتنی ہی چرب زبانی سے کام لے اور بظاہر بڑی ہی پسندیدہ باتیں کرے اور قسمیں کھا کھا کر کہے میں بڑا مخلص ہوں.ملک کا استحکام میرا مقصد ہے اور یہ ہے اور وہ ہے.یا وہ یہ کہے کہ ہم بھی دنیا میں غلبہ اسلام چاہتے ہیں ، اسلامی معاشرہ کے لحاظ سے برسر اقتدار جماعت کی طرح ہم بھی مساوات محمدی چاہتے ہیں لیکن ان تمام باتوں کے بعد ذراسی بات میں نہ وہ مساوات باقی رہتی ہے اور پھر جہاں تک انسان کے اقتصادی حقوق کا تعلق ہے نہ وہ حقوق کی ادائیگی باقی رہتی ہے.نہ وہ حب الوطنی باقی رہتی ہے اور نہ ہی پاکستان کے استحکام کا خیال باقی رہتا ہے.وہ لڑائی شروع کر دیتا ہے کہتا ہے اچھا تمہارا مطلب یہ ہے یا جو تم نے فقرے کہے ہیں، اس میں تم نے ہمیں گالیاں دی ہیں.کہنے والے کی بات کچھ اور ہوتی ہے مگر یہ اس میں سے اپنے مفسدانہ مطلب کی بات نکالتا اور اسے گالی بنالیتا ہے اور پھر اپنے حریف کو بغیر مطلب کے بے نقط گالیاں دینے لگ جاتا ہے.ہمیں یعنی اُمت محمدیہ کے ان افراد کو جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے خلوص پیدا کیا ہے اور جو اپنے دل میں غلبہ اسلام کی تڑپ رکھتے ہیں اور ملکی اتحاد چاہتے ہیں اور نیکی اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا چاہتے ہیں.ہمیں یہ دیکھ کر بڑی کوفت ہوتی ہے.ہمارے دل میں بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ یہ کیا مسخرہ پن ہے.یہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے.ایک طرف مذہب سے ، دوسری طرف ملک سے، تیسری طرف معاشرہ سے اور چوتھی طرف اقتصادی حقوق کی ادائیگی سے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے لوگ جن کی زبان بظاہر بہت میٹھی اور باتیں بڑی اچھی ہوں.اصولی طور پر وہ دعوے بھی بڑے کریں کہ ہم یہ ہیں، ہم وہ ہیں.ہم یہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم وہ کرنا چاہتے ہیں.مگر ذرا ذراسی بات پر جھگڑا شروع کر دیں یعنی ایک طرف زبان بڑی میٹھی

Page 357

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۳۷ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء بھی ہے اور دوسری طرف وہ تلوار کی تیز دھار بھی ہے.ایسا شخص اپنے دعوئی میں سچا نہیں ہوتا.وہ عملاً فسادی ہوتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :.و إذا توٹی یہ وہ لوگ ہیں کہ جس وقت ان کو کسی سیاسی جماعت کی قیادت ملے.( دراصل توٹی کے معنے صرف صدر مملکت یا بادشاہ وقت کے نہیں ہوتے بلکہ ہر چھوٹی موٹی قیادت پر توٹی کا لفظ بولا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بھی ان کو کسی قسم کے چھوٹے یا بڑے دائرہ میں قیادت مل جائے ) تو سعى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا “ کے مصداق بن جاتے ہیں.ملک میں خوب دورے کرتے پھرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ملک میں فساد اور بدامنی پیدا ہو.پھر فرمایا:.66 يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ “ آیت کے اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے اقتصادی اور معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی فرمائی ہے.مالک اور مزدور یا صاحب اقتدار اور حزب اختلاف کے جھگڑوں کی نوعیت کو اس چھوٹے سے فقرے میں بیان کر دیا ہے.دراصل میرے پچھلے خطبہ کی تمہید اسی فقرے کے معانی اور مفہوم کو بیان کرنے کے لئے تھی.اس حصہ آیت یعنی يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ کے تینوں لفظ بڑے اہم ہیں.ان کے معانی اگر ہمارے ذہن میں حاضر ہوں تو پھر اس فقرے کا مفہوم واضح ہو جائے گا.عربی زبان میں لفظ أَهْلَكَ یا الْهَلَاكُ کے تین معنے بیان ہوئے ہیں.یہ معنے میں نے مفردات امام راغب سے لئے ہیں.اس لفظ کے ایک معنے انہوں نے کسی چیز کا انسان کے ہاتھ سے نکل جانا‘ کے کئے ہیں.اگر چہ وہ چیز تلف نہیں ہوتی ، ضائع نہیں ہوتی لیکن وہ ایک انسان کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے.تو اس معنی میں بعض دفعہ ہم کہتے ہیں کہ فلاں چیز ہلاک ہوگئی یا مثلاً یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کی دولت میں سے اس قدر سونا ہلاک ہو گیا.عربی محاورہ میں اس کے معنے ہونگے رات کو چور آیا اور سونا چرا کر لے گیا.اگر چہ ایک انسان کے ہاتھ سے تو وہ سونا نکل گیا

Page 358

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۳۸ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء لیکن سونا تو ضائع نہیں ہوا.وہ تو اپنی شکل میں موجود ہے اور نہ ہی سونے کی خصوصیت میں کوئی فرق پڑا.وہ بازار میں مارکیٹ کے نرخ پر بک جائے گا اور چور کو اس کے پیسے مل جائیں گے یا کسی سنار کے ہاتھ میں یہ مال حرام چلا جائے گا اور وہ اس سے کسی کی بیوی یالڑکی کے لئے زیور بنا دے گا.غرض سونا چونکہ ایک بڑی قیمتی دھات ہے.اس کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کی قیمت میں اس قسم کی ہلاکت سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جب یہ چوری ہو جاتا ہے تو گویا جو اس کا مالک تھا اس کے ہاتھ سے یہ نکل گیا اور اس کا جو حق دار نہیں تھا اس کے پاس چلا گیا.پس اس معنی میں عربی زبان میں اهْلَك يا الهَلاك کا لفظ بولا جاتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز مثلاً سونا ہے وہ ضائع نہیں ہوالیکن ایک آدمی کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے کے ہاتھ میں چلا گیا.جس کے ہاتھ سے نکلا اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس شخص کا سونا ہلاک ہو گیا.اس کے دوسرے معنے ہیں هَلَاكُ الشَّيْ ءٍ بِاسْتِحَالَةٍ وَ فَسَادٍ - یعنی کوئی چیز خراب ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوگئی.مثلاً کھانے کے متعلق جب عربی میں یہ کہیں گے کہ هَلَكَ الطَّعَامُ تو اس کے معنے ہوں گے کھانا خراب ہو گیا ہمارے جلسہ سالانہ پر صبح دال کی دیگیں پکتی ہیں بعض دفعہ اگر وہ بچ جائیں تو دوسرے وقت تک وہ اہل رہی ہوتی ہیں ایسے موقع پر عربی میں کہیں گے هَلكَ الطعام کھانا ہلاک ہو گیا یعنی خراب ہو گیا.پھر اِسْتِحَالَہ کے ایک معنی تَحَولَ مِنْ حَالٍ إلى آخر کسی چیز کی حالت بدل کر دوسری حالت میں آگئی.دراصل هَلَكَ الطَّعَامُ “ کے بنیادی معنی بھی یہی ہیں تا ہم اس کی شکل تھوڑی سی بدلی ہوئی ہے.اِسْتِحَالَہ کے دوسرے معنے صَارَ مَحَالًا “ کے ہوتے ہیں اور محال کے معنے باطل کے ہیں یعنی ایسی چیز جو ہر جہت سے فساد کی مقتضی ہو وہ عربی زبان میں محال کہلاتی ہے.أَهْلَكَ ( يا الْهَلَاكُ ) کے تیسرے معنے موت کے ہوتے ہیں.یعنی انسانی زندگی میں بنیادی تبدیلی کا رونما ہونا ہم تو روح کو زندہ سمجھتے ہیں ہم روح اور مادی اجزاء کے ملاپ کو دنیوی زندگی سمجھتے ہیں.اس ملاپ کے نتیجہ میں ایک نئی چیز پیدا ہوتی ہے اور وہ انسان ہے جسے اس دنیا کا عقل اور شعور دیا گیا ہے.جب انسان کی یہ کیفیت باقی نہ رہے تو اس پر موت وارد ہو جاتی ہے.

Page 359

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۳۹ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء البتہ جسم کے ذرے بالکل ضائع نہیں ہو جاتے یہ موت والی ہلاکت بھی ایک خاص معنی میں استعمال ہو سکتی ہے.چنانچہ اسی واسطے امام راغب نے اس کو علیحد ہ تیسری شکل میں ہمارے سامنے رکھا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ صلاح کا دعوی کرنے والے بڑے بڑے لوگ ہیں.یہ در حقیقت دنیا میں فساد کرنا چاہتے ہیں.یہ ہر قسم کی (ہر سہ معنی میں ) ہلاکت کی تدبیریں کرتے ہیں.ایک یہ کہ جن لوگوں کا کسی چیز کا حق بنتا ہے ایسے سامان پیدا کر دیتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں وہ چیز نہ رہے یعنی وہ چیز تو قائم رہے مگر جس کا اس پر حق تھا اس کے پاس نہ رہے دوسرے یہ کہ جو چیز ان کے پاس ہو اس کے اندر خرابی پیدا ہو جائے جیسا کہ مثلاً ( ذرا سوچنے سمجھنے کی بات ہے ) بلیک مارکیٹنگ ہے.یہ کھانے میں پیدا ہونے والی خرابی تو نہیں لیکن انسان کے ہاتھ میں مثلاً نقدی ہے اس میں یہ خرابی پیدا ہوگئی کہ پہلے ایک روپے میں مثلاً تین سیر آٹا ملتا تھا مگر بلیک مارکیٹنگ کے نتیجہ میں اسی روپے سے ڈیڑھ سیر آٹا ملتا ہے.پس اس روپے کا جو استعمال اور استفادہ ہے اس کے اندر خرابی پیدا ہو گئی.گو یہ دال کے ابلنے والی خرابی تو نہیں ہے مگر روپے کی قدر یا قیمت میں خرابی کے مترادف ضرور ہے.پھر یہ کہ ایسی صورت میں صلاح کی بجائے فساد کی حالت پیدا ہو جاتی ہے مثلاً یہ کارخانوں کی جو تالہ بندی ہے اس سے بھی فساد پیدا ہوتا ہے.اس سے صلاح کی حالت فساد کی حالت میں بدل جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مزدوروں کو کام کرنے کی جو قو تیں اور طاقتیں عطا فرمائی ہیں کارخانے داران کا وہ حق ادا نہیں کر سکتے.مگر جتنا وہ کام کر سکتے تھے تالہ بندی کے نتیجہ میں اس کے دروازے بھی الٹے بند ہو گئے.دوسرا کام ان کو کوئی ملا نہیں تو ظاہر ہے وہ خود بھو کے رہیں گے.ان کے بچے بھوکے رہیں گے جیسا کہ میں نے بتایا ہے.حالتِ صلاح کی بنیادی کیفیت یہ ہے کہ حقوق ادا ہوں لیکن جس مزدور کے اوپر تالہ بندی کے نتیجہ میں کام کا دروازہ بند کر دیا گیا تو ایک طرف اس کی طاقتوں اور قوتوں کی نشو و نمارک گئی دوسری طرف اس کے حقوق کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ مفلوک الحال ہو گیا.پس هَلَاكُ الشَّيْءِ بِاسْتِحَالَةٍ

Page 360

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۴۰ خطبه جمعه ۱۱ را گست ۱۹۷۲ء وَ فَسَادٍ کی رو سے صلاح یعنی امن کے حالات میں تالہ بندی کے نتیجہ میں فساد کی کیفیت پیدا کرنا ہلاکت ہے اور یہ عمل سراسر باطل ہے اور حق کے صریحاً خلاف ہے.اس سے با ہمی طور پر ہم آہنگی نہیں بلکہ دوری پیدا ہو جاتی ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بنیادی طور پر استعداد میں بخشی ہیں اور اس دنیا کی ہر چیز کو ان استعدادوں کے ذریعہ استعمال کے لئے پیدا کیا ہے اس کا نام ہم تسخیر عالمین رکھتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لئے ہم نے اس عالمین کی ہر چیز کو مسخر کر دیا ہے دنیا کی ہر چیز کو تمہارا خادم بنا دیا ہے.تمہاری قوتوں سے اثر قبول کرنے کے لئے اس کائنات کی ہر چیز کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک خاصیت رکھ دی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار فرمایا ہے کہ تم کوشش کرو اور ان سے فائدہ اٹھاؤ.أهلك يا الهَلاك کے تیسرے معنے ”موت“ کے ہوتے ہیں.ظاہر ہے جب فساد ہوتا ہے تو مزدور مارا جاتا ہے اور مارا وہ جاتا ہے جو معصوم ہوتا ہے.مثلاً پچھلے دنوں خواہ مخواہ زبان کا جھگڑا کھڑا کر دیا گیا تھا.چنانچہ ہنگامے ہوئے جلوس نکالے گئے.اب جس وقت جلوس نکلتا ہے تو وہ بیچارا غریب مزدور جسے پانچ روپے دے کر کہا کہ جا کر جلوس نکالو یا کسی کے خلاف غلط باتیں بتا کر کہا کہ جا کر جلوس نکالو در اصل وہ گنہ گار نہیں وہ تو دھو کا خوردہ اور فریب خوردہ ہے.گناہگار وہ ہیں جو غریب آدمیوں کو دھوکا اور فریب دیتے ہیں.چنانچہ جب جلوس نکلتے ہیں تو مرتے ہیں تو بیچارے مزدور.جو لوگ انہیں دھوکا دیتے ہیں وہ پیچھے مزے سے بیٹھے ہوتے ہیں.پس یہ جو موت ہے یہ صریح طور پر فساد ہے.کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ بغیر حق کے کسی کی جان نہیں لینی.اس لئے ان بیچاروں کی جان لینے کا تو حق ہی نہیں بنتا لیکن ہنگامہ کھڑا کر کے شکل ایسی بنا دی کہ جان لینے والوں نے کہا کہ ان کو مارو.حالانکہ وہ فسادی نہیں ہوتے فسادی تو پیچھے کوئی اور دماغ ہے کوئی جیب ہے جس میں پیسے بھرے ہوئے ہیں.وہ فسادی ہے.اس کے اوپر فساد کو دور کرنے والی تلوار چلنی چاہیے نہ کہ اس بیچارے معصوم پر جس کا دراصل قصور نہیں ہے کیونکہ وہ یا تو دھوکے میں آکر یا اپنی غربت کی وجہ سے یا پھر اس وجہ سے کہ پہلے اس کے

Page 361

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۴۱ خطبه جمعه ۱۱/اگست ۱۹۷۲ء حقوق ادا نہیں ہوئے جلوس میں شامل ہوتا ہے جس شخص کو اس کے حقوق مل چکے ہیں وہ پانچ روپے کی خاطر فساد نہیں کرے گا.وہ اتنی تھوڑی سی رقم کی خاطر اپنی موت کو دعوت نہیں دے گا.فساد کرنے پر وہی شخص آمادہ ہو گا جسے یا تو بہ کا یا ، ورغلایا گیا ہو یا جس کے حقوق تلف کئے گئے ہوں اور اس کو اس حالت میں کر دیا گیا ہو کہ وہ فساد میں کود پڑے یعنی خدا تعالیٰ نے اس کی جو حالت بنائی تھی اس کو بدل کر اس حالت میں کر دیا جائے کہ وہ مجبوراً پیسے لے کر فسادی گروہ میں شامل ہو جائے.اب یہ تو ظلم ہے کہ جنہوں نے دوہرا گناہ کیا وہ تو چھوڑ دیئے جائیں لیکن جو درحقیقت معصوم تھے وہ گولیوں کا نشانہ بن جائیں.ویسے ہم تو خدا تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں.اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے.اس کا علم کامل ہے وہ جانتا ہے کہ کون فسادی ہے اور کون نہیں ہے لیکن بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی طرح ایسے شخص کا بھی گناہ کا منشاء نہیں ہوتا بلکہ وہ دھو کے میں آجاتا ہے.جس طرح حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے دھو کے میں آگئے تھے یہ مزدور بیچارے بھی دھو کے میں آجاتے ہیں اور بعض اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.بهر حال يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ “ میں يُهْلِكَ کے یہ تین معنے ہیں.میں نے بتایا تھا کہ اس وقت صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں ظهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کی حالت ہمیں نظر آتی ہے.قرآن کریم کی اس پیشگوئی کے مطابق ہمیں ہر جگہ فتنہ و فساد دکھائی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مفسد ہے وہ ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے.چنانچہ اردو میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے یا عربی زبان میں کہیں اهْلَكَ “ تو اس کے تین معنے ہوتے ہیں.ایک یہ کہ جن چیزوں پر ان کا ( مزدور کا ) حق تھا اور جو ان کو ملی تھیں وہ ان سے چھین لی جائیں اور وہ کسی اور کے پاس چلی جائیں.یہ معنے آج کی دنیا پر چسپاں ہوتے ہیں.دوسرے معنے کچھ تھوڑے سے اختلاف اور شاخوں کے ساتھ تَحَولَ مِنْ حَالٍ إِلى آخر “ اور ”صار محالا “ کے لحاظ سے یہ ہیں کہ مفسد ہلاکت کے اسباب پیدا کر دیتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.جن سے اللہ تعالیٰ پیار نہیں کرتا بلکہ ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.تیسرے معنے موت کے ہیں.مفسد بے گناہوں کی موت کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے.غرض 66

Page 362

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۴۲ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء تینوں معنوں میں ہلاکت کا لفظ اس دنیا کے فساد کے ماحول پر چسپاں ہوتا ہے لیکن آگے ہلاکت کے بنیادی طور پر عقلاً اور مشاہدہ دو مفعول بن سکتے ہیں ایک حدث “ کی ہلاکت اور دوسرے نسل کی ہلاکت.عربی زبان کے لحاظ سے حرث کے جو معنے ہیں اور جس رنگ میں اسے اس آیت میں رکھا گیا ہے اس سے ایک بڑا عجیب مفہوم پیدا ہوتا ہے اور درحقیقت یہ لفظ ایک وسیع معنوں کی نشاندہی کر رہا ہے.چنانچہ حرث کے معنی عربی زبان میں صرف کھیتی کے نہیں ہوتے.ویسے کھیتی کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی جو محروث ہے اسے بھی حرث کہتے ہیں لیکن اس کے اصل معنے کھیتی کے نہیں ہوتے.اس کے اصل معنے مادی ذرائع پیداوار کے ہیں.جن کے اندر انسان کا اپنی محنت سے ایسی تبدیلیاں پیدا کرنا مقصود ہے کہ وہ انسان کی فلاح کے سامان کا ذریعہ بن جائیں تاہم یہ لفظ جب زمین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنے ہوتے ہیں.الْقَاءُ الْبَدْرِ فِي الْأَرْضِ وَتَهَيُّوهَا لِلزِّرْعِ یعنی کھا د وغیرہ ڈال کر اور ہل وغیرہ چلا کر زمین کو کاشت کے قابل بنادینا یعنی جو اس سے ہم نے پیداوار لینی ہے زمین کو اس کے قابل بنا دینا اسی طرح کھیتی کو یا کمائی کو جو ہم اس سے حاصل کرتے ہیں اس کو بھی حرث کہتے ہیں.تاہم اس کا اصل اور بنیادی مفہوم یہ ہے کہ مادی ذرائع کو اپنی کوشش کے نتیجہ میں اس قابل بنا دینا کہ اس سے ہم اپنی انفرادی اور خاندانی اور ملکی اور عالمگیر فلاح و بہبود کے سامان پیدا کر سکیں.یہ ہیں حرث کے اصل معنے.ویسے جب عربی میں ہم یہ کہتے ہیں کہ حَرَثَ ناقتہ تو اس کے معنے ہوتے ہیں إِذَا اسْتَعْمَلَهَا یعنی اونٹنیوں کا استعمال کیا اور اونٹنیوں کا استعمال تو ان کی سواری ہوتی ہے.اس کے علاوہ بھی اونٹ بڑا مفید جانور ہے.اس کا گوشت کھا ئیں تب فائدہ پہنچتا ہے.اس کی کھال کو استعمال کریں تب فائدہ پہنچتا ہے.اس کی ہڈیوں کو مختلف کاموں میں استعمال کریں تب فائدہ پہنچتا ہے.اس کے دودھ کو استعمال کریں تب فائدہ پہنچتا ہے یا پھر اس پر سواری کریں خصوصاً خلوص نیت کے ساتھ حج کے لئے جائیں تب فائدہ پہنچتا ہے.چنانچہ ایک صحابی سے کسی نے پوچھا کہ فلاں موقع پر تم نے اپنی اونٹنیوں کا کیا کیا تھا.تو انہوں نے کہا حر تنھا ہم نے ان کا موقع کے لحاظ سے استعمال کیا یعنی ان پر سواری کی.

Page 363

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۴۳ خطبه جمعه ۱۱ را گست ۱۹۷۲ء یہ سارے معنے امام راغب نے کئے ہیں نیز وہ لکھتے ہیں: "كَمَا أَنَّ بِالْأَرْضِ زَرْعُ مَا بِهِ بَقَاءُ أَشْخَاصِهِمْ یعنی زمین مادی ذرائع پیداوار کی علامت ہے.سورج کی شعائیں زمین کے اندر جذب ہونے کے بعد ہمارے کام آتی ہیں.زمین سے مراد یہ سارا کرہ ارض اور اس کی ہوا وغیرہ ہے اسے قرآن کریم کی رو سے الارض کہا جاتا ہے اور یہ ذرائع پیداوار کی ایک علامت ہے.پس قرآن کریم نے زمین کو ذرائع پیداوار کی ایک علامت ٹھہرایا ہے.چنانچہ ان معنوں کی رو سے حرث سے یہ مراد لی جائے گی کہ زمین سے ایسا کام لیا جائے جس سے انفرادی اور اجتماعی بقاء کے سامان پیدا ہو جائیں.اس کو اصل میں حرث کہتے ہیں.اب زمین سے کام لینے کا مطلب یہ ہے انسان کی جو جسمانی طاقتیں ہیں انکی کمال نشو و نما کے لئے ذرائع پیداوار سے کام لیا جائے کیونکہ جب تک انسان کی جسمانی طاقتیں اپنے نشوونما کے کمال تک نہیں پہنچتیں اس وقت تک دوسری صلاحیتیں اور استعدادیں مثلاً ذہنی ،اخلاقی اور روحانی استعدادوں کی نشو و نما ممکن ہی نہیں جسمانی طاقت دوسری استعدادوں کے پنپنے کے لئے بنیاد کا کام دیتی ہے مثلاً انسانی جسم میں دماغ کے اندر کوئی خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو ایسے شخص کو ہم کہتے ہیں کہ یہ مجنون ہو گیا ہے.اس خاص قسم کی خرابی کے نتیجہ میں نہ وہ ذہنی نشو و نما حاصل کر سکتا ہے نہ اخلاقی اور روحانی نشو و نما حاصل کر سکتا ہے یا جب کوئی شخص لنگڑا ہو جائے یا کسی اور وجہ سے معذور ہو جائے تو وہ جسمانی طاقتوں کے نشو ونما نہ پانے کی وجہ سے ذہنی اور اخلاقی استعدادوں کی نشو ونما سے ایک حد تک محروم ہو جاتا ہے.مثلاً ایسا شخص جہاد میں شامل نہیں ہوسکتا.وہ جہاد کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے.جہاد میں شامل نہ ہو کر انسان صرف اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشو ونما ہی سے محروم نہیں ہوا وہ ذہنی قوتوں کی نشو و نما سے بھی محروم ہو گیا.انگریزی کا محاورہ ہے You live to learn ( یو لوٹولرن ) یعنی زندگی کا ہر مشاہدہ ہمارے لئے بڑا اہم ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ہمارے لئے معلم کے طور پر بنایا ہے.ہمارا مشاہدہ

Page 364

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۴۴ خطبه جمعه ۱۱ را گست ۱۹۷۲ء ہمیں کچھ نہ کچھ ضرور سکھاتا ہے.اگر ہماری جسمانی طاقتیں کسی لحاظ سے ہمارے مشاہدات کو ایک حد تک محدود کر دیں تو ہماری ذہنی نشو و نما اتنی وسیع نہیں ہو سکے گی جو دوسری صورتوں میں ممکن ہے.پس حرث کے معنے بنیادی طور پر یہ ہیں کہ بنیادی ذرائع پیداوار کو ایسے رنگ میں استعمال کرنا کہ انسان کی تمام قو تیں اور صلاحیتیں اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنے نشو ونما کے کمال کو پہنچے جائیں.جہاں تک نسل کی ہلاکت کا سوال ہے.نسل کے معنے ولد یا اولا دہی کے نہیں ہوتے نسل کے بنیادی اور حقیقی معنے جس سے آگے شاخوں کی طرح دوسرے معنے نکلتے ہیں (امام راغب لکھتے ہیں) یہ ہیں الْاِنْفِصَالُ عَنِ الشَّيْءِ “ کسی چیز سے علیحدہ ہو کر اس کا حصہ نہ رہنا نسل کہلاتا ہے.یعنی اس رنگ میں حصہ نہ رہنا ور نہ تو بہت سارے پہلوؤں کے لحاظ سے حصہ رہتا ہے اسی وجہ سے جو شخص جگہ کو جلدی جلدی چھوڑے تو ہم کہتے ہیں وہ دوڑ رہا ہے.عربی میں کہتے ہیں نَسَلَ - يَنْسَلُ إِذَا سَرَعَ یعنی جب آدمی تیزی سے دوڑنے کے نتیجہ میں جلدی جلدی جگہ بدلتا ہے تو اس کو نسل کہتے ہیں.امام راغب نے مفردات میں ایک عجیب محاورہ دیا ہے.دراصل میں اسی چیز کو نمایاں کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے کہ نسل کا لفظ اس محاورے میں استعمال ہوا ہے.إِذَا طَلَبتَ فَضْلَ إِنْسَانٍ فَخُذُ مَا نَسَلَ لَكَ مِنْهُ عَفُوا یعنی اگر تم کسی آدمی کی بزرگی کو دیکھنا چاہو تو تم اس کے حسن سلوک کو دیکھو جو رضائے الہی کے لئے وہ تم سے کر رہا ہے.تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ وہ کس قسم کا انسان ہے.دراصل عَفُوا کے معنے ہوتے ہیں رضائے الہی کے حصول کے لئے حسن سلوک کرنا.کیونکہ عَفُوا کہیں تو اس سے 66 الْقَصْدُ لِتَنَاوُلِ الشَّیءِ “ مراد ہوتی ہے.پس مَا نَسَلَ لَكَ مِنْهُ عَفُوًا کے معنے ہوں گے جو اس نے تجھ سے حسن سلوک کیا عفو کے طور پر یعنی کسی چیز کے حصول کے لئے تو چونکہ انسانی فضل رضائے الہی ہی کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے.اس لئے میں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں

Page 365

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۴۵ خطبه جمعه ۱۱ را گست ۱۹۷۲ء کہ جو شخص رضائے الہی کے حصول کے لئے تجھ سے حسن سلوک کرتا ہے اس سے اس کا فضل ظاہر ہوتا ہے.اسی طرح نسل کے معنے چھوڑ دینے کے بھی ہوتے ہیں مثلاً جب شہد اپنے چھتے سے خود بخود نکلے تو اس شہد کو النسيلة کہتے ہیں یعنی اس کو آگ کے اوپر گرم کر کے نہیں نکالا جا تا بلکہ بعض دفعہ وہ خود بخود بہہ نکلتا ہے.ہمارے پاس بہت سارے دوست شہد لے آتے ہیں یا ہم خود اپنے باغ سے چھتے اترواتے ہیں.چنانچہ ہم شہد نکالنے کے لئے یہ آسان طریق اختیار کرتے ہیں کہ ایک ململ کے کپڑے میں چھتے کا شہر والا حصہ باندھ کر لٹکا دیتے ہیں اور نیچے برتن رکھ دیتے ہیں.اس طرح شہد اپنے ہی وزن سے کشش ثقل کی وجہ سے بہ نکلتا ہے غرض جس شہد کو نکالنا نہ پڑے بلکہ خود بخود بہہ نکلے.اس کو ”نسيلة “ کہتے ہیں.اسی طرح جب دودھ دینے والے جانوروں کے تھنوں سے دودھ نکالا نہ جائے بلکہ خود بخود بہہ نکلے تو ایسے دودھ کو النِّسَلُ “ کہتے ہیں.بعض عورتوں کے پستان سے بھی دودھ بہہ نکلتا ہے اور کپڑوں کو خراب کر دیتا ہے عورتیں سمجھتی ہیں کہ ان کے کپڑے خراب ہو گئے اسی طرح بھینس یا بکری کا دودھ بھی بعض دفعہ خود بخو دگر تا رہتا ہے.پس اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز جو خود بخود علیحدہ ہو جائے وہ’نسيلة“ کہلاتی ہے.اس جگہ نسل کے معنے ہوں گے کہ انسان کی وہ قوتیں اور طاقتیں جن سے اس کے اعمال خود بخود فطری بہاؤ کے ساتھ سرزد ہوتے ہیں مثلاً ایک صاف شفاف اور ٹھنڈے اور لذیذ پانی کے چشمے سے جس طرح پانی خود بخود بہہ نکلتا ہے اسی طرح انسان کے اعمال اس کی طاقتوں سے خود بخود بہہ نکلتے ہیں.یعنی ایک تو ہے اہلیت اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے صلاح میں اہلیت کا بھی سوال ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو طاقتیں دی ہیں وہ ایک اہلیت کا رنگ رکھتی ہیں جو انسان کے اندر رکھ دی گئی ہے اس قوت اور استعداد کے ساتھ اس دنیا میں دو سلوک ہوتے ہیں اگر چہ یہ چار قسمیں ہیں لیکن ہم قوت اور استعداد مراد لیں گے.اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں پیدا کیا اور اسے ایک مخصوص دائرہ کے اندر ایک با اختیار وجود کی حیثیت عطا فرمائی.اس کے لئے ثواب اور گناہ ، جزا اور سزا مقرر فرمائی.اللہ تعالیٰ نے

Page 366

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۴۶ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء انسان سے فرمایا.میں نے تجھے قو تیں تو دی ہیں مگر ان قوتوں کی صحیح نشو و نما کر کے تم جنت میں بھی جاسکتے ہو اور ان قوتوں کی غلط نشو و نما کر کے جہنم میں بھی جاسکتے ہو.تجھے یہ اختیار دیا ہے اور تیری قوتوں کے نشو و نما کے سامان بھی پیدا کر دیئے ہیں یعنی ربوبیت کے مفہوم میں ہر قوت جو انسان کو بحیثیت مجموعی یا افراد انسانی کو بحیثیت فرد دی گئی ہے.اس کے کمال نشو ونما کے لئے اس مادی دنیا میں ضروری چیزیں پیدا کر دی گئی ہیں ورنہ تو یہ سارا سلسلہ کا ئنات ایک مذاق بن کر رہ جاتا.خدا تعالیٰ بندہ سے کہتا یہ لے قوت اور اس کی نشو ونما کر.وہ کہتا اے میرے رب! مجھے اپنی قوت کی نشو ونما کے لئے فلاں چیز کی ضرورت ہے.تو اگر اللہ تعالیٰ اسے یہ جواب دیتا کہ وہ تو میں تجھے نہیں دوں گا تو پھر تو یہ ایک مذاق بن جاتا حالانکہ اللہ تعالیٰ تو مذاق نہیں کرتا وہ تو کہتا ہے میں نے اس دنیا کوکھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ، یہ دنیا لہو ولعب نہیں ہے.غرض ایک طرف قو تیں پیدا کیں تو دوسری طرف ان کی نشوو نما کے لئے ضروری سامان بھی پیدا کر دیے.انسان اپنی خدا داد قوتوں کی نشو ونما کرتا ہے.پھر نشو و نما کر کے انہیں کسی لوہے کے صندوق میں بند تو نہیں کر دیتا اسے جو بھی قوتیں ملی ہیں وہ باہر نکل رہی ہوتی ہیں مثلاً ہماری قوت بینائی ہے.اگر ہم روئی بھر کر پیڈ بنا کر اپنی آنکھوں پر باندھ دیں تو ظاہر ہے ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آئے گا کیونکہ ہماری یہ قوت بینائی مادی دنیا کے ملاپ سے کچھ حاصل کرتی ہے.یہ ایک قوت ہے جو مادی دنیا کے ملاپ سے کام دیتی ہے.مثلاً روشنی کی کرنیں ہیں.آنکھ کے اندران سے عکس حاصل کرنے کی طاقت ہے دونوں کا ملاپ اس کو بینائی دے رہا ہے.پس جس طرح ہم آنکھیں بند نہیں کیا کرتے نہ کانوں میں روئی ٹھونسا کرتے ہیں نہ دوسرے مادی حواس کو معطل کر دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں الْحَمْدُ لِلَّهِ.ہمیں خدا تعالیٰ نے قوتیں دی ہیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ کہنا تو تب مناسب ہوتا جب ان کا صحیح اور کامل استعمال ہوتا اس کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو طاقتیں اور استعدادیں دی ہیں جتنا جتنا ہم ان کا استعمال کرتے اور ان کی نشو و نما کرتے چلے جاتے ہیں اتنا اتنا وہ چشمہ سے بہنے والے پانی کی طرح خود ہی

Page 367

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۴۷ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء Flow out ( فلو آؤٹ ) یعنی ابل کر باہر نکل رہی ہوتی ہیں اور اسی معنی میں نسل کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی انسانی قوتوں اور استعدادوں سے افعال اور اعمال خود بخو دسرزد ہونے لگتے ہیں مثلاً مال ہے، روپیہ پیسہ ہے سوائے چند کنجوس لوگوں کے جو دنیا میں ہرجگہ پائے جاتے ہیں باقی لوگ اپنے مال و دولت کو خرچ کرتے ہیں.روپیہ خرچ کے ذریعہ خود بخود ہماری جیبوں سے علیحدہ ہوتا رہتا ہے.اب مثلاً آپ اپنے بچے کو پڑھانے کے لئے استاد مقرر کرتے ہیں اور اسے روپے دیتے ہیں تو گویا اس طرح آپ کے ہاتھ سے روپیہ نکل گیا یا مثلاً گندم ہے آپ اسے کھاتے ہیں اسے Consume ( کنزیوم) کر جاتے ہیں گندم کی شکل میں کھاتے ہیں اس سے آپ کو مثلاً چلنے کی طاقت مل گئی آپ نے آٹھ میل سیر کی.کچھ طاقت آپ کے جسم سے نکل گئی.انسانی وجود کے اندر ساری قوتیں بند تو نہیں رہتیں.وہ انسانی جسم سے باہر نکل رہی ہوتی ہیں.غرض جسمانی طاقتوں کے Out Flow ( آؤٹ فلو ) کو باندھ دیا ہے نشوونما کے ساتھ.ہم جتنا جتنا ان طاقتوں کو استعمال کرتے ہیں اتنا ہی یہ چیزیں نشو و نما میں ممد و معاون بن جاتی ہیں.پس بنیادی طور پر یہی دو چیزیں اس دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر رہی ہیں مثلاً ایٹم کی ایجاد ہے.ایٹم پاور کی ایجاد ہے.دوسری مادی چیزیں ہیں جنہوں نے مختلف شکلیں اختیار کر رکھی ہیں.پھر یہ ساری یو نیورس ہے.یہ ذرائع پیداوار کی علامت ہے.ذرائع پیداوار کے اندر نسل یعنی انسانی طاقتیں تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں اور اس طرح یہ کام کی چیزیں بن رہی ہیں.گویا آسمان سے لے کر زمین تک ہم نے انسانی ہاتھ کا تصرف دکھا دیا مثلاً انسان چاند پر پہنچ گیا.اب چاند پر پہنچنے کے لئے آسمان سے کوئی اڑن کھٹولا تو نہیں آ گیا تھا.یہ انسان کی استعداد میں اور قو تیں تھیں جو پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہی تھیں یعنی سائنس دانوں نے فزکس کے اصول پر سائنسی تحقیق کی ان قواعد اور قوانین کے مطابق عمل کیا جو خدا تعالیٰ نے بنائے ہوئے ہیں تو وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے.اب مثلاً جو حساب دان سائنٹسٹ ہیں انہوں نے اپنی دریافت اور ایجاد کی بنیا د حساب پر رکھی.حساب بھی ایک سائنس اور فلسفہ بن گیا ہے.چنانچہ وہ از روئے حساب سوچ رہے تھے فکر و تدبر کر رہے تھے.خود ہمارے ڈاکٹر سلام بھی فکر و تدبر میں لگے رہتے ہیں اس کی

Page 368

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۴۸ خطبه جمعه ۱۱ را گست ۱۹۷۲ء کچھ خصوصیتیں علم طبعی سے ملتی ہیں.تاہم جہاں تک سائنسی تحقیق میں حساب کا تعلق ہے سائنس دان بے شمار اربعے لگاتے ہیں اور بڑی لمبی لمبی ضر ہیں اور قسیمیں کرتے ہیں.یہ چونکہ بڑا لمبا حساب بن جاتا ہے اس لئے انسان نے اس کو آسان کرنے کے لئے ایک مشکل سا مضمون بنادیا ہے جسے الجبرا کہا جاتا ہے.چونکہ مجھے یہ مضمون سکول کے زمانے میں مشکل لگتا تھا اس لئے میں نے اسے مشکل کہہ دیا ہے.بہر حال حساب کے مضمون کو آسان کرنے کے لئے لوگوں نے الجبرا بنا دیا.اور اس کی علامتیں بنالیں مثلاً کہہ دیا.ب.ج کا یہ مطلب ہے اور پھر لوگ اس سے اصولاً کچھ نتائج اخذ کرتے ہیں.چنانچہ سائنس دانوں نے انہی اصول وقواعد کے مطابق کچھ نتائج اخذ کئے اور چاند پر جانے کے قابل ہو گئے یا زمین میں اٹامک انرجی کو استعمال کرنے لگے وغیرہ وغیرہ.غرض سائنس دانوں نے اپنی خدا داد طاقتوں اور قوتوں کو قوانین قدرت کے مطابق استعمال کیا.آخر ایٹم کی طاقت کا پتہ کیسے لگا؟ یہ انسان کی طاقت تھی، یہ اس کی استعداد تھی جو اس کے جسم سے باہر نکل آئی گویا اس کی طاقت کی نسل ہو گئی.اس کا انفصال ہو گیا.یہ باہر نکلی اور نکلتی چلی جارہی ہے.یہ ایک چشمہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا.اسی طرح جب تک انسان زندہ ہے اس کی طاقتیں باہر نکلتی چلی جائیں گی.یہ ایک تبدیلی ہے جو مسلسل رونما ہوتی چلی جائے گی.پس حَزث سے مراد مادی ذرائع ہیں اور نسل انسان کی محنت ہے.انسان اپنی طاقتوں کو کام پر لگاتا ہے.یہ دو بنیادی چیزیں ہیں یہ دو بنیادی نعمتیں ہیں جو انسان کو دی گئی ہیں.انسان اپنی فطرتی اہلیت کے صحیح استعمال کرنے پر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن مفسد ان ہر دو قسم کی نعمتوں کو ہلاک اور برباد کر دیتا ہے.ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے وہ کبھی ایٹم بم سے زمین کی پیداوار کو ختم کر دیتا ہے کبھی وہ کیمیکل اجزاء چھڑک کر اچھے پودوں کو ضائع کر دیتا ہے.ایسے مفسد آدمی نے ایک وقت میں کہا یہ تھا کہ اس نے یہ کیمیکل اجزاء اس لئے بنائے ہیں کہ وہ ان سے مضرت رساں کیڑوں کو ہلاک کرے گا لیکن جب وہ تحقیق کرتے ہوئے ایسے کیڑوں پر پہنچا جو مفید ہیں مضرت رساں نہیں تو ایسے مفسد اور ناشکرے انسان نے ان کیڑوں کو بھی ہلاک کر دیا.اب مثلاً یہ اینٹی بائیوٹک وغیرہ قسم کی دوائیاں ہیں.اللہ تعالیٰ معاف کرے کبھی مجبوری ہو تو

Page 369

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۴۹ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء استعمال کرنی پڑتی ہیں مگر ان کے غلط استعمال سے وہ بے شمار کیڑے جو مفید اور زندگی رکھنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں مثلاً انسان کے معدے، جگر اور انتڑیوں میں پیدا کیا ہے اور وہ نظام ہضم میں مد و معاون ہیں.یہ ایک نابینا ہتھیار (اینٹی بایوٹک ادویہ ) انسان کے جسم میں جو مضرت رساں کیڑے ہیں یعنی پیچش اور ہیضہ کے کیڑے ہیں ان کا بھی قتل عام کر دیتا ہے اور جو مفید کیڑے ہیں اُن کا بھی قتل عام کر دیتا ہے.بہر حال میں بتا یہ رہا ہوں کہ یہ ہماری استعدادیں ہیں جو باہر نکلیں ان کا صحیح استعمال کرنے والے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں صالح کہلائے اور ان کا غلط استعمال کرنے والے مفسد کہلائے قرآن کریم نے کہا ہے کہ تم ان مفسدوں کے کاموں کا بھی جائزہ لو، غور اور تحقیق کرو اور ان کے دل اور معدہ کو پھاڑ و یعنی ان کی تھیوریز جس رنگ میں رو بہ عمل ہیں اور ان کی طاقتیں جس رنگ میں باہر نکل کر کام کر رہی ہیں اور جس رنگ میں ان کی استعداد میں مادی اشیاء میں کام کر رہی ہیں ان کو غور سے دیکھو تو تمہیں نظر آئے گا کہ ہلاکت کی تینوں قسمیں ان کے اندر پائی جاتی ہیں.یہ ہے مفسد جسے قرآن کریم نے آل الْخِصَامِ “ بھی کہا ہے.اب جہاں تک مادی ذرائع پیداوار کا تعلق ہے اس کی ایک تو بہت خطرناک شکل ایٹم کی طاقت کے غلط استعمال کی شکل میں نظر آتی ہے.دوسرے کارخانوں کا بند رہنا ہے.کارخانہ بھی ایک ذریعہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کی بہتری کے لئے پیدا کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی اور اس نے مادی ذرائع کو بروئے کار لا کر کارخانہ قائم کر دیا.اب جس دن کا رخانہ بند رہا اس دن کی پیداوار سے نہ صرف مزدور بلکہ بنی نوع انسان اور ملک بھی محروم ہو گیا.ایک کارخانہ مثلاً دولاکھ گز کپڑا ایک دن میں تیار کرتا ہے اگر وہ کارخانہ تالہ بندی یا ہڑتال کی وجہ سے ایک دن بند رہتا ہے تو اس ملک کے باشندے دولاکھ گز کپڑے سے محروم ہو گئے.غرض اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے اس کے کیا نتیجے نکلے یہ ایک الگ اور مستقل مضمون ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ فساد پیدا ہو گیا.حقوق کی ادائیگی پر یہ چیز بہر حال اثر انداز ہوگی مثلاً کپڑے کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے قیمتیں چڑھ جائیں گی وہ غریب آدمی جو یہ سوچ رہا تھا کہ اب میرے پاس اتنے

Page 370

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۵۰ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء پیسے ہو گئے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو کپڑے بنادوں.اس کے پاس اتنے پیسے نہیں رہیں گے کیونکہ کپڑے کی قیمت زیادہ ہو گئی اب اس کے پاس اتنے پیسے نہیں رہے کہ وہ کپڑ ا خرید سکے.پھر وہ کہے گا کہ میں پانچ دن اور مزدوری کرتا ہوں تا کہ بچوں کے کپڑے بن جائیں.یہ بیچارے مزدور کا حال ہے.دوسرے ملکوں میں بھی اس کا یہی حال ہے حتی کہ چین میں بھی موجودہ حکومت سے قبل یہی حال تھا.چین کی جو اقتصادی اور معاشرتی خوبیاں ہیں موجودہ حکومت کے وقت وہ ہم بیان کرتے ہیں کیونکہ قرآن کریم نے شراب اور جوئے کی بھی خوبی بتائی ہے.بہر حال پرانے چین میں ایک قصہ بتایا جاتا ہے کہ ایک عورت برابر ۲۳ سال تک پیسے جوڑتی رہی اس نیت کے ساتھ کہ وہ اپنی بیٹی کو ایک گرم جوڑا سلوا دے مگر وہ ایک جوڑا تک نہ بنوا سکی کیونکہ ہوتا یہ رہا کہ جب وہ ایک حد تک پیسے جمع کر لیتی تو قیمتیں پھر بڑھ جاتیں.یہاں تک کہ وه ۲۳ سال میں ایک گرم جوڑا نہ خرید سکی.چنانچہ آپ خود دیکھ لیں پچھلے ۲۵ سال میں قیمتیں کہاں سے کہاں چلی گئیں.یہ ایک فساد ہے.یہ فساد دور ہونا چاہیے.جو شخص اس فساد کو دور کرے گا ہم اس کی تعریف کریں گے خواہ وہ چیئر مین ماؤزے تنگ ہوں یا کوئی اور ہو.اس حقیقت کے باوجود کہ پورا فساد وہ بھی ہمارے نزدیک دور نہیں کر سکے کیونکہ انسان کے پاس ایسی تعلیم ہی نہیں.قرآن کریم کو وہ مانتے ہی نہیں.میں کہا کرتا ہوں کہ وہ پچاس فیصد فساد دور کرنے کے قابل ہو گئے ہیں.کیونکہ پچاس فیصد حقوق کی ادائیگی کے قابل ہو گئے ہیں مگر اسلام سو فیصد حقوق کی ادائیگی کی ضمانت دیتا ہے.اس کے برعکس چینی سوشلسٹ پچاس فیصد حقوق دیتے ہیں.میں نے یہاں کئی مسلمان لیڈروں سے کہا ہے کہ بیچارے غریب مزدوروں نے تمہارا کیا قصور کیا ہے کہ تم ان کو یہ کہ رہے ہو کہ پچاس پر راضی ہو جاؤ اور دوسرے پچاس کا مطالبہ نہ کرو جو اسلام انہیں دے رہا ہے.تاہم جو شخص مزدور کو پچاس فیصد حقوق دے رہا ہے وہ اس شخص سے بہت اچھا اور قابل تعریف ہے جو مزدور کو یا تو کچھ بھی نہیں دے رہا اور اگر دے رہا ہے تو وہ ہیں پچیس فیصد سے زیادہ نہیں ہے.اسلام نے ہمیں یہ بنیادی تعلیم سکھائی ہے کہ کسی شخص کو آنکھیں بند کر کے برا بھلا نہ کہو جو اس

Page 371

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۵۱ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء کی برائی ہے اسے بیان کر و اصلاح کی خاطر اور اس کی جو خوبی ہے وہ بیان کرو دوسروں کے لئے ایک سبق کے طور پر.بہر حال اگر کوئی میل یا کارخانہ ایک دن کے لئے بھی بند ہو جاتا ہے تو اس میں مالک بھی قصور وار ہے اس نے تالہ بندی کی نیم اجازت سے غلط فائدہ اٹھایا اور فساد کا موجب بنا دوسری طرف ہڑتال کرانے والا جو لیڈر ہے وہ بھی فساد کرنے والا ہے.اس کو مزدور سے کوئی پیار نہیں ہوتا وہ مزدوروں سے کہتا ہے ہڑتال کر دو مگر خود گھر میں آرام سے بیٹھا رہتا ہے.یہ دونوں پہلو موجب فساد ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام کہتا ہے مزدوروں کے سارے حقوق ادا کرو لیکن اسلام یہ بھی کہتا ہے مالک کے سارے حقوق بھی ادا کرو.ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ مالک کے سارے حقوق ادا کرو لیکن ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام یہ بھی کہتا ہے مزدور کے بھی سارے حقوق ادا کرو اور اس کی ہر تکلیف کو دور کر دو.اس واسطے نہ اس سے پیار اس کے مالک ہونے کے لحاظ سے اور نہ مزدور سے پیار مزدور ہونے کے لحاظ سے ہمیں پیار ہے اپنے انسانی بھائی سے انسان ہونے کے لحاظ سے یعنی مزدور ہونے کی خصوصیت ہمارے اندر پیار نہیں پیدا کرتی.مالک ہونے کی خصوصیت ہمارے دل میں ان کا پیار پیدا نہیں کرتی بلکہ خدا تعالیٰ کے پیدا کر دہ بندے ہونے کے لحاظ سے اور اس نوع سے تعلق رکھنے کی وجہ سے جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات قرار دیا ہے.اس لحاظ سے ہمارے دل میں ان کی محبت پیدا ہوتی ہے.بحیثیت انسان دونوں کی عزت ہوگی.البتہ جو شخص بھی ظلم کرے گا ہم اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کریں گے.تاہم یہ صحیح ہے کہ آج کی دنیا میں زیادہ ظلم بیچارے مزدور ہی پر ہو رہا ہے.یعنی غیر بھی اس کے لئے ظالم اور اپنے بھی ظالم.میں نے کئی مزدور لیڈروں سے کہا کہ دیکھو انگلستان میں لوگ ہڑتال کرتے ہیں ان کے لیڈر کہتے ہیں تم فکر نہ کرو تمہیں جو تنخواہیں مل رہی تھی اس کے مطابق چھ مہینے کے پیسے ہمارے پاس موجود ہیں تم دو مہینے کے لئے ہڑتال کرو.ہم تمہیں پیسے دیں گے یا انہوں نے بعض اور قسم کے فارمولے بنائے ہوئے ہیں.اس سے فساد تو پیدا ہو گا مگر اس کی شدت وہ نہیں جو ہمارے ملک میں محسوس کی جاتی ہے.یہاں مزدور لیڈر کہتے ہیں کہ ہڑتال کر دو مگر ہم روٹی ایک دن

Page 372

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۵۲ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء کے لئے بھی تمہیں نہیں دیں گے تو پھر تم کہاں سے ان کے ہمدرد بن بیٹھے ہو؟ میں نے پچھلے سال ایک مزدور لیڈر سے کہا تھا کہ دیکھو تم جب ہڑتال کراؤ گے تو جب تک بیچارے مزدور کے دل میں جذبہ ہے وہ قربانی دیتا چلا جائے گا.اس کے گھر میں جو جنس پڑی ہے وہ چپ کر کے کھالے گا اور کہے گا ہمارے مزدور لیڈر نے کہا ہے ہڑتال کرنی ہے سو میں ہڑتال میں شامل ہو جاتا ہوں.مگر جب یہ ہڑتالوں کا سلسلہ لمبا ہو جائے گا تو پھر وہ اپنا سامان بیچنا شروع کر دے گا اور اس طرح اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالے گا.کیونکہ وہ بھوکا تو نہیں رہ سکتا.پھر جس وقت اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا تو اسے ہوش آئے گا اور وہ واپس پلٹے گا.تو اس وقت وہ مالک کا گریبان نہیں پکڑے گا اور اس کے پیٹ میں چھر انہیں گھونپے گا بلکہ وہ تمہاری ( مزدور لیڈر کی ) گردن پکڑے گا.وہ سوچے گا میرا مالک ظالم تھا مگر وہ پھر بھی میرا آدھا پیٹ تو بھر دیتا تھا میرا مزدور لیڈر اس سے بھی بڑھ کر ظالم ہے.اس نے مجھے بالکل ہی بھوکا مار دیا ہے.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ بیچارہ مزدور ہر دو لحاظ سے مظلوم ہے.جب اس کا مالک کارخانے کو مقفل کر دیتا ہے تب بھی اس پر ظلم ہوتا ہے اور جب اس کا لیڈر بیوقوفی سے اس سے ہڑتال کرواتا ہے تب بھی اس پر ظلم ہوتا ہے اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ جب کبھی اسلام زندہ باد کا نعرہ لگوانے والے اسے جلوس میں آگے کر دیتے ہیں.تب بھی اس پر ظلم ہوتا ہے نہ نعرہ لگوانے والوں کو اسلام کا پتہ اور نہ اس بیچارے کو اسلام کا کوئی علم دیا گیا نہ اسلام کے متعلق کچھ پڑھایا گیا اور نہ اسلام کی حقیقی روح کا اس کو کچھ پتہ ہے اس صورت میں اس مظلوم مزدور کا ایک ہی ہمدرد ہے اور وہ ہے اسلام ، وہ ہے قرآن کریم کی یہ حسین تعلیم جسے اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے سے فقرے میں بیان کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں تک حرث کا تعلق ہے لوگ فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں یعنی ذرائع پیداوار سے انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر جتنی پیداوار حاصل کر سکتا ہے اس کے راستے میں وہ روک بن جاتے ہیں.انسانی طاقتوں اور قوتوں کے استعمال میں مخل ہوتے ہیں.اس لئے کہ ذرائع پیداوار کے ساتھ جب تک محنت شامل نہ ہو اس وقت تک کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.چنانچہ

Page 373

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۵۳ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء انسانی قوتوں اور استعدادوں کے تعطل کی وجہ سے انسان کو گو یا بھوکا مار دیا.اس کی قوتوں کی نشوونما میں روک پیدا کر دی.اس کا جتنا دماغ تھا اس کے مطابق اس کے لئے سامان نہیں پیدا کئے.مثلاً ایک غریب آدمی ہے اس کے گھر ایک ذہین بچہ پیدا ہو جاتا ہے.دسویں تک تو وہ اسے جوں توں کر کے پڑھاتا ہے مگر پھر اس کی غربت آڑے آتی ہے بچے کو پڑھائی چھوڑنی پڑتی ہے.اب وہ لڑکا جو مثلاً ڈاکٹر سلام کا ہم پلہ بن سکتا تھا اس کا دماغ اور اس کی ذہانت ضائع ہو جاتی ہے.وہ کلر کی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے.ہمارے پھوپھا جان حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ دھوبی کے لئے اشتہار دیا تو ایک بی.اے یا ایم.اے پاس کی درخواست آگئی وہ تو خیر پڑھ گیا تھا پھر بھی اس کو ملازمت نہ ملی لیکن کسی بیچارے کو تو مزید پڑھنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا.پس یہ نسل کشی ہے.نسل کشی کا صرف یہی مطلب نہیں ہوتا کہ غلط فیملی پلاننگ کی جائے یا بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیا جائے یا انہیں بھوکا رکھ کر مار دیا جائے یا جس طرح بعض ظالم عیسائی بادشاہ کیا کرتے تھے کہ پہلے وہ عیش کرتے اور پھر نا جائز بچوں کو قتل کر کے تہہ خانوں میں پھنکوا دیتے یہ اور اس طرح کے ہزاروں ظلم ہیں جو انسان انسان پر کر رہا ہے.غرض قوتوں اور استعدادوں کا ضیاع بھی نسل کشی ہے.اللہ تعالیٰ نے در حقیقت بنیادی طور پر ہمیں دو ہی چیزیں دی ہیں اور یہ ایک ایسی بڑی نعمت ہے جو نہ ہمارے تصور میں آسکتی ہے اور نہ اس کی وسعتوں کا احاطہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس پر اللہ تعالیٰ کا کما حقہ شکر ادا کیا جا سکتا ہے.ایک تو انسان کے اندر یعنی انسانی فطرت کے اندر جو استعدادیں پیدا کیں اور ان استعدادوں کی کامل نشو و نما ہے.تسخیر کائنات کے لئے اور دوسرے انسان کی بہبود کے لئے تخلیق کا ئنات یعنی اس عالمین کی مادی اشیاء یا ذرائع پیداوار ہیں.یہ دونوں چیزیں ہیں یعنی مادی ذرائع پیداوار اور ان سے کما حقہ مستفید ہونے کے لئے.(۲).انسانی قوتیں اور استعدادیں.ایک کو قرآن کریم کہتا ہے حرث اور دوسرے کو نسل.ایک وہ ہے جس کو انسان تیار کرتا ہے.پھر اس سے کچھ حاصل کرتا ہے.بعض دفعہ اچھی نیت سے بعض دفعہ بری نیت سے

Page 374

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۵۴ خطبہ جمعہ ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء بہر حال انسان جس چیز کو تیار کرتا ہے اس سے پیار کرتا ہے.مثلاً زمین کو تیار کرتا ہے تا کہ اس سے گندم حاصل کرے، کپاس حاصل کرے وغیرہ وغیرہ.وہ کارخانوں کو تیار کرتا ہے کارخانے بھی مادی چیزوں کی تیاری کی جگہ ہیں.کچھ اینٹیں ہیں، کچھ لوہا ہے، کچھ مشینری ہے.یہ ساری چیزیں مل کر کا رخانے کی شکل اختیار کرتی ہیں.تاکہ انسان اس سے مثلاً کپڑا پیدا کرے یا اس سے کھاد پیدا کرے یا فولاد پیدا کرے یا اس میں موٹریں بنائے وغیرہ.اب تو بے شمار قسم کی چیزیں بننے لگی ہیں.بے شمار سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کو گن نہیں سکتے.اللہ تعالیٰ کو تو ان سب کا علم ہے.غرض ایک مادی ذرائع پیداوار اور دوسرے انسانی استعداد یں.یہ دو بنیادی چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں اور ایک مفسد ان دونوں کی ہلاکت کا موجب بنتا ہے یا ہلاکت کی کوشش میں مشغول نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مفسد بھی بنو یعنی جو مادی ذرائع پیداوار ہیں ان کو تم ہلاک کرو.ان کو تم ضائع کرو.دوسرے جو تمہیں استعداد یں دی ہیں ان سے تم غفلت بر تو اور ان کی نشو ونما نہ کرو.ان کا صحیح استعمال نہ کرو اور پھر یہ سمجھو کہ میں تمہارے ان بداعمال اور مفسدانہ اعمال کا صالحانہ اعمال جیسا نتیجہ نکال دوں گا تو یہ خیال غلط ہے.ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ مفسدوں سے پیار نہیں کرتا یعنی جو لوگ حرث اور نسل کو فساد میں مبتلا اور معرض ہلاکت میں ڈالتے ہیں.اس کے نتیجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کا پیار تو نہیں ملے گا.اس کے نتیجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کا قہر ملے گا.اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی جہنم انہیں ملے گی.اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کی رضا کی جنتیں تو ان کو نہیں ملیں گی.اسی واسطے میں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ یونس میں فرمایا ہے.إِنَّ اللهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ (يونس: ۸۲) مفسد کے عمل کا نتیجہ صلاح نہیں ہو سکتا.مفسدانہ اعمال کا نتیجہ صالح اعمال جیسا نہیں نکلا کرتا.اب اس وقت یوں تو ساری دنیا میں فساد کی وبا پھیلی ہوئی ہے.امریکہ میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی فتنہ وفساد کی آگ مختلف شکلوں میں پھیلی ہوئی ہے لیکن ان ملکوں میں جن میں ظالم اور مفسد ملکوں کی ریشہ دوانیاں بڑی کثرت سے ہورہی ہیں.ان میں خصوصاً یہ وبا زیادہ

Page 375

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۵۵ خطبه جمعه ۱۱ راگست ۱۹۷۲ء ہے.ہمارا ملک بھی بدقسمتی سے ایسے ہی ممالک میں شامل ہے اور اس سے بھی زیادہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کی اکثریت کے ہاتھ میں قرآن تو ہے لیکن کوئی بھی اس کو کھول کر پڑھتا نہیں.پہلے تو اس بیماری کا احساس ہی نہیں اگر کسی کو اس کا احساس ہے تو وہ اس کے علاج کی طرف متوجہ نہیں.گو بعض دفعہ بیمار اتنا بے حس ہو جاتا ہے کہ اس کو بیماری کا احساس تک نہیں رہتا لیکن اگر بیماری کا احساس تو ہومگر اس کے علاج کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے تو یہ اور بھی زیادہ خطر ناک بات ہے.چنانچہ اسی حقیقت کے متعلق یعنی بیماری کے اس مفہوم سے مجھے ایک بزرگ کی رؤیا یاد آگئی.ہمارے ایک بزرگ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی سے چند سال قبل تمثیلی زبان میں مین حرم مکہ میں ایک رؤیا دکھائی گئی.انہوں نے دیکھا کہ ایک چار پائی ہے اس پر ایک بیمار لیٹا ہوا ہے اس کے اردگرد بہت سے اطباء جمع ہیں.وہ اس کے علاج کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بیمار کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا.ان کو رویا ہی میں یہ دکھایا گیا کہ چند قدم کے فاصلے پر ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور خواب ہی میں بتایا گیا کہ اگر یہ شخص توجہ کرے تو بہمارا اچھا ہو جائے گالیکن وہ شخص تو جہ نہیں کرتا.اتنے میں ان کی آنکھ کھل گئی.مگر تعبیر سمجھ نہ آئی.بڑی پریشانی پیدا ہوئی حج کر کے واپس آئے اور اپنے ایک بزرگ جن کی انہوں نے بیعت کر رکھی تھی ، ان کو خط لکھا کہ میں نے خانہ کعبہ میں یہ خواب دیکھا ہے.مجھے اس کی تعبیر سمجھ نہیں آرہی اور میں بڑا پریشان ہوں.مجھے اس کی تعبیر بتائیں چنانچہ انہوں نے لکھا کہ تمہاری اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ جو تم نے بیمار دیکھا ہے وہ اسلام کی آج کی حالت ہے.جو تم نے اس کے گرد اطباء دیکھے ہیں وہ میرے تمہارے جیسے طبیب ہیں جن کے علاج سے اسلام کی اس وقت جو بیماری کی حالت ہے اس سے اس کو آرام نہیں آسکتا اور جو تم نے چند قدم کے فاصلے پر ایک شخص بیٹھا ہوا دیکھا اور تمہیں یہ بتایا گیا کہ اگر یہ توجہ کرے تو بیمار کو آرام آ سکتا ہے تو وہ مہدی معہود ہے.تمہیں خواب میں زمانہ ( کیونکہ چند سال کے بعد مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت ہوئی ) مکان کی شکل میں دکھایا گیا ہے.چند قدم کا مطلب یہ ہے کہ چند سالوں کے بعد اس کا ظہور ہوگا.چنانچہ چند سالوں کے بعدحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت ہوئی.غرض اس رؤیا کی تعبیر یہ تھی کہ جب مہدی معہود

Page 376

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۵۶ خطبه جمعه ۱۱ اگست ۱۹۷۲ء آجائیں گے تو اسلام کی بیماری کی کیفیت دور ہو جائے گی.پس فسادی کے فساد کو دور کرنے کی کوشش وہی آدمی کر سکتا ہے جس کو ایک تو علم ہو کہ فساد بری چیز ہے.دوسرے اس کو یہ علم ہو کہ اس کو دور کس طرح کیا جاسکتا ہے.تیسرے ایسی جماعت کے ساتھ اس کا تعلق ہو جس کے متعلق یہ پیشگوئی ہو کہ وہ اس بیماری کو دور کرے گی اور اس سے مراد جماعت احمدیہ کے افراد ہیں اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا.اس لحاظ سے ہماری بڑی ذمہ داری ہے.یہ ذمہ داری مجھ پر بھی اور آپ پر بھی.مردوں پر بھی اور عورتوں پر بھی اور خصوصاً نو جوانوں پر عاید ہوتی ہے.یوں تو میری دعا ہے اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو لمبی زندگی عطا فرمائے لیکن عام حالات میں چونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بڑی عمر والوں کی نسبت نوجوانوں نے زیادہ عرصہ اس دنیا میں زندہ رہنا ہوتا ہے.اس لئے احمدی نوجوانوں سے میں خاص طور پر یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر کچھ حقوق عاید کئے ہیں.ان میں تمہارا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ نہ صرف اپنے نفس کے حقوق کو پورا کرو بلکہ دوسروں کے حقوق بھی ادا کرو.تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ حق عطا فرمایا ہے کہ تم دنیا کے رہبر اور قائد بنو.تم دنیا کے معالج اور طبیب بنو.پھر کیوں تم اپنے ان حقوق کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اپنے ان حقوق کو لینے کی کوشش نہیں کرتے.میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے کہ ہم صالح بنے رہیں مفسد نہ بنیں ہمیشہ صلاح کی کوشش کرتے رہیں.جہاں بھی فساد ہو اس کو دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں اور اس کارخیر میں بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہوں تا وہ جو آج مظلوم ہے اسے اس کے سب حقوق مل جائیں.آمین روزنامه الفضل ربوه ۱۶ ستمبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۱ تا ۸)

Page 377

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۵۷ خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۷۲ء دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک سے فتنہ وفساد کو دور کر دے خطبه جمعه فرموده ۱۸ اگست ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہاؤس.کاکول.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام نے نفس پر جائز سختی کا حکم بھی دیا ہے اور ناجائز سختیاں کرنے سے روکا بھی ہے.جہاں کسی نفس کا حق نہیں بنتا اسے وہ نہیں ملنا چاہیے.چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :.وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ - اس ارشاد کی رو سے انسانی نفوس کے جو بھی حقوق قائم کئے گئے ہیں.وہ حقوق ادا ہونے چاہئیں.اسی طرح دین اللہ یسر کی رو سے احکامِ شریعت اسلامیہ کی ادائیگی میں بشاشت پیدا کرنے کے سارے طریق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر دیئے ہیں.لیکن کسی وقت جہاد کے دوران میں انسان کو بارش میں بھی بعض دفعہ تو چوبیس گھنٹے اپنے فرائض کو ادا کرنا پڑتا ہے.چنانچہ جب فرقان بٹالین قوم کی خدمت کے لئے محاذ پر پہنچی تو وہاں جو بٹالین تھی اس نے آخری لائن پر ہونے کے باوجود بنکر بنائے ہی نہیں تھے.چنانچہ فرقان بٹالین نے ادھر بنگر یعنی مورچے بنانے شروع کئے اور ادھر بادلوں نے مینہ برسانا شروع کر دیا.ہم نے مجاہدین کو لنڈے سے یو نیفارم خرید کر دی تھی کیونکہ حکومت ان کو یونیفارم نہیں دے رہی تھی.جماعت

Page 378

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۵۸ خطبه جمعه ۱۸ اگست ۱۹۷۲ء یونیفارم پر خرچ کرتی تھی.سات دن کے بعد میں پہلی دفعہ محاذ پر گیا تو میں نے وہاں یہ نظارہ دیکھا کہ بعض نوجوان احمدیوں کی قمیصوں کی آستینیں ہیں مگر دھڑ غائب ہے بعض کی قمیصوں کے دھڑ ہیں اور آستینیں غائب ہیں.کیونکہ لنڈے کے پرانے کپڑے تھے پتہ نہیں وہ کتنی دیر استعمال شدہ تھے.ان میں کوئی جان نہیں تھی سات دن کی بارشوں اور سختیوں نے یہ حال کر دیا تھا کہ وہ تار تار ہو چکے تھے لیکن انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی.بارش میں بھی کام کرتے رہے.جب کام کرنا ہو اور کام ضروری ہو تو وہ بارش میں بھی ہو گا لیکن جہاں نمازوں کا سوال تھا اس کے متعلق صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ بھی کہہ دیا.بعض ایسے حالات ہوتے ہیں جن میں مسجد میں آنے کی ضرورت نہیں ہوتی اعلان ہو جاتا ہے کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھو.نماز کی جو جان ہے وہ تو جہ کو قائم رکھنا ہے.اب جس آدمی کے سر پر بارش کے قطرے گر رہے ہوں کبھی وہ کانوں کو کھجلائے اور کبھی وہ آنکھوں کو صاف کرے تو ظاہر ہے وہ تو جہ سے نماز نہیں پڑھ سکتا وہ نماز میں قیام اور رکوع اور سجدے تو کر سکتا ہے لیکن اس کی تو جہ قائم نہیں رہ سکتی اس واسطے جس حد تک ممکن ہو تو جہ کو قائم رکھنا چاہیے.خطبہ جمعہ کو سننا بھی اس لئے ضروری ہے کہ ایک تو یہ ہماری عبادت کا حصہ ہے دوسرے یہ ہفتہ میں ایک بار یعنی جمعہ کے روز دیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے امام پر بڑی سخت ذمہ داری ڈال دی ہے اسے لوگوں کی تربیت کے لئے کچھ نہ کچھ بیان کرنا پڑتا ہے.یہ بڑی سخت ذمہ داری ہے میری زندگی میں خلافت کے بعد ہفتے کے سات دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے سخت دن ہوتا ہے کیونکہ میرے مقام کے لحاظ سے کوئی ایسی بات منہ سے نہیں نکلنی چاہیے جو ٹھیک نہ ہو یا درست نہ ہو یا مفید نہ ہو یا ضروری نہ ہو یا پھر جماعتی تربیت اس کی محتاج نہ ہو.اس لئے مجھے بڑی استغفار کرنی پڑتی ہے.بڑی دعائیں کرنی پڑتی ہیں بڑا غور کرنا پڑتا ہے.بڑا سوچنا پڑتا ہے اس لئے میرے لئے یہ دن بڑا سخت ہوتا ہے (اس اثناء میں چونکہ بارش کچھ زیادہ تیز ہو گئی تھی اور احباب ابھی تک شامل ہو رہے تھے اس پر حضور نے فرمایا) دوست اندر آجائیں ہمارے دل بڑے وسیع ہیں.یہ برآمدہ بھی بڑا وسیع ہے.یہاں اگر میں آپ کو باہر بٹھا دیتا اور آپ اپنے

Page 379

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۵۹ خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۷۲ء کانوں کو کھجلاتے رہتے اور آپ کے کان کے سوراخ خطبہ سننے کے قابل نہ ہوتے تو پھر تو ہمارا یہاں جمعہ پڑھنا ہی بے فائدہ تھا.ہم نماز پڑھتے اور جن دوستوں نے جلدی جانا تھا وہ اپنے گھروں کو چلے جاتے بہر حال خطبہ جمعہ کے متعلق یہ تاکیدی ارشاد ہے کہ خطبہ اتنی توجہ اور خاموشی سے سنا جائے کہ پاس بیٹھا آدمی اگر بولے بھی تو اسے منع کرنے کی طرف انسان کی توجہ نہ ہو ایسے شخص کو منع کرنے سے بھی روکا ہے کیونکہ اس سے اور زیادہ شور مچے گا.دوسری بات آج میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ملک میں اس وقت بڑا فتنہ وفساد برپا ہے.اس سلسلہ میں میں پہلے بھی دو خطبے دے چکا ہوں.آج میں بنیادی طور پر جو ہماری ذمہ داری ہے احباب کو اس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.ہمیں بڑی دعائیں کرنی چاہئیں مفسد عجیب طرح کے فتنے سوچتا ہے.مثلاً ۱۹۵۳ ء میں جو فسادات ہوئے تھے عام طور پر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فسادات احمدیوں کے خلاف تھے.ایسا نہیں تھا بلکہ ان کی شکل یہ تھی کہ ایک وقت تک ”مرزائیت مردہ باد کے نعرے لگتے رہے اور پھر ایک خاص وقت پر آکر مرزائیت مردہ باد کا نعرہ زبان پر آیا ہی نہیں بلکہ حکومت مردہ باد کے نعرے لگنے لگے.چنانچہ جب بھی فساد شروع ہوتا ہے ہمیں گالیاں دینے سے شروع کرتے ہیں اور ختم کرتے ہیں حکومت کے خلاف نعرے لگانے پر اور اس کے خلاف سخت فساد پیدا کر کے حکومت کا تختہ الٹنے پر.یہ ایک آسان طریق ہے کہ زور اور طاقت حاصل کرنے کے لئے پہلے وہ ہمارے خلاف نعرے لگاتے ہیں یعنی ابتداء ہمارے خلاف نعرے لگانے سے ہوتی ہے اور اس کی انتہا حکومت کے خلاف فتنہ اور فساد پر ہوتی ہے.پس دوستوں کو بڑی دعا کرنی چاہیے.اب نعرے بھی لگ رہے اور خفیہ سکیمیں بھی بن رہی ہیں اس خیال کے ماتحت کہ شاید ہمیں پتہ نہیں لگے گا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جہاں بھی شرارت کی باتیں ہوتی ہیں تو انہی میں سے کوئی شخص آکر بتا دیتا ہے کہ فلاں جگہ اس قسم کی شرارت کی بات ہو رہی ہے اگر چہ ہم بڑے غریب ہیں ہمارے پاس سامان نہیں ، سیاسی اقتدار نہیں، حکومت نہیں ہم تو خدا تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں تاہم ہماری جماعت ایک ایسی جماعت ہے جس کے دل میں یہ تڑپ ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے.اسلام کے مقابلے میں تمام ادیان باطلہ

Page 380

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۱۸ اگست ۱۹۷۲ء مٹ جائیں.سارے اندھیرے جاتے رہیں.اسلام کا نور ساری دنیا میں پھیل جائے.لوگ اپنے اپنے کاموں میں مگن ہیں کسی کو اسلام کی اشاعت کا فکر نہیں اور نہ اسلام کا درد ہے.یہ جماعت احمد یہ ہی ہے جس کے دل میں اسلام کا درد ہے اس لئے ہمارا فکر اور ہمارا تد بر ہمارا پڑھنا اور ہماراسننا، ہمارا سونا اور ہمارا جا گنا اسلام کی ترقی کے لئے وقف ہے.لیکن دشمن یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقتور ہے.دشمن یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقتور ہے ملک کے حاکموں کے مقابلے میں.دشمن یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقتور ہے پاکستان کے مقابلے میں ، اس لئے وہ اسے مٹانا چاہتا ہے.غرض اس وقت کئی خیالات ہیں جولوگوں میں چکر لگارہے ہیں.تاہم جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے ہمارے پاس کچھ نہیں.مجھے تو یہ کہتے ہوئے ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی کہ میں بڑا غریب ہوں میں سے مراد جماعت احمد یہ ہے کیونکہ جماعت احمد یہ اور اس کا امام ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.بہر حال ہمارے پاس نہ کوئی سیاسی اقتدار ہے اور نہ سیاسی اقتدار کے لئے اپنے اندر کوئی دلچسپی محسوس کرتے ہیں.نہ ہمارے پاس تلوار ہے اور نہ بندوق ہے اور نہ کوئی اور سامان ہیں.لیکن ایک ہتھیار اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا دیا ہے جس کے مقابلے میں کوئی ہتھیار ٹھہر نہیں سکتا اور وہ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا ہتھیار ہے.انسان جب اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عاجزانہ طور پر جھکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کے لئے آتا ہے.چودہ سوسال کی اسلامی تاریخ میں ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے جب کبھی شکست کھائی یا دشمن سے مار کھائی یا دشمن کے ہاتھوں ذلت اٹھائی تو وہ اسلام کو چھوڑ کر اور خدا تعالیٰ سے دور ہو کر اٹھائی.پس دوستوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ایک زبردست ہتھیار ہے تم اسے استعمال کرو اور بہت دعائیں کرو.صرف اپنے لئے نہیں صرف اپنوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے ملک کے لئے بلکہ اپنے دوستوں کے لئے جن کا جماعت کے ساتھ تعلق نہیں حکومت کے لئے اور پھر اپنے دشمنوں کے لئے بھی دعا کر و حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ شخص ابھی پختہ ایمان والا نہیں ہوا جو اپنے دشمن کے لئے دعا نہیں کرتا.ویسے ہماری تو کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہے لیکن جس

Page 381

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۶۱ خطبه جمعه ۱۸ اگست ۱۹۷۲ء کو ہمارے ساتھ دشمنی ہے اس کے لئے بھی ہم دعا کریں گے.اللہ تعالیٰ اسے عقل اور سمجھ عطا فرمائے.وہ اپنی تباہی اور ملک کی تباہی کے سامان پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے.بہر حال ہم عاجز بندے ہیں اور یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے ہم اسے بھولے تو نہیں.اللہ تعالیٰ کے نشان دیکھنے پر بھی اتنا زمانہ نہیں گذرا کہ ہم یہ کہیں کہ پہلوں نے نشان دیکھے تھے.ہمیں کیا معلوم ہے نہیں ! ہمیں بھی معلوم ہے کیونکہ ہم بھی روز یہ نشان دیکھتے ہیں.کوئی پشاور میں نشان نظر آ رہا ہے کوئی نشان گوجرانوالہ میں نظر آرہا ہے.کوئی گجرات میں نظر آ رہا ہے.کوئی سیالکوٹ میں نظر آرہا ہے.کوئی نشان ملتان، بہاولپور اور کراچی غرض سارے پاکستان میں یہاں تک کہ ساری دنیا میں نشان نظر آ رہے ہیں.ہمارا رب بڑا ہی پیار کرنے والا ہے اگر ہم اس سے بے وفائی نہ کریں تو وہ انسان سے کہیں زیادہ وفادار ہے اگر ہم اس کے شکر گزار بندے بنیں تو وہ ہمیں اپنے فضلوں سے بہت زیادہ نوازتا ہے اسی لئے اس نے قرآن کریم میں فرمایا: - لَبِنُ شَكَرْتُهُ لا زيد تكُم (ابراهیم : ۸ ) پس اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے.بعض لوگ جو ابھی احمدی نہیں ہوئے مثلاً افریقہ میں بھی ہیں اور دوسری جگہوں پر بھی ہیں وہ اپنی تقریروں میں علی الاعلان بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے احمدیت کی صداقت کے نشان دیکھے ہیں چنانچہ سیرالیون کے ایک سابق ڈپٹی پرائم منسٹر کے متعلق میں پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں کہ جب میں افریقہ کے دورے پر گیا اور سیرالیون پہنچا تو اس نے پیچھے پڑ کر استقبالیہ دیا میں سمجھتا ہوں کہ سابق نائب وزیر اعظم صاحب اس لئے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ اس طرح وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے تھے.چنانچہ وہ اپنی استقبالیہ تقریر میں یہ کہتے تھے کہ میں احمدی نہیں ہوں.لیکن جس شخص نے ( یہ ان کے الفاظ تھے ) بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت کی اللہ تعالیٰ نے اسے تباہ کر کے رکھ دیا.اب وہ ایک ایسے شخص سے جو یہاں سے پانچ ہزار میل دور سیرالیون کے رہنے والے تھے نہ وہ یہاں آئے نہ مرکز سلسلہ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق تھا احمدی وہ نہیں تھے محض ایک

Page 382

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۶۲ خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۷۲ء سیاستدان ہیں.مگر انہوں نے اپنی تقریر میں کہا میں نام نہیں لیتا ( شاید ان کی وزارت کے زمانہ میں کوئی وزیر تھا ) بڑا امیر آدمی تھا اس کے پاس کاریں تھیں وہ بڑے پیسے والا تھا مگر اس نے جماعت کی بڑی مخالفت کی تھی تم میں سے ہر ایک شخص کو پتہ ہے.میں اس کا نام نہیں لیتا.مگر اب بتاؤ کہاں ہے وہ آدمی کہاں ہیں اس کی کاریں اور کہاں ہے اس کا خاندان؟ غرض یہ الفاظ ایک غیر از جماعت سمجھدار اور سابق نائب وزیر اعظم کے ہیں جس نے اپنی تقریر میں برملا اظہار کیا اور احمدیت کی صداقت کا ایک نشان بنا.غرض اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے حق میں ساری دنیا میں اپنی قدرت اور اپنے پیار کے نشان دکھاتا ہے جب تک ہم اس کے وفادار اور شکر گزار بندے بنے رہیں گے اس وقت تک ہم اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے نشان اور اس کے پیار کے جلووں کو دیکھتے رہیں گے.اس واسطے عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے پیار اور اس کے فضلوں کو جذب کرو تا کہ دشمنوں کی طرف سے جو بھی فتنہ کھڑا ہو وہ کامیاب نہ ہو.ہمیں ان کی ہلاکت سے کوئی غرض نہیں ہے اور نہ ہماری یہ خواہش ہے کہ وہ ہلاک ہوں.ہم تو ان کی اصلاح چاہتے ہیں ہم ان کے مقابلے پر کھڑا ہونا نہیں چاہتے ہم دعا کرتے ہیں کہ ان کے جو منصوبے ہیں وہ ”خَيْرُ الْمَكِرِينَ “ توڑ کر رکھ دے وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب نہ ہوں اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اسلام کو غلبہ اسلام کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھاتی چلی جائے.احباب اس کے لئے دعا کرتے رہیں.......تیسرے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عنقریب خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا اجتماع ہونے والا ہے.۶-۵ - ۷ راخاء (اکتوبر) ربوہ میں منعقد ہوگا.چونکہ اس خطبہ کے چھپنے اور جماعتوں میں پہنچنے پر کچھ وقت لگے گا اس واسطے میں نے اس اجتماع کے متعلق کچھ کہنے کے لئے اس جمعہ کو چنا ہے.پچھلے دنوں جب میں ربوہ گیا تھا اس وقت میں نے محنت کرو! محنت کرو!! محنت کرو!!! کے مضمون پر خطبہ دیا تھا وہ خطبہ ابھی چھپا نہیں.میں نے اس خطبہ میں یہ بتایا تھا کہ جہاد کے اصل معنی ہیں انتہائی طاقت استعمال کر دینا.پھر میں نے یہ بھی بتا یا تھا کہ تین قسم کے جہاد اسلام میں

Page 383

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۶۳ خطبه جمعه ۱۸ اگست ۱۹۷۲ء بیان ہوئے ہیں ایک جہادا کبر ہے دوسرا جہاد کبیر ہے اور تیسرے کو جہاد صغیر کہتے ہیں اور جہاد کے بنیادی معنے کی رو سے ہر سہ قسم کے جہادوں میں کوشش کو انتہا تک پہنچا نالازمی ہے.جہادِ اکبر نفس کے خلاف جہاد ہے یعنی شیطان کے جو حملے کسی نفس کے خلاف یا کسی خاص شخص کے خلاف ہوتے ہیں.ہم نے اپنی خداداد طاقتوں کو ان شیطانی حملوں سے محفوظ رکھ کر ان کی انتہائی نشوونما کے لئے کوشش کرنا ہے.ہم نے اپنی قوتوں کی پرورش میں انتہائی زور لگانا ہے اور پوری کوشش کرنی ہے کہ خداداد طاقتوں کی نشو و نما میں کوئی تدبیر رہ نہ جائے کوئی غفلت یا سستی نہ ہو جائے اس کوشش کو جہادا کبر کہتے ہیں.میں نے بتا یا تھا کہ جہادِ اکبر کے ذریعہ اسلام کی ایک زبردست فوج تیار ہوتی ہے اس لئے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم قدوسیوں اور مطہرین کے سردار ہیں آپ کی فوج غیر مطہر اشخاص پر مشتمل نہیں ہو سکتی.اس واسطے جس شخص نے اسلام کی فوج کا سپاہی بننا ہو اور وہ دل سے یہ چاہتا ہو کہ وہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق رکھے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خود مطہر بنے.پس جہادا کبر ایک ذریعہ ہے نفوس کی اصلاح کا.تا کہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے اسلام کی ایک زبردست فوج تیار کی جائے یہ فوج تلوار یا ایٹم بم لے کر دنیا میں ظاہر نہیں ہوتی بلکہ پاک نفوس اور منور سینوں کو لے کر دنیا کے سامنے اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے نکلتی ہے.پس اصلاح نفس، جس سے اسلام کی فوج تیار ہوتی ہے، اس کے لئے دو بنیادی کوششیں کی جاتی ہیں.ایک وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ کے مطابق خود انسان اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے اس کو ہماری اصطلاح میں محاسبہ نفس کہا جاتا ہے.بعض سیاسی جماعتوں نے ایک نئی اصطلاح بنادی ہے میرے کان تو اس سے مانوس نہیں اور نہ اس کی ضرورت تھی وہ محاسبہ نفس کی جگہ خود تنقیدی“ کہتے ہیں.اب جبکہ ہمارے پاس محاسبہ نفس جیسی ایک نہایت عمدہ اصطلاح موجود تھی تو پھر بھلا خود تنقیدی کی اس اصطلاح کی کیا ضرورت تھی؟ یہ اصطلاح اردو میں استعمال نہیں ہوتی.ہمارے کان اس سے نا آشنا بھی ہیں اور اسے سنا پسند بھی نہیں کرتے.

