Language: UR
خطبات ناصر خطبات جمعہ از جنوری ۱۹۷۰ء تا دسمبر ۱۹۷۱ء فرموده سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جلد سوم
ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خطبات ناصر خطبات جمعہ ، خطبات عیدین، خطبات نکاح ارشاد فرمودہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی (جلد سوم ) Khutbaat-e-Nasir - Volume 3 Friday, Eid and Nikah Sermons delivered by Hazrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul-Masih III, may Allah have mercy on him.(Complete Set Volume 1-10) First edition published between 2005-2009 Present revised edition published in the UK, 2023 © Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in Turkey at: For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-701-3 (Vol.1-10)
بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسوله الکریم عرض حال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ خطبات جمعہ و عیدین اور خطبات نکاح کچھ عرصہ قبل شائع کئے گئے تھے.یہ مجموعہ دس جلدوں پر مشتمل تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن کے دوبارہ شائع کرنے کی درخواست کی گئی اور عرض کیا گیا بعض خطبات ایسے ہیں جو قبل ازیں شامل اشاعت نہیں ہو سکے تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے ایڈیشن کی اجازت فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ جو خطبات پہلے شامل اشاعت نہیں ہو سکے ان کو بھی شائع کر دیا جائے.تعمیل ارشاد میں میٹر ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا چنانچہ ۵۰ خطبات دستیاب ہوئے جو پہلے مجموعہ میں شامل نہیں ہیں.اسی طرح بعض خطبات کا خلاصہ شائع ہوا اور اب ان کا مکمل متن مل گیا ہے ان خطبات کو زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ درج کر دیا گیا.نیز آیات قرآنیہ کے حوالہ جات متن میں دیئے گئے اور خطبات کے مآخذ کا خطبہ کے آخر پر حوالہ درج کر دیا گیا ہے اور خطبات میں درج احادیث اور عربی تفاسیر کے حوالہ جات کو کتاب کے آخر پر درج کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.اس کی تیاری میں جن احباب کو شریک کار ہو کر خدمت کا موقع میسر ہوا اور سعادت پائی.اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف اپریل ۲۰۲۳ء
||| بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ پیش لفظ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ کی تیسری جلد پیش خدمت ہے.یہ جلد ۱۹۷۰ ء اور ۱۹۷۱ء کے فرمودہ خطبات جمعہ پر مشتمل ہے جن میں ۱۹۷۰ء کے بارہ غیر مطبوعہ خطبات بھی شامل ہیں.خلیفہ وقت کا ہر خطبہ علوم ومعارف کا خزانہ ہوتا ہے تاہم بعض خطبات کی تاریخی اہمیت بھی ہوتی ہے.اس جلد میں مندرجہ ذیل خطبات جماعتی نقطہ نگاہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں.۹رجنوری ۱۹۷۰ ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دو چیزیں ہمارے پاس اپنی ہوں.ا.ایک تو ہمارے پاس ایک بہت اچھا پریس ہو.۲.ایک طاقتور ٹرانسمٹنگ اسٹیشن (TRANSMITTING STATION) دُنیا کے کسی ملک میں جماعت احمدیہ کا اپنا ہو جو ساری دُنیا میں اشتراکیت اور کمیونزم کا پر چار کرنے والے اسٹیشن سے زیادہ طاقت ور اسٹیشن ہو جو خدا کے نام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دُنیا میں پھیلانے والا ہو اور چوبیس گھنٹے اپنا یہ کام کر رہا ہو.( الحمد للہ ! حضور کی یہ خواہش اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے قیام سے پوری فرما دی ہے.مرتب)
IV اس جلد میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے انتہائی روح پرور دورہ افریقہ کے متعلق خطبات جمعہ بھی شامل ہیں خصوصاً ۱۲ جون ۱۹۷۰ ء کا خطبہ جمعہ جس میں نصرت جہاں ریزر و فنڈ کے منصوبہ کے بارہ میں حضور رحمہ اللہ فرماتے ہیں.گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے (میرے اپنے پروگرام نہیں رہنے دیئے بلکہ ) بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ یہ وقت ہے کہ تم کم سے کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا اور بہت بڑے اور اچھے نتائج نکلیں گے.خیر میں بڑا خوش ہوا پہلے اپنا پروگرام اور منصوبہ تھا اب اللہ تعالیٰ نے منصوبہ بنا دیا.“ اسی طرح اس خطبہ میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کے فضل جس قوم پر نازل ہو رہے ہوں اس پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عاید کرتے چلے جاتے ہیں.میری طبیعت پر اثر ہے اور میرے دل میں بڑی شدت سے یہ بات ڈالی گئی ہے کہ آئندہ ۲۵ - ۲۳ سال احمدیت کے لئے بڑے ہی اہم ہیں...اگلے ۲۳ سال کے اندر اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہونے والا ہے یا دنیا ہلاک ہو جائے گی یا اپنے خدا کو پہچان لے گی.“ 66 روزنامه الفضل ربوہ ۱۵ / جولائی ۱۹۷۰ ء صفحہ ۱۱،۷) ۱۹ جون ۱۹۷۰ ء کے خطبہ جمعہ میں حدیقہ المبشرین کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.”اب میں ایک نئی تنظیم کا اعلان کرنے لگا ہوں میں نے بہت سوچا بہت دعائیں کیں.میں اللہ تعالیٰ کی طرف عاجزانہ جھکا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمیں اپنا پرانا طریق بدل دینا چاہیے اور یہ چیز پہلے مبلغین پر بھی حاوی ہو جائے گی اور نئے آنے والوں پر بھی کہ نہ کوئی تحریک کا ہوگا نہ کوئی انجمن کا ہوگا تمام واقفین کا ایک خاص گروہ بن جائے گا.ایک جماعت ایک Pool (پول) ہوگا.ایک Reservior( ریزروائیر ) ہوگا، ایک تالاب ہوگا جس میں یہ روحانی مچھلیاں اجتماعی زندگی گزاریں گی اور تربیت حاصل کریں گی اور نشوونما
V پائیں گی نئے اور پرانے اس پول میں چلے جائیں گے.“ (روز نامه الفضل ربوه ۳۰ جولائی ۱۹۷۰ صفحه ۵) پھر ۱۳ جولائی ۱۹۷۰ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا.اسلام کی جنگ سوائے احمدیت کے کسی اور نے نہیں لڑنی اور جو اسلام کی جنگ لڑی جانی ہے اس کے بڑے محاذ دو ہیں.ایک دہریت اور لادینیت کا محاذ اور دوسرا نام نہا د عیسائیت کا محاذ....یہ جنگ جو ہم نے عیسائیت سے لڑنی ہے اس کا فیصلہ افریقہ میں ہوگا کیونکہ اگر آج ہم افریقہ سے عیسائیت کو نکال دیں تو پھر ان کے لئے یہ بڑا ہی مشکل ہے پین یا جنوبی امریکہ میں اس طرح اکٹھے ہو جانا اور Counter attack ( کونٹرا ٹیک ) کے لئے جمع ہو جانا کہ جس میں انہیں کامیابی کی کوئی امید ہو.“ روزنامه الفضل ربوہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ صفحہ ۶) اسی طرح ۱۵ اکتو برا ۱۹۷ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.خدا تعالیٰ نے یہ تو فیصلہ کر دیا ہے کہ اسلام تمام دنیا پر دوبارہ اسی شان سے غالب آئے گا جیسا کہ اپنی نشاۃ اولی کے زمانے میں بڑی شان سے غالب آیا.۱۹۷۱ء کے شروع میں گھوڑے سے گرنے کے سبب حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ صاحب فراش تھے جس کی وجہ سے ۲۲ / جنوری سے ۱/۸ اکتوبر تک خطبہ جمعہ کے لئے تشریف نہ لا سکے.اس طرح جماعت خلیفہ وقت کے پر معارف خطبات سے محروم رہی.والسلام سید عبدالحی ناظر اشاعت
خطبات ناصر جلد سوم نمبر شمار VII فہرست خطبات جمعہ فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه L ۶ عنوان ہمارا دل رحمان کی حمد سے معمور ہے ہمارے پاس ایک عمدہ پریس اور ریڈیو سٹیشن ہونا چاہیے ۲ جنوری ۱۹۷۰ء ۹ جنوری ۱۹۷۰ء 1 11 انسان کے اندر لامتناہی ترقیات کی خواہش ودیعت کی گئی ہے ۲۳ / جنوری ۱۹۷۰ء ۳۱ محض زبان سے ایمان کا دعوی کرنا کافی نہیں ہمیں چوکس و بیدار رہ کر وعدوں کو پورا کرنا ہے ۶ فروری ۱۹۷۰ء ۳۷ ۲۷ فروری ۱۹۷۰ء ۴۷ ۴۹ ہماری جماعت کے تعلیمی اداروں کا معیار بہت بلند ہونا چاہیے ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم ہیں ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء ۶۱ شہد کی مکھی کی طرح مومنین کی جماعت کی آراء سے استخراج کرو ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء ۷۷ ۳/اپریل ۱۹۷۰ء ۸۹ ۱۷ را پریل ۱۹۷۰ء ۹۵ و اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے افریقہ کا دورہ احمدیت انسانوں کی بنائی ہوئی تنظیم نہیں جماعت احمدیہ غانا کو خلافت کی برکات سے بالمشافہ حصہ پانے کا موقع ۱/۲۴ پریل ۱۹۷۰ء ۱۰۱ حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد اللہ تعالیٰ کی صفات کا عرفان ہے ۸ مئی ۱۹۷۰ء ۱۳ اگر مظلوم افریقن اپنا فرض ادا کر دیں تو دنیا کے رہبر وہ ہوں گے ۱۵ رمئی ۱۹۷۰ء ۱۲ ۱۰۵ 1+9 ۱۴ میں اسلام کا محبت واخوت کا پیغام لے کر مغربی افریقہ روانہ ہوا ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء | ۱۱۳ ۱۵۱ ۱۵ مغربی افریقہ کے ہمارے اکثر مبشرین کو مقام نعیم حاصل ہے ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء ۱۶ مومنوں کو فراست کے ساتھ شیطان کا مقابلہ کرنا چاہیے ۱۷ عیسائیت کے خلاف جنگ کا فیصلہ افریقہ کی سرزمین میں ہوگا ۳ جولائی ۱۹۷۰ء ۱۸۵ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء ۱۷۳
خطبات ناصر جلد سوم نمبر شمار | عنوان ۱۸ غلبہ اسلام کے دن مجھے افق پر نظر آ رہے ہیں VIII فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۱۰ر جولائی ۱۹۷۰ء | ۲۰۱ ۱۹ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی وجود کے دو جلوے ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء ۲۲۹ ۲۰ حقیقی عزت کا سرچشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۲۲ ۲۳ تمام اقوام عالم وحدت انسانی میں منسلک کی جائیں گی ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۷۰ء ۲۴۳ ۳۱ جولائی ۱۹۷۰ء ۲۴۵ ایمان کی پختگی کے بغیر ہم اپنی ذمہ داری کو نباہ نہیں سکتے ۷ راگست ۱۹۷۰ء ۲۶۱ ایمان کی روح اور اسلام کی جان ایمان باللہ ہے ۲۴ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو ۲۵ احمدیت کو غالب کرنے کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا ہے ۲۶ ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء ۲۶۷ ۲۱ /اگست ۱۹۷۰ء ۲۸۵ ۲۸ /اگست ۱۹۷۰ء ۳۰۵ جتنی عظیم بشارت ہو اتنی ہی عظیم ذمہ داری اور قربانی دینی پڑتی ہے ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء | ۳۱۹ ۲۷ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا ہے ۱۱ر ستمبر ۱۹۷۰ء ۳۳۵ ۲۸ یوم آخرت پر اپنے ایمان کو پختہ کرو اور اسے مستحکم بناؤ ۲۹ اصلاح کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی.۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء ۳۴۱ ۲ اکتوبر ۱۹۷۰ء ۳۵۵ ۳۰ بعثت مسیح موعود کا مقصد حقیقی توحید اور رسول کریم کی عظمت کا قیام ہے ۹/اکتوبر ۱۹۷۰ء | ۳۶۹ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے چار بنیادی تقاضے ۱۶ اکتوبر ۱۹۷۰ء ۳۷۵ ž ۳۲ تحریک جدید کے سینتیسویں سال کا اعلان ۳۳ دعا حصول فضل الہی کا ایک بڑا ہی مفید ذریعہ ہے ۲۳ اکتوبر ۰ - ١٩٧٠ء ۳۸۳ ۳۰/اکتوبر کتوبر ۱۹۷۰ء ۳۹۷ ۳۴ اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور بشارتوں کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی ۱۶ نومبر ۱۹۷۰ء | ۴۰۱ ۳۵ 2 [ اسلام کی تعلیم سے لوگوں کے قلوب کو فتح کیا جا سکتا ہے ۴ /دسمبر ۱۹۷۰ء ۴۰۷ آئیں مطاع اور اللہ کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کریں ۱۱ر دسمبر ۱۹۷۰ء ۴۱۵ ۳۷ جلسہ سالانہ معجزات کا ایک حسین گلدستہ ہے ۱۸ / دسمبر ۱۹۷۰ء ۴۳۷ ۳۸ اختلاف کی وجہ سے کسی مسلمان کو حقوق سے محروم نہ رکھا جائے ۲۵ / دسمبر ۱۹۷۰ء ۴۴۳
خطبات ناصر جلد سوم نمبر شمار عنوان IX ۳۹ گذشتہ سال بڑی برکتوں کا موجب تھا نیا سال مبارک ہو فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه کیم جنوری ۱۹۷۱ء ۴۵۷ ۴۰ ہم نے بقایوں کو ادا کرنا اور سال رواں کا بجٹ پورا کرنا ہے ۸جنوری ۱۹۷۱ء | ۴۵۹ 73 الہی سلسلوں کا ہر فرد عبد مسلم اور عبد محسن ہوتا ہے ۱۵ جنوری ۱۹۷۱ء | ۴۶۹ اللہ تعالیٰ پاکستان کو کامیابی عطا کرے اور دشمن ناکام و نامراد ہو ۱۵ را کتوبر ۱۹۷۱ء ۴۷۵ ۴۳ ماہ رمضان کی برکات سے مستفید ہونے کی کوشش کریں ۴۴ تحریک جدید کے اڑتیسویں سال کا اعلان ۴۵ اللہ تعالیٰ کی عطا میں سے اُس کے حضور پیش کرو ۲۲ اکتوبر ۱۹۷۱ء | ۴۸۳ ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۱ء | ۴۹۳ ۵ رنومبر ۱۹۷۱ء ۵۰۱ ۴۶ سورہ جن کی ایک آیت کی نہایت لطیف اور پر معارف تفسیر ۱۹/ نومبر ۱۹۷۱ء ۴۷ موجودہ حالات میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء | ۵۲۹ ۴۸ ہر احمدی ملک کی سلامتی اور استحکام کے لئے اپنا سب کچھ وقف کر دے / دسمبر ۱۹۷۱ء ۵۳۷ ابتلاء اور پریشانی کے اوقات میں بھی مومن یقین پر قائم رہتا ہے ۱۰ دسمبر ۱۹۷۱ء ۵۴۷ ۵۰ جب تک جنگ نہیں جیت لیتے ہتھیار نہیں ڈالیں گے ۱۷/دسمبر ۱۹۷۱ء | ۵۵۱ ۵۱ کثرت استغفار کے بغیر پریشانی اور دُکھ سے نجات نہیں مل سکتی ۲۴ / دسمبر ۱۹۷۱ء | ۵۵۹ ۵۲ پاکستان انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے 谢谢谢 ۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ء | ۵۶۳
خطبات ناصر جلد سوم 1 خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۰ء ہمارا دل رحمن کی حمد سے معمور ہے ختم ہونے والا جلسہ بہت بابرکت جلسہ تھا خطبه جمعه فرموده ۲/جنوری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہمارا دل اپنے رب رحمن کی حمد سے اور شکر سے معمور ہے.اس نے وقت سے بھی پہلے یہ بشارت دی تھی اور بہت سے دوستوں کو خوابوں کے ذریعہ یہ بتایا تھا کہ یہ ہمارا جلسہ سالانہ جوابھی چند دن ہوئے ختم ہوا ہے وہ بہت بابرکت جلسہ ہو گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور اس کی رحمتوں.کو خاص طور پر احمدی بھائیوں نے آسمان سے نازل ہوتے دیکھا یا محسوس کیا.ہمارے زمیندار بھائی اپنے احساسات کا اظہار علماء کی طرح تو نہیں کر سکتے اور نہ وہ کرتے ہیں لیکن اپنے بیان میں وہ بڑے زندہ محاورے استعمال کر جاتے ہیں.بیسیوں احمدی زمینداروں نے اس تاثر کا اظہار کیا کہ جلسہ پر جو دیکھا جو سنا وہ تو ٹھیک تھا دیکھا بھی اور سنا بھی لیکن احساس یہ تھا کہ جیسے آسمان سے اللہ تعالیٰ کی برکت نازل ہو رہی ہے.میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ کی برکتوں کے متعلق احمدی بھائیوں اور بہنوں کو بہت سی خوا ہیں دکھا ئیں اور یہ بتایا کہ یہ جلسہ بڑی رحمتوں اور برکتوں والا جلسہ ہو گا.ان میں سے ایک خواب جو ہماری ایک بہن کی ہے وہ دوستوں کو میں سنادیتا ہوں چٹا گانگ سے ہمارے بھائی
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۲ / جنوری ۱۹۷۰ء عبد الرحیم صاحب یونس مع اہلیہ کے آئے ہوئے ہیں ان کی اہلیہ صاحبہ نے ایک خواب دیکھی جو انہوں نے مجھے لکھ کر بھجوائی اس کا پہلا حصہ زیادہ تر ان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اسے میں نے چھوڑ دیا ہے اللہ تعالیٰ ہر شکل میں ان کے لئے اس حصہ کو بھی بابرکت کرے جس حصہ کا جماعت سے اور اس جلسہ سے تعلق ہے اس حصہ کو میں سنا دیتا ہوں وہ لکھتی ہیں :..اتنے میں میری نظر اُٹھی تو دیکھا کہ مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک بزرگ ہستی تشریف فرما ہیں.میرے قریب کھڑی ایک بہن نے مجھے بتایا کہ حضرت اماں جان ہیں یہ ٹن کر میں خوشی خوشی آگے بڑھی اور قریب گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ بزرگ ہستی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ہیں.یعنی پہلے نصرت جہاں پھر مبارکہ بیگم ناموں کی تعبیر ہوتی ہے.میں قریب بیٹھ گئی تو وہ کہنے لگیں کہ آج میری ملاقات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوئی تھی آپ نے فرمایا کہ میں امسال جلسہ پر آنے والوں سے بہت خوش ہوں اور میں نے ان سب کے لئے بہت دعائیں کی ہیں اور بہت دعائیں کر رہا ہوں.دوستوں نے اس قسم کی بہت سی خوا میں دیکھی تھیں.یہ تقریر کے متعلق بھی بعض دوستوں نے خواب دیکھی کہ اللہ تعالی بڑا فضل کرے گا اور اپنی رحمت سے اس مضمون کو تیار کر دے گا اور ساتھ یہ بھی دیکھا کہ جو منافق الہی سلسلوں کے بیچ میں ہوتے ہیں ان میں سے ایک آدھ یہ اعتراض بھی کریں گے کہ یہ بھی کوئی تقریر ہے.پس یہ چیزیں بعض چھوٹی چھوٹی خوابوں میں اس لئے آجاتی ہیں تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ نفس کی خواب نہیں.بعض ایسی چیزیں ہیں جن کو نفس سوچتا ہی نہیں مثلاً جو پیار کرنے والا دل ہے وہ پیار والا حصہ دیکھ لے گا اگر اس کے نفس کا اثر ہو اور جو معترض ہے وہ صرف اعتراض والا حصہ دیکھ لے گا پس جب پیار کرنے والے کو ایسی خواب آتی ہے تو اس میں اعتراض والا حصہ بھی دکھایا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ حصہ اس کے نفس کا نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے.جیسا کہ دوست جانتے ہیں اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا میں عید کے بعد انفلوائنزا کی وجہ سے بیمار ہوگیا تین چار دن بخار میں لیٹا رہا میری طبیعت میں بڑی گھبراہٹ بھی تھی کیونکہ امام وقت پر
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۲؍ جنوری ۱۹۷۰ء بولنے کی بڑی ذمہ واری ہوتی ہے بعض لوگ تو یوں ہی بولتے رہتے ہیں مجھے تعجب آیا کرتا ہے کہ یہ کیسے بڑی جرات کے ساتھ بولتے چلے جاتے ہیں میں نے تو اپنے نفس میں یہ محسوس کیا ہے کہ بولنے سے پہلے بے شمار استغفار کرنی پڑتی ہے دعائیں کرنی پڑتی ہیں.خیر امام کا مقام اور ہے لیکن یہ درست ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر انسان کی زبان پر پابندی بھی عائد کی ہے.غرض دعاؤں اور استغفار اور توبہ کے بعد پھر میں خطبہ جمعہ دیتا ہوں یا اور کوئی تقریر کرتا ہوں یا کوئی بات کرتا ہوں اس کے بغیر تو میں بات نہیں کر سکتا یعنی میرے اندر یہ جرات نہیں ہے کہ میں استغفار کئے بغیر اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے لئے بے حد دعاؤں کے بغیر کوئی بات منہ سے نکالوں اور اللہ تعالیٰ بڑی مدد کرتا ہے بڑا پیار کرنے والا ہے بعض دفعہ مثلاً بعد میں بھی کسی کے تسلی نہیں ہوتی یا کوئی معترض اعتراض سنانا شروع کرتا ہے طبیعت میں ایک حجاب پیدا ہوتا ہے بہر حال میں ایک انسان ہوں اور بشری کمزوری میرے ساتھ لگی ہوئی ہے کوئی غلطی نہ ہوگئی ہو.ایک دفعہ میں نے ایک مضمون بیان کیا اور جب قریب تھا کہ میں اُسے بھیج دیتا میں نے سنا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں یہ خامی ہے یہ کمزوری ہے چنانچہ میں دعاؤں میں لگ گیا اور اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ مضمون بالکل ٹھیک ہے اور اس کو شائع کرو چنا نچہ پھر میں نے اسے شائع کرنے کے لئے بھی بھیج دیا پس اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ایک ایسا مضمون جس میں بڑی وسعت تھی وہ خود ہی سکھا دیا اور چونکہ وہ بالائے وقت ہستی ہے عام لوگ تو بعض دفعہ یہ فقرہ نہیں سمجھ سکتے کہ اللہ تعالیٰ زمان و مکان سے بالا ہے.یہ وقت اور مکان جو ہیں یہ انسان کا احساس ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ذات جو ہے اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں وہ ان چیزوں سے بالا ہے اس کے قدرت کے جلووں میں بعض دفعہ یہ چیز کہ وہ مکان اور وقت سے بالا ہے بڑی نمایاں ہوتی ہے.اتنا بڑا مضمون جس کے تیس جزو تھے جن میں سے میں نے اس وقت صرف اٹھارہ dictate ( یعنی لکھوا ) دیئے تھے یعنی اس خیال سے کہ سنبھالے جائیں میں نے سمجھا کہ یہ مضمون لمبا ہو جانے کی وجہ سے شاید میں تمام مضمون بیان نہیں کر سکوں گا چنانچہ ان میں سے صرف تین بیان کر سکا اور سکھانے والے معلم یعنی اللہ تعالیٰ رب العالمین نے یہ سارا مضمون سکھانے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لیا.وقت سے بالا قدرت کا جلوہ دماغ کے اوپر آتا
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۰ء ہے اور وہ دماغ کے کونے کونے کو روشن کر جاتا ہے اور ایک مضمون ذہن میں آجاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کو ہمارے پہلے جلسوں سے بھی بہت بابرکت کیا اور پہلے جلسوں سے زیادہ با برکت ہی ہونا چاہیے تھا اور نہ تو ہمارے دل ڈر جاتے اور ہم بڑے پریشان ہو جاتے کہ ہمارا قدم اب آگے کی طرف نہیں ہے، ٹھہر گیا ہے یا پیچھے کی طرف ہے.یہ فکر بھی دماغ کو لگی رہتی ہے جس پر ذمہ واری ڈالی جائے کہ جماعت کا قدم ہمیشہ آگے ہی ہو.اگر چه جلسہ سالانہ کے لنگروں سے کھانے والوں کی تعداد میں تو صرف ڈیڑھ ہزار نفوس کی زیادتی ہوئی ہے لیکن جس نگاہ نے جلسہ گاہ اور جمعہ والے دن اور دوسری نمازوں کے وقت ہجوم دیکھا اور ان کمزوروں کو بھی دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں جلسہ گاہ میں نہیں تھے راستے میں مجھے ملے وہ وقت پر نہیں پہنچ سکے وہ یقیناً پچھلے سال سے بہت زیادہ تھے.پھر وہ دوست جو ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے بڑی کثرت سے آئے تھے عام اندازہ یہ ہے کہ جلسہ میں کم از کم آٹھ دس ہزار آدمی ایسے ہوں گے جن کا ہماری جماعت کے ساتھ تعلق نہیں پھر ان میں اس دفعہ نمایاں چیز یہ تھی کہ جو لوگ اپنے اپنے علاقے میں مولوی کہلاتے ہیں وہ بھی اپنی پوری ہیئت اور پوری ذہنیت کے ساتھ بڑی کثرت سے آئے اور ان میں سے بہتوں نے جلسہ پر ہی بیعت کر لی اور بیعت کے وقت بعض کو میں نے کہا بھی کہ اگر دُنیوی آرام کے لئے جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہو تو وہ یہاں نہیں ملے گا یہاں تو گالیاں کھانی پڑتی ہیں ماریں کھانی پڑتی ہیں دُکھ اُٹھانے پڑتے ہیں خدا کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں.یہ باتیں پہلے سوچ کر جماعت میں داخل ہوں.ایک مولوی صاحب جن کے ساتھ میں نے بڑے نمایاں طور پر اور کھل کر یہ بات کی تھی وہ کہنے لگے کہ ”ہن دیکھیا جائے گا جو ہوئے گا“ بڑا پختہ تھا بہت سوں نے بیعت نہیں بھی کی لیکن اُن پر اثر یہ تھا بات تو چھوٹی سی ہے لیکن مجھے اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھ کر اتنا لطف آیا اس چھوٹی سی بات میں کہ میں اس کو بیان کر دیتا ہوں.چار غیر احمدی مولوی اکٹھے ایک دوست کے ساتھ آئے تھے غالباً ایک دوسرے کا سہارا لے رہے ہوں گے کہ ہم میں سے کوئی پھسل نہ جائے بہر حال وہ عام ملاقاتوں میں آئے اور
خطبہ جمعہ ۲؍ جنوری ۱۹۷۰ء خطبات ناصر جلد سوم دوستوں نے بتایا کہ یہ ہمارے ساتھ آئے ہیں ہمارے علاقے کے مولوی ہیں میں نے ان سے ایک دومنٹ باتیں کیں مصافحہ کیا چلے گئے دوسری جماعت آگئی اور پھر میں کیا دیکھتا ہوں کہ ان میں سے پہلے ایک واپس آیا جو رضا کا روہاں کھڑے تھے انہوں نے اسے روکا لیکن یہ کہے کہ نہیں مجھے جانا ہے میری نظر پڑ گئی میں نے کہا کہ آنے دوا سے.چنانچہ اس نے پھر مصافحہ کیا اور چلا گیا پھر دوسرا آ گیا پھر تیسرا آ گیا اور پھر چوتھے کو میں نے روکا اور کہا کہ تم ابھی مصافحہ کر کے گئے ہو پھر دوبارہ آ رہے ہو کہنے لگے ابھی سیری نہیں ہوئی.پس اگر چہ انہوں نے بیعت تو نہیں کی لیکن بہر حال کوئی اثر قبول کیا جس کا اس رنگ میں انہوں نے اظہار کیا اب میری یا آپ کی کوشش سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ دل پر ایسا اثر ہو یہ تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہوا پس اللہ تعالیٰ نے بڑے فضل کئے ہیں.پھر انتظام کے لحاظ سے بڑے فضل ہوئے ایک تھوڑی سی خرابی یہ ہوئی تھی کہ ایک جگہ پر ہماری بس پر چھوٹے بچوں کو آلہ کار بنا کر بعض فتنہ پردازوں نے پتھراؤ کروایا تھا چنانچہ میں نے وہاں کے افسروں کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ یا تم انتظام کر دو یا ہم انتظام کر دیں گے کیونکہ عورتوں اور بچوں پر پتھر نہیں مارے جائیں گے جو مرد ہیں بڑے وہ تو ماریں کھانے کے بھی عادی ہیں اور پتھر کھانے کے بھی عادی ہیں اور گالیاں سننے کے بھی عادی ہیں لیکن اگر کسی احمق کو یہ خیال پیدا ہو کہ وہ ہماری عزت پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے اور عورتوں کو ذلیل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے تو یہ نہیں ہوگا پس یا تم انتظام کر دو اگر نہیں کر سکتے تو ہمیں بتا دو ہم خود اپنا انتظام کر لیں گے لیکن انہوں نے کہا نہیں آپ فکر نہ کریں اب یہ بات نہیں ہوگی چنا نچہ پھر نہیں ہوئی اللہ تعالیٰ نے ہر لحاظ سے فضل کیا.کھانے کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاصا اچھا رہا گواتنا اچھا ہو گیا ہے اس جلسہ کی وسعت اور عظمت کے لحاظ سے کہ اگر پندرہ منٹ بھی کسی کو دیر سے کھانا ملے تو وہ شکایت لکھ کر بھجوا دیتا ہے.جب میں چھوٹا تھا پھر جوان تھا قادیان میں کام کیا کرتے تھے تو مجھے یاد ہے کہ قادیان میں کوئی ایسا جلسہ نہیں گذرا ہوگا یعنی وہاں آخری جلسے تک کہ ہم بارہ ساڑھے بارہ بجے سے پہلے کھانا کھلانے سے فارغ ہوئے ہوں لیکن اب یہ حال ہے کہ جب میں افسر جلسہ سالا نہ ہوتا تھا تو
خطبات ناصر جلد سوم ۶ خطبہ جمعہ ۲؍ جنوری ۱۹۷۰ء ایک سال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے پاس ساڑھے آٹھ بجے یہ شکایت چلی گئی کہ ساڑھے آٹھ بج چکے ہیں اور ہماری جماعت کو ابھی تک کھانا نہیں ملا.پس یہ انتظام کی دن بدن جو اس میں Efficiency ( افیشنسی ) اور عمدگی اور خوبی پیدا ہورہی ہے یہ اس کا نتیجہ ہے اور ہماری یہ کوشش ہے کہ پہلے ساڑھے بارہ بجے بھی کھانے سے فارغ ہوتے تھے تو شکایت نہیں پیدا ہوتی تھی لوگ سمجھتے تھے کہ ہجوم زیادہ ہے (اس کے مقابلے میں تو شاید چوتھائی ہوتا ہو گا ان جلسوں میں ) بہر حال ہجوم بڑا ہے رضا کا رتھوڑے ہیں اتنا بڑا انتظام نہیں یہ باتیں ہو جایا کرتی ہیں پھر لوگوں نے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی فضل کرتا ہے کہ اتنے بڑے وسیع اجتماع کے انتظام بغیر خرچ کے ہو جائیں پھر آہستہ آہستہ انہوں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ اتنا فضل کرنے والا ہے اور یہ ان کی سستی ہے کہ ساڑھے آٹھ بج گئے ہیں اور ہمیں کھانا وقت پر نہیں ملا اور ممکن ہے کہ آئندہ سال یا اس سے آئندہ سال آٹھ بجے یہ شکایت آجائے کہ آٹھ بج گئے ہیں اور ہمیں ابھی تک کھانا نہیں ملا انتظام دن بدن بہتر ہوتا جا رہا ہے اس وقت میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا ہے یعنی یہ نہیں کہ مجھے کچھ بتایا گیا ہو یا میں نے خواب دیکھی ہو.بس احساس ہے کہ آئندہ کھانا کھانے والوں کی تعداد میں دس ہزار کی زیادتی ہوگی اور ہمارے انتظام میں سب سے مشکل حصہ روٹی ہے سالن آسانی سے پک جاتا ہے کوئی دقت نہیں ہوتی ہمارے بھائی اتنے اچھے ہیں کہ جب گوشت کی دیگ ختم ہو جائے تو آدھ گھنٹہ میں دال پک جاتی ہے اور وہ لے لیتے ہیں اور کسی کو کوئی شکوہ نہیں پیدا ہوتا لیکن بہر حال روٹی تو ہونی چاہیے اور وسعت اتنی ہو چکی ہے کہ میرے خیال میں ا پونے دوسو کے قریب بلکہ اس سے زیادہ شاید سوا دو سو کے قریب تنور لگتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ چار پانچ سو نانبائی اپنے اڈوں سے اُٹھ کر تین چار دن کے لئے اپنا کرایہ خرچ کر کے یہاں آجائیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ آتا کیوں ہے یہاں نانبائی کرا یہ وہ اپنا خرچ کرتا ہے مثلاً جو ملتان سے آیا ہے اس نے آنے جانے کا کرایہ اپنا خرچ کیا ہے اور تین یا چار دن اس نے یہاں کام کیا اور بمشکل تیس چالیس روپے اس نے کمائے لیکن اب وسعت اتنی ہو گئی ہے کہ شاید ہمارے ملک میں اس طرح اُٹھنے والے نانبائی اتنے میسر ہی نہ آسکیں.
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۲ / جنوری ۱۹۷۰ء کئی سالوں سے فکر تھی ہمارے بعض احمدی انجینئرز نے بڑے ہی اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے.دوست ان کے لئے دعا کریں ایک مشین تو کراچی میں تیار ہو گئی تھی دوسری مشین جس پر یہاں انجینئر ز لگے رہے ہیں کئی روز متواتر چوبیس گھنٹے انہوں نے کام کیا ہے آخر ایک وہ وقت آیا کہ انسانی جسم تو بہر حال محدود طاقت رکھتا ہے وہCollapse ( کلپس ) کر گیا اور ان کی طبیعت پر بڑا اثر ہوا ہمیں بڑی فکر پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے اللہ تعالیٰ انہیں صحت تو آہستہ آہستہ دے رہا ہے انشاء اللہ ٹھیک ہو جائیں گے دوست ان کے لئے بھی اور جو دوسرے اخلاص سے کام کرنے والے ہمارے رضا کار ہیں ان کے لئے بھی بہت دعا ئیں کیا کریں.دعا کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ آپ کے دل میں بھی رضا کارانہ خدمت کا احساس پیدا ہوگا مثلاً جب گھر کا ایک باپ یہ دعا کرے گا کہ اے خدا! اس طرح بے نفس چوبیس گھنٹے تیری رضا کی خاطر یہ کام کرنے والے رضا کار ہیں تو ان پر اپنے بڑے فضل اور بڑی برکتیں نازل کر تو اس متضرعانہ دعا کے عین درمیان اسے یہ خیال پیدا ہو گا کہ اس دعا سے میرے وہ بچے محروم ہیں جن کو میں نے گھر میں بٹھا لیا تھا اور رضا کارانہ خدمت کے لئے نہیں بھیجا تھا.پس اس دعا کے نتیجہ میں ہمیں زیادہ تربیت یافتہ اور زیادہ اخلاص سے کام کرنے والے اور رضا کا ربھی مل جائیں گے اور پھر جن کا حق ہے کہ انہوں نے ہماری طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کی خدمت کی ہم اللہ کے حضور کہیں کہ اے خدا! تو ان پر زیادہ سے زیادہ فضل اور رحم کر اور پاحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.(النَّحل: ۹۸) مجموعی طور پر جو سب سے اچھے کام کرنے والے رضا کاراس جلسے میں تھے سارے رضا کاروں کو اسی کے مطابق جزا دے دے ایک جان ہو کر سارے کام کر رہے تھے.یہ بھی بڑا فضل ہے اتنے بڑے مجمع کے لئے سوائے ان مزدوروں کے یا ان غیر احمدی نانبائیوں وغیرہ کے بعض ایسے کام ہوتے ہیں جن کے لئے احمدی ملتے نہیں یا بعض ایسے کام ہیں کہ احمدی ہیں اور بڑے تھوڑے کام ہیں جن میں ہم سمجھتے ہیں کہ ان کو پیسے ملنے چاہئیں ان سے رضا کارانہ خدمت نہیں لینی چاہیے ان کے علاوہ ہزاروں آدمی دن رات لگے ہوئے ہیں نہ اپنی ہوش ہے
خطبات ناصر جلد سوم Λ خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۰ء نہ اپنے کھانے کی ، نہ اپنے آرام کی ، نہ اپنے لباس کی ہر وقت کام میں لگے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا اتنابڑا فضل اور رحم ہے کہ دل کے اندر اس نے خدمت کا یہ جذبہ پیدا کیا ہے اور توفیق دی ہے اپنی اس جماعت کے بالکل نو عمر افراد کو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس طرح خدمت کریں اب بھی یہی ہوتا ہے چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں ہم اُن کی عمر کے لحاظ سے ان کو یہ کام دے دیتے ہیں کہ جاؤ تنوروں سے روٹیاں اُٹھاؤ اور جہاں ہم نے اکٹھی کرنی ہیں یا جہاں سے تقسیم کرنی ہیں وہاں لے جاؤ اس میں بڑی عمر کے آدمیوں کی ضرورت نہیں چنانچہ یہ چھوٹے چھوٹے بچے بھمیری کی طرح چکر لگا رہے ہوتے ہیں نہ دن کو دن سمجھتے ہیں نہ رات کو رات اور کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ہماری جماعت کی کوئی خوبی یا کسی فرد کی خوبی نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس کی رحمت ہے جو جلسہ کے ایام میں مختلف شکلوں میں نازل ہوتی ہے کہ دلوں کے اندر ایک سکون ایک اطمینان ایک خوشی ایک احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اور اپنے فضلوں سے ہمیں نواز رہا ہے اور آسمان سے برکتیں نازل ہورہی ہیں یہ میرا یا آپ کا کام نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے اور وہ کرتا ہے اور بڑے فضل کرتا ہے زبانیں کھولتا ہے دماغ روشن کرتا ہے کانوں کی کھڑکیوں کو فراخ کرتا ہے دلوں کے راستوں کو صاف کرتا ہے پھر دلوں پراثر ہوتا ہے یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں غرض اللہ تعالیٰ کے فرشتے کام کر رہے ہوتے ہیں اور جب اتنا بڑا کارخانہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کا ہمارے لئے کام کر رہا ہو اور ہمیں بھی گھسیٹ کر اپنے ساتھ کام پر لگالے تو اس کے بعد ہمارے دل اس کی حمد سے معمور کیوں نہ ہوں گے اور اس کے بعد ہمارے دل میں اس کے شکر کے جذبات سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں کیوں نہ ماریں گے.الْحَمْدُ لِلَّهِ پڑھیں بہت الْحَمدُ لِلهِ پڑھیں کہ حمد اور شکر کے نتیجہ میں انسان بہتر اور بڑے فضل کا وارث بنتا ہے.اللہ تعالیٰ حمد کی بھی توفیق دے، دعا کی بھی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ ہمارا ہر قدم نہ صرف یہ کہ پہلے سالوں سے آگے بڑھنے والا ہو بلکہ دو پیروں کا فاصلہ بھی زیادہ لمبا ہو یعنی صرف پہلے سال کی نسبت سے اللہ کے فضلوں میں زیادتی نہ ہو بلکہ دگنی تگنی چوگنی زیادتی کے ساتھ ہر سال آئے.یہ سال جس میں ہم داخل ہو رہے ہیں، ہے بڑا اہم یہ میں
خطبات ناصر جلد سوم ۹ خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۰ء آپ کو بتا دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے بعض ایسے سامان پیدا کرے گا جن کو ہم اس وقت سونگھ تو رہے ہیں لیکن پہچان نہیں رہے.نیا سال آ گیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.66 وَ قَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السَّنِينَ وَالْحِسَابَ “ (یونس : ٦ ) بہت سا مضمون یہاں بیان ہوا ہے لیکن ایک یہ ہے مَا خَلَقَ اللهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ ، (یونس: ۶) کہ تمام کارخانہ ، عالم وقت کے ساتھ بندھا ہوا ہے.عَدَدَ السّنِينَ وَالْحِسَابَ ہے نا کہ یہ کائنات یہ دنیا یہ عالمین جو وقت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتوں کا یہ جلوہ دکھایا ہے.مَا خَلَقَ اللهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ - میں نے بتایا ہے یہ مضمون بڑا وسیع ہے میں اس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا لے رہا ہوں کہ انسان کی بدلی ہوئی حالت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ سلوک ہوتا ہے.حق کے معنے ہی یہ ہوتے ہیں یعنی موافقت کے.انسان جب ایک سال ترقی کرتا ہوا سال کو ختم کرتا ہے تو نئے سال میں داخل ہونے والا زید وہ زید نہیں ہوتا جو پچھلے سال میں داخل ہوا تھا بدل چکا ہوتا ہے اپنی تربیت میں اپنے اخلاص میں اپنی قربانیوں کے نتیجہ میں وہ ایک اور ہی انسان ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا کہ اگر تم اور نیک انسان بنو گے اور زیادہ اخلاص رکھنے والے انسان بنو گے اور زیادہ مجھ سے محبت رکھنے والے انسان بنو گے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور زیادہ فدائی بنو گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اور زیادہ پیار کرنے والے بنو گے تو میں الا بِالْحَقِّ یعنی میں ایک نئی شان کے ساتھ تم پر جلوہ گر ہوں گا اور تمہاری بدلی ہوئی نیک حالت کے مطابق بدلے ہوئے سامان پہلے سے بہتر محبت کا اظہار میں تم سے کرنے والا ہوں گا ایک نئے دور میں تم داخل ہو گے وہ دور تمہارے لئے بہتر ہو گا خدا کرے کہ جس طرح پچھلے سال ہم نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ دیکھا کہ فساد کے ایام میں ڈرتے ہوئے دلوں کے ساتھ ہم پچھلے سال ہی داخل ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہم پر نازل ہو رہی تھی جب تیاری کر رہے تھے جلسہ کے دنوں میں سالِ رواں میں داخل ہونے کی.
خطبات ناصر جلد سوم 1.خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۷۰ء پس خدا کرے کہ جس طرح وہ فرق ہماری طبیعتوں اور ذہنوں نے محسوس کیا کہ جو فرق پچھلے سال کی ابتدا اور انتہاء میں تھا خدا کرے کہ سال رواں کی انتہا ء اپنی رحمتوں میں اس قدر عظیم ہو کہ جس وقت ہم وہاں پہنچیں تو یہ ابتدا جو اللہ تعالیٰ کی بڑی ہی رحمتوں مشتمل ہے یہ جو ہم نے پایا ہمیں اس طرح نظر آئے کہ جس طرح وہ کچھ بھی نہیں تھا.اللہ تعالیٰ نے کتنا فضل کیا کہ ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ اس نے عطا دی وہ بڑی قدرتوں والا اور بڑا پیار کرنے والا ہے.خدا کرے کہ ہمارے دل اور ہمارے دماغ اور ہماری روح اس سے محبت کریں اور اس کے پیار کے متلاشی ہوں اور اس کی محبت میں ایک دیوانہ اور مست بن جائیں اور خدا کرے کہ وہ ہمیں پہلے سے زیادہ رحمتوں کا اہل پائے اور پھر اپنی بے شمار رحمتیں ہمیں عطا کرے کہ وہ سب قدرتوں والا ہے.جمعہ کی نماز پڑھانے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے فرمایا:.میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے لڑکے عزیزم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد کو اللہ تعالیٰ نے وقف زندگی کی توفیق دی تھی انہوں نے ڈاکٹری کی ، کچھ عرصہ یہاں ہسپتال میں کام کیا اب اللہ کے فضل سے وہ مزید تعلیم کے لئے رخصت پر اپنے خرچ پر انگلستان جا رہے ہیں یہاں سے اُن کی آج روانگی ہوگی اور غالباً کل لاہور سے ہوائی جہاز کے ذریعہ روانہ ہو جا ئیں گے.میری یہ خواہش ہے اور درخواست ہے کہ آپ بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے علم میں اور ان کی عقل میں برکت ڈالے اور ان کے جذبہ خدمت کو بہت بڑھائے اور اللہ تعالیٰ انہیں وہاں اپنی امان میں رکھے اور امان میں رکھے ہم سب کو جہاں بھی ہم ہوں اور خیریت سے ان کو واپس لائے اور ایک پیار کرنے والے ہمدرد اور غم خوار طبیب حاذق کی طرح انہیں اپنوں اور غیروں کی خدمت کی توفیق ملے.اب میں دعا کروں گا آپ بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر طرح ان کے سفر کو با برکت کرے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد سوم 11 خطبہ جمعہ ۹/جنوری ۱۹۷۰ء فرمائی:.ہمارے پاس ایک عمدہ پریس اور ریڈیو سٹیشن ہونا چاہیے خطبه جمعه فرموده ۹ جنوری ۱۹۷۰ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ - اس کے بعد فرمایا:.(الانفال : ۲۶) ایام جلسہ مہمان نوازی کے ایام ہیں اکرام ضیف کے ایام ہیں پھر مہمان بھی وہ جو صرف ہم خدام کے ہی مہمان نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس رسول کے عن روحانی فرزند کے مہمان ہیں.اللہ تعالیٰ بڑے فضل سے بڑی رحمت سے اہل ربوہ کو یہ توفیق عطا فرماتا ہے کہ وہ ان مہمانوں کی جیسا کہ چاہیے خدمت کریں اور جیسا کہ چاہیے اکرام ضیف کریں.مهمان نوازی اور اکرام ضیف کے سلسلہ میں جو کچھ ایام جلسہ میں ہوتا ہے اس کی مثال دنیا میں ہمیں کہیں نہیں ملتی.اتنا بڑا اجتماع جو شہر کی آبادی سے بھی چھ سات گنا زیادہ ہوتا ہے اور اس لحاظ سے قریباً اوسط یہ بنتی ہے کہ جس گھر کے شیر خوار بچوں سمیت سات افراد ہیں بہت سارے گھرانے ایسے ہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۱۲ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء جن میں ان سات افراد خانہ کے مقابلہ میں چالیس، پچاس اور بعض دفعہ ساٹھ مہمان آجاتے ہیں.ایک دفعہ جب میں افسر جلسہ سالا نہ تھا ایک رپورٹ میرے پاس آئی کہ ایک چھوٹا سا گھر ہے گھر والوں نے صرف ایک کمرہ مہمانوں کے لئے دیا ہے اور پچاس ساٹھ مہمانوں کا کھانا لینے آگئے ہیں حالانکہ اتنے مہمان تو اس کمرہ میں سما ہی نہیں سکتے جب رات کو معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جتنے مہمانوں کا کھانا انہوں نے لیا ہے اس سے زیادہ مہمان اس کمرہ میں سمائے ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ کے فرشتے ہی ان مہمانوں کے لئے جگہ بناتے ہیں اور ان کے لئے سیری کا سامان پیدا کرتے ہیں اور ان کے آرام کا خیال بھی رکھتے ہیں اور ان کے اعزاز کا ماحول بھی پیدا کرتے ہیں.اہلِ ربوہ تو مفت میں سارا ثواب مہمان نوازی کا لے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ اور بھی زیادہ رحمتوں کا انہیں وارث بنائے اور اللہ تعالیٰ اور بھی زیادہ خدمت ضیف اور اکرام ضیف کی انہیں تو فیق عطا کرے.ربوہ کا ماحول جس طرح جلسہ سالانہ کے ایام میں ظاہری اور باطنی طور پر پاکیزہ اور مطہر رہنا چاہیے اسی طرح سال کے دوسرے ایام میں بھی ہمارے ماحول میں کسی قسم کی گندگی اور نا پاکی داخل نہیں ہونی چاہیے.اس میں شک نہیں کہ ربوہ کے مکینوں کی بڑی بھاری اکثریت اس کوشش میں ضرور لگی رہتی ہے کہ ان کا ماحول پاک رہے اور وہ یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ جس فضا میں وہ سانس لے رہے ہوں اور جس زمین پر ان کے قدم پڑ رہے ہوں وہ طہارت اور پاکیزگی رکھنے والی اور طہارت اور پاکیزگی اور برکت پہنچانے والی ہولیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ربوہ میں رہنے والوں میں سے بعض ان ذمہ داریوں کا خیال نہیں رکھتے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر ڈالی ہیں اور جنہیں انہوں نے برضا و رغبت قبول کیا ہے کسی کے لئے یہ ضروری نہ تھا اور نہ اب ضروری ہے کہ وہ ربوہ میں ہی رہائش رکھے لیکن سارے ہی بظاہر اور ان میں سے بڑی بھاری اکثریت حقیقتاً بھی برضا و رغبت اور اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اور اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہو کر ربوہ میں رہائش پذیر ہیں.اہلِ ربوہ نے جو ذمہ داری برضاور غبت اپنے اوپر لی ہے اگر ان میں سے ایک فیصد یا نصف فیصد یا چوتھائی فیصد ایسے گھرانے ہوں جنہیں اپنی ذمہ داریوں کا یا تو علم نہ ہو یا اپنی ذمہ داریاں نباہنے کی طرف انہیں توجہ نہ ہو تو اس کے نتیجہ میں انہیں یہ نہ سمجھ لینا چاہیے
خطبات ناصر جلد سوم ۱۳ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۷۰ء کہ ہم اس کو برداشت کر لیں گے.جو آیت میں نے ابھی پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض عذاب اور ابتلاء اور مصائب اور آفتیں دنیا پر ایسی بھی نازل کی جاتی ہیں کہ ان کی لپیٹ میں صرف ظالم ہی نہیں آتا بلکہ وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جن کا بظاہر اس ظلم میں کوئی حصہ نہیں یعنی صرف ظالم کو وہ آفت یا بلاء یا عذاب نہیں پہنچتا بلکہ دوسرے بھی اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں.اصول تو ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى (الانعام : ۱۶۵) کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی لیکن چونکہ یہ دنیا دار الابتلاء ہے دارالجزاء نہیں.اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اس ابتلاء اور عذاب میں وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں گے.یہ ابتلاء اور عذاب ان لوگوں کو بھی پہنچے گا جو ظالم نہیں ہیں اور قرآن کریم کے متعلق یہ اصول یا د رکھنا چاہیے کہ اس کی آیات باہم تضاد نہیں رکھتیں.لہذا ہمیں اس آیت کے ایسے معنی کرنے پڑیں گے جو کسی دوسری آیت سے ٹکراتے نہ ہوں ان کے متضاد نہ ہوں پس یہاں ایک معنی یہ ہوں گے کہ گو ظاہری طور پر وہ لوگ فلم میں شامل نہیں لیکن باطنی طور پر وہ ظلم میں شامل ہیں اور وہ اس طرح کہ بعض ذمہ داریاں افراد سے تعلق رکھتی ہیں.وہ انفردی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور بعض ذمہ داریوں کے بہت سے پہلو یا وہ ساری کی ساری اجتماعی رنگ رکھتی ہیں اور جو اجتماعی ذمہ داریاں ہیں اگر وہ گروہ یا وہ خاندان جن کی وہ ذمہ داریاں ہیں بحیثیت مجموعی ان کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس کے نتیجہ میں اس گروہ یا خاندان کے بعض افراد ظالم بن جائیں تو سزا اور عذاب میں سارا خاندان ہی ملوث ہو جائے گا.دنیا کی نگاہ تو یہ دیکھے گی کہ ایک پندرہ سالہ بچے نے چوری کی مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ یہ دیکھتی ہے کہ اس کے ماں اور باپ بہن اور بھائیوں اور خاندان کے دوسرے بڑے رشتہ داروں پر جو یہ فرض تھا کہ وہ اس پندرہ سالہ معصوم بچے کی صحیح تربیت کریں وہ تربیت انہوں نے نہیں کی جس کے نتیجہ میں وہ چور بن گیا.پس دنیا کا قانون تو صرف اس بچے کو سزا دے گا مگر اللہ کا قانون اُس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی صرف اس بچے پر گرفت نہیں کرے گا جس نے چوری کی بلکہ ان پر بھی گرفت کرے گا جن پر اس کی صحیح تربیت کی ذمہ داری تھی لیکن انہوں نے اپنی یہ ذمہ داری ادا نہیں کی اگر وہ لوگ اس کی صحیح تربیت کی ذمہ داری کی -
خطبات ناصر جلد سوم ۱۴ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء طرف کما حقہ، متوجہ رہتے تو ان کا بچہ چور نہ بنتا اسی طرح اگر بعض خاندانوں کے بچوں کو گندی گالیاں دینے کی عادت ہے تو صرف ان بچوں پر گرفت نہیں کی جائے گی بلکہ ان کے ماں باپ اور دوسرے ذمہ دار رشتہ داروں پر بھی گرفت کی جائے گی جن پر یہ فرض تھا کہ اپنے قول فعل اور نمونہ کے ساتھ اُن کی صحیح تربیت کرتے اگر اہل ربوہ میں سے ایک آدھ ایسا نوجوان ہو جو نظام سلسلہ کا وہ احترام نہیں کرتا جو ہر احمدی کو کرنا چاہیے ( اور احمدیوں کی بہت بھاری اکثریت یہ احترام کرتی ہے ) تو اس صورت میں اگر اصلاح کی خاطر ربوہ سے باہر بھجوانے کا فیصلہ ہوا تو صرف بچہ کو ہی نہیں بلکہ اس کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی ربوہ سے باہر جانا ہوگا.دو تین سال ہوئے دو ایک نوجوانوں کو ان کی اصلاح کی غرض سے ربوہ سے باہر بھجوایا گیا تو وہ باہر یہ شور مچاتے رہے کہ ہمیں خواہ مخواہ ربوہ سے نکال دیا گیا ہے اور ان کے ماں باپ یہاں شور مچاتے رہے کہ ہمارے بچوں کو خواہ مخواہ ربوہ سے باہر نکال دیا گیا ہے پس ہم ایسے کمزور ایمان والوں اور بزدلوں سے دو جگہ کیوں شور مچوائیں وہ ایک ہی جگہ شور مچائیں بہتر تو یہ ہے کہ وہ یہاں رہیں اور اخلاص سے رہیں اور اگر یہاں سے جانا ہو تو سارا خاندان یہاں سے جائے صرف بچوں کو ہی باہر کیوں بھیجا جائے.میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ بچے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بچے ہیں جو ماں باپ ان کی صحیح تربیت نہیں کرتے وہ بڑے ہی ظالم ہیں.ظاہری آنکھ ان کے ظلم کو نہیں دیکھتی وہ صرف بچہ کی حرکت کو دیکھتی ہے وہ ایک بچہ کو کوئی چیز اٹھاتے دیکھتی ہے وہ اسے آوارہ پھرتے دیکھتی ہے یا کان کسی بچہ کی زبان سے گندی گالیاں سُن رہے ہیں لیکن ایک مومن کی فراست اور خدائے عَلامُ الْغُيُوبِ کا علم ان ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کے اندر بھی ظلم اور گند دیکھ رہا ہے جن پر اس کی تربیت میں حصہ لینا فرض تھا اور جن پر اللہ تعالیٰ کی غصہ کی نگاہ ہو جنہیں اللہ تعالیٰ گندہ اور ظالم پائے ان کو ہم عاجز بندے اصلاحی تدبیر کے بغیر کیسے چھوڑ سکتے ہیں.خدا تعالیٰ سے زیادہ تو کوئی بندہ کسی پر رحم نہیں کر سکتا ایک ہی ہستی ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب سے زیادہ ہے اس کی رحمت نے مخلوق میں سے ہر شئے کا احاطہ کیا ہوا ہے اسے گھیرے میں
خطبات ناصر جلد سوم ۱۵ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء لیا ہوا ہے کسی اور ہستی کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا پھر جب وہ ہستی جو رحمت محض ہے اور جس نے اپنی رحمت اور پیار کے لئے ہی اپنے بندوں (انسانوں) کو پیدا کیا ہے کسی میں ظلم دیکھتی ہے جب وہ ہستی کسی میں ناپا کی اور گندگی پاتی ہے تو کسی انسان کا یہ حق نہیں کہ وہ یہ کہے کہ چونکہ ہماری آنکھ نے صرف اولاد میں گند کو دیکھا تھا اور ان کے ماں باپ کی عدم توجہ کو ہماری آنکھ نہیں دیکھ سکتی تھی ہماری ناقص عقل میں وہ نہیں آسکا تھا.ہمارے کمزور علم میں وہ بات نہیں آئی تھی اس لئے ہم ان پر گرفت نہیں کر سکتے.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض ایسے ابتلاء ہوتے ہیں کہ صرف ظالم ہی ان کی گرفت میں نہیں آتے بلکہ تمہاری نگاہ جن کو ظالم نہیں سمجھتی وہ بھی اس کی گرفت میں آجاتے ہیں اور آنے چاہئیں اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ اِس حدیث میں مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ کے محض یہ معنی نہیں ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ان پر گرفت کرے گا اور ان سے جواب طلب کرے گا کہ تم کیا کرتے ہو بلکہ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ دار قرار دیئے گئے ہیں (مثلاً نظام جماعت اور خلیفۂ وقت ) وہ بھی اللہ تعالیٰ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اور اس کے اس خُلق کو اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے جواب طلبی کر یں گے ان کے سامنے بھی تم مسئول ہو اور تم سے جواب طلبی کی جائے گی.پہلے ایک آدھ خاندان میں برائی ہوتی ہے یا ایک آدھ برائی ہوتی ہے اگر ساری قوم یا قصبہ اور شہر کے سارے مکین اس کو دیکھ کر اس سے بیزاری کا اعلان نہ کریں اور نفرت کا مظاہرہ نہ کریں تو آہستہ آہستہ اس بُرائی کی بھیانک اور مکر وہ شکل اور اس کی ناپاکی نگاہ سے مخفی ہو جاتی ہے اور پھر اور لوگ بھی اس میں ملوث ہو جاتے ہیں.پس ربوہ میں کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جس میں اس قسم کی ناپاکیاں اور بدیاں اور گند پائے جاتے ہوں اور اگر کوئی ایسا گھرا نہ ہوا تو صرف ان معصوم بچوں کو ہی جن پر آپ نے ظلم کیا ہے ربوہ سے باہر نہیں بھیجا جائے گا بلکہ آپ ظالموں یعنی ماں باپ کو بھی ساتھ ہی یہاں سے روانہ کیا جائے گا.اس لئے تم اپنی اور اپنے گھر کی فکر کرو.ہم بہر حال ربوہ کی پاکیزگی اور اس کے اچھے نام پر کوئی داغ نہیں لگنے دیں گے.انشاء اللہ.
خطبات ناصر جلد سوم ۱۶ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء جیسا کہ میں نے بتایا ہے ربوہ میں رہنے والوں کی بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے کہ دنیا کی کوئی چیز اُن کی قیمت نہیں ٹھہر سکتی اگر دنیا کے سارے ہیرے اور جواہر بھی اکٹھے کئے جائیں تو ہمارے ایک آدمی کی ان سے زیادہ قیمت ہے لیکن ایک بدصورت اور بے قیمت پتھر کو ہم ان جواہرات میں شامل نہیں رکھ سکتے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی وقت ضرورت پڑی تو سارا ربوہ ( ظاہری طاقت کا استعمال مراد نہیں ) نفرت کا اس رنگ میں اظہار کرے گا کہ پھر ایسے خاندان کو یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا.احمدی مسلمان ایک عجیب قوم ہے جو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لئے پیدا کی ہے لیکن جیسا کہ سنت الہی ہے.الہی سلسلوں کے ساتھ نفاق لگا رہتا ہے اسی طرح کمزوری ایمان بھی ساتھ لگی ہوئی ہے جہاں تک کمزوری ایمان کا سوال ہے یہ نہ تو بھیا نک ہے اور نہ ہمیں اس کی اس لحاظ سے کوئی فکر ہے کہ جماعت میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے گی گوہمیں اس لحاظ سے فکر ہے کہ کمزور ایمان والوں کی تربیت ہونی چاہیے کمزوری ایمان اعتقادی ہو یا عملی صرف اس لئے ہوتی ہے کہ ہم نے ایک شخص کی صحیح تربیت نہیں کی.نئے نئے لوگ جو باہر سے آکر جماعت میں شامل ہوتے ہیں یا جو جماعت میں پیدا ہوتے ہیں وہ تربیت کے محتاج ہوتے ہیں اگر ان کی تربیت ہو جائے ( اور ضرور ہونی چاہیے ) تو جو حالت زید کی مثلاً احمدیت میں داخل ہونے سے دس سال کے بعد ہوئی ہے وہی حالت آج آنے والوں کی دس سال کے بعد ہو جائے گی.نئے آنے والے جو ہمیں کمزور ایمان نظر آتے ہیں دس سال کے بعد ان کے ایمان پختہ ہو جائیں گے کیونکہ ہر چیز کی پختگی وقت کا مطالبہ کرتی ہے مثلاً اگر ہم نے صحن میں مٹی ڈال کر اس پر اینٹیں لگانی ہوں تو مٹی ڈالنے کے بعد ” کو ٹائی کرنی پڑتی ہے یہ نہیں کہ ایک مزدور مٹی ڈالتا جائے اور ساتھ ساتھ ایک معمار فرش لگاتا جائے بعض دفعہ لوگ اس قسم کی غلطی کر جاتے ہیں اس لئے ان کو بعد میں تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے کیونکہ اینٹیں بیٹھ جاتی ہیں.اس فرش کو پختہ شکل کرنے کے لئے اور اسے اس بوجھ کو سنبھالنے کے قابل بنانے کے لئے جو اس پر اینٹوں کا اور چلنے والوں کا پڑنا ہے وقت کی ضرورت ہوتی ہے اگر فوری طور پر آپ نے مگدر سے ” کو ٹائی کر دی تو شاید وہ فرش ایک دن میں پختہ ہو جائے
خطبات ناصر جلد سوم ۱۷ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء لیکن اگر آپ نے اسے اپنے قدموں یا اپنے خاندان کے لوگوں، مہمانوں اور دوستوں کے قدموں کی کوٹائی پر چھوڑا تو پندرہ بیس دن یا ایک مہینہ لگ جائے گا.قدموں کے دباؤ کی وجہ سے آہستہ آہستہ مٹی بیٹھ جائے گی یہ ایک چھوٹی سی مثال میں نے دی ہے لیکن ہر چیز اس دنیا میں اپنی پختگی کے لئے وقت کی محتاج ہے اور وہ وقت کا مطالبہ کرتی ہے آم کے درخت کو لے لو وہ ایک وقت کے بعد پھل لاتا ہے.ایک احمدی بچہ ایک وقت کے بعد اطفال الاحمدیہ سے نکل کر خدام الاحمدیہ میں داخل ہوتا ہے ایک حافظ قرآن جب قرآن کریم حفظ کرنے لگتا ہے تو اسے پہلے چھوٹی چھوٹی سورتیں حفظ کرائی جاتی ہیں ( پتہ نہیں اب بھی یہی طریق ہے یا نہیں ) اور اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ تا چھوٹی چھوٹی سورتیں جلدی یاد ہونی شروع ہو جائیں اور پھر بڑی سورتوں کی طرف اسے لایا جائے.وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر پختگی پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ اپنے حافظہ پر زیادہ بھروسہ کرتے ہوئے اور خود اعتمادی کے ساتھ قرآن کریم یاد کرتا چلا جاتا ہے.غرض کمزوری ایمان جو احمدیت میں نئے نئے داخل ہونے یا احمدیت میں پیدائش کے نتیجہ میں ہمیں نظر آتی ہے وہ ہم سے تربیت کا مطالبہ کرتی ہے لیکن نفاق ہم سے بیدار اور چوکس رہنے کا مطالبہ کرتا ہے اور چونکہ دنیا کا قاعدہ یہی ہے کہ پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے، زبر دست کمزور پر حملہ آور ہوتا ہے اس لئے نفاق کو یا منافق کو اگر موقع مل جائے تو وہ وہاں حملہ کرے گا جہاں اسے کمزوری نظر آئے گی ایک منافق مثلاً امیر جماعت احمد یہ سرگودھا کے پاس جا کر ان کے ایمان پر حملہ نہیں کرے گا بلکہ چک نمبر ۳۵ میں جو ایک نیا نیا احمدی ہوا ہے وہ اس کے پاس جائے گا اور اس پر حملہ آور ہو گا.وہ کمزوری ایمان جو احمدیت میں نئے نئے داخل ہونے کی وجہ سے یا احمدیت میں پیدائش کے نتیجہ میں نظر آتی ہے ہم نے اس کی دو طرح حفاظت کرنی ہے ایک تو ہم ایسے کمزور ایمان والے کو نفاق کے حملہ سے بچا کر اس کی حفاظت کریں گے اور دوسرے آہستہ آہستہ اس کی تربیت کر کے اس کی حفاظت کریں گے ایسے کمزور ایمان والے ربوہ میں بھی ہوتے ہیں باہر سے بعض کمزور لوگ آجاتے ہیں اور ربوہ میں آکر آباد ہو جاتے ہیں ان میں سے بعض کا تو نظارت امور عامہ کو بھی پتہ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۸ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء نہیں لگتا.بعض دفعہ بعض نئے احمدی اپنے علاقہ سے گھبرا جاتے ہیں یا انہیں یہاں سہولت ہوتی ہے اس لئے وہ یہاں آکر آباد ہو جاتے ہیں.ان لوگوں کی تربیت کی طرف بھی پوری توجہ دینی چاہیے لیکن اگر یہاں آنے سے قبل ان کی تربیت کچھ اس قسم کی ہو کہ ہمیں یہ خطرہ پیدا ہو کہ ربوہ کے مکینوں کے بچوں پر ان کے بچوں کا برا اثر پڑے گا تو پھر صرف ان کے بچے ہی اپنی جگہ پر واپس نہیں بھیجے جائیں گے بلکہ ہم سارے خاندان کو ہی واپس بھیج دیں گے اور ہمارا یہ فعل بغیر کسی غصہ کے ہوگا کیونکہ ابھی ان کی تربیت نہیں ہوئی لیکن اگر کہیں نفاق اس قسم کا گند پیدا کرے گا تو پھر ہماری طبیعتوں میں غصہ پیدا ہونا تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ کے حکم کے ماتحت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو میں نے شروع میں پڑھی ہے یہ فرمایا ہے کہ آنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (الانفال : ۲۶) اس آیت کریمہ میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ گومیرے بندے بھی تم پر گرفت کریں گے لیکن میرے بندوں کی گرفت میری گرفت کے مقابلہ میں بہت ہلکی ہوگی خواہ وہ کتنی ہی سخت گرفت کیوں نہ کریں میری گرفت بہر حال ان سے زیادہ ہے کیونکہ میں سب طاقتوں والا ہوں اور میرا عقاب بندوں کے عقاب سے بہر حال شدید ہے.پس یہاں ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تمہیں بھی اصلاحی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں.اس کو دنیا سزا کہتی ہے لیکن ہم اسے اصلاحی تدابیر کہتے ہیں کیونکہ کسی انسان یا کسی مخلوق سے ہماری دشمنی نہیں سزا کا لفظ بھی ہمیں بُرا لگتا ہے بہر حال الہی سنت کے مطابق ہمیں بھی اصلاحی تدابیر کرنی پڑیں گی.اور لفظ عقاب میں بھی یہی بات ہے کہ تم نے جو کام کیا اس کا بدلہ تمہیں مل رہا ہے لیکن اس کی ذمہ داری نہ اللہ کے بندہ پر ہوتی ہے نہ اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو رحمت کے لئے پیدا کیا ہے اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جو پیدا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لئے ہوا تھا لیکن حاصل کی ہے اس نے اللہ تعالیٰ کی خفگی اور ناراضگی اور غصہ اور عقاب اور عذاب اور سزا.اس آیت سے آگے دوسری آیات میں یہ فرمایا ہے کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولا دفتنہ ہیں اور پھر فرمایا ہے کہ اگر تم اس فتنہ سے بچ جاؤ گے تو جوا جر میں تمہیں دوں گا وہ بہت بڑا اجر ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ اس دنیا میں بھی میرے بندوں کے ذریعہ تمہیں اس کا اجر ملے گا اور اس اجر
خطبات ناصر جلد سوم ۱۹ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء پر تم خوش ہو گے لیکن یہ اجر میرے اجر کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.گویا دونوں چیزیں جزا اور سزا ان آیات میں بیان ہو گئی ہیں.اللہ تعالیٰ نے مرکز میں رہنے والوں کو بھی ان آیات میں مخاطب کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ الہی سلسلہ جاری ہوا اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق دی.لوگوں نے تمہاری بڑی مخالفت کی اور اس مخالفت سے بچنے کے لئے ہم نے یہ انتظام کیا کہ ایک مرکز قائم کر دیا (فاوسکھ ) اور اس مرکز کے قیام کے ساتھ ایکكُم بِنَصْرِه ہم نے اپنی آسمانی تائیدات سے تمہاری مدد کی اور وَ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيْبَتِ (النَّحل :۷۳) تمہارے لئے دُنیوی فوائد کا سامان کیا.الہی سلسلے (اسلام کے اندر بھی ) جب بھی قائم ہوتے ہیں اور اسلام بحیثیت مجموعی بھی پناہ کی جگہ بھی ہوتے ہیں اور پناہ کا سبب اور ذریعہ بھی ہوتے ہیں اب ہمارے پاس یہاں ہر طرف سے اطلاع آتی ہے اگر یہاں سے سات سو میل ڈور کوئی ایسا واقعہ ہو جائے جو اپنے حالات کے مطابق یہ مطالبہ کرے کہ ان لوگوں کو پناہ ملے تو فوراً ہمارا آدمی یہاں سے روانہ ہو جاتا ہے.پس مرکز پناہ کی جگہ بھی ہے اور پناہ کا موجب بھی ہے اور پھر مرکز الہی تائیدات اور آسمانی نشانوں کو جذب کرنے کا ایک مرکزی نقطہ بھی ہے کیونکہ یہاں خلیفہ وقت ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے حضور اس آدمی کی دعائیں پہنچیں گی جس پر اُس نے ذمہ واری ڈالی ہے وہ خدا سے کہے گا کہ میں ایک عاجز انسان ہوں مجھ میں کوئی طاقت نہیں ہے مجھ میں کوئی ہنر نہیں ہے مجھ میں کوئی علم نہیں ہے میرے پاس کوئی سیاسی اقتدار نہیں ہے اور ساری جماعت کی ذمہ واری اے میرے رب! تو نے مجھ پر ڈال دی ہے اگر تیری مدد میرے شامل حال نہ ہو تو میں تو کچھ نہیں کر سکتا جب اس رنگ کی دعا دوسرے سب دوستوں کی دعاؤں کے ساتھ مل کر آسمان پر پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرتا ہے اور جماعت کے لئے حفاظت اور امن اور بہتری اور خوشحالی کے سامان پیدا کرتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہارے لئے طیبات کا سامان پیدا کیا ہے اب اس کے لئے بھی مرکز ہی مرکزی نقطہ ہے کیونکہ مثلاً اگر سرگودھا میں ہمارا ایک ذہین طالب علم، گجرات میں ہمارا ایک ذہین طالب علم ، سندھ میں ہمارا ایک ذہین طالب علم، کراچی میں ہمارا ایک ذہین طالب علم،
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء پشاور میں ہمارا ایک ذہین طالب علم یا مشرقی پاکستان میں ہمارا ایک ذہین طالب علم اپنے گھر کے حالات کے لحاظ سے باوجود انتہائی طور پر ذہین ہونے کے ترقی نہیں کر سکتا تو وہ مرکز کی طرف رجوع کرتا ہے اور مرکز کی طرف سے اس کی تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے اور اس طرح سارے خاندان کی خوشحالی کا انتظام ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے مرکز میں رہنے والو! تمہیں اللہ تعالیٰ نے کتنا نوازا ہے کہ اس نے تمہیں امن عطا کیا اور دوسروں کے امن کا ذریعہ تمہیں بنایا اور وہ تمہیں آسمانی نشانات دکھاتا ہے مرکز میں رہنے والے (اگر ان کی آنکھیں ہوں ) تو سب سے زیادہ نشانات دیکھتے ہیں اور إِلا مَا شَاءَ اللہ ان کی آنکھیں ہیں.ہاں ایک منافق کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا بہر حال مرکز میں رہنے والے بہت سی تائیدات سماویہ ملاحظہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسروں کو نشانات سماویہ دکھانے کا بھی ذریعہ بنایا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہارے لئے چاروں طرف رزق کے سامان پیدا کر دیئے ہیں میں نے تمہاری دنیوی اور اخروی خوشحالی کے سامان پیدا کر دیئے ہیں اور تمہاری وجہ سے اور تمہاری قربانیوں اور ایثار کے نتیجہ میں ہم دوسروں کے لئے بھی خوشحالی کا سامان پیدا کرتے ہیں غرض تم پر مرکز میں رہنے کی وجہ سے بہت زیادہ فضل ہوتے ہیں اور اس نسبت سے تمہاری ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں.پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور اس بات کا خیال رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور نفرت اور بیزاری کی صفات کے بعض جلووں میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو بظاہر ظالم نہیں ہوتے لیکن اس ظلم کی جسے دنیا کی آنکھ نہیں دیکھتی آخری ذمہ داری ان لوگوں پر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ جو وووو علام الغیوب ہے بظاہر ظالم نظر آنے والے کی نسبت حقیقتا ظالم بنانے والے سے زیادہ نفرت کرتا ہے.غرض تم دوسروں کو ظالم نہ بناؤ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور راعی کی حیثیت سے اپنے ماحول میں ایسے حالات پیدا کرو کہ وہ جو تمہاری رعیت ہیں وہ پختگی ایمان اور اعمال صالحہ پر اچھی طرح قائم رہیں اور وہ جماعت کی ذمہ داری اور مرکز سلسلہ کی ذمہ داری کو نباہنے والے ہوں ورنہ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے غصہ کی لپیٹ میں صرف وہی نہیں آئیں گے بلکہ اُن کے ساتھ تم جو حقیقتاً ظالم ہو گوتم بظاہر ظالم نظر نہیں آتے ) زیادہ اس عذاب اور اس سزا کی لپیٹ میں آؤ گے اور اللہ تعالیٰ کا
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۷۰ء غصہ تم پر زیادہ بھڑ کے گا.پس اہل ربوہ کو اپنی اونگھ اور نیند سے بیدار ہو جانا چاہیے.کوئی ایسی ماں اور کوئی ایسا باپ یہاں نہیں رہ سکتا جو اپنے بچوں کی صحیح تربیت کی ذمہ داری اُٹھانے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ہم اس ماحول کو گندہ اور ناپاک نہیں دیکھنا چاہتے.ظاہری صفائی کے متعلق تو ہم یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے لیا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس دُنیوی اموال نہیں اس لئے ظاہری صفائی اس قدر نہیں ہوسکتی جتنی ہونی چاہیے گو یہ خیال بھی بہت حد تک خام ہے لیکن بہر حال ہم اپنے دلوں کو یہ کہہ کر تستی دے لیا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ظاہری اموال نہیں ہیں اس لئے ہم ظاہری صفائی کو اس حد تک نہیں رکھ سکتے گو ہمیں اس طرف بھی توجہ کرنی چاہیے لیکن باطنی صفائی کے متعلق نہ تو کوئی بہانہ ہمارے پاس ہے اور نہ کوئی سمجھدار شخص اس بہانہ کو قبول کرے گا اور میں تو یہی کہوں گا کہ تم ظاہری صفائی کا بھی اتنا خیال رکھو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خواہش اور ہمارے رب کریم کا کوئی ارشاد ہمیں کبھی نہ بھولے اور جس قدر ممکن ہو ہم ظاہری صفائی سے تعلق رکھنے والے تمام احکام کو بجالانے والے ہوں اور وہ بیسیوں احکام ہیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم باطنی صفائی کی طرف توجہ کرو.اللہ تعالیٰ نے ایک نظام کو قائم کیا ہے اور اس لئے قائم کیا ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرے اس لئے قائم کیا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے دلوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت قائم اور پختہ کرے اور اس نے ہم پر ذمہ داری عائد کی ہے کہ اگر ہمارے اس ماحول میں یعنی مرکزی ماحول میں کسی منافق کا فتنہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اُس پر گرفت ہونی چاہیے.تو ہم اس کو پکڑیں گے اگر کوئی کمزور ایمان والا یا کوئی منافق طبیعت والا یہ سمجھتا ہو کہ میں آسانی سے نظام سلسلہ کی بغاوت بھی کر سکتا ہوں اور میں کسی کی گرفت میں بھی نہیں آؤں گا تو وہ بڑا بیوقوف ہے کیونکہ سب سے بڑی گرفت تو اللہ تعالیٰ کی ہے اس سے وہ بچ نہیں سکتا جو مرضی ہے وہ کرے خواہ وہ دنیا اور شیطان کی ساری طاقتیں اپنے لئے جمع کرے وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کیسے بچ سکتا ہے پھر اس کے بندے جنہیں اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں مخاطب کرتا ہے کہ مجھ سے ڈرو اور دنیا کی کسی اور چیز سے نہ ڈرو وہ کسی اور سے کیسے ڈریں گے اور ان کی گرفت سے اس قسم کا آدمی کیسے بچ جائے گا
خطبات ناصر جلد سوم ۲۲ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء لیکن جو شخص شیطان کا مرید ہوتا ہے وہ احمق بھی بڑا ہوتا ہے اس لئے اپنی حماقت اور اپنی سفاہت کے نتیجہ میں بعض منافق طبع لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ جو مرضی ہے کرتے رہیں انہیں کوئی پوچھے گا نہیں.فرض کر لو اگر کوئی آدمی نہ بھی پوچھ سکے تو خدا تو پوچھنے والا ہے اس کے غصہ اور اس کی گرفت اور تو اس کے قہر سے ایسا آدمی کس طرح بچ جائے گا لیکن یہ بھی شیطانی سفاہت ہے اور قرآن کریم نے اس کو حماقت اور سفاہت کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بندے اس کو نہیں پوچھیں گے دنیا میں کسی کے گھر میں کوئی ایسا انسان نہیں پیدا ہوا کہ جو سلسلہ عالیہ احمدیہ سے بالا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں بھی کوئی بچہ ایسا نہیں پیدا ہوا جو سلسلہ عالیہ احمدیہ سے بالا ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی نسل کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی تھی کہ وہ سلسلہ کے انتہائی خادم ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی عملی خدمت اور ان کے خدمت کے جذبات کو دیکھ کر انہیں قوم کا سردار بنادے گا اور گو اللہ تعالیٰ انہیں قوم کا سردار بنائے گا لیکن وہ اس حقیقت کو نہیں بھولیں گے کہ سردار کہتے ہی اُسے ہیں جو قوم کا خادم ہو آپ دوست جانتے ہیں کہ ہمارے بزرگ بھائی مکرم مولوی محمد یعقوب خان صاحب جنہوں نے تھوڑا ہی عرصہ پہلے بیعت کی ہے جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے.اُن کے ساتھ ان کا ایک بچہ کیپٹن عبد السلام خان صاحب) بھی تھا اس وقت تک اُنہوں نے بیعت نہیں کی تھی جلسہ سالانہ کے بعد اُنہوں نے بھی بیعت کر لی ہے اور اب اطلاع آئی ہے کہ مولوی صاحب موصوف کی بیوی نے بھی بیعت کر لی ہے.اس وقت تک مکرم مولوی محمد یعقوب خان صاحب ، ان کی بیوی اور ان کے دو بچوں نے بیعت کر لی ہے ایک بچے نے ابھی تک بیعت نہیں کی عبدالسلام خان صاحب کا خط آیا ہے کہ میں نے ان سے بڑی لمبی باتیں کی ہیں وہ ساری باتیں مانتا ہے لیکن اس کے دُنیوی تعلقات کچھ اس قسم کے ہیں کہ وہ ابھی بیعت کرنے سے گھبراتا ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو بھی بیعت کرنے کی توفیق عطا کرے تا سارا خاندان اکٹھا ہو جائے.محترم مولوی محمد یعقوب خان صاحب اور ان کے دو صاحبزادوں نے پہلی دفعہ ہمارا جلسہ سالانہ دیکھا تھا پہلی دفعہ انہوں نے اس فضا میں سانس لیا لوگوں کے چہروں پر ایمان کی شادابی دیکھی مجھ سے ملے احباب جماعت کے لئے جو میرے جذبات ہیں اُن کو محسوس کیا تو
خطبات ناصر جلد سوم ۲۳ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء جلسہ کے بعد عبد السلام خان صاحب مجھے ملے ان سے رہا نہ گیا وہ کہنے لگے کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ گڈی بنالی ہے ( یہ الفاظ تو میرے ہیں لیکن ان کے دماغ میں یہی تھا کہ غیر مبائع اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے گڑی بنالی ہے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ گڑی بنالی ہے.گڈی بنالی ہے ) لیکن میں نے یہاں آ کر جو دیکھا ہے اور خلافت کی ذمہ داریاں جو میں نے محسوس کی ہیں میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بڑا ہی احمق ہوگا وہ شخص جو خلافت کی خواہش کرے اور یہ ایک حقیقت ہے کون اپنے آپ کو چوبیس گھنٹے کی ذمہ داریوں میں جکڑا ہوا دیکھنا چاہتا ہے لیکن معترض تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں سمجھدار لوگ یا جب کسی کو اللہ تعالیٰ سمجھ دے دیتا ہے تو وہ حقیقت کو پالیتے ہیں.پس یہ سمجھنا کہ خلیفہ وقت اللہ کے سوا کسی اور کے خوف سے دب جائے گا اس سے بڑھ کر کوئی حماقت نہیں.جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرے جسم کے اعضاء بھی سوائے خدا کے اور کسی سے نہیں ڈرتے وہ اپنے متعلق یہ کیسے سمجھ سکتا ہے یا سوچ سکتا ہے کہ کبھی وہ کوئی کمزوری اس سلسلہ میں دکھا سکتا ہے جس نے غیر اللہ سے ایک دمڑی کے ہزارویں حصہ کی بھی کوئی چیز نہ لی ہو اور جس نے ہر چیز صرف اپنے مولیٰ سے حاصل کی ہو اور مولیٰ کی عنایتیں اس پر اتنی ہوں کہ انسانی دماغ ان کا احاطہ نہ کر سکے وہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف متوجہ ہی کس طرح ہو سکتا ہے جو ایسا خیال کرتا ہے اس سے زیادہ بیوقوف اور نادان اور جاہل اور کم علم کوئی ہو ہی نہیں سکتا یہ مختلف صفات جو میں نے بیان کی ہیں یہ مختلف گروہوں کی وجہ سے ہیں کہ بعض لوگ نفاق کی وجہ سے، بعض عدم علم کی وجہ سے اور بعض جہالت کی وجہ سے اس قسم کا خیال کرتے ہیں.اب ہمارے اُو پر بڑی ذمہ داریاں پڑ رہی ہیں میرے ذہن میں پہلے بھی خیال آیا تھا لیکن اب جو مجھے نظر آ رہا ہے، دنیا میں جو کچھ ہونے والا ہے اس سے میں سمجھتا ہوں کہ ہم پر بڑی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں اس لئے ہمیں اپنی کمر کس لینی چاہیے یعنی ہر لحاظ سے ہمیں اپنے آپ کو تیار کر لینا چاہیے اور چوکس ہو جانا چاہیے پہلے ہم بعض چیزوں کو نظر انداز کر جاتے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس گند کو دُور کر دے لیکن اب شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اس گند
خطبات ناصر جلد سوم ۲۴ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء کے دور ہونے کے لئے دعا ئیں تو کرتے رہیں اور یہ تو ہماری ذمہ داری ہے اس سے تو کوئی شخص یا کوئی خاندان محروم نہیں ہو گا لیکن پہلے وہ ربوہ میں رہتے ہوئے ہماری دعائیں لیتا تھا اور اب وہ ربوہ سے باہر رہائش اختیار کر کے ہماری دعائیں لے گا وہ ربوہ میں نہیں رہ سکے گا.ربوہ میں وہی رہے گا جو ہر لحاظ سے کوشش کر رہا ہو گا کہ میں اپنے خاندان کو اور اپنے ماحول کو ظاہر و باطن میں صاف ستھرا اور پاک اور مطہر رکھوں گا.جس کا اس طرف خیال نہیں ہوگا ، جوا اپنی یہ ذمہ داری نہیں سمجھے گا.( اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے اور اس کے ایمان کو پختہ کرے) وہ جہاں بھی رہے، رہے ، ربوہ میں وہ نہیں رہے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان کے نباہنے کی توفیق عطا کرے.دو باتیں اور ہیں جن کے متعلق میں دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں.جلسہ سالانہ سے کچھ روز پہلے ( کوئی القاء اور خواب کی صورت نہیں ویسے ) بڑے زور سے میرے دل میں یہ خیال پیدا کیا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ دو چیزیں ہمارے پاس اپنی ہوں.ایک تو ہمارے پاس ایک بہت اچھا پریس ہو اور اللہ تعالیٰ جب کوئی خیال پیدا کرتا ہے تو اس کی ساری چیز روشن ہوکر سامنے آجاتی ہے اس لئے جب میرے دل میں خیال آیا تو اس کے ساتھ ہی میرے دماغ میں آیا کہ اس اچھے پریس کے لئے ہمیں پانچ دن لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی ساتھ ہی میری طبیعت مطمئن ہو گئی کہ ٹھیک ہے گو پانچ یا دس لاکھ روپیہ ایک غریب جماعت کے لئے بڑا خرچ ہے لیکن اس طریق پر اس کا انتظام ہو جائے گا اس وقت پریس نہ ہونے کی وجہ سے ہماری توجہ ہی بہت سے کاموں کی طرف نہیں جاتی کیونکہ روکیں سامنے ہوتی ہیں اور جن کے سپر دیہ کام ہیں وہ ان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہو سکتے دوسرے جن کاموں کی طرف توجہ ہوتی ہے ان میں سے بھی بہت سے کام چھوڑنے پڑتے ہیں یا ان میں تاخیر کرنی پڑتی ہے مثلاً اس وقت قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ تیار ہے ہمارا قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ تفصیلی نوٹوں کے ساتھ ایک نئی جلد میں جیسا کہ جلسہ سالانہ پر اعلان ہوا تھا تیار ہو گیا ہے اور دوستوں کے ہاتھ میں آگیا ہے.اس وقت فرانسیسی ترجمہ بھی تیار ہے لیکن دفتر سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے مجھے رپورٹ دی کہ بات یہ ہے کہ ہمارا خیال تھا ہم نے لاہور
خطبات ناصر جلد سوم ۲۵ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء کے جس پریس سے انگریزی ترجمہ قرآن کریم کا طبع کروایا ہے اس پریس سے یا کسی اور اچھے پریس سے فرانسیسی ترجمہ بھی طبع کروالیں گے چنانچہ اُن سے خط و کتابت یا گفت شنید ہو رہی تھی لیکن اب انہوں نے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم یہ ترجمہ طبع نہیں کر سکتے مجھے خیال پیدا ہوا کہ ممکن ہے کسی متعصب گروہ کا ان پر دباؤ ہو اور اس سے مجھے بڑا دکھ ہوا کہ قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت میں بھی تعصب آجاتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر رحم کرے لیکن بعد میں میں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ بات نہیں تھی بلکہ بات یہ تھی کہ انہوں نے کہا کہ فرانسیسی زبان کے بہت سے حروف کی شکل انگریزی حروف کی شکل سے مختلف ہے اور یہ حروف تیار کر کے نہیں دے سکتے.اس لئے انہوں نے انکار کر دیا.پھر ہمارے پاس بعض اوقات مثلاً افریقہ کے کسی ملک سے مانگ آجاتی ہے کہ ہمیں سادہ قرآن کریم ( بغیر ترجمہ کے) کے ہیں ہزار نسخے اگلے تین ماہ کے اندر دے دو اور کچھ عرصہ پہلے ہمیں ایک ملک سے بارہ یا پندرہ ہزار سادہ قرآن کریم کے نسخوں کا آرڈر ملا اور تحریک جدید کو انکار کرنا پڑا کہ ہمارے پاس موجود نہیں ہیں اگر ہمارا اپنا پریس ہو تو اگر اور جب کوئی آرڈر آئے وہ آرڈر تو شاید پندرہ یا بیس یا پچیس ہزار کا ہو گا مگر ایک لاکھ نسخے ہمارے پاس تیار موجود ہوں گے یا ہم اس قابل ہوں گے کہ چند دنوں کے اندر اتنے نسخے شائع کر دیں.غرض ہم بہت سارے کام کر سکتے ہیں اور پریس نہ ہونے کی وجہ سے ہم اِس طرف خیال نہیں کرتے ہمارے نزدیک ترجیح مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کو ہے کیونکہ صحیح ترجمہ اور صحیح تفسیری نوٹ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر مسلم دنیا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علوم سے باہر نہیں مل سکتے اس لئے ہم ان کو ترجیح دیتے ہیں.پس اگرا پنا پر لیس ہو گا تو قرآن کریم سادہ یعنی قرآن کریم کا متن بھی ہم شائع کر لیا کریں گے اس کی اشاعت کا بھی تو ہمیں بڑا شوق اور جنون ہے یہ بات کرتے ہوئے بھی میں اپنے آپ کو جذباتی محسوس کر رہا ہوں ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ ہم دنیا کے ہر گھر میں قرآن کریم کا متن پہنچا دیں اللہ تعالیٰ آپ ہی اس میں برکت ڈالے گا تو پھر بہتوں کو یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہم یہ زبان سیکھیں یا اس کا ترجمہ
خطبات ناصر جلد سوم ۲۶ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء سیکھیں پھر اور بھی بہت سارے کام ہیں جو ہم صرف اس وجہ سے نہیں کر سکتے کہ ہمارے پاس پریس نہیں لیکن میرے دل میں جو شوق پیدا کیا گیا ہے اور جو خواہش پیدا کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ سارے پاکستان میں اس جیسا اچھا پر یس کوئی نہ ہو اور پھر اس پریس کو اپنی عمارت کے لحاظ سے اور دوسری چیزوں کا خیال رکھ کر اچھا رکھا جائے.عمارت کو ڈسٹ پروف (DUST PROOF) بنایا جاۓ تا ہم ایک دفعہ دنیا میں اپنی کتب کی اشاعت کر جائیں.دوسرے پریس نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کتابیں مہنگی پڑتی ہیں اگر اپنا پریس ہوگا اور اس کو بہر حال نفع کے اصول پر نہیں چلایا جائے گا بلکہ اسے ضرورت پورا کرنے کے اصول پر چلا یا جائے گا تو جو کتاب مثلاً قرآن کریم کی ایک جلد اس وقت ہمیں اگر تیس روپے میں پڑتی ہے تو ممکن ہے کہ پھر وہ بیس روپے میں یا پچیس روپے میں پڑ جائے اور جتنی اس کی قیمت کم ہوگی اتنی اس کی اشاعت زیادہ ہوگی یہ اقتصادیات کا ایک اصول ہے پس دعا کریں کہ جس رب نے جو عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے دنیا کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان کو پورا کرنے کے لئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا کی ہے وہی اپنے فضل سے اس خواہش کو پورا کرنے کے سامان بھی پیدا کرے.دوسری خواہش جو بڑے زور سے میرے دل میں پیدا کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک طاقتور ٹرانسمٹنگ اسٹیشن (TRANSMITTING STATION) دنیا کے کسی ملک میں جماعت احمدیہ کا اپنا ہو اس ٹرانسمٹنگ اسٹیشن کو بہر حال مختلف مدارج میں سے گزرنا پڑے گا لیکن جب وہ اپنے انتہاء کو پہنچے تو اس وقت جتنا طاقتورروس کا شارٹ ویواسٹیشن (SHART WAVE STATION) ہے جو ساری دنیا میں اشتراکیت اور کمیونزم کا پر چار کر رہا ہے اس سے زیادہ طاقتور اسٹیشن وہ ہو جو خدا کے نام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی را شان کو دنیا میں پھیلانے والا ہو اور چوبیس گھنٹے اپنا یہ کام کر رہا ہو اس کے متعلق میں نے سوچا کہ امریکہ میں تو ہم آج بھی ایک ایسا اسٹیشن قائم کر سکتے ہیں وہاں کوئی پابندی نہیں ہے جس طرح آپ ریڈیو ریسیونگ سیٹ (RADIO RECEIVING SET) کا لائسنس لیتے ہیں اسی طرح آپ براڈ کاسٹ (BROAD CAST) کرنے کا لائسنس لے لیں وہ آپ کو
خطبات ناصر جلد سوم ۲۷ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء ایک فری کوئنسی (FREQUENCY) دے دیں گے اور آپ وہاں سے براڈ کاسٹ کر سکتے ہیں لیکن امریکہ اتنا مہنگا ہے کہ ابتدائی سرمایہ بھی اس کے لئے زیادہ چاہیے اور اس پر روز مزہ کا خرچ بھی بہت زیادہ ہوگا اور اس وقت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی اس روحانی جماعت کی مالی حالت ایسی اچھی نہیں کہ ہم ایسا کر سکیں یعنی میدان تو کھلا ہے لیکن ہم وہاں نہیں پہنچ سکتے.دوسرے نمبر پر افریقہ کے ممالک ہیں نائیجیریا، غانا اور لائبیریا سے بعض دوست یہاں جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے غانا والوں سے تو میں نے اس کے متعلق بات نہیں کی لیکن باقی دونوں بھائیوں سے میں نے بات کی تو انہوں نے آپس میں یہ بات شروع کر دی کہ ہمارے ملک میں یہ لگنا چاہیے اور وہاں اجازت مل جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ گو پتہ تو کوشش کرنے کے بعد ہی لگے گا کہ کہاں اس کی اجازت ملتی ہے لیکن ان ممالک میں سے کسی نہ کسی ملک میں اس کی اجازت مل جائے گی اور چونکہ ہماری طرح یہ ملک بھی غریب ہیں اس لئے زیادہ خرچ کی ضرورت نہیں ہوگی شروع میں میرا خیال تھا کہ صرف پروگرام بنا کر اناؤنس کرنے والے ہی ہمیں دس پندرہ چاہئیں پہلے مرحلہ میں چاہیے کہ یورپ اور مشرق وسطی کی زبانوں میں پروگرام نشر کیا جا سکے اسی طرح عرب ممالک اور پھر ٹر کی ، ایران، پاکستان اور ہندوستان سب اس کے احاطہ میں آجائیں گے، انشاء اللہ.جہاں تک پیسے کا سوال ہے میرے دماغ نے اس کے متعلق اس لئے نہیں سوچا کہ مجھے پتہ ہی نہیں کہ اس کے لئے کتنے پیسے چاہئیں لیکن جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ ” کتنے پیسے چاہئیں“ کے متعلق دریافت کیا جائے تو اس کے متعلق میں نے انتظام کر دیا ہے.جلسہ پر بعض دوست بیرونی ممالک سے آئے ہوئے تھے ان میں سے ایک دوست کینیڈا سے آئے ہوئے تھے وہ وہاں ٹیلی ویژن میں کام کرتے ہیں میں نے ان کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہاں جا کر فوری طور پر اس کے متعلق ضروری معلومات حاصل کریں.پاکستان میں اس اسٹیشن کی اجازت نہیں مل سکتی کیونکہ ہمارا قانون ایسا ہے کہ یہاں کسی پرائیویٹ ادارہ کو ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن بعض ممالک ایسے ہیں جن
خطبات ناصر جلد سوم ۲۸ خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۷۰ء میں اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں جیسے امریکہ اور بعض ایسے ممالک ہیں جن میں گو قانونی پابندی تو ہے لیکن اس کی اجازت آسانی اور سہولت کے ساتھ مل جاتی ہے جیسے مغربی افریقہ کے ممالک میں سے نائیجیریا، گیمبیا، غانا یا سیرالیون ہیں.اُمید ہے کہ ان ممالک میں سے کسی ایک ملک میں ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت مل جائے گی.اس وقت دنیا کے دلوں کا کیا حال ہے اس کا علم نہ تو صحیح طور پر مجھے ہے اور نہ آپ کو ہے لیکن میرے دل میں جو خواہش اور تڑپ پیدا کی گئی ہے اس سے میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ اللہ کے علم غیب میں دنیا کے دل کی یہ کیفیت ہے کہ اگر اللہ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ان کے کانوں تک پہنچایا جائے تو وہ سنیں گے اور غور کریں گے ورنہ یہ خواہش میرے دل میں پیدا ہی نہ کی جاتی.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان جلدی پیدا کر دے دل تو یہی چاہتا ہے کہ اسی سال کے اندر اندر یہ کام ہو جائے لیکن ہر چیز ایک وقت چاہتی ہے بہر حال جب بھی خدا چاہے یہ کام جلد سے جلد ہو جائے اور ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھیں کہ یہ کام ہو گیا ہے اور ہمارے کان چوبیس گھنٹے عربی میں اور انگریزی میں اور جرمن میں اور فرانسیسی میں اور اُردو وغیرہ وغیرہ میں اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے والے ہوں گانا وغیرہ بدمزگی پیدا نہ کر رہا ہو اور اسی طرح کی اور فضولیات بھی بیچ میں نہ ہوں ”علم“ اسلام کا ورثہ ہے کسی اور کا نہیں اس لئے علمی باتیں تو وہاں ہوں گی مثلاً (ایگری کلچر AGRICULTURE) زراعت کے متعلق ہم بولیں گے اسی طرح دوسرے علوم ہیں ان کے متعلق بھی ہم بولیں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے کہ وہ تمام علوم سے خادمانہ کام لے سکے سارے علوم ہی ہمارے خادم ہیں.آج کا فلسفہ بھی ہمارا خادم ہے آج کی سائنس بھی ہماری خادم ہے آج کی تاریخ کے اصول بھی ہمارے خادم ہیں.جب یہ غلطی کریں گے تو ہم ان کا ہاتھ پکڑ لیں گے اور خادم سے یہی سلوک کیا جاتا ہے اور اس وقت وہ غلطی کر رہے ہیں اور ہمارا ہاتھ ان کی طرف نہیں بڑھ رہا حالانکہ ہمارا فرض تھا اور ہمار احق بھی ہے کہ ہم ان کا ہاتھ پکڑ لیں اور کہیں کہ اے ہمارے خادم یہ تو کیا کر رہا ہے ( یعنی اس کی تصحیح کریں ) بہر حال سب علوم ہمارے خادم ہیں اور ہم ان خادموں
خطبات ناصر جلد سوم ۲۹ خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۷۰ء سے بھی خدمت لیں گے اور اس طرح سب علوم کی باتیں آجائیں گی فلسفہ کی غلطیاں بھی ہم نکالیں گے ( ایگریکلچر AGRICULTURE ) زراعت کے متعلق بھی ہم لوگوں کو کہیں گے کہ یہ یہ کام کرو تا دنیا میں بھی خوشحالی تمہیں نصیب ہو.انشاء اللہ یہ کام تو ہم کریں گے لیکن گانے اور ڈرامے اور اس قسم کی دوسری جھوٹی باتیں وہاں نہیں ہوں گی اور اس طرح ایک ریڈیو دنیا میں ایسا ہو گا جہاں اس قسم کی کوئی لغو بات نہیں ہوگی اور شاید بعض لوگ اس ریڈیو اسٹیشن کو هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون: ۴) کہنا شروع کر دیں.غرض میرے دل میں یہ دو خواہشیں پیدا ہوئی ہیں ان کے لئے آپ بھی دعا کریں اور میں بھی دعا کر رہا ہوں.انسان بڑا ہی عاجز اور کمزور ہے اور ہر نئی بات جو دل میں ڈالی جاتی ہے وہ ہمارے ضعف اور عاجزی کو اور بھی نمایاں کر کے ہمارے سامنے لے آتی ہے اور پہلے سے بھی زیادہ انسان اپنے رب کے حضور جھک جاتا ہے اور اپنی کم مائیگی کا اقرار کرتا ہے اور ہر قسم کی طاقتوں کا اُسے سر چشمہ اور منبع قرار دے کر اور اُس کی حمد وثناء کرتے ہوئے اس سے یہ بھیک مانگتا ہے کہ اے میرے رب تو نے جو کام میرے سپرد کیا ہے اس کے کرنے کی تو مجھے توفیق دے اور اس کے لئے اسباب مہیا کر دے.آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ دونوں چیزیں ہمیں عطا کر دے اور ان دونوں میں ساری دنیا کے لئے بہت سی برکتوں کا سامان پیدا کر دے.(آمین) (روز نامه الفضل ربوه ۱۱ارستمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۲ تا ۸)
خطبات ناصر جلد سوم ۳۱ خطبه جمعه ۲۳ جنوری ۱۹۷۰ء انسان کے اندراجر عظیم یعنی لامتناہی ترقیات کی خواہش ودیعت کی گئی ہے.خطبه جمعه فرموده ۲۳ / جنوری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :.الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللهِ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْفَابِرُونَ - يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ b وَجَنَّتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ - خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ - (التوبة: ۲۰ تا ۲۲) اس کے بعد فرمایا.گزشتہ چند روز میری طبیعت خراب رہی ہے اچانک دورانِ سر کا حملہ ہوا اور وہ اتنا شدید تھا کہ احساس یہ تھا کہ یہ دنیا اس شدت اور تیزی کے ساتھ چکر کاٹ رہی ہے کہ جیسے میرے وجود کو باہر پھینکنا چاہتی ہے اور اس کی وجہ سے کافی تکلیف اُٹھانی پڑی.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا یہ تکلیف تو چند دن میں دُور ہوگئی.لیکن اس کے ساتھ ہی اور پھر اس کے بعد تک خون کے دباؤ میں قرار اور ٹھہراؤ نہ رہا یکدم ۱۲۰ سے ۱۴۵ تک چلا جاتا اور پھر یکدم گر کر ۱۱۰ - ۱۱۵ تک آجاتا میرے خون کے معمول کا دباؤ ۱۲۰.۸۰ ہے اس اُتار چڑھاؤ کی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۲ خطبہ جمعہ ۲۳ / جنوری ۱۹۷۰ء وجہ سے طبیعت میں بڑی بے چینی پیدا ہوتی ہے اور ضعف دماغ ہو جاتا ہے کیونکہ دماغ کو با قاعدگی سے ایک جیسا خون نہیں ملتا اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت حد تک آرام ہے.ضعف کچھ باقی ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے آپ دوست دعا کریں یہ تکلیف بھی جاتی رہے.بیماری میں ایک اور تکلیف شروع ہو جاتی ہے اور وہ یہ احساس ہوتا ہے کہ کام پیچھے پڑ رہے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ اگر کام نہ کروں تو چوبیس گھنٹے کے بعد بے چینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.بہر حال کام تو اتنا ہی ہو سکتا ہے جتنے کی اللہ تعالیٰ توفیق دے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے بھی اور آپ کو بھی زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی توفیق بخشے تا کہ ہم سب اس کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں.اللہ تعالیٰ کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی خواہش انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے انسان کا نفس کسی ایک جگہ ٹھہر نا پسند نہیں کرتا بلکہ ہر ترقی کے بعد مزید ترقیات حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور ہر بلندی کے حصول کے بعد مزید رفعتوں تک پہنچنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے.یہ خواہش اگر صحیح راستے پر گامزن رہے تو اس سے بہتر اور کوئی خواہش نہیں ہوسکتی لیکن اگر یہ خواہش صراط مستقیم سے بھٹک جائے تو پھر اس سے بدتر اور گندی خواہش اور کوئی نہیں ہوسکتی.آپ دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں بہت سے لوگوں کے دل میں جب اقتدار کی ہوس پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے ماحول میں ہر طریقے سے ظلم کی سب راہوں کو اختیار کر کے اپنا اقتدار اور تسلط جمانا چاہتے ہیں جب انہیں کچھ اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو انہیں مزید اقتدار کی ہوس پیدا ہو جاتی ہے اور اس طرح ظلم میں زیادتی ہوتی رہتی ہے اس طرح دنیا دار لوگوں کے دلوں میں جب دولت کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو ان کی یہ بھٹکی ہوئی خواہش ہر بری اور نا پاک راہ کو تلاش کرتی ہے اور ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے دُور سے دُور تر لے جاتی ہے.یہ سب گندگی کے دروازے ہیں جنہیں ہم رشوت کا دروازہ، چوری کا دروازہ ، دھوکہ بازی کا دروازہ ، جعل سازی کا دروازہ ، اور احتکار مال کو نا جائز طور پر روکے رکھنے ) وغیرہ وغیرہ کا دروازہ کہتے ہیں یہ سب دروازے اسی گندی ( خواہش کے نتیجہ میں کھلتے ہیں.
خطبات ناصر جلد سوم ٣٣ خطبہ جمعہ ۲۳ جنوری ۱۹۷۰ء غیر متناہی ترقیات کی خواہش ایک بڑی پاک چیز تھی لیکن جب شیطان نفس کو در غلاتا اور اسے صراط مستقیم سے دور لے جاتا ہے تو وہی عظیم خواہش جو انسان کی عظمت کے لئے اسے دی گئی تھی وہ اس کی ذلت اور رسوائی کا سبب بن جاتی ہے بہر حال انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش پیدا کی ہے کہ وہ ان رفعتوں کے حصول میں جو اس نے اپنے بندے کے لئے پیدا کی ہیں کسی جگہ پر بھی پہنچ کے مطمئن نہ ہو جائے بلکہ چونکہ قرب کے غیر متناہی راستے اس کے سامنے کھلے ہوئے ہیں.اس لئے وہ ایک رفعت کے حصول کے بعد اس سے بلند تر مقام پر پہنچنے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے بعض جلووں کے مشاہدہ کے بعد اس کی محبت کے اور بھی روشن تر اور حسین جلوے دیکھنے کی اپنے اندر خواہش پیدا کرے اور ترقیات کے ان غیر متناہی راستوں پر چلتے ہوئے وہ اپنے رب کے قرب کو زیادہ سے زیادہ پائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرے.یہ خواہش جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں پیدا کی ہے اس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر تم اپنے نفس کا محاسبہ کرو تو تم میں سے ہر ایک شخص یہ جان لے گا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش عطا کی ہے کہ وہ اس کی زیادہ سے زیادہ رضا کو حاصل کر سکے.پس سوال پیدا ہو گا کہ اللہ کی رضا کو اور حقیقی مسرتوں کو اور خوشیوں کو اور کامیابیوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا طریق کیا ہے اور وہ کونسی ہستی ہے جو ہمیں زیادہ سے زیادہ عطا دے سکتی ہے؟ چنانچہ ان آیات میں جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے إِنَّ اللهَ عِندَةٌ اجُرُ عَظِيمٌ - (التوبة: ٢٢) یعنی تمہاری اس خواہش کی تکمیل اس ہستی سے وابستہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہاری قوتوں اور ضرورتوں کا علم رکھتا ہے اور وہ ہر قسم کی قوت اور قدرت اور تصرف کا مالک ہے کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کے آگے انہونی ہو یا جو اس کی قدرت میں نہ ہو یا جو اس کے تصرف سے باہر ہو وہ اللہ ہے تمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور ہر قسم کی کمزوری اور ضعف سے پاک اور مطہر.پس تمہاری اس خواہش کی تکمیل کہ تم ترقیات میں، تم رفعتوں کے حصول میں، تم حقیقی عزتوں کے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۴ خطبہ جمعہ ۲۳ / جنوری ۱۹۷۰ء پانے میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ سوائے اللہ کے اور کہیں سے نہیں ہو سکتی.وہی ہے جو اس خواہش کی تکمیل کر سکتا ہے.وہی ہے جس کے قرب کی راہیں جس کے وصال کی منازل غیر متناہی ہیں.ہر منزل کے بعد ایک دوسری منزل ، ہر قرب کے بعد ایک ارفع ، زیادہ حسین ، زیادہ لذت اور سرور والا قرب کہ جس کی کیفیت ہماری زبان بیان نہیں کر سکتی لیکن بہر حال ہم نے اپنی زبان ہی میں بیان کرنے کی کوشش کرنی ہے تم اس کی توفیق سے یہ ساری چیزیں حاصل کر سکتے ہو.پس وہ جو خود محدود ہے وہ تمہاری اس غیر محدود خواہش کی تکمیل کیسے کر سکتا ہے خود تمہاری عقل اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی کیونکہ یہ دنیا ایک لامحدود دنیا ہے دنیا کے اموال محدود، دنیا کی عزتیں محدود، دنیا کے اقتدار محدود، غرض محدود اشیاء ایک غیر محدود خواہش کی تکمیل کر ہی نہیں سکتیں بڑی غیر معقول بات ہوگی اگر ہم یہ کہیں کہ ایک محدود غیر محدود کی تکمیل کا اہل ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے اندر غیر محدود اور لا متناہی ترقیات کی خواہش پیدا کی گئی ہے اگر تم اپنی اس فطری خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اُس پاک ذات سے تعلق قائم کرنا پڑے گا جو ہر لحاظ اور ہر جہت سے غیر محدود ہے اُس کی حد بست نہیں کی جاسکتی اور وہ اللہ ہے.إنَّ اللهَ عِندَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ (التوبة: ۲۲).وہ اجر جس سے بڑھ کر کوئی اجر متصور نہیں ہو سکتا.( یہ عظیم کے معنے ہیں ) جس کی عظمت اتنی بڑی ہے کہ کوئی اس کے مقابلہ پر نہیں آ سکتا.وہ جزا وہ کامیابی ، کامیابی کی وہ لذتیں اور سرور کہ جن سے بڑھ کر اور کسی چیز کا امکان نہیں جو ہماری عقلوں میں بھی نہیں آسکتے.وہ اجر عظیم سوائے اللہ تعالیٰ کے جس کی قدرتوں کی حد بست نہیں کی جاسکتی اور کہیں سے حاصل نہیں ہوسکتا.پس اِنَّ اللهَ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِیم اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے کہ جس سے ہم غیر متناہی رفعتوں کو حاصل کر سکتے ہیں جو اگر ہم پر رحم کرے، اپنی رضا کی نگاہ ہم پر ڈالے، اپنی رضا کی جنتوں میں داخل ہونے کی ہمیں توفیق دے.تو پھر ہمیں اجر عظیم مل سکتا ہے.پس اگر انسان نے اجر عظیم پانے کی جو خواہش اس کے اندرود یعت کی گئی ہے اس خواہش کی تکمیل کرنی ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب یعنی اللہ سے ایک حقیقی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۵ خطبہ جمعہ ۲۳ جنوری ۱۹۷۰ء اور زندہ تعلق قائم کر لے.اپنے رب سے یہ زندہ تعلق کیسے قائم کیا جا سکتا ہے اس کا ذکر بھی ان آیات میں کیا گیا ہے لیکن اس وقت میں اس مختصر خطاب پر خطبہ کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو انشاء اللہ اگلے جمعہ میں اس مضمون کے دوسرے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالوں گا.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ فروری ۱۹۷۰ ء صفحه ۳، ۴) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۳۷ خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۷۰ء محض زبان سے ایمان کا دعوی کرنا کافی نہیں ایمان لانے کے تقاضوں کو پورا کریں خطبه جمعه فرموده ۶ رفروری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآنِ مجید کی یہ آیات پڑھیں :.الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ b دَرَجَةً عِندَ اللهِ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْفَابِرُونَ - يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ.وَجَنَّتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمُ - خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ - (التوبة: ۲۰ تا ۲۲) اس کے بعد فرمایا.گزشتہ خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ انسانی فطرت میں یہ جوش ودیعت کیا گیا ہے کہ وہ لا متناہی ترقیات کی متلاشی رہے.کسی ایک جگہ پر ٹھہر جانا اُسے پسند نہیں ہے جب فطرت کا یہ رجحان اور یہ جوش غلط راستہ پر گامزن ہو جاتا ہے مثلاً دنیوی مال اور دولت کا لالچ پیدا ہو جاتا ہے تو اس قسم کا حریص انسان کسی مقام پر بھی ٹھہر نا پسند نہیں کرتا اگر اس کے پاس لاکھ روپیہ ہو جائے تو وہ کروڑ جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے اگر سو انسانوں کا خون چوس کر اس نے روپیہ جمع کیا ہو تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں ہزار انسانوں کا خون چوسوں اور اپنی دولت میں زیادتی کروں.بہر حال یہ حرص
خطبات ناصر جلد سوم ۳۸ خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۷۰ء 609 بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس دنیا کی یا اُس دنیا کی ہلاکت تک اس شخص کو پہنچا دیتی ہے.اگر اقتدار کا جنون سوار ہو تو ایسا انسان تمام حقوق پامال کرتا چلا جاتا ہے اور کہیں اسے قرار نہیں آتا لیکن جب فطرتِ صحیحہ ہو اور حقیقی خوشی اور لذت اللہ تعالیٰ کے قرب میں پائی جائے تو انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرتا چلا جائے.دنیا کی دولتیں اور دنیا کی جاہ وحشمت تو محدود ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے قرب اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے جلوے غیر محدود ہیں کسی جہت سے بھی اُن کا احاطہ اور ان کی حد بست نہیں کی جاسکتی.پس جس وقت انسان روحانی میدانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتے ہوئے اس کے قرب کے حصول کے لئے بڑھ رہا ہوتا ہے تو یہی کوشش ایسی ہوتی ہے کہ جو فطرت کے اس تقاضا کو پوری کر سکے کہ اُسے غیر متناہی ترقیات چاہئیں اور اُسی کی جستجو میں وہ ہمہ وقت مشغول رہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے آخر میں یہ فرمایا ” إِنَّ اللهَ عِنْدَةٌ اَجْرٌ عَظِیم “ (التوبة: ۲۲) کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ایک ایسی ذات ہے کہ جب وہ اجر دینے لگے نیکیوں کا، جب قبول کرنے لگے تمہارے مجاہدات کو تو وہ اجر اتنا عظیم ہو گا کہ اس سے بڑھ کر کوئی اجر تصور میں نہیں آسکتا.غرض ان آیات میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم اپنی فطرت کی اس خواہش کو ، اس Urge (ارج) کو پورا کرنا چاہتے ہو کہ غیر متناہی خوشیاں، غیر متناہی لذتیں ، اللہ تعالیٰ کی غیر متناہی ( نہ ختم ہونے والی) رضا تمہیں حاصل ہو تو یہ چیز تمہیں صرف اللہ سے مل سکتی ہے، اس کی طرف تم رجوع کر وا گر تم بھٹک گئے ، اگر تم نے صراط مستقیم کو چھوڑ دیا، اگر تم اس خواہش کو نہ سمجھے اور اس کی سیری کے لئے صحیح کوشش نہ کی تو دنیا کی حرام کمائی بہت حد تک تمہیں مل جائے گی مگر وہ عظیم نہیں ہوگی.دنیا کا اقتدار بھی شاید تم پالو ایک وقت تک لیکن ہمیشہ کے لئے اور دنیوی لحاظ سے بھی ایسی عزت تمہیں نہیں ملے گی کہ جو اتنی بڑی ہو کہ اس سے بڑھ کر تصور میں نہ آسکے وہ عزت، پیار کا وہ مقام اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں محبت کے جلوے جو نہ ختم ہونے والے ہیں یہ ابدی اور لا متناہی اجر تم اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں محبت کے جلووں ہی میں دیکھ سکتے ہو کہیں اور تمہیں نہیں مل سکتا.پس اجر عظیم کی خواہش انسان کے دل میں ہے اجر عظیم کا حصول انسان کے لئے ممکن قرار
خطبات ناصر جلد سوم ۳۹ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۰ء دیا گیا ہے اور اجر عظیم اللہ کے در کے سوا کہیں اور سے مل نہیں سکتا اس لئے اس ڈر پر دھونی رما کر بیٹھ جانا چاہیے وہیں سے ہمیں یہ اجر مل سکتا ہے.اس اجر کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے تین باتیں ان آیات میں بیان کی ہیں ایک ایمان ، ایک ہجرت اور ایک مجاہدہ اور ان کے مقابلہ میں تین فضل اور تین قسم کے انعام کا ذکر کیا ہے رحمت ، رضوان اور جنات نعیم کا.ایمان ایک عام لفظ ہے یعنی بڑا وسیع ہے اتنا وسیع کہ اسلام کے ہر حکم پر اس نے احاطہ کیا ہوا ہے ایمان کس پر لانا ہے اور ایمان کے تقاضے کیا ہیں اس کا تفصیل سے قرآن کریم میں ذکر پایا جاتا ہے اور ایمان کے مقابلے میں جو انعام رکھا گیا ہے وہ رحمت ہے.رحمت بھی اپنی وسعتوں میں بہت شان رکھتی ہے کیونکہ عربی لغت میں ہر قسم کے فضل اور انعام پر رحمت کا لفظ بولا جاتا ہے.پس یہ فرمایا کہ تم ایمان لاؤ تمہیں میری رحمت نصیب ہو جائے گی پھر بتایا کہ ایمان جو ہے وہ دوشاخوں میں آگے تقسیم ہوتا ہے ایک کا تعلق ہجرت کے ساتھ ہے اور دوسری کا تعلق مجاہدہ کے ساتھ ہے جس ایمان کا تعلق ہجرت کے ساتھ ہے وہ تقاضا اگر پورا کیا جائے تو اس کے مقابلہ میں جو انعام ملتا ہے وہ رضوانِ الہی ہے اور جس ایمان کا تعلق مجاہدہ کے ساتھ ہے اگر اس تقاضا کو پورا کیا جائے تو اس کے بدلے میں جو انعام ملتا ہے وہ جنات نعیم ہے.میں نے بتایا ہے کہ ایمان ایک ایسا لفظ ہے جو تمام اسلامی تعلیم پر حاوی ہے اور اس کے ہمیں دو حصے کرنے پڑتے ہیں ایک وہ اعتقادات اور وہ احکام و اوامر جن پر ایمان لانا فرض قرار دیا گیا ہے اور دوسرے اللہ تعالیٰ نے بڑی تفصیل سے قرآن کریم میں یہ بیان کیا ہے کہ ایمان کے تقاضے کیا ہیں اسی کے نتیجہ میں اللہ کی کونسی رحمت کے جلوے انسان دیکھتا ہے؟ اسی طرح ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہجرت کا صحیح مفہوم اور اس کے وسیع معنی جن معنی میں کہ اس کو قرآن کریم اور اسلام نے استعمال کیا ہے وہ کیا ہے؟ اور تیسرے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ مجاہدہ کسے کہتے ہیں؟ پھر ہمیں سمجھ آئے گا کہ ایمان کے مقابلے میں رحمت کو اور ہجرت کے مقابلے میں رضوان کو اور مجاہدہ کے مقابلے میں جنات نعیم کو کیوں رکھا گیا ہے.یہ مضمون تو اتنا وسیع ہے کہ اسلام کے سارے احکام سے اس کا تعلق ہے لیکن میں اس کا جو
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۰ء پہلا حصہ ہے اُسے ایک خاص مقصد کے پیش نظر تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ ایمان کا یہ حصہ ہے کہ کن پر اور کس پر ایمان لانے کا حکم ہے جب خالی ایمان آمَنُوا يَا أَمِنُوا يَا يُؤْمِنُونَ استعمال ہو تو اس میں ہر اُس چیز پر ایمان لانے کی طرف اشارہ ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی کسی دوسری جگہ فرمایا ہے.قرآن کریم پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ایمان کے لفظ کو ( یعنی جن چیزوں پر ایمان لانا ہے ) مختلف آیات میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہیں.سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِينَ (البقرة : ۱۷۸) فرمایا کہ مومنوں کو اللہ پر ایمان لانا چاہیے، یومِ آخر پر ایمان لانا چاہیے ، ملائکہ پر ایمان لانا چاہیے، الکتاب پر ایمان لانا چاہیے اور انبیاء پر ایمان لانا چاہیے.پانچ چیزوں کا یہاں ذکر ہے سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعَا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ لَا إلهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَأمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ وَ اتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (الاعراف: ۱۵۹) ووووو اس آیت میں ایمان باللہ اور ایمان بِمُحَمَّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہے.ایمان تو النَّبِيِّينَ پر بھی لانا ہے دوسری جگہ رُسل پر بھی ایمان لانے کا ذکر ہے لیکن ان انبیاء اور رسل میں سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب کر کے نمایاں طور پر ہمارے سامنے پیش کیا اور کہا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے.سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ “ (البقرة : ٤) کہ الغیب پر ایمان لانا ضروری ہے.سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ هُمْ بِأَيْتِنَا يُؤْمِنُونَ “ (الاعراف: ۱۵۷) ہایت اللہ ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے اور سورہ محل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوءِ “ (النحل : ٦١ ) 66
خطبات ناصر جلد سوم ۴۱ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۰ء یہاں یہ حکم دیا گیا ہے کہ آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے یہ میں آگے جا کر بتاؤں گا کہ یوم آخر اور آخرت میں کوئی فرق ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کیا ہے اگر نہیں تو پھر کیوں دو مختلف طریقوں پر ان کو استعمال کیا گیا ہے؟ غرض جب اللہ تعالیٰ نے الَّذِینَ آمَنُوا کہا تو پہلا مطالبہ یہ کیا کہ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں وہ لوگ جو یوم آخر پر ایمان لاتے ہیں وہ لوگ جو ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں.وہ لوگ جو الکتاب پر ایمان لاتے ہیں.وہ لوگ جو انبیاء پر ایمان لاتے ہیں وہ لوگ جو کتب سماوی پر ایمان لاتے ہیں ان کے لئے اسی طرح غیب پر ایمان لانا اور اسی طرح آخرت پر ایمان لانا اسی طرح بایت اللہ ایمان لانا بھی واجب قرار دیا گیا ہے.پس امنوا میں یہ ساری چیز میں آجائیں گی.اب جو چیز میرے نزدیک سمجھنی اور یا درکھنی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ محض زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے یہ کافی نہیں ہے یا محض یہ کہہ دینا کہ ہم یومِ آخر پر ایمان لاتے ہیں یا آخرت پر ایمان لاتے ہیں یہ کافی نہیں ہے.محض یہ کہہ دینا کہ ہم تمام رسل پر ایمان لاتے ہیں کافی نہیں ہے محض یہ کہہ دینا کہ ہم اُن تمام رسل پر جو اللہ تعالیٰ کی وحی نازل ہوتی ہے اُس پر ایمان لاتے ہیں یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہ دینا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہم ایمان لاتے ہیں ( یعنی صرف زبان کا اقرار ) یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہہ دینا کہ قرآن عظیم پر ہم ایمان رکھتے ہیں یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہہ دینا کہ غیب پر ہم ایمان لاتے ہیں یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہہ دینا کہ آیات اللہ پر ہم ایمان رکھتے ہیں کافی نہیں ہے تو پھر کیا تقاضا ہم سے کیا گیا ہے؟ مطالبہ ہم سے کیا ہے؟ یہ سوال ہوتا ہے میں نے بتایا ہے کہ محض زبان کا اقرار کافی نہیں اللہ پر ، ایمان تب مقبول ہوتا ہے جب اللہ پر ہم وہ ایمان لائیں جس کا قرآن کریم ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم ایمان لائیں کہ اللہ وہ ہے.اللہ وہ ہے.اگر ہم اللہ کو ایک ایسی ہستی سمجھیں کہ ساری احتیاجیں اور ضرورتیں صرف اس تک لے کر جانی چاہئیں جیسا کہ قرآن کریم نے کہا ہے تو یہ کافی ہو جائے گا، ایک حصہ اس کا لیکن اگر ہم کہیں تو یہ کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ضرورت کے وقت ہم قبر کی طرف دوڑیں ضرورت کے وقت ہم کسی صاحب اقتدار کی طرف دوڑیں ضرورت کے وقت ہم
خطبات ناصر جلد سوم ۴۲ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۰ء کسی مالدار کی طرف دوڑیں.ضرورت کے وقت ہم کسی ہوشیار سازشی آدمی کی طرف دوڑیں ضرورت کے وقت ہم کسی سفارش کی طرف دوڑیں.ضرورت کے وقت ہم رشوت کی طرف دوڑیں اور اس کے ساتھ یہ کہیں کہ ہم اس اللہ پر ایمان لاتے ہیں جسے قرآن کریم نے غنی کہا کہ وہ کسی کا محتاج نہیں اور سارے اس کے محتاج ہیں اور جس کو صمد کہا ہے تو یہ دعویٰ غلط ہو گا پس ایمان باللہ کا کیا مفہوم ہے؟ قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ ہمیں پتہ لگنا چاہیے ورنہ محض یہ کہنا کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں محض یہ کہنا کہ اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ یہ ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ جس شخص نے یہ کہا کہ اللہ ایک ہے وہ جنت میں چلا گیا تو اس کا یہ مفہوم نہیں تھا کہ اگر مارگولیتھ یا کسی اور مستشرق معاند اسلام نے کتاب پڑھتے ہوئے اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا الله کہہ دیا تو وہ جنت میں چلا گیا بلکہ مطلب یہ تھا کہ جو شخص یہ گواہی دیتا ہے اپنے دل سے بھی اور اپنی زبان سے بھی اور جوارح سے بھی کہ میں اس اللہ کو اس طور پر مانتا ہوں جس طور پر اور جس طریقے پر اللہ کو قرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے تو وہ جنت میں چلا گیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پھر وہ جنت ہی میں گیا کیونکہ پھر تو اس کی اپنی زندگی کوئی نہ رہی پھر تو اللہ کے در پر بیٹھا اور اپنا سب کچھ دُنیوی اموال بھی اور اپنا نفس بھی اس کے حضور پیش کر دیا اور وہ خالی ہاتھ ہو گیا اور اس نے اپنے رب کو کہا کہ اے خدا! تیری رضا کے لئے میں اپنا سب کچھ چھوڑتا ہوں اور تو میری رُوح کو اپنی محبت اور پیار سے بھر دے.پھر وہ اللہ کو ماننے والا بھی ہوا اور اُسی کے لئے اَعْظَمُ دَرَجَةً “ بھی کہا جا سکتا ہے.محض یہ کہنا کہ ہم آخرت پر ایمان لائے ہیں کافی نہیں.ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آخرت کا کیا مفہوم قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے.اس پر ہمارے لئے ایمان لانا ضروری ہے محض یہ کہ دینا کہ ہم رسل پر ایمان لائے ہیں یہ کافی نہیں ہے کیونکہ بے چارے معصوم رسل تو ایسے بھی تھے جن پر ہر قسم کی تہمت ان کے اپنے ماننے والوں نے لگادی پس ان اشیاء پر ، ان تہمتوں پر، ان الزاموں پر ، اس افتراء پر ہمارے لئے ایمان لانا ضروری نہیں ہے.رُسل پر اس معنی میں ایمان لانا ضروری ہے جو قرآن نے ہمارے سامنے رکھا ہے ان کی وحی پر اس معنی میں ایمان لانا ضروری ہے
خطبات ناصر جلد سوم ۴۳ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۰ء جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اس معنے میں ضروری ہے اور اس مقام ارفع پر ایمان لانا ضروری ہے جو مقام کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں بتایا ہے.خود قرآن عظیم پر وہ ایمان لانا ضروری ہے جو خود قرآن کہتا ہے کہ مجھ پر اس طرح ایمان لاؤ محض یہ کہ دینا کہ ہم قرآن کریم پر تو ایمان لاتے ہیں لیکن اپنے اقتصادی مسائل کے حل کے لئے ہم امریکہ جائیں گے تو یہ قرآن کریم پر ایمان کوئی نہیں کیونکہ اگر قرآن کریم پر وہ ایمان ہو جو قرآن کریم کہتا ہے مجھ پر رکھو، جو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ قرآن کریم پر رکھ تو پھر یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور وہی حقیقی ایمان ہے.قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں یہ دعوی کیا کہ یہ ایک کامل اور مکمل کتاب ہے.اگر ہماری زندگی کا کوئی ایسا مسئلہ ہو کہ جس کو سلجھانے کے لئے ہمیں قرآن کریم کی بجائے امریکہ یا روس کے پاس جانا پڑے تو ہمیں یہ اعلان کرنا پڑتا ہے یوں زبان سے نہیں کہیں گے لیکن عملاً ہم یہ اعلان کر رہے ہوں گے کہ (نعوذ باللہ ) قرآن کریم کامل نہیں ، ناقص ہے اور اس نقص کو دور کرنے کے لئے قرآن عظیم کو چھوڑ کر ہمیں امریکہ جانا پڑا یا روس جانا پڑا.پس قرآنِ عظیم پر محض زبانی ایمان کافی نہیں اس رنگ میں اور اس طور پر ایمان لا ناضروری ہے جو خود قرآن عظیم نے کہا ہے کہ اس طرح مجھ پر ایمان لاؤ یہی حال ایمان بالآیات اور ایمان بالغیب کا ہے پس جہاں جہاں بھی ایمان پالی“ کا سوال ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فلاں پر ایمان ا لا و وہ ہمیں خود قرآن کریم سے تلاش کرنا پڑے گا کہ کس معنے میں یہ کہا گیا ہے کہ ایمان لاؤ.آج میں مختصر ہی خطبہ کرنا چاہتا ہوں اسی تمہید پر ختم کروں گا میرا ارداہ ہے کہ ایمان کی جو تفاصیل ہیں کہ اللہ پر ایمان لاؤ، رُسل پر ایمان لاؤ ، غیب پر ایمان لاؤ اور پھر ان پر جو وحی ہوتی ہے اس پر ایمان لاؤ ، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ، قرآنِ عظیم پر ایمان لاؤ، انہیں واضح کروں.لفظ ”ایمان“ جب عام ہو بغیر صلے کے وہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ قرآنِ کریم سے نکال کر دیکھا جائے کہ ان سارے ایمانوں کے کیا معنے ہیں تا کہ ہمارے ایمان میں تازگی اور ہماری روح میں بشاشت پیدا ہو.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۴ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۰ء پس انشاء اللہ میں ایمان باللہ سے شروع کروں گا کیونکہ وہی مرکزی نقطہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے.اللہ کے لفظ کے اس مفہوم کو سمجھنے کی ( جس مفہوم اور معنے میں قرآن کریم نے اللہ کے لفظ کو استعمال کیا ہے ) ایک کنجی اور مفتاح بھی ہمیں دے دی ہے اور یہ ایسی کنجی ہے جس سے اور بہت سے مضامین بھی گھل جاتے ہیں.میرا ذاتی تجربہ یہی ہے کہ جب قرآن کریم کوئی اصطلاح یا کوئی لفظ استعمال کرے تو خود قرآن کریم میں دیکھو کہ وہ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے پس اللہ کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم کو شروع سے آخر تک دیکھنا پڑتا ہے کہ اللہ جو اسم ذات باری ہے قرآن کریم کس مفہوم میں اس لفظ کو، اس اصطلاح کو استعمال کرتا ہے یعنی کون سی صفات ہیں جن سے قرآن کریم اللہ کو متصف کرتا ہے ( غرض مختصر ہی مجھے کہنا پڑے گا) یہ مضمون بڑا لمبا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ ایمان کے سارے حصوں کو لے کر یہ بتاؤں کہ قرآن کریم نے ان کو کن معنوں میں استعمال کیا ہے اور ہم سے قرآن کریم کیا مطالبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے جب وہ یہ کہے کہ ایمان باللہ ہونا چاہیے تو کیا مراد ہے؟ جب وہ یہ کہے کہ ایمان بِمُحَمَّد صلی اللہ علیہ وسلم ہونا چاہیے تو کیا مراد ہے؟ جب اللہ یہ کہے کہ ایمان بالقرآن ہونا چاہیے تو کیا مراد ہے؟ جب اللہ یہ فرماتا ہے کہ ایمان بالاخرہ ہونا چاہیے تو کیا مراد ہے.خود قرآن کریم ہمیں بتائے گا کہ کیا مراد ہے جب وہ ایمان بیومِ آخر ہو تو اس سے کیا مراد ہے؟ ایمان بایتِ اللهِ سے کیا مراد ہے؟ جہاں جہاں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد کیا ہے؟ اور پھر اس کے بعد میں بتاؤں گا کہ ایمان آگے دوشاخوں میں کس طرح تقسیم ہوتا ہے.ایک ہجرت جس کے انعام کا ذکر یہاں قرآن کریم نے رضوان سے کیا ہے اور دوسری شاخ مجاہدہ ہے جس کا انعام ”جنت نعیم“ میں بیان کیا گیا ہے یہ دونوں دراصل خدا تعالیٰ کی رحمت کے جلوے ہیں اور دونوں کا تعلق جزا کے لحاظ سے رحمت کے ساتھ اور مطالباتِ الہیہ کے پورا کرنے کے لحاظ سے ایمان کے ساتھ ہے.پس ایمان ہو اس کے تقاضے پورے کئے جائیں جب اس کے تقاضے پورے کرنے کا سوال پیدا ہو تو وہ اصولی طور پر دو قسم کے تقاضے ہیں ایک کو ہم ہجرت کہتے ہیں ایک کو ہم مجاہدہ کہتے ہیں اور جب ایمان ہوگا اپنے صحیح مفہوم کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوگا.اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد سوم ۴۵ خطبہ جمعہ ۶ رفروری ۱۹۷۰ء کی رحمت کا نزول دو شکلوں میں ہوگا ایک رضوان کی شکل میں اور ایک جنت نعیم کی شکل میں.پس یہ مفہوم ان مختصر سی آیات میں بیان ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے خطبہ سے اس کے اس مضمون کو ان شاء الله تفصیل سے بیان کروں گا.وَمَا تَوفِيُقِي إِلَّا بِاللهِ - دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک اس وقت ایک نازک دور میں سے گزر رہا ہے مارشل لاء لگا ہوا ہے اور مارشل لاء نے عوام کو یہ کہا ہے کہ اپنی مرضی سے انتخاب کرو جس میں کوئی دباؤ نہ ہو یا کوئی لالچ نہ ہو اور منتخب نمائندے پھر اس ملک کا دستور بنا ئیں پھر اس کے مطابق یہاں کی حکومت قائم ہو.غرض بہت ہی اچھا کام ہے جو اس مارشل لاء نے کیا لیکن بڑی ذمہ داری عائد کر دی ہے پاکستانی شہری پر اور پاکستانی شہریوں کی اکثریت چونکہ باوجود عقل اور ذہانت رکھنے کے زیادہ پڑھی لکھی نہیں اور مظلوم ہونے کی وجہ سے بیچاروں کے پاس بہت سے ایسے وسائل بھی نہیں ہیں کہ وہ صحیح حالات کا پتہ لے سکیں اس لئے جو مختلف نعرے لگائے جاتے ہیں اُن سے کوئی دماغ کسی نعرہ سے مرعوب ہو جاتا ہے کوئی دوسرا دماغ کسی دوسرے نعرہ سے مرعوب ہو جاتا ہے اور حکومت جو آگے قائم ہونے والی ہے اور پاکستان ہمارا ملک جو ہے اور پاکستانی ہمارے شہری جو ہیں ان کے متعلق کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کس جہت کی طرف ان کی سیاسی حرکت ہو گی.چونکہ ہر حرکت اور ہر سکون اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشاء سے ہی ہوتا ہے اس لئے ہم سب احمد یوں کو اپنے رب کے حضور عاجزانہ جھک کر اس سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے ہمارے رب! ہمارے ملک اور ہماری قوم پر رحم کر اور ان کی ہدایت کے سامان پیدا کر اور ان کو وہ راہ دکھا جو ایک شاندار اور پرامن اور تیرا اطاعت گزار ملک بننے کی راہ ہو.تیری رضا کو بھی وہ حاصل کریں اور اس دنیا میں جو نعمتیں اپنے فضل سے تو نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں ان نعمتوں سے سارے کے سارے مل جل کر زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے والے ہوں اور تیری حمد کرنے والے ہوں پس یہ دعا ئیں آجکل بڑی کثرت سے کریں.اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے.(روز نامه الفضل ربوه یکم اکتوبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۲ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد سوم ۴۷ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۰ء ہمیں چوکس اور بیدار رہ کر اپنے وعدوں کو پورا کرنا اور بجٹ کے مطابق مالی جہاد میں حصہ لینا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۷ فروری ۱۹۷۰ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گو پہلے سے تو افاقہ ہے لیکن ابھی تک میری طبیعت خراب چلی جا رہی ہے.ضعف کی شکایت دور نہیں ہو چکتی دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور کامل صحت عطا کرے تا پوری توجہ سے کام کئے جاسکیں.اس وقت میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جماعت کا مالی سال ختم ہونے والا ہے.چند مہینے باقی رہ گئے ہیں اس لئے جماعتیں اس طرف پوری اور فوری توجہ دیں اور آمد و خرچ کا جو بجٹ سال رواں کے لئے جماعت کے مشورہ سے شوریٰ میں پاس ہوا تھا اس کے مطابق آمد ہوتا کہ اسی کے مطابق پھر خرچ بھی کیا جا سکے.ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی اس کی راہ میں اموال خرچ کرنے کی توفیق پاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مالی جہاد میں جو ہم حصہ لیتے ہیں تو اس میں کوئی نفسانی غرض شامل نہیں ہے صرف اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اموال کا ایک حصہ کاٹ کر رکھتے ہیں تا اس کی تو حید دنیا میں قائم ہو، تا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں گڑ جائے اور اپنے محسن اعظم کو یہ دنیا
خطبات ناصر جلد سوم ۴۸ خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۷۰ء پہچاننے لگے اور یہ فریضہ آج صرف جماعت احمدیہ کے سپر د کیا گیا ہے جیسا کہ آج کی دنیا اس پر شاہد ہے.پس اس عظیم ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اور اس لئے کہ تاہم اس کے بدلہ میں اُن عظیم الشان بشارتوں کے بھی وارث بنیں جو بشارتیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں دی گئی ہیں.ہمیں ہر آن چوکس اور بیدار رہ کر باقاعدگی کے ساتھ اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے اور اپنے بجٹ کے مطابق مالی جہاد کے نتائج نکالنے چاہئیں جہاں ہم اپنے اوقات کو اور اپنی عزتوں کو اور اپنے دماغوں کو اور اپنے آراموں کو اور اپنی اولا دوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں وہاں ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ اپنے اموال کو بھی اس کی راہ میں پیش کریں.خدا کرے کہ ہماری یہ پیشکش اس کے حضور قبول ہو اور اس کی مقررہ جزا کے ہم وارث ٹھہریں اور اس کے پیار کو ہم پائیں.روزنامه الفضل ربوه ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ۳) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۴۹ خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء ہماری جماعت کے تعلیمی اداروں کا تعلیمی ، تربیتی اور اخلاقی معیار بہت بلند ہونا چاہیے خطبه جمعه فرمود ه ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے طبیعت پہلے سے بہت اچھی ہے ، الْحَمدُ لِلہ لیکن ابھی پورا افاقہ نہیں ہوا اور کل سے نزلے کی بھی شکایت ہو گئی ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے دوست دعا سے مددفرماویں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ سے بنی نوع انسان کی خدمت کے جو مختلف کام لئے ہیں ان میں تعلیمی خدمت بھی شامل ہے ہماری جماعت کے تعلیمی ادارے تین قسموں میں منقسم ہوتے ہیں ایک تو وہ تعلیمی ادارے ہیں جو پاکستان سے باہر کام کر رہے ہیں دوسرے وہ تعلیمی ادارے ہیں جو ربوہ سے باہر پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور تیسرے وہ تعلیمی ادارے ہیں جور بوہ میں کام کر رہے ہیں.بیرونِ پاکستان تعلیمی ادارے جو باقاعدہ ادارے کی شکل میں کام کر رہے ہیں وہ زیادہ تر افریقہ کے ممالک میں ہیں یہ ممالک کئی صدیوں سے سیاسی حالات اور بعض دیگر وجوہ کی بناء پر تعلیم میں بڑے پیچھے تھے خصوصاً ان ممالک کی مسلمان آبادیاں تو تعلیم میں بہت ہی پیچھے تھیں اُس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن کو اللہ تعالیٰ نے اس طرف متوجہ کیا کہ ان ممالک کی تعلیمی خدمت بھی کرنی چاہیے چنانچہ مختلف ممالک میں مختلف معیار
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء کے تعلیمی ادارے قائم کئے گئے.چھوٹے سکول بھی ہیں بڑے بھی ہیں کئی سیکنڈری سکول بھی ہیں.ایک ایک ملک میں ہمارے بیبیوں سکول بھی کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر لحاظ سے اس خدمت کو قبول کر کے اس کے بڑے اچھے نتائج پیدا کئے ہیں اور بعض جگہ اگر چہ حکومت تو عیسائیوں کی ہے لیکن وہ عیسائی حکومتیں بھی جماعت احمدیہ کی تعلیمی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور بڑی ممنون ہیں.وہاں کے مسلمانوں کو تو اس سے بہت ہی فائدہ پہنچا ہے وہاں جو اساتذہ کام کر رہے ہیں اُن میں پاکستانی بھی ہیں اور مقامی بھی ہیں پاکستان سے جو اساتذہ کام کے لئے وہاں گئے ہیں ( الا مَا شَاءَ اللهُ ) بڑے اخلاص سے کام کرنے والے، بڑی محبت سے کام کرنے والے اور اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنے والے ہیں کہ ہم استاد ہیں اور اسلام نے استاد کا ایک مقام قائم کیا ہے اُسے ایک عزت عطا کی ہے اور اس پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد کی ہیں یہ سب ان کے سامنے ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو نباہتے اور اپنے رب اور اس کی مخلوق کی نگاہ میں عزت کو حاصل کرتے ہیں بعض استثناء ہیں لیکن استثناء پر حکم نہیں لگایا جاتا.بڑی بھاری اکثریت اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی اور ان کو ادا کر رہی ہے وہاں جو مقامی اساتذہ ہیں وہ بھی اچھا کام کرنے والے ہیں ان کے دل میں بھی یہ احساس بیدار ہے کہ ہماری قو میں دنیا کے تعلیمی میدان میں بہت پیچھے چھوڑ دی گئی ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو تعلیم کے میدان میں تو دوسروں کے پہلو بہ پہلو لے جا کر کھڑا کر دیں.کچھ ہمارے تعلیمی ادارے پاکستان میں ہیں اور ربوہ سے باہر ہیں.ان کے متعلق مختلف اوقات میں مختلف رپورٹیں آتی رہتی ہیں بعض اچھا کام کر رہے ہیں بعض ایک وقت تک اچھا کام کرتے رہتے ہیں پھر کوئی خرابی پیدا ہو جاتی ہے بعض ایسے بھی ہیں جو مستقل طور پر بڑا اچھا کام کر رہے ہیں ان تعلیمی اداروں کو صحیح طور پر چلانے کی آخری ذمہ داری تو مرکز پر ہے.باہر کے جوتعلیمی ادارے ہیں ان کی ذمہ داری بھی مرکز پر ہے تحریک جدید سے ان کا تعلق ہے.تحریک جدید کا نظام کبھی غلطی بھی کر جاتا ہے لیکن عام طور پر وہ محنت اور توجہ اور ہوش کے ساتھ اور بیداری کے ساتھ اس عام نگرانی اور اساتذہ کے انتخاب وغیرہ کے متعلق جو ذمہ داری ہے
خطبات ناصر جلد سوم ۵۱ خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء اس کو نباہتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا کرے..جو پاکستان کے تعلیمی ادارے ہیں ربوہ سے باہر یار بوہ میں قائم ہیں ان کی ذمہ داری نظارت تعلیم پر ہے.ربوہ سے باہر کے جو سکول ہیں یا تعلیمی ادارے ہیں میرے نزدیک ان کی عام نگرانی اس طرح پر نہیں ہو رہی جس طرح ہونی چاہیے ہم نے اگر سکول کھولنا ہو تو وہ ہمارے معیار کے مطابق ہونا چاہیے ورنہ وہ ہماری بدنامی کا موجب ہے.دنیا کے معیار کے مطابق نہیں.ہمارے سکول ہمارے معیار کے مطابق ہونے چاہئیں ہمارا ہر کام ہمارے ( یعنی اسلام اور احمدیت ) کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے یہ بھی ہمارا ایک کام ہے ان ہزاروں کا موں میں سے جن کے کرنے کی ہم اپنے رب سے تو فیق پاتے ہیں لیکن ربوہ سے باہر بہت سے تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو ہمارے معیار کے مطابق نہیں ہیں اور یہ قابل شرم بھی ہے اور قابل فکر بھی ہے جو ہمارا سکول ہے وہ ہمارے معیار کے مطابق ہونا چاہیے اور اس میں اور غیر میں نمایاں فرق ہونا چاہیے.اللہ تعالیٰ کا ہم سے وعدہ ہے کہ اگر ہم اسلام کی روح کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریں گے تو وہ ہم میں اور غیروں میں ایک فرقان اور ایک امتیاز کو قائم کرے گا.یہ امتیاز ( ایک فدائی، عبدرحمن اور ایک ایسے شخص کے درمیان جس کے اندر ایثار اور فدائیت کا جذبہ اور اسلام کی روح نہیں ) یہ فرق جو ہے یہ قد کے لحاظ سے یا رنگ کے لحاظ سے یا ناک نقشے کے لحاظ سے نہیں یہ تو اس نور کے لحاظ سے ہے جو ایک باعمل حقیقی اور سچا مسلمان حاصل کرتا ہے اور جو دوسرے کو نہیں ملتا.وہ نور مَا بِهِ الْاِمتیاز بنتا ہے اللہ تعالیٰ سے تعلق ، ایک انہماک ، ایک فدائیت کہ جو کام بھی ہم نے کرنا ہے چھوٹا ہو یا بڑا وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے کرنا ہے.یہ نہیں کہ ہم نماز تو پڑھیں گے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اور روٹی کھائیں گے کسی اور کو راضی کرنے کے لئے اگر کسی اور کو راضی کرنا ہو تو کمانے پر جتنی اسلامی پابندیاں ہیں پھر تو انسان انہیں چھوڑ دے کیونکہ اسی کے نتیجہ میں روٹی ملتی ہے.ایک احمدی مسلمان نے نماز بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قائم کرنی ہے اور ایک احمدی مسلمان نے اپنے یا اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ڈالنا ہے
خطبات ناصر جلد سوم ۵۲ خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء اگر ایسا نہیں تو اس شخص نے احمدیت اور اسلام کی حقیقی روح نہیں حاصل کی اور نہ اسلام کو پہچانا ہے نہ ان مطالبات اور ذمہ داریوں کا احساس اس کے دماغ میں بیدار ہوا ہے جو اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی ہے.پس ہمارا کام اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہے خواہ وہ تہجد کی نماز ہو خواہ وہ گھٹیالیاں کا انٹر میڈیٹ کالج ہو یا کہیں پرائمری سکول ہو خواہ وہ بچوں کی قاعدہ پڑھانے والی کلاس ہو یا خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کا تربیتی کورس ہو یا یہاں جو قرآن کریم کی کلاس ہوتی ہے وہ ہو چاہے دھوبی کو کپڑے دینے کا کام ہو یا درزی سے کپڑے سلوانے کا کام ہو سب کام ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرنے ہیں اگر ہم درزی کو کپڑے سینے کے لئے اس لئے دیتے ہیں کہ اپنے لباس کی نمائش مطلوب ہے تو خدا تعالیٰ کا غضب تو ہمیں مل سکتا ہے اس کی رضا نہیں مل سکتی لیکن اگر ہم درزی سے کپڑے اس نیت سے سلواتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں نے اے مومنو! تمہارے لئے ان چیزوں کو پیدا کیا.اسراف سے بچتے ہوئے افراط و تفریط ہر دو پہلوؤں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ان چیزوں کو استعمال کرو میں تمہیں جہاں باطنی حسن دینا چاہتا ہوں وہاں میں تمہیں ظاہری حسن بھی دینا چاہتا ہوں اپنے لباس کو اس نیت سے بنوا ؤ اور پہنو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عطا ہے ہم اس کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ لباس بنواتے ہیں.ایک شخص دھوبی کو کپڑے عادتا دیتا ہے ایک دوسرا شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ میرے رب کو نجاست اور گندگی اور میل کچیل پسند نہیں ہے میں اپنے کپڑوں کو صاف رکھوں گا.اس نیت کے ساتھ دھوبی کو کپڑے دیتا ہے چنانچہ وہ صاف کپڑے بھی پہن لیتا ہے اور فرشتوں کی دعائیں بھی اسے حاصل ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی اسے مل جاتی ہے.غرض ایک احمدی کا ہر کام اسلام کے معیار پر پورا اترنا چاہیے ورنہ اس کام کے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اس کے نتیجہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں مل سکتی.پس جو تعلیمی ادارے ربوہ سے باہر ہیں ان کی بھی بڑی سختی سے نگرانی ہونی چاہیے.تعلیم کے لحاظ سے بھی اور تربیت کے لحاظ سے بھی ہمارے تعلیمی ادارے اور کسی اور کے تعلیمی ادارے میں نمایاں فرق ہونا چاہیے ورنہ ہم
خطبات ناصر جلد سوم ۵۳ خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہوں گے.پھر سب سے زیادہ توجہ ہمیں ان تعلیمی اداروں کی طرف کرنی چاہیے جور بوہ میں قائم ہیں.ان کی مرکزی حیثیت ہے بہت سے دوست کافی مالی بوجھ برداشت کر کے اور تکالیف اُٹھا کر اپنے بچوں کو ربوہ میں تعلیم کے لئے بھجواتے ہیں.ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول اور اس مرکز کے لئے جو غلبہ اسلام کے لئے قائم کیا گیا ہے محبت اور پیار ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اس دینی ماحول میں پرورش اور تعلیم دلوائیں یہاں وہ اپنے بچے بھیج دیتے ہیں اور خود تکالیف اُٹھاتے ہیں ایسے بیسیوں خاندان ہیں کہ جو بیوی بچوں کو یہاں بھجوا دیتے ہیں اور خود تنگی سے گزارہ کرتے ہیں.گھر کا ماحول انہیں میسر نہیں ہوتا یعنی نہ بیوی پاس ہے نہ بچے پاس ہیں لیکن وہ ان تکالیف کو اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے صحیح ماحول میں تربیت اور تعلیم حاصل کریں لیکن مجھے افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ یہاں بہت سے اساتذہ ایسے ہیں جو ہمارے تعلیمی اداروں کو ایک کلب سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے وہ سمجھتے ہیں کہ مثلاً کالج میں گئے ، بیٹھے باتیں کیں اور ایک دوسرے کو ہنسی اور تمسخر کا نشانہ بنایا اور اس طرح اپنا وقت ضائع کیا اور گھروں کو آگئے اور ہر مہینے کے شروع میں پچھلے مہینے کی تنخواہ وصول کی.کوئی احساس ہی نہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ یہاں بعض ایسے داغ ہیں کہ احمدیت کا معیار تو کیا انسانیت کا معیار بھی انہیں حاصل نہیں ہے اور نظارت تعلیم کو اس بات کی کوئی فکر نہیں اگر کوئی شخص وہ ذمہ داری اُٹھانا نہیں چاہتا جو اسلام اس کے کندھوں پر ڈالتا ہے تو کس نے اسے مجبور کیا ہے کہ وہ ہمارے پاس رہے اور ہمیں کسی نے مجبور نہیں کیا کہ ہم اسے اپنے پاس رکھیں یا تو ایسے اساتذہ تعلیم اور تربیت کی طرف پوری توجہ دیں اور یا وہ کہیں اور چلے جائیں.کون ان کو یہاں روکتا ہے لیکن اگر انہوں نے مرکز میں رہ کر اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے خود کو پیش کیا ہے تو انہیں یہ ذمہ داری نباہنی پڑے گی اگر وہ نہیں نبا ہیں گے تو ہم ان کو باہر بھیج دیں گے.کہیں اور جائیں.اللہ تعالیٰ نے جس کو پیدا کیا ہے اس کے رزق کا تو وہ ذمہ وار ہے میں یا آپ اس کے ذمہ وار نہیں ہیں لیکن جو ذمہ واری مجھ پر اور آپ (اہل ربوہ) پر ہے یہ ہے کہ ہم اپنے ماحول کو علمی لحاظ سے بھی اور اخلاقی لحاظ سے بھی اور تربیتی لحاظ سے بھی اس طرح صاف اور پاک رکھیں کہ ہماری آئندہ نسل اس میں اس رنگ
خطبات ناصر جلد سوم ۵۴ خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء کی تربیت حاصل کرے اور وہ رنگ ان کے اوپر چڑھ جائے کہ جو اللہ تعالیٰ کو پیارا ہے اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے.پس یہاں کے جو ادارے ہیں انہیں آج میں تنبیہ کرنا چاہتا ہوں مثلاً تعلیم الاسلام کا لج ہے اس کا تعلیمی معیار بھی گر گیا ہے اور اخلاقی معیار بھی وہ نہیں رہا جو ہونا چاہیے.دیر کی بات ہے کالج کے ایک طالب علم کے متعلق ایک محلہ میں شکایت پیدا ہوئی سارا محلہ اکٹھا ہوکر اسے میرے پاس پکڑ لایا.میں اس زمانے میں پرنسپل تھا مجھے بہت خوشی ہوئی کہ بیدار جماعت ہے محلے میں ذراسی غلط بات جو ہوئی ہے تو انہوں نے اس کو برداشت نہیں کیا چنانچہ میں نے سب کے سامنے اس بچے کو بہت سخت سزا دی اس طرح محلے والوں کو بھی یہ تسلی ہو گئی کہ ہماری فضا کو پاک رکھا جائے گا اور سارے ربوہ میں بھی پتہ لگ گیا کہ ایسی حرکت برداشت نہیں کی جاتی.نوجوانی کی عمر میں بچے حماقت کرتے ہیں ان کو یہ پتہ لگ گیا کہ یہاں حماقت سے نہیں عقل اور ہوش مندی سے زندگی گزاری جا سکتی ہے حماقتیں جو ہیں ان کا محاسبہ ہو گا جب تک اس قسم کی فضا نہ پیدا کی جائے کہ ہم گندگی کو اور بد اخلاقی کو خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو برداشت نہیں کریں گے اور بداخلاقی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کے بغیر کوئی اور خلق اپنا نا یا پسند کرنا یا اپنے ماحول میں پیدا کرنا یا برداشت کرنا ) اللہ تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے اس کی اس مخلوق میں ظاہر ہو رہے ہیں وہی جلوے اس کے بندوں میں اور ان بندوں کے ذریعہ دوسرں میں ظاہر ہونے چاہئیں.پس اگر ہر ایک کو یہ پتہ ہو کہ یہاں وہ خلق پسندیدہ نہیں سمجھا جائے گا اور اسے برداشت نہیں کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے خلق سے مختلف اور اس کی ضد ہے تو کتنا بیوقوف کوئی نوجوان ہو اس کا دماغ بڑی جلدی اس چیز کو سمجھ لے گا اور پھر کوئی شکایت نہیں پیدا ہوگی.ایک دفعہ کالج کی بات ہے باہر کسی کالج میں (یعنی ہمارا احمدیوں کا کالج نہیں ) لڑائی ہوئی پستول چلے کچھ مارے گئے لڑکے گھبرائے کہ جو دشمن ہیں جب ان کو موقع ملا تو وہ ہمارے اوپر اسی طرح وار کریں گے اس قسم کا ایک طالب علم آگیا کہ میں نے Migration (مائیگریشن) کروانی ہے میں آپ کے کالج میں آنا چاہتا ہوں مجھے چونکہ اس سارے واقعہ کا پہلے سے علم ہو چکا تھا.
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء میں نے اس کو بٹھا کر سمجھایا میں نے کہا دیکھو اگر تم نے ہمارے پاس فائدہ اُٹھانے کے لئے آنا ہے تو بڑی خوشی سے آؤ.ہم تمہارا خیال بھی رکھیں گے پڑھانے کی بھی کوشش کریں گے تربیت کرنے کی بھی کوشش کریں گے لیکن اگر تم نے ہم سے سزا لینے کے لئے یہاں آنا ہے تو پھر بہتر یہ ہے کہ کسی اور جگہ چلے جاؤ کیونکہ دوسرے کالجوں کی طرح یہ کالج نہیں کیونکہ جب تم غلطی کرو گے بڑی سخت گرفت ہوگی اور کسی ایک لڑکے پر جھوٹا رحم کر کے بیسیوں لڑکوں کے اخلاق کو تباہ نہیں کیا جائے گا وہ کہنے لگا مجھے علم ہے کہ اس کالج کا یہی ماحول ہے آپ تسلی رکھیں میں جب تک یہاں ہوں کوئی شکایت پیدا نہیں ہونے دوں گا چنانچہ وہ سال ڈیڑھ سال تک رہا اور کبھی اس نے ذرا سا بھی موقع نہیں دیا سر اُٹھا کر بات نہیں کرتا تھا اس کو پتہ تھا کہ یہ ماحول ایسا ہے کہ اس کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے اس کا فائدہ مجھے یا آپ کو اس طرح نہیں ( ہمیں فائدہ تو ہے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو کام کرتے ہیں اس کا فائدہ ہمیں ملتا ہے وہ فائدہ تو ہے ) لیکن صحیح تربیت اور صحیح تعلیم اور پوری طرح ذہنی نشو و نما کا پہلا اور اصل فائدہ تو اس کا ہے جس نے تعلیم حاصل کی اور تربیت پائی ہمیں اللہ تعالیٰ ثواب دے گا اگر ہماری نیت ٹھیک ہوا اور ہم اس کی رضا کے متلاشی اور اسی پر توکل کرتے ہوں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو کام کرتے ہیں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ جونو جوان ہیں وہ اپنی تعلیم میں اچھے نکلیں ان کے اچھے اخلاق ہوں وہ دنیا میں نام پیدا کریں وہ دنیا بھی کمائیں اور اپنے خاندان کا اور اپنے ملک کا نام بھی روشن کریں.پچھلے سال ہمارے کالج کا (جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ) نتیجہ بہت خراب نکلا تھا اس سال خراب نہیں نکلنا چاہیے اس لئے جو منتظم ہیں یا اُستاد ہیں اُن کو چاہیے کہ (امتحان قریب آرہے ہیں ) ابھی سے ایسا انتظام کریں کہ کیفیت اور کمیت ہر دو لحاظ سے ہمارے نتیجے ویسے نکلیں جیسے نکلنے چاہئیں.کسی وقت تو تیس چالیس کالجوں میں سے اوپر کے دس پندرہ لڑکوں میں سے پانچ سات ہمارے کالج کے بھی ہو جایا کرتے تھے یہ صحیح ہے کہ کبھی نسبتا ا چھے لڑ کے داخل ہوتے ہیں کسی سال نسبتا کمز ور داخل ہوتے ہیں یہ چکر تو ساتھ لگا ہوا ہے لیکن کبھی پری انجینئر نگ میں کبھی پری میڈیکل میں کبھی ایف اے میں کبھی بی ایس سی میں کوئی نہ کوئی گروہ یا ایک سے زیادہ گروہ
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء اتنے نمایاں طور پر اچھا نتیجہ نکالتے تھے کہ دنیا حیران ہو جاتی تھی.غالباً ۱۹۶۱ء.۱۹۶۰ء کی بات ہے مارشل لاء کی طرف سے اس وقت بھی میڈیکل کالج میں ایڈمنسٹریٹر مقرر تھے.چنانچہ داخلے کے وقت ایک ایسے شخص ایڈ منسٹریٹر تھے جن کو ہمارے کالج کا زیادہ پتہ نہیں تھا وہ نمبروں کے لحاظ سے انٹرویو لے رہے تھے.پہلا لڑکا جو آیا تو انہوں نے دیکھا کہ تعلیم الاسلام کا لج کا ہے جانتے نہیں تھے خیال نہیں کیا ، کہ ہوگا کوئی کالج ،فرسٹ آ گیا ہے لڑکا، جب تیسرا لڑکا آیا تو وہ بھی تعلیم الاسلام کالج کا پھر زیادہ توجہ ہوئی لیکن کہا کچھ نہیں پھر غالباً چوتھا لڑکا آیا وہ بھی تعلیم الاسلام کالج کا پھر ان سے رہا نہیں گیا اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے یہ کونسا کالج ہے جس کے اتنے اچھے نتیجے نکلے ہیں مجھے نہیں پتہ؟ خیر انہوں نے بتایا کہ یہ کونسا کالج ہے غرض پہلے پندرہ میں سے چھ یا سات لڑکے ہمارے کالج کے تھے اسی طرح کبھی انجینئر نگ کے ساتھ ہو جاتا کبھی بی ایس سی کے ساتھ ہو جاتا تھا اور یو نیورسٹی کی فیصد سے کہیں زیادہ فیصد نتیجے نکلا کرتے تھے لیکن پچھلے سال تو یو نیورسٹی کی فیصد ( جو خود بڑی کم ہے اور گندے کالجوں کی وجہ سے ہی اس کی فیصد گر جاتی ہے ) اس سے بھی کم.پس یہ بڑی شرم کی بات ہے اب ایک دفعہ تو ہو گیا کیونکہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ یہاں ہمارے اساتذہ اتنے بھی گر جائیں گے لیکن اب تو پتہ لگ گیا ہے اس لئے اپنے آپ کو درست کریں اپنے کام کی طرف توجہ دیں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی محنت اور خدمت کو قبول کرے اور نتائج اچھے نکالے.اگر آپ نہ محنت کریں نہ توجہ دیں نہ ذمہ داریوں کو نباہیں نہ مقبول دعائیں آپ کی قسمت میں ہوں تو پھر تو ہمیں پتہ لگے گا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ آپ پر گرفت کی جائے خدا تعالیٰ اپنی گرفت سے ہر ایک کو محفوظ رکھے) لیکن جو میری ذمہ داری ہے وہ میں آج نباہ رہا ہوں اور میں ساری جماعت کے سامنے اساتذہ کو اور استانیوں کو اگر چہ استانیاں تو نسبتاً اچھی ہیں پچھلے سال انہوں نے بہت اچھے نتائج نکالے.مردوں کے لئے شرم کی بات تھی کہ لڑکیاں اتنی آگے نکل گئیں لڑکوں سے اور اُستانیاں اتنی آگے نکل گئیں اساتذہ سے لیکن بہر حال ان (اُستانیوں ) کو بھی اپنا معیار جو اگر چہ خوشکن ہے اس سے بھی بلند کرنا چاہیے.اصل بات تو یہ ہے
خطبات ناصر جلد سوم ۵۷ خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء کہ سوائے حادثہ کے سو فیصدی نتیجہ نکلنا چاہیے.حادثات اس زندگی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اس میں شک نہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ حادثے کے علاوہ اگر سو فیصد نتیجہ نہیں تو پھر وہ صحیح محنت نہیں ہے.کوئی وجہ نہیں ہے کہ کوئی طالب علم فیل ہوا گر کوئی ایسا طالب علم ہے جو پڑھنے کے قابل ہی نہیں تو آپ اس کے ماں باپ کا روپیہ کیوں ضائع کروا ر ہے ہیں؟ اس کو یہاں سے فارغ کر دیں اس مشورہ کے ساتھ کہ پڑھنے کی بجائے کوئی اور کام کرو لیکن جس کے متعلق آپ یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ اس قابل ہے کہ پڑھے اور پاس ہو وہ اگر پاس نہ ہو تو آپ کا فعل آپ کے قول کے خلاف ہو گا اور جماعت آپ سے گرفت کرے گی.تعلیم الاسلام ہائی سکول اور زنانہ سکول اور کالج تعلیم اور نتائج کے لحاظ سے شاید اتنے بڑے نہیں لیکن تربیت کے لحاظ سے انہیں بھی اور توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ صحیح ہے کہ ربوہ کا ما حول خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہم اس ماحول میں یا اس ماحول کے روشن اور منور چہرہ پر سیاہی کا ایک بار یک نقطہ بھی برداشت نہیں کر سکتے اگر ایک آدمی یا ایک بچہ بھی ایسا ہے جس کی صحیح تربیت نہیں تو ہمیں غصہ بھی آئے گا ہمیں فکر بھی پیدا ہو گی ہم اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق اصلاح کے لئے کارروائی بھی کریں گے.تعلیمی اداروں کے ساتھ یہاں ایک اور ایسی دم بھی لگ گئی ہے کہ بعض دفعہ وہ بھی فکر پیدا کرتی ہے اور وہ وہ پرائیویٹ طلباء ہیں جو تعلیمی ادارے میں داخل نہیں ہوتے لیکن یہاں وہ یا تو اساتذہ کی ٹیوشن لیتے ہیں یا ان کو کوئی اور سہولت ہوتی ہے اور کالج کے ڈسپلن اور ضبط سے بھی وہ باہر ہوتے ہیں اور عام طور پر وہ خدام الاحمدیہ سے بھی چھپے رہتے ہیں اور ان کی صحیح تربیت نہیں ہو سکتی.ابھی چند دن ہوئے ایک شخص کا دعا کے لئے میرے پاس خط آیا اور اس نے اپنا جو پتہ درج کیا تھا ( یہیں ربوہ کا رہنے والا ہے ) وہ غلط تھا اور اس میں چالا کی کی ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھ دی ہے پھر اللہ تعالیٰ تو اس طرح بھی فضل کرتا ہے کہ اسی دن مغرب کے بعد اس شخص کے متعلق مجھے رپورٹ ملی کہ یہ فلاں جگہ رہتا ہے اور یہ اس کے حالات ہیں اور عشاء کے بعد جب میں اپنی ڈاک دیکھ رہا تھا تو اس میں اسی کا خط اور پتہ کوئی اور لکھا ہوا تھا اور اس شخص نے اپنی
خطبات ناصر جلد سوم ۵۸ خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء طرف سے بڑی چالا کی کی ہوئی تھی کہ میں پتہ غلط لکھ رہا ہوں.جب میں نے پتہ لیا تو معلوم ہوا کہ وہ ایف.اے کا پرائیویٹ امتحان دے رہا ہے پھر میں سمجھا کہ یہ ایک ایسا شخص ہے جس کی تربیت کی طرف کوئی ادارہ توجہ نہیں کر رہا کالج کا یہ طالب علم نہیں ، ان کے ضبط و نظم سے باہر ہے اور خدام الاحمدیہ سے بھی اسی طرح چھپا پھرتا ہے کیونکہ بعض باتیں اور بھی پتہ لگ گئیں لیکن یہ تو ایک مثال تھی جس نے یہ توجہ دلائی کہ ایک سلسلہ، ایک نظیر ایسے طالب علموں کی ہے جو پرائیویٹ امتحان دیتے ہیں اور اس وجہ سے کالج کے ڈسپلن اور ضبط سے بھی باہر ہیں اور دوسری تنظیموں سے بھی چھپتے رہتے ہیں.اس واسطے نظارت تعلیم کو یہ آرڈر دینا چاہیے کہ تعلیم الاسلام کا لج کسی ایسے لڑکے کے داخلے کے فارم پر جو پرائیویٹ امتحان دے رہا ہے دستخط نہیں کرے گا جب تک یہ تسلی نہ کر لے کہ اخلاقی لحاظ سے اور تعلیمی لحاظ سے وہ لڑکا ایک خاص معیار سے نیچے نہیں ہے.یہ صیح ہے کہ تعلیمی لحاظ سے شاید وہ اتنا اچھا نہ ہو بعض اچھے بھی ہوتے ہیں لیکن اخلاقی لحاظ سے تو وہ بہر حال گرا ہوا نہیں ہونا چاہیے اس کے بغیر ان کو اجازت نہیں دینی چاہیے ورنہ اب میرے خیال میں اس وقت کوئی تیس چالیس لڑ کے ایسے ہوں گے یا اس سے بھی زیادہ اگر لڑکے لڑکیاں ملالی جائیں تو ساٹھ ستر ہوں گے جو پرائیویٹ امتحان دیتے ہیں کیوں دیتے ہیں؟ پس کوئی تو اُن کے اوپر نگرانی ہونی چاہیے کہ اگر انہوں نے یہاں امتحان دینا ہے یہاں کی فضا سے فائدہ اٹھانا ہے یہاں کے سنٹر کے بھی جو امتحان کے لئے بنتا ہے بڑے فائدے ہیں یہاں نہ شور ہے اور نہ ہنگامہ ہے ایک طالب علم آرام سے یہاں امتحان دے دیتا ہے.باہر کے سنٹرز میں ایسی پرسکون فضا نہیں ہوتی پس ہمارے کالج کو چاہیے کہ اپنا معیار اس لحاظ سے بھی قائم رکھے وہاں کی فضا، وہاں کا دیانتداری کا ماحول کہ ہر شخص اپنے علم کے مطابق جواب دے اور امتحان کے ہال میں کسی دوسری مدد کی طرف اس کا ذہن ہی نہ جائے ایسا ماحول ہونا چاہیے.پس یہ ساری چیزیں فوری طور پر گرفت کے اندر آنی چاہئیں نظارت تعلیم اگر اس طرف
خطبات ناصر جلد سوم ۵۹ خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء توجہ نہیں دے گی تو پھر مجھے توجہ دینی پڑے گی وہ تو طالب علموں کو اسا تذہ کو سمجھا ئیں گے لیکن جب میں سمجھاؤں گا تو مجھے ناظر تعلیم کو بھی سمجھانا پڑے گا جو میرے استاذ بھی ہیں لیکن فرض فرض ہے استاد کی عزت اپنی جگہ ہے وہ بھی ہم کریں گے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی اور غفلت اللہ تعالیٰ کو پیاری نہیں ہم اپنی طرف سے یہی کوشش کریں گے کہ ہمارا رب ناراض نہ ہو.بہر حال آج کے بعد توجہ پوری ہو جانی چاہیے نتیجہ تو جب نکلے گا اس وقت پتہ لگ جائے گا کہ کتنی توجہ دی گئی ہے لیکن اخلاقی لحاظ سے تو میرے پاس ہر روز رپورٹ آجاتی ہے چاہے یہ رپورٹ ہو کہ سب ٹھیک ہے اور چاہے یہ رپورٹ ہو کہ کسی جگہ کوئی غلطی ہے.رپورٹ دینے والے محکمے بھی ہیں اور افراد بھی ہیں ہم سب ایک جسم کی حیثیت رکھتے ہیں جیسا کہ میں شروع خلافت سے کہ رہا ہوں کوئی چیز چھپی نہیں رہتی کئی نادان ایسا نہیں سمجھتے اب مثلاً ڈاک ہے میں ساری ڈاک خود دیکھتا ہوں اور کئی دفعہ جن کو کسی محکمے سے کوئی شکایت پیدا ہو جائے وہ کسی کے ذریعہ خط بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے خط آپ تک پہنچنے نہیں دیئے جاتے حالانکہ سارے خط میرے پاس پہنچے ہوتے ہیں اور میں نے ان کو دیکھا ہوتا ہے.پس یہ چیزیں جماعت پہنچانے والی ہے دوست ذرا ذراسی بات پہنچا دیتے ہیں کوئی چیز ووو چھپی نہیں رہتی نہ رہنی چاہیے ورنہ خلیفہ اور نا ئب اذن خیر نہیں رہتا.غرض نیابت نبوت میں خلافت بھی کان ہے اور اس تک آواز میں پہنچتی رہتی ہیں کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکتی اور آخری ذمہ داری اس پر ہے اور اپنے رب سے ہر وقت سب سے زیادہ خوف کھانے والا میں سمجھتا ہوں وہی ہے کیونکہ ساری ذمہ داری جو اس پر ڈال دی بڑے استغفار اور تو بہ اور دعاؤں کے ساتھ زندگی کے دن گزارنے پڑتے ہیں اور سوائے خدا تعالیٰ کے خوف کے کسی کا خوف نہیں ہوتا اور سوائے خدا کی خوشنودی کے کسی اور جہت سے رضا کے حصول کی کوئی تمنا نہیں ہوتی اس واسطے اگر گرفت ہوگی تو بڑی سخت گرفت ہو گی صرف خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے ہو گی لیکن خدا کرے کہ ہماری آئندہ نسلوں کی جو ذمہ داری بعض احباب پر ڈالی گئی ہے
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۷۰ء وہ اس ذمہ داری کو سمجھیں اور تعلیمی اور تربیتی اور اخلاقی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے حضور وہ سرخرو ہوں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو وہ حاصل کریں.اللهم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۹ مارچ ۱۹۷۰ ء صفحه ۲ تا ۶ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۶۱ خطبہ جمعہ ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء رسول اکرم صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم نور مجسم ، مُجدد اعظم معلم اعظم اور انسانیت کے محسن اعظم ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ ، تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وعدہ کے مطابق کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوثر عطا ہوگا اُمت محمدیہ میں کروڑوں اربوں ایسے فدائی اور جاں نثار اور کامل متبع پیدا ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اپنے ظرف کے مطابق حقیقت محمدیہ کی معرفت عطا کی گئی تھی.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کے طفیل ہم نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم تجلیات روحانی مشاہدہ کیں اور ہماری جماعت بھی ان خادموں اور غلاموں میں سے ہے جن پر حقیقت محمدیہ منکشف ہوئی اور جنہیں مقام محمد کی معرفت عطا کی گئی اور وہ علی وجہ البصیرت ان باتوں پر قائم ہیں اول یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم ہیں.ہرنبی جو دنیا کی طرف مبعوث ہوا اور ہر وہ بزرگ متبع جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور جلال کو قائم کیا وہ اپنے اپنے ظرف کے مطابق مظہر صفات باری بنالیکن وہ ایک ہی تھے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جنہوں نے پورے طور پر اپنے وجود میں ان صفات باری کو جذب کیا اور پھر اپنے وجود سے انہیں ظاہر کیا یعنی جن صفات کا تعلق اس عالمین
خطبات ناصر جلد سوم ۶۲ خطبہ جمعہ ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء سے ہے آپ ان کا مظہر بنے.ہمارے نزدیک یہی ایک وجود ہے جسے حقیقی اور کامل عرفان شیون باری عطا ہوا اور جو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر اتم ٹھہرے اور پھر اس مقام محمدیت سے فیوض کی جو مختلف نہریں نکلتی ہیں.اس نور مجسم سے نور کے جو مختلف ستون روحانی آسمانوں کی بلندیوں کی طرف اٹھتے ہیں ان کے ہی مختلف جلوے ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کی ذات میں نظر آتے ہیں اور چونکہ آپ صفات باری کے مظہر اتم تھے اس لئے ایک طرف اللہ تعالیٰ سے آپ کا پختہ تعلق تھا اور دوسری طرف آپ کا جو تعلق اس کے بندوں سے، بنی نوع انسان سے تھا وہ بھی اتنا پختہ اور اتنا وسیع تھا اور اتنا عمیق تھا کہ ہمیں کوئی انسان اس میں آپ کا مقابلہ کرتا نظر نہیں آتا.بنی نوع انسان کی ہمدردی اور غم خواری ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ہمیں آپ کی ذات میں نظر آتی ہے آپ نے صرف ان پر ہی نگاہ نہیں رکھی جو آپ کے گرد آپ کے زمانہ میں رہتے تھے، جو پروانوں کی طرح آپ کے نور کے ساتھ لیٹے رہتے اور آپ کی محبت میں آپ کے وجود کی چمک دیکھ کر آپ کے اس روحانی وجود کے گرد طواف کرتے رہتے تھے صرف ان پر ہی نگاہ نہیں رکھی اور ان کی ضرورتوں ہی کو نہیں سمجھا اور صرف ان کو ہی پورا کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا مظہر اتم اس وقت سے بنادیا تھا کہ ابھی آدم اس دنیا میں وجود پذیر نہیں ہوا تھا اور اس وقت سے لے کر قیامت تک جتنے بھی انسان پیدا ہوئے ان سب پر آپ کی نگاہ کرم تھی اور ان کی ضرورت کے مطابق آپ کا احسان ان لوگوں پر تھا.حضرت آدم کے زمانہ میں اس وقت کی انسانی صلاحیت کے مطابق قرآنِ عظیم کا ایک حصہ انہیں عطا ہوا اور جب انسان نے روحانی ترقی کے مزید مدارج طے کر لئے تو حضرت نوح کے زمانہ میں ان کے زمانے کے مطابق اور حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں ان کی ضرورت کے مطابق اور حضرت موسیٰ کے زمانے میں ان کی قوم کی اس زمانے کی صلاحیت کے مطابق انہیں قرآن کریم کے حصے ملے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی آنکھ نے ان کے لئے جس چیز کی ضرورت محسوس کی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے حکم سے وہی چیز ان کو عطا کر دی.آپ کی یہ مظہریت اتنی اتم اور اکمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں آپ کے وجود کوظلی طور پر اپنا وجو د ہی قرار دیا اور فرمایا.قُلْ جَاءَ الْحَقُّ
خطبات ناصر جلد سوم ۶۳ خطبہ جمعہ ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرآءيل: ۸۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جاء الحق میں الحق سے مراد خدا تعالیٰ کی ذات بھی ہے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بھی ہے اور قرآن کریم کی شریعت و ہدایت بھی ہے.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے مظہر اتم ہونے کے نتیجہ میں ہر پہلے اور پچھلے پر نظر رکھتے ہیں اور ان کی جسمانی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور قرآن کے وہ حصے ان کو باذن الہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملتے رہے جو ان کے مناسب حال تھے.اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس عظیم شان کے تھے ہمارے محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم.وہ لوگ جنہیں حقیقت محمدیہ کا عرفان عطا ہوا جانتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسے انسان ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاودانی حیات ملی ہے.ایک زندہ نبی ، خدا کا پیارا نبی صرف ہمارا یہ نبیوں کا سردار اور رسولوں کا فخر ہی ہے جسے دنیا محمد مصطفی احمد مجتبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے جانتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جاودانی زندگی کا ہمیں اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس پاک ختم المرسلین کا افاضۂ روحانی قیامت تک جاری ہے اور آپ کی پیروی ہمیشہ ہی ہر زمانے میں اور ہر نسل کے لئے روحانی طور پر زندگی بخش ثابت ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی اگر کسی کو کچھ شبہ ہو تو آج ہم ( جماعت احمدیہ ) اس کی تسلی کرانے کے لئے تیار ہیں کہ حقیقی روحانی حیات کے مالک حضرت محمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ حقیقی زندگی اور سچی زندگی اور ہمیشہ رہنے والی کامل زندگی وہ ہے جس سے ہمیشہ کے لئے فیوض کے سرچشمے پھوٹتے رہیں اور وہ تمام انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہو.پھر ہم جنہیں مقام محمدیہ کی معرفت ملی ہے ہم جانتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم نور کی حیثیت سے دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَ اَنْزَلْنَا إِلَيْكُم نُورًا مبينا (النساء: ۱۷۵) اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سورۃ النور کی آیت نمبر ۳۶ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ مَثَلُ نُورِہِ
خطبات ناصر جلد سوم ۶۴ خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء گمشکوة ( النور : ۳۶) میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی مثال دی گئی ہے یعنی ایک تفسیر اس کی یہ ہے کہ اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ “ کا تو اللہ کے ساتھ تعلق ہے اور مَثَلُ نُورِهِ گمشکوۃ “ سے جس کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر اتم ہے یعنی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایک طرف تو اپنی پیدائش اور خلق کے لحاظ سے اور ان قوتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عطا ہوئی تھیں آپ نور مجسم تھے اور اس نور مجسم پر جب آسمانوں سے اللہ تعالیٰ ( جو سر چشمہ ہے تمام انوار کا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار بھی اسی سر چشمہ سے نکلتے ہیں) کی وحی نازل ہوئی تو آپ نُورٌ عَلى نُورٍ ہو گئے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو خدا داد نور تھے جو روحانی قوتوں اور استعدادوں کی شکل میں آپ کو عطا ہوئے تھے ان پر جب اللہ تعالیٰ کی وحی کا نور نازل ہوا تو کامل نور کی صورت آپ بنی آدم کی طرف مبعوث ہوئے اور آدم سے لے کر ہر نبی نے آپ ہی کے نور نبوت سے اپنی شمع نبوت روشن کی.پھر ہم لوگ جو حقیقت محمدیہ کو پہچانتے ہیں جانتے ہیں کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام اخلاق فاضلہ کو اپنے وجود اور اسوہ میں جمع کرنے والے تھے جس کی جھلک ہمیں گزشتہ تمام انبیاء میں مختلف طور پر نظر آتی ہے.پس انبیائے ماسبق اور خدا تعالیٰ کے وہ پیارے جو بعد میں پیدا ہونے والے تھے ان سب کے اندر ہمیں اخلاق فاضلہ کی جو جھلک نظر آتی ہے جو متفرق طور پر آدم سے لے کر قیامت تک بنی نوع انسان میں پھیلی ہوئی ہے وہ تمام اخلاق ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع نظر آتے ہیں.اسی لئے قرآنِ کریم نے یہ فرمایا إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ ( القلم ) (۵) پھر ہم جو اس علم پر علی وجہ البصیرت قائم کئے گئے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور ختم المرسلین ہیں.ہم یہ جانتے ہیں اور دنیا میں اس کی منادی کرتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی مجد داعظم ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ اظہارِ صداقت کے لئے آپ جیسا کوئی اور مجدد پیدا نہیں ہوا.سچائی کے اظہار کے لئے اور گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لانے کے لئے آپ ہی سب سے بڑے مجدد ہیں.روحانیت کے قیام کے لئے
خطبات ناصر جلد سوم خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء حقیقتا آپ ہی آدم ہیں کیونکہ آدم اول نے آپ ہی سے سچائی کو حاصل کیا اور آپ ہی کے طفیل اس سچائی اور صداقت کو وقت کے تقاضے اور پہلی نسل کی صلاحیت کے مطابق دنیا پر ظاہر کیا لیکن حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو مجدد اعظم ہیں آپ کے طفیل تمام انسانی فضائل اپنے کمال کو پہنچے.پہلے کسی وجود میں یہ چیز ہمیں نظر نہیں آتی.اس میں شک نہیں کہ انسان نے بعض پہلوؤں سے ترقی کی اور ایک حد تک کمال کو حاصل کیا لیکن یہ کہ ہر انسان اپنے تمام فضائل کو اپنے دائرہ استعداد کے اندر کمال تک پہنچانے کے قابل ہو سکے یہ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہوا.آپ دنیا میں آئے اور اپنا کامل نمونہ دنیا میں پیش کیا اور ایک کامل تعلیم انسان کے ہاتھ میں دی جس کے نتیجہ میں انسانی فضائل اپنے کمال کو پہنچ سکنے کے قابل ہوئے.انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جس قدر بھی تقاضے رکھے ہیں یا انسانی وجود کی جس قدر بھی شاخیں ہیں ان تمام کے لئے یہ سامان پیدا ہو گیا کہ وہ اپنے کمال کو پہنچ سکے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ معلم اعظم بھی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ عَلَيْكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا‘ (النساء : ۱۱۴) وہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں عطا ہوا ہے جو تم بحیثیت ایک بشر کے اپنے زور سے خود بخود حاصل نہیں کر سکتے تھے اور فضل الہی سے فیضان الہی سب سے زیادہ آپ پر ہوا جس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت جس کو ہم معارف الہیہ بھی کہتے ہیں اور اسرار اور علومِ ربانی جو ہیں ان کے جاننے میں آپ اعلم تھے یعنی آپ سے زیادہ ان کا عرفان رکھنے والا کوئی بھی نہیں ہوا اور جو زیادہ جانتا ہے، جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے وہی سب سے زیادہ سکھا بھی سکتا ہے اگر آپ علم کی سوا کائیاں فرض کریں تو جس شخص کو پچاس اکائی کا علم ہے وہ ساٹھ اکائی نہیں سکھا سکتا.سو کی سو اکائی وہی سکھا سکتا ہے جو خود سوا کائی کا علم رکھتا ہو.پس عَليكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيماً میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ بتا یا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر علم کے میدان میں ( علم روحانی لیکن علم جسمانی کے اصول بھی اسی علم روحانی کے نیچے آتے ہیں) جتنا فضل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا اتنا کسی اور پر نہیں ہوا.جس قدر انسان کو علم روحانی کی ضرورت تھی وہ سب آپ کو سکھا یا گیا اور آپ کے طفیل b b
خطبات ناصر جلد سوم ۶۶ خطبہ جمعہ ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء نوع انسانی اس قابل ہوئی کہ اگر وہ کوشش اور ہمت سے کام لے تو اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنی علمی استعدادوں کو کمال تک پہنچا سکتی ہے.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ج خاتم الانبیاء ہیں وہی معلم اعظم ہیں اور کوئی نہیں ہوسکتا اور خاتم الانبیاء کے یہ بھی معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو علم آپ کو ملا کسی اور نبی کو نہیں ملا اور بنی نوع انسان کو علوم سکھانے کی جو قدرت آپ نے پائی وہ قدرت بھی کسی اور کو نہیں ملی.پس آپ ہی خاتم الانبیاء ٹھہرے.پھر ہم لوگ یہ جانتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے مربی اعظم ہیں آپ کے ہاتھ سے دنیا کا وہ فساد عظیم اصلاح پذیر ہوا جو آہستہ آہستہ مدارج تنزل میں سے گزرکر انتہائی طور پر بھیا نک اور مفسدا نہ ظلمات کی شکل میں انسان کے سامنے اس وقت آیا جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور اس فساد اعظم کی اصلاح کا کام آپ کے سپرد ہوا اور آپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ دنیا کی اصلاح کی اور انسان کو اس قابل بنایا کہ اگر وہ چاہے تو اس فساد عظیم سے جو دنیا میں رونما ہو چکا ہوا تھا ان وسائل کے طفیل جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ میں دیئے ہیں بیچ سکے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی چادر میں اپنے آپ کو لپیٹ لے.انسان تو حید کو بھول چکا تھا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حید کو زمین پر قائم کیا.آپ نے تمام مذاہب باطلہ کو حجت اور دلیل سے مغلوب کیا.وہ جو گمراہ ہو چکے تھے ان کے شبہات مٹائے عقلی طور پر بھی اور مشاہدہ کے رنگ میں بھی اور ہر ملحد کے وساوس دور کئے اور نجات کا سچا سامان اس طرح پر انسان کے ہاتھ میں دیا کہ اصولِ حقہ (جو حقیقی اصول تھے روحانی اور جسمانی ان) کی اسے تعلیم دے دی اور اس طرح انسان کے لئے نجات کے سامان ممکن اور مقدر کر دیئے.ہم جو حقیقت محمدیہ کو جانتے اور پہنچانتے ہیں اور اس بات پر علی وجہ البصیرت قائم ہیں کہ آپ ہی ختم المرسلین اور خاتم الانبیاء ہیں.ہم اپنے نفوس میں بھی یہ مشاہدہ کرتے ہیں اور ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ دنیا بھی اس بات کو سمجھنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا
خطبات ناصر جلد سوم ۶۷ خطبہ جمعہ ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتا ہے.نقشِ قدم پر چلنے میں تین باتیں آتی ہیں.اول یہ کہ آپ کے حسن کو جاننا جس کے نتیجہ میں محبت پیدا ہوتی ہے.پس نقش قدم پر چلنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے حسن کا علم حاصل کر کے بے اختیار ہو کر آپ کی محبت میں کھو جانا.دوئم یہ کہ آپ کی عظمت کو پہچاننا.قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ایک عظیم نعرہ تھا جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں آپ کے مظہر الوہیت ہونے کا لگایا گیا.جو عظمت اور جلال ہمیں اللہ تعالیٰ میں ( جو کہ تمام صفات حسنہ سے متصف اور ہر عیب سے پاک ہے ) نظر آتا ہے.وہ عظمت اور جلال ظلی طور پر ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آتا ہے کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے ظلیت میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عظمت اور جلال حاصل ہوا اس کی قدر کرنا اور اس کو پہچاننا آپ کے نقش قدم پر چلنے کے لئے ضروری ہے تا کہ ہر انسان اپنے ظرف کے مطابق روحانی ترقیات کرتا ہوا اپنے رب کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرے اور اس کی صفات کا زیادہ سے زیادہ مظہر بن سکے.نقش قدم پر چلنے کے لئے تیسری ضروری بات یہ ہے کہ آپ کی کامل اطاعت کی جائے پس جو شخص اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور آپ کی عظمت اور جلال اور آپ کے مقام کو پہچانتا ہے اور اس عشق کے نتیجہ میں اور اس عظمت کے رعب کے سایہ میں آپ کی کامل اطاعت کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو اپنا محبوب بنالیتا ہے اور اسے ہر وہ چیز مل جاتی ہے جو ایک محبوب کو محبت کرنے والے پیارے سے ملا کرتی ہے چونکہ ہر چیز خدا تعالیٰ کی ہے اس لئے جو خدا تعالیٰ کا محبوب بن گیا اسے تو سب کچھل گیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ پھر ہم جو حقیقت محمدیہ کا عرفان رکھتے ہیں ہم یہ جانتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اس صفت میں کہ آپ انسانیت کے محسن اعظم ہیں یکتا اور بے نظیر ہیں.آپ کی محسنانہ ہمدردی اور مشفقانہ غم خواری کا کسی ایک فرد یا ایک قبیلہ یا ایک خاندان سے تعلق نہیں بلکہ ساری دنیا سے اس کا تعلق ہے پھر کسی ایک زمانہ سے اس کا تعلق نہیں قیامت تک کے زمانوں سے
خطبات ناصر جلد سوم ۶۸ خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء اس کا تعلق ہے.ایسی سچی کامل اور ہمہ گیر ہمدردی کسی اور وجود میں تو ہمیں نظر نہیں آتی ویسی ہمدردی تو کجا، میں تو سمجھتا ہوں اس کا ہزارواں حصہ بھی اس کا کروڑواں حصہ بھی ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتا اور اگر کسی شخص کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی ثابت ہو تو ہم گواہی دیتے ہیں اور اس حقیقت کی دنیا میں منادی کرتے ہیں کہ اس صفت میں حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں اور تمام انسانوں سے بڑھ کر بے نظیر انسان ہیں اور بھی بہت سی باتیں ہیں مگر اس وقت میں نے صرف بعض کو لیا ہے اور جماعت کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے ( میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس بات کو سمجھ گئے ہوں گے ) کہ مقام محمدیہ کی جو معرفت ہمیں حاصل ہے آج وہ ہمارے غیر کو حاصل نہیں.اس میں شک نہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اس وقت تک کروڑوں اربوں لوگ ایسے پیدا ہوئے جنہیں اپنے اپنے ظرف کے مطابق یہ معرفت ملی.ہم نے اس عرفان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور پہلوں کی طرح جنہیں یہ عرفان اور معرفت عطا ہوئی تھی حقیقی معنی اور عارفانہ رنگ میں آج اگر کوئی ” خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ لگا سکتا ہے تو وہ ہم ہیں.ہم جب خاتم الانبیاء زنده باد ختم المرسلین زنده باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو ہمارا یہ نعرہ عارفانہ نعرہ ہے.ہم اس حقیقت کو پہچانتے ہیں اور ہمارے دل کی گہرائی ہماری روح کی وسعتوں اور ہمارے جسم کے ذرہ ذرہ سے یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ خاتم الانبیاء زنده باد ختم المرسلین زنده باد لیکن بعض وہ بھی ہو سکتے ہیں جنہوں نے تاریخ کی دوریوں اور ماضی کے دھندلکوں میں افق انسانی پر دور سے ایک چمک تو دیکھی اور اس چمک سے وہ ایک حد تک گھائل بھی ہوئے لیکن ابر رحمت ان پر نہیں برسا.ماضی کے دھندلکوں میں وہ جو ایک چمک انہیں نظر آئی.اس پر فریفتہ
خطبات ناصر جلد سوم ۶۹ خطبہ جمعہ ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء ہوکر اور اس کے عاشق ہو کر وہ بھی خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ لگا لیتے ہیں لیکن ان کا نعرہ عارفانہ نعرہ نہیں ہے بلکہ مجو بانہ نعرہ ہے وہ اس مقام کو پہچانتے تو نہیں صرف ایک جھلک کے وہ گھائل ہو چکے ہیں اور ہم خوش ہیں کہ وہ پاک وجود جو ہمارے دل اور ہمارے دماغ اور ہماری روح اور ہمارے جسم پر حکومت کرتا ہے.اس کے حق میں مجو بانہ نعرے بھی لگائے جاتے ہیں لیکن جب ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ بلند ہو تو ایک احمدی کی روح کی گہرائیوں سے نکلنے والا عارفانہ نعرہ ہی سب سے زیادہ بلند ہونا چاہیے.پس آج میں آپ کو اس طرف متوجہ کر رہا ہوں کہ ” خاتم الانبیاء زندہ باد “ بحیثیت ایک عارفانہ نعرہ کے ہمارا نعرہ ہے اور علم و عرفان نہ رکھنے والوں کے منہ سے نکلے تو وہ مجو بانہ نعرہ ہے البتہ یہ مجو بانہ نعرہ سن کر بھی ہمارے دل خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے محبوب کے نور کی ایک جھلک کو تو انہوں نے دیکھ لیا خواہ ماضی کے دھندلکوں ہی میں کیوں نہ دیکھا ہو.پس اگر کہیں یہ نعرہ بلند ہو تو آپ زیادہ شوق سے زیادہ پیار سے اس کے اندر شامل ہوا کریں.دوسروں کی آواز اگر پہلے آسمان تک پہنچتی ہو تو آپ کی آواز ساتویں آسمان سے بھی بلند ہو کر خدائے عز وجل کے عرش تک پہنچے تا ہمارے آقا ہمارے محبوب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں کہ میرے کامل متبعین میرے عشق میں مستانہ وار یہ نعرہ لگا رہے ہیں.خاتم الانبیاء زندہ باد دوسر ا نعرہ جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہم نے پایا ہے وہ بھی ہم نے ہی پایا ہے.کوئی اور وہ نعرہ بھی عارفانہ نعرہ کے طور پر نہیں لگا سکتا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء کی حیثیت سے دنیا کے محسن اعظم ہیں اور اس میں کوئی شک اور کلام نہیں.میں اس کی وضاحت میں اختصار سے صرف چار باتوں کولوں گا.اوّل.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسان پر جو احسانِ عظیم ہوا وہ شرف انسانی کا قیام ہے پہلے بزرگ انبیاء نے شرف انسانی کو قائم نہیں کیا انہوں نے اپنی قوم کی ضرورتیں پوری کیں.ان کی تربیت کی طرف بڑی توجہ دی دعاؤں
خطبات ناصر جلد سوم خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء کے ساتھ جس حد تک ممکن تھا انہوں نے اپنی قوم کی تربیت کی اور ان کو نیک اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق مطہر بنانے کی کوشش کی اس میں تو شک نہیں لیکن شرف انسانی کا قیام ان کے لئے ممکن نہیں تھا.وہ تو مبعوث ہی ہوئے تھے ایک خاص زمانہ اور ایک خاص قوم کی طرف.شرف انسانی کا قیام حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انسانیت پر خاص احسان ہے اور صرف آپ سے تعلق رکھتا ہے.معلوم دنیا اور غیر معلوم خطوں میں بسنے والے ہر فرد کی عزت اور شرف کو آپ نے قائم کیا.دنیا میں اس وقت بعض ایسے خطے بھی تھے جن کے متعلق عرب میں بسنے والوں کو کوئی علم نہیں تھا.مثلاً Red Indians ( ریڈ انڈین ) ہیں جو دنیا کے اس خطے میں جواب امریکہ کہلاتا ہے بستے تھے مگر بعثت نبی اکرم کے وقت آپ کے پہلے مخاطب عرب میں بسنے والوں کو ان کا علم نہ تھا.حضرت نبی کریم ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نا معلوم خطہ زمین میں بسنے والے انسان کی عزت اور احترام اور اس کا شرف بھی قائم کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ کسی ایسے انسان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانی جو عرب میں بستا ہو یا حبشہ میں بستا ہو یا افریقہ میں بستا ہو بلکہ یہ فرمایا کہ انسان جہاں بھی بستا ہو تمہیں اس کا علم ہو یا نہ ہو اس کے جذبات کو ٹھیس نہیں لگانی.جس وقت ہمارا تعلق ان قوموں سے قائم ہوا جن کا علم اس زمانہ کو نہیں تھا تو ہم ایک مسلمان احمدی کی حیثیت سے ( اور ہم سے پہلے بزرگ جو تھے وہ بھی ایک کامل متبع کی حیثیت سے اور ہم بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل متبع کی حیثیت سے ) ان کو جا کر یہ کہتے ہیں اور ایسا کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تمہارا خیال کسی اور نے نہیں رکھا لیکن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارا خیال رکھا اور باوجود اس کے کہ اس وقت دنیا تمہارے وجود کو بھی نہیں جانتی تھی تمہارے متعلق یہ حکم چھوڑ گئے کہ جب تم بحیثیت انسان ہمارے ساتھ ملاپ کر و تو تمہاری بھی وہی عزت اور احترام کیا جائے.جو ہم آپس میں اپنے ملک کے رہنے والوں یا اپنے براعظم کے رہنے والوں سے کرتے ہیں.وہی عزت اور احترام ہم تمہارا بھی قائم کریں گے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ “ ( حم السجدۃ : ۷ ) کا ایک عظیم نعرہ تھا جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن عظیم میں لگایا گیا.جس نے تمام
خطبات ناصر جلد سوم ง 21 خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء انسانوں کو بحیثیت انسان ایک مقام پر لا کھڑا کر دیا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا تو کوئی اور وجود نہ پہلوں میں پیدا ہوا اور نہ آئندہ پیدا ہوگا.آپ کے منہ سے یہ کہلوایا کہ میں تمہارے جیسا انسان اور تم میرے جیسے انسان ہو.اس سے انسان کی اتنی عزت اور احترام قائم ہو گیا کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے، سب انسانوں کو اس مقام پر کھڑا کر کے پھر آپ نے کہا دیکھو! میں تمہارے جیسا انسان ہوں ، میرے اندر بھی تمہارے جیسی قو تیں اور استعداد یں ہیں آؤ اب دیکھو میں اخلاقی دنیا میں ، میں روحانی دنیا میں کس طرح بلند یاں اور رفعتیں حاصل کرتا ہوں میں تو اپنے ظرف کے مطابق اونچا جاؤں گا تم بھی اپنے ظرف کے مطابق بلندیوں کو حاصل کر سکتے ہو.اس لکیر پر جہاں سب برابر کر دیئے گئے ٹھہر نا نہیں بلکہ بلندیوں کی طرف پرواز کرنی ہے لیکن اس مقام پر اس سطح پر سب کو یہ کہہ کر اکٹھا کر دیا.انما انا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (حم السجدة : - ) پس انسانیت پرسب سے بڑا جو احسان حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی بحیثیت انسان عزت قائم کی اور اس کا احترام قائم کیا اور اس کا شرف اور مرتبہ قائم کیا.دوسرا عظیم احسان جو انسان پر بحیثیت انسان ہمارے محبوب خاتم الانبیاء نے کیا وہ یہ تھا کہ انسان کے حقوق قائم کئے اور ایسے سامان پیدا کئے اور ایسی تعلیم دی کہ اگر ہم اس تعلیم پر چلیں تو سارے انسانوں کے حقوق انہیں مل جاتے ہیں ( اس تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاؤں گا.اقتصادی اصول پر میرے خطبات چھپ گئے ہیں ان میں میں وضاحت سے بیان کر چکا ہوں کہ ) حقوق انسانی کی جو تعریف قرآن عظیم نے کی ہے وہ انسانی عقل کر ہی نہیں سکتی وہ صرف ربانی الہام ہی کر سکتا ہے.اس وقت وہ جو انسان کے سب سے بڑے ہمدرد بنتے ہیں وہ اشترا کی ہیں لیکن ان سے بھی جب پوچھا جائے کہ تم کہتے تو یہ ہو کہ اقتصادی میدان میں انسان کو اس کی ضرورتیں ملنی چاہئیں.پھر تم نے ضرورتوں کی تعریف کیوں نہیں کی؟ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ چین میں ضرورت سے کچھ اور مراد لی جاتی ہے اور یوگوسلاویہ میں ضرورت سے کچھ اور مراد لی جاتی ہے.اور روسیوں کے نزدیک روس میں انسانی Needs ( نیڈز) ضروریات کچھ اور ہیں اور ان علاقوں میں جہاں
خطبات ناصر جلد سوم ۷۲ خطبہ جمعہ ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء روسیوں کا اثر و رسوخ ہے یعنی جو ان کے Satellites ( سٹلائٹس ) کہلاتے ہیں.ان میں انسانی Needs ( نیڈ ز ) ضروریات کچھ اور بن گئی ہیں..غرض یہ کہہ دینا تو کافی نہیں تھا کہ "To each according to his needs" یعنی یہ کہ ہر ایک کی ضرورت پوری ہونی چاہیے اور پھر انسان خاموشی اختیار کر لے.گویا کہ پتہ ہی نہیں کہ ضرورت ہے کیا چیز.قرآن کریم نے حقوق انسانی کی اتنی حسین تعریف کی ہے کہ اس کے حسن سے انسانی عقل خیرہ ہو جاتی ہے اور آدمی یہ سمجھتا ہے کہ کہاں جا کر انسانی عقل ٹھہر جاتی ہے اور آگے بڑھنے کے لئے الہامی روشنی کی ضرورت محسوس کرتی ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ رب العالمین ہے اللہ نے ہر فرد واحد کو پیدا کیا اور اس میں تمہیں جتنی قوتیں اور قابلیتیں اور استعداد میں نظر آتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیں اور اس نے بحیثیت رب ہونے کے ان تمام قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما کے سامان پیدا کئے ہیں.کم سے کم نشو ونما نہیں بلکہ نشو ونما کے کمال تک پہنچانے کے سامان پیدا کئے ہیں اور ہر شخص جو قوت اور استعداد رکھتا ہے.اس قوت اور استعداد کو نشوونما کے کمال تک پہنچانے کے لئے جس چیز کی بھی اسے ضرورت ہے وہ اس کا حق ہے اور وہ اسے ملنا چاہیے.اگر وہ حق اسے نہیں ملتا تو وہ مظلوم ہے اور اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اسے اس کا حق دلوائے مثلاً ایک ہونہار اور ذہین بچہ جو آج آئن سٹائن ( جو ایک مشہور غیر ملکی سائنسدان ہے ) جیسا دماغ رکھتا ہے یا ہمارے ڈاکٹر عبدالسلام جیسا دماغ رکھتا ہے مگر ایک غریب گھرانہ میں پیدا ہو جاتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے کہ بعض غریب گھرانوں میں بڑے ذہین بچے پیدا ہو جاتے ہیں.کالج کے زمانہ میں بھی ایسے طالب علموں کی جہاں تک ہم سے ہو سکا جہاں تک ہمارے بس میں تھا ہم مدد کیا کرتے تھے اور اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اگر کوئی ایسا ہونہار طالب علم میرے علم میں آجائے تو میں اسے کہہ دیا کرتا ہوں کہ تم علم میں ترقی کرتے چلے جاؤ.غیر ملک میں بھی تمہیں بھجوائیں گے.تمہارا ذہن زیادہ سے زیادہ جو تعلیم حاصل کر سکتا ہے وہ تمہیں دلوائیں گے یہ حق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قائم کر دیا ہے..
