Khutbat-eNasir Vol 10

Khutbat-eNasir Vol 10

خطباتِ ناصر (جلد 10۔خطبات عیدین و نکاح)

Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات ناصر خطبات عیدین و نکاح از ۱۹۶۵ء تا ۱۹۸۲ء فرموده سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جلد دہم

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خطبات ناصر خطبات جمعہ ، خطبات عیدین، خطبات نکاح ارشاد فرمودہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ (جلد دہم) Khutbaat-e-Nasir - Volume 10 Friday, Eid and Nikah Sermons delivered by Hazrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul-Masih III, may Allah have mercy on him.(Complete Set Volume 1-10) - First edition published between 2005-2009 Present revised edition published in the UK, 2023 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in Turkey at: For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-701-3 (Vol.1-10)

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسوله الکریم عرض حال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ خطبات جمعہ و عیدین اور خطبات نکاح کچھ اور خطبات نکات کچھ عرصہ قبل شائع کئے گئے تھے.یہ مجموعہ دس جلدوں پر مشتمل تھا.حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن کے دوبارہ شائع کرنے کی درخواست کی گئی اور عرض کیا گیا بعض خطبات ایسے ہیں جو قبل ازیں شامل اشاعت نہیں ہو سکے تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے ایڈیشن کی اجازت فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ جو خطبات پہلے شامل اشاعت نہیں ہو سکے ان کو بھی شائع کر دیا جائے.تعمیل ارشاد میں میٹر ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا چنانچہ ۵۰ خطبات دستیاب ہوئے جو پہلے مجموعہ میں شامل نہیں ہیں.اسی طرح بعض خطبات کا خلاصہ شائع ہوا اور اب ان کا مکمل متن مل گیا ہے ان خطبات کو زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ درج کر دیا گیا.نیز آیات قرآنیہ کے حوالہ جات متن میں دیئے گئے اور خطبات کے مآخذ کا خطبہ کے آخر پر حوالہ درج کر دیا گیا ہے اور خطبات میں درج احادیث اور عربی تفاسیر کے حوالہ جات کو کتاب کے آخر پر درج کر دیا گیا ہے.اللہ تعالی اس کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.اس کی تیاری میں جن احباب کو شریک کار ہو کر خدمت کا موقع میسر ہوا اور سعادت پائی.اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.منیر الدین سمس ایڈیشنل وکیل التصنيف اپریل ۲۰۲۳ء

Page 4

Page 5

III بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ پیش لفظ سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبات کی دسویں جلد پیش خدمت ہے.یہ جلد آپ کے خطبات عیدین اور خطبات نکاح پر مشتمل ہے جو آپ نے اپنے زمانہ خلافت (۱۹۶۵ ء تا ۱۹۸۲ء) کے دوران ارشاد فرمائے.جن مقدس وجودوں کو خدائے قادر مقام خلافت پر فائز کرنے کے لئے منتخب فرماتا ہے انہیں اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے نوازتا ہے.ان کی زبانِ مبارک سے حقائق و معارف اور دقائق و لطائف جاری فرماتا ہے.اس جلد میں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں.۱.۲۲؍ دسمبر ۱۹۶۸ء کو عید الفطر کے خطبہ میں حقیقی خوشی اور عید کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر ہم غور کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی دنیوی خوشی اور عید وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے کہنے پر منائی جائے.اسی میں خیر ہے.اسی میں برکت ہے اور جب ہمیں خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ خوش ہو جاؤ اور خوشی سے اچھو تو ہمارا کام ہے کہ ہم خوش ہوں اور ہماری طبیعتوں میں بشاشت پیدا ہو اور ہم خوشی سے اچھلیں.جب ہمارا خدا ہمیں کہتا ہے کہ کھاؤ اور پیو تو ہمارے لئے یہ فرض ہے کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے کھا ئیں بھی اور پیئیں بھی اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی کھلائیں اور پلائیں اور اس کے پیچھے جو حقیقت ہے وہ تو ظاہر ہی ہے.

Page 6

IV اس کے پیچھے جو حقیقت ہے وہ سارا رمضان ہے.“ ( خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۲۸) ۲.احمدیت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں جو عزت عطا فرمائی اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.وو 66 ہم آج اس لئے خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کہا کہ خوش ہو.ہم اس لئے خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ جن سے میں پیار کرتا ہوں اس کا اظہار بھی کرتا ہوں اور پیار کا اظہار ایک نہیں، پیار کے ایک ہزار اظہار بھی نہیں، سال کے دوران میں سمجھتا ہوں لاکھوں پیار کے اظہار ہوئے.باہر کے مبلغ ، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے احمدیت سے باہر، دنیوی لحاظ سے لیکن خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اتنی عزت دی ہے اپنی نگاہ میں اور اس کے نتیجہ میں نوع انسانی کے دل میں عزت قائم کی ہے کہ ہمارے مبلغ جو یہاں سڑکوں پہ پھر رہے ہوں، تو آپ پہچانتے نہیں کون پھر رہا ہے، جب افریقہ میں ہوں یا دوسرے ممالک میں ہوں تو سر براہ مملکت بھی کھڑا ہو جاتا ہے چاہیے جب وہ کمرے میں داخل ہوتے ہیں.ان ان مبلغین کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ان کی ذاتی عزت نہیں ، یہ ان کی عزت طفیلی عزت ہے اور انہیں ملی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل.“ (خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۱۱۷) ۳.۱/۲ پریل ۱۹۶۶ء کو عیدالاضحیہ کے خطبہ میں اس طرح مؤثر انداز میں احباب کو وقف کی تلقین فرمائی.صحابہ کرام نے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی گردنیں خدا تعالیٰ کی راہ میں کٹوائیں اور اس طرح انہوں نے اس سبق کو یا درکھا اور اپنے عمل سے دہرا دیا جو کئی ہزار سال پہلے سکھایا گیا تھا.اس طرح جب انہوں نے اپنے آپ کو کلیۂ خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا تو خدا تعالیٰ نے بھی اپنی وہ نعمتیں ان پر نازل کیں جن کی مثال اس دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی.اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی رفعت ، اسلام کی ترقی اور غلبہ کا پھر دوبارہ سامان پیدا کیا ہے.یعنی جماعت احمدیہ کے قیام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ذریعہ اسلام کے لئے ترقی کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.اس لئے ہر احمدی کو وقف کا وہی نمونہ دکھانا چاہیے جو آج سے چودہ سو سال پہلے صحابہ کرام نے دکھایا تھا.اس وقت بھی اسلام کے مخالفوں اور دشمنوں کی چھری ہماری گردنوں کی تلاش میں ہے.اس لئے میں پوچھتا ہوں کہ کہاں ہیں وہ واقف گردنیں جو برضا و رغبت اپنے آپ کو اس چھری کے نیچے رکھ دیں؟ اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کریں؟ آج وقف کی روح پھر پوری شدت کے ساتھ ہماری جماعت کے اندر زندہ ہونی چاہیے.“ (خطبات ناصر جلد دهم صفحه ۱۲۱ تا۱۲۲)

Page 7

V ۴.وحدت اقوامی اور غلبہ اسلام کے لئے جدید سہولتوں سے استفادہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ وحدت اقوامی کے منصوبہ کو کامیاب بنانے کے لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ تمام دنیا ( یعنی دنیا کا کوئی حصہ نہیں بلکہ تمام ممالک) اس پوزیشن میں ہوں کہ ان کو یہ سہولت میسر ہو کہ وہ باہمی طور پر مذہبی تبادلہ خیالات کر سکیں.مثلاً مباحثے ہوں یعنی ایک دوسرے پر اپنے اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے بحثیں ہوں، مناظرے ہوں، کتابیں تصنیف کی جائیں اور ریڈیو پر بخشیں شروع ہو جا ئیں وغیرہ.اگر چہ یہ سا سلسلہ ابھی تک شروع نہیں ہوا تا ہم اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو جب اس سے زیادہ اثر ورسوخ عطا فرمائے گا تو یہ سلسلہ بحث و تقریر بھی انشاء اللہ شروع ہو جائے گا اور وقت بھی جلد آ جائے گا جب اسلام کے غلبہ کی مہم میں ہر قسم کی دنیوی سہولتوں سے انشاء اللہ فائدہ اٹھایا جائے گا.بہر حال دل یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑا اور طاقت ور براڈ کاسٹنگ سٹیشن وہی ہو جہاں سے صبح وشام اللہ اکبر کی آوازیں آرہی ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جارہا ہو.انشاء اللہ یہ وقت بھی جلد آ جائے گا.“ (خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۱۵۳،۱۵۲) ۵.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا.اس وقت جن نکاحوں کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں ان میں سے بعض رشتے حضرت مسیح موعود لمیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض دوسرے احباب جماعت سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد پر اللہ کے دین کے لئے قربانیاں دینے کی دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ایک اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی شناخت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کی توفیق عطا کی اور دوسرے اس لئے کہ اس نے محض اپنے فضل سے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان میں پیدا کیا.دوست دعا کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تعلق رکھنے والے بچے اور وہ نسل جو اللہ تعالیٰ ان سے آگے چلائے.انہیں اللہ تعالیٰ ان انتہائی قربانیوں کی توفیق عطا کرے جن کی وہ ان سے توقع رکھتا ہے اور انہیں اپنے انعامات کا وارث کرے اور

Page 8

VI حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں اور بشارتوں کو ان کے حق میں قبول کرے اور پورا 66 کرے.( خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۳۸۳، ۳۸۴) ۶ - ۱۲ اگست ۱۹۶۸ء کو خطبہ نکاح میں لڑکی اور لڑکے والوں کو اس پیارے انداز سے نصیحت فرمائی.شادی کے اوپر یہ دیا یہ نہیں دیا یوں کرنا چاہیے تھا.یہ نہیں سوچتے کہ بیٹی والوں نے اپنے گھر کی سب سے قیمتی چیز خاوند کے گھر بھیج دی اور وہ بیٹی ہے.ایک انسان سے زیادہ تو دنیا کی کوئی چیز قیمتی نہیں ہو سکتی.لڑکے والوں نے اپنا لڑکا دے دیا.اس گھر میں اس لڑکے سے زیادہ اور کون سی قیمتی چیز ہوسکتی ہے تو سب سے زیادہ قیمتی چیز لی بھی اور دی بھی اور پھر ان بیہودہ باتوں کی طرف خیال کرنے لگ گئے اس سے برکت نہیں رہتی.اس سے اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل نہیں کیا جاسکتا.اس کے نتیجہ میں ازدواجی زندگی خوش گوار ہر گز نہیں رہ سکتی.“ ( خطبات ناصر جلد دہم صفحه ۴۱۶) ۷ ۵ رمئی ۱۹۶۹ء کو خطبہ نکاح میں ازدواجی رشتوں کی مضبوطی کے بارے ان الفاظ میں تلقین فرمائی.”نکاح کے ذریعے جو رشتے باندھے جاتے ہیں.یہ رشتے بڑے ہی نازک ہوتے ہیں اور ان رشتوں کو پختہ اور مستحکم بنانے کی ذمہ داری صرف خاوند اور بیوی پر نہیں ہوتی بلکہ اس کی ذمہ داری ہر دوخاندانوں اور ان کے عزیز واقارب پر بھی ہوتی ہے.اگر برادری میں رشتہ ہو تو بہت سی پرانی رنجشوں کو بھلانا پڑتا ہے تب رشتہ میں استحکام پیدا ہوتا ہے.اگر برادری نہ ہو تو ایسے دو خاندانوں میں جن کا آپس میں پہلے کوئی قرابت کا تعلق نہیں اجنبیت ایک طبعی چیز ہے.اس اجنبیت کو دور کرنا پڑتا ہے.وہ جو پہلے بیگانے تھے اب لگانے بن جاتے ہیں.اس کے لئے بہر حال کوشش کرنی پڑتی ہے اور کوشش کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ نے پھر سے احمدیت کی برادری کو اسلامی اخوت کی بنیادوں پر اس طرح قائم کیا ہے کہ ہماری جماعت کی اکثر شادیاں آپس میں نئے ازدواجی رشتوں کو قائم کرتی ہیں.خاندانوں میں پہلے قرابت داری کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.احمدیت کا رشتہ اگر ہم اسے سمجھیں دنیا کی سب قرابتوں سے بالا اور ارفع اور مضبوط تر ہے.اگر نہ سمجھیں تو یہ ہماری بدقسمتی ہے اور ہمارے لئے دکھ کا باعث بن سکتی ہے.“ ( خطبات ناصر جلد دہم صفحه ۴۵۶،۴۵۵) ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء کو غلبہ اسلام کے بارہ میں پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا.اب دیکھو وہ شخص اکیلا تھا.اکیلا نہیں تھا.خدا تعالیٰ اس کے ساتھ تھا.جس کے ساتھ خدا کا

Page 9

VII فضل ہو اس کو ہم اکیلا نہیں کہہ سکتے.پھر وہ ایک سے ہزار ہوا.ہزار سے لا کھ ہوا.پھر اس کے نام لیوا لاکھ سے دس لاکھ تک جا پہنچے.اور اب تو ان کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے.میرا اندازہ ہے کہ ساری دنیا میں اس وقت کم و بیش دو کروڑ احمدی ہیں.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس محبوب مہدی کو مانتے ہیں جس کو اولا گھر والے بھی نہیں پہچانتے تھے.اور اس پر ابھی زمانہ بھی کیا گذرا ہے.تھوڑا سا زمانہ ہے کیونکہ ہمیں جو بشارت دی گئی ہے.وہ تین صدیوں پر مشتمل ہے.یعنی تین صدیاں نہیں گذریں گی کہ تمام دنیا میں اسلام غالب آ جائے گا تاہم ہمارا اندازہ ہے ( بہت سی پیشگوئیوں اور بشارتوں پر یکجائی نظر ڈالتے ہوئے کہ ) خدا کرے کہ یہ صحیح ہو بہر حال یہ ہماری تعبیر و تشریح ہے کہ ان بشارتوں کے پورا ہونے میں شاید سو سوا سو سال کا عرصہ نہیں گذرے گا کہ اسلام کے حق میں ایک بہت بڑا انقلاب نمایاں ہو کر دنیا کے سامنے آجائے گا.(خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۶۲۹،۶۲۸) ۹ - ۲۰ مارچ ۱۹۷۸ء کو ایک خطبہ نکاح ازدواجی رشتے کی اس طرح خوبصورت مثال دی.ازدواجی رشتے کی مثال مادی دنیا میں ایک ایسے پیوند کی ہے جس کے پھولوں میں نر اور مادہ اکٹھے ہوتے ہیں.عورت کی ذمہ واریوں سے مرد کے حقوق کی شاخیں نشو و نما پاتی ہیں اور عورت کے حقوق کی شاخیں مرد کی ذمہ واریوں سے نشو و نما حاصل کرتی ہیں.ازدواجی رشتے کے بعد ایک ہی خاندان بن جاتا ہے اور جیسے کہ میں نے بتایا ہے اس کی مثال درخت کے پیوند کی ہے جس کی ایک ہی ٹہنی کے ایک پھول میں نہ بھی ہے اور مادہ بھی یعنی مرد بھی ہے اور عورت بھی ہے اور وہ ان ریشوں کے ذریعہ سے جو ٹہنی میں چلتے ہیں اور پیوند میں سے ہو کر جڑوں تک جاتے ہیں اپنی نشوونما کے سامان پیدا کرتے ہیں.ہم مرد و زن جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں ہم دنیا میں ایک حسین اور خوشحال اسلامی معاشرہ قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں.پس ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبہ کو اسلامی نور سے منور کرتے ہوئے اس میں اسلام کا حسن پیدا کریں اور دنیا کے لئے ایک نمونہ بنیں اور ہم میں سے ہر مرد اپنی بیوی کے حقوق ادا کرنے والا ہو اور ہم میں سے ہر عورت اپنے خاوند کے حقوق ادا کرنے والی ہو اور باہم مل کر ایک حسین خاندانی معاشرہ قائم کریں اور پھر خاندان مل کر دنیا کے لئے ایک نمونہ بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.“ ( خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۷۷۹،۷۷۸)

Page 10

VIII وو ۱۰.اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے آخری خطبہ نکاح میں جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.یہ وقت ہے ایک عظیم مہم کا.اتنی بڑی لڑائی انسانی زندگی میں تلوار سے نہیں دلائل کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ نوع انسانی کی تاریخ میں کبھی نہیں لڑی گئی جتنی آج لڑی جارہی ہے کیونکہ محد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بشارتیں ملی تھیں، ان کے عروج کا زمانہ آ گیا.اس وقت سب کچھ بھول کے ہمیں بس ہنستے مسکراتے خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نتیجہ میں خوشیاں ہمارے چہروں سے یوں بہہ کے آ رہی ہوں جس طرح پہاڑ سے برفانی پانی کے نالے بہہ کے آرہے ہوتے ہیں اور آگے بڑھتے چلے جاؤ اور اتنا جہیز کم کیوں دیا.میرے پاس آتے ہیں، میں آپ کا امام اور خلیفہ بھی ہوں نا تو بڑی کوفت ہوتی ہے، جہیز کے اوپر اختلاف ہو گیا.پھر خلع لینے کے لئے.پھر یہ کہ اس نے ہمیں پیسے زیادہ نہیں دیئے.رشتہ داروں کو جوڑے کوئی نہیں دیئے.یہ نہیں دیا وہ نہیں دیا.تمہیں اس وقت سوائے خدا تعالیٰ کے پیار کے اور کچھ نہیں چاہیے.اس کے پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.اس دنیا میں بھی کامیاب ہو جاؤ گے.اخروی زندگی میں بھی کامیاب ہو جاؤ گے.“ (خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۸۴۹٬۸۴۸) اس جلد کے ساتھ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ، عیدین اور نکاح کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو گیا ہے.خطبات ناصر کی گیارھویں اور بارھویں جلد انشاء اللہ آپ کے جلسہ سالانہ کے خطابات پر مشتمل ہوگی.والسلام سید عبدالحی ۱۷/ مارچ ۲۰۰۹ء ناظر اشاعت

Page 11

خطبات ناصر جلد دہم IX فہرست خطبات عید الفطر نمبر شمار 1 ۶ ง فہرست خطبات خطبات عید الفطر عنوان خطبه فرموده صفحه ہر نیک عمل جو انسان کرتا ہے اپنے اندر چار عید میں رکھتا ہے ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء مستحقین کو کھانا کھلا نا رمضان کی عبادات اور عید کا بڑا ضروری حصہ ہے ۱۳ جنوری ۱۹۶۷ء عید کے معنی بار بار آنے والی خوشی کے دن کے ہیں حقیقی عید وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے کہنے پر منائی جائے حقیقی عید یا خوشی کا دوسرا بڑا ذریعہ استقامت ہے حقیقی عید یہ ہے کہ ہم بنی نوع انسان کی خدمت کریں ۲ جنوری ۱۹۶۸ء ۲۲ / دسمبر ۱۹۶۸ء ۱۲ / دسمبر ۱۹۶۹ء یکم دسمبر ۱۹۷۰ء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ امت مسلمہ کے لئے عید کا دن تھا ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ء 1 σ ۱۷ ۲۳ ٣١ ۴۱ ۴۷ ۵۱ امت مسلمہ کی عید خدا کی طرف سے روحانی ضیافت کا رنگ رکھتی ہے ۱۸ نومبر ۱۹۷۲ء انسان کی اصل عید اس سورج کا طلوع تھا جو فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوا ۲۸ / اکتوبر ۱۹۷۳ء ۶۱ ۱۰ احمدی کی حقیقی عید اس کی دعائیں قبول ہو کر ہوتی ہے "1 ۱۲ ۷۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء قدم بقدم آگے بڑھنا اور نئی منزل پر پہنچنا ہمارے لئے عید ہے ۷ را کتوبر ۱۹۷۵ء اسلام کے موعود عالمگیر غلبہ کی شکل میں ایک عظیم الشان عید مقدر کی گئی ہے ۲۵ ستمبر ۱۹۷۶ء رمضان کی عبادات اور دعاؤں کے نتیجہ میں یہ عید حقیقی لحاظ سے خوشی کا دن ہے ۱۶ ستمبر ۱۹۷۷ء ۶۹ 22 ΔΙ ۸۵ ۸۹ عید کی خوشی معمول سے زیادہ قربانیاں پیش کرنے کے بعد عطا کی جاتی ہے ۴ ستمبر ۱۹۷۸ء ۱۵ حقیقی خوشی کے حصول کے لئے مقبول اعمال بجالانے کی کوشش کرو ۲۵ / اگست ۱۹۷۹ ء ۱۰۳ خدا کے مومن بندے کی اصل عید رضائے الہی میں ہے ۱۲ اگست ۱۹۸۰ء ۱۰۷ ۱۷ اصل عید یہ ہے کہ ہم پر پہلے سے بڑھ کر برکتیں آسمان سے نازل ہو رہی ہیں ۲ اگست ۱۹۸۱ء ۱۱۳

Page 12

خطبات ناصر جلد دہم X فہرست خطبات عید الاضحیہ نمبر شمار 1 خطبات عید الاضحیہ عنوان خطبه فرموده صفحه حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وقف اور وفاداری کی زندہ مثال قائم کی ہے ۱/۲ پریل ۱۹۶۶ء حضرت ابراہیم اور ان کی نسل نے خاندانی وقف کی عظیم قربانی پیش کی ۲۲ مارچ ۱۹۶۷ء یہ عید قربانیوں کے تین عظیم الشان نمونوں کی یاد دلاتی ہے ۲۷ رفروری ۱۹۶۹ء 119 ۱۲۵ ۱۳۱ ۱۴۱ ۴ انسان اپنی خواہشات اور مرضیوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی رضا اختیار کرے ۱۷ فروری ۱۹۷۰ء خدا کرے وحدت اسلامی کی مہم میں ہماری کوشش بار آور ہو ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء ۱۴۷ ۶ > 11 ۱۲ ۱۳ دنیا میں ایک ہی بنیادی حقیقت ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا ۱۶ جنوری ۱۹۷۳ء عید الاضحیہ خدا کے حضور قربانیاں پیش کرنے کی یاد تازہ کرتی ہے ۵/جنوری ۱۹۷۴ء قدم بقدم آگے بڑھنا اور نئی منزل پر پہنچنا ہمارے لئے عید ہے ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۴ء حضرت ابراہیم اور آپ کی نسلوں نے محمدصلی اللہ علیہ سلم کے لئے عظیم قربانیاں دیں ۱۴؍ دسمبر ۱۹۷۵ء امت مسلمہ بیت اللہ کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہے ۲ دسمبر ۱۹۷۶ء خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی گزار نا ذبح عظیم ہے ۲۲ نومبر ۱۹۷۷ء فریضہ حج ایسی قربانی ہے جو انتہائی ذاتی محبت کی متقاضی ہے ۱۲ نومبر ۱۹۷۸ء خانہ کعبہ اور حج سے وابستہ یاد کا تعلق محبت اور عشق سے ہے یکم نومبر ۱۹۷۹ء ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۰ء ۱۴ مومن کی حقیقی خوشی اللہ کی رضا حاصل کرنے میں ہے یہ عید اس عظیم قربانی کی یاد میں مناتے ہیں جو محمد کے وجود میں عروج کو پہنچی ۹ اکتو برا ۱۹۸ء ۱۶۷ ۱۷۵ ۱۷۹ ۱۸۹ ۱۹۷ ۲۰۱ ۲۰۵ ۲۱۱ ۲۱۷ ۲۲۱ ( نوٹ از ناشر ) ۱۰ مارچ ۱۹۶۸ ء بوجہ علالت خطبہ عیدالاضحیہ ارشاد نہیں فرمایا.(روز نامه الفضل ربوه ۱۳ مارچ ۱۹۶۸ صفحه ۱) ۷ فروری ۱۹۷۱ ء بوجہ علالت خطبہ عیدالاضحیہ ارشاد نہیں فرمایا.( روزنامه الفضل ربوه ۱۰ فروری ۱۹۷۱ صفحه ۱)

Page 13

خطبات ناصر جلد دہم نمبر شمار XI خطبات نکاح عنوان فہرست خطبات نکاح خطبه فرموده صفحه 1 3 ۶ 2 ง حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کے عہد خلافت کا پہلا اعلان نکاح ۲۱ نومبر ۱۹۶۵ء خاوند اور بیوی کے تعلقات کی بنیاد تقویٰ پر ہونی چاہیے ۲۳۳ ۲۸ نومبر ۱۹۶۵ء | ۲۳۵ ہمارے تعلقات خدا کی مرضی اور اس کے احکام کے تابع ہونے چاہئیں ۱۵ر دسمبر ۱۹۶۵ء ۲۳۹ ۲۴۳ دعا فرما ئیں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو ہر دو خاندانوں کے لئے با برکت کرے ۲۲ دسمبر ۱۹۶۵ء خدا فریقین کو خوشحال اور پر سکون زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۲۴ دسمبر ۱۹۹۵ء ۲۴۵ اموال اور اولا د انسان کے لئے آزمائش ہیں تمام کا میابیوں کا گر یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء ۲۴۹ ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء ۲۴۷ اسلام دنیا میں جو جنت پیدا کرنا چاہتا ہے خاندان اس کا اہم جزو ہے ۹ فروری ۱۹۶۶ء اسلام دنیا کے رشتے اور تعلقات قائم کرنے سے منع نہیں کرتا ۱۱ فروری ۱۹۶۶ء ۲۵۱ ۲۵۳ ۱۰ زندگیوں کو رسول کریم کے اسوۂ حسنہ کے مطابق گزارنے کی کوشش کرو | ۱۳ فروری ۱۹۶۶ء ۲۵۵ 11 رشتہ استوار کرنے کے لئے پیش نظر رکھنے والی غرض ۱۲ تربیت اولا د بڑا نازک مسئلہ ہے قرآن کریم نے بیوہ کی شادی کی بڑی تاکید فرمائی ہے ۱۷ فروری ۱۹۶۶ء ۲۵۷ ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء ۲۵۹ ۲۶ فروری ۱۹۶۶ء ۲۶۱ بعض خاندان بیوہ عورت کی شادی کر نا رسم و رواج کے خلاف سمجھتے ہیں ۱۰ مارچ ۱۹۲۶ء ۱۵ با ہمی تعلقات خدا کی رضا جوئی کی بنیاد پر قائم کرنے چاہئیں ۲۰ مارچ ۱۹۶۶ء تقوی اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنائیں ۲۷ / مارچ ۱۹۶۶ء ۲۶۵ ۲۶۹ ۲۷۱ ۱۷ خوشی کی یہ تقریب میری ذاتی خوشی بھی ہے ۱۷ را پریل ۱۹۶۶ء ۲۷۵

Page 14

خطبات ناصر جلد دہم XII فہرست خطبات نکاح ۱۸ حضرت مسیح موعود کے اوائل زمانہ میں بڑی مخالفت اور دشمنی کے دن تھے ۱۸ ۱۷ پریل ۱۹۶۶ء ۲۷۷ ۲۱ ۲۲ افغانستان میں حضرت مسیح موعود کے شہید صحابہ کا خون رنگ لائے گا ۶ مئی ۱۹۶۶ء آنحضرت کی ارشاد فرمودہ نہایت پر حکمت اور لطیف نصائح ۲۷ رمئی ۱۹۶۶ء انگلستان کے احمدیوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے والا نمونہ پیش کرنا چاہیے ۲۸ مئی ۱۹۶۶ء ۲۷۹ ۲۸۳ ۲۸۹ ۲۹۱ اللہ تعالیٰ جس شخص کی ڈھال بن جاتا ہے وہ کبھی نا کام نہیں ہوتا ۵ جون ۱۹۶۶ء یکم جولائی ۱۹۶۶ء ۲۹۳ ۲۳ ہمیشہ اور ہر موقع پر تقوی کوملحوظ رکھو سب حقوق کو صحت نیت اور اخلاص کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ۳ جولائی ۱۹۶۶ء ۲۹۷ اللہ اس نکاح کے نتیجہ میں دین کی خدمت کرنے والی نیک نسل چلائے ۳۱ جولائی ۱۹۶۶ء ۲۶ خدا کا تقویٰ اپنے اعمال کے ذریعہ سے بھی ظاہر کرو ۲۷ ۴ را گست ۱۹۶۶ء ٣٠١ ۳۰۵ ۳۰۹ قرآن کریم نے اپنا ایک فیملی پلاننگ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ۱۰ اگست ۱۹۶۶ء ۲۸ خدمت سلسلہ کرنے والے بزرگوں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں ۱۱ را گست ۱۹۶۶ء ۲۹ قرآن کریم کے راستے پر پوری توجہ اور طاقت کے ساتھ کار بند ہو جاؤ ۱۶ اگست ۱۹۶۶ء ۳۱۱ ۳۰ جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلامی اخوت اور بین الاقوامی برادری بن رہی ہے ۱۷ را گست ۱۹۶۶ء ۳۱۷ ہر دوکو حالات کے مطابق اپنی عادتیں اور خیالات بدلنے پڑتے ہیں ۲۹ اکتو بر ۱۹۶۲ء ۳۲۱ ۳۲ اخروی زندگی کی خوشیاں ہی حقیقی خوشیاں ہیں ۳۰/اکتوبر ۱۹۶۶ء ۳۲۷ ۳۳ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ....۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء ۳۲۹ صحیح اسلام جب ایک انسان حاصل کر لیتا ہے تو وہ خیر ہی خیر بن جاتا ہے ۱۵ جنوری ۱۹۶۷ء ۳۳۹ ۳۵ ہر دو خاندان اللہ کے فضل سے آسمان سے نازل ہونے والی ہدایت پر قائم ہیں ۱۶ جنوری ۱۹۶۷ء ۳۴۳ دعا کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے ۳۷ اللہ تعالیٰ نے مومن کو فراست اور دُور بین نظر عطا کی ہوتی.۳۸ ہماری اولا د فیض، برکت ، رحمت اور نور والی ہو چاہیے کہ عزم ، جد وجہد اور دعائیں کرتے رہیں ۲۰ جنوری ۱۹۶۷ء ۳۴۵ ہے ۲۵ / جنوری ۱۹۶۷ء ۳۴۷ ۱۹ / مارچ ۱۹۶۷ء ۳۰ مارچ ۱۹۶۷ء ۳۴۹ ۳۵۱ دنیوی کاموں میں بھی کامیابی کا گر قول سدید میں مضمر ہے ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء ۳۵۳

Page 15

خطبات ناصر جلد دہم ۴۱ XIII بیوی بچوں کی تربیت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے رب خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ہے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ۴۳ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ فہرست خطبات نکاح ۲ را پریل ۱۹۶۷ء ۳۵۵ ۱۶ اپریل ۱۹۶۷ء ۳۵۷ ۱/۲۷ پریل ۱۹۶۷ء ۳۵۹ ۴۴ رشتہ کی کامیابی کے لئے میاں بیوی ایک دوسرے کی خاطر قربانی کریں ۱۳۰ اگست ۱۹۶۷ء ۳۶۱ ۳۶۳ ۴۵ اسلام کو بڑی کثرت سے فدائی اور جاں نثار خادموں کی ضرورت ہے ۹ اکتوبر ۱۹۶۷ء ۴۶ غلبہ اسلام کی ذمہ داریوں کو نباہنے کے لئے دعا اور کوشش کرتے رہیں ۱/۲۰ اکتوبر ۱۹۶۷ء ۳۶۵ ۴۷ آنحضرت کے فرمان خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِه کو ہمیشہ نظر رکھنا چاہیے ۲۳ اکتوبر ۱۹۶۷ء ۳۶۷ ۴۸ مسلمان مردوں کی ذمہ داری ہے کہ عورتوں کے اسلامی حقوق انہیں دلائیں ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۷ء ۳۶۹ ۹ اسلام نے بچوں کی صحت اور روحانی تربیت پر بڑا زور دیا ہے ۴ نومبر ۱۹۶۷ء ۵۰ اسلام نے نہایت ہی حسین معاشرہ کے سامان مہیا کر دیئے ہیں ۲۱ نومبر ۱۹۶۷ء ۵۱ انسان کی کامیابی کا انحصار اعمال صالحہ بجالانے پر ہے ۵۲ اللہ اس رشتہ کو ہر دو خاندانوں کے لئے مبارک کرے ۳؍ دسمبر ۱۹۶۷ء ۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء ۳۷۳ ۳۷۵ ۳۷۹ ۳۸۱ ۵۳ دلوں میں محبت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک کوئی پیار اور خلوص سے کام نہ کرے کے جنوری ۱۹۶۸ء خاندان مسیح موعود پر قربانیاں دینے کی دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء ۳۸۵ ۱۹؍ جنوری ۱۹۶۸ء ۳۸۷ ۵۵ نکاح کے موقع پر سب سے زیادہ ضروری بات دعا ہے ۵۶ خوف خدا پیدا کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ہے ۲۹ جنوری ۱۹۶۸ء ۳۸۹ جھوٹی عزتوں کی خاطر خدا کے احکام اور تعلیم کو قربان نہ کریں ۲۴ فروری ۱۹۶۸ء | ۳۹۱ ۵۷ ۵۸ احمدی بچیوں اور بچوں کے درمیان طے پانے والے رشتے خوشی کا باعث ہیں یکم مارچ ۱۹۶۸ء ۳۹۳ ۵۹ ربوبیت کی صحیح اور حقیقی ذمہ داری اللہ نے اپنے پر لی ہے ایک مسلمان کا مقصد یہ ہے کہ الہی منشا پورا ہو ہر دو خاندان ایک ایک خصوصیت اپنے اندر رکھتے ہیں ۲۳ / مارچ ۱۹۶۸ء ۲۳ / مارچ ۱۹۶۸ء ۲۴ مارچ ۱۹۶۸ء ۳۹۵ ۳۹۹ ۴۰۱

Page 16

خطبات ناصر جلد دہم + XIV فہرست خطبات نکاح شیطان کا غلبہ ان لوگوں پر نہیں ہوتا جو خدا کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ۳۱ مارچ ۱۹۶۸ء ۶۳ انسانی اعمال کو اللہ کا فضل ہی اعمال صالحہ کی شکل دے سکتا ہے ۳۰/ جون ۱۹۶۸ء ۶۴ جو شخص مستقبل کی تیاری کرتا ہے وہ نا کام نہیں ہوا کرتا ۴۰۳ ۴۰۹ ۴ جولائی ۱۹۶۸ء ۴۱۱ ۶۵ شادی کے بعد بھی اللہ ہر دو کو خدمت دین کی توفیق عطا کرتار.رہے ۲۸؍ جولائی ۱۹۶۸ء ۴۱۵ اسلام نے تکلف کی زندگی کی تعلیم نہیں دی اسی میں سب برکتیں اور خیر ہے ۱۲ اگست ۱۹۶۸ء ۴۱۷ حقیقی خوشی خدا اور اس کے رسول کی اطاعت میں مضمر ہے ۱۶ اگست ۱۹۶۸ء ۴۲۳ ۶۸ اللہ کے بتائے ہوئے طریق پر اپنے دنیاوی تعلقات استوار کریں ۲۹ اگست ۱۹۶۸ء ۴۲۵ اللہ تعالیٰ اسلام کی ہدایت کے مطابق تعلق قائم رکھنے کی توفیق عطا کرے ۲۰ ستمبر ۱۹۶۸ء ۴۲۷ ۶۹ ۴۲۹ ۷۰ رسول کی اطاعت پر ہماری ساری کامیابیوں کا دارومدار ہے ۲۱ ستمبر ۱۹۶۸ء ہمیں اور ہماری نسلوں کو اللہ کے ساتھ زندہ تعلق قائم رکھنا چاہیے ۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء ۴۳۱ اے ง ۶ نومبر ۱۹۶۸ء ۴۳۵ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت با برکت کرے باہمی تعلقات کی بنیاد حقیقی صداقتوں اور حقائق پر مبنی ہونی چاہیے ۹ فروری ۱۹۶۹ء ۴۳۷ اللہ تعالیٰ کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے ۱۰ فروری ۱۹۶۹ء | ۴۴۳ ۷۵ کسی شعبہ زندگی کے متعلق بھی خدا اور رسول کی تعلیم کو بھلانا نہیں چاہیے ۲۸ فروری ۱۹۶۹ء ۴۴۵ اللہ تعالیٰ ہر دو خاندانوں کے لئے یہ رشتہ مبارک کرے یکم مارچ ۱۹۶۹ء ۴۴۷ نکاح کے موقع کے لئے دعا بہترین تحفہ ہے ۳۰ مارچ ۱۹۶۹ء ۴۴۹ اللہ اس رشتہ کو ہر دو بھائی خاندانوں کے لئے با برکت کرے ۲۰ را پریل ۱۹۶۹ء ۴۵۱ و اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کو ادا کرو ۸۲ اللہ تعالیٰ کی رضا ہمارا مقصد ہونا چاہیے اگلی نسلوں پر دنیاداروں کے دباؤ زیادہ پڑیں گے ۱۲۷ پریل ۱۹۶۹ء ۴۵۳ ۵ مئی ۱۹۶۹ء یکم جون ۱۹۶۹ء مولوی صالح محمد صاحب خدمت گزاری کی وجہ سے دعا کے مستحق ہیں 9 اگست ۱۹۶۹ء ۴۵۷ ۴۶۱ ۴۶۳

Page 17

خطبات ناصر جلد دہم ۸۳ XV فہرست خطبات نکاح اپنی زندگیوں میں اسلام کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرو ۱۴ اگست ۱۹۶۹ء ۴۶۵ ۸۴ انسانی زندگی کے نئے دور کی ابتدا نکاح کے اعلان سے ہوتی ہے ۲۳ / اگست ۱۹۶۹ء ۴۶۷ ۴۷۵ ۸۵ تقوی اختیار کرنے کے لئے اللہ کی توفیق اور رحمت کی ضرورت ہے ۴ ستمبر ۱۹۶۹ء ۸۶ جماعت میں عزت ، اخلاص اور خدمت دین کی بنیادوں پر حاصل ہوتی ہے ۲۵ ستمبر ۱۹۶۹ء ۴۷۷ ۸۷ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق شادی اپنے کفو میں کرنی چاہیے ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء صحیح تربیت کے لئے صحیح تعلیم اور عادات کی اصلاح بڑی ضروری ہے ۱۵اکتو بر ۱۹۲۹ء ۸۸ ۴۷۹ ۴۸۵ ۸۹ ہم حقوق کو جس طور پر اللہ نے قائم کیا ہے سمجھنے اور ادا کرنے والے ہوں ۲۵/اکتوبر ۱۹۶۹ء ۴۸۷ ۹۰ نکاح کے رشتہ میں قول سدید بڑی برکت والی چیز ہے ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۹ء ۴۸۹ او زندگی کے شعبوں میں سے اہم شعبہ ازدواجی رشتہ کا قیام ہے ۵/ دسمبر ۱۹۶۹ء ۴۹۳ ۹۲ تعلق محبت و شفقت بھی ایک قرب اور رشتہ کو قائم کرتا ہے ۱۵ر دسمبر ۱۹۶۹ء ۲۵ دسمبر ۱۹۶۹ء ۲۹ دسمبر ۱۹۶۹ء ۹۳ بیویوں کے حقوق کی نگہداشت کرنا تمہارے ذمہ ہے ۹۴ مهر مناسب ہونا چاہیے نہ بہت زیادہ نہ بہت کم ۴۹۷ ۴۹۹ ۵۰۳ ۵۰۷ ۹۵ اللہ تعالیٰ اپنا اور اپنے رسول کا عشق بچوں میں بھی پیدا کرے ۳۱ دسمبر ۱۹۶۹ء ۹۶ دعا کریں انسانی نسل چلانے کا مقصد ان رشتوں سے بھی پورا ہو نیم جنوری ۱۹۷۰ء ۵۰۹ ۹۷ اللہ تعالیٰ اس نکاح کو با برکت کرے اور یہ نیک نسل کا موجب بنے ۲ جنوری ۱۹۷۰ء ۹۸ جو زندگی خدا کی پناہ میں نہیں گزری وہ موت سے بدتر ہے ۴ جنوری ۱۹۷۰ء ۵۱۱ ۵۱۳ 99 دعا کریں بڑوں کا خدمت دین کا جذبہ آئندہ نسلوں میں بھی قائم رہے ۹ جنوری ۱۹۷۰ء ۵۱۵ ۱۰۰ اللہ تعالیٰ دینی و دنیوی برکات کا ہمیشہ وارث بنائے ۹ جنوری ۱۹۷۰ء ۵۱۹ ۵۲۱ ۱۰۱ ازدواجی رشتوں کا قیام بہت سی خوشیاں لاتا اور ذمہ داریاں عائد کرتا ہے ۸ فروری ۱۹۷۰ء ۱۰۲ دینی کامیابیوں کے نتیجہ میں انسان کو حقیقی خوشی اور حقیقی فلاح ملتی ہے ۲۲ فروری ۱۹۷۰ء ۵۲۵ ۱۰۳ اللہ اپنے فضل سے ان رشتوں کے نتیجہ میں نیک آبادی کے سامان پیدا کرے ۲ مارچ ۱۹۷۰ء ۵۲۹

Page 18

خطبات ناصر جلد دہم XVI فهرست خطبات نکاح اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان رشتوں کو ہر جہت سے بہت بابر کت کرے ۸ / مارچ ۱۹۷۰ء ۵۳۱ ۱۰۵ باغ احمد کے ایک درخت کی شاخ دوسرے درخت کی شکل اختیار کرے گی ۲۰ مارچ ۱۹۷۰ء ۵۳۳ 1+7 i ہماری ہر بات اللہ تعالیٰ پر ظاہر اور اس کے علم میں ہے بعض خوشیاں زیادہ خوشی پہنچاتی ہیں ۱۰۸ حقیقی مستقبل کی حقیقی فکر کرنے والے ہی مومن ہیں +11 یه رشته نیک، ہمدرد غمخوار اور اسلام کا پیغام پہنچانے والا ہو انسان کی طبیعی زندگی یہ ہے کہ وہ اکیلا نہ رہے ۲۳ / مارچ ۱۹۷۰ء | ۵۳۵ ۱۴ / جون ۱۹۷۰ء ۵۳۷ یکم اگست ۱۹۷۰ء ۵۳۹ ۴/اگست ۱۹۷۰ء ۳ ستمبر ۱۹۷۰ء میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات سے معاشرہ پر خوشکن اثرات مرتب ہوتے ہیں ۱۹ ستمبر ۱۹۷۰ء ۱۱۲ اسلام نے ہدایت کا راستہ معین اور واضح کر دیا ہے ۵۴۱ ۵۴۳ ۵۵۱ ۱۰ اکتوبر ۱۹۷۰ء ۵۵۳ ۱۱۳ اللہ تعالیٰ کی صفت حتی کے جلوؤں میں انسان کے لئے سبق یکم نومبر.۱۱۴ آنے والا زمانہ تربیت اولاد کی خاص توجہ کا متقاضی ہے 81920 ۱۹ نومبر ۱۹۷۰ء ۱۱۵ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سبھی صحابہ واقفین زندگی تھے ۴ر دسمبر ۱۹۷۰ء ۱۱۶ اللہ نے ہر چیز میں توازن کا اصول جاری فرمایا ہے ۱۱۷ سب سے اچھا تحفہ جو انسان کسی کو دے سکتا ہے، دعا ہے ۱۱۸ ۶ ستمبر ۱۹۷۱ء ور ستمبر ۱۹۷۱ء دعا ہے کہ اللہ تعلی اگلی نسل کوصحت، زندگی سعادت اور خدمت دین کی توفیق دے ۲۸ ستمبر ۱۹۷۱ء 19 اللہ تعالیٰ سے زندہ اور حقیقی تعلق میں سب خیر و برکت ہے ۱۲۰ اصلاح اعمال کے لئے قول سدید کا ہونا ضروری ہے ۱۲۱ اللہ تعالیٰ اس رشتے کو ہر جہت اور ہر لحاظ سے بابرکت کرے ۵۵۵ ۵۶۱ ۵۶۳ ۵۶۷ ۱۴ ۷ اکتو برا ۱۹۷ء ۵۶۹ ۲۸ نومبر ۱۹۷۱ء ۵۷۱ جنوری ۱۹۷۲ء ۵۷۵ مومن کو ہمیشہ اپنے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کرنی چاہیے ۲ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ء ۵۷۷ ۱۲۳ قول سدید بہت سی بھلائیوں کا منبع اور سر چشمہ بنتا ہے ۱۵ /اپریل ۱۹۷۲ء | ۵۸۳ ۱۲۴ انسان اپنے آپ کو معصوم عن الخطا خیال نہ کرے ۳ مئی ۱۹۷۲ء ۵۸۵

Page 19

خطبات ناصر جلد دہم XVII فہرست خطبات نکاح ۱۲۵ انسان کا روحانی حسن حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے ہی پیدا ہوتا ہے ۱۴ مئی ۱۹۷۲ء ۱۲۶ ازدواجی رشتوں کے اندر بھی خدا تعالیٰ کی صفت خلق کا مظاہرہ ہوتا ہے ۲۱ مئی ۱۹۷۲ء ۱۲۷ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں سب کامیابیاں اور مسرتیں پائی جاتی ہیں ۸/جون ۱۹۷۲ ۲۲ جولائی ۱۹۷۲ء ۱۲۸ ہر شخص کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ خدا کی نگاہ میں حسین ترین وجود بن جائے ۱۰ جون ۱۹۷۲ء ۱۲۹ شجرہ نسب دعاؤں کے ساتھ سینچا جانے سے پنپتا ہے ۱۳۰ خاندان مسیح موعود کے افراد کی ذمہ داری ایک عام احمدی سے زیادہ ہے ۶ اکتوبر ۱۹۷۲ء عقلمند انسان وہ ہے جو حیات و ممات دونوں کی ذمہ داریاں ادا کرنے والا ہو کے دسمبر ۱۹۷۲ء ۱۳۱ ۱۳۲ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو جانبین کے لئے بہت ہی بابرکت کرے ۱۷ دسمبر ۱۹۷۲ء ۱۳۳ کوشش کریں کہ آپ کے گھر اسلام کے نور سے ہمیشہ منور رہیں ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۲ء ۱۳۴ ربوہ کی فضائیں اللہ تعالیٰ کی برکتوں سے معمور ہیں ۱۳۵ انسانی پیدائش کا مقصد رضائے الہی کا حصول ہے ۲۹ دسمبر ۱۹۷۲ء ۵۸۷ ۵۸۹ ۵۹۳ ۵۹۷ ۶۰۳ ۶۰۷ ۶۱۱ ۶۱۳ ۶۱۵ ۲۰ اپریل ۱۹۷۳ء ۶۲۱ نکاح کا اصل مقصود زوجین کی شکل میں پیدائش کے مقصد کو پورا کرنا ہے ۲۴ جون ۱۹۷۳ء ۶۳۳ ۹ جولائی ۱۹۷۳ء ۶۳۹ ور ۱۳۷ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی روح نظام خلافت ہے ۱۳۸ اسلامی خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت قول سدید کا حکم ہے ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء ۶۴۷ ۱۳۹ ہمیشہ ذمہ داریوں کو پیش نظر رکھ کر زندگی کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے یکم نومبر ۱۹۷۳ء ۱۴۰ واقف زندگی احمدی کی بچیاں ہماری دعاؤں کی مستحق ہیں ۸/دسمبر ۱۹۷۳ء ۱۴۱ اللہ تعالیٰ نے ہر شعبہ زندگی میں تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۳ء خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہے کہ اسلام کو آخری فتح نصیب ہو ۱۴۳ دعا ہے کہ اللہ ان تمام ازدواجی رشتوں کو بہت بابر کت کرے ۲۹ دسمبر ۱۹۷۳ء ۱۴۲ ۲۳ دسمبر ۱۹۷۳ء ۱۴۴ مجاہدین قربانیاں دیتے ہوئے غلبہ اسلام کی شاہراہ پر چلتے رہتے ہیں ۵ جنوری ۱۹۷۴ء ۶۵۳ ۶۵۹ ۶۶۳ ۶۷۱ ۱۴۵ مرد کو قوام ہونے کی حیثیت سے بیوی کی صلاحیتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۲۷ جنوری ۱۹۷۴ء ۶۷۳ ۱۴۶ اللہ اپنے فضل سے اس رشتہ کو بہت بابرکت کرے ۱۵ فروری ۱۹۷۴ء ۶۷۵

Page 20

خطبات ناصر جلد دہم XVIII فہرست خطبات نکاح ۱۴۷ اللہ ان تمام رشتوں کو بہت بابرکت اور ثمرات حسنہ کا موجب بنائے ۱۷ فروری ۱۹۷۴ء ۶۷۷ ۱۴۸ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و تقویٰ میں مزید برکت ڈالے ۱۴۹ ابتلا اور امتحان انسان کو پاک کرنے کا موجب ہیں ۱۵۰ دین محمدی کی آبیاری کے لئے احمدیت قائم ہوئی ہے ۱۵۱ پر اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کریں ارمنی ۱۹۷۴ء ۶۷۹ ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۴ء ۶۸۳ ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۴ء ۶۸۵ ۱۴ جنوری ۱۹۷۵ء ۶۹۵ ۱۵۲ میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے بطور لباس کے ہیں ۱۵ / مارچ ۱۹۷۵ء ۶۹۷ ۱۵۳ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آخری شریعت اور اسلام کو دنیا میں غالب کرے گا ۲۷ مارچ ۱۹۷۵ء ۶۹۹ ۱۵۴ اپنی نسل کو آنے والے زمانہ کی ذمہ داریوں کے اٹھانے کا اہل بنائیں ۱۷؍نومبر ۱۹۷۵ء 2 +1 ۷۰۳ ۱۵۵ جب لڑکا اورلڑ کی بلوغت کو پہنچ جاتے ہیں تو ان کی شادی ہونی چاہیے ۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء ۱۵۶ جو شخص نبی اکرم کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کو پاتا ہے ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۵ء ۷۰۷ ۱۵۷ دنیا کی زندگی خوشی اور غمی کے امتزاج کا نام ہے ۱۵۸ شہید کی اولاد د نیا میں صداقت کے لقب کو حجت بنائے ۱۱ جنوری ۱۹۷۶ء | ۷۱۵ ۳۱/ جنوری ۱۹۷۶ء ۷۱۷ ۱۵۹ احمدیت نے تمام جماعت کو ایک خاندان کی شکل دے دی ہے ۶ فروری ۱۹۷۶ء اللہ تعالیٰ اس رشتے سے ایک ایسی نسل چلائے جو انسانیت کی خادم ہو ۹ / مارچ ۱۹۷۶ء ۷۱۹ ۷۲۱ کم اپریل ۱۹۷۶ء ۷۲۵ ۱۶۱ اس وقت خدا تعالیٰ ہماری استقامت کا امتحان لے رہا ہے ۱۶۲ ازدواجی ذمہ داریاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی نباہی جا سکتی ہیں ۱۷۵ پریل ۱۹۷۶ء ۷۲۹ غلبہ اسلام کی مہم میں اپنی زندگیوں کو وقف کرنے والوں کیلئے بشارتیں ہیں ۱۷۱۳ پریل ۱۹۷۶ء ۷۳۱ ۱۶۳ ۱۹۴ اللہ تعالیٰ نے جاپان میں مشن یعنی تبلیغ اسلام کی مہم کا آغا ز کیا ۱۷ را پریل ۱۹۷۶ء ۷۳۳ بہترین تحفہ جو نکاح کے موقع پر دیا جاسکتا ہے، دعا ہے ۱۶۶ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ اس رشتے کو بہت بابرکت کرے ۲۶ مئی ۱۹۷۶ء ۷۳۷ ۱۴ جون ۱۹۷۶ء ۱۶۷ انسان میں ایک بنیادی فرق ہے کہ انسان کو بیان کی قوت دی گئی ہے ۲۲ جون ۱۹۷۶ء ۷۳۹ ۷۴۱ ۱۹۸ ہر احمدی زندگی وقف کر کے رضاء الہی کے حصول کی کوشش کرے ۱۵ جولائی ۱۹۷۶ء ۷۴۵

Page 21

خطبات ناصر جلد دہم XIX فهرست خطبات نکاح ۱۶۹ مکمل اور حسین مساوات مرد اور عورت میں اسلام نے قائم کی ہے ۲۴ اکتوبر ۱۹۷۶ء ۷۴۹ ۱۷۰ اللہ اور رسول کی اطاعت ہر قسم کی فلاح کی ضمانت ہے ۱۷۱ اکثر خرابیاں قول سدید کے نتیجہ میں دور ہو جاتی ہیں ۱۷۲ موت اور زندگی انسان کے ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں ۱۷۳ حقیقی خوشی خدا کے حضور جھکنے سے ملتی ہے ۱۷۴ ازدواجی رشتے درخت کے پیوند کی مانند ہوتے ہیں ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء ۷۵۱ ۲۱ جنوری ۱۹۷۷ء | ۷۵۳ ۱۴ مارچ ۱۹۷۷ء ۷۵۷ ۱۸ مئی ۱۹۷۷ء ۷۵۹ ۴ را گست ۱۹۷۷ء | ۷۶۳ ۱۷۵ اسلام نے مرد اور عورت دونوں کے الگ الگ حقوق قائم کئے ہیں ۲۵ ستمبر ۱۹۷۷ء ۱۷۶ حافظ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بینائی تو نہیں دی لیکن بصیرت عطا کی ہے ۱۵ ۷ اکتوبر ۱۹۷۷ء ۷۶۷ 122 ۱۷۷ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو ہر چار خاندانوں کیلئے رحمت اور فضل کا باعث بنائے ۱۰ر نومبر ۱۹۷۷ء ۱۷۸ ازدواجی رشتے درخت کے پیوند کی مانند ہوتے ہیں ۷۶۹ ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء | ۷۷۱ ۱۷۹ یقینی کامیابی اور خوشحالی کا ذریعہ اللہ اور رسول کی اطاعت ہے ۱۵؍ دسمبر ۱۹۷۷ء | ۷۷۳ ۱۸۰ اللہ کی بہت سی برکتیں عقد نکاح کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں ۱۸۱ سب سے بہتر چیز مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ کے زمرہ میں آتی ہے زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کا حسن پیدا کریں ۱۲ / جنوری ۱۹۷۸ء | ۷۷۵ ۱۸ جنوری ۱۹۷۸ء ۷۷۷ ۲۰ مارچ ۱۹۷۸ء | ۷۷۹ ۲۷ مارچ ۱۹۷۸ء ۷۸۳ ۱۸۳ انسان کا کام ہے کہ شریعت اسلامیہ پر عمل پیرا ہو ۱۸۴ حقوق کی ادائیگی باہمی تعلقات میں اطمینان وسکون کا موجب ہے ۳ را پریل ۱۹۷۸ء ۷۸۵ ۱۸۵ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے اموال اور نفوس میں بہت برکت ڈالے گا ۷۲۳ اکتوبر ۱۹۷۸ء ۷۸۹ ۱۸۶ ہمارے باہمی تعلقات سارے کے سارے قول سدید پر قائم ہوں ۱۸ نومبر ۱۹۷۸ء ۱۸۷ زندگی کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ خدا کا تقویٰ اختیار کرو ۷۹۱ ۱۲ فروری ۱۹۷۹ء ۷۹۵ ۱۸۸ مقصد حیات کا حصول خدا اور رسول کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں ۱/۵ پریل ۱۹۷۹ء ۷۹۷ ۱۸۹ سچی خوشی صرف اسلام میں ہمیں نظر آتی ہے ۱۳ را پریل ۱۹۷۹ء ۷۹۹ 190 اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت بابرکت کرے ۲ رمئی ۱۹۷۹ء ۸۰۵

Page 22

خطبات ناصر جلد دہم ۱۹۱ XX نکاح ایک نوجوان کی زندگی کا بہت ہی اہم واقعہ ہے فہرست خطبات نکاح ۱۶ مئی ۱۹۷۹ء ۱۹۲ انسانی کوشش اطاعت خداوندی اور اسوہ نبوی پر چلنے کے نتیجہ میں بابرکت ہوتی ہے سے رجون ۱۹۷۹ء ۱۹۳ تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے اور اسی سے لی جائے ۳۰ دسمبر ۱۹۷۹ء ۱۹۴ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے خوشی کے سامان پیدا کئے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو ۱۹ مارچ ۱۹۸۰ء ۱۹۵ حضرت مسیح موعود کے خاندان سے تعلق رکھنے والا چودھویں صدی کا آخری نکاح ۴ رنومبر ۱۹۸۰ء ۱۹۶ پندرھویں صدی کے آغاز میں حضرت مسیح موعود کے خاندان سے تعلق رکھنے والے نکاح ۹ نومبر ۱۹۸۰ء ۱۹۷ پہلے دین کے لئے پھر دُنیا کے لئے دُعائیں کریں ۱۹۸ ازدواجی رشتہ نازک بھی ہے اور اہم بھی ہے اور ضروری بھی ہے ۲۹ / مارچ ۱۹۸۱ء ۸۰۷ All ۸۱۳ ۸۲۱ ۸۲۳ ۸۲۷ ۸۳۱ ۱۷۸اگست ۱۹۸۱ء ۸۳۳ ۱۹۹ نکاح کے ساتھ لڑکے اور لڑکی پر بعض نئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۷۵ اکتوبر ۱۹۸۱ء ۸۳۵ اسلام کی رو سے انسانی زندگی بے مقصد نہیں ہے ۲ جنوری ۱۹۸۲ء ۸۳۹ ۲۰۱ خلیفہ وقت کی بیوی کی حیثیت خلافت اور جماعت کی مستورات کے درمیان ۱۱۱ اپریل ۱۹۸۲ء ۸۴۳ ۲۰۲ رشتوں سے خاندانوں کی روایات اور روحانی استعداد یں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی ہیں ۱۰ رمئی ۱۹۸۲ء ۸۵۳

Page 23

خطبات عید الفطر فرموده سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

Page 24

Page 25

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء ہر نیک عمل جو انسان کرتا ہے اپنے اندر چار عید میں رکھتا ہے خطبہ عید الفطر فرموده ۲۳ /جنوری ۱۹۶۶ ء بمقام مسجد مبارک ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج عید کا دن ہے اور عید اس واقعہ کو کہتے ہیں جو بار بار آئے مَرَّةً بَعْدَ أُخْرى اور پھر انسان کی خوشی کا موجب ہو.ایسے واقعات جو بار بار آتے ہیں اور انسان کی خوشی کا موجب ہوتے ہیں ان میں دنیوی واقعات بھی ہیں اور روحانی واقعات بھی ہیں لیکن دنیوی لحاظ سے یہ ضروری نہیں کہ خوشی کے واقعات انسان کے لئے حقیقی خوشی کا موجب بھی ہوں.مثلاً اولاد ہے انسان اسے نعمت سمجھتا ہے اور جس گھر میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اس بچہ کی پیدائش کا دن اس گھرانہ کے لئے عید کا دن ہوتا ہے لیکن بسا اوقات بچے کی ولادت کے ساتھ ہی اس کی ماں بیمار ہو جاتی ہے اور بجائے خوشی کے سارا گھر فکروں میں مبتلا ہو جاتا ہے پھر ملازمت پیشہ لوگ ہیں جن کا گذارہ ماہانہ آمد پر ہوتا ہے مہینہ کی پہلی تاریخ ان کے لئے خوشی لاتی ہے کیونکہ ماہانہ اخراجات چلانے کے لئے انہیں تنخواہ مل رہی ہوتی ہے.اس طرح ہر مہینہ کی پہلی تاریخ ان کے لئے عید کا دن ہوتا ہے لیکن بعض اوقات مہینہ کی پہلی تاریخ کو ان کے گھر میں کوئی موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ دن ان کے لئے عید کا باعث نہیں بنتا بعض اوقات مہینہ کی پہلی تاریخ کو ان میں سے کسی کے ہاں بچہ بھی

Page 26

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عید الفطر ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء پیدا ہوتا ہے اور بظاہر اسے دو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں ایک تو اسے پہلی تاریخ کو تنخواہ ملتی ہے جس سے وہ اس مہینہ کے اخراجات پورے کرتا ہے اور دوسرے بچہ کی پیدائش ان کے لئے خوشی لاتی ہے لیکن ہوتا یہ ہے اور بچہ کی پیدائش کے بعد ایک طرف اس کی ماں بیمار ہو جاتی ہے اور دوسری طرف تیمارداری کے سلسلہ میں اقرباء اس کے دروازہ پر دستک دینا شروع کر دیتے ہیں.بیوی کی بیماری کی وجہ سے وہ شخص غم زدہ ہوتا ہے اور جس تنخواہ سے اس نے مہینہ کے اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں وہ علاج اور اقرباء کی مہمان نوازی پر خرچ ہو جاتی ہے اور اس طرح مہینہ کی پہلی تاریخ اس کے لئے خوشی کا موجب نہیں بنتی.اسی طرح کی اور سینکڑوں ہزاروں مثالیں سوچی جاسکتی ہیں.غرض دنیوی لحاظ سے جو واقعات انسان کی زندگی میں بار بار آتے ہیں اور عام طور پر وہ خوشی کا موجب ہوتے ہیں.ضروری نہیں کہ وہ فی الواقعہ خوشی کا باعث بنیں.صرف روحانی امور ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی زندگی میں بار بار آتے ہیں اور ہمیشہ ہی اس کے لئے خوشی اور مسرت کا باعث بنتے ہیں اس لئے کہ ان کا تعلق خدا کے فضل کے ساتھ ہوتا ہے اور کوئی فرد ، کوئی گھرانہ یا کوئی قوم جس پر خدا تعالیٰ بار بار اپنا فضل کر رہا ہوتا ہے غم زدہ یا متفکر نہیں رہ سکتا.ہر دفعہ خدا تعالیٰ کے فضل کو دیکھ کر اس کا دل خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے اور اس کا چہرہ مسرت سے کھل جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اس قسم کی عیدوں کے بڑے سامان پیدا کئے ہیں.ہر نیک عمل جو انسان کرتا ہے وہ اس کے لئے اپنے اندر بہت سی عیدیں سمیٹے ہوئے ہے.نیکی کا کوئی کام لے لیں پہلے انسان کے دل میں اس کے متعلق خواہش پیدا ہوتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ کا بندہ خوش ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس پر فضل کیا ہے اور اس کے اندر نیکی کا یہ کام کرنے کی خواہش پیدا کی ہے پھر یہ نیک خواہش ترقی کر کے نیت میں بدل جاتی ہے اور انسان اسے پورا کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے.وہ یہ ارادہ بھی اپنے زور بازو سے نہیں کر سکتا بلکہ اس ارادہ میں بھی خدا تعالیٰ کا فضل کام کر رہا ہوتا ہے تو یہ دوسری عید ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان کے لئے خوشی لاتی ہے اور اس کا دل خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے وہ کہتا ہے اس کے رب نے اس پر کتنا احسان کیا ہے کہ اسے توفیق دی کہ وہ اس نیک خواہش کو نیت کا جامہ پہنانے کے قابل ہو جائے پھر اس کے بعد

Page 27

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عید الفطر ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء اللہ تعالیٰ اسے توفیق دیتا ہے کہ وہ اپنی اس نیت کے مطابق عمل کرے اور جب وہ اپنی اس نیت کے مطابق خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے نیک عمل کرتا ہے تو تیسری دفعہ اس کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اسے اس نیک نیت کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق بخشی ہے.پھر جب وہ نیک عمل کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے اس نیک عمل کو قبول کر لیتا ہے تو چوتھی دفعہ اسے خوشی پہنچتی ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس پر کتنا فضل اور احسان کیا کہ اس نے اپنی رحمت سے اس کے عمل کو بھی قبول کیا ہے.وہ اس سے خوش ہوتا ہے.غرض انسان کے ہر نیک عمل میں اس کے لئے چار عید میں پوشیدہ ہیں اور وہ چار دفعہ اللہ تعالیٰ کے افضال اور احسانوں کو یاد کر کے خوش ہوتا ہے اور یہ جو دو عیدیں اللہ تعالیٰ نے ظاہر میں مسلمانوں کے لئے مقرر فرمائی ہیں ان کا حال بھی اسی طرح کا ہے.مثلاً عید الفطر ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ تمہارے دلوں میں روزہ رکھنے کی خواہش پیدا ہوئی.پھر تم نے روزہ رکھنے کی نیت کی.پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں توفیق بخشی کہ تم رمضان کے پورے کے پورے روزے رکھ سکو.پھر اس نے ہمیں امید دلائی کہ میں تمہارے یہ روزے قبول کرلوں گا اور اس عبادت کے نتیجہ میں میں اپنے بندہ کو اپنی رضا کی جنت میں داخل کروں گا.غرض چارخوشیاں ہمیں اس موقع پر بھی نظر آتی ہیں.پھر ماہ رمضان کی عبادت میں قیام لیل بھی ہے دن کو ہم روزے رکھتے ہیں اور رات کو عام راتوں سے زیادہ عبادت کرتے ہیں.اگر چہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں اتنے ہی نوافل پڑھا کرتے تھے جتنے نوافل آپ دوسرے دنوں میں پڑھا کرتے تھے لیکن حدیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ ان ایام میں آپ دوسرے دنوں کی نسبت زیادہ وقت لگاتے تھے.آپ بڑی لمبی لمبی رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور بعض دفعہ ان میں اکثر حصہ رات کا گزار دیتے تھے اور پھر آپ اس عبادت کو بڑے تعہد سے ادا کرتے تھے.اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورۃ زمر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آمَنْ هُوَ قَانِتُ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَ قَابِمَا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَ يَرْجُوا رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ

Page 28

خطبات ناصر جلد دہم ۴ خطبہ عید الفطر ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ (الزمر : ١٠) کیا جو شخص رات کی گھڑیوں میں سجدہ اور قیام کی صورت میں فرمانبرداری کا نمونہ دکھاتا ہے اور آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے.وہ نافرمان کی طرح ہو سکتا ہے؟ تو کہہ دے کیا علم والے لوگ اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں.نصیحت تو صرف عقلمند لوگ حاصل کیا کرتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بشارت دی ہے کہ اس کی نگاہ میں وہ لوگ جو رات کے اوقات میں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے عاجزی سے اپنی اطاعت خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں وہ اس کی نگاہ میں بڑا درجہ رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ یہاں مومن کی عبادت کے قبول ہونے سے پہلے کی حالت کو بیان کرتا ہے.فرماتا ہے کہ وہ دن کو بھی عبادت کرتا ہے اور روزہ رکھتا ہے اور رات کو قیام بھی کرتا ہے يَحْذَرُ الأخرة.اس کے باوجود وہ اس بات سے ڈرتا رہتا ہے کہ کیا اس کا انجام بخیر ہوگا یا نہیں.کیا خدا تعالیٰ اس کی عبادت کو قبول بھی کرے گا یا نہیں کیونکہ بعض مخفی گناہ ، لغزشیں اور کوتاہیاں ایسی ہیں جو اس کے اعمال کو اس طرح بگاڑ دیتی ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں قابل قبول نہیں رہتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن دن کو بھی عبادت کرتا ہے اور رات کو بھی قیام کرتا ہے اور تنہائی اور خاموشی میں خدا تعالیٰ کے حضور عجز کا اعتراف کرتا ہے اور اس سے اطاعت کا عہد باندھتا ہے لیکن باوجود اس قدر عبادت بجالانے کے اسے ان اعمال کے بجالانے پر کوئی فخر نہیں ہوتا اور اسے اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ان اعمال کو ضرور قبول کرے گا.آخرت کے معنی بعد میں آنے والی چیز کے ہوتے ہیں اور کسی نیک عمل کے بعد میں آنے والی چیز اس کی قبولیت اور نیک انجام ہوتا ہے يَحْذَرُ الْأَخِرَةَ مومن نیک اعمال بجالانے کے بعد بھی ڈرتا رہتا ہے کہ آیا خدا انہیں قبول بھی کرتا ہے یا نہیں؟ کہیں ان میں ایسے نقائص تو نہیں رہ گئے جن کی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کی درگاہ سے رد کر دیئے جائیں اور پھر وہ اس ڈر کے باوجود یہ امید بھی رکھتا ہے کہ خدائے رحیم اس کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پر اپنا فضل اور احسان کرے گا، اس کی مغفرت کرے گا اور اس کی کمزوریوں کو ڈھانپ دے گا.مغفرت اور

Page 29

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء احسان دونوں معنے رحمت میں پائے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَرْجُوا رَحْمَةً رَبِّهِ - مومن بندہ امید رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی کوتاہیوں کو مغفرت کی چادر سے ڈھانپ دے گا اور محض اپنے فضل سے اس کی عبادت کو قبول کر لے گا.فرماتا ہے ایسے بندے جو دن رات خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور پھر بھی اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان کا عمل قبول بھی ہوتا ہے یا نہیں.اور پھر وہ میری رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کہ میں اپنے فضل سے ان کے اعمال قبول کرلوں گا.میں انہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ میں ان کے اعمال کو ان کے لئے عید بنادوں گا اور ان سے میرا اسلوک ان لوگوں سے مختلف ہو گا جو سرکشی کرنے والے ہیں.فخر و مباہات کرنے والے ہیں اور کبر و غرور کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے رسول ! تم میری طرف سے اعلان کر دو.هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ.وہ لوگ جو اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ان کے اعمال ان خوبیوں کے حامل نہیں کہ وہ ان کے نتیجہ میں ضرور جنت میں داخل ہوجائیں گے بلکہ ان کے جنت میں داخل ہونے کے لئے محض خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کی ضرورت ہے.ان لوگوں کے برابر نہیں جو اس حقیقی اور بنیادی نکتہ کو نہیں سمجھتے.وہ تھوڑے سے اعمال بجالاتے ہیں اور پھر اس فخر اور غرور میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم نے بہت نیکیاں کر لی ہیں.اب اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور جنت دے دے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی نظر میں وہی شخص مقبول ہوتا ہے جو نیک اعمال بجالانے کے بعد بھی ڈرتا رہتا ہے کہ اس کے نیک اعمال خدا تعالیٰ کی درگاہ سے رڈ نہ ہوں اور ساتھ ہی یہ امید بھی رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ بڑا رحیم ہے وہ اس کے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا.وہ اس کی کمزوریوں کو دور کر دے گا اور محض اپنے فضل اور احسان سے اسے اپنے قرب اور رضا کے مقام تک پہنچا دے گا.پس اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز جس کا تعلق اعمال صالحہ سے ہے وہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے.اس لئے کسی مرحلہ پر بھی انسان کو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ اس نے ایسے نیک عمل کئے.مثلاً جس وقت کسی انسان کے دل میں کسی عمل کی خواہش پیدا ہو تو اسے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس کے اندر کوئی ذاتی نیکی تھی جس کی وجہ سے اس کے

Page 30

خطبہ عیدالفطر ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء خطبات ناصر جلد دہم دل میں اس نیک عمل کی خواہش پیدا ہوئی.پھر جب وہ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی نیت کرے تو اسے یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ اس کے اندر کوئی خوبی تھی جس کی وجہ سے وہ اس نیک خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہو گیا بلکہ وہ یہ سمجھے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس کی خواہش نیست میں بدل گئی اور جب یہ نیت عمل کی شکل میں تبدیل ہو تب بھی وہ یہ سمجھے کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مجھے اپنی نیت کے مطابق اس نیک عمل کو بجالانے کی توفیق ملی.پھر جب وہ عمل قبول ہو جائے تو وہ یہی سمجھے کہ اس کے اندر تو کوئی خوبی نہیں تھی اس کے عمل میں ہزاروں رخنے تھے لیکن اللہ تعالیٰ بڑا احسان کرنے والا ہے.بڑا فضل کرنے والا ہے اور بڑی مغفرت کرنے والا ہے.اس نے اپنی غفار ہونے کی صفت کے نتیجہ میں اور اپنی رحیم ہونے کی صفت کے نتیجہ میں میرے ناقص اعمال کو قبول کر لیا ہے اور وہ مجھ سے محبت کرنے لگ گیا ہے.غرض ہر نیک کام اپنے اندر کم سے کم چار عیدیں رکھتا ہے کیونکہ انسان اس کے نتیجہ میں اپنے اوپر چار دفعہ خدا تعالیٰ کا فضل ہوتے دیکھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان میں ہماری جماعت کے افراد کو توفیق بخشی کہ وہ پہلے سے زیادہ عبادت کی طرف متوجہ ہوں.چنانچہ چند سال پہلے درس میں شامل ہونے والوں اور نماز تراویح میں شامل ہونے والوں کے متعلق جور پورٹیں ملتی رہی ہیں اس سال ان کے مقابلہ میں چھ سات گنا زیادہ لوگ درس قرآن کریم اور نماز تراویح میں شامل ہوتے رہے ہیں.جب میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سال جماعت کے افراد کو توفیق بخشی کہ وہ کثرت سے قرآنی علوم سیکھنے اور قیام لیل کی طرف متوجہ ہوئے ہیں تو میرے دل نے کہا.یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہ تھی اور جہاں بھی اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے وہیں مومن بندہ کے لئے عید کا مقام ہوتا ہے.عبادت کا یہ نظارہ دیکھ کر میرا دل خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر گیا اور مجھے دلی مسرت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت پر فضل کیا اور اس کے بوڑھوں ، جوانوں اور بچوں پھر عورتوں اور مردوں کو توفیق بخشی کہ وہ پہلے کی نسبت زیادہ اس کی طرف متوجہ ہوں اور دن اور رات اس کی عبادت میں گزاریں اور میرے دل کی گہرائیوں سے یہ دعا نکلی کہ اے خدا! جہاں تو نے جماعت کے افراد کو

Page 31

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عید الفطر ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء توفیق دی کہ وہ بظاہر نیک عمل کرنے والے بن گئے وہاں یہ بھی فضل فرما کہ ان کے ان اعمال کو قبول کر لے.تا وہ چوتھی آخری اور حقیقی عید بھی حاصل کرنے والے ہوں.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اب دوست دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری عبادت کو قبول فرمائے اور جس طرح ہمارے اعمال ظاہر میں ہمیں بھی اور دنیا کو بھی نیک نظر آتے ہیں اسی طرح ان کا انجام بھی نیک بنائے اور ایسا کرے کہ ہمارے ہر عمل کی چاروں عیدیں ہمیں نصیب ہوں اور ہر دن جوطلوع کرے وہ اس کے فضل کے نتیجہ میں ہمارے لئے عید کا دن ہو اور سب سے بڑی عید جس کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں یعنی اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنا ہمیں ہماری زندگی میں ہی جلد سے جلد دکھائے تا ہم اس خوشی کو حاصل کر لیں جس کے لئے امت مسلمہ سینکڑوں سال سے انتظار کر رہی ہے.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ / مارچ ۱۹۶۶ صفحه ۲ تا ۴ )

Page 32

Page 33

خطبات ناصر جلد دہم ۹ خطبہ عید الفطر ۱۳ جنوری ۱۹۶۷ء مستحقین کو کھانا کھلا نا رمضان کی عبادات اور عید کا بڑا ضروری حصہ ہے خطبہ عید الفطر فرموده ۱۳ رجنوری ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات کریمہ تلاوت فرمائیں.فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ - وَمَا أَدْرِيكَ مَا الْعَقَبَةُ - فَاقُ رَقَبَةٍ - أَوْ إِطْعَمُ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ - يَّتِيمَا ذَا مَقْرَبَةِ - اَوْ مِسْكِينَا ذَا مَتْرَبَةٍ - (البلد : ۱۲ تا ۱۷) پھر حضور انور نے فرمایا:.آج عید ہے آپ سب کو اللہ تعالی عید کی حقیقی خوشی نصیب کرے.عید جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اسے کہتے ہیں جو بار بار آئے اور جسے بار بار لانے کی دل میں خواہش پیدا ہو اور یہ عید اس لئے منائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہم اس بات پر شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں ماہ رمضان کی خصوصی عبادات بجالانے کی توفیق عطا کی.قیام لیل کی بھی اور دن کے روزوں کی بھی اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی بھی کہ یہ بھی رمضان کی عبادت کا ایک بڑا ضروری حصہ ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر رمضان کو رحمت کا مہینہ، مغفرت کا مہینہ اور عشق من النَّارِ کا مہینہ قرار دیا ہے.یعنی یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ اگر اس کا بندہ ان سامانوں سے فائدہ اٹھائے اور ان ذرائع اور وسیلوں کو استعمال کرے