Page 384

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۶۴ خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۷۲ء بہر حال ایک تو یہ محاسبہ نفس ہے جس کے ذریعہ انسان خود اپنا خیال رکھتا ہے کہ اس نے کہاں غلطی کی ہے.انسان کے اندر بشری کمز دوریاں ہیں وہ غلطی کرتا ہے محاسبہ نفس کی عادت ہو تو اس کے اندر ندامت پیدا ہوتی ہے وہ تو بہ و استغفار کرتا ہے اپنے نفس کی اصلاح کرتا ہے اصلاح نفس یعنی انسانی قوتوں اور استعدادوں کی کامل نشو و نما کے لئے کئی دوسرے طریقے بھی ہیں جنہیں انسان اختیار کر سکتا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَكُلَّ شَيْءٍ فَضَلْنَهُ تَفْصِيلًا (بنی اسراءیل : ۱۳) یعنی انسانی طاقتوں اور قوتوں کی بہترین اور حقیقی اور کامل نشو و نما کے لئے جس قسم کی تعلیم اور ہدایت کی ضرورت تھی وہ قرآن کریم کے ذریعہ کھول کر بیان کر دی گئی ہے.پس انسان جب ذاتی اصلاح کے لئے قرآن کریم پر غور کرتا ہے تو اسے اپنی اصلاح کا موقع ملتا ہے اس کی صرف یہی خواہش نہیں ہوتی کہ وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فوج کا ایک سپاہی بنے بلکہ اس کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کا ایک ایسا سپاہی بنے جس کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ پیار حاصل ہو.غرض ایک تو یہ کوشش ہے جس سے انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اور جہاں غلطی دیکھتا ہے وہ اس کی اصلاح کرتا ہے اصلاح نفس کے لئے اسلام نے ہمیں جو دوسرا ذ ریعہ بتایا ہے وه تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوى (المائدة : ۳) ہے.اس میں ہم اپنے نفس کی اصلاح کے علاوہ اپنے بھائی کے نفس کی اصلاح کی طرف بھی متوجہ ہوتے ہیں.تعاونوا کے یہی معنے ہیں کہ اپنے بھائی کو نیکی اور تقویٰ کے اختیار کرنے میں مدد دی جائے تا کہ اس کی غلطیاں اور کمزوریاں ، اس کی ستیاں اور غفلتیں دور ہوں اور وہ باہم مل کر اس رفعت کے میدان میں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے لئے تیار کیا گیا ہے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں وہ اپنی اصلاح کر کے کندھے سے کندھا ملا کر روحانی رفعتوں کو حاصل کرتے چلے جائیں.پھر تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوی کی جو کوشش ہے وہ آگے دوحصوں میں منقسم نظر آتی ہے ایک انفرادی اور دوسری منظم.جہاں تک انفرادی کوشش کا تعلق ہے ایک بھائی بھائی کی اصلاح کی

Page 385

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۶۵ خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۷۲ء کوشش کرتا ہے.ایک دوست دوست کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے.ایک خاوند بیوی کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے ایک بیوی خاوند کی اصلاح کی کوشش کرتی ہے.یعنی انسانی معاشرہ میں جو لوگ تعلق رکھنے والے اور قریبی ہیں وہ جس رنگ میں بھی قریبی ہوں وہ اپنے قرابت داروں کا پورا خیال رکھتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں تا کہ ان کے اندر جو قوتیں ہیں وہ کامل نشو و نما حاصل کریں.پھر ایک منظم طریق ہے جس پر الہی سلسلے کام کرتے ہیں مثلاً قرونِ اولیٰ میں ایک منظم طریق یہ تھا کہ جہاد کا اعلان ہو جاتا تھا.جہاد کے لئے چلنے کا حکم ملتا تھا اور لوگ جوق در جوق جہاد کے لئے چل پڑتے تھے.چنانچہ جہاد صغیر کو ذریعہ بنایا جاتا تھا جہاد اکبر یعنی انسان پر روحانی حسن چڑھانے کا.جس طرح لڑکوں کو کچھ پڑھا کر پھر ان کا امتحان لیا جاتا ہے اور اس سے ان کی قابلیت کا پتہ لگتا ہے.امتحان کے قریب آکر طلبہ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں.اُس وقت تو ایک نکما طالب علم جس کی پڑھائی کی طرف کبھی توجہ نہیں ہوتی ، وہ بھی کوشش کرتا ہے کہ امتحان کے سات دن پہلے خوب پڑھے.میں نے ایسے طالب علموں کو خود دیکھا ہے کہ وہ ساری ساری رات جاگتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سات دن کے رت جگے کے نتیجہ میں وہ بڑے اچھے نمبر لے لیں گے.یہ ان کی غلطی ہوتی ہے لیکن بہر حال جب امتحان کا وقت قریب ہو تو انسان کی کوشش تیز ہو جاتی ہے.تو اسی طرح جہاد کے دوران میں جب موت اپنے سروں پر منڈلاتی نظر آتی ہو تو کمزور سے کمزور آدمی بھی اپنی اصلاح نفس کی طرف زیادہ توجہ کرتا ہے.میں اس وقت جہاد صغیر کے اس حصے کو لے رہا ہوں جس کا تعلق اجتماعی طور پر نفس کی اصلاح سے ہے اور یہ بتارہا ہوں کہ جہاد صغیر کے دوران میں انسان کے دل میں ایک خوف پیدا ہوتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ شاید وہ دودن یا تین دن کے بعد خدا کے حضور پیش ہو جائے تو کیا منہ لے کر خدا کے حضور پیش ہو گا.پھر وہ زیادہ استغفار کرتا ہے.وہ اپنے اخلاص اور ایثار میں زیادہ حسین نظر آتا ہے اس کے روحانی حسن میں زیادہ چمک پیدا ہو جاتی ہے.وہ اس میں اور زیادہ حسن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.اس وقت بھی بہت سے اجتماعی کام ہیں جن میں ایک خدام الاحمدیہ کا کام ہے جس کا ایک

Page 386

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۶۶ خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۷۲ء شعبہ اس کا سالانہ اجتماع ہے اگر چہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع اصلاح نفس کی ساری ضرورتوں کو تو پورا نہیں کرتا تاہم یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ اجتماع نفس کی اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور بہترین سبق ہے اس لئے احمدی نوجوانوں کو اس طرف پوری توجہ دینی چاہیے.ہماری رجسٹرڈ جماعتیں ہزار کے قریب ہیں رجسٹر ڈ سے مراد یہ ہے کہ جو ہمارے رجسٹروں پر درج ہیں کئی ایسی جماعتیں ہیں جو ایک جماعت کے طور پر ہمارے رجسٹروں میں درج ہیں مگر ہیں وہ دو یا تین یا پانچ یا سات آبادیوں پر مشتمل یعنی انتظامی سہولت کے پیش نظر قریبی اور چھوٹے چھوٹے گاؤں پر ایک جماعت بنادی گئی ہے.میرے خیال میں ابھی تک خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اجتماع میں جماعتوں کی تعداد کے لحاظ سے بمشکل پچاس فیصد نمائندگی ہوتی ہے.صحیح اعداد و شمار تو مجھے اس وقت یاد نہیں تاہم کم و بیش پچاس فیصد نمائندگی کا مطلب یہ ہے کہ باقی پچاس فیصد جماعتوں کے نمائندے اجتماع میں شامل نہیں ہوتے حالانکہ اجتماع کی افادیت کے پیش نظر ان کو بھی شامل ہونا چاہیے تھا تا کہ اجتماعی اصلاح نفس کی جو ذمہ داری ہے اس سے ہم عہدہ بر آہوسکیں.لیکن یہ تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہمارے نوجوان اجتماع میں شامل ہوں.اگر وہ مرکز میں پہنچیں گے نہیں تو ان کی اصلاح نفس کی اجتماعی کوشش شروع کیسے ہوگی؟ لیکن انفرادی اصلاح یعنی اپنے بھائی کے نفس کی اصلاح تو یہاں بھی اور وہاں بھی ہر جگہ ہو سکتی ہے.اس وقت مختلف جماعتوں کے خدام یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.یہ اپنی اپنی جماعتوں میں جا کر اپنے دوسرے خدام بھائیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں.انہیں خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل ہونے کی ترغیب دلائیں.غرض ہر جماعت کا کم از کم ایک نمائندہ خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں ضرور شامل ہونا چاہیے.اجتماع میں ہماری پوری کی پوری جماعت کی نمائندگی ہونی چاہیے کسی جگہ اگر ایک یا دو احمدی گھرانے ہیں انہوں نے ایک جماعت کی شکل اختیار نہیں کی مگر ہیں بڑے مخلص گھرانے.وہ اپنے چندے براہ راست مرکز میں بھجوا دیتے ہیں.وہ جلسہ سالانہ میں بھی شامل ہوتے ہیں لیکن

Page 387

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۶۷ خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۷۲ء جب ان میں سے کوئی آدمی خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں آجاتا ہے تو جب مجلس خدام الاحمدیہ اپنے حاضری کے رجسٹر پر اسے درج کرنا چاہتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی جماعت کا نمائندہ نہیں کیونکہ اس کی جماعت کا نام ہمارے رجسٹروں میں درج ہی نہیں ہوتا.پھر وہ ویسے ہی اجتماع میں تقریریں سن کر یا کھیلیں دیکھ کر چلے جاتے ہیں اور اکثر نہیں بھی آتے.میرے خیال میں اکثر یہی ہوتا ہے کہ اُن کا کوئی نمائندہ شامل ہی نہیں ہوتا.پس تمام جماعتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں بھی کوشش کریں تاکہ خدام کے اجتماع میں ان کی نمائندگی سو فیصد تک پہنچ جائے.چوتھے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقع پر ذمہ داریاں بٹ جاتی ہیں جہاں تک منتظمین کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے وہ تو مختلف النوع ہیں میں صرف اجتماع کے پروگرام کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پروگرام ایسا بنانا چاہیے کہ وہ نوجوان احمدیوں کی اصلاح نفس میں زیادہ سے زیادہ محمد ہو.پانچویں نو جوان احمدیوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اجتماع کے دوران میں اپنے اوقات کو نیکی کی باتیں سننے اور سنانے میں خرچ کریں تا کہ جب وہ اپنی جماعتوں میں واپس آئیں تو اپنے دل میں زیادہ سے زیادہ اخلاص اور نیکی محسوس کریں اور پھر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں خلوص سے کام کرنے اور نیکی پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.پس ہمارے ہر چھوٹے اور بڑے خصوصاً نو جوانوں کو یہ بات کبھی بھولنی نہیں چاہیے کہ آج دنیا میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اور اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کی خاطر جو جنگ لڑنی ہے وہ کوئی معمولی جنگ نہیں ہے وہ بڑی زبر دست جنگ ہے.دہریت ( جسے ہم اشتراکیت اور کمیونزم بھی کہتے ہیں) دنیا کی آدھی آبادی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ حصے پر چھائی ہوئی ہے.دوسری طرف مذہب کے نام پر زندہ رہنے والی قو میں خواہ کتنی ہی کمزور ایمان والی کیوں نہ ہوں یا بد مذہب جن میں کسی نبی کی تعلیم کا ایک معمولی سا عکس نظر آتا ہے اور اسے بھی وہ اب بھول چکے ہیں لیکن بہر حال وہ لا مذہب نہیں کہلا سکتے.( بد مذہب کی اصطلاح نئی نہیں ہے اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استعمال فرمایا ہے.انہوں

Page 388

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۶۸ خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۷۲ء.نے آدھی دنیا کی دولت سنبھالی ہوئی ہے اور دنیوی لحاظ سے ان کی بہت بڑی طاقت ہے اور اسلام دشمنی میں بھی یہ لوگ بہت نمایاں ہیں.جس طرح آج جو شخص بھی مفسدانہ نعرہ لگا نا چاہتا ہے وہ مرزائیت کے خلاف نعرہ لگا دیتا ہے حالانکہ مرزائیت تو دنیا میں ہے ہی کہیں نہیں.یہ تو احمدیت ہے.لیکن بہر حال فساد برپا کرنے کی نیت سے مرزائیت کے خلاف نعرہ لگ جاتا ہے لیکن جو باہر کی دنیا ہے یعنی اسلام سے باہر کی دنیا وہ جب بھی شرارت کرنا چاہیں وہ اسلام کو ملوث کرنے اور اس کے خلاف باتیں کرنے لگ جاتے ہیں.ایک عیسائی جو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے کلی طور پر علیحدہ اور جدا ہو چکا ہے اس کے دل میں عیسائیت سے کوئی پیار نہیں رہا وہ بات بات میں کہے گا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے یا نہیں ، اس کے متعلق تمہیں بات کرنے کا حق تب پہنچتا جب تم حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان رکھتے.کوئی ان سے پوچھے کہ عیسائیت پر سے ایمان تو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اب اسلام کے خلاف یہ دلچسپی تمہارے اندر کہاں سے پیدا ہو گئی ہے کہ تم بات بات میں اسلام کے خلاف جھوٹ بولنے لگے ہو.میں نے اس وقت تک یورپ کے دو دورے کئے ہیں.مجھے وہاں یہ عجیب بات نظر آئی کہ عیسائیت غائب ہے اور اسلام دشمنی قائم ہے.پہلی بار جب میں ۱۹۶۷ء میں وہاں دورے پر گیا تھا تو دو جگہ مجھ سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کو کیسے پھیلائیں گے؟ میں نے اس سوال کا یہ جواب دیا تھا کہ تمہارے دل جیتیں گے اور اسلام پھیلا ئیں گے ایک پریس کا نفرنس میں ۲۰، ۲۵ صحافی یہ جواب سن کر بلا مبالغہ سُن ہو کر رہ گئے تھے.ایک منٹ تک تو ان کے مونہہ سے کوئی بات نہیں نکل سکی تھی کیونکہ انہوں نے ساری عمر یہ سن رکھا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور ان کا سوال دراصل اسلام پر یہ طعن تھا کہ اسلام تو تلوار کے زور سے پھیلتا ہے.تلوار ہم نے اسلام کے ہاتھ سے چھین لی ہے اب تم ہمارے ملکوں میں اسلام پھیلانے کے لئے کیا جھک مارتے پھرتے ہو.لیکن جس وقت انہوں نے میرا یہ جواب سنا تو مبہوت ہو کر رہ گئے.غرض اسلام کو پھیلانے کے لئے تلوار کی ہمیں ضرورت ہی نہیں.ہم لوگوں کے دل جیتیں گے اور اسلام پھیلائیں گے.کیونکہ اسلام کی تعلیم کے اندر اتنا حسن و احسان موجود ہے کہ اس کے

Page 389

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۶۹ خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۷۲ء ہوتے ہوئے تلوار کی ضرورت ہی نہیں ہے میں چونکہ پہلے بھی اپنے کئی خطبات میں اس مضمون پر روشنی ڈال چکا ہوں اس لئے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.تاہم میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ اس وقت ادیان باطلہ کے خلاف ہماری زبردست جنگ جاری ہے.اس وقت دنیا کا جاہل بھی اور پڑھا لکھا طبقہ بھی دنیا کا مذہبی بھی اور خدا کو گالیاں دینے والا گروہ بھی اسلام پر حملہ آور ہے.ہم نے نہ صرف اسلام کا دفاع کرنا ہے بلکہ دنیا کو اسلام کے حسن و احسان کا گرویدہ بنا کر اسے محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالنا ہے یہ کام بڑا ہی عظیم کام ہے جتنا یہ عظیم الشان کام ہے ہم پر اتنی ہی زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اس لئے ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہماری جو نوجوان نسل ہے وہ ہمارے سید ومولا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اسلامی فوج میں بھرتی ہونے کے قابل نہ ہو اور غیر تربیت یافتہ ہو.چنانچہ اس تربیت کی خاطر ہم بہت سی تدابیر اختیار کرتے ہیں.ایک تدبیر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یہ کی تھی کہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم بنادی اور پھر اس تنظیم میں مزیدحسن پیدا کرنے کے لئے ان کا ایک اجتماع رکھ دیا جو سال بسال ہوتا چلا آ رہا ہے.چھٹے یہ اجتماع منتظمین پر بھی بڑی بھاری ذمہ داری ڈالتا ہے.اجتماع کے موقع پر اگر بعض غیر تربیت یافتہ نوجوان گپیں ہانکنے لگ جائیں تو انہیں دیکھ کر غصے نہیں ہونا چاہیے بلکہ پیار سے سمجھانا چاہیے.وہ وہاں تربیت حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں وہ حضرت سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی طرح تو نہیں ہوتے ہم انہیں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اپنے بزرگوں کی نیکی اور تقویٰ کو اپنا ئیں مگر اُن کے بلند معیار پر ہر ایک کو پر کھا تو نہیں جاسکتا.بہر حال خدام میں تربیت کی کمی ہوتی ہے اسی لئے تو ہم ان کو وہاں بلاتے ہیں.اجتماع میں مثلاً تقریروں کے دوران میں بعض غیر تربیت یافتہ نوجوان اپنے خیمہ میں آپس میں باتیں کر رہے ہوتے ہیں.منتظمین ان پر غصے ہوتے ہیں.اس کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں.ایسی صورت میں منتظم کو چاہیے کہ وہ خود بھی ان کے پاس بیٹھ جائے.انہیں آرام سے سمجھائے اور کہے آؤ چلیں

Page 390

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۷۰ خطبه جمعه ۱۸ راگست ۱۹۷۲ء تقریریں سنیں.میں نے بھی غلطی کی بیٹھ گیا آپ نے بھی غلطی کی بیٹھ گئے.اسی طرح آرام سے سمجھانے سے یقیناً ان پر خاطر خواہ اثر ہوگا.پس اجتماع کا اصل مقصد خدام کی تربیت اور اصلاح ہے.پھر منتظمین کو یہ بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المآئدۃ:۳) کے اصول کی رو سے اور جہادا کبر کے لحاظ سے ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خدام کے ساتھ تعاون کریں اور انہیں آرام سے سمجھا ئیں اور انہیں نیکی اور تقویٰ اختیار کرنے کی احسن رنگ میں تلقین کریں.تا کہ ہم انفرادی اور اجتماعی ہر دو رنگ میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے لگ جائیں.ہم صراط مستقیم سے بھٹکی ہوئی دنیا کو اسلام کے نور سے منور کر دیں تا کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب آئے گا جلد تر پورا ہو.خدا کرے ہماری زندگیوں میں پورا ہو.پس خدام الاحمدیہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اجتماع میں شمولیت کی طرف خاص طور پر توجہ دیں.زیادہ سے زیادہ تعداد میں اجتماع میں شامل ہونے کی کوشش کریں پھر اجتماع کو کامیاب بنانے کی طرف منتظمین بھی توجہ دیں.اجتماع کے دنوں میں خدام اصلاح نفس اور علوم دینیہ کے حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں.خدا کرے ہماری یہ کوششیں پوری طرح کامیاب ہو جائیں.خدا تعالیٰ مجھے بھی اور آپ سب کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۰ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 391

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۲ء موجودہ انقلابی تحریکیں تمہید ہیں اس عظیم اسلامی انقلاب کی جو آخری زمانہ میں مقدر بن چکا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۵ /اگست ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا - (الفرقان: ۳۱) مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ (الانعام : ٣٩) اور پھر فرمایا:.اس سے قبل چند خطبات میں اس مضمون پر دے چکا ہوں.قرآن کریم ایک عظیم ہدایت اور کامل شریعت ہے.خود قرآن کریم نے اپنی عظمت اور علو شان کا دعویٰ بھی کیا ہے اور اس پر دلائل بھی قائم کئے ہیں.قرآن کریم کی اس عظمت اور کمال کے باوجود بنی نوع انسان کی ایک بڑی تعداد اور خود اُمت محمدیہ کا ایک حصہ اس قرآنِ عظیم سے قطع تعلق کرتا ہے.وہ نہ زبان سے اس کی طرف رغبت کا اظہار کرتا اور نہ اپنے عمل سے اپنے دلی لگاؤ کا اظہار کرتا ہے.قرآن کریم کی ایک اور عظمت اور شان آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں بیان کر دی گئی جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت کا اظہار بھی کیا ہے اورس پر دلیل بھی قائم کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے علم میں یعنی علم الہی میں کوئی ایسی بنیادی بات نہیں تھی

Page 392

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۷۲ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۲ء جس کی انسان کو ضرورت پڑ سکتی ہو اور قرآن کریم نے اسے بیان نہ کیا ہو.چونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لے کر قیامت تک کی ضرورتوں کو اس کتاب عظیم نے پورا کرنا تھا اور لوگوں کی ہدایت کے سامان مہیا کرنے تھے اور ایسی تعلیم دینی تھی جو خدا تعالیٰ کی طرف انہیں لے جانے والی اور اللہ تعالیٰ سے انسان کے ذاتی تعلق کی پختگی کو قائم رکھنے والی ہو.چنانچہ سورہ انعام کی آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.تا ہم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس صدی میں مبعوث ہوئے تھے اس صدی کی انسانی ضرورتیں اُس صدی کی ضرورتوں سے مختلف تھیں جس میں انسان نے صنعتی انقلاب بپا کیا یا زراعت میں یعنی زمین سے پیداوار کے حصول میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور انسان نے اس سلسلہ میں نئے طریقے رائج کئے.چنانچہ اس زمانے میں یعنی قرون اولیٰ میں لوگوں کو اس کا تفصیلی علم دیا جانا ضروری نہیں تھا کیونکہ اُن کی یہ ضرورت نہیں تھی لیکن جو اس وقت کی ضرورتیں تھیں اُمت مسلمہ کو ان کا تفصیلی علم دے دیا گیا تھا.ویسے اصولی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کی ضرورتوں کا علم دیا گیا ہے.چنانچہ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو پڑھتے اور ان پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے کی سائنس نے جو ضرورتیں پوری کیں یا پورا کرنے کی کوشش کی ہے ان کے متعلق ہمیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ہدایت ملتی ہے.ایک چھوٹی سی مثال دے کر میں اس حقیقت کو واضح کروں گا.انسان کے دانت کی صحت کی حفاظت کے لئے انسانی علم نے ماضی قریب میں بہت ترقی کی ہے جس میں ایک نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ دانت صاف کرنے کے لئے انسان نے آج کل جو برش بنائے ہیں ان کو اوپر سے نیچے دانتوں پر پھیرنا چاہیے.جہاں تک امت محمدیہ کا تعلق ہے وہ تو ان ایجادات سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تعمیل میں مسواک کرتی رہی ہے.مسواک، برش اور ٹوتھ پیسٹ دانت صاف کرنے والی دوا ) کا مجموعہ ہے.انسان نے برش علیحدہ بنا لیا اور ٹوتھ پیسٹ ٹیوبوں کی شکل میں علیحدہ فروخت کرنا شروع کر دیا.بہر حال

Page 393

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۷۳ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۲ء.حفظانِ صحت پر ریسرچ کرنے والے ڈاکٹروں نے یہ بات نکالی کہ مسوڑھوں پر برش کی حرکت نیچے سے اوپر نہیں ہونی چاہیے اس سے مسوڑھے پھل جاتے ہیں اسلئے اوپر سے نیچے کی طرف حرکت ہونی چاہیے.اس سے صفائی بھی زیادہ ہوگی.مسوڑھے بھی صحت مند رہیں گے اور دانتوں میں خرابی کا امکان بھی پیدا نہیں ہو گا.چنانچہ ڈاکٹر بڑے خوش تھے کہ انہوں نے کوئی نئی چیز ایجاد کی ہے.ایک دفعہ ڈاکٹر اعجاز صاحب جو دانتوں کے بڑے اچھے ماہر ہیں ان سے باتوں باتوں میں میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مسواک کو اوپر سے نیچے کی طرف لے جاؤ.نیچے سے اوپر کی طرف لے کر نہ جاؤ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشا دسن کر وہ بڑے حیران بھی ہوئے اور بڑے خوش بھی ہوئے.کہنے لگے مجھے اس کا حوالہ چاہیے.شاید انہوں نے کوئی مضمون لکھنا ہوگا میں نے یہ حوالہ نکلوا کر انہیں بھجوا دیا تھا.گو یہ ایک چھوٹی سی چیز ہے لیکن جس وقت انسان نے اپنے دانت غلط قسم کی غذا کے نتیجہ میں زیادہ خراب کر لئے تو اس کے لئے یہ مسئلہ زیادہ اہمیت اختیار کر گیا.پرانے زمانہ میں لوگوں کو مسواک کرنے کی عادت تھی اور اس سے دانت بڑے اچھے رہتے تھے.پھر غذا کا دانتوں کی صحت کے ساتھ بڑا تعلق ہے.مثلاً جو لوگ زیادہ میٹھا کھانے والے ہوتے ہیں.اُن کے دانت بہت جلد خراب ہو جاتے ہیں.اس لئے جو قومیں ہر وقت منہ میں چھینکھم رکھتی ہیں ان کے دانت اکثر خراب رہتے ہیں یا جن لوگوں کو بڑی کثرت سے چاکلیٹ کھانے کی عادت ہوتی ہے یا ہمارے ملک میں بچے ہر وقت میٹھا پھانکتے رہتے ہیں ان کے دانت خراب ہو جاتے ہیں.غرض دانتوں کی خرابی اس رنگ میں اور اس وسعت کے ساتھ اس زمانے کی بیماری ہے.چنانچہ ڈاکٹروں نے غور کیا.حفظانِ صحت کے طریقے نکالے اور وہ بڑے خوش تھے کہ انہوں نے ایک مفید طریقہ نکال لیا ہے حالانکہ یہ طریقہ پہلے سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں پایا جاتا ہے.یہ میں نے ایک چھوٹی سی مثال دی ہے.اس سے یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اصولی طور پر قیامت تک کے جو مسائل اور الجھنیں تھیں ان کا علم

Page 394

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۷۴ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۲ء دیا گیا تھا اور قرآن کریم کی وہ تفسیر جس کا تعلق اس زمانے کے ساتھ تھا وہ تفسیر اصولی طور پر بتا دی گئی تھی.تاہم اس کی تفصیل میں جانے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وقت نہیں تھا.کیونکہ اگر آپ زیادہ تفصیل میں جاتے تو اس زمانے کے لوگ جن کو ہم صحابہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں.اُن کے لئے ان باتوں کا سمجھنا مشکل ہو جاتا.بہر حال قرآن کریم کا یہ دعوی واقعی بڑا عظیم دعویٰ ہے کہ اس میں ہر ضروری بات بیان ہوگئی ہے.تاہم اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ پہلی صدی کی ضروری باتیں جو انسان کے لئے تھیں وہ اور تھیں اور دوسری صدی کی ضروری باتیں اور تھیں.اسی طرح آج سے دو سو سال پہلے کی ضروری باتیں اور تھیں.دوسو سال پہلے ایک عظیم انقلاب بپا ہورہا تھا.یہ انقلاب سرمایہ داری کا انقلاب تھا.سرمایہ داری نظام ایک انسانی نظام تھا.اس میں بڑی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں اور وہ خرابیاں بڑھتی چلی گئیں لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ ایک عض انقلاب تھا مثلاً اس سرمایہ داری نظام کے دور میں ہوائی جہاز بھی آگئے تھے.ریلوں کا استعمال شروع ہو گیا تھا سمندری سفر کی سہولتیں میسر آگئی تھیں.تار کا استعمال شروع ہو گیا تھا وغیرہ.پس یہ ایک عظیم انقلاب تھا جو زمین کے مختلف خطوں میں بسنے والے لوگوں کو ایک خاندان بنانے میں مد ثابت ہو رہا تھا بعد میں بھی ممد ثابت ہوا اور آئندہ اور زیادہ ممد ثابت ہوگا.جب یہ ساری چیزیں اسلامی نظام کے تحت آجائیں گی تو اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا جائے گا.پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ ہر صدی کی یا ہر زمانے کی یا ہر ملک کی یا ہر انسان کی ضرورتوں کو سلجھانے کے لئے بنیادی اور اصولی تعلیم قرآن کریم میں دے دی گئی ہے اور کوئی چیز اس سے باہر نہیں رہی.اس کا مطلب یہ نہیں کہ ۹۹ باتیں بیان کی گئی اور ایک چھوڑ دی گئی نوا کی اگر ضرورت تھی تو نو باتیں بیان کر دی گئی ہیں.اس کے لئے اللہ تعالی نے ایک نظام قائم کیا ہے اور اس کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے.فرمایا :.مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ یہ سارا نظام اسی دعوی کو ثابت کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے.آج سے پانچ سوسال کے

Page 395

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۷۵ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۲ء بعد جو مسائل ہیں ان میں آج کے انسان کو اپنا وقت اس سوچ میں ضائع نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کیسے حل کئے جائیں گے؟ آج کے جو مسائل ہیں وہ پہلی صدی سے بہت مختلف ہیں.پہلی صدی کے انسان کو حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرنی چاہیے تھی.کیونکہ چودہ سوسال بعد وہ مسائل پیدا ہونے تھے.لیکن قرآن کریم میں وہ بیان بھی ہو گئے اور قرآن کریم میں وہ چھپائے بھی گئے اس کے لئے ایک نظام اور روحانی علماء کے سلسلہ کا قیام ضروری ٹھہرا.ایک روحانی عالم خدا تعالیٰ سے علم سیکھ کر اپنے زمانے ، اپنی قوم اور اپنے ملک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کی ہدایت لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے.وہ خدا تعالیٰ سے جو علم سیکھتا ہے وہ دراصل قرآنی رموز اور اسرار کا علم ہوتا ہے جو اسے ان مسائل کے حل کرنے کے لئے دیا جاتا ہے جن کے ذریعہ قرآن کریم کی تعلیم اور نئی تفسیر کی روشنی میں نئے انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے یہ کام انسانی عقل سے بالا ہے.قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ انسانی عقل ان رموز اور اسرار کو حاصل نہیں کر سکتی.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لا يَمَسُّةَ إِلا الْمُطَهَّرُونَ - (الواقعة : ٨٠) قرآن کریم کے علوم سیکھنے کے لئے عقل کافی نہیں ہے.بلکہ قلبی طہارت کی بھی ضرورت ہے اس لئے جولوگ پاک اور مطہر نہیں ہوتے وہ قرآنی رموز اور اسرار پر آگاہی نہیں پاسکتے یوں ویسے لوگوں میں دنیوی لحاظ سے بڑی عقل نظر آتی ہے.آخر یہ ساری ایجادات انسانی عقل کا کرشمہ ہیں.اس کام کے لئے دلی پاکیزگی اور طہارت کی ضرورت نہیں تھی.تاہم ان ایجادات کے نتیجہ میں وہ انسان کی خوشحالی کا سامان پیدا نہیں کر سکے.اب مثلاً سرمایہ داری نظام ہے اس سے ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہوا.مگر آپ غور کریں تو دیکھیں گے کہ ریل ایجاد ہو گئی لیکن ریل کے صحیح اور اچھے اور مفید نتائج جوخوشحالی کا باعث بنتے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوئے.اسی طرح یہ سمندری اور پھر ہوائی جہازں کا سفر ہے اس نے انسان کو ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب تو کر دیا لیکن انسان کو ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب کر دینے کے نتیجہ میں جو مسائل پیدا ہونے تھے ان کو حل نہیں کیا.مثلاً دوسوسال پہلے لندن

Page 396

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۲ء میں رہنے والا شخص اگر وہ زمیندار ہے تو ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک اور لارڈ کہلاتا تھا.مگر اس کا تعلق عوام کے ساتھ نہیں تھا.ملک کے اندر کہیں کہیں سرمایہ داری کے یہ نقطے تھے جہاں دولت اکٹھی ہو رہی تھی.مگر جہاں انسانوں کی کثرت تھی ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ امیر لوگ کسی قسم کی زندگی گزار رہے ہیں.وہ کس کس قسم کے عیش میں پڑے ہوئے ہیں اور اپنی دولت کو کس طرح ضائع کر رہے ہیں.اپنی دولت کا صحیح استعمال کر کے بنی نوع انسان کی خوشحالی کے سامان پیدا کرنے میں وہ کس قسم کی غفلت برت رہے ہیں.لیکن جب انسان انسان کے قریب ہوا یعنی اسے سفر کی سہولتیں میسر آگئیں تو دیکھتے دیکھتے ہی انسان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ مجھے تو کھانے کو نہیں ملتا اور یہ لارڈ اور امیر آدمی اپنی دولت کو ضائع کرتے ہیں.لوگوں نے سمجھا کہ ہم بھو کے مرتے ہیں اور یہ عیش کرتے پھرتے ہیں.چنانچہ اپنے حقوق منوانے کے لئے اقتصادی شعبوں میں ہڑتالیں ہونے لگیں اور اس طرح انسانی عقل نے مسائل پیدا کئے ان کو حل نہیں کیا.پس پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے یہ ضروری تھا کہ قرآن کریم کی طرف رجوع کیا جاتا اور اس کی ہدایت کے مطابق مسائل حل کئے جاتے.مگر قرآن کریم کے رموز اور اسرار کے لئے یہ ضروری تھا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پاک اور مطہر ہوں اور خدا خودان کا معلم بنے اور اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کر کے وہ ان تمام معاشرتی ، اقتصادی اور دوسری بہت سی برائیوں کو دور کریں جو خود انسانی عقل نے پیدا کی تھیں اور جس کا حل انسانی عقل تلاش نہیں کر سکی.چنانچہ قرآن کریم کی اصطلاح میں ان روحانی علماء کو نجوم یعنی آسمانی ستارے کہا گیا ہے.ان ستاروں میں ایک خاص ستارہ ہے جسے چاند کہا گیا ہے یا جسے مسیح محمدی کہا گیا ہے.یا جسے مہدی معہود کہا گیا ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ ایک روحانی آفتاب ہیں ان کے نور کو دوسرے ستاروں کی نسبت بہت زیادہ یعنی پوری طرح جذب کر کے نوع انسانی کے لئے روشنی کے سامان پیدا کئے.مگر جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو روحانی آفتاب ہیں اور قیامت تک کے لئے دنیا کو روشن کرنے والے ہیں.آپ کی روشنی نہ کم ہوتی ہے اور نہ کبھی کم ہوسکتی ہے.لیکن کچھ دور ایسے آتے رہے ہیں جب اس زمانے کی بینائی میں کمزوری آجاتی رہی ہے اب مثلاً ڈاکٹر

Page 397

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۷۷ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۲ء مجھے اور آپ کو جن کی آنکھیں صحیح و سلامت ہیں کہے گا کہ سورج کی طرف نگاہ نہ کرو اس سے آنکھوں کو نقصان پہنچے گا.مگر وہ ایک نابینے کو یہ ہدایت نہیں دے گا.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ایسے زمانے بھی آئے اور آتے رہے ہیں اور آتے بھی رہیں گے جن میں تھوڑے یا بہت لوگ جو امت محمدیہ کے افراد اور آپ کی طرف منسوب ہوں گے مگر وہ اپنی روحانی بصیرت اور بینائی کو کھو بیٹھیں گے.چنانچہ اس حقیقت کو جب قرآن کریم نے بیان کیا تو فرمایا ایسے موقعوں پر سورج کو لپیٹ دیا جاتا ہے.سورج کی روشنی میں تو کوئی کمی نہیں آتی.ایک پردہ ہوتا ہے جو سورج کے گرد آ جاتا ہے.یہ پردہ انسانی آنکھ پر پڑ جاتا ہے جو سورج کو دیکھنے نہیں دیتا.پس جہاں تک نجوم کا سوال ہے قرآن کریم نے دو محاورے استعمال کئے ہیں.ایک ستاروں کا گر جانا یا جھڑ جانا جسے قرآن کریم نے وَ اِذَا الكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ (الانفطار : ٣) کے الفاظ میں بیان کیا ہے اور دوسرے ان کا دھندلا جانا یعنی علمائے روحانی جو دراصل اسلام کا سب سے زیادہ حسین اور مفید حصہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ خودا اپنی رحمت اور اپنے فضل سے قائم کرتا ہے.اور اب تک ایسے علماء امت محمدیہ میں بڑی کثرت سے لاکھوں کی تعداد میں پیدا ہو چکے اور لاکھوں کی تعداد میں آگے پیدا ہوں گے.وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.ہم نے ماضی کی تعداد یاد نہیں رکھی.مستقبل کی تعداد کے متعلق کچھ کہنے کی کیسے جرات کر سکتے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ضرور فرمایا ہے.میج اعوج یعنی اسلام کے تنزل کے زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھ کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے اولیاء اللہ بڑی کثرت سے پائے جاتے تھے.لیکن جہاں یہ کہا گیا تھا کہ ستارے گر جائیں گے اس کا مطلب یہی تھا کہ بہت سارے رہ بھی جائیں گے.گو پوری ضرورت کو کما حقہ پیدا کرنے والے نہیں ہوں گے.تاہم ان کے وجود سے دنیا خالی نہیں ہوگی.آپ نے دیکھا ہوگا جب آندھی آتی ہے تو آم کے درخت کا پھل گر جاتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس درخت پر کوئی آم بھی نہیں رہا کچھ گرتے ہیں اور کچھ باقی رہ جاتے ہیں.

Page 398

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۷۲ء پس ستاروں کے گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہدایت دینے والے علماء کی تعداد کم ہو جائے گی.چنانچہ جس وقت ہدایت دینے والے کم رہ جاتے ہیں تو ایک ایسا طبقہ اُبھر آتا ہے جو اپنے آپ کو عالم کہتا ہے کیونکہ نجوم کا تو بہر حال وعدہ دیا گیا ہے.اس لئے یہ طبقہ بھی اپنے آپ کو نجوم یعنی روحانی ستارے سمجھتا ہے.مگر در حقیقت یہ لوگ اسلامی محاورہ میں علمائے ظاہر ہوتے ہیں.جو علمائے باطن یعنی روحانی علماء کی روشنی کو مکدر کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سورج کی روشنی تو قیامت تک قائم رہنے والی ہے مگر جس طرح ہمارا یہ سورج ہے جب دن چڑھتا ہے اور سورج طلوع ہوتا ہے تو ایک نابینا شخص اسے نہیں دیکھ سکتا اسی طرح علمائے ظاہر کے غلط استدلال کے نتیجہ میں اُمت محمدیہ کے افراد کی نظر میں علمائے باطن یعنی روحانی علماء دھندلا جاتے ہیں.اُن کی روشنی ان کو نظر نہیں آتی کیونکہ ان کی آنکھیں کام نہیں کرتیں.لیکن انسان کی غفلت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اندھیرے کو دور کرنے کے لئے علمائے باطن کی پیدائش کا ایک سلسلہ اللہ تعالیٰ نے جاری کر رکھا ہے.چنانچہ جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا: - في كتب مكنون (الواقعۃ:۷۹) وہاں ابتداء کی ہے نجوم کے گرنے سے چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَلا أُقْسِمُ بِمَواقع النُّجُومِ (الواقعة : ٦) نجوم کے گرنے کو میں گواہی کے طور پر پیش کرتا ہوں.کہ خدا تعالیٰ ہر زمانے میں علمائے باطن کو پیدا کرے گا.روحانی علماء پیدا ہوتے رہیں گے.لیکن امت محمدیہ کا جو حصہ علمائے ظاہر پر مشتمل یا ان کے اثر کے نیچے ہو گا ان کے لئے یہ چمکنے والے ستارے ہدایت کا موجب نہیں بنیں گے.ان کے لئے ان کی روشنی دھندلی دھندلی ہوگی وہ اسے سمجھ نہیں سکیں گے جیسا کہ آج کل دیکھ لیں.ہمارا تجربہ بھی یہی ہے.دنیا میں علمائے ظاہر نے باطنی علماء کی روشنی کو دھندلا کر دیا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: - فَلَا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ یعنی میں نجوم کے گرنے کی قسم کھاتا ہوں.پھر فرمایا : - وَإِنَّهُ لَقَسَم لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ (الواقعة : )

Page 399

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۷۲ء فرما یا یہ بڑی عظمت والی شہادت ہے جو میں پیش کر رہا ہوں اور عظمت والی شہادت یہ پیش کی کہ انه لقران کریم (الواقعة: ۷۸) کہ قرآن کریم بڑی عظمت والی کتاب ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ فی کتب مکنون یہ ایک چھپی ہوئی کتاب ہے.اس کے اندر ایسے رموز اور اسرار ہیں جو آنے والے زمانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہیں جو اس بات پر شاہد ہیں کہ مَا فَرَّطْنَا في الكتب مِنْ شَيْءٍ کہ اس میں بیان ہونے سے کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی.بعض بیوقوف لوگ یا بعض د نیوی علوم رکھنے والے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ چودہ سوسال پہلے جو کتاب نازل ہوئی تھی وہ ہماری ضرورتوں کو کیسے پورا کرے گی؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس طرح پورا کرے گی کہ میں خود اُمت محمدیہ کے ایک گروہ کا معلم بنوں گا.میں ان کو ہر زمانہ میں علم سکھا تا ہوں.ان کی پاکیزگی کو دو بالا کرتا ہوں.ان کو روشن کرتا ہوں.ان کے اندر طہارت اور تزکیہ پیدا کرتا ہوں انہیں اس قابل بنا دیتا ہوں کہ قرآن کریم کے سیکھنے کی ان کے اندر اہلیت پیدا ہو جائے جس کی پہلی اور بڑی شرط طہارت ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرما یا لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.پھر اس کے بعد فرمایا: - تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ (الواقعة:۸۱) یہی ہونا چاہیے تھا کیونکہ قرآن کریم ایک صدی کے لئے یا ایک نسل کے لئے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ تو رب العالمین کی طرف سے عالمین کی ہدایت کے لئے ہر زمانے اور ہر ملک کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآنی عظمت کے اظہار کے لئے یہ دعویٰ بھی کیا اور دلیل بھی بیان فرمائی اور فرمایا: - مَا فَتَطْنَا فِي الكتب مِنْ شَيْءٍ انسانی ضرورت کے لحاظ سے علم الہی میں جو چیز بھی ضروری تھی وہ اس میں بیان ہو گئی ہے.فرمایا ہم نے کوئی کمی نہیں کی.ہمارے علم میں جس چیز کی ضرورت تھی وہ اصولی اور بنیادی طور پر قرآن کریم میں بیان کر دی گئی ہے.پس ہمارے اس زمانے میں وہ چاند آ گیا.وہ قمر طلوع ہو گیا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی آفتاب کا پر تو لئے ہوئے ہے.اس طلوع قمر کے نتیجہ میں بھی جو نجوم کی ضرورت ہے وہ اپنی جگہ پر قائم ہے.اگر چہ یہ سلسلہ ایک وقت میں کم ہو گیا تھا مگر اس وقت بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے فیج اعوج یعنی اسلام کے تنزل کے زمانے میں لاکھوں کی تعداد

Page 400

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۸۰ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۲ء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیض کے نتیجہ میں خدا کے پیارے اور محبوب بندے پائے جاتے تھے.اب تو بہت زیادہ ہونے چاہئیں کیونکہ ضرورتیں بڑھ گئیں مسائل اور بھی زیادہ الجھ گئے ہیں ( یہ مضمون تو بہت لمبا ہے اب میں یہیں اس کو ختم کروں گا لیکن اس خطبہ میں اس کا جوڑ ملا دیتا ہوں ) حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دنیا میں ایک عظیم انقلاب بپا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں کئی جگہ اس کی بڑی وضاحت فرمائی ہے.اس عظیم انقلاب کا مطلب ایک ایسا انقلاب ہے جس سے بڑا کوئی اور انقلاب تصور میں نہیں آسکتا جس کا مطلب ہے کہ سرمایہ داری کے انقلاب یا اشتراکیت کے انقلاب یا چینی سوشلزم کے انقلاب کی اس انقلاب کے مقابلے میں جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا کوئی حیثیت ہی نہیں.چنانچہ اسلام کو غالب کرنے کے لئے اللہ کی مصلحت نے یہ تقاضا کیا کہ اسلامی انقلاب سے پہلے یکے بعد دیگرے تین انقلاب رونما ہوں اور اس طرح اسلامی انقلاب کے رونما ہونے کے لئے زمین تیار ہو جائے.جن لوگوں نے یہ مضمون پڑھا ہے وہ تو اس میں دلچسپی رکھتے ہیں.لیکن بعض لوگ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ روسی اشتراکیت اور چینی سوشلزم کے پیرو سرمایہ داری کے نظام کو Reactionary ( ری ایکشنری ) نظام کہتے ہیں Revolutionary ( ریولوشنر ی ) نظام نہیں کہتے.میرے نزدیک وہ غلطی خوردہ ہیں.سرمایہ داری کا نظام اپنے وقت میں پہلا انقلاب تھا.یہ واقع میں انقلاب ہے کسی چیز کا ردعمل نہیں ہے اگر سرمایہ داری کا انقلاب بپا نہ ہوتا تو اشتراکیت کا انقلاب پیدا نہیں ہو سکتا تھا.اس طرح ایک کے بعد دوسرا انقلاب آیا.پہلے سرمایہ داری کا انقلاب آیا ( یہ ایک لمبا مضمون ہے اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو کسی وقت مثالیں دے کر یہ سارا مضمون بیان کروں گا ) پھر روسی اشترا کی انقلاب آیا.اگر اشترا کی انقلاب نہ آتا تو چین میں سوشلزم کا انقلاب آیا ہے اس کا بھی امکان پیدا نہ ہوتا.کیونکہ یہ دونوں بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور چینی سوشلزم اسلام سے زیادہ قریب ہے.غرض پہلے سرمایہ داری کا انقلاب پھر کمیونسٹ (اشترا کی ) انقلاب اور پھر چینی سوشلٹ انقلاب نہ

Page 401

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۷۲ء آیا ہوتا تو ساری دنیا میں اسلام کے غالب ہونے کے لئے سامان پیدا نہ ہوتے.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کا جو آخری غلبہ ادیان باطلہ اور فلسفہ ہائے باطلہ پر مقدر ہے اس کے لئے سرمایہ داری کے انقلاب کے وقت سے بنی نوع انسان کو تیا ر کیا گیا ہے.اس لئے میرے احمدی بھائیوں اور بہنوں کو ان انقلابی تحریکوں سے گھبرانا نہیں چاہیے.یہ تو ہمارے لئے تمہید کے طور پر ہیں.چنانچہ دیکھ لیں جس وقت سرمایہ داری کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہورہا تھا.اس وقت اشتراکیت کا انقلاب اپنی جوانی کے زمانہ میں داخل ہو رہا تھا.جس وقت اشتراکیت کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہو رہا تھا.اس وقت چینی سوشلزم کا انقلاب اپنی جوانی میں داخل ہور ہا تھا اور انشاء اللہ اور اسی کے فضل سے اور جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں یہ ایک خاص سلسلہ ہے جو ایک زبر دست الہی منصوبے کے تحت تیار کیا گیا ہے.اس لئے میں علی وجہ البصیرت اور پورے وثوق کے ساتھ یہ کہ سکتا ہوں کہ جس وقت چینی سوشلزم کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہورہا ہوگا اسلام کا عظیم انقلاب اپنی جوانی میں داخل ہو رہا ہوگا.اس لئے ہماری جماعت پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں.میں نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ جہاد اکبر کے ذریعہ اسلام کی ایک زبر دست فوج تیار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے.یہ اسلام کی وہ روحانی فوج ہوگی جس کے ذریعہ اسلام کو عالمگیر غلبہ نصیب ہو گا.اس لئے ہمارے نوجوانوں کو بہکنا نہیں چاہیے.ہمارے نو جوانوں کو ایثار دکھانے اور قربانی پیش کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے.میں نے بتایا ہے کہ اس وقت تک دو انقلاب بڑھاپے میں داخل ہو چکے ہیں پہلاسرمایہ داری کا نظام ہے یہ بظاہر دم توڑ رہا ہے پتہ نہیں اس کی عمر کتنی لمبی ہے.روسی اشترا کی نظام میرے نزدیک بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جو انقلاب جوانی میں داخل ہوتا ہے وہ اپنے بعض مسائل کو ایثار اور قربانی سے حل کرتا ہے اور جو انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل

Page 402

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۸۲ خطبه جمعه ۲۵ راگست ۱۹۷۲ء ہوتا ہے وہ اپنے مسائل کو Compromise ( کمپرومائز ) یعنی سمجھوتے کے ذریعے حل کرتا ہے.کمپرومائز یا مداہنہ اپنے نفس میں تضاد ہے اور صراط مستقیم سے روگردانی ہے.کیونکہ صراطِ مستقیم میں کسی اور طرف سڑکیں نہیں نکلتیں.وہ ایک سیدھی شاہراہ ہے.اس سے ادھر ادھر ہونا گمراہی ہے.غرض مَا فَرَّطْنَا فِي الكتب مِنْ شَيْءٍ کا ایک جلوہ تو انقلاب عظیم کی شکل میں قرونِ اولیٰ میں رونما ہوا.دوسرا جلوہ آخری زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی روحانی تاثیرات اور انفاس قدسیہ کے ذریعہ بپا ہونا تھا.اس زمانے میں ہم داخل ہو چکے ہیں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.اس زمانے میں بھی نجوم کا سلسلہ جاری ہے.پھر اس کے آخر میں فرمایا آفبهذا الْحَدِيثِ اَنْتُم قُدُهِنُونَ (الواقعة : ۸۲) کیا اس قرآن کے بارے میں تم مداہنت سے کام لیتے ہو.یہ تو مسائل کو حل کرنے کے لئے مداہنت یعنی کمپرومائز کو روانہیں سمجھتا یہ تو ایثار اور قربانی پر زور دیتا ہے اور اس میں مداہنت نہیں البتہ کمپرومائز میں مداہنت ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ اپنے نفس میں ایک لمبا مضمون ہے پھر کسی وقت انشاء اللہ بیان ہو جائے گا.میں اس وقت بتا یہ رہا ہوں کہ مَا فَتَطْنَا فِي الكتب مِنْ شَيْءٍ میں جس روحانی سلسلہ کے قیام کا ذکر ہے وہ سلسلہ اب آخری اور ہمیشہ رہنے والے غلبہ اسلام کے زمانہ میں داخل ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم کا نازل ہو نا رب العالمین خدا کی طرف ہے کیا تم اس سے مداہنت کا رویہ اختیار کرتے ہو.قرآن کریم کی تعلیم سے مداہنت کرنا تو بڑی عجیب بات ہے.میں نے اس مضمون کو مختصر بیان کر دیا ہے.ہمارے بعض نوجوان انقلابی تحریکوں کا تھوڑا بہت اثر قبول کر لیتے ہیں ان کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اثر قبول کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ تو دنیا کے قائد اور معلم بنائے گئے ہیں.وہ شاگرد اور بھک منگے نہیں بنائے گئے.انہیں کچھ حاصل کرنے کے لئے کسی کے سامنے اپنا کشکول رکھنے کی ضرورت نہیں ہے پس میں اپنے نو جوانوں سے کہتا ہوں کہ تم دنیا کو رشد و ہدایت دینے کے لئے پیدا کئے گئے ہو.دنیا سے کچھ لینے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے.دنیا تم سے وہ کچھ حاصل کرے گی جسے تم آج نہیں سمجھتے مگر میں اسے

Page 403

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۸۳ خطبه جمعه ۲۵ راگست ۱۹۷۲ء جانتا ہوں.ممکن ہے بعض لوگ یہ کہہ دیں کہ میں نے یہ کیا کہہ دیا ہے.لیکن میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ دنیا تم سے وہ کچھ حاصل کرے گی کہ اس نے نہ سرمایہ داری انقلاب سے وہ چیز حاصل کی نہ اشتراکی انقلاب سے اور نہ چینی سوشلسٹ انقلاب سے اس چیز کو حاصل کیا ہے.پس جو چیز تم نے دنیا کو دینی ہے قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اور ایک عظیم انقلاب کی شکل میں اس کی تم اپنے اندر اہلیت پیدا کرو تا کہ تم وہ چیز یعنی رشد و ہدایت دنیا کو اپنے وقت پر دےسکو.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو بھی اور مجھے بھی اپنی ذمہ داریاں نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (روز نامه الفضل ربوه ۲۴ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 404

Page 405

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۸۵ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء غلبہ اسلام کا خدائی وعدہ نشاۃ ثانیہ میں بھی پورا ہوکر رہے گا خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہاؤس.کا کول.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَحْفَنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوْقِنُونَ.(الروم : ٦١) فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِي وَالْإِبْكَارِ (المؤمن : ۵۶ ) اور پھر فرمایا :.اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے دو زمانے مقدر تھے.پہلے زمانہ کی جد و جہد اور غلبہ اسلام کی کوشش کے لئے جو مہم چلائی گئی تھی اور قربانیاں دی گئی تھیں وہ ایک لمبے زمانے پر ممتد ہیں.جب ہم اس زمانے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ زمانہ مختلف ادوار میں بٹا ہوا نظر آتا ہے.حضرت نبی اکرم ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم دعویٰ لے کر مبعوث ہوئے تھے لیکن ابتداء میں آپ کی یہ حالت تھی کہ اسلام میں داخل ہونے والے لوگ اپنے اسلام کا اظہار بھی نہیں کر سکتے تھے.گنتی کے چند صحابہ تھے.تاہم وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فدائی تھے اور آپ کی تربیت حاصل کر رہے تھے وہ آپ سے روحانی علم بھی سیکھ رہے تھے اور آپ کے فیوض

Page 406

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۸۶ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء سے بہرہ ور بھی ہو رہے تھے.لیکن مکہ کے بہت کم لوگوں کو پتہ تھا کہ کون اس نئے دین کو ، اس ع دین کو اور اس حسین دین کو قبول کر چکا ہے.غرض یہ بھی ایک دور تھا جس میں سے مسلمان گزرے.پھر اسلامی تاریخ نے ایک اور موڑ کا ٹا.چنانچہ کی زندگی ہی میں ایک اور دور ہمیں نظر آتا ہے.اس دور میں مسلمانوں کی تعداد گو پہلے سے کچھ بڑھ گئی تھی لیکن ظلم بھی پہلے سے بہت بڑھ گیا تھا.جن قربانیوں کے دینے کے لئے مسلمان پہلے دور میں تیار کئے گئے تھے، اب اس دور میں اُن کی فدائیت اور قربانیاں اور بھی عظمت اور شان دکھانے لگیں.کفار مکہ یہ سمجھتے تھے کہ چند مسلمان ہیں تھوڑے سے وقت کے لئے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے.بہت جلد یہ کھیل ختم ہو جائے گا اس لئے وہ مسلمانوں سے تمسخر کرنے اور انہیں استہزاء کا نشانہ بناتے تھے.تا ہم اس دوسرے دور میں کفار نے یہ سمجھا کہ اس مہم کا زمانہ اس قدر مختصر نہیں جتنا وہ سمجھتے تھے مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ قوت مل گئی ہے.ان میں پہلے سے زیادہ دلیری پیدا ہو گئی ہے.یہ لوگ پہلے سے زیادہ جرات کے ساتھ اسلام کے احکام اور فرائض کو بجالانے لگے ہیں.بہت سے اثر ورسوخ رکھنے والے لوگ بھی ان میں شامل ہو رہے ہیں لیکن پھر بھی کفار مکہ یہ سمجھتے تھے کہ تلوار سے قتل کرنے سے ورے ورے جو ظلم روا رکھا جاسکتا ہے وہ روا رکھا جائے اس کے نتیجہ میں اسلام مٹ جائے گا.اس وقت اگر کفار مسلمانوں کو قتل کرنے لگ جاتے تو صحابہ چند سو سے زیادہ نہیں تھے.وہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ، دوسو کی تعداد میں تھے.اُن وحشیوں کے لئے ان تھوڑے سے مسلمانوں کو قتل کر دینا کوئی مشکل کام نہیں تھا چنانچہ کفار مکہ نے مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا مگر اللہ تعالیٰ ایک طرف اس مختصر مگر عظیم گروہ کی حفاظت بھی کر رہا تھا اور دوسری طرف اُن سے انتہائی قربانیاں بھی لے رہا تھا گو کفار مکہ کا ظلم بڑھ گیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے کہا کہ وہ مسلمانوں کو قتل نہیں کر سکیں گے.اس کے ورے ورے وہ جتنا چاہیں ظلم کریں مگر یہ میرے محبوب بندے ہیں.مجھ سے محبت کرتے ہیں.یہ کفار کے ظلم کے نتیجہ میں صراط مستقیم کو نہیں چھوڑیں گے.ارتداد کو اختیار نہیں کریں گے.

Page 407

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۸۷ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء چنانچہ یہ زمانہ کئی سال پر ممتد تھا.یہ بھی گزر گیا.پھر ہجرت ہوگئی اس پر رؤسائے مکہ کی آنکھیں کھلیں کہ مسلمانوں کو مٹانے کے لئے تلوار نکلنی چاہیے تھی.ہم سے غلطی ہو گئی.اب بھی کوئی بات نہیں.ہم مسلمانوں کو بزور شمشیر مٹا دیں گے چنانچہ کفر اور اسلام کے درمیان جو پہلی جنگ ہوئی اس میں کم و بیش ۳۱۳ مسلمان لڑنے والے تھے یہ تو کوئی نفری نہیں ہے اسلام پر لبیک کہنے والوں کی جو ساری دُنیا میں ایک عظیم انقلاب بپا کرنا چاہتے تھے.چنانچہ کفار نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کا انتظام کیا اور یہ سمجھا کہ مسلمانوں کو مٹانے کے لئے رؤسائے مکہ کافی ہیں چنا نچہ اُنہوں نے اپنے ساتھیوں اور نوکروں اور غلاموں کو ساتھ لیا اور اسلام کو مٹانے کے لئے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے مدینہ پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجہ میں جنگ بدر ہوئی ، جہاں اسلام کا سر تو نہیں کٹا اور نہ کٹ سکتا تھا لیکن اسلام کے خلاف رؤسائے مکہ کی جو مہم تھی اس کا سرکٹ گیا.وہ اپنے بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں میدانِ جنگ میں چھوڑ کر بھاگ گئے.اس جنگ میں گو کفار کا فیصلہ تو نہیں ہوا لیکن فیصلے کی ابتداء ہو گئی اندھیرا دور تو نہیں ہوا لیکن غلبہ اسلام کے اُفق پر غیروں کو بھی روشنی کی کرن نظر آنے لگ گئی.پس جنگ بدر میں شکست کھانے پر کفار مکہ نے سوچا یہ کیا ہو گیا ہے وہ سمجھے ہم اکیلے تو مسلمانوں کو مٹانہیں سکتے.اس لئے اب ہمیں مکہ کے علاوہ عرب میں رہنے والے دوسرے قبائل کو بھی اپنے ساتھ ملانا چاہیے.چنانچہ مظلومیت کے اس تیسرے دور میں مسلمانوں کو اپنے دفاع میں ہتھیار استعمال کرنے پڑے کیونکہ جارحیت لوہے کے ہتھیاروں سے کی گئی تھی.اس لئے اس کو روکنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تلوار استعمال کرنے کی اجازت دی.یہ مدافعانہ جنگ تھی جو اس سے بھی ایک زبردست روحانی اور جارحانہ جنگ کی تیاری کے لئے لڑی گئی مسلمان اس دور میں سے بھی گزر گئے.پھر سارا عرب مسلمان ہو گیا اور حکومت کی شکل میں عرب کے اندر اسلام قائم ہو گیا.جس وقت سارا عرب مسلمان ہو گیا اُس وقت کسری اور قیصر کو ہوش آیا.اُنہوں نے کہا یہ کیا ہو گیا ہے.یہ عرب کے بدو نہ ان کو کھانے کی تمیز ہے اور نہ رہنے کی.یہ اتنے طاقتور ہو گئے ہیں جہاں تک

Page 408

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۸۸ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء عربوں کا رہن سہن کا تعلق تھا، ایرانیوں اور رومیوں کی بات واقعی ٹھیک تھی.اسلام سے پہلے عرب لوگ بڑے وحشی تھے.اُن کی وحشت اور بربریت کا یہ حال تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زمین میں زندہ گاڑ دیا کرتے تھے.تاہم اُن میں بعض خوبیاں بھی تھیں وہ بڑے مہمان نواز تھے.بڑے اچھے دوست بھی تھے.ہر چیز میں خوبیاں بھی ہیں فائدے بھی ہیں اور محسن بھی پایا جاتا ہے.ورنہ تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق کو پیدا ہی نہ کرتا جس میں کوئی فائدہ نہ ہوتا.بہر حال جس وقت عرب میں اسلام کی حکومت قائم ہوگئی تو اس کے ساتھ اسلام کا چوتھا دور شروع ہوا.ہر دور پہلے دور سے زیادہ نازک تھا.مسلم عرب کی طاقت اسلام کے منکر ، کافر اور دشمن کسری اور قیصر کی مجموعی طاقت کا شاید ہزارواں حصہ بھی نہ تھی.مسلمانوں کی طاقت کے مقابلے میں کسریٰ اور قیصر کی طاقت بہت زیادہ تھی.مسلمان تعداد میں تھوڑے تھے.مسلمانوں کے پاس مال و دولت نہیں تھا.وہ ہتھیار نہیں خرید سکتے تھے.وہ گھوڑے نہیں خرید سکتے.اُن کے پاس اونٹیاں نہیں تھیں.اُن کے پاس زرہیں اور خُود بہت کم تعداد میں تھے مسلمانوں کے مقابلے میں مخالفین عرب کے پاس بہت کچھ تھا.کسری اور قیصر کے مقابلے میں عرب کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے چنانچہ جس وقت عرب میں اسلام کی حکومت قائم ہو گئی تو اس وقت کسریٰ اور قیصر کی دو بڑی طاقتیں اسلام کے خلاف صف آراء ہوگئیں.یہ دونوں اُس وقت کی معلوم دُنیا کی اسی طرح حاکم تھیں جس طرح آج کی معلوم دُنیا پر امریکہ، روس حاکم ہیں.ان کی مرضی کے بغیر آزاد قو میں بھی کچھ نہیں کر سکتیں.یہ ایک فراڈ ہے جو انسانیت کے ساتھ کھیلا جارہا ہے.بہر حال یہ دونوں بہت بڑی طاقتیں تھیں.عرب میں اس وقت ان کے مقابلے کی کوئی طاقت نہیں تھی چنانچہ پہلے کسری نے جنگ چھیڑ دی اور یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ قیصر نے سمجھا کہ یہ موقع ہے اب مسلمانوں کو مٹا دو.کسری تو بد مذہب تھا.اس نے اپنے دُنیوی اثر ورسوخ، مال و دولت اور اپنے عروج وغرور کی وجہ سے اسلام کو مٹانا چاہا اور قیصر نے عیسائیت کے نام پر اسلام کو مٹانا چاہا اس نے اپنی طرف سے عیسائیت کی حفاظت کے لئے اور اپنے ملک کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کے ساتھ لڑائی چھیڑ دی.ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 409

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۸۹ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء کی بعثت کے ساتھ یہ امر ثابت ہو گیا تھا کہ عیسائیت ختم ہو چکی ہے.تا ہم پادری تو عیسائیت کا نام لیتے تھے.وہ اسلام کے خلاف اور مذہب کے نام پر جنگ لڑنے کے لئے عیسائیوں کو بہت اُکساتے پھرتے تھے.اُن کا جو بادشاہ تھا، وہ سمجھتا تھا کہ اس کی دُنیوی حکومت کے لئے اسلام کی شکل میں ایک چھوٹا سا چیلنج ایک مد مقابل پیدا ہو گیا ہے جس کو ابھی سے ختم کر دینا چاہیے ورنہ وہ ہمیں تکلیف دے گا.چنانچہ یہ چوتھا دور اور ایک لحاظ سے غلبہ اسلام کے آخری دور کا آغاز تھا کسری اور قیصر کے خلاف اسلام کو اپنی حفاظت اور بقا اور اس کو ہر لحاظ سے مستحکم کرنے کے لئے مجبور کیا گیا کہ وہ تلوار کے مقابلے میں تلوار نکالے.اللہ تعالیٰ نے وہاں پھر اسلام کے حق میں اور غلبہ اسلام کے لئے سامان پیدا فرمائے.تاہم مسلمانوں کو اگر فَاصْبِرُ اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّی کی رو سے یہ تسلی نہ ہوتی کہ خدا تعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے تو مسلمان اُن کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے تھے.قرآن کریم میں متعدد جگہ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَق “ کو دہرایا گیا ہے جن میں سے میں نے ایک خاص حکمت کے ماتحت اور اپنے مضمون کے لحاظ سے دو آیتوں کا انتخاب کیا ہے.بہر حال پہلے دور میں بھی یعنی جس وقت مکی زندگی میں گنتی کے چند آدمی تھے.اگر انہیں یہ یقین نہ ہوتا کہ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ کی رو سے اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوں گے اگر انہیں یہ بشارت نہ دی گئی ہوتی کہ اسلام ساری دُنیا پر اور دُنیا کے سارے ادیان باطلہ پر غالب آئے گا تو وہ مظلومیت کی زندگی کو بشاشت کے ساتھ برداشت کر ہی نہ سکتے.پھر دوسرے دور میں مسلمانوں کی تعداد تو کچھ زیادہ ہو گئی.پہلے گنتی کے افراد تھے مسلمانوں کی فرداً فردا گنتی ہو رہی تھی.مگر اس کی بجائے اب ہیں ہیں کی گنتی ہونے لگی.مجھے اس وقت صحیح اعداد و شمار تو یاد نہیں لیکن جب ہجرت کے معا بعد مدینہ میں مسجد نبوی بنائی گئی تھی تو اُس وقت نمازیوں کی تعداد دو اڑھائی سو ہوا کرتی تھی اس سے زیادہ نہیں تھی حالانکہ اس وقت تک مدینہ کے لوگ بھی مسلمانوں میں شامل ہو گئے تھے.بہر حال بیبیوں مسلمان کہنا چاہیے جو دوسرے دور میں ظلم و تشدد کے باوجود اسلام کی بقا کے

Page 410

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء لئے ہر قسم کی قربانی دیتے رہے.اس وقت دنیوی لحاظ سے یا د نیوی سامانوں کے لحاظ سے بظاہر یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ یہ لوگ بچ جائیں گے.وہ اپنی اس جدوجہد میں اور اسلام کو غالب اور مستحکم کرنے کے لئے اپنی ان تھک کوشش میں کامیاب ہو جائیں گے.مگر ان کے دلوں میں چونکہ پختہ یقین تھا کہ اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ کیا ہے کہ اسلام ساری دُنیا پر غالب آئے گا.یہ سچا وعدہ ہے حالانکہ ظاہر میں نہ کوئی عقلی دلیل اور نہ کوئی ظاہری سامان اس وعدہ کو سچا کرنے کے لئے موجود تھے لیکن چونکہ مسلمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت پر یقین تھا.آپ کے ذریعے انہیں جو وعدے ملے تھے ان پر ان کا یقین تھا اس لئے وہ اپنے دشمنوں سے محفوظ رہے اور اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے.پھر تیسرا دور شروع ہوا.اس میں بھی چند سو مسلمان تھے.میں نے بتایا ہے بدر کے میدان میں ۳۱۳ کے قریب صحابہ شامل تھے.ان چند سو مسلمانوں کو مٹانے کے لئے رؤسائے مکہ پوری شان کے ساتھ آئے وہ اپنے تمام دوستوں اور لواحقین کے ساتھ ، اپنے نوکروں اور غلاموں کے ساتھ اور اونٹنیوں اور سیوف ہندی ( جو اس زمانے میں بڑی مشہور تھیں ) کے ساتھ آئے تھے.اُن کا ارادہ بھی تھا، ان کی خواہش بھی تھی اور اُن کو یقین بھی تھا کہ بدر کے میدان میں اسلام اور بت پرستوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا اُس وقت کفار مکہ جو تھے وہ تو تھے ہی مگر یہ ۳۱۳ آدمی کس برتے پر ، کسی سہارے پر بدر کے میدان میں لڑنے چلے گئے تھے.وہ اس یقین کے ساتھ لڑنے گئے تھے کہ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا فا صبر یہ حکم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے.مگر اس قسم کا حکم بعض تفسیری معنوں کے لحاظ سے صرف آپ کے اوپر چسپاں ہوتا ہے اور بعض تفسیری معنوں کے لحاظ سے آپ کی اُمت پر انفرادی اور اجتماعی ہر دو لحاظ سے چسپاں ہوتا ہے.اس اعتبار سے فاصبر کے معنے ہوں گے مسلمانو! ایمان کی راہ پر بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتے چلے جاؤ.إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ تم مخالف دُنیا کی طاقت کی طرف نہ دیکھو خدا تعالیٰ نے تمہاری مدد کا وعدہ

Page 411

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۹۱ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء کیا ہے.وہ اس کو ضرور پورا کرے گا.کیونکہ وہ سب طاقتوں کا مالک ہے.پھر یہ دور بھی ختم ہو گیا.اسلام کو ظاہری شان و شوکت نصیب ہوئی.سارا عرب مسلمان ہو گیا پھر کسری اور قیصر مقابلے پر آ نکلے.اُن کو اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا.اس سے پہلے وہ آپس میں بھی لڑ چکے تھے.ان کی باہمی لڑائی کے جو واقعات رونما ہوئے تھے ان میں اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت کارفرما ہے.اس سے ہمیں بڑے سبق ملتے ہیں چنانچہ اُس زمانے میں ایک وقت میں کسری کی فوجوں نے قیصر کی فوجوں پر فتح حاصل کی اور دوسرے موقع پر قیصر کی فوجوں نے کسریٰ کی فوجوں پر فتح حاصل کی اور اس وقت اسلام اپنی مکی زندگی اور مدنی زندگی میں یعنی جیسا کہ میں نے ادوار گنوائے ہیں اس لحاظ سے دوسرے اور تیسرے دور میں سے گذر رہا تھا.پس ان کی آپس کی لڑائی کے یہ دو واقعات خاص حکمت کے ماتحت رونما ہوئے اور اس سے دُنیا کو یہ بتانا تھا کہ ہر دو بہت بڑی طاقتیں ہیں.اگر ان کی یہ جنگیں نہ ہوتیں تو آج مخالف تاریخ دان اور مستشرق اور دوسرے لوگ بھی یہ کہہ دیتے کہ اسلامی فوجوں نے کیا کارنامہ دکھایا.یہ تو چھوٹی چھوٹی حکومتیں تھیں.اُن کے پاس تھوڑی تھوڑی فوج تھی لیکن جب وہ ایک دوسرے کے خلاف میدانِ جنگ میں آئیں تو ساری دُنیا کی طاقت بٹ کر دونوں میں آگئی ساری دنیا کے ہتھیار بٹ کر دونوں کے پاس آگئے.اُن علاقوں میں جہاں ہاتھی استعمال نہیں ہوتے تھے وہاں ہاتھی استعمال کئے گئے.اُن کے بعض سپاہیوں نے اپنے پاؤں کو بڑی بڑی زنجیروں سے باندھ لیا یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ انہیں بھاگنے کی ضرورت نہیں.گو اس میں اور بھی بہت حکمتیں تھیں لیکن ایک یہ حکمت بھی تھی کہ انہیں میدانِ جنگ سے بھاگنے کی ضرورت نہیں چنانچہ ان دونوں کی آپس کی جنگ میں کئی لاکھ کا مقابلہ کئی لاکھ کی فوجوں سے ہوا.بعد میں جب ان کی مسلمانوں سے جنگ ہوئی ہے تو میرا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کی مجموعی طور پر کوئی آٹھ لاکھ فوج بنتی تھی.حالانکہ مسلمانوں کی یرموک کے میدان میں قیصر کی فوج سے لڑنے والی صرف ۳۰/۴۰ ہزار فوج تھی.بعض لوگوں نے یہ تعداد زیادہ بھی بتائی ہے لیکن عام طور پر تاریخ دان ۴۰ ہزار فوج بتاتے ہیں ان کے مقابلے میں قیصر کی کئی لاکھ فوج تھی.ایک اندازہ کے مطابق تین لاکھ فوج تھی جس کے

Page 412

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۹۲ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء ساتھ مسلمانوں نے مقابلہ کیا اور بالآخر ان پر فتح پائی.پہلے بھی میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت خالد بن ولید جب تک کسری کے مظالم کا مقابلہ کرتے رہے اُن کے پاس غالباً چودہ ہزار فوج تھی.اُنہوں نے کسری کے خلاف سات آٹھ لڑائیاں لڑی ہیں.ہر لڑائی میں کسری ساٹھ ستر ہزار تازہ دم فوج بھیجتا تھا.علاوہ ازیں جو پہلی لڑائیوں کے بچے کھچے لوگ ہوتے تھے وہ بھی اُن میں شامل ہو جاتے تھے ان کو تو چھوڑ و.وہ تو پہلے لڑ چکے ہوئے تھے.چنانچہ ان چودہ ہزار مسلمانوں نے مجموعی طور پر قریباً پانچ لاکھ فوج کا مقابلہ کیا ہے کسریٰ کی تازہ دم فوجیں آتی رہیں اور مسلمانوں کی وہی فوج جو پہلے لڑتی چلی آرہی تھی.اس میں سے بھی بعض زخمی ہو گئے.کچھ شہید بھی ہو گئے.اس سارے عرصہ میں مسلمانوں کو صرف ایک آدمی کی کمک پہنچی تھی.چنانچہ حضرت خالد نے شروع میں جب کمک مانگی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی سے فرمایا کہ تم چلے جاؤ.خالد کو مدد کی ضرورت ہے.اس پر مدینے والے حیران بھی ہوئے تھے اس کی تفصیل میں پہلے کئی دفعہ بتا چکا ہوں.پس اسلام کے چوتھے دور میں ایک طرف کسری سے جنگ ہورہی تھی تو دوسری طرف قیصر سے جنگ ہو رہی تھی وہ مسلمانوں پر بدنیتی سے حملہ آور ہوئے تھے وہ اسلام کو مٹا دینا چاہتے تھے.اُن کا خون کھول رہا تھا کہ کل تک جنہیں ہم بدو سمجھتے تھے وہ آج ہمارے حاکم بننے کے لئے تیار ہو گئے ہیں اس لئے وہ بڑے غصہ میں آتے تھے.یہ نہیں کہ انہوں نے اسے کھیل سمجھا تھا حملہ کرنے آگئے تھے.وہ بڑی جانبازی سے لڑتے تھے.وہ بڑی بہادر قو میں تھیں اور بڑی تجربہ کار بھی تھیں.چنانچہ اُن کے بعض ایسے جرنیل بھی تھے جنہوں نے کئی کئی لڑائیوں میں شاندار فتح حاصل کی ہوئی تھی ، اُن کے لئے کسریٰ کا حکم تھا کہ انہیں ایک لاکھ روپے کی ٹوپیاں پہنا دی جائیں.ایک لاکھ روپے تو بڑی رقم ہوتی ہے.مخمل کی ٹوپی پر چند روپے خرچ آتے ہیں.اس لئے ٹوپیوں پر لاکھ لاکھ روپے کے ہیرے اور جواہرات جڑے ہوتے تھے.اب تو بہادری کے کارناموں پر فوجیوں کو تمغے ملتے ہیں.اُس وقت ایرانیوں میں ہیرے جواہرات کی ٹوپیاں پہنانے کا رواج تھا چنانچہ ایک ایک لاکھ روپے کی ٹوپی پہنے والے جرنیل کا مطلب یہ ہے کہ اس

Page 413

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۹۳ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء قوم کے نزدیک وہ انتہائی تجربہ کار جرنیل تھے جو مختلف محاذوں پر بڑی زبر دست اور کامیاب جنگیں لڑ چکے تھے.ان میں سے ہر جرنیل تازہ دم فوج کے ساتھ چودہ ہزار مسلمانوں کے مقابلے پر آتے تھے.چنانچہ ہر دفعہ ساٹھ سے اسی ہزار تازہ دم فوج نئے جرنیلوں کی قیادت میں مقابلے پر آتی اور ہر دفعہ ہزیمت اٹھاتی رہی.پس اُس وقت جب ان دونوں قوموں سے مسلمانوں کی لڑائی ہو رہی تھی کون احمق تھا جو یہ سوچ سکتا تھا کہ دنیوی اور ظاہری سامانوں کے ساتھ مسلمان اُن پر غالب آئیں گے اُن کے کانوں میں تو بڑی پیاری یہ آواز پڑتی تھی ایک خدا پر ایمان رکھنے اور الہی سلسلہ کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز آتی تھی.فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ تم دشمن کی طاقت نہ دیکھو کیونکہ جب دشمن کی طاقت دیکھ کر اپنی طاقت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہو تو آدمی یہی فیصلہ کرے گا کہ لڑنا نہیں چاہیے.مداہنت اختیار کرنی چاہیے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا.فاصبر ایمان کی راہ میں ، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتے چلے جاؤ اور یاد رکھو اِنَّ وَعْدَ الله حق دشمن جتنا بھی طاقتور ہو ، ہوتا رہے تم مغلوب نہیں ہو گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ اسلام غالب آئے گا.چنانچہ ان چار ادوار میں سے گزر کر مسلمان ایک ایسی طاقت بن گئے جن کے مقابلے میں کسری اور قیصر کی عظیم سلطنتیں پاش پاش ہو گئیں.حتی کہ دشمن اسلام بھی اس بات کا قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکا کہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہوا.کوئی وعدہ پہلے دور میں پورا ہوا، کوئی دوسرے دور میں پورا ہوا.فتح مکہ کے موقع پر وہی رؤسائے مکہ جو اسلام کو مٹا دینا چاہتے تھے اسی دلیل سے وہ مسلمان ہو گئے.اُنہوں نے سوچا کہ اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ مسلمانوں کے سر پر نہ ہوتا تو انہیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.پس فتح مکہ کا دن جو کفار کے لئے ان کے زعم میں نحوست کا دن تھا وہ مسلمانوں کے لئے بڑی برکتوں اور خوشیوں کا دن تھا کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو گیا تھا.یہ مختصر سا خاکہ ہے اسلام کی نشاۃ اولی یعنی اس کے پہلے دور کا جس میں اسلام اس وقت کی معروف دُنیا پر غالب آیا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلام کے دو

Page 414

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۹۴ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء عالمگیر غلبوں کی پیشگوئی کی گئی تھی.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ بشارت دی تھی اور اُن سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ جس طرح اسلام پہلے زمانہ میں غالب آئے گا اسی طرح آخری زمانہ میں بھی سب ادیان پر غالب آئے گا.پس اسلام کے پہلے چار ادوار میں سے کسی دور میں بھی کیا کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ ہمارا جیتنا ظاہری سامانوں کے لحاظ سے ممکن ہے؟ نہیں! ایسا ہر گز نہیں وہ لوگ تو پاگل ہوں گے جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ ظاہری سامانوں کے لحاظ سے جیت جائیں گے.دور جانے کی ضرورت نہیں ۵۳ ء کے فسادات کو لے لیجئے.اُس وقت جب کہ مخالفت زوروں پر تھی اور ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی.ہم آپس میں رتن باغ میں یہ باتیں کیا کرتے تھے کہ اگر کوئی احمدی ہمیں آکر یہ کہے کہ ظاہری حالات ایسے ہیں کہ ہم اس آگ سے بچ جائیں گے.تو ہم سمجھیں گے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے کیونکہ ظاہری حالات میں ہمارا بچنا ممکن نہیں تھا.ویسے تو ہم میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کا کامل یقین تھا.اس لئے ہم میں سے ہر ایک یہ کہتا تھا کہ ہم بچ جائیں گے.ہمیں کوئی مار نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے آگ سے ہمیں مت ڈراؤ.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.یہ ہر احمدی سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.لیکن یہ نہیں کہ ہم ظاہری سامانوں کی بدولت بچ جائیں گے.اگر کوئی احمدی آکر اس وقت یہ کہتا کہ ظاہری سامان ایسے ہیں کہ ہم بچ جائیں گے تو ہم سمجھیں گے اُس کے دماغ پر اتنا بوجھ پڑا ہے کہ اس کا دماغ چل گیا ہے.تاہم یہ حقیقت ہے کہ ہم ان فسادات میں بچ گئے کیونکہ خدا تو سچے وعدوں والا ہے وہ کہتا ہے إِنَّ وَعْدَ الله حق اس کا ترجمہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي در اصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظم و نثر کی اکثر تحریرات قرآنی آیات کی تفسیر اور ترجمہ ہوتا ہے.

Page 415

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۹۵ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء پس یہ مختصر سا پس منظر ہے اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں اسلام کے دوبارہ عالمگیر غلبہ کا.اب ہم اس زمانہ میں داخل ہو گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت اس وقت ہوئی جب اسلام کا تنزل اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ اسلام کے حالات اس پہلے دور کے (جسے ہم نشاۃ اولی کہتے ہیں اور جس کے آگے چار مختلف ادوار ہیں ) حالات سے ملتے جلتے تھے.جس طرح اس وقت مسلمان چھپے پھرتے تھے اور ظاہر ہو کر سامنے نہیں آتے تھے اسی طرح اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے پہلے دور کی بھی یہی حالت تھی.مسلمان اغیار کے سامنے چھپے پھرتے تھے.میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے.سیرالیون کے ایک سابق نائب وزیر اعظم نے بھی کہا تھا کہ احمدیوں کے آنے سے پہلے ہم اسلام کا نام لیتے ہوئے شرماتے تھے.وہ گویا چھپ گئے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر انہوں نے اسلام کا نام لیا تو وہ مارے جائیں گے اور یہ کہتے تھے کہ اسلام کا نام لے کر ہم شرم سے مر جائیں گے.یہ بھی مرنے کا سوال تھا.پھر انہوں نے کہا اب پچاس سال کے بعد ہم بڑے فخر سے اپنی گردنیں اُٹھا کر اسلام کے متعلق گفتگو کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے مقابلے میں کوئی ٹھہر نہیں سکتا.تاہم اس نے اعلان کیا کہ یہ اس اسلام کا نتیجہ ہے جو احمدیوں نے ہمیں سکھایا ہے حالانکہ وہ خود احمدی نہیں تھا اور اپنی تقریر کے دوران یہ بار بار کہتا تھا میں احمدی نہیں ہوں.پھر ہمارے اوپر بھی ایسا دور آیا.میں کئی دفعہ یہ کہا کرتا ہوں کہ خدا کی یہ شان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک وقت میں اکیلے تھے.آپ کے گھر والوں میں سے کوئی بھی آپ کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھا.حتی کہ آپ کو روٹی دینے کے لئے تیار نہیں تھے.باوجود اس کے کہ جائیداد میں آپ اُن کے ساتھ برابر کے شریک تھے.پھر بھی بچی کچھی روٹی کھانے کو بھجوا دیتے تھے.اُس وقت ایک آدمی احمدیت کو مٹا سکتا تھا.مثلاً کوئی ایک آدمی جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قتل کر دیتا تو کیا جو خدا تعالیٰ نے منصوبہ بنایا تھا عالمگیر غلبہ اسلام کا وہ ختم ہوجا تا ؟ لیکن خدا تعالیٰ کے منصوبے تو کبھی ختم نہیں ہوتے خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ میرا بندہ ہے اس پر کوئی ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا.

Page 416

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۹۶ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء چنانچہ یہ ایک دور تھا جو گزر گیا پھر جماعتیں قائم ہونے لگیں اور ہم مکی زندگی سے ملتے جلتے دوسرے دور میں داخل ہو گئے.مخالفین کے ظلم بڑھ گئے.اگا دگا احمدی شہید بھی ہوا حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف کو بڑے ظالمانہ طور پر شہید کر دیا گیا اور بھی بہت سے جاں نثار پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام واحمدیت کی سچائی کی خاطر اپنی جان دے دی.ہر احمدی نے اپنے ایثار اور قربانی سے یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ اس یقین پر قائم ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں.یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کے لئے قائم کیا ہے.اس واسطے کسی احمدی کو مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور نہ ہے وہ سمجھتا ہے کہ موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.نوجوان بھی مرجاتا ہے.ادھیڑ عمر کا ہو یا بوڑھا ہو، مرد ہو یا عورت ہر ایک نے موت کا مزہ چکھنا ہے.موت پر تو انسان کو اختیار ہی نہیں ہے لیکن جب ظالم ظلم سے مارنا چاہے تو بشاشت کے ساتھ خدا کی رضا کے حصول کے لئے جان دے دینا یہ بہت بڑی چیز ہے اور حقیقی قربانی کی علامت ہے.چنانچہ ہمارے محترم صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی.اسی طرح اور بھی جانباز پیدا ہوئے جنہوں نے احمدیت کی خاطر جان دے دی.پھر بعض نے میدانِ تبلیغ میں جانیں دے دیں.یہ بھی ایک شہادت ہے جو ایک گروہ کو حاصل ہوتی رہی.جس طرح رو سائے مکہ نے سمجھا تھا کہ مسلمان تھوڑے سے ہیں ان کو تنگ کر کے مرتد کر لینا چاہیے اس طرح اس دوسرے دور میں ساری دُنیا میں اسلام پر بھی ایک ایسا وقت آیا کہ عیسائیوں نے کہا ان کو پیسے دے کر دنیا کا عیش پیش کر کے عیسائی بنالو.بس یہ اپنے آپ ختم ہو جا ئیں گے.اس قوم میں کوئی جان نہیں ہے وہ مسلمانوں کو اتنی تنزل کی حالت میں دیکھ رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ جلد ہی عیسائی ہو جائیں گے چنانچہ ۱۸۵۵ء اور ۱۸۸۰ ء کے درمیان عالمی کانفرنسوں میں عیسائیوں کے چوٹی کے مناد پادریوں نے یہ کہا کہ وہ وقت عنقریب آنے والا ہے کہ خداوند یسوع کا جھنڈا خانہ کعبہ پر لہرائے گا.چنانچہ برصغیر پاک و ہند میں حضرت علامہ عماد الدین جو آگرہ کی جامع مسجد میں واعظ رہے تھے وہ عیسائی ہو گئے.پھر وہ پادری عماد الدین کہلانے لگے وہ بڑا پڑھا لکھا آدمی تھا.علوم ظاہری

Page 417

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۹۷ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء میں بڑا ماہر تھا.علمائے ظاہر کے گروہ کا ایک بہت بڑا عالم تھا میں نے بھی اس کی بعض کتابیں پڑھی ہیں.جہاں تک ظاہری علوم کا تعلق ہے وہ تو ایک عیسائی بھی پڑھ سکتا ہے.مثلاً بخاری ہے.حدیث کی دوسری کتابیں ہیں.پھر تفاسیر کی کتابیں ہیں جنہیں مسلمان علماء نے لکھا ہے انہیں ہر کوئی پڑھ سکتا ہے اور یاد بھی رکھ سکتا ہے.یہ بھی علم کی ایک قسم ہے اور ایسے شخص کو بھی عالم کہتے ہیں.اس قسم کا وہ عالم تھا.غالباً امریکہ میں عیسائیوں کی عالمی کانفرنس منعقد ہونے والی تھی.اُنہوں نے ان کو بھی بلا یا مگر یہ کسی وجہ سے اس کا نفرنس میں شریک نہ ہو سکے.البتہ انہوں نے اس کا نفرنس کے لئے ایک مضمون بھجوا دیا اس میں اُنہوں نے دُنیا کے عیسائیوں کو یہ بشارت دی کہ وہ وقت عنقریب آنے والا ہے کہ اگر ہندوستان میں (اس وقت پاکستان تو بنا نہیں تھا سارا ہندوستان اکٹھا تھا) کسی شخص کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنی زندگی میں کسی مسلمان کو دیکھ لے تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکے گی یعنی یہاں ایک بھی مسلمان نہیں رہے گا.یہ اُن کا دعویٰ تھا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے.دُنیا کے حالات بدلے ایک کے بعد دوسرا.دوسرے کے بعد تیسرا دور شروع ہوا اور گزر گیا.اس وقت ہم عملاً چوتھے دور میں داخل ہو چکے ہیں.پہلے تو ہندوستان اکٹھا ہو کر اسلام کے غلبہ کی مہم میں رکاوٹ پیدا کرنا چاہتا تھا.مگر پھر ساری دُنیا اکٹھی ہو گئی اور اُنہوں نے اسلام کو غالب کرنے کی اس الہی سکیم اور منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے کروڑوں اربوں روپے خرچ کئے اور یہ وہ دور ہے جس میں سے ہم اب گزر رہے ہیں لیکن دور دور کے مختلف مراحل میں فرق ہوتا ہے میں نے بڑا غور کیا ہے.میرے نزدیک ابھی اس دور کی ابتداء ہے لیکن مجھے نظر آ رہا ہے کہ ہم عنقریب اس چوتھے دور کے نہایت نازک مرحلے میں داخل ہونے والے ہیں.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ جس طرح اسلام کی نشاۃ اولیٰ کے چوتھے دور میں پہلے کسری اور پھر قیصر کے خلاف مسلمانوں کو ایک زبردست جہاد اور سخت مجاہدہ کرنا پڑا تھا اسی طرح اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے اس چوتھے دور میں بھی اسلام کو غالب کرنے کی جو جد و جہد تھی وہ پہلے ادیان باطلہ کے خلاف تھی.جماعت احمدیہ کی کش مکش دیگر مذاہب کے ساتھ تھی یعنی ہماری ان لوگوں کے

Page 418

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۹۸ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء ساتھ مذہبی جنگ ہو رہی تھی جو اپنے آپ کو عیسائیت کی طرف منسوب کر رہے تھے.یا اپنے آپ کو وید کی طرف منسوب کر رہے تھے یا بعض دوسرے مذاہب کی طرف منسوب ہوتے تھے مگر جس طرح پہلے کسرئی اور قیصر کے ساتھ جنگ ہوئی یعنی پہلے ایک طاقتور مخالف حکومت کے بعد دوسری طاقتور مخالف طاقت کے ساتھ جنگ ہوئی اس طرح جماعت احمدیہ کے مقابلے میں اس چوتھے دور کا پہلا حصہ ہے ادیان باطلہ کی مخالفت اور اس کا مقابلہ ہمیں اس میں بڑا زبردست جہاد اور سخت مجاہدہ کرنا پڑا اور کرنا پڑ رہا ہے اس جنگ کو ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں تک دلائل کا تعلق ہے جیت لیا ہے.ہماری کوشش کامیاب ہو گئی ہے.دلائل کے مقابلے میں اب لوگ ہمارے سامنے بالکل نہیں ٹھہرتے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں ایک جگہ ایک بڑا ہی عجیب فقرہ لکھا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ایک وہ وقت تھا کہ پادری ہر نکڑ پر اور ہر چوراہے پر کھڑے ہوکر مسلمانوں پر یہ آوازے کسا کرتے تھے کہ کہاں ہیں وہ اسلام کے معجزات جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دکھائے تھے.وہ ہمارے سامنے پیش کرو.مگر اب یہ حال ہے کہ وہی پادری میرے ساتھ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم ہوں مقابلہ کرنے سے گھبراتے ہیں.غرض دلائل کے میدان میں اہلِ مذہب کی پسپائی کا دور آپ علیہ السلام کی زندگی میں شروع ہو گیا تھا.اب مثلاً وفات مسیح کا مسئلہ ہے.اندرونی طور پر مسلمان کہلانے والوں کے ساتھ ایک وقت میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا.اس مسئلہ پر بڑی سر پھٹول ہوا کرتی تھی.بڑی لڑائیاں ہوا کرتی تھیں.اسی بناء پر قتل کی کوششیں ہوئیں کہ ہم حضرت مسیح ( جو ایک عاجز انسان تھے ان ) کو آسمان پر زندہ کیوں نہیں مانتے ؟ اس مسئلہ پر لوگ ہمارے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے.وہ ہمیں کہتے تھے تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے.ایک طرف عیسائی تھے.وہ ہمیں کہتے تھے کہ تم اُس مسیح کو خدا کیوں نہیں مانتے اور دوسری طرف مسلمان کہہ رہا تھا تم اسے آسمان پر زندہ کیوں نہیں مانتے.حالانکہ حضرت مسیح علیہ السلام ایک عاجز انسان تھے جو ماں کے پیٹ کے اندھیروں میں نو مہینے رہنے کے بعد اس دُنیا میں پیدا ہوئے تھے وہ نہ تو خدا بن سکتے تھے اور نہ اس جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ رہ سکتے تھے.

Page 419

خطبات ناصر جلد چہارم ۳۹۹ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء چنانچہ ہم نے حیات مسیح کے عقیدہ کے خلاف عقلی اور نقلی اور تاریخی دلائل کے ذریعہ لوگوں کو لاجواب کر دیا.اب اسی نوے فیصد مسلمان یہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ غلطی کرتے تھے جو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانتے تھے.بمشکل دس بیس فیصد لوگ ایسے رہ گئے ہیں جو حیات مسیح کے قائل ہیں.ان میں سے بھی ایک حصہ ایسا ہے جو مانتا تو ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں لیکن وہ اس بات کا اعلان کرنے کے لئے تیار نہیں.تاہم ایک وقت آئے گا کہ وہ لوگ بھی وفات مسیح کا اقرار کر لیں گے.دوسری طرف عیسائی کہتے ہیں کہ مریم کا بیٹا ( علیہ السلام ) آسمان پر زندہ ہے اور خدا کے دائیں ہاتھ بیٹھا خدائی کر رہا ہے تین مل کر ایک بن گئے ہیں یعنی تثلیث عیسائیوں کا بنیادی عقیدہ ہے حالانکہ بائیبل نے حضرت مسیح کو Son of Man ( سن آف مین ) یعنی ابن آدم کہا ہے.یہ بڑی موٹی بات ہے پھر بھی آدمی حیران ہوتا ہے کہ اس کے باوجود عیسائی حضرت مسیح کو خدا مانتے ہیں آخر وہ ان کی خدائی کو کس طرح اور کس دلیل کی بناء پر مانتے ہیں.عیسائیوں نے بائیبل میں دجل کر کے جو حصہ ملایا ہے وہ علیحدہ ہے اس کے باوجود بائیبل نے کئی جگہ حضرت مسیح کو ابنِ آدم کہہ کر پکارا ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ڈنمارک میں ایک عیسائی پادری نے بدتمیزی کی تھی اس نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بات کی تھی.اس کا میں نے جو جواب دیا تھا وہ ان کے لئے پریشان کن تھا.میں نے اپنے جواب میں جان بوجھ کر حضرت مسیح کے لئے ابن آدم کا لفظ استعمال کیا تھا وہ چونکہ پڑھے لکھے اور ہوشیار لوگ ہیں اس لئے وہ فوراً سمجھ گیا اور بڑا تلملا یا کہ یہ کیا ہو گیا ہے وہ کہنے لگا کہ ابن آدم کے معنے وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں میں نے اس کو جواب دیا ( دوست یا درکھیں کہ ایسے وقت میں اپنی جگہ کو بالکل نہیں چھوڑ نا چاہیے ) کہ ابن آدم کے معنے سوائے ابن آدم کے کوئی اور ہو ہی نہیں سکتے.اس واسطے تمہارا یہ کہنا غلط ہے کہ میں ابن آدم کے جو معنے سمجھتا ہوں وہ درست نہیں سن آف مین یعنی ابن آدم کے معنے ابن آدم ہی کے ہوتے ہیں اس پر وہ کہنے لگا کہ یہ تو ہماری مذہبی اصطلاح ہے.میں نے کہا میں جانتا ہوں.یہ تمہاری مذہبی

Page 420

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء اصطلاح ہے لیکن دُنیا کے سارے علوم اور دُنیا کے سارے مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ کسی لفظ کے یا کسی جملے کے اصطلاحی معنے لغوی معنے کو محدود کرتے ہیں اس میں وسعت پیدا نہیں کرتے.اس لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ لغت کوئی اور معنے کر رہی ہو اور اصطلاحی معنے کچھ اور ہوں.مثلاً گھوڑا ہے.اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں.عربی میں گھوڑے کے کئی سو نام ہیں.اب ایک خاص قسم کا گھوڑا ہے ( جس کا ایک خاص نام ہے ) تو اس کے متعلق اگر کوئی کہہ دے کہ یہ گھوڑ انہیں اس کے معنے گدھے کے ہیں تو ایسا نہیں ہوسکتا.گھوڑا ، گھوڑا ہی رہے گا گدھا نہیں بن جائے گا.اسی لئے ساری دُنیا کے عالم اور مذہبی لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اصطلاحی معنے لغوی معنوں کو محدود کرتے ہیں ان میں وسعت پیدا نہیں کرتے.اس لحاظ سے ابن آدم کے معنے ابن آدم ہی کے ہوتے ہیں یعنی اس کا مفہوم کچھ محدود ہو جائے گا.ابن آدم سے بڑھ کر کچھ نہیں بنے گا.جب اُس نے یہ کہا تو چونکہ اس کے ساتھ کج بحثی نہیں کرنا چاہتا تھا نہ یہ میرا مقام ہے.میں نے بڑے وثوق سے اُن کے لیڈر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس کا جواب میں نہیں دوں گا.یہ دیں گے کوئی کہہ سکتا تھا کہ میں نے ایسا کر کے خطرہ مول لیا تھا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.وہ دل میں جوخواہش پیدا کرتا ہے اس کو پورا بھی کرتا ہے.چنانچہ اُن کا لیڈر اس پادری سے کہنے لگا.تم غلط کہتے ہو یہ ٹھیک کہتے ہیں.پس عیسائیوں کو بھی حضرت مسیح کا ابن آدم ہونا تو ماننا پڑ گیا.میں اس وقت بتا یہ رہا ہوں کہ ادیان باطلہ کے ساتھ ہماری دلائل کی جو جنگ تھی اُسے ہم نے قریباً قریباً جیت لیا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے یہ جنگ پوری جیت لی ہے.ہم نے یہ جنگ دلائل کے میدان میں جیت لی ہے.بعض لوگ ہیں فیصد احمدی ہو چکے ہیں.بعض پچاس فیصد احمدی ہو چکے ہیں بعض ساٹھ فیصد احمدی ہو چکے ہیں.غرض غلبۂ اسلام کی راہ میں روک بننے والی دو بنیادی طاقتیں تھیں.ایک ادیان باطلہ کی مجموعی طاقت.چنانچہ جب اسلام کا سوال پیدا ہو تو یہودی اور عیسائی ایک بن جاتے ہیں.جب اسلام کا سوال نہ ہو تو عیسائی یہودیوں سے کہتا ہے تم نے خداوند یسوع کو صلیب پر لٹکا دیا تھا.تم

Page 421

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۰۱ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء سخت ظالم ہو لیکن جس وقت اسلام کا سوال ہو تو اس وقت یہودی اور عیسائی ایک ہو جاتے اس وقت یہودی، عیسائی اور آریہ ایک ہو جاتے ہیں.دوسرے سب مذاہب والے ایک ہو جاتے ہیں.جس وقت اسلام کا سوال ہو تو مذہب اور فلسفہ ایک ہو جاتے ہیں یعنی ایک فلسفی بڑے آرام سے اسلام پر وار کر دیتا ہے مگر دوسرے مذاہب پر وار کرنے کی متحدہ جرأت نہیں کرتا.گو اس کی دلیل غلط ہوتی ہے یہ ہم مانتے ہیں.یہ رجحان اب آہستہ آہستہ دُور ہو رہا ہے مذہبی دلائل کے میدان میں ہم نے اُن کو لاجواب کر دیا ہے.یہ جنگ ابھی شدت سے جاری ہے.اور ان کو حلقہ بگوش اسلام کرنا ابھی رہتا ہے.لیکن ہمیں اس کی فتح کے آثار نظر آرہے ہیں تاہم یہ جنگ مزید ۲۰، ۲۵ سال تک جاری رہے گی.اسلام کے خلاف دوسری بڑی طاقت لامذہبیت یعنی دہریت کی تھی جسے اشتراکیت بھی کہتے ہیں یہ لوگ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر لامذہبیت کے نام پر انسانی معاشرہ کو خوشحال بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمارے نزدیک اسلامی ہدایت اور قرآنی شریعت کو چھوڑ کر انسانی معاشرہ نہ حقیقی طور پر خوش حال بن سکتا ہے اور نہ با اخلاق اور باخدا بن سکتا ہے.یہاں تک کہ دُنیوی لذتوں کا جتنا احساس ایک مسلمان کو ہے اتنا ان کو نہیں ہے.ہم اس وقت ایسے موڑ پر کھڑے ہیں کہ جس طرح نشاۃ اولیٰ میں اسلامی ترقی کے چوتھے دور میں پہلے تو کسرئی اور بعد میں قیصر کے ساتھ مقابلہ تھا.اسی طرح ہمارا بھی پہلے مذاہب کے ساتھ اور اب لامذہبیت یعنی دہریت کے ساتھ مقابلہ ہے.اس کے لئے ہمیں دو ہتھیار ملے ہیں ایک دلائل کا ہتھیار اور دوسرا آسمانی نشانات یعنی معجزات کا ہتھیار چنانچہ اس دور کے پہلے حصہ میں ہم دلائل پر زور دیتے رہے ہیں.کیونکہ جن لوگوں کے ساتھ پہلے ہما را مقابلہ تھا وہ مذہب کو ماننے والے تھے اس واسطے ہم انہیں اسلام کا قائل کرنے کیلئے عقلی اور نقلی دلائل قاطعہ دیا کرتے تھے جن کا وہ جواب نہیں دے سکتے تھے.دلائل کے علاوہ انہیں آسمانی نشانات سے بھی قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے.اس میں ہم قریباً قریباً کامیاب ہو چکے ہیں.اب ہم اس دور کے دوسرے حصہ میں داخل ہو رہے ہیں اس میں ہمیں آسمانی نشانات پر زیادہ زور دینا پڑے گا اور ساتھ ساتھ دلائل بھی دینے پڑیں گے ہمارے پاس یہ دونوں ہتھیار

Page 422

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۰۲ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء ہیں پہلے زمانے میں جب اسلام کے دفاع میں جنگ لڑی جاتی تھی تو کسی وقت تلوار کی جنگ ہو رہی ہوتی تھی اور کسی وقت تیر کی جنگ ہو رہی ہوتی تھی.یا ایک وقت میں تیر چلتے تھے تو دوسرے وقت میں تلوار میں اور نیزے نکل آتے تھے.پس ہتھیار تو دونوں قسم کے استعمال ہوں گے لیکن زیادہ اہمیت اب آسمانی نشانوں کو دی جائے گی.دوسرے نمبر پر دلائل قاطعہ اور براہینِ ساطعہ ہوں گے.اس دور کے پہلے حصے میں زیادہ اہمیت دلائل کی تھی اور دوسرے نمبر پر معجزات کی ضرورت تھی.اب معجزات کی اہمیت پہلے نمبر پر ہے اور دلائل کی حیثیت ثانوی ہے.گو دونوں ہتھیار ہی نہایت اہم ہیں.جیسا کہ میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بتا چکا ہوں کہ اس مہم میں کامیابی کے لئے جہادا کبر کی بڑی ضرورت ہے.جہادا کبر کا مطلب ہے اپنے نفس کی اصلاح کے لئے مجاہدہ کرنا، اپنے نفس کی تربیت کرنا اپنے نفس کا ایسا محاسبہ کرنا جس کے نتیجہ میں مقبول عبادت کی توفیق مل جائے یعنی حقیقی عبادت اور قربانی جسے اللہ تعالیٰ قبول بھی فرما لے.دراصل مقبول عبادت کے بغیر طہارت اور پاکیزگی نصیب نہیں ہوتی اور پاکیزگی کے بغیر آسمانی نشان نہیں ملتے.اس لئے اس دور میں جس میں ہم داخل ہو رہے ہیں ہم میں سے ہر چھوٹے اور بڑے خصوصاً نو جوانوں کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کو پاک کریں.جہاں تک اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے روحانی جنگ کا تعلق ہے اس کے متعلق تو خدا تعالیٰ کا منشاء ہے اس کا وعدہ ہے اور آسمانوں پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ یہ جنگ ہم نے جیتنی ہے.تم میدان میں نہیں آؤ گے تو کوئی اور آجائے گا.اللہ تعالیٰ کوئی اور قوم لے آئے گا.یہ جنگ بہر حال جیتی جانی ہے.تاہم یہ جنگ ایٹم بم سے نہیں جیتی جانی یہ جنگ دلائل اور آسمانی نشانوں کے ذریعہ جیتی جانی ہے اس کے لئے ایک بڑی زبردست اور تربیت یافتہ روحانی فوج تیار ہونی چاہیے.اور وہ جہادا کبر کے ذریعہ یعنی نفس کے محاسبہ اور تربیت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.پس جماعت کے ہر چھوٹے اور ہر بڑے بالخصوص نوجوانوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور اپنے نفس کی تربیت اور اصلاح میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھنی چاہیے.وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے میں اس مضمون کو مختصر کر دیتا ہوں.