خطبات ناصر جلد سوم ۷۳ خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی جسمانی قوتیں عطا کی ہیں کہ وہ ان قوتوں کی صحیح نشوونما کے بعد گاماں پہلوان (مشہور پہلوان ہے ) کو بھی گرادے مگر وہ ایک ایسے غریب گھرانہ میں پیدا ہوا جہاں نہ تو اسے وہ دودھ ملے نہ وہ مکھن نہ وہ بادام ملیں نہ وہ دیگر چیزیں جو پہلوان کھاتے ہیں وہ اس کو میسر ہوں ، نہ مالش کے لئے تیل ملے نہ مالش کرنے والے اس کو ملیں تو اس کا جسم نشو ونما نہیں کرے گا.قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ رب العالمین نے اس کو جو جسمانی قوت عطا کی ہے.اس کی جسمانی قوتوں کو کمال تک پہنچاؤ دیکھو ایسا آدمی جو یہ سمجھ رہا ہو کہ میرا رب کتنا پیار کرنے والا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مجھ پر کتنا احسان ہے کہ میرے جسم کی ہر ضرورت جو تھی اس کو بطور حق کے قائم کیا اور دلوایا.غرض وہ گاماں پہلوان بھی بنے گا اور خدا رسیدہ انسان بھی ہوگا یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے لئے شکر کے جذبات ہونگے تو وہ خدا رسیدہ انسان بھی ہوگا وہ محض ایک پہلوان نہیں ہوگا.پس اسلام نے صرف یہ نہیں کہا کہ تمہاری ضرورتیں پوری کریں گے اور پھر وہ خاموش ہو گیا.اسلام نے یہ کہا ہے کہ جو بھی تمہاری طاقتیں ہیں.ان کو نشوونما کے کمال تک پہنچانے کے لئے ہم تمہارے حقوق قائم کرتے ہیں.فقیر اور بھیک منگا نہیں بنایا بلکہ فرمایا کہ تمہارے حقوق قائم کرتے ہیں اور تمہیں یہ حقوق دلوائیں گے اور حقوق کی تعریف یہ کی کہ جہاں ہمیں واقعی کوئی قوت اور استعداد نظر آتی ہے ( بعض دفعہ تو ماں ایک بدصورت بچے کو بھی خوبصورت سمجھتی ہے اس کی میں بات نہیں کر رہا) ایک خوش قسمت انسان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے واقعی اچھا ذہن عطا کیا ہے یا جسمانی طاقتیں دی ہیں یا اخلاقی طاقتیں دی ہیں.وہ ساری طاقتیں کمال نشو و نما تک پہنچنی چاہئیں.ان کی حقیقی اور کامل نشو ونما ہونی چاہیے.غرض یہ احسانِ عظیم انسانیت پر بحیثیت انسان کے ہے یہ نہیں کہا کہ اگر ہند و ہو تو اس کی طاقتوں کو ضائع کرنے کی کوشش کرو یہ نہیں کہا کہ اگر ایک عیسائی ہو تو اس کی طاقتوں پر تبر چلا ؤ یہ نہیں کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے والا دہر یہ ہو تو اس کی کچھ پرواہ نہ کرو بلکہ حضرت نبی اکرم
خطبات ناصر جلد سوم ۷۴ خطبہ جمعہ ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ فرمایا کہ دیکھو اگر کوئی اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود گرفت کرے گا.اگر وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتا تمہیں اس کی کیا فکر ہے.تم نے بحیثیت انسان وہ سارے حقوق قائم کرنے اور ادا کرنے ہیں جو اسلام نے ایک انسان کے بحیثیت انسان قائم کئے ہیں اور جن کے ادا کرنے کی اس نے تعلیم دی ہے.پس انسان کے حقوق کو قائم کیا ہے ( مسلمان کے حقوق کی میں بات نہیں کر رہا ) انسانی حقوق کو قائم کیا اور ایسی تعلیم دی کہ وہ حقوق ادا ہو سکیں اور ایسا نظام بنایا کہ اس نظام میں وہ حقوق ادا ہو جاتے ہیں.غرض عظیم احسان ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی نوع انسان پر بحیثیت انسان.تیسرے انسانی جذبات کا بحیثیت انسان احترام رکھا ہے اس کی میں پہلے مثال بیان کر چکا ہوں.انسانی جذبات کے احترام کا یہ پہلو بھی تفصیلی ہے اس میں میں نہیں جاؤں گا مختصراً بیان کر دیتا ہوں.اگر کسی پر جھوٹ باندھا جائے تو علاوہ اور نقصانات کے اس کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے چنانچہ فرمایا کہ کسی پر جھوٹ نہیں باندھنا خواہ وہ دہر یہ ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو ، ہندو ہو، پارسی ہو، بدھ مذہب کا ہو، کوئی ہو ، لا مذہب ہو یا بد مذہب ہو ،غرض کوئی ہو تم نے اس پر جھوٹ نہیں باندھنا، افتراء نہیں کرنا ، تہمت نہیں لگانی یہ ساری چیزیں علاوہ اور خرابیوں کے جذبات کو ٹھیس لگانے والی ہیں کوئی بھی ہو اس کے جذبات کا احترام کرنا ہے یہاں تک کہ اس کے اموال جو ہیں ان کی حرمت کو قائم کرنا ہے اس کی عزت کو قائم کرنا ہے.اس کی جان کی حفاظت کرنی ہے.یہ بحیثیت انسان ہونے کے ضروری ہے یہ نہیں کہا کہ ایک مسلمان کی جان کی حفاظت تو ہر دوسرے مسلمان پر فرض ہے لیکن غیر مسلم کی جان کی حفاظت فرض نہیں ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ ہم جان کی حرمت قائم کرتے ہیں اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اُمت مسلمہ پر ڈالدی اور اس میں عربی پر عجمی کو فضیلت نہیں اور نجمی پر عربی کو فضیلت نہیں اور مسلمان پر غیر مسلم کو فضیلت نہیں اور غیر مسلم پر مسلمان کو کوئی فضیلت نہیں سب کو جذبات کے لحاظ سے ایک ہی مقام پر کھڑا کر دیا ہے اور یہ بڑی چیز ہے.اس واسطے بات کرتے وقت بڑی ہدا یتیں دی گئی ہیں ہم بعض دفعہ بڑی لا پرواہی کر جاتے ہیں اور اپنے بھائی سے ایسا مذاق کر دیتے ہیں جو اس کو چھنے والا ہوتا ہے ایسا کرنا منع ہے
خطبات ناصر جلد سوم ۷۵ خطبه جمعه ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء یہ بات اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتی ہے پس انسان کے اوپر اس کے جذبات کا اتنا خیال رکھنے کی وجہ سے کتنا بڑا احسان کیا گیا ہے.اور چوتھی بات جو اس وقت میں مختصر بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک تو انسانی جذبات کا خیال رکھا گیا ہے.دوسرے یہ کہ جو جذبات شنیعہ بعض لوگوں میں پیدا ہو جاتے ہیں ان کی یلغار سے انسان کو محفوظ رکھا.یہ ایک بات ہے جو اپنی جگہ پر ہے (اور بہت ساری باتیں ہیں لیکن میں اختصار کے پیش نظر بہت سی باتوں کو چھوڑتا ہوں کافی دیر ہوگئی ہے ) اور ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسانیت زندہ باد کا نعرہ بھی عارفانہ طور پر ہمارے سوا اور کوئی نہیں لگا سکتا.جوشخص حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس محسنانہ شان کی معرفت رکھتا ہو وہی کھڑے ہو کر دوسرے انسان کو مخاطب کر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ انسانیت زندہ باد.پس ان دونعروں کی طرف میں اس وقت جماعت کو متوجہ کرتا ہوں اشتراکیت کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ انسانیت زندہ باد کا نعرہ لگائے اور نہ کسی اور ازم کا یہ حق ہے صرف اسلام کا یہ حق ہے صرف مسلمان کا یہ حق ہے.مسلمانوں میں دو گروہ ہو سکتے ہیں یہ ممکن ہے.یعنی ایک وہ جن کے منہ سے عارفانہ طور پر یہ نعرہ نکلے اور ایک وہ جن کے منہ سے مجو بانہ طور پر یہ نعرہ نکلے لیکن یہ نعرہ لگانے کا وہی حق دار ہے جس نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا اور آپ کی محبت میں فنا ہو گیا چونکہ آپ انسانیت کے محسن اعظم ہیں.اس واسطے اس شخص کا یہ حق ہے کہ وہ دوسرے انسان کو مخاطب ہو کر یہ کہے کہ اے انسان! تیری انسانیت ہمیشہ زندہ رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں غیر انسانی یلغاروں سے و محفوظ رہے.پس یہ دو نعرے ہمارے نعرے ہیں.ختم المرسلین زندہ باد کا نعرہ یا خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ یا ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ یہ احمدیت کا نعرہ ہے اور ہم ہی اسے عارفانہ طور پر بلند کر سکتے ہیں اور اسی طرح انسانیت زندہ باد کا نعرہ ہمارا نعرہ ہے اور ہم جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنی غلام اور آپ کے مقام کو پہچاننے والے اور اس مقام کے نتیجہ میں اور انسانیت پر آپ نے جو احسان کیا ہے اس کے عرفان کی وجہ سے ہم اس بات کے سزاوار ہیں کہ انسان کو مخاطب کر کے یہ
خطبات ناصر جلد سوم نعرہ لگائیں کہ ۷۶ خطبہ جمعہ ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء انسانیت زنده باد دوسرے بھی یہ نعرہ لگاتے ہیں.ہم اسے سن کر خوش ہوں گے لیکن ہمارے نزدیک ان کے نعرے مجو بانہ نعرے ہوں گے.ان کے نعرے عارفانہ نعرے نہیں ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس عرفان پر ہمیشہ قائم رکھےاور اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ یہ تو فیق دے کہ ہم دنیا پر یہ ثابت کرتے رہیں کہ ہم ہی اس بات کے حقدار ہیں کہ خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ لگائیں اور ہم ہی اس بات کے حق دار ہیں کہ انسانیت زنده باد کا نعرہ لگائیں اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے سب کچھ ہو سکتا ہے.(روز نامه الفضل ربو ه۲۹ / مارچ ۱۹۷۰ ء صفحه ۱ تا ۶ )
خطبات ناصر جلد سوم LL خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء شَاوِرُهُمْ میں بتایا کہ شہد کی مکھی کی طرح مومنین کی جماعت کی آراء سے استخراج کرو خطبه جمعه فرموده ۲۷ مارچ ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ان آیات کی تلاوت فرمائی:.فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُ لَهُمْ وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ ۚ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ - إِنْ تَنْصُرُكُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۚ وَ إِنْ يَخْذُ لَكُم فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ - b (ال عمران : ۱۶۱،۱۶۰) اس کے بعد فرمایا:.اس وقت میں نے تین نکاحوں کا اعلان کرنا تھا لیکن اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان نکاحوں کا اعلان مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد کروں گا ایک نکاح جس کا میں نے اعلان کرنا تھا وہ ہمارے مکرم محترم محمد یعقوب خاں صاحب کے صاحبزادہ کیپٹن عبدالسلام صاحب کا تھا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جب ان پر رحم کرتے ہوئے اپنے فضل کے دروازے کھولے ہیں اور اس خاندان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منصب اور خلافت کی اہمیت کو پہچانے کی توفیق عطا کی ہے اور جہاں ایک دروازہ اس نے اپنی رحمت کا ان پر کھولا ہے
خطبات ناصر جلد سوم LA خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء وہاں ہزاروں لاکھوں دروازے اس کی رحمت کے ان پر کھلیں.ایک آیت کا کچھ حصہ اور ایک پوری آیت میں نے اس وقت تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فاعْفُ عَنْهُمُ تو ان سے در گزر کر.عفو کے معنی یہ ہیں کہ ایسا برتاؤ کرنا ایسا سامان پیدا کرنا کہ جو کمزوریوں اور غفلتوں کے بدنتائج ہوں ان سے وہ شخص جس سے درگذر کیا جائے محفوظ رہے محض یہ معنے نہیں ہیں کہ معاف کر دیا بلکہ اس کے اندر یہ معنے بھی آجاتے ہیں کہ اس رنگ میں معاف کیا کہ اگلے کی اصلاح ہو گئی.محض معافی جو ہماری زبان میں معافی کہلاتی ہے عربی زبان میں عفو کے محض یہ معنے نہیں ہیں بلکہ عفو کے معنوں کے اندر یہ بات بھی آتی ہے کہ ایسے رنگ میں درگزر کیا جائے کہ اس شخص کی اصلاح ہو جائے اور توبہ کی اسے توفیق ملے کیونکہ تو بہ ہی ایک ایسا دروازہ ہے جس سے انسان پچھلے گناہوں کے عذاب اور مضرتوں سے بچتا ہے.پس عفو کے یہ معنے ہوئے کہ ایسے رنگ میں معاف کیا جائے کہ اصلاح ہو اور توبہ کی توفیق ملے اور جوغلطیاں ہو چکی ہیں ان کے بدنتائج سے وہ شخص محفوظ ہو جائے.اسی مصدر سے عَافَاهُ سے دور بھی نکلا ہے جس کے معنے ہیں رَفَعَ عَنْهُ كُلَّ سُوءٍ ، یعنی ہر قسم کی تکلیف اور دکھ کو اس سے کر دیا.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلام نائبین کو یہ حکم دیا ہے کہ مومنوں کی جماعت سے اس طرح کا سلوک کیا جائے کہ در گذر بھی ہو اور اصلاح بھی ہو اور بدنتائج سے ان کی حفاظت بھی ہو.دوسرے فرمایا وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اس کے معنی لغت کے لحاظ سے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں اور غفلتوں اور گناہوں کے بدنتائج اور عذاب سے ان کی حفاظت کرے یعنی خود بھی یہ کوشش کرو کہ جو غفلتیں ہوگئی ہیں ان کے بدنتائج سے وہ محفوظ ہو جائیں اور اپنی کوشش پر ہی بھروسہ نہیں کرنا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اس سے یہ بھی استدعا کرنی ہے کہ مومنوں کی جماعت اگر بشری کمزوریوں کے نتیجہ میں باوجود مخلص اور فدائی ہونے کے غفلتیں کر جائیں تو اے خدا! تو ان کی مدد کو آ اور ان کی کمزوریوں گنا ہوں اور غفلتوں کو اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے اور ایسے سامان پیدا کر دے کہ ان کی اصلاح احوال ہو جائے.
خطبات ناصر جلد سوم ۷۹ ง خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء پس صرف یہ معنے نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو زبان سے تو بہ کی توفیق دے کیونکہ مغفرت کے معنی میں قول اور فعل سے مغفرت طلب کرنا ہے غرض یہاں یہ دعا ہے کہ اے خدا! تو ان لوگوں کو یہ توفیق دے کہ اپنی زبان سے بھی تیرے حضور تو بہ کرتے ہوئے عاجزانہ طور پر گر جائیں اور اپنے افعال کی بھی اس طرح اصلاح کریں کہ دنیا بھی یہ مشاہدہ کرے کہ ان لوگوں کی زندگیوں میں ایک تبدیلی پیدا ہوگئی ہے.اقرب میں ہے أَصْلَحَهُ بِمَا يَنْبَغِى اَنْ يُصْلِحَ بِہ“.یہ بھی استغفار کے معنوں کے اندر ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے یا انسان کو ایسے ذرائع میسر آجائیں کہ جو اصلاح احوال کا سامان پیدا کر دیں پھر چونکہ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ابدی زندگی عطا کی گئی ہے اور یہ ابدی زندگی دورنگوں میں ہمارے سامنے آتی ہے ایک تو آپ کا افاضہ روحانی قیامت تک جاری ہے اور دوسرے آپ سے اِنَّا اَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَر میں اور بعض دوسری جگہ بھی یہ وعدہ ہے کہ قیامت تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور بندے پیدا ہوتے رہیں گے جو آپ کے دین کی مدد کرنے والے ہوں گے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہوں گے اور قرآن کریم کے ظاہر و باطن کی حفاظت کی فرشتوں کی طرح وہ بھی توفیق پائیں گے.پس فرمایا کہ ایک تو کوشش کرو کہ جماعت مومنین کی اصلاح ہو جائے دوسرے ان کے لئے بڑی دعائیں کرو کہ وہ اپنی غلطیوں کے بد نتائج اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہیں اور ا اپنی زبان سے بھی تو بہ کرنے والے ہوں اور ان کے اعمال بھی دُھلے ہوئے صاف شفاف کپڑے کی طرح ہو جا ئیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی کرنیں ان کے وجود میں سے باہر آ رہی ہوں یہ کرنے کے بعد شَاوِرُهُم في الأمر (ال عمران : ۱۶۰) پھر یہ جماعت اس بات کی مستحق ہوگی کہ ان سے مشورہ کیا جائے.آج جب میرے ذہن کو اس طرف متوجہ کیا گیا کہ میں اس آیت پر خطبہ دوں تو میں نے پھر ا قرب اور لغت کی بعض دوسری کتابیں دیکھیں چنانچہ ایک بڑی اور حسین چیز میرے سامنے آئی اور وہ یہ کہ مشاورت جو ہے اس کا روٹ یعنی اس کا مخرج شَارَ الْعَسْلَ ہے یعنی شہد نکالنا.اور
خطبات ناصر جلد سوم ۸۰ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء اس شَارَ الْعَسْلَ کے معنے ہوتے ہیں اسْتَخْرَجَهُ وَاجْتَنَاهُ جس طرح لکھی کا جو کام ہے نا پھول سے اپنی مرضی کے مطابق وہ چیز حاصل کرنا جس سے لکھی نے شہد بنانا ہے یعنی Nectar (نیکٹر ) جو پھول سے لیتی ہے.شہد کی مکھی کے بارے میں اب جونئی تحقیق ہوئی ہے اس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک پھول کا انتخاب کرتی ہے اور پھر اسی پھول سے وہ شہد بناتی رہتی ہے یعنی پھول کا ایک حصہ لیتی ہے اور اپنے جسم کا ایک حصہ اس میں داخل کرتی ہے اس طرح پر شہد بنتا ہے.بہت سے دوستوں کو اس کا علم نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شہد صرف پھولوں کے رس سے بنتا ہے.یہ درست نہیں ہے شہد میں قریباً پچاس فیصد پھول کے رس کا حصہ ہے اور قریباً پچاس فیصد مکھی کے اپنے غدود میں سے ایک چیز نکلتی ہے مختلف قسم کے Enzymes ( انزائمز ) اور مختلف قسم کی دوسری چیزیں وہ شہر میں ملاتی ہے یعنی وہ جو پھول کا حصہ ہے اس کے اندر ملاتی ہے تب جا کر شہد بنتا ہے.پس دونوں برابر کے حصے جارہے ہیں جہاں تک اس کے معنے کا سوال ہے لیکن جہاں تک محنت اور کوشش کا سوال ہے حقیقت یہی ہے کہ پھول نے شہد بنانے کے لئے کوشش نہیں کی کبھی پھول نے بھی جا کر اپنے شہد کوکھیوں کے چھتے تک پہنچا یا ہے شہد کی مکھی جو ہے اس کی ساری کوشش شہد بنانے کی ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق وہ اپنے اس کام میں لگی ہوتی ہے.جن لوگوں نے شہد کی مکھیوں اور ان کے چھتوں پر تحقیق کی ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ شہد کی مکھی کے چھتے کے نیچے کبھی کوئی مردہ کبھی نہیں ملے گی اور وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ کام کرتے ہوئے کبھی پھول کے قریب کبھی پھول اور اپنے چھتے کے درمیان مرکز گر جاتی ہے یعنی وہ اپنے کام کے لحاظ سے ایک قسم کی شہید ہی ہے کام کے اندر اس کی جان نکلتی ہے وہ آخری سانس تک کام کرتی رہتی ہے.مکھی پھول کے اندر سے اپنی مرضی سے انتخاب کر کے وہ حصہ جسے انگریزی میں Nectar (نیکٹر ) کہتے ہیں تھوڑا سا پتلا مایہ ہوتا ہے جو شہد کی طرح کا قوام نہیں رکھتا بلکہ شہد کی نسبت پھول میں اس چیز کی حالت پانی کے زیادہ قریب ہے لیکن مکھی پھر اسے وہاں سے لے کر آتی ہے پھر اس کو اپنی زبان پر رکھ کر خشک کرتی ہے اور ہزاروں لاکھوں دفعہ زبان باہر نکال کر اندرمنہ میں
خطبات ناصر جلد سوم ΔΙ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء لے جاتی ہے اور اس حرکت سے وہ اسے قوام کی شکل دیتی ہے پھر اپنے Enzymes (انزائمز ) بیچ میں ملاتی ہے تب جا کر وہ شہد بنتا ہے تب ہمیں وہ شہر ملتا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر کر کے شہد کے چھوٹے سے حصہ کو چاہتے ہیں پورے احساس کے ساتھ کہ اگر یہ کام شہد کی مکھی کی بجائے انسان کے سپرد ہوتا تو شاید لاکھ دولاکھ روپے کا ایک سیر شہد ملا کرتا اور یہ بات ایک عام انسان کی طاقت سے باہر ہوتی ہاں شیطان انسان جو ہے اس کی طاقت کے اندر ہوتی.پس اصل مشاورت کا مخرج شَارَ الْعَسُل کا جو عربی میں محاورہ ہے اس میں شوریٰ کا جو لفظ ہے وہ ہے اور اس سے پھر آگے مشاورت نکالی اور مشورہ اور شوریٰ کا مضمون اس مثال سے بہت واضح ہو جاتا ہے یعنی جو مضمون یہاں بیان ہوا اگر یہ مضمون سامنے نہ ہو تو بہت سے پہلومخفی رہ جائیں.اس میں ایک تو یہ آ گیا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کن پھولوں کا شہد یا کن انسانوں کی آراء طلب کرنی ہیں یہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے نائبین کا کام ہے پھول کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ مکھی کو یہ کہے کہ تم گلاب کے پھول پر کیوں جا رہی ہو جب کہ تم سے زیادہ قریب شیشم کا پھول موجود ہے یہ پھول کا کام ہی نہیں اور نہ اس کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے یہ مشاورت کرنے والے مشورہ لینے والے کا کام ہے کہ وہ کن لوگوں سے مشورہ لے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مختلف شکلیں ہمیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتی ہیں.آپ کے بعض ایسے مشیر بھی تھے کہ مجھے یہ شبہ ہے میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ شاید تاریخ نے بھی ان سب کے نام محفوظ نہیں رکھے کیونکہ آپ ان کو خفیہ طور پر بلا لیتے تھے اور جس معاملے کے متعلق مشورہ لینا ہوتا آپ ان سے مشورہ لے لیا کرتے تھے بعض کے نام آئے ہیں اس سے ہمیں پتہ لگ گیا کہ اس طرح بھی آپ مشورہ لیتے تھے اور بعض دفعہ آپ سب کو جمع کر لیتے تھے بعض دفعہ نمائندے آجاتے تھے اور آپ کی یہ سنت تھی اور خلفائے راشدین کی بھی یہ سنت تھی اس وقت بھی یہ سنت تھی جس زمانے میں بھی یہ رہی ہے کہ نمائندگی کے طور پر ساری جماعت تو یہاں اکٹھی نہیں ہوسکتی.زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ مشورہ کے لئے ربوہ کے مکینوں کو اکٹھا کر لیا جائے چونکہ جماعت
خطبات ناصر جلد سوم ۸۲ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء پھیل گئی اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ایک آواز جو ایک منہ سے نکلا کرتی تھی اب وہی آواز لاکھوں کروڑوں کے منہ سے نکل رہی ہے سارے اکٹھے ہو کر کس طرح رائے دے سکتے ہیں یا ان سے رائے لی جاسکتی ہے نمائندگی کا اصول ہمیں چلانا پڑے گا مگر جب ضرورت ہو تو دوسری طرح بھی مشورہ ہو جائے گا.پس شاورھم میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح شہد کی مکھی پھول سے شہد کا استخراج اور ا جتنا کرتی ہے اسی طرح تم مومنین کی جماعت کی آراء کا استخراج کرو کیونکہ شاور کے معنے استخراج الرائے اور شَارَ الْعَسْلَ کے معنے اِسْتِخْرَاجُ الْعَسُل یعنی شہد کا نکالنا مثال بالکل واضح ہوگئی ہے ایک فرمایا کہ جس طرح اور جن سے چاہو آراء لو.وہ جو دوسرا حصہ تھا کہ اپنی بیچ میں ملا کر اپنے جسم کی اپنی روح کی اور اپنے ذہن کی جب تک (اگر انسانی مثال ہو ) ساتھ نہ ملائی جائے شہر نہیں بنتا وہ مشورہ درست نہیں رہتا اس واسطے فَإِذَا عَزَمْتَ.وہ عزم جو ہے وہ کھی والے Enzymes (انزائمز ) کی آمیزش ہے کہ جب آراء لے لیں وہ سامنے آگئیں پھر اپنے عزم اس کے اندر ملاؤ اور پھر وہ فیصلہ بنے گا ورنہ جب تک رسول یا نائب رسول کی اپنی رائے اپنا عزم اپنا فیصلہ اپنے Enzymes ( انزائمز ) ( اس مثال کے لحاظ سے جو پھول سے حاصل کیا گیا اور مومنین کی جماعت سے یا ان کے نمائندوں سے آراء کی شکل میں حاصل کیا گیا ) اس کے اندر شامل نہ ہوں.اس وقت تک نہ شہد بنے گا اور نہ وہ جو آراء دیں وہ پختہ بنیں گی اور مفید ہوں گی اور نہ ایسی بنیں گی کہ جن کے اندر شفاء ہو اور شفاء میں بھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کو برابر کر دیا.شہد کے اندر بھی کہ دیا کہ اس کے اندر شفاء ہے اور جس رنگ میں احکام الہی کا اجراء کرنا ہے اس کے متعلق یہ کہا کہ اس کے اندر شفاء ہے.پس تیسری چیز یہ بتائی کہ شاوِرُهُم خالی آراء کافی نہیں بلکہ خود دعا کر کے اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کر کے اور اپنی خدا داد فراست کو استعمال کر کے ( یہ کتنی قسم کی Enzymes (انزائمز ) ہیں اگر ان کو بطور مثال Enzymes ہی کہا جائے ) وہ ان آراء میں شامل کر و تب جا کر وہ چیز ایسا قوام اختیار کرے گی کہ بنی نوع انسان کے لئے وہ شفاء بن جائے گی تد بیرا اپنی
خطبات ناصر جلد سوم ۸۳ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء انتہاء کو پہنچ گئی.یہاں تو فرمایا کہ تدبیر کرو جو اہم امور ہیں اُمت مسلمہ کے استحکام کے لئے اور حمکین دین کے لئے اور اصلاح انسانیت کے لئے اور تبلیغ واشاعت کے لئے بڑے امور ہیں تم پہلے تو ایک ایسی قوم تیار کرو کہ جو Nectar (نیکٹر ) پیدا کر سکے یعنی بعض دفعہ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے ہر پھول میں Nectar (نیکٹر ) یعنی وہ چیز پیدا کی ہے جو شہد کا ایک حصہ بن جاتی ہے لیکن بعض دفعہ ایسا حادثہ ہوتا ہے کہ پھول نظر آتا ہے لیکن وہ حصہ غائب ہوتا ہے کوئی بیماری ایسی بھی آجاتی ہے پس اگر چہ وہ پھول ہے اور عام پھول میں Nectar (نیکٹر ) بھی ہے جو شہد کا جزو بھی ہے لیکن اس حادثہ کی وجہ سے شہد نہیں بن سکتا اس لئے فرمایا کہ امت مسلمہ کو یا جماعت مومنین کو ایسا بناؤ کہ وہ صاحب الرائے ہوں اور ایسے ہوں کہ جن سے شہد کا ایک جز وNectar (نیکٹر ) جو ہے یا رائے کی اصابت جو ہے وہ ان سے حاصل کی جاسکے اور ان کا نفس بیچ میں نہ آئے.اب جو پھول ہے اس کا نفس بیچ میں نہیں آتا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ بیچارے پھول نے اپنا نچوڑ شہد کی مکھی کے حضور پیش کر دیا اور آپ وہاں کھڑا ہے تو اس کا نفس تو بیچ میں نہیں آیا اس نے تو اپنے نفس کی بہترین چیز تھی اس کو اس کے حضور پیش کر دیا جس کی طرف اللہ تعالیٰ کی وحی تھی یعنی شہد کی مکھی کہ تم نے شفا کے سامان پیدا کرنے ہیں ایک ایسی جماعت بنے جو تقویٰ اور طہارت کی بنیادوں پر اپنی زندگیوں کو گزارنے والی ہو اللہ تعالیٰ سے جن کا تعلق پیدا ہو جن کا دعاؤں پر زور ہو جو واقعہ میں اُمت مسلمہ ہو یعنی ان کا اپنا کچھ بھی باقی نہ رہے اپنا سب کچھ اپنا وجود بھی اپنا ذہن بھی اپنی فکر بھی اپنی ساری قوتیں اور طاقتیں اور زندگی اور موت سب خدا کے حضور پیش کر دیں.یہی اسلام ہے اس کے بغیر تو کوئی اسلام نہیں ہے.غرض فرما یا عفو اور استغفار کے ذریعہ ایک ایسی جماعت بناؤ جو صاحب الرائے ہو مغلوب الغضب نہ ہو دھیمی ہو فدائی ہو مشورہ دیتے وقت یہ نہ سوچے کہ پھر اس کے بعد ہم پر کتنی ذمہ داریاں عاید ہو جائیں گی مشورہ دیتے وقت صرف یہ سوچے کہ آج اسلام کی زندگی کی بقاء اور احیاء اور اشاعت اور اس کے استحکام کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ ہمیں پیش کر دینی چاہئیں خواہ ہم بھو کے رہیں یا ہمارے بچے بھوکے رہیں یا ان کو کھانے کے لئے کچھ ملے.خواہ ہم
خطبات ناصر جلد سوم ۸۴ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء زندہ رہیں یا ہمیں اپنی جانوں کی قربانی دینی پڑے ہمیں اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دینا ہے.یہ جماعت جب پیدا ہو جائے پھر ان کا یہ حق بن جاتا ہے کہ وہ صاحب الرائے ہیں کیونکہ ان سے مشورہ لیا جاتا ہے شہد کا ایک جزو تیار ہو گیا.دوسرا جز و عزم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور عزم انہوں نے نہیں کرنا.انہوں نے تو جو کچھ تھا پیش کر دیا تھا جس طرح چاہیں آپ اس کو استعمال کر سکتے ہیں.پھول زبانِ حال سے مکھی کو یہی کہتا ہے کہ میرا نچوڑ تیرے حضور پیش، تو اب جس طرح چاہے اس کو استعمال کر لے اور جس طرح چاہے وہ استعمال بھی کرتی ہے کیونکہ اس میں اپنے Enzymes (انزائمز ) ملاتی ہے اس کو خشک کرتی ہے قوام بناتی ہے اپنے Enzymes ( انزائمز ) ملاتی ہے اور پھر وہ فیصلہ کرتی ہے (اس میں انسان کا بھی تھوڑا سا دخل ہے ) لیکن اصل اسی کا فیصلہ ہے کہ میں نے کچھ انسان کو دینا ہے اور بیچ میں سے بہت کچھ خود کھا لینا ہے اور اس طرح انسان کے ہاتھ میں شفاء کی ایک چیز آ جاتی ہے چنانچہ پھر یہ کہنا کہ صرف آراء کے اوپر نہیں چھوڑ نی بات.اگر صرف رائے پر چھوڑنی ہو بات تو کثرتِ رائے کی پابندی ضروری ہو جائے مگر ابھی تو شہر ہی نہیں بنا ابھی تو اس میں شفاء ہی نہیں پیدا ہوئی کثرتِ رائے پر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ پھر کہا کہ عزم اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ ہر قسم کی Enzymes ( انزائمز ) مثال کے طور پر اس Nectar (نیکٹر ) میں، اُس پھول کے جزو میں تم شامل کرو اور پھر عزم جو ہے اس کے اندر دعا کا حصہ بھی آجاتا ہے کیونکہ عزم کے دو معنے ہیں ایک تو یہ عزم کرنا کہ یہ کام ہم نے ضرور کرنا ہے یہ بھی لغوی طور پر عزم 66 کے معنے میں ہے کہ پھر اس کام کی سرانجام دہی کے لئے انتہائی کوشش کرنا.اور جَدَّ فِي الْأَمْرِ “ جو عربی میں اس کو کہا گیا ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ تدبیر دعا ہے اور دعا تدبیر ہے تو دعا کا پہلو بھی اس کے اندر آ جاتا ہے.پس کہا کہ تم اپنا عزم اس رائے کے بیچ میں شامل کرو اور انتہائی دعاؤں کے ساتھ ایک ایسی چیز ایک ایسا شہر بناؤ ایک ایسا فیصلہ کرو جو اسلام کے استحکام کے لئے ضروری ہے اور جو کمز ور ایمان والوں کے لئے شفا ہے اور جو Prophylactic ( پرافیلیکٹک ) کے طور پر بیماریوں سے محفوظ رکھنے والا ہے.تربیت ، علاج اور اصلاح دونوں چیزیں اس کے اندر آ جاتی ہیں.پس تربیت تو Prophylactic ( پرافیلیکٹک )
خطبات ناصر جلد سوم ۸۵ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء یعنی بیماریوں سے بچانے کا کام ہے اور یہ ساری چیزیں اس کے اندر آ جاتی ہیں.غرض فرما یا کہ جماعت تیار کرو اور پھر ان سے مشورہ لو اور یہ آگے جو مشورہ کا ہے اس کی مثال دے دی کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے شہد کی مکھی شہد بنا رہی ہو.آراء لو پھر اپنے عزم کو اپنی ہمت کو اپنی کوشش کو اپنی دعاؤں کو اس کے اندر شامل کر و اس مقام پر انسانی تد بیرا اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی لوگ اکٹھے ہوئے انہوں نے مشورہ دیا رسول یا نائب رسول نے اپنے عزم کی Enzymes (انزائمز ) اس میں شامل کیں دعائیں بیچ میں شامل کیں اور تد بیر کو انتہا ء تک پہنچا دیا اور جس وقت تدبیر انتہاء کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ تدبیر پر بھروسہ نہیں کرنا.یہ صیح ہے کہ ہماری ہدایت کے مطابق تم نے اپنی تد بیر کو اس کی انتہاء تک پہنچاد یا لیکن یہ بھی درست ہے کہ محض تدبیر پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جتنی بے وفائیاں دنیا کی تدابیر نے انسان سے کی ہیں ان کا کوئی شمار نہیں تدبیر پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ ہم نے حکم دیا تھا تد بیر کو انتہاء تک پہنچاؤ تم نے تدبیر کو انتہاء تک پہنچا دیا اب ہم تمہیں کہتے ہیں کہ اپنی تد بیر کو انتہاء تک پہنچانے کے بعد بھی تم نے تدبیر پر بھروسہ نہیں کرنا فتوكل على الله اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے.پھر ایک اور دعا بھروسہ کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ پر توکل جو ہے اس کے ساتھ دوسری دعا جو ہے وہ شروع ہو جاتی ہے اور جو آراء لی تھیں اور کثرت رائے کے حق میں یا خلاف جو بھی شکل شہد کی بنی وہ بن گئی.پس یہاں محض یہ نہیں کہا کہ اے رسول ! تمہارا عزم شامل ہو گیا.تم نے اللہ تعالیٰ کی تدبیر کو انتہاء تک پہنچا دینے کے بعد تد بیر پر بھروسہ نہیں کرنا اللہ پر توکل کرنا ہے.مومنوں کو یہ کہا کہ تم یہ نہ سمجھنا تمہاری آراء کے ساتھ نائب نبوت کا عزم اور ہمت اور کوشش اور دعا مل جانے سے تم کامیاب ہو جاؤ گے.تم بھی یہ یا درکھو اس کے باوجود تم بھی کامیاب نہیں ہو سکتے بلکہ تم کو اللہ پر بھروسہ رکھنا پڑے گا اور دوسری آیت میں فرمایا وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (ال عمران :۱۶۱) ایک حکم دیا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی وساطت سے آپ کے نائین کو اور دوسرا حکم دیا جماعت مسلمین کو وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ میں اسی طرف اشارہ ہے اور اس میں جماعت مؤمنین کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ یہ بات نہ بھولنا کہ اگر اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد سوم ۸۶ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء تمہاری مدد کو آ جائے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں نا کام نہیں کر سکتی اور اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہیں سہارا نہ دے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں کامیاب نہیں کر سکتی.اس واسطے جیسا کہ یہ حکم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا کہ تدبیر کو انتہاء تک پہنچانے کے بعد اپنے اوپر اور اپنی تدبیر پر بھروسہ نہیں کرنا بلکہ محض اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنا ہے اسی طرح جماعت مؤمنین کو کہا کہ یہ نہ سمجھنا مثلاً اس زمانے میں فدائی جانثار پوری عظمت اور جلال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست رکھنے والے اور عرفان رکھنے والے مگر شیطان ان کا دماغ اس طرح بھی بہکا سکتا تھا کہتا کہ اتنا عظیم وجود تمہارے اندر موجود ہے اس کی فراست ، اس کا عزم، اس کی ہمت ، اس کی دعا ئیں اب اس تدبیر میں شامل ہوگئی ہیں.اب تو تم کامیاب ہو جاؤ گے شیطان ان کے کان میں یہ پھونک سکتا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جماعت مؤمنین ! اگر شیطان تمہارے کان کے پاس منہ لا کر یہ کہے کہ جو تم نے کرنا تھا کر لیا اب تم کامیاب ہو جاؤ گے تو اس کی آواز پر کان نہ دھرنا بلکہ یہ اصولی حقیقت یا درکھنا کہ جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے نائبین کو تد بیر کے انتہاء تک پہنچا دینے کے بعد بھی تو گل کا حکم ہے اسی طرح تمہیں بھی تو گل کا حکم ہے اور تمہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر تم نے اپنی تدبیر پر بھروسہ کیا تو ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمہیں مدد نہ دے اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر تم کامیاب اور کامران نہیں ہو سکتے اور اگر تم نے تدبیر کو انتہاء تک پہنچانے کے بعد رسول کے قدم بقدم تو کل کے میدان میں چلتے ہوئے محض اللہ تعالیٰ محض اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور اپنی کوشش اور تدبیر اور فر است اور سمجھ اور بوجھ کو کوئی حقیقت نہ سمجھا اور کوئی اہمیت نہ دی تو پھر اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہیں ملے گی اور جب اللہ تعالیٰ کی نصرت کسی شخص یا کسی قوم یا کسی جماعت یا کسی نسل کومل جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کی کامیابی کے راستے میں روک نہیں بن سکتی یہ ہدایت اور تعلیم ہے جو مشورہ کے متعلق ہمیں دی گئی ہے.آج شوریٰ کے اجلاس شروع ہو رہے ہیں کم و بیش تین دن تک شوری رہتی ہے.آپ اس ہدایت کے مطابق پوری توجہ اور انہماک سے اور اونگھنے کے بغیر اپنی ذمہ واری کو نبھا ئیں یعنی جب آپ سے مشورہ مانگا جائے تو بے نفس مشورہ دیں جس طرح پھول اپنے جز و شہد کو مکھی کے
خطبات ناصر جلد سوم ۸۷ خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۷۰ء سامنے پیش کر دیتا ہے.پھول کا اپنا نفس اس میں شامل نہیں ہوتا وہ تو کہتا ہے جو میرا نچوڑ تھا وہ لے جاؤ میں یہاں بغیر اپنی زندگی اور روح اور Essence(ایسنس ) کے ہوں.پس اس یقین کے ساتھ ، اس پاک فطرت کے ساتھ اور اس فیصلے کے ساتھ کہ ہم نے اپنی ذات یا اپنے محلے کے متعلق نہیں سوچنا ہے نہ اپنے شہر اور اپنے علاقے کے متعلق سوچنا ہے بلکہ جو معاملہ سامنے آیا ہے صرف اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ہمارے نزدیک ہماری سمجھوں کے مطابق اسلام کے غلبہ کے لئے کیا رائے دینی چاہیے اور وہ رائے آپ دیں.غرض جو تفصیل میں نے بیان کی ہے اس کے مطابق اپنے ذہنوں کو بنائیں اور دعائیں کریں کیونکہ دعا بھی تدبیر کا ایک حصہ ہے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم محض اسی پر توکل کریں اور ہمارے فیصلوں میں اس کی رحمت اور اس کی برکت اور اس کا فضل شامل رہے تا اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے کہ تمام دنیا پر اسلام غالب آ جائے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۸۹ خطبہ جمعہ ۱/۳ پریل ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے مغربی افریقہ کے دورہ پر جارہا ہوں خطبه جمعه فرموده ۱/۳ پریل ۱۹۷۰ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے میں انشاء اللہ تعالیٰ کل صبح مغربی افریقہ کے دورہ پر روانہ ہوں گا.ربوہ اور آپ دوستوں کی اس عارضی جدائی سے طبیعت میں اداسی بھی ہے اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر خوشی بھی ہے کہ وہ محض اپنی رحمت سے یہ توفیق عطا کر رہا ہے کہ ان اقوام کے پاس جا کر جوصدیوں سے مظلوم رہی ہیں اور جو صدیوں سے حضرت نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند مہدی معہود کی انتظار میں رہی ہیں اور جن میں سے استثنائی افراد کے علاوہ کسی کو بھی حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی زیارت نصیب نہیں ہوئی پھر ان کے دلوں میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ آپ کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ان تک پہنچے اور اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ان کو ہدایت کی طرف اور ان کو رشد کی طرف اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف بلائے اور وہ خَلِيفَةً مِنْ خُلَفَائِه کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں اور ان کی طبیعتیں ایک حد تک سیری محسوس کریں.چنانچہ صدیوں کے انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں یہ موقعہ نصیب ہو گا دعا ہے کہ یہاں میری موجودگی میں بھی آپ ہمیشہ ثبات قدم پر
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۱/۳ پریل ۱۹۷۰ء مضبوطی سے قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کے دامن کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور میری غیر حاضری میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کے لئے صدق وثبات اور وفا کے سامان اور صدق وثبات اور وفا اور محبت کی فضا پیدا کرتا رہے اور ہمارا ان ممالک کی طرف جانا ان کے ثبات قدم کا موجب بنے اور جذبہ وفا میں شدت کا موجب ثابت ہو اور وہ قومیں محبت الہی میں اور بھی آگے بڑھیں اور وہ جو ابھی تک اندھیروں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں انہیں بھی روشنی کی وہ کرن نظر آ جائے جو اسلام کی شاہراہ کو منور کر رہی ہے اور بنی نوع انسان کو اس طرف بلا رہی ہے ظلم کے پھندوں سے وہ آزاد ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں وہ گرفتار ہو جا ئیں.اللہ تعالیٰ شیطانی ظلمات سے انہیں نجات دے اور وہ جو نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ہے اس کے نور سے ان کے دل وسینہ منور ہو جا ئیں اور خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ ہمارا جو قدم ہر روز اپنی فتح اور اپنے مقصود کے حصول میں ہماری جو جد و جہد ہے اس کے کامیاب اختتام اور غلبہ اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے وہ قدم اور بھی تیزی کے ساتھ اپنے مقصود اور مطلوب کی طرف اللہ تعالیٰ کے سہارے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل بڑھنے لگے اور ان ممالک میں بھی (ساری دنیا میں ہی ) آخری فتح اور غلبہ کے دن جلد آجائیں تا کہ بنی نوع انسان اس بھیا نک عذاب سے محفوظ ہو جائیں جس کی طرف وہ خودا پنی جہالت کے نتیجہ میں بڑھ رہے ہیں میری غیر حاضری میں بھی آپ محبت اور پیار سے رہیں.میری موجودگی میں بہت سے غریبوں اور مسکینوں کو یہ سہارا ہوتا ہے کہ اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچی تو وہ فوراً میرے پاس پہنچیں گے اور ان کے دکھ کا مداوا ہو جائے گا بعض نادان اپنی نادانیوں سے رعب خلافت کے قرب کی وجہ سے بچے رہتے ہیں اور جب خلافت کا قرب عارضی طور پر اس طرح نہ رہے اور ان کی اپنی جہالت کی وجہ سے وہ احساس کند ہو جائے جو خلافت کے رعب کا احساس ہے تو پھر شیطان ان سے جہالت کے کام بھی کروا دیتا ہے اس قسم کے نادان دماغ کو میں یہ کہوں گا کہ خلیفہ وقت کے لئے نہیں خدا اور اس کے رسول کے لئے اپنے بھائیوں سے محبت کرو اور اپنی نادانیوں کے نتائج سے اپنے نفس اور اپنے خاندان اور اپنی نسلوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے رہو ہم سب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات ناصر جلد سوم ۹۱ خطبہ جمعہ ۱/۳ پریل ۱۹۷۰ء نے تاکید اوصیت کی ہے.ہم ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی سے پیش آئیں.اپنے نفس کو جس پر بعض دفعہ شیطان سوار ہو جاتا ہے اس گھوڑے کی طرح نہ چھوڑ دیں کہ جو شیطان بھی آئے اس پر سوار ہو جائے بلکہ یہ نفس ہمیشہ (اگر اس کی گھوڑے کی مثال ہو تو یہ ایک ایسا گھوڑا رہے جس پر اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیشہ سوار ر ہے اور جس کی لگام ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے ہاتھ میں رہے ور نہ تو گر پڑنا اور ہلاک ہو جانا یقینی ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے.پس محبت اور پیار سے اپنے دن گزاریں اور صدقہ اور دعاؤں کے ساتھ میری مدد کریں جو کام میرے سپرد ہے اور جس کی آخری ذمہ داری ان کمزور کندھوں پر رکھی گئی ہے وہ صرف میرا کام نہیں بلکہ ساری جماعت کا کام ہے خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہی بڑی سخت ہے غرض خلافت کے قیام کے ساتھ جماعت کی ذمہ داریاں کم نہیں ہو جایا کرتیں بلکہ اور بھی بڑھ جاتی ہیں کیونکہ جب خلافت نہ رہی عوام کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے رب ! اگر ہمیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء میں سے کوئی ہدایت کی طرف بلانے والا ہوتا اور اگر ہمیں پیار اور غصہ کے ساتھ ان حدود کے اندر رکھنے والا کوئی ہوتا جن حدود کو تو نے قائم کیا تو نہ ہم بھٹکتے اور نہ شیطان کی یلغار ہم پر کامیاب ہوتی لیکن جب خلافت قائم ہو اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور اس کی بے شمار رحمتیں جماعت پر نازل ہورہی ہوں ، راہیں روشن ہوں اور اندھیرے بھاگ رہے ہوں اس وقت نور سے نفرت اور ظلمت سے وہی پیار کرے گا جس کا دل شیطان کے قبضہ میں ہو پھر وہ اس گروہ میں سے نہیں ہو گا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ عِبَادِی اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ شیطان ان پر غالب نہیں آسکتا، پس اللہ تعالیٰ اپنے ایک سچے اور مخلص اور حقیقی بندے کو جس شکل اور روپ میں دیکھنا چاہتا ہے وہی شکل اور روپ اور اسی نور کی جھلک دعاؤں کے ساتھ اور تدبیروں کے ساتھ مجاہدہ کے ساتھ اور قربانیوں کے ساتھ اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے اپنے رب سے طلب کریں اور پائیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.پھر میں کہتا ہوں کہ صدقہ اور دعا سے میری مدد کریں اللہ تعالیٰ جس غرض کے لئے اس سفر کے سامان پیدا کر رہا ہے وہ غرض پوری ہو.میں نے شاید پہلے بھی بتایا تھا میرا پچھلے سال جانے کا
خطبات ناصر جلد سوم ۹۲ خطبہ جمعہ ۱/۳ پریل ۱۹۷۰ء پروگرام تھا پھر بعض وجوہات کی بناء پر چھوڑنا پڑا چنا نچہ مغربی افریقہ سے ایک پرانے بوڑھے احمدی کا مجھے خط آیا کہ ساری عمر یہ حسرت رہی کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زیارت ہو جائے غالباً انہوں نے اس غرض کے لئے رقم بھی جمع کی لیکن ان کو اس کی توفیق نہ ملی پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے اور انہوں نے لکھا کہ میں آپ کی شکل نہیں دیکھ سکا آپ سے مل کر برکت نہیں حاصل کر سکا میں زندہ ہوں آپ کا وصال ہو چکا ہے اب خلافت ثالثہ کے وجود میں امید بندھی تھی کہ یہ موقعہ مل جائے گا آپ سے ملاقات ہو جائے گی لیکن میں اتنا بوڑھا ہوں کہ اب میرے دل میں یہ وسوسہ رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جو ایک سال کا التوا ہے اس میں میں اس دنیا سے چلا جاؤں اور یہ حسرت میرے دل ہی میں رہے کہ جماعت احمد یہ کے امام کی زیارت کرسکوں.پس اس قسم کی تڑپ ان بھائیوں کے دل میں ہے اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ محبت سے اور فراست اور پیار سے اور ان کی ضرورتوں کے سمجھنے اور ان کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کرنے سے ان کی پیاس کو بجھا سکوں اور خدا تعالیٰ ان کے لئے سیری کے سامان پیدا کر دے.تا کہ وہ بشاشت کے ساتھ ہمارے کندھے سے کندھا ملا ئیں.اسلام کی فتح کے دن کی طرف ہر قسم کی قربانیاں کرتے ہوئے بڑھتے چلے جائیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر کچھ ہو نہیں سکتا ہم اسی کے در کے بھکاری ہیں اور ہم اسی کے حضور جھکتے ہیں اسی پر ہمارا تو گل ہے دنیا کا کوئی سہارا نہ ہمارے پاس ہے نہ دنیا کے کسی سہارے کی ہمیں خواہش ہے اگر وہی ایک ہمارا پیارا سہارا بن جائے تو ہمیں سب کچھ مل گیا سارے سہارے ہم نے پالئے پس اسی کے سہارے اور اسی پر توکل کرتے ہوئے اس یقین کے ساتھ میں اس سفر پر جارہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کرے گا کہ اسلام کے غلبہ کے دن جلد سے جلد آجائیں اور عاجزانہ طور پر جن صحیح اور سچی اور سیدھی راہوں کا میں متلاشی ہوں اللہ تعالیٰ ان راہوں کو میرے لئے بھی اور خدا کرے آپ کے لئے بھی منور کر دے اور کامیابی عطا کرے اور خیریت کے ساتھ آپ یہاں رہیں اور خیریت کے ساتھ ہم وہاں سے واپس آئیں اور ان لوگوں کے پیار اور ان کے اخلاص سے اپنے
خطبات ناصر جلد سوم ۹۳ خطبہ جمعہ ۱/۳ پریل ۱۹۷۰ء خزانے بھر کر واپس لوٹیں اور وہ واقعات آپ کے ایمان میں زیادتی کا باعث بنیں جس طرح کہ یہاں کی قربانیاں ان کے ازدیاد ایمان کا باعث بنتی ہیں.تعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة : ٣) کا ایک مفہوم ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اپنی زندگی اس طرح بناؤ کہ دوسرا اس سے سہارا لینے لگے اگر عملی زندگی میں اس قسم کا تعاون ہو اور ہر ایک دوسرے بھائی کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ نظر آئے تو اس سے بشاشت بھی پیدا ہوتی ہے اور اس سے قربانی اور ایثار کی امنگ اور خواہش بھی پیدا ہوتی ہے اور انسان اُن دنیوی تکالیف کو اور اُن دنیوی مخالفتوں کو کوئی چیز نہیں سمجھتا ایک موج ہوتی ہے جو ٹھاٹھیں مارتی ہوئی آگے ہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کے سایہ میں رکھتا اور آخری غلبہ کے دن تک اس نسل کو جس کے لئے وہ مقدر ہو پہنچا دیتا ہے ہر نسل کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے وہ نسل وہی ہو ہمارے دل میں بھی یہ خواہش ہے اور ہم بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اگلی نسل کیوں؟ یا اس کے بعد کی نسل کیوں؟ تو اپنے فضل سے ہماری زندگیوں میں اسی نسل کو وہ دن دکھا دے جو اسلام کے لئے عید کا دن ہوگا اور جس کا تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا ہے.مین (روز نامه الفضل ربوه ۹ را پریل ۱۹۷۰ ، صفحه ۳، ۴) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۹۵ خطبہ جمعہ ۱۷ /اپریل ۱۹۷۰ء احمدیت انسانوں کی بنائی ہوئی تنظیم نہیں ہے اس کی بنیاد خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ را پریل ۱۹۷۰ ء بمقام مسلم ٹیچرز ٹریننگ کالج لیگوس.نائیجیریا ( نوٹ :.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ خطبہ انگریزی زبان میں ارشاد فرمایا تھا جس کا اردو ترجمہ افادہ احباب کے لئے درج ذیل ہے.) انسانوں کی خود اپنے ہی ہاتھوں قائم کی ہوئی تنظیم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اراکین نے آپس میں یہ عہد کیا ہے کہ وہ مل جل کر کام کریں گے اور ایک مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرتے رہیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے اس کی حیثیت ایک کلب کی سی نہیں ہوتی یہ ایک جماعت ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ خود اپنے ہاتھ سے قائم کرتا ہے اور جس پر اس کی برکتیں نازل ہوتی ہیں.در حقیقت ان دونوں میں فرق کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جب لوگ باہم مل کر کوئی تنظیم قائم کرتے ہیں تو وہ اس بات کے بھی مجاز ہوتے ہیں کہ اس تنظیم کو توڑ ڈالیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی جماعت کو قائم کرتا ہے تو دنیا میں کوئی فرد یا کوئی ادارہ نہ اس بات کا حق رکھتا ہے اور نہ ہی اسے یہ قدرت حاصل ہوتی ہے کہ اس جماعت کو تو ڑ دے.انسانوں کی قائم کردہ تنظیمیں ایک سے زیادہ حصوں میں بٹ سکتی ہیں اور اکثر بٹ بھی جاتی ہے اور ان میں سے ہر ایک حصہ کو اتنے ہی
خطبات ناصر جلد سوم ۹۶ خطبہ جمعہ ۱۷ را پریل ۱۹۷۰ء حقوق اور مراعات حاصل ہوتی ہیں جتنی کہ اپنی اپنی جگہ دوسرے حصوں کو، اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت بھی متعدد حصوں میں تقسیم ہوسکتی ہے لیکن ان میں سے جماعت کا صرف ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی برکات کا مورد رہ سکتا ہے باقی سب ان فیوض سے محروم کر دیئے جاتے ہیں انسانوں کی قائم کردہ تنظیم زیادہ سے زیادہ اپنے اراکین کی دنیوی اور مادی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے یہ تنظیم سکول قائم کر سکتی ہے ہسپتال جاری کر سکتی ہے لائبریریاں اور دیگر ایسے ہی ادارے قائم کرسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت اپنے اراکین کے لئے اس سے بہت کچھ زیادہ کرنے کی اہل ہوتی ہے اور یقیناً ان کے لئے وہ مادی ضروریات سے بہت کچھ بڑھ کر دکھاتی ہے درحقیقت الہی جماعت کے قیام کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اراکین کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے میں مدد دے اور یہ ایسی بات ہے جسے انسانوں کی بنائی ہوئی تنظیم کسی صورت میں بھی سر انجام نہیں دے سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی برکات یا ان کا وعدہ اس تنظیم کے شامل حال نہیں ہوتا برخلاف اس کے الہی جماعت تو شروع ہی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اور کامیابیوں کے ہزاروں وعدوں کے ساتھ ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس فرق کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.دو بعض کہتے ہیں کہ انجمنیں قائم کرنا اور مدارس کھولنا ہی تائید دین کے لئے کافی ہے مگر وہ نہیں سمجھتے کہ دین کس چیز کا نام ہے اور اس ہماری انتہائی ہستی کی انتہائی اغراض کیا ہیں اور کیونکر اور کن راہوں سے وہ اغراض حاصل ہو سکتے ہیں.سو انہیں جاننا چاہیے کہ انتہائی غرض اس زندگی کی خدا تعالیٰ سے سچا اور یقینی پیوند حاصل کرنا ہے جو تعلقات نفسانیہ سے چھوڑا کر نجات کے سرچشمہ تک پہنچاتا ہے.سو اس یقین کامل کی راہیں بناوٹوں اور تدبیروں سے ہرگز نہیں کھل سکتیں.........جو آسمان سے اترا وہی آسمان کی طرف لے جاتا ہے.سواے وےلوگو! جو ظلمت کے گڑھے میں دبے ہوئے اور شکوک وشبہات کے پنجہ میں اسیر اور نفسانی جذبات کے غلام ہو.....اپنی سچی رفاہیت اور اپنی حقیقی بہبودی اور اپنی آخری کامیابی اپنی تدبیروں میں نہ سمجھو جو حال کی انجمنوں اور مدارس کے ذریعہ سے کی جاتی ہے اور یہ اشغال بنیادی طور پر
خطبات ناصر جلد سوم ۹۷ خطبہ جمعہ ۱۷ را پریل ۱۹۷۰ء فائدہ بخش تو ہیں اور ترقیات کا پہلا زینہ متصور ہوتے ہیں مگر اصل مدعا سے بہت دور ہیں......امیدوں کا تمام مداوا اور انحصار ان رسمی علوم کی تحصیل پر ہر گز نہیں ہوسکتا اور اس آسمانی نور کے اترنے کی ضرورت ہے جو شکوک وشبہات کی آلائشوں کو دور کرتا اور ہوا و ہوس کی آگ کو بجھا تا اور خدا تعالیٰ کی سچی محبت اور سچے عشق اور سچی اطاعت کی طرف ہے.اگر چہ تم اپنی دنیوی فکروں اور سوچوں میں بڑے زور سے اپنی دانش مندی اور متانت رائے کے مدعی ہو.مگر تمہاری لیاقت تمہاری نکتہ رسی تمہاری دوراندیشی صرف دنیا کے کناروں تک ختم ہو جاتی ہے اور تم اپنی اس عقل کے ذریعہ سے اس دوسرے عالم کا ایک ذرہ سا گوشہ بھی نہیں دیکھ سکتے جس کی سکونت ابدی کے لئے تمہاری روحیں پیدا کی گئی ہیں.66 سو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسان آسمانی روشنی یعنی الہی نور کے بغیر نا بینا اور اندھا ہے اللہ تعالیٰ نے جو رحمن اور رحیم ہے انسان کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ انسانی خیالات کے جنگلوں میں بھٹکتا پھرے اس نے تمام زمانوں میں انبیاء کو مبعوث فرمایا تا کہ وہ حقیقی اور اصل مقصد کی طرف انسانوں کی راہنمائی کریں اس سلسلہ میں آخری راہنما حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے نوع انسان کی راہنمائی کے لئے جو احکام آپ کو عطا کئے گئے وہ قرآن مجید میں درج ہیں اور ان کا بہترین عملی نمونہ یا اُسوہ حسنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی حیات طیبہ ہے حضور کے بعد خلفاء راشدین کا دور آیا جو کہ آپ کے سچے جانشین تھے اور جن کے وجودوں میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ روشنی پوری طرح منعکس تھی.خلافت راشدہ کے دور ختم ہو جانے کے بعد مجدد دین انسانوں کی اس وقت تک راہنمائی کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت میرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود اور مہدی معہود بن کر دنیا میں تشریف لے آئے آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز اور آپ کے عظیم روحانی فرزند تھے اور آپ کی بعثت ان متعدد پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی جو قرآن مجید اور اس سے پہلی کتب مقدسہ میں درج ہیں اور جن کا احادیث نبوی میں بھی ذکر ہے آپ کی بعثت سے
خطبات ناصر جلد سوم ۹۸ خطبہ جمعہ ۱۷ را پریل ۱۹۷۰ء شکوک وشبہات اور بے یقینی کے سیاہ بادل چھٹ گئے اور انسان ایک دفعہ پھر اپنے خالق کے قریب آ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ذریعہ انسان نے نئی زندگی حاصل کر لی اور اس کی زندگی با مقصد ہوگئی اور اس نے جان لیا کہ اس کی زندگی کا حقیقی مقصد کیا ہے اور اسے کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال سے اس روشنی نے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی تھی چمکنا بند نہیں کر دیا حضور کا تو وصال ہو گیا لیکن وہ روشنی اپنی جگہ پر قائم ہے اور روحوں کو با قاعدہ اور مسلسل منور کر رہی ہے اور مردوں اور عورتوں کی ان کی حقیقی منزل کی طرف راہنمائی کررہی ہے.اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو روشنی اور بصارت کے بغیر نہیں چھوڑ دیا روشنی چمک رہی ہے اور اس کی شعاعیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء کے ذریعہ اکناف عالم میں پہنچ رہی ہیں ان خلفاء کو چھوڑ کر نہ کہیں روشنی ہے نہ حقیقی راہنمائی.درحقیقت خلیفہ کسی دنیاوی انجمن کا سر براہ نہیں ہوتا اس کا انتخاب خدا خود کرتا ہے اور وہ خدا کے ہاتھ میں ایک آلہ کی طرح ہوتا ہے اس کے ذریعہ آسمانی مقصد اور آسمانی سکیم کی دنیا میں نمائندگی ہوتی ہے یا درکھو احمدیت کوئی انسانوں کی از خود بنائی ہوئی کلب نہیں ہے یہ ایک جماعت ہے اور جماعت بھی ایسی جس کی اللہ تعالیٰ نے خود بنیا د رکھی ہے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کی راہنمائی کرتا رہے گا اور اللہ تعالیٰ ہی حقیقتا تمام روشنی کا منبع ہے.اس جماعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی عظمت اور شان کو دوبارہ قائم کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے یہی جماعت انسانیت کی امیدوں کا مرجع اور اس کے درخشندہ مستقبل کی ضامن خلافت قدرت ثانیہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کی دوسری تجلی اگر چہ خلیفہ المہدی المعہو دتو نہیں ہوتا لیکن وہ المہدی المعمود کا جانشین ضرور ہوتا ہے اس کا آنا اس وقت ہوتا ہے جب اسیح الموعود والمہدی المعہو د کا وصال ہو جائے یہ بات تو واضح ہے کہ مہدی علیہ السلام جسمانی طور پر ہمیشہ تو اس دنیا میں نہیں رہ سکتے تھے لیکن خلافت رہ سکتی ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گی در حقیقت خلافت اسلام کی ان برکات کے تسلسل کا نام ہے جو مہدی موعود دوبارہ دنیا میں لائے تھے.
خطبات ناصر جلد سوم ٩٩ خطبہ جمعہ ۱۷ را پریل ۱۹۷۰ء اب اللہ کی مشیت نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ جانشینی کی بھاری ذمہ داریاں میرے کمزور کندھوں پر ڈالی جائیں جن لوگوں نے میری اطاعت کا عہد کیا ہے اور اسلام کی خدمت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے جلال اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کے اظہار کے لئے کوشاں ہیں انہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کامیابی اور خدمت کرنے کی توفیق کے لئے ہم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں اگر انسانی امداد باہم پہنچائی جائے تو وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر ہونی چاہیے کہ اس نے محض اپنے فضل سے اپنے دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور یہ مداللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے وصول کرنی چاہیے.کیونکہ اس کی مرضی کے بغیر کوئی چیز بھی نہ کسی کام آسکتی ہے اور نہ کسی حقیقی مدد کا ذریعہ بن سکتی ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور ہمت عطا کرے کہ ہم ثابت قدمی سے اسی کے ہور ہیں اور غیر اللہ سے ہمارا کوئی تعلق نہ ہو ہم اس کے دین کی خاطر اور اس کی رضا کی حصول کی خاطر ہمیشہ ہر قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں اور ہر قسم کے بتوں کو، دولت کے بت، طاقت کے بت ، لوگوں کی خوشنودی یا ان کی ناراضی کے بت، تعداد کی کثرت کے بت اور نسلی امتیاز کے بت پاش پاش کر دیں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو اور ہماری مدد اور نصرت فرمائے خدا کرے کہ اس کی رضا اور اس کی خوشنودی بتمام و کمال ظاہر ہو.آمین يَا رَبِّ الْعَلَمِينَ.روزنامه الفضل ربوه ۱۴ رمئی ۱۹۷۰ ء صفحه ۳، ۴) 谢谢您
خطبات ناصر جلد سوم 1+1 خطبہ جمعہ ۱/۲۴ پریل ۱۹۷۰ء جماعت احمد یہ غانا کو خلافت کی برکات سے بالمشافہ حصہ پانے کا موقع خطبه جمعه فرموده ۱/۲۴ پریل ۱۹۷۰ء بمقام سالٹ پانڈ.غانا (خلاصه) حضور انور نے خطبہ جمعہ میں جو گیارہ بج کر پچپن منٹ پر شروع ہوا اور انگریزی زبان میں تھا اور جس کا ترجمہ ساتھ ساتھ مکرم عبد الوہاب صاحب آدم کر رہے تھے فرمایا:.یہ دن آپ کے لئے ایک عظیم دن ہے اللہ تعالیٰ نے اس فعال اور زندہ تحریک میں شامل ہونے کی آپ کو نہ صرف تو فیق دی بلکہ آج آپ کو موقع دیا ہے کہ آپ حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ایک خلیفے سے ملاقات کر سکیں.پہلی بار آپ میں سے اکثر کو یہ موقع ملا ہے کہ آپ مجھ سے دعائیں لیں اور خلافت کی برکات سے بالمشافہ حصہ پائیں.اگر چہ میں تو آپ کے لئے ہر روز دعا کرتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ میرے لئے بھی یہ ایک عظیم دن ہے جب میں یہاں آیا اور میں نے تقدس کا نور آپ کی پیشانیوں پر چمکتا ہوا دیکھا تو میرے جذبات نے ایسا جوش مارا جسے بیان کرنا ممکن نہیں بڑی مشکل سے میں نے اپنے جذبات پر قابو پایا.میں نے سوچنا شروع کیا کہ یہ ایک تنہا کیلی آواز تھی جو آج سے اسی سال پہلے قادیان سے بلند ہوئی وہ آواز اپنے نفس کو بلند کرنے کے لئے نہیں اٹھائی گئی تھی.وہ آواز اللہ کے جلال کو ظاہر کرنے کے لئے اٹھائی گئی تھی جو بڑی
خطبات ناصر جلد سوم ۱۰۲ خطبہ جمعہ ۱/۲۴ پریل ۱۹۷۰ء طاقتوں والا ہے.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور مقام کو ظاہر کرنے کے لئے بلند کی گئی تھی.(اس پر آمین آمین کی آوازیں بلند ہوئیں ) بنی نوع انسان اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول چکی تھی لیکن بنی نوع انسان کو آپ کی رحمت اور مدد کی ضرورت تھی جس کے بغیر وہ اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے سے نہیں بچ سکتی تھی.جب وہ آواز بلند ہوئی تو ساری دنیا اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے کھڑی ہو گئی لیکن انسان کی متحدہ سازش اور طاقت اس آواز کو خاموش نہ کر سکی.اللہ کے فرشتے آسمان سے اُترے کہ اس کی حفاظت کریں اور اس کی تائید کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچا ئیں.جب میں نے آپ کو اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد کے ترانے گاتے دیکھا اور سنا تو میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ وہی آواز ہے جو آپ کے مونہوں سے صدائے بازگشت کی طرح ٹکرا کر بلند ہو رہی ہے.آپ احمدیت کی سچائی کا زندہ ثبوت ہیں یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت مسلمان جاگنے کی کوشش کر رہے تھے وہ تنظیمیں اور ایسوسی ایشنیں بنا کر اپنے رنگ میں مسلمانوں کی مدد کر رہے تھے اور ان کی دنیاوی مشکلات کو حل کرنے میں کوشاں تھے لیکن آپ ہمیشہ یادرکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی نئی ایسوسی ایشن یا کلب قائم کرنے کے لئے تشریف نہیں لائے تھے.آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اپنی جماعت کے قیام کے لئے مبعوث ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ کی پوری قدرت اور طاقت آپ کی پشت پر تھی.پس آپ کی خوشی اور اس کا اظہار بالکل حق بجانب ہے آپ مجھ سے ملے اور مجھے دیکھا اور میری دعائیں لیں اس لئے آپ کو پورا حق ہے کہ آپ خوش ہوں جیسا کہ میں نے کہا ہے میں ہر احمدی کو احمدیت کی سچائی کا ثبوت سمجھتا ہوں اور آپ کا اسلام کے مقاصد کے حصول میں شغف آپ کے اخلاص اور ایمان کا آئینہ دار ہے.آپ ثبوت ہیں اس بات کا کہ ہر وہ چیز صحیح اور خیر ہے جس کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے اس لئے ہمیں ان ذمہ داریوں کو جانا اور سمجھنا چاہیے جو ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں.ہمارے سامنے ایک اس سے بھی شاندار مستقبل ہے اور اسی کے مطابق بہت بڑی قربانیوں کی بھی ضرورت ہے اگر ہم اپنی ذمہ داریاں صحیح معنوں میں ادا کریں تو ہم اللہ تعالیٰ کے ایسے فضلوں کے وارث ہوں گے جن کا آج ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے.اسلام
خطبات ناصر جلد سوم ۱۰۳ خطبه جمعه ۱/۲۴ پریل ۱۹۷۰ء اور احمدیت کی فتح کا دن بہت قریب ہے اس لئے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے تیار ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا.اس کے فرشتے آسمان سے آپ کی مدد کے لئے اُتریں گے اور آپ ہی صرف آپ ہی ہر مذہب ، ہر قسم کے فلسفے اور ہر قسم کے نظریے پر غالب آئیں گے.مستقبل آپ کا ہے مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ آگے بڑھیں اور اس سے ملیں.اس کے بعد حضور نے اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پر سید نا حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں تفصیل سے واضح فرمایا کہ یقین یقین کو کاٹتا ہے.شکار جنگل کی طرف بلاتا ہے تو سانپ اور شیروں کا خوف اس سے دور بھگاتا ہے کہ جس طرح ایک شکاری کا جنگل میں جانا اور وہاں شکار کی بجائے سانپوں اور بھیڑیوں اور چیتوں کو پا کر واپس لوٹ آنا ایک صحتمند عمل ہے اسی طرح اگر انسان کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور غصے کا ڈر ہو تو وہ کبھی گناہ نہ کرے وہ پوری کوشش کرے گا کہ اس کے غصے اور غضب کے جہنم سے اپنے آپ کو بچائے.پھر فرمایا اس لئے اے میرے روحانی بچو! جس چیز کی ضرورت ہے وہ اللہ تعالیٰ کے جلال پر یقین ہے.ایسا یقین جس سے جسم کانپ جائے اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور رضا ہی میں نجات نظر آئے.پس قرب کی راہوں کی تلاش ضروری ہے اس لئے میں مہدی اور مسیح علیہ السلام کے جانشین کے طور پر آپ کو جو یہاں موجود ہیں یا دنیا میں کہیں اور موجود ہیں ان سب کے نوٹس میں یہ حقیقت لانا چاہتا ہوں کہ جو کتاب ان ساری ضرورتوں کو پورا کرتی ہے وہ صرف قرآن مجید ہے.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ رمئی ۱۹۷۰ء صفحه ۵،۴)
خطبات ناصر جلد سوم ۱۰۵ خطبہ جمعہ ۸ مئی ۱۹۷۰ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد اللہ تعالیٰ کی صفات کے عرفان کا حصول ہے خطبه جمعه فرموده ۸ رمئی ۱۹۷۰ء بمقام سیرالیون (خلاصه) حضور کا خطبہ ایک بج کر ۳۷ منٹ پر شروع ہوا.خطبے کا ترجمہ امام عبداللہ نے کری اول Creol یعنی Broken English میں اور الحاج ہونگے نے ٹمنی زبان میں کیا.کری اول زبان امریکہ اور برازیل سے واپس آنے والے ان آزاد شدہ غلاموں کے ذریعہ آئی ہے جو غلامی کے خاتمے پر افریقہ کے مختلف ممالک میں واپس آکر آباد ہوئے ان لوگوں کی اکثریت عیسائی ہے اور یہ لوگ افریقہ کے مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں.شمنی یہاں کا مشہور مقامی قبیلہ ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے.حضور کے انگریزی زبان میں ارشا د فرمودہ خطبے کا ملخص درج کرتا ہوں.حضور نے فرمایا:.میرے عزیز بھائیو اور بہنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں میں خوش ہوں کیونکہ میں آپ میں سے ہرایک کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نشان سمجھتا ہوں آپ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد سوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا.1+4 خطبہ جمعہ ۸ مئی ۱۹۷۰ء I SHALL GIVE YOU A LARGE PARTY OF ISLAM میں تجھے مسلمانوں کا بہت بڑا گروہ عطا کروں گا آپ کو یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جماعت احمد یہ کوئی کلب نہیں ہے ایک کلب یا ایسوسی ایشن اور ایک الہی جماعت میں بہت فرق ہوتا ہے کسی کلب یا ایسوسی ایشن کی بنیاد باہمی خیر سگالی اور افہام و تفہیم پر ہوتی ہے اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت اللہ تعالیٰ سے طاقت حاصل کرتی ہے ہمارے قادر و توانا خدا نے یہ جماعت ایک خاص مقصد کے لئے قائم فرمائی ہے اور سید نا حضرت مہدی علیہ السلام کو ایک خاص مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے وہ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا عرفان حاصل ہو یہ عرفانِ الہی ہی ہے جس سے انسان کا ایمان بڑھتا ہے اور یقین مستحکم ہوتا ہے وہ جان لیتا ہے کہ اس کی فلاح دارین اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہے اس کی تمام اُمید میں اسی کی رضا پر مرکوز ہو جاتی ہیں.ایسا صاحب عرفان ویقین انسان خود اعتمادی اور وثوق کے ساتھ اپنے مقصد کی جانب بڑھتا ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے روشن نشانات اس کے سامنے موجود ہوتے ہیں اس کا ارادہ مضبوط اور عزم راسخ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور الہی انعامات کا ذاتی تجربہ حاصل کرتا ہے جس سے اس کا اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین اور بھی قوی ہو جاتا ہے اس کا اپنا ارادہ ختم ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے جلال کا تسلط اس پر قائم ہو جاتا ہے اس کی معرفت الہی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے دل میں داخل ہو جاتا ہے اور اس کے دل کو تنہا چھوڑنے سے انکار کر دیتا ہے اس کی پاک روح اس کے اندر رہائش پذیر ہو جاتی ہے اور اسے حرکت اور طاقت بخشتی ہے یہ روح اس کے ہر کام میں اس کی رہنمائی کرتی ہے.اللہ تعالیٰ خود اس کا نگران اور محافظ بن جاتا ہے اور وہ جبروت و عظمت والے خدا کے جلال کے تصرف میں آجاتا ہے اور ایمان و عرفان کا پانی اس کے دل سے اس طرح بہہ نکلتا ہے جس طرح میٹھے چشمے سے پانی.وہ اس تجربے میں لذت پاتا ہے اور یہ لذت اس پر حاوی ہو جاتی ہے اور اس کی آنکھوں اور چہرے سے نظر آنے لگ جاتی ہے اللہ تعالیٰ کا نور اس پر بارش کی طرح برستا ہے اور
خطبات ناصر جلد سوم ۱۰۷ خطبہ جمعہ ۸ مئی ۱۹۷۰ء اس کی روح اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال کا لباس پہن لیتی ہے.اور اس کے وجود میں نئی زندگی کے آثار کچھ اس طرح نمودار ہو جاتے ہیں جس طرح درختوں کی شاخیں موسم بہار کے آنے پر پتوں اور پھولوں سے لد جاتی ہیں اور حسن و جمال کا مرقع بن جاتی ہیں.اس کے بعد حضور نے مساجد کے فلسفہ و حکمت پر روشنی ڈالی اور تفصیل سے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ مسجد کا مالک اللہ تعالیٰ خود ہے یہ خدائے واحد کا گھر ہے جو شخص خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہوا سے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے طریق پر فریضہ عبادت ادا کر سکے اس لحاظ سے مسجد تمام عبادت گاہوں ، گرجوں اور صومعوں کی پناہ گاہ اور محافظ بن جاتی ہے.مسجد اعلان ہے اس امر کا کہ تمام عبادت گاہیں جو خدائے واحد کی طرف منسوب ہوتی ہیں اسی کے لئے ہیں اور وہی ان کی حفاظت کا ضامن ہے.اس کے بعد حضور نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے تفصیل سے استدلال فرمایا اور فرمایا کہ حضرت مہدی علیہ السلام ہمیں نور دینے کے لئے آئے تھے.تا کہ ہم سچے ایمان کا نورا اپنی ذات میں مشاہدہ کر سکیں آپ کا یہ فرض اولین ہے اور آپ کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی اور سچائی کی توفیق آپ کو حاصل ہو اور ایسی حسین روح آپ کو دی جائے جو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو دنیا آج اپنے خالق کو بھول چکی ہے اور مکمل تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دنیا کو اپنا نو ر اور محبت اور عرفان بخشے اور اسے اس خوفناک انجام سے بچالے.اس کے بعد حضور نے بلند آواز سے لمبی دعا فرمائی اور فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں اور آپ اس میں خاموشی سے شامل ہوں.اور اپنے دل میں آمین کہتے جائیں.روزنامه الفضل ربوه ۳۱ مئی ۱۹۷۰ ء صفحه ۳)
خطبات ناصر جلد سوم ۱۰۹ خطبہ جمعہ ۱۵ رمئی ۱۹۷۰ء اگر مظلوم افریقن اپنا فرض ادا کر دیں اور ہم اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر رہیں تو دنیا کے رہبر وہ ہوں گے خطبه جمعه فرموده ۱۵ رمئی ۱۹۷۰ بمقام مسجد مبارک.ہیگ (خطبہ جمعہ جو پونے دو بجے شروع ہوا حضور نے انگریزی اور اردو میں ارشاد فر ما یا اس کا ملخص درج ذیل ہے.) ایک مہینے سے زائد لمبے سفر کے بعد میں بہت تھک چکا ہوں.اس لئے لمبا خطبہ نہیں دوں گا.البتہ ایک اہم معاملے کی طرف توجہ دلاؤں گا.میں مغربی افریقہ کے چھ ممالک یعنی نائیجیریا، گھانا ، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، گیمبیا اور سیرالیون میں گیا.آئیوری کوسٹ میں فرانسیسی بولی اور سمجھی جاتی ہے.لائبیریا میں امریکن قسم کی انگریزی بولی جاتی ہے.ہر ملک کے حالات مختلف ہیں.خصائل الگ الگ ہیں، ان کے طور طریقے مختلف ہیں، انگریزی زبان کے لہجے مختلف ہیں لیکن ان سب میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ سب انسان ہیں.اس لئے میں نے ان سب کو مساوات کا پیغام دیا.یہ وہی پیغام ہے جو قرآن کریم میں اللہ تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا.یعنی جب فرمایا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ پس اسلام یہ بنیادی اصول سکھاتا ہے کہ جب سید الانبیاء، نبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان میں شامل تھے.جب آپ سے جونیئر انبیاء ابراہیم ، موسیٰ ،
خطبات ناصر جلد سوم 11.خطبہ جمعہ ۱۵ رمئی ۱۹۷۰ء عیسی علیہم السلام سب انسان تھے تو باقی انسان بھی انسان ہیں.اب وقت ہے کہ دنیا اس سبق کو یاد کر لے کہ کسی انسان کو انسانیت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا.اگر تمام انسان اللہ تعالی کی نظر میں انسان ہیں تو انسان کی نظر میں بھی انہیں انسان تسلیم کیا جانا چاہیے.دنیا کے مسائل اس اصل کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.انسان نے ہائیڈ روجن اور ایٹم بمبوں سے تباہ کرنا تو سیکھ لیا لیکن پیار کرنا نہ سیکھا.نفرت تو کی لیکن محبت کرنے سے قاصر رہا.فرمایا میں نے اہلِ افریقہ کو بتایا کہ صد ہا سال قبل آپ کے پاس ایک آواز پہنچی.جو بظاہر محبت اور امن کی آواز تھی لیکن اس آواز کے جلو میں اور آواز میں بھی تھیں جو یہ کہہ رہی تھیں کہ ہم ناجائز منافع حاصل کرنے (exploit) آئے ہیں اس لئے یہ بظاہر امن لیکن باطن ناجائز منفعت کی آواز کامیاب نہ ہوسکی.یہ آواز اس لئے کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ اس سے ایک عظیم تر پیغام اللہ تعالی کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے آچکا تھا.جب آپ نے اعلان فرمایا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشر مثلكم تو یہ محض نظریہ نہ تھا.آپ نے عملاً بھی اسے ثابت کر دکھایا.فرمایا سردارانِ مکہ یا افریقن محاورے میں مکے کے پیرا ماؤنٹ چیفس کا ایک غلام تھا.اسے آسمانی نور ملا اور اس نے اُسے قبول کر لیا.اسے سخت اذیتیں دی گئیں.پیرا ماؤنٹ چیفس نے آپ پر درد ناک مظالم ڈھانے شروع کر دیئے.ایک مسلمان بھائی نے آپ کو خرید کر آزاد کر دیا.اس کے بعد حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کی نظروں میں آپ آتی تھے سکالر نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت کے خزانوں سے دل مالا مال تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آپ کو بچنا اور خود آپ کا استاد بن گیا.خود آپ کا پروفیسر بن گیا اور اس طرح اللہ تعالی کی یونیورسٹی میں آپ کو تعلیم دی گئی.منجملہ معجزات ایک معجزہ آپ کو قرآن کا دیا گیا جس سے کئی معجزے پیدا ہوئے.فتح مکہ بھی ایک معجزہ تھا.چھ ماہ پہلے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ مکہ فتح ہو جائے گا.جب مکہ فتح ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جھنڈا بنایا جس کا نام لوائے بلال رضی اللہ تعالیٰ رکھا اور سردارانِ مکہ سے فرمایا کہ اگر جان کی امان چاہتے ہو تو اسی بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جھنڈے تلے آجاؤ جسے تم حقارت سے دیکھا کرتے تھے.
خطبات ناصر جلد سوم 111 خطبہ جمعہ ۱۵ رمئی ۱۹۷۰ء حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ثابت فرمایا کہ پیرا ماؤنٹ چیفس اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کوئی فرق نہیں وہ نام نہا د غلام غلام نہیں بلکہ انسانیت کی بلند کرسی پر متمکن ہے.فرمایا میں نے یہی پیغام اہل افریقہ تک پہنچایا.یہ پیغام امن، محبت ، ہمدردی اور مساواتِ انسانی کا پیغام ہے.فرمایا میں نے جو کچھ دیکھا اور سنا اس سے ہمارے کندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری آن پڑی ہے ہمیں یہ ثابت کرنا ہے اور عملاً بتانا ہے کہ واقعی ہم انسانی مساوات پر یقین رکھتے ہیں.ہمیں اپنے اعمال اور افعال کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں.میں نے یہ پیغام ان مظلوم قوموں تک پہنچا دیا ہے اس سے ہماری ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اگر ہم یہ ذمہ داری ادا کر دیں تو اسلام کے غلبے کا دن بہت قریب آجائے گا اور پندرہ سے بائیس سال کے عرصے میں اسلام کے حق میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوگا اور اگر یہ مظلوم افریقن اپنا فرض ادا کر دیں اور ہم اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر رہیں تو دنیا کے رہبر وہ ہوں گے.اللہ تعالی کی رحمت پر کسی کی اجارہ داری نہیں.محض مسلمان کے گھر پیدا ہونا کوئی چنداں فائدے کی بات نہیں اللہ تعالیٰ ہم سب سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں پہچانیں اور ان کی ادائیگی کی کوشش کریں.فرمایا:.اب جبکہ میں ان علاقوں سے ہو کر آیا ہوں تو مجھے ان کی نہیں آپ کی فکر ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں امید کا چاند روشن ہوا ہے اور وہاں کے رہنے والوں نے اپنے اُفق پر اسے طلوع ہوتے ہوئے دیکھ لیا ہے لیکن یہ ابھی پہلی رات کا چاند ہے اور ایک کمان کی طرح ہے.- مسیح موعود علیہ السلام نے بدر ہونے کا دعویٰ فرمایا ہے.اس لئے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ یہ پہلی کا چاند جلد تر چودھویں کا چاند بن کر ارض افریقہ کے درو دیوار کو منور کر دے.بیشک ہم یورپ میں بھی تبلیغ کر رہے ہیں.لیکن یہ لوگ اپنے تن کے دھندوں میں منہمک ہیں اور الحاد اور ماڈیت کی عینک چڑھائے اپنی اخلاقی اور روحانی ذمہ داریاں ادا کرنے سے ہچکچا رہے ہیں.میری دعا ہے کہ یہ بھی اپنے خالق کو پہچان لیں اور اس تباہی سے اپنے آپ کو بچالیں جس کی طرف وہ اپنے اعمال
خطبات ناصر جلد سوم ۱۱۲ خطبہ جمعہ ۱۵ رمئی ۱۹۷۰ء کی وجہ سے کھچے چلے جارہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اب نہ کوئی مجھی ہے، نہ عربی.سب یکساں ہیں.آئیے ہم ان تمام قوموں کے دل جیت لیں.اگر ہم کوشش بھی کریں اور دعا بھی کرتے رہیں تو انشاء اللہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے.وہ لوگ اسلام کے اُس نور کو قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں جس کو حضرت امام المہدی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں لائے.فرما یا:.میں نے کچھ منصوبے تیار کئے ہیں.جن کے ماتحت افریقہ میں درجنوں نئے سکول اور ہیلتھ سنٹر وغیرہ کھولے جائیں گے ایک لاکھ پونڈ کی ایک سکیم اور ہے.اگر چہ یہاں (یورپ) کے لحاظ سے یہ رقم کچھ بھی نہیں لیکن مجھے اللہ تعالیٰ پر یقین اور بھروسا ہے کہ وہ ضرور میری مددفرمائے گا اگر ہم مالی قربانی دیں اور رضا کارانہ طور پر خدمت بھی کریں اور ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے رہیں تو شاید جلد ہی بلکہ ممکن ہے کہ دس سال کے اندر اندر ہی وہاں کی غالب اکثریت کے دل جیت لیں.وہ اس انعام کے مستحق ہیں اور یہ ذمہ داری ہماری ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری ذمہ داریاں پہچاننے کی توفیق دے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۲ ستمبر ۱۹۷۰ صفحه ۴و۵)
خطبات ناصر جلد سوم ۱۱۳ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء میں اسلام کا محبت واخوت اور مساوات کا پیغام لے کر مغربی افریقہ روانہ ہوا خطبه جمعه فرموده ۱۲ جون ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ ۱/۴ پریل کو میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسلام کا محبت اور پیار، اخوت اور مساوات کا پیغام لے کر مغربی افریقہ کے ممالک کے دورہ پر روانہ ہوا تھا اور چند ہفتوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا منادی بن کر آپ میں پھر واپس آیا ہوں میں نے وہاں جو کچھ دیکھا، محسوس کیا اور مشاہدہ کیا الفاظ میں اس کا بیان ممکن ہی نہیں کچھ جھلکیاں ہیں جو دکھا دی گئیں کچھ جھلکیاں ہیں جو دکھاؤں گا وہ حالات دیکھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتے تھے بیان کرنا قریباً ناممکن ہے.میں نے ان سب اقوام کو جن میں میں نے دورہ کیا نیز ان کے ذریعہ افریقہ کی دوسری اقوام کو اسلام نے پیار کا جو پیغام بنی نوع انسان کو دیا ہے وہ سنا یا محبت و اخوت، ہمدردی و غم خواری کی ان سے باتیں کیں اور مساوات کی آواز کو ان کے درمیان بلند کیا صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے خود عمل سے انہیں بتایا کہ ہم میں اور آپ میں کسی انسان اور دوسرے انسان میں بحیثیت بشر کوئی فرق نہیں ہے ہزاروں بچوں کو پیار کیا ہزاروں بڑوں سے معانقہ کیا اور پتہ نہیں کتنوں سے مصافحے کئے ، وقت پر
خطبات ناصر جلد سوم ۱۱۴ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء بھی کئے اور بے وقت بھی کئے ایسے وقت میں بھی کئے جب احساس یہ تھا کہ اس وقت یہاں گرمی میں زیادہ ٹھہر نا ٹھیک نہ ہو اور میں بیہوش ہو جاؤں لیکن جو میں انہیں بتانا چاہتا تھا قول اور فعل سے، وہ میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی کہ بتا دوں.اکرا ( گھانا ) میں پہلی بار ہماری بڑی مسجد کی بنیاد رکھی جانی تھی.بنیاد کے رکھے جانے کے موقع پر ہزاروں آدمیوں کے سامنے میں نے اسلام کی یہ تعلیم پیش کی ان میں اکثریت تو احمدیوں کی تھی لیکن میری آواز ریڈیو اور اخبار کے ذریعہ قریباً ہر فرد تک پہنچ جاتی تھی کیونکہ اخباروں نے بہت تعاون کیا اور ریڈیو اور ٹیلیویژن نے بھی بہت تعاون کیا.مسجد کے متعلق میں نے انہیں بتایا کہ اسلامی تعلیم کے مطابق اللہ کی مسجد کے دروازے جس کے ہم نگران ہیں ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں جو خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنا چاہے خواہ وہ مسلمان ہو یا نہ ہو اور قرآن کریم نے ساری دنیا میں یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ مسجد علامت اور نشان ہے اس بات کا کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے گی اور انہیں مسمار نہیں کیا جائے گا.مسلمانوں نے اس پر عمل کیا اور دنیا میں ایک نہایت حسین مثال قائم کی.ضمناً میں یہ بتادوں کہ سپین میں ہمارا ڈرائیور انگلستان کا رہنے والا تھا اور وہ کیتھولک نہیں تھا چنا نچہ ایک موقع پر اس نے یہ کہا کہ ان کیتھولکس نے سپین کی سب مساجد مسمار کر دیں جو دو ایک نمونہ کے طور پر رکھیں وہ آثار قدیمہ کے طور پر ہیں مسجد کے طور پر نہیں اس نے حیران ہوکر پوچھا کہ کیا آپ کے ملک میں کیتھولک چرچ ہیں؟ جب اس کو بتایا گیا تو وہ کہنے لگا کیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے ان کیتھولکس کو اجازت دی ہو کہ وہ آپ کے ملک میں اور دوسرے اسلامی ممالک میں چرچ بنائیں اور وہاں وہ اپنی عبادت کریں؟ ہم نے اسے سمجھایا کہ اسلام مذہبی آزادی کی تعلیم دیتا ہے اور بنی نوع انسان کے درمیان ایک نہایت حسین معاشرہ قائم کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مسجد کی حفاظت کی جائے اور مسجد کے طفیل اور مسجد کو علامت اور نشان بنا کر دوسری تمام عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے گی.مسجد میں محض خود آباد ہی نہیں ہوں گی بلکہ غیروں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا موجب بھی ہوں گی.ان میں صرف اللہ کا ذکر ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۱۵ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء یہ امید رکھی جائے گی کہ جو لوگ مسلمان نہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں وہ بھی اپنی عبادت گاہوں کو آبادرکھیں.مساوات کا جو نمونہ ہمیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے اس کی ایک ہی مثال میں وہاں مختلف موقعوں پر دیتا رہا ہوں اور وہ فتح مکہ کے دن کا واقعہ تھا میں نے انہیں بتایا کہ تمہارے میں سے ایک حبشی غلام ، مکہ کے جو پیرا ماؤنٹ چیف تھے ان کا غلام تھا اور وہ اس کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم کیا اور اس کو اسلام کے نور کی شناخت میسر آئی اور وہ مسلمان ہو گیا.پہلے نفرت اور حقارت تھی اب نفرت اور حقارت کے ساتھ ظلم اور تشدد بھی شروع ہو گیا ان لوگوں نے اس پر انتہائی ظلم کیا کہ آج بھی اس کی یاد میں ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ایک مسلمان نے اسے خریدا اور آزاد کر دیا پھر وہ مسلمان معاشرہ کا ایک محترم اور معز ز فرد بن گیا.فتح مکہ کے روز حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جھنڈا تیار کیا اور آپ نے اس جھنڈے کا نام بلال کا جھنڈا رکھا اور اس کو ایک مقام پر گاڑ دیا اور سردارانِ مکہ سے کہا کہ اگر تم امان چاہتے ہو تو اس شخص کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ جس کو تم نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اور جس پر تم بے انتہا ظلم کیا کرتے تھے.اس طرح پر اس مظلوم بلال کا انتقام لیا ایک حسین انتقام جسے میں انگریزی میں Sweet Revenge ( سویٹ ریوینج ) کہہ دیا کرتا تھا.یہ میری اپنی اصطلاح ہے لیکن مجھے پسند ہے اب بھی میں دہرا دیتا ہوں یہ حسین اور پیارا اور میٹھا انتقام کہ ہم تمہیں ہلاک نہیں کرنا چاہتے لیکن بدلہ ضرور لیں گے.بلال کے جھنڈے تلے آجاؤ تا کہ اس بلال کی وجہ سے جس پر ظلم کر کے تم انسان انسان میں فرق کرنا چاہتے تھے اس بلال کو ہم مثال بنادیں فرد اور فرد، انسان اور انسان کی تفریق کو دور کر نے کی.جس وقت میں نے یہ واقعہ پہلی دفعہ سنایا تو اتنی خوشی کی لہر اس مجمع میں پھیل گئی کہ میرے کانوں نے وہ بھنبھناہٹ سنی جو خوشی کی وجہ سے فضا میں پیدا ہوئی تھی لوگوں نے بڑے جوش کے ساتھ والہانہ طریق پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ان میں غیر بھی تھے، پادری بھی تھے.ایک موقع پر علاقے
خطبات ناصر جلد سوم 117 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء کے کیتھولک مشن کے سب سے بڑے پادری بھی موجود تھے ( اللہ تعالیٰ نے وہاں جماعت احمدیہ کو اننا رعب دیا ہے کہ پادریوں کو ہمارے جلسوں میں آنا پڑتا ہے وہ پیچھے رہ ہی نہیں سکتے ) لیکن کوئی توجہ نہیں تھی وہ بے تعلقی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے میں نے اپنے افریقن بھائیوں سے کہا کہ وہ سب نبیوں کا سردار تھا اور تمام بنی انسان کا فخر اور سب سے اعلیٰ اور ارفع تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.جب اس نے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ( حم السجدة : - ) کہ انسان ہونے کی حیثیت میں مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں میں تمہارے جیسا انسان اور تم میرے جیسے انسان.پس وہ جو اس کے ماتحت تھے اور اس سے کم درجہ رکھتے تھے Those who were junior to him like Moses and Christ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام ان کو اور ان کے پیروؤں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ تم پر برتری کا اعلان کریں وہ پادری جو پہلے بے تعلقی سے بیٹھا ہوا تھا اچھل کر بیٹھ گیا اور اس نے کہا ہمارے اوپر یہ کیا بم گرا دیا ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو مخاطب کر کے یہ فرمایا کہ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم اور جب ہم اس میٹھی آواز کو خود اپنے کانوں سے سنتے ہیں تو فر شتے ہمیں آکر کہتے ہیں دیکھو تمہارا محبوب اور پیارا بنی نوع انسان کا کس قدر خیر خواہ اور مساوات کو کس رنگ میں قائم کرنے والا تھا کہ اس نے فرمایا " إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم “.66 پس اس کے بعد حضرت موسیٰ ہو یا حضرت عیسی علیہما السلام ان کو یا ان کے ماننے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان کے بعد بھی وہ یہ کہیں کہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسی علیہما السلام دوسرے انسانوں سے بحیثیت انسان ارفع اور اعلیٰ تھے.میں انہیں ہمدردی و غم خواری اور پیار و محبت کی بہت سی مثالیں دیتا تھا جماعت احمدیہ کا عمل ان کے سامنے پیش کرتا تھا.اپنی پچاس سالہ تاریخ ان کے روبرود ہرا تا تھا اور میں انہیں بتا تا تھا کہ یہ تو درست ہے کہ آج سے چند صدیاں قبل مسیحیت تمہارے ملکوں میں یہی نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئی تھی کہ ہم پیار کا Love ( کو ) کا پیغام لے کر آرہے ہیں لیکن محبت کے اس پیغام کے جھنڈے ان تو پوں پر گاڑے گئے تھے جو یورپ کی مختلف اقوام کی فوجوں کے پاس تھیں اور ان
خطبات ناصر جلد سوم ۱۱۷ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء تو پوں کے مونہوں سے گولے برسے پھول نہیں بر سے اور وہ محبت کا پیغام کامیاب نہیں ہوا نہ اسے ہونا چاہیے تھا نہ وہ ہوسکتا تھا کیونکہ اس سے بہتر ، اس سے زیادہ پیارا پیغام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کی طرف نازل ہو چکا تھا.اب ہم تمہارے پاس محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں اور قریباً پچاس سال سے مختلف ملکوں میں تمہاری خدمت کر رہے ہیں اور تم میں سے ہر شخص بڑا بھی اور چھوٹا بھی ، حاکم بھی اور محکوم بھی رعایا بھی اور ان کے افسر بھی جانتے ہیں کہ اس پچاس سالہ تاریخ میں نہ ہم نے تمہاری سیاست میں کبھی دلچسپی لی اور نہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ، نہ تمہارے مالوں کی طرف ہم نے حرص کی نگاہ اٹھائی تم جانتے ہو کہ ہم نے جو کچھ کمایا وہ تمہارے ملکوں ہی میں لگا دیا اور تم نے جو کچھ نہیں کمایا بلکہ کسی اور نے کسی اور ملک میں کما یا وہ بھی یہاں لائے اور اسے بھی تمہاری خدمت پر لگا دیا اس کا اس قوم پر اثر ہوتا تھا.مثالیں تو بہت ہیں صرف ایک مثال میں دہرا دیتا ہوں.کا تو میں ہمارا میڈیکل سنٹر ہے جو چند سال سے وہاں کام کر رہا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام اخراجات نکالنے کے بعد ۱۵ / ہزار پاؤنڈ سے زیادہ یعنی ۳لا کھ سے زیادہ کی رقم بچی ہوئی تھی چنانچہ گزشتہ دو ایک سال میں یہ ساری کی ساری رقم اس ہسپتال ( یعنی جو پہلے کلینک تھا ) کی عمارت پر لگا دی گئی بلکہ کچھ قرض لے کر لگا دیا گیا کہ جو اس سے آمد ہوگی اس میں سے ایک دو سال کے اندر واپس کر دیا جائے گا، انشاء اللہ شاید ۲۰ یا ۲۵ ہزار پاؤنڈ کی رقم لگا کر ایک خوبصورت ہسپتال بنا دیا گیا.غرض ان ممالک میں سے ایک دھیلا نہیں نکالا لیکن وہ جو ہم سے پہلے محبت کا پیغام لے کر ان ممالک میں گئے تھے انہوں نے وہاں کچھ چھوڑا ہی نہیں.پہلا ملک نائیجیریا تھا جہاں میں داخل ہوا.ایک روز میں سوچ میں تھا ان کے حالات پر غور کر رہا تھا میں نے ایک افریقن دوست سے کہا کہ یہ دیکھ کر مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ تمہارے پاس سب کچھ تھا لیکن تمہیں ہر چیز سے ہی محروم کر دیا گیا چنانچہ اس سے اگلے روز جب میں ان کے ہیڈ آف دی سٹیٹ سے ملا تو ان سے میں نے کہا کہ کل میں نے ایک دوست سے کہا تھا کہ صدیوں کی حکومت کے بعد ایک فقیر اور دیوالیہ ملک چھوڑ کر یہ اقوام پیچھے ہٹ گئیں اور ان کا سب کچھ وہاں سے لے گئیں لیکن جماعت احمد یہ اپنے پیسوں پر، اپنے پیسے لے کر وہاں پہنچی اور
خطبات ناصر جلد سوم ۱۱۸ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء کام شروع کیا اور وہاں جو کما یا وہیں ان کی بہبودی کے لئے لگا دیا.محبت کا یہ عملی پیغام دلوں پر اثر کئے بغیر نہیں رہا.ان کے دل احمدی مسلمان ہوں یا عیسائی یا بد مذہب ہوں احمدیت کے روپ میں اسلام کے حسن کو دیکھ کر اس کے گرویدہ ہیں اور وہ احمدیت سے پیار کرتے ہیں بد مذہب والے بھی اور لا مذہب دہر یہ یا پرانے مذاہب کے نشانات و آثار رکھنے والے بھی احمدیت سے پیار کرتے ہیں اور اس چیز کا میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے.میں نے نائیجیریا ہی میں ایک روز دیکھا کہ پچاس ہزار سے زیادہ لوگ ( جن میں غیر مسلموں کی اکثریت تھی) مجھے دیکھ کر خوشی سے ناچنے لگے وہ مجھے دیکھتے اور خوشی سے ناچنے لگ جاتے تھے کئی کئی میل تک دور دور سے آئے ہوئے دوست مردوزن قطار اندر قطار کھڑے تھے.ایک ایک احمدی قطار میں تھا اور اس کے پیچھے چھ چھ سات سات غیر مسلم ہوتے تھے.غیر احمدی بھی تھے غیر مسلم بھی تھے.غیر مسلم کو تو میں صرف ان کے ناچ کی وجہ سے پہنچانتا ہوں کیونکہ خوشی کے اظہار کے لئے ان کا یہ طریق ہے.وہ مردوزن ایک چیخ مارتے تھے اور پھر ناچنا شروع کر دیتے تھے جس سے میں سمجھ لیتا تھا کہ یہ یا تو عیسائی ہیں یا بد مذہب ہیں.کس چیز نے انہیں اس بات پر مجبور کیا تھا کہ وہ ایک غیر معروف اور انجانے انسان کو دیکھیں اور خوشی سے ناچنا شروع کر دیں ان کے دلوں میں جو احمدیت کے حسن سلوک اور احمدیت میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حسین چہرہ انہوں نے دیکھا اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ احمدیت کے فریم میں انہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس دیکھا اور اس پر فریفتہ تھے اس لئے احمدیت کا جو نمائندہ تھا اسے دیکھ کر وہ خوش ہو جاتے تھے ( یہ میں غیروں کی بات کر رہا ہوں ابھی اپنوں کی بات میں نہیں کر رہا ) اور میں نے لاکھوں آدمی ایسے دیکھے.جب میں نے گوون کو کہا کہ میں بڑا خوش ہوں تمہارے ملک میں ہر شخص ہنستا اور مطمئن نظر آتا ہے.میں نے خود پچاس ہزار سے لاکھ تک مسکراہٹیں ایک دن میں وصول کیں جب بھی میں نے کسی کی طرف مسکرا کر دیکھا اس نے بھی میری طرف مسکرا کر دیکھا اور خوش ہوا ایک دن میں پچاس ہزار سے لاکھ تک مسکراہٹیں وصول کرنا معمولی بات نہیں ہے مسکرا مسکرا کر میرے تو جبڑے
خطبات ناصر جلد سوم ١١٩ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء بھی تھک جاتے تھے لیکن یہ ان کا حق تھا اور میں ان کا یہ حق دیتا تھا چنانچہ گوون بڑا خوش ہوا وہ خود بڑا پکا عیسائی ہے ( میں اس خطبہ میں صرف اصولی باتیں بیان کر رہا ہوں تفصیل میں نہیں جارہا سوائے اس کے کہ کسی تفصیل کو اصول کے بیان کرنے کے لئے بتاؤں) بہر حال وہ عیسائی ہونے کے باوجود جماعت کا گرویدہ بھی ہے یعنی مذہب کا نور تو اس پر نہیں چمکا لیکن پیار کا جو پیغام تھا اس سے وہ متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا میں جب اس سے ملنے کے لئے گیا تو یہ ۳۵ سالہ نوجوان اس عمر میں ویسے ہی انسان کا سر پر غرور ہوتا ہے ) جس نے سول وار ( خانہ جنگی ) ابھی ابھی جیتی تھی اور اس ملاقات سے کچھ عرصہ پہلے بیا فرانے Surrender (سرنڈر ) کیا تھا.وہ Civil War (خانہ جنگی) جیتی تھی جس میں غیر ممالک اور غیر ملکی مشنریز نے اس کے خلاف کام کیا تھا اور اس نے ان تمام کے منصوبے خاک میں ملا دیئے تھے اس حالت میں میں اس سے ملا.وہاں کی کیفیت یہ تھی کہ میری ملاقات سے کم و بیش تین ہفتے پہلے سارے ویسٹ افریقہ کا آرچ بشپ اسے ملنے آیا اس نے اسے ٹھیک طرح منہ نہیں لگایا اور اسے دعا تک کے لئے نہیں کہا حالانکہ وہ بھی عیسائی اور ان کا سردار.بلکہ اس آرچ بشپ نے اپنی خفت مٹانے کے لئے خود ہی چلتے ہوئے کہا اچھا اب میں آپ کے لئے دعا کر دیتا ہوں لیکن جس وقت میں اس سے ملنے کے لئے گیا تو جماعت کی اتنی قدر Appreciation (ا پری سی ایشن ) اس کے دل میں تھی کہ بیٹھتے ہی اس نے کہا ہمارے لئے دعا کریں.میں سمجھا نہیں بات میں نے کہا یہ عیسائی ہے اس نے دیکھا کہ ایک مذہبی لیڈر آیا ہے اس لئے اس نے رسماً کہہ دیا کہ ہمارے لئے دعا کریں میں نے جواباً کہا میں تو دعا کرتا ہوں اور میں آپ کے لئے بھی دعا کروں گا لیکن جب میں نے نظر اٹھا کر اس کے چہرے کے آثار دیکھے تو میں نے سمجھا کہ میں اس کی بات نہیں سمجھ سکا میں نے پھر اس سے پوچھا کہ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں اسی وقت فارمل طریقے پر ہاتھ اٹھا کر دعا کروں کہنے لگا ہاں میرا یہی مطلب ہے چنانچہ میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور وہ بھی اپنے رنگ میں اس میں شامل ہوا.غالباً تصویر بھی چھپ گئی ہے ( دعا کریں کہ جو ہاتھ یوں بندھے ہوئے نظر آتے ہیں کسی دن یوں کھل جائیں یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے ) وہ دل کا بڑا اچھا ہے پھر اس نے مسلمان مذہبی امام سے
خطبات ناصر جلد سوم ۱۲۰ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء کھل کر یہ بات بھی کی کہ ان غیر ممالک نے اور غیر ممالک کے مشنریز نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ ہمارے ملک کو تباہ کر دیں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں ان کے بڑے منصوبوں سے محفوظ رکھا اور ہمارے ملک میں وہ تباہی نہیں آئی جو یہ چاہتے تھے کہ یہاں تباہی بر پا ہو جماعت کی تعریف کے علاوہ اس نے مجھے یہ کہا کہ ہم بڑے خوش قسمت ہیں کہ تمام مذاہب کے لوگ یہاں بھائی بھائی کی طرح رہتے ہیں میں نے دل میں سوچا کہ یہ ہمارے ممالک سے اچھے ہیں انہیں یہ علم حاصل ہو چکا ہے اور یہ اس حقیقت کی شناخت حاصل کر چکے ہیں کہ مذہب کا تعلق دل سے ہے طاقت کے زور سے زبان سے تو کچھ کہلوایا جا سکتا ہے لیکن دل نہیں بدلے جا سکتے.ساری دنیا کے ہائیڈ روجن بم مل کر بھی کسی ایک آدمی کے دل میں کوئی خوشگوار تبدیلی نہیں پیدا کر سکتے یہ ناممکن بات ہے البتہ یہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوہ ہے جس نے اربوں ارب انسانوں کے دلوں میں تبدیلی پیدا کر دی.اللہ تعالیٰ نے گوٹر کا جو وعدہ دیا تھا وہ پورا کیا اس وقت بھی اور پھر اس وقت سے لے کر اب تک اور پھر قیامت تک ایسے لاکھوں کروڑوں اربوں انسان پیدا ہوتے رہیں گے جو اس مذہبی حسن کے گرویدہ ہوکر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے ہوں گے پس ان قوموں کی زندگی کی یہ حقیقت معلوم ہو چکی ہے اور اس لحاظ سے وہ بڑے خوش قسمت ہیں اور سچ کہا تھا گوون نے کہ ان کی یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کے ملک میں تمام مذاہب ، تمام فرقے امن سے رہ رہے ہیں کوئی کسی کے خلاف زبان درازی نہیں کرتا إِلَّا مَا شَاء اللہ شاید کوئی استثناء ہو جسے وہ قوم بہر حال پسند نہیں کرتی.ایک اور مثال دے دیتا ہوں گھانا میں ا کرا کے مقام پر ہمارا ایک سکول ہے اور پھر ۱۷۰ میل کے فاصلے پر کماسی میں ہمارا ایک سکول ہے.کماسی سے ستر میل پر ٹیچی مان ایک جگہ ہے جہاں ہمارے افریقن بھائی عبدالوہاب بن آدم صاحب بطور مبلغ رہتے ہیں وہ بڑا ہی اچھا کام کر رہے ہیں وہ بھی اور ان کی بیوی بھی.بچوں میں قرآن کریم اور مذہبی تعلیم ، احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عشق پیدا کر دیا ہے ان بچوں کو جب آپ دیکھیں تو آپ کے بچوں کو رشک آجائے اور آپ کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات ناصر جلد سوم ۱۲۱ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء کی یاد میں وہ ایسے قصیدے پڑھتے ہیں کہ انسان کے لئے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے اور نڈر ہو کر لاؤڈ سپیکر لگا کر لاکھوں کی آبادی کے شہروں میں گاتے پھرتے ہیں کہ جس مسیح کی انتظار تھی وہ آ گیا مثلاً ہم جب ابادان گئے یہ شہر قریب لیگوس کے برابر ہے پہلے بڑا تھا اب کم ہے اس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے.انہوں نے سارے شہر میں یہ منادی کی کہ جس مہدی کی انتظار تھی وہ آ گیا اور اس کا نائب اور تیسرا خلیفہ تمہارے اندر موجود ہے اس سے برکتیں حاصل کروانہوں نے نڈر ہو کر سارے شہر میں اونچی منادی کی پھر بچے یہی گاتے ہیں کہ مہدی آ گیا انسان اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتا.پس انہوں نے اس بنیادی حقیقت کو جان لیا ہے کہ مذہب کا معاملہ دل سے ہے طاقت اور زور کے ساتھ دل نہیں بدلا جا سکتا اور چونکہ وہ اس کو شناخت کر چکے ہیں اس لئے ہمیں بڑی امید ہے کیونکہ ہمارے پاس پیغام ہی پیار کا ہے اخوت کا ہے اور ہمدردی کا ہے اور غم خواری کا ہے اور مساوات انسانی کا ہے.میں نے عیسائیوں میں سے کسی سے بات نہیں کی جس نے آگے سے یہ نہ کہا ہو کہ جو آپ کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے.میں نے لائبیریا میں ایک بارہ تیرہ سال کے بچے سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے اس نے غالباً جانسن کہا میں نے کہا نہیں اس وقت کے بعد تمہارا نام جمیل ناصر ہے اور تم مسلمان ہو وہ کہنے لگا Yes Sir.وہ بچہ ہمارے امین اللہ خاں سالک کے ہاں کام کرتا ہے انہوں نے اگلے روز بتایا کہ اس نے گھر جا کر کہا کہ میرا نام اب جانسن نہیں ہے میرا نام اب جمیل ناصر ہے اور میں مسلمان ہوں ان کے دل ہم نے جیت لئے ہیں لیکن ان کے مونہوں سے کہلوانا ہمارا کام ہے ہم بہتوں تک پہنچے ہی نہیں ایک جگہ ایروڈ روم پر ایک ترک دکان دارلڑ کی سے ہمیں پتہ لگا کہ ہم بہت سی جگہ غفلت کر جاتے ہیں، تبلیغ نہیں کرتے یا اتنی قربانی نہیں دیتے جتنی ہمیں قربانی دینی اس لڑکی کو دلچسپی پیدا ہوئی اس نے چوہدری محمد علی صاحب سے پوچھا کہ یہ کون ہیں اور میں ان سے ملنا چاہتی ہوں ( بعد میں وہ منصورہ بیگم سے بڑے پیار سے ملیں بھی ) چوہدری صاحب نے کہا کہ امام مہدی آگئے ہیں اور یہ ان کے تیسرے خلیفہ ہیں اس نے آگے سے جو جواب دیا وہ دل میں بڑا در داور دکھ پیدا کرنے والا ہے وہ کہنے لگی اگر امام مہدی آگئے ہیں تو مجھے کیوں علم نہیں ؟ بات اس کی ٹھیک
خطبات ناصر جلد سوم ۱۲۲ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء ہے ہماری غفلت ہے انہوں نے اسے یہی جواب دیا کہ یہ ہمارا قصور ہے کہ ہم نے تمہیں بتایا نہیں.اس کا یہی مطلب تھا کہ اگر امام مہدی آگئے ہیں تو مجھے اس کا کیوں علم نہیں ہوا ، میرے پاس کوئی بتانے والا کیوں نہیں آیا کہ امام مہدی آگئے ہیں.پس دنیا یہ پکار پکار کر کہ رہی ہے کہ اگر مہدی معہود مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آگئے ہیں تو ہمیں علم کیوں نہیں ہوا دنیا کو بتانا ایک احمدی کا فرض ہے آسمان سے فرشتوں نے آ کر نہیں بتانا اور اسی کی طرف میں انشاء اللہ اس خطبہ میں آپ کو لے کر آؤں گا.یہ محبت کا پیغام روز روشن کی طرح ان ممالک میں بھی اور جہاں میں نہیں جاسکا وہاں بھی ان پر عیاں ہو چکا ہے وہ اب ماننے لگ گئے ہیں کہ احمدی محبت اور پیار اور ہمدردی اور غم خواری اور مساوات کا پیغام لے کر ہمارے ملکوں میں آئے ہیں.مجھے بہت سے دوسرے ممالک کے سفراء ملے اور مجھ سے یہ کہنے لگے کہ ہم نے کیا قصور کیا تھا کہ آپ نے اپنے دورہ میں ہمارے ملکوں کو شامل نہیں کیا ؟ میں ان کو کیا کہتا کہ تمہارا قصور ہے یا نہیں بہر حال اس سے پتہ لگتا ہے کہ انہیں احمدیت کی طرف توجہ ہے.دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے بہت ساری تبدیلیاں کر رہے ہیں ان تبدیلیوں کے آخری نتائج کو سنبھالنا انسان کا کام ہوتا ہے اور یہ جماعت احمدیہ کا کام ہے.ان لوگوں میں ایک اور خوبی مجھے یہ نظر آئی کہ وہ صفائی کا بڑا خیال رکھتے ہیں یہاں تو یہ مشہور ہے کہ بڑی گندی اور بد بودار قومیں ہیں اب خدا تعالیٰ کے فضل سے صرف گھانا کے ملک میں منصورہ بیگم کے عورتوں کے مصافحے اور میرے مردوں کے جو مصافحے ہوئے ان کا ۲۵ ہزار سے زائد کا اندازہ ہے.لیکن مختلف جلسوں میں شمولیت اگر ۳۰،۲۵ ہزار مردوزن کریں تو اس سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت وہاں کی ہماری بالغ آبادی دو اور تین لاکھ کے درمیان ہے، بچے اور بچیوں کو چھوڑ کر ، یقیناً اتنی آبادی ہوگی خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی آبادی ہے اور سارے ممالک میں تو ہم نے بہت زیادہ مصافحے کئے ہیں اور میں نے ہزاروں معانقے کئے ہیں اور میرے خیال میں ہزاروں ہی کی تعداد میں بچوں سے پیار کیا ہے اور سارے دورے کے اندر سوائے ایک یا دو کے کسی سے بد بو نہیں آئی ہزاروں میں سے ایک دو کا ہونا محض استثناء
خطبات ناصر جلد سوم ۱۲۳ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء ہے.غرض ان میں بدبو نہیں ہے وہ اتنے صاف لوگ ہیں اور صفائی کے اتنے شوقین ہیں کہ ان چھ ملکوں میں سے کسی جگہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے پانی نظر آیا ہو اور وہاں افریقن کپڑے نہ دھور ہے ہوں میں نے بڑا غور کیا جہاں کہیں بھی مجھے پانی نظر آیا میں نے اس پر افریقنیوں کو کپڑے دھوتے ہوئے پایا وہ دن میں تین دفعہ نہاتے ہیں یہاں بھی اگر میں پوچھوں ( لیکن میں پوچھوں گا نہیں ) تو شاید صرف سینکڑوں ہی ایسے نکلیں جو دن میں دو دفعہ نہاتے ہوں گے مگر وہ دن میں تین دفعہ نہاتے ہیں اور ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ جو دن میں پانچ دفعہ کپڑے بدلتے ہیں.وہ جبوں کے بڑے شوقین ہیں ( مجھے بھی انہوں نے پیار سے ان جیبوں کے تحفے دیئے ہیں ) بس دن میں کئی بار جیتے بدلتے رہتے ہیں اور ان جیبوں کے ساتھ ان کی شکلیں بھی بدل جاتی ہیں پہچاننا بھی مشکل ہو جاتا ہے.پس بہت صاف ملک ہیں لوگ بڑے صاف رہتے ہیں دل سے دعا نکلتی تھی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کو ظاہری صفائی کی توفیق عطا کی ہے اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے کہ ان کی باطنی صفائی کے بھی سامان ہو جا ئیں یہ ہماری ذمہ داری ہے ہم نے جا کر ان کی باطنی صفائی کے انتظام کرنے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی باطنی صفائی کے جمعدار ہمیں بنایا ہے ہمارے سوا دوسرا کوئی باطنی صفائی کر ہی نہیں سکتا جب اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے آپ کو چنا ہے اور سوائے آپ کے کسی کو نہیں چنا پھر یہ تو بڑی ناشکری ہوگی کہ ہم اپنے کام سے گھبرائیں.میں نے ان کو وہاں یہ بھی کہا کہ میں یہاں آیا ہوں اور تم خوش ہو خوشی کی کوئی انتہا ہی نہیں تھی میں اس کو بیان نہیں کر سکتا.میری نظرمیں شرم سے جھک جاتی تھیں اور مجھ میں خدا تعالیٰ کی حمد کی طاقت نہیں ہے وہ مصافحہ کرتے تھے اور خاموشی سے چہرہ دیکھنے لگ جاتے تھے پیچھے سے دوسرا آدمی شہو کا دیتا تھا کہ چل آگے لیکن یہ نہیں کہ کوئی بات کرنی ہے اس لئے ٹھہر گئے ہیں بس چہرہ دیکھے جارہے ہیں کئی ایک سے میں نے پوچھا بھی کیا سیری نہیں ہوتی دیکھتے چلے جاتے ہو اور اتنا پیار دیکھا کہ بیان نہیں کر سکتا وہ احمدیت سے پیار ہے ، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پیار ہے، وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار ہے ، وہ اللہ تعالیٰ سے پیار ہے کہ ان کے ذریعہ سے (اصل تو توحید کا قیام ہے) خدا تعالیٰ کے پیار کو دنیا میں قائم کیا گیا ہے وہی ایک واحد و یگانہ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۲۴ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء ہے باقی تو سارا افسانہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہی حقیقت اور وہی باقی رہنے والی ہستی ہے.مثلاً ایک بڑھیا جسے پوری طرح نظر بھی نہیں آتا تھا سفر بھی نہیں کر سکتی تھی اس نے دو مہینے خرچ کر کے ایک ٹوکرا بنایا اور اپنی بیٹی کو بھیجا اور تاکید کی کہ اپنے ہاتھ سے دینا اور دعا کے لئے کہنا وہ بچی کہنے لگی کہ میری ماں سفر نہیں کر سکتی تھی مجھے اس نے یہ ٹوکرا دے کر بھیجا ہے اس کے بنانے پر اس نے دو ماہ خرچ کئے ہیں ہمارے ساتھیوں سے غلطی ہوئی وہ سیرالیون میں رہ گیا میں نے کہا یہ ٹوکرا پیچھے نہیں رہے گا چنانچہ وہاں تار دی اور اسے ہوائی جہاز کے ذریعہ لندن منگوا یا اور اب اسے میں یہاں لے آیا ہوں میں نے ان سے کہا کہ تم یہ دیکھتے ہو کہ بازار میں اس کی قیمت دسن اروپے ہے اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ جس پیار نے اس کو بنایا ہے دنیا میں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے، یہ تو میں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا بعض نے کہا کہ یہ کپڑا چھ ماہ سے تیار کرنا شروع کیا تھا اور اب ہم تیار کر کے اس کو آپ کے لئے لائیں ہیں دھاگہ بھی ہم نے بنایا پھر کپڑا بھی ہم نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور پھر اسے آخری شکل جو دینی تھی وہ بھی اپنے ہاتھ سے دی یہ کھدر کے بڑے موٹے وزنی کپڑے ہیں آپ انہیں دیکھیں گے تو کہیں گے کہ بازار میں شاید سات ساڑھے سات روپے میں مل جائیں لیکن میں نے کہا میں ان کو نہیں چھوڑوں گا چاہے ان کے کرایہ پر ہزاروں روپے ہی کیوں نہ خرچ کرنے پڑیں کچھ ہمارے ساتھ آگئے ہیں کچھ کے یہاں لانے کا ہم انتظام کر کے آئے ہیں وہ سارے انشاء اللہ یہاں پہنچ جائیں گے.پس احمدیت کے ساتھ ان کا اس قسم کا پیار ہے اور وہ احمدیت کے فدائی ہیں بالکل نڈر ہیں.لیگوس میں ہم پہنچے تو ہوٹل کے باہر سینکڑوں بچے تھے جو احمدیت زندہ باد، اسلام زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے.” زندہ باد کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ اسے سارے سمجھتے ہیں نیز اهلًا وسهلا کہہ رہے تھے پس وہ نعرے لگا رہے تھے جب میں آگے بڑھا تو ہمارے احمدی بھائی نعرے لگاتے ہوئے اس کے ایک بہت بڑے ہال میں داخل ہو گئے.چوتھی منزل پر ہمارے کمرے تھے جب ہم سیڑھیاں چڑھنے لگے تو یہ بھی نعرے لگاتے ہوئے ساتھ جارہے تھے یہاں تک کہ دروازہ آگیا اور یہ بھی ساتھ تھے صرف اس وقت ہی نہیں بلکہ اگر دن میں مجھے تین دفعہ نیچے اترنا
خطبات ناصر جلد سوم ۱۲۵ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء ہوتا تو وہی نعرے لگتے جب بھی میں کمرے سے باہر آتا وہ نعرے لگاتے غیر ملکی یہ دیکھ کر حیران ہوتے اور دلچسپی لیتے اور شاید دل میں غصہ بھی آتا ہو مگر ان کو کسی سے کوئی غرض نہیں تھی وہ تو دل میں ایک جوش تھا کہ احمدیت نے ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روشن اور حسین چہرہ دکھایا اور اللہ قادر وتوا نا سے زندہ تعلق پیدا کیا.بو میں ہم گئے تو وہاں گورنمنٹ کی لاج میں اتنا چراغاں تھا کہ جس طرح ربوہ نے چراغاں کیا وہاں بھی چراغاں تھا ہمارے ایک دوست نے کہا کہ آپ نے تکلف کیا ہے آپ نے یہاں اتنا خرچ کر دیا ہے اس نے آگے سے جواب دیا کہ ہمارے دلوں میں چراغاں ہو رہا ہے ہم اپنے درود یوار کو اس سے محروم کیسے رکھ سکتے ہیں یہ ان کی قلبی کیفیت ہے اور یہ وہ محبت کا پیغام ہے جسے وہ آگے پہنچا رہے ہیں پس یہ وہ چیز ہے جو غیروں کے دل بھی جیت رہی ہے.کماسی میں Reception(ری سپشن ) پر ایک بڑے اثر ورسوخ والا افریقن آیا وہاں کے جو پیرا ماؤنٹ چیف ہیں وہ خود گفتگو نہیں کرتے انہوں نے اپنی طرف سے بیچ میں واسطے رکھے ہوئے ہیں اور یہ ان کے Spokesman ( سپوکس مین ) کہلاتے ہیں چنانچہ ایک پیراماؤنٹ چیف کا Spokesman (سپوکس مین ) آیا وہ مسلمان نہیں تھا مجھ سے کہنے لگا کہ میں ڈیڑھ سو میل سے اس لئے آیا ہوں کہ میں بیمار ہوں اور آپ سے میں نے درخواست کرنی تھی کہ آپ میرے لئے دعا کریں.ایک اور پیرا ماؤنٹ چیف آئے ہوئے تھے وہ اپنے ساتھ ایک ممبر لیجسلیٹو اسمبلی بھی لائے ہوئے تھے وہ مجھ سے کہنے لگے کہ میں اتنی دور سے آیا ہوں ہمارے علاقہ میں ڈاکٹر کی ضرورت ہے آپ وہاں میڈیکل سنٹر کھولیں اور یہ ایم.پی ( ممبر پارلیمنٹ ) جو ہیں یہ اس بات کا ذمہ لیتے ہیں کہ حکومت کے قواعد کے مطابق ( جسے Red tapism ( ریڈ ٹیپ ازم) کہتے ہیں ) مختلف دفاتر سے جو کام کروانا ہوگا وہ یہ کروا کر دیں گے میں نے ان سے کہا ٹھیک ہے آپ یہ کام کروادیں ہم آدمی بھیج دیں گے.میں نے بتایا ہے کہ گوون نے میرے ساتھ اس طرح گفتگو کی جس طرح کہ وہ بڑا پرا ناواقف
خطبات ناصر جلد سوم ۱۲۶ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء ہو اس نے جماعت کی تعریف کی جماعتی خدمات کا وہ بہت ہی ممنون تھا اس کے دل میں بھی اور اسی طرح جو دیگر Heads Of State (ہیڈز آف سٹیٹ) ہیں جن سے میں ملا ہوں ان کے دلوں میں بھی جماعت کی بڑی قدر اور وقعت ہے جب تفصیل میں جاؤں گا تو بتاؤں گا کہ سب کی یہی حالت ہے.پھر وہاں اللہ تعالیٰ کے جو فضل دیکھے تھوڑے سے ان کے نمونے بتا دیتا ہوں نائیجیریا سے میں نے کام شروع کیا نائیجیریا کے ایک احمدی گروہ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے بغاوت کر کے اور دنیا کی حرص میں وہاں کے سارے سکولوں پر جو آپ نے کھلوائے تھے ناجائز طور پر قبضہ کر لیا غالباً یہ کل گیارہ سکول تھے اور چونکہ اس وقت جماعت کا کوئی ”دستور“ نہیں تھا Constitution نہیں تھی اس واسطے قانونی طور پر کوئی چارہ جوئی نہ ہو سکتی تھی.”دین“ میں داخل ہوئے تھے اور دنیا کے چھلکے پر ان کے پاؤں پھسل گئے اور سکولوں پر قبضہ کر لیا جو ابھی تک جاری ہے لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ خود ان میں بد اخلاقیاں پیدا ہوگئی ہیں دین سے کوئی رغبت نہیں رہی سکولوں کو انہوں نے آمدنی کا ذریعہ بنالیا ہے اور کچھ سکول شاید عنقریب بند بھی ہو جائیں ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی چکر دیتا ہے میں وہاں یہی سوچ رہا تھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا جو میری غیرت کا تقاضا تھا کہ ہم فوری طور پر ۱۶ سکول کھولیں چنانچہ میں نے سمجھدار احباب کی ایک کمیٹی بنائی اور ان سے میں نے کہا کہ اس ملک میں میں نے ۱۶ ہائی سکول کھولنے ہیں اس لئے سلسلہ میں پانچ سالہ منصوبہ تیار کرو.مجھے یہ غیرت تھی کہ ان کے چھوٹے بڑے ملا کر گیارہ سکول ہیں پس ہم یہاں انشاء اللہ سولہ ہائی سکول کھولیں گے میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ میرے افریقہ چھوڑنے سے پہلے پہلے اس کمیٹی کی پہلی رپورٹ مجھے ملنی چاہیے اور انہیں میں نے یہ ہدایت کی کہ نقشے سامنے رکھو.مشورے کرو اور دیکھو کہ کہاں کہاں سکول کھولنے چاہئیں بہر حال ان کی پہلی رپورٹ مجھے وہیں مل گئی تھی لیکن جب میں نے یہ کمیٹی بنائی تو ہوا یہ کہ اگلے روز ویسے ہی بے خیالی میں ریڈیو کو میں نے چلا یا خبروں کا وقت تھا.اس وقت شمال مغربی سٹیٹ کے گورنر کے انٹرویو کا خبروں میں اعلان ہو رہا تھا ( یہ شمال مغربی سٹیٹ مسلمانوں کا علاقہ ہے ) کہ میری سٹیٹ میں تعلیم بڑی کم ہے اور میں نے ایمر جنسی کا اعلان کر دیا ہے میں اپنے ذرائع اکٹھے کر رہا ہوں اور
خطبات ناصر جلد سوم ۱۲۷ خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۷۰ء مجھے امید ہے عوام میرے ساتھ تعاون کریں گے میں نے ایک دن پہلے کمیٹی بنائی تھی چنانچہ جب میں نے یہ خبر سنی تو میں نے اس نو احمدی دوست جس کے متعلق آپ نے اخبار میں پڑھا ہوگا کہ میں نے کہا تھا Before the sun sets یعنی سورج غروب ہونے سے قبل تم احمدیت میں داخل ہو گے اور وہ ہو گیا تھا.یہ ڈپٹی سیکرٹری ہے اور کھاتا پیتا آدمی ہے اس نے مرسیڈیز کا ررکھی ہوئی ہے میں نے اسے کہا کہ تم جاؤ اور اس گورنر سے کہو کہ ہم تمہاری سٹیٹ میں فوری طور پر چارسکول کھولتے ہیں دولڑکیوں کے اور دو لڑکوں کے ہمیں تمہارے تعاون کی ضرورت ہے اور یہ صرف دو قسم کے تعاون ہیں ایک یہ کہ سکول کھولنے کے لئے ہمیں زمین دو کیونکہ یہ ہم باہر سے نہیں لا سکتے اور دوسرے یہ کہ ٹیچرز کے لئے Entry permit انٹری پرمٹ ) دو کیونکہ اس کے بغیر وہ تمہاری سٹیٹ میں آنہیں سکتے چنانچہ وہ اس پیشکش کو سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے ہر قسم کا تعاون کروں گا سکولوں کے اجراء میں آپ ہماری مدد کریں.ویسے اس نے یہ بھی کہا کہ ایک فارمل خط لکھ دیں کہ یہ ہم نے پیشکش کی ہے چنانچہ اس پر اس نے اپنےLand deptt (لینڈ ڈیپارٹمنٹ ) کو کہا کہ جہاں بھی یہ زمین پسند کریں وہاں ان کو زمین دی جائے اور محکمہ تعلیم کو کہا کہ ان کی طرف سے محکمہ میں مزید کسی درخواست کے آنے کا انتظار نہ کرو بلکہ جو فارمل کارروائی ہے یعنی فارم وغیرہ بھرنے ہوتے ہیں وہ فارم ان کو بھجوا دو تا کہ یہ کارروائی جلدی ختم ہو جائے سکول ٹیچرز نے آنا ہے اور بہت ساری حکومت سے اجازتیں لینی پڑتی ہیں.اور وہ ہمارے’وزیری‘ سے کہنے لگا (حالانکہ وہ غیر احمدی ہے ) کہ میں بہت خوش ہوں آپ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لینے کی پیشکش کی ہے میں آپ کو یہ بتا تا ہوں کہ اگر آپ لوگ نارتھ ویسٹرن سٹیٹ یعنی سکوتو ( جو در اصل عثمان بن فودی کا گھر ہے یہ ایک مجدد تھے جو اس علاقے میں پیدا ہوئے تھے میں ان کا ذکر وہاں جانے سے پہلے بھی کر چکا ہوں) کے علاقے کے لوگوں کے دل احمدیت کے لئے جیت لیں تو تمام شمالی مسلم علاقہ احمدی ہو جائے گا اس واسطے آپ کوشش کریں اور یہاں سکول کھولیں.پھر اس کے بعد ہم گھانا میں آئے وہاں غور کیا پھر آئیوری کوسٹ میں مشورے کئے پھر لائبیریا میں گئے وہاں غور کیا اور دوستوں سے مشورے کئے اور منصوبے بنائے وہاں کے صدر
خطبات ناصر جلد سوم ۱۲۸ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء مسٹر ٹب میں بڑے اچھے آدمی ہیں انہوں نے سوا یکٹر زمین کی منظوری دے دی ہے اور اپنے محکمے کو ہدایت کی ہے کہ یہ زمین جلدی جماعت احمدیہ کو دی جائے یہ سوا یکڑ کا اکٹھا قطعہ ہے بڑی زمین ہے انشاء اللہ بہت کچھ بن جائے گا.پھر سیرالیون کو ہم نے اپنے واپسی کے پروگرام کی وجہ سے چھوڑا تھا کیونکہ ہیگ آنے کے لئے ہم نے یہیں سے جہاز لینا تھا اگر پہلے سیرالیون جاتے پھر گیمبیا جاتے اور پھر سیرالیون جاتے تو یہ امر جماعت کے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی کوفت کا باعث ہوتا اس لئے پروگرام یہ بنایا تھا کہ پہلے Overfly (اوور فلائی) کر کے گیمبیا چلے جائیں یعنی اس ملک ( سیرالیون ) کے اوپر سے اڑ کر گیمبیا جائیں اور پھر وہاں سے واپس سیرالیون آئیں اور پھر یہاں سے یورپ کو آئیں.گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے (میرے اپنے پروگرام نہیں رہنے دیئے بلکہ ) بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ یہ وقت ہے کہ تم کم سے کم ایک لاکھ پاؤنڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا اور بہت بڑے اور اچھے نتائج نکلیں گے خیر میں بڑا خوش ہوا پہلے اپنا پروگرام اور منصوبہ تھا اب اللہ تعالیٰ نے منصوبہ بنا دیا.گیمبیا چھوٹا سا ملک ہے میرے آنے کے بعد مولویوں نے بڑی مخالفت شروع کر دی ہے اور میں بہت خوش ہوں کیونکہ اس آگ میں سے تو ہم نے بہر حال گزرنا ہے ہمارے لئے یہ پیشگوئی ہے کہ آگ تمہارے لئے ضرور جلائی جائے گی جو الہام ہے نا کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.اس میں دو پیشگوئیاں ہیں ایک یہ کہ تمہیں راکھ کرنے کے لئے آگ جلائی جائے گی اور دوسری یہ کہ وہ آگ تمہیں راکھ نہیں کر سکے گی بلکہ فائدہ پہنچانے والی ہوگی ، تمہاری خدمت کرنے والی ہوگی پس جب اس پیشگوئی کا پہلا حصہ پورا ہوتا ہے یعنی آگ جلائی جاتی ہے ہم اس سے ڈرتے نہیں بلکہ خوش ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق پہلی بات پوری کر دی اور وہ قادر و توانا اپنے دوسرے وعدہ کو بھی ضرور پورا کرے گا اس لئے آگ ہمیں راکھ نہیں کرے گی بلکہ خدمت کرنے والی ہوگی بہر حال وہاں ہماری مخالفت شروع ہے اور میں خوش ہوں اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۲۹ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء سے آپ بھی دعائیں کریں میں بھی دعائیں کرتا رہتا ہوں مخالفت کی یہ آگ ہمیں جلانے کے بجائے ہماری کامیابیوں پر فتح کے ہار گوندھے اور یہ آگ خوشیاں منانے والی ہو اور اس آگ میں سے ہمارے اوپر آگ کے شعلوں کے بجائے پھولوں کی پتیاں برسیں یہی ہم سے وعدہ ہے اگر وہ پورا ہوا ہے تو یہ بھی پورا ہوتا چلا جائے گا.پھر جب ہم سیرالیون میں آئے تو اور زیادہ جرات تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا تھا کہ کرو خرچ ، میں اچھے نتائج نکالوں گا چنانچہ وہاں پروگرام بنائے پھر میں لندن آیا تو میں نے جماعت کے دوستوں سے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء معلوم ہوا ہے کہ ان چھ افریقی ممالک میں تم کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ خرچ کر دو ( ویسے یہ پوری سکیم میرے ذہن میں ہے کہ کس کس رنگ میں کام چلانا ہے ) پس یہ ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم کم سے کم ہے اور اس سلسلہ میں انگلستان کی جماعتوں میں سے مجھے دوسوا ایسے مخلص آدمی چاہئیں جو دو سو پاؤنڈ فی کس کے حساب سے دیں اور دوسو ایسے مخلصین جو ایک سو پاؤنڈ فی کس کے حساب سے دیں اور باقی جو ہیں وہ ۳۶ پاؤنڈ دیں ان میں سے بارہ پاؤنڈ (ایک پاؤنڈ ایک مہینے کے لحاظ سے فوری طور پر دے دیں میں نے انہیں کہا کہ قبل اس کے کہ میں انگلستان چھوڑوں اس مد میں دس ہزار پاؤنڈ جمع ہونے چاہئیں اور اس وقت انگلستان سے روانگی میں بارہ دن باقی تھے چنانچہ دوستوں کے درمیان میں صرف دو گھنٹے بیٹھا ایک جمعہ کے بعد اور دوسرے اتوار کے روز جس میں اور نئے آدمی بھی آئے ہوئے تھے اور ان دو گھنٹوں میں ۲۸ ہزار پاؤنڈ کے وعدے ہو گئے تھے اور ۱۳ اور ۴ ہزار پاؤنڈ کے درمیان نقد جمع ہو گئے تھے میں نے پھر اپنے سامنے نیا اکاؤنٹ کھلوایا اور اس کا نام ” نصرت جہاں ریز روفنڈ“ رکھا ہے یہ اکاؤنٹ وہیں رہے گا وہیں اس میں رقم جمع ہوگی غرض نصرت جہاں ریزرو فنڈ“ کے نام سے ایک علیحدہ اکاؤنٹ کھلوایا اور اس میں رقم جمع کروائی کیونکہ اس سے پہلے جو رقمیں آرہی تھیں وہ مسجد فنڈ کے اکاؤنٹ میں جارہی تھیں.میں نے جمعہ کے خطبہ میں انہیں کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ ہم یہ رقم خرچ کریں اور ہسپتالوں
خطبات ناصر جلد سوم ۱۳۰ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء اور سکولوں کے لئے جتنے ڈاکٹر اور ٹیچر چاہئیں وہاں مہیا کریں میں نے دوستوں سے کہا کہ مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ یہ رقم آئے گی یا نہیں یا آئے گی تو کیسے آئے گی یہ مجھے یقین ہے کہ ضرور آئے گی اور نہ یہ خوف ہے کہ کام کرنے کے لئے آدمی ملیں گے یا نہیں ملیں گے یہ ضرور ملیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ کام کرو.خدا کہتا ہے تو یہ اس کا کام ہے لیکن جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی فکر کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ محض خدا کے حضور قربانی دے دینا کسی کام نہیں آتا جب تک اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول نہ کر لے.لاکھوں لاکھ قربانیاں حضرت آدم کے زمانے سے اس وقت تک روکی گئیں جن کا ذکر مختلف احادیث نبوی میں موجود ہے پس مجھے یہ فکر ہے اور تمہیں بھی یہ فکر کرنی چاہیے اس لئے دعائیں کرو اور کرتے رہو کہ اے خدا! ہم تیرے عاجز بندے تیرے حضور یہ حقیر قربانیاں پیش کر رہے ہیں تو اپنے فضل اور رحم سے ان قربانیوں کو قبول فرما اور تو ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل فر ما سعی مشکور ہو ہماری ، وہ سعی نہ ہو جو ہمارے منہ پر مار دی جائے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال ہم اسی کے حضور پیش کرتے ہیں اس کا احسان ہے کہ وہ ہماری طرف سے قبول کر لیتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور آپ کا فرمودہ در تخمین میں مندرجہ آمین میں یہ چھوٹا سا مصرعہ بڑا ہی پیارا ہے.گھر سے تو کچھ نہ لائے.پس یہ ایک حقیقت ہے کسی بات پر ناز کیا؟ اور قربانی کیا ؟ اور ایثار کیسا؟ اور تم پیش کیا کر رہے ہو، یہ تو اس کا احسان ہے کہ وہ کہتا ہے اے میرے بندے! میں نے جو تمہیں مال دیا تھا وہ تو اب میرے سامنے اخلاص اور پیار سے اور میری محبت میں میرے حضور پیش کر رہا ہے میں اس کو اس طرح قبول کر لیتا ہوں جس طرح واقعی تیرا ہے یہ تو اس کا احسان ہے.وہاں افریقہ میں بچوں نے ایک نظم پڑھی تھی پوری تو مجھے یاد نہیں عربی میں ہے اور بہت ہی اچھی ہے.بچوں کے نرم نرم ہونٹوں سے بڑی پیاری لگتی تھی يَا ابْنَ آدَمَ الْمَالُ مَالِي وَالْجَنَّةُ جَنَّتِي وَ اَنْتُمْ عِبَادِي يَا عِبَادِي اشْتَرُوا جَنَّتِي بِمَانِي
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء یعنی اے آدم کے بیٹو! مال بھی میرا ہے اور جنت بھی میری ہے اور تم بھی میرے بندے ہو.اے میرے بندو! میں تم پر یہ احسان کرتا ہوں کہ جو میری جنت ہے وہ میرے اس مال سے خرید لو جو میں نے تمہیں دیا ہے بچوں کے نرم نرم ہونٹوں سے نکلی ہوئی یہ نظم بہت ہی پیاری لگتی تھی.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی ہوش مند انسان انکار نہیں کر سکتا کہ مال بھی اللہ کا اور جنت بھی اللہ کی اور بندہ بھی اللہ کا اور اللہ تعالیٰ بطور احسان یہ فرماتا ہے کہ میرے مال سے میری جنت خرید لوپس میں نے اپنے بھائیوں سے یہ کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ مال کیسے آئے گا.مال تو انشاء اللہ ضرور آئے گا کیونکہ خدا کہتا ہے خرچ کر واب ایک شخص کو خدا کہے کہ خرچ کرو اور جیبیں اس کی رکھے خالی پھر تو وہ ہندوؤں کا خدا ہوگا یا عیسائیوں کا خدا ہو گا یا ان مسلمانوں کا خدا ہو گا جو یہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کو سچی خواب بھی نہیں آسکتی ہمارا وہ خدانہیں ہمارا خدا تو قادر وتوا نا خدا ہے وہی اللہ جو ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اپنی تمام طاقتوں اور صفات کے ساتھ جلوہ گر ہوا وہ ہم سے بولتا بھی ہے اور ہم دن رات اس کی قوت اور طاقت کے معجزانہ سلوک اپنے ساتھ دیکھتے بھی ہیں.فکر یہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری سعی کو سعی مشکور بنا دے یہ نہ ہو کہ خدانخواستہ کہیں ہماری کسی غلطی یا غفلت یا گناہ یا برائی یا کسی وقت کے تکبر کے نتیجہ میں وہ دھتکار دی جائے.امام رفیق صاحب نے مجھے کہا وقت تھوڑا ہے اور آپ نے اتنی بڑی رقم جماعت کے ذمہ لگا دی ہے جو فضل عمر فاؤنڈیشن کی ٹوٹل رقم سے دگنی سے بھی زیادہ ہے اور جسے انہوں نے تین سال کی کوششوں کے بعد اکٹھا کیا ہے چنانچہ اس سلسلہ میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے بڑے دورے کئے ہمارے شیخ مبارک احمد صاحب بھی مہینہ ڈیڑھ مہینہ وہاں رہ کر آئے اور دورے کئے تب جا کر تین سال میں ۲۱ ہزار پاؤنڈ جمع ہوئے اور میں نے دو گھنٹے میں جو خطاب کیا تھا ان دو گھنٹوں کے اندر اسی وقت ۲۸،۲۷ ہزار پاؤنڈ کے وعدے اور نقد رقم جمع ہوگئی.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا میری طرف سے نہیں تھا لیکن اس کرسی اور مقام کی اللہ تعالیٰ غیرت رکھتا ہے جس مقام پر اس نے مجھے بٹھا دیا ہے.امام صاحب مجھے کہتے تھے کہ یہ رقم جمع نہیں ہوئی آپ مجھے مہلت دیں میں دورے کروں گا اور یہ دس ہزار پاؤنڈ کی رقم جمع کروں گا.میں یہ سن کر ہنس پڑا
خطبات ناصر جلد سوم او خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء میں نے انہیں کہا کہ میں ایک دن کی بھی مہلت نہیں دوں گا اور رقم جمع ہو جائے گی.خدا تعالیٰ مجھے کہے اور میں وہ بات آپ تک پہنچاؤں اور وہ کام نہ ہو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا.جس دن میں وہاں سے چلا ہوں اس دن ان رقوم کو نکال کر جن کی اطلاع ہمیں مل چکی تھی کہ وہ مختلف شہروں سے چل پڑی ہیں دس ہزار چارسو پچاس کے لگ بھگ نقد اس مد میں جمع ہو چکے تھے اور اگر ان رقوم کو بھی ملایا جائے جن کی اطلاع ہمیں مل چکی تھی تو پھر گیارہ ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ کی رقم عملاً جمع ہو چکی تھی اور میرا اندازہ ہے کہ ایک مہینے کے اندروہ پندرہ ہزار سے اوپر نکل جائیں گے اور ادھر فضل عمر فاؤنڈیشن میں ۲۱ ہزار ٹوٹل اور وہ بھی تین سال کی بڑی کوششوں کے بعد اور ادھر چالیس ہزار اس وقت تک ہو گیا تھا.میں نے کہا تھا کہ پچاس ہزار تک پہنچ جاؤ میں بڑا خوش ہوں گاممکن ہے پچاس ہزار سے بھی اوپر نکل جائیں میں نے انہیں یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کام کرو اور میں اس کے مطابق کام کروں گا اب جماعت کو میں نے یہ نہیں کرنے دینا کہ وہ (افریقہ والے تو ) کہیں کہ کام تیار ہے پیسے بھیجو اور میں کہوں کہ ہوں تو میں بڑا امیر لیکن میری دولت کا انحصار صرف وعدوں پر ہے میرے پاس وعدوں کے گٹھڑ جمع ہیں اور جب وہ پورے ہو جا ئیں گے تو میں تمہیں بھجوا دوں گا یہ تو نہیں ہوسکتا کام تو بہر حال ہونا ہے اور تم سے لینا ہے مثلاً انگلستان میں ہمارے بعض ڈاکٹر ہیں وہیں پریکٹس کر رہے ہیں ان سے میں نے کہا دیکھو مجھے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے تم اخلاص سے اور محبت سے اور ہمدردی سے میری آواز پر لبیک کہو ڈاکٹر تو ویسے انشاء اللہ مجھے ضرور ملنے ہیں لیکن تم رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرو اگر خود نہیں کرو گے تو میں تمہیں حکم دوں گا اور میرا حکم تمہیں بہر حال ماننا پڑے گا کیونکہ حکم عدولی تو وہی کرے گا جو احمدیت کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو گا اور جو احمدیت سے نکل جائے اس کی نہ مجھے ضرورت ہے نہ میرے اللہ کو ضرورت ہے چنانچہ انہیں بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں.امام رفیق کے پاس بنگ کا مینیجر آیا ہوا تھا اسی اکاؤنٹ کے کھولنے کے سلسلہ میں بعض فارم پر کروانے ہوتے ہیں وہ مجھ سے بھی ملنے آیا تو میں نے اسے یہ واقعہ سنایا تو وہ بڑا خوش ہوا اور خوب ہنسا کہنے لگا یہ خوب ہے.یا رضا کارانہ طور پرا اپنی خدمات پیش کرو یا پھر میں تمہیں حکم دوں گا جو تمہیں بہر حال ماننا پڑے گا پھر وہ کہنے لگا کہ کیا
خطبات ناصر جلد سوم ۱۳۳ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء ان میں سے کسی نے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی ہیں؟ میں نے کہا ہاں جنہوں نے رضا کارانہ طور پر پیش کی ہیں انہیں ثواب بہر حال زیادہ ملے گا اس وقت حالت یہ ہے کہ اگر ہم ۳۰ میڈیکل سنٹر کھول دیں تو اس کا وہاں اتنا اچھا اثر پیدا ہوگا کہ ہم ایک ایک ملک میں ہر سال ایک ایک نیا ہائی سکول کھولتے چلے جائیں گے اس دورہ سے جماعت کو اور مجھے جو سب سے بڑا فائدہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے وہاں کے سارے حالات دیکھے اور اب میں علی وجہ البصیرت کوئی کام کر سکتا ہوں پہلے تو میں رپورٹوں پر فیصلے کیا کرتا تھا اب میں ہر آدمی کو جانتا ہو.ویسے اللہ تعالیٰ کے فضل کا یہ حال ہے کہ پچھلے جماعتی الیکشن پر ہمارے غانا کے پریذیڈنٹ صاحب کے دماغ میں یہ کیڑا پیدا ہوا اور انہوں نے یہ کہا کہ اگر مجھے دوبارہ منتخب نہ کیا گیا تو میں فساد پیدا کروں گا مجھے یہ اطلاع ملی تو میں نے ان کو تار دی کہ تم انتخاب نہ کرواؤ میں خود انتظام کروں گا یہ دو مہینے پہلے کی بات تھی اب جب میں وہاں گیا تو ایک مجلس عاملہ اور دوسرے کرتا دھرتا افریقن بیٹھے ہوئے تھے میں نے باتوں باتوں میں ان کی طرف دیکھ کر یہ فقرہ کہا کہ میں نے ex-president ( یعنی سابق پریذیڈنٹ ) کے لئے ایک تحفہ رکھا ہوا ہے.میں چاہتا ہوں کہ ان کے کان میں یہ بات پڑ جائے اور وہ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں.سب نے یہ سنا اور سمجھ گئے پھر میں نے ایک دن مجلس عاملہ کی میٹنگ بلا کر کہا کہ دیکھو دنیا کی کوئی قوم اور کوئی جماعت ترقی نہیں کیا کرتی جب تک وہ اپنے سابق عہدیداروں کی عزت اور تعظیم نہ کرے مثلاً اگر ایک ملک ایسا ہو کہ وہ سیاسی طور پر سابق پریذیڈنٹ کو کتا کہنے لگ جائے تو جب چار پانچ کتے بن جائیں یعنی جب بھی وہ پریذیڈنسی سے ہٹیں گے وہ کہتے کہلائیں گے اور جب وہ ہٹ جائیں گے تو غیر ملک والے یہی سمجھیں گے کہ کتوں کی قوم ہے کتوں کو پریذیڈنٹ بناتی ہے.پس دنیا میں ترقی کرنے اور دنیا کے وقار اور عزت کو حاصل کرنے والی قوم کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو اہل ہو اس کو عہد یدار بنا ئیں اور جب یہ عہد یدار بدلے تو اس کی اسی طرح عزت و تکریم کریں جس طرح اس کی عہدیدار ہونے کی حیثیت میں کرتے تھے کسی عربی شاعر نے کہا کہ ہم سرداروں کی قوم ہیں اور میرے پیچھے سرداروں کا
خطبات ناصر جلد سوم ۱۳۴ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء ایک Queue ( کیو ) لگا ہوا ہے جب ہماری قوم کا ایک سردار اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو پچھلا ایک قدم آگے بڑھ کر اس کی جگہ لے لیتا ہے اور وہ سردار بن جاتا ہے کیونکہ وہ سرداروں کی قوم ہے.جماعت احمد یہ بھی سرداروں کی قوم ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو سرداری کے لئے اور قیادت کے لئے دنیا میں پیدا کیا ہے نظامِ احمدیت میں ہرا سکس ( یعنی سابق ) اچھا ہے اگر اچھا نہیں تو تم جنہیں خدا نے کہا تھا کہ امانتیں اہل لوگوں کو سپرد کیا کرو تم نے کیوں نہ ایسا کیا اور اگر یہ امانت اہل کے سپرد کی تو پھر اس کی عزت اور تعظیم ضروری ہے.اس طرح جب میں ان کو سمجھا چکا تو پھر میں نے انہیں کہا کہ دوماہ پہلے تمہارا انتخاب ہونا تھا مگر نہیں ہوا کیونکہ میں نے منع کر دیا تھا قانونی طور پر اس وقت جو عہدیدار ہیں وہ میرے ہی مقرر کردہ ہیں کیونکہ الیکشن تو نہیں ہوا اور اب میں ان کو بدلنا چاہتا ہوں اور میں مشورہ کے بعد سارے بدل دوں گا اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے کہا یہ تمہارے سابق پریذیڈنٹ ہیں ان کی عزت کرنی ہے پھر جس طرح بچوں کو پیار کرتے ہیں اسی طرح ان کو پیار دیا ایک تحفہ بھی دیا اور اس طرح ان کو خوشی خوشی علیحدہ کر دیا لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو ان کے خلاف ایک مقدمہ چل رہا تھا.انہوں نے یہ نالائقی کی کہ مجھ سے دعا بھی نہیں کروائی شاید اللہ تعالیٰ انہیں کوئی دوسرا نشان دکھا دیتا.میں اس ملک سے دوسرے ملک چلا گیا اور ابھی پانچ دن نہیں گزرے تھے کہ مجھے اطلاع آئی کہ ان کو ایک سال کی قید ہوگئی ہے اور وہ جیل میں چلے گئے ہیں.میں بہت خوش ہوا میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس مقدمے کے فیصلے سے پانچ دن پہلے مجھ سے فیصلہ کروایا اور اس فیصلے کو روکے رکھا کہ دنیا یہ نہ کہے کہ جماعت احمدیہ کا پریذیڈیٹ قید میں گیا ہے اب وہ پریذیڈنٹ نہیں پریذیڈنٹ کے عہدے سے ہٹ گیا ہوا ہے اور وہاں کی جماعت نے اس کو محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ کی شان ظاہر ہوئی ہے اور بڑے خوش ہوئے کہ دیکھو حضرت صاحب نے فیصلہ کیا اور پانچ دن کے بعد وہ فیصلہ ہو گیا جو جماعت کی بدنامی کا باعث بن سکتا تھا پس یہ چھوٹی چیزیں اور بڑی چیزیں سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں اور میں نے وہاں اللہ تعالیٰ کے اتنے فضلوں کو دیکھا ہے کہ تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شعر کے مطابق ہوا میں اس کے فضلوں کا منادی کیونکہ میں نے اپنی زندگی
خطبات ناصر جلد سوم اله خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء میں کوئی گھڑی ایسی نہیں پائی جس میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل نہ ہوا ہو اور کوئی گھڑی ایسی نہیں جس میں انسان پر یہ ذمہ داری نہ آتی ہو کہ وہ اس کے فضلوں کا منادی بنے اتنے فضل ہیں اتنے فضل ہیں کہ شمار نہیں کئے جا سکتے.آپ یہ سوچیں کہ سات ہزار میل کے فاصلے پر مغربی افریقہ کے ممالک ہیں جب انہوں نے محبت اور خوشی کے اظہار کئے تو میں نے بڑی استغفار کی ، بڑی دعا کی ان لوگوں کے لئے ، بڑا فکر اور غور کیا پھر مجھے مسئلہ سمجھ میں آ گیا وہاں پہنچنے کے چند دن بعد ایک دن کھڑا ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ آپ بے حد خوش نظر آتے ہیں اور آپ خوشی کے مستحق ہیں اس لئے آپ کو خوش ہونا چاہیے آپ اس لئے خوش ہیں کہ جماعت احمدیہ کی قریباً اسی سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے اور آپ لوگوں کی زندگیوں میں بھی یہ پہلا موقع ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ محبوب مہدی جو امت محمدیہ میں واحد و یکتا ہے.حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کو کوثر عطا ہونے کا وعدہ دیا گیا تھا کہ بے شمار فدائی تجھے دیئے جائیں گے.اس وعدہ کے پورا ہونے پر اس اُمت مسلمہ میں سے جو اتنی بڑی ہے کہ اس کا شمار نہیں صرف ایک کو چنا اور اس کے متعلق فرما یا اِنَّ لِمَهْدِينَا.اپنا مہدی کہا اور صرف اس ایک کے متعلق فرمایا کہ جب بھی وہ آئے تو جو بھی اُمت محمدیہ کے افراد اس زمانہ میں ہوں ان کا یہ فرض ہے کہ وہ میری طرف سے اسے سلام پہنچا ئیں.بڑی قدر دانی اور پیار کا اظہار ہے یہ اتنی قدر دانی ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں وہ محبوب اور وہ وجود جو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا تھا آج حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اس محبوب کا ایک خلیفہ تمہارے درمیان موجود ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ تو فیق عطا کی ہے کہ تم اسے دیکھو تم اس سے باتیں کرو اور تم اس کی باتیں سنو تم اس کے وجود اور اس کے کلمات سے برکت حاصل کرو.خوش ہوا اور خوشی سے اچھلو کہ آج کا دن تمہارے خوش ہونے کا دن ہے میں نے انہیں کہا کہ تم بھی خوش اور میں بھی خوش.تم تو اس لئے خوش ہو کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب روحانی فرزند کا ایک خلیفہ تم میں موجود ہے اور میں اس لئے خوش ہوں کہ آج سے اتنی سال قبل ایک یکا و تنہا آواز ایک Unknown ( آن نون ) یعنی غیر معروف گاؤں
خطبات ناصر جلد سوم ۱۳۶ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء سے اٹھی تھی جس کا مقصد اللہ کے حکم اللہ کی توحید کو قائم کرنا اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کو دنیا پر ظاہر کرنا تھا لیکن تھی وہ اکیلی آواز ، مگر دنیا نے اسے نہیں پہچانا اور ساری دنیا اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے اکٹھی ہو گئی مگر ساری دنیا کی ساری طاقتیں اس آواز کو خاموش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں.تمہارے منہ سے جو در و د نکل رہا ہے تمہارے چہروں پر جو محبت کی بشاشت ہے تم میں سے ہر ایک فرد دلیل ہے اس بات کی کہ وہ اکیلی آواز ایک بچے اور صادق کی آواز تھی جھوٹے کی آواز نہیں تھی اور جب میں یہ دیکھتا ہوں تو میں بھی بڑا خوش ہوں ، تم اپنی جگہ پر خوش ہو کہ تم نے مجھے دیکھا اور میں اپنی جگہ پر خوش کہ میں نے تمہیں دیکھا.سات ہزار میل دور نہ کبھی تم وہاں گئے نہ دیکھا مگر اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے تمہارے دلوں کو بدل دیا اور تمہارے دلوں میں اس محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو پیدا کر دیا وہ آواز جس کو خاموش کرنے کے لئے ساری دنیا کی طاقتیں مسلمان بھی عیسائی بھی ، ہندو بھی ، یہودی بھی اور بدھ بھی غرض ساری طاقتیں اکٹھی ہو گئی تھیں اور یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اس آواز کو خاموش کر دیں گے مگر خدا نے کہا کہ یہ دنیا تو کیا اس قسم کی ہزاروں دنیا اور ہزاروں دنیا کی سب طاقتیں آجائیں تب بھی یہ آواز خاموش نہیں کی جاسکے گی کیونکہ یہ میری آواز ہے یہ اس بندے کی آواز نہیں اور تم دلیل ہو اس بات کی کہ وہ سچا تھا ورنہ یہاں نہ وہ جماعتیں پیدا ہوسکتیں جو ہوگئیں نہ ہی ان دلوں میں وہ محبت پیدا ہو سکتی جو پیدا ہوئی نہ میں اس پیار کو دیکھ سکتا جو تمہارے چہروں پر مجھے نظر آ رہا ہے پس وہ بھی خوش تھے اور میں بھی خوش تھا آپ بھی خوش ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.میں نے شروع میں یہ فقرہ کہا تھا کہ میں ان کے لئے محبت اور پیار اور ہمدردی اور غمخواری اور اسلامی مساوات کا پیغام لے کر گیا تھا اور آپ کے پاس جب آیا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے منادی کی حیثیت سے واپس آیا ہوں اتنے فضل اتنے فضل کہ آپ ان کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.گرمی بھی بڑی ہے مجھے بھی لگ رہی ہے آپ کو بھی لگ رہی ہے اور شاید آپ میں سے چند میرے ساتھی ہوں گے جیسا کہ میری عادت ہے کہ میں جمعہ کی نماز سے پہلے کھانا نہیں کھایا کرتا اس لئے میں بغیر کھانا کھائے آیا ہوں پس بھوکا بھی ہوں اور گرمی کا بیمار بھی ہوں لیکن کہنے کو
خطبات ناصر جلد سوم ۱۳۷ خطبہ جمعہ ۱۲/جون ۱۹۷۰ء جتنا میرا دل کرتا ہے کہوں گا ، پانچ دس منٹ اور بولوں گا انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ کے فضل ہر رنگ میں ظاہر ہوئے ایک اور مثال دیتا ہوں ہم سیرالیون میں اترے تو اللہ تعالیٰ کے پیار کا یہ جلوہ نظر آیا کہ جماعت کے علم کے بغیر ریڈیو والوں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ لاج تک پہنچنے تک آنکھوں دیکھا حال براڈ کاسٹ کریں گے ( ہمیں لاج تک جہاں ہم نے رہائش رکھنی تھی پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگا ) اس وقت ریڈیو پر رنگ کمینٹری جسے آنکھوں دیکھا حال کہتے ہیں شروع ہوئی اور وہ لگا تار ڈیڑھ گھنٹے تک یہ آنکھوں دیکھا حال براڈ کاسٹ کرتا رہا اب یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ہر آدمی نے یہ پروگرام سنا سارے لوگ پہچاننے لگ گئے تھے مگر اب وہ عزت اور عظمت کے جلوے کے ساتھ پہچانتے تھے فوجی افسر جب گزرتے تھے تو وہ با قاعدہ سلوٹ کرتے تھے میں نے سوچا کہ اس میں میری ذاتی کیا عزت ہے اور نہ مجھے اس کی خواہش اور نہ ضرورت.میجر جنرل یا کمانڈر انچیف مجھے سلام کرے تو اس میں ذاتی طور پر کیا عزت، یہ تو اس خدا کی عزت کا اظہار ہے جس نے اس اکیلے (مہدی معہود علیہ السلام ) کو کہا تھا میں تیرے ساتھ ہوں تو دنیا کی پرواہ نہ کر اور پھر اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ واقعی مسیح موعود اور مہدی مہود کے ساتھ تھا، دنیا کی قطعاً پرواہ نہیں کی بے خوف ہوکر بولے بھی تقریریں بھی کیں باتیں بھی کیں اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ ان عزتوں کو قبول کیا ورنہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزتیں چاہئیں ، دنیا کی عزتیں ہیں کیا چیز ؟ ایک عارف انسان کی نظر میں دنیا کی عزتوں کی تو ایک ذرہ کے برابر بھی حیثیت نہیں لیکن خدا تعالیٰ کی شان کا مظاہرہ تھا اس کی قدرت اور پیار کے جلوے نظر کے سامنے تھے عیسائی ہمیں دیکھ کر ناچ رہے ہیں مسلمان جو ہیں (میں نام نہیں لوں گا ) ان کی اور ہی کیفیت تھی وہ اپنی مشکلات بیان کر کے دعا کی درخواست کرتے وقت اچھے خاصے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود زار و قطار رو بھی رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنی درخواست بھی پیش کر رہے ہیں یہ بھی نظارے ہم نے دیکھے بہتوں کے لئے دعائیں کیں اور بعض وہیں پوری بھی ہوگئیں وہاں ایک بہن ملیں اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا غالباً بو میں تھیں منصورہ بیگم سے جب ملاقات کے لئے آتی تھی چھٹی رہتی تھی اس کا قصہ یہ تھا کہ پورے ۳۹ سال ان کی شادی کو ہو گئے تھے اور کوئی بچہ نہیں تھا
خطبات ناصر جلد سوم ۱۳۸ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء اس وقت صحیح یاد نہیں منصورہ بیگم کہتی ہیں کوئی بچہ نہیں تھا میرا خیال ہے کہ کوئی لڑکا نہیں تھا) بہر حال جو بھی تھا ۳۹ سال ہو گئے تھے شادی ہوئے مگر لڑ کا کوئی نہ تھا یا اس کا بچہ ہی کوئی نہ تھا اور پھر اس نے خلافت ثالثہ کے شروع زمانہ میں ( پہلے وہ سستی کرتی تھی ورنہ یہ نعمت شاید اسے بہت پہلے مل جاتی ) لکھنا شروع کیا اور شادی کے ۴۰ سال بعد اللہ تعالیٰ نے اسے لڑکا عطا کیا چنانچہ وہ کوئی ۳ سال کے قریب کا بچہ تھا وہ اسے لے کر آتی تھی اور مزید دعا کے لئے کہتی تھی شادی کے ۴۰ سال کے بعد جبکہ اس کی عمر ۵۰، ۶۰ سال کے قریب تھی بچہ پیدا ہوا اگر پندرہ سال کی عمر میں بیاہی گئی ہو تب بھی اس کی عمر ۵۵ سال کی ہوگی اور اگر ۱۲ سال میں بیاہی گئی ہو تو ۵۲ سال کی عمر کی ہوگی پورے ۴۰ سال کی محرومی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے اولا د عطا فر مائی اس قسم کے معجزے پہلوں نے بھی دیکھے اور اس وقت بھی اللہ تعالیٰ اپنی بے حدشان دکھا رہا ہے مسلمان ممالک میں بھی عیسائیت قابض ہے کیونکہ مسلمان پڑھے لکھے نہیں نوے فیصد عیسائی کام کرنے والے ہیں اور عیسائیت کے خلاف ہماری مہم اور عیسائیت کے خلاف میرے نعرے لیکن تعاون کا یہ حال کہ صبح سات بجے کی خبروں میں (یہاں بھی قریب سات بجے صبح خبریں آتی ہیں ) اس میں رات کے دس بجے اور صبح سات بجے کی خبر کے درمیان جو میرا پروگرام تھا اس کے متعلق خبر پھر سات کے بعد ایک بجے کے درمیان کے جو پروگرام تھے ان کی خبر پھر ایک بجے اور پانچ بجے کے درمیان جو واقعات ہوئے.پانچ بجے کی خبروں میں ان کے متعلق خبر اور پھر پانچ اور رات کے نو بجے کے درمیان واقعات ہوئے رات کے نو بجے کی خبروں میں ان کے متعلق خبر نشر ہوتی تھی یوں کہنا چاہیے کہ ایک نمائندہ قریباً ۲۴ گھنٹے ساتھ لگا رہتا تھا پھر آپس میں جو باتیں کر رہے ہیں ان کے ریکارڈ کرنے کے لئے مائیک سامنے آجاتا تھا.بو میں جو فری ٹاؤن سے ۱۷۰ میل ہے ریڈیو کی ایک نمائندہ ہر وقت باہر بیٹھی رہتی تھی جوں ہی میں باہر نکلا اس نے ٹیپ ریکارڈ رآن کیا اور پاس آگئی اور پھر وہ نیوز بلیٹن سے پہلے خبریں بجھواتی تھی ایک دو فقرے نہیں بلکہ بعض دفعہ تو پندرہ منٹ کی خبروں میں پانچ پانچ منٹ تک ہمارے متعلق خبریں ہوتی تھیں کہ فلاں جگہ گئے یہ ہوا فلاں سے باتیں کیں مسجد کا بنیادی پتھر رکھا یا لڑکوں کو مخاطب کیا اور اس میں یہ یہ ان کو کہا علاوہ اس امید کے پیغام کے
خطبات ناصر جلد سوم ۱۳۹ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء جس کا میں ذکر کر چکا ہوں میں ان کو مایوسی کے دور کرنے والا پیغام بھی دیا کرتا تھا.کیونکہ بڑا ظلم ہوا ہے ان پر ایک طبقہ میں مایوسی بھی پائی جاتی تھی پس اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی توفیق دی کہ میں ان کی مایوسیوں کی دور کروں اور امیدوں کو ابھاروں تا کہ آئندہ نسلیں مسرت کی زندگی گزار سکیں ہماری دعا ہے کہ وہ دینی اور دنیوی ہر لحاظ سے بہتر زندگی گزار سکیں.جس نمائندہ عورت کا میں ذکر کر رہا ہوں اس نے دیکھا کہ میں نے سکول میں ایک لڑکے کو اپنی جیب سے دو پاؤنڈ نکال کر دیئے علاوہ اس انعام کے جو اسے سکول کی طرف سے ملنے والا تھا بعد میں وہ ہمارے پرنسپل سے کہنے لگی کہ یہ بچہ ہے اس نے یہ پاؤنڈ خرچ کر دینے ہیں اور یہ بڑا ظلم ہوگا اس لئے تم اسے کہو کہ ایک پاؤنڈ میرے پاس بیچ دے کیونکہ میں اسے خرید کر تبرک کے طور پر اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں پرنسپل نے مجھے بتایا میں نے کہا اس بچے کو محروم نہ کریں میں اسے ایک پاؤنڈ دے دیتا ہوں چنانچہ میں نے دستخط کر کے ایک پاؤنڈا سے دے دیا پھر اس نے منصورہ بیگم سے کہا کہ ہمارا آدھا خاندان مسلمان ہے اور آدھا عیسائی ہے انہوں نے مجھ سے ذکر کیا میں نے اسے تبلیغ کی اور اسے بتایا کہ عیسائیت یہاں یہ دعوی لے کر آئی تھی کہ مسیحیت کے پاس محبت کا پیغام ہے مگر وہ ناکام ہوئی اور عیسائی اقوام نے تم پر ظلم ڈھائے اب ہم آئے ہیں قریباً پچاس سال سے تمہارے ملک میں کام کر رہے ہیں اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو کہ سوائے ہمدردی اور مساوات اور اخوت کے اور کوئی جذبہ ہمارے دلوں میں نہیں ہے یہ لو بیعت فارم تم اسے پڑھو اور اللہ کے حضور دعا کرو میں نے اسے یہ نہیں کہا کہ ابھی احمدی ہو جاؤ کیونکہ یہ دل کا معاملہ ہے جب تک دل نہیں مانے گا تمہارے احمدی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے حضور تم دعا کرو اگر احمدیت یعنی اسلام سچا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اگر تمہارے اوپر روشنی ظاہر ہو جائے تو میں یہ ضرور کہوں گا کہ پھر کسی سے نہ ڈرنا اپنے باپ سے بھی نہ ڈرنا اور سچائی کو قبول کر لینا اس کی طبیعت پر یہ اثر تھا کہ چلتے وقت اس نے منصورہ بیگم سے کم از کم آٹھ دس دفعہ کہا کہ حضرت صاحب سے میرے لئے دعا کی درخواست کرتی رہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صداقت کو قبول کرنے کی توفیق دے آپ بھی دعا کریں.