Page 34

خطبات ناصر جلد دہم 1.خطبہ عیدالفطر ۱۳ جنوری ۱۹۶۷ء جو اس کے رب نے اس کے لئے مہیا کئے ہیں تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو وہ کچھ اس طرح جذب کرتا ہے کہ اس کی رحمت کا وارث بن جاتا ہے.اس کے حصہ میں اپنے رب کی مغفرت آتی ہے اور اس کی گردن شیطان کی غلامی سے آزاد کر دی جاتی ہے اور اسے نارِ جہنم سے بچا لیا جاتا ہے.آخری سپارے کی جو آیات میں نے اس وقت پڑھی ہیں ان میں بھی یہی مضمون ہے کہ ہم نے انسان کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ اگر وہ ان کو پہچانتا اور ہمارے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرتا تو اس کے لئے ممکن تھا کہ وہ روحانی بلندیوں کو حاصل کرتا چلا جاتا لیکن ان تمام سامانوں کے باوجود اور اس ہدایت کے باوجود جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ بنی نوع انسان پر نازل کی.اس نے اس طرف توجہ نہیں کی.فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ اور ان روحانی بلندیوں تک اس نے پہنچنے کی کوشش نہیں کی جن روحانی بلندیوں تک پہنچنے کے لئے اس کے لئے سامان مہیا کئے گئے تھے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے یہ کہا کہ اس نے روحانی بلندیوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی تو اس سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ نہ اس نے اپنی گردن شیطانی غلامی سے آزاد کی اور نہ اس نے یہ کوشش کی کہ اس کے بھائیوں کی گردنیں بھوک کی غلامی اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جائیں.اس کے ایک معنی یہ بھی کئے جاتے ہیں کہ غلاموں کو آزاد کرنا، اپنی جگہ پر یہ معنے درست ہیں لیکن فك رقبة اور عِشق مِنَ النَّارِ کے الفاظ وضاحت کے ساتھ ایک ہی مضمون کی طرف اشارہ کر رہے ہیں.تو اگر چہ اس میں بھی بڑا ثواب ہے کہ ان لوگوں کو انسان آزادی کی فضا مہیا کرے یا آزادی کی فضا مہیا ہونے میں ان کی امداد کرے.جو انسان ظلم اور اپنی غفلت کے نتیجہ میں غلام بن چکے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک اس سے بھی زیادہ مظلوم اور قابلِ رحم غلام ہے جس کو آزاد کرنا اور کروانا ہمارے لئے زیادہ ثواب کا موجب ہے اور زیادہ رحمت کا موجب ہے اور زیادہ مغفرت کا موجب ہے اور وہ اپنا نفس ہے.جب وہ شیطان کا غلام بن جاتا ہے اور خدا کی دی ہوئی آزادی سے محروم کر دیا جاتا ہے یعنی وہ آزادی جو خدا کے قرب میں حاصل کی جاتی ہے.وہ آزادی جو خدا کی رحمت کے سایہ میں حاصل کی جاتی ہے.وہ آزادی

Page 35

خطبات ناصر جلد دہم 11 خطبہ عیدالفطر ۱۳ جنوری ۱۹۶۷ء جو خدا کی مغفرت کے احاطہ کے اندر حاصل کی جاتی ہے.تو یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فَكُ رَقَبَةٍ کے سامان تو تھے مگر انسان نے اس طرف توجہ نہیں دی اور وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا اور اس نے ان سامانوں سے فائدہ نہیں اٹھایا اور غلام کا غلام ہی رہا حالانکہ ہم نے ماہ رمضان کی عبادتوں کو خاص طور پر اس کے لئے اس لئے مقرر کیا تھا کہ اگر وہ کوشش کرے اور سعی کرے اور مجاہدہ کرے اور ہماری راہ میں قربانیاں دے اس طرح پر کہ ہمارے لئے بھوکا رہے.ہماری خاطر ہمارے بھو کے بندوں کو کھانا کھلائے تو وہ اپنی گردن کو شیطان کی غلامی سے آزاد کرواسکتا تھا.وہ ان زنجیروں سے آزاد ہوسکتا تھا جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے.ذرعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا (الحاقة : ۳۳) که بڑی لمبی زنجیر میں جہنم کے قید خانہ میں ڈالی جائیں گی لیکن اس نے ان سامانوں کے ہوتے ہوئے بھی ، ان کی موجودگی میں بھی اپنی گردن کو شیطان کی غلامی سے آزاد نہیں کیا.اسی طرح ایک اور ذمہ داری اس کے اوپر تھی اور وہ یہ تھی کہ اپنے بھائیوں کو بھوک کی اور شیطان کی غلامی سے آزاد کرے.قرآن کریم نے یہاں الفاظ بھوک کے رکھے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت سے بتایا ہے گادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا کہ بھوک جو ہے وہ کبھی کفر اور ضلالت پر منتج ہوتی ہے.بھوک کے نتیجہ میں انسان بسا اوقات شیطان کے دامِ فریب میں آجاتا ہے اور اپنے رب کو چھوڑ دیتا اور بھول جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کو رزاق سمجھنے کی بجائے وہ شیطان کے پاس اس شرط پر اپنی روح کو بیچ دیتا ہے (جیسا کہ ہماری بعض کہانیوں میں شیطان کے پاس روح کو بیچنے کا ذکر بھی ہے کہ وہ شیطان کے پاس اپنی روح کو اس شرط پر بیچتا ہے ) کہ وہ اس کو دنیوی اموال اور اسباب اور متاع مہیا کرے گا اور اس کی روح شیطان اس لئے خرید لیتا ہے کہ خدا کو یہ کہہ سکے کہ میں نے کہا تھا اے رب ! کہ میں تیرے بندوں کو بہکاؤں گا.دیکھ! یہ تیرا بندہ تھا مگر تیرا بندہ نہیں بنا.اور دیکھ! میں اس کی روح کو جہنم میں پھینک رہا ہوں.اس کو میں نے اس قدر گمراہ ، طافی اور منکر اور سرکش بنادیا ہے کہ تیرے غضب کا مورد ہو گیا ہے.تیرے قہر کی تجلی نے جلا کر اسے کوئلہ کر دیا ہے.تو بھوک بسا اوقات کمزور دل میں کفر پیدا کرتی ہے.اس لئے اگر چہ اللہ تعالیٰ نے یہاں

Page 36

خطبات ناصر جلد دہم ۱۲ خطبہ عیدالفطر ۱۳ جنوری ۱۹۶۷ء بھوک کا ذکر کیا ہے لیکن چونکہ وہ بھی ایک بڑی وجہ تھی کفر کی اس لئے اس کو یہاں بیان کر دیا اور اصل مقصد فاتح رقبة کا ہی ہے پہلے فقرہ میں اپنی گردن کو شیطان کی غلامی سے آزاد کرانا اور دوسرے فقرہ میں اپنے بھائیوں کی گردنوں کو شیطان کی غلامی سے آزاد کرانا مطلوب ہے.وہ غلامی جو بسا اوقات بھوک کے نتیجہ میں اور فقر اور محتاجی سے مجبور ہوکر انسان کو اختیار کرنی پڑتی ہے اسی لئے احادیث میں کثرت سے یہ روایت آتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر بڑے ہی تھی تھے.اتنے سخی کہ اگر آپ کی سخاوت کے واقعات جوظاہر میں وقوع پذیر ہوئے (اللہ تعالیٰ کا ہر بزرگ بندہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کون زیادہ بزرگ ہو گا بعض نیکیاں ظاہر میں کرتا ہے اور بعض اس رنگ میں کرتا ہے کہ کسی کو ان کا علم تک نہیں ہوتا.تو جن کا ہمیں علم ہے اگر ان کو بھی اکٹھا کیا جائے تو تاریخ ایسے سخی کی مثال دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکتی.اس کے باوجود احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں آپ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی اور اس کی مثال ایسی ہی بن جاتی تھی جیسے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کی ٹھنڈی ہوا بڑی تیز چل رہی ہو تو تیز ہوا کی طرح آپ کی سخاوت ان دنوں میں جوش میں آکر دنیا کے سامنے ظاہر ہو رہی ہوتی تھی.پس رمضان کا تعلق کھانا کھلانے سے بڑا گہرا ہے.چنانچہ بعض بزرگوں کا قول بھی ہمارے لٹریچر میں پایا جاتا ہے کہ جب رمضان آیا تو انہوں نے کہا کہ قرآن کریم کے پڑھنے اور مستحقین کو کھانا کھلانے کا زمانہ آ گیا.بس اب قرآن پڑھا کریں گے اور بھوکوں کی بھوک دور کرنے کی کوشش کیا کریں گے.تو خصوصی تعلق ہے رمضان کا بھوک دور کرنے کے ساتھ.پس رمضان کو رحمت اور مغفرت اور غلامی سے نجات حاصل کرنے کا مہینہ قرار دیا گیا ہے.غلامی سے نجات سب سے پہلے اپنے نفس کی نجات اور آزادی ہے اور اس کے بعد اپنے بھائیوں کی آزادی ہے.شیطان کی غلامی سے اور شیطان کا غلام ہمارا بھائی اس طرح بھی بن جاتا ہے کہ اس کا پیٹ نہیں بھر رہا ہوتا اور بھوکا رہنے کی وجہ سے اور اپنے بچوں کو بھوکا دیکھتے ہوئے بہک جاتا ہے اور اپنے خدا کو بھول جاتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ ایسے ابتلا تو بطور امتحان کے ہوتے ہیں.ان میں کامیاب ہونے کی اور پاس ہونے کی کوشش کرنی چاہیے نہ یہ کہ آدمی فیل ہو اور نا کام ہو اور

Page 37

خطبات ناصر جلد دہم خدا کے غضب اور غصہ کو سہیڑ لے.۱۳ خطبہ عید الفطر ۱۳ جنوری ۱۹۶۷ء بھوک ایک تو گادَ الْفَقْرُ اَنْ يَكُونَ كُفْرًا ایک غلامی بنتی ہے نا؟ بھوک کے نتیجہ میں ہمیں ایک اور قسم کی غلامی بھی نظر آ رہی ہے اور اس حدیث کے یہ بھی ایک معنی ہیں کہ جب کوئی قوم بھوک سے مرنے لگتی ہے تو وہ غیر قوموں کی غلامی اختیار کرتی ہے.چنانچہ وہ اقوام جوان قوموں کو غلہ مہیا کرتی ہیں اور غذا مہیا کرتی ہیں جہاں کمی ہو وہ اپنے مالکانہ اثر و رسوخ اور سیاسی دباؤ کو استعمال بھی کرتی ہیں اور غلہ لینے والی قومیں اپنے آپ کو پوری آزاد محسوس نہیں کرتیں.اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو اس سے محفوظ رکھے.پس ایک تو یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ رحمت کی بارش برساوے اور ہمارے ملک میں غذا کی قلت نہ ہو.دوسرے ہمیں اللہ تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں یہ تعلیم دی ہے کہ یتیم اور مسکین کو کھانا کھلاؤ اس کو نہیں بھولنا چاہیے.مِسْكِيْنا ذَا مَتْرَبَةٍ کے ایک معنی یہ ہیں کہ جس نے اپنی طرف سے مال کمانے کی پوری کوشش کی ہے اگر اس کو اور کچھ نہیں ملا تو اس نے مزدوری کی ہے اور وہ گرد آلود ہے اور ذا متربة ہے.پس ذَا مَتْرَبَةٍ کے ایک معنے یہ ہیں کہ ایسا مسکین جس کو مانگنے کی عادت نہیں.بہت سارے لوگ آپ کو خوش پوش نظر آئیں گے اور اندر سے وہ بہت غریب ہوں گے.مانگ مانگ کے گزارہ کر لیتے ہیں، مانگ کے کپڑے پہن لئے ، مانگ کے کھا لیا اور کام کوئی نہ کیا.تو یہ ذہنیت بڑی گندی ہے اس سے بچنا چاہیے.اللہ تعالیٰ جماعت کے افراد کو اس سے محفوظ رکھے.تو جس کوضرورت ہے وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرے.اگر اور کوئی کام نہیں ملتا تو مزدوری کرے.آخر بڑے بڑے کبار صحابہ جب ہجرت کر کے مدینہ میں آئے تو بعض انصار نے کہا کہ ہمارے پاس مال ہے آؤ مل کر بانٹ لیں.انہوں نے کہا ہمیں تمہارا مال نہیں چاہیے درانتی ہے کلہاڑی ہے اور رسہ ہے جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاؤں گا اور انہیں بیچ کر گزارہ کروں گا.تو ایسا بزرگ صحابی مدینہ میں آکر ذا متربة ہوگا کیونکہ اس کے کپڑے گرد آلود ہوں گے.تو مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ مانگنے سے دوسرے کا سہارا لینے سے

Page 38

خطبات ناصر جلد دہم ۱۴ خطبہ عید الفطر ۱۳ جنوری ۱۹۶۷ء بچنے کی انتہائی کوشش کرو ذا متربة بن جاؤ اور کچھ نہ ملے تو مزدوری کرلو لیکن دوسری طرف دوسروں کو کہا کہ تمہارا یہ بھائی اتنا با غیرت ہے کہ اس کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ پسند نہیں کہ تمہارے آگے ہاتھ پھیلائے.اس نے جب اور کچھ نہیں ہوا تو مزدوری کرنی شروع کر دی.دیکھ لو اس کے کپڑوں کو، دیکھ لو اس کے چہرہ کو !! یہ ذا متربة ہے یا نہیں ؟ تو اس کا ذا متربة ہونا اس کی غیرت کی دلیل ہے.اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص مانگنے کو عار سمجھتا ہے لیکن اس کے باوجود ملک کے حالات کے لحاظ سے اس کے اپنے خاندان کے حالات کے لحاظ سے کہ بچے زیادہ ہیں اور یہ اتنا کمانہیں سکا.اس کے گھر میں پھر بھی بھوک نظر آتی ہے.اب تمہارا فرض ہے اپنے اس بھائی کی مدد کرو لیکن آپ اپنے ان بھائیوں کی مدد نہیں کر سکتے جب تک آپ اپنی زندگی کو سادہ نہ بنائیں.خصوصاً کھانے کے معاملہ میں.تو اب وقت ہے کہ ہم ایک تو تحریک جدید کے اس مطالبہ پر نئے سرے سے عمل پیرا ہو جائیں جس کو ہم ایک حد تک بھول چکے ہوئے ہیں کہ اپنے کھانے میں سادگی کو اختیار کریں اور نہ صرف اپنے لئے روپیہ بلکہ اپنے بھائی کے لئے کھانا بھی بچائیں جب آپ کھانا ضائع کرتے ہیں تو دو چیزوں کا ضیاع ہوتا ہے.آپ کے روپے کا اور آپ کے بھائی کی غذا کا.اگر آپ مثلاً آدھ سیر آٹے کی بجائے چھ چھٹانک کھا ئیں تو آپ کے دو چھٹانک کے پیسے بچ گئے آپ کے بھائی کے لئے دو چھٹانک گندم بچ گئی.تو کھانا کم کھائیں ، کھانا سادہ کھائیں تا کہ وہ لوگ جن کو آپ سے زیادہ ضرورت ہے ان کے پیٹ بھر جائیں.اور یہ عید جو ہے اس کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ رمضان میں تو اطعام مسکین کی بجائے بعض دوسری عبادتوں کی طرف ہمیں زیادہ متوجہ کیا گیا تھا یعنی قیام لیل کی طرف اور خدا کے لئے کھانے کو چھوڑ دینے کی طرف.وہ جو کھلانے والا حصہ تھا وہ اتنا نمایاں نہیں تھا.اگر چہ پہلے روز سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے صحابہ اور امت کے بزرگوں کا یہ طریق رہتا تھا کہ وہ بڑی کثرت کے ساتھ اس بات کا اہتمام کیا کرتے تھے کہ جو مستحق ہیں انہیں کھانا کھلائیں لیکن جو چیز میں نمایاں ہوتی ہیں رمضان کے مہینہ میں وہ قیام لیل اور خدا کے لئے کھانا چھوڑنا ہے اور جو

Page 39

خطبات ناصر جلد دہم ۱۵ خطبہ عیدالفطر ۱۳ جنوری ۱۹۶۷ء چیز میں نمایاں ہوتی ہیں عید کے دن وہ کھانا کھانا اور کھلانا ہے تو یہ بھی دراصل رمضان کی عبادت کا ہی حصہ ہے اور اسی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے.آج عید ہے میں نے اپنے خطبہ کے شروع میں یہ دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو بشمولیت خاکسار عید کی حقیقی خوشی نصیب کرے اور اب جو میں نے مضمون بیان کیا ہے اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس بات کی توفیق دے کہ اس کی رحمتوں کے دروازے جو ہم پر بار بار کھولے جاتے ہیں ہم بار بار ان سے فائدہ اٹھائیں اور ہر روز ہمارے لئے روز عید ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ وہ جو یہ چاہتا ہے کہ اس کے قرب کے حصول کے لئے بھائیوں کی بھوک کا خیال رکھا جائے اور انہیں شیطان کی غلامی سے بچانے کی کوشش کی جائے اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذمہ داری کی ادائیگی کی بھی توفیق عطا کرے اور اس طرح پر ہمارے لئے ہر دو معنی سے حقیقی خوشی اور حقیقی عید کے سامان پیدا ہو جا ئیں.اللھم آمین.روزنامه الفضل ربوه۹۰/اکتوبر ۱۹۷۴ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 40

Page 41

خطبات ناصر جلد دہم 12 خطبہ عیدالفطر ۲ جنوری ۱۹۶۸ء عید کے معنی بار بار آنے والی خوشی کے دن کے ہیں خطبہ عید الفطر فرموده ۲ / جنوری ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج کا دن عید کا دن ہے اور یہ عید الفطر ہے.یعنی یہ صرف خوشی کا دن نہیں بلکہ اس خوشی کا دن ہے.جس کا تعلق رمضان سے ہے اور خوشی اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پورا مہینہ مختلف قسم کی عبادات کرنے کی توفیق عطا کی اور وعدہ فرمایا کہ ہم میں سے جو خلوص نیت کے ساتھ ان عبادات کو بجالائیں گے اور کسی قسم کا فساد ان کے خیالات ، اعتقادات یا اعمال میں نہ ہوگا.اللہ تعالیٰ ان کی عبادت کو قبول کرے گا اور ان کی طرف رجوع برحمت ہوگا.عید کے معنی بار بار آنے والی خوشی کے دن کے ہیں.عربی زبان میں یہ لفظ صرف اس عید پر ( جس کو عید الفطر یا ہم اپنی زبان میں چھوٹی عید کہتے ہیں اس پر یا بڑی عید پر ) ہی چسپاں نہیں ہوتا بلکہ ہر خوشی کا موقع جب لوگ خوشی منانے کے لئے جمع ہوں عید کہلاتا ہے.قرآن کریم میں اس عید کا ذکر بھی فرمایا ہے.اس آیت میں رَبَّنَا اَنْزِلُ عَلَيْنَا مَابِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لَّاوَلِنَا وَاخِرِنَا (المائدة : ۱۱۵).اور منجد میں ہے کہ اسے عید اس لئے کہا جاتا ہے ( عید الفطر کو اور عید الاضحیہ کو) کہ ہر سال نئی خوشی لے کر آتی ہے.تو جو دن ہر سال آتا ہے اور بڑی خوشیاں لے کر آتا ہے

Page 42

خطبات ناصر جلد دہم ۱۸ خطبہ عیدالفطر ۲ جنوری ۱۹۶۸ء اسے عید کہا جاتا ہے.ط سوال یہ ہے کہ خوشی ، مسرت یا نئی خوشیاں اور نئی مسرتیں کیوں؟ اور کس وجہ سے؟ سوچا جائے تو عید اور عبد اوّاب اور رب تواب کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے.یعنی خوشی کے دنوں کا تعلق بار بار مسرتوں کے عود کرنے کا تعلق اس چیز سے ہے کہ بندہ بار بار اپنے رب کے حضور جھکتا ہے عاجزی کے ساتھ اور اس کا رب بھی تنگ نہیں آتا اور تھکتا نہیں.بلکہ جب بھی بندہ اپنے رب کے حضور جھکتا ہے.ہمارا تو اب خدا اپنی اس صفت کا جلوہ اسے دکھاتا ہے اور اس کے لئے خوشی اور مسرت کے سامان پیدا کرتا ہے.آواب کے معنی ہیں وہ شخص جو اللہ کی طرف رجوع کرے گناہوں کو چھوڑتے ہوئے اور اس کے احکام کی بجا آوری کرتے ہوئے اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھتے ہوئے.اللہ تعالیٰ سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے.رَبِّكُم اَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صِلِحِينَ فإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا (بنی اسرآءیل : ۲۶) کہ تمہارا رب تمہارے اندرونوں کو ، تمہارے نفسوں کو جتنا جانتا ہے.اتنا کوئی اور ہستی تمہارے نفسوں کو نہیں جانتی تم خود بھی بعض دفعہ اپنے نفس کو نہیں جانتے.اس لئے ہے تو بڑے خطرہ کا مقام کہ کہیں کوئی چھپا ہوا شرک کہیں کوئی چھپا ہوا گناہ کہیں کوئی چھپی ہوئی معصیت جس کو خود بندہ نہیں جانتا.وہ اللہ تعالیٰ کو ناراض نہ کر دے اور نارِ جہنم میں پھینکنے کا باعث نہ بنے.لیکن اس خطرہ کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اگر تم اپنی طرف سے صالح بننے کی کوشش کرو گے اور تمہاری نیت میں کوئی قصور نہیں ہوگا.تم جان بوجھ کر معصیت میں ، گناہ میں مبتلا ہونے والے نہیں ہو گے.تم جان بوجھ کر غلط اعتقاد رکھنے والے نہیں ہو گے.گندی نیت نہیں ہوگی.بشری کمزوریاں ہیں یا بعض اور کمزوریاں ہیں.وہ تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.لیکن اگر تم کوشش کرو گے کہ اعتقاد بھی تمہارا درست ہو اور تمہارے اعمال میں بھی کوئی فساد نہ ہو اور تم اپنے گناہوں سے تو بہ کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف بار بار آؤ گے.آواب بنو گے تو یا د رکھو فَإِنَّهُ كَانَ لِلْاَوَّابِينَ غَفُورًا کہ جو خدا کا بندہ رب کی طرف بار بار رجوع کرتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ مغفرت کا سلوک کرتا ہے.اسی طرح

Page 43

خطبات ناصر جلد دہم ۱۹ خطبہ عیدالفطر ۲/جنوری ۱۹۶۸ء سورة ق میں فرمایا.وَ ازْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ - هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابِ حفیظ (ق: ۳۳،۳۲) کہ جنت جو ہے وہ متقیوں کے قریب کی گئی ہے.اس کے ایک معنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کئے ہیں تفسیر صغیر کے نیچے نوٹ میں کہ دین اسلام کی تعلیم کو اس طرح وضاحت کے ساتھ کھول کھول کر آخری زمانہ میں بیان کر دیا جائے گا کہ انسان کا دل یہ محسوس کرے گا کہ راہیں روشن ہو گئیں.ان کو اختیار کرنا میرے لئے آسان ہو گیا.اس لئے جنت میرے قریب ہوگئی.دوری صرف فاصلہ کی نہیں ہوتی.دوری جہالت کی بھی ہوتی ہے.اگر ایک میل آپ نے جانا ہو تو ایک (میل) فاصلہ ہے لیکن آپ کو راستہ نہ آتا ہو.تو وہ ایک میل جو ہے بیس میل بھی بن جاتا ہے.بیس میل کا چکر لگا کے.کئی ڈرائیور ہیں جن کو راستہ نہیں آتا.ہمارے ایک ڈرائیور جب بھی ہمارے ساتھ گئے ہیں پنڈی.راستہ بھول جاتے ہیں خود بتانا پڑتا ہے.ایک دن وہ کہنے لگے مجھے آتا ہے راستہ ، آپ نہ بتا ئیں.تو جس جگہ ہم نے جانا تھا.وہ اس موڑ سے بمشکل پونے میں تھی میں نے کہا اچھی بات ہے.ہم تمہیں نہیں بتاتے لے جاؤ انہوں نے کوئی سات آٹھ میل کا چکر دیا پھر وہاں پہنچے.تو دوری اور بعد جو ہے وہ صرف فاصلے سے نہیں ہوتا بلکہ عدم علم اور جہالت کے نتیجہ پر بھی بعد پیدا ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ جنت کی راہوں کو اتنا روشن کر دیا جائے گا کہ مومن کا دل سمجھے گا کہ جنت میرے قریب آگئی ہے.میں اندھیروں میں بھٹکتا نہیں پھروں گا.واضح راستے ہیں جو میرے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں.اگر میں ان پر چلوں تو میں اپنے رب سے امید رکھوں گا کہ وہ مجھے اپنی رضا کی جنت میں داخل کرے گا - هذا ما تُوعَدُونَ اس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے.لِحت او آپ اس شخص کے لئے وعدہ کیا گیا ہے جو بار بار اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور شریعت کا محافظ ہے.شریعت کے ہر حکم کو بجالا نا ضروری سمجھتا ہے.اور اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ میرا فرض ہے کہ میں اس بات کی حفاظت کروں کہ شریعت کا یہ حکم تو ڑا نہیں جاتا.تو جب بندہ بار بار اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے.استغفار کرتے ہوئے.اپنے

Page 44

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۲ جنوری ۱۹۶۸ء گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے.اس کی رحمت پر کامل امید اور بھروسہ رکھتے ہوئے.تو پھر خدائے تو اب اپنی صفت کا جلوہ دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور میں فرمایا.وَ لَو لَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُم وَرَحْمَتُهُ وَ اَنَّ اللهَ تَوَّابُ حَكِيمٌ (النور: ۱۱) کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہو اور یہ حقیقت نہ ہو کہ خدا تعالیٰ رحیم ہونے کے باوجود، خدا تمہاری احتیاج نہ رکھنے کے باوجود، خدا احد ہونے کے باوجود یکتا اور منفردا اپنی ذات اور صفات میں ہونے کے باوجود یہ صفت بھی رکھتا ہے کہ وہ تو اب ہے.اگر خدا تواب نہ ہوتا اور حکیم نہ ہوتا اور فضلوں اور رحمتوں والا نہ ہوتا.تو تم ہلاک ہو جاتے.کیونکہ خالی آواب ہونا ضروری نہیں.کوئی انسان ہے جو یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کے عمل میں کوئی نقص نہیں اور اس کے اعتقادات اور روحانی تجربے جو ہیں یا جو جد و جہد ہے.اس کے اندر کوئی فساد نہیں.کوئی ایسا دعویٰ نہیں کر سکتا اور محض آواب ہونا کافی نہیں جب تک ہمارا رب تو اب بھی نہ ہو.وہ تو بہ قبول کرنے والا اور اپنی حکمت بالغہ سے بہت سے گناہوں کو معاف کرنے والا نہ ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجرات میں فرمایا.وَاتَّقُوا الله (الحجرات: ۱۳) کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر ڈر کے اپنی زندگی کے دن گزار و اگر تم ایسا کرو گے تو پھر ہم تمہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ جو کمزوریاں رہ جائیں گی.ان کے باوجود إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمُ (الحجرات : ۱۳) خدا تعالیٰ تمہاری تو بہ کو قبول بھی کرے گا اور جو تم نے عمل کئے ہیں ان کا بدلہ اس فارمولے کے مطابق دے گا جو اس نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے.دس گنا،سوگنا ، سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ.تو جب بندہ آؤ اب ہونے کی صورت میں بار بار اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کا رب تو اب کی حیثیت میں اس پر رجوع برحمت ہوتا ہے بار بار.تو بار بار ہمارے لئے عید کا سامان پیدا ہوجاتا ہے.پھر یہ عید ہماری واقع میں عید بنتی ہے.ہر سال آنے والی عید بھی جو رمضان کے بعد یا حج کی عید ہے.وہ بھی.جیسا کہ لغت میں ہے ان دوعیدوں کا نہیں بلکہ ہر خوشی کا موقع عید کہلا تا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ یہ دو عیدیں جن میں سے ایک آج عید کا دن ہے.

Page 45

خطبات ناصر جلد دہم ۲۱ خطبہ عیدالفطر ۲ جنوری ۱۹۶۸ء عید الفطر، تمہیں یہ بھی یاد دلاتی ہیں کہ اگر تم چاہو تو ہر روز تمہارے لئے عید بن سکتا ہے.اگر تم چاہو تو ہر روز آؤ اب کی حیثیت میں میرے حضور آسکتے ہو اور اگر تم چاہو اور اس طرح میرے سامنے آؤ تو پھر میں تو اب کی حیثیت میں تم پر ایک نیا جلوہ نئی شان کے ساتھ کروں گا اور تمہارے لئے ایک نئی عید پیدا کروں گا.اللہ تعالیٰ انفرادی طور سے بھی اور جماعت کے لحاظ سے بھی جماعت احمدیہ کا ہر دن عید کا دن بنائے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 46

Page 47

خطبات ناصر جلد دہم ۲۳ خطبہ عیدالفطر ۲۲ دسمبر ۱۹۶۸ء حقیقی عید وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے کہنے پر منائی جائے خطبہ عید الفطر فرموده ۲۲ دسمبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.رَبَّنَا انْزِلُ عَلَيْنَا مَا بِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِاَوَّلِنَا وَاخِرِنَا وَآيَةً مِّنْكَ ۚ وَ ارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرَّزِقِينَ - قَالَ اللهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَنْ يَكْفُرُ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أَعَذِّبُهُ عَذَابالا أعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَلَمِينَ - (المائدة : ۱۱۶،۱۱۵) اللهُ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ - نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَ انْزَلَ التَّوْرِيةَ وَالْإِنْجِيلَ - مِنْ قَبْلُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَيْتِ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَاللهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ - (ال عمران : ۳ تا ۵ ) اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے ان سے ایک مطالبہ کیا تھا.جس کے ساتھ روحانی طور پر عید کا تعلق تھا.گو وہ اس مطالبہ کے وقت اسے سمجھتے نہیں تھے.انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام سے یہ عرض کیا کہ کیا تیرے رب میں یہ طاقت ہے کہ وہ ہم پر آسمان سے رزق نازل کرے.کیونکہ ان

Page 48

خطبات ناصر جلد دہم ۲۴ خطبہ عیدالفطر ۲۲؍دسمبر ۱۹۶۸ء کی نگاہ دنیا ہی میں محو اور کھوئی ہوئی تھی اور اس سے آگے نہ نکل سکی تھی.حضرت عیسی علیہ السلام نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم کس قسم کا مطالبہ کر رہے ہو.خدا کا تقویٰ اختیار کرو.انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کھائیں اور دنیا کے انعامات کے حصول سے ہمارے دل مطمئن ہوجائیں.تب تیری صداقت پر ہمارے دلوں میں پختہ یقین پیدا ہوگا.اگر تیری بعثت کے بعد ہمیں اس دنیا میں صرف دکھ ہی ملتے ہیں آرام نہیں ملنا تو پھر تجھ پر ایمان لانے کا کیا فائدہ.حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور ان کے دلوں میں حقیقی اطمینان پیدا کرنے کی غرض سے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ رَبَّنَا انْزِلُ عَلَيْنَا مَا بِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ اے ہمارے رب تو اپنے فضل سے اپنے رحم سے ہمارے لئے آسمان سے مائدہ کے نزول کا انتظام کر.حواریوں نے مائدہ کا لفظ صرف دنیوی رزق کے لئے استعمال کیا تھا لیکن مائدہ کا لفظ عربی زبان میں جسمانی غذا اور روحانی غذا ہر دو کے متعلق استعمال ہوتا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کے مقرب رسول تھے.اس لئے انہوں نے اپنے رب کے حضور یہ عرض کی کہ اے میرے رب میری قوم روحانی طور پر بڑی کمزور ہے تو اس پر فضل کر اور اس کے لئے جسمانی رزق کے سامان بھی پیدا کر اور روحانی غذا کے سامان بھی پیدا کر اور چونکہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ کامل اور مکمل شریعت والا خاتم النبین ایک ارفع اور اعلیٰ مقام کے حصول کے بعد حقیقی اور کامل ہدایت لے کر آنے والا ہے.اس لئے انہوں نے دعا کی کہ وہ روحانی رزق اترے کہ جو ہم لوگوں کے لئے بھی عید کا اور مسرت کا باعث ہو اور ہمارے بعد میں آنے والی نسلیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پائیں ان کے لئے بھی وہ جسمانی اور دنیوی، روحانی اور اخروی خوشی اور مسرت کا سامان پیدا کر دے.انہوں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ تو اپنے فضل سے ہمیں رزق عطا کر کیونکہ جو چیز تیری طرف سے عطا ہوتی ہے وہ دنیوی لحاظ سے بھی اور اخروی لحاظ سے بھی سب سے بہتر ہے.اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تمہاری دعا تو قبول کرتا ہوں اور یہ مائدہ جو مانگا گیا ہے.ایک محدود شکل میں تیرے ذریعہ میں اتاروں گا اور ایک کامل صداقت کے رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاروں گا لیکن اپنے ماننے والوں کو یہ تنبیہ کر دو

Page 49

خطبات ناصر جلد دہم ۲۵ خطبہ عیدالفطر ۲۲؍دسمبر ۱۹۶۸ء کہ جو کوئی ان میں سے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری کرے گا اور اسے ماننے سے انکار کرے گا اور روحانی غذا نہیں کھائے گا.اس کی اصلاح کے لئے ایک ایسا عذاب مقدر ہے کہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کسی اور کے لئے مقدر نہیں کیا گیا کیونکہ آپ سے پہلے آنے والوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے صرف اس حصہ کا انکار کیا تھا جو ان کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور گو وہ اصولی طور پر تو مجرم تھے لیکن ساری ہدایت کے وہ منکر نہیں تھے.ان کے مقابلہ میں جو لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کامل شریعت اور مکمل ہدایت کے منکر ہوں گے انہیں پہلوں کی نسبت زیادہ عذاب ملے گا.غرض اللہ تعالیٰ نے کہا تم انہیں تنبیہ کر دو کہ میں آسمان سے ان کے لئے دنیا کی نعمتوں کا بھی سامان پیدا کروں گا اور ان کی روحانی بقا اور حیات کا سامان بھی پیدا کروں گا.لیکن یہ رزق چاہے د نیوی ہو یا روحانی ان پر بہت سی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اور جو شخص ان ذمہ داریوں کو نہیں نبھا تا اور ناشکری کی راہوں کو اختیار کرتا ہے (خصوصاً اس وقت جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو جائے اور کامل ہدایت اور مکمل شریعت کا نزول ہو جائے ) اس پر خدا کی گرفت بھی پہلوں سے زیادہ ہوگی.اس مضمون کے مطابق اور اس وعدہ کے مطابق جو سورۃ مائدہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کیا تھا.سورۃ آلِ عمران کی شروع کی آیات ( جو میں نے ابھی پڑھی ہیں ) مضمون بیان کر رہی ہیں.سورۃ مائدہ میں وعدہ دیا گیا تھا کہ اِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ اور سورۃ الِ عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدائے واحد کی طرف سے جو الْحَی اور الْقَيُّوم ہے حقیقی زندگی کا وہی مالک ہے.وہ حقیقی طور پر زندہ ہے اور حیات اور زندگی صرف اسی سے حاصل ہوسکتی ہے.وہ دوسروں کو زندہ رکھنے والا ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اور بقا اور قیام صرف اسی سے حاصل کیا جاسکتا ہے.ایک ایسا مائدہ نازل ہو رہا ہے جو قیامت تک باقی رہے گا.اور قائم رہے گا اور قیامت تک انسان کی زندگی کے سامان پیدا کرے گا.نَزِّلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ - گویا حضرت عیسی علیہ السلام کو وعدہ دیا گیا تھا کہ اِنِّی مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ اور اب یہ اعلان کیا گیا ہے

Page 50

خطبات ناصر جلد دہم ۲۶ خطبہ عیدالفطر ۲۲؍دسمبر ۱۹۶۸ء که نَزَّلَ عَلَيْكَ الكتب بِالْحَقِّ یعنی کامل حق اور کامل صداقت پر مشتمل کتاب جو انسان کے لئے مقدرتھی وہ انہی بشارتوں اور وعدوں کے مطابق اتاری گئی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء سے کئے گئے تھے اور جن کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی ہے.تو رات اور انجیل میں تو صرف پہلوں کے لئے ہدایت کا سامان تھا لیکن وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ اب اللہ تعالیٰ نے الفرقان نازل کر دیا ہے جو کامل اور مکمل ہدایت ہے.اور جونشان ( وَآيَةً مِّنكَ ) مانگا گیا تھا وہ کامل اور مکمل طور پر اب الفرقان کی شکل میں نازل ہو گیا ہے اور جواب کفر کرے گا اور انکار کرے گا اور ناشکری کرے گا اور اس رزق سے وہ فائدہ نہیں اٹھائے گا.جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے اٹھایا جائے.اسے اللہ تعالیٰ پہلوں سے بڑھ کر عذاب دے گا.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جسمانی رزق سے بھی اس طرح فائدہ اٹھایا جائے کہ اس سے روحانی بہتری کے سامان پیدا ہوں اور جو روحانی غذا ہے وہ تو ہے ہی اس کام کے لئے لیکن انسان جب ناشکرا ہوجاتا ہے تو وہ جسمانی غذا کھا کر اپنے جسم کو تو موٹا اور تازہ کر لیتا ہے لیکن روح کی تروتازگی کا سامان پیدا نہیں کرتا اور جو روحانی غذا اس پر نازل ہوتی ہے اس کی طرف وہ توجہ نہیں کرتا اور اس سے بے اعتنائی برتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص ناشکری کرے گا میں اسے عذاب دوں گا.پھر سورۃ مائدہ کی آیات میں ایک آیت ( وَآيَةً مِّنْكَ ) مانگی گئی تھی لیکن یہاں سورۃ الِ عمران میں فرمایا کہ میں بہت سی آیات دوں گا اور جو ان آیات کا انکار کرے گا اس کو میں سخت عذاب دوں گا.یہ دن تمہارے لئے عید کا دن بن سکتا ہے لیکن تم پر واجب ہے کہ ہر وہ دن جو تمہارے لئے عید بنایا جائے اس کے نتیجہ میں تم میرے شکر گزار بندے بنو.اگر تم ایسا نہیں کرو گے اور میری باتوں کو نہیں سنو گے تو پہلے انبیاء کی تنبیہ اور انذار کے مطابق اس کو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قہر اور غضب دیکھنا پڑے گا.خدا تعالیٰ نے پہلوں سے یہی کہا تھا کہ ہمارے انکار کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا جو غضب نازل ہو سکتا ہے.اس سے زیادہ غضب اس وقت نازل ہو گا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائیں گے اور لوگ ان کا انکار کریں گے.اس لئے تم ابھی سے فکر کرو اور اپنی نسلوں کو اس عذاب سے بچانے کے سامان پیدا کر و.غرض

Page 51

خطبات ناصر جلد دہم ۲۷ خطبہ عیدالفطر ۲۲ دسمبر ۱۹۶۸ء اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم تمہیں آیات دیں گے.جو لوگ ان آیات کی ناشکری کریں گے.لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَاللهُ عَزِيزٌ ذُو انتقام ان کے لئے سخت عذاب مقدر ہے اور اللہ غالب اور سزا دینے والا ہے.آج عید ہے اور یہ عید اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک نشان کے طور پر مقرر کی ہے.آپ سب کو بھی اور مجھے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے حقیقی عید اور برکتوں والی عید نصیب ہو.آیت کے معنی ایک ایسی ظاہری علامت کے ہیں جو ایک مخفی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہو اور اس کی جگہ ظاہر ہو رہی ہو پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں سبق دیا ہے کہ گو عید خوشی اور مسرت کا دن ہے (اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عید ہمارے لئے ( یعنی جو خدا تعالیٰ کے بندے ہیں ) اسی کے حکم سے کھانے پینے کا دن ہے اور خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ کھاؤ پیو اور خوشی مناؤ ) اور میں تمہارے لئے دنیا کی آسائش اور اس کی سہولتوں کے سامان بھی پیدا کر دوں گا اور کرتا رہوں گا لیکن یہ عید تو ایک ظاہری علامت ہے ایک مخفی حقیقت کی اور مخفی حقیقت یہ ہے کہ تم نے میرے قرب کا ایک مقام حاصل کر لیا.تم نے اپنی بقا کے کچھ سامان پیدا کر لئے پس تم خوش ہو جاؤ کہ تم ایک امتحان میں کامیاب ہو گئے.تم نے ایک حد تک میرے فضلوں کو پالیا اور اس کی ظاہری علامت کے طور پر ( خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ) میں تمہارے لئے عید مقرر کرتا ہوں.پس عید جہاں ہمارے لئے انتہائی خوشی اور مسرت کا دن ہے (کیونکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ آج میرے کہنے پر تم خوشی مناؤ ، کھاؤ اور پیو ) وہاں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ ناشکری نہ کرنا.اگر تم میرے کہنے پر خوشی مناتے اور کھاتے اور پیتے ہو تو میرے کہنے پر اس بات کو بھی یا درکھو کہ یہ عید سال میں ایک بار نہیں آتی بلکہ اگر تم چاہو تو تم اپنے ہر دن کو عید کا دن بنا سکتے ہو.اگر تم اس دن کی ذمہ داریوں کو نبا ہو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا مزید قرب حاصل کرو گے اور تمہاری دنیوی اور اخروی مسرتوں کے مزید سامان پیدا کئے جائیں گے اور تم روحانی میدانوں میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتے چلے جاؤ گے.خدا کرے کہ ہمارا ہر دن ہی عید کا دن ہو اور ہر روز ہی ہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضا اور محبت کو حاصل کرنے والے ہوں

Page 52

خطبات ناصر جلد دہم ۲۸ خطبہ عیدالفطر ۲۲ دسمبر ۱۹۶۸ء اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جو ذمہ داریاں وہ ہم پر ڈال رہا ہے.ہم انہیں اس طرح نبا ہیں کہ وہ ہم سے خوش ہو جائے.ہم دراصل ایک عید کے زمانہ میں داخل ہیں لیکن یہ ایک اور مضمون ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر ہم غور کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی دنیوی خوشی اور عید وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے کہنے پر منائی جائے.اسی میں خیر ہے.اسی میں برکت ہے اور جب ہمیں خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ خوش ہو جاؤ اور خوشی سے اچھلو تو ہمارا کام ہے کہ ہم خوش ہوں اور ہماری طبیعتوں میں بشاشت پیدا ہو اور ہم خوشی سے اچھلیں.جب ہمارا خدا ہمیں کہتا ہے کہ کھاؤ اور پیو تو ہمارے لئے یہ فرض ہے کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے کھا ئیں بھی اور پیئیں بھی اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی کھلائیں اور پلائیں اور اس کے پیچھے جو حقیقت ہے وہ تو ظاہر ہی ہے.اس کے پیچھے جو حقیقت ہے وہ سارا رمضان ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ تمہاری خوشیوں اور مسرتوں کا سامان صرف اس چیز میں ہے کہ جب میں کہوں کھانا چھوڑ دو تو تم کھانا چھوڑ دو اور جب میں کھانا کھانے کی اجازت دوں تو تم کھانا کھانے لگ جاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے لئے ہر قسم کی خوشیاں اور مسرتیں پیدا کر دی جائیں گی.خدا کرے کہ ساری ہی مسرتیں اللہ تعالیٰ ہمارے لئے پیدا کرتا چلا جائے.اپنے فضل سے نہ کہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں دعا کراؤں گا.آپ اپنے لئے بھی دعا کریں اور جلسہ سالانہ پر آنے والوں کے لئے بھی دعا کرتے رہیں.جلسہ سالانہ کے دن برکات کے دن ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کی برکتوں کے تسلسل میں ہی جلسہ آگیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور ہمارے باہر سے آنے والے بھائیوں کو بھی جلسہ سالانہ کی تمام برکات میں حصہ دار بنائے.جہاں اجتماع ہوتے ہیں وہاں بیماریوں کے پھیلنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے.مثلاً نزلہ اور کھانسی کی بیماریاں ہیں.جلسہ سالانہ پر ہر جگہ سے لوگ آئیں گے اگر کسی جگہ نزلہ اور کھانسی کی وبا ہے تو ہوسکتا ہے بعض دوست وہ وبالے کر یہاں پہنچیں اور دوسروں کی صحت کے لئے خطرہ پیدا ہو جائے

Page 53

خطبات ناصر جلد دہم ۲۹ خطبہ عید الفطر ۲۲ ؍دسمبر ۱۹۶۸ء (اگر خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہو ) لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم عاجز بندوں کی دعاؤں کوسن کر ( اور ہماری کیا دعائیں ہیں اصل میں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں ہیں ) اور انہیں قبول فرما کر اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں اور کرتا چلا آیا ہے کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں بیماری عام نہیں ہوتی.پس دعائیں کرو کہ جس طرح پہلے جلسوں پر اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کا ہم نے مشاہدہ کیا تھا.اس جلسہ پر بھی ہم اس کی رحمت اور فضلوں کا پھر مشاہدہ کریں اور آئندہ ہر جلسہ پر بھی مشاہدہ کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور باہر سے آنیوالوں کو بھی ہر قسم کی بیماریوں سے محفوظ رکھے.باہر سے آنے والے دوست بہت سی تکالیف برداشت کرتے ہیں.ان میں اکثر بیوی بچوں کو ساتھ لے کر آتے ہیں.انہیں جماعت کے مرکز اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ساتھ اس قدر محبت اور پیار ہوتا ہے کہ بعض دفعہ تو انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور بہتوں کا سر شاید وہ دیکھ کر چکرا جائے کہ کیا کبھی دنیا میں ایسا بھی ہوا ہے کہ ماں کو اپنے بچے سے زیادہ اپنے مرکز اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس جلسہ سے پیار ہے.دیر کی بات ہے.جن دنوں میں افسر جلسہ سالا نہ ہوا کرتا تھا.ایک سپیشل ٹرین آئی میں بھی اس کے معائنہ کے لئے اسٹیشن پر پہنچا ہوا تھا.وہاں میں نے ایک نہایت ہی حسین نظارہ دیکھا.ایک ماں کی گود میں چھوٹا سا بچہ تھا.شاید وہ دو تین ماہ کی عمر کا ہو.دودھ پیتا بچہ.وہ اس کو گود میں لے کر گاڑی میں کھڑی تھی.جب گاڑی اسٹیشن پر کھڑی ہوئی تو ربوہ کا پیار اس سے پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہا تھا.اسے اس وقت بچہ کی کوئی پرواہ نہیں تھی.اس کا کوئی رشتہ دار اس سے پہلے اتر کر پلیٹ فارم پر کھڑا تھا.اس نے اپنا بچہ اس کی طرف یوں پھینکا.جس طرح ایک مسافر اپنی گٹھڑی کو پھینکتا ہے.بچہ کی محبت پر خدا اور اس کے رسول کی محبت غالب آئی ہوئی تھی.غرض باہر سے آنے والے ہر قسم کی قربانی دیتے ہیں.وہ ہر قسم کی محبتوں اور تعلقوں کو قربان کر کے یہاں آتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی حقیر کوششوں کو قبول کرے اور انہیں راہ کے ہر فتنہ اور ہر تکلیف اور ہر بے آرامی سے اپنی حفاظت میں رکھے.یہاں آتے ہوئے بھی اور واپس اپنے

Page 54

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۲۲ دسمبر ۱۹۶۸ء گھروں کو جاتے ہوئے بھی.وہ خیر سے انہیں یہاں لائے اور خیر سے انہیں ان کے گھروں تک پہنچائے اور انہیں اور ہمیں بھی ہمیشہ اپنی خیر ہی پہنچا تار ہے.یہ دعائیں کثرت سے ان دنوں میں کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ان برکتوں سے جو ان دنوں سے خاص ہیں زیادہ سے زیادہ حصہ دے.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ جنوری ۱۹۶۹ صفحه ۲ تا ۴) 谢谢谢

Page 55

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۶۹ء حقیقی عید یا خوشی کا دوسرا بڑا ذریعہ استقامت ہے به عید الفطر فرموده ۱۲ / دسمبر ۱۹۶۹ ء بمقام مسجد مبارک ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ - نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ ( حم السجدة : ۳۲،۳۱) پھر حضور انور نے فرمایا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر قوم اور ہر جماعت نے اپنے لئے خوشیوں کے تہوار بنائے ہوئے ہیں اور ہماری عید کا دن تو یہ ہے جو رمضان کی عبادات کے بعد آتا ہے اسی طرح ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا کہ مدینہ میں مدینہ کے دونوں بڑے قبائل مختلف موقعوں کی یاد میں تہوار مناتے ہیں ان سے بہتر اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے انتظام کر دیا ہے ایک عید الفطر کا جس کو ہم چھوٹی عید کہتے ہیں اور ایک عید الاضحیہ کا.انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ وقفہ وقفہ کے بعد خوشی منائے اور یہ فطرت میں اس لئے رکھا

Page 56

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۶۹ء گیا ہے کہ ایک خاص زمانہ اور وقت میں انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت میں انہماک کے بعد ایک وقتی انعام پائے اور اس انعام کی خوشی میں وہ اپنی مسرت کا اظہار کرے فطرت کے اندر جو خوشی منانے کا جذبہ ہے وہ مٹ نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ فطرت کا ایک حصہ ہے لیکن اس جذ بہ کے اظہار کے خدا کے بتائے ہوئے جو مواقع تھے وہ انسان ہمیشہ ہی بھولتا رہا ہے.ہر نبی نے اپنی امت پر بعض ذمہ داریاں ڈالیں اور پھر ان کے لئے عید اور خوشی کے سامان بھی پیدا کئے وہ خوشی تو مناتے رہے اور آج تک منا رہے ہیں لیکن جو ذمہ داریاں ان پر عائد کی گئی تھیں ان کو وہ بھلا بیٹھے اور جس وجہ سے خوشی منانی تھی وہ وجہ باقی نہ رہی.ایک ظاہری چھلکا باقی رہ گیا اور روح مرگئی.انسانی فطرت میں خوشی منانے کا یہ جذبہ اتنا راسخ ہے کہ میں نے اپنی طالب علمی کے زمانہ میں یہاں بھی اور انگلستان میں بھی یہ دیکھا ہے کہ بعض دفعہ خوشی حاصل کرنے کے اس جذ بہ کو سیر کرنے کے لئے طالب علم کہتے تھے کہ آؤ ہنسیں اور پھر وہ کسی وجہ کے بغیر قہقہے لگانے شروع کر دیتے.کوئی وجہ نہیں ہوتی تھی اور وہ قہقہے لگا رہے ہوتے تھے.وہ ایک دوسرے کو کہتے آؤ ہنسیں اور پھر وہ بلا وجہ ہنسنے لگ جاتے تھے.غرض دنیا میں اس قسم کی ساری عید میں ہیں کہ قہقہہ تو لگ رہا ہے لیکن وہ قہقہہ کس وجہ سے اور کیوں ہے اس قہقہ لگانے والے کو بھی علم نہیں ہوتا.چہرہ پر تو مسکراہٹ ہے لیکن دل میں خوشحالی کے جذبات نہیں.وہ کیفیت نہیں.حقیقی خوشی وہی ہے جس کے منانے کا اللہ حکم دے اور جس کی کیفیت پیدا کرنے کا اللہ تعالیٰ سامان پیدا کر دے.جو آیت کریمہ میں نے ابھی تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خوش ہو اور خوشیوں سے اپنے وجود کو بھر لو.عید مناؤ ابشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ کیونکہ جس خوشی اور جس جنت کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا وہ تمہارے لئے میسر آ گئی ہے یا تمہارے پہلے کی نسبت زیادہ قریب ہو گئی ہے اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ انسان کے لئے جنت پیدا کرتا ہے اور حقیقتاً اس دنیا کی جنت کو ہی ہم ایک عظیم جسمانی اور روحانی انقلاب کے بعد اپنے ساتھ برزخ کی دنیا میں لے کے جاتے ہیں.لیکن عام طور پر وہ جنت آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے لیکن اس جنت کی وجہ سے جو خوشی پیدا کی جاتی ہے اسے بچہ بھی اپنی عمر کے لحاظ سے محسوس کرتا ہے اسے

Page 57

خطبات ناصر جلد دہم ۳۳ خطبہ عیدالفطر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۶۹ء پاگل بھی اپنی عقل کے مطابق مناتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے یہاں اس آیت میں ہمیں حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو خوشیوں سے بھر لو اور عید مناؤ.اس لئے کہ دو قسم کے عید کے سامان آج تمہارے لئے پیدا کئے گئے ہیں ایک معرفت الہی کا سامان جیسے فرمایا إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ اس میں عرفان الہی کے سامان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ لوگ جو عَلَى وَجْهِ الْبَصِيرَت یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے رب کی معرفت اپنی استعداد کے مطابق حاصل کی اور ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم سب کا رب وہ ہے جس نے ہمیں پیدا کیا جس نے ہمارے جسموں کو اور ہماری روحوں کو اور جس نے ہمارے جسم کے مختلف خواص اور ہماری روح کی مختلف صفات کو پیدا کیا اور جوان صفات اور ان خواص کو پیدا کرنے کے بعد ان خواص اور ان صفات کو ان کے دائرہ استعداد میں اور ان کی نشوو نما کو کمال تک پہنچانے کا متکفل ہوا اور ذمہ وار بنا.وہی ہمارا رب ہے اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور رب ہو ہی نہیں سکتا.عقلاً بھی نہیں ہو سکتا اور پھر فطرت انسانی بھی اس کو دھتکارتی ہے اور جو وحی آسمانی اللہ تعالیٰ نے نازل کی اس سے تو ہمارے سامنے یہ چیزیں بڑی وضاحت کے ساتھ آجاتی ہیں کہ دینا اللہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور وہ ہستی جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور جس کے اندر کوئی عیب نہیں پایا جاتا ہی ربوبیت کا سزاوار ہے اور اہل اور مستحق ہے اور اسی کو رب سمجھنا چاہیے اور رب اپنے وجود میں محسوس کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی پہچان خوشی کے سامانوں کا ایک ذریعہ بنتا ہے کیونکہ یہ ایک ابتدائی اور بنیادی چیز ہے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ سب سے بڑا سامان ہماری خوشیوں کا یہی ہے کہ اپنے اس رب کو پہچانے لگیں اور اس کا عرفان رکھنے لگیں جو رب بھی ہے اور دیگر بہت سی صفات حسنہ سے متصف ہے اور جب اس کا حسن ہم پر جلوہ گر ہوتا ہے تو ہمارے ذہن دنیا کی ساری خوبصورتیوں کو بھول جاتے ہیں اور جب ہم اس کے احسان کو پہچاننے لگتے ہیں تو ہم اس حقیقت کو پاتے ہیں کہ وہی ایک محسن حقیقی اور معطی حقیقی ہے اور جتنے دوسرے وجود بظاہر ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں پر احسان کر رہے ہیں وہ بھی اسی کی توفیق ، اسی کے منشا اور حکم سے احسان کی طاقت اور قوت پاتے ہیں ورنہ خود ان کے اپنے وجود میں کوئی بھی ایسا ہنر اور قابلیت نہیں

Page 58

خطبات ناصر جلد دہم ۳۴ خطبہ عیدالفطر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۶۹ء اور ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو انہوں نے اپنے زور سے اور اپنی طاقت سے حاصل کی ہو جس ہنر اور قابلیت کے نتیجہ میں وہ احسان کا ارادہ کریں اور جس چیز کو لے کر وہ دوسرے پر احسان کریں اور اسی کو عطا کریں.غرض نہ وہ چیز جو ان کے پاس ہے ان کی اپنی یا ان کے اپنے زور سے حاصل کردہ ہے اور نہ ان کی احسان کی قوت اور ارادہ اور خواہش اپنی ہے.یہ سب کچھ رَبُّنَا الله ) اللہ کی توفیق سے ہی میسر آتا ہے جو ہمارا رب ہے.کئی لوگ دوسروں کو عطا کرتے ہیں اور صفات باری سے عملی طور پر متصف ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے قرب کو پاتے اور اس کو پہچانتے اور اس کا عرفان حاصل کرتے ہیں اور ان کے لئے عید کے دن اور عید کے اوقات مقرر کئے جاتے ہیں.دوسرا بڑا ذریعہ یا سامان جس کے نتیجہ میں انسان کے لئے حقیقی عید یا خوشی پیدا ہوتی ہے وہ استقامت ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرما یا اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا - استقامت کے معنی یہ ہیں کہ وقتی طور پر اور عارضی طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کا سوال نہیں بلکہ جب اپنے رب کو اور اپنے اللہ کو پہچان لیا تو اس کی کامل اطاعت اور مسلسل اطاعت اور ہمیشہ کی اطاعت اور ہمیشہ کا پختہ تعلق اس سے ضروری ہے کیونکہ جو آج کھاتا ہے اور کل بھوکا رہتا ہے اس کو سیر نہیں کہا جا سکتا.رمضان میں ہم نے یہ سبق بھی سیکھا ہے ہم دن کو بھوکا رہتے تھے اور رات کو ہم کھاتے تھے اور جتنا چاہتے تھے کھاتے تھے اور دن کو ہم بھوکے رہتے تھے تو ہم بڑی بھوک محسوس کرتے تھے.پس رات کا کھانا دن کی سیری کا سبب نہیں بنا کرتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ایک وقت میں تعلق کو قائم کر کے اس کے پیار کو وقتی طور پر حاصل کر لینا.اس دنیا میں آئندہ زمانہ کی سیری کے سامان نہیں پیدا کیا کرتا.اس دنیا کے حالات تو تفصیلاً ہم جانتے نہیں اس لئے ہم اس دنیا کی بات کریں گے.جس طرح اس دنیا میں کھانے کی بار بار ضرورت پڑتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پیار کی نگاہوں کی ہمیں بار بار ضرورت پڑتی ہے اور وہ پیار کی نگاہیں قربانی اور ایثار کے بغیر ہم حاصل نہیں کر سکتے غرض استقامت کے معنی ہیں کہ جب تعلق قائم کر لیا تو پھر وہ ٹوٹے گا نہیں اور وہ اتنا پختہ ہے کہ دنیا جتنا چاہے زور لگا لے وہ ٹوٹ نہیں سکتا.لیکن اللہ تعالیٰ دنیا کو یہ بتانے کے لئے

Page 59

خطبات ناصر جلد دہم ۳۵ خطبہ عیدالفطر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۶۹ء کہ یہ لوگ میرے بڑے ہی محبوب اور پیارے بندے ہیں.یہ مجھ سے چمٹ گئے ہیں اور اب تم ان کو میرے دامن سے علیحدہ نہیں کر سکتے.نیز دنیا کو دکھانے کے لئے اور ان کو سبق دینے کے لئے کہ میں اپنے بندوں پر بلائیں بھی نازل کرتا ہوں انہیں بلاؤں میں ڈالتا ہے.وہ خاموشی بھی اختیار کرتا ہے اور ماں کی طرح کبھی یہ بھی کہ دیتا ہے کہ جاؤ میں تم سے ناراض ہوں اور اس ناراضگی کے آثار کے پیچھے مسکراہٹیں جھلک رہی ہوتی ہیں.دیکھنے والی آنکھ وہ دیکھتی ہے لیکن دنیا سی سمجھتی ہے کہ خدا اس سے کلام کرتا تھا لیکن آج وہ اس کو بھول گیا.اللہ تعالیٰ اس پر رحمت اور پیار کی نگاہ رکھتا تھا لیکن آج ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس سے اپنا منہ پھیر لیا لیکن اس نے اس سے منہ اس لئے نہیں پھیرا کہ وہ اس سے ناراض تھا اس نے اس سے منہ اس لئے نہیں پھیرا کہ اس کو اور دنیا کو اس امتحان اور غصہ کے پیچھے اور ان آفات کے ماورا خدا کا پیار اور رضا نظر نہ آئے وہ اپنا غصہ بھی دکھاتا ہے اور انسان کو آزماتا بھی ہے اور اس سے وہ دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ میرا حسن اور احسان اور میری محبت اور میری رضا ایسی زبردست تاثیر رکھنے والی ہے کہ جب وہ کسی انسان کو مل جاتی ہے تو وہ اس کے بعد مجھ سے پرے نہیں ہوتا.دنیا جو چاہے کرے وہ اس کو میرے دامن سے چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ ہے استقامت.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رمضان آیا تم نے روزے رکھے رمضان آیا تم نے خلوص نیت کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر میری تسبیح اور میری تحمید کی اور میرے ذکر میں تم مشغول رہے.رمضان آیا.تم نے نفس کی خواہشات کو میری خاطر رو کے رکھا اور ان کو اپنا غلام بنا یا.تم اپنے نفس کی ان خواہشات کے خود غلام نہ بنے.رمضان آیا اور تم نے میری چلائی ہوئی اندھیریوں کی طرح اپنے اموال کو مستحقین میں لٹایا اور سب دے دلا کر تم نے محسوس کیا کہ یہ خدا کا تھا.خدا کی رضا کے لئے ہم نے یہ چیز اس کو دی اور یہ گھاٹے کا سودا نہیں بلکہ بڑے نفع کا سودا ہے کہ ہم نے جو دیا وہ بھی اس سے لے کر ہم نے دیا ہے یہ ایسی بات ہے کہ آپ کسی دکاندار کے پاس جائیں اور وہ عید منانے کے لئے پانچ سوروپیہ کا کپڑا آپ کو دے اور جب آپ کپڑا پھڑ وا چکیں تو وہ چپ کر کے آپ کی جیب میں پانچ سورو پیہ ڈال دے اور آپ اسی کی رقم اسے دے کر وہ کپڑا لے آئیں اور یہ سراسر فائدہ کا سودا ہے گھاٹے

Page 60

خطبات ناصر جلد دہم ۳۶ خطبہ عیدالفطر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۶۹ء کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا شاید الفاظ اسے ٹھیک طور پر بیان نہ کر سکیں لیکن اس سے بھی بڑھ کرسستا سودا ہمارا ہمارے رب کے ساتھ ہے کہ نہ صرف ہم نے جو اس کے حضور پیش کیا وہ بھی اس کی عطا تھی بلکہ پیش کرنے کی طاقت اور یہ جذ بہ جو ہمارے دل میں پیدا ہوا کہ ہم اس کی محبت اور رضا کو حاصل کریں یہ بھی اسی کی توفیق سے ہوا.ہم نے اس کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کیا ہم دعاؤں میں لگے رہے اور جب رمضان ختم ہوا تو خدا نے ہمیں کہا تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو اور خوشی سے اپنے وجود کو بھر لو کہ تم ایک درجہ میں کامیاب ہو گئے.تمہارے پہلے گناہ معاف کر دئے گئے ہیں اور نئی زندگی کا ایک زمانہ اور ایک دور تم پر آرہا ہے تم اس سے زیادہ رحمتوں کو حاصل کرنے کی آنے والے سال میں کوشش کرنا ابشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ تمہیں دنیا میں بھی ایک جنت کا وعدہ دیا گیا تھا وہ جنت تمہیں مل رہی ہے تمہیں استقامت ،صبر اور ثبات قدم دکھانا پڑے گا تاکہ ساری زندگی یہ جنت تمہارے ساتھ رہے اگر تم کسی وقت خدا کی معرفت کے حصول کے بعد شیطانی وسوسوں کے نتیجہ میں خدا کی بجائے شیطان کی طرف مائل ہوجاؤ یا کچھ خدا کو پہچانو اور کچھ شیطان کو پہچا نو تم کچھ اللہ کی قدر کرو اور کچھ اس کی قدر کرو جس کی اللہ کی نگاہ میں کوئی قدر ہی نہیں تو پھر تم سے جنت واپس لے لی جائے گی لیکن بہر حال خدا کہتا ہے کہ میں رمضان کی مخلصانہ دعاؤں کو قبول کرتا ہوں اور تمہارے لئے خوشیوں کے سامان پیدا کرتا ہوں.یہ عید ہے جس کے منانے کے لئے ہم آج جمع ہوئے ہیں خدا کرے کہ ہماری نہایت ہی حقیر قربانیاں ہماری اس استقامت کی کوشش کے نتیجہ میں قبول ہو جائیں جو ہم نے کی.استقامت بڑا ہی اہم اور بڑا ہی مشکل کام ہے.اس کے بغیر گزارہ بھی نہیں لیکن یہ معمولی کام بھی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ( نے ) بہت جگہ اس کے متعلق بیان فرمایا ہے میں اس کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے ایک مختصر سا اقتباس اپنے بھائیوں کے سامنے اس وقت پیش کر دیتا ہوں.آپ فرماتے ہیں.کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجود نہ ہو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند

Page 61

خطبات ناصر جلد دہم ۳۷ خطبہ عیدالفطر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۶۹ء کر دے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے اس وقت نامردی نہ دکھلا دیں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہیں اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں.صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں ذلت پر خوش ہو جا ئیں موت پر راضی ہو جا ئیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے.نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے طالب ہوں کہ وقت نازک ہے اور باوجود سراسر بیکس اور کمزور ہونے کے اور کسی تسلی کے نہ پانے کے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور ہر چہ بادا باد کہہ کر گردن کو آگے رکھ دیں اور قضاء وقدر کے آگے دم نہ ماریں اور ہر گز بے قراری اور جزع فزع نہ دکھلا وہیں جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے یہی استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے.یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی خاک سے اب تک خوشبو آ رہی ہے.غرض یہ ہے وہ استقامت جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہے اور اس استقامت کے لئے ہم نے حقیر کوششیں بھی کرنی ہیں اور عاجزانہ دعاؤں میں بھی لگے رہنا ہے کیونکہ اس کے بغیر ہمیں ابدی اور دائمی جنت اور لذت اور سرور حاصل نہیں ہو سکتا.خدا کرے کہ ہم اس میں کامیاب ہوں.خدا کرے کہ ہماری روح ہمیشہ ہی پگھل کر آستانہ الوہیت پر بہتی رہے اور اس کے بے پایاں فضل اور خوشی کا دن ہمیں نصیب ہو جس طرح آج اس کے حکم سے اور اس کی رضا سے ہم عید منا رہے ہیں.عید کی خوشی کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی نے حضرت انس بن مالک سے روایت کی ہے.حضرت انس بن مالک نے اس حدیث میں یہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عید کی صبح کو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ تم زمین پر اتر و اور میری طرف سے دنیا کو یہ منادی سناؤ چنانچہ وہ آتے ہیں اور ایسی آواز میں یہ بات ساری مخلوق کو بتاتے ہیں کہ درخت بھی اس کو سن رہے ہیں اور جانور بھی اس کو سن رہے ہیں اور پتھر بھی اس کو سن رہے ہیں.زمین کا ذرہ ذرہ اسے سن رہا ہے لیکن انسان اسے نہیں سن رہا ہوتا.وہ کہتے ہیں یا اُمَّةَ مُحَمَّدٍ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ! عید کی نماز کی ادائیگی کے لئے تم اپنے گھروں سے عید گاہ کی طرف نکلو کیونکہ اللہ عز وجل تھوڑے کو قبول کرتا اور بہت عطا کرتا ہے

Page 62

خطبات ناصر جلد دہم ۳۸ خطبہ عیدالفطر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۶۹ء اور گناہ کو معاف کر دیتا ہے اور جس وقت وہ عید کی نماز کے لئے عید گاہ میں پہنچتے ہیں یا جہاں بھی نماز ہو وہاں پہنچتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں اور نماز میں دعائیں کرتے ہیں کہ اے خدا! تیرے حکم سے ہم عید منا رہے ہیں تو ایسا کر کہ ہماری عید حقیقی عید ہو اور حقیقی خوشیوں کا باعث بنے اور تیری رضا کو ہم واقع میں اور اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود رمضان کی عبادات کے نتیجہ میں حاصل کر چکے ہوں.غرض جب ہم وہ نماز پڑھتے ہیں اور نماز میں دعا کر چکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہاری کوئی حاجت اب ایسی نہیں جسے میں نے پورا نہ کر دیا ہو اور تمہارے ہر سوال کو میں نے قبول کر لیا اور کوئی گناہ نہیں جسے میں نے معاف نہ کر دیا ہو تب خدا کے بندے جب یہ آوازان کے لئے فضاؤں میں گونج اٹھے اپنے گھروں میں اس صورت میں جاتے ہیں کہ سارے گناہ ان کے معاف ہو چکے ہوتے ہیں یعنی کوئی داغ ان کی روح پر باقی نہیں رہتا.کوئی نا پا کی ان کے جسموں پر باقی نہیں رہتی کوئی گندگی ان کے ذہنوں میں باقی نہیں رہتی.ان کے لئے خیر ہی خیر ہوتی ہے وہ عطر سے معطر ہوئے ہوتے ہیں ان کے سینوں میں کوئی تاریکی باقی نہیں رہتی.خدا کے نور سے وہ بھر جاتے ہیں اور مَغْفُورٌ لَّهُمْ کی حیثیت میں وہ اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں.خدا کرے کہ ہمارا آج کا اپنے گھروں کو لوٹنا بھی مَغْفُورٌ لَّهُمْ کے گروہ میں شامل ہونے کے بعد ہی ہو.خدا کرے کہ اس احساس بلکہ اس علم بلکہ اس یقین کے باوجود کہ ہم خطا کار انسانوں نے ہزار ہا غفلتیں اپنی زندگی میں کیں اور رمضان کے پورے حقوق بھی ہم ادا نہیں کر سکے ہمیں یہ یقین اور علم ہے کہ گناہ خواہ کتنے ہی کثیر کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعتوں کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے وہ ان کے مقابلہ میں نہیں آسکتے.خدا کی رحمت کی وسعت نے تو ہر چیز کو اپنے اندر لپیٹا ہوا ہے.جب وہ معاف کرتا ہے تو اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر : ۵۴) وہ تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اے ہمارے رب! ہم پا کی اور تزکیہ اور طہارت کا احساس تو نہیں رکھتے لیکن ہم یہ یقین ضرور رکھتے ہیں کہ اگر تو معاف کرنا چاہے تو تو ہر گناہ معاف کر دیتا ہے اور ہماری تیرے حضور عاجزانہ استدعا ہے کہ تو ہمارے سارے گناہوں کو ہی معاف کر دے اور اپنی ساری رحمتوں سے ہی ہمیں نواز.اے خدا تو ایسا ہی کر.