Page 423

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۰۳ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء میں نے خطبہ کے شروع میں جن دو آیتوں کی تلاوت کی ہے اُن میں سے پہلی آیت میں فرما یا اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے وہ تو پورا ہو کر رہے گا.اس کے وعدوں کو تو کوئی ٹال نہیں سکتا.لیکن وہ لوگ جو اللہ کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے وہ یہ کوشش کریں گے کہ تمہیں جادہ استقامت اور صراط مستقیم سے پرے ہٹا دیں.فرمایا اُن سے ہوشیار رہنا ان کے دھوکے میں نہ آنا.لا يُوقِنُونَ کے لفظ میں دونوں قسم کے لوگ آجاتے ہیں بلکہ تینوں آجاتے ہیں.یعنی کمزور ایمان والا ، منافق اور منکر ، ان تینوں کو یہ یقین نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے بچے ہوں گے مگر ایک پکے اور پختہ ایمان والے مسلمان کو تو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے پر کامل یقین ہوتا ہے.دوسری آیت میں فرمایا اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو ضرور پورا ہو کر رہے گا لیکن ساتھ ہی فرما یا اس کے لئے تمہیں استغفار کرنا پڑے گا.کیونکہ اس وعدہ کے پورا ہونے کے رستہ میں تمہاری کمزوریاں حائل ہو سکتی ہیں.جس کے نتیجہ میں وعدہ پورا ہونے میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دوسری قوم پیدا کر دے.جو ان وعدوں کو پورا کرنے والی ہو.اس لئے فرمایا تم ہمیشہ استغفار کرتے رہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استغفار کے معنے یہ کئے ہیں کہ انسان اپنے رب سے یہ درخواست کرتا رہے کہ اس کی بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو.اللہ تعالیٰ بھی طاقت رکھنے والا اور قادر مطلق ہے اس کی طاقت سے انسان طاقت حاصل کرنے کی توفیق پائے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا خدا کے وعدے تو ضرور پورے ہوں گے اسلام کو کامیابیاں نصیب ہوں گی.مگر خدا کے وعدوں کی وجہ سے غرور نہ کرنا اور یہ نہ سمجھنا کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا اس لئے ہم کمزوری دکھا جائیں تو کوئی بات نہیں.اللہ تعالیٰ نے فرما یا کمزوری نہیں دکھائی بلکہ ہر وقت چوکس رہنا ہے اور استغفار کرتے رہنا ہے اس لئے ہم نے کوشش بھی کرنی ہے اور دعا بھی کرنی ہے کہ ہماری بشری کمزوریاں غلبہ اسلام کی راہ میں حائل نہ ہو جائیں.ایسا نہ ہو کہ کوئی اور قوم پیدا ہو جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے پورے ہوں اور وہ ان بشارتوں کی وارث بن جائے.دوسرے فرمایا غرور نہیں کرنا بلکہ ہر حال میں خدا تعالیٰ سے طاقت حاصل کر کے کامیابی کی

Page 424

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۰۴ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء راہوں کو تلاش کرنا ہے پھر فرمایا جس شخص نے خدا تعالیٰ سے طاقت حاصل کرنی ہو اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں ایک تسبیح کرنا اور دوسرا تحمید کرنا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِي وَالْإِبْكَارِ تم شام اور صبح کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح بھی کرتے رہو اور حمد بھی کرتے رہو.ہمارا بھی یہی محاورہ ہے اور دوسرے ملکوں کا بھی یہی محاورہ ہے کہ جب اس قسم کا مفہوم ادا کرنا ہو تو ہم کہتے ہیں صبح و شام ایسا ہوتا ہے اس آیت میں یہ ترتیب بدل دی گئی ہے فرما یا تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرو بِالعَشِي وَالإِبْكَارِ شام کے وقت بھی اور صبح کے وقت بھی دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی مجاہدہ یعنی غلبہ اسلام کے لئے جو جد و جہد کی جاتی ہے اس کی حرکت اندھیروں سے روشنی کی طرف تھی.روشنی سے اندھیروں کی طرف نہیں تھی.اس میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے ایک تو وہ رات ہے جو سورج کے غروب ہونے پر دھند لکے سے شروع ہوتی ہے اور ایک اس وقت کی رات ہے جس وقت مسلمانوں کو روشنی نظر نہیں آرہی تھی ان کو تکالیف کا سامنا تھا.ان پر ظلم و ستم ہو رہے تھے ، کفر نے ان کی ترقی کے راستے میں روکیں پیدا کی ہوئی تھیں.پس اسلام کے غلبہ کے لئے مسلمانوں کی جدو جہد نشاۃ اولی میں بھی ظلمت سے نور کی طرف تھی اور نشاۃ ثانیہ میں بھی ظلمت سے نور کی طرف ہے.اس لئے الْعَشِيِّ پہلے کہا گیا ہے اور الابكار بعد میں کہا گیا ہے آیت کے اس حصے میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر تمہاری یہ حرکت قائم رہے تو جس طرح مثلاً زمین کی حرکت قائم رہتی ہے.عشی کے بعد صبح کا آنا یقینی ہے اسی طرح اگر تمہاری جد و جہد اور تمہاری قربانیاں اور ایثار بھی قائم رہے گا تو جس طرح رات کے اندھیروں کے بعد صبح صادق کا طلوع یقینی ہے اسی طرح تمہاری تکالیف کے بعد تمہاری کامیابی اور غلبہ اسلام بھی یقینی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی تسبیح وتحمید کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور کامل اور قوی فطرت کے ساتھ اپنی مجاہدانہ ذمہ داریوں کو ادا کریں اور دلائل قاطعہ اور آسمانی نشانوں

Page 425

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۰۵ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء کے زبر دست ہتھیاروں کے ساتھ اپنی مجاہدانہ زندگیوں کو لیس کر کے اور طاقتور بنا کر ہم اسلام کی اس جنگ میں کامیاب ہوں اور وہ دن جلد آ جائے جب اس نشاۃ ثانیہ میں بھی اسلام ساری دُنیا پر غالب آجائے.ادیان باطلہ بھی باطل کو چھوڑ کر حق کو قبول کرنے لگ جائیں اور وہ بھی جو اپنی غفلتوں کے نتیجہ میں اور اپنے غرور کی وجہ سے اپنے رب عظیم کو بھول چکے ہیں.خدائے قادر مطلق کی طرف لوٹ آئیں.میری مراد دہریت یعنی Leftism (لیفٹ ازم) سے ہے جس کا اس وقت دنیا میں بڑا اثر ہے ان کے ساتھ مقابلے کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں.اُنہوں نے مذہب کے خلاف جو کچھ لکھا ہے وہ دراصل ہمیں تیار کرنے کے لئے ہے پہلے تو ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ ہم نے ان کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے جس طرح مسلمان جب کسری ایران کے مقابلے میں گئے تھے اور ان کے مقابلے میں ہاتھی آگئے تھے تو ان کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ اُن کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے.اللہ تعالیٰ نے پھر وہیں مسلمانوں کو ان پر فتح پانے کی باتیں سکھا دی تھیں.اسی طرح یہ سوشلزم وغیرہ کا اثر ورسوخ پھیل رہا ہے.یہ اس وقت اس سٹیج پر ہے کہ ہم اس کا مقابلہ کرنے کے گر سیکھیں تا کہ جب اُن کے ساتھ مقابلے کا وقت آئے تو اس وقت خدا تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور پھر اسی کی دی ہوئی توفیق سے اور اسی کی رحمت اور طاقت سے وہ آخری جنگ کا میابی کے ساتھ لڑی جا سکے جس کے نتیجہ میں اسلام نے ساری دُنیا پر غالب آنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید قائم ہو خدا کرے ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۲۴ جولائی ۱۹۷۳ء صفحہ ۱ تا ۹) 谢谢谢

Page 426

Page 427

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۰۷ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء ہمیں زندہ رہنے اور زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے خدا کی عظمت اور جلال ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے فرمائی:.خطبه جمعه فرموده ۸ / ستمبر ۱۹۷۲ء بمقام سعید ہاؤس.کاکول.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فَلَا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَونِ وَلِأُتِمَ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.(البقرة : ۱۵۱) قُلْ هُوَ الرَّحْمَنُ أَمَنَّا بِهِ وَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا - (الملك :٣٠) اور پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہم اس صداقت پر پہنچتے ہیں (جسے قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے) کہ اللہ تعالیٰ نے اس یو نیورس، اس عالمین کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ انسان اس سے خدمت لے اور اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام طاقتیں بھی بخشی ہیں جن کی بدولت وہ اس کی مخلوق سے ہر قسم کی خدمت لینے کا اہل ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ ہر چیز کی فطرت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ وہ انسان سے اثر قبول کرے اور اس کی خدمت بجالائے.چنانچہ تم جانوروں مثلاً کتے کوسکھاتے ہو اور اس سے اپنی خدمت لیتے ہو.پس انسان کو دوسروں کے سکھانے اور معلم بننے کی ایک ایسی طاقت

Page 428

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۰۸ خطبہ جمعہ ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء دی گئی ہے کہ وہ نہ صرف دوسرے انسان کو علم دیتا ہے اور سکھاتا ہے بلکہ کتوں کو بھی سکھا سکتا ہے.کتا اس کے کہنے کے مطابق کام کرتا ہے مثلاً ایک سدھایا ہوا کتا جسے انگریزی میں گن ڈاگ کہتے ہیں.وہ شکاری کے ساتھ جاتا ہے تو شکار پر دانت نہیں مارتا بلکہ اسے اپنے نرم ہونٹوں سے پکڑ کر اپنے مالک کے پاس لے آتا ہے.ظاہر ہے انسان اُسے یہ علم سکھاتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں یہ رکھا ہے کہ وہ انسان سے اثر قبول کرے، اس سے علم سیکھے اور اس کے کہنے کے مطابق کام کرے.اسی طرح انسان بے جان مادی اشیاء سے بھی خدمت لیتا ہے.مثلاً انسان نے ہیرے سے اپنی خدمت لی.عورت نے اسے اپنی زینت بنالیا.مرد نے اسے پٹرول کے کنوئیں کھود نے کے لئے استعمال کیا.بور کر نیوالی مشینوں کے آگے ہیرے لگے ہوتے ہیں.اس لحاظ سے ان کے سرے ڈائمنڈ ہیڈز کہلاتے ہیں.ورنہ یہ لوہا تو پتھر نہیں کاٹ سکتا.بہر حال عورت نے اس سے اپنے رنگ میں خدمت لی اور مرد نے اپنے رنگ میں.اسی طرح ہزاروں خدمتیں ہیں جو انسان ہیرے اور دوسری مادی اشیاء سے لیتا ہے.اب مادی اشیاء سے ہزاروں خدمتیں لینے کی قوت اور طاقت انسان کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے یعنی ایک طرف اس عالمین کو پیدا کیا جس سے اس دنیا میں انسان کی ہر ضرورت پوری ہوتی ہے.(البتہ وہ ضرورت پوری نہیں ہوتی جو انسان خود اپنی حماقت سے ضرورت سمجھ لیتا ہے ) اس سے وہ ضرورت مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی یعنی کسی چیز کی احتیاج کے پورا ہونے کے سامان پیدا کئے تو دوسری طرف انسان کو قوت و طاقت اور عقل و تمیز بھی عطا فرمائی تا کہ وہ اس دنیا کی چیزوں سے کام لے.پھر انسان جب مادی اشیاء سے کام لیتا ہے تو بسا اوقات وہ شیطان کے دھوکے میں آجاتا ہے مثلاً ایک شخص ہے جسے تجارت کا بڑا ڈھنگ آتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں یہ رکھا ہے کہ وہ جس چیز کو ہاتھ میں لیتا ہے اسے سونا بنا دیتا ہے.چنانچہ وہ تجارت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ وہ بڑا نفع کماتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے عقل وفراست اور تاجرانہ ذہنیت عطا فرمائی ہے جس

Page 429

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۰۹ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء کی بدولت وہ دولت جمع کر لیتا ہے تو پھر اس کے پاس شیطان آجاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تو نے جو دولت کمائی ہے یہ تو محض تیری عقل اور سمجھ کا نتیجہ ہے، اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر کے ضائع نہ کرنا.گویا شیطان اسے بخل سے کام لینے کی ترغیب دیتا ہے.ایسے موقع پر اگر وہ مومن بندہ ہے اور سمجھ دار ہے تو وہ شیطان کو دھتکار دے گا کیونکہ خدا کی یہ آواز اس کے کان میں پڑتی ہے کہ یہ اللہ کا مال ہے.اللہ کی دی ہوئی طاقتوں سے میں نے کمایا ہے.یہ مال حلال اس کی ہدایت کے مطابق خرچ ہوگا اور اس میں کوئی کمی بھی نہیں آئے گی کیونکہ یہ عالمین بھی اسی طرح موجود ہے.انسانی قوتیں اور طاقتیں بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح پہلے تھیں اور اللہ تعالیٰ بھی موجود ہے.اس کی رحمانیت کے جلووں میں کوئی فرق نہیں پڑا انسانی کوششیں نا کام ہوسکتی ہیں مگر خدائے رحمان کے جلوؤں میں کوئی فرق نہیں آسکتا.چنانچہ خدائے رحمان اپنے بندہ سے کہتا ہے کہ اگر تم تمہیں ہر میرے بن جاؤ تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا.میں تمہیں نا کام نہیں ہونے دوں گا.میں تم دکھ سے بچاؤں گا اور ہر نعمت عطا کروں گا مگر شرط یہ ہے کہ تم میرے بندے بن جاؤ اور میری ہدایت پر کار بند ہو جاؤ.لیکن شیطان بھی تاک میں ہوتا ہے وہ اس کے کان میں ڈالتا ہے کہ تم نے ایک دفعہ دولت کمالی.تمہارا داؤ لگ گیا ممکن ہے یہ دولت پھر تمہارے ہاتھ میں نہ آئے اس لئے تم اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو.اسی طرح مثلاً ایک سیاست دان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سیاسی شعور عطا فرمایا ہے.اس کے اندر قیادت کا خدا داد جو ہر ہے جس کی بدولت وہ سیاسی میدان میں کامیاب ہو جاتا ہے.اس کی اس کامیابی کا انحصار اس عالمین کے کچھ حصوں پر ہے مثلاً وہ کاغذ اور سیاہی کو، لاؤڈ سپیکر کو اور انسانوں پر اثر ڈال کر ان کے اجتماعوں کو استعمال کرتا ہے اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتا ہے.مگر جس وقت وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور ملک کے کسی ایک حصے کا حاکم بن جاتا ہے اس چیز کو استعمال کر کے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی اور ان قوتوں اور صلاحیتوں کے ذریعہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کو بطور انعام کے عطا فرمائی تھیں تو پھر شیطان کہتا ہے کہ اب تمہیں اقتدارمل گیا ہے اس لئے اگر تمہیں اقتدار قائم رکھنے کے لئے بے انصافی کرنی پڑے تو کرو.غرض دولت ہو یا سیاست ہو ہر دوصورتوں میں شیطان انسان کے دل میں خوف پیدا کر دیتا ہے.بخل

Page 430

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۱۰ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء در اصل دولت کے ضائع ہونے کا خوف ہے جو شیطان پیدا کرتا ہے اس شخص کے دل میں جس نے خدا کی پیداوار سے خدا داد طاقتوں کے ذریعہ مال حاصل کیا ہوتا ہے اور اسی طرح سیاستدان ، سیاسی اقتدار اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں اور سامانوں کے نتیجہ میں حاصل کرتا ہے.مگر شیطان آکر اسے کہتا ہے پتہ نہیں پھر تمہیں اقتدار ملے یا نہ ملے، اگر تم نے بے انصافی نہ کی تو شاید تم سے اقتدار چھن جائے اس لئے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے خوب نا انصافیاں کرو.چنانچہ شیطان اس کے دل و دماغ پر پردہ ڈال دیتا ہے.اسے یہ حقیقت یاد نہیں رہتی کہ خدا رحمن اور رحیم ہے.وہ خالق اور مالک یوم الدین ہے.الْحُكْمُ لِلہ کی رو سے اس دنیا میں حکومت اسی کی ہے اور فیصلہ اسی کالا گو اور چالو ہے.وہ پہلے کی طرح اب بھی موجود ہے اور اس کی طاقتیں اس دنیا میں کارفرما ہیں.اس لئے کسی کے دل میں یہ شیطانی وسوسہ کہ دولت چلی گئی تو پھر پتہ نہیں ملے یا نہ ملے.انصاف کیا تو کہیں اقتدار نہ جاتا رہے.اسی قسم کے اور بھی بہت سے خوف ہیں جو شیطان انسان کے دل میں پیدا کرتا رہتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت کے اس ٹکڑے میں جس کی میں نے ابتداء میں تلاوت کی تھی فرمایا ہے:.فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَونی یعنی تم ان شیطانی وساوس یا شیطان صفت لوگوں سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو.اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ فرماتا ہے.إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاءَةَ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَ خَافُونِ اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ.(ال عمران : ۱۷۶) یعنی شیطان اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے.جو لوگ شیطان کے دوست بن جاتے ہیں اور خدا کے دوست نہیں رہتے ان کے دل میں شیطان خوف پیدا کرتا ہے کہتا ہے دیکھو ! دولت چلی گئی تو پھر پتہ نہیں تمہیں ملے یا نہ ملے اور وہ بیوقوف یہ نہیں سمجھتا کہ پہلے جو دولت آئی تھی وہ شیطان نے تو نہیں دی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس دولت کو پیدا کیا اور ان طاقتوں کو بھی پیدا کیا جن کی بدولت اسے وہ دولت ملی.اس کا اپنا تو کچھ نہیں.اسی طرح جو شخص صاحب اقتدار بن جاتا ہے سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو

Page 431

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۱۱ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء پھر وہ کہتا ہے اگر میں انصاف کروں تو شاید میرا اقتدار جاتا رہے کیونکہ صاحب اقتدارلوگوں سے بے انصافی کے تقاضے بھی کئے جاتے ہیں.ان سے ظلم کے تقاضے بھی کئے جاتے ہیں.آخر شیطان کو قیامت تک جو مہلت دی گئی ہے تو اس کا یہی مطلب تھا کہ شیطان کو قیامت تک دوست ملتے رہیں گے جن کو وہ ڈراتا اور خوف دلاتا رہے گا.چنانچہ مطالبہ ہوتا ہے کہ فلاں حصہ ملک پر یا فلاں جماعت پر یا فلاں گروہ پر ظلم کرو ورنہ ایجی ٹیشن ہوگی ، ورنہ اقتدار تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے گا.پس شیطان اپنے دوستوں کو اس قسم کی باتوں سے ڈراتا رہتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیں یہ ہدایت دیتا ہے کہ فَلَا تَخْشَوھم.شیطان کے دوست الہی احکام کے خلاف الہی شریعت کے خلاف اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے خلاف لوگوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے ڈراتے ہیں مگر تم نے ان سے نہیں ڈرنا.ایک ہی چیز ہے ایک ہی وجود ہے اور ایک ہی ہستی ہے جس کے خوف سے انسان کے دل میں خشیت پیدا ہونی چاہیے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرما یا فَلا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَوْنِی شیطان کے دوستوں سے مت ڈرو صرف مجھ سے ڈرو اور میری خشیت اختیار کرو.میں نے اس وقت دنیا کی نعمتوں کے ضیاع کے خوف کا حصہ زیادہ نمایاں کیا ہے ورنہ یہ چیز ہر قسم کے خوف کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.تاہم نعمتوں کے ضیاع کے خوف کی طرف میری توجہ لاتم نِعْمَتِي عَلَيْكُم کے نتیجہ میں پیدا ہوئی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اس عالمین کو پیدا کیا اور اس قابل بنایا کہ وہ تمہاری خدمت کر سکے.تم اُسے مسخر کر سکو.تسخیر کائنات کے لئے تمہیں ہر قسم کی طاقتیں دیں.اس کائنات کی ہر چیز حتی کہ ان ستاروں سے لے کر جن کی روشنی ابھی تک زمین تک نہیں پہنچی زمین کے ذروں تک کو تمہاری خدمت پر لگا دیا کہ تم اُن پر حکومت کرو اور اُن سے فائدہ اُٹھاؤ.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو بڑی طاقتیں اور صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں جن کی بدولت انسان دولت اور اقتدار کا مالک بنتا ہے.مگر شیطان اُسے یہ کہتا ہے کہ تجھے دولت ملی ہے اس کو سمیٹنے اور جمع کرنے کی فکر کرو.خدا کی راہ

Page 432

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۱۲ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء میں خرچ نہ کرو کیونکہ خدا کی یہ مخلوق اور یہ عالمین اور تیری طاقتیں تیرا ساتھ چھوڑ دیں گی تو پھر کیا کرو گے؟ آج دولت ملی ہے کل نہیں ملے گی.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح میں نے آج دولت دی ہے کل بھی دوں گا.مگر شرط یہ ہے کہ تم نے شیطانی خوف دل میں نہیں رکھنا بلکہ صرف مجھ سے ڈرنا ہے اور صرف میری خشیت کو اپنے دل پر وارد کرنا ہے.خشیت کے معنی دراصل ایسے خوف کے ہوتے ہیں کہ جس ہستی سے خوف کھایا جائے اس کی عظمت اور جبروت کا دل پر اثر ہو.چنا نچہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی عظمت اور جلال کی دہشت ، اس کی عظیم قدرتوں کا احساس اور اس کے حاکم کل ہونے کا یقین ہے جو انسان کو خشیت اللہ پر مجبور کر دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم اپنے دل میں شیطانی وساوس پیدا نہیں ہونے دو گے، میری عطا کردہ دولت اور اقتدار یا میں نے جو دوسری چیزیں ( مثلاً ) صلاحیتوں کے رنگ میں یا عقل کے رنگ میں یا اخلاق کے رنگ میں عطا ہیں اُن کو میرے قرب کا ذریعہ بناؤ گے تو میں تم پر اور زیادہ انعام کروں گا اب مثلاً جہاں تک اخلاق حسنہ کا تعلق ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ودیعت کردہ ہیں.ورنہ انسان کی کیا طاقت تھی کہ وہ خدا کے فضل کے بغیر اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کر سکتا.آپ دیکھ لیں وہ قو میں جنہوں نے اسلام کی طرف توجہ نہیں دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ہے اُن کے ظاہری طور پر اخلاق اچھے ہوں تو ہوں ورنہ حقیقتا وہ لوگ با اخلاق نہیں ہوتے.مثلاً جب انگریز یہاں کے حاکم ہوا کرتے تھے تو وہ بظاہر بڑے دیانتدار بنتے تھے اور وہ اس بات پر بڑا فخر کیا کرتے تھے کہ دیکھو مسلمان اور ہندو کے آپس میں جھگڑے ہوتے ہیں یہ خود اپنے فیصلے نہیں کر سکتے.ہم ان کے درمیان انصاف اور دیانت داری کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں.حالانکہ یہ محض ایک دکھا وا تھا یہ دیانت داری ظاہری دیانت داری تھی.حقیقی دیانت داری نہیں تھی.کیونکہ انگریزوں کی تاریخ ہمیں بلا استثناء یہ بتاتی ہے کہ جب بھی انصاف اور ان کے ذاتی یا قومی مفاد کا ٹکراؤ ہوا، اُنہوں نے انصاف کو چھوڑ دیا اور ذاتی اور قومی مفاد کو ترجیح دی.چنانچہ وہ برصغیر میں ہمیں لوٹ بھی رہے تھے اور ہم Whiteman's Burden ( وائٹ مینز برڈن ) بھی تھے یعنی ہم بے رنگ قوموں کا بوجھ بھی تھے.مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.جب میں آکسفورڈ

Page 433

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۱۳ خطبه جمعه ۸ ستمبر ۱۹۷۲ء میں پڑھا کرتا تھا تو ایک دفعہ میرے چند انگریز دوست میرے پاس آکر کہنے لگے کہ چلوسیر کو چلیں.اتوار کا دن تھا.ہم ایک باغ میں چلے گئے.ان میں سے ایک کے پاس کیمرہ تھا.میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں ان سے سبق آموز مذاق کروں.چنانچہ میں نے کہا میں ایک پوز ( شکل ) بنا تا ہوں تم اس کی تصویر لو.ان کو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ اس سے میرا کیا منشاء ہے.خیر وہ کہنے لگے ہاں ٹھیک ہے میں نے ان میں سے ایک کو کہا کہ وہ میری پیٹھ پر سوار ہو جائے اور میں کچھ نوٹ اپنی جیب میں رکھتا ہوں.شکل یہ بناؤ کہ تم مجھے پر سوار بھی ہو اور میری جیب سے نوٹ بھی نکالنے لگے ہو.ہم اس تصویر کے نیچے لکھیں گے "Whiteman's Burden" یعنی تم ہماری پیٹھ پر سوار بھی ہو اور ہمیں لوٹ بھی رہے ہو.پھر بھی دُنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹتے ہو کہ ہم تمہارے لئے ایک بوجھ ہیں.غرض حقیقی اخلاق سوائے اللہ تعالیٰ کی منشاء اور ہدایت اور شریعت کے پیدا ہو ہی نہیں سکتے.کیونکہ حقیقی خلق جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے اس بات کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قو تیں عطا فرمائی ہیں اُن کا صحیح مصرف ہو.یہ مصرف اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ سکھایا ہے.اس لئے جن لوگوں کو صحیح مصرف کا علم ہی نہیں وہ اپنے اندر حقیقی اخلاق پیدا ہی نہیں کر سکتے یہ ناممکن ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ شیطان کے دوست ہیں شیطان انہیں خوف دلاتا رہتا ہے.مثلاً وہ خوف دلاتا ہے کہ تمہاری دولت نہیں رہے گی.وہ خوف دلاتا ہے کہ تمہارا اقتدار نہیں رہے گا.چنانچہ شیطان جس قسم کا بھی خوف دلاتا ہے اس کا مقصد اور مطلوب یہ ہوتا ہے کہ انسان نیکیوں سے محروم ہو جائے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم شیطان کی آواز سنو گے تو نیک نہیں بنو گے.تم ان عظیم نعمتوں کو حاصل نہیں کر سکو گے.جن کو میں نے اس دُنیا میں تمہارے لئے پیدا کیا ہے.لیکن اگر تم شیطان کے دوست نہیں بنو گے اس کے خوف دلانے سے اثر قبول نہیں کرو گے.بلکہ اللہ تعالیٰ سے خوف کھاؤ گے اس کی عظمت اور جلال کا احساس اور اس کی صفاتِ حسنہ کی معرفت رکھو گے اور یہ یقین رکھو گے کہ یہ کائنات یہ عالمین ہمیشہ تمہارے خادم رہیں گے اور یہ کہ

Page 434

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۱۴ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء تمہارے اندر وہ قو تیں موجود ہیں جن کے ذریعہ تم ان سے خدمت لے سکتے ہو تو پھر میں (اللہ ) تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری اس خشیت ( کہ کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے.کہیں ہم اس کی رحمتوں سے محروم نہ ہو جائیں ) اس خوف کے نتیجہ میں لاتم نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ میں تم پر اتمام نعمت کروں گا.چنانچہ قرآن کریم کے الفاظ میں اتمام نعمت کی حسین شکل یہ ہے اليومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْبَتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دینا.(المائدة : ٤ ) اس آیہ کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ اتمام نعمت یعنی کامل شریعت تمہیں مل چکی ہے اگر تم اس کامل ہدایت پر عمل کرو گے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو گے اپنی زندگی کو اسلامی تعلیم کے رنگ میں رنگین کر لو گے تو اس دُنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی تم پر اتمام نعمت ہو جائے گا تمہیں حسنات دُنیا بھی اپنے کمال میں ملیں گی اور حسنات اُخروی بھی کامل رنگ میں ملیں گی.اب اگر ہمیں یہ حسنات نہیں ملتیں تو اس میں ہمارا اپنا قصور ہے ہم نے خدا تعالیٰ کی بجائے بنی اسرائیل کا خوف اپنے دل میں بٹھا لیا یا خدا تعالیٰ کی بجائے روس کا خوف اپنے دل میں پیدا کر لیا یا ہم خدا تعالیٰ کی بجائے امریکہ سے ڈرنے لگے اور یہ نہ سوچا هُوَ الرَّحْمٰنُ أَمَنَّا بِهِ وَ عَلَيْهِ توكلنا یہ خدائے رحمان ہی ہے جس نے ہماری پیدائش سے قبل ہمارے لئے ان گنت نعمتیں پیدا کیں.دُنیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ہستی نہیں ہے جو عمل سے پہلے انعام دے رہی ہو.جو لوگ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے انہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کی پر چھائیاں اور سائے سے نظر آئیں تو آئیں.اللہ تعالیٰ کی صفات کے کامل جلوے اسی انسان پر نازل ہوتے ہیں جو اس کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے.انگریزوں میں سے مالدار اور دولت مند لینڈ لارڈز اور کار خانے دارلوگوں کو جب یہ نظر آیا کہ ان کے اپنے ملک میں عوام کی گرفت ان پر سخت ہو رہی ہے تو وہ نو آبادیات کی طرف نکل آئے اور اُنہوں نے لوگوں پر یہی ظاہر کیا وہ رحمن کی صفت کا جلوہ دکھا رہے ہیں.یعنی وہ ان کے

Page 435

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۱۵ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء اندر عدل وانصاف قائم کرنے.ان کے تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے اور یہ کرنے اور وہ کرنے کے لئے آئے ہیں.وہ اُٹھتے بیٹھے لوگوں سے یہ کہتے تھے کہ ہم بیچارے تو تمہاری خدمت کے لئے تمہارے ملکوں میں پہنچے ہیں اور تم خواہ مخواہ ہم سے ناراض ہوتے ہو.ہم تو تمہارے خادم ہیں.گذشتہ سے پیوستہ سال جب میں افریقہ گیا تو نائیجیریا کے سر براہ یعقو بو گوون سے میری ملاقات تھی.اس سے پہلے میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ میں نے ایک دو دن میں جو جائزہ لیا ہے اور مشاہدہ کیا ہے میرا یہ تاثر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہر نعمت عطا فرمائی تھی مگر تم ہر نعمت سے محروم کر دیئے گئے ہو.وہ سمجھتے تھے کہ میرا عیسائی مشنوں کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ اگلے روز جب یعقو بو گوون سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے کہا میرا یہ تاثر ہے جس کا میں نے اپنے دوستوں سے اظہار بھی کیا ہے کہ You had all but you were deprived of all.اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہر چیز عطا فرمائی تھی مگر تم ہر چیز سے محروم کر دیئے گئے ہو.میں نے جب یہ فقرہ کہا تو اس نے بے ساختہ کہا are!!! How true You are! How true You are!! How true You پس کہنے کو تو بغیر کسی عمل کے نائیجیر یا پر احسان دھرنے گئے تھے نائیجیر یانے انگریز پر کوئی احسان تو نہیں کیا تھا کہ وہ وہاں پہنچا تھا بقول خود ان کی خدمت کرنے کے لئے ان کا یہ عمل رحمان کی صفت سے ملتا جلتا ہے کیونکہ صفت رحمن کا مطلب یہ ہے کہ کسی عامل کے عمل کے بغیر اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے.مثلاً اس نے ہماری پیدائش سے بھی پہلے ہمارے لئے ہزار ہا چیزیں پیدا کر دیں.انگریزوں کا اہل افریقہ سے سلوک گو بظاہر اس سے ملتا جلتا ہے.لیکن حقیقتا اس کے برعکس ہے انگریز ان کو ایکسپلائٹ کرنے کے لئے گئے تھے.میں اپنی تقریروں میں اپنے افریقن دوستوں سے کہتا تھا کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جب پادریوں کی فوج تمہارے ملک میں داخل ہوئی تو اعلان اُنہوں نے یہی کیا تھا کہ وہ ” خداوند یسوع مسیح “

Page 436

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۱۶ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء کی محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں لیکن ان پادریوں کی صفوں کے پیچھے ان کی جو فوجیں داخل ہوئیں اُن کی توپوں سے پھول نہیں جھڑتے تھے بلکہ گولے بر سے تھے اور اُنہوں نے جو تمہارا حال کیا وہ تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو مجھے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.لیکن ہم ( جماعت احمدیہ کے مبلغین بعض ملکوں میں ) پچاس سال سے کام کر رہے اور تم جانتے ہو.تم بھی گواہ ہو اور تمہاری حکومتیں بھی گواہ ہیں.ہم تمہاری ایکسپلانٹیشن کے لئے نہیں آئے ہم تمہیں لوٹنے کے لئے نہیں آئے.ہم تمہاری خدمت کرنے کے لئے آئے ہیں ہم ایک پیسہ تمہارے ملکوں میں باہر لے کر نہیں گئے اور لاکھوں روپے باہر سے لا کر تمہارے ملکوں میں خرچ کر دیئے ہیں.چنانچہ اس بے لوث خدمت کا ان کے عوام کو بھی پتہ ہے اور ان کی حکومت کو بھی علم ہے.اس واسطے ہمارے ساتھ ان کا سلوک برادرانہ ہے حالانکہ وہاں اکثر ملکوں میں کئی انقلاب آئے یکے بعد دیگرے حکومتیں بدلتی رہیں.کبھی فوجی حکومت آئی.کبھی سول حکومت آئی لیکن ہر حکومت ہمارے ساتھ بڑی عزت و احترام سے پیش آتی رہی.تاہم جہاں کہیں بھی تعصب برتا جاتا ہے اس کی ذمہ دار عیسائیت ہے کیونکہ عیسائیت کے ساتھ ہماری روحانی جنگ ہورہی ہے اور یہ انشاء اللہ جاری رہے گی ہم اس کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں.اس لئے جہاں کہیں عیسائی پادریوں کا داؤ لگتا ہے وہ ہماری مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے.غرض میں بتا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ کسی اور کی خشیت تمہارے دل میں پیدا نہیں ہونی چاہیے.تمہارے دل میں خشیت صرف اللہ تعالیٰ کی پیدا ہو.دیکھو! تم اسلامی تعلیم اور اسلامی ہدایت کے نتیجہ میں تھوڑی یا بہت معرفت حاصل کر چکے ہو کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا اور رب رحمان ہے اگر تم اپنی عقل سے کام لو تو تم اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ دُنیا میں اور کوئی ہستی نہیں.یہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جس کی عظمت اور جلال کا تقاضا ہے کہ انسان کا دل اس کے خوف سے لرزاں وتر ساں رہے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اللہ تعالیٰ کی ایسی بے شمار نعمتیں ہیں جو ہمارے عمل کے وقت سے

Page 437

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۱۷ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء پہلے پیدا کی گئیں.ہر آدمی کے عمل کا ایک وقت ہے.بنی نوع انسان کی پیدائش کے بعد عمل کے وقت سے غیر معین زمانہ پہلے سے وہ نعمتیں عطا کی گئیں اور ان کی تدریجی نشو ونما کا سلسلہ اس دُنیا میں جاری ہے مثلاً بعض ایسے ستارے ہیں جن کی روشنی زمین پر پچھلے سو سال میں پہنچی ہے.اس سے پہلے نہیں تھی.یا چودہ سو سال پہلے نہیں تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آگئی.کثرت شہب میں شاید اسی طرف اشارہ ہو.دوسرے ستاروں کی روشنیاں بھی کثرت سے زمین پر پڑ رہی ہیں.غرض سورج چاند اور ستاروں کی روشنی زمین پر پڑتی ہے اور زمین کی خدمت کی طاقت کو زیادہ کر دیتی ہے اسی طرح انسان کی بھی تدریجی ترقی جاری ہے.وہ جسمانی طور پر بھی اور عقلی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی ترقی کرتا چلا جارہا ہے.نہ صرف یہ بلکہ اس کی غذا میں بھی ایک تدریجی ارتقاء کا اصول کام کرتا ہوا نظر آتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اس اللہ پر ایمان لائے ہو جو رحمان ہے اور اگر رحمان خدا پر تم نے تو کل نہیں کرنا تو پھر کیا اس پر توکل کرنا ہے جس کے اندر خدائے رحمان والی کوئی ایک طاقت بھی نہیں ہے.یعنی جب کوئی شخص عمل کرتا ہے تو اس کی صحیح اور مناسب اور پوری جزا د ینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا.نہ شیطان اور نہ اس کے چیلے اور یہی آجکل کے سارے فسادات کی جڑ ہے یعنی جو حقدار ہے اُسے اس کا حق نہیں مل رہا.بہر حال یہ ایک علیحدہ مضمون ہے جس کے بعض حصے میں پہلے کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑی حسین تعلیم دی ہے.ہم احمدیوں کو بھی یہ تعلیم بھولنی نہیں چاہیے.ہمارے دل میں سوائے اللہ کے کسی اور کی خشیت نہیں پیدا ہونی چاہیے کیونکہ ہم تو اللہ کے دوست ہیں.یہ تو شیطان کے دوست ہیں جن کے دل میں غیر اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے.شیطان خود سرکش اور اپنے دوستوں کو خدا سے دور لے جانے والا ہے.جو شخص خدا سے دور لے جانے والے کا دوست ہوگا اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت کیسے پیدا ہو سکتی ہے.اگر کسی کے دل میں غیر اللہ کی خشیت پیدا ہوگی تو ہم اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوں گے کہ شیطان کے ساتھ اس نے دوستی لگالی ہے.کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ جب کسی کے دل میں غیر اللہ کی خشیت پیدا ہوتی

Page 438

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۱۸ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء ہے تو یہ علامت ہوتی ہے شیطان کی دوستی کی.ہمیں ہر حال میں اس تعلیم پر عمل پیرا رہنا چاہیے جس کے متعلق قرآن کریم نے بار بار زور دیا ہے.چنانچہ فرمایا:.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ - (ابراهيم : ١٣) بھروسہ کرنے والوں کو تو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے.پھر فرمایا: - وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (المجادلة: ١١) اور چاہیے کہ مومن صرف اللہ پر توکل کریں.غرض مومن بندوں کو سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کسی اور پر توکل نہیں کرنا چاہیے غیر اللہ پر نہیں کیونکہ یہ صرف خدائے رحمان ہی ہے جس پر توکل کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ تمام صفاتِ حسنہ کا مالک ہے.اُس نے اپنی صفاتِ حسنہ سے متصف ہونے اور ان کا مظہر بننے کی طاقت انسان کے اندر ودیعت کر رکھی ہے.یہ اب انسان کا کام ہے کہ وہ خداداد طاقتوں اور صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لائے تا کہ وہ صفات الہیہ کا مظہر بن سکے.اس کے اندر الہی صفات کا رنگ جلوہ گر ہو.قرآن کریم نے اس مسئلہ پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے.مختصر یہ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے گاوہ نیکی کی توفیق پائے گا.جو شخص نیک بنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالی اس کی کمزوری کی پردہ پوشی بھی کرتا ہے اس کے گناہ معاف بھی کر دیتا ہے.وہ خود اپنے فضل سے اس کے لئے نیکی کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے.وہ اس کی عقل میں ترقی بھی عطا کرتا ہے.مال و دولت میں فراخی بھی بخشتا ہے اور جب مال و دولت جمع ہو جائے تو پھر اسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے وہ الہی صفات کی معرفت حاصل کرنے کے سامان بھی پیدا کرتا ہے.وہ انسان کو نور عطا کرتا ہے اور نور کے اتمام کے سامان پیدا کرتا ہے.اسی لئے فرما یالاتم نعمتی میں تم پر اپنی نعمتوں کو پورا کروں گا.جو شخص خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے وہ ایک جگہ کھڑا تو نہیں رہتا.اس کا ہر روز پہلے روز سے زیادہ شاندار اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو زیادہ حاصل کرنے والا اور اس کے پیار کو زیادہ پانے والا

Page 439

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۱۹ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا اور اس کی صفات کی معرفت میں دن بدن ترقی کرتا ہے.وہ نور جو خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو عطا فرماتا ہے.اس نور میں روز بروز زیادہ شدت پیدا ہوتی ہے.ویسے نور اور نور میں بھی فرق ہے.ایک نور ہے سرسوں کے تیل سے جلنے والے دیئے کا.اس کی بھی ایک روشنی ہے اور ایک روشنی ہے سورج کی.ظاہر ہے ان کے درمیان بہت فرق ہے.جس طرح دیئے اور سورج کی روشنی میں بہت بڑا فرق ہے.اسی طرح سورج کی روشنی اور اللہ تعالیٰ کے نور میں بے اندازہ فرق ہے.اللہ تعالیٰ کے نور کی اصل حقیقت کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے.ایک نہ ختم ہونے والی ترقی اور حرکت ہے جو انسان کو خدا کے قرب کی طرف لے جارہی ہے.یہ ایک نہ ختم ہونے والی حرکت ہے یہ تو ابدی زندگی میں بھی ختم نہیں ہوگی.کیونکہ خدا کے بندے اور خدا کے درمیان لامحدود فاصلہ ہے.جہاں تک ہماری جماعت کا تعلق ہے اس کی تاریخ میں مختلف مراحل میں مختلف حالات پیدا ہوتے رہے ہیں کبھی ہمارا مخالف بڑے زوروں پر ہوتا ہے.وہ کہتا ہے بس آج نہیں تو کل جماعت احمدیہ کو مٹادیا جائے گا.کبھی مخالف کے مکر اور تدبیر میں کمزوری نظر آتی ہے.کبھی جماعت کے اندر دنیا کو نسبتا کمزوری نظر آتی ہے.کبھی نسبتاً زیادہ طاقت نظر آتی ہے.جس وقت ہمارے اندرنسبتا کمزوری ہوتی ہے اس وقت بھی ہمیں کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جماعت نا کام نہیں ہوگی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی تحدی کے ساتھ فرمایا ہے : ” میری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے.“ قرآن کریم نے بھی مومنوں کو یہ بشارت دی تھی :.انْتُمُ الْأَعْلَونَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (ال عمران :۱۴۰) اگر تم مومن ہو تو پھر تم ہی غالب رہو گے.حقیقت یہی ہے کہ جنگ کا آخری نتیجہ ہی فیصلہ کن ہوتا ہے.چھوٹی چھوٹی جھڑپوں سے فیصلے نہیں ہوا کرتے.اسلام کی اس نشاۃ ثانیہ میں دشمنانِ اسلام کے مقابلے پر بالآخر مسلمانوں ہی

Page 440

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۲۰ خطبه جمعه ۸ ستمبر ۱۹۷۲ء نے کامیاب ہونا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے جو جماعت احمدیہ کے ذریعہ انشاء اللہ پوری ہوگی.جیسا کہ الہی سلسلوں میں پہلے بھی کچھ لوگ کمزوری دکھاتے تھے اب اس وقت بھی بعض لوگ کمزوری دکھاتے ہیں تا ہم اللہ تعالیٰ سہارا دیتا ہے وہ اُن سے اکثر کو بچا لیتا ہے.جس وقت دشمن بڑے زوروں پر ہوتا ہے.اس وقت لوگ دو قسم کی کمزوریاں دکھاتے ہیں ( یا اگر منافقوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو تین قسم کے لوگ کمزوریاں دکھاتے ہیں لیکن میں اس وقت منافقوں کو شمار نہیں کرتا ) ایک تو یہ کمزوری کہ وہ ارتداد اختیار کر لیتے ہیں.دوسری یہ کمزوری کہ بعض لوگ زبانی طور پر صداقت کا انکار کرتے ہیں لیکن دل میں پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ صداقت یہی ہے اور اسلام کا اصلی چہرہ وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دکھایا ہے.لیکن جسمانی اور روحانی کمزوری کے نتیجہ میں وہ اظہارِ حقیقت میں کمزوری دکھاتے ہیں جس کی کمزور انسان کو کسی حد تک اجازت بھی دی گئی ہے.یہ فی الواقعہ کمزوری تو ہے لیکن حالات کی مجبوری کے نتیجہ میں نہ قرآن کریم اور نہ قرآن کریم کے خدا نے ایسے لوگوں کو برا بھلا کہا ہے اس لئے ہم بھی ایسے لوگوں کو برا نہیں کہتے البتہ کمزور ایمان ضرور کہتے ہیں.ان کے برعکس جو لوگ ارتداد اختیار کرتے ہیں وہ چونکہ پہلے ہی کمزور ایمان والے ہوتے ہیں.الہی سلسلہ کی مخالفت اور مختلف قربانیوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے اس لئے وہ اس سلسلہ ہی کو چھوڑ دیتے ہیں.ایسی صورت میں شیطان کے اولیاء یعنی دوست بڑے خوش ہوتے ہیں کہ فلاں نے ارتداد اختیار کر لیا ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن کریم نے ہمیں یہ کہہ کر بڑی تسلی دی ہے.فرمایا یہ نہ دیکھنا کہ ایک یا دو نے ارتداد اختیار کر لیا ہے بلکہ یہ دیکھنا ان دنوں قوم نے ایمان اختیار کیا ہے یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کی جو نصرت جماعت احمدیہ یا اسلام کو ہمہ وقت ترقی کی طرف لے جا رہی ہے اس میں کوئی رخنہ یا کمی تو واقع نہیں ہوئی.جو لوگ ارتداد اختیار کرتے ہیں وہ بدقسمت ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتے ہیں لیکن جماعت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے محروم نہیں ہوتی.دوسرے جس وقت جماعت بظاہر کامیاب ہو رہی ہوتی ہے.جماعت کی ترقی کی لہریں

Page 441

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۲۱ خطبه جمعه ۸ ستمبر ۱۹۷۲ء بہت اونچی اُٹھتی دنیا کو نظر آرہی ہوتی ہیں.اس وقت بھی جماعت کے بعض لوگ کمزوری دکھاتے ہیں.کیونکہ شیطان تو کسی وقت غافل نہیں ہوتا.وہ بعض لوگوں کے دلوں میں تکبر پیدا کر دیتا ہے.وہ کہتا ہے تم نے اپنی طاقت، اپنی فراست اور اپنے ہنر سے یہ سب کچھ حاصل کیا ہے.یہ بھی بڑے خطرے کا مقام ہے.غرض ہر دو مقام بڑے خطرہ کے ہیں کمزوری کے وقت شیطان سے ڈرنا یہ بھی خطرے کا مقام ہے اور طاقت کے وقت اپنے نفس کو خدا بنالینا اور تکبر کی راہوں کو اختیار کرنا یہ بھی خطرہ کا مقام ہے.دراصل نہ کمزوری کے وقت شیطان سے ڈرنا چاہیے اور نہ طاقت کے وقت اپنے نفس کو خدا بنالینا اور نہ اپنے دوستوں کو خدا سمجھنا چاہیے.اس حقیقت اور اس صداقت پر ہمیشہ قائم رہنا ہے کہ جہاں تک ہماری ذات کا تعلق ہے ہماری حیثیت مردہ کیڑے کے برابر بھی نہیں ہے.اگر ہم کچھ ہیں تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہیں اگر اس کا فضل اور رحمت ہمارے شامل حال نہ ہو تو ہم کچھ بھی نہیں.پھر تو ہمارا دشمن بڑی آسانی کے ساتھ ہمیں پاؤں کے نیچے اسی طرح مسل سکتا ہے جس طرح افریقہ کا وحشی بھینسا جب غصہ میں آتا ہے تو وہ اپنے دشمن کو اس طرح لتاڑتا ہے کہ اس کی ہڈیوں تک کو پیس کر ذرے ذرے بنا کر مٹی میں ملا دیتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت میرے اور تمہارے شامل حال نہ ہو اللہ تعالیٰ کا سہارا اور مدد حاصل نہ ہو تو اس وقت جب تم میں سے بعض لوگ بڑے فخر سے اپنی گردنیں اُٹھا رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی دشمن میں اتنی طاقت ضرور ہوتی ہے کہ وہ اس وحشی بھینسے کی طرح ہمارے گوشت اور ہڈیوں کا قیمہ بنا کر مٹی میں ملا دے اور پھر ہوا کا جھونکا آئے اور اس غبار کو اُڑا کر لے جائے.پس یہ بھی خطرہ کا مقام ہے اس سے بھی جماعت کو بچنا چاہیے.اب مثلاً گذشتہ سال ڈیڑھ سال میں سیاسی میدان میں بھی اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.جن لوگوں کے ساتھ جماعت کی اکثریت تھی وہ کامیاب ہو گئے.لیکن اگر کوئی احمدی یہ سمجھتا ہے کہ اب ہم کامیاب ہو گئے ہیں اب ہم کچھ بن گئے ہیں تو یہ اس کی بڑی حماقت ہوگی.بعض دفعہ لوگ میرے پاس بھی آجاتے ہیں کہ سفارش کر دیں مجھے اس سے بڑی تکلیف ہوتی ہے اور مجھے ان پر

Page 442

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۲۲ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء بڑا غصہ آتا ہے.اسلام کے ذریعہ اور اب اسلام کے عظیم روحانی جرنیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ تمہیں خدا اور اس کی صفات سے روشناس کیا گیا ہے.مگر اس کے باوجود تم خدا کو چھوڑ کر سفارشوں کی طرف متوجہ ہوتے ہو.اس لئے کہ سیاسی میدان میں بظاہر ایک چھوٹی سی فتح تمہیں حاصل ہو گئی ہے.ایک احمدی کا یہ مقام نہیں ہے اُسے خود خدا تعالیٰ کو قاضی الحاجات سمجھنا چاہیے اور جو غیر ایسا نہیں سمجھتے ان کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے.ہر سہ شیخ کے ایک بڑے زمیندار تھے.اُن کے آباؤاجداد میں ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں یہ ان کی اولاد میں سے تھے.وہ روحانی طور پر بزرگ، یہ جسمانی اور دنیوی طور پر زمینوں والے تھے.وہ جوان کے بزرگ تھے ان کی قبر پر چڑھاوے بھی چڑھتے تھے اُنہوں نے کچھ مجاور رکھے ہوئے تھے ان سے یہ اپنا حصہ لیا کرتے تھے.گاؤں میں ایک دوسرے کے ساتھ دشمنیاں ایک عام بات ہے.چنانچہ ان کے دشمنوں نے مجاوروں کو اُکسا یا تو انہوں نے ان کو حصہ دینا بند کر دیا.نوبت مقدمہ تک جا پہنچی.چنانچہ ان کا مقدمہ جب سیشن جج تک کی عدالت میں گیا تو وہ ایک دن میرے پاس آگئے کہ آپ میری سفارش کر یں.میں نے اُن سے کہا ہم آرام سے قادیان میں بیٹھے ہوئے تھے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہاں سے اُکھاڑ کر ربوہ میں اس لئے آباد نہیں کیا کہ تمہارے پاس پہلے ایک سو سفارشی تھا تو اب ایک سو ایک ہو جائے.تمہیں تو سفارش کروانے کی گویا عادت پڑی ہوئی ہے ہم تو کسی اور مقصد کے لئے تمہارے علاقے میں بھیجے گئے ہیں.چنانچہ میں نے ان کو تو حید باری تعالیٰ کے متعلق مختصراً بتایا اور کہا دعا کرو خدا تعالیٰ پر توکل رکھو یہ نہ کہو کہ ہمیں حصہ ملے بلکہ اُس کے حضور دعا کرو کہ اگر ہمارا حق ہے تو ہمیں مل جائے مگر وہ کہاں سمجھنے والے تھے وہ تو تو حید حقیقی کو پہچانتے ہی نہیں.میں بڑا تنگ آیا.آخر میں نے اُن سے کہا آپ لکھ کر دے جائیں.جو کچھ مجھ سے ہو سکا میں کروں گا.اُنہوں نے مجھے ایک کاغذ پر لکھ کر دیا.میں نے دعا کی کہ اے خدا! اگر ان کا حق ہو تو مل جائے اور اگر نہیں تو نہ ملے.تجھے اصل حقیقت کا پتہ ہے مجھے تو اس کا علم نہیں ہے.

Page 443

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۲۳ خطبه جمعه ۸ ستمبر ۱۹۷۲ء اب اس مقدمہ میں مجاوروں پر وہ اپنا حق فائق سمجھتے تھے ہمارے نزدیک نہ تو کسی مجاور کا حق ہے اور نہ کسی اور کا.بہر حال مقابلہ مجاوروں اور ان کے درمیان تھا اور چھ سات دن کے بعد جج نے فیصلہ سنانا تھا.خیر وہ چلے گئے جس دن حج نے فیصلہ کرنا تھا اس سے ایک روز پہلے پھر میرے پاس آگئے.(یہ کالج کے زمانہ کی بات ہے اُس وقت میں کالج کی کوٹھی میں رہتا تھا ) مجھے اطلاع ملی تو میں بڑا گھبرایا.کیونکہ ہم ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو ادھر اُدھر کی باتیں کر کے ٹال دیتے ہیں.میں نے سوچا اگر میں نے سچی بات کہہ دی تو ان کو تکلیف ہوگی.میں سوچ ہی رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا جواب سمجھا دیا میں باہر نکلا اور کہا چوہدری صاحب ! آپ نے خواہ مخواہ تکلیف کی جس کو میں نے کہنا تھا کہہ دیا ہے میرا مطلب تھا خدا تعالیٰ سے میں نے کہنا تھا سو وہ میں نے کہہ دیا ہے.خیر وہ یہ جواب سن کر چلے گئے میں تو اپنے کام میں مشغول رہتا تھا.مجھے یاد ہی نہ رہا، چند دن کے بعد مجھے کسی دوست نے بتایا کہ فلاں صاحب چنیوٹ میں مجھے ملے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں نے میاں صاحب کا شکریہ ادا کرنے جانا ہے میرے حق میں فیصلہ ہو گیا ہے.چنانچہ وہ میرے پاس آئے.میں نے اُن کو بڑا سمجھایا کہ میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی تھی.کسی کے پاس سفارش نہیں کی تھی اور یہی میں نے پہلے بھی آپ سے کہا تھا کہ میں خدا سے دعا کروں گا کیونکہ وہ بڑی طاقتوں والا ہے مگر آپ یہ بات سمجھتے نہیں.وہ چلے گئے مگر مجھے یقین ہے کہ وہ میری بات کو جھوٹا سمجھے ہوں گے اور کہتے ہوں گے اُنہوں نے سفارش تو ضرور کی ہے مگر یہ بتانا نہیں چاہتے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسلام کے ذریعہ تم نے خدائے رحمان کو پہچانا ہے تو کیا پھر اس کے بعد بھی تم کسی اور پر توکل کرو گے؟ کیا اس کے علاوہ کسی اور ہستی کی خشیت تمہارے دل میں پیدا ہو گی ؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو گا.خواہ ہمارے او پر بظاہر کمزوری کا دور آئے اور مخالفت کی آندھیاں چلیں اس صورت میں بھی ہم نے اس بات سے نہیں ڈرنا کہ شیطان جیتے گا اور خدا تعالیٰ کے وعدے پورے نہیں ہوں گے.خدا تعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے خدا تعالیٰ نے ہمیں ہلاک کر دینے کے لئے نہیں پیدا کیا.خدا تعالیٰ نے ہمیں زندہ رہنے اور زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.

Page 444

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۲۴ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء ہماری جماعت دوسرں کی روحانی مُردنی کو دور کرنے کے لئے معرض وجود میں آئی ہے دُنیا میں کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا اور دُنیا کی کوئی ایسی طاقت نہیں جو ہمیں بحیثیت جماعت مٹا سکے.خوف کی کوئی بات نہیں ہے.ہم خدا کے عاجز بندے ہیں اور اسے اپنا دوست رکھتے ہیں.یہ تو شیطان کے دوست ہیں جن کے دل میں شیطانی وساوس کے نتیجہ میں غیر اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے ہم خدائے رحمان کے عاجز بندے ہیں.ہم نے اس کا دامن پکڑا ہے پس جب اس کی عظمت اور جلال ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے تو شیطان کی کیا مجال ہے کہ وہ ہم پر کوئی وار کرے.اگر ہم اللہ تعالی کی پناہ میں ہیں تو شیطان کے تیر ہم تک نہیں پہنچ سکتے.اسی طرح جب ہم پر کامیابی کا وقت آئے تو اس وقت تکبر بالکل نہیں کرنا.خدا کے دامن کو ہرگز نہیں چھوڑنا.پس چاہیے کہ تم عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو.تا رحمان خدا تم سے پیار کرے.اگر تم نے یہ سمجھا کہ ہم کچھ بن گئے.ہماری طاقت بڑھ گئی.ملک میں ہمارا بھی کوئی اثر ورسوخ پیدا ہو گیا تو تم مارے گئے.تم نے اسی دن اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کر لئے لیکن اگر ہم بحیثیت جماعت اللہ کے دامن کو عسر اور میسر ہر دو حالتوں میں پکڑے رکھیں.نہ ایک وقت میں بز دلی کمزوری اور ستی دکھا ئیں نہ دوسرے وقت تکبر اور انانیت کا مظاہرہ کریں بلکہ ہر دو حالتوں میں کامل اطمینان اور کامل تقویٰ اور کامل تو کل اور کامل تذلیل اور کامل انکسار کا مظاہرہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ہم سے بھی جو کام لینا چاہتا ہے وہ اپنے وقت پر لے گا.یہ خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں جو ایک نہ ایک دن ضرور پورے ہوں گے.اگر خدانخواستہ ہم اپنی ذمہ داریاں نہیں نبا ہیں گے تو اللہ تعالیٰ ایک اور قوم پیدا کرے گا جو ان ذمہ داریوں کو پورا کرے گی اور اسلام کو شاہراہ غلبہ پر آگے سے آگے لے جائے گی.خدا کرے کہ یہ سعادت ہمارے نصیب ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں عقل و سمجھ عطا کرے اور ہمیں غلبہ اسلام کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینے کی بیش از پیش توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو پختہ کرے.خدائے رحمان سے ہمارا تعلق اتنا مضبوط ہو جائے کہ دُنیا کی کوئی طاقت اُسے قطع نہ کر سکے.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنی محبت کو

Page 445

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۲۵ خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۲ء اس طور پر اس قدر اور اس رنگ میں بھر دے کہ لاتم نِعْمَتِي عَلَيْكُم کا جو وعدہ ہے اس کے نظارے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگیں.خدا کے پیار کا سلوک ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے.(روز نامه الفضل ربوه ۱۴ نومبر ۱۹۷۲ صفحه ۱ تا ۶)

Page 446

Page 447

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۲۷ خطبہ جمعہ ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ء ملک پر اس وقت ابتلا کا وقت ہے استحکامِ پاکستان کے لئے دعائیں بھی کریں اور صدقات بھی دیں خطبه جمعه فرموده ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے چند دن صحت کمزور رہی ہے.پہلے تو ہوا لگنے کی وجہ سے بائیں ٹانگ میں شدید درد شروع ہو گئی تھی.رات تو جاگ کر گزارنی پڑی اور پھر اس کے بعد کئی دن تک بڑی تکلیف رہی.آج کل اس بیماری میں جو دوائیں دی جاتی ہیں وہ بہت ضعف پہنچاتی ہیں.اس بیماری سے پوری طرح آرام نہیں آیا تھا کہ دانتوں میں تکلیف ہوگئی.ڈاکٹر ہمایوں اختر صاحب لاہور سے کل آئے تھے.انہوں نے دائیں طرف کی ایک داڑھ نکال دی ہے.یوں اس عمر میں داڑھیں تو نکلتی رہتی ہیں مگر داڑھ نکالنے کے بعد انہوں نے سلفا کی جو دوائی دی ہے اس سے مجھے اور بھی زیادہ ضعف ہو گیا ہے.اس وقت یہاں آنے کی ہمت تو نہیں پڑتی تھی لیکن بعض ضرورتوں نے مجھے یہاں آنے پر مجبور کیا.ایک ضرورت تو یہ تھی کہ دیر سے آپ دوستوں کے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی تھی.چنانچہ یہ سمجھ کر کہ جمعہ کی نماز بھی ایک لحاظ سے اجتماعی ملاقات ہوا کرتی ہے دل چاہا کہ چند منٹ کے لئے مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے آجاؤں تا کہ اس طرح دوستوں سے ملاقات بھی ہو جائے.

Page 448

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۲۸ خطبہ جمعہ ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ء دوسرے اس سے بھی زیادہ اور بڑی ضرورت یہ تھی کہ ہمارے محترم بھائی ابوبکر ایوب صاحب وفات پاگئے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.مرحوم انڈونیشیا کے رہنے والے تھے.انہوں نے ہمارے بچپن میں مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پائی تھی.ہم اکٹھے ہی پڑھتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو ساری عمر مخلصانہ طور پر خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی.وہ اب ہالینڈ میں مبلغ تھے اور وہیں میدانِ جہاد میں تبلیغ اسلام کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے وفات پاگئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور احسن جزا عطا فرمادے.ان کا جنازہ یہاں پہنچ چکا ہے.میں جمعہ کی نماز کے بعد ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.اس لئے گو بیماری کی وجہ سے مجھے شدید ضعف تھا مگر اس کے باوجود میرا یہاں آنا ضروری تھا تا کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں.تیسری ضروری بات میں اس وقت یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کے موجودہ حالات ہر صاحب فراست کے دل میں تشویش پیدا کر رہے ہیں.اندرونی دشمن دشمنی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور بیرونی دنیا کا ایک بڑا حصہ ہمارا دوست نہیں ہے بلکہ وہ ہمارا دشمن ہے اور ان کی باتیں ، ان کے منصوبے، ان کی خواہشات اور ان کے عمل ہمارے ملک کے خلاف ہیں.گوساری دنیا تو ہمارے خلاف نہیں.دنیا کا ایک حصہ ہمارا دوست بھی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو اخلاص سے دوستی نباہنے کی توفیق دے اور اس کی جزا بھی دے لیکن دنیا کا ایک بڑا حصہ ہمارا دشمن ہے.جو عجیب شاطرانہ چالوں اور دجالا نہ منصوبوں سے ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتارہتا ہے.پس اندرونی دشمن بھی اس وقت اپنی شرارتوں میں تیز ہو رہے ہیں اور بیرونی دشمن تو بہر حال دشمن ہے.اس واسطے قوم پر اس وقت ایک ابتلاء کا وقت ہے.دعاؤں اور صدقات سے ابتلاء دور ہو جایا کرتے ہیں.اس لئے آپ دعا ئیں کریں اور استحکام پاکستان کے لئے آپ کے لئے جس حد تک ممکن ہو صدقات بھی دیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ ہم یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کے باشندوں کو بھی دعا کرنے اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا

Page 449

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۲۹ خطبہ جمعہ ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ء فرمائے.جب تک ساری قوم مومنانہ فراست سے حصہ نہیں لیتی اور مومنانہ قربانیوں اور ایثار کا مظاہرہ نہیں کرتی اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل اس رنگ میں تو ہماری دعاؤں اور قربانیوں کے نتیجہ میں بھی ظاہر نہیں ہو سکتے جس رنگ میں اس صورت میں ظاہر ہو سکتے ہیں کہ ساری کی ساری قوم خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے.اس کے سامنے عاجزانہ طور پر جھکے اور اسی سے ہر قسم کی خیر و برکت چاہے.پس ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم پر فضل فرمائے.ان مختصر الفاظ کے بعد میں ایک اور بات یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں موت وحیات کے سلسلہ تو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے.جماعت احمدیہ پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں، اُن ذمہ داریوں کو جماعت احمدیہ کی صرف ایک نسل پوری طرح ادا نہیں کر سکتی کیونکہ قربانیوں کا زمانہ اپنے اندر بڑی وسعت اور پھیلاؤ رکھتا ہے.ساری دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بندھنوں میں باندھنا کوئی آسان بات نہیں ہے.یہ ایک بہت بڑا کام ہے.آپ سوچیں اور ان بشارتوں کو دیکھیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو دی ہیں اور دوسری طرف ان کمزوریوں پر نظر ڈالیں جن میں ہم خود کو پاتے اور نہایت بے بسی کی حالت میں دیکھتے ہیں.ہمارا تو سوچ کر بھی سر چکرا جاتا ہے کہ کتنے عظیم وعدے ہیں اور کتنے کمزور کندھے ہیں.کتنے وسیع کام ہیں اور کتنے محدود ذرائع ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اور اس کی برکت ہمارے شامل حال نہ ہو.اگر اس کا حکم فرشتوں کو اور اس عالمین کو اور ان جہانوں کو نہ ہو کہ انہوں نے غلبہ اسلام کے لئے اس چھوٹی سی جماعت کی مدد کرنی ہے تو پھر تو ہماری کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.پس ایک تو ہر احمدی کو ہر وقت یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے جو کام لینا چاہتا ہے اس میں ہم کمزوری نہ دکھا ئیں اور دوسرے ہم نوجوان نسل کی تربیت کی طرف خاص طور پر توجہ دیں کیونکہ جد و جہد، قربانی اور ایثار کے زمانہ میں بڑا پھیلاؤ ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 450

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۳۰ خطبہ جمعہ ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ء کو جو نسل قربانیاں دینے اور ایثار دکھانے کے لئے عطا فرمائی تھی.ان میں سے اکثر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.چند ایک باقی ہیں.اس کے بعد دوسری نسل پیدا ہوئی.اس میں سے بھی بہت سے وفات پاگئے.اللہ تعالیٰ نے بہتوں کو یہ توفیق دی اور دے رکھی ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی عاجزانہ کوششوں اور عاجزانہ دعاؤں کو پیش کرتے رہیں.ہمارے بھائی ابوبکر ایوب صاحب بھی انہی میں سے ایک تھے جو مَنْ قَضَى نَحْبَةُ (الاحزاب: ۲۴) کے مصداق بن گئے.بہت سے زندہ ہیں جو قربانیاں دے رہے ہیں اور اپنے اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں.ہماری دعا ہے بعد کی نسل، اس کے بعد کی نسل اور پھر اس کے بعد کی نسل اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری خواہش اور کوشش بھی یہی ہونی چاہیے کہ قیامت تک کی ہر احمدی نسل خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والی اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والی ہو.اللہ تعالیٰ بعد میں آنے والے مربیوں کو بعد میں آنے والی نسلوں کی تربیت کی توفیق عطا فرمائے.تاہم جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، ہمیں اس ذمہ داری کو کما حقہ پوری توجہ اور دعاؤں اور کوشش کے ساتھ نباہنا چاہیے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.ہمارے بھائی ابوبکر ایوب صاحب بڑے مخلص احمدی تھے.خدا کرے کہ جماعت کو اسی قسم کے مخلص دل اور روشن دماغ اور پوری توجہ اور انہماک سے قربانیاں دینے والے سینکڑوں ہزاروں مخلصین ملتے رہیں تا کہ کام کے اندر سہولت اور کام کے اندر وسعت اور کام میں تیزی پیدا ہو اور جلد ہی نتیجہ نکلنے کے امکانات پیدا ہو جائیں.خدا کرے کہ دنیا کے تمام اندھیروں کے باوجود اللہ تعالیٰ جماعت کو ہمیشہ اپنے نور سے منور ہی رکھے اور اپنی رحمتوں سے نوازتا ہی رہے.اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں اس جہت کی طرف ہدایت دیتا چلا جائے جس جہت کی طرف وہ ہمیں لے جانا چاہتا ہے اور جس مقصود تک وہ ہمیں پہنچانا چاہتا ہے اس مقصود تک وہ اپنے فضل سے اپنی رہنمائی میں ہمیں پہنچا دے.وہ ہماری زندگیوں کو کامیاب اور خوشحال اور ہر طرح سے قابل اطمینان بنادے.پس ۳، ۴ قسم کی دعائیں ۲، ۳ قسم کے تربیت کے کام اور کچھ قربانیوں اور صدقات کی

Page 451

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۳۱ خطبہ جمعہ ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ء طرف میں نے جماعت کو توجہ دلائی ہے.خدا کرے کہ آپ سب ان کی اہمیت کو سمجھنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پانے والے بنیں.اللھم آمین (روز نامه الفضل ربوہ یکم اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحه ۲،۱)

Page 452

Page 453

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۳۳ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء پاکستان کی بقا، استحکام اور فتنہ و فساد سے بچاؤ کے لئے خاص طور پر دعائیں کی جائیں خطبه جمعه فرمود ه ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت اور ترجمہ بیان فرمایا:.وَمَنْ يَعْتَصِمُ بِاللهِ فَقَدْ هُدِى إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ - يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ اَنْتُم مُّسْلِمُونَ - وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمُ اَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ - (ال عمران : ۱۰۲ تا ۱۰۴) اور جو شخص اللہ کی پناہ لے لے تو ( سمجھو کہ ) اسے سیدھی راہ پر چلا دیا گیا.اس لئے اے ایماندارو! اللہ کا تقویٰ اس کی تمام شرائط کے ساتھ اختیار کرو اور زندگی کے آخری سانس ، موت کی گھڑی تک اللہ تعالیٰ کے کامل فرمانبردار بنے رہو.اور تم سب کے سب بغیر کسی استثناء کے ) اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور پراگندہ ( اور متفرق مت ہو اور اللہ کا احسان (جو اس نے ) تم پر (کیا) ہے یا درکھو کہ جب تم ایک دوسرے کے

Page 454

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۳۴ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء دشمن تھے.اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کے احسان سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارہ پر تھے مگر اس نے تمہیں اس سے بچا لیا.اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات ( و ہدایات ) کو بیان کرتا ہے تا کہ تم ( راہ ) ہدایت (اور صراط مستقیم پر چل کر کامیابیوں ) کو پالو.میں نے پچھلے خطبہ میں چند دعائیں کرنے کی بھی تحریک کی تھی.ان میں سے ایک دعا کی تحریک یہ تھی کہ دوست اپنے ملک کے استحکام اور بقا نیز شر پسندوں کی شرارتوں سے بچاؤ کے لئے دعا کرتے رہیں.اس وقت ہمارے ملک کے دشمنوں کے منصوبے اپنی انتہا تک پہنچ چکے ہیں.جولوگ بظاہر ملک کے دوست ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں بھی وطن کی وہ محبت نہیں پائی جاتی کہ جس کے نتیجہ میں قو میں پنپتی اور ترقی کرتی ہیں چنانچہ ذاتی مفاد اور ذاتی رنجشوں کی پرواہ زیادہ ہے اور ملک کے اتحاد اور یک جہتی کی پرواہ کم ہے.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ایک لمبا، وسیع اور نہایت ہی حسین مضمون بیان فرمایا ہے میں اس کے ایک پہلو کی طرف آج جماعت کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں لیکن قبل اس کے کہ میں اصل مضمون کی طرف آؤں.میں یہ بات تمہید بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے نزدیک ہمارا یہ ملک بحیثیت قوم دو حصوں میں بٹا ہوا ہے.قوم کا ایک حصہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو پہچانتے ہوئے اور اس کی عظمت اور جلال کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہر چیز کے لئے اسی کی طرف جھکتا اور ہر شر سے بچاؤ کے لئے اسی کی پناہ میں آتا ہے یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتا ہے.اس ملک کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کی اکثریت (سارے تو نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں کچھ غیر مسلم بھی آباد ہیں ) خود کو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتی ہے وہ مسلمان کہلاتے ہیں.وہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہیں لیکن ہمیں یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف بھاگنے کی بجائے ان کے چہروں کا رخ کسی اور طرف

Page 455

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۳۵ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء ہوتا ہے اور ہر خیر کا منبع اللہ تعالیٰ اور اس کی شریعت اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم فیوض کو سمجھنے کی بجائے وہ خیر کا منبع کہیں اور تلاش کرنے لگتے ہیں حالانکہ وہ مسلمان ہیں،خود کو مسلمان کہتے ہیں.لیکن اسلام کے یہ معنے کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دینا حتی کہ اپنی گردن بھی اس کے آگے رکھ دینا کہ اگر خدا کی راہ میں وہ جاتی ہے تو جائے خدا کا پیار اور اس کی رضامل جائے ، ان کی زندگیوں میں اس قسم کا کوئی رنگ اور اسلام کے یہ حقیقی معنے جھلکتے نظر نہیں آتے.بہر حال جب وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو اس معنی میں ہم بھی ان کو مسلمان کہتے ہیں حالانکہ ان کو دعا کی طرف ان کو اعتصام باللہ کی طرف ان کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی طرف، ان کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے حصار میں محصور ہونے کی طرف توجہ یا تو سرے سے ہوتی ہی نہیں یا اگر ہوتی بھی ہے تو بہت کم ہوتی ہے.جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات سے نا آشنا اور اس کے فضل جذب کرنے کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوتے.اس لئے اب ساری قوم کی ذمہ داری جہاں تک دعاؤں کا تعلق ہے وہ ہمارے کندھوں پر آپڑی ہے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ہمارے ملک کا ایک گروہ تو وہ ہے جو خدا کی عظمت اور جلال کی معرفت اور عرفان رکھتا اور اس کی تمام صفات حسنہ کا علم رکھتا ہے اور ہر ضرورت کے وقت اسی کی طرف جھکتا اور اسی کا سہارا لیتا ہے اور ہر شر سے بچنے کے لئے اسی کی پناہ میں آنے کے لئے انتہائی کوشش کرتا ہے.مگر ایک دوسرا گروہ جو ہے اس کی یہ حالت نہیں ہے.تاہم ان میں سے بعض لوگوں کے متعلق یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح جھٹے کا وقت ہوتا ہے شاید اسی طرح کی روشنی میں وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو دیکھنے والے بھی ہوں، اس کی طرف توجہ بھی کرتے ہوں لیکن ہمارے نزدیک وہ بھی تقویٰ کی راہوں کو اس کی ساری شرائط کے ساتھ قبول کرنے والے نہیں ہیں.میں نے حالات کا یہ تجزیہ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں بیان کیا ہے.جس حد تک ہم نے قرآن کریم کو سمجھا ہے ہم نے تو اسی کے مطابق بات کرنی ہے.میں نے گذشتہ خطبہ میں مختصر یہ بتایا تھا اور جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ملک کے استحکام کے لئے بہت دعائیں کی جائیں کیونکہ دعائیں کرنے کی اللہ تعالیٰ کی پناہ ڈھونڈنے کی

Page 456

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۳۶ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء اس سے مدد مانگنے کی اور اسی کے سہارے کامیابیوں کے حاصل کرنے کی امید اور آخرت میں سرخرو ہونے کی توقع رکھنے کی اصل ذمہ داری جماعتی لحاظ سے ہمارے نزدیک ہمارے اوپر عاید ہوتی ہے.اس لئے ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ ہمارے جو دوسرے بھائی ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.وہ بھی اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اس کی حفاظت اور پناہ میں آنے کی کوشش کریں.اس وقت میں نے آیت کا ایک ٹکڑا اور دو پوری آیات تلاوت کی ہیں.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑا ہی وسیع مضمون بیان فرمایا ہے.اس میں ایک بنیادی بات جسے بڑا نمایاں کر کے ہمارے سامنے رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مذہبی تاریخ میں بھی ہوتا آیا ہے کہ انسانوں کے گروہ آگ کے گڑھے کی طرف دھکیل دیئے جاتے رہے.وہ دیکھ رہے ہوتے تھے کہ سامنے آگ کا گڑھا ہے جس میں آگ کے شعلے اٹھ رہے ہیں اور اس کے کنارہ پر کھڑے ہیں.یہ آج کی بات نہیں ہے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر اب تک دنیا میں یہی نظارہ دیکھنے میں آتا رہا ہے که بعض دفعہ جماعت مومنین کا امتحان لینے کے لئے اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پیار کے اظہار کے لئے اور بعض دفعہ فسق و فجور یا کفر و نفاق کی سزا دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ قوموں نے اور جماعتوں نے خود کو آگ کے گڑھے کے کنارہ پر دیکھا.چنانچہ ایک آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کے لئے بھی تیار کی گئی تھی ( محبوبیت کے اظہار کے لئے ) اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نفس کو اور اپنے وجود کو اس آگ کے کنارہ پر دیکھا تھا.پھر ایک اور مخالفت کی آگ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے لئے بھی جلائی گئی اور بھڑکائی گئی تھی تا ظاہر ہو کہ اللہ تعالیٰ ختم المرسلین سے کس قدر عظیم محبت رکھتا ہے.اس وقت اس چھوٹی سی جماعت نے خود کو عَلى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ (ال عمران: ۱۰۴) پایا تھا اور اس کے برعکس ایک آگ وہ بھی تھی جو اللہ تعالیٰ کے غضب کی ایک تجلی کے طور پر بغداد کی حکومت کو تہس نہس کرنے کے لئے ہلاکو خان کے ذریعہ جلائی گئی تھی.کہتے ہیں کہ اس بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر اور مسلمان قوم کو اس کے کنارہ پر کھڑا پا کر خدا کے ایک

Page 457

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۳۷ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء بندہ نے خدا کے حضور عاجزانہ التجا کی تھی کہ اے ہمارے ربّ کریم ! تیرے یہ بندے آگ کے کنارہ پر کھڑے ہیں.تو اپنے فضل سے ان کو آگ سے بچا اور ان کی حفاظت کے سامان پیدا کر تو ان کے کان میں آسمان سے یہ آواز پڑی تھی اُيُّهَا الكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَارَ یعنی اے کفار فاسقوں کو قتل کرو.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ شدید العقاب بھی ہے چنانچہ بھی لوگوں کو عذاب دینے کے لئے آگ بھڑکتی ہے.پس آگ خواہ کسی قسم کی ہو وہ نیک بندوں کو بظاہر جلانے کے لئے ناسمجھ ، جاہل اور خدا سے دور لوگوں کی طرف سے جلائی گئی ہو لیکن جو محبت کا نور بن گئی یا وہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کی آگ ہو.ہر دوصورتوں میں اس سے بچنے کا طریق اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں (۱) اعتصام باللہ اور (۲) تقوی اللہ بتایا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اللہ کی حفاظت کو حاصل کرو تو اس آگ سے بچ جاؤ گے خواہ وہ خدا کے غضب کی آگ ہو یا مومنوں کا امتحان لینے کے لئے آگ جلائی گئی ہو.ہر دوصورتوں میں یہ خدا تعالیٰ کی پناہ ہی ہے جو اس آگ کی تپش اور اس سے جھلس جانے سے محفوظ رکھ سکتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے زور بازو سے اس آگ سے محفوظ نہیں رہے تھے جو ان کو جلانے کے لئے بھڑکائی گئی تھی اور نہ ہی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اپنی ذاتی قوت اور طاقت یا اپنی دولت اور اقتدار کے نتیجہ میں کفار کی بھڑ کائی ہوئی آگ سے محفوظ رہے تھے.یہ تو خدائے ذو العرش کا فضل تھا جس نے یہ اعلان فرمایا تھا تبت یدا ابی لَهَبٍ وَتَبَّ ( اللهب : ٢) اللہ تعالیٰ نے ہر دو موقعوں پر فرشتوں کو بھیجا چنا نچہ حضرت ابراہیم کے لئے وہ آگ ٹھنڈک اور سلامتی کا باعث اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کامیابی اور ترقی کا ذریعہ بن گئی.پھر اس نبی کی قوم نے ( یونس کی قوم ) جو ساری کی ساری خدا کے غضب سے محفوظ ہو گئی تھی اس نے تمثیلی زبان میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ) اپنے آنسوؤں سے خدا کے پاؤں کو دھویا تھا.تب اللہ تعالیٰ نے ان کو قہری عذاب سے بچایا تھا.پس ان آیات میں ایک چیز جو نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی تم اپنے آپ کو یا کسی اور کو آگ کے کنارہ پر کھڑا دیکھو گے تو اس آگ سے بچاؤ کا ایک ہی طریقہ ہے

Page 458

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۳۸ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء جو تمہیں اپنی تاریخ میں بھی اور انسانی زندگی میں بھی نظر آئے گا اور وہ ہے اعتصام باللہ اور تقوی اللہ.اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان چمٹ جائے اور اس کی پناہ میں آجائے اور وہ انسان کا ذمہ لے لے تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کسی کو کیسے نقصان پہنچا سکتی ہے؟ اگر انسان خدا کو اپنی ڈھال بنالے تو دشمن کے تیر اس تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ کیا خدا تعالیٰ کی ڈھال کو چھیدنے والا کوئی تیر اس دنیا میں پایا جاتا ہے؟ نہیں ، ہرگز نہیں.پس اس وقت حالات بتا رہے ہیں اور ہر صاحب فراست کو یہ نظر آ رہا ہے کہ ہماری قوم شعلہ زن آگ کے کنارہ پر کھڑی ہے ان حالات میں ہماری دوہری ذمہ داری ہے.ایک ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم یہ دعا کریں کہ اللہ تعالی سارے کے سارے پاکستانی شہریوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ قرآن کریم کی اس تعلیم کو سمجھیں کہ بھڑکتی ہوئی آگ سے بچانا صرف خدا کا کام ہے.پس یہ آگ جو اس وقت ملک میں بھڑک رہی ہے خدا کرے لوگوں کو یہ نظر بھی آنے لگ جائے اور یہ حقیقت بھی ان پر عیاں ہو جائے کہ اس آگ سے سوائے خدا کے اور کوئی نہیں بچا سکتا اور پھر وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں.اس کی باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.دوسری ذمہ داری ہماری اپنی جماعت کی ہے کیونکہ اگر ملک میں آگ لگے تو ہماری جماعت بھی چونکہ ملک اور قوم کا ایک حصہ ہے اس کو نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے.اس لئے میں اپنی جماعت سے یہ کہتا ہوں کہ تم اپنی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کی حفاظت کے لئے اپنے ماحول کی حفاظت کے لئے اور ان نعماء کی حفاظت کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے محض احسان کے نتیجہ میں عطا فرمائی ہیں اور جن کا کوئی شمار نہیں ہے عاجزانہ طور پر اپنے رب کریم کے حضور جھکو اور اپنے آنسوؤں سے اس کے قہر کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرو اور خدا سے ذاتی تعلق پیدا کر کے اس کی گود میں اپنے لئے جگہ بناؤ تا کہ اس کا پیار اور اس کی رحمت جوش میں آئے اور جو کامیابیاں اس کے بندوں کے لئے مقدر کی گئی ہیں ( جن کی طرف ان آیات میں بھی اشارہ ہے وہ کامیابیاں ) ہمارے حصہ میں بھی آئیں ہمارے مقدر میں بھی ہوں.ان آیات میں جو دوسری بات نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص

Page 459

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۳۹ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس کے پیدا کردہ بندوں سے ایسے اختلاف نہیں رکھتا جو ان کے لئے مضرت کا باعث اور قوم و ملک کے اتحاد و یک جہتی کے لئے نقصان دہ اور انتشار کا موجب ہوں.وہ ایسے اختلافات کو مٹا دیتا ہے کیونکہ اعتصام باللہ کے نتیجہ میں تفرقہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ اعتصام کا لازمی نتیجہ ہے.اب جو شخص اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آگیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور اس کی صفاتِ حسنہ کی معرفت حاصل کر لی وہ اس کی مخلوق سے نفرت کے ساتھ کیسے پیش آسکتا ہے یا لوگوں کے لئے شفقت اور ایثار کے جذبات کیسے نہیں رکھ سکتا ؟ غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا مومنو! تمہارے اندر تفرقہ نہیں ہونا چاہیے تاہم ایک تفرقہ تو وہ ہے جو فطرتی ہے وہ تو ہونا چاہیے.اس قسم کے تفرقہ سے میری مراد فطرتی اختلاف کا پایا جانا ہے یہ اختلاف تو انفرادیت کو اجاگر کرنے والا ہے.مثلاً ایک باپ کے بچے ایک قسم کی فطرت، ایک قسم کے اخلاق ، ایک قسم کی ذہنیت اور ایک جیسا حافظہ لے کر پیدا نہیں ہوتے.حتی کہ ان کی شکلوں میں بھی اختلاف ہوتا ہے لیکن یہاں وہ اختلاف مراد ہے جو بنی نوع انسان کے لئے رحمت کا موجب تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری اُمت کا اختلاف ان کے لئے رحمت کا موجب ہو گا.مگر شیطان آتا ہے اور اس اختلاف کو اس کے لئے رحمت کی بجائے زحمت اور ہلاکت کا موجب بنانے کی کوشش کرتا ہے اس اختلاف سے جو انسان کے لئے رحمت کی بجائے ہلاکت اور تباہی کا باعث ہو، اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے کیونکہ اعتصام کے بعد یعنی جب کہ خدا کو پہچان لیا ، اس کے جلووں میں تنوع کی جھلک کا مشاہدہ کر لیا جب اس کی عظمت اور جلال کے نتیجہ میں اس کا خوف دل میں پیدا ہو گیا اور جب اس کی صفاتِ حسنہ نے دل میں اس کے لئے انتہائی محبت کا سمندر موجزن کر دیا تو اس کی مخلوق کے ساتھ انسان کی شفقت اور پیار خود بخو دقائم ہو جانا چاہیے اور قائم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اعتصام باللہ کا طبعی فطرتی نتیجہ ہے.اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ اختلاف جو تفرقے اور انتشار کا باعث ہے وہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ تقویٰ کا فقدان ہے.زبان سے دعویٰ کرنا آسان ہے مگر عمل سے ثابت کر دکھانا مشکل ہے.