خطبات ناصر جلد سوم ۱۴۰ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ کے فضل جس قوم پر نازل ہورہے ہوں اس پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد کرتے چلے جاتے ہیں میری طبیعت پر اثر ہے اور میرے دل میں بڑی شدت سے یہ بات ڈالی گئی ہے کہ آئندہ ۲۳، ۲۵ سال احمدیت کے لئے بڑے ہی اہم ہیں کل کا اخبار آپ نے دیکھا ہو گا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۴۵ء میں کہا تھا کہ اگلے بیس سال احمدیت کی پیدائش کے ہیں اس واسطے چوکس اور بیدار رہو بعض دفعہ غفلتوں کے نتیجہ میں پیدائش کے وقت بچہ وفات پا جاتا ہے میں خوش ہوں اور آپ کو بھی یہ خوشخبری سناتا ہوں کہ وہ بچہ ۶۵ء میں بخیر و عافیت زندہ پیدا ہو گیا جیسا کہ آپ نے کہا تھا کہ میرے دل میں یہ ڈالا گیا ہے کہ وہ بچہ خیریت کے ساتھ ، پوری صحت کے ساتھ اور پوری توانائی کے ساتھ ۱۹۶۵ء میں پیدا ہو چکا ہے.اب ۶۵ ء سے ایک دوسرا دور شروع ہو گیا اور یہ دور خوشیوں کے ساتھ ، بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانے کا ہے.اگلے ۲۳ سال کے اندر اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہونے والا ہے یا دنیا ہلاک ہو جائے گی یا اپنے خدا کو پہچان لے گی یہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے میرا کام دنیا کو انذار کرنا ہے اور وہ میں کرتا چلا آ رہا ہوں آپ کا کام انذار کرنا اور میرے ساتھ مل کر دعائیں کرنا ہے تا یہ دنیا اپنے رب کو پہچان لے اور تباہی سے محفوظ ہو جائے.اب جیسا کہ میں نے انگلستان میں اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ مجھے یہ فکر نہیں ہے پیسہ کہاں سے آئے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے شروع خلافت میں مجھے یہ بتایا تھا ” تینوں اینا دیاں گا کہ تورج جاویں گا“ چنانچہ آپ نے دیکھا کہ دو گھنٹے میں ۲۷، ۲۸ ہزار پاؤنڈ کے وعدے ہو گئے اور یہ بغیر کوشش کے ہوئے میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میرے جانے سے پہلے پہلے دس ہزار پاؤنڈ کی رقم اس مد میں ضرور ہونی چاہیے.عہد یدار مایوس تھے لیکن میں ایک سیکنڈ کے لئے مایوس نہیں ہوا مجھے پتہ تھا کہ میرے خدا نے کہا ہے کام کر و اگر میرے پاس ایک لاکھ پاؤنڈ ہوتا اور میرا رب مجھ سے کہتا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ خرچ کر دو تو میں اپنا لاکھ پاؤنڈ خرچ کر کے آپ کے پاس آتا کہ میرے پاس جو تھا وہ میں نے خرچ کر دیا اور یہ کم سے کم ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں اس کا پہلا مخاطب ہوں مجھے کام کر دینا چاہیے.اب جب مجھے اس نے کہا کہ کم سے کم اتنا خرچ کرو تو
خطبات ناصر جلد سوم ۱۴۱ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء مجھے پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پیاری جماعت کی انگلی میرے ہاتھ میں دی ہے میں اس سے یہ کہوں گا اور وہ یہ کام کریں گے اللہ تعالیٰ جتنی مجھے توفیق دے گا میں بھی اس میں حصہ لوں گا لیکن میں آپ کی بات کر رہا ہوں.پاکستان کے لئے میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ایک سکیم بنائی ہے لیکن اس سے پہلے میں اس کی تمہید بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں فارن ایکسچینج کی تنگی رہتی ہے اور ہمیں باہر بھیجنے کے لئے روپیہ نہیں ملتا.ہم قانون کی پابندی کرنے والے ہیں.کو پن ہیگن کی مسجد کے لئے ہماری بہنوں نے جو چندہ دیا تھا وہ رقم ابھی تک یہاں پڑی ہے اس کا فارن ایکسچینچ نہیں ملا پس با وجود اس کے کہ ہمیں اس وقت باہر روپیہ بھجوانے کی اجازت نہیں ملے گی پھر بھی میں اپیل کروں گا اور آپ قربانی دیں گے انشاء اللہ اور یہ اس لئے کہ وہ خدا جو ہمیں قربانیاں پیش کرنے کے لئے کہتا ہے وہ ہمیں قربانیاں پیش کرنے کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے جس خدا نے میرے دل میں بڑی شدت کے ساتھ یہ ڈالا ہے اور فرمایا ہے کہ تو میرے لئے میری عظمت کے قیام کے لئے ، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار دلوں میں قائم کرنے کے لئے اس جماعت سے قربانیاں مانگ وہ دے گی.ہمیں یہاں قربانیاں دینی پڑیں گی وہ خدا یسے سامان پیدا کر دے گا روپیہ باہر بجھوانے کے لئے انشاء اللہ سہولتیں پیدا ہو جائیں گی.یہی حکومت جو آج فارن ایکسچینج نہیں دے رہی کل کو دینے لگ جائے گی حالات بدل جاتے ہیں ایک رات میں بدل جاتے ہیں لیکن جس صبح میں یہ دیکھوں کہ حالات بدل گئے اور آج میں رقم باہر بھیج سکتا ہوں وہ صبح ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ میرے پاس رقم موجود نہ ہو یہ نہیں کہ میں اعلان کروں اور رقموں کی وصولی کا انتظار کروں ) میرے پاس خزانے میں رقم موجود ہونی چاہیے اور جس صبح کو میں یہ پاؤں کہ آج سورج ایسے حالات میں طلوع ہوا ہے کہ ہمارے لئے روپیہ باہر بھجوانے کی سہولت ہے تو قبل اس کے دفاتر بند ہوں روپیہ باہر چلا جائے جیسا کہ میں نے وہاں انگلستان میں کیا کیونکہ اس وقت چلنے کا نہیں دوڑنے کا وقت آگیا ہے پھر یہ کہ ہم نے بہت سے کام یہاں کرنے ہیں مثلاً افریقہ کے لئے کتابیں شائع کرنا ہے کتابوں کے سلسلہ میں تو بعض ایسی چیزیں ہیں کہ ان کا میں آپ کے سامنے
خطبات ناصر جلد سوم ۱۴۲ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء ذکر نہیں کرسکتا کیونکہ ممکن ہے کہ غیر مسلم ہوشیار ہو جائیں اور خرابی پیدا کرنے کی کوشش کریں غیر مسلم کا فقرہ میں نے جان کر کہا ہے میں غیر احمدی نہیں کہہ رہاوہ ایسا نہیں کریں گے.لیکن وہ چیز جو غیر مسلم کے خلاف بہت سخت جاتی ہے وہ کتابوں کے ذریعہ ہوسکتی ہے اور کہتا ہیں ہم نے یہاں شائع کرنی ہیں اور اس پر خرچ ہو گا اور دوسرے کام ہیں جب اللہ تعالیٰ سامان پیدا کرے گا ہم فور ارقم باہر بھجوادیں گے.پاکستان کے احباب جماعت کے لئے میں نے یہاں مسجد میں مغرب کے بعد بات کی تھی.اس وقت مجھے ایک بات کے متعلق شبہ تھا اب میں وہ پوری سکیم بیان کر دیتا ہوں الفضل والے ابھی نوٹ کریں اور دکھا کر کل صبح کے اخبار میں آجائے مجھے پاکستان کے دوسو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو پانچ ہزار روپیہ فی کس دیں جس میں سے ہر وعدہ کنندہ دو ہزار روپے فوری طور پر (جس کے معنے ہیں اگلے نومبر تک ) ادا کر دے.اس کو میں فوری کہتا ہوں کیونکہ میری آواز ہر ایک کے کانوں تک پہنچنے میں وقت لگے گا پھر تیاری کرنا ہے کسی کے پاس رقم نہیں ہوتی، کسی نے روپے وصول کرنے ہوتے ہیں بہر حال فوری سے میری مراد نومبر ہے اور اس طرف بھی بعض دوستوں نے توجہ دلائی تھی کہ زمینداروں کو نومبر میں ادا کرنے کی سہولت ہوگی اس لئے دو ایک ماہ بڑھا کر فوری کی یہ مہلت نومبر تک بڑھا دی ہے پس پانچ ہزار میں سے دو ہزار روپے نومبر تک مل جانے چاہئیں اور بقیہ تین ہزا را اپنی سہولت کے ساتھ تین سال میں ادا کر دیں لیکن یہ دو ہزار روپے نومبر سے پہلے ملنا چاہیے ان دو سو مخلصین کے علاوہ مجھے دوسو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو دو ہزار فی کس وعدہ کریں.اس میں سے ایک ہزار فوری (اس معنے میں ) اور بقیہ ایک ہزار تین سال میں بسہولت ادا کریں اس کے علاوہ مجھے کم از کم ایک ہزار ایسے مخلصین کی ضرورت ہے ( خدا کرے کہ ان کی تعداد دو ہزار سے بھی بڑھ جائے ) جو -/۵۰۰ روپے اس مد میں دینے کا وعدہ کریں جس میں سے.۲۰۰۱ روپے فوری دیں اور بقیہ -/۳۰۰ روپے جب چاہیں اپنی سہولت کے ساتھ اگلے تین سال کے اندر ادا کر دیں.اور ان چودہ سومخلصین کے علاوہ جو دوست - ۵۰۰۱ سے کم رقم دینا چاہتے ہیں ہم نے ان کے وعدے نہیں لینے بلکہ وہ اس مد
خطبات ناصر جلد سوم ۱۴۳ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء میں ( جو کھل چکی ہے ) خزانہ میں جمع کروا ئیں اور رسید لے لیں اور مجھے اطلاع کر دیں میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول فرمائے لیکن اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں مثلاً اگر وہ اپنی رقم غلط جگہ بھیج دیں گے تو اس دفتر کا وقت ضائع ہوگا ” نصرت جہاں ریزروفنڈ کی مدر بوہ کے خزانہ میں قائم ہو چکی ہے وہاں رقم جمع کروا ئیں اور ان سے رسید لے لیں اور مجھے اطلاع کر دیں.میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کے لئے خاص طور پر دعا کروں گا لیکن.۵۰۰۱ سے کم رقم دینے والوں سے وعدہ نہیں لیا جائے گا دوست جتنا دینا چاہتے ہیں وہ نقد خزانہ میں جمع کروا دیں پھر اللہ تعالیٰ اور توفیق دے تو اور رقم بھی جمع کروادیں البتہ ہم وعدہ کے رجسٹر میں ان کا نام نہیں لکھیں گے.رجسٹر صرف ان کا بنے گا جو -۵۰۰ یا اس سے زائد رقم کا وعدہ کریں گے.اب ایک صف تو نصرت جہاں ریز روفنڈ میں پانچ ہزار روپے یا اس سے زائد دینے والوں کی ہوگی کیونکہ اس میں یہ شرط تو نہیں کہ پانچ ہزار سے زائد نہیں دینے اگر کسی کو اللہ تعالیٰ پانچ لاکھ کی تو فیق دیتا ہے تو اسے پانچ لاکھ کی رقم پیش کر دینی چاہیے.غرض پانچ ہزار یا اس سے زائد دینے والوں کی صف اوّل، دو ہزار یا دو ہزار سے زائد پانچ ہزار تک یا ۴۹۹۹ تک رقم دینے والوں کی صف نمبر ۲ اور جو پانچ سو روپے سے زائد یعنی ۱۹۹۹ روپے تک دینا چاہتے ہیں ان کی صف نمبر ۳ ہوگی جو زائد رقم ہوگی اس کا بھی ۲/۳ حصہ نقد دینا پڑے گا.”پنج دوو نجی زمیندار دوست سمجھ جاتے ہیں کہ پنج دوو نجی میں سے دو دو و نجی فوری طور پر اور تین بعد میں لیکن صف چہارم وہ ہوگی جو وعدہ کے کاغذوں میں exist (اگر سٹ ) نہیں کرے گی لیکن خزانہ کے اموال میں وہ موجود ہوگی یعنی جس کو پانچ روپے کی یا، دس روپے کی ، یا چار سو روپے کی، یاساڑھے چار سو روپے کی توفیق ہے وہ اسے خزانہ میں داخل کروائے وہاں سے رسید لے اور دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.مجھے بھی ضرور اطلاع دے میں ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں بعض لوگوں کا یہ بڑا اچھا جذبہ ہے کہ وہ قربانی دیتے ہیں مگر کسی کو خبر نہیں ہونے دیتے.خلیفہ وقت کسی نہیں ہوا کرتا کیونکہ اس سے آپ نے دعائیں لینی ہیں اس سے برکتیں
خطبات ناصر جلد سوم ۱۴۴ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء حاصل کرنی ہیں جن کی فطرتیں ایسی ہیں وہ واقعی بڑی پیاری فطرتیں ہیں وہ کسی کو نہ بتا ئیں خزانہ میں جمع کروائیں لیکن مجھے ضرور بتائیں تاکہ میں ان کا نام لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ طور پر جھکوں اور ان کے لئے دعائیں کروں.میں تو کسی ہوں ہی نہیں.میں تو آپ کے وجود کا حصہ ہوں پس مجھے ضرور اطلاع دیں.وہ دوست جو زیادہ رقم دینے والے ہیں یعنی پانچ سو سے دو ہزار تک، دو ہزار سے پانچ ہزار تک اور پانچ ہزار سے او پر جہاں تک مرضی ہوان کے نام ہمیں بہر حال لکھنے پڑیں گے اور ان کو یاد دہانیاں بھی کروائی جائیں گی انگلستان سے میں ان سب دوستوں کے نام اور پتے لے آیا ہوں جنہوں نے اس فنڈ کے لئے وعدے کئے ہیں میرے ذہن میں یہ ہے کہ آج سے چھ ماہ کے بعد بطور reminder ( ریمائنڈر ) ہر ایک کو ایک عام خط لکھوں گا اور پھر چھ ماہ کے بعد دوسرا خط لکھوں گا کہ یا تو فوری ادا کر و یا اگلا سال آ رہا ہے نصف دوسرے سال میں جو باقی رہ گیا ہے وہ ادا کرو.پس انشاء اللہ وہ ضرور دیں گے میں نے شروع میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ کہا ہے کہ میرے نام پر قربانیاں لیتا جا اور جماعت وہ قربانیاں دیتی چلی جائے گی میرا کام ہے کہ میں سوچوں اور اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اپنا ہر منصوبہ بناؤں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے پین کے متعلق میں نے ابھی کوئی منصوبہ نہیں بنایا کیونکہ اگر میں صحیح سمجھا ہوں اللہ تعالیٰ کا منشاء بھی یہی ہے میں بہت پریشان تھا سات سوسال تک وہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے اس وقت کے بعض غلط کار علماء کی سازشوں کے نتیجہ میں وہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی وہاں کوئی مسلمان نہیں رہا ہم نے نئے سرے سے تبلیغ شروع کی چنانچہ اس ملک کے چند باشندے احمدی مسلمان ہوئے وہاں جا کر شدید ذہنی تکلیف ہوئی.غرناطہ جو بڑے لمبے عرصہ تک دارالخلافہ رہا جہاں کئی لائبریریاں تھیں، یو نیورسٹی تھی جس میں بڑے بڑے پادری اور بشپ مسلمان استادوں کی شاگردی اختیار کرتے تھے، مسلمان وہاں سے مٹادیئے گئے غرض اسلام کی ساری شان و شوکت مادی بھی اور روحانی بھی اور اخلاقی بھی مٹادی گئی ہے طبیعت میں اس قدر پریشانی تھی کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے غرناطہ جاتے وقت میرے دل میں آیا کہ ایک وقت وہ تھا کہ یہاں کے درو دیوار سے درود کی آواز میں اٹھتی تھیں آج یہ لوگ گالیاں دے رہے ہیں طبیعت
خطبات ناصر جلد سوم ۱۴۵ خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۷۰ء میں بڑا تکدر پیدا ہوا چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ جس حد تک کثرت سے درود پڑھ سکوں گا پڑھوں گا تا کہ کچھ تو کفارہ ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت نے مجھے بتائے بغیر میری زبان کے الفاظ بدل دیئے گھنٹے دو گھنٹے کے بعد اچانک جب میں نے اپنے الفاظ پر غور کیا تو میں اس وقت درود نہیں پڑھ رہا تھا بلکہ اس کی جگہ لا اله الا انت اور ا ا اا ھو پڑھ رہا تھا یعنی تو حید کے کلمات میری زبان سے نکل رہے تھے تب میں نے سوچا کہ اصل تو تو حید ہی ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بھی قیام توحید کے لئے تھی میں نے فیصلہ تو درست کیا تھا یعنی یہ کہ مجھے کثرت سے دعا ئیں کرنی چاہئیں لیکن الفاظ خود منتخب کر لئے تھے.درود سے یہ کلمہ کہ اللہ ایک ہے زیادہ مقدم ہے چنانچہ میں بڑا خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی میری زبان کے رخ کو بدل دیا.ہم غرناطہ میں دو راتیں رہے دوسری رات تو میری یہ حالت تھی کہ دس منٹ تک میری آنکھ لگ جاتی پھر کھل جاتی اور میں دعا میں مشغول ہو جاتا ساری رات میں سو نہیں سکا ساری رات اسی سوچ میں گزرگئی کہ ہمارے پاس مال نہیں یہ بڑی طاقتور قو میں ہیں مادی لحاظ سے بہت آگے نکل چکی ہیں ہمارے پاس ذرائع نہیں ہیں وسائل نہیں ہیں ہم انہیں کس طرح مسلمان کریں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو یہ مقصد ہے کہ تمام اقوامِ عالم حلقہ بگوش اسلام ہو کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خادم بن جائیں گی یہ بھی اقوام عالم میں سے ہیں یہ کس طرح اسلام لائیں گی اور یہ کیسے ہوگا ؟ غرض اس قسم کی دعائیں ذہن میں آتی تھیں اور ساری رات میرا یہی حال رہا چند منٹ کے لئے سوتا تھا پھر جاگتا تھا پھر چند منٹ کے لئے سوتا تھا.ایک گرب کی حالت میں میں نے رات گزاری وہاں دن بڑی جلدی چڑھ جاتا ہے میرے خیال میں تین یا ساڑھے تین بجے کا وقت ہوگا میں صبح کی نماز پڑھ کر لیٹا تو یکدم میرے پر غنودگی کی کیفیت طاری ہوئی اور قرآن کریم کی یہ آیت میری زبان پر جاری ہوگئی :.وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللهَ بَالِعُ اَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قدرا - (الطلاق: ۴) اس بات کا بھی جواب آگیا کہ ذرائع نہیں کام کیسے ہوگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر تو گل رکھو اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتا ہے اسے دوسرے ذرائع کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی
خطبات ناصر جلد سوم ۱۴۶ خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۷۰ء وہ اس کے لئے کافی ہے.اِنَّ اللهَ بَالِغ آمدہ اللہ تعالیٰ جو اپنا مقصد بنا تا ہے اسے ضرور پورا کر کے چھوڑتا ہے اس لئے تمہیں یہ خیال نہیں آنا چاہیے، یہ خوف نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ یہ نہیں ہوسکتا یہ ہو گا اور ضرور ہوگا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض ہی یہ ہے کہ تمام اقوامِ عالم کو وحدت اسلامی کے اندر جکڑ دیا جائے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں لا کر کھڑا کر دیا جائے.دوسرا یہ خیال تھا اور اس کے لئے میں دعا بھی کرتا تھا کہ خدا یا یہ ہوگا کب؟ اس کا جواب بھی مجھے مل گیا قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ، اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ اور تخمینہ مقرر کیا ہوا ہے جس وقت وہ وقت آئے گا ہو جائے گا تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں مادی ذرائع اگر نہیں ہیں تو تم فکر نہ کرو اللہ کافی ہے وہ ہو کر رہے گا چنانچہ میرے دل میں بڑی تسلی پیدا ہو گئی اس کے متعلق میں نے آپ کے سامنے کوئی سکیم نہیں رکھی کیونکہ ابھی وہاں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ کا منشاء معلوم نہیں ہوا البتہ سپین کے متعلق میں ایک اور کوشش کر رہا ہوں جس کو ظاہر کرنا اس وقت مناسب نہیں لیکن جس کے لئے دعا کرنا آج ہی ضروری ہے اس لئے بڑی کثرت سے یہ دعا کریں کہ جس مقصد کے لئے میں سپین گیا تھا اور جس کے پورا ہونے کے بظاہر آثار پیدا ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے ہمارا کام کر دے کیونکہ ہم کمزور اور عاجز بندے ہیں پھر وہ دن ساری اُمت مسلمہ کے لئے بڑی خوشی کا دن ہوگا بعض اس کو پہچانیں گے اور خوش ہوں گے بعض نہیں پہچانیں گے اور خوش نہیں ہوں گے یہ ان کی بدقسمتی ہوگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دن ساری اُمت مسلمہ کے لئے خوشی کا دن ہوگا.میں نے مغربی افریقہ کے ممالک جہاں مسلمانوں کی بڑی بھاری اکثریت ہے ان میں سے بعض کے سفراء سے یہ کہہ دیا تھا کہ میرا ایک مشن ہے جس کے لئے میں سپین جارہا ہوں اور تم دعا کرو اور اس سے اصل مقصد میرا یہ تھا کہ میں دعا کے لئے کہوں گا ان کے دل میں بھی احمدیت کی کوششوں کے بارے میں ایک دلچسپی اور پیار پیدا ہو گا چنانچہ وہ اتنے خوش ہوئے کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے اور انہوں نے بڑی دعائیں دیں بلکہ ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ مسٹر گر نیکو کو کہہ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۴۷ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء دینا کہ میرے چچانے پین کی اس وقت مدد کی تھی جب کہ انہیں مدد کی ضرورت تھی.اگر وہ آپ کا یہ کام کر دیں تو میرا چچا بھی بہت خوش ہو گا غرض انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا لیکن میں نے نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ پر میرا توکل ہے اور وہ پورا کرے گا انشاء اللہ خدا کرے کہ وہ وقت مقدر جلد آجائے اور ہمارے لئے آج ہی وہ خوشیوں کے دن کی ابتداء بن جائے.بو میں بھی گرمی میں مجھے سفر کے بعد بڑی کوفت کے باوجود کوئی اڑھائی ہزار احباب سے مصافحے کرنے پڑے تھے مجھے شبہ تھا کہ میں بے ہوش ہو کر نہ گر جاؤں جب یہ کیفیت پیدا ہوئی تو میں نے پانی مانگا اور پھر میں نے ان سے کہا مجھے پانی پلاتے جاؤ یا شاید ڈاکٹر صاحب تھے ان کو خیال آیا غرض تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دوست مجھے پانی پلا دیتے تھے اور میں پھر وہ سلسلہ شروع کر دیتا یہاں بھی میں یہی کر رہا ہوں.) آج کے خطبہ میں میں نے بعض اصولی اور بنیادی باتوں کا ذکر کیا ہے افریقہ میں اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے وقت مجھے ان کی یہ کیفیت بڑی پیاری لگی کہ مذہب دل کا معاملہ ہے.مذہب کے معاملہ میں لڑائی بالکل احمقانہ بات ہے چنانچہ وہ آپس میں بالکل نہیں لڑتے نہ عیسائی مسلمانوں سے اور نہ مسلمان عیسائیوں سے بلکہ امن سے وہ رہ رہے ہیں وہ آپس میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں دلائل دیتے ہیں، ایسے دلائل کہ ان کو سن کر یہاں شاید لوگ ایک دوسرے کا سر پھوڑنے کے لئے تیار ہو جا ئیں مگر وہ بشاشت سے ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ جس کے دل کی کھڑکیاں کھول دے وہ اسلام لے آئے وہ اور بات ہے لیکن ان کو یہ پتہ ہے کہ مذہب بہر حال دل کا معاملہ ہے اسے سر پھوڑ کر حاصل نہیں کیا جاسکتا.آپ یہ بھی دعا کریں کہ جن ملکوں میں یہ ذہنیت نہیں اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں بھی یہ ذہنیت پیدا کر دے اور ان کو بھی سمجھ آجائے میں تو بڑی محدی کے ساتھ یہ بات کیا کرتا ہوں اور مخالف اسلام کو شرمندہ کر دیتا ہوں.ہوائی جہاز میں دو امریکن بیٹھے ہوئے تھے ہم ۳۵ ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہے تھے کہ کسی چھوٹی سی بات پر ان سے واقفیت ہوگئی وہ میرے پیچھے ہی بیٹھے ہوئے تھے مجھے موقعہ مل گیا میں نے ان سے کہا کہ میں تو حیران ہوتا ہوں کہ فرد فرد سے نفرت اور حقارت کا اظہار کر رہا ہے، قو میں قوموں کو نفرت اور حقارت سے دیکھ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۴۸ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء رہی ہیں.پیار سے کوئی ایک دوسرے سے معاملہ نہیں کرتا میں نے ان سے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ انسان انسان سے پیار کرنا سیکھے چونکہ ہیں تو یہ پڑھی لکھی ہوشیار قو میں نہ میں نے امریکہ کا نام لیا تھا اور نہ روس کا وہ آگے سے مجھے کہنے لگے کہ اب ہماری روس کے ساتھ Under Standing ( انڈرسٹینڈنگ ) ہو گئی ہے یعنی کچھ معاملہ نہی ہو گئی ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے لگے ہیں وہ سمجھ گئے کہ یہ ہمیں کو سمجھا رہا ہے میں نے ان سے کہا یہ ٹھیک ہے تمہاری روس سے Under Standing ( انڈرسٹینڈنگ ) ہوگئی ہے But out of fear - Not out of love تم نے یہ سمجھوتہ اس خوف سے کیا ہے کہ ایک دوسرے کو ہلاک نہ کر دیں.محبت کے نتیجہ میں یہ سمجھوتہ نہیں ہوا چنا نچہ وہ کھسیانے سے ہو کر کہنے لگے بات آپ کی ٹھیک ہے لیکن بہر حال ایک قدم صحیح راستے کی طرف اٹھ کھڑا ہوا ہے میں نے کہا یہ ٹھیک ہے یہ میں مان لیتا ہوں لیکن یہ ظلم ہے کہ ہم محبت کرنا بھول گئے ایک مسلمان کے لئے لمحہ فکر یہ ہے کہ جس کو وہ اپنا آقا ومطاع کہتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم جس کے متعلق وہ اس عقیدے کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اللہ کا محبوب اور اللہ کی محبت اس کی محبت کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی اسی کے مسلک کو چھوڑتے ہیں کس سے نفرت کی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ہمیں بتائے جب سختی کی اصلاح کے لئے کی آپ کی زندگی میں انسان کے لئے نفرت اور حقارت کا کوئی ایک واقعہ بھی نہیں دکھا سکتا انسان کی بداعمالیوں سے نفرت بھی کی ، انہیں حقارت سے بھی دیکھا بداعمالیوں سے ہمارا بھی حق ہے کہ ہم نفرت کریں ورنہ ہمارے اندر وہ اثر کریں گی جس سے ممکن ہے ہمارے بچے ہلاک ہو جائیں لیکن بد عمل یعنی بر اعمل کرنے والے سے آپ نے نفرت نہیں کی اس یہودی سے آپ نے نفرت نہیں کی جس نے اپنی بیماری کی وجہ سے آپ کے بستر کو گندا کر دیا تھا اس قوم سے نفرت نہیں کی جس نے سالہا سال تک آپ کو آپ کے صحابہ کو انتہائی تکالیف پہنچائیں ، جنہوں نے اڑھائی سال تک شعب ابی طالب میں قید رکھ کر آپ کو بھوکا مارنا چاہا جب ان کی بھوک کا وقت آیا تو خدا کے اس بندے نے ان کے لئے روزی اور ان کے پیٹ بھرنے کا سامان پیدا کیا انہیں یہ نہیں کہا کہ تم حقیر اور قابل نفرت لوگ ہو.جاؤ مر جاؤ بھوکے.مجھے اس سے کیا بلکہ انسانی ہمدردی جوش میں آئی اور انسانی بھائی کا پیار جو ہے اس کی موجیں دل
خطبات ناصر جلد سوم ۱۴۹ خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء سے اٹھیں اور ان کی خدمت کے لئے (بہتوں کے پیٹ کاٹ کر شاید ) پہنچ گئے کس انسان سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نفرت کی تھی کہ کوئی آج ہم سے کہے کہ تم دوسرے انسان سے نفرت کرو اس سفر میں کئی جگہ جاہل اور کم علم لوگ مجھ سے یہی توقع کرتے رہے کہ میں نفرت کے بیان دوں.ان سے میں نے یہی کہا اور اپنے جلسوں میں بھی یہی کہا کہ مجھے خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ تم تمام بنی نوع انسان کے دلوں کو محبت اور پیار کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتو.میں کسی قوم یا فرد سے نفرت نہیں کر سکتا اور نہ ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ سکتا ہوں اللہ تعالیٰ نے ظلی طور پر انہیں جس طرح وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے تھے میرے بھی پیارے بنا دیا ہے اور یہ میں نے اپنی زندگی میں مشاہدہ کیا ہے کہ پیار میں میں نے جو طاقت دیکھی ہے وہ دنیا کی تمام مادی طاقتوں سے بڑھ کر ہے اور پیار جو چیز میں جیت سکتا ہے وہ دنیا کی مادی طاقتیں نہیں جیت سکتیں.پس اے میرے پیارے احمدی بھائیوں اور بہنوں اور بڑوں اور بچوں ! اس سبق کو یا درکھو.دنیا اپنی طاقت کے زعم میں دوسروں کو ہلاک کر سکتی ہے اور ان کے سر پھوڑ سکتی ہے مگر میں اور تم اس غرض کے لئے پیدا نہیں کئے گئے ہم صرف ایک ہی مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ ہم محبت اور پیار کے ساتھ دنیا کے دلوں کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتیں اور وہ تو حید قائم ہو جس تو حید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے پس کسی سے نفرت نہ کرو.ہمارے اس ملک میں بھی ایک بے ہودہ اور گندی آگ سلگ رہی ہے خود کو اس کے اندر نہ پھینکو خود کو اس گند میں ملوث نہ کرو، کسی سے نفرت نہ کرو، گند کو دور کرنے کی کوشش کر وہ ظلم کو مٹانے کی کوشش کرو، حق دار کو حق دلانے کی کوشش کرو ہم ہر ایک سے محبت اور پیار سے پیش آؤ انشاء اللہ.ایک دن آئے گا جب یہی لوگ شرمندگی کی وجہ سے آپ کے سامنے آنکھیں اٹھا کر نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ انہوں نے آپ کو ہر قسم کے دکھ پہنچائے اور آپ کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھا لیکن اس کے بدلے میں انہوں نے آپ کی طرف سے ذرا بھر دکھ نہیں پایا اور نہ انہوں نے اپنے لئے آپ کی نگاہ میں سوائے پیار کے کوئی اور جذبہ موجزن پایا.اللہ تعالیٰ ہم میں سے سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے ہمارا یہی ایک ہتھیار ہے اور بڑا پیارا
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۷۰ء ہتھیار اور اسی ہتھیار کے ساتھ ہم نے اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق دنیا کے دل جیتنے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اللھم آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۱۵ / جولائی ۱۹۷۰ صفحه ۱ تا ۱۵)
خطبات ناصر جلد سوم ۱۵۱ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء مغربی افریقہ میں کام کرنے والے ہمارے اکثر مبشرین کو مقام نعیم حاصل ہے خطبه جمعه فرموده ۱۹ / جون ۱۹۷۰ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن مجید کی یہ آیات پڑھیں :.إنَّ الْأَبْرَارَ لَفِى نَعِيمٍ - عَلَى الْأَرَابِكِ يَنْظُرُونَ.تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ ط النَّعِيمِ - يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَخْتُومٍ - خِتُمُهُ مِسْكَ وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ - وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِيهِ - عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ.(المطففين: ۲۳ تا ۲۹) اور پھر فرمایا:.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو نیکیوں میں آگے بڑھ جاتے اور سبقت لے جاتے ہیں انہیں مقام نعیم میں رکھا جاتا ہے ان کا مقام وہ مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر وقت نعمتوں کا نزول ان پر ہوتارہتا ہے اور اس مقام نعیم کی وجہ سے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے وہ وافر حصہ پاتے ہیں ان کے چہروں پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شادابی دنیا دیکھتی ہے محبت الہی میں ہر وقت وہ مست رہتے ہیں اور یہ محبتِ الہی ان کے رگ وریشہ میں کچھ اس طرح سرایت کر جاتی ہے کہ ان کے وجود مشک کی طرح مہک اٹھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی خوشبو لوگ بھی ان کے وجود سے سونگھتے ہیں فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے کہ ایک خواہش کرنے والے، ایک آرزو
خطبات ناصر جلد سوم ۱۵۲ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء کرنے والے کو چاہیے کہ اس مقام کی خواہش کرے اس سے نیچے کی خواہش تو کوئی خواہش نہیں.انسان کو اس مقام کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہی آرزو ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مقام نعیم عطا کرے اور یہ وہ مقام ہے کہ حقیقی عزت اور حقیقی شان انسان کی اسی مقام میں ہے.ایک دنیا دار انسان کو ساری دنیا کی بادشاہتیں بھی حقیقی عزت عطا نہیں کر سکتیں اگر ساری دنیا کی بادشاہتیں اکٹھی ہو کر یہ فیصلہ کریں کہ فلاں شخص دنیا میں معزز ترین انسان ہے اور اسی کے مطابق ( ظاہری طور پر ) اس سے سلوک کریں لیکن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کے لئے پیار نہ ہو بلکہ غضب کی جھلکیاں نظر آرہی ہوں تو نہ کوئی عزت ہے اس شخص کی نہ کوئی شان ہے اس شخص کی.یہ مقام نعیم کی شان اور عزت اور احترام ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس کے لئے میں نے تمہیں پیدا کیا اور اس کے حصول کی تمہیں کوشش کرنی چاہیے.افریقہ کے دورہ میں واقفین مبشرین کے حالات میں نے دیکھے ان سے ملا جو عزت اللہ تعالیٰ نے ان کی اس مقام نعیم کی وجہ سے قائم کی ہے وہ میرے مشاہدہ میں آئی لیکن کچھ وہ بھی تھے کہ جو مقام نعیم کو حاصل نہیں کر سکے تھے ان کو بھی میں نے دیکھا اور ان کی زندگیوں کا مطالعہ کیا اور ان کے کاموں پر تنقیدی نگاہ ڈالی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان چھ 4 ممالک کے تمام مبشر انچارج جو ہیں وہ ظاہری طور پر جو مجھے نظر آیا ( دلوں کا حال تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور مستقبل اور غیب کی خبر صرف اسی کو ہے لیکن جو میں نے محسوس کیا ) اور جو میں نے مشاہدہ کیا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ان پر بڑا فضل ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اس مقام نعیم میں رہنے والے ہیں بے نفس ، اللہ کی محبت میں مست ، اس کی مخلوق کی خدمت کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس دنیا میں بھی عزت کو پانے والے ہیں.نائیجیریا میں فضل الہی صاحب انوری ہیں.غانا میں کلیم صاحب ہیں آئیوری کوسٹ میں قریشی (محمد افضل ) صاحب ہیں جن کو پنجابی میں بیبا مبشر ، بھی کہا جا سکتا ہے بہت سادہ اور پیاری ان کی طبیعت ہے بڑی پیار کرنے والی اور آرام سے سمجھانے والی اور اپنے آرام کو اور اپنی بہت سی ضرورتوں کو دوسروں کے لئے قربان کر دینے والی ہے طبیعت ان کی.لائبیریا میں نئے مبلغ گئے ہیں امین اللہ سالک.ابھی ان کے متعلق پوری طرح تو کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اس وو
خطبات ناصر جلد سوم ۱۵۳ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء وقت تک جو کام انہوں نے کیا اس سے یہی پتہ لگا وہاں کے پریذیڈنٹ ٹب میں بھی ان کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں سیرالیون میں ہمارے صدیق صاحب ہیں گیمبیا میں مولوی محمد شریف صاحب ہیں میں نے محسوس کیا کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے مقام نعیم عطا کیا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں میں نے ان کے لئے عزت کا مقام دیکھا اسی طرح دنیا کی نگاہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک عزت اور احترام کا مقام عطا کیا ہے.ہمارے سفراء ان کی تعریف کرتے تھکتے نہیں دوسرے ملکوں کے سفراء ان سے بڑے پیار سے ملتے ہیں اور پیار کے تعلقات ان کے ساتھ قائم ہیں حکومت ان سے راضی ہے عوام ان پر خوش ہیں غرض ہر لحاظ سے ان کے چہروں پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کی شادابی ہمیں نظر آتی ہے اور ہماری جماعت کو ان کے لئے بہت دعا ئیں کرنی چاہئیں اللہ تعالیٰ ہمیشہ انہیں ابرا رہی میں رکھے اور ہمیشہ اپنی نعمتوں کا وارث انہیں بنا تا ر ہے وہ ابرار کے گروہ میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوں اور ابرار کے گروہ میں ہی اس دنیا میں وہ اٹھائے جائیں لیکن بعض نہایت افسوسناک مثالیں بھی نظر آئیں.ایک نئے ناتجربہ کار مبلغ گئے ہوئے ہیں ( ہم مختلف مقامات پر جاتے تھے تو وہاں کے مقامی لوگ بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے ) ایک سفر میں ملک کی ساری جماعت کے پریذیڈنٹ اور ایک نوجوان مبلغ ایک ہی کار میں بیٹھے ہوئے تھے ہمارے قافلے کے بھی ایک دوست اسی کار میں تھے.انہوں نے بتایا کہ اتنی بدتمیزی سے ہمارے مبلغ نے اس بوڑھے مومن فدائی سے بات کی کہ میں بڑا پریشان ہوا لیکن انہوں نے اس مبلغ کو کہا کہ دیکھو! میں پرانا احمدی ہوں ، احمدیت میرے رگ وریشہ میں رچی ہوئی ہے تمہاری اس بے ہودہ بات کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ، نہ ہو سکتا ہے لیکن میں تمہیں یہ بتا تا ہوں کہ اگر تم نے نوجوانوں کے سامنے اس قسم کی بات کی تو تم اس بات کے ذمہ دار ہو گے کہ تم انہیں احمدیت سے دور لے گئے ہو ایک اور کے متعلق پتہ لگا کہ ہمارے ایک سکول کے معائنہ کے لئے اس ملک کے محکمہ تعلیم کا انسپکٹر ہمارا افریقن بھائی آیا تو ہمارے مبلغ صاحب کہنے لگے کہ اس کے ساتھ میرا بیٹھنا میری ہتک اور بے عزتی ہے میں اس کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے رپورٹ کی کہ یہ سکول احمدیوں سے چھین لیا جائے اور اس پر قبضہ کر لیا جائے پھر ہمارے مبلغ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۵۴ ا خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء انچارج ان کے پاس گئے اور ان سے پیار کی باتیں کر کے سمجھایا اور معاملہ کو رفع دفع کیا اس مبلغ کو میں نے کہا کہ جماعت احمدیہ نے تمہیں یہاں فرعون بنا کر نہیں بھجوایا ایک خادم بنا کر بھجوایا ہے اگر تم خدمت نہیں کر سکتے تو واپس چلے جاؤ لیکن یہ استثناء ہیں گو تکلیف دہ استثناء ہیں اور فکر پیدا کرنے والے استثناء ہیں چنانچہ میں نے دعا کی اور میں نے بہت استغفار کیا کیونکہ آخری ذمہ داری بہر حال خلیفہ وقت پر آتی ہے کہ اس قسم کے مبلغوں کو میں نے وہاں بھجوایا جو خود تربیت کے محتاج تھے پھر دعاؤں کے بعد اور بہت استغفار کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہمیں اپنا نظام بدلنا چاہیے اس وقت جامعہ احمدیہ سے جو نوجوان شاہد فارغ ہوتے ہیں سارے کے سارے تربیت یافتہ نہیں ہوتے.ایک تو جامعہ احمدیہ کو سدھارنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے ان میں سے بعض وقف کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اور اس وجہ سے ان کو اخراج از جماعت بھی کرنا پڑتا ہے بعض ایسے بھی ہیں جو باہر کام کرتے رہے اور ان کو جماعت سے خارج کرنا پڑا کیونکہ ان کی کوئی تربیت نہیں تھی اخراج کے بعد جن کے اندر نیکی اور سعادت ہوتی ہے وہ تو بہ کی طرف مائل ہوتے ہیں اور استغفار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں بہتوں کو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے بعض ایسے بھی ہیں جو ٹوٹ جاتے ہیں لیکن یا درکھو کہ خدا تعالیٰ کو ایک انسان کیا سارے انسان بھی اس سے پھر جائیں تو کیا پرواہ ہے وہ سب انسانوں کو ہلاک کر کے ان کی جگہ ایک مخلص اور جاں نثار جماعت پیدا کرتا ہے.قرآنِ عظیم یہی اعلان کرتا ہے کہ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْقُوَّةُ وَالْعِزَّةُ کوئی چیز اس کے لئے غیر ممکن نہیں اور عملاً بھی دنیا میں یہ نظارے اللہ تعالیٰ کے قہر کے انسانوں نے دیکھے ہیں پس جامعہ احمدیہ میں کتابی تدریس کے علاوہ محبت الہی کی طرف بہت توجہ دینی چاہیے.جن کو میں نے مقام نعیم پر اپنے مشاہدہ کے لحاظ سے پایا یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے نفس کو کلیتاً اپنے رب کے لئے قربان کر دیا تھا اور وہ اپنی عاجزی کا ہر وقت اقرار کرتے رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ہر عزت اور ہر طاقت اور ہر اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے جس طرح سپین کے ہمارے ایک بادشاہ نے اپنے محل میں رہائش اختیار کرنے سے پہلے ہزاروں جگہ یہ لکھوایا اور زیادہ تو اس کے دماغ میں یہی فقرہ آیا وہی لکھا ہوا ہے لا غَالِبَ إِلَّا اللہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا
خطبات ناصر جلد سوم ۱۵۵ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء کسی کو غلبہ حاصل نہیں لیکن اس کے علاوہ ” المُلْكُ لِلهِ الْقُدْرَةُ لِلَّهِ الْعِزَّةُ لِلَّهِ “ کو اس نے کثرت سے لکھوایا یہ بڑی لمبی تفصیل ہے اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا اور جب یہ حل اللہ تعالیٰ کی حمد کے کلمات سے اس طرح حسین بن گیا تب اس نے وہاں رہائش رکھی چنانچہ ہمارے یہ ابرار مبشر ( اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے اور استقامت عطا کرے ) یہ وہ لوگ ہیں جنہیں علم ہے کہ غلبہ اور اقتدار اور قدرت اور عزت سب اللہ کی ہے اور حقیقی معنی میں اسی سے ملتی ہے.بے نفس ہو کر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے اور انتہائی پیار کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع کرتا ہے پھر وہ غریب جنہیں پیٹ بھر کر شاید کھانا بھی نہ ملتا ہو ، خدا کی خاطر غربت کی زندگی گزار رہے ہیں.سات ہزار میل اپنے رشتہ داروں سے دور لیکن ایسی زندگی کہ مِنْ حَبْلِ الوريد “ سے بھی جو زیادہ قریب ہے اس کا احساس رکھتے ہیں اور جو دوریاں ہیں وہ سب بھول چکے ہیں رشتہ داروں سے دوری ، ملک سے دوری، اپنے معاشرہ کے حالات سے دوری، ہزار قسم کی دوریاں ہیں جن کا انہیں سامنا ہے انہوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی جب انہوں نے خدا کے لئے بعد کی قربانی بھی دی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں قرب سے نوازا یہ اس کی شان ہے لیکن اگر ایک شخص بھی ایسا ہو جیسا کہ میں نے مثالیں دی ہیں تو جماعت کی بدنامی کا موجب، ہماری رسوائی کا ووو باعث اور بڑی قابل شرم بات ہے.جامعہ احمدیہ میں بے نفس زندگی گزارنے کا سبق دینا ضروری ہے یہی اسلام کی روح ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان اپنے وجود کو بکرے کی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور رکھ دے کہ چھری پھیرے جس طرح چاہے جب تک یہ روح نہیں پیدا ہوتی ہمارا مبشر مبشر نہیں اگر محض چند دلائل سکھا کر ہم نے وہاں تبلیغ کرنی ہو تو بہت سے عیسائی بھی تیار ہو جائیں گے کہ چند دلائل سکھا دو ہم تمہاری تبلیغ کرتے ہیں جو بھوکا مرتا ہے وہ تنخواہ کے ساتھ یہ کام کرنا شروع کر دے گا لیکن ہمیں ایسے مبلغ کی ضرورت نہیں ہمیں تو اس مبلغ کی ضرورت ہے جس کا نفس باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ سے قدرت کو پانے والا اور عزت کو پانے والا اور اثر ورسوخ کو پانے والا ہو غلبہ ہو اس کا لیکن وہ غلبہ وہ احترام اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہو.غلبہ تو یہ ہے کہ جو
خطبات ناصر جلد سوم ܪܩܙ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء Head of the states (ہیڈ آف دی سٹیٹس ( ہیں وہ بھی بڑی قدر کی نگاہ سے ان لوگوں کو دیکھتے ہیں.ان بے نفس، اللہ کے پیارے بندوں کے کاموں کا نتیجہ تھا کہ نائیجیریا کے ہیڈ آف دی سٹیٹ کو جب میں ملنے گیا تو نو جوان جرنیل جس نے امریکہ کے مقابلہ میں سول وار (civil war ) جیتی تھی ابھی ابھی میرے جانے سے کچھ عرصہ پہلے جیتی تھی بظاہر دنیوی لحاظ سے اس کو بڑا مغرور ہونا چاہیے تھا لیکن میں جو اس کے لئے بالکل انجان تھا میں مسلمان تھا اور وہ عیسائی، اس کے باوجود اس کے ذہن پر ہمارے کام کا اتنا اثر تھا کہ وہ مجھے کہنے لگا کہ اس ملک کی ترقی کے جو منصوبے ہیں اور جو کوششیں ہیں ان میں ہم اور آپ برابر کے شریک ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے کاموں کی اس سے بڑھ کر اور کوئی تعریف نہیں ہوسکتی ایک غیر ملک کے سر براہ کو ان حالات میں کہ امریکہ کو اس نے شکست دی تھی اور اسے جائز فخر تھا مجھے کہنے لگا کہ ان غیر ملکی حکومتوں اور غیر ملکی عیسائی مشنز نے اپنا پورا زور لگایا کہ ہمارے ملک کو تباہ کر دیں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمیں بچا لیا.یہ اس کا فقرہ تھا اس نے عیسائی مشن پر تنقید کی اور ہمارے متعلق یہ کہا کہ ہم اور آپ ملک کی Progress ( پروگریس ) میں ، ملک کی ترقی کی جدو جہد اور کوشش میں Partner ( پارٹنر ) ہیں برابر کے شریک ہیں.یہ تاثر اس قسم کے دماغوں پر محض اس وجہ سے ہے کہ ہمارے مبلغوں کی بڑی بھاری اکثریت کا اور Missions (مشنز ) کے انچارج جو ہیں ان کا نفس باقی نہیں رہا انہوں نے سب کچھ اللہ کے حضور پیش کر دیا اور پھر سب کچھ اس سے وصول بھی کر لیا غیر ملکی حاکم جب دوسرے ملک میں داخل ہوتا ہے تو سب کچھ لے جاتا ہے دیتا کچھ نہیں إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا (النمل: ۳۵) لیکن ہمارا پیارا رب ہمارا رب کریم جب سب کچھ لے لیتا ہے تو جتنا لیتا ہے اس کے مقابلہ میں ( دینے والے نے گوسب کچھ دیا مگر اتنی سی چیز تھی اللہ تعالیٰ کی عطا کے مقابلہ میں اور اس اتنی سی چیز کو لے کر ) اس نے اپنا سب کچھ اسے دے دیا اور اس نے کہا جو میرا ہے وہ سب کچھ تمہارا ہے اور پھر اپنی قدرت کے مظاہرے ان کی زندگی میں ان کو دکھاتا ہے.ایک احمدی کی زبان تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے تھکنی نہیں چاہیے ہر وقت زبان پر حمد رہنی چاہیے ہر احمدی کو بحیثیت احمدی اجتماعی طور پر بھی اور جماعتی
خطبات ناصر جلد سوم ۱۵۷ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء رنگ میں بھی اسے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنی چاہیے کہ جماعت پر اس نے کتنے فضل کئے ہیں.اب اتنے بے نفس لوگوں میں چند نفس پرست بھی ہوں تو بڑی نمایاں ہو جاتی ہے ان کی بدی کہ ایک طرف وہ ہے کہ جس کا نفس باقی نہیں اور ایک طرف وہ ہے کہ جس نے نفس کا کوئی حصہ بھی اللہ کی راہ میں قربان نہیں کیا اور ایک انسان جس کے کان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز پہنچی دورود تھی کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم “ (الكهف : ااا) کہ میں تمہارے جیسا انسان ہوں.اس کے کان میں ہمارے مبلغ کی یہ آواز پہنچی کہ تم اتنے ذلیل ہو کہ اگر میں تمہارے ساتھ بیٹھوں تو میری بے عزتی ہو جائے پس حقیقتا ایسا ذہن جو ہے وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باغی ہے کہ آپ کی آواز تو ایک افریقن کے کان میں یہ پہنچتی ہے کہ میں تمہارے جیسا انسان ہوں اور تم میرے جیسے انسان ہو لیکن ایک مبلغ منسوب تو ہوتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور کہتا یہ ہے کہ تمہارے ساتھ میرا بیٹھنا بھی میری بے عزتی ہے یہ خالص شیطانی فقرہ ہے جو فرعون کے منہ سے تو نکل سکتا ہے لیکن ایک شریف انسان کے منہ سے بھی نہیں نکل سکتا کجا یہ کہ احمدی مبلغ کے منہ سے نکلے ! پس جامعہ احمدیہ کو اپنی فکر کرنی چاہیے جامعہ احمدیہ میں ( مجھے رپورٹ ملی ہے میں نے تحقیق ابھی نہیں کی کہ بعض ایسے اساتذہ بھی ہیں جنہوں نے اپنی کلاس میں یہ کہا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو تفسیر کی ہے وہ غلط ہے اور میں تمہیں صحیح تفسیر بتاتا ہوں ایسا استاد جامعہ احمدیہ کی کیسے تربیت کر سکتا ہے؟ پھر تو وہ اس شخص کے خلاف بھی بغاوت کریں گے، خدا کے خلاف بھی بغاوت کریں گے کیونکہ بغاوت کا سبق ان کو جامعہ احمدیہ میں دیا گیا ہے خدا کو نہ ایسے استاد کی ضرورت ہے اور نہ ایسے شاگرد کی ضرورت ہے پس جامعہ احمدیہ کو اپنی فکر کرنی چاہیے اور جماعت کو جامعہ احمدیہ کی فکر کرنی چاہیے پھر جب فارغ ہو جاتے ہیں تو بعض تو ہماری غلطیاں ہیں اس حقیقت کو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے.ایک نیا نیا نو جوان فارغ ہوتا ہے ہم اسے باہر بھیج دیتے ہیں اس کی نہ کوئی تربیت کی نہ ہم نے اس کے ذہن کو Polish ( پالش ) کیا وہ باہر جا کر غلطیاں کرے گا ہم بھی اس کے ذمہ دار ہیں کیونکہ اس وقت تک دستور یہ رہا ہے کہ اگر جامعہ احمدیہ سے آٹھ شاہد کا میاب
خطبات ناصر جلد سوم ۱۵۸ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء ہوئے چار تحریک جدید میں چلے گئے اور چار چلے گئے صدر انجمن احمد یہ میں جو صدر انجمن احمد یہ کے حصہ میں آئے ان کو یہیں خدمت کا موقع ملتا ہے اور جوتحریک میں گئے تحریک ان کو یہاں تو نہیں رکھ سکتی وہ انہیں باہر بھیج دیتی ہے.ابھی تک ہم نے اس کو پوری طرح Polish ( پالش ) نہیں کیا اس کی پوری تربیت نہیں کی اس کے پورے حالات نہیں معلوم کہ وہ کیسا کام کر سکتا ہے؟ اس کو ہم ایک ابتلا میں ڈال دیتے ہیں اس حد تک ہماری ذمہ داری ہے جس حد تک کہ اس نے اپنے مقام کو نہیں پہنچانا یہ اس کی ذمہ داری ہے.انسان کا مقام تو دراصل عاجزی کا مقام ہے سر کا مقام زمین ہے بلندی نہیں جسم کے اوپر لگا ہوا ہے لیکن ہے اس کا مقام پاؤں پر.لائبیریا کے پریذیڈنٹ ٹب مین نے ہماری دعوت کی.ان کے محل میں جو کھانے کا کمرہ ہے اس کی چھت شیشوں کی ہے جس میں آدمی نظر آتا ہے لیکن چھت پر اگر شیشہ ہو تو دیکھنے سے سر نیچے نظر آئے گا اور پاؤں او پر نظر آئیں گے وہاں جا کر بیٹھتے ہی میں نے انہیں کہا کہ میں آپ کے اس کمرے میں آکر بہت خوش ہوا ہوں کیونکہ یہاں جو انسان آتا ہے اس کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کے سر کا اصل مقام کون سا ہے وہ اس سے بہت محظوظ ہوئے اگر چہ اس کی عمر تر اسی سال ہے مگر وہ بڑا بیدار مغز انسان ہے اور وہ اپنی قوم کے لئے باپ کی طرح ہے.میں نے اس میں یہ بڑی خوبی دیکھی ہے کسی سے بھی آپ بات کریں وہ اسے باپ سمجھے گا اور باپ ہی کہے گا.اس نے اپنے ملک کی ۱۹۴۴ ء سے اس وقت تک بڑی خدمت کی ہے.ان کا دستور ہے کہ کھانے کے بعد کھڑے ہو کر چھوٹی سی تقریر کرتے ہیں میں نے بھی کی.وہ کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ ہوں تو میں عیسائی لیکن میں خدائے واحد و یگانہ پر ایمان رکھتا ہوں اور سارے مذاہب میرے لئے برابر ہیں.میں بحیثیت پریذیڈنٹ مذہب مذہب میں تفریق نہیں کرسکتا اور پھر اس نے کہا کہ میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ ہم بڑے خوش قسمت ہیں کہ اس وقت روحانیت کا ایک بادشاہ ہمارے درمیان موجود ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہلوایا میں تو ایک عاجز اور ناکارہ انسان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ جب فضل کرنا چاہتا ہے تو ایک ناکارہ ذرہ کو بھی ایک مقام دے دیتا ہے عزت کا اور وہ (شب مین ) بہت خوش تھے اور لوگوں کو کہا کہ یہ بابرکت وجود
خطبات ناصر جلد سوم ۱۵۹ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء ہے ان کے وجود سے امید ہے ہمارے ملک کو برکت ملے گی.یہ کلمات اس کے منہ سے نکلے یہ تو اللہ تعالیٰ کی دین ہے ہمارے دل میں کبھی ایسی خواہش ہی نہیں پیدا ہوئی.ہمیں دنیا نے کیا دینا ہے دنیا کے سب سر براہ مل کر بھی مہدی معہود علیہ السلام کے نائب اور خلیفہ کو وہ عزت نہیں دے سکتے جو اسے پہلے سے ہی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں حاصل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھ کر کہ ایک عیسائی ہے غیر ملکی ہے اس سے زیادہ لمبی چوڑی واقفیت بھی نہیں ہے اور جو کلمات اس کے منہ سے نکلے وہ کسی کتاب میں تو اس نے نہیں پڑھے وہ تو فرشتوں نے اس کے دل میں القا کئے اور اس کی زبان نے ان کو ظاہر کر دیا.اس قسم کی عزت تو ہمارے بے نفس مبلغ جو وہاں ہیں ان کو بھی مل رہی ہے لیکن جس نوجوان کو یہ سبق ملے گا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر میں غلطیاں کیں اور آؤ اب ہم ان کو درست کریں اس نے کیا خدمت کرنی ہے جا کر.وہ تو قطع ہو گیا، ٹوٹ گیا.یہ فقرہ سننے کے بعد تو اس کے پرخچے اڑ گئے.اب میں ایک نئی تنظیم کا اعلان کرنے لگا ہوں میں نے بہت سوچا، بہت دعائیں کیں میں اللہ تعالیٰ کی طرف عاجزانہ جھکا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمیں اپنا پرانا طریق بدل دینا چاہیے اور یہ چیز پہلے مبلغین پر بھی حاوی ہو جائے گی اور نئے آنے والوں پر بھی کہ نہ کوئی تحریک کا ہوگا نہ کوئی انجمن کا ہوگا تمام واقفین کا ایک خاص گروہ بن جائے گا ایک جماعت ایک Pool (پول) ہوگا.ایک Reservoir ( ریز روائیر ) ہوگا ایک تالاب ہو گا جس میں یہ روحانی مچھلیاں اجتماعی زندگی گزاریں گی اور تربیت حاصل کریں گی اور نشوونما پائیں گی ، نئے اور پرانے اس پول میں چلے جائیں گے جو پرانے ہیں ایک سال کے اندر ہم ان کی Screen (سکرین) کریں گے یعنی بصیغہ راز ان کے تمام حالات، ان کی ذہنیت وغیرہ وغیر ہ معلوم کریں گے یہ ضروری نہیں کہ کسی میں کوئی نقص ہو اس کی وجہ سے اس کو باہر نہ بھیجا جائے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے حالات یا اس کی ذہنیت ایسی ہو کہ وہ یہاں بہت اچھا کام کر سکتا ہو باہر نہ کر سکتا ہو.یہ سارے کوائف ہم اکٹھے کریں گے اور اسی طرح مثلاً آٹھ جو میں نے پہلے مثال دی تھی کہ جامعہ سے جو نئے فارغ ہوئے ہیں ان نئے فارغ ہونے والوں کو اس پول میں بھیج دیا جائے گا نہ کوئی تحریک کے پاس جائے گا نہ انجمن کے پاس لیکن تعداد دونوں کی
خطبات ناصر جلد سوم 17.خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء مقرر ہو جائے گی مثلاً پہلے ساٹھ مبلغ ہیں اس سال آٹھ نے مبلغ پیدا ہوئے ہیں تو چار ان کے حصہ میں آئیں گے تو یہ ہو جائے گا کہ پہلے تحریک جدید کے ساٹھ تھے اب چونسٹھ ہو گئے اور اگر پہلے اتی مبلغ ہیں صدر انجمن احمدیہ کے اب ان کو چار ملے تو چورائی ہو گئے لیکن وہ کون کون ہوں گے اس کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا وہ پول کے ہوں گے اور وہیں سے وہ باہر جائیں گے اور کوئی شخص باہر نہیں جائے گا جب تک کم از کم تین سال تک اس نے پاکستان میں کام نہ کیا ہوا اور اس کے حالات اور اس کی ذہنیت کا ہمیں علم نہ ہو.اور پہلوں کی Screening (سکریننگ ) تو اسی سال ہوگی اور نئے آنے والوں کی سکریننگ تین سال کے بعد ہوگی اور پھر ان میں سے earmark (ایر مارک ) معین کر دیئے جائیں گے یعنی نشان دہی ہو جائے گی کہ یہ یہ مبلغ ایسے ہیں جو بیرونی ممالک میں کام کرنے کے قابل ہیں پھر جتنے ان کے حصے کے ہیں اتنے ان میں سے باہر بھیج دیئے جائیں گے.ایک اور خرابی یہاں پیدا ہوتی تھی کہ جب وہ واپس آتے تھے تو ان کا کوئی کام نہ ہوتا با ہر وہ مبلغ انچارج ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ایک مقام دیا ہے اور عزت دی ہے لیکن یہاں اسے کوئی کام نہیں ہوتا دفتر میں کلرک لگا دیئے جاتے ہیں وہ بے نفس تھے پرواہ نہیں کرتے تھے کلر کی کرتے تھے لیکن اس لحاظ سے ان کی طبیعت پر بہر حال اثر پڑتا تھا ان کو کسی علمی کام میں لگایا جا تا تبلیغ کے میدان میں رکھا جاتا ،نئی کتابیں پڑھائی جاتیں تحقیق کروائی جاتی یہ ان کا کام تھا لیکن چونکہ اس قسم کا تحریک کے پاس کام نہیں ہوتا اس واسطے ان سے وہ ایسے کام کروانے پر مجبور ہوتے تھے اس میں ان کا کوئی قصور نہیں.پھر سوال یہ ہے کہ ان کو تین سال یہاں کیوں رکھا جائے.پہلے بھی کچھ باتیں میں نے محسوس کی تھیں اب میں نے ان کو حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو تین سال سے زیادہ باہر نہیں رکھنا وہ یہاں آئے جو ہمارے پرانے مبلغ تھے دس دس پندرہ پندرہ سال باہر رہے ان کے لئے عملاً بعض الجھنیں پیدا ہو گئیں مثلاً ایک جرمنی کا مبلغ ہے وہ پانچ سال کا بچہ وہاں لے کر گیا اگر وہ بارہ سال سے وہاں ہے تو سترہ سال کی عمر کا وہ بچہ ہو گیا ساری ابتدائی تعلیم اس نے جرمن زبان میں حاصل کی اب وہ یہاں آئے تو اس کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے وہاں رہے تو اس کے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے اس لئے عجیب کشمکش پیدا ہوگئی.میں نے تو ان کو یہی کہا ہے اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو
خطبات ناصر جلد سوم ۱۶۱ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ تمہارے بچوں پر فضل کرے گا لیکن ان کے خاندانی حالات میں ایک پیچیدگی ضرور پیدا ہوئی.اگر ہم تین سال کے لئے باہر بھیجیں تو میں اپنی بہنوں کو یہ سنانا چاہتا ہوں کہ اگر ایک عیسائی لڑکی نوجوان اپنے بال کٹوا کر ساری عمر کے لئے Catholic Nun ( کیتھولک نن ) بنتی ہے اور تثلیث کے ساتھ یہ عہد کرتی ہے کہ میں تثلیث کی خدمت کے لئے کنواری رہوں گی تو کیا آپ بہنیں توحید کی خدمت کے لئے تین سال تک کے لئے اپنے خاوندوں سے علیحدہ نہیں رہ سکتیں؟ اگر آپ اتنا بھی نمونہ قربانی کا پیش نہیں کر سکتیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑی جائز وجہ ہوگی کہ آپ اپنے خاوندوں سے ضلع لے لیں یہ آپ کے لئے بھی بہتر ہے اور ان کے لئے بھی بہتر ہے اور ہمارے لئے بھی بہتر ہے لیکن اگر آپ کے دل میں اللہ کی محبت اور پیار ہے تو اس قربانی کے لئے جو عیسائی نوں کی قربانی کے مقابلہ میں بالکل حقیر ہے تیار ہو جائیں.پس ہمیں اپنے مبلغوں کو تین سال سے زائد عرصہ تک باہر نہیں رکھنا چاہیے، چاہے ہم انہیں چھ مہینہ کے لئے بلائیں پہلے چونکہ آمد و رفت کے لئے پیسے کم تھے جب خاندان بچوں سمیت باہر چلے جاتے تھے خرچ زیادہ ہوتا تھا تو تحریک کے لئے مجبوری تھی یعنی پہلا جو قانون تھا وہ مجبوراً جاری کیا گیا تھا کہ مبلغ کے ساتھ ان کے بیوی بچوں کو بھی بھیج دو.دس دس پندرہ پندرہ سال وہاں رہیں گے اب تجربہ کے بعد ہمیں پتہ لگا کہ یہ درست نہیں ہے سوائے اس مبشر کے کہ جس کے ساتھ بیوی کا جانا جماعتی کام کے لئے ضروری ہے باقیوں کو قربانی دینی چاہیے.دو تین سال کے بعد واپس آجائیں گے.بہت سے معصوم احمدی ناجائز طور پر پانچ پانچ سال کی قید کی سزا بھی بھگتتے ہیں کئی ایک کا مجھے بھی علم ہے بالکل بے گناہ لیکن جھوٹی گواہیوں پر پانچ پانچ سال کی سزا ان کو مل گئی ، کیا اس قیدی کی بیوی اپنے خاوند سے پانچ سال علیحدہ نہیں رہتی؟ تو کیا تم اپنے رب کے عاشق کی جدائی تین سال برداشت نہیں کر سکتیں؟ اور وہ علیحدہ رہتی ہے تو اسے کوئی ثواب نہیں ملتا اور اگر تم علیحدہ رہوگی تو تمہیں ثواب ملے گا وہ علیحدہ رہتی ہے تو اکثر اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اور تمہاری دیکھ بھال کرنے والے موجود ہیں اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل ہے.
خطبات ناصر جلد سوم ۱۶۲ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء یہ صحیح ہے کہ آپ بہنیں بعض دفعہ اپنے حقوق سے زیادہ کا مطالبہ کرنے لگ جاتی ہیں دنیا کی حرص میں اور آپ کی وہ بات نہیں مانی جاتی تو پھر آپ کے دل میں شکوہ پیدا ہوتا ہے لیکن اگر دنیا کی حرص نہ ہو اور صرف جائز حقوق ہوں تو جائز حقوق کی حفاظت کی ذمہ دار جماعت اور مہدی معہود کا خلیفہ ہے لیکن یہ فیصلہ کرنا بہر حال نظام کا کام ہے اور خلیفہ وقت کا کام ہے آپ کو اس دنیا میں بھی بہت سی سہولتیں مل جاتی ہیں کئی ہماری بہنیں وہاں جا کر اپنے خاوندوں کو پریشان کرتی ہیں کیونکہ دنیا کی حرص ان میں ہوتی ہے ان کی پوری تربیت نہیں ہوئی ہوتی اور عجیب کشمکش پیدا ہو جاتی ہے ایک مبلغ اور اس کی بیوی کے درمیان، وہ بے نفس زندگی گزارنا چاہتا ہے اور یہ ایسی کہ اس کا نفس موٹا اور دنیا کی لالچ اور حرص.اس پر گھر میں جھگڑا رہتا ہے اس لئے وہ اپنا کام پورا نہیں کر سکتا لیکن بہت سی بیویاں اللہ تعالیٰ کی فدائی، بے نفس ایسی دیکھی ہیں کہ ہر وقت ان کے لئے دعائیں کرنے کو دل چاہتا ہے.کلیم صاحب کی ان پڑھ بیوی ان کے ساتھ گئی تھی ان کو باہر گئے ہوئے بڑا لمبا عرصہ ہو گیا ہے انشاء اللہ اب وہ جلد واپس آرہے ہیں.ان کی بیوی نے منصورہ بیگم کو بتا یا وہ کہنے لگی کہ جب میں یہاں آئی تو میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ نہ مجھے انگریزی آئے نہ کوئی اور زبان آئے ، اردو تھوڑی بہت آتی ہے وہ بھی زیادہ نہیں آتی اور میں ایک مبلغ انچارج کی بیوی بن کر یہاں آئی ہوں مگر کوئی خدمت نہیں کر سکتی دعا کرتی رہی تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالا کہ تم انگریزی سیکھنے کی بجائے ان کی مقامی زبان سیکھ لو پھر انہوں نے بڑی محنت سے وہاں سالٹ پانڈ کی مقامی زبان سیکھ لی اور بڑی اچھی زبان بولتی تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خواہش اور آرزو کو پورا کیا.ایسی خواہشیں مقام نعیم کی طرف لے جانے والی ہیں ان کو توفیق ملی کہ انہوں نے سینکڑوں افریقن احمدی بچوں کو قرآن کریم پڑھایا اور اس کا ترجمہ سکھایا کیونکہ ان کی زبان میں بڑی روانی سے بات کرتی تھیں پس ایسی بھی ہیں لیکن بعض دوسری قسم کی بھی ہیں جیسے بعض استثناء مبلغوں کے ہیں یہ استثناء ہیں اکثریت ایسی نہیں.جو گندی مثالیں ہیں وہ بالکل استثنائی ہیں لیکن ہم ایک زندہ جماعت ہیں اور ایک زندہ جماعت میں ایک مثال بھی ایسی ہو تو اس کو برداشت نہیں کر سکتی حالانکہ برداشت کرنا چاہیے ورنہ آہستہ آہستہ زنگ بڑھتا چلا جاتا ہے اور زندگی کے
خطبات ناصر جلد سوم ۱۶۳ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء بجائے موت کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں مثلاً چھ ملکوں میں ہمارے درجنوں مبلغ ہیں ماشاء الله صرف دو کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس قسم کے ہیں ، وہ ہیں بھی نوجوان اور پھر غیر تربیت یافتہ ، غلطی کی کہ فوراً ان کو باہر بھجوادیا اسی طرح ہماری مستورات ہیں وہاں ان کا بے حد اثر ورسوخ ہے، وہ بڑی خدمت کر رہی ہیں، وہ ایک قسم کی مبلغ اور مبشرہ ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر دے اور اپنے خاوندوں کے ساتھ ان کو بھی مقام نعیم میں رکھے لیکن عورتوں میں بھی استثناء ہیں.ہماری جو بہن ایسی ہوگی یعنی مبلغ کی بیوی جسے ہم سمجھیں گے کہ اس کو ساتھ جانا چاہیے اس کے لئے شرط لگائیں گے کہ چھ مہینے وہاں کی زبان سیکھے کیونکہ انگریزی کی نسبت وہاں کی مقامی زبان کا جاننا بہت ضروری ہے متعدد مقامات پر یہ ہوا کہ مبلغ نے کہا کہ آپ کے سامنے بارہ ہزار آدمی بیٹھا ہوا ہے ان کا محتاط اندازہ غلط تھا میں نے حساب لگایا تو ہیں ہزار سے زیادہ سالڈ پانڈ میں ہمارے احمدی مردو زن جمع تھے ) وہ کہتے تھے کہ ان میں سے صرف دس فیصدی انگریزی جانتے ہیں اس لئے ترجمہ ہوگا یہ نہیں کہ کھڑا ہو کر میں انگریزی میں بات کروں اور صرف ایک زبان میں خطبہ ہو جائے.لیسٹر کی مسجد کے افتتاح اور خطبہ جمعہ کے موقع پر دو مترجم رکھنے پڑے، ایک کریول زبان میں ترجمہ کرتے تھے ( یہ عیسائیوں کی زبان ہے جس میں کچھ انگریزی کے لفظ صحیح شکل میں اور کچھ بگڑے ہوئے ، کچھ دوسری زبانوں کے ملے جلے ہیں وہ زبان ایک عجیب مرغو بہ سا ہے ) ایک اور زبان تھی ان کی جو باہر سے آئے ہوئے تھے مجھے کہا کہ نصف لوگ یہ زبان سمجھیں گے اور نصف وہ زبان سمجھیں گے اس لئے دومتر جم کھڑے تھے.مجھے بڑی مشکل پڑ گئی میں ایک فقرہ کہتا تھا اس کا پہلے ایک زبان میں ترجمہ ہوتا پھر دوسری زبان میں ترجمہ ہوتا پھر میری باری آتی تھی.میں تو ذہن پر بڑا بوجھ ڈال کر تسلسل قائم رکھنے کی کوشش کرتا تھا ایک اور جگہ وہ کہنے لگے کہ صرف پانچ چھ فیصدی انگریزی سمجھیں گے باقی جو ہیں قریباً نصف نصف ، ایک نصف حصہ ثمنی زبان جانتا ہے اور دوسرا نصف حصہ مینڈے زبان جانتا ہے میرے ساتھ دو مترجم کھڑے کر دیئے یہ کام اسی طرح ہوا.پس یہاں سے جو ہماری بہن خدمت کے جذبہ سے جانا چاہے اور ہم بھی اس کو بھیجنا چاہیں تو اس کے لئے پانچ چھ مہینے زبان سکھنے کا انتظام کریں گے ایک اور سکیم ہے میں کسی اور وقت
خطبات ناصر جلد سوم ۱۶۴ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء جماعت کو بتاؤں گا یہاں ان کو مقامی زبان کے کئی سو فقرے ہم یاد کروا دیں گے اور وہ وہاں جا کر دو چار مہینے میں بڑی جلدی روانی کے ساتھ بولنے لگ جائیں گی پس بعض مقامات پر بعض حالات میں ہمیں مبلغوں کی بیویاں بھی بھیجنی پڑیں گی لیکن جماعتی مفاد جہاں ہوگا وہاں انہیں بھیجیں گے جہاں جماعتی مفاد نہیں ہو گا وہاں ہماری احمدی بہن کو اور ایک مبشر کی بیوی کو اور اس کے بچوں کو یہ قربانی دینی پڑے گی کہ تین سال تک اس سے جدا ر ہیں.اب تو میں بڑی سختی کے ساتھ تین سالہ پابندی کروا رہا ہوں پھر یہاں جو آتے ہیں ضروری نہیں کہ ہم تین سال تک ان کو یہاں رکھیں چھ مہینے یا سال یا تین سال ہم یہاں رکھیں گے یا ممکن ہے وہ دوبارہ جائیں ہی نہ کیونکہ وہ تو Pool (پول) کے ہوں گے پول میں سے اگر ساٹھ مبلغ تحریک کے ہیں تو تحریک پول میں سے چنیدہ اور سکریننگ کے بعد، تربیت کرنے کے بعد، ریفریشر کورس کے بعد ان کو باہر بھیجے گی اور جو باقی ہیں ان کی بھی یہاں سکریننگ کے بعد نظارت اصلاح وارشاد کو دیں گے اور باقیوں میں سے ممکن ہے پانچ دس ایسے ہوں کہ ہم ان کو کہیں تم ربوہ میں رہو اور ریفریشر کورس کرو یا تو اپنی تربیت کرلو کوشش اور دعا کے ساتھ اور یا پھر ہم تمہیں فارغ کر دیں گے غرض ہم نے خانہ پُری نہیں کرنی کیا خانہ پری سے اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ مخلصین اس کی راہ میں قربان کریں اللہ تعالیٰ اس بات سے خوش نہیں ہوسکتا کہ چند سو غیر مخلص بدنیت اس کے حضور پیش کر دو جس طرح بعض لوگ قربانی کرتے وقت جوسب سے لاغر بکرا ہوتا ہے اس کی قربانی کر دیتے ہیں یا بعض لوگ انسانوں کا جسم جو تمام اجسام سے زیادہ اچھا ہے خدا کی نگاہ میں اور فائن بھی زیادہ ہے اس کے گوشت کی بناوٹ جانور جیسی نہیں جانور کے گوشت کو انسانی جسم تحلیل کرتا ہے اور اپنے مطلب کی چیز لے لیتا ہے اور جو اس کے جسم سے مناسبت نہیں رکھتا اسے باہر نکال دیتا ہے فضلے کے ذریعہ سے.ایک دفعہ میں لاہور جا رہا تھا کہ لاہور سے دس بارہ میل ورے مجھے بیل اور گائیں لاہور کی طرف جاتی ہوئی نظر آئیں.میں موٹر میں تھا اور ان کی ہڈیاں نکلی ہوئیں اور گوشت غائب،صرف چمڑا اور ہڈیاں نظر آرہی تھیں ان کی شکل میں نے دیکھی میں نے کہا یہ جارہے ہیں مذبحہ خانے ،
خطبات ناصر جلد سوم ܬ1ܙ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء انسانوں کی غذا بنیں گے.ہماری کار نے جب ہارن بجایا تو ان میں سے ایک اسی طرح کا نیم مردہ بیل ہارن کی آواز سن کر اور ڈر کر دوڑ پڑا اور وہ تیس گز ہی دوڑا ہوگا کہ اس کی حرکت قلب بند ہو گئی اور مر گیا.یہ تو انسان کی مناسب غذا نہیں.پس انسان کو بہترین، اشرف المخلوقات بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے اور اشرف ہی اس کو بنا چاہیے.جسمانی قومی کے لحاظ سے بھی اور روحانی تربیت کے لحاظ سے بھی پس با اخلاق اور روحانی انسان بنا کر مبلغوں کو باہر بھیجنا چاہیے وہاں مبلغوں میں سے اس کا اثر ہے جو دعا کرنے والا اور بے نفس ہے اور اس کا اثر ہونا چاہیے.جب ہم نے خدا کی طرف بلانا ہے تو جو خدا سے دور ہو گا وہ خدا کی طرف کیسے بلائے گا؟ خدا کی طرف تو وہی بلا سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کا مقرب ہوگا ، جس کو اس کا قرب حاصل ہو گا جس کو خود اس کا قرب حاصل نہیں وہ دوسرے کو قرب کی راہیں کیسے دکھا سکتا ہے تو مبلغ کے لئے بنیادی چیز یہ ہے کہ وہ بے نفس ہو، غرور اور تکبر اس میں نہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا زندہ تعلق ہو اور یہ قو میں خصوصاً افریقہ کی پیار کی اتنی بھوکی ہیں اور اتنی پیاسی ہیں کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.زمبیا کے ایک وزیر لندن کے ایروڈ رام پر اتفاقا مل گئے تھے جب ہم واپس آرہے تھے ان کا ہائی کمشنر بھی ان کے ساتھ تھا اور ایک دس بارہ سال کا بچہ بھی ساتھ تھا.میں نے اس کو گلے لگالیا اور پیار کیا اس کا اتنا اثر ہوا زمبیا کے وزیر اور ہائی کمشنر پر کہ وہ میرا شکریہ ادا کر رہے تھے اور ہونٹ ان کے پھڑ پھڑا رہے تھے ، اتنے جذباتی ہو گئے تھے چنانچہ میں نے شیخ صاحب سے بات کی تو وہ کہنے لگے کہ یہ بات تو ان کے تصور میں بھی نہیں آسکتی کہ کوئی ان کے بچے کو پیار کر سکتا ہے اتنی مظلوم ہیں وہ قو میں اتنی پیار کی وہ پیاسی ہیں اور ہم وہاں اسلام کی محبت اور پیار اور ہمدردی اور غمخواری اور مساوات اور جذبہ خدمت ( یہ ہمارے ہتھیار ہیں ) دے کر اپنے مبلغوں کو بھیجتے ہیں بجائے اس کے وہ ان کے بچوں کو گود میں اٹھائے یہ کہے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے میں میری بے عزتی ہے تو کام کیسے کرے گا وہ محبت کا پیغام کامیاب کیسے ہو گا ؟ وہاں میں نے دھڑلے کے ساتھ عیسائیوں کو یہ کہا کہ میں مانتا ہوں کہ جب تم صدیوں پہلے ان ملکوں میں داخل ہوئے تو تمہارا بھی یہی دعوی تھا کہ تم عیسائیت کی محبت کا پیغام لے کر آئے ہو
خطبات ناصر جلد سوم ۱۶۶ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء لیکن تمہارے پیچھے یورپی ممالک کی فوجیں اپنی توپوں سمیت داخل ہوئیں اور ان تو پوں کے دہانوں سے محبت کے پھول نہیں بر سے بلکہ گولے باہر نکلے اور جو انہوں نے تباہی مچائی تم جانتے ہو اس پر زیادہ روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیت محبت کے پیغام کا دعویٰ کرنے کے باوجود نا کام ہوئی اور اسے ناکام ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس سے زیادہ پیارا اور حسین محبت کا پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آسمان سے نازل ہو چکا تھا.اب ہم یہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے کر آئے ہیں اور پچاس سالہ خدمت اور محبت اور ہمدردی اور غمخواری اور مساوات کا سلوک اس بات پر شاہد ہے اور تم اس کا انکار نہیں کر سکتے کہ نہ تمہاری سیاست میں ہمارا کوئی دخل نہ اس سے کوئی دلچپسی ، نہ تمہارے مال میں کوئی دلچپسی ایک دھیلہ تمہارے ملکوں سے باہر نہیں نکالا بلکہ لاکھوں روپے باہر سے لا کر تمہارے ملکوں میں خرچ کئے ہیں.اس لئے ہم جو پیغام محبت، ہمدردی اور غمخواری اور مساوات لے کر تمہارے پاس آئے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے.وہ ضرور کامیاب ہوگا، نا کام نہیں ہوسکتا کیونکہ حقیقی معنی میں محبت کا جو بھی پیغام دنیا کی طرف آیا انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کبھی بھی وہ ناکام نہیں ہوا اس لئے ہم جیتیں گے، دنیا جتنا چاہے زور لگا لے.اسلام کی فتح اور اس کے غلبہ کے دن آگئے ہیں اور بڑی تحدی سے میں یہ اعلان کرتا تھا.امریکہ سے Peace Corps (پیس کور ) کے کچھ استاد جو ہمارے سکولوں کے ساتھ بھی حکومت نے لگائے ہوئے ہیں ایک موقعہ پر احمدی سکولوں کے ساتھ بو میں جب پندرہ سو طالب علم جمع تھے تو ان کے ساتھ ان کو بھی آنا پڑا.سارے اساتذہ ان کے ساتھ تھے میری تقریر کے بعد وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے جو ہمارے دوستوں نے سنیں وہ کہنے لگے کہ حضرت صاحب نے اتنی تحدی سے یہ بات کہی کہ اسلام کے غلبہ کے دن آگئے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی اس لیے ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے اور یہ بات بھی ان کے نقطۂ نگاہ سے فکر کی بات ہے اور ہمارے نقطۂ نگاہ سے دنیا کے لئے خوش قسمتی کے دن ہیں کہ یہ خدا سے دوری میں دن گزار رہے تھے اب خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں ان پر کھولی جارہی ہیں بہر حال اپنے نقطۂ نگاہ سے ان کو یہی کہنا پڑا کہ ہمیں اب اپنی فکر کرنی چاہیے پس
خطبات ناصر جلد سوم ۱۶۷ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء ہمارا جو مبلغ حقیقی معنی میں محبت اور ہمدردی اور غمخواری اور مساوات اور جذ بہ خدمت لے کر وہاں نہیں جاتا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ محبت بھرا پیغام ان کو نہیں پہنچا تا وہ کامیاب نہیں ہوسکتا.آپ کی تو کیفیت تھی لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء : ۴) یہ جذبه اگر اس کے دل میں نہیں ہے تو وہ نا کام مبلغ ہے اس کا کوئی اثر نہیں ہے لیکن اگر یہ ان سے محبت نہ کرے میں تو سات سات آٹھ آٹھ دن مختلف ملکوں میں رہا ہوں مگر جتنے بچوں سے میں نے پیار کئے ہیں اتنے ہمارے سارے مبلغوں نے تین سال میں بھی نہیں کئے ہو نگے ان کے بچوں سے پیار، پھر میں ان کے بڑوں کا بھی بہت خیال رکھتا تھا.جب ہم بو پہنچے.ایک سوستر میل سفر تھا گرمی ، جبس ، کھانا بھی وقت سے بے وقت اور میراجسم کوفت کی وجہ سے کام کے قابل نہیں تھا میں اپنے کمرہ میں چلا گیا جسم انکار کر رہا تھا کام کرنے سے وہاں بے وقت پہنچے اس وقت مجھے اطلاع ملی کہ دو ہزار سے زیادہ احمدی یہاں پہنچ گیا ہے لاج میں اور وہ کہتے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ حضرت صاحب تھکے ہوئے ہیں لیکن ہمیں صرف اپنی شکل دکھا دیں اور ہم سلام کریں گے اور چلے جائیں گے میں نے سوچا اگر وہ میری شکل دیکھنے کے بھو کے ہیں تو مجھے بہر حال تکلیف اٹھانی چاہیے میں نے انہیں کہا کہ میں تمہیں شکل ہی نہیں دکھاؤں گا میں تم سے مصافحے بھی کروں گا پھر میں نے ان سے مصافحے کئے ان کو گلے لگا یا دو گھنٹے کے قریب میں نے ان سے مصافحے کئے.میرا حال یہ تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا مصافحوں کے دوران کہ مجھے یقین تھا کہ میں بیہوش ہو کر گر جاؤں گا لیکن یہ ان کا حق تھا جسے میں نے بہر حال ادا کرنا تھا.ایک ڈاکٹر صاحب جو ڈیوٹی پر تھے بطور ڈاکٹر کے تو ان کی ضرورت نہیں پڑی لیکن وہ پانی وغیرہ کا خیال رکھتے تھے.ان کو میں نے کہا کہ میری یہ حالت ہے دس دس منٹ کے بعد مجھے پانی دیتے چلے جاؤ چنانچہ وہ دو دو چار چار گھونٹ پانی کے مجھے پکڑاتے تھے تو میں پی لیتا تھا اور مجھے سہارا مل جاتا تھا اور سارا وقت میں نے ایسا کیا.جتنے پیار میں نے ان کے بچوں سے ایک ایک ملک میں کئے اور جس قدر محبت اور شفقت کا سلوک ان کے بڑوں سے کیا وہ بے ثمر نہیں رہا اکرہ سے کماسی ۱۷۰ میل ہے اور کماسی سے ٹیچی من ۷۰ میل کے قریب.وہاں سے کئی سو میل
خطبات ناصر جلد سوم ۱۶۸ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء شمال مغرب کی طرف ہماری واہ کی جماعتیں ہیں وہ علاقہ وا کہلاتا ہے وہاں بھی ہماری بیسیوں جماعتیں ہیں میں کماسی سے جس روز جارہا تھا ستر میل دوسری طرف ٹیچی من کی مسجد کے افتتاح کے لئے مجھے بتایا گیا کہ وا کے دوسو احمدی بسیں لے کر آج رات پہنچ رہے ہیں یعنی جس صبح کو ہم نے ٹیچی کے لئے چلنا تھا اس سے پہلی رات کو انہوں نے مجھے یہ کہا.میں نے انہیں کہا کہ اب تو ٹیچی من کا پروگرام ہے اور یہ قریب تھا وہاں کیوں نہیں آئے تو وہ کہنے لگے کہ وہ رستے ٹھیک نہیں یہ اچھا راستہ ہے چنانچہ وہ کماسی پہنچ گئے میں نے ان سے کہا کہ ان سے کہو پھر انتظار کرو میں ستر میل وہاں گیا وہاں سارے دن کا پرگرام تھا پھر ستر میل واپس آیا مغرب سے ذرا پہلے پہنچے نماز پڑھانے چلا گیا.سکول میں کئی ہزار آدمی آجا تا تھا مغرب وعشاء میں.کماسی میں انہیں کہا کہ نماز کے بعد صبح مجھ سے ملیں میں نے یہ خیال نہیں کیا کہ میں تھکا ہوا ہوں مجھے آرام چاہیے میں تو وہاں بمشکل ڈیڑھ دو گھنٹے سوتا تھا وہاں تو مجھے نیند نہ آتی تھی اب آنی شروع ہوئی ہے.بہر حال وہاں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میں نے تکلیف اٹھائی کیونکہ میں نے کوئی تکلیف نہیں اٹھائی اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ اس کے باوجود میری صحت اچھی ہوگئی ڈاکٹر کی مجھے ضرورت نہیں پڑی.بشاش ہنستا کھیلتا میں ان میں رہا ہوں سارا وقت نماز کے بعد میں مردوں سے ملا اور منصورہ بیگم مستورات سے ( منصورہ بیگم کو اللہ تعالیٰ جزا دے انہوں نے بڑا کام کیا میرے ساتھ ) اور ان کی مستورات کی بڑی خدمت کی ہے مثلاً مستورات سے ملنا ملانا ور نہ ان کی سیری نہیں ہوتی بہر حال مجھے خیال آیا کہ کئی سو میل سے آئے ہیں زیادہ وقت میرے ساتھ رہ نہیں سکے صبح ہی انہوں نے واپس چلے جانا ہے یہی گھنٹہ دو گھنٹہ ہیں جو بیٹھ سکتے ہیں میرے ساتھ.دوسروں کی نسبت جن کو زیادہ وقت ملا ہے یہ زیادہ مستحق ہیں.میں ان کے لئے کیا کروں کہ ان کا حق ادا ہو جائے پھر مجھے خیال آیا کہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ میں معانقہ کروں گا چنانچہ سوا سو آدمیوں کے ساتھ میں نے معانقہ کیا اور پھر تقریر کی.اس موقعہ پر ان کی زبان بولنے والا کوئی ایسا شخص نہ تھا کہ میری انگریزی زبان کا ترجمہ کر دیتا پھر بڑی مشکل پیش آئی.میں تو بہر حال انگریزی بولتا تھا اور ہمارے مبلغ کو بھی وہ زبان نہیں آتی تھی پھر پتہ لگا کہ عربی سمجھنے
خطبات ناصر جلد سوم ۱۶۹ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء والے چند ایک ان میں ہیں.میں نے کہا پھر میں عربی بولوں گا.پھر تقریر جو کرنی تھی عربی میں کی میں نے.پھر ترجمہ ہوا اس کا پھر میں نے معانقہ کیا اور معانقہ سے ان کو جو خوشی ہوئی اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے ان میں سے ایک کی تصویر سلائیڈ مولوی عبد الکریم صاحب نے لی وہ میں اپنے ساتھ لے آیا ہوں کسی وقت دکھاؤں گا.آپ دیکھیں گے کہ ان کے چہرہ سے اطمینان اور محبت اور پیار اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے ایسے ملے جلے جذبات کا اتنا خوبصورت مظاہرہ ہے کہ دل حمد باری سے بھر جاتا ہے پس اللہ کے فضل سے ہزاروں سے معانقہ کیا، ہر ملک میں اور سینکڑوں ہزاروں کو پیار کیا.مجھے یقین ہے کہ ہمارے مبلغوں نے تین تین سالوں میں بھی اتنا پیار نہیں کیا ہوگا ، یہ قو میں پیار کی بھوکی ہیں، بڑے مخلص ہیں لیکن ہمارے بعض مبلغوں کو اس کا خیال نہیں ، وہ وہاں مستقل بیٹھے ہوئے ہیں ہر وقت کا ملنا جلنا ہے.اگر وہ بھی اسی طرح بچوں سے پیار کریں بڑوں کو سینے لگائیں ان سے ہمدردی کریں اور پیار اور محبت کا مظاہر کریں ان کی بیویاں وہاں کی احمدی مستورات سے پیار کریں تو ساری قوم احمدیت قبول کر لے.ایک دن میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ عیسائی اور بدھ مذہب والوں کو میں نے دیکھا کہ مجھے دیکھ کر خوشی سے ناچنے لگتے ہیں ان پر کیا چیز اثر کر رہی تھی (ویسے تو اللہ کا فضل تھا اسی کا فضل ہے) انہوں نے دیکھا کہ ایسا آدمی آیا ہے جو ہم سے پیار کرتا ہے اور ہمارے بچوں کو سینہ سے لگا لیتا ہے ہمارے مردوں سے معانقہ کرتا ہے اور اسے اپنے آرام کا کوئی خیال نہیں ہمارے پیار میں محو ہے ان کے پیار سے میں نے جسمانی قوت بھی بڑی حاصل کی میں کم خور ہوں میں نیند ویسے بھی نہیں لے سکا لیکن اس محبت اور پیار سے میری روح غذا لے رہی تھی اور میرا جسم پوری طرح مطمئن تھا.غرض یہ اثر عیسائیوں پر تھا.آپ کہیں گے کہ یہ کیسے پتہ لگا کہ یہ عیسائی ہیں، عیسائیوں کا پتہ اس طرح لگتا تھا کہ مسلمان سڑکوں پر ناچتے نہیں عیسائی اور غیر مذہب والے ناچتے ہیں چنانچہ مجھے دیکھ کر جو ناچنے لگ جاتے تھے میں سمجھتا تھا کہ یہ یا عیسائی ہے یا مشرک ہے بہر حال مسلمان نہیں ہے.احمدی ہو یا غیر احمدی اُن کی عورتیں اور مرد اس طرح سڑکوں پر نہیں ناچتے.رقص اور ناچ عیسائی معاشرے کا حصہ ہے اسلامی معاشرہ کا حصہ نہیں ہے چنانچہ ایک دن میں پچاس
خطبات ناصر جلد سوم ۱۷۰ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء ہزار سے زائد غیر مسلم مجھے دیکھ کر خوش ہوئے ویسے تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.میں نے اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد کی نہ جان نہ پہچان غیر مذہب کا ایک آدمی ان کے اندر آیا ہے یہ اسے دیکھ کر خوش ہورہے ہیں (وہاں مذہبی لڑائیاں نہیں لیکن ایک مخالفت تو ہے ناوہاں ہم نے اعلان کیا کہ ہم شکست دیں گے عیسائیت کو پیار کے ساتھ شکست دیں گے دلائل کے ساتھ ، آسمانی نشانوں کے ساتھ شکست دیں گے بہر حال ہمارا اور ان کا مقابلہ ہے ) لیکن اس کے باوجود مجھے دیکھ کر وہ خوش ہوتے تھے اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ وہ شخص ہے جو باہر سے آیا ہے ہمیں نہیں جانتا لیکن اس کے دل میں ہمارا پیار ہے اس کا جواب مجھے مل رہا تھا.میں وہاں پر اپنے مبلغوں کو کہتا رہا تھا کہ دیکھو! نہ جان نہ پہچان نہ ہم مذہب نہ ہم خیال نہ کوئی واسطہ جب وہ مجھے دیکھتے ہیں تو میں مسکراتا ہوں تو وہ بھی مسکراتے ہیں.بڑے افسردہ چہروں کو بھی میں نے دیکھا گو اتنے زیادہ افسردہ چہرے تو مجھے نظر نہیں آئے لیکن ایک سنجیدہ آدمی کو جب بھی میں نے مسکرا کر سلام کیا تو بشاش ہو کر اس کے دانت نکل آتے تھے اور سلام کا جواب مسکرا کر دیتا تھا میں نے اعلان کیا کہ آج کا دن مسکراہٹوں کا دن ہے، تقسم کرنے کا دن کا اعلان کر دیا.میں نے کہا آج کے دن اتنی مسکراہٹیں چہروں پر کھلی ہیں کہ آج کے دن کو میں مسکراہٹوں کا دن قرار دیتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں اور جب ان کے ہیڈ آف دی سٹیٹس سے میں نے ملاقات کی تو ان کو میں نے کہا کہ میں نے کل کے دن کو مسکراہٹوں کا دن قرار دیا ہے کیونکہ مسلم بھی غیر مسلم بھی عیسائی بھی مشرک بھی پچاس ہزار سے لاکھ تک مسکراہٹیں میں نے تمہاری قوم سے وصول کی ہیں اس پر وہ بڑا خوش تھا.میں نے کہا کہ یہاں مجھے کوئی بدامنی کوئی غصہ کوئی رنجش کوئی لڑائی اس قوم میں نظر نہیں آئی چنانچہ وہ بڑا خوش ہوا اسے خوش ہونا چاہیے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا اچھا لیڈر دیا ہے اور اس لیڈر کو دنیوی لحاظ سے بڑی اچھی قوم دی ہے ابھی ہم نے ان کو دین سکھانا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں قائم کرنی ہے وہ علیحدہ بات ہے لیکن دنیوی لحاظ سے وہ قوم بڑی اچھی اور ان کا لیڈر بڑا اچھا پیار کرنے والا ہے.پریس کانفرنس میں پوچھا گیا کہ آپ کا ہمارے لیڈر کے متعلق کیا خیال ہے؟ میں نے جواب میں کہا کہ تمہیں اپنے لیڈر پر فخر کرنا چاہیے.
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء You should be proud of him.اور اسے تم پر فخر کرنا چاہیے.پر کرنا He should be proud of you.اسے تم پر فخر کرنا چاہیے ایسی اچھی قوم اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے بات یہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ وہ پیار کے بھو کے اور پیاسے ہیں اور میں غیر ملک سے گیا نہ جان نہ پہچان میں نے ان کو پیار دیا اور پیاران سے وصول کیا اور ان کے لئے یہ بڑی حیرت انگیز بات تھی کہ ایک مسلم رہنما، اپنی جماعت کا ہیڈ ، خلیفہ اور امام اور وہ آکر بے تکلف ایک غریب آدمی کے بچہ کو اٹھا تا اور اس سے پیار کرتا ہے وہ حیران ہو کر دیکھتے تھے اور خوشی سے اچھل پڑتے تھے.جہاں رکنا پڑتا تھا وہاں دوسرے بچوں کو بھی اسی طرح پیار دیتا تھا ہر ایک کو پتہ تھا کہ ہمارے ساتھ ایک پیار کرنے والا آ گیا ہے پس ہمارے ایسے مبلغ وہاں جانے چاہئیں کہ جو ایک طرف اپنے رب کریم سے انتہائی ذاتی محبت اور پیار کرنے والے ہوں اور دوسری طرف اس رب کریم کی مخلوق سے پیار کرنے اور پیار سے ان کی خدمت کرنے والے ہوں تب ہماری جیت ہوگی وہ جو بدتمیزی سے اپنے بڑوں سے بات کرتے ہیں یا جو یہ سمجھتے ہیں کہ کالے افریقن کے ساتھ بیٹھنے سے ان کی بے عزتی ہو جاتی ہے وہ نہ مخلوق کی خدمت کر سکتے ہیں نہ اللہ تعالیٰ کا پیار دلوں میں قائم کر سکتے ہیں کچھ ان کا قصور ہے کچھ ہمارا قصور ہے اب میں نے نظام بدل کر اس کا اعلان کر دیا ہے اس کے لئے میں ایک کمیٹی بناؤں گا کیونکہ اس کے لئے بہت سی دفتری باتیں ہیں ان کا فیصلہ کرنا ہے ان کے پراویڈنٹ فنڈ اور ان کے حقوق وغیرہ کے متعلق ان سب پر غور کر کے اس پول کے اندر لے کر آنا ہے خدا کے فضل سے مالی معاملات کے احمدی ماہر اس وقت گورنمنٹ میں کام کرتے ہیں ان میں سے ایک کو میں نے پیغام بھیج دیا ہے کہ ایک ہفتہ کی چھٹی لے کر یہاں آجاؤ تب وہ پول بن جائے گا انشاء اللہ.لیکن ان ساری باتوں کے علاوہ جو بنیادی بات ہے وہ میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کی تدبیر بھی اچھے نتائج نکالتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا فضل اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے ساتھ شامل ہو اس لئے آپ سب دعائیں کریں اور میں بھی دعا کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے
خطبات ناصر جلد سوم ۱۷۲ خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۷۰ء جو ایک نئی تدبیر ذہن میں ڈالی ہے اس کو ٹھیک طور پر عملی جامہ پہنانے کی بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے اور اس کے بہترین نتائج نکالے تا کہ جو ہم محسوس کر رہے ہیں کہ اگر ہم انتہائی کوشش کریں تو بہت جلد ساری کی ساری قو میں احمدیت کی آغوش میں آجائیں گی یہ نظارہ ہم اپنی زندگیوں میں آٹھ دس سال کے اندر اندر دیکھ لیں اور اس سے زیادہ خوشی اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور تھے وہ جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن نہ دیکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حسن کے جلوے بھی نہیں دیکھے ، وہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین امتی حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام سے دور ہیں.یہ سارے حسن اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مختلف جلوے جو اس دنیا میں ہمیں نظر آتے ہیں وہ بھی ان کو پہچاننے لگیں اور اس حسن کے گرویدہ ان حسنوں سے برکتیں حاصل کریں اور دین و دنیا کی ترقیات ان کو ملیں اور وہ بھی اس مقام نعیم میں آجائیں کہ دنیا جب ان کے چہروں پر نگاہ ڈالے تو انہیں کالے رنگ نہ نظر آئیں بلکہ ہوں اور ان انہیں منور دل نظر آئیں اور ساری دنیا ایک برادری اور ایک خاندان بن کر امن اور سکون کی اور اطمینان کی اور محبت و پیار کی زندگی گزارنے لگے.(اللهم آمین).روزنامه الفضل ربوه ۳۰/ جولائی ۱۹۷۰ صفحه ۲ تا ۱۰) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۱۷۳ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء مومنوں کو نفاق کے محاذ پر بڑی بیداری، چوکسی اور فراست کے ساتھ شیطان کا مقابلہ کرنا چاہیے خطبه جمعه فرموده ۲۶ جون ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گرمی اور دھوپ کی وجہ سے میری طبیعت دو تین دن سے ٹھیک نہیں ہے آنکھوں پر بھی اثر ہے دوران سر اور در دسر بھی ہے اگر چہ آج ہمت نہیں تھی لیکن میں نے آپ سے چند ضروری باتیں کہنی تھیں اس لئے اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے یہاں آ گیا ہوں.چند باتیں مختصراً کہوں گا آپ سوچیں اور اس اختصار ہی کو بہت سمجھیں.پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ قرآنِ عظیم کو حرز جان بنا ئیں اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر شعبہ زندگی کے متعلق ہدایت دی ہے ہمارے لئے اس ہدایت کو سمجھنا اور اس پر چلنا ضروری ہے.اجتماعی زندگی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑی وضاحت سے تنبیہہ کی ہے کہ جب وہ کوئی سلسلہ قائم کرتا ہے تو شیطان کو اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ نفاق کی حدود سے اس سلسلہ پر حملہ آور ہو.شیطان کے چیلے ایک منافق کی حیثیت سے الہی سلسلہ میں داخل نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک مصلح کا بجبہ پہن کر آتے ہیں ان کا بزرگی اور تقدس اور اصلاح نفس کا نعرہ ہوتا ہے.ان کے ریاء اور نفاق اور تکبر کے بجبہ پر ہر طرف إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ “ لکھا ہوتا ہے لیکن ان کے
خطبات ناصر جلد سوم ۱۷۴ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء اس اصلاح “ کے نعرہ کے پیچھے جو شیطنت اور نفاق جھلک رہا ہوتا ہے ایک مومن کی فراست اسے بھانپ لیتی ہے اور اس سے کسی صورت میں بھی جماعت مؤمنہ کو نقصان نہیں پہنچتا.یہ نفاق ترقیات کے دور میں اور زیادہ بڑھ جاتا ہے.اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جہاں جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام کو استحکام بخشا اور مسلمانوں کے پاؤں کو مضبوطی سے قائم کیا وہیں شیطان نے نفاق کے جال کو زیادہ ہوشیاری کے ساتھ بچھایا اور جب بھی اُمت مسلمہ کے ان افراد نے بیداری اور چوکسی اور ہمت اور فراست کے ساتھ نفاق کا مقابلہ نہیں کیا اسلام کی عظمت اور اس کی شان باقی نہ رہی ( مسلمان کی کہنا چاہیے کیونکہ اسلام کی عظمت اور شان تو قائم ہے آسمان پر بھی اور زمین پر بھی ) مسلمان کی شان باقی نہ رہی.،، پس ہم نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ ، نہایت فراست کے ساتھ اس محاذ پر شیطان کا مقابلہ کرنا ہے اعلان اور دعوئی تو یہی ہوگا کہ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (البقرة : ۱۲) لیکن ہمارا جواب ( اللہ تعالیٰ کی زبان میں) یہی ہوگا."أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ (البقرة : ۱۳) کہ تم ہی و فسادی ہو.تم بزرگی اور تقدس اور صالحیت کے جامہ میں اپنے نفاق کو چھپا نہیں سکتے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے ” نصرت جہاں ریز روفنڈ“ کا اعلان کیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے مخلصین نے اس پر اس وقت تک بہترین رنگ میں لبیک کہا ہے.کل شام کی جو ر پورٹ ہے اس کے مطابق ساڑھے بارہ لاکھ روپے کے قریب وعدے ہو گئے ہیں اور قریباً سوالاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے نقد آ گئے ہیں (اب جبکہ یہ خطبہ شائع ہورہا ہے وعدے میں لاکھ تک پہنچ چکے ہیں اور قریباً اڑھائی لاکھ روپیہ نقد وصول ہو چکا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ.ادارہ ) نقد اس لئے کم جمع ہوئے ہیں کہ میں نے نومبر تک مہلت دے رکھی ہے لیکن جو دوست اس وقت ادا کر سکتے ہوں انہیں ادا کر دینا چاہیے.نومبر کا انتظار نہیں کرنا چاہیے.نومبر تک کی مہلت تو زیادہ تر زمیندار بھائیوں کی سہولت کے لئے دی گئی ہے تا کہ انہیں قرضے لے کر اس مد میں رقم ادا نہ کرنی پڑے کیونکہ جب خریف کی فصلیں آئیں گی تو اس وقت ان کی مالی حالت ایسی ہوگی کہ وہ سہولت کے ساتھ یہ قربانی دے سکیں گے.غرض ان ( زمینداروں ) کو مد نظر رکھتے ہوئے نومبر تک کی
خطبات ناصر جلد سوم ۱۷۵ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء مہلت دی گئی ہے.بعض اور دوست بھی ایسے ہو سکتے ہیں جو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس مہلت سے فائدہ اٹھا لیں لیکن جو دوست آج ادا کر سکتے ہیں انہیں کل کا انتظار نہیں کرنا چاہیے.اسی سلسلہ میں ایک اور بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر انگلستان کی جماعت اس مد میں فضل عمر فاؤنڈیشن سے دو اڑھائی گنا زیادہ رقم دے سکتی ہے تو میری غیرت اور آپ کی غیرت یہ نہیں پسند کرے گی کہ ہم لوگ انگلستان کی جماعت سے پیچھے رہ جائیں.اس لئے اس مد میں پاکستان کا چندہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے چندہ سے دو اڑھائی گنازیادہ ہونا چاہیے اگر دوست توجہ کریں اور اللہ تعالیٰ ہم پر فضل اور رحم فرمائے تو ہم یہ حقیری قربانی اس کے حضور پیش کر دیں گے اور اپنے رب سے یہ کہیں گے کہ اے ہمارے پیارے محبوب رب کریم ! ہم نے تیری رضا کے حصول کے لئے یہ حقیر سی قربانیاں دیں اور تو نے جو یہ اظہار کیا ہے کہ مومن کا ہر قدم پہلے سے آگے ہی پڑتا ہے اس کے مطابق ہم نے کوشش کی ، تو جو تمام خزانوں کا مالک ہے تو ان نہایت حقیر قربانیوں کو قبول کر اور ہمیں اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کر.تیسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ علاوہ مال کے ( جو ضرورت کے لحاظ سے بہت تھوڑا ہے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ ہمیں جتنی توفیق دیتا ہے ہم وہی اس کے حضور پیش کر سکتے ہیں ) ہمیں آدمیوں کی بھی ضرورت ہے اور اس کے متعلق میں آج یہاں غالباً پہلی دفعہ یہ اپیل کر رہا ہوں.انگلستان میں جب میں نے تحریک کی تو وہاں کے بعض بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور اونچی ڈگریاں لینے والے احمدی ڈاکٹروں نے افریقہ میں کام کرنے کے لئے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دیں.بہر حال ہمیں کم سے کم ۳۰ ڈاکٹروں اور ۸۰۰۷۰ ٹیچر ز کی ضرورت ہے ہمارا ایم.بی.بی.ایس ڈاکٹر بھی وہاں کام کر سکتا ہے ایسے ڈاکٹر وہاں اس وقت کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کامیاب ہیں.ٹیچنگ لائن میں ایک بی.اے جس نے ٹریننگ حاصل کی اور جو بی.ایڈ کہلاتا ہے اسے وہ لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں اور ایک ایم.ایس سی اور ایم.اے کی نسبت اس کے لئے جلدی اور سہولت سے پرمٹ مل جاتا ہے.غرض بی.اے، بی.ایس سی جس نے ٹرینگ بھی حاصل کی ہو اسے وہاں کی حکومتیں ترجیح دیتی ہیں.اس کے
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء مقابلے میں اگر کوئی محض ایم.اے یا ایم.ایس سی ہو اور ٹر یننگ حاصل نہ کی ہوا سے وہ اقوام ٹیچنگ لائن میں وقعت کی نگاہ سے نہیں دیکھتیں.البتہ جس نے ایم.اے، ایم.ایس سی کے ساتھ ٹریننگ بھی کی ہو وہ تو اور بھی اچھی بات ہے.یہاں پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال سینکڑوں ہزاروں احمدی نو جوان بی.اے، بی.ایس سی اور ایم.اے، ایم.ایس سی کا امتحان پاس کرتے ہیں.ان سینکڑوں ہزاروں میں سے اس وقت ہمیں ۷۰ ، ۸۰ نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کریں.جو دوست وہاں جاتے ہیں وہ اکثر جگہ ہر جگہ تو نہیں کیونکہ جہاں نئے سکول کھولیں گے وہاں ہم اتنا گزارہ نہیں دیں گے) لیکن وہ سیرالیون میں مثلاً یہاں کے یونیورسٹی کے پروفیسروں جتنی تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ثواب بہر حال اس پر زائد ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ان ملکوں کا دورہ کرتے وقت میرا احساس یہ رہا ہے کہ ہمارے مبلغوں سے ہمارے ٹیچر ز کسی بھی لحاظ سے کم نہیں ہیں.وہ بڑے پیار اور بڑی تندہی سے کام کرنے والے ہیں.مجھے شرم سے یہ اظہار کرنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں کا کام اپنی سنجیدگی اور متانت کے لحاظ سے، اپنی ذمہ داری کے احساس کے لحاظ سے اور جو وقت وہ خرچ کر رہے ہیں اس کے لحاظ سے اور جو اثر وہ اپنے طلبہ پر پیدا کر رہے ہیں اس کے لحاظ سے غرض بہت سی باتوں میں وہ تعلیم الاسلام کالج سے بھی زیادہ اچھے ہیں اور یہ شرم کی بات ہے ہمارے مرکز کے سارے تو نہیں لیکن بعض اساتذہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ گپیں ہانکنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور اگر سٹاف روم میں بیٹھ کر گپیں ہانکتے رہیں تو گویا انہوں نے اپنا فریضہ ادا کر دیا.انہیں بھی شرم آنی چاہیے ہمیں بھی شرم آ رہی ہے.جو سات ہزار میل دور جاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا بھی دی ( اس کا دماغ خراب ہوسکتا تھا جیسا کہ دنیا داروں کا ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے ان کے ذہنوں کوسنبھالا.وہ بالکل بے نفس ہیں یعنی پیسہ ان کو مل رہا ہے لیکن آپ یہ محسوس نہیں کریں گے کہ انہیں زیادہ پیسہ مل رہا ہے وہ بڑی محنت و اخلاص سے وہاں کام کر رہے ہیں.طلباء میں اتنا ڈسپلن ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.ہمارے تعلیم الاسلام کالج کے مقابلے میں وہاں کے طلباء میں زیادہ ڈسپلن
خطبات ناصر جلد سوم 122 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء ہے حالانکہ ان میں سے بہت بڑی تعداد غیر احمدیوں ، عیسائیوں اور مشرکوں کے بچوں کی ہوتی ہے.عیسائیوں اور مشرکوں میں سے بہت سے ماں باپ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے سکولوں میں اپنے بچوں کو اس لئے داخل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں ہمارے سکولوں میں ان کے بچے خراب نہیں ہوں گے لیکن کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا بچہ تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہو کر خراب نہیں ہوگا؟ سوال میں کر دیتا ہوں جواب آپ خود سوچ لیں.پھر وہاں بڑی خوبی کی بات یہ ہے ) کہ یہاں عام طور پر سٹاف کے ممبر آپس میں لڑتے رہتے ہیں مگر ) وہاں سٹاف کے ممبروں میں غیر احمدی بھی ہیں عیسائی بھی ہیں اور بعض غیر ملکی بھی ہیں لیکن ان میں آپس میں بڑا پیار ہے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ، بڑی امن کی فضا ہے اور اس پرامن فضا کے پیدا کرنے میں ہمارے یہاں کے پاکستانی اساتذہ کا بڑا حصہ ہے جن میں سے (ساری جگہوں پر تو نہیں لیکن بہت سے پرنسپل ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑے اچھے دل اور دماغ اور جذبات اور احساسات دیئے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں استقامت بخشے اور اپنی برکات سے نوازے.جو ڈاکٹر وہاں اس وقت کام کر رہے ہیں وہ بھی بہت اخلاص سے کام کر رہے ہیں ہمارے ہیلتھ سنٹر ابھی چند ہی ہیں مثلاً نائیجیریا میں ہمارے تین ہیلتھ سنٹر ز ہیں ایک گیمبیا میں ہے اور یہاں بہت سارے کھولنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کا جو منشاء مجھے معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں پہلے ہیلتھ سنٹرز کھولنے کی طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ بڑا غریب ملک ہے اور بیماری میں تو انسان ویسے ہی قابلِ رحم بن جاتا ہے وہ بیمار ہوتے ہیں تو انہیں وہاں کوئی معمولی طبی امداد دینے والا بھی نہیں ہوتا میں نے بتایا تھا کہ سارے گیمبیا میں ایک بھی Eye Specialist ( آئی سپیشلسٹ) نہیں.وہاں جس بیچارے کی آنکھیں خراب ہو جائیں وہ اپنی آنکھیں دکھانے کے لئے پاسپورٹ دے کر کئی سو میل دور سینیگال کے دارالخلافہ ڈا کار جاتا ہے پھر اگر اسے عینک لگنی ہو تو وہ واپس آکر جس نمبر کی اسے عینک لگنی ہوتی ہے اسے لندن خط لکھ کر وہاں سے منگوانی پڑتی ہے اور جو عینک یہاں آٹھ دس روپے میں بن جاتی ہے وہاں اس کے اوپر ۱۰۰ روپے سے بھی زیادہ رقم خرچ کرنی پڑتی ہے.پس وہاں ایسے علاقوں کے علاقے پائے جاتے ہیں جہاں کوئی ڈاکٹر نہیں کماسی
خطبات ناصر جلد سوم IZA خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء میں ایک پیراماؤنٹ چیف کئی سو میل سے مجھے ملنے آیا اور ایک M-P(ایم.پی ) کو اپنے ساتھ سفارشی بنا کر لا یا وہ کہنے لگا کہ ہمارے علاقے میں طبی امداد کا کوئی انتظام نہیں آپ ہمارے ساتھ محبت کا سلوک کریں ہمارے علاقے میں طبی مرکز کھولیں.میں نے اس سے وعدہ کیا کہ ٹھیک ہے کھولیں گے انشاء اللہ.ان کے ساتھ جوایم.پی تھا وہ کہنے لگا کہ جو دفتری کا رروائی ہے جسے ہم سرخ فیتہ کہتے ہیں اس کی ذمہ داری میں لیتا ہوں.ہم وہ قوم نہیں ہیں جسے اپنی کامیابی کے لئے ملکی قانون توڑنے کی ضرورت پڑے ہم ملکی قانون کے پابند رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقیات کرتے چلے آئے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کوئی دُنیوی طاقت اس کے راستے میں روک نہیں بن سکتی.پس نو جوانوں کو بھی آگے آنا چاہیے وہ نیک نیتی سے اپنے نام پیش کر دیں.پھر ان میں سے ہم انتخاب کریں گے اور مختلف ملکوں میں ان کے کاغذ بھیجیں گے.میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ کام اس سال کے اندر اندر ہو جائے اس طرح وہاں انشاء اللہ بہت سے طبی مراکز کھل جائیں گے.ویسے ایک طبی امداد کے مرکز کے لئے شروع میں یہ بھی ضروری نہیں کہ وہاں ہم اپنا کلینک بنائیں یا اپنی عمارت ہو.کوئی مکان کرایہ پر لے کر ہم اپنا کام شروع کر سکتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ توفیق دے گا اور دے رہا ہے ، دلوں کے جو بٹوے ہیں ان کو اس نے کھول دیا ہے کیونکہ جب تک دل کا منہ نہ کھلے اس وقت تک کسی کی جیب کے بٹوے کا منہ نہیں کھلا کرتا.اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں قربانی کے لئے دلوں کے بٹووں کے منہ کھول دیئے ہیں.میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا اور آئے گا بھی یا نہیں.پیسہ یقیناً آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تو جماعت سے قربانیاں مانگ وہ قربانیاں دے گی.انگلستان میں بھی میں نے یہی کہا تھا کہ جب خدا تعالیٰ نے میرے منہ سے یہ کہلوایا ہے کہ دس ہزار پاؤنڈ میرے جانے سے پہلے جمع ہو جا ئیں گے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ جمع نہ ہوں؟ میرے منہ سے جو بات نکلی ہے خدا تعالیٰ خلافت کی غیرت کی وجہ سے اسے پورا کرے گا اور اس نے اپنے فضل سے پورا کر دیا.یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے.
خطبات ناصر جلد سوم ۱۷۹ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء ۶۷ء کی بات ہے میں غالباً پہلے بھی بتا چکا ہوں ایک موقع پر جب مجھ سے بارہ ( یہ پادریوں کی ایک ایسوسی ایشن تھی اس کے نمائندے اکٹھے ملنے آئے تھے.تو ایک شخص کے متعلق بے خیالی میں ہی میرے منہ سے نکل گیا کہ تمہیں مذہبی قانون آتا ہے ( وہ پادری جو کج بحثی کر رہا ہے ) تم اسے جواب دو میں جواب نہیں دوں گا جس وقت میرے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا تو فوراً مجھے احساس ہوا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ اسے مذہبی قانون آتا ہے یا نہیں.اگر اس نے آگے سے یہ جواب دیا کہ مجھے مذہبی قانون نہیں آتا تو یہ میرے لئے شرمندگی کا باعث ہوگا لیکن ہوا یہ کہ اسے مذہبی قانون آتا تھا.بعد میں وہ کمال یوسف صاحب سے کہنے لگا کہ میں حیران ہوں حضرت صاحب کو کیسے پتہ لگ گیا کہ مجھے مذہبی قانون آتا ہے کیونکہ میں اس وفد میں ایک اور آدمی کے بیمار ہو جانے کی وجہ سے عین آخری وقت میں شامل کیا گیا ہوں اور میں یہ نہیں سوچ سکتا کہ میرے متعلق علم حاصل کر لیا ہو کیونکہ میں وفد آنے سے ایک دو گھنٹے پہلے شامل ہوا ہوں پس وہ حیران تھا.اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کو اس طرح بھی دکھاتا ہے اس نے جب یہ کہا میں نے خلافت کو اپنی برکتوں اور رحمتوں کے نزول کے لئے قائم کیا ہے تو دنیا جو مرضی سمجھتی رہے.اپنے یا غیر جو مرضی کہتے رہیں اللہ تعالیٰ کی برکات اور رحمتیں تو خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں وہ اپنے بے شمار فضل جماعت پر نازل کر رہا ہے.منافق ان فضلوں کو دیکھ کر گڑھتا اور جلتا اور اندر ہی اندر بھنتا ہے.دوسرے مخالفین کو بھی یہی کہا گیا ہے اور منافقین کو بھی یہی کہا گیا ہے.”مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ “ (ال عمران : ۱۲۰) اس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ تم اپنے غصہ میں جلومر و.اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلوں کو تمہاری کیا پر واہ ہے.یہ عظیم نشان جس کے ہزاروں کروڑوں پہلو ہیں یہ عظیم نشان جماعت کے اندر نظر آرہا ہے.خدا تعالیٰ اپنی پوری شان کے ساتھ اور اپنی تمام صفات کے جلووں کے ساتھ ہم پر جلوہ گر ہے اس واسطے بغض وعناد کے جو دھوئیں ہمارے سامنے آتے ہیں ان کی حقیقت ایک مُردہ مچھر کی بھی نہیں ہے اور ہر احمدی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مچھر بھی تو ہمیں آکر کاٹتا ہے اور بخار چڑھا دیتا ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہزاروں مچھر کاٹتے ہیں مگر جسے اللہ تعالیٰ زندہ رکھنا چاہتا ہے اسے زندہ رکھتا ہے.پس جو الہی سلسلہ کا وجود ہے کیا وہ مچھروں کے کاٹنے سے نقصان اٹھائے گا ؟ یہ بات تو عقل میں نہیں آتی.د
خطبات ناصر جلد سوم ۱۸۰ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہو رہے ہیں ان کے حاصل کرنے کا دروازہ آپ کے لئے کھلا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کا موقع آپ کو دے دیا ہے آپ اس کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو حاصل کریں اور اس کے پیار اور اس کی رضا کے وارث بنیں.یہ دنیا اور اس دنیا کے اموال اور اس کی عزتیں ہیں کیا شے؟ اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں ایک سیکنڈ کے لئے اس کی محبت کا جلوہ دیکھ لینا اتنی عظیم چیز ہے کہ ساری دنیا اور اس کی ساری دولتیں اور عزتیں اس پر قربان کی جاسکتی ہیں.ہم میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ہزاروں دوست ہیں جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کے محبوب ترین روحانی فرزند مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکات اور فیوض کے طفیل اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پیار اور محبت اور رضا کا جلوہ دیکھ رہے ہیں.پس جو دوست اپنا نام پیش کریں گے ( مجھے یقین ہے کثرت سے نام پیش کریں گے ) وہ اپنے کوائف وغیرہ سے متعلق مجلس نصرت جہاں وکالت تبشیر تحریک جدید کو مطلع کریں (ایک دوسری کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جو مالی کمیٹی کہلاتی ہے مگر یہ انتظامی کمیٹی ہے ) یہاں سے جو پہلے ڈاکٹر گئے ہیں ان کے متعلق خط و کتابت ہوتی رہی ہے اسے دیکھ کر اس انتظامی کمیٹی کے ممبر ) اخبار میں شائع کر دیں گے کہ اس قسم کے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.پس ہمیں فوری طور پر کوائف چاہئیں وہ آپ جلد بھجوا دیں تا کہ ہم حسب ضرورت اجازتیں لیتے چلے جائیں ممکن ہے بہت زیادہ آدمیوں کی طرف سے درخواستیں آجائیں.اس وقت جتنے آدمیوں کی ضرورت ہوگی انہیں بھیج دیں گے پھر باقیوں کو بھی اگر اگلے سال ضرورت ہوئی تو اس وقت بھیج دیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو دعاؤں کے ساتھ اور تدبیر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ توفیق مانگنی چاہیے کہ ہم کم از کم تین ہیلتھ سنٹرز ( یعنی طبی امداد کے مراکز اسی سال کے اندر کھول دیں یہ کام بڑا ہی ضروری ہے.بعض تفاصیل ہیں وہ تو میں اس وقت نہیں بتاؤں گا لیکن یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے نوجوانوں کے دل بھی اور ہمارے بزرگ ڈاکٹروں کے دل بھی اس خدمت کے لئے کھول دے اور تیار کر دے اور ان کے دل میں خدمت کا جذ بہ پیدا کر دے.جو دوست وہاں جائیں وہ یہ یاد رکھیں کہ وہ دنیا کمانے کے لئے وہاں نہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۱۸۱ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء جار ہے (اگر چہ دنیا ان کو پھر بھی مل جاتی ہے ) ان کی نیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ دنیا کمانے کے لئے نہیں جار ہے بلکہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے جارہے ہیں اور اس کی مخلوق کی خدمت کرنے کے لئے جار ہے ہیں.پس ان لوگوں سے پیار کریں ان سے ہمدردی رکھیں جب کوئی بیمار آپ کے پاس آئے یا آپ کسی بیمار کے پاس جائیں تو آپ اس سے نہایت محبت اور خندہ پیشانی سے اور ہمدردانہ طریق سے پیش آئیں ایک اچھے اور نیک ڈاکٹر کی تو باتیں بھی آدھی مرض کو دور کر دیتی ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق ان کے لئے بہت دعائیں کریں اور یہ ایک عظیم فرق ہے ایک احمدی ڈاکٹر اور اس ڈاکٹر میں جو ابھی احمدی نہیں.ایک احمدی ڈاکٹر اپنے مریض کی صرف تشخیص ہی نہیں کرتا یا اسے دوا ہی نہیں دیتا بلکہ اس کے لئے دعائیں بھی کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں برکت ڈالتا ہے جس کے نتیجہ میں ان مریضوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے.ہم نے دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول کے لئے اپنی محبت اور پیار اور خدمت اور ہمدردی اور غم خواری اور مساوات کے جذبہ سے جیتنے ہیں یہ ہمارا فرض ہے پس ہر ڈاکٹر کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ کس غرض کے لئے وہاں گیا ہے پھر اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ میں شفا بخشے گا.اس وقت جو ڈاکٹر وہاں گئے ہیں میں عام طور پر ان کے لئے دعائیں کرتا ہوں.مثلاً ڈاکٹر سعید ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ہے وہاں گئے ہیں.میں نے انہیں بھجوایا تھا.ان دنوں میں میرے دل میں خاص طور پر یہ جذبہ تھا میں نے بڑی دعا کی کہ اے اللہ ! تیری راہ میں یہ شخص سات ہزار میل دُور جا رہا ہے تو اپنے فضل سے اس کے ہاتھ میں شفا بخش دے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا بخش دی اور وہاں وہ بڑے کامیاب ڈاکٹر ہیں.پس کم از کم ۳۰ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے (اور مجھے امید ہے اس سے زیادہ ہو جائیں گے ) کچھ تو انگلستان میں پڑھنے والے ڈاکٹروں میں سے بھی بعض نے اپنی خدمات پیش کی ہیں لیکن میں نے بتایا ہے کہ ہمارے پاس سب کے نام آجانے چاہئیں پھر ہم ان میں سے انتخاب کریں گے ان کی Qualification ( کو ایفیکیشن ) دیکھیں گے اور اسی طرح دوسرے کوائف
خطبات ناصر جلد سوم ۱۸۲ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء مثلاً عمر اور عادات وغیرہ وغیرہ ہزاروں باتیں ہیں یہ سب دیکھ کر پھر ان کو وہاں بھجوائیں گے.ویسے وہاں بڑا ہی مخلص دل انسان جانا چاہیے جس کے او پر ہم پورے طور پر اعتماد کرسکیں مثلاً نائیجیریا میں ہمارے ایک ہسپتال کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ انہوں نے پندرہ ہزار پاؤنڈ سے زیادہ کی سیونگ کی.وہاں ان پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا بس اخلاص سے وہ ہر مہینے آپ ہی رقم بھیج دیتے ہیں سارے میڈیکل سنٹرز کا یہی حال ہے وہ لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے سارے اخراجات کے بعد یہ رقم بچی ہے اسے ہم بھجوار ہے ہیں.پس ہمیں اس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے کیونکہ جو رقم بچتی ہے وہ کسی کی ذات پر تو خرچ نہیں ہوئی ان ملکوں پر خرچ ہونی چاہیے.اور میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر گیمبیا میں مثلاً چار ہیلتھ سنٹرز کھل جائیں تو ہم وہاں ہر سال ایک نیا بائی سکول کھول سکتے ہیں ہم نے ان دونوں میدانوں میں متوازی طور پر بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے لیکن وہاں پہلے طبی امداد کے مراکز کھلنے چاہئیں.دوست اپنے نام پیش کریں اور محمد اسمعیل صاحب منیر جو متعلقہ کمیٹی کے سیکرٹری مقرر کئے گئے ہیں وہ مطلوبہ کوائف کے متعلق اخبار میں اعلان کرائیں اور بار بار اعلان کرائیں.میرے خیال میں ہمارے احمدی ڈاکٹروں کی ایک مجلس بھی ہے اس کی میٹنگ بھی بلائیں پھر انہی کے سپر د کریں گے کہ سب کے کوائف کو مد نظر رکھ کر منتخب کریں کہ کون زیادہ موزوں ہے.ویسے تو بعض دفعہ بظاہر ایک ناموزوں انسان بھی جب وہاں چلا جاتا ہے تو اگر وہ دعا کرنے والا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی قابلیت بھی بڑھا دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سر چشمہ ہے علوم کا اور قابلیت کا.شفا بھی اس کی ہے باقی تو اس دنیا میں سب پردے ہیں جن کے پیچھے ہمیں اس کی صفات کے جلوے نظر آرہے ہیں.آج میں نے تین باتیں کہی ہیں ایک یہ کہ آپ کی فراست اور آپ کی بیداری سے منافق کو پتہ لگ جانا چاہیے کہ نفاق اس سلسلہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا دوسرے یہ کہ میں نے جو نصرت جہاں ریز روفنڈ“ قائم کیا ہے اس میں اس وقت تک انگلستان کی جماعتیں دوسرے ہر ملک کی جماعتوں سے آگے نکلی ہوئی ہیں.اس وقت تک کا میں نے اس لیے کہا ہے کہ اس فنڈ کے متعلق میں نے پہلے ان سے
خطبات ناصر جلد سوم ۱۸۳ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء اپیل کی تھی لیکن خدا کرے کہ صرف یہی وجہ ہو اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہ ہو اور آپ جلد ان سے آگے نکلنے کی کوشش کریں اور تیسری بات میں نے یہ کہی ہے کہ احمدی ڈاکٹر اور ٹرینڈ ٹیچرز رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں اور دین و دنیا کی حسنات کے وارث ہوں.جیسا کہ میں نے لندن میں بھی کہا تھا آپ کو بھی وہی بات کہہ دیتا ہوں.آپ رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں ورنہ اگر رضا کارانہ طور پر جو خدمات پیش کی گئیں اگر ضرورت کے مطابق نہ ہو ئیں تو پھر میں حکم دوں گا اور اس صورت میں آپ کے لئے دو راستے کھلے ہوں گے یا جماعت کو چھوڑ کر علیحدہ ہوجائیں یا پھر خلافت کی اطاعت کریں اور آپ خلافت کی ضرور اطاعت کریں گے، انشاء اللہ.لیکن ایک رضا کارانہ خدمت اور ایک وہ خدمت جس میں کچھ مجبوری کا اثر بھی ہو اس خدمت میں ہماری عقل ( اللہ تعالیٰ کو تو پتہ نہیں کیا منظور ہوتا ہے ) ضرور فرق کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے اعمال کی توفیق بخشے جن سے وہ راضی ہو جائے اور جس کے نتیجہ میں اس کا وہ وعدہ پورا ہو جو اس نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اور جس کے پورا کرنے کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض کے نتیجہ میں مہدی معہود کے زمانہ میں تمام اقوامِ عالم کو اخوت اور برادری کے سلسلہ میں پرو دیا جائے گا.یہ وہ عظیم وعدہ ہے جو ہمیں دیا گیا ہے اور یہ وہ عظیم وعدہ ہے جس کے پورا ہونے کے آثار اسلام کے افق پر آج ہمیں نظر آرہے ہیں اور خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ کیا ہے وہ اسے ضرور پورا کرے گا.سوال صرف یہ ہے کہ اس وعدہ کے پورا کرنے کے لئے وہ ہم سے جو قربانیاں مانگتا ہے کیا ہم اس کی منشاء کے مطابق اس کی رضا کے حصول کے لئے اس قدر قربانی پیش کر دیں گے؟ جتنی وہ چاہتا ہے کہ ہم پیش کریں اگر ہم ایسا کریں گے تو آپ یہ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ یہ بشارت دی ہے کہ ہم پر بھی ہمارا رب کریم اسی طرح فضل اور رحم فرمائے گا جس طرح اس نے صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارش برسائی تھی.اس سے بڑھ کر ہمیں کوئی بشارت مل نہیں سکتی اور اس سے بڑھ کر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا وارث بن نہیں سکتا.پس آج وقت ہے دنیا ، دنیا
خطبات ناصر جلد سوم ۱۸۴ خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۷۰ء کے کاموں میں محو اور غافل ہے آپ خدا کے لئے اپنی غفلتوں کو چھوڑ کر اس کی اس عظیم بشارت کے وارث بننے کی سعی کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ / جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۲ تا ۶ ) 谢谢您
خطبات ناصر جلد سوم ۱۸۵ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء احمدیت اسلام کی روحانی جنگ لڑ رہی ہے عیسائیت کے خلاف جنگ کا فیصلہ افریقہ کی سرزمین میں ہوگا خطبه جمعه فرموده ۳/ جولائی ۱۹۷۰ ء بمقام سعید ہاؤس.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی بڑی غرض یہ ہے کہ تمام اقوام عالم کو اسلام کی حسین تعلیم کا گرویدہ بنا کر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مضبوط رشتہ روحانی کو جوڑ دیں.اس نقطۂ نگاہ سے ہر احمدی بوڑھے، جوان ، بچے اور عورت کو دنیا پر نگاہ ڈالنی چاہیے کہ ہم نے انشاء اللہ بنی نوع انسان کے دلوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنا ہے.جب ہم مذہبی نقطۂ نگاہ سے دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو جو نقشہ ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ دہریت اور الحاد کا شکار ہو چکا ہے مثلاً روس ہے یہ ایک بہت بڑا ملک ہے روسی نہ صرف یہ کہ خدا کو بھلا بیٹھے ہیں بلکہ ایک وقت میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ زمین سے (نعوذ باللہ ) اللہ کے نام کو اور آسمان سے اس کے وجود کو مٹا دیں گے.ضمنا میں یہاں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشہور "Iron Curtain"( آئرن کرشن) میں ہماری خاطر شگاف ڈال دیا ہے اور کمیونسٹ ممالک میں لوگ احمدی ہونے شروع ہو گئے ہیں.ایک یوگوسلاوین ڈاکٹر آصف جب میں دورہ پر گیا ہوں مجھے زیورک میں ملے.چند دن تک وہ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۸۶ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء وہیں رہے.نہایت شریف اور ذہین آدمی ہیں میڈیسن کے ڈاکٹر ہیں لیکن اٹامک ریسرچ میں بھی انہیں مہارت ہے لیکن اس کے تشخیص والے حصے میں دلچسپی رکھتے ہیں.پہلے میرا خیال تھا کہ چونکہ اٹامک انرجی کے ذریعہ علاج ہونے لگ گیا ہے شاید وہ اس میں دلچسپی لیتے ہوں گے اس لئے دس پندرہ منٹ میں نے ان سے گفتگو کی اور بتایا کہ یہ تو ایک غیر فطری علاج ہے جس کی طرف اب دنیا جارہی ہے چنانچہ اس کے متعلق جو دلائل اس وقت میرے ذہن میں آئے وہ میں نے انہیں بتائے وہ چپ کر کے خاموشی سے میری باتیں سنتے رہے پھر جب میں خاموش ہوا تو وہ کہنے لگے مجھے اس کے علاج والے حصہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے صرف تشخیص والے حصہ سے مجھے دلچسپی ہے.چند سال ہوئے وہ احمدی ہوئے تھے پھر وہ واپس اپنے ملک یوگوسلاویہ گئے وہاں انہوں نے تبلیغ شروع کر دی اور اب وہاں ان کے ذریعہ ایک جماعت قائم ہوگئی ہے.اسی طرح پولینڈ میں بھی چند آدمی احمدی ہو چکے ہیں.چیکو سلا و یکیہ ہماری جماعت کے ساتھ بڑی دلچسپی لے رہا ہے میں بڑا حیران ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام دنیا سے مٹانا چاہتے تھے مگر اکرہ ( گھانا) میں مسجد کے سنگ بنیاد کے موقعہ پر اور سفراء جو مسلمان تھے وہ تو آئے ہی تھے لیکن چیکوسلا و یکیہ کا سفیر بھی وہاں موجود تھا وہ ہمارے کاموں میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا.اکرہ میں ہمارے قیام کے دوران میں جو بھی Function ( فنکشن ) ہوئے اس میں چیکوسلا و یکمین سفیر شامل ہوتار ہا.ایک ایسی عمارت میں دلچسپی لینا جس کے متعلق اسلام کہتا ہے کہ یہ انسان کی ملکیت ہی نہیں ” آنَ الْمَسجِدَ للهِ ( الجن : ١٩) یہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے.ایک ایسی عمارت میں دلچسپی لینا جس میں پانچ وقت اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہوتا اور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار کیا جاتا ہے اس کے سنگ بنیاد کی تقریب میں ایک ایسے ملک کے سفیر کا شامل ہونا جو دنیا سے اللہ تعالیٰ کا نام مٹانا چاہتے تھے بہت معنی رکھتا ہے.میں اس کی تفصیل میں اس وقت نہیں جاسکتا.بہر حال دنیا کا ایک بڑا علاقہ ایسا ہے جہاں دہریت اور الحاد کی حکومت ہے اگر چہ یہ صیح ہے کہ اللہ تعالی نے اس " Iron Curtain" ( آئرن کرشن ) میں ہمارے لیے شگاف پیدا کر دیا ہے اور ہم ان علاقوں میں داخل ہو چکے ہیں مگر یہ ابھی ابتداء ہے اس کی انتہاء یہ ہے کہ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۸۷ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے میں رشیا میں جماعت کے افراد کو ریت کے ذروں کی طرح دیکھتا ہوں.یہ آپ کا کشف ہے لیکن اس انتہا کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے متعلق میں اس وقت بات کر رہا ہوں.اسی طرح چین ہے وہاں سے بھی مذہب کو نکال دیا گیا ہے اور اس کی جگہ دہریت اور الحاد آ گیا ہے.(یورپ کے بعض ممالک میں بھی یہی حالات ہیں ) مگر یہ تو وہ علاقے ہیں جہاں حکومت اور عوام نے اعلان کر دیا کہ مذہب سے ان کا کوئی تعلق واسطہ نہیں.علاوہ ازیں دنیا کے بہت بڑے علاقے ایسے ہیں جن پر عیسائیت کا لیبل لگا ہوا ہے.مثلاً عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ سارا یورپ عیسائی ہے عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ انگلستان ایک عیسائی ملک ہے عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ عیسائی ممالک ہیں.عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ کینیڈا اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ عیسائی ممالک ہیں عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ جنوبی امریکہ (جس میں بہت سے ممالک ہیں ) عیسائی ملک ہے اسی طرح افریقہ کے بعض حصوں کے متعلق آپ کہیں گے کہ یہ عیسائی ممالک ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ عیسائی ممالک نہیں ہیں البتہ کسی وقت یہ عیسائی ممالک ہوا کرتے تھے.اب مثلاً یورپ ہے یورپ میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے تثلیث کو ختم کر دیا ہے یعنی گر جا کے ساتھ انہیں کوئی دلچسپی نہیں رہی البتہ ان قوموں پر عیسائیت کا لیبل لگا ہوا ہے.آپ نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا ہوگا آپ اپنے تصور میں بھی نہیں لا سکتے کہ کسی مسجد کے سامنے For Sale ( فارسیل) کا بورڈ لگا ہوا ہو یعنی یہ مسجد قابل فروخت ہے.لیکن خود میری ان آنکھوں نے لندن کے بعض گرجوں کے سامنے For Sale ( فارسیل ) کا بورڈ لگا ہوا دیکھا ہے دوسری مصروفیات کی وجہ سے مجھے اکثر باہر نکلنے کا کم ہی موقعہ ملتا تھا لیکن جب کبھی میں موٹر میں باہر نکلتا اور کہیں گر جا نظر آتا خصوصاً اتوار کے روز تو میں یہ دیکھنے کی کوشش کرتا کہ مجھے اندر جانے والے یا باہر نکلنے والے نظر آجائیں اور میں یہ معلوم کرسکوں کہ وہ کس عمر یا کس ٹائپ کے لوگ ہیں.جب میں ۶۷ء میں وہاں گیا تھا تو اس وقت ایک موقعہ پر ہماری کارا یک گرجے کے سامنے سے ایسے وقت گزری جب کہ پرستش کرنے کے بعد عیسائی گر جا سے باہر نکل رہے تھے چنانچہ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۸۸ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ (اگر میں بہت ہی محتاط اندازہ لگاؤں تو یہ ہو گا کہ ) ان میں ۹۵ فیصد لوگ ساٹھ سال سے بڑی عمر کے تھے اور بمشکل ۵ فیصد لوگ ساٹھ سال سے کم عمر کے تھے.اس طرح نو جوانوں کی گویا تین نسلیں سمجھنی چاہئیں یعنی اگر ہر ایک نسل ۲۰ سال کی ہو تو پچھلی تین نسلیں ایسی ہیں جنہیں عیسائیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے.پھر یہ بھی دیکھیں کہ انگلستان ایک عیسائی مملکت کہلاتی ہے مگر عجیب عیسائی مملکت ہے کہ وہاں کی ملکہ کو Sodomy ( سوڈومی ) ہل پر مجبوراً دستخط کرنے پڑے.۶۷ء میں ایک دفعہ ایک پادری نے تھوڑی سی شوخی دکھائی تھی اگر چہ وہ بڑے ادب سے بات کرتا تھا لیکن مجھے اس کی باتوں میں ہلکی سی شوخی کی بُو آئی.اس کا جواب میں نے یوں دیا کہ مجھے تم لوگوں پر رحم آتا ہے.اس کے سوال اور میرے جواب میں بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا لیکن میں تو اسے جھنجھوڑ نا چاہتا تھا.وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگ گیا کہ مجھے اُن پر کیوں رحم آتا ہے؟ میں نے اسے کہا کہ مجھے تم پر اس لئے رحم آتا ہے کہ جسے تم نے "Defender of Faith" (ڈیفنڈر آف فیتھ ) قرار دے رکھا ہے (عیسائیت نے انگلستان کے بادشاہ یا ملکہ کو محافظ عیسائیت کا لقب دے رکھا ہے ) وہ مجبور ہوئی.Sodomy ( سوڈومی) پل پر دستخط کرنے کے لئے.اس سے زیادہ تمہاری قابلِ رحم حالت اور کیا ہوسکتی ہے؟ بہر حال یہ عیسائی ممالک تو کہلاتے ہیں مگر ان میں عیسائیت نہیں ہے کسی وقت تھی مگر اب انہیں پتہ ہی نہیں کہ عیسائیت کسے کہتے ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ وہاں بہت سے پادری ہیں یہ اور بعض دوسرے لوگ عیسائیت پر دیانتداری سے ایمان رکھتے ہوں گے ہم بدظنی نہیں کرتے اور کسی کو تثلیث جیسے نامعقول عقیدے پر دیانتداری سے ایمان نہیں.ٹھیک ہے ہزاروں ہوں گے اور کروڑوں کی آبادیوں میں شاید لاکھوں بھی ہوں جو دیانتداری سے سمجھتے ہوں کہ تثلیث اور کفارہ کا مسئلہ صحیح ہے لیکن بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے جنہیں عیسائیت سے کوئی دلچسپی نہیں صرف نام کے عیسائی ہیں اور بس کبھی گر جا چلے گئے کبھی نہ گئے.مذہب کی جو غرض ہے وہ بالکل مفقود ہے.اس وقت جہاں عیسائیت کا کچھ Hold ( ہولڈ) مجھے نظر آتا ہے ( ہوسکتا ہے میرا اندازہ غلط ہو ) لیکن جہاں تک میں نے سوچا ہے مجھے اس زمین پر عیسائیت کی تین Pockets (پاکٹس )
خطبات ناصر جلد سوم ۱۸۹ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء نظر آتی ہے.ایک سپین ہے وہاں ابھی تک Catholicism( کیتھولک ازم) کا Hold ہولڈ ) ہے اور کسی وقت تو اتنی سخت گرفت تھی کہ وہ دوسرے عیسائی فرقوں کو گرجے اور دوسری عبادت گاہیں بنانے کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے.ابھی چند سال ہوئے انہوں نے کچھ نرمی کی ہے.ہمارا ڈرائیور پروٹسٹنٹ تھا وہ بڑے غصے سے کہتا تھا کہ ایسے بار بیرین دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوئے کیونکہ ان پر انہوں نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں.بہر حال کیتھولکس عیسائیت کا ایک فرقہ ہے اور سپین میں اس کا قوم پر کچھ نہ کچھ Hold ( ہولڈ ) ہے.اس کے علاوہ جنوبی امریکہ ہے وہاں بھی پین اور پرتگال کے لوگ گئے ہوئے ہیں اور وہاں یہی سپینش زبان بولتے ہیں اور غالباً اسی وجہ سے ان کے دماغ پر بھی اور ان کی زندگیوں پر بھی عیسائی مذہب کا ایک حد تک Hold ( ہولڈ) ہے لیکن آج دنیا میں عیسائیت کی دوسرے مذاہب سے جو جنگ ہو رہی ہے اس میں پین کا اگر کوئی حصہ ہے تو بہت معمولی اور جنوبی امریکہ کا غالباً کوئی حصہ نہیں ہے.شاید کچھ پیسے وغیرہ ان سے لے لیتے ہوں گے.اس جنگ میں وہ اس طرح شریک نہیں کہ وہ فرنٹیئر یعنی محاذ پر آکر اسلام کے مقابلے میں کھڑے ہوں.پادری ابھی یورپ سے ہی جارہے ہیں مثلاً بلجیم، ہالینڈ، اٹلی اور فرانس ہیں.یہ عیسائیت کی پاکٹس رہ گئی ہیں.ان ملکوں کی اکثریت تو میرے نزدیک عیسائی نہیں رہی لیکن بہر حال ان ممالک میں عیسائیت کی سٹرانگ پاکٹس ہیں.وہاں افریقہ میں ان ملکوں کے پادری جار ہے ہیں ممکن ہے کچھ سپین کے بھی ہوں.فکر اور تدبر کرنے والے عیسائی پادری میرے نزدیک اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کا اسلام کے ساتھ آخری معرکہ افریقہ میں ہے اور اب وہاں بڑا زور دے رہے ہیں.انگلستان میں گرجے برائے فروخت اور افریقہ میں نئے گرجے بنوا ر ہے ہیں.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی توجہ کا مرکز اس وقت انگلستان یا یورپی ممالک نہیں بلکہ افریقہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت مختلف عیسائی پادریوں کی جو بین الاقوامی کانفرنسیں ہوا کرتی تھیں ان میں وہ بیان دیا کرتے تھے ( اور وہ چھپے ہوئے ہیں ہمارے پاس ان کے حوالے موجود ہیں ) کہ افریقہ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۹۰ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء ان کی جیب میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت افریقہ عیسائیوں کے خیال میں ان کی جیب میں تھا پھر اس کے بعد حالات بدلے اللہ تعالیٰ نے فضل اور رحم کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے اور وہ افریقہ جو عیسائیت کی جیب میں تھا ذمہ دار پادریوں اور بشپس کے حوالے موجود ہیں کہ افریقہ ان کی جیب میں ہے ) اس کے متعلق انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ بات مشتبہ ہے پتہ نہیں یہ براعظم عیسائیت کی جیب میں آتا ہے یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے نیچے جمع ہو جاتا ہے.چنانچہ وہ ۵۰،۵۰ چانس کی باتیں کرنے لگے.پھر جب ہماری تبلیغی مہم اور تیز ہوئی تو انہوں نے بین الاقوامی کانفرنسوں میں یہ بیان دیئے ہیں کہ اگر وہ ایک افریقن کو عیسائی بناتے ہیں تو احمدی دس افریقنوں کو مسلمان بنا لیتے ہیں چنانچہ انہوں نے ایک اور دس کی نسبت سے اسلام کی فتح اور عیسائیت کی شکست تسلیم کرلی.پھر جنہیں وہ عیسائی بناتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ بلجیم کے ایک پادری افریقہ کے ایک ملک میں ۵۲ سالہ تبلیغ کرنے کے بعد بوڑھے ہو کر واپس جارہے تھے ہمارے ایک مبلغ بھی courtesy call ( کرٹسی کال) کے طور پر اس سے ملنے گئے اور اتفاق کی بات تھی کہ وہاں اس وقت اور کوئی نہیں تھا.صرف وہ تھا یا ہمارا مبلغ تھا.بے تکلفانہ باتیں شروع ہوگئیں.وہ عیسائی پادری کہنے لگا کہ سچی بات یہ ہے کہ میرے ۵۲ سالہ تجربہ اور کوشش کا نچوڑ یہ ہے کہ اس عرصہ میں میں نے صرف ایک آدمی کو عیسائی بنایا ہے ویسے ہزاروں پر میں نے عیسائیت کے لیبل لگائے ہیں لیکن مجھے پتہ ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہیں کوئی ہم سے دُودھ لینے کی خاطر عیسائی ہوا ہے کوئی ہم سے تعلیم حاصل کرنے لئے عیسائی بنا ہے کوئی نوکری کی خاطر عیسائی ہو گیا ہے کوئی گندم اور دوسری غذائی ضرورتوں کی خاطر عیسائی بنا ہے مجھے پتہ ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہیں ہمارے مال اور دولت میں انہیں دلچسپی ہے عیسائیت میں انہیں دلچسپی نہیں ہے لیکن ایک آدمی کے متعلق مجھے علم ہے کہ وہ دل سے عیسائی ہوا ہے.ہمارے مبلغ نے اس سے کہا کہ ہم تو ہزاروں تم میں سے کھینچ کر مسلمان بنا چکے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہے اور ان کے متعلق ہم علی وجہ البصیرت کہہ سکتے ہیں کہ وہ پختہ مسلمان ہیں اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے ہیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات ناصر جلد سوم ١٩١ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء کے حسن واحسان کا ذاتی مشاہدہ کر کے آپ سے انتہائی محبت کرنے والے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے.ہم نے بھی وہاں اس قسم کے بہت نظارے دیکھے ہیں.بہر حال مذہبی نقطۂ نگاہ سے دنیا کا جو نقشہ ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ بعض علاقوں میں تو ان اقوام نے اعلان کر دیا کہ وہ عیسائی نہیں وہاں تو دہریت اور الحاد کا زور ہے.یہ ہمارے لئے ایک علیحدہ محاذ ہے.اس کے متعلق میں کسی اور خطبہ میں بیان کروں گا دنیا کا ایک علاقہ اور یہ بہت بڑا علاقہ ہے اس میں ہمیں یا تو نام کے عیسائی نظر آتے ہیں یا دہر یہ ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم عیسائی نہیں ہیں لیکن عیسائیت کا نام ان ملکوں میں ہے اور جہاں عیسائیت کا کافی Hold ( ہولڈ ) ہے وہ پین اور جنوبی امریکہ کے علاوہ افریقہ کا برِ اعظم ہے جہاں اسلام اور عیسائیت کے درمیان جنگ لڑی جا رہی ہے.اگر دنیا کا یہ نقشہ صحیح ہو اور میرے نزدیک صحیح ہے تو اس لحاظ سے جماعت احمد یہ پر یہ زبر دست ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ اس محاذ پر عیسائیوں کو شکست دے.وہاں افریقہ میں بھی عیسائیوں کا یہ حال ہے کہ ہمارے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ پہلے شہروں اور قصبوں میں پڑھے لکھے لوگوں میں ان کی تبلیغ کا بڑا زور تھا لیکن جب سے ہم آئے ہیں یہ اب Bush (بش ) میں چلے گئے ہیں وہ دوست اپنی طرف سے تو یہ کہ رہے تھے کہ اب ہم کیا کریں؟ میں نے انہیں فوراً کہا Follow them to the Bush تم بھی Bush میں جا کر ان کا پیچھا کرو انہیں یہاں بھی ٹکنے نہیں دینا.عیسائیت اسلام کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے.یہ صحیح ہے لیکن یہ افریقہ کے معاشرہ پر اثر انداز نہیں ہوئی.میں پہلے بھی بتا چکا ہوں.ابھی آٹھ دس دن ہوئے رپورٹ آئی ہے کہ ہمارے چلے آنے کے بعد کماسی میں ایک بہت بڑا عیسائی پیراماؤنٹ چیف مر گیا وہ خود عیسائی اور اس کے حلقہ اثر میں ہزاروں کی تعداد میں عیسائی لیکن اس پیرا ماؤنٹ چیف کے مرنے پر جس طرح بد مذہب والے یعنی مشرک دفن کیا کرتے تھے وہی رسوم شروع ہو گئیں.مرنے والا بھی عیسائی اس کے علاقے میں اس کے ماتحت جو تھے ان میں سے بڑی بھاری اکثریت عیسائیوں کی لیکن رسوم
خطبات ناصر جلد سوم ۱۹۲ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء جاہلیت کی اور ان کے مطابق اسے دفنایا.اس کا مطلب یہ ہوا کہ عیسائیت نے لیبل لگا دیا ہے لیکن معاشرہ میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی.اس کے مقابلے میں ( دنیا ویسے آگے نکل گئی ہے ہمیں وہی آواز پیاری ہے جو حضرت بلال کی تھی) ہزاروں کی تعداد میں ہم نے عیسائیوں میں سے بھی اور مشرکوں میں سے بھی مسلمان بنائے ہیں اور ان کے سینے اللہ کے نور سے منور ہیں.وہ اَشْهَدُ اَنْ لا إلة “ کہنے والے نہیں بلکہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلهَ “ کہنے والے ہیں یعنی ان کا عربی کا تلفظ بھی صحیح ہے.وہ عربی کے ساتھ تعلق رکھنے میں بھی جنونی ہیں.احمدیت اور اسلام سے انہیں جو پیار ہے وہ تو ہے ہی لیکن عربی زبان سے بھی وہ عشق رکھتے ہیں.انہیں عربی بولنے کا بڑا شوق ہے چنانچہ وہاں کئی علاقوں میں عربی بولی جاتی ہے.کماسی سے قریباً دواڑ ہائی سومیل ڈور گھانا کے بارڈر پر واقع ہماری وا کی جماعتیں ہیں.کچھ وقت کم تھا کچھ وہاں کے حالات مثلاً سڑکوں اور سفر کی دوسری سہولتوں کا علم نہیں تھا اور پھر Briefing ( بریفنگ ) ناقص تھی چنانچہ ہمارا پروگرام یہ طے پایا کہ کماسی سے صبح ٹیچی مان جو ستر میل کے فاصلے پر تھا وہاں جائیں گے اور پھر واپس آجائیں گے.کماسی میں وآ کے دوسو نمائندے آگئے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہاں ہماری کتنی جماعتیں ہوں گی یعنی مختلف جماعتوں کے دوسو نمائندے اکٹھے ہو کر آگئے اور مشکل یہ پیدا ہوگئی کہ ان کی اپنی لوکل زبان تھی جو کماسی کی زبان سے بالکل مختلف تھی اگر میری تقریر کا کماسی کی زبان میں ر ترجمہ ہوتا تو وہ بالکل سمجھ ہی نہیں سکتے تھے.چنانچہ میں نے دوستوں سے مشورہ کیا.کہنے لگے کہ اگر آپ انگریزی میں بولیں گے تو ان میں سے ۵، ۱۰ فیصد سمجھ جائیں گے لیکن ۹۰ فیصد بالکل نہیں سمجھیں گے اور پھر انگریزی تقریر کی صورت میں ان کی لوکل زبان میں ترجمہ کرنے والا بھی کوئی نہیں لیکن اگر آپ عربی میں بولیں تو یہ انگریزی سے زیادہ عربی سمجھ جائینگے.ہماری وہاں کی جماعتوں کے ایک پریذیڈنٹ بھی اس وفد میں شامل تھے وہ عربی بڑی اچھی جانتے تھے وہ کہنے لگے کہ میں آپ کی عربی تقریر کا اپنی لوکل زبان میں ترجمہ کر دوں گا چنانچہ وہاں مجھے مختصراً عربی میں تقریر کرنی پڑی.میں آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ انہیں عربی سے بڑا پیار ہے اس علاقے کے لوگ ہماری طرح کی پگڑیاں باندھتے ہیں ہماری نقل میں نہیں بلکہ ویسے ہی ان کا پرانا رواج ہے.گلاہ
خطبات ناصر جلد سوم ۱۹۳ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء غالباً نہیں ہوتا.اپنی ٹوپی پر پگڑی باندھتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی طرح طرہ نکلا ہوا اور بالکل یہی شکل ہوتی ہے.وہ بڑے اچھے اور سادہ لوگ تھے.ہمارے جو دوست احمدی ہوتے ہیں یہ صحیح ہے کہ شروع میں بعض میں کمزوری ہوتی ہوگی کیونکہ ولی بن کر تو اس نے احمدی نہیں ہونا بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے احمدی ہو کر ولی بنے گا.اس کے لئے لمبے عرصہ تک تربیت کرنے کی ضرورت ہے بہر حال وہ لوگ بڑے مخلص احمدی ہیں.ہمارے ایک نوجوان نا تجربہ کا مبلغ نے ہمارے نائیجیریا کے پریذیڈنٹ جن کا نام بکری ہے ان کے ساتھ موٹر میں بیٹھے ہوئے کوئی بد تمیزی کر دی.بکری صاحب کا ایک بٹیا وہاں کی ہائیکورٹ کا جج بھی ہے اور مخلص احمدی ( نائیجیریا کے دو مسلمان حج ہیں اور دونوں احمدی ہیں.ایک ہمارا احمدی ہے اور ایک باغیوں میں سے احمدی ہے بہر حال وہ بھی اپنے آپ کو احمدی ہی کہتے ہیں ) بکری صاحب نے جو اس مبلغ کو جواب دیا اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ کس قسم کے احمدی ہیں.وہ اس سے کہنے لگے.دیکھو! تم نے بدتمیزی کی ہے.میں ایک پرانا احمدی ہوں اور احمدیت میرے رگ وریشہ میں رچی ہوئی ہے.مجھ پر تمہاری اس بات کا کوئی اثر نہیں لیکن میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں اگر تم نے نوجوانوں کے سامنے ایسی بات کی تو ان کو احمدیت سے دور لے جانے کے تم ذمہ دار ہو گے.وہ لوگ احمدیت کے عاشق اور بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں ان کا جو کیریکٹر ہے اور ان کی جو عادتیں ہیں وہ اتنی اچھی اور خوبصورت ہیں کہ مجھے بعض دفعہ فکر پیدا ہوتی ہے کہ وہ کہیں ہم سے آگے نہ نکل جائیں.اللہ تعالیٰ کا ہمارے ساتھ کوئی رشتہ تو نہیں کہ جو مرضی ہم کریں اور وہ ہمارے اوپر مہربان رہے اور دوسرے اس کی راہ میں زیادہ قربانیاں دینے والے، اس کے زیادہ عاشق اور اس سے زیادہ محبت کرنے والے ہوں اور وہ انہیں بھلا دے یہ تو نہیں ہوسکتا.وہاں جو نسل اس وقت پرورش پارہی ہے وہ بڑی سنجیدہ ہے حالانکہ تعلیمی لحاظ سے وہ بڑے پیچھے ہیں لیکن اس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ قوم سعید فطرت لے کر پیدا ہو رہی ہے ( دنیوی لحاظ سے بھی ) مثلاً کوئی بچہ سڑک پر نہیں آئے گا.وہاں ڈرائیور کو کوئی خدشہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی انسان کو Knock down کر دے گا اور اسے مصیبت پڑ جائے گی اور اسی واسطے وہ بالعموم ستر اشی میل کی رفتار سے کار چلاتے ہیں چنانچہ ہم نے بو سے سیرالیون تک
خطبات ناصر جلد سوم ۱۹۴ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء ۱۷۰ میل کی مسافت سوا تین گھنٹے میں طے کی.کوئی آدمی سڑک پر نہیں آتا.سڑک کے کنارے سات آٹھ سال کے بچے گداڑئے لگا رہے ہوتے ہیں مگر کیا مجال ان میں سے کوئی سڑک پر آجائے وہ سڑک کے کنارے یا دکانوں کے پاس رہتے ہیں مگر جہاں سے ٹریفک گزر رہی ہوتی ہے وہاں بالکل نہیں جاتے.ان کی سنجیدگی کا یہ حال ہے کہ ایک چھوٹی افریقن بچی جسے ہم نے اپنی بیٹی بنایا ہے ( اس کا باپ راضی ہو گیا تھا.اسے ہم ساتھ تو لانہیں سکتے تھے.تیاری مکمل نہیں ہو سکتی تھی مثلاً پاسپورٹ وغیرہ بنوانا تھا ) وہ بچی منصورہ بیگم کو اس لئے پسند آئی کہ تین گھنٹے کا جلسہ اور پانچ سال کی وہ لڑکی.منصورہ بیگم کہتی ہیں کہ وہ میرے قریب آکر بیٹھ گئی اور تین گھنٹے تک خاموشی سے بیٹھی رہی.یہاں تک کہ اس نے اپنی ٹانگ بھی نہیں ہلائی اور جلسہ کی کارروائی کو بڑی توجہ سے سنتی رہی حالانکہ اسے کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا.بچپن آخر اس کا بھی ہے صرف ہمارے بچوں کا بچپن تو نہیں ہوتا چنا نچہ بچپن کی عمر نے بھی کوئی جوش نہیں دکھا یا وہ ہلی تک نہیں بلکہ ساتھ بیٹھی ہوئی عورت نے اسے کہا بھی کہ تم تھک گئی ہوگی اپنی ٹانگوں کو ہلا ؤ جلاؤ مگر اس نے سنی ان سنی کر دی اور اسی طرح بیٹھی رہی.پس اس قسم کے بچے وہاں پیدا ہورہے ہیں وہاں ہمارے سکولوں میں عجیب ڈسپلن ہے انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے.یہ صحیح ہے کہ زیادہ ڈسپلن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سکولوں میں پیدا ہوا ہے لیکن اس ڈسپلن کو قبول کرنے والے تو وہی افریقن ہی ہیں.وہ تعلیم میں بھی بڑے اچھے جا رہے ہیں.مجھے بھی بعض موقعوں پر یہ نہیں کہ میں نے ان میں کوئی نقص دیکھا ) یہ بات کہنی پڑتی تھی کہ پیچھے نہ دیکھو.یہ درست ہے تم مظلوم ہو کئی سوسال تمہیں یورپی اقوام نے کو ٹا تمہیں تعلیم نہیں دی.اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں لیکن پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ اگر تعلیم کے اور مادی ترقیات کے اور روحانی ترقیات کے دروازے تم پر بند ہوتے اور تمہیں اپنے مستقبل کی طرف پیٹھ کرنی پڑتی توتم پیچھے دیکھتے اور گڑھتے ، گالیاں دیتے اور بدلہ لینے کی سوچتے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے علم کے میدان میں بھی اور مادی ترقیات کے میدان میں بھی اور روحانی ترقیات کے میدان میں بھی ہمارے لئے بزرگ شاہراہیں کھول دی ہیں تو اب آگے بڑھو سامنے کی طرف
خطبات ناصر جلد سوم ۱۹۵ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء دیکھو پیچھے کیوں دیکھتے ہو؟ ویسے ان کے اندر آگے بڑھنے کی اہلیت پائی جاتی ہے.وہ بڑی سمجھدار قوم ہے وہ توجہ سے پڑھتے ہیں اور وقت کو ضائع نہیں کرتے.اس لئے وہ آگے بڑھ رہے ہیں.ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی ہے پتہ ہی نہیں ہوتا ایک صبح کو دنیا اُٹھ کر دیکھتی ہے کہ جس قوم کو لوگ پیچھے مجھتے تھے وہ ان سے آگے نکل گئی ہے.جاپان کی تاریخ میں ایسا ہی ہوا یورپ سمجھتا تھا کہ کوئی ایشیائی ملک ان سے آگے نہیں نکل سکتا مگر ایک صبح کو انہیں یہ اقرار کرنا پڑا کہ جاپان ان سے آگے نکل گیا یا کم از کم ان کے برابر آ گیا ہے(اعلان تو شاید برابر آنے کا کیا تھا کیونکہ اپنے سے آگے نکل جانے کا تو وہ مان نہیں سکتے تھے ) اور یہ اس لئے کہ جو ایک اندورنی تبدیلی رونما ہوتی ہے، ایک نسل کے بعد جب دوسری نسل وہ مقام حاصل کر رہی ہوتی ہے تو کسی کو پتہ ہی نہیں لگتا.دنیا حیران رہ جاتی ہے.یہ جو افریقہ میں اگلی نسل پرورش پا رہی ہے جسے میں دیکھ کر آیا ہوں اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اور صداقت ان پر کھولے اور دین و دنیا کی حسنات سے ان کو نوازے.وہ ایسے سعید فطرت ہیں کہ اگر ان کی صحیح تربیت کی جاسکے تو وہ دوسری قوموں سے آگے نکل جائیں گے.روحانی لحاظ سے بھی وہ ہم سے آگے جا سکتے ہیں ہم نے کوئی Monopoly (اجارہ داری ) تو نہیں کی ہوئی اللہ تعالیٰ سے.جو آدمی اس کی راہ میں زیادہ قربانیاں دے گا ، جو اس سے زیادہ پیار کرے گا ، جو دنیا کو چھوڑ کر اس کی طرف زیادہ توجہ کر رہا ہو گا اس سے وہ زیادہ پیار کرے گا کیونکہ قرآن کریم میں جو اصول بیان ہوئے ہیں اس کے خلاف تو نہیں ہوسکتا.بہت سارے Digression (ڈائی گریشن ) یعنی ادھر ادھر بھی میں گیا ہوں.حالات بھی بتائے تھے.جو بات میں نے آپ سے اس وقت کہی ہے وہ خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کی جنگ سوائے احمدیت کے کسی اور نے نہیں لڑنی اور جو اسلام کی جنگ لڑی جانی ہے اس کے بڑے محاذ دو ہیں ( اور چھوٹے چھوٹے محاذ بھی ہیں کسی وقت ان پر بھی روشی ڈالوں گا ) ایک دہریت اور لا دینیت کا محاذ اور دوسرا نام نہاد عیسائیت کا محاذ.نام نہاد میں نے اس لئے کہا ہے کہ عیسائیت اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے لیکن مادی لحاظ سے اور دنیوی طاقت کے لحاظ سے اس کا دنیا میں بڑا
خطبات ناصر جلد سوم ۱۹۶ خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۷۰ء اثر ورسوخ ہے.ایک خلاف فطرت کام کرنے والا افسر اور لیڈر جو ہے جہاں عیسائیت کا مقابلہ ہوگا وہ عیسائیت کی مدد کر جائے گا حالانکہ اس کے سارے اعمال اور زندگی عیسائی نقطۂ نگاہ سے بھی گند میں ملوث ہے.یہ جنگ جو ہم نے عیسائیت سے لڑنی ہے اس کا فیصلہ افریقہ میں ہوگا کیونکہ اگر آج ہم افریقہ سے عیسائیت کو نکال دیں تو پھر ان کے لئے یہ بڑا ہی مشکل ہے پین یا جنوبی امریکہ میں اس طرح اکٹھے ہو جانا اور Counter attack ( کاؤنٹر اٹیک) کے لئے جمع ہو جانا کہ جس میں انہیں کامیابی کی کوئی امید ہو.عیسائیت کے دلائل کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتنا ز بر دست لٹریچر جمع کر دیا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.ایک ایک چیز کو لے کر اس کے پر خچے اڑا دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اللہ نو جوانوں کے لئے ان کا ایک خلاصہ شائع کر دیا جائے گا جس میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ دلائل ہوں گے.عیسائیت کے ایک مسئلہ کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا تھا اس کے متعلق اب مختصر ہی کچھ کہوں گا کیونکہ دیر ہوگئی ہے اور یہ مسئلہ نجات ہے.عیسائیوں کے نزدیک نجات کا مفہوم یہ ہے ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو بیان کیا ہے میں اسے اپنے الفاظ میں مختصر بیان کر رہا ہوں ) کہ انسان گناہ اور نسیان کے مواخذہ سے بچ جائے اور بس، یعنی گناہ تو وہ کرتا رہے لیکن اسے سزا نہ ملا کرے یہ ان کے مسئلہ کفارہ سے استدلال ہوتا ہے.میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جاسکتا بہر حال عیسائی اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان کے نزدیک نجات کے معنے یہ ہیں کہ ایک گناہگار بیشک گناہ کرتا رہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ نہیں ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ خواہ ان کا کوئی مذہب ہو یا نہ ہو وہ اس قسم کے موٹے موٹے گناہ کرتے ہی نہیں.کیا مجال ہے کہ وہ زنا کریں، چوری کریں یا ڈاکہ ڈالیں یا کسی کو قتل کریں مگر پھر بھی کوئی عقلمند شخص انہیں نجات یافتہ نہیں کہہ سکتا.صرف اس لئے کہ وہ چوری نہیں کرتے ،صرف اس لئے کہ وہ زنا نہیں کرتے ،صرف اس لئے کہ وہ ڈاکہ نہیں ڈالتے ،صرف اس لئے کہ وہ قتل نہیں کرتے ، صرف اس لئے کہ وہ لڑکیوں کو اغوا نہیں کرتے وہ نجات یافتہ نہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۱۹۷ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء کہلا سکتے.آپ نے فرمایا کہ نجات کا صحیح مفہوم ابدی خوشحالی اور دائمی مسرت ہے.یہ ابدی خوشحالی صرف اس وقت حاصل ہو سکتی ہے جب انسان کا اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا ہو جائے اور یہ زندہ تعلق پیدا نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی معرفت اور شناخت حاصل نہ ہو کیونکہ جس شخص نے خدا تعالیٰ کی صفات کی شناخت ہی حاصل نہیں کی روحانیت میں اس کا اگلا قدم اٹھ ہی نہیں سکتا اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی صفات کی شناخت کر لی ، وہ شناخت جو انسان کو سنکھیا کے زہر کی ہوتی ہے اگر کوئی شخص اس کے سامنے اس کی قاتل ڈوز لا کر رکھ دے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ اگر میں اسے کھاؤں گا تو مر جاؤں گا گویا سنکھیا کی اسے شناخت ہوگئی اور روہ اسے نہیں کھائے گا سوائے اس مجنون کے جسکی بات ہم نہیں کر رہے یا جو خود کشی کر رہا ہے.پس آپ نے فرمایا کہ جتنی شناخت ایک شخص کو زہر یعنی سم قاتل کی ہوتی ہے اتنی شناخت بلکہ اس سے بڑھ کر شناخت اللہ تعالیٰ کی صفات کی ہونی چاہیے.جتنی شناخت ایک نہتے انسان کو شیر کی طاقت کی ہے اگر اسے پتہ لگے کہ اس راستے پر شیر دیکھا گیا ہے اور وہ ایک دو آدمیوں کو پہلے مار چکا ہے تو کوئی نہتا شخص وہاں سے کبھی نہیں گزرے گا.پس یہ شناخت ہی کا نتیجہ ہے کہ اسے ایک معرفت عطا ہوئی کہ یہ راستہ خطرناک ہے.جتنی شناخت کسی کو ایک زہریلے سانپ کے زہر کی ہے اگر اسے پتہ ہو کہ اس جگہ سانپ ہے تو وہ اس کے سوراخ میں کبھی اُنگلی نہیں ڈالے گا اگر اس قسم کی شناخت یا اس سے بڑھ کر شناخت اللہ تعالیٰ کی صفات کی ہے تو یہ ایک صحیح اور حقیقی اور کامل معرفت ہے لیکن اگر ایسی نہیں تو پھر ایک وہم ہے ایک دعوی بلا دلیل ہے.پس سچی خوشحالی اور دائمی مسرت کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت ضروری ہے.جب ہر ایک کو اپنی بساط اور اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی اس معرفت کے دو نتیجے نکلتے ہیں ایک تو چونکہ وہ نہایت عظمت اور جلال والی ذات ہے اس کی عظمت اور جلال کو دیکھ کر اور اس کے ساتھ ہی وہ بڑی حسین ذات ہے کیونکہ وہ سارے حسنوں کا منبع اور سر چشمہ ہے ساری دنیا میں جہاں بھی حسن نظر آتا ہے وہ اسی کے حسن کا پر تو ہے اس کے حسن کا مشاہدہ کر کے اس کی شناخت پا کر یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ یہ عظیم ہستی جس نے مجھے پیدا کیا اور قومی دیئے وہ کہیں مجھ سے
خطبات ناصر جلد سوم ۱۹۸ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء خفا نہ ہو جائے.جس خوف کا ہم نام لیتے ہیں وہ یہی خوف ہے ( سانپ والا خوف نہیں ) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہے.معرفت کے نتیجہ میں جو دوسری چیز پیدا ہوتی ہے وہ محبت ہے کیونکہ حسن بھی نظر آیا اور احسان بھی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! میں تم پر بے شمار نعمتیں نازل کرتا ہوں.موسلا دھار بارش کے قطرے تو گنے جاسکتے ہیں لیکن میری نعمتیں نہیں گئی جاسکتیں پس جب انسان کو اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے نظر آ جاتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی صحیح اور کامل اور حقیقی شناخت پالیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے پھر وہ ہر اس چیز سے دور بھاگتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہوتی ہے اور ہر اس چیز سے پیار کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اسے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے پھر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح معنوں میں مائل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کو حاصل کرتا ہے اس طرح اس کا اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق قائم ہو جاتا ہے اور یہ نجات ہے اسی میں دائمی خوشحالی اور مسرت ہے.پس افریقہ میں لڑی جانے والی جنگ کو جیتنے کے لئے ہم پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اس سلسلہ میں بہت ساری باتیں میں پہلے بیان کر چکا ہوں مثلاً ”نصرت جہاں ریز روفنڈ قائم کیا گیا ہے ہمیں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے ہمیں ٹیچرز کی ضرورت ہے ڈاکٹروں اور ٹیچروں کو رضا کارانہ طور پر خدمات پیش کرنے کی جو میں نے تحریک کی تھی اس سلسلہ میں شاید ایک بات رہ گئی تھی وہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے ڈاکٹروں کی بھی ضرورت ہے جن کی بیویاں بھی ڈاکٹر ہوں اور ایسے ٹیچر ز کی بھی ضرورت ہے جن کی بیویاں بھی وہاں کام کر سکیں یعنی وہ بھی بی.اے، بی ایڈ یابی.ایس سی بی ایڈ ہوں کیونکہ وہاں بعض جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں مسلمان لڑکی تعلیم میں بہت بچھے ہے اور پردے میں غلو کر رہی ہے.اس لحاظ سے تو اچھا ہے کہ وہاں بے پردگی نہیں اور بے پردگی سے پردہ میں غلو اچھا ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں کی مستورات علم سے (اور علم دراصل اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہیں اور ان سے وہ ) محروم ہیں.ہماری طرف سے یہ کوشش ہورہی ہے کہ ایسے علاقوں میں باپردہ پڑھائی کا انتظام کیا جائے تا کہ اگلی نسل کی بچیوں کو ہم علم کے نور
خطبات ناصر جلد سوم ۱۹۹ خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۷۰ء سے منور کر سکیں.ہمیں بڑی دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا.جب اللہ تعالیٰ فضل کرے اور اپنے پیار کا جلوہ دکھائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی.میں وہاں پانچ ہیڈ آف دی سٹیٹس سے ملا ہوں.میں ایک غیر ملکی نہ میری ان سے جان نہ پہچان مگر انہوں نے مجھ سے بے حد پیار کیا.ان پانچ میں سے تین تو عیسائی تھے باقی دو غیر احمدی مسلمان تھے لیکن مجھ سے اس طرح ملتے تھے جیسے ان کا کوئی بزرگ ہو.میں دل میں حیران بھی ہوتا تھا اورالحمد للہ بھی پڑھتا تھا کہ میں تو بالکل عاجز اور ناکارہ انسان ہوں یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے.ایک جگہ ایک آرچ بشپ نے شروع میں تھوڑی سی شوخی کی تھی ( اس کی تفصیل بڑی لطیف ہے بعد میں کسی وقت بتاؤں گا) لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ پر ایسا رعب ڈالا کہ واپسی پر مصافحہ کرتے وقت اس طرح جھک گیا جس طرح اپنے سے بڑے بشپ کے سامنے جھک رہا ہو.اس وقت بھی میرے دماغ میں یہی آیا کہ تثلیث تو حید کے سامنے جھکی ہے یہ خیال نہیں پیدا ہوا کہ یہ شخص میرے سامنے جھکا ہے.میں تو ایک عاجز انسان ہوں میں نے اس سے اللہ تعالیٰ کی توحید کے موضوع پر باتیں کی تھیں جس سے وہ اتنا مرعوب ہوا کہ چلتے وقت اُسے جھکنا پڑا پس اللہ تعالیٰ تو بے حد فضل کرنے والا ہے.ہمیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ معرفت یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرتیں کیا ہیں؟ احمدیت کی زندگی کی یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ بے حد رحم کرنے والا ہے وہ بڑا پیار کرنے والا اورا اپنی بے شمار نعمتوں سے نواز نے والا ہے اگر ہم پھر بھی الحمدللہ نہ کہیں تو ہم بڑے ہی بدقسمت ہوں گے.پھر تو وہ آگے جائیں گے جو الحمد للہ کہنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا کرے اور ہماری نسلوں کی صحیح تربیت کی ہمیں توفیق دے اور ہمیں یہ بھی توفیق دے کہ ہم ہمیشہ سابقون میں رہیں کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں.روز نامه الفضل ربوه ۲۰ اگست ۱۹۷۰ء صفحه ۲ تا ۷)
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء غلبہ اسلام کے دن مجھے افق پر نظر آرہے ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۰ / جولائی ۱۹۷۰ء بمقام اسلام آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آپ دوستوں کی یہ خواہش ہوگی کہ میں اپنے دورہ کے متعلق کچھ باتیں کہوں اور آپ میرے منہ سے وہ باتیں سنیں.بہت کچھ تو آپ رپورٹوں میں پڑھ چکے ہیں واقعات اور حالات کا یہ قریباً بیسواں حصہ ہوگا، کچھ تھوڑا بہت میں نے اپنے گذشتہ تین خطبات میں بیان کیا ہے.یہ خطبات انشاء اللہ چھپ جائیں گے اور آپ انہیں بھی پڑھیں گے.بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ جو دیکھنے سے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتی تھیں ان کا بیان ممکن ہی نہیں لیکن جس اور جذبہ کی جن تاروں کو ان واقعات نے جنبش دی وہ حرکت احساس میں اور جذبات میں سالوں سال قائم رہے گی.اس وقت میں مختصر آ چند عمومی باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے ان اقوام کو کیسا پایا؟ جہاں تک میں نے غور کیا اور جہاں تک میرے مشاہدہ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اقوام بڑی شریف النفس سعید الفطرت اور سادہ مزاج ہیں ان کے معاشرہ کے بعض پہلو ہم پاکستانیوں کے لئے بھی قابلِ رشک ہیں مثلاً وہاں افسر اور ماتحت میں اتنی دُوری نہیں جتنی کہ ہمیں یہاں نظر آتی ہے بعض دفعہ جب ہم بڑے بڑے افسروں سے ملنے جاتے تو نسبتاً جونیئر افسر
خطبات ناصر جلد سوم ۲۰۲ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء ہمارے وفد میں شامل ہوتے وہ بے دھڑک وہاں پہنچتے اور ذرا ذرا سی بات کا اس طرح خیال رکھتے جس طرح اس دفتر میں انہی کی حکومت ہو اور ہیڈ آف دی سٹیٹ سے بھی بڑے دھڑلے سے ملتے.وزراء کا یہ حال ہے کہ مجھے ایک پرنسپل نے بتایا کہ جب سکول میں داخلے کے دن ہوتے ہیں تو بعض دفعہ ایک ایک دن میں چھ چھ وزیر میرے پاس بعض بچوں کی سفارش لے کر آتے ہیں.نائیجیریا میں میں نے سکو تو کے گورنر ( سکو تو ، نارتھ ویسٹ سٹیسٹ ہے یعنی شمال مغربی صوبہ اسے انہوں نے سٹیٹ کہا ہے نئے Constitution ( آئین ) کے مطابق انہوں نے اپنے ملک کو بارہ صوبوں میں تقسیم کر دیا ہے.یہ سکو تو مسلمانوں کا علاقہ ہے ) کے پاس جس دوست کو بھیجا تھا وہ کیبنٹ سیکرٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری تھے.چنانچہ وہ بڑے دھڑلے سے گئے اور گورنر سے گفتگو کی اور میری تجویز کو ان کے سامنے ایسے انداز میں پیش کیا کہ وہ گورنر صاحب بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے ہماری پیش کش کو جو دراصل انہی کے فائدے کے لئے تھی قبول کر لیا اور اب جو رپورٹیں مجھے موصول ہو چکی ہیں ان کے مطابق انہوں نے ہمارے سکولوں کے لئے ۴۰،۴۰ ایکڑ زمین بھی دے دی ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِكَ - غرض یہ بعد جو افسر اور ماتحت کا ہمیں یہاں نظر آتا ہے وہ مغربی افریقہ کی ان اقوام میں مجھے نظر نہیں آیا.ہم جب Reception ( ریسپشن) میں جاتے تھے تو وزراء اور کمشنر زیاڈی سی وہ مختلف نام استعمال کرتے ہیں ) آپس میں اس طرح گھلے ملے ہوتے تھے کہ آپ پتہ نہیں کر سکتے تھے کہ کون منسٹر ہے اور کون چھوٹا افسر ہے.وزراء کے علاوہ ہر دفعہ وہاں کے Ambassadors (سفیر ) بھی ہوتے تھے.بڑے بڑے امیر بھی ہوتے تھے، بڑے اثر ورسوخ والے سیاسی لیڈر بھی ہوتے تھے اور سب وہاں اس طرح گھوم رہے ہوتے تھے کہ کسی آدمی کو جو باہر سے گیا ہو یا ذاتی طور پر ان سے واقف نہ ہو یہ معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ وزیر صاحب ہیں اور یہ حکومت کا ایک معمولی افسر ہے یا یہ اس ملک کا ایک معمولی دکاندار ہے.دوسری چیز جو مجھے وہاں نمایاں طور پر نظر آئی وہ یہ ہے کہ جو بعد امیر اور غریب میں ہمیں یہاں نظر آتا ہے وہاں نظر نہیں آتا.ایک تو بظاہر لباس کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں.جہاں تک
خطبات ناصر جلد سوم ۲۰۳ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء صفائی کا تعلق ہے ایک چپڑاسی بھی اتنے ہی صاف کپڑوں میں آپ کو نظر آئے گا جتنے صاف کپڑوں میں ایک وزیر نظر آئے گا اور ویسے بھی کپڑوں میں بہت سادگی ہے ہمارے ملک میں تو ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو چار پانچ سوروپے گز سے کم والے سوٹ کو پہننے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے اور اسی وجہ سے ہمارے معاشرہ میں بہت سا گند آکر شامل ہو گیا ہے البتہ مغربی افریقہ کے لوگوں کو جیسے پہننے کا بہت شوق ہے اور رنگدار کپڑوں کے استعمال کا مردوں کو بہت شوق ہے میں نے یہ بھی دیکھا کہ ہمارے ملک میں عورتیں اتنے رنگ برنگے کپڑے نہیں پہنتیں جتنے کہ وہاں مرد پہنتے ہیں اور پھر نئے سے نئے ڈیزائن رنگ کے لحاظ سے پھولوں کے لحاظ سے ان کے جبوں پر نظر آتے ہیں.ایک دفعہ مجھے خیال آیا اور میں نے اس بارہ میں غور کیا.ہم موٹر پر جار ہے تھے.مجھے میل دومیل کے اندر سینکڑوں جیتے نظر آئے مگر ان میں سے کوئی دو جیتے ایک رنگ کے نہیں تھے.پتہ نہیں وہ کس طرح اتنے مختلف ڈیزائن بنا لیتے ہیں.وہ بہر حال بناتے ہیں کیونکہ یہ وہاں کی مانگ ہے.ویسے جب وہ بجبہ بدلتے ہیں تو ان کی شکلیں بھی بدل جاتی ہیں.ہم پہچان نہیں سکتے تھے کہ کیا یہ وہی شخص ہے جو کچھ دیر پہلے تھا جس نے کپڑے بدل لئے اور اب کچھ اور لگتا ہے میں اس سلسلہ میں آپ کو ایک لطیفہ بھی سنا دیتا ہوں.ہم نے جس روز اجے بواوڈے جانا تھا اس سے پہلی رات ہمارے ایمبیسیڈر کے ہاں ہمارا کھانا تھا.ان کی بیوی نے پتہ نہیں کیوں منصورہ بیگم سے کہا کہ یہ علاقہ بڑا خطرناک ہے آپ کو دیر ہو جائے گی.آپ کوشش یہ کریں کہ سورج غروب ہونے سے قبل واپس لیگوس پہنچ جائیں.غرض اس نے وہاں کے حالات کا اچھا خاصا بھیا نک نقشہ کھینچا جو میرے نزدیک غلط تھا.بہر حال جب انہوں نے یہ کہا اور مجھے اس کا پتہ لگا تو میں نے اپنی جماعت سے کہا کہ ہمارے احمدی پولیس افسر بھی ہوں گے اور فوجی افسر بھی ہوں گے، کسی کو کہیں کہ وہ ہمارے ساتھ چلے.چنانچہ انہوں نے ایک میجر کی ڈیوٹی لگائی.اس نے کہا کہ میں اپنے دفتر کا کام ختم کر کے دو پہر کے بعد اپنی آرمڈ یونٹ لے کر پہنچ جاؤں گا اور واپسی پر آپ کے ساتھ آؤں گا.کوئی ۷۰ ۸۰ میل کے فاصلے پر وہ جگہ تھی.چنانچہ وہ وہاں پہنچے اور جب مجھ سے ملے تو وہ یونیفارم میں تھے جب ہم
خطبات ناصر جلد سوم ۲۰۴ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء واپس لیگوس اپنے ہوٹل میں پہنچے تو وہ مجھے نظر نہ آئے.میں نے سمجھا شاید انہوں نے جلد ا پنی ڈیوٹی پر پہنچنا ہو اور وہ راستے سے ہی اپنی بیرک میں چلے گئے ہوں.میں نے دوستوں سے پوچھا کہ ہمارے میجر صاحب ہمارے ساتھ تھے کیا وہ راستے ہی سے چلے گئے ہیں کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے کہ یہ پانچ قدم پر آپ کے سامنے کھڑے ہیں ہوا یہ تھا کہ موٹر ہی میں انہوں نے اپنی یو نیفارم اُتار کر اپنا جبہ پہن لیا تھا اور اس سے ان کی شکل بھی بدل گئی تھی ممکن ہے کہ اس طرح ایک غیر ملکی کے لئے انہیں پہچاننا آسان نہ ہو لیکن میرا تو خیال ہے کہ بحیثیت مجموعی ان کی شکلیں بھی بدل جاتی ہیں کیونکہ انسان کی شکل صرف اس کے چہرے کے فیچر ز یعنی نقوش ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کا لباس ہے اور اس کی طرز ہے ان ساری چیزوں کے ملنے سے دماغ میں کسی شخص کی شکل کا ایک تصور قائم ہوتا ہے.بہر حال امیر اور غریب میں جو بعد یہاں پایا جاتا ہے، اور جو تفریق یہاں پائی جاتی ہے وہ ان ملکوں میں نہیں پائی جاتی.میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ ہماری جس احمدی بہن نے اکیلے پندرہ ہزار پاؤنڈ سے زیادہ خرچ کر کے اجے بو اوڈے میں مسجد تعمیر کروائی ہے جس کا میں نے افتتاح کیا تھاوہ ہماری بہت بڑی جامع مسجد ہے.میں نے وہاں یہ دیکھا کہ ان کے لئے اور عام مزدور یا جو ان کی وہاں نوکرانیاں تھیں.ان کے لئے جو کھانا پک رہا تھا وہ مختلف نہیں تھا بلکہ ایک ہی کھانا تھا جس میں وہ بھی شامل ہوئی ہوں گی.انہوں نے میرے سامنے تو نہیں کھایا البتہ میرا اندازہ تھا کہ کوئی الگ کھانا نہیں پک رہا چنانچہ میں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو میرا خیال درست تھا معلوم ہوا کہ ایک ساتھ اکٹھے کھانے پر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کا آپس میں کوئی فرق نہیں ہوتا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو بعض دفعہ Discontentment ( بے اطمینانی ) اور بد دلی ہمیں یہاں نظر آتی ہے وہاں یہ نظر نہیں آتی.بڑا عجیب نظارہ ہے میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ایک دن بہت مصروف پروگرام تھا.ہم نے ایک جگہ سے دوسری جگہ موٹروں پر جانا تھا میں نے دوستوں سے کہا کہ ایک تو پیار ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے دوسرے مسکراہٹ کا جواب ہمیشہ مسکراہٹ سے ملتا ہے اور میں آج یہ کرتارہاہوں.
خطبات ناصر جلد سوم ۲۰۵ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء میرا اندازہ یہ ہے کہ میں نے لیگوس کے باشندوں سے کم از کم پچاس ہزار مسکراہٹیں وصول کیں اور کسی جگہ میں نے مایوسی افسردگی اور بے زاری یا Discontentment (بے اطمینانی ) نہیں پائی.وہ سب بڑے خوش اور ہشاش بشاش دکھائی دیتے تھے حالانکہ وہ ابھی سول وارجیت کر ہٹے تھے اس کے سکارز کہیں تو نظر آنے چاہیے تھے مگر کہیں بھی نظر نہیں آئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب امیر اور غریب ایسے ہوں کہ ان کے رہن سہن میں زیادہ فرق نہ ہوا ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار نہ ہو تکبر اور غرور نہ ہو تو وہ قوم خوشی اور بشاشت کی زندگی گزار رہی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اس چیز پر بھی استقامت بخشے اور باہر کے غیر ملکی گندے اثرات ان کے معاشرہ کو گندا کرنے میں کامیاب نہ ہوں جیسا کہ نائیجیریا کو تباہ کرنے کے لئے کوششیں کی گئی تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں مفسد دنیا کو کامیاب نہیں ہونے دیا.جب میں یعقو بوگوون سے ملا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر کچھ ایسا تصرف کیا تھا کہ وہ میرے ساتھ نصف گھنٹے تک اس طرح بیٹھا رہا کہ جس طرح اس کے گھر کا ایک فرد ہو وہ بڑی بے تکلفی سے باتیں کرتا رہا امریکن اور یورپین اقوام جو وہاں فساد پیدا کرنا چاہتی تھیں وہ ان پر جو تنقید کر رہا تھاوہ تو کرہی رہا تھا مجھے اس نے یہ بھی کہا کہ غیر ملکی عیسائی مشنز (خود وہ عیسائی ہے ) نے پورا زور لگایا کہ ہمارے ملک کو تباہ کر دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، ہمارا ملک تباہ ہونے سے بچ گیا میں نے اس سے کہا کہ تمہاری قدر میرے دل میں اس لئے بھی ہے (ویسے میں نے اس کے متعلق اور بھی بہت سی معلومات حاصل کی تھیں وہ بڑے ہی اچھے دل کا مالک ہے) کہ میں پورے غور سے عوام کو سڑکوں اور دکانوں کے سامنے دیکھتا رہا ہوں مگر میں نے کسی جگہ بھی یہ محسوس نہیں کیا کہ تمہاری خانہ جنگی کا قوم پر کوئی اثر ہو.ویسے تو وہ ہر ایک کا خیال رکھتا ہے اس کی حالت یہ تھی کہ میں نے اسے یہ کہا کہ دیکھو! تم نے سول وار جیتی ہے اور یورپین اقوام کی مخالفت اور مداخلت کے باوجود جیتی ہے یہ تمہارا بڑا کارنامہ ہے تمہارے کندھوں پر بڑا بوجھ آ پڑا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ اہم اور ضروری اور مشکل کام اب تمہیں کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ تم نے بیا فرا کو ویسے تو جنگ کے ذریعہ جیت لیا ہے لیکن ان کے دلوں کو جیتنا ابھی باقی ہے اس لئے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۰۶ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء کوئی Heat generate (ہیٹ جزیٹ) نہیں ہونی چاہیے اُن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور ان کے ساتھ پیار کا معاملہ کرو.چنانچہ اس نے میری اس نصیحت کو بڑی بشاشت سے سنا اور مجھے کہنے لگا کہ مجھے اس وقت کا خود بھی خیال ہے میں ان سے یہی سلوک کروں گا.وہ میرا بڑا ممنون تھا.چونکہ ان کا معاشرہ بہت سے گندوں سے محفوظ ہے اس لئے آپ کو ہنستے کھیلتے چہرے نظر آئیں گے، بڑے ہشاش بشاش، کوئی شکایت نہیں، کوئی Discontentment (بے اطمینانی) نہیں، کوئی بددلی نہیں، کوئی اداسی نہیں، کوئی یہ خیال نہیں کہ انہیں حقیر سمجھا جاتا ہے آپس میں ایک دوسرے کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور یہی پیغام میں لے کر گیا تھا.اس واسطے ان کو اس نے اپیل کیا.میں نے ایک دن انہیں یہ بھی کہا کہ میں آج تمہیں یہ بتا تا ہوں کہ تمہاری عزت اور احترام کا دن طلوع ہو چکا ہے اب دنیا تمہیں نفرت اور حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گی.میرے ذہن میں تو یہ تھا کہ ان کی عزت اور احترام کو قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث کیا.اس لحاظ سے ہم اُن کے محافظ ہیں اُن کی عزت واحترام کے ، اور ہم محافظ ہیں ان کی جانوں اور مالوں کے، اور ہم محافظ ہیں شیطانی یلغاروں سے انہیں بچانے کے یعنی شیطان سے بچانے کا جو کام ہے وہ ہمارے سپر د ہے اور جو ان کی ضرورتیں ہیں وہ حتی الوسع ہم نے پوری کرنی ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے میں سمجھتا ہوں اس وقت کے حالات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے علم سے یہ اعلان کیا تھا کہ افریقہ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے محفوظ رکھا ہوا ہے اور یہ اب نظر آ رہا ہے کہ اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو نہا ہیں تو وہ لوگ بہت جلد اسلام کو ، احمدیت کو قبول کر لیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے گا Sweet revenge ( سویٹ ریو پنج ) کی.میں آپ کو کہتا تھا ہم نے ایک حسین انتقام ظالموں سے لینا ہے.وہاں ہمارے عبدالوہاب ہیں جامعہ سے پڑھ کر گئے ہیں بڑے مخلص اور بڑے مستعد اور ہمت والے مبلغ ہیں.وہ نہایت اچھا کام کر رہے ہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۲۰۷ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ نے انہیں بیوی بھی بڑی اچھی دی ہے، اس کے دل میں بھی اسلام کا درد اور احمدیت کا پیار ہے.وہ سارا دن بچے اور بچیوں کو قرآن کریم پڑھانے میں مشغول رہتی ہیں.ان کے علاقے میں جاکر اور یہ حالات دیکھ کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی.میں نے عبدالوہاب سے کہا کہ تیار ہو جاؤ ، ہمارے حسین انتقام کے دن قریب آرہے ہیں اور میں نے وہاں اعلان کر دیا کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں زندہ رہا تو میں یا میرے بعد جو بھی ہوگا وہ تمہیں گلاس کومشن کا انچارج بنا کر بھیجے گا.وہ قو میں جو صدیوں تک تم پر ظلم کرتی رہی ہیں انہیں یہ پتہ لگنا چاہیے کہ تم لوگ اس قابل ہو کہ دین کے میدان میں پیار کے میدان میں اور محبت کے میدان میں اور ہمدردی اور غم خواری کے میدان میں ، خدمت کے جذبہ کے میدان میں اور مساوات کا پیغام دینے کے میدان میں تم ان کے استاد بنو گے انشاء اللہ.ان سے میں نے کہہ دیا کہ تم چار سال کے بعد ربوہ آؤ گے اور یہاں اپنی انگریزی (ویسے تو اچھی خاصی جانتے ہیں ) اور زیادہ improve ( بہتر ) کرو گے اور پھر یہاں سے تمہیں گلاس کو بھیج دیں گے ان کے ملک کو بھی میں نے کہ دیا ہے کہ ہمارا تو یہ پروگرام ہے.ہمارے ایک بڑے مخلص افریقن کماسی میں جو غانا کا ایک مشہور شہر ہے.ہمارے ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں وہاں کے ملک کی یہ پالیسی ہے اور یہ درست ہے کہ جو استاد یا پرنسپل انہیں افریقی ملے گا اس کی جگہ وہ غیر ملکی کونہیں رکھیں گے چنانچہ شروع میں ہمیں یہ خیال تھا کہ کہیں اس کا ہمارے سکولوں پر برا ثر نہ پڑے لیکن چونکہ وہاں کا معاشرہ کچھ اور رنگ رکھتا ہے عملاً یہ ثابت ہوا کہ کوئی بُرا اثر نہیں پڑا لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ہمارے کماسی کے اس نہایت اعلیٰ اور مقبول اور بہت ہی کامیاب سکول ( جو ہمارے انٹر میڈیٹ کالج کے برابر ہے) کا جو افریقی پرنسپل مقرر کیا گیا وہ ایک احمدی تھا اس سے بھی میں نے کہا کہ تم بھی تیار ہو جاؤ ممکن ہے کسی دن میں تمہیں پاکستان میں بلا کر یہاں کے کسی سکول کا ہیڈ ماسٹر بنادوں کیونکہ جہاں تک احمدیت کا تعلق ہے کسی ایک ملک یا کسی ایک قوم کی اجارہ داری نہیں ہے.اِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَنْقَكُمْ “ (الحجرات: ۱۴) میں گھر کے مخاطب پاکستانی نہیں یا صرف پہلے عرب نہیں تھے.بلکہ ہر انسان اس کا مخاطب ہے جو بھی تقویٰ میں آگے نکل جائے گا خواہ وہ فرد ہو یا قوم اللہ تعالیٰ کو وہ دوسرے فرد یا قوم سے 66
خطبات ناصر جلد سوم ۲۰۸ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء زیادہ پیارا ہوگا اور جو آگے نکل گئے ہیں اپنے خلوص اور قربانیوں میں ، بہر حال ہمارا یہ کام ہے جماعت احمدیہ کے خلفاء کا یہ کام ہے کہ ان کو دوسروں کی نسبت زیادہ عزت اور احترام دیں، پس وہ بھی یہاں آئیں گے جس طرح ہم یہاں سے مبلغ اور پرنسپل وہاں بھجوا ر ہے ہیں وہاں کے لوگ یہاں آئیں گے اور پھر دوسرے ملکوں میں جائیں گے.ساری دنیا کو پتہ لگے گا کہ وہ حسین معاشرہ پھر دنیا میں قائم ہونا شروع ہو گیا ہے.جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں اور پھر جب اسلام غالب آیا تو ساری دنیا میں قائم کیا تھا.ہماری اسلامی تاریخ میں میرے خیال میں درجنوں ایسے بادشاہوں کے خاندان ہوں گے جو حبشی غلاموں سے تعلق رکھتے تھے.مثال تو اس وقت میں ( وقت کی رعایت سے ) جو بہت ہی حسین اور نمایاں ہے وہ دیتا رہا ہوں.تین چار موقعوں پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی مثال میں نے بیان کی ویسے حضرت بلال کے ساتھ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بھی پیار کے سلوک کئے ہیں.وہ بھی بڑی حسین مثالیں ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے پھر کبھی توفیق دی اور وہاں جانے کا موقعہ ملا تو اور بہت ساری مثالیں دے دیں گے اس دنیا میں اور اس وقت بھی میرے خیال میں پاکستان کے بہت سے سمجھتے ہوں گے کہ انسان، انسان میں فرق ہے.اسلام تو انسان انسان میں فرق مٹانے کے لئے آیا تھا.قائم کرنے یا قائم رہنے دینے کے لئے نہیں آیا تھا ایک حبشی اپنے تصور میں لے آؤ جس قسم کا وہ ہوتا ہے (ویسے عملاً وہ ویسا ہی ہوتا ہے ) یہاں انگریز نے ہمارے بچپن میں جو تصور دیا تھاوہ یہ تھا کہ حبشیوں کے ہونٹ لٹکے ہوئے اور نچلا ہونٹ ٹھوڑی کے کنارے تک پہنچا ہوا اور آنکھیں سرخ ہوتی ہیں جس طرح کی شکل وہ شیطان کی بناتے تھے اسی طرح کی شکل حبشی کی بھی بنا دیتے تھے مگر وہاں ایسا نہیں.الا ماشاء الله بعض اس سے ملتی جلتی شکلیں تو ہیں لیکن اتنی بھیا نک نہیں ہیں ان کے بڑے تیکھے نقوش ( اور اس وقت جو دوست میرے سامنے بیٹھے ہیں عام طور پر ان سے سے ملتے جلتے چہرے ) ہم نے وہاں دیکھے ہیں خصوصاً احمدیوں میں اور پھر دوسرے مسلمانوں میں اس قسم کے بھڈے اور ڈراؤنے نقوش نہیں ہیں البتہ عیسائیوں میں مجھے کہیں کہیں نظر آئے ہیں.پتہ نہیں اس میں کیا حکمت ہے.