Page 63

خطبات ناصر جلد دہم ۳۹ خطبہ عیدالفطر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۶۹ء خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اب میں دعا کراؤں گا دوست اپنے ان بھائیوں (جس میں ساری جماعت بھی آ جائے گی ) کے لئے دعا کریں جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مخلصانہ مجاہدہ میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے ان بھائیوں کے لئے (اگر ان کے بیوی بچے بھی ان کے ساتھ ہیں تو ان کے لئے بھی) دعا کریں جو دور دراز ممالک میں اعلائے کلمہ اسلام کے لئے کام کر رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے ، اسلام کو غالب کرنے اور لوگوں کے دلوں میں عشق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پیدا کرنے کے لئے دن رات مشغول ہیں.دنیا کی کسی راحت اور آرام کی طرف انہیں توجہ نہیں.ایک آگ ان کے سینوں میں سلگ رہی ہے جو انہیں بے چین رکھتی ہے اور جو تبلیغ اسلام میں منہمک رہتے ہیں یہ لوگ دعا کے اہل اور مستحق ہیں ان کے لئے دعا کی جائے کہ اللہ ان پر رحم کرے.ان پر اپنی برکتیں نازل کرے اور خود ہی ان کا معلم اور ہادی اور محافظ بنے انہیں اپنی امان میں رکھے.انہیں اسلام کے دشمنوں پر غالب کرے اور خود اللہ تعالیٰ کے جو منکر ہیں ان کے مقابلہ میں روحانی طور پر دلائل اور نشانات کے ساتھ تلوار کی مانند مدد کرے.ان کے ذریعہ سے متواتر شرف اور بزرگی کے نشان دکھائے اپنا رعب دکھائے.اپنی عظمت اور جلال دکھائے.پھر اگلی نسل کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ایسے اعمال بجالانے کی توفیق عطا کرے جو مقبول ہوں مشکور ہوں اور اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرے اور روحانی اور جسمانی ترقیات کے سامان کرے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ ہم اپنی ساری زندگی کو قربان کر کے بھی غلبہ اسلام کی اس مہم کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں جو دنیا میں جاری کی گئی ہے اور اگر چہ احساس ورثہ میں منتقل نہیں ہوتا لیکن خدا کرے کہ یہ احساس ان کے سینوں میں بھی منتقل ہو جائے اور ان کے سینوں میں بھی وہی آگ بھڑ کے جو ہمارے سینوں میں بھڑک رہی ہے اور اس کے شعلے بلند سے بلند تر ہوتے جائیں تا مقصد اسلام کو وہ پورا کرے خدا کرے کہ ہمارے لئے جتنے سانس بھی اس دنیا میں مقدر ہیں ان میں سے ہر سانس ہماری بہتری ، بھلائی اور خیر کا موجب ہو اور وہ خدا کے فضل کو زیادہ جذب کرنے والا ہوتا ہم ہر وقت یہ محسوس

Page 64

خطبات ناصر جلد دہم ۴۰ خطبہ عیدالفطر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۶۹ء کریں کہ ہم ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے نور سے منور اور چہرہ کو روشن کرنے والے ہیں.اس کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی اور پرسوز دعا فرمائی.دعا کے بعد حضور انور نے واپس جانے سے قبل حاضرین کو بلند آواز سے السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ کہا اور فرمایا:.آپ سب کو اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے احمدیوں کو عید مبارک ہو.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 65

خطبات ناصر جلد دہم ۴۱ خطبہ عیدالفطر یکم دسمبر ۱۹۷۰ء حقیقی عید یہ ہے کہ ہم بنی نوع انسان کی خدمت کریں خطبہ عید الفطر فرموده یکم دسمبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.خصوصیتیں اس عید کا عبادات رمضان سے گہرا تعلق ہے رمضان کے مہینے کی دو بنیادی خـ ہیں (ویسے ان کے علاوہ اور بھی خصوصیات ہیں لیکن دو بنیادی خصوصیات میں سے) ایک یہ ہے که ماه رمضان کا تعلق لیلتہ القدر سے ہے اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس ماہ رمضان کا تعلق ان انتہائی قربانیوں کے ساتھ ہے جو ایک انسان اپنے رب کے حضور پیش کرتا ہے جہاں تک لیلتہ القدر کا تعلق ہے اصلی اور حقیقی لیلتہ القدر و محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی وہ اندھیری رات تھی جسے اس نور مجسم نے ہر پہلو سے روشنی میں تبدیل کر دیا اور ظلمت کا کوئی نشان باقی نہیں چھوڑا.بنی نوع انسان کے لئے نور ہی نور مہیا بھی کر دیا اور اس کا حصول ممکن بھی بناد یا باقی جو امت محمدیہ کی اور بہت سی ایسی راتیں ہیں جو قدر اور فیصلے کی راتیں ہیں یہ تو اظلال ہیں اسی عظیم لیلۃ القدر کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہے اور جو آپ ہی کا حق تھا.لیلۃ القدر کے معنے لغت نے بھی یہی کئے ہیں کہ ایسی رات جس میں امور مخصوصہ کا فیصلہ کیا جائے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بنی نوع پر سب سے اندھیری رات میں جن عظیم

Page 66

خطبات ناصر جلد دہم ۴۲ خطبہ عیدالفطر یکم دسمبر ۱۹۷۰ء اور مخصوص امور کا فیصلہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ تمام اقوام عالم کو ہر خطہ ارضی پر بسنے والے بنی نوع انسان ایک وحدت میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے رشتوں سے باندھ کر اللہ تعالیٰ کے قدموں میں اکٹھا کر دیا جائے گا اور اسی طرح بنی نوع انسان کی عزت اور اس کے شرف کے قیام کا انتظام کیا جائے گا.کامل اور مکمل شکل میں جو تعلیم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ شرف کا اور عزت کا سامان لے کر آئی ہے اس نے کسی کے ساتھ بخل نہیں کیا بلکہ اس نے سفید کو بھی گندمی اور کالے رنگ والے کو بھی یہ کہا پڑھے ہوئے کو بھی اور علم میں پسماندہ کو بھی یہ کہا کہ اگر تم اس دنیا میں اور اس دنیا میں حقیقی عزت اور شرف حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھو اور اسی کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو.پس لیلتہ القدر میں اصل تو یہ فیصلہ تھا اور دوسرے یہ فیصلہ تھا اور اس کی علامت یہ بتلائی گئی تھی کہ انسان چونکہ کمزور ہے اور اپنے زور اور طاقت سے کچھ نہیں کر سکتا اس لئے اسے اپنے رب سے تعلق پیدا کر کے طاقت اور قدرت حاصل کرنی پڑے گی.اور اللہ تعالیٰ کی رحمت جس پر یا جن پر نازل ہوگی وہ فرشتوں کے ذریعہ سے نازل ہوگی اور جب انسان اپنے رب سے تعلق کو قائم کرے گا تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ آسمان سے فرشتے ان پر نازل ہوں گے وہ ان کے لئے بشارتوں کے سامان لے کر آئیں گے وہ ان کے لئے بشاشتوں کے سامان لے کر آئیں گے وہ ان کے لئے اطمینان اور بے خوفی کا پیغام لے کر آئیں گے اور ان کے لئے اپنے ہاتھ میں مدد اور نصرت کے جھنڈے پکڑ کر آسمان سے زمین پر اتریں گے.قرآن کریم نے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن کس پر اور کب اتریں گے اس کا تعلق بھی رمضان سے ہے.میں نے جو دوسری بات بتائی ہے یعنی ایک تو رمضان کا تعلق لیلتہ القدر سے ہے اور رمضان کا دوسرا تعلق انتہائی قربانیوں سے ہے اور جیسا کہ ہمیں پتہ ہے پانچ مختلف اور بنیادی عبادتوں کا تعلق رمضان سے ہے اور ان میں سے ایک اپنے بھائیوں کے ساتھ انتہائی طور پر ہمدردی کا

Page 67

خطبات ناصر جلد دہم ۴۳ خطبہ عیدالفطر یکم دسمبر ۱۹۷۰ء • سلوک کرنا ہے اور خود کو تکلیف میں ڈال کر اپنے بھائی کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے نیز جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یعنی مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرۃ : ۴ ) کی رو سے انسان کو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے پانی کی طرح بہا دینا ہے.اپنا وقت بھی خرچ کرنا ہے اپنا آرام بھی قربان کرنا ہے اپنا مال بھی دینا ہے اور اپنی طرف سے اس بات کی انتہائی کوشش کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اپنی غلطیوں کی وجہ سے جب کسی ابتلا میں پڑے تو اللہ تعالیٰ کے بندے ( یعنی ہم جن کا یہ دعوی ہے کہ ہم اس کے عاجز بندے ہیں ) اپنے بھائیوں کی تکالیف دور کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دے دیں گے.مگر ہر قسم کی قربانی دی نہیں جاسکتی جب تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اور اس کے فضل اور رحمت کو اسی کے فضل اور رحمت سے حاصل نہ کیا جائے کیونکہ انسان کا کہیں بھی زور نہیں چلتا.پس رمضان المبارک کے ساتھ ایک تولیلۃ القدر کا تعلق ہے اور دوسرے رمضان کے ساتھ انتہائی قربانیوں کا تعلق ہے اور اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک اور لیلۃ القدر مقرر کر دی ہے.میں نے بتایا تھا کہ اصل اور حقیقی لیلۃ القدر کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہے اس وقت آسمانوں پر بنی نوع انسان کے لئے کچھ فیصلے کئے گئے تھے جن میں بنیادی فیصلہ یہ تھا کہ انسان کی عزت اور شرف کو بلند کیا جائے گا اور اس کو یہ موقع میسر آئے گا کہ وہ پہلوں کی نسبت زیادہ تر معرفت حاصل کرے اور زیادہ بصیرت کے ساتھ اللہ کی صفات کو پہنچانے اور اس کے حسن و احسان کے نور سے حصہ لے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسان کو ایک کامل اور مکمل تعلیم دے دی گئی ہے پہلوں کو ایسی تعلیم نہیں دی گئی تھی صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایسی کامل تعلیم انسان کو دی گئی اس سے ہمیں یہ پتہ لگتا کہ انسانی شرف کی بلندی کے لئے دوزمانے مقدر تھے ایک وہ زمانہ جب لیلۃ القدر میں یہ فیصلہ ہوا کہ پہلی تین صدیوں میں اس وقت کی معروف دنیا میں انسانوں کو زمین سے اٹھا کر آسمانوں تک پہنچا دیا جائے گا اور دوسرا اسی لیلتہ القدر میں یہ فیصلہ بھی

Page 68

خطبات ناصر جلد دہم ۴۴ خطبہ عیدالفطر یکم دسمبر ۷۰ * 192 • ہوا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل آپ کے بروز کے ذریعہ تمام اقوام عالم کو پھر اٹھایا جائے گا.ان کو زمین سے اٹھا کر آسمانوں تک پہنچادیا جائے گا.ہم احمدیوں کی عید اس بات میں مضمر ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ اسی کے بتائے ہوئے طریق پر اس کی بشارتوں کو حاصل کریں اور بنی نوع انسان کی خدمت میں اس طرح لگ جائیں کہ ہمارے مخالف جو ہمیں گالیاں دیتے اور ایذا رسانی کے منصوبے باندھتے ہیں ہم اپنے کام میں اتنے محو ہو جائیں کہ ہم ان کی طرف متوجہ ہی نہ ہوں ہمیں ان سے کیا سروکار ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک رستہ پر چلایا ہے اس رستہ پر چل کر بنی نوع انسان کی انتہائی خدمت کرنی چاہیے تا کہ آنے والی تاریخ اس بات کی شہادت دے کہ جماعت نے بنی نوع انسان کی خدمت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا دنیا میں سے جس کسی نے جہالت سے اس (یعنی جماعت احمدیہ) سے دشمنی کی اور اس کے خلاف ہر قسم کے منصوبے بنائے جماعت احمدیہ نے اس کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کے پیار کے نتیجہ میں بھلائی اور خیر اور نیکی کے منصوبے بنائے کیونکہ یہی کام تھا.....جو ان کے سپرد کیا گیا تھا اور اسی کام میں وہ اتنے محو تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک عید کے بعد دوسری عید اور دوسری عید کے بعد تیسری عید مقرر کر دی.پس ہم خوش ہیں کیونکہ ہمارے لئے حقیقی عید میسر ہے ہمارے لئے یہ مقدر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا میں اس دنیا کی خوشیوں کو بھی حاصل کریں.ہماری خوشی اس بات میں نہیں کہ ہم نے اچھے کپڑے پہنے ہماری خوشی اس بات میں بھی نہیں کہ ہم نے اچھا کھانا کھایا ہماری خوشی اس بات میں بھی نہیں کہ ہم اپنے دوستوں کی مجلس میں بیٹھے اور ہم نے خوب گپیں ماریں ہماری خوشی تو دراصل اس بات میں ہے کہ ہم نے اچھا اس لئے پہنا کہ ہمارے خدا نے فرمایا تھا کہ میں نے تمہارے او پر بڑا انعام کیا ہے اس لئے آج تم اچھا پہنو.ہماری خوشی اس بات میں ہے کہ ہمارے خدا نے فرمایا تھا کہ آج تم خوب کھاؤ اور خوش رہو ویسے خوب کھاؤ کا مطلب اسراف کرنے کا نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ تو طیبات ہیں یہ کھاؤ اور میں کہتا ہوں کہ کھاؤ.کیونکہ ہمارا رب ہمیں فرماتا ہے کہ کھاؤ اس لئے ہم کھاتے ہیں اور ہم خوش ہیں اور ہمارا رب کہتا ہے کہ میرے نام کا ذکر

Page 69

خطبات ناصر جلد دہم ۴۵ خطبہ عیدالفطر یکم دسمبر ۱۹۷۰ء کرنے کے لئے بشاشت اور مسرت اور خوشی ڈھونڈنے کے لئے آپس میں بیٹھو اور نیکی کی باتیں کرو ہماری مجلس میں نیک باتیں ہی ہونی چاہئیں.جب تک ایسی نیک باتیں ہوتی رہیں گی اور حقیقی خوشی میسر آتی رہے گی اور یہ ہمارے رب کے نزدیک بھی اچھی چیز ہے اور ہمارے لئے بھی خوشی کی بات ہے.پس اس لیلتہ القدر (جس کو دنیا بھی سمجھتی ہے) چودہ سوسال گذر گئے اور اس کے فیصلے قیامت تک جاری رہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آج اسی لیلتہ القدر کا یہ فیصلہ اس دنیا میں جاری فرمایا ہے کہ میں اسلام کو تمام ادیان عالم پر غالب کروں گا اور تمام اقوام عالم کو قرآن کریم کے نور کے ذریعہ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں عزت اور شرف کا مقام دوں گا.دوسری طرف ہمیں فرمایا کہ میرے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے انتہائی قربانی دو ایسی قربانی جس کی طرف رمضان اشارہ کر رہا ہے پھر تم میری تقدیر کو پورا کرنے والے اور میری رضا کو حاصل کرنے والے بن جاؤ گے پس یہ ہے ہماری عید کہ ہم اللہ تعالیٰ کے انتہائی خادم بندے بنیں اور اپنے رب کا رنگ اس رحمان کا رنگ اور اس رحیم کا رنگ اور اس مالک یوم الدین کا رنگ اپنے اوپر چڑھائیں اور دنیا کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کن صفات حسنہ کا مالک ہے.ہمارے وجوداور ہماری ہستی اور ہمارے اعمال میں دنیا کو اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے نظر آئیں تا کہ دنیا یہ سمجھے اور اس بات کی معرفت حاصل کرے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کس قسم کے پیار کا سلوک کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ بھی اس طرف متوجہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں.اسلام غالب آئے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت انسان کے دل میں بیٹھ جائے اور وہ فیصلہ جو اس زمانہ کے متعلق لیلۃ القدر میں ہوا تھا وہ پورا ہو ہمارے لئے اور ہمارے دوسرے بھائیوں کے لئے حقیقی عید کا دن چڑھے اور یہ دن ہمیشہ قائم رہے.یہاں تک کہ پھر انفرادی بھی اور اجتماعی بھی دونوں طرح سے قیامت آجائے کیونکہ جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے لئے تو گویا قیامت آگئی اور اسی کے لئے انجام بخیر کہتے ہیں بیچ میں ابتلا آتے ہیں لیکن یہ ابتلا ہماری ٹھوکر اور شیطان کی فتح کا باعث نہ بنے بلکہ یہ ابتلا ہمارے ایمان کی زیادتی اور شیطان کی شکست کا باعث بنتے

Page 70

خطبات ناصر جلد دہم ۴۶ خطبہ عیدالفطر یکم دسمبر ۱۹۷۰ء چلے جائیں یہ عید کا دن جو اسلام پر چڑھا ہے یہ کبھی شیطانی اندھیروں کی رات میں تبدیل نہ ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور خدا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر بنی نوع انسان کے لئے انتہائی محبت کا اظہار کریں اور ہم اس محبت میں بنی نوع انسان کی خاطر اور ان کی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے انتہائی قربانیاں دینے والے ہوں اور ہمیں حقیقی خوشیاں یعنی عید کی خوشیاں جنہیں دنیا اس وقت پہچانتی نہیں اس عید کی حقیقی خوشیاں میسر آئیں اور میسر رہیں.اللھم آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۲۱ ستمبر ۱۹۷۶ ء صفحه ۶،۵)

Page 71

خطبات ناصر جلد دہم ۴۷ خطبہ عید الفطر ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ امت مسلمہ کے لئے عید کا دن تھا خطبہ عید الفطر فرموده ۲۰ /نومبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے اس عید کو مبارک کرے.جو دوست یہاں موجود ہیں اور جو احمدی بھائی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائی دنیا میں بستے ہیں، وہ جس جگہ بھی ہوں ، ان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ اس عید کو مبارک کرے.معدے کی خرابی کی وجہ سے بعض دفعہ دھڑکن پلپیٹیشن (Pulpitation) کا عارضہ ہو جاتا ہے.آج صبح بھی بڑا شدید عارضہ ہوا.جس کی وجہ سے آپ دوستوں کو انتظار کرنا پڑا.دوست دعا کریں کہ یہ چھوٹے چھوٹے عوارض بھی دور ہو جا ئیں.ایک مؤمن باللہ کی عید دراصل وہ زمانہ ہوتا ہے جو اسے قبولیت دعا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کے ساتھ میسر آتا ہے.رمضان کا تعلق بہت سی ایسی عبادتوں کے ساتھ ہے جس کے نتیجہ میں قرآن عظیم کہتا ہے کہ دعائیں قبول ہوتی ہیں اور جب خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ محض اس کے فضل سے اپنی دعاؤں کو قبول ہوتے دیکھتا ہے تو اس کی روح میں عید کی خوشیاں مچلنے لگتی ہیں اور اس خوشی کو ( جو قبولیت دعا کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے ) ظاہری طور پر منانے کے لئے عید کا دن رکھا گیا ہے لیکن یہ نہ بھولنا چاہیے

Page 72

خطبات ناصر جلد دہم ۴۸ خطبہ عیدالفطر ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ء کہ دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں جو خوشیاں انسان کو میسر آتی ہیں وہ اپنے ساتھ بڑی ذمہ داریاں لے کر آتی ہیں.وہ انسان جو اپنے رب کی معرفت نہیں رکھتا اور جو چو پاؤں کی سی زندگی گزار رہا ہوتا ہے اسے یہ احساس نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت کس طرح اور کس رنگ میں ہر آن اس کو سہارا دیئے ہوئے ہے وہ اگر اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں اور فضلوں کا جو اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں نا شکر گزار بن جائے تو اسے ایک سزا ملتی ہے کہ اسے خدا تعالیٰ نے انسان بنایا تھا.وہ انسان کیوں نہیں بنا لیکن جس گروہ یا جس فرد کے لئے ایسے سامان پیدا کئے گئے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تھوڑی یا بہت معرفت اسے حاصل ہو اور عرفان الہی کے حصول کے لئے سامان اس کے لئے میسر کئے گئے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس پر رجوع برحمت ہو اور اسے اپنے پیار سے نوازے اور اس کی دعاؤں کو قبول کرے اور وہ خدا کی زندہ صفات کی تجلیات کا مشاہدہ کر رہا ہو تو اس شخص یا اس جماعت پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی امت کی منشا اور خواہش کے مطابق اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ ! آسمان سے ہمارے لئے ایک مائدہ اتار جو پہلوں کے لئے بھی اور بعد میں آنے والوں کے لئے بھی عید ہو.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ایسا مائدہ تو تمہیں دوں گا مگر یا درکھو.فَمَنْ يَكْفُرُ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنّى أَعَذِبُهُ عَذَابًا لَا أَعَذِبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَلَمِينَ (المائدة : ١١٦) پھر میں اس کو ایسا عذاب دوں گا کہ دنیا میں اتنا شدید عذاب میں نے کسی کو نہیں دیا ہوگا.خدا تعالیٰ کی زندہ تجلیات دیکھنے کے بعد اسے بھول جانا یا خدا تعالیٰ کی شناخت کے بعد اسے فراموش کر دینا موجب عذاب الہی ہوتا ہے.جس زمانے میں جس قوم پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں بارش کی طرح نازل ہو رہی ہوں ، اس زمانے میں اس جماعت یا اس جماعت کے کسی فرد کا اپنے پیدا کرنے والے اور بار بار رحم کرنے والے اور پیار کرنے والے رب سے قطع تعلق کر لینا، یہ ایک ایسی بات ہے جس کے نتیجہ میں عام عذاب نہیں آیا کرتا.اس کے نتیجہ میں تو جیسا کہ قرآن کریم کی ان آیات میں بھی جن کی میں نے تلاوت کی ہے اور بہت سے دوسرے مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان حالات میں پھر ایسا عذاب نازل ہوتا ہے کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی العیاذ باللہ.

Page 73

خطبات ناصر جلد دہم ۴۹ خطبہ عیدالفطر ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ء پس جہاں اللہ تعالیٰ اپنے پیار سے آپ کو اور مجھے اپنے معجزات دکھاتا اور ہمیں اپنے خارق عادت پیار سے نوازتا ہے وہاں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم کفران نعمت نہ کریں، ہم اس کے ناشکرے بندے نہ بنیں.اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں دوسروں سے بڑھ کر ہم پر ڈالی ہیں ہم دوسروں سے کہیں زیادہ بشاشت کے ساتھ ان ذمہ داریوں کو نباہنے والے اور کہیں زیادہ خوشی کے ساتھ اس کی راہ میں قربانیاں دینے والے بنیں پھر یہ عید ایک نہ ختم ہونے والی عید ہے بڑا ہی بیوقوف ہوگا وہ شخص جو یہ کہے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور آپ کے بعد تین صدیوں تک جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے امت مسلمہ پر کوئی ایسا دن بھی چڑھا جو عید کا دن نہیں تھا.عید کا ہر دن نہیں، دن کا ہر گھنٹہ نہیں ، ہر گھڑی نہیں بلکہ ان کا ہر سیکنڈ عید تھا نئی سے نئی عید نئی سے نئی رحمتیں اور اللہ تعالیٰ کا نیا سے نیا پیار ان کو حاصل ہورہا تھا.پھر وہی عید آ گئی ہے لوگ کریں یا نہ کریں یہ ان کا کام ہے مگر عید تو آگئی ہے وہ زمانہ پھر عود کر آیا ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو جو پیار دیا اور ان کے لئے جو دعائیں کیں اور مصیبت کی گھڑیوں میں ان کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے فرشتوں کو طلب کیا تھا.وہ دعائیں قبول ہو چکیں مہدی ظاہر ہو گیا.عیسی دنیا کی طرف نازل ہو گیا اور آپ اس کی جماعت ہیں.پس عید تو آگئی خدا تعالیٰ کا پیار آپ کو مل گیا.آپ کی دعائیں قبول ہونے لگیں.آپ میں سے کون ہے جو یہ کہے کہ خدا تعالیٰ کسی مومن کو سچی خواب نہیں دکھاتا آپ میں سے سینکڑوں نہیں لاکھوں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ایک نہیں دو نہیں دسیوں بیسیوں بلکہ بعض نے تو سینکڑوں ہزاروں دفعہ خدا تعالیٰ سے بشارت پا کر ویسا ہی ہوتے دیکھا جیسا کہ پہلے بتا یا گیا تھا.غرض اپنے اپنے ظرف کے مطابق اور اپنی اپنی استعداد کے لحاظ سے ہر ایک نے وہ کچھ پالیا جس کے لئے مہدی کو مبعوث کیا گیا تھا یہ نعمت آپ کو مل چکی ہے.عید کا چاند آپ پر طلوع ہو چکا ہے.لیکن اگر آپ خود کو اور اپنی نسلوں کو ایسے غضب سے بچانا چاہتے ہیں کہ جس کی مثال خود خدا تعالیٰ کے کہنے کے مطابق دنیا میں نہیں ملتی تو پھر کفران نعمت کی کوئی گنجائش نہیں.

Page 74

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۲۰ رنومبر ۱۹۷۱ء میں نے ابتدا میں اسی معنے میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے بھی اور میرے لئے بھی اس عید کو مبارک کرے.یہ وہ عید ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے پیار کا شکر ادا کیا جا تا ہے یہ ہماری عید ہے اللہ تعالیٰ اس عید کو چار چاند لگانے کے لئے اپنی رحمتوں کو اور بھی زیادہ نازل کرے ہماری عید یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل پر اس کے شکر گزار بندے بنیں اور اس طرح شکر گزار بندے بنے پر اللہ تعالیٰ کا رد عمل یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اے میرے بندے! تو نے میری نعمتوں پر شکر کیا میں پہلے سے زیادہ تجھے نعمتیں دوں گا اور بندہ کہتا ہے کہ اے میرے رب ! میں نے عاجزی کے ساتھ اور اپنی تمام کمزوریوں کے ہوتے ہوئے تھوڑا یا بہت تیری نعمتوں کا شکر کیا لیکن میں کما حقہ تیرا شکر ادا نہیں کر سکتا اے اللہ ! تو کتنا پیارا ہے کہ اس کے باوجود تو نے مجھے پہلے سے زیادہ نعمتیں دیں.میں پہلے سے زیادہ بڑی عید تیرے حضور مناؤں گا اور پہلے سے زیادہ تیرا شکر گزار بندہ بنوں گا.پس تم یہ دعائیں کرتے رہا کرو کہ یہ عید جس کا سورج طلوع ہو چکا ہے اس عید کا سورج غروب نہ ہو جب تک کہ تمام دنیا میں اسلام غالب نہ آجائے اور جب تک کہ ہر انسانی دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کی دھڑکنوں میں دھڑکنے نہ لگ جائے اور ہر انسانی حیات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے حصہ لے کر زندگی نہ گزار رہی ہو.اگر آپ حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن جائیں تو پھر یہ عید ہمیشہ آپ کو ملتی رہے گی.اللہ تعالیٰ کے فضل ہمیشہ بارش کی طرح آپ پر نازل ہوتے رہیں گے اس کے فرشتے ہمیشہ آپ کے لئے درود بھیجتے رہیں گے راستے کے کانٹے آپ کو محسوس بھی نہیں ہوں گے شاہراہ اسلام پر آپ بشاشت کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے ایسا ہوسکتا ہے.خدا تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۱۴ جنوری ۱۹۷۲ ء صفحه ۳، ۴)

Page 75

خطبات ناصر جلد دہم ۵۱ خطبہ عیدالفطر ۸/نومبر ۱۹۷۲ء امتِ مسلمہ کی عید خدا کی طرف سے روحانی ضیافت کا رنگ رکھتی ہے خطبہ عید الفطر فرموده ۸ /نومبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج عید کا دن ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے جور بوہ میں رہائش پذیر ہیں اور اس وقت یہاں موجود ہیں اور اُن کے لئے بھی جو ربوہ سے باہر رہنے والے احمدی بھائی اور بہنیں ہیں اس عید کو مبارک کرے.ہماری عید اور پہلی اُمتوں کی عید میں بڑا فرق ہے.انسانی تاریخ میں انسان کے لئے انبیاء علیہم السلام کی وساطت سے عید کے دن مقرر کئے گئے ہیں چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہمیں بھی عید الفطر اور عید الاضحی کے ایام میسر آئے.ان دوعیدوں میں یعنی پہلے لوگوں کی عید میں اور ہماری عید میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہمیں ملی ہے فرق یہ ہے کہ پہلوں کی عید، عید تھی جو بار بار آتی تھی اور کسی نا معلوم نتیجہ کی طرف اشارہ کرتی تھی یعنی خوشی کا ایک ایسا اشارہ تھا کہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ کس چیز کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عید کے لفظ کے معنی میں وہ چیز نہیں پائی جاتی تھی جس کا ذکر اسلام نے کیا ہے.قرآن کریم نے اس اصطلاح کی بجائے ایک اور اصطلاح استعمال کی ہے.قرآن کریم

Page 76

خطبات ناصر جلد دہم ۵۲ خطبہ عید الفطر ۸/نومبر ۱۹۷۲ء نے عید کی بجائے نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (حم السجدۃ:۳۳) کی آیت کریمہ میں نول کی اصطلاح کو استعمال کیا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ جو غفور ہے غلطیوں کو معاف کر دیتا اور خطاؤں کو نظر انداز کر دیتا ہے اور پھر وہ رحیم ہے وہ انسان کی بار بار کی محنت کو بار بار شرف قبولیت بخشا اور اس کے لئے خوشی کا سامان پیدا کرتا ہے یعنی جو بار بار آنے کا مفہوم عید کے لفظ میں تھا نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رحِیم میں نُزُل کے لفظ سے اسی تخیل کو گویا ایک نہایت حسین پیرا یہ میں ادا کیا ہے.دوسرے عید کا لفظ یہ نہیں بتا تا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہونے والی خوشی ہے.یہ ایک ایسی خوشی ہے جو بار بار آتی تھی.ایسی خوشی جو ابو جہل کے گھر میں ہر بچے کی پیدائش پر بار بار آئی اور دوسرے کفار کے ہاں بھی جن کے بہت زیادہ بچے تھے ان کے گھروں میں ہر بچے کی پیدائش پر اُن کے لئے دنیوی خوشی کے سامان پیدا ہوئے وہ گویا ان کے لئے عید کا دن تھا لیکن وہ اُن کے لئے نُوراً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ کا دن نہیں تھا.پھر ان دونوں قسم کی عیدوں میں ایک یہ فرق بھی ہے کہ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا ( حم السجدۃ: ۳۱) اس کی رُو سے گویا ہماری عید استقامت کا نتیجہ ہے اور اس عید سعید کے مقابلہ میں جو چیز اس کی ضد ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے غضب کے نزول کا دن اس کے لئے بھی گو ایک تسلسل کا ہونا ضروری ہے لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں اسے استقامت نہیں کہتے بلکہ اصرار کہتے ہیں جیسے مثلاً سُورۃ نوح میں فرمایا وَ اَصَرُّوا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا (نوح: ۸) یعنی ایسے لوگوں نے اپنے گناہوں اور کفر اور انکار اور نبی کو قبول نہ کرنے پر اور اس کی مخالفت کرنے پر بوجہ تکبر اصرار کیا یعنی وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے اور گناہ پر تسلسل تھا.وہ کہتے تھے کہ ہم نے گناہ نہیں چھوڑ نا چنانچہ اس کے نتیجہ میں وہ عذاب یا جہنم کے مستوجب ٹھہرے.قرآن کریم نے عذاب کا لفظ دونوں معنوں میں استعمال کیا ہے.اُس تنبیہ کے معنی میں بھی جولوگوں کی اصلاح لئے عذاب کی شکل میں نازل ہوتا ہے اور اُس قہر کے معنوں میں بھی جو مرنے کے بعد ( خدا محفوظ رکھے) اللہ تعالیٰ کی ناراضگی حاصل کرنے والوں کے لئے جہنم کی شکل میں ملتا ہے.اس کو بھی عذاب جہنم کہتے ہیں.قرآن کریم نے بھی عذاب کو اس معنی میں استعمال کیا ہے.

Page 77

خطبات ناصر جلد دہم ۵۳ خطبہ عیدالفطر ۸/نومبر ۱۹۷۲ء پس جہاں گناہوں پر اصرار ہو اللہ اپنا غضب بار بار نازل کرتا ہے.اس کے لئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے اصرار کا لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ نوح میں فرماتا ہے وَ اَصَرُوا وَاسْتَكْبَرُوا استكبارا اس کے برعکس اصرار کا لفظ نیکیوں کے تسلسل کے لئے قرآن کریم میں کہیں بھی استعمال نہیں ہوا اور استقامت کا لفظ نیکیوں پر استقلال کے ساتھ قائم رہنے اور بار بار اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت نیکیاں کرتے رہنے کے معنی میں تو استعمال ہوا ہے لیکن گناہوں پر قائم رہنے کے معنی میں استعمال نہیں ہوا استقامت اور استقلال یعنی صبر کے ساتھ اور تحمل کے ساتھ اور دُکھوں کی برداشت کے ساتھ اور ایثار کو پیش کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہر وقت اور ہرلمحہ تیار رہنے کے ساتھ جو زندگی گزاری جاتی ہے اس کے آخر میں جنت ہے جنت دو قسم کی ہے ایک اس دنیا کی جنت ہے اور ایک اُخروی زندگی کی جنت ہے اُخروی جنت میں جو لوگ داخل ہو گئے وہ گویا حفاظت میں آگئے شیطان دروازے پر اُن کو بہکانے کے لئے اور امتحان میں ڈالنے کے لئے کھڑا نہیں ہوتا لیکن جو اس دُنیا کی جنت ہے اگر ہم اس مضمون کا گہرا مطالعہ کریں تو اس جنت کی دو شکلیں ہمارے سامنے آتی ہیں.ایک کو آپ جنتی زندگی سے ملتی جلتی زندگی کہہ سکتے ہیں ( کیونکہ یہ امتحان اور ابتلا کی زندگی ہے ) جس میں داخل ہونے کے بعد نکلنے کا دروازہ کھلا ہے اور ایک حقیقی جنت ہے جس میں داخل ہونے کے بعد اس سے نکلنے کا دروازہ نہیں کھلتا مثلاً حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کے متعلق یہ بشارت دی کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے یہ لوگ جو مرضی کرتے رہیں یہ میری جنت سے نہیں نکلیں گے ”جو مرضی کرتے رہیں کا یہ مطلب نہیں کہ گناہ کرتے رہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب یہ جو کچھ بھی کریں گے وہ نیکی ہی ہوگی اور وہ ان کو جنت سے نکالنے کا باعث نہیں بلکہ جنت کی نعماء کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا ذریعہ بنے گا.پس اس دنیا میں بعض انسان جنت میں داخل ہوتے ہیں اور جنت ہی میں رہتے ہیں پھر ابدی جنت ان کو نصیب ہو جاتی ہے.اس دنیا کی جنت بھی انہیں مل جاتی ہے اور ساتھ ہی اسی تسلسل میں حقیقی جنت بھی مل جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر روشنی ڈالی ہے لیکن

Page 78

خطبات ناصر جلد دہم ۵۴ خطبہ عیدالفطر ۸ / نومبر ۱۹۷۲ء میں اس وقت تفصیل میں نہیں جا سکتا.دنیوی زندگی کی جنت کے تسلسل میں وہ وقت بھی آجاتا ہے جس کو ہم قیامت کہتے ہیں.جب اللہ تعالیٰ کے حسن کا وہ جلوہ جسے انسانی روح برداشت کر سکتی ہے پوری شان کے ساتھ ظاہر ہوگا اور اس کے محبوب انسان کو ابدی جنت کا وارث بنا دے گا.پس اس دنیوی جنت میں ایک تو یہ لوگ آگئے.دوسرے وہ لوگ اس میں داخل ہونے والے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ گو یا د ہلیز پر کھڑے ہو جاتے ہیں.ان کے لئے اندر جانے کا بھی موقع ہے اور باہر نکلنے کا بھی جیسا کہ بلعم باعور کا قصہ مشہور ہے.بعض لوگوں نے اسے ایک فرد کہا ہے اور ہمارے نزدیک یہ ایک جماعت ہے یعنی ہمیشہ ہی اسی قسم کے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جوا اپنی کوششوں کے نتیجہ میں (وہ کوششیں جو نیک تو ہوتی ہیں لیکن عارضی ہوتی ہیں ) خدا تعالیٰ کے پیار کو اور اس کی بشارات کو حاصل کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سے ہمکلام ہوتا ہے تا زندگی کے اس دور میں اس کے متعلق کسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ جو شخص اتنا مجاہدہ کر رہا ہے، اتنا جہاد کر رہا ہے.خدا تعالیٰ کی راہ میں اتنی قربانیاں دے رہا ہے وہ خدا تعالیٰ کا مقبول نہیں بن سکا وہ بظاہر نیک نیتی قربانیاں دے رہا ہوتا ہے یوں سمجھنا چاہیے کہ اس کا قربانیاں دینا گو یا بظاہر عند اللہ نیک نیتی پر محمول ہورہا ہے ویسے اللہ تعالیٰ کا علم تو ہر چیز پر محیط ہے.غرض یہ اس کی ایک عارضی کیفیت ہے لیکن کیفیت نیکی اور اخلاص کی ہے اس واسطے خدا تعالیٰ کے پیار کا جلوہ ظاہر ہوتا ہے.اس کے بعد اس کی یہ کیفیت نہیں رہتی.اس کے اندر تکبر پیدا ہو جاتا ہے چنانچہ وہ انسان جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات کی رُو سے ابدی پیار کے لئے پیدا کیا ہے وہ اس حقیقت کو بھول جاتا ہے اور کچھ تھوڑا سا پیار حاصل کر لینے کے بعد سمجھتا ہے کہ اب میں بہت کچھ بن گیا ہوں.اب مجھے خدا کی بھی ضرورت نہیں رہی پھر وہ بلعم باعور بن جاتا ہے اور وہ علامت بن جاتا ہے اُس جماعت کی جو خدا کے پیار کو پانے کے باوجود اپنے غرور کی وجہ سے پستی اور ذلت کی مستحق بن جاتی ہے.ایسی جماعت یا ایسا شخص گویا جنت میں داخل بھی ہوا اور جنت سے نکالا بھی گیا.یہ ایک الگ مضمون ہے اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں.پس اس دنیا کی جنت دو قسم کی ہے.ایک وہ جنت ہے جس میں بعض انسان داخل ہوتے

Page 79

خطبات ناصر جلد دہم ۵۵ خطبہ عیدالفطر ۸/نومبر ۱۹۷۲ء ہیں اور پھر نکل آتے ہیں اور پھر جہنم میں بھیج دیئے جاتے ہیں.ایک وہ جنت ہے جس میں لوگ داخل ہوتے ہیں اور داخل ہی رہتے ہیں.ان لوگوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اِسْتَقَامُوا یعنی جن میں استقامت پائی جاتی ہے استقلال پایا جاتا ہے، جوصبر کے ساتھ مشکلات برداشت کرتے ہیں جو خدا کی راہ میں اپنی گردن کٹواتے ہیں لیکن اپنے ایمان پر بزدلی کا دھبہ نہیں آنے دیتے فرمایا یہی وہ لوگ ہیں کہ جب جنت میں داخل ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے جنت سے نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پس ہماری عید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ہے یعنی وہ ہماری خطاؤں کو معاف کرتا ہے.مغفرت کی چادر میں ہمیں لپیٹ لیتا ہے.ہم جو کچھ اپنی ہمت اور استعداد کے مطابق اس کے حضور پیش کرتے ہیں اور بار بار پیش کرتے ہیں مثلاً جن لوگوں کو خدا تعالیٰ زندگی دیتا ہے تیں سال تک چالیس سال تک اُن میں سے ہر شخص رمضان کے روزے رکھتا ہے ہر سال رمضان کی قربانیاں اپنی ہمت اور استعداد کے مطابق خدا کے حضور پیش کرتا اور خدائے رحیم بار بار اس پر رحم کرتا ہے اور اس کے لئے ہر رمضان کے بعد ایک عید کا سامان پیدا کر دیتا ہے تو پہلوں کی عید بار بار آتی تھی لیکن اس لفظ عید میں یہ مفہوم نہیں تھا کہ وہ قربانیاں دیں گے اور دیتے چلے جائیں گے، اس میں ایک تسلسل قائم ہوگا، نیکیوں پر استقامت ہوگی ، استقلال ہوگا، صبر اور برداشت ہوگی ، خدا کے لئے فدائیت ہوگی اس کے لئے محبت ذاتی ہوگی اور اس کی قبولیت ہوگی اور اس کے بعد عید کا دن آجائے گا.عید ان کے یعنی پہلوں کے ہاں آتی تھی اور یہ وہ عید تھی جس میں کھانے پینے اور کھیلنے اور کپڑے بنانے کا انتظام ان کو خود کرنا پڑتا تھا.مسلمان کی وہ عید نہیں ہے مسلمان کی ہر عید تو قربانیوں کے ایک تسلسل میں آتی ہے اس لئے فرما یا إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہی ہمارا رب ہے اور پھر مستقل مزاجی سے اس عقیدہ پر قائم ہو گئے ان کے حق میں فرمایا.تتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ اَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ - نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَ لَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ - نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ( حم السجدۃ: ۳۱، ۳۲) وہ جنت ہے جو د نیا میں بھی ملتی ہے اور یہ وہ عید ہے جو خدائے غفور و رحیم کی طرف سے نُزُل یعنی مہمانی کے طور پر

Page 80

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۸/نومبر ۱۹۷۲ء ملتی ہے مومن کی قربانیوں میں ایک تسلسل ہوتا ہے وہ یکے بعد دیگرے قربانیاں دیتا چلا جاتا ہے.ماہ رمضان اس کی مثال ہے.تیس دن میں بہت ساری قربانیاں اللہ تعالیٰ نے اکٹھی کر دیں اُن میں سے بعض کی طرف میں نے اسی رمضان میں ایک خطبہ میں اشارہ کیا تھا اور بھی بہت ساری قربانیاں ہیں اور دن اور رات ہر دو اوقات میں خدا کے حضور اس کا عاجز بندہ استقامت اور استقلال کے ساتھ قربانیاں دیتا چلا جاتا ہے پھر خدا کے فرشتے آسمان سے اس پر نازل ہوتے اور بشارتوں کا اس کے لئے سامان پیدا کر دیتے ہیں.آخر میں لیلتہ القدر آ جاتی ہے ( جو بھی صحیح معنی ہم کرتے ہیں اس کے لحاظ سے ) وہ قبولیت دعا کا زمانہ ہے لیلتہ القدر کا زمانہ ہے جس میں تقدیریں بدل جاتی ہیں.انسانیت کی بھلائی کے لئے انتظام کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد عید آ جاتی ہے یہ عید ہر ہفتہ میں جمعہ کے دن بھی آتی ہے کیونکہ نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سال کے بعد خدا تعالیٰ ہماری ضیافت اور مہمانداری کرتا ہے اس طرح تو سال کے باقی دنوں میں ہم روحانی طور پر بھوکے رہ جاتے اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا نہیں، میں ہر ہفتہ تمہاری دعوت کیا کروں گا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر جمعہ مسلمانوں کے لئے عید یعنی نُزُرا من غَفُورٍ رَّحِيمٍ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول قرآن کریم کی تفسیر ہے.عید کے متعلق آپ کے سب اقوال نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ یا اس سے ملتے جلتے مفہوم کی آیات جو مختلف مضامین کے سیاق و سباق کے لحاظ سے قرآن کریم کی مختلف جگہوں پر پائی جاتی ہیں انہی کی تفاسیر ہیں پس رمضان کے بعد عید پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فرمایا ایک اور ضیافت ہے جو خدائے غفور و رحیم کی طرف سے ہر جمعہ کو میسر آیا کرے گی.پھر ہر روز کی ضیافت ہے اور وہ رات کے نوافل سے حاصل ہوتی ہے.ہر روز کی قربانی کے بعد قبولیت دعا کا ایک وقت عطا کر دیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے پیار کا جلوہ دیکھنے کے لئے اور خدا کے بندہ کو مقام محمود تک پہنچانے کے لئے ایک ساعت مقرر ہوگئی ہے پھر خود ( یہ بڑی شان ہے اسلام کی ) ہر نماز ایک طرف عبادت اور اللہ کے حضور کچھ پیش کرنے کی شکل بھی ہے اور دوسری طرف الصَّلوةُ الدُّعَاءُ کی رُو سے ہر نماز ہمارے لئے عید بن جاتی ہے گو یا پانچ وقت کا روحانی کھانا ہمیں میسر آ گیا.پانچ وقت کے علاوہ

Page 81

خطبات ناصر جلد دہم ۵۷ خطبہ عیدالفطر ۸/نومبر ۱۹۷۲ء ایک اچھی لذیذ دعوت پچھلے پہر کے نوافل کی صورت میں مہیا فرمائی.بعض آدمی جو بیماری کی وجہ سے اٹھ نہیں سکتے انہیں کہا کہ بیٹھ کر پڑھو، لیٹ کر دعا ئیں کرو، تمہارے لئے ہر خوشی کا سامان پیدا کریں گے پھر ہر جمعہ کے دن ایک ضیافت پھر سال میں عید الفطر اور عید الاضحی کی دو ضیافتیں ملتی ہیں ان دونوں کے اپنے رنگ ہیں.ایک جیسی ضیافت نہیں جس طرح ایک ضیافت میں پلاؤ زردہ اور قورما ہوتا ہے جو ہمارے ملک کا رواج ہے مستقل کھانے کھانے کی ایک روایت ہے جو ضیافتوں کے موقع پر نظر آتے ہیں اور ایک وہ ضیافت ہے جس میں نہ پلاؤ ہوتا ہے نہ زردہ ہوتا ہے بلکہ سکے ہوتے ہیں، کچوریاں ہوتی ہیں ، دہی بڑے ہوتے ہیں، اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں جو بہت سارے گھروں میں دعوتوں پر پیش کی جاتی ہیں پس جس طرح اس قسم کی ضیافتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے اسی طرح ہماری دو عیدوں میں بھی فرق ہوتا ہے.یہ عید الفطر ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کی مختلف رنگ میں نمائندگی کر رہی ہے.اس کے بعد عید الاضحی آئے گی جو اس کے فضلوں کی دوسرے رنگ میں نمائندگی کر رہی ہوگی اس کو بڑی عید بھی کہتے ہیں.یہ ایک بڑی ضیافت ہے کیونکہ اس کے لئے حسب توفیق قربانی بہر حال کرنی پڑتی ہے جن لوگوں کو خدا تعالیٰ توفیق دیتا ہے وہ مال حلال سے دُنبہ خرید کر قربانی دیتے ہیں اور قربانی کا گوشت کھاتے ہیں.دُنیا میں عام طور پر یہ رواج ہے کہ دعوتوں پر پلاؤ ضرور ہوتا ہے، زردہ ضرور ہوتا ہے ، اگر نہ ہو تو کئی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ تم نے یہ کیسی دعوت کی ہے؟ یہ تو پکے رواجی کھانوں والی دعوتیں ہیں جن میں تبدیلی نہیں ہوتی.مگر خدائے غفور و رحیم کی طرف سے جو ضیافت ہوتی ہے اس کے متعلق فرمایا کہ اس عید کے لئے قربانیوں میں مختلف رنگ پیدا کرو، تنوع پیدا کرو.ہم تمہارے لئے جو روحانی خوان ہیں ان کے اندر تنوع پیدا کر دیں گے اور دراصل اس تنوع کا تعلق رمضان کی عید سے ہے.ایک ہی مہینہ ہے ایک ہی گروہ ہے اس میں سے ایک حصہ مثلاً جو معتکف ہیں.اب جو تیں معتکف بیٹھے ہیں آپ ان سے جا کر پوچھیں ہر ایک اپنی علیحدہ روحانی طور پر ملنے والی لذت بتائے گا.اسی طرح حج سے آنے والوں سے پوچھیں وہ کہیں گے کہ جب طواف کیا تو بڑی لذت آئی.طواف کے ساتھ وہ لذت مل گئی گویا اس کے ساتھ باندھ دی گئی.حجر اسود کو پیار کیا تو وہی منکسرا نہ خیالات جو

Page 82

خطبات ناصر جلد دہم ۵۸ خطبہ عیدالفطر ۸/نومبر ۱۹۷۲ء حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں آئے تھے کہ تم ہو کیا چیز ؟ لیکن ہم ہیں کچھ ایسی ہی چیز جو اللہ تعالیٰ کے ارادہ پر قربان ہونے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.یعنی خدا تعالیٰ نے انسان کی یہ شان بتائی ہے کہ جب خدائی حکم ملتا ہے تو وہ جھک کر پتھر کو بھی پیار کر دیتا ہے کیونکہ اس کے دل میں نہ ہیرے کی قدر ہے نہ حجر اسود کی قدر ہے وہ تو رب کریم پر شار ہے اس کے دل میں سائنس میں ترقی یافتہ یورپین ممالک کے ساتھ بھی اتنا ہی پیار ہے جتنا کہ افریقہ میں بسنے والوں کے ساتھ.اس کے لئے حجر اسود اور ہیرا برا بر ہے مگر خدا کی رضا کے لئے حجر اسود کا بوسہ لیتا اور ایک ہیرے کو اپنی ظاہری زینت کا سامان بھی نہیں سمجھتا.پس حج کرنے والے ایک جیسی لذتیں بیان کریں گے لیکن رمضان کی روحانی لذات میں ہر آدمی کا بیان مختلف ہوتا ہے.غرض ایک وہ مہمان نوازی ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے اخلاص میں اور تمہارے اخلاص کے نتیجہ میں تمہاری عبادات میں تمہاری قربانیوں میں جب تنوع ہوگا تو میری ضیافت میں بھی ایک تنوع ہوگا تمہاری قربانیوں میں تو وہ تنوع نہیں ہوسکتا جو میری ضیافت میں تنوع ہوتا ہے.پس ہماری عید وہ ہے جو استقامت اور استقلال سے نیکی پر قائم ہونے کے نتیجہ میں غفور اور رحیم خدا کی طرف سے پیدا کی جاتی ہے.یہ نہیں کہ جو چیز بار بار آ گئی اسے عید کہہ دیا جائے بلکہ یہ ایک نُزُل ہے ایک ضیافت ہے لوگوں کے گھروں میں دستر خوان آپ ہی چھلانگیں لگا کر نہیں بچھا کرتے جب تک خود صاحب خانہ وہ دستر خوان نہ بچھائے اس کے اوپر پلیٹیں نہ لگائے اور اس کے اوپر سالن کی ڈشیں نہ لگائے اور پھر اس پر مہمانوں کو بٹھا کر ( فرش پر یا کرسی پر یا صوفے پر یا جیسی صورت ہو یہ صاحب خانہ کا کام ہے ) کہے کہ کھانا کھالو.ہماری حقیقی عید بھی ایک صاحب خانہ کی طرف سے میسر آتی ہے اور یہ ہستی ایک ہی ہستی ہے اس کے علاوہ کوئی ہستی نہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات.وَاللهُ اکبر.وہ ہمارے لئے نُول یعنی مہمانی اور ضیافت کا سامان پیدا کرتا ہے.دنیا کہتی ہے تمہارے اندر یہ نقص ہے وہ نقص ہے ہم کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ ہمارے اندر یہ بھی نقص ہے اور وہ بھی نقص ہے لیکن ہمارا خدا اغفور ہے.دنیا یہ کہتی ہے کہ تمہاری زندگی محدود ہے اور اس میں تم نے معدودے چند نیکی کے کام کئے.ہم کہتے

Page 83

خطبات ناصر جلد دہم ۵۹ خطبہ عیدالفطر ۸ / نومبر ۱۹۷۲ء ہیں کہ ہمارا رب جو ہے وہ رحیم بھی ہے اور رحمن بھی ہے.جس وقت اس کی رحیمیت اور رحمانیت اکٹھی ہو جاتی ہیں اس وقت وہ ہر محدود کی حد بندیاں پھلانگ کر انسان پر آسمانی نعمتوں کو آگے سے آگے لے جاتی ہیں.پھر کوئی حد بندی نہیں رہتی ، پھر انسان کے عمل کا کہاں سوال رہا ؟ نجات تو خدا کے فضل پر منحصر ہے اور خدا کے فضل پر کون حد بندی لگا سکتا ہے؟ پس ہماری عید ایک عجیب عید ہے ہماری عید ایک حسین عید ہے.ہماری عید پہلوں کی عید کے مقابلہ میں ایک مختلف عید ہے.ہماری عید ہم سے مسلسل نیکیاں کرتے چلے جانے کا مطالبہ کرتی ہے.ہماری عید سال میں صرف دو بار نہیں آتی.ہماری عید سال میں دو بار بھی آتی ہے.ہماری عید ہر ہفتہ میں ایک بار آتی ہے ایک بڑی ضیافت کا سامان ہر روز کیا جاتا ہے جن اوقات کو دُنیا اپنے اندھا پن کے نتیجہ میں ظلمتوں کا وقت بتاتی ہے ان میں اللہ تعالیٰ ہمارے لئے روشنی کے سامان پیدا کرتا اور ضیافت کے سامان پیدا کرتا ہے.پھر اس نے ہمارے اوپر یہ فضل بھی کیا کہ اس نے ہماری ہر نماز کو عبادت بھی بنا دیا اور ضیافت بھی بنادیا.خدا ہم پر بڑا فضل کرنے والا ہے.پہلوں کی استعداد میں خدا تعالیٰ کی ان نعمتوں کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں تھیں اس لئے ان کو یہ نعمتیں نہیں ملیں یہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ اس قدر نعمتوں کو سنبھال لینے اور اٹھا لینے کی اُن کو طاقتیں دے دیں کہ جو اس سے قبل لوگوں کے تصور اور تخیل سے بھی باہر تھیں.پس تم خدا کی ان نعمتوں اور اس کے فضلوں پر خدا کی تسبیح اور اس کی حمد کرو 66 اللهُ أَكْبَرُ - اَلْحَمْدُ لِلهِ " خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اجتماعی دعا سے پہلے میں پھر آپ سب کو عید مبارک دیتا ہوں.خدا کرے کہ یہی عید نہیں بلکہ وہ سب عید میں ہم سب کو میسر آئیں جن کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۳۰ مئی ۱۹۷۳ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 84

Page 85

خطبات ناصر جلد دہم 1 خطبہ عید الفطر ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۳ء نوع انسان کی اصل عید اس سورج کا طلوع تھا جو فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوا خطبہ عید الفطر فرموده ۱/۲۸ اکتوبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصی ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.تمام بھائیوں اور بہنوں کو عید مبارک ہو.اسلامی تعلیم کے حسن کے ساتھ اور اسی کی وجہ سے اسلامی تہواروں میں بھی ایک محسن او خوبصورتی نظر آتی ہے.جمعہ کی عید کے علاوہ ہمارے لئے سال میں دو بار عید آتی ہے اور ہر دوعیدوں کا تعلق ایک مومن مسلم احمدی کی زندگی کے دو پہلوؤں سے ہے.ایک وہ عید ہے جو بعض مخصوص عبادات کے بعد ماہ رمضان کے ختم ہونے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا ہوتی ہے.ایک دوسری عید ہے جو ایک دوسری قسم کی عبادات کے بعد ہمیں میسر آتی ہے.گویا ہماری مومنانہ زندگی کے دو پہلوؤں سے ان دوعیدوں کا تعلق ہے.اسلام میں خوشی کا فلسفہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب انسان پر مہربان ہو اور اُسے اللہ کا پیار اور اس کی رضا حاصل ہو جائے تو یہ اُس کے لئے حقیقی خوشی کا موجب ہے.اس طرح اگر چہ ایک مومن کی زندگی کا ہر لمحہ ہی عید ہے لیکن بعض چیزوں کو نمایاں کیا گیا ہے تا کہ ہم اپنی زندگیوں کے اس دور میں جس میں سے ہم گزر رہے ہیں یا جس سے ہم غافل رہے اُس کا محاسبہ کرسکیں.

Page 86

خطبات ناصر جلد دہم ۶۲ خطبہ عید الفطر ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۳ء نوع انسانی کی اصل عید تو اس سورج (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا طلوع تھا جو فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوا.جس نے ایک دنیا کو منور کیا اور جس کے نور کی شعاعوں نے اندھیروں سے ایک عظیم اور فاتحانہ جنگ لڑی اور ظلمات کو دور کر دیا.مگر جیسا کہ مقدر تھا اور جیسا کہ پہلے سے خبر دی گئی تھی ، کچھ عرصہ کے بعد اگر چہ اندھیرے بادلوں نے اس سورج کی روشنی کو چھپا دینا تھا لیکن ایسی صورت میں یہ بشارت بھی دی گئی تھی کہ مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ وہی ٹو راسی کے غلاموں کی وساطت سے دُنیا پر پھر طلوع ہوگا اور ساری دُنیا کو اپنی نورانی شعاعوں کی لپیٹ میں لے کر ظلمات کو ہمیشہ کے لئے دُور کر دے گا.پس جماعت احمدیہ کی عید تو اس صبح صادق کے ظہور سے شروع ہوئی جس کی خبر پہلوں نے دی اور جس کی بشارت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اُمت مسلمہ نے پائی.اس صبح صادق کے ظہور کے ساتھ اسلام کی عید دُنیا پر نمایاں طور پر ظاہر ہوئی اور یہی ہمارے لئے خوشی منانے اور اچھلنے کودنے کا موقع ہے یعنی اس بات کے اظہار کا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جس طرح ہم نے پایا اور اُس کے پیار کو حاصل کیا.اسی طرح نوع انسانی کے لئے الہی رحمت اور پیار کے حصول کے مواقع اب میسر آنے والے ہیں.یہ صبح صادق کا ظہور اور ہماری عید کی ابتدا ہے اور اس صبح صادق کے ظہور کے بعد وہ زمانہ جب اسلام کا سورج اپنی پوری شان کے ساتھ نصف النہار تک پہنچ کر ساری دُنیا کو اپنی نورانی شعاعوں میں لپیٹ لے گا.وہ ہماری عید کا عروج ہوگا.یہ عیدیں تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس حقیقی عید کی طفیلی عیدیں ہیں.اگر اسلام نہ ہوتا تو اس مبارک اور حسین شکل میں یہ عید میں بھی نہ ہوتیں.پس ہماری یہ عید جسے ہم رمضان کے بعد مناتے ہیں یا حج کے موقع پر ہمارے لئے عید الاضحی کی شکل میں خوشی کا ایک اور موقع پیدا ہوتا ہے.یہ خوشی کے مواقع تو اسی صبح صادق کے ظہور کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جس کا تعلق اس سراج منیر ( سے ) ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود میں اپنے کامل انوار کے ساتھ دُنیا میں جلوہ گر ہوا.مگر ان خوشیوں کے ساتھ قربانیوں کا تعلق ہے.ان خوشیوں کے ساتھ بڑی ذمہ داریوں کا تعلق ہے.ان خوشیوں

Page 87

خطبات ناصر جلد دہم ۶۳ خطبہ عید الفطر ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۳ء کے ساتھ مومنانہ ایثار کا تعلق ہے.ان خوشیوں کے ساتھ عاشقانہ جاں نثاری کا تعلق ہے.ان خوشیوں کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہونے کے جذ بہ صادق کا تعلق ہے.غرض ان خوشیوں کے ساتھ اسلام کو جیسا کہ وعدہ دیا گیا ہے ساری دُنیا پر غالب کرنے کے لئے ان انتہائی قربانیوں کے دینے کا تعلق ہے جن کا غلبہ اسلام کی مہم آج جماعت احمد یہ اور اس کے افراد سے مطالبہ کر رہی ہے.پس عید تو دراصل بہت کچھ لینے کے بعد بہت کچھ مزید دینے کے لئے منائی جاتی ہے.عید تو دراصل ایک نشان اور علامت ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے گذشتہ قربانیوں کے نتیجہ میں ہم نے کچھ حاصل کیا.عید ہمارے اس عزم کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہم نے اپنے رب غفور اور رب کریم سے جو کچھ حاصل کیا اس میں زیادتی کے لئے ، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے ہم پہلے سے زیادہ قربانی دیں گے اور ہم اس مقصد کے حصول کی جدو جہد کو تیز کر دیں گے جس مقصد کے حصول کے لئے مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا اور وہی ہماری عید ہے آپ فرماتے ہیں:.یقیناً سمجھو کہ نصرت کا وقت آ گیا اور یہ کارو بارانسان کی طرف سے نہیں اور نہ کسی انسانی منصوبہ نے اس کی بناڈالی.بلکہ یہ وہی صبح صادق ظہور پذیر ہوگئی ہے جس کی پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر دی گئی تھی.خدائے تعالیٰ نے بڑی ضرورت کے وقت تمہیں یاد کیا.قریب تھا کہ تم کسی مہلک گڑھے میں جا پڑتے مگر اس کے با شفقت ہاتھ نے جلدی سے تمہیں اُٹھا لیا.سو شکر کرو اور خوشی سے اُچھلو جو آج تمہاری تازگی کا دن آگیا.خدائے تعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آب پاشی ہوئی تھی کبھی ضائع کرنا نہیں چاہتا.وہ ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ غیر قوموں کے مذاہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو جس میں موجودہ برکت کچھ بھی نہ ہو وہ ظلمت کے کامل غلبہ کے وقت اپنی طرف سے نور پہنچاتا ہے.کیا اندھیری رات کے بعد نئے چاند کے چڑھنے کے انتظار نہیں

Page 88

خطبات ناصر جلد دہم ۶۴ خطبہ عیدالفطر ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۳ء ہوتے؟ کیا تم سلخ کی رات کو جو ظلمت کی آخری رات ہے دیکھ کر حکم نہیں کرتے کہ کل نیا چاند نکلنے والا ہے افسوس کہ تم اس دنیا کے ظاہری قانونِ قدرت کو تو خوب سمجھتے ہو مگر اس روحانی قانونِ فطرت سے جو اسی کا ہم شکل ہے بکلی بے خبر ہو.اب دیکھو آپ کا یہ ارشاد کہ خدا تعالیٰ اپنے دین کے باغ کوجس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی کبھی ضائع کرنا نہیں چاہتا.اور اسی طرح آپ کا یہ فقرہ کہ وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ غیر قوموں کے مذاہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو جس میں موجود برکت کچھ بھی نہ ہو“ قابل غور ہے.حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ وہ برکت جس سے امت مسلمہ کا ایک بڑا حصہ ہاتھ دھو بیٹھا تھا ، دوبارہ امت مسلمہ میں جماعت احمدیہ کوملی.حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ ایک ایسی قوم تیار ہوئی جس نے اس بات کا عزم کرلیا کہ وہ اسلام کے باغ پر پھر تر و تازگی کے سامان اسی طرح پیدا کرے گی جس طرح پہلوں نے اس باغ کو اپنے خونوں سے پہنچ کر اس کی تازگی اور خوبصورتی کا سامان پیدا کیا تھا.ہماری یہ عید دو قربانیوں کے زمانہ کے درمیان آتی ہے لیکن ایک مومن کے چہرے پر پہلی اور مقبول قربانیوں کے نتیجہ میں پژمردگی اور تھکن کے وہ آثار نمودار نہیں ہوتے جو بسا اوقات دُنیا داروں کی کوششوں میں ناکامی کے بعد ان کے چہروں پر انسان کو نظر آتے ہیں نہ ہی مومن کے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ اب اسے پہلے سے زیادہ قربانیاں دینی پڑیں گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے عظیم فضلوں کے حصول کے بعد اور ان عظیم رحمتوں کے پالینے کے بعد جن کا حصول قربانیوں کا مرہونِ منت ہے مومن کے چہرہ پر وہی تازگی ، وہی بشاشت، وہی خوشی ، وہی خوشحالی کے آثار اور وہی اطمینان نظر آتا ہے جو اس کے چہرے پر ہونا چاہیے جو اپنی زندگی کا ہرلمحہ اپنے رب کریم کی گود میں گزارنے والا ہے.اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ تمہارے لئے دو جنتیں تیار کی گئی ہیں ایک جنت وہ ہے جس کا تعلق اسی دنیوی زندگی کے ساتھ ہے اور ایک جنت وہ ہے جس کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے یعنی ایک جنت وہ ہے جس میں جنت کے باوجود امتحان بھی ہیں ابتلا بھی ہیں اور آزمائش بھی ہیں.

Page 89

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عید الفطر ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۳ء گویا اس دنیوی جنت میں اللہ تعالیٰ کبھی اموال واپس لے کر آزمائش کرتا ہے.کبھی ( قرآن کریم کہتا ہے ) دوسروں کی زبانیں تمہارے لئے ایذارسانی کے سامان پیدا کریں گی کبھی اسلام کہتا ہے تمہارا امتحان تمہارے خونوں کی قربانی سے لیا جائے گا.کبھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہارے جذبات کو ابتلا میں ڈال کر تمہارا امتحان لیں گے.کبھی کہتا ہے کہ تمہیں اپنے بیوی اور بچوں کی قربانی دے کر میرے امتحان پر پورا اترنا ہو گا.کبھی کہتا ہے تمہاری دولتیں چھین لی جائیں گی لیکن تمہارے چہروں کی مسکراہٹیں نہیں چھینی جاسکیں گی.کبھی کہتا ہے تمہیں یہ قربانی دینی پڑے گی اور کبھی قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایک دوسری قسم کی قربانی دینی پڑے گی مگر ان ساری قربانیوں کے باوجود، ان سب ابتلاؤں اور امتحانوں کے ہوتے ہوئے اس دنیوی زندگی کو جنت کہا گیا ہے اور یہ ایک سوچنے والی بات ہے ایک مومن تو اسے جنت محسوس کرتا ہے کیونکہ یہ سارے ابتلا اور امتحان اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو اور بھی تیز کرنے والے ہیں.جس شخص کے دل میں یہ یقین ہو کہ وہ اپنے رب کریم سے اس کی رضا اور پیار کو حاصل کر رہا ہے وہ ان ابتلاؤں اور ان امتحانوں اور ان قربانیوں کو کوئی چیز ہی نہیں سمجھتا وہ ان کو اپنی راہ کے کانٹے نہیں سمجھتا بلکہ وہ ان کو اپنے راستے کے پھول پاتا ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے پیار کے بڑے حسین جلوے اس پر ظاہر ہوتے ہیں اسی لئے جو الفاظ اس جنت کے متعلق کہے گئے ہیں جو اس زندگی کے بعد آنے والی ہے، قرآنِ عظیم میں وہی الفاظ اس دنیوی زندگی کی جنت کے متعلق بھی کہے گئے ہیں اور وہ یہ ہیں.وُجُوهٌ يَوْمَبِنٍ مُسْفِرَةٌ - ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ (عبس :۴۰،۳۹) یعنی کچھ چہرے رُوحانی مسرتوں سے اس دن روشن ہوں گے.ہنستے مسکراتے اور خوش و خرم ہوں گے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص کے دل میں ایمان کی بشاشت پیدا ہو جائے اس کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا اور اصل مسرت اور بشاشت تو دلوں میں پیدا ہوتی اور چہروں سے ظاہر ہوتی ہے اسی لئے جماعت احمدیہ کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ دُنیا جس طرح چاہے اُن کا امتحان لے لے، وہ اُن کے چہروں کی مسکراہٹیں اُن سے نہیں چھین سکتی.یہ دنیا کی طاقت میں نہیں.اس لئے کہ احمدیوں کے چہروں کی

Page 90

خطبات ناصر جلد دہم ۶۶ خطبہ عید الفطر ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۳ء مُسکراہٹیں اور بشاشت اور مسرت کے جذبات اُن کے جسم کی نس نس اور روئیں روئیں سے نکل رہے ہوتے ہیں.ان کا منبع خدائے قادر مطلق اور قادر و توانا کی ذات ہے.اس کے مقابلہ میں جو ابتلا اور امتحان ہیں اُن کا منبع بھی الہی منشا سے ہے.یہ تو درست ہے لیکن ان کا تعلق ایک لحاظ سے خدا تعالیٰ کی اس مخلوق سے ہے جن کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ اے خدا! ان پر بھی فضل فرما.کیونکہ یہ جو حرکتیں کر رہے ہیں اس لئے کر رہے ہیں کہ یہ سمجھتے نہیں.نہ یہ اپنا مقام پہچانتے ہیں نہ ان کو اسلام کی عظمت کا خیال ہے اور نہ ہی مہدی معہود علیہ السلام کی شان کو پہچانتے ہیں حالانکہ مہدی معہود علیہ السلام ساری اُمت مسلمہ میں سے وہ فرد واحد ہے جس پر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سلام بھیجا مگر لوگ اس کی قدر نہیں کرتے اور اس کے مقام کو نہیں پہچانتے.بایں ہمہ ہم اُن کے لئے دُعا کرتے ہیں کہ اے خدا ! جس طرح تو ہمارے لئے یہاں دنیوی جنتوں کے سامان بھی پیدا کر رہا ہے اسی طرح تو ہمارے مسلمان بھائیوں کے لئے بھی دُنیوی جنتوں کے سامان پیدا کرتا کہ پھر اُن کے لئے اُخروی جنتوں کے سامان بھی پیدا ہو جا ئیں.پس ہمارے چہرے تو ہر وقت مسکرانے والے چہرے ہیں.ہمارے چہروں کی مسکراہٹوں کو چھینے والا کسی ماں نے کوئی بچہ نہیں جنا اس لئے کہ ہمارے کان میں ہر لحظہ خدا کے پیار کی آواز پڑتی ہے.اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس صبح صادق کی روشنی کو دیکھنے اور پہچاننے کی توفیق عطا فرمائی جو اسلام کے آخری غلبہ کے لئے مقدر تھی.پس جس شخص کو ابدی ٹور کی کرنیں میتر آجائیں، وہ اندھیروں اور ظلمتوں سے ڈرا نہیں کرتا کیونکہ وہ تو خود ایک روشن مینار بن جاتا ہے.روشن مینار کے گرد ظلمات نہیں آیا کرتے.نہ اندھیروں کی یلغار جو کبھی منہ ( زبان ) کے اندھیروں کی کبھی ہاتھ کے اندھیروں کی اور کبھی ظالمانہ منصوبوں کے اندھیروں کا رُوپ دھار لیتی ہے.وہ ٹور کے میناروں کے گرد جو ٹور کی فضا ہوتی ہے اس کو دُور نہیں کر سکتی بلکہ یہ اندھیرے قریب آنے کی کوشش کرتے اور بھاگ جاتے ہیں.اس لئے ہمارے چہرے اس آیت کریمہ کے مطابق آج بھی عید کی اس ظاہری علامت کے طور پر مُسْفِرَةٌ یعنی رُوحانی مسرتوں سے روشن ہیں.ہم ہنستے اور مُسکراتے ہیں ہم خوش و خرم ہیں.اس لئے کہ ہمیں اپنے رب کریم کا پیار ملا.ہمیں یہ یقین دلا یا گیا

Page 91

خطبات ناصر جلد دہم ۶۷ خطبہ عیدالفطر ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۳ء ہے کہ اسلام کے غلبہ کا زمانہ آ گیا.ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تمام بشارتیں جو امت مسلمہ کو یہ کہہ کر دی گئی تھیں کہ ایک جماعت پیدا ہو گی جس کے ذریعہ اسلام ساری دُنیا میں غالب آئے گا ، اُن کے پورے ہونے کا وقت آ گیا.ہم خدا کے عاجز بندے ہیں.ہم کمزور اور گنہگار بندے ہیں.ہم ذرہ ناچیز سے بھی ناچیز ہیں مگر خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ اُس نے اپنی حکمت کا ملہ سے غلبہ اسلام کی عظیم مہم کے لئے ہمیں چنا.ہمارے دل اس کی حمد سے لبریز ہیں.ہماری ہر قوت اور ہماری ہر شئی (جس کے ہم مالک ہیں اُسی کے فضل سے ) اس کی راہ میں قربان ہونے کے لئے ہر وقت تیار ہے پس یہ قوم وہ قوم ہے جو ہنستے مسکراتے عید میں مناتے شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جانے والی ہے اس لئے اے خدا کی پیاری قوم ! خدا تیرے لئے اس عید کو اور اس کے بعد بھی ہر آنے والی عید کو مبارک کرے اور اپنے پیار کو تیرے لئے زیادہ سے زیادہ مقدر کرے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اب ہم دُعا کریں گے.سب دوست دُعا میں شامل ہوں.اللہ تعالیٰ ان وعدوں کو جو ہمیں دیئے گئے ہیں، ہماری زندگیوں میں پورا ہونے کے زیادہ سے زیادہ سامان پیدا کرے.اسلام کے عالمگیر غلبہ کی خوشیاں ہی ہمارے لئے حقیقی خوشیاں ہیں.اُن سے ہم اور ہماری آنے والی نسلیں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے والی ہوں.اسی طرح ہمارے خاندان نسلاً بعد نسل خدا کی راہ میں قربانیاں دینے والے اور اس کے پیار کو پانے والے ہوں.آؤ دُعا کر لیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ فروری ۱۹۷۴ ، صفحه ۲ تا ۴)

Page 92

Page 93

خطبات ناصر جلد دہم ۶۹ خطبہ عیدالفطر ۱٫۱۸ کتوبر ۱۹۷۴ء احمدی کی حقیقی عید اس کی دعائیں قبول ہو کر ہوتی ہے خطبہ عید الفطر فرموده ۱/۱۸اکتوبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت کریمہ پڑھی.وَ مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۖ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبة: ١١١) پھر حضور انور نے فرمایا:.کئی ہفتوں کے بعد چھوٹے بچوں کو مسجد میں شور مچانے کا موقع ملا تھا اور انہوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا ہے.احمدی مستورات کے لئے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ عید کی نماز میں تو ان کو شمولیت کی اجازت دی گئی تھی مگر اب وہ جمعہ کی نماز میں جیسا کہ کئی ہفتوں سے ہمارا دستور چلا آ رہا ہے، شامل نہیں ہوں گی.آج عید الفطر ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے یہ عید مبارک کرے.آج وہ عید ہے جو ماہ رمضان کے بعد آئی ہے.رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں بہت سی عبادتیں اکٹھی کی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری عبادات کو قبول کر کے ہمارے لئے حقیقی عید کے سامان پیدا کرے.آج عید ہے اور یہ وہ عید ہے جو اس رمضان کے بعد آئی ہے جس میں ہم نے علاوہ اور

Page 94

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۱٫۱۸ کتوبر ۱۹۷۴ء بہت سی دعاؤں کے اپنے ملک کے استحکام کے لئے بھی دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ ہماری ان دعاؤں کو بھی قبول کرے اور ہمارے ملک میں بسنے والے پاکستانی شہریوں کے لئے حقیقی عید کے سامان پیدا کرے.آج عید ہے اور ہم خوش ہیں کہ دنیا کی نجات کے لئے اور دنیا کی خوشحالی کے لئے اور دنیا کی روحانی خوشیوں کے لئے مہدی علیہ السلام مبعوث ہوئے اور مسیح موعود علیہ السلام کا روحانی آسمانوں سے نزول ہوا.جس غرض کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے اور جس غرض کے پورا کرنے کے لئے اگر چہ ہم ہر روز ہی دعائیں کرتے ہیں لیکن رمضان کے مہینے میں خصوصاً بہت دعائیں کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری ان دعاؤں کو بھی قبول کرے اور جس مقصد کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے اور جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے وہ مقصد بھی پورا ہو اور وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر حقیقی خوشیوں کی وارث بنے.عید ، عید میں فرق ہوتا ہے.یہ فرق بہت سی جہات سے ہوتا ہے ایک عید ہے انفرادی یا خاندانی اور ایک عید ہے اجتماعی یعنی قوم کے لحاظ سے مملکت کے لحاظ سے اور نوع انسانی کی اجتماعی زندگی کے لحاظ سے.پھر عید ہوتی ہے محض دنیوی اور ایک عید ہوتی ہے روحانی جس کی ذیل میں حسنات دنیا بھی آجاتی ہیں.انفرادی دنیوی عید بھی ہوتی ہے اور انفرادی روحانی عید بھی ہوتی ہے.اس لئے اس مضمون میں جب میں دنیوی عید کہوں گا تو اس سے محض دنیوی عید مراد ہوگی اور جب میں روحانی عید کہوں گا تو اس سے ایسی روحانی عید مراد ہو گی جو اپنی ذیل میں حسنات دنیا بھی لئے ہوئے آتی ہے.ایک احمدی کی عید محض دنیوی عید نہیں ہوتی.محض دنیا کی عید جس میں روحانی خوشیاں شامل نہ ہوں یا ان کے لئے جد و جہد نہ ہو یا ان کے حصول کے لئے دعا ئیں نہ ہوں یا ان کے حصول کے لئے جو دعائیں کی گئی ہیں وہ قبول نہ ہوں تو ایسی عید ایک احمدی کی عید نہیں ہوتی.ایک احمدی کی عید ہے ہی روحانی عید.چونکہ ہر احمدی (مومن) نوع انسانی کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے اس کی عید حقیقی معنی میں اس وقت ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی دعائیں قبول

Page 95

خطبات ناصر جلد دہم اے خطبہ عیدالفطر ۱٫۱۸ کتوبر ۱۹۷۴ء ہو کر اس کے لئے روحانی خوشیوں کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ چونکہ بڑا دیا لو ہے اس لئے وہ اس کی ذیل میں حسنات دنیا بھی دے دیتا ہے.پس ہماری حقیقی عید اور ہماری حقیقی خوشیاں اس چیز میں ہیں کہ ہمارا ملک خوشحال ہو.جس طرح ہم نے اپنے رب کریم سے اس کے پیار کو اور اس کی رضا کو اور اس کی جنتوں کو حاصل کیا ہے اور جس طرح ہماری روح اپنے پیدا کرنے والے رب کے حضور جھکی اور اس میں ایک سرور پیدا ہوا اسی طرح ہمارے ملک میں بسنے والوں کے لئے بھی روحانی خوشیوں اور سرور کے سامان پیدا ہوں.مگر مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت صرف اس خطہ ارض کی خوشحالی کے لئے نہ تھی.آپ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ تمام نوع انسانی خواہ وہ افریقہ کے جنگلوں میں بسنے والی ہو یا جنوبی و شمالی امریکہ میں بسنے والی ہو ، جزائر میں رہنے والی ہو یا ایشیا سے تعلق رکھنے والی ہو، جہاں بھی ہو.ہر براعظم میں، ہر ملک اور ہر جزیرے میں بسنے والے انسان کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے روحانی خوشیوں اور مسرتوں کے سامان پیدا کر دے.یہ ہے مقصد جماعت احمدیہ کے قیام کا اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورا ہونا ہے.اللہ تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے وہ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے.اس نے ہمیں جو بشارتیں دی ہیں وہ ان کے پورا ہونے کے سامان پیدا کرنے والا ہے.اس لئے ہمیں یہ کہا کہ تم خوش ہو جاؤ کیونکہ تمہارے لئے ایسی خوشی کے سامان پیدا کئے جارہے ہیں کہ جس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی نہیں.یہ کامیابی دنیوی طاقت کا حصول نہیں کیونکہ دنیوی طاقت (اور اقتدار سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ اس سے کوئی سروکار ہے اور نہ اس سے مراد وہ اقتدار ہے جس پر آج کا حکمران نازاں ہوتا ہے اور نہ اس سے مراد وہ دنیوی دولت ہے جس کے پیچھے دنیا آنکھیں بند کر کے پڑی ہوئی ہے اور جائز و ناجائز کا خیال بھی نہیں رکھتی.غرض ہمارے لئے جو حقیقی اور بہترین اور آخری کامیابی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور ہماری حقیر کوششوں کو قبول کرے اور وہ اپنی عظیم طاقتوں کے ذریعہ ہماری حقیر کوششوں کے عظیم نتائج نکالے ورنہ (ہم تو ) کیا پڑی اور کیا پڑی کا شور بہ.آج دنیا میں جس قدر انسان بستے ہیں ، ان کے مقابلہ میں عددی لحاظ سے جماعت احمدیہ کی کوئی حیثیت ہی نہیں.دنیا

Page 96

خطبات ناصر جلد دہم ۷۲ خطبہ عیدالفطر ۱٫۱۸ کتوبر ۱۹۷۴ء والوں کو دنیوی طاقتیں حاصل ہو گئیں مثلاً ایٹم بم ہے دنیا کی دولتیں ہیں اور زمین کے اندرونی خزانے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق فضاؤں کی تسخیر ہے چنانچہ دنیاز مین کی گہرائیوں میں بھی اتری اور اس سے فائدے حاصل کئے اور آسمانوں کی فضا میں بھی وہ بلند ہوئی اور وہاں سے بھی انہوں نے فائدے حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی محرومی اور بڑی سخت اور خطر ناک محرومی کا راز یہ ہے کہ مخلوق سے فائدہ اٹھانے کی کوشش تو کی مگر مخلوق کو پیدا کرنے والے خالق سے منہ موڑ لیا اور اس کی طرف توجہ نہ کی اور اس طرح گوان کو ملمع شدہ اور عارضی دنیوی خوشیاں تو مل گئیں لیکن وہ خوشی جو حقیقی خوشی ہے اور وہ خوشی جو اس زندگی سے شروع ہوتی اور ابدالآباد تک قائم رہنے والی ہے، اس سے محروم ہو گئے یعنی وہ خوشیاں اور وہ خوشحالیاں اور وہ مسرتیں جن کا ( ورلی زندگی کے ) چند سالوں کے ساتھ تعلق نہیں بلکہ جن کا سلسلہ ہمیشہ چلتا رہے گا ان سے دنیا محروم ہوتی چلی جارہی ہے.پس ہم خوش ہیں اور ہمارے لئے یہ عید کا دن ہے حقیقی عید کا دن !! کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں جو پیار کے وعدے دیئے تھے ، وہ اس نے پورے کئے.ہماری دعاؤں کو سنا اور ہمیں تسلی دی.ہمیں اس کی طرف سے بشارتیں عطا ہوئیں.ہمیں یہ کہا گیا کہ وہ (اللہ ) ہم سے راضی ہے اور ہمیں یہ بتایا گیا کہ خدا تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ آج ساری دنیا میں اسلام کا غلبہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ مقدر ہے.ہم خدا تعالیٰ کے خادم ہیں.جو اس خدمت میں مزہ ہے وہ دنیا کی کسی اور چیز میں نہیں ہے.ہم نے بحیثیت جماعت اجتماعی طور پر خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا اور اس کے وعدوں کو اپنی زندگی میں پورا ہوتے دیکھا.اس کے فضل کو آسمان سے بارش کے قطروں کی طرح نازل ہوتے دیکھا اور اس کی رحمت کے جلووں کو اپنی ذات میں کچھ اس طرح محسوس اور مشاہدہ کیا کہ اس کے بعد دنیا کے جو کانٹے صبح و شام چھتے رہتے ہیں ان کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں ہوتی کیونکہ ہم تو خدا تعالیٰ کے عشق میں مست ہیں اور ان چیزوں کی پرواہ کئے بغیر شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھنے والی قوم ہیں.میں جب یہ کہتا ہوں کہ آج ہماری عید ہے تو اسی لحاظ سے کہتا ہوں کیونکہ ہمیں حقیقی عید میسر ہے اس لئے ہم خوش ہیں

Page 97

خطبات ناصر جلد دہم ۷۳ خطبہ عیدالفطر ۱٫۱۸ کتوبر ۱۹۷۴ء ہماری زبانوں پر خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے ہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ خواہ ہم ساری عمر ہر آن اور ہر لحظہ خدا کے حضور جھکے رہیں اور اس کی حمد کے ترانے گاتے رہیں ، تب بھی ہم اس کا کما حقہ، شکر ادا نہیں کر سکتے لیکن ایک اور پہلو ہے جو ہمیں یہ احساس دلا رہا ہے کہ وہ آخری خوشی ، وہ پوری ، کامل اور مکمل عید جو نوع انسانی کے لئے مقدر ہے ، وہ ابھی انسان کو نہیں ملی.اس کے لئے ابھی قربانیوں کی ضرورت ہے وہ قربانیاں نہ تو آسمان کے فرشتوں نے زمین پر آکر دینی ہیں اور نہ ان لوگوں نے دینی ہیں جنہوں نے اس حقیقت کو ابھی تک پہچانا نہیں.یہ ہمارا دعویٰ ہے آپ کا بھی اور میرا بھی کہ خدا تعالیٰ نے مہدی اور مسیح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور اب ان کے طفیل اور ان کی قائم کردہ جماعت کے ذریعہ ساری دنیا کے لئے ایک حقیقی عید مقدر ہے یہی وہ حقیقی عید ہے جس کی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمت محمدیہ کو بشارت دی تھی اور یہی حقیقی خوشی ہے جس کا تعلق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات سے ہے کہ جس کی آسمان نے بھی تعریف کی اور زمین نے بھی.جو انسان کا بھی محبوب بنا اور خدا تعالیٰ کا بھی.خدا کرے آپ کے جھنڈے تلے تمام بنی نوع انسان جمع ہو جائیں یہ دن نوع انسان کے لئے حقیقی عید کا دن ہوگا.یہ دن ضرور آئے گا سوائے چند لوگوں کے جو عشق محمدی کے اس دائرہ سے باہر رہ جائیں گے ان کے علاوہ نوع انسانی اپنی بہت بھاری اکثریت کے ساتھ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوگی.انشاء اللہ العزیز غرض یہ وہ بشارت ہے جو اس میں دی گئی ہے.اس بشارت نے ہمارے لئے خوشی کے سامان پیدا کئے.ہماری جدوجہد ہماری کوششیں اور ہماری دعائیں یہ ہیں کہ جس طرح اس بشارت نے ہمارے لئے خوشی اور عید کے سامان پیدا کئے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ اس بشارت کے پورا کرنے کے بعد نوع انسانی کے لئے بھی حقیقی عید کے سامان پیدا کرے.اس غرض کے لئے دوست دعا ئیں کریں.اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس کے حضور قربانیاں پیش کریں.اس کے لئے خدا کی مخلوق یعنی نوع انسانی سے محبت کرنا سیکھیں اور اس سبق کو کبھی بھولیں نہیں کہ ہمیں کسی سے دشمنی نہیں.ہمیں کسی سے نفرت نہیں ہم کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہمارے

Page 98

خطبات ناصر جلد دہم ۷۴ خطبہ عیدالفطر ۱/۱۸ کتوبر ۱۹۷۴ء محبوب آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کیا تھا إِنَّما أنا بشر مثْلُكُم (الكهف : ١١١) کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.اس اعلان کو ہم بھی اپنی زندگیوں میں دھراتے ہیں اور دنیا سے کہتے ہیں کہ بشر ہونے کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے پیارے بندوں اور ان لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا جنہوں نے ابھی تک خدا تعالیٰ کا پیار حاصل نہیں کیا.پس ہمارے دل میں ایک جلن ہے اور ایک تڑپ ہے کہ جس طرح ہم نے خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کو حاصل کیا ہے اسی طرح خدا کرے ساری دنیا اس کی محبت اور پیار کو حاصل کر لے اور یہی گویا ہمارے لئے عید ہوگی ایک بہت بڑی عید کہ جس کے ذریعہ سارے نوع انسانی کے لئے خوشحالی کے سامان پیدا کئے جائیں گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جہاں تک ہماری اجتماعی زندگی کا تعلق ہے، ہمارے لئے عید نہیں.ہمارے لئے عید ہے.ہمارے لئے تو ہر روز عید ہے لیکن یہ آج کی عید کا دن جس میں دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں ایک عید جو رمضان کے بعد آئی ہے اور ایک عید جو ہر ہفتہ آتی ہے یعنی جمعہ کی عید.پس آج یہ دو عید میں جمع ہیں.ظاہری طور پر دو خوشیاں جمع ہیں.اس لئے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے روحانی طور پر دوخوشیوں کے سامان پیدا کرے ایک وہ خوشی جو جماعت احمدیہ کو بحیثیت جماعت خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے بعد ملے گی اور اب بھی مل رہی ہے ، اور ایک وہ خوشی جو نوع انسانی کو بحیثیت نوع انسانی ملے گی جس میں ہم بھی شریک ہیں.خدا کرے یہ خوشی بھی جلد ملے.خدا کرے ہماری زندگیوں میں نوع انسانی کو یہ عید نصیب ہو.بہر حال جس طرح آج دو عید میں اکٹھی ہوگئی ہیں اسی طرح خدا کرے دنیا کے لئے بھی ، ہمارے لئے بھی ، جماعت احمدیہ کے لئے بھی جلد دو عیدیں اکٹھی ہو جائیں.چونکہ ہمارے لئے روحانی طور پر عید ہے اس لئے یہ جو دنیا کے ابتلا اور امتحان ہوتے ہیں دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے بعد ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہوتی.یہ تو ہمیں محسوس ہی

Page 99

خطبات ناصر جلد دہم ۷۵ خطبہ عیدالفطر ۱٫۱۸ کتوبر ۱۹۷۴ء نہیں ہوتے ان کی طرف تو ہمیں کوئی توجہ ہی نہیں.ہمیں غصہ نہیں آتا ہمیں رحم آتا ہے ہمارے دلوں میں نفرت نہیں پیدا ہوتی بلکہ اور زیادہ محبت پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے بھائی تکلیف میں ہیں اور حقیقی خوشحالی سے محروم ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو ہمیشہ حقیقی خوشحالی نصیب کرے.اللہ تعالیٰ ہمارے بھائیوں کو بھی وہی حقیقی عید عطا کرے جو ہمارے لئے مقدر ہے.اب ہم دعا کر لیتے ہیں.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے اجتماعی دعا کرائی.روز نامه الفضل ربوه ۳۰ / نومبر ۱۹۷۴ء صفحه ۲ تا ۴) 谢谢谢

Page 100

Page 101

خطبات ناصر جلد دہم LL خطبہ عیدالفطر ۷ را کتوبر ۱۹۷۵ء قدم بقدم آگے بڑھنا اور نئی منزل پر پہنچنا ہمارے لئے عید ہے خطبہ عید الفطر فرموده ۷ اکتوبر ۱۹۷۵ء بمقام رو یتیمپٹن پارک انگلستان تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے روئے زمین پر بسنے والے احمدی احباب کو عید کی مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا:.انگلستان میں بسنے والے اور دنیا کے مختلف حصوں اور علاقوں میں رہنے والے احمدیوں کو عید مبارک ہو.پھر حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے ہم پر.ہم دنیا کے جس حصہ میں بھی ہوں اپنے ہی گھر میں عید کرتے ہیں.کسی حصہ دنیا میں بھی ہمیں غیریت کا احساس نہیں ہوتا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ملک اور ہر علاقہ میں جماعت ہائے احمد یہ قائم کر کے ہمارے لئے ہر جگہ ہی عید کے سامان کر دیئے ہیں.حضور انور نے ان عید کے سامانوں کی وضاحت کرتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے لئے کئے ہیں فرمایا :.بلا شبہ یہ غلبہ اسلام کا وہی زمانہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خوش ہو اور خوشی سے اچھلو اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمارے لئے ہر روز ہی خوشیوں کے سامان کرتا چلا آ رہا ہے.خدا کی شان ہے کہ بیشمار مخالفتوں کے باوجود ہر روز جب

Page 102

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۷ را کتوبر ۱۹۷۵ء اسلام پر سورج طلوع ہوتا ہے وہ اسلام کو ادیان باطلہ کے مقابلہ میں پہلے سے زیادہ مضبوط ومستحکم پاتا ہے.شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے کی جانب ایک ایسی حرکت وجود میں آچکی ہے جس میں کمی یا سستی واقع نہیں ہوتی بلکہ وہ حرکت خدا تعالیٰ کے فضل سے تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے لئے مسلسل خوشیوں کے سامان ہوتے چلے آرہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلسل ظاہر ہونے والے خوشیوں کے ان سامانوں پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:.قدم بقدم آگے بڑھنا بھی ایک عید ہے اور اس قدم بقدم آگے بڑھنے کے نتیجہ میں درجہ بدرجہ جس نئی منزل پر ہم پہنچتے ہیں وہ بھی ہمارے لئے عید کے سامان لاتی ہے.سو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے عید کی خوشی لانے والی ایک نئی منزل تک ابھی حال ہی میں ہم پہنچے ہیں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے گوٹن برگ میں سویڈن کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی توفیق عطا فرما کر ہمارے لئے خوشی کا ایک نیا سامان کیا ہے.اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے وہاں ہمیں ایک خوشی پہنچائی.اس کی نوعیت یہ ہے کہ اگر چہ سنگ بنیاد کی تقریب میں احمدی احباب سارے ہی یورپ سے آئے تھے تاہم گوٹن برگ میں ان احمدیوں کی تعداد زیادہ ہے جو کبھی پاکستانی نہیں رہے اور نہ ہیں.ان میں بعض یوگوسلاویہ کے رہنے والے بھی ہیں.گوٹن برگ میں میرے قیام کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں کے یوگوسلاوین باشندوں میں سے چودہ نئی بیعتیں ہوئیں، چھ مردوں اور آٹھ عورتوں نے بیعت کی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دوہری خوشی کا سامان کر دیا.چودہ بیعتوں کی اطلاع پر مشتمل جو تار دی گئی تھی.راستہ میں کسی نے اپنی خوشی کا سامان کرنے کے لئے چودہ کے عدد کو چار میں بدل دیا.ہمیں نئے احباب کے جماعت میں داخل ہونے کی خوشی ہوئی.انہوں نے شامل ہونے والوں کی تعداد میں کمی کر کے اپنے لئے خوشی کا سامان کیا.اللہ تعالیٰ انہیں بھی حقیقی خوشی نصیب کرے کیونکہ یہ تو حقیقی خوشی نہیں ہے کہ دوسروں کی تعداد کو از خود گھٹا کر خوش ہوا جائے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت اسلام کی خدمت کی توفیق پارہی ہے اور اس کے نتیجہ میں حقیقی اسلام کی جڑیں ہر روز پہلے سے زیادہ مضبوط ہو رہی ہیں اور یہی ہماری اصل خوشی ہے.