Page 460

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۴۰ خطبه جمعه ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء پس ہماری جماعت کے ہر مرد و زن کا یہ فرض ہے کہ وہ محض زبانی دعوی پر انحصار نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں زبانی دعووں سے حاصل نہیں ہوا کرتیں.وہ تو عمل کو دیکھتا ہے.اس کی نظر تو انسان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچتی ہے اور وہاں نیکی اور طہارت کو تلاش کرتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کو انسان کے دل میں خلوص اور باطنی پاکیزگی نظر آ جائے تو وہ اس سے پیار کرتا اور اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اگر انسان کے اندر ان چیزوں کا فقدان ہو تو وہ اس کے ظاہری دعووں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا بلکہ انہیں شیطان کی ایک شکستہ وخستہ، گندی اور سڑی ہوئی چیز سمجھ کر پرے پھینک دیتا ہے.پس میں جماعت احمدیہ کے ہر چھوٹے اور بڑے ، ہر جوان اور بوڑھے اور ہر مرد اور عورت سے کہتا ہوں کہ تم بھی اپنے نفس کا محاسبہ کروتا ایسا نہ ہو کہ آج ملک میں جو فتنہ فساد ہمیں نظر آ رہا ہے تباہی اور انتشار کی بھڑکتی ہوئی جس آگ کو ہم دیکھ رہے ہیں ، اس کے شعلوں کی لپیٹ میں ہم میں سے بھی کوئی آجائے کیونکہ بسا اوقات جو ظالم نہیں ہوتا وہ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے.اس کا بھی قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے وہ ایک اور مضمون کے ضمن میں ہے اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جا سکتا.میرے سامنے اب بڑی کثرت سے یہ باتیں آنے لگ گئی ہیں کہ بعض خاندانوں یا بعض افراد میں دنیا داری زیادہ آگئی ہے.ابھی کل ہی میں ایک خط پڑھ رہا تھا اس میں لکھا تھا کہ خاوند کا بیوی سے اس بات پر جھگڑا ہو گیا ہے کہ بیوی زیادہ جہیز نہیں لائی.میرا شرم کے مارے سر جھک گیا.میں کہتا ہوں جب تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو پکڑ لیا تو پھرا اپنی بیوی سے یہ کیوں کہتے ہو کہ چونکہ تو جہیز ہمارے مطلب کا لے کر نہیں آئی اس لئے ہم تجھے تنگ کریں گے.“ اسی طرح بعض عورتیں اپنے خاوندوں کو تنگ کرتی ہیں.بعض امیر لوگ ہیں جو اپنے غریب بھائیوں کو تنگ کرتے ہیں یا ان کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھتے.تاہم میں بعض لوگوں کا ذکر کر رہا ہوں جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں ورنہ یہ اللہ تعالیٰ

Page 461

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۴۱ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء کا فضل ہے کہ ہمیں بحیثیت جماعت ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے.یہ مقام ہمیں خدا کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ ہی ملا ہے غرض میں مخلصین جماعت کی بات نہیں کر رہا.میں جماعت کے کمزور لوگوں کی بات کر رہا ہوں لیکن چونکہ ہمیں یہ الہی حکم ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا یعنی بغیر استثناء کے تم سب کے سب خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اس کی پناہ میں آ جاؤ اس لئے میں نے استثناء کا ذکر کیا ہے.اس غرض سے کہ یہ استثناء بھی جماعت میں نہیں رہنے چاہئیں یا تو ان کی اصلاح ہو جانی چاہیے اور یا ان کو چاہیے کہ وہ خود ہی جماعت کو چھوڑ دیں.ہمارا اس شخص سے آخر کیا واسطہ ہے جو خدا کی آواز کو نہیں سنتا.جو اعتصام باللہ نہیں کرتا.جو تقویٰ کی راہوں کو اختیار نہیں کرتا اور جو شیطانی تفرقے کی راہوں کو اختیار کرتا ہے ہمارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اللہ تعالیٰ نے جَمِيعًا فرما کر سب کے اوپر ذمہ داری ڈالی ہے.اس لئے ساری جماعت کا یہ فرض ہے کہ جہاں کہیں بھی اس قسم کا گند اور بھیا نک استثناء نظر آئے اس آدمی کو سمجھا ئیں اور اس طریق سے سمجھا ئیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے اور جس کے متعلق اس نے فرمایا ہے کہ وہ احسن اور پر حکمت ہونا چاہیے یعنی ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے سب سے اچھا طریق اختیار کرنا چاہیے تاہم ایسے استثنائی احمدیوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے تو جماعت احمدیہ میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار میں اُن کا کوئی حصہ نہیں ہے.پس جماعت کو سارے تفرقے مٹا کر یکجان ہو جانا چاہیے جس طرح جسم کے اعضاء ہوتے ہیں اسی طرح انہیں آپس میں متحد ہو جانا چاہیے.دوستوں کو یاد ہوگا میں نے ۱۹۶۷ء میں اپنے یوروپ کے دورے میں اس سوال کے جواب میں (جواز راہ شرارت کیا گیا تھا اور جس کا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے جواب سمجھا دیا تھا ) یہ کہا تھا کہ خلیفہ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.حقیقت بھی یہی ہے اور سوال کا جواب بھی یہی تھا مثلاً زید یا بکر یا عبداللہ یا اسماعیل یا داؤ د مختلف ناموں سے مردامتہ اللہ یا امتۃ الرفیق یا نصرت جہاں یا آمنہ یا خولہ قسم کے ہزاروں نام ہیں جن سے عورتیں پکاری جاتی ہیں.لوگوں کے یہ نام دراصل حقیقت کے ایک پہلو پر روشنی ڈالنے کے لئے رکھے جاتے ہیں لیکن حقیقت کا ایک پہلو ساری کی ساری حقیقت کو چھپا نہیں دیا کرتا.پوری

Page 462

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۴۲ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء حقیقت یہی ہے کہ جماعت کا ایک وجود ہے مثلاً ہمارے ہاتھ کی ( چار انگلیاں اور ایک انگوٹھامل کر پانچ انگلیاں ہوتی ہیں.جس طرح کسی شخص کا انگلی کہنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس کے وجود کا حصہ نہیں ہے اسی طرح زید یا بکر کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ شخص جماعت کے وجود کا حصہ نہیں ہے.پس میں جماعت سے ایک بار پھر یہ کہتا ہوں کہ تم ہر قسم کے تفرقوں کو مٹا دو کیونکہ اس کے بغیر تمہیں اللہ تعالیٰ کی برکتیں نہیں مل سکتیں.یہ وقت اتحاد اور اتفاق کا ہے یہ وقت ملک کی پجہتی اور سلامتی کے لئے قربانیاں دینے کا ہے.تباہی کی آگ شعلہ زن ہے ہر سوفتنہ و فساد نظر آ رہا ہے.پس ایسی صورت میں ہمارے دلوں میں اتحاد کے اس جذ بہ کو یکجہتی کی اس روح کو اور ایک وجود ہونے کے اس احساس کو پہلے سے بھی زیادہ جوش مارنا چاہیے جس کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان آیات کریمہ میں تعلیم دی ہے.ہماری جماعت پر بہت بڑی ذمہ داری عاید کی گئی ہے.اس نے خود سلامت رہنا ہے اور دنیا کو سلامتی بخشنی ہے.اس لئے تم اپنی سلامتی کے لئے اور اس مقصود کے حصول کے لئے جس کے لئے تم به حیثیت جماعت پیدا کئے گئے ہو یعنی غلبہ اسلام کے لئے اپنے سارے اختلافات کو مٹا کر اور لڑائی جھگڑوں کو دور کر کے ایک ہو جاؤ.میں نہیں کہہ سکتا کہ کل آپ سے اللہ تعالیٰ کیا قربانی لے گا لیکن آج میں یہ بتا سکتا ہوں کہ آگ بھڑ کی ہوئی ہے.یہ ہلاکت کی آگ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر بچنا مشکل ہے.پس قرآن کریم کی زبان میں میں تم سے یہ کہوں گا وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (ال عمران : ۱۰۴) تم سب کے سب اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور پراگندہ مت ہو.اسی طرح میں یہ بھی کہوں گا کہ تم حَقَّ تُقتِه (ال عمران : ۱۰۳) کی رو سے تقویٰ اللہ کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ اختیار کرو تا کہ تم خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ سے بچ جاؤ اور اگر یہ آگ اس کی طرف سے بطور امتحان کے ہے تو تم اس میں کامیاب ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی زیادہ

Page 463

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۴۳ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء سے زیادہ رحمتیں حاصل کر سکو اور غلبہ اسلام کے دن قریب سے قریب تر آسکیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.(روز نامه الفضل ربوه ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 464

Page 465

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۴۵ خطبہ جمعہ ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ نے ایمانی درخت کی نشو و نما کے بہت سے ذرائع رمضان المبارک میں اکٹھے کر دیئے ہیں خطبه جمعه فرموده ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ مجادلہ کی آخری آیت کا مندرجہ ذیل حصہ تلاوت فرما یا :.أولَبِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحِ مِنْهُ - (المجادلة: ٢٣) اور پھر فرمایا:.آیہ کریمہ کے اس ٹکڑے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کو سچی طہارت اور پاکیزگی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ آسمانی مدد اس کے شامل حال نہ ہو.ماہِ رمضان اپنی بھر پور برکات کے ساتھ آ رہا ہے اس لئے میں آج رمضان کی برکات کی طرف اپنے بھائیوں اور بہنوں کو توجہ دلاتا ہوں.ہم اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں اس نے اپنے فیوض کو جذب کرنے کے بہت سے سامان اس ماہ مبارک کے مختصر زمانہ میں اکٹھے کر دیئے ہیں.ان فیوض و برکات میں سے بعض کی طرف میں اس وقت آپ کو توجہ دلاؤں گا.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے آیت کے اس حصہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آسمانی مدد یعنی اللہ تعالیٰ کے فیوض کے حصول کے بغیر طہارت اور پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی.اس لئے آسمانی مدد یعنی

Page 466

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۴۶ خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت اس کے پیار اور رضا کو جذب کرنے کے لئے قرآن کریم نے بہت سے طریق بتائے ہیں جن کی عملی تفسیر ہمیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ میں نظر آتی ہے.چنانچہ جب ہم اُسوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ماہ رمضان میں فیوض الہیہ کے جذب کرنے کے بہت سے طریق جمع کئے گئے ہیں.میں تمہیداً یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں ایمان اور اعمالِ صالحہ کو بڑے حسین پیرایہ میں بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ایمان کی مثال درخت کی ہے اور اعمالِ صالحہ کی مثال اس پانی کی ہے جو اس درخت کے لئے آب حیات بنتا ہے.چنانچہ وہ درخت جو پہلے ایک پیج کی شکل میں ہوتا ہے اور جو اپنی روئیدگی نکالتا ہے.پھر اس میں پختگی آتی ہے اور پھر وہ مضبوطی سے اپنی جڑ پر قائم ہو جاتا ہے پھر وہ پھیلتا اور وسعت پکڑتا ہے.اس کی شاخوں پر پتے نکلتے ہیں.پھر وہ خوبصورت درخت اس قابل ہو جاتا ہے کہ اسے پھل لگیں.یہی حال انسان کے ایمان اور اس کے مجاہدہ کا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کے ایمان کے بیج کو اعمال صالحہ کے زندگی بخش پانی سے سیراب کر کے اس کے مجاہدہ کو اس حد تک پھیلایا ہے کہ وہ روحانی طور پر پھل لگنے کے قابل ہو سکے.چنانچہ جس وقت انسان اپنی پوری کوشش اور مجاہدہ کے نتیجہ میں اعمالِ صالحہ بجالاتے ہوئے اپنے درخت وجود کونشو ونما دینے کے بعد اس شکل میں لے آتا ہے جس شکل میں مثلاً عام طور پر دنیوی درختوں کے پھل لگا کرتے ہیں تو گویا اس مالی کا جو اپنے ہی وجود کے باغ کی پرورش کر رہا تھا کام ختم ہو گیا.اس کے بعد اگر انسان کے اعمالِ صالحہ مقبول ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے تو پھر آسمان سے ایک ایسا خاص فضل نازل ہوتا ہے جو انسان کے درخت وجود کو بار آور اور ثمر آور بنا دیتا ہے.انسان خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہوتا اور جنت کے بے شمار اور غیر محدود پھل حاصل کرتا ہے وہ ان سے لذت پاتا اور روحانی طاقت حاصل کرتا ہے.گویا جنت یہیں اسی دنیا سے اعمال صالحہ بجالانے کے نتیجہ میں شروع ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صرف مثال ہی نہیں دی بلکہ کچھ تفصیل میں جا کر بھی

Page 467

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۴۷ خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء بتایا ہے کہ کون سے اعمال درخت کی نشوونما کے کس حصہ سے تعلق رکھتے ہیں.تاہم اس میں ایک فرق ضرور ہے اور وہ ہمیں بھولنا نہیں چاہیے.مثلاً آم کا درخت ہے اس کا بیج جب نئی زندگی پاتا ہے تو اس کی شکل ختم ہو جاتی ہے.اگر آپ آم یا دوسرے درختوں کی جڑوں کو کھو دیں تو کہیں بھی بیچ نظر نہیں آئے گا.چنانچہ بعض پیج اپنی شکل کو چند دنوں میں کھو بیٹھتے ہیں.بعض بیج اپنے وجود کو چند ہفتوں میں ، بعض چند مہینوں میں اور ممکن ہے بعض درخت جن کی عمریں لمبی ہوتی ہیں اور بیج بڑا سخت ہوتا ہے اُس کا وجود چند سال میں ختم ہوتا ہو.تاہم اس مؤخر الذکر صورت کا تو مجھے ذاتی طور پر علم نہیں لیکن مہینوں میں ختم ہونے والے بیجوں کا تو مجھے علم ہے.ایسے بیج چند مہینوں کے بعد ختم ہو جاتے ہیں.اس کے بعد جو غذا ان درختوں کو دی جاتی ہے اس غذا کا تعلق بیج کے وجود کے ختم ہوجانے کے بعد پھر بیج سے نہیں رہتا بلکہ درخت کی جڑوں کے ساتھ ہو جاتا ہے لیکن جو انسان کا بیج ہے جس نے آگے چل کر درخت بننا ہے اس کو ایسی غذاملتی رہنی چاہیے کہ جو چیز اس دُنیوی مادی درخت کی انسان کی نظر سے غائب ہو گئی اور اس کے لئے ہمیں کوئی فکر کی ضرورت نہیں رہی وہ روحانی دنیا میں غائب نہیں ہوتی.اس لئے اس کے لئے فکر کی ضرورت رہتی ہے.اصل میں تو دُنیا کے جو درخت ہوتے ہیں اُن میں بھی وہ چیز غائب نہیں ہوتی کیونکہ اگر پیج کا وجود کلیۂ غائب ہو جائے (صرف انسانی نظر سے غائب ہونے کا سوال نہ ہو بلکہ حقیقتا غا ئب ہو جائے ) تو اس درخت کو پھر بیج نہیں آئے گا مگر پھل میں دوبارہ اسی شکل کے بیج کا نکل آنا بتا تا ہے کہ پیج اپنی صفات کے ساتھ اس درخت کے اندر موجودرہتا ہے.بہر حال مادی درختوں کے بیج نظر سے اوجھل ہو جایا کرتے ہیں لیکن انسانی درخت وجود کا بیج نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں نہ ہونے چاہئیں.وگرنہ وہ مثال پورے طور پر صادق نہیں آتی جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن مجید کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ انسانی درخت وجود کا بیچ بھی باقی رہتا ہے.اس کی جڑیں بھی قائم رہتی ہیں.زمین سے نکلنے والی اس کی روئیدگی بھی قائم رہتی ہے.اس کے اوپر بڑھنے والی چھوٹی چھوٹی سی شاخیں بھی قائم رہتی ہیں اور جب شاخیں پھیل جاتی ہیں تو اُن کی مضبوطی بھی قائم رہتی ہے یا رہ سکتی ہے پھر وہ

Page 468

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۴۸ خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء ایک بڑا تناور درخت بن جاتا ہے.حسین پتوں اور خوبصورت پھولوں کے ساتھ چمک اُٹھتا ہے.موہبتِ الہیہ یعنی آسمان سے جو رحمت نازل ہوتی ہے ، وہ اس کو پھولوں کا حسن بھی بخشتی ہے اور پھل کی افادیت بھی دیتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو خشوع کی حالت ہے وہ ایمان کے بیج کی روحانیت کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے.ایک تو اس کے اندر نمو کی طاقت کو قائم رکھتی ہے کیونکہ اس سے آگے چل کر درخت نے حصہ لینا ہوتا ہے.میں نے بتایا ہے روحانی طور پر ہم اس کو غائب نہیں سمجھ سکتے.پھر اس کی صفات ( جو بھی ہیں اُن ) کو قائم رکھنے کے لئے، ان کی بڑھوتی کے لئے ، ان کی نشوونما کے لئے ، روحانی بیج یعنی ایمان کا بیج قائم رہتا ہے.اس کے لئے جو پانی اعمالِ صالحہ کے طور پر دیا جاتا ہے وہ خشوع کی حالت ہے، وہ انسان کی عاجزانہ اور متضر عانہ حالت ہے.یہ ایک بنیاد ہے اس پیج کے قیام کی.کیونکہ جب عاجزی غائب ہوگی جب عاجزی اور تضرع کا پانی نہیں ملے گا تو انسانی درخت وجود کی شاخیں مرجھا اور تنا سوکھ جائے گا.اس واسطے تمام اعمالِ صالحہ کے بیچ اور جڑ کو زندہ رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان تکبر اور خود پسندی اور خود رائی اور انانیت سے بچے.عاجزانہ راہوں کو اختیار کرے اور خدا تعالیٰ کے حضور ہمیشہ عاجزانہ طور جھکا رہے کیونکہ اس کے بغیر بیج اور جڑ زندہ نہیں رہ سکتے.یہ عاجزی اور انکسار بھی بمنزلہ پانی کے ہے بلکہ یہ باقی پانیوں کی بنیاد ہے.جس طرح مثلاً شہد کی مکھی ہے.جہاں وہ نیکٹر یعنی پھولوں کا رس جمع کر کے شہد بناتی ہے وہاں وہ اپنی ملکہ کے لئے رائل جیلی (سائنسدانوں نے یہ نام دیا ہے وہ بھی بناتی ہے اور اس سے اس کی زندگی اور پیچ کے قیام میں بڑا فرق پڑ جاتا ہے.وہ یعنی ملکہ اس کے نتیجہ میں بہت زیادہ انڈے دیتی ہے اور چھتے کی اجتماعی زندگی کو قائم رکھتی ہے.اسی طرح عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے ایمان کے بیج کی قوتوں کو محفوظ کیا جاتا ہے.انہیں قائم رکھا جاتا ہے ان کو مضبوط کیا جاتا ہے اُن کے اندرحسن کے نمو کی صفت کو پیدا کیا جاتا ہے اور ثمر آور بنے کی حالت تک پہنچنے کے جو سامان ہیں وہ اس کے لئے مہیا کئے جاتے ہیں.غرض خشوع اور عاجزی کی جو حالت ہے یہ سارے اعمالِ صالحہ کے پانی کی بنیاد ہے.یوں

Page 469

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۴۹ خطبہ جمعہ ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء سمجھنا چاہیے کہ یہ اعمالِ صالحہ کے پانی کامنبع اور سر چشمہ ہے.اعمالِ صالحہ کا پانی گو یا عاجزی کے سر چشمہ سے جوش مارتے ہوئے باہر نکلتا ہے.چنانچہ خشوع اور تضرع کے ساتھ جب بیچ کی حفاظت ہو جاتی ہے تو دوسری کیفیت یہ ہے کہ ہلکی سی روئیدگی زمین سے باہر نکلے.بڑا درخت ہو یا فصلیں ہوں ، پہلے ان کی ایک بالکل نازک سی کونپل نکلتی ہے.انسان کی بچپن کی عمر میں وہ نزاکت نہیں ہوتی جو ان کو نپلوں میں پائی جاتی ہے.اُن میں خدا تعالیٰ کی بڑی شان نظر آتی ہے جس پر دوستوں کو غور کرنا چاہیے.پھر سبزہ یعنی چھوٹی چھوٹی شاخیں نکلتی ہیں.ساتھ ہی درخت کی یا فصلوں کی جڑوں میں بعض گندی اور ضرر رساں بوٹیاں اُگ آتی ہیں جو اصل درخت یا فصل کی غذا کو چوس لیتی ہیں اس لئے اگر اُن کو نکالا نہ جائے تو یہ درخت کی پرورش میں روک بنتی اور بسا اوقات اس کی ہلاکت کا باعث بھی بن جاتی ہیں.اسی طرح ایمان کے بیج سے جو روئیدگی نکلتی ہے اس کی سرسبزی و شادابی کا انحصار لغو باتوں کے چھوڑنے پر ہے.جس طرح خود رو جڑی بوٹیاں اصل فصل کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں اسی طرح لغو باتیں، پراگندہ خیالات اور بیہودہ عمل، ایمان کے درخت کے لئے ضرر رساں ہوتے ہیں.اس لئے لغو باتوں سے ہمیشہ اعراض کرنا چاہیے اور اس کے مقابلے میں پسندیدہ اور مفید باتوں کو اختیار کرنا چاہیے مثلاً کھیتوں کے لئے ہر قسم کی کھا دمفید ہے.اس سے اس کی سرسبزی اور شادابی میں اضافہ ہوتا ہے.نشو نما میں کوئی روک نہیں پیدا ہوتی.اسی طرح لغو باتوں کے اعراض سے وہ روکیں دور ہو جاتی ہیں جو حسنات کے راستے میں حائل ہوتی ہیں.پھر اس درخت پر ایک تیسرا دور آتا ہے اور وہ یہ کہ روئیدگی اب ٹہنیوں کی شکل میں بدل جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال خرچ کرنے سے ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکل آتی ہیں اور اُن میں کسی قدر مضبوطی بھی آجاتی ہے.گوٹہنیاں نکل آئیں لیکن ابھی کونپلیں ہری اور نرم ہیں اُن کے اندر پوری سختی اور مضبوطی نہیں آئی.چنانچہ پھر چوتھا مرحلہ آتا ہے اور یہ شہوات نفسانیہ سے مقابلہ کرنے کا مرحلہ ہے لیکن اس سے پہلے تیسرے مرحلے میں صدقہ و خیرات اور زکوۃ کے علاوہ اموال خرچ کرنے سے تعلق رکھنے والے دوسرے احکام کے نتیجہ میں جو نرم نرم شاخیں نکلی تھیں

Page 470

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۵۰ خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء شہوات نفسانیہ کا خاتمہ کر کے ان شاخوں میں مضبوطی پیدا کی جاتی ہے، مضبوطی کے بعد پھر وہ شاخیں پھیلنے لگتی ہیں.اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان نے مثلاً جو عہد و پیمان کیا ہے اور بندوں نے جو امانتیں اُسے دینی ہیں اُن کو ذہن میں حاضر رکھنے اور ان کی حفاظت کرنے سے ایمان کا درخت مضبوط تنے پر کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اُسے پھل لگے.اسی طرح فرد کو بھی اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی جنت کے پھل نصیب ہوں.وہ خدا کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو جائیں.چونکہ امانتوں کا ذکر آیا ہے اس لیے میں ضمناً یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ امانت صرف روپے پیسے کی نہیں ہوتی بلکہ ہر قسم کی امانتیں مراد ہیں مثلاً بندوں کی ایک یہ امانت ہے جس کے متعلق آپ اکثر سنتے رہتے ہیں اَن تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء : ۵۹) یہ آیت کا ایک حصہ ہے جس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جو اہل ہے اس کو عہدہ دو.کیونکہ عہدہ بھی ایک امانت ہے.یہ ایک بڑا ہی وسیع مضمون ہے.مختصراً یہ کہ اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد و پیمان کو پورا کرنے اور بندوں کی جو امانتیں ہیں ان کو لوٹانے سے انسانی درخت وجود میں ایک حُسن پیدا ہوتا ہے.پس یہ ایمان اور عمل صالح کا آپس میں تعلق ہے.گو اور بھی بعض تعلقات ہیں لیکن یہ پانچوں چیزیں یعنی جہاں انسان کا مجاہدہ ختم ہوتا ہے وہاں تک چار اور جہاں سے اللہ تعالیٰ کی رحمت شروع ہوتی ہے وہ پانچویں.ان کا میں نے اس وقت مختصراً اس غرض سے ذکر کیا ہے کہ ان کا تعلق ماہِ رمضان سے ہے.یہ چاروں پانچوں چیزیں ہمیں اس ماہ مبارک میں نظر آتی ہیں.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں پہلی چیز خشوع کی حالت ہے.یہ حالت یعنی دل میں عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کا احساس ، انکسار کا جذبہ اور اصلاح نفس کی طرف توجہ پیدا ہوتو رمضان میں نفس کی تادیب و اصلاح کا بڑا موقع ملتا ہے.انسان نے روزہ رکھا ہوتا ہے، وہ راتوں کو جاگ رہا ہوتا ہے.اس تھوڑی سی مشقت کے بعد ایک صاحب فراست انسان سمجھ جاتا ہے کہ اتنی سی تکلیف نے اس کا وجود جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے یہاں تک کہ اس کی انا ختم ہوگئی.

Page 471

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۵۱ خطبہ جمعہ ۶ اکتوبر ۱۹۷۲ء غرض انسان کا مجاہدہ اس کو عاجزی کی طرف مائل کرتا ہے.گوساری عبادتیں ہی اس قسم کی ہیں لیکن میں اس وقت ان پانچ بڑی بڑی چیزوں کولوں گا جن کا تعلق رمضان کی برکات سے ہے.چنانچہ بھر پور برکتوں کے ساتھ آنے والے اس ماہ مبارک کی پہلی برکت یہ ہے کہ ایمان کے پیج کو مضبوط کرنے کے سامان اس میں زیادہ پائے جاتے ہیں.خشوع و خضوع ، تضرع و ابتہال اور عاجزی اور فروتنی کی حالتیں اس مہینے میں بمقابلہ دوسرے مہینوں کے زیادہ میسر آتی ہیں علاوہ ازیں اس مہینے میں بھی گوحسنات دنیا کے حصول کی جدو جہد کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں دوسرے مہینوں میں زیادہ دی گئی ہے.اس مہینے میں زیادہ زور عبادات پر دیا گیا ہے.چنانچہ تہجد کے نوافل ہیں.انسان قربانی اور ایثار دکھاتا ہے.بعض صورتوں میں نماز با جماعت سے استثناء بھی جائز ہے یعنی نماز کے لئے مسجد میں نہ جانا قابلِ اعتراض نہیں ہوتالیکن رمضان کے بارہ میں یہ کہا گیا ہے کہ مسجدوں میں زیادہ تعداد میں اور کثرت سے آؤ.پھر اور عبادتیں ہیں یہ ساری عبادتیں انسان کے لئے جنگلے کا کام دیتی ہیں.انسان تکبر، غرور اور خود پسندی کے کانٹے دار جھاڑیوں کے جنگل میں سرگرداں ہونے سے بچ جاتا ہے کیونکہ اسے محاسبہ نفس کے مواقع رمضان میں کثرت سے میسر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار فرمایا ہے کہ دیکھو تمہاری حیثیت کیا ہے.جب تک تم خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا نہیں کرتے.جب تک تم عاجزانہ طور پر اس کے سامنے نہیں جھکتے اور جب تک تضرع کے آنسوؤں کے ساتھ اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کر کے اس کی رحمت کو جذب نہیں کرتے اس عالمین میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں.پس خشوع کی حالت رمضان کے مہینے میں دوسرے مہینوں کی نسبت زیادہ میسر آتی ہے.دوسری چیز لغو باتوں کو چھوڑنا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی تاکید بیان فرمائی ہے کہ رمضان میں بالخصوص لغو باتوں کی طرف توجہ نہ دیا کرو.زیادہ توجہ اپنی عبادتوں کی طرف قائم رکھو.یہ حکم خداوندی ہے اور ہمارے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے جو نمایاں طور پر ہمارے سامنے ماہِ رمضان میں آتی ہے.درختوں یا فصلوں کے بیج سے سبزہ پھوٹتا اور چھوٹے چھوٹے اور نرم نرم تنکے نکلتے ہیں.ان کی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ چھوٹی سی چڑیا یا چنڈول اسے ضائع

Page 472

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۵۲ خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء کر سکتی ہے مثلاً چھیتی گندم لگا دیں تو اگر چڑیوں کو اور کہیں کھانے کو نہ ملے تو وہ چونچ سے ذرا سے جھٹکے کے ساتھ پودے کو بیچ سمیت باہر نکال دیا کرتی ہیں.انسان کی بھی یہی حیثیت ہے.اگر وہ اس سے پہلے عاجزانہ مقام اختیار نہ کر چکا ہو تو وہ چنڈول کی زد میں ہے ایک چھوٹی سی بے حیثیت چڑیا آکر اسے فنا کر سکتی ہے لیکن چونکہ اس نے عاجزانہ راہ کو اختیار کیا ہوتا ہے اس لئے وہ اللہ کی حفاظت کے اندر آ جاتا ہے.ایمان کی روئیدگی کا جو زمانہ ہے وہ خیریت سے گذر جاتا ہے.اس سبزہ کے اگانے اور اس کو قائم رکھنے میں رمضان کی برکات بڑی مفید بھی ہیں اور بڑی حسین بھی ہیں.ہمارے درخت وجود کی حفاظت بھی ہوتی ہے اور اس سے روئیدگی نکلتی اور پنپتی بھی ہے.اب یہ خطرہ نہیں رہتا کہ درخت یا فصل کے ساتھ خودرو، بے فائدہ اور ضرر رساں جھاڑیاں اُگ آئیں گی جو درختوں کی غذا کھالیں گی.اسی طرح انسان جب لغو باتوں کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ اکثر گناہوں سے بچ جاتا ہے.پھر تیسری چیز اپنے مالوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے متعلق ہے.ہر درخت کی پہلے ایک روئیدگی ظاہر ہوتی ہے.پھر اس کے اندر کچھ مضبوطی آجاتی ہے.یہ ایک ٹہنی کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور بڑی بڑی اونچی نکل جاتی ہے مثلاً آم لمبی عمر پانے والا درخت ہے اگر تخمی آم ہے تو اس کا درخت پچاس پچاس فٹ اونچا چلا جاتا ہے اور ایک ایک درخت پچاس پچاس من پھل دے جاتا ہے.اس کی گٹھلی بڑی نرم اور نازک سی ہوتی ہے مگر اس گٹھلی ( یعنی بیج) سے اگنے والا پودا اپنی جسامت اور اونچائی میں ایک بہت بڑا درخت بن جاتا ہے.اسی طرح ایمان کا پودا بڑھنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کی پرورش اللہ کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرنے سے کرو.رمضان میں انفاق فی سبیل اللہ کی طرف بڑی تو جہ دلائی گئی ہے.احادیث میں آتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ رمضان میں بہت سخاوت کرتے تھے.آپ کی سخاوت ایک تیز چلنے والی ٹھنڈی ہوا کی مانند ہوتی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عام حالات میں بھی بڑے سخی تھے.اتنے سخی کہ آپ کی سخاوت کا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے.ایک دفعہ مدینہ میں عرب کا ایک سردار آیا.معلوم ہوتا ہے کہ جس قبیلہ سے اس کا تعلق تھا وہ اپنی سخاوت میں

Page 473

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۵۳ خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۷۲ء اپنے فطرتی میلان کی وجہ سے بڑا مشہور تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر ایک ٹیلے پر تشریف فرماتھے سامنے وادی میں بیت المال کے اونٹ اور بھیڑیں چر رہی تھیں وہ سردار آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان جانوروں میں سے مجھے کچھ جانور دیں.آپ نے فرمایا یہ جو تمہیں سامنے جانور نظر آرہے ہیں یہ سب ہانک کر لے جاؤ.وہ یہ سن کر حیران رہ گیا اسے یقین نہ آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا سوچ رہے ہو.میں کہتا ہوں کہ یہ سارے جانور ہانک کر لے جاؤ.بڑی مشکل سے اسے یہ بات سمجھ میں آئی.چنانچہ وہ سارے جانور لے گیا اور جب اپنے قبیلہ میں پہنچا تو اس نے لوگوں سے کہا کہ سارے مسلمان ہو جاؤ.جو شخص اس قدر سخاوت کرتا ہے اور مجھے یہ کہہ دیتا ہے کہ وادی کے سارے کے سارے جانور بانک کر لے جاؤ اس کی دولت کا سر چشمہ دنیا کی کوئی چیز نہیں ہوسکتی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جو تمام خزانوں کا مالک ہے اس کے ساتھ اس کا تعلق ہے ورنہ وہ یہ کہنے کی جرات نہ کرتا کہ سارے کے سارے جانور ہانک کر لے جاؤ.اللہ تعالیٰ نے اس پر رحمت نازل کرنی تھی اس لئے اس پر یہ دلیل کارگر ہو گئی.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اس قدر سخاوت کرنے والے تھے ان کے متعلق احادیث یہ گواہی دیتی ہیں کہ ماہ رمضان میں آپ کی سخاوت عام مہینوں کے مقابلہ میں ایسی تھی جیسے تیز ٹھنڈی ہوا ہوتی ہے.ہلکی ہوا کے مقابلہ میں اس سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ آپ کی سخاوت کہاں تک پہنچی ہوگی.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس وقت ایمان کے درخت کی ٹہنی نکل آئے یعنی پہلے بار یک چھوٹی اور معمولی سی روئیدگی تھی اس کے بعد جب وہ ٹہنی کی شکل اختیار کر جائے تو اس میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے خدا کی راہ میں اموال خرچ کرو.ماہِ رمضان سے اس کا بڑا گہرا تعلق ہے.رمضان کی برکتوں میں سے یہ تیسری برکت ہے.اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے احمدیوں کو بھی اور دوسروں کو بھی جن کو اللہ تعالیٰ سمجھ دے.ہر شخص اپنی طبیعت اپنے اموال، اپنی حیثیت اور اپنے وسائل کے مطابق سخاوت کرتا ہے خدا کے حکم سے خدا کی راہ میں مال دیتا ہے لیکن اپنے اپنے

Page 474

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۵۴ خطبہ جمعہ ۶ اکتوبر ۱۹۷۲ء دائرہ میں، عام مہینوں کے مقابلے میں تمہاری رمضان کی سخاوت معمولی ہوا کے مقابلے میں جو تیز چلنے والی ٹھنڈی ہوائیں ہوتی ہیں اس نسبت سے ہونی چاہیے.اتنی سخاوت کرو کہ جسے دنیا بھی محسوس کرے اور تمہارا ماحول بھی محسوس کرے.میں نے بتایا ہے کہ اعمال صالحہ کی مثال پانی کی ہے خدا کی راہ میں مال خرچ کرنا بھی ایک عمل صالح ہے.آپ کو اس حد تک سخاوت کرنی چاہیے کہ گویا کسی چیز کو اتنا پانی مل جائے کہ مثلاً درخت کے اردگرد جو ہو دی لگائی جاتی ہے اس سے باہر نکل آئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس طرح تمہارے ایمان کے درخت کی جو ٹہنیاں ہیں ان کو کسی قدر مضبوطی حاصل ہو جائے گی.پہلے ان کے اندر نرمی تھی اور ان کے لئے بہت سے خطرات تھے.نرمی کا مطلب یہی ہے کہ وہ وقت معرض خطر میں ہیں مثلاً ہمارا یہ مادی جسم ہے.جس شخص کے اندر قوت مدافعت نہ ہو تو اس پر بیماری کے حملے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے.چنانچہ جن بچوں کے اندر قوت مدافعت نہیں ہوتی کمزور ہوتے ہیں.بعض دفعہ والدین ایسے بچوں کو میرے پاس دعا کے لئے لے آتے ہیں کہ یہ ہمارا بچہ ہے جسمانی ساخت کے لحاظ سے بہت کمزور ہے.اچانک بیمار ہو جاتا ہے کبھی بخار اور کبھی نزلہ زکام ہو جاتا ہے.آپ دعا کریں تندرست ہو جائے.غرض جس طرح درخت کی ٹہنیاں نرم و نازک ہونے کی وجہ سے ہر وقت معرض خطر میں ہوتی ہیں اسی طرح ایمان کے درخت کی ٹہنیوں کو بھی بیماریوں کا خطرہ رہتا ہے.اس روحانی امراض کے خطرہ کو دور کرنے کا ایک طریق انفاق فی سبیل اللہ ہے.اس سے روحانی درخت کی ٹہنیوں میں مضبوطی آجاتی ہے.میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اموال خرچ کرنے کا رمضان کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اس ماہ مبارک میں یہ بڑا تا کیدی حکم دیا گیا ہے کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کو حاصل کرو.گویا رمضان کے مہینے میں انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ روحانی ٹہنیوں کو مضبوط کرنے کی یہ تیسری برکت ہے.جس کا رمضان کے ساتھ تعلق ہے.پھر رمضان کے مہینے میں صبح روزہ رکھنے کے بعد غروب آفتاب کے وقت روزہ کھلنے تک دن کا ایک بڑا لمبا عرصہ جس میں بیویوں سے جائز تعلقات سے روکا گیا ہے.روزہ کی حالت میں انسان جائز تعلقات بھی نہیں رکھ سکتا.اس میں شہوات نفسانیہ کا مقابلہ کرنے کا سبق سکھایا گیا ہے

Page 475

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۵۵ خطبہ جمعہ ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء اور بتایا گیا ہے کہ جب تم اپنے نفس پر قابو پالو گے تو گویا ایمان کا درخت اپنے تنے پر مضبوطی سے کھڑا ہو جائے گا.خواہشات نفسانیہ پر قابو پانا انسان کا آخری مجاہدہ ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نفس کے تابع نہ رہے بلکہ اس کا نفس اس کی روحانی فراست کے تابع ہو جائے اور یہ انسان کے مجاہدے کا آخری مرحلہ ہے.یہ سبق ہمیں رمضان میں سکھایا گیا ہے اور یہ چوتھی بڑی برکت ہے جو اس ماہ مبارک میں میسر آتی ہے.پھر جس وقت انسان کا نفس اس کے قابو میں آجاتا ہے اور انسان مجاہدہ کی آخری سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے اور اپنا ہاتھ آسمانی برکات کو حاصل کرنے کے لئے اوپر اٹھاتا ہے تو اسے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اب بھی اسے آسمانی برکات نہیں مل سکتیں جب تک آسمانی برکات خود اس کے قریب نہ آجائیں یا آسمان سے برکات کا نزول نہ ہو اور خدا تعالیٰ خود اپنے فضل سے اپنے فیض کو اس کے قریب نہ کر دے پہلے اس نے پکڑنے کے لئے ایک ہاتھ اٹھایا تھا.پھر وہ دونوں ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور دعا میں مشغول ہو جاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے ربّ کریم ! جہاں تک میری کوششوں کا تعلق تھا میں نے اپنی سمجھ ، ہمت اور طاقت کے مطابق تیرے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کر دی ہے.میرا درخت وجود تو قائم ہو گیا مگر پھل نہیں آتا جب تک تیری رحمت آسمان سے نازل نہ ہو اس لئے اے خدا! تو اپنے فضل سے آسمان سے اپنی رحمت کو نازل فرما.چنانچہ اگر اس کی یہ دعا قبول ہو جائے تو ایک نئی قوت آسمان سے آتی ہے ایک نئی چیز آسمان سے نازل ہوتی ہے جو زمین سے نہیں پیدا ہوتی جس کو ہم اپنی طاقت سے نشو ونما نہیں دے سکتے.گوجسم اپنے کمال کو پہنچ گیا.اس کی ٹہنیوں میں مضبوطی پیدا ہو گئی.اس کے پتوں پرحسن آ گیا لیکن ابھی اس کو پھول آئے نہ پھل لگے.اس کے لئے انسان عاجزانہ طور پر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد کا طالب ہوتا ہے.پس اگر اور جب اللہ تعالیٰ انسان کی عاجزانہ اور منتظرانہ دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے تو وہ ہاتھ جو اس کی طرف اٹھتے ہیں وہ خالی واپس نہیں آتے اللہ تعالیٰ اپنے بے شمار خزانوں سے انسان کی جھولی بھر دیتا ہے اور بھرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان بسا اوقات یہ بھی کہہ اٹھتا ہے کہ اے

Page 476

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۵۶ خطبه جمعه ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء میرے خدا! تیری سخاوت کی کوئی انتہا نہیں مگر میرا دامن تو بہر حال محدود ہے.اب تو مجھے اور دیتا چلا جاتا ہے.یہ تو میری طاقت سے بڑھ کر ہے.میں اسے کس طرح سنبھالوں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک حدیث میں بھی کہا گیا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کے خزانے اس رنگ میں لٹائے گا اور اتنے لٹائے گا کہ دنیا ان کو لینے سے انکار کر دے گی اس کا ایک مطلب ہم یہ بھی لیا کرتے ہیں کہ جو لوگ ان خزانوں کو خزانے نہیں سمجھیں گے ان کی طرف رغبت نہیں رکھیں گے وہ لینے سے انکار کر دیں گے تاہم اس کا اصل اور حسین مطلب یہی ہے کہ ہر ایک مخلص انسان کو اعلیٰ استعداد اور طاقت کے مطابق دے دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ زبانِ حال سے پکار اٹھے گا کہ بس ! بس !! اب زیادہ لینے کی مجھ میں طاقت نہیں.اس پر بھی خدا تعالیٰ نے انسان پر اپنی رحمتوں کا دروازہ بند نہیں کیا بلکہ موہبت الہیہ کا ایک چکر چل پڑتا ہے.انسان کے روحانی درخت وجود پر پھول آئے پھل لگے خدا تعالیٰ کی جنتوں میں وہ داخل ہو گیا.روحانی فضلوں سے لذت اٹھانے لگ گیا لیکن چونکہ خدا نے اس کے دل کے اندر یہ تڑپ یا یہ خواہش اور یہ جذبہ پیدا کیا اور فرمایا کہ اس پر راضی نہ ہونا کیونکہ میرے خزانے غیر محدود ہیں چنانچہ بعض دفعہ انسان کہتا ہے خدایا! اس درخت کو تو پانچ من پھل لگے ہیں یہ تیری رحمت سے لگے ہیں تو اس درخت کو اتنی طاقت فرما کہ یہ دس من پھل اٹھانے کے قابل ہو جائے.پھر اس کی دعاؤں کے نتیجہ میں وہی درخت دس من پھل دینے لگ جاتا ہے پھر سینکڑوں ہزاروں من پھل دینے لگ جاتا ہے.پس حقیقی جنت جس میں انسان داخل ہوتا ہے وہ تو ختم ہونے والی نہیں ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے قرب کے مقامات ختم ہونے والے ہیں.اس میں تو ترقی ہی ترقی ہے.اس میں بھی عمل تو ہے لیکن یہ وہ عمل نہیں جس کا تعلق امتحان سے ہوتا ہے.جس کا تعلق جزاء وسزا سے ہوتا ہے.جنتوں میں داخل ہونے کی بعد انسان بے عمل نہیں ہو جاتا تاہم امتحان کا خوف اور امتحان میں فیل ہو جانے کا ڈر ختم ہو جاتا ہے.حقیقی جنت میں انسان کو نا کامی کا کوئی ڈر نہیں ہوتا لیکن جس طرح ایم.اے یا پی.ایچ.ڈی کرنے کے بعد کوئی عقل مند یہ نہیں سمجھتا کہ اس کے تعلم کا زمانہ ختم

Page 477

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۵۷ خطبه جمعه ۶ اکتوبر ۱۹۷۲ء ہو گیا.اسی طرح حقیقی جنت میں انسان کے دل میں یہ احساس زیادہ بیدار ہو جاتا ہے کہ علم کے حصول کا اصل موقع تو اب پیدا ہوا ہے.چنانچہ جس طرح انسان ایم.اے یا پی.ایچ.ڈی کے بعد اپنے طور پر مطالعہ کرتا ہے عملی زندگی میں انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے.علم کے ذریعے اس کے تجربے کرتا ہے اور غور و فکر کرتا ہے ( یہی علم و عمل کا جوڑ ہے جس کے متعلق کل میں نے اجتماع میں خدام کو سمجھانے کی کوشش کی تھی ) اسی طرح جنت میں اللہ تعالیٰ کی موہبت ختم ہونے میں نہیں آتی.اللہ تعالیٰ انسان کو فضلوں اور رحمتوں سے نوازتا چلا جائے گا.پس رمضان اپنی تمام برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ آ رہا ہے.میں نے اس وقت رمضان کی چار پانچ برکتوں کا ذکر کیا ہے یعنی چار برکتیں تو وہ ہیں جو انسان اپنی کوشش اور اپنے عمل سے، اپنے ایمان کے درخت کو نشوونما دے کر، اس کی پرورش کر کے اسے ایک بڑا شاندارحسین شاخوں سبز پتوں والا درخت بنا کر حاصل کرتا ہے اور پانچویں وہ برکت ہے کہ جب وہ درخت ثمر آور ہونے کے قابل ہو جاتا ہے.تو اس وقت انسان دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرتا ہے اس طرح وہ اسے پھولوں کا گہنا پہناتا اور پھلوں سے لا ددیتا، اس کی افادیت کے ہر پہلو کو اجاگر کرتا ہے.گو پانچویں برکت کا تعلق انسان کی دعا اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی موہبت کے ساتھ ہے.جب انسان کو یہ موہبتِ الہیہ نصیب ہوتی ہے تو پھر اس کے بعد روحانی درخت اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور پناہ میں ہوتا ہے اور وہ انسان کے لئے ابدی جنت اور ابدی سرور کا ذریعہ بن جاتا ہے.پس میں اپنی جماعت کے تمام مردوں اور عورتوں ، جوانوں اور بوڑھوں سے کہتا ہوں کہ تم اپنے درخت وجود یعنی ایمان کے درختوں کی نشو و نما کے جو بھی سامان اور ذرائع ماہِ رمضان میں دیکھو ان سے فائدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کرو تا اللہ تعالیٰ کے فضل سے تم بھی خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۵ /نومبر ۱۹۷۲ء صفحه ۱ تا ۴)

Page 478

Page 479

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۵۹ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۲ء فرمائی:.روحانی انقلاب کا تسلسل آج بھی قائم ہے اور آئندہ بھی قائم رہے گا خطبه جمعه فرموده ۱۳ اکتوبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل سورۃ تلاوت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ والتينِ وَالزَّيْتُونِ - وَطُورِ سِينِينَ - وَ هُذَا الْبَلَدِ الْآمِينِ - لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ - ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِلِينَ - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصُّلِحَتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ - فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِينِ - اليْسَ اللهُ بِأَحْكَمِ الْحَكِمِينَ.(التين : ۱ تا ۹ ) اور اس کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلہ میں ہمارا دامن تنگ ہو گیا ہے اور یہ مسجد بھی نمازیوں کے لئے اس حالت میں اب کافی نہیں رہی.اس لئے منتظمین کو چاہیے کہ وہ آئندہ جمعہ سے شامیانوں کی ایک پوری قطار باہر صحن میں لگایا کریں پھر دو قطار میں اور اسی طرح جوں جوں اللہ تعالی زیادتی کرتا چلا جائے گا شامیانوں کی قطاریں بڑھتی چلی جائیں گی.

Page 480

خطبات ناصر جلد چهارم ۴۶۰ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۲ء ۶۶ آج ہم اپنے دو پیاروں اور خادمانِ دین کے جنازے پڑھیں گے.اس وقت ایک جنازہ تو یہاں پہنچ چکا ہے دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں.ایک جنازہ تو چوہدری عبدالرحمان صاحب کا ہے جولندن میں وفات پاگئے تھے.ان کا جنازہ اغلباً آج یہاں پہنچ رہا ہے چوہدری صاحب مرحوم بڑے سمجھدار محنتی اور بے نفس خادم دین تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں سالہا سال تک لندن کی جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق بخشی.میں اپنی خلافت کے زمانہ میں دو بارلندن جا چکا ہوں.میں نے خود بھی اندازہ لگایا اور دوستوں سے بھی پوچھا میرا یہی تاثر ہے کہ وہ اپنے ذاتی کاموں کے علاوہ اکثر چھ چھ سات سات گھنٹے مسجد میں جماعتی کاموں کے لئے دیا کرتے تھے یعنی جو کارکنان الاؤنس لے کر یہاں کام کرنے والے ہیں ان سے زیادہ وقت چوہدری عبد الرحمن صاحب لندن میں جماعت اور الہی سلسلہ کے کام کے لئے رضا کارانہ دیا کرتے تھے.وہ ڈیڑھ سال سے دل کے مرض میں مبتلا تھے.چند دن پہلے چوہدری صاحب پر دل کا جو دورہ پڑا وہ جان لیوا ثابت ہوا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.مرحوم موصی تو نہیں لیکن خادم احمدیت اور خادمِ اسلام ہیں ان کے لئے دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے اور اپنی رحمتوں کی جنتوں میں رکھے.دوسرا جنازہ جو پڑھا جائے گا وہ ہمارے محترم بزرگ شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی کا ہے.بہت سے دوست انہیں جانتے ہوں گے.علمی میدان میں انہوں نے بڑی خدمت کی ہے ان کا جنازہ یہاں پہنچ چکا ہے وہ بھی پڑھا جائے گا لیکن چونکہ رمضان میں ظہر سے عصر تک قرآن کریم کا درس ہوتا ہے اور نماز جنازہ کی ادائیگی کی نسبت قرآن کریم کا سکھانا اور سیکھنا بہر حال بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس واسطے یہ سوچا گیا ہے کہ قرآن کریم کے درس کو تو ہم بہر حال نہیں چھوڑ سکتے.قرآن کریم کا یہاں درس ہوگا.درس ٹھیک چار بجے تک جاری رہے اور پورے وقت میں ختم ہو.میں مسجد مبارک میں نماز چار بجے کی بجائے سوا چار بجے پڑھاؤں گا اور چونکہ آج یہاں درس ہوتا ہے اس درس میں شمولیت کے لئے ہماری بہت سی بہنیں یہاں آئی ہوں گی جنہوں نے نماز جنازہ میں شامل نہیں ہونا.دوسرے بعض دوست بیمار ہیں بعض بوڑھے ہیں وہ ایک حد تک ہی جسمانی بوجھ کو برداشت

Page 481

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۶۱ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۲ء کر سکتے ہیں.اس لئے درس چار بجے ختم ہوگا.اس کے بعد یہاں بھی نماز ہوگی.مستورات اس میں شامل ہوں اور ہمارے وہ بزرگ دوست جو نماز جنازہ میں شامل نہیں ہو سکتے اور ان کی مجبور یاں ہیں وہ یہاں نماز ادا کریں اور میں رمضان میں عصر کی نماز پڑھنے کا جو معمول ہے یعنی چار بجے پڑھنے کا اس کی بجائے پندرہ یا بیس منٹ بعد مسجد مبارک میں نماز پڑھاؤں گا اور اس کے بعد نماز جنازہ بھی پڑھاؤں گا جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے اور طاقت بخشی ہے وہ وہاں نماز کے لئے پہنچ جائیں اور اپنے ان مخلص بھائیوں کی نماز جنازہ میں شامل ہوں.خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقع پر سورہ تین میں جن چار زبردست انقلابات (اور جن میں سے چوتھا ایک عظیم انقلاب ہے ) کا ذکر ہے ان کی روشنی میں میں نے تاریخ انسانی پر طائرانہ نظر ڈالی تھی کیونکہ مضمون بہت لمبا ہے اور میں سادہ طریق پر خدام اور اطفال کو یہ مسئلہ سمجھانا چاہتا تھا اس لئے مجھے صرف اس کا خاکہ پیش کرنے کا موقع ہی مل سکا تھا چنانچہ سورۂ تین میں جن چار روحانی انقلابات کا ذکر کیا گیا ہے اُن پر میں نے مختصراً چند مثالیں دے کر روشنی ڈالی تھی اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو انقلاب عظیم دنیا میں بپا ہو چکا ہے اور چودہ سوسالہ مدارج میں سے گذر کر اپنے آخری غلبہ کے بہت قریب پہنچ چکا ہے اس سلسلہ میں سورۂ تین کی ان چارا نقلابات سے متعلقہ آیات کے بعد کی جو آیتیں ہیں.ان کو میں نے مختصراً بیان کر دیا تھا.آج میں تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ اس مضمون کو واضح کر دینا چاہتا ہوں تا کہ بعض دوست جو اس کے متعلق غور کریں گے ( بہت سے ہمارے دوست مسائل پر غور کرنے کے عادی ہیں ) میرا علم جو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں مجھے سکھایا ہے وہ ان تک پہنچ جائے.قرآن کریم کی آیات کے مختلف بطون ہوتے ہیں اور ہر نیا بطن یا نیا مضمون جو بیان ہوا ہے وہ ہماری نظر کے سامنے قرآن کریم کے حسن میں ایک اضافہ پیش کرتا ہے.قرآن کریم تو کامل حسن کا مالک ہے.اس کا حسن تو ہمیشہ ہی کامل ہے اور اس کے احسان کے جلوے ہمیشہ کامل ہیں لیکن حالات کی نسبت سے ان میں اضافہ ہو رہا ہے.ضرورتیں بدلتی ہیں.علم کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں چنانچہ جو مضمون میں نے سورہ تین کی تفسیر میں بیان کیا تھا اس کے تسلسل میں اگلی آیتوں

Page 482

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۶۲ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۲ء کے معنے ( بعض ان معانی سے مختلف ہو جائیں گے جو اس سے پہلے ہماری جماعت میں یا اس سے پہلے بھی بیان ہو چکے ہیں ) میں اب بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں بتایا ہے کہ ان تین ابتدائی روحانی انقلابات کا کامیابی کے ساتھ ختم ہو کر ایک انقلاب عظیم کے زمانہ میں داخل ہو جانا ایک ایسا امر ہے جس سے بہت سی صداقتوں کا حقیقتوں کا ہمیں علم حاصل ہوتا ہے اس سے ایک تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ لَقَد خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (التین: ٥) اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے یعنی ان انقلابات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی پیدائش احسنِ تقویم کے رنگ میں ہوئی ہے.احسنِ تقویم کے مختلف معنی کئے گئے ہیں جو سارے کے سارے لغوی معنی کے مطابق ہی ہیں.اس وقت میں جو معنی بیان کروں گا وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ تمام قوتیں اور استعداد میں عطا فرمائی ہیں جن سے وہ سب عالمین کی پوری طرح تسخیر کر سکتا ہے.تسخیر کے معنی عربی میں یہ ہوتے ہیں کہ اس نے اس عالمین میں جو کچھ بھی پیدا کیا ان سے خدمت لینے کی اہلیت انسان کے اندر پیدا کر دی گئی ہے.اسے وہ تمام قومی دئے گئے ہیں جن کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کر سکتا ہے اور (۲) دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے وہ تمام قوتیں انسان میں ودیعت فرما ئیں جن کے نتیجہ میں ان مخلوقات سے اس رنگ میں خدمت لے سکتا ہے کہ وہ اسے اس کے قومی کی آخری نشو ونما تک لے جائیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی منزلیں طے کرتا ہوا خدا کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکے یعنی وہ قو تیں جو ایک طرف پیدائش عالمین کے مقصد کو پورا کرنے والی ہیں اور جس کا منتہاء مقصود حدیث قدى لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلات کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے بہر حال اس عالمین کی تمام چیز میں اس لئے پیدا کی گئی ہیں کہ ان سے انسان فائدہ حاصل کرے انسان کو وہ ساری قوتیں دی گئیں کہ انسان اس سے فائدہ حاصل کر سکے اور ان سے خدمت لے سکے تو ایک طرف انسان اس قابل ہے اور اس قابلیت کو اس نے ثابت کیا ہے کہ اس نے مخلوقات سے خدمت لی اور اس کے نتیجہ میں مقصد پیدائش عالمین پورا ہوا اور دوسرے اسے وہ تمام قو تیں بخشی گئیں تا کہ اس

Page 483

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۶۳ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۲ء عالمین کی خدمت کے نتیجہ میں وہ زیادہ سے زیادہ روحانی ترقیات حاصل کر سکے اور احسن رنگ میں اللہ تعالیٰ کا عبد بن سکے جس سے پیدائش انسانی کا مقصد پورا ہو.پس یہ خدمتیں ایسی ہیں کہ پیدائش (خلق) کے ہر دو مقاصد کو پورا کرنے والی ہیں یعنی پیدائش عالمین کے مقصد کو بھی اور پیدائش انسانی کے مقصد کو بھی پورا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان انقلابی ادوار پر غور کر وجن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے جو حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک پھیلے ہوئے ہیں ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر انسان چوتھے دور میں داخل ہو چکا ہے ) تم ان پر غور کرو تو اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا گیا ہے.انسان کی جد و جہد اور اس کے مجاہدہ سے پیدائش عالم کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے اور اس سے پیدائش انسانی کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے.دوسرے ان زبر دست ادوار میں سے آخری عظیم انقلاب کے نتیجہ میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ اپنی قوتوں کا صحیح استعمال نہ کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے اور جن انعامات کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان میں قو تیں اور استعدادیں پیدا کی تھیں ان انعامات کے حصول سے وہ محروم ہو جاتے ہیں اور ان کا نام اس گروہ میں شامل ہو جاتا ہے جسے ہم اسفَلَ سَفِلِينَ (التین:۶) کہتے ہیں کیونکہ ایک چیز مثلاً زمین سے اٹھی اور پچاس گز او پر گئی.اگر وہ ناکام ہوگی تو پچاس گز نیچے آجائے گی.ایک چیز جس میں طاقت رکھی گئی ہے دوسوگز اوپر جانے کی تو وہ دوسوگز اوپر گئی اور پھر اپنی جگہ پر واپس آ جائے گی.انسان میں طاقت رکھی گئی ہے نچلی سے نچلی جگہ سے بلند ہو کر بلند سے بلند تر مقام تک پہنچنے کی.جس وقت وہ ناکام ہوگا تو مخلوقات کے مقابلے میں بھی کہیں نیچے جا گرے گا.یہی قانون قدرت ہے یہی قانونِ شریعت ہے اور یہی قانونِ روحانیت ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان انقلابات کا یہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ لوگ أَسْفَلَ سَفِلِينَ کے گروہ میں اس لئے شامل ہو گئے کہ انہوں نے اپنی قوتوں اور استعدادوں کا صحیح استعمال کر کے ان نعمتوں کو حاصل نہیں کیا جن کے لئے اس عالمین کو اور ان کے وجود کو پیدا کیا گیا تھا.تیسری چیزان انقلابات سے یہ ظاہر ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ شیطان یا ظلمات کا مالک

Page 484

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۶۴ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۲ء وجود اس بات میں تو کامیاب ہو گیا کہ اس نے انسانوں میں سے ایک گروہ کو روحانی ترقیات سے محروم کر کے اسفل سفلین کے زمرہ میں شامل کر دیا لیکن ہزار ہا سال کی کوشش کے نتیجہ میں وہ حقیقی معنی میں کامیاب نہیں ہوا کیونکہ انسان کو جن رفعتوں کے لئے پیدا کیا گیا تھا اور اس کی رفعتوں کی طرف جو حرکت حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کی گئی تھی اس کے اندر ایک تسلسل پایا جاتا ہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ شیطانی گروہ جو آسفل سفلین کے زمرہ میں ہے انہوں نے اس روحانی حرکت کو روک دیا ہو اور معطل کر دیا ہو.ایسا کبھی نہیں ہوا کیونکہ جو ایمان اور عمل صالح بجالانے والا گروہ ہے اس کے لئے ان انقلابات میں ہمیں اجرٌ غَيْرُ مَسُنُونِ نظر آتا ہے ایک تسلسل ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا.حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا.پھر اس انقلاب عظیم سے شروع ہوا اور قیامت تک ممتد ہے.پس شیطان کی ہزاروں سال کی کوشش سے جو امر ثابت ہوا وہ شیطانی منصوبوں کی ناکامی اور اس کی تدبیروں کی ہلاکت ہے یہ ثابت نہیں ہوا کہ روحانی انقلاب کی جو ایک رو پیدا کی گئی تھی اس کا تسلسل ٹوٹ گیا ہو بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو مومنون کا گروہ ہے یعنی ایمان لانے والوں کا اور عمل صالح بجالانے والوں کا گروہ ہے اس کے لئے آجرٌ غَيْرُ مَمنون مقدر ہے.حضرت آدم علیہ السلام سے یہ تسلسل قائم ہوا اور قیامت تک چلتا چلا جائے گا کبھی ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ اس کی وسعتیں اس کی گہرائی کو کم کر دیتی ہیں اور کبھی ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ اس کی گہرائی اس کی وسعتوں کو کم کر دیتی ہے لیکن یہ کہ اس کا تسلسل ٹوٹ جائے یہ ہمیں نظر نہیں آتا.گویا حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے انقلاب سے لے کر آخری انقلاب تک یہ سلسلہ قائم ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صد ہا سال سے انسان کے لئے جو اجرٌ غَيْرُ مَعْنُونِ مقدر ہے اس کا سلسلہ قیامت تک چلے گا.پھر انقلابات سے یہ نتیجہ نکلا کہ فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدین کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) تیرے دین کے غلبہ کی مہم کو شیطان کی بھلا کونسی تدبیر ناکام بنا دے گی.الدّین کے ایک معنی الْغَلَبَةُ وَالْإِسْتِيلاء بھی ہے.ان انقلابات کے نتیجہ میں یہ ثابت ہوا کہ جس طرح پہلے انقلابات ایک تسلسل کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک کامیاب ہوتے رہے ہیں اسی طرح

Page 485

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۲ء یہ انقلاب عظیم بھی ایک تسلسل کے ساتھ غلبہ حاصل کرتے ہوئے دنیا میں آخری اور عظیم غلبہ حاصل کرے گا اور بنی نوع انسان قیامت تک اس کی برکتوں کا پھیلاؤ دیکھیں گے.پس فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّینِ کی رو سے کون ہے جو اپنے ہوش وحواس میں ہومگر وہ یہ کہے کہ ایسے کامیاب انقلابات کے بعد ( دراصل یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی انقلاب ہے لیکن وہ مضمون علیحدہ ہے ) جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر چوتھے انقلاب عظیم میں داخل ہو گئے ہیں (اگر پہلے تین انقلاب کامیاب ہوئے ہیں تو کون ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انقلاب ناکام ہو جائے گا.دنیا کی کوئی تدبیر، ظلمات کی کوئی کوشش اس انقلاب کو نا کام نہیں کر سکتی اور نہ اس نور کو اندھیرے میں تبدیل کر سکتی ہے.پس اس سے یہ ثابت ہوگا کہ اللہ تعالیٰ احکم الحکمین ہے ہر چیز پر اس کا حکم چلتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے صد ہا سال پہلے آدم کے وقت یعنی پہلی روحانی رہنمائی کے وقت جو انسان نے اس سے حاصل کی شیطان کو کہا تھا کہ میرے نیک بندوں پر تیرا داؤ نہیں چل سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا اور اس کا فیصلہ تھا اور اسی کا حکم چلا.اسلامی تاریخ یا انسانی تاریخ کے کسی دور پر نظر ڈال کر دیکھ لو سوائے ان محروموں اور بدبختوں کے جو خدا تعالیٰ سے دور جا پڑے تھے شیطان کی گود میں کون گیا ؟ تھوڑی بہت کامیابی جو شیطان کو ہوئی یہ تو ان کی اپنی کمزوری کا نتیجہ ہے.پس جو مہم ان انقلابات کے ذریعہ روحانی غلبہ کی چلائی گئی تھی اس پر نظر ڈالنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ حکم اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے الحُكْمُ لِلہ.دوسرے یہ کہ وہ احکمُ الْحَكِمِينَ ہے.فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدین کو میں پھر لیتا ہوں میں آج کل کے حالات سے اس کا کچھ جوڑ ملانا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی انقلاب کی اس مہم کو نا کام نہیں کر سکتی.کون سی تدبیر اس قابل ہوگی کہ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعوی کو جھٹلا سکے کہ الدین یعنی دین کا کامل غلبہ آپ کے حصہ میں مقدر ہے پس جہاں یہ پتہ لگتا ہے کہ دینِ اسلام کے خلاف شیطان کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوگی وہاں اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ شیطانی تدبیریں ضرور ہوں گی کیونکہ جہاں شیطان کا اثر ہوتا ہے وہاں شیطانی تدبیر

Page 486

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۶۶ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۲ء بھی ہوتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف قادیان کے محدود ماحول میں تدابیر ہوئیں پھر پنجاب میں ہوئیں پھر سارے ہندوستان میں ہوئیں اور ایک عرصہ تک وہاں ٹھہری رہیں اس کے بعد جب اسلام کا نور ہندوستان کی حدود سے باہر نکلا اور دنیا کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے پھیلنا شروع ہوا تو پھر اُن علاقوں میں احمدیت کو ناکام بنانے کے لئے تدبیریں شروع ہو گئیں اور ان کا سلسلہ اب بھی جاری ہے.یہ تو روحانی سلسلہ کے ساتھ چلتا رہتا ہے لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ظلمات کے بادشاہ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کے دن قریب آگئے ہیں اس لئے آج ہمیں باہر سے اسلام کے خلاف صرف ملکی یا علاقائی تدابیر کے متعلق ہی معلومات حاصل نہیں ہوتیں بلکہ ایسے منصوبوں کے متعلق بھی ہمارے دوست ہمیں علم دیتے رہتے ہیں کہ جو بین الاقوامی منصوبے ہیں.کئی ممالک اکٹھے ہو کر سوچتے ہیں کہ کس طرح جماعت احمدیہ کو نقصان پہنچایا جائے اور اسلام کی جوز بر دست اور عظیم مہم غلبہ اسلام کے حصول کے لئے جاری ہوئی ہے اس کو کمزور کیا جائے یا اسے نا کام کیا جائے.ان کا دل تو یہی چاہتا ہے کہ اسے بالکل ختم کر دیا جائے لیکن اگر پچھلے ہزاروں سال میں تمہاری تدبیریں کامیاب نہیں ہوئیں تو اب کیسے کامیاب ہوں گی؟ لیکن ان تدابیر اور ان منصوبوں کی مضرات سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان ایمان پر پختگی سے قائم ہو اور عمل صالح کے نتیجہ میں حالات کے لحاظ سے اسے جو قربانیاں دینی چاہئیں وہ دے کر دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرے.غرض حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کے خلاف ایک زبانی اور نا کام ہونے والے دعوئی کا اعلان تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس قسم کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوسکتی.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوئی ہے اور خدا تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اسلام سارے ادیان پر غالب ہوگا.الدین یعنی اس کا غلبہ اور استیلاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مقدر ہو چکا ہے.یہ تو ہوکر رہے گا لیکن اس غلبہ کو عملی طور پر دنیا میں قائم کرنے کے لئے جماعت مومنین کو ہزار ہا قسم کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں اور ظلم سہنے پڑتے ہیں اور دکھ جھیلنے پڑتے ہیں تب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے وہ وارث بنتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ ان کی ڈھال بن کر دنیا

Page 487

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۶۷ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۲ء سے یہ کہتا ہے کہ جو کرنا ہے کر لو.جس تدبیر پر عمل کرنا چاہتے ہوکر لو جو منصو بہ بنانا چاہتے ہو بناؤ و اور اس پر عمل کر کے دیکھ لو لیکن جس طرح پہلے اور نسبتاً چھوٹے انقلابات کو تمہاری تدابیر نا کام نہیں کر سکیں اسی طرح اس سے زیادہ بڑھ کر یہ امکان ہے کہ اس انقلاب عظیم کو تمہاری کوئی تدبیر خواہ وہ بین الاقوامی تدبیر ہی کیوں نہ ہونا کام نہیں کر سکے گی.پس جہاں ہمارے کانوں میں غیر ممالک سے یہ اطلاعات پہنچتی ہیں کہ دنیا کے بہت سے ملک یا دنیا کی بہت سی جماعتیں یا دنیا کے بہت سے مفادات اکٹھے ہو کر جماعت کے خلاف منصوبہ بنارہے ہیں اور یہ تیاری کر رہے ہیں کہ جماعت اپنی اس مہم میں نا کام ہو جائے وہاں خدا کرے کہ ہمارے کانوں میں ساری دنیا کے احمدیوں کی طرف سے یہ آواز بھی پہنچے کہ خدا تعالیٰ کے دین کی حفاظت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موعود الدین اور غلبہ کو قریب لانے کے لئے جن قربانیوں کی بھی ضرورت پڑے گی وہ ہم دیتے چلے جائیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں کا زیادہ سے زیادہ وارث بنائے.خدا کرے کہ یہ حقیقت ہماری زندگیوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے بھی اور ان ظلمات کے بادشاہوں کی آنکھوں کے سامنے بھی آجائے کہ فیا يكَذِبُكَ بَعْدُ بِالدِينِ آخری غلبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدر میں ہے اور ناکامیاں تمہارے حصہ میں ہیں تم کامیاب نہیں ہو سکتے وہی کامیاب ہو گا جس کو کامیاب کرنے کے لئے آدم علیہ السلام سے لے کر مختلف انقلابات کا ایک سلسلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شروع کیا گیا تھا.پس دعاؤں کے ساتھ اعمال صالحہ کے ساتھ ، ایمان پر پختگی کے ساتھ شیطان کے وساوس سے بچ کر اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر کے اس آخری غلبہ کے دن کو قریب سے قریب تر لانے کے لئے کوشش کرتے رہو خدا تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور وہ دن جلد آ جائے.آمین (روز نامه الفضل ربوه ۳۱ / جولائی ۱۹۷۳ ء صفحہ ۳ تا ۶)

Page 488

Page 489

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۶۹ خطبه جمعه ۱۷۲۰ کتوبر ۱۹۷۲ء رمضان بڑی برکتوں والا مہینہ ہے اس میں الہی برکتوں کے حصول کے خاص سامان پیدا کئے گئے ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۰ /اکتوبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۂ بقرہ کی مندرجہ آیات مع ترجمہ پڑھیں :.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ - اَيَّا مَا مَعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۖ وَ أَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ - شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتِ مِنَ الهُدى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُبُهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ ُأجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ - أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصَّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَا بِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ تَكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمُ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا b b لا

Page 490

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۷۰ خطبه جمعه ۱۷۲۰ کتوبر ۱۹۷۲ء عَنْكُمْ فَالْنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ ص الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِقُوا القِيَامَ إِلَى الَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَ اَنْتُمْ عَكِفُونَ فِي الْمَسْجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ التِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ.(البقرة : ۱۸۴ تا ۱۸۸) ترجمہ:.اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر ( بھی ) روزوں کا رکھنا (اسی طرح) فرض کیا گیا ہے جس طرح اُن لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں تا کہ تم (روحانی ترقیات کے لئے اللہ تعالیٰ کا فیض حاصل کرو اور اسی طرح اخلاقی ترقیات کے لئے اس کی برکت سے ) اپنے اندر ایک طاقت پیدا کر و ( سو تم روزے رکھو) چند گنتی کے دن اور تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو (اُسے ) اور دنوں میں تعداد ( پوری کرنی ) ہوگی اور اُن لوگوں پر جو اس ( یعنی روزہ) کی طاقت نہ رکھتے ہوں (بطور فدیہ ) ایک مسکین کا کھانا دینا (بشرط استطاعت ) واجب ہے (اس کے ایک معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ اُن لوگوں پر جو فدیہ کی طاقت رکھتے ہوں فدیہ دینا واجب ہے ) اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اُس کے لئے بہتر ہوگا اور اگر تم علم رکھتے ہو تو ( سمجھ سکتے ہو کہ) تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے.رمضان کا مہینہ وہ (مہینہ) ہے جس میں ( قرآن کریم ) بار بار نازل کیا گیا ہے.(وہ قرآن ) جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ( بنا کر بھیجا گیا ) ہے ( یعنی پہلا الہام الہی جس کے مخاطب تمام بنی نوع انسان ہیں ) اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے (ایسے دلائل ) جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ( قرآن میں ) البی نشان بھی ہیں اس لئے تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو ( اس حال میں دیکھے (کہ نہ مریض ہو نہ مسافر ) اُسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد ( پوری کرنی واجب ) ہوگی اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا.(اس لئے تم خود اپنے نفسوں کے لئے تنگی نہ چاہو بلکہ اللہ کی دی ہوئی آسانی سے فائدہ اُٹھاؤ ) اور ( یہ حکم اُس نے اس لئے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور ) تا کہ تم تعداد کو پورا کر لو اور اس ( بات ) پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے

Page 491

خطبات ناصر جلد چہارم تم کو ہدایت دی ہے اور تا کہ تم (اس کے ) شکر گزار بنو.خطبه جمعه ۲۰ اکتوبر ۱۹۷۲ء اور (اے رسول!) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو ( تو جواب دے کہ ) میں (اُن کے ) پاس (ہی ) ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.سو چاہیے کہ وہ ( دعا کرنے والے بھی ) میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لا ئیں تا وہ ہدایت پائیں.تمہیں روزہ رکھنے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانے کی اجازت ہے.وہ تمہارے لئے ایک ( قسم کا لباس ہیں اور تم اُن کے لئے ایک ( قسم کا ) لباس ہوا اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے.اس لئے اُس نے تم پر فضل سے توجہ کی اور تمہاری (اس حالت کی اصلاح کر دی.سواب تم ( بلا تامل ) اُن کے پاس جاؤ اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے اس کی جستجو بھی کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے اس کے بعد ( صبح سے رات تک روزوں کی تعمیل کرو اور جب تم مساجد میں معتکف ہو تو اُن کے (یعنی بیویوں کے پاس نہ جاؤ.یہ اللہ کی ( مقرر کردہ ) حدیں ہیں اس لئے تم اُن کے قریب ( بھی ) مت جاؤ.اللہ اسی طرح لوگوں کے لئے اپنے احکامات بیان کرتا ہے تا کہ وہ ( ہلاکتوں سے ) بچیں.اس کے بعد فرمایا:.اس رکوع میں جو رمضان کے متعلق قرآن کریم میں بیان ہوا ہے ایک آیت یہ ہے.b وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.(البقرة : ۱۸۷) اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں انسان یا بشر کو مخاطب نہیں کیا بلکہ عباد“ کو مخاطب کیا ہے اور یہ سارا مضمون اللہ کے ”عبد“ سے تعلق رکھتا ہے اس عبد سے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة الذاریات کی اس آیت میں بھی کیا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الدريت : ۵۷)

Page 492

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۷۲ خطبه جمعه ۱۷۲۰ کتوبر ۱۹۷۲ء فرمایا میں نے انسان کو عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے جو شخص حقیقتاً میر ا عبد بننا چاہتا ہے اور میری صفات کا مظہر بننے کی خواہش رکھتا ہے اور اس کے لئے مجاہدہ کرنے کیلئے بھی تیار ہے تو اسے یہ حقیقت یا درکھنی چاہیے کہ میں اس کے بہت قریب ہوں.چنانچہ جب ہم عبد کی حقیقت یا عبد بننے کی حالت یا عبد بنے کی اہلیت کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مادی وجود دیا اور اس کو بروئے کار لانے کیلئے مختلف قومی عطا فرمائے.ماڈی قومی اور ان کی پرورش کے لئے بہت کچھ چاہیے تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ماڈی قومی اور بالواسطہ روحانی قومی کی پرورش کے لئے اس کا ئنات کو بنایا.اب کامل قومی (مادی لحاظ سے ) عطا کرنا ، پھر اُن کی ساری حکمتوں کو اور سارے پہلوؤں کو ذہن میں رکھ کر اُن کے لئے ضرورت کی ہر چیز کو پیدا کرنا یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور کوئی نہیں کر سکتا.(ویسے تمثیلاً ہم اپنی زبان میں یہی کہہ سکتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی صفات تو بڑی مختلف ہیں.ہمیں سمجھانے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ) پس بار یک در بار یک طاقتوں اور ان کی نشوونما کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی اس کو پیدا کرنے کے لئے انتہائی قرب کی ضرورت تھی کیونکہ جو شخص دور ہوتا ہے وہ کسی کی ضرورتوں کو پہچانتا اور سمجھتا ہی نہیں اس لئے وہ مادی قومی کی نشوونما کے لئے کچھ پیدا ہی نہیں کر سکتا یا اگر پیدا کر سکتا ہے تو وہ ادھوری چیزیں ہوتی ہیں.جس طرح مثلاً انسان انسان کی نشو و نما کے لئے جس حد تک اس کی ذمہ داری ہے اس کے متعلق بھی ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ نقص پیدا ہو جاتا ہے یا بھول چوک ہو جاتی ہے.ماں اپنی مامتا کے باوجود اور باپ اپنے پیار کے باوجود تربیت اولاد میں غلطیاں کر جاتا ہے خواہ اولاد کی جسمانی تربیت ہو یا اخلاقی اور روحانی تربیت ہو مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! تمہارے عبد بننے کے لئے جن طاقتوں اور جن صلاحیتوں کی ضرورت تھی وہ ساری کی ساری تمہیں دے دی گئی ہیں.نہ صرف یہ بلکہ اُن کی کامل نشو ونما کے لئے جس قسم کے مادی ذرائع کی ضرورت تھی ، وہ بھی پیدا کر دیئے گئے ہیں.پس ان طاقتوں اور صلاحیتوں کے علاوہ ان کی نشو ونما کے لئے مادی ذرائع کا پیدا کر دینا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہے.

Page 493

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۷۳ خطبه جمعه ۱۷۲۰ کتوبر ۱۹۷۲ء غرض اللہ تعالیٰ نے ماڈی قومی اور ان کی تربیت اور نشوونما کے لئے زمین و آسمان پیدا کئے.چنانچہ فرمایا :.سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ١٤ ) زمین و آسمان میں بے شمار چیزیں ہیں جو انسانی پیدائش سے بھی پہلے پیدا کی گئی ہیں.یہ پیدائش یعنی انسان کی قوتوں میں استعدادی کمال کا پایا جانا اور اُن کی نشوونما کے لئے ہر ضروری چیز کا موجود ہونا اللہ تعالیٰ کے قرب کی دلیل ہے.چنانچہ اللہ تعالی کا عبد بننے کے لئے صرف ماڈی قویٰ کافی نہیں تھے.روحانی صلاحیتوں اور قوتوں کی بھی انسان کو ضرورت تھی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانی صلاحیتیں بھی عطا فرمائیں.پس اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے روحانی قوت اور استعداد کا پیدا کر دینا بتا تا ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کے بہت قریب ہے.پھر جہاں تک روحانی قوتوں کا تعلق ہے انسان از خود اُن سے کام نہیں لے سکتا اس لئے روحانی قوتوں کی کمال نشو ونما کے لئے ہر آن ہدایتِ باری تعالیٰ کی ضرورت ہے.غرض تخلیق کائنات کا یہ ایک لمبا سلسلہ ہے جس کی طرف پہلی آیت میں اشارہ ذکر کیا گیا ہے اور پھر وضاحت کے ساتھ اس مضمون کے متعلق قرآن عظیم میں ایک لمبا سلسلہ چلتا ہے.چنانچہ خالی یہی نہیں فرمایا کہ آدم کو ایک ہدایت دے دی اور انسان کو کہا کہ تم اس کے مطابق روحانی ترقیات کرتے چلے جاؤ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت انسان کو اپنی نشوو نما کے جس درجہ اور جس مقام پر پہنچنا تھا اور اس کے لئے جس قسم کی آسمانی ہدایت کی ضرورت تھی وہ ان کو دے دی گئی.پھر اس کے بعد یکے بعد دیگرے انبیاء آئے.انسان دنیوی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی ترقی کرتا چلا گیا.پس جہاں تک آسمانی ہدایتوں کا تعلق تھا اور زمین کے اندر قوتوں کے پیدا کرنے کا سوال تھا اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کے ہر مر حلے اور ہر درجے میں مختلف ہدایتیں نازل کرتا اور قوتیں پیدا کرتا رہا کیونکہ وہ ہر آن اتنا باخبر اور قریب ہے کہ انسان کی ہر بدلی ہوئی حالت کا اُسے علم ہوتا ہے ویسے تو وہ علام الغیوب ہے.ہر چیز اس کے علم میں بھی ہے.

Page 494

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۷۴ خطبه جمعه ۷۲۰ اکتوبر ۱۹۷۲ء یہ اور چیز ہے.میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی توجہ بھی انسان کی طرف رہتی ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہر بدلی ہوئی حالت کے مطابق اس کی ضرورتوں کے پورا کرنے کا سامان پیدا کیا اور پھر بالآخر قرآن کریم کی شکل میں اُس نے ایک کامل ہدایت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی.کیونکہ بعثت نبوی کے وقت انسان اپنے شعور میں اس مقام تک پہنچ چکا تھا اور انسان اس قابل ہو گیا تھا کہ ایک کامل ہدایت اور مکمل شریعت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھا سکے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے لوگو! تم دیکھتے نہیں.میں نے تمہارے لئے رمضان کے مہینے میں ایک ایسی ہدایت نازل کی ہے جو ھدی للناس ہے جس میں سب بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کے سامان موجود ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ پہلی ہدا یتیں محدود تھیں اور محدود ہونا بھی ایک نقص ہے اس لئے جب ہم پہلی ہدایتوں کو ناقص کہتے ہیں تو اس معنی میں ناقص کہتے ہیں کہ وہ محدود تھیں بوجہ اس کے کہ اس زمانے کی ضرورتیں محدود تھیں اور بوجہ اس کے کہ انسان اپنی مادی اور روحانی نشوونما میں اپنے کمال کو نہیں پہنچا تھا.اس لئے فرمایا اس قرآن عظیم کے ذریعہ وہ علوم بیان کر دیئے گئے ہیں جن کا ذکر پہلی ہدایتوں میں نہیں ہے.یہ قرآن کریم ہی ہے جو ایک کامل ہدایت کی شکل میں نازل ہوا ہے.اس کے نزول سے پہلے انسان کے ذہنی ، اخلاقی اور روحانی قومی اس قابل نہیں تھے کہ اُن کی نشو و نما کے لئے کامل ہدایت نازل ہوتی.اس لئے اگر چہ بعض ہدایات کا انہیں اجمالاً علم دیا جاتا رہا لیکن مکمل علم نہیں دیا گیا کیونکہ وہ اس کو کماحقہ حاصل کرنے کے قابل نہیں تھے لیکن قرآن عظیم کے زمانے کا انسان اس قابل ہو گیا کہ وہ بَيِّنتٍ مِّنَ الهُدی کا حامل بن سکے.چنانچہ وہ جو پہلی ہدایتوں میں اجمال پایا جاتا تھا قرآن کریم نے اس کی تفصیل بیان کی گویا انسان کو ایک ارفع مقام پر پہنچ جانے کی وجہ سے قرآن کریم کے ذریعہ ہدایت کی نئی اور پر حکمت باتیں بتائی گئیں یعنی وہ ہدایتیں جو مجملا پہلوں کو دی گئی تھیں وہ تفصیل کے ساتھ سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بنی نوع انسان کو بتا دی گئیں.پھر قرآن کریم کی تیسری خوبی یہ ہے کہ یہ فرقان ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ قریہ قریہ اور ملک ملک خدا کے رسول آئے.اللہ تعالیٰ نے اُن کی ضرورتوں اور طاقتوں کے لحاظ

Page 495

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۷۵ خطبه جمعه ۷۲۰ اکتوبر ۱۹۷۲ء سے انہیں آسمانی ہدایت عطا فرمائی.چنانچہ پہلے زمانہ میں رسولوں کی کثرت جہاں اللہ تعالیٰ کے قرب پر دلالت کرتی ہے.وہاں ضرورتوں اور استعدادوں میں اختلاف بھی ظاہر کرتی ہے ہر علاقہ بلکہ بعض دفعہ تو قریب کے دو شہروں کی ضرورت کے اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول مبعوث ہوئے تا کہ خدا کی آواز ہر جگہ پہنچ جائے.یہ کام ایک عظیم اور قریب ہستی ہی کر سکتی ہے اور وہی اس کا خیال رکھ سکتی ہے یعنی ہر زمانہ میں ہر علاقہ کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کا انبیاء کو بھیجنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر اور اس کا علم زمان و مکان کی وسعتوں پر محیط ہے.پس پہلے زمانہ میں انبیاء علیہم السلام نے اپنے اپنے ملک اور علاقہ کے حالات کے لحاظ سے اور اپنے قویٰ کی نشو و نما اور اس کے استحقاق کے لحاظ سے جن چیزوں کو حاصل کیا ، اُن میں اختلاف پایا جاتا تھا.چنانچہ بنی اسرائیل کے رسولوں کو جس ہدایت کی ضرورت تھی وہ اُن کو دی گئی.ہندوستان اور چین میں بسنے والوں کو جس ہدایت کی ضرورت تھی وہ ان کو دی گئی.ہر دو قسم کی ہدایت خدا کے رسول لے کر آئے مگر ان دونوں میں اختلاف پایا جاتا ہے.مذہبی دُنیا میں دوسرا اختلاف ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ہدایت نازل ہوئی.اس کے ماننے والے مختلف الخیال ہو گئے ہر ایک گروہ نے اپنے مطلب کا ایک حصہ لے لیا اور اس پر فخر کرنے لگ گئے یعنی ایک ہی نبی کی اُمت جب بعد میں بگڑی تو اس نے آپس میں اختلاف کیا اور لوگ مختلف گروہوں میں بٹ گئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قرآن کریم تمہارے لئے فرقان بن کر آیا ہے.وہ تمام مذہبی اختلافات خواہ پہلی قسم سے تعلق رکھتے ہوں یا دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہوں یہ اُن کو دور کرنے والا ہے.کیونکہ یہ فرقان ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے دراصل’عبد “ کا لفظ اس آیت کے مفہوم کے سمجھنے کی کنجی ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے جس قسم کی ہدایت کی ضرورت تھی وہ ہدایت دے دی گئی یعنی انسان مختلف مدارج میں سے گزرا ہے اُسے تاریخ کے مختلف مراحل میں مختلف قسم کی ہدایتوں کی ضرورت تھی وہ اسے دے دی گئیں اور اب اُسے ایک کامل ہدایت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی

Page 496

خطبه جمعه ۱۷۲۰ کتوبر ۱۹۷۲ء خطبات ناصر جلد چہارم ہے.اس ہدایت پر چلنے کیلئے ، اس کو اپنانے کے لئے اس کی روشنی میں یہ حصہ رسدی اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر کامل بننے کے لئے یعنی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مظہر صفات باری بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فیض کی ضرورت ہے دراصل انسان کا روحانی قوی کا مالک بن جانا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر جو قویٰ پیدا کئے ہیں اُن کی کمال نشو و نما کے لئے صرف آسمانی ہدایتوں کا نازل ہونا ہی کافی نہیں ہے.انسان اُن سے اس وقت تک فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو انسان دعاؤں کے ذریعہ ہی جذب کر سکتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے تمہیں قو تیں عطا کیں اور روحانی قوتوں کی نشوونما کے لئے آسمانی ہدایت نازل کی تاکہ تم اس قابل ہو جاؤ کہ تم اپنی اپنی استعداد کے مطابق میرے عبد بنو.میرا قرب حاصل کرو اور میری صفات کے مظہر بنو لیکن تم محض اپنی کوشش سے کچھ بھی نہیں بن سکتے.جب تک میرا ( اللہ ) کا فضل آسمان سے نازل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور محبت کے نتیجہ میں تم پر آسمانی فیوض کی بارش نہ بر سے.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کا نزول دعا کا متقاضی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُم (المؤمن: ۶۱) تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا.اس میں یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت کے دروازے اس پر وا کر دیئے گویا انسان ادھر پیدا ہوتا ہے اور ادھر اس کی قوتوں اور صلاحیتوں کی نشوونما کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیق کا ئنات اور انسانی پیدائش سے لے کر انسانی قومی زبانِ حال سے مانگتے اور پاتے رہے ہیں.پیدائش عالم تو انسان کی کسی دعا کا نتیجہ نہیں.اُس وقت تو انسان کا وجود ہی نہیں تھا.یہ تو خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ دُنیا میں ایک ایسا وجود پیدا ہو جو اس کی صفات کا مظہر بنے اس لئے اُس نے اُس کا ئنات کو پیدا کیا.قرآن کریم نے اسی مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.اس وقت چونکہ اس کا میرے مضمون کے ساتھ تعلق نہیں ہے اس لئے میں نے اس کا مجملاً ذکر کیا ہے اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مادی وجود عطا فرمایا ہے اس میں جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور

Page 497

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۷۷ خطبه جمعه ۱۷۲۰ کتوبر ۱۹۷۲ء روحانی قوتیں اور استعدادیں ودیعت کی گئی ہیں.ان قومی کی نشوونما کے لئے زمین و آسمان کی پیدائش کی ضرورت تھی چنانچہ انسانی قومی زبانِ حال سے یہ دعا کر رہے تھے کہ اے خدا! تو نے قومی عطا کر دیئے.ان کی پرورش نہیں ہو سکتی.جب تک تیر افضل اور رحم شامل حال نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے زبانِ حال کی اس دعا کو قبول فرمایا اور اس کائنات کو پیدا کر دیا.انسان کو خدا تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے صرف زمینی کا ئنات کا فی نہیں تھی.یہ تو ایک ابتدا تھی انسانی زندگی کی ، یہ تو ایک تمہید تھی کارخانہ حیات کی اور یہ تو ایک بنیاد تھی جس پر معاشرتی زندگی قائم کی گئی تھی.آگے اس عمارت کی خوبصورتی اور پائیداری کے لئے اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشوونما کی ضرورت تھی.چنانچہ انسان کی ان خوابیدہ قوتوں نے زبانِ حال سے یہ دعا کی کہ اے خدا!! قو تیں تو مل گئی ہیں لیکن محض ان قوتوں سے تو وہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا جس کے لئے تو نے انسان کو پیدا کیا ہے.انسان تیرا حقیقی عبد نہیں بن سکتا جب تک اس کی اخلاقی اور روحانی قوتوں کی بھی نشو و نما نہ ہو اس لئے ان کی کمال نشو و نما کا سامان بھی ہونا چاہیے.تو گویا ان قوتوں کی نشو و نما کے لئے آسمانی ہدایت کی ضرورت تھی جس کا اظہار دعائیہ رنگ میں زبانِ حال سے ہوا اور جو انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے ساتھ پوری ہوتی رہی.جہاں تک زبانِ حال سے دعا کرنے کا سوال ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ ایک تو جاہل کی دعا ہوتی ہے اور ایک عارف کی دعا ہوتی ہے.آپ نے فرمایا بعض دفعہ دہر یہ سائنسدان کوشش کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں اُن کو کچھ سمجھ نہیں آتی اُن کیلئے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں تب بے چینی اور گھبراہٹ کی وجہ سے ان کی فطرت کسی نامعلوم منبع کو اپیل کرتی اور اس سے دعائیں مانگتی ہے.وہ لوگ گو خدا کو تو نہیں پہچانتے لیکن اندھیرے میں اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے ہیں.جسے اللہ تعالیٰ ان کی دعا سمجھ لیتا ہے اور بسا اوقات ان پر اپنے فضل نازل کرتا ہے.پس یہ بھی زبانِ حال کی ایک دعا ہے.گو یہ ناقص دعا ہے لیکن ہے یہ بھی ایک قسم کی دعا جو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں میں ہر ایک قوت کی زبانِ حال کی دعا پر دلالت کرتی ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی قوتوں کی نشو ونما کے لئے

Page 498

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۷۸ خطبه جمعه ۱۷۲۰ کتوبر ۱۹۷۲ء ہرضروری چیز عطا فرمائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندے! تو مجھ سے میرے فضل اور رحمت کی دعا کر میں تجھے اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازوں گا پس گو ہدایت تو مل گئی لیکن صرف ہدایت کا مل جانا کافی نہیں ہے.ہدایت کو پہچاننا بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے صفات باری کا عرفان حاصل کرنا بھی ضروری ہے.اس ہدایت پر قائم رہنا یعنی جب تک انجام بخیر نہ ہو جائے اور ناکامی کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے اس وقت تک صراط مستقیم پر گامزن رہنا بھی ضروری ہے.انجام بخیر کے یہی معنے ہیں کہ اس کے بعد نا کامی کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا.پس جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کا فیض آسمان سے نازل نہ ہو اُس وقت تک جسمانی اور روحانی قوتوں کے ہونے کے باوجود انسان روحانیت حاصل نہیں کرسکتا اور خدا کا عبد نہیں بن سکتا.چنانچہ آپ دیکھ لیں کیا عقلی لحاظ سے اور کیا دنیوی علوم کے لحاظ سے بعض قو میں بڑی آگے نکل گئی ہیں مگر اس کے باوجود ان کے وجود کا ایک حصہ مفلوج ہے.گو اجتماعی رنگ میں انہوں نے بڑی ترقی حاصل کی ہے لیکن انفرادی لحاظ سے فالج زدہ ہیں.روحانی لحاظ سے اُن کے اندر نہ جان ہے نہ کوئی حرکت نظر آتی ہے.انہیں بڑی حد تک مذہبی اقدار اور اخلاقی قیود کا کوئی احساس ہی نہیں.اُن کی حالت اس انسان کے مشابہ ہے جسے بعض دفعہ فالج ہوتا ہے اور اس کا آدھا دماغ مفلوج ہو جاتا ہے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں کو فالج ہوا وہ بعض باتیں تو بڑے پتے کی کرتا ہے لیکن بعض باتیں بے ہوشی کی حالت میں مجنونانہ قسم کی ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ افراد میں اس قسم کے حالات اس لئے پیدا کرتا ہے کہ لوگوں کو یہ مسئلہ سمجھ آ جائے چنانچہ اسی طرح روس اور امریکہ اور بعض دوسرے ممالک بعض باتیں خصوصاً مادی علوم کے متعلق تو بڑی پتے کی کرتے ہیں مگر بعض باتیں انتہائی نامعقول کرتے ہیں.یہاں تک کہ خدائے حتی و قیوم کی ہستی کا انکار کر دیتے ہیں پس ایسی صورت میں انسان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں ایسا بھی ہو جایا کرتا ہے جس طرح کسی فرد کو فالج ہو سکتا ہے اور ہوجا تا ہے اور اسی طرح بعض دفعہ کسی قوم یا جماعت یا گروہ کو بھی فالج ہوسکتا ہے اور ہو جاتا ہے.بہر حال یہ تو ایک ضمنی بات تھی میں بتا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے لوگو! تم غور نہیں

Page 499

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۷۹ خطبه جمعه ۷۲۰ اکتوبر ۱۹۷۲ء کرتے کہ تمہاری پیدائش کے وقت تمہیں جسمانی قوی دیئے گئے.انہوں نے زبانِ حال سے دعا کی اور اس دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں ان کی نشوو نما کے لئے ہم نے ہر ضروری چیز پیدا کر دی.ہم نے انسان کو روحانی قومی دیئے.روحانی قومی کی نشوونما کے لئے آسمانی ہدایت کی ضرورت تھی.چنانچہ ہم نے ہر قوم اور ہر ملک یہاں تک کہ بعض زمانوں میں ہر شہر میں انبیاء بھیج کر لوگوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے روحانی ہدایت کے سامان پیدا کر دیئے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے مقصد سے پیار کرتا ہے.اس نے اس دُنیا میں انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ اس کا عبد بنے تو گویا اس کا ئنات کی پیدائش کا مقصد یہ تھا کہ انسان اللہ تعالیٰ کا عبد اور اس کی صفات کا ملہ حسنہ کا مظہر بنے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مقصد سے بے توجہی نہیں برتی.اس نے چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھا.اتنی چھوٹی چھوٹی چیزیں کہ انسان خود ان کو نظر انداز کر دیتا ہے مگر ہمارے پیار کرنے والے رب نے ان کو بھی نظر انداز نہیں فرمایا.غرض تخلیق کا ئنات میں اللہ تعالیٰ کا یہی مقصد ہے جس کے پیش نظر اُس نے انسان کو دنیا میں پیدا کیا.اس کی قوتوں کی کمال نشو و نما کے لئے زمین و آسمان پیدا کئے.آسمان سے ہدایت نازل فرمائی.زبانِ حال کی دعائیں قبول ہوئیں اور اس رنگ میں پوری ہوئیں کہ انسانی زندگی کے ہر زمانے اور ہر مرحلہ پر یہ بات واضح اور عیاں ہوگئی کہ یہ قرآن کریم ہی جو انسان کو دینی اور ڈ نیوی ہر دو اعتبار سے صحیح اور حقیقی راہ عمل دکھاتا ہے.غرض یہ کہ جب انسان کو روحانی قوی بھی مل گئے اور ایک کامل آسمانی ہدایت بھی مل گئی تو اُسے اپنی زبان سے یہ دعا بھی کرنی پڑے گی کہ اے خدا ہمیں صراط مستقیم بھی عطا فرما اور اس پر چلنے کی توفیق بھی بخش ہمیں اپنی صفات کا عرفان بھی عطا فرما اور ہمارے لئے الہی صفات کا مظہر بننے کے سامان بھی پیدا کر.ایسی دعا اور التجا ایک ایسی ہستی ہی سے کی جاسکتی ہے جس کے متعلق یہ یقین ہو کہ وہ قریب اور مجیب الدعوات ہے.چنانچہ یہ بزرگ و برتر ہستی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جس نے قرآن کریم میں فرمایا :.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ

Page 500

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۸۰ خطبه جمعه ۱۷۲۰ کتوبر ۱۹۷۲ء جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں لفظ عبد قابل ذکر ہے چنانچہ انسان کی پچھلی تاریخ پر جب ہم غور کرتے ہیں تو تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے بہت قریب ہے اور وہی تاریخ روحانی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان اور انسانی فطرت کے مطابق بھی اور پھر عقلاً بھی یہ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کے لئے دُعا کی ضرورت ہے.پس دوستوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ تم دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرو اور جس قرب کے نظارے زبانِ حال کی دعاؤں کے ذریعہ انسان نے مشاہدہ کئے اور محسوس کئے اس قرب الہی کے نظارے عقل کی اور بینائی کی اور فراست کی اور روحانیت کی آنکھ سے دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے وہ تمہیں آسمانی برکتوں سے نوازے گا.تاہم اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ مشروط ہے.اس نے یہ شرط لگائی ہے کہ کوشش کر وہ عمل صالح بجالا و مجاہدہ کرو، میری قرب کی راہوں کو حاصل کرنے کے لئے انتہائی زور لگاؤ تو پھر آسمانی برکتیں ملیں گی.خدا کرے کہ تمہیں اس کی تو فیق عطا ہو.ہمارا یہ مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ جب یہ دونوں چیزیں یعنی تدبیر اور دُعا اکٹھی ہو جاتی ہیں تو آسمان اپنے فیض کے سارے دروازے کھول دیتا ہے اور فضلوں کی موسلا دھار بارش شروع ہو جاتی ہے.مبارک ہے وہ شخص جو آسمانی فیض اور فضل باری کا مورد بنتا ہے.یہ رمضان کا بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا.یہ مہینہ اور بھی کئی لحاظ سے بڑی برکتوں والا مہینہ ہے.اس میں الہی برکتوں کے حصول کے سامان پیدا کئے گئے ہیں اس لئے ہم سب کا یہ فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کے لئے اور تقرب الہی کے حصول کے لئے اس ماہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ کوشش کریں خدا کرے کہ آپ بھی اور یہ خاکسار بھی اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ پیار حاصل کرنے کی توفیق پائے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۳ رستمبر ۱۹۷۳ء صفحه ۲ تا ۷ )

Page 501

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۸۱ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء فرمائی:.تحریک جدید کے انتالیسویں ، انتیسویں اور آٹھویں سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۳/نومبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ ُأجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.(البقرة : ۱۸۷) اور اس کے بعد فرمایا:.جس وقت یہ مسجد تعمیر ہو رہی تھی اس وقت منتظمین مجھے یہ رپورٹ دیا کرتے تھے کہ یہ مسجد اور اس کا مسقف حصہ مسجد مبارک سے اتنے گنا بڑا ہے کہ اس کا صرف مسقف حصہ ہی نمازیوں کے لئے کافی ہو گا مگر آج ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ اس کا مسقف حصہ بھی تنگ ہو گیا ہے بلکہ باہر صحن میں جو شامیانوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے وہ بھی نمازیوں کے لئے کافی نہیں ہے.اسی طرح ہماری بہنوں کے لئے اوپر کی گیلری میں جگہ بہت تنگ ہو گئی ہے.اسی تنگی کو دور کرنے کے لئے اگر چہ سامنے برآمدے میں قناتیں لگا کر مستورات کے بیٹھنے کا انتظام کر دیا گیا ہے لیکن یہ بھی ان کے لئے کافی نہیں ہے.میں نے ابھی دیکھا تھا کہ کئی عورتیں مسجد کے باہر بیٹھی ہوئی ہیں.گو

Page 502

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۸۲ خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۷۲ء رمضان میں مستورات کی حاضری بھی نسبتاً زیادہ ہے لیکن عام جمعہ کے دنوں میں بھی ان کے لئے جگہ تھوڑی ہوتی ہے.اس لئے آئندہ سے ہماری بہنوں کے بیٹھنے کے لئے صحن میں شامیانے کے نیچے بھی قنات لگا کر جگہ مخصوص ہونی چاہیے تا کہ مستورات کو تکلیف نہ ہو.بہر حال ہم اپنی حد بست کے اندر رہتے ہوئے اپنے منصوبے بناتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ تو وہ ذات ہے جس کی حد بست نہیں کی جاسکتی.وہ اپنی قدرتوں اور رحمتوں کے نتیجہ میں اس سے بہت زیادہ دے دیتا ہے جس کا منصوبہ بنایا جاتا ہے.اس لئے شکر کرنے اور الحمد للہ پڑھنے کا مقام ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - آج کا یہ جمعہ اس سال کے رمضان کے مہینے کا آخری جمعہ ہے اور اس آخری جمعہ کے متعلق جہاں بہت سی بدعات امت مسلمہ میں پیدا ہو گئی ہیں وہاں بہت سے لوگوں نے اس سے نہایت اچھے اسباق بھی سیکھتے ہیں.جہاں تک ہماری جماعت کا تعلق ہے ہم میں سے ہر ایک دوست کو ہر وقت چوکس رہنا چاہیے کہ اس قسم کی کوئی بدعت کسی چور دروازے سے جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہونے پائے.ابھی جب میں یہاں پہنچا تو ربوہ کے ایک فوٹوگرافر صاحب کھڑے تھے.میں نے پوچھا آپ یہاں کیسے آگئے ہیں.کہنے لگے آپ کی تصویریں لینی ہیں.میں نے کہا رمضان کے پہلے ہفتوں میں میں نے آپ کو یہاں نہیں دیکھا.میں سمجھتا ہوں اُن کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ وہ اس موقع پر تصویریں کھینچیں گے اور بعد میں جو لوگ نئے نئے احمدی ہوتے ہیں اور پرانے خیالات لے کر آتے ہیں یا کئی بچے ہیں جو بڑے ہوتے ہیں یا بعض بچے ہیں جن کو ابھی شعور نہیں آیا ہوتا اُن کو کہیں گے دیکھو! یہ جمعتہ الوداع کی تصویر ہے.اس لئے میں نے اُن کو تصویر میں اُتارنے سے روک دیا.گو ہے تو یہ ایک چھوٹی سی بات لیکن اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.ہمارے اندرسوئی کے ناکے جتنا رخنہ بھی پیدا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس طرح آہستہ آہستہ بدعات کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے.دوستوں کو یا د رکھنا چاہیے کہ ہم خدا تعالیٰ کی ایک چیدہ جماعت ہیں.ہمیں اس قسم کی بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے سادگی اور عاجزی کے ساتھ اپنی زندگی

Page 503

خطبات ناصر جلد چہارم کے دن گزار نے چاہئیں.۴۸۳ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء پس یہ تو ایک حقیقت ہے کہ رمضان کا یہ آخری جمعہ ہے مگر اسے جمعتہ الوداع کہہ کر اس کے گرد بہت ساری غلط باتیں لپیٹ دینا اسلام کی اصل روح کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے.اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ رمضان کا آخری جمعہ ہے.اس لئے بدعات سے قطع نظر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ جمعہ رمضان کو الوداع کہتا ہے.کیونکہ اس کے بعد رمضان کا اور کوئی جمعہ نہیں.جمعہ خود تو نہیں بولتا.جمعہ کے دن تو خطبہ ہوتا ہے پس جمعہ کا رمضان کو الوداع کہنے کا مطلب یہ ہوگا کہ امام اور خطیب کو ماہ رمضان میں اجتماعی نصیحت اور وعظ کرنے کا یہ ایک آخری موقع ہے.پاک ایک جمعہ آیا پھر دوسرا پھر تیسرا جمعہ آیا اور اب یہ جمعہ آخری جمعہ ہے اس کے بعد رمضان کے باقی دنوں میں امام جماعت یا خطیبوں کے لئے لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنے اور حکمت اور روحانیت کا درس دینے کا موقع نہیں پیدا ہوگا.اس رمضان میں جو چیز نمایاں طور پر میرے مشاہدہ میں آئی ہے وہ بڑی خوشکن ہے.گو میں باقاعدگی سے ریڈیو تو نہیں سنتا لیکن کبھی تقریروں وغیرہ کا پروگرام ہو تو سن لیتا ہوں.اس دفعہ رمضان کے متعلق جو تقریریں یا درس قرآن کریم ریڈیو کے ذریعہ نشر ہوتے رہے ہیں اُن میں سے چند ایک میں نے بھی سنے ہیں.میں نے بتایا ہے کہ میں کبھی کبھی ریڈیو سنتا ہوں.چنانچہ ایک دن رات کے وقت جب میں نے ریڈیو سنا تو ایک مولوی صاحب پچیسویں سیپارہ کا درس دے رہے تھے.اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ہر شام کو کسی معینہ وقت پر یہ درس بھی ہوا کرتا ہے.اس کے بعد چند مرتبہ اُن کا درس میں نے اس غرض کے لئے سنا کہ وہ اپنے درس میں کیا بیان کرتے ہیں.چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ ان درسوں اور تقریروں وغیرہ میں یا جو مضامین اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں ان میں زیادہ تر اسلام کے متعلق جو صحیح خیالات ہیں یعنی جماعت احمدیہ کے جو خیالات ہیں ان سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار ہوتا رہا ہے.جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ قوم کی اصلاح کے لئے کثرت سے فرشتے نازل کر رہا ہے اور ہماری دعائیں جو ہم رمضان میں غلبہ اسلام کے لئے کرتے چلے آئے ہیں اور کر رہے ہیں ان کی قبولیت کے

Page 504

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۸۴ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء آثار نمایاں طور پر پیدا ہور ہے ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ - رمضان کا جمعہ کے ساتھ ایک بڑا ہی گہرا تعلق ہے قبولیت دعا کا جو حبل اور رسہ ہے اس نے جمعہ اور رمضان کو ایک ساتھ باندھ دیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں رمضان کے متعلق بہت سے احکام بیان ہوئے ہیں انہی احکام کے ضمن میں اللہ تعالیٰ اس آیہ کریمہ میں جس کی میں نے شروع میں تلاوت کی ہے فرماتا ہے جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (اس آیہ کریمہ کے ایک پہلو کے متعلق میں پچھلے خطبہ میں بھی بیان کر چکا ہوں ) تو ان سے کہو.میں قریب ہوں اور میرے قرب کی دلیل یہ ہے کہ مجھ سے دعا کرو گے میں قبول کرلوں گا.اب مثلاً ہم نماز میں جو دعائیں کرتے ہیں تو ہمارے ساتھ کھڑا ہوا آدمی بھی نہیں سن رہا ہوتا مگر خدا تعالیٰ سن رہا ہوتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ جو نمازی ہمارے دائیں بائیں کھڑے ہیں خدا تعالیٰ اُن سے بھی زیادہ قریب ہے.ہمارے دائیں بائیں کھڑے ہونے والے نمازیوں کو جو آواز نہیں پہنچتی وہ اللہ تعالیٰ کو پہنچ جاتی ہے.ویسے تو یہ ایک گہرا مضمون ہے لیکن بچوں کو سمجھانے کے لئے ایک عام اور سیدھے سادے آدمی کو ذہن نشین کرانے کے لئے یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ دائیں طرف کھڑے نمازی تک آواز نہیں پہنچی.بائیں طرف کھڑے ہوئے نمازی تک آواز نہیں پہنچی.مگر اللہ تعالیٰ تک پہنچ گئی.اس سے ایک بچہ بھی یہی نتیجہ نکالے گا کہ دائیں اور بائیں طرف کھڑے ہونے والے نمازیوں کی نسبت اللہ تعالی زیادہ قریب ہے یہاں تک کہ قرآن کریم کی ایک اور آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے.انسان اپنے نفس اور اپنی روح سے اتنا قریب نہیں جتنا اللہ تعالیٰ انسان کے قریب ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں مختلف زاویوں اور مختلف حالتوں میں ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کبھی انسان کے دل کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور کبھی انسان کے اپنے گناہوں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ بطور سزا کے جہنم اور عذاب کی طرف اس کا زاویہ کر دیتا ہے.کبھی انسان کی نیکی اُسے مزید نیکیوں کی توفیق بخشتی ہے اور کبھی انسان کی بدیاں اسے مزید بدیوں کی طرف گھسیٹ کر لے جاتی ہیں.