خطبات ناصر جلد سوم ۲۰۹ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء بہر حال ایک حبشی جو مکہ کے پیرا ماؤنٹ چیفس کا غلام تھا اور وہ اس کے ساتھ نفرت اور حقارت کے ساتھ پیش آتے تھے ان کے دلوں میں اس کی کوئی عزت نہیں تھی کسی قسم کی عزت کا اظہار ان سے نہیں ہوا کرتا تھا.پھر خدا کا کرنا کیا ہوا کہ یہی حبشی غلام جو ان کی نگاہوں میں بڑا ذلیل تھا اللہ تعالیٰ نے اسے نور دکھایا اور وہ اسلام لے آیا.پہلے صرف نفرت اور حقارت تھی اب نفرت اور حقارت کے ساتھ ظلم بھی ہو گیا اُنہوں نے اس کو اس طرح اذیت پہنچائی کہ آج بھی ہم سوچتے ہیں تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر ایک مسلمان کو خیال آیا اس نے اسے خرید کر آزاد کر دیا اور وہ مسلمان معاشرہ کا ایک فرد بن گیا.مسلمان معاشرہ کا فرد تو ویسے اسلام لانے کے بعد ہی بن گیا تھا مگر غلامی کی زنجیروں کی وجہ سے عملاً مسلمان معاشرہ کا فرد نہیں بن سکا تھا.پھر وہ بڑے سے بڑے مسلمان گو اس وقت چند ایک ہی سہی کیونکہ اس وقت رؤسائے مکہ میں سے چند ایک مسلمان ہو چکے تھے ، ان کے برابر ہو گیا اور وہ عملاً ان کی زندگیوں کے برا بر تھا کوئی فرق نہیں تھا.پھر خدا تعالیٰ نے فتح مکہ کے موقع پر انسانیت کو وہ عظیم نظارہ دکھایا کہ دنیا کی تاریخ جس کی مثال نہیں لا سکتی.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جھنڈا تیار کروایا ( میں نے تصور کی نگاہ سے وہاں کا نقشہ اپنے ذہن میں لانے کی کوشش کی ہے ) لوگ حیران ہوتے ہوں گے کہ ایک نیا جھنڈا کیوں تیار کروایا جارہا ہے.بہر حال ایک جھنڈا تیار کروایا اور فرمایا یہ بلال کا جھنڈا ہے.آپ نے اس جھنڈے کو بلال کا نام دیا اور ایک جگہ اسے نصب کروا دیا اور پھر انہی رؤسائے مکہ کو فر ما یا کہ جس شخص کو تم نفرت اور حقارت سے دیکھا کرتے تھے اور جس پر تم ظلم ڈھایا کرتے تھے آج اگر پناہ چاہتے ہو تو اس کے جھنڈے کے نیچے آجاؤ یہ ایک مثال ہے جو درجنوں مثالوں میں سے نظر آتی ہے.ہمارا یہ دعویٰ کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں تبھی کسی حقیقت اور صداقت کا حامل بن سکتا ہے اگر ہم اس کے مطابق عمل کریں تاہم اس حصہ کو میں بعد میں لوں گا.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ حسنہ میرے سامنے تھا چنانچہ ان کے سامنے جب میں یہ بات بیان کرتا تھا مختلف موقعوں پر مختلف لوگوں کے سامنے کیونکہ ملک بھی دوسرا ہوتا تھا اور جگہ بدلنے سے ۹۹ فیصد جو اس جلسے میں ہوتے تھے وہ بھی مختلف ہوتے تھے بلا مبالغہ
خطبات ناصر جلد سوم ۲۱۰ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء Scientific Explanation سائنٹیفک ایکس پلے نیشن) تو میرے ذہن میں نہیں آیا لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان کی خوشی صوتی لہروں میں بھی ایک ارتعاش پیدا کرتی تھی بغیر آواز کے اور میرے کانوں نے ان کی خوشی کی لہروں کو محسوس کیا اور اس کا اثر صرف مسلمانوں پر ہی نہیں ہوتا تھا ان کو تو تھوڑا بہت پہلے سے علم ہے عیسائی بھی متاثر ہوتے تھے اور وہ مشرک اور بدھ مذہب جن میں ابھی تک بڑی ظالمانہ رسوم رائج ہیں وہ بھی سنتے تھے کہ اسلام کا پیش کردہ صداقت اور محبت اور پیار اور ہمدردی اور غم خواری اور خدمت اور اسلام مساوات کا یہ اعلان ہے اور یہ سلوک ہے تو اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے غرض کیا عیسائی اور کیا مشرک اور بدھ مذہب جب ہماری ان باتوں کو سنتے تھے تو وہ اتنا اثر قبول کرتے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.ٹیچی مان میں عبدالوہاب بن آدم ہمارے مبلغ ہیں جو انشاء اللہ گل اس کو میں جا کر وہاں کے انچارج مشن بنیں گے وہ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں.وہاں ہم گئے تھے انہوں نے وہاں بہت بڑی مسجد بنوائی ہے جو آپ کا نقشہ ہے اس مسجد کا اس سے چار گنا بڑی ہے.میں نے اس کا افتتاح کرنا تھا دوستوں سے ملنا تھا وہاں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جماعت کا اتنا رعب ہے کہ بڑے بڑے پادریوں کو بھی مجبوراً ہمارے جلسوں میں شامل ہونا پڑتا ہے کچھ تو انہوں نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ کام کیا کر رہے ہیں؟ اور کس طرف ان کا رُخ ہو رہا ہے؟ غرض اس جلسہ میں جو پادری آئے ہوئے تھے ان میں اس سارے علاقے کے کیتھولک مشنز کا انچارج بشپ بھی موجود تھا.لیکن بیٹھا شروع میں اس طرح تھا کہ جیسے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے مجبوری تھی شامل ہو گیا ایک موقعہ پر تقریر کے دوران میں میں نے یہ کہا.One who was paramount prophet پیرا ماؤنٹ چیف ان کا محاورہ ہے میں نے ان سے عاریتہ لے لیا ) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تمہارے کان میں یہ کہہ رہے ہیں کہ انما انا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (حم السجدة : - ) میں تمہارے جیسا انسان ہوں، تم میرے جیسے انسان ہو.بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں تو پھر "Those who were junior to him like Moses and Christ."
خطبات ناصر جلد سوم ۲۱۱ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء وہ بھی انسان ہی تھے.اس لحاظ سے وہ تم پر کیسے برتری کا دعویٰ کر سکتے ہیں.وہ پادری صاحب اُچھل کر بیٹھ گئے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ لوگ اس سے متاثر ہوں گے.پس میں نے ان کو بڑا شریف النفس، سعید الفطرت اور سادہ مزاج پایا اور میں نے ان کو جو دیا وہ اسلام کا یہ پیغام تھا کہ انسان انسان میں کوئی فرق نہیں ہے ہر ایک سے محبت کرنی چاہیے.اُردو میں جس معنی میں محبت کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس معنے میں میں اس کو استعمال کر رہا ہوں کیوں کہ میں اردو میں بات کر رہا ہوں (عربی میں ایک اور معنے میں استعمال ہوتا ہے وہ یہاں استعمال نہیں ہوسکتا ) جس کو ہم پیار اور محبت کہتے ہیں.اسلام کا وہ پیغام ہے ہمدردی اور خیر خواہی اور مساوات کا کہ کوئی فرق نہیں کرنا.اپنے آپ کو کسی دوسرے انسان سے بڑا نہیں سمجھنا.یہ پیار میں ان کے پاس لے کر گیا تھا، یہ محبت میں ان کے پاس لے کر گیا تھا.ہمدردی اور غم خواری اور خدمت کا یہ جذ بہ اور مساوات کا یہ اعلان میں ان کے پاس لے کر گیا تھا اور اس کے وہ حق دار تھے.ابھی چند دن ہوئے مجھے عبد الواہاب ہی کا خط آیا ہے اس نے لکھا ہے کہ آپ نے احمدی غیر احمدی ، بڑے چھوٹے ، عیسائی اور مشرک ہر ایک سے جس قسم کی شفقت کا سلوک کیا ہے اس کی یاد ہماری قوم کے دل سے نہیں مٹے گی.میں نے ان کو جو جواب دیاوہ یہ ہے کہ جو میں نے دیا وہ ان کا حق تھا ان کا جو حق تھا وہ میں نے انہیں دے دیا اس واسطے میں نے کیا احسان کیا میں سوچا کرتا تھا کہ میں بچوں کو جو پیار کرتا تھا یہ ان کا حق تھا میں ان کو دے رہا ہوتا تھا اب پیار پر نہ دھیلہ خرچ ہو نہ وقت خرچ ہولیکن اتنا اثر ہوتا تھا کہ اگر آپ لاکھ روپیہ خرچ کر دیں تو اس کا شاید اتنا اثر نہیں ہوگا وہ پیار کے بھوکے ہیں کیونکہ وہ صدیوں پیار کی آواز میں گم ہو کر غیر ملکوں کی توپوں کا نشانہ بن گئے تھے.میں نے بہت سے عیسائیوں کو کہا کہ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں (ضمنا میں یہ بتا دوں کہ جو بیچ ہے اسے بہر حال تسلیم کرنا چاہیے جو امر واقعہ ہے اس کو چھپانے کی ضرورت نہیں.غرض میں نے اُن سے کہا کہ جب تمہارے ملکوں میں عیسائی پادری داخل ہوئے تو انہوں نے یہی نعرہ لگایا تھا کہ ہم عیسائیت کی محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں.لیکن ان کے پیچھے پیچھے ان ممالک کی جہاں سے وہ آئے تھے.فوجیں تمہارے ملکوں میں داخل ہو ئیں توپ خانے بھی ساتھ آئے ، گوان
خطبات ناصر جلد سوم ۲۱۲ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء.تو پوں کے مونہوں سے پھول نہیں جھڑتے تھے بلکہ گولے نکلے تھے اور پھر جس طرح ان ملکوں نے تمہیں Expliot (ایکسپلائٹ ) کیا اور پھر جس طرح تمہیں تباہ کیا اس کے متعلق مجھے کہنے کی ضرورت نہیں تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو کیونکہ تم صدیوں سے اس ظلم کا شکار بنے رہے ہو.اب میں محبت کا پیغام لے کر آیا ہوں لیکن میں تمہیں یہ بتا تا ہوں کہ ہم قریباً پچاس سال سے تمہارے ویسٹ افریقہ میں کام کر رہے ہیں اور اس عرصہ میں ہم نے کبھی تمہاری سیاست میں دلچسپی نہیں لی اور کبھی تمہاری دولت پر حریصانہ نگاہ نہیں ڈالی.ہم نے یہاں بہت کچھ کما یا جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ہمارے کلینک وہاں بہت کماتے ہیں.کا تو میں ہمارے کلینک کے پاس پندرہ ہزار پاؤنڈ زیادہ جمع ہو گیا تھا.ڈیڑھ دو سال ہوئے انہیں یہاں مرکز سے ہدایت کی گئی کہ اس رقم کو اسی ہسپتال کی عمارت پر خرچ کر دو پہلے وہ کلینک تھا اب ایک نہایت شاندار ہسپتال بن گیا ہے چنانچہ اسی طرح کی بیسیوں مثالیں ہیں ہم نے ایک دھیلہ ان ملکوں سے باہر نہیں نکالا.میرے خیال میں اس وقت تک لاکھوں پاؤنڈ باہر سے لے جا کر ان ملکوں میں خرچ کر چکے ہیں وہاں کی حکومتوں کو بھی اس کا علم ہے اور وہاں کے عوام کو بھی اس کا علم ہے.پس میں نے کہا کہ ہم پچاس سال سے تمہارے پاس ہیں اور جو بھی یہاں کمایا وہ تم پر خرچ کر دیا باہر سے جو کچھ لائے وہ بھی تم پر خرچ کر دیا.ہم نے تمہیں سچا اور حقیقی پیار دیا اور اس کے متعلق تم سب کچھ جانتے ہو اور یہ چیز ان پر اثر کئے بغیر نہیں رہتی تھی میں ان سب ملکوں میں اپنی طرف سے بعض چیزیں امتحاناً کیا کرتا تھا.ان میں سے ایک چیز یہ تھی کہ میں انہیں کہتا تھا تم سوچو اور مسلمان ہو جاؤ مگر کسی ایک نے مجھے یہ نہیں کہا کہ نہیں ہم مسلمان نہیں ہو سکتے یا احمدی مسلمان نہیں ہوتے ہر ایک نے یہی کہا ٹھیک ہے ہم سوچیں گے اور غور کریں گے اور پھر احمدیت اور اسلام کو قبول کرلیں ہم نے ان کے اوپر پیار کا ہاتھ رکھا ہے اور پیار کی کمس کمس جو ہے اس کے وہ عادی ہو چکے ہیں.دوسروں کو وہ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنا پیار کرتے ہیں ہماے مبلغوں کی رپورٹ کے مطابق افریقن یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم بھی پیدا ہو سکتی ہے جو ان کے بچوں کو پیار کرے اور میں نے وہاں ہزاروں بچوں کو اٹھایا ان سے پیار کیا.ویسے پانچ ، سات سال کے جو تھے انہیں بغیر اٹھائے جھک کر پیار کیا.یہ دیکھ کران کی عجیب حالت ہوتی تھی
خطبات ناصر جلد سوم ۲۱۳ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء ایک قسم کے مست ہو جاتے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے.خیر وہاں جو ہوا وہ تو ہوا مشرقی افریقہ کے ایک ملک زمبیا کے ایک وزیر انگلستان میں کسی کامن ویلتھ کا نفرنس کو Attend (اٹنڈ ) کرنے آئے ہوئے تھے.جس روز ہم وہاں سے پاکستان کے لئے روانہ ہور ہے تھے اسی روز انہوں نے بھی روانہ ہونا تھا اور اتفاق کی بات ہے کہ اسی کمرہ میں وہ بھی اپنے جہاز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں ہم نے بھی اپنے جہاز کے انتظار میں بیٹھنا تھا.ان کے ساتھ زمبیا کے ہائی کمشنر اور ان کا آٹھ دس سال کا ایک بچہ بھی تھا.چنانچہ انہوں نے کہا ہم ملنا چاہتے ہیں.میں ان سے ملا اور پانچ سات منٹ تک ان کے ساتھ باتیں کیں.پھر وہ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گئے میں اپنے دوستوں کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا ایک احمدی دوست کو خیال آیا وہ ایک پاؤنڈ کا نوٹ لے کر میرے پاس آگیا کہ اس پر دستخط کر دیں میں اسے اپنے پاس یادگار کے طور پر رکھوں گا.پھر اسے دیکھ کر ایک دوسرا آ گیا اسی طرح آٹھویں ، دسویں نوٹ پر دستخط کر کے جب میں نے سر اٹھایا تو وہ آٹھ دس سال کا حبشی بچہ ہاتھ میں نوٹ لے کر دستخط کروانے کے لئے کھڑا تھا.اس کو خیال آیا یا وزیر کو خیال آیا بہر حال اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کا ان کو ایک نشان دکھانا تھا اور ایسے سامان پیدا کر دیئے مجھے خیال آیا کہ یہ غیر ملکی یہاں میرا مہمان ہی ہے ہماری تو ساری دنیا مہمان ہے نا اس لئے میں اس کے نوٹ کی بجائے اپنے نوٹ پر دستخط کر دیتا ہوں چنانچہ میں نے اپنی جیب سے ایک نوٹ نکالا اور اس پر دستخط کر کے اسے پکڑا دیا یہ تو بالکل معمولی بات تھی پھر کھڑا ہوا اور میں نے اس بچے کو گلے لیا اور اس کو پیار کیا ان کے جہاز نے پہلے جانا تھا اور جب اعلان ہوا کہ اس ہوائی جہاز کے مسافر آ کر ہوائی جہاز میں بیٹھ جائیں تو وہ کھڑے ہوئے اور میرے پاس آگئے.میں بھی کھڑے ہو کر ان سے ملا.اس وزیر کا یہ حال تھا کہ میرا شکر یہ ادا کرتے ہوئے اس کے ہونٹ پھڑ پھڑا رہے تھے.وہ اتنا جذباتی ہوا ہوا تھا.اس نے کہا ہم آپ کے زیر ا حسان اور بہت زیادہ ممنون ہیں پتہ نہیں اور کیا کچھ کہ رہا تھا اور میری آنکھیں مارے شرم کے جھک رہی تھیں.میں دل میں کہتا تھا میں نے تمہیں کیا دیا ہے اسلام کا ایک چھوٹا سا تحفہ ہی ہے نا! جو میں نے تمہیں دیا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ایسا شخص بھی دنیا میں ہے جو ہمارے بچوں کو اس طرح پیار کر سکتا ہے مگراللہ تعالیٰ نے ایک شخص
خطبات ناصر جلد سوم ۲۱۴ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء نہیں ایک قوم پیدا کر دی ہے.جو ان کے بچوں، بڑوں ، بوڑھوں اور جوانوں سے پیار کر رہی ہے اور یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے نباہنے کی ہمیں تو فیق عطا کرے.ویسے میں یہ فقرہ کہنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند کی پیاری جماعت ( اللہ تعالیٰ کا آپ پر سلام ہو ) بے حد قربانی کرنے والی ہے.جب میں افریقہ سے واپس انگلستان آیا تو میری طبیعت میں بڑی بے چینی اور گھبراہٹ تھی اور یہ بے چینی اس وجہ سے تھی کہ کوئی حصہ جماعت کا کہیں کمزوری نہ دکھا جائے.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ پانچواں ملک گیمبیا تھا.جب میں اس ملک کا دورہ کر رہا تھا تو اللہ تعالیٰ کا مجھے یہ منشا معلوم ہوا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ فوری طور پر ان ملکوں میں غلبہ اسلام کے لئے خرچ کرو.ویسے تو جب اللہ تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے تو وہ چیز مل جاتی ہے بعض دفعہ منہ سے کوئی فقرہ نکل جائے تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے عاجز اور حقیر بندے کی عزت رکھنے کے لئے اس کی بات پوری کر دیتا ہے لیکن پھر بھی خطرہ تو رہتا ہے کہ کوئی حصہ جماعت کا کمزوری نہ دکھا جائے مگر میں بڑا خوش ہوا.انگلستان میں ہماری چھوٹی سی جماعت ہے.بچوں سمیت ان کی تعداد شاید پانچ دس ہزار ہی ہوگی.پہلے جمعہ کے دن اور پھر اتوار کو میں مجموعی طور پر قریباً پونے دو گھنٹے یا دو گھنٹے ان کے پاس بیٹھا ہوں.اس دوران ۳۰،۲۸ ہزار پاؤنڈ کے وعدے اور ۴، ۵ ہزار پاؤنڈ نقد رقم جمع ہوگئی جس کو وہیں میں نے نصرت جہاں ریزروفنڈ کا نام دے کر عام جو ہماری مد ہے اس سے علیحدہ مد کھلوا کر جمع کروا دیا اور جو بات میرے منہ سے نکلی وہ یہ تھی کہ قبل اس کے کہ میں انگلستان چھوڑوں دس ہزار سے زائد رقم اس میں جمع ہونی چاہیے ہمارے وہاں کے جو عہدیدار ہیں امام رفیق سمیت ان کو یہ یقین تھا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا اور اسی لئے انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے دس بارہ دن کے بعد آپ جار ہے ہیں.یہ رقم بڑی ہے جو دوست آپ کے سامنے آکر بیٹھے اور جنہوں نے آپ کی باتیں سنی ہیں وہ تو انگلستان کی جماعت کا مشکل سے پانچواں یا چھٹا حصہ ہوں گے بڑی چھوٹی جماعت ہے آپ مجھے ایک ماہ کی مہلت دیں.میں انگلستان کی ساری جماعتوں کا دورہ کروں گا اور پھر امید ہے ایک مہینے میں یہ دس ہزار پاؤنڈ جمع ہو جائیں گے میں نے مسکرا کر انہیں کہا کہ میں آپ کو ایک
خطبات ناصر جلد سوم ۲۱۵ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء دن کی مہلت بھی نہیں دوں گا اور جب میں یہاں سے جاؤں گا تو انشاء اللہ دس ہزار پاؤنڈ سے زیادہ کی رقم اس مد میں جمع ہو چکی ہوگی آپ فکر نہ کریں میں نے ان سے یہی کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے یہ نکلوایا ہے تو وہ آپ ہی اس کا انتظام بھی کرے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک چھوٹا سا فقرہ نظم میں کہا ہوا ہے کہ ے گھر سے تو کچھ نہ لائے.اللہ تعالیٰ کا کام ہے اسی نے توجہ اس طرف پھیری ہے اس کا منشاء مجھے معلوم ہوا ہے اس لئے اس کا انتظام تو ہو جائے گا جب میں نے انگلستان کی جماعت کو یہ تحریک کی جس کا رد عمل بڑا اچھا ہوا تو میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ میں تم سے جو مطالبہ کر رہا ہوں وہ پورا ہوگا یا نہیں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ پورا ہو جائے گا میں نے آدمی بھی بھیجنے ہیں ڈاکٹر بھی اور سکول ٹیچرز.مجھے یہ فکر نہیں کہ یہ آدمی کہاں سے آئیں گے کیونکہ خدا کہتا ہے کہ وہاں آدمی بھیج ، میں نے تو انسان کو پیدا نہیں کیا، اس نے انسان پیدا کئے ہیں، وہ آپ ہی اس کا بھی انتظام کر یگا لیکن جس چیز کی مجھے فکر ہے اور تمہیں بھی فکر کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ محض قربانی دے دینا کافی نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول نہ کر لے سعی مشکور ہونی چاہیے خالی قربانی پیش کر دینا تو کسی کام کا نہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بڑی تفصیل سے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ سینکڑوں آدمیوں کی قربانی (جو وہ دے چکتے ہیں ) پر جب ثواب دینے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس قربانی کو اٹھا کر ان کے منہ پر مارتا ہے کہ تمہارے اندر فلاں کمزوری تھی ، ریاء تھا تکبر تھا، توحید پر پورے طور پر قائم نہیں تھے.میں نے تمہارے مال کو کیا کرنا ہے.کوئی چیز تمہاری قبول نہیں.پس میں نے وہاں اپنے دوستوں سے کہا کہ تم اس کی فکر کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری قربانیوں کو قبول کرے.میں دعا کروں گا اپنے لئے بھی اور تمہارے لئے بھی تم بھی دعائیں کرو پھر مجھے اور فکر پڑ گئی گوا ایک لحاظ سے تسلی بھی تھی بہر حال امام جماعت کو فکر تو رہتی ہے کہ جماعت کے کسی حصے میں بھی کمزوری نہ واقع ہو جائے.اب میں پاکستان میں آیا ہوں اور یہاں میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کے کسی حصے میں کوئی کمزوری نظر آئے چنانچہ آپ کے پاس اخبار الفضل
خطبات ناصر جلد سوم ۲۱۶ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء پہنچا ہوگا اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کیا ہے کہ سترہ دن میں سترہ لاکھ کے وعدے اور دولاکھ سے او پر نقد جمع ہو گیا ہے.ان وعدہ جات میں سے پنجابی میں جسے پنج دونجی کہتے ہیں یعنی ۲/۵ کی فوری ادائیگی کرنی ہے اور فوری سے میری مراد نومبر تک ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اور مجھے یقین ہے ۲/۵ سے کہیں زیادہ نقد نومبر سے پہلے پہلے انشاء اللہ جمع ہو جائے گا.لیکن اس کے باوجود جماعت کا یہ نہایت شاندار رویہ ہے یعنی جب آپ اس چیز کو غیر کے سامنے بیان کریں تو پہلے تو وہ اس کا اعتبار ہی نہیں کرے گا اور وہ کہہ دے گا کہ آپ یونہی گپ ما رہے ہیں اور جب اعتبار کرے گا تو حیران ہو گا اس کی سمجھ میں بھی نہیں آئے گا کہ یہ کیا ہو گیا ہے کیا دنیا میں ایسا بھی ہوا کرتا ہے اسلام کے نام پر ایسا ہونے لگ گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو مسلمانوں میں سے آپ کے ساتھ وہ لوگ شامل ہورہے تھے جنہوں نے اس کی خاطر کبھی ایک دھیلہ بھی نہیں دیا تھا.پھر جب وہ احمدی ہو گئے انہوں نے شروع میں آنہ ماہوار دینا شروع کیا، کسی نے چار آنے ماہوار دینے شروع کئے.کہنے کو تو ایک آنہ یا چار آنے کوئی چیز نہیں لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ اس سے دلوں میں ایک عظیم انقلاب بپا ہو گیا کہ ساری عمر میں کبھی ایک آنہ نہیں دیا تھا لیکن اب ایک آنہ ما ہوار دینا شروع کر دیا.ساری عمر میں کبھی چوٹی نہیں دی تھی اور اب ہر مہینے چوٹی دینی شروع کر دی.تو اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عظیم انقلاب کو نمایاں کرنے کے لئے اور ان کے لئے دعاؤں کے دروازے کھولنے کی خاطر اپنے ان صحابہ کا نام اپنی کتابوں میں لکھ دیا آپ کتابیں پڑھیں تو آپ کو پتہ لگے گا کسی نے آنہ دیا کسی نے چوٹی دی اور کسی نے اٹھنی دی اور کتابوں میں ان کا نام درج ہے قیامت تک جب احمدی اُن کتب کو پڑھیں گے تو ان کے لئے دعائیں کریں گے مگر پھر یہی لوگ تھے کہ جب ایک وقت آیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھے اور انہوں نے آپ سے روحانی تربیت حاصل کی تو انہوں نے بعض دفعہ اپنی ساری جائیداد آپ کے قدموں پر لا کر ڈال دی کہ یہ لیں.خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو آپ اسے قبول کریں یہاں ایبٹ آباد میں ایک دوست نے بتایا
خطبات ناصر جلد سوم ۲۱۷ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء کہ ان کے حلقہ میں ایک صاحب ہیں انہوں نے ساری کتابیں پڑھ لی ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہر بات مانتا ہوں پر میں نے بیعت نہیں کرنی کیونکہ اگر میں نے بیعت کر لی تو تم مجھ سے چندہ لینے لگ جاؤ گے.میں نے ان سے کہا کہ یا وہ یہ بات سچ کہتے ہیں کہ ان کے دل میں احمدیت کی صداقت گھر کر گئی ہے مگر وہ پیسے دینے سے گھبراتے ہیں اور یا وہ آپ سے مذاق کر رہے ہیں.دونوں میں سے ایک بات ضرور ہے میں آپ کو اجازت دیتا ہوں آپ ان سے کہیں کہ یہ بیعت فارم ہے اور اس کے اوپر دستخط کر دیں خواہ ایک پیسہ مہینہ مقرر کر دیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا اگر وہ مذاق کر رہے ہیں تو پتہ لگ جائے گا اور غلط نہی دور ہو جائے گی اور اگر وہ مذاق نہیں کر رہے اور یہ کہنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر وہ ایک پیسہ یا ایک آنہ لکھوا دیں گے وہ اچھے پیسے کما رہے ہیں یعنی درمیانہ درجے کے.بہت زیادہ امیر تو نہیں بہر حال درمیانہ درجے کے ہیں ہمارے جو یہاں سیکریٹریٹ میں بڑے کلرک وغیرہ ہیں اتنی تنخواہ وہ لے رہے ہیں.میں نے کہا آج پیسہ یا آنہ مہینہ دیں گے تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.جب وہ احمدیت میں روحانی طور پر تربیت پالیں گے اور احمدیت کے رنگ میں رنگے جائیں گے تو پھر کسی وقت ایسا وقت ان پر بھی آسکتا ہے جیسا کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر آیا تھا کہ وہ آ کر کہیں یہ لیں سارا مال اسے خدا کی راہ میں خرچ کر دیں.اب دیکھیں کیا ہوتا ہے آپ یہ دعا کریں کہ بجائے اس کے کہ وہ پیچھے ہٹیں وہ پیسہ لکھوا کر بیعت فارم پر دستخط کر دیں.پس ہمیں یہاں پاکستان میں ویسے جائزہ لیتے رہنا چاہیے یہ امیر جماعت کا فرض ہے کہ وہ دیکھے ہماری جماعت کی کوئی پاکٹ کمزوری دکھانے والی تو نہیں.ویسے تو بحیثیت مجموعی سترہ دن میں سترہ لاکھ کے وعدے اور دولاکھ کے اوپر نقد رقم کا جمع ہو جانا تسلی بخش ہے جب کہ یہ آواز ابھی تک دیہاتی جماعتوں تک پوری طرح نہیں پہنچی جن میں احمدیت کی اکثریت ہے اور ان کے لئے ابھی موقعہ بھی نہیں کیونکہ وہ گندم تو پیج باج کرختم کر چکے ہیں اور خریف کی فصلوں کا وقت ابھی آیا نہیں.فوری ادائیگی کے لئے نومبر تک کی حد مقرر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعض دوستوں نے کہا کہ زمینداروں کو اس وقت ادا کرنے میں سہولت رہے گی.بہر حال دل تو یہ کرتا ہے کہ آپ خلافت احمد یہ
خطبات ناصر جلد سوم ۲۱۸ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء کو اس طرح منائیں کہ جو ۶۲ سال احمدیت کی خلافت پر گزرے ہیں ۲۲ لاکھ روپے جمع ہو جا ئیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو جائے.جس طرح یہاں کی رپورٹیں بڑی خوشکن ہیں اسی طرح وہاں کی رپورٹیں بھی بڑی خوشکن ہیں میں نے بتایا ہے کہ سکو تو کے گورنر نے حکم دے کر ۴۰،۴۰ ایکٹر زمین ہمارے سکولوں کے لئے دی ہے اس کے علاوہ ہسپتال کھولنے کے لئے ( جس کو وہاں ہیلتھ سنٹر کہتے ہیں ) بھی لوگ تعاون کر رہے ہیں غانا کے ایک پیرا ماؤنٹ چیف نے زمین کا ایک بہت بڑا قطعہ دیا ہے جس میں ایک کافی بڑی عمارت بھی بنی ہوئی ہے جو ہسپتال کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے.اس نے کہا ہے کہ یہ لے لو اور یہاں ڈاکٹر بھیجو.اسی طرح اس دورہ کے بعد پڑھے لکھے لوگوں کو احمدیت میں بڑی توجہ ہوگئی ہے.نائیجیریا میں آبادان جو کہ بہت بڑا مسلم ٹاؤن ہے اس کی آبادی دس بارہ لاکھ ہے اور ۹۵ فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اس کے قریب اس عرصہ میں ۱۳ نئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں انہوں نے آبادان میں ہماری جماعت کے صدر کو جو افریقن ہیں خود بلایا کہ اس علاقے کے مختلف قصبوں کے لوگ فلاں وقت اکٹھے ہوں گے وہ آپ سے تبادلہ خیالات کرنا چاہتے ہیں چنانچہ وہاں دو تین گھنٹے کے تبادلہ خیالات کے بعد ان تیرہ قصبوں کے ۴۰ سے زیادہ آدمیوں نے بیعت کر لی.وہاں احمدیت کی طرف بڑا رجحان پیدا ہو گیا ہے اور بھی کئی جگہ سے رپورٹیں آئی ہیں مثلاً سیرالیون میں بھی پانچ نئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں یہ بھی رپورٹ آئی ہے کہ نارتھ کے علاقے میں بہت توجہ پیدا ہوگئی ہے.امید ہے وہاں بھی بہت سی نئی جماعتیں قائم ہو جائیں گی.وہاں وہی کچھ ہورہا ہے اللہ تعالیٰ نے جس طرح یہاں شروع میں کیا تھا.اب تو ہم اسلام آباد میں بھی مَا شَاءَ اللہ بہت سے احمدی بیٹھے ہیں بدر کے وقت مسلمانوں کی جو تعداد تھی کام کرنے والوں کی اس سے زیادہ مَا شَاءَ اللهُ صرف اسلام آباد کی تعداد ہے لیکن شروع میں پہلے ابتداء اس طرح کی اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت معلوم ہوتی ہے کہ کہیں ایک گھر احمدی ہو گیا کہیں دو گھر احمدی ہوگئے.پھر انہوں نے ماریں کھائیں ، انہیں جو تیاں پڑیں ، گالیاں دی گئیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر قسم کی آگ میں سے گزارا
خطبات ناصر جلد سوم ۲۱۹ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء اور ہر آگ جو ان کے لیے جلائی جاتی تھی.ان کے کان میں اللہ تعالیٰ کی یہ پیاری آواز آتی تھی کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.غرض حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند کے غلاموں کو سینکڑوں بلکہ لاکھوں دفعہ آگ میں سے گزرنا پڑا اور وہ آگ ان کے لئے پھول بن گئی.ان کے جلانے کا باعث نہیں بنی.وہاں مجھے ایک دن خیال آیا میں نے سیرالیون کا نقشہ سامنے رکھا اور وہاں ہمارے جو دو تین مبلغ ہیں ان سے میں نے کہا کہ جہاں جہاں احمدی ہیں وہ جگہیں مجھے بتاؤ تا کہ میں نقشے پر نشان کروں چنانچہ انہوں نے سر جوڑا.کوئی آدھے پونے گھنٹے کے بعد انہوں نے مجھے مختلف جگہوں کے نام بتائے.میں نے ان پر نشان لگا دیئے اور اس کے گھنٹے دو گھنٹے بعد جماعت سے ملاقات تھی.میں ان سے پوچھتا تھا آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ اگر چہ سارے نام تو حافظے میں یاد نہیں رہ سکتے تھے پھر نام بھی غیر ملکی تھے لیکن میں نے اندازہ لگایا کہ یہ بیسیوں ایسی جماعتوں کے نام بتا رہے ہیں جو مبلغوں نے مجھے نقشے پر نہیں بتائے تھے اور پھر یہ جماعتیں یوں بکھری ہوئی ہیں جس طرح ۲۰ ہزارفٹ کی بلندی سے گندم کے دانے ہوائی جہاز سے پھینکے جائیں تو وہ مختلف جگہوں میں بکھر جاتے ہیں.اسی طرح وہاں ہماری جماعت بھی بکھری ہوئی ہے بالکل بارڈر تک یوں ہر جگہ ایک چکر لگا ہوا ہے جماعتوں کا کہیں کم ہیں اور کہیں زیادہ ہیں لیکن ہر جگہ پہنچے ہوئے ہیں.اب غانا میں وا کی ہماری بڑی مخلص پگڑیاں پہنے والی جماعت ہے.وہ جماعت احمدیہ کی وجہ سے پگڑیاں نہیں پہنتے بلکہ اس علاقے میں پہلے سے پگڑیاں پہنے کا رواج ہے.بلکہ ہماری طرح وہ طرہ دار پگڑیاں پہنتے ہیں.وہاں ہمارا عربی کا ایک ٹریننگ سکول بھی ہے اور اس جماعت نے سکول کے لئے زمین کا ایک بہت بڑا قطعہ بھی دیا ہے.میں نے ان کو لکھا ہے کہ میں کلینک بھی بنواؤں گا اس کے لئے مجھے رپورٹ کرو.اب یہ حالات ہیں.بعض دفعہ میں اس وجہ سے پریشان ہو جاتا ہوں یہ پریشانی میرے لئے ہے اس کے بغیر چارہ نہیں ہے.ویسے اللہ تعالیٰ کے وہاں بھی فضل دیکھے یہاں بھی فضل دیکھے.آپ کے دلوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے یوں اپنے قبضہ میں لیا اور اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے سامان پیدا
خطبات ناصر جلد سوم ۲۲۰ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء کر دیئے.پریشانی اس طرح ہوتی ہے کہ ہماری بات، ہمارے حالات وہاں پہنچنے میں بعض دفعہ مہینہ لگ جاتا ہے اور وہاں بہت ساری جگہوں میں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ مثلاً پاکستان اور انگلستان میں کیا ہورہا ہے وہ مجھے ڈر ڈر کر لکھتے ہیں کہ یہاں فلاں جگہ بھی ہسپتال کھل سکتا ہے.فلاں جگہ بھی سکول کھل سکتا ہے آدمیوں کا انتظام اور یہ اور وہ.انہیں یہ خیال ہے کہ شاید پیسے نہ ہوں انتظام نہ ہو سکے.شاید آدمی میسر نہ آئیں.میں انہیں خط لکھ رہا ہوں پتہ نہیں کتنے دنوں کے بعد انہیں پہنچتا ہے.ہمارے اپنے بعض خطوط ۲۰، ۲۵ دن تک بھی وہاں نہیں پہنچے تھے بعد میں چکر لگا کر ہمارے پاس یہاں پہنچے ہیں.ان کو میں نے لکھ بھیجا ہے کہ میرے پاس سب کچھ ہے.اللہ تعالیٰ نے روپیہ بھی دے دیا ہے آدمی بھی دے دیئے ہیں تم دوڑنے کی کوشش کرو، اب چلنا ہمارے لئے کافی نہیں اب دوڑنے کا وقت آگیا ہے پس میں یہ چاہتا ہوں اور آپ سے بھی یہ توقع رکھتا ہوں کہ آپ بھی میری اس دعا میں اپنی دعاؤں کو شامل کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ سامان پیدا کر دے کہ سال ڈیڑھ سال کے اندر کم از کم ۳۰ میڈیکل کلینک وہاں ان ملکوں میں کھول دیئے جائیں اس لئے کہ میڈیکل سنٹر یا ہیلتھ سنٹر جو ہے وہ ہمارے کام کرنے کی دراصل بنیاد بنتا ہے ہر ایک کلینک اوسطاً اڑ ہائی ہزار پاؤنڈ سالانہ کما رہا ہے یعنی سارے اخراجات کے بعد اتنی سیونگ ہورہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس ملک میں ہمارے چار سنٹر ہیں وہاں دس ہزار پاؤنڈ کی سیونگ ہوتی ہے.پھر ہمیں یہ فکر نہیں رہتی کہ دنیا کے حالات بدل رہے ہیں بہت سارے ملکوں میں آزادی تھی کہ اس ملک کی کرنسی جہاں اور جتنی مرضی ہو باہر بھیج دو مگر اب وہ پابندیاں لگا رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ ایک اور عالمگیر جنگ جو اس وقت Horizon (ہوریزن ) پر نظر آرہی ہے اس کی وجہ سے کوئی ایسا وقت آ جائے کہ ہم باہر سے ایک پیسہ بھی وہاں بھجوا نہ سکیں اس لئے ان ملکوں میں ہماری آمد کے ذرائع پیدا ہونے چاہئیں اور یہ تو ہم خرما و ہم ثواب والی بات ہے.ہم ان کی خدمت بھی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں پیسے بھی دیتا ہے اور ان کو بھی پتہ ہے اور ہمیں بھی پتہ ہے کہ ہم نے یہ پیسے باہر لے کر نہیں جانے ان کے ملکوں ہی میں خرچ کر دیں گے.پس وہاں کے مبلغوں کی تنخواہیں ہیں اور وہاں کے سکولوں کے ابتدائی اخراجات ہیں کیونکہ وہاں کے سکول پہلے دو سال میں خرچ
خطبات ناصر جلد سوم ۲۲۱ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء مانگتے ہیں پھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں.ہاں ایک چیز رہ گئی ہے اور وہ بھی بڑی ضروری ہے اور بڑی عجیب ہے میں نے ان کے معاشرہ کی جو خصوصیات دیکھیں ان میں میں نے یہ بھی دیکھا اور میں یہ دیکھ کر بڑا خوش ہوا کہ ان ملکوں کی حکومتوں کو اپنے سکولوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی طرف بے انتہا تو جہ ہے میں بغیر کسی مبالغہ کے کہہ سکتا ہوں کہ جتنی توجہ وہ اپنے سکولوں کی طرف دیتے ہیں اس کا سواں حصہ بھی ہمارے ملک میں سکولوں کی طرف نہیں دیا جا رہا.وہاں ہمارے اپنے سکول ہیں.میرا خیال ہے کہ ۹۹ فیصد پاکستان کے گورنمنٹ کالجز کی لیبارٹریز اتنی اچھی Equipped ( سامان سے آراستہ) نہیں جتنی اچھی وہاں ہمارے ہائر سیکنڈری سکولز کی لیباریٹریز ہیں.سارا خرچ حکومت دیتی ہے اور پھر ہمیں اپنی پالیسی چلانے کی بھی اجازت ہے.سکولوں کے سٹاف کی ساری تنخواہیں حکومت دے رہی ہے مثلاً سیرالیون میں ہمارے چار سکول ہیں ( اور جگہوں پر بھی ہیں ) ان چاروں سکولوں کے سارے سٹاف کی تنخواہیں حکومت دیتی ہے اور اب وہ بعض دفعہ عیسائی ٹیچر بھی مقرر کر دیتے ہیں لیکن تربیت کے لحاظ سے، دینیات پڑھانے کے لحاظ سے ہماری پالیسی چل رہی ہے مثلاً فری ٹاؤن کے سکول کے اساتذہ میں میرے خیال میں پانچ چھ غیر احمدی ہیں یہ میں نے پتہ نہیں لیا ان میں کوئی عیسائی بھی ہے یا نہیں البتہ کماسی میں تین چار عیسائی بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے فری ٹاؤن کے سکول کی آخری کلاس جو ۲۷ لڑکوں پر مشتمل تھی جب امتحان پاس کر کے نکلی تو ساروں کے ساروں نے بلا استثنا بیعت فارم پر دستخط کئے اور اپنے سرٹیفکیٹ لے کر گھروں کو چلے گئے پس پیسے وہ خرچ کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کام ہمارے کئے جا رہا ہے لیکن یہ تو علیحدہ معاملہ ہے اس پر شاید یہاں سمجھ آنے میں کچھ دیر لگے اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ عطا کرے لیکن یہ کہ سکول اچھا ہو سٹاف اچھا ہواس طرف ان کو تو جہ ہے اس وجہ سے ایک وزیر ہمارے پر نسپل کو کہنے لگے کہ لوگ ہماری بوٹیاں نوچ رہے ہیں کہ اس سکول کو کہو کہ زیادہ لڑکوں کو داخل کرے کیونکہ وہ اپنے لڑکوں کو کسی اور سکول کی بجائے وہاں داخل کروانا چاہتے ہیں ہوا یہ تھا کہ حکومت نے یہ قانون بنایا کہ کسی ہائی سکول میں جو کہ پانچ سالہ کورس کا ہے یعنی ہائر سیکنڈری سکول میں ۳۵۰ یا ۳۶۰ سے زیادہ لڑ کے داخل نہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۲۲۲ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء کئے جائیں گے چنانچہ اس کا اعلان کر دیا گیا لوگوں نے شور مچا دیا کہ حکومت کا یہ قانون احمد یہ سکولوں پر لاگو نہ کیا جائے چنانچہ حکومت کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہمارا یہ قانون احمد یہ سکولوں پر نہیں لگے گا اور حد مقرر ہوئی ہے تقریباً ساڑھے تین سو کی اور فری ٹاؤن کے ہیڈ ماسٹر پر زور دے رہے ہیں کہ اس Admission ( داخلہ) کے وقت جو غالباً یہاں کی طرح ستمبر اکتوبر میں ہوتی ہے ساڑھے چھ سولڑ کا داخل کر دور نہ لوگ ہمیں تنگ کریں گے اور اس کے لئے انتظام کرو.سٹاف جتنا چاہیے وہ لو اور کمرے بنوانے کی ضرورت ہو تو کمرے بنواؤ.پیسے تو وہاں کی حکومت ہی دیتی ہے یا جو ہم Save( بچت) کرتے ہیں وہ وہاں لگا دیتے ہیں لیکن اس کا بہت بڑا بار جو ہے وہ حکومت خود اٹھا لیتی ہے یعنی ہمارا اپنا سکول ہے ہم وہاں تبلیغ کر رہے ہیں اور وہاں اسلام کے غلبہ کے لئے نوجوان نسل کو تیاری کروا ر ہے ہیں خرچ حکومت دے رہی ہے اور پھر ساتھ ممنون بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہمارے ماڈل سکول ہیں ایک پیرا ماؤنٹ چیف ( یعنی علاقے کا رئیس آپ سمجھ لیں ) کا بچہ پڑھتا نہیں ہوگا اسے کہا کہ اگر تم مڈل میں اچھے نمبر لے کر پاس ہو گئے تو تمہیں ہائر سیکنڈری سکول میں داخل کروا دوں گا اسی سال کی بات ہے کہ اس نے امتحان دیا ہوا ہے پتہ نہیں نتیجہ نکلا ہے یا نہیں ایک دن وہ اپنے باپ سے کہنے لگا کہ ابا آپ کو یاد ہے آپ کا مجھ سے وعدہ ہے کہ اگر میں اچھے نمبر لے کر پاس ہو گیا تو آپ مجھے ہائر سکینڈری سکول میں تعلیم دلوائیں گے انہوں نے کہا ہاں مجھے یاد ہے کہنے لگا کہ پھر یا درکھیں میں احمدیہ میں داخل ہوں گا اور کسی سکول میں داخل نہیں ہوں گا وہاں ہمارے سکول احمد یہ سکول نہیں کہلاتے بلکہ عام محاورے کے لحاظ.صرف احمد یہ “ کہلاتے ہیں.اس کا یہ کہنا کہ میں احمدیہ میں داخل ہوں گا کسی اور سکول میں داخل نہیں ہونگا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے سکولوں کی بڑی مقبولیت ہے اگلی نسل کے دلوں میں بھی اور بڑوں کے دلوں میں بھی میں نے بتایا ہے کہ وزراء سفارشیں لے کر جاتے ہیں اور یہ تو ان کے معاشرہ کے حسین ہونے کی دلیل ہے یعنی ایک وزیر اور سکول کے ایک پرنسپل میں کوئی فرق نہیں یہاں تو میرے خیال میں کسی وزیر صاحب کے پاس جانا آسان نہیں اب تو مارشل لا ء ہے سول حکومت آئے گی تو دیکھیں گے وہ کیا کرتی ہے؟ پہلی سول حکومتیں تو یہی کیا کرتی تھیں کہ وہ سکول کے ہیڈ ما سٹرکو
خطبات ناصر جلد سوم ۲۲۳ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء ملاقات کا وقت تو کیا بڑے اچھے اچھے کالجوں کے پرنسپل کو بھی ملنے کے لئے کئی دن دھکے کھانے پڑتے تھے.یہ ہماری تصویر ہے اور ان کی تصویر یہ ہے کہ وزیر سکول میں آ رہا ہے اور سفارش لے کر آرہا ہے کہ لڑکے کو ضرور داخل کرنا ہے اور ایک دو نہیں بلکہ ایک ایک دن میں چھ چھ وزیر آرہے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو کوئی جھجک نہیں.بڑے سادہ معاشرہ میں زندگی کے دن گزار ہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مبارک کرے اور بھی زیادہ سادگی پیدا کرے.وہاں کبھی بھی بڑے اور چھوٹے کا فرق پیدا نہ ہو.غرض ان ملکوں میں حکومت کو سکولوں کی طرف بڑی توجہ رہتی ہے میں نے گیمبیا میں ان کے معاشرہ کے لحاظ سے اپنے ایک دوست سے کہا کہ یہاں کے وزیر تعلیم جو وزیر صحت بھی ہیں انہیں میرے پاس لے کر آؤ، میں نے ان سے باتیں کرنی ہیں خیر وہ آگئے میں ان سے کہوں کہ میں نے پہلے یہاں میڈیکل سنٹر ز کھولنے ہیں کیونکہ میرے ذہن میں تو یہ تھا کہ یہاں مجھے آمد کا ایک ذریعہ بنادینا چاہیے لیکن وہ یہ کہیں کہ ہمارا ملک تعلیم میں بہت پیچھے ہے آپ یہاں پہلے ہائی سکول کھولیں اور ہائی سکول کھولنے پر پہلے سال چار پانچ ہزار پاؤنڈ ا اپنے پاس سے خرچ کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد حکومت مدد دینا شروع کر دیتی ہے میں نے انہیں کہا دیکھیں ! آپ میرے ساتھ تعاون کریں اور جیسا کہ میں نے پروگرام بنایا ہے چار نئے میڈیکل سنٹرز یہاں کھلنے دیں اور اس سلسلہ میں ہمارے ساتھ پورا تعاون کریں اور میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے ہمیں یہ سہولتیں دے دیں یعنی زمین اور ڈاکٹروں کے لئے انٹری پرمٹ تو ہم انشاء اللہ ہر سال ایک نیا ہائی سکول کھولتے چلے جائیں گے.گیمبیا تعلیم میں اتنا پیچھے ہے کہ جب میں وہاں گیا تو مجھے خیال آیا کہ میں ان سے کہوں کہ وہاں یونیورسٹی نہیں تم یو نیورسٹی بناؤ نصف نصف بار ہم تقسیم کرلیں گے وزیر تعلیم ہنس پڑے کہنے لگے کہ ہمارے ملک کی ٹوٹل پاپولیشن میں سے دسویں جماعت کے طلباء کی تعداد صرف ایک ہزار ہے سارے ملک میں سے ایک ہزار لٹر کا دسویں جماعت کے امتحان میں بیٹھتا ہے ہم یو نیورسٹی کس برتے پر بنا سکتے ہیں اس لئے پہلے آپ ہائی سکول کھول دیں میں نے ان سے کہا کہ وہ تو انشاء اللہ کھل جائیں گے خدا کرے کہ ۱۰،۸ سال کے بعد وہ ملک اس قابل ہو جائے کہ وہاں ایک یو نیورسٹی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہو اور ہمیں ۵۰ فیصدی کا بوجھ حکومت کے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۲۴ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء کندھوں پر ڈالنے کی ضرورت پیش نہ آئے یہ بوجھ بھی ہم خود ہی برداشت کر لیں اور وہاں ایک یو نیورسٹی کھول دیں اللہ تعالیٰ سے کوئی بعید نہیں آپ الحمد للہ بہت بڑھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک حسین اور عظیم رنگ میں ایک چھوٹے سے منصوبہ کے لئے قربانی کرنے کی توفیق عطا کی ہے اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول فرمائے اور پھر یہ بھی دعا کریں کہ جو خو بصورت اور حسین شکل مجموعی طور پر پاکستان میں بنی ہے ہر شہر اور ہر قصبے کی وہی خوبصورتی قائم رہے.ہمیں کسی جگہ بھی کوئی کمزوری نظر نہ آئے.بعض دفعہ راولپنڈی اور اسلام آباد مالی قربانی میں کمزوری دکھا جاتے ہیں میں نے بڑا غور کیا ہے اور بڑی دعا ئیں بھی کی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ مجھے اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی بڑی مخلص جماعت ہے ہر طرح قربانیاں دیتی ہے کہیں کوئی خرابی ہے کہاں ہے؟ وہ میں Pin Point ( پن پوائنٹ ) نہیں کر سکا یعنی اس کے اوپر انگلی نہیں رکھ سکا خدا کرے وہ کمزوری جہاں بھی ہے وہ دور ہو جائے ایک چیز تو یہ ہے ممکن ہے اسی کا اثر ہو کہ یہاں کے عہد یدار جماعت کو اپنے اعتماد میں نہیں لیتے یہ بڑی سخت غلطی ہے یہ ایک آدمی یا آدمیوں کا کام نہیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم انسان تو نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ پیدا ہو سکتا ہے انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے دل میں بشاشت پیدا کرنے کے لئے یہ حکم دیا شَاوِرُهُم في الأمر (ال عمران :۱۶۰ ) کہ مشورہ میں ان کو شریک کر و حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی فراست اپنے مقام اور اس زندہ تعلق کی وجہ سے جو آپ کو ہر وقت اپنے رب کے ساتھ تھا کسی اور کے مشورہ کی آپ کو ضرورت نہیں تھی وہ عَلَامُ الْغُيُوبِ اور ہادی برحق ہر وقت آپ کو مشورہ اور ہدایت دیتا تھا.سارا قرآن کریم یہی ہے یہ ہمارا ہدایت نامہ ہے لیکن حکم یہی دیا شاوِرُهُمْ فِي الأمر اور ایک اور بات میں آپ کو بتادوں مجھے اس کا بڑی شدت سے احساس ہے میں نے وہاں جب کمیٹی بنائی ”نصرت جہاں ریز روفنڈ“ کے اکاؤنٹ کو اوپر بیٹ کرنے کے لئے تو ان سے میں نے کہا کہ اس کمیٹی میں ایک نو جوان ضرور رکھوں گا.اگلی نسل کو یہ پتہ لگنا چاہیے کہ ہماری بھی ذمہ داری ہے اور ہماری بھی Contributions ( کنٹری بیوشنر ) ہیں صرف بڑوں کا یہ کام نہیں ہے نو جوان نسل ساتھ شامل ہونی چاہیے.چنانچہ اس
خطبات ناصر جلد سوم ۲۲۵ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء سہ رکنی کمیٹی میں ایک نوجوان کو نامزد کر کے اس کا اعلان کر دیا تاہم یہ مستقل نہیں ہے ہر سال میں بدل دیا کروں گا تا کہ دوسرے نو جوان آگے آئیں پھر ان کی عزت افزائی ہوگی اور کام کرنے اور ثواب کمانے کا موقع ملے گا.پس جہاں جہاں بھی ہمارے نظام قائم ہیں ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے میں سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں میں سے ۳۰ فیصدی کو اپنے مشوروں میں اور دوسرے جماعتی کاموں میں شامل کریں ورنہ اگلی نسل کو یہ پتہ ہی نہیں لگے گا کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور انہیں کس طرح نباہنا ہے؟ اور ذمہ داریوں کو نباہ کر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے انعامات کس رنگ میں اور کن شکلوں میں نازل ہوتے ہیں ہم نے نسلاً بعد نسل خدا تعالیٰ کے فضلوں سے اپنے نو جوانوں کو متعارف کرواتے چلے جانا ہے انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے تبھی متعارف ہوتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ بڑا ہی پیار کرنے والا ہے.وہ جو خلوص نیت کے ساتھ اس کی راہ میں اپنے نفس کو پیش کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو اس رنگ میں پاتے ہیں کہ انسانی دماغ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.بیسیوں چیزیں ہیں کہ جنہیں ان نعمتوں کو حاصل کرنے والا بیان نہیں کر سکتا یعنی اس کو اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ بیان کرے اس رنگ میں اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے ضرورت کے وقت بعض چیزوں کو بتانا بھی پڑتا ہے لیکن ایسی بے شمار چیزیں ہیں کہ جن کے بتانے کی نہ ضرورت ہے اور نہ اجازت ہے بہت ساروں کی اجازت نہیں ہوتی پس یہ جو ہماری نوجوان نسل ہے اس کو اپنے جماعتی کاموں میں شامل کرو تا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول میں شامل ہوں ان کو پتہ لگے کہ قربانیاں ہیں کیا چیز؟ دنیا ہے کیا چیز ؟ دنیا کے ھوے ہمیں ڈرا نہیں سکتے.کب اور کس نے یہ توفیق پائی کہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف جماعت احمدیہ کو ہلاک کر دے؟ کسی نے بھی یہ توفیق نہیں پائی انٹی سال سے دنیا اکٹھی ہو کر ہمیں مٹانے کی کوشش کر رہی ہے.میں نے افریقہ والوں سے بھی یہ کہا اور وہ یہ سن کر بڑے خوش ہوئے کہ انٹی سال سے ساری دنیا کی طاقتیں اکٹھی ہوکر اس ایک آواز کو خاموش کرنے کے پیچھے لگی ہوئی ہیں جو یکہ و تنہا تھی جب وہ آواز اٹھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لیکن دنیا اسے خاموش نہیں کر سکی تمہاری آواز میں اسی آواز
خطبات ناصر جلد سوم ۲۲۶ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء کی بازگشت ہیں جو میں سن رہا ہوں.اس لئے میں خوش ہوں پس ایسا کبھی نہیں ہوگا اور نہ ہو سکتا ہے کہ وہ آواز خاموش کرا دی جائے لیکن جو فرداً فرداً اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں وہ ہماریYoung Generation ( ینگ جزیشن ) یعنی نو جوانوں کو معلوم ہونے چاہئیں کہ اس میں کیا لذت اور کیا سرور اور کیا مزہ ہے! تا کہ وہ ساری دنیا سے بے پرواہ ہوکر اور بے خوف ہوکر قربانیوں اور ایثار کے میدان میں آگے آئیں اور وہ کام انجام پائے جو مشروط طور پر ہوتا ہے کہ تم قربانی دو گے تو انعام ملے گا ور نہ قرآن کہتا ہے کہ اللہ ایک اور قوم کو لائے گا جوان نعمتوں کی وارث بنے گی.پس جو نعمتیں ایک عام اندازہ کے مطابق اس رنگ میں اور اس شان کے ساتھ آج سے ۲۰ سال بعد ہمیں ملنی ہیں وہ نو جوانوں کی جوانی کے جوش اور قربانی اور ایثار کے نتیجہ میں ۲۰ سال کی بجائے دس سال کے بعد مل جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور عقل اور ذمہ داری کا احساس دے اور دعا کی توفیق دے اور بے نفس اپنی جانوں کو اس کے حضور پیش کرنے کی طاقت دے اور جو چھوٹی سی قربانیاں تھوڑی تھوڑی سی ہم پیش کر رہے ہیں ان کو وہ قبول کرے اور اپنی بشارتوں کے مطابق ان کے نتائج نکالے.ان قربانیوں کے نتائج ان قربانیوں کے حجم کے مطابق نہ ہوں بلکہ ان بشارتوں کے مطابق ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ خدائے قادر و توانا سے ہم نے پائی ہیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو میری طبیعت پر یہ اثر ہے.لندن میں بھی میں نے کہا تھا اور یہ کہنے پر مجبور ہو گیا تھا، میں سوچتا ہوں تو میرے دل کی کیفیت یہ ہوتی ہے.بع گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار غلبہ اسلام کے دن مجھے Horizon (افق) پر نظر آ رہے ہیں.یہ سورج انشاء اللہ طلوع ہوگا اور نصف النہار پر پہنچے گا اور بہت جلدی پہنچے گا لیکن اس سورج کی تپش کے ذریعہ سے گناہ کی خنکی سے بچنے کے سامان اللہ تعالیٰ پیدا کرے تبھی ہمیں فائدہ ہے اور جو توانائی اس مادی دنیا کو سورج کی شعاعیں دے رہی ہیں.روحانی سورج کی شعاعیں ہماری روحانی دنیا میں ہمیں ان فیوض کا اہل پائیں اور ہمیں وہ اتنی ملیں اتنی ملیں کہ ہم حقیقتا اور واقعہ میں صحابہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۲۷ خطبہ جمعہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۷۰ء ساتھ شامل ہو جا ئیں جیسا کہ ہمیں وعدہ دیا گیا ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران میں فرمایا :.ایک تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں (جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کراؤں گا اور عصر کی نماز دو رکعتیں پڑھاؤں گا جو باہر سے دوست آئے ہوئے ہوں وہ بھی قصر کریں مقامی دوست جس میں راولپنڈی اور اسلام آباد دونوں شامل ہیں.وہ اپنی چار رکعتیں پوری کریں.دوسرے یہ کہ خدا معلوم کس وجہ سے تین دن سے مجھے Low blood pressure ( لو بلڈ پریشر ) کی پھر سے تکلیف ہوگئی ہے.۱۰۸، ۱۱۰ تک خون کا دباؤ رہا ہے جس سے کافی تکلیف اور گھبراہٹ رہتی تھی.کل شام سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے افاقہ ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت سے رکھے اور کام کرنے کی توفیق دے اسی کی توفیق سے کام کیا جا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ پر بھی اور مجھ پر بھی اپنے فضل نازل فرمائے.(روز نامه الفضل ربوه ۲۱ را پریل ۱۹۷۱ء صفحه ۲ تا۱۱)
خطبات ناصر جلد سوم ۲۲۹ خطبہ جمعہ ۱۷ / جولائی ۱۹۷۰ء حضرت نبی کریم کو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا کہ محمد اور احمد کے دو جلوے تیرے روحانی وجود سے دنیا دیکھے گی خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷ جولائی ۱۹۷۰ ء سعید ہاؤس.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.لَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَالْآخِرَةِ (القصص : ١ ) قرآن کریم کی آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جس حمد کی طرف یہ آیہ کریمہ اشارہ کر رہی ہے وہ سورہ فاتحہ میں بیان ہونے والی حمد ہے.سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة : ۲ تا ۴.کہ اللہ تعالیٰ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ اپنی ان چار بنیادی صفات کا مظاہرہ کرنے والا ہے اور جب ساری دنیا ان صفات کے جلوے مشاہدہ کرے گی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے گی کہ تمام صفات کی مستحق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفت رحمان کا مظہر بنے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام محمد رکھا اور جب آپ صفت رحیم کے مظہر بنے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام احمد رکھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ وعدہ فرمایا کہ وہ دو زمانوں میں آپ کی شریعت کو تمام دنیا پر غالب کرے گا.
خطبات ناصر جلد سوم ۲۳۰ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء شروع زمانہ اسلام میں آپ کے وجود میں محمدیت کے جلووں کا ظہور ہوا یعنی اللہ تعالیٰ کا جلال اور اس کا قہر دنیا پر نازل ہوا.اصل تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے جب اس کا قہر اور جلال نازل ہوتا ہے تو وہ بھی رحمت ہی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور جلالت کا یہ جلوہ ہے کہ اس نے انسان کو اجازت دی کہ وہ اپنے جسم کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے بکرے یا نبے یا مرغی یا دوسرے حلال اور طیب جانوروں کو ذبح کرے اور اُن کی جان لے.پس ایک طرف ایک پہلو سے اللہ تعالیٰ کے جلال کا جلوہ ہے کہ ایک جان اس کے حکم اور اجازت سے لی گئی اور دوسری طرف اس کی رحمت کا جلوہ ہے کہ وہ جسے اس نے اشرف المخلوقات بنایا تھا اس کی جان کی حفاظت کے لئے اور اس پر رحم کرتے ہوئے دوسری مخلوقات میں سے جانیں تلف کروائیں جو کیڑے مثلاً بھیڑ کے معدے میں پیدا ہو جاتے ہیں اور اس کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں ان کیڑوں کو مارنے کی اجازت دی اور اس کے لئے سامان پیدا کئے اور دنیا میں ایسی دوائیں بنائیں جس کے نتیجہ میں وہ کیڑے مر سکتے ہیں تا کہ اس طرح کیڑے کے مقابلہ میں بھیٹر جو کہ اشرف مخلوق ہے اس کی زندگی کو محفوظ رکھا جائے ویسے اشرف المخلوقات تو صرف انسان ہے اور اسی نسبت سے جانداروں کے شرف کو قائم کیا جاتا ہے کیڑے انسانی جسم کے لئے مفید نہیں لیکن بھیڑ کا گوشت انسانی جسم سے زیادہ مناسبت رکھتا اور اس کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک مفید چیز ہے.بھیڑ کی جان کو بچانے کے لئے کیڑوں کو تلف کر دیا.اب یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور اس کے جلال اور قہر کا جلوہ ہے اور بھیڑ کی حفاظت کی اور انسان کے لئے ایک طیب گوشت کی حفاظت کی یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے جلال اور رحمانیت کا جلوہ ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا کہ محمد اور احمد کے دو جلوے تیرے روحانی وجود سے دنیا دیکھے گی وہ عظیم جلوے کہ جن کے نور سے ساری دنیا منور ہوگی اور جس کے روحانی فیوض سے ساری دنیا مستفیض ہوگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام کے ابتدائی دور میں محمد کے جلوے دنیا نے دیکھئے آپ کے نفس میں بھی دیکھے اور آپ کے متبعین کے نفوس میں بھی دنیا نے یہ جلوے دیکھے.دنیا
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء نے اس وقت اللہ تعالیٰ کے قہر اور جلال کے مقابلے میں اپنے قہر اور جلال کو دکھانا چاہا تب وہ اللہ تعالیٰ کے قہر اور جلال سے تباہ ہو گئے یہ خدائی قہر کا جلوہ ان کے خلاف تھا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو مٹانا چاہا اور خدائی محبت کا جلوہ ان لوگوں کے حق میں تھا جنہوں نے خدا تعالیٰ کے مقابلے پر آنے والی شیطانی طاقتوں کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانوں کو اس کی راہ میں قربان کیا اور اس طرح وہ ابدی حیات کے وارث بنے اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو پایا اور اس کی جنتوں میں اپنا ٹھکانا بنایا.پس ایک پہلو سے یہ قہر کا جلوہ ہے اور دوسرے پہلو سے یہ انتہائی فضل اور رحمت اور پیار اور رضا کا جلوہ ہمیں نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وعدہ بھی دیا کہ اسلام ایک وقت کے بعد کمزور ہو جائے گا اور دنیا کی سب طاقتیں اکٹھی ہو کر اس پر آخری ضرب لگانے کا منصوبہ بنائیں گی اور سمجھیں گی کہ اب اسلام دنیا سے مٹا دیا جائے گا.یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت ہوئی (ضمناً حضور نے ایک بچے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے میرے پیارے بچے! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام حضرت مرزا غلام احمد تھا.دوست اپنے گھروں میں بچوں کو یہ نام بتایا کریں.ابھی پچھلے دنوں راولپنڈی سے ایک خادم آئے جب اس سے پوچھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا نام کیا تھا ؟ تو کہا مجھے تو پتہ نہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا نام کیا تھا ؟ کہا مجھے تو علم نہیں.گھروں میں آپ اپنے بچوں سے باتیں نہیں کریں گے تو اس قسم کے جاہل بچے آپ کے گھروں سے تربیت پا کر نکلیں گے ) غرض اس تنزل کے زمانہ میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند تھے وہ مبعوث ہوئے.وہ زمانہ آج کی دنیا بھول گئی ہے ان کی یاداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی یہ وہ زمانہ ہے جب حضرت عماد الدین صاحب نے جو اجمیر کی شاہی مسجد کے امام تھے.”حضرت“ میں نے اس لئے کہا ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے نزدیک حضرت ہی تھے کیونکہ یہ شخص بڑے پایہ کا عالم تھا اس نے عیسائیت کو قبول کر لیا اور ایک مضمون لکھا عیسائیوں کی ایک کانفرنس کے لئے جو امریکہ میں منعقد ہو رہی تھی اس مضمون میں اس نے ویسے تو بہت کچھ لکھا مگر
خطبات ناصر جلد سوم ۲۳۲ خطبہ جمعہ ۱۷ / جولائی ۱۹۷۰ء میں اس وقت صرف دو باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ایک تو اس نے پتے دے کر ایک سو سے زائد علماء اور قرآن کریم کے حفاظ اور سید زادے اور مغل خاندانوں سے تعلق رکھنے والے اور پٹھانوں وغیرہ کے نام لکھے اور کہا کہ ہندوستان کے شمالی حصوں کے یہ لوگ جو بڑے بڑے عالم اور قرآن کریم کے لحفاظ ہیں عیسائی ہو چکے ہیں اور جہاں پہلے عیسائیت آئی تھی یعنی کلکتہ اور بمبئی وغیرہ وہاں کا جو حال ہو گا اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں دوسرے اس نے یہ لکھا کہ وہ دن عنقریب ہندوستان پر چڑھنے والا ہے کہ جب کوئی شخص اگر کسی مسلمان کو دیکھنے کی خواہش کرے گا تو اُسے کوئی مسلمان نظر نہیں آئے گا اور اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو گی.اس حد تک اسلام گر چکا تھا اور اس حد تک منصوبے بنائے گئے تھے اسلام کو مٹانے کے لئے.بعض پادریوں نے لکھا کہ وہ وقت قریب ہے اللہ تعالیٰ کی اُن پر لعنت ہو ) کہ خانہ کعبہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرائے گا بعض نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ سارے براعظم افریقہ کو ہم خداوند یسوع مسیح کے لئے جیت لیں گے اور مسلمانوں کا یہاں سے نام و نشان مٹا دیا جائے گا.اس قسم کی بڑیں تھیں جو یہ ہانک رہے تھے اور یہ خالی بیان نہیں تھے بلکہ اس کے پیچھے بڑا زبر دست منصوبہ تھا اسلام کو مٹانے کے لئے اربوں روپے اسلام کو مٹانے کے لئے جمع کر لئے گئے تھے لاکھوں واقفین اس وقت عیسائیت کے پاس موجود تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں عیسائیت کو پھیلانے کے لئے وقف کر رکھی تھیں اور اس طرح اُنہوں نے ساری دنیا میں دجل کا ایک جال پھیلا رکھا تھا.غلط دلائل، افترا ، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے خلاف باتیں، پیسہ، اپنی لڑکیاں دوسروں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے یعنی ہر قسم کا گند انہوں نے استعمال کیا تھا.اسی طرح تعلیم کے سامان ، کالج ، ہسپتال، بیماروں کے ساتھ ہمدردی اور اسلام کا کوئی نام لیوا نہیں تھا اور ادھر ساری دنیا کی طاقتیں جیسا کہ میں نے کہا اسلام پر آخری اور کاری ضرب لگانے کے لئے اکٹھی ہو گئی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ ہر چیز کا کمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے زوال کا وقت آگیا چنانچہ جس وقت اسلام کے خلاف شیطانی منصوبے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۳۳ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء اپنے کمال کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے قوانین قدرت کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت ہوئی تا کہ آپ کے ذریعہ عیسائیت کو شکست دے کر اسلام کو غالب کیا جائے اور آپ احمد کی شان میں ( یعنی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو دوسرا نام احمد ہے.پہلا نام محمد اور دوسرا نام احمد ) یعنی جمالی رنگ میں عشق و محبت کی آگ میں سلگنے والا دل لے کر مبعوث ہوئے تھے اور یہی عشق و محبت احمدیوں کے دلوں میں بھی پیدا کرنا چاہتے تھے.آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ یہ صحیح ہے کہ ایک وقت عیسائی کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں کہاں معجزات کا ذکر ہے؟ اسلام نے کون سا معجزہ دکھایا ہے ؟ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ میں خدا کے نام پر اور اس کے حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور اسلام کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے مخالفوں کے مقابلہ میں آسمانی نشانوں کو ظاہر کروں لیکن یہ میرا مقابلہ نہیں کر سکیں گے بلکہ یہ تو میرے ماننے والوں کے دلائل کے سامنے بھی نہیں ٹھہر سکیں گے.آپ نے اُس زمانے میں یہ اعلان فرما یا جس وقت عیسائی دنیا یہ بجھتی تھی کہ یہ مضحکہ خیز باتیں ہیں.ہم تیار ہیں اسلام کو مارنے کے لئے اور اسلام بالکل تیار ہے مرنے کے لئے.کیونکہ زندگی اور جان اس کے اندر نہیں ہے نہ علمی میدان میں نہ تائیدات سماویہ کے لحاظ سے.واقعی اسلام میں اس وقت کوئی جان باقی نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی احمدیت کی شان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود میں ظاہر ہوئے اور آپ کی بعثت کی یہ غرض ٹھہری کہ جس طرح پہلوں نے اللہ تعالیٰ کی چار بنیادی صفات کے جلوے دیکھے تھے.اسی طرح آپ بھی دنیا کو ان صفات کے جلووں کا مشاہدہ کروائیں.علمی لحاظ سے اس قدر دلائل آپ کو دیئے گئے ہیں کہ ان کا شمار ہی کوئی نہیں پھر محض اپنے فضل سے بے سروسامانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والوں اور آپ کے طفیل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے روشنی حاصل کرنے والوں کی تربیت کا ایسا انتظام کیا کہ ہزاروں لاکھوں فدائی پیدا کر دیئے.دین کے جانثار پیدا کر دیئے اسلام کی روحانی فوج کے سپاہی پیدا کر دیئے.یہی حض اللہ تعالیٰ کی روحانی تربیت کا نتیجہ تھا جس کا وعدہ ” رَبُّ العلمينَ “ میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو
خطبات ناصر جلد سوم ۲۳۴ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء دیا گیا تھا اور اپنے فضل سے بہت سارے سامان پیدا کئے.پھر حقیر کوششوں کے جو نتیجے نکلتے ہیں رحیمیت کے جلووں کی وجہ سے اس کا تو ایک سمجھدار احمدی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا.اتنی سی ہماری کوشش ہوتی ہے ایسی کوشش کہ جو اس قابل ہی نہیں ہوتی کہ اس کا ذکر کیا جائے.ایسی قربانی (اگر اسے قربانی کہا جا سکتا ہو ) کہ جس کا نام لیتے ہوئے ہمیں شرم آنی چاہیے مگر اس کا نتیجہ ایسا نکلتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ متصرف بالا رادہ اور تمام قوتوں اور طاقتوں کا مالک ہے.افریقہ میں جہاں کا میں اب دورہ کر کے آیا ہوں جو روپیہ عیسائیت خرچ کر رہی ہے اس کے مقابلہ میں ہم شاید ہزارواں بلکہ لاکھواں حصہ بھی خرچ نہیں کر رہے لیکن ان کے لاکھوں گنا زیادہ خرچ کا نتیجہ اور ہمارے لاکھویں حصہ خرچ کا نتیجہ اگر ہمارے سامنے ہوا اور ہم مقابلہ کریں تو ان کے اپنے کہنے کے مطابق یہ ہے کہ اگر وہ ایک آدمی کو عیسائی بناتے ہیں تو احمدیت دس کو حلقہ بگوش اسلام بنا لیتی ہے یعنی کوشش لاکھواں حصہ اور نتیجہ دس گنا زیادہ یہ ہماری کوشش کا نتیجہ نہیں ہوسکتا نہ ہماری قربانی اور ایثار اس بات کا استحقاق رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ نتیجہ پیدا کرے یہ محض اس کا فضل اور رحمت ہے جس کے نتیجہ میں یہ تبدیلیاں اور یہ انقلاب دنیا میں پیدا ہورہے ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام احمد کے روپ میں ، احمد کے مظہر ہوکر ، احمد کے ظل بن کر اس دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور جمالی طور پر ( تلوار کے ذریعہ نہیں بلکہ ) اخلاق کے ساتھ ، دلائل کے ساتھ، تائیدات سماویہ کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ دنیا پر غالب ہونے کی ذمہ واری آپ کی جماعت پر ڈالی گئی ہے یہ بہت بڑا کام ہے سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بس کا تو یہ روگ ہی نہیں ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہ ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت خلوص نیت کے ساتھ اپنی بساط کے مطابق قربانی دے گی تو انہیں یہ بشارت دی جاتی ہے کہ ساری دنیا میں اسلام غالب آجائے گا.اگر یہ وعدہ نہ ہوتا تو کوئی عقل مند کھڑے ہو کر یہ نہ کہتا کہ مال کی قربانی دو یا جان کی قربانی دو بلکہ اللہ تعالیٰ جو اپنے قول کا صادق اور اپنے وعدوں کا سچا ہے اس نے یہ کہا ہے کہ جو تمہاری طاقت میں ہے وہ میرے حضور پیش کر دو پھر جو میری طاقت کے جلوے ہیں انہیں اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کرو اور میرے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھو.چونکہ
خطبات ناصر جلد سوم ۲۳۵ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء یہ بشارتیں ہمیں حاصل ہیں اس لئے ہم کھڑے ہو کر جماعت سے یہ کہتے ہیں کہ آگے بڑھو اور قربانیاں دو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنوان فضلوں کا کہ تمہاری کوششیں اگر کروڑ گنا بھی زیادہ ہوتیں تب بھی وہ اس فضل کا تمہیں مستحق نہ بناتیں.چھوٹی سی قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے تم سے بے حد اور بے شمار فضلوں کا وعدہ کیا ہے اور اسی وعدہ کے پیش نظر ہم کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ آگے بڑھو اور قربانیاں دو.مالی قربانی کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے اخلاص کا نمونہ پیش کیا ہے.جانی قربانی کے متعلق جہاں تک اساتذہ کا سوال تھا ہماری ضرورت سے زیادہ آگئے ہیں لیکن جہاں تک ڈاکٹروں کا سوال ہے (ابھی تک یہ کہ رہا ہوں یوں مجھے اُمید ہے کہ بعد میں آجائیں گے لیکن توجہ دلانا اور یاد دہانی کرانا میرا فرض ہے ) پس ابھی تک جتنے ڈاکٹروں کی ہمیں ضرورت ہے وہ پورے نہیں ہوئے.ایک تو میرا خطبہ بھی ابھی نہیں چھپا بہت سارے لوگوں کو اس کی اہمیت کا بھی پتہ نہیں ہوگا.بہر حال میرے اس پہلے خطبہ کے چھپنے اور اس خطبہ کے چھپنے کے درمیان غالباً ۳ ، ۴ ہفتوں کا فرق پڑ جائے گا ایک اور یاد دہانی ہو جائے گی.اس وقت جتنے بھی آدمیوں کی احمدیت اور اسلام کو ضرورت ہے وہ ہمیں دینے چاہئیں یعنی جو ہماری طاقت میں ہو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے.ہم جب یہ قربانی دے دیں گے پھر بھی عیسائیت کے لئے زندگی وقف کرنے والوں کے مقابلہ میں ہماری تعدا د غالباً ہزارواں حصہ ہوگی کیونکہ وہ اس وقت لاکھوں کی تعداد میں دنیا میں کام کر رہے ہیں.پھر اُن کی عورتیں ہیں وہ بھی لاکھوں کی تعداد میں منتیں بن کر جو ایک غیر فطری چیز ہے سر منڈا لیتی ہیں اور ساری عمر کنواری رہنے کا عہد کرتی ہیں اور ان کے مقابلہ میں تم اپنی بہنوں سے یہ قربانی لے ہی نہیں سکتے کیونکہ اسلام نے اسے جائز قرار نہیں دیا.جو قربانی ہم لے سکتے ہیں اور لینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے:.اول:.ہماری ہوشیار، دیندار ، ذہین اور صاحب فراست بچیاں اپنی خوشی سے واقفین کے ساتھ شادیاں کریں اور دنیا کی طرف نہ دیکھیں.دین کی نعمتوں کو ترجیح دیں.دوم :.اپنے خاوندوں کے ساتھ جب باہر جائیں تو ان کی ممد و معاون بنیں اگر غیر ممالک
خطبات ناصر جلد سوم ۲۳۶ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء میں بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں پیش آئیں تو ان سے گھبرا کر اپنے خاوندوں کا وقت ضائع کرنے کی کوشش نہ کریں اور انہیں صراط مستقیم سے ہٹانے کا موجب نہ بنیں.سوم :.وہ ایسے علوم حاصل کریں کہ وہ بھی جب اپنے خاوندوں کے ساتھ باہر جائیں تو دین کا کام بھی کرنے والی ہوں.صرف گھر کو سنبھالنے والی نہ ہوں اور یہ بہت سے طریقوں سے ہوسکتا ہے.اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جانا چاہتا.میں نے بتایا تھا کہ غانا میں ہمارے انچارج مبلغ کلیم صاحب کی بیوی بالکل ان پڑھ تھیں جب وہ ان کے ساتھ باہر گئیں لیکن چونکہ مخلص اور اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والی تھیں اُنہوں نے منصورہ بیگم کو خود بتایا کہ میں نے سوچا میں ایک ان پڑھ عورت ایک مبلغ انچارج کی بیوی کی حیثیت میں یہاں آئی ہوں اردو بھی ٹھیک طرح مجھے نہیں آتی انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتی میں اپنے مبلغ خاوند کے ساتھ کیسے تعاون کروں گی اور ان کا کس طرح ہاتھ بٹاؤں گی وہ کہنے لگیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی اور میرے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ تم انگریزی اور اس قسم کی جو دنیا میں اور مشہور زبانیں ہیں وہ نہ سیکھو بلکہ وہاں کی مقامی زبان ( لوکل ڈائیلیکٹ ) جو ہے وہ سیکھ لو.چنانچہ انہوں نے مقامی زبان سیکھنی شروع کر دی اور اس میں بڑی اچھی مہارت حاصل کی اور پھر سارا دن بچے اور بچیوں کو قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پڑھاتی رہتی تھیں.ان کے میاں باہر دوسری نوعیت کا تبلیغی کام کرتے تھے اور یہ گھر میں بیٹھ کر گھر بھی سنبھالتیں اور بچوں کو قرآن کریم بھی پڑھاتی تھیں.پس اگر اس قسم کا دل ایک احمدی بچی میں ہو اور ایسا ہی دل ہر احمدی بچی میں ہونا چاہیے تو پھر اسے خود سوچ کر دعائیں کرنے کے بعد اس قدر علم حاصل کر لینا چاہیے کہ جو باہر کے ممالک میں اسلام کے غلبہ کی اللہ تعالیٰ نے جو مہم چلائی ہے اس میں ممد و معاون ثابت ہو.ہمارے احمدی ڈاکٹر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہیں.پہلے تو شاید کم ہوتے ہوں گے لیکن اس سال کا میرا جواندازہ ہے وہ یہ ہے کہ سارے مغربی پاکستان میں ہمارے ۳۰،۲۰ احمدی بچے انشاء اللہ ڈاکٹری کا امتحان پاس کر کے ڈاکٹر بنیں گے اور موجودہ صورت میں بہت سارے تو باہر بھی چلے گئے ہیں کچھ مزید پڑھنے کے لئے اور کچھ نوکر یاں کرنے کے لئے لیکن پھر بھی پاکستان
خطبات ناصر جلد سوم ۲۳۷ خطبہ جمعہ ۱۷ / جولائی ۱۹۷۰ء میں ہمارا کئی سو ڈا کٹر ہونا چاہیے ان میں سے ہمیں سرِ دست ۳۰ کی ضرورت ہے.بعض تو جو میرے علم میں ہیں یعنی میری یاداشت میں ہیں ان کو تو میں خط بھی لکھوا رہا ہوں کہ آگے آؤ لیکن جو ڈاکٹر بالکل نیا ہو گا یعنی جس نے اس سال یا پچھلے سال ڈاکٹری کی ہے وہ فی الحال وہاں اتنا اچھا کام نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا تجربہ زیادہ نہیں سوائے اس کے کہ کسی اچھے ماہر ڈاکٹر کے ساتھ جو پہلے وہاں کام کر رہے ہوں ان کے ساتھ اسے لگا دیں اور ان کے ساتھ مل کر دو چار سال کام کرے.اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ میں بھی شفا دے دے علم میں بھی زیادتی دے دے اس لئے فی الحال بہتر یہ ہے کہ ایسے ڈاکٹر زندگی وقف کریں جو یا تو ریٹائر ہو چکے ہوں اور ان کی صحت بھی اچھی ہو اور یا دو چار سال کے اندر ریٹائر ہونے والے ہوں اور وہ اپنے محکمہ سے چھٹی لے لیں یا فراغت حاصل کر لیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ۳، ۴ سال کی چھٹی لیں اور پھر ایک سال یہاں آکر کام کریں اور پھر محکمہ سے پوری طرح فراغت پا کر وہاں چلے جائیں.بہر حال جس تیزی کے ساتھ اس سکیم کے بعض شعبوں میں ہمیں یہاں کام کرنا چاہیے اسی تیزی سے ہمارے لئے اللہ تعالیٰ وہاں راہیں کھول رہا ہے شمالی نائیجیریا میں حکومت نے ہمارے دو سکولوں کے لئے ہمیں ۴۰،۴۰ ایکٹر مفت زمین دینے کا فیصلہ کر دیا ہے دوسرے دو سکول بھی وہاں کھلنے چاہئیں کیونکہ میں نے اُن سے چار کا وعدہ کیا ہے ان کے لئے بھی وہ عنقریب جب بھی ہم ان سے کہیں گے زمین دے دیں گے.ہمارے آدمی وہاں ست تھے میں نے انہیں تیز کیا ہے ایک پیراماؤنٹ چیف نے ایک خاصا بڑا زمین کا قطعہ جس میں کچھ عمارتیں بنی ہوئی ہیں دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے سنبھالو اور یہاں سکول کھولو.اس طرح و اجو کہ غانا کا شمال مغربی علاقہ ہے.وہاں ہماری بڑی جماعتیں ہیں وہاں ہمارا ایک عربی کا سکول بھی ہے.وہاں کی جماعت نے زمین کا ایک وسیع قطعہ سکول اور میڈیکل سنٹر کھولنے کے لئے وقف کیا ہے.پس اگر وہ لوگ تو قربانی پیش کر دیں ، اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے کہ وہاں کی حکومتیں، غیر از جماعت امراء اور پیرا ماؤنٹ چیفس یا اس قسم کے دوسرے لوگ ہمیں زمینیں بھی دیں اور مکان بھی دیں گے اور آپ کہیں ہم آدمی نہیں دیتے تو اس سے بڑھ کر سبکی اور شرم کی کوئی اور بات
خطبات ناصر جلد سوم ۲۳۸ خطبہ جمعہ ۱۷ / جولائی ۱۹۷۰ء نہیں ہو سکتی.لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہو گا لیکن اس یقین کے باوجود چونکہ مجھے ذکر یعنی یاد دہانی کروانے کا حکم بھی دیا گیا ہے اس لئے میں آپ کو یاد دہانی کراتا رہوں گا جب تک میرے اس ابتدائی منصوبہ کے لئے جتنے آدمی چاہئیں وہ مجھے مل جائیں.جتنا مال چاہیے وہ مجھے مل جائے.مجھے اپنی ذات کے لئے تو ایک دھیلہ بھی نہیں چاہیے نہ کسی اور کے لئے چاہیے.اللہ تعالیٰ کے دین کو فروغ دینے کے لئے ضرورت ہے اس سکیم کے ماتحت تو ساری رقم افریقہ پر یا افریقہ کے لئے خرچ ہو گی.پس دوست وقف کی طرف توجہ دیں.تین تحریکیں میں اس وقت کرنا چاہتا ہوں ایک یہ کہ ڈاکٹر واقف زندگی بن کر آگے آئیں دوسرے یہ کہ اچھے ٹیچر ز واقف زندگی بن کر آگے آئیں تیسرے یہ کہ جو ہمارا مستقل نظام وقف ہے اور واقفین بچے جامعہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں اس میں بھی اب دس یا پندرہ یا بیس سے ہمارا کام نہیں چلے گا کیونکہ ضرورت اسلام کے غلبہ کی مہم کو اس سے بہت زیادہ کی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم ۵۰ میٹرک پاس طلبہ اس سال جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے چاہئیں اور ۱۰۰ اگلے سال، پھر شاید ہم اپنی ضرورت کو پورا کر سکیں اب تو میں نے سوچا ہے کہ یہ جو پچاس ہوں گے یا جوسو اگلے سال داخل ہوں گے سات سال کے بعد ان کا نتیجہ نکلے گا اور یہ مبلغ بنیں گے میں نے یہ سوچا ہے کہ یہ جو درمیانی عرصہ ہے اس کے لئے پھر ریٹائر ڈ احمدی بہت سارے ایسے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا اچھا خاصا مطالعہ کیا ہوا ہے اور انگریزی بھی جانتے ہیں انہیں باہر بھجوادیں گے کہ جا کر مبلغ کے طور پر کام کرو اور پھر آٹھ دس سال کے بعد پیچھے سے زیادہ تعداد میں ہمارے نوجوان مبلغین آنے شروع ہو جائیں گے.اسی سلسلہ میں دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ ( میں ان کی نیت پر حملہ نہیں کرتا لیکن ایسا کرتے ہیں اور بڑی شرم آتی ہے کہ ایسے لوگ خدا کو کیا منہ دکھا ئیں گے اور ہم بھی اگر ہم نے ان کی بات مان لی تو خدا کو کیا جواب دیں گے.بڑے آرام سے آکر کہہ دیتے ہیں کہ میرا بچہ نہایت نخذ ، پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتا آوارگی اس کے اندر ہے میٹرک میں اس نے لوئر ٹھر ڈ ڈویژن کے نمبر لئے ہیں اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ آپ اسے جامعہ احمدیہ میں داخل کر
خطبات ناصر جلد سوم ۲۳۹ خطبہ جمعہ ۱۷ / جولائی ۱۹۷۰ء لیں.اللہ تعالیٰ کے حضور تم وہ بھیٹر پیش کر رہے ہو جس کے اوپر گوشت ہی نہیں اور ہڈیاں بھی اس کی گلی ہوئی ہیں اور آدھ موا چمڑا اس کے اوپر ہے یعنی اس کے اندر کوئی قابلیت نہیں اور آکر کہتے ہیں کہ چونکہ دنیا میں اس کے لئے کہیں اور راستہ نہیں اس لئے آپ اسے جامعہ احمدیہ میں داخل کر لیں.ایسا بچہ مبلغ کیسے بن سکتا ہے؟ اس extreme (ایکسٹریم ) یا مثال کے بچے کو تو ہم بہر حال داخل نہیں کرتے لیکن اور بہت ساری مثالیں ہیں کہ جو اس قسم کے لڑکے آکر داخل ہو جاتے ہیں لیکن دراصل نہ اُن کا حق ہوتا ہے نہ اہلیت ہوتی ہے.پھر میرے نزدیک جو اوسط درجہ کا طالب علم آتا ہے یہ بھی درست نہیں دین کے لئے ٹاپ کا ، نہایت اعلیٰ درجہ کا ذہن وقف ہونا چاہیے یعنی ایسا ذہن کہ اس سے بہتر کوئی اور ذہن نہ ہو، بہت سارے ایسے لوگ بھی آجاتے ہیں بعض سادگی میں بھی بات کر دیتے ہیں.پچھلے سال ایک صاحب جنہوں نے اپنا بچہ دین کے لئے وقف کیا ہوا تھا اُن سے میری ذاتی واقفیت بھی ہے پھر اُن کا کام بھی ایسا ہے کہ وہ مجھے بڑی کثرت سے ملتے رہتے ہیں ان کا بچہ بھی ملتا رہتا تھا اس نے میٹرک میں نہایت اعلیٰ درجہ کی فسٹ ڈویژن کی وہ میرے پاس آگئے کہ یہ بچہ کہتا ہے کہ میرے اتنے اچھے نمبر ہیں مجھے شاید وظیفہ بھی مل جائے مجھے اجازت دیں کہ میں کسی کالج میں داخل ہو جاؤں اور سائنس پڑھوں یا کسی اور مضمون میں آگے ترقی کروں مجھے پتہ تھا کہ یہ وسوسہ ہے جو بڑی جلدی دُور ہو جائے گا میں نے مسکرا کر اُن سے کہا کہ نہیں! میں اس کی اجازت نہیں دیتا جیسا کہ تم وقف ہو جا کر جامعہ احمدیہ میں داخل ہو جاؤ اسی قسم کے بعض دوسرے لوگ بھی میرے پاس آتے ہیں.پس ایک تو دین کے لئے ہمیں اچھے ذہن چاہئیں دوسرے معاشرہ کے لحاظ سے جامعہ احمدیہ میں ایک سمویا ہوا گر وہ ہونا چاہیے یعنی غریبوں کے بچے بھی ہوں، متوسط خاندانوں کے بچے بھی ہوں اور اچھے امیروں کے بچے بھی وہاں آئیں اگر یہ نہیں ہوگا تو ان کی صحیح تربیت نہیں ہو سکے گی صحیح تربیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ غریب اور متوسط اور امیر گھرانوں کا بڑا اچھا تعلق ہو ورنہ تو معاشرہ خراب ہو جاتا ہے.میں نے بتایا تھا کہ جو بعد ہمیں یہاں ایک وزیر اور ایک عام آدمی
خطبات ناصر جلد سوم ۲۴۰ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء کے درمیان نظر آتا ہے وہ بعد افریقہ میں نظر نہیں آتا، ایک عام معمولی آدمی وزیر سے بڑے دھڑلے کے ساتھ جا کر بات کرنے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا کیونکہ اُن کا آپس میں کوئی بعد نہیں مگر یہاں بڑا بعد ہے یہاں پر وزیر تو ا لگ رہا وزیر کا چپڑاسی بھی اچھے بھلے شریف آدمیوں کو بعض دفعہ دھکے دے کر باہر نکال دیتا ہے لیکن وہاں تو ایک وزیر بھی ایسا نہیں کر سکتا اُن کا معاشرہ ہی ایسا ہے اسے میں اسلام کا معاشرہ تو نہیں کہہ سکتا کیونکہ اسلام کا معاشرہ اس سے بھی زیادہ حسین ہے لیکن ہمارے ملک کے معاشرہ کے مقابلہ میں وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ کے زیادہ قریب ہے.پس ہمارا یہ معاشرہ یعنی انسانی مساوات که انسان انسان میں کوئی فرق نہیں یہ پوری طرح قائم نہیں ہو سکتا جب تک ہم ہر شعبہ میں یہ ثابت نہ کریں کہ انسان انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں اور ایک شعبہ ہمارا جامعہ احمدیہ کا ہے وہاں جو ہمارےMillionaire ( ملین ایر ) اگر کوئی ہوں ہماری جماعت میں تو ان کے بچے بھی آنے چاہئیں اور ایک جیسے ماحول میں انہیں تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور پھر ایک جیسی پابندیوں کے ساتھ انہیں باہر جا کر تبلیغ کرنی چاہیے تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے اندر حقیقی معنی میں مساوات قائم ہے.اگر دنیا آج ہمیں یہ کہے کہ مساوات قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہو لیکن تمہارا جامعہ احمدیہ جہاں سے تمہارے مبلغ بن کر نکلتے ہیں وہاں غریبوں کے بچے بھی ہیں متوسط خاندانوں کے بچے بھی ہیں لیکن امیر گھرانے کا کوئی بچہ نہیں کیا جواب دیں گے آپ یا کیا میں جواب دے سکتا ہوں؟ یہ حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ جامعہ احمدیہ میں صحیح اسلامی معاشرہ کا امکان امراء کی غفلت کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوسکا.پس امیروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے ذہین بچوں کو جامعہ احمدیہ میں بھجوائیں اور اس کے مطابق ان کی تربیت کریں.بعض نے کی ہے مثلاً ہمارے مرزا عبدالحق صاحب بڑے اچھے اور کامیاب وکیل ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو پیسہ بھی دیا ہے ان کا ایک بچہ یہاں جامعہ احدیہ میں پڑھتا رہا ہے آجکل بیچارا جرمنی میں ہے بے چارا میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ مصیبت میں ہے اس کا آگے پڑھائی کا کام نہیں ہو رہا بہر حال وہ جامعہ احمدیہ میں اپنے خرچ پر پڑھا اور پھر جرمنی چلا گیا اب تو اس کا وظیفہ بھی مصر سے آ گیا تھا لیکن
خطبات ناصر جلد سوم ۲۴۱ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء میں نے اسے ہدایت کی تھی کہ نہیں! اب تم جن تکالیف سے گذرے ہو شاید اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہو کہ تم جرمن زبان اچھی طرح سے سیکھ لو اس لئے اب جرمنی میں ہی رہو اور جرمن زبان سیکھو.خدا کرے اس میں وہ کامیاب ہو جائے زبان سیکھنے کا ملکہ بھی کسی کسی کو ہوتا ہے ہر ایک کو نہیں ہوتا.بہر حال ہمارے جامعہ احمدیہ میں امیروں کے بچے بھی آنے چاہئیں ، متوسط طبقہ کے بھی آنے چاہئیں اور غریبوں کے بچے بھی آنے چاہئیں لیکن سارے کے سارے ذہین ہونے چاہئیں اور بڑے مخلص ہونے چاہئیں اور سعید الفطرت ہونے چاہئیں ویسے تو کسی نے یہ ٹھیکہ نہیں لیا کہ فطرتی سعادت پر انسان ہمیشہ قائم رہے ٹھوکریں بھی لگ جاتی ہیں.بلعم باعور کے قصے بھی ہم نے پڑھے ہیں.اچھے اچھے مخلص خاندانوں کے بچے بھی خراب ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ نہایت ذلیل اور کمینے اور دہریہ اور اللہ تعالیٰ کی ہستی سے بیزار اور مذہب سے نفرت کرنے والے گھروں میں متقی اور پر ہیز گار اور خدا کا خوف رکھنے والے اور خشیتہ اللہ سے جن کے سینے معمور ہوں وہ پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے قرآن کریم نے کہا ہے کہ یہ اللہ ہے جو مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے یہ چکر تو اپنی جگہ چل رہا ہے لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ظاہر پر اپنا حکم جاری کرو اور اسی کے مطابق فیصلہ دو.پس ظاہری طور پر مخلص، دیندار اور ایثار پیشہ، اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت رکھنے والے، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی محبت سے جن کے سینے پر اور دل منور ہوں ایسے بچے ہمیں چاہئیں اور ہر طبقے سے چاہئیں تا کہ ہم صحیح ذہنی اور اخلاقی نشو ونما کرسکیں.پس اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک Representative ری پری زمینٹیٹو ) یعنی نمائندہ گروہ جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہا ہو.سب طبقوں کی نمائندگی کر رہا ہو اور صحیح معاشرہ اور صحیح معاشرہ کے اسباق کی نشاندہی کر رہا ہو.آخر انہوں نے باہر جا کر دنیا کا معلم بننا ہے ان میں سے ہر ایک کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ امیر کی تھنکنگ کیا ہے؟ یہ صحیح ہے کہ ہماری تھنکنگ یعنی ہماری سوچ اور فکر کا اسلوب دوسروں سے مختلف ہوگا لیکن ایک امیر کے لڑکے کا اسلوب متوسط اور غریب طبقہ سے بھی مختلف ہوگا وہاں آکر وہ آپس میں سموئے جائیں گے ان کی ذہنی تربیت ہوگی ان کی اخلاقی تربیت ہوگی پھر وہ جو امیر کا بچہ ہے وہ یہ دیکھے گا کہ میں غریب کے بچے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۴۲ خطبہ جمعہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء کو علم اور شرافت اور اخلاق کے مظاہرے میں آگے نہ نکلنے دوں اس قسم کی مسابقت اور بڑے صحتمند مقابلے کی روح پیدا ہوگی اور غریب کا بچہ کہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہے تو کیا ہوا مجھے اللہ تعالیٰ نے جو دوسری قوتیں اور استعدادیں دی ہیں ان میں میں اس سے آگے نکلوں گا.پس ایسے ماحول میں ہر فرد خوش ہوتا ہے اس لئے اس قسم کے بچے جامعہ احمدیہ میں آنے چاہئیں اور بڑی کثرت سے آنے چاہئیں کیونکہ ہر روز جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ہماری ضرورت پہلے دن سے بڑھی ہوئی پاتا ہے لیکن سورج کی آنکھ تو ہماری ضرورت میں وسعتوں کا مشاہدہ کرے اور ہماری آنکھ جو ہے وہ بند ر ہے اور نا بینا بن جائے تو یہ تو کوئی خیر اور خوبی کی بات نہیں ہے.ہماری ضرورتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل بڑی وسعت اور شدت کے ساتھ موسلا دھار بارش کی طرح ہم پر نازل ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے جو یہ عظیم اور کثیر انعامات ہم پر ذمہ داریاں عاید کرتے ہیں ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی ہمیں ہوش بھی ہونی چاہیے اور ہمارا ارادہ بھی ہونا چاہیے اور ہماری مخلص نیت بھی ہونی چاہیے اور ایثار کا جذ بہ بھی ہونا چاہیے یعنی جو ابتدائی چیزیں ہونی چائیں وہ ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں پھر ان کے نتائج جو ہیں وہ نکلنے چاہئیں تب جا کر ہم اس کام میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو ہمارے سپر د کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس طرح اسلام کی نشأة اولیٰ میں تمام دنیا پر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فر مایا تھا اپنی جلالی صفات کے اظہار کے ساتھ اسی طرح آج کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی جلالی صفات ہمارے وجود میں کچھ اس طرح چمکیں کہ دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہوں اور تمام دنیا کی اقوام کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گردا کٹھی کر دینے والی ہوں.یہ کام ہے ہمارا اور اس سے کم پر نہ ہم اپنے آپ سے خوش رہ سکتے ہیں نہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے انسان اس کی رضا کو حاصل کرتا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے ایسے اعمال کے بجالانے کی کہ وہ ہم سے راضی اور خوش ہو جائے اور وہ وعدے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ غلبہ اسلام کے ہم سے کئے ہیں وہ ہماری زندگیوں میں پورے ہونے لگیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد سوم ۲۴۳ خطبہ جمعہ ۲۴ / جولائی ۱۹۷۰ء حقیقی عزت کا سر چشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے خطبہ جمعہ فرموده ۲۴ جولائی ۱۹۷۰ء بمقام مسجد نور.راولپنڈی حضور انور کے اس خطبہ جمعہ کا مکمل متن تا حال دستیاب نہیں ہو سکا الفضل میں شائع شدہ خلاصہ درج ذیل ہے.حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان کو وحدت اسلامی میں منسلک کر کے ان کی عزت اور وقار کو قائم کرنے اور خدائے حتی و قیوم سے ان کا رشتہ استوار کرانے کا عظیم الشان کام جماعت احمدیہ کے سپر د ہوا ہے.آپ نے اس الہی منشاء اور اہم دینی فریضہ کے پیش نظر احباب جماعت کو پیہم جانی اور مالی قربانی کی تحریک کے ساتھ ساتھ ہر وقت دعا ئیں کرتے رہنے کی بھی ہدایت فرمائی.حضور نے پہلے قرآن کریم کی چند آیات سے اس امر پر بھی بصیرت افروز پیرا یہ میں روشنی ڈالی کہ جماعت مومنین کے خلاف منافقین کی ریشہ دوانیوں کی اصل غرض دنیوی عزت اور وقار کا حصول ہوتا ہے.حالانکہ حقیقی عزت کا سر چشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئے حقیقی عزت اسی سے لولگانے اور اس کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے سے ملتی ہے.فرمایا.اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند
خطبات ناصر جلد سوم ۲۴۴ خطبہ جمعہ ۲۴ / جولائی ۱۹۷۰ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے خدائی ہدایت سے محروم اقوامِ عالم کو حلقہ بگوش اسلام کر کے ان کی عزت اور احترام کو قائم کرنے کا عظیم الشان کام جماعت احمدیہ کے سپر دفرمایا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم دلیل اور نمونہ اور دردمندانہ دعاؤں کے ساتھ نہایت حسین پیرایہ میں دنیا پر یہ ثابت کر دیں کہ حقیقی عزت اور احترام اور اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کی رضا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت اور آپ کی غلامی میں ملتی ہے.فرمایا.اس لحاظ سے ہم پر بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے جہاں پیہم جانی اور مالی قربانیوں کی ضرورت ہے وہاں جماعتی ترقی اور غلبہ اسلام کے لئے نہایت درد والحاح سے دعا ئیں بھی کرنی چاہئیں.مالی قربانی کے ضمن میں حضور نے اپنی اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ جس طرح خلافت احمدیہ پر اس وقت تک ۶۲ سال گزر چکے ہیں اسی طرح نصرت جہاں ریز روفنڈ“ میں پاکستان کی جماعت کی مالی قربانیاں بڑھ کر ۶۲ لاکھ روپے تک پہنچ جائیں.حضور کا یہ روح پرور خطبہ پون گھنٹے تک جاری رہا.اس کے بعد حضور نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں اور پھر از راہ شفقت تمام احباب کو باری باری شرف مصافحہ بخشا.(روز نامه الفضل ربوہ ۳۱ جولائی ۱۹۷۰ ء صفحہ ۳) 谢谢您
خطبات ناصر جلد سوم ۲۴۵ خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۷۰ء می اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اقوامِ عالم وحدت انسانی میں منسلک کی جائیں گی خطبہ جمعہ فرموده ۳۱ جولائی ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ انَّا قَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ، اَرَضِيتُم بِالْحَيوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ - إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِبُكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَد نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْهُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۚ فَانْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ العليا واللهُ عَزِيزٌ حَكِيمُ - اِنْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَ جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي - سَبِيلِ اللهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ - (التوبة: ۳۸ تا ۴۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فنافی الرسول کا جو مقام حاصل تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو قرب میسر تھا وہ اُمت محمدیہ میں کسی اور کے نصیب میں نہ ہوا، نہ ہوگا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ وعدہ دیا اور یہ بشارت دی کہ تیرے ذریعہ
خطبات ناصر جلد سوم ۲۴۶ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۷۰ء سے تمام اقوامِ عالم وحدت انسانی میں منسلک کی جائیں گی.وہ سب تیرے گرد پیار اور محبت سے گھو میں گی اور تیری اطاعت اور اتباع میں اپنے محبوب اور مقصود اللہ کی رضا کو حاصل کریں گی.اقوامِ عالم کا وحدت انسانی میں منسلک ہونے کا کام جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے.مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے ساتھ وابستہ تھا، کامل دین آ گیا اور شریعت مکمل ہو گئی.تمام دنیا کو قرآن عظیم میں عظیم بشارتیں دیں.لیکن اس وحدت کی طرف دنیا کی اقوام نے صدیوں مزید سفر کرنا تھا اس وقت تک کے لئے جب مہدی معہود دنیا کی طرف معبوث ہوں اور اللہ تعالیٰ کی یہ روشنی ساری اقوامِ عالم کو منور کرنے والی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا حقیقی اور بنیادی فرض ہے ہی یہ کہ تمام اقوامِ عالم کو اسلام کے نور سے منور کر کے اور اسلام کے حُسن کا گرویدہ بنا کر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں پہلا ڈالیں باقی تو سب فروعات ہیں وہ راستے ہیں جو مختلف جہات سے ہوکر اس کے ایک مرکز کی طرف رواں دواں ہیں اس وحدت اقوامی کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو ہتھیار یا ذرائع اور اسباب لا سکتے تھے وہ لائے اس وحدت اقوامی کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تین باتوں کی ضرورت ہے.ایک کا تعلق آپ سے نہیں کیونکہ وہ دنیوی بات ہے اس کا تعلق عام انسان کی ترقی اور سائنس کے زیادہ سے زیادہ حقائق کو حاصل کرنے سے ہے.مثلاً ہوائی جہازوں کی ایجاد اور سمندری جہازوں کی ایجاد اور ریلیں، موٹریں ہیں.ہفتوں میں انسان یہاں سے موٹر میں یورپ وغیرہ میں پہنچ جاتا ہے.ہوائی جہاز کے نتیجہ میں سالوں کا فاصلہ ایک دن میں طے ہو جاتا ہے.مثلاً ہم جب افریقہ گئے جو یہاں سے سات ہزار میل دور ہے تو اڑان کا وقت ہمارا چھ اور نو قریباً پندرہ سولہ گھنٹے تھا.پندرہ سولہ گھنٹے میں جہاز سات ہزار میل دور کے ممالک میں پہنچادیتا ہے.کوئی وقت تھا کہ یہاں سے افریقہ جانے کا خیال بھی انسان نہیں کر سکتا تھا.اگر کوئی بہادر اور جری اور علم کے حصول کا جنون رکھنے والا روا نہ ہوتا تھا ابن بطوطہ کی طرح.تو سالہا سال کے سفروں کے بعد اس کے لئے ممکن ہوتا تھا کہ وہ اپنے گھر کو واپس لوٹ سکے.تو وحدت اقوامی کے قیام کے لئے ضروری تھا
خطبات ناصر جلد سوم ۲۴۷ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۷۰ء کہ means of communication مینز آف کمنی کیشن ) جسے کہتے ہیں رسل و رسائل ( اور آپس کے تعلقات کو قائم کرنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے.وہ اس حد تک ترقی یافتہ ہو جائیں کہ قوم قوم کے درمیان فاصلہ، مکان کا فاصلہ اور زمان کا فاصلہ جو ہے وہ بہت کم ہو جائے.ایسا ہی کم ہو جائے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ سے مکہ تک پہنچنا یا اس سے بھی کم عرصہ میں دنیا کے بہترین حصہ میں انسان پہنچ سکتا ہے.تو ایک اس کے بغیر وحدت اقوامی کا قیام ممکن نہیں کہ تمام بنی نوع انسان ایک برادری بن جائیں اور ان کا باپ اس دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو.بقیہ دو باتوں کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہے آپ فرماتے ہیں کہ ایک تو ایسا زمانہ چاہیے.ایک تو یہ ہو کہ رسل و رسائل means of communication (مینز آف کمنی کیشن ) اتنے ہوں کہ تمام دنیا ایک ملک کی طرح بن جائے.دوسرے یہ کہ وہ حالات ایسے ہوں اور طبائع میں جوش اس قدر ہو کہ تمام مذاہب اپنے اپنے مذہب کی صداقت کے فیصلہ کے لئے تیار ہوں.حالات بھی ایسے ہوں کہ ان کا آپس میں مقابلہ ہو سکے مذاہب کی گشتی کا امکان پیدا ہو جائے جو اس زمانہ میں ہو گیا.ایک تو یہ کہ مذہبی آزادی سوائے ایک تنگ ذہن کے ہر جگہ ہمیں نظر آتی ہے.مذہب کی بناء پر آج تلوار نہیں نکالی جارہی نہ کسی کو قتل و غارت کے میدان میں دھکیلا جارہا ہے.الا ماشاء اللہ.ساری دنیا جو ہے وہ باتوں کو سنتی ہے ہمارے ملک میں تعصب ہے مگر ایک چھوٹے سے حصہ میں ہزار میں سے ایک شخص ہوگا جو اس تعصب کی بیماری میں مبتلا ہوگا.ہمارے پاکستان والے بھی تحمل سے بات سنتے ہیں اس زمانہ میں ہم ہی بعض دفعہ ستی دکھاتے ہیں انہیں بات نہیں سناتے ، وہ سننے کے لئے تیار ہیں اور کسی پر زبردستی نہیں میرے سامنے جب بھی بعض دفعہ جوش میں آکر احمدی کہہ دیتے ہیں کہ انہوں نے بہت کچھ پڑھا ہے لیکن یہ صاحب جو ہیں وہ سامنے بیٹھے ہوئے ہیں احمدیت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تو میں نے انہیں کبھی یہ نہیں کہا کہ تم فارم پر دستخط کرو اور تم بیعت کرلو.میں نے انہیں نصیحت کی کہ دیکھو! یہ جو مرضی ہے کہتے رہیں جب تک انشراح صدر نہ ہو تم احمدیت میں داخل نہ ہونا کیونکہ گفتی سے تو کوئی فائدہ نہیں نہ گنتی میں کوئی دلچسپی ہے جیسا کہ ان آیات میں بھی جو میں نے تلاوت کی ہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۲۴۸ خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۷۰ء بڑی وضاحت سے یہ بیان ہوا ہے تو بات سنتے ہیں اور ہمیں سنانی چاہیے تو جس وقت مذا ہب کی گشتی ہو اس وقت غالب آنے والے مذہب کے پاس اس قدر ز بر دست دلائل ہونے چاہئیں کہ ان دلائل کے سامنے دوسرے مذاہب ٹھہر نہ سکیں.یہ زبر دست دلائل کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام تھا لانا اور آپ لے آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب اور سب سے بڑا بد مذہب یعنی دھریت جو ہے اس کے خلاف بڑے بڑے دلائل دے دیئے ہیں لیکن محض دلائل دینا بھی غالب آنے کے لئے کافی نہیں ہوا کرتے.دنیا کی تاریخ سے ہمیں پتہ لگتا ہے اس کی تفصیل میں ہمیں جانے کی ضرورت نہیں اس لئے آپ نے فرمایا کہ دوسری چیز جو وحدت اقوامی کے لئے ضروری تھی ایسی فضا تھی جس میں مذاہب کی گشتی امن کی فضا میں ممکن ہو اور جو دلیل اور حجت میں زبر دست اور طاقتور ہو اس کی جیت ہو اور وہ دلائل تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیئے اور تیسری چیز جو اس وحدت اقوامی کے لئے ضروری تھی وہ یہ تھی کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے اس گروہ کو آسمانی نشانات اور تائیدات سے نوازا گیا جو آپ کی زندگی میں اور آپ کے بعد دو تین نسلوں میں پیدا ہوں اس طرح ایک قوم صحابہ سے ملتی جلتی پیدا کی جائے جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے آسمانی نشانات اور تائیدات کی وارث بنے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں اس طرح فانی ہے کہ علیحدہ کوئی چیز ہمیں نظر نہیں آتی اس وجود کی جھلک اس وجود کا حسن اس وجود کا احسان جو ہے وہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود میں نظر آتا ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہی کہا کہ دیکھنا ! فرق نہ کرنا ورنہ پاؤں پھسل جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ صرف خود بڑی کثرت سے بے حد و حساب آسمانی نشانات دنیا کو دکھائے بلکہ آپ نے دنیا میں یہ اعلان بھی کیا کہ میرے سچے اور کامل متبعین بھی آسمانی نشانوں کے وراث بنیں گے.یہاں تک فرمایا کہ میرے کامل متبعین کو اللہ تعالیٰ اس قدر برکت دے گا کہ اگر وہ کسی چیز کو چھوئیں گے تو وہ چیز بابرکت ہو جائے گی قبولیت دعا کا نشان ہے.یہ ساری ہماری جماعت جو مخلصین کا حصہ ہے ( منافقین اور کمزوروں کو نکال کر ) ان
خطبات ناصر جلد سوم ۲۴۹ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۷۰ء کو اللہ تعالیٰ یہ نشان دکھاتا ہے ان کے وجود میں برکت رکھی ہے.ان کے وجود میں جاذبیت رکھی ہے اثر رکھا ہے جو بے نفس، آپ کو ربوہ کی گلیوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں اور آپ کے دل میں ان کی قدر و شناخت نہیں ہوتی.جب وہ باہر جاتے ہیں تو وہاں کے سر براہ مملکت جو ہیں وہ بھی ان کی عزت کرتے ہیں ہم نے خود مشاہدہ کیا وہاں پھر آدمی سوچ میں پڑتا ہے کہ بظاہر تو یہ شخص اس قابل نہیں تھا.ہر انسان کی توجہ اس طرف جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ کیا تھا اور وہ اپنے وعدوں کا سچا ہے اور اس نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے بے نفس متبعین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مست رہنے والے جو ہیں ان کو یہ اپنا نشان دکھایا ہے اور یہ برکتیں ان کو دی ہیں تو وحدت اقوامی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.تیسری چیز جو نہایت ضروری بھی ہے وہ الہی تائید اور نصرت اور آسمانی نشانات ہیں اور وہ آپ لے کر آئے اور ایک ایسی جماعت آپ نے پیدا کی کہ جو سچا ایمان اور حقیقی اخلاص رکھنے والی بے نفس جماعت تھی اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو نشان دکھا رہا ہے اور وحدت اقوامی کے لئے حالات سازگار کر رہا ہے اس کثرت سے اور اس طرح پھیلے ہوئے ہیں یہ نشانات کہ انسان دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ افریقہ میں ہماری ایک بہن تھیں جن پر مجھے اس خیال سے رحم آیا کہ اگر وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دعا کے لئے اسی طرح لکھتی رہتی تو اس وقت ان کی مراد پوری ہو جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نشان بھی دکھانا تھا کہ اس کی شادی کو چالیس سال گذر چکے تھے اور کوئی لڑکا نہیں تھا غالباً کوئی بچہ ہی نہیں تھا اور میری خلافت کے شروع میں انہوں نے دعا کے لئے لکھنا شروع کیا اور شادی کے چالیس سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس عورت کولر کا دیا.سات ہزار میل دور چالیس سال شادی کو ہو چکے.انگریز ڈاکٹر تو کہتے ہیں کہ عام عورت پندرہ بیس سال کے بعد بچہ جننے کے قابل ہی نہیں رہتی اور پھر اس عمر میں اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ نشان قبولیت دعا کا دکھایا.وہاں بھی لوگ دعاؤں کے نشان دیکھتے ہیں بڑی کثرت سے یہ نشان اللہ تعالیٰ ظاہر کر رہا ہے اس لئے ہمیں علاوہ اور باتوں کے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو ایک خاندان بنانے کا وقت
خطبات ناصر جلد سوم ۲۵۰ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۷۰ء آپہنچا.یہ بڑا اہم کام ہے یہ بنیادی کام ہے دراصل یہی کام ہے باقی جیسا کہ میں نے کہا شاخیں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو دوسرے کام ہیں اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف شاہراہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تیار کی ہیں.مختلف دروازے ہیں جو اس کے اندر ہمیں لے کر جا رہے ہیں اصل چیز یہ ہے کہ ہم نے تمام انسانوں کو الا مَا شَاءَ الله نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کے بندھن میں باندھ دینا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.جو اسلام سے باہر رہ جائے گا ان کی حالت چوہڑوں چماروں کی طرح ہوگی.اگر لاہور کی آبادی کا مقابلہ چوہڑوں چماروں سے کریں تو شاید ایک فیصدی ہوں یا دو فیصدی ہوں یہ نہ ہونے کے برابر ہے جو ان کی حیثیت ہوگی اس کام کو کرنے کے لئے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ایک جنون کی ضرورت ہے ایسا جنون جو دنیا کے تمام اصولوں کو تو ڑ کر پرے پھینک دے اور یہ کہے کہ میں ان کا پابند نہیں ہوں میں اللہ کا عاشق ہوں اور میں اپنے اس عشق کے مطابق دنیا میں کام کروں گا.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جو مضمون بیان کیا ہے وہ لمبا ہے میں اس کے بعض پہلو لوں گا.اس میں یہ فرمایا ہے کہ جو قوم اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے اسے بھی یاد دہانی کرانی پڑتی ہے اور اس میں کمزور بھی ہوتے ہیں ان کو جھنجوڑنا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے ایمان کا دعویٰ کیا ہے لیکن جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے اپنے گھروں اور اپنے وطنوں سے نکلو انا قَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ تمہاری طبیعت یا تم میں سے بعض جو ہیں وہ الارض کی طرف جس کے معنے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وطن بھی کئے ہیں.یعنی وطن کی محبت آڑے آتی ہے.وہ کہتے ہیں ہم اپنے وطن کو کیسے چھوڑیں اور وطن کی محبت میں ہی گھر، خاندان، بیوی بچے کی محبت شامل ہے.کیونکہ انہیں محبتوں کا مجموعہ وطن کہلاتا ہے.وطن کی محبت کوئی علیحدہ چیز تو نہیں ہے کسی کو بیوی بچوں کی فکر ہوتی ہے کسی کو مال و دولت کی فکر ہوتی ہے.کسی کو کچھ اور کسی کو کچھ.ان کے اندر فکر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کیفیت نہیں رہتی جس کے نتیجہ میں انسان کے لئے روحانی رفعتوں کی طرف پرواز کرنا ممکن ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سے ہم نے جو وعدہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ دین اور دنیا کی حسنات تمہیں ملیں گی.اگر تم ہمارے قول کے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۵۱ خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۷۰ء مطابق، ہماری ہدایت کے مطابق، ہمارے حکم کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارو گے وہ حسناتِ دارین کا وارث کرے گا اور تم صرف ایک بہتری کے پیچھے پڑ جاتے ہو اس دنیا کی جو مجموعی طور پر جو تم سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا کروڑواں اربواں کھر بواں حصہ بھی نہیں کیونکہ اخروی زندگی جو ہے وہ نہ ختم ہونے والی ہے اور اس کی نعمتیں اگر دنیا کی فرض کر لونعمتوں کا ۱٫۴ بھی ہوں تو انٹی سال کی زندگی میں جو نعمتیں اس دنیا کی ملیں ۲۴۰ سال میں اُس دنیا میں وہ نعمتیں مل جائیں گی اور پھر بعد میں بے شمار زمانہ پڑا ہے نعمتوں کے حصول کا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اخروی نعماء کے مقابلہ میں اس دنیا کی نعمتیں اور آرام اور آسائش اور عیش و عشرت جو ہے وہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا.نہ ہونے کے برابر ہے لیکن تم اس حقیقت کو بھول جاتے ہو اور خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان قربانیوں کے دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہو جن کا تم سے مطالبہ کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ہماری آواز پر لبیک کہتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور مدد کے لئے آگے نہیں بڑھو گے تو اس دنیا کی خاطر تم ایسا کر رہے ہو گے اور ہم اس دنیا میں تمہیں عذاب دیں گے.جس چیز کی تمہیں تلاش ہے وہ تمہیں اس دنیا میں نہیں ملے گی.إِلا تَنْفِرُوا يُعَذِّ بُكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا تمہیں اللہ تعالیٰ ایک دردناک عذاب پہنچائے گا اور دوسری متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کا عذاب اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی ظاہر ہوتا ہے لیکن یہ سمجھنا کہ تم اگر بے وفائی کرو گے اور نفاق کی راہوں کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا منشاء پورا نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ کی تقدیر جو ہے اس کے راستے میں روک پیدا ہو جائے گی.ایسا ہر گز نہیں ہوگا يَسْتَبْدِلُ قَوْمًا غَيْرَ كُمُ اللہ تعالیٰ تو قادر ہے کہ وہ تمہیں مٹادے گا اور ایک اور قوم لے آئے گا.وہ قوم تمہاری طرح ایمان کی کمزور اور دل کی منافق نہیں ہوگی.وہ عاشق ہوگی اپنے رب کی اور پیار کرنے والی ہوگی اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے.وہ قربانیاں دے گی بشاشت کے ساتھ جن کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا اور پھر وہ اس دنیا کی حسنات کے بھی وارث ہوں گے اور اس کی بھی حسنات کے وارث ہوں گے.لا تضرون شيئًا تم نے کیسے سوچ لیا کہ اللہ تعالیٰ ایک تقدیر اس دنیا میں جاری کرنا چاہے اور تم اس کے رستے میں روک بنو.تم روک نہیں بن سکتے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس چیز کو چاہتا ہے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۵۲ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۷۰ء کر گذرتا ہے ہر چیز پر قادر ہے وہ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری یہ مد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے خلفاء کو حاصل ہوتی رہے گی یہاں پر دو کا ذکر ہے ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم اور ان کے خلفاء کا ) ظاہری طور پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں.لیکن معنوی طور پر آپ کا خلیفہ ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس غار میں اور اس سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ساتھی کسی دوسرے مخلص کو نہیں بنایا بلکہ اس کو بنایا جس نے پہلی خلافت کی کرسی کے او پر متمکن ہونا تھا اور اس طرح ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے رسول اور اس کے خلیفہ کو پہنچتی ہے اور خلیفہ وقت کو کہا کہ تم جماعت کی طرف نہ دیکھنا کہ اگر تم اکیلے رہ گئے.جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے.خلافتِ راشدہ میں ہر خلیفہ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ہیں.ثانی اثنین کیونکہ آپ کے بغیر آپ سے بعد میں ، آپ سے دوری میں ، آپ سے قطع تعلق کر کے خلافت خلافت راشدہ نہیں رہی.ثانِيَ اثْنَيْنِ میں جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال ہے خلافت راشدہ میں آپ ساتھ ہیں اور جو دوسرے ہیں وہ معنوی لحاظ سے آپ کے ساتھ ہیں.اسی واسطے قرآن کریم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں کہا نام نہیں لیا.بلکہ کہا ایک ساتھی کے ساتھ.دو میں دوسرا تھا.ظاہری جسم کے لحاظ سے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور مقام کے لحاظ سے پہلے خلیفہ تھے اُمتِ مسلمہ کے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم مدد کرو یا نہ کرو.میری مدد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلیفہ کے ساتھ رہے گی اور اگر تم مدد نہیں کرو گے تو آسمان سے ایسی فوجیں اُتریں گی جو کمزوری ایمان کے نتیجہ میں تمہیں نظر نہیں آئیں گی اور وہ مدد کر رہی ہوں گی.جب ایسی فوجیں بہت سے موقعوں پر اتریں تو جن کے ایمان مضبوط تھے ان کو نظر آرہی تھیں وہ فوجیں ، بڑی کثرت سے صحابہ نے ان فوجوں کے متعلق باتیں کیں کہ ہم نے یوں دیکھا ہم نے یوں دیکھا.ڈرانے کے لئے استثنائی طور پر کافروں کو بھی بعض چیزیں اللہ تعالیٰ نے دکھا دیں.لیکن مومنوں کے دلوں کو مضبوط کرنے اور ان کو اور بھی ہشاش بشاش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ نظارے دکھائے.ایمان کی پختگی کے نتیجہ میں لیکن جو کمزور ایمان والا یا منافق ہے اور وہ جس کے دل کے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۵۳ خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۷۰ء اندر ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا.اس کو یہ آسمانی فوج نظر نہیں آتی.لیکن وعدہ ہے اور یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے.اب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے افریقہ میں جو کا رنامہ کیا اپنی خلافت میں اور ہم نے وہاں دیکھا.اگر ہم ان مبلغین کی طرف دیکھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وہاں خلوص کے ساتھ ایثار اور قربانی کی توفیق عطا کی تو وہ نتیجہ نہیں نکل سکتا جو ہمیں نظر آیا.اس سے ہزاروں حصہ شاید کم نکلتا.اگر عمل اور اس کے نتیجہ پر نگاہ کی جائے لیکن عمل ایک اور نتیجہ ایک ہزار.اس کا ٩٩٩ مطلب یہ ہوا کہ نو سو ننانوے نتیجہ پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فوجوں کو نازل کیا اور وہ نتائج ہمیں بتاتے ہیں کہ آسمان سے ملائکہ کا نزول ہوا اور اُنہوں نے اس وعدہ کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا تھا.غلبہ اسلام کے سامان پیدا کئے.اس وقت اللہ تعالیٰ خلافت ثالثہ کے ذریعہ دلائل کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ غلبہ اسلام کے زیادہ سے زیادہ سامان پیدا کرتا جاتا ہے اور کرتا چلا جائے گا.جب تک کہ وہ آخری غلبہ اسلام کو حاصل نہیں ہو جائے گا جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے ہیں اور تمام بنی نوع انسان جب تک اسلام میں داخل ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی نہ بن جائیں.اس غلبہ کے حصول کے لئے جس جہاد کی ضرورت ہے وہ تلوار کا جہاد نہیں کیونکہ اسلام کے خلاف تلوار میان سے نہیں نکالی گئی.نہ مذہب کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم استعمال کیا جاتا ہے.دشمن قوم کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم تو استعمال کیا جاتا ہے اور ہونا بھی یہی چاہیے کیونکہ اس کی ہلاکت کا جسموں پر اثر ہے.لیکن مذہب کے معاملہ میں ایٹم بم نہ استعمال کیا جاتا ہے نہ استعمال کیا جا سکتا ہے.کیونکہ جیسا کہ میں نے یورپ کو کہا آپ بھی بتایا کہ ساری دنیا کے ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم مل کر بھی ایک دل میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے.لاکھوں کروڑوں کو تباہ کر سکتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن ایک دل میں وہ تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے.دل میں تبدیلی پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا کرتا ہے.وہ فضل اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ شامل کر دیا ہے ہم اس کی حمد کرتے ہیں اور ہم حمد نہیں کر سکتے.ہم عاجز بندے ہیں اتنا انعام ہم پر وہ کر رہا ہے.بہر حال جو غلبہ اسلام کے سامان پیدا ہو رہے ہیں اور جس طرح ایک وقت میں جب
خطبات ناصر جلد سوم ۲۵۴ خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۷۰ء مضبوط ہوگئی عرب کی قوم.عرب میں جو مسلمان تھے ان کو طاقت ہوئی.ارتداد کا فتنہ اُٹھاوہ فتنہ دبا دیا گیا اور پھر عرب اسلام کے جھنڈے تلے متحد ہو گیا.تب اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کیا کہ اس وقت کی جو معلوم دنیا تھی اس پر غالب آیا.چھیڑ چھاڑ شروع کی ایرانیوں نے بھی اور رومیوں نے بھی اور مسلمانوں کو اس کا مقابلہ کرنا پڑا.ان حالات کے لحاظ سے جو نہایت اعلی تلوار میں تھیں ایرانیوں اور رومیوں کے پاس ، وہ کند تلوار میں اور گندے لو ہے کی تلوار میں اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے کہا نکالو! کیونکہ تلوار کے لوہے نے فیصلہ نہیں کرنا.میرے حکم نے فیصلہ کرنا ہے.آدمی تاریخ پڑھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے.خالد بن ولید تھے بڑے مخلص، بڑے سمجھدار اور قرآن کریم کے رموز و اسرار سے واقف، کیونکہ اگر ان کی تقریریں پڑھیں تو آدمی ان سے یہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ وہ نڈر فدائی تھے اور بعض دفعہ ایک ایک جنگ میں نو نو تلوار میں ان کے ہاتھ سے ٹوٹ جاتی تھیں.یہ اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے کہ سپاہی لڑ رہا ہو اس کے سامنے دشمن ہو اور تلوارٹوٹ جائے اور پھر بھی اس کی جان کی حفاظت ہو تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ ان کی حفاظت کرتا تھا لیکن اس سے پتہ لگتا تھا کہ ان کی تلوار میں ان کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں.نونو تلواریں ایک دن میں ایک معرکہ میں شاید ایک گھنٹہ کے اندراندرٹوٹ جاتی تھیں کیا کرتے بیچارے جوان کے پاس تھا وہ اپنے رب کے حضور پیش کر دیتے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرتا تھا.آسمان سے ان پر فرشتے نازل ہوتے تھے.پھر رومیوں کے ساتھ ان کمزور فدائیوں کو لڑنا پڑا.ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ اور دودولاکھ فوج کے مقابلہ میں بین تین پینتیس ہزار بعض دفعہ پانچ ہزار بعض دفعہ دس ہزار کی فوج جاتی تھی اور اللہ تعالیٰ ان کو فتح دیتا تھا اور کثرت کا خیال نہیں رکھتا تھا کیونکہ جو سبق دیا گیا تھا ان آیات میں جس کا ذکر ہے وہ تو یہ ہے کہ اگر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلیفہ جیسی حیثیت رکھیں گے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ساری دنیا پر غالب ہوں گے وہ مقابلہ تو دو کا تھا ساری مخالف دنیا کے ساتھ.جس میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب کیا.اس وقت کچھ مرا کز بنے.ساری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لئے.ایک تو ایران کا ملک تھا جس کے ماتحت عراق بھی تھا.عراق کے ورلے حصے جو عرب سے ملتے تھے وہ Base(ہیں) بنی وہ ایک ۱
خطبات ناصر جلد سوم ۲۵۵ خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۷۰ء Camp ( کیمپ) بنا.ان حصوں کی طرف فاتحانہ یلغار کا اور دوسری طرف شام بنا.میں سوچتا ہوں اور طبیعت پر یہ اثر ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طبیعت پر بھی یہی اثر تھا کہ ایک Base ( ہیں ) ہماری افریقہ ہے اور اس وقت ہماری حالت دُنیوی مماثلت کے لحاظ سے وہ ہے جو عراق کے ورلے علاقہ میں مسلمان فوجوں کی تھی جس وقت وہ عرب سے باہر نکلے اور اُنہوں نے آزادی ضمیر کی خاطر ایران جیسی زبردست سلطنت سے ٹکر لی.وہاں حالت ابھی نہیں آئی کچھ بدل گئے ہیں روم کی حالت ہے کیونکہ روم میں کسری سے لڑائی ہوئی.ہماری پہلی لڑائی ایسا معلوم ہوتا ہے عیسائی مذہب سے ہو گی جس طرح رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی ہوئی.ویسے تاریخ کے لحاظ سے وہ دوسری لڑائی ہے مسلمانوں سے.اس زمانہ میں اور ہماری دوسری لڑائی دہریوں سے ہوگی جیسا کہ ایران میں مسلمانوں کی لڑائیاں ہوئیں کیونکہ وہاں آتش پرست تھے.خدائے واحد دیگا نہ کو ماننے والے نہ تھے.رومی جو تھے وہ تثلیث کے بھی قائل تھے.بیچ میں یونیٹیرین بھی تھے.بہر حال وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نازل شدہ شریعت اور ہدایت کے ماننے والے تھے.یعنی شریعت ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دی تھی اور ہدایت ان کو حضرت عیسی علیہ السلام نے دی تھی.اس وقت جو ابتدائی ہماری جنگ غلبہ اسلام کے سلسلہ میں ہے وہ ہم نے افریقہ میں لڑنی ہے اور افریقہ میں مغربی افریقہ ہمارے لئے Camp ( کیمپ) اور Base (میں) بنے گا اور بن رہا ہے.اس جنگ کے لئے میں نے مالی اور جانی جہاد کی ندا دی ہے.آپ کو اس کی طرف بلایا ہے اور میں خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل دیکھتا ہوں کہ جماعت کی بڑی بھاری اکثریت نے انتہائی فدائیت اور جاں نثاری کا ثبوت دیا ہے.جانی میدان میں بھی اور مالی میدان میں بھی.ایک مہینہ نہیں گزرا ابھی پہلے سترہ دن میں تو سترہ لاکھ روپیہ (نصرت جہاں ریز روفنڈ میں ہو گیا تھا اور جتنے ٹیچر چاہیے تھے ان سے زیادہ ہمارے پاس آگئے ہیں اور ڈاکٹروں کی کچھ کمی تھی وہ پوری ہوگئی اور مالی لحاظ سے ٹیچر بھی اور دوسرے بھی.لیکن جس قسم کی مذہبی جنگ جو دلائل اور آسمانی نشانوں کے ساتھ لڑنی اور جیتنی ہے اللہ کے فضل سے اس کی توفیق سے، اس کے لئے.پتہ نہیں کل کو کتنے آدمیوں کی ضرورت ہو گی.ڈاکٹروں کی
خطبات ناصر جلد سوم ۲۵۶ خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۷۰ء ضرورت ہوگی.ٹیچر اور مبلغین کی بھی.اور یہ تو یقینی بات ہے جس قسم کے اس وقت ہمارے پاس نہیں.ان سے زیادہ مخلص فدائی اور جنونی آدمی ہمیں چاہئیں.ہمارا نظام ”رٹ کے اندر جس کو کہتے ہیں رستہ بنایا ہوا ہے پہیہ نے ، اس میں پڑ گیا ہے.حالانکہ ہمارا ماحول اور ہماری ضرورت اور ہمارے مخالف کا جو طریق جنگ ہے ہمیں اس رٹ سے پہیہ کو اس نشان سے باہر نکالنا ہے اور ہم نے دفاع نہیں کرنا کیونکہ دفاع کا وقت گزر گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود تیس ہزار سے زیادہ اعتراض عیسائیوں کے اکٹھے کئے اور ان کا جواب دیا.اب عیسائی جو ہے وہ اپنا دفاع کر رہا ہے اور ہم اس کے اوپر حملہ آور ہیں اور اس حملہ میں ہماری وہ فراست ہونی چاہیے جو دوسری جنگ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ میدانِ جنگ میں دکھایا کرتے تھے.اس قسم کی فدائیت چاہیے.آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ بعض دفعہ ایسی جھڑ پیں ہوئیں کہ مسلمان چار ہزار اور دشمن سولہ ہزار اور بہر حال ان کو زیادہ قربانی اس لحاظ سے بھی دینی پڑتی تھی کہ ان کی تو با ہیں شل ہو جاتی تھیں.وہ ( دشمن ) چار ہزار پیچھے ہٹا لیتے تھے اور تازہ دم چار ہزار لڑنے کے لئے آگے بھیج دیتے تھے.تو چاروں ٹکڑیوں کے ساتھ ایک ٹکڑی کولڑنا پڑتا تھا کیونکہ وہ ان سے چار گنے زیادہ تھے اس کے باوجود تاریخ لکھتی ہے که قریباً ساری رات وہ قرآن کریم کی تلاوت اور نوافل میں وہ گزارتے تھے اور صبح کے وقت میدانِ جنگ میں چلے جاتے تھے تو ان کی قوت اور طاقت کا منبع اور سر چشمہ نیند اور آرام یا کھانا نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش تھی.اس طرف ہمارے بہت سے مبلغ توجہ دے رہے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں جو توجہ نہیں دے رہے اگر تم نے اپنے جسم اور روح کی طاقت اللہ تعالیٰ سے حاصل نہ کی تو تمام ادیان کے مقابلہ میں جو جنگ تم لڑ رہے ہو.اس کی طاقت تم کیسے پاؤ گے تم لڑہی نہیں سکتے تمہارے جسم ، تمہارے ذہن، تمہارے حافظے اور تمہاری ذہنی اور روحانی قوتیں جو ہیں وہ اتنی کمزور ہوں گی (اس منبع سے کٹ کر ) کہ تم غالب نہیں آسکتے اپنے مخالف پر تم ناکارہ سپاہی تو کہلا سکتے ہو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فوج کا جو آج ساری دنیا سے برسر پیکار ہے.روحانی اور علمی لحاظ سے لیکن تمہیں کارآمد وجود اس فوج کا نہیں کہہ سکتے.
خطبات ناصر جلد سوم ۲۵۷ خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۷۰ء تمہیں اپنا تعلق اپنے پیدا کرنے والے رب سے مضبوط کرنا پڑے گا اور اپنی ساری طاقت اس سے حاصل کرنی پڑے گی اور اپنے نفس کو مارنا پڑے گا اور ایک نئی زندگی اس سے پانی پڑے گی.تب تم جا کر اس میدان میں فتح حاصل کر سکتے ہو.ورنہ نہیں کر سکتے تو ہمارے جو مبلغ ہیں اور رضا کار ہیں ان کو اس طرف توجہ دینی چاہیے ورنہ ان کا وجود ایک ناکارہ وجود ہے بے ثمر وجود ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اور نہ ہی نکل رہا ہے.ایسے جو ہیں.لیکن اگر اللہ تعالیٰ سے ہمارا پختہ تعلق ہو اور اگر ساری طاقتوں کا منبع اور سر چشمہ ہم اس ذات کو سمجھیں اور اس کے حضور عاجزانہ جھک کر اور اپنے پر ایک موت وارد کر کے اس کو کہیں کہ اے خدا ہمارا کچھ نہیں ہماری زندگی بھی نہیں ہم ایک مردہ لاشہ کی طرح ہیں لیکن ہم تیرے دین کے غلبہ کے لئے اپنی خدمات کو پیش کرتے ہیں.تو ہمیں نئی زندگی اور نئی طاقت اور نئی فراست کے نور سے ہمارے سینوں کو بھر دے اور ہم میں وہ برکت ڈال.جس برکت کا تو نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی قوت کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا.اگر اس طرح ہم اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق کو پیدا کرسکیں اور ساری طاقتیں اس کے قدموں میں پھینک کر اس سے طاقت حاصل کریں تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں.ورنہ ہم کامیاب نہیں ہو سکتے تو جو نئے آنے والے ہیں ان کو بھی میری یہ نصیحت ہے اور جو پرانے آئے ہوئے ہیں ان کو بھی میں یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تمہارے اندر کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ تم عظیم جہاد میں کامیاب جرنیل ثابت ہو سکو.اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا اور دنیا میں اپنے مقصود کو پانا ہے اور اگر تم چاہتے ہو کہ واقع میں اسلام دنیا میں غالب آ جائے تو اپنے اوپر ایک موت وارد کر کے اپنے رب سے ایک نئی زندگی پاؤ.تب تم واقع میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی جنت کو بھی پاؤ گے اور دنیا میں آنے والی نسلیں تمہیں عزت اور احترام کے ساتھ یا دکریں گی.ورنہ جس طرح دنیا ابی ابن سلول کو نہیں بھولی تم میں سے بعض کو نہیں بھولے گی.خواہ وہ اپنے زعم میں خود کو کتنا ہی قابل عزت اور قابل احترام بھی نہ سمجھتا ہو اس طرح تمہیں بھی یادر کھے گی.لیکن خالد بن ولید کی طرح.ابو عبیدہ کی طرح.سعد بن ابی وقاص کی طرح تمہیں یاد نہیں رکھے گی.اس سے بڑھ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی
خطبات ناصر جلد سوم ۲۵۸ خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۷۰ء طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرح جس طرح ان بزرگ فدائیوں کو جو ثانی اثنین تھا ہر ایک کو اُنہوں نے یا درکھا.اس طرح تمہیں یاد نہ رکھے گی لیکن اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہو کر اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے قدموں میں ڈال دو تو خدا تعالیٰ کی رحمت آسمانوں سے تم پر نازل ہوگی اور وہ فوجیں اُتریں گی جنہیں تم تو دیکھو گے لیکن دنیا نہیں دیکھ رہی ہوگی نہ کمز ور ایمان اور منافق انہیں دیکھ رہا ہو گا.نتائج ظاہر کر رہے ہوں گے کہ ایک انقلاب عظیم آیا ہے اس کے پیچھے کوئی ہاتھ ہونا چاہیے لیکن وہ ہاتھ نظر نہیں آرہا ہوگا کیونکہ وہ غیر مرئی ہاتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کا ہو گا جسے یہ انسان اور اس کی آنکھ نہیں دیکھا کرتی اور جو مالی مطالبہ ہے میں سمجھتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ اسے اتنے لاکھ ہو جانا چاہیے جو خلافت احمدیہ کے سال ہیں.یعنی اس وقت تک دو خلافتیں اور کچھ سال پتہ نہیں کب تک میں نے زندہ رہنا ہے لیکن اس وقت تک جوز ندگی اللہ تعالیٰ مجھے دے چکا ہے.اس کو پہلی دو خلافتوں کے سالوں میں شامل کر کے جتنے سال بنتے ہیں تقریباً باسٹھ سال.اتنے لاکھ ( چندہ نصرت جہاں ریز رو فنڈ کا ) ہونا چاہیے اور جانی قربانی اتنی کثرت سے اور اس قدر ایثار سے ہونی چاہیے کہ اگلے پانچ سال ، پچھلے ساٹھ سالہ ظاہری ترقی کے مقابلہ میں زیادہ ہوں یعنی اگلے پانچ سال میں اپنی Base( میں ) کو اپنے حملہ کے لئے جو تیاری ہو یعنی آخری کامیاب حملہ کی جو تیاری ہو اس کے لئے اس قدر تیار کر لیں کہ آہستہ آہستہ بتدریج اللہ تعالیٰ نے جو ترقی دی تھی.اگلے پانچ یا دس سال میں ہم اس سے آگے نکل جائیں.یہ ضروری ہے کامیابی کے لئے محض ترقی ضروری نہیں.محض اپنی رفتار کو قائم رکھنا یہ کافی نہیں بلکہ ہر دوسرا قدم پہلے سے آگے بڑھنا چاہیے اور اس کو انگریزی میں Momentum کہتے ہیں.یعنی ہر سال کوشش اور اس کا نتیجہ پہلے سال سے دُگنا ہونا چاہیے تب ہم جا کر اگلے دس سال میں اسی چیز کو حاصل کر سکتے ہیں جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جس کے حصول کو اللہ تعالیٰ نے بالکل ممکن بنا دیا ہے.جو میں وہاں دیکھ کر آیا ہوں آدمی کثرت سے آئیں مخلص آئیں ایسے آئیں کہ جو فدائی ہوں.بے نفس ہوں مردہ ہوں دنیا کی نگاہ میں اور اللہ تعالیٰ سے زندگی کو حاصل کرنے والے ہوں.
خطبات ناصر جلد سوم ۲۵۹ خطبہ جمعہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۷۰ء خدا کرے ایسا ہو.خدا کرے کہ ہماری آج کی جو ذمہ داری ہے اس کو ہم نبھا سکیں.آج ہم انتہائی طور پر نازک دور میں سے اس معنی میں گزر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری عظیم کامیابیوں کے لئے دنیا کی فضا کو ہمارے لئے بہتر بنادیا ہے اور اس تبدیلی کا جو امکان ہے اس تبدیلی کو عملی شکل دینا یہ ہمارے سپر د کر دیا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے قریباً پھل تیار کر کے اس طرح جس طرح دس فٹ کے اوپر اس درخت کا پھل پک جائے جو خود بخود نہیں گرا کرتا.یعنی پڑکا نہیں ہوتا.بعض ایسے درخت ہوتے ہیں جس کا پھل پڑکا نہیں ہوتا.آم تو ٹپک پڑتا ہے.بعض پھل پکنے کے بعد بھی درخت کے ساتھ لگے رہتے ہیں.تو جو دس فٹ اوپر پھل ہے اور پک جاتا ہے اس کو توڑنا انسان کا کام ہے.پھل پک چکا ہے لیکن گرے گا نہیں.جس طرح میں نے افریقنوں کو کہا تھا ایک مضمون کے سلسلہ میں آپ کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کی کامیابی کے جو مختلف دور ہیں اور جن مدارج میں سے ہم نے گزرنا ہے.سیڑھی بہ سیڑھی چڑھ کر بہت عظیم انقلاب ہمارے سامنے ہے.مقدر ہو چکا ہے لیکن اس Destiny ( ڈسٹی ) اس تقدیر کا پھل ہم نے توڑنا ہے.ہماری گود میں نہیں گرے گا.پھل تیار ہے.رفعتوں کو آپ حاصل کریں اور پھل کو پالیں.اِثَاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ خدانخواستہ ہماری ذہنیت ہو تو جو بلندیوں میں پھل تمہارا انتظار کر رہا ہے زمین پر گر جانا یا زمین کے ہو جانے سے وہ پھل تمہیں نہیں مل سکتا.ایسا نہ کبھی ہوا نہ ہو سکتا ہے اور نہ کبھی ہوگا تو جو چیز تمہارے لئے مقدر ہو چکی ہے اس کے حصول کے لئے انتہائی کوششیں کرو اور اللہ کے انتہائی فضلوں کو حاصل کرو.خدا آپ کو بھی اور مجھے بھی اس کی توفیق عطا کرے.(اللَّهُمَّ آمین) از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۲۶۱ خطبہ جمعہ ۷ راگست ۱۹۷۰ء ایمان کی پختگی کے بغیر ہم اپنی ذمہ داری کو نباہ نہیں سکتے خطبہ جمعہ فرموده ۷ راگست ۱۹۷۰ء بمقام سعید ہاؤس.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.صحت کے ساتھ بیماری بھی لگی ہوئی ہے اور بعض بیماریاں تو ایسی ہیں کہ ایک دفعہ حملہ کریں تو پھر ان کا عمر کا ساتھ ہو جاتا ہے اسی قسم کی بیماریوں میں سے پیچش ہے خصوصاً وہ قسم جسے ایم بی بک ڈیسٹری“ کہتے ہیں بڑی دیر سے مجھے بھی تکلیف ہے.کبھی یہ بیماری سوئی رہتی ہے اور کبھی بیدار ہوکر تنگ کرتی ہے.ربوہ میں ہی پیچش کا بڑا اسخت حملہ ہوالیکن وہاں ایک دوروز چلنے سے قبل حملہ ہوا تھا.میں نے اس کی دوائی اس لئے استعمال نہیں کی کہ دوائی پیچیش کو تو خدا تعالیٰ کے فضل سے فائدہ پہنچاتی ہے لیکن کمزوری بہت کر دیتی ہے اور وہاں اس قسم کے کام تھے اور اس نوعیت کے کام تھے کہ جنہیں ختم کرنا ضروری تھا اس لئے میں نے خیال کیا کہ کام کئے جائیں اور پیچش کو کھیلنے دیا جائے یہاں آکر دوائی کا استعمال کیا ہے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے کچھ افاقہ ہے لیکن کمزوری اتنی ہو گئی ہے کہ آج صبح تو خیال تھا کہ میں شاید جمعہ میں شامل نہ ہوسکوں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے شامل ہو گیا ہوں اور کوشش کروں گا کہ بالکل مختصر بیان میں آپ کی توجہ ایک نہایت اہم بات کی طرف مبذول کر دوں اور یہ ایک بنیادی بات ہے یعنی ایمان پر پختگی سے قائم ہونا.
خطبات ناصر جلد سوم ۲۶۲ خطبہ جمعہ ۷ راگست ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سینکڑوں جگہ ایمان کے لفظ کو استعمال کیا ہے اور اس کے بیسیوں شعبے اور بیسیوں شاخیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے بعض کے متعلق شاید میں بعد میں انشاء اللہ بعض خطبات دوں گا آج میں صرف اصولی بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایمان پر پختگی ضروری ہے ور نہ ایمان کا کوئی فائدہ نہیں مثلاً ہمیں بعض مومن ایسے بھی نظر آتے ہیں کہ جو بظاہر دیانت داری کے ساتھ اور اخلاص سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اپنی اس دیانت داری اور اخلاص کے باوجود وہ قبروں پر جا کر سجدہ بھی کر دیتے ہیں یعنی بہت سے ان پڑھ نا سمجھ پورا علم نہ رکھنے والے عوام مسلمان قبروں پر جا کر سجدہ بھی کر دیتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایمان باللہ پر پختہ ہیں حالانکہ اللہ پر ایمان اور کسی قبر یا قبر والے کا خیال یہ تو اکٹھے نہیں ہو سکتے لیکن عدم علم اور جہالت کے نتیجہ میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں وہ اپنے خدا کو دھوکہ نہیں دے رہے ہوتے البتہ اپنے نفس کو ضرور دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں ) کہ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لانے کے راستے میں قبر کا سجدہ روک نہیں ہے.ایک بڑی موٹی مثال ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے ایمانوں پر پختگی سے قائم ہوں چنانچہ جب ہم صحابہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم حیران ہو جاتے ہیں کہ کس قدر پختہ ایمان تھا ان کا ، ہر اس شعبہ اور شاخ کے متعلق کہ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے.قریباً ۳۸ یا ۴۰ سالہ دور ہے ہجرت کے بعد کا خلافتِ راشدہ کے اختتام تک اس زمانہ پر اگر آپ اس نقطۂ نگاہ سے نظر ڈالیں کہ صحابہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے جن لوگوں نے صحیح اور کامل اور پوری تربیت حاصل کی انہوں نے کیا کردار ادا کیا تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہ اسلام کی روح رواں تھے وہ اُمت مسلمہ کی جان اور ریڑھ کی ہڈی تھے ان کے بغیر اُمت مسلمہ کا جسم بھی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی روح رواں بنیں کیونکہ انہوں نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلیٰ تربیت حاصل کی ہوئی تھی وہ لوگ جو صحابہ کہلائے گو بعد میں تو اُمّتِ مسلمہ کے علماء اور فقہاء نے صحابی کی تعریف بہت نرم کر دی تا کہ صحابیوں کے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۶۳ خطبہ جمعہ ۷ راگست ۱۹۷۰ء نام کا تقدس اور برکت امت میں جاری رہے لیکن صحابہ میں سے دو گروہ ہیں ایک وہ جو دن رات آپ کے قرب میں رہنے والے تھے اور ہر بات کے متعلق اور اپنی زندگی کے ہر پہلو کے متعلق آپ سے تربیت حاصل کرنے والے تھے اور دوسرے وہ تھے جو تین سو میل سے آئے ایک دفعہ ملے اور پھر واپس چلے گئے.صحابی کی تعریف کے مطابق وہ بھی صحابی بن گئے یا مثلاً حج کرنے آئے اور دور سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اور مقدس اور نورانی وجود پر نظر ڈالی اور برکت لی ( برکت انہوں نے یقینائی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ) اور حج کے دنوں میں آپ کے کلمات سنے اور اس سے استفادہ کیا یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے لیکن ان دو برکتوں یعنی ایک وہ شخص ہے جو دن رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے برکتیں حاصل کر رہا ہے اور ایک وہ شخص ہے جس نے برکت تو حاصل کی لیکن اپنی ساری زندگی میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں دس منٹ یا آدھ گھنٹہ یا گھنٹے تک برکت حاصل کی پس عملی زندگی اور اس زمانہ کے حقائق کے لحاظ سے ان دو برکتوں میں بڑا فرق نظر آتا ہے.مثلاً ایک اور واقعہ میں یہاں بیان کر دیتا ہوں یرموک کی جنگ ہوئی قیصر روم کے ساتھ مسلمانوں کی جو جنگیں ہوئی ہیں ان میں سے یہ جنگ سب سے زیادہ خطر ناک تھی ایک اور اس سے ملتی جلتی جنگ تھی لیکن یہ یقیناً بہت خطر ناک جنگ تھی مسلمان ان کی تعداد کے لحاظ سے جو ان کی تعداد کم کر کے اور اپنی تعداد زیادہ کر کے دیکھ رہے تھے مؤرخین میں بڑا اختلاف ہے جو زیادہ سے زیادہ تعدا د ثقہ مؤرخین نے مسلمانوں کی لکھی ہے وہ لی جائے اور جو کم سے کم تعداد مسلمان مؤرخین نے رومیوں یعنی عیسائیوں کی لکھی ہے وہ لی جائے تو مسلمانوں اور عیسائیوں کی تعداد میں ۱ اور ۱،۴ اور ۵ کا فرق ہے.غرض یہ بڑی زبردست جنگ تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے مسلمانوں کو فتح دی لیکن اس جنگ میں ایک دن میں ( باقی تو چھوٹی چھوٹی جھڑ میں تھیں) ایک ہزار ایسے صحابہ رضوان اللہ علیھم شہید ہوئے جو صحیح طور پر ایک لمبے عرصہ تک حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت حاصل کر چکے تھے اور جوا اپنی ذمہ داری کو کماحقہ سمجھتے تھے اور اس ایک ہزار میں ایک سو ایسے صحابہ تھے جو بدر میں شامل ہوئے تھے حالانکہ بدر پہلی جنگ ہے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۶۴ خطبہ جمعہ ۷ راگست ۱۹۷۰ء پس معلوم ہوا یہ بہت پرانے صحابہ میں سے تھے کیونکہ بدر میں گل ۳۱۳ صحابہ شامل ہوئے تھے اور یرموک کی جنگ تک بہت سے ویسے ہی وفات پاگئے ہو نگے.میں نہیں کہہ سکتا کہ اس دن بدری صحابہ میں سے باقی کتنے موجود ہونگے لیکن اگر فرض کر لیں کہ سارے موجود تھے تب بھی ۳۱۳ کی اس ابتدائی جماعت میں سے جو شروع سے ایمان لائے اور ساری جنگوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے ان ۱۳ ۳ میں سے ایک سو صحابی یعنی ایک تہائی یہاں شہید ہو گئے یہ چوٹی کے صحابہ تھے اور اُمت مسلمہ کی جان تھے اس وقت اگر یہ نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ شاید کسی اور رنگ میں فضل کرتا اس کے فضل کے جو دروازے ہیں ان کا تو کوئی شمار نہیں لیکن ظاہری حالات میں یہ لوگ جو تھے ان کے ساتھ جب دوسروں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان میں ان جیسی ہمت نظر نہیں آتی کہ یرموک کی جنگ یا ایران کی دوسری جنگیں یا قیصر روم کے ساتھ دوسری جنگیں جیت سکتے.ان پرانے صحابہ میں سے بسا اوقات ایک ایک آدمی جنگ جیت جاتا تھا.ایک دفعہ مسلمانوں نے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا.وہ Surrender (سرنڈر) نہیں کر رہے تھے حالانکہ ایسی صورت میں دشمن کے ساتھ اسلام نے بڑی نرمی دکھائی ہے کہا ہے یا اسلام لے آؤ تمہیں ہر قسم کی برکتیں ملیں گی دین کی بھی اور دنیا کی بھی اور اگر تمہارے دل میں اسلام کی صداقت پوری طرح واضح نہیں ہوئی تو پھر جزیہ دے دو ہماری امان میں آجاؤ تم ہماری حفاظت میں ہو گے اور اس کا کرایہ سمجھ لو جس طرح کرایہ پر آدمی ٹیکسی لیتا ہے اسی طرح ہماری تلوار میں تمہاری حفاظت کریں گی تم ہمیں تھوڑا سا جزیہ دے دو یعنی ہر آدمی کو جزیہ کے طور پر سال میں چند روپے دینے پڑتے تھے.اسلام نے جزیہ کی بہت نرم شرائط رکھی ہیں مگر یہ جزیہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں تھے اور لڑتے بھی نہیں تھے قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے تھے مسلمان تنگ آگئے چونکہ وہ عملی زندگی کے عاشق تھے اگر چار پانچ دن بھی کوئی معرکہ نہ ہوتا تھا تو وہ بے چین ہو جاتے تھے کیونکہ دوسرے روحانی معرکوں سے تو وہ دور آئے ہوئے تھے اور اب میدانِ جنگ میں پڑے ہوئے تھے.چنانچہ ایک دن ان پرانے صحابہ میں سے ایک بزرگ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم
خطبات ناصر جلد سوم ۲۶۵ خطبہ جمعہ ۷ راگست ۱۹۷۰ء یہاں محاصرہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں دشمن باہر نکلتا نہیں قلعہ اتنا مضبوط ہے کہ ہمارے لئے ویسے اندر جانا مشکل ہے تم مجھے اُٹھا کر قلعے کی دیوار کے پرے دروازے کے پاس پھینک دو میں وہاں جو سپاہی ہوں گے ان کو مار دوں گا اور قلعہ کا دروازہ کھول دوں گا وہ چونکہ بڑے بزرگ صحابی تھے اس لئے ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم آپ کو کس طرح موت کے منہ میں پھینک دیں ہماری شامت آئی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں میں جو کہتا ہوں کہ مجھے قلعہ کے اندر پھینک دو میں اکیلا کافی ہوں آگے روایتوں میں اختلاف ہو گیا ہے بعض نے کہا ہے کہ ان کے ساتھی مان گئے اور انہوں نے کندھوں پر اٹھا کر ان کے پرلی طرف کو دنے کا سامان کر دیا ایک اور روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا اچھا میں خود ہی دیوار پر چڑھ جاتا ہوں بہر حال وہ اکیلے دشمن کے قلعے کے اندر گھس گئے.قلعہ مضبوط اور اس کے اندر ان کی ایسی فوج جسے کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا کیونکہ جنگ ہی کوئی نہیں ہوئی تھی مگر انہوں نے اکیلے خدا کی راہ میں دلیری دکھائی کہ دیوار پھاندی ، اندر گئے پانچ دس آدمی جو دروازے پر محافظ تھے ان کو خدا کے فضل سے قتل کر دیا جس وقت دروازہ کھولنے لگے تو پیچھے سے ان کے اور آدمی آگئے یعنی سینکڑوں کی بات تھی.اب دروازہ کھلتا یا ان کو پکڑ کر مار دیتے لیکن اس وقت ( یہ خدا کی شان تھی کہ ) قلعہ کے دروازہ پر تالہ نہیں لگا ہوا تھا بلکہ بولٹ ٹائپ کی کوئی چیز تھی اس واسطے جلدی سے دروازہ کھل گیا.مسلمان فوج اندرآگئی اور قلعے.قابض ہوگئی گو انہوں نے اندر آ کر بھی دشمن سے لڑائی لڑی لیکن اصل میں تو اس جنگ کو جیتنے والے وہی ایک صحابی تھے.اُمت مسلمہ کی تاریخ میں یہ ساری چیزیں کیوں ہمیں نظر آتی ہیں؟ اس لئے ہمیں نظر آتی ہیں کہ وہ ایمان کی پختگی پر قائم تھے.ایسے قائم تھے کہ حضرت خالد بن ولید نے بسا اوقات دشمن کو اپنے خط میں یہ لکھا ہے کہ تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ جزیہ پر صلح کر لو کیونکہ میرے ساتھ وہ فوج ہے جو موت سے اس سے زیادہ پیار کرتی ہے جتنا تم لوگوں کو زندگی سے پیار ہے اور ان کے عمل بھی یہی ثابت کر رہے تھے.یہی ایمان کی پختگی آج بھی چاہیے آج بھی اسلام کو اسی کی ضرورت ہے.غلبہ اسلام کا وہ
خطبات ناصر جلد سوم ۲۶۶ خطبہ جمعہ ۷ راگست ۱۹۷۰ء کام جو ہمارے سپر د کیا گیا ہے وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا جنون ہی ہے نا جس طرح وہ جنون تھا کہ اکیلے اندر جا کر قلعے کا دروازہ کھول دے گا.ایک دنیا دار کی نگاہ میں وہ بھی ایک جنون کی بات تھی اور یہ بھی ایک جنون کی بات ہے جب وہ ہم سے یہ سنتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی غریب جماعت جسے مٹانے کے لئے ساری دنیا اکٹھی ہو گئی ہے اور جس کے پاس طاقت نہیں ، روپیہ نہیں اور دولت نہیں دنیوی علوم کے لحاظ سے کوئی بڑے اچھے سکالر نہیں مگر کہتے یہ ہیں کہ ہم نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے جس طرح وہ ( یعنی صحابہ ) کہتے تھے کہ ساری دنیا میں اسلام اب فاتح اور غالب کی حیثیت میں رہے گا صرف منہ سے یہ کہ دینا کہ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کو غالب کر کے چھوڑیں گے یہ تو بالکل بے معنی بات ہے جب تک اس قسم کا ایمان اور ایمان میں اس قسم کی پختگی نہ ہو جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم میں تھی.اس پختگی کے بغیر تو ہم کام ہی نہیں کر سکتے یہ تو مذاق ہے دنیا کے ساتھ اور اپنے نفسوں کے ساتھ یہ تو شیطان کے ہاتھ میں کھیلنا ہے غرض ایمان کی پختگی کے بغیر ہم اپنی ذمہ داری کو نباہ نہیں سکتے میں نے بتایا ہے کہ ایمان کی پختگی مختلف شعبوں سے تعلق رکھتی ہے اس کی مختلف شاخیں ہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اللہ پھر بتاؤں گا آج تو الحمد للہ ، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے چند منٹ میں بنیادی طور پر یہ بات میں نے بتادی ہے اس کی تفصیل میں انشاء اللہ پھر جائیں گے.谢谢谢 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد سوم ۲۶۷ خطبه جمعه ۱۴ /اگست ۱۹۷۰ء ایمان کی روح اور اسلام کی جان ایمان باللہ ہے خطبه جمعه فرموده ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء بمقام سعید ہاؤس.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مجھے سارا ہفتہ ہی خون کے دباؤ میں کمی کی تکلیف ہو جاتی رہی ہے.آج صبح بھی ۱۱۲.۷۶ تھا اور اس وقت دوائی کھانے کے باوجود ۱۱۴ ہوا ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.اس کی وجہ سے ضعف دماغ بھی ہو جاتا ہے.آدمی ٹھیک طرح کام نہیں کر سکتا.میں نے گزشتہ جمعہ مختصراً ایمان کی پختگی کے متعلق احباب کو توجہ دلائی تھی قرآن کریم میں ایمان کا لفظ دوطریق پر استعمال ہوا ہے.ایک تو مخصوص بنیادی چیزوں پر ایمان کے متعلق جیسا کہ اللہ تعالیٰ کہیں فرماتا ہے ایمان بالغیب لانا چاہیے کہیں فرماتا ہے آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے کہیں فرماتا ہے انبیاء اور رسل پر ایمان لانا ضروری ہے کہیں فرماتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین انسان اور رسول تھے ان پر ایمان لانا ضروری ہے کہیں فرماتا ہے کہ پہلی ہدایتوں پر جو دراصل قرآن کریم ہی کے حصے اور ٹکڑے اور نصیب تھے.ان پر ایمان لانا ضروری ہے کہیں فرماتا ہے کہ قرآن کریم پر ایمان لانا ضروری ہے کہیں فرماتا ہے کہ تمہیں جو پیشگوئیاں اور بشارتیں دی گئی ہیں اُن پر ایمان لانا ضروری ہے.غرض اس طرح ایمان
خطبات ناصر جلد سوم ۲۶۸ خطبه جمعه ۱۴ /اگست ۱۹۷۰ء کے ساتھ وضاحت ہو جاتی ہے کہ اس بات ( یعنی جو مضمون بیان ہورہا ہو ) پر ایمان لا ناضروری ہے.دوسرے ایمان کا لفظ جو عام طور پر اور بڑی کثرت کے ساتھ استعمال ہوا ہے اس کے ساتھ آگے تفصیل نہیں ہوتی یہ فرمایا ہے کہ ایمان لاؤ ایمان کا یہ فائدہ ہے ایمان کا یہ ثواب ہے ایمان سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جاتا ہے مگر وہاں یہ ذکر نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی بات ہو رہی ہے یا غیب پر ایمان لانے کی بات ہو رہی ہے یا رسل پر ایمان لانے کی بات ہو رہی ہے یا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بات ہو رہی ہے یا قرآن کریم پر ایمان لانے کی بات ہورہی ہے وغیرہ.غرض ایسی صورت میں تفصیل نہیں دی ہوتی اللہ تعالیٰ صرف یہ فرماتا ہے کہ ایمان لاؤ.دراصل جہاں کہیں بھی ایمان کے لفظ کو اس طریق پر استعمال کیا گیا ہے وہاں ایمان کے تمام تقاضے مراد ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایمان کے جو بھی تقاضے مقرر فرمائے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح کی ہے ان تقاضوں کو پورا کر نا مراد ہے مثلاً ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم ایمان لانے والے ہو گے تو کوئی غیر تم پر غالب نہیں آسکے گا.وَ انْتُمُ الْأَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ (ال عمران :۱۴۰) اب یہاں مومن کے لفظ کے ساتھ مؤمن بالله يا مؤمن بالغيب يا مؤمن بالآخرة وغیرہ نہیں ہے بلکہ محض مومن کا لفظ ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ایمان کے سب تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی نصرت تمہارے شاملِ حال ہوگی اور تم ہی غالب آؤ گے غیر تم پر غالب نہیں آئے گا.پس جب اللہ تعالیٰ کی ساری محبت اور ساری نصرت اور ساری رحمت اور ساری برکت کو جذب کرنے اور اس کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ایمان کے سب تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ٹھہرا تو پھر ہمیں ایمان کے سب تقاضوں کا علم بھی ہونا چاہیے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایمان کے جو مختلف تقاضے بیان فرمائے ہیں ان کے متعلق میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سلسلہ وار کچھ بیان کروں گا.
خطبات ناصر جلد سوم ۲۶۹ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء ایمان کا پہلا تقاضا اور وہی دراصل ایمان کی روح اور اسلام کی جان ہے وہ ایمان باللہ ہے.پس جب میں نے کہا تھا کہ ایمان میں پختگی پیدا کرو تو میرا یہی مطلب تھا کہ ایمان کے جتنے پہلو اور جتنی شاخیں ہیں ہر پہلو اور شاخ کے متعلق اپنے ایمانوں میں پختگی پیدا کر وایمان کے مضمون کے اندر جو بنیادی چیز ہے وہ ایمان باللہ ہے یعنی اللہ پر ایمان لانا.اللہ پر ایمان لانا اور لانے میں بڑا فرق ہے ایک شخص اللہ تعالیٰ کو جانتا ہی نہیں لیکن زبان سے کہتا ہے کہ میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں اللہ پر حقیقی ایمان لانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کی معرفت حاصل ہو اور جب پوری معرفت حاصل ہو جائے تو پھر سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے.معرفت کے بغیر وہ چیز ہمیں مل نہیں سکتی جو اسلام ہمیں دینا چاہتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا.پس صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے خدا اور رسول کے نزدیک یہ کافی نہیں ہے اللہ تعالیٰ پر اس طرح ایمان لانا چاہیے جس طرح قرآن کریم کہتا ہے کہ ایمان لاؤ مثلاً اللہ تعالیٰ کو ہر حالت اور زندگی کے ہر موڑ پر قادر مطلق سمجھنا دنیا میں کسی قوم یا کسی انسان کی زندگی میں کوئی ایسا موقعہ نہیں آیا کہ جس وقت یہ کہا جائے کہ اب خدا بھی اس کی مدد نہیں کر سکتا.پس اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا یہ بھی ایک پہلو ہے.میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ایک دفعہ ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ میرے دو تین عزیز ہیں.معصوم تھے لیکن قتل کے ایک کیس میں ملوث ہو گئے ہیں جج جو فیصلہ کرتا ہے وہ خدا کی طرح عَلَامُ الْغُيُوبِ تو نہیں ہوتا.بعض دفعہ شرارت بھی کرتا ہے یہ بھی ایک پہلو ہے لیکن بہت دفعہ اپنی جہالت کی وجہ سے فیصلہ کر دیتا ہے گواہیوں پر اس نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے.اسے خود پتہ بھی ہوتا ہے کہ وہ غلط فیصلہ کر رہا ہے لیکن اسے فیصلہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ جن گواہوں کے بیان اس نے ریکارڈ کئے ہیں اور ان سے جو شکل بنتی ہے اسی کے مطابق اسے قدم لینا پڑتا ہے جو وہ لیتا ہے بہر حال ہمیں بھی اور ان کے عزیزوں کو بھی پتہ تھا کہ وہ بے گناہ ہیں.خیر سیشن حج نے انہیں پھانسی کی سزادی پھر ہائیکورٹ میں اپیل کی مگر یہاں بھی پھانسی کی سزا Confirm ( کنفرم ) ہوئی پھر اپیل ہوئی سپریم کورٹ میں یہاں بھی سزا بحال رہی پھر انہوں نے گورنر صاحب کے پاس Mercy (مرسی یعنی رحم کی )
خطبات ناصر جلد سوم ۲۷۰ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء اپیل کی اور انہوں نے بھی اس سزا کو بحال رکھا پھر انہوں نے مجھے دعا کے لئے لکھا (ویسے پہلے بھی وہ دعا کے لئے لکھتے رہتے تھے ) لیکن قبولیتِ دعا یا انکار کے اوقات بھی اسی نے مقرر کئے ہوئے ہیں کیونکہ وہ مالک ہے جب انہوں نے پریذیڈنٹ کے پاس اپیل کی تو ان کے ایک عزیز نے سارے حالات بتاتے ہوئے لکھا کہ اس طرح کا یہ مقدمہ ہے.لوگ کہتے ہیں کہ آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایسے حالات میں صدر رحم کی اپیل منظور کر لے لیکن بہر حال یہ آخری موقعہ تھا ہم نے اپیل کی ہے آپ دعا کریں.اب جس چیز کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اسے میں آگے بیان کرنے والا ہوں چنانچہ میں نے خط پڑھا اس وقت ایک رائے میرے دماغ میں یہ آئی اور میں نے اپنے دماغ میں یہ فقرہ بنالیا کہ جب ایسے حالات ہوں تو مصیبت میں صبر کرنا چاہیے اور کوئی گھبرانے کی بات نہیں ابھی میرے قلم نے یہ فقرہ لکھا نہیں تھا کہ میرے رب نے مجھے پکڑا اور جھنجھوڑا اور مجھے یہ کہا کہ تم ایک احمدی کو یہ سبق دینا چاہتے ہو کہ اس کی زندگی میں ایک ایسا موقع بھی آسکتا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہیں کر سکتا خیر قلم نے تو ابھی کچھ لکھا نہیں تھا میں نے استغفار پڑھی اور انہیں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی چیز ان ہونی نہیں آپ گھبرائیں نہیں میں دعا کروں گا ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کہ ان کا خط آیا کہ رحم کی اپیل منظور ہوگئی ہے اور وہ سب رہا ہو کر گھروں میں آگئے ہیں.اللہ تعالیٰ اس قسم کی قدرت رکھنے والا ہے.اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اسی واسطے اللہ تعالیٰ 66 نے فرمایا ہے لا تقنَطُوا کیونکہ مایوسی شرک ہے.اس سے اللہ تعالیٰ کے لئے ایک ضعف کا احتمال ہوتا ہے یہ ایمان باللہ نہیں ہے ہم اس قادر مطلق پر ایمان لاتے ہیں جو ایک ذرہ حقیر کے ذریعہ دنیا میں ایک عظیم انقلاب بپا کر دیتا ہے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اسلام کے پہلے تیس سالہ دور میں مسلمانوں کی کامیابیوں کے نتیجہ میں جو ایک عظیم انقلاب بپا ہو گیا تھا مسلمانوں نے قیصر وکسریٰ کی زبر دست باشاہتوں کے تختے الٹ دیئے تھے ان کا میابیوں کی جان در حقیقت دس پندرہ ہزار صحابہ کرام تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت پائی تھی بعد میں آنے والے غیر تربیت یافتہ لوگ یہ کام کر ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ صحابہ کرام اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے اور اس پر
خطبات ناصر جلد سوم ۲۷۱ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء پختگی سے قائم تھے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول مانتے تھے اور اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بات آپ کو بتائی ہے وہ واقعہ ہی بتائی ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی طاقت والا ہے وہ بات غلط نہیں ہو سکتی.میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں بھی بتایا تھا کہ ایک قلعہ جو فتح نہیں ہورہا تھا اسے ایک صحابی نے فتح کر لیا.وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ مجھے دیوار کے پرے پھینک دو.پہلے تو ان کے ساتھی مانتے نہیں تھے یہ ایک لمبی تفصیل ہے.بہر حال وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اندر گئے.گیٹ پر موجود سپاہیوں کو قتل کر کے گیٹ کھول دیا فوج اندر آ گئی اور اس طرح ایک آدمی کی جرأت سے قلعہ فتح ہو گیا.کیا وہ صحابی پاگل تھے؟ نہیں وہ پاگل نہیں تھے ان سے زیادہ عقلمند انسان دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا کیونکہ جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اور اس کی صفات کی معرفت رکھتا ہے اس سے زیادہ عقلمند کوئی نہیں ہو سکتا قرآن کریم نے صرف یہ نہیں کہا کہ اللہ پر ایمان لا ؤ اور اس کی صفات جس رنگ میں قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں یا جس رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تفسیر بیان فرمائی ہے اس رنگ میں ان کی معرفت حاصل کرو.مثلاً اللہ تعالیٰ پر رب ہونے کے لحاظ سے ایمان لاؤ کیونکہ ساری ربوبیت عالمین کا منبع اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.آپ دنیا کے ماحول پر نگاہ ڈالیں تو پتہ لگتا ہے کہ سارا کارخانہ عالم اس کی اس صفت پر چل رہا ہے یعنی ایک تدریجی ارتقاء ہے جور بوبیت کا تقاضا کرتا ہے یہ میرے سامنے درخت ہے ایک وقت میں اس کی چھوٹی سی گٹھلی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ اسے غذا ملتی رہے.بڑا ہو اور پتے نکالے.پس یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ایک گٹھلی میں آگے ہزاروں لاکھوں درختوں کے پیدا ہونے کے لئے Cells (سیلز) یعنی نقطے مخفی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت ہر جگہ نظر آتی ہے اپنے گھروں میں اپنے بچوں پر نگاہ ڈالیں اپنے اوپر نگاہ ڈالیں اپنے کپڑوں پر نگاہ ڈالیں اپنے جوتوں پر نگاہ ڈالیں آپ کو نظر آئے گا کہ ہر چیز نے ترقی کے مختلف ادوار یا Changes ( چینجز ) میں سے گزر کر یہ آخری شکل اختیار کی ہے کچھ تبدیلیاں ایسی ہیں جو انسان نے اپنے ہاتھ سے کی ہیں اس عقل کے نتیجہ میں جو اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہے اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد سوم ۲۷۲ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء سے ہمارا چھٹکارا نہیں ہے اگر ہم معرفت رکھتے ہوں اور کچھ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا قانونِ قدرت ایسا بنادیا ہے مگر کہیں کہیں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ قانونِ قدرت کچھ بنا یا تھا اور اپنے قانونِ قدرت کو قانون خاص سے بدل دیا اس پر بھی اللہ تعالیٰ قادر ہے یعنی خود اپنے قانون کے اندر بندھا ہوا نہیں ہے وہ متصرف بالا رادہ ہستی ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے موٹر کے اس کارخانے کی طرح نہیں ہے کہ جس موٹر کو وہ پٹرول پر چلنے کے لئے بنائے وہ ڈیزل سے نہیں چل سکتی اور جس کو ڈیزل پر بنایا ہے وہ پٹرول سے نہیں چل سکتی غرض ہر حرکت ، ہر سکون ، ہر تبدیلی ہر انقلاب چھوٹا یا بڑا اس کے بالا رادہ تصرف کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اس خدا کو قرآن کریم ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جو تمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور کوئی عیب یا کمزوری یا لاعلمی اس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی.دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی منشاء کے بغیر ہو مثلاً یہ اس کا منشاء تھا کہ وہ انسان کو آزادی دے.بعض احمق یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود گناہ کروانا چاہا گندگی پھیلانی چاہی (معاذ اللہ ) یعنی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اجازت دے دی کہ اگر تم چاہو تو نیکیوں کی طرف آجاؤ محبت کو دوسری مخلوق سے زیادہ حاصل کرو چاہو تو تم گند میں پھنس جاؤ اور اس کے قہر اور غضب کو دوسروں سے زیادہ حاصل کرو پس اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر یہ بھی نہیں ہو سکتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک منصوبہ بنایا اور ایک ایسی مخلوق پیدا کرنی چاہی جس کی جان اور روح اور مرکزی نقطہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی اور اس انسان کو پیدا کیا جس کو ایک محدود ما حول کے اندر آزادی دی.محدود ماحول کے اندر آزادی کا یہ مطلب ہے کہ ہمارے پھیپھڑوں کو یہ آزادی نہیں ہے کہ وہ ہوا کی بجائے پانی سے آکسیجن لے لیں.ہمارا جسم ہی کچھ ایسا بنا ہوا ہے اب تو ڈاکٹروں نے ہزار قسم کے مٹیبلزم بنالئے ہیں کوئی میٹھے کا کوئی ہوا کا یہ سارے مٹیبلزم چل رہے ہیں اس عالمین کا یہ سلسلہ ایک کارخانہ کی طرح چل رہا ہے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ متوازن غذا کھاؤ تو صحت مند رہو گے.وَضَعَ الْمِيزَانَ “ کی رو سے اس نے اس دنیا کی ہر چیز میں ایک توازن قائم کر دیا ہے.انسان کے جسم کے لئے بھی اس کی غذا کے لئے بھی تو ازن قائم کیا ہے اس میں اسے کوئی آزادی نہیں ہے کوئی شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ چونکہ میں آزاد مخلوق کا ایک فرد 66
خطبات ناصر جلد سوم ۲۷۳ خطبه جمعه ۱۴ /اگست ۱۹۷۰ء ہوں اس لئے میں صرف میٹھا کھایا کروں گا اور مجھے ذیا بیطس نہیں ہوگی.جو صرف میٹھا ہی کھائے گا وہ بنیوں کی طرح موٹا بھی ہو جائے گا اور اسے بہت ساری بیماریاں بھی لگ جائیں گی.کوئی شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ چونکہ میں آزاد ہوں اس لئے میں صرف گوشت کھایا کروں گا.اوّل تو اگر وہ شیر کی طرح خالی گوشت کھانا شروع کر دے تو اس کے جسم میں سے بد بو آنی شروع ہو جائے گی دوسرے اس کا جسم ، اسکے اخلاق پھر اس کی روحانیت اور ذہن جو ہے وہ متوازن ارتقاء نہیں کر سکے گا.اگر کسی بچے کو بچپن سے سوائے گوشت کے کچھ نہ دیا جائے تو وہ انسانی معاشرہ کا ایک نارمل فرد نہیں بن سکے گا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑا ہے.پس ہر جگہ تو ہم آزاد نہیں البتہ ایک چھوٹے سے دائرے میں آزاد ہیں ہم اس بات میں آزاد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت اور شریعت نازل کی ہے اگر چاہیں تو اس کے آگے اپنی گردنیں رکھیں اور اگر چاہیں تو شیطان کے بچے بن جائیں مگر یہ وارننگ دے دی کہ اگر تم میری بات مانو گے تو میری رضا کی جنتوں میں اپنا ٹھکانا بناؤ گے اور اگر تم میری بات نہیں مانو گے شیطان کی گود میں بیٹھنا چاہو گے تو اس دنیا میں تو ممکن ہے ظاہری طور پر تمہیں اس کا کوئی فائدہ پہنچ جائے دنیا لیکن ابدی طور پر پھر تمہیں جہنم کی آگ کے اندر شیطان کی گود میں بیٹھنا پڑے گا کیونکہ وہاں تمہیں بٹھا دیا جائے گا اور بچوں کو کہا جائے گا کہ آؤ اس کے گرد کھیلتے رہو.غرض یہ آزادی دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی منشاء سے دی ہے اس دنیا میں کوئی چیز اس کی منشاء اور اجازت کے بغیر ٹھہر ہی نہیں سکتی.اب ہمارے مشرقی پاکستان میں طوفان آئے ہیں حالات پڑھ کر دل بڑا دکھتا ہے ہمارے بھائی تکلیف میں ہیں ہمیں بھی تکلیف ہو رہی ہے.جماعت احمدیہ پر ان لوگوں کی مدد کرنے کا ایک ایسا فرض عاید ہوتا ہے جس کی طرف دوسروں کو خیال ہی نہیں اور وہ ہے ان کے لئے دعا ئیں کرنا.دوسرے لوگ تو دعا پر کامل ایمان ہی نہیں رکھتے قرآن کریم ایک ایسے خدا کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جس نے اپنی ایک صفت یہ بتائی ہے کہ وہ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور وہ تقدیر معلق کو بدل بھی دیتا ہے اور ایسی تقدیر جو مبرم سے ملتی جلتی ہو اور یہ ساری نسبتیں دراصل انسان کے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۷۴ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء فیصلہ پر منحصر ہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے تو ہر چیز واضح ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.امَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ - (النمل: ٦٣ ) یعنی اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ جب انسان تضرع اور ابتہال کے ساتھ اس کے حضور جھکتا اور اپنے یا اپنوں کی تکلیفیں دور ہونے کے لئے دعائیں مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں اس بات کا اعلان کیا اور ہم نے ساری دنیا میں اس کی مثالیں پیش کیں (ہم نے کیا کرنی تھیں ہم تو عاجز انسان ہیں ) اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ احمدیت کے ذریعہ ان اقوام کے سامنے اس بات کا کہ آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ - کے مطابق یہ معجزہ بھی دکھایا کہ سات سات ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ دور سے دعاؤں کے خط آتے ہیں لوگ تکلیف میں ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے نہ کسی بندے کی خوبی کے نتیجہ میں دعا کو قبول فرماتا اور ان کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے اس لئے نہیں دور کرتا کہ ناصر یا زید میں کوئی خوبی تھی اور اس کا اظہار کرنا چاہتا تھا بلکہ وہ دعا کے ذریعہ اس لئے تکلیف کو دور کرتا ہے کہ اس نے قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا ہے.امَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ - اپنے اس قول کو اس نے ڈی مان سٹریٹ کرنا تھا اس کی مثالیں قائم کرنی تھیں.ہمارے مشرقی افریقہ میں ایک سکھ بیماری کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھا احمدیوں سے اس کی واقفیت تھی ہمارے مبلغ نے اسے کہا کہ حضرت صاحب کو دعا کے لئے خط لکھا کر وخیر اس نے دعا کے لئے مجھے لکھنا شروع کیا.۶،۵ مہینوں کے بعد مجھے اس کا خط ملا جس میں اس نے لکھا کہ اب مجھے بالکل آرام ہے اس لئے آپ بے شک میرے خط کا جواب بھی نہ دیں اس کو خیال آیا کہ ان کے پیسے خرچ ہو رہے ہیں میں نے کہا کہ تم اصل چیز کو تو سمجھے ہی نہیں تم نے ابھی تک اس خدا کو پہچانا ہی نہیں جسے ہم پہچانتے ہیں اور جو خدا کو پہچانتا ہے اس کے ساتھ اپنے تعلق کو زندہ اور قائم رکھنا نہیں چاہتے کل کو پھر مصیبت پڑے گی تو پھر آؤ گے اس واسطے میں اسے جواب ضرور بھجواتا رہا
خطبات ناصر جلد سوم ۲۷۵ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء اس نے دو تین خط لکھے کہ مجھے میرے خط کا جواب دینے کی ضرورت نہیں میں خود ہی لکھ دیا کروں گا لیکن میں نے اپنے دفتر والوں سے کہا کہ نہیں یہ سمجھتا نہیں میں سمجھتا ہوں اس کے خطوں کا جواب ضرور دینا ہے چنانچہ دوسرے تیسرے مہینے اس کا خط آتا ہے اور لکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بالکل ٹھیک ہے.اب وہ شخص غیر مسلم کئی ہزار میل دور مشرقی افریقہ میں بیماری کی تکلیف میں مبتلا تھا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ جو اعلان فرمایا ہے اس کی رو سے وہ یہ معجزہ دکھانا چاہتا تھا اور بتانا چاہتا تھا کہ یہ محض لفاظی نہیں ہے اور محض کاغذی اعلان نہیں ہے بلکہ فرماتا ہے کہ میں اس بات کی قدرت اور طاقت رکھتا ہوں کہ دنیا کو اس اعلان کے مطابق اپنی قدرتوں کے نظارے دکھاؤں اور وہ دکھا رہا ہے.پس مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہواوہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف تو نہیں ہوسکتا تھا ہمارے بھائی بڑی تکلیف میں ہیں گھر سے بے گھر ہو گئے سامان ضائع ہو گیا مکان گر گئے کھانے پینے کی تکلیف سے دو چار ہیں.دوسری جگہ جا کر انسان کے لئے اگر چہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن مہمان ہوتا ہے اور اپنی عادات کی وجہ سے اسے ہزاروں قسم کی تکلیفیں پہنچتی ہیں عزت نفس کا خیال ہوتا ہے چاہے حکومت ہی سر پر ہاتھ رکھ رہی ہو دوسرے لوگ بھی مدد کر رہے ہو نگے لیکن اس کے باوجود کئی لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہیں اس پریشانی میں کھانے کے لئے مجبور لینا پڑتا ہوگا ان کا دل نہیں کرتا ہوگا.ایک مہاجر کے متعلق یاد ہے وہ احمدی نہیں تھا وہ گورداسپور سے آیا تھا اس نے ہمارے خزانہ میں اپنا حساب کھلوایا ہوا تھا یہاں اُجڑ کر آیا تھا مجھے پتہ تھا کہ ایک دھیلہ ساتھ نہیں لا یا اور اس کا بہت بڑا خاندان تھا خیر چونکہ میں اسے ذاتی طور پر جانتا تھا میں نے اس سے پوچھا کہ تم تکلیف میں تھے مگر یہاں نہیں آئے وہ کہنے لگا اب بھی میں پیسے جمع کروانے کے لئے آیا ہوں لینے کے لئے نہیں آیا کیونکہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلا جمع شدہ سرمایہ خرچ نہیں کرنا کیونکہ پہلی پونجی اگر ہم نے ختم کر دی تو ہمیں سستی کی عادت پڑ جائے گی اس واسطے خاندان کے کمانے والے افراد سے کہہ دیا ہے کہ کماؤ اور کھاؤ.