Page 103

خطبات ناصر جلد دہم ۷۹ خطبہ عیدالفطر ۷ اکتوبر ۱۹۷۵ء ہم جو آج خوش ہیں تو اس لئے نہیں کہ ہمیں حکم ملا ہے کہ اچھے کپڑے پہنو اور حسب توفیق اچھے کھانے کھاؤ بلکہ اصل خوشی تو خدا کی اطاعت میں ہے.جب وہ کہتا ہے کہ خوش ہو تو ہم خوش ہوتے ہیں.اس زمانہ میں اس نے کہا ہے کہ خوش ہو کیونکہ اسلام کے غلبہ کے دن آگئے ہیں.پس ہم خوش ہیں اس لئے کہ خدا نے ہمیں خوش ہونے کا حکم دیا ہے اور اس لئے کہ اس کی بشارتوں کے بموجب غلبہ اسلام کے آثار دن بدن نمایاں ہورہے ہیں.اسی تسلسل میں حضور انور نے مزید فرمایا :.چونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے ہمیں منتخب فرمایا ہے اس لئے اس نے ہمیں دوسروں کو دکھ دینے کے لئے نہیں بلکہ سکھ پہنچانے کے لئے پیدا کیا ہے، اس نے ہمیں دوسروں کو مارنے کے لئے نہیں بلکہ زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.ہمارے سپرد یہ کام ہوا ہے کہ ہم محبت سے، پیار سے دنیا کے سارے انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتیں اور اس طرح انہیں ایک نئی زندگی سے ہم کنار کرنے کا وسیلہ بنیں.اصل میں تو یہ کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت اس کے فرشتے کر رہے ہیں اور فرشتے اجر وثواب سے بے نیاز ہیں.جب خدائی منشا کے تحت اس کے منتخب بندوں کی تھوڑی سی کوشش فرشتوں کی کوششوں میں شامل ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کی کوششوں سمیت سارے کا سارا ثواب اپنے منتخب بندوں کو دے دیتا ہے.حضور انور نے اس امر کو واضح کرنے کے لئے کہ ہمارے واسطے غلبہ اسلام کی مہم میں حصہ دار بننے اور اجر وثواب کا مستحق قرار پانے کے لئے اپنے قربانی کے معیار کوکس حد تک بلند کرناضروری ہے فرمایا:.بہت خوش قسمت تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ، انہوں نے جس صداقت کو قبول کیا تھا اور قربانی و ایثار کے جس مسلک کو اپنے لئے پسند کیا تھا اسے آخر دم تک نہیں چھوڑا اور ہر قسم کی قربانیاں دے کر اس پر دوام اختیار کئے رکھا.جو برکات اور جو افضال وانعامات صحا بہ رضی اللہ عنہم کو ملے وہی برکات اور وہی افضال وانعامات پانے کا آج ہمیں موقع دیا گیا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.ع صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

Page 104

خطبات ناصر جلد دہم ۸۰ خطبہ عیدالفطر ۷ را کتوبر ۱۹۷۵ء لیکن یہ افضال و انعامات پانے کے لئے صحابہ رضی اللہ عنہم والا اخلاص، صحابہ رضی اللہ عنہم والی فدائیت اور صحابہ رضی اللہ عنہم والی قربانیاں ضروری ہیں.یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم قربانیاں تو پیش نہ کریں اور پھر بھی صحابہ رضی اللہ عنہم والے انعامات ہمیں مل جائیں.ہر ایک جو خدائی افضال وانعامات کا وارث بننا چاہتا ہے اسے قربانی دینی پڑتی ہے.ہر ایک کو اپنے خاندان، اپنے علاقے اور نوع انسان کے لئے ایثار دکھانا پڑتا ہے اور اس کے لئے وہ نور حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حاصل کیا تھا.جتنی روشن شاہراہ اسلام کے غلبہ کی ہمارے سامنے خدا نے رکھی ہے اتنی ہی روشن شاہراہ اسلام کی نشاۃ اولی میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے رکھی گئی تھی.اگر ہمارے بچے اور ہمارے نو جوان اس حقیقت کو پہچان لیں اور اس کے مطابق اعمال بجالائیں تو انہیں اللہ تعالیٰ کا ایسا پیار حاصل ہوگا جو کبھی ختم نہ ہوگا.آخر میں حضور انور نے خاص طور پر احباب انگلستان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :.گوٹن برگ میں خدا کا گھر بنانے کی جو عید ہمارے لئے پیدا ہوئی ہے اس کے تعلق میں آپ کے لئے دوہری خوشی کا موقع ہے.وہاں میں نے اعلان کیا تھا کہ یورپ اور امریکہ کے پانچ ملکوں کی جماعتہائے احمد یہ اس کا خرچ برداشت کریں گی.ان میں سے زیادہ بوجھ آپ نے ہی اٹھانا ہے.صد سالہ احمد یہ جو بلی کے آپ کے اسی ہزار پاؤنڈ کے وعدے دوسال کے اندراندر پورے ہو جانے چاہئیں.اسی طرح ناروے کی جماعت سے میں نے کہا ہے کہ ۱۹۷۸ء میں وہ مسجد بنا ئیں.اس کا بار بھی بڑی حد تک انگلستان کی جماعت کو ہی اٹھانا ہوگا.لہذا آپ کے لئے تو دو ہری خوشی کا موقع ہے.اللہ تعالیٰ اس عید کو آپ کے لئے دوہرے طور پر مبارک کرے اور برکت کے سامان آپ کے لئے پیدا کرے.آمین اس روح پرور اور بصیرت افروز خطبہ کے بعد حضور انور نے اجتماعی دعا کرائی.جس میں جملہ حاضر ا حباب جن کی تعداد تین ہزار سے او پر تھی شریک ہوئے.روزنامه الفضل ربوه ۳/نومبر ۱۹۷۵ ء صفحه ۲و۶) ☐☐☐

Page 105

خطبات ناصر جلد دہم ΔΙ خطبہ عیدالفطر ۲۵ ستمبر ۱۹۷۶ء اسلام کے موعود عالمگیر غلبہ کی شکل میں ایک عظیم الشان عید مقدر کی گئی ہے خطبہ عید الفطر فرموده ۲۵ ستمبر ۱۹۷۶ء بمقام مسجد فضل لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے قرآن مجید کی حسب ذیل آیات تلاوت کیں.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ - نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهى اَنْفُسُكُم وَ لَكُمْ فِيهَا مَا تَدَعُونَ - نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ - ( حم السجدة : ۳۱ تا ۳۳) ترجمہ.وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر مستقل مزاجی سے اس عقیدہ پر قائم ہو گئے ان پر فرشتے اتریں گے یہ کہتے ہوئے کہ ڈرو نہیں اور کسی پچھلی غلطی کا غم نہ کرو اور اس جنت کے ملنے سے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا.ہم دنیا میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے دوست رہیں گے اور اس (جنت) میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے تم کو ملے گا اور جو کچھ تم مانگو گے وہ بھی تم کو اس میں ملے گا.یہ بخشنے والے اور بے انتہا کرم کرنے والے خدا کی طرف سے مہمانی کے طور پر ہوگا.

Page 106

خطبات ناصر جلد دہم ۸۲ خطبہ عیدالفطر ۲۵ ستمبر ۱۹۷۶ء پھر حضور انور نے فرمایا:.اگر چہ ان آیات میں جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں عید کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے تا ہم حقیقی عید کی تمام مسرتیں اس میں جمع کر دی گئی ہیں.ایک مومن کی حقیقی عید یہی ہوتی ہے کہ اسے خدا کا پیار مل جائے.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر رجوع برحمت ہونا اور انہیں فوز و فلاح کی شکل میں جنتوں کی بشارتوں سے نواز نا ہی اصل عید ہے.ادھر عید کہتے ہی بار بار آنے والی خوشی کو ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نہیں مومنوں کے لئے کئی عید میں مقرر کی ہیں جو بار بار ظاہر ہوکر ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے پیار کی بشارتوں سے نوازنے کا موجب بنی ہیں.ان متعد د اور بار بار آنے والی عیدوں کی وضاحت کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا :.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو بھی عید قرار دیا ہے اور عید کے حقیقی مفہوم کے پیش نظر اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ اس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ اس میں جو دعا مانگی جائے خدا تعالیٰ اسے قبول کر کے اپنے بندے کو اس کی مراد عطا کر دیتا ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ ہر جمعہ کے روز اپنے مومن بندوں کو یہ موقع دیتا ہے کہ ہفتہ کے دوران نیکیاں بجالانے میں جو کمی رہ گئی ہو وہ اس کمی کو جمعہ کے اجتماع میں شریک ہو کر اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگ کر پورا کرلیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے پیار کی شکل میں حقیقی عید سے ہمکنار ہوں اور ہر ہفتہ ہی عید کی خوشیاں حاصل کرتے چلے جائیں.اسی طرح عید الفطر اور عید الاضحیہ بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے اور خوشیاں منانے کے مواقع کی حیثیت رکھتی ہیں.عیدین کی شکل میں یہ مواقع ہر سال آتے اور مومنوں کو حقیقی خوشیوں سے معمور کر دکھاتے ہیں.حضور انور نے عید کی حقیقت اور اسلام کی مقرر کردہ مختلف عیدوں کے ذریعہ اس حقیقت کے پورا ہونے پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے بعد اس سے نہایت لطیف استدلال کرتے ہوئے مزید فرمایا اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہر عید مومنوں کے لئے دو پیغام لاتی ہے ایک یہ کہ ہم نے خدا کی رحمت کا مورد بنے اور اس کے پیار کو پانے کے لئے جو کوششیں کیں خدا نے انہیں قبول

Page 107

خطبات ناصر جلد دہم ۸۳ خطبہ عیدالفطر ۲۵ ستمبر ۱۹۷۶ء فرما کر ہمارے لئے خوشی کا سامان کیا.دوسرے یہ کہ یہ عید خوشی کا آخری مرحلہ نہیں ہے بلکہ اس کے بعد خوشیوں کا ایک اور مرحلہ ہمارا انتظار کر رہا ہے اور اب ہم نے اس کی طرف بڑھنا اور بڑھتے چلے جانا ہے.اس کے بعد حضور انور نے عید کے بعض عظیم تر مواقع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.جمعہ اور عیدین ہی نہیں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے بار بار عید کے سامان پیدا کرنے کی غرض سے بعض اور عظیم تر مواقع بھی بہم پہنچائے ہیں.ان میں سے ایک مجدددین کے ظہور کا سلسلہ ہے.ہر صدی کے سر پر مجددین کا ظاہر ہونا دراصل اسی لئے تھا کہ وہ مومنوں کو ازسر نو حقیقی اسلام کے راستہ پر گامزن کر کے انہیں ایک عظیم تر حقیقی عید کا وارث بنا ئیں.ان کا آنا تجد ید واحیاء دین کی شکل میں عید ہی کا آنا ہوتا تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے آخری زمانہ میں مسیح اور مہدی کے ظہور کی شکل میں ایک بہت ہی عظیم الشان عید کا سامان کیا اور وہ ہے مسیح و مہدی موعود کی بعثت کے ذریعہ اسلام کا ساری دنیا میں غالب آنا.امت کو اتنی بڑی اور اتنی عظیم خوشی پہلے کبھی نہیں ملی تھی اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے بموجب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے ایک فرزند جلیل کی حیثیت سے مبعوث ہو کر اعلان فرما یا کہ خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کیونکہ غلبہ اسلام کا دن قریب آ گیا ہے.اس سب سے بڑی اور سب سے عظیم الشان عید کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ذریعہ رکھی جاچکی ہے چنانچہ اس وقت سے ہی اس عید کے آثار نمایاں سے نمایاں تر ہوتے چلے آرہے ہیں.حضور انور نے فرمایا:.جس طرح رمضان کے روزوں کی مشقت برداشت کر کے اور دیگر عبادات بجالا کر عید کی تیاری کی جاتی ہے.اسی طرح اس عظیم ترین اجتماعی عید کی تیاری بھی ہوتی چلی آرہی ہے.اس تیاری کے پیش نظر ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ اجتماعی عید تین سوسال کے اندر اندر اپنے کمال کو پہنچے گی.آثار اور قرائن کو دیکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیام جماعت کی پہلی صدی مکمل ہونے کے بعد دوسری صدی شروع ہونے کے ساتھ ہی عالمگیر غلبہ اسلام کی

Page 108

خطبات ناصر جلد دہم ۸۴ خطبہ عیدالفطر ۲۵ ستمبر ۱۹۷۶ء اصل اور حقیقی اجتماعی عید بھی منصہ شہود پر آنی شروع ہو جائے گی.جس طرح ہر عید کی تیاری کی جاتی ہے اسی طرح آسمان میں اب عالمگیر غلبہ اسلام کی شکل میں ظاہر ہونے والی عظیم ترین عید کی تیاریاں ہو رہی ہیں.ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم زمین پر اپنی استعداد کے مطابق اس عید کی تیاریاں کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں.ہمیں اس تیاری کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان کے لئے خوشیوں کے سامان کرنے ہیں اور اپنی تیاریوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر اس عظیم ترین عید کا شایان شان استقبال کرنا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس عید کی تیاریوں کے ضمن میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسی کے فضل سے ہم اس کی رضا کی راہوں پر چلتے ہوئے اپنے لئے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے عید کی خوشیوں کے سامان کرتے چلے جائیں.اس پر معارف اور بصیرت افروز خطبہ کے آخر میں حضور انور نے جملہ احباب کو عید کی مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ آپ سب کو عید مبارک کرے اور ساری دنیا کے احمدیوں کے لئے عید کی خوشیوں کے سامان کرے اور ہمیشہ ہی اپنے فضلوں سے نوازتار ہے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے ہاتھ اٹھا کر ایک پرسوز اجتماعی دعا کرائی.جس میں ہزاروں احباب اور مستورات سب شامل ہوئے.谢谢谢 روزنامه الفضل ربوه ۶ /اکتوبر ۱۹۷۶ء صفحه ۲)

Page 109

خطبات ناصر جلد دہم ۸۵ خطبہ عیدالفطر ۱۶ رستمبر ۱۹۷۷ء رمضان کی عبادات اور دعاؤں کے نتیجہ میں یہ عید حقیقی لحاظ سے خوشی کا دن ہے خطبہ عید الفطر فرموده ۱۶ رستمبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.وہ سب دوست، بھائی اور بہنیں جو اس وقت اس مسجد میں جمع ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کے لئے عید مبارک کرے اور وہ احمدی بھائی اور بہنیں جو دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے بھی اس عید کو مبارک کرے اور نوع انسانی کے لئے بھی ایسے حالات پیدا کر دے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کی حقیقی خوشیوں کے سامان پیدا ہونے لگیں.ہم جو احمدی مسلمان ہیں ہماری زندگی کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ہم اپنے رب کریم کا خوف بھی رکھتے ہیں اور اس سے رجا یعنی امید بھی رکھتے ہیں.خوف کے یہ معنی نہیں کہ جس طرح کوئی شیر سے ڈر جائے یا کوئی سانپ سے ڈر جائے یا زلزلہ آئے تو دل میں ڈر پیدا ہو جائے.اس معنی میں ہم خدا تعالیٰ کے متعلق خوف کا لفظ استعمال نہیں کرتے.ہم اپنے محبوب آقا ، اپنے مولا اور اپنے رب کریم کے بارہ میں خوف کا لفظ اس معنی میں استعمال کرتے ہیں کہ کہیں ہماری اپنی غفلت یا کسی گناہ کے نتیجہ میں وہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے.خدا کرے کہ سب خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے ہمیشہ محفوظ رہنے کی اسی کی رحمت سے توفیق پائیں.

Page 110

خطبات ناصر جلد دہم ۸۶ خطبہ عیدالفطر ۱۶ ستمبر ۱۹۷۷ء دوسرا پہلور جا ہے.ہمارا اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ تعلق امید کے ساتھ وابستہ ہے.امید کی بنیاد پر قائم ہے.ہم خدا تعالیٰ سے کامل امیدیں رکھتے ہیں اور اس پر کامل تو گل رکھتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں امید دلانے والے بہت سے اعلان بھی کئے گئے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ (الزمر:۵۴) اور یہ کہ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) اور یہ بھی کہ اگر تم اپنے دین پر استقامت سے قائم رہو گے تو تمہارے لئے خدا تعالیٰ کے فرشتے بشارتیں لے کر آسمانوں سے اتریں گے.پس ان وعدوں پر کامل یقین رکھتے ہوئے ہم اپنے رب رحیم سے امید ، رجا اور تو گل کا تعلق رکھتے ہیں اور ہم اسی سے یہ امید رکھتے ہیں کہ جو رمضان ابھی گزرا ہے اس میں ہمیں جس قدر بھی تھوڑی بہت دعائیں کرنے اور عبادات بجالانے کی توفیق ملی ہے.خدا تعالیٰ روئی کے ان چند گالوں کو قبول کر لے اور وہ اپنی رضا کی جنتوں میں ہمیں اس دنیا میں بھی داخل کرے اور اس دنیا ( آخرت) میں بھی ہمیں جنتوں کا وارث بنائے.ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ایک بندہ اگر ایک لحظہ کے لئے اپنے رب سے تعلق کو توڑلے تو اس کی یہ لغزش اس کے لئے یقینی اور کامل ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے اور ہم اس یقین پر بھی قائم ہیں کہ جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق پیار کا اور فدائیت کا اور جاں نثاری کا قائم رہے گا اور جب تک ہم اس کی ذات اور صفات کی کامل معرفت رکھیں گے اور کامل یقین کے ساتھ اس کی کامل قدرتوں پر ایمان لائیں گے تو وہ اپنی قدرتوں کے نظارے ہماری زندگی میں ہمیں دکھلاتا رہے گا.پس ہم امید رکھتے ہیں کہ رمضان میں جو بھی تھوڑا بہت خدا کے حضور پیش کیا گیا اس کے نتیجہ میں یہ عید ہمارے لئے واقع میں اور حقیقی معنی میں دین و دنیا کے لحاظ سے خوشی کا دن ہے.ہماری دعا بھی ہے اور ہمیں امید بھی ہے کہ ایسا ہی ہوگا.اللہ تعالیٰ اتنا فضل کرنے والا ہے اور اتنی رحمتیں نازل کرنے والا ہے کہ ہماری زبان تو کیا اگر ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ بھی خدا کا شکر اور حمد کرنے لگ جائے تب بھی ہم اس کا شکر ادا نہیں کر سکتے.جب ہم اپنی کمزور یوں اور اپنی کوتاہیوں اور اپنے نقائص کی طرف دیکھتے ہیں تو ہم کانپ اٹھتے ہیں لیکن جب ہم اپنے پیار کرنے والے رب

Page 111

خطبات ناصر جلد دہم ۸۷ خطبہ عیدالفطر ۱۶ ستمبر ۱۹۷۷ء کے سلوک پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمارے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور ہم اس یقین پر قائم ہو جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے سپر د جو عظیم کام کیا ہے یعنی بنی نوع انسان کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے کا کام.اس مقصد میں ہماری حقیر کوششیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نتیجہ میں کامیاب ہوں گی اور نوع انسانی اس زمانہ میں جو مہدی علیہ السلام کا زمانہ ہے یعنی وہ مہدی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند ہیں اور جن کا زمانہ ایک ہزار سال پر ممتد ہے اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ مہدی علیہ السلام کی جماعت کو توفیق دے گا کہ وہ خدا کی راہ میں مقبول تدابیر اختیار کریں اور مقبول مجاہدے بجالائیں اور مقبول دعاؤں کی توفیق پائیں یہاں تک کہ ان کے سپر د جو کام ہوا ہے اللہ تعالیٰ انہیں اس میں کامیابی عطا کرے گا تب نوع انسانی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی اور انسان اپنی ترقی اور ارتقا کے لحاظ سے اپنے عروج کو پہنچ جائے گا اور ساتویں آسمان کو چھونے لگے گا.اس کے بعد صدیاں ایسی گزریں گی جب سارے انسانوں کی باہمی کوشش اور تد بیر یہ ہوگی کہ وہ اس بلند اور ارفع مقام پر ٹھہرے رہیں اور نیچے کی طرف تنزل کی طرف نہ جائیں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتیں ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیض کے نتیجہ میں مہدی علیہ السلام کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ یہ آخری ہزار سال جو مہدی کا زمانہ ہے یہ نیکی اور تقویٰ اور صلاحیت اور روحانی طور پر ترقیات کا زمانہ ہے اس میں جماعت احمدیہ کو نسلاً بعد نسل خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ سب کچھ پیش کر دینا چاہیے جو وہ ہم سے مانگتا ہے اور وہ سب کچھ حاصل کر لینا چاہیے جو وہ ہمیں دے رہا ہے یعنی وہ انعامات کہ جن سے بڑھ کر کوئی چیز ہمارے تصور میں نہیں آسکتی اور خود وہ نعماء بھی ہمارے تصور میں نہیں آسکتیں جو آخرت میں ملنے والی ہیں.خدا تعالیٰ کے پیار کا تو ایک ایک بول ایسا ہے کہ ہر دو جہان اس پر قربان کئے جاسکتے ہیں.پس وہ خدا جو ہر وقت اپنی رحمتوں سے ہمیں نواز نے والا ہے اس کا کس منہ سے ہم شکر ادا کریں.لیکن جتنا شکر ادا کر سکتے ہیں خدا کرے کہ اتنا شکر ادا کرنے کی ہمیں توفیق ملتی رہے.اب ہم دعا کر لیتے ہیں.عید کے لحاظ سے ایک نیا دور شروع ہو گیا اگلی چھوٹی عید تک یہ

Page 112

خطبات ناصر جلد دہم ۸۸ خطبہ عیدالفطر ۱۶ رستمبر ۱۹۷۷ء زمانہ جو چاند کے لحاظ سے بارہ مہینہ کا زمانہ ہے اس میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ رحمتوں کے وارث ہوں اور شاہراہ غلبہ اسلام پر ہمارا قدم آگے سے آگے بڑھنے والا ہوتا کہ خدا تعالیٰ کے جلال کے جلووں اور اس کے جمال کی چہکاروں کو دنیا دیکھے اور لوگ اپنے پیار کرنے والے رب کے حسن و احسان سے گھائل ہو کر خدا کے عشق میں مست ہو جا ئیں اور حقیقی خوشی حاصل کرنے والے بن جائیں.روزنامه الفضل ربوہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۷ء صفحه ۳،۲)

Page 113

خطبات ناصر جلد دہم ۸۹ خطبہ عیدالفطر ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء عید کی خوشی معمول سے زیادہ قربانیاں پیش کرنے کے بعد عطا کی جاتی ہے خطبہ عید الفطر فرموده ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد فضل لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج عید ہے آپ کو اور ساری دنیا میں بسنے والے احمدیوں کو عید مبارک ہو اور جو عید کی خوشیوں سے محروم ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے لئے بھی عید کی برکتوں کے سامان پیدا کرے.عید عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں بار بار آنے والی خوشی.لغوی لحاظ سے اس سے زیادہ اس کے معنی نہیں.اسلامی اصطلاح میں بار بار آنے والی تین عیدوں کا ذکر ہے ایک عید الفطر ہے.ایک عید النحر ہے.عید الفطر رمضان کے بعد آتی ہے جو آج ہم منا رہے ہیں اور دوسری قربانیوں کی عید ہے جو حج کے موقع پر آتی ہے اور تیسرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر جمعہ بھی مومن کے لئے عید ہوتا ہے.پس عید اصطلاحی معنوں میں بار بار آنے والی خوشی کو کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہماری عید یہ ہے کہ مل جل کر خوشی منائیں اور اپنی طاقت اور استعداد کے اندر اچھے کھانے کھائیں، اچھے کپڑے پہنیں.اس میں ایک سبق تو ہمیں یہ دیا گیا ہے کہ حقیقت یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر انسان کو کھانا بھی نہیں کھانا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہمیں

Page 114

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء یہ حکم دیا ہے کہ کھاؤ اس لئے ہم کھاتے ہیں اور یہ حکم خاص طور پر عید کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے کہ خوشی کے موقع پر اچھے کھانے کھاؤ.مسلمانوں کے اجتماعی موقع پر اپنے خاندان میں، اپنے دوستوں میں اور اپنی جماعت میں خوشی مناؤ.عید مبارک دو.ایک دوسرے کی خوشی میں شامل ہو.پس عید کے دن ایک مسلمان کے لئے بڑی خوشی کا سماں پیدا کر دیا ہے.مختلف ذہنوں میں خوشی کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں.مثلاً کوئی شخص اس لئے خوش ہوتا ہے کہ اس کے گھر بچہ پیدا ہو گیا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک رحمت ہے اگر کوئی حدود کے اندر رہتے ہوئے بچے کی پیدائش پر خوشی منائے تو یہ جائز ہے اور لوگوں کے لئے ایسی خوشیاں باعث برکت ہیں بعض لوگ اس لئے بھی خوش ہو جاتے ہیں کہ ان کے گھر بہت سا مال حرام آگیا یہ ان کی ذہنیت ہے اور کسی کے لئے خوشی کا ایک موقع یہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ اس نے اپنے دشمن کو ہلاک کر دیا اور اس طرح اسلام جو زندگی دینے کے لئے آیا تھا، اس کا غلط استعمال بھی کیا اورا اپنی غلط ذہنی اقدار کے نتیجہ میں اپنے لئے خوشی کا سامان بھی پیدا ہو گیا کہ ہمارا دشمن مارا گیا بغیر کسی قانون کے اور بغیر کسی قانونی جواز کے.اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.پس اگر دنیا کے انسان مختلف وجوہات کی بنا پر خوشیاں مناتے ہوں تو ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ ہم کس وجہ سے اپنی عید کی خوشی مناتے ہیں جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لئے یہ جو خوشیاں رکھی گئی ہیں ان کا تعلق ایسے موقع کے ساتھ ہے، ایسے ایام کے ساتھ ہے جن میں خاص طور پر معمول سے زیادہ قربانیاں خدا کے حضور پیش کی جاتی ہیں اور عام معمول سے زیادہ خدا کی عبادتیں کی جاتی ہیں مثلاً ماہ رمضان ہے.میں بہت دفعہ پہلے بھی بتا چکا ہوں اس میں بہت سی عبادتیں اکٹھی ہو گئی ہیں.یہ روزوں کا مہینہ ہے، ماہ صیام ہے اس میں ہم روزے رکھتے ہیں یہ خاص طور پر نوافل ادا کرنے کا مہینہ ہے اس میں ہم تراویح کی نماز پڑھتے ہیں جو اجتماعی صورت اختیار کر گئی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت نہیں بلکہ خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ لوگوں کو رات کے پچھلے حصہ میں دیکھا کہ وہ مسجد میں منتشر

Page 115

خطبات ناصر جلد دہم ۹۱ خطبہ عید الفطر ۴ ستمبر ۱۹۷۸ء حالت میں نفل پڑھ رہے ہیں یعنی مسجد میں بکھرے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں کر رہے ہیں.آپ کو یہ خیال آیا کہ یہ اکٹھی نماز کی شکل میں اجتماعی دعائیں ہوں تو اس میں بھی ایک برکت ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری اور میرے خلفاء کی سنت کی اتباع کرو.اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک نئی چیز سکھا دی جسے آپ نے نیک نیتی کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ جاری کر دیا کیونکہ آپ نے دیکھا کہ ایک ادھر سے دعاؤں کی آواز آرہی ہے ایک ادھر سے آرہی ہے.لوگ ایک دوسرے کی آوازوں سے ڈسٹرب (Disturb) ہوتے ہوں گے.اس لئے آپ نے ان کو اکٹھا کر دیا اور اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے تراویح کی نماز باجماعت شروع ہو گئی.اور اس کا جواز جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میری اور میرے خلفاء کی سنت کی اتباع کرو تو یہ زائد نوافل ہیں جو خاص طور پر رمضان میں پڑھے جاتے ہیں.بعض کمزور لوگ نہیں بھی پڑھتے.بہت سے لوگ سارا سال نوافل پڑھتے رہتے ہیں.سوائے اس کے کہ بعض اوقات ان کو کوئی خاص مجبوری پیش آجائے لیکن جو نہیں پڑھتے ان کے لئے یہ ایک اچھا موقع ہے.رمضان میں لوگ صبح اٹھتے ہیں چھوٹے بچے بھی اٹھ جاتے ہیں سحری کا انتظام ہو رہا ہوتا ہے.سحری کے وقت بڑی چہل پہل شروع ہو جاتی ہے.غرض بہت سی نفلی عبادتیں اکٹھی ہو گئیں پھر کثرت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت ہے جو دوسرے مہینوں میں نہیں ہوتی.رمضان میں کثرت سے تلاوت قرآن کریم کا حکم ہے.پھر اپنے اخلاق کے محاسبہ کرنے کا خاص طور پر حکم ہے مثلاً کسی کو گالی نہیں دینی سختی نہیں کرنی.اول تو کوئی مسلمان گالی دیتا ہی نہیں.اب بعض لوگ دینے لگ گئے ہیں.بہر حال سخت کلامی نہیں کرنی.پیار سے بات کرنی ہے.نرمی سے بات کرنی ہے.اخوت کا مظاہرہ کرنا ہے.بدخلقی نہیں دکھانی.تیوری نہیں چڑھانی اور اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص طور پر ارشاد ہے کہ اپنے نفسوں کو رمضان کے مہینے میں قابو میں رکھو.یہ ایک اور عبادت ہے پھر کثرت سے صدقات دینے کی سنت نبوی ہے.حدیثوں میں آتا

Page 116

خطبات ناصر جلد دہم ۹۲ خطبہ عید الفطر ۴ ستمبر ۱۹۷۸ء ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے سخی تھے ہر وقت ہی سخاوت کیا کرتے تھے لیکن رمضان کے مہینے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہوتی تھی.یہ بہت ساری عبادتیں جب اکٹھی ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں آپ کی امت نے بھی ماہ رمضان میں حتی المقدور عبادتیں کیں تو خوشی کے سامان پھر دو پہلو سے پیدا ہوتے ہیں.ایک ان کے لئے جن کی یہ عبادات مقبول ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اس کی خوشخبری بھی دے دیتا ہے براہ راست یا کسی اور ذریعہ سے یا ان لوگوں کے لئے جن کے لئے حدیث میں آتا ہے کہ جس قسم کا تم مجھ سے ظن رکھو گے.میں اسی قسم کا تم سے سلوک کروں گا تو دوست کہتے ہیں کہ ہم نے حقیر کوششیں اپنے رب کے حضور پیش کر دیں ہم اپنے رب سے امید رکھتے ہیں کہ ہماری یہ حقیر پیشکش ہمارا رب قبول کرے گا اور ہمیں اس پر انعام دے گا اور اپنی رحمت کا ہم سے سلوک کرے گا اور اس طرح پر عید کا سماں پیدا ہو جاتا ہے.جب خدا تعالیٰ قبول کرتا ہے تو جو عبادت کرنے والا ہے اسے بھی علم دیتا ہے اور بعض دوسروں کو بھی علم دیتا ہے.ہمارے لٹریچر میں ہے کہ شروع زمانے میں ایک بزرگ ولی اللہ تھے.خدا تعالیٰ ان سے ہمکلام ہوتا تھا وہ ایک دفعہ حج کرنے گئے تو حج کے دور ان خانہ کعبہ میں ان کو خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اس سال جتنے لوگ حج کرنے آئے ہیں سب کے حج رد کر دیئے گئے.کسی کا حج بھی قبول نہیں کیا گیا.وہ بڑے پریشان ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی خبر یہ دی ہے پھر خدا تعالیٰ نے ان کو یہ فرمایا کہ ہمارا ایک غریب بندہ دمشق کے شہر کی فلاں گلی کے فلاں مکان میں ہے وہ حج کرنے نہیں آسکا لیکن ہم نے اس کا حج قبول کیا اور اس کے طفیل اور بہت سے لوگوں کا حج بھی قبول کر لیا ہے.جب حج کے دن گزر گئے اور لوگوں نے ارکان حج پورے کر لیے تو ان کے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ میں جا کر اس شخص کو تو دیکھوں کہ جس کی وجہ سے ہمارا حج بھی قبول ہو گیا یعنی خدا تعالیٰ کا ولی الہی پیار کو حاصل کرنے والا اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تیرا حج بھی قبول نہیں ہوا، قبول ہوا ہے تو اس شخص کی وجہ سے ہوا ہے.غالباً ان کو کشف میں اس شخص کے گھر اور گلی کا پورا نظارہ دکھا یا گیا تھا چنانچہ وہ حج کرنے کے بعد دمشق پہنچے اور اس کو تلاش کیا.اس کے گھر پہنچے تو دیکھا وہ ایک

Page 117

خطبات ناصر جلد دہم ۹۳ خطبہ عیدالفطر ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء غریب شخص ہے.جھونپڑی کے اندر رہنے والا خاندان ہے.اس کو جا کر کہنے لگے کہ تمہارا حج کرنے کا ارادہ تھا؟ اس نے کہا ہاں ارادہ تو تھا انہوں نے کہا لیکن تم حج کر نہیں سکے.کہنے لگا ہاں نہیں جا سکا.پوچھا کیوں نہیں جا سکے؟ کہنے لگا کہ حج کرنے کا بڑا شوق تھا، یہ خواہش تھی کہ میں اس عبادت کی بھی توفیق پاؤں اس لئے آنہ آنہ، اٹھنی اٹھنی ، روپیہ روپیہ ( ہم اپنی زبان میں بات کرتے ہیں ان کے سکے تو اور تھے ) جوڑ کر سالہا سال کے بعد اس سال میرے پاس اتنی پونجی جمع ہوگئی کہ میں (حکم ہے کہ زادِ راہ کا میسر آنا ضروری ہے ) حج کر سکتا تھا.میں نے ارادہ کیا کہ میں حج کرنے جاؤں.میں حج پر جانے کو تیار تھا.میرے گھر کے پہلو میں میری طرح ہی کا ایک غریب آدمی رہتا ہے.میری بیوی حاملہ تھی.میرے ہمسائے کے گھر سے گوشت پکنے کی خوشبو اٹھی.بعض دفعہ حاملہ عورت کو اتنی زبردست خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر پوری نہ کی جائے تو بچے پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے.میری بیوی نے کہا ہماری دوستی ہے.ان کے گھر گوشت پک رہا ہے وہاں سے تھوڑا سا سالن لے آؤ، میری خواہش پوری ہو جائے.وہ کہنے لگا ہم بھی روکھی سوکھی کھانے والے تھے اس لئے میں نے برتن اٹھایا اور اپنے ہمسائے کے گھر میں گیا اور اس کو ساری بات بتائی کہ اس طرح میری بیوی کے دل میں خواہش پیدا ہوئی ہے.مجھے کچھ تھوڑا سا سالن دے دو.اس نے کہا نہیں ! میں تمہیں سائن نہیں دوں گا.میں نے پوچھا کیا وجہ ہے؟ کہنے لگا بات یہ ہے کہ ہم تین دن سے بھوکے تھے اور رات کو بھی مشکل سے بچوں کو بہلا پھسلا کر بھوکا سلا یا.صبح اٹھے تو ہمارے گھر کے عین سامنے ایک گدھا مرا پڑا تھا تو میری بیوی نے کہا اب ہماری حالت ایسی ہے کہ اسلام نے ایسی حالت میں حرام گوشت کھانے کی بھی اجازت دی ہے تم مرے ہوئے گدھے کا گوشت لے آؤ میں سالن پکاتی ہوں.بچے بھوکے مر رہے ہیں اس گوشت سے فائدہ اٹھاتے ہیں.پس یہ تو مرے ہوئے گدھے کا گوشت ہے.میری تو اضطراری حالت تھی اور ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس قسم کے گوشت کے کھانے کی اجازت دی ہے مگر تمہارے گھر میں روکھا سوکھا کھانے کے لئے ہے تمہیں ایسا گوشت کھانے کی اجازت نہیں.اس لئے تمہیں میں نہیں دے سکتا.اس نے اس بزرگ کو کہا کہ میری طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے وہ تھیلی جوز ادراہ

Page 118

خطبات ناصر جلد دہم ۹۴ خطبہ عیدالفطر ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء کے لئے اشرفیوں کی بھر کر رکھی ہوئی تھی ، گھر سے وہ تھیلی اٹھا کر اپنے ہمسایہ کو دے دی اور حج پر نہیں گیا.اب دیکھو خدا تعالیٰ نے اس شخص کا حج قبول کیا اور اس کی خاطر اور بہت ساروں کا حج قبول کیا.پس بعض لوگوں کی قبولیت دعا یا قبولیت عبادت یا قبولیت ایثار کا یہ عالم ہے کہ جب خدا تعالیٰ اپنے لئے اپنے بندہ کے دل میں محبت اور اخلاص اور پیار دیکھتا ہے تو اس کی دعا قبول کرتا ہے اور اس کی اطلاع دیتا ہے اور بعض دفعہ اطلاع نہیں بھی دیتا جن کو اطلاع نہیں دیتا ان میں سے بھی بہتوں کی دعائیں قبول ہوئی ہوتی ہیں لیکن بعض کی نہیں بھی ہوتیں.تب بھی خدا کا ہر بندہ جسے خدا نے کہا ہے حسن ظن رکھو، اس حسن ظن کی وجہ سے وہ عید کرتا ہے خوشی مناتا ہے.خدا نے کہا ہے کہ رمضان کی عبادت کی تھوڑی یا بہت تمہیں توفیق ملی اب میں تمہارے لئے ایک دن قبولیت کی علامت کا رکھتا ہوں اس دن تم خوشیاں مناؤ.یہ انفرادی عید ہے امت محمدیہ میں.اجتماعی عید میں بھی شروع دن سے آتی رہی ہیں کہ جس وقت مثلاً ۲۰ سال تک ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی شان ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت ہی سخت تکالیف کا سامنا کیا اور اس کے بعد جب مکہ فتح ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین میں اتنی بھی طاقت نہیں تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کرتے.انہوں نے بغیر لڑائی کے ہتھیار ڈال دیئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی طاقت میں تھے خدا کے فضل اور رحمت سے اور دشمن اتنا مغلوب ہو چکا تھا اپنی سوچ میں بھی اور.خیالات میں بھی اور سمجھتے تھے کہ اب وہ اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اُن سے سلوک کیا وہ یہ تھا کہ جاؤ تم سب کو میں معاف کرتا ہوں.پس یہ دن مسلمانوں کے لئے بڑی زبردست عید کا دن تھا.عید الفطر اور عید النحر سے بھی زیادہ خوشیوں کا دن تھا.خدا تعالیٰ نے اپنی شان دکھائی.وہ لوگ جو اپنے گھروں سے بے گھر کئے گئے اور اپنے رشتہ داروں سے جدا کئے گئے اور جن کو قتل کیا گیا اور نگا لٹا کر ان پر تپتے ہوئے پتھر رکھے گئے ، اس حالت سے خدا تعالیٰ نے ان کو نکالا اور اس قسم کی فتح عطا کی کہ جس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے.پس یہ اجتماعی عید ہے جس کی امت مسلمہ نے بڑی خوشی منائی ہوگی.ایک عید کا دن ہے جو

Page 119

خطبات ناصر جلد دہم ۹۵ خطبہ عیدالفطر ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء بار بار آتا ہے اور جو شیطان ہے اس کو خدا تعالیٰ نے پہلے دن سے اجازت دی ہے ، وہ بار بار حملے کرتا ہے اور وہ اجتماعی عیدیں مناتے ہیں مثلاً ہر بزرگ جو دنیا میں مختلف اوقات میں مختلف علاقوں میں بدعات کے خلاف جہاد کرنے کے لئے کھڑا ہوا اور کامیاب ہوا وہ اس علاقہ کے مسلمانوں کے لئے بڑی زبردست عید کا دن تھا.بڑی خوشیوں کا دن تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بدعات کے خلاف جہاد میں ان کو کامیاب کیا اور ان کی کوششوں کو اور قربانیوں کو اور ایثار کو اور ان کے اس فعل کو کہ انہوں نے اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے حضور، دین کو قائم کرنے کے لئے پیش کی تھیں، قبول کیا.اس قبولیت کے بعد جو دن ان کے اوپر آئے وہ قربانیوں کے دن تھے.ہماری تاریخ میں یہ عیدیں بھی علاقے علاقے میں ، قوم قوم میں بکھری ہوئی ہیں یہاں تک کہ ہمارے زمانے میں ( سید نا حضرت اقدس) کی بعثت ہوئی اور اس کے ساتھ غلبہ اسلام کا ایک عظیم جہاد شروع ہو گیا.اس وقت سے اب تک جب بھی خدا تعالیٰ اپنے خاص فضلوں اور نشانوں کے ساتھ غلبہ اسلام کی شاہراہ پر جماعت احمدیہ کا ایک قدم اور آگے بڑھاتا ہے، ہمارے لئے ایک اجتماعی عید کا دن ہوتا ہے.( سید نا حضرت اقدس) کے خلاف ساری دنیا اکٹھی ہوگئی کیا مسلمان اور کیا عیسائی ، کیا ہندو اور کیا سکھ ،سب کے سب مخالف ہو گئے.اس وقت کون تھا جس نے آپ کا ساتھ دیا.کوئی نہیں تھا.آپ اکیلے تھے مگر خدا تعالیٰ جو ساری طاقتوں کا مالک ہے وہ آپ کے پیچھے کھڑا تھا اور ایسا بار بار ہوتا رہا ہماری ساری تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے.ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ آپ دہلی تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ آپ کے بارہ ساتھی تھے.وہاں کے علماء نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ مناظرہ کریں، تقاریر ہوں گی.آپ نے کہا میں تمہارا مہمان ہوں.تم حفظ امن کی ذمہ داری لو تو ٹھیک ہے.تم جہاں کہو میں آ جاؤں گا.انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ ہمارے مہمان ہیں.ہم ذمہ دار ہیں کہ کوئی بدامنی نہیں پیدا ہو گی.چنانچہ وقت مقرر کیا اور عین اس وقت جب آپ کوٹھی میں تھے ( یہ پرانے زمانے کی ایک حویلی تھی جس کے دو احاطے تھے یعنی باہر کی بھی دیوار تھی اور پھر اندر زنانہ حصہ کی بھی دیوار تھی وہاں رہتا کوئی نہیں تھا.آپ ہی وہاں

Page 120

خطبات ناصر جلد دہم ۹۶ خطبہ عیدالفطر ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء ٹھہرے ہوئے تھے ) مخالفین نے اوباش نوجوانوں کو بھیجا اور ان شیروں نے جو کئی سو کی تعداد میں تھے ان بارہ آدمیوں پر حملہ کیا.باہر کی دیوار توڑی اندر داخل ہو گئے اور جو دوسرا دروازہ تھا اندر کی چار دیواری کا اس کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے تو کوئی الہی تدبیر ہوئی ہمیں نہیں پتہ کیا ہوئی لیکن وہ لوگ وہاں سے بھاگ گئے.ادھر علماء نے شور مچادیا کہ وقت پر مناظرہ کے لئے نہیں پہنچے.تم نے حفظ امن کی ذمہ داری لی تھی، گھر پر حملہ کر واد یا تو آتے کیسے؟ پس یہ بھی عید کا دن تھا ا اور عید کا دن اس طرح بنا کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ انہوں نے وعدہ کیا اور پورانہیں کیا.اب ہم تجھے کہتے ہیں کہ تو ہماری حفاظت میں ہے.تجھے ہماری عصمت حاصل ہے.اس لئے ان سے کہو تم جہاں کہتے ہو میں اپنی ذمہ داری پر وہاں آ جاتا ہوں انہوں نے کہا جا مع مسجد دہلی میں آجائیں.چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے.کچھ لوگ دہلی کے شرفاء تھے وہ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ صرف شرارت کرنے پر تلے ہوئے ہیں.وہ بھی وہاں پہنچے اور بغیر کہے حکومت نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے انگریز ایس پی کو بھیجاوہ پولیس لے کر پہنچ گیا انتظام کرنے کے لئے.آپ مسجد میں تشریف لے گئے اور وہ باہر پھر رہے تھے اور جھگڑا کیا اور شرائط نہ مانیں.آخر دہلی کے جو غیر احمدی رؤسا تھے انہوں نے کہا.یا حضرت! یہ تو شرارت کر رہے ہیں.انہوں نے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی.کافی دیر ہوگئی ہے، آپ چلیں تو انہوں نے حملہ کیا.(سید نا حضرت اقدس ) اپنے سارے ساتھیوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آرام سے گھر آگئے لیکن کچھ لوگ زخمی ہوئے ان کی شرارتوں سے اور پتھراؤ سے اور وہ زخمی ہونے والے پولیس والے تھے جو وہاں امن قائم کرنے کے لئے گئے تھے.(حضرت اقدس ) اور آپ کے ساتھیوں کو خراش تک نہ آئی اور آرام سے گھر واپس آگئے کیونکہ خدا نے فرمایا تھا کہ میں تمہاری حفاظت کرنے والا ہوں ، جاؤ جہاں یہ کہتے ہیں تو چلے گئے دلیری کے ساتھ.پہلے بھی آپ نے کوئی پرواہ نہیں کی ہوگی.پس یہ خدا تعالیٰ کے انبیاء اور خدا تعالیٰ کے پیاروں کی شان ہوتی ہے اور ان کی جماعتوں کی بھی کہ وہ ڈرتے کسی سے نہیں.خدا تعالیٰ ان کی حفاظت کرتا ہے.حضرت مصلح موعود ( نور اللہ مرقدہ) کو جو جلسہ مصلح موعود ۱۹۴۴ء میں دہلی میں ہوا تھا اس

Page 121

خطبات ناصر جلد دہم ۹۷ خطبہ عیدالفطر ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء پر چالیس ہزار آدمیوں نے حملہ کیا تھا اور میں تھا اس وقت خدام الاحمدیہ کا صدر.میں کچھ رضا کار لے کر حفاظت پر مامور تھا.میں نے ان کو ہدایت کی کہ کسی سے لڑنا نہیں.ہمیں اس کی اجازت نہیں ہے کہ کسی کو کچھ کہیں لیکن ان کو اتنا قریب بھی نہیں آنے دینا کہ اگر پتھر پھینکیں تو ہمارے پنڈال میں آکر گریں.اس سے ابتری پھیلے گی.چنانچہ پرے کھڑے ہو گئے اور ایک وقت میں حضرت مصلح موعود ( نور اللہ مرقدہ) کو خیال آیا کہ بہت زیادہ نوجوان باہر نہ چلے جائیں تو آپ نے کہا کہ سو سے زیادہ خدام باہر کھڑے نہ ہوں.لاؤڈ سپیکر کام نہیں کر رہا تھا جس کی وجہ سے وہاں خرابی پیدا ہوگئی تھی تو خیر خدام دوڑے ہوئے میرے پاس آئے کہ حضرت صاحب کا یہ حکم ہے میں نے کہا ٹھیک ہے ابھی دیکھتے ہیں.پہلے میں نے بھی نہیں دیکھا تھا.بس ساتھی لئے تھے اور کام شروع کر دیا تھا.جب گنتی کی تو ہم سب ستّر تھے.سو بھی نہیں تھے اور ۴۰ ہزار کا مجمع ہمارے سامنے تھا.خوف اگر کسی کے دل میں تھا تو ان کے دل میں تھا ہمارے دل میں نہیں تھا.خدا تعالیٰ تو اپنے نشان دکھاتا ہے.چھوٹے چھوٹے نشان بھی اور بڑے بڑے بھی.خدا تعالیٰ کا ایک نشان میں بتا دیتا ہوں.میں نے دور سے دیکھا.ہم سے غفلت یہ ہوئی کہ عورتیں جلسہ میں شامل ہوئیں تھیں اور قنات تھی Open space میں.ڈبل قنات لگائی ہوئی تھی ہماری جماعت نے.ایک تو عورتوں کے جلسہ گاہ کے ارد گرد تھی اور چالیس، پچاس قدم وہاں سے ہٹ کر دوسری قنات لگائی ہوئی تھی.اچانک میری نظر پڑی تو میں نے دیکھا وہاں ہمارا کوئی رضا کا رنہیں اور ایک پہلوان تین ، چارمن کا بڑا مضبوط ، دور سے دیکھا کہ وہ تیر کی طرح سیدھا عورتوں پر حملہ کرنے کے لئے دوڑا چلا جارہا ہے.اس وقت وہاں کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا تھا.ہم نے کہا دیکھیں یہاں ہوتا کیا ہے؟ خدام تو بکھرے ہوئے تھے.اس لئے ہم نے کہا دیکھتے ہیں.بڑی استغفار کی کہ غفلت ہوگئی ہے.وہاں وہ قنات کے پاس گیا اور جھکا اور قنات کے بانس کو اکھاڑا اور ہمیں دور سے یہ نظر آیا کہ کسی نے اندر سے سوئی ماری ہے اس کے سر پر اور وہ واپس بھا گا.میں حیران کہ وہاں رضا کار کوئی ہے نہیں اور وہاں کوئی عورت آگئی سوٹی مارنے کے لئے.آخر بات کیا ہوئی ہے؟ بہت استغفار کیا کہ وہاں رضا کارکھڑا کرنا چاہیے تھا جب جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس نے

Page 122

خطبات ناصر جلد دہم ۹۸ خطبہ عید الفطر ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء جھٹکے کے ساتھ بانس کو زمین سے باہر نکالا تھا وہ دیمک خوردہ تھا.جھٹکے سے وہ اپنے نصف سے ٹوٹا اور اسی بانس کا اوپر کا حصہ اس کے سر پر پڑا اور اس طرح وہ وہاں سے بھاگ گیا.خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ تمہاری قربانی قبول کرتا ہوں اور اس طرح بھی خدا اپنی قبولیت کا اظہار کرتا ہے خدا کہتا ہے جہاں تم نہیں پہنچتے وہاں میرے فرشتے پہنچ جاتے ہیں.بہت سی چیزیں دیکھیں.ان باتوں کے متعلق کئی گھنٹے تقریر کر سکتا ہوں جو میرے حافظہ نے یادرکھی ہوئی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے نشان ہیں.میں آپ کو بتا یہ رہا ہوں کہ ایک اجتماعی عید ہوتی ہے لیکن آج کی عید انفرادی عید ہے.ہر فرد نے خدا تعالیٰ کی عبادت کی ، اس کی تسبیح کی اور اس کی تحمید کی ، اس کے حضور جھکا ، اس سے دعائیں مانگیں ، اس سے خیر و برکت کو چاہا اپنے لئے ، اپنے خاندان کے لئے ، جماعت کے لئے، دنیا کے لئے بھی.بہر حال یہ عبادتیں انفرادی ہیں.اکٹھا جو کیا ہے تو وہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا اور نماز تراویح کو اکٹھا کر دیا.باقی تو فرد فرد کی عبادت ہے لیکن اجتماعی عیدیں بھی آتی ہیں اور اسی طرح بار بار آتی ہیں اور ان کا بعد میں یہ نقشہ بنتا رہا ہے چودہ سوسال میں کہ خدا تعالیٰ ایک فتح عطا کرتا ہے.پھر کچھ عرصہ کے بعد ظلمات کی یلغار ہوتی ہے یعنی مخالف حملہ کرتے ہیں بڑا سخت حملہ، بڑا منصوبہ، بڑے پیسے، پیچھے بڑی طاقت ، اقتدار ، حکومتیں ان کے قبضے میں ہوتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی پیاری جماعت یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں.وہ یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے پاس چونکہ خدا ہے اس لئے سب کچھ ہمارے پاس ہے، تو ہم ان کی کیا پرواہ کرتے ہیں.فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوني (المائدة : ۴) کی آواز ان کے کان میں پڑتی ہے اور وہ کسی سے نہیں ڈرتے.آرام سے بیٹھے رہتے ہیں.۱۹۷۴ء کے واقعات کا آپ کو زیادہ تفصیل سے علم نہیں ہے.ہم نے ۲۴، ۲۴ گھنٹے لگا تار ایک دن کے بعد دوسرے دن خدا تعالیٰ کے نشان دیکھنے میں اپنا وقت گزارا ہے.خدا تعالیٰ کی بڑی شان نظر آتی تھی.خدا تعالیٰ احمدیوں کی جانوں کی حفاظت کرتا تھا.وہ ان کے مال کی قربانی لے لیتا تھا.بعض کی جانوں کی قربانی بھی لی لیکن اگر یہی دنیا ہو اور مرنے کے بعد کوئی اور

Page 123

خطبات ناصر جلد دہم ٩٩ خطبہ عیدالفطر ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء دنیا نہ ہو پھر تو Total Loss ہو گیا نا.لیکن اگر مرنے کے بعد بھی دنیا ہے اور خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں اور وہ زندگی اس سے ہزار درجہ بلکہ کروڑ درجہ بلکہ بے شمار درجہ زیادہ حسین اور زیادہ اچھی اور زیادہ سکھ والی ، زیادہ پیار والی، زیادہ سرور اور لذتوں والی ہے تو کسی کو کوئی نقصان نہیں.لیکن وہ بھی بہت کم لیا اور دنیا حیران ہوگئی یہ ہو کیا رہا ہے.بعد میں اس وقت کی حکومت بڑے بڑے پھنے خاں ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ بات کیا ہوئی ہم نے تو ان کو مار کر پھینک دیا تھا پر لی طرف.لیکن ان کے اوپر اثر ہی کوئی نہیں اور حکومت کے اسی طرح وفادار.ایک دوست اپنے ساتھی وزیر سے کہنے لگے اگر تمہارے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا تا تو کیا تم ملک کے وفادار رہتے.وہ کہنے لگا بالکل نہ رہتا، یہ احمدی پتہ نہیں کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں.ہم نے تمہاری خاطر تو تم سے وفا نہیں کرنی.ہمیں تو خدا تعالیٰ نے کہا کہ جس ملک میں رہو اس سے خیر خواہی کرو، ہر انسان سے پیار اور محبت کا سلوک کرو، کسی کو دکھ نہ پہنچاؤ ، اپنی دعاؤں کے ساتھ اور جتنی تم میں ہمت اور طاقت ہے اس کے ساتھ دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرو.ہمارے خدا نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے.ہم اپنے خدا کی خاطر ساری دنیا کے دکھ سہہ لیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کے لئے تیار نہیں.اس لئے اس قسم کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو پھر عید کا سماں ہمارے لئے پیدا ہو جاتا ہے پھر اور حالات پیدا ہوتے ہیں پھر اور عید.پارٹیشن ہوئی ۱۹۴۷ء میں تو جو لوگ اس آگ میں سے گزرے ہیں وہی جانتے ہیں کہ کیا ہوالیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر تھی.ہجرت کرنی تھی وہ ہجرت کی.چھوڑ دیا وہاں اپنا سارا کچھ.کیا ہیں دنیا کے مال، یہ تو کچھ حقیقت نہیں رکھتے.اصل تو خدا تعالیٰ کے خزانے ہیں جو خالی نہیں ہوتے وہ پھر دے دیتا ہے.تو سب کچھ چھوڑ کر آ گئے تھے.خدا تعالیٰ نے سب کچھ دے دیا.جن احمد یوں سے خدا تعالیٰ نے ۱۹۴۷ء میں قریباً ہر چیز کی قربانی لے لی تھی ان کو پھر سے ہر چیز دے دی اور وہ گھاٹے میں نہیں رہے اور توفیق دی یہ کہ وہاں ایک بھا مبری گاؤں تھا.وہ ہماری بڑی مخالفت کیا کرتا تھا.ایک دفعہ جلسہ کے موقع پر حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور سید زین العابدین صاحب وہاں گئے ہوئے تھے ان کو بھی مار پڑ گئی تھی.اس قسم کی حرکتیں وہ گاؤں کیا کرتا تھا اور ۱۹۴۷ء میں

Page 124

خطبات ناصر جلد دہم 10+ خطبہ عیدالفطر ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء میں نے ان کو تنبیہ کی کہ دیکھو خطرہ ہے ہوشیار ہو جاؤ.بھامبڑی گاؤں میں دو نمبر داریاں تھیں ایک مسلمانوں کی اور ایک سکھوں کی اور یہ مسلمان سکھوں سے مسلمان ہوئے ہوئے اور اب بھی کسی کا چا اور ماموں سکھوں میں تھے.وہ کہنے لگے کہ سکھ کہتے ہیں تم ہمارے جدی پشتی رشتہ دار تمہیں ہم نے کیا کہنا ہے، تم آرام سے بیٹھے رہو اور مجھے خبر آتی تھی کہ سکھوں نے ان پر حملہ کرنا ہے ان کو بڑا سمجھایا کہ وقت پر نکل آؤ.سامان جتنا بچا سکتے ہو یا قیمتی سامان کے علاوہ باقی سامان چھوڑ کر آجاؤ لیکن وہ نہ مانے اور ایک دن ان کو خود ہی پتہ لگ گیا کہ سکھوں نے رات کو قتل کر دینا ہے.پھر جو کپڑے پہنے ہوئے تھے ان میں بھاگے اپنی عزتیں بچا کر اپنی عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ قادیان میں آگئے.اتنے دشمن تھے.وہاں آکر ان کا جو سب سے بڑا لیڈر تھا وہ تھا تو زمیندار اور اسی قسم کا ذہن تھا ، کوئی پڑھا لکھا یا خدا رسیدہ تو تھا نہیں.جو لاٹھی وہ ہمارے خلاف استعمال کرتا تھا وہی لاٹھی لے کر کھڑا ہو گیا، کہنے لگا اب احمدیت کی صداقت کا اس سے بڑا نشان تم نے اور کیا دیکھنا ہے، ساری عمر ان کی مخالفت کرتے رہے اور آج اگر یہ نہ دیں تو ہم کھانا نہیں کھا سکتے ، بھوکے مر جائیں.ہم نے ان کو کپڑے دیئے.ان کو گندم دی پسوا کر.گندم دے دی کہ اپنی مرضی سے پسوا لو ہمارے خرچ پر.رہائش کے لئے مکان دیئے.اس نے لاٹھی کے زور سے ایک لمبی چوڑی فہرست تیار کر وائی اور انگوٹھے لگوا کر کئی سو آدمیوں کی فہرست بیعت کی حضرت مصلح موعودؓ کے پاس بھیجی.آپ نے کہا اس حالت میں میں تمہاری بیعت لینے کے لئے تیار نہیں کہ یہ اپنے پر اعتراض لے لوں کہ جب تم پھنسے ہوئے تھے ، تکلیف میں تھے، کچھ چارہ نہیں تھا ان کے لئے ، اس وقت ان کو احمدی بنالیا.یہ تو جبراً احمدی بنانے والا کام ہے.اب میں تمہاری بیعت نہیں لوں گا.اب بھی وہ لیڈر مجھے ملتا رہتا ہے اور اب بھی وہ اسی دماغ کا آدمی ہے.کہتا ہے آپ نے اس وقت بیعت نہیں لی تھی اب ہم نے احمدی نہیں ہو نا مگر یہ عید تھی ہمارے لئے اور اس آگ میں سے جس کو دنیا آگ سمجھتی تھی اس میں ہمارے لئے عید نظر آ رہی تھی.پس اجتماعی عید میں اس طرح آتی ہیں.ان کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے ایک فرد کو ایک

Page 125

خطبات ناصر جلد دہم 1+1 خطبہ عیدالفطر ۴ ستمبر ۱۹۷۸ء مہینہ بھوکا رہنا پڑتا ہے.تو جو جماعتی اور اجتماعی عید ہے اس کے لئے تو بہت زیادہ قربانیاں کرنی پڑتی ہیں ہمارے خدا میں جو طاقت ہے وہ اپنی قدرت کا نشان دکھا دے گا.اس لئے ہمیں تو کوئی فکر نہیں ہے.اگر دنیا کی خاطر یہ دھندا ہوتا تو پھر ہمیں فکر ہونی چاہیے تھی کہ ہماری دکان لٹ گئی تو کیا کریں گے لیکن جب ہے ہی خدا کا سب کچھ تو خدا آپ ہی حفاظت کرے گا.اس نے ناکام کرنے کے لئے تو مہدی کو نہیں بھیجا دنیا میں.اسلام نے غالب آنا ہے اور جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بشارتیں دی گئی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھولا نہیں ، بعض لوگ بھول جائیں تو ان کی بدقسمتی ہے احمدیوں کو یہ یا درکھنا چاہیے کہ جس نے انہیں ۹۰ سال سے ہزاروں دفعہ ایسے موقع پر بچایا کہ جب بیچنے کا ظاہری صورت میں کوئی امکان نہیں تھا.وہ خدا سوتا نہیں ، وہ خدا کمزور نہیں ہوتا ، وہ اونگھتا بھی نہیں.قرآن کریم نے اس کی یہ شان بیان فرمائی ہے اس کی طاقت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی.وہ اسی طرح زندہ، بیدار، ساری قوتوں والا ہے.اس کا حکم اب بھی اس یو نیورس میں چل رہا ہے.وہ جب کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں تو جس طرح وہ پہلے مدد کرتا تھا اب بھی مدد کرے گا.گھبرانے کی بات نہیں.ہمارا کام ہے کہ ہم قربانیاں دیتے چلے جائیں.ہمارا یہ کام ہے کہ بچنے کی جائز تدابیر کریں یہ نہیں کہ تدبیر ہی نہیں کرنی تدبیر کرنے کا بھی ہمیں حکم ہے.۱۹۷۴ء میں بھی باہر کی جماعتوں نے بڑا اچھا نمونہ دکھایا تھا دنیا میں ظلم کو روکنے کے لئے، دنیا کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی تھی.وہ تو کام ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن ہمیں یہ فکر نہیں ہے کہ ہم نا کام ہو جائیں گے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ خدا کہتا ہے کہ تم نا کام نہیں ہو گے، خدا تعالیٰ کہتا ہے مہدی علیہ السلام کے ذریعہ میں ساری دنیا میں اسلام کو غالب کروں گا اور وہ خدا جونشان دکھا رہا ہے وہ اب بھی جماعت کے اندر اپنے نیک بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ان کو ہدایت کرتا ہے اب ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں مغربی افریقہ کے دوست یہ گواہ ہیں کہ ۱۹۷۰ ء میں خدا نے مجھے ایک نئی سکیم چلانے کے لئے حکم دیا تھا اور اس سے پہلے کے اور بعد کے حالات میں زمین آسمان کا فرق پڑ گیا.اللہ تعالیٰ نے بڑی برکتیں ڈالیں اور جماعت میں وسعت

Page 126

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۴ رستمبر ۱۹۷۸ء پیدا ہوئی اور جماعت کا وقار قائم ہوا.پس خدا تعالیٰ تو اپنا کام کر رہا ہے.وہ بڑی حکمتوں والا ہے.ہمیں کہتا ہے انگلی کٹوا کر شہیدوں میں داخل ہو جاؤ اور میرے پیار کو حاصل کرلو.اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقائق کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور ایک احمدی سے خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کہ وہ اس کے حضور پیش کرے ان حالات میں وہ اس کے حضور پیش کرنے کی توفیق پائے اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کے جو بہترین انعامات کی بشارتیں اور وعدے دیئے گئے ہیں ان کو حاصل کرنے والے ہم بنیں اور اس کے فضلوں اور رحمتوں کو دنیا میں پھیلانے والے ہم بنیں.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور کی اقتدا میں اجتماعی دعا ہوئی اور دعا کے بعد حضور نے از راہ شفقت احباب کو باری باری مصافحہ کا شرف بخشا.(روز نامه الفضل ربوہ ۱۱ جولائی ۱۹۸۲ء صفحہ ۱ تا ۶ )

Page 127

خطبات ناصر جلد دہم ۱۰۳ خطبہ عیدالفطر ۲۵/اگست ۱۹۷۹ء حقیقی خوشی کے حصول کے لئے مقبول اعمال بجالانے کی کوشش کرو خطبہ عید الفطر فرموده ۲۵ اگست ۱۹۷۹ ء بمقام مسجد اقصی ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ماشاء اللہ مستورات کا بڑا اجتماع ہے آج کافی شور یہاں تک پہنچ رہا ہے.اس کے بعد فرمایا:.آج ہماری عید ہے.اللہ آپ سب کے لئے اس عید کو مبارک کرے.میں نے کہا ”ہماری عید اس لئے کہ عید، عید میں فرق ہے.خوشیاں سارا جہاں مناتا ہے ہر قوم کے مذہب کے نیز سیاسی گروپوں کے اپنے تہوار ہیں جنہیں وہ مناتے ہیں.ہر تہوار دوسرے تہوار سے، ہر عید ہر خوشی کا دن دوسری عید اور خوشی کے دن سے مختلف ہے.ہماری عید اس وقت ہوتی ہے جب ہم امید رکھتے ہیں اور جب ہمیں بشارت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پیشکش کو جو ہم نے اس کے حضور پیش کی قبول کر لیا.ماہِ رمضان کے بعد عید اسی چیز کی علامت ہے، ظاہری علامت.یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ کن کے روزے قبول ہوئے ، کن کی تلاوت پر خدا تعالیٰ نے نعماء کی بارش کی ، کن کے صدقہ و خیرات اس کے حضور پہنچے ، کن کی دعائیں سنی گئیں، اخوت با ہمی اور خدمت کے کن جذبات کو اس کی پیاری نگاہ نے پیار سے دیکھا لیکن خدا تعالیٰ نے ایک ظاہری

Page 128

خطبات ناصر جلد دہم ۱۰۴ به عیدالفطر ۲۵ /اگست ۱۹۷۹ء ، علامت امت محمدیہ میں اس عید کو بنایا.ان کے لئے جن کے اعمال قبول ہو گئے حقیقی خوشی کے سامان پیدا کر دیئے اور ان کے لئے ، جن کو توجہ دلائی گئی تھی کہ تم بھی اپنے لئے حقیقی خوشی کے سامان پیدا کر سکتے ہو، اس عید کو ایک علامت بنا دیا کہ مقبول اعمال بجالانے کی کوشش کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حقیقی خوشیاں تمہارے نصیب میں ہوں.خدا کے ایک عاجز بندے کی عید اس وقت ہوتی ہے جب اسے اس کا پیار مل جاتا ہے.خدا کے ایک عاجز بندے کی عید اس وقت ہوتی ہے جب اس پر آسمانوں سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے.خدا کے ایک عاجز بندے کی عید اس وقت ہوتی ہے جب فرشتے اس کے کان میں کہتے ہیں کہ خوش ہو، غم نہ کرو، سارے اندیشے دل سے نکال دو، خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے بڑے انعامات مقدر کر رکھے ہیں.خدا تعالیٰ کے بندے کی عید اس وقت ہوتی ہے جب خدا سے کچھ پالینے کے بعد اسے یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ اور آگے بڑھو اور زیادہ پاؤ.یہ ہے ہماری عید.اور میری دعا ہے کہ آپ سب کے لئے یہ عید مبارک ہو.ان کے لئے بھی جو پاکستان میں بستے ہیں ان کے لئے بھی جو افریقہ میں بستے ہیں جو یورپ میں بسنے والے ہیں جو امریکہ (شمالی اور جنوبی ) میں بستے ہیں جو جزائر کے رہنے والے ہیں اور بنی نوع انسان کے لئے بھی جلد تر اس عید کا دن چڑھے کہ جب سارے انسان ہی اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کی یہ آواز سنیں کہ میں تم سے خوش ہوا تم بھی خوشی مناؤ اور انسان جس غرض کے لئے پیدا کیا گیا تھا بحیثیت مجموعی بنی نوع انسان کی زندگی میں وہ غرض پوری ہوا اور سوائے چند ایک استثناؤں کے سارے کے سارے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جمع ہو جائیں اور موسلا دھار بارش کی طرح برسنے والی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وارث بنیں.ہوتا سب کچھ خدا کے فضل سے ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدْنَا لِهَذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِى لَوْلَا أَن هَدْنَا اللهُ (الاعراف: ۴۴) حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے ”سب تعریف اس خدا کو جس نے ہمیں بہشت میں داخل ہونے کے لئے آپ ہی سب توفیق بخشی ، آپ ہی ایمان بخشا،

Page 129

خطبات ناصر جلد دہم ۱۰۵ به عیدالفطر ۲۵ /اگست ۱۹۷۹ء آپ ہی نیک عمل کرائے ، آپ ہی ہمارے دلوں کو پاک کیا اگر وہ خود مدد نہ کرتا تو ہم آپ تو کچھ بھی چیز نہ تھے.“ پس خدا کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اس کی مدد اور رحمت اور فضل کے ساتھ ایک خوشی کے دن کے بعد دوسرے خوشی کے دن میں داخل ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے دن گذار و اور شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے اجتماعی دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۳ / نومبر ۱۹۷۹ء صفحه ۲)

Page 130

Page 131

خطبات ناصر جلد دہم ۱۰۷ خطبہ عیدالفطر ۱۲ راگست ۱۹۸۰ء خدا کے مومن بندے کی اصل عید رضائے الہی میں ہے خطبہ عیدالفطر فرموده ۱۲ اگست ۱۹۸۰ء بمقام مسجد فضل لندن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج اسلامی عید ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے یہ عید مبارک کرے.اسلام نے بار بار آنے والی بہت سی خوشیوں کا ذکر کیا ہے.ایسی ہی بعض خوشیوں کی ظاہری علامت کے طور پر عیدین ( عید الفطر اور عید الاضحیٰ) مقرر کی گئی ہیں.جو عید آج ہم منارہے ہیں اور جو دینی ، روحانی اور اسلامی خوشی آج ہمیں پہنچ رہی ہے اس کا تعلق رمضان کے روزوں سے ہے.اللہ تعالیٰ رمضان کے روزوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ بَيِّنَتِ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمُهُ (البقرة :۱۸۶) و اس کا ترجمہ یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے وہ قرآن جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے ایسے دلائل جو ہدا یت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی قرآن میں البی نشان بھی ہیں اس لئے تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے.