Page 505

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۸۵ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء تاہم یہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہوتا ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء تو کچھ اور ہو اور شیطان کے عمل دخل سے کسی چیز کی کوئی اور شکل بن جائے گو یہ بار یک مسئلے ہیں لیکن ضرورت کے مطابق خطبات میں عمیق اور گہرے مضامین کو بھی بہت سادہ الفاظ میں اس لئے بیان کرنا پڑتا ہے کہ سننے والوں میں بعض بچے ہوتے ہیں کچھ لوگ ان پڑھ بھی ہوتے ہیں اور پھر مستورات بھی ہوتی ہیں ان کو بھی سمجھ آ جائے بلکہ میں تو یہ کہوں گا بعض پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ خطبے سے پورا استفادہ نہیں کرتے.بعض پوری توجہ سے خطبہ کو سنتے ہیں بعض نصف تو جہ سے خطبہ کو سنتے ہیں.بعض لوگوں کو خطبہ کے دوران کوئی خیال آجاتا ہے اور ان کی توجہ بٹ جاتی ہے بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دوست دور بیٹھے ہوتے ہیں.وہ نیم تربیت کی وجہ سے چندلمحوں کے لئے آپس میں باتیں کرنے لگ جاتے ہیں.یا ویسے ہی ان کے دماغ میں خیالات آجاتے ہیں اور خطبہ کی طرف اُن کی کما حقہ توجہ قائم نہیں رہتی.اس لئے خطبہ کے دوران خیالات سے بچنے اور توجہ کو قائم رکھنے کے لئے بھی کوشش کرنی پڑتی ہے.غرضیکہ مختلف لوگوں کی توجہ کے مختلف معیار ہوتے ہیں.بہر حال ہم یہ مثال دے سکتے ہیں کہ دیکھو پاس کھڑے ہوئے نمازی سے خدا تعالی زیادہ قریب ہے اور وہ واقعی بہت ہی قریب ہے کیونکہ وہ انسان کی دعاؤں کو سنتا ہے اور انہیں شرف قبولیت بخشتا ہے.خدا تعالیٰ نے قبولیت دعا کو اپنے وجود کی دلیل قرار دیا ہے.اس نے قبولیت دعا کو اپنی ذات وصفات کی معرفت کا ذریعہ ٹھہرایا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی قدرتوں والا ہے وہ دعا کے نتیجہ میں بسا اوقات ان ہونی بات کو ہونی کر دیتا ہے.یہاں تک کہ وہ انسان کی اس آواز کو بھی جانتا ہے جس نے ابھی الفاظ کا جامہ بھی نہیں پہنا ہوتا کیونکہ اس کا علم انسان کے مخفی اندرونہ اور باطنی آرزوؤں پر بھی محیط ہے.ہمارا سر خدائے قادر وتوانا کے سامنے جھک جاتا ہے کہ ادھر دل میں دعائیہ خیال آتا ہے اور اُدھر وہ دعا قبول بھی ہو جاتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے.میں نے اس کی قدرتوں کا بار ہا تجربہ کیا ہے.میں اس کی کئی مثالیں پہلے بیان کر چکا ہوں بہت ساری ایسی بھی ہیں جن کے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی.بہر حال خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کی ایک دلیل قبولیت دعا دی گئی ہے اور یہ ایک بڑی زبردست دلیل ہے.بڑی زبردست ہے

Page 506

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۸۶ خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۷۲ء اس لحاظ سے بھی کہ ساری دنیا کے فلاسفر اس کے مقابلہ میں کوئی دلیل نہیں لا سکتے جو اس کو توڑ سکے.پس رمضان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے اس مہینے میں مختلف عبادتوں کے ہے.لئے ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ جن کی بناء پر دعائیں قبول ہوتی ہیں.اسی طرح جمعہ کے متعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ ایک ایسا مبارک دن ہے کہ اس میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ انسان کی دعا کو قبول کر لیتا ہے اور آپ کا بالکل یہی ارشا در مضان میں قبولیتِ دعا کے متعلق بھی.پس قبولیت دعا کے لحاظ سے ماہِ رمضان اور یومِ جمعہ ایک دوسرے سے بہت ملتے ہیں.چنانچہ آج رمضان بھی ہے اور جمعہ کا دن بھی ہے.اس سے ہمیں ایک سبق بھی ملتا ہے اور وہ یہ کہ یک عظیم چینج جو ہمیں دیا گیا ہے اور ایک عظیم مطالبہ جو ہم سے کیا گیا ہے ہم اسے صرف پورا ہی نہ کریں بلکہ پہلے سے بڑھ کر پورا کریں.گویا ہر جمعہ زبانِ حال سے یہ کہتا اور چیلنج دیتا ہے کہ مجھ سے بھی بڑھ کر جمعہ (اور اس کی برکات ) لاؤ اور اس کے لئے میں تمہیں چھ دن تیاری کے دیتا ہوں.پھر مجھ سے آکر ملنا اور اللہ تعالیٰ کے فیوض اور برکات کے حصول کے لئے کوشش کرنا.قبولیتِ دعا کی ایک گھڑی تمہارے لئے مقدر تھی.کسی نے اس سے فائدہ اٹھا یا کسی نے نہیں اٹھایا.اس وقت یہ سوال نہیں مگر اس سے اس حقیقت میں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ تمہارے لئے ایک ایسی گھڑی مقدر ہے جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں.چنانچہ ہر جمعہ بزبانِ حال یہ کہتا ہے کہ اب میں جارہا ہوں چھ دن کا تمہیں وقت دیتا ہوں.اس عرصہ میں اور زیادہ مجاہدہ کرو، ایثار دکھاؤ، قربانیاں دو، خدا کے قرب کی مزید راہیں تلاش کرو.اس کا پیار حاصل کرو.ساتویں دن میں پھر تمہارے پاس آؤں گا تمہیں چاہیے کہ پہلے سے بڑھ کر اخلاص دکھاؤ.پس یہ ایک چیلنج ہے اور اس کو سمجھانے کے لئے خصوصاً بچوں کے ذہن نشین کرنے کے لئے میں نے یہ مثال دی ہے درحقیقت یہ ایک مطالبہ ہے جو ہر جمعہ ہم سے کرتا ہے اس اعتبار سے ماہ رمضان کا یہ آخری جمعہ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک پاک اور صاف ہو جائے اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ برکتوں اور رحمتوں سے معمور یہ ماہ مبارک آیا.اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں

Page 507

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۸۷ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء کے لئے فضل کے سامان پیدا کئے.بہت سی عبادتیں اکٹھی کر دی گئیں.ماحول کو بدل دیا گیا.دوست جانتے ہیں کہ ماہ رمضان کا ماحول دوسرے گیارہ مہینوں کے ماحول سے بڑا مختلف ہوتا ہے.مثلاً لاہور کے بعض معتکفین بھی اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں دوسرے دنوں میں شاید دو دو مہینوں کے بعد اور وہ بھی ایک آدھ دن کے لئے ربوہ آتے ہیں لیکن ماہ رمضان انہیں یہاں کھینچ لا یا اور اب وہ کئی دن سے ربوہ میں مقیم ہیں.پس رمضان کی وجہ سے ماحول بدل جاتا ہے اس مہینے میں قبولیتِ دعا کے مواقع بکثرت میسر آتے ہیں.اب جس جمعہ کو ہم جمعہ کے لحاظ سے رمضان کو الوداع کہتے ہیں وہ جمعہ ہمیں یہ چیلنج کرتا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ کی حیثیت سے میں جا رہا ہوں.آئندہ سال میں پھر اسی حیثیت سے تمہارے پاس آؤں گا اور دیکھوں گا کہ پہلے سے بڑھ کر برکات کے حصول کے لئے تم نے کیا کوشش کی ہے اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ گیارہ مہینے چوری کرتے رہوڈا کے ڈالتے رہو قتل کرتے رہو.لڑکیوں کو اٹھواتے رہو.تجارت میں دھوکہ بازی کرتے رہو، لوگوں کے مال دباتے اور ان کے حقوق کو پامال کرتے رہو اور پھر رمضان کی عبادتیں کرو یا بعض کے نزدیک وہ بھی نہ کرو.پس جمعتہ الوداع میں آ جاؤ اور سارے گناہ معاف کر والو.یہ تو خدا تعالیٰ سے تمسخر اور مذہب کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے.اسلام نے تو ہمیں یہ نہیں سکھایا اسلام نے تو ہمیں یہ کہا ہے کہ مجاہدہ کرو ، جہاد کرو، کوشش کر و محنت کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ ، اپنی قوت کار کردگی کو بذریعہ احسان بڑھاؤ اور اپنے اندر زیادہ محنت کرنے کی اہلیت اور طاقت پیدا کرو.یہ وہ سبق ہے جو آخری جمعہ ہمیں دیتا ہے.اور یہ وہ محنت کا تصور ہے جس کے نتیجہ میں انسان احسان فی العمل کے ذریعہ اپنے اندر اہلیت اور قوت پیدا کرتا ہے.احسان فی العمل کے متعلق میں ایک گذشتہ خطبہ میں میں مختصر بیان کر چکا ہوں جو الفضل میں شائع بھی ہو چکا ہے.غرض تمثیلی زبان میں رمضان کا آخری جمعہ ہم سے یہ کہتا ہے کہ دیکھو میں پھر اگلے سال آؤں گا اور دیکھوں گا کہ تم روحانی لحاظ سے کتنے کامیاب ہوئے ہو.رمضان قبولیتِ دعا کا مہینہ اور پھر جمعہ قبولیت دعا کی ساعت اپنے اندر سمیٹے ہوئے آتا ہے جو ہمارے لئے روحانی ترقیوں کا اور برکتوں کے حصول کے سامان پیدا کرتا ہے لیکن برکتیں حاصل کرنا ہمارا کام ہے البتہ

Page 508

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۸۸ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء برکتوں کے حصول کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً ایک دکان پراچھے سے اچھے کپڑے پڑے ہوئے ہیں وہ تمہیں بہت پسند بھی ہیں لیکن اس دکاندار نے یا کارخانہ والوں نے یا اس حکومت نے جس کے انتظام میں وہ کارخانہ چل رہا ہے، انہوں نے تمہیں وہ کپڑے مہیا نہیں کرنے البتہ کپڑوں کے حصول کا سامان مہیا کر دیا ہے.کپڑے تیار کر دیئے ہیں جنہیں تم اپنی محنت سے حاصل کر سکتے ہو کوئی کہے گا محنت سے کیسے حاصل ہو سکتے ہیں.میں کہوں گا محنت سے تم پیسے کماؤ اور ان پیسوں سے تم کپڑے خریدو.پس جس طرح کسی دکان میں تمہاری پسند کے کپڑوں کا پایا جانا یہ نہیں بتا تا کہ وہ کپڑا تمہیں مل بھی گیا ہے بلکہ کپڑا حاصل کرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے اسی طرح صرف ماہِ رمضان کے روزے رکھ لینا یا آخری جمعہ پڑھ لینا یہ نہیں بتا تا کہ تمہیں رضائے الہی حاصل ہوگئی بلکہ ماہِ رمضان رضائے الہی کے حصول کے سامان پیدا کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ رمضان میں روحانی دکان سجادیتا ہے اور فرماتا ہے دیکھو! میری یہ برکت ہے اور میری وہ رحمت ہے جو تمہیں روزے کے نتیجے میں ملے گی.نوافل پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے پھر اس ماہ مبارک میں باجماعت نمازوں میں زیاہ تعہد اور التزام کے ساتھ جانا تلاوت قرآن کریم کرنا عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجنا اپنے بھائیوں کی خبر گیری کرنا، مالی لحاظ سے ان کے کھانے پینے اور پہننے کا انتظام کرنا وغیرہ وغیرہ بیسیوں ثواب کے کام ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل نازل ہوتے ہیں.غرض خدا تعالیٰ نے ثواب حاصل کرنے کے لئے روحانی دکان سجا دی.یہ نہیں فرمایا کہ ثواب تمہیں دے دیا گیا بلکہ فرمایا ماہ رمضان میں وہ دکان سج گئی.اب تم تلاوت قرآن کریم ، فہم قرآن کریم اور قرآن کریم کے مضمون پر فکر اور تدبر کرنے کے نتیجہ میں اصلاح نفس، تزکیہ نفس اور طہارتِ قلب کے ذریعہ اس دکان سے مال خرید سکتے ہو.روحانی مال پڑا ہوا ہے.تم تلاوت قرآن کریم کرو، قرآن کریم پر غور و فکر کرو اس سے علوم سیکھو، محنت کرو اور اپنی محنت سے روحانی چیزیں خرید لو.اسی واسطے قرآن کریم نے اس مفہوم میں بھی ان چیزوں کو تجارت کہہ کر

Page 509

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۸۹ خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۷۲ء پکارا ہے.چنانچہ فرمایا کون ہے جو اللہ تعالیٰ سے تجارت کرتا ہے، جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیک نیتی سے تجارت کرتے ہیں وہ گھاٹے میں نہیں رہتے.قرآن کریم کہتا ہے اپنے بھائی کی خبر گیری کر کے اللہ کی رضا حاصل کرو یعنی اپنی طرف سے پوری کوشش کرو کہ کوئی آدمی بھوکا نہ رہے.کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو.اگر کسی کو کوئی تکلیف ہو تو اس کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے دعا اور سخاوت بھی کرنی چاہیے.یعنی اس کے لئے دوائیوں کا انتظام کرنا وغیرہ ہزاروں نیکیاں ہیں جن کے کرنے سے خدا تعالیٰ کی رحمتیں مل سکتی ہیں اور وہ ساری رمضان کی دکان میں موجود ہیں.لیکن سخاوت کرو گے تو خدا کی رحمت ملے گی.غرض تم نے اپنی محنت سے اپنے مجاہدہ کے ذریعے اور عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر کے روحانی برکات کو حاصل کرنا ہے.یہ بھی اسی طرح کی ایک دکان ہے جس طرح مثلاً انگلستان میں ہر ہفتہ منڈیاں لگتی ہیں.یہاں بھی بعض جگہ میلے لگتے ہیں.گویا ہر ہفتہ جمعہ کے دن ایک روحانی میلہ لگتا ہے اور جمعہ کی برکتوں کے حصول کے لئے جو چیز تمہاری جیب میں ہونی چاہیے وہ روحانی طور پر تمہاری مقبول محنت ہے جس کے نتیجہ میں وہ گھڑی ملتی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے اور خدا کا فضل نازل ہوتا ہے.انسان کی خالی محنت تو کافی نہیں جب تک اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل نہ ہو.پس یہ محنت اور انتہائی محنت یعنی تدبیر اور دعا کو انتہا تک پہنچانے ہی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے.جب انسان کی محنت قبول ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اے میرے بندہ ! جا اور اس روحانی دکان سے حسب پسند چیزیں خرید لے پس بڑا خوبصورت ہے وہ مال جو روحانی دکان سے ملتا ہے اور بڑی لذت اور سرور ہے اس کھانے میں جو روحانی طور پر ملتا ہے اور بڑا نرم اور آرام پہنچانے والا ہے وہ کپڑا جو ہمیں روحانی طور پر میسر آتا ہے اس دنیا کی چیزیں تو بڑی کھردری اور چھنے والی ہوتی ہیں.لیکن روحانی نعمتیں تو اس قسم کی نہیں ہوتیں کیونکہ ان کے ساتھ امتحان نہیں ہوتا.ویسے کبھی کبھی کھدر کے کھردرے کپڑے بھی پہننے پڑتے ہیں جب ہمیں ۱۹۵۳ء میں ظالمانہ طریق پر پکڑ کر لے گئے تھے تو ہمارے پہننے کے لئے کھدر کے موٹے موٹے کپڑے لے آئے کہ تمہیں سی کلاس دینی ہے دل میں سوچا کہ خدا کے لئے یہ کھدر کیا کانٹوں کے کپڑے دیں تو وہ بھی پہن لیں گے مگر

Page 510

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۹۰ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء یہ کہ پتہ نہیں وہ کپڑے کس سے اور کہاں سے لائے گئے تھے.چنانچہ جب ہم نے وہ کپڑے پہنے تو زور سے سانس لینے پر ان کے دھاگے ٹوٹ گئے اور سلائی کھل گئی یوں لگتا تھا کہ چھوٹی چھوٹی گڑیوں کو پہنانے والے کپڑے ہیں ہم نے کہا ہم راضی برضائے الہی ہیں.غرض میں اس وقت صرف یہ بات بتا رہا ہوں کہ دنیا کے جو کپڑے ہیں ٹھیک ہے ان میں بعض خوبصورت بھی ہیں لیکن بعض دکھ بھی ان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.گو ملک کی اکثریت کھدر کے کپڑے پہنتی ہے لیکن بعض لوگوں کے ہاں نائیلون کے کپڑے پہنے کا فیشن ہے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس میں تو کھردرا پن نہیں ہوتا.کھردرا پن تو بے شک نہیں ہوتا مگر کئی لوگ ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ نائیلون پہنیں تو ان کو الرجی ہو جاتی ہے.بعض لوگوں کا نائیلون پہننے سے پسینہ بند ہو جاتا ہے بعض کو پسینہ زیادہ آنے لگ جاتا ہے.بظاہر یہ کپڑا بڑا خو بصورت لگتا ہے مگر پتہ نہیں لوگوں نے کس گند کو اکٹھا کر کے اور کون سا فارمولا لگا کر نائیلون کا کپڑا بنادیا جو دیکھنے میں بڑا خوبصورت مگر پہننے کے لحاظ سے تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے.میں خود بھی یہ کپڑا نہیں پہن سکتا.کچھ تو اس سے مجھے طبعاً گھن آتی ہے اور کچھ اس سے مجھے تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے مجھے تو گرمیوں میں سوتی کپڑے کی تلاش رہتی ہے اب تو اچکن سلوانے کے لئے سوتی کپڑا آسانی سے نہیں ملتا.اس کے لئے بھی بڑی تلاش کرنی پڑتی ہے.پس اس قسم کی جو مثالیں ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ دنیوی نعمتوں کے ساتھ بعض دکھ پہنچانے والے حصے بھی لگے ہوتے ہیں.لیکن روحانی نعمتوں کے ساتھ دکھ اور تکلیف نہیں ہوتی.غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے جمعہ اور رمضان کا یہ مضمون بہت لمبا ہو گیا ہے ابھی میں نے ایک اور بات بھی کہنی ہے ) آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے اور وہ یہی قبولیتِ دعا کا تعلق ہے.رمضان کا جمعہ بالخصوص یہ آخری جمعہ ہمیں یہ چیلنج دیتا ہے اور کہتا ہے اگلے سال میں پھر آؤں گا تو دیکھوں گا تم نے روحانی طور پر ترقی کی ہے یا نہیں.پس رمضان کا مہینہ تو اب گزرا چاہتا ہے اس میں قبولیت دعا کی جو دکان کھلی تھی یہ ہر جمعہ کوکھلتی رہے گی جس میں روحانی اجر اور ثواب، اللہ کے فضل اور اس کی رحمتیں ، قسما قسم کی برکتیں اور نعمتیں میسر آئیں گی.مگر ہر انسان اپنے اپنے اعمال

Page 511

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۹۱ خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۷۲ء اور مجاہدہ کے مطابق انہیں حاصل اور روحانی حسن کو دوبالا کر سکے گا.غرض رمضان میں اور پھر ہر جمعہ کے دن روحانی بھوک کی سیری کا انتظام کیا گیا ہے.ایک چیلنج جو مجھے اور آپ کو رمضان اور رمضان کا یہ آخری جمعہ دیتا ہے وہ اس دفعہ اکٹھا ہو گیا ہے.ہم ہر سال یکم نومبر سے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا کرتے ہیں.چنانچہ اب اس جمعہ نے ہمیں یہ چیلنج دیا کہ پچھلے سال سے آگے بڑھ کر دکھاؤ یعنی یہ جمعتہ المبارک ہمیں یہ کہہ کر جا رہا ہے کہ میں اگلے سال آؤں گا اور دیکھوں گا کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے برکتوں اور نعمتوں کے جو سامان پہلے سے زیادہ مہیا کئے تھے ان میں سے تم نے کتنا حصہ پایا.اس چیلنج پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورا اترنے کی توقع کے ساتھ میں آج تحریک جدید کے ۳۹ ویں اور ۲۹ ویں اور ۸ ویں سال کا اعلان کرتا ہوں.تحریک جدید کے تین دفتر ہیں.یکم نومبر سے دفتر اول کا ۳۹ واں، دفتر دوم کا ۲۹ واں اور دفتر سوم کا ۸ واں سال شروع ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے.چارسال ہوئے میں نے اُس وقت کے حالات کے مطابق اور گزشتہ سالوں میں تحریک جدید کی مالی قربانیوں کا جائزہ لے کر جماعت کے سامنے ایک ٹارگٹ رکھا تھا اور وہ یہ تھا کہ اندرونِ پاکستان تحریک جدید کا چندہ سات لاکھ نوے ہزار روپے تک پہنچ جانا چاہیے ویسے تو تحریک جدید کا مجموعی بجٹ یعنی تحریک جدید کی ساری دنیا کی آمد جب اکٹھی کی جائے تو وہ کم و بیش پچاس لاکھ روپے بنتی ہے.جس میں آپ کا یعنی پاکستان کی جماعتوں کا چندہ اس وقت بہت کم ہے اس لئے میں نے یہ تحریک کی تھی کہ تحریک جدید کا چندہ سات لاکھ نوے ہزار روپے تک پہنچ جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہو سکا تاہم اس کی چند وجوہ ہیں.گزشتہ چار سال میں ملک میں جو حالات گزرے ہیں جب ان کا جائزہ لیتا ہوں تو میں اپنے دل کو حمد کے جذبات سے معمور پاتا ہوں آپ کے خلاف میرے دل میں غصہ نہیں پیدا ہوتا.تحریک جدید کے دفتر اول کے چونتیسویں سال یعنی ۶۸.۱۹۶۷ء میں دفتر دوم اور سوم کو بھی ملا کر اندرونِ پاکستان تحریک جدید کا چندہ پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے تھا.اور اس سے اگلے سال یعنی ۶۹ - ۱۹۶۸ء میں چھ لاکھ تیس ہزار تک پہنچ گیا یعنی اتنی ہزار روپے کا اضافہ ہوا

Page 512

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۹۲ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء اور یہ بڑا خوشکن اضافہ تھا پھر اس سے اگلے سال یعنی ۷۰.۱۹۶۹ء میں یہ چندہ چھ لاکھ تیس ہزار سے بڑھ کر چھ لاکھ پینسٹھ ہزار روپے تک پہنچ گیا مگر اس سے اگلے سال یعنی اے.۱۹۷۰ء میں یہ رقم چھ لاکھ پینسٹھ ہزار سے گر کر چھ لاکھ اڑتیس ہزار روپے پر آگئی.کیونکہ ملک میں ہنگاموں کی وجہ سے بڑا شور مچ گیا.جلوس اور سٹرائیکس گھراؤ اور جلاؤ کی ایک جنونی کیفیت تھی جو قوم پر طاری ہو گئی لیکن اتنے بڑے ہنگاموں اور اس قدر جنونی کیفیت کے باوجود تحریک جدید کے چندوں میں صرف ستائیس ہزار روپے کی کمی واقع ہوئی اور میں سمجھتا ہوں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ ملکی حالات تو بڑے دگرگوں تھے.چنانچہ ملک میں سٹرائیکس وغیرہ کا سلسلہ ایک حد تک اب بھی جاری ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ ملکی سٹرائیکس کا تحریک جدید کے چندوں کے ساتھ کیا تعلق ہے.اس کا تعلق ہمارے تاجروں کے ساتھ ہے اور اس کا تعلق ہمارے دوستوں کے ساتھ ہے جو کارخانوں میں ملا زم ہیں اور اس کا تعلق ان چیزوں کے ساتھ ہے جو کارخانوں میں بنتی ہیں یا نہیں بنتیں.ہڑتالوں کی وجہ سے جب پیداوار کم ہو گی تو ملک کی آمد بھی مجموعی طور پر کم ہو جائے گی.پیداوار اور آمد ایک ہی چیز کی دو شکلیں اور دوز اوئے ہیں.ہم ایک کو پیداوار اور دوسرے کو آمد کہہ دیتے ہیں.بہر حال ہنگاموں اور ہڑتالوں کی وجہ سے جہاں ملکی معیشت تباہ ہوتی ہے وہاں تحریک جدید اور جماعت کے دوسرے چندوں پر بھی اثر پڑتا ہے مگر ان غیر تسلی بخش حالات کے باوجود تحریک جدید کے پچھلے سال یعنی ۷۲-۱۹۷۱ء میں چھ لاکھ پچھتر ہزار روپے کی آمد ہوئی حالانکہ اس میں مشرقی پاکستان کا چندہ شامل نہیں ہے.گو ہماری دعائیں ہیں کہ خدا کرے ملک کے دونوں حصے پھر سے ایک ہو جائیں لیکن بظاہر حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ تحریک جدید کا جو چندہ مشرقی پاکستان کی جماعتوں کی طرف سے آتا تھا وہ نہیں آسکا اور نہ آ سکتا تھا.ویسے ہم امید رکھتے ہیں اور غیر ممالک مثلاً انگلستان سے مختلف ذرائع سے ہمیں خبریں بھی مل رہی ہیں کہ مشرقی پاکستان کی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ان ہنگاموں اور وحشتوں کے باوجود مالی قربانیاں بھی دے رہی ہے وہاں نئی سے نئی جماعتیں بھی قائم ہو رہی ہیں.نئے احمدی بھی ہو رہے ہیں.چنانچہ اس قسم کی خوشکن خبریں جب انگلستان یا دوسرے ممالک میں پہنچتی ہیں تو یہ ایک قدرتی بات ہے کہ وہاں کے دوست ہمیں بھی اس خوشی

Page 513

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۹۳ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء میں شامل کرتے ہیں اور ان کے حالات لکھ بھیجتے ہیں.غرض مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات کے باوجود پچھلے سال تحریک جدید کا چندہ تدریجی ترقی کے آخری سال یعنی چھ لاکھ پینسٹھ ہزار سے بڑھ کر چھ لاکھ پچھتر ہزار تک جا پہنچا حالانکہ اس میں مشرقی پاکستان کی آمد شامل نہیں ہے اگر وہ بھی چھ لاکھ پینسٹھ ہزار روپے والی آمد کی طرح ہی سمجھ لی جائے تو یہ رقم سات لاکھ پانچ ہزار روپے بنتی ہے.پس اگر چہ ساری دنیا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے لیکن چونکہ ہمارے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ.یہ آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کی اس قدرت کا مظاہرہ تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ کی صورت میں ہوا.لوگوں کی آمدنیوں پر اثر پڑنا چاہیے تھا مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو مجموعی طور پر یہ تو فیق عطا فرمائی کہ وہ اس فتنہ و فساد کی آگ سے اپنی آمدنیوں کو متاثر نہ ہونے دیں.تا کہ غلبہ اسلام کے لئے قربانیاں دینے کی جو ذمہ داری ان پر عاید کی گئی ہے.وہ اثر انداز نہ ہو اور ان کی کوششوں میں کمی واقع نہ ہو یا اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں کمی نہ آجائے.ویسے پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال غیر ممالک میں جماعت پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل نازل ہوا ہے جو آپ کے سامنے بھی آنا چاہیے.اس لئے تحریک جدید کو چاہیے کہ وہ چھوٹے چھوٹے نوٹ الفضل میں دیا کریں.اسی طرح نصرت جہاں آگے بڑھو کی سکیم ہے.اس سکیم کے ماتحت بہت سے کام ہورہے ہیں.اس الہی سکیم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی رحمت کے عجیب نظارے ہم آئے روز دیکھتے رہتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظارے جماعت کے سامنے آنے چاہئیں تا کہ وہ بھی شکر ادا کریں اور دل کی گہرائیوں سے الحمد للہ کا ورد کریں.اور دین کی راہ میں بشاشت کے ساتھ مزید قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوں.بہر حال سات لاکھ پانچ ہزار کی رقم بھی ٹارگٹ سے کم ہے اس میں پچاسی ہزار روپے کا فرق ہے اس لئے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ٹارگٹ تک پہنچنے کے لئے اس کمی کو اس نئے سال میں پورا کرنے کی کوشش کریں.میں بھی کوشش اور دعا کروں گا.آپ بھی دعائیں کریں میری کوشش

Page 514

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۹۴ خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۷۲ء اور دعائیں کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ دعا ئیں نہ کریں.آپ دعا ئیں بھی کریں اور کوشش بھی کریں اور میں کوشش بھی کروں گا اور دعائیں بھی کروں گا تا کہ یہ ٹارگٹ پورا ہو جائے.میں پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ تحریک جدید میں چندوں کی کمی کو پورا کرنے کی اصل ذمہ داری دفتر سوم پر عاید ہوتی ہے.کیونکہ یہ نیا دفتر ہے اور اس کے قیام پر ابھی سات سال گزرے ہیں اس دفتر نے آگے چل کر دفتر دوم کی قائمقامی کرنی ہے اور پھر دفتر اول کی قائم مقامی کرنی ہے.دفتر اول میں شامل ہونے والوں میں سے کچھ دوست ہر سال وفات پا جاتے ہیں بعض دوست ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی پانچ پانچ ہزار روپے آمد تھی لیکن بڑھاپے کی وجہ سے ان کی آمد کم ہو گئی ہے اس کمی کو تو وہ خدا تعالیٰ کے پیار میں شاید برداشت کر لیتے ہوں.لیکن ان میں سے اکثر وفات پا جاتے ہیں اور اس میں نہ میرا اختیار ہے اور نہ آپ کا اختیا ر ہے.پس اگر چہ دفتر اول نے اپنے وقت پر تحریک جدید کے چندوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا مگر طبعی اثرات کی وجہ سے مشکل یہ بن گئی کہ دفتر اول کا چندہ گرتے گرتے ۶۸ - ۱۹۶۷ء میں (اس سے پہلے کے اعداد و شمار میرے پاس نہیں ہیں ) ایک لاکھ پچپن ہزار روپے پر آ گیا.پھر تین سال بعد ۷۲.۱۹۷۱ء میں ایک لاکھ پینتالیس ہزار روپے رہ گیا ان تین چار سال میں دس ہزار روپے کی کمی بتاتی ہے کہ بعض دوست وفات پاگئے یا بعض پنشن پر آگئے اور آمد کم ہو گئی یا بڑھاپے کی وجہ سے تجارت کرنا چھوڑ دی اور اپنے بیٹوں سے کہہ دیا کہ وہ کا روبار سنبھالیں.ایسی صورت میں تحریک جدید کا چندہ ان کے بیٹوں کے حساب میں لکھا جائے گالیکن ایسے بوڑھے دوستوں کی آمدنی تو بہر حال کم ہو جاتی ہے اسی طرح ان کا چندہ بھی.ایسے دوستوں سے تو پھر تھوڑے سے چندے کی توقع کی جاسکتی ہے یعنی وہ اپنے جیب خرچ یا اس آمد سے جو وہ اپنے لئے علیحدہ کر لیتے ہیں اس میں سے ہی چندہ دے سکتے ہیں.اس لئے ان حالات میں ۶۸ - ۱۹۶۷ ء اور ۷۲-۱۹۷۱ء کے درمیانی عرصہ میں دفتر اول کے چندوں میں دس ہزار کی کمی کوئی اتنی بڑی کمی نہیں ہے عام حالات میں اس سے زیادہ کمی واقع ہونے کا اندیشہ تھا.ویسے تو خدا تعالیٰ دس آدمیوں کو بھی اگر یہ تو فیق عطا کرے کہ وہ اس دفتر میں پچاس گنا زیادہ چندہ دیں تو یہ فرق دور ہو جائیگا اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی

Page 515

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۹۵ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء قدرت سے باہر ہے میں یہ کہتا ہوں کہ انسانی زندگی کا یہ معمول ہے کہ کچھ عرصہ زندگی گزار نے کے بعد ہر انسان پر بڑھاپا آتا ہے اور پھر موت آتی ہے اس لحاظ سے دفتر اول بظاہر کمی کی طرف جا رہا ہے اور پچھلے سالوں میں عملاً کمی واقع بھی ہو چکی ہے.پھر دفتر دوم جو مالی قربانی کے لحاظ سے ۲۸ سال گزار چکا ہے اس میں دوستوں نے ہمت کی ان کا چندہ چار لاکھ پچپن ہزار تک پہنچ گیا ہے جب کہ ۶۸.۱۹۶۷ء میں تین لاکھ چون ہزار روپے تھا گو یا دوست ان چند سالوں میں قریباً 99 ہزار کی حد تک آگے بڑھے ہیں اور انشاء اللہ سات آٹھ یا دس سال میں اور آگے بڑھیں گے اور پھر یہ دفتر ، دفتر اول کی جگہ لے لے گا.دفتر سوم نے چونکہ دفتر دوم کی جگہ لینی ہے اس واسطے اگلے آٹھ دس سال میں دفتر دوم کا چندہ ساڑھے چار اور چھ لاکھ کے درمیان پہنچنا چاہیے.ساڑھے چار لاکھ روپے کے قریب تو ہماری یہ موجودہ نسل پہنچ گئی ہے.اگلی نسل اپنی تعداد کے لحاظ سے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں اپنی آمد کے لحاظ سے بہر حال بڑھے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.تو پھر اس لحاظ سے ان کا تحریک جدید کا چندہ بھی بڑھے گا.بہر حال اب اس سال کی میں بات کر رہا ہوں اس میں دفتر سوم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ کریں اور اسے مقررہ ٹارگٹ تک لے جائیں یعنی مجموعی چندہ ان کی کوشش سے یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ ٹارگٹ تک لے جانے کے لئے بڑی کوشش ان کی ہونی چاہیے تا کہ اس سال تحریک جدید کے چندوں کی رقم سات لاکھ نوے ہزار تک پہنچ جائے اس میں کچھ دفتر دوم بھی حصہ دار ہو گا دفتر اول کے لئے تو بظا ہر مشکل ہے بعض دفعہ استثنائی حالات میں اللہ تعالیٰ معجزہ دکھا دیتا ہے.یہ اور بات ہے ہم عاجز اس کے مستحق تو نہیں مگر اس نے ہمیں اپنی رحمتوں کے لئے چنا ہے اس لئے ہمارے دلوں میں تقویت پیدا کرنے کے لئے اور ہمارے چہروں پر بشاشت پیدا کرنے کے لئے وہ معجزے دکھاتا ہے اور کہتا ہے تم میری راہ میں تھوڑا دیتے ہو اور میں تم پر بہت فضل نازل کرتا ہوں.اس لئے تم میری راہ میں اور دو تا کہ تم میرے فضلوں کے مزید حقدار اور وارث بنو.ایک اور بات میں مختصراً یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دفتر نے مجھے لکھا ہے کہ سابقہ تعامل یہ ہے کہ ۳۱ / امان یعنی ۳۱ / مارچ تک وعدے آتے رہتے ہیں مگر تحریک جدید کا

Page 516

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۹۶ خطبه جمعه ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء بجٹ مشاورت سے کئی مہینے پہلے تیار ہونا چاہیے.اور وہ ۳۱ دسمبر تک تیار ہوتا ہے اس لئے وعدہ کی تاریخ بدل دینی چاہیے میں سمجھتا ہوں کہ وکیل المال اوّل کی رائے درست ہے.اس طرح کام میں سہولت پیدا ہو گی کام تو وہ پہلے بھی کرتے تھے اور اب بھی کریں گے لیکن ان کی سہولت کے پیش نظر بالفاظ دیگر اپنے احمدی بھائی اپنے دوسرے بھائیوں کی سہولت کے مدنظر اپنے وعدے ۳۱ دسمبر سے پہلے دفتر وکالت مال تحریک جدید میں بھجوا دیں تا کہ ان کے کام میں سہولت پیدا ہو جائے اور آسانی کے ساتھ وہ اپنے بجٹ وغیرہ تیار کرسکیں.یہ کوئی مشکل بات نہیں آپ بعض لوگوں کو چھ مہینہ کا عرصہ کیوں دیتے ہیں.آپ سوچیں گے آپ کو شرم آئے گی.آپ غصہ کے خط لکھیں گے کہ پہلے تاریخ کیوں نہیں بدلوائی.بہر حال ۳۱؍ دسمبر تک یہ وعدے دفتر وکالت مال میں پہنچ جانے چاہئیں.میں اس سلسلہ میں دو جماعتوں کو اچھی مثال کے طور پر اپنے بھائیوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ایک اسلام آباد کی جماعت ہے.سات لاکھ نوے ہزار کے ٹارگٹ کے مطابق ان کے حصہ میں جو رقم آئی تھی وہ انہوں نے ادا کر دی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء عطا فرمائے دوسری کراچی کی جماعت ہے انہوں نے بذریعہ تا ر ا طلاع دی ہے کہ سال رواں کے تحریک جدید کے وعدوں کی سو فیصدی وصولی کر لی ہے.وہ کچھ رقم بھجوا چکے ہیں اور باقی ماندہ بھیجوار ہے ہیں ٹارگٹ کے لحاظ سے جو رقم ان کے حصہ میں آتی تھی وہ انہوں نے ادا کی ہے یا نہیں اس کا تو تار میں ذکر نہیں تاہم اس وقت جب کہ اکثر جماعتوں کی ادائیگی سو فیصد نہیں ہوئی انہوں نے چھ مہینے پہلے تحریک جدید کا وعدہ سو فیصد پورا کر دیا ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ تَعَالَى خَيْرًا ویسے تحریک جدید کا نیا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے یہ تو کچھ سہولتیں جماعت کے مختلف چندوں کی وصولی کو پیش نظر رکھتے ہوئے جماعت کو دی گئی تھیں.بہر حال ایسی جماعتیں چند ایک ہی ہیں جو وقت سے پہلے سو فیصد ادائیگی کر دیتی ہیں اس سلسلہ میں کراچی کی جماعت قابل ذکر ہے.ان کی طرف سے سال رواں کا وعدہ ایک لاکھ سولہ ہزار کا تھا اب انہوں نے نیا وعدہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے کا بھیجوایا ہے.اسی طرح لاہور کی جماعت ہے،

Page 517

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۹۷ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۷۲ء راولپنڈی کی جماعت ہے، پشاور کی جماعت ہے پانچ سات بڑی بڑی جماعتیں ہیں جو تحریک جدید اور دوسرے چندوں کا بھی بڑا بوجھ اٹھاتی ہیں.اب مثلاً تحریک جدید کے سالِ رواں کے بجٹ میں سے ایک لاکھ سولہ ہزار روپے کا بجٹ کراچی نے پورا کیا ہے جو پاکستان میں تحریک کے چندوں کے سارے بجٹ کا قریباً پانچواں حصہ ہے.گویا بیس فیصد بوجھ صرف کراچی کی جماعت نے اٹھا لیا ہے ان کے علاوہ بھی بہت سی جماعتیں نومبر تک یہ چندہ ادا کر سکتی ہیں یا کم از کم دسمبر سے پہلے دے سکتی ہیں اور ان کو دینا چاہیے تاہم اگر بروقت ادا ئیگی نہیں ہوتی تو اس میں ان کا اتنا قصور نہیں جتنا لینے والوں کا قصور ہے.دفتر انہیں یاد دہانیاں نہیں کراتے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے یوں ہی بلا وجہ ذکر کی نصیحت نہیں فرمائی.خدا تعالیٰ نے مختلف پہلوؤں سے 66 مختلف محاورے استعمال کر کے مختلف مضامین کے ضمن میں ”ذکر“ کا لفظ استعمال کر کے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تم لوگوں کو یاد دلاتے رہا کرو.کیونکہ بعض دفعہ ایک انتہائی مخلص انسان بھی سستی کر جاتا ہے.پس ذکر ، یعنی یاد دہانی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جس آدمی کو یاد دہانی کرائی جا رہی ہے.اس کے اندر اخلاص نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کو ذکر کی یاد دہانی کرنے کی نصیحت کی گئی تھی اس نے اس حکم پر عمل نہیں کیا.پس یہ ایک چیلنج ہے جو رمضان کا یہ آخری جمعہ ہمیں دے کر رخصت ہو رہا ہے.ہمیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمانے کے لئے بھی دعا کرو.چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زمانے کو برا بھلا نہ کہو جس کا مطلب یہی ہے کہ زمانے کو اچھا کہو.اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ زمانے سے کہو تیرا شکر یہ چنانچہ اس کے متعلق حدیث میں ایک معنے یہ بھی بیان ہوئے ہیں کہ زمانہ کوئی چیز نہیں اصل تو خدا تعالیٰ ہی ہے.پس جب اصل خدا تعالیٰ ہی ہے تو پھر زمانہ کو برا بھلا نہ کہو کے مقابل پر آئے گا.الْحَمْدُ لِلَّهِ پڑھو اور اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ان نعمتوں کو دیکھ کر پڑھی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں.پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کے پیار اور اس کی رضا کی تلاش میں ایک گروہ ایک جماعت کوشاں ہوتی ہے اور وہ مجاہدہ میں مصروف ہوتی ہے.غرض جس زمانہ میں رضائے الہی اور محبت الہی کے حصول کے لئے انسانوں کی ایک جماعت

Page 518

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۹۸ خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۷۲ء کی جماعت (اگر چہ کبھی چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی بڑی ہوتی ہے لیکن کوئی زمانہ اس سے خالی نہیں ہوتا ) جب کوشاں ہوتی ہے.اس کے لئے مجاہدہ کر رہی ہوتی ہے تو اس زمانہ کو تم کیسے برا کہو گے.چنانچہ اس معنی کے اعتبار سے ہم یہ کہیں گے کہ زمانہ کے لئے بھی دعائیں کرو.پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اے آج کے یوم الجمعہ ! تیرے اندر زندگی گزارنے والی وہ جماعت جو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے خدا کرے کہ تیرا وجود دن کے لحاظ سے ان کے لئے ایک بابرکت دن بنے جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی برکتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں.اے خدا تو ایسا ہی کر.( روزنامه الفضل ربوه ۲۲ نومبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 519

خطبات ناصر جلد چہارم ۴۹۹ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۲ء خدائی جماعتوں کے خلاف ہمیشہ ہی ایذارسانی کے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۰ نومبر ۱۹۷۲ ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوا وَ مَا اسْتَكَانُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الصّبِرِينَ - وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ.(آل عمران: ۱۴۷، ۱۴۸) اور اس کے بعد فرمایا:.ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا چلا آیا ہے کہ جو لوگ انبیاء علیہم السلا کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں.منکرین اور مخالفین انہیں دُکھ دینے اور ایذا پہنچانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں.قرآن کریم میں اس ایذا رسانی اور دُکھ دہی کے متعلق بڑی تفیصل اور وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ جماعت مومنین کو زبان سے بھی دُکھ پہنچایا جائے گا اور ہاتھ سے بھی تکلیف دینے کی کوشش کی جائے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:.إن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَالْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ - (الممتحنة: ٣)

Page 520

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۰۰ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۲ء یعنی اگر وہ تم پر کبھی قابو پالیں اور اُن کو موقع ملے تو وہ تمہاری تباہی کے لئے اپنے ہاتھ بھی استعمال کریں گے اور زبانیں بھی استعمال کریں گے.پھر ایک دوسری جگہ فرمایا :.وَلَسْمَعْنَ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا - (ال عمران : ۱۸۷) فرمایا تم اہل کتاب سے بھی اور مشرکوں سے بھی کثرت سے ایذا پہنچانے والی اور دُکھ دینے والی باتیں سنو گے.جہاں تک زبان سے دُکھ پہنچانے کا تعلق ہے، یہ بنیادی طور پر دو قسم کا ہوتا ہے.ایک یہ کہ گندہ دہنی سے کام لینا یعنی گالیاں دینا اور دوسرے یہ کہ افتراء کرتے ہوئے جھوٹے اتہام لگانا.اس بارہ میں جب ہم انبیاء کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ شیطان نے دُکھ اور افتراء کا سب سے بڑا ہدف ہمارے سید و مولا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا.آپ کی زندگی میں منکرین اسلام نے آپ کو جو دُ کھ اور ایذاء پہنچائے تاریخ کے صفحات ان سے بھرے پڑے ہیں.آپ کے وصال کے بعد مخالفین اسلام کی طرف سے آپ کے خلاف گندے اتہامات اور جھوٹے اعتراضات کا سلسلہ جاری رہا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے مشن پر تین ہزار سے زائد اعتراضات صرف عیسائیوں کی طرف سے عائد کئے گئے.آپ نے عیسائیوں اور آریوں وغیرہ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جانے والی گالیوں اور اعتراضات کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا ہے تا کہ جب مہدی معہود کا مشن اور مقصد کامیاب ہو جائے اور معترضین کا وجود کہیں بھی نظر نہ آئے تو بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے یہ امر باعث یادگار ہو کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب اس قسم کے دُکھ دہ حالات تھے.گواب تو وہ زمانہ بدل گیا عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام کو روز بروز ترقی حاصل ہورہی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے پہلے اسلام پر ادیان باطلہ کے حملے ہورہے تھے.ایذا رسانی اور گالیوں کا ایک سلسلہ تھا جو ہمارے محبوب اور ہمارے آقا

Page 521

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ ۱۰ نومبر ۱۹۷۲ء ( خدا تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور صلوات ہوں آپ پر ) کے خلاف جاری تھا.اب یہی ایذاء رسانی اور گالیاں ہیں جنہیں ہم حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کے خلاف سنتے ہیں.بعض لوگ بڑے فخر سے گندہ دہنی کرتے اور اپنے سروں کو اونچا کرتے ہیں.وہ نہیں سمجھتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں.اسلام تو وہ حسین مذہب ہے جس نے انسان کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف کو دور کرنے کی نصیحت کی ہے.چنانچہ بانی اسلام حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک چھوٹی سی نیکی إمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ بھی ہے.فرمایا تم راستے میں پڑی ہوئی ایذاء پہنچانے والی چیزوں کو ہٹا دو تا کہ ان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے مگر اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بعض لوگ راستوں پر چلتے ہیں تو دوسروں کو ایذاء پہنچانے والی باتوں سے فضا کو مکدر کر دیتے ہیں اور اسی طرح اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں انہیں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کرنے کی بھی توفیق نہیں ہے.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ایذاء پہنچانے کا دوسرا حصہ دجل سے تعلق رکھتا ہے.جس میں عیسائیت نے بڑی مہارت حاصل کر رکھی ہے.عیسائیت نے تاریخی واقعات اور حقائق کو توڑ مروڑ کر اسلام کے خلاف اتنا دجل کیا ہے اور اسلام کی ایک ایسی بھیانک شکل پیش کی ہے اور اسلام اور بانی اسلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایسا زہر پھیلا دیا ہے کہ جس سے بہت سے جاہل اور نادان آدمی اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتے.پس ایک طرف تو گالیاں ہیں جو اسلام کے خلاف ہمیں سننی پڑتی ہیں اور دوسری طرف افتراء پردازی اور دجل ہے جو ہمارے کانوں میں پڑتا ہے.اسلام کے خلاف یہ دونوں حربے استعمال کئے جاتے ہیں.عیسائی اور بعض دوسری مخالف قو میں اسلام کو اتنا بدل دیتی ہیں کہ جو لوگ اصل حقیقت کو نہیں جانتے وہ فوراً متاثر ہو جاتے ہیں.اُن کے تصور میں بھی نہیں آسکتا کہ یہ کس قسم کا دجل ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے خدا ، قرآن کریم اور اسلام کے خلاف لوگوں نے استعمال کیا ہے.غرض یہ دو بڑی بڑی ایذاء رسانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور ان کی جماعتوں کو زبان اور تحریر کے ذریعہ پہنچائی جاتی ہیں.یہ دکھ دہی کے دوحربے ہیں جو الہی جماعتوں کے خلاف

Page 522

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۰۲ خطبہ جمعہ ۱۰ نومبر ۱۹۷۲ء استعمال کئے جاتے ہیں چنانچہ ان کا سب سے زیادہ استعمال اس محسنِ انسانیت کے خلاف رونما ہوا جو افضل الرسل تھا اور ابدی صداقتوں پر مشتمل ایک عظیم ہدایت لے کر بنی نوع انسان کی طرف مبعوث ہوا تھا.جس نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ اس میں یعنی قرآن کریم میں تمہاری عزت اور شرف کا سامان ہے.پس یہ امر بڑا حیران کن ہے کہ بعض لوگ اس چیز سے بے اعتنائی برت رہے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں کرتے جو اُن کے لئے عزت اور شرف کا سامان بہم پہنچاتی ہے.علاوہ ازیں جہاں تک مال و جان کا تعلق ہے اس سلسلہ میں بھی دُکھ پہنچایا جاتا ہے.چنانچہ ایک وقت میں مخالفین اسلام نے میان سے تلوار نکال لی اور کہا ہم مسلمانوں کو ذبح کر دیں گے قتل کر دیں گے ہلاک کر دیں گے ماردیں گے برباد کر دیں گے اور اسلام کا خاتمہ کر دیں گے.گوجس غرض کے لئے تلوار نکالی گئی تھی وہ تو پوری نہ ہوئی اور نہ ہو سکتی تھی لیکن اُن حالات میں تلوار کے میان سے باہر آ جانے سے اسلام کے خلاف تلوار کو ہاتھ میں پکڑنے والوں کی نیتوں کا تو پتہ لگ گیا کہ وہ کیا چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ کی مذکورہ آیت میں فرمایا ہے کہ مخالفین کو جب بھی موقع ملے ، وہ اپنے ہاتھ بڑھا بڑھا کر تمہاری ہلاکت کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ اموال کو لوٹتے بھی ہیں ان کو جلاتے بھی ہیں اور ان کو تباہ بھی کرتے ہیں ایسے لوگ بڑے نادان ہیں جو نہیں سمجھتے کہ ایک عظیم تحریک جو اس زمانے میں غلبہ اسلام کے لئے جاری کی گئی ہے (اور اس زمانہ سے مراد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا زمانہ ہے ) اُسے بعض لوگوں کے بچگانہ افعال اور طفلانہ اور جاہلانہ اعمال کیسے روک دیں گے یا اس میں کمزوری پیدا کر دیں گے.یہ تو ان کی سراسر نادانی ہے.تاہم جس کے وہ دوست بن گئے ہیں وہ ان کو یہی سکھاتا ہے کہ دوسروں کے اموال لوٹ لو ، جلا دو اور تباہ و برباد کر دو.پچھلے سال چیچہ وطنی میں چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ کے مکان کو جب آگ لگادی گئی تو چند دن بعد کچھ دوست میرے پاس آئے اور کہنے لگے یہ کیا ہو گیا ؟ میں نے کہا.کیا ہو گیا ہے.جو ہونا تھا وہ ہو گیا.ایک واقعہ تھا جو چند دن میں گذر گیا.ہمیں خدا تعالیٰ ان چند دنوں میں ہی کہیں سے کہیں لے گیا ہے.پس میں نے ان سے کہا کہ ایک مکان

Page 523

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۰۳ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۲ء کا تباہ ہو جانا کیا جماعت احمدیہ کو نا کام کر دے گا ؟ جو آدمی ایسا سمجھتا ہے وہ نادان ہے اور جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا.ہمیں اس پر رحم آتا ہے.اُس پر غصہ نہیں آتا اور نہ آنا چاہیے.دوستوں کو علم ہو چکا ہوگا کہ ایبٹ آباد میں جماعت کی جو کوٹھیاں تھیں.کچھ بن چکی تھیں اور کچھ بن رہی تھیں.جن میں ایک دو میری ذاتی بھی تھیں.پچھلے مہینے ان کو جلانے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں (ہمارا اندازہ ہے کہ) ہیں پچیس ہزار روپے کا نقصان ہوا ہے.کئی دوستوں نے مجھے بڑے غصے کے خط لکھے ہیں.میں نے ان کو یہی سمجھایا ہے کہ دیکھو! مالی لحاظ سے ہیں پچیس ہزار روپے کا نقصان پہنچا کر اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو نا کام اور ہلاک کر دیں گے تو یہ ان کی بھول ہے.اب تو خدا کے فضل سے وہ وقت آگیا ہے کہ جماعت کے اندر ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی ایک فرد کی ایسی پچاس کو ٹھیاں جلا دی جائیں تو اس کو محسوس بھی نہ ہو.اللہ تعالیٰ کے خزانے تو بھرے ہوئے ہیں.اس نے جماعت احمدیہ کو مال بھی عطا فرمایا ہے.پس ایک ایسا آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کی توفیق عطا کی ہو اُس کے پچاسویں حصے کو نقصان پہنچا کر اگر لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ جماعت احمدیہ کو نا کام کر دیں گے تو ان کی حالت واقعی قابلِ رحم ہے.غرض دوستوں کو یہ امر یا د رکھنا چاہیے کہ لِمَا اَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ کی رو سے یہ چیزیں ہمارے ساتھ بھی لگی ہوئی ہیں.الہی سلسلوں کے ساتھ مخالفین کا یہ سلوک کوئی نئی بات نہیں.تاہم ایسے موقعہ پر خوف اس بات کا نہیں ہوا کرتا کہ مخالفین کی یہ حرکتیں جماعت کو نا کام کر دیں گی بلکہ یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں جماعت کا رد عمل اللہ کی رضا اور اس کی منشاء کے خلاف ظاہر نہ ہو.میں نے شروع میں جو دو آیات تلاوت کی ہیں ان میں سے پہلی آیت میں تین قسم کے خوف اور دوسری آیت میں ان کے علاج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں تمہیں دُکھ اور تکلیف پہنچے گی مگر تمہارا یہ کام ہے کہ تم اپنے اندر وھن ، ضعف اور استکانت پیدا نہ ہونے دو.میں سمجھتا ہوں یہ آیت ایک لحاظ سے ہمارے لئے خوشخبری کا باعث بھی ہے کہ ہمیں مالی نقصان بھی پہنچایا جائے گا ، جذباتی اور روحانی نقصان بھی پہنچانے کی بھی کوشش کی جائے گی.لیکن یہ نقصان ہمیں اس لئے نہیں پہنچایا جائے گا کہ ہم تباہ و برباد ہو جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ہمیں

Page 524

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۰۴ خطبہ جمعہ ۱۰/ نومبر ۱۹۷۲ء مارنے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ ہمیں زندہ رکھنے اور ہمارے ذریعہ دوسروں کو زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے تاہم بشری کمزوریوں کی وجہ سے ایسے موقع پر تین قسم کے رد عمل ممکن ہیں جن سے بچنے کی ضرورت ہے.پہلا وطن ہے یعنی مفوضہ فرائض میں سستی کا پیدا ہو جانا اللہ تعالیٰ انبیاء اور ان کی جماعتوں کے متعلق فرماتا ہے.فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمُ فِي سَبِيلِ اللهِ یعنی وہ اس تکلیف کی وجہ سے جو انہیں اللہ کی راہ میں پہنچتی ہے.ست نہیں ہوتے.وطن کے معنے ضُعْفٌ فِي الْأَمْرِ وَالْعَمْلِ کے بھی ہوتے ہیں.ایک اجتماعی کوشش کے سلسلہ میں جو کام سپر د ہوا ہے اس میں کمزوری پیدا نہ ہو.ضعف في الأَمْرِ دراصل ضُعْفٌ فِي الْعَمْلِ کی بنیاد ہے.عمل میں جب قوت اور شدت پیدا ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ امر میں قوت اور شدت موجود ہے یعنی اس میں ایک قسم کا جھکاؤ ، دلچپسی ، بشاشت اور ایثار کا جذبہ پایا جاتا ہے جماعت احمد یہ اسی روحانی بشاشت، شوق عمل اور جذبہ ایثار کا ایک حقیقی نمونہ ہے.خدا تعالیٰ نے اسے اس لئے قائم کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسلام کو ساری دُنیا میں غالب کرے.پس یہ وہ عظیم مقصد ہے جس کے مطابق ہم عمل کریں گے اور انشاء اللہ اسلام کو ساری دُنیا پر غالب کر کے دم لیں گے.غرض یہ جذبہ برقرار رہنا چاہیے یعنی دنیا خواہ ادھر سے ادھر ہو جائے یا ساری دنیا مل کر ہماری تباہی کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرے مگر ہم اس کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے کیونکہ اس جذ بہ میں جب کمزوری واقع ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں انسان اپنے عمل میں سست پڑ جائے تو اس کو وھن کہتے ہیں یعنی مایوسی اور شبہ کے آثار پیدا ہو جائیں کہ پتہ نہیں اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے بھی ہوں گے یا نہیں.پتہ کیسے نہیں ! اگر وہ خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں تو ضرور پورے ہوں گے.پس یہ ایک خطرہ ہے جو لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللہ کی رو سے پیدا ہوسکتا ہے تاہم یہ خطرہ پیدا نہیں ہوتا کہ خدا کی جماعت ہلاک ہو جائے گی.ہلاکت تو در کنار اگر دھن، ضعف اور

Page 525

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۲ء استکانت کی وجہ سے جماعت کا ایک حصہ چھوڑ بھی دے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا.الہی مقصد و منشاء بہر حال پورا ہوگا.خدا تعالیٰ ایک نئی قوم لے آئے گا جو صحیح طور پر قربانیاں دینے والی ہوگی.جسے اپنے مقصد سے پیار اور اس کی عظمت کا احساس ہوگا.جو خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال سے لرزاں و ترساں رہے گی.وہ دُنیا کی ایذاء رسانی اور دُکھ دہی کی کوئی پرواہ نہیں کرے گی.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جماعت الہیہ کو اس خطرہ سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیے اور ان کے اندروھن نہیں پیدا ہونا چاہیے کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ وھن در اصل مومن کے جوشِ عمل اور جذبہ جہاد میں کمزوری کی علامت ہے الہی جماعتوں کے اندر تو یہ جوش پایا جاتا ہے کہ ان کے ذمہ دین کا جو اہم کام ہے اسے انہوں نے بہر حال پورا کرنا اور خدا کے فضل اور اسی کی مہر بانی سے اس میں کامیاب ہونا ہے.اسی لئے مومنین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس جوش اور جذبہ میں کسی وقت کمی نہ آئے اور اس میں ضعف پیدا نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ وھن کے معنے بڑے حسین پیرایہ میں بیان فرمائے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ (النساء : ۱۰۵) فرما یا تم دشمن قوم کی تلاش میں سستی نہ کرو.اب دشمن کی تلاش میں سستی کرنا.یہ ضعف فی العمل کی ایک شکل ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے کام میں ضعف نہیں پیدا ہونا چاہیے ورنہ رابطہ قائم نہیں رہے گا.فوج والوں نے ایک بڑا اچھا محاورہ ایجاد کیا ہے جب دشمن دو بدو لڑائی چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں دشمن سے Contact ( کانٹیکٹ ) یعنی تعلق نہ رہا یعنی جب لڑائی ہو رہی ہوتی ہے تو گویا لڑتے وقت دونوں فوجوں کا آپس میں ایک تعلق قائم ہوتا ہے لیکن جب کوئی شخص عین میدان جنگ سے کھسک جاتا ہے تو ایسی صورت میں کہتے ہیں اس کا دشمن سے تعلق ( کانٹیکٹ ) نہیں رہا چنا نچہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا دشمن اگر تمہیں نقصان پہنچا کر اتنا دور ہو جائے کہ تمہاری گرفت سے نکل جائے تو پھر ابتغاء القوم کے اس الہی ارشاد کی رُو سے اس کا پیچھا کرنا

Page 526

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۲ء چاہیے ورنہ تمہاری یہ حالت دھن یعنی سستی کہلائے گی.اس لئے تمہیں اپنے دشمن سے کانٹیکٹ قائم رکھنا چاہیے.اس کی تلاش کرنی چاہیے.جہاں بھی ہو اور جس محاذ پر وہ جائے وہاں تک اس کا پیچھا کرنا چاہیے.یاد رکھنا چاہیے کہ محاذ تلوار اور ایٹمی اسلحہ کا محاذ نہیں ہے.ہماری اصل جنگ ادیان باطلہ کے خلاف ہے جو قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں دلائل کے ساتھ لڑی جارہی ہے (اسے جہاد کبیر کہتے ہیں اس کی کچھ تفصیل میں پہلے ایک خطبہ جمعہ میں بیان کر چکا ہوں ) پس یہ وہ اصل محاذ ہے جس پر ڈٹ جانا چاہیے میں نے دیکھا ہے اور میرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کہ بعض لوگ تبلیغ کرتے وقت ایک غلطی کر جاتے ہیں اور وہ یہ کہ مثلاً وہ اپنے مخالف کو ایک دلیل دیتے ہیں جب وہ لا جواب ہو جاتا ہے تو حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے بات کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے وہ یہ نہیں کہتا کہ واقعی دلیل تو آپ کی بڑی پختہ ہے اور میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اس کے متعلق بعد میں بات کریں گے اور پھر جھٹ اپنی طرف سے ایک اور بحث چھیڑ دیتا ہے چنانچہ اس کا یہ رویہ کانٹیکٹ توڑنے کے مترادف ہے گویا ایک محاذ پر جب بھر پور جارحانہ حملہ ہوتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ نہیں دوسرا محاذ لے لو آخر دلیل بھی تو ایک محاذ ہی ہے.ہر دلیل ایک محاذ قائم کرتی ہے میں نے اپنے طالب علمی کے زمانہ میں جب بھی کسی دوسرے لڑکے سے بات کی یا کوئی دلیل دی اور اس نے لا جواب ہو کہ کہہ دیا کہ بعد میں بات کروں گا.تو میں کہہ دیتا تھا کہ نہیں پہلے اس کا فیصلہ ہوگا پھر بعد میں دوسری طرف بھی جائیں گے.غرض میں بتایہ رہا ہوں کہ ایسے موقعوں پر احباب جماعت کو یہ کہنا چاہیے کہ ہم دلیل ضرور دیں گے لیکن ہم کانٹیکٹ نہیں توڑنے دیں گے.زیر بحث دلیل کا پہلے فیصلہ ہو گا بعد میں دوسری دلیل لیں گے.بعض لوگ یہ کانٹیکٹ توڑ دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں اگر کوئی فائدہ ہورہا ہوتا ہے تو وہ بھی نہیں ہوتا.ایسی صورت میں مد مقابل سے یہ کہلوالینا چاہیے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اس دلیل کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور وہ دوسری دلیل معلوم کرنا چاہتا ہے پھر اس کے ساتھ بحث کرنی چاہیے.ورنہ جب کانٹیکٹ ٹوٹ جائے تو اس کو ازسرنو قائم نہ کرنا اس کو بھی قرآن کریم

Page 527

خطبات ناصر جلد چہارم میں دھن کہا گیا ہے.فرمایا:.۵۰۷ خطبہ جمعہ ۱۰ نومبر ۱۹۷۲ء وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَومِ دشمن جب بیچ کر ادھر اُدھر ہو جاتا ہے تو اس کی تلاش میں سستی نہ دکھاؤ.بلکہ اس کے ساتھ کانٹیکٹ قائم رکھو یہ نہ سمجھو کہ تم تھوڑے ہو.اسلام کی پہلی جنگ بدر میں کچھ صحابہ شہید ہو گئے تھے.وہ تو پہلے ہی تھوڑے سے تھے مگر کیا ان میں کوئی کمزوری پیدا ہو گئی تھی نہیں ہر گز نہیں.اسی طرح ہم پہلے بھی کمزور تھے اب بھی کمزور ہیں جہاں تک ہمارا تعلق ہے لیکن پہلے بھی طاقتور تھے اور اب بھی طاقتور ہیں جہاں تک ہمارے اللہ اور اس کے فضل کا تعلق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ عظیم قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے.اس کی طاقت اور قدرت میں تو کوئی فرق نہیں آیا اور نہ آ سکتا ہے.اسلامی تاریخ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے حسین واقعات سے بھری پڑی ہے.ہماری تاریخ میں ایسے حسین نظارے دکھائی دیتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ کسری ایران کے خلاف جنگ میں حضرت خالد بن ولید کے پاس غالباً چودہ ہزار فوج تھی.وہ اتنی تھوڑی سی فوج کے ساتھ کسری کے خلاف مدافعانہ جنگ لڑنے کے لئے ایران کی حدود میں داخل ہوئے تھے جہاں انہیں ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ لڑنی پڑی.چنانچہ وہ کسری کے خلاف سات آٹھ جنگیں لڑ چکے تھے کہ خلافت کی طرف سے انہیں حکم ملا کہ وہ شام کی طرف چلے جائیں کیونکہ قیصر روم کا مقابلہ زیادہ اہمیت کا حامل ہو گیا تھا اور اس محاذ پر فوج کی کمی بھی تھی.بہر حال یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اندازہ تھا.اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دیتا تھا.چنانچہ ایران میں کسری کے خلاف حضرت خالد نے سات آٹھ جنگیں لڑی تھیں اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ان جنگوں کے دوران میں ہر جنگ کے موقع پر کسرٹی کی ایک تازہ دم فوج مقابلے پر آئی جس کی تعداد ایک دو جنگوں میں تو چالیس ہزار بتائی جاتی ہے اور پانچ چھ جنگوں میں ساٹھ ستر ہزار فوج مقابلے پر ہوتی تھی.اس عرصہ میں حضرت خالد بن ولید کی فوج کو سوائے ایک آدمی کی کمک کے کوئی کمک نہیں ملی یعنی صرف ایک فرد واحد کمک کے طور پر ان کے پاس آیا گویا ساٹھ ستر ہزار کی ایرانی فوج کے مقابلے میں چودہ ہزار مسلمان لڑتے اور ان پر کامیابی حاصل کرتے رہے.

Page 528

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۰۸ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۲ء بہر حال مسلمانوں کی فوج صرف چودہ ہزار تھی جن میں سے بعض خدا کی راہ میں شہید بھی ہو گئے.بعض زخمی بھی ہوئے اور بعض تو اس قسم کے زخمی ہوتے تھے کہ اگلی جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے تھے.بعض ایسے بھی تھے جو اگلی جنگ میں اپنی پوری جسمانی طاقت کے ساتھ حصہ نہیں لے سکتے تھے.یہ سب کچھ تھا مگر انہوں نے اپنے عمل میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہونے دی.ایک اجتماعی جہاد تھا جس میں اُمت محمدیہ کی چودہ ہزار نمائندہ فوج کسری کے مقابلہ میں مدافعانہ جنگ لڑ رہی تھی مگر نہ اُن میں کوئی دھن پیدا ہوا اور نہ ان میں کوئی کمزوری پیدا ہوئی ان مٹھی بھر مسلمانوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہمارے اتنے آدمی مارے گئے.ہماری طاقت کم ہو گئی ہے.ہمارے اتنے آدمی زخمی ہو گئے ہیں اور وہ جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے.غرض ان میں سے کسی آدمی کے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکلا بلکہ جو زخمی تھے وہ اپنے ایثار کے جذبہ کے ماتحت اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے زخمی ہونے کے باوجود اور زخمی ہونے کی وجہ سے کمزور ہونے کے با وجود میدانِ جنگ میں آگئے اور اس طرح انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ تعداد کی کمی اور بعض کے زخمی ہونے کے باوجود اُن کے عمل میں کوئی ضعف نہیں پیدا ہوا بلکہ پہلی جنگ میں تو وہ بہت تھوڑے تھے اور ان کے مقابلے میں کسری کی فوج کے سپاہی ہر جنگ میں بڑھتے چلے گئے اور یہ کم ہوتے چلے گئے.پس لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ کی رو سے مسلمانوں کی فوج کو خدا کی راہ میں شہادت اور تھوڑے بہت زخموں کے نتیجہ میں جو دُ کھ اور تکلیف پہنچی اور دنیا والوں کی نگاہ میں کمزوری پیدا ہوئی وہ خدا کے ان پاک اور محبوب بندوں کی نگاہ میں کمزوری نہیں ثابت ہوئی ان میں نہ وهُنَّ في الأمرِ کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے اور نہ وَهُنَّ فِي الْعَمل کی کوئی مثال ملتی ہے.وہ اسی جرات کے ساتھ اسی بہادری کے ساتھ خدا تعالیٰ پر اسی توکل کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح جذب کرتے ہوئے اگلے میدان میں چلے گئے.پھر اگلے میدان میں چلے گئے اور پھر اس سے اگلے میدان میں چلے گئے.پھر لِمَا أَصَابَهُمُ کی رُو سے دوسری کمزوری جس کا خطرہ پیدا ہوتا ہے وہ ضعف کا پیدا ہونا

Page 529

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۲ء ہے.غصے کی زیادتی کے نتیجے میں بھی ضعف پیدا ہو جاتا ہے ضعف کا لفظ یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے.اس کا میں نے اگلی آیت سے استدلال کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں خدا کی راہ میں جو دکھ اور تکلیفیں پہنچتی ہیں اور تمہارے دل میں غصہ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے تمہارے اندر ایک قسم کا ضعف پیدا ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود تم نے کسی پر زیادتی نہیں کرنی اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے گالیاں سُن کر دعا دو جو شخص گالیاں سن کر دعا دینے کی بجائے گالیاں دیتا ہے وہ اپنے مجاہدانہ عمل میں ضعف پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کی توجہ دوسری طرف پھر جاتی ہے پھر آپ نے فرمایا :.پا کے دکھ آرام دو جو شخص دُکھ پا تا لیکن دکھ سہتا نہیں بلکہ جوابی کاروائی کرتا ہے اور کہتا ہے میں تیری خبر لیتا ہوں ، تم نے ایک چپڑ لگائی ہے میں تجھے دو لگاؤں گا ، اس سے ضعف پیدا ہو گیا کیونکہ اس نے زیادتی کی ہے حالانکہ اس کا اصل مقصد صراط مستقیم کو اختیار کرنا ہے.مگر ایک نے دائیں طرف توجہ پھیر لی اور دوسرے نے بائیں طرف پھیر لی اس لحاظ سے ضعف کا بڑا خطرہ ہے یعنی زیادتی ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے پاک اور محبوب بندے اس قسم کے ضعف میں مبتلا نہیں ہوتے وہ اپنا کام جاری رکھتے ہیں.تیسرا خطرہ استکانت کا ہے کچھ کمزور لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں تذلل نہ اختیار کر لیں اور دشمن کا اثر قبول کر کے اس کے پیچھے نہ لگ جائیں مگر وہ جماعت جسے خدا تعالیٰ نے دُنیا کا قائد بنایا ہو اُسے نہ تو دشمن سے ڈرنا اور نہ اس کے پیچھے لگنا چاہیے.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ خطرے بتا کر ان کے علاج کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.چنانچہ قرآن کریم کی اس دوسری آیت میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے ان خطروں سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرما یا منکرین اور مخالفین کے منہ سے تمہارے خلاف جو بات نکلتی ہے اس کے مقابلے میں تمہارے منہ سے یہ دُعانکلنی چاہیے.رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا.یعنی

Page 530

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۱۰ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۲ء انسان کمزور ہے دُنیوی معیار کے لحاظ سے اور فاتح بھی ہے اللہ کے فضلوں کے نتیجہ میں وہ گھر بھی جاتا ہے.ہر قسم کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں ، دشمن اسے ذہنی، جسمانی اور مالی لحاظ سے نقصان پہنچاتا ہے لیکن وہ اس نقصان کو برداشت کر لیتا ہے اُس سہارے کی وجہ سے جو اسے حاصل ہے یہ سہارا کیا ہے ایک رہی ہے جو آسمان سے لٹکی ہوتی ہے.یہ حبل اللہ ہے.جسے وہ پکڑتا ہے اور دُعا کرتا ہے اس کے خلاف ہر قسم کے گندا چھالے جاتے ہیں مگر اس کے دل میں نہ کوئی شکوہ اور نہ کوئی شکایت پیدا ہوتی ہے نہ گھبراہٹ میں باتیں ہوتی ہیں اور نہ مشورے ہوتے ہیں کہ کیا ہوگا اور کیا نہیں ہو گا.کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ کیا ہونا ہے.وہی ہونا ہے جو خدا تعالیٰ چاہے گا.اس کے منہ سے ان سارے دُکھ وہ حالات میں کچھ فرق نہیں نکلتا سوائے اس دُعا کے رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اے ہمارے رب! ہماری کوتاہیوں کو معاف فرما.ہمارے اندر وھن پیدا نہ ہو کیونکہ وهن پیدا ہو جانے کا جو خطرہ ہے اس کا تعلق کوتاہیوں کے ساتھ ہے.بشر کمزور ہے جو کچھ اسے کرنا چاہیے وہ نہیں کر سکتا کیونکہ بعض دفعہ شیطان اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اس پردہ کو سوائے خدا تعالیٰ کی رحمت کے اور کوئی اُٹھا نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مغفرت کے حقیقی معنوں پر بڑے حسین پیرا یہ میں روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ وہ خطرات جو بشری کمزوریوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق یہ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا! میں انسان ہوں ، بہر حال کمزور ہوں، ایسا نہ ہو کہ میری بشری کمزوریاں میری روحانی رفعتوں کے حصول میں روک بن جائیں.پس اے خدا! ایسا کر کہ مجھ سے کوتا ہیاں سرزد نہ ہوں.پس و ھن کا تعلق چونکہ کوتاہیوں سے تھا.اس لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ اگر تم وهُنَّ سے بچنا چاہتے ہو تو تمہیں اپنی کوشش اور سعی کے نتیجہ میں تکبر نہیں کرنا چاہیے.اپنے ایثار اور اخلاص کی وجہ سے غرور نہیں کرنا چاہیے.وھن سے بچنے کے لئے تمہیں اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنی پڑے گی اور اس مدد کے حصول کے لئے ہم تمہیں یہ دعا سکھا دیتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اپنے زور سے وطن سے نہیں بچ سکتے.میری مدد سے بچ سکتے ہو اور میری مدد کے حصول کے لئے تمہیں یہ دعا کرتے رہنا چاہیے رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا کہ اے خدا!

Page 531

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۱۱ خطبه جمعه ۱۰/ نومبر ۱۹۷۲ء ہم سے جو کوتاہیاں سرزد ہو گئی ہیں اُن کے بداثرات سے بھی ہمیں بچا اور ہمارے لئے ایسے سامان پیدا کر کہ ہمارے اندر بشری کمزوریوں کی وجہ سے جو کوتاہیاں پیدا ہوسکتی ہیں وہ بھی پیدا نہ ہوں.اگر تم یہ دعا کرو گے اور اللہ تعالیٰ جب اس دُعا کو قبول فرمائے گا تو تمہارے اندر دھن یعنی کمزوری پیدا نہیں ہوگی.دوسرا خطرہ ضعف کے پیدا ہو جانے کا ہے یعنی ضعف کے نتیجہ میں زیادتیاں نہ ہونے لگ جائیں.اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی وَ اِسْرَافَنَا فِي امْرِنَا کہ اے ہمارے خدا! ہماری زیادتیاں معاف فرما میں نے بتایا ہے کہ ضعف کی حالت میں مومن انسان بعض دفعہ زیادتی کا مرتکب ہو جاتا ہے مثلاً دیکھو ایزا کے مقابلے میں دُعا نہیں دیتا یا دُ کھ پا کر سکھ پہنچانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ دکھ کے مقابلے میں دُکھ پہنچاتا اور گالی کے مقابلے میں گالی دیتا ہے.پس خدا کا بندہ جب اس قسم کے کام کرتا ہے تو یہ اس کی زیادتی متصور ہوتی ہے.چنانچہ اس زیادتی سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دُعا سکھائی اور فرمایا کہ تم ہمیشہ یہ دُعا کرتے رہو.وَ اِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا ہمیں اس جد و جہد میں ، اس مجاہدہ میں اور اس عظیم کوشش میں جو تیرے دین کے غلبہ کے لئے شروع کی گئی ہے.اس میں ہمیں اس بات سے بچا کہ ہم اسراف کے گناہ میں ملوث ہو جائیں.تیسر اخطره استکانت یعنی دشمن کے سامنے تذلل اختیار کرنا اور اس کا اثر قبول کر کے اس کے پیچھے لگنے کا خطرہ ہے.یہ کمزوری ایمان کی علامت ہے.ایسے لوگوں کے متعلق قرآن کریم نے تفصیل سے بتایا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جی ہم نے انتظام کر لیا ہے ہم مسلمانوں کے ساتھ بھی ہیں اور منافقوں کے ساتھ بھی ہیں.ہم نے کفار منکرین اور دشمنانِ اسلام سے بھی ساز باز کی ہوئی ہے اور ہر ایک سے کہتے ہیں کہ اگر تم کامیاب ہو گئے تو ہم تمہارے پیچھے چل پڑیں گے.میں اس کی تفصیل میں تو اس وقت نہیں جاسکتا.اصولاً بتا رہا ہوں کہ اس گناہ اور کمزوری سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرما یا تم یہ دُعا کرتے رہا کرو وَ شَيْتُ اَقْدَامَنَا کہ اے خدا ہمارے قدموں کو مضبوطی عطا فرما.فرمایا تمہیں اپنی کوششوں سے ثبات قدم حاصل نہیں ہوسکتا.اللہ کے فضل سے حاصل ہو سکتا ہے اس لئے تم یہ دعا کرتے رہا کرو کہ ہمارے قدموں میں مضبوطی عطا ہو.

Page 532

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۱۲ خطبہ جمعہ ۱۰ نومبر ۱۹۷۲ء پس جب ان کمزوریوں کا خدشہ باقی نہ رہے اور اِبْتِغَاءِ الْقَوْمِ کی قوت ہو اُن سے کانٹیکٹ کرنے اور جنگ کرنے کے لحاظ سے اور پھر زیادتی بھی نہ ہو بلکہ صبر سے کام لیتے ہوئے انسان گالی کے مقابلے میں دعائیں کرنے والا اور دُکھ سہنے کے مقابلے میں سکھ پہنچانے کی تدا بیر کرنے والا بن جائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کے نتیجہ میں خود کو دشمن کے سامنے ذلیل کر کے اس کی اطاعت قبول کرنے کی بجائے اس کے قول اور عمل میں ثبات قدم ہو.اللہ کے فضل اور رحمت کے نتیجہ میں وہ جس جگہ کھڑا ہو وہاں اس کے پاؤں میں کوئی لغزش نہ آئے تو وہ دشمنوں کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے اور ان کی کوئی پرواہ نہ کرے اور کہے تم تعداد میں زیادہ ہوتو ہوا کرو.تمہارے پاس اموال زیادہ ہیں تو ہوا کریں.اس سے میرے جذبہ ایمان اور شوق عمل میں کوئی فرق نہیں پڑتا.میں تو خدا کا سپاہی ہوں جہاں کھڑا ہوں اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا بلکہ آگے بڑھوں گا کیونکہ میں اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں جسے آگے بڑھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.پس مومن کے عمل میں ثبات قدم ہوتا ہے.اس کے پاؤں میں کوئی لغزش نہیں آتی.پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جاتے ہیں لیکن مومن کے قدم اپنی جگہ سے ٹلا نہیں کرتے.مومن پیچھے نہیں ہٹا کرتا وہ اپنے مقصد کے حصول میں آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.جب یہ سب کچھ ہو جائے تو پھر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو تم ان خطرات سے بچنے کی دعا کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتے رہا کرو وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ کہ اے خدا! کا فرلوگوں کے خلاف ہماری مدد فرما.میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں کہ ان تینوں خطرات کے بعد ایک چوتھا خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہے تکبر پیدا ہونے کا خطرہ یعنی انسان نے سب کچھ حاصل کیا اللہ کے فضل اور اس کے حضور عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں کے نتیجہ میں مگر کامیابی کے وقت شیطان آ گیا اور اس نے کہہ دیا تم نے یہ کامیابی اپنی کوشش اپنی ہمت اور اپنی طاقت سے حاصل کی ہے.چنانچہ ایسی صورت میں باوجود پہلی دعاؤں کی قبولیت کے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں پھر نا کامی اور ہلاکت کے سامان پیدا نہ ہو جائیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان دعاؤں کے بعد اور میرے فضلوں کو حاصل کرنے کے بعد یہ دعا بھی کیا کرو وَ انْصُرُنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ کہ اے خدا !