خطبات ناصر جلد سوم خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء پس ایسے حال میں بعض طبیعتیں اپنا سرمایہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتیں تکلیف محسوس کرتی ہیں اور دوسروں سے لینا عار محسوس کرتی ہیں لیکن ہزاروں لوگ لینے پر بھی مجبور ہوں گے مجبوری ہے جب بچے بلکتے ہیں تو یہ جذباتی تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے اور ایسے کئی لوگ ہونگے مجھے اس کا بڑا احساس ہے اسی واسطے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی کی بغیر بتائے مدد کرتا ہے وہ بڑا ہی ثواب حاصل کرتا ہے.صحابہ کرام رات کے اندھیروں میں جا کر دے دیتے تھے ہم بھی کبھی سنت پر عمل کرتے ہیں جسکو کوئی چیز دینی ہو وہ چیز لفافے میں بند کر کے ایسے رنگ میں اس کے پاس پہنچا دیتے ہیں کہ اس کو پتہ ہی نہ لگے یا اگر کوئی دوسرا تکلیف دے تو اسے ایسے رنگ میں معاف کر دیتے ہیں کہ اس کو پتہ ہی نہ لگے.مثلاً میں بچہ تھا مدرسہ احمدیہ میں پڑھا کرتا تھا مغرب کی نماز مسجد اقصیٰ میں پڑھا کرتا تھا کیونکہ مسجد مبارک میں دیر ہو جاتی تھی حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ تم نے پڑھنا بھی ہے اور پھر سونا بھی ہے اس لئے وہاں چلے جایا کرو ہم تنگ گلی سے گزر کر مسجد اقصی جایا کرتے تھے جس میں رات کو سخت اندھیرا ہوا کرتا تھا ایک دن میں نیچے اترا تو مدرسہ احمدیہ کے طلباء قطار میں نماز پڑھنے کے لئے جارہے تھے میں بھی ان میں شامل ہو گیا اندھیرا تھا میرا پاؤں اگلے لڑکے کے سلیپر پر پڑا اور اسے ٹھوکر لگ گئی خیر وہ چپ کر گیا دوسری دفعہ جب پھر ایسا ہوا تو اس نے پیچھے ہٹ کر مجھے کھینچ کر چھیڑ لگائی میں فوراً پیچھے ہٹ گیا میں نے سوچا آگے روشنی میں جائیں گے تو میری شکل دیکھ کر شاید شرمندگی کی وجہ سے اسے تکلیف ہوگی اس لئے میں اسے یہ تکلیف کیوں دوں چنانچہ میں دس پندرہ قدم پیچھے ہٹ کر ساتھ ہولیا.مگر اسے آج تک پتہ نہیں کہ کس کے منہ پر چپیڑ پڑی تھی.گو اس نے اندھیرے میں سہی یا غیر ارادی طور پر سہی لیکن میرا پاؤں غلطی کر رہا تھا میرے پاؤں کو یہ حق تو نہیں تھا کہ وہ دوسروں کو تکلیف دے.بہر حال کبھی چھپ کر دینا پڑتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بعض ایسی طبیعتیں ہیں جن کا جائز حق ہوتا ہے لیکن وہ دوسرے کے ہاتھ سے لینا پسند نہیں کرتے یا اس کی شہرت نہیں چاہتے ایسے کئی واقعات میرے علم میں ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایسی طبیعت ہے جو یہ ظاہر ہونا پسند نہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۲۷۷ خطبه جمعه ۱۴ /اگست ۱۹۷۰ء کرے گی کہ حضرت صاحب نے میری کچھ مدد کی ہے تو دفتر والوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا لفافہ وہاں چلا جاتا ہے بیسیوں بلکہ سینکڑوں دفعہ ایسا کرنا پڑتا ہے.اصل بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ وہاں اس قسم کے بھی لوگ ہوں گے جو جذباتی تکلیف میں مبتلا ہوں گے کیونکہ میں اس لحاظ سے خود بڑا جذباتی ہوں مجھے یہ سوچ کر بڑی تکلیف ہوتی ہے ایسے دل بھی ہوں گے جو ایک دھیلہ بھی کسی سے لینا پسند نہیں کرتے ہوں گے مگر سیلاب کی وجہ سے مجبوری ہے بڑی تکلیف میں ہیں اور ایک مدد ایسی ہے جو ہمارے سوا کوئی نہیں کر سکتا اور دعا کے ذریعہ مدد کرنا ہے اس الہی ارشاد کے مطابق کہ آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ - ان کے اضطرار اور تکلیف میں ہم بھی شامل ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے لئے بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی تکالیف کو دور فرمائے اور پھر ان کی خوشی اور مسرت کے سامان پیدا کرے.دوسرے یہ کہ جیسا کہ حکومت کی طرف سے اعلان بھی ہوا ہے ہمیں دوسرے طریق پر بھی ان کی مدد کرنی چاہیے یعنی مادی امداد بھی دینی چاہیے اور رضا کارانہ خدمت بھی پیش کرنی چاہیے صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے کچھ روپیہ گیا ہے لیکن مختلف جگہ رقمیں اکٹھی ہوتی ہیں ہر جماعت کو چاہیے کہ وہ حسب توفیق بشاشت کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے مالی امداد بھی کرے یعنی آپ روپوں پر بھی دعا کر کے دیں تا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان روپوں کے ذریعہ ان کی تکلیف کو دور فرمائے.جہاں تک رضا کارانہ خدمات پیش کرنے کا سوال ہے میں ذاتی طور پر اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ رضا کا ر ایسوسی ایشن ایسے موقع پر وہاں آزادانہ طور پر کام کریں کیونکہ اس طرح بہت سے فتنے پیدا ہو جاتے ہیں.نائیجیریا میں جب بیا فرا نے سرنڈر کیا تو میں نے وہاں کی حکومت کو اطلاع دی تھی اور اپنی جماعت کو ہدایت کی تھی کہ تم نے آزادانہ کام نہیں کرنا اپنی سروسز حکومت کو پیش کر دو.چنانچہ ہمارے سینکڑوں رضا کا ر حکومت کے عام نظام کے ماتحت بیا فرا والے حصوں میں
خطبات ناصر جلد سوم ۲۷۸ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء جہاں ری ہیلی ٹیشن ہونی ہے وہاں کام کر رہے ہیں اور کر چکے ہیں میرے یہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن بہر حال حکومت جس رنگ میں چاہے کام کرے اگر کوئی ایسی صورت ہو تو احمدی نوجوانوں کو حسب توفیق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دو ہفتے یا چار ہفتے کے لئے اپنی خدمات بھی پیش کرنی چاہئیں.خصوصاً ایسے دوست جو ہنر یافتہ ہیں اور ان کے ہنر وہاں کام آسکتے ہیں مثلاً ڈاکٹر ہیں علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور ایسی دوائیوں کا پتہ لگا تو علاوہ روپوں کے انشاء اللہ ایسی دوائیاں بھی وہاں بھجوائیں گے کیونکہ ہم خدا کے فضل سے ایسی دوائیوں کا انتظام کر سکتے ہیں جو یہاں سے نہیں ملتیں یہ صحیح ہے کہ حکومت کے بڑے وسائل ہیں لیکن حکومت کے وسائل پر فارن اینچ خرچ ہوتا ہے ہمارے وسائل بھی ہیں اور حکومت کو فارن ایکسچینج خرچ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ انگلستان کے احمدی وہاں پیسے جمع کر کے وہ دوائی بھجوا سکتے ہیں جو یہاں سہولت سے دستیاب نہیں.پس ایک تو ان کے لئے بہت دعائیں کریں صرف آپ ہی ان کے لئے حقیقی معنوں میں دعا کر سکتے ہیں، دوسرے مالی امداد دیں اور تیسرے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات بھی حکومت کو پیش کریں.یہ تو میرے اصل مضمون کی ایک شاخ ہوئی یعنی ڈائی گریشن.میں بتا یہ رہا تھا کہ جس اللہ پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ وہ اللہ ہے جسے اس کی تمام صفاتِ حسنہ کے ساتھ قرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور جس میں کوئی کمی یا نقص یا کمزوری نہیں پائی جاتی وہ متصرف بالا رادہ اور غالب علی آمدہ ہے.وہ ایک فیصلہ کرتا ہے جس کا باریک فلسفہ ہے لیکن عقلمند کو ہم تسلی دلا سکتے ہیں اور آپ نے تسلی پائی ہوئی ہے زندگی کے موڑ اور یونیورس کی ڈیویلپمنٹ میں ایک اس کے ظاہری قانونِ قدرت کے مطابق نتیجہ نکلتا ہے اور ایک وہ نتیجہ ہے جو اللہ چاہتا ہے کہ نکلے.کبھی وہ اپنے قانونِ قدرت کے مطابق نتیجہ نکال دیتا ہے اور کبھی معجزانہ طور پر ایک اور حکم نازل کرتا ہے.پس دعا جو ہے وہ تقدیر کے خلاف نہیں اس کے متعلق تو نو جوانوں کو پھر میں کہوں گا کہ آجکل کے پرفتن ایام میں اور اندھے فلسفہ کے بداثرات کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جو تحریریں دعا کے متعلق ہیں وہ ضرور پڑھ لیں.میر داؤ د احمد صاحب نے اقتباسات کی کتاب
خطبات ناصر جلد سوم ۲۷۹ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء شائع کی ہے اس میں ۲۰ - ۲۵ صفحات میں دعا پر اقتباسات ہیں جن میں ۳.۴ بنیادی باتیں آچکی ہیں.بہر حال دعا اور تقدیر میں آپس میں کوئی تضاد اور تصادم نہیں ہے اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ اپنی مرضی چلاتا ہے دنیا میں کوئی ایسی مخلوق نہیں جو یہ کہہ سکتی ہو کہ نہیں میں نے اپنی مرضی چلانی ہے مرضی اللہ ہی کی چلے گی کیونکہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے وہ رزاق ہے.وہی کھیتیوں کو اُگاتا ہے اور پھل عطا کرتا ہے ایک زمیندار رات دن زمین میں ہل چلاتا ہے گرمی میں وہ کھیتوں کی نگرانی کرتا ہے اس کے بیوی بچے بھی اس کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ مثلاً صرف گندم کی فصل اگانے کے لئے اتنی تکلیف برداشت کر رہا ہوتا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں تا کہ وہ بھوکا نہ مرے لیکن جب یہ ساری تکلیفیں اٹھا چکتا ہے تو پھر اس کے کان میں اللہ تعالیٰ کی جو آواز پہنچتی ہے وہ یہ ہوتی ہے.وَ انْتُمْ تَزْرَعُونَة أَمْ نَحْنُ الزُّرِعُونَ - (الواقعة : ۶۵) کیا کھیتیاں تم اُگاتے ہو شاید تم سمجھتے ہو کہ راتوں کو ہم جاگے تکلیفیں ہم نے اٹھائیں ، دن کی گرمی ہم نے برداشت کی ، پانی کے لئے وقت بے وقت کھالوں پر پہرے ہم نے دیئے پھر بھی یہ نہ سمجھنا کہ سب کچھ تمہاری محنت کا نتیجہ ہے کھیتی وہی آگے گی جسے اللہ تعالیٰ اُگانا چاہتا ہے.میں نے ایک دفعہ پہلے بھی بتایا تھا.احمد نگر میں ہماری اپنی گندم کی فصل تھی سٹے پڑ چکے تھے زردی پر آرہے تھے کچھ دنوں کے بعد ہم نے انہیں کاٹا تھا کاٹنے کی مشین بھی منگوائی گئی اتفاقا شام کو پہنچی.وقت بھی تھا میں باہر نکلا اس کو دیکھ رہا تھا عام اندازہ تھا کہ ۵۰،۴۰ من فی ایکڑ گندم نکلے گی بڑی اچھی فصل تھی کاٹنے کی مشین نیچے اتاری ابھی میں گھر نہیں پہنچا تھا راستے میں ہی تھا پہلے تو آہستہ آہستہ بوندا باندی ہوئی پھر تیز ژالہ باری ( یعنی اولے ) پڑنے لگے کوئی دس پندرہ منٹ تک ژالہ باری ہوتی رہی میں اندر چلا گیا قریباً ایک گھنٹے کے بعد ہمارے وہ کا رکن جو وہاں کام کرتے ہیں وہ آئے وہ بلا مبالغہ رور ہے تھے کہ فصل تباہ ہوگئی روپیہ میں سے چھ آنے باقی رہ گئی.مجھے بڑا غصہ آیا نالائق آدمی جو باقی چھ آنے رہ گئے ہیں وہ بھی اللہ کا فضل ہے تم اس پر الحمد للہ نہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۲۸۰ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء پڑھتے اور جو اس نے اپنی چیز واپس لے لی ہے اس پر ٹسوے بہار ہے ہو یہ تو ٹھیک نہیں.میں نے کہا ابھی واپس جاؤ اور ان کھیتوں کے کنارے اللہ اکبر کے نعرے لگاؤ اور الحمد للہ پڑھو اور پھر واپس آؤ یہ تو اللہ تعالیٰ کی چیز ہے ایسے واقعات آتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ بتائے کہ یہ تمہاری محنت کا پھل نہیں یہ میرے فضل کا نتیجہ ہے.اگر انسان کی محنت کا پھل ہے تو جہاں بھی محنت ہے اس کا پھل نظر آنا چاہیے اگر علت ہے تو اس کا معلول نظر آنا چاہیے اگر آگ جلاتی ہے تو جہاں بھی آگ کے اندر کوئی پڑے گا اس کو جل جانا چاہیے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ آگ نہیں جلاتی میں نے اس کو کہا ہے جلاؤ.جب میں اسے کہوں گا جلا تو یہ جلائے گی اور جب میں کہوں گا کہ نہ جلاؤ تو نہیں جلائے گی اسی طرح یہ درخت کے پتے خود نہیں گرتے ، درختوں پر پھل خود نہیں آتا ، فصلیں آپ کی محنت کا نتیجہ نہیں کوئی چیز بھی انسان کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ ہر چیز اللہ کے حکم کا نتیجہ ہے ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کرتی ہے اللہ تعالیٰ ویسے بڑا پیار کرنے والا ہے آدھا حصہ میں نے سنایا ہے اگلا بھی سنا دیتا ہوں تا کہ دوسری طرف کسی کو وہم نہ جائے وہاں الحمد للہ کہلوایا مجھ سے بھی اور میرے ساتھیوں سے بھی (چاہے انہوں نے میرے سمجھانے پر کہا ) اگلی فصل تھی منجی کی ہماری یہ زمین جو کہ پہلے ایک ٹھیکیدار کے پاس تھی اور اس کی آخری منجی کی فصل ساڑھے تین من فی ایکڑ نکلی اور جب ہم نے لی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے عام طور پر کم و بیش ۱۵ ،۲۰ من فی ایکٹر نکلا کرتی تھی گندم واپس لے لی اور چاول ہمیں زیادہ دے دیا یعنی ۲۹ من اوسط نکال دی باسمتی چاول موٹے نہیں اچھے خوشبو دار ) چاولوں کی اس وقت بھی ہم نے الحمدللہ پڑھی اور جس وقت اس نے اپنی چیز ہم سے واپس لے لی تھی اس وقت بھی ہم نے الحمد للہ پڑھی تھی.پس خدا تعالیٰ جس پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ وہ ہستی ہے جسکے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے اور ہر تبدیلی اور ہر واقعہ جو رونما ہوتا ہے وہ اس کے ارادہ سے ہوتا ہے کیونکہ وہ متصرف بالا رادہ ہستی ہے اور وہ لوگوں کو اپنی قدرت کے نمونے دکھاتا رہتا ہے کبھی ژالہ باری کر کے اور کبھی کسی زمیندار کو اسکی سمجھ میں ہی یہ بات نہیں آتی کہ کیا وجہ ہے ساتھ کا کلہ (ایکڑ) ہے مگر ان کی فصلیں
خطبات ناصر جلد سوم ۲۸۱ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء بڑی اچھی ہوتی ہیں اسے کیا پتہ کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری کون سی چیز پسند آ گئی اور اللہ تعالیٰ اپنی یہ شان ظاہر کرتا ہے کہ جس کو میں دیتا ہوں اسی کو ملتا ہے اور جسکو نہ دینا چاہوں نہیں ملتا.اسی واسطے ایمان کے تقاضوں کی وہاں شرط لگا دی تھی اتنا بڑا وعدہ کیا تھا لیکن مسلمانوں پر پچھلی تین چار صدیوں میں جو کچھ گزرا اسے دیکھ کر رونا آتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے.أَنتُمُ الْأَعْلَونَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ.(ال عمران : ۱۴۰) اس سے بڑھ کر وعدہ اور بشارت اور کیا مل سکتی ہے فرماتا ہے سوائے تمہارے غالب کوئی نہیں آسکتا تمہارا مخالف غالب نہیں آئے گا غالب تم ہی آؤ گے لیکن اس وعدہ کے باوجود چھلی ۳، ۴ صدیوں میں دنیا نے مسلمانوں کو ذلیل کیا.انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور ٹو ٹا اور ڈاکے مارے اور عورتیں اغوا کیں (۴۷ء میں نہ جانے کتنی عورتیں اغوا ہوئیں ) کوئی بھی انسان جسے اللہ تعالیٰ نے ذرا بھی عقل دی ہے اس کے علاوہ اور کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتا کہ انہوں نے ان كنتُم مُّؤْمِنِین کی شرط پوری نہیں کی جب شرط پوری نہیں کی تو وعدہ رہا ہی کوئی نہیں.مشروط وعدہ تو شرط کے ساتھ چلتا ہے شرط پوری نہیں ہوئی تو وعدہ پورا نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پھر یہ وعدہ دیا ہے کہ تم غالب آؤ گے اس لحاظ سے بڑی فکر رہتی ہے جماعت کے بچوں اور بڑوں سب کے اوپر ایمان کی شرائط کو پورا کرنے کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے اسی وجہ سے میں نے یہ سلسلہ خطبات شروع کیا ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ختم ہو گا.پس ایمان باللہ محض یہ نہیں ہے جسے عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اللہ پر وہ ایمان لانا چاہیے جس کا اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے مثلاً وہ رب العالمین ہے اس کے سوا کوئی رب نہیں ہے وہ رحمان ہے اس کے علاوہ کوئی بغیر استحقاق کے دینے والا نہیں اور وہ رحیم ہے وہ رحیمیت کی صفت کے نتیجہ میں بدلے کا حق پیدا کر دیتا ہے دراصل رحیمیت حق دلواتی نہیں بلکہ حق پیدا کرتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی لطیف تفسیر بیان فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ صفت رحیمیت انسان کی محنت کا حق پیدا کرتی ہے یعنی بدلہ ملنا چاہیے لیکن بدلہ ملتا ہے ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی صفت کے ماتحت اور مالک نیکی کا بدلہ دینے پر مجبور نہیں مثلاً
خطبات ناصر جلد سوم ۲۸۲ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء جس نے کسی امیر کے کمرے میں اس کے دو ہزار بکھرے ہوئے روپے اکٹھے کئے اس نے کوئی محنت کی نا! لیکن مالک یہ ہے اُجرت کوئی ہے نہیں مقرر ، دوستی کے طور پر کام کیا یا مثلاً کئی لوگ ایسے موقعوں پر کسی کا بٹوا ڈھونڈ کر لا دیتے ہیں یا اسی طرح کا کوئی اور کام کر دیتے ہیں اور لوگ انہیں انعام دیتے ہیں لیکن انعام دینے پر وہ مجبور نہیں ہیں.دنیا کا کوئی قانون یا اخلاقی قانون یا شریعت کا قانون یہ نہیں کہتا کہ اس کا بدلہ دو اللہ تعالیٰ تو مالک کل ہے.الْمُلْكُ لِلهِ کی رو سے ہر چیز اسی کی ملکیت ہے جب ہر چیز اسی کی ملکیت ہے تو پھر کسی کو کچھ دینے یا نہ دینے کے متعلق اس کے اوپر کسی کا بھی حق نہیں ہے ہر شخص بھی اسی کا ہے اور جو اسے استعدادیں دی گئی ہیں وہ بھی اسی نے دی ہیں اس کا جسم بھی اللہ کا ہے اور جن قومی سے وہ محنت کرتا ہے وہ قومی بھی اللہ تعالیٰ ہی نے اسے دیئے ہیں ورنہ وہ کام ہی نہ کر سکتا.ایک شخص قرآن کریم کی بڑی کثرت سے تلاوت کرتا ہے اور سوچتا اور غور کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے آنکھیں دیں وہ پڑھنے لگ گیا ورنہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کئی ایسے جاندار کیڑے بھی پیدا کئے ہیں جنکی آنکھیں نہیں ہوتیں صرف اپنے ناک سے سونگھنے کی قوت پر یا کوئی اور طاقت دی ہوگی جس سے وہ چلتے پھرتے ہیں لیکن انسان نے جسمانی اور روحانی غذا کی طرف جانا ہوتا ہے اور وہ بڑی Complicated(کمپلیکیٹڈ ) ہے انسان کی غذا بھی عام غذا نہیں عام کیڑے مثلاً سانپ مٹی چاٹ کر گزارہ کر لیتا ہے.بچہ مٹی چائے تو ماں اس کے منہ پر چھپڑ مار دیتی ہے کہ کیا گندی حرکت کر رہے ہو حالانکہ اکثر سانپ چھ چھ ماہ تک سوراخوں میں مٹی چاٹ کر گزارہ کر رہے ہوتے ہیں بعض جانور اور بد بودار کیڑے مکوڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں سانپ بڑے مزے سے کھا رہا ہوتا ہے مگر بعض حساس طبیعت انسانوں کو دیکھ کر الٹی آجاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے سانپ کے لئے اس قسم کی غذا مہیا کر دی مگر انسان کی غذا میں بھی بڑے تنوع کی ضرورت ہے روحانی غذا میں بھی بڑا کچھ چاہیے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.وہ مالک ہے.کسی کا اللہ تعالیٰ پر حق بن ہی نہیں سکتا.دنیا تو اس کی غلام اور مملوک ہے اور اس کی مخلوق ہے وہ اس پر کیا حق جتائے گی.عقل بھی یہ فتویٰ نہیں دیتی کہ تم اللہ پر حق جتا سکو.پس رحیمیت جزا کا حق قائم کرتی ہے اور صفت ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ حق دیتی یا انکار کر دیتی
خطبات ناصر جلد سوم ۲۸۳ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء ہے جب انکار کرنا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارا مجھ پر کیا حق ہے جاؤ دوڑ جاؤ مگر جب دینا ہوتا ہے تو کہتا ہے میرے پیارے بندو! ادھر آؤ میں تمہیں اپنی گود میں بٹھاؤں اور اپنی رضا کی جنتوں میں لے جاؤں وہ مالک ہے چاہے تو ساری دنیا کو بخش دے اور چاہے تو ساری دنیا کو نہ بخشے کوئی اسے کچھ کہنے والا نہیں اس خدا کو ہم مانتے ہیں محض اللہ کے لفظ کو نہیں بلکہ اس کی تمام صفات کے ساتھ مانتے ہیں جن میں سے بنیادی صفات جو ہیں وہ یہ چار صفات ہیں جو سورہ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں یعنی ربّ ، رحمان، رحیم اور مالک یوم الدین.پس ایمان باللہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہہ دیا کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں.ایمان باللہ کے بعد تو دوسری کوئی چیز ہی نہیں رہتی.ایمان باللہ کے بعد رشوت پر انحصار، ایمان باللہ کے بعد یہ غبن اور دوسری بدعنوانیوں کا سہارا لینا یہ باتیں ایمان کے ساتھ کیسے اکٹھی ہوسکتی ہیں.ایمان باللہ کے ساتھ کوئی چیز نہیں رہتی صرف اللہ ہی اللہ رہتا ہے یا وہ شخص ہوتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ سے فیض حاصل کرنا ہوتا ہے اور کچھ نہیں رہتا پس اس اللہ پر ایمان لانا ہے اور یہ بنیادی چیز ہے اس کی تفصیل بہت لمبی ہے.دراصل اگر اس سارے کارخانہ پر تقریر کی جائے تو سارا اللہ ہی اللہ آجاتا ہے.چند باتیں میں نے بیان کر دی ہیں اور اللہ پر اس رنگ میں ایمان لانے کے نتیجہ ہی میں پھر إيمَان بِالْأَخِرَة، اِيْمَان بِالْغَيْبِ اور اِيْمَان بِالرُّسُل اور ایمان بِالكُتُب وغیرہ جس کی قرآن کریم نے تفصیل بیان کی ہے جو دراصل ایمان کے مختلف شعبے اور شکلیں ہیں ان پر ایمان پختہ ہوتا ہے اس لئے اگر ایمان باللہ صحیح نہیں تو آگے کچھ نہیں.آپ بھی دعا کریں میں بھی دعا کرتا ہوں کہ یہ جو ہمارا رب، مالک، پیدا کرنے والا ، رزاق اور متصرف بالا رادہ ہستی ہے جس سے دوری اور بعد ہی ہر قسم کا نقصان اور ضیاع ہے اور جس کے قرب میں ہر قسم کی بھلائی ہے اس پر ہم سب کو حقیقی ایمان نصیب ہو.ہمارے دل اس ایمان سے منور ہو جائیں اور جس طرح آدمی چٹان پر پختگی کے ساتھ قائم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کی معرفت سے زیادہ کوئی پختہ چیز نہیں.اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس میں یہ پختگی ہمیں حاصل ہو تا کہ جو کام اللہ تعالیٰ ہم سے لینا چاہتا ہے وہ ہم سے لے اور ہم اس کے ہاتھ میں جا کر کمزور ہتھیار
خطبات ناصر جلد سوم ۲۸۴ خطبه جمعه ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء کی طرح ٹوٹ نہ جائیں اس کا تو کوئی نقصان نہیں اس کے پاس اتنے ہتھیار ہیں کہ اگر آپ ٹوٹے تو آپکو پھینک دے گا دوسرے ہتھیار کو پکڑ لے گا.اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے مگر ہمیں اس کا نقصان ہے.ہم مارے گئے اگر ہم اس سے دور ہو گئے اگر ہم اس کی ناراضگی کا مورد بن گئے تو پھر ہمارا کہیں بھی ٹھکانا نہیں ہے دنیا ہمیں پہلے ہی اپنی سال سے گالیاں دیتی چلی آ رہی ہے لوگ ہمیں کا فر کہتے چلے آرہے ہیں اور جو اُن کے منہ میں آتا ہے وہ ہمارے خلاف بک دیتے ہیں اور ہمیشہ ہمیں تنگ کرنے اور گالیاں دینے کی نئی سے نئی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں ہم میں سے جو لوگ ایمان پر پختگی سے قائم ہیں وہ ان کی پروا بھی نہیں کرتے کیونکہ اصل ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ہے کسی گروہ کی ناراضگی کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی کسی کے پاس ہے ہی کچھ نہیں وہ ہمارا نقصان کیا کرے گا اسے اللہ تعالیٰ نے اتنی طاقت ہی نہیں دی نہ وہ متصرف بالآرادہ ہے پس کوئی منافق کی شکل میں آکر ہمیں دکھ پہنچاتا ہے کوئی مخالف اور معاند کی شکل میں آکر ہمیں دکھ پہنچاتا ہے.مگر اسی سال میں اس نے کیا کرلیا حالانکہ اس اسی سال کے عرصہ میں جماعت بشاشت کے ساتھ چھلانگیں لگاتی ہوئی اپنی ترقیات کی طرف بڑھتی چلی آرہی ہے اور انشاء اللہ بڑھتی چلی جائے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اگر ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس کے پر کھنے کی ایک ہی کسوٹی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے وہ خود اپنے نفس کو اور ہر دوسری چیز کو مردہ کیڑے سے بھی کم اہمیت دیتا ہے اس صورت میں نہ نفس باقی رہتا ہے اور نہ کوئی اور چیز باقی رہتی ہے اللہ ہی اللہ عیاں ہو کر رہ جاتا ہے اور اگر اللہ ہی اللہ میرے اور آپ کے سامنے ہو تو پھر اور کیا چاہیے اگر اللہ پر ایمان اور اس کی صفات کی معرفت حاصل ہو تو کچھ بھی نہیں چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد سوم ۲۸۵ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کر وتب تم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاؤ گے خطبه جمعه فرموده ۲۱ /اگست ۱۹۷۰ء بمقام مسجد نور.راولپنڈی تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ان آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی:.قُلْ مَنْ ذَا الَّذِى يَعْصِكُمْ مِنَ اللهِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلَا يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَ لَا نَصِيرًا.(الاحزاب : ۱۸) فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَ اعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَ فَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا - (النساء : ۱۷۶) وَ اِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيط لَن يَضُرُّوكُم إِلَّا أَذًى ـ (ال عمران : ۱۱۲) اس کے بعد حضور نے فرمایا:.(ال عمران : ۱۲۱) حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی نوع انسان کے لئے ایک مجسم شفقت اور عالمین کے لئے ایک کامل رحمت کے طور پر دنیا میں مبعوث ہوئے.آپ کی شفقت اور محبت آپ کی
خطبات ناصر جلد سوم ۲۸۶ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء دعاؤں اور روحانی فیوض سے پہلوں اور پچھلوں سبھی نے حصہ پایا.آپ کی یہ رحمت ، رحمتِ عام تھی لیکن آپ کی اس رحمت نے دنیا کو ایک خاص ہی نہیں اخص جلوہ بھی دکھایا.آپ کے فیوض کے نتیجہ اور الہی بشارتوں کے ماتحت آپ کی امت میں سے لاکھوں کروڑوں اولیاء اللہ پیدا ہوئے جو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے تھے مگر ان لاکھوں کروڑوں اولیاء اللہ میں سے آپ نے صرف ایک کا انتخاب کیا اور امت کو یہ تاکید فرمائی کہ جب ہمارا وہ مہدی مبعوث ہو تو میرا اسے سلام کہنا.سلام کے پہنچانے میں بہت سی حکمتیں ہیں ایک تو یہ کہ اُمت محمدیہ کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ میرا محبوب ہے تم بھی اسے محبوب رکھنا دوسرے اس میں یہ حکمت تھی کہ اللہ تعالیٰ اُمت محمدیہ کو یا یوں کہنا چاہیے کہ امت محمدیہ کے اس حصہ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت دنیا میں موجود ہوگا اس طرف متوجہ کیا کہ مہدی معہود اور اس کی جماعت میری سلامتی کی دعاؤں کے حصار کے اندر ہونگے اور میری دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرنے والا اور ان کو امان دینے والا اور ان کے لئے سلامتی کے سامان پیدا کرنے والا ہے.اگر تم (اُمت کے دوسرے افراد ) بھی اللہ کی حفاظت اور امان میں آنا چاہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہو گا کہ تم ہند کے اس قلعہ یعنی جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کی دعاؤں کا حصار ہے اس کے اندر داخل ہو جا نا تم اللہ کی حفاظت اور امان میں رہو گے.ہم جو جماعت احمدیہ میں شامل ہیں یا جو ہمارے پہلے بزرگ گزرے ہیں یا آنے والی نسلیں ان تمام کا جو ایمان کے اوپر پختگی سے قائم ہیں یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ عظیم روحانی فرزند ہیں جس پر آپ نے اپنا تا کیدی سلام بھجوایا تھا.حضرت مسیح اور مہدی معہود علیہ السلام نے جب دنیا کو اس طرف دعوت دی کہ خدا کے وعدہ کے مطابق ان تمام سلامتیوں کو سمیٹو جن کی بشارت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی میں تمہاری طرف اس لئے مبعوث ہوا ہوں کہ تمہارے لئے پناہ اور سلامتی کا انتظام کروں.غرض اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے ہیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دعاؤں کی یہ بشارتیں ہیں کہ وہ سلامتی کا شہزادہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب یہ الہام ہوا تو
خطبات ناصر جلد سوم ۲۸۷ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء دراصل یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلامتی پہنچانے والے ارشاد مبارک کا ایک اور رنگ میں معنی یا تفسیر تھی.ہماری زبان میں سلامتی کا شہزادہ وہ ہے جس کی سلامتی کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول فرمایا.ہے پس ہم نے اس سلامتی کے شہزادہ کو پہچانا اور آپ پر ایمان لائے اور اس بات پر پختگی سے قائم ہیں اور پورا یقین حاصل ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے طفیل حضرت مسیح موعود کی طرف حقیقی معنوں میں منسوب ہونے والے شیطان کے ہر قسم کے حملوں اور مخالفین کے ہر قسم کے منصوبوں سے محفوظ رہیں گے.دنیا اپنی طرف سے پورا زور لگا چکی.لگا رہی ہے اور لگاتی رہے گی اور ہمیں اس کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں ہے.اتنی سال سے دنیا نے مخالفت کا کوئی منصوبہ نہیں چھوڑا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا بد زبانی بھی کی ، ایذارسانی بھی کی اور اپنی طرف سے ہماری ہلاکت اور تباہی کے سامان بھی کئے حکومت سے چغلیاں بھی کیں جھوٹے مقدمات بھی بنائے.غرض اپنی طرف سے پورا زور لگا یا لیکن وہ وجود جسے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا سہارا اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کی دعائیں حاصل تھیں دنیا کی کون سی طاقت تھی جو اسے ہلاک یا تباہ کر سکتی یا اس کے لئے ناکامیوں کے سامان پیدا کر سکتی.اتنی سال سے مخالفت ہر قسم کے منصوبے بناتی رہی ہر قسم کی سازشیں کرتی رہی مگر ان اتنی سالوں میں دنیا کے کونے کونے میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے پہنچ کر دنیا کے دلوں میں ایک انقلاب پیدا کیا اور جس شخص کو ظاہری اقتدار رکھنے والوں نے (سیاسی اقتدار ہو یا مذہبی، کچھ ہو ) دھتکار دیا اور نفرت اور حقارت کی نگاہ اس پر ڈالی اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ۷، ۸ ہزار میل دور بسنے والوں کے دلوں میں محبت کا ایسا سمندر پیدا کیا کہ جو انسانی عقل کو حیران کرنے والا ہے دنیا اپنا کام کرتی چلی گئی مخالفین اپنے منصوبے بناتے چلے گئے کفر کے فتوے دینے والوں نے آسمان سر پر اٹھالیا شور مچا مچا کر کہ یہ کا فر ہے لیکن اس شور و غوغہ میں اس شخص کو اور اس کے ماننے والوں کے کانوں میں اللہ تعالیٰ کے پیار کی یہ آواز گونجی کہ دنیا تمہیں کا فر کہتی ہے لیکن میں تمہیں مسلمان سمجھتا ہوں اور تمہارے ساتھ ہوں دنیا کے کافر کہنے سے کیا بنا، یا کیا بن سکتا ہے؟ کفر تو وہ ہے جس کا فتوی خدا دے لعنت
خطبات ناصر جلد سوم ۲۸۸ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء تو وہ ہے جو آسمان سے نازل ہو.کبھی کوئی دنیا دار بھی آسمانی لعنتوں کے سامان پیدا کرسکتا ہے؟ ایک ذرہ بھر عزت دینے کے تو تم قابل نہیں ہو ذلیل کرنے کی طاقت تمہیں کس نے دی ہے؟ ذلیل تو وہی ہے جو خدا کی نگاہ میں اپنے لئے ذلت دیکھتا ہے اور اپنے کام میں اپنے لئے ذلت کے سامان محسوس کر رہا ہے اور عزت وہ ہے جو خدا سے ملتی اور خدا کے سر چشمہ سے نکلتی ہے.الْعِزَّةُ لِلَّهِ - اَلْعِزَّةُ لِلهِ - اَلْعِزَّةُ لِلهِ - عزت کا سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جسے وہ عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ساری دنیا بھی اگر مل کر اسے ذلت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جائے تو کیا فرق پڑتا ہے.کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ ساری دنیا اس کے قبضہ اور تصرف میں ہے جیسا وہ چاہتا ہے ویسا ہوتا ہے کوئی طاقت اس کے ارادہ میں تبدیلی نہیں پیدا کر سکتی اور نہ اس کا مقابلہ کرسکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے مہدی معہود کے لئے سلامتی کی دعائیں کروائیں اللہ تعالیٰ نے مہدی معہود کو خود وحی کے ذریعے فرمایا کہ تم سلامتی کے شہزادے ہو صرف تم ہی محفوظ نہیں بلکہ جو رعایا ( یعنی جماعت) ہے وہ بھی محفوظ رہے گی سلامتی کے شہزادے کے معنے ہی یہ ہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے یہ کہا کہ جب میرا محبوب ترین روحانی فرزند آئے تو دیکھنا وہ سلامتی کا شہزادہ ہو گا تم اسے میری طرف سے سلام پہنچانا اور سلامتی حاصل کرنے کے لئے اور خدا کی امان میں آنے کے لئے اس کے متبعین اور اس کے ساتھیوں میں شامل ہو جانا.غرض حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کو یہ فرما یا کہ سلامتی چاہتے ہو دنیا میں عزت چاہتے ہو، دنیا میں بڑائی چاہتے ہو، دنیا میں غلبہ چاہتے ہو، دنیا میں ایک ارفع مقام چاہتے ہو تو اس کے ساتھ شامل ہونا پڑے گا اور اس کے کان میں یہ کہا اللهُ يُعْلِيْنَا وَلَا نُعلی اللہ تعالیٰ ہمیں ارفع اور بلند کرے گا اور کوئی دوسری طاقت ہمارے اوپر غالب نہیں آسکتی چنانچہ ہم اس مہدی معہود پر ایمان لائے.اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ کو عصمت کا ایک عام وعدہ بھی دیا تھا جو قرآن کریم کی مختلف جگہوں میں آیا ہے میں نے اس وقت چار مختلف آیتیں یا ان کے ٹکڑے لے کر ان کی تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ سورۂ احزاب میں فرماتا ہے کہ دیکھو اس اصول کو کبھی بھولنا نہیں ہے کہ ذلت اور عذاب کا حکم
خطبات ناصر جلد سوم ۲۸۹ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء آسمانوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اسی طرح رحمت کا حکم بھی آسمانوں ہی سے آتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کو ذلیل کرنے کے لئے یا کسی کو عذاب پہنچانے کے لئے یا کسی پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لئے آسمانوں پر فیصلہ کرے تو دنیا کی کوئی طاقت نہ ایسے انسان کو عزت دے سکتی ہے اور نہ الہی عذاب سے اسے بچا سکتی ہے اور نہ عذاب الہی کی گرفت سے اسے چھٹڑ واسکتی ہے لیکن اس کے مقابلے میں اگر کسی شخص یا کسی قوم یا کسی جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے تو ساری دنیا اگر اس کے خلاف مخالفانہ کا رروائی شروع کر دے تب بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جوش میں کمی نہیں آسکتی کیونکہ وہ رحمت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو اس کے بندوں کے لئے جوش میں آتی ہے کوئی شخص اس کی رحمت کو روک نہیں سکتا.اس میں ہمیں صرف اصولی طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات پر پختہ ایمان لانا ضروری ہے ( ایمان کے متعلق میں نے پیچھے دو خطبے دیئے ہیں ابھی چھپے نہیں.میں نے ان خطبات میں بتایا ہے کہ ( اللہ پر پختہ ایمان کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل ہو اور ہم ان پر پختگی کے ساتھ ایمان لانے والے ہوں.معرفت کے بغیر ایمان پختہ نہیں ہوتا کوئی یہ نہ سمجھے کہ معرفت کے بعد پختگی ایمان ضروری ہے یہ درست نہیں ہے مثلاً شیطان کو اللہ تعالیٰ کی صفات کی پوری معرفت تھی لیکن پھر بھی اس نے شیطنت کی ، بغاوت کی اور اباء اور استکبار اختیار کیا.پس معرفت بھی ہو اور پھر پختگی ایمان بھی ہو تب اللہ تعالیٰ کا یہ جو مطالبہ ہے کہ میرے اوپر اور میری صفات پر پختہ ایمان لاؤ وہ پورا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی ایک صفت جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے اس پر ہمارا پختہ ایمان ہونا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ عذاب کی گرفت میں لانا چاہے تو نہ کوئی قضا اسے بچا سکتی ہے نہ کوئی سیاست اسے محفوظ رکھ سکتی ہے نہ کوئی دنیا کا منصوبہ اس کی حفاظت کا سامان پیدا کرسکتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے تو بڑے بڑے دنیا دار لوگ جو مرضی کرتے رہیں کچھ نہیں ہوتا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.جب حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا تو اس وقت کے علمائے ظاہر
خطبات ناصر جلد سوم ۲۹۰ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء میں سے جو چوٹی کے علماء تھے وہ اکٹھے ہوئے انہوں نے سر جوڑا، مشورے کئے منصوبہ بنایا اور پھر سارے ہندوستان کے دوسو بڑے بڑے علماء کے دستخطوں سے آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ شائع کر دیا.لوگ بڑے خوش ہوئے کہ چوٹی کے دوسو عالموں نے اس مدعی مہدویت کے خلاف کفر کا فتویٰ لگا دیا ہے وہ سمجھتے تھے کہ چوٹی کے دو سو علماء اگر کسی پر کفر کا فتویٰ لگا ئیں تو وہ ذلیل اور نا کام ہوجاتا ہے اُن کا یہ خیال تھا تبھی انہوں نے یہ فتویٰ دیا نا ! مگر خدا آسمانوں پر مسکرا رہا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ یہ میرا بندہ ہے اور میں اسے عزت دوں گا میں نے اسے اپنے کام کے لئے کھڑا کیا ہے یہ کامیاب ہوگا.دوسو کیا اگر ساری دنیا کے دو لاکھ چوٹی کے علماء بھی فتوی دیں تو وہ اس کا کچھ بگا ڑ نہیں سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں کہ جس وقت ان سب نے میرے خلاف یہ منصوبہ بنایا چند غیر معروف آدمی میرے ساتھ تھے چنانچہ مخالفین بڑے خوش ہوئے کہ وہ مارا وہ گرا یا مگر اس خدا نے فرمایا میرے ہاتھ پر یہ بیٹھا ہے تمہیں طاقت ہے اس کو مارنے اور گرانے کی؟ ہر گز نہیں چنانچہ جو خدا نے فرمایا وہی پورا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہی وعدہ دیا ہے انہی الفاظ میں کہ تو اور تیرے ماننے والے میری حفاظت میں ہیں اور یہ لوگ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے.پس دنیا کی قضا یا دنیا کی سیاست یاد نیا کا انتظام یا دنیا کے منصوبے یا دنیا کے علماء یاد نیا کے فلاسفر احمدیت کو نہیں مٹا سکتے اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ یہ احمدیت کو نہیں مٹا سکتے اس لئے نہیں کہ ہمارے اندر کوئی خوبی ہے آپ سے تو میں یہ کہوں گا کہ آپ عاجزانہ راہوں کو اختیار کریں کبر و غرور کو اپنے دل میں پیدا نہ ہونے دیں اور اس دل کو کبر و غرور کی بجائے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر پختہ یقین کے ساتھ بھر دیں اور اپنے ایمانوں کے تقاضوں کو پورا کریں آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے وعدے انشاء اللہ پورے ہوتے جائیں گے.پس سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ (اپنی مشیت کے تحت) ذلیل کرنا چاہے یا عذاب دینا چاہے تو تم اس سے بچ نہیں سکتے.ساری دنیا کی حکومتیں مل کر بھی
خطبات ناصر جلد سوم ۲۹۱ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء تمہیں الہی عذاب سے بچا نہیں سکتیں ابو جہل کو کس نے بچایا ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف جنہوں نے آگ جلائی تھی وہ کہاں ہیں؟ انبیاء کے مخالفین یا ان کی اولا د کہاں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹا دیا.حضرت نوح علیہ السلام پر تمسخر کرنے والے اور انہیں کا فر کہنے والے کدھر گئے ؟ طوفان کے اندر بہہ کر سمندر کی تہوں میں شاید ان کے ذرے بکھرے ہوئے ہوں مگر ان کا نام ونشان مٹ گیا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی مخلوق تو اسے پیاری ہے نا ! ان ظالموں کے جسموں کے ذروں کو شاید ان گھوڑوں میں بھی تبدیل کر دیا ہو جن پر سوار ہو کر مسلمان ایک طرف ایران میں اور دوسری طرف روم کی سلطنت میں گھس گئے.کون کہ سکتا ہے ہم نے تو نہ ذروں کا پیچھا کیا اور نہ ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ کدھر گئے لیکن اس مادی دنیا کے ذرے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ اپنی شکلیں بدلتے رہتے ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اگر میرے عذاب سے بچنا چاہتے ہو اگر میری ذلت سے بچنا چاہتے ہو تو تمہیں میرے پاس آنا پڑے گا کوئی اور تمہیں بچانہیں سکتا اور اگر میری رحمت کے تم وارث ہو جاؤ تو دنیا کی طرف تمہیں نگاہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیا تو ایک مرے ہوئے مچھر کے کیڑے سے بھی کم حقیقت رکھتی ہے پھر تمہیں ان کی کیا پرواہ ہے؟ یہ مضمون مختلف آیات میں اپنے Context ( کنٹیکسٹ ) میں بھی ہے اور جو میں نے ان آیات کی ترتیب دی ہے اس سے ایک اور مضمون ابھرتا ہے پہلی آیت میں یہ بتایا تھا کہ عذاب یا رحمت کا پہنچا نا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے اس واسطے اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اگر تم اس کے عذاب سے بچنا اور اس کی رحمت سے حصہ لینا چاہتے ہو.سورۂ نساء کی اس دوسری آیات میں (جس کی میں نے تلاوت کی ہے ) یہ کھول کر بتایا گیا ہے کہ اِعْتَصَمُوا بِه اللہ تعالیٰ کے ذریعہ سے شیطانی یلغار، نفس کی یلغار ، دل کے بد خیالات ہیں ان کی یلغار، نفاق کی یلغار ، مخالفت کی یلغار ، انکار کی یلغار اور مخالفانہ منصوبوں کی یلغار اور سب لوگوں کے اکٹھے ہوکر مغلوب کر دینے کی یلغار سے اپنے بچاؤ کا انتظام کرو.جتنی بھی کوئی تصور میں لاسکتا ہے یا حقیقت میں پیدا ہو سکتی ہیں ان سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کو اپنا ذریعہ بناؤ اس کی
خطبات ناصر جلد سوم ۲۹۲ خطبه جمعه ۲۱ /اگست ۱۹۷۰ء طرف آؤ اور اس کا ذریعہ یہ ہے فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ (النساء : ۱۷۶) اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو تب تم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاؤ گے اور جب تم اللہ کی پناہ میں آجاؤ گے تو پھر دنیا تمہیں ذلت کے گڑھے میں پھینک نہیں سکے گی پھر دنیا تمہیں عذاب کے تندور کے اندر دھکیل نہیں سکے گی پھر دنیا تمہارے ناک میں نکیل ڈال کر ذلیل کرنے کے لئے گلیوں میں پھر انہیں سکے گی بلکہ پھر یہ ہوگا.فَسَيْدُ خِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ (النساء :۱۷۶) اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں تمہیں داخل کر دے گا اپنے فضل کے محلوں کے اندر تمہیں لے جائے گا اپنے سلامتی کے حصار میں تمہیں رکھے گا وَ يَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (النساء : ۱۷۶) اور جو اس نے قرآن کریم کے ذریعہ ایک سیدھا راستہ اپنی طرف پہنچانے کے لئے مہیا کیا ہے اس پر تمہاری انگلی پکڑے گا اور اس راستے پر تمہیں لے جائے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے کیونکہ جو شخص صراط مستقیم پر اللہ تعالیٰ کی انگلی پکڑ کر چل رہا ہوا سکے نا کام ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.دوسری جگہ یہ فرمایا کہ جب ہم نے یہ کہا ہے کہ ایمان لائے (وہاں وہ ماضی کا صیغہ ہے مفہوم وہی ہے ) کہ جو لوگ ایمان لائے یا اگر تم ایمان لاؤ تو اللہ تعالیٰ کو اپنی پناہ کا ذریعہ بنالو اور اسکے نتیجہ میں رحمت اور فضل تمہیں ملے گا.ذلت اور رسوائی اور ناکامی اور دشمنوں کا غلبہ تمہارے نصیب میں نہیں ہوگا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس ایمان کے جو تقاضے ہیں وہ تمہیں پورے کرنے چاہئیں پھر فرما يا وَ إِن تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا یہاں تقویٰ ایک اور وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میرے ان احکام کا جو میں نے قرآن کریم میں دیئے ہیں بجا آوری میں ثابت قدمی دکھاؤ اور اگر تم دنیا کی تمام Temptations ( ٹیمپٹیشنز ) یعنی وہ باتیں جو غیر اللہ کی طرف کھینچنے والی ہیں ان سے تم بچو تولا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا تو جو تمہارا دشمن ہے ان کا کوئی منصوبہ تمہیں ضرر یا تکلیف نہیں پہنچا سکتا غرض اللہ تعالیٰ نے جو احکام جاری کئے ہیں جسے ہم اسلام کہتے ہیں اور سارے احکام سے مل کر اسلام بنتا ہے.کسی ایک حکم کے مطابق بھی اگر شیطان کی طرح انسان اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے تو اس کی ناراضگی کو مول لینے والا.ہے.
خطبات ناصر جلد سوم ۲۹۳ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا چاہتے ہو تو چھ سو سے زائد حکم جو قرآن کریم میں ہیں تم ہر ایک کی تعمیل کرو اور قرآن کریم کی پوری تعلیم کا جوا ا پنی گردن پر رکھو تب تم ان فضلوں کے وارث ہو گے.آل عمران کی اس آیت میں یہاں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم ثبات قدم دکھاؤ جو تعلیم دی ہے جو سیدھا راستہ ہے اس سے ادھر ادھر نہیں ہونا خواہ کچھ ہو جائے اس پر تم نے قائم رہنا ہے اور یہ کامل معرفت اور اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر کامل ایمان کا نتیجہ ہے.پہلے لوگ جن کے ساتھ آپ اپنے آپ کو فخر کے ساتھ بلا یا کرتے ہیں کہ ہم ان سے مل گئے یعنی ”صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا کے ماتحت تو ان کا نمونہ یہ ہے کہ چار چار پانچ پانچ گنا زیادہ فوج سامنے ہوتی تھی ہتھیاروں میں بھی کئی کئی گنا زیادہ اور تعداد میں بھی زیادہ.بڑی اچھی تلواریں بڑے اچھے نیزے بسا اوقات ایک ایک کے پاس چھ چھ تلواریں ہوتی ہیں مگر ہمارے مسلمانوں کی ایسی بیسیوں مثالیں ہیں کہ تلوار ہا تھ سے چھوٹ گئی تو دوسری تلوار نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ مددکو آتا.مد مقابل یعنی دشمن کو کسی نے نیزہ مارا اس کی تلوار اس نے پکڑ لی ورنہ تو وہ موت کے منہ میں اپنے آپکو دیکھتا تھا اللہ تعالیٰ آسمان سے آکر اس کی مدد کرتا تھا اور حفاظت کرتا تھا اور اس کی جان بچ جاتی تھی انہوں نے موت کی کوئی پرواہ نہیں کی.الہی سلسلے جو ہیں ان کی جدو جہد اور کشمکش میں جانی قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور مالی قربانی بھی دینی پڑتی ہے چونکہ اسلام کی مخالف قوتوں کے ساتھ ہماری دلائل کی جنگ ہے اس واسطے اس قسم کی شہادت کا میدان ہمارے سامنے نہیں آتا لیکن ہم اس سے محفوظ نہیں ہیں ہمارے عبداللطیف صاحب شہید دلائل کی تلوار لے کر گئے تھے اور پتھروں کی نوکوں سے انہیں شہید کر دیا گیا یہ دروازہ کلی طور پر بند نہیں شکل کچھ بدلی ہوئی ہے جب مخالف دلائل سے عاجز آ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے اور تو کچھ نہیں بنتا چلو اس کو مار دو.وہ یہ نہیں سمجھتا کہ ایک کو تم نے جنت میں بھیج دیا اور دس ہزار اس کے مقابلے میں اور پیدا ہو گئے جن میں پہلے اتنی پختگی نہیں تھی جتنی اس شہادت کے بعد پیدا ہوگئی ایک ہزار صحابی " یرموک کے میدان میں شہید ہوا ہے اور یہ وہ صحابی نہیں تھے جنہوں نے ایک دفعہ آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور واپس چلے گئے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۹۴ خطبه جمعه ۲۱ /اگست ۱۹۷۰ء سارے تربیت یافتہ تھے جو شہید ہوئے اور ان میں ایک سو بدری صحابی تھے جب کہ بدری صحابہ کی کل تعداد ۳۱۳ ہے جن میں سے کچھ اس سے پہلے فوت بھی ہو چکے ہونگے بہر حال یرموک کی جنگ میں ایک سو بدری صحابی شہید ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ اور اُخروی زندگی پر انہیں اس قدر پختہ ایمان تھا کہ میں نے کئی دفعہ سوچا ہے کہ وہ لوگ اس دنیا سے اُس دنیا کی طرف اس قدر خوشی اور آسانی کے ساتھ انتقال کر جاتے تھے کہ شاید ہمیں اس سے زیادہ بوجھ محسوس ہوتا ہو اپنے سونے والے کمرے سے بیٹھنے والے کمرے تک پہنچنے میں کوئی فرق ہی نہیں تھا جس طرح نائیلون کا پردہ بیچ میں پڑا ہو دو زندگیوں میں تو کہتے کچھ نہیں اس پردے کے سامنے سب کچھ نظر آرہا ہے کوئی پر واہ ہی نہیں تھی یہ ایمان چاہیے اور وعدہ بڑا ز بر دست ہے اللہ تعالیٰ نے اسی لئے فرمایا ہے کیونکہ بعض نے شہید ہونا تھا.لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى (ال عمران : ۱۱۲) تمہیں تھوڑی سی تکلیف اجتماعی زندگی کے لحاظ سے پہنچے گی یعنی یرموک کے شہداء جن میں ایک ہزار صحابی اور ۴.۵ ہزار دوسرے مسلمان شہید ہوئے اور ان کے مقابلے میں دشمن اپنی وہاں ستر ہزار لاشیں چھوڑ کر بھاگا تھا کوئی مقابلہ ہی نہیں جو ایذاء ان کو اس میدان میں پہنچی اس کے مقابلے میں جو مسلمانوں کو قربانی دینی پڑی اس کے متعلق بغیر کسی حاشیہ آرائی یا مبالغے کے یہ کہا جا سکتا ہے لَن يَضُرُّوكُم إِلَّا أَذًى.تمہیں تکلیف پہنچے گی لیکن اس کے بدلے میں تمہیں اتنی زبردست فتح ملے گی کہ تمہاری تکلیف یا تمہاری قربانی یا تمہارے آدمیوں کی تعداد جو شہید ہوئے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھے گی اور یہ وہ جنگ تھی جس نے روم جیسی بڑی سلطنت کی جڑ کاٹ کر رکھ دی تھی اس سے پہلے بھی معمولی جنگیں ہوئیں، بعد میں بھی ہوئیں لیکن یہاں تو بعض کے کہنے کے مطابق اڑھائی لاکھ رومی اکٹھا ہوا ہوا تھا انہوں نے یہاں اپنی آخری بازی لگائی تھی یا ہاریں گے یا ہماری سلطنت تباہ ہوگی اور کوئی بچ کر گیا ہے؟ آدمی تاریخ پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے عقل تیز ، فراست تیز تلوار کی دھار تیز ، گھوڑوں کی جہت تیز ، نیزوں کی آئی تیز ہر چیز میں تیزی آئی ہوئی تھی.اس کے مقابلے میں ان کی عقلیں ماری ہوئیں دلوں کے اندھیرے سمجھ نہیں آتا تھا خود بھاگ کر ایسی جگہ پہنچ گئے کہ جہاں ڈھلوان کوئی نہیں تھی اور جب پیچھے سے مسلمانوں کا دباؤ پڑا تو ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے پہاڑی پر سے نیچے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۹۵ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء گرتے گئے اور مرتے چلے گئے ورنہ چند ہزار کا ستر ہزار آدمیوں کو قتل کرنے کے لئے تلواریں چلانے سے بھی شاید بہتوں کے پٹھے ہمیشہ کے لئے بیمار ہو جاتے لیکن آپ ہی اپنی موت کا سامان بن گئے بھاگے تو ادھر بھاگے، یہ ٹھیک ہے کہ حضرت خالد کی فراست تھی انہوں نے خاص جہات سے ان پر دباؤ ڈالا تھا لیکن ان کی تو عقل ماری ہوئی تھی ورنہ وہ حضرت خالد کی فراست سمجھ کر دوسری جگہ کا رُخ کر سکتے تھے.بہر حال اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ایذاء تو تمہیں پہنچے گی لیکن معمولی سی ایذاء ہو گی ان بشارتوں کے مقابلے میں ، ان فتوحات کے مقابلے، میں ان قربانیوں کے مقابلہ میں ، اس پیار کے مقابلہ میں جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمہیں نظر آئے گا اس کی رضا کے مقابلہ میں جسے تم حاصل کرو گے کتنے ہیں جو چار پائی پر جان دیتے ہیں میں سوچا کرتا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک چار پائی ہے کیونکہ سب سے زیادہ اموات چار پائی پر ہوتی ہیں.جنگوں میں خصوصاً پچھلی دو عالمگیر جنگوں میں بڑی قتل و غارت ہوئی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ چھ ماہ میں چار پائی پر مرنے والوں کی تعداد ان مرنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے جو ان جنگوں میں مارے گئے.پس مرنا تو ہر ایک نے ہے سوال یہ ہے کہ کیا تم نے چار پائی پر مرنا ہے؟ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ایک آدمی باہر سے بڑا ہنستا کھیلتا آتا ہے بیوی سے کہتا ہے کہ میرے کھیت بڑے اہرا رہے ہیں.بڑی آمد ہوگی بیوی پانی لے کر آتی ہے وہ پانی پیتا ہے قولنج ہوتی ہے اور وہیں اس کا دم نکل جاتا ہے.چار پائی پر آرام کرنے کے لئے بیٹھے تھے اور وہاں سے جنازہ اٹھ گیا پس اگر تو زندگی اور موت میرے یا آپ کے ہاتھ میں ہو تو پھر آپ کو یہ اختیار بھی ہے کہ آپ یہ کہیں کہ ہم موت پر زندگی کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر آپ کے ہاتھ میں زندگی اور موت نہیں اور یقینا آپ کے ہاتھ میں زندگی اور موت نہیں تو پھر کس پر کس چیز کو ترجیح دینے کا اپنے آپ کو حق دار یا اہل سمجھتے ہو.حماقت ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں منافقوں نے کہا تھا کہ وہ موت سے بچ کر واپس جارہے ہیں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ موت تو تمہیں آکر پکڑے گی جہاں مرضی چلے جاؤ ان میں سے کون بچا؟ ایک طرف ذلت کی موت ہے ایک طرف عزت کی زندگی ہے اور عزت کی موت ہے.عزت
خطبات ناصر جلد سوم ۲۹۶ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء تو مرنے کے بعد کی زندگی ہے اللہ تعالیٰ کا پیار ہے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں اللہ تعالیٰ کی بشارتیں ہیں اور ہم دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں گود میں بٹھاتا اور ماتھے کو پیار کرتا ہے ہزاروں آدمیوں کا یہ اپنا ذاتی مشاہدہ ہے اس کو چھوڑ کر کسی ٹٹ پونجیے جاہل نو جوان کی ہنسی اور تمسخر یا فتوے سے ہم گھبرا جائیں گے؟ مولوی محمد حسین بٹالوی کے فتوے سے ہم نہیں گھبرائے جو ظاہری لحاظ سے بہت بڑے عالم تھے اس وقت کے عالموں کی بھی عجیب حالت تھی بڑے علماء کے دو حصے ہو گئے ایک عیسائیت کی گود میں جا پڑا اور دوسرا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کفر بازی کے کام میں مشغول ہو گیا اور جو اُن کے کام تھے وہ انہیں بھول گئے انہوں نے نہیں کئے.خدا کرے کہ آج کی نسل ان سے سبق سیکھے اور عبرت حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے ہمارے دل میں تو کسی کے خلاف نہ غصہ ہے نہ نفرت ہے ہم تو سب کے لئے دعا کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور سب سے پیار کرتے ہیں (اردو میں جو اس معنی میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ) شدید سے شدید معاند کے خلاف بھی ایک لمحہ کے لئے بھی میرے دل میں تو کبھی نفرت اور غصہ پیدا نہیں ہوا میں سمجھتا ہوں کہ کسی بچے احمدی کے دل میں بھی پیدا نہیں ہوتا ہوگا ہمارے دل میں تو رحم پیدا ہوتا ہے ہمارے دل میں تو ” بخع“ کی حالت پیدا ہوتی ہے.یہ ایک لمبا مضمون ہے میں اس وقت اسے بیان نہیں کروں گا اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو انشاء اللہ کسی اور وقت اسے بیان کروں گا.بہر حال ہمیں کسی سے نفرت نہیں ایک نو جوان بڑے جوش میں آئے کہ ہمارے گاؤں کا مولوی ہمیں بہت گالیاں دیتا ہے میں مسکرایا اور اس سے کہا کہ تم جا کر اس کی تسلی کرا دو کہ جتنا چاہو زور لگا لو ہمارے دل میں تم اپنی نفرت پیدا نہیں کر سکتے.ہمیں خدا نے نفرت کرنے کے لئے پیدا ہی نہیں کیا ہمیں پیار سے ساری دنیا کے دل جیتنے کے لئے پیدا کیا ہے ہم عیسائیوں کے دل جیت رہے ہیں تو وہ جو گاخِر کُنَند دعوي حُبّ پیمبرھ ان کے دل بھی تو ہم نے ہی جیتنے ہیں وہ تو پھر بھی اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں غلطی خوردہ ہیں ، لاعلم ہیں سب کچھ ہیں لیکن منسوب تو ہمارے پیارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۹۷ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء ہیں ان سے ہم نے زیادہ پیار کرنا ہے لیکن کسی کے کہنے سے اگر کوئی کچھ فکر کرتا ہے تو اسے اپنی تاریخ کا پتہ نہیں.میں نے بتایا ہے کہ چوٹی کے دوسو علماء نے اس وقت کفر کا فتوی دیا جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ چند آدمی تھے چنانچہ چوٹی کے ان دوسو علماء کے کفر کے فتووں نے آپ کا کچھ نہیں بگاڑا کیونکہ خدا نے کہا تھا کہ یہ میرے پیارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ترین روحانی فرزند ہے اسے میں اپنی گود میں بٹھاؤں گا اور یہ میری پناہ میں رہے گا دنیا جو مرضی کر لے لوگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بے شمار وعدے ہیں آپ کو دیکھنے چاہئیں مجھے بتانے چاہئیں میں انشاء اللہ بتاؤں گا ہمارا انہوں نے کیا بگاڑا ؟ جو آج ایک یا دو یا زیادہ جو اُن مولویوں کے مقابلے میں ظاہری علمیت بھی کچھ نہیں رکھتے ان کے کفر کے فتوے ہمارا کیا بگاڑ لیں گے؟ جو مرضی کرتے رہیں.ہمیں جو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم ان کے لئے دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے ان کے اندھیروں کو دُور کرے اور ان کے سینوں کو نور سے بھر دے.اللہ تعالیٰ جس طرح ہم سے پیار کر رہا ہے اور ہمیں اس کا اہل سمجھتا ہے ( خدا کرے کہ ہم اس کے اس پیار کے ہمیشہ ہی اہل رہیں اور ) اسی طرح یہ لوگ بھی اس کے پیار کے اہل بن جائیں پھر وہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کس قدر پیار کرنے والا ہے اور جو لذت انسان خدا سے تعلق رکھ کر حاصل کرتا ہے وہ دنیا کی کسی چیز میں نہیں مل سکتی نہ رشتہ داریوں کے تعلقات میں وہ لذت ہے نہ پھلوں میں وہ لذت ہے نہ اجناس میں وہ لذت ہے نہ پانی میں وہ لذت ہے اور نہ شدید سردی کے موسم میں گرم لحاف میں وہ لذت ہے نہ انتہائی گرمی کے وقت ریفریجریٹر اورا پر کنڈیشنڈ میں وہ لذت ہے غرض دنیا کی کسی چیز میں وہ لذت نہیں جو اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق رکھنے سے انسان حاصل کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ انہیں بھی توفیق دے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق رکھنے والے بن جائیں اور اس مہدی معہود کو پہنچانے لگیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ) محبوب ترین روحانی فرزند تھا ویسا پیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے نہیں کیا اگر کیا ہوتا تو اسے اپنا سلام بھی بھجواتے.اللہ تعالیٰ کرے کہ انہیں یہ بات سمجھ آ جائے.ہمارے لئے
خطبات ناصر جلد سوم ۲۹۸ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء ابتلاء مقدر ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا امتحان لینا ہے لیکن ہم میں سے جو پاس ہو جائے جنہیں اللہ تعالیٰ یہ سمجھے کہ یہ امتحان میں پورے اترے ہیں اور خدا کرے کہ ہم سارے ہی اس امتحان میں پورے اتریں ان کے لئے جو بشارتیں دی گئی ہیں ان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں جو محبت کا پیغام دیا گیا ہے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہے اس اجتماعی حیات احمدیت سے اللہ تعالیٰ جو پیار کر رہا ہے جو اجتماعی معجزے دکھا رہا ہے جو دنیا کے دلوں میں ایک انقلاب عظیم پیدا کر رہا ہے دنیا کے دل میں جو یہ ایک احساس پیدا کر رہا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا ہمیں احمدیت کی وجہ سے پتہ لگا ہے اس واسطے ایک طرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا سمندر ان کے دلوں میں موجزن ہوا تو دوسری طرف وہ ہمارے ساتھ پیار کرنے لگ گئے کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا کہ کتنا بڑا احسان ہے اس چھوٹی سی غریب جماعت کا کہ وطنوں سے بے وطن ہوکر اور اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ کر انہوں نے ہماری خاطر یہ قربانی دی کہ ہمیں آج وہ حسین چہرہ جس سے بڑھ کر کوئی حسن نہیں وہ حسین چہرہ جو خود منبع اور سرچشمہ ہے تمام حسنوں کا اس کے ساتھ متعارف کروایا اس کی معرفت ہمیں حاصل ہوگئی اس لئے وہ ہم سے پیار کرتے ہیں اس لئے ہم ان سے پیار کرتے ہیں کیونکہ ہم دونوں ایک ہی کشتی میں ہیں یعنی نوح کی کشتی جسکے متعلق سلامتی کا وعدہ ہے.پس ابتلاء تو آئیں گے لوگ کافر کہنے سے باز نہیں آئیں گے جب تک کہ وہ آخری وعدہ پورا نہ ہو جائے جو ہمیں افق پر نظر آ رہا ہے اور عنقریب پورا ہونے والا ہے.۳۰،۲۰ یا ۵۰ سال دنیا کی زندگی میں یہ کوئی زمانہ نہیں ہے لیکن یہ کوئی لمبا عرصہ نہیں ہے.اب میری تو رائے یہ ہے کہ شاید اس کے آثار ۲۰ اور ۳۰ سال کے اندر شروع ہو جائیں گے گو اس کا کلائمیکس ممکن ہے صدی کے اندر کسی وقت ہو لیکن نمایاں طور پر ایک بات سامنے آجائے گی کہ احمدیت جیت چکی ہے اور اس کی مخالفت نا کام ہو چکی ہے.بہر حال غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے ہم تو جو سمجھتے ہیں وہ نیک نیتی سے بیان کر دیتے ہیں تا کہ آپ بھی دعا کریں اور سارے مل کر یہ دعا کریں کہ جو ہمارے اندازے ہیں وہی صحیح نکلیں جلد تر ساری دنیا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آکر
خطبات ناصر جلد سوم ۲۹۹ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء جمع ہو جائے اور اپنے رب کے حضور اسلام ( لفظ اسلام اور معنی اسلام ) جو قربانی چاہتا ہے اس کو ہمیں پیش کرنا چاہیے ہماری یہ دعا اور یہ تمنا ہے.غرض کسی سے بگاڑ نہیں نہ کسی سے نفرت اور دشمنی ہے اپنے آپ کو ہم کچھ سمجھتے نہیں نہ کبر نہ غرور نہ بڑائی اور نہ فخر ہے لاشے محض خود کو سمجھتے ہیں اور سوائے اللہ کے ہر دوسری ہستی کو لاشے محض سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بشارتوں پر پورا یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وعدے ہمیں تسلی اور تسکین دلاتے ہیں کہ آخر اسلام اور احمدیت کا غلبہ ہو گا.خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے سلامتی کا سامان پیدا کیا ہے آگیں ہمارے لئے جلائی جائیں گی مگر ہمیں بھسم کرنے اور راکھ کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے معجزانہ ہاتھ دکھا کر دنیا پر یہ ثابت کرے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کو نا کام نہیں کر سکتی دنیا کی کوئی آگ انہیں جلا نہیں سکتی.دنیا کا کوئی منصوبہ انہیں منتشر نہیں کر سکتا.جونئی پریشانی پیدا ہوئی ہے نوجوانوں کے دماغوں میں ہے پریشانی ہمارے لئے تو وہ کوئی پریشانی نہیں اسی کے سلسلہ میں دراصل میرا یہ خطبہ ہے اس سے پہلی رات مجھے ابھی پتہ نہیں تھا.اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ ساری رات مخالفین کی ناکامیوں اور جماعت کی کامیابیوں کے متعلق باتیں ہوتی رہیں.کبھی قرآن کریم کی آیات کبھی اپنے فقرے اور بس نیم بیداری اور نیم غنودگی کی حالت میں قریباً ساری رات یہی کیفیت رہی میں صبح اٹھ کر بڑا خوش ہوا لیکن مجھے کچھ فکر بھی تھی کہ جب بہت تسلی دی جاتی ہے تو کہیں سے کوئی وار بھی ہونے والا ہوتا ہے چنانچہ بعد میں پتہ لگ گیا کہ یہ ایک وار ہوا ہے.ایک چیز میں بھول گیا اس کا مجھے افسوس ہے خواب میں میں انگریزی میں تین فقرے کہتا ہوں تین مختلف انبیاء کی قوموں کے متعلق غالباً شرعی نبی جو پہلے گزرے ہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوشا نہیں ہیں پہلی زندگی میں آپ دنیا پر محمد کی شان میں جلوہ گر ہوئے تھے اور اس زمانہ میں آپ اپنی احمد کی شان میں جلوہ گر ہوئے ہیں.ہو سکتا ہے بلکہ میرا خیال بھی یہی ہے کہ یہ دوشا نیں اور ایک پہلے کے کسی نبی کی شان اور فقرے وہ ایسے ہیں کہ سوچ کر مجھے بڑا ہی افسوس
خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء خطبات ناصر جلد سوم ہوا وہ بڑے عجیب یعنی وہ فقرے ایسے نہیں کہ انسان بنا سکے بلکہ ایسے تھے کہ جس طرح آسمان سے نازل ہوئے ہیں اور ان سے میں نے بڑی لذت محسوس کی لیکن وہ میری زبان پر جاری ہوتے ہیں اور آخری فقرے کا صرف ایک لفظ یا درہ گیا اور اس میں یہ فقرہ کہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی خصوصیات اور جماعت احمدیہ کی کامیابیوں کا راز اس بات میں ہے پھر وہ Phrase(فریز) لمبی تھی مگر اس میں صرف discipline ( ڈسپلن ) کا لفظ یا درہ گیا یعنی نظم و اطاعت اور یہ حقیقت ہے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ یہ خوشخبری ملی ہے کہ دامن خلافت کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرتا چلا جائے گا اور اپنے فضل تم پر نازل کرتا چلا جائے گا مثلاً خلافت کی جو قدر پہلے صحابہ نے کی وہی قدر جماعت کو کرنی چاہیے.جب حضرت خالد بن ولید کو معزول کیا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں وہی کوڑا تھا جو ہر خلافت کے ہاتھ میں ہوتا ہے.کسی کو زیادہ استعمال کی ضرورت پڑ جاتی ہے کسی کو کم پڑتی ہے.کسی کا وہ کوڑا نمایاں ہو کر سامنے آجاتا ہے کسی کا کبھی کبھی سامنے آتا ہے اس لئے لوگ اسے بھول جاتے ہیں خلافت خلافت میں تو کوئی فرق نہیں.ہر خلیفہ کے فرائض و اختیارات ایک جیسے ہیں.کوڑا بھی ایک جیسا ہے کیونکہ اگر وہ کوڑا خلافت عمر کا حصہ نہیں تھا تو وہ نا جائز تھا اور ان کی طرف ہم کوئی ناجائز بات منسوب نہیں کرتے اگر وہ جائز تھا تو خلافت کا حصہ تھا اور ہر خلافت کا وہ حصہ ہے چنانچہ وہ کوڑا حضرت خالد بن ولیڈ پر چلا.یہ تو ایک ضمنی بات ہے لیکن جو لوگ بعد میں آئے اور جن کی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدھ ملاقات ہوئی تھی یعنی اگر صحابی بھی تھے تو اس قسم کے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایمان لائے تھے مگر بڑے مخلص اور فدائی بن گئے انہوں نے جب حضرت خالد کی معزولی کا سنا تو بڑے پریشان ہوئے کہ یہ کیا ہو گیا؟ اتنا بڑا جرنیل جس نے اتنی بڑی قربانیاں دیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر اتنی فتوحات بخشیں اور ایک فقرہ لکھا ہوا آگیا کہ ان کو معزول کر دو.انہوں نے اسے قبول نہیں کیا اگر چہ بغاوت نہیں کی لیکن طبیعتوں میں بشاشت نہیں پیدا ہوئی چنانچہ ا کا بر صحابہ کے پاس ان لوگوں کا ایک وفد گیا کہ ہمیں خلافت کی یہ بات پسند نہیں آئی اور ہم کچھ کہ نہیں سکتے اور آپ صحابہ میں سے بزرگ ہیں آپ حضرت عمر کو
خطبات ناصر جلد سوم ٣٠١ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء توجہ دلائیں کہ یہ کیا کر دیا ہے؟ انہوں نے آگے سے جواب دیا کہ سمجھ آنے یا نہ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ہماری ریت یہ ہے کہ سَبْعًا وَ طَاعَةٌ.ہم صرف سنیں گے اور اطاعت کریں گے بشاشت تو تمہارے دل کے اندر پیدا ہونی چاہیے ان ناسمجھوں کے دل میں بشاشت پیدا نہیں ہوئی لیکن خود حضرت خالد بن ولیڈ نے اپنی وفات سے پہلے کئی بار اس بات کا اظہار کیا کہ مجھے سمجھ آگئی ہے کہ میرے معزول کرنے میں کیا حکمت تھی ؟ وہ حکمت یہی تھی کہ یہ جو نئے آنے والے تھے ان کے دلوں میں احساس پیدا ہو گیا تھا کہ یہ فتوحات حضرت خالد کی مرہونِ منت ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کو یہ بتلانا چاہتے تھے کہ یہ فتوحات صرف اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کی مرہونِ منت ہیں خالد کوئی چیز نہیں بلکہ ہر انسان کی عمر کی بھی اور خالد کی بھی اور ناصر کی بھی.غرض جو بھی مخلوق ہے اس کی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ایک مرے ہوئے کیڑے سے زیادہ حیثیت نہیں ہے.حضرت عمر ان کو یہ سبق سکھانا چاہتے تھے اور خوب سکھا یا حضرت ابوبکر صدیق نے اس حضرت خالد کو ایران کی جنگوں پر مامور کر رکھا تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں وہاں سے ہٹالیا اور پھر انہیں وہاں واپس نہیں بھیجا اور ان کی جگہ ایک بوڑھے متقی اور پر ہیز گار یعنی حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ جن سے بعض دفعہ لڑائی میں چلا بھی نہیں جاتا تھا مگر یہ بڑے پایہ کے صحابی تھے بڑے مخلص اور دعا گو تھے بنی نوع انسان سے بڑا پیار کرنے والے تھے انہیں جرنیل بنادیا.حضرت خالد بن ولیڈ کی لڑائیوں کے متعلق تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے تھوڑا سا Bleeding ( بلیڈنگ) کیا یعنی ایرانی حکومت کو تھوڑا سا زخمی کیا.اس میں ذرا سا ضعف آگیا لیکن حضرت سعد بن وقاص نے اپنے کمزور ہاتھ کی تلوار سے ایران کی گردن اڑا دی کیونکہ ان کا ہاتھ ظاہری طور پر کمزور تھا یا طاقتور تھا اس کا کوئی سوال ہی نہیں تھا اصل ہاتھ تو اللہ تعالیٰ کا تھا جس نے وہ تلوار پکڑی ہوئی تھی اور جب اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تلوار اُٹھائے تو اس سے کون سی گردن محفوظ رہ سکتی ہے؟ کوئی نہیں رہ سکتی اگر یہ صحیح ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح ) یعنی جنہوں نے تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی تیرے ہاتھ میں اُنہوں نے ہاتھ نہیں دیا خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اسلام کی تلوار
خطبات ناصر جلد سوم خطبه جمعه ۲۱ /اگست ۱۹۷۰ء حضرت خالد بن ولیڈ کے ہاتھ میں نہیں تھی نہ حضرت سعد بن وقاص کے ہاتھ میں تھی بلکہ وہ تلوار خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں تھی اور خدا کے ہاتھ میں جو تلوار ہوتی ہے اگر وہ چمکے اور کسی کی گردن اڑانا چاہے تو کس کی گردن محفوظ رہ سکتی ہے؟ ضمنا مجھے ایک اور بات یاد آ گئی ہے.ایک صحابی لڑ رہے تھے دشمن بڑا طاقتور اور آہن پوش تھا یہ اس پر وار کرتے تھے مگر وار کا میاب نہیں ہوتا تھا.اس عرصہ میں ایک اور دشمن نے ان پر پیچھے سے حملہ کیا اور جو ان کے سامنے سے لڑ رہا تھا اسے نظر آ رہا تھا کہ پیچھے سے اور حملہ ہو گیا ہے اس لئے میری جان بچ جائے گی.ہمارے اس صحابی کو تو نظر نہیں آ رہا تھا ان کی تو اس طرف پیٹھ تھی لیکن انہوں نے سامنے دشمن پر تلوار چلانے کے لئے جب تلوار گھمائی اور اس کی نوک پیچھے آنے والے آدمی کی گردن پر لگی وہ دور جا پڑا اس سے پتہ لگتا ہے کہ مسلمانوں کی تلواریں خدا کے ہاتھ میں تھیں اس کی آنکھ سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں غرض وہ صحابی دم بخود ہو گئے حیران کہ یہ کیا واقعہ ہو گیا ان کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ پیچھے کون آرہا ہے اور وہ اس کا بچاؤ نہیں کر سکتے تھے ان کو علم ہی نہیں تھا کہ پیچھے سے بھی نیزے اور تلوار کا وار ہو گا چنانچہ ہوا یہ کہ جو چیز ان کو نظر نہیں آرہی تھی یا جو انسان ان کے پیچھے سے حملہ کرنے والا تھا اس کی گردن اڑ گئی اور پھر وہ بھی مارا گیا.بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن یہ ہمیں بتارہی ہیں کہ وہ تلوار مسلمان کے ہاتھ میں نہیں تھی بلکہ مسلمان کے رب کریم کے ہاتھ میں تھی اس رب کے ہاتھ میں تھی جس کے متعلق ہم ایمان لاتے ہیں کہ الْمُلْكُ لِلَّهِ الْقُدْرَةُ لِلهِ اور الْعِزَّةُ لِلهِ جو متصرف بالا رادہ ہے دنیا میں کوئی کام نہیں ہوسکتا جب تک آسمان سے حکم نازل نہ ہو.پس یہ کمزوریاں تھنکنگ کی فکر و تدبر کی یہ بھی چھوڑ وجو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے صرف وہی ہوتا ہے اور آج اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ اسلام اور احمدیت غالب آئے اور انشاء اللہ اسلام اور احمدیت غالب آئے گی.میں جب بھی سوچتا ہوں مجھے مخالفین کے منصوبوں سے کبھی فکر پیدا نہیں ہوئی.میں ایک لحظہ کے لئے بھی پریشان نہیں ہوا لیکن جو چیز مجھے پریشان کر دیتی ہے اور بعض دفعہ میری راتوں کی نیند حرام کر دیتی ہے وہ جماعت کی اپنی کمزوری ہے.آپ یا درکھیں کہ آپ کا
خطبات ناصر جلد سوم خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء بیرونی دشمن آپ کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا البتہ آپ کے دل کا چور آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے آپ کے دل کا نفاق آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے آپ میں دلی طور پر کمزور ایمان والا آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن بیرونی مخالفت آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی اس کی فکر کرنی چاہیے.پس آپ اپنی تربیت کی فکر کریں اور ان لوگوں کے لئے دعائیں کریں، کسی پر غصہ نہ کریں، کسی سے تمسخر نہ کریں اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھیں اپنے دل میں ان لوگوں کے لئے بخع کی کیفیت پیدا کریں.ان سے نفرت کی بجائے پیار پیدا کریں، بددعا کرنے کی بجائے ان لوگوں کو دعائیں دیں اللہ تعالیٰ ایک دن یہ دعائیں قبول کرے گا یہ اس کا وعدہ ہے پھر ہمارے مونہوں سے بھی انشاء اللہ وہ یہ کہلوائے گا.لَا تَثْرِیبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ.تمہیں نور نظر آ گیا اس لئے آج تمہارے ساتھ سارے جھگڑے ختم ہو گئے.ہم کسی انسان کے دشمن نہیں لیکن اس دنیا میں ظلمت کو ہم برداشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ اس دنیا میں رہے گی اسی کے لئے ہماری زندگی اور اسی کے لئے ہماری موت ہے.بالآخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اقتباس کو پڑھ کر اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں ” یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا ( اس کا ایک نظارہ تو ہم دیکھ کر آئے ہیں.دنیا کے ملک ملک میں اس درخت کی شاخیں ہیں جن کے اوپر احمدیت کے پرندے اور اللہ تعالیٰ کی جنت کے پرندے بسیرا کر رہے ہیں ) پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے.تا خدا تعالیٰ تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اسے جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور وو
خطبات ناصر جلد سوم ۳۰۴ خطبه جمعه ۲۱ راگست ۱۹۷۰ء قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان کے ساتھ سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی.وہ آخر کار فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ پس تم یہ دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس گروہ میں شامل کرے جن کے پاؤں میں کبھی لغزش نہیں آتی جو پختگی کے ساتھ اور ثبات قدم کے ساتھ اس بزرگ شاہراہ پر قدم بقدم اپنی منزل مقصود کی طرف چل رہے ہیں اور ہر قدم پہلے سے زیادہ تیز اور ہر صبح پہلے سے زیادہ شاندار اور ہر طلوع آفتاب احمدی قوم کو پہلے دن کے طلوع کے وقت ان پر جو نظر اس کی پڑی تھی اس سے زیادہ طاقتور اور اس سے زیادہ باعزت اور اس سے زیادہ بارعب اور اس سے زیادہ پیار کرنے والے دیکھتا ہے.خدا کرے کہ ہر سورج پہلے سے زیادہ طاقتور اور زیادہ معزز اور اللہ کی نگاہ میں زیادہ کامیابی کے قریب احمدیت کو دیکھتا چلا جائے یہاں تک کہ تمام دنیا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے اور قرآن کریم کی وہ پیشگوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ الہام پورا ہو کہ اقوام عالم ایک برادری بن جائیں گی اور ان تمام کا ایک ہی مذہب ہو گا اسلام اور ایک ہی کتاب قرآن اور ایک ہی پیشوا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو نگے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.( از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۳۰۵ خطبه جمعه ۲۸ راگست ۱۹۷۰ء احمدیت کو غالب کرنے کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۸ /اگست ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.يُؤْمِنُونَ بِالْغَیب (البقرۃ: ۴) اپنے ایمانوں کو پختہ کروایمانوں کو پختہ کرو کہ اس کے بغیر تم اور میں ان بشارتوں کے وارث نہیں بن سکتے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں دی ہیں.اس موضوع پر میں پہلے بھی ۲ یا ۳ خطبات میں ایمان کے مختلف پہلو بیان کر چکا ہوں میں نے بتایا تھا کہ ایمان کا لفظ قران کریم میں دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ایک تو اس معنے میں کہ لفظ ایمان استعمال کیا جاتا ہے اور یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس چیز پر ایمان اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایمان کے جس قدر تقاضے قرآن کریم میں اور ان کی جس قدر تفاسیر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان کی ہیں ان تمام تقاضوں کو پورا کرو.کبھی قرآن کریم نے ایمان کے ساتھ ان تقاضوں کا بھی ذکر فرمایا ہے مثلاً قرآن کریم فرماتا ہے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ، قرآن کریم فرماتا ہے کہ اللہ کے رسل پر ایمان لاؤ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو پہلی کتب بھجوائی جا چکی ہیں ان پر ایمان لاؤ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
خطبات ناصر جلد سوم ٣٠٦ خطبه جمعه ۲۸ /اگست ۱۹۷۰ء حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کامل کتاب قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئی ہے اس پر ایمان لاؤ.بعض جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یوم آخرت پر ایمان لاؤ ، آخرت پر ایمان لاؤ، غیب پر ایمان لاؤ.غرض بہت سی جگہوں پر ایمان کے تقاضوں کو ساتھ ہی بیان کر دیا گیا ہے اور بعض جگہ صرف ایمان یا اس کے مشتقات میں سے کوئی مشتق استعمال ہوتا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ تمام تقاضوں کو پورا کرو مثلاً اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہے انتُمُ الْأَعْلُونَ (ال عمران: ۱۴۰) کوئی طاقت تم پر غالب نہیں آسکتی تم ہی دنیا کی سب طاقتوں پر غالب آؤ گے.اِن كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ.(آل عمران:۱۴۰) اگر تم حقیقی معنے میں مومن ہو گے.ایمان کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو گے.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ مومن بالله یا مؤمن بالغیب یا مؤمن بالرسل وغیرہ وغیرہ مختلف تقاضے ہیں محض مؤمن کا لفظ استعمال کیا ہے.ایمان باللہ کے متعلق قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس کی معرفت پالیتا ہے وہی حقیقی معنے میں مسلم کہلا سکتا ہے اور وہی تمام بشارتوں کا وارث بنتا ہے.اس ایمان باللہ کی دراصل آگے مختلف شاخیں ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے وجود کو اللہ کی شکل میں جن صفات کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور اپنے آپ کو جن کمیوں اور عیبوں اور نقائص اور عیوب سے منزہ ہونے کی صورت میں پیش کیا ہے اس کو سمجھنا اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو دنیا کا پیدا کرنے والا اور دنیا کو زندگی دینے والا اور دنیا کو زندہ رکھنے والا اور دنیا کو سنبھالنے والا اور دنیا کے دکھ دور کرنے والا وغیرہ وغیرہ نہ سمجھنا، یہ ایمان باللہ کی ساری تفاصیل ہیں.اس شکل میں ایمان لانا یہی دراصل اسلام کی جان اور ہماری زندگیوں کی روح ہے اس معرفت کے بغیر دراصل زندگی زندگی نہیں.بہر حال کچھ مختصر روشنی میں نے پچھلے خطبے میں ڈالی تھی آج میں ایمان بالغیب کے متعلق یایوں کہو کہ میں ایمان بالغیب کے ایک پہلو کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں قرآن کریم میں بڑی تاکید سے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۰۷ خطبه جمعه ۲۸ /اگست ۱۹۷۰ء فرمایا گیا ہے کہ غیب پر ایمان لاؤ.غیب اپنے معنی کی وسعت کے لحاظ سے اس کی application (اپلی کیشن ) یعنی جہاں جہاں اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے اس کے لحاظ سے بڑا وسیع ہے اور نسبتی بھی ہے فرد فرد کے لئے اور ایک عام انسان کے لئے بھی ہے ہر انسان کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ مستقبل کا علم نہیں رکھتا.پس وہ مستقبل بنی نوع انسان کے لئے غیب ہے یعنی جو بھی مستقبل ہے وہ غیب ہے ماضی کے دھند لکے بڑھتے بڑھتے بعض دفعہ اس قسم کا اندھیرا پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ چیز غیب بن جاتی ہے مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کے حالات، اُن کا زمانہ ، ان کی مشکلات ، ان کی تکالیف، ان کی کوششیں اور جدو جہد اور ان کی کوششوں پر جو ثواب مترتب ہوئے ان کی تفصیل ہے لیکن ہمیں ان کا علم نہیں البتہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ أَنَا وَرُسُلِي (المجادلة: ۲۲) میرے رسول ہمیشہ غالب آتے ہیں.حضرت آدم علیہ السلام کو خواہ کسی قسم کی مشکلات سے واسطہ پڑا ہو آپ غالب ضرور آئے لیکن کیسے غالب آئے یہ ہمارے لئے غیب ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیاب کرنے کے لئے کیا سامان پیدا کئے.انہیں کس طرح اپنی بعض نعمتوں اور اپنے پیار سے نوازا اس کے متعلق تفصیل کا ہمیں علم نہیں ہے لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام غالب آئے.کہتے ہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہوئے ہیں اور ان میں سے چند ایک کے علاوہ باقی کے تو ہمیں نام کا بھی پتہ نہیں البتہ ہمیں اتنا پتہ ہے کہ اِن مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ( فاطر: ۲۵) مگر اس کا بڑا حصہ ماضی سے تعلق رکھتا ہے آئندہ کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتے یعنی دنیا میں اور جگہ بھی آبادیاں ہیں وہاں کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے والا ہے؟ اس کا کسی کو پتہ نہیں ہے لیکن یہ یقینی بات ہے کہ ہر امت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ڈرانے والا مبعوث ہوا اور اس پر ہم ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ وہی غالب ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ان کے لئے غیب تھا یعنی جو بشارتیں ان کو ملی تھیں اور ابھی پوری نہیں ہوئی تھیں یا کامل طور پر ابھی پوری نہیں ہوئی تھیں اس کے اوپر ایمان رکھتے تھے اور جو ایمان رکھتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوئے.غیب حال کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے مثلاً امریکہ کی کیا حالت ہے.اس وقت روس کی کیا
خطبات ناصر جلد سوم ۳۰۸ خطبه جمعه ۲۸ راگست ۱۹۷۰ء ا حالت ہے.آج ان کے مفکرین دنیا میں تباہی مچانے اور دنیا کی آپس کی حقارتوں کو اور بھی زیادہ شدید بنانے کے لئے کیا سوچ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ ہمیں کچھ پتہ نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے بعض کے متعلق ان کو بھی پتہ نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ یعنی انسان کی اپنی کوشش کا جو نتیجہ ہے وہ اس کے لئے غیب ہے اور ان اقوام کی جو کوششیں ہیں وہ ہمارے لئے غیب اور ان کوششوں کا نتیجہ ان کے لئے غیب ہے روس سوچ رہا ہے (اگر وہ اپنے دعوئی میں سچا ہے جیسا کہ اس نے اعلان کیا تھا ) کہ میں زمین سے اللہ کے نام اور آسمان سے اس کے وجود کو مٹا دوں گا لیکن جو غیب کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی ہے وہ یہ ہے کہ رشیا میں اپنی جماعت کو ریت کے ذروں کی طرح پھیلا ہوا دیکھتا ہوں.وہ سوچ کچھ رہے ہوں گے اگر وہ اپنے دعوئی میں سچے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے علم میں کوئی اور چیز ہے وہ سمجھتے ہوں گے کہ ہماری اتنی بڑی طاقت ہے کہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں ہم شمار ہوتے ہیں.سارے منصوبے ضرور کامیاب ہوں گے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جو مرضی سو چتے رہو.اپنی جتنی طاقت سمجھو میرے مقابلے میں تمہاری کوئی طاقت نہیں.ہوگا وہی جس کا میں ارادہ کروں گا اور جو میں تمہیں غیب کے متعلق بتا تا ہوں وہ پوارا ہو گا تمہاری تمام کوششیں ناکام ہو جائیں گی نہ تم آسمان سے خدا کے وجود کو مٹا سکو گے نہ اللہ کے نیک بندوں کے دل سے اس کے نام اور پیارا اور محبت اور عشق کو مٹا سکو گے اور احمدیت کے ذریعے تمہاری قوم کے دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جائیں گے اور ایک دو کے نہیں جیسا کہ کمیونسٹ ملکوں میں واقع ہو چکا ہے وہاں احمد یہ جماعتیں قائم ہو رہی ہیں غرض اتنی کثرت سے جیتے جائیں گے کہ اگر تمہارے ملک کے ریت کے ذروں کو شمار نہیں کیا جا سکتا تو اسی طرح احمدی مسلمانوں کو بھی شمار نہیں کیا جا سکے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری بڑی بھاری اکثریت تمہارے دعووں کے ہوتے ہوئے اور تمہاری کوششوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کو پہچانے گی اس کی معرفت حاصل کرے گی اور اس کے فضلوں کی وارث بنے گی ہمارے لئے یہ آئندہ کے متعلق غیب ہے اور جس طرح ہمیں یہ یقین ہے کہ اس وقت سورج چمک رہا ہے اور دن ہے جس طرح ماں اور باپ کو یہ یقین ہے کہ ان کے ایک دو تین چار یا جتنے بھی خدا نے بچے دیئے ہیں اور زندہ ہیں مرے ہوئے نہیں ہیں جس
خطبات ناصر جلد سوم ۳۰۹ خطبه جمعه ۲۸ راگست ۱۹۷۰ء طرح خاوند کو یہ یقین ہے کہ اس کی ایک بیوی بھی ہے اور جس طرح بیوی اس یقین پر قائم ہوتی ہے کہ اس کا ایک خاوند بھی ہے ہر ایک احمدی کو اس سے بھی زیادہ یقین پر قائم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے جو غیب کے متعلق وعدے کئے ہیں وہ انشاء اللہ ضرور پورے ہو نگے ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اللہ تعالیٰ کے ارادے میں روک نہیں بن سکتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں صرف یہ نہیں فرمایا کہ اپنے ایمانوں کو پختہ کر و الہی بشارتوں کے متعلق یہ یقین رکھو کہ وہ پوری ہوں گی کیونکہ آسمان اور زمین کے خدا نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا ہے بلکہ آپ کے دل میں الہی وعدوں پر بھی نہایت پختہ یقین تھا اور آپ اپنی جماعت میں بھی اسی یقین کو پختہ کرنا چاہتے تھے صرف یہ نہیں کہا کہ دشمن ایذا دہی کرتا ہے گندہ دہنی سے کام لیتا ہے کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے ہلاکت کے منصوبے بناتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہوگا بلکہ مخالف کو مخاطب کر کے یہ بھی کہا کہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ میرے خلاف زور لگاؤ اور اتنا زور لگاؤ کہ اس سے زیادہ تمہاری طاقت میں نہ ہو اور پھر دیکھو کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ نتیجہ وہی نکلے گا جو میرے خدا نے مجھے بتایا ہے وہ نتیجہ نہیں نکلے گا جو تمہارے منصوبے تمہارے دل میں خواہش پیدا کریں گے.پس غیب کا تعلق مستقبل سے بھی ہے اور اس وقت اسی کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں مستقبل کے متعلق جو غیب ہے وہ پھر ہزاروں شاخوں میں آگے بٹا ہوا اور تقسیم ہے لیکن مستقبل کے جس غیب کا جماعت احمدیہ سے تعلق ہے وہ وہ غیب ہے جو بشارتوں کے رنگ میں ہمیں دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی وعدہ کو دہرایا ہے نئے وعدے نہیں اصل وعدے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہم تک پہنچائے گئے ہیں لیکن نئے حالات میں جن نئی شکلوں میں انہوں نے ظاہر ہونا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں بتائے گئے ہیں.قرآن کریم میں یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ "آنْتُمُ الْأَعْلَونَ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ “ (ال عمران : ۱۴۰) کہ ایمان کے نقاضوں کو پورا کرو گے غالب آؤ گے.ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کرو گے ملعونی قومیں بھی تم پر غالب آجایا کریں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قرآن کریم کا یہی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۱۰ خطبه جمعه ۲۸ /اگست ۱۹۷۰ء وعدہ دیا گیا ہے لیکن اس بشارت کے ساتھ کہ وہاں جو شرط لگائی تھی یعنی اِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ کی.جماعت احمدیہ کا بڑا حصہ اس شرط کو پورا کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ فرمایا گیا کہ شرط انہیں میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تمہاری جماعت ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے گی اور میری بشارتوں کی وارث ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا اللهُ يُعْلِيْنَا وَلَا نُعلى اللہ ہم کو غالب کرے گا اور ہم پر کوئی غالب نہیں آئے گا قرآن کریم کی شرط تو نہیں مٹائی جاسکتی.اسی کی طرف اشارہ ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِینَ کی شرط پوری ہو رہی تھی مگر پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مسلمانوں نے اس شرط کو پورا نہیں کیا اور وہ بشارتوں کے وارث نہیں بنے.اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا کہ تمہیں جو جماعت دی جارہی ہے وہ اس شرط کو پورا کرنے والی ہے اس واسطے یہ اعلان کر دو کہ اللهُ يُعْلِيْنَا وَلَا نُعْلى اللہ تعالیٰ ہمیں غالب کرے گا اور دنیا کی کوئی طاقت ہم پر غالب نہیں آسکے گی.خدا کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ یعنی جماعت احمدیہ کی اکثریت ویسے الہی سلسلوں میں کمزور ایمان والے بھی ہوتے ہیں اور منافق بھی ہوتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کی اکثریت اس شرط کو پورا کرنے والی ہوگی اور دنیا میں یہ اعلان کرنے والی ہوگی."اللهُ يُعْلِيْنَا وَلَا نُعلی“ اللہ تعالیٰ ہمیں غالب کرے گا اور ہم پر کوئی غالب نہیں آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کو اس قدر بشارتیں دی ہیں آپ نے جماعت کی ترقیات کا اس دھڑلے کے ساتھ اعلان کیا ہے آپ نے ان منافقوں اور کمزور ایمان والوں کو بھی ڈرایا ہے لیکن بحیثیت جماعت کے آپ نے جماعت کو یہ تسلی بھی دی ہے کہ عاجزانہ راہوں کو تم اختیار کرتے جانا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے تم وارث ہوتے چلے جاؤ گے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی ہے کہ آپ اور آپ کے نائبین اور خلفاء جماعت کی اس رنگ میں تربیت کرنے کے قابل ہوں گے کہ جماعت کے لوگ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ شرط کو پورا کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے
خطبات ناصر جلد سوم فضلوں کے وارث بنیں گے.۳۱۱ خطبه جمعه ۲۸ راگست ۱۹۷۰ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بڑے ابتدائی زمانہ میں یہ بشارتیں ملی تھیں آپ فرماتے ہیں کہ جب میں اکیلا تھا اور کوئی شخص میرے سلسلہ بیعت میں ابھی داخل نہیں ہوا تھا گو یہ صیح ہے کہ میرے ساتھ چند دوست تھے لیکن بیعت ابھی کسی نے نہیں کی تھی اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے کہا تھا میں تجھے کامیاب کروں گا اور دشمن تیرے اوپر غالب نہیں آسکے گا اور اس وقت جب میرے ساتھ کوئی نہیں تھا اور بڑے بڑے علماء ظاہر نے اکٹھے ہو کر سر جوڑا اور ہلاکت کا ایک یہ منصو بہ بھی تیار کیا کہ دوسو چوٹی کے علماء ظاہر کے دستخطوں سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگا یا اور اس تکفیر بازی کے نعروں میں پہلے احمدی نے بیعت کی.آپ فرماتے ہیں کہ جب میرے خلاف یہ شور بلند ہوا اس وقت تک بیعت کسی نے نہیں کی ہوئی تھی پس کفر کا فتویٰ اور تکفیر کا نعرہ پہلے لگا اور وہ پہلا شخص بعد میں ہوا جس نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کے لمس کو محسوس کرتے ہوئے اس کی رحمتوں کے چشموں سے جسمانی اور روحانی سیری حاصل کی.آپ فرماتے ہیں کہ اس وقت میرے قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے مجھے ہلاک کرنے کی سکیمیں تیار کی گئیں عوام کو میرے خلاف بھڑ کا یا گیا اور اعلان کیا گیا کہ جو شخص مجھے قتل کرے گا وہ بڑے ثواب کا مستحق ہوگا وغیرہ غرض سارے جتن کئے ہر قسم کی تدبیر کر لی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان نعروں کے درمیان وہ اکیلا اک سے ہزار نہیں بلکہ اک سے کروڑ ہونے تک پہنچ گیا.یہ ہمارا پس منظر ہے نئے نعرے، نئے فتوے، نئے بازار تکفیر سجانے سے ہمیں کون ڈرا سکتا ہے؟ ہم نے اپنے بزرگوں کی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلووں کو مشاہدہ کیا اور ہم نے اپنی عاجزانہ زندگیوں میں بھی اس کی قدرت کے جلووں کا نظارہ کیا دنیا کی کوئی دھمکی دنیا کا کوئی شور، دنیا کا کوئی منصوبہ، دنیا کی کوئی چالا کی ہمیں مرعوب نہیں کر سکتی.اس بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں اور اس کے اظہار میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ جہاں تک دنیوی سہاروں کا تعلق ہے ہم بے سہارا ہیں اور ہمارے پاس کوئی سہارا نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑے ہوئے ہیں اور وہی ہمارا سہارا ہے اور اس سے بہتر نہ کوئی سہارا ہے نہ کسی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۱۲ خطبه جمعه ۲۸ /اگست ۱۹۷۰ء سہارے کی ہمیں ضرورت ہے.نِعْمَ الْمَولیٰ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا واحد سہارا ہے.ابھی چند دن ہوئے ایک سیاست دان میرے پاس ایبٹ آباد میں آئے ان کے لیڈر نے اعلان کیا تھا کہ احمدی تو کافر ہیں ( گوانہوں نے لفظ کا فر تو استعمال نہیں کیا تھا مگر کہا کہ یہ ہماری طرح کے مسلمان نہیں ہیں ) یہ نہ کبھی ہماری پارٹی میں داخل ہوئے نہ اس وقت شامل ہیں اور نہ آئندہ ہو سکتے ہیں نہ کبھی شامل ہوئے اور نہ اس وقت ہیں.یہ تو ایک جھوٹ تھا جو اسی وقت ان پر کھل گیا کیونکہ بعض احمدی دوست جو سیاسی لحاظ سے ان کے ساتھی تھے وہ کھڑے ہو گئے اور اس سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا ہم تو ا ء سے آپ کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور آپ کو پتہ ہے ہم قادیانی ہیں ( یہی لفظ اس نے استعمال کیا تھا) چنانچہ وہ بڑا شرمندہ ہوا اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گیا لیکن وہ علیحدہ بات ہے یہ دوست جو مجھ سے ملنے آئے تھے ان سے میں نے کہا کہ تمہارے لیڈر نے کہا ہے کہ کوئی احمدی میری پارٹی کا ممبر نہیں ہے اور تم آگئے ہو میرے پاس ووٹ لینے میں وہ بے غیرت احمدی کہاں سے تلاش کروں گا جو تمہارے اس لیڈر کے اعلان کرنے کے بعد تمہیں آکر ووٹ دے دیں گے اور میں نے اسے بتایا کہ مجھے کسی احمدی کو کہنے کی ضرورت نہیں البتہ اسے یہ پتہ لگنا چاہیے کہ تمہارے لیڈر نے یہ کہا ہے پھر وہ آپ ہی فیصلہ کر لے گا اور اس کا فیصلہ یہی ہوگا کیونکہ کوئی احمدی بے غیرت نہیں ہوتا.میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے احمدیوں کے کافر ہونے کا اعلان کر دیا پتہ نہیں احمدیوں کو کیا ہو جائے گا کیونکہ احمدی بے سہارا ہیں ان کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کر لو میں نے کہا یہ درست ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو اور ہم بھی یہ سمجھتے ہیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ کوئی دنیوی سہارا ہمارے پاس نہیں ہے ہم نے زید یا بکر کا دامن نہیں پکڑا ہوا، ہم نے دولت کو بت نہیں بنایا، نہ کثرت کی ہم پرستش کرتے ہیں ، نہ طاقت ہمارے سامنے کسی دیویا شیطان کی شکل میں آتی ہے، ہمارے پاس طاقت نہیں ہے، ہمارے پاس دولت نہیں ہے، ہمارے پاس سیاسی اقتدار نہیں ہے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں.دنیا دار دنیا کے جن سہاروں کو سہارا سمجھتا ہے ہمارے پاس کوئی بھی ایسا سہارا نہیں یہ ایک حقیقت ہے اس کا ہم انکار نہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۳۱۳ خطبه جمعه ۲۸ راگست ۱۹۷۰ء کریں گے علی الاعلان اس کا اظہار کریں گے لیکن یہ یادرکھو کہ وہ جو سب سہاروں سے زیادہ افضل اور زیادہ قابل بھروسہ اور جس پر زیادہ تو کل کیا جا سکتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس کا سہارا ہمیں حاصل ہے اس واسطے کسی اور سہارے کی ہمیں ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی.چونکہ انسانی زندگی (فرد کی زندگی نہیں میں کہہ رہا) میں بڑوں کے بعد چھوٹے ابھر رہے ہوتے ہیں ان میں اکثر وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنی پہلی تاریخ کا علم نہیں ہوتا اس واسطے اگر کوئی ذراسی بھی آواز بلند ہو تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محمد حسین بٹالوی اور نذیر حسین دہلوی سے بھی زیادہ بلند آواز ہے حالانکہ اگر آج بھی آپ ان لوگوں کے علماء ظاہر سے جا کر پوچھیں کہ آپ نے ان جیسے عالم پیدا کئے تو اغلباً وہ بھی جن میں تھوڑی بہت دیانتداری ہے وہ کہیں گے کہ نہیں وہ ہم سے زیادہ بڑے عالم تھے.پس جو اس زمانے کے تمہارے نزدیک سب سے بڑے عالم تھے ان کے کفر کے فتوی نے سوائے اس کے کہ جو عورت کپڑ اسی رہی ہو اس کے ہاتھ میں کبھی سوئی چبھ جاتی ہے یا مرد اپنے کاغذ کو پہن لگائے تو ذرا چھ جاتا ہے جسے انگریزی میں پن پر کنگ کہتے ہیں اس سے زیادہ ہمیں کوئی تکلیف یا نقصان نہیں دیا.سوئی بھی چھی، پن بھی چبھا تمہارے شور سے ہمارے دل دکھے ضرور کیونکہ یہ ایک طبعی چیز تھی یہ ایک اور مسئلہ ہے لیکن اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لئے وہ میں بیان کر رہا ہوں جب اس قسم کی کوئی گندی گالی دی جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کفر کا فتویٰ لگایا جاتا ہے تو ہمارے جذبات ہیں یہ انسانی فطرت کا ایک حصہ ہیں بڑا سخت دکھ ہوتا ہے بعض دفعہ وہ نا قابل برداشت ہو جاتا ہے لیکن ہم اسے برداشت کرتے ہیں.پس جہاں تک فطرت کا تقاضا ہے فطرت کا تقاضا پورا ہوتا ہے ہمیں بڑا سخت دکھ پہنچتا ہے لیکن جہاں تک اس دکھ اور ایذا دہی کے رد عمل کا تقاضا ہے اس میں ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت چلنا پڑتا ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ یہ حکم دیا ہے کہ گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو.اس واسطے جو کوئی کفر کا فتو کی لگا تا ہے ہم اس کے لئے اور بھی زیادہ دعا ئیں شروع کر دیتے ہیں، ہمیں جس سے تکلیف پہنچتی ہے ہم اس کے لئے راحت
خطبات ناصر جلد سوم ۳۱۴ خطبه جمعه ۲۸ راگست ۱۹۷۰ء اور مسرت کے لئے دعائیں کرنی شروع کر دیتے ہیں مثلاً ایک شخص آج یا آج سے اسی سال پہلے یا آنے والی کل ( یہ تو چلے گا سلسلہ ) کفر کا فتویٰ دیتا ہے تو اگر آپ سوچیں اور میں نے سوچا ہے اور جو میں بیان کروں گا اسی کو حقیقت پایا.آپ بھی سوچیں تو آپ کو بھی یہی حقیقت سمجھ آئے گی کہ سب سے سخت سزا جو ہم ایسے کا فر کہنے والوں کو دے سکتے ہیں وہ وہ سزا ہے جو ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کو لی تھی.آپ ان کے لئے دعا کریں کہ وہ احمدی ہو جائیں جب وہ احمدی ہو جائیں گے تو ان میں سے ہر ایک کا دل ساری عمر کڑھتا رہے گا کہ میں کتنا احمق تھا کہ ایک وقت میں اس قسم کا فتویٰ دے دیا یا کوئی فیصلہ کر دیا یا اعلان کر دیا.پس وہ آپ کو کا فرکہیں آپ دعا کریں کہ اُن میں سے ہر ایک مومن ہو جائے.حضرت خالد بن ولید نے یرموک کے موقعے پر عکرمہ اور ان کے ایسے ہی ساتھیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہمیشہ جنگ کرتے رہے تھے یہ مشورہ دیا تھا کہ تمہارے چہروں پر ایسے داغ ہیں جو انتہائی قربانی کے بغیر ڈھل نہیں سکتے آج موقعہ ہے اپنے خونوں سے اپنے چہروں کے داغ دھو ڈالو.چنانچہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ جو بعد میں آنے والے تھے اور ساری عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور کی جنگوں میں آپ کے خلاف لڑتے رہے تھے اس وقت دوسو کے قریب تھے وہ سارے کے سارے دشمن کی فوج میں گھس گئے کیونکہ حضرت خالد بن ولیڈ نے ان سے کہا تھا کہ میں اپنی فوج کو حکم نہیں دوں گا تم نمایاں ہو جاؤ اور دشمن کی فوج پر حملہ کر دو حالانکہ دشمن کی تعداد بعض مورخین کے نزدیک اڑھائی لاکھ تھی یہ دو سو اپنے چہروں کے داغ دھونے کے لئے اس فوج کے اندر گھس گئے اور اپنے وعدے کو سچا ثابت کر دکھایا سارے کے سارے شہید ہو گئے ان میں سے صرف ایک زخمی ہونے کی حالت میں واپس آئے اور بعد میں انہی زخموں سے وہ بھی فوت ہوگئے ایسے لوگوں کو جو آج اس قسم کی حرکتیں کر رہے ہیں میں یہ کہوں گا کہ اگر تمہاری قسمت میں نیکی لکھی ہوئی ہے تو تمہیں خدا کی رضا کی جنت کے حصول کے لئے عکرمہ اور اس کے ساتھیوں جیسی قربانی دینی پڑے گی اور ہم تمہارے لئے دعا کرتے ہیں ہمارے دل میں کسی کی دشمنی کسی کی حقارت اور کسی سے نفرت نہیں ہے اور ہمیں گالیاں دینے والی دنیا ، ہمیں کافر کہنے والی دنیا، ہمیں راندہ درگاہ
خطبات ناصر جلد سوم ۳۱۵ خطبه جمعه ۲۸ راگست ۱۹۷۰ء سمجھنے والی دنیا، ہماری ہلاکت کے منصوبے بنانے والی دنیا، ہرقسم کی ایذا پہنچانے کی تیاریاں کرنے والی دنیا کان کھول کر یہ سن لے کہ وہ جو مرضی ہو کر لیں ہمارے دل میں اپنی نفرت اور حقارت پیدا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اس لئے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے دلوں کو محبت اور پیار کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کے لئے پیدا کیا ہے اور ہمیں یہ وعدہ دیا ہے کہ ہم اپنی اس مہم اور اس کوشش اور اس منصو بے میں اسی کے فضل سے نہ اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں کامیاب ہوں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارے راستے میں روک نہیں بن سکتی یہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں ملیں اور یہ وہ پیش خبریاں اور بشارتیں اور مسرتیں اور خوش خبریاں ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں انہیں سنبھال کر رکھو اور اپنے صندوقوں میں بند کرلو کہ خدا کی بات ایک دن پوری ہو کر رہے گی اللہ تعالیٰ ہم سے جو اپنی محبت اور پیار کا سلوک کرتا ہے ( میں ان کو کہتا ہوں جو ہمیں کا فرسمجھتے ہیں کہ ) تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.جس دن یہ ایک نیا واقعہ ہوا اور اسکے بعد میرے پاس بیسیوں خطوط آئے اور اسی کے متعلق میں اپنے نو جوانوں کو سمجھانے کے لئے آج میں اس موضوع پر بول رہا ہوں اور اس سے پہلے بھی بولتا رہا ہوں کہ تمہیں کس بات کی فکر ہے؟ تم خدا کی گود میں بیٹھے ہوئے ہو.جس دن یہ واقعہ ہوا ہے ( یعنی اخبار میں آیا ہے واقعہ تو پہلے ہوا ہو گا ) مجھے کچھ پتہ نہیں تھا اس سے دورا تیں پہلے ساری رات بلا مبالغہ اللہ تعالیٰ مجھے دشمنوں کی ناکامی اور نامرادی کی خبریں دیتارہا اور جماعت احمدیہ کی ترقی کے متعلق بتا تارہا اور صبح جب میں اٹھا تو میری طبیعت میں جہاں بشاشت تھی وہاں میں کسی ایسے واقعہ کا انتظار بھی کر رہا تھا کیونکہ دو دن پہلے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے تسلی دے دی ہوئی تھی.غرض قرآن کریم کی آیات، دوسرے الفاظ ، عربی میں اردو میں انگریزی میں اور ساری رات یہ سلسلہ جاری رہا.اس خواب میں یا خواب تو نہیں کہنا چاہیے میری زندگی کا تو یہ پہلا تجربہ تھا لیکن ساری رات اسی طرح ہوتا رہا کچھ دیر کے لئے دماغ غائب ہوجاتا پھر وہ سلسلہ شروع ہو جاتا تھا اور پورا بیدار ہوجا تا تھا.میں کسی سے باتیں کر رہا ہوں اور انگریزی میں بول رہا ہوں اور میں تین سلسلوں
خطبات ناصر جلد سوم خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۷۰ء کے متعلق بات کر رہا ہوں اور وہ فقرے ایسے ہیں کہ انسان خود نہیں بنا سکتا یعنی اس حالت میں بھی میرے او پر وجد کی کیفیت طاری ہے اور سوائے ایک لفظ کے باقی الفاظ یاد نہیں رہے مجھے اس کا دکھ ہے.قرآن کریم کی جو آیات ہیں ان کا تو تلاوت کے وقت مجھے پتہ لگ جائے گا اگر چہ میں اس وقت بھولا ہوا ہوں اور وہ آخری پانچ پاروں ہی سے ہیں.بہر حال میں ان کو کہہ رہا ہوں کہ فلاں سلسلہ جو تھا اس کی خصوصیت اور کامیابی کا راز اس چیز میں تھا یہ مجھے یاد نہیں رہا مفہوم اس کا یاد ہے کہ یہ بات میں نے کہی ہے اور اس کے بعد دوسرے سلسلہ کے متعلق میں نے یہ کہا جو فلاں سلسلہ تھا اس کی خصوصیت اور کامیابی کا راز اس چیز میں تھا ( یہ پہلے سے مختلف تھی) اور پھر میں نے کہا کہ جماعت احمدیہ کی خصوصیت اور اس کی کامیابی کا راز ڈسپلن میں ہے یعنی نظم وضبط اور اطاعت.جماعت احمدیہ کی بنیاد ہی خلافت پر ہے اور خلافت جو ہے اس کی مثال یوں سمجھ لو کہ کسی نے بہت ہی شاندار عمارت بنانی تھی اس نے اس کی بنیادوں کے نیچے چھ چھ انچ ریت ڈالی.ریت کے ذرے بڑے کمزور ہوتے ہیں لیکن اس ریت کو کچھ اس طرح باندھا کہ وہ پتھر سے زیادہ مضبوط بنی اور اس ساری تعمیر کا بوجھ اس نے اپنے اوپر اٹھا لیا اسی طرح خلافت جو ہے اسے ریت کے ذرے سمجھ لو کیونکہ حقیقی طور پر خلفائے راشدین کی خلافتوں میں سے ہر خلافت کی نمایاں خصوصیت عاجزی ہے انہوں نے اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھا لیکن اللہ تعالیٰ نے الہی ریت کے ذروں کو اپنی قدرت کی انگلیوں میں کچھ اس طرح پکڑا کہ وہ ساتویں آسمان تک جانے والی اتنی بلند عمارت کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہو گئے.میں خواب میں اس کو کہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی خصوصیت اور کامیابی کا راز ڈسپلن ہی ہے.میں انگریزی میں اس سے بات کر رہا ہوں اور پتہ نہیں بعض دفعہ یاد ہی آجا تا ہے (اگر یاد آجائے تو میں اپنے رب کا بڑا ہی ممنون ہوں گا ) میں نے بتایا ہے کہ انگریزی کے یہ فقرے اس قسم کے تھے کہ میری اس کیفیت میں بھی ایک اور کیفیت پیدا ہو گئی تھی.بہر حال ہمارے ساتھ تو ہمارا رب اس طرح کا پیار کرتا ہے اس کے بعد اگر ساری دنیا کی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۱۷ خطبه جمعه ۲۸ راگست ۱۹۷۰ء طاقتیں مثلاً صدر نکسن بھی ہو یا رشیا کا صدر بھی ہو یورپین اقوام کے سر براہ بھی ہوں یا افریقی اقوام کے سر براہ بھی ہوں.جزائر کے رہنے والوں کے پرائم منسٹر بھی ہوں سارے مل کر بھی مجھے آکر یہ کہیں کہ ہم نے سر جوڑا اور فیصلہ کیا کہ ہم جماعت احمدیہ کو ہلاک کر دیں گے اور اسے مٹادیں گے تو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر میرا جواب انہیں یہ ہوگا کہ تم افراد کے قتل پر تو قدرت رکھتے ہو چونکہ پہلے الہی سلسلوں میں بھی یہی نظر آتا رہا ہے اس لئے تم مجھے مار سکتے ہو لیکن تم احمدیت کو مٹانے کے قابل کبھی نہیں ہو سکتے کیونکہ احمدیت خدا تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی امان میں ہے اور احمدیت کو غالب کرنے کا حکم اور فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا ہے اور یہ بھی فیصلہ ہو چکا ہے کہ بتدریج ( یعنی تدریج کے مختلف دوروں میں سے گزرتی ہوئی ) احمدیت تمام دنیا پر خدمت کے طور پر غالب آئے گی یعنی وہ دنیا کی خادم بن جائے گی.غالب آنے کا ہمارا یہ مطلب نہیں کہ ہم دنیا کو ایکسپلائٹ کریں گے جب ہم دنیا پر غالب آنا کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا ہمیں ایکسپلائٹ کرے گی یعنی ہم سے خدمت لے گی.پس ہم خادم کی حیثیت سے دنیا پر غالب آئیں گے حاکم کی حیثیت سے نہیں.جس طرح ماں اپنے بیٹے پر حاوی ہوتی ہے اسی طرح یہ جماعت بنی نوع انسان سے ماں سے زیادہ پیار کرنے کے لحاظ سے اس پر حاوی ہوگی وہ اس پیار کو Resist ( ریذیسٹ) نہیں کرسکیں گے.وہ اس پیار کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے وہ اس پیار کے گھائل ہو جائیں گے وہ اس پیار کے نتیجہ میں جماعت سے چمٹ کر اس میں غائب ہو جائیں گے اور پھر سب کے سب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جمع ہو جا ئیں گے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رہے گا اس کی حیثیت چوہڑے اور چماروں کی طرح ہوگی.یہ وعدے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں اور ان وعدوں پر پختہ یقین رکھنا میرا اور آپ کا فرض ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.( از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد سوم ۳۱۹ خطبہ جمعہ ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء جتنی عظیم بشارت ہو اتنی ہی عظیم ذمہ داری اور انتہائی قربانی دینی پڑتی ہے خطبه جمعه فرموده ۴ رستمبر ۱۹۷۰ء بمقام ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میرے یہ خطبات اس نصیحت کے سلسلہ میں اور اس وضاحت کے بیان میں ہیں کہ اپنے ایمانوں کو پختہ کرو.میں نے ربوہ میں گذشتہ خطبہ جمعہ میں ایمان بالغیب کے اس حصے پر روشنی ڈالی تھی کہ اس سے ایک مراد یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سلسلہ قائم کرتا ہے اسے بشارتیں ملتی ہیں اور جو بشارتیں اسے ملتی ہیں ان پر پختہ یقین ہونا چاہیے جب تک ان بشارتوں پر پختہ یقین نہ ہو ہم بشاشت کے ساتھ وہ قربانیاں نہیں دے سکتے جن قربانیوں کا ہم سے مطالبہ کیا جاتا ہے.گذشتہ جمعہ میں نے قرآن کریم کی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو بذریعہ الہام اور وحی بشارتیں دی گئی ہیں ان کی روشنی میں اس مضمون کو بیان کیا تھا.میں نے متعلقہ اقتباسات پڑھ کر نہیں سنائے تھے.آج اسی خطبہ کے تسلسل میں تقمہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں سے بعض کو میں اس وقت پڑھ کر سناؤں گا تا کہ آپ میں سے اللہ تعالیٰ جنہیں سوچنے اور فکر و تدبر کرنے کی توفیق عطا کرے اور طاقت بخشے وہ غور کریں، سوچیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیا وعدے ہیں؟ کس قدر عظیم بشارتیں ہیں اور ان کے لئے ہمیں
خطبات ناصر جلد سوم کس قدر قربانیاں دینی پڑیں گی؟ ۳۲۰ خطبہ جمعہ ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء جب اللہ تعالیٰ کسی کو بشارت دیتا ہے تو اس کے ساتھ ہی قوم پر یا اپنے سلسلہ پر عظیم ذمہ داریاں بھی عاید کرتا ہے.تاریخ نبوت میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بشارت دی ہواس کو پورا کرنے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں اور انسانی تدبیر کے بغیر وہ اپنا کام کر رہے ہوں یہ تو صحیح ہے کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور وہ اپنا کام کرتے ہیں لیکن انسان کو بھی تدبیر کرنی پڑتی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی تھی کہ کسریٰ اور قیصر کی سلطنتیں مغلوب ہوں گی اور وہاں اسلام غالب آئے گا.اس وقت قریباً دس ہزار تربیت یافتہ صحابہ تھے جنہوں نے انتہائی قربانیاں دے کر ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کی تدبیر کی انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے اور اللہ تعالیٰ قادر و توانا اور متصرف بالا رادہ ہے وہ آسمان سے صرف حکم دے کر ان سلطنتوں کو پاش پاش اور ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی طاقت رکھتا ہے.وہ حکم دے گا اور یہ سلطنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی اور اسلام غالب آ جائے گا.ہم آرام سے گھروں میں بیٹھے رہیں گے.وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے کہ بشارت کے ساتھ ذمہ داری آتی ہے اور جتنی عظیم بشارت ہو اتنی ہی عظیم ذمہ داری اور اتنی ہی انتہائی قربانی دینی پڑتی ہے اور ایثار پیشہ اور فدائی بن کر زندگی گزارنی پڑتی ہے.چنانچہ انسان یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام کو غالب کرنے کے لئے کیسی عظیم الشان قربانیاں دیں.یہ ایک ایسی تربیت یافتہ قوم تھی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لمبی تربیت حاصل کی تھی ان کی تعداد بمشکل آٹھ دس ہزار تھی اور یہی وہ لوگ تھے جنکی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں سے کام لیا کیونکہ یہ تدبیر کی دنیا ہے یہاں اللہ تعالیٰ کے ارادے باکل ظاہر ہو کر سامنے نہیں آیا کرتے ورنہ تو پھر دوسری زندگی یعنی جنت اور دوزخ کا جو ثواب ہے وہ رہے ہی نہ.جب اللہ تعالیٰ کُن کہہ کر بارش برسا دیتا ہے اگر اسی طرح اس نے کن کہہ کر انسان کے دل میں اپنی محبت پیدا کر دینی ہوتی اور انسان کو کچھ نہ کرنا پڑتا تو پھر جو بارش برسنے کی جزا با دل کومل سکتی ہے وہی انسان کو ملتی.اس سے زیادہ کا تو وہ حق دار نہ بنتا لیکن
خطبات ناصر جلد سوم ۳۲۱ خطبہ جمعہ ۴؍ستمبر ۱۹۷۰ء بادل کو تو کوئی جزا نہیں ملتی.اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا ہے کہ جو میں کہوں گا وہ تم کرو گے اور بس.اس کے بعد اس کی نہ کوئی اور زندگی اور نہ کسی اور شکل میں جزا ہے.انسان کو کہا جو میں کہتا ہوں تم کو کرنا پڑے گا اور اگر تم کرو گے تو جو تھوڑی سی آزادی میں نے تمہیں ایک خاص ماحول میں دے رکھی ہے اس میں تم میری جزا کو حاصل کرو گے.اس جزا کے لئے اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے، اس کی رضا کی جنت میں داخل ہونے کے لئے ایک عقلمند اور معرفت رکھنے والا انسان اس کی راہ میں اس دنیا کی محبتوں اور حقیر، بے معنی اور بے وزن چیزوں کو یوں قربان کر دیتا ہے کہ واقعہ میں دنیا سمجھتی ہے کہ یہ لوگ پاگل ہیں.اسی لئے لوگ مجنون کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ پاگل ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ دنیا کی چیزوں کی کوئی قیمت بھی ہے یا نہیں.انسانی جان کی کوئی قیمت بھی ہے یا نہیں.انسان کو بچوں سے پیار بھی ہوتا ہے یا نہیں.ان کا عمل بھی یہی ثابت کرتا ہے.جولوگ مدینہ سے سب کچھ چھوڑ کر چلے گئے ، مہاجر بھی جنہوں نے مدینہ کو اپنا دوسرا گھر بنا یا تھا اور انصار بھی جو وہاں کے رہنے والے تھے سالوں دور رہتے تھے.انہوں نے تو کبھی اپنے بچوں کا خیال نہیں کیا ، نہ انہوں نے اپنے خاندانی حالات کی پرواہ کی.انہیں ایک ہی خیال تھا اور ایک ہی دھن تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول تھا.ہماری جماعت میں ان بشارتوں پر یہ انتہائی یقین پیدا ہونا چاہیے بہتوں کو ہے جوسست ہیں انہیں اپنی مستیاں دور کرنی چاہئیں.کتنے عظیم وعدے ہیں ہمارے ساتھ اور پھر وعدے دینے والا عظیم قدرتوں کا مالک ہے، عزت کا سرچشمہ بھی وہی ہے اسی کے ہاتھ میں اقتدار اور دنیوی وجاہت اور طاقت ہے جو اسی سے حاصل ہو سکتی ہے باقی تو اس دنیا میں عارضی چیزیں ہیں.آج جو پریذیڈنٹ بن جاتا ہے کل وہی شخص قوم سے گالیاں کھا رہا ہوتا ہے اس دنیا کی عزت کی پائیداری ہمیں تو کہیں نظر نہیں آتی.ساری انسانی تاریخ میں دیکھ لیں کہیں بھی دنیوی عزت ہمیں پائیدار نظر نہیں آتی.بڑے بڑے لوگ ہوئے مثلاً ہٹلر جیسا آدمی جس کے نام سے دنیا کا نپ اٹھتی تھی وہ کہاں گیا ؟ اب بھی میں وہاں گیا ہوں اس زمانے میں بھی جایا کرتا تھا اس کے ساتھ لوگوں کی محبت کے نظارے بھی میں نے دیکھے ہیں.ایک دفعہ ہم ایک پرانے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۲۲ خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء تھے اتفاقاً ہٹلر بھی اپنی پارٹی کے بعض لوگوں کے ساتھ وہیں ایک کونے میں بیٹھا تھا وہاں عموماً یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی میز کے اردگرد کوئی کرسی خالی پڑی ہو تو جان پہچان نہ ہونے کے باوجود اس پر کوئی اور آدمی آکر بیٹھ جاتا ہے.ہماری میز پر ایک عورت آکر بیٹھی جسے ہٹلر سے اس طرح کا پیار تھا جس طرح واقعی انبیاء سے پیار ہوتا ہے وہ کہنے لگی ہمارا تو دل کرتا ہے کہ دشمن ہماری بوٹی بوٹی نوچ کر لے جائے مگر ہٹلر کو کچھ نہ ہو.پس اس کے لئے قوم کا وہ پیار بھی دیکھا اور اب جب ہم گئے ہیں تو اسی قوم کا ہٹلر کو گالیاں دیتے بھی سنا.غرض دنیا کی عزتیں تو آنی جانی چیزیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو حقیقی عزت کا سرچشمہ ہے جب اس کی نگاہ میں انسان اس کا پیار دیکھ لیتا ہے اور پھر اگر یہ ٹھیک رہے تو اسے ہمیشہ پیار ملتا رہتا ہے.اس دنیا میں بھی اور ابد الآباد تک یعنی آخری دنیا میں بھی.اس دنیا میں ڈھکے چھپے پیار کے نظارے ہوتے ہیں کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ یہ مادی دنیا ہے میں نے یہاں پردہ ڈالا ہوا ہے لیکن انسان کو اس زندگی کے بعد جو پیار نظر آئے گا وہ تو اللہ تعالیٰ کے پیار کو بھی سمجھے گا کہ مجھے وہاں تھوڑا سا ملا تھا اور میں بہت کچھ سمجھا.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کے اصل نظارے تو اب دیکھ رہا ہوں.پس ہمیں جو وعدے دیئے گئے ہیں وہ ہمارے سامنے آتے رہنے چاہئیں اور جوان وعدوں اور بشارتوں کے تقاضے ہیں وہ ہمیں پورے کرنے چاہئیں.اس واسطے آج میں یہ نئی طرز کا خطبہ دینے لگا ہوں کہ چند حوالے پڑھ دوں گا اور ان پر کوئی رائے نہیں دوں گا.آپ غور سے سنیں اور سوچیں کہ ایک ایک عبارت میں ہیں ہمیں ایسے وعدے ہیں جو بڑے عظیم ہیں ہر وعدہ جو ہے ہر بشارت جو ہے وہ ہم پر ایک عظیم ذمہ واری ڈالتی چلی جاتی ہے.آپ ہی کے کچھ تو بچے ہیں ان کو تو کسی اور وقت تفصیل سے سمجھانا پڑھے گا لیکن جو پرانے احمدی ہیں انہیں اس سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اور اگر نہیں سوچا تو انہیں اتنی سمجھ اور عقل ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز قربان کر کے ان بشارتوں کا اپنے آپ کو وارث بنا ئیں.پس وہ تو سمجھ سکتے ہیں اور میں ان کو یا ان کے ذہنوں کو اس طرف لانا چاہتا ہوں کہ میں عبارت پڑھوں اور احباب سوچتے رہیں.چند ایک حوالے میں نے لئے ہیں.۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تذکرۃ الشہادتین میں دنیا کو بھی بتایا
خطبات ناصر جلد سوم ۳۲۳ خطبہ جمعہ ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء اور اپنی جماعت کو بھی مخاطب کیا.آپؐ فرماتے ہیں:.”اے تمام لوگو! سُن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین وآسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور بُرہان کی رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد ر کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا.یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.یہ ۱۹۰۳ء کا اقتباس ہے.پھر آپ کو ۱۹۰۴ء میں اوپر نیچے یہ دوالہام ہوئے جن میں دو بشارتیں تھیں.ایک ۸ / دسمبر ۱۹۰۴ء کو اور دوسری ۱۲ / دسمبر ۱۹۰۴ء کو.پہلی بشارت یہ ملی کہ رسید مژده که ایام نو بہار آمد یعنی اللہ تعالیٰ نے بشارت دی کہ نئے سرے سے بہار آ رہی ہے اور نو بہار سے مراد یہ ہے کہ ایک بہار پہلے اسلام پر آچکی ہے یعنی نشاۃ اولی میں اور اب نشاۃ ثانیہ میں ایک اور بہار کا وعدہ ہے اور یہ بہار بالکل ویسی ہے جیسی کہ نشاۃ اولیٰ کی بہار ہے جو اگلے الہام سے ثابت ہے کیونکہ قرآن کریم نے نشاۃ اولیٰ کی بہار کا ذکر کوثر “ کے لفظ میں بیان فرمایا ہے یعنی انا اعطينك الكوثر یہ بہار تھی اور اب بھی اس کے ساتھ وہی وعدہ ہے یعنی نو بہار میں بھی کوثر کا وعدہ ہے.اس تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جا سکتا.بہر حال إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ ایک بڑی عظیم بشارت تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لی تھی.تفسیر کبیر میں اسے بڑی وضاحت اور تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے جو دوست اسے پڑھ سکتے ہیں وہ ضرور پڑھیں.غرض یہ ایک عظیم اور All round (آل راؤنڈ ) یعنی باقی بشارتوں پر محیط ہے.پس یہ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ لے اس واسطے کہ یہ پوری نہیں ہوگی اس کا تو کوئی سوال ہی نہیں.ذمہ داری کے سمجھنے اور اس کے ادا کرنے کا سوال ہے.ے یہاں میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں.خدا اس مذہب یعنی اسلام اور اس سلسلہ یعنی احمدیت میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.سے ایک صدی کے لئے نہیں.
خطبات ناصر جلد سوم ۳۲۴ خطبہ جمعہ ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء اس قسم کی بشارت تھی.اب پہلے یہ فرمایا کہ رسید مژده که ایام نو بہار آمد یعنی ایک بہار پہلے آچکی ہے اور نئی بہار آرہی ہے.یہ خوشخبری ہمیں ۸ کو ملی اور بارہ تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام فرما الَا تَيْتَسُوا مِنْ خَزَائِنِ رَحْمَةِ رَبِّى ابھی تک جو مسلمان احمدی نہیں ہوئے ان پر تنزلی کا زمانہ ہے وہ بڑے مایوس ہیں.مایوس ہونا بھی چاہیے کیونکہ ہر طرف الہی وعدوں کے خلاف تنزلی اور بے عزتی کے حالات میں سے وہ گزر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے اور انہیں ہدایت دے.لَا تَيْنَسُوا مِنْ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبّی میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ یہ فرمایا کہ اس کی رحمت کے خزانے جو کوثر کی شکل میں اس سے پہلے آئے تھے وہ اب پھر آنے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزائن سے تم مایوس نہ ہو.اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ یہ اسی الہام کا ایک حصہ ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند ہیں.اس لئے ہم اس کا ترجمہ یوں کریں گے کہ وہ کوثر جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا تھا اس کا تمہیں پھر سے مہتمم بنا کر مبعوث کیا ہے.اس کوثر کا اہتمام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے زور سے فرمایا ہے ”سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے، پس فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جو خزانے دنیا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام کی نشاۃ اولی میں حاصل کئے اور آسمان سے نازل ہوتے دیکھے.دنیا اب وہی جماعت احمدیہ کی شکل میں دوبارہ دیکھے گی کیونکہ کوثر کا مہتمم حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو بنا دیا گیا ہے.پھر اپریل ۱۹۰۵ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی یہ خبر دی کہ جب اس قسم کا الہی سلسلہ اُمت محمدیہ کے اندر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے طور پر اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے لئے قائم ہوگا.دنیا اس کی مخالفت کرے گی اور وہ اس میں ناکام ہوگی.یہ ایک واقعہ ہے ایک بشارت ہے.پس دنیا کی مخالفت ضروری تھی اور ساری دنیا نے دیکھی.دنیا کی ساری طاقتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز کو خاموش کرنے کے لئے متحد ہو گئیں اور دنیا کی سب طاقتیں متحد ہونے کے باوجود نا کام ہوئیں اور وہ آواز خاموش نہیں کی جاسکی.وہ آواز گونج رہی ہے اور
خطبات ناصر جلد سوم ۳۲۵ خطبہ جمعہ ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء انشاء اللہ گونجتی چلی جائے گی یہاں تک کہ قیامت آ جائے جیسا کہ پہلے حوالہ گزر چکا ہے اور یہ ایک بڑی زبر دست دلیل ہے.افریقہ والے اسے بڑی آسانی سے سمجھ لیتے تھے.بہر حال یہ بشارت دی کہ دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام ہوگا جماعت کو آسمانی تائیدات اور آسمانی نشانات حاصل رہیں گے.آپ فرماتے ہیں:.وو یا د رہے کہ ان نشانوں کے بعد بھی بس نہیں ہے بلکہ کئی نشان ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ انسان کی آنکھ کھلے گی اور حیرت زدہ ہو کر کہے گا کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے.ہر ایک دن سخت اور پہلے سے بدتر آئے گا.خدا فرماتا ہے کہ میں حیرت ناک کام دکھلاؤں گا اور بس نہیں کروں گا جب تک کہ لوگ اپنے دلوں کی اصلاح نہ کر لیں.پھر اس کے بعد یہ بشارت دی کہ تمام مسلمان حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کے جھنڈے تلے جمع کر دیے جائیں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ الہا نا فرمایا.انّي مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللهِ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند میں تیرے ساتھ ہوں جس طرح میں تیرے باپ کے ساتھ تھا.ورنہ ابن کہنے کی ضرورت نہیں اس وجہ سے میں یہ ترجمہ کر ہا ہوں.پھر فرمایا ” سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں ، جمع کرو.علی دِینِ وَاحِدٍ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے اس الہام پر ایک لطیف علمی نوٹ تحریر فرمایا ہے کہ احکام الہی دو قسموں کے ہوتے ہیں ایک کا تعلق شریعت سے ہوتا ہے مثلاً نماز پڑھو، خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لاؤ، زکوۃ دو، روزے رکھو وغیرہ یہ سارے احکام شریعت سے تعلق رکھنے والے ہیں اور اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس حکم کے باوجو دسب لوگ اس پر عمل بھی کریں گے بلکہ شریعت سے تعلق رکھنے والے بعض احکام ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں یہ اشارہ ہوتا ہے کہ ایک گروہ ایسا بھی ہوگا جو ان پر عمل نہیں کرے گا اس واسطے انہیں پہلے ہی جھنجھوڑا ہے کہ تمہیں عمل کرنا چاہیے اور ایک اشارہ یہ آگیا کہ بہر حال وہ شریعت سے تعلق رکھنے والے ہیں اور انسان کو یہ آزادی ہے کہ چاہے تو ان پر عمل کرے اور چاہے تو نہ کرے لیکن ان کے علاوہ ایک گونی اوامر ہوتے ہیں جن کا کن کے ساتھ تعلق ہوتا ہے یعنی تقدیر کے ساتھ اور وہ ضرور ہو جاتے ہیں.
خطبات ناصر جلد سوم ۳۲۶ خطبہ جمعہ ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو.عَلى دِینِ وَاحِدٍ یہ ایک خاص قسم کا امر ہے.احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوۃ دو ، خون نہ کرو وغیرہ.اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض ایسے بھی ہونگے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو محرف مبدل نہ کرنا ، یہ بتاتا تھا کہ بعض ان میں سے کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاح شریعت ہے.“ پھر آپ فرماتے ہیں :.دوسرا امر کونی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضا وقدر کے رنگ میں ہوتے ہیں جیسے قلنا ينارُ كُونِي بَردًا ( و ) سلما اور وہ پورے طور پر وقوع میں آ گیا اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ روئے زمین عَلى دِينِ وَاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے.ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے.اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہو گا جو قابلِ ذکر اور قابل لحاظ نہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ ایک عظیم بشارت ہے اور یہ پوری ہوکر رہے گی.اب یہ جو تفرقہ ہے نا اور اس تفرقہ کے نتیجہ میں ہمیں جو سوئیاں چھوٹی جاتی ہیں.اس سے زیادہ تو ہمارا کوئی نقصان نہیں کر سکتے.بہر حال جو سوئیاں چھوٹی جارہی ہیں وہ تو ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور مستقبل اس حقیقت کو اپنی گود میں لئے دنیا کا مستقبل نہیں بن سکتا کہ یہ تمام فرقے جو مختلف راہوں پر چل رہے ہیں وہ تمام اسلام کے صحیح حسن کے گرویدہ ہوکر مہدی معہود کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اور واقعہ بھی ہوگا اور اس کی ذمہ واری اس امر میں ہے کہ جمع کرو.پس ہمیں ہر قسم کی قربانی دے کر اس پیشگوئی کو پورا کرنا ہے.ل برد اور سلام ہو تو یہ شرع حکم نہیں تھا آگ ٹھنڈی ہوگئی اس کے بغیر چارہ ہی نہ تھا.
خطبات ناصر جلد سوم ۳۲۷ خطبہ جمعہ ۴؍ستمبر ۱۹۷۰ء اس واسطے میں اپنی سینگر جزیشن یعنی نئی پود کو یہ بار بار کہہ رہا ہوں کہ کسی کے خلاف تمہارے دل میں غصہ نہیں پیدا ہونا چاہیے.لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں.بُرا بھلا کہتے ہیں.جولوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو مجدد جانتے ہیں وہ بھی بعض دفعہ اس قسم کی بے ہودہ بات لکھ دیتے ہیں کہ اسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مثلاً پیغام صلح میں خاندان خلافت کی عورتوں پر ایسی خبیثانہ چوٹ کی ہے جو محض بکواس ہے جسے انسان برداشت نہیں کر سکتا لیکن ہمیں غصہ نہیں آنا چاہیے ہم نے انہیں بھی کھینچ کر اپنی طرف لے آنا ہے اور کھینچ کر لا رہے ہیں جو غیر احمدی ہیں انہیں بھی ہم نے کھینچ کر لانا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیار کے لئے پیدا کیا ہے اور ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ تم تمام مسلمان فرقوں کو حضرت مہدی معہود کے جھنڈے تلے جمع کر کے علی دی دِینِ وَاحِدٍ لا ؤ.سارے تفرقے مٹ جائیں گے.باقی انسان انسان کی طبیعت اور مزاج اور قوتوں میں فرق ہوتا ہے اس کے نتیجہ میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے.یہ ا اپنی جگہ درست ہے لیکن ایسا اختلاف قابل اعتناء نہیں ہوتا بلکہ اگر عقلمندی سے ایسے اختلافات سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ اخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ“ کا مصداق بن جاتے ہیں لیکن یہ سارے فرقے مٹ جائیں گے اور یہ بریلوی دیوبندی اور دوسرے جھگڑے مٹ جائیں گے اور یہ جو انہوں نے آپس میں کفر بازی شروع کی ہوئی ہے جسے یہاں دہراتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.ویسے ہم نے ضرورت کے لئے ان کے ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ کفر کو اکٹھا کر وایا ہے اور میں نے ان کی ایک کا پی بنوائی ہے ہر فرقے نے دوسرے کو کافر ہی نہیں کہا بلکہ اس کے خلاف اتنی گندی زبان استعمال کی ہے کہ اسے پڑھ کر انسان بڑا حیران اور پریشان ہو جاتا ہے.میں نے ان کے اس قسم کے فتووں کو ایک جگہ اکٹھا کر وا دیا ہے تا کہ اگر کوئی آئے اور کہے کہ جی احمد یوں پر کفر کا فتویٰ لگا ہوا ہے تو اس کو کہا جائے کہ پڑھ لو پھر ہمارے ساتھ بات کرنا.لیکن یہ کفر بازی بے ہودگی ہے اسے ہم درست نہیں سمجھتے ہم تو اس ایمان پر قائم ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی کلمہ گو کو کا فرنہیں کہا جا سکتا.لیکن صرف اتنا ہی نہیں فرما یا بلکہ کچھ اور بھی فرمایا ہے یہ ہمارے لاہور والے بھائی اگلا حصہ بھول جاتے ہیں آپ نے یہ تو فرمایا ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۳۲۸ خطبہ جمعہ ۴؍ستمبر ۱۹۷۰ء کہ کسی کلمہ گو کا فرنہیں کہا جا سکتا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے لیکن اس کے بعد جو فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ جو کسی کلمہ گو کو کافر کہے گا وہ کفر الٹا اس پر پڑے گا اور وہ کافر بن جائے گا.ہم نے کسی کو کا فرکیا کہنا اور کیوں کہنا.اول تو یہی سوچنا چاہیے میرے جیسا عا جز انسان تو یہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ میں کسی کو کافر کہوں اور وہ کافر بن جائے گا انسان کا کام کا فر بنا انہیں نہ دیندار بنانا ہے قرآن کریم نے اس کی وضاحت کی ہے.جسے اللہ تعالیٰ ہلاک کرنا چاہے تم اسے جا کر کیسے ہدایت دے دو گے قران کریم کہتا ہے ہدایت بھی اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور کفر کا فتویٰ بھی اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے.پس اس دوسرے حصے کے متعلق خاموش ہوجانا یہ تو درست نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً تین سال تک ( یہ میرا اندازہ ہے پوری طرح اس زمانے کا جو امتداد ہے اسے چیک نہیں کیا گیا لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ آپ نے ۳ سال تک ) ان دو سو چوٹی کے مولویوں کو جنہوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگا یا تھا انہیں سمجھاتے رہے کہ تم اس کھیل میں نہ پڑو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے اگر تم اصرار کرو گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق اپنے آپ کو بھی کافر بنا لو گے یہاں تک کہ جب انہوں نے اصرار سے مباہلے کا چیلنج دیا تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا چیلنج قبول کرنے کے لئے اس لئے تیار نہیں کہ میں کسی کلمہ گو کو کا فرنہیں کہتا اور جو کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہے اس کے مباہلہ کو جائز نہیں سمجھتا لیکن آگے سے آپ کو جواب یہ ملا کہ آپ ہمیں کا فر نہ سمجھتے ہوں ہم تو آپ کو کا فر سمجھتے ہیں ہم سے مباہلہ کریں.غرض بڑے لمبے عرصہ تک آپ انہیں سمجھاتے رہے.یہاں ہمارے ایک ڈین آئے تھے انہیں یہ مسئلہ سمجھ نہیں آرہا تھا میں نے انہیں بتایا کہ ہم تو عاجز بندے ہیں ہماری کیا مجال کہ کسی کلمہ گو کو کا فرکہیں لیکن ہماری یہ بھی مجال نہیں کہ جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فر کہیں ہم اسے مسلمان سمجھنے لگ جائیں.میں نے اسے جب یہ مسئلہ سمجھایا تو وہ کہنے لگے کہ اب مجھے سمجھ آگئی ہے.اس وقت تو اس نے بیعت نہیں کی تھی مگر بعد میں اس نے بیعت کر لی.پس کچی بات یہی ہے.اس لئے آپ بھی تیزی نہ دکھایا کریں کسی کلمہ گوگو کا فر کہنے کا کسی کو حق
خطبات ناصر جلد سوم ۳۲۹ خطبه جمعه ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء نہیں ہے لیکن جو کلمہ گوکو کافر کہتا ہے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فر کہہ چکے ہیں ہمیں کہنے کی ضرورت ہی نہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق خود ہی کا فربن گیا.آپ میں نہ اتنی طاقت ہے اور نہ اتنی بزرگی ہے کہ کسی کو کافر کہہ سکیں.لیکن آپ میں اتنی جرات بھی نہیں ہونی چاہیے کہ جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فر کہیں آپ اسے مسلمان سمجھنے لگ جائیں.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شوخی ہے.بہر حال یہ کفر بازیاں سب ختم ہو جائیں گی ہم اس بات سے خوش ہیں ہمیں اس بات پر رونا نہیں کہ آج ایک دنیا جو ہے اس گند میں پھنسی ہوئی ہے ایک دوسرے کو کافر کہہ رہی ہے ہمیں اس کی پرواہ ہی کوئی نہیں کیونکہ ہمارے لئے جو راہ مقرر ہے ہم اس پر گامزن ہیں اور ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت دی ہے کہ یہ تمام فرقے جو ایک دوسرے کو کافر کہہ رہے ہیں وہ ہدایت کو پالیں گے اور وہ ایک روشنی اور صداقت اور اسلام کے حسین چہرہ کو دیکھ لیں گے اور اسلام کے جھنڈے تلے آکر جمع ہو جائیں گے ہم اس بات سے خوش ہیں کہ کفر بازیاں ختم ہو جائیں گی اس دن تک پتہ نہیں کون زندہ رہتا ہے اور کون نہیں جس دن جماعت احمدیہ کو یہ حکم دینا پڑے گا کہ اس گند کے نقش مٹا دو یعنی اس قسم کی کتابیں لائبریریوں سے نکال کر جلا دی جائیں گی جن میں بریلویوں نے دیو بندیوں پر اور دیو بندیوں نے بریلویوں پر اور اسی طرح جتنے فرقے ہیں انہوں نے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے ہیں.اب تو سیاسی فتوے بھی ان میں شامل ہو گئے ہیں وہ بھی جلا دیئے جائیں گے.دنیا ان کو بھول جائے گی اس واسطے بھول جائے گی کہ ان کی ضرورت ہی نہیں رہے گی پیار کو یا در رکھنے کی ضرورت ہوگی ہم ایک دوسرے کے ساتھ پیار کریں گے.دشمنی اور حقارت اور غصہ اور غلط طعنے اور کفر کے فتوے یہ سب کے سب قصہ پارینہ بن جائیں گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ بشارت ملی اور یہ قوی بشارت ہے یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو دین واحد پر جمع کریں.آپ فرماتے ہیں کہ یہ ہو کر رہے گا.یہ ہو نہیں سکتا کہ یہ پیشگوئی پوری نہ ہو.ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اس بشارت کے پورا ہونے کے راستہ میں روک نہیں بن سکتیں.
خطبات ناصر جلد سوم ۳۳۰ خطبہ جمعہ ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.یہ بڑی زبر دست بشارتیں ہیں جو احمدیت کے ذریعہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرنے کے کام سے تعلق رکھتی ہیں یعنی پختگی ایمان اور آسمانی نشانوں کے ساتھ تمام دنیا پر غالب آنا.انسانی حقیقت کیا ہے بڑائی کی ضرورت نہیں.اتنا کہہ دیتا ہوں کہ جماعت نے میری قبولیتِ دعا کے ہزاروں نشان دیکھے ہیں.بعض کو میں بیان کر دیتا ہوں اور بعض کے متعلق اعلان نہیں کرتا لیکن اگر ہم نہیں کرتے تو ان کو کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نشان جماعت کے ساتھ رہے گا.اگر ہمارے پاس انہیں آسمانی نشان نظر نہیں آتا تو ان کے پاس ہونا چاہیے ور نہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے.ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ان کے پاس نشان ہے یا نہیں.لیکن ان کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ان کے پاس نشان ہے ہم سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل میں پیش کریں گے.البتہ سچائی کے نور کی وضاحت مجھے کرنی پڑے گی کیونکہ ممکن ہے کوئی اس کو نہ سمجھ سکا ہو.سچائی کے نور کا مطلب یہ ہے کہ نورانی زندگی حاصل ہوگی یہ بڑی زبردست دلیل ہے اس واسطے اپنی تربیت کی فکر کرنی چاہیے.ایک تربیت یافتہ وجو دسچائی کے نور کو اپنے وجود سے ظاہر کرتا ہے اور وہ یہ بتارہا ہوتا ہے اس نے خدا کے لئے اس کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے اپنی زندگی کے دن گزارے ہیں اور گزار رہا ہے.یہ سچائی کا نور انسان کے جسم سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتا ہے.اب وہاں افریقہ میں یا دوسری جگہوں پر جو ہمارے مبلغین گئے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے
خطبات ناصر جلد سوم ٣٣١ خطبہ جمعہ ۱۴ستمبر ۱۹۷۰ء اپنے فضل سے ان کی عزت اس وجہ سے غیروں کے دل میں ڈالی ہے کہ ان کے وجود سے غیروں نے نور کی کرنیں نکلتی دیکھیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ تربیت کے - لحاظ سے جماعت اپنے بلند مقام پر قائم رہے گی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ چند لوگوں کے علاوہ باقی جماعت بڑے بلند مقام پر قائم ہے اور دوسرے دلائل میں بھی ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے دلائل ایک بڑا سمندر ہے جو قیامت تک ختم نہیں ہوگا لیکن یہ سمندر بڑی بلندی پر ہے.ہماری دنیا کا جو سمندر ہے وہ بلندی پر نہیں ہوتا اس واسطے اس کا وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو بلندی پر واقعہ پانی کا نکلا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل کا سمندر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت اور شہادت کے نتیجہ میں ساتویں آسمان پر ہے.آپ نے اپنے مہدی (إِنَّ لِمَهْدِينَا ) اور مسیح کو ساتویں آسمان پر دیکھا.یہ عجیب بات ہے اس میں بھی آپ غور کریں کہ سا تو میں آسمان پر آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہیں دیکھا جو آپ سے پہلے نسبتا مکمل شریعت لے کر دنیا کی طرف آئے تھے.ساتویں آسمان پر آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا اور مسیح موعود کو دیکھا اور یہ ہر دو غیر تشریعی نبی ہیں پس روحانی بلندی کے اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نسبتاً کامل شریعت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تھی کیونکہ یہ قریب قریب زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل اور دوسری برکات کا جو سمندر ہے وہ ساتویں آسمان پر ہے سات ہزارفٹ بلند پہاڑوں پر جو Lakes (لیکس ) ہوتی ہیں ان کے نتیجہ میں پہاڑوں پر چشمے پیدا ہو جاتے ہیں مگر سمندر کا جو پانی ہے اس کے نتیجہ میں چشمے پیدا نہیں ہوتے کیونکہ وہ سب سے زیادہ نشیب میں ہوتا ہے.اسی سے ہم اپنی بلندی کو ناپتے ہیں جیسے مثلاً یہ محاورہ ہے ( جو سائنس میں مستعمل ہوتا ہے ) کہ سطح سمندر سے سات ہزارفٹ کی بلندی.اگر چہ سمندر کا پانی عظیم ہے لیکن بے فیض ہے اس میں رطب و یا بس آ کر مل گیا ہے لیکن جو چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑوں میں Lakes (لیکس ) ہوتی ہیں یعنی بہت بڑی بڑی اور میل با میل چوڑی جھیلیں ہوتی ہیں.ان کے نتیجہ میں کسی پہاڑی ٹکڑی سے آپ کو چھوٹا بڑا چشمہ نظر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سمندر نور کا بھی اور دلائل کا
خطبات ناصر جلد سوم ۳۳۲ خطبہ جمعہ ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء بھی اور نشانات کا بھی ساتویں آسمان پر ہے (جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات دکھایا تھا) دنیا میں سب سے زیادہ چشمے اس پانی کے پھوٹنے ہیں اور وہ پھوٹ رہے ہیں.ہمارے ہزاروں خاموش مجاہد پیدا ہوئے جس طرح فوجیوں نے Unknown Soldiers کا تہوار بنالیا ہے ہم تو ایسے تہواروں کے قائل نہیں ورنہ وہ بھی بن جاتا.ہمارے اندر سینکڑوں ہزاروں لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھتے ہیں لیکن اس نور کے جو ان کے جسموں سے پھوٹ رہا ہوتا ہے کسی اور کو ان کا علم ہی نہیں ہوتا کیونکہ ان کو ظاہر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی جس طرح مثلاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی ہزاروں باتیں بتائی گئیں جو بالکل تفصیلی ہیں اور ان میں سے کچھ احادیث نے ، کچھ تاریخ نے محفوظ رکھیں.چند ایک ایسی ہیں جو آپ نے اپنے صحابہ کو بتا دیں مثلاً صحابی تھے جنہیں آپ نے ایسے منافقین کے نام تک بتا دیئے تھے جنہوں نے امت میں فتنہ پیدا کرنا تھا.اس میں یہ بھی کمال ہے کہ ایک بات تھی جسے عام نہیں کیا دوسرے یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ فتنہ کے وقت زندہ رہے گا ورنہ اسے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور پھر وہ زندہ رہا پھر وہ اپنے اپنے وقت کے اوپر اشارے کر جاتے تھے.پس ایک شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ یہ زندہ رہے گا اسے یہ باتیں بتا دو تا کہ اپنے وقت پر اُمت محمد یہ ان سے فائدہ اٹھائے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہزاروں وحیاں ایسی بھی ہوئیں جن کا آپ نے اظہار نہیں فرمایا کیونکہ اس کی ضرورت نہیں تھی.بعض ایسی تھیں جس کا احادیث میں ذکر آ گیا بعض ایسی تھیں جو بعض لوگوں کو بتادی گئیں.مگر قرآن کریم جو کامل اور مکمل شریعت کی وجی تھی وہ محفوظ رہی اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ اس کا ایک ایک حرف محفوظ رہے گا.کتنی زبر دست ضمانت ہے.( میں نے تو شروع میں کہا تھا کہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا لیکن چلا گیا) اسی الہام کے تسلسل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی.(چشمے سے پانی پیئے گی کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ چشمہ نکل آئے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے محمد ی پانی کا کوئی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۳۳ خطبہ جمعہ ۴ ستمبر ۱۹۷۰ء گھانا میں کوئی نائیجیریا میں کوئی گیمبیا میں کوئی سپین میں، کوئی جرمنی میں ، کوئی یورپ کے دوسرے ممالک میں کوئی کمیونسٹ ممالک میں وہی پانی جو آب محمد ہے یعنی آب زلال محمد اس پانی کے چشمے آپ کی Lake (لیک) ہی سے نکلیں گے اور وہ سیراب کریں گے ) اور سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.“ آپ نے بڑی تحدی سے پھر آگے فرمایا :.”سواے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس تحدی کے ساتھ اور جس یقین اور وثوق کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ اے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.ہر احمدی کے دل میں ان بشارتوں کے متعلق یہ وثوق اور یہ یقین پیدا ہونا چاہیے اور قائم ہونا چاہیے.یہ ہماری ذمہ واری ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ان ذمہ واریوں کر نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد سوم ۳۳۵ خطبہ جمعہ ۱۱ستمبر ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا ہے خطبہ جمعہ فرموده ۱۱ارستمبر ۱۹۷۰ء بمقام سعید ہاؤس.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.پچھلے چند دنوں سے کئی تکلیفیں اکٹھی ہو گئی ہیں ایک تو پیچش نے بڑا شدید حملہ کیا دوتین دن سے بخار بھی آرہا ہے اور خون کا دباؤ بھی کافی کم رہا ہے اس لئے میں اس وقت مختصراً ایک ضروری امر کی طرف پورے زور کے ساتھ دوستوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعہ یہ اطلاع دی کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے یا اپنی کسی جماعت سے پیار کرتا ہے اور اپنی نعمتوں سے اور اپنے فضلوں سے اور اپنی رحمتوں سے ا انہیں نوازتا ہے تو جَعَلَ لَهُ الْحَاسِرِينَ فِي الْأَرْضِ زمینی لوگ حسد کرنے لگ جاتے ہیں یعنی آسمانی تائید کے نتیجہ میں زمینی حسد پیدا ہوتا ہے جس کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں.مگر یہ سب کی سب حسد کا نتیجہ ہوتی ہیں.اس وقت اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کرتے ہوئے غلہ بہ اسلام کے یہ سامان پیدا کئے ہیں کہ افریقن اقوام کا دل اسلام اور احمدیت کی طرف پھیرا اور جو منصوبہ وہاں غلبہ اسلام اور خدمتِ اقوام افریقہ کے لئے تیار کیا گیا تھا اس میں وہ لوگ بڑی محبت اور بڑے شوق سے حصہ لے رہے ہیں میں نے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۳۶ خطبہ جمعہ ۱۱ ستمبر ۱۹۷۰ء کئی دفعہ بتایا ہے کہ آٹھ دس سے زیادہ مقامات سے ہمیں یہ درخواست پہنچی ہے کہ زمین بھی ہم دیں گے اور عمارت بھی ہم بنا ئیں گے آپ یہاں میڈیکل سنٹر ز کھولیں اور ڈاکٹر ز بھجوائیں یعنی جو ہمارا ابتدائی سرمایہ ہے وہ ان کی جیبوں سے خرچ ہو گا اور جو ہمارا کام ہے یعنی تبلیغ اسلام کا وہ ہمارا ہی ہوگا اور ہم وہاں کام کریں گے.وہاں شکل یہ بنتی ہے کہ ایسے اداروں کو وہ جماعت کے نام پر رجسٹرڈ کروا دیتے ہیں چنانچہ اس طرح یہ جماعت کی ملکیت بن جاتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس کے نتیجہ میں حسد پیدا ہونا چاہیے تھا جیسے کہ ہمیں پہلے بتایا جا چکا ہے چنانچہ حسد پیدا ہوا مثلاً ایک بڑی منظم جماعت ہے اس کے متعلق ایک ذریعہ سے یہ خبر ملی ہے والله اعلم کہاں تک درست ہے یہ بات مضمون کے لحاظ سے تو درست معلوم ہوتی ہے لیکن Source of information یعنی ذریعہ خبر ابھی تک ایک ہے پہلے تو بہت سارے ذرائع سے علم ہوتا رہتا ہے انشاء اللہ پتہ لگ جائے گا کہ یہ بات کہاں تک درست ہے؟ بہر حال بظاہر.درست معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ریزولیوشن پاس کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ افریقہ میں جماعت احمد یہ اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ وہاں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے پاکستان میں ان کو کچلو تا کہ ان کے جو وہاں پر گرام ہیں ان کے اوپر اثر پڑے.جماعت احمدیہ کو کچلنے کی طاقت تو اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دی لیکن اس نے حسد کرنے کا اختیار سب کو دیا ہے.ویسے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور فرمایا کہ یہ تمہاری اپنی مرضی ہے کہ رشک کرو یا حسد کرو یعنی جب اللہ تعالیٰ کے فضل کسی پر نازل ہوں تو ایک ذہنیت یہ پیدا ہوتی ہے کہ خدا کا بندہ کہتا ہے کہ میرے بھائی نے خلوص نیت کے ساتھ اپنے رب کے حضور اپنا سب کچھ دے دیا اور اس کے فضلوں کو حاصل کیا اور ان فضلوں کے حصول کا یہ دروازہ میرے لئے بھی کھلا ہے تو جس طرح میرے بھائی نے ایثار اور قربانی اور اخلاص کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت کو حاصل کیا میں بھی حاصل کروں گا اور کوشش یہ کروں گا میں اس سے بھی زیادہ الہی فضلوں کا وارث بنوں.اس کو رشک کہتے ہیں.لیکن ایک اور آدمی اگر اس کا ذہن صحیح راستے سے بھٹک جائے تو وہ یوں سوچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد سوم ۳۳۷ خطبہ جمعہ ۱۱ستمبر ۱۹۷۰ء نے میرے اس بھائی پر فضل کیا اور مجھے یہ برداشت نہیں.میں یہ کوشش کروں گا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے جس حد تک اس سے چھین سکوں وہ میں چھین لوں اور اس کو نقصان پہنچاؤں.اب ظاہر ہے کہ کسی انسان یا کسی مخلوق کو یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے کوئی فضل چھین لے.دینے والا جب اللہ تعالیٰ ہو اور وصول کرنے والا اس کا ایک بےنفس بندہ ہوتو پھر اس کے فضل تو نہیں چھینے جا سکتے لیکن ایسا شخص یا ایسا گروہ یا ایسی جماعت یا ایسا فرقہ یا ایسی تنظیم اپنی گمراہی اور اپنی تباہی کا سامان پیدا کر لیتی ہے.اسی طرح ایک اور اپنے آپ کو مسلمان کہنے والی جماعت ہے.جس کے متعلق یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ یہ منصوبہ بنارہے تھے کہ ساری جماعت سے ہم نے کہاں لڑنا ہے جو اس وقت اس کا امام ہے اسے (معاذ اللہ ) قتل کر دیا جائے تو اس طرح ہم اپنے مقصد کو حاصل کر لیں گے.یہ بھی ایک نادانی ہے.اس دنیا کی کسی تنظیم کے امام سے جو مرضی کہہ لو.ہمارے لئے یہ خلافت کا سلسلہ ہے اور جماعت احمدیہ کا امام اس کا خلیفہ وقت ہے لیکن جو بھی کہہ لو اس نے قیامت تک تو زندہ نہیں رہنا اور جب تک اس شخص کی جان لینے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا منشاء نہ ہو دنیا کی کوئی طاقت اس کی جان نہیں لے سکتی جب خدا تعالیٰ اسے اس دنیا سے اٹھانا چاہے تو ساری دنیا مل کر بھی اگر اسے زندہ رکھنا چاہے تو اسے زندہ نہیں رکھ سکتی.اس واسطے کسی شخص کا اس قسم کے منصوبے بنانا اس کی اپنی نالائقی یا ہلاکت کے سامان تو پیدا کر سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی منشاء کے بغیر کسی کی جان نہیں لی جاسکتی.سیدالانبیاء حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے تھے کمزور تھے ،غریب تھے ، بے کس تھے اور سرداران مکہ اپنے آپ کو دنیا کے معیار کے مطابق بہت بڑا بلکہ فراعنہ مصر سمجھتے تھے ان میں سے ہر ایک سمجھتا تھا کہ میں فرعون ہوں اور سال ہا سال تک انہوں نے اپنی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت کوششیں کیں مگر آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکے البتہ اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کر لئے.جس شخص کو مکہ میں فنا کرنا چاہتے تھے اس شخص کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکہ فتح ہوا اور اس فتح مکہ کی شان یہ تھی کہ ان سرداروں نے حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو کر پناہ نہیں لی کیونکہ آپ کا اعلان یہ تھا کہ بلال کے جھنڈے کے نیچے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۳۸ خطبہ جمعہ ۱۱ستمبر ۱۹۷۰ء جمع ہو جاؤ.آپ نے انہیں ایک افریقن کے جھنڈے کے نیچے پناہ دلوائی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ ان سرداروں سے ایک حسین انتقام لیا.پس اس قسم کے منصوبے تو ایسے وقت میں ضرور بنا کرتے ہیں دنیا کی تاریخ دیکھ کر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی جو ترقیات ہیں بعض لوگوں کو ان کے خلاف حسد پیدا ہوتا ہے اور بعض کو ان کے خلاف حسد نہیں پیدا ہوتا لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل نازل ہوتے ہیں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حسد پیدا نہ ہو.آپ دنیا کی تاریخ پڑھکر دیکھ لیں حسد ضرور پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کی اطلاع تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہانا بھی دی گئی ہے.اب جو مخالف اسلام ہے ( میں احمدیت اس لئے نہیں کہہ رہا کہ ہمارے نزدیک احمدیت اور اسلام ایک ہی چیز کا نام ہے ) وہ اپنے ان منصوبوں سے اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتا یہ واضح بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسلام کے از سر نو غلبہ کے دن آگئے ہیں اور اسلام غالب آئے گا ہمیں کمزور کرنے کا ہر منصوبہ حقیقتاً اسلام کو کمزور کرنے کا منصوبہ ہے کیونکہ ہمیں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی قادرانہ انگلیوں کے درمیان پکڑا اور فرمایا کہ میں اس عاجز کمزور اور بے کس جماعت سے کام لوں گا اور ان کے ذریعہ سے میری قدرت دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوگی.پس جب اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے تو حاسد ضرور پیدا ہو جاتے ہیں جب حاسد پیدا ہوتے ہیں تو وہ معقول ذرائع سے اپنے حسد کا اظہار نہیں کرتے بلکہ غیر معقول اور اپنی ہی تباہی کے سامان پیدا کرنے والے ذرائع استعمال کرتے ہیں.اب ہم تو عاجز اور کمزور ہیں اس میں کوئی شک نہیں.ہم برملا کہتے ہیں ہم بے سہارا ہیں، کوئی سیاسی اقتدار نہیں ( اور نہ اس کی خواہش ہے ) ہمارے پاس اتنا مال و دولت نہیں کہ امریکہ کے روپے کی طرح لوگوں کو خاموش کرنے یا اپنے حق میں زبانیں کھلوانے کے لئے تقسیم کر دیں.لیکن اگر یہ حقیقت ہے اور ہمارے نزدیک یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ ہم سے یہی کام لینا چاہتا ہے تو جو بھی جماعت کے خلاف منصوبہ بنائے گا اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائے تو غلبہ اسلام کی جو عظیم مہم جاری ہے اس میں
خطبات ناصر جلد سوم ۳۳۹ خطبہ جمعہ ۱۱ ستمبر ۱۹۷۰ء کمزوری پیدا ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کی مشیت کے خلاف ہے کہ شیطانی طاقتیں کامیابی کا منہ دیکھیں.پس حسد کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی Activities یعنی اس کی سرگرمیوں اور منصوبوں میں انشاء اللہ تعالیٰ کوئی کمزوری نہیں پیدا ہو سکتی لیکن حسدا اپنی جگہ پر صحیح ہے اور اس کے مقابلے میں تدبیر کرنا ضروری ہے اور ہمارے ہاتھ میں ایک ہی تدبیر ہے اور وہ ہے دعا کی تدبیر.اس واسطے میں جماعت کو یہ یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اپنی عاجزی کا اپنے اندر پورا احساس پیدا کرتے ہوئے نہایت انکساری کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکیں اور اپنے مولا سے یہ عرض کریں کہ تو نے ہمیں غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا اور تو نے ہمیں یہ توفیق دی کہ ہم تیری راہ میں تیرے ہی دیئے ہوئے مال میں سے کچھ پیش کر سکیں تا کہ تیرا جو ارادہ ہے وہ اس دنیا میں پورا ہو.اسلام غالب ہو اور خدا کرے جلد غالب ہولیکن تیرے اپنے بنائے ہوئے قانون اور تیری اپنی دی ہوئی بشارت اور پیشگوئی کے مطابق حاسد پیدا ہورہے ہیں وہ ہم سے زیادہ طاقتور ہیں مادی سامانوں کے لحاظ سے، وہ ہم سے امیر ہیں دنیوی دولت کے لحاظ سے، وہ ہم سے زیادہ طاقتور ہیں اپنے جتھے کی کثرت کے لحاظ سے لیکن دنیا کی ساری دولتیں اور دنیا کے سارے اقتدار اور دنیا کی ساری طاقتیں تیرے ارادہ کے مقابلے میں کھڑی نہیں ہوسکتیں.ہمیں اپنی کمزوریوں کا اعتراف ہے ہم تیرے عاجز بندے ہیں ہم خطائیں بھی کرتے ہیں مگر تیری طرف ہی آتے ہیں، تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور توبہ و استغفار بھی کرتے ہیں تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری کمزوریوں کو دور کر دے اور ان حاسدوں کو ان کے ارادوں میں نا کام کر.پس دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ بڑا پیار کرنے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے انفرادی طور پر قربانیاں دینے والے موجود ہونے چاہئیں.اجتماعی طور پر جماعت اس مقام پر کھڑی ہونی چاہیے کہ حاسدوں کا حسد کچھ نہ کر سکے اور طاقتور کی طاقت ہمارے خلاف کامیاب نہ ہو سکے.إن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ کی شرط تو دور نہیں کی جاسکتی کیونکہ قرآن کریم کی کوئی آیت یا اس کا کوئی ٹکڑا منسوخ نہیں کیا جا سکتا.اس قسم کی شرائط تو بہر حال قائم رہیں گی ایمان کی پختگی تو ضروری ہے اگر وہ ایمان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہمیں ملا ہے یعنی صفات باری
خطبات ناصر جلد سوم ۳۴۰ خطبہ جمعہ ار ستمبر ۱۹۷۰ء اور معرفت صفات باری کے متعلق اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان اور ان کے جلووں کا مشاہدہ کرنے کے سلسلہ میں اگر ہم اس قسم کے ایمان پر قائم رہیں گے تو انشاء اللہ غلبہ ہمیں ہی نصیب ہوگا.قربانیاں ہمیں ہی دینی پڑیں گی حاسد نا کام ہی رہیں گے.خدا تعالیٰ کی مدد کی اور اس کے فضل کی اور اس کی رحمتوں کی ہمیں ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو دعا کی تدبیر سے جذب کرنا یہ ہمارا فرض ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض ادا کر نے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین ) از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد سوم ۳۴۱ خطبه جمعه ۲۵ستمبر ۱۹۷۰ء یومِ آخرت پر اپنے ایمان کو پختہ کرو اور اسے مستحکم بناؤ خطبه جمعه فرموده ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ ء بمقام سعید ہاؤس.ایبٹ آباد تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے ان آیات کی تلاوت فرمائی:.وَابْتَغِ فِيمَا أَنكَ اللهُ النَّارَ الْآخِرَةَ - (القصص : ۷۸) وَ مَنْ اَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَبِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا - (بنی اسراءیل : ۲۰) اور اس کے بعد فرمایا:.میں اس مضمون پر خطبہ دے رہا ہوں کہ اپنے ایمانوں کو پختہ کرو اور مستحکم بناؤ.میں اس سے قبل چند باتیں بتا چکا ہوں میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان بشارتوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہی سلسلوں کو دی جاتی ہیں میں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کی عظیم بشارتیں ملی ہیں اور میں نے اس طرف بھی جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ جب کسی الہی سلسلہ کو عظیم بشارتیں ملیں تو اس سلسلہ یا جماعت پر عظیم ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں.اصولی طور پر جماعت الہیہ کو آخری اور کامل غلبہ کی بشارت دی جاتی ہے اس دنیا میں بھی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۴۲ خطبہ جمعہ ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء کوئی الہی سلسلہ دنیوی مخالفتوں اور دنیوی منصوبوں کے نتیجہ میں کبھی ناکام نہیں ہوا ہمیشہ ہی کامیاب رہا ہے اور دشمن ہمیشہ ہی اپنے منصوبوں میں ناکام رہے ہیں لیکن کیونکہ بشارتوں کے ساتھ ذمہ داریاں بھی عائد کی جاتی ہیں اور قربانیوں کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے اور ان قربانیوں میں جان کی قربانی ، اموال کی قربانی، اوقات کی قربانی ، جذبات کی قربانی ، غرض ہر قسم کی قربانیاں شامل ہوتی ہیں اور بہت سے ایسے مخلص جاں نثار افراد الہی سلسلوں میں ہوتے ہیں جن کو اپنی جان کی قربانی دینی پڑتی ہے انہیں اس دنیا میں ان انعامات سے حصہ نہیں مل سکتا جن کا وعدہ کیا گیا ہے.پھر بہت سے ایسے جاں نثار مخلصین ہوتے ہیں جو اموال کی انتہائی قربانی دے دیتے ہیں لیکن اس دنیا میں دس گنا یا سو گنا یا ہزار گنا دولت ابھی بطور انعام نہیں ملی ہوتی کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والے قربانیوں کا پھل اور ثمرہ اسی دنیا میں بھی پالیتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جو عرب پر آخری فتح تھی وہ زمانہ نبوت کے بالکل آخری زمانہ میں تھی اس عرصہ میں صحابہ نے جانیں بھی دیں، اس عرصہ میں صحابہ نے اپنے اموال بھی قربان کئے ، اس عرصہ میں انہوں نے گویا کہ اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں دے دیا لیکن ان میں سے بہت سے ایسے تھے جو اس عرصہ میں فوت ہو گئے غرض کسی کو کچھ علم نہیں کہ اس کی زندگی کتنی ہے.موت ہر وقت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اسے اگلے سانس کا بھی علم نہیں ہوتا اگر انسان یہ سمجھے کہ یہی زندگی ہے اور بس.مریں گے اور ابدی فنا کی گود میں چلے جائیں گے تو دلیری کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ ہر قسم کی قربانیاں دے دینا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ انسان سوچتا ہے کہ اگر بس یہی زندگی ہے تو کیوں ہم اس دنیا میں تکالیف برداشت کریں اور اگر بس یہی زندگی ہے تو اس زندگی کو چھوڑ کر موت کے ڈر کو کیوں کھٹکھٹا ئیں اگر یہی زندگی ہے تو کیوں نہ جو دولت ہمیں ملی ہے اس سے ہم عیش کریں اور مزے اڑائیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑی تاکید سے فرمایا ہے کہ آخرت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اس کے بغیر ایمان ایمان نہیں ہوتا یعنی اس دنیوی زندگی کے بعد انسان کو ایک اور زندگی ملے گی اور اس زندگی کا تعلق انسانوں کے ایک حصے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قہر کا سلوک اور انسانوں کے ایک دوسرے حصے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت
خطبات ناصر جلد سوم ۳۴۳ خطبہ جمعہ ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء اور پیار کا سلوک ہوتا ہے اگر آخرت پر ایمان نہ ہو یا اگر دار آخرت پر ایمان پختہ اور مستحکم نہ ہو تو شیطان وسوسہ ڈالے گا اور کہے گا کہ کیوں تم اپنی جان اور اوقات اموال اور آرام ایک ایسی بشارت کے لئے قربان کر رہے ہو کہ تمہیں پتہ ہی نہیں کہ جب اس کا نتیجہ نکلے گا تو تم اس دنیا میں موجود بھی ہو گے یا نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سب سے خطرناک وسوسہ جو شیطان ایک انسان کے دل میں پیدا کرسکتا ہے وہ آخرت کے متعلق وسوسہ ہے.قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے اس طرف ہمیں توجہ دلائی ہے اور آخرت کے حالات بیان کرتے ہوئے ہمیں بتایا ہے کہ اس دنیا میں جا کر جب ایسے لوگوں کا واہمہ یا انکار کی کیفیت حقیقت کو دیکھے گی تو ان کو یہ بات سمجھ آجائے گی کہ ہماری جتنی کمزوریاں تھیں اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کے لئے غلبہ اسلام کے لئے قربانیاں دینے کی (اسی سے آج ہمارا تعلق ہے ) وہ کمزوریاں صرف اس وجہ سے تھیں یا اس وجہ سے بھی تھیں (اور بھی بہت سارے اسباب ہو سکتے ہیں ) لیکن ایک سبب یہ تھا کہ ہم آخرت پر ایمان نہیں لاتے تھے اور اس دنیوی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا.ہم نے کہا ہم آج قربانی دیں ۲۰ سال کے بعد نتیجہ نکلے یا ۵۰ سال کے بعد نتیجہ نکلے اس نتیجہ سے تو ہم فائدہ نہیں اٹھا سکتے مثلاً مال کی قربانی اور نفس کی اور زندگی کی قربانی.ایک تو مال کی قربانی ہے اور اس کے علاوہ زندگی کی بھی قربانی ہوتی ہے بہت سے لوگ اپنی زندگی کی قربانی دے رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک مخلص احمدی پانچ روپے ماہوار پر لنگر میں کام کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر میں خدمت کرتے تھے اور انہیں پانچ روپے ماہوار گزارہ ملتا تھا.ان کے بہت سے بیٹے تھے.میرا خیال ہے شاید کوئی استثناء ہو ان کے بیٹے جب بڑے ہوئے تو ان میں سے ہر ایک قریباً ۴، ۵ ہزارروپے سے زیادہ ماہانہ کما رہا تھا.اللہ تعالیٰ کسی کا قرض نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ نے ان کا قرض اس طرح ادا کر دیا.اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی بدلہ دے دیتا ہے بشارت ہی یہی ہے کہ دنیا میں بھی دل جیتو گے تو غالب آؤ گے تلوار سے نہیں بلکہ دل جیتو گے تو غالب آؤ گے اور اس دنیا میں بھی بڑی نعمتیں ملیں گی لیکن جہاں تک اس دنیا کی نعمتوں کا تعلق ہے بعض لوگ قربانیاں دیتے دیتے فوت ہو گئے مگر ان کی اولا د نے اللہ تعالیٰ سے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۴۴ خطبہ جمعہ ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء اس دنیا میں بھی اجر پایا لیکن شیطان آکر یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم نے قربانی دی اگر یہ زندگی یہیں ختم ہو جاتی ہے اگر کوئی اخروی زندگی نہیں ہے پھر تو تمہیں قربانی دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ تمام نیکیوں اور راستبازیوں کا سر چشمہ ایمان بالآخرۃ ہے اور شیطان کا بڑا حملہ یا بڑا وسوسہ انسان کے خلاف یہ ہے کہ وہ اس کے دل میں آخرت کے متعلق یہ شبہ ڈال دیتا ہے کہ جب اس دنیا میں قربانی دینے کا بعد میں کوئی نتیجہ نکلنا ہے تو پھر قربانی دینا بے سود ہے اور یہ وسوسہ اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب آخرت کے متعلق یقین پختہ نہ ہو یا پختہ نہ رہے تو پھر انسان شبہ میں پڑ جاتا ہے اور قربانی نہیں دے سکتا کیونکہ اس طرح وہ اپنی عقل سے کام لے رہا ہوتا ہے کہ جب اس دنیا میں سب کچھ ختم ہو جانا ہے تو پھر قربانی دینے کا کیا فائدہ ہے؟ دنیا کے انعامات کے وعدہ کے متعلق یہ وعدہ نہیں ہے کہ زید اور بکر کی زندگی میں وہ پورے ہوں گے.یہ وعدہ تو ہے کہ الہی سلسلہ یقیناً کامیاب ہوگا لیکن یہ وعدہ نہیں ہے کہ زید یا بکر کی زندگی میں کامیاب ہو جائے گا اور زید یا بکر سوچنے لگ جائیں کہ ہماری زندگی میں اس دنیا کی جو خوشخبریاں ہیں پتہ نہیں وہ پوری ہوتی ہیں یا نہیں اس واسطے ہم کیوں قربانی دیں؟ شیطان آکر اس طرح دلوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے.غرض تمام نیکیوں اور راستبازیوں کا سرچشمہ ایمان بالآخرۃ ہے یعنی بہت سے وسائل جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں ان میں ایک یہ وسیلہ بھی ہے جب اس بات پر ایمان پختہ ہو کہ اس دنیوی زندگی کے ساتھ ہماری حیات ختم نہیں ہوگی بلکہ یہ تو ایک تسلسل ہے شکلیں بدلتی ہیں تفصیل میں جائے بغیر میں اشارہ کر دیتا ہوں کہ اس کے بعد دو قسم کی زندگیوں کے متعلق ہمیں بتایا گیا ہے اور ان کی بھلائیوں کے حصوں کے لئے ہمیں کہا گیا ہے ایک مرنے کے معابعد کی زندگی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ روح کو اس جسم کے علاوہ ایک اور جسم دیا جائے گا اس کی جو تفاصیل ہیں انسانی ذہن ان کا احاطہ نہیں کر سکتا لیکن آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی رو سے انسان کے اعمال اپنے اچھے یا برے جسم کی شکل اختیار کریں گے چنانچہ آپ تجربہ فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ اولیاء کے مقبروں پر جائیں
خطبات ناصر جلد سوم ۳۴۵ خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء اور دعا کریں تو کشفی طور پر ان کو اس برزخ کے زمانے کے جسموں میں دکھایا جاتا ہے ایک وہ جسم ہوتے ہیں جو دھوئیں سے بنے ہوتے ہیں یعنی جن کے اعمال بد تھے اور ایک وہ جسم جو نور سے بنے ہوئے ہوتے ہیں یعنی جن کے اعمال اچھے تھے.انسان کا جیسا بھی عمل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ویسا جسم دے دیتا ہے یعنی انسان کا اچھا یا برا عمل ایک جسم میں تبدیل کر دیا جاتا ہے مثلاً جس طرح ہمارا یہ مادی جسم ہے یہ بھی انرجی اور طاقت کی ایک شکل ہے کیونکہ اب مادے کے متعلق سائنس کی جونئی تعریف ہے وہ یہی ہے کہ.Matter is nothing but another form of energy سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ جو اٹامک انرجی وغیرہ ہے جسے ہم طاقت کہہ سکتے ہیں جس میں مادے کا کوئی حصہ نہیں ہوتا وہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں.پس ہمارے عمل بھی انرجی ہیں ہم کوشش کرتے ہیں جدو جہد کرتے ہیں چاہے ہم بڑے عمل کر رہے ہوں یا اچھے اعمال بجالا رہے ہوں جس طرح دوسری قسم کی انرجی اور طاقت کو اللہ تعالیٰ کا حکم مادے میں تبدیل کر دیتا ہے.اسی طرح اعمال صالحہ اور اعمال سیئہ جو ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے نور کی شکل کے جسم میں یا دھوئیں کی شکل کے جسم میں بن جاتے ہیں البتہ یہ وہ جسم ہیں جو حشر اجساد سے پہلے انسان کو دیئے جاتے ہیں اگر چہ اس جسم کو جنت کی لذات یا دوزخ کی گرماہٹ ملنے لگ جاتی ہے لیکن پوری طرح جنت یا دوزخ والی کیفیت حاصل نہیں ہوتی ویسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ارفع و اعلیٰ وجود جو ہے آپ کو تو جنت کی لذات قریباً پوری ملنے لگ جاتی ہیں یعنی ہم کہہ سکتے ہیں اپنی زبان کے محاورے میں ۱۹/۲۰ کا فرق ہوتا ہوگا مگر دوسروں میں زیادہ ہوتا ہے.بہر حال یہ جسم اس جسم سے مختلف ہے جو حشر کے دن انسان کو ملے گا.ایک تو ہم نے یہ جسم چھوڑنا ہے پھر اس جسم کو بھی چھوڑنا ہے جو برزخ کے زمانہ میں ملے گا اور پھر ان دوجسموں کے بعد ہمیں وہ جسم ملے گا جو جنت کا جسم ہے.ہمیں اس بات پر پختہ یقین رکھنا چاہیے.مرنے کے ساتھ ہی دوسرا جسم مل جاتا ہے اور جزا سزا ملنے لگ جاتی ہے اگر ہم دار آخرت پر اور زندگی کے اس تسلسل پر پختہ یقین رکھتے ہوں تو ( یہ ایک حقیقت ہے کہ ) پھر قربانیاں قربانیاں نہیں رہتیں کیونکہ بہر حال ہمیں انعام ملنا ہے ہماری قربانیاں مقبول ہو جائیں تو مرنے کے ساتھ ہی اس کا
خطبات ناصر جلد سوم ۳۴۶ خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء انعام مل جانا ہے وہ لوگ بھی محروم نہیں جنہوں نے اس دنیا میں بظاہر شہادت پائی یا جنہوں نے قربانیاں دیں اور نتیجہ نکلنے سے پہلے ان کی طبعی طور پر وفات ہوگئی کیونکہ جو پندرہ سال تک قربانیاں دینے کے بعد زندہ رہا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا کی نعمتوں سے نوازا گیا ہے اس سے پہلے اس شخص نے اپنا بدلہ پالیا جو شہید ہو گیا یا خلوص نیت سے قربانیاں دیتے ہوئے طبعی موت مرگیا کیونکہ اس کے انعامات اس کی موت کے ساتھ ہی شروع ہو گئے اور وہ جو دوسرا ہے اسے پندرہ سال تک اور انتظار کرنا پڑا پس یہ بات نہیں کہ جو زندہ رہاوہ فائدہ میں رہا.حقیقت یہ ہے کہ جو فوت ہو گیا وہ فائدہ میں رہا اگر اس کی سعی مشکور ہے اگر اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کر لیا ہے تو وہ فائدہ میں ہے.پس ایمان بالآخرۃ نہایت ضروری حکم ہے اور اس کے بغیر الہی سلسلے یا جماعتیں یا ان کے افرا د بشاشت کے ساتھ قربانیاں نہیں دے سکتے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا :.وَابْتَغ فِيمَا الكَ اللهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ (القصص: ۷۸) یہ میں نے آیت کا ایک ٹکڑا لیا ہے اس سے آگے ویسے یہ بھی ہے.وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَ أَحْسِنُ كَمَا أَحْسَنَ اللهُ اليك الخ لیکن میں نے پہلا ٹکٹڑ لیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم نے تمہیں جو کچھ دیا ہے (فیما اتك ) اس کے ذریعہ آخرت کی نعماء کے حصول کی کوشش کرو ( وابتغ ).اس دنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے ہماری یہ زندگی ہمارا جسم اور اس کی طاقتیں، ہمارا ذہن اور اس کی طاقتیں ہماری روح اور اس کی طاقتیں یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہے گھر سے تو کچھ نہیں لائے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مادی اسباب جو تمہیں دیئے گئے ہیں اور قوتیں اور استعداد یں جو تمہیں عطا ہوئی ہیں ان کے ذریعہ سے تم دار آخرت کی نعماء کے حصول کی کوشش کرو.پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ماننا ضروری ہے آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے اس کے بغیر الہی سلسلے نہ قربانیاں دے سکتے ہیں اور نہ وہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے پیدا کرنا چاہتا ہے.صحابہ کرام کی زندگی پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو انہیں ایمان بالآخرت میں بھی یکتا پاتے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۴۷ خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء ہیں میں نے کئی بار بتایا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے لئے سونے والے کمرے سے بیٹھنے والے کمرے تک جانا شاید دل میں کچھ کوفت کا احساس پیدا کرے مگر ان لوگوں کے لئے اس دنیا سے نکل کر اس دنیا میں چلے جانا کوئی کوفت نہیں پیدا کرتا تھا وہ ہنستے کھیلتے اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کر دیتے حتی کہ اپنی جان کی بازی تک لگا دیتے تھے ان کے نزدیک زندگی اور موت کے درمیان جو ایک بار یک سی لکیر ہے وہ نہ ہونے کے برابر تھی.عجیب شان تھی ان لوگوں کی (رضوان اللہ علیہم ) اور عجیب شان ہے مخلصین جماعت احمدیہ کی بھی.لیکن اگلی نسل یعنی بینگ جزیشن جو ہے مثلاً یہ جونو جوان میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ہمیں ان کی فکر رہتی ہے کیونکہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی براہِ راست تربیت نہیں ملی.پھر بعض دفعہ جماعتیں سستی کرتی ہیں لوگ اپنی اولاد کی تربیت کی طرف کما حقہ متوجہ نہیں ہوتے اور جب ایسے بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو جسمانی طور پر گھر یلو حالات کے لحاظ سے ان کو بھی تنگ کرتے ہیں اور روحانی طور پر بھی ان کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں جب ہم صحابہ کرام کی زندگی کے حالات پڑھتے ہیں تو میں نے بتایا ہے کہ ایک عجیب کیفیت پیدا ہوتی ہے ایک سرور کی بھی اور عقل بھی حیران ہوتی ہے.کیا تھے وہ لوگ؟ حضرت سعد بن وقاص ایران میں لڑ رہے تھے انہوں نے ایک جگہ حملہ آور ہونا تھا راستے میں ایک دریا تھا جس کے اوپر ایک پل بنا ہوا تھا اس پل پر سے انہوں نے اپنی فوج کے ساتھ گزرنا تھا چنانچہ انہوں نے اپنا ایک ہر اول دستہ بھیجا کہ اس پل کو جا کر سنبھال لو تا کہ دشمن اسے اڑا نہ دے لیکن اس دستہ کے سردار ایک نوجوان تھے.انہیں حکم تو یہ تھا کہ راستے میں لڑنا نہیں مگر انہوں نے غلطی کی ایرانیوں کا ایک دستہ نظر آیا اور اس سے یہ الجھ گئے اور اس پل تک نہ پہنچ سکے اتنے میں دشمن کو پتہ لگ گیا اس نے پل کو اڑا دیا.اب یہ بزرگ صحابی اپنے گھوڑے پر سوارا اپنی فوج کے آگے آگے جارہے تھے کوئی بیس ہزار کے قریب فوج تھی جس وقت یہ اس جگہ پہنچے جہاں پل تھا تو سامنے ایرانی اپنے آپ کو بڑے محفوظ سمجھتے ہوئے قلعہ بند ہونے کی بجائے دریا کے کنارے تماشہ دیکھنے کے لئے جمع تھے کہ وہ دیکھیں کہ اب مسلمان کیا کریں گے ہم نے پل اڑا دیا ہے لیکن حضرت سعد بن وقاص نے ایک لمحہ کی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۴۸ خطبہ جمعہ ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء ہچکچاہٹ کے بغیر اسی طرف چلتے چلتے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا اور ان کے پیچھے کئی ہزار کی جو گھوڑا سوار فوج تھی انہوں نے بھی گھوڑے دریا میں ڈال دیئے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا بغیر کسی جانی نقصان کے گھوڑے دوسرے کنارے جا لگے اور آپ نے دشمن کو قلعہ بند ہونے کا موقعہ نہیں دیا اور اس پر فتح پالی حالانکہ ان کے مقابلے میں اس شہر میں ایرانیوں کی بہت بڑی فوج تھی حضرت سعد بن وقاص کی یہ کتنی بڑی قربانی تھی آپ نے اپنے گھوڑے کو ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا میں ڈال دیا گویا اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنا تھا اور پھر ایسے حال میں کہ پر لی طرف ایرانی گھوڑے ہیں ہزار قسم کے خطرے ہیں لیکن انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ گویا انہیں احساس بھی نہیں تھا کہ کوئی خطرہ بھی ہے اپنی طرف سے وہ زندگی سے موت کی دنیا میں جانے کے لئے تیار ہو گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا اور کامیابی بھی عطا فرمائی انہیں اس بات کا کامل یقین اور پختہ احساس تھا کہ جتنی یقینی یہ زندگی ہے اس سے کم یقینی اگلی زندگی نہیں ہے اور اگر ہم نے اس کے بعد دوسری زندگی کو پانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے تو پھر جو بشارتیں اس نے دی ہیں اور ان بشارتوں کے مقابلے میں ہم سے جن قربانیوں کا مطالبہ کیا ہے ہمیں وہ قربانیاں دینی چاہئیں تا کہ وہ بشارتیں ہمیں مل جائیں اس دنیا کی بشارتیں بھی اور اُس دنیا کی بشارتیں بھی.غرض اللہ تعالیٰ نے وَابْتَغِ فِيمَا أَنكَ اللهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ (القصص : ۷۸) تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے مادی سامان یا جسمانی اور روحانی قوتیں اور طاقتیں ان سب کے ذریعہ دار آخرت کی نعماء کے حصول کی کوشش کرو.دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعيها الخ ( بنی اسراءیل : ۲۰) جو اس حکم کے نتیجہ میں اور آخرت کی نعماء کی خواہش رکھے وسطی کھا سکا اور محض خواہش ہی نہ ہو بلکہ دار آخرت کی نعماء کے حصول کے لئے جس قسم کی کوشش اور مجاہدہ کی ضرورت ہے اور جس کا حکم دیا گیا ہے وہ کوشش اور مجاہدہ بجالائے ایسے حال میں کہ وہ مومن ہو یعنی آخرت پر بھی اس کا ایمان پختہ ہو.یہاں هُوَ مُؤْمِنٌ کے ایک معنے ہم یہ بھی کریں گے کہ آخرت پر اس کا ایمان پختہ ہو دل میں شیطانی وسوسہ نہ ہو کہ پتہ
خطبات ناصر جلد سوم ۳۴۹ خطبہ جمعہ ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء نہیں مرنے کے بعد دوسری زندگی ملے گی یا نہیں ملے گی الہی سلسلوں میں کئی ایسے کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں جو قربانیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی کمزوری ایمان کی وجہ سے انہیں ضائع بھی کر رہے ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں پتہ نہیں آخرت کی زندگی ہے بھی یا نہیں؟ پتہ نہیں وہاں ہمیں کس قسم کے انعاموں کا وعدہ دیا گیا ہے چونکہ ان کا ایمان پختہ نہیں ہوتا اس لئے نقصان اٹھاتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے اس حکم کے مطابق انسان کی خواہش آخرت کی نعماء کے حصول کی ہو اور پھر صرف خواہش ہی نہ ہو بلکہ وسطی لَهَا سَعيها آخرت کے نعماء کے حصول کے لئے جس قسم کی سعی اور کوشش اور مجاہدہ کی ضرورت ہے وہ اس قسم کی سعی اور کوشش اور مجاہدہ کر رہا ہو اور پھر فرما یاوَهُوَ مُؤْمِنٌ آخرت پر اس کا ایمان بھی پختہ ہو تو پھر اس کی کوشش پر اللہ تعالیٰ اس کا شکر گزار ہو گا یعنی اللہ تعالیٰ کے جو وعدے ہیں اس کے مطابق انعام ملے گا.میں نے ابھی بتایا تھا کہ جب تک انسان کا دار آخرت اور اُخروی زندگی پر ایمان پختہ نہ ہو وہ قربانی نہیں دے سکتا جس کا اس سے مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پر ہمیں ایمان ہے تو دار آخرت پر بھی ہمیں ایمان لانا چاہیے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی ایک تو یہ زندگی ہے اور اس کے بعد ایک درمیانی زندگی ہے اور پھر آخرت میں جنت کی زندگی ہے جس میں انسان کو ایسی نعمتیں عطا ہوں گی جو اس کے تصور میں بھی نہیں آسکتیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھانے کے لئے اس دنیا کے بعض الفاظ بیان فرمائے ہیں لیکن ساتھ ہی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بھی کہلوا دیا ہے کہ جنت میں جو نعماء تمہیں ملیں گی وہ اس قدر اعلیٰ درجہ کی ہوں گی کہ نہ اس سے پہلے تمہاری آنکھوں نے دیکھی ہوں گی نہ ان کے متعلق تمہارے کانوں نے سنا ہوگا اور نہ ہی تمہارے ذہن میں ان کا تصور ہوگا.یہ پردے کی دنیا ہے یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل پردوں میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں.وہاں پر دے نہیں ہوں گے اللہ تعالیٰ کے فضل بالکل ظاہر ہو کر سامنے آ رہے ہوں گے اور شیطانی وسوسہ نہیں ہوگا.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ میری عطا کے ذریعہ سے تم دار آخرت کی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۵۰ خطبہ جمعہ ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء نعماء حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اگر تم کوشش کرو گے اور اس کے مطابق ایمان رکھو گے اگر تم خواہش کرو گے اور پھر کوشش کرو گے اور آخرت پر پختہ ایمان رکھو گے تو تمہاری سعی اور تمہارا مجاہدہ قبول ہو گا اور اللہ تعالیٰ بھی بندوں کی طرح شکر گزار ہو گا ویسے اللہ تعالیٰ کی ذات تو ارفع اور اعلیٰ ہے وہ ہمیں سمجھانے کے لئے یہ الفاظ استعمال کرتا ہے کہ اے لوگو! اگر تم دار آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے اُخروی نعماء کے حصول کے لئے کوشش اور مجاہدہ کرو گے تو تمہاری سعی عند اللہ مشکور ہوگی اور مشکور میں دراصل یہ اشارہ بھی ہے جو تمہیں وعدے دیئے گئے ہیں اس سے بھی زیادہ دے دیں گے.ہماری جماعت کو اس وقت غلبۂ اسلام کے لئے قائم کیا گیا ہے اور ہمیں بڑی عظیم بشارتیں دی گئی ہیں.اس دنیا کی بشارتیں بھی ہیں اور اُخروی زندگی کی بشارتیں بھی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اُخروی زندگی کی سب سے بڑی بشارت تو یہ دی گئی ہے صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں آئے تھے ان کے انعامات بہر حال دوسروں سے زیادہ ہیں.یہ جو ایک جان اور دو قالب والا قصہ ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہدی معہود علیہ السلام کا یہ اس کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح آپ کی تربیت پانے والے گروہ نے انتہائی تربیت حاصل کر کے انتہائی قربانیاں دیں اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی فضلوں کو حاصل کیا یہی دروازہ تمہارے لئے بھی کھلا ہے اس میں بڑی عظیم بشارت ہے اس دنیا کے لئے بھی اور اصل تو اس دنیا کے لئے بشارت ہے وہاں اگر اللہ تعالیٰ اپنی جنتوں کے ان حسین حصوں میں ( یعنی وہاں کی جنتوں میں بھی عمل عمل کے لحاظ سے فرق ہے ) اعلیٰ اور ارفع اور حسین تر باغات میں رکھے جن میں صحابہ رکھے جاتے ہیں تو اس سے بڑھ کر اُخروی انعام اور کیا ہوسکتا ہے.پس غلبہ اسلام کا منصو بہ اللہ تعالیٰ نے تیار کیا ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے اور ہمیں اس دنیا کے لئے بھی اور اُس دنیا کے لئے بھی بشارتیں دے کر ذمہ واریوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور ہم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے اور ہمیں اپنے فضل سے یہ گر بتادیا ہے کہ
خطبات ناصر جلد سوم ۳۵۱ خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء جس قسم کی قربانیوں کا میں مطالبہ کر رہا ہوں تم وہ قربانیاں دے نہیں سکتے جب تک کہ دار آخرت پر تمہارا ایمان پختہ نہ ہو.پس نوجوان نسل کو بھی اور بڑوں کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے اس ( دار آخرت پر ایمان کو بھی پختہ کرو میرا اس سلسلۂ خطبات کا عنوان یہی ہے کہ اپنے ایمانوں کو پختہ کرو اور مستحکم بناؤ دار آخرت پر ایمان کو بھی پختہ کرو اور جب دار آخرت پر ایمان پختہ ہو جائے تو یہ دنیا جو عارضی دنیا ہے اور اس کی جو لذتیں ہیں اور اس کی جو عزتیں ہیں وہ عارضی اور بے وفائی کا جامہ پہنے ہوئے ہیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے پھر جو اس دنیا کی چھوٹی سی زندگی ہے اس کے آخر تک انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتیں حاصل کرتا رہتا ہے لیکن یہ دنیا و فانہیں کرتی.عام طور پر ۳۰ سال، ۵۰ سال، ۷۰ سال، ۸۰ سال، ۹۰ سال یا شاید کوئی ۱۰۰ سال تک بھی پہنچتا ہو پھر دنیا اس کو چھوڑ دیتی ہے اور انسان کے مادی جسم کو پھر اپنے پیٹ میں واپس بلا لیتی ہے پس دنیا تو وفا نہیں کرتی لیکن جس وقت یہ دنیا انسان کے جسم کو پھر مٹی بناتی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایک اور جسم دے دیتا ہے اور پھر جب ضرورت پڑتی ہے زیادہ سے زیادہ اور ظاہر سے ظاہر نعمتوں کے حصول کی تو اللہ تعالیٰ ایک تیسرا جسم دے دیتا ہے.غرض یہ دنیا ہے کیا ؟ ۷۰ سالہ آدمی سے آپ پوچھیں تو وہ بھی یہی کہے گا کہ پتہ نہیں لگا دو چار دن میں عمر ختم ہوگئی ہر ایک نو جوان اپنی سادگی میں یہ سمجھتا ہے کہ اس کے سامنے ۵۰-۶۰ سال طبعی عمر کے پڑے ہیں ویسے تو انسان ہر عمر میں فوت ہوسکتا ہے لیکن ایک طبعی عمر بھی ہے لیکن جو اپنی طبعی عمر گزار چکا ہے جب وہ اپنے پیچھے دیکھتا ہے تو اسے نظر آتا ہے گویا وہ ابھی پرسوں ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اس کی زندگی پر ایک زمانہ گزر چکا ہوتا ہے مگر اسے پتہ ہی نہیں لگتا اس دنیوی زندگی کے مقابلے میں جو دار آخرت کی زندگی ہے وہ تو ابدی زندگی ہے جس نے کبھی ختم ہی نہیں ہونا اور جو اُخروی انعامات ہیں ان میں کوئی Monotony ( منوٹونی ) نہیں ہے یعنی وہاں ایک ہی چیز نہیں ہوگی جس سے طبیعت اکتا جائے.حدیثوں میں اس کے متعلق بڑی تفصیل سے ذکر موجود ہے ایک نعمت کے بعد دوسری نعمت دور سے سامنے آجائے گی اور پھر جنتی کہیں گے اے خدا! یہ نعمت ہمیں عطا کر.چنانچہ انہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۳۵۲ خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء درجہ بدرجہ پہلے سے زیادہ لذیذ اور مسرت پہنچانے والی نعمتیں ملتی چلی جائے گی کیونکہ ان کا تعلق نور سے ہے.( اللهُ نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ ) یعنی اس کے فضلوں اور اس کے پیار اور اس کی رضا کے جلووں کے ساتھ ہے قرآن کریم نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی یہی تفسیر کی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ایک دوسری طرف اشارہ کر کے کہ 66 اتهم لَنَا نُورَنَا ، یعنی جس وقت ایک روحانی لذت routine ( روٹین ) کا ایک حصہ بننے لگے گی تو سامنے ایک اور نور آجائے گا، اللہ تعالیٰ کے نور کا ایک زیادہ حسین جلوہ نظر آنے لگے گا تو انسان کہے گا اے ہمارے خدا! آتهِمُ لَنَا نُورَنَا ہمیں اس سے بھی بڑھ کر نور اور اپنا پیار عطا کر ، اپنی رضا کے جلووں سے ہمیں سرور بخش.اسی طرح دوزخیوں کا حال ہے کہ جب وہ عادی ہونے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ان کی جلد میں بدل دوں گا.جلد جس کا ذریعہ ہے یہ محاورہ ہے جو بھی جلد وہاں ہوگی یعنی جو بھی جس کا ذریعہ ہو گا جب عادت پڑنے لگے گی تو جلد بدل دی جائے گی مثلاً یہ جو تنور پر روٹیاں لگانے والے ہوتے ہیں ان کے چہروں کے چمڑے کو عادت پڑ جاتی ہے دوسرا اگر دو روٹیاں لگانے کے لئے تنور میں جھکے تو اس کا منہ جل جائے لیکن نانبائی ایک وقت میں روٹیاں لگانے کے لئے ہزار دفعہ تنور کی آگ میں جھکتا ہے.یہی حال باورچی کا ہے.مجھے یاد ہے بچپن کے زمانے میں میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ وہ آرام سے سرخ کو سلے ہاتھ سے اٹھا کر دوسری طرف رکھ دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کی جلد سخت ہو چکی ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دوزخیوں کی جلد سخت نہیں ہونے دی جائے گی جب ان کو اس سزا کے جھیلنے کی عادت پڑنے لگے گی تو ان کی جلد نرم کر دی جائے گی تاکہ ان کا علاج ہو سکے لیکن جنتیوں کے متعلق ایسا نہیں ہو گا مثلاً نیند ہے.آدمی ہر روز سوتا ہے اور نیند تو دراصل انسان کو بڑی سکون پہنچانے والی الہی نعمت ہے نیند کا ہونا ایک بڑی عجیب نعمت ہے لیکن ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا نہ نیند کا نہ اس کی لذت کا ہم روز سوتے ہیں إِلَّا مَا شَاء اللہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نیند سے بہت پیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے وہ سمجھتے ہیں اگر آٹھ دس گھنٹے روزانہ سوئیں تو تب انہیں اس دنیا کی زیادہ لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے البتہ ایسے لوگ
خطبات ناصر جلد سوم ۳۵۳ خطبہ جمعہ ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ء ہزار میں سے ایک دو ہوتے ہیں.بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے جنہیں ہر روز سونے کے نتیجہ میں نیند کی لذت کا احساس نہیں رہتا یا مثلاً انسان سانس لیتا ہے اور یہ اس کے لئے لذت کا باعث ہے کیونکہ یہ زندگی کا باعث ہے لیکن آدمی کو سانس کی لذت کا اسی وقت پتہ لگتا ہے جب اسے نمونیہ ہو جائے یا موت کے وقت سانس اکھڑ جائے.پھر اس کو پتہ لگتا ہے کہ سانس کتنی بڑی نعمت ہے.میرے خیال میں اس وقت جو احباب میرے سامنے بیٹھے ہیں کسی کو بھی آج صبح سے یہ خیال نہیں آیا ہوگا کہ وہ سانس لیتے ہیں اور اس طرح انہیں بڑی لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے.پس جنت میں لذت کی یہ کیفیت نہیں ہوگی کیونکہ آشیمُ لَنَا نُورَنَا کی رُو سے جب بھی لذت کی عادت پڑے گی اور لذت حقیقی لذت نہیں رہے گی تو اس سے بھی بڑی لذت مل جائے گی.پس ہمیں کتنی بڑی بشارتیں دی گئی ہیں اور ان کے مقابلے میں کتنی تھوڑی قربانیاں ہیں جن کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے لیکن ہم بعض دفعہ اپنی جہالت کے نتیجہ میں سمجھتے ہیں کہ یہ چند روزہ زندگی کی لذات اُخروی زندگی کی لذات سے زیادہ قیمتی ہیں اور زیادہ ضروری ہیں ہم ان سے فائدہ اٹھا لیں اگلی دنیا پتہ نہیں آتی ہے یا نہیں.یہ کمزوری ایمان کی علامت ہے.غرض جہاں تک یوم آخرت پر ایمان لانے کا تعلق ہے آپ اپنے ایمان کے اس حصہ کو بھی پوری طرح مستحکم اور مضبوط بنالیں اس کے بغیر آپ قربانیاں نہیں دے سکیں گے اس کے بغیر آپ ان نعمتوں اور فضلوں اور بشارتوں کے وارث نہیں بن سکیں گے جن کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور اس کی رضا کے لئے اس کی راہ میں ایسی قربانیاں دینے کی توفیق عطا کرے جنہیں وہ قبول کرلے اور ہماری سعی سعی مشکور بن جائے.( آمین ) روزنامه الفضل ربوه ۲۱ /نومبر ۱۹۷۰ء صفحه ۲ تا ۷ )
خطبات ناصر جلد سوم ۳۵۵ خطبه جمعه ۲/اکتوبر ۱۹۷۰ء اصلاح کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے اور اصلاح ایک خاص جذ بہ کا تقاضا کرتی ہے خطبه جمعه فرموده ۲ /اکتوبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.الیکشن کے سلسلہ میں جو مختلف سیاسی پارٹیاں جلسے جلوس وغیرہ کر رہی ہیں اس کے نتیجہ میں ہمارے ملک کی فضا میں کافی تلخی پیدا ہوگئی ہے اس تلخی کو دور کرنے کی (میں سمجھتا ہوں ) بڑی بھاری ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے.اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ نے اسلام کی صحیح تعلیم ( جو اس زمانہ کی اور پھر آئندہ آنے والے زمانے کی خصوصی ضروریات کو پورا کرنے والی اور مسائل کو سلجھانے والی ہے وہ ) ہمیں ملی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کی حیثیت میں اس لئے ظاہر ہوئے تھے کہ دنیا کے مسائل صحیح معنی میں اور حقیقی طور پر حل ہوسکیں.ہمیں اچھی طرح سے یہ سمجھایا گیا ہے کہ کسی سے دشمنی نہیں رکھنی اگر ہمارے دشمن بھی اپنی غلطیوں کے نتیجہ میں یا جہالت کی وجہ سے ہماری پاکستان کی پاک فضا میں (جو پاک ہی ہونی چاہیے اللہ کرے ہو جائے ) فتنہ اور فساد پیدا کریں تب بھی ہمارے دلوں میں ان کے لئے دشمنی نہیں ہم فتنہ کے تو دشمن ہیں ہم فساد کے تو دشمن ہیں لیکن مفسد کے دشمن نہیں کیونکہ اصلاح کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے اور
خطبات ناصر جلد سوم ۳۵۶ خطبه جمعه ۱۲ اکتوبر ۱۹۷۰ء اصلاح بھی ایک خاص جذبہ کا تقاضا کرتی ہے اس کے بغیر انسان دوسروں کی اصلاح نہیں کر سکتا اور اس جذ بہ کوقرآن کریم کی اصطلاح میں ”بخع“ کا نام دیا گیا ہے تو دشمنی نہیں بلکہ بخع کی کیفیت پیدا ہونی چاہیے جس میں دوسرے کی عزت کا بھی خیال رکھنا ہے اس کی اصلاح کا بھی خیال رکھنا ہے کہ جَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل: ۱۲۶) کا خیال بھی رکھنا ہے اگر ہم اپنے مقام کو پہنچا نہیں تو صرف ہم ہیں جن کے کندھوں پر اصلاح کی ذمہ واری ڈالی گئی ہے اگر نہ پہچا نہیں تو یہ ہماری بدقسمتی ہے.لیکن اگر ہم اپنے مقام کو پہچانیں تو صرف ہم ہیں جو اس فتنہ کو دور کرنے اور اس تلخی کو مٹانے کی اہلیت رکھتے ہیں ایک تو ہماری زبان پر تسلی نہیں آنی چاہیے ہمارے دل میں یہ جذبہ پیدا ہونا چاہیے کہ فساد مٹ جائے اور تلخی زائل ہو جائے اور پھر جو تد بیر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اس کی طرف ہمیں متوجہ ہونا چاہیے اور اگر ہم یہ ظاہر کر دیں اور عملاً ثابت کر دیں کہ ہم کسی کے دشمن نہیں تو جس کے ہم دشمن نہیں وہ ہماری بات سننے کے لئے تیار ہو جائے گا انسانی فطرت کے اندر یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے دوست کا خیال رکھتا ہے اس کی بات سننے کے لئے تیار ہو جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ زبردست ہتھیار اور بہت ہی اہم چیز جو ہمیں دی گئی ہے وہ دعا ہے اور دعا کا ہتھیار ہے ہم جس رنگ میں دعا پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں وہ رنگ الا مَا شَاءَ اللہ افراد میں بعض جگہ ہو گا لیکن بحیثیت جماعت کسی اور جماعت میں نظر نہیں آتا.ہم اس یقین پر قائم کئے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام طاقتوں کا مالک ہے اور کوئی چیز بھی اس کے آگے انہونی نہیں ہے اور اس طرح پر ہمیں یہ امید دلائی گئی ہے کہ ہم اپنے کام میں کامیاب ہو نگے خواہ فتنہ کتنا ہی بڑھا ہوا کیوں نہ ہوا اگر ہم دعا کے ذریعہ عرشِ الہی تک پہنچنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس رنگ میں دعائیں کرنے کی توفیق دے گا کہ وہ اس کے حضور قبول ہو جا ئیں پھر ہم اس فتنہ کو دور کرنے کے قابل ہو جائیں گے کیونکہ ہم تو لاشے محض ہیں لیکن جس ہستی سے ہمارا تعلق ہے وہ تمام قدرتوں اور طاقتوں کا مالک اور سرچشمہ ہے.ہم دعا کے ذریعہ اپنے ملک کی تلخی کو دور کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ہمیں اس طرف متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ جس چیز کا علاج صرف ہمارے پاس ہے اگر وہ علاج ہم نہ کریں تو پھر مریض جو ہے اس کو شفا نہیں ہوسکتی.پس دعاؤں
خطبات ناصر جلد سوم ۳۵۷ خطبه جمعه ۱٫۲ کتوبر ۱۹۷۰ء کے ساتھ اس مرض کا علاج کرنا چاہیے.بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالی پاکستانی کو سمجھ عطا کرے اس کو پتہ لگ جائے کہ قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے فساد خدا تعالیٰ کو پیارا نہیں ہے اور جو چیز خدا تعالیٰ کو پیاری نہ ہو وہ اس کے بندے کو پیاری ہو جائے تو اس بندے کی بدقسمتی ہے اگر اس کو سمجھ آجائے تو اسے بچنا چاہیے اس چیز سے اور اگر اس سے ہمدردی رکھنے والے اور غمخواری رکھنے والے کو سمجھ آ جائے تو اس کا فرض ہے کہ اس کو محفوظ رکھے اس فساد سے عذاب اور ہلاکت سے.تو دعاؤں کے ذریعہ اپنے ملک کی فضا کو پاک فضا بنانے کی ذمہ داری کو سمجھو اور اسے پورا کر نے کی کوشش کر و.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اس کی توفیق عطا کرے.میں نے بتایا ہے کہ ہم کسی کے بھی دشمن نہیں.بعض نا سمجھ افراد یا بعض نا سمجھ پارٹیاں کہہ دیا کرتی ہیں کہ ہم کو جب بھی طاقت ملی احمدیوں کو قتل کر دیں گے اس پر بھی ہمیں غصہ نہیں آتا ہمیں واجب القتل قرار دیں اور اس کا اعلان کر دیں تو ہمیں غصہ نہیں آتا اس لئے کہ ہمارے رب نے ہمیں کہا ہے اور بڑے پیار کے ساتھ کہا ہے کہ کسی ماں نے وہ بچہ نہیں جنا جو احمدیت کو ہلاک کر دے اور نیست و نابود کر دے اس واسطے جو چیز ہونی نہیں جب دعویٰ ایسی چیز کا ہو تو نہ ہمیں فکر کرنے کی ضرورت ہے نہ ہمیں غصہ کرنے کی ضرورت ہے.ہمارے دل میں رحم کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے کہ ان کا تخیل اور ان کا منصو بہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ اور اللہ تعالیٰ کے منصوبہ کے خلاف ہے اور ہر اس شخص پر ہر احمدی کو رحم آنا چاہیے اور اس رحم کے نتیجہ میں پیار کے ساتھ اور ہمدردی کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اُس کو سمجھانا چاہیے کہ جدھر خدا کا منشا ہے ادھر چلنے کی کوشش کر و خدا کے حکم اور فیصلہ کے خلاف اپنے اوقات اور اموال منصوبوں اور عقل اور ذہن کو ضائع نہ کرو.ہمارے بعض مخالف گالیاں دیتے ہیں (اکثریت تو اللہ کے فضل سے شریف ہے اور سمجھدار ہے اس واسطے وہ اپنی شرافت کے نتیجہ میں اور اپنی فراست کے نتیجہ میں اس قسم کی گندہ دہنی سے کام نہیں لیتے لیکن بعض حصہ لیتے ہیں اس کا تو انکار نہیں کیا جاسکتا ) ہمارے قومی اخباروں کے پچھلے سال کے فائلوں میں بہت سارے آدمیوں کی طرف بعض غلط بیان منسوب ہوئے ہیں جن کی ان اخباروں نے کوئی تردید نہیں کی تو جو ایسی باتیں کرتے ہیں ان کے خلاف بھی ہمیں کوئی غصہ نہیں وہ قابلِ رحم
خطبات ناصر جلد سوم ۳۵۸ خطبه جمعه ۱٫۲ کتوبر ۱۹۷۰ء ہیں.جو خدا کی مرضی کے خلاف چل رہا ہے یقیناً وہ قابلِ رحم ہے یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے کہ میری مرضی اور ہے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی جو ہو ، ہوتی رہے.یہ جنون کی کیفیت تو کہلاسکتی ہے شرافت کا تقاضا نہیں کہلا سکتا ہمیں نہ گھبرانے کی ضرورت ہے نہ فکر کی ضرورت ہے بعض نوجوان جن کو پورا یقین نہیں ہوتا وہ گھبرا بھی جاتے ہیں کہ اب کیا ہوگا.کئی نسلیں گزرگئی ہیں اور ہر نسل میں سے ایسے آدمی پیدا ہوتے رہے ہیں (احمدیت کے اندر ) کہ جو کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا تو اب کیا ہوگا“ کا نتیجہ وہی ہوگا جو خدا چاہے گا اور خدا نے یہی چاہا ہے کہ احمدیت ترقی کرتی چلی جائے.سب سے پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کفر کے فتوے اور سارے اسی ٹائپ کے دوسرے فتوے اس وقت لگے تھے جب ایک آدمی بھی آپ کی بیعت میں داخل نہ تھا دوسو علماء نے کفر کا فتوی لگا دیا اور اس وقت ایک شخص نے بھی بیعت نہ کی تھی اب دوسو کفر کے فتوے اگر سمجھ لئے جائیں وہ جو دو سوفتو ے کفر کے اس وقت لگائے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ اسے مارو.اس وقت ان کو یہ بھی خیال نہ آیا کہ ماروکس کو ایک ہی تو آدمی ہے تمہارے سامنے ہمت ہے تو اسے مارلوشور مچانے کی بھی ضرورت نہیں لیکن بہر حال دوسوفتووں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کتنا کچھ اور کتنے دے دیئے.ہمارے ویسٹ افریقہ میں دوسو کفر کے فتوؤں کے مقابلہ میں کئی لاکھ احمدی ہیں.ویسٹ افریقہ سات ہزار میل دور ہے.بڑی دیر کے بعد ہم ان کے پاس پہنچے ہیں یہاں تو جو پچاس فیصدی کی حد تک احمدی ہے وہ ( میرا خیال ہے ) پاکستان میں دو کڑور سے کم نہیں ہوگا.اور جو پچھتر فیصدی کی حد تک احمدی ہے وہ بھی ایک کڑور سے کم نہیں ہے باقی جو سو فیصدی احمدی ہیں وہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم احمدی ہیں ان کے دعوی کے مطابق خدا کرے ان کی زندگیاں ہوں تعداد کے لحاظ سے وہ بھی کم نہیں ہیں.جب ساری دنیا کہہ رہی تھی اس ایک شخص کو جب اس کا ایک ہی سہارا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات) کہ تجھے ہم نیست و نابود کر دیں گے اُس وقت اس کے ساتھ ایک آدمی بھی نہیں تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ابھی میں نے بیعت لینی شروع نہ کی تھی کہ دوسو مولویوں کا مجھ پر فتویٰ لگ گیا تھا.اس لحاظ سے اک سے ہزار ہو دیں تو آپ بعد میں آنے والوں کے لیے دعا کر گئے تھے لیکن ہوا یہ کہ
خطبات ناصر جلد سوم ۳۵۹ خطبه جمعه ۲/اکتوبر ۱۹۷۰ء وہ ( یعنی بعد میں آنے والے ) اک سے کڑور ہو گئے ، ہزار کا سوال ہی نہ رہا.تو ساری دنیا کی مخالفتوں اور مخالفانہ منصوبوں اور کفر کے فتوؤں اور واجب القتل ہونے کے نعروں کے درمیان اس شخص کا کون سہارا بنا واضح ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ تھا اور تو کوئی ہو نہیں سکتا اس کی طاقت میں ہے ہر چیز اور وہ خدا جو ہمارا محبوب اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب خدا تھا وہ ہمارا محبوب آج بھی اسی طرح طاقتور اور زندہ اور تمام قدرتوں کا مالک ہے خدا تو نہیں مر گیا نہ اس کے اندر بے وفائی ہے اور نہ اس کے اندر کمزوری پیدا ہوتی ہے اور نہ ہوسکتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طاقتیں اپنی جگہ پر ہیں ، مخالف کے منصوبے اپنی جگہ پر ہیں ، جماعت کا اخلاص اپنی جگہ پر ہے.پس ہمیں اپنے اخلاص کی فکر کرنی چاہیے.دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو ہمارے خلاف کامیاب ہو سکے لیکن ہم اپنی مٹی آپ خراب کر سکتے ہیں اگر ہمارے اندر اخلاص نہ رہے اگر ہم خدا تعالیٰ کے بندے نہ رہیں ، اگر ہم اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے نہ ہوں ، تو اپنی ہلاکت کے سامان ہم خود پیدا کر دیں گے لیکن جو اخلاص پر قائم رہیں گے اور جو اللہ تعالیٰ سے پیار کرتے رہیں گے اور وہ جو اس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے اسْلَمْنَا لِرَبِّ الْعَلَمِينَ “ کا وور نعرہ لگاتے رہیں گے طاقتور خدا ان کے ساتھ رہے گا اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور قدرت اور عزت کے نظارے دیکھتے رہیں گے ان نظاروں کو ہم سے پہلے اسی سال سے جماعت دیکھ رہی ہے.یہ ایک حقیقت ہے کوئی عظمند اس کا انکار نہیں کر سکتا.تو یہ جو منصوبے یا نعرے یا سکیمیں یا اعلان کہ ہم احمدیوں کو قتل کر دیں گے ہمیں اس سے ہرگز کوئی غصہ نہیں پیدا ہونا چاہیے یہ کھو کھلے نعرے ہیں جو پورے نہیں ہو سکتے انی سالہ احمدیت کی زندگی اور تاریخ شاہد ہے اس بات پر کہ ایسے نعرے احمدیت کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکتے.ہاں افراد کو قربانی دینی پڑتی رہی ہے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس وقت تک.سو جماعت کے افراد کو بھی قربانی دینی پڑے گی اس کے لئے ہر فرد کو تیار رہنا چاہیے اور بشاشت کے ساتھ تیار ہنا چاہیے لیکن اگر کہا جائے کہ احمدیت کو تباہ کر دیا جائے گا یہ ناممکنات میں سے ہے.کیونکہ خدا کی مرضی کے خلاف ہے وہ جو چاہتا ہے ( عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) وہ کر کے چھوڑتا ہے تو کسی پر غصہ نہیں کرنا کوئی وجہ نہیں کہ تم غصہ
خطبات ناصر جلد سوم ۳۶۰ خطبه جمعه ۲/اکتوبر ۱۹۷۰ء کرو بلکہ تم رحم کرو جس کے وہ مستحق ہیں ہمدردی کرو جس کے وہ مستحق ہیں ان کی اصلاح کی کوشش کرو جس کے وہ مستحق ہیں پاکستان کی فضا کو پاک کرنے کی کوشش کرو ہمارے ملک کی فضا اس بات کی مستحق ہے کیونکہ ہم اس میں رہ رہے ہیں جس فضا میں ایک احمدی سانس لے رہا ہو وہ پاک ہونی چاہیے.اس واسطے پاکستان کی فضا پاک ہونی چاہیے کیونکہ احمدی اس میں سانس لے رہے ہیں اور پاک کرنے کا آپ ” آلہ ہیں.کوشش کریں کہ کوئی تلخی باقی نہ رہے سب کے سب ایک دوسرے سے پیار کرنا سیکھیں اختلاف اپنی جگہ پر ہے سیاسی اختلاف اتنے اہم نہیں ہوتے کہ ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالے جائیں.دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو سمجھ عطا کرے امن اور محبت اور پیار اور آشتی کی فضا میں ہمارے انتخابات لڑے جائیں پھر عوام کی اکثریت جدھر ہو ان کی خواہشات کے مطابق اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہمارا دستور بھی بنے اور ہمارے قوانین بھی بنیں اور اس روح کے ساتھ اور اس محبت کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ ان قوانین کا اجراء ہو اور ایک پاک اور نہایت ہی حسین اور پیارا معاشرہ ہمارے ملک میں قائم ہو جائے.یہ ہم چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہیے یہ تو ہمارا کام ہے لیکن اس سے بہت اہم ذمہ داریاں ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہیں اسی سلسلہ کی ایک کڑی نصرت جہاں ریز روفنڈ ہے.آج میں اسی سلسلہ میں دو باتیں کہنا چاہتا ہوں.ایک یہ ہے کہ جس نے دوسری منزل بنانی ہو وہ پہلی منزل کو کمزور نہیں کیا کرتا جو کام ہمارے جاری ہیں ان میں کمزوری نہیں آنی چاہیے پختگی نہ صرف قائم رہنی چاہیے بلکہ اور زیادہ اس کو پختہ کرنا چاہیے جو کام ہمارے جاری ہیں جیسے صدرانجمن احمدیہ کے وہ کام جو مجلس شوری کے موقع پر پاس ہوئے ہیں پھر تحریک جدید کے کام ہیں پھر وقف جدید کے کام ہیں پھر فضلِ عمر فاؤنڈیشن کا کام ہے (اگر چہ اس نے مزید عطا یا وصول نہیں کرنے لیکن وہ کام ابھی جاری ہے ) الغرض جو کام جاری ہیں ان کے اندر کمزوری نہیں آنی چاہیے پہلے سے زیادہ ان میں تیزی پیدا ہونی چاہیے پہلے سے زیادہ پختگی ان میں پیدا ہونی چاہیے.یہ کام جو ہیں ان کا بہت بڑا حصہ اموال کا مطالبہ کرتا ہے اس کے لئے ہمارے لازمی چندے ہیں یا دوسرے چندے ہیں وہ بجٹ
خطبات ناصر جلد سوم ۳۶۱ خطبه جمعه ۲/اکتوبر ۱۹۷۰ء کے مطابق پورے ہونے چاہئیں ورنہ شوری کے فیصلے کے مطابق کام نہیں ہوسکتا.کیونکہ یہ اسی طرح ہے جس طرح ہم سانس لیتے ہیں اس کا ہمیں کوئی احساس بھی نہیں ہوتا یعنی جس کے لئے ہمیں کوئی کوفت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہم سانس لے رہے ہیں اور تازہ دم ہور ہے ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا پھر دل کی حرکت ہے یہ دوسری مثال ہے دل کی حرکت مسلسل جاری ہے لیکن اس کا بھی ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ دل دھڑک رہا ہے اور اس کے دھڑ کنے کے نتیجہ میں ہم زندہ رہ رہے ہیں.یہ جو ROUTINE ( روٹین ) کے کام ہیں یہ صحت مند طریقے سے پختگی کے ساتھ جاری رہنے چاہئیں ان چندوں کی طرف جماعت کو تو جہ دینی چاہیے فضل عمر فاؤنڈیشن کے عطایا کی وصولی کا کام تو اب نہیں ہو رہا جو انہوں نے کام اپنے ذمہ لئے ہیں ان کی طرف انہیں توجہ دینی چاہیے اور جماعت کو بھی یاد دہانی کراتے رہنا چاہیے یہ بھی بڑی قربانی جماعت کی طرف سے تھی.اب یہ نصرت جہاں ریز روفنڈ ہے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ خلافت احمد یہ پر باسٹھ سال کے قریب گزر چکے ہیں جماعت طاقت رکھتی ہے کہ اگر بشاشت سے ہمت کر کے کام کرے تو باسٹھ لاکھ روپیہ ایک لاکھ روپیہ فی سال کے حساب سے نصرت جہاں ریز روفنڈ میں جمع ہو جانا چاہیے.اس وقت تک جو وعدے ہوئے ہیں وہ پیچیش لاکھ سے اوپر پاکستان کے ہیں اور کوئی بارہ لاکھ کے قریب بیرون پاکستان کے ہیں.بیرون پاکستان کے لحاظ سے یہ نسبت بہت اچھی ہے باسٹھ لاکھ کی حد میں سے باقی رہ جاتے ہیں چوبیس پچیس لاکھ لیکن باہر کی جماعتوں میں بعض کا ابھی مجھے علم نہیں مثلاً میں نے کہا تھا امریکہ کی جماعت سے کہ تیس ہزار ڈالر دو اس فنڈ میں.اسی طرح غانا ہے لیگوس ہے.لیگوس کے تو غالباً بیس ہزار پاؤنڈ کے قریب یعنی ایک لاکھ ستر ہزار یا دولاکھ کے قریب وعدے ہو چکے ہیں.اسی طرح غانا کو میں نے کہا تھا کہ دولا کھ دو.ان کے انشاء اللہ تعالی زیادہ ہو جائیں گے پھر افریقہ کے دوسرے ممالک ہیں یا دنیا کے دوسرے ممالک ہیں.مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہیں لاکھ سے زائد یہ رقم بن جائے گی گو اس وقت تک چودہ لاکھ کے وعدے باہر سے آئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بیالیس لاکھ کے وعدے اور رقوم
خطبات ناصر جلد سوم ۳۶۲ خطبه جمعه ۱٫۲ کتوبر ۱۹۷۰ء اپنے وقت تک پاکستان سے وصول ہونے چاہئیں اس وقت جو مجھے دوستو د دوست چاہیے تھے جو پانچ پانچ ہزار روپیہ کے وعدے کرنے والے ہوں ان میں سے ابھی صرف ایک سو اکتالیس دوست آگے آئے ہیں دو سو جنہوں نے دو دو ہزار کا وعدہ کرنا تھا وہ قریباً پورے ہو چکے ہیں ان ١٩٦ کے ایک سو چھیانوے وعدے ہو چکے ہیں.میرا خیال ہے کہ اس مہینہ میں وہ پورے ہوجائیں گے لیکن میرے لئے یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور آپ کے لئے بھی خوشی کی بات ہونی چاہیے کہ ۵۰۰۰ میرا اندازہ تھا کہ جماعت میں سے صرف ایک ہزار آدمی شاید ایسا نکلے جو پانچ سوروپیہ فی کس کا وعدہ کرے اور ادا کرے اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے تمھیں سو کو یعنی اس سے اڑھائی گنا زیادہ کو توفیق دی ہے کہ وہ پانچ پانچ سو کا وعدہ کریں اور وہ وعدے پورے کر رہے ہیں انہوں نے اخلاص سے وعدے کیے ہیں ان اڑھائی ہزار میں سے (میرا خیال ہے ) کئی سو ایسے ہیں جو پانچ پانچ سو روپے سے بڑھ کر دو ہزار تک آجائیں گے یعنی وہ ( دو ہزار فی کس تک ) آسکتے ہیں جس دن بھی میں نے ان کو توجہ دلائی وہ انشاء اللہ تعالیٰ اس صف میں آجائیں گے اور پندرہ ہیں آدمی جن کو اللہ تعالیٰ نے طاقت دی ہوئی ہے تیس چالیس پچان ہزار دینے کی وہ بھی پانچ ہزار پر آ کر ٹھہر گئے ہیں.پتہ نہیں کیوں؟ شاید ان کو ذکر کے حکم کے مطابق یاددھانی نہیں کرائی گئی لیکن میں ان کو چھوڑتا ہوں چندہ دینے والے کی نسبت یہ فکر تو ہوتی ہے کہ وہ پیچھے نہ رہ جائے لیکن یہ مجھے فکر نہیں ہے کہ اگر پیسے ہی ہیں تو زیادہ کہاں سے آئیں گے.مجھے پیسے آپ نے نہیں دینے کیونکہ آپ نے مجھے خلیفہ نہیں بنایا اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور وہ مجھے پیسے دیتا ہے اپنے کاموں کے لئے اور وہ دے گا اس لئے اس کی تو مجھے کوئی فکر نہیں ہے.لیکن اس شخص کے متعلق فکر ہو جاتی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے زیادہ دینے کی توفیق دی تھی وہ پیچھے کیوں رہ رہا ہے اور تین سو ایسے ہیں جنہوں نے پانچ سو کا وعدہ کیا ہے اور وہ روزانہ بڑھتے جا رہے ہیں.آج کی رپورٹ میں بھی شاید دس پندرہ ہیں جو پانچ پانچ سو کا وعدہ کرنے والے ہیں.ابھی تو بعض پہلو ایسے ہیں جن کا میں نے اظہار نہیں کیا بعض جماعتیں اور بعض علاقے ایسے ہیں جن کو میں نے ابھی توجہ نہیں دلا کی مثلاً زمیندار ہیں جب ان کی خریف کی فصل ان کے گھروں
خطبات ناصر جلد سوم ۳۶۳ خطبه جمعه ۱٫۲ کتوبر ۱۹۷۰ء میں آجائے گی پھر ربیع کی فصل بھی آجائے گی تو ان میں سے بہت سارے (اس تحریک میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں گے ویسے بھی زمیندار میں کچھ ہچکچاہٹ ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ فصل جب تک گھر نہ آجائے اس کا اعتبار نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ ہزار ہا آزمائشیں رکھتا ہے میں بھی خاموش ہوں اور وہ بھی خاموش ہیں.میں خاموش بھی ہوں اور دعا بھی کر رہا ہوں.کاش! میرے زمیندار بھائی جو ہیں وہ خاموش بھی رہیں اور دعا بھی کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ان کی فصلوں میں برکت ڈالے پھر ان کو تو فیق بھی دے کہ اس کی راہ میں پھر قربانیاں دیں اور انشاء اللہ اب مجھے امید ہے کہ یہ تعداد بھی پانچ ہزار تک پہنچ جائے گی اس وقت تک کوئی ستائیس اٹھائیس سو تک ہے کوشش تو زیادہ کی ہے جو پانچ سو سے کم چندہ دینے والے ہیں وہ تو کسی شمار میں نہیں آتے ہمارے شمار میں نہیں آتے اللہ تعالیٰ کے شمار میں تو ہیں وہ بھی اگر ملائے جائیں تو چندہ دینے والے شاید پانچ ہزار تک پہنچ جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کو سامنے رکھ کر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ باسٹھ لاکھ (کم از کم ) روپیہ دینے والوں کی تعداد پانچ ہزار کی ہو جائے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس تعداد کو با برکت تعداد بنا دے.دراصل تعداد بھی کوئی چیز نہیں پیسہ بھی کوئی چیز نہیں اللہ کی برکت چاہیے پھر کام ہوتے ہیں.اسی طرح باہر کی جماعتوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں مثلاً ( حالیہ سفر افریقہ و یورپ میں ) میں لنڈن میں ٹھہرا تو انگلستان کی جماعتوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں وہاں ڈنمارک کے ایک دوست آئے ہوئے تھے.ڈنمارک بعد کا مشن ہے.یہ نوجوان مشن ہے میرا خیال ہے کہ یہ مشن اس چندہ میں یورپ میں سب سے آگے نکل گیا ہے.دو ہزار پاؤنڈ تک ان کا چندہ پہنچ گیا ہے.ان کی ( تعداد کے لحاظ سے ) تربیت کے لئے زمانہ لازم ہے تربیت زمانہ کا مطالبہ کرتی ہے زمانہ گذرنے پر آہستہ آہستہ تربیت پختہ ہوتی ہے یہی خدا کا اصول ہے ڈنمارک ایک نیا اور نو جوان مشن ہے وہ دوسروں سے آگے نکل گیا ہے اب انشاء اللہ تعالیٰ اُمید ہے کہ دوسرے ملکوں کو بھی غیرت آئے گی آج بھی مجھے خط ملا ہے کہ ہمیں پتہ نہیں کہ یہ تحریک ( نصرت جہاں ریزروفنڈ کی ) ہمارے ملک کے لئے بھی ہے یا نہیں خود تو ہم فیصلہ کر نہیں سکتے اس کے متعلق ہمیں بتایا جائے اب تو یہ تحریک عالمگیر بن گئی ہے.