Page 132

خطبات ناصر جلد دہم ۱۰۸ خطبہ عیدالفطر ۱۲ راگست ۱۹۸۰ء اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ ماہ رمضان کا بہت گہرا تعلق قرآن سے ہے.جہاں تک قرآن کے رمضان میں نازل ہونے کا تعلق ہے.حدیث میں آتا ہے کہ جبریل علیہ السلام رمضان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر قرآن کا دور کیا کرتے تھے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساری کی ساری آیات رمضان میں بھی نازل ہوئیں.اس لحاظ سے یہ بیان بھی درست ہے کہ سارا قرآن رمضان میں اترا.پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی تین بنیادی صفات کا ذکر کیا ہے.پہلی صفت یہ بتائی کہ قرآن هدى للناس ہے یعنی یہ نوع انسان کے لئے ہدایت کا موجب ہے.الناس کے لفظ میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت كافة للناس کی طرف ہوئی ہے یعنی مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف.اسی لئے قرآن کی ہر آیت دونوں کے لئے ہے اور ہر قرآنی حکم میں مرد و زن دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے.بعض آیات ایسی ہیں جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہے اور انہی سے ہو سکتا تھا.جیسے حمل اور دودھ پلانے سے متعلق آیات.یہ استثنائی احکام ہیں ورنہ ہر آیت النَّاس کے لئے ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں.قرآن دونوں ہی کے لئے ہدایت کا موجب ہے.ہدایت کے حقیقی اور بنیادی معنے یہ ہیں کہ اسلامی تعلیم ان راہوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو خدا تک پہنچانے والی ہیں.خدا غیر ذاتی نہیں بلکہ ذاتی خدا ہے یعنی ہر وہ شخص جو اسلام پر عمل کرتا ہے وہ خدا سے ایک زندہ تعلق قائم کرتا ہے.دوسری بنیادی صفت قرآن کی بَيِّنَتِ مِنَ الهُدی ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک محدود دائرہ میں آزادی دے کر انسان کو قرآن کی شکل میں ایسی تعلیم دی ہے جو خدا تک پہنچانے والی ہے.انسان کو چونکہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کام کرے اس لئے بَيِّنَةٍ مِّنَ الْهُدی کی رو سے قرآن ہر بات کی دلیل دیتا ہے.تیسری بنیادی صفت قرآن کی یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ الفرقان ہے.یہ قرآن پر عمل کرنے والے اور عمل نہ کرنے والے کے درمیان ایک مابہ الامتیاز پیدا کر دیتا ہے.اسی لئے ایک سچے مخلص احمدی کی زندگی دوسروں سے مختلف ہوتی ہے.۱۹۷۶ ء میں جب میں ڈیٹن (امریکہ ) گیا

Page 133

خطبات ناصر جلد دہم 1+9 خطبہ عیدالفطر ۱۲ راگست ۱۹۸۰ء اور وہاں کے میئر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ڈیٹن کے شہریوں میں سے جولوگ آپ کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور جن کی آپ نے تربیت کی ہے وہ دوسرے شہریوں سے مختلف انسان نظر آتے ہیں.ان میں سے کسی ایک کے خلاف آج تک کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی اور کسی بھی احمدی کے خلاف کوئی کیس نہیں بنا.سو یہ ہے ایک فرقان.لیکن اصل فرقان وہ ہے جو خدا کی نگاہ میں فرقان ہو.اس کے لئے خدا نے حکم دیا ہے کہ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُهُ که جو بھی اس مہینہ کو پائے وہ روزے رکھے.سو رمضان کے روزے مومنوں میں ما بہ الامتیاز پیدا کرنے کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ ہیں ان کی وجہ سے ایک مومن کی رسائی خدا تک ہوتی ہے اور اس کے ساتھ مومن کا ایک زندہ تعلق قائم ہوتا ہے اور یہ زندہ تعلق ما بہ الامتیاز پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے.ایک مومن کے دل میں سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ اللہ کی ہستی اور بندہ کی ہستی میں تو بڑا فرق ہے.دونوں میں بڑا بعد ہے.یہ فاصلہ کیسے پاٹا جائے گا اور اللہ کے ساتھ بندہ کا تعلق کیسے قائم ہوگا ؟ اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمائی.چنانچہ فرمایا.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : ۱۸۷) یعنی یہ کہ (اے رسول ! ) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو تو جواب دے کہ میں ان کے پاس ہی ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.سو چاہیے کہ وہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.سوخدا کے ساتھ بندہ کے زندہ تعلق کی ایک زندہ علامت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے ایسے بندہ کی دعا کو بطور خاص قبول کرتا ہے اور رمضان کے روزے رکھنے کے نتیجہ میں یہی وہ ما بہ الامتیاز ہے جو ایک مومن کو عطا ہوتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں فرقان کا حامل قرار پاتا ہے.یہ تو صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان میں روزے رکھنے والوں کی دعائیں زیادہ قبول کرتا ہے

Page 134

خطبات ناصر جلد دہم +11 خطبہ عیدالفطر ۱۲ راگست ۱۹۸۰ء اور روزے مابہ الامتیاز یا فرقان پیدا کرنے کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ رمضان کے علاوہ عام دنوں میں وہ دعائیں قبول نہیں کرتا.وہ ہر وقت دعائیں قبول کرتا ہے.جب بھی اس کا کوئی بندہ مضطر ہو کر اس کے حضور جھکتا اور اس سے دعا مانگتا ہے وہ اس کی دعا کو قبول کر کے اس کے لئے ایک عید پیدا کر دکھاتا ہے.اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ ایک عید تو وہ ہے جس کا دروازہ ماہ رمضان میں کھلتا ہے اور ایک عید وہ ہے جو عاجزانہ دعائیں کرنے والے ایک مومن کو ہر وقت حاصل ہوتی رہتی ہے.أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ سے بڑھ کر ایک مومن کے لئے اور کیا عید ہوگی.اصل بات یہ ہے کہ ہر احمدی کو خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنا چاہیے تا کہ قبولیت دعا کا حظ اسے حاصل ہو.لیکن یہ یادرکھنا چاہیے کہ وہ خالق اور مالک ہے کبھی بندے کی مانتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے اور دونوں ہی حالتیں مومن کے لئے عید کی آئینہ دار ہوتی ہیں اس لئے کہ اس کی اصل عید رضائے الہی میں ہوتی ہے.پھر احمدی ہونے کی حیثیت میں آپ کے لئے تو قبولیت دعا کے بعض ایسے دروازے کھلے ہیں جو ہر وقت کھلے رہیں گے اور کبھی بند نہیں ہوں گے ایک تو ہیں جماعت کے لئے دعا کے دروازے کہ خدا تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے اور غیر معمولی ترقیات عطا کر کے اسے غلبہ اسلام کے مقصد میں کامیاب کرے.دوسرے نوع انسانی کے لئے دعا کے دروازے کہ خدا تعالیٰ انہیں حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.جو بھی مضطر بن کر آتا ہے خدا تعالیٰ اس کے لئے دروازہ کھول دیتا ہے.تم خدا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی بات نہیں منوا سکتے ہاں پاؤں پڑ کر اس کا فضل حاصل کر سکتے ہو.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ظاہری اعتبار سے تو دو عیدیں سال میں آتی ہیں لیکن قبولیت دعا پر زندہ ایمان رکھنے والے ایک مومن کے لئے ایک دن میں پانچ عیدیں بھی آسکتی ہیں.وہ ہر نماز میں عاجزی اور تضرع کے ساتھ دعائیں مانگ کر قبولیت دعا کا حظ اٹھا کر اپنے لئے بار بار عید کے سامان پیدا کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے سچے خواب دکھا کر اسے عید کی خوشیوں سے مالا مال

Page 135

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالفطر ۱۲ راگست ۱۹۸۰ء کر سکتا ہے.جو لوگ یہ اعتقادر کھتے ہیں کہ سچا خواب بھی نہیں آسکتا.ان کے لئے یہ دروازہ بند ہے انہوں نے خود اپنے پر اس دروازے کو بند کر رکھا ہے.قرآن کہتا ہے کہ سچا خواب ہوسکتا ہے.ہماری زندگیاں گواہ ہیں کہ سچا خواب ہو سکتا ہے.ہمارے لاکھوں بچے ایسے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ سچے خواب دکھاتا ہے اور پھر انہیں پورا کر کے ان کے لئے عید کے سامان کرتا ہے.خدا کرے کہ قبولیت دعا کا دروازہ تمہارے لئے ہمیشہ کھلا رہے اور تم عملاً ایک عید کے بعد دوسری عید دیکھتے چلے جاؤ اور تم خدا کی رضا کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہو تا قبولیتِ دعا کے حظ سے وہ ہمیشہ ہی تمہیں شاد کام رکھے اور دائمی عید تمہیں ہمیشہ ہی حاصل رہے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے احباب کو مخاطب کر کے فرمایا:.آپ کے لئے ، ساری دنیا میں رہنے والوں کے لئے یہ عید مبارک ہو اور خدا تعالیٰ اسلام کو دنیا میں غالب کر کے نوع انسانی کے لئے حقیقی عید کے سامان کرے.آمین (روز نامه الفضل ربوه ۱۵ جنوری ۱۹۸۱ء صفحہ ۲ و۱۷ جنوری ۱۹۸۱ء صفحه ۲)

Page 136

Page 137

خطبات ناصر جلد دہم ۱۱۳ خطبہ عیدالفطر ۲/اگست ۱۹۸۱ء ہماری اصل عید یہ ہے کہ ہم پر پہلے سے بڑھ کر برکتیں آسمان سے نازل ہو رہی ہیں خطبہ عید الفطر فرموده ۲ /اگست ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج عید ہے.عید کی ساری ہی خوشیاں آپ کو مبارک ہوں آج عید الفطر ہے.عید الفطر کے ساتھ تعلق رکھنے والے سارے ہی وعدے آپ کے حق میں ثابت ہوں.آمین.اللہ تعالیٰ کی انسانوں کے ساتھ یہ سنت ہے اپنے سلوک میں کہ وہ صوم “ اور ”فطر باری باری ان کی زندگیوں میں لاتا ہے.یعنی قربانیوں کا زمانہ اور قبولیت قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے انعام کی کثرت کا زمانہ یہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں.آگے پیچھے بھی چلتے ہیں اور ساتھ ساتھ بھی چلتے ہیں.اس حقیقت اور اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہے انسان کے ساتھ اس کی فلاسفی پر تو میں تفصیل سے اس وقت بات نہیں کروں گا.جو بات میں اس وقت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں آپ کو بتایا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ انسانی زندگی میں ایک حقیقی ، سچا ، عالمگیر عظیم انقلاب بپا ہوا ایسا کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہوسکتا تھا پہلے اس لئے نہیں ہوا کہ جو انبیاء علیہم السلام انسانی زندگی میں انقلاب بپا کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ، جو تعلیم وہ لے کر آئے وہ کامل نہیں تھی.اس لئے جو انقلاب ان کی وجہ سے بپا ہوا 66

Page 138

خطبات ناصر جلد دہم ۱۱۴ خطبہ عیدالفطر ۲/اگست ۱۹۸۱ء وہ کامل نہیں تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ذوشان نبی ،شریعت لانے والے نبی تھے لیکن ان کا دائرہ اثر روحانی بنی اسرائیل تک محدود تھا اور ان کی قوت قدسیہ کا زمانہ بعثت موسوی سے لے کر بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے درمیان محدود تھا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی وہ ختم ہو گیا.یہ سارے انقلاب بھی بطفیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے یعنی آپ سے پہلے جو آئے چھوٹے اور بڑے.کیونکہ یہ اعلان کیا گیا ہے قرآن کریم میں.ایک سے زیادہ بار.کہ جو پہلوں کو ملا وہ کامل کتاب ہی کا ایک حصہ تھا، جو کامل کتاب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بنی نوع انسان کی طرف لے کر آئے.اس انقلاب کی ایک عظمت یہ ہے کہ مادی طاقت کے ذریعے سے بپا نہیں ہوا.اس کو کامیاب کرنے کے لئے انسان کے سر نہیں کاٹے گئے بلکہ جو مُردہ تھے ان کو زندگی اور حیات دی گئی.اعلان ہوا قرآن کریم میں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہو اس لئے کہ وہ اس لئے بلا رہے ہیں کہ تم مردہ ہو اور وہ تمہیں زندہ کرنا چاہتے ہیں.دنیا کا کوئی انقلاب ایسا نہیں جس نے اپنی عظمت کو کٹے ہوئے سروں کے میناروں کے او پر قائم اور بلند نہیں کیا.چنگیز خاں نے بعض دفعہ لاکھوں سروں کے مینار بنائے اور اس طرح اپنی عظمت کا اظہار کیا.اس زمانہ میں اشترا کی انقلاب نے جیسے ایران کی طرف سے اعلان ہوا تھا تاریخی لحاظ سے میں نہیں کہہ سکتا کس حد تک وہ اعداد و شمار درست ہیں لیکن ایران نے کہا تھا شاید کہ دس ملین (Million) انسان ایک واقعہ میں انہوں نے قتل کر دیئے اپنی عظمت کے اظہار کے لئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم انسان ہیں کہ ساری عمر میں جو مجبور کئے گئے دشمنوں سے اور مخالفوں سے جنگ کرنے پر ان ساری جنگوں میں دس سوانسان بھی نہیں جو مسلمانوں کے ہاتھ مارے گئے.یہ دوطرفہ عظمت ہے ایک طرف مسلمان کی جان کی حفاظت ( میں ان جنگوں کا ذکر کر رہا ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہوئیں ) مسلمانوں کی زندگی کی حفاظت خدا تعالیٰ نے اس عظیم معجزانہ طریق پر کی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے یعنی چند جانیں دے کر عرب میں وہ انقلاب بپا ہو گیا اور اس انقلاب کو قائم کرنے کے لئے جو مخالف تھے ان کی بھی زیادہ جانیں نہیں لی گئیں.ان کی تعداد بھی میرے خیال

Page 139

خطبات ناصر جلد دہم ۱۱۵ خطبہ عیدالفطر ۲/اگست ۱۹۸۱ء میں سینکڑوں سے نہیں بڑھتی عجیب انقلاب ہے.یہ انقلاب دل جیتنے کے ذریعہ سے بپا ہوا ہے،سر کاٹنے کے ذریعے سے بپا نہیں ہوا اور دل جیتے گئے ہر زمانے میں پھر یہ سلسلہ دل جیتنے کا جاری رہا.مخالفانہ منصوبے بھی بنے ، وہ نا کام بھی ہوئے.ایک تسلسل قائم رہا نیک اور پاک اور مطہر وجود جن کو خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکت نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا تھا اس گروہ کا.پھر اس زمانہ میں ہم پہنچے اور ہر سال پہلوں نے بھی اپنی عید میں منائیں ، مگر میں اب اپنی عید کا ذکر کر نے لگا ہوں ہر سال ہم نے محمد اور محمد کے خدا کے لئے ہزاروں دل جیتے ، دکھ کسی کو نہیں دیا، گردن کسی کی نہیں اڑائی اور دل جیت کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ان کو جمع کر دیا اور تعداد میں روز بروز یہ زیادتی ہو رہی ہے.بڑی برکتیں آسمان سے نازل ہو رہی ہیں.ہماری عید کی خوشی اس واسطے ہے کہ اللہ نے کہا خوشی مناؤ ( ظاہری خوشی تو سارے ہی مناتے ہیں.تہوار تو غیر مسلموں میں بھی پائے جاتے ہیں ) جو حقیقی خوشی ہے.اس لئے خوشی کرو کہ میں نے تمہارے اعمال کو قبول کیا اور جب خدا تعالیٰ اعمال قبول کرتا ہے تو اس کا نتیجہ نکلتا ہے.اگر کوئی زمیندارا اپنی زمین میں گندم بونے کے زمانے میں دانے ڈال دے تو دانے ڈالنا اس کی کامیابی نہیں دانوں کا پنگر آنا جرمینیشن (Germination) ہو ان کی ، پھر ان کی حفاظت اللہ تعالیٰ کرے.پھر وعدہ ہے ایک دانے سے سات سنبل اور ہر سنبل میں سودا نہ یعنی ایک دانے سے سات سودا نہ، ابھی اس مقام تک انسان کی دنیوی سعی اور کوشش نہیں پہنچی لیکن بہر حال بڑی برکت ڈالتا ہے دنیوی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ.تو محض کوشش کا میابی نہیں.اب پیچھے بارشیں ہوئی ہیں.زمیندار جانتے ہیں.ہم نے بھی آپ اپنے جانوروں کے لئے چارہ بیجا.بارش ہوگئی ، بیج ہی نہیں اُگا.پھر بویا، پھر بارش ہوگئی اور پھر بیج نہیں اُگا.تو یہ بھی خدا تعالیٰ بتا رہا ہے ہمیں کہ جب تک میرا حکم نہ ہو تمہاری کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ جو عید الفطر کی خوشی ہے، یہ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے کوششوں کو قبول کیا.ہماری خوشی اس بات میں نہیں کہ ہم نے روزے رکھے اور دن کے وقت بھوکے رہے اور سحری اور افطار کے وقت خوب پر اٹھے کھائے اور رمضان کے مہینے میں وزن کم کرنے کی بجائے اور بڑھا لیا اپنا.اس میں نہیں ہماری خوشی.ہماری خوشی اس بات میں ہے کہ

Page 140

خطبات ناصر جلد دہم ۱۱۶ خطبہ عیدالفطر ۲/اگست ۱۹۸۱ء اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادات کا جو گلدستہ تھا مجموعہ عبادات ، اس کے بجالانے کی توفیق عطا کی اور پھر قبول کیا.قبولیت کا پتہ تو لگتا ہے نتائج کے ساتھ.اگر ہماری زبانیں پہلے سے زیادہ نشستہ اور مہذب ہو گئیں، ہمارے روزے قبول ہو گئے.اگر ہمارے جھگڑے پہلے سے کم ہو گئے ہمارے روزے قبول ہو گئے.اگر ہم پر اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے پہلے سے زیادہ ہو گئے ہمارے روزے انفرادی طور پر قبول ہو گئے.اگر ہمیں پہلے سے زیادہ علوم قرآنی خدا تعالیٰ کی طرف سے سکھائے جانے لگے، ہمارے، ہمارے روزے قبول ہو گئے ، اگر پہلے سے زیادہ جماعت احمدیہ کی ترقی ایک سال میں ہوئی عید الفطر اور عید الفطر کے درمیان، تو ہماری کوششیں کامیاب ہوگئیں اور اللہ تعالیٰ کے بڑے فضل ہم پر نازل ہوئے.تو انفرادی خوشی اپنی جگہ درست لیکن حقیقی خوشی ہماری اس چیز میں ہے کہ ہمیں نظر آ رہا ہے کہ پچھلی عید الفطر کے بعد اس عید الفطر تک اتنی ترقی کی ہے جماعت احمدیہ نے.دکھ پہنچانے والوں نے دکھ پہنچایا.خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ ان کی زبان سے، ان کے ہاتھ سے تمہیں ایذا پہنچائی جائے گی.انہوں نے خدا کا وعدہ پورا کر دیا ہمارے حق میں.خدا تعالیٰ نے کہا تھا اس کے نتیجے میں تم نا کام نہیں ہو گے بلکہ آگے بڑھو گے.دیکھو پچھلے سال میں ، قرطبہ کی مسجد (عید الفطر اور عید الفطر کے درمیان) قریباً مکمل ہو گئی.اتنا عظیم خدا تعالیٰ نے فضل کیا ہے دس سال پہلے دنیائے اسلام سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا واقعہ ہوسکتا ہے.جس چیز کو انسانی دماغ نے ناممکن قرار دیا سال گزشتہ نے اسے ممکن بنادیا.اسی طرح ایک بنیاد پڑ گئی جاپان میں مشن ہاؤس کے خریدنے کی.ابھی سودا نہیں ہوالیکن گفت و شنید ہورہی ہے.بعض قانونی دقتیں ہیں وہ دور ہو جائیں گی اور ایک اچھا مشن ہاؤس بن جائے گا اور ایک اڈا مضبوط قائم ہو جائے گا وہاں تبلیغ کے لئے.(اب یہ گھر خریدا جا چکا ہے ) پہلے سے بڑھ کر زندگی پیدا ہوئی جماعت کے اندر.میں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ہم تو اس گیند کی طرح ہیں کہ جتنے زور سے تم زمین پہ بیٹھو گے اتنا ہی وہ آسمان کی طرف اٹھے گا.تو ہماری عید اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں، ایک سال کے عرصہ میں جو عید الفطر

Page 141

خطبات ناصر جلد دہم ۱۱۷ خطبہ عیدالفطر ۲/اگست ۱۹۸۱ء اور عید الفطر کے درمیان گز را بیشمار رحمتیں کیں.تعداد لاکھوں میں بڑھ گئی اور مساجد جو ہیں وہ درجنوں تعمیر ہو گئیں.ہر مہینے کوئی نہ کوئی نئی مسجد بن رہی ہے ایک سے زیادہ بن رہی ہیں اور اپنے خرچ پہ بنارہے ہیں.آپ کو غیرت دلانے کے لئے ، پاکستانی احمدیوں کو میں نے بتایا تھا پہلے بھی کہ افریقہ بڑی بڑی مسجدیں بناتا ہے اور ایک دھیلا نہیں مرکز سے مانگتا.پانچ سال لگ جائیں، چھ سال لگ جائیں، سات سال لگ جائیں ، وہ چھوٹی سی جماعت سو کی ، ہزار کی ، دو ہزار کی اپنی ہمت کے مطابق مسجد بنا رہی ہوتی ہے.پیسے خود جمع کرتی ہے، کرتی چلی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ بناتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اپنی محنت کی کمائی کو خدا کی عطا سمجھتے ہوئے اس کے حضور پیش کرتے اور خدا تعالیٰ کا گھر بنا دیتے ہیں اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ (الجن : ۱۹ ).تو ہم آج اس لئے خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کہا کہ خوش ہو.ہم اس لئے خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ جن سے میں پیار کرتا ہوں اس کا اظہار بھی کرتا ہوں اور پیار کا اظہار ایک نہیں، پیار کے ایک ہزار اظہار بھی نہیں ، سال کے دوران میں سمجھتا ہوں لاکھوں پیار کے اظہار ہوئے.باہر کے مبلغ ، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے احمدیت سے باہر ، دنیوی لحاظ سے لیکن خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اتنی عزت دی ہے اپنی نگاہ میں اور اس کے نتیجہ میں نوع انسانی کے دل میں عزت قائم کی ہے کہ ہمارے مبلغ جو یہاں سڑکوں پر پھر رہے ہوں ، تو آپ پہچانتے نہیں کون پھر رہا ہے، جب افریقہ میں ہوں یا دوسرے ممالک میں ہوں تو سر براہ مملکت بھی کھڑا ہو جاتا ہے جب وہ کمرے میں داخل ہوتے ہیں.ان مبلغین کو بھی یہ مجھنا چاہیے کہ یہ ان کی ذاتی عزت نہیں ، یہ ان کی عزت طفیلی عزت ہے اور انہیں ملی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل.پس کثرت سے درود کیا کرو، کثرت سے خدا کی حمد کیا کرو اور اس کی توحید کے نغمے اس کی حمد کے ترانے گاؤ اور خوش ہو اس لئے نہیں کہ ہماری طاقت یا کوشش یا عمل کا کوئی نتیجہ نکلا بلکہ اس لئے کہ ہمارے حقیر اعمال کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور ہمارے لئے عید اور خوشی کا سامان پیدا کر دیا.خدا کرے کہ ہمیشہ ہی ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشی کے سامان پیدا ہوتے

Page 142

خطبات ناصر جلد دہم ۱۱۸ خطبہ عیدالفطر ۲/اگست ۱۹۸۱ء رہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہماری حفاظت کرتے رہیں اور ہمارے مخالف کا ہر منصوبہ جو حقیقہ غلبہ اسلام پر اس کا وار ہے اس کو وہ نا کام کرے اور اس کی منشا اور اس کا ارادہ جلد ہماری زندگیوں میں پورا ہو اور نوع انسانی کے دل سارے کے سارے خدائے واحد و یگانہ کے لئے جیت لئے جائیں تا کہ ایک ایسی عید پھر ہم منائیں جس میں ہر انسان شامل ہو اس لئے کہ ہر انسان اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکا ہو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کا.خدا کرے وہ دن جلدی آئے.آمین خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے فرمایا:.کبھی ہم بعد میں ہاتھ اٹھا کے دعا بھی کرتے ہیں، کبھی نہیں بھی کرتے ، دونوں طرح ہے.آج میں وہ مستقل رسم جو ہے وہ نہیں ڈالنا چاہتا.اس طرح کی دعا نہیں کروں گا.دعائیں میں نے دے دیں، دعائیں کرنے کی راہیں آپ کو بتادیں.آپ دعائیں کریں اور خدا تعالیٰ سے پائیں.عربی کے خطبے کے بعد میں آپ کو سلام کروں گا ، پھر عید مبارک دوں گا اور آپ بھی گھروں کو جائیں گے خوشیاں منانے اور میں بھی.خطبہ ثانیہ کے بعد ، رخصت ہونے سے قبل حضور انور نے فرمایا:.آپ سب کو پھر عید مبارک کہتا ہوں.دنیا میں بسنے والے سب احمدیوں کے لئے اللہ تعالیٰ عید مبارک کرے اور دنیا کے سارے انسانوں کے لئے حقیقی خوشیاں مہیا ہو جانے کے سامان پیدا کرے.آپ بھی دعائیں کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہیں ، اس کی پناہ میں رہیں.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ (روز نامه الفضل ربوه ۲۴ را پریل ۱۹۸۲ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 143

خطبات ناصر جلد دہم ۱۱۹ خطبہ عیدالاضحیہ ۱/۲ پریل ۱۹۶۶ء حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان نے وقف اور وفاداری کی زندہ مثال قائم کی ہے خطبہ عیدالاضحیه فرموده ۲ را پریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ عید جو آج ہم منا رہے ہیں.عید الاضحیہ کہلاتی ہے.صرف اس لئے نہیں کہ آج کے روز بکروں، بھیڑوں ، دنبوں، گائے اور اونٹ کی قربانی کی جاتی ہے.بلکہ زیادہ تر اس لئے کہ یہ عید ایک اسوہ حسنہ کو دوام بخشنے کے لئے قائم کی گئی ہے اور وہ اسوہ حسنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے خاندان کا ہے.جو انہوں نے کئی ہزار سال پہلے دنیا کے سامنے رکھا اور اسے دنیا میں قائم کیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک مشرک قوم میں پیدا ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت آپ کے دل میں پیدا کر دی.اس لئے آپ شرک سے کلیۂ بیزار ہوکر تو حید پر قائم ہو گئے تھے.اپنی قوم کو بھی تو حید کی طرف بلاتے تھے.گو قوم آپ کی باتوں کی طرف دھیان نہیں دیتی تھی.آپ کے دل میں بڑی شدید خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نیک اور صالح اولا د عطا کرے تا اس کے ذریعہ توحید پر قائم رہنے والی ایک جماعت قائم ہو جائے.آپ نے اس کے لئے بہت دعا کی.مگر ایک لمبے عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دعا کو قبول نہیں کیا بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ پچاس سال

Page 144

خطبات ناصر جلد دہم ۱۲۰ خطبہ عیدالاضحیہ ۱/۲ پریل ۱۹۶۶ء بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ تک آپ عاجزی اور انکسار کے ساتھ اپنے خدا کے حضور جھکتے رہے اور نیک اور صالح اور توحید پر قائم رہنے والی نسل کے لئے دعا کرتے رہے لیکن اتنے لمبے عرصہ تک ان دعاؤں کا بظاہر کوئی نتیجہ نہ نکلا.آخر جب آپ کی عمر چھیاسی برس کی ہوگئی.تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دعا کو قبول کیا اور آپ کے ہاں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے بطن سے حضرت اسمعیل علیہ السلام پیدا ہوئے.آپ کی دعا یہی تھی کہ آپ کو ایسے بچے عطا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے سامنے اسی طرح اپنی گردنیں رکھ دیں جس طرح باقی جانوروں کی گردنیں چھری کے نیچے رکھی جاتی ہیں اور چونکہ آپ اپنے عہد میں پختہ اور اپنی نیت میں مخلص تھے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ ایک نمونہ قائم کرنا چاہا.بڑھاپے کی عمر ( چھیا سی سال کی عمر ) میں آپ کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا جس غرض کے لئے اس بچہ کی خواہش کی گئی تھی.اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام بھولے نہیں تھے.بلکہ پہلے دن سے ہی آپ نے اپنے اس بچے کی تربیت ایسے رنگ میں شروع کی کہ اس نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف سمجھی اور جب ذبح عظیم کا وقت آیا یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک انتہائی قربانی آپ سے لینی چاہی.تا دنیا کے لئے اور خصوصاً آپ کی نسل کے لئے ایک بے مثال نمونہ قائم ہو جائے.تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس بچے ( یعنی حضرت اسمعیل علیہ السلام ) نے جس کی عمر کم و بیش تیرہ، چودہ سال کی تھی.ایک سیکنڈ کی ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا.غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے یہ قربانی لی کہ آپ اپنے اس بچہ کو ایک وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آئیں اور بتایا کہ اس کی تربیت ہم خود کریں گے.تاکئی ہزار سال بعد جب دنیا میں ایک اُمّی اور معصوم نبی پیدا ہو.تو دنیا یہ اعتراض نہ کر سکے کہ ایک اُمّی خدا تعالیٰ کی تربیت کیسے حاصل کر سکتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اس پر کامل تو کل کرتے ہوئے اپنے اکلوتے بچے کو ایک ایسے مقام پر چھوڑ دیا.جو اس وقت کلیۂ غیر آبا دتھا.بلکہ اس وقت آبادی کے قابل بھی نہیں تھا کیونکہ وہاں پانی نہیں تھا اور بظاہر حالات اس جگہ دونوں ماں بیٹے ( یعنی حضرت اسمعیل اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام) کا زندہ رہنا ناممکن تھا.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں ذرا بھر بھی خیال نہیں تھا کہ اس ماحول میں

Page 145

خطبات ناصر جلد دہم ۱۲۱ خطبہ عید الاضحیہ ۱/۲ پریل ۱۹۶۶ء میرا بچہ بھوکا اور پیاسا مر جائے گا.تب اللہ تعالیٰ نے یہ بتانے کے لئے کہ میں اس نسل میں روحانیت کا ایک چشمہ جاری کر رہا ہوں ایک ظاہری چشمہ بھی وہاں جاری کر دیا.جس کو اب ہم زمزم کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس طرح ان دونوں کی زندگی کے سامان پیدا کر دیئے.کیونکہ گوصرف پانی سے ہی انسان زندہ نہیں رہ سکتا.مگر ان علاقوں میں جہاں پانی نکل آئے آبادیاں ہو جاتی ہیں اور اس طرح کھانے کا بھی انتظام ہو جاتا ہے.پس آپ کی جسمانی تربیت کی کلیہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لے لی اور اس طرح یہ ثابت کر دیا کہ وہ باتیں جو انسان کے اختیار میں نہیں.خدائے بزرگ و برتر ان پر بھی قادر ہوتا ہے.غرض اس خاندان نے وقف اور وفاداری اسلمتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرۃ : ۱۳۲) کی ایک زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والی مثال اس دنیا میں قائم کر دی اور آپ کے اسوہ کو یا درکھنے ، زندہ رکھنے اور قائم و دائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ میں اس عید الاضحیہ کو جاری کر دیا اور اس طرح امت مسلمہ کو ایک سبق دیا کہ دیکھو تمہارے آباء میں اور پھر ان کی نسل میں ایک بیج بویا گیا تھا.اب وقت آگیا ہے کہ یہ بیج ایک درخت کی شکل میں دنیا پر ظاہر ہو اور ساری دنیا اس کے سایہ تلے آرام حاصل کرے.چنانچہ وہی نمونہ جو اس وادی غیر ذی زرع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان نے دنیا کو دکھایا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دنیا کو دکھایا.مگر زیادہ شان کے ساتھ انہوں نے اپنی گردنیں اسی طرح مخالفین کی چھری کے نیچے رکھ دیں.جس طرح بھیڑ ، بکری، گائے اور اونٹ کو ذبح کے وقت اپنی گردنیں چھری کے نیچے رکھنی پڑتی ہیں.پھر دیکھو جانور مجبور ہو کر اپنی گردن چھری کے نیچے رکھتا ہے.لیکن صحابہ کرام نے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی گردنیں خدا تعالیٰ کی راہ میں کٹوائیں اور اس طرح انہوں نے اس سبق کو یا د رکھا اور اپنے عمل سے دہرا دیا.جو کئی ہزار سال پہلے سکھایا گیا تھا.اس طرح جب انہوں نے اپنے آپ کو کلیۂ خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا.تو خدا تعالیٰ نے بھی اپنی وہ نعمتیں ان پر نازل کیں جن کی مثال اس دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی.خدا تعالیٰ نے انہیں ساری دنیا کا رہبر بنادیا.خدا تعالیٰ نے انہیں ساری دنیا کا معلم بنا دیا.خدا تعالیٰ نے انہیں ساری دنیا کا پیار کرنے والا باپ

Page 146

خطبات ناصر جلد دہم ۱۲۲ خطبہ عیدالاضحیہ ۱/۲ پریل ۱۹۶۶ء بنا دیا.خدا تعالیٰ نے انہیں ساری دنیا سے خیر خواہی کرنے والے دل عطا کئے.ساری دنیا کے لئے تکلیفیں برداشت کرنے کی ہمت اور طاقت انہیں بخشی کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ اپنے پیارے رب کے حضور پیش کر دیا تھا.ان کے اس وقف حقیقی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو وہ شوکت بخشی اسے وہ مرتبہ اور منزلت عطا کی کہ جس کی مثال جیسا کہ میں نے بتایا ہے دنیا میں ہمیں اور کہیں نظر نہیں آتی.لیکن جب مسلمان عید الاضحیہ کے اس سبق کو بھول گئے اور وقف کی روح ان میں قائم نہ رہی تب ایک ہزار سال کا عرصہ اسلام پر ایسا آیا کہ جس میں وہ ترقی کرنے.بلندیوں کی طرف پرواز کرنے اور رفعتوں کو حاصل کرنے کی بجائے تنزل کے گڑھوں میں گرتے چلے گئے.اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی رفعت، اسلام کی ترقی اور غلبہ کا پھر دوبارہ سامان پیدا کیا ہے.یعنی جماعت احمدیہ کے قیام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ذریعہ اسلام کے لئے ترقی کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.اس لئے ہر احمدی کو وقف کا وہی نمونہ دکھانا چاہیے جو آج ย سے چودہ سو سال پہلے صحابہ کرام نے دکھایا تھا.اس وقت بھی اسلام کے مخالفوں اور دشمنوں کی چھری ہماری گردنوں کی تلاش میں ہے.اس لئے میں پوچھتا ہوں کہ کہاں ہیں وہ واقف گرد نیں جو برضاء ورغبت اپنے آپ کو اس چھری کے نیچے رکھ دیں؟ اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کریں؟ آج وقف کی روح پھر پوری شدت کے ساتھ ہماری جماعت کے اندر زندہ ہونی چاہیے.کیونکہ دنیا پیاسی ہے اور اس کی پیاس سوائے احمدیت کے اور کوئی نہیں بجھا سکتا.جب تک ہمارے پاس کافی تعداد میں واقفین موجود نہ ہوں.اس وقت تک ہم یہ کام نہیں کر سکتے.اس لئے میں پھر پوچھتا ہوں کہ کہاں ہیں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی بہنیں جو اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کریں اور کہاں ہیں حضرت اسمعیل علیہ السلام کے وہ بھائی جو دنیا کو چھوڑ کر اور دنیا کی لذت آرام اور عیش سے منہ موڑ کر خدا تعالیٰ کی طرف آئیں اور اس کی خاطر بیابانوں میں اپنی زندگیاں گزارنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں؟؟ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کا نمونہ تو قائم ہی اس لئے کیا گیا تھا.تا امت مسلمہ اس سے سبق حاصل کرے اور سبق حاصل کرنے کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے اس منشا، ارادہ اور فیصلہ کو پورا کرنے والی ہو.جس منشاء ارادہ اور فیصلہ کی وجہ

Page 147

خطبات ناصر جلد دہم ۱۲۳ خطبہ عیدالاضحیہ ۱/۲ پریل ۱۹۶۶ء سے اللہ تعالیٰ اپنے دین اور اپنی تو حید کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور یہ کام ہو نہیں سکتا جب تک کہ وہ وقف کی روح ہمارے اند ر زندہ نہ رہے.پس میں اپنے بھائیوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عید بے شک ہمارے لئے خوشی کی عید ہے لیکن ہمیں حقیقی عید صرف اس وقت حاصل ہو سکتی ہے جب ہم اس عید کا عرفان حاصل کر لیں.جب ہم اس عید کی حقیقت کو پالیں اور پھر اس کے مطابق اپنی عملی زندگیوں کو ڈھالیں.ہم میں سے بزرگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نمونہ کو پکڑیں.ہماری مستورات حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا نمونہ اپنے سامنے رکھیں اور ہمارے بچے اور نو جوان خدا تعالیٰ کے برگزیدہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی طرف نظر رکھیں.جس نے چودہ سال کی عمر میں بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور اس کی رضا کی خاطر ایسے بیابان میں زندگی گزار نے کو قبول کر لیا تھا.جہاں بظا ہر حالات زندہ رہنا ممکن نہیں تھا.جب تک یہ روح ہمارے بڑوں میں ، ہماری عورتوں میں اور ہمارے نوجوانوں میں پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک غلبہ اسلام کے دن نزدیک تر نہیں آسکتے.اللہ تعالیٰ ہمیں وقف کی اس روح کو سمجھنے اور بشاشت کے ساتھ اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے کہ سب طاقت اور توفیق اسی سے حاصل کی جاسکتی ہے.(روز نامه الفضل ربوه ۴ رمئی ۱۹۶۶ ء صفحه ۲، ۳)

Page 148

Page 149

خطبات ناصر جلد دہم ۱۲۵ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۲ مارچ ۱۹۶۷ء حضرت ابراہیم اور ان کی نسل نے خاندانی وقف کی عظیم قربانی پیش کی خطبہ عید الاضحیه فرموده ۲۲ مارچ ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه / تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جمعہ کے دو خطبوں میں (مطبوعہ روز نامہ الفضل ۳۱ / مارچ و روزنامه الفضل ۱٫۹ پریل ۱۹۶۷ء) میں نے بطور تمہید کے اپنی بہنوں کو مخاطب کیا تھا.آج میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.آج کا دن جو قربانیوں کی عید کا دن ہے.اسے میں نے اس مضمون کے شروع کرنے کے لئے اس لئے منتخب کیا ہے کہ میرے مضمون کی ابتدا وقف ابراہیمی سے ہی ہوتی ہے.ایک تو مضمون کافی لمبا ہے اور کئی خطبوں میں غالباً ختم ہوگا.دوسرے آج کے موسم کا یہ نقا ضا ہے کہ اس مضمون کا بالکل ابتدائی حصہ اختصار کے ساتھ آج یہاں بیان کیا جائے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ کی بنیاد کم و بیش اٹھارہ ہیں مقاصد اور اغراض کے پیش نظر رکھی گئی تھی اور قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان مقاصد کا حصول حقیقتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تعلق رکھتا تھا لیکن بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریباً اڑھائی ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی تیاری کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے

Page 150

خطبات ناصر جلد دہم ۱۲۶ خطبہ عید الاضحیہ ۲۲ مارچ ۱۹۶۷ء وقف کا مطالبہ کیا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذمہ جو کام کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ اس لمبے عرصہ میں ایک تو بیت اللہ کی آبادی کا انتظام کریں.اس کی صفائی کا خیال رکھیں.خانہ کعبہ کے طواف کے لئے جو لوگ آئیں ان کی خدمت کریں اور جیسا کہ طهرا الخ کے حکم سے ظاہر ہے.سب سے اہم فریضہ اس خاندانی وقف کا یہ تھا کہ وہ یہ ساری تیاری کریں اس نبی اور اس نبی کی امت کے لئے جو نماز کو اس شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرے گی کہ اس میں قیام بھی ہوگا اس میں رکوع بھی ہوگا اور اس میں سجدہ بھی ہوگا.تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا تھا کہ تمہارے ذریعہ سے خانہ کعبہ کی بنیاد میں جو اٹھوائی جا رہی ہیں اور بنوائی جا رہی ہیں ان کا مقصد یہ نہیں کہ وہ تمام اغراض تمہارے اور تمہارے خاندان کے ذریعہ سے حاصل کئے جائیں گے.جن اغراض کے لئے خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم کر رہا ہے.بلکہ تمہارے ذمہ یہ بات ہے کہ تم اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے ابھی سے تیاری کرو اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوں تو تمہاری کوششوں کے ذریعہ تمہارے نمونہ کی وجہ سے تمہارے خاندان میں وقف کا جوسلسلہ جاری ہو اس کے نتیجہ میں قوم کے اندر وہ تمام استعدادیں پیدا ہو جائیں جن کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کی کامیابی کے لئے ضرورت ہے تو اڑھائی ہزار سال تک اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو اس لئے تیار کیا تھا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروں کے نیچے آکر آپ کی تربیت میں، آپ کی قوت قدسیہ سے فیض حاصل کرنے کے بعد وہ قوم بنے جو اللہ تعالیٰ انہیں بنانا چاہتا تھا لیکن ان میں قبول تربیت کی قوت اور استعداد پیدا کرنے کے لئے اس قوم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان کو وقف کرایا.یہ بھی یادرکھیں کہ کامل اور حقیقی نشوونما کے بغیر خالی استعداد کوئی کام نہیں کرتی.بہت سے بڑے اچھے سائنس دان ہوتے ہیں اپنی استعداد کے لحاظ سےلیکن اپنے ماحول کے نتیجہ میں وہ بالکل ان پڑھ اور جاہل رہ جاتے ہیں.تربیت ان کی نہیں ہوسکتی.تعلیم کا انتظام نہیں ہو سکتا.تو کسی مقصد کے حصول کے لئے اگر ایک آدمی یا ایک قوم کی ضرورت ہو تو دو چیزوں کا اس فرد واحد یا اس قوم میں پایا جانا ضروری ہے.ایک استعداد کا اور ایک اس استعداد کی صحیح تربیت اور اس سے کام لینے کا.پس استعداد پیدا کرنے کا کام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سپرد

Page 151

خطبات ناصر جلد دہم ۱۲۷ خطبہ عید الاضحیہ ۲۲ مارچ ۱۹۶۷ء کیا گیا تھا اور اس کے لئے قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے کہ ان کو کہا گیا تھا کہ اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کرو.ایک عظیم قربانی اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل سے لی لیکن اس قربانی کی غرض یہ تھی کہ جس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل جس نے بعد میں عرب میں آباد ہونا تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور ان قربانیوں کے دینے کے لئے تیار ہو جن کا اسلام نے ان سے مطالبہ کرنا تھا.اڑھائی ہزار سالہ تربیت کے نتیجہ میں عرب کے اندر یہ استعداد پیدا ہوگئی تھی جس طرح لکڑی کے اندر آگ چھپی ہوئی ہوتی ہے اور جب دیا سلائی دکھائی جائے تو وہ آگ بھڑک اٹھتی ہے اسی طرح یا جس طرح ایٹم کے اندر بہت بڑی طاقت موجود ہوتی ہے لیکن ایک خاص میکنزم کے ذریعہ سے اس طاقت کو جو چھپی ہوئی ہوتی ہے ظاہر کر دیا جاتا ہے اسی طرح عرب کی قوم اڑھائی ہزار سالہ تربیت کے نتیجہ میں ان ذمہ داریوں کے نبھانے کے لئے تیار ہو چکی تھی.جو ذمہ داریاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے سب سے پہلے اس قوم پر ڈالنی تھیں.اسلام تمام عالمین کے لئے بطور ہدایت کے دنیا کی طرف بھیجا گیا (اس میں کوئی شک نہیں) لیکن اسلام اور قرآن کے پہلے مخاطب عرب تھے اور اگر عرب اس وقت مستعد نہ ہوتے ، ان کے اندر یہ استعداد اور طاقت پیدا نہ ہو چکی ہوتی تو پھر اسلام کا غلبہ ممکن نہ ہوتا کیونکہ پہلے مخاطب ( یعنی قوم عرب ) نا کام ہو جاتے اور بڑا انتشار دنیا میں پیدا ہوجاتا تو ضروری تھا کہ ایک قوم کی قوم کو ان ذمہ داریوں کے نباہنے کے لئے تیار کیا جائے اور اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وقف کے لئے کہا گیا اور آپ نے وقف کیا خود کو بھی ، اپنے بیٹے اور نسل کو بھی اور ان کے سپر د جو کام کیا گیا وہ یہ تھا کہ طَهَّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ(البقرة :۱۲) میرے اس گھر کو ظاہری اور باطنی پاکیزگی سے بھر دو.دوسرے یہ کہ دعائیں کرو کہ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنا (البقرة: ۱۲۸) اے خدا ہم خوشی کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ تیری رضا کے حصول کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں لیکن جب تک تیر افضل شامل حال نہ ہو ہماری یہ قربانی قبول نہیں ہوسکتی.اس لئے اب فضل فرما رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنا

Page 152

خطبات ناصر جلد دہم ۱۲۸ خطبہ عید الاضحیہ ۲۲ مارچ ۱۹۶۷ء ہماری اس قربانی کو تو قبول کر لے.پھر اپنی نسل کے لئے دعا کرتے رہو وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ لك (البقرة : ۱۲۹) کہ جس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوں تو میری یہ ذریت اور نسل آپ کو مان لے اور قبول کر لے اور ان ذمہ داریوں کو نباہنے کے لئے تیار ہو جائے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کندھوں پر ڈالیں.ان کو امت مسلمہ بنائیں.اس وقت ان سے کوئی غفلت کوئی غلطی یا کوتا ہی سرزد نہ ہو.پھر اس خاندان نے اتنا شاندار نمونہ دکھایا ہے کہ اگر اس اڑھائی ہزار سالہ تاریخ پر آپ نگاہ ڈالیں تو ان میں سے کم ہی خاندان ایسے ہوں گے جو عرب سے باہر نکلے ہوں حالانکہ ان کی ہمسائیگی میں بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہو چکی تھیں اور وہ بڑے ذہین لوگ تھے اور بڑی فراست اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی تھی اور قربانی کرنے والے فطرتا لیڈر ہوتے ہیں اور قیادت کی استعداد ان کے اندر ہوتی ہے.اگر وہ ان بادشاہوں کے دربار میں جاتے تو بڑے ہی دنیوی فوائد اٹھا لیتے لیکن صرف اکا دُکا عرب باہر نکلے اور انہوں نے بھی اپنا تعلق مکہ سے قائم رکھا ہے تو لگا تا راڑھائی ہزار سال تک قربانی دیتے چلے جانا نسلاً بعد نسل کوئی معمولی چیز نہیں ہے اس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بڑی ہی قربانیاں دینی پڑیں اپنے ماحول کو مطہر ، پاک اور مصفا بنانے کے لئے اور بڑی ہی دعائیں کرنی پڑیں اپنے رب کے حضور.اگر وہ دعائیں نہ ہوتیں تو یہ قوم اس قسم کی تربیت حاصل نہ کر سکتی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان سے قربانی کلی ایک بے آب و گیاہ مقام کے اوپر آباد ہو جانے کی.دنیا سے تمام علائق کو توڑ دینے کی اور ان کے ذمہ یہ لگایا گیا تھا کہ بیت اللہ کی صفائی ، پاکیزگی اور طہارت کا ابھی سے انتظام کرو.کیونکہ میں رَبُّ العلمين محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی طرف مبعوث کرنے والا ہوں اور اپنے خاندان میں یہ وصیت کرتے چلے جاؤ کہ وہ بھی وقف کے اس سبق کو بھولیں نہ اور ساری قوم کوشش میں لگی رہے اس بات کے لئے کہ آئندہ نسلیں بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ذمہ داری صرف یہ تھی خانہ کعبہ کی حفاظت اس کی پاکیزگی کا انتظام کرنا، جو لوگ خانہ کعبہ میں آئیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے خدائے واحد کی عبادت کے لئے ان کی خدمت میں لگے رہنا اور اس میں اپنا فخر سمجھنا اور اس طرح

Page 153

خطبات ناصر جلد دہم ۱۲۹ خطبہ عید الاضحیہ ۲۲ مارچ ۱۹۶۷ء ایک روحانی خاندان اور پھر قوم کو تیار کر دینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے اور دعائیں کرتے رہنا.چونکہ استعداد کے باوجود بھی ناکامی ہو جاتی ہے اس لئے اڑھائی ہزار سال تک اللہ تعالیٰ نے یہ دعا کروائی اس خاندان اور اس قوم سے کہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوں تو وہ خاندان ( جو ایک قوم بن گیا تھا اس لمبے زمانہ میں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کوسن کر اس پر لبیک کہیں.چنانچہ جس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے تو اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا بہترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے ایک ایسا دور بھی آپ کی زندگی میں پیدا کیا جو خالصہ قربانی کا دور تھا مکی زندگی جس کا ایک ایک سانس حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان سانسوں کے مقابلہ میں تھا بلکہ ان سے بھی بڑھ کر تھا جب آپ کے جلانے کے لئے آگ کو تیار کیا گیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس زمانہ سے زیادہ شان دار تھا جب وہ اس وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ دیئے گئے تھے.وہ ایک طرح کی موت تھی جو ان کے سامنے تھی.گو انہیں اس وقت اس کا احساس نہ تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو احساس بھی تھا اور دوہرا احساس تھا.ایک تو اپنی قوم کی ایذائیں تھیں.مصیبت تو خدا کے لئے خدا کے بندے برداشت کرتے ہی ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ قربانی اتنی نہیں تھی جتنی یہ قربانی تھی کہ آپ دیکھ رہے تھے کہ جس قوم کی ہدایت اور جس دنیا کی راہ نمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے وہ مجھے ٹھکرا رہی ہے.کیا بنے گا اس قوم کا اور کیا بنے گا دنیا کا اگر یہ باز نہ آئے اپنی حرکات سے.یہ سوچ کر آپ کے دل اور آپ کی روح نے جوقربانی دی ہے اس کا مقابلہ کوئی اور قربانی نہیں کر سکتی لیکن اس کے بعد یکدم حالات نے پلٹا کھایا اور وہی جو آپ کے دشمن تھے آپ کے دوست بنے.آپ کے فدائی بنے.آپ کے ذرا ذرا سے دکھ پر اپنی جانوں کو قربان کرنے والے بنے.اسلام کی خاطر اپنوں کو اور اپنے علاقہ کو چھوڑ کر ساری دنیا میں پھیل کر خدائے واحد کا نام دنیا میں پھیلانے والے بنے.دنیا میں ایسی قربانی دینے والے بنے کہ جن قربانیوں کی مثال پہلے کسی نبی کی امت میں نہیں ملتی.یہ استعداد جو اس قوم میں پیدا ہوئی کہ جب تک سوئی رہی فتنہ عظیمہ کا باعث اور جب بیدار ہوئی تو اتنی شاندار قربانیاں دینے

Page 154

خطبات ناصر جلد دہم الله.خطبہ عید الاضحیہ ۲۲ مارچ ۱۹۶۷ء والی کہ جو بے مثل ہیں.یہ انہی ابراہیمی دعاؤں کا نتیجہ تھا اور ابراہیم علیہ السلام کو اور ان کے خاندان کو جب وقف میں لیا گیا تو ان کے ذمہ ڈیوٹی یہی تھی.کام یہی تھا کہ تم نسلاً بعد نسل قریباً اڑھائی ہزار سال تک اس دعا میں لگے رہو کہ تمہاری قوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور اسلام کی ذمہ داریوں کو نباہنے والی ہو.جیسا کہ میں نے بتایا ہے خانہ کعبہ کی بنیاد کے جو مقاصد تھے وہ کم و بیش اٹھارہ ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائے ہیں اور ان مقاصد کو پورا کرنے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.اگلے خطبوں میں میں انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے تفصیل سے یہ مضمون بیان کروں گا اور پھر اس مقام تک پہنچوں گا جس کی طرف میں پہلے اشارۃ ذکر کر آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑے اہم معاملہ کی طرف میری توجہ کو پھیرا ہے اور میرا افرض ہے کہ میں آپ دوستوں کے سامنے اس کو بیان کروں اور آپ کا پھر فرض ہوگا کہ آپ اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے وہ عظیم جدوجہد اور قربانی خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں جس کی طرف اللہ تعالیٰ آپ کو بلا رہا ہے اور جس کے نمونے آپ کے سامنے ہیں جن میں سے ایک نمونہ کی طرف آج میں نے اشارہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۱۸ را پریل ۱۹۶۷ ء صفحه ۲ تا ۴ )

Page 155

خطبات ناصر جلد دہم ۱۳۱ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء یہ عید ہمیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیوں کے تین عظیم الشان نمونوں کی یاد دلاتی ہے خطبہ عید الاضحیه فرموده ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت فرمائیں.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ اُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام : ۱۶۳، ۱۶۴) پھر حضور انور نے فرمایا:.آج قربانیوں کی عید ہے اور اس عید پر لاکھوں شاید کروڑوں جانور اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کئے جاتے ہیں.اگر ہم یہ سمجھیں کہ اس عید پر بکری، بھیڑ ، دنبے، گائے یا اونٹ کی قربانی دے کر ہم اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہیں تو ہم نے بہت گھاٹے کا سودا کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَن يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا (الحج: ۳۸) ان قربانیوں کے گوشت خدا تک نہیں پہنچتے.اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اسے کسی چیز کی حاجت نہیں گوشت جس کا کھانے کے ساتھ تعلق ، جس کا زبان کی لذت کے ساتھ تعلق ، جس کا اس خطرہ کے ساتھ تعلق ہے کہ اگر جسم کو غذا نہ ملے تو کمزوری پیدا ہو جائے گی.اس کی اس ابدی ازلی اور ساری قوتوں والے خدا کو کیا ضرورت ہے.

Page 156

خطبات ناصر جلد دہم ۱۳۲ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء پس یہ قربانیاں ایک یاد میں دی جاتی ہیں اور ایک علامت کے طور پر رکھی گئی ہیں جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں قربانیوں کے تین نمونے نظر آتے ہیں.پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا نمونہ ہے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام کے دشمنوں کا دستور رہا ہے جب آپ نے اپنی قوم کو خدائے واحد و یگانہ کی طرف بلایا اور بتوں کی بے بضاعتی اور بے بسی کی طرف توجہ دلا کر انہیں بتوں سے چھڑانے کی کوشش کی تو وہ ناراض ہو گئے کہ ہمارے باپ دادا کے دین میں رخنہ ڈالتا ہے اور ہمارے ( فاسد ) عقائد کو فاسد کہتا ہے اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے.انہوں نے اپنے فاسدانہ خیالات میں یہ سمجھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جلانے سے، انہیں آگ میں ڈال دینے سے اپنے بتوں کی مدد کی جاسکتی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ انہوں نے کہا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا الهَتَكُم (الانبياء : ۶۹) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اپنے بتوں کی مدد کرو تو اپنے معبود کی مدد کا یہ نظریہ ان اقوام میں ہوتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا.قرآن کریم نے بھی اللہ کی مدد کرنے کا ذکر کیا ہے لیکن تمام علمائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد کی جائے وغیرہ.ان سے ہمدردی کی جائے.انسان ان کے کام آئے.بہر حال یہ تو اسلام یا الہی جماعتوں کا نظریہ ہوتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا نظریہ یہ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اپنے بتوں کی مدد کرو.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس امتحان کو جو ان کی زندگی میں بڑا سخت تھا ( نیز دوسرے ابتلاؤں کو بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کی رضا کے حصول کے لئے بشاشت کے ساتھ اور سکون قلب اور سینے کی ٹھنڈک کے ساتھ برداشت کیا اور اس یقین کے ساتھ برداشت کیا کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ ہو سلامت اور کامیاب وہی رہا کرتا ہے.چنانچہ جب آپ کے دشمنوں نے آپ کو آگ میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو کہا کہ بردا و سَلمًا (الانبیاء : ۷۰) یعنی حکم ہوا کہ یہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے احساسات میں دکھ کی آگ نہ پیدا کرے بلکہ خوشی اور سکینت اور بشاشت کی ٹھنڈک پیدا کرے.تو بردا " کا معجزہ احساس سے تعلق رکھتا ہے اور سلما کا معجزہ جسم سے تعلق رکھتا ہے) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ ،، 66.09199

Page 157

خطبات ناصر جلد دہم ۱۳۳ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء فرمایا ہے کہ غیر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو تکالیف کیوں پہنچتی ہیں آپ فرماتے ہیں کہ ان سے جا کر پوچھو کہ خدا کی راہ میں انہیں جو پہنچتا ہے جسے تم تکالیف ، دکھ، مصائب اور ایذا سمجھتے ہو آیا وہ بھی ان چیزوں کو تکالیف، مصائب اور ایذا سمجھتے ہیں یا بڑی لذت اور سرور پہنچانے والی چیزیں سمجھتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال میں یہ بتایا کہ جو حقیقتا خدائے واحد ویگانہ کی پرستش کرنے والے اور اس کی عظمت اور اس کے جلال اور احسان اور اس کی توحید اور اس کی رحمت اور اس کی رافت کے جلوے دیکھنے والے ہیں وہ ان دکھوں کو دکھ نہیں سمجھتے ان آگوں کو آگ نہیں سمجھتے یہ آگ ان کی بلکہ ان کے غلاموں کی غلام ہو جاتی ہے.وہ ان دکھوں کو ، اس آگ کو بردا ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تیرے ذریعہ سے دنیا پر یہ ثابت کر دوں گا کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو وہ تباہ نہیں ہوا کرتا وہ سلامتی کا وارث ہوتا ہے وہ خدائے سلام سے سلامتی کو حاصل کرتا ہے اس کو ہلاکت کے چشمے اور شیطان کے منبع ہلاک نہیں کر سکتے.پس ایک قربانی جس کا تقویٰ آسمان تک پہنچا، جسے خدا نے قبول کیا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی تھی اور قرآن کریم نے ہمیں اس مثال میں بتایا کہ جو قربانیاں قبول ہو جاتی ہیں جو تقویٰ کی رو سے زندہ ہوتی ہیں وہ خدا کو محبوب ہو جاتی ہیں اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں دو معجزے دکھاتا ہے ایک دنیا کے دکھوں کو ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے اور وہ خوشی کا اور لذت اور مسرت کا موجب بنتے ہیں ایڈا کا موجب نہیں بنتے اور دوسرا معجزہ یہ دکھاتا ہے کہ ساری دنیا جلانے ، مارنے ، پیٹنے ، ہلاک کرنے اور مٹا دینے پر تلی ہوئی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی یہ آواز فضاؤں میں گونج رہی ہوتی ہے کہ یہ وہ قوم ہے جن پر اللہ تعالیٰ اپنی سلامتی کو نازل کرتا ہے.پس ایک تو دشمن کا منصوبہ جو مٹانے کے لئے کیا جاتا ہے برد ہو جاتا ہے اور دوسرے وہ سلامتی بن جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ ان قربانیوں کے نتیجہ میں دو معجزے دکھاتا ہے جنہیں وہ قبول کر لیتا ہے جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ جو تقویٰ کی روح سے زندہ ہوتے ہیں.

Page 158

خطبات ناصر جلد دہم ۱۳۴ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء قربانی یہ ابتدائی نمونہ، اسوہ کے طور پر ہمارے سامنے رکھ رہی ہے دوسری قربانی جو اسوہ کے طور پر رکھی گئی وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی باہمی قربانی تھی کہ ایک رؤیا میں دکھایا گیا کہ ایک عظیم قربانی لینا چاہتا ہوں اور تیرا امتحان یہ ہے کہ آیا اگلی نسل کو اس رنگ میں تربیت دی ہے کہ وہ اس قربانی کے بوجھ کو بشاشت کے ساتھ برداشت کرے چنانچہ بعض کے نزدیک وہ ظاہری طور پر خواب پوری کرنے لگے اور بعض کے نزدیک وہ محض تعبیر اًپوری ہوئی.بہر حال جو اس کی تعبیر تھی وہ یہی تھی کہ خدا کی راہ میں بظاہر موت کو قبول کرنا اور خدا کی راہ میں بظاہر موت میں اپنے پیارے بچے کو پھینک دینا.خدا تعالیٰ نے کہا کہ میں یہ قربانی لینا چاہتا ہوں.تیری آزمائش ہو چکی اور تو ہماری رحمتوں کا وارث بن گیا اب ایک آزمائش اور ہے کہ آیا تیری تربیت صحیح ہے یا نہیں.حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی دے اور حضرت اسمعیل علیہ السلام میری راہ میں قربانی دیں ورنہ اگر حضرت اسمعیل علیہ السلام کا بیچ میں حصہ نہ ہوتا تو زبر دستی پکڑ کے ذبح کر دیتے لیکن انہوں نے اس طرح نہیں کیا بلکہ قرآن کریم نے بتایا ہے کہ انہوں نے کہا کہ اس طرح میں نے خواب دیکھی ہے آیا تو یہ قربانی دینے کے لئے راضی ہے؟ تو ان کا فوری طور پر بے تکلف جواب یہ تھا اِفْعَلُ مَا تُؤْمَرُ ( الصفت : ١٠٣) اللہ کا جو حکم ہے وہ کرو سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصّبِرِينَ ( الصفت : ۱۰۳) خدا کے فضل اور اس کی توفیق سے تو مجھے صابر نو جوانوں میں پائے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جس رنگ میں وہ قربانی کی اس سے ایک داغ بیل ڈالی گئی ایک بہت عظیم قربانی کی جس کا مکہ کے ساتھ تعلق تھا.ان کو اس وقت بے آب و گیاہ صحرا میں اکیلے چھوڑ دینے کا حکم ہوا کعبہ کی عمارت کے آثار مٹ چکے تھے بنیاد میں ریت میں دبی ہوئی تھیں نہ وہاں پانی تھا نہ کھانے کی کوئی چیز تھی تھوڑا سا راشن دیا اور ان کو کہا خدا کا حکم ہے یہاں ٹھہر جاؤ.خدا کے حکم سے آپ چلے گئے تب خدا تعالیٰ نے اس اجتماعی قربانی کو قبول کیا اور نہ صرف اس دنیا کی زندگی کے سامان پیدا کئے بلکہ اس قربانی کے نتیجہ میں اس عظیم انسان کو پیدا کیا جس نے ساری دنیا کی روحانی زندگی کے سامان پیدا کر دیئے اور دراصل یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم قربانیوں

Page 159

خطبات ناصر جلد دہم ۱۳۵ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء کی طرف اشارہ تھا کہ قربانی لے کر وہاں اس جگہ پر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو آباد کر دیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل کو پہلے دن یہ سبق دیا کہ تم نے اپنی آنے والی نسل کی صحیح تربیت کرنی ہے.تمہاری قربانیاں تبھی مقبول ہوں گی جب اگلی نسل کی تربیت کی ذمہ داری بھی تم نبا ہو گے اور اگلی نسل بھی اسی طرح بشاشت کے ساتھ علی وجہ البصیرت اور خدا تعالیٰ پر پورا وثوق اور یقین رکھتے ہوئے کہ وہ سلامتی پیدا کرتا ہے اس کی راہ میں ایثار کے نمونے دکھائے گی.ان قربانیوں کے بعد اللہ عزّ و جلّ قوم کے لئے ہلاکت کے سامان پیدا نہیں کیا کرتا.افراد کی زندگیاں تو قربان ہو جاتی ہیں مسلمان بڑے فخر کے ساتھ شہید ہوتے ہیں لیکن یہ دکھ اور یہ مصائب اسلام اور امت مسلمہ کی ہلاکت کے لئے نہیں آتے.تیسری قربانی جو اس سلسلہ میں عظیم تر قربانی ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت مکہ معظمہ اگر چہ ظاہری طور پر آباد تھا وہاں مکانات بھی بنے.ہوئے تھے.وہاں بظاہر انسان بھی رہتے تھے لیکن حقیقتاً وہاں انسان کی آبادی نہ تھی کیونکہ انسانیت ان کے اندر پائی نہیں جاتی تھی اور وہ انسان جس کا تعلق اپنے پیدا کرنے والے رب سے ہونا چاہیے وہ انسان وہاں کوئی نہ تھا تو اس جنگل میں ( روحانی آنکھ دیکھ رہی تھی کہ بے آباد جنگل ہے ) گو مادی اور دنیوی آنکھ یہ دیکھ رہی تھی کہ لوگ آباد ہیں مگر جس کا داؤ چلتا ہے جو چاہتے ہیں کر لیتے ہیں اور ہر قسم کے فساد کے اندر مبتلا ہیں اور ہر قسم کی صلاحیت سے وہ محروم ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس غیر آبا د مقام پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا.غیر آباد اس معنے میں کہ روحانی طور پر وہ غیر آباد تھا.جب حضرت اسمعیل علیہ السلام کو وہاں آباد کیا گیا تو ممکن تھا کہ کوئی قافلہ راہ بھٹک کے ہی وہاں آجا تا اور ان کے پانی کا انتظام ہو جاتا اور کھانے کا انتظام ہوجاتالیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ وہ جگہ تھی جہاں جو بھٹکے ہوئے تھے وہ پانی اور کھانے کا انتظام نہیں کر رہے تھے بلکہ پانی روکنے اور کھانا بند کرنے کا انتظام کر رہے تھے جیسا کہ میں ابھی مختصر ابتاؤں گا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے آپ نے مکہ کے لوگوں کے حالات دیکھے روحانیت سے ان کا بعد دیکھا اللہ تعالیٰ سے ان کی دوری دیکھی.بتوں کا انہیں غلام پایا.فطرتیں ان کی مسخ

Page 160

خطبات ناصر جلد دہم ۱۳۶ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء پائیں تو شروع میں آپ نے اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق خفیہ تبلیغ کی تبلیغ کا اعلان نہیں کیا بلکہ جو دوست تھے، واقف تھے ، رشتہ دار تھے.جن کے ساتھ تعلق تھا انہیں سمجھانا شروع کیا کہ بتوں کی پرستش چھوڑ دینی چاہیے اور اللہ تعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے اس کی پرستش کرنی چاہیے اور یہ عرصہ تھوڑا نہیں بلکہ تین سال کا لمبا عرصہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کی زندگی کا قریباً ۱۸.۲۰ فیصد زمانہ ہے جس میں یہ خفیہ تبلیغ رہی ہے اور اس عرصہ میں چند ایک مسلمان ہو گئے جو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں.میں آپ کو اس چیز کی طرف توجہ نہیں دلا رہا کہ وہ خفیہ تبلیغ کا زمانہ تھا بلکہ میں اس چیز کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے ظالم لوگ تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدا داد نور فراست سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر آج اعلانیہ اور کھل کے تبلیغ کی گئی تو یہ لوگ پوری کوشش کریں گے کہ اسلام کو مٹا دیں اور اس وقت تک چونکہ چند ہی ساتھی تھے اور ان کی تربیت بھی آپ کے پروں کے نیچے ایک وقت کے بعد مکمل ہوئی تھی ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں اور جو اصل مقصد اسلام کی ترقی اور ساری دنیا میں پھیلانے کا ہے اسے بہت زبر دست خطرہ پیش آئے گا.یہ خطرہ کامل اور حقیقی تربیت سے قبل مول نہیں لینا چاہیے آپ نے اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ایسا کیا.پس اس قسم کے ظالم لوگ تھے وہ.پھر تین سال جب گذر گئے اور آپ کے ساتھی آپ کی تربیت حاصل کر چکے.نیز خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے ان منکروں میں سے بھی بہت سوں کے دلوں کے زنگ کو ان روحانی اثرات اور قوت قدسی کے نتیجہ میں جو اللہ تعالیٰ اپنے مامور یا عبد کے ذریعہ پیدا کر دیتا ہے دھونا شروع کیا اور کئی ایک دل نسبتا نرم ہو گئے تو اللہ کے حکم سے کھل کے تبلیغ کی جانے لگی.پھر تین سال کے قریب مکی زندگی کا ایک ایسا دور ہے جس میں کھلی تبلیغ اور بڑی شدید مخالفت ہوئی.اب یہ قربانی کا تیسرا نمونہ ہے جو کامل اسوہ حسنہ ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا نمونہ کامل اسوہ ہے اور آپ کی تربیت امت مسلمہ کے لئے ایک کامل نمونہ ہے کہ کس رنگ میں آپ نے تربیت کی.چنانچہ یہ تربیت ان تکالیف اور مصائب کو دیکھ کر ظاہر ہوتی ہے جو آپ کے صحابہ کو سہنے پڑے اور جس قسم کی سخت زندگی میں سے ان کو گذرنا پڑا یہ واقعات بتاتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت کامیاب اور نہایت اعلیٰ درجہ کی تربیت تھی.یہ تین سال گذر گئے.

Page 161

خطبات ناصر جلد دہم ۱۳۷ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء پھر جب مشرکین مکہ کو اس میں کامیابی نظر نہ آئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب ان کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے نہ ان سے کوئی رشتہ کرے، نہ کلام کرے، نہ کوئی تعلق رکھے، نہ ان کو کھانے پینے کے لئے کچھ دیا جائے.جہاں تک حضرت اسمعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ صحرا میں آباد کرنے کا تعلق تھا ہو سکتا تھا کہ اللہ کے فضل سے کوئی قافلہ آجاتا اور غذا دے دیتا ان کے کھانے پینے کا انتظام تو نہیں تھا کیونکہ چند دن کی خوراک تھی لیکن پانی اور کھانے کے راستے بند نہیں تھے.یہی راستے تھے جو کھلے.ایک زمین کا راستہ تھا اور ایک آسمان کا راستہ تھا.یعنی فرشتوں نے قافلوں سے کہا کہ وہاں جاؤ.صحرا میں پانی پیدا کر دیا کہ ان کے لئے جذب کا موجب بن جائے.لیکن یہاں نہ صرف یہ کہ کھانے پینے کا سامان نہیں تھا بلکہ دروازوں پر پہرے تھے اور اتنا سخت محاصرہ تھا اور اتنی سخت تنگی تھی صحابہ کو اور ان کے ساتھ ان کے ایسے رشتہ داروں کو جو آپ کا ساتھ دیتے تھے اگر چہ ایمان نہیں لائے تھے کہ ایک صحابی کہتے ہیں کہ بھوک کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوتا تھا کہ ایک دفعہ ایک چیز پر میرا پاؤں پڑا اور میں نے محسوس کیا کہ یہ نرم سی چیز ہے.رات کا وقت تھا.اندھیرے میں میں نے اسے اٹھایا اور کھا گیا.جب بتاتے تھے تو کہتے تھے کہ مجھے آج تک پتا نہیں کہ وہ تھی کیا چیز.ایک اور بڑے بزرگ صحابی روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ اتفاقاً وہاں ایک سوکھا ہوا پرانا چھڑ مل گیا میں اس کو لے گیا اور اچھی طرح صاف کیا ، دھویا، اُبالا اور نرم کر کے کئی دن تک یہ میری ضیافت تھی.میں اس پر گزارہ کرتا رہا.اس قسم کی شدید بھوک اور پیاس کی تکلیف میں سے وہ گذررہے تھے اور صرف پانچ یا سات دن کے لئے نہیں بلکہ قریباً ڈھائی تین سال یہ محاصرہ رہا اور اس قسم کی تنگی رہی اور ہمارے محبوب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عجب شان ہے اور آپ کی قوت قدسیہ کا عجیب اثر ہے کہ اتنا لمبا عرصہ تکالیف برداشت کرنے کے باوجود ایک شخص نے بھی ارتداد اختیار نہیں کیا بلکہ وہ سب کے سب مضبوطی کے ساتھ اپنے مذہب پر اپنے دین پر قائم رہے.پھر خدا تعالیٰ نے اس آزمائش کے بعد جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے ایک نمونہ بنے اور تربیت میں بھی ایک نمونہ بنے.اور آپ کے صحابہ نے دنیا کو نہایت شاندار قربانیوں

Page 162

خطبات ناصر جلد دہم ۱۳۸ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء کا نمونہ دکھایا.خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ان کفار میں سے ہی جنہوں نے محاصرہ اور بائیکاٹ کیا تھا کچھ لوگ اس کے خلاف ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ دکھایا.ان کے دل اس معاملہ میں نرم کر دیئے اور محاصرہ اٹھ گیا.پھر جب کچھ آزادی ملی تو ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال پیدا ہوا کہ مکہ والوں کو میں نے پیغام حق سنایا ہے.کچھ نے قبول کیا ہے.باقیوں نے قبول نہیں کیا.بہر حال ساری دنیا کے لئے جو مذہب ہے اس کی اشاعت اب مکہ سے باہر بھی کرنی چاہیے.آپ طائف چلے گئے اور قریباً دس دن وہاں ٹھہرے لیکن ان سخت دل بدقسمت لوگوں پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا بعض نے خاموشی اختیار کی لیکن بعض نے بڑا سخت رویہ اختیار کیا اور جب ان لوگوں سے وقتی طور پر مایوس ہو کر کہ اب یہ میری بات نہیں سنتے آپ واپس ہوئے تو انہوں نے طائف کے بچوں اور او باش قسم کے لوگوں کو کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پیچھے جاؤ اور تنگ کرو.چنانچہ تین میل تک جس کا مطلب یہ ہے کہ ۴۵ منٹ سے ایک گھنٹہ.کیونکہ راستہ کا تو مجھے علم نہیں.اگر راستہ مشکل ہو تو وقت زیادہ لگتا ہے سہل ہو تو جلدی طے ہو جاتا ہے.بہر حال ۴۰.۵۰.۶۰ منٹ میں طے ہوا ہوگا.تین میل تک یہ لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور آپ پر پتھر برساتے پیچھے پیچھے ہو لئے اور آپ کا یہ حال تھا کہ پتھروں کے لگنے سے جو خون بہہ رہا تھا اس سے سارا جسم خون آلود ہو گیا تھا اور جب یہ ہو چکا اور اللہ کے نبی آنے اور اس کے محبوب نے خدا کی راہ میں قربانی کا ایک بے نظیر نمونہ پیش کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے بھی کہا کہ پاک بندہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں پیدا کرنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے میں نے انسان کو پیدا کیا اس وقت تم نے یہ کہا تھا کہ اے خدا! تو اس دنیا میں فسادی اور خون بہانے والے پیدا کرنا چاہتا ہے یعنی ایک ایسا سلسلہ ہوگا جس میں فساد بھی ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے تو خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو کہا کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ جو میرے علم میں ہے تمہارے علم میں نہیں.آؤ آج تمہیں دکھاؤں کہ میرے علم میں کیا تھا؟ تم سمجھتے تھے کہ فساد کرنے والے اور خون کرنے والے انسان اس دنیا پر پیدا کئے جار ہے ہیں لیکن جس انسان کو میں پیدا کرنا چاہتا تھا اس کو آج جا کے آزما لو اور دیکھو! کیا وہ فساد

Page 163

خطبات ناصر جلد دہم ۱۳۹ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء پیدا کرنے والا ہے یا خون کرنے والا ہے؟ چنانچہ فرشتے سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو کہ طائف والوں نے آپ کو بہت دکھ دیا.جب آپ شہر کو چھوڑ کے جارہے تھے اس وقت بھی آپ کو نہیں چھوڑا اور نا سمجھ اور او باش قسم کے لوگوں کو پیچھے لگا دیا جنہوں نے تین میل تک آپ کو گندی گالیاں دیں، پتھراؤ کیا.سارا جسم خون خون ہو گیا.خدا فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو طائف کے گرد جو پہاڑیاں ہیں ان کو ان کے اوپر پھینک دیا جائے اور ساری آبادی کو تباہ کر دیا جائے.تب مقصد حیات (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جواب دیا کہ یہ پہاڑیاں ان پر نہیں گرائی جائیں گی اور یہ لوگ تباہ نہیں کئے جائیں گے کیونکہ مجھے امید ہے کہ ان میں سے ہی وہ لوگ بھی پیدا ہوں گے جو اپنے رب کی شناخت کر نے لگیں گے اور خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے لگیں گے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرشتوں کو بھی سبق سکھایا اور ہمیں بھی سبق سکھایا اور ہمارے لئے نمونہ بنے.دو طرح کا نمونہ ایک یہ کہ اگر ہمیں اللہ کی راہ میں قربانیاں دینا پڑیں اور مصائب برداشت کرنے پڑیں تو جس طرح میں نے برداشت کئے ہیں اسی طرح اگر تم میرے ساتھ محبت رکھتے ہو نو تم بھی خدا کی راہ میں تکالیف اور مصائب برداشت کرنا اور دوسرے اس رنگ میں نمونہ کہ ہر نسل اگلی نسل کی تربیت اس رنگ میں کرے کہ وہ اسوہ نبوی کی پیروی کرنے والی ہو اور خدا کی رضا کی جستجو میں دنیا کی ذلتوں اور دنیا کی حقارتوں اور دنیا کی ایذا رسانیوں اور دنیا کے پتھراؤ کی کوئی پرواہ نہ کرے.یہ اسوہ اور نمونہ ہے جو دنیا کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا اور اپنے اور بیگانے اس پر حیران بھی ہوئے اور اس کی تعریف بھی کی لیکن دنیا ان بے وقوفوں اور او باشوں کی سنت کی تو اتباع کرنے کے لئے بڑی جلدی تیار ہو جاتی ہے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور آپ پر پتھراؤ کئے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کی طرف متوجہ نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور قربانی کی حقیقی روح کو وہ سمجھنے لگیں اور خدا تعالیٰ سب دنیا کو تمام انسانوں کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ پر چل کر خدا تعالیٰ

Page 164

خطبات ناصر جلد دہم ۱۴۰ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء کے محبوب بن جائیں اور اس کے حضور ایسی قربانیاں پیش کریں جو مقبول ہوں اور جن کے نتیجہ میں بردا وسلما کے حالات پیدا ہو جائیں یعنی ان دکھوں کو وہ کوئی دکھ نہ سمجھیں اور اس پختہ یقین پر قائم ہوں کہ ساری دنیا مل کے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کو مٹا نہیں سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اللہ تعالی ساری دنیا کو ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے راحت بخش خنک سائے تلے جمع کر دے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۸ / نومبر ۱۹۷۸ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 165

خطبات ناصر جلد دہم ۱۴۱ خطبہ عیدالاضحیہ ۱۷ / فروری ۱۹۷۰ء انسان اپنی خواہشات اور مرضیوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی رضا اختیار کرے خطبہ عیدالاضحیه فرموده ۱۷ فروری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه / تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گذشته چند روز میری طبیعت خراب رہی ہے اور ضعف کی کافی تکلیف میں یہ دن گزارے ہیں.اس لئے میں اس وقت بڑا ہی مختصر خطبہ دوں گا.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے آج دوستوں سے مل کر چند باتیں کرنے کا موقع مل گیا.آپ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ پوری صحت دے اور اپنی منشا کے مطابق پوری صحت کے ساتھ سب ذمہ واریاں ادا کرنے کی توفیق عطا کرے.یہ عید جو قربانیوں کی عید کہلاتی ہے جو بنیادی سبق ہمیں دیتی ہے وہ اسلام کی روح کا سبق ہے.اسلام کی روح یہ ہے کہ انسان اپنی تمام خواہشات اور مرضیوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی رضا کو اختیار کرے اور ایک قسم کی موت اپنے اوپر وارد کر کے ایک نئی زندگی اپنے رب سے حاصل کرے.اسی کو دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی بھی کہتے ہیں.جب اللہ تعالیٰ کی محبت انسان کے دل اور اس کے دماغ اور اس کی روح کو کچھ اس طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے کہ پھر ان کا اپنا کچھ باقی نہیں رہتا.اسی روح کی ظاہری اور مادی نشانی کے طور پر یہ حج مقرر ہوا ہے اور طواف اس محبت ذاتی

Page 166

خطبات ناصر جلد دہم ۱۴۲ خطبہ عیدالاضحیہ ۱۷ / فروری ۱۹۷۰ء کی ایک ظاہری نشانی ہے کہ ہم ہر طرف سے متوجہ ہو کر چاروں طرف سے گھوم کر تیری طرف ہی آتے اور اپنی تمام تو جہ کو تیری طرف ہی پھیر تے اور ہر چیز تجھ سے ہی حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں.ہر غیر کی طرف ہماری پیٹھ اور ہر عادت اور ہر حالت اور زندگی کے ہرلمحہ میں صرف تیری طرف ہی ہماری توجہ ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس طرح جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی قوتیں اور استعداد میں عطا کی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانی قوتیں اور استعدادیں بھی عطا کی ہیں.قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے ان قوتوں اور استعدادوں کے متعلق ہمیں بتایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآنی آیات کی تفسیر کی روشنی میں ان کی وضاحت کی ہے.کسی وقت اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو تفصیل سے یہ مضمون بھی بیان ہونے والا ہے.ایک قوت ،قوت روحانی جو انسان کی روح کو دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے رب، اپنے خالق حقیقی کے وجود کا اقرار کر سکتا ہے.یہ قوت اقرار جو ہے یہ ایک روحانی قوت ہے جو اسے دی گئی ہے ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی حمد کر رہی ہے.فرشتوں کی طرح ایک زندگی گزار رہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ جو کہتا ہے وہ کرتے ہیں.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انسان کے اس آزاد حلقہ اختیار سے باہر ہر چیز کو فرشتوں کے زمرہ میں شامل کیا ہے لیکن یہ اقرار کہ وہ خالق حقیقی ہے کانشیئس مائینڈ (Conscious mind) میں یعنی شعور اور پوری بیداری کی کیفیت کے ساتھ وہ سوائے انسان کے اور کوئی نہیں کر سکتا صرف انسانی روح کو یہ قوت عطا کی گئی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کے وجود کا اقرار اور اعلان کرے.یہ ایک روحانی طاقت ہے جو انسان کو دی گئی ہے.اس کے ساتھ ملتی جلتی جو دوسری روحانی طاقتیں انسان کو دی گئی ہیں ان میں سے ایک طاقت انسانی روح کو یہ دی گئی ہے کہ وہ غیر متناہی معارف کے قبول کرنے کی طاقت رکھتا ہے.یہا اپنی ذات میں بڑا اہم اور وسیع مضمون ہے.اگر انسانی روح کو غیر متناہی معارف کے حصول کی قوت نہ دی جاتی تو غیر متناہی قرب کے دروازے اس پر کھلنے محال ہو جاتے.تو اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے.