Page 533

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۱۳ خطبہ جمعہ ۱۰؍ نومبر ۱۹۷۲ء کافروں کے مقابلہ میں، دشمنان اسلام کے مقابلے میں ہمیں فتح تیری نصرت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی.ہمیں یہ فتح ہماری کسی قوت کسی طاقت اور ہمارے ثبات قدم یا کسی اخلاص یا ایثار کے نتیجہ میں نہیں مل سکتی.اس لئے اے خدا! تو خود ہماری مدد کو آ اور ہمارے اور اپنے دشمنوں کو ان کے منصوبوں میں نا کا م کر.چنانچہ جب خدا کا بندہ یہ دعا بھی کرتا ہے تو پھر وہ شیطان کے ہر قسم کے وسوسوں سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے.جب سب کچھیل گیا تو پھر کس بات کا ڈر ہے.جب انسان شیطان کو شکست دے دیتا ہے تو پھر اسے شیطان کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا جس شخص کا سر اُٹھتا ہی نہیں اور جس کا سر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا ہی رہتا ہے اس کی گردن تک شیطان کا وار کیسے پہنچ سکتا ہے وہ تو محفوظ ہو جاتا ہے.ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعائیں کرنے والی اور اسی کی حفاظت میں ہے.تا ہم کبھی کبھی یاد دہانی کرانی پڑتی ہے کیونکہ مخالف غیر بھی ہیں اور اپنے بھی ہیں.جو ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں.ایسے لوگوں کو بڑا غصہ آتا ہے کہ کیوں یہ جماعت خدا کے فضل سے اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے ایک کامیاب جدو جہد اور ایک نہایت فاتحانہ قسم کا مجاہدہ کر رہی ہے.پس ہمیں غصہ نہیں آنا چاہیے.ہمارے مخالفین ہمیں جتنی چاہیں تکلیفیں دیں اور دُکھ پہنچا ئیں ہاتھ سے بھی اور زبان سے بھی افتراء پردازی سے بھی اور دجل سے بھی کام لیتے ہوئے جیسا کہ عیسائی لوگ کرتے ہیں.ہمارے اموال کو تلف کر کے، انہیں لوٹ کر اور انہیں جلانے کی کوشش کر کے یا ہماری جانوں کو نقصان پہنچا کر جو مرضی آئے وہ کریں.ہوگا وہی جو خدا چاہے گا اور خدا نے یہ چاہا ہے کہ احمدیت ہمیشہ غالب رہے گی اسی کے فضل اور اسی کی توفیق سے.روزنامه الفضل ربوه ۶ / دسمبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 534

Page 535

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۱۵ خطبہ جمعہ ۱۷ رنومبر ۱۹۷۲ء سال کے وقفہ کے بعد انشاء اللہ اس سال ہمارا جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے خطبه جمعه فرمودہ مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کل سر درد کا شدید حملہ ہوا تھا جس کے نتیجہ میں نقاہت ہوگئی ہے.آج صبح تو لیٹے ہوئے ہی وقت گزارنا پڑا.یہ تین دن کچھ اس قسم کی ذمہ داریوں کے جمع ہو گئے ہیں جو بیماری کی وجہ سے بستر پر لیٹ کر یا گھر میں بیٹھ کر ادا نہیں کی جاسکتیں.انصار اللہ کے علاوہ لجنہ اماء اللہ مرکز یہ کا پچاس سالہ اجتماع بھی ہو رہا ہے اس سال ۲۵/ دسمبر کو لجنہ اماء اللہ کو قائم ہوئے پچاس سال ہو جائیں گے.چنانچہ اس اجتماع کے موقعہ پر وہ اپنی تاریخ کا ایک نیا ورق الٹیں گی.اللہ تعالیٰ ان کی ماضی کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشے اور اب انہیں نئے دور میں نئی اور بدلی ہوئی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.اس وقت میں مختصر دو باتوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.ایک تو یہ ہے کہ ہمارا جلسہ سالانہ قریب آ رہا ہے.یعنی اب اتنا دور نہیں ہے کہ اس سلسلہ میں انتظار کیا جائے اور بعض ذمہ داریوں کی طرف احباب کو توجہ نہ دلائی جائے.جہاں تک جلسہ سالانہ کے انتظامات کا تعلق ہے وہ تو بعض لحاظ سے جلسہ کے معا بعد شروع ہو جاتے ہیں.پھر جب نیا مالی سال شروع ہوتا ہے تو اس وقت

Page 536

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۱۶ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء بہت سارے کام کرنے پڑتے ہیں.بعض اشیاء خریدنی پڑتی ہیں.مثلاً شروع میں گندم خریدنی پڑتی ہے.اس وقت نسبتا سستی مل جاتی ہے.پھر جلسہ سالانہ کے ضمن میں کچھ یاددہانیاں کرانی پڑتی ہیں.اہل ربوہ کو بھی اور ان بھائیوں کو بھی جو باہر سے ربوہ میں تشریف لاتے اور جلسہ کی برکات اور فیوض سے بہرہ ور ہونے کی کوشش کرتے ہیں.ایک سال کے وقفہ ( ناغہ ) کے بعد انشاء اللہ اور اسی کی توفیق سے اس سال ہمارا جلسہ سالانہ منعقد ہوگا.ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کی امید رکھتے ہیں اور ہمارا اپنے رب کریم پر بھروسہ ہے کہ وہ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ بیچ میں کسی قسم کی روکیں پیدا نہ ہوں.دوست دوسال تک جلسہ کا انتظار کرتے رہے ہیں.اب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں یہ توفیق بخشے گا کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں کے ماحول میں دعائیں کرنے کی توفیق پائیں.جلسہ سالانہ کے جملہ انتظامات کے علاوہ اہلِ ربوہ کی جو ذمہ داریاں ہیں، میں سمجھتا ہوں ان میں سے سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پوری تعداد میں، رضا کارانہ طور پراپنی خدمات منتظمین جلسہ کو پیش کر دیں.ان دنوں ہمارے سکول اور کالج بڑا کام کرتے ہیں.بچوں کا کالج بھی ، بچیوں کا کالج بھی اور اسی طرح ہمارے سکول بھی بہت کام کرتے ہیں.اس ضمن میں ہمارے بعض دوستوں کو بعض خدشات بھی لاحق ہیں کیونکہ ہماری نئی حکومت نے اپنے منشور کے مطابق سکولوں اور کالجوں کو قومی تحویل میں لینا شروع کر دیا ہے ”شروع کر دیا ہے“ کا مطلب ہے کہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ حکومت نے سکولوں اور کالجوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے.چنانچہ اس دفعہ نصرت گرلز ہائی سکول کی استانیوں کو یکم کی بجائے گیارہ تاریخ کو تنخواہیں ملیں جبکہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ کو ابھی تک تنخواہیں نہیں ملیں.بہر حال سکولوں وغیرہ کو قومی تحویل میں لینا بہت بڑا کام ہے.بڑی ذمہ داری حکومت نے اپنے سر لی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں صحیح خدمت کی توفیق دے.یہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا چنانچہ سکولوں اور کالجوں کو قومی تحویل میں لے لئے جانے پر بعض بچے یا بعض نا سمجھ دوست گھبراتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہائی سکول میں، جامعہ میں اور دوسرے تعلیمی اداروں میں ہمارے مہمان ٹھہرتے

Page 537

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۱۷ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء ہیں اور طلباء بطور رضا کا رخدمات انجام دیتے ہیں.اب سکول اور کالج قومی تحویل میں چلے جانے کی وجہ سے نہ تعلیمی ادارے خالی ہوں گے اور نہ طلباء کو بطور معاون جلسہ میں بھجوایا جائے گا.دراصل یہ مفروضہ ہی غلط ہے.اس لئے اس سلسلہ میں گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں جماعت احمد یہ تو ہرلحاظ سے عوام ہی کا ایک حصہ ہے.یہ دنیا کی بھلائی کے لئے قائم ہوئی ہے.ہر مسلمان کو الناس“ کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہ الناس“ ہی ہیں جن کے لئے قرآن عظیم ا تارا گیا ہے.پس ان دنوں عوامی حکومت کا بڑا چر چاہے حالانکہ یہ لفظ ”عوام“ دراصل الناس“ کا ترجمہ ہے.کیونکہ الناس“ سے مراد بالعموم عوام لئے جاتے ہیں.اس لئے جب ہر چیز ہے ہی’ الناس“ کی تو پھر اس کے راستے میں دنیا کی کوئی حکومت یا اس کی نئی پالیسی روک نہیں بن سکتی.لہذا سکولوں اور کالجوں کے بچے اور بچیاں انشاء اللہ اسی طرح رضا کارانہ طور پر کام کریں گی جس طرح وہ سالہا سال سے کام کرتے چلے آئے ہیں اور عوام کی یہ عمارتیں بھی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت میں پیش ہوں گی اور اپنی مہمان نوازی اور خدمت پیش کریں گی جس طرح پہلے کرتی چلی آئی ہیں جب کسی عمارت میں برکت کے کام کئے جاتے ہیں تو عمارتیں بھی برکت والی بن جاتی ہیں.پس ایک تو یہ ذمہ داری ہے کہ رضا کار پوری طرح ( نوے فیصد بھی میں نہیں کہتا ) اور پوری تعداد میں انتظامیہ کو ملنے چاہئیں.پوری تعداد سے میری یہ مراد ہے کہ جتنے زیادہ سے زیادہ رضا کارمہیا ہو سکتے ہوں اتنے ضرور ملنے چاہئیں.علاوہ ازیں ایک بڑی ذمہ داری جلسہ کے دنوں میں باہر سے آنے والے مہمانوں کیلئے اپنے مکانوں کے مستقف حصوں کو مہیا کرنے کی ہے.ربوہ میں ہر سال جتنی بھی جماعتی طور پر نئی عمارتیں بنتی ہیں وہ مہمانوں کے لئے کافی نہیں ہوتیں.چنانچہ اس دفعہ میں نے جامعہ سے بھی کہا ہے کہ تمہاری ضرورت بھی ہے لیکن میری ضرورت بھی ہے اور جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں میری ضرورت سے مراد جماعت کی ضرورت ہے کیونکہ میں اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں جو غلبہ اسلام کی عظیم مہم کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.غرض جماعتی ضرورت کے پیش نظر

Page 538

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۱۸ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء جماعت احمدیہ کے ہوٹل کی عمارت کا پہلے تھوڑا سا حصہ مکمل ہونا تھا لیکن میں نے کہا ہے کہ اسے زیادہ بڑھاؤ.چنانچہ اس کی تعمیر کا پروگرام تین حصوں میں بٹا ہوا تھا.دو حصے جلسہ سالانہ تک انشاء اللہ مکمل ہو جائیں گے.تیسرا حصہ جلسہ تک مکمل نہیں ہوسکتا کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہے.بہر حال کچھ مہمانوں کے لئے اس میں بھی گنجائش نکل آئے گی.پھر جو عمارت کیمپس کہلاتی ہے جہاں ہمارا ایم.ایس.سی فزکس کا حصہ ہے.اس میں کئی اور کمروں پر چھتیں پڑگئی ہیں جو مہمانوں کے ٹھہر نے کے لئے بڑی حد تک کافی ہیں اور اس سے میری مراد یہ ہے کہ جتنائی.آئی.ہائی سکول اور اس کی بورڈنگ کا مستقف حصہ ہے اتنی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ کمروں کی چھت مکمل ہوگئی ہے.اس میں بھی کئی کمرے میسر آجائیں گے ویسے اس میں کچھ انتظام کرنا پڑے گا کیونکہ ابھی دیواریں نہیں بنیں صرف چھت ہی پڑی ہے.بہر حال ہم اس کو استعمال کر سکتے ہیں لیکن ان تمام تعمیراتی وسعتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال مہمانوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے.اس لئے مہمانوں کے لئے موجودہ عمارتیں کافی نہیں ہوا کرتیں.پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ باہر سے آنے والے احباب بڑی قربانی کرتے ہیں وہ راتوں کو اس طرح سوتے ہیں کہ دفتروں میں بیٹھ کر حکومت کرنے والے لوگ اس کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے.ایک دفعہ کا واقعہ ہے میں افسر جلسہ سالا نہ تھا.میرے پاس ایک رپورٹ آگئی کہ ۱۴ × ۱۸ یا شاید ۱۸ × ۱۵ کا کمرہ ہے جس میں مقیم ایک سومہمانوں کیلئے مالک مکان یا منتظم کھانا لے گیا ہے.اتنے چھوٹے سے کمرہ میں تو اتنے مہمان نہیں ٹھہر سکتے.چنانچہ ہم نے رات گئے جب سارے مہمان اپنی اپنی رہائش گاہوں پر اکٹھے ہو جاتے ہیں اس وقت جا کر چیک کیا تو جتنے مہمانوں کا کھانا منگوایا گیا تھا اتنے مہمان وہاں موجود تھے.انسان سوچے تو وہ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا تاہم اس چھوٹے سے کمرے میں سو کے قریب مہمان موجود تھے.وہ بیٹھ کر رات گزارتے تھے یا کیسے رات گزارتے تھے یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے.مگر وہاں سو کے قریب مہمان ٹھہرے ہوئے تھے.اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ ہمارے احمدی دوست مہمان اور میزبان دونوں بڑی قربانی دیتے ہیں.ویسے یہاں ایک لحاظ سے مہمان اور میزبان کا فرق مٹ جاتا ہے کیونکہ

Page 539

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۱۹ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء جہاں تک مہمان ہونے کا تعلق ہے میں بھی اور آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں مگر خادم ہونے کی حیثیت میں ہم سارے میزبان ہیں.غرض مہمان اور میزبان دونوں اکٹھے ہو جاتے اور جلسہ کے انتظامات میں ہاتھ بٹاتے ہیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی برکت اور رحمت ہے.ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے.جلسہ کے دنوں میں رہائش کے سلسلے میں میں نے دیکھا ہے کہ باہر سے جو دوست اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آتے ہیں.وہ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ انہیں کوئی غسل خانہ دے دیا جائے ، وہ اسی میں اپنا وقت گزار لیں گے.پس مکانوں کی مانگ کا تو یہ حال ہے اور اُدھر ربوہ کے دوست تھوڑی تعداد میں بیٹھنے والے یا دوسرے کمرے فارغ کرتے ہیں.ان میں سے بھی بعض دوست عملاً فارغ نہیں کرتے جس سے انتظامیہ کو بڑا غصہ آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دے سکتے نہیں کیونکہ مثلاً ان کے دور کے عزیز یا کوئی دوست ہیں وہ انہیں اطلاع دے دیتے ہیں کہ وہ جلسہ پر نہیں آرہے.چونکہ انہوں نے پہلے سے یہ ذہن میں رکھا ہوتا ہے کہ میں فلاں کمرہ ان کو دونگا لیکن جب ان کی طرف سے اطلاع آجاتی ہے کہ وہ جلسہ پر نہیں آرہے تو وہ یہی کمرہ جلسہ سالانہ کے منتظمین کو دیدیتے ہیں مگر جب جلسہ سالانہ کے مہمان آنے لگتے ہیں.تو ان کے عزیز یا دوست کا ایمان جوش میں آتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ جلسہ سالانہ سے کیوں غیر حاضر ہوں.چنانچہ جب وہ ربوہ پہنچ جاتے ہیں تو وہی کمرہ ان کو دیدیا جاتا ہے.اس پر جلسہ سالانہ کے منتظمین شور مچا دیتے ہیں کہ تم نے تو ہمیں کمرہ دینے کا وعدہ کیا تھا مگر کمرہ فارغ نہیں کیا گیا.وہ کہتے ہیں کہ ہمارے وہ مہمان جن کے آنے کی توقع نہیں تھی وہ آگئے ہیں.وہ بھی تو آخر جلسہ کے مہمان ہیں اس لئے انہوں نے استعمال کر لیا ہے.بہر حال اس مرحلہ پر ظاہری انتظام میں تو رخنہ پڑ جاتا ہے لیکن ایسے مالک مکان کا اخلاص اپنی جگہ قائم رہتا ہے.بعض دوست اس سلسلہ میں بھی بڑی قربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں.وہ اپنا سارا گھر مہمانوں کو دیدیتے ہیں.وہ خود کسی ایک کمرہ میں سمٹ کر گزارہ کر لیتے ہیں اور باقی سارا گھر خدا کے مہمانوں کیلئے فارغ کر دیتے ہیں.دوسری طرف ایک وقت میں ہزاروں ہزار روپے چندہ دینے

Page 540

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۲۰ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء والے دوستوں کو اگر ربوہ میں کوئی غسل خانہ مل جائے جس میں پرالی پڑی ہوئی ہو تو وہ اسے بھی غنیمت سمجھتے ہیں اور شکر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا بھی اور ممنون ہوتے ہیں منتظمین کے بھی کہ انہوں نے ہمارے لئے رہنے کا انتظام کر دیا ہے.بہر حال اہلِ ربوہ کے لئے جس حد تک ممکن ہو وہ اس سلسلہ میں منتظمین جلسہ سے تعاون کریں علاوہ ان مہمانوں کے جو ان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انکے گھروں میں ٹھہرتے ہیں ان مہمانوں کے لئے بھی اپنے مکانوں کے بعض حصے فارغ کریں جوان سے تعلق تو رکھتے ہیں لیکن جلسہ کے انتظام کے ماتحت ٹھہرتے ہیں.پس ایسے دوستوں کیلئے رہائش مہیا کرنے کیلئے بھی منتظمین جلسہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کرنا چاہیے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ربوہ کی صفائی کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے.جلسہ کے دنوں میں بھی صفائی ہونی چاہیے اور اس سے پہلے بھی صفائی ہونی چاہیے.صفائی کی طرف اہلِ ربوہ کو بالعموم اور مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس صحت کو بالخصوص توجہ دینی چاہیے.باہر کے وہ دوست جو اس عرصہ میں ربوہ نہیں آئے ان کو بعض تبدیلیاں تو نظر آئیں گی مثلاً سڑکوں کے بعض حصے پختہ ہو گئے ہیں.ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کچھ اور تبدیلیاں بھی نظر آئیں.تاہم اس میں وقت لگے گا.نئی جگہوں پر درخت لگائے جار ہے ہیں جو کھلی جگہیں تھیں ان کو استعمال کیلئے تیار کیا جارہا ہے.کچھ تیار ہوگئی ہیں.کچھ تیار ہورہی ہیں اور کچھ انشاء اللہ تیار ہو جائیں گی.غرض صفائی کی طرف جس حد تک ممکن ہو ہمیں توجہ دینی چاہیے.گو جس حد تک تو جہ دینے کی ضرورت ہے اس حد تک ہم سر دست توجہ نہیں دے سکتے کیونکہ اس وقت ہمارے ذرائع محدود ہیں.لیکن کوشش کرتے رہنا چاہیے اور جس حد تک ممکن ہو، اپنے ماحول کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں یہاں کبھی کوئی بیماری وبائی صورت میں نہیں آئی حالانکہ مہمانوں کی تعداد ہزاروں بلکہ اب تو ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے.ایسی صورت میں احباب کا وبائی امراض سے محفوظ رہنا اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کا مرہونِ منت ہے.جلسہ سالانہ نے ربوہ کی زمین کو بڑا اچھا کر دیا ہے.جس وقت ہم پہلے پہل یہاں آباد ہوئے تھے اس وقت ہر طرف کلر ہی کلر نظر آتا تھا جن دوستوں نے سن انچاس پچاس اور ا کا ون کے جلسے

Page 541

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۲۱ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء دیکھے ہیں اور ان کا حافظہ اچھا ہے ان کو یاد ہوگا کہ یہاں کلر کی وجہ سے ہر جگہ سفید ہی سفید نظر آتی تھی اب تو درخت اُگ آئے ہیں سایہ ہو گیا ہے کئی جگہ پھول بھی نظر آنے لگے ہیں اور انشاء اللہ ایک دو سال میں کئی دوسری جگہوں پر بھی پھول نظر آئیں گے اور پھر اس سے بھی نمایاں فرق نظر آئے گا.یہ تو ایک مستقل کام ہے جو آہستہ آہستہ مکمل ہو رہا ہے.پس جلسہ کے ایام میں احباب کو صفائی کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جلسہ سالانہ کی کامیابی کے لئے دعاؤں پر بڑا زور دینا چاہیے.دوست یہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کی نیت رکھنے والوں کو ہر طرح صحت سے رکھے اور ان کے لئے جلسہ میں شمولیت کے سامان پیدا کر دے.اللہ تعالیٰ اہل ربوہ کو بھی صحت و عافیت سے رکھے اور انہیں تو فیق عطا فرمائے کہ وہ بہتر اور احسن رنگ میں خدا تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے روحانی فرزند جلیل مہدی معہود کے مہمانوں کی خدمت کر سکیں اور وہ ہر قسم کی ذمہ داریاں چوکس اور بیدار رہ کر ادا کر سکیں.جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے نانبائیوں پر روز بروز بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے.جلسہ سالانہ کے دنوں میں جو نانبائی یہاں آتے ہیں وہ سب الا ما شاء اللہ احمدی نہیں ہوتے.یہ بھی ایک لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے کہ جلسہ سالا نہ کی وجہ سے ان کا ہمارے ساتھ ایک پرانا تعلق قائم ہے.لیکن اب ان کی بساط کی بات نہیں رہی.اسی لئے ہم نے دو تین سال سے روٹیاں پکانے والی مشین استعمال کرنی شروع کر دی تھی پہلے تجربہ کے طور پر اور پھر آج سے دو سال پہلے کافی بڑے پیمانے پر استعمال کی تھی.اس سال غالباً ۱۶ نئی مشینیں لگ گئی ہیں گو یہ بھی کافی نہیں.لیکن ان کا اتنا فائدہ ضرور ہے کہ اگر خدانخواستہ سارے تنور نا کام ہو جائیں تو اتنی روٹیاں پکا دیں کہ جیسا کہ ہم بعض دفعہ جلسہ سالانہ پر کیا کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ایک روٹی میں ہر ایک دوست کی سیری کے سامان پیدا کر دے گو ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہر ایک دوست کو اس کا جو عام طریق ہے اور روزمرہ کا معمول ہے اس کے مطابق کھانا دیا جائے لیکن بعض دفعہ انتظام میں غیر متوقع خرابی کیوجہ سے تھوڑا

Page 542

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۲۲ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء کھانا دینے پر اکتفا کرنا پڑے تب بھی دوست اسے بطیب خاطر قبول کر لیتے ہیں.اگر چہ روٹیاں پکانے والی مشینیں تو مل گئی ہیں لیکن پیڑے اور روٹیاں بنانے کی مشینیں ابھی تک ہمیں نہیں مل سکیں.اس سال ایک مشین ہمیں ملی ہے جو پیڑے بنانے یا روٹیاں بنانے والی ہے.یہ مشین ربوہ میں پہنچ چکی ہے اور اس وقت اس پر تجربہ ہو رہا ہے یہ مشین کراچی سے بن کر آئی ہے مگر ٹھیک طرح کام نہیں کر رہی ہمارے ایک احمدی انجینئر دوست ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر اور سمجھ اور فراست عطا فرمائے وہ اس کو ٹھیک کر رہے ہیں.اس میں کافی حد تک درستی ہوگئی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور اس کا تجربہ کامیاب ہو جائے تو پھر اگلے سال ہمارے لئے بہت سہولت پیدا ہو جائے گی لیکن سر دست میں یہ کہوں گا کہ ہمارے جلسہ میں نانبائیوں کی کمی کسی صورت میں رخنہ انداز نہیں ہونی چاہیے جلسہ کے ایام میں بوقت ضرورت ہمارے مرد و زن ہر دو کو پیٹڑے اور روٹیاں بنانے کیلئے تیار رہنا چاہیے یہ اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے کہ کسی بھی عظیم مقصد کے حصول میں جو جد و جہد کرنی پڑتی ہے اس میں مردوزن کی تفریق نہیں کی جاسکتی ہر دو پر ایک جیسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں.جن میں ہمیں یہ اصول یاد کرایا جاتا ہے کہ دیکھو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ایک عظیم جد و جہد شروع ہے.اس زمانے سے مراد ایک احمدی ہمیشہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ لیتا ہے کیونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آپ کی بعثت سے قیامت تک ممتد ہے.اس لئے ہمارا یہ زمانہ بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے.پس اس زمانہ میں توحید کے قیام بنی نوع انسان کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کا پیارا اور قرآن کریم سے دلی وابستگی پیدا کرنے کے لئے جو عظیم جدوجہد ایک مجاہدہ اور ایک جہاد شروع ہوا ہے.اس نے مردوزن کی تفریق مٹا دی ہے.دونوں پر ایک جیسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان دونوں کے کاموں میں فرق ہو سکتا ہے لیکن ان کی ذمہ داریاں ایک جیسی ہیں.ہم عورتوں کو پرے نہیں بٹھا سکتے بلکہ جب ضرورت پڑتی ہے تو ہم دینی امور میں ان سے استثنائی خدمت لیتے ہیں.شروع اسلام میں جب عورتوں کی ضرورت پڑی تھی تو وہ میدانِ جنگ میں چلی گئیں.جب ان کی ضرورت نہیں تھی تو وہ

Page 543

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۲۳ خطبہ جمعہ ۱۷؍نومبر ۱۹۷۲ء پانی پلاتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں یا دیکھ بھال کے دوسرے کام کرتی تھیں لیکن بوقت ضرورت میان سے تلوار نکال لیتیں اور تیر کمان ہاتھ میں پکڑ لیتی تھیں اور مردوں سے پیچھے نہیں رہتی تھیں وہ ہر مشکل کے وقت تیار رہتی تھیں پس اگر چہ مرد اور عورت کا اپنا اپنا کام اور دائرہ کار مقرر ہے لیکن ضرورت کے وقت وہ سب کا کام بن جاتا ہے.پس ہماری احمدی بہن غلبہ اسلام کی اس جدو جہد سے باہر نہیں رہ سکتی اور نہ اسے باہر رکھا جا سکتا ہے.اس عظیم جدو جہد میں اسے شامل کرنا پڑے گا چنانچہ اگر ضرورت پڑے گی تو ہم اپنی بہنوں کو روٹی پکانے والی مشینوں پر بٹھا دیں گے، اپنی ماؤں کو بٹھا دیں گے اورا اپنی بیٹیوں کو بٹھا دیں گے اور کہیں گے پیڑے بناؤ اور روٹیاں لگاؤ تا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قلعہ میں آنے والے مہمانوں کو کھانا مل سکے.اپنے گھروں میں جب مہمان آتے ہیں تو بعض دفعہ ایک ایک عورت دس دس پندرہ پندرہ سیر آٹا گوند کر روٹیاں پکا لیتی ہے تو خدا کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مہدی کے گھر مہمان آئیں اور عورتیں باہر بیٹھی رہیں یہ تو نہیں ہوسکتا.اگر کسی کے دل میں کوئی شبہ ہے تو وہ نکال دے.عورتیں باہر نہیں بیٹھیں گی وہ آئیں گی اور اپنی ذمے داری کو پورا کریں گی.تاہم ان کو یاد کرانے کی ضرورت تھی سو میں نے اس وقت یاد کرادیا ہے.انہیں تیار رہنا چاہیے.لجنہ اماءاللہ کو چاہیے وہ اس سلسلہ میں ان کی راہنمائی کریں.یہ ایک عجیب بات ہے کہ روٹی پکانے کا کام عام طور پر عورت کا سمجھا جاتا ہے.لیکن نانبائی آپ کو عام طور پر مر د نظر آتے ہیں.اس واسطے دنیا میں احمدی مرد بھی ضرور نانبائی ہو نگے ان کو مرکز میں آنے کے لئے تیار کرنا چاہیے.وہ یہاں جلسہ سننے اور خدا کی برکات سے حصہ پانے کے لئے آئیں.وہ یہاں آ کر اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم برکات ،فضل اور رحمتیں دیکھیں جو جماعت احمدیہ اور اس کے ذریعہ تمام دنیا کے انسانوں پر نازل ہو رہی ہیں.ان کے دل اللہ تعالیٰ کے شکر کے جذبات سے معمور ہو جائیں گے تاہم وہ ساتھ یہ نیت بھی کریں کہ اگر روٹی پکانے کی ضرورت پڑی یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ پیڑے بنا کر روٹی بنانے والی مشین پر لگانے کی ضرورت پڑی تو ہم اس کام میں شامل ہوں گے کئی ایسے مرد اور عورتیں بھی ہیں جو عام طور پر پیڑا اور روٹی تو بنا سکتے ہیں لیکن تنور میں روٹی نہیں لگا سکتے.اس

Page 544

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۲۴ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء کے لئے بڑی مشق کی ضرورت ہے کیونکہ تنور میں ہر روٹی کے لئے دو دفعہ ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے.لیکن مشین کے اوپر روٹی بنانے کے لئے اس قسم کی مشقت کی ضرورت نہیں صرف جذبہ کی ضرورت ہے.اگر کوئی عورت مشین پر تکونہ یا ہشت پہلو روٹی پکا دیگی تو ہم وہ بھی خوشی سے کھالیں گے.پکا ہوا آٹا ہونا چاہیے روٹی کی شکل چاہے کسی قسم کی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا.ہم جب بچے تھے اور سکاؤٹنگ کے لئے باہر جایا کرتے تھے تو خود ہی ”ونگی ٹرنگی اور کچی پکی روٹی پکا کر کھا لیا کرتے تھے.تاہم جلسہ سالانہ کے دنوں میں نہ تو روٹی کچی ہونی چاہیے اور نہ جلی ہوئی ہونی چاہیے کیونکہ بچے بھی ہوتے ہیں بعض دوست بیمار بھی ہو جاتے ہیں پتہ نہیں کون سی چیز کس کے حصہ میں آنی ہوتی ہے اس لئے کچی اور جلی ہوئی روٹی نہیں ہونی چاہیے لیکن یہ ضروری نہیں روٹی گول ہو یا اوول ہو جیسے صوبہ سرحد میں رواج ہے یا تین کونے یا چار کونے والی ہو.جس قسم کی روٹی مشین میں تیار ہوگی وہ آپ کو مل جائے گی ایک مشین ایسی بھی ہے کہ اس میں علیحدہ علیحدہ ایک ایک روٹی نہیں بنائی جاتی بلکہ جس طرح کپڑے کا بنا بنا یا تھان باہر نکلتا ہے اسی طرح مشین کے اندر سے روٹی کا ایک تھان نما ٹکڑا باہر نکلتا رہتا ہے جس میں سے آگے کاٹ کر تین تین دود و یا ایک ایک روٹی بنالی جاتی ہے.غرض ہمیں روٹی ملنی چاہیے ہمیں اس کی شکل سے سروکار نہیں.اس کی شکل تھان کی ہو یا چاند کی ہو یا زرہ کی ہو یا چورس ہو یا جو بھی ہو پکے ہوئے آٹے کی روٹی ہونی چاہیے.اسی طرح چاول بھی پورے طور پر پکے ہوئے ہونے چاہئیں تا کہ جلد ہضم ہو جا ئیں اور دوست بیمار نہ ہوں.بہر حال اللہ تعالیٰ اس نان میں برکت ڈالے گا کیونکہ یہ اس کا وعدہ ہے کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب مہدی کے درویش دنیا میں پائے جائیں گے اس وقت تک فرشتے آسمان سے اُس نان کے مشابہ نان لیتے آئیں گے جو فرشتوں کی طرف سے اللہ کے حکم سے حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے حضور یہ کہتے ہوئے پیش کیا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے تاہم یہ ساری چیزیں جہاں ہمارے لئے باعث طمانیت ہیں وہاں ہمارے اوپر ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہیں.اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی ہر ممکن کوشش کریں.

Page 545

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۲۵ خطبہ جمعہ ۱۷؍نومبر ۱۹۷۲ء جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں آج انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کا اجتماع شروع ہو رہا ہے پاکستان میں اس وقت بیماری بھی بہت پھیلی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.دوستوں کو بہت احتیاط کرنی چاہیے ان دنوں عام طور پر تین بیماریاں اکٹھی حملہ کرتی ہیں.ملیر یا ، انفلوئنزا ، گلے کی تکلیف جسے انگریزی میں Throat Infection ( تھروٹ انفیکشن ) کہتے ہیں.تو یہ اللہ کی تقدیر ہے اور ہم اس سے گھبراتے نہیں لیکن باوجود اس کے کہ بہت دوست بیمار رہے ہیں.پھر بھی وہ اس اجتماع پر آگئے ہیں اس لئے یہ بیماری ہمارے راستے میں روک نہیں بنی.اسی طرح لجنات کے متعلق بھی کہنے والوں نے تو یہی رپورٹ دی ہے کہ اس دفعہ مستورات زیادہ تعداد میں شامل ہو رہی ہیں.لیکن یہ رات کی گنتی ہے صبح سے لیکر اس وقت تک مجھے نہ لجنہ کی طرف سے اور نہ انصار اللہ کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ کتنی بجنات اور کتنے انصار اجتماع میں شامل ہو رہے ہیں.غرض انصار اللہ لبنات دونوں کے اجتماع آج شروع ہو رہے ہیں.امت محمدیہ میں جب بھی اجتماع ہوں اس بارہ میں قرآن کریم کی ایک ہدایت موجود ہے جسے بھولنا نہیں چاہیے اور وہ یہ ہے کہ جب بھی دینی اجتماع ہو اس وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید اور توبہ و استغفار بڑی کثرت سے کرنا چاہیے.اس پر نہ تو کوئی پیسہ خرچ ہوتا ہے اور نہ وقت لگتا ہے.یہ صرف عادت کی بات ہے.پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان دنوں کثرت سے سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کا ورد کریں.تسبیح وتحمید سمیت درود پڑھنے کی تحریک تو میں پہلے بھی کر چکا ہوں.پھر استغفار ہے یعنی اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ بھی کثرت سے پڑھنا چاہیے.اس کے ساتھ جو دوست لاحول پڑسکیں وہ لاحول بھی پڑھیں.میرا تجربہ ہے کہ استغفار کرنا اندرونی کمزوریوں کے دور کرنے کے حق میں اکسیر کا حکم رکھتا ہے اور لاحول بیرونی حملوں کے شر سے حفاظت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.پس اِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم : ۸) کی رو سے آپ جتنی زیادہ تسبیح و تحمید کریں گے آپ اپنے محسن اور انسانیت کے محسن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جتنا زیادہ درود پڑھیں گے اتنے ہی

Page 546

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۲۶ خطبہ جمعہ ۱۷ رنومبر ۱۹۷۲ء زیادہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے انصار اللہ کا اجتماع عملاً جمعہ کے بعد شروع ہو جاتا ہے.اس لئے دوست ابھی سے تسبیح وتحمید اور درود و استغفار پڑھنے لگ جائیں اور اگر ہو سکے تو اپنے اس ورد میں لاحول کو بھی شامل کر لیں.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اپنے فضل نازل فرمائے.اس کی جو برکات ہمارے لئے مقدر ہیں اور ان برکات کے حصول کیلئے جس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں وہ قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں قبول بھی فرمائے.یعنی ہمیں مقبول ایثار کی مقبول قربانیوں کی توفیق عطا ہوتا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنیں اور انسان کے ضمن میں دنیا کی بحیثیت مجموعی جو ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں ہم ان ذمہ داریوں کو الہی توفیق سے بہتر رنگ میں ادا کر سکیں.(روز نامه الفضل ربو ۱۹۰ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۱ تا ۴) 谢谢谢

Page 547

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۲۷ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء امراض کی تکالیف سے بچنے کیلئے ضروری ہے انسان دوا بھی کرے اور خدا کے حضور بھی جھکے خطبه جمعه فرموده ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کل ہمارے ملک میں بھی اور باہر سے آمدہ اطلاعات کے مطابق بعض بیرونی ممالک میں بھی ملیر یا ، انفلوئنزا اور گلے کی خرابی نے وبائی صورت میں انسان پر حملہ کر رکھا ہے.یہ تینوں بیماریاں بظاہر اکٹھی حملہ کرتی ہیں.چنانچہ یہاں ربوہ میں بھی بڑے بھی اور چھوٹے بچے بھی بڑی کثرت سے بیمار ہوتے رہے ہیں.بہت سے اب بھی بیمار چلے آرہے ہیں.بعض گھروں میں تو سارے کے سارے گھر والے بیمار پڑے ہوئے تھے.جہاں تک انفلوئنزا کا تعلق ہے یہ ضروری نہیں کہ گلے ، ناک اور سر پر اس کا حملہ ہو اور ساتھ بخار ہو جائے بلکہ بعض دفعہ تو یہ معدہ اور انتڑیوں پر بھی حملہ کرتا ہے جس کی وجہ سے پیچش اور اسہال کی بیماری خصوصاً بچوں میں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہے.پچھلے دنوں تو ربوہ میں بہت سے چھوٹے بچے وفات پاگئے.یہ ایسی بیماری ہے جو بڑوں اور چھوٹوں سب پر حملہ کرتی ہے.بعض دفعہ چند گھنٹوں کے بخار میں مریض کی وفات ہو جاتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ انفلوئنزا کی نئی قسم کے Virus (وائرس ) یعنی کیڑے حملہ آور ہوئے ہیں جن کی ابھی تک صحیح طور پر تشخیص نہیں ہوسکی.

Page 548

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۲۸ خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ان بیماریوں سے محفوظ رکھے.انفلوئنزا کا پہلا بڑا حملہ جو انسان کے علم میں آیا وہ ۱۹۱۸ء کا فلو تھا.اس میں مجھے یاد ہے قادیان میں ایک وقت میں آدھے شاید اس سے بھی زیادہ یعنی ستر اسی فیصد دوست انفلوئنزا کی بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ پر بھی اس کا بڑا سخت حملہ ہوا تھا.حالت بڑی پریشان کن اور تشویشناک تھی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو صحت عطا فرمائی.اس کے بعد دو چار بار فلوو بائی شکل میں مختلف ملکوں میں حملہ آور ہوتا رہا ہے.مگر تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ہر دفعہ انفلوئنزا کے وائرس یعنی کیڑے مختلف شکل کے ہوتے تھے جن پر پہلی دوائیوں کا اثر بھی نہیں ہوتا تھا مثلاً انسان نے اپنے تجربہ سے ۱۹۱۸ ء میں جو دوائیاں ایجاد کیں ان کا اثر بعد کے وبائی فلو کے اوپر نہیں ہوا.لندن میں ایک ہومیو پیتھک فرم ہے جس نے ۱۹۱۸ ء اور اس کے بعد کے مختلف وبائی فلو کے جو کیڑے ہوتے رہے ہیں ان کوئی بی کے کیڑوں کے ساتھ اکٹھا کر کے ہو میو پیتھی کی شکل میں علاج تیار کیا ہے.یہ دوا احتیاطی تدبیر کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے تاکہ فلو نہ ہو.میں نے بھی یہ دوا منگوائی تھی اور بہت سے دوستوں کو پچھلے سال استعمال کروائی تھی.اکثر دوستوں کو اس سے بڑا فائدہ بھی ہوا.گو یہ دوا بڑی اچھی ہے لیکن اس دفعہ میں نے یہ دوا استعمال نہیں کرائی کیونکہ ہم نہیں کہہ سکتے اگر کوئی نیا وائرس یعنی کیڑا ہے تو اس پر وہ اثر بھی کرتی ہے یا نہیں.بہر حال بیماری خواہ کسی بھی شکل میں ہو.وبائی شکل میں ہو یا روز مرہ کی ان بیماریوں کی طرح ہو جو عام طور پر کسی نہ کسی کو ہوتی ہی رہتی ہے.اصل شافی تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.قرآن کریم میں آتا ہے اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعراء :۸۱) یعنی جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ ( اللہ ) مجھے شفا دیتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری انسان کی غلطی اور گناہ کا نتیجہ ہوتی ہے کیونکہ کھانے پینے اور رہنے سہنے کے طریق اسلام نے بتا دیئے ہیں کہ کس طرح اپنے جسم کی حفاظت کرنی ہے اور کھانے کو ہضم کرنے کے لئے کیا طریق اختیار کرنا چاہیے وغیرہ چنانچہ اس دنیا میں صحت مند رہنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے جو احکام بیان فرمائے ہیں جب انسان انکی پرواہ نہیں کرتا تو وہ بیمار ہو جاتا ہے پھر چونکہ بیماری خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے اس لئے

Page 549

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۲۹ خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۷۲ء اس کو دور کر نے کے لئے خدا تعالیٰ کو استغفار کے ذریعہ خوش کرنا پڑتا ہے اور اس کی پیدا کردہ ادویہ سے فائدہ اٹھانا پڑتا ہے.پھر جہاں تک بیماری کے علاج کا تعلق ہے اور بیمار کی ذہنی کیفیت کا سوال ہے، ہمیں دنیا میں تین قسم کے لوگ نظر آتے ہیں.ایک قسم وہ ہے جو دائیں طرف جھکے ہوتے ہیں دوسرے وہ جو بائیں طرف جھکے ہوتے ہیں اور تیسرے وہ جو صراط مستقیم کی راہ پر قائم ہوتے ہیں.چنانچہ جو لوگ دائیں کو جھکے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ شفا تو اللہ تعالیٰ نے دینی ہے اس لئے کسی دوا یا تدبیر کی کیا ضرورت ہے.اس کے مقابلہ پر جو لوگ بائیں کو جھکے ہوئے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ صرف دوا کافی ہے.دوا نے شفا دینی ہے.ایسے لوگ خدا کا خانہ خالی چھوڑ دیتے ہیں.ان دو انتہاؤں کے درمیان جو لوگ صراط مستقیم پر قائم ہوتے ہیں یعنی اس سیدھی اور درمیانی راہ کو اختیار کرتے ہیں جس کا اُمَّةً وَسَطًا میں ذکر ہے.وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس دنیا کو پیدا کیا.دوائیوں کو بھی اسی نے پیدا کیا اس لئے دوانہ کرنا جہاں اس کی نعمتوں کی ناشکری ہے وہاں دوا پر گلی بھروسہ کرنا کفر اور شرک ہے اور توحید کی راہ سے بھٹکنے کے مترادف ہے.پس جو لوگ یہ کہتے کہ جب اللہ تعالیٰ ہی نے شفا دینی ہے تو پھر دوا کرنے کی کیا ضرورت ہے، ان سے میں یہ کہوں گا کہ پیٹ بھرنا بھی تو اللہ کا کام ہے لیکن کبھی تم نے یہ نہیں کہا کہ کھانا کھا کر کیا لینا ہے.پیٹ تو اللہ نے بھرنا ہے.کبھی کسی آدمی نے یہ نہیں کہا کہ سردی سے اللہ نے حفاظت کر دی ہے اس لئے سردی کے موسم میں گرم کپڑے پہنے کی کیا ضرورت ہے مثلاً ان دنوں سردی کی لہر آگئی ہے اور لوگوں کا خیال ہے کہ شاید اس سے بھی زیادہ آئے گی بہر حال سردی کی وجہ سے لوگ گرم کپڑے مثلاً سویٹر اور کوٹ وغیرہ پہنتے ہیں لیکن اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ کپڑے پہننے کی کیا ضرورت ہے ہم لنگوٹا باندھیں گے یا ستر کا حصہ ڈھانپ لیں گے اور چلیں پھریں گے.اب جو شخص بھی ایسا کرے گا وہ بیمار ہو جائے گا اور پاگل کہلائے گا.اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دواشفادے گی خواہ خدا تعالیٰ کی مشیت کچھ اور ہو اور وہ شفا نہ دینا چاہے اس قسم کا خیال بھی غلط ہے.دوا صرف اس صورت میں شفا دے گی جب اللہ تعالیٰ کا اسے حکم ہوگا اور ہم دوا کو اس

Page 550

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۳۰ خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۷۲ء لئے استعمال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دوا کو استعمال کر و آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے مضامین کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لئے دوا پیدا کردی ہے.آخر دوا کا تعلق بھی تو اس مادی جسم کے ساتھ ہے اور جسم کی دیگر ضروریات کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کی ہزاروں لاکھوں چیزیں پیدا کی ہیں.مثلاً مختلف قسم کے کھانے پیدا کئے ان میں توازن پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کی اشیاء پیدا کیں.اس نے ہمارے لئے کپڑے پیدا کئے کپڑے بنانے کے لئے روئی پیدا کی.اس نے چودہ چودہ پندرہ پندرہ ہزارفٹ بلند پہاڑوں پر رہنے والی بھیڑیں پیدا کیں جن پر بہت باریک اور گرم اون ہوتی ہے جسے پشمینہ کہتے ہیں.اب یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے جہاں برف پڑتی ہے اس کے نیچے نیچے ڈھلوانوں میں بھیڑیں پرورش پاتی ہیں جن کی اون ایک تو خود ان کو گرم رکھنے اور دوسرے انسان کو گرمی پہنچانے کا بھی کام دیتی ہے.بعض دفعہ عمر کے بعض حصوں میں بعض طبائع ایسی بھی ہوتی ہیں جو بھاری کپڑوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتیں کسی زمانہ میں میں سردیوں کے دنوں میں بڑا اوزنی کوٹ پہن لیا کرتا تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک کوٹ دیا تھا جو بڑا موٹا اور وزنی تھا.چنانچہ کچھ عرصہ تک میں نے وہ کوٹ بھی استعمال کیا تھا مگر اب میرے کندھوں کے اعصاب اور عضلات موٹی چیز کا بوجھ برداشت نہیں کرتے.میں اپنی بات کر رہا ہوں.مجھے کپڑوں میں ایسی ہلکی چیز کی ضرورت ہوتی ہے جو گرم بھی ہو اور کم وزن بھی ہو.اس قسم کی چیز کی مجھے تلاش کرنی پڑتی ہے ورنہ پھر ٹھنڈ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے.غرض جب اس مادی جسم کے آسائش و آرام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہزاروں لاکھوں اشیاء پیدا کی ہیں اور اس جسم کو بیماری کے اثرات سے بچانے کے لئے اس نے دوا بھی پیدا کی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور اپنے بندہ کو جو اس کی قدرتوں پر ایمان لاتا ہے یہ فرمایا ہے کہ میں نے تیرے لئے ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے.تو ضرورت کے وقت اسے استعمال کر لیکن اس کا فائدہ تبھی ہو گا جب تو ساتھ ہی مجھ سے میری رحمت کا طالب ہوگا.تب میں دوا کو حکم دوں گا کہ وہ تجھ پر اثر کرے اور تیرے جسم کو حکم دوں گا کہ وہ دوا کے اثر کو قبول کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.

Page 551

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۳۱ خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۷۲ء آپ فرماتے ہیں کہ اصل شفا اس وقت ملتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا حکم دونوں پر نازل ہوتا ہے یعنی دوا پر بھی اور جسم پر بھی.ڈاکٹر جس مریض کو لا علاج قرار دیتا ہے اس کا مطلب اسلامی اصطلاح میں صرف اتنا ہے کہ اس مریض کے جسم کے ذرات دوا کے اثر کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں لیکن جب انسان اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتا اور اس کے حضور عاجزانہ رنگ میں جھکتا اور اس سے شفا کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو اس کے جسم اور جسم کے ذروں پر حکم نازل کرتا ہے کہ وہ دوا کے اثر کو قبول کریں چنانچہ اس طرح انسانی جسم میں دوا کے قبول کرنے کی خاصیت عود کر آتی اور بیمار کو شفامل جاتی ہے.پس یہ کہنا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ شافی ہے اسلئے کسی دوا کے استعمال کی ضرورت نہیں اسلامی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے.ایسے لوگ دائیں طرف جھکنے والے ہوتے ہیں وہ ظاہر میں تو توحید کے قائل ہوتے ہیں لیکن اندرونی طور پر اور باطنی لحاظ سے مشرک ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دوائیاں وغیرہ اپنے آپ ہی آگئی ہیں خدا کی منشاء اور اس کی حکمت کا ملہ نے ان کو پیدا نہیں کیا ایسا سمجھنا غلط ہے دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے یا وہ حقیقی توحید پر قائم نہیں ہوتے وہ کہتے ہیں کہ بس دوا کھالی.آرام آجائے گا لیکن صرف دوا پر بھروسہ کرنا بھی صحیح نہیں ہے.ویسے اگر خدا تعالیٰ نے شفادینی ہو تو وہ مٹی کی چنکی میں شفار کھ دیتا ہے ہم نے خودا پنی زندگی میں دیکھا ہے کہ سخت تکلیف میں مبتلا بلکہ تڑپتے ہوئے مریض کو مٹی کی ایک چٹکی دی گئی اور اسے آرام آگیا اور پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایک ہی نسخہ ایک دعا گو طبیب دیتا ہے تو مریض کو شفا ہو جاتی ہے اور ایک غافل شخص جس کو تو حید کا علم نہیں ہوتا اور وہ دعاؤں سے کام نہیں لیتا وہی نسخہ اور وہی دوا دیتا ہے لیکن مریض کو شفا نہیں ہوتی.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ ہمارے والد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ماموں تھے.ہم سب بھی انہیں ماموں جان ہی کہا کرتے تھے وہ ایک دفعہ شملہ میں تھے خود مریض بھی تھے مگر طبیعت میں استغناء تھا پیسے کا لالچ نہیں تھا.طبیعت خراب ہوتی تھی تو وہ اپنے کمپاؤنڈر سے کہتے تھے کہ وہ مریض کو دیکھنے چلا جائے.کمپاؤنڈ ر کو بھی وہی نسخے یاد تھے جو حضرت میر صاحب دیا کرتے تھے لیکن مریض آکر کہتے تھے

Page 552

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۳۲ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء / کہ آپ خود دوائی لکھ کر دیں.کمپاؤنڈر نے جو دوائی لکھ کر دی ہے اس سے آرام نہیں آیا حالانکہ دوائی ایک ہی ہوتی تھی.غرض کمپاؤنڈر نے دوائی تو وہی دی لیکن اس نے وہ دعا نہیں کی جو حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ مریض کے لئے کیا کرتے تھے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقعہ پر یہ ہدایت فرمائی ہے کہ بڑا ظالم ہے وہ ڈاکٹر اور طبیب جو اپنے مریض کے لئے دعا نہیں کرتا.ظالم اس لئے ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ صرف دوائی سے آرام آجائے گا یا اس کی طبی مہارت مریض کے کام آجائے گی.ڈاکٹر کی مہارت اور دوا اس مریض کے کام آتی ہے جب اللہ تعالیٰ آسمانوں سے ایسا حکم نازل کرتا ہے ورنہ وہ فائدہ نہیں کرتی.پس بائیں طرف جھکنے والے مریض سمجھتے ہیں کہ بس دوالے لی ہے دعا کرنے کی ضرورت نہیں ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضل کی ضروت نہیں ہے لیکن جو شخص مومن ہے اور راہ راست اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے.وہ دوا کھاتا بھی ہے اور دوا پر بھروسہ بھی نہیں رکھتا.وہ دوا اس لئے کھاتا ہے کہ اس کے رب نے اسے کہا کہ تیرے لئے یہ دوا پیدا کی گئی ہے تو اسے استعمال کر.دوا تدبیر ہے اور دعا اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرتی ہے جو شخص بیماری کی حالت میں دوا استعمال کرتا ہے اور اپنے رب کے حضور عاجزانہ جھکتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے شفا بخشتا ہے.پس میں اپنی جماعت کو خصوصاً اور تمام بنی نوع انسان کو عموماً یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ امراض کی تکالیف سے ، ان کے نتائج سے جو بسا اوقات موت کی شکل میں یا فالج کی شکل میں یعنی بعض دفعہ جسم کے معین حصے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں مثلاً جگر مستقل طور پر خراب ہو جاتا ہے.ان سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ دوا کے علاوہ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے.اس سلسلہ میں میں اپنے احمدی دوستوں سے بالخصوص یہ کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حسب استعداد معرفت و عرفانِ ذات وصفات باری عطا فرمایا ہے اس لئے نہ صرف خود بیماریوں سے بچنا ہے بلکہ دوسروں کو راہ راست کی طرف لانا بھی ہمارا فرض ہے اس لئے جہاں دواؤں کو استعمال کرو وہاں دواؤں پر بھروسہ بھی نہ رکھو کیونکہ دوائیں استعمال نہ کرنا خدا تعالیٰ کی ناشکری ہے اور دواؤں پر کلی بھروسہ رکھنا اللہ تعالیٰ کی توحید کے خلاف ہے.اس لئے صراط مستقیم کو اختیار کرو.دواؤں وغیرہ کو

Page 553

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۳۳ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء استعمال کر ولیکن یہ نہ سمجھو کہ بس دواؤں کے نتیجہ میں شفا حاصل ہوگی.شفا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملے گی اس لئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ اور اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کرو کہ إِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ یعنی انسان اپنی غلطی سے بیمار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحت یاب ہوتا ہے.غرض یہ توتھی علاج معالجہ کے ضمن میں مریض کی ذہنی کیفیت.اب ہم طبیب کی ذہنی کیفیت کو لیتے ہیں جو اچھی بھی ہوتی ہے اور بڑی بھی ہوتی ہے مثلاً طبیب کی بُری ذہنیت یہ ہو سکتی ہے کہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے طبیب اپنے مریض کے لئے دعا نہ کرے اور اس کی اچھی ذہنیت یہ ہے کہ وہ اپنے مریض کے لئے دعا بھی کرے لیکن دعا کے علاوہ صحیح تد بیر کرنا بھی ضروری ہے.اس وقت ہمارے ہاں مختلف قسم کی طب رائج ہیں.ایک کو ایلو پیتھی کہتے ہیں.اس کی طرح مغربی ممالک نے ڈالی ہے انہوں نے اس پر ریسرچ کر کے اور مختلف اجزاء کو ملا کر کچھ دوائیں تیار کیں اور مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ ان کی تاثیرات معلوم کیں.پھر انڈسٹری یعنی صنعت و حرفت کی ترقی کے ساتھ مختلف قسم کے اپریشن ممکن ہو گئے یا اس سلسلہ میں بعض دوائیوں کا استعمال ممکن ہو گیا مثلاً ٹیکہ لگا نا اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک انسان کوئی ایسی بار یک سی سوئی نہ بنا لیتا جس کے اندر ایسا سوراخ ہو جس کے ذریعہ دوائی مریض کے جسم میں داخل کی جاسکے.کیونکہ حقے کی نال کے ذریعہ سے تو انسانی جسم میں ٹیکہ نہیں لگایا جا سکتا.پس پانچ سوسال لے انجکشن لگانے کا سوال ہی نہ تھا یعنی اگر دوائی کی طرف توجہ ہوتی اور ہم بنا بھی لیتے تب بھی چونکہ انجکشن کا طریق معلوم نہیں تھا اس لئے اسے انسان کے جسم میں داخل نہیں کیا جا سکتا تھا.غرض جب تک صنعت و حرفت کی ترقی سے ایسے سامان نہ پیدا ہو گئے اور انجکشن کی سوئی بنانا ممکن نہ ہو گیا اس وقت تک ان دوائیوں کی طرف انسان کو تو جہ نہیں ہوئی.شروع میں تو صنعت و حرفت کا صرف یہی مطلب تھا کہ کپڑے بنا دیئے یا شکر کے کارخانے کی مشینری بنادی لیکن آپریشن کے اوزار کی فراہمی تو صنعت و حرفت کی ترقی یافتہ صورت میں ممکن تھی چنانچہ جب صنعت و حرفت نے ترقی کی اور انسان نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے فائدہ اٹھایا اور انجکشن کی سوئی اور ادویہ وغیرہ بنالیں مگر اس سلسلہ میں انسان نے دو غلطیاں کیں ایک یہ کہ سرجن یعنی جس ڈاکٹر کے ہاتھ میں اپریشن

Page 554

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۳۴ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء کرنے والا چاقو ہے اس کی ذہنیت یہ ہوگئی کہ جب بیمار اس کے پاس آتا ہے تو اسے یہ یقین نہیں ہوتا کہ مریض کو فلاں بیماری ہے اس کی انگلیوں میں کھجلی ہونے لگتی ہے وہ کہتا ہے کہ نشتر استعمال ہونا چاہیے.اس لئے اگر کسی آدمی کو مثلاً اپنڈکس کی تکلیف ہے تو ڈاکٹر کہتا ہے تم لیٹ جاؤ میں تمہارا آپریشن کرتا ہوں.تمہارا پیٹ کھولتا ہوں.اپنڈکس خراب ہوئی تب بھی نکال دوں گا اور اگر اچھی ہوئی تب بھی نکال دوں گا.کیا فرق پڑتا ہے.اسی لئے کسی زمانہ میں ڈاکٹر کہتے تھے کہ اپنڈکس بے فائدہ ہے مگر اب ڈاکٹر یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے فائدہ پیدا نہیں کی.پس اگر کوئی چیز بے فائدہ نہیں تو اپنڈکس کے بھی بعض فوائد ہیں.اب جس آدمی کی اچھی بھلی اپنڈکس نکال دی گئی اسے تو گویا اس کے فوائد سے محروم کر دیا گیا.سرجن نے شبہ میں ( یا بعض تو ویسے ہی شوق میں ) پیٹ کھولا اور دیکھا کہ اپنڈکس نہیں ہے تو سوچا کہ اب تو پیٹ کھولا ہوا ہے کیوں نہ اپنڈکس نکال کر باہر پھینک دیا جائے حالانکہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بہت سے احمدی دوست جو اپنڈکس کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں وہ مجھ سے مشورہ لیتے ہیں تو میں دعاؤں کے بعد ( اللہ تعالیٰ ہی میری طبیعت کے اندر یہ کیفیت پیدا کرتا ہے ) میں ان کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ آپریشن نہ کراؤ.چنانچہ اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے.آپریشن کے بغیر آرام آجاتا ہے.میں نے شاید پہلے بھی بتایا ہے صادقہ حید ر صاحبہ جن کے ہاں بچہ پیدا نہیں ہوتا تھا.ان کا ایک آپریشن ٹیوب کھولنے کے لئے ہوا مگر اس سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا میں جب ۶۷ ء میں دورے پر گیا تو انہوں نے مجھ سے بھی ذکر کیا کہ میں بڑی پریشان ہوں شادی کو کئی سال ہو گئے ہیں لیکن بچہ پیدا نہیں ہوا.ڈاکٹروں نے کہہ دیا ہے کہ بچہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا جب کوئی آدمی میرے سامنے یہ کہے کہ فلاں کام ناممکن ہے تو میری طبیعت بہت پریشان ہو جاتی ہے اور میری غیرت دینی جوش مارتی ہے.میں نے ان سے کہا کہ خدا تعالیٰ کے سامنے تو کوئی چیز ناممکن نہیں ہے.کہنے لگیں کہ ڈاکٹر کہتے ہیں دوبارہ آپریشن کرواؤ.میں نے کہا کہ چھ مہینے تک آپریشن نہ کرواؤ.اس کے بعد پھر مجھ سے مشورہ کر لینا.چنانچہ تین مہینے بعد اس کا خط آ گیا کہ مجھے حمل ٹھہر گیا ہے اب دیکھو ڈاکٹر جس بات کو ناممکن قرار دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل نے اسے ممکن بنا دیا حالانکہ ڈاکٹروں کی انگلیوں

Page 555

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۳۵ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء میں کھجلی ہو رہی تھی وہ انہیں کہتے تھے کہ ہم آپریشن کے لئے دوبارہ چاقو چلا دیتے ہیں.دیکھیں گے اگر ٹھیک ہوا تو رہنے دیں گے ورنہ بچہ پیدا کرنے والے نظام کو کاٹ کاٹ کر باہر پھینک دیں گے.پس انسان نے ایک تو یہ غلطی کی کہ جب جراحی کے سامان ترقی کر گئے تو عمل جراحی حد اعتدال سے آگے بڑھ گیا اور اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے جو حدود قائم کی تھیں ان کا خیال نہ رکھا گیا اور اس سے انسانوں کو آرام آنے کی بجائے مزید تکلیف پہنچی.علاج کے اس مخصوص طریق میں دوسری خرابی یہ پیدا ہوئی کہ جس طرح انہوں نے آپریشن کے اوزار مثلاً اب تو انہوں نے ایسے چاقو بنالیے ہیں جن میں بجلی کی ایک خاص طاقت کی لہر ہوتی ہے اور وہ ساتھ ساتھ شریانیں بند کرتی جاتی ہے تا کہ بلیڈنگ نہ ہو اسی طرح ادویہ بھی تیار کرلیں جو نشتر ہی کی طرح تیز اور زوداثر ہوتی ہیں مثلاً جتنی اینٹی بائیوٹک وغیرہ ادویہ ہیں یعنی پنسلین اور مائی سین وغیرہ وہ اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں.یہ ادویہ دراصل اندھی ہیں.یہ خراب اور اچھے دونوں قسم کے جراثیم مار دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کے پیٹ میں اربوں کی تعداد میں مختلف قسم کے ایسے کیڑے پیدا کئے ہیں جو انسان کے ہضم کے نظام میں اور اس کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے بہت ضروری ہیں مگر مائی سین جو اندھی ہے یہ دے کر اگر بیماری ہے تو نہ صرف بیماری کے کیڑے کو ہلاک کرتی ہے بلکہ ساتھ ہی ان کیڑوں کو بھی تباہ کر دیتی ہے جو انسان کی صحت کے لئے ضروری ہوتے ہیں اور اس طرح اس قسم کی ادویہ کے بالعموم برے اثرات ظاہر ہوتے ہیں.ہمارے اپنے گھر کا ایک چھوٹا بچہ تھا.اسے مری میں نمونیہ کی کچھ تکلیف ہوگئی تو ڈاکٹر نے اسے اتنی مقدار میں مائی سین دے دی کہ اسے خون کا کینسر ہو گیا یعنی خون کے سرخ ذرے بنے بند ہو گئے.چنانچہ وہ مائی سین کے غلط استعمال کی وجہ سے جلد ہی وفات پا گیا.ہمارے ہاں عام آدمی پڑھا ہوا نہیں ہوتا وہ دیکھتا ہے کہ ہمارے محلے میں دو تین آدمیوں کو مائی سین کے استعمال سے فائدہ ہوا ہے تو وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور بعض دفعہ ڈاکٹر کہتا بھی ہے کہ مائی سین کی ضرورت نہیں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں مائی سین کا ٹیکہ ضرورلگوانا ہے.پس ایک تو میں مریض اور اس کے لواحقین کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی انتہائی خطرناک

Page 556

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۳۶ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء دوائیں انتہائی ضرورت کے وقت استعمال ہونی چاہئیں.اس سے پہلے استعمال نہیں کرنی چاہئیں.دوسرے میں ڈاکٹروں سے بھی یہ کہوں گا کہ وہ ایسی ادویہ کا اندھا دھند استعمال نہ کرائیں.انگلستان میں کوئی انگریز ڈاکٹر کسی انگریز پر آنکھیں بند کر کے ان دواؤں کا استعمال نہیں کرتا.بعض ہمارے احمدی دوست جو بیمار تھے جب وہ انگلستان گئے اور انہوں نے وہاں ڈاکٹروں کو دکھایا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک کے ڈاکٹر بھی عجیب ہیں جو اس کثرت کے ساتھ ان دواؤں کو مریض پر استعمال کرا دیتے ہیں یہ تو بڑی مہلک ادویہ ہیں لیکن یہاں لوگ ڈاکٹروں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں چنانچہ کئی ڈاکٹروں نے مجھے بتایا ہے کہ مثلاً ملیر یا بخار کے مریض کہتے ہیں کہ کونین کا ٹیکہ لگا دیں ورنہ ان کی تسلی نہیں ہوگی.یہ طریق درست نہیں ہے.ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے عقل وفر است عطا فرمائی ہے اس لئے بیماری کے علاج سمیت ہر کام عقل وفراست سے کرنا چاہیے.کچھ دن ہوئے میری ایک پوتی جو چند مہینے کی ہے اسے بھی اسی بیماری کا شدید حملہ ہوا جو آج کل ملک میں پھیلی ہوئی ہے اسے بار بار اسہال آنے لگے.میں تو ڈاکٹر نہیں ہوں جن ڈاکٹروں نے بچی کو دیکھا انہوں نے مائی سین تجویز کی چنانچہ بچوں والی مائی سین دینی شروع کی گئی پانچ سات دن گزر گئے مگر آرام نہ آیا یہاں تک کہ نوبت دس دس منٹ کے بعد اسہال تک پہنچ گئی تو میں نے اپنی بہو سے کہا کہ دراصل اب یہ بیماری کے اسہال نہیں اب یہ دوائی کے اسہال شروع ہو گئے ہیں.اس واسطے تم اس دوائی کو چھوڑ دو.چنانچہ وہ دوائی چھڑ وادی اور اپنا ہی جو مجھے تھوڑا بہت ہو میو پیتھی کا علم ہے اس کے مطابق علاج کیا تو اسے آرام آگیا.دو تین سال کی بات ہے ہمارے ایک شاہد مبلغ مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں انہیں دیکھ کر حیران ہو گیا پہلے ان کی صحت عام طور پر بڑی اچھی اور چہرے پر رونق رہتی تھی لیکن اب جو میں نے دیکھا تو یوں لگا جیسے وہ نیم مردہ سے ہیں.میں نے ان سے کہا بات سنو! بات نہ کرنا.میں نے پوچھا کیا آج کل اینٹی بائیوٹک ادویہ کھا رہے ہو کہنے لگے ہاں میں نے کہا وہ تمہارے چہرے پر ہلاکت کے آثار چھوڑ رہی ہیں.اس لئے میں آپ کو یہ حکم دیتا ہوں کہ آج کے بعد تم اینٹی بائیوٹک ادویہ استعمال

Page 557

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۳۷ خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۷۲ء نہیں کرو گے.چنانچہ ایک ہفتہ کے بعد ان کا خط آ گیا کہ میں نے آپ کا حکم مان لیا تھا اور دوائی چھوڑ دی تھی اس سے مجھے آرام آ گیا ہے.پس اس قسم کی جتنی بھی اینٹی بائیوٹک ادویہ ہیں ان کے استعمال میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے.ہمارے ایلو پیتھی کے اطباء کو چاہیے کہ وہ مریضوں کو سوائے اس کے کہ کوئی اور چارہ نہ رہے اس قسم کی مہلک ادویہ استعمال نہ کرائیں اور نہ ہمارے مریضوں کو ان دواؤں کے استعمال پر اصرار کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے اس لئے ہمیں عقل سے کام لینا چاہیے.دوسری پرانی طب ہے اسے آئیور ویدک ، طب یونانی کہتے ہیں یا اسے اسلامی طب کہنا چاہیے کیونکہ ہمارے مسلمان اطباء نے اس پر بڑا کام کیا ہے لیکن میں نے کسی کو مسلم طب کہتے نہیں سنا.حالانکہ یہ دراصل مسلم طب ہے کیونکہ مسلمان اطباء نے اس کی ترقی و ترویج میں بڑا کام کیا ہے.ایک وقت تک اس طب نے بڑا اچھا کام کیا اور دنیا کو اس کے ذریعہ بڑا فائدہ پہنچایا.مگر بعد کے زمانہ میں فکر میں بھی ، مشاہدہ میں بھی اور عملی تجربات میں بھی تنزل رونما ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے باہر سے جو مختلف قسم کے دوسرے خیالات تھے وہ لئے اور کچھ انہوں نے اس طب یونانی سے اخذ کئے اور علم طب میں ترقی کر گئے انہوں نے ان کا زیادہ صحیح استعمال کیا یا غلط استعمال کیا اس سے اس وقت بحث نہیں تاہم میں یہ مثال دیا کرتا ہوں کہ طب یونانی کے جو مرکبات اور نسخے ہیں میرا خیال ہے کہ پچاس فیصد سے زاید نسخوں میں افیون پڑتی ہے لیکن میرے علم میں ایسا کوئی شخص نہیں حالانکہ میں نے لوگوں سے پوچھا بھی ہے اور خود غور بھی کیا ہے لیکن مجھے کوئی آدمی ایسا نہیں ملا جس نے طب یونانی یا مسلم طب کا ایک ایسا نسخہ استعمال کیا ہو جس میں افیون پڑتی ہو اور اسے افیون کھانے کی عادت پڑ گئی ہو.میرے علم میں ایسا کوئی مریض نہیں ہے لیکن یہ بات میرے علم میں ہے کہ جب ایلو پیتھی میں افیون کے مختلف ست (اجزاء ) نکالے گئے اور میرے خیال میں اس وقت تک ۲۳، ۱۲۴ جزاء بنائے جاچکے ہیں بلکہ اب تو کسی نے مجھے بتایا ہے کہ ان کی تعداد ۳۵، ۴۰ تک جا پہنچی ہے.بہر حال جب ان کو علیحدہ علیحدہ استعمال کیا گیا تو میرے علم میں ہے اور ڈاکٹروں کے علم میں بھی ہے کہ اکثر مریضوں کو افیون کھانے کی

Page 558

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۳۸ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء عادت پڑ گئی اسی لئے جو سمجھدار ڈاکٹر ہے وہ اپنے مریض کو تنبیہ کر دیتا ہے کیونکہ بعض ایسی طبائع ہوتی ہیں کہ ان کو ایک ٹیکے یا ایک خوراک سے افیون کھانے کی عادت پڑ جاتی ہے.غرض جو نقصان طب یونانی کی شکل میں افیون دینے سے نہیں ہوا تھا وہ ایلو پیتھی کی شکل میں دینے سے پیدا ہو گیا.بایں ہمہ ایلو پیتھی والوں کا یہ کہنا کہ طب یونانی ہمارے کام کی نہیں ہے یہ تو پرانا اور دقیا نوسی طریق علاج ہے.یہ طلب ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.یہ کہنا غلط ہے.لیکن انسان جب کسی مسئلہ میں مجبور ہو جاتا ہے تو پھر نئی راہیں تلاش کرنے کی طرف توجہ کرتا ہے.اس توجہ کی مثال ہمیں چین میں نظر آتی ہے.چین بھی چونکہ ایک نیا اور ترقی کرنے والا ملک ہے.اس نے بھی شروع میں ایلو پیتھی طریق علاج اختیار کیا لیکن چند سال ہوئے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہم ستر اسی کروڑ آبادی کا علاج ایلو پیتھی کے ذریعہ نہیں کر سکتے.ایک تو لوگ اتنی کثرت سے بیمار ہوتے ہیں دوسرے اس پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے.دواؤں کا مہیا کرنا اور مریض کے علاج کا خرچ اٹھا نا حکومت کے ذمہ ہے.پھر بعض ایسی بیماریاں ہیں جن کے لئے کوئی دوا نہیں ہے.چنانچہ جب انہوں نے اس مسئلہ پر غور کیا تو انہیں یہ احساس ہوا کہ یہ سمجھنا غلطی ہے کہ پرانی طب بے فائدہ ہے.اس کو بالکل چھوڑ دینا ٹھیک نہیں.بالآخر انہوں نے ایک جامع پروگرام کے ماتحت کئی لاکھ ڈاکٹر اور میڈیکل کالجوں کے طلباء کو سارے چین میں پھیلا دیا اور کہا کہ جتنے بھی بڑے بوڑھے حکیم لوگ ہیں ان سے مل کر علاج کے پرانے ٹوٹکے در یافت کرو.ویسے ہر جگہ کوئی نہ کوئی آدمی حکیم ضرور ہوتا ہے.جس کو کچھ آتا ہے وہ بھی حکیم ہے اور جس کو کچھ نہیں آتا وہ بھی حکیم ہے اس قسم کے کسی حکیم کا نسخہ بھی فائدہ دیتا ہے اور کبھی نقصان بھی دیتا ہے.بہر حال چینی ڈاکٹروں اور طالب علموں کی ٹیمیں گاؤں گاؤں میں گئیں اور ستر ستر اسی اسی سال کے بوڑھے لوگوں سے دریافت کیا کہ وہ کون سی بیماری کا کس دوائی یا جڑی بوٹی سے علاج کرتے تھے.چنانچہ انہوں نے بوڑھے لوگوں اور پرانے حکیموں کی باتوں ، ان کے تجربات اور آزمودہ جڑی بوٹیوں کے متعلق معلومات کو بڑی سنجیدگی سے نوٹ کیا اور پھر ایک جگہ اکٹھا کر کے ان پر غور کیا گیا اور پھر ان فراہم شدہ معلومات کی روشنی میں دوائیاں تیار کر کے ان پر تجربات کئے گئے

Page 559

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۳۹ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء اور اس طرح وہ ایسی دوائیں بنانے میں کامیاب ہو گئے جو ایلو پیتھی والے نہیں بنا سکے مثلاً اگر معدہ کا کینسر ہوتو ایلو پیتھی ڈاکٹر معدہ کا بیمار حصہ کاٹ دیتے ہیں اور جو صحت مند حصہ ہوتا ہے اس کو سی دیتے ہیں.خدا تعالیٰ نے معدہ میں اور انتڑیوں میں ایک حرکت پیدا کی ہے جس کے نتیجہ میں ایک تو کھانا آگے جاتا ہے اور ہضم ہوتا ہے کھانا ہضم کرنے کے لئے انتڑیوں اور معدہ میں چھوٹے چھوٹے گلینڈ ز ہوتے ہیں جن میں سے سکویشن نکلتی ہے اس کے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوسکتا.پس ایک تو یہ حرکت ہے.دوسرے خون کا دوران ہوتا ہے جو صحت کے لئے ضروری ہے.اس قسم کے آپریشن سے نظام ہضم کو بہت بڑا صدمہ پہنچتا ہے.وہ کام نہیں کرتا.معدہ اور انتڑیوں میں حرکت نہیں رہتی مگر ایلو پیتھی والے جب آپریشن کرتے ہیں تو کئی دن کھانے کو نہیں دیتے کہتے ہیں کہ جو کھانا کھاؤ گے وہ اندر جا کرسٹر جائے گا.معدہ میں چونکہ کوئی حرکت نہیں اس لئے معدہ میں پڑا رہے گا انتڑیوں میں چلا گیا تو وہاں پڑے گا اور عفونت پیدا ہو جائے گی جس سے زہر پیدا ہو جائے گا.اس لئے ڈاکٹر ایسے مریض کو کئی دن تک کھانے کو کچھ نہیں دیتے.ایک تو آپریشن کر کے کمزور کر دیتے ہیں دوسرے کھانے کو کچھ نہیں دیتے اس سے مریض اور بھی زیادہ کمزور ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مریض کئی کئی مہینوں بلکہ بعض دفعہ سالوں تک اپنی نارمل صحت حاصل نہیں کر پاتا لیکن حکومت چین نے جو معلوماتی ٹیم دیہاتوں میں بھجوائی تھی ان کے ذریعہ پرانے حکیموں سے باتیں کر کے یہ پتہ لگا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض ایسی جڑی بوٹیاں پیدا کی ہیں جن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ انتڑیوں اور معدہ کی حرکت کو معمول پر لے آتی ہیں.چنانچہ پچھلے دنوں میں نے ایک چینی رسالے میں ایک مضمون پڑھا تھا کہ چینی ڈاکٹروں نے ایک بہت ہی زیادہ بیمار آدمی کا آپریشن کیا.پیٹ کھولنے پر معدہ بہت زیادہ خراب نکلا ایک مٹھی بھر صحت مند معده ره گیا تھا.اس کو تو انہوں نے سی دیا اور جو بیمار حصہ تھا اسے کاٹ دیا اور قبل اس کے کہ وہ معدہ کے ساتھ انتڑی کو ملاتے انہوں نے ایک پلاسٹک کی ٹیوب انتڑی کے منہ پر رکھدی اور وہی نسخہ جو بڑے بوڑھے حکیموں سے حاصل کیا تھا جو دین ' جڑی بوٹیوں کے مرکب پر مشتمل تھا.ٹیوب کے ساتھ ایک خوراک اندر داخل کر دی تو چونکہ پیٹ کھلا ہوا تھا انہوں نے دیکھا کہ اسی وقت انتڑیوں

Page 560

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۴۰ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء میں حرکت پیدا ہوگئی ہے چنانچہ انہوں نے آپریشن مکمل ہونے کے دو گھنٹے بعد مریض کو نرم غذا دے دی اور پھر تین دن کے بعد کہا کہ جو مرضی کھاؤ کچھ نہیں ہوگا.ہمارے ایلو پیتھی والوں کے پاس اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے انہیں تو بس کا ٹنا اور جوڑ نا آتا ہے اس طرح وہ بیمار کو اور زیادہ بیمار کر دیتے ہیں.غرض میں بتا یہ رہا ہوں کہ دوسری طب یونانی ہے جو پہلے فائدہ دیتی رہی ہے اور اب بھی فائدہ دے سکتی ہے لیکن عقل انسانی کا استعمال ضروری ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی لئے عقل دی ہے کہ وہ اپنے نفع اور نقصان کو معلوم کر سکے.تا ہم جو احمدی طبیب ہے اس کی عقل انسانی تو نور آسمانی کا مرکب بن کر عقل اور نور آسمانی کا ایک بڑا ہی اچھا نسخہ پیش کرتی ہے.اللہ تعالیٰ دوستوں کو فر است عطا کرتا ہے.وہ دعائیں کرتے ہیں.پس ایک یہ طب یونانی ہے اس کا صحیح استعمال ہونا چاہیے عقلمندوں نے پھر اس کے ذریعہ علاج شروع کر دیا ہے.علاج کی تیسری قسم ہو میو پیتھی ہے.اس نے بھی بڑی ترقی کی ہے.غرض ایلو پیتھی طب یونانی اور ہومیو پیتھی طریق پر مریض کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اور اطباء خاص طور پر اس وقت میرے مخاطب ہیں.اس وقت یہاں جو بیماری پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ سے میں نے یہ دن بڑے فکر میں گزارے ہیں.جماعت کے بچوں اور بزرگوں کو بیمار دیکھ کر میں ان دنوں بڑا فکر مند رہا ہوں.بعض دفعہ ہر روز تین تین چار چار موصی اور موصیات کے جنازے پڑھا تا رہا ہوں اس لحاظ سے بھی یہ امر فکر پیدا کرنے والا ہے اس لئے تمام ایلو پیتھک اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر اور یونانی طبیب کل شام عصر کی نماز کے بعد مجھ سے ملیں.ہم سب بیٹھ کر سوچیں گے کہ اس بیماری کا جو ایک طرح سے ابتلاء اور امتحان ہے اس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے کس طرح مقابلہ کیا جائے.ڈاکٹروں کو تو میں علیحدہ طور پر بھی تلقین کروں گا کہ جو دوست مریض ہیں ان کے لئے دعا بھی کریں.بلا ضرورت محض اصرار مریض یا اس کے لواحقین کے کہنے پر مائی سین وغیرہ کا استعمال نہ کریں.وقت پر بیماری کو پکڑیں.مریض سے ہمدردی کریں اور ضرورت کے وقت مریض کو دیکھنے کے لئے اس کے گھر پہنچ جائیں.آج کل فضل عمر ہسپتال میں بھی ڈاکٹروں کی بہت کمی ہوگئی ہے اس لئے میں یہ

Page 561

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۴۱ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء تحریک کرنا چاہتا ہوں اور الفضل کو چاہیے کہ وہ کل ضرور شائع کر دے کہ ہمارے احمدی ڈاکٹروں میں سے ایک یا دو ڈاکٹر ایک مہینے کی چھٹی لے کر یہاں آجائیں تا کہ ربوہ میں جو دوست بیمار ہیں ہم ان کا اپنی تسلی کے مطابق علاج یعنی تدبیر والا حصہ پورا کر سکیں.جو دعا والا حصہ ہے اس کے لئے تو کسی اندرونی یا بیرونی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے.میں اور آپ سب دعا کریں گے لیکن جو تد بیر والا حصہ ہے اس میں بھی ہم نے پوری کوشش کرنی ہے اس وقت کما حقہ تد بیر نہیں ہو رہی کیونکہ ڈاکٹروں کی کمی ہے.اگر ہمارے ایک یا دو فزیشن ڈاکٹر ایک مہینے کی چھٹی لے کر یہاں آجا ئیں تو مجھے امید ہے کہ ہم بیماری پر بڑی حد تک قابو پالیں گے.ہمارے ایک اپنے ڈاکٹر مزید تجربہ حاصل کرنے کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں وہ واپس آنے والے ہیں شاید آٹھ یا دس دسمبر کو انشاء اللہ یہاں پہنچ جائیں گے.ڈاکٹر لطیف صاحب بھی اچھے خاصے کامیاب ڈاکٹر تھے اور میرا خیال ہے کہ دعائیں کرنے والے بھی تھے کیونکہ ان کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے شفا بھی رکھی تھی.وہ اپنی بعض مجبوریوں کے وجہ سے چھٹی لے کر باہر گئے تھے.انہوں نے اس سال اگست، ستمبر میں واپس آنا تھا مگر وہ اپنی بعض مجبوریوں کی وجہ سے نہیں آسکے تاہم میں نے ان کو لکھا ہے کہ وہ اپنی مجبوریوں کو چھوڑیں اور بہت جلد واپس آجائیں لیکن اس وقت چونکہ ہمیں فوری طور پر فزیشن ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت بہر حال پوری ہونی چاہیے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ہمارے احمدی ڈاکٹر صاحبان جو پاکستان میں مختلف جگہوں پر کام کر رہے ہیں.ان میں ایک یا دو ڈاکٹر ایک ایک مہینے کی رخصت لے کر ربوہ آجائیں تا کہ میری اور آپ کی فکر دور ہو سر دست جو ڈاکٹر یہاں موجود ہیں یعنی تینوں قسم کے اور ان سب کو میں اطباء یعنی ڈاکٹر کہتا ہوں اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ آپ نے ڈاکٹر کہا تھا اور میں تو ہومیو پیتھ ہوں یا طبیب ہوں اس لئے میٹنگ میں شامل نہیں ہوا.میری مراد اس وقت وہ سب دوست ہیں جو یہاں طب کا کام کرتے ہیں یعنی جو پیشہ ور طبیب ہیں خواہ وہ ہو میو پیتھک کے ڈاکٹر ہوں یا ایلو پیتھک کے یاطب یونانی یا مسلم طب کے حکیم اور طبیب ہوں.وہ سب کل عصر کی نماز کے بعد میٹنگ میں شامل ہوں تا کہ ہم مشورہ کریں اور پھر سارے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی مناسب عملی اقدام کریں.

Page 562

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۴۲ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء میں نے آپ کو ایک تحریک کی تھی کہ پانی ابال کر پیا کریں.اگر اس طرح پانی بدمزہ لگے تو سبز چائے کی پتی بیچ میں ڈال دینی چاہیے.دوست اس پر ضرور عمل کریں.معدہ اور انتڑیوں کے لئے ابلا ہوا پانی بہت مفید ہے.میں مختصراً ایک اور بات بھی کہنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجلسِ صحت کا کام کچھ ست پڑ گیا ہے گرمیوں میں تو ست ہونا ہی تھا کیونکہ اکثر طلباء موسم گرما میں ربوہ سے باہر چلے جاتے ہیں.پچھلا وقت تو گزر گیا اب اس کام میں چستی پیدا ہونی چاہیے.مجلس صحت کا ایک کام ربوہ میں شجر کاری بھی ہے.فروری میں درخت لگانے کا موسم آئے گا اگر اس وقت تک ہم اسی طرح بیٹھے رہے کہ وقت پر کام کریں گے تو پھر جس طرح ہم پہلے درخت نہیں لگا سکے اسی طرح اب بھی نہیں لگا سکیں گے اس واسطے یہ کام ابھی سے شروع کر دینا چاہیے.اس سلسلہ میں ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ کہاں کہاں درخت لگ سکتے ہیں وہاں درخت لگانے کا انتظام ہونا چاہیے میں سمجھتا ہوں کہ ہم ربوہ میں پندرہ میں ہزار درخت لگا سکتے ہیں جس سے شہر کی شکل بدل سکتی ہے.پھر درختوں کی حفاظت کی بھی ضرورت ہے.درختوں کی حفاظت کی ذمہ داری میں اس طبقے پر ڈالتا ہوں جس سے درختوں کو سب سے زیادہ خطرہ رہتا ہے اور اس سے میری مراد بچے ہیں.اطفال الاحمدیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ چھوٹے درختوں کی حفاظت کریں اور اپنے ان بھائیوں کا بھی خیال رکھیں جو ابھی چھوٹے ہیں اور اطفال الاحمدیہ کی عمر کو نہیں پہنچے.ایسے چھوٹے بچے بھی درخت نہ توڑیں.دراصل ( درخت کے لئے دو حالتیں خطرناک ہوتی ہیں.ایک جب وہ بالکل چھوٹا ہوتا ہے.اس حالت میں بچے بھی اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں.دوسری وہ حالت ہے جب درخت بڑا ہو جاتا ہے اس کی ہری بھری ٹہنیاں نکل آتی ہیں اس وقت بعض بیوقوف حریص اور دنیا دار آدمی دو چار آنے کے فائدہ کے لئے اس کی ٹہنیوں کو کاٹ دیتے ہیں.ان ہر دو حالتوں میں درختوں کی حفاظت از بس ضروری ہے.جب کبھی ایسا آدمی درخت کاٹ رہا ہو دوسرے آدمی کو اس کے پاس سے نوٹس لئے بغیر گزر نہیں جانا چاہیے بلکہ اسے ٹوکنا چاہیے اور اس سے یہ پوچھنا چاہیے کہ وہ کس کے حکم سے درخت کاٹ رہا ہے بعض دفعہ خود میں نے دیکھا ہے جب پوچھا کہ کیوں درخت کاٹ

Page 563

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۴۳ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء رہے ہو؟ تو بولا کہ جی بس کاٹ رہے ہیں.اب دیکھو ہم نے تو ۲۰، ۲۵ سالہ کوشش کے نتیجہ میں یہاں کچھ تھوڑے بہت درخت لگائے ہیں اور اس قسم کے لوگ آرام سے آ کر بغیر اجازت بغیر کسی جائز وجہ اور بغیر جائز حق کے درخت کاٹنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں جی بکری کے لئے چارہ یا چائے کے لئے ایندھن کی ضرورت ہے.اس قسم کی ضرورت ربوہ کے درختوں سے پوری نہیں کرنی چاہیے.پس ربوہ کے ہر مکین کا یہ فرض ہے کہ اسے جہاں بھی نظر آئے کہ کوئی شخص درخت کاٹ رہا ہے تو وہ اس کے پاس چلا جائے اور اسے درخت کاٹنے سے روک دے.یہ تو تھی وہ ذمہ داری جوان درختوں کی حفاظت کے لئے ہے جو پہلے سے موجود ہیں جو نئے درخت لگائے جائیں گے ان کی حفاظت کی ذمہ داری اطفال الاحمدیہ پر ہے.سوائے اس کے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق دس فیصد درخت مرجاتے ہیں اور بڑھتے نہیں انسانی غلطی یالا پرواہی کے نتیجہ میں ایک درخت بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے.سارے چھوٹے اور بڑے بچے درختوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں.مجلس صحت کو چاہیے کہ ان کی ٹولیاں بنا کر ہر ٹولی کے ذمہ لگائیں کہ مثلاً انہوں نے فلاں جگہ کے اتنے درختوں کی حفاظت کرنی ہے.دوسرے صفائی وغیرہ کا کام ہے ورزش کے لئے میدان ٹھیک کرنے کا کام ہے.مجلس صحت کی طرف سے مجھے دیر سے کوئی رپورٹ نہیں ملی.شاید ہمارے چوہدری بشیر احمد صاحب بیمار ہو گئے ہیں یالا پرواہ ہو گئے ہیں.یہ لا پرواہی بھی ایک قسم کی بیماری ہی ہے بہر حال مجلس صحت کو پوری طرح بیدار رہ کر اور پورے زور سے عمل کرنے والی ایک فعال مجلس بننا چاہیے.سارار بوہ اس کا ممبر ہے.میں نے یہ ہدایت کی تھی کہ جلسہ سالانہ سے پہلے سیر کا ایک اور مقابلہ کرایا جائے جس میں ربوہ کا ہر مکین یعنی مرد شامل ہو اور اس کے لئے اخبار کے ذریعہ بار بار اعلان کیا جائے.سیر کا مقابلہ تو آج ہو گیا ہے الْحَمدُ لِلهِ.یہ پتہ نہیں کہ کتنے دوست اس میں شامل ہوئے ہیں تاہم یہ اصول ہمیشہ یادرکھنا چاہیے کہ کسی کام کو پوری طرح کامیاب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بار بار یاد دہانی کرائی جائے اور اس طرح ایک بیداری پیدا کر دی جائے جو اصل کامیابی کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہے.اَلْحَمدُ لِلہ کچھ کام تو ہو گیا ہے لیکن جلسہ سالانہ تک اور بہت

Page 564

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۴۴ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء کام کرنے والے ہیں اس لئے مجلس صحت کو اب پوری طرح بیدار رہنا چاہیے.درختوں کے متعلق میں ایک بار پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ریل اور سڑک پر بھی دو رویہ درخت ہونے چاہئیں.علاوہ ازیں اور کئی جگہیں بیکار پڑی ہوئی ہیں مثلاً ہمارا جلسہ گاہ ہے اس کی حدود میں بالکل آخر میں دو دو درختوں کی ایک قطار ہونی چاہیے.علاوہ اجتماعی فوائد کے باہر سے آنے والوں کو ان سے بڑے فوائد حاصل ہوتے ہیں مثلاً گرمیوں میں اگر کوئی دوست باہر کے گاؤں سے گھوڑی یا بچھیری پر سوار ہو کر نماز پڑھنے کے لئے آئے تو وہ اپنے جانور کو درخت کے ساتھ باندھ دے گا یا اگر اس کے ساتھ کوئی غیر از جماعت دوست ہے تو وہ وہاں آرام کر سکے گا اگر کوئی عورت ہے جو ایسی حالت میں ہے کہ نماز نہیں پڑھ سکتی تو وہ درخت کے نیچے بیٹھ جائے گی.اس وقت آپ نے کوئی ایسی جگہ نہیں بنائی جہاں آدمی آرام کر سکے.غرض درختوں کے بے شمار فوائد ہیں یہ انسان کے ہزاروں کام آتے ہیں اس لئے نئے اور پرانے درختوں کی حفاظت از بس ضروری ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سایہ دار اور پھلدار درختوں کے کاٹنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ قرآن کریم نے بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے چنانچہ ایک موقع پر جنگ کے دوران انسان کی جان کی حفاظت کے لئے نہیں ! بلکہ ایک مسلمان کی جان کی حفاظت کے لئے (جس کی قیمت زیادہ ہے ) غالباً نو درخت کاٹنے پڑے تھے جس پر قرآنی وحی نازل ہوئی کہ یہ درخت ہمارے حکم سے کاٹے گئے ہیں.غرض اتنی چھوٹی سی استثنائی صورت کا ذکر حکمت سے خالی نہیں ہے آخر نو درخت ہیں کیا چیز ؟ لیکن چونکہ اُمت مسلمہ کو یہ سبق دینا مقصود تھا کہ اتنی اہم ضرورت کے لئے نو درخت کاٹنے پر بھی اللہ کا الہام نازل ہوا.گو اس طرح آئندہ کے لئے بوقت ضرورت درخت کاٹنے کی اجازت تو مل گئی لیکن اس سے بالواسطہ طور پر درخت خواہ وہ سایہ دار ہوں یا پھلدار ہوں ان کے نہ کاٹنے بلکہ نئے درخت لگانے اور ان کی حفاظت کرنے کی تاکید کی گئی ہے میرے دل میں یہ شدید خواہش ہے کہ ہمارا ر بوہ ایک باغ بن جانا چاہیے.آخر یہ افسوس ناک تفاوت اور اس کو دور کرنے کا خیال ہمارے پیش نظر کیوں نہیں رہتا کہ ہمارے جو بزرگ اس دنیا سے چلے گئے.ان کی جو ابدی رہائش گاہ ہے اس کو تو ہم نے

Page 565

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۴۵ خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۷۲ء باغ بناد یا مثلاً قادیان کا بہشتی مقبرہ ہے یہاں ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں بھی درخت نکل رہے ہیں.مگر جو زندوں کی رہائش گاہیں ہیں ان کو ہم نے نظر انداز کر رکھا ہے حالانکہ اس دنیا میں تو زندوں کی رہائش گاہوں کی طرف بھی خاطر خواہ توجہ ہونی چاہیے تھی.ابدی رہائش گاہوں میں درختوں اور پھولوں کے اپنے فوائد ہیں اس لئے یہ نہ ہو کہ کل کوئی لکڑ ہارا ہمارے بہشتی مقبرہ میں سے درخت کاٹنے شروع کر دے.وہاں بھی درخت ہوں گے اور پھول اُگیں گے اور ماحول خوش نما اور خوشگوار ہوگا کیونکہ باہر سے جو لوگ آتے ہیں (جن میں بعض غیر از جماعت دوست بھی ہوتے ہیں ) ان کے دل پر اس کا بڑا اثر ہوتا ہے.وہ دیکھتے ہیں قبروں کی سیدھی قطاریں بنی ہوئی ہیں درخت لگے ہوئے ہیں پھول اُگے ہوئے ہیں صفائی ہے خاموشی ہے اور فضا پر سکون ہے اور دعا کرنے کی کیفیت پیدا کرنے والا سماں ہے چنانچہ جو لوگ احمدی نہیں ہوتے وہ بھی خاص طور پر محسوس کرتے ہیں کہ واقعی یہ جگہ بہشت کا نمونہ ہے.میں چاہتا ہوں کہ ربوہ کا ہر گھر بھی اسی طرح بہشت کا نمونہ بن جائے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تو فیق ہی سے یہ ہوسکتا ہے.بہر حال مجلس صحت کو اب زیادہ چوکس ہو کر کام شروع کر دینا چاہیے.پہلی سٹیج میں سے ہم گزر گئے ہیں ایک سیڑھی ہم چڑھ گئے ہیں.دوسری سیڑھی پر ہم چڑھ رہے ہیں مجلس کے کام کرنے کا یہی وقت ہے.بہت سارے کام ایسے ہیں جو سردیوں میں ہو سکتے ہیں گرمیوں میں ان کا ہونا بڑا مشکل ہے دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کاموں کے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کماحقہ توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۲۴ / جنوری ۱۹۷۳ء صفحه ۲ تا ۸)

Page 566

Page 567

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۴۷ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء ضروری ہے کہ ہر احمدی مرد اور عورت کے خداداد قومی کی پوری طرح نشو ونما ہو خطبه جمعه فرمودہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گذشتہ جمعہ میں میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہفتہ کے دن شام کو عصر کی نماز کے بعد ر بوہ میں کام کرنے والے پیشہ ور اطباء اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر وغیرہ مجھے ملیں.اندازہ سے زیادہ ان اطباء کی تعداد تھی اور جو کام اس دن ان کے سپرد کیا گیا تھا وہ تو انہوں نے تندہی سے کیا.میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ سارے ربوہ کا جائزہ لیں کہ ربوہ میں کتنے دوست مریض ہیں اور کس قسم کے مرض میں مبتلا ہیں.چنانچہ اس ابتدائی رپورٹ کیلئے وہ مختلف وفود کی شکل میں کام کرتے رہے ممکن ہے بعض گھر رہ گئے ہوں لیکن انہوں نے حتی المقدور کوشش کی کہ ہر گھر پر پہنچیں اور مطلوبہ معلومات حاصل کریں.چنانچہ میرے پاس ان کی جور پورٹ آئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دنوں ربوہ میں ۱۶۳۲ مریض تھے جن میں سے ۹۰۳ انفلوئنزا کے مریض اور ۱۳۹ ملیریا کے مریض اور ۶۳ پیچش کے اور ۵۲۷ دیگر مختلف امراض میں مبتلا تھے.تاہم بہت سے انفلوئنزا کے مریض صحت یاب ہو چکے تھے.الحمد للہ اس رپورٹ سے جو چیز نمایاں طور پر میرے سامنے آئی اور میرے لئے پریشانی کا باعث بنی وہ یہ ہے کہ ان کی رپورٹ کے مطابق بہت سے ایسے مریض

Page 568

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۴۸ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء ہیں اور تھے کہ جنہیں علاج نصیب نہیں ہوا.بعض مریض ایسے تھے کہ جن کے پاس ڈاکٹر بوجہ دُور ہونے کے جانہیں سکے اور ان کے خیال کے مطابق ( گو یہ ماننے والی بات نہیں لیکن بہر حال ان کی رپورٹ ہے کہ ) بعض ایسے مریض بھی تھے کہ جو اپنی غربت کی وجہ سے علاج نہیں کروا سکے..ہم نے محلہ وارصدر صاحبان اور ان کی مجالس عاملہ کا انتظام کیا ہوا ہے.اور ایک صد ر عمومی ہیں یہ انکے فرائض میں سے ہے کہ وہ محلہ کے رہنے والوں کی ضرورتوں کا خیال رکھیں اور ایک بڑی ضرورت (احساس کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں سب سے بڑی ضرورت ) یہ ہے کہ کسی گھر میں اگر کوئی بیمار ہے تو اس کا علاج تسلی بخش طور پر ہونا چاہیے.خصوصاًہمارے ربوہ کے وہ محلے جو ربوہ کی مشرقی سرحدوں پر ہیں.ان کے متعلق یہ رپورٹ ہے کہ وہ اپنا علاج نہیں کروا سکتے مثلاً الف محلہ جو پہاڑیوں کے دامن میں ہے اور دار العلوم میں تو ہمارے غریبانہ معیار کے مطابق اکثر کھاتے پیتے لوگ ہیں.تاہم الف محلہ کچھ غریب محلہ ہے.میں نے مجلس صحت کے کام کے معائنہ کے لئے بھی ان محلوں کو دیکھا ہے.الف محلے میں پانی کھارا ہے جو صحت کے لیے اچھا نہیں.جس دن میں نے معائنہ کیا اُس دن ہنسی ہنسی میں اور مُسکراتے ہوئے میں نے ان کے دل کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے لیے پانی کا جلد انتظام ہونا چاہیے.وہیں باتوں باتوں میں دو چیزیں میرے ذہن میں آئیں.ایک کا تو میں نے وہاں اظہار کیا تھا کہ جو ساتھ کی پہاڑیاں ہیں اُن میں بعض ایسی پہاڑیاں بھی ہیں جہاں بارش کا پانی اکٹھا ہو کر جب نیچے بہتا ہے تو بعض دفعہ نقصان بھی پہنچتا ہے.میں نے کہا تھا ایسی جگہ کا سروے کر کے مجھے بتاؤ تا کہ وہاں بند باندھ دیا جائے جس میں بارش کا پانی اکٹھا ہو جائے گا اس بند کی وجہ سے پانی نیچے جذب ہوگا جس کے نتیجہ میں اس محلہ کے نلکوں کا پانی اچھا ہو جائے گا.دوسرے جو پانی اکٹھا ہو کر بہتا ہے اور نقصان پہنچاتا ہے.اس سے ایک حد تک حفاظت بھی ہو جائے گی اور پھر وہاں جو کھلی جگہیں ہیں وہاں درخت وغیرہ بھی کوئی نہیں.کئی لوگوں نے اپنے گھروں میں تو درخت لگا رکھے ہیں لیکن باہر سڑکوں اور کھلی جگہوں پر درخت نہیں ہیں حالانکہ درخت صحت کے لئے ضروری ہیں.

Page 569

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۴۹ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو برس پہلے درخت لگانے پر اُس وقت زور دیا تھا جب کہ ابھی سائنس نے ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس کی دریافت نہیں کی تھی.درخت آکسیجن گیس جو ہماری ضرورت کی چیز ہے اُس کو دن کے وقت باہر نکالتا ہے اور جو ہماری ضرورت کی گیس نہیں یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ اس کو وہ حاصل کرتا ہے.اسکے علاوہ صحت قائم رکھنے کے لئے بہت سارے کام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے درختوں کے سپرد کئے ہوئے ہیں مثلاً یوکلپٹس کا درخت ہے.ملیریا کو دور کرنے کے لئے ، میرے اندازے کے مطابق یہ اس سے زیادہ کام کرتا ہے جتنا ہماری حکومت کا محکمہ انسداد ملیر یا کام کرتا رہا ہے.یہ مچھر مارتا ہے اور اس کے جو پتے ہیں ان سے تیل نکالتے ہیں جو نزلے اور انفلوئنزا کی بیماریوں کے علاج کیلئے مختلف شکلوں میں استعمال ہوتا ہے.ہومیو پیتھی کی شکل میں بھی اور ایلو پیتھی کی شکل میں بھی.طب یونانی کے متعلق تو مجھے علم نہیں کہ وہ اس کا استعمال کرتے ہیں یا نہیں.میرا خیال ہے وہ بھی اب اس کا استعمال کرنے لگ گئے ہوں گے.غرض یہ بڑا مفید درخت ہے.اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یه کلر یعنی شور (جور بوہ میں پہلے زیادہ تھا اور اب بھی کہیں کہیں نظر آیا کرتا ہے ) اس کی غذا ہے.دوسرے اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ نے اس کو یہ عقل دی ہے اور اسے یہ الہام کیا ہے کہ اگر نچلی زمین سخت ہو اور اسکی جڑیں نیچے زمین میں نہ جاسکیں تو اس کو کہا ہے کہ اپنی صحت مند زندگی کیلئے اپنی جڑوں کو سطح زمین کے اوپر پھلا دو حالا نکہ عام درخت ایسا نہیں کرتے اور اسی لئے بعض لوگوں نے ایک عام اصول بنایا ہوا ہے کہ درخت جتنا بلند ہو گا اتنی ہی اس کی جڑ نیچے زمین میں جاتی ہے یہ بھی صحیح ہے لیکن اگر یوکلپٹس کو اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو یہ ربوہ میں نہ لگ سکتا.میں نے کالج میں شروع میں کئی قسم کے درخت لگوائے تھے اکثر مر گئے جو ان میں سے بچے ان میں اکثر یوکلپٹس کے پودے تھے.میں نے پھر ایک وقت میں مشاہدہ کیا کہ یہ درخت جڑیں گہرائی میں لے جانے کی بجائے سطح زمین پر جڑیں پھیلا دیتا ہے اور ہمارا یہ بھی مشاہدہ تھا کہ اس علاقے میں خصوصاً اور ربوہ میں عموماً ہماری زمین میں ۲ ، ۳ فٹ کے بعد ایک تہہ آتی ہے جو بڑی سخت ہوتی ہے اور بعض جگہ وہ

Page 570

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء دو فٹ کی اور بعض جگہ چارفٹ کی ہے.پھر دس بارہ فٹ کے بعد ایک اور تہہ آتی ہے اور وہ بھی بڑی سخت ہوتی ہے.اکثر دوست جنہوں نے درخت لگائے اور انہیں اللہ تعالیٰ نے مشاہدہ کی توفیق اور طاقت بخشی ہے انہوں نے دیکھا ہوگا کہ چنگا بھلا درخت تھا صبح کو اٹھے تو وہ مرجھایا ہوا تھا.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب تک اس کی جڑیں نیچے جا کر اپنی غذا لیتی ہیں اور اس کو کوئی صدمہ نہیں پہنچتا اسے طبعی نشو و نما ملتی رہتی ہے اور جس وقت رات کے کسی حصہ میں اس کی جڑوں نے سخت زمین کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی لیکن داخل نہ ہو سکیں تو جس طرح انسانوں کا Heart Fail (ہارٹ فیل ) ہو جاتا ہے درختوں کا بھی فیل ہو جاتا ہے یعنی گو اس کا دل انسان کی طرح تو نہیں ہوتا لیکن اُسے ایک ایسا صدمہ پہنچتا ہے کہ اس کی زندگی صدمہ کو برداشت نہیں کر سکتی اور درخت مرجاتا ہے.میں نے خود یہ مشاہدہ کیا ہے.ایک درخت رات کو ٹھیک تھا.صبح دیکھا تو مرا ہوا تھا.پس یوکلپٹس ایسے درختوں میں سے نہیں.وہ اس صدمہ کو سہہ بھی لیتا ہے اور پھر اس کی جڑیں اگر نیچے زمین سخت ہو تو او پر پھیلنے لگ جاتی ہیں میں نے شروع شروع میں کالج میں درخت لگوائے ایک درخت دوسرے تیسرے سال میں کوئی ۲۰٫۲۵ فٹ بڑا ہوا تو پاس ہی ایک جگہ خالی پڑی تھی مجھے خیال آیا کہ وہاں درخت لگوا دوں وہاں درخت لگوانے کے لیے گڑھا کھدوایا تو یوکلیپٹس کی جڑیں وہاں تک پہنچی ہوئی تھیں کیونکہ وہ جگہ ۲۵ فٹ کے اسی دائرہ کے اندر تھی جس میں یوکلپٹس بھی لگا ہوا تھا یہ شور اور کلر کو کھاتا ہے.میں نے خود دیکھا ہے کہ بعض دفعہ اس کے پتوں کو ہاتھ لگا کر دیکھیں تو شور کے باریک باریک ذرّے پتوں کے اوپر جمے ہوئے ہوتے ہیں.وہ شور کھاتا ہے.کچھ ہضم کر لیتا ہے اور کچھ باہر نکال دیتا ہے جو باہر پتوں پر بار یک بار یک ذرّوں کی شکل میں جم جاتا ہے پس کلر ایک لحاظ سے یوکلپٹس کی غذا بھی ہے اور یہ اسے دور بھی کرتا ہے اس لئے ربوہ میں جو خراب زمین ہے اس میں یو کلیپٹس کا درخت بڑا مفید ثابت ہوتا ہے.بہاولپور کی طرف ایک بہت بڑا علاقہ تھا جہاں کوئی درخت نہیں اگتا تھا.دس پندرہ سال پہلے کی بات ہے اس وقت کی حکومت نے مشورہ کے لئے آسٹریلیا سے ماہرین منگوائے اور لاکھوں روپیہ ان پر خرچ

Page 571

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۵۱ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء کیا.وہ یہاں چھ مہینے یا سال رہے اور ہمیں لاکھ روپیہ خرچ کر دیا اور دوسطروں میں اپنی رپورٹ لکھ کر چلے گئے کہ یہاں یوکلپٹس کے سوا اور کوئی درخت نہیں لگ سکتا.انہی دنوں محکمہ زراعت کے ایک بڑے افسر جو میرے واقف تھے وہ مجھے ملنے کے لیے آئے تو میں نے چونکہ یوکلپٹس کے متعلق تجربہ کیا ہوا تھا میں نے اُن سے کہا کہ آپ نے خواہ مخواہ آسٹریلیا والوں کو تکلیف دی.مجھ سے پوچھ لیتے کیونکہ میرا یہی مشاہدہ ہے کہ جو حالات انہوں نے بتائے اُن میں ایسی جگہوں پر یو کلیپٹس ہی لگ سکتا ہے اور کوئی درخت پورا صحت مند نہیں رہ سکتا.پس جہاں تک الف محلے کی زمین کا تعلق ہے ( بعض دوسرے محلوں کی زمین بھی اسی قسم کی ہے ) اس میں یوکلپٹس کے درخت لگنے چاہئیں اگر اس محلے کے مکینوں کی صحت کو ہم نے بحال رکھنا ہے اور ان کو قومی امین بنانے کی کوشش کرنی ہے تو پھر ہماری یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کی صحت ایسی ہو جس کا قرآن نے بڑے حسین پیرا یہ میں دو لفظوں میں ذکر فرمایا ہے کہ جس نے کام کرنا ہو اور کامیاب ہونا ہوا سے قوی بھی ہونا چاہیے اور امین بھی ہونا چاہیے.پس اگر ہم نے یہ امید رکھنی ہو کہ ہر احمدی اس عظیم ذمہ داری کو اٹھانے اور نباہنے کے قابل ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی خاطر اس کے کندھوں پر ڈالی ہے تو یہ امید تبھی پوری ہو سکتی ہے کہ جب جماعت اجتماعی رنگ میں اور ہر احمدی کو انفرادی طور پر جتنی اللہ تعالیٰ نے طاقت اور قوت بخشی ہے اس کے مطابق اس کی انتہائی نشوونما ہو.اس وقت انسان پر انتہائی بوجھ ڈال دیا گیا ہے.ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا کوئی کھیل تو نہیں ساری دنیا میں کسی مذہب کو غالب کرنا یہ صرف مسلمان پر فرض ہوا کیونکہ پہلے مذاہب تو ساری دنیا کے لیے تھے ہی نہیں.چھوٹے چھوٹے شہروں کے لیے پھر علاقوں کے لئے اور پھر ملکوں کے لئے انبیاء آئے جیسے جیسے حالات بدلتے رہے اللہ تعالیٰ کی حکمت نے جو تقاضہ کیا وہ اسے پورا کرتے رہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام سے پہلے کوئی ایسی جماعت یا گروہ یا قوم نہیں گزری کہ جس کی ذمہ داری ہو کہ وہ مذہب کو ساری دنیا میں پھیلائے اور غالب کرے یہ ذمہ داری اُمت مسلمہ پر پہلی اور آخری دفعہ ڈالی گئی اور اسی لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں جو بنی نوع انسان کو بلند تر رفعتوں تک لے گئے.پس ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ ساری دنیا

Page 572

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۵۲ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء میں اسلام کو غالب کریں.جس قوم کی اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اس کے افراد کیا چھوٹے کیا بڑے کیا مرد اور کیا عور تیں صحت کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھے ہونے چاہئیں.پس اس محلے کے متعلق ایک تو میں نے یہ ہدایت کی ہے کہ وہاں تالاب بنیں گے.اس اور اس طرح کے دوسرے کا موں کو ہم سب نے مل کر کرنا ہے بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جماعت ہمارے لئے فلاں چیز بناوے.یہ بات غلط ہے.تمہیں ہم نے اپاہج تو نہیں بنانا اسی طرح جماعتی تنظیم کی طرف سے اگر کہ دیا جائے کہ ہر محلہ خود کام کرے ہمیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے تو یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ جب میں نے یہ کہا تھا کہ میں اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں تو اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے.پس جو بات میں نے الف محلے کے دوستوں سے نہیں کہی تھی وہ اب میں سمجھتا ہوں کہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے.میں نے سوچا تھا کہ اب پانی نکالنے والے بڑے اچھے پمپ پاکستان میں بھی بننے لگ گئے ہیں بیکو نے مونو بلاک کی شکل میں بڑے اچھے پمپ بنالئے ہیں جو اچھی خاصی مقدار میں پانی باہر نکالتے ہیں ابھی پیچھے ہمارے بچوں کو زمین کے لئے پمپ کی ضرورت تھی انہوں نے سات انچ سکشن اور چھ انچ ڈلیوری والا پمپ ۲۵۰۰ روپے میں خریدا ہے میرا خیال ہے کہ ہم مشورہ کریں گے اور جائزہ لیں گے.اگر دو سکشن اور دو ڈلیوری کا مونو بلاک بنتا ہو تو یہ بڑا Efficient (ایفی شینٹ ) ہوتا ہے.یہ گیارہ سو روپے میں آجائے گا میرے ذہن میں یہ تھا کہ جب وہاں پانی کے لیے کافی مقدار میں انتظام ہو جائے اورسارے محلے کوسرسبز بنانے کے لئے جتنی محنت وہ محلہ کر سکتا ہے وہ تو ان سے لی جائے جتنی محنت دوسرے بھائی وہاں پہنچ کر وقار عمل کے ذریعہ کر سکتے ہیں وہ کریں تالاب بن جائے پانی کو محفوظ کر لیں پانی کی زیادتی ہو جائے تو نلکوں کے پانی میٹھے ہو جائیں گے اور پھر اگر چہ وہ غریب محلہ ہے لیکن وہاں کے دوست اپنے حالات کے مطابق پانی کے پمپ کے لئے پچاس روپے جمع کر سکتے ہوں تو پچاس روپے ان کو ضرور دینے چاہئیں اور اس میں سے جتنا باقی رہ جائے گا وہ پھر جماعت کا کام ہے.اس کا ہم انتظام کر دیں گے وہاں تو ایک پمپ کی ضرورت ہے اور اسی طرح ابھی تک جو میرے علم میں

Page 573

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۵۳ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء بات آئی ہے ( بعض جگہوں پر تو میں ابھی نہیں جا سکا ) ہمارا دار العلوم کالج اور ربوہ کے درمیان جو محلہ ہے وہ بڑا آباد ہو گیا ہے وہاں بھی نلکوں کا پانی ہے لیکن کہیں اچھا اور کہیں خراب ہے اگر اچھا پانی مل جائے تو ایک پمپ وہاں بھی لگانا پڑے گا کیونکہ وہاں پر کافی کھلی جگہ موجود ہے اور اس محلہ کو بھی سرسبز بنا دیا جائے اگر صحتیں اچھی رکھتی ہیں تو ہمیں ہر محلے کو ایسا بنا دینا چاہیے کہ دوسرے لوگ یہ کہیں کہ باغ زیادہ ہے اور آبادی کم ہے ( درختوں کے اندر مکانات چھپ جاتے ہیں ) تا کہ ہماری اور ہمارے بچوں کی صحت ٹھیک رہے.جہاں تک الف محلہ کا تعلق ہے بہت سارے دوست دُوری کی وجہ سے ہسپتال پہنچ ہی نہیں سکے کئی ایسے خاندان ہیں جن کے مرد باہر کما رہے ہیں صرف ان کے بیوی بچے یہاں ہیں ایسے حالات ہو سکتے ہیں.یہ محلہ کے پریزیڈنٹ کا فرض تھا کہ یا خود انتظام کرتا یا ہمیں بتا تا اور ہم انتظام کرتے بہر حال اس کا انتظام ہونا چاہیے اس کے لئے محلے کی مجلس عاملہ سر جوڑے اور سوچے کہ کیوں کوئی ایک خاندان بھی ایسا رہا ہے جس کے بیمار افراد کا علاج نہیں ہو سکا اور یہ ایک بڑی غلط بات ہے کہ دوست باہم مشورہ نہیں کرتے مشورہ کر نا فرض ہے.مشورہ لینے کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے اس کے لئے اسلام نے دنیا کے طریقوں سے ایک بہتر طریقہ بتایا ہے لیکن مشورہ کرنا افضل قرار دیا ہے.اس لئے الف محلے کی مجلس عاملہ کو چاہیے کہ سارے محلے کو اور سارے محلے میں جتنی مسجدیں ہیں ( بڑا پھیلا ہوا محلہ ہے میرے خیال میں کم از کم وہاں ۳ مسجد میں ہیں ) ہر مسجد میں قریب کے دوستوں کو بلا کر پوچھیں کیوں تمہارا علاج نہیں ہوسکا؟ کیا طریقہ اختیار کیا جائے اور پھر وہ اپنی رپورٹ سارے ربوہ کی جو مجلس عاملہ ہے جس کا صدرصد رعمومی کہلاتا ہے اس مجلس میں وہ پیش ہو پھر وہ سوچیں پھر اسی طرح دوسرے محلوں کا جائزہ لیں.جانتے بوجھتے ہوئے بعض خاندانوں میں کسی مریض کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.صدر عمومی کی مجموعی رپورٹ آنے پر پھر ہم خود بھی غور کریں گے یا ہم کسی ڈاکٹر کی ڈیوٹی لگائیں گے کہ وہ ہر روز یا ضرورت کے مطابق دوسرے دن یا ہفتہ میں دو بار یا ہفتہ میں ایک بار مقررہ وقت پر مریض کو دیکھنے کے لیے جایا کرے اور ان سے ملے اور ان کا علاج کیا کرے.