خطبات ناصر جلد سوم ۳۶۴ خطبه جمعه ۱٫۲ کتوبر ۱۹۷۰ء ایسے ممالک سے مجھے امید ہے کہ باہر والے بیس لاکھ روپیہ ادا کر دیں گے ان کے متعلق تو مجھے امید ہے لیکن پاکستان کے متعلق مجھے یقین ہے کہ یہ پینتالیس لاکھ سے زیادہ رقم دے سکتے ہیں اگر نہ دیں تو ان کی سستی ہوگی اللہ تعالیٰ کے فضل کی کمی اس کا نتیجہ نہ سمجھی جائے گی تو سُستیاں دور کر و باسٹھ لاکھ (کم از کم ) دے دینا چاہیے باقی ہمارا قدم تو آگے ہے اور اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ جو کچھ اس نے قبول کر لیا ہے اگر ہم زندگی بھر الحمدللہ پڑھتے رہیں تو اس کی قبولیت کا شکر ادا نہیں کر سکتے ایبٹ آباد میں ہمارے بچوں کو پتہ لگا کہ ایک دوست کے پاس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ۱۹۵۵ء کی تقریر ریکارڈ کی ہوئی ہے وہ اسے لے آئے میں نے بھی سنی ساری رات سوچتا رہا اور الحمدللہ بھی پڑھتا رہا خدا کی شان دیکھو کہ ۱۹۵۵ء میں ایک غیر ملکی مہم کے لئے (باہر کسی ملک میں کوئی کام تھا) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ساری جماعت سے پینتیس ہزار روپیہ جمع کرنے کی تحریک کی اور یہ کہا کہ اگر جماعت پینتیس ہزار روپیہ مجھے دے دے گی تو یہ کام ہو جائے گا اب پاکستان میں بھی بہت سارے دوست ہیں انگلستان کے دو دوستوں کے چندے اتنے ہیں کہ جن کی مقدار پینتالیس ہزار بنتی ہے اور وہ دو دوست ایسے ہیں جو دے چکے ہیں میں ایسے دو کے متعلق بتا رہا ہوں ان کا نام نہیں لے رہا کہ جنہوں نے نقد دے دیا ایک نے پورے کا پورا اور ایک نے اپنے وعدہ کا پانچواں حصہ دے دیا اور یہ رقم بنتی ہے (ایک کا پانچواں حصہ اور دوسرے کا پورا ادا کر دینے کے بعد ) پینتالیس ہزار حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس وقت ساری جماعت سے اپیل کی تھی کہ پینتیس ہزار دو تو یہ کام ہو جائے گا.یہ ۱۹۵۵ء کی بات ہے بڑی دور کی بات نہیں اللہ تعالیٰ نے پندرہ سال کے اندراندرساری جماعت پر اتنا فضل کیا ہے کہ ان کی دولت کو کہیں سے کہیں تک بڑھادیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ ان کے اموال میں برکت دوں گا ان کے اموال میں بڑی نمایاں برکت ہمیں نظر آئی مثال کے طور پر یہ جو نصرت جہاں ریز روفنڈ کا چندہ ہے اس میں ایک آدمی تین گنے کا وعدہ کر کے بیس ہزار میں سے نقد بھی ادا کر دیتا ہے اور اخلاص میں بھی برکت پیدا ہوئی.ہمارے ملک کے لحاظ سے ہمارا ملک ایک غریب ملک ہے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۶۵ خطبه جمعه ۲/اکتوبر ۱۹۷۰ء قریباً تین ہزار کا پانچ پانچ سوروپیہ کا وعدہ کرنا اور اڑھائی ہزار کا دودوسور و پیہ نقد دے دینا بڑی چیز ہے دنیا تو خدا کے نام پر ایک دھیلہ بھی نہیں دیتی.اصل میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جو اسلام کی خدمت ہورہی ہے وہ صرف احمدی کر رہے ہیں لیکن جماعت کے اندر ایک انقلاب عظیم ( میں اس کے نتائج نہیں بتا رہا) پیدا ہو گیا ہے ان کے اخلاص میں برکت ، مال میں برکت اس کے نتائج میں برکت پیدا کر دی گئی.کس کس نعمت کا تم شکر ادا کرو گے ایک ہی فضل ایسا ہوتا ہے کہ اگر انسان سچے طور پر سوچے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ خدا کے ایک فضل کے بعد اگر میں ساری عمر الحمد للہ پڑھتا رہوں تو شکر ادا نہیں کر سکتا.یہاں تو فضل اتنے ہیں کہ گنے ہی نہیں جاسکتے جو خدا کو نہیں پہچانتے ان پر جو اللہ تعالیٰ فضل نازل کرتا ہے وہ بھی گنے نہیں جاسکتے تو جو اللہ تعالیٰ کو پہچانتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے جماعت میں داخل ہونے کی توفیق دی ہے ان پر جو فضل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نہ پہچاننے والوں کے مقابلہ میں اتنے ہیں کہ وہ گنے نہیں جاسکتے ہمارا تو دماغ چکرا جاتا ہے جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کتنے فضل ہیں انسانی ذہن کو یہ طاقت ہی نہیں دی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا احاطہ کر سکے.یہ سچائی ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا تو جتنا زیادہ سے زیادہ طاقت میں ہے خدا کی حمد کرنا اس کا شکر کرنا، اتنی حمد اور شکر کر دو پھر عاجزی کے ساتھ اپنے ربّ کریم سے کہو کہ تو نے جتنی طاقت ہمیں دی اس کے مطابق جتنا ہم شکر کر چکے وہ ہم تیرے حضور پیش کرتے ہیں تو نے وعدہ کیا ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں اور دوں گا اگر ہم میں کمیاں رہ گئیں ہیں کیونکہ ہم تیرے عاجز بندے ہیں تو تو ہمیں معاف کر اور تو ہمارے تھوڑے شکر کو بہت سمجھ اور ہمارے دماغ کو صحتمند کر کیونکہ دماغی بیماریاں بھی ہوتی ہیں اور ہمارے اخلاص کی کمی کو نظر انداز کر دےاے ہمارے خدا! ایسا سمجھ لے اپنے فضل سے کہ واقعہ میں اپنی طاقتوں کو مد نظر رکھ کر جتنا تیرا شکر ادا کرنا چاہیے تھا اتنا ہم نے شکر ادا کر دیا اور اس کے مطابق ہم سے سلوک کر اور اپنے پیار میں اس کے مطابق زیادتی کرتا چلا جا تو یہ دعائیں کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو.نومبر تک چالیس فیصدی کے لحاظ سے موجودہ شکل میں دس لاکھ روپیہ نقد ہو نا چاہیے اس وقت پانچ لاکھ سے او پر ہے لیکن چونکہ کئی دوستوں نے اکٹھی رقم دے دی ہے چالیسواں حصہ نہیں دیا اس واسطے عملاً
خطبات ناصر جلد سوم ۳۶۶ خطبه جمعه ۱٫۲ کتوبر ۱۹۷۰ء بارہ لاکھ ہونا چاہیے.بعض زمینداروں نے تو اپنے وعدے لکھوا دیئے ہیں اور بعض مجھے یقین ہے کہ ہچکچائے اور اچھا کیا کہ انہوں نے ابھی وعدے نہیں لکھوائے ہوسکتا ہے کہ وہ پانچ سو نقد ادا کر دیں پھر اگلی فصل کا انتظار کریں پھر اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے تو پانچ صدا دا کر دیں.بہر حال نومبر سے پہلے بارہ لاکھ کے قریب رقم آنی چاہیے وہ آپ یادرکھیں خدا سے آپ نے وعدہ کیا ہے اس کو پورا کریں اور جو یہ منصوبہ ہے نصرت جہاں ریز روفنڈ کا یہ تو بنیاد ہے نا اس کے اوپر عمارت بنی ہے وہ اور چیز ہے.اس کے اوپر عمارت بنی ہے تیس چالیس ہسپتالوں کی اور اس کے او پر عمارت بنی ہے سنتر، انٹی، نو نے تو نئے ہائی سکولوں کی اور باہر کے ملکوں کی رقوم کو ابھی میں نے شامل نہیں کیا.بہت سے عیسائی پیراماؤنٹ چیف ایسے ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ زمین بھی ہم مفت دیں گے اور تعمیر بھی ہم مفت کر کے دیں گے (اور وہ ہمارے نام رجسٹری بھی کروا دیتے ہیں ).آپ یہاں ڈاکٹر بھیجیں کیونکہ یہاں ڈاکٹروں کی بڑی ضرورت ہے.ان کی قیمتوں کا تو اندازہ نہیں ہمارے ملک کے لحاظ سے لاکھ لاکھ روپے کی وہ زمین اور عمارت ہے وہ ہم نے شمار نہیں کی ایسے ایسے وعدے ہیں جو انہوں نے کئے ہیں.اللہ تعالیٰ جب قبول کرتا ہے اپنے بندہ کی عاجزانہ پیش کش کو تو اس کے دو نتیجے برآمد ہوتے ہیں ایک یہ کہ اس میں برکت پڑتی ہے اور دوسرے یہ کہ حاسد پیدا ہو جاتے ہیں.حاسد بھی پیدا ہور ہے ہیں اور عیسائی ، بد مذہب ، مشرک جو ہیں وہ مائل بھی ہورہے ہیں تو قبولیت کے دونوں نتیجے جو نکلنے چاہئیں وہ نکل رہے ہیں.لیکن لا فَخْرَ، ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ ہمیں کوئی فخر نہیں ہے اپنی کوئی ذاتی خوبی نہیں ہے نہ مجھے میں ہے نہ آپ میں ہے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے تمام حسن واحسان کا وہی سر چشمہ ہے اس کا انعکاس کہیں زیادہ چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتا ہے کہیں ذرا مدہم شکل میں انعکاس ہو جاتا ہے سب اسی کے سائے ہیں سبھی اس کے انعکاس ہیں اسی کی روشنی کی چمکا رہے تو تکبر اور غرور اور فخر اور ریا جیسے شیطانی وسوسے دل میں نہیں پیدا ہونے چاہئیں.اللہ فضل کر رہا ہے ہم اس کے عاجز بندے ہیں وہ فضل کرتا چلا جائے گا کیونکہ اس نے خود یہ کہا ہے کہ میں اس وقت تک جماعت احمد یہ پر فضل کرتا چلا جاؤں گا جب تک کہ تمام دنیا کے عیسائی تمام دنیا کے دھر یہ اور تمام دنیا کے بد مذہب جو
خطبات ناصر جلد سوم ۳۶۷ خطبه جمعه ۱٫۲ کتوبر ۱۹۷۰ء ہیں وہ اسلام اور احمدیت میں داخل نہیں ہو جائیں گے اور جو باہر رہیں گے ان کی حیثیت چوہڑوں چماروں کی طرح بن جائے گی یہ تو ایسا فیصلہ ہے جو ہو کر رہے گا دنیا دنیوی لحاظ سے اپنے آپ کو بڑا طاقتور سمجھتی ہے لیکن ان ساری طاقتوں کو اور ان طاقتوں کو جو ابھی تک انسان کے علم میں نہیں آئیں.اللہ تعالیٰ نے ایک حکم ”کن“ کے ساتھ پیدا کر دیا.اسی ایک حکم کے ساتھ جب وہ چاہے گا اسے مٹادے گا تو دنیا پتہ نہیں کس چیز پر فخر کرنے لگ جاتی ہے پس آپ کو کہیں شیطان ورغلانہ دے.آپ کے دل میں وسوسہ نہ پیدا ہو جماعت بڑی قربانی کر رہی ہے.لیکن صرف اس وجہ سے کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہے کہ جماعت قربانی دے.اگر اس کا فضل شامل حال نہ رہے تو آپ ایک دھیلے کی قربانی نہیں کر سکتے اور فضل کے بغیر جس دھیلے کی آپ قربانی کریں گے اللہ تعالیٰ اسے ہاتھ سے پکڑ کر تمہارے منہ پر مارے گا کہ لے جاؤا سے مجھے غیر مخلص پیسہ نہیں چاہیے اپنی فکر کرتے رہو اور خدا کے دامن سے چمٹے رہو دنیا کی کوئی طاقت آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور شیطان کے سب حملے خواہ کسی شکل میں کسی طاقت کے ساتھ ہوں وہ ناکام ہوکر واپس چلے جائیں گے کیونکہ آپ کو شیطان اپنے پیدا کرنے والے رب کی گود میں پائے گا اور وہ اس سے خوف کھائے گا پس دعائیں کرو اللہ کے دامن کو نہ چھوڑو.اہلِ دنیا سے پیار کرو ان سے نفرت نہ کرو کسی سے دشمنی نہ کرو کسی کو دکھ نہ پہنچاؤ اور وہ جو تمہیں دکھ پہنچانے والے ہیں اور تمہارے ساتھ دشمنی کرنے والے ہیں ان سے فکر مند بھی نہ ہو.جو جائز تدبیر ہے وہ بہر حال ہم نے کرنی ہے کیونکہ خدا کا یہی حکم ہے لیکن اس جائز تدبیر کے بعد آپ کے لئے خائف ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ خدا کہتا ہے کہ یہ نا کام ہوں گے.جس کے کانوں میں خدا تعالی کے میٹھے بول پڑ رہے ہوں اسے دنیا کی کس طاقت سے ڈر ہے خدا کرے کہ آپ کو سنے کی بھی توفیق عطا کرے.(اللَّهُمَّ آمین) از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )
خطبات ناصر جلد سوم ۳۶۹ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۰ء بعثت مسیح موعود کا مقصد حقیقی تو حید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا قیام ہے خطبه جمعه فرموده ۹ /اکتوبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.”اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجز اور ناکارہ پر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین! تو مجھ سے راضی ہو اور میری خطیئات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور و رحیم ہے اور مجھ سے وہ کام کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے.مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی ڈوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر ایک قوت اور جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل محبین میں مجھے اُٹھا.اے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک....عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب.....اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور....اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کے...حمایت
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۹/اکتوبر ۱۹۷۰ء میں رکھ کر دین و دنیا میں آپ ان کا متکفل....اور سب کو اپنے دار الرضاء میں پہونچا اور اپنے....اور اس کے آل و اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر.،، آمین یا رب العالمین..پھر آپ فرماتے ہیں :.”اے میرے قادر خدا! میری عاجزانہ دعائیں سن لے اور اس قوم کے کان اور دل کھول دے اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کی پرستش دنیا سے اٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے اور زمین تیرے راست باز اور موحد بندوں سے ایسی بھر جائے جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے اور تیرے رسول کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے.آمین اے میرے قادر خدا! مجھے یہ تبدیلی دنیا میں دکھا اور میری دعائیں قبول کر جو ہر ایک طاقت اور قوت تجھ کو ہے.اے قادر خدا! ایسا ہی کر.آمین ثم آمین ان اقتباسات میں جو ابھی میں نے پڑھ کر سنائے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آپ کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ اسلام کی حجت تمام مخالفین اسلام پر پوری ہو اور اس کے نتیجہ میں وہ اسلام کے حسن اور خوبیوں کو جاننے اور پہچاننے لگیں.اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی توحید انسانوں کے دل میں پیدا ہو جائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت اور آپ کے حسن و احسان کے جلوے بنی نوع کے دل منو ر کریں اور پھر آپ نے اپنے متبعین کے لئے دعا فرمائی ہے جو اس کام میں آپ مددگار اور معاون بنیں.محبتِ اسلام بنی نوع انسان پر پوری کرنا آسان کام نہیں ہے.دنیا اسلام کے حسن اور اسلام کے احسان سے واقف نہیں.لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید پہچانتے ہی نہیں یا اس کی معرفت ہی نہیں رکھتے اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں یا اس کو بے بس اور کمزور سمجھتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے اس خط میں جہاں نقطے دیئے ہوئے ہیں اس جگہ سے باعث دیرینہ ہونے کے پھٹ کر ضائع ہو گیا ہے.لیکن یہ ضائع شدہ چند الفاظ ہیں زیادہ نہیں.مضمون کا ربط معلوم ہوسکتا ہے.فقط بقلم منظورمحمد ولدحضرت منشی صاحب
خطبات ناصر جلد سوم خطبه جمعه ۹/اکتوبر ۱۹۷۰ء جیسی عظیم ہستی سے انہیں پیار نہیں.دنیا اللہ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہے ہزار بدظنیاں ہیں، ہزار جہالتیں ہیں، جو غلط خیالات اور غلط تصورات دل میں جھاتی ہیں تعصبات ہیں، یہ احساس ہے کہ انہیں سننے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے اسلام کو کمزور کر نے اور اس کے حسن کو چھپانے کے لئے بے شمار منصوبے بنائے جاتے ہیں تمام دنیا کی طاقتیں اسلام کے مقابلہ پر اکٹھی ہوگئی ہیں.ہمارے دل میں بنی نوع کی محبت ہے اس لئے ان کو جہنم کی آگ سے بچانا بڑا اہم اور بڑا ضروری ہے.ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم آپ کی بعثت کی غرض کو پورا کرنے کے لئے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرنے والے ہوں.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں خبر دار کیا ہے کہ ہم عاجز اور کمزور ہیں.ہمیں اپنی ذات پر یا اپنی طاقتوں پر یا اپنے علم پر یا اپنی فراست پر یا اپنے جتنے پر بھروسہ نہیں رکھنا چاہیے.کیونکہ ظاہری لحاظ سے دنیا کی دولت کے مقابلہ میں ہمارے پاس دولت تو یوں کہنا چاہیے ہے ہی نہیں اور دنیا کی طاقتوں کے مقابلہ میں ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں ہے اور دنیا کی تدبیروں کے مقابلہ میں ہماری تدبیر نہایت ہی عاجز اور کمزور ہے اور جہاں تک ہماری ذات اور ہمارے نفس کا تعلق ہے ہمیں اس احساس کو اپنے دلوں میں زندہ اور قائم رکھنا چاہیے کہ ہم لاشے محض ہیں اور انتہائی طور پر عاجز ہیں.اگر وہ ذمہ داری جو ہم پر ڈالی گئی ہے اس کا کروڑواں حصہ بھی ہم پر ذمہ داری ہوتی تب بھی ممکن نہیں تھا کہ ہم اس ذمہ داری کو اپنی طاقت سے نبھا سکتے لیکن یہاں تو اس سے کہیں زیادہ ہم پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے یہ کوئی سہل اور آسان کام نہیں کہ تمام بنی نوع انسان کے دلوں کو خدا اور اس کے رسول کی محبت سے بھر دیا جائے اور اس طرح پر اسلام کی محنت کو ان پر پورا کر دیا جائے.تیسری بات جو یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتائی ہے یہ ہے کہ جہاں ہمارے دلوں میں عاجزی اور بے کسی اور بے مائیگی کا احساس ہو اور شدت کے ساتھ زندہ احساس ہو وہاں ہمیں اس بات پر پختہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک اور سر چشمہ ہے اور کوئی چیز اس کے سہارے کے بغیر قائم نہیں رکھی جاسکتی اور نہ اس کی مدد اور نصرت
خطبات ناصر جلد سوم ۳۷۲ خطبہ جمعہ ۹/اکتوبر ۱۹۷۰ء کے بغیر حاصل کی جاسکتی ہے کمزور تو ہیں ہم لیکن اگر ہمارا زندہ تعلق اپنے رب کریم سے پیدا ہو جائے تو ہم محض اس کی مدد اور نصرت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل ہو سکتے ہیں.یہاں ایک اور بات بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے حصول کے لئے حقیقی دعا کی ضرورت ہے.ہم دعا کے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کو حاصل نہیں کر سکتے.اس لئے جو دعا نہیں کرتا وہ اپنے بے نیاز اور غنی خدا سے دور رہتا ہے جو اس کی پرواہ نہیں کرتا اللہ بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا دعا حقیقی ہونی چاہیے.دعا اپنی تمام شرائط کے ساتھ ہونی چاہیے لیکن دعا ہونی چاہیے اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کو حاصل نہیں کیا جاسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کے مضمون پر بڑی تفصیلی اور گہری بحث کی ہے.ایک فلسفی دماغ کو بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے اور ایک عام انسان کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَو لَا دُعَاءُ كُمُ (الفرقان :۷۸) کہ جب تک تم دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو پختہ نہیں کرو گے اور اس کی قدرت اور طاقت کو جذب نہیں کرو گے اس وقت تک اللہ تمہاری مدد نہیں کرے گا اور جب اللہ تمہاری مدد نہیں کرے گا تو تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مختصر سی دعا میں ہم پر یہ واضح کیا ہے کہ اگر ہم اپنے مقصد کو پہچانتے ہیں جو یہ ہے کہ حجت اسلام ساری دنیا پر پوری ہو جائے.اگر ہم اپنے نفس کی عاجزی اور بے کسی کا احساس رکھتے ہیں ، اگر ہم اپنے رب کی کامل طور پر معرفت رکھتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ جوتی کا تسمہ ہو یا تمام دنیا میں حجت اسلام کو پورا کرنا ہو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا.اس لئے ہر دم اور ہر آن اپنی بقا اور اپنی جد و جہد میں کامیابی اور مثمر ثمرات ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کی قوت اور اس کی طاقت اور اس کی مدد و نصرت کی ضرورت ہے اس لئے آج میں پھر اپنے بھائیوں اور بہنوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ دعاؤں کی طرف بہت متوجہ ہوں اور عاجزانہ طور پر اور عاجزی کے اس احساس کو شدت کے ساتھ اپنے دل میں پیدا کر کے اور سوز و گداز کے ساتھ اور ایک تڑپ کے ساتھ محبت ذاتیہ الہیہ کی آگ کے شعلوں میں داخل ہو کر وہ اپنے رب کے حضور پہنچنے کی کوشش کریں
خطبات ناصر جلد سوم ۳۷۳ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۰ء تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیار کے پانی سے اس تپش محبت کو ٹھنڈا کر دے اور سرور محبت عطا فرما دے.ہمارے دلوں ، دماغوں اور روح میں سرور پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ وہ مقصد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا ہے اور جس کی ذمہ داری آج ہمارے کندھوں پر ہے ہم اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جا ئیں.دنیا ہمیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی.ہم سے مخالفت سے پیش آتی ہے ہمیں اس کی پرواہ نہیں جس چیز کی ہمیں پرواہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت کو پائیں.دنیا ہمیں پہچانتی نہیں اور چونکہ وہ ہمیں پہچانتی نہیں اس لئے ہزار قسم کے جھوٹ ہمارے خلاف بولے جار ہے ہیں ہر شخص اس بات پر فخر محسوس کرتا ہے کہ وہ ہمارے خلاف زبان دراز کرے اور ہمارے خلاف جتنا چا ہے جھوٹ بولے اور دنیا کی سب طاقتیں ہمارے خلاف مجتمع ہو گئی ہیں اور اکٹھی ہو گئی ہیں.وہ چاہتی ہیں کہ اسلام غالب نہ ہو.لیکن خدا چاہتا ہے کہ اسلام غالب ہو یہ عیسائی اور یہ مشرک اور یہ دہر یہ اپنے ان منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے کہ اسلام کو مغلوب کر دیں اور مغلوب رکھیں.اسلام ان پر ضرور غالب آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہی فیصلہ کیا ہے لیکن زمین پر اس نے ہم پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ہم دعا اور تدبیر کو کمال تک پہنچا کر خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کو اپنے نفسوں میں اور اپنی زندگیوں میں پورا کرنے کی کوشش کریں.ہم تو صرف اس حد تک کر سکتے ہیں جس حد تک اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذرائع اور اسباب عطا کئے ہیں ہم اس سے زیادہ نہیں کر سکتے لیکن دعا بھی ایک تدبیر ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعا کو اس کے کمال تک پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہر ایک شخص کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ اس کے حضور جب عاجزانہ جھکے تو گریہ وزاری اور سوز و گداز کو انتہا تک پہنچا کر ایک ایسی آگ اپنے گرد جلا دے اور اس آگ کو اتنا تیز کر دے کہ اس کا نفس باقی نہ رہے اور اپنے اوپر ایک موت وارد کر دے تا کہ اللہ تعالیٰ سے ایک نئی زندگی حاصل کرنے والا ہو اور اس نئی زندگی پانے کے بعد اسے اس رنگ میں اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت ملے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض پوری ہو جائے پس دعاؤں کی طرف بہت ہی توجہ دیں اور ہماری حقیقی دعا یہی ہے کہ اے خدا! جیسا کہ تو نے چاہا ہے ہمیں توفیق دے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۷۴ خطبہ جمعہ ۹/اکتوبر ۱۹۷۰ء کہ ہم تیری مدد اور نصرت کے ساتھ حجت اسلام ساری دنیا پر پوری کرنے والے ہوں اور اسلام کا حسین چہرہ ہمارے وجودوں ، ہمارے افعال و اقوال سے نظر آجائے وہ حقیقی توحید کی معرفت حاصل کریں اور سچا عشق اور محبت تیرے ساتھ پیدا ہو جائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو، آپ کے جلال کو اور آپ کی صداقت کو اور آپ کے حسن و احسان کو پہچانے لگیں اور اس پہچان اور معرفت کے نتیجہ میں ان کے دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے معمور ہو جا ئیں.دعا ہماری زندگی کا ، ہماری جدوجہد کا اور ہماری کوشش کا سہارا ہے.دعا کو اپنے کمال تک پہنچاؤ اپنے رب پر پورا بھروسہ رکھو کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں ہے.اگر اس کی رضا کو پالو گے، اگر اس کی خوشنودی اور محبت کو حاصل کر لو گے تو دنیا جو چاہے کر لے دنیا کی آج کی طاقت اور کل کی طاقت مل کر بھی تمہیں غلبہ اسلام سے روک نہیں سکتی اور تمہیں نا کام نہیں رکھ سکتی اپنی انتہائی قربانیاں اپنی انتہائی عاجزی کے ساتھ اپنے رب کریم کے حضور پیش کرو اور دعائیں کرو کہ وہ انہیں قبول کرے اور اپنی مدد و نصرت کا وارث بنائے تا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض پوری ہو.(اللَّهُمَّ آمین) (روز نامه الفضل ربوه ۱۱ نومبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۳ تا ۵)
خطبات ناصر جلد سوم ۳۷۵ خطبہ جمعہ ۱۶ اکتوبر ۱۹۷۰ء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے چار بنیادی تقاضے خطبه جمعه فرموده ۱۶ /اکتوبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ پڑھی.يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَا مِنُوا خَيْرًا لَكُمْ - (النساء : ۱۷۱) پھر فرمایا.ایک سلسلہ خطبات کا میں ” اپنے ایمانوں کو مضبوط اور مستحکم کرو“ کے مضمون پر دے رہا ہوں.قبل اس کے کہ میں آج کے خطبہ کا مضمون بیان کروں میں دوستوں سے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں.پچھلی گرمیوں میں کچھ بے احتیاطی ہو گئی اور میرے خون میں شکر معمول سے زیادہ ہو گئی.پہلے قریباً دو سال ہوئے اس سے بھی زیادہ ہو گئی تھی.اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے بغیر کسی علاج کے اس وقت صحت دے دی اور خون کی شکر معمول پر آگئی.دوست دعا کریں کہ اب بھی اللہ تعالیٰ اس عاجز بندے پر رحم فرمائے اور صحت عطا کرے حقیقی شافی وہی ہے.ایمان کے مختلف تقاضے ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے کیا ہے بعض تقاضوں کے متعلق میں اپنے پچھلے خطبات میں مختصراً بتا چکا ہوں آج ایمان کے جس تقاضے کے متعلق میں بات کرنا چاہتا ہوں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے.قرآن کریم کا اگر
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۱۶/اکتوبر ۱۹۷۰ء آپ غور اور تدبر سے مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ مضمون بڑی وسعت اور بڑی وضاحت اور بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب ایمان لانے کو کہا جاتا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہوتی ہے.محض یہ کافی نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں یا محض یہ کہ دینا کافی نہیں کہ ہم آخرت پر ایمان لائے محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور یہ سمجھ لینا کہ ہم اس طرح اپنی ذمہ داری کو پورا کر چکے ہیں درست نہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اللہ کے نزدیک کب صحیح اور درست ہوتا ہے؟ ابھی میں نے بتایا ہے میں اس تفصیل میں تو نہیں جا سکتا جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ کوئی انسان بھی اس کی کامل تفصیل میں نہیں جا سکتا کیونکہ ہر صدی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و احسان کے نئے جلوے بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرتی ہے بہت کچھ ہمارے بزرگوں نے کہا مختصر سا میں جلسہ سالانہ کی تقریر میں بھی دوسری تقاریر میں بھی اور خطبات میں بھی کہہ چکا ہوں.اس وقت میں چار باتیں یا یوں کہو کہ ایمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چار تقاضوں کے متعلق بیان کروں گا.قرآن کریم نے اصولی طور پر تو ہمیں یہ کہا ہے کہ کامل حق کے ساتھ ہمارے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہاری طرف مبعوث ہو چکے فَا مِنُوا پس آپ پر ایمان لا وَخَيْرا لکھ دین اور دنیا کی بھلائی تم اس میں پاؤ گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو اس مضمون کی یاد دھانی کراتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے الہام کیا :.،، "كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “ یعنی ہر خیر اور برکت کا سرچشمہ حقیقی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.آپ کے علاوہ کہیں بھی دین یا دنیا کی حقیقی بھلائی انسان حاصل نہیں کر سکتا تو جہاں بہت سی آیات میں آپ پر ایمان لانے کا ذکر ہے میں نے ان میں سے یہ آیت اس لئے منتخب کی ہے کہ اس میں یہ اصول بتایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ تا تم ہر قسم کی خیر اور بھلائی پاؤ.پس قرآن کریم اور احادیث پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ پر ایمان لانے کا ایک تقاضا یہ ہے کہ آپ کو خَاتَمَ النَّبِيِّينَ “ سمجھا جائے اور تمام روحانی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۷۷ خطبہ جمعہ ۱۶ اکتوبر ۱۹۷۰ء برکتوں کا سر چشمہ آپ کے وجود کو سمجھا جائے.اسی لئے احادیث میں بڑی وضاحت سے یہ بیان ہوا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ حضرت آدم یا حضرت نوح یا حضرت ابراہیم یا حضرت موسیٰ یا حضرت عیسی علیہم السلام نے آسمانی برکات کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض روحانی کے بغیر حاصل کیا اور یہ کہ دیگر انبیاء جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آئے ان کا رشتہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں تھا آپ نے فرمایا کہ میں آدم سے بھی پہلے نبی اور خَاتَمَ النَّبِيِّينَ تھا اور اس طرح ہمیں یہ سمجھایا کہ حضرت آدم کو بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احتیاج تھی حضرت نوح حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ حضرت عیسی علیہم السلام اور وہ جو کہتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء دنیا کی طرف مختلف اوقات میں اور مختلف قوموں میں مبعوث ہوئے ان تمام انبیاء کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض روحانی کی احتیاج تھی.آپ کے بغیر وہ روحانی درجات کو حاصل نہیں کر سکتے تھے اور آپ کی جسمانی بعثت کے بعد امت محمدیہ میں اولیاء اللہ، اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب جو اس کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ جس کثرت سے ہم سمندر کا پانی بھی ہم نہیں دیکھتے ، وہ بھی ہر برکت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل کرنے والے تھے اور ان کے وجود کا ہر ذرہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا تھا نہ آپ سے پہلے اللہ کے ایسے محبوب گزرے نہ آپؐ کے بعد اللہ تعالیٰ کے ایسے محبوب ہوئے جنہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا افاضہ روحانی کی احتیاج نہ ہو ، ہر ایک محتاج تھا آپ سے برکات کے حصول کا ، ہر ایک نے اپنے اپنے دائرہ استعداد کے اندرجتنا اس کا ظرف تھا ، جتنا اس کا پیالہ تھا اتنا اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات سے بھر لیا اور خدا کا پیارا ہو گیا پس اس معنی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی تاکید کی گئی ہے ہر شخص کے دل میں یہ یقین ہونا چاہیے کہ کوئی روحانی برکت یا حقیقی جسمانی فیض حاصل نہیں ہوسکتا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق نہ ہو باقی ظاہر میں دنیوی لحاظ سے بعض کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن یہ عارضی خوشیاں ان مسرتوں کے مقابلہ میں نہیں رکھی جاسکتیں جو ایک عاجز انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضۂ روحانی سے اپنے رب سے حاصل کرتا ہے.پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا
خطبات ناصر جلد سوم ۳۷۸ خطبہ جمعہ ۱۶/اکتوبر ۱۹۷۰ء ایک تقاضا یہ ہے کہ آپ کو اس معنی میں خَاتَمَ النَّبِيِّينَ مانا جائے کہ کوئی روحانی برکت اور آسمانی فیض آپ کی وساطت اور آپ کے طفیل کے بغیر انسان حاصل نہیں کر سکتا.دوسری بنیادی چیز اور اہم تقاضا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا کی حقیقی زندگی آپ کے بغیر انسان حاصل نہیں کر سکتا.قران کریم نے بڑی وضاحت سے یہ دعویٰ کیا ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ انفال میں فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُم (الانفال: ۲۵) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت حیات بخش ہے ، اس آیت کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ آپ کی اطاعت کرنا آپ کی بات کو ماننا، آپ کے کہنے پر چلنا حیات بخش ہے یعنی اس سے زندگی حاصل ہوتی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ جو شخص آپ کی بات قبول نہیں کرتا اور آپ کی اطاعت کا جوکا اپنی گردن پر رکھنے کے لئے تیار نہیں وہ حقیقی حیات اور سچی زندگی سے محروم ہے.پس معلوم ہوا کہ جولوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانتے نہیں ان میں جو زندگی ہمیں نظر آ رہی ہے وہ اس زندگی کے مانند اور مشابہ ہے جو چھپکلی کی دم میں ہوتی ہے جب دم اپنے جسم سے کٹ جاتی ہے تو کئی منٹ تک وہ ہلتی رہتی ہے اس میں حرکت ہے اور اس میں بظاہر زندگی کے آثار ہیں لیکن حقیقی زندگی نہیں ہے اس کو ایک بچہ بھی سمجھتا ہے کہ جب دُم کٹ گئی تو اس دم کی کیا زندگی ہے.بعض دفعہ پندرہ پندرہ منٹ تک چھپکلی کی دم اپنے جسم سے کٹنے کے بعد زندگی کے مشابہ ایک چیز ظاہر کرتی ہے اور انسان اسے بخوبی سمجھتا ہے جو زندگی ابو جہل کی ہمیں نظر آتی ہے یا جوزندگی فرعون کی ہمیں نظر آتی ہے یا جو زندگی دوسرے ان لوگوں کی ہمیں نظر آتی ہے جنہوں نے خدا تعالی کی آواز کو ٹھکراتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے مقابلہ میں گزاری ہے وہ چھپکلی کی دم کی زندگی ہے اس سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی اس لئے کہ زندگی جن چیزوں کا مجموعہ ہے وہ اس زندگی میں ہمیں نظر نہیں آتی لیکن یہ خود ایک مستقل اور لمبا مضمون ہے میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جاسکتا.اصولاً میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حقیقی زندگی پانے کے لئے اور ابدی حیات حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہنے والے ہوں.
خطبات ناصر جلد سوم ۳۷۹ خطبه جمعه ۱۶ اکتوبر ۱۹۷۰ء تیسرا تقاضا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا قرآن کریم نے یہ بیان کیا ہے که لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كثيرا.(الاحزاب : ۲۲) اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ انسان کو صحیح الفطرت پیدا کیا گیا ہے بہت سے انسان جن کی جسمانی فطرت مسخ ہو چکی ہو ان کے دل میں فطری اور طبعی طور پر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ان سے تعلق پیدا ہو جائے اور اس زندگی کے بعد جو دوسری زندگی انسان کو ملنے والی ہے یعنی اخروی زندگی اس کی خوشحال زندگی بنے اور اس کی طبیعت اندر سے یہ بتا رہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے اور آخرت کی نعماء کا وارث بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا ایسے لوگوں کی فطرتی آواز کو قبول کرنے کے لئے اور ان کے مطالبہ کو پورا کرنے کے لئے ہم دنیا میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر خدا کی رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہو جو تمہاری فطرت کی آواز ہے، اگر تم اخروی زندگی کی نعماء پانا چاہتے ہو ، اگر تم خدا تعالیٰ کی صفات حسنہ کا مظہر بننا چاہتے ہو تو تمہارے لئے صرف ایک راستہ کھلا ہے اور وہ راستہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے پس تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو ، آپ کے اسوہ حسنہ کو اپناؤ.جس راستہ پر آپ چلے اس راستہ پر قدم رکھو.جن را ہوں کو آپ نے چھوڑا انہیں ترک کر دو.آپ کا رنگ اپنے نفسوں پر چڑھاؤ.آپ کی محبت میں اپنی طبیعتوں کو فنا کر دو چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے مظہر اتم ہیں اس لئے جب تم اس رنگ میں رنگین ہو جاؤ گے تو اپنی قوت اپنی فطرت اور استعداد اور اپنے مجاھدہ اور کوشش کے مطابق تمہارے اوپر بھی وہ رنگ چڑھ جائے گا اور اس طرح تم خدا تعالیٰ کی رضا کو بھی حاصل کر لو گے اور اُخروی زندگی کو بھی حاصل کر لو گے.اس آیت میں جہاں تک میں نے غور کیا ہے خصوصاً اس مضمون کے ضمن میں جو میں بیان کر رہا ہوں اس ورلی زندگی کی نسبت اُخروی زندگی کی نعماء پر زیادہ زور دیا گیا ہے چونکہ یہ عارضی زندگی ہے اور بڑی چھوٹی زندگی ہے اور اسی پر بناء ہے جنت کی نعماء کے حصول کی.اگر انسان اس دنیا میں اندھا ہے تو اس دنیا میں اسے آنکھ نہیں مل سکتی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اخروی زندگی کے نعماء کے حصول کے لئے ضروری ہے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۸۰ خطبه جمعه ۱۶ اکتوبر ۱۹۷۰ء کہ تم صفات باری کے مظہر بنو اور اپنی استعداد کے دائرہ میں صفات باری کا مظہر بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرو.یہاں دراصل دو باتوں پر غور کرنے کی بنیادی تعلیم دی گئی ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرو.دوسرا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات حسنہ پر غور کرو.پھر تم اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے مظہر اتم ہیں اور یہ کہ تمہیں خدا تعالیٰ کی رضا آپ کی پیروی اور اتباع اور آپ کا رنگ اپنی طبیعت پر چڑھانے کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی.تو جو شخص اُخروی زندگی کے لئے جس کو ہم نہ ختم ہونے والی زندگی کہتے ہیں کوشش کرے گا اس کی یہ دنیاوی زندگی خود بخو دسدھر جائے گی وہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر لے گا لیکن اس آیہ کریمہ میں زیادہ زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ اپنی اُخروی زندگی کی فلاح اور بہبود کے لئے کوشش کرنی چاہیے اور اس کا یہی راستہ ہے جب قرآن کریم نے یہ کہا کہ کامل حق کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو چکے تو اگر تم بھلائی اور خیر چاہتے ہو تو تمہیں آپ کے دعوی کو بھی اور آپ کی ہدایت کو بھی قبول کرنا پڑے گا اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنا پڑے گا.سواس کا ایک تقاضایہ بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی ضروری ہے تم اس کے بغیر نہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہو اور نہ اُخروی زندگی کی نعماء کو حاصل کر سکتے ہو.چوتھی بنیادی بات جو اِیمَانُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا تقاضا ہے یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ وہ اللہ کا محبوب بن جائے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا : - قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ - ( آل عمران : ۳۲) میرے نزدیک وہاں اسوۂ حسنہ پر زیادہ زور دیا گیا تھا اور اُخروی زندگی پر اور یہاں زیادہ زور بنیادی طور پر ورلی زندگی پر دیا گیا ہے زمانہ کی تخصیص کے لحاظ سے یہ حصہ پہلے لے لینا چاہیے تھا لیکن اہمیت کے لحاظ سے ابدی حیات بہت زیادہ اہم ہے اس لئے میں نے اسے پہلے لے لیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں اس دنیا میں محبوب الہی بنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ
خطبات ناصر جلد سوم ۳۸۱ خطبہ جمعہ ۱۶ /اکتوبر ۱۹۷۰ء اگر تم محبوب الہی نہ بنو گے تو جو چیز تمہیں حیات ابدی کی خوشیوں کی وارث بناتی ہے وہ حاصل کرنے کے لئے جہنم کے ہسپتال میں سے گزرنا پڑے گا.اس لئے تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ اسی دنیا میں تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ اور جو اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں ان کی علامات جو قرآن کریم نے بتائی ہیں وہ بڑی وسیع ہیں اور مختلف پہلوؤں سے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے جب تک انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا محبوب نہیں اسے یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ وہ اُخروی زندگی میں خدا کا محبوب ہوگا اور یہ کہ اس کی نعماء کو پالے گا اور اس کی محبت اور رضا کو حاصل کرے گا یا اس کی رضا کی جنتوں کے مختلف جلوے اس پر ظاہر کئے جائیں گے یہ اس کا خیالِ خام ہے اس واسطے فرمایا اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا تمہارے لئے ضروری ہے ورنہ جس مقصد اور غرض کے لئے تمہاری پیدائش ہوئی ہے وہ مقصد اور غرض پوری نہ ہوگی اور طریق یہ بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو خدا کے محبوب بن جاؤ گے.پھر یہ بتایا کہ محبوب محبوب میں فرق ہوتا ہے ایک محبوب تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں جب ہم کہتے ہیں کہ آپ صفات باری کے مظہر اتم تھے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے اور یقین کرنا پڑتا ہے کہ آپ سے زیادہ کسی اور انسان سے اللہ تعالیٰ نے پیار اور محبت نہیں کی.کیونکہ دوسرے اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم نہیں انہوں نے وہ قرب حاصل نہیں کیا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاصل کیا انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ مثال ہمارے سامنے رکھ دی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو مظہر اتم ہونے کی وجہ سے محبوبیت کا ملہ کے وارث ہیں اس سے زیادہ کوئی محبوب نہیں ہوسکتا اور ہم عاجز انسان بندے ہیں اس اتباع کے باوجود ہم تیری محبت کیسے حاصل کریں.اللہ تعالیٰ نے فرما یا تسلی رکھو اگر تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ اپنے اوپر چڑھا کر اپنی استعداد کے مطابق میری صفات کے مظہر بننے کی کوشش کرو گے تو میں تمہای غلطیاں دور کر دوں گا.پس اس آیت میں بڑی امید دلائی گئی ہے " يَغْفِرُ لکھ “ یہ نہ سمجھنا کہ وہ اتنا بلند اور ارفع وجود ہے 66 انسان وہاں کیسے پہنچے گا اور پھر مایوس ہوجانا اور کفر اور الحاد کےاندرملوث ہوجانا.تو ایک طرف یہ کہا کہ یہ نمونہ ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرو اسی وقت شیطان دل میں
خطبات ناصر جلد سوم ۳۸۲ خطبه جمعه ۱۶ اکتوبر ۱۹۷۰ء وسوسہ پیدا کر سکتا تھا کہ یہ نمونہ اتنا بڑا ہے کہ تم وہاں تک نہیں پہنچ سکتے.خدا تعالیٰ نے فرما یا نہیں تمہاری فطری کمزوریاں ہیں ان کی وجہ سے جو تم سے غلطیاں، کوتاہیاں اور غفلتیں ہوں گی ان سے گھبرانا نہیں کیونکہ ” يَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے آپ کا مظہر بننے کی کوشش کرو تمہاری خطائیں ، گناہ ، غفلتیں ، کمزوریاں معاف کر دی جائیں گی.یہ ہمیں امید دلائی ہے اور ہمارے دل اور ہماری روح کو امید سے بھر دیا ہے اور یہاں ہمیں یہ حکم دیا کہ خالی یہ کہنا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے کافی نہیں محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو مظہر اتم صفات باری سمجھتے ہوئے آپ سے انتہائی محبت کی جائے اور محبت کے نتیجہ میں آپ کی اتباع کی جائے یہاں اتباع کا لفظ ہے جو نتیجہ ہے محبت کا، اس سے پتہ لگتا ہے کہ اصل حکم یہ ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو اور جو کسی سے محبت کرتا ہے وہ اس کی اتباع کر رہا ہوتا ہے اور اس کے قدم چومتا ہے، اس کے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے لگاتا ہے، اس کے پاؤں کی خاک کو اپنا سرمہ سمجھتا ہے ، وہ اپنی جان اس پر فدا کر رہا ہوتا ہے.اپنی استعداد کے مطابق وہ کامل اتباع کر رہا ہوتا ہے، تو تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو وہ میرا محبوب ہے اس کی اتباع کرو تو میری محبت مل جائے گی اور شیطان تمہارے دل میں یہ وسوسہ نہ ڈالے کہ تم کمزور اور عاجز بندے ہو ہزار غلطیاں کرتے ہو، ہزار کو تا ہیاں تم سے سرزد ہو جاتی ہیں اس کی فکر نہ کرو ہمارا تم سے وعدہ ہے کہ اگر تم خلوص نیت کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا ہو کر آپ کی اتباع کرو گے تو تمہاری کمزوریوں کے باوجود میں تمہیں اپنا محبوب بنالوں گا.اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانک دے اور ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس رنگ میں محبت کرنے والا پائے جس رنگ میں وہ انسان سے خواہش رکھتا ہے کہ وہ اس کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والا ہو.اللھم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۴ ۱٫ پریل ۱۹۷۱ ، صفحه ۳ تا ۶)
خطبات ناصر جلد سوم ۳۸۳ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ تحریک جدید کے سینتیسویں سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۲۳ /۱ کتوبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے ان آیات کی تلاوت کی.فَمَا أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَمَا عِندَ اللهِ خَيْرٌ وَ ابْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى ربهم يتوكلون.(الشوری:۳۷) قُلْ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرُّزِقِينَ.( الجمعة : ١٢) اور پھر فرمایا:.پچھلے جمعہ میں نے دوستوں کو بتایا تھا کہ میرے خون کی شکر معمول سے کافی بڑھ گئی ہے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے بغیر دوائی کے استعمال کے گزشتہ اتوار کو خون کا جو دوسرا امتحان ہوا اس میں خون کی شکر ۲۶۲ سے گر کر ۲۲۱ پر آ گئی تھی یہ بھی زیادہ ہے بہر حال دوست دعا کرتے رہیں اس عرصہ میں پیچش کا مجھے تیسرا حملہ ہوا ہے یہ مرض پیچھا نہیں چھوڑتی دوائی کھاتا ہوں آرام آجاتا ہے دوائی چھوڑ دیتا ہوں تو پھر حملہ کر دیتی ہے.اسی طرح چل رہا ہے پھر صبح سے گلے کی خراش اور نزلے کی تکلیف شروع ہو گئی ہے دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ساری زندگی کام کی زندگی بنائے.ان تین دنوں میں انصار اللہ کا اجتماع ہے انصاراللہ کے دوست باہر سے آئے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۸۴ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء ہوئے ہیں یہ بھی کافی بڑا پروگرام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے نباہنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں جو یکم نبوت ( یکم نومبر ) سے شروع ہوگا یہ نیا سال تحریک جدید کے دفتر اول کا سینتیسواں ۳۷ سال ہے اور دفتر دوم کا ستائیسواں ۲۷ سال ہے اور دفتر سوم کا چھٹا سال ہے.دو سال قبل میں نے جماعت کو یہ توجہ دلائی تھی کہ تحریک جدید کے کام کی طرف پہلے سے زیادہ متوجہ ہوں اور زیادہ قربانیاں کریں اور زیادہ ایثار دکھا ئیں اور اپنی نئی نسل کو زیادہ بیدار کریں اور انہیں قربانیوں کے لئے تیار کریں دفتر سوم کی ذمہ داری تو انصار اللہ پر ڈالی گئی تھی اس میں بھی ابھی کافی سستی ہے.اس دو سال میں وہ ٹارگٹ جو میں نے تحریک جدید کے سامنے رکھا تھا یا یوں کہنا چاہیے کہ تحریک کے تعلق میں جماعت کے سامنے رکھا تھا وہ یہ تھا کہ پاکستان کے احمدیوں کی یہ مالی قربانی سات لاکھ نوے ہزار روپے ہونی چاہیے مگر جماعت اس ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکی کچھ جائز وجوہات بھی ہیں.پہلے فضل عمر فاؤنڈیشن کے چندوں کا زائد بار تھا اب بار تو نہیں کہنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کے جو دروازے کھولے تھے ہم اپنی غفلتوں کی وجہ سے یا اپنی بشری کمزوری کے نتیجہ میں اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکے جتنا کہ ہمیں اٹھانا چاہیے تھا یا جتنا ہمارا پیارا رب ہم سے توقع رکھتا تھا کہ ہم اٹھائیں گے.باوجود فضل عمر فاؤنڈیشن کی زائد قربانیوں کے جو جماعت دے رہی تھی پھر بھی پہلے کی نسبت تحریک نے ترقی کی ہے پینتیسویں سال میں چھ لاکھ تیس ہزار تک پہنچے اور چھتیسویں سال میں چھ لاکھ پینسٹھ ہزار تک پہنچے اور سات لاکھ نوے ہزار تک جو میں نے ٹارگٹ مقرر کیا تھا اس میں ابھی ایک لاکھ پچیس ہزار کی کمی ہے کیونکہ اس عرصہ میںنصرت جہاں ریز روفنڈ کا بھی مطالبہ ہوا ہے یہ مطالبہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوا ہے.مغربی افریقہ کی ضرورت کے مطابق یہ مطالبہ ہوا ہے.اس لئے میں نے سات لاکھ نوے ہزار کا جو ٹارگٹ رکھا تھا کہ یہاں تک جماعت کو پہنچنا چاہیے اس میں کوئی زیادتی نہیں کرنا چاہتا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت اس سال انشاء اللہ وہاں تک پہنچ جائے گی.
خطبات ناصر جلد سوم ۳۸۵ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء بعض جماعتوں نے اس طرف توجہ دی ہے بعض نے بڑی غفلت برتی ہے اگر ہم جماعتوں کا سرسری جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کراچی کی جماعت اپنے ٹارگٹ کو پہنچ گئی ہے جب میں نے یہ اعلان کیا تھا یعنی سات لاکھ نوے ہزار کا ٹارگٹ مقرر کیا تھا تو دفتر تحریک نے ہر بڑی جماعت اور ضلع کا نسبتی طور پر ٹارگٹ مقرر کر دیا یعنی جو چونتیسویں پینتسویں سال کا چندہ تھا اس کے ٹوٹل اور سات لاکھ نوے ہزار کی جو نسبت بنتی تھی اس نسبت سے تحریک نے کہا کہ ہر جماعت اور ضلع اتنا زیادہ دے دے تو جو ٹا رگٹ ہے وہ پورا ہو جاتا ہے.اس نسبت سے یعنی سات لاکھ نوے ہزار کے ٹارگٹ کے لحاظ سے کراچی کو جتنا دینا چاہیے تھا اتنا اس نے دے دیا ہے.الحمدللہ ، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.اسی طرح اسلام آباد ہے پھر ضلع ہزارہ ہے پھر جہلم شہر ہے اسی طرح بنوں شہر ضلع ہے پھر ساہیوال شہر ہے، پھر ڈیرہ غازی خان شہر وضلع ہے پھر بہاولپور شہر وضلع ہے اور اسی طرح ڈھا کہ شہر، ان سب نے اپنے تحریک جدید کے چندے اس نسبت سے بڑھا دیئے کہ جس نسبت سے سات لاکھ نوے ہزار کی رقم پوری کرنے کے لئے ان پر ذمہ داری آتی تھی اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر عطا فرمائے.لیکن بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں جو کچھ ست ہیں اور بعض ایسی جماعتیں ہیں جن سے ہم توقع رکھتے تھے کہ وہ اس طرف زیادہ توجہ دیں گی مگر انہوں نے توجہ نہیں دی مثلار بوہ ہے.ربوہ اپنے اس ٹارگٹ کو نہیں پہنچا اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے ربوہ کو تو باہر کی جماعتوں کے لئے نمونہ بنا چاہیے مگر یہ نمونہ نہیں بنے نہ صرف یہ کہ ربوہ کے دوست باہر کی جماعتوں کے لئے نمونہ نہیں بنے بلکہ انہوں نے کراچی اور دوسرے شہر واضلاع کے نمونے سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا ٹارگٹ کے لحاظ سے ربوہ کو نوے ہزار کی رقم دینی چاہیے تھی جس میں سے صرف ستاون ہزار کے وعدے ہیں.اسی طرح لاہور شہر کا حال ہے یہ امیر احمدیوں کا شہر ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی کامل روح موجود نہیں یا اس روح کو بیدار نہیں کیا گیا دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے روح تو ہے لیکن نظام جماعت لاہور نے اس روح کو کما حقہ بیدار نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کا بھی چورانوے ہزار ٹارگٹ بنتا تھا لیکن صرف بہتر ہزار کے وعدے ہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۳۸۶ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء پھر سیالکوٹ شہر ہے.انہیں پندرہ ہزار کا ٹارگٹ دیا گیا تھا ان کے دس ہزار کے وعدے ہیں (ویسے میں نے سینکڑے چھوڑ دیئے ہیں ہزاروں میں بات کر رہا ہوں ) اسی طرح راولپنڈی شہر ہے جس کے پہلو میں اسلام آباد شہر ہے جس نے اپنا ٹارگٹ پورا کر دیا ہے لیکن راولپنڈی شہر کا چون ہزار روپے ٹارگٹ بنتا تھا اور انہوں نے وعدے صرف تین ہزار کے کئے ہیں یعنی قریباً ۱۷ پچپن فیصد ہیں یہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں پھر ملتان شہر ہے اس کا ٹارگٹ سترہ ہزار تھا اور انہوں نے وعدے کیے ہیں گیارہ ہزار کے دفتر نے یہ رپورٹ دی ہے کہ جو شہر یعنی ضلع کا صدر مقام پیچھے ہے وہاں کی ضلعی جماعتیں بھی پیچھے ہیں.یہ تو ایک طبعی بات ہے جب کسی جماعت نے توجہ نہیں کی اور ستی دکھائی نظام جماعت نے اپنی ذمہ داری کونہیں نباہا تو اگر شہر پیچھے ہے تو ضلع یقینا پیچھے ہوگا بلکہ غالباً کچھ زیادہ پیچھے ہوگا بہر حال ہمارے سامنے یہ بڑی افسوسناک تصویر آتی ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ہمیں اپنی ذمہ داری نباہنے کی توفیق عطا کرے.میں نے آپ کو کچھ معیار بھی بتائے تھے یعنی دفتر اول اس حساب سے اوسطاً رقم دے رہا ہے دفتر دوم کی اوسط کیا ہے اور دفتر سوم کی اوسط کیا ہے اور چونکہ دفتر اول کی اوسط بہت اچھی تھی اور اب بھی ہے اس لئے میں نے اس میں زیادتی نہیں کی تھی دفتر اول میں جو حصہ لینے والے ہیں ان کی اوسط فی کس.۶۴ روپے ہے اور یہ اوسط بڑی اچھی ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ دفتر اول میں بہت سے احباب کافی بڑی عمر کے ہیں اور میرا یہ خیال ہے (اگر چہ اس حصہ کی میرے پاس رپورٹ تو نہیں لیکن ان کی میرے پاس جو روزانہ رپورٹیں آتی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے ) کہ دفتر اول کی مجموعی رقم کم ہو گئی ہے اور ہونی چاہیے تھی کیونکہ بڑی عمر کے لوگ اس میں شامل ہیں.وفات بھی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے بعض دفعہ تو روزانہ یا دوسرے دن یہاں جنازہ آجاتا ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ زندگی تو فانی ہے ہمیشہ کے لئے دنیا میں تو کسی نے نہیں رہنا ہم یہاں آئے ہیں پھر گزرجائیں گے.تا ہم دفتر اول والوں نے اپنی./ ۶۴ کی اوسط برقرار رکھی ہے اور یہ بڑی خوشی کی بات ہے اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء عطا فرمائے./ ۶۴ کے مقابلے میں دفتر دوم کی اوسط فی کس
خطبات ناصر جلد سوم ۳۸۷ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء غالباً / ۲۰ یا ۲۱ تھی لیکن میں نے کہا اسے ۳۰ تک لے کر جاؤ یہ اوسط بڑھی تو ہے لیکن.۳۰ تک ابھی نہیں پہنچی صرف./ ۲۴ تک پہنچی ہے.دفتر دوم وہ دفتر ہے جس نے دفتر اول کی جگہ لینی ہے اور عملاً خاموشی کے ساتھ لے رہا ہے.دفتر اول میں حصہ لینے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے کیونکہ نئے تو اس میں شامل نہیں ہور ہے.دفتر دوم کی تعداد زیادہ ہے اور انہوں نے ان کی جگہ لینی ہے اور پھر دفتر سوم نے دفتر دوم کی جگہ لینی ہے اور پھر دفتر چہارم آ جائے گا اپنے وقت پر جس نے دفتر سوم کی جگہ لینی ہے.دفتر اول کی اوسط فی کس اور دفتر دوم کی اوسط فی کس میں بڑا فرق ہے.ایک طرف ۶۴ روپے فی کس اور دوسری طرف.۲۴ روپے فی کس جس کا مطلب یہ ہے کہ.۴۰ روپے فی کس کا فرق ہے اور یہ فرق ہمیں فکر میں ڈالتا ہے اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ دفتر دوم میں قربانی کی وہ روح نہیں جو دفتر اول میں پائی جاتی ہے یہ صحیح ہے کہ دفتر دوم والوں کی آمد شروع میں تھوڑی ہوتی ہے مگر انسان ترقی کرتا ہے مثلاً جو دوست گورنمنٹ کے ملازم ہیں ان کی ہر سال ترقی ہوتی ہے جتنی بڑی عمر کے ہوں گے وہ زیادہ تنخواہ لے رہے ہوں گے پھر انسان تجربے میں بھی ترقی کرتا ہے ایک شخص نو کر نہیں لیکن تجارت کر رہا ہے شروع میں اسے تجربہ نہیں یا شروع میں اس کے پاس سرمایہ نہیں تھا پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے مالوں میں برکت ڈالتا ہے وہ اپنے تجربے میں بھی ترقی کرتے ہیں اور ان کے سرمائے میں بھی ترقی ہوتی ہے، ان کی آمد بھی زیادہ ہونے لگ جاتی ہے یہا اپنی جگہ صحیح ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ./ ۶۴ اور / ۲۴ کی نسبت ہمارے دل میں بڑا فکر پیدا کرتی ہے.اس لئے ہمیں دفتر دوم کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے اور ان کے معیار کو بلند کرنا چاہیے.دفتر سوم میں بہت سے طالب علم بھی ہیں دفتر دوم میں بھی کچھ ہوں گے لیکن دفتر سوم کی نسبت بہت کم ہیں.دفتر سوم کا معیار./ ۱۳ فیصد تھا.پھر میں نے کہا اسے بڑھا کر ۲۰ تک لے جاؤ.یہ بڑھا تو ہے یعنی.۱۳ سے ۱۵ تک آگئے ہیں لیکن ابھی.۲۰ تک نہیں پہنچے دفتر سوم کی دوذمہ داریاں انصار اللہ پر عاید ہوتی ہیں ایک یہ کہ دفتر سوم میں زیادہ کم عمر بچے ہیں یا وہ ہیں جن کی احمدیت میں کم عمر ہے یہ ہر دوتربیت کے محتاج ہیں اور ان ہر دو کی تربیت کا کام خدام الاحمدیہ کا
خطبات ناصر جلد سوم ۳۸۸ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء نہیں بلکہ انصار اللہ کا کام ہے مجموعی حیثیت میں وہ زیادہ تربیت یافتہ ہیں.یہ صیح ہے کہ انصار اللہ میں بعض نئے احمدیت میں داخل ہو نیوالے بھی شامل ہو جاتے ہیں.انہیں ہم خدام الاحمدیہ یا اطفال میں تو نہیں بھیجتے مثلاً جو ۴۵ یا ۵ سال کی عمر میں آج احمدی ہوا ہے اور ہر مہینے بیسیوں اور سینکڑوں لوگ ایسے ہوتے ہیں.ایسے لوگ بہر حال اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ میں جائیں گے اور ان کی تربیت کمزور ہوگی لیکن زیادہ رو اس وقت نو جوانوں میں ہے اور میں بڑا خوش ہوں ہماری اگلی نسل میں بڑوں کی نسبت دین کی طرف بھی اور اسلام کے حقیقی نور کی طرف بھی اور احمدیت کی طرف بھی زیادہ توجہ ہے اور بعض جگہ تو اس وجہ سے فکر پیدا ہوتی ہے دو تین جگہ سے یہ رپورٹ آئی ہے کہ انہوں نے ایک فتویٰ دے دیا تھا کہ احمدی کا فر ہیں اس کے مقابلے میں اس وقت تک دو چیزیں آگئی ہیں.میں ضمناً یہ بھی بتا دوں کہ دنیا جو مرضی کہتی رہے اگر ہمارا رب ہمیں کا فرنہیں کہتا تو ہمیں کوئی فکر نہیں لیکن چونکہ بہت سے احمدیت سے باہر ہیں وہ غلط راستے پر چل سکتے ہیں غلط نتائج لے سکتے ہیں اس لئے ہمیں بعض دفعہ کفر کے فتوؤں کا جواب دینا پڑتا ہے کہ ہائیکورٹ نے بھی یہ فیصلہ کیا اور قوم کے محبوب سیاسی رہنما قائد اعظم نے بھی یہ کہا وغیرہ وغیرہ.یہ جو نئے نئے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں یا جو احمدی نہیں ہیں ان کے لئے ہمیں یہ چیزیں چھپوانی پڑی ہیں ورنہ ہمیں کیا ضرورت ہے؟ جس کے کان میں اللہ تعالیٰ یہ کہہ رہا ہو کہ میں تجھے مسلمان سمجھتا ہوں اسے کسی اور کے فتوے کی ضرورت تو باقی نہیں رہتی.اللہ تعالیٰ کا فرمان کافی ہے اور الْحَمدُ لِلهِ وہ ہمیں یہی کہہ رہا ہے میں تمہیں مسلمان سمجھتا ہوں لیکن جب ہم دوسروں کے لئے چھپواتے ہیں.جماعت احمد یہ لاہور کے ایک دوست نے کچھ پوسٹر بھی شائع کئے تو دو تین جگہ سے یہ رپورٹ آئی کہ جب یہ پوسٹر لگائے جارہے تھے تو چونکہ ہمارے خلاف تعصب بھی ہے ( اور یہ تعصب جہالت کے نتیجہ میں ہے یا عدم علم کے نتیجہ میں ہے.یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں صحیح واقفیت بہم پہنچائیں اس لئے ایسے موقع پر ہمیں ان کے اوپر رحم ہی آتا ہے اپنے اوپر غصہ آتا ہے کہ ہم نے صداقت صحیح رنگ میں ان تک کیوں نہیں پہنچائی بہر حال تعصب ہے) چنانچہ کئی لوگ کھڑے ہو گئے کہ ہم یہ پوسٹر نہیں لگانے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۸۹ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء دیں گے اس پر کئی غیر احمدی دوست ان کے مقابلے پر کھڑے ہو گئے کہ ہم دیکھیں گے تم کس طرح پھاڑتے ہو پس ایسی لڑائی میں ہم شامل تو نہیں ہوں گے لیکن ملوث سمجھے جائیں گے حالانکہ وہاں کوئی احمدی نہیں لڑے گا کیونکہ لڑنے کا تو نہ ہمیں حکم ہے اور نہ ہمیں ایسی تربیت دی گئی ہے لیکن جن کی توجہ غلبہ اسلام کی اس مہم کی طرف ہوتی ہے ان کو جوش آجاتا ہے اور ہمیں وہاں خاموش ہی رہنا پڑتا ہے.۵۳ء میں جب کالج پر کئی طرف سے انہوں نے یورش کی تو ایک ایسا گروہ آیا جس نے پتھراؤ کیا تعلیم الاسلام کالج اس وقت لاہور میں ڈی.اے.وی کا لج کی بلڈنگ میں تھا چنانچہ جب کالج پر پتھراؤ کیا گیا تو ان کے مقابلے میں ہمارے طالب علموں نے بھی پتھراؤ کیا.مجھے جب پتہ لگا تو میں بڑا پریشان ہوا کہ انہوں نے احمدیت کی تربیت کے خلاف ایسا کیسے کر دیا؟ دراصل ہمارے کالج کے ہوسٹل میں ۶۰ فیصد طالب علم ایسے تھے جو احمدی نہیں تھے.جب میں نے تحقیق کی تو مجھے پتہ لگا کہ جن لڑکوں نے جواباً پتھراؤ کیا ہے.ان میں ایک بھی احمدی نہیں تھا لیکن چونکہ وہ ہمارے درمیان رہتے تھے ہمارے طالب علموں کو دیکھتے تھے ہمارے ساتھ ان کا تعلق تھا انہیں یہ پتہ تھا کہ یہ مظلوم جماعت ہے اس لئے ان کو غصہ آگیا اور جوابی پتھراؤ کیا مگر اس میں احمدی طلبہ ملوث نہیں تھے.انکوائری کمیشن میں آئی جی انور علی صاحب نے اس بات کو پیش کرایا کہ دیکھیں جی یہ دونوں طرف سے ہو جاتا ہے اس سے زیادہ طیش آجاتا ہے تعلیم الاسلام کالج پر جب حملہ ہوا تو اندر سے بھی پتھراؤ ہو گیا میرے ساتھی میرے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ آپ کو پتہ ہے کہ اس پتھراؤ میں احمدی طلباء شامل نہیں تھے اس لئے ہماری طرف سے یہ مؤقف لینا چاہیے کہ یہ غیر احمدی طلباء کا کام ہے میں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا جنہوں نے پیار کے ساتھ ہمارا ساتھ دیا ہے ہم ان کے خلاف انکوائری کمیشن میں کچھ نہیں کہیں گے ہمیں وہ بد نام کرتے ہیں تو کرتے رہیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ طالب علم جو احمدی نہیں تھے ان کو اپنے کالج کے لئے جوش اور غیرت آئی اور انہوں نے ہماری خاطر ایک قدم اٹھا یا بے شک وہ ہمارے نزدیک غلط قدم تھا لیکن ان کے نزدیک تو درست تھا اگر ان کا قدم غلط ہے تو باہر سے بھی پتھر اوا اندر نہیں آنا چاہیے تھا
خطبات ناصر جلد سوم ۳۹۰ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء اور اندر سے بھی باہر پتھر نہیں جانا چاہیے تھا لیکن جنہوں نے ہماری خاطر یہ قدم اٹھایا ہے ہم ان کے خلاف یہ قدم نہیں اٹھا ئیں گے وہ احمدی نہیں تھے غیر احمدی تھے وہ تو ہمارے ہیں چاہے احمدی ہیں یا نہیں ہماری خاطر انہیں غیرت آئی ہماری خاطر انہیں جوش آیا پس ہمیں فکر یہ رہتا ہے کہ کام کوئی کرے گا اور نام ہمارا بد نام ہوگا ہمارا موقف پیار کا موقف ہے ہم ان کو بد نام نہیں کریں گے جو ہماری خاطر غلطی کر رہے ہوں گے اپنے سر لے لیں گے.غرض یہ نوجوان طبقہ اس وقت احمدیت کی طرف زیادہ توجہ کر رہا ہے اور ہم پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے پڑھے لکھے طالب علم ہیں لیکن اکثر مظلوم ہیں ان سے بھی کوئی پیار نہیں کرتا ایک دفعہ بہت سے غیر احمدی طالب علم مجھ سے ملنے آئے ان میں کئی ایک لیڈ رٹائپ کے تھے جب میں اٹھا تو ایک لیڈر طالب علم کے منہ سے ایک ایسا فقرہ نکلا جسے سن کر مجھے خوشی بھی ہوئی لیکن مجھے دکھ بھی بہت ہوا جب ہم ڈیڑھ دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد فارغ ہوئے اس کے بعد مصافحہ کرنا تھا وہ میرے دائیں طرف بیٹھا ہوا تھا پہلے اسی سے میں نے مصافحہ کرنا تھا.وہ آہستہ سے مجھے کہنے لگا کہ آج پہلی دفعہ کسی شریف آدمی نے ہم سے شرافت سے باتیں کی ہیں.مجھے یہ سن کر خوشی تو ہوئی کہ اس طرح جماعت کا اس پر اثر ہوا لیکن مجھے انتہائی دکھ ہوا کہ وہ نسل جس کے اوپر قوم کی ساری ذمہ داری پڑنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل دی ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں فراست دی ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں جذبہ دیا ہے وہ آگے نکلنے والی نسل ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ان سے کبھی کسی نے شرافت سے بات کی ہے یا نہیں میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان کے دل میں یہ احساس ہے کہ ہم سے کسی نے کبھی شرافت سے بات نہیں کی اور اصل تو احساس ہوتا ہے پس جہاں مجھے تھوڑی بہت خوشی ہوئی وہاں مجھے بڑی تکلیف بھی ہوئی پس یہ پیارے بچے اب آرہے ہیں اور آئیں گے ان کی تربیت انصار اللہ کا کام ہے یہ کام میں نے خدام الاحمدیہ کے سپر د نہیں کیا اس طرف توجہ دینی چاہیے دفتر سوم کے چندے کی فی کس اوسط - / ۱۳ سے./ ۱۵ تک پہنچ گئی ہے یہ خوشکن ہے لیکن ۲۰۰ تک ان کو پہنچنا چاہیے اور اس سال پہنچنا چاہیے انصار اللہ ہر جگہ جائزہ لیں اور اپنی تھوڑی سی سستیاں ترک کر دیں تو زیادہ اچھا ہے حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں.
خطبات ناصر جلد سوم ۳۹۱ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء مثلاً افریقہ ہے یہ بات بھی ضمنا ہے خوشخبری ہے.اس لئے آپ کو سنا دیتا ہوں جو ہماری آگے بڑھو کی سکیم نصرت جہاں ریز روفنڈ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس کے ماتحت ہمارے پہلے ڈاکٹر نے غانا میں جا کر کام شروع کر دیا ہے.الحمد للہ.اور زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ جس جگہ انہوں نے کام شروع کیا ہے وہاں ان کو رہائش کے لئے مکان اور کلینک کے لئے اتنا بڑا مکان جسے حکومت نے بھی مان لیا ہے کہ یہ ٹھیک ہے وہ ایک ایسے پیرا ماؤنٹ چیف نے عطا کیا ہے.(ہم اس کے بڑے ممنون ہیں ) جو ابھی احمدی نہیں ہے.اس قسم کے حالات ہیں وہ قومیں ہم سے تعاون کر رہی ہیں کئی اور قو میں ہیں جو ہم سے حسد کر رہی ہیں ہمیں حسد کی کوئی پرواہ نہیں ہے جو قو میں ہم سے تعاون کر رہی ہیں وہ اس بات کی اہل ہیں ان کا یہ حق ہے کہ ہم ان کی خدمت کے لئے وہ سب کچھ کریں جو ہمارے بس میں ہے اس طرح وہاں بہت سارے وعدہ کئے گئے ہیں عمل بھی شروع ہو گیا ہے پیرا ماؤنٹ چیف نے بہت بڑا ہال کلینک کھولنے کے لئے دیدیا ہے دراصل غانا کی حکومت کچھ نخرے دکھا رہی ہے کہ پہلے ان سے کلینک کے لئے مکان کی Approval ( اپروول ) لو اور یہ کرو اور وہ کرو.مگر یہ ہال اتنا بڑا تھا کہ حکومت غانا کو کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوا اور ڈاکٹر بھی جارہے ہیں.غرض یہ بات ضمنا بھی ہے اور اس کا تعلق بھی ہے یہ جو اگلی نسل ہمارے اندر شامل ہورہی ہے اور بڑی تعداد میں شامل ہو رہی ہے اس کی تربیت کی رفتار پہلے کی نسبت زیادہ ہونی چاہیے تا کہ یہ اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے زیادہ قابل ہو جائیں کیونکہ جب کام بڑھ گیا تو بہر حال ہمیں ادھر ادھر سے اور زیادہ آدمی لینے پڑیں گے اور اس وقت کام بڑھنے کا یہ حال ہے.نائیجیریا نے ہمیں ( مجھے صحیح یاد نہیں ) ۸ یا ۱۰ آدمیوں کا کوٹا دے رکھا تھا.اس سے زیادہ وہاں ہمارے آدمی نہیں جاسکے کیونکہ حکومت نے تعداد مقرر کی ہوئی ہے اب جب میں وہاں گیا ان سے باتیں کیں تو وہاں کی جماعت کو بھی جوش آیا اور ان کا ایک وفد وہاں کے وزیر سے ملا اور مطالبہ کیا کہ جس طرح حکومت نے کیتھولکس کو ۱۵۰ ڈاکٹروں اور پادریوں کو اجازت دے رکھی ہے اسی طرح ہمیں بھی اجازت دو چنانچہ انہیں بھی ۱۵۰ کی اجازت ملنے کی امید ہے، دوست دعا کریں ۱۵۰
خطبات ناصر جلد سوم ۳۹۲ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء آدمیوں کی اجازت مل جائے اس وقت وہاں دس آدمی ہیں ۱۴۰ آدمی جن کی اجازت ملے گی وہ وہاں موجود نہیں اور اگر آپ نے وہاں آدمی نہ بھیجے تو بڑی سبکی ہوگی وہ کہیں گے کہ تم بڑے طمطراق کے ساتھ آگئے تھے کہ ہمیں دس کی بجائے ۱۵۰ کی اجازت دو اور تم آدمی کوئی نہیں بھیج رہے اور اگر ہم آدمی بھیج دیں تو بڑی ذمہ داری ہے مالی لحاظ سے بھی اور کئی دوسرے لحاظ سے بھی مثلاً رضا کا کبھی آنے چاہئیں پیسہ بھی وہاں خرچ ہوگا.پس آپ دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پیسے بھی دے گا اور رضا کار بھی دے گا لیکن اپنے تعلق کو اپنے رب سے قطع نہ کریں کیونکہ جب تک یہ تعلق قائم ہے ہمیں فکر نہیں ہم میں بعض کمزور ہیں جو چست ہیں وہ ان کو تیز کر دیں گے.اس وقت تو ضرورت کچھ اس قسم کی ہے کہ جس طرح روم اور ایران کے فتنے کو اور جوان کے منصوبے تھے اسلام کو مٹانے کے ان میں ان کو نا کام کرنے کے لئے بے شمار جرنیلوں کی ضرورت پڑی تھی (بے شمار تو ہمارا محاورہ ہے ) ہمیں وہ کہیں نظر ہی نہیں آرہے تھے ضرورت سے پہلے نمایاں طور پر ان کا نام ہی نہیں لکھا گیا لیکن ضرورت پڑنے پر وہ اس طرح ابھرے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.رومیوں اور ایرانیوں کو سینکڑوں سال سے فنونِ جنگ کی مہارت حاصل تھی اور پھر یہ قو میں بزدل بھی نہیں تھیں کہ مسلمان اٹھے اور ان کو شکست دیدی.یہ بڑے بہادر تھے اتنے بہادر تھے کہ ایران میں یہ دستور تھا کہ کئی سپاہی زنجیروں سے اپنے آپ کو جکڑ لیتے تھے اور یہ زنجیریں غالباً چار قسم کی ہوتی تھیں تین آدمیوں کو آپس میں باندھنے کی ، پانچ آدمیوں کو آپس میں باندھنے کی ، سات آدمیوں کو آپس میں باندھنے کی اور دس آدمیوں کو آپس میں باندھنے کی.اب دس سپاہی کھڑے ہوتے ہیں تلواریں اور نیزے لے لے کر اور ان کے پاؤں ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں میں بندھے ہوتے ہیں اگر وہاں ان میں سے ایک مرجائے تو وہ بوجھ ہے باقی دو پر یا نو پر.اور دو ایک نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں زنجیروں میں بندھ کر مسلمانوں کے خلاف کھڑے ہو جاتے تھے اور بڑے مالدار بھی تھے اور پوری طرح مسلح ہوتے تھے.اس زمانہ میں ہندی فولاد بڑا مشہور تھا اس کی انہوں نے زرہیں پہنی ہوئی تھیں خود پہنی ہوئی تھیں.ان کی تلواریں اچھی ، زرہ اور خو دا چھے، نیزے اچھے ، جرنیل اچھے، کئی سالوں کی ان کی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۹۳ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء.ٹریننگ ہوتی تھی ان کی خود کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ ان کا ایک جرنیل نکلا، ان کا یہ دستور تھا کہ انفرادی جنگ کے لئے وہ اپنے مد مقابل سے دست بدست جنگ کے لئے آدمی بلاتے تھے چنانچہ ان کا ایک جرنیل نکلا اور اس نے حضرت خالد بن ولید کوللکارا کہ میرے مقابلے پر آؤ جب یہ گئے تو انہوں نے اپنی تلوار پورے زور کے ساتھ اس کے سر پر ماری مگر ان کے ہاتھ میں صرف دستہ رہ گیا اور تلوار ٹوٹ کر دور جا پڑی اور دستہ ہاتھ میں ،مگر اس جرنیل کو کچھ نہ ہوا خیر اللہ تعالیٰ نے حضرت خالد کو بچالیا میں اس وقت اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا میں یہ بتا رہا ہوں کہ وہ ہر لحاظ سے مسلح اور تربیت یافتہ ہوتے تھے اسلام سے پہلے عرب کی لڑائیاں قبیلے قبیلے کی لڑائیاں ہوا کرتی تھیں.نہ ان کو اس قسم کے فنونِ جنگ آتے تھے جس قسم کے رومیوں اور ایرانیوں کے تھے گوان کے طریقوں میں آپس میں کچھ اختلاف بھی تھا مگر مسلمانوں کو یہ طریقے نہیں آتے تھے لیکن ایک صبح کو جب ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہترین فوجی دماغ عطا کر دیئے اس کے خزانے تو خالی نہیں وہ تو بھرے ہوئے ہیں.پس آپ یہ دعا کریں کہ جس صبح کو ہمیں ضرورت پڑے تو ہمیں نہایت ذہین اور صاحب فراست اور تحمل والے اور غیروں کے ساتھ پیار کرنے والے اور ان کی خاطر قربانیاں دینے والے اور ان کی خدمت کرنے والے اور ان کو اپنے سینے سے لگانے والے روحانی جرنیل مل جائیں وہاں جا کر یہ بھی جرنیل ہیں مگر تلوار کے بغیر جس کے ہاتھ میں قرآن کریم ہے وہ زیادہ اچھا جرنیل ہے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے ہاتھ میں بھی قرآن کریم تھا لیکن دشمن نے مجبور کر دیا تھا تلوار نکالنے پر ، ورنہ وہ بھی صرف قرآن کریم لے کر باہر نکلتے تھے.غرض جتنے بھی جرنیلوں کی ہمیں ضرورت پڑے وہ ہمیں ملتے چلے جائیں آخر پہلے زمانہ میں مسلمانوں نے جرنیل بنانے کے لئے سٹاف کا لج تو نہیں کھولے تھے اللہ تعالیٰ جو معلم حقیقی ہے اس نے ضرورت پڑنے پر اپنے پیار کا جلوہ دکھایا ، بڑا ہی حسین جلوہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے میں نے بتایا ہے کہ تاریخ میں ان لوگوں کے نام کسی شمار میں نہ تھے.آدمی حیران ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے آ گیا پتہ لگا یہ مدینہ سے آ گیا ہے اور مدینہ کی گلیوں میں وہ بے چارا اس طرح پھر رہا ہوگا
خطبات ناصر جلد سوم ۳۹۴ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء جس طرح ہمارا نائیجیریا کا مبلغ انچارج ربوہ میں آکر ربوہ کی گلیوں میں پھرتا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا اور اس کی مدد کو جذب کرنے کے لئے ایک تو ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت چاہیے اور دوسرے عاجزانہ دعائیں چاہئیں.آپ کی محبت میں اللہ تعالیٰ کی محبت آجاتی ہے.آپ نے اپنے پیدا کرنے والے رب سے جو محبت کی ہے وہ کسی اور فر د بشر نے نہیں کی.دفتر سوم کو جس میں روز بروز ترقی ہوتی چلی جائے گی کیونکہ نوجوانوں کو اس طرف بڑی توجہ پیدا ہو رہی ہے.وہ آئیں گے تو دفتر سوم میں داخل ہو جائیں گے دفتر سوم میں جب داخل ہوں گے غیر تربیت یافتہ ہوں گے آج احمدی ہوئے کل کو اس نے تحریک جدید کا چندہ لکھوا دیا اس پر ذمہ واری پڑ گئی جو ہر احمدی نوجوان پر پڑتی ہے اس کو اپنا نفس مارنا پڑے گا اس کو گالیاں سن کر بجائے چپیڑ لگانے کے دعا دینی پڑے گی اسے بڑے زبر دست ضبط اور نفس پر قابو پانے کی ضرورت ہے.دوسروں کو تو بڑا آرام ہے، غصہ آیا چپیڑ لگا دی.ایک چپیڑ کھالی ایک چپیڑ لگا دی ، پر ایک احمدی کی نہ یہ تربیت ہے اور نہ اسے یہ زیب دیتا ہے اسے تو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ چیڑ کھاؤ اور دعا دو اور دل جیتو ہم نے لوگوں کے سر پھاڑ کر ترقی نہیں کرنی بلکہ غلبہ اسلام کی یہ ہم لوگوں کے دل جیت کر سر ہوگی.جس طرح یورپ سے میں نے جا کر کہا تھا کہ تمہارے دل جیتیں گے اور اسلام کو پھیلائیں گے اسی طرح میں یہاں بھی کہتا ہوں.کسی سے ہماری دشمنی اور لڑائی نہیں ہم دل جیتیں گے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو پھیلائیں گے.اس لئے جب تم چپیڑ کھاؤ گے تو چپیڑ کا جواب چپیڑ سے نہیں دینا.اس لئے بڑی زبر دست تربیت کی ضرورت ہے.نفس کی مثال گھوڑے کی ہے نفس یا تو منہ زور گھوڑا بن سکتا ہے یا مطبع گھوڑا بن سکتا ہے گھوڑے میں بڑی طاقت ہے اگر چاہے اور مطبع نہ ہو تو دس آدمیوں کو کھینچ کر لے جائے ، لگام آپ جتنی مرضی کھینچتے رہیں وہ کوئی پرواہ نہیں کرتا اسی طرح نفس امارہ اور اس کی بدیاں بڑی زور دار ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت کی اور عاجزانہ دعاؤں کی لگام اس کے منہ میں پڑنی چاہیے اور اس کو ایک ہلکا سا اشارہ کافی ہونا چاہیے گھوڑے کو جو سکھایا جاتا ہے صرف اشارہ سکھایا جاتا ہے.اسے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۹۵ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء یہ نہیں بتایا جاتا کہ میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں ، یہ بتایا جاتا ہے کہ میں تم سے زیادہ ہوشیار ہوں تمہیں میرے اشارے پر چلنا پڑے گا.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ گھوڑے کو ہم نے تمہارے لئے مسخر کیا ہے اور یہی گھوڑے کو سمجھایا جاتا ہے ویسے لگام کا اشارہ ہوتا ہے لیکن اگر اچھا گھوڑا ہو تو سوارا گر بغیر لگام کے اشارے کے ٹھہرانا چاہے تو وہ کھڑا ہو جاتا ہے پس نفس کو بھی اسی طرح مطیع ہونا چاہیے یہ نہیں کہ جو مرضی کرے آپ کا شعور یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اچھے کھانے نہ کھاؤ اس وقت مجھے تمہارے پیسوں کی اس لئے ضرورت ہے.تم اپنے جسموں کو کھانے سے اس لئے محروم کرو کہ کسی اور روح کو تمہارے پیسے کی ضرورت ہے تو بہر حال یہ روح جسم پر مقدم ہے پس اپنے جسم کی آسائش اور اچھے کھانے کی لذت کی قربانی دو تا کہ کوئی اور روح جہنم سے بچائی جاسکے اور یہ تربیت نفس کو آپ نے دینی ہے وہ جو باہر سے آئیں گے وہ تو اور بھی فکر مند کر دیں گے کہ پہلوں کی جو تربیت ہے اس میں رخنہ نہ پڑ جائے.ان کو آتے ہی سنبھالنا چاہیے اور پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ صحیح راستہ پر ان کو لگا دینا چاہیے یہ ذمہ داری انصار اللہ پر ہے.باقی آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مال خرچ کرتے ہیں وہ اس لئے خرچ نہیں کرتے کہ ہم نے ایک منصوبہ بنایا اور اس منصوبے کو ہم کامیاب کرنا چاہتے ہیں بلکہ میں بھی اور آپ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی اپنی استعداد اور اخلاص کے مطابق جو مالی قربانی پیش کرتے ہیں وہ اس لئے پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک منصوبہ بنایا اور ہمیں یہ فرمایا کہ اس کو کامیاب کرنے کے لئے قربانیاں دو.غرض یہ منصوبہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے اور ہم سے اس کا یہ وعدہ ہے کہ تم اپنی استعداد کے مطابق قربانیاں دیتے چلے جاؤ منصوبہ میں نے کامیاب کرنا ہے تمہارے سر پر سہرا باندھ دوں گا خدا تعالیٰ کو تو سہرے کی ضرورت نہیں سہرے کی احتیاج تو اس کے بندے کو ہوا کرتی ہے اس سہرے کی جو اللہ تعالیٰ باندھے.پس ہمارا رب بڑا پیار کرنے والا ہے غلبہ اسلام کا خود ایک منصوبہ بنایا اور فرمایا کہ دنیا جو مرضی کرے ساری اقوامِ عالم حلقہ بگوش اسلام ہو کر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار اور مست ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قدموں میں جمع ہو جائیں گی اور ہمارا رب
خطبات ناصر جلد سوم ۳۹۶ خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۷۰ء فرماتا ہے میں یہ کر کے چھوڑوں گا اور ہمیں فرمایا کہ تمہارے سر پر میں سہرا باندھنا چاہتا ہوں اس واسطے میرے کہنے کے مطابق تم قربانیاں دو.غلبہ اسلام کا جو نتیجہ نکلے گا وہ تمہاری قربانیوں کے مقابلے میں بہت عظیم ہو گا اس کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوگی لیکن چونکہ میں تم سے پیار کا ایک مظاہرہ کرنا چاہتا ہوں ، اپنی محبت کا تمہیں ایک جلوہ دکھانا چاہتا ہوں اس لئے کامیابی تو میری قدرت کا ملہ سے ہوگی لیکن میں اپنے ہاتھ سے تمہارے سروں پر سہرا باندھ دوں گا.پس دوست دعا کریں اعمالِ صالحہ سے عاجزانہ مجاہدہ کریں کہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہمارے دلوں کو اور ہماری روح کو اس طرح پاک اور مطہر کر دے کہ وہ اپنے پیارے ہاتھوں سے غلبہ اسلام کا یہ سہرا ہمارے ہی سروں پر باندھے.(آمین) (روز نامه الفضل ربوه۲۰ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۲ تا ۷ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۳۹۷ خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۷۰ء دعا حصول فضل الہی کا ایک بڑا ہی مفید ذریعہ ہے خطبه جمعه فرموده ۱٫۳۰ اکتوبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن مجید کی مندجہ ذیل آیات تلاوت کیں.أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : ۷۸) پھر فرمایا:.(البقرة: ۱۸۷) اللہ کے فضل سے طبیعت پہلے سے تو بہتر ہے لیکن ابھی پوری طرح آرام نہیں آیا اس وقت میں مختصراً اس اہم اور ضروری بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک مومن کی زندگی کا ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس سے عاجزانہ دعاؤں میں گزرنا چاہیے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حقیقی زندگی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور ہر زندگی اور بقا اس سے حاصل ہوتی ہے.انسان درجہ بدرجہ ترقی کر کے اپنی رفعتوں کو پہنچتا ہے یہ ارتقاء تدریجی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ کا فضل جہاں اور بہت سی چیزوں سے حاصل کیا جاتا ہے.جیسا کہ قرآن کریم نے وضاحت سے اس پر روشنی
خطبات ناصر جلد سوم ۳۹۸ خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۷۰ء ڈالی ہے ، وہاں دعا بھی اس کا بڑا ہی مفید ذریعہ ہے اور اسے انسان چھوڑ نہیں سکتا اور سچی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنا انسان کے لئے ممکن نہ ہوتا اگر خود وہ ہمیں اپنے فضل سے اور اپنے مقرب بالا رادہ ہونے سے اپنے وجود کا پتہ نہ دیتا وہ ہم سے پیار کرتا ہے اور اس کا اظہار کرتا ہے اپنے قول سے، اپنے فعل سے ایک خوابیدہ روح کو بیدار کر دیتا ہے اور ایک عقلمند کو مجنون بنادیتا اور مست کر دیتا ہے قرب اور حسن کا یہ جلوہ پیار کے یہ الفاظ کیسے انسان حاصل کرے؟ کیونکہ اس کے بغیر تو زندگی زندگی نہیں فرمایا مجھ سے مانگو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا اور اس طرح میں تمہیں عمل صالح کی توفیق عطا کروں گا.ابھی جو میں نے آیت پڑھی ہے اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ استجابت دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی قدرت اور اس کے جلال کا مشاہدہ کر کے انسان اعمال صالحہ بشاشت سے ادا کرتا ہے اور اس کی وہ توفیق اپنے رب سے پاتا ہے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی معرفت انسان کو حاصل نہ ہو، اگر کچھ وہ اللہ کا اور کچھ دنیا کا ہو، تو پھر وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو کیسے پاسکتا ہے.نہ اعمالِ صالحہ ہوں گے جیسا کہ خدا چاہتا ہے کہ ہوں اور نہ ایمان میں وہ تازگی اور بشاشت ہوگی جو خدا چاہتا ہے کہ پیدا ہو فرمایا میں تمہاری دعاؤں کو اس لئے قبول کرتا ہوں کہ تم بشاشت سے اعمالِ صالحہ بجالاؤ تاکہ تمہارے ایمان اور بھی مضبوط ہوں اور معرفت میں اور بھی ترقی کرو اور یہ کہ وہ رشد و ہدایت جس کے حصول کے لئے وہ راستہ جس کی انتہا میرا قرب ہے اس پر چلنے کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے تم اس رشد و ہدایت کو پاؤ اور تم اس راہ پر چلتے ہوئے مجھ سے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جاؤ تو استجابت دعا کے نتیجہ میں اعمالِ صالحہ کی توفیق انسان کو حاصل ہوتی ہے.اور بھی راستے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا لیکن یہ بھی ایک حسین اور روشن راستہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے انسان کو بے پرواہ نہیں ہونا چاہیے.انسان کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ میں خدا سے دوری کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے بھی اس کے قرب کو حاصل کرلوں گا اس تصور اور اس خواہش کے درمیان تضاد ہے انسان کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ اللہ کی مدد کے بغیر خود اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہے
خطبات ناصر جلد سوم ۳۹۹ خطبه جمعه ۳۰ اکتوبر ۱۹۷۰ء اللہ کی مدد کے بغیر اور اس کی نصرت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا اس کی ہمیں مدد لینی چاہیے اس سے دعا کرنی چاہیے اس سے یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ وہ دعا کو قبول کرے اور ہمیں قبولیت دعا کا ایک نشان اور معجزہ دکھائے.اس طرح اس کے فضل سے بشاشت کے ساتھ ہمیں عمل کرنے کی توفیق مل جائے اور ہمارے ایمان اس کی رحمت سے مضبوط ہو جائیں خود انسان کچھ نہیں کر سکتا انسان کو بہکنا نہیں چاہیے انسان کو یہ نہیں زیب دیتا کہ وہ اپنے نفس کو فربہ کرے.انسان کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ خود نمائی کرے وہ اپنے کو کچھ سمجھے اور اس کا اظہار کرے عاجزی اس کی حقیقت اور عاجزانہ راہیں اس کا طریق ہونا چاہیے.فرما یا قُلُ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَولا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : ۷۸) اللہ تعالیٰ کی ذات تو غنی ہے اسے تو تمہاری احتیاج نہیں ہے تمہیں اس کی احتیاج ہے اگر تم اس احتیاج کا احساس نہ رکھتے ہوا گر تم دنیا میں عزت کے لئے اس سے عزت حاصل کرنے کی خواہش نہ رکھتے ہو، اگر تم اپنے بوٹ کے تسمہ کے حصول کے لئے خود کو طاقتور اور اپنی طاقت اور مال کی طاقت کو کافی سمجھتے ہو، تو تم مارے گئے تم ہلاک ہو گئے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ اگر تم دعا کے ذریعہ سے اس غنی کے دروازے کو نہیں کھٹکھٹاؤ گے (جسے تمہاری احتیاج نہیں جس کی تمہیں ہر آن احتیاج ہے) تو مارے جاؤ گے پس بے پرواہ نہیں ہونا چاہیے غافل نہیں ہونا چاہیے جس طرح اسے جو ہمارا محبوب اور پیارا آقا ہے نیند نہیں آتی اور اونگھ نہیں آتی ، اسی طرح تم بھی جس حد تک تمہیں خدا نے طاقت اور توفیق دی ہے بیدار رہنے کی کوشش کرو تا کہ تم خواہ چھوٹے سے پیمانہ پر ہی سہی ، اس کی اس صفت کے (جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے کہ نہ اسے نیند آتی ہے نہ اونگھ آتی ہے) اپنی استعداد کے مطابق اپنی طاقت کے لحاظ سے مظہر بنو.یہ درست ہے، لیکن تمہارے دل میں یہ بڑی شدید خواہش ہونی چاہیے کہ اس کی ہر صفت کا ہم نے مظہر بننا ہے اور اس صفت کا بھی ہم نے مظہر بننا ہے جب یہ ہو جائے گا ، جب تمہیں اپنا پتہ لگ جائے گا کہ تم کچھ بھی نہیں ، جب تم کو اس کا علم اور اس کی معرفت حاصل ہو جائے گی کہ وہی سب کچھ ہے وہی سب طاقتوں والا ہے جب تم یہ پہچان لو گے کہ اسے تمہاری ضرورت اور احتیاج نہیں ، جب تم اس کی یہ معرفت حاصل کر لو گے کہ تمہیں ہر چیز میں اس کی احتیاج ہے تو پھر وہ تمہیں مل جائے گا، پھر وہ تمہاری دعاؤں کو
خطبات ناصر جلد سوم ۴۰۰ خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۷۰ء قبول کرے گا اور اپنی قدرت کے نشان تمہارے لئے ظاہر کرے گا لیکن اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں خدا کرے کہ ہمیں ہر آن یہ احساس رہے اور ہمارا یہ احساس ہر وقت زندہ رہے کہ ہر وقت ہر چیز میں اور ہر کام کے لئے ہمیں اس کی احتیاج ہے اور دعا یہ ہے کہ اس کے فضل کو حاصل کرنے کی جد و جہد ہماری زندگیوں میں جاری رہے تاکہ ہم ہمیشہ ہی اس کے فضل اور اس کی رحمت کے وارث بنتے رہیں.اللهم آمین روزنامه الفضل ربوه ۳۰ را پریل ۱۹۷۱ء صفحه ۳ تا ۴)
خطبات ناصر جلد سوم ۴۰۱ خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۷۰ء الہی جماعتیں یقین رکھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور بشارتوں کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی فرمائی:.خطبه جمعه فرموده ۶ / نومبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورہ انعام کی یہ آیت تلاوت فَصَبَرُوا عَلَى مَا كَذِبُوا وَ أَوذُوا حَتَّى أَنهُمُ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِ اللَّهِ - (الانعام : ۳۵) اس کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے فرمایا:.پچھلے دنوں مجھے نزلے اور کھانسی کی بہت تکلیف رہی.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اب بہت حد تک بیماری دور ہوگئی ہے لیکن بیماری اور ضعف پیدا کر نیوالی دوائیں جو اس بیماری میں استعمال کی گئی ہیں ان کی وجہ سے ابھی تک کمزوری ہے دعا ہے اور آپ کی دعا بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کامل صحت عطا فرمائے اس وقت سورت انعام کی جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں ہمیں بنیادی بات یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم شدہ سلسلے اور جماعتیں اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات یعنی اس کی بشارتوں اور وعدوں کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۰۲ خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۷۰ء غافل انسان کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ جب تک وہ اپنی غفلت کی چادر میں پھاڑ کر بیداری اور ہوشیاری اور نور کے سایہ تلے نہیں آجاتا اس وقت تک وہ اس معنے میں بھی شرک کرتا ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اپنی خواہشات اور اپنے احکام اور اپنے کلمات دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر کبھی اس کا اور اس کے پیدا کرنے والے رب کا مقابلہ ہوا تو وہ اپنے رب کو شکست دے گا اور خود کامیاب ہوگا لیکن انسان کی ہدایت کے لئے جب اللہ تعالیٰ اپنے منصوبے بنا تا اور ان کو جاری فرماتا ہے تو ایک ایسی جماعت پیدا کرتا ہے جو اس کے ساتھ زندہ تعلق رکھنے والی اور اس کے وعدوں پر پورا یقین رکھنے والی ہوتی ہے اور پھر اس طرح پر یہ ایک چھوٹی سی جماعت، یہ ایک بے سہارا جماعت، یہ ایک کم مایہ جماعت جب دنیا کے اموال اور دنیا کے اثر ورسوخ اور دنیا کے جتھوں کے مقابلے پر آتی ہے تو وہ دنیوی دولت اور وہ دنیوی اثر ورسوخ اور وہ دنیوی کثرت جو یہ بجھتی ہے کہ ان کی مرضی چلے گی اور ان کے رب کی مرضی نہیں چلے گی ناکام ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا یہ نظارہ اپنے بندوں کو دکھاتا ہے کہ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ الله (الانعام : ۳۵) دنیا کی کوئی ایک طاقت تو کیا سب طاقتیں مل کر بھی اس کے کلمات یعنی اس کے وعدوں اور بشارتوں کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں.ہوگا وہی جو خدا چاہے گا وہ نہیں ہوگا جو د نیا چاہے گی کیونکہ دنیا کے غرور اور دنیا کے اموال اور طاقت میں مست لوگ جب اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں کے مقابلے پر آتے ہیں اور ظاہری اعتبار سے انہیں کم مایہ اور کمزور پاتے ہیں تو وہ مختلف قسم کے حربے ان کے خلاف استعمال کرتے ہیں وہ انہیں کہتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو.انہیں کہتے ہیں کہ تم کا فر ہو.انہیں کہتے ہیں کہ تم دین میں فتنہ پیدا کرنے والے ہو اور خود ساری جہالتوں اور جہالت کے سبب اندھیروں کے باوجود یہ دعویٰ کرتے کہ وہ حق پر ہیں اور وہ صداقت پر ہیں اور سچائی ان کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا.وہ لوگ جو مذہب سے دلچسپی رکھتے ہیں جن کے دل میں خدا اور اس کے رسول کے لئے ایک نامعلوم سی محبت ہوتی ہے ان کو اس طرح دھو کے میں ڈال کر حقیقت سے دور اور صداقت سے پرے لے جانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور الہی جماعت کی تکذیب ہوتی ہے تکفیر ہوتی ہے.ساری دنیا اکٹھی ہو کر انہیں کا فر
خطبات ناصر جلد سوم کہنے لگ جاتی ہے.۴۰۳ خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۷۰ء اسی طرح جب وہ دیکھتے ہیں کہ تھوڑے ہونے کے باوجود، کم مایہ ہونے کے باوجود بے سہارا ہوتے ہوئے بھی یہ جماعت ان سے خوف نہیں کھاتی یہ جماعت اس طرح نڈر ہے کہ جب یہ لوگ اس کے لئے آگ جلاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں لا مُبَدِّلَ لِكَلِت اللہ ہمیں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.آگیں جتنی چاہو جلا لو ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمت اللہ جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہی پورا ہوتا ہے.پس دنیا میں الہی جماعت کے خلاف بڑے منصوبے بنائے جاتے ہیں بڑی تدبیریں کی جاتی ہیں کہ انہیں صفیہ ہستی سے مٹادیا جائے کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ جب ہمیں طاقت ملی تو تین دن کے اندراندر تمام احمدیوں کو تختہ دار پر لٹکا دیں گے مگر تختہ دار تو اسے ملتا ہے جسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ملے لیکن خدا تعالیٰ جس کی حفاظت کرنی چاہے تو وہ جلتی ہوئی آگ میں سے بھی بچا کر لے آتا ہے اسے تو وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح تختہ دار سے بھی زندہ اتار لیتا ہے.الہی طاقتوں کے مقابلے میں مادی ذرائع کوئی حقیقت نہیں رکھتے نہ کبھی کامیاب ہوئے ہیں لیکن جب تکفیر ہو رہی ہوتی ہے.جب ایذا رسانی کے تمام منصوبے اور تمام تدابیر اختیار کی جارہی ہوتی ہیں تو یہ چھوٹی سی جماعت جو اپنے رب سے تعلق رکھتی ہے جو اپنے رب کے دامن سے چھٹی ہوتی ہے اور اس سے پرے ہٹنا نہیں چاہتی وہ پورے ثبات قدم کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو ثابت کرتی ہے وہ دنیا کے سارے خوف دل سے مٹا کر اور دنیا کی ہر خشیت سے بیزاری کا اظہار کر کے اپنے رب کو یہ کہتی ہے کہ اے ہمارے رب! اگر تجھے ہماری جان چاہیے تو ہم بھیل نہیں ہیں جان دینے میں کیونکہ ہم تو تیری رضا کے طالب ہیں اور دنیا جو مرضی کر لے ہو گا وہی جو تو چاہے گا اور تو یہ چاہ کہ ہم ثابت قدم رہیں.دعا کے ساتھ اور دعاؤں کے نتیجہ میں صبر کی طاقت پاکر اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور اسکی طاقتوں کے معجزے دکھانے کا حزب اللہ ایک آلہ بن جاتا ہے جیسے ایک بلب ہے جس کے اندر ایک تار ہوتی ہے جو ذریعہ بن جاتی ہے نہ نظر آنے والی بجلی کی روشنی کو ظاہر کرنے کا، اسی طرح یہ جماعت ذریعہ بن جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی طاقتوں اور قدرتوں کے جلوے دکھانے
خطبات ناصر جلد سوم ۴۰۴ خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۷۰ء کا.اللہ تعالیٰ تو بندے کو نظر نہیں آسکتا نہ یہ مادی آنکھ اسے دیکھ سکتی ہے اور نہ یہ مادی دماغ اس حد تک رسائی حاصل کر سکتا ہے یہ تو خدا تعالیٰ ہی ہے جو اپنے محبوب بندے کے پاس پہنچتا ہے اور اس کو بھی اپنی قدرتوں کا جلوہ دکھا کر اپنے زندہ تعلق کا اظہار کرتا ہے اور اسے ذریعہ بھی بنالیتا ہے اس بات کا کہ جس طرح دھات کی ایک بار یک تاریجلی کی روشنی ظاہر کرتی ہے اسی طرح یہ ایک چھوٹی سی جماعت (اس تار سے بھی شاید کم حیثیت رکھنے والی ) اس نور کے اظہار کا ذریعہ بنتی ہے جو نور که نور السمواتِ وَالْأَرْضِ ہے.پس جب ان کے خلاف زبانیں چلائی جاتی ہیں تو یہ ثبات قدم دکھاتے ہیں اور جب انہیں دکھ دینے کے لئے تدبیریں کی جاتی ہیں اور منصو بے باندھے جاتے ہیں اور سامان اکٹھے کئے جاتے ہیں اور ایک شور مچایا جاتا ہے اور دعوے کئے جاتے ہیں کہ ہم ان کو قتل کر دیں گے اور مار دیں گے تو ان کے قدموں میں کوئی لغزش نہیں آتی اور وہ جن کے اوپر رعایا کی حفاظت کی ذمہ داری ہے وہ بھی خاموش رہ جاتے ہیں لیکن خدائے قادر و توانا جس نے ان کی زندگی کی ضمانت لی ہے اور جس کے اوپر نیند اور اونگھ نہیں آتی اور جس کے قادرانہ تصرف سے کوئی چیز باہر نہیں وہ ان کے پاس آتا ہے اور انہیں بڑے پیار سے کہتا ہے تم گھبراؤ نہیں دنیا تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتی.تم میری حفاظت اور میری پناہ اور میری سلامتی کے نیچے ہو.میرے مقابلہ میں دنیا کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا.پس لا مُبَدِّلَ لِكَلِیتِ اللهِ جو خدا نے فرمایا ہے وہی ہوگا.ہمارا اس پر پختہ یقین اور کامل ایمان رکھنا ضروری ہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں فرمایا کہ آگ تمہیں نہیں جلائے گی.خدا تعالیٰ نے ہمیں بڑے پیار سے یہ فرمایا کہ ساری دنیا کی طاقتیں اکٹھی ہو کر بھی تمہیں ہلاک نہیں کر سکتیں اور نہ صرف یہ فرمایا ہے بلکہ اپنے فعل سے یہ ثابت بھی کیا ہے.میں افریقہ میں یہ کہتا رہا ہوں کہ اکیلا ایک شخص تھا جس نے خدا کے حکم اور اس کی توحید کے قیام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کو دنیا کے دلوں میں بٹھانے کے لئے ایک آواز بلند کی تھی مگر ساری دنیا اکٹھی ہو کر اس ایک آواز کو خاموش کرنے کے پیچھے پڑگئی لیکن ساری دنیا اکٹھی ہو کر بھی اس ایک آواز کو خاموش نہیں کر سکی اور اب افریقہ کے ایک ایک ملک میں ایسی لاکھوں آوازیں میرے کان میں پڑ رہی ہیں کہ جن میں سے ہر ایک آواز اس اکیلے آدمی کی آواز
خطبات ناصر جلد سوم ۴۰۵ خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۷۰ء کی صدائے بازگشت ہے.غرض صرف یہ دعویٰ نہیں یہ ایک ایسی آواز نہیں کہ جس کے متعلق ہم ذرا سا شبہ بھی کر سکیں کہ پتہ نہیں یہ وعدہ پورا بھی ہوتا ہے یا نہیں.نہیں! یہ خدا کی بات ہے اور خدا کی باتیں اٹل ہوتی ہیں اور اس کا عمل، اس کی طاقت ، اس کے قادرانہ تصرف (وہ بھی ہمیں اطمینان قلب بخشنے کے لئے ہے کہ لَا مُبَدِّلَ لِحلمت اللہ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو تو کوئی بدل نہیں سکتا ) اس حق کے وعدہ کی صداقت کا ثبوت ملتا ہے یہ ایمان اور یقین پختہ ہونا چاہیے پھر دعا کے ساتھ صبر کی طاقت اور صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنی چاہیے.دنیا کافر کہے کوئی فرق نہیں پڑتا اللہ تعالیٰ کافر نہ کہے.دنیا جھوٹا کہے.ہمارا کیا نقصان ہے وہ بے شک کہتی رہے ہیں تو اس قسم کی باتیں سن کر بھی غصہ نہیں آتا.ہم تو ایسے شخص کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کیونکہ جس راستے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی انگلی پکڑ کر چل رہا ہے اس راستے کو وہ لوگ اختیار نہیں کر رہے.بہر حال اگر وہ جھوٹا کہیں تو ہمیں نہ اس کی کوئی پرواہ ہے نہ ہمیں اس پر کوئی غصہ آتا ہے کیونکہ ہمارا رب بڑے پیار سے ہمارے کان میں کہتا ہے کہ میں تمہیں سچا سمجھتا ہوں.کوئی آدمی اگر ہمیں یہ کہے کہ تم اپنے رب سے دور اور ملعون ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے جب کہ وہی رب جس سے ڈوری کے متعلق وہ فتویٰ دیتے ہیں وہ ہمیں کہتا ہے کہ تم میری گود میں بیٹھے ہو تم کیوں فکر کرتے ہو.پس لا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِ اللہ پر ہمارا پختہ یقین ہونا چاہیے اور صبر اور دعا سے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کو حاصل کرنا چاہیے اور جس وقت وہ مدد حاصل ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر اس کی مخلوق کی خدمت میں لگ جانا چاہیے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو وہ مدد حاصل ہے.پاکستان میں بھی ، ہندوستان میں بھی ، یورپ میں بھی ، انگلستان میں بھی ، امریکہ میں بھی ، افریقہ میں جزائر میں بھی ، آسٹریلیا میں بھی ، اور نیوزی لینڈ میں بھی.کہاں ہے وہ خطہ زمین جہاں احمدی بستے ہیں اور ان کے اوپر سورج غروب ہوتا ہے اب تو وہ پہلی سی حالت نہیں رہی اور اطمینان قلب پیدا کرنے کے لئے ہر جگہ اللہ تعالیٰ کا یہ فعل جاری ہے.اطمینانِ قلب حاصل کرنے کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے ربّ کو ایک
خطبات ناصر جلد سوم ۴۰۶ خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۷۰ء سوال کا جواب یہی دیا تھا کہ لِيَطْمن قلبى (البقرة : (۲۶) اس لئے وضاحت چاہتا ہوں کہ مجھے اور زیادہ اطمینان ہو.چنانچہ ہمارے دل کو مطمئن کرنے کے لئے اور ہمارے ایمان اور یقین کو پختہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا یہ فعل ہر روز ہمیں بتا رہا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے اور اس کے وعدے اور بشارتیں ہمیں حاصل ہیں اور اس کی باتیں بدلا نہیں کرتیں اس لئے دنیا جو کہے اور جو کرے اس کی آپ کو کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہیے.وہ کمزور انسان جو اپنے رب کی گود میں بیٹھا ہے وہ کسی اور سے کیسے ڈرے گا ؟ جب کہ وہ بچہ بھی نہیں ڈرتا جوا اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہوتا ہے.حالانکہ اس کی ماں کو تو کوئی طاقت حاصل نہیں ہے ہمارے رب کے پاس تو ساری طاقتیں ہیں.اس لئے اگر ان پاک فضاؤں میں شور بپا ہو.اگر کفر کے فتوے اور زیادہ گونجنے لگیں ، اگر ہمارے ساتھ اور استہزاء کیا جائے اور ہمیں دکھ دینے یا مارنے یا مٹانے کے دعوے جتھوں اور جلوسوں میں کئے جائیں تو عدد جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں اس وقت اپنی تدبر پر بھروسہ نہ کرنا بلکہ اس وقت اپنے رب کی پناہ میں پناہ لینا اور اسی کو اپنا سہارا بنا نا پھر دنیا جماعت کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور نہ ہی انشاءاللہ اس کا کچھ بگاڑ سکے گی کیونکہ لا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِ الله - روزنامه الفضل ربوه ۲۷ نومبر ۱۹۷۰ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد سوم ۴۰۷ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۷۰ء اسلام کے پیغام محبت ، خدمت اور مساوات سے لوگوں کے قلوب کو فتح کیا جاسکتا ہے خطبه جمعه فرموده ۲ دسمبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن عظیم ایک کامل اور مکمل شریعت ہے سینکڑوں احکام اس میں دیئے گئے ہیں جب ہم اس عظیم شریعت اور ہدایت اور کامل کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ بعض دفعہ حکم حکم کی صورت میں دیا گیا ہے اور بعض دفعہ حکم مومن کی صفت کی صورت میں دیا گیا ہے.مثلاً بعض جگہ یہ کہا گیا ہے کہ نمازوں کو شرائط کے ساتھ ادا کرو.اور زکوۃ کو پابندی کے ساتھ دو اور بعض جگہ یہ کہا گیا ہے کہ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ نماز کو شرائط کے ساتھ ادا کرنے اور زکوۃ دینے والا ہے.اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ جب صفت کے طور پر الہبی منشاء ظاہر کیا جاتا ہے اس میں یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ دین اسلام دین فطرت ہے.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو ایسا بنایا ہے کہ وہ ارتقائی مدارج میں سے گزرنے کے بعد ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام کا بوجھ برداشت کر سکے اور چونکہ فطرت کے مطابق احکام دیئے گئے ہیں اس لئے ہر وہ شخص جس کی فطرت صحیحہ ہے یعنی جو کامل مومن ہے وہ ایسا ہی ہے.کیونکہ فطرت کے مطابق دینِ اسلام ہے اور فطرت کا تقاضا پورا ہوتا ہے جب دین اسلام کا حکم مانا جائے اور اس کے مطابق کام کیا جائے.اللہ تعالیٰ نے فطرتِ انسانی میں ایک بات یہ رکھی ہے کہ وہ اپنی نوع سے محبت کرتا ہے اور اس کے لئے قربانی دینے کی خواہش
خطبات ناصر جلد سوم ۴۰۸ خطبہ جمعہ ۴/دسمبر ۱۹۷۰ء اور تڑپ رکھتا ہے.انسان کی یہ فطرت کے اندر ہے.آپ چرندوں کو لیں ، پرندوں کو لیں، درندوں کولیں، مچھلیوں کو لیں یعنی اگر ان کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ نظر آئے گا کہ کسی اور جاندار مخلوق میں یہ خواہش نہیں پیدا ہوتی کہ خود نہ کھائے اور اپنی نوع کے دوسرے افراد کو کھلائے.انسان نے گھوڑے مسخر کئے.گھوڑوں نے بڑا کام کیا اور اب بھی وہ کام دے رہے ہیں.باوفا جانور ہے.اور ہمارے دل میں اس کے لئے اس وجہ سے پیار ہے کہ اس نے اس وقت اسلام کی خدمت کی جب دنیا کی بڑی طاقتیں اسلام کے خلاف تلوار چلا رہی تھیں اور اس وقت انہوں نے بڑا کام کیا اور بڑی خدمت کی.اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے مسلمان کو توفیق دی گھوڑے مسخر کرنے کی اور گھوڑے کو یہ توفیق دی کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مجاہدہ کر رہے ہیں ان کی خدمت کرے.کتابوں میں لکھا ہے کہ گھوڑوں کو باندھ کر یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ ایک دوسرے کا کھانا کھانے کی کوشش تو نہیں کرتے؟ کیا یہ بات ان کے اندر ہے.ان کی کوئی ایسی فطرت نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے لئے قربانی دیں.بلکہ کئی پیٹو گھوڑے، کئی بے صبرے گھوڑے اس خیال سے کہ کہیں دوسرا گھوڑا زیادہ نہ کھالے وہ خود زیادہ کھانے کی کوشش کرتے ہیں.اسی طرح اگر آپ کے گھر کے صحن میں جہاں چڑیوں کو کھانے کے لئے ملے صبح کے وقت یا غروب آفتاب سے قبل اور وہ رات کا کھانا کھا رہی ہوں تو وہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک دوسرے کو پرے دوڑانے کی کوشش کرتی ہیں.کوئی ایسا نہیں کرتی کہ ایک جگہ دانہ پڑا ہوا ہو اور ایک چڑیا پرے ہٹ جائے اور دوسری کو کہے کہ تم آکر کھالو نہیں ، یہ ان کی فطرت کے اندر نہیں ہے.لیکن یہ انسان کی فطرت کے اندر ہے کہ وہ اپنے بھائی سے ہمدردی کرتا ہے....ویسے تو وہ اللہ تعالی کی ساری مخلوق سے ہی ہمدردی کرتا ہے.لیکن وہ اپنے بھائی سے سب سے زیادہ ہمدردی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی عجیب فطرت دی ہے یہ بھی اس کا احسان ہے.وہ دوسروں کے لئے اپنے اموال بھی خرچ کرنا چاہتا ہے.یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ سارے خرچ کرتے ہیں.کیونکہ بہت سی فطرتیں مسخ ہو جاتی ہیں یا بہت سی فطرتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی صحیح تربیت نہیں ہوتی لیکن اس کے نتیجہ میں یہ نہیں ہم کہہ سکتے کہ فطرت ایسی ہے.ہم اس کے نتیجہ میں یہ کہتے کہ فطرت تو صحیح تھی لیکن حالات نے یا
خطبات ناصر جلد سوم ۴۰۹ خطبہ جمعہ ۴/دسمبر ۱۹۷۰ء بے توجہی نے یا عدم تربیت نے وہ فطرت مسخ کر دی.انسانی فطرت صحیحہ ہے.یہ نہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دوسری مخلوق کی طرح اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ غیر کی پرواہ نہ کرے اور ساری مخلوق خصوصاً بنی نوع انسان کے لئے قربانی نہ دے.یہ فطرت کے اندر ہے اس لئے قرآن کریم نے اس کے متعلق یہ فرما یا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ “ کہ مومن جن کی فطرت صحیحہ ہے جو ہم نے ان کو دیا ہے وہ دوسروں کے لئے خرچ کرتے ہیں.یہ فطرتی تقاضا ہے.انسان اس سے رہ نہیں سکتا.اگر فطرتِ صحیحہ ہو اور غیر تربیت یافتہ یا مسخ شدہ نہ ہو تو ایک مومن مسلمان مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنفِقُونَ پر عمل کرتا ہے.کئی جگہ فرمایا کہ یہ کرو مگر یہاں یہ فرمایا کہ انسانی فطرت میں یہ ہے کہ جو بھی ہم نے ان کو دیا ہے وہ اپنی نوع کے لئے اپنے بھائیوں کے لئے اسے خرچ کرتے ہیں اور مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں دو قسم کے عطا یا نظر آتے ہیں ایک وہ کہ جتنا ہم چاہیں اتنا ہم خرچ نہیں کر سکتے اور دوسرے وہ کہ جتنا ہم چاہیں ہم غیر کے لئے دے سکتے ہیں اور کوئی روک نہیں ہے.پہلی قسم ہے اموال کی.اب مشرقی پاکستان میں ہمارے بھائیوں پر ایک ہولناک ابتلا اور امتحان (سمندری طوفان ) آیا وہ بڑی مصیبت سے گزرے.اگر جو ہم چاہتے ہیں وہ دے سکتے تو احمدی تو ساری دنیا کی دولت اکٹھی کر کے مشرقی پاکستان کے بھائیوں کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے تاکہ ان کی کوئی تکلیف باقی نہ رہے.لیکن یہ غریب جماعت جو چاہتی تھی وہ نہیں کر سکتی تھی.جتنا خدا نے مال دیا اس کا ایک حصہ ہی دے سکتے ہیں اور ہزار قسم کی ذمہ داریاں ہیں.کچھ اس میں سے بچایا تکلیف بھی اٹھائی اور دیا لیکن جتنا چاہتے تھے اتنا نہیں دے سکے.ایک تو اس قسم کی خدمت ہے کہ انسان چاہتا تو بہت زیادہ ہے لیکن عملاً وہ کر نہیں سکتا لیکن ایک دوسری چیز اللہ تعالیٰ کی ہے.ایک دوسری دولت ہے.ایک دوسری عطا ہے.ہم جتنا چاہیں ہم دے سکتے ہیں.مثلاً دعا ہے جتنی چاہیں ہم دعا کر سکتے ہیں.کوئی روک نہیں.پس ایک قسم تو وہ ہے کہ جتنا چاہیں وہ نہیں دے سکتے.دوسری وہ ہے کہ جتنا چاہیں وہ دے سکتے ہیں اور اس کی طرف ہی اس وقت اپنے بھائی، بہنوں، بچوں اور بچیوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں ہم مالی لحاظ سے اپنی خواہش اور تڑپ کے مقابلہ میں بہت حقیر چیز پیش کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر
خطبات ناصر جلد سوم ۴۱۰ خطبہ جمعہ ۴/دسمبر ۱۹۷۰ء بھی.لیکن ایک چیز ہے جس کے راستے میں کوئی روک نہیں ہے کہ جتنا چاہیں ہم اپنے بھائیوں کے لئے دعا کر سکتے ہیں.تو ان کے دعا کریں ان کے لئے بے انتہا دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صبر کی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ ان کو اگر ابتلا مقدر ہوں تو ان میں pass ( کامیاب ) کرے اور اپنا فضل اور رحم کرے اور آئندہ انہیں بھی اور ہمیں بھی اور ہر ملک کے باشندوں کو تمام بنی نوع انسان کو ہلاکت اور تباہی اور ابتلاء اور امتحان سے محفوظ رکھے وہ بڑا رحم کرنے والا ہے.دوسرے آپ جتنا چاہیں آپ دعا کر سکتے ہیں.اس میں کوئی روک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے حالات درست کرے اور درست رکھے اس وقت جیسا کہ گذشتہ شام پریذیڈنٹ بیٹی صاحب نے بھی کہا اور یہ ایک حقیقت ہے کوئی سمجھدار اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ بڑے ہی اہم دور میں سے یہ ملک اس وقت گذر رہا ہے.انتخابات ہونے والے ہیں.جذبات کو ابھارا جارہا ہے جذبات بھڑکیں گے.آگ جلے گی کچھ شعلے بعد میں بھی باقی رہیں گے اگر ہم بے وقوفی کریں.اگر ہم حماقت کریں اگر ہم تو جہ نہ کریں تو یہ ہو گا لیکن اگر ہم قوم کا دردر کھتے ہوں اور قوم کے لئے ہم کام کرنے کے لئے تیار ہوں اور قوم کو مصیبت میں ڈالنے کی خواہش نہ ہو بلکہ ان کی خدمت کرنے کی اور ان کے لئے بھلائی اور خیر کے سامان پیدا کرنے کی نیت ہو تو ہمیں صبر سے کام لینا پڑے گا اور ہمیں نفرت اور غصہ کے جذبات کو بھڑکا نانہیں چاہیے.اس سے پر ہیز کرنا پڑے گا تو خصوصاً ان دنوں میں یہ دعا ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم کرے اور جو الیکشنز میں حصہ لے رہے ہیں ان کو یہ سمجھ دے کہ یہ ان کی ذات کا یا پارٹی کا معاملہ نہیں بلکہ ملک کا معاملہ ہے.ہار جیت تو دیکھیں کہ کس کی ہوتی ہے لیکن ایک شریف انسان جب جیتا ہے تو متکبر نہیں بنتا اور غرور اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ جیت کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھتے ہوئے خدا کے لئے اس کے حکم کے مطابق وہ عاجز ان راہوں کو اختیار کرتا ہے اور وہ جو نہیں جیت سکا وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ دنیا تو عارضی ہے یہاں کی جیت ہار کوئی حقیقت نہیں رکھتی.ہمیں آئندہ کے متعلق فکر کرنی چاہیے.وہ بشاشت کے ساتھ اور شرافت کے ساتھ اپنی شکست کو تسلیم کرتا ہے اور جو بہادر ہیں ایسے بہادروں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے وہ جیتنے والے مد مقابل کو جا کر مبارک باد دیتے ہیں.ان سے گلے ملتے ہیں وہ کہتے ہیں الیکشن کی لڑائی تھی ہماری
خطبات ناصر جلد سوم ۴۱۱ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۷۰ء آپس میں تو کوئی دشمنی نہیں تھی.خدا ایسے دل ہماری قوم کو بھی دے کہ جب وہ جیتیں تو خدا کی راہ میں خدا کے لئے اس کے حکم سے عاجزانہ راہوں کو اختیار کریں اور اگر وہ جیت نہ سکیں تو شرافت کا ایک نہایت اعلی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں.صرف اپنے ملک کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے وہ ہادی بنے کی کوشش کریں.وہ جیتنے والے کو مبارک باد دیں اور ان سے گلے بھی ملیں ان کو تسلی بھی دیں کہ یہ الیکشن کا مقابلہ تھا اس سے پیار کی فضا پیدا ہوتی ہے جب ہمارا کالج لاہور میں تھا تو ہمارا کالج اور تو کوئی کھیل کھیل نہ سکتا تھا.پاکستان بننے کے بعد ابتداء میں ہی ہم نے روئنگ شروع کی تھی.دریا کے کنارے پر پرنسپلز میں سے صرف میں وہاں جایا کرتا تھا کیونکہ دوسرے کا لجزہا کی بھی کھیل رہے تھے ، فٹ بال بھی کھیل رہے تھے اور کرکٹ بھی کھیل رہے تھے اور بیبیوں قسم کی کھیلیں وہ کھیل رہے تھے تو ہر جگہ پر نسپل تو نہیں پہنچ سکتا.ہمارا کالج شروع میں روئنگ میں پہلے مقابلہ پر آیا.وہاں اسلامیہ کالج بھی تھا وہ پہلے فرسٹ پوزیشن میں تھا پھر بعد میں ہم نے ان کو شکست دی اور فرسٹ پوزیشن پر آگئے اور تیرہ سال سے شاید سوائے ایک دو سال کے اب تک فرسٹ آرہے ہیں لیکن ان بچوں کو بھی میں سمجھا تا رہتا تھا کہ مقابلہ کشتی رانی کا ہے.جب تم دریا کے پانی پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرو گے تو ہمارا مقابلہ ہے لیکن دریا کے کنارے پر جیسے میرے اپنے کالج کے بچے ہیں ویسے ہی دوسرے کا لجز کے بچے ہیں اور میرے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے تمہیں اگر کوئی تکلیف ہوا گر کوئی ضرورت ہو تو مجھے آکر بتا یا کرو اور بعض دفعہ دوسرے کا لجز کے بچے پیچھے پڑ جاتے تھے کہ آپ مقابلہ کرنے والے اپنے لڑکوں کو وائکا منز (vitamins) دے رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ہم بھی آپ جیسے ہیں تو پھر ہمیں کیوں نہیں دیتے تو میں انہیں بھی دے دیا کرتا تھا عملاً بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسی اچھی فضا وہاں تھی باوجود اس کے کہ لاہور میں بعض غیر تربیت یافتہ علاقے بھی ہیں.ایک دفعہ کشتی رانی کے مقابلہ سے پہلے اسلامیہ کالج کے حق میں اور ہمارے خلاف ایک نعرہ بڑی گندی قسم کا لگ گیا تو اسلامیہ کالج کی ٹیم کا کیپٹن ان کے پاس چلا گیا اور ان کو کہنے لگا کہ اگر پھر تم نے ایسا نعرہ لگایا تو ہم مقابلہ نہیں کریں گے واپس آجائیں گے تو محبت کی فضا قائم کرنا تو ساروں کی ذمہ داری ہے اور محبت کے نتیجہ میں محبت پیدا ہوتی ہے.محبت ہی جیتتی ہے.اسلام نے ہمارے ہاتھ میں محبت اور خدمت اور مساوات
خطبات ناصر جلد سوم ۴۱۲ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۷۰ء کی تلوار دی تھی.اسلام کو لوہے کی تلوار تو مجبوراً استعمال کرنی پڑی کیونکہ اسلام کے مقابلہ میں لوہے کی تلوار نکالی گئی.لیکن اصل تلوار ہمارے ہاتھ میں خدائے رحمن نے اور خدائے ودود نے محبت اور مساوات اور پیار اور خدمت کی دی ہے اور جہاں گئے ہیں اسی تلوار نے دشمن کو گھائل کیا ہے اور وہ علاقے جہاں سے وقتی طور پر مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور جہاں کی غیر مسلم آبادی نے رو رو کر ان کو الوداع کہا اور دعائیں دیں کہ خدا تمہیں واپس لائے.کیا وہ لوہے کی تلوار کا کرشمہ یا معجزہ تھا یہ تو پیار کا ایک معجزہ تھا وہ مساوات کا کرشمہ تھا اور خدمت کا وہ نتیجہ تھا کہ انہوں نے دیکھا کہ مسلمان ہمارے پاس آئے ہمارے ہمدرد بن کر آئے.ہمارے خیر خواہ بن کر آئے.ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہمارے جذبات کا خیال رکھنے والے بن کر آئے.جب وہ وہاں سے جانے لگے تو غیر مسلم آبادی کے دل میں دکھ اور درد پیدا ہوا لوہے کی تلوار نے یہ فضا پیدا نہیں کی تھی یہ محبت اور پیار کی زبان نے ، یہ خدمت کے جذبہ نے ، یہ مساوات کی تعلیم نے فضا قائم کی تھی تو خدا کرے کہ ہمارے جو سیاسی قائدین اور لیڈرز ہیں ان کو یہ مسئلہ اسلام کا سمجھ آ جائے اور اس فضا کو جو پاک ہونی چاہیے وہ اسے پاک بنادیں اور پیار کی فضا بن جائے اور ہزار قسم کے اختلاف کے باوجود بھائیوں کی طرح ہی نہیں بلکہ ہمارا رشتہ تو انسان کے انسان سے بھی بڑھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کا ہے.جو بھی ہمارے اعتقادات ہیں جو بھی ہمارے خیالات ہیں.ہم اس چیز میں تو متفق ہیں نا.کہ ہم سارے کہتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اسلام نے اس سے بھی اوپر ہمیں یہ تعلیم دی تھی جس کا یہ نتیجہ بنا ہے کہ چونکہ سارے انسان اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے پیدا کردہ اور سارے عالم پر تسخیر کرنے اور ان کو اپنے قابو میں کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت رکھنے والے ہیں اس لئے سب برابر ہیں تمیز نہیں کی جاسکتی نہ سفید اور کالے کے درمیان ، نہ کالے اور زرد رنگ کے درمیان ، نہ چھوٹے قد اور بڑے قد کے درمیان، نہ امیر اور غریب کے درمیان ، نہ بچے اور بڑے کے درمیان ، نہ عورت اور مرد کے درمیان ، جس قسم کی اہلیت ہے اس کے مطابق اس کی نشو و نما کمال تک پہنچنی چاہیے اور ایسی حسین تعلیم دی ہے.میں افریقہ میں گیا ہوں.ان کے سامنے جب یہ باتیں پیش کرتا تھا تو احمدی اور دوسرے بھی خوش ہوتے تھے.مگر
خطبات ناصر جلد سوم ۴۱۳ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۷۰ء عیسائی بھی اپنی جگہ سے چھلانگ لگا دیتے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ اگر اسلام کی یہی تعلیم ہے جو یہ پیش کر رہے تو ہمارے لئے بڑی مشکل پیدا ہو جائے گی.کیونکہ ان کے پاس اس کا جواب کوئی نہیں اور اسلام کی یہی حسین تعلیم ہے.آپ اس زمانہ کے حالات کو دیکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے وفد کو کہا کہ عیسائی رہتے ہوئے میری اس مسجد میں جو مساجد میں سب سے زیادہ عزت اور احترام والی مسجد تھی تم اپنے طریقہ کے مطابق اللہ کی عبادت کرو.کیونکہ عیسائیوں کا وہ فرقہ خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے والا فرقہ تھا.قرآن کریم نے یہ اعلان کر دیا کہ آنَّ الْمَسجِدَ لِلہ کوئی انسان مسجد کے اوپر ملکیت کا دعویٰ کر ہی نہیں سکتا.مسجد اللہ کی ہے.فلا تدعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (الجن : ۱۹) ہر وہ شخص جو موحد ہونے کی صورت میں خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنا چاہے اس کے لئے مساجد کے دروازے کھلے ہیں.خدائے واحد و یگانہ کے آگے وہ سر رکھے.اس کا حکم بھی دیا ، عمل بھی کر کے دکھا دیا.پھر جہاں گئے ان کی گردنیں نہیں کاٹیں، ان کا دل جیتا.گردنیں تو اس جگہ کاٹنی پڑیں جہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ مسلمان کی گردن کٹنی چاہیے یا ایرانی کی یعنی کسری کی فوج کے سپاہی کی.یا مسلمان کی گردن کٹنی چاہیے یا ایک رومی سپاہی کی تو خدا نے کہا کہ جس کی گردن میرے نزدیک قابل عزت اور قابل احترام ہے اس کی میں حفاظت کروں گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ اس بے سروسامان فوج نے خدا کے حکم کے ساتھ اور اس کے فرشتوں کی مدد کے ساتھ ایک ایک میدان میں ایک ایک دن میں ستر ستر ہزار گردنیں کاٹ دیں.لیکن ایک دن میں ہی سنتر منتر ہزار گردن کاٹنے کے باوجود اس علاقے کے دل اس طرح جیتے کہ انہوں نے پھر کہا کہ ہم تمہارا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے.اگر یہ محبت نہ ہوتی، اگر یہ پیار کا اعلان اور پیار کا سلوک نہ ہوتا اگر مساوات کا نعرہ نہ لگایا جاتا تو جب ستر ہزار گردن کئی تھی تو اس علاقہ میں ستر ہزار دشمنیاں پیدا ہو جانی چاہیے تھیں مگر دشمنی پیدا نہیں ہوئی بلکہ پیار پیدا ہوا.اس لئے کہ جو مجبوراً لو ہے کی تلوار اسلام کو چلانی پڑی اس سے زیادہ تیز دھار والی پیار اور محبت کی تلوار تھی.ان کو مجبوراً گردن کاٹنی پڑی اور دوسرے لوگوں کے بشاشت کے ساتھ دل جیت لئے اور کوئی Bitterness ( برنس ) کوئی تلخی ، کوئی بدمزگی اور کوئی نفرت، کوئی دشمنی نہیں پیدا ہوئی بلکہ ایک محبت کی فضا پیدا ہوئی تو کتنی زبردست تھی وہ محبت ،
خطبات ناصر جلد سوم ۴۱۴ خطبه جمعه ۴/دسمبر ۱۹۷۰ء کتنا ز بر دست تھا وہ پیار، کتنی عظیم تھی وہ مساوات جو عملاً مسلمان سے ظاہر ہوئی کہ ایک ایک دن میں سنتر سنترہ ہزار گردنیں کاٹنے کے باوجو دلوگ مجبور تھے کہ اپنے دل مسلمانوں کے حوالے کر دیں.یہ معمولی بات نہیں ہے تو یہ مذہب ، یہ تعلیم، یہ عظیم کتاب جو ہمیں انسان کے دلوں کو جیتنا سکھاتی ہے.اس تعلیم کو پس پشت ڈال کر ہم آپس میں لڑنا شروع کر دیں گے اور ملک کی تباہی کے سامان پیدا کر دیں گے.اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ ہدایت دے اور جتنی چاہیں آپ یہ دعا کر سکتے ہیں اور یہ دعا آپ کو کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آج پھر از سر نو غلبہ اسلام کے سامان پیدا کئے اور ایک نو بہار تو چودہ سو سال پہلے گذری اور ایک نو بہار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم اور محبوب ترین روحانی فرزند مهدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ آگئی.آپ ، جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بنی نوع انسان کے لئے یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کے اور نور کے ان پر دروازے کھولے اس اسوہ کے مطابق ہمیں تمام انسانوں کے لئے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اپنے نور سے منور کرنے کے سامان پیدا کرے اور اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرنے کے سامان پیدا کرے.بڑی کثرت سے یہ دعائیں کریں اور ان کو بھولیں نہ.یہ تو ایک چھوٹی سی چیز ہے کہ بچہ بیمار ہے اس کے لئے ہم نے دعا کرنی ہے.یہ تو ایک چھوٹی سی چیز ہے کہ قرضہ ہو گیا اس کے لئے ہم نے دعا کرنی ہے.یہ تو ایک چھوٹی سی چیز ہے کہ فصل ہم نے بوئی ہے اور یہ دعا کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے اور دعا ہم نے اتنی چھوٹی سی چیز کے لئے بھی کرنی ہے کہ بوٹ کا تسمہ ٹوٹ گیا ہے ہم اپنی طاقت سے لے نہیں سکتے اے خدا دے.لیکن یہ تو اصل دعا کے مقابلہ میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے دعا ہے.اس دعا کو اسوہ بناؤ.جس دعا نے آسمان پر شور مچایا اور اس زمین پر ایک انقلاب عظیم برپا کر دیا.وہ دعا ئیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے لئے کیں.ویسی ہی دعائیں کرو پھر جو صحابہ نے پایا آپ بھی پالیں گے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو اس کی توفیق دے.(اللهم آمین) (روز نامه الفضل ربوه ۲۵ جون ۱۹۷۱ ء صفحه ۳ تا ۶)
خطبات ناصر جلد سوم ۴۱۵ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء آئیں اپنے پیارے مطاع اور اللہ کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کریں خطبه جمعه فرموده ۱۱ / دسمبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.إنَّهُم يَكِيدُونَ كَيْدًا - وَاكِيدُ كَيْدًا - فَمَهْلِ الكَفِرِينَ اَمهِلُهُمْ رُوَيْدًا.(الطارق : ۱۶ تا ۱۸) اس کے بعد فرمایا:.آئیں آج اپنے پیارے اور محبوب اور مطاع اور اللہ کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں کریں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث فرمایا کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے لگے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوق یعنی بنی نوع انسان کے حقوق بھی ادا کر نے لگے کیونکہ اسلام کا خلاصہ اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دو بنیادی پہلو یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے جو حقوق ہیں وہ بھی ادا کئے جائیں.اللہ تعالیٰ کا وہ حق ادا کیا جائے جو قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے اور بندوں کے وہ حقوق ادا کئے جائیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قائم کیا ہے.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۱۶ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ کا حق تو یہ ہے کہ انسان توحید خالص پر قائم ہو وہ اللہ تعالیٰ کو اس معنی میں اور اس رنگ میں واحد ودیگا نہ تسلیم کرے اور یقین جانے جس رنگ میں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی ذات کی وحدانیت قرآنِ عظیم میں بیان ہوئی ہے اور اس رنگ کو جو اس کی صفات اور ذات میں ہمیں نظر آتا ہے اپنے اوپر چڑھا کر اس کے بندوں کے حقوق کو جنہیں خود اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے.قائم کرے اور ادا کرے.خدائے واحد و یگانہ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اپنی مخلوق کے لئے اکیلا ہی کافی ہے مگر دنیا اس حقیقت کو سمجھتی نہیں ہے اور الیس الله بِكَافٍ عَبْدَة (الزمر : ۳۷) کی بجائے وہ یہ اعلان کرنے لگ جاتی ہے کہ يُخَوَفُونَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُونِهِ (الزمر:۳۷).یعنی اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کا خوف دل میں پیدا کرتی ہے اور تنبیہ کرتی ہے کہ فلاں عقاب سے ڈرو اور فلاں عقاب سے ڈرو مثلاً کفار مکہ نے یہی اعلان کیا کہ ہمارے عقاب سے ڈرو.پھر کفار مکہ کے ساتھ یہود بھی مل گئے.مکہ سے باہر کے عرب قبائل بھی ساتھ مل گئے انہوں نے بھی کہا کہ یہ کیا نیا دین آگیا ہے؟ ہم اسے ملیا میٹ کر دیں گے مگر کفارِ مکہ ہوں یا اس وقت کے یہودی اور نصرانی ہوں یا عرب کے دوسرے بت پرست قبائل ہوں وہ سب کے سب اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے لئے کافی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی اپنے مخالفین کے مقابلہ میں یہی آواز ہوتی تھی اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَ کی کیا اللہ تعالیٰ کا فی نہیں ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یا اللہ کے علاوہ کسی اور کی احتیاج پیدا ہوسکتی ہے؟ نہیں لیکن مخالفین چونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی صفات کی معرفت نہیں رکھتے تھے اس لئے وہ مسلمانوں کو ڈراتے تھے کہ تم تعداد میں تھوڑے ہو مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تو جب مٹی کے ایک ذرہ کو اپنی انگلی میں پکڑ کر آسمان کی بلندیوں کی طرف لے جانا چاہتا ہے تو وہ لے جاتا ہے اور دنیا کے سارے انسان مل کر بھی اللہ تعالیٰ کے اس منشاء میں روک نہیں بن سکتے.مخالفین سمجھتے تھے مسلمانوں کے پاس جتھا نہیں ہے، مال ودولت نہیں ہے، سامان نہیں ہے، وسائل نہیں ہیں، کوئی ان کا سہارا نہیں ہے.وہ چونکہ دنیا کے بندے تھے اس لئے دنیوی
خطبات ناصر جلد سوم ۴۱۷ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء سہاروں سے آگے ان کی نظر نہیں جاتی تھی اور جو اس دنیا کا حقیقی سہارا ہے وہاں تک ان کی نگاہ اور عقل کی رسائی نہیں تھی اس لئے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں کو دوسری طاقتوں سے ڈراتے تھے.وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ آگئیسَ اللهُ بِعَزِيزِ ذِي انْتِقَامِ (الزمر: ۳۸) یعنی کیا اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اس کے کرنے پر وہ غالب نہیں ہے؟ اس میں مسلمانوں کو یہ سبق دیا کہ جو میں چاہتا ہوں وہی ہو گا.تمہیں ان مخالفین سے ڈرنے کی ضرورت نہیں.میں یہ چاہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اس دنیا پر اس رنگ میں غالب آئے کہ دنیا کے اندھیروں کو وہ دور کر دے اور اس دنیا کے سینوں کو اللہ تعالیٰ کے نور سے منور کر دے اور اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے اس واسطے ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور مخالفین جو تدبیریں کرتے ہیں میں انہیں ان کی سزا دوں گا کیونکہ میں انتقام لینے والا بھی ہوں مجھے انتقام لینے کی طاقت ہے اس لئے ان کی ساری مخالفانہ تدبیریں خاک میں مل جائیں گی.پس اس آیہ کریمہ میں پہلے مسلمانوں کو یہ کہا الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ اور پھر ان کے منہ سے غیروں میں اس کی تبلیغ کروائی.دوسری طرف کافروں سے کہا کہ اللہ عزیز بھی ہے اور انتقام کی بھی طاقت رکھنے والا ہے وہ جو چاہتا ہے وہ کرے گا اسے کوئی روک نہیں سکتا.کافر جو چاہتے ہیں اور جو ان کے منصوبے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ملیا میٹ کر دے گا اور خاک میں ملا دے گا.البتہ منصوبے بنانے کی ان کو اجازت ہو گی.چنانچہ قریش مکہ نے بھی مسلمانوں کے خلاف منصوبے کئے.عرب کے دوسرے قبائل جن کی لاکھوں کی تعداد تھی انہوں نے بھی بعض چھوٹے چھوٹے قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر مسلمانوں کے خلاف منصوبے باندھے.پھر یہود کی سازش ساتھ مل گئی.یوں سمجھنا چاہیے کہ اس وقت کی دنیا کاSpear head (سپئیر ہیڈ ) یعنی نیزہ کی آئی جو تھی وہ اسلام کے خلاف نظر آتی تھی پھر پیچھے تو نیزے کا پھل یا دو پھلہ کہنا چاہیے یعنی کسرئی اور قیصر کی شوکت اور دنیوی طاقت اسلام کے مقابلے پر آئی لیکن نیزے کی آئی جو تھی وہ کفار مکہ یا عرب کے دوسرے قبائل کے حملہ آور ہونے کی شکل میں ظاہر ہوئی.چنانچہ انہوں نے منصوبے کئے اور ہر قسم کے منصوبے کئے.قرآن کریم میں سورۂ طارق میں اسی طرف اشارہ ہے فرمایا إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وہ مسلمانوں 66
خطبات ناصر جلد سوم ۴۱۸ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء کے خلاف سازشیں کریں گے.داؤ پیچ سے کام لیں گے.ان سے ہم انہیں نہیں روکیں گے.ویسے اللہ تعالیٰ کو تو یہ بھی طاقت ہے کہ کسی کو منصوبہ ہی نہ کرنے دے لیکن اگر اللہ تعالیٰ اپنی اس قدرت کو ظاہر کرے تو پیار کے وہ جلوے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دکھانا چاہتا ہے یعنی اس کی حفاظت کے جلوے، اس کی قدرتوں کے جلوے، اس کے حسن و احسان کے جلوے دنیا کس طرح دیکھے؟ مخالفین تو دیکھ لیں گے لیکن دنیا کو نظر نہیں آئیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مخالفین اسلام جو بھی مکر اور سازش کرنی چاہیں وہ کریں میں انہیں اس سے نہیں روکوں گا بلکہ اس میں انہیں مہلت بھی دوں گا لیکن جب ان کی سازشیں زور پکڑیں گی تو میں ابھی کچھ عرصہ اپنی قدرت نہیں دکھاؤں گا اور اپنے کمزور بندوں سے کہوں گا کہ تم صبر اور دعا سے کام لو چنا نچہ خدا کے بندوں کے خلاف جب بھی منصوبے کئے گئے وہ صبر سے کام لے رہے ہوں گے وہ گالیاں سن کر دعا دے رہے ہوں گے.انہیں زہر دیا جائے گا اور وہ میٹھا شر بت پلا رہے ہوں گے.ان کے لئے قحط کے سامان پیدا کئے جارہے ہوں گے اور جب وقت آئے گا تو یہ قحط دور کرنے کے سامان پیدا کریں گے.مسلمانوں کو اغوا کیا جائے گا اور اسلام اغوا کے سارے راستوں کو بند کر رہا ہو گا.مسلمان مخالفین کے ہر مکر کا جواب صبر اور تقویٰ کی راہوں پر چل کر اور دعا کے ساتھ دے رہے ہوں گے.مگر اندھی دنیا یہ سمجھے گی کہ اس بے کس قوم کا کوئی سہارا نہیں ہے لیکن بینا آنکھ اور وہ جس کی آنکھ ہمیشہ ہی کھلی رہتی ہے اور جو علام الغیوب ہے وہ کہے گا کہ تم صبر کرو.وقت آنے پر تم دیکھ لو گے میں کیا کرتا ہوں.فرماتا ہے.اِنَّهُم يَكِيدُونَ كَيْدًا وَ آكِيْدُ كَيْدًا یعنی میں اپنی منشاء اور مرضی کے مطابق اپنی تدبیر کروں گا جو اپنے وقت پر ظاہر ہوگی.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک عرصہ ایسا آئے گا کہ میرے ماننے والے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے فدائی دنیا کی نگاہ میں بے سہارا ہوں گے لیکن میں ان کا سہارا ہوں گا اور میں ان سے کہوں گا کہ میں تمہارا سہارا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین کے خلاف یہ منصوبے اس لئے کئے جائیں گے کہ وہ خدا کے بندوں کو توحید خالص کی طرف بلا رہے ہوں گے اور انہیں ان کے انسانی حقوق دلوار ہے ہوں گے اور اِنَّما أنا بشر مثلكم (الكهف : ۱۱۱) کا عظیم نعرہ بلند
خطبات ناصر جلد سوم ۴۱۹ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء کر کے وہ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ انسان ، انسان میں کوئی فرق نہیں ہے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان کسی ماں نے نہ اب تک جنا اور نہ آئندہ جن سکتی ہے ایسا عظیم الشان وجود جو اللہ تعالیٰ کا حقیقی محبوب ہے اور باقی ہر ایک نے اسی کے طفیل خدا کی محبت کو پایا ہے اس کی زبان سے یہ عظیم کلمہ نکلوا دیا کہ میں تمہارے جیسا انسان اور تم میرے جیسے انسان ہو.جب یہ مساوات اور برابری کا عظیم الشان اعلان ہوا تو مکہ کے سرداروں نے کہا کہ یہ کہاں کی آواز اٹھی ؟ کیا ہم اور ہمارے غلام برا بر ہیں؟ کیا ہمارا قبیلہ جو خانہ کعبہ کا محافظ ہے یہ اور عرب کے دوسرے قبائل برابر ہو گئے ؟ کیا عرب کے رہنے والے اور حبشہ اور دوسرے افریقی ممالک کے رہنے والے برابر ہو گئے ؟ یہ کیسی آواز ہے؟ ہم تو اسے نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ اسے برداشت کر سکتے ہیں.چنانچہ انہوں نے اس پاک اور بلند اور عظیم آواز کے خلاف منصوبے بنانے شروع کر دیئے جن کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی طاقت کے زور سے اپنی برتری کو قائم رکھیں گے اور مساوات کو قائم نہیں ہونے دیں گے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے رب کا یہ فرمان ہے کہ اس نے ہر انسان کو پیدا کیا اور اس کے اندر تمہیں جو بھی قوت اور استعداد نظر آتی ہے وہ اس کی پیدا اور عطا کردہ ہے اور فرما یا یہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ ہر فرد واحد کی تمام قوتوں کی نشونما کو کمال تک پہنچایا جائے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے رب العالمین کی حیثیت سے ہر فرد واحد کی تمام قوتوں اور استعدادوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچانے کے لئے جس مادی اور غیر مادی چیز کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی ہے.انسان کی قوتیں اور استعداد میں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور اخلاقی اور روحانی بھی ہوتی ہیں.ان قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما کے کمال تک پہنچنے کے وسائل اور ذرائع مادی اور غیر مادی دوحصوں میں منقسم ہوتے ہیں.جسمانی لحاظ سے مثلاًطیب غذا کی ضرورت ہے اور خالی حلال ہی نہیں کیونکہ حلال میں اللہ تعالیٰ کی اس طرح کی شان نظر نہیں آئے گی اس لئے نہ صرف حلال بلکہ حلال اور طیب غذا کی ضرورت ہے.ہر فرد کے جسم کا تقاضا مختلف ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے ہزار قسم کی حلال چیزیں پیدا کی ہیں اور ہزار قسم کی نعمتیں مہیا فرمائی ہیں اور فرمایا کہ میری ان ہزار قسم کی اشیاء اور نعماء میں
خطبات ناصر جلد سوم ۴۲۰ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء سے طیب اور اپنے مناسب حال چیزوں کو استعمال کرو گے تو تمہاری جسمانی طاقتیں نشو و نما کرتی ہوئیں اپنے کمال کو پہنچ جائیں گی اب مثلاً ایک بچہ ہے اس کی جسمانی ضرورت الگ ہے.بعض دفعہ وہ چنے کھانا چاہتا ہے اور ماں باپ کہتے ہیں کہ نہیں ہم تمہیں دودھ پلائیں گے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے قانون اور ماں باپ کی خواہش کے درمیان لڑائی ہو جاتی ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اس کے ماں باپ غلط اندازہ لگاتے ہیں اور غلط بات جاری کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک واقعاتی چیز ہے یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے.میں ایسے واقعات کا شاہد ہوں کہ بچے کو دست آرہے ہیں اور وہ کہتا ہے میں نے چنے کھانے ہیں.ماں باپ کہتے ہیں کہ یہ بچہ پاگل ہے.ہم نے اس کو چنے نہیں دینے مگر وہ چنے کھانے پر بضد ہے.کوئی سمجھدار کہتا ہے کہ یہ دوسال کا ناسمجھ بچہ ہے یہ چنے کھانے کی آواز اس کے اندر کی آواز ہے اسے چنے کھانے دو چنانچہ اسے چنے کھانے کی اجازت دی گئی اور بچے کے اسہال بند ہو گئے.پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر فرد واحد اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے اور اس طرح جوتنوع پیدا ہوتا ہے یہ خدا کی واحدانیت کی ایک دلیل ہے.ہر جگہ آپ کو تنوع نظر آتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اکیلا ہے اپنی ذات میں اور یکتا ہے اپنی صفات میں.ویسے ہمارا علم اور عقل چونکہ محدود ہے ہم بعض اصول بنا لیتے ہیں اور چیزوں کی گروپنگ کر دیتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے ہر فرد واحد کے جسم کی بناوٹ اپنی انفرادیت کی وجہ سے غذاؤں کے ایک خاص قسم کے مجموعہ کو چاہتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ایک اور قانون کے مطابق غذاؤں کا جو balance ( بیلنس یعنی توازن ) ہے اسے قائم رکھنے ہی سے انسان کی جسمانی قوتوں کی بہترین نشو ونما ہو سکتی ہے ورنہ توازن قائم رکھنے کے بغیر نشو و نما کمال کو نہیں پہنچ سکتی.ویسے بہترین نشو ونما اور واقعاتی نشو ونما میں انیس بیس کا فرق بھی رہ سکتا ہے اور دس بیس کا فرق بھی رہ سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر فرد واحد کی جسمانی قوتوں کی نشو و نما کے لئے متوازن غذا بننے کے لئے غذا کی جن اقسام کی ضرورت تھی وہ میں نے پیدا کر دی ہیں.انسان اگر ان ہزاروں چیزوں کی باریکیوں میں جائے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.انسان کا تخیل وہاں تک پہنچ ہی نہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۴۲۱ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء سکتا.انسانی تصور ان چیزوں کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ ان چیزوں میں بہت وسعت ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اس نے اپنے بندوں میں سے ہر ایک کو جو قو تیں اور استعدادیں دی ہیں ان قوتوں اور استعدادوں کی نشو و نما اپنے کمال تک پہنچنی چاہیے.اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب پیدا کر دیئے ہیں اگر کسی کو اس کی ضرورتوں کے مطابق یا قوتوں کی نشوونما کے لئے پوری چیزیں نہیں ملتیں تو اس میں یا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے مثلاً قحط پڑ جاتا ہے چیزیں نہیں ملتیں لیکن اس کا کسی پر کوئی الزام نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے.پس یا تو یہ شکل ہوتی ہے اور یا یہ شکل ہوتی ہے کہ ظلم کے نتیجہ میں چیزیں نہیں ملتیں.ایک اور آدمی کے پاس تو ہیں لیکن وہ ضرور تمند کو نہیں دے رہا.جب خدا کے ان بندوں کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے ( اور اٹھائی گئی کہنا چاہیے کیونکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت کے زمانے کی باتیں کر رہا ہوں ) تو اس وقت کے بڑے بڑے سرمایہ دار اور امیر لوگوں نے کہا کہ ہمارے مالوں میں ان غریبوں کا کہاں سے حق پیدا ہو گیا؟ چنانچہ قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ تم ہمیں اس چیز سے منع کرتے ہو کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی سے تصرف نہ کریں اور جس طرح خدا کا منشاء ہے اسی طرح خرچ کریں اور یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے اموال کے مالک ہوتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق خرچ نہ کریں؟ چنانچہ یہ آواز اٹھائی گئی ایک مساوات کی اور دوسری غربت کے دور کرنے کی ( یہ تو مجھے نہیں کہنا چاہیے بلکہ مجھے تو کہنا چاہیے کہ ) ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کی اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بڑے زور دار الفاظ میں فرمایا کہ اگر تم میرے غریب بندوں کا خیال نہیں رکھو گے تو جہنم میں جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ نے جہنم اسی لئے پیدا کی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں ایک جگہ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم دو وجہ سے بنائی ہے ایک توحید پر قائم نہ رہنے کے نتیجہ میں جہنم ملتی ہے اور دوسرے اللہ تعالیٰ کے بندوں کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے جہنم ملتی ہے.گو یا بنیادی طور پر حقوق اللہ اور حقوق العباد بیان کر دیئے گئے ہیں.ان کی تفصیل نہیں بیان کی گئی.غرض جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آواز اٹھائی کہ انسان انسان میں کوئی فرق نہیں ہے تو دشمنانِ اسلام نے