Page 167

خطبات ناصر جلد دہم ۱۴۳ خطبہ عیدالاضحیہ ۱۷ / فروری ۱۹۷۰ء خدا تعالیٰ غیر محدود ہے نا ! تو اس کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جانے کے معنے ہی یہ ہیں کہ ایسی قوت ہو کہ جو غیر متناہی معارف کو حاصل کر سکے کیونکہ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر: ٢٩) اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کی محبت کا موجب بنتی ہے.جو شخص کسی چیز کو جانتا ہی نہیں اس کے ساتھ اس کا تعلق ہی نہیں پیدا ہو سکتا.تعلق محبت کے لئے بھی ضروری ہے ( بعض اور تعلقات بھی ہیں جن کے لئے جاننا ضروری ہے لیکن اللہ تعالیٰ تو حسنِ محض اور احسان محض ہے اس کی معرفت کے بغیر یعنی اس کے شیون اور اس کی صفات اور جس رنگ میں وہ اپنے عاجز اور کم مایہ بندوں سے پیار کرتا ہے وہ پہچان نہ ہو اس وقت تک اس کی محبت نہیں پیدا ہو سکتی.یہ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے اور غیر متناہی ترقیات کے دروازے کھولتی ہے.پس انسانی روح کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ وہ معارف غیر متناہیہ کو حاصل کر سکے.اور روح کو جو تیسری قوت دی گئی ہے وہ محبت ذاتیہ الہیہ کی طاقت ہے یعنی انسان کی روح کو یہ طاقت ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب سے ذاتی محبت رکھ سکے.دوسری مخلوق جو ہے اس میں اس قسم کی ذاتی محبت نہیں نظر آتی نہ عقلاً نظر آنی چاہیے لیکن انسان کی روح کو اللہ تعالیٰ نے یہ ایک طاقت دی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے اللہ سے جو تمام خوبیوں کا مالک اور ہر قسم کے نقائص سے منزہ ہے اس سے ذاتی محبت رکھ سکے.یعنی اس کے حسن کے جلوے اور اس کے احسان کی تجلیات اس طرح دیکھ سکے کہ ہر شے اس کے لئے کا لعدم ، لاشی محض ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی محبت ہی محبت ہو جو اس کی زندگی ، جو اس کی جان کی جان اور روح کی روح بن جائے.پس اس محبت ذاتیہ کے حصول کی طاقت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے.انسان کی روح کے اندر یہ رکھی ہے اور انسان ان تین طاقتوں کے نتیجہ میں اپنے رب کے وجود کا اقرار اور اعلان کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے شیون کا علم غیر متناہی طور پر حاصل کر سکتا ہے اور معرفت الہیہ کے غیر متناہی دروازے اس پر کھل سکتے ہیں یہ اس کے اندر طاقت ہے اور جتنا جتنا عرفان وہ حاصل کرتا چلا جاتا ہے اتنا اتنا قرب الہی اس کو ملتا چلا جاتا ہے اور محبت ذا تنیہ پیدا ہوتی ہے.

Page 168

خطبات ناصر جلد دہم ۱۴۴ خطبہ عیدالاضحیہ ۱۷ / فروری ۱۹۷۰ء اور پھر ایک اور طاقت جو ایک دفعہ تعلق کے قائم ہو جانے کے بعد تعلق چھوڑنے پر کسی طرح راضی نہیں ہو سکتی انسانی روح کو یہ ملی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وصال سے لذت محسوس کرنے کی طاقت پاتا ہے ویسے تو اللہ تعالیٰ ہر چیز کے اندر ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اللہ تعالیٰ کے علم نے اپنی ہر مخلوق کو احاطہ کیا ہوا ہے اور اس طرح اس کے تصرف کے اندر ہے کہ کہا جاسکتا ہے وہ ہر چیز کی پاتال تک ، ہر چیز کی جڑوں تک ، ہر چیز کے دل تک، ہر چیز کی روح تک اس کی قدرت کی انگلیاں جو ہیں وہ پہنچی ہوئی ہیں.وہ اس سے باہر نہیں ہیں.لیکن اس قرب کے باوجود جو ایک خالق اور ایک رب کی حیثیت سے ایک درخت کو حاصل ہے یا ایک گھوڑے کو حاصل ہے اس کے قرب کے باوجودلذت وصال کی قوت ان کو نہیں ملی.کیونکہ درخت اس بات میں لذت محسوس نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کا اس قسم کا قرب اس کو ملے.لیکن انسانی روح کو یہ قوت عطا کی گئی ہے کہ وہ وصال الہی سے لذت اور سرور حاصل کرے.پس جہاں اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے رب کے لئے محبت ذاتیہ قائم کرنے اور اسے نشوونما دینے کی طاقت رکھتا ہے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ محبت ذاتیہ ہر آن آگے ہی آگے بڑھتی جاسکتی ہے.روح کے اندر یہ طاقت ہے کہ اگر وہ کوشش کرے تو غیر متناہی قرب کے دروازے اس پر کھولے گئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جو اپنی ذات اور صفات میں غیر محدود ہے انسان کو اسی رب نے یہ طاقت دی ہے کہ وہ اس کی ذات اور صفات کی معرفت غیر متناہی طرق سے حاصل کر سکے.یہ دروازے اس کو نہیں تو ساتھ ہی چوتھی قوت کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے وصال سے جو لذت انسان حاصل کر سکتا ہے وہ بھی اپنی ہر جہت کے لحاظ سے غیر متناہی ہے.اسی طرح جس طرح اللہ تعالیٰ کے جو غیر محدود ہے اس کے ساتھ پوائنٹس (Pionts) یعنی نکتے جہاں سے انسان اس کے ساتھ تعلق قائم کر سکتا ہے وہ غیر متناہی ہیں.متنا ہی چیز سے جو ایک مجسم اور محدود ہے اس کے اندر ملاپ کے پوائنٹس (Pionts) یعنی نکتے جو ہیں وہ محدود ہیں لیکن جو غیر محدود ہستی ہے اس کے ساتھ ملاپ کی جڑیں جو ہیں وہ غیر متناہی ہیں.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شأن (الرحمن:۳۰).

Page 169

خطبات ناصر جلد دہم ۱۴۵ خطبہ عید الاضحیہ ۱۷ / فروری ۱۹۷۰ء ہر روز وہ ایک نئی شان سے اپنے بندوں پر ظاہر ہوتا ہے اور ہر روز ایک نئے رنگ میں بندے کی روح کا اپنے رب کے ساتھ وصال ہوتا ہے اور وہ ہر روز ایک نئے رنگ میں اس وصال کی لذت محسوس کرتا ہے.پس غیر متناہی لذت کے دروازے، روحانی سرور کے دروازے بھی انسان پر کھولے گئے ہیں.آج اسلام کے غلبہ کا دن ہے اور اس غلبہ کے دن ہی کی دراصل ہم عید اور خوشی منار ہے ہیں.بے انتہا ترقیات اسلامی کے دروازے جماعت احمدیہ پر کھولے گئے ہیں اور بے انتہا قربانیوں کا جماعت احمدیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے اور بے حد و حساب روحانی لذتوں کے ہمیں وعدے اور بشارتیں دی گئی ہیں.خدا کرے کہ ہم اپنے مقام کو پہچاننے کے قابل ہو جائیں اور خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتیہ ہمارے دل میں پیدا ہو اور ہم اس کی محبت میں مستانہ ہو کر اور اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آج غلبہ اسلام کے لئے جن غیر محدود قربانیوں کی ضرورت ہے اس کے حضور پیش کر سکیں تا کہ غیر محد ودلذات روحانی کے ہم وارث ٹھہریں.اب میں دعا کرواتا ہوں.دوست دعا کر لیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 170

Page 171

خطبات ناصر جلد دہم ۱۴۷ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء خدا کرے وحدت اسلامی کی مہم میں ہماری کوشش بار آور ہو خطبہ عید الاضحیه فرموده ۲۷ / جنوری ۱۹۷۲ ء بمقام مسجد مبارک ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ - (الصف: ١٠) لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكفِرِينَ.(البقرة: ۲۸۷) پھر بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کے عالمگیر غلبہ کی بشارت دی تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کے اس عالمگیر غلبہ کا وعدہ دیا تھا.چونکہ آپ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد تھا اس لئے آپ کو جو بشارتیں دی گئی تھیں ان کا مجموعی زمانہ بھی قیامت تک ممتد ہے.

Page 172

خطبات ناصر جلد دہم ۱۴۸ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء تاہم بعض بشارتیں اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایسی ہیں کہ جو شروع دن سے ہمیں جلوہ گر نظر آتی ہیں اور ہر زمانہ اور ہر صدی میں ان بشارتوں کے مطابق ہم اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے جلوے دیکھتے رہے ہیں جب کہ بعض بشارتیں معین اور مخصوص وقت سے تعلق رکھتی ہیں.مومنانہ ذمہ داریوں کو نباہنے پر اللہ تعالیٰ کی نصرت کا نازل ہونا ہر زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور یہ سلسلہ صرف پہلی صدی سے یا پہلے سال ہی سے نہیں بلکہ پہلے دن سے شروع ہوا اور آخری وقت تک جاری رہے گا یعنی اگر اس دنیا کی زندگی دو لاکھ سال بعد ختم ہونی ہے یا دس ہزار سال بعد ختم ہونی ہے یا دو تین ہزار سال بعد ختم ہونی ہے تو اس خاتمہ کے آخری گھنٹے میں بھی اگر ایک آدمی اپنی مومنانہ ذمہ داریوں کو نبا ہے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرے گا.پس ایک تو اس نوعیت کی بشارتیں ہیں کہ جن کا کسی خاص زمانہ یا وقت یا صدی یا سال یا مهینه یا دن کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ مستقل بشارتیں ہوتی ہیں جن کا ہر زمانے اور ہر ملک کے ساتھ تعلق ہوتا ہے لیکن بعض بشارتیں مخصوص اور معین وقت کے لئے ہوتی ہیں مثلاً ایک آدمی سے یہ کہنا کہ میں تیرے ہاتھ میں کسری کے کنگن دیکھتا ہوں یا یہ کہنا کہ کسریٰ کے ملک پر غلبہ عطا ہوگا یا قیصر روم اسلام کے ہاتھوں مغلوب ہوگا.چنانچہ اپنے وقت پر یہ بشارتیں پوری ہوئیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ان دونوں بڑی طاقتوں کا زور قریباً ٹوٹ چکا تھا.البتہ کہیں کہیں ان کے آثار باقی رہ گئے تھے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ قومیں باقی رہ گئی تھیں.ایران کی فتوحات کی ابتدا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوئی اور اس کے بعد قریباً اسی زمانہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری زمانہ میں قیصر روم کے ساتھ خود قیصر کی نالائقیوں کی وجہ سے جنگ کے آثار پیدا ہو گئے تھے اور کچھ جھڑ پیں بھی شروع ہو گئی تھیں لیکن ان کے ساتھ بڑی بڑی لڑائیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لڑی گئیں.بہر حال یہ جنگیں ایک خاص زمانہ کے اندر رونما ہو ئیں.پھر جب تک خدا تعالیٰ نے چاہا اسلام ان کے اوپر حاکم رہا اور اب بھی ان علاقوں پر حاکم ہے.غرض اس وقت کی معروف دنیا پر اسلام پھیلا اور اس طرح یہ ایک بشارت تھی جو پوری ہوئی.البتہ اس قسم کی کچھ بشارتیں ایسی بھی

Page 173

خطبات ناصر جلد دہم ۱۴۹ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء ہیں جن کا خلافت اولی یا ثانیہ یا ثالثہ یا رابعہ یعنی اسلام کی نشاۃ اولی کے زمانہ کے ساتھ تعلق تھا.مثلاً کسی بشارت کا تعلق خلافت اولی کے ساتھ تھا کسی کا خلافت ثانیہ کے ساتھ تھا علی ہذا القیاس کسی کا تعلق بعد کے زمانے کے ساتھ تھا اور یہ بشارتیں اپنے اپنے وقت پر پوری ہوتی رہیں.تاہم بعض ایسی بشارتیں ہیں اور ان میں سے بعض بہت زبردست بشارتیں ہیں جن کا تعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم تر روحانی فرزند حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہے.مثلاً یہ بشارت جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں بھی ہے کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ یعنی اس کے ذریعہ اسلام کو ایک عالمگیر غلبہ عطا کیا جائے گا.اسلام کی نشاۃ اولی کے وقت ایسے ذرائع اور سامان میسر نہیں تھے کہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جاتا.اسی واسطے ہم نے یہ محاورہ ایجاد کیا ہے کہ اس وقت اسلام معروف دنیا میں پھیلا.کیونکہ اس نقطہ نگاہ سے اس وقت کے حالات کے مطابق دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی.یعنی ایک معروف دنیا اور ایک غیر معروف دنیا.مگر اب ہمارے زمانے میں معروف دنیا تو ہے لیکن غیر معروف دنیا کوئی نہیں.اب دنیا میں کوئی ایسا غیر معروف علاقہ نہیں جہاں آبادی تو ہولیکن وہ انسان کے علم میں نہ ہو.پس ليظهرةُ عَلَى الدِّينِ حُلیہ کی رو سے اس عالمگیر غلبہ کی بشارت اسلام کی نشاۃ اولی کے زمانہ میں پوری ہو ہی نہیں سکتی تھی.اس کا تعلق تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ یعنی مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ ہے.اس کا تعلق تو بنی نوع انسان کے دل میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عالمگیر محبت پیدا ہو جانے سے ہے اور اس کا تعلق تو خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک عالمگیر عشق سے ہے کیونکہ اس کے بغیر اسلام کا عالمگیر غلبہ ممکن ہی نہیں.لیکن ہمارے اس زمانے سے پہلے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عالمگیر محبت اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے ایک عالمگیر عشق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق اسلامی تعلیم جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کی ہے.وہ ساری دنیا میں پہنچتی ہی نہیں تھی.غرض دنیا کے ان باشندوں کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کیسے پیدا ہوسکتی تھی.جہاں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں پہنچا

Page 174

خطبات ناصر جلد دہم ۱۵۰ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء اور ان لوگوں کے دلوں میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان کیسے پیدا ہوسکتی تھی.جنہوں نے آپ کا نام بھی نہیں سنا تھا.پس بغیر دیکھے یا بغیر سنے کسی کے دل میں محبت کا پیدا ہونا ناممکن بات ہے.اس لئے اسلام کے اس عالمگیر غلبہ کا تعلق حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت سے ہے اور اس لحاظ سے ایک بڑی بھاری ذمہ داری ہے.جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر ڈالی ہے اور یہ امران تمام قربانیوں کا متقاضی ہے.جن کا اشارہ اس عید میں پایا جاتا ہے.مثلاً جان کی قربانی ہے.خدا تعالیٰ نے دین کے لئے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس مادی دنیا کے عیش و آرام سے جانتے بوجھتے ہوئے پرے ہٹ جانا اور ایک درویشانہ اور فقیرانہ زندگی کو اختیار کرنا اور یہ بھی ایک بہت بڑی قربانی ہے.پھر اوقات کی قربانی ہے.وقف میں ایک جان کی قربانی ہوتی ہے اور ایک زندگی کی قربانی ہوتی ہے.ایک واقف زندگی در اصل زندگی کی قربانی دے رہا ہوتا ہے اور ایک مجاہد جو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے یا اپنے نفس یا اپنی ماں بہن کی عزت و آبرو کی خاطر جان دیتا ہے.تو وہ اپنی جان کی قربانی پیش کرتا ہے.مگر ایک واقف زندگی اپنی ساری زندگی کی قربانی دیتا ہے.جتنی دیر امن کے حالات میں زندگی بسر ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ میری زندگی کا ایک ایک لمحہ خدا تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لئے قربان ہے.پھر اسی طرح مال کی قربانیاں ہیں.اس کے علاوہ ہزار قسم کی قربانیاں ہیں.بے شمار قسم کی قربانیاں ہیں جنہیں انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرتا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ کی نعمتیں ہم پر بے شمار ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی ہر نعمت سے ایک حصہ واپس مانگتا ہے.جس کے لئے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمارے اس زمانہ ہی میں اسلام کے عالمگیر غلبہ کا امکان تھا.کیونکہ اس عالمگیر غلبہ کے لئے جن چیزوں کی ضرورت تھی.ایک یہ کہ ساری دنیا اپنے علم کے لحاظ سے ایک برادری بن جائے اور دوسرے یہ کہ سفر کی سہولتوں کے لحاظ سے ساری دنیا ایک برا دری بن جائے.

Page 175

خطبات ناصر جلد دہم ۱۵۱ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء چنانچہ اب امریکہ میں ایک واقعہ رونما ہوتا ہے تو بعض دفعہ ریڈیو کے ذریعہ ایک گھنٹے کے اندر اندر ہم تک اس کی اطلاع پہنچ جاتی ہے.مگر کسی زمانہ میں عرب سے سیاح یا مورخ نکلتے تھے.تو وہ ایک طرح سے اپنے بیوی بچوں سے رخصت ہو کر نکلتے تھے.کیونکہ انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ واپس آنا ہے یا نہیں.پتہ نہیں واپس آنے والا حصہ“ تو ہر وقت انسان کے ساتھ لگا رہتا ہے کیونکہ زندگی اور موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے لیکن چونکہ وہ سالوں باہر کے ملکوں میں پھرتے رہتے تھے اور پیچھے ان کے خاندان والوں یا دوستوں کو کوئی علم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں وہ زندہ ہیں یا مرچکے ہیں اور پھر تین یا چار سال یا بعض دفعہ پانچ چھ سال کے بعد مثلاً چین کا سفر کر کے واپس حجاز میں یا مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ یا شام یا عراق میں یا جہاں سے چلے تھے وہاں پہنچ جاتے تھے.یعنی اپنے مرکز سے نکل کر اردگرد کے علاقوں میں سالہا سال تک پھرتے رہتے تھے اور پھر وہیں واپس آ جاتے تھے.لیکن مہینوں نہیں بلکہ سالہا سال تک سفر کرتے رہتے تھے.مگر اب یہ حال ہے کہ آپ کی آواز سے زیادہ تیز رفتار ہوائی جہاز بن گئے ہیں اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ اس سے بھی زیادہ تیز رفتار جہاز بنالیں بہر حال اس وقت تک جو عملاً تجربہ ہو چکا ہے وہ بھی ڈیڑھ دو ہزار میل فی گھنٹہ یا شاید اس سے بھی کچھ زیادہ تیز رفتار سے چلنے والے ہوائی جہاز بن گئے ہیں.جس کا مطلب یہ ہوگا کہ لا ہور سے جدہ تک کم و بیش ایک دو گھنٹے کی مسافت ہو گی.پس سفر کی سہولتیں پیدا ہو گئیں اور پھر ایک جگہ کے واقعات کا دوسری جگہ تار اور براڈ کاسٹنگ کے ذریعہ علم ہو جانے کی سہولتیں میسر آگئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں تار اور براڈ کاسٹنگ کا انتظام بہت ناقص تھا اور اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس وحدت قو می جس کا لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِے میں اشارہ کیا گیا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ رونما ہوگی ، اس کی بنیاد گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رکھیں گے مگر اس کا اجرا آپ کے خلفاء کریں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں مکہ مکرمہ میں نہ تار گھر تھا، نہ ٹیلیفون کا کوئی انتظام تھا اور نہ براڈ کاسٹنگ کا کوئی اسٹیشن قائم تھا.۱۹۰۸ء میں آپ کا وصال ہوا.

Page 176

خطبات ناصر جلد دہم ۱۵۲ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء ۱۹۲۶ء میں ایک صاحب نے حج کیا اور پھر حج پر ایک کتاب لکھی.جس میں وہ لکھتے ہیں ( اور یہ ۱۹۲۶ ء کی بات ہے ) کہ مکہ مکرمہ جو جاز کا ایک بڑا شہر ہے اس میں صرف ایک پوسٹ آفس ہے اور اس ڈاک خانہ کا عملہ ایک پوسٹ ماسٹر اور دو ہر کاروں پر مشتمل ہے یعنی شہر بھر میں دو آدمی ڈاک تقسیم کرنے والے ہیں اور ایک آدمی ڈاک خانہ میں بیٹھا رہتا ہے.حالانکہ اب ایک بڑے گاؤں میں بھی اس سے زیادہ عملے کی ضرورت ہوتی ہے.پس اس وقت ڈاک اور تار وغیرہ کا یہ حال تھا.تاہم اس وقت بنی نوع انسان نے وحدت اقوام کی طرف قدم اٹھالیا تھا اور وحدت اقوام کے لئے جن کوششوں کی ضرورت تھی ان کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ رکھ دی گئی تھی اور منصوبے تیار کر لئے گئے تھے لیکن ان کا اجرا خلافت مہدی معہود سے تعلق رکھتا تھا.اب جیسا کہ میں نے بتایا ہے عنقریب ایسا وقت آجائے گا کہ آپ لاہور سے بذریعہ ہوائی جہاز اڑیں گے اور ایک گھنٹے کے اندر اندر جدہ پہنچ جائیں گے اور جہاں تک براڈ کاسٹنگ کا تعلق ہے وہ تو چند منٹوں میں ساری دنیا میں خبر پہنچا دیتا ہے.دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ وحدت اقوامی کے منصوبہ کو کامیاب بنانے کے لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ تمام دنیا ( یعنی دنیا کا کوئی حصہ نہیں بلکہ تمام ممالک ) اس پوزیشن میں ہوں کہ ان کو یہ سہولت میسر ہو کہ وہ با ہمی طور پر مذہبی تبادلہ خیالات کرسکیں.مثلاً مباحثے ہوں یعنی ایک دوسرے پر اپنے اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے بحثیں ہوں ، مناظرے ہوں، کتابیں تصنیف کی جائیں اور ریڈیو پر بخشیں شروع ہو جا ئیں وغیرہ.اگر چہ یہ سلسلہ ابھی تک شروع نہیں ہوا تاہم اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو جب اس سے زیادہ اثر ورسوخ عطا فرمائے گا تو یہ سلسلہ بحث و تقریر بھی انشاء اللہ شروع ہو جائے گا اور وقت بھی جلد آ جائے گا جب اسلام کے غلبہ کی مہم میں ہر قسم کی دنیوی سہولتوں سے انشاء اللہ فائدہ اٹھایا جائے گا.غرض جہاں تک اشاعت کتب کا تعلق ہے یعنی کتابوں کی اشاعت کا تعلق ہے وہ تو اتنی کثرت سے ہو رہی ہے کہ دنیا کا کوئی حصہ اس سے محروم نہیں رہا ہے.یہ کام تو پورا ہو گیا ہے..اب اگر دنیا کا کوئی حصہ محروم ہے تو وہ اس لئے محروم نہیں کہ ذرائع مسدود ہیں بلکہ وہ اس لئے محروم

Page 177

خطبات ناصر جلد دہم ۱۵۳ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء ہے کہ ہم میں ابھی پوری بیداری پیدا نہیں ہوئی یا ہمارے مالی ذرائع محدود ہیں.تا ہم اس بارے میں بھی پہلے سے زیادہ سہولتیں پیدا ہو رہی ہیں اور انشاء اللہ زیادہ سہولتیں میسر آتی چلی جائیں گی.ریڈیو کے اوپر تو اب بھی اسلام کو پھیلایا جاسکتا ہے.اسی وجہ سے میرا خیال تھا کہ مغربی افریقہ کے ممالک خود پیسے اکٹھے کر کے وہاں ایک براڈ کاسٹنگ سٹیشن قائم کر لیں اور میرا دل یہ چاہتا ہے کہ اس وقت دنیا میں جو سب سے زیادہ طاقتور ریڈیو سٹیشن ہے ، ہمارا یہ ریڈیو اس سے بھی زیادہ طاقتور ہو.میرے خیال میں اس وقت سب سے زیادہ طاقتور ریڈیو سٹیشن روس کا ہے.وَاللهُ اَعْلَمُ یہ میرا اندازہ ہے کیونکہ کبھی روسی خبریں سنی جائیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گو یا آدمی سامنے بیٹھا ہوا باتیں کر رہا ہے.دوسری جگہوں کے ریڈیو اسٹیشن کی آواز اتنی صاف نہیں ہوتی.جتنی روسی ریڈیو کی ہوتی ہے اور غالباً یہ دنیا کا سب سے بڑا اسٹیشن ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ چار پانچ سال کے بعد جب ہمیں براڈ کاسٹنگ سٹیشن لگانے کی توفیق ملے تو کوئی اور ملک یا خود روس ہی میں اس سے زیادہ طاقتور براڈ کاسٹنگ سٹیشن لگ جائے.بہر حال دل یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑا اور طاقت ور براڈ کاسٹنگ سٹیشن وہی ہو جہاں سے صبح و شام اللہ اکبر کی آواز میں آ رہی ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جا رہا ہو.انشاء اللہ یہ وقت بھی جلد آ جائے گا.غرض براڈ کاسٹنگ کے سامان میسر آگئے اس لئے میں کوشش کرتا رہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کے بارے میں پورا فائدہ اٹھایا جائے مگر دنیا میں چونکہ بڑا تعصب پایا جاتا ہے اور لوگ ( یعنی عیسائی اور دھریہ ) جن کے ہاتھ میں براڈ کاسٹنگ سٹیشن ہیں وہ ہمیں موقع نہیں دیتے.حالانکہ ہم انہیں پیسے دینے کے لئے تیار ہیں.لیکن پھر بھی وہ ہمیں وقت نہیں دیتے.دو تین سال ہوئے مجھے خیال آیا کہ اگر مجھے موقع دیں تو میں کسی عید کے موقع پر تقریر کر دوں.یعنی اس عید کے موقع پر نہیں بلکہ کسی عید الاضحیہ یا عید الفطر کے موقع پر اور جس میں ساری دنیا کو عید کا پیغام پہنچا دوں اور اس عاجز بندے کی طرف سے عید کا پیغام تو ایک ہی ہے کہ ہر احمدی یہ کوشش کرے کہ اسلام کے اس عالمگیر غلبہ اور اس کی آخری فتح

Page 178

خطبات ناصر جلد دہم ۱۵۴ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ / جنوری ۱۹۷۲ء کے دن قریب سے قریب تر آتے چلے جائیں.میرا یہ پیغام ساری دنیا میں پھیل جائے جسے ساری دنیا کے احمدی اور ان کے دوست بھی سنیں.لیکن ایسے براڈ کاسٹنگ اسٹیشن جو عورتوں کی لپ سٹک کے سامان کے اشتہار تو پیسے لے کر شائع کر دیتے ہیں مگر انہوں نے میری تقریر نشر کرنے سے انکار کر دیا گویا وہ خدا تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنانے کے لئے پیسے لے کر بھی ہمیں وقت نہیں دے سکتے.بہر حال یہ ایک تعصب ہے اس تعصب کی تار یا باریک سا دھاگہ بھی انشاء اللہ کٹ جائے گا گواس وقت یہ ہمارے راستے میں روکیں پیدا کر رہا ہے مگر جس وقت اللہ تعالیٰ کا طاقتور ہاتھ اس پر آکر گرا تو چرخ کے بنے ہوئے ایک پتلے سے دھاگے کی طرح یہ ٹوٹ جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے مقابلے میں اس کی نہ کوئی طاقت ہے اور نہ کوئی حیثیت ! اور اس کا خاتمہ بھی انشاء اللہ ہو کر ہی رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عالمگیر غلبہ کے لئے تیسری چیز یہ بیان فرمائی ہے اور اس کے دو حصے ہیں (اور یہ دو حصے میں کر رہا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ان دونوں چیزوں کو اپنے مقام پر اکٹھا بیان فرمایا ہے ) ایک یہ کہ دنیا کے ہر حصے میں الہی تائیدات اور الہی نشانات ظاہر ہونے لگ جائیں اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے زبر دست نشان جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے آپ ہی کے روحانی فرزند حضرت مہدی معہود علیہ السلام کو دیئے گئے ہیں.ان میں سے ہر ایک نشان خواہ وہ کہیں ظاہر ہو ساری دنیا کو اس کا علم ہو جائے یعنی براڈ کاسٹنگ یا کتب وغیرہ کے ذریعہ اس کا پتہ لگ جائے مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ڈوئی کے ساتھ مقابلے کا نشان ہے اور ڈوئی کا امریکہ کے ساتھ تعلق تھا.پھر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مہدی معہود کے لئے ایک اور بڑا ز بر دست نشان بتایا تھا.اور وہ سورج اور چاند گرہن کا نشان تھا جسے آیتین کر کے بتایا گیا تھا.چنانچہ یہ نشان ایک سال ہمارے اس علاقے میں ظاہر ہوا اور دوسرے سال انہی موعودہ تاریخوں میں یہی نشان امریکہ میں ظاہر ہوا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان نشانوں کو خود سامان

Page 179

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء پیدا کر کے اپنے دست قدرت کے ساتھ ساری دنیا میں پھیلا دیا اور ان کے متعلق ساری دنیا کو پتہ لگ گیا.علاوہ ازیں اور بہت سے نشانات ہیں جن میں سے مثلاً ایک قبولیت دعا ہے اور یہ بھی ایک بڑا ز بر دست نشان ہے.اللہ تعالیٰ کے وہ عاجز بندے جو اس کے دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی قبولیت دعا کے نشان دکھاتا ہے اور قبولیت دعا کے یہ نشان ہر ملک میں بڑی کثرت سے ظاہر ہورہے ہیں.یہ نشان مغربی افریقہ میں ، مشرقی افریقہ میں ، انگلستان میں، امریکہ میں، یورپ میں اور جزائر میں بھی ظاہر ہورہے ہیں.غرض مہدی معہود علیہ السلام کی جماعت اور آپ کے خلفاء کے ذریعہ ہر ملک میں نشان ظاہر ہورہے ہیں.پس یہ جو تیسری اور ضروری شرط تھی.وحدت اقوامی کے لئے وہ اس طرح پوری ہورہی ہے که زبر دست نشان ظاہر ہورہے ہیں جن کا پھیلا و علمی لحاظ سے اور نشان کے ظہور کے لحاظ سے یا مجھے یوں کہنا پڑے گا کہ علمی اور ظہوری وسعت ان میں اتنی ہے کہ جو عالمگیر حیثیت رکھتی ہے.غرض وحدت اقوامی کے لئے یہ ایک قسم کی تمہید تھی اس مسئلے کو سمجھانے کے لئے جس کا آج میں اعلان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وحدت اقوامی کے لئے ایک آلہ اور ایک ہتھیار جو ہمیں عطا فرمایا ہے وہ حج ہے.جہاں ساری دنیا کے مسلمان جمع ہوتے ہیں.چنانچہ اب اس دفعہ اعلان ہوا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک سے پانچ لاکھ مسلمانوں نے مکہ مکرمہ میں جمع ہو کر فریضہ حج ادا کیا ہے.پس وحدت اقوامی کے لئے حج کا ادارہ اور فریضہ مقرر کیا گیا ہے جس کی ادائیگی کے لئے مختلف ملکوں سے لاکھوں مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور آپس میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں.اس کے علاوہ حج کے اور بھی ہزار ہا فوائد ہیں.حج کو چاند کی پہلی یا دوسری تاریخ سے نہیں باندھا گیا بلکہ اس کا تعلق چاند کی نویں تاریخ سے ہے اور جو رؤیت ہلال حج کی نویں تاریخ مقرر کرتی ہے وہ رؤیت ہلال سوائے مکہ مکرمہ کے اور کہیں نہیں یا سوائے عرب کے اور کہیں نہیں.مثلاً منجھی میں جس دن اس ماہ کا چاند دیکھا جائے.دو ،،

Page 180

خطبات ناصر جلد دہم ۱۵۶ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء اس کے مطابق حج نہیں ہوتا یا امریکہ میں جس دن اس مہینے کا چاند دیکھا جائے.اس کے مطابق حج کی تاریخ نہیں مقرر کی جاتی یا پاکستان یا افغانستان یا ہندوستان کے مسلمان اگر مہینے کا چاند دیکھیں تو اس دن سے حج کی تاریخ معین نہیں ہوتی.گوج کا تعلق رؤیت ہلال سے ہے.مگر یہ اس رؤیت ہلال سے ہے جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے تعلق رکھتی ہے اور یوم حج یا جسے یوم عرفہ بھی کہتے ہیں اس کے علاوہ کسی اور رؤیت کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا.پس حج کا فریضہ وحدت اقوامی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک ذریعہ ہے ویسے اس کے علاوہ اس کے اور بہت سارے فوائد ہیں.اس لئے کسی کو یہ گمان نہ گزرے کہ اس کا یہی ایک فائدہ ہے.اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں اس کی صفات کے بے شمار جلوے کارفرما ہیں.جہاں تک فریضہ حج کا وحدت اقوامی کے ساتھ تعلق ہے.یہ ایک اصولی چیز ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے شاید کسی نو عمر یا کم علم کو دھوکا نہ لگے.اس لئے میں نے ضمنا یہ بات بیان کر دی ہے.بہر حال فریضہ حج کا ایک بڑا فائدہ اور اس کا ایک بڑا مقصد وحدت اقوامی کے قیام میں ممد و معاون بننا ہے اور حج کا تعلق اگر چہ رویت ہلال سے ہے.مگر یہ اس رؤیت ہلال سے ہے جو مکہ مکرمہ میں رونما ہو.دوسری چیز میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے سارے کے سارے علماء اور فقہاء ( یعنی مختلف فقہی خیالات رکھنے والے بھی اس بات پر قریباً متفق ہیں کہ اگر کسی ملک کے ایک حصے میں چاند نظر آجائے اور باقی سارے ملک میں چاند نظر نہ آئے اور جہاں چاند نظر آئے وہاں چاند دیکھنے والے یعنی رؤیت ہلال کی گواہی اور شہادت دینے والے معتبر اور ثقہ لوگ ہوں یعنی ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہو تو امام وقت یا حاکم وقت یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ سارا ملک ایک ہی دن عید منائے گا.ویسے فقہاء نے روزہ کے متعلق بھی یہ کہا ہے کہ ایک ہی دن روزہ رکھا جائے گا.مگر یہ اس صورت میں ہے کہ جہاں تک اس حاکم وقت یا امام وقت) کی آواز پہنچ جائے یہ نہیں کہ جہاں تک اس کی آواز نہ پہنچے یا اس علاقے میں اگلے دن چاند نظر آئے تو وہ بھی اس کے مطابق پہلا روزہ رکھیں

Page 181

خطبات ناصر جلد دہم ۱۵۷ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ / جنوری ۱۹۷۲ء گے.یہ میں اس وقت روزہ کی بات ضمنا کر رہا ہوں کیونکہ یہ مسئلہ بھی بیچ میں آجاتا ہے یعنی جہاں تک آواز پہنچی ہے.امام وقت یا خلیفہ وقت کے کہنے کے مطابق یا اس کے فیصلہ کے مطابق لوگ رمضان اور عید کریں گے خواہ ان کو چاند نہ بھی نظر آئے جس کا مطلب یہ ہے کہ اصولی طور پر فقہاء اس بات پر متفق ہو گئے کہ امام وقت رؤیتِ ہلال کی شہادت دینے والوں میں سے جن کی شہادت معتبر سمجھتا ہو.اس کے مطابق فیصلہ کرنے کا مجاز ہے.خواہ کہیں چاند نظر آئے یا نہ آئے.تیسری بات یہ ہے کہ دنیا تو ایک چکر میں ہے.ہماری صبح سورج کے طلوع کا وقت اور ہے اور حجاز کی صبح سورج کے طلوع کا وقت اور ہے.یہ خدا تعالیٰ کا قانون قدرت ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض کو قریباً گول بنا کر اور اس کا ایک خاص محور مقرر کر کے اسے حکم دیا کہ اسی محور پر چکر کاٹنا ہے.اس سلسلہ میں اور بہت ساری چیزیں ہیں لیکن میں ان کی تفصیل میں اس وقت نہیں جاؤں گا.بہر حال جہاں تک طلوع و غروب آفتاب کا تعلق ہے ہمارے ہاں آج کل کم و بیش چھ بجے صبح سورج نکلتا ہے.ویسے تو لاہور اور ہمارے ربوہ کا بھی سات آٹھ منٹ کا فرق ہے.لیکن اصولاً اگر ہمارے ہاں چھ بجے سورج نکلتا ہے تو ہمارے وقت کے لحاظ سے مکہ مکرمہ میں قریباً دو گھنٹے بعد یعنی آٹھ بجے سورج نکلتا ہے اسی طرح ہمارے وقت کے لحاظ سے انگلستان میں گیارہ بجے سورج نکلتا ہے اور چونکہ یورپ اور انگلستان کے وقت میں نصف گھنٹے کا فرق ہے اس لئے یورپ میں ساڑھے چار گھنٹے بعد یعنی ساڑھے دس بجے سورج نکلتا ہے.امریکہ اور ہمارے وقت میں قریباً بارہ گھنٹے کا فرق ہے.چنانچہ یہاں چھ بجے صبح سورج طلوع ہوتا ہے تو وہاں کم و بیش چھ بجے شام سورج طلوع ہوتا ہے.ایک معین وقت تو ویسے بھی کسی جگہ مقرر نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ سردیوں اور گرمیوں میں دن چھوٹے بڑے ہوتے رہتے ہیں اس لئے ہر جگہ کا وقت علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے.پس اگر ہمارے ہاں چھ بجے صبح سورج نکلا تو مکہ مکرمہ میں آٹھ بجے نکلا، یورپ میں ساڑھے دس بجے نکلا، انگلستان میں گیارہ بجے نکلا اور امریکہ میں چھ بجے شام نکلا اور یہ قدرتی فرق ہے

Page 182

خطبات ناصر جلد دہم ۱۵۸ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ / جنوری ۱۹۷۲ء لیکن اس فرق کے باوجود ہم نے ایک تاریخ مثلاً یکم جنوری مقرر کر دی.اب ساری دنیا میں یکم جنوری کی تاریخ کارفرما ہے.یعنی ساری دنیا میں ایک ہی دن ہے جسے ہم یکم جنوری کہتے ہیں.ویسے اس کے آگے اصول بنادئے گئے ہیں یعنی سورج نکلنے کے اوقات میں اختلاف کے نتیجہ میں جو مسائل پیدا ہوتے تھے ان کو قانون قدرت کی روشنی میں یا مصنوعی طور پر حل کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی سہولت کے لئے اس کائنات کی ہر چیز کی تسخیر کرے اور اسی حق کے نتیجہ میں انسان اپنی سہولت کے لئے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو اس طرح تسخیر کرتا ہے کہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے اس میں گا جر ا گا لیتا ہے.پس صرف مکان کی تسخیر ہی نہیں.بلکہ زمان کی تسخیر بھی انسان کا حق ہے کیونکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اس لئے ہر چیز انسان کے لئے مسخر کی گئی ہے.چنانچہ انسان اپنی سہولت کے لئے زمانے کو بھی مسخر کرتا ہے.اسی لئے ہمارے یہ سارے اوقات یعنی کیلنڈر وغیرہ میں بہت کچھ مصنوعی ہے یعنی جسے انسان نے اپنے لئے مسخر کیا ہے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دنیا کے دن کی ابتدا کہاں سے ہو.کیونکہ دنیا تو ایک مسلسل چکر میں ہے.اس سلسلہ میں کل میں ابوالعطاء صاحب سے بات کر رہا تھا تو یہ کہنے لگے کہ جو ملک ہمارے مغرب میں ہے وہاں چاند کے نظر آنے کا امکان زیادہ ہے کیونکہ ان کو آدھ گھنٹے کا زیادہ وقت مل جاتا ہے.یعنی جس جگہ سورج آدھ گھنٹے بعد غروب ہوتا ہے.وہاں گو یا آدھ گھنٹے کا وقت اور مل گیا.میں نے کہا کہ جہاں سورج نے دو گھنٹے بعد غروب ہونا ہے انہیں دو گھنٹے وقت مل گیا.اس طرح گو یا جدہ والوں کو چاند دیکھنے کا پاکستان سے دو گھنٹے زیادہ وقت مل گیا اور جو ملک جدہ سے تین گھنٹے مغرب میں ہیں وہاں جدہ کی نسبت سے تین گھنٹے زیادہ اور ہماری نسبت سے پانچ گھنٹے زیادہ وقت مل گیا اور امریکہ ہم سے مغرب میں ہے جہاں کے وقت کا فرق بارہ گھنٹے کا ہے اس لئے امریکہ والوں کو بارہ گھنٹے کا زیادہ وقت مل گیا اور امریکہ سے آسٹریلیا مغرب میں ہے تو آسٹریلیا میں رہنے والوں کو اس سے بھی زیادہ وقت مل گیا پھر آسٹریلیا سے برما زیادہ مغرب میں ہے اس لئے برما میں رہنے والوں کو اس سے بھی زیادہ وقت مل گیا اور برما سے پاکستان مغرب

Page 183

خطبات ناصر جلد دہم ۱۵۹ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ / جنوری ۱۹۷۲ء میں ہے اس لئے پاکستان کو اس سے بھی زیادہ وقت مل گیا.پس یہ دلیل تو ٹھیک نہیں بنتی.اس واسطے انسانی عقل نے اس کو توڑا ہے یعنی وقت کو بھی انسان نے مسخر کیا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس وقت دن کی ابتدا کسی جگہ سے مقرر کر دی گئی ہے یعنی یہ اصول بنادیا گیا ہے کہ اتنی ڈگری پر سے دن شروع ہو گا اور پھر اس کے مطابق دن کے اوقات کا چکر چلتا جائے گا.میں یہ کہتا ہوں اور میرے دل میں بڑی زبردست خواہش پیدا ہوئی ہے کہ دن کی ابتدا مکہ مکرمہ سے ہونی چاہیے اور اس سلسلہ میں عالم اسلام کو آپس میں تعاون کرنا چاہیے.دنیا کی جہاں سے مرضی ہو دن کی ابتدا کرتی رہے.ہم اپنے مسائل کے حل کرنے کے لئے دن کی ابتدا مکہ مکرمہ کے وقت سے کریں گے.ایک اور بات یہ ہے ( میں اس وقت بہت ساری باتیں ایک دو تین چار کر کے بتا رہا ہوں اور پھر اس کے بعد ایک نتیجہ نکالوں گا کہ ہماری عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی اور ہمارے دل اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ مکہ مکرمہ میں عید الاضحیہ کے موقع پر جانوروں کی جو قربانیاں کی جاتی ہیں ہم اپنی قربانیاں ان سے ایک یا دو دن پہلے کر دیں.میں تو جب سوچتا ہوں تو میری طبیعت میں اس سے بڑا انقباض پیدا ہوتا ہے.میرے ایک دوست میرے ان خیالات سے متفق نہیں ہورہے تھے.میں نے ان سے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ کیا آپ کا دل یہ چاہتا ہے کہ ہم یہاں مکہ مکرمہ میں ہونے والی قربانیوں سے پہلے قربانیاں دے دیں وہ کہنے لگے کہ یہ تو دل نہیں کرتا.پھر میں نے کہا کہ میرا یہ بھی دل نہیں کرتا کہ ہم ان کے بعد میں قربانیاں دیں.بلکہ دل یہ چاہتا ہے کہ ہم بھی اسی دن ان کے ساتھ ساتھ قربانیاں دیں.شاید وقت کے لحاظ سے تو ایسا ممکن نہ ہولیکن ہم پہلے بہر حال نہیں دیں گے البتہ بعد میں جو قربانی دینی ہے وہ یا تو اسی دن ہو سکتی ہے.یادراصل جو زمین کی گردش ہے اس کے نتیجہ میں ممکن ہے اگلا دن آجائے لیکن مکہ مکرمہ کی عید الاضحیہ سے پہلے کہیں بھی عید نہیں ہونی چاہیے اور یہ ساری تفصیل اس وقت طے ہو سکتی ہے کیونکہ سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ہم اس کا ایک چارٹ بنا کر دے سکتے ہیں.اس لئے میں جس کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے نہ یہ کہ میری کوئی خوبی دیکھ کر جماعت احمدیہ کا امام بنایا ہے ( میں نے یہ ساری

Page 184

خطبات ناصر جلد دہم 17.خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء تفصیل بتائی ہے تاکہ میں اعتماد میں لے کر آپ کو سمجھا سکوں اور مجھے امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے ) یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ سے ساری دنیا میں تمام احمدی جماعتیں انشاء اللہ مکہ مکرمہ کی عید کے دن عید منائیں گی اور ساری دنیا کی احمدی جماعتیں یہ کوشش کریں گی کہ وہ اپنے مسائل حل کرنے کے لئے اسلام کے دن کا آغاز ( یعنی جہاں ہم نے کسی نقطہ پر ہاتھ رکھ کر کہنا ہے کہ یہاں سے دن شروع ہونا ہے ) اس سورج کے طلوع ہونے سے تعلق رکھے گا جو مکہ مکرمہ کی زیارت کے لئے مشرق سے ابھر رہا ہوگا.جیسا کہ میں نے تمہید میں بتایا ہے ان شرائط کے ساتھ کسی ملک میں چاند کے لحاظ سے مکہ سے پہلے عید نہیں ہوگی مثلاً اس دفعہ مکہ میں ۲۶ جنوری کو عید ہوئی ہے.یعنی وہاں ایک دن پہلے ہوگئی ہے.پس کسی جگہ مثلاً ۲۶ سے پہلے عید نہیں ہوگی اور نہ ہی مثلاً ۲۵ سے پہلے یوم حج یا یوم عرفہ سمجھا جائے گا.بہر حال یوم حج کا تو وہاں کی عبادت کے ساتھ تعلق ہے.البتہ یہ عید الاضحیہ ہی ہے جس کا عام لوگوں کے ساتھ بھی تعلق ہے اگر مکہ مکرمہ میں مثلاً ۲۶ تاریخ کو عید ہوگی تو دنیا کے کسی ملک میں احمدی ۲۵ کو عید نہیں منائیں گے اور نہ ایک دن پہلے قربانی دیں گے اور اس شرط کے ساتھ کہ جہاں ممکن ہوگا اور جس کی تفصیل انشاء اللہ مختلف متعلقہ کتب سے پوری طرح نکال کر ان کا ایک چارٹ بنا دیا جائے گا کہ یہ یہ ملک ایسے ہیں کہ جو اسی دن عید کر سکتے ہیں.ویسے عید الاضحیہ اور عید الفطر کا وقت صبح سورج نکلنے سے زوال تک ہے.چونکہ عید کی نماز کا وقت طلوع آفتاب سے زوال آفتاب تک ہے اگر کسی ملک میں طلوع اور زوال کا درمیانی حصہ مکہ مکرمہ کے وقت کے ساتھ بالکل مناسبت کھاتا ہے یا کوئی حصہ اور لیپ (Overlap) کر رہا ہو یعنی بیچ میں ملتا ہو تو اس ملک میں اسی تاریخ کو عید ہو جائے گی لیکن پہلے نہیں ہوگی.یہ تو میں پہلے بھی بتا چکا ہوں.لیکن اگر ایسا نہ ہوسکتا ہو تو پھر ہم وقت کے لحاظ سے اس کو آگے ڈال دیں گے اور اس طرح دنیا کا ایک چکر لے آئیں گے گویا یا تو اسی دن عید ہوگی یا سورج کے طلوع و غروب کے اوقات کے اختلاف کے نتیجہ میں اگر اس دن ممکن نہ ہو تو اس کے ساتھ جب بھی قریب ترین زمانہ میں ممکن ہو گا.اس میں عید ہوگی اور یہ وقفہ غالباً ایک دن سے

Page 185

خطبات ناصر جلد دہم 171 خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء آگے نہیں جائے گا اور میرے کہنے کا یہی مطلب ہے کہ ہر جگہ ایک ہی دن عید ہو گی.اس واسطے کہ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: ۲۸۷) کی رو سے انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا.اسلام کے غلبہ کے لئے قربانی دینے کے سلسلہ میں انسانی طاقت کی انتہا یہ ہے کہ اگر جان کی قربانی مانگی جائے تو جان قربان کر دی جائے.اس سے بڑھ کر انسان سے اور کچھ نہیں مانگا جائے گا.اگر اموال کی ضرورت ہو تو جتنا مال مانگا جائے یا جتنے مال کی تم ضرورت سمجھتے ہو اور دے سکتے ہو وہ تم دے دو.چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک وقت میں یہ سمجھا کہ اس وقت اسلام کو میرے سارے مال کی ضرورت ہے.اس سمجھ کے ساتھ اگر وہ کچھ رکھ لیتے تو گناہگار ہو جاتے.چنانچہ انہوں نے اپنا سارا مال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ اس وقت اسلام کے غلبہ کے لئے اور اسلام کی مہم کے سلسلہ میں ان سے جن قربانیوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اس کے لئے نصف مال کی ضرورت ہے تو انہوں نے اپنا نصف مال لا کر رکھ دیا.اگر وہ نصف سے ایک دھیلہ کم لے کر آتے تو وہ گناہگار ہو جاتے کیونکہ ان کا ضمیر یہ فیصلہ کر رہا تھا کہ اس وقت اسلام تم سے نصف مال مانگ رہا ہے اور وہ اپنی ضمیر کی آواز کے خلاف کیسے نصف سے کم مال لے آتے.لیکن بعض دفعہ کہنا پڑتا ہے کہ سارا مال دے دو.چنانچہ ایک جنگ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ جس کے پاس کھانے پینے کی جو بھی چیز ہے وہ لا کر ایک جگہ جمع کر دے.چنانچہ جس کے پاس تین من کھجور تھی اس کے لئے بھی ایک مقررہ مقدار میں راشن مقرر کر دیا گیا.غرض قربانی کا مطالبہ حالات پر منحصر ہے.اگر اسلام کے غلبہ کی مہم ہم سے اس وقت ہماری ساری زندگی کا مطالبہ کرتی ہے تو ہمیں اپنی ساری زندگی وقف کر دینی چاہیے.میں نے بتایا ہے کہ ایک جان کی قربانی ہوتی ہے اور ایک زندگی کی قربانی ہوتی ہے.پس اگر جان کی قربانی کی ضرورت ہے تو تم جان دے دو.اگر زندگی کی قربانی کی ضرورت ہے تو تم زندگی قربان کر دو.اگر مال کی ضرورت ہے تو تم مال دے دو.اگر اولاد کی قربانی کی ضرورت ہے تو تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی اولادکو خدا کی راہ میں قربان کر دو اور اگر وحدت اقوامی کے قیام

Page 186

خطبات ناصر جلد دہم ۱۶۲ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء کے لئے ایک دن عید الاضحیہ منانے کی ضرورت ہو (جیسا کہ یہ زمانہ آ گیا ہے ) تو تم سب بشاشت کے ساتھ اس دن عید مناؤ.لیکن چونکہ قانون قدرت میں زمین کی شکل اور اس کے محور کو جس طرح خدا تعالیٰ نے چاہا ہے بنایا ہے اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس قانون کے مطابق تفاصیل طے کر کے ان کا اعلان بعد میں کرنا پڑے گا.لیکن اس کے نتیجہ میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ ایک دن عید نہیں ہوئی کیونکہ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کی رو سے عید ایک ہی دن ہوگی اور یہ بڑی عید یعنی عید الاضحیہ کا ذکر ہو رہا ہے جو مکہ مکرمہ کی عید کے ساتھ مطابقت کھائے گی.پس فقہا کے کہنے کے مطابق کہ اگر شرائط ( جو کہ انڈرسٹوڈ (Under Stood ) یعنی معلوم ہیں ) کی رو سے جتنے آدمیوں کی ضرورت ہے وہ یہ گواہی دے دیں کہ چاند نظر آ گیا ہے تو اگر یہ معتبر آدمی ہیں اور ان کی رؤیت پر اعتبار کیا جاسکتا ہے تو ان کے کہنے کے مطابق ایک جگہ چاند دیکھنے پر حاکم وقت یا امام وقت سارے ملک کو عید کرنے کے متعلق کہہ سکتا ہے.اس لئے آج یہ عاجز بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کا امام بنایا ہے گو یہ جماعت دنیا کی دھتکاری ہوئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں معزز ہے ) یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کے وہ بھائی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور جو معتبر ہیں اور جن کی شہادت قابل قبول ہے اور وہ دنیوی معاملات میں سچ بولنے والے اور صداقت کو اختیار کرنے والے ہیں.مکہ مکرمہ میں ان کی جو رؤیت ہوگی اس رؤیت کو صحیح قرار دیا جاتا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے مطابق ایک ہی دن یعنی مکہ مکرمہ کی عید الاضحیہ کے دن ساری دنیا کی احمدی جماعتیں عید الاضحیہ منائیں گی.اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے اور وہ ہمیں وحدت اقوامی کی مہم میں انتہائی کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور خدا کرے کہ مکہ مکرمہ پر جو پہلے سے بھی زیادہ ذمہ داری پڑ گئی ہے وہ اسے نباہ سکے کیونکہ پہلے انہوں نے اپنے علاقہ کی ضرورتوں کے مطابق کوئی انتظام کیا ہوا تھا اب انہیں ساری دنیا کو سامنے رکھ کر انتظام کرنا پڑے گا.اب دنیا کے تمام ممالک کے ایک حصے کی طرف سے ان سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ انہیں وقت پر اطلاع دیں تا کہ اس کے مطابق عید الاضحیہ

Page 187

خطبات ناصر جلد دہم ۱۶۳ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ / جنوری ۱۹۷۲ء منانے کی تیاری کریں.گو مجھے اس کا ذاتی طور پر علم نہیں لیکن میں نے سنا ہے کہ حکومت حجاز بعض دفعہ چاند نکلنے کے دو تین دن اور بعض دفعہ چار دن کے بعد اعلان کرتی ہے کہ کس دن چاند ہوا اور کون سا دن حج کا ہے لیکن اب ساری دنیا کے احمدیوں کی ان سے یہ درخواست ہوگی کہ وہ عید الاضحیہ کے چاند کا اعلان ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر کر دیں تا کہ اس تاریخ کے مطابق ساری دنیا کی احمدی جماعتیں عیدالاضحیہ منانے کا انتظام کرسکیں.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے زمین کی جو گردش ہے اس کے لحاظ سے ہمیں ایک دن مختلف شکلوں میں بنانا پڑے گا تاہم عُرف عام میں اور ہماری اپنی سوچ بچار میں وہ ایک ہی دن سمجھا جاتا ہے بالکل اسی طرح سے جس طرح کہ یکم جنوری ۱۲ گھنٹے کے فرق کے باوجود پاکستان اور امریکہ میں ایک ہی تاریخ کہلاتی ہے آپ نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ یہ دو تاریخیں ہوگئی ہیں حالانکہ ایک ملک میں سورج چھ بجے طلوع ہوا اور دوسرے میں اسی پہلے ملک کے وقت کے لحاظ سے شام کے چھ بجے طلوع ہوا لیکن دونوں جگہ یکم جنوری کی تاریخ کہلاتی ہے کیونکہ عملاً دونوں جگہ یکم جنوری کی تاریخ کارفرما ہے اور ہم نے اپنے تمام مسائل اور کاموں میں یکم جنوری شمار کی ہے.پس ہم عید الاضحیہ کے ایک ہونے کی ابتدا کر رہے ہیں اور ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عید کے ساتھ اپنی عید کو باندھتے ہیں ان تمام شرائط کے ساتھ جو قانون قدرت نے ہم پر عائد کی ہیں یا در ہے کہ بعض شرائط قانون شریعت عائد کرتا ہے اور بعض شرائط قانون قدرت عائد کرتا ہے.غرض ان تمام شرائط کے ساتھ جو قانون شریعت یا قانون قدرت نے ہم پر حاوی کی ہیں تمام دنیا کی احمدی جماعتیں ایک دن عید الاضحیہ منایا کریں گی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس میں برکت ڈالے.میری ایک اور درخواست دنیا کے تمام ممالک سے یہ ہے کہ وہ اس وقت دن کی ابتدا یعنی اس کرہ ارض کے دن کی ابتدا ایک نقطہ جسے زیرو پوائنٹ کہتے ہیں اس سے کرتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ نقطہ مکہ مکرمہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ اُم القری ہے.وہ تمام بستیوں کی ماں ہے.پس

Page 188

خطبات ناصر جلد دہم ۱۶۴ خطبہ عید الاضحیہ ۲۷ / جنوری ۱۹۷۲ء یہ وہ زیرو پوائنٹ اور مرکزی نقطہ ہے جہاں سے دن شروع ہوگا.کیونکہ ہمیں یہ پختہ یقین ہے کہ انشاء اللہ اسلام ساری دنیا پر غالب ہوگا اور پھر پہلے سے بنے ہوئے یہ فارمولے منسوخ کر دیئے جائیں گے اور پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیئے جائیں گے اور انشاء اللہ ایک دن وہ وقت بھی آجائے گا کہ ساری دنیا کا دن مگی دن سے شروع ہوگا اور اسی کے مطابق ہماری گنتیاں ہوں گی اور ہمارے مسائل حل ہوں گے.خدا کرے کہ وہ دن جلد طلوع ہو اور خدا کرے کہ وحدت اقوامی کے لئے ہماری یہ کوشش بار آور ہو.میں نے رات کو بڑی دعا کی کہ اے میرے خدا! مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ ہو جائے.اس لئے میں نے یہاں ساری چیزیں کھول کر بیان کر دی ہیں کہ ہم آئندہ سے یہ عید الاضحیہ یعنی قربانیوں کی عید حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس فارمولے کے مطابق منائی تھی ، اس کے مطابق منائیں گے یعنی مکہ مکرمہ میں جس فارمولے کے مطابق عید الاضحیہ منائی جاتی ہے کہ اس کے مطابق عید منائیں گے.خدا تعالیٰ ہماری غلطیوں کو معاف فرمائے اور ہماری طاقتوں میں اضافہ فرمائے اور جو اس کی شرائط قانونِ قدرت یا قانونِ شریعت ہیں ان کے مطابق جس طرح ہم دوسرے کاموں کے لئے مختلف وقتوں میں سورج کے طلوع اور غروب کے اختلاف کے باوجود ایک دن مقرر کر دیتے ہیں.اسی طرح ہم عالم اسلامی کے لئے یا بعد میں دوسرے درجہ پر عالم انسانی کے لئے مکہ مکرمہ سے طلوع ہونے والے دن سے ساری دنیا کے دنوں کو باندھیں اور خدا کرے کہ اس طرح وحدت اقوامی کا دن قریب سے قریب تر آ جائے.اللهم آمین.حضورانور جب خطبہ ثانیہ پڑھنے لگے تو فرمایا:.یہی دعا میں شروع میں بھی پڑھ چکا ہوں.وہ طوعی تھی اب سنت کے مطابق میں اس کو دہرا رہا ہوں.چنانچہ خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا اب میں دعا کراؤں گا.سب دوست دعا کریں کہ دنیا میں جو اس وقت انقلاب آ رہا ہے کبھی وہ ہمیں سمجھ آتا ہے اور کبھی وہ بات ہماری سمجھ سے دور ہوتی ہے.ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان تمام تبدیلیوں اور انقلابات کے نتیجہ میں ایسے

Page 189

خطبات ناصر جلد دہم ܬܪܙ خطبہ عیدالاضحیہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء حالات پیدا کر دے کہ غلبہ اسلام کے دن قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں.آؤ اب ہم دعا کرلیں.اجتماعی دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے قربانیوں کی اس عید کو بہت بہت مبارک کرے.روزنامه الفضل ربوہ ۷ ار مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۱ تا ۶ )

Page 190

Page 191

خطبات ناصر جلد دہم ۱۶۷ خطبہ عید الاضحیہ ۱۶ /جنوری ۱۹۷۳ء دنیا میں ایک ہی بنیادی حقیقت ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا خطبہ عید الاضحیه فرموده ۱۶ جنوری ۱۹۷۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.وَفَدَيْنَهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ - وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ - (الصفت : ۱۰۹،۱۰۸) اذْ قَالَ لَهُ رَبَّةٌ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ - وَ وَقَى بِهَا إِبْرَاهِم بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يبَنِى اِنَّ اللهَ اصْطَفى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ.(البقرة: ۱۳۲ ، ۱۳۳) پھر حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے اس عید کو اس رنگ میں مبارک کرے کہ جن قربانیوں کی روایت اس عید سے وابستہ کی گئی ہے اور قرب الہی کی جو راہیں ان قربانیوں کے نتیجہ میں انسان پر کھولی گئی ہیں وہ راہیں اللہ تعالیٰ ہم پر بھی کھولے اور اپنے قرب کے دروازے ہمارے لئے وا کرے اور اپنی برکتوں اور رحمتوں سے ہمیں نوازے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک رؤیا دیکھی اور حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے کہ اپنی رؤیا کو ظاہری شکل میں پورا کریں مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں رویا میں جو حکم

Page 192

خطبات ناصر جلد دہم ۱۶۸ خطبہ عید الاضحیہ ۱۶ /جنوری ۱۹۷۳ء دیا گیا ہے وہ ذبح اولاد یا ذبح نفس کا نہیں بلکہ نفس اور اولاد کی عظیم قربانی کا ہے.موت کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں.انسان بیماری سے مرجاتا ہے یا بعض قاتل قتل کر دیتے ہیں وغیرہ کئی اسباب ہیں جن سے زندگی کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے.مگر جو موت شہادت کے رنگ میں آتی ہے یا جو عظیم قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مانگی گئی تھی اس کے مقابلہ میں دوسری اموات کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.ہر دوسری موت ایک وقتی چیز ہے.مگر یہ عظیم قربانی انسانی جذبات میں ایک تلاطم اور دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے والی چیز ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ذریعہ کے طور ذبح عظیم کو پیش کیا ہے.یہ ذبح عظیم بھی ہے اور نجات کا ذریعہ بھی ہے.یہ موت بھی ہے اور زندگی کا سرچشمہ بھی ہے اس لئے تَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ہم نے یہ ریت بعد میں آنے والی قوموں میں جاری کی جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اپنے عروج کو پہنچی.اس ذبح عظیم کا ذکر اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّة اسلم یعنی جب خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سمجھایا کہ ذبیح اولا د مراد نہیں بلکہ ذبح عظیم مراد ہے اور اسلم کا مطالبہ کیا گیا ہے تو انہوں نے کہا أسلمتُ لِرَب العلمین یعنی ان کی زبان، ان کے دلی جذبات اور ان کی روح کی پکار یہ تھی کہ میں تو پہلے ہی سے تمام جہانوں کے رب کی کامل فرمانبرداری اختیار کر چکا ہوں.گویا جس خدا نے ان جہانوں کو اپنے خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اس رب العلمین کے آگے میں اپنے اسلام کا اظہار کرتا ہوں.پس چونکہ حقیقت ان پر واضح کر دی گئی تھی کہ یہ ایک سلسلہ ہے اور یہ ایک تحریک ہے جو جاری کی گئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ساری دنیا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی روشنی کو پھیلا دیا جائے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے منشا کے عین مطابق اپنی اولاد کو اور آپ کی بزرگ اولاد نے آگے اپنی اولا د کو یہ نصیحت کی کہ دیکھو ایک دین اور شریعت تمہارے لئے چنی گئی ہے.(حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی اولاد کے زمانہ کے لحاظ سے بھی اور آپ کے خاندان میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی چونکہ پیدائش ہوئی تھی اس نقطہ نگاہ

Page 193

خطبات ناصر جلد دہم ۱۶۹ خطبہ عید الاضحیہ ۱۶ / جنوری ۱۹۷۳ء سے بھی) اس لئے تم اپنی زندگی میں کبھی بھی ایسی حالت میں نہ رہنا کہ تمہارے اوپر ایک موت وارد نہ ہو رہی ہو.ہر حال میں موت کا چولہ تمہارے اوپر نظر آنا چاہیے.پس اسلام کی روح جیسا کہ قرآن کریم میں اور جیسا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر قرآن میں بیان ہوا ہے یہ ہے کہ جس طرح ایک بکرا اپنی گردن قصائی کی چھری کے نیچے رکھ دیتا ہے اسی طرح انسان اپنے وجود کو خدا تعالیٰ کے مطالبات کی مبارک چھری کے نیچے رکھ دے.گویا اسلام کے معنے ہیں اپنی تمام خواہشات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی رضا کو کلی طور پر قبول کر لینا اور خدا کی ذات میں گم ہو کر فنا کی ایک کیفیت اپنے اوپر وارد کر کے ایک خاص قسم کی موت کو قبول کر لینا.اس موقع پر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے ہم یہ محاورہ بھی بول سکتے ہیں کہ اپنی مرضات سے ننگے ہو کر خدا تعالیٰ کی رضا کا احرام باندھ لینا اور فنافی اللہ اور فنا فی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جو چولہ ہے اس میں اپنی زندگی گزارنا اور خدا کے لئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ایک موت کو جو ہر وقت کی موت ہے قبول کرنا اور ایک ایسی زندگی جس پر کبھی موت نہیں آتی اسے خدا کے فضل کے ساتھ حاصل کرنا.یہ ہے اسلام کی اصل حقیقت جس پر قرآن کریم نے مختلف پیرایوں میں روشنی ڈالی.پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی اولاد کے ذریعہ قربانی کی یہ روایت قائم کی گئی اور اس میں بتایا گیا کہ انسان کی پیدائش کا مقصد بڑا ارفع ہے سب جانور اس کے لئے قربان ہوں گے جیسا کہ حج کے موقع پر ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں جانور اس یاد پر ہر سال قربان ہورہے ہیں.اس میں انسان کو یہ سبق دیا گیا تھا کہ دنیا کی ہر مخلوق اور سب جانور انسان کے لئے قربان ہوں گے اور انسان خدا کا بندہ بننے کے لئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ایک ایسی زندگی کو اختیار کرے گا جس میں ہر لحہ وہ ایک موت اپنے اوپر وارد کرے گا اور وہ اپنے نفس کو مٹا دے گا تو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نیا نفس ملے گا جس میں سے رَضِيْتُ بِاللهِ رَبِّا کی آواز نکل رہی ہوگی.اس کا اپنا کچھ نہیں ہوگا.نہ اس کی خواہشات ہوں گی نہ اپنی اس کی کوئی رضا

Page 194

خطبات ناصر جلد دہم ۱۷۰ خطبہ عید الاضحیہ ۱۶ / جنوری ۱۹۷۳ء ہوگی.نہ اپنے اس کے فیصلے ہوں گے.نہ اپنا اس کا کوئی کلام ہوگا.نہ اپنی اس کی کوئی آنکھیں ہوں گی نہ اپنے اس کے کوئی کان ہوں گے.خدا تعالیٰ کے کانوں سے وہ سنے گا.خدا تعالیٰ کی آنکھوں سے وہ دیکھے گا اور خدا تعالیٰ کی زبان سے وہ کلام کرے گا.اس معنی میں نہیں کہ خدا اس کے وجود میں ظاہری طور پر حلول کر جائے گا بلکہ اس معنی میں کہ خدا کا بندہ اپنے نفس کی ہر خواہش کو، اس کے ہر جذ بہ کو اور اس کی ہر طاقت ، قوت اور استعداد کو اپنے رب کے لئے قربان کر دے گا.تب خدا تعالیٰ اسے ایک نئی زندگی عطا کرے گا.اس نئی زندگی میں اس سے جو حرکات سرزدہوں گی اور انسان جن قوتوں کا مظاہرہ کر رہا ہو گا اس کے متعلق ہم تمثیلی زبان میں یہ کہ سکتے ہیں کہ انسان نے خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھا.خدا تعالیٰ کے کانوں سے اس نے سنا اور خدا تعالیٰ کے حواس سے اس نے معلوم کیا اور مشاہدہ کیا اور خدا تعالیٰ کی زبان سے اس کا بیان جاری ہوا.یعنی اس کا اپنا کچھ نہیں.سب کچھ اس نے خدا تعالیٰ کو پیش کر دیا.انسان پر ایک موت تو وقتی طور پر آتی ہے جو ایک لحظہ کے اندر ختم ہونے والی ہے مگر ایک موت ایسی ہے جو انسان کی ساری زندگی کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے.یہی وہ موت ہے جس کے منبع سے ابدی حیات کا چشمہ پھوٹا.یہی وہ ذبح عظیم ہے جس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے ذریعہ سے قائم کی گئی اور پھر جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں عشق الہی ، فدائیت، جاں نثاری انتہا کو پہنچی تو ایک ایسی قوم تیار ہوئی جو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے زیادہ جذبہ قربانی رکھنے والی تھی جو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے عشق اور محبت رکھنے والی تھی.کیونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تربیت حاصل کی تھی مگر صحابہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت حاصل کی تھی.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل روحانی طور پر مردہ تھے.دنیا کی نگاہ انہیں مردہ سمجھتی تھی لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت نے انہیں زندہ کیا تھا.انہوں نے دنیا میں ایک انقلاب عظیم بپا کیا اور اس وقت کی محدود دنیا میں اسلام کو کلی طور پر غالب کیا.محدود دنیا سے مراد معروف دنیا ہے کیونکہ اس وقت دنیا بنی نوع انسان سے معمور دنیا نہیں تھی.کرہ ارض کے بہت سے ایسے علاقے بھی تھے جہاں تک ابھی انسان کا علم نہیں

Page 195

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عید الاضحیہ ۱۶ / جنوری ۱۹۷۳ء پہنچا تھا، جہاں ابھی آبادیاں نہیں ہوئی تھیں.بعد میں آبادیاں ہوئیں.غرض صحابہ کرام نے اپنے زمانہ میں اسلامی انقلاب بپا کیا.پھر الہی نوشتوں کے مطابق مسلمانوں پر ایک تنزل کا زمانہ آیا.یہ ایک لمبا زمانہ ہے جس میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاکھوں پروانے اس دعا میں مشغول رہے کہ شیطان پر وہ آخری فتح جس کا اسلام میں وعدہ دیا گیا ہے اس آخری فتح کے دن جلد آجا ئیں تب مہدی معہود علیہ السلام کا ظہور ہوا یعنی وہ مہدی جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کی دعاؤں میں محفوظ ہے.یہی وہ مبارک وجود ہے جس تک آپ کا سلام پہنچا.بندوں نے بھی سلام پہنچایا، خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے بھی پہنچایا اور الہی تقدیر نے بھی پہنچایا.چنانچہ اس سلامتی کی دعا کی یہ برکت ہے کہ آج جب ہم بنی نوع انسان پر مجموعی نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک ہی حقیقت نظر آتی ہے.آج نوع انسان کی زندگی میں صرف ایک حقیقت پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو اکٹھا کر کے امت واحدہ بنادیا جائے گا.تمام لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اور آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے.یہ ایک حقیقت ہے اس کے علاوہ جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے وہ حقیقت نہیں ہے وہ عارضی چیزیں ہیں.وہ اگر آج ہیں تو کل غائب ہو جائیں گی لیکن اسلام کا عالمگیر غلبہ ایک حقیقت اور بنیادی صداقت ہے.یہ ظاہر ہوگی اور ظاہر ہوتی چلی جائے گی.یہ ایک روشن حقیقت ہے جس کی روشنی سے پورا کرہ ارض جگمگا اٹھے گا.دنیا جاؤ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (بنی اسر آءیل : ۸۲) کا مصداق بن جائے گی.شیطان شکست کھائے گا.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی صداقت غالب آئے گی.یہ ایک بنیادی صداقت ہے.اللہ تعالیٰ کا آسمانوں پر فیصلہ ہے یہ ہو کر رہے گا.اللہ تعالیٰ نے اس عظیم صداقت کے ظہور کے لئے مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ جو تحریک شروع کی ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ نا کام ہو.وہ تو انشاء اللہ ضرور کامیاب ہوگی.دنیا کی ساری مخالفتیں ناکام ہوں گی.اسلام غالب آئے گا.دنیا کی ساری دولتیں نا کام ہوں گی.اسلام غالب آئے گا.دنیا کے سارے ہتھیار نا کام ہوں گے اسلام کے روحانی بہتھیار غالب آئیں گے دنیا کی ساری بادشاہتیں مٹ جائیں گی مگر اسلام کی بادشاہت کبھی نہیں مٹے گی.