Page 574

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۵۴ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء آج ہمارے ملک میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہر مریض کو میسر آہی نہیں سکتا کیونکہ ملک کی آبادی زیادہ ہے اور ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی تعداد بہت تھوڑی ہے اس مسئلے کو ہمارا ملک کس طرح حل کرے گا ؟ یہ تو وہ جانیں جنہیں اس وقت سیاسی اقتدار حاصل ہے لیکن ہمیں اپنا تو کوئی نہ کوئی طریق معلوم کرنا ہی چاہیے.چین میں ہمارے ملک کی نسبت یہ مسئلہ زیادہ اہمیت کا حامل تھا.ستر کروڑ کی آبادی اور ایم بی بی ایس معیار کا ڈاکٹر اس سے بھی تھوڑی تعداد میں تھا جتنا اس وقت پاکستان میں ہے.اس واسطے انہوں نے اپنے لئے ایک طریق ایجاد کیا.میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی نقل کرنی چاہیے میں یہ کہتا ہوں کہ تم عملی قدم اٹھاؤ اور جو تمہارا مسئلہ ہے اپنے حالات کے مطابق اس کوحل کرو.اس کو اسلام کی اصطلاح میں عمل صالح کہتے ہیں یعنی ایسا نیک کام جو حالات کے مطابق اور ضرورت کے مطابق کیا جاتا ہے انہوں نے یعنی چینیوں نے شروع میں یہ کہا (ابھی تک ان کا یہ منصوبہ چل رہا ہے ) کہ دسویں بلکہ آٹھویں پاس ذہین طالب علموں کو تین مہینے کا کورس یا چھ مہینے کا کورس پڑھا کر ایک قسم کا ڈاکٹر بنا دیا اور پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ کیا کہ ایک علاقہ منتخب کیا اور وہاں ماہرین دس دس پندرہ پندرہ دن کے لئے بھیجے اور کہا پتہ کرو بیماریاں یہاں کیا ہیں؟ انہوں نے رپورٹ کی مثلاً ملیریا ہے یا پیچش ہے اور نزلہ کھانسی یہی چار پانچ بیماریاں ہیں جو عام طور پر ہوتی ہیں.یعنی بیماریوں کا نوے فیصد ان بیماریوں پر مشتمل، دس فیصد یا اس سے بھی کم اور قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں.انہوں نے آٹھویں یا دسویں جماعت میں طالب علموں کو چار پانچ بیماریوں کے متعلق پورا علم سکھا دیا بلکہ ان کو زبانی طور پر رٹا دیا کہ اگر کسی کو ملیر یا بخار ہو اور اس کی یہ یہ علامتیں ہوں تو یہ یہ علاج کرنا ہے اور انفلوئنزا کی یہ علامتیں ہوتی ہیں اس میں یہ علاج کرنا ہے یا اگر کسی کو پیچش ہو تو اس میں یہ دیکھنا ہے خونی پیچش ہے یا بادی ہے، قبض والی ہے یا بد ہضمی کی وجہ سے پیش آرہی ہے.اس کے مطابق علاج کرنا ہے، چنانچہ ان بیماریوں کے متعلق پندرہ ہیں نسخے سکھا کر ان کو مختلف جگہوں پر لگا دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ جب کسی مریض کی بیماری کی تشخیص میں الجھن ہو تو ہمیں اطلاع دو ہم اس کو کسی ہسپتال لے جائیں گے.غرض یہ وہ طریق تھا جس کو اختیار کر کے انہوں نے بیماریوں پر قابو پالیا ہم نے ان کی نقل

Page 575

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء نہیں کرنی ہم نے اپنے حالات کے مطابق اس سلسلہ میں ایک اور عمل صالح بجالا نا ہے اور وہ اس طرح ہوگا کہ آپ باہمی طور پر ایک دوسرے سے مشورہ کریں کچھ ڈاکٹروں کے متعلق تعصب ہوتے ہیں کچھ بیماریوں کے متعلق تعصب ہوتے ہیں کچھ دواؤں کے متعلق تعصب ہوتے ہیں ان کو ذہن سے نکالنا پڑے گا اور ہر احمدی کی صحت کو حتی المقدور ( یعنی جتنی خدا نے ہمیں طاقت دی ہے اور سامان دیئے ہیں) بہترین رکھنا پڑے گا.اگر انہوں نے وہ ذمہ داری نباہنی ہے جو سخت ترین ہے اور ان پر ہاں ہاں صرف ان پر ڈالی گئی ہے تو پھر ہمیں اپنے حالات کے مطابق سوچنا اور عملی قدم اٹھانا پڑے گا.چین کے حالات ہمارے حالات سے مختلف ہیں اس واسطے ہم چین کی نقل نہیں کر سکتے نہ صرف ہمارے حالات ان سے مختلف ہیں بلکہ ہماری عقلیں بھی ان سے مختلف ہیں.جو صحیح رنگ میں احمدی ہیں دنیا داروں کے مقابلہ میں ان کی فراست زیادہ ہونی چاہیے گو عام طور پر اب بھی ہے لیکن جہاں کمزوری ہے اس کمزوری کو دور ہونا چاہیے کیونکہ تھوڑی جگہ کمزوری ہوتی ہے اور بہت جگہ نقصان پہنچاتی ہے مثلاً کسی گھر کی بنیاد میں دوفٹ کمزوری آجائے تو وہ ساری دیوار خراب ہو جائے گی خواہ وہ دیوار کتنی پختہ ہی کیوں نہ ہو.پس کمزوری کو تھوڑا سمجھ کر یا اسے تھوڑا دیکھ کر خاموش نہیں ہونا چاہیے یہ ایک کمزوری ہے کہ بعض دوستوں کا پوری طرح علاج نہیں ہو پایا.یہ ایک کمزوری ہے کہ صحت قائم نہیں رکھی جاسکی.اس کے نتیجہ میں اور بہت کچھ سامنے آئے گا مثلاً متوازن غذا کا مسئلہ ہے غذا کے ہضم کرنے کا مسئلہ ہے اور اخلاقی صحت کے قیام کے لئے بہت کچھ کرنے کا مسئلہ ہے وہ آہستہ آہستہ اب بھی حل ہو رہا ہے.لیکن زیادہ وسعت کے ساتھ ان کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو احمدی ناتجربہ کار ہے اور انکی تعداد زیادہ ہو رہی ہے اور اس وقت نا تجربہ کار احمدی سے میری مراد وہ احمدی ہے جو احمدی کے گھرانہ میں پیدا ہوا وہ ماں کے پیٹ سے کوئی تجربہ لے کر نہیں آیا وہ نا تجربہ کار ہے اس کے تجربہ حاصل کرنے کے سامان آپ نے پیدا کرنے ہیں.پس ہمارے کام میں ایک وسعت پیدا ہو رہی ہے ہمارے مسائل بدل رہے ہیں دس سال پہلے جو ہمارے مسائل تھے وہ اب نہیں رہے.اندرونی تربیت کے لحاظ سے بھی اور بیرونی تبلیغ اور اصلاح وارشاد کے لحاظ سے بھی پہلے جو ہمارے مسائل تھے وہ اب بدل چکے ہیں.

Page 576

خطبات ناصر جلد چہارم خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء بہر حال اس وقت تو میں ابتدائی طور پر جسمانی قوی کی بحالی اور ان کو کمال تک پہنچانے کا انتظام اور کمال نشو و نما پر قائم رکھنے کے انتظامات کی ایک شق کے متعلق بات کر رہا ہوں جہاں تک پانی کا تعلق ہے اس کی فراہمی کا مسئلہ فوری توجہ چاہتا ہے.تاہم جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا یہ کام سر دست مشکل ہے لیکن ایک کام آپ کو کرنا چاہیے اور وہ آپ کر سکتے ہیں وہ پانی کو ابال کر استعمال کرنا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ پانی ابال کر پئیں تو آپ ہمارے ملک کی آدھی بیماریوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں.ربوہ میں پیچش کی بیماری عام ہے پچپش کے ساتھ ملتی جلتی بعض اور بیماریاں ہیں یہ مہلک تو نہیں لیکن کبھی اسہال اور کبھی قبض کی شکل میں بہر حال کمزور کرنے والی بیماری ہے.پس اس قسم کی بیماریوں جن کا معدہ اور انتڑیوں کے ساتھ تعلق ہے اور پھر بالواسطہ جگر کے ساتھ تعلق ہے جس کا کام ہضم میں مدد کرنا ہے ان پر اس کا اثر پڑتا ہے چنانچہ ابلا ہوا پانی پینے سے انسان ان بیماریوں سے بچ جائے گا.میرا تو دل کرتا ہے کہ ثواب کی خاطر خود مثلاً الف محلے میں پندرہ بیس دن بلکہ مہینہ تک خدا تعالیٰ مجھے طاقت دے اور کچھ رضا کار میرے ساتھ تعاون کریں تو میں دیگوں میں پانی ابال کر مختلف جگہوں پر رکھ دوں اور یہ ابلا ہوا پانی گھروں میں سپلائی کروں ممکن ہے بعض گھر اس طرح نہ ابال سکیں بہت ساری وجوہات کی وجہ سے جن کی تفصیل میں جانے کی تو اس وقت ضرورت نہیں.پس اس وقت تو دار العلوم اور الف محلہ کے صدر صاحبان اور ان کی مجلس عاملہ اور تمام اہل محلہ کے مشورہ کے ساتھ زیادہ تفصیلی رپورٹ مع مشورہ جات کہ اس تکلیف کا کس طرح ازالہ کیا جا سکتا ہے اس مشورہ کے ساتھ ربوہ کی مجلس عاملہ کو پیش کریں اور پھر وہ ہمارے پاس بجھوائے مجلس صحت کے کنویز الف محلہ اور دارالعلوم کے محلہ میں ٹیوب ویل لگانے کے متعلق مقامی معلومات بہم پہنچا ئیں باقی رہا کہ کون سا پمپ مناسب رہے گا اس کے متعلق میں خود غور کر لوں گا کہ وہ مجھے صرف یہ بتائیں کہ ان محلوں میں کس جگہ پر پمپ لگ سکتا ہے.خالی پمپ تو کافی نہیں پمپ نے نیچے سے پانی کو اٹھانا ہے.پانی جہاں ہو گا وہاں.اٹھائے گا جہاں نہیں ہوگا وہاں سے نہیں اٹھائے گا اسی طرح الف محلہ میں میں چاہتا ہوں کہ اگر

Page 577

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۵۷ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء محلے والے ہمت کریں تو ہم جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے دو جگہ پمپ لگا سکتے ہیں یہ کوئی ایسی مشکل بات نہیں پھر فروری میں انشاء اللہ وہاں درخت بڑی کثرت سے لگا کر اس کی شکل بدل دیں گے.سر دست جہاں تک ابلے ہوئے پانی کا تعلق ہے یہ تو کسی تنظیم کا کام نہیں ہے یہ تو ہر فرد کا کام ہے.میں آپ سے کہتا ہوں کہ اے میرے بھائی یا بہن تو پانی ابال کر پی.اس شکل میں جس میں پانی ہوتا ہے یا اس شکل میں جس طرح میں پیتا ہوں یعنی سبز چائے کی دو چار پتیاں بیچ میں ڈال دیں جس سے پانی کا مزہ بدل جاتا ہے.پس جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے وہ سبز چائے کے ساتھ ایک دو الا بچھی بھی ڈال سکتے ہیں.لیکن اصل چیز ابلا ہوا پانی ہے.بالکل ہلکی سی پتی ڈال دینے سے ہلکا سا انگوری یا موتیا سا رنگ آجاتا ہے ( سبز پتی کے بھی مختلف رنگ ہوتے ہیں ) بحر حال ہلکا سا شیڈ آجانا چاہیے اور اس سے پانی کا بک بکا پن دور ہو جاتا ہے.بعض لوگوں کو اس میں شاید کسیلا پن لگے.کوئی بات نہیں دُنیا بُری عادتیں پیدا کر لیتی ہے.تو آپ نیک عادتیں کیوں پیدا نہ کریں ہر بھلائی کی عادت نیک عادت ہے.خواہ وہ آپ کی جسمانی صحت کو قائم رکھنے کے لئے ہو یا اس کی اخلاقی اور روحانی قوتوں کو قائم رکھنے کے لئے ہو بہر حال اس عادت کو پیدا کریں اور اس طرح ابلا ہوا پانی پینے سے ربوہ کی بہت ساری بیماریاں دور ہو جائیں گی مثلاً گردے کی بعض بیماریوں کے کیڑے ربوہ کے پانی میں پائے جاتے ہیں یہ تو پانی کے ٹیسٹ میں پائے گئے ہیں.بعض کیڑے ایسے ہیں جو جگر کے اوپر حملہ کرتے ہیں یعنی بالواسطہ جگر کو متاثر کرتے ہیں.بہر حال معدہ اور انتڑیاں ٹھیک ہوں کھانا ہضم ہو رہا ہو اور آپ ورزش کر رہے ہوں تو آپ کی صحت ٹھیک رہے گی.بہر حال صحت اچھی ہونی چاہیے کیونکہ ذمہ داری بڑی ہے اور آپ کو مشغول بھی رکھنا چاہیے تا کہ شیطان کسی دروازے سے آپ کے خیالات کو پراگندہ نہ کرے.اس کے متعلق بعد میں انشاء اللہ کسی وقت باتیں ہونگی.اس وقت تو الف محلہ اور دار العلوم محلے زیادہ توجہ طلب ہیں کیونکہ یہیں زیادہ تر ایسے مریض تھے جن کا علاج نہیں ہو سکا.اگر دوسرے محلوں میں ہیں تو ان کا بھی پتہ لگنا چاہیے.ان دونوں محلوں میں پانی کا انتظام درست نہیں ہے.پانی کا انتظام درست ہونا چاہیے اگر یہ کام جلد

Page 578

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۵۸ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء ہو جائے تو کوشش ہونی چاہیے کہ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے چھڑکاؤ کا انتظام ہو جائے تا کہ اس وقت جو دھول اڑ رہی ہے کم از کم اس سے تو لوگ بچ جائیں، پھر درخت ہو جائیں گے.گھاس ہو جائے گی کھبل ، گھاس کے لئے میں نے تجربہ کیا ہے اس کے لئے اچھی مٹی باہر سے یعنی دریا کی بھل لانے کی ضرورت نہیں.شور مٹی میں بھی بڑا اچھا ہو جاتا ہے.میں نے اس کا خود اس نیت سے تجربہ کیا تھا کہ ربوہ میں میرے بھائیوں کو اس سے فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے.بہت سارے پیسے بھی ضائع ہونے سے بچائے جا سکتے ہیں.پس ہمارے یہ دو محلے ایسے ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے.دوسرے محلوں میں بھی اگر کوئی ایسا مریض ہے جس کا علاج نہیں ہو سکتا تو ہمیں اس کا پتہ لگنا چاہیے.یہ مہینہ عام دعاؤں کے علاوہ خصوصی دعائیں کرنے کا مہینہ ہے.ایک خاص دعا ہوتی ہے اور ایک عام دعا ہوتی ہے مثلاً عام دعا ئیں تو میں ہر نماز میں کرتا ہوں مثلاً جماعت کی پریشانیوں کی دوری کے لئے ، بیماروں کی صحت کے لئے ، تنگ دست دوستوں کی فراخی رزق کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں لیکن ان عام دعاؤں کے علاوہ بعض مواقع پر خاص دعا ئیں بھی کرنی پڑتی ہیں دسمبر کا مہینہ آج شروع ہو رہا ہے اس میں جلسہ سالانہ کے لئے خاص دعائیں کرنے کی ضرورت ہے.ہمارا جلسہ سالانہ دُنیا کے عام جلسوں کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ اس عظیم جدوجہد کا ایک ضروری حصہ ہے جو آج غلبہ اسلام کے لئے جاری ہے یعنی تکمیل اشاعت ہدایت بذریعہ ان عاجز بندوں کے.پس ہمارا سالانہ جلسہ تربیت کے لیے اجتماعی بندھنوں کو مضبوط کرنے کے لئے بڑی مفید چیز ہے اس کی بڑی اہمیت ہے یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو کسی نہ کسی کو ہزار پریشانیاں ، دکھ اور تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں عام طور پر تکلیف سے محفوظ رکھتا ہے.میں نے مخلصین جماعت کے اپنی آنکھوں سے ایسے نظارے دیکھے ہیں کہ دنیا کی کوئی عقل اسے تسلیم نہیں کرے گی.میں نے اپنی آنکھوں سے بچوں کے پیار سے زیادہ ربوہ کے پیار کا مشاہدہ کیا ہے.میں افسر جلسہ سالا نہ تھا.ایک دفعہ ایک سپیشل ٹرین آرہی تھی اس کے استقبال کا انتظام دیکھنے کے لئے میں سٹیشن پر گیا تو میں نے دیکھا.ہماری ایک دیہاتی بہن جس

Page 579

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۵۹ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء کی گود میں دو تین ماہ کا بچہ تھا جب گاڑی سٹیشن پر آئی اور اس کا خاوند دروازے کے پاس سامان وغیرہ اتارنے گیا تو اس نے ربوہ پہنچنے کی خوشی میں اپنے بچے کو خاوند کی طرف یوں پھینکا جیسے اپنے بچے کی محبت کو وہ بھول گئی ہو.ربوہ کی اینٹوں اور یہاں کی زمین اور پتھروں اور گنجی پہاڑیوں سے تو ہمیں پیار نہیں ربوہ سے ہمیں (یہاں کے بسنے والوں کو اور باہر سے آنے والوں کو ) اس لئے پیار ہے کہ یہ ایک عظیم الہی جماعت کا مرکز ہے جس کے سپر د ایک عظیم کام ہے اور عظیم دونوں لحاظ سے ہے یعنی اپنے کام کے لحاظ سے بھی اور مخالفتوں کے لحاظ سے بھی.مخالف اسلام کی ہرطرف سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ اگر اس کے ہاتھ میں ہمارا کوئی بال آتا ہے تو وہ پکڑے کوئی ہماری چادر کا پلو پکڑ لے کوئی ہمارے پاؤں کا ناخن پکڑ لے غرض وہ کسی نہ کسی طرح ہماری حرکت میں کمزوری پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.چنانچہ چاروں طرف سے ہمارے خلاف عجیب وغریب جھوٹ بولے جاتے ہیں افتر اکئے جاتے ہیں مگر تم ان کی طرف نہ دیکھا کرو آج کل بھی اخبارات تو جومنہ میں آتا ہے لکھ جاتے ہیں.ہمارے سپر د ایک کام ہے ہماری تو جہ اس طرف ہونی چاہیے اگر تو جہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ ایک بڑا ز بر دست ذریعہ ہے دکھوں سے محفوظ رہنے کا.دراصل احساس درد قیام توجہ پر منحصر ہے.اگر اس طرف توجہ نہیں ہوگی تو درد نہیں ہو گا.پس اگر کوئی آدمی پوری طرح خدا کی توجہ میں محو ہو جائے تو اس کی آپ لات کاٹ لیں تو اسے درد نہیں ہوگا.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک جنگ میں جس صحابی کا بازو کٹ گیا تھا اور تھوڑا سا رہ گیا تھا اس کے باوجود اس نے لڑائی جاری رکھی تھی.مگر تمہیں ایک تھوڑا سا کانٹا چبھ جائے تو درد ہوتا ہے اور بعض دفعہ چلانے لگ جاتے ہو.مگر اس صحابی کی اپنے پیارے رب کی طرف اور اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اتنی توجہ تھی کہ اس کو درد کا کوئی احساس نہیں ہوا بلکہ اس نے کہا یہ باز و کیوں میرے ساتھ لٹکا ہوا ہے ذرا سا گوشت ساتھ رہ گیا تھا.چنانچہ اس پر ایک پاؤں رکھا اور جھٹکا دے کر اسے الگ کر کے پھینک دیا اگر وہ کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا تو وہ کہتا اس پر گہری بے ہوشی طاری کرنے کے بعد اس کا علاج کریں گے.پس ہماری توجہ اپنے رب کی طرف اور اپنے پیارے محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف قائم رہنی چاہیے ہماری راہ کے

Page 580

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۶۰ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء کانٹے کیا ہیں کچھ بھی نہیں ہیں.پس ربوہ اس وقت ایک مرکزی نقطہ ہے اس عالمگیر مہم کا جس کے ذریعہ اسلام نے ساری دنیا پر غالب آنا ہے اس لئے یہاں تربیت کے لیے، آپس میں ملنے کے لئے ساری دُنیا میں اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ پر جو فضل نازل کر رہا ہے ان کے متعلق باتوں کو سننے کے لیے اور خلیفہ وقت کے ساتھ پختہ تعلق کا اظہار کرنے کے لئے کثرت سے آنا چاہیے ویسے تو ہر مومن کا امامِ وقت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.مگر دوست یہاں آکر مل کر اور دیکھ کر ہی پیار کے تعلق کا اظہار کر لیتے ہیں کیونکہ سارے دوست تو مصافحہ نہیں کر سکتے.نہ اتنا وقت ہوتا ہے اور نہ انسان کو اتنی طاقت دی گئی ہے کہ وہ ایک دن میں ۶۰ ہزار دوستوں سے مصافحے کر لے اس کے لئے وقت بھی چاہیے طاقت بھی چاہیے اور پھر اس غرض کے لئے دوستوں کو ایک لمبا عرصہ کھڑے رہنے کی ضرورت بھی ہے وغیرہ بہر حال دوست دیکھ لیتے ہیں آنکھوں کے ذریعہ ایک دوسرے کو دیکھ لیتے ہیں اور پیار دے دیتے ہیں آخر آنکھ بھی تو ایک دوسرے کو پیار دینے اور دعا کرنے کا ذریعہ ہے ایسے وقت تو جس طرح ایک پہاڑی چشمے سے پانی ابل ابل کر باہر نکل رہا ہوتا ہے اسی طرح ہمارے دوست جب ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو ہر احمدی کا دوسرے کے لئے اور جماعت کے امام کے لئے اور امام کا جماعت کے لیے پیار اور اخوت کے جذبات پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہے ہوتے ہیں.پس جماعت کے اس سالانہ اجتماع کے لئے ان دنوں خصوصاً بڑی دعاؤں کی ضرورت ہے جس غرض کے لئے یہ جلسہ قائم ہوا ہے ساری جماعت اس غرض کے حصول کے لئے کوشاں رہے.اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ جو برکتیں وابستہ کی ہیں ان برکتوں کو حاصل کرے اور وہ فضل اس کو ملے اور وہ پیار اس کو ملے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.وہ تو جہ سے باتوں کو سنیں اور اثر قبول کریں.اپنی عادتیں چھوڑنی پڑیں تو چند دن کے لئے احباب کو دیکھ کر اور تقریروں کو سن کر چھوڑ دیں.صبر کی عادت ڈالیں ابھی پیچھے افریقہ کے ایک ملک میں بعض متعصب عیسائی کیتھولکس کی سازش کے نتیجہ میں ہمارے بعض کلینک بند ہو گئے تھے.وہاں سے دوستوں نے مجھے گھبراہٹ کے خطوط لکھے.بہر حال اصل ذمہ داری تو امام کی ہوتی ہے.دوست تو طبعاً گھبرا جاتے ہیں کہ دو مہینے ہو

Page 581

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۶۱ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء گئے ہیں کلینک بند پڑے ہیں ڈاکٹروں کو تنخواہ دے رہے ہیں میل نرسز کو تنخواہ دے رہے ہیں.حکومت کہتی ہے آج فیصلہ کریں گے.کل فیصلہ کریں گے میں نے کہا آرام سے بیٹھیں.ایک دوست تو بہت زیادہ تیز تھے اُن سے میں نے کہا حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی جو تعبیر کی تھی وہ تم پڑھ لو.چنانچہ ان کا مجھے خط آیا کہ میں امیر صاحب سے پوچھوں گا کہ وہ کیا تعبیر تھی اس خواب کی تعبیر یہ تھی کہ سات سال کماؤ گے اور سات سال کھاؤ گے میں نے کہا تم سمجھو کہ یہ وہ زمانہ ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے وقت میں اس قوم پر آیا تھا کہ پہلے کمائے ہوئے سے کھانا پڑا تھا.خدا تعالیٰ نے تمہارے مال میں برکت دی اور خدا تعالیٰ نے جو دیا اسے بیٹھ کر آرام سے کھائیں گے ان کی مخالفتوں کے مقابلہ میں ہمارا کام صبر دکھانا ہے وہ سمجھتے کہ دو مہینے نکھے بیٹھیں گے چار مہینے نکے بیٹھیں گے جب تنخواہیں دیتے دیتے تنگ آجائیں گے تو کہیں گے کسی اور ملک میں چلے جاتے ہیں.میں نے کہا آرام سے بیٹھے رہو.کتنی دیر تک وہ ہمیں ستاتے رہیں گے آخر کار ہمارا صبر پھل لایا.چند دن ہوئے خط آیا ہے کہ حکومت نے نو مہینے کے بعد کلینک کھولنے کی اجازت دے دی ہے چنانچہ میرا یہ عزم تھا کہ سوائے اس کے کہ حکومت ان کو حکماً اپنے ملک سے باہر نکال دے ڈاکٹر کو وہاں سے نہیں بلائیں گے کیونکہ جب ملک چھوڑنے کا حکم مل جائے تو پھر تو کوئی شخص اس ملک میں رہ نہیں سکتا.میں نے دوسرے ملکوں کو اطلاع بھی دے دی تھی.لیکن میں نے کہا اس سے ورے ورے سال دو سال تین سال تک بیٹھے رہو اس سے مخالفین کو پتہ لگ جائے گا کہ تم میں کتنی سکت ہے.وہ مقابلہ کر کے دیکھ لیں گے کہ کسی چیز میں بھی اور کسی میدان میں بھی شکست کھانے کے لئے احمدی پیدا نہیں ہوا.چنانچہ نو مہینے کے بعد اجازت دے دی.اس سے ہمیں کیا فرق پڑا لیکن اُن کو یہ پتہ لگ گیا کہ اسلام کے ساتھ کوئی آسان مقابلہ نہیں ہے.غرض عیسائیوں کی سازش ناکام ہو گئی اور ان کو سمجھ آگئی انہوں نے ہمارے کلینک کے متعلق عجیب اعتراض کر دیئے تھے.ایک یہ اعتراض تھا کہ لکڑی کی میز پر ڈاکٹر کیوں اپریشن کرتا ہے اس کے لئے با قاعدہ اپریشن ٹیبل ہونی چاہیے.بندہ خدا! اگر ڈاکٹر کے پاس اپنڈے سائنٹس کا ایک مریض درد سے تڑپتا ہوا آئے تو کیا ڈاکٹر اس کو یہ کہے گا کہ جب تک ولایت سے میری ٹیبل نہ

Page 582

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۶۲ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء آ جائے اس وقت تک انتظار کرو.اُس وقت تو زمین کے اوپر لٹا کر بھی اپریشن کر دینا چاہیے کیونکہ اس کی تکلیف کو دور کرنا دراصل اس کی جان کی حفاظت کرنا ہے.پھر یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ اگر تم نے ان ڈور مریض رکھنے ہیں تو اگر ۲۰ مریضوں کی گنجائش ہے یا نہیں چار پائیاں ہیں تو ہمیں نرسیں رکھو.خواہ کسی وقت وہاں بارہ مریض ہی کیوں نہ ہوں.حالانکہ یہ معیار تو امریکہ میں بھی نہیں ہے.چنانچہ کہ دیا کہ فی مریض ایک نرس رکھو تب تمہیں اجازت دیں گے مگر انہوں نے یہ اعتراض کرتے ہوئے یہ نہ سوچا کہ ان کے اپنے بڑے بڑے ہسپتالوں میں تو ایک وقت میں تین تین چار چار نرسیں ہی کام کر رہی ہوتی ہیں اور ہم سے یہ مطالبہ کر رہے ہو کہ فی مریض ایک نرس رکھو لیکن میں نے اپنے دوستوں سے کہا ٹھیک ہے ان سے جنگ ہے چلنے دو.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.ہم نے جس سہارے کو پکڑا اور جس سہارے پر ہمارا توکل ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ہم تو ایک ادنیٰ خادم ہیں.ہم تو خدا کے بڑے نکھے مزدور ہیں.وہ پہلے بھی فضل فرماتا اور ہم نالائقوں سے کام لیتا رہا ہے اب بھی فضل فرمائے گا.تاہم اپنی طرف سے ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہیے.روحانی ہتھیاروں سے ساری دنیا کا مقابلہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.دوست اس بات کو کبھی نہ بھولا کریں کہ ہمارے سامنے ایک عظیم الشان مقصد ہے یعنی ساری دنیا میں غلبہ اسلام.اس مقصد کے حصول میں ساری توجہ مرکوز رکھنی چاہیے اور ذرا ذراسی بات پر آپس میں نہیں الجھنا چاہیے کیونکہ میدانِ جنگ میں تو ہر قسم کے الجھاؤ ہر قسم کی پریشانیوں کے باوجود بھی جذبہ اخوت قائم رہتا ہے کشمیر کے محاذ پر سیز فائر کے بعد ایک دفعہ ہمارے ساتھ کچھ صحافی بھی گئے.ایک صحافی نے ادھر اُدھر دیکھا پاس ہی ایک ریگولر کمپنی کی مشین گن یونٹ تھی.اس کا فرقان بٹالین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا.اس صحافی کو شرارت سوجھی اس نے یونٹ کے ایک آدمی سے پوچھا.یہاں احمدی غیر احمدی کا سوال تو نہیں اٹھتا.لاہور کے اس صحافی کا یہ کہنا تھا کہ وہ تو لال پیلا ہو گیا اور کہنے لگا ہم سارے یہاں جانیں دینے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں اور تم اس قسم کی بکواس کر رہے ہو حالانکہ اس وقت سیز فائر ہو چکا تھا اور جان کا زیادہ خطرہ بھی نہیں تھا لیکن بہر حال محاذ جنگ تھا تا ہم بڑا معمولی محاذ

Page 583

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۶۳ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء تھا کیونکہ سیز فائر کے بعد محاذ کی شدت تو بہت کم ہو جاتی ہے.جنگ تو ہو ہی نہیں رہی ہوتی.اس وقت انسان کے خیالات ان چیزوں میں نہیں الجھتے.تو وہ شخص جو گھمسان کی جنگ میں مشغول ہوتا ہے وہ کس طرح ادھر اُدھر دیکھ سکتا ہے.ہم بھی چونکہ اس وقت اپنے آپ کو گھمسان کی جنگ میں پاتے ہیں ویسے ہماری تلواروں بندوقوں یا ایٹم کی جنگ تو نہیں ہے دلائل کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ ہم خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں.اس لئے اس گھمسان کی جنگ میں ہم ادھر ادھر کیسے دیکھ سکتے ہیں.بہر حال قرآن کریم کے دلائل کے ذریعہ روحانی جنگ کی تیاری کے لئے ، تربیت حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نشانات کو سننے کے لئے اور اس کی رحمتوں کے حصول کی کوشش کے لئے ہم سب جلسہ سالانہ پر جمع ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو (اہل ربوہ کو بھی اور باہر سے آنے والے بھائیوں کو بھی ) ہر قسم کے دُکھ اور پریشانی اور فتنہ سے محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ ہر قسم کی برکتوں رحمتوں اور فضلوں کا وارث بننے کے سامان عطا فرمائے.آج یکم دسمبر ہے.یہ مہینہ چونکہ جلسہ سالانہ کی وجہ سے خصوصی دعاؤں کا مہینہ ہے اس لئے میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ دوست خاص طور پر دعائیں کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو جلسہ کی جملہ ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.جملہ برکات کا حقدار ٹھہرائے.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ / مارچ ۱۹۷۳ء صفحه ۲ تا ۷ ) 谢谢谢

Page 584

Page 585

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۶۵ خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ احباب جماعت لازمی چندوں کا دو تہائی ۳۱ دسمبر تک ضرور ادا کر دیں خطبه جمعه فرموده ۸ / دسمبر ۱۹۷۲ ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جلسہ سالانہ کے لئے جو سامنے سٹیج بن رہی ہے وہ میری طبیعت پر کچھ گراں معلوم ہوتی ہے.گذشتہ جلسہ سالانہ پر تو مجبوری تھی میں نے اس وقت بھی یہ کہا تھا کہ اگر لکڑی کے تخت پوش بن جائیں تو وہ سٹیج کا کام دے سکتے ہیں موجودہ صورت میں سٹیج کو دورے کرنے کی وجہ سے چھ فٹ اونچی کرنی پڑتی ہے.گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر تو بن گئی تھی.اس وقت بھی میں نے خود آ کر دیکھا اور جائزہ لیا تھا ( عملی کام کا عملی جائزہ لینا چاہیے تب کام ٹھیک ہوتا ہے ) تو پتہ لگا کہ چونکہ محن باہر کے میدان سے اونچا ہے اس لئے اگر سٹیج اونچی نہ ہو تو ۲۵، ۳۰ فٹ کی جگہ ایسی ہے کہ جہاں سے مقرر نظر نہیں آئے گا.چنانچہ ہم نے وہاں پر آدمی بیٹھا کر اندازہ لگا یا.پھر ہم نے آخری وقت میں اسے چارفٹ کی بجائے چھ فٹ اونچا کیا.تب جا کر وہ درست ہوئی.اس دفعہ نظارت اصلاح وارشاد نے تخت پوش بھی نہیں بنوائے اور جو سٹیج اس وقت بن رہی ہے اور جو اس وقت میری نظروں کے سامنے ہے اسے میری طبیعت نے پسند نہیں کیا.یا تو ہم

Page 586

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۶۶ خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ ساری جلسه گاہ مسجد سے باہر لے جائیں جس طرح پہلے خیال تھا لیکن پہلے خیال یہ تھا کہ مسجد کی سیڑھیوں کے ساتھ بڑا تھڑا ہو اندر داخل ہونے کے لیے.ہمارے انجینئر ز نے خوبصورتی کی خاطر اس دروازہ کی ایسی شکل بنا دی تھی کہ اس کے اوپر ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ آتا تھا میری طبیعت پر وہ چیز گراں گزری کہ محض انٹرنس کو خوبصورت بنانے کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ کیوں خرچ کیا جائے.اس لئے اس کی بجائے موجودہ طریقہ اختیار کیا اور اب یہ بھی ٹھیک معلوم نہیں ہوتا.یہ انتظام تو اب بھی تبدیل ہو سکتا ہے کوئی ایسی بات نہیں یا تو ہم اس کو اس دفعہ محن کے بالکل آخر میں لے جائیں پھر اتنی اونچی سٹیج کی ضرورت نہیں.ایسی صورت میں جلسہ گاہ کے لئے جتنی گنجائش مسجد کے صحن میں ہمیں ملتی تھی اتنی ہی گنجائش صحن سے باہر پیدا کر دیں.یعنی رقبہ پورا کر دیں تا کہ باہر سے آنے والے ہمارے بھائیوں کو تکلیف نہ ہو.اس سلسلہ میں اگر کسی دوست کے ذہن میں کوئی تجویز ہو تو وہ کل تک مجھے لکھ کر بجھوا سکتے ہیں.مکرم سردار بشیر احمد صاحب جن کی نگرانی میں یہ کام ہو رہا ہے وہ اس کے متعلق پورا جائزہ لے کر مجھے فوراً بتا ئیں.یوں بھی ہر سال سٹیج کو بنانا اور اکھیڑ نا ٹھیک نہیں ہے.دوسرے ہم اس مسجد کے محراب کے سامنے والے مستقف حصہ کو جلسہ سالانہ کے موقع پر نمازوں کے لئے استعمال کر ہی نہیں سکتے کیونکہ سیج مسجد کے صحن میں ہوتی ہے اگر صفیں یہاں بچھا دی جائیں تو نمازوں کے بعد جلسہ گاہ میں سب سے پہلے آنے والوں کو چکر لگا کر سب سے پیچھے جا کر بیٹھنا پڑے گا.کیونکہ جس جگہ پر وہ پہلے بیٹھے تھے وہاں تو دوسرے دوستوں نے قبضہ کیا ہو گا.یہ درست نہیں ہے.پس اس سٹیج کو بدلنا چاہیے.اس سال بھی ایسا ہوسکتا ہے.ابھی تو کام شروع ہی ہوا ہے.یہ جگہ بدل دینی چاہیے.اتنی اونچی سطیح کی ضرورت بھی نہیں ہے.اس سلسلہ میں ایک اور تجویز یہ تھی کہ Landing کے اوپر جو Opening ہے اس سے سٹیج کا کام لیا جائے لیکن اس طرح دوستوں اور مقررین کے درمیان اور خصوصاً میری طبیعت کے لحاظ سے ) میرے اور دوستوں کے درمیان ایک بعد اور دوری پیدا ہو جاتی ہے جو طبیعت پر سخت گراں گزرتی ہے مجبوری ہو تو اور بات ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو کوئی مجبوری بھی نہیں ہے.

Page 587

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۶۷ خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ گذشتہ جمعہ کے روز خطبہ میں میں نے دو محلوں کے متعلق پانی کے انتظام کے سلسلہ میں بعض باتیں کیں تھیں.میری خواہش یہ تھی کہ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے ایسا انتظام ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو قانون بنائے ہیں ان کے لحاظ سے ہر کام خواہ وہ کتنی ہی تندہی اور مستعدی سے کیوں نہ کیا جائے کچھ وقت ضرور لیتا ہے.اسی واسطے جو چیز انسان کے اختیار میں نہیں.کہانی لکھنے والوں نے وہ جنوں کے اختیار میں دے دی کہ آنکھ جھپکتے ہی ایک محل تیار ہو گیا.انسان اس طرح کبھی محل تیار نہیں کر سکتا.وہ بچوں کا دل بہلانے کے لئے جن ہی تیار کر سکتے ہیں پس میری خواہش عملاً پوری نہیں ہو سکی اور نہ اتنی تھوڑی مدت میں ہوسکتی تھی کیونکہ ہر کام کا جائزہ لینا ہوتا ہے.سروے ہو گیا ہے ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں ہوا کہ کس جگہ پانی بہتر مل سکتا ہے.پانی کی ضرورت بہت ہے اس واسطے کوشش یہ ہونی چاہیے اور عملاً ایسا ممکن بھی ہے کہ سردیوں کے اختتام تک بجلی کے کنویں مختلف جگہوں پر لگ جائیں اس تاخیر کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مجھے خیال آیا کہ صرف ان دو محلوں ہی کے متعلق نہیں بلکہ ربوہ کے جس جس محلہ میں پانی کا کنواں لگانے کی ضرورت ہے وہ محلے مجھے کل یا پرسوں تک اطلاع دیں تو ان کو بھی اس جائز ہ اور سکیم میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے کچھ اب لگ جائیں کچھ بعد میں لگ جائیں گے یا ممکن ہے سارے ہی اس وقت لگ جائیں دوسرے اس سلسہ میں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں اور بڑی وضاحت سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو پانی کا انتظام ہورہا ہے یہ مرکز سو فیصدا اپنی ذمہ داری پر آپ کو بنا کر نہیں دے گا بلکہ آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں اور جس حد تک آپ کی خدا داد طاقت اور قوت ہے اس حد تک آپ کو خود چلنا پڑے گا اور اس کے بعد کے کام مرکز کے سپر د ہوں گے.وہ آپ کے کنویں کا انتظام کرے گا.جہاں تک کنویں کا تعلق ہے اس کے لئے کم از کم یہ ضروری ہے کہ اس کی کھدائی وغیرہ کا خرچ یا اس کی محنت آپ کو خود کرنی پڑے گی اور اگر اس سے زائد پیسے جمع کر سکیں تو وہ بھی آپ کا حصہ ہو گا لیکن اتنا آپ کو ضرور کہنا پڑے گا اور اگر آپ اس سے زائد پیسے جمع نہیں کر سکتے تو جو پمپ اور بجلی کی موٹر کا خرچ ہے اور پائپ وغیرہ کا خرچ ہے وہ مرکز مہیا کرے گا.لیکن کنواں بور کرنے کا جو خرچ ہے وہ آپ خود برداشت کریں

Page 588

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۶۸ خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ گے.کیونکہ کنواں کھودتے ہیں.اینٹوں سے اس کو بناتے ہیں تب جا کر بجلی کا پمپ لگاتے ہیں.یہ کام محلہ نے خود کرنا ہے یعنی ہم نے کچی پکائی روٹی آپ کے منہ میں نہیں ڈالنی جس طرح بھائی بھائی کی مدد کرتا ہے اس طرح مدد ہو گی جس طرح ماں دودھ پیتے بچے کی مدد کرتی ہے اس طرح کی مدد نہیں ہوگی.کیونکہ ہمارے نزدیک آپ کی عمر اللہ تعالیٰ کی طاقت اور آپکے جذ بہ فدائیت کے لحاظ سے دو مہینے یا سال یا دو سال کے بچے سے زیادہ ہے آپ ایک حد تک اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں آپ کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے لیکن اگر حالات اس کی اجازت نہ دیں تب تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِ وَالتَّقْوى (المائدة : ۳) کے حکم کے ماتحت مرکز آپ کے ساتھ تعاون کرے گا لیکن اصل یہ چیز ہے کہ یہ کام آپ وقار عمل کے ماتحت کریں آپ کنواں خود کھو دیں اور مٹی نکالیں اور اینٹیں مہیا کریں محنت کے ذریعہ جتنی رقم بچا سکتے ہیں وہ بچا ئیں جو نہیں بچا سکتے وہ جمع کریں پھر اس کے بعد اگر آپ کے اندر مزید طاقت نہ ہوئی تو اس صورت میں مرکز آپ کے لئے نل اور اس کا پمپ اور اس کے لئے بجلی کی موٹر جو بھی وہاں چھوٹی قسم کی لگ سکتی ہے دو اڑھائی انچ کی کافی ہوگی اب یہ پاکستان میں بڑی اچھی بننے لگ گئی ہیں تو اس قسم کا بجلی کا کنواں لگا دیا جائے گا پھر اس کو سنبھالنا، نقصان سے بچانا، روز مرہ کے خرچ بر وقت کرنا یہ بھی محلہ کا کام ہے.ہم اتنی مدد کر سکتے ہیں.دو تین بلکہ پانچ چھ کنویں لگتے ہوں تو میرے خیال میں اس سال لگ سکتے ہیں.پہلے دو محلوں کے لئے اب دقت پیدا ہوگئی ہے کیونکہ اگر انہوں نے سستی دکھائی تو دوسرے محلے اولیت لے جائیں گے وہ کہیں گے کہ ہم نے کام کر دیا پہلے ہمیں کنویں لگا کر دیں.لیکن میرے نزد یک محله الف اور دارالعلوم کو زیادہ ضرورت ہے بہر حال یہ کام جو کرنے والے ہیں یہ اس طرح مل جل کر کر نے سے ہو سکتے ہیں اب بھی انشاء اللہ ہو جائیں گے مجھے افسوس ہے کہ پہلے اس طرف خیال نہیں آیا.جب سے مجلس صحت کا کام شروع ہوا ہے اس وقت سے میں خود باہر نکل کر مختلف محلوں میں موقع پر جگہوں کو دیکھتا ہوں پھر پتہ چلتا ہے اور ضرورتوں کے مطابق نئے خیالات ذہن میں آتے ہیں.تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مئی، جون ، جولائی اگست ستمبر، اکتوبر نومبر گزر گئے

Page 589

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۶۹ خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ اور اب دسمبر کا مہینہ آ گیا ہے.گویا کہ دسمبر کے آخر میں موجودہ مالی سال کے آٹھ مہینے ختم ہورہے ہیں اس لئے جو بجٹ آپ نے اپنے نمائندوں کی معرفت مجلس شوری میں پاس کیا تھا اس کا دو تہائی دسمبر کے آخر تک جمع ہو جانا چاہیے بعض دفعہ شیطان انسان کے دماغ میں عجیب طرح کے وسوسے بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ہمیں اس سے بچنا چاہیے.بعض ایسی جگہوں سے اطلاع ملی ہے جنہوں نے نصرت جہاں ریز روفنڈ کی تحریک میں عطا یا نہیں دیئے یا بہت کم دیئے ہیں مگر انہوں نے یہ عذر بیان کر دیا کہ کیونکہ نصرت جہاں ریز روفنڈ کے عطا یا دینے تھے اور جلد ادا کرنے کا حکم تھا اس لئے ہم لازمی چندہ جات کی ادائیگی میں کچھ ست ہو گئے ہیں.ادھر یہ عذر پیش کر دیا اور ادھر وہ کام بھی نہیں کیا یہ تو بے خیالی کا نتیجہ ہے میں آپ پر الزام نہیں دیتا انسان سے بھول ہو سکتی ہے یہ ان نَّسِينَا میں آتا ہے یعنی جو ہم بھول جائیں مختلف راہوں سے شیطان ہم پر اثر انداز ہوتا ہے.بھول کر یہ عذر کر دیا نصرت جہاں ریز روفنڈ کے جو آپ دوستوں میں سے بعض لوگوں کے وعدے ہیں وہ رضا کارانہ طور پر ہیں.اور لازمی چندہ جات لازمی ہیں وہ بہر حال آپ کو ادا کرنے چاہیں.لازمی چندے مختلف ادوار میں سے گزر کر کم سے کم ایمان کے معیار کو بتاتے ہیں.ورنہ تو جو آگے نکلے انہوں نے دسویں حصہ کی وصیت کر دی.جو ان سے آگے نکلے انہوں نے نویں حصہ کی وصیت کر دی اور پھر آٹھویں حصہ کی ، پھر ساتویں حصہ کی ، پھر چھٹے حصہ کی کسی نے ۱٫۳ کی کر دی.اس سے زیادہ وصیت تو اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں کر سکتے.لیکن لا زمی چندے تو کم از کم معیار ہیں.اور لازمی چندے ہیں.اس میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عقل اور سمجھ عطا کی ہے.جتنی سہولتیں دوستوں کی مجبوریوں کی وجہ سے دی جانی چاہیں وہ دی جاتی ہیں.مثلاً ہمارا زمیندار ہے جو سال میں دو دفعہ غلہ زمینوں سے اٹھا کر اپنے گھر لاتا ہے.تو ان کے لئے اس میں سہولت ہے کہ سال میں اگر ہر مہینہ چندہ نہیں دے سکتے تو سال میں دو دفعہ سارے سال کے چندے دے دیا کریں.میں سمجھتا ہوں کہ جس کے ذمہ مثلاً ایک سولازمی چندہ ہے وہ ایک فصل کے موقع پر دو دفعہ پچاس پچاس کر کے دینے کے ساتھ ساتھ ایک ایک روپیہ ہر مہینے ادا کرے تو اس کے لئے بہتر ہے کیونکہ کھانے کی طرح یہ بھی ایک روحانی غذا ہے.اس کو ہر مہینے کچھ سہارا

Page 590

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۷۰ خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ مل جائے گا.ویسے زمیندار کی عادت ہے کہ پانچ دن کی روٹی پانچویں دن کھا لے تو پانچ دن صبر بھی کر سکتا ہے.دس وقتوں کی ایک وقت میں روٹی بھی کھا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے زمیندار کو ایسی عجیب طاقت دی ہے کہ جس کا شہر والے تصور بھی نہیں کر سکتے.خود میرا اپنا مشاہدہ ہے ایک دفعہ میں خدام الاحمدیہ کے دورے پر گیا.ایک جگہ بارش ہو گئی سیلاب آ گیا.راستے رک گئے ، جس گاؤں جانا تھا وہاں کے قائد صاحب پانی میں سے گزرتے ہوئے سات آٹھ میل پر گاؤں سے دور جہاں سے آگے ہم نہیں جا سکتے تھے ہمیں لینے کے لئے پہنچے.ہمارا سامان اٹھایا ہمارے ساتھ گئے.ہماری خدمت کی ہمیں کھانا کھلایا اور ہر وقت میرے ساتھ رہے اور کھانے میں شریک نہیں ہوئے اگلے دن صبح کے ناشتے میں شریک نہیں ہوئے.دو پہر کا کھانا کھا کر ملاقاتیں کر کے باتیں کر کے سمجھا کر.کام کے متعلق مشورہ لے کر مشورہ دے کر دو پہر کے کھانے کے بعد واپس آئے اس طرح آٹھ دس میل تک ہمارے ساتھ ہمیں واپس چھوڑنے آئے جہاں سے گئے تھے اور جہاں ہماری پرانی سی کا رکھڑی تھی جسے میں استعمال کرنے کے لئے مقامی تبلیغ والوں سے لے گیا تھا.تو جب ہم وہاں پہنچے تو میں نے ان سے پوچھا کہ ہمارے ساتھ لگے رہے ہو کل سے کچھ کھایا بھی ہے کہنے لگے نہیں.خدا تعالیٰ نے ایک زمیندار کو یہ طاقت دی ہوئی ہے اس لئے وہ یہ سمجھتا ہے کہ روحانی میدان میں بھی میں چھ ماہ کے بعد دے دوں گا تو گزارہ کرلوں گا.خدا کرے گزارہ کر جائے.لیکن جتنا ہو سکے ماہانہ چندہ بھی دیں اس میں سے کٹوتی ہو جائے گی.کھانے کے لحاظ سے بھی زمیندار بڑے مشہور ہیں.میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں ایک زمیندار دوست جلسہ سالانہ کے موقع پر میرے ہاں مہمان تھے.اور بھی مہمان تھے جن کے لئے کھانا عموماً گھر میں ہی پکا کرتا تھا.ایک دن اُنہوں نے کہا لنگر سے کھانا منگوا دیں.چنانچہ میں نے رات کا کھانا منگوایا جو بڑی دیر سے پہنچا.اتنے میں ہم کھانا کھا چکے تھے.یہ زمیندار دوست بھی کھانا کھا چکے تھے.جب لنگر کا کھانا آیا جو بائیں روٹیاں اور اس کے مطابق سالن تھا تو یہ زمیندار دوست کہنے لگے صبح تک تو یہ خراب ہو جائے گا.تو میں ہی کھا لیتا ہوں چنانچہ انہوں نے رات کا کھانا کھانے کے باوجود ۲۲ روٹیاں اور سالن کھا لیا.پس زمیندار دوست کھانے پر صبر بھی

Page 591

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۷۱ خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ کر سکتے ہیں اور پانچ پانچ دن کا کھانا اکٹھا بھی کھا لیتے ہیں شہری لوگ ایسا نہیں کر سکتے.اس لئے ان کو ہم کہتے ہیں کہ جب خریف کی فصل کا ٹو تو آدھا چندہ دے دو اور جب ربیع کی کاٹو تو آدھا چندہ دے دو کچھ تھوڑا تھوڑا ہر مہینے دیتے رہا کر ولیکن اب چونکہ خریف کی فصلوں کی آمد آ رہی ہے اس واسطے آج میں خصوصاً اپنے زمیندار بھائیوں اور زمیندارہ جماعتوں کو یہ نصیحت کر رہا ہوں اور ساتھ ہی اپنی شہری آبادی کو بھی نصیحت کر رہا ہوں کہ لازمی چندہ کا ۳/ ۲ حصہ ۳۱ دسمبر تک یہاں پہنچ جائے.یہ کوئی مشکل بات نہیں ذراسی ہمت کی بات ہے.ہمارے ناظر صاحبان دفتری نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ حقیر انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کا امام بنا دیا ہے وہ کسی اور نگاہ سے دیکھتا ہے چنانچہ وہ گھبرا جایا کرتے ہیں اور میں ان کی گھبراہٹ پر مسکرا یا کرتا ہوں.یہ قوم اس لئے پیدا نہیں کی گئی کہ وہ چندوں کی ادائیگی یا دیگر ہمہ گیر قربانیوں میں پیچھے رہ جائے.لیکن سال میں ایک دو بار ناظر صاحب بیت المال آمد پر گھبراہٹ کا دور آتا ہے آج کل بھی آیا ہوا ہے.وہ مجھے گبھراہٹ کے بار بار خط لکھ کر میری مسکراہٹوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں.پس میں اپنے زمیندار دوستوں سے یہ کہوں گا کہ اب آپ کو مثلاً گنے کی آمد آرہی ہے.کپاس کی آمد آرہی ہے.جن دوستوں نے مونجی لگا رکھی ہے، اس کی آمدان کو پہنچ رہی ہے.اس وقت وہ بڑی آسانی سے اپنے اپنے چندے ادا کر سکتے ہیں اور یہ خریف کی فصل ہی میں زیادہ آسانی ہے کیونکہ ربیع کی فصل سے زیادہ تر گندم آتی ہے ہمارا جو چھوٹا زمیندار ہے اس نے سارے سال کے لئے اپنے کھانے کا بھی انتظام کرنا ہوتا ہے.وہ اس وقت چندے کا بوجھ پوری طرح نہیں اٹھا سکتا.(اس سے مراد سندھ کی ساری زمینیں ہیں جن میں حضرت صاحب اور جماعت کی زمین بھی شامل ہے ) ہمارا سندھ کی زمینوں کا تجربہ ہے سارے سال کا خرچ خریف کی فصلوں میں رکھا جاتا تھا گویا یہ اصول بنا یا ہوا تھا اور زمین سے جو اصل منافع متوقع ہوتا ہے وہ ربیع کی فصل سے حاصل کیا جاتا ہے.گنا اور کپاس تو Cash Crops ( کیش کرا پس) ہیں یعنی یہ وہ فصلیں ہیں جن کے بدلہ میں آپ کو نقد روپیہ ملتا ہے اسی طرح پنجاب کے اکثر حصوں میں لوگوں میں چاول کھانے کی عادت نہیں اس لئے یہ چاول بھی Cash Crop ہی سمجھا جاتا ہے یہ بھی

Page 592

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۷۲ خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ بازار میں چلا جاتا ہے اور اس کے عوض نقد پیسے مل جاتے ہیں آپ چونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مزدور بن گئے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے اموال میں بڑی برکت رکھی ہے.میری دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے اموال اور آپ کی فصلوں اور تجارتوں میں اور بھی زیادہ برکت ڈالے.اللہ تعالیٰ کی برکت کو جذب کرنے والی جو آپ کی کوشش اور سعی ہے اس میں کمی نہیں آنی چاہیے آپ خدا تعالیٰ کی راہ میں جتنی زیادہ قربانی دیں گے اتنا ہی زیادہ وہ آپ کو دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کا قرض نہیں رکھتا اس لئے تمام زمیندارہ جماعتیں خریف کی فصلوں کی آمد سے اپنے لازمی چندوں کا کم از کم ۲/۳ حصہ ادا کریں یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے دفتر والے گھبراتے پھریں دوستوں کو تو جہ دلانے کی ضرورت تھی میں نے ان کو توجہ دلا دی ہے اب یہ دفتر والوں کا کام ہے کہ وہ دوستوں تک ان کے گاؤں میں پہنچ کر تو جہ دلائیں کچھ دوست تو یہاں ہر جمعہ میں آئے ہوتے ہیں لیکن اکثریت تو اپنے اپنے گاؤں میں آباد ہے اس سلسلہ میں ہمارے مربی صاحبان وقف عارضی پر جانے والے دوستوں ہمارے اخبار اور عہد یداروں کو چاہیے کہ وہ جماعتوں کو توجہ دلائیں کہ ان پندرہ ہیں دنوں کے اندراندر اپنے چندے کا ۳/ ۲ حصہ مرکز میں بھجوا د میں یہ رقم انہوں نے کما کر تو نہیں دینی یہ تو زمین کی اس پیداوار سے ادا کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی برکتوں کے ساتھ ان کو عطا فرمائی ہے جس کے کچھ حصے بک گئے اور کچھ آج کل بک رہے ہیں پس ہمارے زمیندار دوست اپنی ذمہ داریوں کو اخلاص کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی ربیع کی فصل میں انشاء اللہ برکت ڈال دے گا میں نے اللہ تعالیٰ کی ان برکتوں کے خود نظارے دیکھے ہیں اس لئے میں تمام دوستوں سے عموماً اور زمیندار جماعتوں سے خصوصاً ایک بار پھر یہ کہتا ہوں کہ ہمارے بجٹ کا ۳/ ۲ حصہ اس ماہ کے ختم ہونے سے پہلے پہلے مرکز میں پہنچ جانا چاہیے.اگر کوئی ایسی جماعت ہو جو نصرت جہاں ریز روفنڈ کا وعدہ اور لازمی چندہ اس ماہ میں ادا نہ کر سکتی ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس ماہ میں پہلے لازمی چندوں کو ادا کرے اور نصرت جہاں ریزروفنڈ کے بقیہ وعدوں کو جنوری یا فروری یا اگلی فصل کے نکلنے پر ڈال دے لیکن لازمی چندوں کا ۲/۳ حصہ اس ماہ کے آخر تک ادا کرنے کی کوشش کریں اللہ تعالیٰ آپ کے

Page 593

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۷۳ خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ اموال میں اور آپ کی کوششوں میں اور آپ کی زمینداری اور آپ کی تجارت اور آپ کے پیشوں میں برکت ڈالے.چوتھی بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بزرگ دوست مولوی یعقوب خان صاحب کل لاہور میں وفات پاگئے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رُجِعُونَ.ان کی بیعت خلافتِ اولیٰ کی ہے لیکن خلافت اولیٰ کی بیعت کرنے کے باوجود (ویسے تو یہ ایک موٹی بات ہے بچے بھی سمجھ جائیں گے کہ جب ایک خلافت کی بیعت کر لی تو ) پھر خلافت کا انکار دوسری خلافت کے وقت کیسے ہو گیا مگر ہو گیا.بعض لوگ دنیا کے ابتلا میں پھنس جاتے ہیں غرض انہوں نے خلافت اولی میں بیعت کی اور خلافت ثانیہ کا انکار کر دیا اس طرح غیر مبایعین میں شامل ہو گئے جنہوں نے خلافت کی بیعت نہیں کی اور اس گروہ میں شامل نہیں ہوئے جو خدا تعالیٰ کی برکتوں سے اس وقت ساری دنیا پر چھایا ہوا ہے اس انکار پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا میں سمجھتا ہوں خلافتِ اولیٰ میں ان سے کوئی ایسی نیکی ہوئی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا انجام بدنہیں ہو گا چنانچہ انہوں نے خلافت ثالثہ کی بیعت کر لی اور اس کے بعد انہوں نے ۲۹ / دسمبر ۱۹۶۹ ء کو وصیت بھی کر دی گویا یہ آج سے تین سال پہلے کی بات ہے انہوں نے بیعت بھی وصیت سے کچھ عرصہ شاید ایک دو مہینے پہلے کی تھی اور پوری بشاشت کے ساتھ اور بڑے دھڑلے کے ساتھ بیعت کی ان کے ایک بڑے بیٹے تو پہلے سے مبائع تھے ان سے چھوٹے بیٹے نہ صرف یہ کہ مبائع نہیں تھے بلکہ بڑا شدید اختلاف رکھنے والے تھے اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی فضل کیا انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر ان کی بیوی نے بھی بیعت کر لی.اس پر مولوی صاحب مرحوم کے پرانے ساتھیوں کو بڑا غصہ آیا اور اپنے اس غصے کا اظہار پیغام صلح میں بھی کرتے رہے اور مولوی صاحب بڑے پیار کے ساتھ ان کا جواب بھی دیتے رہے اور ان کو یہ نصیحت بھی کرتے رہے کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشن کا میاب کرنے کے لئے جو مہم اللہ تعالیٰ نے جاری کی ہے اس میں تمہارا بھی کوئی حصہ ہو تو پھر تم بھی خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ.پس خلافت سے دوری بھی رہی اور بڑے لمبے عرصے تک رہی پھر ایک وقت میں اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور وہ شمع خلافت کے پروانہ بن گئے اور اس

Page 594

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۷۴ خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ طرح ان کا اچھا انجام ہوا خیر کے ساتھ ان کا خاتمہ ہوا اللہ تعالیٰ ان کو ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے اور بہت پیار کرے اور اپنے فدائی اور محبوب بندوں کے ساتھ ان کو بھی شامل کرے جولوگ ان کی مبائع ہونے کی حیثیت میں تین سالہ زندگی میں غصے کا اظہار کرتے رہے تھے وفات کے بعد ان کو بھی خیال پیدا ہوا اور یہ تو قابل اعتراض بات بھی نہیں خدا کرے یہ پیار بڑھتے بڑھتے مرحوم کی اس خواہش کو بھی پورا کر دے اور وہ بھی خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہو جا ئیں بہر حال لاہور میں ان کے کچھ عزیزوں نے کہا کہ وصیت کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ لا ہو ر ہی میں ان کو دفنا دیا جائے اگر چہ ان کی وصیت تھی مگر یہ تو عزیزوں کا کام تھا کہ کسی کا جنازہ زبر دستی تو نہیں لے جایا جا سکتا اور نہ لے جانا چاہیے چنانچہ ان کا جنازہ ہسپتال سے ہماری مسجد دارالذکر میں لے جایا گیا.اور غالب و ہیں ان کی تجہیز و تکفین ہوئی اور پھر مبائعین نے ان کی نماز جنازہ پڑھی.ان کا جنازہ عزیزوں کو دکھانے کے لئے ان کے گھر لے گئے وہاں انہوں نے کہا کہ ہم تو نہیں چاہتے کہ ان کا جنازہ ربوہ لے جایا جائے چنانچہ انہوں نے مجھے فون پر اطلاع دی میں نے کہا اگر ان کے عزیز نہیں چاہتے تو پھر اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ ان کو امانتا دفن کر دیا جائے وقتی طور پر ایسے جذبات ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے اور وہ ان کا جنازہ یہاں لے آئیں.لیکن ان کی جو روح ہے ان کے اوپر تو عزیزوں کا اختیار نہیں ہے.روح کو خدا تعالیٰ نے جہاں پہنچانا تھا وہاں پہنچ گئی.اللہ تعالیٰ سے ہم امید رکھتے ہیں اور ہماری دعائیں ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ بے شمار اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو فدائی جماعت جن سے خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم راضی اور جو اپنے رب پر راضی ہیں اور جو اس گروہ میں ہیں جو ہم سے آگے جاچکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ان میں شامل کرے اور بے شمار نعمتوں کا وارث بنائے.پس روح پر تو نہ میرا اختیار ہے اور نہ ان کے کسی عزیز کا اختیار اور نہ آپ کا اختیار ہے.جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار سے غیر مبائعین پر ایک حجت لے یہ حصہ عبارت بوجوہ الفضل میں چھپنے سے رہ گیا تھا.ز و دنویسی کے ریکارڈ سے مکمل کر دیا گیا.

Page 595

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ بنا دیا اور ایک لمبا عرصہ ان میں رہے اور ایک لمبا عرصہ ان کے سوچے سمجھے منصوبوں کے مطابق ( جو بھی وہ سمجھے تھے ) احمدیت کی ترقی کے لئے کوشاں رہے.لمبے عرصہ کے مشاہدہ اور ایک لمبے عرصے کے جائزہ نے انہیں حقیقی کامیابیوں سے محرومی کا احساس بھی دلا دیا اور پھر وہ علی وجہ البصیرت اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد پورا ہونا ہے تو پھر جو شخص بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پیار کرنے والا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نائب اور خلیفہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس نیک دل پر اپنے پیار کا جلوہ نازل فرمایا اور جو غلطی تھی وہ اس شخص نے اسی دنیا میں معاف کرالی اب ہمارا یہ بھائی خدا تعالیٰ کے پیار کو لے کر اُخروی دنیا میں چلا گیا.ان کی نماز جنازہ غائب جمعہ کی نماز کے بعد میں پڑھاؤں گا.سب دوست اس میں شامل ہوں اور ان کے لئے اور اپنے لئے اور جانے والوں کے لئے اور رہنے والوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کا پیار ہمیشہ ہمارے نصیب میں رہے اور کبھی عارضی طور پر بھی اس کی ناراضگی کی راہیں ہم پر نہ کھلیں اور ہمارے قدم نا پسندیدہ راستوں کی طرف نہ بھٹکیں ).خدا کرے کہ آٹھ نومہینوں کے بعد جب جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں اور عقل ان کے تابع نہ رہے تو ان کا تابوت ( جو خدا کرے عارضی طور پر وہاں دفن ہوا ہو ) یہاں بہشتی مقبرہ میں آ جائے.بہر حال ان کی روح کا جو مقبرہ ہے وہ تو وہی ہے جو خدا نے ان کے لئے پسند کیا ہماری دعائیں ان کے ساتھ بھی ہیں اور ہماری دعا ئیں ہر وقت پہلے جانے والوں کے ساتھ بھی ہیں یہاں جورہ گئے ہیں ان کے ساتھ بھی ہیں.دعا ہی تو ہماری روح اور زندگی کا سہارا ہے.اس کے بغیر تو ہم ایک سانس بھی نہیں لے سکتے اور نہ کسی کامیابی کی امید رکھ سکتے ہیں نہ خدا تعالیٰ کی برکتوں کو جذب کرنے کی توقع رکھ سکتے ہیں.یہ صرف دعا ہی ہے جس سے یہ سب کام ہو جاتا ہے.نماز جنازہ بھی ایک دعا ہے جس میں خدا کی حمد کی جاتی ہے ایک تہائی یا اس سے بھی زیادہ وقت میں اور جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جاتا ہے.ایک تہائی وقت میں یا اس سے بھی زیادہ وقت میں اور جس میں ایک تہائی وقت سے کم اپنے لئے دعا کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کی حسین

Page 596

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۷۶ خطبه جمعه ۸ /دسمبر ۱۹۷۲ حکمت نے اس کی بھی تقسیم یوں کی ہے کہ اس دعا کا ایک تھوڑا سا حصہ اس میں وہ وفات پانے والے کے لئے اور باقی زندہ رہنے والوں کے لئے ہے پس اس پر بھی جب غور کریں تو دو باتوں کا پتہ لگتا ہے.ایک یہ کہ جانے والے کے لئے ضرور دعا کرنی چاہیے تا کہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی زیادتی ہوتی رہے.دوسرے یہ کہ جو زندہ ہیں ان کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے کیونکہ نماز جنازہ میں بھی دعاؤں کا زیادہ وقت ان کے لئے ہے یعنی اس دعا کے لئے نماز کا تیسرا حصہ ان کے لئے تھا اور اس میں سے بھی ایک حصہ وفات پانے والوں کے لئے اور باقی زندہ رہنے والوں کے لئے ہے تو اللہ تعالیٰ وفات پانے والوں پر بھی رحمتیں نازل فرمائے اور زندہ رہنے والوں کے لئے بھی بہت زیادہ رحمتیں نازل کرے کیونکہ ابھی انجام کا کچھ پتہ نہیں.خود انسان کو کوئی پتہ نہیں اور نہ کسی اور کو پتہ ہے.پس جو شخص وفات پا گیا خدا کرے کہ اس کا انجام نیک ہو اور وہ خدا کی رحمتوں میں داخل ہونے والا ہو اور جو زندہ رہ گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی فضل فرمائے اور ان سے کبھی ایسی غلطی سرزد نہ ہو جس کے نتیجہ میں وہ اس کی نظر پیار اور نظر رضا سے محروم ہو جائیں پس نماز جمعہ کے بعد میں انشاء اللہ ڈاکٹر مولا نا محمد یعقوب خاں صاحب کا جنازہ پڑھاؤں گا آپ سب اس میں شامل ہوں.(روز نامه الفضل ربوه ۱۹؍ دسمبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۵ تا ۸)

Page 597

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۷۷ خطبہ جمعہ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء ہمارا ہر کام ایسا ہونا چاہیے جو محبت الہیہ کو جذب کرنے والا اور الفت واخوت کو مضبوط بنانے والا ہو خطبه جمعه فرموده ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمُ اَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُمْ بنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا (ال عمران : ۱۰۴) وَلِحْلٌ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرة : ۱۴۹) پھر فرمایا :.اسلام نے جہاں باہمی الفت اور اخوت پر بڑا زور دیا ہے وہاں جذ بہ مسابقت پیدا کرنے کی بھی بڑی تاکید کی ہے.تاہم ان دو باتوں کا آپس میں اکثر تصادم بھی ہو جایا کرتا ہے.لیکن تصادم اس وقت ہوتا ہے جب اس چیز کو نظر انداز کر دیا جائے جس کے مقدم کرنے پر اسلام بنیادی طور پر زور دیتا ہے جس کے بغیر نہ تو اجتماعی رنگ کے اخروی کام کامیاب ہوتے ہیں اور نہ دنیوی اجتماعی کوششیں کامیابی کا منہ دیکھتی ہیں.اسی لئے ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اسلام کی اس تعلیم نے ہر زمانہ میں قریباً ہر ترقی کرنے والی اور کامیاب ہونے والی ذہنیت پر اثر ڈالا ہے.

Page 598

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۷۸ خطبه جمعه ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء اسلام نے بنیادی چیز ہمیں یہ بتائی ہے کہ کامیابی کے لئے اتحاد ملی اور اُلفت واخوت سب سے اہم چیز ہے اور مسابقت اس دائرہ کے اندر ہوتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ صف میں فرمایا کہ مومن جن سے اللہ پیار کرتا اور جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے وہ ہیں جو اسلام کے مخالفین کے مقابلہ میں اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے بنیان مرصوص کی حیثیت رکھتے ہیں.یعنی ایک ایسی پختہ دیوار جس کو مضبوط سے مضبوط کرنے کے لئے سیسہ پگھلا کر اس کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے.کوئی درز ، کوئی رخنہ اس دیوار میں باقی نہیں رہتا اور اس مضبوطی کے لئے انسانی کوششیں کافی نہیں اور تدبیر کا تو حکم ہے لیکن انسانی کوشش محض انسانی کوشش اس لئے کافی نہیں ہوتی اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ انفال میں فرمایا:.b هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ - وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ b جَمِيعًا مَّا الفتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ - (الانفال: ۶۳، ۶۴) کہ وہی اللہ ہے جس نے اے محمد متجھ کو اپنی مدد اور مومنوں کے ذریعہ سے مضبوط کیا اور مضبوط اس طرح کیا کہ مومنوں کے دلوں کو الفت کے بندھنوں میں باندھ دیا اور اگر ساری دنیا کے اموال اس مقصد کے حصول کے لئے خرچ کر دیئے جاتے تب بھی یہ مقصد انتہائی دنیوی کوششوں کے باوجود حاصل نہیں ہوسکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تیری نصرت اور مدد کا یہ سامان کیا کہ مومنوں کے دلوں کو آپس میں الفت کے ساتھ باندھ دیا.فرمایا وہ یقیناً غالب اور حکمت والا ہے.ايدك بنصرہ فرمایا یعنی اپنی نصرت کے ساتھ تیری تائید کی اور وہ غالب ہے ایسا کرسکتا ہے کوئی دنیوی طاقت اس کے مقابلے میں نہیں آسکتی لیکن اس تدبیر کی دنیا میں خدا تعالیٰ نے جو حکیم ہے اور جس کے کام حکیمانہ ہیں اپنی نصرت کے لئے ایک راہ یہ کھولی کہ مومنوں کی ایسی تربیت ہوئی اور ان کے اندر ایسی الفت اور اخوت پیدا ہوئی کہ وہ تیرے ممد اور معاون بن گئے اور دنیوی طاقتوں کے مقابلہ میں تیرے پہلو بہ پہلو کھڑے ہو کر تیرے آگے اور پیچھے مقابلہ کر کے انہوں نے مقصدِ حیات انسانی یعنی توحید کے قیام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے قیام کے لئے

Page 599

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۷۹ خطبه جمعه ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء انتہائی کوشش کی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے سامان پیدا کر دیئے.سورہ آل عمران میں فرمایا :.وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءَ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ - ا کہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے کہ مختلف قو میں جو آپس میں برسر پر کار تھیں ان میں سے ایک ایک کو لیا اور ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا.اسلام لانے سے پہلے ان کا آپس کا باہمی تعلق دشمنی اور عداوت کا تعلق تھا اور پھر اسلام لانے کے بعد کا انہی کا آپس کا باہمی تعلق الفت اور اخوت کا تعلق بن گیا.أَلَّفَ کے معنے بڑے حسین ہیں اور وہ ہمارے سامنے رہنے چاہئیں.مفردات میں آیا ہے الْمُؤَلِّفُ مَاجُمِعَ مِنْ أَجْزَاءٍ مُخْتَلِفَةٍ وَرُتِبَ تَرْتِيبًا قُدِّمَ فِيْهِ مَاحَقُهُ أَنْ يُقَدِّمَ وَأَخْرَفِيْهِ مَاحَقُهُ أَنْ يُؤَخِّرَ - مؤلف کے معنی انہوں نے بیان کئے ہیں ( یعنی جن کی تالیف کی گئی ) یعنی جو امت محمدیہ ہے ہمارے اس مضمون کے لحاظ سے.کیونکہ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ہے.یہ سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار ہی نہیں بلکہ اپنے اجزاء کی ایک حسین نسبتیں رکھنے والی دیوار ہے.یہ نہیں کہ پٹھان جس طرح دیوار بناتے ہیں.مٹی کا لوتھڑا ڈالا ( جسے پنجابی میں تھو پا کہتے ہیں ) اور دیوار کھڑی کر دی.بلکہ جس چیز کی جہاں ضرورت ہے وہ وہاں لگائی گئی ہو.کیونکہ مؤلّف (مؤلف) یہاں آ جائے گا مسلمان کے معنوں میں یا مؤلفہ اُمت محمدیہ ) جوا جزاء مختلفہ کو جمع کر کے اور ان کو ایسی ترتیب دے کر جسے مقدم رکھنا چاہیے اسے مؤخر رکھا گیا ہو اور جسے مؤخر ہونا چاہیے اسے مقدم رکھا گیا ہو.ان کو جمع کر کے یکجان کر دیا گیا ہے اس معنی میں ایک واضح اصول کی طرف اشارہ ملتا ہے یعنی مسابقت کی جو ہدایت ہمیں دی گئی ہے فرما یا جذبہ مسابقت میں قُدِّمَ فِيْهِ مَا حَقُهُ أَنْ يُقَدِّمَ وَأُخِرَفِيْهِ مَاحَقُهُ أَنْ يُؤَخَرَ کا خیال ہمیں رکھنا پڑے گا.ورنہ اسلام کی تعلیم اور ہدایت کے مطابق مسابقت نہیں ہوگی.پس اسلام نے الفت و اخوت اسلامی کو ایک بنیادی چیز قرار دیا ہے.کوئی ایسا کام ایک

Page 600

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۸۰ خطبه جمعه ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء احمدی مسلمان کو نہیں کرنا چاہیے جو اللہ کی محبوب اجتماعی ہیئت کذائی پر برے رنگ میں اثر انداز ہو.ہر کام ایسا ہونا چاہیے.جو خدا تعالیٰ کی محبت کو زیادہ جذب کرنے والا اور اس اتحاد اور الفت اور اخوت کو زیادہ مضبوط بنانے والا ہو اور اس حقیقت کے باوجود کہ سب ایک جان ہو گئے یہ بھی ضروری ہے کہ جذبہ مسابقت پایا جائے.وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيهَا ہر ایک کا ایک نہ ایک صحیح نظر ہوتا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ فرمایا تم نیکیاں کرنے میں ایک دوسرے سبقت لے جانے کی کوشش کرو.اب جو کوشش خیرات کرنے کی نیکیاں کرنے کی بھلائی کرنے کی دکھ دور کرنے کی خیر پہنچانے کی سکھ پہنچانے کی ہوگی.یہ نیکیوں کی جو کوشش ہے اس سے جو بنیان مرصوص ہے اس پر مخالف اثر نہیں پڑتا بلکہ موافق اثر پڑتا ہے اس سے اتحاد زیادہ مضبوط ہوتا ہے کمزور نہیں ہوتا.لیکن مسابقت ضروری ہے کیونکہ مسابقت کے بغیر کامیابی نہیں ملتی.اس بنیاد پر مسابقت ہے کہ كَانَّهُم بُنْيَان مرصوص (الصف: ۵) اس بنیاد پر مسابقت ہے کہ اُلفت و اخوت اسلامی قائم رہے اور مضبوط تر ہوتی چلی جائے اور یہ نیکیوں کی مسابقت ہے.پہلی چیز کو بھلا کر اگر آپ مسابقت کریں گے.اس کی دنیوی مثالیں میں دیتا ہوں جس سے بچے سمجھ جائیں گے.جیسے یہ ہاکی کے میچ میں مقابلہ ہے کہ کون جیتا ہے.لیکن اگر اتحا دسامنے نہیں تو وہ ہا کی سٹک جو بنانے والوں نے گیند کو مارنے کے لئے بنائی ہے وہ سروں پر پڑے گی اور سر پھوٹ جائیں گے ابھی چند دنوں کی بات ہے کسی نے مجھے بتایا کہ پاکستانی طالبات کا لائلپور میں ایک میچ ہو رہا تھا تو ایک دوسرے پر گملے پھینک مارے.اب یہ جو Net ball ( نیٹ بال) ہے اس کا گملوں سے کیا تعلق اور پھٹول سے کیا واسطہ مقابلہ اور مسابقت تو یہ ہے کہ قوم اجتماعی رنگ میں اچھی کھیل کھیلے اور نتیجہ نکل آیا یہ کہ گملے ٹوٹے سر پھوٹے اور پھول خراب ہو گئے جو پھولوں میں حسنِ الہی ہے اس کو نقصان پہنچ گیا.پس یہ تو ایک ایسی مسابقت ہے جس میں الفت واخوت کا خیال نہیں رکھا گیا.تنزل کرنے والی قومیں یا جنہیں تنزل کی دلدل سے باہر نکلنے کی سوجھ بوجھ نہیں ہے.وہ اس قسم کی مسابقت کیا کرتی ہیں اور جنہیں ترقی کرنے کے راز اور گر آتے ہیں وہ ایسی

Page 601

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۸۱ خطبہ جمعہ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء مسابقت نہیں کیا کرتے لیکن انسانی کمزوری ہے اس کو دیکھنا پڑتا ہے اور ہر وقت اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس قسم کی آپس میں لڑائی اور غلط مسابقت کا کام شروع نہ ہو جائے.اب مثلاً چین ہے.چین ہم سے دو سال چھوٹا ہے ہم ۴۷ء میں آزاد ہوئے اور وہ ۴۹ ء میں آزاد ہوا.چین ہم سے آبادی کے لحاظ سے بڑا ہے پاکستان کی آبادی آزادی کے وقت گیارہ کروڑ کے قریب تھی اب غالباً بارہ تیرہ کروڑ ہے چین کی آبادی آزادی کے وقت ساٹھ پینسٹھ کروڑ تھی اقتصادی لحاظ سے چین ہم سے بہت پیچھے تھا.Industry (انڈسٹری ) کے لحاظ سے چین ہم سے بہت پیچھے تھا لیکن وہاں کے جو کرتا دھرتا لوگ ہیں انہوں نے اسلام کی تعلیم کو اپنایا اور بڑی تگ و دو کی کہ مسابقت کرنی ہے اور آپس میں لڑنا نہیں.ان کا ماٹو جو انہوں نے بنایا ہے اس سلسلے میں اس کا انگریزی ترجمہ میں نے ایک جگہ یہ پڑھا ہے "Friendship First, Competition Second" تو پہلے دوستی ہے یہ چینی دماغ کی پرواز اور اڑان نہیں ہے یہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے قرآن کریم کی یہ عظمت ہے کہ جو لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے ان کی بھی رہنمائی کرتا ہے جولوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانتے نہیں ان کو اپنے عمل سے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آپ واقعہ میں رَحْمَةٌ لِلعلمین ہیں گویا جنہوں نے آپ کو نہیں پہچانا ان کے لئے بھی رحمت بن گئے یہ ایک بنیادی چیز ہے کہ الفت واخوت اول باہمی مسابقت بعد میں ان کی آپس کی نسبت یہ ہے کہ ایک بنیاد ہے اور ایک فرع ہے.ایک کی اہمیت اتنی ہے کہ اس کو کسی صورت میں بھی چھوڑا نہیں جاسکتا.ایک کی اہمیت ایسی ہے کہ اگر وہ بنیادی چیز کو ضرب لگانے والی ہے تو اس کو چھوڑنا پڑے گا.مسابقت کو،Competition کو ہمیں چھوڑنا پڑے گا اگر وہ بنیان مرصوص کو ضرب لگا رہی ہے.پس قرآن کریم بڑی عظمتوں والی کتاب ہے لیکن افسوس کہ جو لوگ اس کی طرف منسوب ہوتے ہیں وہ بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.جو اس پر ایمان لاتے ہیں وہ بھی اس سے فیض حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے جنہوں نے اس کو مانا ہے انہوں نے بھی اس کو مہجور کی طرح چھوڑ دیا.دیکھو ہمارے ملک میں فتنہ اور فساد کی آگ بھی بھڑک رہی ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ ہم پاکستان

Page 602

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۸۲ خطبه جمعه ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء کو زیادہ اچھا چلا سکتے ہیں.ہم آگے بڑھیں گے اتحاد کا دعویٰ کر کے پاکستان کی بنیاد کے اوپر تبر چلا نا اور فساد کرنا اس کو تو خدا تعالیٰ پسند نہیں کرتا اور پاکستان کے جواموال اور خزانے ہیں انہیں تباہ کرنا اور انہیں آگئیں لگانا اور پاکستان کی جو حقیقی دولت ہے یعنی انسان اور اس کی فراست اور اس کی محنت ، اور اس کی جدو جہد ، اس کی جفاکشی اور اس کا مجاہدہ اس حقیقی دولت کو تباہ و برباد کرنا یا اس کی جدو جہد میں روکیں پیدا کر کے دراصل قوم کی دولت کو نقصان پہنچانا ہے یہ اسلام کی مسابقت نہیں.اسلام کی مسابقت تو وہ ہے کہ جس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما یا کہ اِخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ لیکن تمہارے اختلاف تو اُمت مسلمہ کے لئے زحمت بن گئے ہیں یہ ایک دوسرے کو زخمی کرنا اور سر پھوڑ نا امنی کا اختلاف کہاں سے ہو گیا ؟ پس یہ جو فتنہ بپا ہے یہ پانچ سات دن کا نہیں یہ ایک منصوبہ ہے جو پیپلز پارٹی کے بر سر اقتدار آنے کے معاً بعد شروع ہو گیا تھا.جماعت احمد یہ دنیوی معیار کے مطابق، ایک کمزور سی ، ایک بے سہاراسی ، ایک لاوارث سی جماعت ہے لیکن نہ ہم کمزور ہیں نہ بے سہارا کیونکہ ہمارا سہارا تو وہ چیز ہے جو دنیا کو نظر نہیں آتی یعنی خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت ہمارا سہارا ہے.اس لئے ہم کمزور بھی ہیں دنیا کی نگاہ میں اور ہم طاقتور بھی ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں اور ہم کوشش کرتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں کہ وہ ہمارا سہارا بنے گا.پس قادر و توانا خدا جس کا سہارا بن جائے اس کو دنیا کیسے کمزور پائے گی ؟ گو ہمارے ذرائع بڑے محدود ہیں لیکن تھوڑا بہت علم ہوتا رہتا ہے.چنانچہ گزشتہ جولائی میں ایک ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان پیدا کیا مجھے یہ خبر ملی کہ یونیورسٹیز کو بند کر وانے اور تعلیمی اداروں میں فتنہ و فساد کروانے کیلئے ایک بہت بڑی سازش پاکستان کے باہر ہوئی ہے.میں سیاسی حکمتوں کی وجہ سے نام کسی کا نہیں لوں گا لیکن جو بات کروں گا وہ بالکل پکی ہے یعنی مجھے یہ اطلاع ملی کہ پاکستان کی یونیورسٹیز اور کالجز کو ہنگاموں کے ذریعہ اور فساد کے نتیجہ میں بند کروانے کے لئے ایک سیاسی جماعت کو دس کروڑ روپیہ دیا گیا ہے پاکستان کی سلامتی کا جذبہ اور پاکستان کی محبت اگر تمہارے دلوں میں ہو تو پھر تمہیں ہر فساد کے لئے باہر سے پیسے حاصل کرنے

Page 603

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۸۳ خطبہ جمعہ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء کی ضرورت نہیں.پھر ہمیں ۶ اکتوبر کی چلی ہوئی بیرونِ پاکستان سے یہ اطلاع آئی کہ بڑے منصوبے بن رہے ہیں اور ان میں یہ بھی منصوبہ ہے کہ چونکہ جماعت احمدیہ کے افراد بھی عوام ہیں اور ان کی ہمدردیاں پیپلز پارٹی سے ہیں.اس لئے ان کے خلاف ہنگامہ آرائی کا ایک بہت بڑا منصو بہ پاکستان سے باہر بنایا گیا ہے پھر نومبر میں پاکستان کے ایک ذریعہ سے پتہ چلا کہ بعض غیر ملکی جماعت احمدیہ میں غیر معمولی مفسدانہ دلچسپی لے رہے ہیں.اس طرح پہلی خبر کی تصدیق ہوگئی میں نے بتایا ہے کہ ہم تو ایک کمزور سی جماعت ہیں.ہمارے ذرائع بڑے محدود ہیں ہمیں یہ خبریں ملیں مگر حکومت کے زیادہ ذرائع ہیں اسے زیادہ صحیح اور زیادہ خبریں ملتی ہوں گی اور یہ نتیجہ میں پنجاب کے گورنر غلام مصطفی کھر کی پچھلے سات آٹھ دن کی تقاریر سے نکالتا ہوں کیونکہ ان کو حالات کی زیادہ خبر ہے آج تو انہوں نے بہت زیادہ سخت بیان دیا ہے.انہوں نے کہا کہ تم نے منصوبہ بنایا ہے پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے پاکستان میں خون بہانے کا لیکن اگر خون ایک دفعہ بہنا شروع ہو گیا یعنی تم نے پہل کر دی تو پھر اس وقت تک خون بہتا رہے گا جب تک تمہارا سارا خون نہ نکل جائے.آئندہ کیا حالات رونما ہوتے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے.لیکن کیا ضرورت سمجھی حکومت نے اس قسم کی تنبیہ کی.وہ آج کے بیان سے ظاہر ہے.ہمیں اپنے ذرائع سے پہلے سے علم تھا کہ ہمارے خلاف منصوبہ بنایا جا رہا ہے اور میں انتظار کر رہا تھا ، میں دعائیں کر رہا تھا.بعض دوستوں کو میں نے بعض باتیں بتا ئیں اور بعض کو دوسری باتیں بتا ئیں میں نے کہا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر لحظہ ہر آن ہر لحاظ سے اپنی حفاظت اور امان میں رکھے.اگر ہم نے خدا کے حضور صحیح قربانیاں دیں تو ہم اس کی مدد اور نصرت کو معجزانہ طور پر آسمان سے نازل ہوتے دیکھیں گے.جہاں تک احمدیت کو تباہ کرنے کا سوال ہے.وہ تو ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا.جس جماعت کو خدا نے تمام بنی نوع انسان کو زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اس جماعت کو انسانوں کا ایک چھوٹا سانا سمجھ گروہ تباہ کیسے کر سکتا ہے؟ یہ تو بھی ہوہی نہیں سکتا مگر اللہ تعالیٰ سے جو ہمارا تعلق ہے وہ نہ کبھی ٹوٹنا چاہیے.نہ کمزور ہونا چاہیے.دنیا جو مرضی کرتی ہے ہمیں اس کی

Page 604

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۸۴ خطبہ جمعہ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے.ربوہ میں بھی اس فتنے کی کچھ آنچ آئی اور ہمارے کا لج میں بعض لڑکوں نے نعرے لگائے.وہ تو ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا.پھر ایک اور چھوٹا سا واقعہ بھی ہوا.ملک میں آگ لگی ہو تو ہم تک گرمی تو پہنچے گی اور وہ ہم تک پہنچی لیکن میرے لئے جو بات بڑے دکھ کا باعث بنی وہ یہ کہ ہمارے بعض احمدی خاندان بھی روپے کے لالچ میں اس آگ میں ملوث ہو گئے.یہ کام میرا اکیلے کا نہیں بلکہ اہل ربوہ کا اجتماعی کام ہے کہ ہمارے اندر اس قسم کی کمزوریاں دکھانے والا کوئی شخص نہ ہو اور نہ رہے آپ کے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل باہر کی جماعتوں سے زیادہ ہیں مثلاً ربوہ کا مکین جو چند روپے بھی خرچ کر سکتا ہے وہ اپنے کالج میں اپنے بچوں کو پڑھانے لگتا ہے مگر جو احمدی بچہ سیالکوٹ سے آئے گا اور اس کے والدین کا شوق ہو گا کہ مرکز میں ان کا بچہ پڑھے اس کو آپ کے مقابلہ میں دس پندرہ گنا زیادہ خرچ کرنا پڑے گا.پھر اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ فضل ہے کہ جو مواقع آپ کو ربوہ میں نیکی کی باتوں کے سننے کے ہر وقت ملتے ہیں وہ مواقع باہر رہنے والے احمدیوں کو میسر نہیں آتے.آپ خلیفہ وقت سے قریباً ہر جمعہ کا خطبہ سنتے ہیں.ملاقاتیں کرتے ہیں.آپ میں سے جو بھائی ضرورت مند ہوں ان تک خلیفہ وقت کی نگاہ بڑی جلدی پہنچ جاتی ہے.باہر سے اگر کوئی واقعی ایسا مطالبہ ہو جو ہر طرح جائز ہو اور پورا کرنا ہواس کے لئے بھی ہمیں باہر سے رپورٹ منگوانی پڑتی ہے.حالات کا جائزہ لئے بغیر تو ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے.اس لئے ہم نے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ احمدی ہو یا نہ ہو جب بھی اس قسم کا کوئی مطالبہ آئے ہم اسے امیر کے پاس بھیج دیتے ہیں اور پھر کافی دیر لگ جاتی ہے.یہاں کی ضرورت اگر ایسی ہے کہ ایک گھنٹے میں پوری ہونی چاہیے تو ایک گھنٹہ ہی میں پوری ہو جاتی ہے.لیکن باہر والوں کا تو یہ معاملہ نہیں ہے.آپ پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے پھر یہاں کالج ہے سکول ہے.ہمارا کالج ۱۹۴۴ء میں بنا تھا.میں ہی زیادہ دیر اس کا پرنسپل رہا ہوں.مجھے خیال آیا اور میں نے سوچا میرا اندازہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے اپنے مرکزی تعلیمی اداروں پر اس وقت تک ایک کروڑ روپیہ سے زائد رقم خرچ کی ہے اور اس کا فائدہ زیادہ تر آپ مرکز میں رہنے والے اٹھاتے ہیں یہ تو آپ پر خدا کا فضل

Page 605

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۸۵ خطبہ جمعہ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء ہے.اسی کے عین مطابق ذمہ داریاں بھی آپ پر زیادہ ہیں اور آپ ہیں کتنے جماعت میں.مغربی پاکستان کی احمد یہ جماعت کا آپ اہل ربوہ.ایک فی صد بھی نہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جماعت کہیں سے کہیں پہنچ گئی اور اتنی بڑی رقمیں مرکز میں خرچ کی جاتی ہیں.باہر والے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن میں نے بتایا ہے کہ ان کو زیادہ خرچ کرنے پڑتے ہیں.آپ کے گھر میں یہ سہولت ہے آپ جماعت کی تعداد کے مقابلہ میں ایک فیصد بھی نہیں اور اتنی نعمتیں خدا تعالیٰ نے آسمان سے بارش کی طرح نازل کر دی ہیں.اگر آپ اپنی ذمہ داریاں نہیں نباہیں گے تو ایک فیصد کی خدا تعالیٰ اتنی پرواہ نہیں کرے گا جتنی نانوے فیصد مخلصین کی وہ کرے گا.باہر سے لوگ آ جائیں گے پھر آپ باہر چلے جائیں گے وہ یہاں رہیں گے.ان کے دل میں خدا تعالیٰ قدر پیدا کرے گا مرکز اور اس کی ذمہ داریوں کی ایک نعرہ جو یہ لگا کہ آج عوامی حکومت ہے ٹھیک ہے ہم خوش ہیں عوامی حکومت ہے.کون ہیں عوام ! ہم ہیں عوام.احمدی سے زیادہ عوامی کون ہے ہم پہلے بھی عوامی تھے.جب عوامی حکومت نہیں تھی اور اب بھی عوامی ہیں.ہم وہ عوام ہیں جو اس حقیقت کو ابتداء سے جانتے ہیں کہ ہمارے پیارے اور محبوب جس کے لئے یہ کہا گیا تھا.لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک کہ اگر تیرے وجود کو میں نے پیدا نہ کرنا ہوتا تو اس عالمین کو بھی میں پیدا نہ کرتا آپ نے یہ حسین اعلان کیا تھا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم (الكهف : ١١١) کہ یہ اعلان کر دو کہ میں تمہاری ہی طرح ایک بشر ہوں.بشر ہونے کے لحاظ سے دونوں ایک جیسے ہیں.جس جماعت نے ، جس اُمتِ مسلمہ احمدیہ نے اس حقیقت کو پہچانا وہ عوام ہے وہ پہلے بھی عوامی جماعت تھی اور اب بھی عوامی جماعت ہے.عوامی جماعت کا مطلب یہ ہے کہ وہ صیح اصول ، وہ نیکی کی باتیں ، وہ آپس میں ایک دوسرے کی معاونت اور ہر قسم کے پاک اقوال پاک اعمال کا مجموعی طور پر جو ماحول ہے.ربوہ کے تعلیمی اداروں کا ویسا ہی پاک ما حول قائم رہے گا.کل کو عوام دشمن عناصر لائل پور والے یا چنیوٹ والے یہاں آکر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم عوام ہیں ہم یہاں اپنی مرضی چلائیں گے.عوام ہو ؟ تو تم تو

Page 606

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۸۶ خطبہ جمعہ ۱۵ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء عوام دشمن عناصر ہو یا تو اعلان کرو.ہم عوامی پارٹی کے مخالف نہیں ہیں اور جب یہ اعلان کرو گے تو ہم کہیں گے لائل پور میں جا کر چلاؤ.کیونکہ عوامی حکومت کا تو مطلب ہی یہی ہے.عوامی حکومت کے مرکز نے ایک بنیادی Policy ( پالیسی ) وضع کرنی ہے.یہ بنیادی پالیسی ہے کہ ہم آٹھویں جماعت تک مفت تعلیم دیں گے.یہ بنیادی پالیسی ہے کہ ہم اتنی نئی درسگا ہیں کھول دیں گے.یہ بنیادی پالیسی ہے کہ ہم تعلیمی اداروں کا اس قسم کا انتظام قائم کریں گے یہ بنیادی پالیسی ہے کہ ہم سائنسدانوں کو وظائف دے کر باہر بھیجیں گے تاکہ سائنسدانوں کی ضرورت ہمارے ملک میں پوری ہو جائے یہ بنیادی طور پر حکومت کا کام ہے.لیکن اس بات کا فیصلہ کرنا کہ سرگودھا کا ماحول کیسا رہے.اس بات کا فیصلہ کرنا کہ لائل پور کا ماحول کیسا رہے اس بات کا فیصلہ کرنا (جو بنیادی ہدایت ہے مرکزی حکومت کی طرف سے اس کے اندر رہتے ہوئے ) کہ ملتان کا ماحول کیسا رہے.اس بات کا فیصلہ کرنا کہ شیخو پورہ کا ماحول کیسا رہے.اس بات کا فیصلہ کرنا کہ سیالکوٹ کا ماحول کیسا رہے یہ ان شہروں کا کام ہے (اسی طرح دوسروں شہروں کا ) اور اس بات کا فیصلہ کرنا کہ ربوہ میں کسی قسم کا حسین ماحول قائم رہے گا یہ احباب ربوہ کا کام ہے اور کوئی عقلمند آدمی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا.حکومت تو ویسے ہی اعتراض نہیں کرے گی لیکن کسی اور کی طرف سے بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے.حالات کچھ اس قسم کے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ملک کو ملک دشمن عناصر کے منصوبوں سے محفوظ رکھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ پہلے ایک بیان آیا اور پھر اس کے بعد ایک سخت بیان آیا.آج کا بیان تو بہت زیادہ سخت ہے اس سے بھی یہ پتہ لگتا ہے کہ ملک دشمن عناصر کا مقصد یہ ہے کہ جگہ جگہ خون بہایا جائے.آپ ذمہ دار ہیں ربوہ میں کوئی خون نہیں ہے گا نہ احمدی کا نہ کسی اور کا.ربوہ کو اپنی پیاری فضا، جس میں ایک دوسرے سے پیار کیا جاتا ہے کو قائم رکھنا چاہیے اور آپ ظالم کی بھی مدد کریں اور مظلوم کی بھی مدد کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.یہ ہے عوامی حکومت جو ظالم کی بھی مدد کرتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مظلوم کو ظلم سے بچا کر اس کی مدد کرو اور ظالم کو اس کے ہاتھ پکڑ کے کہ وہ ظلم نہ کر سکے ، اس کی مدد کرو

Page 607

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۸۷ خطبہ جمعہ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء کیونکہ جو ظالم ہے وہ تو خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے ہے جو ظالم ہے وہ خدا تعالیٰ کا پیار حاصل نہیں کر سکتا اور اسلام اس لئے دنیا میں قائم ہوا ہے کہ دنیا کا ہر انسان اپنے دائرہ استعداد کے اندر خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے تو ظالم کا ہاتھ پکڑنا اس کی مدد ہے.چور کو چوری نہ کرنے دینا یہ اس کی مدد ہے.ورنہ دنیوی قانون کی گرفت میں بھی وہ آ جائے گا اور الہی قانون کی گرفت میں بھی وہ آ جائے گا.یہ اس کی مدد نہیں کہ آپ آرام سے بیٹھے رہیں کہ ہمیں اس سے کیا.کیا تمہیں اس سے کچھ نہیں کہ تمہارا بھائی خدا کے غضب کی جہنم میں جارہا ہے اگر تم نے جو آج ربوہ میں رہتے ہو اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو یقیناً باہر سے آکر لوگ اس جگہ کو آباد کریں گے اور تمہارے لئے اس میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی اور رَحْمَةٌ لِلعلمین کی طرف سے جو عوام کے لئے رحمت مجسم بن کر آیا تھا تمہیں ظلم کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے.یہ عالمین جو ہے یہ ایک لحاظ سے عوام ہی ہیں نا یا ان کے ذرئع یا ان کی دولتیں یا ان کے Source of Wealth وغیرہ عالمین کا حصہ ہیں پس یہ ہیں عوام اور یہ ہے عوام کے حق میں اور عوامی حکومت جہاں کوئی استحصال نہ ہو.جہاں ہر کسی کو اس کا حق دیا جائے.اس جھنڈے کے ہم علمبر دار ہیں.یہ جھنڈا ہے ( کالا اور سفید ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ اندھیروں میں وہ آئے اور عالمین کو منور کر دیا.یہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈوں کا رنگ ہے یعنی سیاہ اور سفید.یہ سبز جھنڈے بعد کے ہیں.شاید سو سال بعد بنے ہیں.اصل جھنڈا جو ہے وہ کالا اور سفید رنگ کا ہے.پس آپ ظلمات کی رات میں آئے لیلۃ القدر میں آئے.لیلۃ القدر منور رات تو نہیں ہوتی لیلتہ القدر وہ رات ہوتی ہے جب چاند بھی اپنی روشنی کا بہت سارا حصہ کھو چکا ہوتا ہے اگر ۲۱ رکو آ جائے تو پھر بھی پورے چاند کو ایک ہفتہ گزر گیا یا پھر ۲۹ کو آئے تو بالکل اندھیری رات ہوتی ہے تو لیلۃ القدر میں آپ آئے اور اس کو روشن کر دیا اس واسطے خدا تعالیٰ نے آپ کو کہا اپنا جھنڈا کالا اور سفید بناؤ کالا یہ یاد دلانے کے لئے کہ میں اندھیروں کو منور کرنے آیا ہوں اور سفید یہ ثابت کرنے کے لئے کہ میں نے اندھیروں کرمنور کر دیا روشن کر دیا.تو یہ ہے عوامی حکومت اور اُمت محمدیہ ہی حقیقی معنوں میں عوام ہے.غیر نے تو عوام کے معنی ہی نہیں سمجھے.