خطبات ناصر جلد سوم ۴۲۲ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء سمجھا کہ ہم تو مارے گئے ہم بڑی طاقت رکھتے ہیں اور اپنی اس طاقت کے بل بوتے پر اپنے آپ کو دوسروں کی نسبت زیادہ ارفع اور اعلیٰ سمجھتے ہیں.ہمارے دماغ میں برتری کے خیالات رچے ہوئے ہیں اگر ہم سب برا بر ہو گئے تو ہم تو مارے گئے.بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حبشی بلال اور ابو جہل برابر ہو گئے؟ یہ تو نہیں ہو سکتا چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مساواتِ انسانی کی اس عظیم آواز کے اٹھانے پر دنیا مخالف ہوگئی.جب آپ نے عزت انسانی کی آواز اٹھائی ( جو دراصل مساوات ہی کا ایک پہلو ہے ) اور فرمایا سب لوگوں کی عزت کرنی پڑے گی.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی آدمی حقیر نہیں ہے ورنہ خدا تعالیٰ پر یہ اعتراض آتا ہے کہ اس نے حقیر انسان بھی پیدا کیا ہے حالانکہ اسلام کہتا ہے کہ جس کو خدا نے پیدا کیا ہے وہ خدا کی نگاہ میں حقیر نہیں ہوسکتا اور جو خدا کی نگاہ میں حقیر نہیں ہو سکتا وہ خدا کے بندوں کی نگاہ میں بھی حقیر نہیں ہونا چاہیے چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عزت انسانی کی یہ آواز اٹھائی تو مخالفین نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ تم ہمیں اس اس بات سے روکتے اور منع کرتے ہو کہ ہم دوسرے لوگوں کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھیں یہ نہیں ہوسکتا.ہم طاقت رکھتے ہیں اور تمہیں کچل کر رکھ دیں گے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین کے خلاف منصوبے بنانے شروع کر دیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق جب یہ فرمایا کہ ہر فرد کی برابری اور اس کی عزت کے قیام کے بعد جہاں تک ممکن ہو ( یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض دفعہ ابتلاء بھی آیا کرتے ہیں) انسانی قوتوں اور استعدادوں کو نشوونما کے کمال تک پہنچنا چاہیے تو مخالفین اسلام نے کہا کہ یہ بات تو ہمارے اموال لوٹنے کے مترادف ہے.وہ سمجھتے تھے کہ انہیں جو مال و دولت ملی ہے یہ اللہ کی عطا کردہ نہیں بلکہ اسے انہوں نے اپنی محنت ، کوشش اور عقل کے استعمال کے علاوہ دوسروں کی مدد سے اکٹھا کیا ہے.ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں سے خدا کے بندوں پر خرچ کرو.یہ تو نہیں ہوسکتا.پس مساوات کی یہ آواز عزت انسانی کی یہ آواز در اصل حقوق انسانی کے قیام کا ایک عظیم اعلان تھا.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۲۳ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کی یہ تعلیم عملاً انسانی زندگیوں کو بدل دینے والی اور قوموں کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم بپا کرنے والی ہے.یہ تعلیم محض خیالی یا عقلی نہیں ہے.دنیا نے اس کے عملی مظاہرے دیکھے ہیں چنانچہ اسلام کی اس تعلیم کے نتیجہ میں ہر جگہ برابری اور مساوات آگئی.عرب اور عجم کے درمیان کوئی فرق نہ رہا.گورے اور کالے کے درمیان کوئی فرق نہ رہا.امیر اور غریب کا امتیاز مٹ گیا.انسان اب بھی جب مسلمان کہلانے والوں کے اندر یہ تفریق دیکھتا ہے.تو حیران رہ جاتا ہے.یوں تو سارے خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لانے والے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے کا دعوی کرنے والے ہیں مگر ان میں سے ایک باعزت بن گیا اور دوسرا ذلیل ہو گیا جو آدمی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن سے چمٹا ہوا ہے وہ ذلیل کیسے ہو گیا ؟ پس یہ دو عظیم نعرے تھے.ایک توحید کے قیام کا نعرہ اور دوسرا حقوق انسانی کے قیام کا نعرہ.حقوق انسانی کے قیام کے نعرہ میں بنیادی طور پر دو چیزیں تھیں ایک مساواتِ انسانی اور شرف انسانی کا نعرہ اور اعلان اور دوسرے انسانی قومی اور استعداد کی کامل نشو و نما کا نعرہ اور اسلام نےمسلمانوں کو حقوق انسانی کے قیام کا ذمہ دار قرار دیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں قیادت بخشی ہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں سمجھ عطا کی ہے اور ہمارے لئے ایک کامل اور مکمل تعلیم اتاری ہے اور ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اس تعلیم کے ذریعے ساری دنیا میں ایک Revolution ( ر یوولوشن ) یعنی ایک انقلاب بپا کر دو.قوموں کی زندگی ان کے خیالات اور فکر و تدبر کی کا یا پلٹ کر رکھ دو اور اس طرح ثابت کر دو کہ انسان انسان برابر ہیں.یہی پیغام میں افریقہ کے دورے میں لوگوں کو دے کر آیا ہوں کہ اب وہ دن چڑھ گیا ہے کہ آئندہ کوئی انسان تمہارے ساتھ نفرت اور حقارت کا سلوک نہیں کرے گا اسلام کی یہ اتنی عظیم تعلیم تھی اور اس کے خلاف اتنے عظیم منصوبے باندھے گئے چنانچہ جب ہم ان منصوبوں کی تفصیل میں جاتے ہیں تو ہمیں ان کی عجیب شکلیں نظر آتی ہیں.اس سلسلہ میں بھی میں مختصراً کچھ کہنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا کہ یہ جو اسلام نے مساواتِ انسانی اور شرف انسانی
خطبات ناصر جلد سوم ۴۲۴ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء کے عظیم اعلان کئے ہیں جن لوگوں نے ان کو پسند نہیں کیا اور اس تعلیم کو ماننے سے انکار کر دیا ہے انہوں نے اس کے خلاف جو مختلف منصوبے کئے ان میں سے ایک منصوبہ اغوا کا تھا.اغوا کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں لیکن اغوا کے اصل معنے یہ ہیں کہ کسی انسان کو اس ماحول میں جو اس کا اپنا ما حول ہے پرورش پانے اور تربیت حاصل کرنے سے محروم کر دیا جائے.یہ اغوا کا اصل نتیجہ ہے اور اصولی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اغوا کے معنے ہی یہ ہیں کہ بعض لوگ بچے کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور دوسری جگہ لے جا کر بیچ دیتے ہیں.اب مثلاً ایک نہایت شریف خاندان کا دینی ماحول میں پرورش پانے والا بچہ ہے ظالم انسان اسے اٹھاتا ہے اور کسی دوسری جگہ جا کر غلام بنا کر بیچ دیتا ہے یا مثلاً لڑکی ہے تو اسے نہایت گندی جگہوں پہنچا دیا جاتا ہے حالانکہ اس بچے یا بچی کے ماحول میں جس میں اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اس ماحول میں تو یہ فضا نہیں تھی.اس ماحول میں تو نیکی تھی اس ماحول میں تو قرآن کریم کی تعلیم تھی اس ماحول میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کو پیدا کرنے کا چرچا تھا اس ماحول میں تو اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا کرنے کے سبق دئے جاتے تھے.غرض اغوا کرنے والے اس دینی ماحول سے نکال کر بچوں کو ایک اور گندے ماحول میں لے جاتے اس لئے میرے نزدیک اغوا کے اصل معنے یہ ہیں کہ انسان کو ایسے ماحول سے محروم کر دیا جائے جس ماحول میں وہ اور اس سے تعلق رکھنے والے تربیت حاصل کرنا یا تربیت دینا چاہتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کے خلاف بھی اسی قسم کا منصوبہ بنایا گیا چنا نچہ صلح حدیبیہ میں یہ شرط رکھ دی گئی کہ مکہ میں جو آدمی مسلمان ہوگا وہ مدینے میں نہیں جا سکے گا یعنی ایسے مسلمان کو اس تربیت سے محروم کر دیا گیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر وہ حاصل کر سکتا تھا اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا.یہ واقعی ایسا عجیب فریب تھا کہ حضرت عمر جیسے صاحب فراست بھی ڈگمگا گئے.اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا تھا کہ مخالفین مختلف قسم کی گید“ کرتے ہیں انہیں ایسا کرنے دو تم اس کی فکر نہ کرو اس سے تمہیں انجام کار فائدہ پہنچے گا یعنی ان کی اس گید، یعنی سازش کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ جو گید، یعنی تدبیر کرے گا وہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے گی.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۲۵ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء غرض کفار مکہ نے اغوا کا منصوبہ بنایا اور اس طرح بیبیوں مسلمانوں کو اس تربیت سے محروم کیا جسے وہ حاصل کرنا چاہتے تھے یا اس تربیت سے محروم کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اپنے پروں کے نیچے رکھ کر دینا چاہتے تھے اور یہی اغوا ہے.غرض مسلمانوں کے خلاف ایک اس قسم کے اغوا کا منصوبہ بنایا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اغوا کا یہ منصوبہ بناؤ ہم اسے ناکام بنا دیں گے البتہ جس طرح اغوا کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ جو قادر و توانا ہے اس کا کوئی جلوہ Repeat (ری پیٹ) نہیں ہوتا (یعنی دہرایا نہیں جانتا) یعنی اس میں Monotony (مونوٹنی اکتا دینے والی یکسانیت ) نہیں پیدا ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلوے كُلّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن :۳۰) کی رو سے کبھی ایک شکل میں اور کبھی دوسری شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں چنانچہ کفار کے اس اغوا کے منصوبہ کے خلاف اللہ تعالیٰ تدبیر کرتا رہا اور ان کو اس منصوبے میں ناکام بنا تارہا اور جب تک ایک مومن یا مسلمان کو اسلام پر قائم رہنے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق ملتی رہتی ہے یا جن کو ملتی ہے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرتا ہے جیسا کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے کیا تھا.66 کفار کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کے خلاف دوسری گید ( یعنی تدبیر یا سازش) یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کو دھو کے سے قتل کر دیتے تھے.اب دھو کے سے قتل کر دینا کئی شکلوں کا ہوتا ہے مثلاً ایک یہ کہ پیٹھ کی طرف سے آکر پیچھے سے پھر اگھونپ دینا، یہ بھی دھو کے کا قتل ہے اور دین سیکھنے کا بہانہ بنا کر ستر حفاظ کو لے جانا اور وہاں ان کو شہید کر دینا یہ بھی دھو کے کا قتل ہے یا مثلاً ۱۹۴۷ء میں ہندو اور سکھ مسلمانوں کی ریل گاڑیوں کو پٹڑیوں سے نیچے اتار دیتے تھے یہ بھی دھو کے کا قتل ہے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے خلاف دھوکے سے قتل کرنے کی بھی سازش ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.اگر ایک مسلمان دھوکے سے قتل ہوا تو اس کی جگہ اللہ تعالیٰ نے اس جیسے ہزاروں مسلمان دے دیئے مثلاً یہ حفاظ کا قتل ہے یہ ستر آدمیوں کا قتل نہیں بلکہ سنٹر حفاظ کا قتل ہے.ان کے بدلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے آدمی ملنے چاہیے تھے جنہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۴۲۶ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء قرآن کریم حفظ ہوتا تبھی تو ان کی سازش ناکام ہوتی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار مسلمانوں کو قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق بخشی.چھوٹی چھوٹی فوجیں باہر جاتی تھیں اور ان کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں حفا ظ ہوتے تھے.(اب مشکل پڑ گئی ہے کیونکہ لوگوں نے قرآن کریم سے وہ پیار نہیں کیا.ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک رو شروع ہوئی ہے ) جس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی کثرت سے لوگ قرآن کریم حفظ کرتے تھے اور اگر کسی کو پورا قرآن کریم حفظ نہیں تھا تو بڑی بڑی سورتیں اور کئی کئی سپارے یاد ہوتے تھے حتی کہ چھوٹے بچوں کو بھی بہت سی سورتیں یاد ہوتی تھیں ( ہمارے گھروں میں بھی اس کا شوق پیدا کرنا چاہیے.دس پندرہ سال کے بچوں کو آخری سیپارے کی چھوٹی چھوٹی سورتیں ضرور یاد کر وا دینی چاہئیں) پس کفار نے دھوکہ دہی سے قرآن کریم کے حفاظ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس طرح اسلام کو ستر حفاظ سے محروم کر دیا گیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے یہ زندگی تو ہے ہی عارضی کوئی آدمی بستر پر مر جاتا ہے اور کوئی اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاتا ہے تم نے اسلام کو ایسے ستر مخلصین سے محروم کیا تھا جنہیں قرآن کریم زبانی یاد تھا اور اس وقت تو مسلمانوں کی تعداد بھی تھوڑی تھی.حفاظ کے قتل کا یہ واقعہ سن چار بجری کا تھا فتح مکہ کے موقعہ پر مسلمان مردوں کی تعداد دس ہزار تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت یافتہ تھے.تو چار ہجری میں تو بہت ہی کم ہوں گے اور اس وقت حافظ قرآن بہت تھوڑے تھے.ان میں سے کفار نے اپنی طرف سے بہت سارے شہید کر دیئے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لاکھوں کی تعداد میں حفاظ دیئے اور اب تک دیتا چلا آیا ہے.یہ بات یا درکھیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اور فیض رساں زندگی چند سالوں میں ختم نہیں ہوئی.آپ کو ابدی زندگی عطا ہوئی ہے.آپ کے روحانی فیوض کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.اس واسطے جب میں آپ کی زندگی کا ذکر کرتا ہوں تو اس سے دونوں طرف اشارہ ہوسکتا ہے یعنی آپ کے اپنے زمانہ میں بھی اور بعد میں اب تک آپ کے روحانی فیوض جاری وساری ہیں.چنانچہ اس عرصہ میں کروڑوں مسلمانوں کو قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت ملی جس سے
خطبات ناصر جلد سوم ۴۲۷ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء مخالفین کا منصوبہ خاک میں مل گیا.انہوں نے تو یہ سوچا ہوگا کہ اس طرح بھی اسلام کو ضرب لگے گی یعنی اگر کوئی سارے مذہبی علماء کو قتل کرنا چاہے تو اس کی خواہش تو یہی ہوگی کہ علم دین اسلام جاننے والے باقی نہ رہیں.تو حفاظ کے اس قتل میں بھی ایک خیال یہی کارفرما تھا کہ قرآن کریم کو زبانی یاد رکھنے والے باقی نہ رہیں اور اس طرح اسلام کے اندر کمزوری پیدا ہو جائے.بعد میں کئی اور خرابیاں بھی پیدا ہو سکتی تھیں لیکن قرآن کریم کو نازل کرنے والے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے قادر و توانا خدا نے فرما یا کہ نہیں! میں تمہارا یہ منصوبہ خاک میں ملا دوں گا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اس میں ہر قسم کا دھوکہ ہوسکتا ہے.پیچھے سے چھر ابھی گھونپا جا سکتا ہے.جس طرح دھو کے سے لے جا کر حفاظ کو قتل کیا تھا.اس طرح بھی قتل کیا جا سکتا ہے.۱۹۴۷ء میں جس طرح سکھوں اور ہندوؤں نے ریلیوں کو پٹڑیوں سے اتار دیا تھا جن میں مسلمان آ رہے تھے وہ بھی ایک دھو کے کا قتل ہے لیکن دھو کے سے قتل کرنا اصولی طور پر یہ ایک عنوان ہے جس کے نیچے کفار کے بہت سارے اعمال آجاتے ہیں.کبھی وہ ایک قسم کا دھو کہ کرتے تھے کبھی دوسری قسم کا دھو کہ کرتے تھے مگر جب بھی وہ دھو کہ کرتے تھے خدا تعالیٰ اپنی ایک نئی اور نرالی شان کے ساتھ ظاہر ہوتا تھا اور ان کے ناپاک منصوبے کو ناکام بنادیتا تھا.عجیب تھا وہ انسان (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور عجب تھے وہ لوگ ( رضی اللہ عنہم ) جو اس سے پیار کرنے والے تھے.اللہ تعالیٰ آپ پر آپ کے صحابہ پر بے شمار رحمتیں اور برکات نازل فرمائے خدا فرما تا تھا کہ مخالفین تمہارے خلاف سازشیں کریں گے مگر تم نے صبر کرنا ہے وہ کہتے تھے کہ اے خدا! کوئی ہمارے خلاف جو مرضی ہے.سازش کرتا ر ہے ہم تیری راہ میں ثبات قدم دکھائیں گے اور صبر سے کام لیں گے.اے ہمارے رب! ہم جانتے ہیں کہ تو ہمارے لئے کافی ہے.تیرے سوا ہمیں کسی اور کی احتیاج نہیں ہے.ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ یہ بیوقوف ہیں.یہ سمجھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ عزیز بھی ہے اور انتقام کی قدرت بھی رکھتا ہے.ایک اور مکر اور سازش جو مسلمانوں کے خلاف کی گئی.جو دین کے نام پر جمع ہو کر بقول خود ان بے دینوں کو ہلاک کرنے کی سازش تھی.قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ
خطبات ناصر جلد سوم ۴۲۸ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء ودرو مسلمانوں کو پہلے سے یہ بتادیا تھا کہ کفار یہ سازش کریں گے لیکن ناکام ہوں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُولُونَ الدُّبُرَ ( القمر : ٤٦) الہی سلسلوں کے ساتھ ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آیا ہے یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا الہی سلسلہ جو پہلے تمام الہی سلسلوں سے مختلف بھی ہے اور وسیع بھی ہے اور بہت ارفع اور اعلیٰ بھی ہے کیونکہ انسانیت اپنے ارتقائی ادوار میں سے گزرتی ہوئی اپنی بلندیوں تک پہنچ چکی تھی.اس سلسلہ میں خدا کی طرف بلانے والے صابی کہلانے لگے یعنی بے دین سمجھے جانے لگے اور یہ کفار مکہ جو بت پرست تھے اور یہودی جو تورات کے حامل تھے بزعم خویش دیندار بن گئے اور پھر یہ سارے نام نہاد و دیندار بے دینوں کو نعوذ باللہ ہلاک کرنے کے لئے اکٹھے ہو گئے یعنی یہ بھی انہوں نے ایک منصوبہ بنایا تھا کہ دین کے نام پر ا کٹھے ہو کر سب نے اسلام کے خلاف منصوبہ بنا لیا اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا.الكُفْرُ مِلَةٌ وَاحِدَةٌ.یہ سارے بے دین دین کے نام پر اکٹھے ہو گئے اور وہ جو خدا کے عاجز بندے تھے ان کو بے دین قرار دے کر انہیں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی.خدا تعالیٰ نے فرمایا.ٹھیک ہے تم کوشش کرو یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بات سے نہیں روکا کہ وہ اکٹھے نہ ہوں بلکہ انہیں اکٹھا ہونے دیا اور مہلت بھی دی کہ تم اکٹھے ہوکر سوچو اور منصوبہ بناؤ اور پھر حملہ کرو اور مدینے کو گھیرے میں لے لو مگر وہ خدائے قادر و توانا جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.وہ آسمانوں اور زمین کے ہر پہلو سے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ جب میری گرفت آگئی تو تم اس سے کیسے بچ کر جاؤ گے؟ چنانچہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف منصوبہ بنایا اور آپ کی مخالفت میں وہ سب اکٹھے ہو گئے.یہود بھی ان کے ساتھ مل گئے.باہر کے بہت سے قبائل بھی ساتھ مل گئے.سر درانِ مکہ جو اپنے آپ کو سارے عرب کا سردار سمجھتے تھے وہ اب مسلمانوں کے خلاف اس متحدہ کمان کے سردار بن گئے اور انہوں نے مدینے کو گھیرے میں لے لیا ہے.مسلمانوں کی بظاہر بڑی نازک حالت ہے (اگر تمثیلی زبان میں یہ الفاظ بول دیئے جائیں تو میں کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں پر مسکرا رہا تھا کہ میرے بندوں کو تم ہلاک کرو گے؟ میں نے تمہیں نام نہاد دین پر جمع ہونے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن وہ جو میرے حقیقی بندے ہیں اور جنہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۴۲۹ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء قرآن کریم کی شکل میں ایک کامل اور مکمل دین عطا کیا گیا ہے تم ان کی آواز کو نہیں مٹا سکو گے چنانچہ مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو سزا دلوانے اور عذاب کا مزہ چکھانے کی بجائے ایک رات ان پر اللہ تعالیٰ کے غضب کا ایک ہی کوڑا پڑ اور وہ سارا مجمع منتشر ہو گیا.غرض الہی سلسلوں کے خلاف ایک منصوبہ یہ بنایا جاتا ہے کہ دین کے نام پر سب بے دین اکٹھے ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہوتا ہے مگر دنیا سمجھتی ہے کہ وہ خاموش ہے حالانکہ وہ خاموش نہیں ہوتا.وہ کہتا ہے میں ان کو ڈھیل دیتا چلا جاتا ہوں تا کہ ان کا منصوبہ تیار ہو جائے.یہ مشورے کر لیں.ان کا اکٹھ ہو جائے اور پھر سامان اکٹھا کر لیں اور اپنی تدبیروں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سردار مقرر کر دیں.پھر کوچ کریں اور بالآخر مدینے کو گھیرے میں لے لیں اور سمجھیں کہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں چنانچہ اپنی اس تدبیر یا منصوبے کی بناء پر کفار نے مدینے کو آکر گھیر لیا.خدا نے فرمایا یہاں تک تو تمہیں اجازت ہے لیکن اس سے آگے میں تمہیں اجازت نہیں دوں گا کیونکہ میں غالب اور انتقام لینے والا ہوں تمہیں یہ کہا گیا تھا کہ خدا کے نام پر خدا کی طرف بلانے والے کی آواز سنو اور اس کے پیچھے چلو.مگر تم نے ایسا نہیں کیا.اب جس خدا کی طرف تمہیں بلا یا جار ہا تھا وہ غالب اور انتقام لینے والا ہے.اب وہ اس صفت یا ان صفات کے جلوے دکھا کر تمہیں یہ بتائے گا کہ میرے اس منادی کی آواز حق وصداقت پر مبنی تھی.یہ آواز اس کے اپنے دل کی آواز نہیں تھی.یہ آواز کسی منصوبہ کے نتیجہ میں بلند نہیں ہوئی تھی.یہ شیطان کی آواز نہیں تھی بلکہ یہ آواز خدائے واحد و یگانہ کی آواز تھی جو خدا کے محبوب کی زبان سے نکلی تھی اور یہی آواز غالب آئے گی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو کہا کہ انہوں نے منصوبے بنائے ، بناتے رہیں اور ایک دوسری جگہ فرمایا کہ صبر کرو اور تقویٰ اختیار کروان کا گید ( وہاں بھی کہید کا لفظ استعمال فرمایا ہے ( یعنی ان کا مکر اور ان کی سازش کامیاب نہیں ہوگی چنانچہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر اور تقویٰ کی جو ہدایت دی گئی تھی انہوں نے اس ذریعہ سے خدا کی محبت کو پایا اور خدا کے انتقام کو جوش دلا یا.اگر مسلمان خود آگے سے جواب دیتے تو خدا تعالیٰ کہتا.تم سمجھتے ہو کہ ان کا مقابلہ کرنے کی تمہارے اندر طاقت ہے تو پھر جاؤان
خطبات ناصر جلد سوم ۴۳۰ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء سے لڑو مگر مسلمانوں نے کہا.اے ہمارے خدا! ہمارے اندر کوئی طاقت نہیں ہے.یہ ہمیں ہلاک کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں.ہم تیری اجازت کے بغیر ان کے خلاف ایک تنکا بھی نہیں اٹھائیں گے چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار اٹھائی اس سے پہلے تو مسلمانوں نے تلوار نہیں پکڑی.جب خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میری طرف سے اجازت ہے تو مسلمان اپنی ٹوٹی ہوئی تلواروں کے ساتھ میدان میں نکل کھڑے ہوئے بعض دفعہ تو ان کی لکڑی کی تلواریں ہوتی تھیں.بعض دفعہ تلواروں کے مقابلے میں سوٹیاں حتی کہ خیموں کے ڈنڈے استعمال کرنے پڑے.یرموک کی جنگ میں مسلمانوں نے ایک موقعہ پر خیموں کے ڈنڈے استعمال کئے اور مدینہ میں بھی کئے.غرض دشمن کی تلواروں کے مقابلے میں یہ چیزیں استعمال ہوتی تھیں.اب جو شخص ایک تنکا لے کر ایک پہاڑ کا مقابلہ کرتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ وہی جیتے گا اس شخص پر یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا کہ اس نے اپنے تنکے پر بھروسہ کیا اور اپنے خدا پر بھروسہ نہیں کیا کیونکہ تنکے اور پہاڑ کا آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں.پس تدبیر کی دنیا میں مخالفین کو تھوڑی سی تدبیر کرنے کی اجازت دے دی.ادھر مسلمانوں سے فرمایا کہ تمہاری یہ تلواریں کسی کام کی نہیں ہیں.میری طاقت آئے گی آسمان سے میرے فرشتے نازل ہوں گے اور وہ تمہارے مخالفین کو ہلاک اور تمہاری حفاظت کریں گے.پس مخالفین کا ایک منصو بہ بقول ان کے دین کے نام پر جمع ہو کر جو حقیقی دیندار ہے اسے بے دین کہہ کر ہلاک کرنے کا ہے اور چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ابدی زندگی عطا کی ہے اس لئے قیامت تک اس قسم کے منصوبے ہوتے رہیں گے لیکن میں اس وقت ان کا ذکر نہیں کر رہا.میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندگی کے واقعات بتا رہا ہوں چنانچہ آپ کے زمانہ میں سارے بے دین آپ کے خلاف اکٹھے ہو گئے یعنی حیرت ہوتی ہے کہ ملکہ کے بت پرست اور تورات کے حامل یہودیوں کا دین تو ٹھیک ہو گیا اور انہوں نے اپنے آپ کو صداقت پر سمجھ لیا لیکن وہ جو خدائے واحد و یگانہ کی طرف لوگوں کو بلاتا تھا.وہ جس کے حق میں خانہ کعبہ کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بشارت دی تھی اور تورات کے حامل حضرت موسیٰ علیہ السلام
خطبات ناصر جلد سوم ۴۳۱ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء نے بھی پیشگوئی کی تھی وہ بے دین ہو گیا اور یہ بت پرست اور یہودی اکٹھے ہو کر دین دار بن بیٹھے.خدا تعالیٰ نے فرمایا میں ان کو مہلت دوں گا کہ یہ اپنے منصوبوں کو کمال تک پہنچائیں اور مسلمانوں سے فرمایا میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم جتنی میں کہوں اتنی تدبیر کرو تم دعا کرو، تم صبر سے کام لو تم اشتعال نہ دلاؤ تم گالی کے مقابلے میں گالی نہ دو بلکہ دعائیں دو کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی نمونہ تھا.تم معاف کروالبتہ انتقام لینے اور معاف کرنے کی جو صفت ہے اصل میں یہ دونوں حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں.اللہ تعالیٰ اپنی ان صفات کے جلوے جس حد تک اپنے بندوں میں دیکھنا چاہتا ہے.اس حد تک ان صفات کا مظاہرہ کرنا چاہیے.یہی فرق ہے اللہ تعالیٰ کی تشبیہی صفات اور بندوں کی صفات میں مثلاً اللہ تعالیٰ غالب ہے اور مسلمانوں کو بھی اس نے غلبہ بخشا ہے لیکن اس صفت عزیز میں پھر بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے کیونکہ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے.بندے میں اس جھلک کا اور خدا تعالیٰ کی اصل صفات کا.مثلاً جو سورج کی روشنی ہے اس کا ایک چھوٹے سے آئینہ میں جو عکس پڑ رہا ہے اس عکس کا اصل روشنی کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا جاسکتا.اس واسطے ہمارے لئے یہ از حد ضروری ہے کہ توحید خالص کے قیام کے لئے ( میں پھر اپنے پہلے پوائنٹ کی طرف عود کرتا ہوں ) ہم نہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں اور نہ اس کی صفات میں کسی کو شریک قرار دیں البتہ اس نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ میری صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ لیکن یہ اس کے ساتھ اس نے ہمیں یہ بھی فرمایا ہے کہ جتنا مرضی چاہو رنگ چڑھا لو تم میرے شریک نہیں بن سکتے.حد بندی مقرر ہے مثلاً اس نے فرمایا ہے کہ ہر چیز میری نظر میں ہے.میں ہر چیز کو دیکھتا ہوں لیکن اللہ کی نظر اور بندے کی نظر میں بڑا فرق ہے.انسان کی نظر محدود ہے.انسانی آنکھ روشنی کی محتاج ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قوت دید کسی روشنی کی محتاج نہیں ہے.خدا تعالیٰ خود روشنی ہے وہ تو تمام جہانوں کا نور ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انتقام کی صفت کا جب وقت آئے گا میں اس کا جلوہ دکھاؤں گا.تم بھی اس کا رنگ اپنے اندر پیدا کرو لیکن ابتدائی زمانہ میں تو بالکل اور بعد میں بہت حد تک تمہارے اندر عفو کی صفت کے جلوے نظر آنے چاہئیں.انتقام لینے کا جب موقع پیدا ہو گا اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد سوم ۴۳۲ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء تمہیں اس کی اجازت دے دے گا.مسلمان بھی عجیب قوم ہے.اللہ تعالیٰ نے درخت کاٹنے کی اجازت دے دی شاید نو درخت کاٹے گئے تھے اور یہ کوئی بات نہیں.یہاں ایک جانگلی جا کر نونو ، دس دس درخت کاٹ دیتا ہے اور اسے اس کا کوئی احساس ہی نہیں ہوتا لیکن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے عجیب دل اور دماغ دیا تھا.اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ یہ میرے بندے مجھے میں فنا ہیں یہ میری اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرتے.میں نے کہا ہوا ہے کہ درختوں کو نہیں کا ٹنا چاہیے کیونکہ اگر اس کا رسم و رواج پڑ جائے تو اس سے بنی نوع انسان کو تکلیف ہوتی ہے.اس واسطے جہاں ضرورت پڑی وہاں یہ کہہ دیا کہ میری طرف سے اجازت ہے چنانچہ حدیثوں کی بجائے خود قرآن کریم میں اس کا ذکر فرما کر اسے بنیادی اصول بنا دیا.غرض فرمایا کہ تم نے انتقام نہیں لینا میں خود انتقام لوں گا چنانچہ جب یہ سارے اپنی نا سمجھی اور جہالت کے نتیجہ میں ”بے دینوں ( جو کہ حقیقی دین کے حامل تھے ) کے خلاف جمع ہوئے تو خدا نے فرمایا تم نے انتظام نہیں لینا.میں نے قرآن عظیم میں یہ کہا تھا اكید كیدا آج میں دنیا کے سامنے تمہارے ذریعہ سے اپنی اس تدبیر کا مظاہرہ کرنے لگا ہوں جس میں تمہارے ہاتھ کا کوئی دخل نہیں ہے.چنانچہ وہ اجتماع جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے نتیجہ میں عمل میں آیا تھا وہ کسی انسانی دخل کے بغیر راتوں رات غائب ہو گیا.مسلمانوں کو پتہ ہی نہیں لگا.صبح اٹھے تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا.خدا تعالیٰ نے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِى شان کی رو سے اپنی ایسی تقدیر چلائی کہ وہ خود ہی بھاگ گئے.آپ اس پر بھی غور کریں.ایک ہی قسم کی چیزیں ہوتی ہیں.انسان دعا کرتا ہے ایک وقت میں اللہ تعالیٰ کی ایک شان نظر آتی ہے.دوسرے وقت میں اس کی ایک اور شان نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ کے دین کا مخالف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک کروڑوں دفعہ شکست کھا چکا اور پتہ نہیں اور بھی کتنی دفعہ اس کو شکست ملے گی لیکن ان کروڑوں موقعوں پر بنی نوع انسان نے اللہ تعالیٰ کے کروڑوں نئے جلوے دیکھے کوئی جلوہ Repeat ( ری پیٹ ) نہیں ہوا.اسی واسطے قرآن کریم میں گزشتہ انبیاء کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک نبی کے مخالفین کے متعلق ہم نے یہ عذاب نازل کیا.دوسرے نبی کے نہ ماننے والوں پر یہ عذاب نازل کیا اور تیسرے نبی کے مخالفین
خطبات ناصر جلد سوم ۴۳۳ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء کسی اور قسم کے عذاب کے مورد بنے اور اس طرح اصولی طور پر بتادیا کہ ہم منکرین انبیاء کومختلف عذابوں کے ذریعہ پکڑتے ہیں.پس ایک یہ تدبیر کی جاتی ہے کہ سارے اکٹھے ہو کر الہی سلسلے کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں مگر ہلاک نہیں کر سکتے.ایک اور تدبیر اِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا کی رو سے تاریخی لحاظ سے ہمیں جو نظر آتی ہے وہ کھانے میں زہر دے کر مارنا ہے.ایک تو دھوکے سے مارنا ہے اسے اس کا حصہ بھی بنا سکتے ہیں اور اسے ایک م مستقل حیثیت بھی دے سکتے ہیں.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے میں زہر ملا کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی.یہ ۶۲۸ء کا واقعہ ہے.یہودیوں نے بھنا ہوا گوشت پیش کیا تھا اور اس میں زہر ملا ہوا تھا.اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا.بہر حال کفار کا ایک قسم کا منصوبہ یہ تھا کہ کھانے میں زہر ملاؤ اور اس طرح مسلمانوں کو قتل کرو یہ بھی ویسے دھو کے دہی کی ایک شکل بن جاتی ہے لیکن چونکہ یہ بڑی اہم چیز ہے اس واسطے میں نے اس کو علیحدہ رکھا ہے.تو گویا زہر دے کر مارنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن وہ قوم جو اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی طرح اس کی ذات اور صفات کی معرفت رکھنے والی ہے وہ اس ناپاک سازش سے محفوظ رہتی ہے.اس وقت صحابہ رضوان اللہ علیہم کے خلاف کتنی سازشیں کی گئی ہوں گی.بعض تو ظاہر ہو گئی تھیں بعض اندر ہی اندر نا کام ہوگئیں.وہ ظاہر بھی نہیں ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کو اس قسم کی زہریلی سازشوں سے محفوظ رکھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابدی زندگی کے طفیل اللہ تعالیٰ قیامت تک آپ کے سچے متبعین کو اس قسم کی سازشوں سے محفوظ رکھے گا.پس ایک سچے مسلمان سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ تمہارے خلاف سازشیں تو کی جائیں گی اور میں ان سازشوں کو تکمیل تک پہنچانے کی اجازت بھی دے دوں گا لیکن ان سازشوں کا وہ نتیجہ نہیں نکلنے دوں گا جو مخالفین چاہتے ہیں کہ نکلے.فرمایا ” اكيد كيدا‘ اس وقت میں اپنا منصوبہ جاری کروں گا.اس وقت میری صفات حسنہ کا ملہ تمہارے حق میں بھی رعب کی شکل میں ظاہر ہوں
خطبات ناصر جلد سوم ۴۳۴ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء گی.کبھی تمہارے وجود میں دنیا میرے حسن کا جلوہ دیکھے گی.تمہارے وجود میں میراحسن چمکے گا اور اس طرح تم دنیا کے ایک حصے کو اپنی طرف کھینچ لو گے اور ان کے دلوں میں اپنا پیار پیدا کرلو گے.ابھی وہ تم میں شامل نہیں ہوئے ہوں گے لیکن وہ تمہارے ممد و معاون بن جائیں گے اور کبھی تمہارے نفسوں میں احسان کے جلوے دکھاؤں گا.اب کسی کو اللہ تعالیٰ کے حسن اور احسان کے جلوے دکھانا یہ انسان کی طاقت میں نہیں ہے.جب تک اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت نہ دے وہ دوسرے سے حسن و احسان کا سلوک کر ہی نہیں سکتا.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتنے ہی منصوبے کئے گئے.میں نے ان کی چند مثالیں دی ہیں چھوٹے چھوٹے عنوان باندھ کر ایک آدھ مثال بھی دے دی ہے.غرض آپ کے خلاف منکرین اسلام نے بے شمار منصوبے کئے لیکن آپ کو بتایا گیا تھا کہ منصوبے ہوں گے اور نتیجہ نکلنے تک کامیاب ہوں گے یعنی نتیجہ نکلنے تک کا جو حصہ ہے اس میں کامیاب ہوں گے.جب اس حد تک منصوبہ کامیاب ہو جائے گا تو دنیا کی عقل یہ کہے گی کہ اس منصوبے کا یہ نتیجہ نکلنا چاہیے.اس وقت خدا تعالیٰ کی شہادت یہ ہوگی کہ میرے بندوں کے خلاف ایک کامل منصوبے کا بھی وہ نتیجہ نہیں نکلے گا جو دنیا کے معیار کے مطابق نکلا کرتا ہے اور میں اپنے بندوں کی حفاظت کروں گا.اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے اس سلوک کا یہ سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے البتہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام کے خلاف بے حد منصوبے ہوئے.پہلے دنیائے عرب اور پھر کسری اور قیصر مسلمانوں کے مخالف ہو گئے.ان کی ہزاروں لاکھوں کی فوج تھی ان کی فوج کے جرنیل کہتے تھے کہ شام سے پہلے اسلامی فوج کا صفایا کر کے رکھ دیں گے.مسلمان ہماری طرف پھر نگاہ اٹھا کر دیکھنے کے قابل نہیں ہوں گے.یہ ارادے تھے ان کے اور یہ یہ منصوبے تھے ان کے.یہ تدبیر تھی ان کی اور یہ سازش تھی ان کی کہ مسلمانوں کا صفایا کر دیا جائے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ٹھیک ہے تم نے بڑے منصوبے بنارکھے ہیں.سامان تمہارے پاس ہیں.ذرا ان سامانوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر کے تو دیکھو.بہر حال ان تمام تر تکلیف دہ منصوبوں
خطبات ناصر جلد سوم ۴۳۵ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء اور ان تمام سازشوں نے مسلمانوں کے چہروں سے نہ مسکراہٹیں چھینیں اور نہ ان کی قوت عمل سے قوت احسان کو چھینا مثلاً حضرت خالد بن ولید اٹھارہ ہزار کی فوج لے کر کسری کی لاکھوں کی فوج کے مقابلے میں چلے گئے تھے.انہوں نے کسری کو اپنے پہلے خط میں لکھا کہ میں تمہیں اس بات سے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جاں شار سپاہی جو تمہارے مقابلے پر آئے ہیں وہ موتوں سے اس سے زیادہ پیار کرتے ہیں جتنا تم اپنی زندگیوں سے پیار کرتے ہو چنانچہ ان کے چہرے مسکرا رہے تھے.موت ان کے سامنے کھڑی تھی لیکن موت کا یہ احساس ان کی مسکراہٹ نہیں چھین سکا.مگر مخالفین اسلام کی زندگی کی محبت اور پیار ان کو موت سے بچا نہیں سکا غرض ساری دنیا اکٹھی ہو کر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں سے مسکراہٹیں نہیں چھین سکی کیونکہ ساری دنیا نے ظلم ڈھانے کی کوشش کی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین سے قوت احسان نہیں چھینی گئی.ہم اب تھوڑے سے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے فیضان کے جلوے ہماری زندگیوں میں بھی نظر آرہے ہیں.کئی لوگ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ بات کیا ہے؟ میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ بات یہی ہے کہ انی سالہ تکفیر اور انٹی سالہ مخالفت نے نہ ہمارے چہروں سے مسکراہٹ چھینی ہے اور نہ ہم سے قوت احسان چھینی ہے.ہم ہنستے ہوئے چہروں کے ساتھ بغیر کسی ایک شخص کی بھی دشمنی دل میں لئے ہمیشہ ہر شخص پر احسان کرتے یا کرنے کے لئے تیار ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جتنی طاقت دے رکھی ہے اس کے مطابق ہم ہر شخص سے احسان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو قوتِ احسان عطا کرتا ہے اسے وہ ایک ایسی عظیم تلوار دیتا ہے.(اگر مادی رنگ میں مثال دینی ہو ) جس کے ٹوٹنے کا کوئی خطرہ نہیں اور جس کی دھار کے کند ہونے کا کوئی ڈر نہیں.بس مسکراتے اور ہنستے ہوئے دنیا کے سارے منصوبوں کی خار دار جھاڑیوں کے درمیان سے اپنے نرم راستے کے اوپر آگے بڑھتے چلے جاؤ اور قوتِ احسان ایک عجیب نعمت ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ قوت عطا کی ہے اس قوت کے استعمال میں اپنے اور بیگانے میں فرق نہ کرو.خدا کے
خطبات ناصر جلد سوم ۴۳۶ خطبہ جمعہ ۱۱/ دسمبر ۱۹۷۰ء ہر بندے سے وہ پیار کرو جس پیار کا اس نے اپنے بندے کو مستحق قرار دیا ہے اور اپنے آپ کو کسی سے اونچا اور برتر نہ سمجھو خواہ وہ صبح سے شام تک تمہیں گالیاں دینے والا ہو.تم نہیں جانتے کہ کل کو اللہ تعالیٰ اسے نہ صرف ایمان کی توفیق دے بلکہ تم سے زیادہ مقبول عمل کرنے کی بھی توفیق دے کل کا تمہیں علم نہیں اور آج پر اترانے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے.پس مخالف کے ساتھ بھی پیار کا برتاؤ اور احسان کا معاملہ کرو.اسے بھی اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ کے حسن کے نظارے دکھاؤ.جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غلبہ اسلام کے خلاف سارے منصوبے ناکام ہوئے اور فتح مکہ کے موقع پر یہ عظیم نعرہ لگایا گیا اور پھر بعد میں ہمیشہ ہی آج تک لگایا جاتا رہا ہے ) اور وہ یہ کہ جب مخالفین کو اصلاح کا موقع ملا تو فرمایا " لا تثريب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (يوسف : ۹۳) آج تمہارے ہر قسم کے پچھلے گناہ معاف.خدا تمہیں آئندہ نیکیوں پر قائم رکھے پس تم دنیا کے محسن کی حیثیت سے دنیا کے خادم بنائے گئے ہو اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیار کرنے کا دعوی بھی رکھتے ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیار کرنے کی توفیق بھی عطا کی ہے اکثر کو.الا مَا شَاءَ اللهُ کمزور اور منافق بھی ہوتے ہیں لیکن وہ تو کسی لحاظ سے بھی کسی شمار میں نہیں ہوتے.غرض اللہ تعالیٰ نے تمہیں جس عظیم عطا سے نوازا ہے.اس کی قدر کرو اور دنیا کے دل اس عظیم عطا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی تو فیق عطا فرمائے.(اللهم آمین) روزنامه الفضل ربوہ ۴ / جولائی ۱۹۷۱ ء صفحہ ۱ تا ۷ )
خطبات ناصر جلد سوم ۴۳۷ خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۷۰ء جلسہ سالانہ معجزات کا ایک حسین گلدستہ ہے جس میں قسم قسم اور رنگارنگ کے پھول اکٹھے ہوتے ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۸ / دسمبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج میں جماعت کو دو خصوصی دعاؤں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ایک تو یہ کہ قریباً دو سال ہوئے ہماری قوم ایک شدید بحران اور انتشار اور فتنہ وفساد میں مبتلا ہو گئی تھی.نوجوانوں کے جذبات کو ابھار تو دیا گیا تھا لیکن ان کو قابو میں رکھنا مشکل ہو گیا تھا.اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے اس ملک کی حفاظت کی اور ایک مارشل لاء نئے سرے سے لگ گیا اور امن ہو گیا مارشل لاء جنہوں نے لگایا ان کے عمل ہمارے شکریے اور ہماری دعاؤں کے مستحق ہیں.ایک تو مارشل لاء لگنے کے باوجود صدر یحیی خان صاحب اور ان کی REGIME ( رجیم ) نے کسی پر کوئی سختی نہیں کی بلکہ پورے تحمل سے کام لیا.امن قائم کرنا چاہیے تھا اور امن قائم کر دیا.دوسرے انہوں نے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے پر اصرار نہیں کیا بلکہ شروع میں ہی وعدہ کیا کہ جس قدر جلد ممکن ہوگا میں انتخابات کروا دوں گا.انہوں نے اپنے وعدہ کو پورا کیا اور اس مہینہ میں دو انتخاب ہو چکے ہیں ایک قومی اسمبلی کا اور ایک مختلف صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کا.اس انتشار کے زمانہ میں اور پھر انتخاب کے قریب کچھ وہ فریب خوردہ لوگ بھی تھے کہ جو
خطبات ناصر جلد سوم ۴۳۸ خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۷۰ء سمجھتے تھے کہ انسانی جان کی کوئی قیمت اور قدر اور عظمت نہیں ہے اور مارشل لاء سے قبل وہ یہ سمجھتے تھے کہ قانون کوئی نہیں ، افراتفری ہے جو مرضی ہے ہم کرتے رہیں.اب انتخاب کے قریب ان کو یہ وہم تھا کہ حکومت ان کے ہاتھ میں آنے والی ہے اس لئے وہ دھمکیاں بھی دینے لگ گئے تھے اور منصوبے بھی بنا رہے تھے.مادی آنکھ غیر مادی سہارے کو نہیں دیکھ رہی تھی اس لئے بجھتی تھی کہ جو چاہیں گے، کر دیں گے لیکن وہ جن کا مادی سہارا نہیں ہوتا صرف اپنے رب کی طرف جھکتے اور رجوع کرتے اور متوجہ ہوتے ہیں اور خود کو کچھ نہیں سمجھتے.روحانی آنکھ تو اس سہارے کی عظمت اور شان کو پہچانتی ہے.پہچاننے والوں نے پہچانا اور جو پہچانا اسی کے مطابق پیار کرنے والے رب نے حالات کو بدل دیا.بہت سی باتیں کانوں میں پڑتی رہیں مناسب نہیں تھا کہ آپ بھائیوں کے سامنے بیان کی جائیں.دعا تھی ، دعا کرتا رہا دعا قبول کرنے والا قا در و توانا تھا اس نے آپ کی بھی اور میری بھی دعاؤں کو قبول کیا.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - اس وقت جو دو انتخاب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ہو چکے ہیں.اس کے نتیجہ میں وہ لوگ جن پر تھوڑ ایا بہت قوم نے اعتماد کیا ہے اور خصوصاً قوم کے اس حصہ نے جن کو ہمارے نزدیک بھی وہ حقوق نہیں مل رہے جو حقوق کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کے قائم کئے ہیں ان کے متعلق اب ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے خدا! تو ان لوگوں کو جنہوں نے اب قانون بنانے اور قانون کا اجراء کرنا ہے اخلاص اور سمجھ اور فراست دے اور ان کے دل میں انسان کا پیار پیدا کر اور انسانی حقوق کی ادائیگی کے لئے جو ہدایت اور تعلیم تو نے دی ہے اسے سمجھنے کی توفیق دے اور اس پر عمل کرنے اور کروانے کی ان میں جرات پیدا کر.ایک تو خاص طور پر یہ دعا کریں.پریذیڈنٹ یحیی خان صاحب اور ان کی REGIME ( رجیم) کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے.انہوں نے قوم کی بہتری کے لئے یہ سب کچھ کیا ایک ظاہر بین نگاہ بھی دیکھتی ہے اور جیسا کہ ہر ایک شخص پر یہ ظاہر ہے کہ ان کی کوئی ذاتی غرض نہیں تھی اللہ تعالیٰ انہیں ایسے رنگ میں جزا دے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو مزید حاصل کرنے لگیں.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۳۹ خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۷۰ء دوسری خصوصی دعا جس کی طرف آج میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ جلسہ سالانہ کے متعلق ہے.جلسہ سالانہ تو ایک معجزہ ہے جو ہر سال اللہ تعالیٰ ہمیں دکھاتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ معجزات کا ایک نہایت حسین گلدستہ ہے جس میں قسم قسم اور رنگا رنگ کے پھول اکٹھے کئے ہوئے ہیں.اناسی ۷۹ جلسے ہو چکے ہیں.اتنے بڑے اجتماع میں کبھی اللہ کے فضل سے و بانہیں پھیلی چاروں طرف سے دوست آرہے ہوتے ہیں اور بے احتیاطی سے وبائی امراض کے علاقوں سے بھی آجاتے ہیں لیکن دیکھنے والوں کو نظر آجاتا ہے کہ یہاں اللہ کے فرشتوں کا پہرہ ہے پھر اتنا بڑا کھانے کا انتظام اتنی سہولت اور اتنے آرام سے ہو جاتا ہے اور کھانے والوں اور کھلانے والوں کے باہمی تعاون اور دعاؤں کے نتیجہ میں ہر دو جو اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرتے ہیں اس کی وجہ سے باہر سے آنے والے حیران ہو جاتے ہیں.آٹھ دس سال ہوئے ایک انگریز عورت انگلستان سے آئی تھیں وہ کہنے لگیں کہ میں واپس جا کے جب اپنے خاندان کو یہ انتظام بتاؤں گی کہ وہاں یہ ہوتا ہے اور پچاس ساٹھ ہزار مہمانوں کے کھانے کا جماعت انتظام کرتی ہے تو میرے رشتہ دار اور دوست سمجھیں گے کہ میں وہاں گرم ملک میں گئی تھی اور میرا دماغ خراب ہو گیا اور پاگلوں والی باتیں شروع کر دیں حقیقت یہ ہے کہ دور بیٹھے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ یہ دیکھنے کے ساتھ ہی تعلق رکھتا ہے.یہ درست ہے کہ اتنا بڑا انتظام ہوتا ہے اور کامیاب ہوتا ہے ہر دوطرف سے تعاون ہوتا ہے اور کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور نہ تکلیف کا احساس ہی ہوتا ہے بعض استثناء پیدا ہو جاتے ہیں جو دور ہو جاتے ہیں اور پھر بشاشت پیدا ہو جاتی ہے.انہیں استثنائی تشویش کے نقطے کہنا چاہیے اور اتنے بڑے مجمع میں کہیں ایک، دو، چار نقطے ہمیں نظر آ ہی جاتے ہیں پھر کوئی جھگڑا نہیں، کوئی تلخی نہیں محبت اور پیار کی فضا ہے اور ان دنوں میں دوست فرشتوں کو آسمان سے نازل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن جو نا سمجھ ہے اس کو غصہ آتا ہے اور غصہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اپنی تدبیر کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اور تدبیر وہ سوچتا ہے جو انسان کو زیبا نہیں مثلاً ہمیں رپورٹیں ملتی رہیں کہ اپنے آپ کو بڑے متقی مسلمان سمجھنے والوں کے نزدیک
خطبات ناصر جلد سوم ۴۴۰ خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۷۰ء کوئی ایسا انتظام ہونا چاہیے جس سے یہ احمدی بچوں کا اغوا کر سکیں.اس واسطے جلسہ سالانہ کے موقع پر بہت محتاط رہنا چاہیے اور بچوں کی حفاظت خاص طور پر کرنی چاہیے گو ہمیشہ ہی یہ اعلان ہوتارہتا ہے لیکن اس دفعہ خاص طور پر حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ جو سیاسی منصوبے بنائے گئے تھے وہ اللہ تعالیٰ نے ناکام کر دیئے ہیں اور جو دوسرے منصوبے اگر کوئی بنائے (خدا نہ کرے کہ وہ اتنے گر جائیں) تو ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی نا کام کر دے.اسی طرح مثلاً ایک یہ خبر پہنچی گوا سے افواہ ہی کہنا چاہیے کیونکہ ہم کوئی عدالت تو نہیں ہیں کہ گواہیاں لے کر ثابت کریں لیکن اچھے معتبر ذرائع سے یہ خبر پہنچی کہ ایک منصو بہ جماعت کے خلاف جلسہ کے دنوں میں یہ بنایا گیا ہے کہ جو پیشل گاڑیاں آتی ہیں ان میں اپنے ایماندار لوگوں کو بغیر ٹکٹ کے چڑھا دو اور پھر اطلاع دے کر لیٹ کرواؤ اس طرح جماعت کو بدنام کرو کہ بغیر ٹکٹ کے سفر کرتے ہیں.ان منصوبوں میں سے مثلاً ایک اطلاع یہ بھی پہنچی کہ چنیوٹ اور سلانوالی کے درمیان ریل کے اوپر اور بسوں پر پہلے سے طے شدہ انتظام کے مطابق بڑے ”نیک مسلمانوں سے ڈاکے ڈلواؤ اور مشہور یہ کرو کہ دیکھا احمدیوں کے جلسے میں بڑے ڈاکو آتے ہیں جنہوں نے آتے ہی کام شروع کر دیا.پتہ نہیں اور کیا کیا سوچا اور کیا کیا منصوبہ بنایا.بہر حال ہمیں ہر قسم کی احتیاط کرنی چاہیے جیسا کہ میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا مادی آنکھ جس مادی سہارے کو تلاش کرتی ہے وہ تو ہمارے پاس نہیں.ہمارے پاس جو سہارا ہے وہ اللہ ہے اور اس کی قدرتیں اور اس کی حسین صفات ہیں اور پھر ہمارا سہارا یہ حقیقت ہے کہ جو جماعت یا فرد اس سے پیار کرنے والا اور اس سے محبت ذاتیہ رکھنے والا ہے اللہ تعالیٰ بھی جواب میں اپنے عاجز بندے سے کئی گناہ زیادہ محبت اور پیار کرتا ہے اور اس کو اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے، اس کے لئے امان بن جاتا ہے، اس کے لئے ڈھال بن جاتا ہے اور اس کے خلاف جو منصوبے کئے جاتے ہیں ان کو پاش پاش کر دیتا ہے.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۴۱ خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۷۰ء اگر چہ مادی سہارا تو ہمارے پاس نہیں لیکن ہمارے جیسے بیوقوفوں کو مادی سہارے کی ضرورت بھی نظر نہیں آتی.ہم نے ان مادی سہاروں پر تکیہ کیسے اور کیوں کرنا ہے جبکہ وہ جو سہاروں کا سہارا ہے اس کا سہارا ہمیں حاصل ہے یا ہم اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے میں دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ ساری جماعت مل کر یہ دعا کرے کہ وہی جو سہاروں کا بھی سہارا ہے اور بے کسوں کا محافظ اور ان کو امان دینے والا ہے اور دنیا جن کے پیچھے بے عزت کرنے کے لئے پڑ جاتی ہے ان کے لئے عزت کا سامان کرنے والا ہے.اس کی محبت ذاتیہ کو ہم پالیں اور وہ اپنے منصوبے ہماری حفاظت اور امان کے لئے چلائے اور ہمیں کہے کہ تم بے فکر ہو کر اپنے جلسے کے کام کرو اور کسی چیز سے نہ ڈرو.خدا کرے ایسا ہی ہو.“ 66 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۴۴۳ خطبہ جمعہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۰ء اختلاف کی وجہ سے کسی مسلمان کو اس کے حقوق سے محروم نہ رکھا جائے خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۷۰ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے آلِ عمران کی آیت وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا - (ال عمران : ۱۰۴) کی تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا:.اُمت محمدیہ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ تاکیدی حکم فرمایا کہ حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور پراگندہ مت ہو.حَبْلُ اللہ کے ایک معنے تو ان چیزوں کے یا ہدایت کے ان اصول کے ہیں جن پر کار بند ہو کر انسان کو وصال الہی اور قرب الہی حاصل ہوتا ہے اس لئے حبل اللہ سے مراد مفسرین کے نزدیک قرآنِ عظیم بھی ہے اور اس سے عقل سلیم کے اصول جو دراصل فطرتِ صحیحہ انسانیہ کے اصول ہیں وہ بھی مراد لئے گئے ہیں.اس معنے کے لحاظ سے یہ ارشاد ہے کہ قرآن کریم میں جو اصول ہدایت اور اصولِ شریعت بیان ہوئے ہیں.(یعنی جو اصول راه راست پر چلنے اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ودیعت کئے ہیں ) وہ عقلِ سلیم اور فطرتِ صحیحہ کے مطابق بھی ہیں.اس لئے انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اگر وہ اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہونا چاہتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے تو وہ شریعتِ اسلامیہ
خطبات ناصر جلد سوم ۴۴۴ خطبه جمعه ۲۵ دسمبر ۱۹۷۰ء جو فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم : ۳۱) کے مطابق ہے.ان اصولِ شریعت یا اصول ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزارے.حبل اللہ کے دوسرے معنے اللہ کے عہد کے لئے کئے گئے ہیں.اس سے مراد یہ ہے کہ جو عہد اللہ تعالیٰ سے باندھا ہے یا جو عہد اللہ تعالیٰ نے باندھا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑو.اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے کون سے عہد باندھے ہیں یا اس کے لئے کون سے میثاق قرار دیئے ہیں؟ قرآن کریم میں اس کی تفصیل بیان ہوئی ہے.اس وقت میں صرف ایک بات لے کر اس پر کچھ روشنی ڈالوں گا.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:.مَنْ صَلَّى صَلَو تَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَكَلَ ذَبِيْحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي 6 لَهُ ذِمَّةُ اللهِ وَذِمَّةً رَسُوْلِهِ فَلَا تُخْفِرُ اللهَ فِي ذِمَّتِہ میں یہ حدیث بیان ہوئی ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.جو شخص ہماری نماز جیسی نماز پڑھے یعنی جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں ویسے ہی وہ نماز پڑھ رہا ہو اور قبلہ رخ ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہا ہو اور ہمارے ذبیحہ کو کھا رہا ہو اور جو چیزیں کھانے کے لحاظ سے حرام ہیں ان سے بچنے والا ہو تو ذلِكَ الْمُسْلِمُ.یہ وہ مسلمان ہے ( آگے یہ نہیں فرمایا کہ جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے کیونکہ اور بہت ساری شرائط ہیں مثلاً نیت کا تعلق ہے.احسان فی العمل کا تعلق ہے انسان پوری شرائط اور انتہائی جدو جہد کے ساتھ اعمال صالحہ کو خوش اسلوبی سے انجام دینے والا ہو ، وہ اور چیز میں ہیں یہاں یہ فرما یا یہ وہ مسلمان ہے ) جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی امان اور حفاظت میں ہے پس اے مسلمانوں! جو عہد اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان باندھا ہے کہ تم ہر ایسے شخص کو ( محولہ بالا حدیث کی رو سے) مسلمان سمجھتے ہوئے اس کے سیاسی اور معاشرتی حقوق کو ادا کرو گے ، اس عہد کو نہیں توڑنا.غرض "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا “ (ال عمران : ۱۰۴) میں ایک اصولی بات بتائی تھی اس کی بہت سی تفسیریں کی گئی ہیں ایک تفسیر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جو شخص ہماری طرح کی نماز پڑھتا ہے اور قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کرتا ہے.ویسے ہم ہر دعا کے وقت قبلہ رخ نہیں ہوتے مثلاً عید کی نماز ہے یا خطبہ جمعہ میں بھی
خطبات ناصر جلد سوم ۴۴۵ خطبہ جمعہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۰ء امام دعائیں کر رہا ہوتا ہے حالانکہ اس وقت قبلہ کی طرف اس کی پشت ہوتی ہے.اس کی روح تو قبلہ حاجات کی طرف ہی متوجہ ہوتی ہے لیکن اس کا چہرہ دوسری طرف ہوتا ہے اور پشت قبلہ کی طرف ہوتی ہے لیکن نماز ادا کرتے وقت ہم قبلہ رخ ہوتے ہیں.اس میں میرے نزدیک ایک بڑا ہی لطیف اشارہ بھی ہے مسلمانوں میں کئی فرقے پیدا ہو گئے ہم ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں لیکن بعض لوگ مثلاً مالکی اور غالباً شافعی بھی نماز کے وقت ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں البتہ ایک مسلمان ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہا ہے یا ہاتھ چھوڑ کر پڑھ رہا ہے اس کا رُخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے.پس اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنا میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ادا ئیگی نماز میں بھی اُمت میں اختلاف ہوسکتا ہے اور بعض دیگر چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ادا ئیگی نماز میں بنیادی چیز یہ ہے کہ قبلہ کی طرف رُخ ہو جس کا قبلہ کی طرف رُخ ہے اسے تم یہ کہہ کر مسلمان کے حقوق سے محروم نہیں کر سکتے کہ تم نے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی یا ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی.جہاں جس کا زور ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ تم ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہو یا چونکہ ( دوسری جگہ کوئی کہے ) تم ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہو اس لئے تمہیں مسلمانوں کے حقوق سے محروم کیا جائے گا.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ جس نے قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کی، ہاتھ باندھایا چھوڑا ، اس کے حقوق ایک مسلمان کے حقوق ہیں، یہ ادا ہونے چاہئیں.یہ اللہ تعالیٰ نے ایک عہد باندھا ہے اور اسی کی طرف حدیث کے شارحین کی توجہ گئی ہے کہ یہ ایک عہد ہے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ پر ڈالی ہے شارحین نے یہ لکھا ہے کہ ( جو شخص محولہ بالا حدیث کی رو سے مسلمان کہلاتا ہے ) وہ خدائی حفاظت اور امان میں ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانوں ! تم نے اس کی جان کی بھی حفاظت کرنی ہے تم نے اس کے مال کی بھی حفاظت کرنی ہے.تم نے اس کی عزت کی بھی حفاظت کرنی ہے.یہ نہیں کہ ایک شخص نماز مسلمانوں والی ادا کرتا ہے اور قبلہ رخ ہوکر نماز ادا کرتا ہے اور ذبیحہ کھاتا ہے اور غیر ذبیحہ سے پر ہیز کرتا ہے، تم اپنی طرف سے کچھ اصول بنا کر اسے گالیاں دینے لگ جاتے ہو.خدا معلوم گندہ دہانی مسلمانوں کے ایک گروہ میں
خطبات ناصر جلد سوم ۴۴۶ خطبہ جمعہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۰ء کہاں سے آگھی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ گندی زبان اور بخش کلامی سے ثواب حاصل ہوتا ہے حالانکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا ہے جس کی شارحین نے بڑی وضاحت سے یہ تشریح کی ہے کہ ہر وہ شخص جو نماز مسلمانوں کی قبلہ رُخ ہو کر پڑھنے والا اور ہماری طرح ذبیحہ کھانے والا ہے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے یہ عہد لیا ہے کہ اس کی جان اور مال اور عزت کی حفاظت کی جائے گی اور جو شخص اس کی جان اور مال اور عزت کی حفاظت نہیں کرتا.وہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور آپ کے اسوہ اور قرآن کریم کی ہدایت کے خلاف کرتا ہے آپ نے بڑی تاکید سے فرمایا ہے کہ یہ اللہ کا عہد ہے اس کو نہ توڑ ناور نہ کیا ہوگا ؟ آگے کچھ نہیں فرما یا کیونکہ ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس سے جو معاملہ کرتا ہے وہ مالک ہے.انسان کو تو لرزاں اور ترساں اپنی زندگی کے دن گزار نے چاہئیں.شارحین نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَةُ اللَّهِ وَذِمَّةٌ رَسُولِه میں ذِمَةُ اللهِ اور ذِمَةُ رَسُولِہ کے معنے یہ ہیں کہ آمَانُهُمَا وَعَهْدُهُمَا “ یعنی ایسا انسان اللہ تعالیٰ اور رسول کی حفاظت اور امان میں اور اللہ تعالیٰ اور رسول نے جو عہد کیا ہے اس عہد کے اندر آ جاتا ہے.پھر فَلَا تُخْفِرُوا اللهَ فِي ذِمَّتِہ کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ لا تَخُونُوا اللهَ فِي عَهْدَہ.اللہ تعالیٰ نے ایک عہد باندھ دیا ہے اس میں خیانت نہیں کرنی اور وَلَا تَتَعَرَّضُوا في حقہ جو حق اس کا قائم کیا گیا ہے.اس میں تعرض نہیں کرنا اور اس کو ضائع کر کے فساد کے حالات نہیں پیدا کرنے.علاوہ ازیں اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ مِنْ مَالِهِ وَدَمِهِ وَعِرْضِهِ اس کے مال کی حفاظت بھی اور اس کی جان کی حفاظت بھی اور اس کی عزت کی حفاظت بھی تمہارے ذمہ ہے.یعنی پس وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا (ال عمران : ۱۰۴) میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی ہی حسین اور وسیع تعلیم دی ہے اور اگر اُمت مسلمہ اس پر عمل کرے اور یہی خدا اور اس کا رسول چاہتے ہیں تو پھر ایک ایسی حسین فضا اور معاشرہ پیدا ہوتا ہے جس کے متعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اِخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ “بھائی بھائی میں اختلاف ہوتا ہے میاں بیوی میں اختلاف
خطبات ناصر جلد سوم ۴۴۷ خطبه جمعه ۲۵ دسمبر ۱۹۷۰ء ہوتا ہے ماں بیٹی میں اختلاف ہوتا ہے باپ بیٹے میں اختلاف ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے اپنی ہر خلق میں اپنی ایک شان ظاہر کی ہے کثرت مزاج انسانی وحدت خالقِ انسانی ثابت کرتی ہے چنانچہ آپ نے فرمایا کہ تمہاری طبیعتوں ، مزاج اور عادات کے اندر اختلاف تو ہوتا ہے مثلاً کھانے میں ہزار اختلاف ہوتا ہے جس خاندان میں کھانے والے افراد زیادہ ہوں وہاں بڑی مشکل پڑ جاتی ہے اور کئی دفعہ بعض نا سمجھوں کو اعتراض کا موقعہ بھی مل جاتا ہے مثلاً ایک زمانے میں ( خدا کرے اب بھی جماعت اس طرف متوجہ ہو ) ایک کھانے کا حکم تھا اب جہاں دس بچے ہوں وہاں بعض کی پسند اور ہوتی ہے اور بعض کی اور چنانچہ اس حکم کی رو سے ہر شخص کھائے گا تو ایک ہی کھانا لیکن گھر میں کھانے ایک سے زائد پکیں گے مثلاً میں بینگن نہیں کھاتا، اب یہ جو پچپن کی عادت ہے (اُس وقت تو جوانی کی عمر تھی جب یہ ایک کھانے کا حکم ہوا تھا) اس کی وجہ سے گھر میں صرف بینگن نہیں پک سکتا یعنی اگر مجھے بھی گھر والوں نے کھانا دینا ہے تو وہ صرف بینگن نہیں پکا سکتے انہیں کچھ اور بھی پکانا پڑے گا میرا ایک بیٹا ہے وہ گوشت نہیں کھاتا اور اس کے لئے ہمیں آلو اور اس قسم کی کوئی دوسری چیز تیار کرنی پڑتی ہے بعض دفعہ تین تین چیزیں ایسی ہو جاتی ہیں کیونکہ خاندان کا کچھ حصہ ایک چیز نہیں کھاتا ، دوسرا ایک اور چیز نہیں کھاتا، اور تیسرا کوئی اور چیز نہیں کھا تا البتہ ہر ایک آدمی ایک چیز کھا رہا ہوتا ہے لیکن جو آدمی باہر سے آئے وہ یہی کہے گا کہ تمہارے دستر خوان پر تین قسم کے کھانے رکھے ہوئے ہیں تفصیل کا اسے علم نہیں ہوگا.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بدظنی میں نہ پڑو.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عادتوں کے لحاظ سے بھی اختلاف پیدا ہوگا اور بعض لوگوں کو میرے بعض احکام اور حدیثیں ملیں گی اور بعض کو دوسری ملیں گی یہ جو فقہی اختلافات ہیں یہ زیادہ تر اسی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں لیکن اس اختلاف کے نتیجہ میں امت میں زحمت نہیں ظاہر ہونی چاہیے بلکہ رحمت ظاہر ہونی چاہیے اور وہ رحمت تبھی ظاہر ہوسکتی ہے کہ سارے مسلمان متحد اور ایک جان ہو جائیں اور خدا اور اس کے رسول کے عاشق ، فدائی اور جاں نثار بن جائیں یہ ایک بڑا عجیب سبق ہے جو امت محمدیہ کو اختلافات کے بد نتائج سے بچنے کے لئے دیا گیا ہے کہ
خطبات ناصر جلد سوم ۴۴۸ خطبہ جمعہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۰ء چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا نہ شروع کر دینا ، ایک دوسرے کے اموال کو اپنے اوپر جائز نہ قرار دے دینا، خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے.تم ایک فتویٰ دے کرنا جائز کو جائز قرار نہیں دے سکتے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اور میرا رسول ان کی عزتوں کے محافظ ہیں.تم اپنے ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئے کسی کی بے عزتی نہ کرنا.اب پچھلے الیکشن کے دنوں میں بدزبانی نے کسی کو نہیں چھوڑا ان لوگوں پر بھی حملے کئے گئے جو بطور امیدوار کھڑے ہوئے تھے اور ان کی بیویوں اور بچوں کو بھی بدزبانی کا نشانہ بنایا گیا ہم دکھ میں پڑے رہتے تھے اور دعائیں کرتے رہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ عطا کرے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرف انسانی کا حسین پیغام لائے تھے.آپ نے عزت نفس انسانی کو قائم کیا تھا لیکن لوگ اس کو بھول گئے اور ایک دوسرے کو گالیاں دینی شروع کر دیں اتہام لگانے شروع کر دیے وہ باتیں کہنی شروع کیں کہ ایک مسلمان کے منہ سے تو کیا ایک شریف غیر مسلم انسان کے منہ سے بھی نہیں نکل سکتیں.ہمارے پاس سوائے دعا کے اور کوئی چارہ نہ تھا اللہ تعالیٰ سے جتنی توفیق ملی دعا کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے.اس وقت انتخابات کا جو نتیجہ نکلا ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ قوم ایک حد تک سیاست کے آخری مقصد کے حصول کے لئے قدم اٹھا چکی ہے.الیکشن ہوئے ، پھر مارشل لاء کے قانونی فریم ورک کے مطابق کانسٹی ٹیوشن یعنی دستور بنے گا.پھر ہمارے صدر صاحب اگر دیکھیں گے کہ قوم میں فساد نہیں پیدا ہوتا یا قوم کی یک جہتی اور اتحاد کے خلاف نہیں تو وہ اس کو منظور کریں گے پھر سیاسی حقوق کا انتقال ہوگا.پھر اسمبلیاں بنیں گی جنہیں لیجسلیچر کہتے ہیں اور پھر یہ اسمبلیاں قوانین وضع کریں گی اور مختلف پارٹیاں جو حکومت بنائیں گی وہ اپنے اپنے پروگرام کے مطابق سکیمیں سوچیں گی اور قوانین بنائیں گی.بہر حال یہ تو ایک لمبا عمل ہے البتہ ایک قدم عوام کے سیاسی حقوق کو قائم کرنے کی طرف اٹھایا گیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جو چیز پرانے تجربہ کارسیاستدانوں کی نظر سے اوجھل تھی اور جس کے نتیجہ
خطبات ناصر جلد سوم ۴۴۹ خطبہ جمعہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۰ء میں انہیں شکست اٹھانی پڑی وہ یہ تھی کہ پچھلے ۲۳ سال میں ( جو پارٹیشن یعنی تقسیم ملک کے بعد ہماری قوم نے گزارے ہیں ) ہر سال ووٹروں کا ایک نیا گروہ ووٹروں کی لسٹ میں شامل ہوتا تھا.ہر سال ۲۰ سال سے ۲۱ سال کی عمر کو پانے والا ووٹروں کی لسٹ میں آجا تا تھا، اس قسم کے ۲۳ نئے گروہ ووٹروں کی فہرست میں شامل ہوئے لیکن اس ۲۳ سال کے عرصہ میں ایک دفعہ بھی ان کو اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا موقعہ نہیں ملا کیونکہ عام رائے دہی کے اصول پر اس سے پہلے انتخاب نہیں ہوئے اب یہ ۲۳ سال کا جو مجموعی گروہ ووٹروں کے حقوق حاصل کرنے والا اور ووٹروں کی فہرست میں داخل ہونے والا ہے یہ تھوڑا نہیں ہے میرے عام اندازے کے مطابق ووٹروں کا ۴۰ فیصد ایسا ہے جو اس ۲۳ سال میں ووٹ دینے کی عمر کو پہنچ کر ووٹر بنا اور جس نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اپنی رائے کا اظہار کیا ہے.یہ ایک بڑی طاقت ہے جیسا کہ پہلے سیاستدانوں نے ان کو حقوق کی ادائیگی میں چھوڑ دیا تھا اور ان کی طرف توجہ نہیں کی گئی تھی اسی طرح اب بھی انہوں نے ان کی نبض پر اپنی انگلیاں نہیں رکھیں.ان کو پتہ نہیں تھا یہ اس بات کو بھولے ہوئے تھے کہ اس ۲۳ سال کے عرصہ میں سیاست کے اندر ایک ایسا گروہ آگیا ہے ( جو میرے اندازے کے مطابق ۴۰ فیصد ہے ) جسے ووٹ دینے کا پہلی دفعہ موقعہ ملا.چنانچہ سیاستدان پرانی ڈگر پر چل رہے تھے مگر اس نئے گروہ نے جسے میرے نزدیک YOUNG PAKISTAN ( ینگ پاکستان ) یعنی نوجوان پاکستان کہنا چاہیے، اس نوجوان پاکستان نے یہ فیصلہ دیا وہ مذہبی اختلافات کے نتیجہ میں کسی کو لڑنے نہیں دیں گے، یہ ایک بڑا ہی عظیم فیصلہ ہے جو نو جوان پاکستان نے دیا ہے کوئی پندرہ میں قومی اسمبلی کے امید واروں کو احمدی کہہ کر ان کی مخالفت کی گئی مگر ان میں سے ایک نے بھی شکست نہیں کھائی.یہ فیصلہ تھا اس نوجوان پاکستان کا کہ تم مذہب میں الجھا کر ہمارے جائز حقوق سے ہمیں محروم کرنا چاہتے ہو ہم یہ نہیں ہونے دیں گے.اسلام نے ہمارے جو حقوق قائم کئے ہیں وہ ہمیں ملنے چاہئیں اور اب پہلے کی طرح کوئی مذہبی اختلاف اس راستے میں حائل نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں پانچ احمدی کامیاب ہوئے ہیں الْحَمدُ لِلَّهِ جو ہمارے
خطبات ناصر جلد سوم ۴۵۰ خطبہ جمعہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۰ء سب سے زیادہ مخالف تھے.میں ان کا نام نہیں لیتا.انہوں نے ہماری مخالفت میں بڑا زور لگایا تھا.انہوں نے مذہب کے نام پر اسلام کے نام پر فتنہ و فساد کی ایک آگ بھڑ کا دی تھی انہوں نے دکان بڑی سجائی تھی.بہت سارے لوگ اس دُکان کو ، اس Show Window (شو ونڈو ) کو دیکھ کر سمجھتے تھے کہ اب پتہ نہیں کیا ہو جائے گا.کئی احمدی دوست میرے پاس بڑے گھبرائے ہوئے آتے تھے مگر میں ان کو سمجھاتا تھا کہ کیا ہو جائے گا ؟ ہوگا وہی جو خدا چاہے گا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو.پنجاب میں ان سارے لوگوں میں سے ہارے ہوئے اور ایک جیتے ہوئے کے ووٹ ملا کر چورانوے ہزار بنتے ہیں.اس کے مقابلے میں ہمارے پانچ جیتنے والے دوستوں میں سے تین نے ایک لاکھ سے زائد ووٹ لئے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کیونکہ جماعت احمد یہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ تو تعلق اتحاد نہیں رکھتی کسی ایک پارٹی کے ساتھ ہمارا الحاق نہیں ہوسکتا تھا ہمارے خلاف جھوٹ بھی بولے گئے یہ سب کچھ کہا گیا لیکن واقعہ یہ ہے کہ بعض جگہ احمدیوں نے کہا کہ ہما را کنونشن لیگ کے ساتھ تعلق ہے.ہم نے کہا ٹھیک ہے تم ان کو ووٹ دو.خواہ یہ ہاریں یا جیتیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.بعض قیوم لیگ سے تعلق رکھنے والے آئے.وہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتے تھے ہماری جماعت کا خیال رکھتے تھے شریف آدمیوں سے یہ دنیا بسی ہوئی ہے وہاں مقامی جماعت احمدیہ نے کہا کہ ہم ان کو ووٹ دینا چاہتے ہیں ہم نے کہا ٹھیک ہے سیاست میں تو کوئی حکم نہیں چلے گا.تمہارے ساتھ تعلق رکھتے تھے تم اگر ان کو ووٹ دینا چاہتے ہو تو ان کو ووٹ دے دو اسی طرح بہت سارے آزاد ممبر آئے ، ان کا ہمارے ساتھ تعلق تھا نہ پیپلز پارٹی نے ان کو ٹکٹ دیا تھا، اور نہ کسی اور پارٹی نے ان کو ٹکٹ دیا تھا.چنانچہ وہ بھی آئے ہم نے کہا ٹھیک ہے مقامی جماعتیں اگر تمہارے ساتھ ہیں تو وہ تمہیں ووٹ دے دیں گے.پس احمدیوں کے ووٹ مختلف سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہو گئے.یہ بھی ایک حقیقت ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو پارٹی زیادہ صاحب فراست نکلی.اس نے اپنے تدبر سے احمدیوں سے زیادہ خدمت لے لی.یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ہمارا کسی ایک پارٹی کے ساتھ الحاق ہے.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۵۱ خطبه جمعه ۲۵ دسمبر ۱۹۷۰ء غرض جو پارٹی اس وقت سب سے زیادہ کامیاب ہوئی ہے اور جس نے ہم سے سب سے زیادہ خدمت لی ہے اور ووٹ لئے ہیں اس کے متعلق دوسروں کا خیال ہے ( میرا جو خیال ہے وہ اس سے زیادہ ہے.مجھے بعض رپورٹیں لاہور سے آئی ہیں کہ اب ) وہ کہتے ہیں کہ یہ ( پیپلز پارٹی والے ) اس واسطے جیت گئے کہ پندرہ لاکھ احمدی ووٹر اُن کے ساتھ شامل ہو گیا تھا.ہم نے کہیں مردم شماری نہیں کرائی اس واسطے کہ نہیں سکتے کہ پندرہ لاکھ احمدی ووٹر تھے لیکن احمدی اور احمد یوں کے دوست اور تعلق رکھنے والے ووٹر جو اس پارٹی کو ملے وہ میرے اندازے کے مطابق پندرہ لاکھ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہیں.ان مہینوں میں جو پیچھے گزرے ہیں، لوگوں میں جوش بھی تھا غلط باتیں بھی ہورہی تھیں اور اس عہد کو تو ڑا بھی جا رہا تھا جو خدا نے اپنے بندوں یا اُمت مسلمہ سے لیا تھا.کہ دیکھو! معمولی معمولی اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں کو ان کے سیاسی ، معاشرتی اور اقتصادی حقوق سے محروم نہ کرنا.ورنہ اس کے نتیجہ میں رحمت نہیں پیدا ہوگی.میرے پاس جولوگ آتے تھے.میں ان کو سمجھاتا تھا کہ دیکھو! ہم ایک غریب جماعت ہیں دنیوی لحاظ سے ایک بے سہارا جماعت، ایک ایسی جماعت کہ جو ہزار کے مقابلے میں اگر ایک پتھر پھینکنے کی طاقت رکھتی ہے تو وہ بھی نہیں پھینک سکتی ، کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ پتھر کا جواب پتھر سے نہیں دینا.اگر کروڑ گالیاں بھی ہمیں دی جاتی ہیں تو اگر کوئی نوجوان جوش میں آکر ایک گالی اس کروڑ کے مقابلہ میں دینا چاہتا ہے تو اس کے دماغ میں یہ بات مسلط ہو جاتی ہے کہ ہمارے امام اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا تھا کہ گالیاں سُن کر دعا دو اس کی زبان پر ایک بات آتی ہے، وہیں رُک جاتی ہے وہ اپنے مونہہ سے نہیں نکالتا.ان تمام حالات کے باوجود ۸۰ سالہ گالیوں اور ۸۰ سالہ کفر کے فتووں نے نہ ہمارے چہروں سے مسکراہٹیں چھینیں اور نہ ہم سے قوت احسان کو چھینا.ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے اور مسکراتے ہوئے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں.کوئی شخص خواہ وہ ساری عمر گالیاں دیتا رہا.جب بھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دروازے پر آیا تو خالی ہاتھ واپس نہیں گیا.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۵۲ خطبه جمعه ۲۵ دسمبر ۱۹۷۰ء یہ قوتِ احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے.یہ اس کا بڑا فضل ہے انسان خود اس قوت کو پیدا نہیں کر سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ ہمارے اندر اللہ تعالیٰ نے قوت احسان کو پیدا کیا ہے غرض جو آدمی آتا ہے اگر اس کا کام جائز ہو تو وہ کر دیا جاتا ہے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دودن پہلے اس نے ہمیں نہایت گندی گالیاں دی تھیں اور اسی طرح اس نے ساری عمر گالیاں دینے میں گزار دی اور ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی.ناجائز طور پر احمدیوں کو نقصان پہنچانے میں اگر کامیاب بھی ہو گیا تو کوئی بات نہیں.دنیوی لحاظ سے ابتلاء بھی آتا ہے ہم یہ نہیں دیکھتے صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اس کا مطالبہ جائز ہے یا نہیں.اگر جائز ہے تو وہ ہم سے تعلق رکھنے والا ہے یا ہماری مخالفت کرنے والا ہے اس کو ہم خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے.ہم اس کی مدد کرتے ہیں.پس اس قسم کی ۸۰ سالہ مخالفت جو اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاری نہیں تھی ، اس کے نتیجہ میں بھی نہ ہماری مسکراہٹیں چھینی گئیں اور نہ ہم سے قوتِ احسان چھینی گئی.اب جس آدمی کے ساتھ آپ پیار کا اور محبت کا تعلق رکھتے ہیں یا جس کے ساتھ آپ ہمدردی اور غمخواری کرتے ہیں.وقت پر اس کے کام آتے ہیں.مصیبت کے وقت اس کی مصیبت دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.تو وہ سمجھتا ہے کہ اعتقاداً ہم ایک نہیں لیکن ہمارے دل ایک ہی قسم کی حرکت کر رہے ہیں اس طرح وہ دو نہیں، ایک ہو جاتے ہیں جس وقت ایسے وقت آتے ہیں تو اگر وہ دلیر ہیں اور اگر ان کے حالات اس کی اجازت دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں جدھر تم جاؤ گے ادھر ہم جائیں گے لیکن اگر ان کے حالات اجازت نہ دیں تو وہ ہمارے کان میں آکر کہتے ہیں تم فکر نہ کرو ہم جائیں گے تو اس راستے سے مگر ووٹ تمہیں دیں گے پس ہماری قوتِ احسان اور ہمارے پیار اور ہماری محبت کے نتیجہ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہمارا ساتھ دیتے ہیں اس لئے صرف احمدی ووٹ نہیں بلکہ جس حلقے میں بھی جدھر احمدی گیا وہ اپنے ساتھ دُگنے تگنے ووٹ لے کر گیا.بعض عقلمندوں کو الیکشن سے پہلے یہ نکتہ سمجھ آ گیا تھا چنانچہ گجرات سے ہمارے ایک دوست آئے وہ احمدی نہیں تھے کہنے لگے کہ آپ میری مدد کریں وہ خود ہی کہنے لگے کہ میرے حلقہ انتخاب
خطبات ناصر جلد سوم ۴۵۳ خطبہ جمعہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۰ء میں سات ہزار احمدی ووٹ ہے اور میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ۳۰،۲۵ ہزار ووٹ آپ کے ہیں جدھر یہ سات ہزار جائے گا ادھر ہی یہ ۲۵ ،۳۰ ہزار ووٹ بھی ساتھ جائے گا اس لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ میری مدد کریں.میں بڑا خوش ہوا.میں نے اس سے کہا میں اس لئے خوش ہوں کہ جو چیز بہت سے لوگوں کے سامنے نہیں آئی اور وہ سوچتے نہیں وہ تمہارے دماغ میں آگئی ہے خیر اللہ تعالیٰ نے وہاں کی جماعت کو اس کے لئے کام کرنے کی توفیق دی اور وہ انتخاب میں کامیاب ہو گیا حالانکہ اس کا بڑا سخت مقابلہ تھا ایک بڑا ہی ظالم قسم کا آدمی اس کے خلاف کھڑا تھا جو لوگوں کے حقوق مارنے والا تھا اور اس نے بڑی دھمکیاں دیں (احمدیوں کو نہیں، احمدی تو دھمکی کی پرواہ ہی نہیں کرتے ) اور دوسرے ووٹروں کو اس نے بہت ستایا ، بہت کچھ کیا، لیکن کامیاب نہیں ہو سکا غرض احمدیوں کے شامل ہونے سے اللہ تعالیٰ کا فضل بھی شامل ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو طبیب اپنے مریض کے لئے دعا نہیں کرتا وہ بڑا ظالم ہے تو جو ووٹر احمدی ہے جس کے حق میں اس نے ووٹ ڈالنا ہے اگر وہ اس کے حق میں دعا نہیں کر رہا تو وہ بھی ظالم ہے کیونکہ اصل چیز تو دعا ہے اس کے فضل کے بغیر تو کچھ نہیں ہوسکتا.کئی نا سمجھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن ک دعا کا فلفہ ہی نہیں آتا ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ میری مدد کریں میرے آپ کے ساتھ بہت تعلقات ہیں میں نے کہا بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ٹھیک ہے تم نے جماعت سے تعلقات بھی رکھے ہوں گے لیکن اب ہم وعدہ کر چکے ہیں تم دیر بعد آئے ہو ورنہ اگر تم پہلے آجاتے تو تمہاری مدد کر دیتے وہ کہنے لگا کہ اچھا اگر اس سے مدد کا وعدہ کر دیا ہے تو میرے لئے دعا کریں میں نے کہا دعا اور عمل اکٹھے چلیں گے آپس میں ان کا تصادم کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن چونکہ وہ دعا کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے اسلام کی روح سے واقف نہیں ہوتے اس لئے اس قسم کے خیالات دماغ میں آتے ہیں اور ان کا اظہار کر جاتے ہیں.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۵۴ خطبہ جمعہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۰ء پس جہاں احمدی ووٹ جائے گا وہاں احمدی کی دعائیں بھی اسی راستے پر چل رہی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کریں گی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسی ناممکن باتیں ممکن بنادی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے جو لوگ ہماری مخالفت کرتے رہے ناجائز طور پر ہمیں تنگ کرتے رہے ڈراتے دھمکاتے رہے ان کے متعلق میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ان کو شکست ہو اور میں ان کی شکست کے لئے دعائیں بھی کرتا تھا چنا نچہ جب ان کے خلاف کھڑے ہونے والوں سے جماعتوں نے وعدہ بھی کر لیا لیکن جب میں کہوں تم زور لگاؤ کہ اس قسم کے کسی شخص کو کامیاب نہیں ہونا چاہیے تو دوست کہیں کہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا یہ تو بڑا مضبوط ہے یہ تو بڑے اثر ورسوخ والا ہے اس نے تو بڑے بڑے قاتل اور خونخوار قسم کے ایجنٹ رکھے ہوئے ہیں انہوں نے فلاں جگہ تو اعلان کر دیا ہے کہ جو انہیں ووٹ نہیں دے گا.اسے وہ شوٹ کر دیں گے.وغیرہ وغیرہ یہ باتیں صحیح تھیں یا غلط بہر حال لوگ مجھے آکر ایسی باتیں سناتے رہتے تھے لیکن ان کا پتہ ہی نہیں لگا کہاں گئے؟ اس واسطے کہ اصل کامیابی کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کسی کو ابتلا اور امتحان میں ڈالتا ہے اور اسے دنیوی کامیابی دے دیتا ہے یعنی دنیا کی ہر کامیابی اللہ تعالیٰ کا فضل اور برکت اور رحمت شمار نہیں ہو سکتی قرآن کریم نے اس کا ذکر فرمایا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی اس کا ذکر موجود ہے یعنی کبھی انعام اور اصطفاء کے طور پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نزول ہوتا ہے کبھی ابتلاء کے طور پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نزول ہوتا ہے.پس جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے ہمیں بھی اللہ تعالیٰ آزماتا ہے لیکن اس میں بھی ہمارے لئے رحمت پوشیدہ ہوتی ہے البتہ جو انعام اصطفی کے طور پر یعنی اپنی محبت اور قرب کے اظہار کے طور پر وہ جماعت احمدیہ پر نازل کرتا اور ان سے پیار کرتا ہے اس کا تو شمار ہی کوئی نہیں ! اس لیے بہت الحَمدُ لِلهِ پڑھو اور اپنے رب کے حضور گرو اور اس سے کہو کہ ہم تیرے ناچیز بندے ہیں تیرے فضلوں کا شمار نہیں ہے ہماری زبانیں، ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ شکر ادا کرنا چاہے تو شکر ادا نہیں کر سکتا اور یہ دعا بھی کرو کہ اے اللہ ! تو نے اپنے بندوں کے لئے بہتری کے کچھ سامان پیدا کرنے شروع کئے ہیں وہ مظلوم اور محروم جو ہر طرف سے دھتکارے ہوئے اور ذلیل سمجھے جانے
خطبات ناصر جلد سوم ۴۵۵ خطبہ جمعہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۰ء والے اور حقیر کہلانے والے جنہیں لوگ عوام کہتے ہیں یہ تیرے بندے اب اپنی عزت کے راستے پر قدم اٹھانے لگ گئے ہیں تو ایسی تدبیر کر آسمانوں سے اور ایسا حکم نازل کر کہ یہ ا پنی منزل مقصود کو پہنچ جائیں اور وہ حسین معاشرہ جو اسلام کا معاشرہ ہے، جو دنیا کی کسی اور قوم کے دماغ میں بھی نہیں آسکتا تھا وہ معاشرہ قائم ہو جائے اور ہر مظلوم ظلم سے نجات اور چھٹکارا حاصل کرے اور ہر محروم کو خواہ وہ مانگے یا مانگنے سے بھی محروم ہو اس کے حقوق اسے مل جائیں، اقتصادی بھی اور عزت نفس کے لحاظ سے بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آپ میں سے جو امیر ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دولت دی ہے وہ اس چیز کو نہ بھولیں.آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص تمہارے پاس آتا ہے تم اس کی عزت اور احترام کرو، خواہ وہ بہترین لباس میں ملبوس ہوکر تمہارے پاس آئے یا چیتھڑوں میں لپٹا ہوا تمہارے پاس آئے کیونکہ وہ ایک انسان ہے اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی عزت ہے.تمہاری نگاہ میں وہ چیز نہیں ہونی چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہیں ہے تمہاری نگاہ میں بھی وہی چیز ہونی چاہیے جو تمہارے پیدا کرنے والے رب کی نگاہ میں ہے.اس لئے ہر ایک کے ساتھ پیار اور محبت اور عزت اور احترام کے ساتھ ملو اور کوئی جتنا کسی کا بھلا کر سکتا ہے اتنا بھلا کرے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا‘ (البقرة: ۲۸۷) اس کے بعد پھر گرفت نہیں ہے لیکن اگر آپ ایک دھیلے کی بھلائی کر سکتے ہیں اور وہ نہیں کرتے (اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے) تو خدا تعالیٰ کا شدید غضب صرف ایک دھیلے کی بھلائی نہ کرنے کی وجہ سے نازل ہوسکتا ہے.پس لرزاں وتر ساں اور خوف کے ساتھ اس جذبہ کے ساتھ اور محبتِ ذاتیہ کے ساتھ (کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں مل جائے ) جماعت اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرے.اب اسلام کی نو بہار کا زمانہ آ گیا ہے ( اس پر تو میں انشاء اللہ جلسہ سالانہ کی کسی تقریر میں زیادہ تفصیل سے روشنی ڈالوں گا ) اب وقت آگیا ہے کہ دنیا اسلام کی نو بہار دیکھے اور جس طرح بنی نوع انسان نے اس رحمتہ اللعالمین کی رحمت سے پہلے زمانے میں، اسلام کی نشاۃ اولیٰ میں فائدہ اٹھایا اور حصہ لیا تھا اسی طرح اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت کے وقت جو احمدیت کے روپ میں دنیا دیکھ رہی ہے، ساری دنیا ایک ہوکر اسلام
خطبات ناصر جلد سوم ۴۵۶ خطبہ جمعہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۰ء کے حسن و احسان کے جلوے دیکھنے والی ہو.پس آپ دعاؤں میں وقت گزار میں جلسہ سالانہ کے لئے دعائیں کریں مخالف تو اپنی تدبیریں سوچتا اور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور جماعت کے ہر فردکو اور جماعت کو بحیثیت مجموعی محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ اپنے فرشتے حفاظت کے لئے آسمانوں سے اتنی تعداد میں اتار دے جتنی تعداد میں اس وقت مجموعی طور پر جماعت کو ان کی مدد کی ضرورت ہے.اللھم آمین.روزمانه الفضل ربوه ۲۲ جنوری ۱۹۷۱ء صفحه ۳ تا ۸) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۴۵۷ خطبہ جمعہ یکم جنوری ۱۹۷۱ء جو سال گذر چکا ہے وہ بڑی برکتوں کا موجب تھا نیا سال آپ کو مبارک ہو خطبہ جمعہ فرموده یکم جنوری ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج سال کا پہلا دن ہے.نیا سال آپ سب کو مبارک ہو.نیا سال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے غلاموں کو مبارک ہو، نیا سال انسانیت کو مبارک ہو جو سال گذر چکا ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لئے اندرونِ پاکستان بھی اور بیرونِ پاکستان بھی بڑی ہی برکتوں کا موجب تھا.اللہ تعالیٰ کی رحمت اور پیار کے بڑے حسین نظارے ہم نے گذشتہ سال دیکھے ہمارے دل اس کی حمد سے معمور ہیں.سال نو ایک عید سے شروع ہو رہا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرما یا کہ جمعہ بھی تمہارے لئے ایک عید ہے.جمعہ کا ایک پہلو اجتماعی زندگی کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اجتماعی برکات اور رحمتوں کے حصول کا موجب بن جاتا ہے.حسن واحسان کے جو جلوے ہم اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے دیکھتے ہیں اس کے نتیجہ میں حسد وعناد کا پیدا ہونا ضروری ہے اور حسد و عناد کا بڑا ہتھیار دروغ گوئی اور کذب بیانی ہے.اس کا دفاع جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے وہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا اور ماسوا اللہ کسی چیز پر بھروسہ
خطبات ناصر جلد سوم ۴۵۸ خطبہ جمعہ یکم جنوری ۱۹۷۱ء نہ رکھنا اور سب کچھ اور سب خیر و برکت اپنے ربّ کریم سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے.اسلام کے عظیم دور کے ساتھ ہی حسد کا دور، عناد کا دور، مخالفت کا دورا اور ظلم کا دور شروع ہوا تھا.قرآن کریم نے ابتداء ہی سے ہمیں تعلیم دی تھی کہ حاسد کے حسد کے شر سے بچنے کے لئے تم اپنے رب کی طرف رجوع کرنا اور اپنی حفاظت اسی سے چاہنا.انعام جب بے شمار ہوں، انعام جب معمول سے زیادہ ہوں، پیار جب ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن جائے تو حسد اور مخالفت اور عناد میں بھی شدت پیدا ہو جاتی ہے لیکن مظلوم ہونے کے با وجود اور حسد کا نشانہ بننے اور ظلم کا ہدف ہونے کے باوجود ہم پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی کو دُکھ نہیں پہنچانا، کسی کی جان پر حملہ نہیں کرنا کسی کا مال غصب نہیں کرنا کسی کو بے عزت نہیں کرنا اور کسی پر حقارت کی نگاہ نہیں ڈالنا بلکہ جب انسان اللہ کی گود میں اس کے فضل سے بیٹھ جائے تو اس کے دست قدرت نے جو پیدا کیا اس سے وہ محبت کرنے لگتا ہے، اس سے پیار کرنے لگتا ہے، اس کا بہی خواہ بن جاتا ہے اور اس سے ہمدردی و غمخواری کرتا ہے.دنیا اپنی ناسمجھی کی وجہ سے ہمارے ساتھ جو بھی سلوک کرے، ہمیں غصہ نہیں آنا چاہیے.ہمیں بدلہ لینے کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ایسوں کے لئے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تاکیدی حکم فرمایا ہے کہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ ہر اس شخص کے لئے دعائیں کرتا رہے جو اس احمدی کے لئے دشمنی کے جذبات رکھتا ہے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو حقیقی مسلمان کی ایک صفت سے محروم ہو جاتا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ایک دروازہ اپنے پر کھول لیتا ہے.اللہ تعالیٰ رحم کرے اور محبت و اخوت اور ہمدردی و غمخواری کے جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بٹھایا ہے، اس مقام پر ہی وہ ہمیں قائم رکھے اور اسی پر استقامت بخشے تا کہ اس کے فضلوں کے ہم زیادہ سے زیادہ وارث بنتے چلے جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ جنوری ۱۹۷۱ء صفحه ۲، ۳)
خطبات ناصر جلد سوم ۴۵۹ خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۷۱ء یہ عزم کر لینا چاہیے کہ ہم نے بقایوں کو ادا کرنا اور سالِ رواں کا بجٹ پورا کرنا ہے ( خطبه جمعه فرموده ۸ / جنوری ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَ أَنَّ اللَّهَ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ - (الانفال: ۲۹) اور پھر فرمایا.گذشتہ جمعہ کے روز سے ہی مجھے انفلوئنزا کے آثار شروع ہو گئے تھے بعد میں یہ شدت اختیار کر گیا تین دن تک تو ناک اور آنکھوں سے ہر وقت ہی پانی بہتا رہا اور اس سے بہت ہی تکلیف رہی اب بھی گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے آرام ہے لیکن بیماری اور بیماری کی وجہ سے ضعف کے کچھ آثار باقی ہیں.میں احباب جماعت کو ایک ضروری امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا اس لئے یہاں آ گیا ہوں.اللہ تعالیٰ نے جس حد تک مجھے توفیق دی اپنی ذمہ داری کو نباہوں گا.سورہ انفال کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو نعمتیں عطا کی ہیں جن میں سے مال و دولت کی نعمت بھی ہے اور بچے بچیوں کی نعمت بھی ہے.یہ
خطبات ناصر جلد سوم ۴۶۰ خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۷۱ء اس لئے عطا کی ہے کہ اُس سے وہ ہمارا امتحان لینا چاہتا ہے.اس دنیا کے امتحانات پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے ( یعنی جو انسان کی عقل اور فطرت نے سمجھا اور سمجھایا ہے وہ یہ ہے ) کہ انسانی زندگی میں امتحان ایک نہیں ہوتا بلکه درجہ بدرجہ مختلف امتحانات میں سے انسان کو گذرنا پڑتا ہے مثلاً ایک بچہ ہے وہ پہلے کچی پہلی کا اور پھر پکی پہلی کا امتحان دے کر دوسری ، تیسری، چوتھی اور اسی طرح دسویں جماعت تک پہنچتا ہے.پھر دسویں جماعت کے امتحان کے بعد ایف اے یا ایف ایس سی کا امتحان دیتا ہے.پھر علوم کے راستے مختلف ہو جاتے ہیں.مثلاً کچھ طلباء بی اے تک پھر ایم اے تک اور پھر ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی تک جاتے ہیں کچھ انجینئر نگ میں جاتے ہیں اور مختلف امتحانات میں گذرتے ہیں.کچھ طب کی طرف جاتے ہیں اور ڈاکٹر بننے کی کوشش کرتے ہیں انہیں مختلف قسم کے امتحانوں میں سے گذرنا پڑتا ہے.کچھ کو بعد میں نوکریاں مل جاتی ہیں پھر وہ ڈیپارٹمنٹل امتحانات میں سے گذرتے ہیں.جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہر امتحان کے بعد ایک تو انعام مقرر کیا جاتا ہے یعنی کامیابی ملتی ہے اور دوسرے ایک نئے اور بڑے امتحان کا دروازہ کھلتا ہے.پہلی کے بعد دوسری کا امتحان ایک نیا امتحان ہے اور یہ پہلی کے امتحان سے بڑا ہے اسی طرح دسویں کے بعد ایف.اے اور بی اے اور اس کے بعد ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کے جو امتحانات ہیں ، پہلے امتحان میں کامیابی کی شکل میں انعام بھی ملا اور ایک نئے امتحان کا دروازہ بھی کھلا اور نئے امتحان کا دروازہ ناکامی کی صورت میں نہیں کھلتا.کوئی شخص دسویں جماعت میں فیل ہو کر انٹر میڈیٹ یا ایف اے، ایف ایس سی میں شامل نہیں ہو سکتا.یہ دروازہ اس کے اوپر بند ہو گیا اسی طرح جو بی اے میں فیل ہوتا ہے اس پر ایم اے کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور جو بی ایس سی میں فیل ہوتا ہے اس پر اگلا دروازہ بند ہوجاتا ہے.یہی حال ( کچھ اس سے ملتا جلتا ) روحانی دنیا کا ہے.اسی لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا ہر قدم پہلے سے آگے بڑھتا ہے مومن کی زندگی کا ہر سال اگر وہ کامیاب ہوتا
خطبات ناصر جلد سوم ۴۶۱ خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۷۱ء رہے اور اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے تو پہلے سال سے زیادہ بہتر ہوتا ہے اور زیادہ قربانیوں اور زیادہ امتحانات میں سے گزرنے اور ان انعامات سے زیادہ انعامات کا وارث بننے کا سال ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے تمہیں جو دولت دی ہے یا میں نے تمہیں جو اولا د دی ہے، یہ تمہارے آخری امتحان کا نتیجہ نہیں ہے کہ انعام مل گیا اور اب تم نے تسلی پکڑ لی.آخری امتحان کا نتیجہ تو خاتمہ بالخیر ہونے کے بعد انسان کو ملتا ہے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حسن واحسان کے جلوے بڑی وضاحت کے ساتھ مشاہدہ کرتا اور جو محبت اور عشق کا سرور ہے وہ صحیح اور حقیقی معنے میں اسی وقت اس کو ملتا ہے.اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو سہارا دینے کے لئے اور اس کی مدد کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ جب وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ایک قربانی دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اپنے پیار کا بھی اظہار کرتا ہے اور اپنے محسن و احسان کے جلوے بھی اسے دکھاتا ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک، انسانی فطرت اور اس کی جدو جہد کے نتیجہ میں اسے جو کامیابی حاصل ہوتی ہے اس کے مطابق ہوتا ہے لیکن وہ وہاں کھڑا نہیں رہتا یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے وہ یہ نہیں کہتا کہ اگر چہ میں نے تمہیں روحانی ترقیات کی طاقتیں تو دی تھیں لیکن تم نے ایک امتحان پاس کر لیا اب تمہیں مزید کچھ نہیں ملے گا.مزید امتحان کا دروازہ کھولا جانا بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے.اس کے بغیر تو زندگی کا کوئی لطف نہیں اس ورلی زندگی کے متعلق بھی ہمارے سامنے یہی تصویر رکھی گئی ہے اور اُخروی زندگی کے متعلق بھی یہی تصویر رکھی گئی ہے.بعض ناسمجھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب انسان جنت میں جائے گا تو گویا اس کو سب کچھ مل گیا.ابھی سب کچھ نہیں ملا کیونکہ سب کچھ ملنے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس کے اوپر مزید ترقیات کے دروازے بند ہو گئے لیکن حقیقت یہ نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے کہ اُخروی زندگی میں ارتقاء کا غیر متناہی دور ہوگا.البتہ وہاں دُنیوی رنگ کے امتحان نہیں ہوں گے.وہ تو دنیا ہی اور رنگ کی ہے جس کے متعلق بتانے والے (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے
خطبات ناصر جلد سوم ۴۶۲ خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۷۱ء بتایا ہے کہ نہ تمہاری آنکھ اسے دیکھ سکتی ہے، نہ تمہارے کان اسے ٹن سکتے ہیں اور نہ تمہاری عقل اس کا احاطہ کر سکتی ہے.مثالوں میں ہمیں سمجھایا گیا ہے اور وہ یہی ہے کہ وہ دارا بتلاء نہیں ہے.ہماری یہ زندگی جو ابتلاء اور امتحانوں کی زندگی ہے اس سے تو وہ مختلف ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہاں ترقیات کے یعنی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بھی زیادہ حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے البتہ کس طریق پر انسان زیادہ سے زیادہ انعامات حاصل کرتا رہے گا اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا رہے گا، اس کا ہمیں پتہ نہیں لیکن ہمیں یہ علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی یہی طریق رکھا ہے کہ آج ( گذری ہوئی ) کل سے بہتر ، اور آنے والی کل آج سے بہتر ہو گی.ویسے حالات اور مخلوق کے لحاظ سے زمانہ کی شکل بھی بدل جاتی ہے.اس دنیا میں بھی انسان کا زمانے کے متعلق تصور اور اُس کیڑے کا تصور جس کی زندگی چند سیکنڈ سے زیادہ نہیں ہوتی مختلف ہوتا ہے.کیڑے کا تصور کیا ہے؟ اس کا تو ہمیں پتہ نہیں.لیکن ہماری عقل کہتی ہے کہ وہ بہر حال مختلف ہوتا ہے.شہد کی مکھی جو ہر وقت اپنے کام میں لگی رہتی ہے، اس کی ساری زندگی ۴۵ اور ۶۰ دنوں کے درمیان ہوتی ہے اس سے زیادہ اس کی عمر نہیں ہوتی.غرض ہر شہد کی مکھی اپنی پیدائش سے ۴۵ اور ۶۰ دن کے درمیان کام کرتے ہوئے مرجاتی ہے اور یہ ہمیں بہت سارے سبق دیتی ہے جو اس وقت میرے مضمون کا حصہ نہیں.اسی طرح شہد کی مکھیوں کی ماں، جو ان کی ملکہ کہلاتی ہے، اس کی عمر ۴ اور ۵ سال کے درمیان ہوتی ہے.اب یہ وقت کا تصور دونوں کے لئے بڑا مختلف ہوگا.اگر ہم شہد کی مکھیوں پر غور کریں اور اپنی عقل سے کام لیں تو پتہ لگتا ہے کہ ایک کو تو بڑی جلدی پڑی ہوتی ہے کہ وہ ۴۵ دن میں زیادہ سے زیادہ کمالے مثلاً ایک شہد کی مکھی جب ایک خاص عمر میں شہد اکٹھا کرنے کے لئے جاتی ہے تو وہ صبح سے شام تک اپنے کام میں لگی رہتی ہے.اُس پر ایک جنونی کیفیت طاری ہوتی ہے.ایک دن میں شاید ہزار ہا میل کا سفر کرتی ہے.جاتی ہے آتی ہے پھولوں کا رس چھتے میں رکھتی ہے.پھر جاتی ہے اور اس طرح وہ چکر لگا رہی ہوتی ہے.وہ مجھتی ہے کہ میری چھوٹی سی زندگی ہے میں اس میں زیادہ کماؤں.یہ کیفیت انسان میں بھی پیدا
خطبات ناصر جلد سوم ۴۶۳ خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۷۱ء ہونی چاہیے بہتوں میں ہوتی ہے اور بہتوں میں نہیں ہوتی.دوسری طرف شہد کی مکھیوں کی جو ملکہ ہے اسے یہ دھڑکا لگا ہوا ہوتا ہے کہ کہیں ۴۵ دن کے بعد میرا چھتہ مکھیوں سے خالی نہ ہو جائے.اس واسطے وہ ایک ایک دن میں دو دو ہزار انڈے دے دیتی ہے اور یہ اس کے اپنے وزن سے اڑھائی گنا زیادہ ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی زندگی کے لحاظ سے ایک لگن لگائی ہوتی ہے.بہر حال ہماری عقل کہتی ہے کہ مکھیوں میں وقت کا ایک احساس پایا جاتا ہے گو مکھی کا جو احساس ہے وہ تو ہمیں معلوم نہیں ہو سکتا لیکن جب ہم اس کی زندگی پر غور کرتے اور اس کا مطالعہ کرتے رہیں تو ہماری عقل اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ اسے وقت کا احساس اور قسم کا ہے اور ہمیں وقت کا احساس اور قسم کا ہے اُخروی زندگی میں وقت کا احساس اور قسم کا ہوگا ہمیں نہیں پتہ کہ وہ احساس کیا ہے؟ لیکن جو بھی احساس ہوگا ، اس میں ایک وقت کے بعد جو دوسرا وقت آئے گا، وہ پہلے سے بہتر ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کے قرب کے درجات غیر محدود ہیں اس لئے انسان کی ترقیات کے درجات بھی غیر محدود ہیں.غرض اللہ تعالیٰ اور انسان میں اتنا بعد ہے کہ وہ بُعد تو پانا نہیں جاسکتا لیکن انسان اللہ تعالیٰ کے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے.میں یہاں کی اس مادی دنیا کا ذکر کر رہا ہوں.ہر سال خدا تعالیٰ کے بندے ایک نئے امتحان میں سے گذرتے ہیں اور ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کالج کے ایم اے کی کلاسز کی طرح قریباً سارے ہی پاس ہو جاتے ہیں.یہ بھی خدا تعالیٰ کا فضل ہے.اس امتحان کی کامیابی پر اگر چہ ایک انعام بھی ملتا ہے لیکن یہ کامیابی ایک نئے امتحان اور ایک بڑے انعام کا دروازہ بھی کھولتی ہے.جس نئے امتحان کا دروازہ کھولا جاتا ہے وہ پہلے سے بڑھ کر سخت اور مشکل ہوتا ہے.وہ زیادہ محنت طلب ہوتا ہے یا مذہبی اصطلاح میں کہیں گے کہ اس کے لئے انسان کو زیادہ مجاہدہ اور زیادہ جہاد کرنا پڑتا ہے اسی واسطے آپ اپنی ( مراد جماعت احمدیہ کی یعنی میری اور آپ کی جو زندگی ہے بحیثیت جماعت) اس زندگی پر غور کریں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ فضل نظر آتا ہے کہ جماعت احمد یہ ہر سال پہلے سال سے ہر لحاظ میں زیادہ ترقی کرتی ہے لیکن میں اس وقت ہر لحاظ کی
خطبات ناصر جلد سوم ۴۶۴ خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۷۱ء بات نہیں کروں گا.صرف مالی قربانی کی بات کروں گا.میں نے پہلے بھی ایک موقعہ پر بتایا تھا کہ ۱۹۴۴ء تک بیرونِ پاکستان کی جماعتوں کے چندے یعنی مالی قربانی قریباً صفر تھی.استثنائی طور پر شاید آپ کو کہیں نظر آ جائے تو آ جائے ورنہ صفر تھی چنانچہ بیرونِ پاکستان کی احمدی جماعتوں نے پہلی بار ۴۵ء میں مالی قربانی دینی شروع کی یعنی پہلی بار ان کی مالی قربانی ۱۹۴۵ء میں ہمارے سامنے آئی اس وقت ان کا پھیلاؤ زیادہ ہے.بہر حال جو چیز ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی جماعتوں سے ان کی مالی قربانی اگر زیادہ نہیں تو برابر ضرور ہو گی وہ ہم سے بہت پیچھے (یعنی ۴۵ ء میں ) آئے اور اب وہ ہم سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں.ہمارے پہلو بہ پہلو تو وہ اس وقت تک پہنچ چکے ہیں.اس سال ( مجھے فکر تو نہیں لیکن میرا فرض تھا کہ میں جماعت کو توجہ دلا تا البتہ ) نظارت بیت المال کو فکر تھی کہ بجٹ کے مطابق چندے اتنے نہیں آرہے جتنے اس وقت تک آنے چاہیے تھے.میں نے ان کو ایک دن سمجھایا تھا کہ فکر نہ کرو ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلی بار انتخابات ہورہے ہیں ایک ہنگامہ بپا ہے.ذہنوں میں ایک ہیجان ہے.گو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ چندوں کی ادائیگی میں کمی لوگوں کی سستی کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن بہر حال کچھ توجہ انتخابات کی طرف بھی ہو گئی ہے.اب جب ہم ان سے فارغ ہوں گے تو پھر ایک رد عمل پہلے سے زیادہ شدید ہو گا اور وہ رد عمل پیدا ہونا چاہیے ورنہ جماعت پر ایک دھبہ لگ جاتا ہے.اس وقت بجٹ کے لحاظ سے جتنی آمد ہونی چاہیے اس سے قریباً پانچ ، ساڑھے پانچ لاکھ روپے کم آمد ہوتی ہے اور دو لاکھ سے زیادہ موصیوں کا حصہ آمد کم ہے.اب جس دل نے انتہائی پیار کے ساتھ اپنی آمد کا دسواں حصہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے، اُس پر ہم بدظنی تو نہیں کر سکتے البتہ کئی مجبوریاں ہوتی ہیں.بعض دفعہ ایک چھوٹی سی مجبوری بھی ہاتھ پاؤں باندھ دیتی ہے.بعض دفعہ ایک بالکل معمولی رسی سے گھوڑے کا پاؤں باندھ دیا جائے جسے وہ ایک ذراسی حرکت سے تو ڑسکتا ہے لیکن گھوڑا اپنے آپ کو بندھا ہوا محسوس کرتا ہے.بعض دفعہ انسانوں کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے لیکن یہ کیفیت بہر حال دور ہونی چاہیے اور انشاء اللہ دور ہوگی.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۶۵ خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۷۱ء ۳۱٫۳۰ جنوری اور پہلی ، دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں فروری کے یہ سات دن میں اس وقت مقرر کرتا ہوں.یہ دن عملاً بیدار ہو کر اس بات کے ثابت کر دینے کے لئے ہیں کہ عارضی طور پر اونگھ آ گئی تھی.نہ سوئے اور نہ موت وارد ہوئی.موت کا تو یہاں سوال ہی نہیں لیکن سوئے بھی نہیں تھے البتہ اونگھ تو اچھے ہو شیار آدمی کو بھی آجاتی ہے.بعض دفعہ رات کو تہجد پڑھنے والا بھی اگر تھکا ہوا ہو تو اُسے بھی اُونگھ آجاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کا دماغ ہی کچھ ایسا بنایا ہے.موصیوں کے حصہ آمد میں جو کمی ہے اس کے لئے تو میں موصیوں کی تنظیم کو ذمہ وار قرار دیتا ہوں جن کے سپرد یہ کام ہے انہیں پتہ کرنا چاہیے کہ یہ کمی کیوں واقع ہوئی ہے پس موصیوں کا بقایا بھی نہیں رہنا چاہیے.باقی دو تین لاکھ روپے کی رقم ہے اس وقت خدا تعالیٰ کا فضل ہے.یہ کوئی ایسی رقم نہیں اس میں پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ جس وقت خدا تعالیٰ کے حضور کوئی عملی قربانی پیش کی جاتی ہے اس وقت سے اس پر ثواب شروع ہوتا ہے.آپ دو مہینے ثواب سے محروم رہے اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا فضل اور رحم فرمائے.بہر حال غلطی ہوئی ہے اب ہمیں زیادہ دیر تک محروم نہیں رہنا چاہیے بلکہ یہ عزم کر لینا چاہیے کہ ہم نے ان بقایا جات کو پورا کرنا ہے.آپ نے سال رواں کے لئے کام کے جو منصوبے مشاورت کے موقع پر باہمی مشورے سے منظور کئے تھے اور ان کاموں کے کرنے کے لئے جس رقم کی آپ نے ضرورت محسوس کی تھی اور جس کے مطابق آپ نے بجٹ بنایا تھا ، وہ بجٹ پورا ہونا چاہیے ورنہ وہ کام نہیں ہوسکیں گے.پھر اگلی مشاورت کے موقع پر عہدیدار آکر یہ نہیں کہیں گے کہ اُن سے ستی ہو گئی.انہوں نے احباب جماعت کو یاد دہانی نہیں کرائی بلکہ وہ یہ کہیں گے کہ یہ کام کیوں نہیں ہوا ؟ وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ اس کام کے لئے اتنے روپے کی ضرورت تھی جب تک وہ روپیہ مہیا نہ ہو وہ کام کیسے ہوسکتا ہے؟ بہر حال میں اپنی طبیعت کے لحاظ سے یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے اس تفصیل میں بھی جانے کی ضرورت نہیں.( طبیعت سے مراد بیماری نہیں بلکہ فطرت ہے بیماری میں تو مجھے جتنی توفیق ملے گی بولوں گا ) اس واسطے کہ مجھے پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے
خطبات ناصر جلد سوم ۴۶۶ خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۷۱ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ بشارت بھی دی اور آپ سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ میں تجھے مخلصین کی ایک جماعت دوں گا، جو ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی اس مہم کو کامیابی سے چلائے گی.یہ تو انشاء اللہ ہو کر رہے گا لیکن کبھی دوسرے لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کبھی ہمارے دلوں میں ایک وہم سا پیدا ہو جاتا ہے کیوں آپ وہم پیدا کر کے مجھے پریشان کرتے ہیں ! تھوڑی سی رقم ہے شستی دور کریں اور رقم ادا کریں تا کہ ہم اپنے کام کریں اور آگے بڑھیں.انشاء اللہ.خدا تعالیٰ آپ کو اتنا مال دے رہا ہے کہ آپ اس کا شکر ادا نہیں کر سکتے اور پھر وہ آپ کو مالی قربانی کی توفیق بھی دے رہا ہے اور آپ سے اس کا یہ وعدہ ہے کہ وہ آپ کو اجر عظیم دے گا اور وہ اپنا وعدہ پورا بھی کر رہا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ اولا د اور اموال تو امتحان ہیں.دنیا کے امتحان کے نتیجہ میں تو ذرا ذرا سا انعام ملتا ہے مثلاً ایک آدمی ایم.اے پاس کر لیتا ہے لیکن یہ چھوٹا سا انعام ہے کیونکہ بہت سارے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو انعام صرف اتنا ملتا ہے کہ ایم اے کی ڈگری مل جاتی ہے لیکن حکومت ان کے لئے نوکری کا سامان نہیں کرتی.وہ چھوٹا سا انعام یعنی ڈگری لے کر پھر بھی پریشان پھر رہے ہوتے ہیں.خدا تعالی کا اپنے بندوں سے تو یہ سلوک نہیں ہوتا وہ تو صرف پاس ہی نہیں کرتا ، وہ صرف رحیم ہی نہیں ہے، صرف استحقاق ہی پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ بھی ہے.ہر چیز اس کے ہاتھ میں ہے.وہ جب استحقاق پیدا کرتا ہے تو ساتھ یہ بھی کہتا ہے، یہ لو اور دنیا حیران ہے اور ہم اپنے پیارے رب کے پیارے جلوؤں کو دیکھ کر خوشی سے اپنی زندگی کے دن گزار رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ میں تمہیں دنیا کی طرح اجر نہیں دوں گا بلکہ میرا اجر تو اجر عظیم ہے.( عظیم عربی لغت کے لحاظ سے اس عظمت کو کہتے ہیں جس سے بڑھ کر کوئی عظمت نہ ہو) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو اجر میں نے دینا ہے، اس سے بڑھ کرا جر تمہیں کہیں اور نہیں مل سکتا پس یہ عظیم اجر ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور یہ عظیم اجر ہے جسے ہم عملاً اللہ تعالیٰ سے وصول کر رہے ہیں اور جس پر ہم خوش ہیں.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۶۷ خطبہ جمعہ ۸/جنوری ۱۹۷۱ء پس اس اجر عظیم کے حصول میں اپنی مستیوں کے نتیجہ میں وقتی طور پر کمی کیوں پیدا ہونے یں؟ جس طرح ایک اونگھنے والے آدمی کو جھٹکا لگتا ہے اور وہ ایک جھٹکے کے ساتھ بیدار ہو جاتا ہے میں بھی ویسا ہی ایک ہلکا سا جھٹکا آج لگانا چاہتا ہوں تا کہ آپ بیدار ہو جائیں اور کمی کو پورا کر دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی ہر روز زیادہ سے زیادہ بڑی قربانیاں پیش کرنے کی توفیق دے اور مجھے بھی اس کی توفیق دے.اس کے فضل کے بغیر یہ تو فیق بھی نہیں ملتی.روزنامه الفضل ربوه ۵ /نومبر ۱۹۷۱ء صفحه ۳ تا ۵) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۴۶۹ خطبہ جمعہ ۱۵ جنوری ۱۹۷۱ء الہی سلسلوں کا ہر فر دعبد مسلم اور عبد حسن ہوتا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۵/جنوری ۱۹۷۱ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت کی :.بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(البقرة : ١١٣) اور فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتیں تو اس کی ساری ہی مخلوق پر نازل ہوتی ہیں لیکن جب یہ رحمتیں اور برکتیں رب اور رحمان کی صفت کے جلوؤں کے ماتحت نازل ہوتی ہیں تو انسان کے علاوہ جن پر وہ نازل ہوتی ہیں اُن پر یہ ذمہ داری نہیں ہوتی کہ وہ اپنے اختیار اور مرضی سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اس کی طرف اور بھی زیادہ جھکیں وہ تو مجبور ہیں لیکن انسان جب اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے جلوے دیکھتا ہے اور اسے اپنی حقیر اور بے مایہ کوششوں کے ثمرات ملتے ہیں تو اس وقت اس کے لئے رحیمیت کے دامن کو پکڑنا اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے لیکن ان انسانوں میں سے بھی جو خدا کے لئے اپنی زندگی کے دن گزارنے والے ہوتے ہیں ایک گروہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کو دیکھتا ہے تو اس کے دل میں تکبر اور غرور پیدا ہو جاتا
خطبات ناصر جلد سوم ۴۷۰ خطبہ جمعہ ۱۵ جنوری ۱۹۷۱ء ہے وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ شاید رحیمیت کے دست قدرت نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے یہ کامیابیاں عطا نہیں کیں بلکہ میں نے جو حاصل کیا ہے وہ اپنی تدبیر اور اپنی عقل اور اپنے ذرائع اور اپنی کوشش اور اپنی طاقت سے حاصل کیا ہے.(اللہ تعالیٰ ایسے خیال سے محفوظ رکھے ) مگر جو لوگ خدا تعالیٰ کے سچے عاشق ہوتے ہیں اُن پر جب رحیمیت کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں اور اس دنیا کی نعمتیں اور عزتیں بھی انہیں دی جاتی ہیں تو اُن کے دلوں میں اور ان کی روح کے گوشے گوشے میں بے مائیگی اور نیستی کا احساس اور بھی شدت اختیار کر جاتا ہے.یہ احساس بے مائیگی اور نیستی ایک مومن کی جان اور اللہ کے عاشق کی روح ہے.یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ اس کے فضلوں اور رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا چلا جاتا ہے.ہمارا رب صمد اور غنی ہے.اُسے کسی شخص کی اور کسی شئے کی احتیاج نہیں لیکن ہم ہر آن اور ہر لحظہ اس کے محتاج ہیں.کوئی چیز بھی تو اس دنیا میں ایسی نہیں جو اس کے فضل کے بغیر حاصل کی جاسکتی ہو جب تک آسمانوں سے اس کا فیصلہ نہ ہو اس وقت تک نہ کوئی عزت مل سکتی ہے، نہ کوئی رتبہ پایا جاسکتا ہے، نہ مال ملتا ہے، نہ خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے.یہ حقیقی عزتیں اور وہ اموال جو بھلائی اور خیر کا موجب بنتے ہیں اور وہ جتھہ اور خاندان جس سے انسان حقیقی مسرتیں حاصل کرتا ہے.یہ حقیقی عزتیں اور مسرتیں اسی کو ملتی ہیں جو خود کو بے مایہ اور نیست سمجھے اور ہر چیز کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا احساس پیدا کرے اور ہر نعمت میں اس کے پیار کا جلوہ اسے نظر آئے.اللہ تعالیٰ نے گذشتہ برس اندرونِ پاکستان بھی اور بیرونی ممالک میں بھی جماعت احمد یہ پر بڑے ہی فضل نازل کئے.اُس نے بشارتیں بھی دیں اور بشارتوں کو پورا بھی کیا.اللہ تعالیٰ کی اتنی رحمتیں جماعت احمدیہ اور اس کے افراد پر نازل ہوتی ہیں کہ اُن کا گنا ممکن ہی نہیں وہ تو شمار میں آہی نہیں سکتیں.جب میں ان فضلوں کو دیکھتا ہوں تو میرے دل میں یہ خوف بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں جماعت کا کوئی حصہ کبر و غرور کی بیماری میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کے قہر اور غضب کا وارث نہ بن جائے اس لئے میں آج بڑوں اور چھوٹوں، مردوں اور عورتوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ
خطبات ناصر جلد سوم ۴۷۱ خطبہ جمعہ ۱۵ جنوری ۱۹۷۱ء کے فضل تم پر اسی وقت تک نازل ہوتے رہیں گے جب تک کہ تم اپنے دلوں میں بے مائیگی اور نیستی کا احساس پوری شدت کے ساتھ قائم رکھو گے.الہی سلسلوں کے دو امتیازی نشان ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ الہی سلسلوں میں داخل ہونے والا اور اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت کا فرد عبد مسلم ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ عبد حسن ہوتا ہے.میں نے جو آیت ابھی تلاوت کی ہے اس میں ان دونوں باتوں کی طرف اشارہ ہے.اسلام نام ہے اس بات کا کہ انسان کا اپنا کوئی ارادہ باقی نہ رہے اور اس پر ایک موت وارد ہو جائے.انسان اپنی تمام خواہشات کے ساتھ اور اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اپنے رب کے پاؤں پر گر جائے اور اس سے یہ کہے کہ اے میرے پیدا کرنے والے محبوب ! جو کچھ مجھے ملاوہ تیرے فضل سے ملا.جو کچھ مجھے مل رہا ہے وہ تیرے فضل سے مل رہا ہے اور جو کچھ مجھے ملے گا وہ بھی تیرے فضل سے ہی ملے گا کیونکہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں.میری آنکھ صرف اس وقت دیکھ سکتی ہے جب تیرا فضل اسے کہے کہ وہ دیکھے.میری زبان صرف اس وقت بول یا چکھ سکتی ہے، جب زبان پر تیرا حکم نازل ہو کہ وہ بولے اور لذت اور سرور حاصل کرے.اسی طرح میرے کانوں کی شنوائی بھی تیری رحمت کی محتاج اور میرے حواس کی جس بھی تیرے فضل کے بغیر زندہ اور قائم نہیں رہ سکتی.اے خدا! تو نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے.تو قادر و توانا ہے اور بہت کچھ دے سکتا ہے.ہماری امیدوں سے بھی زیادہ ، ہماری تو قعات سے بھی زیادہ ، ہمارے تخیل اور تصور سے بھی زیادہ دے سکتا ہے.ہمیں جو کچھ بھی مل سکتا ہے ، وہ تیری رحمت کے طفیل ہی مل سکتا ہے.ہم تیرے حضور جھکتے اور تیری رضا کی خاطر اور تیرے وصال کے لئے تیری محبت پانے کے لئے ہم اپنے اوپر ایک موت وارد کرتے ہیں.اے زندہ اور زندگی بخش ! تو ہماری اس موت کو اپنی راہ میں قبول کر اور ہمیں وہ زندگی دے جس پر فرشتے بھی رشک کریں.ہر احمدی جب تک عبد مسلم نہیں بنتا، اس معنی میں کہ ہر وقت اور ہر آن اُسے یہ احساس رہے کہ اس نے جو کچھ بھی پایا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پایا اور ہم جو کچھ بھی پائیں گے وہ اسی کے فضل سے پائیں گے ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں.ہمارے پاس تو نہ عزت ہے، نہ دولت ہے اور نہ اقتدار
خطبات ناصر جلد سوم ۴۷۲ خطبہ جمعہ ۱۵ جنوری ۱۹۷۱ء ہے لیکن عزتیں اللہ تعالیٰ بانٹتا ہے اور اموال بھی وہی تقسیم کرتا ہے پھر اموال جب وصول ہو جاتے ہیں تو ان کے اچھے نتائج بھی وہی نکالتا ہے جس سے ایک خوشی اور بشاشت کا ماحول پیدا ہوتا ہے.پس تم ہمیشہ عبد مسلم بنے رہو کیونکہ اس کے بغیر ہم اپنے مقصود کو پانہیں سکتے.اس کے بغیر اللہ تعالیٰ جو ہم سے چاہتا ہے، وہ ہم اسے دے نہیں سکتے.اس کے بغیر وہ موت ہمیں مل نہیں سکتی جس کے بعد ایک ابدی اور خوشحال زندگی آسمانوں سے عطا کی جاتی ہے.دوسرا امتیازی نشان الہی جماعتوں اور ان جماعتوں کے افراد میں یہ نظر آتا ہے کہ وہ عبد حسن ہوتے ہیں.ان میں سے ہر شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں تمام شرائط کے ساتھ اعمال صالحہ کو بجالانے والا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر احسان کرنے والا ہوتا ہے.احسان کے لفظ کو جب دوسروں پر احسان کے معنوں میں استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو حقوق دیئے تھے ، وہ اپنے یہ حقوق بھی اپنے بھائیوں کو دے دیتا ہے اور اسی طرح اپنے حق سے کم لینے پر اس لئے تیار رہتا ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کی رضامل جائے اور پھر احسان کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے ہر فرد واحد کے جو حقوق قائم کئے ہیں، انسان ان حقوق سے زیادہ دینے کے لئے تیار ہو جائے.ایسا شخص محسن ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے.قرآن میں آیا ہے کہ محسنوں سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے.یہ وہ محسن ہوتا ہے جس کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے.پس جب ہم عبد مسلم بننے کے بعد عبد محسن بھی بن جائیں (یا مجھے شاید یوں کہنا چاہیے کہ ) عبد مسلم بنے بغیر کوئی شخص حقیقی معنے میں محسن نہیں بن سکتا، اس لئے عبد مسلم بھی بنے اور عبد محسن بھی بنے اور خدا تعالیٰ کے بندوں سے پیار کرنے لگے اور ان کے لئے اپنے حقوق کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور اُن کے اللہ تعالیٰ نے جو حقوق قائم کئے ہیں اُن سے زائد دینے کے لئے تیار ہو جائے تو یہ وہ محسن ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.اِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ.(العنكبوت: ۷۰) غرض جسے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہو جائے اُسے کسی غیر کی احتیاج کہاں باقی رہتی ہے مگر
خطبات ناصر جلد سوم ۴۷۳ خطبہ جمعہ ۱۵ جنوری ۱۹۷۱ء جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نہ ہو ، وہ ساری دنیا پر غرور کر کے بھی کامیاب نہیں ہوسکتا.پس اے میرے بھائیو اور بہنو! اپنے ان دو امتیازی نشانوں کو قائم رکھو ہمیشہ عبد مسلم بنے رہو.ہمیشہ اپنے دل اور اپنی روح میں اللہ تعالیٰ کی احتیاج کا احساس زندہ رکھو.اُسے غنی اور صمد سمجھو اور خود کو بے مایہ اور نیست جانو.خدا کے بندوں پر احسان کرو.اگر کبھی تمہارا حق مارا بھی جائے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس حق کو برضا ورغبت چھوڑ دو.اگر کبھی تمہیں دوسرے کی خوشی کے لئے اپنے حقوق چھوڑنے پڑیں تو اسی میں اپنی خوشی اور اسی میں اپنی زندگی سمجھو اور جو حقوق اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے قائم کئے ہیں اُن سے زائد دو اُن سے کم نہ دو کیونکہ اس کے بغیر ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل نہیں کر سکتے اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کئے بغیر یہ زندگی اس قابل نہیں کہ آدمی اس سے چمٹا ر ہے.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک عبد مسلم اور عبد حسن بنار ہے اور خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اوپر ایک نیستی اور موت وارد کر کے اللہ تعالیٰ سے ایک نئی زندگی حاصل کرنے والا ہو.وہ نئی زندگی، جسے اللہ تعالیٰ دیکھے اور خوش ہو اور جس کے نتیجہ میں اس کا وصال اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہو.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ نومبر ۱۹۷۱ ء صفحه ۳، ۴)
خطبات ناصر جلد سوم ۴۷۵ خطبہ جمعہ ۱۵/اکتوبر ۱۹۷۱ء دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو کامیابی عطا کرے اور دشمن ناکام و نامراد ہو خطبه جمعه فرموده ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.الحمد لله طبیعت پہلے سے بہت اچھی ہے.۲۱ جنوری کو میں گھوڑے سے گرا تھا اور اس کے بعد بارہ ہفتے ڈاکٹروں کے مشورہ سے لیٹنا پڑا.جہاں تک ریڑھ کی دو ہڈیوں کے صحت یاب ہونے کا تعلق تھا، وہ تو ڈاکٹر کہتے تھے کہ جس طرح نو جوانی کی حالت میں بجڑ جانا چاہیے اُسی طرح ۲۱ دن کے بعد وہ ٹھیک ہوگئیں.پہلے ذرا نرم، پھر اس کے بعد ان کے اندر سختی بھی آگئی لیکن ایک تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کمر کے اعصاب میں بھی چوٹ آئی تھی دوسرے لمبا عرصہ لیٹنے کی وجہ سے جگر پر اثر پڑا پھر لمبا عرصہ لیٹنے کی وجہ سے کان کے پیچھے ایک مائع سا ہوتا ہے جو انسان کے BALANCE ( بیلنس) یعنی توازن کو قائم رکھتا ہے.اس کے اُو پر بھی اثر پڑا نیز لمبا عرصہ لیٹنے کی وجہ سے ورزش نہیں ہوئی اس واسطے خون میں شکر کی زیادتی ہو گئی اور لمبا عرصہ لیٹنے کی وجہ سے گھٹنوں میں سختی آگئی.یہ عوارض دراصل گرنے کی وجہ سے چوٹ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ ایک لمبا عرصہ لیٹنے کے نتیجہ میں پیدا ہو گئے.چکر ایک وقت میں اتنے شدید تھے کہ بڑی سخت تشویش اور گھبراہٹ پیدا ہوتی
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۱۵/اکتوبر ۱۹۷۱ء تھی ، ساری دنیا ہی گھومتی رہتی تھی.اس سے مجھے خیال آیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ زمین بڑی تیزی سے گھوم بھی رہی ہے اور ایسے سامان بھی پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ انسان کو اس کا احساس نہ ہو.ہمارا رب بڑا افضل کرنے والا ہے.پس جب بیماری کی وجہ سے دورانِ سر کی تکلیف شدت اختیار کرتی تو اس سے بڑی تکلیف ہوتی تھی.شکر جو خون میں زیادہ ہوئی وہ بھی فکر کی بات تھی کیونکہ اس کے نتیجہ میں پھر دوسرے عوارض پیدا ہو جاتے ہیں مثلاً آنکھوں پر اثر پڑتا ہے، دل پر اثر پڑتا ہے اور مختلف جوارح پر اس کا اثر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ اس قسم کے بداثرات پیدا نہیں ہوئے.الْحَمْدُ لِلَّهِ.میں نے اسلام آباد میں ایک ماہر ڈاکٹر کو دکھایا تو وہ کہنے لگے کہ خون میں شکر کی زیادتی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ آپ بیمار تو نہیں لیکن بیماری کے کنارے پر کھڑے ہوئے ہیں.( یہی کمانڈ رشوکت نے کراچی میں بتایا تھا ) اور جب بھی آپ کی ورزش ٹچھٹ جائے گی آپ کے خون میں شکر آ جائے گی کیونکہ ورزش کے نتیجہ میں شکر جل جاتی ہے.اس واسطے ورزش کا انتظام ہونا چاہیے.یہ شکر خود بخو د غائب ہو جائے گی.چنانچہ اُس کے مشورہ سے کراچی سے ایک ایسا سائیکل منگوایا گیا ، جو ایک انچ چلتا بھی نہیں اور کئی میل کی ورزش بھی کروا دیتا ہے یعنی یہ ورزش کرنے والا سائیکل ہے اس کے پہیے زمین سے اُٹھائے ہوئے ہیں ، آدمی چلاتا ہے تو ورزش ہو جاتی ہے.میں نے تھوڑے دن ہی یہ ورزش کی ہے اس سے ایک تو یہ اچھا اثر ہوا کہ جو ( لمبا عرصہ لیٹے رہنے کی وجہ سے جسم کا گوشت بالکل ڈھیلا اور نرم پڑ گیا تھا اس میں پھر سختی آگئی اور جان پیدا ہو گئی ہے.دوسرے میرا احساس یہ ہے ابھی ٹیسٹ تو غالباً کل صبح ہوگا) کہ خون میں شکر کی جو زیادتی تھی وہ زیادتی نہیں رہی بلکہ ( یہ نظام) اپنی اصلی حالت پر آ گیا ہے کیونکہ اس بیماری کی بعض علامتیں ہیں مثلاً سر کے پچھلے حصہ میں اگر شکر زیادہ ہو تو ہلکی سی درد اور گھبراہٹ کا ایک احساس ہوتا ہے یا پیشاب کی کثرت ہے اور پیشاب اپنے پیچھے جلن چھوڑ جاتا ہے مگر اب تو بالکل زمانہ صحت والا احساس پیدا ہو چکا ہے.کل یا پیر کی صبح کو پھر خون کا ٹیسٹ ہوگا.خدا کرے ٹھیک ہی نکلے.ویسے احساس کے لحاظ سے تو وہ ٹھیک ہے.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۷۷ خطبہ جمعہ ۱۵/اکتوبر ۱۹۷۱ء گھٹنوں کی سختی نے میرے اور آپ کے درمیان بُعد پیدا کر دیا کیونکہ شروع میں ۱۲ ہفتے لیٹنے کے بعد اُن میں اتنی سختی آگئی تھی کہ ایک وقت میں میرا ہاتھ پاؤں تک نہیں پہنچتا تھا یہ شکر ہے کہ سختی لات بند ہونے کی طرف پیدا ہوئی تھی رات کھلنے کی طرف نہیں پیدا ہوئی تھی.اب تو آہستہ آہستہ فرق پڑ رہا ہے.تھوڑ اسا فرق جو رہ گیا ہے اس فرق کے دور ہونے میں دیر لگ رہی ہے.قعدہ کی حالت میں بیٹھ نہیں سکتا.پہلے تو کوئی ایک دو فٹ کا فرق تھا.اب میری ایڑی لگ جاتی ہے لیکن شدید درد کے ساتھ.اس درد میں فرق پڑ رہا ہے اب میں سہارا لے کر بیٹھ جاتا ہوں.پہلے تو یہ بھی میرے لئے مشکل تھا بہر حال اس وجہ سے دُوری پیدا ہوئی اور بڑی لمبی دُوری.مجھے بڑی گھبراہٹ پیدا ہوئی.اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا.۲۱ جنوری کے بعد اب میں پہلی دفعہ خطبہ جمعہ کے لئے یہاں آیا ہوں.یہ ہما را جمعہ جو ہے یہ امت محمدیہ کے لئے بہت ہی مفید اور حسین بنایا گیا ہے اس دن ہم سارے آپس میں ملتے ہیں اور خطیب یا دیگر ذمہ دار آدمی جو ہیں ان کو امت محمدیہ کی ضروریات لوگوں کے سامنے رکھنے اور دعائیں کروانے کا ، حالات بتانے کا، ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے کا موقع ملتا ہے اور یہ سلسلہ بڑا ضروری ہے اب تو خطبہ چھپ جاتا ہے کیونکہ طباعت کا کام بڑی ترقی کر گیا ہے.اخبار بھی ہر ایک آدمی تک پہنچ جاتے ہیں یعنی ہر اُس آدمی تک جو پڑھنا چاہے تاہم بڑا افسوس ہے کہ جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو الفضل کو پڑھتے نہیں ایک نظر تو ڈالا کر میں شاید اس میں آپ کی دلچسپی کی کوئی چیز مل جائے اور خصوصا اللہ تعالیٰ کے جو فضل جماعت پر نازل ہو رہے ہیں اُن کو پڑھا کریں، اس کے بغیر آپ شکر نہیں ادا کر سکتے کیونکہ جس شخص کو یہ احساس ہی نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کتنی رحمتیں اور برکتیں اُس پر نازل کر رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کیسے ادا کرے گا اور احساس کیسے پیدا ہو گا جب تک آپ اپنے علم کو UP TO DATE (اپ ٹو ڈیٹ) نہ کریں یعنی آج تک جو فضل نازل ہوئے ہیں اس کا پورا علم نہ ہو.پچھلے دنوں ایک افسوسناک واقعہ ہو گیا.ہمارے مخالفوں نے بعض دوستوں کو ظلم کا نشانہ بنایا.چار پانچ دن کے بعد کچھ دوست میرے پاس آئے کہنے لگے یہ لوگ اس طرح ہمارے
خطبات ناصر جلد سوم ۴۷۸ خطبہ جمعہ ۱۵/اکتوبر ۱۹۷۱ء ساتھ کر رہے ہیں میں ہنس پڑا.میں نے کہا چار دن پہلے کی بات کر رہے ہو اب تو جماعت احمد یہ اس سے کہیں آگے نکل گئی ہے اب تو گردن تھک جائے گی اگر ہم نے اس واقعہ کی طرف دیکھنے کے لئے گردن موڑی.ہمیں خدا تعالیٰ آگے ہی آگے لے جا رہا ہے اس واسطے فکر کی کوئی بات نہیں خدا تعالیٰ جماعت پر اتنے فضل کر رہا ہے کہ مثلاً ( میں نے ان کو واقعہ بتایا میں نے کہا ) ان چار دنوں میں جو ڈاک میرے پاس آئی ہے یہ ٹھیک ہے وہ اس واقعہ سے پہلے کی ہے لیکن ان چار دنوں کی ڈاک بعد میں آجائے گی لیکن یہ پتہ لگتا ہے کہ چاروں دنوں میں ( چاہے کہ وہ پہلے کے دن ہو ) جماعت کتنی ترقی کر گئی ہے فلاں ملک میں پانچ نئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں فلاں جگہ نئے ہیلتھ سنٹر کھل گئے ہیں اور فلاں جگہ سکول کھل گئے ہیں چنانچہ ان کو میں نے واقعات بتا کر کہا کہ خدا کا فضل جس قوم پر، جس جماعت پر اتنا ہو کہ چار دن پہلے کا جماعتی واقعہ دیکھنے کے لئے اسے گردن کے پٹھوں کو تکلیف دینی پڑے اس کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے.نا سمجھی ہے، اللہ تعالیٰ وہ بھی دور کر رہا ہے دور ہو جائے گی.خدا تعالیٰ نے یہ تو فیصلہ کر دیا ہے کہ اسلام تمام دنیا پر دوبارہ اسی شان سے غالب آئے گا جیسا کہ اپنی نشاۃ اولی کے زمانے میں بڑی شان سے غالب آیا تھا.آپ سوچا کریں کیونکہ جب تک ہم مثال کو نہ سمجھیں آج کے حالات کو نہیں سمجھ سکتے.ایران نے اُس زمانہ میں چھیڑ چھاڑ شروع کر دی کیونکہ ان کی سرحدوں پر عرب آباد تھے اور ایرانی سمجھتے تھے کہ مسلمانوں میں ایک نئی روح پیدا ہورہی ہے، ہمارے لئے مشکل پیدا ہوگی اس لئے انہوں نے کہا کہ ان ( عربوں) کو تنگ کرو چونکہ ایرانیوں نے پہل کی تھی ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا اور فرمایا اس کا طریق یہ ہے کہ چونکہ ایرانی ہم پر حملہ آور ہو رہے ہیں.ہمیں مؤثر جوابی حملہ کرنا چاہیے چنانچہ آپ نے حضرت خالد بن ولید سے فرمایا کہ جو تمہارے پاس فوج ہے وہ ارتداد کو رفع کرنے کے لئے سرحدوں ہی پر پھر رہے تھے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایران ملوث ہو گیا تھا وہ مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو شہ دے رہا تھا ) اس کو ساتھ لے کر تم چلے جاؤ اور ایرانیوں کو خاموش کرو.حضرت خالد بن ولید کے پاس اُس
خطبات ناصر جلد سوم ۴۷۹ خطبہ جمعہ ۱۵/اکتوبر ۱۹۷۱ء وقت جو فوج تھی انہوں نے اسے جمع کیا.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بعض سرداروں کو فرمایا کہ خالد بن ولید کے پاس چلے جاؤ.یہ مل ملا کر کل قریباً چودہ ہزار مسلمان تھے.ان چودہ ہزار کو لے کر حضرت خالد نے سلطنت کسری جیسی عظیم سلطنت کے خلاف چڑھائی کر دی اگر چہ جنگ دفاعی تھی جوابی حملہ تھا مگر پھر بھی شام کی طرف جانے سے قبل حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے غالباً آٹھ دس جنگیں تو یقینا ایرانیوں کے ساتھ لڑی ہیں اور ہر جنگ جو انہوں نے لڑی ہے کوئی دودن کے وقفہ کے بعد اور کوئی سات دن کے وقفہ کے بعد لڑی گئی ہے.ہر جنگ میں ایران کی نئی فوج نئے سردار یعنی کمانڈر انچیف کے ماتحت ان کے مقابلے پر آئی جن کی تعداد ساٹھ ستر ہزار ہوتی تھی اور پھر بالکل تازہ دم گویا مسلمانوں نے اپنے سے ۶،۵ گنا زیادہ تازہ دم فوج کا مقابلہ کیا.مسلمانوں کی تعداد چودہ ہزار بھی نہیں رہی ان میں کچھ شہید ہو رہے تھے کچھ زخمی ہو رہے تھے اور پھر نسبتا طاقتور بھی نہیں رہے تھے کیونکہ جو زخمی ہوتے تھے وہ صحت مند آدمی کی طرح تو بہر حال نہیں لڑ سکتے تھے.ویسے ایثار کے جذبہ کے ماتحت آجاتے تھے مثلاً ذرا فرق پڑا تو جنگ میں شامل ہو گئے.تلوار ہاتھ میں پکڑ لی.کہا جس طرح ہو سکا ہم جنگ کریں گے.بچ جائیں گے یا خدا کی راہ میں شہید ہو جائیں گے.غرض اس عرصہ میں حضرت خالد بن ولید کے ماتحت جو جنگیں ہوئی ہیں ان میں چودہ ہزار مسلمان لڑتے رہے یعنی چودہ ہزار اور کچھ کم کیونکہ ہر جنگ میں شہید اور زخمی ہونے والوں کی وجہ سے تعداد کم ہورہی تھی اور ہر مقابلے میں ایرانیوں کی تازہ دم فوج نئے کمانڈر انچیف کے ماتحت مقابلے پر آتی تھی جن کی تعداد میں نے بتایا ہے ساٹھ ستر ہزار کے درمیان ہوتی تھی.آپ غور کریں اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا افضل ہے کہ اسلام کی ظاہری حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کیا کہ چودہ ہزار سرفروشوں نے ایران جیسی سلطنت کے پر خچے اڑا دیئے کیا ان کی ہمت اور طاقت تھی کہ وہ ایسا کر سکتے ؟ نہیں! ان میں اتنی طاقت اور ہمت نہیں تھی پھر کون لڑتا تھا ؟ نہ نظر آنے والی طاقتیں لڑتی تھیں جو مسلمانوں کے دل کو سہارا دیتیں اور ایرانیوں کے دل میں بزدلی اور خوف پیدا کرتی تھیں.بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک ایک جنگ میں ( صبح سے شام تک
خطبات ناصر جلد سوم ۴۸۰ خطبہ جمعہ ۱۵/اکتوبر ۱۹۷۱ء ہی جنگ لڑی گئی ) ایرانی اپنے پیچھے چالیس اور پچاس ہزار کے درمیان لاشیں چھوڑ کر دوڑے ہیں اور حال یہ ہے کہ وہ چودہ ہزار کے مقابلے پر آئے تھے.آپ ان واقعات پر جتنا زیادہ غور کریں اور ان کا علم حاصل کریں اتنا ہی زیادہ آپ کو پتہ لگے گا کہ ایک عظیم احسان تھا جو اللہ تعالیٰ اس وقت اُمّت مسلمہ پر کر رہا تھا اور یہ سب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور احترام کے قیام کے لئے تھا.آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں چودہ ہزار مسلمانوں کی یہ جمیعت جو ایرانیوں سے نبرد آزما تھی (یا جو دوسری جگہوں پر برسر پیکار تھے وہ بھی مستثنی نہیں ) یہ ہمیں انسان نہیں نظر آتے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مخلوق تھی جو اس دنیا میں پیدا کی گئی تھی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آج میں ویسا ہی فضل تم پر کرنا چاہتا ہوں لیکن اگر ان فضلوں کو حاصل کرنا ہے تو تمہیں بھی ویسی ہی مخلوق بننا پڑے گا.محض وہی جنگ جس کا مقصد تلوار کے زور سے کسی کے عقائد بدلنے کی کوشش ناکام بنانا ہو اسلامی جنگ اور ثواب کا موجب نہیں ہے بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ جو اپنے مال کی حفاظت میں مارا جاتا ہے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ بھی شہید کا درجہ رکھتا ہے.مَنْ قُتِلَ دُونَ عِزّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ جواپنی عزت کی حفاظت کی خاطر جان دیتا ہے خدا تعالیٰ اس کو بھی شہید کا ثواب دے گا اور مَنْ قُتِلَ دُونَ نَفْسِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ جو اپنے نفس کی حفاظت کے لئے جان دیتا ہے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ بھی شہید ہے.جیسا کہ ہمارے پریذیڈنٹ جنرل محمد یحیی خان صاحب نے اپنی ۱۲؎ کی تقریر میں کہا ہے بھارتی فوجیں ہماری سرحدوں پر جمع ہیں اور کسی وقت حملہ ہوسکتا ہے.ان حالات میں انہوں نے قوم کو نصیحت کی ، انہوں نے قوم سے کچھ امیدیں وابستہ کی ہیں اس نصیحت پر ہم نے عمل کرنا له ۱۲ اکتو برا۱۹۷ء.(ناشر)
خطبات ناصر جلد سوم ۴۸۱ خطبہ جمعہ ۱۵/اکتوبر ۱۹۷۱ء ہے اس لئے کہ وہ عین اسلام کے مطابق ہے اور انہوں نے جو امیدیں وابستہ کی ہیں اُمت محمدیہ سے وہی امیدیں وابستہ کرنی چاہئیں.یہ جنگ اگر چہ بظاہر اسلام کو مٹانے کے لئے تو نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ مسلمانوں کو مٹانے کے لئے ہے اور اگر خدانخواستہ ساری دنیا کے مسلمان مٹ جائیں تو اس سے اسلام پر بہر حال ضرب آتی ہے پس گو یہ جنگ عقیدہ بدلنے کے لئے نہیں ہے لیکن اسلام دشمنی کے نتیجہ میں مسلمان سے جو بغض اور حسد ان کے دل میں ہے اس کے نتیجہ میں یہ سارے غصے ہیں ور نہ بھارت ہمسایہ ملک تھا.ہمسایوں کی طرح اسے رہنا چاہیے تھا.پس اس وقت آپ نے اپنے مال سے بھی ، وقت سے بھی اور اپنی ہر قسم کی مادی قربانیوں سے بھی اور اپنی دعاؤں سے بھی اپنے ملک کی خدمت، اپنی حکومت کی خدمت اور اپنے بھائیوں کی خدمت کرنی ہے اور اسی کی طرف میں اس وقت آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.دوست میری صحت کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ مجھے پوری صحت دے اور مرتے دم تک پورے کام کی توفیق بخشے.بہت دعائیں کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پاکستان کو ہر قسم کے نقصان اور ہر قسم کی بے عزتی سے محفوظ رکھے اور پاکستان کو ہر قسم کی کامیابی عطا کرے اور پاکستان کے دشمنوں کے مقدر میں ساری ہی ناکامیاں ہوں.عارضی طور پر بھی اور ہمیشہ کے لئے بھی.بعض دفعہ عارضی طور پر بھی کچھ نقصان اُٹھانا پڑتا ہے خدا تعالیٰ پاکستان کو اس عارضی نقصان سے بھی محفوظ رکھے.خدا کرے عارضی نقصان بھی ہمارے دشمن کے حصہ میں آئے اور پھر آخری فتح بھی پاکستان کو ملے اور آخری شکست بھی پاکستان کے دشمن کو نصیب ہو.پس دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.حقیقت یہی ہے.قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَا وَكُمْ - (الفرقان : ۷۸) ساری خیر اور برکت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس سے ایسا تعلق ہو جس سے مجبور ہو کر انسان کا پورا سہارا اور تو کل اس کی ذات پر کرتا اور دعا کے ذریعہ اس کی رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے.یہ چیز ہے جس کے نتیجہ میں انسان کو رحمت ملتی ہے.جس کے نتیجہ میں
خطبات ناصر جلد سوم ۴۸۲ خطبہ جمعہ ۱۵/اکتوبر ۱۹۷۱ء انسان کو فضل ملتا ہے، جس کے نتیجہ میں انسان کو خوش حالی ملتی ہے اور جس کے نتیجہ میں وہ دن ملے گا جس دن ہر انسان اس لئے خوش ہو گا کہ اس کا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے نور سے منور ہو گیا اور اپنے پیدا کرنے والے رب سے اس کا تعلق قائم ہو گیا.خدا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو جیسا کہ وہ ہم سے چاہتا ہے نباہنے والے ہوں.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۳۰/نومبر ۱۹۷۱ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد سوم ۴۸۳ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۱ء فرمائی:.ماہ رمضان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی کوشش کریں خطبه جمعه فرموده ۱/۲۲ اکتوبر ۱۹۷۱ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیہ کریمہ کی تلاوت وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.(البقرة : ۱۸۷) اس کے بعد فرمایا:.ماہ رمضان اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آگیا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے.یہ ایک فرض عبادت ہے اور اسلام نے جو فرائض مقرر کئے ہیں، ان سب کے متعلق عموماً یاوہ رمضان کے متعلق خصوصا خود مسلمانوں میں مختلف قسم کے خیالات کے لوگ پائے جاتے ہیں.لوگوں کا ایک گروہ تو ایسا بھی پیدا ہوتا رہا ہے جو یہ سمجھتے رہے ہیں کہ فرض عبادت یا وہ نوافل جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ثابت ہوتے ہیں وہ انسان کی روحانی ترقی کے لئے کافی نہیں ہیں.اس لئے انہوں نے اپنے نفس سے تجویز کر کے بہت سی ریاضتیں بنا ئیں
خطبات ناصر جلد سوم ۴۸۴ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۱ء اور خود کو اپنے تجویز کردہ مجاہدہ شدیدہ میں ڈالا حالانکہ حقیقی اسلام کی روح اسے تسلیم نہیں کرتی کیونکہ اگر ہم اسے تسلیم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو علم (نَعُوذُ بِاللہ ) ہمارے رب کو نہیں تھا وہ ان لوگوں کو حاصل تھا.یہ بات بالبداہت غلط ہے اپنے نفس سے مجاہدات اور ریاضتوں کو تجویز کرنا درست نہیں ہے.ہماری روحانی ترقی کے لئے اور ہمارے روحانی قومی کی صحت کے قیام اور ان کی نشوونما کے لئے جو بھی ضروری تھا وہ سب قرآن کریم میں موجود ہے اور اس سے زیادہ کسی چیز کی ہمیں ضرورت نہیں اس لئے ایسے سب خیالات جو ایسی ریاضتوں پر منتج ہوتے ہیں اور انسان کو ایسے مجاہدہ شدیدہ میں ڈالتے ہیں جن کا علم ہمیں قرآن کریم سے نہیں ملتا، باطل اور فاسد ہیں.انہی لوگوں میں سے ملتا جلتا ( یا اسی گروہ کا حصہ کہنا چاہیے ) ایک گروہ وہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے زور سے اپنے رب کو راضی کرنے پر قادر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جو سہولتیں اور رعائتیں دی ہیں اُن سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتے مثلاً ایسی بیماری جس میں روزہ رکھنا جائز نہیں ، وہ ایسی بیماری میں بھی روزہ رکھ لیتے ہیں یا ایسی عمر جس میں روزہ رکھنا جائز نہیں ، وہ ایسی عمر میں بھی اپنے بچوں کو روزہ رکھوا دیتے ہیں.ہر عبادت کے لئے ایک بلوغت کا وقت ہے، جب تک انسان اس بلوغت کی عمر کو نہ پہنچے ، اس پر وہ عبادت فرض نہیں ہوتی لیکن یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تو کہا ہے کہ اس عمر میں روزے نہ رکھو اور نہ رکھواؤ لیکن ہم خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف خود یا اپنے بچوں سے ایسی عبادتیں کروائیں گے کہ جن سے ہم نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو راضی اور خوش کریں گے یہ فاسد خیال ہے.ایسا بیمار جس کے لئے روزہ رکھنا دوائی چھوڑنے یا بھوکا رہنے کے نتیجہ میں مضر ہو اور ہلاکت کا باعث ہوا سے روزہ نہیں رکھنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار فرمایا ہے کہ دین العجائز اختیار کرو.ہمارا رب انکسار اور تواضع سے خوش ہوتا ہے.ہم اسے اپنے عمل سے خوش نہیں کر سکتے.احادیث میں بڑی وضاحت سے یہ کہا گیا ہے کہ ہر نماز قبول نہیں ہوتی.ہر روزہ قبول نہیں ہوتا جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو اس وقت تک یہ عبادتیں قبول نہیں ہوا کرتیں.