Page 196

خطبات ناصر جلد دہم ۱۷۲ خطبہ عید الاضحیہ ۱۶ / جنوری ۱۹۷۳ء اس روحانی بادشاہت کے لئے جو عاجز بندے تیار کئے گئے ہیں وہ آپ لوگ ہیں.اس عظیم مقصد کے سامنے میری اور آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہے.اگر ہمارے وجود کو پیسا جائے اور ذرہ ذرہ کر دیا جائے اور ہمارے اپنے ہی خون میں اس کا گارا تیار کیا جائے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلعہ کو مضبوط کرنے اور اس کی دیواروں کو وسیع وعریض کرنے کے لئے اس گارے کو وہاں استعمال کر دیا جائے تو یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے لیکن اگر دنیا یہ مجھتی ہے کہ وہ دنیا کی دولت، دنیا کی عزتوں، دنیا کے اقتدار اور دنیا کے ہتھیاروں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی اس تقدیر کو ٹال سکتی یا مٹاسکتی یا کمزور کر سکتی ہے تو یہ اس کی غلط نہی ہے، یہ اس کی بھول ہے.ایسا نہیں ہوگا کیونکہ خدا جو قادر و توانا خدا ہے، جو سب طاقتوں کا مالک خدا ہے اور جو اپنے امر پر بھی غالب ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.اس کا یہ فیصلہ ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا اور یہ غلبہ احمدیت کے ذریعہ مقدر ہے.پس آج دنیا میں ایک ہی صداقت ہے اور ایک ہی بنیادی حقیقت ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا.اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ تمام انسانوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے گا.یہ جھنڈ ا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہے.تمام بنی نوع انسان کو خواہ وہ دنیا کے کسی دور دراز خطہ میں رہائش پذیر کیوں نہ ہوں ایک ہاتھ پر جمع کر دیا جائے گا.یہ ہاتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ہے.جس کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ہاتھ نہیں یہ میرا ہاتھ ہے.خدا تعالیٰ کے اس ہاتھ کا اثر ، اس کی قوت قدسیہ اور اس کی طاقت اب بھی ویسے ہی ظاہر ہوگی جیسے قرونِ اولیٰ میں ظاہر ہوئی تھی.یہ بنیادی صداقت اور یہ بشارت ہم سے (جو احمدیت کی طرف منسوب ہونے والے ہیں ) قربانی چاہتی ہے، وہی قربانی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اور اولا د نے خدا کے حضور پیش کی تھی.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی بیٹوں اور فرزندوں سے بھی اسی قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے.اس قربانی کے لئے آپ تیار ہو جائیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بنیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی قربانیوں کے پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 197

خطبات ناصر جلد دہم ۱۷۳ خطبہ عید الاضحیہ ۱۶ / جنوری ۱۹۷۳ء خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اب میں دعا کراتا ہوں.احباب دعا میں شامل ہوں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے بھی اور آپ کو بھی عید کی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور عید کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کی توفیق عطا فرمائے.(روز نامه الفضل ربوه ۲۶ نومبر ۱۹۷۶ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 198

Page 199

خطبات ناصر جلد دہم ۱۷۵ خطبہ عیدالاضحیه ۵/جنوری ۱۹۷۴ء عیدالاضحیہ خدا کے حضور قربانیاں پیش کرنے کی یاد تازہ کرتی ہے خطبہ عیدالاضحیه فرموده ۵ /جنوری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصی ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جلسہ سالانہ کے بعد مجھ پر انفلوئنزا کا شدید حملہ ہوا تھا جس کا اثر ابھی تک باقی ہے لیکن بعض دفعہ دوستوں کی ملاقات بھی شفا کا موجب بن جاتی ہے.اس لئے میں عید کی نماز پڑھانے کے لئے یہاں آ گیا ہوں تا کہ احباب کو اس رنگ میں عید کی مبارک باد کہوں جس کا ابھی میں مختصراً ذکر کروں گا.یوں تو پہلے نبی سے لے کر بعثت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک نوع انسانی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی کامل شریعت کی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کی تربیت دینے کا کام کسی نہ کسی رنگ میں جاری رہا لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے اس تربیت کے کام میں خاص طور پر شدت پیدا ہوگئی.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور پھر آپ کی اولا د نے اس خطہ ارض میں جہاں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مقدر تھی اور اس قوم کو جس نے اپنے کندھوں پر سب سے پہلے اس بار عظیم کو اُٹھا نا تھا، اس کی تربیت کے کام کو پورے زور کے ساتھ جاری رکھا اور ہزاروں سال کی تربیت کے بعد عرب کے مکینوں کو فطری قومی کے لحاظ سے اس قابل بنایا کہ وہ

Page 200

خطبات ناصر جلد دہم ۱۷۶ خطبہ عیدالاضحیه ۵/جنوری ۱۹۷۴ء قرآن کریم کی شریعت کو اُٹھا سکیں اور اس کامل شریعت کی ذمہ داریوں کو نباہ سکیں.گویا یہ ایک بنیاد تھی جسے ایک نبی کے بعد دوسرے نبی کے ذریعہ مضبوط سے مضبوط تر بنایا جارہا تھا اور پھر ہزاروں سال کی اُس تربیت اور تیاری کے بعد حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی.آپ انسانیت کا نچوڑ تھے.آپ ہی کی خاطر عالمین کو ، کائنات کو پیدا کیا گیا تھا.آپ کی ذات میں نوع انسانی نے خدا تعالیٰ کی صفات کے حسین تر جلوے دیکھے.آپ کے وجود میں نوع انسانی نے انسانی قوتوں کی کمال نشو و نما کا مشاہدہ کیا.پس ظاہر ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ انسان کے کندھوں پر ایک نئی قسم کی ذمہ داریاں ڈالی گئیں.آپ سے پہلے نسل انسانی کو ان ذمہ داریوں کے اُٹھانے کی تربیت دی جارہی تھی.آپ کی بعثت کے بعد اس بنیاد پر منزل بمنزل روحانی محل کو بلند سے بلند تر کیا جانے لگا اور اس میں وسعت پیدا ہونی شروع ہوئی، یہاں تک کہ ہمارے اس زمانہ میں یہ وسعت اپنی انتہائی شکل اختیار کرنے کے لئے تیار کھڑی ہے.اب نوع انسانی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی قلعہ میں سما جائے گی اور شیطان کے ہر قسم کے حملوں سے محفوظ ہو کر لوگ خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے امن کی زندگی گزارنے لگیں گے.دین اسلام کو وسعتوں کی اس انتہا تک پہنچانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض کے دائرہ کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی ذمہ داری امت محمدیہ کے کندھوں پر ڈالی گئی تھی اور اب اس زمانہ میں یہ ذمہ داری اپنی انتہائی شکل میں امت محمدیہ کے اس گروہ پر ڈالی گئی ہے جسے جماعت احمدیہ کا نام دیا گیا ہے اور جس کی بنا حضرت مہدی معہود اور مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی ہے.یہی وہ جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کر رہی ہے اور اس ایثار کا نمونہ دکھا رہی ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور آپ کے محبت کے سرچشمہ سے پھوٹتا اور دُنیا کو اپنے حسن و احسان سے گرویدہ بنا کر خدائے واحد و یگانہ کی طرف لانے والا ہے.گویا اس جماعت کا یہ نصب العین ہے کہ وہ اسلام کے قلعے کو حتی الامکان وسیع سے وسیع تر اور بلند سے بلند تر کرنے کے لئے کوشاں رہے.

Page 201

خطبات ناصر جلد دہم 166 خطبہ عیدالاضحیه ۵/جنوری ۱۹۷۴ء پس جماعت احمد یہ کمزور اور بے بس ہونے کے باوجود، حقیر سمجھے جانے کے باوجود، دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حضور بشاشت سے قربانیاں دینے میں آگے ہی آگے بڑھ رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس روحانی عمارت میں وسعت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کر رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِكَ - ہماری یہ عید در اصل قربانیوں کی یاد دلاتی ہے اس عید سے خدا تعالیٰ کے حضور ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے قربانیاں دینے کی یاد تازہ کی جاتی ہے.اس وقت جماعت احمدیہ کے سب افراد مرد بھی اور عورتیں بھی ، بڑے بھی اور چھوٹے بھی چونکہ خدا کی راہ میں قربانیاں دینے میں مشغول ہیں اس لئے میں سب کو اس عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ان قربانیوں کے نتیجہ میں جو برکات حاصل ہو رہی ہیں اللہ تعالیٰ اُن میں اور بھی زیادتی کرے اور آپ سب اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے وارث بنیں جن کی ہمیں بشارتیں دی گئی ہیں.یہ وہ بشارتیں ہیں جن کا پہلے نبیوں نے بھی ذکر کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عظیم نعمتوں کی بشارتیں دی ہیں اور آپ کے عاجز متبعین نے بھی اُن کا ذکر کیا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمیں وہ ساری نعمتیں مل جائیں جن کی ہمیں بشارتیں دی گئی ہیں اور اس طرح قربانی کی اس عید سے جو حقیقی برکات وابستہ ہیں خدا کرے کہ ہم سب کو وہ برکتیں نصیب ہوں.اللھم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ جنوری ۱۹۷۴ ، صفحه ۸٫۲)

Page 202

Page 203

خطبات ناصر جلد دہم ۱۷۹ خطبہ عیدالاضحیه ۲۵ / دسمبر ۱۹۷۴ء قدم بقدم آگے بڑھنا اور نئی منزل پر پہنچنا ہمارے لئے عید ہے خطبہ عید الاضحیه فرموده ۲۵ / دسمبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوست جانتے ہیں کہ میں لمبے عرصہ سے بیمار چلا آرہا ہوں.۲۶ نومبر کو بیماری کا پہلا حملہ ہوا تھا.پھر اس کے بعد دوبارہ حملہ ہوا.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اب بیماری قابو میں ہے لیکن ابھی تک ایلو پیتھک کے ڈاکٹر جو اینٹی بائیوٹک قسم کی زہریلی دوائیں دیتے ہیں، وہ میں کھا رہا ہوں کچھ تو بیماری کے نتیجہ میں اور کچھ ان دوائیوں کے استعمال کی وجہ سے بہت کمزوری محسوس کرتا ہوں.بعض دوستوں کا تو یہ مشورہ تھا کہ میں عید کے اس اجتماع میں شامل نہ ہوں تا کہ جلسہ سالانہ کے کام پر اس کا اثر نہ پڑے.لیکن میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کا جو موقع دے اس سے فائدہ اٹھا لینا چاہیے اور مستقبل کو اللہ تعالیٰ کی قدرت پر چھوڑ دینا چاہیے.اس لئے میں یہاں آگیا ہوں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس جلسہ سالانہ کی عظیم ذمہ داریاں مجھے بھی اور آپ کو بھی نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.اسلام نے ہمیں جن عبادتوں کے بجالانے کا حکم دیا ہے.ان میں بنیادی طور دو پہلو پائے

Page 204

خطبات ناصر جلد دہم ۱۸۰ خطبہ عیدالاضحیه ۲۵/دسمبر ۱۹۷۴ء جاتے ہیں.ایک پہلو ہے عاجزی اور انکسار کا اور دوسرا پہلو ہے محبت اور ایثار کا کسی عبادت میں ایک پہلو نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے اور کسی دوسری عبادت میں ایک دوسرا پہلو نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے مثلاً ہماری نمازوں میں عاجزی اور انکسار کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور حج کی عبادت میں محبت اور ایثار کا پہلو نمایاں ہوتا ہے.یوں تو ہر عبادت میں ہر دو پہلو پائے جاتے ہیں مگر جہاں تک نمایاں ہونے کی بات ہے یا زور ڈالنے کی بات ہے ان میں سے کوئی نہ کوئی پہلو کسی نہ کسی عبادت میں نمایاں ہوتا ہے.آج ہم جو عبادت بجالاتے ہیں.اس صورت میں بھی کہ مکہ پہنچ کر حج کے ارکان بجالاتے ہیں یا اس شکل میں بھی کہ ہمارے دل وہاں پہنچنے کے لئے تڑپتے تو ہیں مگر ہم وہاں پہنچ نہیں سکتے.اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے ہم بعض دوسرے ایسے کام کرتے ہیں ، جن کا ہم سے وقت تقاضا کرتا ہے اور ان کے نتیجہ میں ہم وہاں نہیں پہنچ سکتے.یعنی ایسے حالات جن میں انسان مکہ میں حاضر نہیں ہو سکتا.مگر نہیں کہہ سکتے کہ جو لوگ وہاں پہنچ گئے.ان کا حج قبول ہوا یا جو وہاں نہیں پہنچ سکے.ان کا ارادہ حج قبول ہوا کیونکہ قبولیت حج کا تعلق تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے اور جو علم غیب اللہ تعالیٰ کو ہے اس کا علم انسان کو ہو ہی نہیں سکتا سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ خود بتاۓ اور بعض دفعہ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے.میں نے شاید پہلے بھی ذکر کیا تھا، ایک دفعہ ایک بزرگ نے حج کے موقع پر مکہ میں کشفی حالت میں یا رویا میں دیکھا کہ فرشتے آپس میں باتیں کر رہے ہیں.باتوں باتوں میں ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اس دفعہ حج کے موقع پر کس قدر لوگوں کے حج قبول ہوئے ہیں تو اسے بتایا گیا کہ ہوا تو کسی ایک کا بھی قبول نہیں ، ہاں شام میں ایک شخص ہے، یہ اس کا نام ہے اور فلاں جگہ رہتا ہے وہ حج کے لئے آیا تو نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے حج کو قبول کیا اور ( شاید یہ بھی کہا کہ ) اس کی وجہ سے اور بہت سے لوگوں کے حج بھی قبول ہوئے.اس بزرگ کو بڑی جستجو پیدا ہوئی.چنانچہ وہ شام پہنچے اور اس گلی میں گئے جہاں وہ شخص رہتا تھا.اس کے دروازے پر دستک دی اور پوچھا کہ بات کیا ہے.میں نے تمہارے متعلق یہ رویا دیکھی ہے.اس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ

Page 205

خطبات ناصر جلد دہم ۱۸۱ خطبہ عید الاضحیه ۲۵؍دسمبر ۱۹۷۴ء مجھے ساری عمر حج کی خواہش رہی.میرا غریب گھرانہ ہے.میں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر حج کے لئے زادِ راہ کا انتظام کیا.میں حج پر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک دن میری بیوی کو جو حاملہ تھی ہمسائے کے گھر سے گوشت کے پکنے کی خوشبو آئی.بعض دفعہ حاملہ عورت کو کسی چیز کے کھانے کی بڑی خواہش پیدا ہوتی ہے.ڈاکٹر بھی کہتے ہیں کہ اس کی خواہش پوری کرنی چاہیے.ورنہ بچے کی صحت پر اثر پڑے گا.چنانچہ میری بیوی نے مجھے کہا کہ ہمسائے کے گھر سے گوشت مانگ کر لاؤ.چونکہ اسلام نے ہمسایہ کے بڑے حقوق رکھے ہیں.ہم بھی ان حقوق کو ادا کرتے تھے.ہماری آپس میں دوستی تھی اور ہمسائیگی کے لحاظ سے آپس میں بڑے اچھے تعلقات تھے.میں اپنے ہمسایہ کے گھر گیا اور دروازے پر دستک دی.ہمسایہ کی عورت نے دروازہ کھولا.میں نے بتا یا کہ اس طرح تمہارے گھر سے گوشت کی خوشبو آئی ہے اور میری بیوی کہتی ہے کہ جاؤ لے کر آؤ میں نے گوشت کھانا ہے.اس نے جواب دیا کہ ہمارے لئے وہ گوشت جائز ہے لیکن تمہارے لئے جائز نہیں ہے.اس لئے میں وہ کھانا تمہیں نہیں دوں گی.میں نے پوچھا یہ کیا بات ہے کہ تمہارے لئے تو گوشت جائز ہے مگر ہمارے لئے جائز نہیں.کہنے لگی کئی روز سے ہم پر فاقے آرہے تھے.کھانے کو کچھ نہیں مل رہا تھا، بچے بھوک کے مارے تڑپ رہے تھے.میرا خاوند باہر گیا.دیکھا ایک گدھا تازہ مرا پڑا ہے.اس نے اضطراری حالت میں اس کا گوشت کاٹا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے لے آیا جسے ہم نے پکایا ہے.یہ اضطراری حالت ہماری تو ہے ، تمہاری نہیں.اس لئے تمہارے لئے یہ گوشت جائز نہیں ہے.جب میں نے اپنے ہمسائے کی غربت اور افلاس کی یہ حالت دیکھی تو میں واپس اپنے گھر گیا اور حج پر جانے کے لئے میں نے جو رقم اکٹھی کر رکھی تھی وہ ساری لا کر اپنے ہمسائے کو دے دی اور کہا کہ حرام نہ کھاؤ حلال کھاؤ.تو دیکھو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس شخص کا حج قبول کیا جو حج پر جاہی نہیں سکا بلکہ اس کے اس اخلاص کے نتیجہ میں بعض دوسرے لوگوں کی جو حج پر گئے تھے، بہت سی کمزوریاں معاف کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کا حج بھی قبول کر لیا.پس قبولیت حج اور چیز ہے اور ادائیگی فریضہ حج اور چیز ہے.محض حج ہی نہیں بلکہ ہر عبادت کا

Page 206

خطبات ناصر جلد دہم ۱۸۲ خطبہ عید الاضحیه ۲۵؍دسمبر ۱۹۷۴ء یہی حال ہے.اسی لئے اسلام نے عاجزی اور انکسار پر بھی زور دیا اور محبت و ایثار پر بھی.گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تم خود کو لاٹھی محض سمجھو اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں مستانہ وار اپنی زندگیاں گزارو.چنانچہ اس موقع پر مستانہ وار زندگی کا یہ نمونہ ایک ظاہری علامت ہے لیکن اس کے پیچھے ایک عظیم صداقت چھپی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اس فریضہ حج اُس عاشقانہ عبادت کو اللہ تعالیٰ نے ذبح عظیم کا بھی نام دیا ہے.اس عبادت کا ذبح عظیم کے ساتھ گہرا تعلق ہے.” ذبح عظیم“ کا لفظ ہمیں اس صداقت سے متعارف کرواتا ہے کہ دنبے ذبح کرنا کوئی چیز نہیں اور طواف کرنا کوئی چیز نہیں اور حجر اسود کا بوسہ دینا کوئی چیز نہیں.اصل چیز اللہ تعالیٰ کے پیار میں اس کے حکم کو ماننا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے.کہ وہ طواف کرتے ہوئے جس وقت حجر اسود کا بوسہ لیتے تھے تو ساتھ یہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں لیکن خدا کہتا ہے کہ میں تجھے بوسہ دوں.اس لئے بوسہ دیتا ہوں.در حقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے بنیا د رکھی گئی تھی.ایک عظیم تر بیت کی اور یہی وہ تربیت ہے.جس نے عشق کی مستی میں ذبح عظیم کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا.میں نے اپنے بعض خطبوں میں پہلے بھی بتایا تھا کہ بعثت نبوی سے اڑھائی ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ مستقبل کی صداقتیں بتائی گئی تھیں اور جس قسم کے ایثار پیشہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مشن کی کامیابی کے لئے چاہیے تھے ان کی تیاری کے لئے ہدایتیں دی گئی تھیں.جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بچے کو ذبح کرنے پر آمادگی ظاہر کی تو اگر چہ یہ بھی بظاہر ایک بہت بڑی قربانی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کو پکڑا اور جھنجھوڑا اور کہا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو ( خدا تعالیٰ نے فرمایا مجھے ایک جان کی ضرورت نہیں مجھے تو ان قوموں کی ضرورت ہے جو میرے نام پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اڑھائی ہزار سال تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد ایک نبی کے بعد دوسرا نبی آیا.ان کی اولاد میں بھی نبی ہوئے اور ان کے علاوہ بھی نبی آئے جنہوں نے انسان کی روحانی استعدادوں کو عروج پر پہنچانے کی کوششیں کیں اور ذہن انسانی کوقبولیت رسالت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے

Page 207

خطبات ناصر جلد دہم ۱۸۳ خطبہ عید الاضحیه ۲۵؍دسمبر ۱۹۷۴ء تیار کیا اور پھر جس وقت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اکیلی آواز بلند ہوئی اور آپ نے دنیا کو مخاطب کر کے فرمایا کہ خدا تعالیٰ تمہیں اپنے پیار کے لئے چنتا ہے اور یہی میری بعثت کی غرض ہے.اگر تم نجات چاہتے ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ سے پیار اور محبت اور عشق کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اور اس کی علامتیں اپنے وجود میں ظاہر کرنی پڑیں گی.چنانچہ آپ کے صحابہ نے آپ کی آواز پر دیوانہ وار لبیک کہا.وہ سر پھرے، پاگل اور مجنون نہیں تھے.جو نہتے بدر کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے تھے.نہ وہ لوگ پاگل تھے.جنہوں نے مکی زندگی میں تکالیف اٹھا ئیں.نہ ہم ان لوگوں کو مجنون کہہ سکتے ہیں.جنہوں نے کسریٰ اور قیصر جیسی عظیم طاقتوں سے ٹکر لی تھی.ان کی غرض کسری کی دولت نہ تھی، ان کا مقصد قیصر کے خزانے نہ تھے ان کا مقصد یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے اگر وہ خود اور ان کی نسلیں بھی قربان ہوتی ہیں تو یہ ایک ستا اور سچا سودا ہے.پس یہی وہ ذبح عظیم ہے جس کی طرف آج کی عبادت ہمیں متوجہ کر رہی ہے.اس مقصد کے حصول کے لئے قومیں آئیں.جن کا تعلق صرف عرب کے ساتھ نہ تھا بلکہ کچھ عرصہ کے بعد افریقہ کے لوگ بھی آگے بڑھے.آخر وہ افریقن ہی تھے جو سپین میں اترے تھے.ان کا بھی یہی مقصد تھا کہ سپین میں خدائے واحد و یگانہ کا نام بلند کیا جائے.اندھیروں میں بسنے والوں کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان سے آشنا کیا جائے اور لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے نور سے منور کیا جائے.جو لوگ ساحل سپین پر اترے تھے.انہوں نے وہاں اپنی کشتیاں جلا دی تھیں اور اسلام کے لئے قربان ہونے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی.یہ ایک انسان کی یا یہ ایک اسماعیل کی قربانی نہ تھی بلکہ ساری قوموں کی قربانی تھی اور یہی وہ ذبح عظیم ہے.جس کے لئے ان کو بڑی کامیابی کے ساتھ تیار کیا گیا تھا.وہ مٹھی بھر تھے مگر جہاں بھی گئے اسلام کا جھنڈا بلند کر دیا.جس آدمی نے دولت کمانی ہو، جس نے ہیرے اور جواہرات حاصل کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بنانا ہو وہ اپنے منصو بہ کو اس وقت عمل میں لاتا ہے جب ظاہری حالات میں دنیوی طور پر کامیابی کا یقین ہوتا ہے مثلاً چین کی موجودہ حکومت ہے.جس وقت چین کی موجودہ قیادت آزادی کے لئے اور اپنے آئیڈیل کے حصول کے لئے جنگ کر رہی تھی اگر چہ اس نے یہ تحریک

Page 208

خطبات ناصر جلد دہم ۱۸۴ خطبہ عیدالاضحیه ۲۵/دسمبر ۱۹۷۴ء ایک لمبے عرصہ سے شروع کر رکھی تھی لیکن یہ نمایاں ہوکر ۱۹۲۹ء سے ۱۹۴۹ء تک میں سال جد و جہد کرتی رہی.اس عرصہ میں تحریک آزادی کے قائدین اور عمائدین نے لوگوں کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ اپنے دشمنوں سے اس وقت تک جنگ نہیں لڑنی جب تک تمہاری کا میابی یقینی نہ ہو.اگر کامیابی یقینی نہ ہو تو ادھر ادھر ہو جاؤ اور دشمن سے جھڑ ہیں نہ لو.صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ انہوں نے یقینی کامیابی کا معیار یہ ٹھہرا رکھا تھا کہ صرف اسی وقت حملہ کیا جائے جب دشمن سے تعداد میں دو گنے ہوں.اگر دشمن تعداد میں برابر ہے.تب بھی حملہ نہیں کرنا اور دشمن سے جنگ شروع نہیں کرنی.یہ ہے وہ دماغ جو دنیا میں اپنے اقتدار کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے لیکن جس نے خدا تعالیٰ کا نام بلند کرنا ہو وہ تعداد کو نہیں دیکھتا.اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ تیس ہزار مسلمانوں نے تین لاکھ کا مقابلہ کیا.یرموک کے میدان میں مسلمانوں کے مقابلے میں دشمن کی تعداد ایک اور دس کی نسبت سے تھی مگر پھر بھی مسلمان پیچھے نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بدر کے معرکے میں آپ کے ساتھ مٹھی بھر لوگ تھے.جن کے پاس تلوار میں مانگی ہوئی تھیں.ان کے پاس نہ زرہیں تھیں اور نہ سواریوں کے لئے جانور.وہ پیدل گئے تھے.ان کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے تھے.وہ کس غرض کے لئے وہاں گئے تھے؟ آیا رؤسائے مکہ کی تلوار میں چھیننے کے لئے وہاں گئے تھے؟ عقل کہتی ہے کہ نہیں! ان کے اپنے حالات بتاتے ہیں کہ نہیں !! صرف ایک محبت اور عشق الہی تھا جو ان کے سینوں میں موجزن تھا.وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا چاہتے تھے.خود اپنے لئے وہ کچھ نہیں چاہتے تھے.آج ہم بھی میں اور تم سبھی اس لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ دنیا کے اموال سے کوئی غرض نہ رکھیں، دنیا کے اقتدار اور سیاست سے کوئی غرض نہ رکھیں بلکہ دین کی سر بلندی کے لئے اپنی زندگیاں گزارنے والے بن جائیں.ہم دنیا کی ہر تکلیف برداشت کر کے دنیا کے کونے کونے میں خدا تعالیٰ کی توحید کو قائم کریں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہر جگہ گاڑ دیں.لوگوں کے ذہنوں ، ان کی عقل اور فراست کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے منور کر دیں.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے مظہر اتم تھے ، آپ کا وجود روحانی لحاظ سے کامل

Page 209

خطبات ناصر جلد دہم ۱۸۵ خطبہ عیدالاضحیه ۲۵؍دسمبر ۱۹۷۴ء اور مکمل تھا ، آپ کے حسن و احسان کے جلوے مخلوق پر ظاہر ہورہے ہیں.یہ آپ کا عظیم احسان ہے.پس آپ کے حسن و احسان کے جو جلوے ہم نے دیکھے ہیں ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ جلوے ہمارے دوسرے بھائی بھی دیکھیں.غرض ہماری زندگیاں دنیا کے لئے نہیں اور نہ دنیا کے اموال جمع کرنے کے لئے ہیں.نہ ہماری زندگیاں دنیا کی سیاست کے لئے ہیں اور نہ دنیا کے اقتدار کے لئے نہ ہماری کوششیں دنیا کی وجاہت کے لئے ہیں اور نہ دنیوی عزت کے لئے ہماری زندگی عاجزی اور انکساری کے لئے ہے.ہماری زندگی خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے عشق میں اپنے لمحات گزارنے کے لئے ہے.ہماری زندگی اس لئے اور صرف اس لئے ہے کہ ہم دنیا کے ہر شخص کے پاس پہنچیں اور اسے اسلام کے پیش کردہ خدائے واحد و یگانہ سے روشناس کرائیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو محسن اعظم کی حیثیت سے دنیا کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ، ان کی صداقت کا قائل کروائیں تا کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بنیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان کے جلوے ان کی زندگیوں میں بھی نظر آنے لگیں.یہ ہے ہماری زندگی اور یہ ہے ہمارا مقصد جو دنیا سے، دنیا کی آنکھ سے، دنیا کے خیالات سے اور دنیا کے حالات سے بالکل مختلف اور متضاد ہے.اس لئے دنیا آپ کو پہچانتی نہیں اور چونکہ وہ آپ کو پہچانتی نہیں اس لئے آپ کو اس سے گلہ ہی کیا ہے.آپ نے تو اپنا ہر سانس خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے لینا ہے اور آپ نے اپنی طاقت کا ہر ذرہ خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے خرچ کرنا ہے.آپ کو کسی سے کیا شکوہ اور کیا گلہ.پس آپ ایک مقصد سامنے رکھیں.نہ دائیں دیکھیں اور نہ بائیں.آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کے عشق کی ایک آگ ہونی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کے ایک شعر میں فرمایا ہے کہ میرے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ بھڑک رہی ہے.میرے وہ ساتھی جو ابھی محبت الہی میں خام ہیں اور خدا کے عشق میں پختہ نہیں وہ دور ہٹ جائیں کہیں جل نہ جائیں.پس احباب جماعت کو چاہیے کہ وہ پختہ نہیں اور دوسروں کو پختہ بنانے کی کوشش کرتے رہیں

Page 210

خطبات ناصر جلد دہم ۱۸۶ خطبہ عید الاضحیه ۲۵؍دسمبر ۱۹۷۴ء کیونکہ یہ ایک نسل کی ذمہ داری نہیں اور نہ ہی ایک نسل اسے کامیابی کے ساتھ پورا کر سکتی ہے.ایک نسل کے بعد دوسری نسل نے اس ذمہ داری کو نباہتے چلے جانا ہے.یہ وہ اہم فریضہ ہے جس کی ابتدا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی اور جس کے اندر شدت اور جوش حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ پیدا ہوا.ہم نے اسی شدت اور جوش کے ساتھ خدا تعالیٰ کے عشق و محبت کی آگ کو اپنے اندر اور اپنے باہر پیدا کرنا ہے تا کہ وہ دوسروں کے لئے روشنی کا کام دے اور ہمارے لئے فنا فی اللہ کے مقام تک پہنچانے کا ذریعہ بنے.اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا واسطہ بن جائے.خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے.خدا کرے کہ اس کوشش میں ہم کامیاب ہو جائیں آپ بھی اور میں بھی کہ خدا تعالیٰ کا پیدا کردہ ہر انسان اپنے خالق و مالک رب کریم کو پہچاننے لگے اور اس کی رحمتوں کا وارث بن جائے.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا :.اب ہم دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتیں ہمارے شامل حال ہوں.ہماری زندگی اور اس کے ہر پہلو کو خدا اپنی رحمت کے سایہ میں رکھے اور وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے اور ہمیں کبھی بے سہارا نہ چھوڑے.آؤ دعا کر لیں.اجتماعی دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سب دوستوں کو عید مبارک ہو.ایک بات میں اور کہنا چاہتا ہوں دوست اسے بھی تو جہ سے سن لیں کہ یہ جلسہ کوئی دنیوی اٹھ تو نہیں.خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ، دین محمد کمی کی باتیں سننے کے لئے اس نیت کے ساتھ ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں کہ ہم ان پر عمل بھی کریں گے اور یہی انسانی زندگی کی حقیقت ہے.آدھی حقیقت کو دنیا بھولے رہتی ہے.مگر آپ کو نہیں بھولے رہنا چاہیے کیونکہ انسان کی بقاء کے لئے ، انسان کی حیات کے قائم رہنے کے لئے ، انسان کی ترقیات کے لئے، انسان کی کامیابیوں کے لئے ایک نہیں دو چیزوں کی ضرورت ہے اور کسی ایک کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.ایک ہے تدبیر یعنی کوشش کرنا مثلاً ایک طالب علم ہے اگر وہ پڑھے نہ تو کامیاب نہیں ہوسکتا.لیکن جس قدر اہمیت تدبیر کو حاصل ہے.اس سے زیادہ اہمیت کا حامل دوسرا حصہ ہے

Page 211

خطبات ناصر جلد دہم ۱۸۷ خطبہ عیدالاضحیه ۲۵؍دسمبر ۱۹۷۴ء اور وہ دعا ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احباب جماعت سے فرمایا کہ تم اپنی تدبیر اور دعا کو کمال تک پہنچاؤ تا فلاح دارین حاصل کر سکو.جلسہ کے ان ایام میں دوست یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.اس لئے کثرت سے دعائیں کریں.نیکی کی باتیں کریں.نیکی کی باتیں سنیں.بھائیوں سے ملیں ، دوستیاں مضبوط کریں، رشتہ داریوں کو مستحکم کریں.اس نیت کے ساتھ کہ ہم نے بنیان مرصوص بن کر غلبہ اسلام کی مہم کو کا میاب بنانا ہے.پس دوست بہت دعائیں کریں.آج کے ماحول میں نعرے نہ لگا ئیں اور دعاؤں میں وقت گزاریں.گردنیں جھکائی رکھیں ، عاجزانہ راہوں کو اختیار کریں اور اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے بھی اپنی کوششوں میں کامیاب کرے.تدبیر و دعا ہر دو کی توفیق عطا کرے اور ان کو قبول کرے اور اپنی قدرت سے ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے حق میں ان کے بہترین نتائج نکالے.ایک دفعہ پھر سب کو عید مبارک ہو.روزنامه الفضل ربوه ۱۰ جنوری ۱۹۷۵ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 212

Page 213

خطبات ناصر جلد دہم ۱۸۹ خطبہ عید الاضحیه ۱۴ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء حضرت ابراہیم اور آپ کی نسلوں نے محمد کے لئے عظیم قربانیاں دیں خطبہ عیدالاضحیه فرموده ۱۴ / دسمبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات مع ترجمہ تلاوت فرمائیں :.فَبَشِّرْتهُ بِغُلَمٍ حَلِيمٍ - فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعَى قَالَ يُبْنَى إِنِّي أَرى فِي الْمَنَامِ أَنِّي اذْبَحُكَ فَانْظُرُ مَا ذَا تَرى قَالَ يَااَبَتِ افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِى إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصُّبِرِينَ - دو فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ - وَنَادَيْنَهُ أَنْ يَا بُرهِيمُ - قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِينَ - إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلوُا الْمُبِينُ - وَفَدَيْنَهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ - وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ.(الصفت : ۱۰۲ تا ۱۰۹) ترجمہ:.تب ہم نے اس کو ایک حلیم لڑکے کی بشارت دی.پھر جب وہ لڑکا اس کے ساتھ تیز چلنے کے قابل ہو گیا تو اس نے کہا اے میرے بیٹے ! میں نے تجھے خواب میں دیکھا ہے کہ (گویا) میں تجھے ذبح کر رہا ہوں.پس تو فیصلہ کر کہ اس میں تیری کیا رائے ہے؟ (اس وقت بیٹے نے ) کہا اے میرے باپ! جو کچھ تجھے خدا کہتا ہے وہی کر.تو انشاء اللہ مجھے اپنے ایمان پر قائم رہنے والا دیکھے گا.پھر جب وہ دونوں فرمانبرداری پر آمادہ ہو گئے اور اس (یعنی باپ ) نے اس (یعنی

Page 214

خطبات ناصر جلد دہم ۱۹۰ خطبہ عیدالاضحیه ۱۴ / دسمبر ۱۹۷۵ء رضامندی ظاہر کرنے والے بیٹے ) کو ماتھے کے بل گر الیا اور ہم نے اس ( یعنی ابراہیم ) کو پکار کر کہا.اے ابراہیم ! تو اپنی رؤیا پوری کر چکا ہم اسی طرح محسنوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں.یہ یقیناً ایک کھلی آزمائش اور امتحان تھا اور ہم نے اس (یعنی اسمعیل ) کا فدیہ ایک بڑی قربانی کے ذریعہ سے دے دیا اور بعد میں آنے والی قوموں میں اس کا نیک ذکر باقی رکھا.وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَهِمَ مُصَلَّى وَعَهِدْنَا إِلَى إبْراهِم وَ اِسْعِيلَ أَن طَهَّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ - وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِم رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا أَمِنَّا وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأَمَتِّعَهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرَةٌ إِلى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ - وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَ اِسْعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَا اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَكَ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - رَبَّنَا وَابْعَثُ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - (البقرة : ۱۲۶ تا ۱۳۰ ) ترجمہ:.اور (اس وقت کو بھی یاد کرو) جب ہم نے اس گھر ( یعنی کعبہ ) کولوگوں کے لئے بار بار جمع ہونے کی جگہ اور امن ( کا مقام بنایا تھا اور حکم دیا تھا کہ ) ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسمعیل کو تاکیدی حکم دیا تھا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک اور صاف ) رکھو اور (اس وقت کو بھی یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا تھا کہ اے میرے رب ! اس ( جگہ ) کو ایک پر امن شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو بھی اللہ پر اور آنے والے دن پر ایمان لائیں انہیں ( ہر قسم کے ) پھل عطا فرما ( اس پر اللہ نے فرمایا اور جو شخص کفر کرے اسے (بھی) میں ( اس دنیوی زندگی میں تھوڑی مدت تک فائدہ پہنچاؤں گا.پھر اسے مجبور کر کے دوزخ کے عذاب کی طرف لے جاؤں گا اور (یہ) بہت برا انجام ہے.اور (اس وقت کو بھی یاد کرو) جب ابراہیم اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہا تھا اور (اس کے

Page 215

خطبات ناصر جلد دہم ۱۹۱ خطبہ عیدالاضحیه ۱۴ / دسمبر ۱۹۷۵ء ساتھ ) اسمعیل بھی (اور وہ دونوں کہتے جاتے تھے کہ ) اے ہمارے رب! ہماری طرف سے اس خدمت کو قبول فرما.تو ہی بہت سننے والا (اور ) بہت جاننے والا ہے.اے ہمارے رب! اور (ہم یہ بھی التجا کرتے ہیں کہ ) ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار (بندہ) بنالے اور ہماری اولاد میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار جماعت (بنا) اور ہمیں ہمارے ( مناسب حال ) عبادت کے طریق بتا اور ہماری طرف (اپنے) فضل کے ساتھ توجہ فرما.یقینا تو ( اپنے بندوں کی طرف) بہت توجہ کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے اور اے ہمارے رب ! ( ہماری یہ بھی التجا ہے کہ تو انہی میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے یقینا تو ہی غالب ( اور ) حکمتوں والا ہے.مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ اَنْ يَعْمُرُوا مَسْجِدَ اللهِ شَهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَ فِي النَّارِ هُمْ خَلِدُونَ - إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَبِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ - اجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجَ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ جَهَدَ فِي سَبِيلِ اللهِ لَا يَسْتَوْنَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ - اَلَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجْهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْفَابِزُونَ - يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنْتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ - خُلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللهَ عِنْدَةٌ أَجْرُ عَظِيمٌ - (التوبة: ۱۷ تا ۲۲) ترجمہ:.(ایسے) مشرکوں کو (کوئی) حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں جب کہ وہ اپنی جانوں پر (شرک اور فسق کی وجہ سے ) کفر کی گواہی دے رہے ہیں.یہی لوگ ہیں جن کے اعمال اکارت چلے گئے اور وہ آگ میں ایک لمبے عرصہ تک رہتے چلے جائیں گے.اللہ کی مسجدوں کو تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے اور نمازوں کو قائم کرتا ہے اور زکوۃ دیتا ہے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا سوقریب ہے کہ ایسے لوگ کامیابی کی طرف لے جائے جائیں.کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور خانہ کعبہ کو آبا در رکھنے کے کام )

Page 216

خطبات ناصر جلد دہم ۱۹۲ خطبہ عیدالاضحیه ۱۴ / دسمبر ۱۹۷۵ء کو اس شخص ( کے کام ) کی طرح سمجھ لیا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا یہ دونوں گروہ ) اللہ کے نزدیک (ہرگز ) برابر نہیں.اور اللہ ظالم قوم کو ہرگز کامیابی کی طرف نہیں لے جاتا.( وہ لوگ ) جو ( کہ ) ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور ( پھر ) اللہ کے راستہ میں اپنے مالوں ( کے ذریعہ سے بھی ) اور جانوں کے ذریعہ سے ( بھی ) جہاد کیا اللہ کے نزدیک درجہ میں بہت بلند ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں.ان کا رب ان کو اپنی عظیم الشان رحمت کی خبر دیتا ہے اور (اپنی) رضامندی اور ایسی جنتوں کی بھی جن میں ان کے لئے دائمی نعمت ہوگی.(وہ) ان میں بستے چلے جائیں گے (یا درکھو کہ ) اللہ کے پاس یقیناً بہت بڑا اجر ہے.پھر حضور انور نے فرمایا:.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں چنانچہ اس خیال سے کہ اللہ کی راہ میں جان دینے کے بارہ میں گریز نہ سمجھا جائے، انہوں نے پہلے تو اپنے بیٹے سے یہ پوچھا کہ تیری رائے کیا ہے کیونکہ نیک اعمال دوسروں پر ٹھونسے نہیں جاتے.جب حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی خدا کی راہ میں جان دینے کے لئے راضی ہو گئے تو انہوں نے اپنے بیٹے کولٹایا اور اس کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے تب خدا نے فرمایا کہ جس قسم کی قربانیوں کے لئے میں تمہارا امتحان لینا چاہتا تھا ان کے لئے میں نے تمہیں تیار پایا اور مستعد دیکھا.میں تم سے یہ قربانی نہیں مانگتا کہ تم اپنے بیٹے کی جان دے دو.جان کی بجائے میں اپنی راہ میں تمہاری زندگی کا ہر سانس مانگتا ہوں.تم اسمعیل کو ایک بے آب و گیاہ ریتلے میدان میں چھوڑ آؤ اور پھر دیکھو میری قدرت دنیا کو کیا نظارہ دکھاتی ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے ، صرف اس عزم پر قائم رہتے ہوئے کہ جتنی بھی زندگی ہے اس کا ہر سانس خدا تعالیٰ پر قربان ہوگا ، وہاں چھوڑ آئے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام وہاں رہنے کے لئے تیار ہو گئے.اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر ڈالتی تو وہ جو زندگی کا ہر سانس عملاً خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار تھا دنیا اس کی اس عظیم قربانی کا

Page 217

خطبات ناصر جلد دہم ۱۹۳ خطبہ عیدالاضحیه ۱۴ / دسمبر ۱۹۷۵ء نظارہ نہ دیکھتی جس نے بنی نوع انسان کے لئے ایک اسوہ بننا تھا.اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس وقت ذبح کردیا جاتا تو یہ مطالبہ جو تھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولا دنسلاً بعد نسل اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں قربان کرنے والی ہوں، اس کا موقع ہی نہ ملتا.نہ نسل پیدا ہوتی اور نہ ان کی قربانی کا کوئی سوال پیدا ہوتا.اس واسطے خدا تعالیٰ نے ایک ذبح عظیم کے لئے اس چھوٹی سی قربانی کو ترک کروایا اور ایک ریتلے میدان میں جس میں نہ پانی تھا اور نہ کھانے کی کوئی اور چیز بھی وہاں ان کو اپنی والدہ کے ساتھ چھوڑ دیا گیا اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت نے وہاں پانی کے سامان بھی پیدا کر دیئے اور کھانے کے سامان بھی پیدا کر دیئے محض کھانے پینے کے سامان ہی پیدا نہیں کئے بلکہ دنیا جہان کی نعمتیں ان کے لئے مہیا کر دیں ، دنیا جہان کے دلوں کی محبت کا اسے مرکز بنادیا اور صرف اس دنیا کے ثمرات ہی نہیں بلکہ ان کو وہ روحانی ثمرات بھی مہیا کئے گئے جن کا مادی دنیا سے کوئی تعلق نہیں اور اس طرح حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام دنیا کے لئے ایک عظیم اسوہ بنے.ان کا زمانہ اگر چہ ایک محدود زمانہ تھا کیونکہ وہ جس کا زمانہ رہتی دنیا تک ممتد تھا وہ ابھی آنے والا تھا لیکن انہوں نے اپنی نسلوں کو ایک زمانے تک سنبھالا اور ایک لمبا عرصہ ان نسلوں نے خدا کی راہ میں قربانیاں دیں.جان کی قربانی نہیں بلکہ زندگی کی قربانی دی.میں پہلے بھی ان دو چیزوں میں فرق کر کے جماعت کے سامنے اس مسئلہ کو رکھتا چلا آیا ہوں.ایک ہے جان قربان کر دینا جس کے صلے میں شہادت کا انعام ہے اور ایک ہے اپنی زندگی قربان کر دینا یعنی زندگی کا ہر سانس خدا کی راہ میں قربان کر دینا اور اس کے صلہ میں اجر عظیم کا وعدہ ہے گو یا شہادت کی نسبت زندگی کی قربانی کا بہت زیادہ اثر ہے.بہر حال دعائیں ہوئیں.خانہ کعبہ کی از سرنو تعمیر ہوئی.ایک مرکز کا قیام ہوا.اس مرکز کے انتظام کے لئے ایک نسل پیدا کر دی گئی اور پھر ایک کے بعد دوسری نسل نے اس کا انتظام سنبھالا.وہ جو اکیلے تھے ( یعنی اسماعیل اور اس کی والدہ) ان کی نسل میں سے ایک خاندان کے سپر د پانی کا انتظام اور ایک کے ذمہ صفائی کا انتظام وغیرہ وغیرہ گویا یہ انتظام مختلف شعبوں میں بٹ گیا ہر ایک نے اپنے زمانہ کے حالات اور ذرائع کے مطابق اپنا کام سنبھالا.یہ سب کچھ اس لئے ہورہا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں پیدا ہونا تھا اور اس تیاری کے لئے ایک عظیم قربانی

Page 218

خطبات ناصر جلد دہم ۱۹۴ خطبہ عیدالاضحیه ۱۴ / دسمبر ۱۹۷۵ء لی گئی تھی کیونکہ جو آنے والا تھا اس کے استقبال کے لئے اور اس کی عظمت کے پیش نظر اسی عظیم قربانی کی ضرورت تھی.چنانچہ وہ لوگ جن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کے جذبات کی وجہ سے یہ کہا تھا کہ اے خدا! ان میں سے وہ لوگ جو ایمان پر قائم رہیں تو اپنی رحمتوں کے ثمرات ان کے لئے میسر کرنا اور خدا تعالیٰ نے جواب میں کہا کہ نہیں جو ایمان پر قائم نہیں رہیں گے ان کے لئے بھی میں دنیوی انعامات اور دنیا کی رحمتیں مہیا کروں گا.پس ان نسلوں کی ، ان قربانی دینے والی نسلوں کی ، ان فدائی نسلوں کی ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کی تیاری کے لئے ہر چیز کی قربانی دینے کے جو ثمرات تھے اس میں ان کو بھی شامل کیا گیا حالانکہ وہ راہ راست سے بھٹک چکے تھے لیکن پھر وہی لوگ اور وہی نسل جن کے آباؤ اجداد نے اتنی عظیم قربانیاں دی تھیں ان کو خدا تعالیٰ کی یہ سرزنش بھی سنی پڑی.اجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجَ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ کیا تم نے ان ظاہری چیزوں کو سب کچھ سمجھ لیا ہے تمہیں خدمت کے لئے مامور کیا گیا تھا اور تم نے اس عظیم ہستی کے خلاف فتویٰ دے دیا ہے جس کے لئے یہ ساری تیاری ہورہی تھی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی تو ان کو مسلمان سمجھنے سے انکار کر دیا اور صابی صابی کہنے لگ گئے.غرض کتنی زجر ہے اس آیت میں.اجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجَ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ پھر حالات بدلے اور وہ جو دنیا کا نجات دہندہ تھا اور وہ جو دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا اس کی امت بن گئی.پھر خدا نے کہا جو قربانی حضرت ابراہیم کی نسلوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے دی تھی اس سے زیادہ قربانی ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے قیام اور دنیا کے دلوں میں توحید کو گاڑنے کے لئے امت محمدیہ سے لینی ہے.صرف ایک نسل نے یہ قربانی نہیں دینی بلکہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل نے اور ایک محدود زمانہ تک نہیں بلکہ رہتی دنیا یعنی قیامت تک قربانیاں دیتے چلے جانا ہے قیامت تک کا میں اس لئے کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لئے رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ بن کر آئے ہیں.یہ جو میں نے بڑے مختصر الفاظ میں ایک چھوٹی سی تصویر کھینچی ہے اس کے دو رنگ ظاہر

Page 219

خطبات ناصر جلد دہم ۱۹۵ خطبہ عید الاضحیه ۱۴ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء ہوتے ہیں انتہائی قربانیوں کا ایک رنگ ہے اور اس کی قبولیت کے نقش ہیں.ان کے اوپر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی جو بارشیں ہوتی ہیں وہ ہمیں تاریخ بتاتی ہے اور پھر دوسرے وقت میں اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے جن لوگوں کے آباؤ اجداد نے سینکڑوں سال خدا تعالی کی آواز پر لبيك لبيك اللهم لبيك کہتے ہوئے اس کی راہ میں قربانیاں دی تھیں ان کی اولا د خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آجاتی ہے.خدا تعالیٰ کے آستانہ سے دھتکاری جاتی ہے اور اس وقت دھتکاری جاتی ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ نوع انسانی کے لئے انتہائی انعام مقدر ہو چکا تھا.اس میں چونکہ جماعت احمدیہ کے لئے سبق ہے.اس لئے میں نے یہ مختصر مضمون بیان کیا ہے.غرض یہ میری نسل کا سوال نہیں اور نہ میری ذات کا سوال ہے نہ آپ کی نسل کا سوال ہے اور نہ آپ کی ذات کا سوال ہے.چونکہ اب آخری فتح اسلام کی مقدر ہے اس لئے نسلاً بعد نسل قربانیاں دینے کا سوال ہے ہمیں یہ بتایا گیا ہے پہلے نوشتوں میں بھی اور قرآن کریم کی آیات سے بھی یہ استدلال ہوتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی آیات کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے اس سے بھی یہ پتہ لگتا ہے کہ اسلام کا عالمگیر غلبہ جو قیامت تک قائم رہنے والا ہے یعنی اس آخری ہلاکت تک جس کے متعلق نوشتے بتاتے ہیں کہ وہ ہلاکت یا قیامت اس وقت آئے گی جب انسانوں کی اکثریت پھر خراب ہو جائے گی اور پھر مکمل تباہی آجائے گی تو پھر کوئی نیا دور شروع ہوگا جس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہمیں اس کے متعلق کچھ سوچنے یا کہنے کی ضرورت ہے.بہر حال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ کی بعثت کا جو مقصد ہے وہ غالب آئے گا اور نوع انسانی آپ کے جھنڈے تلے ہو جائے گی اور اس مقام کو حاصل کرنے اور اس پر قائم رہنے کے لئے کوشاں رہے گی تا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کی بعد کی اولاد کی طرح ایک وقت میں پھر یہ نہ سننا پڑے کہ تم نے اسلام کے ظاہر کو سب کچھ سمجھ لیا اور اس کی روح تمہارے جسموں سے نکل گئی اور اس کے روحانی جذبات تمہاری روحوں سے غائب ہو گئے اور انہیں یہ خبر نہ سننی پڑے.اجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجَ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ پس

Page 220

خطبات ناصر جلد دہم ١٩٦ خطبہ عیدالاضحیه ۱۴ / دسمبر ۱۹۷۵ء ہمارا یہ فرض ہے اور ہمارے اندر یہ تڑپ ہونی چاہیے کہ ہماری کوئی نسل خدا تعالیٰ کی زبان سے یہ الفاظ نہ سنے کہ تم نے اس چیز کو تو چھوڑ دیا جو اسلام پیش کرتا ہے تم نے اس حقیقت کو تو فراموش کر دیا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف لے کر آئے تھے اور ظاہر پر ہاتھ مارا اور اس پر خوش ہو گئے.خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر اس سے دوری حاصل کر کے دنیا کے آرام کی خاطر اور دنیا کے مال و دولت اور سونے چاندی کے انبار کے اندر تمہاری توجہ بہک گئی اور وہ جو ایک کل تھا جس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا تھا اور جس کے پیار کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا تھا اور جس کے پورے اور کامل اور اعلیٰ اور نہایت حسین پیار کا وعدہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں دیا تھا اسے تم نے بھلا دیا ، خدا کرے کہ ایسا وقت کبھی جماعت پر نہ آئے.انہی آیات سے جن کی میں نے تلاوت کی ہے پتا لگتا ہے اور قرآن کریم اس سے بھرا پڑا ہے اور میں نے کئی دفعہ یہ کہا ہے اور یہ کہتے ہوئے کبھی تھکوں گا نہیں کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے اسے دنیا کی کسی اور چیز کی احتیاج باقی نہیں رہتی.پس جماعت احمدیہ کی ہر نسل کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ رہتی دنیا تک ہماری کوئی نسل خدا کے پیار سے محروم نہیں ہوگی.چونکہ ہماری نسلوں میں دوسری نسلیں بھی شامل ہو کر سب کی متحدہ کوشش سے اسلام نے دنیا میں غالب آجانا ہے.اس لئے سارے نوع انسانی کی ہر نسل اپنے اس مقام سے بھٹکے گی نہیں اور خدا تعالیٰ کے پیار کو کبھی کھوئے گی نہیں اور خدا نہ کرے کبھی اس کے او پر خدا تعالیٰ کے قہر اور غضب کے جلوے ظاہر ہوں بلکہ وہ ہمیشہ خدا کی رحمت ، اس کی برکت اور پیار اور رضا کے جلوے دیکھنے والے ہوں غرض یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس کی طرف ہمیں ہر وقت چوکس رہ کر متوجہ رہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ اور اجتماعی دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالی ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے یہ عید مبارک کرے اور ساری دنیا میں بسنے والے انسانوں کے لئے اس عید میں برکتوں کے سامان رکھ دے.روزنامه الفضل ربوه ۱۰ / مارچ ۱۹۷۶ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 221

خطبات ناصر جلد دہم ۱۹۷ خطبہ عید الاضحیہ ۲؍دسمبر ۱۹۷۶ء اُمّتِ مسلمہ بیت اللہ کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہے خطبہ عیدالاضحیه فرموده ۲ دسمبر ۱۹۷۶ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیت کے ایک حصے کی تلاوت کی :.وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا - (البقرة : ١٢٦) پھر حضور انور نے فرمایا:.پچھلے دنوں میری طبیعت علیل رہی ہے.Diarrhoea (اسہال) کا بڑا سخت حملہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا چند دن تکلیف رہنے کے بعد آرام آگیا لیکن یہ بیماری اپنے پیچھے بہت ضعف چھوڑ گئی.آج صبح سے میرے ضعف دماغ کی یہ کیفیت تھی کہ آخری وقت تک میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا تھا کہ عید کی نماز پڑھانے کے لئے آؤں گا یا نہیں.پھر مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے کہا کہ اپنے دوستوں ، بھائیوں اور بہنوں کو جا کر عید مبارک دیتا ہوں ان کو دعائیں دیتا ہوں اور ان کی دعائیں لوں گا.اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے اس عید کو مبارک کرے اور آنے والی عیدوں کو اس سے بھی زیادہ برکتوں کا موجب بنائے اور اس سے زیادہ ان ایام میں آپ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وارث ٹھہریں.

Page 222

خطبات ناصر جلد دہم ۱۹۸ خطبہ عید الاضحیہ ۲؍دسمبر ۱۹۷۶ء ہماری اس عید کا تعلق فریضہ حج سے ہے اور فریضہ حج کا تعلق خانہ کعبہ سے ہے، بیت اللہ سے ہے، مسجد حرام سے ہے اور انسان سے بیت اللہ کا رشتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ تازہ کیا گیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی نے ان قوموں کو تیار کیا جنہوں نے اپنے وقت میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنا تھا اور آپ کی امت کا یہ فرض ٹھہرا کہ بیت اللہ کے جو اغراض و مقاصد ہیں اور جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے اس تحریک کو شروع کیا ان کو پورا کرنے کے لئے وہ ہر وقت تیار رہیں اور ان کو آنکھوں کے سامنے رکھیں کسی وقت آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں.یہ عید ہمارے لئے ہمارے رب کی طرف سے بہت سے پیغام لے کر بڑی مبارکبادیوں کے ساتھ آتی ہے.اس چھوٹی سی آیت کے ٹکڑے میں جو میں نے ابھی تلاوت کی ہے دو پیغام یہ ہیں.ایک یہ کہ مثابة ہے دوسرے یہ کہ امن کی جگہ ہے یعنی ایسی جگہ سے اس فریضہ کا تعلق ہے جہاں لوگ خدا کے حکم کے ماتحت اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی روشنی میں بار بار اس لئے آتے ہیں کہ انسان پھر سے امت واحدہ بن کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے سایہ تلے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ عاطفت میں جمع ہو اور امت واحدہ بن کر خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ جب تک انسانوں کی منتشر آبادیاں اس جگہ سے تعلق قائم نہیں کریں گی اس وقت تک یہ وحدت انسانی قائم نہیں ہوسکتی اور یہ پیغام دیا گیا ہے کہ دنیا خواہ کتنا زور لگالے جب تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اور تعلیم کے مطابق دنیا اپنی زندگی نہیں ڈھالے گی ، امن اور چین اور سکھ کی زندگی نہیں گزار سکے گی.اور یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے اُمت مسلمہ پر.بڑی ذمہ داری ہے اُمتِ مسلمہ کے اُن مختلف گروہوں اور جماعتوں پر جو خود کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے والے ہیں.ہمارے اعتقاد کے مطابق مہدی علیہ السلام کے آنے کی غرض ہی یہ ہے کہ ساری دنیا میں اسلامی تعلیم کا بول بالا ہو اور تمام ادیان کی طرف منسوب ہونے والا انسان اور مذہب کو چھوڑ دینے والا انسان اور خدا تعالیٰ سے دور چلے جانے والا انسان یہ سمجھنے لگے کہ اس کی بھلائی اور

Page 223

خطبات ناصر جلد دہم ۱۹۹ خطبہ عید الاضحیہ ۲؍دسمبر ۱۹۷۶ء خوشحالی کے سامان سوائے اسلامی تعلیم کے اور کہیں نہیں پائے جاتے.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہماری چھوٹی سی جماعت اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق زور لگا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو بہت سی کامیابیاں بھی عطا کر رہا ہے.یہ چھوٹی سی جماعت اپنے عرفان کے مطابق عاجزانہ طور پر خدا کے حضور جھکتی ہے اور اس سے دعائیں مانگتی ہے اور یہ یقین رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ آسمانوں پر یہی فیصلہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام دنیا میں غالب ہو اس معنی میں نہیں کہ لوگوں کی گردنیں اس کے سامنے جھک جائیں بلکہ اس معنی میں کہ انسانی دل اس کے سامنے جھک جائے.ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے گا اس وجہ سے کہ آسمانوں پر فیصلہ ہو چکا ہے اور جو فیصلہ ہوا ہے اس کے ثواب میں خدا تعالیٰ ہماری شرکت کے سامان پیدا کر دے گا.ہم اللہ تعالیٰ سے پہلے بھی یہی دعا کرتے ہیں اور اب بھی ہماری یہی دعا ہے اور آئندہ بھی یہی دعا ر ہے گی کہ اللہ تعالی اسلام کی روشنی کو دنیا میں پھیلانے کی ہمیں تو فیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ انسانوں کو اس قابل بنادے کہ وہ اسلام کی محبت بھری تعلیم اور امن بھرے پیغام کو سمجھنے لگیں اور اس سے فائدہ اٹھانے والے بن جائیں اور سارے اکٹھے ہوکر خدا کے جھنڈے تلے جمع ہو جا ئیں.ہماری یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اکناف عالم میں بسنے والے مسلمانوں کی بھلائی کے سامان پیدا کرے اور ان کی مضبوطی کے سامان پیدا کرے اور ان کے استحکام کے سامان پیدا کرے اور ان کے اندر روح اسلام کو تازہ کرنے اور زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کے سامان پیدا کرے اور ہم عاجز بندوں کی کسی غفلت کے نتیجہ میں پرے نہ دھتکار دے بلکہ خدا کرے شیطان کا وار ہم پر کبھی کامیاب نہ ہو اور وہ جو خدا اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے وہ ہم سے پیار جیتنے میں کامیاب نہ ہو بلکہ جس طرح وہ ہمارے محبوب آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے اسی طرح ہم اور ہماری نسلیں اس شیطان کو اپنا دشمن سمجھتے رہیں اور دم نہ لیں اور چین نہ پائیں اور سکھ کی نیند نہ سوسکیں جب تک کہ ہم ہر اس شیطانی تدبیر کو جو اسلام کے خلاف ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے اور اب زمانہ ہے کہ اس کو مٹادیا جائے ، اس کو مٹا نہ دیں اور اسلام دنیا میں غالب نہ آجائے.

Page 224

خطبات ناصر جلد دہم ۲۰۰ خطبہ عید الاضحیہ ۲؍دسمبر ۱۹۷۶ء پس ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلم ممالک کو قوت اور طاقت اور فراست اور ترقی اور خوشحالی بخشے اور ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو بھی طاقت اور خوشحالی دے اور سمجھ اور عقل اور فراست عطا کرے اور خدا اپنی قرب کی راہیں اس ملک کے بسنے والوں پر آسان کر دے اور روشن کر دے اور وہ اس کو سمجھیں اور پہچانے لگیں اور خدا تعالیٰ کی طرف ان کی توجہ ہو جائے اور خدا کے سامنے وہ جھکنے لگیں اور خدا کی طرف ان کی حرکت ہو، نہ ایسی حرکت جو اس سے دور لے جانے والی ہو.ہماری یہ بھی دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ ہماری نسلوں کو نیکی اور تقویٰ پر قائم رکھے اور ہمیں اور ہماری نسلوں کو ہمیشہ اس بات کی توفیق عطا کرتا رہے کہ ہم سعی مقبول کرنے والے ہوں ہم ان راہوں پر گامزن رہیں جن راہوں پر خدا کا نور بکھرا ہوا ہے اور جن راہوں پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضا انسان حاصل کرتا ہے.خدا کرے ہمارے دل میں سوائے خدائے واحد و یگانہ کی محبت کے کوئی اور محبت اور تعلق قائم نہ رہے.وہ ایک ہی ہمارا مقصود ہو اور ہم میں سے ہر ایک کی صرف زبان ہی نہیں بلکہ اس کے جسم کا رواں رو آں اور اس کی روح کی یہ پکار ہومولا بس.مولا بس.مولا بس.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اب ہم دعا کریں گے اور پھر رخصت ہوں گے اس مقام عید اور مقام برکت سے اس دعا کے ساتھ کہ جہاں بھی ہم ہوں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہم پر سایہ کئے رکھیں اور ہمارا احاطہ کئے رکھیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ جنوری ۱۹۷۷ء صفحه ۲، ۳) 谢谢谢

Page 225

خطبات ناصر جلد دہم ۲۰۱ خطبہ عید الاضحیہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۷ء فرمایا:.خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی گزارنا ذبح عظیم ہے خطبہ عیدالاضحیه فرموده ۲۲ نومبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصی ربوه / حضور انور نے حاضرین کو عید مبارک کہی اور پھر تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آج قربانیوں کی عید ہے اور اس عید کا تعلق فریضہ حج کے ساتھ ہے اور فریضہ حج کا تعلق بیت اللہ کے ساتھ ہے اور بیت اللہ کا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے.یہ بھی روایت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے مد نظر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہ ہوتی تو پھر یہ جو افلاک ہیں ان کی پیدائش بھی نہ ہوتی گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وجہ پیدائش کا ئنات ہیں.یہ بھی کہا گیا ہے کہ آدم کی پیدائش سے بھی پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے.قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اِن اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ (ال عمران : ۹۷) پہلا گھر جو الناس ( نوع انسانی کے لئے تعمیر کیا گیا وہ کعبہ ہے اور قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ امت محمدیہ خیر امت ہے اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران : 111) یعنی جس الناس کے لئے خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی انہی کی بھلائی اور برکتوں کے لئے امت محمدیہ قائم کی گئی ہے یہ وہ امت ہے جس نے

Page 226

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عید الاضحیہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۷ء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر قسم کے فیوض حاصل کر کے آپس میں بانٹنے تھے.پس قربانی کی اس عید کا تعلق دنبوں یا بھیڑوں یا بکریوں یا گائے یا اونٹ کی قربانی سے نہیں اس عید کا تعلق ذبح عظیم سے ہے یعنی جان کی قربانی سے نہیں خدا کی راہ میں زندگی کی قربانی سے.یہ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ بہت سے مواقع پر انسانوں کا جان دینا زندہ رہ کر قربانی دینے سے بہت آسان ہو جاتا ہے اسی لئے جو مومن شہداء ہیں ان کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ وہ خدا کے حضور یہ خواہش پیش کریں گے کہ انہیں پھر زندہ کیا جائے اور پھر وہ خدا کی راہ میں جان کی قربانی دیں اور پھر زندہ کیا جائے اور پھر قربانی دیں.اس میں بھی ہمیں یہی سبق دیا گیا ہے کہ خدا کی راہ میں محض جان دے دینا یہ تو کوئی چیز نہیں اصل چیز خدا کی راہ میں زندگی گزارنا ہے اور یہی ذبح عظیم ہے جس کی رو سے انسان اپنی تمام خواہشات کو چھوڑ کر اپنی رضا کو قربان کر کے خدا تعالیٰ کی رضا کو قبول کرتا اور اس کے پیار کے حصول کی کوشش کرتا ہے.چنانچہ جب ہم حج کے اس خاص موقع پر قربانیوں کی ظاہری علامت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں مختلف قسم کی ایسی قربانیوں کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جن کا تعلق زندگی گزارنے کے ساتھ ہے یعنی وقت کی قربانی اور مال کی قربانی جس کا تعلق زندگی کی آسائش کے ساتھ ہے.مال کی قربانی اس طرح پر کہ جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے اس پر خرچ ہوتا ہے پھر مال کی قربانی اس طرح پر بھی کہ اگر حساب لگایا جائے تو میرے خیال میں امت محمدیہ حج کے موقع پر اربوں روپے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیتی ہے.اس دفعہ مکہ میں ہم سے دو دن پہلے عید ہوئی ہے چنا نچہ خبر تھی کہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے دس لاکھ سے زائد افراد نے فریضہ حج ادا کیا.کئی امریکہ سے آئے.ہزاروں کی تعداد میں انڈونیشیا سے آئے پھر افریقہ سے آنے والے ہیں، جزائر سے آنے والے ہیں.ہمارے اس بڑا اعظم سے بڑی تعداد میں جانے والے ہیں.غرض مختلف ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں حج کے لئے لوگ مکہ میں پہنچتے ہیں.اگر ان کا زاد راہ ہی لیا جائے تو ایک بڑی رقم بن جاتی ہے پھر ان میں سے کسی نے وقت کے لحاظ سے دو ماہ خرچ کئے کیونکہ اتنی بڑی تعداد کو ۳ ۴۰ دن میں تو وہاں نہیں پہنچایا جاسکتا.مختلف ملکوں سے

Page 227

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عید الاضحیہ ۲۲ نومبر ۱۹۷۷ء لوگ حج کرنے کے لئے آتے ہیں.میرا خیال ہے ہمارے پاکستان سے حاجیوں کو لے کر جو پہلا جہاز گیا تھا وہ عید الفطر کے دن یا اس سے اگلے دن روانہ ہوا تھا قریباً دو ماہ دس دن پہلے جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے حاجی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے چار چار ماہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کئے.وہاں کے رہنے والوں نے چند دن خرچ کئے ہوں گے.مکہ کے گر در ہنے والوں نے ایک دو ہفتے خرچ کئے ہوں گے.بہر حال یہ جو چار ماہ یا تین ماہ یا دو ماہ یا ایک ماہ خرچ کیا اگر ہر آدمی کا وقت شمار کیا جائے تو یہ بھی ایک زمانہ سالہا سال بن جائیں گے.اس عرصہ میں انہوں نے اپنے روز مرہ کے کام چھوڑ کر خدا کی خاطر وقت صرف کیا اور پیسے نہیں کمائے جو وہ معمول کے مطابق کمایا کرتے تھے.بعض ایسے لوگ بھی حج کرنے جاتے ہیں جو دس دس ، نہیں ہیں اور پچاس پچاس ہزار روپیہ مہینہ کمانے والے ہیں.بعض ایسے بھی جاتے ہیں جو ہیں پچیس روپے روزانہ کی مزدوری کرنے والے ہیں.پس فریضہ حج مالی لحاظ سے بھی بہت بڑی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے اور وقت کے لحاظ سے میں نے بتایا ہے کہ بہت بڑا وقت خرچ کیا جاتا ہے.یہ ساری چیزیں ہمیں اس بات کا سبق دیتی ہیں کہ بیت اللہ کی تعمیر کے جو مقاصد ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی کو مبعوث کیا گیا ہے، ان مقاصد کے حصول کے لئے ایک سچے مسلمان کو اپنی زندگی خرچ کرنی چاہیے خصوصاً اس زمانہ میں جب کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیاں اپنے عروج کو پہنچ رہی ہیں اور وہ آخری زمانہ آچکا ہے جس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب آئے گا اور بھٹکی ہوئی انسانیت پھر راہ ہدایت پا کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس لوٹے گی اور آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.پس بیت اللہ کی تعمیر کے مقاصد اپنی پوری شان کے ساتھ حاصل ہونے کا یہی زمانہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پوری تندہی کے ساتھ ان قربانیوں کا زمانہ ہے جن کا یہ فریضہ ہم سے مطالبہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۲ /جنوری ۱۹۷۸ ، صفحه ۲، ۳)

Page 228

Page 229

خطبات ناصر جلد دہم ۲۰۵ خطبہ عیدالاضحیه ۱۲ / نومبر ۱۹۷۸ء فریضہ حج ایسی قربانی ہے جو انتہائی ذاتی محبت کی متقاضی ہے خطبہ عیدالاضحیه فرموده ۱۲ رنومبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصی ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.عید قربان کے ساتھ ہمیشہ ہی روحانی لحاظ سے بارانِ رحمت کا تعلق رہتا ہے.کبھی یہ تعلق ظاہری طور پر نظر بھی آتا ہے جیسا کہ آج اس موقع پر بھی نظر آرہا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں دنیوی بارانِ رحمت سے بھی نوازا ہے.خدا کرے ہماری قربانیاں اس کے حضور ہمیشہ قبول ہوتی رہیں.یہ عید جسے بڑی عید بھی کہتے ہیں اور عید اضحیہ بھی کہتے ہیں اور عید قربان بھی کہتے ہیں، اس کا تعلق فریضہ حج کے ساتھ ہے جو ہر سال مکہ مکرمہ میں ادا کیا جاتا ہے اور اس فریضہ کا ادا کرنا مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (آل عمران: ۹۸) کی رُو سے ہر اس مسلمان پر واجب ہے جو اس کے ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے.جہاں تک طاقت کا سوال ہے اس کے لئے بہت سی چیزوں کی اور بہت سے حالات کی ضرورت ہے اور اس پر پہلوں نے بھی بحث کی ہے اور ہماری مختلف تقاریر میں بھی ذکر آتا رہتا ہے.بعض مضامین میں بھی ان کے متعلق لکھا جاتا ہے اس لئے اس تفصیل میں جانے کی اس وقت ضرورت نہیں.

Page 230

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ عیدالاضحیه ۱۲ /نومبر ۱۹۷۸ء میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ اس عید کا تعلق بہر حال فریضہ حج کے ساتھ ہے اور فریضہ حج کا تعلق ایک ایسی قربانی کے ساتھ ہے جو انتہائی ذاتی محبت کی متقاضی ہے اس کے بغیر وہ ادا نہیں کی جاسکتی اور وہ اصلی اور عظیم قربانی جو کسی بندہ نے اپنے رب کے حضور پیش کی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی تھی.مگر چونکہ آپ کے ساتھ قوموں کو تیار کیا گیا تھا اس قربانی کے پیش کرنے کے لئے ، اس لئے اس تربیت کی ابتدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے کی گئی.یہ وہ پہلی مثال تھی جو اس طرح قائم ہوئی کہ لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتی ہوئی آگ میں پھینک دیا لیکن اس تربیت کے ابتدائی سبق کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے ایسے بندوں پر جو فضل نازل ہوتے ہیں.ان کا اظہار اس طرح ہوا کہ اس آگ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ما ينارُ كُوني بردًا وَ سَلبًا (الانبياء : ٧٠) دشمن اپنے منصوبہ میں نا کام ہوا اور وہ آگ جسے ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کے لئے بھڑ کا یا گیا تھا وہ ان کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی پر منتج ہوئی.اس نے ان کو جلا یا نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں انتہائی لذت اور سرور پیدا ہوا اور اس طرح پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر میں ایک نمونہ پیدا کر دیا گیا اور وہ تیار ہو گئے اپنے بیٹے کو بے آب و گیاہ جنگل میں بسانے کے لئے جو فوری طور پر مار دینے والی تکلیف نہیں تھی.آگ میں تو چند منٹ کی تکلیف ہوتی ہے اور پھر انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے اگر خدا تعالیٰ کے حکم سے آگ بردا و سلما نہ بن جائے.ایک لمبے عرصہ تک حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام نے تکلیف برداشت کی.ایسے حال میں والدہ کا ہر وقت موت کو اپنے سامنے دیکھنا اور بچے کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا کہ کوئی اس کا وارث ہے یا نہیں اور یہ بھی کہ اسے اس تکلیف سے کوئی بچانے والا ہے یا نہیں.یہ ایک ایسی قربانی ہے جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی.ایسی حالت میں ان کا تو گل صرف اللہ تعالیٰ پر تھا اور خدا تعالیٰ کا سلوک ان پر یہ ظاہر کرتا تھا کہ انسانوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہمارا پیدا کرنے والا رب ہے وہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہاری ان تکالیف کو دور کر کے ایک قوم یہاں بنادے گا اور سب دنیا کی نعمتیں یہاں اکٹھی کر دے گا اور تمہاری نسلوں پر روحانی

Page 231

خطبات ناصر جلد دہم ۲۰۷ خطبہ عیدالاضحیه ۱۲ / نومبر ۱۹۷۸ء ترقیات کے حصول کے دروازے کھولے جائیں گے اور جب وہ مرورِ زمانہ کے ساتھ بگڑ بھی جائیں گے تو ان کے اندر ایسی چھپی ہوئی طاقتیں موجود رہیں گی کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوں گے اور لوگ آپ پر ایمان لائیں گے تو یہ طاقتیں پھر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل لوگوں میں زندہ کی جائیں گی اور جوانی کے حالات ان میں پیدا ہوں گے.نئی قوت ، تازگی، طاقت اور بشاشت ان میں پیدا ہو جائے گی.پس جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا ہے.اس قسم کی قربانیاں محبت کے بغیر نہیں دی جاسکتیں.نہ دی جایا کرتی ہیں اور محبت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل نہ ہو.جب انسان خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت حاصل کر لیتا ہے تو اسے دو چیزیں ملتی ہیں.ایک اللہ تعالیٰ کی محبت کیونکہ خدا تعالیٰ کی ذات وصفات میں اس قدر حسن ہے کہ انسانی روح اس کے ساتھ پیار کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتی وہ مجبور ہو جاتی ہے کہ خدا سے پیار کرے اور دوسرے یہ خوف کہ اللہ تعالیٰ بڑی عظیم ہستی ہے.وہ صاحب جلال واکرام ہے.تمام قوتوں کا سر چشمہ ہے ،حسن و احسان کا منبع ہے کہیں وہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے.پس اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت کے نتیجہ میں انسان کے دل میں محبت اور خوف پیدا ہوتا ہے اور جب کسی انسان کو معرفت حاصل ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں محبت اور خوف حقیقی معنے میں پیدا ہو جائے تو اس کی نجات کے سب وسائل اسے حاصل ہو جاتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ سے اسی طرح پیار کرنے لگتا ہے جس طرح کہ اس تربیت کا جو سلسلہ جاری ہوا اس کی ابتدا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادہ اسماعیل علیہ السلام نے اس محبت کا اظہار کیا اپنے رب کے ساتھ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اتنا عظیم نمونہ دنیا کے سامنے خدا تعالیٰ کے پیار کا پیش کیا اور اس نمونہ کے اثر کے نتیجہ میں آپ کے صحابہ میں وہی رنگ چڑھا.چنانچہ اُمت مسلمہ میں لاکھوں کروڑوں خدا کے ایسے بندے پیدا ہوئے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کی معرفت کے نتیجہ میں پیار کرنے والے تھے اور چونکہ خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والے تھے اور اس کی ناراضگی کے خیال سے ہر وقت خوفزدہ رہتے تھے.دنیا کی پرواہ نہیں کرتے تھے.انسان میں جب اللہ تعالیٰ کی رض

Page 232

خطبات ناصر جلد دہم ۲۰۸ خطبہ عیدالاضحیه ۱۲ /نومبر ۱۹۷۸ء محبت اور خوف پیدا ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں ایک ذہنیت پیدا ہوتی ہے اور وہ ہے سَبْعًا وَ طَاعَةً پھر انسان اپنے محبوب سے سوال نہیں کرتا بلکہ وہ اس سے کہتا ہے جو تو کہتا جائے گا میں کرتا چلا جاؤں گا.قرآن کریم نے کئی آیات میں اس مضمون کو مختلف پیرائے میں مختلف سیاق و سباق میں بیان کیا ہے.ایک جگہ یہ کہا وَ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (البقرة :۲۸۶۲) فرمایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والے لوگوں کی زبان پر یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی.یعنی جب کوئی حکم ان کے کان میں پڑے اور ان کے سامنے پیش ہو تو سوائے اطاعت کے اور کوئی اظہار نہیں ہوتا اور پھر باوجود یکہ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا میں قَالُوا میں جو ضمیر ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی پھرتی ہے اور آپ کے ماننے والوں کی طرف بھی.ایمان لانے اور اس کے مطابق عمل کرنے کے با وجود یہ کہتے ہیں غُفْرَانَكَ رَبَّنَا اے ہمارے خدا! ہم تیری مغفرت کے محتاج ہیں.پس یہ وہ اطاعت ہے جو محبت کے بغیر پیدا نہیں ہوتی اور یہی وہ اطاعت ہے جسے دنیا نے اُمت مسلمہ کے ہزاروں لاکھوں انسانوں میں بڑے تعجب اور حیرت سے بھی اور پیار سے بھی دیکھا.حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود انسانی ارتقا کا معراج تھا.آپ نے خدا تعالیٰ کی ایسی اطاعت کی.محبت الہی میں ایسے فنا ہوئے اور خدا کا ایسا پیار حاصل کیا اور خدا کی راہ میں اپنے اوپر موت وارد کر کے ایک ایسی نئی زندگی پائی اور ایسا بلند اور ارفع و اعلیٰ مقام حاصل کیا کہ کوئی انسان وہ مقام حاصل نہ کر سکا.آپ نے دنیا کے سامنے ایک اعلیٰ نمونہ پیش کیا کہ جس سے بہتر کوئی اور نمونہ انسان کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا.جو لوگ آپ پر ایمان لائے انہوں نے بھی اپنی قوت اور طاقت کے مطابق خدا تعالیٰ کے احکام پر پورا پورا عمل کیا اور ان سے گریز کا کوئی راستہ تلاش نہیں کیا.ایسا لگتا ہے کہ ان کے اندر عدم اطاعت، نافرمانی کی کوئی طاقت باقی ہی نہیں رہی تھی اس لئے کہ ان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کا ایک سمندر موجزن ہو گیا تھا اس کے بعد تو پھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ انسان شیطان کی طرح انکار اور استکبار کی راہ اختیار کرے اور یہ نتیجہ ہے اس معرفت الہی کا جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت پیدا ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے.انسان محبت اور خشیت اللہ کے نتیجہ میں اپنی زندگی کے مقصد کو پالیتا ہے.