Page 608

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۸۸ خطبه جمعه ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء بنیان مرصوص کی طرح متحد دنیا کی اقوام کو آگے سے آگے لے جانے کے لئے جذبہ مسابقت رکھنے والے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم نے جو مسابقت جو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی را ہیں اختیار کرنی ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلے گا اور اس مسابقت کی طرف اسلام ہمیں توجہ دلا رہا ہے.چنانچہ سورہ حدید میں فرمایا.سَابِقُوا إلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ (الحديد : ۲۲) یہاں یہ فرمایا کہ ہم نے جو یہ حکم دیا تھا کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ اس کا نتیجہ الْخَيْرِ نکلے گا.فرمایا سا بقوا که جلدی سے آگے بڑھو کس چیز کی طرف ؟ خیرات کی طرف بڑھ کر خیرات کی طرف سبقت لے جانے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی طرف.اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی اس جنت کی طرف جس کی قیمت عالمین ہیں.یعنی زمین و آسمان اس کی قیمت ہیں.یہ اتنی قیمتی شے ہے اس کی طرف آگے بڑھو.یہ ہے مُسَابَقَتُ فِي الْخَيْرَات اور یہ ہے مُسَابَقَتُ إِلَى الْخَيْرَات اور عوامی حکومت میں عوام کا آپس میں مقابلہ اِلی الخَيْرَات ہونا چاہیے.سر پھٹول میں مسابقت نہیں.مکانوں کو جلانے میں مسابقت نہیں ، گاڑیوں کو ٹرکوں اور بسوں کو آگ لگانے میں مسابقت نہیں، ذہنی دولت کو جو قوم کے مستقبل کی دولت ہے کلی طور پر ضائع کر دینے میں مسابقت نہیں کہ کون کسی کا وقت زیادہ ضائع کرتا ہے مسابقت اس بات میں ہے کہ تمہارا بھائی اگر تمہارے پاس آ کر کہتا ہے کہ یہ سبق مجھے مجھ نہیں آیا تو اس کو سمجھاؤ.اگر ایک شخص تمہارے پاس آتا ہے کہ میں نے کسی مجبوری کی وجہ سے لیکچر نہیں سے تم نے جو نوٹ لئے ہیں مجھے دو تا کہ میں نقل کر لوں یا ٹائپ کروالوں تم اسے دو.ہر شخص کو پوری مدد ملنے کے بعد اور آپس میں کلی تعاون کے بعد دیکھو کون آگے نکلتا ہے اور وہ خیرات میں آگے نکلنا ہو گا وہ بھلائی میں آگے نکلنا ہوگا.وہ قوم کو زیادہ ترقی کی راہ میں ڈالنے میں آگے نکلنا ہوگا.وہ قوم کی پرورش کرنے میں آگے نکلنا ہوگا.یہ ہے وہ مسابقت جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے اور جس کے نتیجہ میں بُنیان مرصوص میں کوئی رخنہ باقی نہیں رہتا.اگر تم نے ربوہ میں رہ کر اپنے بچوں کو سنبھالنا ہے اور دنیا کے لالچ میں نہیں آنا تو ربوہ کا نیک ماحول تمہیں برداشت کرنا پڑے گا.اس سے تمہیں پیار کرنا پڑے گا.لیکن اگر تم نے اس پاک فضا سے

Page 609

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۸۹ خطبہ جمعہ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء فائدہ نہ اٹھایا تو میرے مخلص بھائی ربوہ کی فضا کو پاک رکھنے اور معاشرہ کو حسین رکھنے کے لئے اپنی ذمہ داری نبھا ئیں گے.اس سلسلہ میں آپ دوستوں کو بنیادی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ حکومت سے تعاون کرو اور آج حکومت نے یہ اعلان کیا کہ سڑکوں پر نکل آؤ اور ملک کی دولت اور جائیدادوں اور اہل پاکستان کی عزتوں اور جانوں کی حفاظت کرو اور اگر ہم نے حکومت سے تعاون کرنا ہے اور ضرور کرنا چاہیے.تو ربوہ میں بھی ہم کسی ناخوشگوار اور مفسدانہ فعل کو برداشت نہیں کریں گے جن کی نیتیں خراب ہیں وہ بھی سن لیں اور جنہوں نے ذمہ داری نباہنی ہے وہ بھی سن لیں کہ ہم اپنے شہر کو ایک نمونہ بنانا چاہتے ہیں.قابلِ رشک نمونہ.اس لئے رشک کرو ہم پر اور اپنے شہروں کو بھی اسی طرح امن کے جزیرے بناؤ.کون تمہیں اس سے روکتا ہے لیکن جو بھڑکتی ہوئی آگ دشمنی کی ، حسد کی ، بد دیانتی کی اور لا پرواہی کی اور ایک دوسرے کولوٹنے کی اور استحصال کرنے کی تم میں سے بعض نے اپنے شہروں میں بھڑکائی ہوئی ہے ہمارے شہر میں اس کے بھڑ کانے کی کوشش نہ کرو.اس میں خدا کے فضل سے تم کامیاب نہیں ہو گے ہم عوام ( جو ہمارے مخالف ہیں ان کو مخاطب کر کے میں کہتا ہوں) تمہاری خیر خواہی اور ہمدردی کی خاطر ”عوامی“ بنے ہیں.( كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ) تمہیں دکھ پہنچانے یا تم سے کچھ چھینے یا تمہارا استحصال کرنے کے لئے ہم عوامی نہیں بنے یہ عوام کی الناس کی حکومت للناس ہے اور ہم عوامی ہیں.جب ہم عوامی حکومت کا ہی ایک حصہ ہیں تو تمہیں خوف کس بات کا! ہم تو دکھ پہنچاتے ہی نہیں.ہمیں تو یہ حکم ہے گالیاں سن کر دعاد وہ ہمیں تو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ پاکے دکھ آرام دو ہمیں تو یہ کہا گیا ہے کہ تم خود اس لئے تکالیف برداشت کرو کہ تمہارا بھائی تکالیف اور مشقتوں سے بچ جائے.ہم استحصال کرنے کے لئے نہیں استحصال دور کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.پھر تم کیوں گھبراتے ہو اور شیطانی وساوس کا شکار کیوں بن جاتے ہو.لیکن یہ تو نہیں ہوگا انشاء اللہ کہ گندی زیست کی جو آگ، بددیانتی کی جو آگ، ایک دوسرے پر ظلم اور حسد کی آگ اور ایک دوسرے کو نیچے گرانے اور پامال کرنے کی جو آگ دوسری جگہوں میں ہے.جس کو بجھانے کے

Page 610

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۹۰ خطبہ جمعہ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء لئے آج عوامی حکومت کوشش کر رہی ہے وہ آگ اپنے ماحول میں بھڑ کنے دیں.یہ اجازت تو نہیں دی جاسکتی کہ سماج دشمن عناصر ان جگہوں پر بھی آگ لگانے کی کوشش کریں.جہاں وہ پہلے نہیں.جہاں خوبصورت باغ ہیں پھول ہیں.باہر تم نے مشہور کیا کہ ربوہ میں جنت ہے.ہے جنت.لیکن جنت کا وہ تصور نہیں جو تمہارے دماغ میں آیا.کوئی مصنوعی چیز نہیں نہ یہاں مصنوعی جنت ہے نہ مصنوعی جہنم ہے.یہاں تو محبت و پیار کا ماحول ہے دل کی گہرائیوں سے جذ بہ خدمت کے فوارے نکلتے ہیں.یہ ہے وہ جنت جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا کہ تمہاری زندگیوں میں بھی اس دنیا میں بھی وہ جنت ملا کرتی ہے یہاں تو وہ جنت ہے.پس ساری دنیا میں اشاعت اسلام کی جو کوشش کی جارہی ہے اس کی تیزی کو قائم رکھنے کا سوال، اس میں سستی نہ پیدا ہونے کا سوال ہے.یہ میرے اور تیرے سوال کا نہیں.یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور خدا تعالیٰ کی توحید کا سوال ہے.اور خدا تعالیٰ کی توحید بہر حال دنیا میں قائم ہوگی اور محمد صلے اللہ علیہ وسلم کا پیار بہر حال ہر انسان کے دل میں قائم کیا جائے گا.اس کے لئے خواہ ہمیں اپنی گردنیں کٹوانی پڑیں یا اپنی ساری مال و دولت کو قربان کرنا پڑے.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور عقل عطا کرے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق دے اور ہمیں وہ جنت عطا کرے جس کے متعلق اُس نے دنیا میں بھی وعدہ کیا اور جس کے متعلق یہ بھی کہا کہ اتنی حسین اور اتنی قیمتی اور اتنی اعلیٰ ہے وہ جنت کہ زمین و آسمان کی جو قیمت ہے وہ اس کی سمجھ لو.کیونکہ اس سے زیادہ تو انسانوں کے ذہن میں نہیں آتا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہی ہمیں اپنی حفاظت اور امان میں رکھے.اور ہمارے ملک کو بھی.روزنامه الفضل ربوہ ۷ اگست ۱۹۷۳ء صفحه ۲ تا ۷)

Page 611

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۹۱ خطبہ جمعہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۲ء جلسہ سالانہ خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی شہادت اور اس کے پیار کی ایک گواہی ہے خطبه جمعه فرموده ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں نے گزشتہ تین روز شدید سر درد کی تکلیف میں گزارے ہیں، جس کی وجہ سے بعض کاموں کا حرج بھی ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.آج تو کافی افاقہ ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پوری طرح صحت عطا فرمائے کہ کام تو ہمیشہ ہی اہم رہتے ہیں لیکن جلسہ سالانہ کے جو کام ہیں اور جلسہ سالانہ کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ باہر سے ہزاروں بلکہ ایک لاکھ کے قریب دوست تشریف لاتے ہیں ( عملاً ایک لاکھ ۲۵ ہزار کا اجتماع ہوا) ان سے ملاقات کرنے کی ذمہ داری ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو جماعت احمدیہ پر ہر آن بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں، اس کے متعلق ان کو آگاہ کرنے کی ذمہ داری ہے.غرض نیکی کی باتیں، آئندہ کے پروگرام اور اسلام اور احمدیت کی بنیادی باتیں بتانی ہوتی ہیں.یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جو سال بہ سال آتی ہے مگر بڑی ہی اہمیت رکھتی ہے.اس لئے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور صحت سے رکھے.یہ جمعہ اور اس کے بعد کا جو جمعہ ہے وہ جلسہ کے جمعے ہیں.جلسہ سالانہ کے مہمان ہمارے لئے

Page 612

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۹۲ خطبہ جمعہ ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۲ء خوشیوں اور برکتوں کے سامان لے کر آنے شروع ہو گئے ہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں بیان ہوا ہے کہ آپ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے.آپ کو دیکھنے والا ہر شخص آپ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت کے آثار مشاہدہ کیا کرتا تھا.گو یا مسکرانا سنتِ نبوی ہے اسی واسطے میں نے پہلے بھی متعدد بار کہا ہے کہ مجھے بھی اور مجھ سے پہلو کو بھی بڑے مصائب اور پریشانیوں میں سے گزرنا پڑتا رہا ہے.مگر ہماری مسکراہٹ کو ئی نہیں چھین سکا.جب جماعت نسبتاً چھوٹی تھی ، اس چھوٹی سی جماعت کو بھی اور اب جب کہ جماعت نسبتا بڑی ہوگئی ہے ( دنیا کے لحاظ سے تو یہ اب بھی چھوٹی ہے ) اس نسبتاً بڑی جماعت کو بہت سی پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے.ہماری مخالفتیں ہوتی ہیں.ہمیں تنگ کیا جاتا ہے اور قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہے.ہمارے خلاف منصوبے باندھے جاتے ہیں.احمدیت کے مخالفین کی یہ کوششیں اور منصوبے دراصل غلبہ اسلام کی اس مہم کے خلاف ہیں جو احمدیت کے ذریعہ جاری ہوئی ہے.غرض لوگ جانتے بوجھتے یا نا سمجھی کی وجہ سے اس جماعت کو دکھ پہنچاتے ہیں جس پر اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی ذمہ داری ہے.مگر یہ تمام دکھ اور تکلیفیں ہماری مسکراہٹوں کو ہم سے نہیں چھین سکیں.اس لئے کہ ہم تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور آپ کے اسوۂ حسنہ میں اپنی زندگی اور زندگی کے حسن کو دیکھتے اور پاتے ہیں.پس یہ موقعہ ایک لحاظ سے امتحان کا ہے کیونکہ جب بہت دوست جمع ہو جا ئیں تو کچھ محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے.کچھ فکر زیادہ کرنی پڑتی ہے کچھ آنے والے بھائیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے.روز مرہ کی زندگی کے علاوہ جماعت پر عموماً اور اہل ربوہ پر خصوصاً ایک زائد بوجھ پڑتا ہے.پھر پیچ میں کچھ منافق بھی ہوتے ہیں جو دکھ دینے والی باتیں کرتے ہیں، وہ بھی سنی پڑتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری مسکراہٹوں کو چھینا نہیں جا سکتا.اس لئے میں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مسکراتے چہروں اور مخلصانہ جذبات کے ساتھ اپنے آنے والے بھائیوں کا استقبال کریں اور ان کا پورا خیال رکھیں.جلسہ سالانہ کے یہ ایام جو دوسری بات ہمیں یاد دلاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل

Page 613

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۹۳ خطبہ جمعہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۲ء کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ایک وقت تھا مہدی معہودا کیلے تھے آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہے کہ میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور لوگ تیری طرف اس کثرت سے رجوع کریں گے کہ راہیں ہموار نہیں رہیں گی.چنانچہ وہ شخص جو تن تنہا تھا اللہ تعالیٰ نے اس ایک کو ہزار کر دیا.ہزار نہیں کیا بلکہ اس ایک کو خدا تعالیٰ نے لکھوکھا کر دیا ہے اگر پختہ احمدی اور نیم احمدی ہر دو کو شامل کیا جائے تو اس وقت جماعت کی تعداد کروڑ سے اوپر نکل چکی ہے.گو اب بھی جماعت بہت تھوڑی ہے اور ہمیں اس کا اعتراف ہے لیکن یہ روز بروز ترقی کرتی چلی جارہی ہے.دنیا اس حقیقت کو بھول گئی ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے.آنا ناتی الْأَرْضَ تَنْقُصُهَا مِنْ أطرافها (الانبیاء : ۴۵) اور نتیجہ یہ نکالا تھا کہ گوا بھی ہلکی رفتار کے ساتھ ترقی ہو رہی ہے مگر تدریجی ترقی ہوتی چلی جاتی ہے پس تمہارے اندر عقل ہو تو سوچو افَهُمُ الْغَلِبُونَ.کیا اس کے بعد تم غالب آنے کا اور اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو نا کام کرنے کا نتیجہ نکالو گے.چنانچہ ایک مسلسل ترقی کی راہ ہے.جس پر جماعت احمدیہ کا کارواں گامزن ہے.میں نے پہلے بھی اس حقیقت کو بیان کیا تھا کہ کوئی صبح ایسی طلوع نہیں ہوتی جو پہلے دن کی صبح سے جماعت کو زیادہ مضبوط نہیں دیکھتی اور زیادہ تعداد میں نہیں پاتی اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور یہ جلسہ الہی فضلوں کی ایک علامت اس کی رحمتوں کی ایک شہادت اور اس کے پیار کی ایک گواہی ہے.جو دوست جلسہ سالانہ پر باہر سے تشریف لاتے ہیں وہ بڑی قربانی کر کے آتے ہیں.اب مثلاً جہاں تک مالی لحاظ سے قربانی کا تعلق ہے ایک دوست جو کراچی سے آئے گا وہ اگر تیسرے درجے میں بھی سفر کر کے آئے تو بھی فی کس سو روپے سے زیادہ خرچ آئے گا.غریب جماعت ہے.غریب احباب پر مشتمل جماعت ہے لیکن احباب جماعت ایک جنونی کیفیت کے ساتھ جلسہ کے دنوں میں الہی برکتوں کے حصول کے لئے مرکز کی طرف دوڑتے ہیں.یہ عشق کی ایک آگ ہے یہ سلسلہ کی محبت کی ایک آگ ہے جو ہر سال اپنا ایک جلوہ دکھاتی ہے اس لئے کہ دعوی کرنے والے نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا کے کونے کونے میں گاڑ دوں اور آپ کی محبت تمام بنی نوع انسان کے دل میں قائم

Page 614

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۹۴ خطبہ جمعہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۲ء کر دوں.چنانچہ یہ وجود مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود ہے جس نے جماعت کے دلوں میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو پیدا کیا تھا.اس وجود سے اس محسن سے جماعت جلسہ سالانہ کے دنوں میں پیار کرنے کا عملی مظاہرہ کرتی ہے.پس جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے دوست بہت بڑی قربانی کر کے آتے ہیں وہ جب مرکز میں آتے ہیں تو جہاں ہمیں ہنستے ہوئے چہروں کے ساتھ ان کا استقبال کرنا چاہیے وہاں ان کے لئے بڑی دعا ئیں بھی کرنی چاہئیں.سفر میں بعض تکالیف بھی بعض دفعہ برداشت کرنی پڑتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے جلسہ سالانہ کے مسافروں کو سفر کی ہر تکلیف سے محفوظ رکھے.اور خدا کرے کہ ان ایام میں جہاں اجتماعی دعا ئیں بڑی کثرت سے ہوں گی اور جہاں خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والے بڑی کثرت سے جمع ہوں گے مرد بھی اور عورتیں بھی اور جہاں خدا تعالیٰ کے حضور انسان بڑی کثرت سے عاجزانہ طور پر جھکے گا وہاں آسمانوں سے کثرت سے برکتیں بھی نازل ہو گی.اس لئے دوست کثرت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اہل ربوہ کو بھی اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو خدا تعالیٰ کی آواز کو سن کر خدا کے لئے نہ کہ کسی دنیوی غرض کے لئے مرکز سلسلہ میں جمع ہوتے ہیں.ان کو بھی ان بے شمار رحمتوں میں حصہ دار بنائے جو ہر آن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں اور کوئی شخص اپنی غفلت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول سے کلیڈیا ایک حد تک بھی محروم نہ ہو جائے.غرض یہ دن بڑی دعاؤں کے دن ہیں.بڑی قبولیت دعا کے دن ہیں ان دنوں دعائیں بھی ہوتی ہیں اور بڑی کثرت سے ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو سنتا اور بڑی کثرت سے قبول بھی فرماتا ہے.آخر ہم یہاں سلسلہ کے مرکز میں کیوں بیٹھے ہیں صرف خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بیٹھے ہیں یہاں آنے والے کیوں آتے ہیں جبکہ یہاں نہ ان کو کوئی دنیوی لذت اور نہ ان کو کوئی دنیوی نفع حاصل ہوتا ہے.وہ صرف اس لئے آتے ہیں کہ دورانِ سال اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں جماعت پر نازل ہوتی ہیں وہ ان کے بعض نظارے ان کی بعض جھلکیاں دیکھ لیں کیونکہ بے انتہا فضل نازل ہورہے ہیں.وہ سارے ان چند دنوں میں تو بیان نہیں کئے جاسکتے وہ یہاں آتے ہیں

Page 615

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۹۵ خطبہ جمعہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۲ء کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ کر ان کے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہو جا ئیں.اللہ تعالیٰ ان کو دعاؤں کی توفیق عطا فرمادے اور خدا کے فضل سے وہ مقبول دعاؤں کا درجہ پائیں ایسی دعائیں نہ ہوں جو رد کر دی جاتی ہیں.پس مخلصین ربوہ کو چاہیے کہ وہ ان دنوں بہت دعائیں کریں اور جو لوگ احمدی ہونے کے باوجود ایمان میں کمزور ہیں.احباب ان کے لئے بھی دعائیں کریں کہ الہی فضلوں، رحمتوں اور برکتوں کی جو بارش حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ آج دنیا میں نازل ہو رہی ہے وہ لوگ اپنی بے سمجھی کے نتیجہ میں ان سے محروم نہ رہیں.وہ بھی خدا کے لئے اور خدا کی رضا کے حصول کے لئے قربانیاں دینے والے ہوں.پس دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں اور کہہ رہا ہوں وہ یہی ہے کہ احباب ان ایام میں اپنے دن اور رات کو اپنی دعاؤں سے اس طرح معمور کر دیں کہ بعد میں آنے والوں کے لئے آپ کا یہ زمانہ موجب فخر ہو.خدا کرے آپ کی دعائیں اللہ کی رحمتوں کو جذب کرنے کا موجب بنیں اور اس کے فضل اور رحمتیں پہلے سے بھی زیادہ جماعت پر اجتماعی رنگ میں اور آپ پر انفرادی لحاظ سے نازل ہوں.تیسری بات جو میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں اور جس کی طرف جلسہ کے انتظامات کی وجہ سے توجہ پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اب مرکز میں سٹیڈیم طرز کی جلسہ گاہ تیار ہونی چاہیے.جب جلسہ سالانہ کے یہ دن گزر جاتے ہیں تو انسان دوسرے کاموں میں مشغول ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ ضروری اور توجہ طلب باتیں نظر انداز ہو جاتی ہیں.چونکہ ایک وسیع جلسہ گاہ کی تعمیر کی ضرورت بہت اہم ہے اس لئے میں احباب کو اس طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں.ایک لمبا عرصہ ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش پیدا کی کہ ایک ایسا بڑا ہال ہو جہاں لیکچروں کا انتظام کیا جا سکے اور جس میں یکصد سامعین سما سکیں.آپ نے اس زمانے کی ضرورت کے مطابق فرمایا تھا.پھر ۱۹۴۵ ء میں حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تحریک کی کہ ایک لاکھ سامعین کے بیٹھنے کے لئے انتظام کیا جائے

Page 616

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۹۶ خطبه جمعه ۲۲ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء اور آج خلیفہ المسیح الثالث تمہیں کہتا ہے کہ اس وقت ہمیں ایک ایسی جلسہ گاہ کی ضرورت ہے جس میں کم از کم دواڑھائی لاکھ آدمی بیٹھ سکیں.اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو یہ توفیق ہے اور وہ عملاً یہ کام کر سکتے ہیں یعنی یہ محض ایک خواب و خیال والی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی تجویز ہے جو ممکن الحصول ہے اس کی طرف جماعت احمدیہ کو تو جہ دینی چاہیے اور سٹیڈیم کی شکل کی کوئی ایسی جلسہ گاہ بن جانی چاہیے جو ایام جلسہ میں دو اڑھائی لاکھ مردوں اور عورتوں ( دونوں کے لئے جلسہ گاہ اکٹھا کرنا پڑے گا بیچ میں پردے کا انتظام ہو جائے گا) کے لئے بیٹھنے کا انتظام ہو جائے.یعنی سٹیڈیم کی طرز پر بنی ہوئی سیڑھیاں اور زمین پر کم از کم دو اڑھائی لاکھ نفوس کے بیٹھنے کی گنجائش ہو کیونکہ جلسہ میں شمولیت کرنے والوں کی تعداد جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اگر ہم نے آج کی ضرورت کے مطابق کوئی سٹیڈیم بنالیا تو پانچ سال کے بعد وہ بھی چھوٹا ہو جائے گا.اس واسطے اس سلسلہ میں اگلے دس سال کی ضرورتوں کو مدنظر رکھنا پڑے گا دس سال کے بعد خدا تعالیٰ جماعت کو یہ توفیق دے گا کہ اس وقت کی جماعت اس سے بھی بڑا سٹیڈیم بنالے گی.لیکن اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں دو اڑھائی لاکھ آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش رکھنے والا سٹیڈیم در کار ہے.اس کے لئے جو خرچ ہے وہ تو مجھے اپنے رب کریم پر امید ہے کہ مل جائے گا لیکن جو کام ہمارے کرنے کے ہیں.مثلاً اچھے نقشے تیار کرائے جائیں.ایسے نقشے ہوں جن میں ضرورت کا خیال رکھا جائے اور نمائش کا خیال نہ رکھا جائے.ایسے نقشے ہوں جن کے مطابق ہم آسانی سے عمارت کھڑی بھی کر سکتے ہوں ایسے نقشے ہوں کہ جن کے مطابق عمارت کو بتدریج ہر سال بڑھایا جا سکے.یعنی پہلے سال پورا سٹیڈیم مکمل کرنے کی بجائے تدریجا مکمل کرنے کی گنجائش ہو یعنی پہلے سال جو حصہ بن جائے اگلے سال اس میں کچھ اور اضافہ ہو جائے اس سے اگلے سال اور بڑھا دیا جائے.تاہم یہ کام تو Darfts Man (ڈرافٹسمین ) اور انجینئر ز کی لیاقت پر منحصر ہے.ان کو سوچنا چاہیے اور جماعتی نظام کو یہ کام کروانا چاہیے.میں سمجھتا ہوں کہ اگلے سال خواہ عارضی طور پر جس طرح اس دفعہ جلسہ گاہ میں سیڑھیاں بنائی گئی ہیں اس طرح کا انتظام کر دیا جائے لیکن ایک بڑی جلسہ گاہ کا انتظام ہو جانا چاہیے.

Page 617

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۹۷ خطبہ جمعہ ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۲ء جس وقت مسجد اقصیٰ بن رہی تھی تو ہمارا خیال تھا کہ سامنے کا صحن نمازیوں کے لئے کافی ہوگا لیکن بہت سی ضرورتیں نظر انداز کر کے مشکل سے اس دفعہ بیچ میں سے ایک جگہ نکالی گئی ہے اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ مسجد کا صحن بڑا ہو اس لئے ہمیں مسجد کا موجودہ صحن آگے لے جانا پڑے گا.یہ ٹھیک ہے کہ عام جمعوں کے موقعوں پر گو یہ مستقف حصہ بھر جاتا ہے لیکن صحن والا حصہ پوری طرح نہیں بھرتا لیکن ہماری بہنوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے.ان کے لئے اوپر گیلری میں جو جگہ بنائی گئی تھی وہ ان کے لئے ناکافی ہے.پچھلے یا پچھلے سے پچھلے جمعہ ان کے لئے نیچے صحن میں قناتیں لگا کر جو جگہ بنائی گئی تھی وہاں ان کو خطبہ کی آواز ہی سنائی نہیں دیتی تھی وہ اس پر بڑی سیخ پا ہو ئیں اور ان کا گلہ جائز تھا کہ نظارت اصلاح وارشاد نے ہمارے لئے جگہ تو بنا دی لیکن آواز پہنچانے کا کوئی انتظام ہی نہیں کیا غرض سامنے باہر جو کھلا میدان ہے (جس میں اس وقت جلسہ گاہ بن رہی ہے ) یہ تو مسجد کا حصہ بن جائے گا.ممکن ہے یہ جو موجودہ شکل ہے آئندہ جو مسجد بنے اس کا نصف حصہ یہ ہو اور نصف ہمیں اور بنانا پڑے.اس لئے یہ جگہ تو جلسہ گاہ کے لئے ٹھیک نہیں دوسرے جیسا کہ وہ سٹیڈیم جو میرے ذہن میں ہے اور جس کا میں نے اظہار بھی کیا ہے.یعنی دو اڑھائی لاکھ سے زیادہ سامعین کے بیٹھنے کی جگہ ہونی چاہیے اس کے لئے زمین بھی زیادہ درکا ر ہے.سر دست جگہ کا انتخاب کر کے کام شروع کر دینا چاہیے.مینارة اسبح بال بنانے کی تجویز شورای میں پاس ہو چکی ہوئی ہے.اس مد میں کچھ پیسے جمع بھی ہوئے تھے وہ موجود ہیں.گو تھوڑے سے ہیں لیکن بڑی برکت والے پیسے ہیں.بڑی دیر سے خزانے میں پڑے برکتیں سمیٹ رہے ہیں غرض اس جمع شدہ رقم کے ذریعے انشاء اللہ کام کی ابتدا ہو جائے گی.پس جماعت کو اس سٹیڈیم کی تعمیر کی طرف جنوری میں عملی اقدام کرنا چاہیے ورنہ پھر بھول جائیں گے.میں یہ نہیں چاہتا کہ آئندہ سال جلسہ سالانہ کے دو جمعوں میں سے پہلے جمعہ میں پھر مجھے اسی قسم کی باتیں جماعت کے سامنے پیش کرنی پڑیں.اس لئے کام شروع کر دینا چاہیے کیونکہ جو کام شروع ہو جاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ختم بھی ہو جایا کرتا ہے.لیکن کام شروع ہی نہ

Page 618

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۹۸ خطبه جمعه ۲۲ /دسمبر ۱۹۷۲ء ہو.اس کے خاتمہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس کام کا آغاز نہیں اس کا انجام بھی کوئی نہیں کیونکہ آغاز ، حرکت پیدا ہونے کا نام ہے اور انجام اس حرکت کا مطلوب و مقصودا اپنے آخری نقطے تک پہنچ جانے اور اس کے حصول کا نام ہے.یہی اصول ہماری ہر ظاہری حرکت اور ہمارے ہر کام میں کارفرما ہوتا ہے.غرض ہر کام کا ایک آغاز ہے اور ہر کام کا بفضل خدا ایک انجام ہے.تاہم میں یہ نہیں کہتا کہ ہر کام کا انجام ضرور ہوتا ہے کیونکہ بہت سے ایسے کام بھی ہیں جن کو انسان بیچ میں چھوڑ دیتا ہے.ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں بن سکتا اور نا کام ہو جاتا ہے لیکن حقیقت اور اصولی طور پر کوئی ایسا انجام نہیں جس کا آغاز نہ ہو.پس یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بہت سے ایسے آغاز ہیں جن کا کوئی انجام نہیں لیکن کوئی ایسا انجام نہیں جس کا آغاز نہ ہوا ہو.یہی وجہ ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے کہ تم اپنے انجام بخیر ہونے کے لئے کثرت سے دعا کیا کرو.جو کام تم نے اپنی زندگی میں پورے شعور کے ساتھ شروع کیا یعنی خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کو پانے کا کام اور وہ جو ایک زبر دست مجاہدہ اسلام میں شروع ہوا ہے ہر فرد اس میں اپنے انجام کو پہنچے.ایسا نہ ہو کہ بیچ میں وہ ایمانی لحاظ سے کمزور ہو جائے یا ٹھو کر کھا جائے یا دنیا کی دلدل میں پھنس جائے اور دنیا اسے اپنی طرف کھینچ لے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو بھول جائے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے پیار سے محروم ہو جائے.پس اگر انجام بخیر ہو تو گویا وہ آغاز کامیابی کے انجام کو پہنچ گیا.ہمارا ہر کام چونکہ خدا تعالیٰ کی رضا کی ایک کوشش ہے ہمارا ہر آغاز اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوششوں کے لئے ایک ممد حرکت ہے.اس لئے مجوزہ سٹیڈیم نما جلسہ گاہ بنانے کے لئے حرکت پیدا ہو جانی چاہیے یعنی جلسہ سالانہ کے معابعد جنوری سے کام شروع ہو جانا چاہیے تا کہ آئندہ سال کسی نہ کسی شکل میں ہمیں وہ جلسہ گاہ نظر آئے جو ہمارے بزرگ محترم اور محبوب مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش تھی اور جو آپ ہی کے طفیل ہماری بھی خواہش ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو میں نے تعداد بتائی ہے یعنی دولا کھ یا اس سے زیادہ چار پانچ سال کے اندر جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعدا د انشاءاللہ

Page 619

خطبات ناصر جلد چہارم ۵۹۹ خطبہ جمعہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۲ء دواٹر ہائی لاکھ تک پہنچ جائے گی شاید زیادہ سے زیادہ دس سال تک جائیں لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ پانچ سال میں ایک اتنی بڑی جلسہ گاہ کی ضرورت پیدا ہو جائے گی.جس میں دواڑھائی لاکھ سامعین بیٹھ سکیں.اس سٹیڈیم کی تعمیر کے ساتھ ہماری ایک اور ضرورت بھی پوری ہو جائے گی.میں کل قیام گاہوں کا نقشہ دیکھ رہا تھا جسے دیکھ کر میں بڑا پریشان ہوا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ ایسی جماعتیں بہت بڑی تعداد میں جلسہ سالانہ میں شامل ہوتی ہیں جو ا کٹھی ٹھہرتی ہیں ان کے ٹھہرانے کے لئے مہمانوں کی نسبت ہمارے پاس جو عمارتیں ہیں وہ بہت تھوڑی اور چھوٹی رہ گئی ہیں.اسی طرح مستورات کی قیام گاہیں بھی ایک تو تھوڑی ہو گئی ہیں اور دوسرے چھوٹی ہوگئی ہیں اگر سٹیڈیم کی طرز پر جلسہ گاہ بنا ئیں تو اس میں ہمیں رہائش کے لئے شاید اس سے زیادہ مسقف حصہ مل جائے جتنا اس وقت جماعت کی عمارتوں میں میسر آتا ہے.بلکہ میں سمجھتا ہوں اس سے دگنی مکانیت میسر آ جائے گی کیونکہ ایک بہت بڑے سٹیڈیم میں رہائش کی بھی گنجائش نکل سکتی ہے.پس سٹیڈیم نما جلسہ گاہ کی اس وقت بڑی ضرورت ہے دس دن پہلے کی بات ہے مجھے یہ اطلاع دی گئی کہ سارے ربوہ کے کئی ہزار مکانوں میں سے صرف تیں مکانوں میں افسر جلسہ سالانہ کو مہمانوں کے ٹھہرانے کے لئے کوئی جگہ ملی ہے جگہ اس لئے تھوڑی ملی ہے کہ ہر دوست کے گھر میں اس کے اپنے مہمان آ رہے ہیں.اس صورت میں وہ افسر جلسہ سالانہ کے ساتھ کیا تعاون کرے گا.کل ہی میری ایک ہمشیرہ نے مجھے بتایا کہ میں اپنی چھوٹی چند ماہ کی نواسی کو لے کر اس سردی کے موسم میں خیمہ میں جا رہی ہوں اس لئے کہ مہمان اتنے آرہے ہیں کہ میرے لئے کوئی کمرہ بچتا ہی نہیں.اب جس مکان میں صاحب خانہ کے لئے کوئی کمرہ نہیں بچا ظاہر ہے اس مکان سے افسر صاحب جلسہ سالانہ کو تو کوئی کمرہ نہیں مل سکتا.پس رہائش کی ضرورت روز بروز بڑھ رہی ہے ہمارا وہ عارضی انتظام جس کے ماتحت بعض دوست اپنے گھروں کے کمرے جلسہ سالانہ کی انتظامیہ کو دے دیا کرتے تھے وہ انتظام کمزور ہو رہا ہے تاہم وہ انتظام اس لئے کمزور نہیں ہو رہا کہ اہل ربوہ کے اخلاص میں کمی آگئی ہے بلکہ اس

Page 620

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۰۰ خطبہ جمعہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۲ء لئے کمزور ہو رہا ہے کہ ان کے اخلاص میں زیادتی ہو گئی ہے جہاں پہلے وہ اپنے گھر میں دو گھرانوں کو ٹھہراتے تھے وہاں اب وہ چار چار پانچ پانچ گھرانوں کو ٹھہرانے لگے ہیں.غرض اس لحاظ سے یعنی مکان میں وسعت نہ ہونا یہ بات بڑی فکر پیدا کرنے والی ہے آخر ہمارے جو مہمان آئیں گے ان کو اس سردی میں سر چھپانے کے لئے کوئی نہ کوئی جگہ تو دینی پڑے گی وہ ہم سے چار پائیاں نہیں مانگتے وہ تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمیں نیچے زمین پر سونے کے لئے پرالی یا کسیر بچھا دو.پہلے ہم بامر مجبوری دب کے چھنے والے پتے یا گنے کے چھلکے وغیرہ نیچے بچھانے کے لئے دیتے رہے ہیں دوست ان پر بھی خوشی خوشی گزارہ کر لیتے تھے لیکن اب چونکہ ہمارے قرب و جوار میں چاول پیدا ہونے لگ گیا ہے اس لئے پر الی نسبتا آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہے چنانچہ ہمارا ایک لکھ پتی دوست بھی یہ کہتا ہے کہ مجھے پرالی دے دو، وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ مجھے مکان دو اور نہ یہ کہتا ہے مجھے بڑا کمرہ دو.وہ تو یہ کہتا ہے کہ مجھے سر چھپانے کے لئے کوئی چھوٹا سا کمرہ دے دو جس میں ہم خاندان کے آٹھ دس افرادزمین پر لیٹ کر گزارہ کر لیں گے.پس ہمارے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کا یہ مطالبہ نہ صرف یہ کہ معقول ترین ہے بلکہ اس سے کم کا مطالبہ ہو ہی نہیں سکتا اور اس سے زیادہ ہم ان کو دے بھی نہیں سکتے وہ تھوڑے پر خوش ہیں اور ہم زیادہ نہ دینے پر مجبور ہیں.وہ خوش ہیں کہ گزارہ کے لئے رہائش مل گئی اور ہم مجبور ہیں کہ ہم ان کو زیادہ جگہ نہیں دے سکتے.لیکن جتنا آرام ملنا چاہیے وہ تو ضرور ملنا چاہیے.اس سردی میں ہم ان کو یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ باہر ٹھہر وہ ممکن ہے بعض صحت مند نوجوان ایک کمبل کی بجائے دو کمبل اوڑھ کر باہر بھی ٹھہر جائیں آخر فوجوں کو بھی تو اسی طرح باہر ٹھہر نے کی مشق کرائی جاتی ہے لیکن ہر عمر اور صحت کے مرد، عورتیں اور بچے تو باہر نہیں ٹھہر سکتے.پس اگر ہم سٹیڈیم کی طرز کی جلسہ گاہ بنائیں گے تو اس سے کسی حد تک یہ ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اس لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ جب جامعہ احمدیہ کے ہوسٹل کا کچھ حصہ بن رہا تھا اور کچھ حصہ ابھی نہیں بن رہا تھا تو میں نے پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ سے کہا تھا کہ جو حصہ نہیں بن رہا اس کو بھی بنا دو.اس وقت اگر چہ وہ بھی کہتے تھے کہ ہمیں بھی دوسرے Wing ( ونگ)

Page 621

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۰۱ خطبه جمعه ۲۲ /دسمبر ۱۹۷۲ء کی بڑی ضرورت ہے لیکن میرے دل میں ان کی ضرورت کا اتنا احساس پیدا نہیں ہوا جتنا میرے دل میں اپنے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا.چنانچہ میں نے پرنسپل صاحب سے کہا کہ ہم آپ کو پچاس ساٹھ ہزار روپیہ اور دے دیتے ہیں.آپ دوسرے حصہ کو بھی جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے بنوالیں، چنانچہ وہ بھی مکمل ہو گیا ہے اب تیسر اونگ بھی انشاء اللہ جلد مکمل ہو جائے گا اسی طرح گو ہماری اور کئی عمارتیں بنتی رہتی ہیں.لیکن ضرورت چونکہ بہت زیادہ ہے اس لئے ناکافی ہوتی ہیں.اس واسطے اگر ہم سٹیڈیم کی طرز کی جلسہ گاہ بنائیں گے تو اس میں ہماری یہ ضرورت بھی کسی حد تک پوری ہو جائے گی.پھر عام سٹیڈیم کی جوشکل ہوتی ہے اور جس کے متعلق میں چند ہفتوں سے غور کر رہا ہوں، وہ بھی ہماری ضرورت کو کماحقہ پورا نہیں کرتی.اس واسطے کہ جو عام سٹیڈیم ہوتے ہیں اگر اس کے اندر کرکٹ کا میچ ہوتا تو ہر شخص کی نگاہ کا مرکز وہ ساری گراؤنڈ ہے جس میں کرکٹ کھیلا جا رہا ہے اس واسطے وہ تو ایک خاص شکل ہے.اس میں وہ گراؤنڈ ہر ایک کو نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن جلسہ گاہ کا مرکز نگاہ مقرر ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ دو تین فٹ کا ایک نقطہ ہے.وہ تین فٹ جمع تین سوفٹ یا چار سوفٹ جمع آٹھ سوفٹ کا نقطہ نہیں ہے بلکہ وہ تو بالکل چھوٹی سی جگہ ہے اس واسطے ہمیں اپنے اس سٹیڈیم (جو عام سٹیڈیم کا بھی کام دے گا کیونکہ سارا سال ہم نے اس سے فائدہ بھی اٹھانا ہے) کے بنانے کی اصل غرض ( جلسہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی ) ہے.اس کے مطابق نقشہ بننا چاہیے اور پھر وہ زمین ہوگی وہاں کھیلیں بھی ہوں گی وہاں باہر سے بھی جو ٹیمیں آتی ہیں یعنی غیر ممالک سے ہم ان کو بھی یہاں بلا سکیں گے.ہم نے کسی نہ کسی بہانے دوسرے لوگوں کو مرکز سلسلہ میں کھینچ کر لانا ہے تا کہ وہ یہاں آکر دیکھیں.بہت سے دوست آتے رہتے ہیں یہ نہیں کہ وہ آتے ہی احمدی ہو جاتے ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی رنگ میں اثر ضرور لیتے ہیں ہماری ترقی کا راز اور ہماری کامیابی کا انحصار تو اللہ تعالیٰ کے فضل پر ہے.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ جو بالکل دہر یہ ہیں یعنی خدا کو نہیں مانتے جب انہوں نے یہاں آکر کچھ دیکھا تو اگر چہ وہ اس چیز کو پہچان نہیں سکے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مرہونِ منت ہے.کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین نہیں رکھتے لیکن جب انہوں نے یہاں آکر دیکھا تو ان

Page 622

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۰۲ خطبہ جمعہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۲ء کے مونہہ سے بے ساختہ نکلا کہ تم ضرور کامیاب ہو گے گو ہمیں تو پتہ ہے کہ ہماری کامیابی کا انحصار محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر ہے.لیکن انہوں نے خدا کو تو پہچان نہیں.خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے کی ایک جھلک ان دھندلی آنکھوں کو بھی نظر آ گئی.انہوں نے نتیجہ صحیح نکالا.گواس کی صحیح وجہ ان کے ذہن میں نہیں آئی لیکن انہوں نے نتیجہ صحیح نکالا.پس ہم تو ایک کمزور جماعت ہیں.ہم ایک غریب جماعت ہیں.ہم بے سرو سامانی کی حالت میں زندگی گزارنے والی جماعت ہیں.ہمیں سیاسی اقتدار حاصل نہیں اور نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.یہ ساری چیزیں مسلم ہیں لیکن اس کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم جیتیں گے اِنْ شَاءَ اللهُ تَعَالٰی.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے بھی ہیں اور ہماری جماعت مِنْ حَيْثُ الْجَمَاعَة یہ کوشش کر رہی ہے کہ وہ خدا کی راہ میں ایسی قربانیاں پیش کرے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیار اور رحمت کے جلوے دکھایا کرتا.پس اصل چیز یہ ہے کہ اس کا نقشہ ایسا ہونا چاہیے جو ہماری جلسے کی ضرورت کو پورا کرے.اس کے علاوہ یہ ہمارے لئے سٹیڈیم کا کام بھی دے گو اس کی شکل دنیا کے عام سٹیڈیم سے ذرا مختلف ہو گی لیکن ایک نئی چیز ہم دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوں گے اور اس طرح ربوہ کے اندر غیروں کی توجہ جذب کرنے کا ایک ذریعہ ہم پیدا کر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس قسم کے سٹیڈیم کی طرز کی جلسہ گاہ تیار کرنے کی جلد توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کے خزانے تو بھرے ہوئے ہیں اور وہ بڑا عظیم دیا لو بھی ہے اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو میں انشاء اللہ جلسہ سالانہ کی تقریر میں آپ کو بتاؤں گا کہ وہ کس طرح جماعت پر اپنے فضلوں کو نازل کر رہا ہے.کسی ناشکرے کے لئے ناشکری کی کوئی وجہ اس نے نہیں چھوڑی مگر وہ بڑا ہی بد بخت احمدی ہے جو پھر بھی ناشکری کا جذبہ دل میں رکھتا یا ناشکری کا فقرہ اپنی زبان پر لاتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے کمزور ایمان پر بھی رحم فرمائے.بہر حال وہ بڑا دیا لو ہے ہمیں اس کی سخاوت اور اس کے فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.

Page 623

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۰۳ خطبہ جمعہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۲ء پس اس جمعہ میں جو جلسہ کے دو جمعوں میں سے پہلا ہے بعض باتیں میں نے بتادی ہیں.ایک بات میں دہرا دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ہمیشہ مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی آپ لوگ بھی چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی پر فخر کرنے والے ہیں.آپ کے چہروں پر بھی ہمیشہ مسکراہٹ رہنی چاہیے.خصوصاً اس وقت جب کہ دنیا کے بڑے بڑے بہادروں کے چہروں پر انقباض کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں.آپ کے چہروں پر اس وقت بھی مسکراہٹیں ہی کھیلتی رہنی چاہئیں کیونکہ حضرت نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر مسکراہٹ رہتی تھی.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کو ایک دفعہ بشاشت ایمانی عطا فرمائے.وہ شیطان کے کامیاب حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے (شیطان کے حملے تو ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ بالعموم کامیاب نہیں ہوتے ) تو وہ بشاشت در اصل یہ مسکراہٹ ہے جو چہروں پر کھیلتی رہتی ہے.یہ مسکراہٹ جہالت کا نتیجہ نہیں ہوتی یہ مسکراہٹ غرور اور تکبر کا نتیجہ نہیں ہوتی.یہ مسکراہٹ کم نمی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ وہ مسکراہٹ ہوتی ہے جو بچے کے مونہہ پر اس وقت آتی ہے جب وہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہوا اس کے پیار کو حاصل کر رہا ہوتا ہے.پس وہ مسکراہٹ ہر وقت آپ کے چہروں پر بھی رہنی چاہیے کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا ہے اور اس نے تمہیں کہا کہ اگر آگ بھی بھڑ کائی جائے گی تو اس سے ڈرنا نہیں کیونکہ ہم نے اس آگ کو تمہارا غلام بنا دیا ہے.پس دیکھو اللہ تعالیٰ ہم سے کتنا پیار کرنے والا ہے اس لئے ہمیشہ ہمارے چہروں پر مسکراہٹ رہنی چاہیے.اس جلسہ کے موقع پر خصوصاً اس بات کا خیال رکھیں.آنے والوں سے مسکرا کر باتیں کریں.مسکرا کر ان کے کام کریں اور جس کو تھوڑی بہت ضرورت پڑے اس کی ضرورت کو مسکراہٹوں کے جھرمٹ میں لے آئیں تو وہ وہیں تسلی پا جائے گا کوشش بھی کریں.میں نے دوبارہ یاد دہانی کرا دی ہے.میں دعا تو کرتا ہی رہتا ہوں جمعہ میں بھی کروں گا.اب اس وقت بھی زبانی چند دعائیہ فقرات کہہ دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ہی یہ توفیق دیتا چلا جائے کہ ہمارے چہروں سے دنیا کا کوئی منصو بہ اور تدبیر مسکراہٹیں نہ چھین سکے اور اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جس مقصد کے حصول کے لئے پیدا کیا ہے اس میں اسے کامیاب کرے اور وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا میں اسلام پھیل

Page 624

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۰۴ خطبہ جمعہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۲ء جائے اور ساری دنیا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو دنیا کے محسن اعظم ہیں کی محبت پیدا ہو جائے اور آپ کے حسن و احسان کے بڑے حسین اور نورانی جلووں کو ساری دنیا دیکھنے اور پہچاننے لگ جائے.اے خدا تو ایسا ہی کر.( روزنامه الفضل ربوہ کے جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۲ تا ۷ )

Page 625

خطبات ناصر جلد چہارم خطبه جمعه ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء جلسه سالا نہ آیا اور گزر گیا اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار برکتوں سے نوازا خطبه جمعه فرموده ۲۹ / دسمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصی.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ فاتحہ کی حسب ذیل آیات دوبارہ پڑھیں :.الْحَمْدُ لِلَّهِ - (الفاتحة : ٢) ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - (الفاتحة : ۵) پھر فرمایا:.اللہ تعالی ہی ہر قسم کی تعریف اور حمد کا مستحق ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنی اس جماعت کو یہ توفیق عطا کی کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اس کی خدمت میں سال کے دن رات گزار کے جلسہ سالانہ میں شمولیت بالواسطہ یا بلا واسطہ کریں.دو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی تفسیر میں یہ مضمون بیان کیا ہے اور بڑا حسین نکتہ نکالا ہے کہ خدا کے کسی بندے کو ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنے کا حق تبھی حاصل ہوتا ہے جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہنے کی اہلیت وہ اپنے اندر پیدا کر لے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے معنی ہیں کہ اے ہمارے رب! تو نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا اور تو نے ہمیں روحانی قوتیں

Page 626

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۰۶ خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۲ء عطا کرنے کے بعد ایسی تمام مادی اشیاء بھی عطا کیں جن کی ضرورت ان قوتوں کی نشوونما کے لئے تھی اور ہم نے تیری توفیق سے تیری عطا کردہ قوتوں کو انتہائی طور پر استعمال کر کے تیرے حضور اپنی پیشکش کی.جب تک ان قوتوں سے انسان فائدہ نہ اٹھائے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں، اس وقت تک وہ حقیقی معنی میں اِيَّاكَ نَعْبُ نہیں کہہ سکتا.جب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سب قوتوں سے انتہائی فائدہ حاصل کر لے تب وہ کہہ سکتا ہے کہ تو نے اپنا بندہ اور عبد بننے کے لئے جو طاقتیں ہمیں دی تھی ہم نے ان کا صحیح اور انتہائی استعمال کر لیا اور چونکہ تو نے ہمارے اندر آگے ہی آگے بڑھنے کا جذبہ اور جوش پیدا کیا ہے.اس لئے اس مقام پر ہمارے دل تسلی نہیں پکڑتے اور ہم نہیں چاہتے کہ ہم یہیں کھڑے رہیں.اس لئے جو قو تیں تو نے ہمیں عطا کیں ان کے مطابق ہم نے اپنی طرف سے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی ، اب آگے بڑھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری قوت میں اضافہ ہو، اس واسطے إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تیری مدد مانگتے ہیں تجھ سے استعانت چاہتے ہیں کہ تو ہمیں مزید طاقت دے تاکہ تیری راہ میں ہم آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں.کئی فقیر آپ کو نظر آئیں گے یا بعض ہنگامی حالات میں ان کی یہ حالت آپ کے سامنے آئے گی کہ دس دس ہزار، بیس بیس ہزار ، پچاس پچاس ہزار روپیہ ان کے پاس جمع بھی ہے اور گلیوں اور بازاروں میں اپنے دوسرے بھائیوں کے سامنے مانگنے والا ہاتھ انہوں نے آگے بھی کیا ہوا ہے اس طرح کئی لوگ ایسے ہیں کہ جو ان کے پاس ہے اسے خرچ نہیں کرتے اور خدا کو کہتے ہیں کہ اور دے.فقیر جس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اسے تو معلوم نہیں کہ اس کے گھر میں رات کی روٹی ہے یا نہیں.نہ اسے یہ علم ہے کہ اس کی تجوری یا تھیلی میں پانچ دس ہیں پچاس لاکھ روپیہ ہے.جب نوٹ Cancel ( کینسل ) ہوئے اور کہا گیا کہ پرانے نوٹ لاؤ تو بعض ایسے فقیروں کا ذکر بھی اخباروں میں آیا (واللہ اعلم کہاں تک یہ درست ہے ) جن کے پاس لاکھوں روپیہ تھا اور پھر بھی وہ بھیک مانگ رہے تھے اور دینے والا ان کو دے رہا تھا اور اس کے بھائی کے دل میں یہ جذ بہ پیدا ہوتا تھا کہ بے چارا! اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں.پیسہ اس کے پاس نہیں کہیں رات کو بھوکا نہ سو جائے اس کو دے دو لیکن جو ہاتھ خدا تعالیٰ کے سامنے پھیلا یا جاتا ہے وہ ایک

Page 627

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۰۷ خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۲ء ایسی ہستی کے سامنے پھیلایا جاتا ہے جس سے کوئی چیز غائب نہیں.خدا تعالیٰ کہتا ہے میں نے تجھے دیا اور تو نے میری راہ میں خرچ نہیں کیا.اب میرے سامنے ہاتھ کیوں پھیلا رہا ہے.آگے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا مقام جو آج کے دن کا مقام ہے اسے حاصل کر.جو کچھ میں نے تجھے دیا قوت اور طاقت اور استعداد کے لحاظ سے، جو کچھ میں نے تجھے دیا ظاہری سامانوں کے لحاظ سے اور مادی اشیاء کے لحاظ سے، جو کچھ میں نے تجھے دیا عقل اور فراست کے لحاظ سے، جو کچھ میں نے تجھے دیا قرآن عظیم جیسی ہدایت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے لحاظ سے.یہ جو تجھے چیزیں ملیں پہلے ان سے انتہائی فائدہ اٹھا.پھر میرے پاس آ.میرے خزانے خالی نہیں ہیں لیکن تیری ساری قو تیں میری راہ میں خرچ ہونے کے بعد میرے سامنے تیرا دستِ سوال پھیلنا چاہیے.پھر انسان خرچ کرنے کے بعد یعنی ” جو کچھ ہے پورے کا پورا خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دینے کے بعد خدا سے کہتا ہے کہ جہاں تو نے مجھے اتنا کچھ دیا اور مجھے یہ توفیق بھی دی کہ میں تیری راہ میں سارا کچھ خرچ کر دوں وہاں تو نے مجھے یہ جذبہ اور جوش بھی دیا کہ میں کسی مقام سے تسلی نہ پکڑوں کیونکہ تیرے قرب کے مقامات کی کوئی انتہا نہیں.آگے بڑھنے کے لئے میرے رب مجھے اور دے.پھر جب ايَّاكَ نَعْبُدُ کے بعد مخلصانہ دعا اِيَّاكَ نَسْتَعین کی ہوتی ہے تب خدا تعالیٰ اسے اور قوت دیتا ہے اور تب خدا تعالیٰ اسے جو قوت دیتا ہے اسے لے کر وہ آگے بڑھتا ہے پھر ایک اعلیٰ مقام پر کھڑا ہوتا ہے پھر کہتا ہے اے خدا! تو نے مجھے جو طاقتیں دیں وہ تیری راہ میں خرچ ہو گئیں اب مجھے اور دے کیونکہ جو طاقتیں ملیں ان کے خرچ کرنے پر تو ایک جیسا ثواب ملتا رہے گا.اگر مجھے مزید ثواب ملتا ہے اور ترقی کی مزید را ہیں کھلتی ہیں تو ضروری ہے کہ تو مجھے اور طاقتیں دے پھر ايَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے کہ اے خدا ! میری مدد کو آ میں یہاں کھڑا ہو گیا ہوں جو کچھ تو نے دیا تھا وہ اب استعمال کر چکا.یہ سلسلہ چند گھنٹوں کا بھی ہے چند گھنٹے انسان خدا کی راہ میں کام کرتا ہے.پھر ہر نماز میں کہتا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.یعنی جو کچھ تو نے مجھے دیا میں نے وہ تیری راہ میں خرچ کر دیا.کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس دو گھنٹے کے وقفہ میں مثلاً جو آج کل ظہر اور عصر کے درمیان ہوتا ہے.

Page 628

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۰۸ خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۲ء اس میں خدا نے کچھ نہیں دیا کیونکہ خدا تعالیٰ کے بندے تو ہر وقت خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس سے مزید حاصل کر رہے ہوتے ہیں.عصر کے وقت حقیقتا (مبالغہ کے طور پر نہیں ) بندے کا ايَّاكَ نَعْبُدُ کا مقام ظہر کے مقابلہ میں آگے ہوتا ہے اور پھر کہتا ہے اے خدا! مغرب کے وقت تک مجھے اور آگے لے جا.یہ حرکت روحانی جو لازمی قرار دی گئی ہے ( یعنی نمازوں کی ادائیگی حرکت روحانی ہے ) اس میں دو گھنٹے کا وقفہ ہے اور ہر نماز میں سورۃ فاتحہ کو پڑھنا ضروری قرار دیا گیا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز میں ہمیں کہا گیا ہے کہ خدا سے یہ دعا کرو کہ جو تو نے ہمیں اس عرصے میں بھی دیا اسے بھی ہم نے تیری راہ میں خرچ کر دیا تیرا ہی عطا کردہ ابدی ترقیات کا جو جذبہ ہے اس کی وجہ سے ہم ایک جگہ کھڑے نہیں رہ سکتے.پھر مغرب کی نماز میں پھر عشاء کی نماز میں ( نوافل میں چھوڑ رہا ہوں) پھر صبح کی نماز میں نوافل کی توفیق ملتی ہے.نوافل کی توفیق مغرب اور صبح کے درمیان اس لئے ملتی ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُ عشاء کے وقت کہنے کے بعد اس نے ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کی بھی دعا کی تھی.تو یہ چھوٹے سے چھوٹا جو وقفہ ہمارے سامنے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نستعین کے تسلسل کو قائم رکھنے اور جاری رکھنے کا آتا ہے.نمازوں کے درمیان ہے.جیسا کہ میں نے بتایا یہ چھوٹے سے چھوٹا وقفہ ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ خدا نے تمہارے لئے عید بنادیا ہے یہ ایک دوسری اکائی ہے یعنی جمعہ سے جمعہ تک ہر روز لازمی طور پر پانچ دفعہ توفیق دیتا ہے.اس کا مطلب ہے کہ ہر ہفتہ پینتیش دفعہ لازمی طور پر اس نے ايَّاكَ نَعْبُدُ بھی کہا اور اياك نستعين بھی کہا پھر جمعہ آتا ہے اور اس کی عبادت کرتے ہیں.پھر اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتے ہیں اور خدا سے کہتے ہیں اے خدا پچھلے جمعہ ہم نے کہا ايَّاكَ نَعْبُدُ اور ہم نے کہا ايَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تو نے ہماری دعا کو قبول فرمایا.(جمعہ کی نماز ایسی ہے کہ جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے جو قبولیت دعا کی گھڑی ہے ) میں اس گھڑی کو لیتا ہوں.میں جماعت کی اجتماعی زندگی کے متعلق بات کر رہا ہوں.کوئی ہم میں سے کمزور ہے، کوئی بزرگ ہے.اجتماعی زندگی کے لحاظ سے میں یہ لے رہا ہوں کہ جمعہ کو وہ دعا کی گھڑی آئی تو بعض احمد یوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ( جو نہیں اٹھا سکے انہیں اللہ تعالیٰ فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ) اور اس ۳۵

Page 629

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۰۹ خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۲ء گھڑی میں خدا تعالیٰ کے مومن بندے نے کہا ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.یعنی جو قو تیں اور طاقتیں تو نے دیں ان کے مطابق میں نے تیری عبادت کی اور پرستش کی اور میں نے آگے بڑھنا ہے اس واسطے مجھے اور قو تیں عطا کر میری قوتوں میں اور مضبوطی اور استحکام پیدا کر اور خدا نے اس گھڑی میں وہ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا قبول کی اور اس کا ایک قدم اگلے جمعہ کو اور آگے بڑھ گیا.پھر اگلا جمعہ آیا ، پھر اگلا جمعہ، پھر اگلا جمعہ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان کا انجام بخیر ہو جائے.یہ ایک دوسری اکائی ہے جمعہ سے جمعہ آٹھ دن اور معنی میں ثواب کی اکائی ہے.ہمارے لئے سارے معنی برکت کے معنی ہیں پھر اس کے بعد سال آ جاتا ہے کیونکہ جو اگلی عید ہے وہ ایک سال کے بعد آتی ہے.بعض عبادتوں کے لحاظ سے ایک وقت میں عید آ جاتی ہے اور بعض دوسری عبادتوں کے لحاظ سے دوسرے وقت میں.اور ہمارے لئے جلسہ سالانہ ہے جو سال کے بعد آتا ہے آج کے جلسہ پر ہم نے کہا ايَّاكَ نَعْبُدُ لیکن ساتھ ہی ہم نے کہا ايَّاكَ نَسْتَعِينُ آئندہ جلسہ پر اے خدا ہم تیری رحمتوں کے زیادہ وارث بننے والے ہوں بوجہ اس دعا کے جو تو نے ہمیں سکھلائی اور جو تو نے ہمارے منہ سے بار بار کہلوائی.ہم تجھ سے زیادہ طاقتیں حاصل کرنے کے بعد تیرے حضور زیادہ حسین قربانیاں پیش کرنے والے ہوں.جلسہ آیا اور جیسا کہ آپ میں سے ہر ایک کی آنکھ نے دیکھا اور دل نے محسوس کیا ، بڑی برکتوں سے معمور ہو کر آیا وہ گزر گیا لیکن یہ تو ہماری ایک منزل ہے یہ ہمارے سفر کی انتہا تو نہیں ہے پھر اگلا جلسہ آئے گا لیکن میں اس وقت اگلے جلسے کی بات کرتا ہوں.آج ہم اجتماعی طور پر جماعت کی طرف سے یہ دعا کرتے ہیں.اے ہمارے رب! ايَّاكَ نَعبُدُ ہم نے اپنی استعداد کے مطابق اپنی قوتوں اور طاقتوں کو تیرے حضور پیش کیا اور تجھ سے وہ رحمتیں اور برکتیں حاصل کیں جن کا شمار کوئی نہیں اور جن کے متعلق جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے ہر مومن کا دل اور ہر مومن کی آنکھ گواہی دے رہی ہے مگر اے خدا! یہاں بس نہیں کیونکہ ہم تیرے زیادہ قریب ہونا چاہتے ہیں.ہم تیری زیادہ برکتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں.اس لئے ہماری آج یہ دعا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ اور پھر اگلے جلسہ تک کے لئے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہماری دعا ہے ہمیں اور دے تاکہ ہم اور زیادہ تیرے حضور پیش کر سکیں اور تیری نگاہ میں پہلے سے زیادہ برکتوں

Page 630

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۱۰ خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۲ء کے حصول کے حقدار بھی قرار دیئے جائیں اور انہیں حاصل بھی کریں.جلسے کے ساتھ ہی ہمارا وقف جدید کا سال بھی ختم ہو گیا ہے اور نیا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے.یہ بھی ہم یادر کھتے ہیں.ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ ہر سال ہمارا قدم آگے ہے یہ ایک حقیقت ہے اور ہر سال ہمارا قدم آگے اس لئے ہے کہ ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ بھی کہتے ہیں اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ بھی کہتے ہیں یعنی اپنی توفیق کے مطابق کچھ پیش بھی کرتے ہیں اور خدا کے فضل سے نئی قوتیں بھی حاصل کرتے ہیں.اب جلسہ کی آخری تعداد جو یہاں جلسہ گاہ کے اندر گئی گئی وہ قریباً ۷۲ ہزا ر ہے یعنی بہتر ہزار احمدی خدا کے فضل سے جلسہ گاہ کے اندر بیٹھے تھے اور اندازہ یہ ہے کہ جلسہ گاہ جب بھر چکی تھی تو پانچ چھ ہزار جلسہ گاہ کے باہر اردگرد پھر رہے تھے.کچھ ہمارے کارکن جو اپنی اپنی جگہوں پر کام کر رہے تھے وہاں لاؤڈ سپیکر کی آواز چونکہ چلی گئی اس لئے وہ بھی جلسہ میں شامل ہوئے ویسے بھی وہ شامل ہیں کیونکہ وہ خدمت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور جو ہماری مستورات اور بہنیں اس جلسہ میں شامل ہوئیں ان کا تو شمار نہیں ہو سکا اور نہ ہو سکتا تھا کیونکہ اتنی تھیں کہ گنتی کے لئے جو ماحول پیدا ہونا چاہیے.وہ نہیں ہوسکا.وہ ہمارا اندازہ ہے کہ چالیس ہزار کے قریب ہوں گی کیونکہ ہر عارضی حد جو جلسہ گاہ بناتی ہے اس کو پھلانگ کر سینکڑوں گز دور تک پہنچی ہوئی تھیں اور پہاڑیوں کے اوپر چڑھی ہوئی تھیں اور اردگرد کے کھیتوں کے اندر پھر رہی تھیں اور الامہ آ گیا کہ اپنی مستورات کو سنبھال لو ہمارے کھیتیوں میں پھر رہی ہیں اور ہماری کھیتیاں خراب کر رہی ہیں لیکن ہمارے ہمسایہ شریف کسانوں سے شریفانہ تعلقات ہیں.انہوں نے ان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن ہمارے تک یہ پیغام پہنچا دیا تو اندازہ ہے کہ چالیس ہزار خواتین اور اسی ہزار مرد یقینی طور پر جلسہ میں شامل ہوئے.اس سے زائد ہوں گے کم نہیں یعنی ایک لاکھ بیس ہزار کا مجمع جلسہ گاہ میں تھا.یہ پہلے جلسہ کی نسبت بہت زیادہ ہے اور ہمارے دل خدا تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ کے مقابل اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو رکھا گیا ہے.اسی واسطے میں نے اس طرح اس حصہ سورۃ کو پڑھا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ

Page 631

خطبات ناصر جلد چہارم ་་ خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۲ء جو کچھ ہمیں اس کے عبد بننے میں ملا اس پر ہمارے دل اس کی حمد سے معمور ہیں اور ہم اس کے ممنون ہیں اور ہماری زبانیں اس کی حمد کرتے ہوئے تھکتی نہیں ہمارے گلے خشک ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے دل کی دھڑکنوں اور روح کی امواج خدا تعالیٰ کی حمد کر رہی ہوتی ہیں اس اتنے بڑے اجتماع کی برکتیں ہمارے دوسرے کاموں پر بھی اثر انداز ہوں گی اور ان کا ایک عکس پڑے گا روشنی پڑے گی.پس میں امید رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت وقف جدید کے کام میں بھی جس کی ابتدا یکم جنوری اور جس کی انتہا ۳۱ دسمبر کو ہوتی ہے سالِ رواں کے مقابلہ میں آئندہ سال بہت زیادہ حصہ لے گی.اپنی بساط کے مطابق ( بہت زیادہ کہنے کے بعد میں رک گیا تھا کہ جماعت تو پہلے ہی ہر کام میں بہت زیادہ حصہ لے رہی ہے اس واسطے میرا دماغ کھڑا ہو گیا کہ کہیں ضرورت سے زیادہ تو مطالبہ نہیں کر رہا ) ، بہر حال خدا تعالیٰ نے زیادہ دیا ہے.آپ کو پتہ بھی نہیں لگے گا اور نتیجہ زیادہ نکل آئے گا.انشاء اللہ تعالیٰ اور نتیجہ اس لئے زیادہ نکلے گا کہ خدا تعالیٰ نے ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کی ہماری آج کی دعا کو قبول کیا اس جلسہ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ جس نئے نئے رنگ میں کہنے کے ہم قابل ہوئے ہیں ہم اپنی طرف سے اپنے زور سے تو اس قابل نہیں ہوئے.پچھلے جلسہ کے مقابلہ میں جو زیادتی ہے وہ ہماری کسی خوبی کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے.ہم نے پچھلے جلسہ پر ( دو سال قبل ) کہا تھا.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے خدا! اس مقام پر ہمیں کھڑے نہ رہنے دینا.ہم تیرے عاجز بندے ہیں.اپنی طرف سے کچھ اور دے تا کہ ہمارا قدم اگلے جلسہ کے موقع پر آگے ہی آگے بڑھا ہوا ہر ایک کو نظر آئے یعنی آپ کو بھی نظر آئے اور جو آپ کے کام کے لحاظ سے دوست اور ساتھی ہیں جو جلسہ پر آئے ہوئے تھے اور جو ابھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے ان کو بھی نظر آئے کہ جماعت کہاں سے کہاں پہنچ گئی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.جیسا کہ میں نے جلسہ میں بھی بتایا تھا کہ تحریک جدید اس سال نامساعد حالات کے باوجود آگے نکلی.اگلے سال انشاء اللہ پھر آگے نکلے گی.یہی وقف جدید کا حال ہے.یہ ایک طریق ہے

Page 632

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۱۲ خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۲ء کہ نئے سال کا اعلان باضابطہ بھی کر دیا جاتا ہے پس میں نے اعلان کر دیا میں آپ کو یہ نہیں کہتا کہ آپ بیس ہزار اس سال کی نسبت زیادہ دیں.میں نے یہ اعلان کیا ہے کہ آپ کی دعا ایاک نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ والی پہلے موقعوں پر جو قبول ہوئی آج بھی آپ کی دعا ايَّاكَ نَسْتَعِينُ خدا تعالیٰ کے فضل سے قبول ہو گی اور اللہ تعالیٰ آپ کی طاقتوں اور استعدادوں اور قوتوں میں اضافہ کرے گا اور اس اضافے کالازمی نتیجہ ہے کہ وہ آپ کی ساری زندگی سے بڑھ کر ہو گی.اب نصرت جہاں ریز روفنڈ میں جو ہم نے کام کئے ہر وقت جائزہ تو نہیں لیتے.کام کر رہے تھے دعائیں کر رہے تھے.جب نوٹ لئے تو پتہ چلا کہ خدا تعالیٰ کے فضل نے اتنی برکتیں نازل کر دیں.پس گننا ہمارا کام نہیں یہ بھی یاد رکھیں (اپنی اپنی طبیعت ہے میں اس سے منع نہیں کرتا نہ روکتا ہوں) لیکن میری اپنی طبیعت یہ ہے کہ تسبیح کے دانوں سے گھبراہٹ ہوتی ہے اور خیال آتا ہے کہ کیا میں گن کے دوں گا اور خدا سے یہ کہوں گا کہ تو مجھے محدود اور گن کے دے؟ پس ہماری کوشش محدود ہے لیکن ہم اپنی یاد میں اس کو غیر محدود بنا دیتے ہیں.اگر تسبیح کے دانوں کو گنیں گے تو وہ محدود ہوں گے اور آپ کے حافظہ میں بھی وہ محدود تعداد ہو گی.آپ نے کہا سو دفعہ ہم نے پڑھا لیکن ایک شخص کہتا ہے میں گن کر نہیں دوں گا میں تو اپنے عاجزانہ مقام سے بغیر گنے کے تجھے دوں گا اور میرا حافظہ کہے گا کہ وہ غیر محدود اور غیر معین ہے مثلاً میں ستر دفعہ سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیم کہوں یا سات سو دفعہ کہوں یا سات ہزار دفعہ گن کر کہوں مجھے پتہ نہیں ہونا چاہیے یعنی اپنی طبیعت بتا رہا ہوں کیونکہ میری خواہش یہ ہے کہ میں خدا سے گفتی کر کے کوئی سودا نہ کروں بلکہ حافظے کے لحاظ سے (انسان کی ہر کوشش محدود ہے لیکن اس کا حافظہ بھی محدود ہے ) میں غیر محدود اس کے حضور پیش کروں اور اس سے کہوں کہ تو اپنے فضل کے لحاظ سے اور اپنے مقام الوہیت کے لحاظ سے اور اللہ کے مقام کے لحاظ سے مجھے غیر محدود دے.پس ہم گنا نہیں کرتے.میں تو بالکل نہیں گنتا اور بغیر گننے کے جماعت آگے بڑھ رہی ہے جیسے کہ نوٹ تیار ہوتے ہیں مختلف مواقع پر کچھ کہنا ہوتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی کچھ نعمتیں شمار ہو جاتی ہیں اور ایک حد تک ہمارے سامنے آجاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کے

Page 633

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۱۳ خطبہ جمعہ ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء فضلوں کو شمار نہیں کر سکتے.بے حد و بے حساب اس کی نعمتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں.ایک مخلوق ہونے کے لحاظ سے بھی جس میں پتھر بھی شامل ہیں.ایک جاندار ہونے کے لحاظ سے بھی جن میں بکرا اور اونٹ بھی شامل ہے اور ایک انسان ہونے کی حیثیت میں بھی جس پر پہلے رحیمیت کے جلوے اور پھر مالکیت کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا کہ میری نعمتوں کو تم گن نہیں سکتے اور یہ بڑے بڑے حساب دان اور سائنس دان اور سائنس میں بہت آگے نکلے ہوئے ، کمپیوٹر بنانے والے ان کو ہم چیلنج کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو سارے انسانوں پر نہیں کسی ایک انسان پر جو ہوئی ہیں.ان کو گن کے دکھاؤ گن ہی نہیں سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ کو اس طرح نہیں پیش کیا.آپ نے کہا ساری دنیا قیامت تک رائی کے ایک دانہ کی صفات معلوم کرتی رہے.اس کی صفات ختم نہیں ہوں گی یعنی رائی کے ایک دانے ، سونف کے ایک دانے ، گندم کے ایک دانے ، چاول کے ایک دانے کے اندر خدا تعالیٰ کے جلووں نے جو صفات پیدا کی ہیں وہ بھی شمار میں نہیں آسکتیں.ایک وقت میں سائنسدان کہتا ہے جو کچھ تھا ہم نے پالیا.اگلی نسل میں ایک اور سائنسدان پیدا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے اس نے غلط کہا تھا اس مخلوق کی اور بہت سی صفات ہم نے دریافت کی ہیں یہ دونوں طرح ہے ایک تو زمانہ ماضی کے جلووں کی تاثیریں دوسرے یہ کہ تازہ بہ تازہ نو بہ نو جلوے اللہ تعالیٰ کی صفات کے ہر چیز پر ظاہر ہورہے ہیں اور ان کی صفات بڑھ رہی ہیں.بہر حال خدا کا بڑا فضل ہے اور اس کی وجہ سے اِيَّاكَ نَعْبُدُ (یعنی یہ حصہ ) کہ تو نے ہمیں دیا جو ہم نے تیرے حضور پیش کر دیا اپنی بساط کے مطابق الْحَمدُ للهِ.گھر سے تو کچھ نہ لائے جو ہم نے دیا وہ بھی ہمارا نہیں ہے وہ بھی تیرا ہے اور وہ ہے بے شمار.ہم محدود ہونے کے لحاظ سے اور کمزور ہونے کے لحاظ سے اس سے کچھ دیتے ہیں لیکن یہ ہمیں احساس ہے کہ الحمدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ حمد کے ہم مستحق نہیں حمد کا اے ہمارے رب ! تو ہی مستحق ہے اور صرف تو ہی مستحق ہے.پس دعائیں کرو جو کچھ خدا نے دیا اس پر بس نہ کرو اور تسلی نہ پکڑو.بلکہ اپنے رب کریم سے کہو کہ اے ہمارے رب! ہمیں اور دے تا کہ تیری نعمتوں کو ہم پہلے سے زیادہ حاصل کر سکیں

Page 634

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۱۴ خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۲ء ہمیں اور دے ہر قدم پر ، نمازوں کے درمیان ہمیں اور دے.ہر جمعہ جمعہ کے درمیان ہمیں اور دے.سال سال کے بعد ہمیں اور دے یہاں تک کہ ہم اس امتحان کی دنیا سے نکل کر اس دنیا میں داخل ہو جائیں جہاں تیری حمد کے جلوے تو ہمارے دلوں میں موجود ہوں گے لیکن وہ دار امتحان نہیں ہو گا.امتحان کا تصور یہ ہے کہ پاس ہونے کا بھی امکان ہے اور فیل ہونے کا بھی امکان ہے لیکن دوسری زندگی میں ترقیات کے امکانات تو ہیں لیکن ناکامی کا کوئی امکان نہیں اس لئے ہم اسے دار الابتلاء یا امتحان کی دنیا نہیں کہہ سکتے وہاں بھی ترقیات ہوں گی.بہر حال ایک سال گزرا خدا کے فضل سے اور اس کی رحمتوں سے نزول بارش کی طرح اس کی نعمتوں کے نزول کے ہم نے نظارے دیکھے.ہمارے دل اس کی حمد سے لبریز ہیں اور ہم نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں ايَّاكَ نَعْبُدُ لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ تو نے ہمارے دل میں جو آگے ہی آگے بڑھنے کی خواہش پیدا کی ہے.اس کے لئے تو نے ہمیں یہ دعا سکھائی اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تجھ سے عاجزانہ دعا کرتے ہیں.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے ہمارے خدا! تو ہماری دعا کو قبول کر اور کسی منزل کو ہماری اس دنیوی زندگی میں ہماری آخری منزل نہ بنا دے.ہماری آخری منزل تو موت کا دن ہے جب اس دنیا سے ہم دوسری دنیا میں داخل ہو جائیں گے.جب پردہ نہیں رہے گا کیونکہ تیرے جلوے ظاہر ہوکر ،منور ہوکر ، روشن ہوکر اور حجابات سے مبرا ہو کر ہمارے سامنے آئیں گے.اس وقت تک تو ہماری طاقتوں میں اضافہ کرتا چلا جا اور اپنے فضلوں میں جو ہم پر تیری طرف سے نازل ہوں اضافہ کرتا چلا جا.ہر دن جو ہم پر چڑھے پہلے دن سے زیادہ مبارک ہو.ہر جمعہ جو ہماری زندگیوں میں آئے اس میں ہمیں پہلے جمعہ سے زیادہ رحمتوں کے سمیٹنے کی توفیق ملے اور ہر جلسہ جو پہلے جلسہ کے بعد آئے اس میں ہم تیرے فضلوں اور تیری رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ دیکھنے والے ہوں.ايَّاكَ نَسْتَعِین کی ایک بنیاد بھی قائم ہو رہی ہو کہ مزید طاقتیں ملیں گی مزید قربانیوں کی توفیق ملے گی.اللہ تعالیٰ کے پہلے سے بھی بڑھ کر فضل نازل ہوں گے اور رحمتیں نازل ہوں گی سب کچھ اسی کی منشاء اور اسی کے حکم سے ہو سکتا ہے.ہم عاجز بندے عاجزانہ اسی کے حضور جھکتے اور

Page 635

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۱۵ خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۲ء ہمارے دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہے إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ خدا تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور ایدہ اللہ نے فرمایا.ایک اعلان بھی کرنا چاہتا ہوں جمعہ کے روز بہت سے دوستوں کی سہولت کے مدنظر میں خطبہ اور نماز کے علاوہ کسی اور کام کے لئے اپنے بھائیوں کو مسجد میں رو کے نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ کوئی بہت ضروری بات ہو اس لئے جمعہ کے دن میں نماز کے بعد نکاحوں کا اعلان نہیں کیا کرتا.چونکہ آج ایسا جمعہ ہے کہ ضرورت حقہ کی وجہ سے ہم نے نمازیں جمع کرنی ہیں اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو نکاحوں کے اعلانات ہونے ہیں ( بہت سے فارم نکاح کے اعلان کے لئے دفتر میں آئے ہوئے ہیں ) ان نکاحوں کا اعلان میں گھڑی کے وقت کے مطابق چار بجے مسجد مبارک میں کروں گا جن دوستوں کی یہ خواہش تھی کہ اس موقع پر ان کے بچوں اور عزیزوں کے نکاح کا اعلان کر دیا جائے.وہ چار بجے مسجد مبارک میں جمع ہو جائیں انشاء اللہ تعالیٰ اس کی توفیق سے ہم بہت سی شادی کی خوشیاں بھی دیکھ لیں گے.اب میں نمازیں جمع کروں گا اور پھر جو دوسرے کام ہیں ان کی طرف توجہ دینی ہے.چار بجے انشاء اللہ مسجد مبارک میں نکاحوں کا اعلان ہوگا.چالیس سے زائد نکاح ہیں.اس لئے بہت سے دوست اکٹھے ہو جائیں گے (ماشاء اللہ ) اور بڑی دعا ئیں بھی ان رشتوں کے لئے مل جائیں گی.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ جنوری ۱۹۷۳ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 636

Page 637

خطبات ناصر جلد چہارم ۶۱۷ نمبر شمار 1 ۶ 2 Δ ۹ 1.11 ۱۲ حوالہ جات جلد چہارم حوالہ جات صحیح مسلم کتاب الایمان باب خصائل المنافق صحيح البخارى كتاب الجهاد باب الخيل معقود فى نواصيها.مؤطا امام مالک کتاب الجهاد باب ماجاء فى الخيل.بدر جلد ۱۲ نمبر ۲ مورخہ ۱۱ جولائی ۱۹۱۲ ، صفحہ ۳ بدر جلد ۱۲ نمبر ا مورخہ ۴/ جولائی ۱۹۱۲ ء صفحہ ۷ بدر جلد ۱۲ نمبر ۲ مورخہ ۱۱؍ جولائی ۱۹۱۲ ، صفحہ ۴ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ صفحه ۲۸۰۲۷ بدر جلد ۱۲ نمبر ۲ مورخہ ۱۱؍ جولائی ۱۹۱۲ ء صفحه ۵ بدر جلد ۱۲ نمبر ۱ مورخہ ۴؍ جولائی ۱۹۱۲ ، صفحہ ۷ خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی.....انوار العلوم جلد ۲۶ صفحه ۲۹ صحیح البخارى كتاب الهبة و فضلها.......باب فضل المنيحة المنجد صفحہ نمبر ۸۳ ۸۶ ۸۶ ۹۴ ۹۴ ۹۴ ۹۵ ۹۶ +11 = ۵۰۱ ۵۰۴

Page 638

Page 639

خطبات ناصر جلد چهارم ۶۱۹ خطبات جمعہ فہرست خطبات جمعہ جو حضور انور نے ارشاد نہیں فرمائے.یا ارشاد فرمائے لیکن متن دستیاب نہیں ہوا.یا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا یا نہیں.نمبر شمار وہ خطبات جو جلد میں شامل نہیں اس کی وجہ تاریخ خطبہ حوالہ حضور انور کے ارشاد پر مکرم عبدالمالک صاحب نے نماز جمعہ پڑھائی ۲۱ جنوری ۱۹۷۲ء الفضل ربوه ۲۳ جنوری ۱۹۷۲ء صفحه ۱ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۱۱ فروری ۱۹۷۲ ء الفضل ربوه ۱۳ فروری ۱۹۷۲ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۷ را پریل ۱۹۷۲ ء الفضل ربوه ۹ را پریل ۱۹۷۲ صفحه ۱ ۴ حضور انور بیرون ربوہ تھے لیکن خطبہ کی بابت وضاحت نہیں ۲۶ مئی ۱۹۷۲ء الفضل ربوه ۳۰ مئی ۱۹۷۲ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲ جون ۱۹۷۲ ء الفضل ربوه ۴ جون ۱۹۷۲ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۹ جون ۱۹۷۲ ء الفضل ربوہ ۱ ار جون ۱۹۷۲ ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۴/اگست ۱۹۷۲ء الفضل ربوه ۵ را گست ۱۹۷۲ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۵ ستمبر ۱۹۷۲ء الفضل ربوہ ۷ ار ستمبر ۱۹۷۲ ، صفحہ ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۷ اکتوبر ۱۹۷۲ء الفضل ربوه ۲۹ / اکتوبر ۱۹۷۲ صفحه ۱

Page 640

Page 640