خطبات ناصر جلد سوم ۴۸۵ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۱ء پس ہم عبادت سے اپنے رب کو راضی نہیں کر سکتے.ہم اس عبادت سے اپنے رب کو راضی کر سکتے ہیں جو مقبول ہو جائے جسے اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندے کا تحفہ سمجھ کر قبول فرما لے.غرض ایک تو یہ گروہ ہے جو سمجھتا ہے کہ عبادات جس رنگ میں اور جس طور پر اور جس قدر اور جس مقدار میں اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں یا جن کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنت قرار دیا ہے وہ ہمارے لئے کافی نہیں.اگر ہم صرف ان عبادتوں پر اکتفا کریں گے تو ہماری روحانی ترقی ، ہماری روحانی پرورش اور نشو ونما اپنے ارتقاء کو نہیں پہنچے گی حالانکہ یہ غلط خیالات ہیں.اور ایک وہ گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی چالاکی سے اپنے رب کو خوش کر سکتا ہے مثلاً بیماری ایسی نہیں کہ جس میں روزہ چھوڑ نا جائز ہو لیکن ایک ایسا آدمی جو بہا نہ جو ہے وہ اس قسم کی بیماری میں روزہ چھوڑ دیتا ہے وہ بھی ایک مسئلہ خود تراشتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اتنی بیماری روزہ چھوڑنے کے لئے کافی ہے.یہ طریق غلط ہے.طبیعت میں بہانے کی جستجو نہیں ہونی چاہیے بلکہ نیت یہ ہونی چاہیے ، خواہش یہ ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے جس رنگ میں اور جس قدر عبادت ہمارے لئے فرض قرار دی ہے یا جو ہمارے لئے سنت بنائی گئی ہے ہم اتنی ہی عبادت کریں گے مگر بشاشت اور خوشی سے کریں گے اور اس نیت سے کریں گے کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے لیکن اگر کوئی آدمی یہ سمجھتا ہے کہ بہانے جس طرح انسان کے سامنے چلتے ہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی چل سکتے ہیں تو وہ احمق بھی ہے اور ظالم بھی ہے وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کو پہچانتا نہیں وہ اس کے عرفان سے دور ہے.پس بہا نہ جوطبیعت نہیں ہونی چاہیے.جہاں روزہ چھوڑ نا جائز نہ ہو وہاں روزہ نہیں چھوڑ نا چاہیے.کسی آدمی کا یہ سمجھنا کہ جسمانی لذت یا یہ سمجھنا کہ جسمانی صحت کو ( اور وہ بھی ایک غلط نظریے کے ماتحت) ہم روحانی لذتوں اور روحانی صحت پر قربان کر دیں گے اور اس میں ہماری بہتری ہے تو یہ غلط بات ہے.یہ سراسر حماقت ہے اور یہ سمجھ لینا کہ خدا تعالیٰ کے سامنے بہانے چلتے ہیں.اس سے زیادہ حماقت کی بات تو کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی.پس وہ لوگ جو روزہ چھوڑنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ، انہیں اپنی اس عادت کو دور کرنا
خطبات ناصر جلد سوم ۴۸۶ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۱ء چاہیے اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو مجاہدہ شدیدہ میں ڈالتے ہیں اور ایسی ریاضتیں کرتے ہیں جو اسلام نے ہمیں نہیں بتا ئیں ، انہیں بھی اپنی یہ عادت چھوڑنی چاہیے.ایک تیسرا گروہ ایسے لوگوں کا ہے جو موجودہ زمانہ کے فلسفہ سے متاثر ہے اور یہ گروہ بڑے دھڑلے سے یہ کہنے لگ گیا ہے کہ جو عبادتیں قائم کی گئی ہیں اُن میں ترمیم ہونی چاہیے.یعنی خدا تعالیٰ کو نعوذ باللہ اس زمانے کے حالات کا علم نہیں تھا، اس واسطے اس نے یہ قانون بنادیا ہے اب زمانہ بدل گیا ہے حالات بدل گئے ہیں اب ان عبادتوں میں ترمیم ہونی چاہیے لیکن ایسا خیال (ایسے خیال کے لوگ فی الواقعہ پائے جاتے ہیں ) اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ تبدیلی کی ضرورت ہے بلکہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ لوگ روحانی بینائی سے محروم ہیں اور جس کو چہ کی انہیں خبر ہی نہیں، یہ اس کے متعلق اصلاحی تجاویز کے نام سے تجاویز پیش کر دیتے ہیں.یہ بھی غلط بات ہے.جب عَلامُ الْغُيُوبِ خدا نے ہماری جسمانی اور روحانی صحت اور جسمانی اور روحانی نشوونما کے لئے کچھ عبادتیں ہم پر فرض قرار دی ہیں ، تو وہی ہمارے جسموں کے لئے بھی اور ہماری روح کے لئے بھی بہتر ہیں.نہ سالوں روزے رکھنا جائز اور نہ رمضان کے مہینے میں جائز عذر کے بغیر روزہ چھوڑ نا درست اور پسندیدہ اور نہ کسی ترمیم کی ضرورت ہے.ہمیں دین العجائز اختیار کرنا چاہیے جو خدا نے فرمایا ہے وہ ہم کریں گے جس کو وہ پسند فرماتا ہے اسی میں ہماری رضا ہے روزہ چھوڑنے کے لئے بہانے تلاش نہیں کریں گے اور جب روزہ چھوڑنے کا حکم ہو تو اس وہم میں مبتلا نہیں ہوں گے کہ ہم اپنی عبادت یا کوشش یا مجاہدے کے زور سے اپنے رب کو راضی کر سکتے ہیں.ہم اس طرح راضی نہیں کر سکتے جو عبادت قبول ہوگی ، جو تحفہ لے لیا جائے گا اس کا نتیجہ نکلے گا.اس کے نتیجہ میں ہمیں رضائے الہی حاصل ہوگی.اس کے بغیر تو ( یعنی عبادت کے زور سے ) رضائے الہی حاصل نہیں ہو سکتی.رمضان کی عبادت محض بھوکا رہنے کا نام نہیں.حدیثوں میں اس کے متعلق بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے میں نے بھی پچھلے سالوں میں اپنے بعض خطبات میں تفصیل سے بتایا تھا کہ روزہ کا مطلب محض بھوکا رہنا نہیں بلکہ ماہ رمضان کی عبادت دراصل بہت سی عبادات کا مجموعہ ہے.اس
خطبات ناصر جلد سوم ۴۸۷ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۱ء میں ایک نمایاں چیز جو ہمیں نظر آتی ہے وہ جسمانی ضرورتوں سے انقطاع کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا اور اس میں محو ہونے کی کوشش کرنا ہے.ہمارے کھانے پینے کے اوقات بھی ۲۴ گھنٹے کا کچھ حصہ لے جاتے ہیں لیکن اگر صحیح طور پر روزے کا استعمال ہو اور یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بعض لوگ تو رمضان میں شاید موٹے ہو جاتے ہیں.صبح و شام خوب پر اٹھے کھاتے ہیں اور اس وہم میں کہ کہیں کمزور نہ ہو جائیں عام غذا کی نسبت رمضان میں زیادہ کھانے لگ جاتے ہیں.ان کی یہ بات بھی غلط ہے لیکن وہ لوگ جو روح رمضان کو سمجھتے اور اس کے مطابق اپنی جسمانی ضرورتوں کو پیچھے ڈال کر روحانی ضرورتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنے روحانی قومی کو تیز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے نتیجہ میں (ایک اصطلاح ہے کہ ) تنویر قلب ہوتا ہے.جس کا مطلب یہی ہے کہ روحانی قومی تیز ہو جاتے ہیں چنانچہ یہ آیت جو میں نے شروع میں رمضان کے تعلق میں پڑھی ہے.اللہ تعالیٰ اسی وجہ سے اس میں فرماتا ہے کہ اِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّی یعنی روحانی قوی کی تیزی کے بعد پہلا سوال ہی یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کا یہ دعویٰ ہے کہ مذہبی احکام پر چل کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک پختہ اور زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو رمضان کی عبادتوں کے نتیجہ میں انسانی ذہن یہ کہے گا کہ رب کو کیسے پایا جا سکتا ہے تب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تمہارے روحانی قومی تیز ہوں گے تو تمہیں نظر آ جائے گا کہ میں تمہارے بالکل قریب ہوں مگر جو شخص خدا تعالیٰ کو پہچانتا نہیں اور اس کے روحانی قویٰ میں نشو و نما نہیں ہوئی.اسے بیماری ہے یاوہ صحت مند نہیں ہے اس کی روح کسی دوسری طرف متوجہ ہے ایسے شخص کو تو نظر نہیں آتا لیکن جس کو نظر آئے یا جسے اللہ تعالیٰ کا عرفان اور معرفت حاصل ہو جائے ، وہ تو اپنے رب کو اتنا قریب پاتا ہے کہ واقع میں اس سے زیادہ قریب وہ کسی اور چیز کو محسوس نہیں کرتا.اسے یہ نظر آرہا ہوتا ہے کہ ربوبیتِ باری کے بغیر وہ زندہ ہی نہیں رہ سکتا، صحت کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا، اپنے قومی کونشو نما نہیں دے سکتا.اسے رب کی ربوبیت کی ضرورت ہے اور ربوبیت کے لئے اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات جلوہ گر ہوتی ہیں مثلاً وہ حتی بھی ہے اور قیوم بھی ہے کوئی وجود ظہور پذیر نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے اور کسی زندگی کو بقاء نہیں رہ سکتی جب تک کہ خدا تعالیٰ کی مرضی نہ ہو پس اسے نظر آتا ہے کہ حیات کا سر چشمہ اور قائم
خطبات ناصر جلد سوم ۴۸۸ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۱ء رہنے کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ میر اسانس میری زندگی کا سانس ہے بلکہ اسے نظر آ رہا ہے کہ میرا وہ سانس میری زندگی کا سانس ہے جس کے متعلق خدا چاہے کہ وہ میری زندگی کا سانس بنے.وہ دیکھ رہا ہے کہ غذا جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی منشاء اور اس کے حکم کے بغیر ہمارے جسموں کو صحت اور تر و تازگی نہیں بخشتی اور طاقت نہیں دیتی جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو اس کے سامنے روز مرہ یہ نظارے آتے ہیں کہ کھانا کسی آدمی کی موت کا موجب بن گیا یا پانی جس کو آب حیات کہا جاتا ہے یعنی وہ ہمارے لئے زندگی کا پانی ہے اور روٹی سے بھی زیادہ ضروری ہے وہ کسی انسان کی موت کا باعث بن جاتا ہے.ڈاکٹر جانتے ہیں ، اطباء جانتے ہیں کہ بعض دفعہ انسان کو پانی پی کر اس قسم کا قولنج پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ( رمضان کی ) عبادت خاص طور ایسی ہے کہ اس سے روحانی قومی میں تیزی پیدا ہوتی ہے.تنویر قلب پیدا ہوتا ہے.اس کے بعد انسان کے دماغ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میرا رب مجھے کیسے مل سکتا ہے یعنی یہ خیال تبھی پیدا ہو گا جب اس نے صحیح سمت کو قدم اُٹھا لیا.ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہارے قریب ہوں.کیا تم میری قدرتوں کو نہیں دیکھتے ؟ میں تمہاری ہر احتیاج پوری کرتا ہوں.تمہارا سانس لینا، تمہاری بینائی تمہاری شنوائی یہ سب میرے حکم اور میری اجازت سے قائم ہیں.میری تمہیں ضرورت ہے تمہاری آنکھ، ناک، کان ، دل اور دل کی صحیح حرکت سب میرے حکم میں بندھے ہوئے ہیں.ویسے ہما را دل بھی حرکت کر رہا ہوتا ہے مگر ایسے بیمار لوگوں سے ڈاکٹر کہتے ہیں تیز دوڑے تو مر جاؤ گے.ہمارے ملک میں بعض قصاب اس قسم کے ”مرے ہوئے زندہ جانور جن کے اندر کوئی جان نہیں ہوتی ذبح کر کے انسانوں کو کھلا دیتے ہیں.دیر کی بات ہے ایک دفعہ میں لاہور جارہا تھا راستے میں ایک بہت سارا جو کوئی پچاس ،سو گائے بھینسوں کا مذبح خانے کی طرف لے جایا جا رہا تھا.مذبح خانے کا اندازہ اس بات سے ہوتا تھا کہ ان کی ہڈیاں نکلی ہوئی تھیں اور دیکھنے میں وہ نیم مردہ نظر آ رہے تھے میں خود موٹر چلا رہا تھا.مجھ سے غلطی ہوگئی کہ جب میں نے ہارن دیا تو ایک بیل جو دل کا زیادہ ہی کمزور تھا وہ ہارن سن کر
خطبات ناصر جلد سوم ۴۸۹ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۱ء دوڑ پڑا اور اس نے کوئی ۴۰،۳۰ قدم لئے ہوں گے کہ اس کے دل کی حرکت بند ہوگئی اور وہ وہیں مر گیا اگر اس وقت میری موٹر کا ہارن نہ بجتا اور وہ نہ دوڑتا تو اگلے دن صبح کئی لوگوں کے دستر خوان پر اس کا گوشت کھایا جارہا ہوتا.بہر حال دل حرکت کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ صحت مند نہیں ہوتا.ہمارے اطباء کے پاس بعض دفعہ ایسے بیمار بھی آتے ہیں جن کو وہم ہوتا ہے کہ بخارات سر کو چڑھتے ہیں حالانکہ دماغ کی طرف بخارات جانے کا تو جسم کے اندر کوئی رستہ ہی نہیں بنا ہوا لیکن ایک معنی سے یہ درست بھی ہے اور یہ محاورہ اس معنے میں صحیح بھی ہے کہ جس وقت معدہ خراب ہوا اور دل کمزور ہو تو دل کے اوپر اثر پڑتا ہے.اس کو پوری طرح کھلنے کی جگہ نہیں ملتی.پھر اعصاب پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے اور پریشانی بھی ہوتی ہے اور آدمی کو احساس یہ ہوتا ہے کہ میرے دماغ پر اس کا اثر ہے.پس ماہِ رمضان اور اس کی عبادتوں کا انسان کو ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس کے روحانی قوی تیز ہوتے ہیں اور اپنے رب کے متعلق ایک بجستجو پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کے لئے بڑی ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے رب کی صفات کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے یہاں تک کہ اُسے معلوم ہو جائے کہ اس کا رب اس کے کتنا قریب ہے.وہ دُور نہیں کہ جس سے ہم بھاگ سکتے ہوں.وہ دور نہیں کہ جس کے بغیر ہم زندگی گزار سکتے ہوں.وہ دور نہیں کہ جس کی توجہ کے بغیر ہم اپنی ضرورتیں اور احتیاجیں پوری کر سکتے ہوں پس انسان کو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ میرے بالکل قریب ہے.ہر کام کے لئے حتی کہ ایک انگلی ہلانے کے لئے مجھے اس کی ضرورت ہے.آپ میں سے اکثر مجھے ملتے ہوئے نظر آرہے ہیں.کسی کا سر ہل رہا ہے.کسی کی آنکھ ہل رہی ہے.کسی کا طرہ ہل رہا ہے.اس حرکت کے لئے بھی رب کی ضرورت ہے ورنہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو تو یہ ساری حرکت زندگی اور زندگی کے آثار ختم ہو جاتے ہیں.فرمایا جس وقت تم مجھے پہچاننے لگو تو تمہیں چاہیے کہ دعا کی طرف مائل ہو جاؤ.دراصل اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت کے بغیر حقیقی دعا ممکن ہی نہیں.وہ دعا تو ہوتی ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.از دعا کن چاره آزار انکار دعا
خطبات ناصر جلد سوم ۴۹۰ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۱ء ایک دعا تو یہ ہے مگر یہ تکلف کی دعا ہے یہ ابتدا ہے لیکن ایک وہ دعا ہے کہ جس میں آدمی بے تاب ہو کر خدا تعالیٰ کے قدموں پر گر جاتا ہے اور کہتا ہے مجھے یہ عطا فرما.وہ تو الہی صفات کی معرفت کے بعد ہی ہو سکتی ہے.یعنی وہ اسی وقت ہو سکتی ہے جب انسان کو یہ پتہ لگے کہ اللہ تعالیٰ ماں باپ سے زیادہ قریب ہے جہاں تک موسم کی حفاظت کا تعلق ہے اپنے گھر سے زیادہ قریب ہے.جہاں تک بعض دوسری ضرورتوں کا اور زینت کا سوال ہے.ہمارے لباس سے زیادہ قریب ہے.جہاں تک دورانِ خون (جس پر زندگی کا انحصار ہے ) کا تعلق ہے وہ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے.ہر پہلو اور ہر جہت سے، ہر غیر کی نسبت وہ ہم سے زیادہ قریب ہے.کیونکہ ائی قریب “ کا یہ مطلب نہیں کہ بعض جہات سے اللہ تعالیٰ قریب ہو اور بعض جہات سے دور بلکہ جولوگ اس کی معرفت رکھتے ہیں اور اس کی صفات کو پہچانتے ہیں وہ علی وجہ البصیرت یہ کہہ سکتے اور اسے ثابت کر سکتے ہیں کہ ہر جہت اور ہر پہلو سے ہر غیر کی نسبت اللہ تعالیٰ ہم سے زیادہ نزدیک ہے پس فرمایا کہ صفات کا پتہ لگے تو تم دعا کی طرف مائل ہو جاؤ گے.پھر فرمایا.أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ “ " جو مجھے پہچانتا ہے اس کی دعا اجابت کا درجہ پاتی ہے.فرماتا ہے اُجیب یعنی مجھے اس نے قریب دیکھا تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہر شخص کی دعا قبول نہ ہو گی.وہی معرفت جس کے متعلق شروع میں اشارے کئے گئے تھے.وہ اس آیت کے آخر میں بھی ہے فرما یا فَلْيَسْتَجِيبُوا.میرے حکم کی تعمیل کرو.نہ اپنی طرف سے عبادت میں شدت پیدا کرو اور نہ میری فرض کردہ عبادت سے بچنے کے لئے بہانے ڈھونڈ و.جو رعایت میں دیتا ہوں شکر کرو اور اسے قبول کرو.جو حکم میں دیتا ہوں شکر کرو اور اسے قبول کرو.جس عبادت کے کرنے کو میں کہتا ہوں وہ بھی کرو اور جس کے نہ کرنے کا کہتا ہوں وہ بھی نہ کرو.فرمایا.فَلْيَسْتَجِيبُوا.جب تم میرے حکم کے مطابق اپنی زندگی گزارو گے اور شریعت کی پابندی کرو گے تو تمہاری جسمانی اور روحانی نشو و نما اپنے کمال کو پہنچ جائے گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم ہدایت بھی پا جاؤ گے اور تمہارا
خطبات ناصر جلد سوم ۴۹۱ خطبہ جمعہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۷۱ء انجام بھی بخیر ہو گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کا انجام بخیر کرے اور ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازے اور رمضان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.اللهم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۳۱ /اکتوبر ۱۹۷۱ء صفحه ۳ تا ۵) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۴۹۳ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۱ء تحریک جدید کے اڑتیسویں،اٹھائیسویں اور ساتویں سال کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو اپنی رحمتوں سے بے حد نواز نے والا ہے، میں تحریک جدید کے دفتر اول کے اڑتیسویں، دفتر دوم کے اٹھائیسویں اور دفتر سوم کے ساتویں سال کا اعلان کرتا ہوں.آج سے تین سال قبل جب تحریک جدید کا چندہ پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے تھا میں نے جماعت کو اس طرف متوجہ کیا تھا کہ جہاں تک میرا خیال ہے جماعت پاکستان اس سے زیادہ چندہ دے سکتی ہے اور اسے زیادہ دینا چاہیے اور میرے اندازہ کے مطابق یہ رقم سات لاکھ نوے ہزار روپے تک پہنچ جانی چاہیے تھی لیکن اُس سے اگلے سال (یعنی ۶۹ - ۱۹۶۸ء میں ) پانچ لاکھ پچاس ہزار سے بڑھ کر صرف چھ لاکھ تیس ہزار اور پھر ایک سال کے بعد چھ لاکھ پینسٹھ ہزار روپے تک پہنچی اور جو سال ابھی ہم ختم کر رہے ہیں اس میں چندہ گر کر پھر چھ لاکھ اڑتیس ہزار روپے پر آ گیا ہے.اس کے متعلق ایک موٹی وجہ جو تحریک جدید نے مجھے بتائی ہے وہ یہ ہے کہ چالیس ایسے احمدی دوست تھے جن کا چندہ ایک ہزار روپے فی کس تھا اور اب گذشتہ سال میں ( جسے ہم ختم کر
خطبات ناصر جلد سوم ۴۹۴ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۱ء رہے ہیں ) انہوں نے ایک ہزار چندہ نہیں دیا.ان میں سے چار نے تو اس لئے نہیں دیا کہ ان کی وفات ہو گئی تھی اور باقی چھتیں نے مالی حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اپنے معیار کو قائم نہیں رکھا اور نہ وہ قائم رکھ سکتے تھے.ہم اُن کے اوپر الزام نہیں دھر تے لیکن جماعت پر یہ الزام آتا ہے کہ اگر ایک سال چالیس دوستوں کے مالی حالات ایسے نہ رہیں کہ وہ ایک ہزار چندہ تحریک کو دے سکیں ، تو ان کی جگہ اور کھڑے ہونے چاہئیں اور ہر سال چندے میں زیادتی ہونی چاہیے کیونکہ جماعت کے مال میں تو بہر حال ترقی ہو رہی ہے.اس لئے جماعت کو چالیس سے زیادہ ایسے دوست کھڑے کرنے چاہیے تھے جو ایک ہزار یا اس سے زائد رقم تحریک جدید میں چندہ دیتے اور یہ کمی نہ آتی.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سال جو گذرا ہے اس میں جماعت نے ایک اور مالی بوجھ (اور وہ بھی معمولی نہیں ہے ) اُٹھایا اور وہ نصرت جہاں ریز روفنڈ کی تحریک ہے جو نصرت جہاں آگے بڑھوں کے منصوبہ کو مالی سہارا دینے والی ہے.اس میں پاکستان کی جماعت نے گذشتہ سال قریباً بارہ تیرہ لاکھ دیا اس لئے عذر معقول بھی ہے لیکن کسی نئے کام میں ہاتھ ڈالنے کے یہ معنے نہیں ہوا کرتے کہ جو کام ہو رہا ہے اس میں رکاوٹ پیدا ہو جائے.تحریک جدید کا کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور ہماری ضرورتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں.ان بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا اور کرتے رہنا، یہ جماعت کا فرض ہے اور جماعت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور اللہ تعالیٰ جس حد تک توفیق دے اپنے مالوں کو ( جو دراصل اپنے نہیں ) اس کے حضور پیش کر دینا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ “ (البقرة : ۴) کے ایک معنے یہ بھی کئے ہیں کہ یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے غرض مال جب ہمارا ہے ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے تو پھر یہ تو اُس کا احسان ہوا کہ اس نے ہمیں فرمایا کہ یہ مال میں تمہیں دیتا ہوں.تم اس میں سے میری راہ میں خرچ کرو اور میں تمہیں ثواب دوں گا مثلاً جس طرح ایک چھوٹا بچہ جو ابھی کم نہیں رہا ، پانچویں یا چھٹی یا ساتویں
خطبات ناصر جلد سوم ۴۹۵ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۱ء میں پڑھ رہا ہے اس کے والدین اُسے ایک روپیہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جا کر وقف جدید کے چندے میں دے دو.اب وہ روپیہ اُس نے کما کر نہیں دیا لیکن اس طرح ایک عادت پڑی اور ثواب کا ایک ذریعہ بن گیا پس یہ سمجھنا کہ باپ تو بچے کے لئے ثواب کے سامان پیدا کرنے کا اہل ہے اور اس کی تو فیق رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا یا نہیں کرسکتا.یہ غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ایسا کرتا ہے باپ نے تو وہ اٹھنی یا رو پی بھی جود یا اُس کا اپنا نہیں تھا کیونکہ گھر سے تو کچھ نہ لائے.جو اللہ تعالیٰ نے مال اُسے دیا تھا اس میں سے ایک تو اس نے اس رنگ میں دیا کہ اس خدمت کو اپنی طرف منسوب کر لیا اور کہا کہ میں نے دیا اور دوسرے اس رنگ میں دیا کہ اپنے بچے کو کہا کہ تم خرچ کرو، میرے ثواب میں تم بھی شریک ہو جاؤ.غرض خدا تعالیٰ پر ہمارا احسان نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ وہ ہمیں مال دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میری راہ میں خرچ کرو اور ثواب حاصل کر لو.مال تو اللہ کا تھا اس پر ثواب نہیں ملنا چاہیے تھا مگر اپنے فضل سے وہ ثواب عطا کرتا ہے جب آپ کسی کو اس کی امانت واپس کرتے ہیں تو کوئی احسان تو اس پر نہیں کرتے کہ اتنی رقم اس کو ادا کی پس جو اللہ تعالیٰ کا مال ہے وہی آپ اللہ تعالیٰ کو واپس کر رہے ہیں.اس میں نیت اور اخلاص کا سوال ہے احسان تو نہیں.اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور پھر فرمایا تمہارے لئے میں نے ثواب کا ایک موقع بہم پہنچایا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ”بخل اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے“.جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ہے.دنیا کے سارے اموال دنیا کی سب دولتیں جو ہیں، ان کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے.ہمیں تو اس نے مال دیا اور فرمایا یہ تمہارا حصہ ہے، میں تمہیں دیتا ہوں.تمہارا حصہ اس معنے میں کہ تمہارے اور بھی بھائی انسان ہیں اور بھی بہنیں انسان ہیں.ان کو بھی دیا، تمہیں بھی دیا.یہ مال و دولت جو میں نے پیدا کیا ہے تمہارے لئے پیدا کیا ہے.اس میں سے اپنے اپنے حق ( وہ حق جو میں نے مقرر کئے ہیں ) وہ لے لو اور پھر فرمایا کہ اس میں سے اتنا میری راہ میں خرچ کرو اور خود ہی راہ اور
خطبات ناصر جلد سوم ۴۹۶ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۱ء ضرورت کی تعیین کر دیتا ہے.یہ ضرورت بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے مثلاً تحریک جدید کی جب ابتدا ہوئی تو اس سے پہلے تو تحریک جدید کے کاموں کے لئے مال کی ضرورت نہیں تھی.پہلے عام چندہ دیتے تھے یا وصیت کے چندے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایک اور ضرورت پیدا کر دی اور فرمایا اتنا مال اور میری راہ میں خرچ کرو یعنی تحریک جدید کا بھی چندہ دو.پھر جماعت نے تحریک جدید کے چندے دینے بھی شروع کئے.پھر وقف جدید کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور ضرورت پیدا کر دی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس میں بھی چندے دو.پھر اس کے بعد علاوہ اور بہت سارے چھوٹے چھوٹے چندوں کے جن میں جماعت بشاشت سے حصہ لیتی ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن کا ایک نیا منصوبہ بنا اور اس طرح ایک اور ضرورت پیدا کر دی گئی.پھر اس کے بعد نصرت جہاں آگے بڑھو کا ایک منصوبہ بنا اور اللہ تعالیٰ نے ایک اور ضرورت پیدا کر دی اور قربانی کی ایک اور راہ کھول دی.پس اللہ تعالیٰ جتنی ضرورت پیدا کرتا ہے، اتنی ہم سے امید رکھتا ہے کہ اسی کی عطا میں سے اپنے اموال کا ایک حصہ اس کے کہنے کے مطابق اور اس کی پیدا کردہ ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس کے حضور پیش کر دیا جائے گا، اس امید پر اور اس توکل اور بھروسہ پر کہ اللہ تعالیٰ جہاں ہمارے اندر اخلاص پیدا کرے گا.وہاں ہمارے اخلاص کو شیطانی یلغار سے محفوظ بھی رکھے گا اور جب ہم اس کے حضور اسی کے مال کا ایک حصہ پیش کریں گے تو وہ اسے قبول کرے گا اور اس طرح پر ہمیں تو اب مل جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :.پس چاہیے کہ خدا تعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاص اور جوش اور ہمت سے کام لیں کہ یہی وقت خدمت گزاری کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ پورے اخلاص اور پورے جوش اور پوری ہمت سے کام لیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاص اور پورے جوش اور پوری ہمت سے کام لیں.اس لئے کہ اخلاص خواہ بظاہر انسان کے اندازہ کے مطابق کامل ہی کیوں نہ ہو اور جوش بھی ایسا کہ دنیا واہ واہ کرنے لگے اور ہمت بھی ایسی
خطبات ناصر جلد سوم ۴۹۷ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۱ء که انسان، انسان کی نگاہ میں اولوالعزم بن جائے ، تب بھی انسان خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ثواب کا مستحق نہیں بنتا، جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اس کے شامل حال نہ ہو اور اس کے لئے انسان کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا پڑتا ہے.انسان کو جب اپنی کمزوری اور اپنے نفس کا احساس ہو اور انسان کو جب یہ معرفت اور یقین حاصل ہو کہ اس کا خدا کے حضور کسی چیز کا محض پیش کر دینا کافی نہیں ہے جب تک کہ وہ مقبول نہ ہو جائے یہ احساس جو ہے اس کے نتیجہ میں یا تو شیطان آئے گا اور کہے گا کہ جب پتہ ہی نہیں کہ ثواب ملنا ہے یا نہیں، تو نہ دو.یا فرشتے آئیں گے اور کہیں گے جس نے تمہیں پیدا کیا، جس نے ان ساری چیزوں کو پیدا کیا اس نے تمہیں مال دیا اور اس نے تمہارے لئے ثواب کے یہ سارے مواقع بہم پہنچائے ہیں.اس پر توکل رکھو.دراصل خدا کے سہارے کے بغیر خدا کا سہارا بھی نہیں ملتا اور خدا کے سہارے کے بغیر خدا پر توکل کئے بغیر انسان نہیں کہہ سکتا کہ جو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے وہ مقبول ہو گیا اور اس کا اُسے ثواب مل گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کی چیز تھی تم اس کی راہ میں دے رہے ہو.تمہارا خیال ہے کہ اخلاص میں کوئی کمی نہیں.دنیا سمجھتی ہے کہ تمہارے اندر بڑا جوش پا یا جاتا ہے اور دنیا کی نگاہ تمہیں اولوالعزم اور صاحب ہمت بھی بجھتی ہے لیکن دنیا کی نگاہ اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں فرق ہے.جب تک دنیا کی نگاہ میں وہی کچھ ہو جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہے اس وقت انسان کی کوشش بے نتیجہ ہوتی ہے.پس یہ دعا بھی کرو اور اللہ پر توکل بھی رکھو کہ وہ تمہاری اس دعا کو قبول کرے گا اور جو اس نے تم سے مطالبہ کیا اور اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جو کچھ تم نے اس کے حضور پیش کیا اگر اس کے اندر کوئی خامی یا کمزوری یا کوئی شیطانی کیڑا بھی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ان کیڑوں کو مار دے گا اور ان کمزوریوں کو دور کر دے گا اور تمہاری پیشکش کو قبول کر لے گا اس رنگ میں کہ تمہیں زیادہ سے زیادہ ثواب عطا فرمائے گا.پھر محض چندے لکھوا دینا بھی کافی نہیں.جماعت کا ایک حصہ ایسا ہے جو کمزوری دکھاتا ہے.بعض دوستوں کے تو حالات بدل جاتے ہیں مثلاً یہ چالیس آدمی جن کا میں نے ابھی ذکر کیا
خطبات ناصر جلد سوم ۴۹۸ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۱ء ہے، انہوں نے ایک وقت میں ہزار روپے فی کس دیئے تھے مگر اب نہیں دے سکے.اُن کا عذر معقول بھی ہوگا اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں حسنِ ظنی ہی سے کام لینا چاہیے لیکن بعض آدمی ایسے بھی ہیں جو وعدے لکھوا دیتے ہیں مگر پھر پورا نہیں کرتے اور ان کی وجہ سے وعدے اور اصل آمد میں فرق پڑ جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مثلاً آپ نے اپنے کاموں کا منصوبہ تو شروع سال میں ان وعدوں کے مطابق بنا یا مثلاً پانچ لاکھ روپے کی یا دس لاکھ روپے کی یا نہیں لاکھ روپے کی آمد ہوگی اور اس کے مطابق ہم فلاں فلاں کاموں پر خرچ کریں گے لیکن اگر دوران سال اتنے پیسے نہیں آتے تو آپ کے کاموں پر اثر پڑے گا.کام کی رفتار میں کمی آجائے گی اور کسی قوم کا بحیثیت قوم عزم کر لینا اور پھر اسے پورا نہ کرنا بڑی ہلاکت کا موجب ہوتا ہے جب تک ایسے لوگ تعداد میں تھوڑے سے ہیں اس وقت تک تو کوئی فرق نہیں پڑتا.لیکن اگر خدانخواستہ یہ ایک رو جاری ہو جائے تو اس سے بڑا فرق پڑ جاتا ہے.پس محض دعوی بے معنی ہے جب تک کہ مخلصانہ عمل شامل حال نہ ہو.اس سے کہیں بہتر ہے کہ ایسا شخص جس کی نیت نہیں ہے دینے کی ، وہ وعدہ ہی نہ کرے لیکن جس کی نیت ہے دینے کی اگر بعد میں اس کے حالات بدل جاتے ہیں، جس پر اس کا کوئی اختیار نہیں ، وہ زیر الزام نہیں آتا.اللہ تعالیٰ ایسے بھائیوں اور بہنوں کے حالات درست کرے اور اُن کے مالوں میں اور بھی زیادہ برکت ڈالے لیکن جس شخص کی پہلے دن سے دینے کی نیت نہیں.صرف دعوی ہے، وہ اپنے آپ کو دو ہری مصیبت میں ڈال رہا ہے اور استغفار کے علاوہ اس کے بچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے پس ایسے لوگوں کو استغفار کرنا چاہیے اور وعدہ نہیں لکھوانا چاہیے.اللہ تعالیٰ کا مال ہے وہ تو دیتا چلا جا رہا ہے آگے سے بڑھ کر دیتا چلا جا رہا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے پانچ سال میں جماعت کی آمد مجموعی طور پر تین گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے یہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے.اس میں نہ میری کوئی خوبی ہے اور نہ آپ کی کوئی خوبی ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے.پس دینے والا تو بڑا دیا لو ہے لیکن اپنے دلوں میں فتور پیدا کر کے ہم میں سے بعض خدا تعالیٰ کے ثواب اور اس کے پیار سے محروم ہو جاتے ہیں اس لئے وہ راہیں جو اللہ تعالیٰ کو غصہ
خطبات ناصر جلد سوم ۴۹۹ خطبه جمعه ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۱ء دلانے والی ہیں تم ان راہوں پر نہ چلو اور جن راہوں کو تم اس کی رضا کے لئے اختیار کرتے ہو، اُن راہوں پر جوش اور ہمت اور اخلاص کے ساتھ چلو تا کہ اپنے توکل اور اپنی نیت اور اپنے اخلاص کے نتیجہ میں تم اللہ تعالیٰ سے اُس کے اُس پیار کو حاصل کر لو جس پیار کو دینے کے لئے اُس نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو امت محمدیہ میں مبعوث فرمایا ہے کیونکہ یہی پیار در حقیقت دنیا کے لئے نمونہ بنتا ہے.آج غلبہ اسلام کی جو خوشبو ہم سونگھ رہے ہیں ، وہ ہماری قربانیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اُس پیار کا نتیجہ ہے جو جماعت سے وہ کرتا ہے اور وہ خوشبو اللہ تعالیٰ کی محبت کے عطر کی خوشبو ہے.دنیا جب اسے سونگھتی ہے تو اس طرف متوجہ ہوتی ہے، دنیا کی آنکھ جب معجزانہ پیارکو مشاہدہ کرتی ہے تو لوگوں کا دل اس طرف مائل ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ ہے اور واقعہ میں اسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم رہنے والی شریعت ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی تھی.پس ہمیں چاہیے کہ ہم شریعت محمدیہ کی برکتوں سے حصہ لینے کے لئے وہ سب کچھ کریں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے.اللہ تعالی پر اس کی تمام صفات کے ساتھ ایمان لائیں.اس کو ہر قسم کے عیب سے اور تمام کمزوریوں سے اور سب نقائص سے متبر اسمجھیں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کریں.قرآن کریم کی شریعت کو ابدی اور دائمی شریعت مانیں کہ جس میں ہر قسم کا روحانی اور جسمانی محسن پایا جاتا ہے اور جس کے اندر ہر قسم کے احسان کی طاقت پائی جاتی ہے پس اس کتاب کو مہجور کی طرح چھوڑتے ہوئے اس پر ایمان نہ لائیں بلکہ اس کتاب پر اس کی تمام صفات کو سمجھتے ہوئے اور اس سے برکتیں حاصل کرنے کی نیت سے ایمان لائیں.دنیا خدا تعالیٰ کے پیار کا نشان دیکھ کر خدا تعالیٰ کی طرف مائل ہوتی رہی ہے اور آج بھی دنیا خدا تعالیٰ کے پیار کا نشان دیکھ کر اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل اور متوجہ ہو رہی ہے.ہم مختلف ذرائع سے اور مختلف راہوں پر چل کر اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر رہے ہیں پس چاہیے کہ میں اور آپ سب اللہ تعالیٰ کے پیار کی تمام راہوں پر چل کر سارے ہی پیار کو حاصل کرنے کی کوشش
خطبات ناصر جلد سوم ۵۰۰ خطبہ جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۱ء کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو تحریک جدید کی ذمہ واریوں کو سمجھنے اور انہیں نباہنے کی توفیق بخشے اور پھر آپ نے اللہ تعالیٰ پر جو تو گل کیا اور اللہ تعالیٰ سے جو اُمیدیں باندھیں ، خدا کرے کہ ہماری کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت باری ان امیدوں کو پورا کرے اور میں اور آپ ہم سب اس کے پیار کو پانے والے ہوں.اللھم آمین.رونامه الفضل ربوه ۹ رنومبر ۱۹۷۱ء صفحه ۳ تا ۵) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۵۰۱ خطبہ جمعہ ۵ رنومبر ۱۹۷۱ء فرمائی:.اللہ تعالیٰ کی رحمت جذب کرنے کے لئے اسی کی عطا میں سے اُس کے حضور پیش کرو خطبه جمعه فرموده ۵ /نومبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَبَ اللهِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً يرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ - (فاطر:۳۰) اور پھر فرمایا :.یہاں مسجد میں آنے کے بعد دل کی دھڑکن شروع ہوگئی ہے اور ضعف بھی ہو گیا ہے.مختصراً کچھ کہ دیتا ہوں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے مہینے میں اتنی سخاوت کرتے تھے کہ جیسے تیز ہوائیں چل رہی ہوں پس اس سنت کی اتباع کی طرف بھی ہمیں متوجہ رہنا چاہیے.قرآن کریم نے ہمیں مخفی اور ظاہری صدقات کے متعلق حکماً فرمایا ہے.ظاہری اس لئے کہ ایک تو اس سے لوگوں کو ترغیب ہوتی ہے اور دوسرے منافقوں کا بھانڈا پھوڑتا ہے اور مخفی اس لئے کہ انسان کا جو حقیقی تعلق اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے، وہ پسند نہیں کرتا کہ دوسروں پر وہ ظاہر ہو.دنیا کی تجارتیں کبھی فائدہ بھی دیتی ہیں اور کبھی نقصان بھی پہنچاتی ہیں.ہم نے بڑے بڑے سیٹھ دیوالیہ
خطبات ناصر جلد سوم ۵۰۲ خطبہ جمعہ ۵ /نومبر ۱۹۷۱ء ہوتے دیکھے ہیں اور غریب مزدور لکھ پتی بنتے پائے ہیں لیکن ایک تجارت ایسی ہے جس میں گھاٹے کا امکان ہی نہیں.ہلاکت کی ہوائیں اس پر نہیں چلتیں اور یہ وہ تجارت ہے جو انسان اپنے اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے.جیسا کہ اس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے، بیان ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ غور اور تدبر سے اور خلوص نیت سے اس کامل اور مکمل کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں، دو بنیادی صفات ان میں پیدا ہوتی ہیں ایک یہ کہ وہ اس حقیقت پر کھڑے ہوتے ہیں کہ دعا کے بغیر انسان کی زندگی نہیں اور اقامة الصلوۃ نتیجہ ہے اس کتاب پر غور کرنے کا اور اس کے مطابق عملی زندگی گزارنے کی نیت اور عزم کرنے کا اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اس کی راہ میں ہر اُس چیز میں سے جو اسی کی عطا ہے، اُس کے حضور پیش کرنا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے بشارت یہ دی کہ میری ہی چیز میری طرف لوٹا ؤ گے میں اسے تجارت سمجھوں گا جو تم میرے ساتھ کر رہے ہو اور جو میرے ساتھ تجارت کرتا ہے وہ گھاٹے میں نہیں رہ سکتا.اس لئے اپنے راز کو راز رکھنے کے لئے میری عطا کا ایک حصہ خفیہ اور پوشیدہ طور پر میری راہ میں خرچ کرو اور اپنے بھائیوں کو توجہ دلانے اور ترغیب دینے کے لئے اور دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ خدا تعالیٰ سے تجارت کرنے والا شخص گھاٹے میں نہیں رہتا میری عطا کا کچھ حصہ ظاہری طور پر میری راہ میں خرچ کرو.اس حکم پر عمل کرتا تھا پہلے زمانے کا مسلمان ، اور اس پر عمل کرنا چاہیے.آج کے مسلمان کو بھی.امیر لوگ بہت خرچ کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کو کافی مال اور دولت دی تھی وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال قربان کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور جو غریب آدمی تھا ، جو چوٹی دے سکتا تھا ، جو دوئی دے سکتا تھا ، جو پیسہ دے سکتا تھا ، وہ ظاہر پیسہ دے دیتا تھا اور اس میں اُسے کوئی حجاب اور شرم نہیں ہوتی تھی.اس کو جو فائدہ تھا وہ تو تھا لیکن منافق امیر پر طنز کرتا تھا اور غریب پر تمسخر کرتا تھا.امیر کو کہتا تھا تم دکھاوے کے لئے یہ ا موال دے رہے ہو اور غریب کو کہتا تھا تمہارے دھیلے سے خدا تعالیٰ کو کیا فائدہ پہنچے گا جہاں تک فائدے کا سوال ہے، نہ امیر کی
خطبات ناصر جلد سوم ۵۰۳ خطبہ جمعہ ۵ رنومبر ۱۹۷۱ء دولت سے خدا تعالیٰ کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ غریب کے پیسہ سے فائدہ پہنچتا ہے.وہ تو خود مالک ہے تمام دولتوں اور سب اموال کا لیکن جو آدمی خلوص نیت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں بہت دیتا ہے اور یہ سمجھ کر دیتا ہے کہ منافق مجھ پر اعتراض کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے اس کا بدلہ دیتا ہے اور جو آدمی ایک دھیلہ لے آتا ہے یا چوٹی دے دیتا ہے، اسے بھی وہ پیارا احسن جزاء دے دیتا ہے.( خدا کے مسیح نے ایسے لوگوں کا اپنی کتابوں میں ذکر کر کے کہ فلاں شخص نے خدا تعالیٰ کی راہ میں چوٹی دی ، فلاں نے اٹھنی دی، ان کے لئے قیامت تک کے لئے دعاؤں کے سامان پیدا کر دیئے).پس جہاں تک خدا تعالیٰ کے فائدے کا سوال ہے نہ امیر کی دولت اور نہ غریب کا دھیلہ اُسے کوئی فائدہ پہنچاتا ہے کیونکہ وہی اصل مالک ہے اور سارے خزانے اُسی کے ہیں اور اسی کے حکم اور اُسی کی مرضی اور اسی کے حکم سے انسان کو بہت ملتا ہے یا تھوڑا ، یہ تو اپنے اخلاص کی بات ہے.جس کو اس نے بہت دیا اس کا دل یہی کہتا تھا کہ وہ خاموشی کے ساتھ اور کسی کو پتہ لگے بغیر اس کی راہ میں خرچ کرتا تو اچھا تھا مگر قرآن نے اسے کہا کہ علانیہ یعنی ظاہری طور پر خرچ کرو.منافق اعتراض کرے گا اور اس کی منافقت کا بھانڈا پھوٹے گا.شیطان تمہارے اوپر وار کرے گا.وہ تمہارے اندر کبر اور ریاء پیدا کرنے کی کوشش کرے گا.ایک اور میدان میں تمہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں شیطان کے ساتھ جنگ کرنی پڑے گی.خلوص نیت ہے تو شیطان کامیاب نہیں ہو گا اور تمہارے لئے برکتوں کا سامان پیدا ہو جائے گا.غریب سے کہا کہ دھیلہ یا چوٹی دیتے ہوئے نہ گھبراؤ.خدا کے خزانے جو ہیں اُن کے مقابلے میں چوٹی اور چار ارب روپیہ برا بر ہے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن دنیا پر یہ ظاہر کرو کہ جہاں دنیا دار غریب فساد کا موجب بنتا ہے وہاں مسلمان غریب دنیا میں نیکی کے قائم کرنے کی بنیادرکھ رہا ہوتا ہے اگر اس کے پاس چوٹی ہے تو اسے فساد کے دُور کرنے پر خرچ کر دیتا ہے اگر اس کے پاس ایک پیسہ ہے نیکیوں پر خرچ کرنے کے لئے تو وہی خرچ کر دیتا ہے.نہ وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ مجھ پر ہنسی ہوگی اور نہ اُسے یہ خوف ہے کہ میں ایک پیسہ دے رہا ہوں میرے پیسے کا کیا نتیجہ
خطبات ناصر جلد سوم ۵۰۴ خطبہ جمعہ ۵ /نومبر ۱۹۷۱ء نکلے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تو میرے ساتھ تجارت کر رہا ہے یہ نہ دیکھ کہ تو نے ایک دھیلہ یا چوٹی دی ہے بلکہ یہ دیکھ کہ میں تجھے اس کے مقابلے میں کیا دیتا ہوں.پس جس طرح ستر آخرچ کرنا ضروری ہے اسی طرح علانیہ خرچ کرنا بھی ضروری ہے یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے یہ مومن کی نشانی بتائی گئی ہے.جب ہم جماعت کی طرف سے ( کئی ایسی شکلیں بھی بن جاتی ہیں کہ جو ایک ہی وقت ہی سرا بھی ہوتی ہیں اور علانیہ بھی ہوتی ہیں ) کارکنوں کو جو مستحق ہوں ان کی گندم کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اور موسم سرما میں ( بہر حال زائد اخراجات ہوتے ہیں، اس میں ) ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے ہمارے جماعتی ادارے قریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالا نہ خرچ کرتے ہیں یعنی علاوہ تنخواہ کے، جسے تنخواہ تو نہیں کہنا چاہیے.اکثر اخلاص سے کام کر رہے ہیں اور انہیں گزارہ مل رہا ہے لیکن بہر حال اُن کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اور ان کی تکلیفوں کو دور کرنے کی نیت سے جماعت کم و بیش ڈیڑھ لاکھ روپیہ اپنے کارکنوں پر خرچ کرتی ہے اور یہ زیادہ تر ربوہ ہی میں رہنے والوں پر خرچ ہوتا ہے.اب یہ رقم میرا بھی ہے اور علانیہ بھی ہے.جہاں تک جماعت کے خرچ کرنے کا تعلق ہے یہ علانیہ ہے مثلاً اب میں نے اس خطبہ میں بیان کر دیا ہے ویسے بھی لوگوں کو پتہ ہے لیکن یہ رقم جماعت بناتی تو نہیں نا.یہ تو زید اور بکر کے چندے کے پیسے آتے ہیں، ان میں سے جماعت نکالتی ہے غرض جہاں تک اُن افراد کا سوال ہے ( جنہوں نے چندہ دیا) یہ ستر اُ ہے، ان کو بھی پتہ نہیں اور یہ ستر ابھی بڑاز بردست ہے یعنی ایسا خفیہ خرچ ہے اُس فرد کا کہ اس کو بھی پتہ نہیں کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں جماعتی نظام کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کی خواہشات پر لبیک کہتے ہوئے اور ان کی آوازسُن کر اس پر عمل کرتے ہوئے جو پیسہ دیا تھا اس کا کتنا حصہ کس طرح خرچ ہو گیا ان کو اس کا پتہ ہی نہیں.غرض ان کے لحاظ سے یہ ستر ہے.خفیہ طور پر خرچ ہوا ہے لیکن جماعتی لحاظ سے یہ علانیہ خرچ ہوا.اس کے علاوہ جماعت غیر کارکنوں پر (جس کا پھر ۹۹ فیصدر بوہ ہی پر خرچ ہوتا ہے) قریباً ۶۰، ۷۰ ہزار روپیہ سالانہ خرچ کرتی ہے ( یہ اس ڈیڑھ لاکھ کے علاوہ ہوتا ہے جس کا میں نے ابھی
خطبات ناصر جلد سوم ۵۰۵ خطبہ جمعہ ۵ /نومبر ۱۹۷۱ء ذکر کیا ہے ) لیکن منافق کے متعلق قرآن کریم نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اُس کی اپنی خواہش کے مطابق اُس قدر روپیہ جتنا وہ چاہتا ہے دے دیا جائے تو خوش ہو جاتا ہے اور راضی ہو جاتا ہے لیکن اگر اس کی خواہش کے مطابق نہ ملے تو وہ اعتراض شروع کر دیتا ہے.منافقوں نے صدقات کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے وجود پر اعتراض کر دیا تھا اور قرآن کریم نے اس کو ریکارڈ کیا ہے.اس میں تو شرم کی بات نہیں کیونکہ وہ تو ایک ایسا وجود ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے جس کے متعلق و ہم بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی قسم کی کمزوری دکھائے گا منافقوں نے اس کو بھی نہیں چھوڑا.خلفاء کو بھی نہیں چھوڑتے ، نظام سلسلہ کو بھی نہیں چھوڑتے ، منافق کا یہ کام ہے تم اسے کرنے دو تمہارا جو کام ہے تم وہ کرو خدا تعالیٰ سے تجارت کرو اس یقین کے ساتھ کہ تم گھاٹے میں نہیں رہو گے کیونکہ اس نے وعدہ کیا ہے کہ جو میرے ساتھ تجارت کرے گا وہ گھاٹے میں نہیں رہے گا خدا تعالیٰ اپنے ہی دیئے ہوئے مال میں سے چوٹی لے گا تو چار ہزار دے دے گا.بعض آدمیوں کو ( چونی کے بدلے ) چار لاکھ دے دیا.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کیا ہے ایک صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں سلسلے کی خدمت کیا کرتے تھے اور غالباً تین روپے ماہانہ ملتا تھا پھر الہ تعالی نے فضل کیا اُن کے بیٹوں میں سے ایک ایک کو خدا تعالیٰ ۵ ہزار ، ۸ ہزار ، ۱۰ ہزار روپے ماہانہ دیتا رہا.پس ایثار جو ہے وہ ضائع نہیں جاتا.اس دنیا میں اللہ تعالیٰ اُس کا بدلہ دیتا ہے اور اگر اس کی مصلحت اسے پسند کرے تو اس دنیا میں نہ دے لیکن اگلے جہان میں اس کے مقابلے میں بہت زیادہ دے دیتا ہے.ایک عاقل مومن صاحب فراست آدمی کی تو یہی خواہش ہوگی کہ جو جہنم کے حصے ہیں وہ یہیں مل جائیں.جس طرح جنت اسی دنیا میں ہے اسی طرح جہنم بھی اسی دنیا میں ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن کو بخار کی گرمی میں جو جلنا پڑتا ہے یعنی ۱۰۴، ۱۰۵ یا ۱۰۶ کا بخار ہو جاتا ہے اس کو جہنم کا حصہ یہیں مل جاتا ہے اور اگلی زندگی کی دوزخ کی آگ سے محفوظ ہو جاتا ہے.غرض ایک صاحب فراست مومن آدمی تو یہی خواہش کرے گا کہ اگر میری اپنی مستیوں
خطبات ناصر جلد سوم اور خطبہ جمعہ ۵ /نومبر ۱۹۷۱ء اور غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے جہنم کی آگ کے جھونکے میرے مقدر میں ہوں تو اے خدا! وہ یہیں مجھے مل جائیں وہاں جا کر نہ ملیں لیکن یہاں یہ تو نہیں ہوتا کہ کسی آدمی کو ساری عمر ہی بخار چڑھا رہے.بعض امراض ایسے ہوتے ہیں مثلاً سہل ہے اس کا بخار بڑے لمبے عرصے تک رہتا ہے لیکن اتنا تیز نہیں ہوتا ۹۹ ، ۱۰۰ تک ہو جاتا ہے.ایک حرارت سی رہتی ہے البتہ جو میعادی بخار ہے وہ عام طور پر ۵، ۱۰ دن تک رہتا ہے گیارھویں دن ٹوٹ جاتا ہے یا بعض دفعہ اکیس، بائیس دن تک چلتا ہے.اس کے بعد پھر گویا وہ اس جہنم میں سے نکل گیا پھر جنت کی وہ ٹھنڈی ہوا اور جنت کی خوشبوئیں اور جنت کے آرام اور جنت کی لذتیں اور جنت کے سرور اُسے اُس دنیا میں بھی ملتے ہیں.کوئی ایک آدھ جھونکا جہنم کا بھی مل جاتا ہے.پس خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایک ایسی تجارت ہے جس میں کوئی گھاٹا نہیں.انسان کی اپنی کوئی غلطی ہوگی تو اللہ تعالیٰ مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے گا.اللہ تعالیٰ ایسی نیکیوں کی توفیق دے دے گا کہ وہ گناہ جو ہیں وہ آپ ہی ڈھل جائیں.جب انسان کی ساری کوششیں نا کام ہو جائیں تو پھر وہ مغفرت کے ساتھ ڈھانپا جائے گا یا پھر اُسے خدا تعالیٰ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں دے گا تا کہ اس کو چوکس اور بیدار رکھے.بعض دفعہ ابتلاء آجائیں گے یا قضا و قدر بعض دفعہ جھنجھوڑتی ہے یا انسان انسان کو جھنجھوڑتا ہے.جھنجھوڑنے والا آدمی بعض دفعہ گناہ کر رہا ہوتا ہے اور مظلوم جو ہے وہ ثواب حاصل کر رہا ہوتا ہے.یہ چیزیں تو ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ تجارت ایسی ہے جس میں گھانا کوئی نہیں.اگر ایک شخص کو اس دنیوی تجارت کے کسی حصہ میں پانچ روپے گھاٹا ہو اور دوسرے حصہ میں اسی روز پانچ ہزار روپے نفع ہو جائے اُس ایک دن میں تو اُسے گھاٹا پانے والا کوئی نہیں کہے گا حالانکہ ایک حصہ میں اُسے پانچ روپے گھا ٹا ہوا ہے اب یہ کہ پانچ دن بخار چڑھ گیا اور باقی سال اُس کا آرام سے اور سرور سے گزرا اور دعاؤں میں گزرا اور خدا تعالیٰ کے نشان دیکھنے میں گزارا، خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے میں گزارا تو اس کو کیا گھاٹار ہا اور جو اُخروی زندگی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف سے بھی بچا لیا یہ اُس پر بڑی رحمت فرمائی ہے.پس سر آ بھی خرچ کرنا چاہیے اور علانیہ بھی خرچ کرنا چاہیے.میں نے بتایا ہے کہ جو
خطبات ناصر جلد سوم ۵۰۷ خطبہ جمعہ ۵ /نومبر ۱۹۷۱ء جماعت کا خرچ ہے وہ سرا بھی ہے اور علانیہ بھی ہے اور اپنی استعداد کے مطابق بڑا خرچ ہے یہ معمولی خرچ نہیں ہے.جماعت اسی طرح قریباً سوا دو یا اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کرتی ہے جو مقامی فنڈ ز ہیں اُن میں سے جماعت اس سلسلہ میں بھی خرچ کرتی ہے وہ رقم اس وقت میرے ذہن میں نہیں لیکن مجموعی طور پر یہ بھی بڑی رقم بن جاتی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں اس علم کی بناء پر جو مجھے حاصل ہوتا رہتا ہے کہ افرادِ جماعت ایک بڑی رقم ستر ا بھی خرچ کر رہے ہوتے ہیں، وہ بتانا نہیں چاہتے مثلاً کئی ایسے خرچ ہوتے ہیں کہ خاوند بیوی کو نہیں بتا تا یا بیوی خاوند کو نہیں بتاتی.اس واسطے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بستر آخرچ کرو اور بیوی یا خاوند خدا تعالیٰ کے مقابلے میں کیا چیز ہے اصل تو اللہ ہی اللہ ہے.غرض دونوں طرح بے حد خرچ ہو رہا ہے لیکن میرا کام ہے کہ میں یاد دہانی کراتا رہوں.اس لئے اس علم کے باوجود میں یہی کہوں گا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ آپ رمضان میں تیز ہواؤں کی طرح سخاوت کیا کرتے تھے.آپ اس سنت کو نہ بھولیں اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے.( آمین ) خطبہ ثانیہ سے پہلے حضور نے فرمایا:.الحمد لله ضعف کافی حد تک دُور ہو گیا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۸ /جنوری ۱۹۷۲ ء صفحه ۳ تا ۵)
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء سورہ جن کی ایک آیت کی نہایت لطیف اور پر معارف تفسیر خطبہ جمعہ فرموده ۱۹ / نومبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی:.و انا لما سَمِعْنَا الْهُدَى أَمَنَا بِهِ فَمَنْ يُؤْمِنُ بِرَبِّهِ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَهَقًا - (الجن : ۱۴) اس کے بعد فرمایا:.سورہ جن کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (جس گروہ کے لوگوں کا وہاں ذکر ہے انہوں نے واپس جا کر اپنے ساتھیوں سے یہ کہا کہ ) ہم نے ایک کامل ہدایت اور شریعت کوسنا اور ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں.ایمان کا لفظ عربی زبان میں مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے.اس حصہ آیت میں ایمان کے لفظ کا تعلق صرف زبان کے اقرار سے ہے.مفردات راغب میں ہے کہ الْإِيْمَانُ يُسْتَعْمَلُ تَارَةً إِسْمًا لِلشَّرِيعَةِ الَّتِي جَاءَ بِهَا مُحَمَّدٌ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ...وَيُوْصَفُ بِهِ كُلٌّ مَنْ دَخَلَ فِي شَرِيعَتِهِ مُقِرًّا بِاللَّهِ وَبِنُبُوَتِهِ یعنی ایمان کا لفظ کبھی عربی زبان میں اقرار باللسان کے معنوں میں بھی آتا ہے بلکہ 66
خطبات ناصر جلد سوم ۵۱۰ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء یوں کہنا چاہیے کہ اسلامی محاورہ میں، کیونکہ عربی زبان پر قرآن کریم کی زبان کا بڑا اثر ہوا ہے گو وہ پہلے بھی بڑی اچھی اور بہترین زبان تھی لیکن قرآن کریم کی وحی کی عربی نے عربی زبان پر بڑا اثر کیا ہے.یہاں تک کہ ایک دفعہ جب ہم مصر میں ٹھہرے ہوئے تھے.گاڑی میں سفر کرتے ہوئے ایک نوجوان ہم سفر ہر بات میں قرآن کریم کی آیات ک کوئی نہ کوئی ٹکڑا استعمال کرتا تھا چنانچہ میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ یہ نوجوان قرآن کریم سے بڑی محبت رکھتا ہے اس لئے اسے قرآن کریم از بر ہے.خیر ہم باتیں کرتے رہے.کوئی گھنٹے دو گھنٹے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ عیسائی ہے.میں نے اُسے کہا کہ تم عیسائی ہو مگر قرآن کریم کی آیات کے فقرے کے فقرے استعمال کرتے ہو.وہ کہنے لگا.میں عیسائی تو ہوں لیکن قرآن کریم کی عربی سے ہم بیچ نہیں سکتے.یہ ہمارے ذہنوں اور زبان پر بڑا اثر کرتی ہے.پس قرآن کریم کی عربی یا قرآنِ کریم کی اصطلاح میں امام راغب کے نزدیک ایمان کے کبھی یہ معنے ہوتے ہیں کہ زبان سے اس بات کا اقرار کیا جائے یعنی آدمی یہ کہے کہ میں شریعت محمدیہ کو قبول کرتا ہوں اور اُس اللہ پر ایمان لاتا ہوں جسے قرآن کریم اور اسلام نے پیش کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زبان سے اقرار کرتا ہوں.ایسا آدمی مومن ہو جاتا ہے.اس آیت کے پہلے فقرے میں ایمان کا لفظ اسی معنے میں استعمال ہوا ہے کہ ہم نے اس شریعت اور ہدایت کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہی ہے اس کو سنا اور اُس پر ایمان لے آئے.اس آیت کے دوسرے ٹکڑے میں ایمان کا لفظ ایک اور معنے میں استعمال ہوا ہے اور وہ اس معنے میں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندے کی مدح کرتا ہے یعنی اس کی صفت بیان کرتا ہے اور کبھی اس کو اس بات پر جوش دلاتا ہے کہ تمہیں ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے اور اس معنے میں ایمان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زبان سے اقرار کرنا اور دل سے (اپنے اقرار کے مطابق ) شریعت محمدیہ یعنی اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقتا وہی سمجھنا جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جس کا زبان سے اقرار کیا گیا ہے اور یہ دل سے سمجھنا یعنی یہ نہ ہو کہ زبان پر کچھ ہوا اور دل میں کچھ اور ہو اور پھر بے عمل نہیں رہنا کیونکہ انسان کے سارے اعضاء پر اسلامی شریعت حاوی
خطبات ناصر جلد سوم ۵۱۱ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء ہے.شریعت کے کسی حکم کا تعلق اس کی آنکھ سے ہے اور کسی کا تعلق اس کی زبان سے ہے جبکہ وہ بول رہی ہوتی ہے اور کسی حکم کا تعلق اس کی زبان سے ہے جبکہ وہ چکھ رہی ہوتی ہے مثلاً فرما یائؤر نہیں کھانا یا فرمایا کہ خون نہیں کھانا.اب یہ اُس زبان سے تعلق نہیں رکھتا جو بول رہی ہوتی ہے بلکہ اس کا اُس زبان سے تعلق ہے جو چکھ رہی ہوتی ہے.کسی حکم کا تعلق انسان کے کان سے ہے اور کسی حکم کا تعلق اس کے دماغ سے ہے یعنی کسی کے متعلق برائی سوچنی بھی نہیں.یہ امر اس کے دماغ سے تعلق رکھتا ہے.دماغ بھی جسم کا ایک حصہ ہے.اسی طرح انسانی جسم کے مختلف حصوں مثلاً اس کی ٹانگوں پر، اس کے ہاتھوں پر یا اس کی انگلیوں پر شرعی احکام کا اطلاق ہوتا ہے.انگلیوں کے متعلق مثلاً یہ حکم ہے کہ کوئی چیز تولتے وقت انگلی کو تھوڑ اسا خم دے کر کچھ واپس نہیں لے لینا اور یہ حکم دکانداروں کے لئے ہے.کئی دکاندار ایسا گناہ بھی کر جاتے ہیں پھر انگلی کے ساتھ تعلق رکھنے والا ایک حکم یہ بھی ہے کہ کسی کے دل دُکھانے والی بات اپنی قلم سے نہیں لکھنی.پس شریعت محمدیہ کے سارے احکام کامل اور مکمل طور پر انسان کے تمام اجزاء اور اس کے اعمال پر حاوی ہیں.انسان کو یہ بتا دیا گیا ہے کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا.غرض انسان کے جو اعمال ہیں، جن کے بجالانے کی اللہ تعالیٰ نے اُسے طاقت دی ہے وہ بھی گواہی دیں کہ دل نے واقعی تصدیق کی ہے اور زبان نے جو اقرار کیا ہے وہ منافقانہ اقرار نہیں ہے.وہ احمقانہ اقرار نہیں ہے.وہ مصلحت بینی کے نتیجہ میں اقرار نہیں ہے بلکہ انسان نے ایک حقیقت کو دیکھا، پر کھا، سچا پایا اور اس کا اقرار کیا اور دل نے اس کی تصدیق کی اور پھر انسان سر سے لے کر پاؤں تک اُس پر قربان ہو گیا.یہ ایمان ہے.اس آیت کے دوسرے حصے میں اسی معنے میں ایمان کا لفظ استعمال ہوا ہے مثلاً یہ ایمان ہے کہ روزے رکھو.روزوں کا مہینہ اب ختم ہو رہا ہے لوگوں نے روزے رکھے ، سوائے بیمار اور معذوروں کے جولوگ بیماری اور معذوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے محسوس تو وہ بھی کرتے ہیں دُکھ وہ بھی اُٹھاتے ہیں.جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ بھوک کا دُکھ اُٹھاتے ہیں اور جو روزہ نہیں رکھتے بوجہ معذوری، وہ روزہ نہ رکھنے کا جو طبیعت میں ایک دُکھ پیدا ہوتا ہے، وہ اُسے برداشت کر رہے ہوتے ہیں.غرض دونوں تکلیف میں سے گذر
خطبات ناصر جلد سوم ۵۱۲ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء رہے ہوتے ہیں.یہ نہیں کہ جس نے روزہ نہیں رکھا ( درآنحالیکہ وہ مومن ہے اور اس کی نیت بھی ہے ) اُس نے روزے کا جسمانی اور ظاہری دُکھ نہیں اُٹھایا.ایک ظاہری تکلیف تو ہے جو روزے دار خدا کی خاطر اُٹھاتے ہیں لیکن جو بیماری اور معذوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا شاید اُس نے زیادہ دُکھ اُٹھایا اور اگر زیادہ اُٹھایا تو شاید وہ ثواب کا بھی زیادہ مستحق ہو گیا.وَاللهُ أَعْلَمُ.اللہ تعالیٰ ثواب دیتا ہے ہم تو اس کے او پر کوئی حکم نہیں لگا سکتے.پس فرمایا کہ جو شخص دوسرے حصہ آیت میں بیان کردہ ایمان کے مطابق اپنے رب پر ایمان لا یا اور رب پر ایمان لانے کے مفہوم کے اندر حقیقتاً شریعت محمدیہ پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر ایمان اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان آجاتا ہے کیونکہ ربّ کے معنے ہیں پیدا کر کے درجہ بدرجہ اور تدریجا ترقی دینے والا یعنی وہ ہستی جونشو ونما دے کر انسان کو ترقی کے مدارج طے کرواتی ہے.جیسا کہ بڑی وضاحت اور تشریح کے ساتھ دوسری جگہ بیان ہوا ہے کہ انسان کو روحانی طور پر ترقیات کی منازل میں سے گزار کر آدم ، پھر نوح ، پھر موسیٰ اور پھر سینکٹر وں اور جو شارع نبی ہوئے ہیں، علیہم السلام.اُن کے زمانے میں انسان کی روحانیت درجہ بدرجہ ترقی کر رہی تھی.بالآخر اللہ تعالیٰ انسان کو اس ترقی کے مقام پر لے آیا کہ وہ کامل اور مکمل شریعت کا حامل بن سکتا تھا.ربوبیت کے معنی میں یہ بات آتی ہے کہ اگر انسان ترقی کرے ( اور عقل اور تاریخ کہتی ہے کہ انسانیت نے ترقی کی اور کسی ایک منزل پر جا کر آگے رہنمائی کے لئے اگر کوئی ٹور آسمان سے نازل نہ ہو، کوئی نئی شریعت نہ آئے کہ اس کے نئے تقاضوں کو اور بڑھی ہوئی طاقتوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہو تو گویا اس کو رب پر ایمان نہیں ہے.وہ تو سمجھے گا کہ رب ہے ہی نہیں لیکن ایسا نہیں ہوا.غرض رب پر ایمان دراصل وہی ہے جس کا اَلْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ میں ذکر کیا گیا ہے کہ ساری تعریف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہے اور اسی سے ہر تعریف کا منبع پھوٹتا ہے.انسان کی جب درست تعریف ہو تو اُسے سمجھنا چاہیے کہ اسے حمد کا جو مقام ملا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف
خطبات ناصر جلد سوم ۵۱۳ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء سے ملا ہے اگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی شخص مغضوب اور ملعون اور دھتکارا ہوا ہو تو دنیا کی طاقتیں اُسے حقیقی عزت نہیں پہنچا سکتیں یہ تو ایک دھوکا ہے، سراب ہے.کئی لوگ بہک جاتے ہیں کئی بچ جاتے ہیں لیکن بہر حال حقیقی عزت اور تعریف کا استحقاق خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار اور رحمت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے ورنہ حمد کا اور تعریف کا استحقاق پیدا ہی نہیں ہوتا.سب دھوکا اور سراب ہے.اس لئے فرمایا کہ جو شخص بھی اپنے رب پر ایمان لاتا ہے.فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَ لَا رَهَقًا 66 (الجن : ۱۴) اس کو نہ بخس کا کوئی خوف رہتا ہے اور نہ رھق کا کوئی خوف رہتا ہے.بخس کے معنے ہیں ظلم کر کے کسی کو نقصان پہنچانا مگر جو شخص مومن ہوتا ہے اس کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور جس طرح دوسرے مذاہب کا عقیدہ ہے کہ ایک دفعہ جنت میں لے جائے جانے کے بعد پھر جنت سے نکال دیا جائے گا.شریعت محمدیہ پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں وہ جنت نہیں ملتی جس سے انسان نکالا جاتا اور دھتکار دیا جاتا ہے اور اُسے یہ کہا جاتا ہے کہ پھر از سر نو کوشش کرو اگر تم مستحق ٹھہرے تو تمہیں جنت مل جائے گی.پس اگر عارضی جنت کا عقیدہ درست ہو تو پھر یہ بخا ہے.انسانی فطرت یہ کہتی ہے کہ اُس پر ظلم ہو گیا کیونکہ انسان کی طاقتیں محدود تھیں اور اُسے محدود زمانہ دیا گیا اگر تو غیر محدود زمانہ دیا جاتا تو پھر غیر محدود عمل ممکن ہوتے اور غیر محدود جنت ہو جاتی اور آپس میں CLASH ( کلیش) ہو جاتا کیونکہ دو غیر محدود تھے.انہوں نے ایک دوسرے سے سر ٹکر ا دینے تھے.جو عقلاً درست نہیں ہے مضمون دقیق ہے مگر جو سمجھنے والے ہیں وہ سمجھ جائیں گے دو غیر محدود ایک دوسرے کا نتیجہ نہیں ہو سکتے کیونکہ نتیجہ انتہاء ہوتا ہے.غیر محدود ابتلاء اور امتحان کا زمانہ اور غیر محدود جزاء اور جنت.یہ بات عقل میں نہیں آتی.پس اگر غیر محدود جنتیں ہیں جن کی انتہاء کوئی نہیں تو عمل محدود ہی ہونے تھے اور جنت غیر محدود ہو گی ، رحمت الہی غیر محدود ہو گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.21/2012/99 رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ “ (الاعراف: ۱۵۷)
خطبات ناصر جلد سوم ۵۱۴ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء خدا تعالیٰ کی رحمت کے مقابلے میں زمانہ کیا چیز ہے.یہ تو اس کی ایک پیداوار ہے لیکن اس کی رحمت کی موجیں تو اس کی ہر پیداوار کے اوپر سے گذر رہی ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر چیز اور ہر مخلوق کا احاطہ کیا ہوا ہے.لیکن ہماری فطرت اور ہماری شریعت ہر دو ہمیں یہی کہتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہر چیز کے او پر حاوی ہے.اس واسطے کہ اگر ہماری فطرت یہ نہ کہتی تو محدود عمل کی غیر محدود جزاء کی توقع اور اُمید ہم کیسے رکھتے.خدا تعالیٰ نے ہماری فطرت کے اندر یہ ڈالا ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے تمہیں تھوڑی عمر دی گئی ہے، تمہیں تھوڑے وسائل دیئے گئے ہیں لیکن تمہیں ایک بشارت دے دیتے ہیں کہ اگر تم اپنی اس تھوڑی زندگی میں، اس چھوٹی زندگی میں، خلوص نیت کے ساتھ اور کامل توحید پر قائم ہو کر اور شرک کے ہر پہلو سے بچتے ہوئے محدود عمل کرو گے تو تمہیں غیر محدود جزا مل جائے گی.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں بھی یہی رکھا ہے اور شریعت سے بھی یہی کہلوایا ہے.پس یہ اسلامی شریعت ایسی شریعت ہے کہ جو آدمی اس پر ایمان لاتا ہے اُسے یہ خطرہ لاحق نہیں ہوتا کہ اس پر ظلم ہو گا اور وہ گھاٹے اور نقصان میں رہے گا.قرآن کریم نے مختلف پہلوؤں سے اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے اور بڑے پیارے رنگ میں روشنی ڈالی ہے.قرآن کریم نے ظلم کے متعلق تو یہ اعلان کر دیا :."وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ " ( ق :۳۰) اور اس قسم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا.تو اس سے انسان کی تسلی ہو گئی.پھر فرمایا:.66 فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الظَّلِحَتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كَفَرَانَ لِسَعيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَتِبُونَ ، (الانبیاء : ۹۵) کہ جو ایمان لائے گا اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے گا اور عمل صالح بجالائے گا نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ تو فَلَا كُفْرَانَ لِسَعيِهِ " 66
خطبات ناصر جلد سوم ۵۱۵ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء اس کی کوشش اور اس کے عمل بوجہ انسان ہونے کے اگر ناقص رہ جائیں گے تب بھی رڈ نہیں کئے جائیں گے.فَلَا كَفَرَانَ لِسَعیہ میں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری سعی قابل قبول ہوگی رڈ نہیں کی جائے گی بلکہ فرمایا کہ جو شخص اعمالِ صالحہ بجالائے گا اور وہ مومن ہوگا اور ایمان کے جملہ تقاضوں کو پورا کرے گا تو ” فَلا كُفْرَانَ لِسَعیہ “ اس کو ہم یہ تسلی دیتے ہیں کہ بشری کمزوری کے نتیجہ میں اگر اس کے اعمال میں کوئی کمی اور نقص رہ جائے گا تب بھی اس کے اعمال رڈ نہیں کئے جائیں گے.وہ قبول کر لئے جائیں گے.اب یہ کتنا بڑا وعدہ ہے جو فَلا يَخَافُ بَخْسا میں انسان کو دیا گیا ہے.پھر فرمایا:.وَ أَمَّا مَنْ أَمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاء الْحُسُني “ (الكهف : ٨٩) یعنی جو ایمان لایا اور مناسب حال اعمال بجالا یا اُسے بہترین جزا دی جائے گی.کسی جگہ فرما یا عشر أمثالها دس گناہ زیادہ دی جائے گی.اس طرح پھر ظلم کا تو کوئی سوال ہی نہیں رہتا.رحمت ہی رحمت ہے.زیادہ سے زیادہ ہی ہے.انسان کا تھوڑا سا عمل ہوتا ہے اور اُسے بہت بڑی جز امل جاتی ہے.آپ اجتماعی طور پر دیکھیں کہ جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کی راہ کے مالی میدان میں مجموعی لحاظ سے کیا خرچ کر رہی ہے.وہیں سے مالی لحاظ سے ہمارا عمل شروع ہوتا ہے.اس کے لئے ذرائع اور وسائل اکٹھے کئے جاتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اتنے زبر دست نتائج نکل رہے ہیں کہ میں تو جب سوچتا ہوں تو میری عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ جماعت احمد یہ اور غلبہ اسلام کے حق میں اس وقت جو ایک انقلاب بپا ہو رہا ہے، اُسے میں کس طرح اپنی کوششوں کی طرف منسوب کر دوں.ہر دو میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے.ہماری کوشش بہت تھوڑی سی ہوتی ہے لیکن نتائج بڑے زبر دست نکل رہے ہیں اسی لئے میں آپ کو بار بار توجہ دلا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا کریں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے وہی اس کی مزید رحمتوں کا مستحق بنتا ہے.پس لا يَخَافُ بَخْسًا کی رو سے بہترین جزا ملے گی.عمل رد نہیں کئے جائیں گے ذرا ظلم نہیں
خطبات ناصر جلد سوم ۵۱۶ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء کیا جائے گا.اسلامی شریعت پر ایمان لانے کے نتیجہ میں جو آدمی ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، نہ اس کو نقصان کا کوئی خطرہ ہوتا ہے اور نہ ظلم کا کوئی خطرہ ہوتا ہے بلکہ ایک نیک عمل کے بدلے میں دس، ایک کے بدلے میں شاید دوسو، ایک کے بدلے میں شاید دو ہزار، ایک کے بدلے میں شاید دو کروڑ یا دو ارب گنا زیادہ بلکہ شاید ان گنت جزا ملے گی کیونکہ اگر جزا ان گنت نہ ہوگی تو جنتیں ہمیشہ کے لئے کیسے بن جائیں گی.تو فر ما یالا يَخَافُ بَخْصًا جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان لایا اور قرآن کریم نے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کو پیش کیا ہے اس رنگ میں اس کی ہستی پر اور اس کی صفات پر ایمان لایا اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانا اور جس نے محبت اور عشق میں ایک نئی زندگی حاصل کر کے خلوص نیت کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ کیا اور اگر بشری کمزوریوں کے نتیجہ میں وہ عمل ناقص تھا تب بھی ناقص جزا نہیں ہے.اس کے مقابلے میں بھی اتنی بڑی جزا ہے کہ وہ ہمارے ذہن میں سما نہیں سکتی.پھر فرمایا وَلا رَهَقًا اس کو رَهَق کا بھی خوف نہیں ہو گا.( میں نے آج منجد دیکھی تھی.اس میں ) رَهَق کے چار معنے بتائے گئے ہیں اور وہ چاروں معنے تفسیری لحاظ سے یہاں لگتے ہیں.رهَق کے ایک معنے الاثم یعنی گناہ کے ہیں.اگر شریعت کامل نہ ہو.وہ بعض حصوں کو لے اور بعض حصوں کو نہ لے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض حصوں کے متعلق ہدایت دے اور بعض حصوں کو انسان پر چھوڑ دے تب بھی گناہ کا خطرہ رہتا ہے کہ جو اس نے فیصلہ کیا ہے وہ درست نہیں ہے.مگر یہاں فرمایا کہ شریعت محمدیہ پر ایمان لانے والے کو ( اگر وہ اس پر کار بند ہوتا ہے ) اتھ کا کوئی خطرہ نہیں رہتا اس لئے کہ یہ شریعت کامل اور مکمل ہے.اس لئے کہ یہ شریعت خیر محض ہے.قرآن کریم کے ایک لفظ ”خَیر “ میں شریعت محمدیہ کی حقیقت بیان کی گئی ہے.قرآن کریم میں آتا ہے:.مَاذَا انْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوا خَيْرًا (النحل : ٣١) شریعت محمد یہ بھلائی ہی بھلائی ہے اس واسطے اثم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر انسان کی
خطبات ناصر جلد سوم ۵۱۷ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء فطرت بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور انسانی فطرت کو نیک اور بد میں تمیز کرنے کی توفیق بھی اُسی نے عطا فرمائی ہے.انسانی فطرت ( اور اس سے میری مراد وہ فطرت ہے جو سخ نہ ہو چکی ہو ) کسی چیز کو بد قرار نہیں دے گی جسے شریعت محمدیہ نے برقرار نہ دیا ہو اور انسانی فطرت کسی چیز کو نیکی اور بھلائی اور ثواب کا موجب قرار نہیں دے گی کہ جس کا حکم شریعت محمدیہ میں نہ ہو کیونکہ خود قرآن کریم فرماتا ہے:.فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا “ (الروم : ٣١) خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کو پیدا کیا ہے یہ اس کا عمل ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک کامل شریعت کے رنگ میں اپنی وحی کے ذریعہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے اور یہ اس کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ کے فعل اور اس کے قول میں تضاد نہیں ہوا کرتا.پس فطرت جن چیزوں کو نیکی کی باتیں قرار دیتی ہے، انہیں باتوں کا قرآن کریم حکم دیتا ہے.اس واسطے اٹھ“ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں فطرت کا وحی کے ساتھ تصادم نہ ہو جائے.اس قسم کا کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ جس خدا نے فطرت کو پیدا کیا ہے اُسی نے وحی کو نازل فرمایا ہے اسی واسطے مومنوں کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (ال عمران : ۱۰۵) رهَق کے دوسرے معنے خِفَّةُ الْعَقْلِ کے ہیں جس کا مطلب یہ ہے ان کو کم عقلی کا کوئی خوف نہیں ہوگا.یعنی قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ گے تو علاوہ اور بہت سے روحانی فوائد کے تمہیں ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ تمہاری عقلوں کو جلا ملے گی نیز الہام کے بغیر عقل کو جلا نہیں مل سکتی اور پھر الہام اور وحی بھی وہ جو کامل شکل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل وجود پر نازل ہوئی اور جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے.غرض فَلَا يَخَافُ رَهَقًا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- کہ انسان کو کم عقلی کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا.اگر وہ قرآن کریم پر غور کرے گا،فکر کرے گا اور
خطبات ناصر جلد سوم ۵۱۸ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء تدبر کرے گا ( جس کی طرف قرآن کریم میں بار بار توجہ دلائی گئی ہے ) تو اس کی عقل اس نہج پر نشوونما پائے گی کہ دنیوی میدان میں بھی، دنیا کے مسائل میں بھی اگر انسان فکر اور تدبر کرے گا تو صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے گا.ویسے یہ عقل جو ہے اس کا تو یہ حال ہے کہ بڑے بڑے عقلمند کہلانے والے سوچتے اور غور تو کرتے ہیں مگر بسا اوقات غلط نتائج پر پہنچ جاتے ہیں بڑے بڑے چوٹی کے ماہرین آج ایک بات کہتے ہیں اور دس سال کے بعد ان سے بھی بڑا عقل کا ایک اور دعویدار کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ بالکل بیوقوفی کی بات کر گئے ہیں اور یہ بات ہر سائنس میں ہمارے مشاہدہ میں آتی ہے لیکن قرآن کریم کے اصول پر جس عقل کو جس دماغ کو سوچنے اور قرآن کریم کی بتائی ہوئی نہج پر غور کرنے کی عادت پڑ جائے اس کے لئے دنیا میں بھی ٹھوکر کھانے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے ویسے انسان انسان ہے وہ ٹھو کر تو کھائے گا لیکن دوسروں کی نسبت خطرہ کم ہو جائے گا.بہر حال قرآن کریم کی شریعت عقل کو جلا دینے والی ہے.اگر کسی نے ٹھوکر کھائی ہے تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہے قرآن کریم ذمہ وار نہیں ہے.اُس نے خود کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے طریق کو چھوڑا اور اس کے نتیجہ میں ٹھوکر کھائی ہے.رهَق کے تیسرے معنے جہالت اور کم علمی کے ہیں.لَا يَخَافُ رَهَقًا میں قرآن کریم کے متعلق یہ اعلان ہو گیا کہ یہ علم کا نہ ختم ہونے والا سمندر ہے اور جب یہ انسان کے ہاتھ میں آجاتا ہے تو پھر اس کو جہالت اور کم علمی کا خوف کیسے ہو گا.ہر زمانہ اور ہر ملک کو اس طرف توجہ دلائی کہ زمان و مکان کے بدلے ہوئے اور مختلف حالات میں یہ قرآنِ عظیم تمہاری کامل رہبری کے لئے کافی ہے آب و ہوا کے لحاظ سے غذا ئیں مختلف ہو گئیں.پھر مختلف غذاؤں کے نتیجہ میں انسان پر ان کے اثرات مختلف ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں بعض جگہ بعض اخلاق کی نگرانی کی زیادہ ضرورت پڑ گئی اور بعض اخلاق کی طرف ( بعض دوسرے اخلاق کی نسبت ) زیادہ توجہ دے کر ان کی نشو ونما کی ضرورت پڑ گئی اور اس طرح ملک ملک میں فرق آجائے گا پھر زمانہ ہے ، وہ تو واضح ہے کہ جو آج کے مسائل ہیں وہ سو سال پہلے کے مسائل نہیں اور جو آج کے مسائل ہیں وہ ہزار سال بعد کے مسائل نہیں ہوں گے.
خطبات ناصر جلد سوم ۵۱۹ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء پس وَلَا رَهَقًا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خواہ تم کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہو یا کسی بھی زمانہ میں پیدا ہوتے ہو قرآن کریم کی شریعت پر عمل کر کے کم علمی کے نتیجہ میں تمہیں نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ قرآن کریم تو تمہارے سامنے علم کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.تم مطہر بنو قرآن کریم کے علمی خزانوں کی چابیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی جائیں گی پھر تم اس سے فائدہ اُٹھانا.تمہیں جہالت کا کوئی خوف نہیں ہوگا.ویسے انسان تو بڑا عاجز ہے اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے.میں نے اپنے اس مختصر سے زمانہ خلافت میں دو دفعہ باہر کے دورے کئے ہیں.ان دونوں موقعوں پر عیسائی پادری اور دوسرے صحافی ملاقاتوں اور پریس کانفرنسوں میں سوال کرتے تھے جن میں بعض سوال ایسے بھی ہوتے تھے کہ نہ آپ نے پہلے کبھی سنے اور نہ میں نے سنے ہوتے اور میرے ساتھی بھی گھبرا جاتے تھے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خود ہی ایسا جواب سکھا دیتا تھا کہ جسے سُن کر وہ خاموش ہو جاتے تھے.بعض دفعہ بول بھی نہیں سکتے تھے مثلاً پہلی دفعہ ۶۷ء میں جب میں نے یورپ کا دورہ کیا اُس وقت عرب اسرائیل جنگ ابھی تازہ تازہ ہو کر ختم ہوئی تھی اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف بڑا تعصب پایا جاتا تھا.یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑا پرو پیگنڈہ کیا تھا چنانچہ ہالینڈ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک کیتھولک نوجوان صحافی سوال کرنے لگا.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ وہ میرے ساتھ بات بڑے احترام سے کرتے تھے ویسے تو وہ آزاد ہیں وہ اپنے بڑے بڑے لوگوں کو کچھ نہیں سمجھتے.میں تو الحَمدُ لِلہ پڑھتا تھا کیونکہ ایک عاجز انسان ہوں بہر حال وہ بڑے ادب سے بات کرتے تھے.اس صحافی نے بھی بات تو بڑے ادب سے کی لیکن اس کی آنکھوں میں شوخی تھی.اُس نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ ہمارے ملک یعنی ہالینڈ میں آپ اس وقت تک کتنے لوگوں کو مسلمان بنا چکے ہیں.وہ سمجھتا تھا کہ میں یہ جواب دوں گا کہ چند درجن.تو اس سے ان سارے صحافیوں پر جو یہاں بیٹھے ہیں.پر یہ اثر پڑے گا کہ یہ تو کوئی کامیابی نہیں ہے اتنے بڑے ملک میں جہاں ملینز آبادی ہے اس میں چند درجن لوگ احمدی مسلمان بن گئے ہیں تو کیا ہے.اب یہ پہلی دفعہ سوال سنا.اللہ تعالیٰ ہی ایسے سوالوں کا جواب دل میں ڈالتا ہے چنانچہ اسی
خطبات ناصر جلد سوم ۵۲۰ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء وقت خدا تعالیٰ نے مجھے اس سوال کا جواب سکھایا.میں نے اس سے کہا کہ جتنا عرصہ حضرت مسیح علیہ السلام اس دنیا میں رہے اور اس عرصہ کی تعیین میں میرا اور تمہارا اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جتنا عرصہ بھی وہ اس دنیا میں رہے ساری عمر میں انہوں نے جتنے عیسائی بنائے تھے اس سے زیادہ ہم تمہارے ملک میں مسلمان بنا چکے ہیں.اس پر وہ ایسا خاموش ہوا کہ پھر اس نے مجھ سے سوال کرنا ہی چھوڑ دیا حالانکہ میں نے کہا بھی کہ اور سوال کرو میری دلچسپی قائم ہے.اب یہ کہ اچانک سوال ہوا اور پھر یہ جواب آجائے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.بعض دفعہ پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ کیا جواب دے رہا ہوں ، دماغ جواب دے رہا ہوتا تھا اور انسان الْحَمدُ لِلہ پڑھ رہا ہوتا تھا.پس در اصل حقیقی علم کا منبع اور سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس منبع سے یہ کتاب (یعنی قرآن کریم ) اس دعوے کے ساتھ نازل کی گئی ہے کہ یہ قیامت تک کے مسائل کو حل کرے گی.اس نے قیامت تک کے مسائل کو حل کر دیا ہے.ہمیں اس پر بھی ایمان لانا چاہیے.اب لوگ اس حقیقت کے بھی قائل ہورہے ہیں البتہ جو بھٹکتے ہیں وہ کہاں مانتے ہیں دراصل آج کل کے عقلمند نے اس دنیا کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے جتنا آج کا عظمند خود کو دنیا کی نگاہ میں ملعون بنا چکا ہے کسی زمانہ میں بھی عقلمند پر خود انسان نے اتنی لعنت کبھی نہیں بھیجی.یہ عجیب عقلمندی ہے اور تہذیب میں ترقی ہے کہ جس کی وجہ سے انسانیت کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے.اس سے پہلے تو پانچ انسانوں کی جان خطرے میں ہوتی تھی یا پانچ ہزار انسانوں کی جان خطرے میں ہوتی تھی یا پانچ لاکھ انسانوں کی جان خطرے میں ہوتی تھی یا پانچ ملین انسانوں کی جان خطرے میں ہوتی تھی مگر اب تہذیب میں کیا آگے بڑھے کہ تمام بنی نوع انسان کی جان خطرے میں ہے اتنی عقل تیز ہوئی اس عقل پر لعنت ہے جس کی تیزی نے اس دنیا میں انسانیت کو مٹانے کی سکیمیں بنالی ہیں لیکن جہالت ،سفاہت اور حمق کے مقابلے کے لئے جو علم اور فراست اور ظلمات کو دور کرنے کے لئے نور قرآن کریم سے حاصل کیا جاسکتا ہے، وہ حقیقی بھی ہے اور نہ ختم ہونے والا بھی ہے.کسی وقت بھی یہ خطرہ نہیں کہ عقل آگے بڑھ گئی اور اب انسان کو وحی والہام کی ضرورت نہیں رہی.کئی فلسفی لوگ ہیں جن میں سے بعض نے مسلمانوں کو بھی بڑا متاثر کیا ہے لیکن ہم ایسی ہزار ہا مثالیں دے سکتے ہیں کہ جہاں عقل
خطبات ناصر جلد سوم ۵۲۱ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء نے مذہب سے رشتے توڑ کر اندھیری کھائی میں چھلانگ لگائی ہے اور وہ انسان کو روشنیوں کی طرف لے کر نہیں گئی.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.وَلَا رَهَقًا اپنے رب پر ایمان لانے والا اور ایمانی تقاضوں کو پورا کر کے اپنی زندگی کو اسوۂ محمدی میں ڈھالنے والا اور شریعت محمدیہ پر عمل کرنے والا انسان وَلَا رَهَقًا کا مصداق ہے.اُسے کسی جہالت یا سفاہت یا حماقت کا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ روشنی کا ایک مینار اس کے پاس لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے.نور کے ایک سرچشمے سے اس کا تعلق قائم کر دیا گیا ہے.جس شخص کا تعلق حقیقی طور پر اور کچے معنوں میں نور کے سرچشمے سے قائم کر دیا جاتا ہے،اس کو اندھیرے سے کیا خوف ہوسکتا ہے.رَهَقًا کے چوتھے معنے یہ ہیں کہ اسلامی شریعت اتنی حسین ہے کہ تم کسی حالت میں بھی کیوں نہ ہو، وہ تمہارے لئے تکلیف ما لا يطاق پیدا نہیں کرتی کیونکہ رھق کے چوتھے معنے منجد میں یہ لکھے ہیں :.حَمْلُ الْمَرْءِ عَلَى مَا لَا يُطِيقُهُ.یعنی کسی شخص پر ایسا بوجھ ڈالنا کہ جسے وہ برداشت نہ کر سکے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، بار بار دُہرانے کی ضرورت نہیں آپ سمجھتے ہیں کہ اس میں ہر انسان مخاطب ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے انسان کو بھی مخاطب کیا ہے.ہمیں بھی مخاطب کیا ہے اور ہم سے ایک ہزار سال بعد اگر دنیا ر ہی تو اس وقت کے انسان کو بھی قرآن کریم مخاطب کر کے یہی کہے گا.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷) کہ تمہاری وسعت کے مطابق تم پر بار ڈالا جائے گا اس میں رکسی فلسفے کی ضرورت نہیں ہے.شریعت میں اتنی لچک ضرور ہونی چاہیے کہ ہر فرد کی طاقت کے مطابق اس کی ہدا یتیں بدلتی چلی جائیں.قرآن کریم کے بہت سے احکام میں سے مثلاً روزہ کو لے لو.ایک صحت مند بچہ ہے اور نظر آرہا ہے کہ وہ پہلوان بنے والا ہے لیکن دس سال کی عمر میں خدا تعالیٰ نے اُسے فرمایا کہ
خطبات ناصر جلد سوم ۵۲۲ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء روزہ نہیں رکھنا کیونکہ ابھی تم میں روزے کی طاقت پیدا نہیں ہوئی.اب امریکہ میں جو نئے تجربے کئے گئے ہیں واللہ اعلم کب تک ان کو صحیح سمجھا جائے گا.ان تجربات کی رُو سے اٹھارہ سال کی عمر تک انسان کھانے کے اعتبار سے بچہ متصور ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے غذا کا ایک فارمولا بنایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر تک کا بچہ ( کھانے کے لحاظ سے وہ بچہ ہے ) جس وقت جس چیز کی جتنی مقدار میں خواہش کرے وہ اسے ملنی چاہیے.تب اس کی (جسمانی ) صحیح نشوونما ہوسکتی ہے اسی واسطے اٹھارہ سال کی عمر سے کم کے بچوں کو عادت ڈالنے کے لئے تو کچھ روزے رکھوانے چاہئیں لیکن ایک مہینہ کے لگا تار روزے نہیں رکھوانے چاہئیں کیونکہ رمضان کے لئے وہ عمر بلوغت نہیں ہے رمضان کا تعلق انسان کی روح سے بھی ہے مثلاً تنویر قلب ہوتی ہے.رُوح میں روشنی اور بشاشت پیدا ہوتی ہے.انسان پر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو جائے تو وہ روحانی طور پر ترقی کر کے کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے.غرض روزوں کا انسانی جسم پر بھی اثر ہے.اخلاق پر بھی اثر ہے.مختلف چیزوں پر اثر ہے لیکن جسم پر بھی اثر ہے مگر اٹھارہ سال کے بعد انسانی جسم پر روزے کا اچھا اثر پڑے گا یعنی صحت قائم رہے گی.اٹھارہ سال سے کم عمر والا بچہ خواہ اپنی عمر کے لحاظ سے بہترین صحت میں ہو.مثلاً دس سال کا بچہ ہے یا آٹھ سال کا بچہ ہے اور پورا صحت مند ہے.اس کی آنکھوں میں چمک ہے اور فراست ہے اور طاقت کے آثار ہیں لیکن خدا تعالیٰ اُسے فرماتا ہے کہ تو روزہ نہ رکھ کیونکہ تیری نشو و نما کا زمانہ ہے.روزے کی بلوغت کے دائرہ میں تو داخل نہیں ہوا.جب داخل ہو جائے گا تو ٹھیک ہے پھر اللہ تعالیٰ اسی طرح صحت قائم رکھے تو وہ ساری عمر روزے رکھتا چلا جاتا ہے مگر کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں پچاس سال کی عمر میں روزے کی طاقت نہیں رہتی.ڈاکٹر کہتا ہے روزے نہ رکھو کیونکہ کسی کے دل میں تکلیف ہو جاتی ہے، کسی کے جگر میں تکلیف ہو جاتی ہے کسی کی ہڈیوں میں تکلیف ہو جاتی ہے کسی کے سینے میں تکلیف ہو جاتی ہے،کسی کے اعصاب میں تکلیف ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ.ہزار ہا بیماریاں ہیں جو ہزاروں انسانی خطاؤں کے نتیجہ میں انسانی جسم میں پیدا ہو جاتی ہیں.لیکن ایک ایسا بچہ بھی ہے جس کو اٹھارہ سال کی عمر تک پوری صحت کے باوجود
خطبات ناصر جلد سوم ۵۲۳ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء سارے روزے رکھنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا وہ ستر سال کی عمر میں بھی آرام سے روزے رکھتا ہے اور اسے کچھ پتہ ہی نہیں لگتا.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَخَافُ رَهَقًا کہ اے انسان! خواہ تیری صحت کیسی ہو! خواہ تیری عمر کتنی ہو! خواہ تیرا ماحول کیا ہو! تیری طاقت کے خلاف یا تیری طاقت سے بڑھ کر بوجھ تمہارے اوپر نہیں ڈالا جائے گا.پھر مثلاً نماز ہے.بڑا زور دیا ہے کہ مسجد میں آکر نماز پڑھولیکن یہ نہیں کہا کہ ہر فرد کے لئے مسجد میں آکر نماز پڑھنا ضروری ہے ورنہ وہ کافر ہو جائے گا.یہ اسلام میں نہیں ہے.اسلام نے کہا ہے کہ جو آدمی بیمار ہے وہ اپنے گھر پر نماز پڑھ لے.نماز کی ایک ظاہری شکل بنائی ہے مثلاً ہم کھڑے ہوتے ہیں پھر رکوع کرتے ہیں پھر کھڑے ہوتے ہیں.پھر سجدہ میں جاتے ہیں.پھر دوسجدوں کے درمیان بیٹھتے ہیں.پھر ہم التحیات یعنی قعدہ میں بیٹھتے ہیں لیکن ایک بیمار شخص ان ساری اشکال کے مطابق یا بعض شکلوں کے مطابق نماز نہیں پڑھ سکتا.اس کو کہا کہ لَا يَخَافُ دَهَقًا کہ تجھ پر ایسا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا جو تیری طاقت سے بالا ہو.چنانچہ بیمار، معذور یا مجبور ہونے کی صورت میں ایک کو کہا کہ تو بیٹھ کر نماز پڑھ لے، دوسرے کو کہا کہ تو لیٹ کر نماز پڑھ لے، تیسرے کو کہا کہ تو اشاروں سے نماز پڑھ لے.چوتھے سے کہا کہ تو ہتھیار باندھ کر نماز پڑھ اور اپنا کام کرتا جا.غرض اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اتنا خیال رکھا ہے کہ اگر سوچیں تو ہم خود اتنا خیال نہ رکھ سکتے.لا يَخَافُ رَهَقًا کے اعلان کے بعد کسی کو یہ خوف نہیں ہوگا کہ وہ کسی وقت ایسی منزل میں ہوگا یا ایسی حالت میں ہوگا کہ اسلام کے کسی حکم کی پابندی نہ کر سکے تو گناہ گار بن جائے گا.اس شکل میں تو پابندی نہیں کرے گا لیکن گناہگار نہیں بنے گا.مثلاً جو آدمی بے ہوش ہے اور بعض دفعہ چار چار دن تک آدمی بے ہوش رہتا ہے کیا ایسا شخص نمازیں چھوڑ کر گناہگار بن گیا؟ نہیں لا يَخَافُ رَهَقًا کی رو سے جو اس کی طاقت نہیں ہے اس سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اگر اپنی غلطی کی وجہ سے بھی تم بیدار نہ رہو اور شکر ان کی حالت میں ہو تب بھی نماز پڑھنے کے لئے
خطبات ناصر جلد سوم ۵۲۴ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء انتظار کرو.وہ دوسرا جرم ہے لیکن نماز کو جان بوجھ کر چھوڑ دینا یہ بہت بڑا جرم ہے مگر اس کا بھی خیال رکھا.ماں نے کیا خیال رکھنا ہے اور باپ نے کیا توجہ دینی ہے اور دوست نے اخوت کا کیا مظاہرہ کرنا ہے.تمہارے رب نے تو کہیں زیادہ ہم سے پیار کیا اور پیار کی شکلیں بنادیں پس بد بخت ہے وہ آدمی جو اپنے خدا کو چھوڑتا ہے اور ایمان بالرب نہیں لاتا.پھر تو اس کو ”بخس‘ کا بھی ڈر ہے اس پر ظلم بھی ہوں گے اور اسے نقصان بھی پہنچیں گے اور ان کا کوئی مداوا نہیں ہوگا.اپنے رب کو چھوڑ کر وہ کہاں جائے گا اور پھر یہ بھی ہو گا کہ گناہ کرے گا کیونکہ اپنی طرف سے جو شرعی حکم بنائے گا اور سمجھے گا کہ شریعت اسلامیہ حقہ نے جو احکام ( اوامر و نواہی ) دیئے ، اس سے زیادہ مجھے چاہیے وہ بھی گناہگار بن جاتا ہے.تکمیل شریعت میں اسی طرف اشارہ ہے.پس اپنے رب سے پختہ تعلق قائم کرو.رمضان کا ایک موقع تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا.جو سبق آپ کو اور مجھے سیکھنا چاہیے تھا خدا کرے کہ وہ سبق ہم سیکھیں اور پھر بھولیں نہ.کیونکہ اپنے رب سے تو ہمیشہ کا ساتھ ہے.وہ کون سی گھڑیاں ہیں جو آپ اپنے رب سے چھپ کر گزار سکتے ہیں.جب اس سے ہمیشہ کا ساتھ ، ہمیشہ کا واسطہ ہے اور ہمیشہ کے پیار کی ضرورت ہے اور اس نے اپنے آپ کو بار بار رحم کرنے والا کہا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ تمہیں میرے رحم کی بار بارضرورت پڑے گی.یہ نہ سمجھنا کہ ایک کروڑ دفعہ میں نے تم پر رحم کیا ایک دفعہ اور رحم نہیں کر سکتا یا ایک ارب دفعہ رحم کیا ہے تو اور دس ارب دفعہ نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بار بار رحم کرنے والا ہوں.یہ میری صفات میں سے ہے.پس اپنے اس پیارے رب سے اپنا تعلق پیدا کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھاؤ اور اپنی دعاؤں میں تحریک جدید کے اُن مخلصین کو بھی یاد رکھو جو اخلاص کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیسے خرچ کرتے ہیں.تحریک جدید کی طرف سے کل رپورٹ آئی تھی مجھے تو آج ہی ملی ہے سالِ رواں میں نوسو پندرہ مخلصین نے اپنے وعدے کی پوری رقوم ادا کر دی ہیں گو میں نے ایک سرسری نظر ڈالی تھی پھر بھی مجھے تعجب ہوا کہ بعض دوستوں نے اپنی حیثیت سے بہت کم چندہ لکھوایا ہوا ہے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ ان کو اجر عطا فرمائے.ان میں سے اکاون مخلصین نے ایک ایک ہزار روپے کا وعدہ
خطبات ناصر جلد سوم ۵۲۵ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء کیا تھا اور وہ پورے کا پورا ادا کر دیا ہے.ان کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں اور جنہوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ان کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے مالی لحاظ سے بھی اور اخلاص کے لحاظ سے بھی کہ وہ بھی جلدی اپنے اپنے وعدوں کو پورا کریں.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے رب سے تعلق کی پختگی صرف نو جوانی کی عمر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ انصار اللہ کی عمر سے بھی تعلق رکھتی ہے.شاید کوئی شرمائے کہ وہ دھیلے سے آگے نہیں بڑھ رہے تھے.انصار اللہ کا چندہ ایک دھیلہ فی روپیہ ہے.اُس وقت بھی دھیلہ تھا جب روپے کے چونسٹھ پیسے تھے اور اس وقت بھی دھیلہ ہے جبکہ روپے کے یک صد پیسے ہو گئے ہیں.بہر حال خلیفہ وقت کا کام سہارا دینا بھی ہے اس لئے میں نے سہارا دے دیا اور انصار اللہ کے چندے کی جو شرح ہے وہ میں نے دھیلے سے بڑھا کر پیسہ کر دی ہے اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ سب کو بھی جن کی عمر زیادہ ہے اس کی توفیق عطا فرمائے.اس عمر میں تو ہمیں زیادہ فکر ہونی چاہیے.یا تو یہ ہو کہ انصار اللہ کے جو کام ہیں اُن کی ضرورت نہیں رہی.خدام جن کے پاس کبھی پیسہ اکٹھا ہی نہیں ہوتا تھا اور انصار سے مانگ مانگ کر ہم اپنی ضرورتیں پورا کیا کرتے تھے مگر اب یہ ہے کہ اُن کا چندہ انصار سے کئی گنا زیادہ ہو گیا ہے اس کی ایک وجہ تو میں نے پہلے بتائی تھی کہ پچھلی پود کثرت سے جوانی کی طرف بڑھ رہی ہے.اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اگر جماعت کی تعداد وہی رہتی تو پھر تو یہ شکل نہ بنتی لیکن آج سے تیس سال پہلے جو نسبت انصار اور خدام کی تعداد میں تھی آج وہ نسبت نہیں ہے.صحیح طور پر تو مجھے علم نہیں اور نہ کبھی اس قسم کی مردم شماری ہوئی ہے لیکن اگر فرض کر لو تیس سال پہلے پچاس فی صد احمدی نوجوان یعنی پندرہ سال سے اوپر کی عمر کے خدام میں شامل تھے تو پچاس فیصد انصار میں شامل تھے مگر آج تیس سال کے بعد یہ شکل نہیں رہی.آج یہ شکل ہے کہ تیس فیصد انصار میں شامل ہیں اور ستر فیصد خدام میں شامل ہیں کیونکہ پیچھے سے اللہ تعالیٰ کے فضل کا ایک بڑا ریلا آ رہا ہے.ہم ہر لحاظ سے بڑھ رہے ہیں.نئے نوجوان احمدی ہو رہے ہیں اور ہماری احمدی بہنیں بہت بچے پیدا کر رہی ہیں.وہ بیچاری تکلیف اُٹھا کر یہ قربانی دے رہی ہیں خدا کرے وہ بھی اور زیادہ قربانی دیں.
خطبات ناصر جلد سوم ۵۲۶ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء اب بھی بہت سی بہنیں قربانی دے رہی ہیں.یعنی اپنے بچے احمدیت کے نام پر خدا کے لئے وقف کرنے کی شکل میں وہ پیدا کر رہی ہیں یعنی وقف کے لئے یہی ضروری نہیں ہے کہ تحریک جدید کا واقف ہو.نیت وقف کی ہونی چاہیے ان کی تربیت کا بھی خاص خیال رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بھی توفیق بخشے.بہر حال انصار اور خدام کی تعداد میں بڑا فرق پڑ گیا اور پھر اس وجہ سے چندوں میں بھی فرق پڑ گیا پھر خدام الاحمدیہ ، جن کی عمر سولہ سے چالیس تک ہے ان کی مجموعی آمدنی جتنی تیس سال پہلے تھی اس وقت یقیناً اس سے سو گنا زیادہ ہے.غرض اللہ تعالیٰ بڑے فضل کر رہا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ انصار اللہ والے کیوں مایوس ہو جائیں کہ اُن پر اللہ تعالیٰ فضل نہیں کرے گا پس وہ دھیلے سے پیسہ شرح چندہ مقرر کریں.اللہ تعالیٰ ان کے مال میں بھی برکت دے گا بہر حال یہ ذیلی چیزیں ہیں جن کی طرف میں نے توجہ دلا دی ہے.میں نے بتایا ہے کہ اس چھوٹی سی آیت میں بڑا ہی لطیف مضمون بیان کیا گیا ہے.جو شخص بھی اپنے رب سے سچا اور پختہ تعلق پیدا کر لیتا ہے، اس کو نہ ظلم اور نقصان کا کوئی خطرہ باقی رہتا ہے اور نہ اس کو یہ خطرہ رہتا ہے کہ شریعت کے نقص کی وجہ سے وہ گناہگار ہو جائے گا یا بدلے ہوئے حالات میں شریعت اگر اس کے مسائل حل نہ کرے تو اس لحاظ سے بھی یہ نہیں کہ وہ گناہگار ہو جائے گا پھر نہ اس کو یہ خطرہ رہتا ہے کہ عقل پر ہی بھروسہ کرنا ہے.عقل کبھی صحیح راستہ پر چلتی اور کبھی بھٹک جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری عقلوں کو شریعت محمدیہ پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں روشنی عطا کروں گا اور ان عقلوں میں ایک جلا پیدا کروں گا پھر تم دنیا کے معلم بن جاؤ گے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کر لو اور پھر قرآن کریم جو علموں کا خزانہ اور معرفت کا ایک سمندر ہے وہ تمہیں دیا گیا ہے اس لئے کم علمی اور سفاہت اور حمق کا تمہارے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اس سمندر میں غوطہ لگانا ضروری ہے پھر یہ بھی ہے کہ بدلے ہوئے زمانوں میں، بدلے ہوئے حالات میں ( وقتی طور پر اجتماعی یا انفرادی حالات بدلتے ہیں یا بیماریوں اور بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر حالات بدل جاتے ہیں مثلاً چندے کے لحاظ سے بعض تا جر ا یسے بھی ہیں جو
خطبات ناصر جلد سوم ۵۲۷ خطبہ جمعہ ۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء دس دس ، ہمیں نہیں ہزار روپے چندہ ایک وقت میں دے دیتے ہیں پھر ان کے حالات بدل جاتے ہیں.انہیں نقصان ہو جاتا ہے تو ہیں روپے تک دینے کے قابل نہیں رہتے ) خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرما یا کہ جب تمہیں ہمیں ہزار روپے دینے کی طاقت تھی تم نے دیا اور میں نے قبول کر لیا اور میں تمہیں اس کی جزا دوں گا لیکن جب تمہیں میں روپے دینے کی طاقت ہوگی تو میں قبول نہیں کروں گا.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ اُس نے یہ فرمایا ہے جتنی تمہاری طاقت ہے اتنا چندہ تم دے دو پھر جتنی میری رحمت ہے اس سے تم حصہ لیتے چلے جاؤ گے پس بندے کی اس قربانی اور خدا کی اس رحمت کا آپس میں کیا مقابلہ ہے.خدا کرے کہ وہ ہمیشہ ہمیں بے حساب اجر عطا فرمائے.اس کی رحمت کے دروازے رمضان میں خصوصیت سے کھلتے ہیں.خدا کرے کہ ہمارے لئے ہمیشہ ہی اس کی رحمتوں کے دروازے کھلے رہیں.خطبہ ثانیہ سے پہلے حضور نے فرمایا:.نماز عصر سے قبل درس دینے والے دوست مولوی ظہور حسین صاحب سوائے آخری ایک سورۃ کے باقی کا درس مکمل کر دیں.عصر کی نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے میں انشاء اللہ آخری سورۃ کی تفسیر کے ایک چھوٹے سے حصہ کو بیان کر کے دعا کرا دوں گا.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ جنوری ۱۹۷۲ء صفحه ۱ تا ۶)
خطبات ناصر جلد سوم ۵۲۹ خطبہ جمعہ ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء موجودہ نازک حالات میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو خطبه جمعه فرموده ۲۶ / نومبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن کریم کی یہ آیات تلاوت فرمائیں:.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَ تَكُم جُنُودُ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَ كَانَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا - إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ إِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظنونا - هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا - (الاحزاب : ۱۰ تا ۱۲ ) وَ لَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ وَكَانَ عَهْدُ اللهِ مَسْئُولًا - قُل لَّن تَنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ إِنْ فَرَرْتُم مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ وَإِذَا لَّا تُمَتَّعُونَ إِلَّا قَلِيلًا - قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُم مِّنَ اللهِ إِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلَا يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا - (الاحزاب : ۱۲ تا ۱۸) وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ.(آل عمران : ۱۴۰) اَم يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعُ مُنْتَصِرُ - سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَيُولُونَ الدُّبُر - القمر : ۴۶،۴۵)
خطبات ناصر جلد سوم ۵۳۰ خطبہ جمعہ ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء اس کے بعد فرمایا:.یہ مضمون تو بہت لمبا ہے اور میری صحت پوری طرح ٹھیک نہیں ہے لیکن اس مضمون کو جلد بیان کرنا بھی حالات کا تقاضا تھا، اس لئے آج میں اس کی ابتداء کر دیتا ہوں اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا اور جیسا بھی اللہ تعالیٰ نے سمجھایا اس کی تفصیل اگلے خطبہ یا خطبوں میں بیان کر دوں گا.ان آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے بنیادی طور پر جو بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی اور آپ کے بعد اُمت مسلمہ پر بھی ایسے حالات بعض دفعہ آتے رہے ہیں اور آجاتے ہیں کہ جب دنیا کے سب حیلے جاتے رہتے ہیں.دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی ماڈی سامان نظر نہیں آتا اور دشمن ہر طرف سے جمع ہو کر حملہ آور ہو جاتا ہے چنانچہ وہ مسلمانوں کے ایک گروہ یا ایک ملک کو گھیر لیتا ہے اور ظاہری اسباب کے فقدان کے نتیجہ میں دو چیزیں نمایاں ہوتی ہیں.پہلی چیز منافق کا نفاق اور دوسری چیز ایک مومن کا حسن اور حسن ایمان.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان حالات میں بھی ہم نے تمہارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ایک نمونہ بنادیا ہے.جب عرب قبائل روساء مکہ کے ساتھ شامل ہو کر اسلام کو مٹانے اور ( بزعم خود ) مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے مدینہ کے گرد جمع ہو گئے تھے.احزاب سے پہلے جو جنگ ہوئی تھی ، اس میں کم و بیش پندرہ سو مسلمان شامل ہوئے تھے.دوسال کے بعد جب کفار مکہ نے مدینہ کو گھیر لیا.اُس وقت منافقین کو شامل کر کے قریباً تین ہزار مسلمان تھے.اُحد کی جنگ کے موقعہ پر تین سو سے کچھ زیادہ ہی منافقین واپس آگئے تھے.سارے منافق تو شامل نہیں ہوئے تھے.اس واسطے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ تین ہزار مسلمانوں میں جو احزاب کے موقع پر اسلام کی حفاظت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے دفاع کے لئے باہر میدان میں جمع ہوئے تھے اُن میں پانچ چھ سو منافقین ہوں گے.اس لئے اڑھائی ہزار کے قریب مخلص مومن سمجھنے چاہئیں جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے تھے اور لشکر کفار دس ہزار کی تعداد میں تھا جو قریباً تمام عرب کے بڑے بڑے قبائل کی نمائندگی کر رہا تھا اور تمام روساء مکہ
خطبات ناصر جلد سوم ۵۳۱ خطبہ جمعہ ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء کی قیادت میں مسلمانوں کو کریش (CRASH) کرنے کے لئے اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی نیت سے وہاں جمع ہوا تھا.مسلمانوں کے لئے علاوہ اس ابتلاء کے بعض اور ابتلاء بھی تھے مثلاً راشن یعنی غذا کی کمی تھی.سردی غیر معمولی طور پر شدید تھی.اُن کا لباس اس سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے نا کافی تھا.غرض اُس وقت حالات ایسے تھے کہ دنیا کی نگاہ یہی دیکھتی تھی کہ آج اسلام ختم اور مسلمان تباہ ہو جائیں گے.آج (نعوذ باللہ ) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نقصان پہنچا کر یہ سارا سلسلہ ختم کر دیا جائے گا.لوگ باتیں بھی کرتے تھے.فتنہ بھی پیدا کرتے تھے.بددلی پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے.جو ان کے بس میں تھا وہ کرتے تھے لیکن وہ مسلمان جس نے اپنے رب کی قدرتوں کے زندہ نظارے دیکھے تھے اور علی وجہ البصیرت اس کی صفات پر ایمان لاتا تھا اور اس کی صفات کی معرفت اور ان کا عرفان رکھتا تھا.وہ ان باتوں میں نہیں آتا تھا.اُسے معلوم تھا کہ ایسے حالات میں بھی قدرتوں والا خدا جس کے اندر کوئی کمزوری اور نقص نہیں ہے اور جسے اس کے وعدوں کو پورا کرنے سے عاجز نہیں بنایا جاسکتا، اُس نے جو وعدے کر رکھے ہیں وہ ضرور پورے ہوں گے اور اس نے وعدہ یہ کیا ہے کہ جب احزاب جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور دل ایسا معلوم ہوگا کہ چھلانگ لگا کر شاید منہ کے راستے جسم سے باہر نکلنے لگا ہے.اُس وقت اور ان حالات میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ اور بشارت کو پورا کرے گا اور مومن کا میاب ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے ( مگر شرط یہ ہے کہ آدمی حقیقی مومن ہو ) کہ پھر کوئی غیر طاقت اُس کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتی.جنگ احزاب کے ذکر کے قریباً وسط میں قرآن کریم نے اس آیہ کریمہ کو رکھا ہے.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : ۲۲) دراصل ظاهری سامانوں کی کمی اور دنیوی لحاظ سے کمزوری کی انتہا کا نقشہ جنگ احزاب نے ہمارے سامنے کھینچ دیا ہے اور ایک مومن کے ایمان کے حسن کا نظارہ اس موقعہ پر بھی ہمارے سامنے آتا ہے.اس کی تفصیل میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعد میں جاؤں گا.
خطبات ناصر جلد سوم ۵۳۲ خطبہ جمعہ ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء ہمیں یہاں بنیادی طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ جب اور جس وقت اس قسم کے حالات پیدا ہوں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے.جب اور جس وقت اس قسم کے حالات پیدا ہوں تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی غیر پر بھروسہ نہ کرنا اُس وقت دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے.اُس وقت سامنے دیکھنے کی ضرورت ہے.یہ صراط مستقیم ہے جو خدا تعالیٰ کے قرب کی طرف لے جانے والا ہے اُس وقت یہ خیال نہیں کرنا کہ ہمارے پاس بندوقیں نہیں یا ہمارے پاس تو پہیں نہیں یا ہمارے پاس بحری بیڑہ نہیں ہے یا ہمارے پاس ہوائی جہاز نہیں ( اور ”نہیں“ سے مراد یہ نہیں کہ بالکل نہیں ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں کم ہیں ) اُس وقت یہ یاد رکھو کہ اگر ساری دنیا کے ہوائی جہازوں کو جمع کر دیا جائے اور دنیا کے بحری بیڑے سمندر میں اکٹھے ہو جا ئیں اور ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم نشانہ بنانے کے لئے تیار ہو جائیں اور ساری دنیا کے دوسرے ہتھیاروں کو بھی ایک محاذ پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنالیا جائے تب بھی وہ سارے کے سارے خدائے قادر و توانا کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.فتح تعداد کی وجہ سے یا سامانوں کے نتیجہ میں نہیں ہوتی وہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے.دوسری جنگ عظیم کے شروع میں ہٹلر اور اس کے ساتھیوں کے پاس بے حد سامان تھا.اتحادی اس سے لڑنے کے لئے تیار نہیں تھے لیکن خدا تعالیٰ پر تو انہوں نے بھروسہ نہیں کیا.کوئی اور خوبی ہوگی جو ہمیں نظر نہیں آئی اللہ تعالیٰ کو نظر آئی.ہٹلر سے شاید انسانیت کو اس سے زیادہ دکھ پہنچتا جو اس کے مخالفین کی فوجوں سے پہنچا ہے اس واسطے جو تھوڑا دکھ پہنچانے والا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے کا میاب کر دیا اور جو لوگ زیادہ دُکھ پہچانے والے بن سکتے تھے ، اُن کو نا کام کر دیا.غرض یہ باتیں خدا کے علم میں ہیں.ہم تو صرف اندازہ لگا سکتے ہیں.ہم غیب کا علم نہیں رکھتے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے.ہم کچھ اندازے لگا لیتے ہیں.اصل علم تو خدا تعالیٰ کو ہے.یہاں اُمت مسلمہ کا ذکر ہے اور اصل سوال یہاں اللہ کی ذات اور اُسے یاد رکھنا ہے اُس کی صفات پر ایمان لانا اور اس بات پر ایمان لانا کہ اُسے دھوکہ نہ دیا جائے کیونکہ وہ علیم دھوکہ میں نہیں آسکتا.یہاں یہی کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مدد کی کیونکہ وہ بصیر ہے وہ جانتا ہے کہ تمہارے
خطبہ جمعہ ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء خطبات ناصر جلد سوم ۵۳۳ عمل کیسے ہیں.اگر تمہارے عمل ٹھیک ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی شریعت یعنی شریعت اسلامیہ کے مطابق ہوئے تو اس کے وعدے پورے ہوں گے.پھر دنیا کی کوئی طاقت ان وعدوں کے پورا ہونے میں روک نہیں بن سکتی لیکن اگر انسان خود مرنا چاہے اور اس وقت کے منافقوں کی طرح خدا تعالیٰ کو چھوڑنا چاہے تو پھر خدا تعالیٰ پرشکوہ بے جا ہے قصور اپنا ہے.اُس پر کیا الزام دھرا جا سکتا ہے.پس آج ہمارے ملک کے حالات جنگ احزاب کے حالات سے ملتے جلتے ہیں.گوان میں زیادہ شدت تھی اِن میں ابھی اتنی شدت نہیں پیدا ہوئی لیکن یہ حالات اُن سے بہت ملتے جلتے ہیں چنانچہ پاکستان کے ایک حصے کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے اور دوسرے حصے کو بھی قریباً قریباً ایک حصے میں عملاً جنگ شروع ہو گئی ہے اور دوسرے کے متعلق آج ہی کی خبر ہے کہ بھارت نے کہا ہے کہ پاکستان اپنی مظلومیت سے باز آجائے ورنہ ہم اپنے ظلم میں اور بھی زیادتی کریں گے.اب جو مظلوم ہے وہ اپنی مظلومیت سے کیسے باز آ جائے؟ اس کو تو تم باز رکھ سکتے ہو.تم اس پر ظلم کرنا چھوڑ دو تو وہ مظلوم نہیں رہے گا.پاکستان تو اپنا دفاع کر رہا ہے.پاکستان نے تو حملہ نہیں کیا.پاکستان نے تمہارے ملک میں فساد پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی.تم نے پاکستان میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تم نے فسادیوں کا ساتھ دے کر ایک وقت تک دنیا کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کی کوشش کی کہ باغی ہیں اور حق پر ہیں اور پاکستان نے ان بعض پاکستانیوں کے حقوق نہیں دیئے اس لئے وہ اپنے حقوق کے حصول کی خاطر لڑ رہے ہیں.پھر آہستہ آہستہ فسادی کی عقل میں فتور آ جاتا ہے.یہ جو غیر ملکوں کے اخبار اور بی بی سی اور دوسرے براڈ کاسٹنگ کرنے والے ذرائع ہیں وہ ان کی باتوں میں آگئے اور انہوں نے شور مچا دیا کہ پاکستانی حکومت اپنے شہریوں پر ظلم کر رہی ہے.کہاں ظلم کر رہی ہے حکومت ؟ وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں.اُن پر ہم ظلم کیسے کر سکتے ہیں مگر تم نے جو فتنہ پیدا کیا ہے اور فساد پیدا کیا ہے اور تم نے ایک مختصر سے گروہ میں بغاوت کی ایک رو پیدا کی ہے اس کا ہم مقابلہ کریں گے کیونکہ دنیا کی کوئی عقل یا دنیا کا کوئی اخلاق یا دنیا کا کوئی قانون یاد نیا کی کوئی شریعت یہ نہیں کہتی کہ باغی جو مرضی کرتا
خطبات ناصر جلد سوم ۵۳۴ خطبہ جمعہ ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء رہے اس کے خلاف کچھ نہیں کرنا.جو TREASON (ٹریزن) کرنے والا ہے اس کو TREASON (ٹریزن) کی سزاملنی چاہیے.جو بھلا مانس ہے اسے حقوق دینے چاہئیں مگر باغی کا صرف یہ حق ہے کہ اس کو پکڑ کر فساد سے روک دیا جائے.بہر حال دنیا میں انہوں نے بڑا شور مچایا اور بہت پرو پیگنڈا کیا.باہر کے اخبار ہمارے مخالف ہو گئے.غیر ملکی حکومتوں کو بھی یہی سمجھ آرہا تھا کہ شاید پاکستان ہی اس مسئلے کا ذمہ دار ہے.مگر ابھی پچھلے چند دنوں سے دنیا کی آنکھیں کھلنی شروع ہوئی ہیں.ہماری حکومت نے بڑا اچھا کیا ہے غیر ملکی صحافیوں کو محاذ جنگ پر لے جا رہے ہیں.کہتے ہیں یہ دیکھ لو وردیوں کے اندر پاکستان پر حملہ آور بھارتی جو لاشیں چھوڑ گئے ہیں وہ کتی فوج کی ہیں یا فلاں بھارتی برگیڈ یا فلاں فلاں بھارتی ڈویژن کی ہیں.یہ ان کے ہتھیار ہیں ان کو بھی دیکھ لو.اب انہوں نے رپورٹیں کرنی شروع کی ہیں چنانچہ بی بی سی جو اس سے پہلے ایک لفظ بھی معقولیت کا نہیں کہا کرتا تھا ( میں تو اس کی خبریں نہیں سنتا کسی نے مجھے بتایا ہے کہ ) کل اس نے کہا ہے کہ یہ جو کتی فوج ہے ان کے پاس ہوائی جہاز کیسے آگئے ؟ ان کے پاس ٹینک کیسے آگئے ؟ اب انہوں نے (یعنی بی بی سی والوں نے ) کہا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں (ابھی وہ ہزاروں تک آئے ہیں ڈویژن پر آجائیں گے دو چار دن میں ) بھارتی فوج پاکستان کے اندر گھس کر حملہ کر رہی ہے.اسی طرح ان کے اخباروں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ظالم اور حملہ آور بھارت ہے.لیکن یہ آپ یاد رکھیں کہ اگر سارا بھارت ( خدا نہ کرے) دومنٹ کے لئے بھی پاکستان کی سرحدوں کے اندر داخل ہو جائے اور بھارت کے اندر کوئی شخص بھی نہ رہے ( میں نے یہ فرض کیا ہے عملاً تو ہو نہیں سکتا ) پھر بھی اندرا گاندھی نے یہی کہنا ہے کہ ہمارا کوئی آدمی پاکستان کی حدود کے اندر نہیں گیا.اندرا گاندھی اور اس جیسے دماغوں کے لئے بھی ہم دعا کرتے ہیں کیونکہ اسلام نے ہمیں کسی سے دشمنی نہیں سکھائی.ہم دعا کرتے ہیں کہ جو غلط راہیں وہ اختیار کر رہے ہیں جو غلط بول وہ بول رہے ہیں جو غلط خیالات اُن کے دماغوں میں ہیں.جن غلط اعمال کا مظاہرہ وہ ہماری سرحدوں پر کر رہے ہیں ، ان غلطیوں سے بچنے کی اور اپنی اصلاح کرنے کی اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق عطا فرمائے
خطبات ناصر جلد سوم ۵۳۵ خطبہ جمعہ ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ اس کے غضب کے نیچے آئے اور جہنم میں دھکیل دیا جائے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ خدا کا عبد مومن اور عبد محسن بنے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو اس دنیا میں بھی پائے اور اُس دنیا میں بھی پائے.اس لئے ہماری یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے اور اللہ تعالیٰ ان کے اندر نیک تبدیلیاں پیدا کر کے انہیں اپنے پیار کا مستحق بنائے تا کہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ کسی دوسرے ہمسایہ ملک پر بھی ظلم کرنے والے نہ بنیں.ان کے اپنے ملک میں بھی بعض لوگ اچھوت نہ رہیں بلکہ سارے ”انسان“ بن جائیں جن کی عزت اور احترام ہر دوسرے انسان پر فرض کیا گیا ہے.ہماری یہ دعائیں ہیں.خدا کرے کہ ہماری یہ دعائیں قبول ہوں اور ہماری یہ ذمہ داریاں ہیں جن کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے کہ جس وقت دنیا کا کوئی وسیلہ ہمیں نظر نہ آئے اس وقت بھی ہم مایوس نہ ہوں کیونکہ ہمارا وسیلہ اور سہارا ہمارا معاون اور مددگار اور ہمارا دوست اور ولی اللہ تعالیٰ ہے.اللہ تعالیٰ کی جو طاقت ہے دنیا کے سارے مادی سامان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.یہ سارے مادی سامان تو اس کے غلام ہیں.پس ہماری جو ذمہ داریاں ہیں وہ ہمیں نباہنی چاہئیں.ہمارے دلوں میں شیطان جو مایوسی پیدا کرنا چاہتا ہے ہمیں اس سے بچنا چاہیے.اگر سرحدوں پر موت ہمارے سامنے کھڑی ہو تو دلیری کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہم اس کی طرف آگے بڑھ جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قتل اور موت سے تمہارا فرار تمہیں نفع نہیں دے سکتا.اس لئے جو چیز ہمیں نفع ہی نہیں دے سکتی وہ ہم کیوں اختیار کریں اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ تم شہادت کے لئے تیار ہو جاؤ گے تو تمہیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں مارسکتی ،تم کامیاب ہوئے تب بھی زندہ اور شہید ہوئے تب بھی زندہ.پاگل ہے وہ شخص جو شہید کومردہ سمجھتا ہے اور وہ اس لئے پاگل ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی یہیں اس دنیا میں ختم ہوگئی.نہیں ! یہ زندگی اس دنیا میں ختم نہیں ہوئی.کیا وہ شخص مظلوم ہے؟ کیا وہ شخص گھاٹے اور نقصان میں ہے جسے ایک نہایت بوسیدہ اور متعفن اور بد بودار جگہ سے اُٹھا کر ایک شاندار محل کے اندر بھیج دیا جائے.جن میں نہریں بہتیں
خطبات ناصر جلد سوم ۵۳۶ خطبہ جمعہ ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء ہوں اگر نہیں تو وہ شہید کیسے مظلوم بن گیا یا گھاٹے میں پڑنے والا بن گیا جو اس دار ابتلاء میں سے نکالا جاتا اور خدا تعالیٰ کے پیار کی جنتوں کے اندر داخل ہو جاتا ہے.نیکیاں ، بدیوں کو دھو ڈالتی ہیں.اللہ تعالیٰ کے پیار پر انسان کوئی پابندی نہیں لگا سکتا.ہم تو ظاہر پر پابندی لگاتے ہیں.باطن پر نہ ہم پابندی لگا سکتے ہیں اور نہ یہ ہمارا حق ہے یعنی ہمیں اس کی طاقت ہے نہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حق دیا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے بعض کنچنیاں بھی بعض نیکیوں کی وجہ سے جنت میں چلی جائیں گی.اسی طرح آپ نے دوسرے گناہ گاروں کے نام لئے ہیں کیونکہ جنت کے دروازے اللہ تعالیٰ کی رحمت کھولتی ہے انسان کا عمل نہیں کھولتا یہ بات نہیں بھولنی چاہیے.اس لئے اگر چہ بظاہر دنیوی لحاظ سے، مادی اصول کے مطابق حالات پریشان کن ہیں.جب ہم مادی چیزوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے لیکن جب ہم ان مادی اشیاء سے اپنی نظریں اُٹھا کر آسمان کی طرف لے جاتے ہیں تو آسمان کے اوپر ہمیں خدا تعالیٰ کے پیار کا جلوہ نظر آتا ہے.جب ہم دنیا کی ڈرانے والی آوازوں سے اپنے کانوں کو بند کر لیتے ہیں تو ہمارے کانوں میں خدا تعالیٰ کی پیاری آواز آتی ہے.گھبراتے کیوں ہو؟ انی قریب میں تو تمہارے پاس کھڑا ہوں.پھر تمہیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق بخشے اور خدا کرے کہ ہمارے لئے اسی کی رحمت اور فضل نہ کہ ہمارا کوئی عمل اس کی جنتوں کے، اس کے پیار کے اور اس کی رضا کے دروازوں کو کھولنے والا ہو.(روز نامه الفضل ربوه ۴ / دسمبر ۱۹۷۱ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد سوم ۵۳۷ خطبہ جمعہ ۳/ دسمبر ۱۹۷۱ء ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لئے اپنا سب کچھ وقف کر دے خطبه جمعه فرموده ۱۳ دسمبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَ تَكُمْ جُنُودُ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيعا وَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًان (الاحزاب:١٠) اس کے بعد فرمایا:.پہلے تو میں ضمناً یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کے باہر بھی اور پاکستان کے اندر ایک حصہ میں قرآن کریم اور اس کے انگریزی ترجمے کی بڑی ضرورت محسوس ہو رہی تھی اس لئے ہم نے دو سائزوں میں قرآن کریم انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کرنے کا ارادہ کیا.ایک تو بالکل چھوٹا سائز ہے جو نو جوانوں اور طالب علموں کے لئے ہے، انگریزی ترجمے والا قرآن کریم زیادہ تر مغربی افریقہ اور مشرقی افریقہ اور یورپ وغیرہ میں بھیجا جائے گا.یہاں بھی یو نیورسٹی کے طلبہ وغیرہ کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اس کو پسند کرتا ہے چنانچہ ان کے لئے متن اور انگریزی ترجمہ چھوٹی حمائل کی شکل میں تیار کیا گیا تھا.وہ اب چھپ چکا ہے.اَلْحَمْدُ لِلهِ اور اس کی قیمت بھی یہاں صرف چار روپے رکھی گئی ہے پس چار روپے میں قرآن کریم کا متن اور ترجمہ مل جائے گا اور
خطبات ناصر جلد سوم ۵۳۸ خطبہ جمعہ ۳/ دسمبر ۱۹۷۱ء باہر کے ممالک میں اس کی قیمت صرف پانچ شلنگ رکھی گئی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں قریباً اڑھائی یا پونے تین روپے قیمت ہو گی.جب ہم نے نمونے نکالے تو باہر کے ملکوں سے بھی مشورہ کیا تھا چنانچہ ایک ملک نے کہا کہ دس ہزار کے قریب وہاں کھپت ہو جائے گی.دوسرا حمائل کے سائز کا ہے اور یہ پہلے سائز سے دُگنا ہے.ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ کل سے چھپنا شروع ہو جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ سب خیر رکھے تو پندرہ بیس دن کے اندر اندر وہ بھی انشاء اللہ چھپ جائے گا.ہم قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ کے یہ دونوں سائز نہیں ہیں ہزار کی تعداد میں چھپوا ر ہے ہیں.ان کے علاوہ قرآن کریم کا متن بچوں کے لئے بھی اور بڑوں کے لئے بھی ضروری ہے.یہ بھی اس وقت قریباً نایاب تھا اور انشاء اللہ عنقریب چھپ جائے گا اور جماعت اس سے فائدہ اُٹھا سکے گی.اس وقت کے ہنگامی حالات میں بھی ہم قرآن کریم کی برکت سے امید رکھتے ہیں.یعنی اس خواہش کے نتیجہ میں کہ قرآن کریم کثرت سے شائع ہو اور اُسے دنیا میں پھیلا یا جائے اور لوگ اس کی طرف توجہ کریں اور اس کو غور سے پڑھیں.اس کا ترجمہ جانیں قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے کوئی شخص کسی غیر کا محتاج نہ رہے اور یہ بڑا ضروری امر ہے کیونکہ اگر ہر شخص ترجمہ سمجھنے کے لئے کسی دوسرے کا محتاج ہو جائے تو اس سے بڑا فتنہ پیدا ہو جاتا ہے.پس ہر زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہونا چاہیے.اُردو میں تو تفسیر صغیر کی شکل میں بڑا اچھا ترجمہ موجود ہے.دوست اس کی خرید کی طرف اتنی توجہ نہیں دے رہے جتنی دینی چاہیے.لیکن یہ اُردو تر جمہ اتنا عجیب ہے کہ ہم نے جماعت سے باہر اپنے دوستوں کو جب یہ دیا تو کئی ایک نے کہا ہے کہ ہم تو اس کو رات کو بھی اپنے پاس رکھتے ہیں.غرض یہ ترجمہ بڑا مفید ہے.جماعت کو بھی اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے بلکہ زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہیے پس اس نیت کے ساتھ قرآن کریم کی برکات کو عام کرنے کی کوشش کی جائے.ہم اُمید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان ہنگامی حالات میں بھی اپنی برکتوں سے ہمیں نوازے گا.اس وقت حالات نے انتہائی شدت تو اختیار نہیں کی لیکن یہ ایسے بھی نہیں کہ ہم لا پرواہ ہو
خطبات ناصر جلد سوم ۵۳۹ خطبہ جمعہ ۳/ دسمبر ۱۹۷۱ء جائیں.اس لئے ہر پاکستانی خصوصاً ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ اپنی دعاؤں اور اپنی محنت کے ساتھ اور اپنی جدو جہد کے ذریعہ اور اپنے کام میں زیادہ مہارت کا مظاہرہ کر کے استحکام پاکستان کے لئے کوشاں رہے اور وہ ملک کی سلامتی اور ملک کے استحکام اور ملک کی عزت اور وقار اور احترام کی خاطر اپنی زندگی کی ہر گھڑی خرچ کر رہا ہو.اگر حکومت کو کاروں اور موٹر گاڑیوں کی ضرورت پڑے تو خوشی سے دے دینی چاہئیں.ابھی کار میں تو شاید لینی نہیں شروع کیں.سنا ہے خاص قسم کی گاڑیاں لے رہے ہیں پس قوم اور ملک کو جن کی ضرورت ہے.وہ گاڑیاں وہ لے جائیں گے اور ہمیں بشاشت کے ساتھ دے دینی چاہئیں.ہمیں جو گاڑیاں ملیں یا جو کپڑے ملے یا جو مال و دولت ملا، یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے جس خدا نے پہلے دیا وہ آج بھی دے گا اور کل بھی دے گا.پھر ہمیں خوف کس بات کا ہے اور گھبراہٹ کس بات کی ہے.چونکہ یہ ہنگامی حالات ہیں.ہر فرد واحد کو قوم کے استحکام اور قوم کی عزت اور وقار اور احترام کی خاطر اپنا سب کچھ اپنی استعدادوں اور دعاؤں سمیت قوم کو پیش کر دینا چاہیے اور حکومت سے پورا تعاون کرنا چاہیے.اس لئے مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جلسہ سالانہ ملتوی کر دیا جائے پھر جیسا کہ ہماری دعا ہے جب یہ ہنگامی حالات ختم ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ ہمارے لئے غیر معمولی خوشیوں کے سامان پیدا کر دے تو پھر ہم خوشی کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ چھلانگیں لگاتے ہوئے اپنے جلسہ میں شامل ہو جائیں گے.ہمیں بنیادی طور پر عمل صالح کا حکم دیا گیا ہے اور عمل صالح اس نیک کام کو کہتے ہیں جو موقع اور محل کے مطابق ہو.حالات بدلتے ہیں بعض دفعہ صبح سے شام تک حالات بدل جاتے ہیں.دیکھو دن کے حالات میں تہجد کو مستحب قرار دے کر اس کی طرف توجہ نہیں دلائی گئی یہ رات کے حالات میں ہے پھر دن کے حالات میں کہا کہ کام کرو.رات کے حالات میں کہا کہ اس کو ہم نے تمہارے لئے آرام اور سکون اپنی طاقت کے بحال کرنے کا ذریعہ بنایا ہے.جہاں تک ہمارے
خطبات ناصر جلد سوم ۵۴۰ خطبہ جمعہ ۳/ دسمبر ۱۹۷۱ء جسم اور ہمارے جسم کی ضرورتوں کا سوال ہے اگر آپ قرآن کریم پر گہرا غور کریں تو آپ کو ہزاروں مثالیں ملیں گی پس بدلے ہوئے حالات میں دن رات کے حالات بدل جاتے ہیں اور دن اور رات کے بدلے ہوئے حالات میں اسلام نے بدلے ہوئے حکم دیئے ہیں اور اس طرح بڑی مہربانی کی اور بڑا پیار کیا ہے.اسلام کی ساری تعلیم پڑھیں تو انسان دنگ رہ جا تا ہے.فکر پیدا ہوتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا کس زبان سے شکر ادا کریں گے جس نے ہم پر بہت سارے اکٹھے فضل نازل کئے ہیں اور ہمیں اپنے احسانوں کے نیچے دبا کر ایک بڑی پیاری زندگی دے دی ہے.پس ان بدلے ہوئے حالات میں جلسہ سالانہ ملتوی کر دیا گیا ہے اور انشاء اللہ جب یہ حالات بدل جائیں گے تو جیسا کہ میں نے کہا ہے ہنگامی حالات کے بعد غیر معمولی خوشیوں اور کامیابیوں کے حالات پیدا ہوں گے پھر ہم اپنے ان حالات کے مطابق کام کریں گے.لیکن اس وقت ہر شخص کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کو اپنا سب کچھ وقف کر دینا چاہیے اور میں ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے اور جماعت کا امام ہونے کی حیثیت سے جب یہ کہتا ہوں کہ اپنا سب کچھ وقف کر دو تو میرا مطلب ہے کہ تمہاری دعائیں بھی اسی کے لئے وقف ہوں اور تمہارا حسنِ سلوک بھی اسی کے لئے وقف ہو.پس ایسا ماحول پیدا کر دو کہ دشمن جو ہمیں مٹانا چاہتا ہے وہ مایوس ہو جائے اور فرشتے جو ہماری طرف بڑھنے کے لئے تیار ہیں وہ کہیں کہ یہی وہ قوم ہے جس کی ہمیں مدد کرنی چاہیے اور ان کی نصرت کے لئے آنا چاہیے.پچھلے خطبہ کے تسلسل میں میں یہ خطبہ دے رہا ہوں.میں نے پچھلے خطبہ میں مضمون کا ایک خاکہ پیش کیا تھا اور میں نے بتایا تھا کہ ان آیات میں جن میں سے ایک آج میں نے پڑھی ہے.(باقی میں نے اکٹھی کر کے اپنے انتخاب کے ساتھ پچھلے خطبہ کے موقع پر پڑھی تھیں) یہ بتایا گیا ہے اور یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ قرآن کریم کوئی قصہ اور کہانی نہیں ہے بلکہ اس کی ہر چیز پر از حکمت اور سبق آموز ہے اور اس میں پیشگوئیاں ہیں مثلاً جنگ احزاب کا جب ذکر کیا تو اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت مسلمہ پر ایسے حالات بھی آئیں گے
خطبات ناصر جلد سوم ۵۴۱ خطبہ جمعہ ۳/ دسمبر ۱۹۷۱ء اور اُس وقت اگر اسوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے گی تو اسی قسم کی رحمتوں اور فضلوں کے سامان پیدا کئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے اس ایک آیت میں (میں نے شروع کا ایک حصہ لیا ہے اُن آیات سے جو میں نے پہلے پڑھی تھیں) ایک مضمون تو وہ بیان کیا ہے جو اس موقع کا تھا اور دوسرے ایک بڑا عجیب فلسفہ بیان کیا گیا ہے.موقع کا مضمون تو یہ ہے کہ سارے کفار ا کٹھے ہو گئے اور اکثریت تھوڑوں کو مٹانے کے لئے جمع ہوگئی اور وہ بڑے ساز و سامان کے ساتھ آئے.یہودیوں کے دو قبیلے اور چار پانچ بڑے بڑے طاقتور قبائل کفار مکہ کی قیادت میں وہاں جمع ہوئے اور مسلمانوں کو گھیر لیا اور مجبور کیا.یہودیوں میں سے ایک قبیلے نے جو پہلے غداری کر چکا تھا اور اپنے عہد کو توڑ چکا تھا اس قبیلے کو جس نے ابھی تک عہد نہیں تو ڑا تھا ، مجبور کیا کہ وہ اس نازک وقت میں اپنے عہد کو تو ڑ کر اسلام کے ساتھ غداری کرے اور اس طرح وہ طرف اور جانب جو محفوظ سمجھی گئی تھی تنگی ہو گئی اور اس سے ایک اور ابتلاء پیدا ہو گیا.غرض ابتلاء پر ابتلاء آرہا تھا یہاں تک کہ ایسا وقت بھی آیا کہ صحابہؓ کہتے ہیں کہ انہیں تین دن تک کھانے کو کچھ نہیں ملا.خود حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ پر پتھر باندھ لیا.چنانچہ ظلم جب اپنی انتہاء کو پہنچا اس وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ایک بڑا ہی حسین جلوہ نظر آیا، ایک نہیں بلکہ دو بڑے حسین جلوے دیکھنے میں آئے.( جلوے تو بہت تھے مگر یہاں دو کا اصولی طور پر ذکر کیا گیا ہے).ایک یہ کہ سخت سردی کی رات میں خدا تعالیٰ نے اس رات سے بھی زیادہ سخت ٹھنڈی اور تیز ہوا چلا دی.اس ہوا کی سردی کی شدت کفار کے لئے ناقابل برداشت ہوگئی اور اس کی تیزی نے انہیں جھنجوڑ کر رکھ دیا یہاں تک کہ ان کے خیموں کی کلیاں اکھڑ گئیں.طنا میں ٹوٹ گئیں.خیمے نیچے آ پڑے.آگئیں بجھ گئیں ، ہانڈیاں لڑھک گئیں، ایک ہنگامہ بپا ہو گیا.ایک قیامت تھی جس نے کفار کے دل ہلا دئے اور اپنی تو ہم پرستی کے نتیجہ میں انہوں نے کہا مارے گئے! مارے
خطبات ناصر جلد سوم ۵۴۲ خطبہ جمعہ ۱۳ دسمبر ۱۹۷۱ء گئے !! چنانچہ ہر قبیلے کے سردار نے اپنے اپنے قبیلے کے آدمیوں کو بلا یا اور کہا دوڑ و بھاگنے کی کرو.بچنے کی اور کوئی صورت نہیں ہے.دوسرے یہ کہ ان کے دلوں میں رعب ڈالا گیا.اُن کے دلوں میں آپس میں لڑائی کے سامان پیدا کر دئے گئے.میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کیونکہ میں اصولی چیز کی طرف اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں.بنیادی طور پر اس واقعہ میں دو اصول بیان ہوئے ہیں اور اُمت مسلمہ کو وہ بھولنے نہیں چاہئیں.ورنہ ہمارے لئے خیر و برکت کے سامان پیدا نہیں ہو سکتے.ایک یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ انسانوں میں سے اکثر اپنی کم علمی اور نادانی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ مثلاً ہوا کو خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے تو مسخر کیا ہے لیکن ہوا اس کے حکم سے باہر ہے.مثلاً یہ ہوا ہی ہے جس کے استعمال سے ہم ہوائی جہاز چلا رہے ہیں.پس خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میں نے ہوا کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے کیونکہ اگر وہ انسان کے لئے مسخر نہ کی جاتی اور انسان کو یہ عقل نہ دی جاتی کہ وہ اپنے فائدہ کے لئے اسے استعمال کرے تو آج ہوائی جہاز نہ بنتے.اب بعض انسان یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ میں یہ تو طاقت تھی کہ انسان کے لئے اس نے ہوا کو مسخر کر دیا لیکن اس میں یہ طاقت نہیں کہ خود اس کا حکم ہوا پر جاری ہو.مگر ایسا سمجھنا بڑی حماقت ہے وہ ہوا جس سے کفار سانس لے رہے تھے اور زندگی اور طاقت حاصل کر رہے تھے اور اس وجہ سے طبیعتوں میں قوت اور بشاشت کا احساس تھا اور سمجھتے تھے کہ وہ اسلام کو مٹا دیں گے.اسی ہوا کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ جس طرح میں تجھ سے زندگی کے سامان پیدا کرتا ہوں اسی طرح میں تجھ سے آج ہلاکت کے سامان پیدا کروں گا اور پھر خدائے قادر و توانا نے اس ہوا کے ذریعہ کفار کے کیمپ میں ایسی گڑ بڑ مچادی جس کی وجہ سے ان کا وہاں ٹھہر نا مشکل ہو گیا.پس یہاں ایک تو یہ اصول بتایا گیا ہے کہ تمہارے لئے ان چیزوں کو مسخر تو کیا گیا ہے لیکن تمہاری طاقت سے بے شمار گنا زیادہ وسعت کے ساتھ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے
خطبات ناصر جلد سوم ۵۴۳ خطبہ جمعہ ۱۳ دسمبر ۱۹۷۱ء ہے.جلوے ظاہر ہوتے ہیں.مادی اشیاء پر انسان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی حکومت زیادہ چلتی انسان کی حکومت تو کبھی چلتی ہے اور کبھی نہیں چلتی.جس ہوا سے سانس لے کر ابوسفیان اپنی زندگی کا سامان پیدا کر رہا تھا اس ہوا سے وہ اس رات کو اپنی خوش حالی کا سامان نہیں پیدا کر سکا.غرض مادی اشیاء پر اصل حکم اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے.دوسرے اس میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ مادی سامانوں کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کام لیتا ہے مگر تم ان کا ادراک نہیں رکھتے اور جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا میں یہی بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ایسی بے شمار مخلوق ہے جنہیں ہم اس کی قدرت کی لہریں بھی کہہ سکتے ہیں اور جب وہ ایک جماعت کے فائدے کے لئے حرکت میں آتی ہیں تو انسان کی وہ متحد قوتیں جو اللہ کے غضب کے نیچے ہیں ان کی ہلاکت کے سامان پیدا کر دیتی ہیں.پس یہاں بتا یا کہ مادی سامان بھی خدا تعالیٰ کے منشاء کے بغیر کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتے اور دوسرے اصولی طور پر یہ بتایا کہ محض مادی سامان نہیں بلکہ غیر مادی سامان بھی ایسے ہیں کہ تمہاری مادی حستیں ان کو محسوس نہیں کر سکتیں.ان کا علم نہیں پاسکتیں اللہ تعالیٰ ان سے بھی کام لیتا ہے چنانچہ مادی اور غیر مادی سامانوں کے ساتھ اس ایک رات میں ان چند ہزار مظلوموں کی حفاظت کی گئی اور وہ ظالم دشمن جو اپنے زعم میں بڑا طاقتور تھا اور اس نیت کے ساتھ آیا تھا کہ ان مظلوم مسلمانوں کو مٹا دے گا.ان ظالموں کو جن کی تعداد کہیں زیادہ ، جن کے سامان کہیں زیادہ ، جن کی جسمانی طاقت فرد افرڈ ا کہیں زیادہ تھی کیونکہ وہ بڑے تیار ہوکر اور ڈنڈ پہلیتے ہوئے آئے تھے فرشتوں نے انہیں پکڑا اور ان کی کلائی مروڑ کر رکھ دی.خدا تعالیٰ نے ان کو مادی اور غیر مادی سامان سے ہلاک کر دیا اور مسلمان کے لئے مادی اور غیر مادی سامانوں سے خوش حالی اور کامیابی اور عزت اور استحکام کے سامان پیدا کر دیئے.غرض اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو شروع یہاں سے کیا ہے کہ دیکھو میں نے تمہارے اوپر بڑی نعمت ، بڑے فضل اور رحمت کو نازل کیا ہے.اس وقت جب کہ چاروں طرف سے کفار کے لشکروں نے تمہیں آگھیرا تھا اور ظاہری طور پر تمہارے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی.
خطبات ناصر جلد سوم ۵۴۴ خطبہ جمعہ ۱۳ دسمبر ۱۹۷۱ء تمہارے پیچھے وہ یہو د قبیلہ تھا جس نے تمہارے ساتھ عہد کیا ہوا تھا انہوں نے اپنے عہد کو تو ڑا اور تم چاروں طرف سے گھر گئے.ان حالات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) میں نے تمہاری مدد کی اور کی بھی مادی سامانوں کے ساتھ بھی اور غیر مادی سامانوں کے ساتھ بھی.مادی سامان بھی وہ جن پر تمہاری حکومت نہیں چلی.خدا تعالیٰ کا حکم آیا اور اس نے ہوا کا مزاج بدل دیا.سردی اور ہوا کے چلنے کی تیزی میں شدت پیدا کر دی اور پھر ایسے سامان تھے جن کا تم کو پتہ نہیں لگا.مثلاً دلوں میں رُعب ڈال دیا.صرف کفار کے دلوں میں ہی نہیں بلکہ ان کے گھوڑوں کے دلوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے تصرف کیا اور اونٹنیوں کے دلوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے تصرف کیا تھا اور یہ غیر مرئی طاقتیں تھیں.غیر مرئی لشکر تھے جو مسلمانوں کی مدد کے لئے آگئے تھے.ایک طرف وہ مومن ( منافق کا یہاں ذکر نہیں ہے ) کے دل کو مضبوط کر رہے تھے اور دوسری طرف کا فروں کے دل میں رعب ڈال رہے تھے اور بزدلی پیدا کر رہے تھے.ان کے گھوڑے بے قابو ہورہے تھے.اونٹنیاں بھاگنے کو تیار تھیں.وہ لاؤلشکر اور وہ سامان اور وہ دولت اور وہ گھوڑے اور وہ اونٹنیاں اور وہ ہتھیار جن کی وجہ سے وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو ہلاک کر دیں گے اور اسلام کو مٹا دیں گے.وہی چیزیں ان کے خلاف ہو گئی تھیں.وہ بڑے دل گردے کے ساتھ آئے تھے لیکن خود ان کے دلوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا چنا نچہ وہ جو اپنے آپ کو سردار سمجھ کر آیا تھا.بھاگ نکلنے میں سب سے آگے تھا.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب ایسے حالات پیدا ہوں تو اُمتِ مسلمہ کو خواہ وہ کسی زمانے یا قوم سے تعلق کیوں نہ رکھتی ہو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مادی سامان پر بھی حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی حکومت ہے اور وہ غیر مادی سامانوں کے ساتھ بھی اپنے پیاروں کی مدد کرتا ہے اور اپنے پیاروں کے دشمنوں کی ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے.اس لئے جہاں مادی طاقت میں فرق نظر آئے جیسا کہ مثلاً اب ہمیں نظر آرہا ہے.اگر بھارت اسی طرح اپنے فتنہ وفساد میں بڑھتا رہا تو جس طرح اس نے وہاں حملہ کر دیا ہے وہ یہاں بھی حملہ کر دے گا.کئی لوگ جو اندر سے ہمارے مخالف ہیں اور ظاہری طور پر وہ ہمارے دوست اور اپنی طرف سے ہماری خیر خواہی کی باتیں کر رہے ہیں کہہ دیتے ہیں کہ تمہارے دائیں ہاتھ پر حملہ ہوا ہے تمہارا بایاں ہاتھ کیوں ہلتا ہے اس احمق کو ہم کیا
خطبات ناصر جلد سوم ۵۴۵ خطبہ جمعہ ۳/ دسمبر ۱۹۷۱ء کہیں.جب کسی کے اوپر حملہ ہو تو دشمن یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے تو تمہاری دائیں کلائی پکڑ کر اس کو توڑ دینے کی کوشش کی ہے تم اپنے بائیں ہاتھ سے مکا کیوں ماررہے ہو.تمہارے بائیں ہاتھ کو تو میں نے کچھ نہیں کہا یا میں نے تمہاری لات کی ہڈی توڑنے کے لئے ضرب لگائی ہے تم اپنے دونوں ہاتھوں سے میرا گلا کیوں پکڑ رہے ہو یا میں نے تمہارے سر پر مارا ہے.تمہاری لاتوں نے اپنا زاویہ بدل کر اپنی حفاظت کا سامان کیوں کیا ہے.اس سے زیادہ احمقانہ باتیں آج ہمارا دشمن کر رہا ہے اور کر اس لئے رہا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ مادی سامان اس کے پاس زیادہ ہیں.جن میں تعداد بھی ہے اور شاید وہ یہ بھی سمجھ رہا ہے کہ غیر مادی سامان بھی ان کے ساتھ ہے یعنی ایسی طاقت جو ظاہر میں ان کے ساتھ نہیں لیکن اندر سے ان کے ساتھ ہے ان کی شہ پر وہ کہ رہے ہیں کہ بس آج موقع ہے پاکستان کو ختم کر دو.مسلمان کو خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو وہ خدا جس نے اپنی طاقتوں کے جلوے احزاب کی جنگ کی اُس آخری رات میں دکھائے تھے جس نے کافروں کو وہاں سے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے پر مجبور کیا تھا.اُس قادر و توانا کی طاقت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی.اگر تم اس کی رحمت اور فضل کو پا نہ سکے تو یہ تمہاری کمزوری ہو گی.تمہارے ایمان کی کمزوری ہو گی تم اس کے شکر گزار بندے نہیں بنے ہو گے.تم نے اس کی صفات کی معرفت نہیں حاصل کی ہو گی.تمہارا ایمان پختہ نہیں ہو گا.تمہیں یہ یقین نہیں ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے اُمت مسلمہ سے جو وعدے کئے ہیں وہ پورا کرے گا لیکن اگر تمہارے دل میں یہ پختہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرے گا اور وہ پورا کرنے پر قادر ہے اور جو بشارتیں اس نے دی ہیں، ان بشارتوں کے ہم بھی وارث ہیں اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت رکھتے ہو گے اگر تم اس پر تو گل رکھو گے اگر تم شرک نہیں کرو گے.اس کے علاوہ کسی اور کی طرف تمہاری نگاہ نہیں جائے گی.تو آج بھی وہ قادر و توا نا خدا اپنی قدرتوں کے وہی جلوے دکھائے گا جو اس نے احزاب کی اس فیصلہ کن رات میں دکھائے تھے جس نے مسلمانوں کے لئے خوشیوں کے سامان اور کافروں کے لئے ہلاکت کے سامان پیدا کر دئے تھے.
خطبات ناصر جلد سوم ۵۴۶ خطبہ جمعہ ۱۳ دسمبر ۱۹۷۱ء پس ہمیں دعائیں کرتے رہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے شیطانی وساوس سے محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو اور ہمارے یقینوں کو پختہ کرے اور اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اعمال بجالانے کی توفیق عطا کرتا رہے اور ان اعمال میں اگر کوئی بشری کمزوری رہ جائے تو اس کی مغفرت کی چادر اُسے ڈھانپ لے اور ہمیں حقیقی معنی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد بنادے اور اس روحانی ورثے کا وارث بنا دے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا.( اللهم آمین) (روز نامه الفضل ربوه ۱۲ دسمبر ۱۹۷۱ ء صفحه ۲ تا ۴)
خطبات ناصر جلد سوم ۵۴۷ خطبہ جمعہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۱ء ابتلاء، تشویش اور پریشانی کے اوقات میں بھی مومن یقین پر قائم رہتا ہے خطبہ جمعہ فرموده ۱۰ دسمبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیات پڑھیں :.اِذْ جَاءُوكُم مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ إِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّونَ بِاللهِ الظُّنُونَ - هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَارًا شَدِيدا.(الاحزاب : ۱۱، ۱۲) وَ لَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ وَكَانَ عَهْدُ اللهِ مَسْئُولًا - قُلْ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ إِنْ فَرَرْتُم مِنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ وَإِذَا لَا تُمَتَّعُونَ إِلَّا قَلِيلًا - قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِكُم مِّنَ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلَا يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَ لَا نَصِيرًا - (الاحزاب : ۱۲ تا ۱۸) اس کے بعد فرمایا:.ان آیات میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں.اس وقت میں مختصراً دو بنیادی باتوں کے متعلق کچھ کہوں گا.ایک یہ کہ اُس قسم کے ابتلاء اور تشویش اور پریشانی کے حالات میں جیسا کہ جنگ احزاب
خطبات ناصر جلد سوم ۵۴۸ خطبہ جمعہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کے موقع پر پیدا ہوئے تھے یا اُس سے ملتے جلتے حالات ، جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعد میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں، اُس وقت ایک کامل مومن اور ایک کمزور ایمان والے اور منافق کے درمیان فرق یہ ہوتا ہے جو ظاہر ہو جاتا ہے کہ تَظُنُّونَ بِاللهِ الظُّنونا اور اللہ تعالیٰ پر اُن کا گمان دو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہےاور اللہ تعالیٰ پر ان کا یقین دو مختلف صورتیں اختیار کرتا ہے.منافق کا جو ایمان یا ایمان کی NEGATION ( نیکیشن یعنی ) نفی اور مومن کے ایمان کی پختگی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے اور جس کی طرف تظنُّونَ بِاللهِ الظُّنُونَا میں اشارہ کیا گیا ہے.دوسری بنیادی بات یہ بتائی گئی ہے کہ منافق کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ( معاذ اللہ ) جھوٹے وعدے کئے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے تَظُنُّونَ بِاللهِ الظُّنُون میں جو بنیادی بات بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ منافق کا خدا تعالیٰ پر یقین یا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا خیال یا اس کے وعدوں کے متعلق یا اس کی قدرتوں کے متعلق یا اس کی صفات کے متعلق اس کا ایمان ایک مومن کے ایمان سے بہت مختلف ہوتا ہے.جو منافق ہے وہ ابتلاء کے وقت یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (نعوذ باللہ ) جھوٹا وعدہ کیا ہے.وہ یہ تو تسلیم کرتا ہے کہ کوئی پیشگوئی کی گئی تھی یا کوئی وعدہ کیا گیا تھا لیکن جب ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ دُنیوی لحاظ سے بظاہر کامیابی اور بقاء اور استحکام کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تو منافق کہہ دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ جھوٹا ہے.تمہیں اس نے وعدے تو کچھ اور دیئے مگر آج کچھ اور نظر آ رہا ہے لیکن مومن ایسا نہیں ہوتا.اُس کے اظہار ایمان کے گو مختلف رنگ ہوتے ہیں.تا ہم ایسے حالات میں مومن تو یہ کہتا ہے ( جیسا کہ بعد کی آیات میں ذکر کیا گیا ہے ) کہ جو خدا تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے وہ ضرور پورا ہو گا.مومن ابتلاء کا احساس رکھتے ہوئے اس کا مشاہدہ کرتے ہوئے اور اس کے باوجود کہ شکنجے میں وہ اپنے آپ کو جکڑا ہوا پاتا ہے کہتا ہے کہ جس خدا نے ہمیں یہ فرمایا تھا کہ اس قسم کے پریشان کن حالات پیدا ہوں گے اسی نے یہ کہا تھا کہ میں ان پریشان کن حالات میں تمہیں کامیاب کروں گا اور تمہیں نجات دوں گا.اس واسطے پہلی بات جب پوری ہوئی تو دوسری بھی پوری ہوگی.
خطبات ناصر جلد سوم ۵۴۹ خطبہ جمعہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۱ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ دشمن میرے باغ میں داخل ہوئے (بڑی وحشت کا اظہار ہے.اس کی تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاسکتا.مختصر خطبہ دینا چاہتا ہوں.اگر حالات نے اجازت دی تو اسی تسلسل میں اس اختصار کی تفصیل بھی بیان کروں گا ) اور میں گھبرایا.یہ رویا آپ نے عربی میں بیان فرمایا ہے.اس کا ترجمہ تذکرہ کے مختلف ایڈیشنوں کے صفحہ ۲۲۳ اور ۲۲۶ پر چھپا ہوا ہے.آپ نے اس رؤیا کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ ایسے حالات میں کہ میں خود کو اکیلا دیکھتا ہوں اور کوئی مددگار اور کوئی دوست مجھے نظر نہیں آ رہا.ایسے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی اور میرے دشمن کے سر اور اس کے جوارح کاٹ کر پھینک دیئے گئے.اس وقت میں ضمناً قادیان میں بسنے والے بھائیوں کے متعلق دعا کے لئے بھی کہنا چاہتا ہوں.ابھی اس جنگ کے آثار ہی تھے.میرے خیال میں ۲۲ نومبر سے بھی پہلے کی بات ہے یعنی مشرقی پاکستان پر ابھی حملہ نہیں کیا گیا تھا کہ ہمیں علم ہوا کہ قادیان میں بسنے والے عاجز درویش بھائی یہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں کہ اگر خدانخواستہ جنگ ہوئی تو انہیں تنگ کیا جائے گا.اب حالاتِ جنگ پیدا ہو گئے ہیں اب ہمارا تو ان کے ساتھ ملاپ نہیں رہا ، نہ وہاں تار جاتی ہے نہ وہاں خط جاتا ہے لیکن وہ اس خدشے کا اظہار کہیں پہلے سے کر چکے ہوئے ہیں.اس واسطے بڑی دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری غفلتوں کو اپنی مغفرت کی چادر کے نیچے ڈھانپ لے اور جو تھوڑی بہت اس نے ہمیں تو فیق دی ہے اس کے حضور کچھ پیش کرنے کی اور اُسے خوش کرنے کے لئے جدو جہد کرنے کی وہ اسے قبول کرے اور جو وعدے اس نے کئے ہیں وہ تو پورے ہوں گے ہی لیکن اس نے جو وعدے کئے ہیں خدا کرے وہ ہماری زندگی میں پورے ہو جا ئیں.اس لئے دوست بہت دعائیں کریں.میں بھارت کو بھی ایک تنبیہ کرنا چاہتا ہوں دیکھو آج کی فوج کے پاس چھوٹے سے چھوٹا ہتھیار رائفل ہے لیکن میرے اور میری جماعت کے پاس رائفل بھی نہیں ہے.اس واسطے میں ڈ نیوی طاقت کے گھمنڈ میں نہیں کہہ رہا نیز یہ کوئی سیاسی بیان بھی نہیں کیونکہ میں سیاستدان نہیں
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۱ء ہوں اور نہ سیاست سے مجھے کچھ سروکار ہے بلکہ ایک عاجز درویش اور خدا کے ایک ادنی بندے کی حیثیت سے انہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمہارے ملک میں جو مسلمان بستے ہیں اگر تم نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا اور ان کے حقوق ادا نہ کئے اور ان پر ظلم کرنے کی کوشش کی تو بندوق اور سیاسی اقتدار نہ رکھتے ہوئے بھی یہ عاجز بندہ تمہیں یہ کہتا ہے کہ جس خدا پر ہم یقین رکھتے ہیں اور ایمان لائے ہیں اور جس کی صفات کے شاندار مظاہرے ہم نے دیکھے ہیں.اسی خدا پر توکل رکھتے ہوئے اور یقین رکھتے ہوئے اور ان بشارتوں کو جو اس نے ہمیں دی ہیں سچا سمجھتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ اگر تم نے ظلم کیا اور ایذاء رسانی کی راہیں تم نے اختیار کیں تو تمہاری گردن کاٹ دی جائے گی اور تم کبھی کامیاب نہیں ہو گے.اس لئے تم اپنے اور اپنے بچوں اور بیویوں اور اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر اپنی رعایا میں سے جو مسلمان ہیں اور بھارت میں جہاں بھی وہ آباد ہیں، ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کرو اور ان کے حقوق ادا کرو ورنہ اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا اور یہ قہر الہی اس قہر الہی کے علاوہ ہو گا جس کے تم پاکستان پر سفاکانہ اور وحشیانہ حملہ کر کے مستحق ٹھہرے ہو.تم یہ نہ دیکھو کہ میرے ہاتھ میں تو چھوٹے سے چھوٹا ہتھیار بھی نہیں.تم کوشش کرو کہ اس خدائے قادر و توانا کو دیکھنے کی تمہیں آنکھیں ملیں.جس کی قدرت کے جلوؤں نے تمہیں زندگی دی اور اس زندگی کو قائم رکھا ہوا ہے کیونکہ اگر اس خدائے قادر و توانا کے غضب کی لہریں تمہارے ملک پر آگئیں تو پھر اگر ساری دنیا کے ہتھیار بھی تمہاری حفاظت کے لئے آگئے تو وہ بھی تمہیں بچا نہیں سکیں گے.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ / دسمبر ۱۹۷۱ ء صفحه ۳، ۴)
خطبات ناصر جلد سوم ۵۵۱ خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۷۱ء ہمیں عہد کر لینا چاہیے کہ جب تک جنگ نہیں جیت لیتے ہتھیار نہیں ڈالیں گے خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ دسمبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جنگ کے دوران بعض محاذوں پر پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے.لوگ گھر بھی جاتے ہیں، علیحد ہ بھی ہو جاتے ہیں اور فوجیں پوری طرح احاطے اور نرغے میں بھی آجاتی ہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اڑھائی تین سال تک محصور بھی رہے اور بعض دفعہ وقتی طور پر بالکل اکیلے بھی رہ گئے.(۱) '' بعض اوقات تو ایسا خطرناک حملہ ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عملاً اکیلے رہ جاتے تھے چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ کے ارد گر د صرف بارہ آدمی رہ گئے اور ایک وقت ایسا تھا کہ آپ کے ساتھ صرف دو آدمی ہی رہ گئے.(۲) مقدمتہ الجیش ابتری کے ساتھ بے قابو ہو کر پیچھے ہٹا اور پھر تمام فوج کے پاؤں اُکھڑ گئے.صحیح بخاری میں ہے فَاذْبَرُوا حَتَّى بَقِيَ وَحْدَہ یعنی سب لوگ ٹل گئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) اکیلے رہ گئے.۱۵ اور اکیلے سے یہی مراد ہے کہ آپ کے ساتھ چند ساتھی رہ گئے تھے اور پھر وہ وقت بھی گذر گیا.بعض جگہ غیر کی نظر میں بظاہر بڑا نقصان اُٹھایا اور دشمن کی نظر میں ایک قسم کی وقتی طور پر
خطبات ناصر جلد سوم پسپائی ہی سمجھی گئی.۵۵۲ خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۷۱ء مگر اُس وقت ہمارا محاذ زمانہ پر پھیلا ہوا تھا اور اس وقت ہمارا پاکستان کا محاذ مکان پر پھیلا ہوا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی دشمنی شروع ہو گئی تھی اور دشمنی بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی سخت مخالفت اور دشمنی شروع ہو گئی تھی.شروع میں تو سمجھا یہ گیا تھا کہ جنگ کی ضرورت نہیں ، ہم جنگ سے ورے ورے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نا کام اور اسلام کو نیست و نابود کر دیں گے لیکن جب جنگ سے ورے ورے یہ نا کامی اسلام کو نہ ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمانی مہم میں کمزوری پیدا ہونے کی بجائے طاقت پیدا ہونی شروع ہوگئی تو پھر ایک وقت آیا کہ دشمنوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنی چاہیے کیونکہ اس کے بغیر تو یہ مٹتے نہیں چنانچہ پھر جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.مٹھی بھر مسلمان تھے.ہم اگر تخیل کی نگاہ سے دیکھیں تو ہمیں ایک وہ زمانی محاذ نظر آتا ہے جو پہلی جنگ سے لے کر فتح مکہ کے زمانے تک پھیلا ہوا ہے اور پھر خلافتِ راشدہ میں دوسرے محاذ ہیں.زمانے کے لحاظ سے ایک محاذ میں اس لئے کہتا ہوں کہ ایک ہی چھوٹی سی فوج تھی مگر وہ فدائی تھے ، وہ مجاہد تھے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے ہر لحظہ تیار تھے.تاہم اُن کا ایک مختصر سا گروہ تھا، وہی لڑتا رہا، کچھ بعد میں آنے والے اس کے ساتھ ملے لیکن وہی بنیادی گروہ تھا جنہوں نے پہلی جنگ میں بھی حصہ لیا، پھر دوسری میں بھی حصہ لیا اور پھر تیسری میں بھی حصہ لیا.بعد میں بھی ہمیں زمانے پر پھیلا ہوا یہی محاذ نظر آتا ہے مثلاً حضرت خالد بن ولیڈ نے کسری کے خلاف ایران میں جو آٹھ دس جنگیں لڑیں ہیں اُن کے ساتھ کم و بیش اٹھارہ ہزار مسلمان سپاہی تھے.اُن میں سے بھی کچھ زخمی ہو گئے اور کچھ شہید ہو گئے.غرض یہ ایک چھوٹی سی فوج تھی ، ایک چھوٹا سا گروہ تھا.جو آج لڑا وہی تین دن کے بعد لڑا اور پھر پانچ دن کے بعد بھی وہی لڑا.تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اُن کو دشمن کی نئی فوج کے ساتھ جنگ لڑنی پڑی تھی.جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک دو دفعہ بتایا ہے ہر دفعہ ایرانیوں کی فوج جو مسلمانوں کے مقابلے پر آئی اس کی تعداد چالیس ہزار پھر ساٹھ ستر ہزار اور بعض دفعہ اسی ہزار اور بعض دفعہ ساٹھ ہزار سے کچھ کم
خطبات ناصر جلد سوم ہوتی تھی.۵۵۳ خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۷۱ء اب یہ بھی ایک فوج کا زمانے پر پھیلا ہوا محاذ ہے.ہمارا مکان کے لحاظ سے پھیلا ہوا محاذ ہے.ہمارا محاذ کراچی سے لے کر کارگل سے ہوتا ہوا دیناج پور سے سارے مشرقی پاکستان پر پھیلا ہوا ہے.ہر محاذ پر ہماری مختلف ٹولیاں موجود ہیں.پہلے ایک ہی ٹولی تھی جو زمانے میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہے.اب ایک فوج کی مختلف ٹولیاں ہیں یا گروہ ہیں یا ڈویژن ہیں.یعنی فوج تقسیم ہو کر اس کی مختلف ٹولیاں ہمیں مختلف محاذوں پر نظر آتی ہیں.جس طرح زمانے پر پھیلے ہوئے محاذ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض دفعہ دُکھ اُٹھانا پڑتا تھا اور پریشانی اٹھانی پڑتی تھی، آج ہمیں بعض محاذوں پر مکانی لحاظ سے وہ دُکھ اور پریشانی اٹھانی پڑی ہے.پس یہ خطرہ تو جنگ کے ساتھ لگا ہوا ہے.جنگ کبھی ایک شکل اختیار کرتی ہے، کبھی دوسری شکل اختیار کرتی ہے لیکن یہ جو جھڑ ہیں ہیں ان سے قسمتوں کا فیصلہ نہیں ہوا کرتا جو جنگ ہے اس کے جیتنے یا ہارنے سے قسمت کا فیصلہ ہوا کرتا ہے اور جنگ جیتنے کے لئے بنگال یعنی مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا ہے اس کے باوجود جس انتہائی جد و جہد کی ضرورت ہے، اس میں ایک ذرہ بھر کمی نہیں آنی چاہیے اور نہ دلوں میں اُداسی اور مایوسی پیدا ہونی چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھی زیادہ بڑھنا چاہیے.پہلے زمانے میں تو زمانے کے لحاظ سے جو پریشانی تھی وہ زیادہ خطر ناک تھی کیونکہ ساری کی ساری فوج کے لئے پریشانی تھی.اب ہماری ساری کی ساری فوج کے لئے پریشانی نہیں پیدا ہوئی.ایک حصہ ملک کے لئے پریشانی پیدا ہوئی ہے.اگر ہمارے اندر غیرت ایمانی ہے تو یہ عہد کر لینا چاہیے کہ جب تک ہم جنگ نہیں جیت لیتے ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے.اس کے بغیر تو پھر مسلمان کہلانے میں کوئی مزہ نہیں ہے.یہ یاد رکھیں (احمدی بھی ! اور میرے دوسرے بھائی بھی !) کہ اگر ایمان اور تقویٰ اور طہارت اور اسلام کے حق میں جو بشارتیں ہیں اُن کا ذکر ہم نے اپنی زبانوں پر اپنی مجالس میں ، اپنی گفتگو میں ، اپنے ریڈیو پر اور اپنے اخباروں میں کرنا ہے، تو پھر مسلمان بننا پڑے گا ورنہ ہم ان بشارتوں کے حامل نہیں ہو سکتے جو اسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ نے دی ہیں.ان وعدوں کو وراثت میں ہم تبھی حاصل
خطبات ناصر جلد سوم ۵۵۴ خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کر سکتے ہیں جب ہم حقیقی طور پر ان کے وارث بنیں اگر ہم ایثار، قربانی، توگل اور فدائیت کے ورثہ کوٹھکرا دیں تو ورثہ میں آئے ہوئے وعدوں کو ہم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ یاد رکھیں کہ ہمارے پاس پہلے ورثہ پہنچا قربانی کا ، ایثار کا، پہلے ہمارے پاس ورثہ پہنچا شجاعت کا ، پہلے ہمارے پاس ورثہ پہنچا نڈر ہو جانے کا ، اور وہ اس وجہ سے کہ ہمارے پاس پہلے ورثہ پہنچا خدا تعالیٰ پر توکل کرنے کا اور خدا تعالیٰ کے علاوہ اور کسی سے نہ ڈرنے کا.جب ہم نے یہ ورثے حاصل کر لئے تو اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوئے.اب بھی ہم اگر اس ورثہ کوٹھکرا ئیں نہ بلکہ قیمتی متاع سمجھ کر اپنے سینہ سے لگائے رکھیں تو خدائی وعدوں کا ورثہ ہم تک پہنچتا ہے اور اس کی بشارتیں ہمارے حق میں پوری ہوتی ہیں ورنہ نہیں.خدا نہ کرے کہ ان بنیادی ورثوں کو ہم دھتکار دیں ( نعوذ باللہ ) پھر تو بشارتوں کے حصول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن وہ بنیادی ورثہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولا دکو اپنے آبا ؤ اجداد سے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد چکر لگا کر ہر چیز قربان کر کے اسلام کے غلبہ کے لئے قربانیاں دی تھیں یعنی وہ قربانی ، وہ جذبہ، وہ ایثار، وہ جہاد کا ولولہ اور شوق اور وہ جان کو کچھ نہ سمجھنے کا عزم اور وہ خدا تعالیٰ ہی پر تو گل کرنا اور کسی غیر کی طرف توجہ نہ کرنا ہے.جب یہ ورثے ہمیں مل جائیں گے اور ہم خود کو اس کا اہل بنائیں گے تو خدا تعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنے اندر یہ صفات پیدا کر لیں اور پھر خدائی وعدے پورے نہ ہوں لیکن اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو نہ نبا ہیں تو رحیم خدا سے ہم یہ کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ جو قربانیوں سے تعلق رکھنے والے وعدے ہیں وہ پورے ہو جا ئیں گے.ہمارا خدا رحیم ہے وہ ہمیں عمل صالح کی جزا دیتا ہے اگر انسان کا عمل صالح نہ ہو تو رحیم خدا کے وعدے پورے نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ نے اپنی بنیادی صفت رحمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہوا تو بنا دی اور سورج کی شعاعیں بنا دیں اور سورج کی شعاعوں میں وٹامنز بنا دیں.بہت سارے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں وہ شیشی کھول کر وٹامن کی گولی کھا لیتے ہیں یعنی وٹامن اے، بی ہی مختلف نام ہیں مگر یہ جو سورج کی کرنیں ہیں خدا تعالیٰ نے ان کے اندر وٹامن رکھے ہوئے ہیں.
خطبات ناصر جلد سوم ۵۵۵ خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۷۱ء جو شخص سورج کی شعاعوں میں بیٹھتا ہے وہ شاید ایک کی بجائے دو گولیاں وٹامن کی کھا لیتا ہے پس یہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے جلوے ہیں لیکن اُس کی صفت رحیمیت کا جلوہ ، کچھ کر کے حق دار بنے پر منحصر ہے یعنی صفت رَحِيْمِيَّتُ اور ملِكِ يَوْمِ الدِین ہونے کا جو جلوہ ہے یہ تب ہی ملے گا جب عمل صالح ہو گا اور یہ جو جہاد ہے اور یہ جو ایک ابدی جنگ اسلام کی شوکت کو قائم رکھنے کی ہمارے سامنے رکھی گئی ہے اس کا تعلق عمل صالح سے ہے.اس کے نتیجے میں ہم اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے جلوے دیکھتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا جلوہ عمل صالح کے بغیر ظاہر ہو ہی نہیں سکتا.پس ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو باہنا چاہیے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اور ہماری نسلیں اُس وقت تک ایک لحظہ کے لئے بھی چین سے نہیں بیٹھیں گی جب تک کہ ہماری چھنی ہوئی دولت ہمیں واپس نہ مل جائے اور یہ مشرقی پاکستان تو ایک چھوٹی سی دولت ہے جو ہم سے چھن گئی ہے.ہماری دولت ساری دنیا ہے.ہم نے ساری دنیا کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیر سے چھینا اور شیطان کے قبضہ سے نکالنا ہے.ہم نے ساری دنیا کے دلوں کو خدا تعالیٰ کے نام پر اور اس کی محبت کے لئے جیتنا ہے.ہم ہار نہیں سکتے اور نہ ہارنے کا کوئی خیال دل میں لانا چاہیے.جنگوں میں وقتی طور پر پریشانیاں آتی ہیں یہ نظارے تو ہمیں بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی نظر آتے ہیں اور اس وجود سے زیادہ پیار خدا تعالیٰ کس سے کرتا ہے.پس یہ وقتی طور پر جو پریشانیاں آتی ہیں یہ خدا تعالیٰ کے پیار کی نفی نہیں کرتیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حسین تر پیار کے جلوؤں کے سامان پیدا کر رہی ہوتی ہیں اگر کوئی خود کو ان کا مستحق بنائے..یہ جلوے ہمیں قرونِ اولیٰ میں نظر آئے اگر کوئی آج بھی خود کو اہل بنائے تو وہ جلوے آج بھی اسے نظر آئیں گے.اس لئے گھبرانے کی بات نہیں.۱۹۴۷ء میں ہماری جماعت کا وہ حصہ جو وہاں سے ہجرت کر کے آیا تھا وہ اسی قسم کے خطرناک دور سے گزرا ہے.سب کچھ وہاں چھوڑ دیا تھا اور خدا تعالیٰ نے یہاں اُس سے بہت زیادہ دے دیا جو چھوڑ کر آئے تھے.میرے کئی زمیندار دوست جو میرے ساتھی یا شریک کار ہیں، کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے (اپنے زمانہ خلافت
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۷۱ء سے بھی پہلے کی بات ہے کہ ) بعض سے میں پوچھتا تھا کہ جتنا زمین سے وہاں کما رہے تھے اس سے کم کما رہے ہو یا زیادہ وہ کہتے تھے زیادہ کما رہے ہیں حالانکہ انہیں جو زمینیں الاٹ ہوئی تھیں وہ پہلے سے کم تھیں.میں پوچھتا تھا واپس جاؤ گے تو وہ کہتے تھے واپس جانے کو دل تو کرتا ہے لیکن وہاں جا کر اتنی آمد نہیں ہوگی جتنی یہاں ہو رہی ہے.پس خدا تعالیٰ نے فضل کیا اگر چہ ۱۹۴۷ء میں ہماری ساری زمین وغیرہ چھن گئی اور یہاں بظاہر کم زمین دی گئی لیکن اس میں برکت ڈال دی گئی جس سے آمد زیادہ ہونے لگی.جماعت کو دیکھ لیں.جماعت احمدیہ کی مجموعی آمد ۱۹۴۷ء سے اب تک کم از کم دس گنا بڑھ چکی ہے اور یہ میں مغربی پاکستان میں رہنے والوں کا ذکر کر رہا ہوں کوئی یہ نہ سمجھے کہ باہر کے ملکوں میں لوگ احمدی ہو گئے ہیں اس لئے آمد بڑھ گئی ہے.غرض مغربی پاکستان میں بسنے والی جماعت کی آمد ۱۹۴۷ء سے دس گنا زیادہ ہو گئی ہے جن میں سے ایک دوست جن پر ابھی میری نظر پڑ گئی ہے ان کی وہاں چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں جن کی قیمت ۵۰۰ یا ہزار سے زیادہ نہیں تھی مگر یہاں خدا تعالیٰ نے انہیں لاکھوں کی جائیداد دے دی ہے.پس سارے اموال کا مالک اللہ تعالیٰ ہے.انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اس کے پیار میں محو ہوکر اپنا سب کچھ قربان کر دے اور انسانوں میں سے ہر ایک فرد کا سب کچھ کیا ہوتا ہے یہی پانچ روپے، پانچ سوروپے، ہزار روپے، لاکھ روپے، دس لاکھ روپے یا ایک کروڑ روپے.تو جب ہم فرد واحد کے متعلق کہتے ہیں کہ سب کچھ قربان کر دو تو اس کا یہی مطلب ہے کہ دنیا کی یہ دولت جو محدود ہے اور گنتی اور شمار میں آنے والی ہے اس کو قربان کر دو لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں اپنا سب کچھ دوں گا جس کا کوئی شمار نہیں اور جو غیر محدود ہے پس یہ گھاٹے والا سودا نہیں ہے.اس لئے ہم نے خوشی اور بشاشت سے تکلیفیں برداشت کرنی ہیں اور خدا تعالیٰ پر پورا توکل اور بھروسہ رکھتے ہوئے پہلے سے زیادہ قربانیاں دینی ہیں اور پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کو حاصل کرنا ہے.انشاء اللہ.غرض جنگ میں تو اُتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے لیکن ایسے حالات میں بھی جو ہمارا رد عمل ہے خدا تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے کا اور اپنی جگہ پر اس یقین پر قائم رہنے کا کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کو
خطبات ناصر جلد سوم ۵۵۷ خطبہ جمعہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۷۱ء پورا کرنے والا ہے اور یہ عزم کہ ہم اپنا سب کچھ اسلام کی شوکت اور اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے قربان کر دیں گے وہ تو اپنی جگہ پر ہے.ویسے ہمارے دل اس لئے دُکھیا نہیں کہ ایک محاذ کے اوپر ہمیں کچھ پریشانی اٹھانی پڑی ہے.ہمارے دل اس لئے دُکھیا ہیں اور اس وقت بڑا ہی دُکھ محسوس کر رہے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے قریباً کروڑ مسلمانوں کو مصیبت پڑ گئی ہے اس لئے ہمارا دل دُکھتا ہے اور اگر ہمارا دل واقعہ میں دُکھتا ہے تو ہمیں ان کی خاطر اور بھی زیادہ قربانی دینی چاہیے.آپ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ کس خطر ناک مصیبت میں مبتلا ہو گئے ہیں.آج صبح بی بی سی کی ایک چھوٹی سی خبر یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں دشمنوں نے قتل عام شروع کر دیا ہے.وہ غلط فہمیوں میں مبتلا بنگالی مسلمان جو یہ سمجھتا تھا کہ اسے آزاد نہ حکومت کرنے کے لئے موقع دیا جائے وہ ہندو کی تلوار کے نیچے آ گیا ہے.۱۹۴۷ء میں تو ہم نے چند لاکھ کی قربانی دی تھی اب کہیں چند ملین (MILLION) کی یعنی ستر اسی لاکھ یا ایک کروڑ کی قربانی نہ دینی پڑے.پس وہاں اس قسم کے حالات ہیں اس لئے ہمارا دل دکھ محسوس کر رہا ہے اور ہمارا ذہن پریشان ہے اور اس پریشانی کو دور کرنا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کی طاقت نہیں ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے سوا اس کے فضلوں کو جذب کرنے کا کوئی راستہ نہیں.پس ہم خدا تعالی کی نازل ہونے والی ہر خیر کو پسند کرتے اور مانگتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں کہا ہے کہ كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - اس لئے ان دنوں میں دوست خصوصی طور پر بہت زیادہ درود بھیجیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں.پہلے تو میں نے سینکڑوں میں کہا تھا کہ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيم اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ پڑھا کریں.اب عدد کی حدود سے پھلانگ کر آگے نکل جائیں اور ہر وقت یہ تسبیح وتحمید اور درود پڑھیں تا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اور اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت کے نتیجہ میں ہمیں وہ مل جائے جس کے لینے کے ہم خواہش مند ہیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۳ / دسمبر ۱۹۷۱ء صفحه ۱ تا ۳) 谢谢谢
خطبات ناصر جلد سوم ۵۵۹ خطبہ جمعہ ۲۴/ دسمبر ۱۹۷۱ء کثرت سے استغفار کرو اس کے بغیر کسی پریشانی اور دُکھ سے نجات نہیں مل سکتی خطبه جمعه فرموده ۲۴ دسمبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ سورۃ کریمہ تلاوت فرمائی:.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ - وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا - فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا - (النصر : ۲ تا ۴ ) اور پھر فرمایا:.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سورۃ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کی فتوحات کے متعلق بشارتیں دی گئی ہیں کیونکہ اس سورۃ کا نزول فتح مکہ کے بعد ہوا تھا.روایتوں میں اختلاف ہے تاہم اس سورۃ کے نزول کے بعد آپ ۷۰ یا ۸۰ دن اس دنیا میں زندہ رہے.اس کے بعد آپ کا وصال ہوا.اِس سورۃ میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مصیبت کے وقت اور پریشانی کے وقت جو دراصل انسان کے اپنے گناہ اور اپنی کوتاہی اور اپنی بد عملی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے، انسان اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل کئے بغیر اس پریشانی اور تکلیف اور دُکھ سے نجات نہیں حاصل کر سکتا.
خطبات ناصر جلد سوم خطبه جمعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۷۱ء استغفار کے معنے یہ ہیں ( کیونکہ یہ لفظ غَفَرَ سے ہے ) کہ اللہ تعالیٰ سے حفاظت طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگنا کہ جو فساد اور رخنہ کسی رنگ میں پیدا ہو گیا ہے، وہ اُسے دُور کرے اور اصلاح امر کرے.خلافت اولی کے زمانے میں اور پھر اس کے بعد صدیوں تک اور سچی بات تو یہ ہے کہ اب تک اسلام پر کمزوری کا زمانہ بھی آیا.تکلیف کا زمانہ بھی آیا اور پریشانیوں کا زمانہ بھی آیا لیکن اس ارشاد باری تعالیٰ کے نتیجہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے جو دعائیں کی تھیں، وہ آڑے آئیں اور ان دعاؤں اور اُن دعاؤں کے بعد جو فیلی دعا ئیں ہم مانگتے ہیں ان کے نتیجہ میں رخنہ ڈور ہو گیا ، فساد جاتا رہا ، اصلاح امر ہو گیا اور پریشانیوں کی بجائے مسرتوں کے دن آگئے.مگر شاید جگانے کے لئے یا جھنجھوڑنے کے لئے ابتلاء بھی آتے ہیں لیکن امت محمدیہ کا وہ حصہ جو اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اور اس کے حکم سے استغفار کرتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، وہ اُسے بار بار رحمت کرنے والا اور مغفرت کرنے والا پاتا ہے.کب ایسا ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ہو اور اُس نے اپنی رحمت سے اُسے نہ نوازا ہو.ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور دنیا کا ہر ملک اور ہر قوم اس پر شاہد ہے.آج بھی ہمارے لئے پریشانیوں اور اداسیوں کے دن ہیں مگر یہ وقتی اور عارضی پریشانیاں ہیں.ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رب سے قوت حاصل کریں اور اُس سے عاجزانہ دعائیں کریں کہ ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کے نتیجہ میں اور ہمارے گناہوں کی پاداش میں اس وقت جو پریشانیاں پیدا ہوئی ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں معاف فرمائے اور ہماری اصلاح فرمائے اور ہماری آنکھیں کھولے اور ہمیں پھر صحیح راہ کی طرف لے آئے تاکہ یہ پریشانیاں دُور ہوجائیں اور انشاء اللہ یہ دُور ہو جائیں گی.مسلمان کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک مسلمان کے لباس تقوی اور اُس کی فطرت کے
خطبات ناصر جلد سوم ۵۶۱ خطبہ جمعہ ۲۴/ دسمبر ۱۹۷۱ء جامہ اور پاکیزگی کی رداء پر جب گناہ کے گندے دھبے پڑ جاتے ہیں تو وہ صرف آنسوؤں سے ہی اُن کو نہیں دھویا کرتا.ویسے وہ آنسوؤں سے بھی دھوتا ہے لیکن وہ آنسو نہیں جو کمزوری کا نتیجہ ہوتے ہیں.وہ آنسو بھی نہیں جو کسی غیر اللہ سے مدد مانگنے کے لئے بہائے جاتے ہیں اور وہ آنسو بھی نہیں جو بے صبری پر دلالت کرتے ہیں بلکہ وہ آنسو جو رات کے اندھیروں میں اپنے مالک و خالق اور پیار کرنے والے خدا کے حضور پیش کئے جاتے ہیں.ان آنسوؤں سے بھی اپنی تقوی کی چادر کے اور فطرت کے جامہ کے اور پاکیزگی کے لباس کے دھبے دھوئے جاتے ہیں اور ایک مسلمان اپنے آنسوؤں سے یہ دھبے دھوتا ہے.وہ رات کے اندھیروں میں سب سے چھپ کر خدا تعالیٰ کے حضور آنسو بہاتا اور پاک ہونے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کا اہل بننے کی کوشش کرتا ہے.تا ہم ایک مسلمان اپنی زندگی میں اپنے گناہوں کے اور اپنی کوتاہیوں کے اور غفلتوں کے دھبے صرف آنسوؤں ہی سے نہیں دھوتا بلکہ اس کے علاوہ وہ یہ دھبتے اپنے خون سے بھی دھوتا ہے.وہ اپنے خون سے اپنی پاکیزگی کی رداء پر گل کاری کرتا ہے اور یہ خوبصورت پھول ان دھبوں کو چھپا لیتے ہیں اور اس کی باطنی خوبصورتی اور اندرونی محسن کو ظاہر کرتے ہیں.خون ، موت !! یہ تو اسلام کے معنی کے اندر ہی موجود ہے.اسلام کے معنے ہی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ میں گم ہو کر اپنے اوپر ایک موت وارد کرنا اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے ایک نئی زندگی پانا.میدانِ جنگ میں شرف شہادت پانے والا اگر وہ نیک نیتی سے اور خدا تعالیٰ کے لئے جان دے رہا ہو تو شہادت حاصل کر کے اُسی وقت زندوں کے زمرہ میں دوبارہ آجاتا ہے.قرآن کہتا ہے تم ان شہیدوں کو مرا ہوا نہ کہو لیکن صرف شہید ہی نہیں بلکہ ایک کامل ایمان والا مسلمان بھی جب خدا تعالیٰ کے لئے اپنے اوپر ایک موت وارد کرتا ہے، تو وہ بھی خدا تعالیٰ سے اپنے لئے ایک ابدی زندگی حاصل کرتا ہے.اگر آج ہم اپنے او پر اس قسم کی موت وارد کر لیں اگر ہم خدا تعالیٰ کے پیار میں کھوئے جائیں اگر ہم اپنے وجود پرفنا کی آندھیاں چلا کر خدا تعالیٰ کی صفات سے حصہ لینے لگیں تو دنیا کی کون سی طاقت ہے جو ہمیں مار سکے.دنیا کی کوئی طاقت خدا تعالیٰ کے پیاروں کو نیست و نابود اور
خطبات ناصر جلد سوم ۵۶۲ خطبہ جمعہ ۲۴/ دسمبر ۱۹۷۱ء ہلاک نہیں کر سکتی.اس لئے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.گو آج دنیا ہمیں طعنے دے رہی ہے اور ہمیں تضحیک کا نشانہ بنارہی ہے مگر ہم ان چیزوں کی اس لئے پرواہ نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت دی ہے کہ غلبہ اسلام کا سورج طلوع ہو چکا ہے.کالی دیوی کی کالی بدلیاں اگر سامنے آجائیں تو وقتی اور عارضی طور پر روشنی تو دُور ہوسکتی ہے لیکن وہ غلبہ اسلام کی راہ میں ہمیشہ کے لئے روک نہیں بن سکتیں.لوگ کہتے ہیں کہ مسلم بنگال واپس کیسے آئے گا ؟ میں کہتا ہوں تم مسلم بنگال کی بات کر رہے ہو ہم تو غیر مسلم دنیا کو بھی اسلام کی طرف لانے والے ہیں اور یہ وعدہ النبی ایک دن پورا ہو کر رہے گا اور اس کے آثار آج اُفق غلبہ اسلام پر ہمیں نظر آرہے ہیں.مجنون کا یہ خواب نہیں کہ مسلم بنگال واپس آجائے گا، مجنون کا خواب یہ ہے کہ اسلام مغلوب ہو جائے گا.اسلام مغلوب نہیں ہوگا.مسلم بنگال کیا ہندو بنگال بھی ،مسلم بنگال کیا ہندو بھارت بھی ،مسلم بنگال کیا عیسائی دنیا بھی، مسلم بنگال کیا کمیونسٹ ممالک بھی ، مسلم بنگال کیا دہریہ اور بت پرست بھی ، یہ سارے کے سارے اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے جو کبھی ٹلا نہیں کرتی یہ تو انشاء اللہ ہو کر رہے گا مگر تم خدا سے قوت حاصل کرو اور کثرت سے استغفار کرو کیونکہ خدا تعالیٰ کی رحمت اور اُس کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے اپنے او پر اس کی محبت میں گم ہو کر ایک موت وارد کرو گے تو پھر تمہیں ایک ایسی زندگی ملے گی کہ تمہارے لئے بھی نہایت برکت، خوشی اور مسرت کا موجب ہوگی اور دنیا کے لئے بھی رحمت اور برکت کا موجب بنے گی.خدا کرے کہ جلد ایسا ہو جائے.( آمین ) (روز نامه الفضل ربوه یکم جنوری ۱۹۷۲ صفحه ۲،۱)
خطبات ناصر جلد سوم ۵۶۳ خطبہ جمعہ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۷۱ء پاکستان انتہائی نازک دور سے گزررہا ہے اور انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے خطبہ جمعہ فرموده ۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیہ کریمہ پڑھی:.وَلَا يَحْزُنُكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - (يونس: ٦٦ ) اور پھر فرمایا:.مجھے یہ اطلاعیں آرہی ہیں کہ بعض مقامات پر پوسٹرز کے ذریعہ اور بعض جگہ تقاریر اور گفتگو کے ذریعہ پھر سے جماعت احمدیہ کو تکلیف پہنچانے کے لئے سخت کلامی اور افتراء پردازی سے کام لیا جانے لگا ہے.جہاں تک جماعتِ احمدیہ کی فطرت ( جماعتیں بھی اپنی ایک فطرت رکھا کرتی ہیں ) کا تعلق ہے، انسانی آنکھ نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ ہم نے کسی کی گالی کے مقابلہ پر گالی نہیں دی اور اُس وقت بھی جب کہ ہم کو دُ کھ دیا گیا کبھی کسی کو دُ کھ پہنچانے کے متعلق سوچا تک نہیں.اس لئے کہ ہم تو خود کو خیر امت کا ایک حصہ سمجھتے ہیں، جس کا قیام اللہ تعالیٰ کی قدرت سے عمل میں آیا ہے اور جس کی بقاء اس لئے ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں بھلائی کا وہ سمندر جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں پیدا کیا گیا ہے، اس سے نکلنے والی نہریں ادھر اُدھر ساری دنیا میں پھیلیں اور بنی نوع انسان کی بھلائی کا انتظام ہو.
خطبات ناصر جلد سوم ۵۶۴ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ء موجودہ حالات میں جب کہ پاکستان انتہائی نازک دور میں سے گزر رہا ہے اور ہماری بقاء ہم سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کر رہی ہے ایسے وقت میں بعض لوگوں کا اس طرح گند کو اُچھالنا اور اس رنگ میں اپنے اندرونہ کو ظاہر کرنا (ہم سمجھتے ہیں کہ ) یہ ہمارے ساتھ دشمنی نہیں بلکہ اپنے ملک کے ساتھ دشمنی ہے.اللہ تعالیٰ ایسے ذہن کو فراست کا کچھ نور عطا فرمائے اور وہ حقائق کو دیکھنے لگے اور وہ اپنے اور اپنی قوم کے نقصان کے در پے نہ ہو.دراصل یہ ہماری راہ کے کانٹے ہیں اور ہم نے یہ کب کہا ہے کہ ہمارا راستہ کانٹوں کے بغیر ہے ہمیں تو یہی بتایا گیا ہے کہ تمہاری راہ میں کانٹے ہوں گے لیکن تم ان کی پرواہ نہ کرنا.تمہارے راستے میں روکیں کھڑی کی جائیں گی.تم اُن کو پھلانگتے ہوئے چلے جانا.اس طرف توجہ نہ دینا.اپنی ساری توجہ اُس کام کی طرف لگانا جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے چنانچہ ہماری آنکھ نے دیکھا اور ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ گذشتہ اسی سال میں ہمارے خلاف جب بھی اس قسم کی مہمیں جاری کی گئیں (اور ہمیشہ ہی جاری کی گئیں ) تو اس قسم کی مہموں کے نتیجہ میں ہمیں نقصان نہیں پہنچا.تم میں سے ( جو یہاں بیٹھے ہو) ہر ایک آدمی اس بات کا گواہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کا مشن نا کام نہیں ہوا.دنیا نے تو کیا گھر والوں اور اپنے ملک کے لوگوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا.اُسے تو اپنی عزت نہیں چاہیے تھی.اُسے تو اُس ایک وجود کی عزت چاہیے تھی جس کی عزت کے نتیجہ میں ساری دنیا کو عزتیں ملتی ہیں.اگر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو بنی نوع انسان میں سے کسی کو عزت کا کوئی مقام بھی حاصل نہ ہوتا.اس عزت والے، اس صاحب عزت کی خاطر اسی کے محبوب روحانی فرزند نے ہر قسم کی ذلت اٹھانے کا تہیہ کر لیا اور یہ کام اُس نے اپنی خاطر نہیں کیا بلکہ اُس نے یہ کام بنی نوع انسان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے منور کرنے اور اُن کے دلوں میں آپ کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے کیا کیونکہ آپ کو اسی کام کے لئے کھڑا کیا گیا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم روحانی فرزند کے خلاف باتیں کہی گئیں اور وہ اتنی سخت باتیں تھیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس سے زیادہ باتیں کسی کان نے نہیں سنیں لیکن خدا کا وہ بہادر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا
خطبات ناصر جلد سوم ۵۶۵ خطبہ جمعہ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۷۱ء عظیم روحانی فرزندان باتوں کو سنتا اور کوئی غم نہیں کرتا تھا.اس لئے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سے آنے والی یہ آواز اُس کے کان میں پڑی تھی.وَلَا يَحْزُنُكَ قَولُهُمْ ان کی باتیں مجھے غمگین نہ کریں چنانچہ وہ شخص کیسے غمگین ہو سکتا ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اور آپ کے حکم سے کچھ تو انسانوں نے سلام پہنچایا اور فرشتے تو ہر وقت اُسے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام پہنچارہے تھے پس وہ کیسے غمگین ہوسکتا تھا یا گھبراسکتا تھا یا پریشان ہو سکتا تھا.وہ تو خوش تھا.اُسے تو راہ کے یہ کانٹے تکلیف نہیں دے رہے تھے بلکہ پھول معلوم ہوتے تھے.ہر دُکھ جو اُ سے پہنچایا گیا اُس کے لئے خوشیاں لے کر آیا اور اُس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت اور خدمت کے جذبہ کو اُس نے اور بھی تیز کیا.وہ یہی سمجھتا تھا کہ دنیا نا واقف ہے، پہچانتی نہیں کہ میرا رب دنیا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اور عظمت کے قیام کے لئے کیسا عظیم انقلاب لانا چاہتا ہے.وہ خود بھی دعائیں کرتا تھا.اُس نے ہمیں بھی فرمایا کہ تم اپنے ایمان میں پختہ نہیں ہو گے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل نہیں کر سکو گے جب تک تم اپنے دشمنوں کے لئے بھی اسی طرح دعا ئیں نہ کرو گے جس طرح اپنے دوستوں کے لئے دعائیں کرتے ہو.غرض وہ کسی کا دشمن نہیں تھا.نہ اُس نے ہم سے یہ کہا ہے کہ کسی سے دشمنی کرو.اُس نے ہمیں یہ فرما یا کہ تم ہر ایک کی خدمت کرو.ہر ایک کے خادم بنو.ہر ایک کی خیر چاہو.ہر ایک کے خیر خواہ بنو، ہر ایک کے دکھ دور کرنے کی کوشش کرو اور ہر ایک کے دُکھوں کا مداوا بنو.اُس نے یہ تعلیم ہمیں یہ کہ کر دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ اس راہ سے نہ ادھر ہیں اور نہ اُدھر جائیں اور نہ بھٹکیں.پس جس چیز نے اپنی سال میں ہمیں پریشان نہیں کیا اور ہمیں غمگین نہیں بنایا، وہ چیز ہمیں آج بھی غمگین نہیں بنا سکتی کیونکہ ہم جانتے ہیں.” إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا “ ہر قسم کا غلبہ اور قدرت اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور جو اعمال اور منصو بے اُس کی مرضی اور منشاء کے خلاف کئے جاتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوا کرتے اس لئے کہ وہ سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے.
خطبات ناصر جلد سوم خطبہ جمعہ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۷۱ء اللہ تعالیٰ اپنے منصوبوں کو دنیا میں چلانے اور کامیاب کرنے کے لئے اس ماڈی دنیا میں انسانوں میں سے بعض کو کھڑا کرتا ہے اور پھر انہیں دعا کی توفیق دیتا ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک آخری شریعت لے کر آئے اور یہ آخری ہی نہیں بلکہ ایک ایسی عظیم ، ایسی حسین ، ایسی اعلیٰ اور ارفع شریعت بھی ہے کہ آپ سے پہلے جتنے شارع انبیاء ہوئے ہیں اُن میں سے کسی نے بھی اس قسم کی تعلیم دنیا میں پیش نہیں کی اور نہ اُسے پیش کرنی چاہیے تھی کیونکہ دنیا اس قسم کی کامل اور مکمل شریعت کو قبول کرنے کے لئے ابھی ذہنی طور پر تیار نہیں ہوئی تھی.قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بار بار آپ کو تاکید کرتا تھا کہ اپنی اُمت اور بنی نوع انسان کے لئے ہمیشہ دعاؤں میں مشغول رہو.اگر ہم اذیت کو برداشت کرنے اور گالی کا جواب دعا سے دینے اور دُکھ پانے کے بعد سکھ پہنچانے کے انتظام کے منصوبے بنانے میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر قائم رہیں تو ہمیں وہ دعائیں ملیں گی جو آپ نے کی ہیں.اب جس قوم کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں مل جائیں وہ کیسے غمگین ہو سکتی ہے.اس کے چہرے پر تو ہمیشہ بشاشت کھیلتی رہے گی اور جماعت احمدیہ کے چہروں پر ہمیشہ بشاشت کھیلتی رہتی ہے.وہ اللہ تعالیٰ جو ہمارا رب ، ہمارا محبوب اور ہم سے بہت پیار کرنے والا ہے اُس نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کو سنا اور اُس کے اذن سے ہمیشہ کے لئے یہ سلسلہ جاری ہے کیونکہ اگلا اور پچھلا سب علم اُسے حاصل ہے.دعائیں پوشیدہ تو نہیں ہوسکتیں کیونکہ وہ علیم ہے.جس طرح اللہ تعالیٰ نے اور سب چیزوں کا احاطہ کیا ہوا ہے اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لئے جو دعا ئیں تھیں اور آپ کی نوع انسان کے لئے جو دعا ئیں تھیں، اُن کا بھی اُس نے احاطہ کیا ہوا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ علیم ہے وہ جانتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس نور کے ساتھ ، محبت کے جس جذبہ کے ساتھ اور بنی نوع انسان کی جس ہمدردی کے ساتھ اُس نے مبعوث کیا تھا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال عین اُس تعلیم کے مطابق تھے.اسی وجہ
خطبات ناصر جلد سوم ۵۶۷ خطبہ جمعہ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۷۱ء سے کہنے والے نے یہ کہا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق جاننا چاہتے ہو تو قران کریم پڑھ لو.جو کہا گیا وہ کیا گیا.پس وہ خدا جو اپنے اس پیارے محبوب کی دعاؤں کوسنے والا اور یا در رکھنے والا ہے اور اپنے ہے، وہ اس محبوب کے اعمال کے اخلاص اور نیت کی پاکیزگی اور ہمدردی کے جذ بہ کا علم رکھنے والا.کیوں آپ کی دعائیں قبول نہیں کرے گا اور امت محمدیہ کو پریشانیوں سے کیوں نہ بچائے گا.قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں.اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.پھر وہ خدا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہماری دعاؤں کو بھی سنتا ہے وہ کیوں ہماری مشکلیں آسان نہیں کرے گا مگر شرط یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں خلوص ہو.ہماری نیتیں پاک ہوں.ہمارے جسم کا رواں رواں اس بات کے لئے تڑپ رہا ہو کہ دنیا سے دُکھ دور ہو جائیں اور ہم دُکھ دُور کرنے والے بنیں اور ہمارے دل گالیاں سُن کر غصے سے نہیں بلکہ دعاؤں سے اس طرح لبریز ہو جائیں جس طرح سمندر کی زمین پانی سے بھری ہوئی ہوتی ہے.وہ خدا جو سمیع ہے وہ ہماری ان مخلصانہ دعاؤں کو سننے والا اور ہماری نیتوں اور اعمال کو جاننے والا اور استغفار کے نتیجہ میں ہماری بشری کمزوریوں کو اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لینے والا ہے.اس سمیع اور علیم خدا پر ایمان لانے کے بعد مشکلات میں گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ خدا وہ ہے جس کے متعلق ہم جانتے ہیں: "إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا “ کہ سب قدرت خدا تعالیٰ ہی کی ہے اور ہر چیز پر غلبہ اسی کو حاصل ہے.کسی اور کا اگر کوئی غلبہ ہمیں نظر آتا ہے تو یہ امتحاناً یہ ابتلاء یا انعاماً اس کو حاصل ہوتا ہے.اصل عزت اور غلبہ اور قدرت اور طاقت اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے.ہم اس خدائے قادر و توانا پر ایمان لائے ہیں.وہ تمام قدرتوں کا مالک اور تمام غلبہ اور طاقت کا سرچشمہ ہے.وہ ہمیں فرماتا ہے: "وَلَا يَحْزُنُكَ قَولُهُمْ “ اس قسم کے پوسٹر لگیں یا تقریریں ہوں تو تم نے غم نہیں کرنا.اس لئے ہم کیسے غم کر سکتے ہیں.پس آپ نے اشتعال میں نہیں آنا کیونکہ اس وقت ہمارا ملک بڑے ہی نازک دور میں
خطبات ناصر جلد سوم ۵۶۸ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ء سے گذر رہا ہے.ہمارے دلوں میں اپنے ملک کے لئے جو محبت ہے یہ وہی محبت ہے جس پر حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مہر لگائی ہے.حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ یعنی وطن کی محبت ایمان کا ایک جزو ہے.یہ وہ صادق محبت ہے.یہ وہ گنا ہوں سے پاک محبت ہے، یہ وہ دُکھ دینے کے خیالات سے مطہر محبت ہے.یہ وہ محبت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اقتدا اور آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہمارے دلوں میں پیدا کی گئی ہے اور یہی وہ محبت ہے جو ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ اگر ہمیں اپنی جانیں بھی دینی پڑیں تو ہم دریغ نہیں کریں گے لیکن اپنے ملک کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے.خواہ ہمیں ہرطرف سے بُرا بھلا ہی کیوں نہ کہا جائے اور صرف اپنے اس ملک کا ہی سوال نہیں ہمارے سپر د جو ہم ہوئی ہے اس کا یہ ایک چھوٹا ساحصہ ہے اور ہمارے سپر د تو یہ ہم ہوئی ہے کہ ہم ساری دنیا میں اسلام کے غلبہ کا انتظام کریں اور اس سلسلہ میں جانی اور مالی قربانیاں دیں.اس میں شک نہیں کہ یہ حقیر سی قربانیاں ہیں مگر انتہائی قربانی جو ہماری طاقت اور استعداد میں ہے وہ ہم نے پیش کرنی ہے مثلاً جس شخص کی طاقت اور استعداد میں ایک اٹھتنی دینا ہے اب اس کے متعلق دنیا داروں کی آنکھ تو یہ دیکھتی ہے کہ آٹھ آنے کی ایک حقیر سی قربانی اس نے پیش کر دی ہے مگر خدا تعالیٰ کی آنکھ اسے ایک اور زاویہ سے دیکھتی ہے.خدا تعالیٰ تو یہ دیکھتا ہے کہ اس نے اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اپنی طرف سے انتہائی قربانی دے دی چنانچہ جب خدا تعالیٰ کے حضور پورے خلوص کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ انتہائی قربانی پیش کر دی جاتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے جلوے دکھاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن قربانیوں کو قبول فرما لیتا ہے.آج ہمارا ملک ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اے میرے بچو! اے کرۂ ارض کے اس حصے میں رہنے والو!! میری مضبوطی اور استحکام اور بقاء کے لئے اپنی انتہائی قربانیاں پیش کرو.دنیا ہمیں جو مرضی کہتی رہے.حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ “ کے ارشاد کے مطابق ہمیں آج اپنے 66
خطبات ناصر جلد سوم ۵۶۹ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ء ملک کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دے دینی چاہئیں مگر یہ وہ انتہائی قربانیاں ہونی چاہئیں جو خدا تعالیٰ کو پیاری اور محبوب بھی ہوں اور جن کے بعد اُس قدرتوں کے مالک اور صاحب عزت خدا کے قادرانہ ہاتھ سے نتائج بھی نکلا کرتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ تو ہمارے کام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے.ہم نے تو اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنا ہے اور ہم نے تو ساری دنیا کو اندھیروں سے نکالنے کے لئے دعائیں کرنی ہیں اور ساری دنیا کے دلوں میں سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو گاڑنے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور انتہائی قربانیاں پیش کر دینی ہیں.اگر خدانخواستہ راہ کے یہ کانٹے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لیں ، تو ہم نا کام ہو گئے.پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان تکلیفوں کی طرف توجہ نہ کریں.ہم نا کام ہونے کے لئے پیدا ہی نہیں کئے گئے کیونکہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اور ایک لمبا عرصہ پہلے یہ اعلان فرمایا تھا کہ ہماری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے گو اُس وقت تو حالات بڑے مختلف تھے.اب تو دنیا بدل گئی ہے.پاکستان تو کیا ساری دنیا میں جماعت کو جو وقار حاصل ہوا ہے اور لوگوں کے دلوں میں جماعت کے لئے جو محبت اور پیار پیدا کیا گیا ہے آپ اس کو تختیل میں بھی نہیں لا سکتے.غرض زمین و آسمان بدل گئے ہیں.کہا گیا تھا کہ سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس مادی اور گنہگار اور گندی دنیا میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں گے کہ زمین یہ زمین نہیں رہے گی اور آسمان یہ آسمان نہیں رہے گا.یہ تبدیلی ، یہ انقلاب تو پیدا ہورہا ہے اور انشاء اللہ اپنے ارتقاء کی انتہاء کو پہنچے گا، اس لئے ہم نے ایسی باتوں کی بالکل پرواہ نہیں کرنی جو بظاہر تکلیف دہ معلوم ہوتی ہیں اور نہ جوش میں آنا ہے اور نہ کسی سے کوئی مطالبہ کرنا ہے اور نہ کسی سے جا کر شکائتیں کرنی ہیں.پس ان چیزوں سے بے نیاز ہو کر تمہارے سپر د جو کام ہے اُسے تم پوری توجہ اور پورے انہماک کے ساتھ اور اپنی قوتوں اور استعدادوں کو ان کی انتہاء تک پہنچاتے ہوئے کرتے چلے
خطبات ناصر جلد سوم ۵۷۰ خطبہ جمعہ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۷۱ء جاؤ.پھر دیکھو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کس طرح آپ پر اور ان لوگوں پر بھی جو آج آپ کے دشمن ہیں ،لیکن جن کے لئے آپ دعا ئیں کر رہے ہیں، آپ کی دعائیں قبول کرنے کے بعد ا اپنی رحمت کے جلوے نازل کرتا ہے کیونکہ وہ بڑا پیار کرنے والا خدا ہے.وہ لوگوں کو بخش بھی دیتا ہے.ہمارے جیسے گنہگار جب لوگوں کو معاف کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو وہ خدا جو کامل اختیارات کا مالک ہے وہ لوگوں کو بخش دینے کے لئے تیار کیوں نہیں ہوگا.غرض وہ لوگ جو تمہیں بڑا بھلا کہتے ہیں تم ان کو بخش دو اور ان کو معاف کر دو اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف کر دے اور اُن کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اور اس کے نور کا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیار کا ایک نیا، روشن، منور ، نور محض اور بڑ احسین آسمان پیدا ہو جائے جس کی روشنی میں اور جس کے سایہ میں یہ زمین وہ زمین نہ رہے جسے آج ہم دیکھ رہے ہیں.ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ دن جلد لائے.اس لئے تم بڑی سمجھ بوجھ کے ساتھ اور اپنے جذبات پر قابو پا کر قربانیاں دو.جو قربانیاں تمہارا ملک چاہتا ہے وہ بھی دو اور جن قربانیوں کا نوع انسان آج مطالبہ کر رہی ہے وہ بھی دو.اللہ تعالیٰ بڑے فضل کرے گا.اللہ تعالیٰ بڑی رحمتیں نازل کرے گا اور بڑی خوشیوں کے سامان پیدا کرے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.رونامه الفضل ربوه ۹ /جنوری ۱۹۷۲ء صفحه ۱ تا ۳) 谢谢您
۵۷۱ حوالہ جات جلد سوم حوالہ جات تذكرة الشهادتين ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۶ تذکرۃ ایڈیشن چہارم صفحه ۴۳۹ صفحہ نمبر ۳۲۳ ۳۲۳ ۳۲۴ ۳۲۵ ۳۲۵ ۳۲۵ ۳۲۶ ۳۳۰ ۳۳۳ ۳۷۰ ۳۷۰ ۴۴۶ ۴۴۶ ۵۵۱ ۵۵۱ ۵۶۸ خطبات ناصر جلد سوم نمبر شمار تذکرۃ ایڈیشن چہارم صفحه ۴۴۰ م تذکرۃ ایڈیشن چہارم صفحه ۴۵۱ تذکرۃ ایڈیشن چہارم صفحه ۴۹۰ تذکرۃ ایڈیشن چہارم صفحه ۴۹۰ تذکرۃ ایڈیشن چہارم صفحه ۴۹۰ تذکرۃ ایڈیشن چہارم صفحه ۵۱۷ تذکرۃ ایڈیشن چہارم صفحه ۵۱۷ الحکم نمبر ۲۲، ۲۳ جلد ۶ مورخه ۱۳ /اگست ۱۸۹۸ء صفحه ۱۳، ۱۴ تتمہ حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۰۳ صحیح بخاری کتاب الصلوة باب فضل استقبال القبلة مرقاة شرح مشكاة كتاب الایمان جلد ۱ صفحه ۸۲ مرقاة شرح مشكاة كتاب الایمان جلد ۱ صفحه ۸۲ سيرة خاتم النبین صفحہ ۵۵۸ ایڈیشن ۲۰۱۲ء سیرۃ النبی حصہ اوّل جلد اول تالیف علامہ شبلی نعمانی صفحه ۳۹۱ مطبوعہ کانپور موضوعات الكبير لامام ملاعلی قاری صفحہ ۴۰ مطبوعہ محمدی پریس لاہور ۱۳۰۲ھ ۶ L ٨ ۹ 10 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷
خطبات ناصر جلد سوم ۵۷۳ خطبات جمعہ فہرست خطبات جمعہ جو حضور انور نے ارشاد نہیں فرمائے.یا ارشاد فرمائے لیکن متن دستیاب نہیں ہوا.یا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشادفرمایا یانہیں.نمبر شمار وہ خطبات جو جلد میں شامل نہیں اس کی وجہ تاریخ خطبہ حوالہ ا حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۶ جنوری ۱۹۷۰ء الفضل ربوه ۱۸ / جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۱ ۲ حضور انور کی طبیعت ناساز تھی لیکن خطبہ کی تفصیل معلوم نہیں ۳۰؍ جنوری ۱۹۷۰ ء الفضل ربوه ۳۱ / جنوری ۱۹۷۰ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۳ / فروری ۱۹۷۰ء الفضل ربوه ۱۵ / فروری ۱۹۷۰ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۰ فروری ۱۹۷۰ء الفضل ربوه ۲۲ فروری ۱۹۷۰ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۳ مارچ ۱۹۷۰ء الفضل ربوه ۱۵ مارچ ۱۹۷۰ ء صفحه ۱ حضور انور نے خطبہ ارشاد فرما یا متن دستیاب نہیں ۱۰ اپریل ۱۹۷۰ ء الفضل ربوه ۲۲ اپریل ۱۹۷۰ صفحه ۲ حضور انورنا کیجیریا سے گیمبیا بذریعہ ہوائی جہاز سفر فرما تھے یکم مئی ۱۹۷۰ ء | الفضل ربوه ۲۶ مئی ۱۹۷۰ء صفحه ۵ حضور انور نے خطبہ انگلینڈ میں ارشاد فرمایا متن دستیاب نہیں ۲۲ مئی ۱۹۷۰ ء تاریخ احمدیت جلد ۲۶ صفحه ۷۴ v ۹ ۱۰ 11 خطبہ کی تفصیل دستیاب نہیں ہو سکی ۲۹ رمئی ۱۹۷۰ء خطبہ کی تفصیل دستیاب نہیں ہوسکی ۵ جون ۱۹۷۰ء خطبہ کی تفصیل دستیاب نہیں ہو سکی ۱۸ ستمبر ۱۹۷۰ء ۱۳ ۱۲ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۳ نومبر ۱۹۷۰ ء الفضل ربوه ۱۵ نومبر ۱۹۷۰ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۰ نومبر ۱۹۷۰ء الفضل ربوه ۲۲ نومبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۱ ۱۴ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲۷ نومبر ۱۹۷۰ ء الفضل ربوه ۲۹ نومبر ۱۹۷۰ صفحه ۱ ۱۵ ۲۲ جنوری تا ۸ اکتوبر نا سازی طبع کی وجہ سے حضور نے خطبات جمعہ ارشاد نہیں فرمائے خطبات ناصر جلد سوم صفحہ ۵۰۵ تا ۵۰۷ ۱۶ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۲ نومبر ۱۹۷۱ ء الفضل ربوہ ۱۴ نومبر ۱۹۷۱ ، صفحہ ۱