Page 233

خطبات ناصر جلد دہم ۲۰۹ خطبہ عید الاضحیه ۱۲ / نومبر ۱۹۷۸ء ہے.پس خلاصہ یہ نکلا کہ انسان کی ساری قربانیوں کی بنیاد ہے تربیت کے اس عروج پر جسے ہم ایک لفظ اطاعت کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں.ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ تو فیق عطا کرے کہ ہم اس کے احکام کو بشاشت کے ساتھ اور محبت اور پیار کے ساتھ ماننے والے ہوں.دنیا میں طاقت کے زور سے بھی بات منوائی جاتی ہے لیکن خدا کے بزرگ اور پاک بندہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت کے زور سے نہیں بلکہ پیار کے ساتھ اپنی باتیں منوائیں اور لوگوں کے دلوں میں خدا کا پیار پیدا کر کے اپنی باتیں منوائیں آپ نے پیار سے لوگوں پر یہ ثابت کیا کہ جن باتوں کے کرنے کا تمہیں کہا جاتا ہے.ان کے کرنے میں تمہارا فائدہ ہے اور جن کے چھوڑنے کا حکم ہے یعنی جو نواہی ہیں ان کے چھوڑنے میں تمہاری بھلائی اور ترقی و خوشحالی کا راز پس اسلام کا خلاصہ ایک لفظ میں اطاعت ہے اور اسے ذرا پھیلا ئیں تو یہ بنتا ہے کہ انسان اپنی گردن برضا و رغبت خدا تعالیٰ کے احکام کی چھری کے سامنے اسی طرح رکھ دے جس طرح عید قربان کا بکر اقصائی کی چھری کے نیچے اپنی گردن رکھ دیتا ہے.مگر بکرا اپنی مرضی سے ایسا نہیں کرتا.اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی گردن خدا کے سامنے جھکا دے.بکرے کی نسبت انسان کے حالات مختلف ہوتے ہیں.انسان سمجھدار، عقلمند اور صاحب اختیار ہوتا ہے وہ اپنی مرضی سے اپنے فائدہ کے لئے خدا تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے بعد خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے خوف کے سمندروں میں غرق ہو کر اپنی گردن خدا کے آگے جھکا دیتا ہے اور کہتا ہے.اے میرے مولا ! تیری جو مرضی ہے ہم اس پر راضی اور خوش ہیں.تب خدا تعالیٰ پیار سے اپنے ایسے بندہ کو اٹھا تا ہے.اور اسے اتنی نعمتیں اور برکتیں ملتی ہیں کہ دنیا دار اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سبق کے سیکھنے کی توفیق عطا کرے جو اس عید سے وابستہ ہے اور اپنے نیک بندوں میں ہمیں داخل کرے.اب میں ہاتھ اٹھا کر دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ سب احباب جماعت کو عید مبارک کرے.(روز نامه الفضل ربو ه ۲۶ / مارچ ۱۹۷۹ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 234

Page 235

خطبات ناصر جلد دہم ۲۱۱ خطبہ عیدالاضحیہ یکم نومبر ۱۹۷۹ء خانہ کعبہ اور حج سے وابستہ یاد کا تعلق محبت اور عشق سے ہے خطبہ عیدالاضحی فرموده یکم نومبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو دین دنیا کی طرف لے کر آئے وہ ہر جہت سے ایک کامل اور مکمل دین ہے.ایک کامل اور مکمل دین ہونے کے معنے یہ ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو قویٰ دیئے ہیں.ہر قوت کی راہنمائی اور ہدایت کے لئے اس میں سامان پائے جاتے ہیں اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طور پر بھی بیان کیا ہے کہ اسلام انسان کے درخت وجود کی ہر شاخ کو سرسبز کرتا اور اس کی زندگی کے سامان پیدا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل بھی دی اور جذبات بھی عطا کئے اس لئے دین اسلام کے ہر حکم کو ماننے کے لئے یا اس کے ہر حکم کو منوانے کے لئے عقل کو بھی استعمال کیا یعنی عقلی دلائل دے کر سمجھایا کہ تمہارا فائدہ اس میں ہے کہ تم خدا کی بات مانو تمہارا دنیوی فائدہ بھی اس میں ہے اور تمہارا روحانی فائدہ بھی اس میں ہے.اور دین اسلام نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق جو تعلیم دی وہ تعلیم ہمارے سامنے اس عز وجل کے حسن کو کچھ اس طرح پیش کرتی ہے کہ وہ انسان جو خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے، خدا سے پیار کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.اور دین اسلام نے

Page 236

خطبات ناصر جلد دہم ۲۱۲ خطبہ عیدالاضحیہ یکم نومبر ۱۹۷۹ء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ اور اس اسوہ کی جو عظمت اور رفعت اور اس عظمت اور رفعت کا جو حسن ہمارے سامنے پیش کیا وہ بھی کچھ ایسا ہے کہ انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کے بعد آپ کا عاشق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.اس لئے دین اسلام نے اعمالِ انسانی کی بنیاد دو چیزوں پر رکھی ایک جہت سے عقل پر اور دوسری طرف عشق پر.بعض عبادات ایسی ہیں جن میں زیادہ زور عقلی پہلو کی طرف ہے.بعض عبادات ایسی ہیں جن میں زیادہ زور جذباتی پہلو پر ہے محبت اور عشق پر..حج کی عبادت جذبات سے، پیار سے ، عشق سے تعلق رکھتی ہے اور اصل حج تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے عشق میں مست ہو کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں دیوانہ ہو کر مکہ اور مدینہ کی طرف دوڑے.سارے ارکان حج محبت کے پہلو کو نمایاں کرنے والے ہیں.اور جو یاد اس سے ابستہ ہے اس کا تعلق بھی محبت اور عشق سے ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عشق اپنے پیدا کرنے والے رب سے اور آپ کی محبت اس آنے والے کے لئے (صلی اللہ علیہ وسلم ) کہ جن کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی تفصیل سے دی تھی اور آپ سے آنے والی امت کے لئے دعائیں کروائی تھیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے اپنی نسل کو نسلاً بعد نسل تربیت دے کر تیار کیا تھا.آپ کے دشمنوں نے کہا اپنے بتوں کی مدد کرو اور ابراہیم علیہ السلام کو بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دو.اس قدر پیار تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے رب سے کہ اس کے جواب میں جو پیار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو اوہ یہ تھا کہ تم بتوں کے پجاری میرے پیارے کو آگ میں جلا نہیں سکتے.ينارُ كُونِي بَرْداً وَ سَلمًا ( الانبياء :٧٠) اس خالق گل اور مالک گل اور ہر چیز پر قادر خدا نے آگ کو ، جس کی عام حالات میں یہ خاصیت ہے کہ وہ جلاتی ہے کہا ابراہیم کے لئے تو ٹھنڈی ہو جا ، اتنا ہی نہیں بلکہ سلامتی کے سامان پیدا کر.نہ جلا ایک منفی اظہار ہے محبت کا یعنی تکلیف سے محفوظ کر لیا.مگر پیار کرنے والا اور پھر جب پیار کرنے والا خدا ہو وہ یہاں تو نہیں ٹھہرتا.تکلیف سے محفوظ بھی کر لیا اور اسی آگ میں سے سلامتی کے سامان پیدا کر دیئے.

Page 237

خطبات ناصر جلد دہم ۲۱۳ خطبہ عیدالاضحیہ یکم نومبر ۱۹۷۹ء خدا نے اس پیار اور عشق کی آزمائش کے لئے اور دنیا کو بتانے کے لئے کہ مجھ سے پیار کرنے والے کچھ اس طرح مستانہ پیار کرتے ہیں ایک ایسی رؤیا دکھائی جو تعبیر طلب تھی مگر ابراہیم کے عشق الہی نے ان کی توجہ تعبیر کی طرف نہیں پھیری.انہوں نے کہا جو دیکھا ہے وہ کر دوں گا اور اس ایک بلند مرتبہ باپ نے ایک بلند مرتبہ بیٹے سے پوچھا کہ یہ خواب دیکھی ہے، تمہیں ذبح کر دوں خدا کی راہ میں.اس نے کہا ٹھیک ہے اگر خدا کہتا ہے تو جس طرح تم راضی خدا کے حکم پر میں بھی راضی.لٹا دیا ان کو ذبح کرنے کے لئے - تله لِلْجَبِينِ (الصفت : ۱۰۴) خدا نے کہا رویا ہے اس کی تعبیر ہے اور ظاہری شکل میں یہ قربانی کوئی حیثیت نہیں رکھتی میں تو اس سے بہت بڑی قربانی تم سے مانگ رہا ہوں، اس کے لئے تیار ہو جاؤ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں.زندگی کا چشمہ اس بے آب و گیاہ وادی میں نکالنے کے لئے وہ عظیم قربانی لی گئی کہ اس میں جہاں نہ پانی تھا پینے کو نہ کوئی چیز کھانے کے لئے تھی انہیں رہنے کو کہا یہاں ان کو آباد کر دو.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ادھر اُدھر نہیں دیکھا آگے پیچھے نہیں دیکھا کہ کہیں کوئی آثار پانی کے نظر آئیں نہ انہوں نے اس بات پر غور کیا کہ یہاں تو نہ کچھ ا گا ہے نہ اگ سکتا ہے.انہوں نے کہا خدا کہتا ہے سچ کہتا ہے ہمارے فائدہ کے لئے کہتا ہے یہاں میں آباد کر دیتا ہوں اس کو.یہ عظیم قربانی تھی جو ان سے لی گئی.اس کی عظمت ہر آن موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خدا کی راہ میں زندگی گزارنا ہے.اس عظیم قربانی کی عظمت اس بے آب و گیاہ وادی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے وجود کا پیدا ہو جانا ہے جو عشق کے میدانوں میں اپنے جد امجد ، ابراہیم علیہ السلام سے بھی آگے نکل گئے.صلی اللہ علیہ وسلم.تو یہ جو ساری ایسوسی ایشنز ( Associations) تعلقات ہیں.اس عبادت کے عشق اور محبت کے ساتھ ہیں.پھر وہ وادی بے آب و گیاہ نہیں رہی تھی اس وقت جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی خدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق دور دور سے لوگ حج بیت اللہ کے لئے آنے لگے.ہر قسم کے پھل بھی وہاں آگئے ، اناج بھی آگئے ، تجارت بھی ان کی بڑھی ، بڑے امیر ہو گئے وہ جن کے

Page 238

خطبات ناصر جلد دہم ۲۱۴ خطبہ عید الاضحیہ یکم نومبر ۱۹۷۹ ء سپر د بیت اللہ کی خدمت کرنا تھا.مگر جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو یہ وادی اس سے زیادہ بنجر تھی جس حالت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے پایا کیونکہ اس وقت نہ وہاں آدم تھا نہ حوا، نہ اچھا نہ بڑا یعنی جو شیطان کے پیچھے چلنے والے ہیں وہ بھی تو وہاں نہیں تھے کچھ بھی نہیں تھا.کھانے پینے کی چیز بھی نہیں تھی.خدا تعالیٰ کی مخالفت کرنے والے بھی نہ تھے ذریت شیطان بھی وہاں نہیں تھی لیکن اسی وادی میں جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو وہاں ایسے رو سابستے تھے جن کی شکلیں تو انسانوں کی طرح تھیں لیکن سر سے پاؤں تک جن کے اندر انسانیت مفقود تھی اور تیرہ سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انسانوں کے لحاظ سے“ وادی غیر ذی زرع میں گزارے.وہ تو ایک بنجر تھا وہاں سانپ بستے تھے وہاں بھیڑیئے رہتے تھے وہاں بچھوں پائے جاتے تھے ( یعنی ان خصلتوں والے انسان) وہاں حقیقی انسان تو کوئی نظر نہیں آرہا تھا.ہر کوئی دکھ دینے کے لئے تیار، ایک منٹ کی سہولت اور سکون پہنچانے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا.سب سے بڑا معرکہ انہوں نے یہ مارا کہ عبادت کے وقت سجدہ کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر انتڑیاں اور اوجھری رکھ دی.خدا کی عبادت میں روک بنے.ان کی راہیں روکیں جنہوں نے دنیا میں ظلمت کو مٹا کر نور کو پھیلا نا تھا.اس امت کو ساری کی ساری کو ہلاک کرنے کی کوشش کی کیونکہ اس وقت ساری دنیا میں وہی تھے چند سو ہوں گے شاید چند سو بھی نہ ہوں.ان ظالموں نے ان کو وادی غیر ذی زرع کا نمونہ پیش کر کے شعب ابی طالب میں قید کر دیا اور کوشش یہ کی کہ بھوکوں مر جائیں وہ.مگر خدا نے کہا بھوک کی شدت تو یہ برداشت کریں گے مگر بھوک سے مریں گے نہیں.اس لئے کہ یہ امت مرنے کے لئے نہیں زندہ کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہے وہ بھی ایک محبت کے نظارے ہیں.عقل کا نظارہ نہیں ہے.تو مکہ کے ساتھ جس عبادت کا تعلق ہے وہ عشق کی عبادت ہے وہ محبت کی عبادت ہے، وہ خدا تعالیٰ کی معرفت کے بعد انسان کو دنیا سے خوابیدہ اور غافل اور اس نور کا جس کی معرفت حاصل کرتا ہے دیوانہ بنادینے والی عبادت ہے.آج ہم اس عبادت کی خوشی میں اَولَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ (ال عمران: ۹۷) سے ہزار ہا میل

Page 239

خطبات ناصر جلد دہم ۲۱۵ خطبہ عیدالاضحیہ یکم نومبر ۱۹۷۹ء دور یہ عید منارہے ہیں مگر ہماری عید تو تبھی حقیقی عید ہو جب ہم اس سے دور ہوتے ہوئے بھی اپنے دل میں خدا کے لئے وہ پیار محسوس کریں اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق جو ابراہیم علیہ السلام نے اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اپنے رب کے لئے اور تمام استعدادوں اور قوتوں سے بڑھ کر استعداد رکھنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی استعداد کے مطابق اپنے رب کے لئے اس محبت کو محسوس کیا تھا اگر ہمارے دل اس محبت سے سرشار ہوں ، ہماری عید ہے.جس طرح قربانی کے گوشت خدا کو نہیں پہنچتے دل کا تقویٰ پہنچتا ہے، تقویٰ کا بھی ایک پہلو پیار سے تعلق رکھتا ہے اسی طرح ان گوشتوں سے بنایا ہوا پلاؤ اور قورمہ بھی خدا کو نہیں پہنچتا.عید والے دن اچھے کپڑے جو ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ نہیں.خدا کی نگاہ میں تو پسندیدہ ہیں وہ سینئہ و دل جن میں اس کے نور کی شمع روشن ہے، وہ ذہن جو عقلاً خدا تعالیٰ کی معرفت رکھتے اور وہ جذبات جو دل میں سمندر کی طرح موجزن ہوتے ہیں جب وہاں عشق پیدا ہو جاتا ہے خدا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا.اللہ تعالیٰ سے ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمارے لئے حقیقی عید کے سامان پیدا کرے اور ذاتی پیار کا تعلق ہر احمدی کا اپنے پیدا کرنے والے رب کریم سے ہو جائے اور جس طرح اس عشق اور محبت نے دنیا سے ظلمات کو مٹا کر نور کو پھیلایا تھا اسی طرح ہمیں اور ہماری نسلوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ ہم دنیا سے ظلمات کو مٹائیں اور ہر انسان کے لئے بہتری کے سکون کے ، اطمینان کے نور کے سامان پیدا کرنے والے ہوں اور ان کے سارے اندھیروں کو دور کرنے والے ہوں.آمین خطبہ ثانیہ اور اجتماعی دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سب دوستوں کو ایک بار پھر عید مبارک ہو.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 240

Page 241

خطبات ناصر جلد دہم ۲۱۷ خطبہ عیدالاضحیه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۰ء مومن کی حقیقی خوشی اللہ کی رضا حاصل کرنے میں ہے خطبہ عیدالاضحیه فرموده ۱۹ راکتو بر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد فضل لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.خوشی سے تعلق رکھنے والی تین بنیادی چیزیں ہیں.اوّل.جنہیں عزت حاصل کرنی ہو وہ یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے.إِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِيعًا (النساء : ۱۴۰ ) یعنی حقیقی معزز وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ عزت دے.دنیا کی عطا کردہ عزتیں فانی ہیں.جس طرح دنیا کی تمام اشیاء فانی ہیں اور انہیں دوام حاصل نہیں.اسی طرح دنیا کی دی ہوئی عزتیں بھی وقتی اور عارضی ہیں اور دیگر چیزوں کی طرح فنا اور ختم ہونے والی ہیں.دوم - فرما یا فلا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمُ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم :۳۳) یعنی دوستوں کے متعلق کیا کہنا تم خود اپنے متعلق بھی متقی ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو دراصل مقبول اعمال پر منحصر ہے.سوم.قرآن عظیم نے بتایا ہے.لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمُ (الحج: ۳۸) یعنی دنیا کی جو چیزیں تم بطور قربانی پیش کرتے ہو، وہ اللہ کو نہیں

Page 242

خطبات ناصر جلد دہم ۲۱۸ خطبہ عیدالاضحیه ۱۹ /اکتوبر ۱۹۸۰ء پہنچتیں.اس کو تقویٰ اور دلوں کی پاکیزگی سے تعلق ہے.حضور انور نے فرمایا کہ پرانے بادشاہوں کا طریق تھا کہ عیدوں اور خوشیوں کے موقع پر ان کو لاکھوں روپے کے نذرانے پیش ہوتے تھے.ان میں سے مغل بادشاہوں کے طریق کے مطابق جو تحائف بادشاہ کو پسند ہوتے وہ رکھ لیتے اور جو پسند نہ آتے انہیں واپس کر دیا جاتا.جو چیز اللہ تعالیٰ کو پسند آئے وہ اسے رکھتا ہے.جو دنیوی چیزیں اس کے حضور پیش کی جاتی ہیں.اس کی اسے ضرورت نہیں.حضور انور نے فرمایا کہ خدا کی بنائی ہوئی کائنات کا ایک ذرہ بلکہ اس کا بھی کچھ حصہ پیش کر کے یہ سمجھ لینا کہ ہم نے کوئی احسان کیا ہے ، حماقت ہے.مومن اس کی خاطر ذلتوں کو خوشی سے قبول کرتے ہیں.دنیا وی عزتیں خدا کی راہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.اصل سرچشمہ عزت کا وہ خود ہے.حضور انور نے فرمایا :.دنیا جو خوشیاں مناتی ہے.میں نے اس پر بہت غور کیا ہے.ان کی خوشیاں منانے کی کوئی بنیاد نہیں.اسلام میں خوشی کی بنیاد اعمال صالحہ کی مقبولیت ہے.انسان اس وقت عزت پاتا ہے جب اس کی قربانیاں قبول ہو جائیں.قربانیوں کی قبولیت کے بعد ہی اسے حقیقی خوشی ملتی ہے.حضور انور نے فرمایا:.انسان جو کچھ خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے.اسے اس نے قرض قرار دیا اور اللہ تعالیٰ اس قرض کو بڑھا چڑھا کر واپس کرتا ہے.حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے زمانہ میں جو لوگ آپ کے فدائی تھے.جو پانچ پانچ دس دس روپے آپ کی خدمت میں پیش کرتے تھے.ان کی اولادیں آج دس دس ہزار روپیہ ماہوار پارہی ہیں.خدا نے قرض اپنے پاس نہیں رکھا.حضور انور نے فرمایا:- آج کی خوشی ایک عظیم قبولیت کے نتیجہ میں ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذریت کے ایک حصہ کو وادی غیر ذی زرع میں آباد کیا.حضرت اسماعیل بچے تھے.والدہ کی تربیت نے ایک شعور پیدا کر دیا تھا.ان کے اندر تقویٰ کی راہ پیدا ہو چکی تھی.جب قربانی کا

Page 243

خطبات ناصر جلد دہم ۲۱۹ خطبہ عیدالاضحیه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۰ء وقت آیا تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ذبح کر دو بلکہ فرمایا اِفْعَلُ مَا تُؤْمَرُ (الصفت : ۱۰۳) یعنی خدا جو کہتا ہے اس کے مطابق کرو.حضور انور نے فرمایا:.زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اِفْعَلُ مَا تُؤْمَرُ کے مقام تک پہنچ جائے.چنانچہ جب شراب کی ممانعت ہوئی اور مدینہ کی گلیوں میں اس کا اعلان کیا گیا تو ایک شخص نے جس کے گھر میں شراب پی جا رہی تھی اس نے خود مٹکوں کو توڑنا شروع کیا اور کہا کہ پہلے مٹکے توڑ و تحقیق بعد میں کہ فی الحقیقت ممانعت ہوئی ہے یا نہیں.حضور انور نے فرمایا کہ ہماری اصل خوشیاں اس بنیاد پر ہیں کہ ہمارے دلوں میں خدا کی خشیت اور تقویٰ گھر کر چکا ہو اور اس کے سوا اور کسی چیز کا تصور ہی نہ ہو سکے.یہی معنے حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے الہام مولا بس کے ہیں.جب یہ کیفیت پیدا ہو جائے تو حقیقی خوشی ہے.یہی وہ مقام ہے جسے قرآن کریم اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم السجدة: ٣١) قرار دیتا ہے.آخر میں حضور انور نے احباب جماعت کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا:.افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ کی روح پیدا کرتے ہوئے قربانیوں میں آگے بڑھو.خدا پر بھروسہ کرتے آگے بڑھو.کمزوروں کو سہارا دو، غافلوں کو بیدار کرو، بے سمجھوں میں تَفَقُهُ فِي الدِّين پیدا کرو جو تقویٰ سے خالی ہیں ان کے دلوں میں تقویٰ پیدا کرو.خدا تمہیں توفیق دے تم اس کے فضلوں کو جذب کرنے والے اور رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے والے بنو.خطبہ ختم ہونے پر حضور انور نے دعا کرائی.دعا کے بعد عید میں شامل ہونے والے احباب کو مصافحہ کا شرف بخشا.جو تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہا.(روز نامہ الفضل ربوہ ۷ ارنومبر ۱۹۸۰ ء صفحه او۸)

Page 244

Page 245

خطبات ناصر جلد دہم ۲۲۱ خطبہ عیدالاضحیه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء یہ عید اس عظیم قربانی کی یاد میں مناتے ہیں جو محمد کے وجود میں عروج کو پہنچی خطبہ عیدالاضحیه فرموده ۹/اکتوبر ۱۹۸ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه نماز عید پڑھانے کے بعد حضور انور منبر پر تشریف لائے اور فرمایا :.آپ سب کو عید مبارک ہو.جو بیٹھے ہیں انہیں بھی اور جو مسجد سے باہر نکل رہے ہیں انہیں بھی عید مبارک ہو.جو ربوہ میں ہیں انہیں بھی عید مبارک ہو اور جور بوہ سے باہر ہیں انہیں بھی عید مبارک ہو.جو پاکستان میں ہیں انہیں بھی عید مبارک ہو اور جو پاکستان سے باہر رہتے ہیں انہیں بھی عید مبارک ہو.پھر تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج جو عید ہے اسے عید قربان کہتے ہیں.قربانیوں کی عید.بعض دفعہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ قربانی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے رب کریم کے حضور پیش کی.اس کی یاد میں ہم یہ عید مناتے ہیں.بنیادی حقیقت جو قربانی کی ہے اس کی ابتدا کا ذکر کر دیتے ہیں اور اس کے عروج کو بھول جاتے ہیں.یہ عید ہم مناتے ہیں اس عظیم قربانی کی یاد میں اور اسے اپنے لئے اسوہ سمجھتے ہوئے جس کی ابتدا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی قربانی سے ہوئی اور جو قربانی اپنے عروج

Page 246

خطبات ناصر جلد دہم ۲۲۲ خطبہ عیدالاضحیه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں پہنچی.ابتدا بھی عظیم کوئی شک نہیں لیکن جو عروج ہے اس کی عظمتوں کا تو اندازہ لگانا بھی مشکل ہے.یعنی جو قربانی خدا تعالیٰ کی راہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی اس کی عظمت اور رفعت کو انسانی عقل نہیں پہنچی.اسی لئے اگر ہم اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہر صدی نے اس عظمت کے، اس عروج کی عظمت کے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی کی عظمت کے نئے سے نئے پہلو نکالے.جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلی صدی میں پہلی صدی کے انسان نے اس کے عروج کو کامل طور پر نہیں سمجھا تھا تبھی تو دوسری صدی میں نئے پہلو اجاگر ہوئے اور سامنے آئے اور دوسری صدی نے بھی اس عظمت کو پوری طرح نہیں سمجھا تھا اسی لئے تیسری صدی میں نئے پہلو ہمارے سامنے آئے اور جب سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے نئے پہلو بنی عظمتیں، نئی رفعتیں نئی گہرائیاں ،نئی وسعتیں ہمارے سامنے اس عظیم قربانی کی آتی رہتی ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی بنیاد تھی اِفْعَلُ مَا تُؤْمَرُ (الصفت : ۱۰۳) ایک حکم خدا نے دیا ہے اسے بجالاؤ وہ حکم تھا بیٹے کو قربان کر دینے کا.انسان اپنے نفس کی قربانی دیتا ہے یعنی جان حاضر کر دیتا ہے وہ بھی بڑی قربانی ہے.باپ خدا کے لئے اور اس کے حکم کو پورا کرنے کے لئے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری رکھنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے یہ بھی بڑی قربانی ہے مگر ایک حکم کو پورا کرنے سے یہ شروع ہوئی یعنی بنیاد اس قربانی کی خدا تعالیٰ کے ایک حکم کو بجالانے پر رکھی گئی.لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قربانیاں اپنے رب کریم کے حضور پیش کیں ان کی بنیاد ایک حکم کو پورا کرنے کے لئے نہیں وَ اسْتَقِم گما أمرت (الشورى : ۱۶) جو وحی بھی تم پر نازل ہوئی ہے، اسے مضبوطی سے پکڑو اور استقلال سے اس پر قائم رہو.ظاہری یہ بڑا فرق ہے دو قربانیوں کی بنیاد پر.لیکن بہر حال وہاں سے شروع ہوئی اور اپنے عروج کو پہنچی اور عروج کو پہنچنے کے بعد جس طرح ایک بلند مینار پر کوئی بہت بڑا چراغ یا بلب بجلی کا روشن کیا جائے تو جتنی طاقت ہوگی اس بلب میں اور جتنی بلندی ہوگی اس مینار میں اس کے مطابق وہ اپنی شعاعیں چاروں طرف پھینکے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قربانی

Page 247

خطبات ناصر جلد دہم ۲۲۳ خطبہ عیدالاضحیه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء میں اتنا نور اور اتنا حسن ہے کہ قیامت تک کے نوع انسانی کو اس قربانی کی برکتوں نے اس معنی میں مالا مال کیا کہ جس نقش قدم پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم چلے قربانیاں دیتے ہوئے اپنے رب کریم کے دربار میں جا پہنچے انہی نقوش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدیہ میں لاکھوں کروڑوں اپنی اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق قربانیاں دیتے چلے گئے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتے چلے گئے.وَاسْتَقِم كما أمرت یہ سورۃ الشوریٰ کی ۶ ویں آیت ہے.کل شام کو یہ مضمون جب میرے دماغ میں آیا تو میری توجہ اس طرف بھی پھیری گئی کہ سورۃ شوری کی ابتدا سے یہ مضمون شروع ہوتا ہے یعنی صرف ۶ ویں آیت وَ اسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ میں نہیں.میں مختصراً ( کیونکہ بہت لمبا مضمون بن جاتا ہے ۱۶ آیات کا ) اس وقت بیان کروں گا.اس سے پہلے کی جو آیات شروع ہوتی ہیں وہ میں نے پہلی آیت دوسری آیت لے کے اس کا مفہوم مختصراً اٹھا یا ہے ان آیات سے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شروع یہاں سے ہوا.اللہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.یعنی جو کائنات کی بنیاد تھی وہاں سے مضمون کی ابتدا ہوئی.العلی اس کی شان بڑی بلند ہے الْعَظِیمُ اس کی حکومت سب مخلوق پر پھیلی ہوئی ہے.العلی جتنی اس کی شان بلند ہے اسی قدر ہر انسان اپنی استعداد میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے.نمبر ۲.آسمان و زمین اللہ کی عظمت کو پہچانتے ہیں.يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ (الجمعة: ۲) ہے یہاں دوسرے الفاظ ہیں لیکن مفہوم کا خلاصہ یہی نکلتا ہے آسمان اور زمین ، اللہ کی عظمت کو پہچانتے ہیں اور اس کے جلال سے لرزاں ہیں.نمبر ۳.فرشتے اس کی حمد اور تسبیح کر رہے ہیں اور زمین پر بسنے والوں کے لئے سہارا بنتے ہیں ان کے لئے استغفار کرتے ہوئے اور جب بندہ اپنے رب غَفُور اور رَحِیم کو عاجزانہ دعاؤں سے پکارتا ہے تو فرشتے بھی دعاؤں میں استغفار میں شامل ہوتے ہیں اور اللہ کے حضور یہ درخواست کرتے ہیں کہ ان بندوں کی دعاؤں کو قبول کر اور مغفرت کی چادر میں انہیں ڈھانپ لے.

Page 248

خطبات ناصر جلد دہم ۲۲۴ خطبہ عیدالاضحیه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء نمبر ۴.جو اللہ کے باغی ہیں.اس کی اطاعت سے باہر نکلتے ہیں.اللہ ان کا نگران ہے.صرف اللہ ان کا نگران ہے.ان کا واسطہ کسی اور ہستی سے نہیں.کیونکہ جب اطاعت اللہ کی کرنی ہے تو اللہ کی اطاعت سے نکلنے والے کا معاملہ جو ہے وہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پر وکیل یا نگران کے طور پر مبعوث نہیں ہوئے اور نگران جو ہے وہ صرف یہ نہیں کہ ان کو کھلی چھٹی ہے گناہوں کی.یہ نہیں کہ ان کے لئے کوئی ہدایت نہیں کہ وہ گناہوں سے بچ سکیں.یہ نہیں کہ ان کو استعداد نہیں دی گئی نیکیاں کرنے کی.یہ نہیں کہ ان کی فطرت میں خدا تعالیٰ کی محبت کو رکھا نہیں گیا.خدا تعالیٰ نگران ہے اس معنی میں کہ یہ قرآن انذار کے لئے اس نے اتارا ہے.قرآن کریم بشارتوں سے بھی بھرا ہوا ہے اور تنبیہ سے بھی بھرا ہوا ہے اور ہوشیار بھی کر رہا ہے.تا اُخروی زندگی کی سزا سے بچاؤ کےسامان پیدا ہوں.ساتویں یہ کہ انسان کو ضمیر کی آزادی عطا کی تا جن کے اعمال اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ ہوں.ہم آزاد ہیں جو چاہیں کریں.لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ اگر ہم ایسے اعمال کریں گے جو خدا کی نگاہ میں پسندیدہ نہیں ہوں گے تو اس کی قہر کی تجلی ہم پر نازل ہوگی.اگر ہم ایسے اعمال کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ ہو جائیں گے اس میں کوئی ریا نہیں ہوگا، تکبر نہیں ہوگا.کوئی اور خامی نہیں ہوگی تو خدا تعالیٰ ہم سے پیار کرنے لگ جائے گا اور ہر وہ چیز ہمیں دے گا جس کا وعدہ قرآن کریم نے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے لئے کیا ہے.پھر فرمایا جو مضمون آیا ہے اس کا خلاصہ ترتیب کے ساتھ بیان کر رہا ہوں.اللہ ہی پناہ دینے والا ہے.اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ میں خدا سے بھاگ کر کسی اور جگہ پناہ لے لوں گا جس طرح مشرکین کہتے ہیں کہ ہم بتوں کی پناہ میں آجاتے ہیں یہ ہمارے شفیع ہوں گے اُخروی زندگی میں، غلط.اللہ ہی پناہ دینے والا ہے اور وہی مردے زندہ کرتا ہے.نیستی سے ہست کر دیا.انسان کو پیدا کر دیا.اس کے جسم کے ذرات مردہ کی شکل میں تھے ان کو زندگی دی اور اسی نے سامان پیدا کئے کہ جو روحانی طور پر اور اخلاقی لحاظ سے مردہ تھے انہیں وہ زندہ کرے اور وہ اپنے ہر ارادہ کو پورا کرنے پر قادر ہے.

Page 249

خطبات ناصر جلد دہم ۲۲۵ خطبہ عیدالاضحیه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء پھر فرمایا کہ آخری فیصلہ اللہ ہی کے قبضہ میں ہے.یہ ہے ہم سب کا رب.پہلے ساری صفات بیان کر کے کہ آخری فیصلہ اللہ ہی کے قبضہ میں ہے.الْحُكْمُ لِلَّهِ (المؤمن: ۱۳) یہاں الْحُكْمُ لِلهِ نہیں دوسرے الفاظ ہیں.یہ میں اپنی طرف سے یہاں کہہ رہا ہوں اَلْحُكُمُ لِلهِ.حکم اسی کا چلے گا.فیصلہ اسی نے کرنا ہے جب فیصلہ اسی نے کرنا ہے اور اس نے اعلان کیا کہ میں نے تمہاری ربوبیت کا سامان قرآنی وحی میں کر دیا.تو قرآن کریم کی وحی صرف قرآن کریم کی وحی پر عمل کرنا ہمارے لئے ضروری ہو گیا.یہ ہے ہم سب کا رب.جو ان صفات کا مالک.جس نے ہمارے متعلق فیصلہ کرنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے رب ہونے کے لحاظ سے یعنی اس نے ربوبیت کے جو سامان پیدا کئے ہم نے ان سے فائدہ اٹھایا اور اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کیا یا ہم نے ان سے منہ پھیر لیا اور اس کے غصہ اور قہر کے مورد ہو گئے.اس لئے اسی پر تو گل ہونا چاہیے.فرماتا ہے.کہہ دے کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکالے گئے.اس پر میرا تو گل ہے اور اسی کی طرف میری توجہ ہے.وَالَيْهِ أُنِيبُ (الشوری: ۱۱) پھر فرما یا آسمان اور زمین کی ہرھی کو وہ ایک پیدا کرنے والا ہے.اس کا سانجھی اور شریک کوئی نہیں.پھر اس نے اپنی حکمت کا اظہار اس طرح کیا کہ انسان میں سے جو مرد بنائے ان کی جنس سے ان کو سکون پہنچانے کے لئے عورتیں بنادیں.جب نوع انسانی میں عورت پیدا کی تو اس کے سکون کے لئے مرد پیدا کر دیا.تو ساتھی تمہاری ہی جنس سے تمہارے ساتھی بنائے اور صرف انسانوں میں اس کا یہ اصول نہیں بلکہ چارپایوں کے بیچ میں جوڑے بنائے ہیں نر و مادہ بنائے ہیں اس واسطے کہ انسان جب روحانی رفعتوں کے حصول کا ارادہ کرے تو اسے یہ بات سمجھ آجائے کہ جب تک وہ اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ تعلق نہیں قائم کرے گا اس کی اخلاقی اور روحانی ترقیات ممکن نہیں.پھر فرمایا لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری: ۱۲) اس جیسی کوئی ہستی نہیں.اپنی ذات وصفات

Page 250

خطبات ناصر جلد دہم ۲۲۶ خطبہ عیدالاضحیه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء میں یگانہ اور احد ہے اس جیسی کوئی ہستی نہیں.کوئی ہستی ایسی نہیں جو انسان کی دعاؤں کو سننے والی ہو.وہ سمیع ہے.انسان کی دعاؤں کو سنتا ہے اور وہ صرف سنتا نہیں جو مانگنے والا ہے بعض دفعہ ناسمجھی سے خدا سے دعا کرنے والا کہتا ہے جو میں مانگتا ہوں وہ مجھے ملنا چاہیے.اگر اللہ تعالیٰ محض سمیع ہو تو اس کو یہ توقع کرنی چاہیے لیکن وہ بصیر ہے وہ دیکھتا بھی ہے دعامانگنے والا جس چیز کو نہیں دیکھتا وہ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے.دعا مانگنے والا ایک ایسی چیز کو مانگتا ہے جس کے بعض پہلو اسے نقصان دینے والے ہیں.خدا تعالیٰ سنتا ہے لیکن قبولیت دعا بصیر ہونے کی حیثیت سے ہوتی ہے.یعنی اس شکل میں قبول نہیں ہوتی اس سے بہتر شکل میں.جو مانگا گیا ہے اس سے بہتر شکل میں دعا کو قبول کرنے والا ہے.بے انتہا دولت کا وہ مالک ہے.آسمانوں کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہیں اور زمین کی بھی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہیں.ہر قسم کی دولت اس کے ہاتھ میں ہے.ہر قسم کا رزق وہ دیتا ہے.کبھی فراخی پیدا کرتا ہے.انعام کا ایک پہلو بھی اور آزمائش کا ایک پہلو بھی.کہ تم یہ انعام لے کے اس کا استعمال کیسے کرتے ہو.کبھی تنگی پیدا کرتا ہے صبر کا ایک پہلو کی آزمائش بھی اور خدا تعالیٰ کے ساتھ جو ایک تعلق ہے اس پر استقامت اور استقلال پر بندہ قائم رہتا ہے یا نہیں یہ امتحان بھی.ہر ایک امر کو وہ خوب جاننے والا ہے.علیم ہے اس لئے علم کامل کے نتیجہ میں وہ حالات کو بدلتا اور بعض بندے ان بدلے ہوئے حالات میں کچھ ہو جائے دنیا میں خدا تعالیٰ کے دامن کو جب ایک دفعہ ہاتھ میں پکڑ لیا وہ کبھی نہیں چھوڑتے.پھر فرمایا جو شریعت قرآن کریم کے ذریعہ اتاری گئی، اس کا مرکزی نقطہ یہ ہے اللہ کی اطاعت کو دنیا میں قائم کرو.اللہ کی اطاعت کو محض اللہ کی اطاعت کو، خدائے واحد و یگانہ کی اطاعت کو دنیا میں قائم کرو.شرک کے ہر پہلو کو دنیا سے مٹانا اور کامل اطاعت اللہ تعالیٰ کی.أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ (الشوری: ۱۴) یہ عربی کے لفظ ہیں اس میں.اور قرآنی وحی کے متعلق یہ تفرقہ نہ کرو پیدا.کامل اطاعت کا نتیجہ نکالا ہے اس آیت میں قرآن کریم نے یہ کہ تفرقہ نہ کرو.کہ کبھی ہم قرآنی وحی کی اطاعت کریں گے اور کبھی ہم کسی دوسرے سر چشمہ سے ہدایت لیں گے.وَلَا تتَفَرَّقُوا فِيهِ (الشورى: ۱۴).

Page 251

خطبات ناصر جلد دہم ۲۲۷ خطبہ عیدالاضحیه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء پندرھویں فرمایا تھا کہ جس امر میں تم اختلاف کرو گے یعنی قرآن کریم کی وحی اور وہ ایک گروہ کا فیصلہ یا فتویٰ یا رائے یا بعض لوگوں کی روایتیں جب وہ متضاد ہو جا ئیں قرآن کریم سے تو فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے.یہاں ظاہر ہے کہ فیصلہ سے مراد یہ ہے کہ فرمایا تھا کہ جو قرآن کریم کے احکام کو ، اللہ کے دین کو قائم کرے گا، خدا کی اطاعت کو قائم کرے گا.خدا تعالیٰ کی کن امور میں اطاعت.قرآن کریم کے احکام، اوامر و نواہی میں جو اطاعت کرے گا وہ دین اسلام، یہ جو ہمارا دین ہے اسلام.صراط مستقیم ہے اس کے اوپر خدا کی نگاہ میں وہ قائم ہونے والا ہے اور جو دوسری جگہ بڑی وضاحت سے بیان کیا اور یہاں بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جو اطاعت کرے گا وہ اطاعت کا پھل پائے گا.اللہ تعالیٰ اسے انعام دے گا.یہ تو نہیں کہ جو خلوص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا ہو اللہ تعالیٰ اسے دھتکار دے اور پرے پھینک دے.ایسا نہیں ہوگا.کیونکہ اس کے وعدہ کے خلاف ہے.ٹھیک ہے اگر ہمارے بظا ہر عمل صالح میں کوئی خرابی ہوگی.کوئی نقص ہوگا.کوئی بیماری ہوگی.کوئی حکم کے ادا کرنے سے انکار کا کوئی پہلو چھپا ہوا ہو گا اس کے اندر تو انعام نہیں ملے گا.تو فر ما یا کہ جو اختلاف تم کرو گے قرآن کریم کی وحی اور اس کی اطاعت کے معاملہ میں اس کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے جو عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے.جو صفات پہلے ذکر ہو چکی ہیں اسی سورۃ میں.ان صفات سے اور دوسری صفات حسنہ سے متصف ہے وہ صحیح فیصلہ کرنے والا ہے.وہ جلدی فیصلہ کرنے والا ہے اور فیصلہ کی طاقت رکھنے والا ہے اس کے فیصلہ سے کوئی بچ نہیں سکتا.اس واسطے اطاعت کرو گے انعام پاؤ گے.اطاعت سے باہر نکل جاؤ گے.فسق اور فجور کی راہوں کو اختیار کرو گے انعام نہیں پاؤ گے بلکہ سزا پاؤ گے.فرمایا کہ یہ ہے تمہارا اللہ جو میرا بھی رب ہے.یہ ہے تمہارا اللہ تمام صفات حسنہ سے متصف یہاں خدا تعالیٰ کی ذات اور خدا تعالیٰ کی ایک بنیادی صفت کا ذکر کیا گیا.اپنی ذات میں وہ کامل اور ہمارے ساتھ اس کا ربوبیت کا تعلق ہے یعنی استعداد میں دیں.ان کی نشوونما کے سامان پیدا کئے.میں اس پر تو گل کرتا ہوں اور اسی کی طرف جھکتا ہوں.

Page 252

۲۲۸ خطبہ عیدالاضحیه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء خطبات ناصر جلد دہم پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کہ تم خدا کے حکم پر چلتے ہوئے اللہ کی ،صرف اللہ کی اطاعت دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہو مگر مشرکوں پر یہ تعلیم قرآنی بڑی گراں گذرتی ہے اور تو بلا تا صرف قرآن کریم کی تعلیم کی طرف ہے.پھر یہ سولویں آیت آگئی جس میں وَاسْتَقِہ کا حکم تھا فَلِذلِكَ فَادْح یہ یہاں سے شروع ہوتی ہے آیت.پس تو اس دین کی طرف لوگوں کو پکار پکار کر بلا.اوپر جس کا ذکر آیا ہے اطاعت خالص اللہ کی کرنی ہے.صرف قرآن کریم کی جو وحی ہے اس کی پیروی کرنی ہے.دوسری جگہ فرمایا ان اتبع إلَّا مَا يُوحَى إلى (الانعام : ۵۱) فَلِذلِكَ فَادْعُ.پس تو اس دین کی طرف لوگوں کو پکار پکار کر بلا اور وَاسْتَقِم كما أمرت اور خود ان کے سامنے اپنا نمونہ پیش کر.ایک ہے دعوت دینا تبلیغ کرنا.دلائل دے کر، نشان ان کے سامنے رکھ کے.اللہ تعالیٰ نے بڑے نشان دیئے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ، بے حد و بے شمار نشان.دلائل دیئے ہیں بڑے وزنی دلائل، لیکن ان کے علاوہ و اسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ - ایک کامل اسوہ اور نمونہ ان کے سامنے پیش کر.اس دین پر استقلال سے قائم رہ جس طرح تجھے حکم دیا گیا ہے گیا اُمرت.اور قرآن کریم کی وحی کے مقابلہ میں ان لوگوں کی وہ خواہشیں جو قرآن کریم کی تعلیم میں بگاڑ پیدا کرنے کی ہیں ان کی طرف توجہ نہ کر اور کہہ دے کہ اللہ نے اپنی کتاب سے جو کچھ اتارا ہے میں صرف اس پر ایمان لاتا ہوں.یہ ایک علیحدہ مضمون ہے انشاء اللہ مجھے توفیق ملی کہ قرآن کریم کو قرآن کریم کے نہ ماننے والوں نے ایک منصو بہ یہ بھی بنایا کہ اس میں کوئی رد و بدل کیا جائے مختلف.قرآن کریم کی وحی اور تعلیم پر مختلف جہات سے حملے کئے تاکہ کسی طرح اس کے اندر کوئی ردو بدل ہو.وہ لمبا مضمون ہے.وہ میرے آج کے مضمون کا حصہ نہیں.فرمایا خواہشوں کی پیروی نہ کر اور کہہ دے وہ خواہشیں اگلا فقرہ بتاتا ہے کہ وہ خواہشیں کیا ہیں.کہہ دے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں جو کچھ اتارا ہے میں اس پر ایمان لاتا ہوں.تمہاری خواہشوں کی پیروی کر کے خدا تعالیٰ کے کسی حکم کی عدم اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.الله رَبُّنَا وَ رَبُّكُمُ (الشوری: (۱۶) قرآن کریم نے ہماری ربوبیت کا سامان بھی کیا تھا تمہاری ربوبیت کا سامان بھی کیا تھا کیونکہ كافة لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا (سبا: ٢٩) ہو کر

Page 253

خطبات ناصر جلد دہم ۲۲۹ خطبہ عیدالاضحیه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے.اللہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے.ابدی صداقتوں پر مشتمل یہ شریعت صرف ہماری ربوبیت نہیں کرتی بلکہ چونکہ نوع انسانی کی طرف نازل ہوئی ہے اس لئے تمہاری ربوبیت کے لئے بھی آئی ہے اور اس سے محروم رہنا بھڑکتی ہوئی آگ ہے اس سے تمہیں بچنا چاہیے.تو آج کی قربانی جسے ہم آج یاد کرتے ہیں اس کی ابتدا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی قربانی سے شروع ہوئی جو ایک حکم کی اطاعت تھی اِفْعَلُ مَا تُؤْمَرُ یہاں سے بنیاد رکھی گئی ہے اور اپنے عروج کو پہنچی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم قربانی پر.آپ کو یہ نہیں کہا گیا کہ اس ایک حکم کی اطاعت کر.آپ کو یہ کہا گیا ہے کہ قرآن کریم کی وحی کے ہر حکم کی اطاعت کرو اور دوسری جگہ کہا گیا ہے تم بھی اطاعت کرو اور جو تمہارے متبع ہیں وہ بھی اطاعت کریں قرآن کریم کی وحی کی.وحی کے ہر حکم، ہر امر ، ہر نبی کی اطاعت کرنے والے ہیں تم اور تمہارے ماننے والے.یہ قربانی ہے.جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے عروج تک پہنچایا اور پھر قربانی کو عروج تک پہنچایا اس وقت تو آپ خدا تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے تھے نا.پھر رسول ہونے کے لحاظ سے کیونکہ خدا نے آپ کو کافة للناس کہا.آپ نے نوع انسانی کی طرف منہ کیا اور قیامت تک کے انسان کو کہا کہ سنو! میں تمہارے لئے ایک ایسی تعلیم لایا ہوں جو تمہاری عزت و شرف اور رفعت اور بزرگی اور بلندی ، خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور میرے نمونے کو دیکھو.خدا تعالیٰ نے جو مجھے طاقت اور استعداد دی تھی اس کی صحیح نشو ونما اسی کی توفیق سے میں نے پائی اور جو قربانی اس نے مانگی وہ میں نے اس کے حضور پیش کر دی اور خدا تعالیٰ نے اپنا فضل کیا کہ عرش رب کریم کے اوپر مجھے لا بٹھایا اپنے پہلو میں.یہ محاورے ہیں ہمارے اسلام کے.تم ساتویں آسمان سے اوپر نہیں جاسکتے لیکن ساتویں آسمان تک پہنچنے کا ہر دروازہ اے افراد نوع انسانی! تم پر کھلا ہے اپنی اپنی استعداد کے مطابق.اپنے پہ ظلم نہ کرو اور اس عظمت سے محروم نہ رہ جاؤ جس عظمت کو لے کر میں تمہارے سامنے آیا ہوں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو قربانی ہے اس کا چند فقروں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان الفاظ میں ذکر کیا

Page 254

خطبات ناصر جلد دہم ۲۳۰ خطبہ عیدالاضحیه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء جس کے اوپر یہ آج کے عید کے خطبہ کو میں ختم کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود حضرت مہدی معہودعا الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.خیال کرنا چاہیے کہ کس استقلال سے آنحضرت اپنے دعویٰ نبوت پر باوجود پیدا ہو جانے ہزاروں خطرات اور کھڑے ہو جانے لاکھوں معاندوں اور مزاحموں اور ڈرانے والوں کے اوّل سے اخیر دم تک ثابت اور قائم رہے.برسوں تک وہ مصیبتیں دیکھیں اور وہ دکھ اٹھانے پڑے جو کامیابی سے بکلی مایوس کرتے تھے اور روز بروز بڑھتے جاتے تھے کہ جن پر صبر کرنے سے کسی دنیوی مقصد کا حاصل ہو جانا وہم بھی نہیں گزرتا تھا بلکہ نبوت کا دعوی کرنے سے از دست اپنی پہلی جمعیت کو بھی کھو بیٹھے.پھر آپ فرماتے ہیں.واقعات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جانباز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیر نے والے اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے.کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہو کر اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہ کی کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور درد اٹھانا ہوگا بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کر کے اپنے مولیٰ کا حکم بجالائے.اور ہمیں بھی کہا کہ میرے نقش قدم پر چلو.دوسری آیت میں اس وقت چھوڑتا ہوں دیر ہو جائے گی اس میں صاف اور واضح یہ بات بتائی گئی ہے کہ جو ماننے والے ہیں ایک تو ہے پکار پکار کے بلایا تمام بنی نوع انسان کو.ایک ماننے والوں کو کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی وحی پر جس استقلال اور استقامت سے قائم ہوں تمہارا بھی فرض ہے کہ تم بھی اسی استقلال اور استقامت سے اللہ تعالیٰ کی وحی قرآن عظیم کے اوامر و نواہی پر قائم رہو اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.

Page 255

خطبات ناصر جلد دہم ۲۳۱ خطبہ عیدالاضحیه ۹/اکتوبر ۱۹۸۱ء خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اب ہاتھ اٹھا کے میں دعا نہیں کروں گا.آپ سب کو، دنیا میں بسنے والے سب کو اللہ تعالیٰ یہ عید مبارک کرے.جن کی جھولیاں کچھ برکتوں سے بھری ہیں، ان جھولیوں کو اتنا بھر دے کہ ان سے یہ برکتیں سنبھالی نہ جاسکیں اور جو خالی جھولیاں لے کر ادھر اُدھر پھر رہے اور گھوم رہے اور گرداں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے کہ ایسے اعمال بجالائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی جھولیوں کو بھی اپنی رحمت اور برکتوں سے بھر دے.- اللہ تعالیٰ نوع انسانی ہلاکت کے جس گڑھے کی طرف حرکت کر رہی ہے اس ہلاکت سے اس کو بچانے کے سامان پیدا کرے.انہیں عقل اور فراست اور سمجھ عطا کرے.اور انسان دکھیا انسانیت کے لئے سکھ اور بشاشت اور خوشحالی کے سامان پیدا کرے.آمین السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 256

خطبات نکاح فرموده سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

Page 257

خطبات ناصر جلد دہم ۲۳۳ خطبہ نکاح ۲۱ نومبر ۱۹۶۵ء حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے عہد خلافت میں یہ پہلا نکاح ہے جس کا اعلان حضور نے خود فرمایا ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۱ نومبر ۱۹۶۵ء بمقام قصر خلافت ربوه حضرت امیر المومنین خلیفة اسم الثالث ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیزنے بوجہ علالت قصر خلافت میں ہی حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کے نواسے ملک نسیم احمد صاحب بی.اے.ایل.ایل.بی ابن مکرم عطا محمد صاحب آف کوئٹہ کا نکاح ہمراہ نعیمہ اختر صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر مرزا عبدالقیوم صاحب نوشہرہ ضلع پشاور مبلغ دس ہزار روپے حق مہر پر پڑھا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے از راہ نوازش خاص لڑکی کے والد کی درخواست پر بطور وکیل منظوری کا اظہار فرما یا بعد ازاں حاضرین کے ساتھ لمبی دعا فرمائی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے عہد خلافت میں یہ پہلا نکاح ہے جس کا اعلان حضور نے خود فرمایا ہے.احباب جماعت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس نکاح کو جانبین کے لئے دینی اور دنیوی لحاظ سے ہر طرح خیر و برکت کا موجب بنائے.آمین روز نامه الفضل ربوه ۲۳ نومبر ۱۹۶۵ صفحه ۶)

Page 258

Page 259

خطبات ناصر جلد دہم ۲۳۵ خطبہ نکاح ۲۸ نومبر ۱۹۶۵ء خاوند اور بیوی کے تعلقات کی بنیاد تقویٰ پر ہونی چاہیے خطبہ نکاح فرموده ۲۸ نومبر ۱۹۶۵ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر مکرمہ ناصرہ بشیر صاحبہ بنت ڈاکٹر بشیر احمد صاحب اور چوہدری رشید احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جو رشتہ نکاح کے ذریعہ قائم ہوتا ہے بڑا ہی نازک ہوتا ہے.لڑکی ایک خاندان سے ہوتی ہے اور لڑکا ایک دوسرے خاندان سے ہوتا ہے.ہر ایک نے اپنے اپنے ماحول میں پرورش پائی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ان دونوں کے ماحول میں کافی اختلاف ہوتا ہے پھر ہر ایک میں اپنے ماحول کے مطابق بعض عادتیں پیدا ہو چکی ہوتی ہیں اور طبیعت کا ایک میلان قائم ہو چکا ہوتا ہے.اس صورت میں دونوں اپنے مانوس ماحول کو چھوڑ کر اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک نیا گھرانہ قائم ہوتا ہے اس لئے اس رشتہ کو نبھانے کے لئے بڑے صبر کی ضرورت ہوتی ہے.کچھ عادتیں جو بیوی کی عادات کے خلاف ہوں خاوند کو چھوڑنی پڑتی ہیں اور کچھ عادتیں جو خاوند کی عادات کے خلاف ہوں بیوی کو ترک کرنی پڑتی ہیں.کیونکہ دنیوی نقطۂ نگاہ سے بھی گھر یلو امن اور خوشحالی کا ہونا ضروری ہے اور یہ امن اور خوشحالی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک میاں بیوی میں سے ہر ایک

Page 260

خطبات ناصر جلد دہم ۲۳۶ خطبہ نکاح ۲۸ نومبر ۱۹۶۵ء دوسرے کا خیال نہ رکھے.ایثار اور قربانی سے کام نہ لے اور بعض دفعہ جذبات کو دبانے کے لئے بڑے صبر کی ضرورت ہوتی ہے.جذبات کو د با نا یا روکنا کوئی معمولی بات نہیں.اللہ تعالیٰ نے دین اسلام میں اس بات کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ گھر کے امن اور خوشحالی کے حصول کا طریق کیا ہے؟ فرمایا ہم تمہیں ایک طریق بتاتے ہیں جس پر چلنے سے تمہیں یہ چیز حاصل ہو جائے گی.وہ یہ کہ اس امر کے لئے جو کوشش بھی کرو ، جو قربانی بھی کرو اس کی بنیاد تقویٰ پر رکھو.جب تم بعض خلاف طبیعت با تیں برداشت کرتے ہو اور اپنے اس رشتہ کو مضبوط کرنے کے لئے اور اپنے گھر کی فضا کو خوشگوار بنانے کی خاطر اپنی مرضی کو چھوڑ رہے ہوتے ہو تو تمہاری نیت یہ ہونی چاہیے کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو وہ مذہبی ذمہ داریاں جو ہم دونوں پر علیحدہ علیحدہ اور مشترکہ طور پر عائد ہوتی ہیں کیسے نبھا سکیں گے.جب گھر کا ماحول پر امن اور پرسکون ہو تو اس صورت میں ہم بچے کی تربیت اور تعلیم کا انتظام صحیح طور پر کر سکیں گے اور ہماری یہ نیت کہ ہمارا بچہ خادم اسلام اور سچا مسلمان ہو ہم عمدگی سے پوری کرنے کا موقع پاسکیں گے.ہم نے بہت سے بچے دیکھے ہیں جن کی تربیت صرف اس لئے خراب ہوئی کہ ان کے والدین کے آپس کے تعلقات اچھے نہ تھے اسی کا بُرا اثر پھر ان کی اولاد پر ہوا.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مذہبی اور دینی ذمہ داریاں صحیح طور پر اسی وقت ادا کر سکتے ہو جب تم دونوں میاں بیوی کے تعلقات اچھے ہوں اور تعلقات اسی وقت اچھے ہو سکتے ہیں جب میاں بیوی تقوی سے کام لیں اور ان کے تمام امور کی بنیاد تقوئی ہو.پچھلے دنوں میری بیگم منصورہ نے ایک خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ہمارے گھر تشریف لائے ہیں.آپ کے چہرہ پر گھبراہٹ کے کچھ آثار ہیں آگے آکر فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وصیت کی ہے کہ یہ الیسَ اللهُ بِكَافٍ عبده والی انگوٹھی جس ہاتھ میں پوری آ جائے اسے وہ شخص بوسہ دے.میں نے خاندان کے سارے افراد کے ہاتھوں میں ڈال کر اسے دیکھا ہے کسی کی انگلی میں یہ پوری نہیں آئی.پھر آپ نے وہ انگوٹھی منصورہ بیگم کے ہاتھ میں ڈالی تو پوری آگئی.یہ دیکھ

Page 261

خطبات ناصر جلد دہم کر آپ بہت خوش ہوئے.۲۳۷ خطبہ نکاح ۲۸ /نومبر ۱۹۶۵ء پہلے ہم نے اس کی یہ تعبیر کی کہ خدا چاہے تو ہمارے ہاں بچہ پیدا ہوگا جسے خدا تعالیٰ خدمت دین کی خاص توفیق دے گا اور اس خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس بچے کا خاص خیال رکھا جائے لیکن جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ وفات پاگئے اور خدا تعالیٰ نے خلافت کا بوجھ میرے کندھوں پر ڈال دیا تو پھر اس کی حقیقی تعبیر معلوم ہوئی.بہر حال اگر بیوی یہ سمجھے کہ ہم دونوں کی ذمہ داریاں نہایت اہم ہیں اور ان کے پورا کرنے میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے اور خودا پنی اولاد کا بھی بھلا ہے.کیونکہ ان کی تعلیم وتربیت اچھی ہوگی اور اس کے لئے جو بھی قربانی کرنی پڑے میں کروں گی.اسی طرح خاوند بھی یہ سوچے اور سمجھے کہ میری بیوی کا بھی اس گھرانے کی اصلاح میں فعال حصہ ہے.اگر میں اس کی صحت اور آرام کا خیال رکھوں گا تو یہ میرے بچوں کی تربیت و تعلیم کا اچھا انتظام کر سکے گی تو ان دونوں کو دنیوی لحاظ سے بھی فائدہ ہوگا اور دینی لحاظ سے بھی اچھا رہے گا.پس میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ وہ ان باتوں کا خیال رکھیں جن کی طرف ان تین آیات میں توجہ دلائی گئی ہے ان میں سے ایک آیت سورۃ النساء کی ہے، ایک سورۃ احزاب کی اور ایک سورۃ حشر کی.ان تینوں میں تقویٰ پر زور دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے احکام پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.اللهم آمین.اس کے بعد حضور انور نے نکاح کا اعلان فرمایا.谢谢谢 روزنامه الفضل ربوه ۱۴؍ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۳)

Page 262

Page 263

خطبات ناصر جلد دہم ۲۳۹ خطبہ نکاح ۱۵/ دسمبر ۱۹۶۵ء ہمارے تعلقات خدا کی مرضی اور اس کے احکام کے تابع ہونے چاہئیں خطبہ نکاح فرموده ۱۵ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر ایک دوست خلیل احمد صاحب ولد ناظر دین صاحب او امتہ الحفیظ نصرت صاحبہ محلہ دار الرحمت شرقی ربوہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آئندہ نسل کے چلانے کی خواہش ایک طبعی خواہش ہے جو ہر انسان میں پائی جاتی ہے.مگر ایک مومن نکاح کا رشتہ استوار کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ نسل اس کے خاندان کا نام روشن کرے گی یا اس کے ورثہ کی وارث ہوگی نہیں.بلکہ اس کی نیت اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی نسل خدا تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرے گی اور اس کے جلال کو قائم کرے گی.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنے دلوں میں اور اپنے ماحول میں پیدا کرے گی.اس لئے وہ رشتہ استوار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کی اولادکو بھی حلاوت ایمان نصیب کرے.آج میں جس حدیث کے متعلق اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں وہ اسی مضمون سے تعلق رکھتی ہے.حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.ثَلَاثُ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيْمَانِ أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا

Page 264

خطبات ناصر جلد دہم ۲۴۰ خطبہ نکاح ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۵ء سوَاهُمَا یعنی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرما یا کہ جس شخص میں تین باتیں پائی جاتی ہیں وہ ایمان کی حلاوت کو پالے گا پہلی بات جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مومن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے کامل محبت ہوتی ہے اور اس کے سارے اعمال اس نقطه مرکزی ( محبت خالق و محبت رسول) کے گرد گھومتے ہیں.یا یوں کہیے کہ خدا تعالیٰ اور رسول کی جو محبت اس کے دل میں ہوتی ہے وہ دوسری چیزوں کوخس و خاشاک کی طرح بہالے جاتی ہے.پس خدا تعالی رشتے قائم کرنے سے نہیں روکتا وہ محبت کرنے سے بھی نہیں روکتا بلکہ وہ تو حکم دیتا ہے کہ دوسروں سے پیار کرو اور رشتے قائم کرو مگر یہ محبت اور رشتے خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق اور اس کے احکام کے تابع ہونے چاہئیں.جو محبت خدا کے لئے قائم کی جائے گی اس میں کوئی روحانی فساد نہیں ہوگا.اور نہ ہی کوئی دنیوی فتنہ پیدا ہو سکے گا.دنیوی لوگوں میں فتنہ و فساد اس لئے پیدا ہوتا رہتا ہے کہ ان کی محبت اور تعلق خدا تعالیٰ کے حکم اور رضا کے مطابق نہیں ہوتا.ابھی کچھ دن ہوئے میرے نام ایک دوست کا خط آیا کہ میرا بیٹا بیوی کے ہتھے چڑھ گیا ہے.وہ بیوی کا تو خیال رکھتا ہے لیکن میرے حقوق ادا نہیں کرتا.یہ اسی لئے ہوا کہ خدا کے احکام کو مدنظر نہیں رکھا گیا.خاوند بے شک بیوی سے محبت رکھے اور بیوی خاوند سے محبت رکھے مگر یہ محبت خدا تعالیٰ کے لئے ہونی چاہیے.اگر ایسا ہو گا تو یقینا بیٹے کو خیال رہے گا کہ اسے باپ کے حقوق کو بھی نبھانا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ ہیں.دوسری بات اس حدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک مومن یہ تو گوارا کر لیتا ہے کہ وہ آگ میں پھینک دیا جائے لیکن یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ وہ کفر کی طرف لوٹے اور پھر اسی میں پڑا رہے.اس جملہ میں يَعُودُ إِلَى الْكُفْرِ نہیں بلکہ الی کی بجائے فئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ مومن بھی انسان ہوتا ہے اور انسان غلطی کر سکتا ہے اور کرتا ہے لیکن مومن جب کوئی غلطی کرتا ہے تو وہ اس میں پڑا رہنا ہر گز پسند نہیں کرتا بلکہ وہ فوراً دعا مانگتا ہے.خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے معاف کیا جائے.آئندہ ایسا کبھی نہ کروں گا.وہ

Page 265

خطبات ناصر جلد دہم ۲۴۱ خطبہ نکاح ۱۵؍دسمبر ۱۹۶۵ء سمجھتا ہے کہ کفر کی طرف عود گویا جہنم کی آگ میں پڑ جانا ہے.آپ دیکھ لیں دنیا کا کوئی شخص پسند نہیں کرتا کہ وہ آگ میں پڑے یا تنور میں داخل ہو جائے.جب کسی کا بچہ آگ کے قریب جاتا ہے تو والد کیا والدہ کیا سب اس کو آگ سے بچانے کے لئے لپکتے ہیں.پس کفر کی کسی بات کی طرف کبھی نہ لوٹنا چاہیے.قرآن وحدیث میں آتا ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور دوزخ کے سات.مومن کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ دوزخ کے سارے دروازوں کو اپنے اوپر بند کرے اگر وہ چھ دروازے تو بند کر لیتا ہے لیکن ایک کھلا رکھتا ہے تو پھر بھی وہ خطرہ میں ہی ہوتا ہے.اگر وہ ایک دروازے سے جہنم میں داخل ہو جائے تو چھ کے بند کرنے کا کیا فائدہ؟ پس دوزخ کے ہر دروازے کو بند کرنا چاہیے اور جنت کے ہر دروازے میں سے داخل ہونے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ سب کو بھی اس کی توفیق بخشے.آمین اعلان نکاح کے بعد فرمایا:.آئیے اب ہم سب مل کر دعا کر لیں کہ خدا تعالیٰ اس رشتہ کو مبارک کرے اور اس رشتہ سے ایسی نسل چلے جو حقیقتا اسلام کی اور احمدیت کی خادم ہو.اس کے بعد حضور انور نے دعا کرائی جس میں سب حاضرین بھی شامل ہوئے.روزنامه الفضل ربوه ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ ء صفحه ۳)

Page 266

Page 267

خطبات ناصر جلد دہم ۲۴۳ خطبہ نکاح ۲۲ / دسمبر ۱۹۶۵ء دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو ہر دو خاندانوں کے لئے با برکت کرے خطبہ نکاح فرموده ۲۲ دسمبر ۱۹۶۵ء بمقام مسجد مبارک ربوه مکرم محمد شریف صاحب اختر ابن محمد دین صاحب مرحوم کی تقریب شادی مورخہ ۱۹ را پریل ۱۹۲۶ ء کو عمل میں آئی.ان کا نکاح نصرت اختر صاحبہ بنت نصیر احمد صاحب آف گوجرانوالہ کے ساتھ مورخه ۲۲ دسمبر ۱۹۶۵ء کو سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد مبارک ربوہ میں پڑھا تھا.بارات مورخہ ۱۹ را پریل کی شام کو گوجرانوالہ مکرم نصیر احمد صاحب کے مکان پر پہنچی.دوسرے دن مورخہ ۱/۲۰ پریل کو واپس ہوگئی.مورخہ ۱/۲۱ پریل کو ان کے بھائی بشیر احمد صاحب قمر مربی سلسلہ احمدیہ مقیم گوجرہ ضلع لائل پور نے اپنے مکان متصل مسجد احمد یہ گوجرہ میں دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا.دعوت کے بعد مکرم پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمدیہ گوجرہ نے رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کرائی.احباب جماعت خاندان مسیح موعود علیہ السلام اور بزرگان سلسلہ سے درخواست ہے کہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو ہر دو خاندانوں کے لئے با برکت کرے.روزنامه الفضل ربوہ ۱ ارمئی ۱۹۶۶ ، صفحہ ۶)

Page 268

Page 269

خطبات ناصر جلد دہم ۲۴۵ خطبہ نکاح ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء خدا فریقین کو خوشحال اور پرسکون زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے خطبہ نکاح فرموده ۲۴ / دسمبر ۱۹۶۵ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے مکرم صوبیدار عبدالمنان صاحب افسر حفاظت کی دختر نیک اختر کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں جس نکاح کا اعلان کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں.وہ مکرم و محترم صو بیدار عبدالمنان صاحب دہلوی کی صاحبزادی عزیزہ امتہ الرحیم مسرت کا ہے.مکرم صو بیدار صاحب جو اس وقت میرے دائیں طرف ہیں.ان کے جماعت پر بہت حقوق ہیں.انہوں نے احمدیت اور مسلمانوں کی طویل عرصہ تک خدمت کی ہے.۱۹۴۷ء کے فسادات کے موقع پر جب قادیان کے قریب واقع گاؤں سٹھیالی پر سکھوں نے حملہ کیا.تو اس گاؤں کے مسلمانوں کی حفاظت کے لئے جو احمدی بھیجے گئے.ان میں صو بیدار صاحب بھی شامل تھے.سکھوں کے ساتھ لڑتے ہوئے ان کے سینہ کے دائیں جانب گولی لگی.مگر اللہ تعالیٰ کو ان کی زندگی عزیز تھی.اس لئے اس نے انہیں بچا لیا.جس وقت یہ سٹھیالی سے قادیان آئے تو ان کے سارے کپڑے خون سے سرخ ہوئے ہوئے تھے.

Page 270

خطبات ناصر جلد دہم ۲۴۶ خطبہ نکاح ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء اس کے بعد ایک لمبے عرصہ تک حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت کرتے رہے اور اب تک خدمت میں مصروف ہیں.دوست دعا فرماویں کہ خدا تعالیٰ اس رشتہ کو با برکت بنائے اور فریقین کو خوشحال اور پرسکون زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس کے بعد حضور انور نے امتہ الرحیم مسرت صاحبہ اور راجہ محمد اسلم صاحب شاد کے نکاح کا باره صدر و پیر حق مہر پر اعلان فرمایا اور دعا فرمانے کے بعد حضور نے مکرم صو بیدار صاحب کو مصافحہ کا شرف بخشا اور مبارکباد دی.(روز نامه الفضل ربوه ۲۳ فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۵)

Page 271

خطبات ناصر جلد دہم ۲۴۷ خطبہ نکاح ۱۴ / جنوری ۱۹۶۶ء اموال اور اولا د انسان کے لئے آزمائش ہیں خطبہ نکاح فرموده ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرمہ نسیم اختر صاحبہ بنت مکرم چوہدری خورشید احمد نائب امیر گوجرانوالہ کا نکاح چوہدری محمد احمد صاحب منیر بی.اے ابن مکرم چوہدری عبد الرحمن صاحب بہلول پوری مینیجر فیروز سنز لیبارٹریز لائل پور کے ہمراہ بعوض پانچ ہزار روپیہ مہر پڑھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ ہمیں رشتہ ناطہ کرنے یا جائز طور پر اپنی نسل چلانے کی کوشش کرنے سے نہیں روکتا لیکن اَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَ اَنَّ اللهَ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ (الانفال: ۲۹) کہہ کر مومنوں سے فرماتا ہے کہ تم اچھی طرح سے سمجھ لو کہ تمہارے اموال بھی اور اولاد بھی جو تمہیں دی جاتی ہے آزمائش اور امتحان ہے اور پھر یہ امتحان معمولی امتحان نہیں کہ جس میں تم کامیاب ہو جاؤ تو کوئی معمولی سا انعام تمہیں ملے بلکہ اَنَّ اللهَ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ اللہ تعالیٰ وہ قادر مطلق ذات ہے جو تمام طاقتوں کی مالک اور تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے.وہ اپنے ان بندوں کو جو اس کی کامل اطاعت کرنے والے ہیں بڑا ہی اجر دیتا ہے.اس لئے تمہیں چاہیے کہ اس امتحان میں جو 691 تمہارے اموال اور اولاد کے ذریعہ لیا جائے.کامیاب ہونے کی کوشش کرو.

Page 272

خطبات ناصر جلد دہم ۲۴۸ خطبہ نکاح ۱۴ / جنوری ۱۹۶۶ء فتنہ کے معنی صرف بُری چیز کے نہیں ہیں.ہماری زبان میں یہ لفظ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا لیکن عربی زبان میں اس کے معنے آزمائش اور امتحان کے ہیں اور آزمائش اور امتحان جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.خیر یعنی اچھی سے اچھی چیز سے بھی لیا جاتا ہے اور ابتلا مصیبت اور دکھ میں ڈال کر بھی لیا جاتا ہے.جیسے فرمایا.كُلُّ نَفْسٍ ذَابِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (الانبياء : ٣٦) وَاللهُ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ (التغابن : ۱۶) کہ ہر نفس نے ایک دن مرنا ہے اور اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا.وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ ہم تمہیں مصائب اور دکھوں میں ڈال کر بھی تمہاری آزمائش کریں گے اور تم پر دنیوی اور روحانی انعامات کر کے بھی تمہیں امتحان میں ڈالیں گے.پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے بچے چاہے وہ تمہاری اطاعت کرنے والے ہوں.تم سے پیار کرنے والے ہوں.تمہاری عزت کرنے والے ہوں.تب بھی وہ تمہارے لئے آزمائش اور فتنہ ہیں اور اگر وہ سرکشی کرنے والے، نافرمان اور تمہاری اطاعت نہ کرنے والے ہوں تب بھی وہ تمہارے لئے آزمائش اور فتنہ ہیں اور ان ہر دوصورتوں میں اس نے جو امتحان کا نصاب مقرر کیا ہے.اس میں اگر تم کامیاب ہو جاؤ گے تو پھر تمہیں یہ خوشخبری دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس تمہارے لئے اجر عظیم ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس قسم کی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا کرے.آمین اس کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت رشتہ کے مبارک ہونے کے لئے دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ رفروری ۱۹۶۶ صفحه ۴)

Page 273

خطبات ناصر جلد دہم ۲۴۹ خطبہ نکاح ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء تمام کامیابیوں کا گر یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے خطبہ نکاح فرموده ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل چار نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.امۃ الباسط صاحبہ بنت مکرم خلیفہ عبدالمنان صاحب آف جموں حال دارالبرکات ربوہ کا نکاح ہمراہ مکرم حبیب الرحمان صاحب درد خلف الرشید مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب در دمرحوم بعوض گیارہ ہزار روپیہ مہر..امتہ اللطیف شوکت صاحبہ بنت مکرم ملک سیف الرحمن صاحب فاضل مفتی سلسلہ احمدیہ کا نکاح ہمراہ کریم اللہ صاحب زیروی ابن مکرم صوفی خدا بخش صاحب عبد زیر وی ربوه بعوض دس ہزار روپیہ مہر.۳.شفقت عصمت صاحبہ بنت مکرم چوہدری عصمت اللہ صاحب ایڈووکیٹ لاہور کا نکاح ہمراہ مکرم ڈاکٹر رشید احمد صاحب ایم.بی.بی.ایس ابن مکرم چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب وکیل القانون تحریک جدیدر بوہ بعوض دس ہزار روپیہ مہر.-۴- زینب پروین صاحبہ بنت مکرم دوست محمد صاحب ساکن ٹھٹھہ جوئیہ ضلع سرگودھا حال ربوہ کا نکاح ہمراہ مکرم فتح شیر صاحب ولد نور محمد صاحب چک نمبر ۱۵۲ شمالی ضلع سرگودھا بعوض ایک ہزار روپیہ مہر.

Page 274

خطبات ناصر جلد دہم ۲۵۰ خطبہ نکاح ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ان آیات قرآنیہ میں جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی کامیابیوں کا گر ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے اور اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق اسلام نے بعض احکام دیئے ہیں اور اگر تم اپنی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تمہارے لئے کامیابی کا ایک ہی رستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے.قرآن کریم کے احکام کی پابندی کی جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو قائم کیا جائے اور اسے زندہ رکھا جائے.ہماری زندگی میں ایک بڑا امتحان بیاہ اور شادی کے بعد آپس کے تعلقات کا ہوتا ہے اس کے لئے ہمیں ان آیات میں توجہ دلائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اگر تم اپنی زندگی کو خوشگوار بنانا چاہتے ہو اور اسے خوشحال رکھنا چاہتے ہوتو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم زندگیاں قرآن کریم کے جوئے تلے گزارو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے احیاء سے اپنے گھروں میں اُجالا کرو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۳، ۴)

Page 275

خطبات ناصر جلد دہم ۲۵۱ خطبہ نکاح ۹ فروری ۱۹۶۶ء اسلام دنیا میں جو جنت پیدا کرنا چاہتا ہے خاندان اس کا اہم جزو ہے خطبہ نکاح فرموده ۹ فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرمہ شمیم خانم صاحبہ بنت انتصارحسین خاں صاحب ربوہ کے نکاح ہمراہ شیخ کرامت فاروق صاحب ابن شیخ نعمت اللہ صاحب ربوہ کا اعلان بعوض دو ہزار روپیہ مہر فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِه یعنی تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی اپنے رشتہ داروں اور اپنے خاندان کے لئے بہتر ثابت ہو.اہل کے معنے بیوی کے بھی ہیں اور اس کے معنے رشتہ داروں اور خاندان کے بھی ہیں اور اس ایک لفظ کو استعمال فرما کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس طرف متوجہ فرمایا ہے کہ اپنے خاندان میں ہماری دو حیثیتیں ہوسکتی ہیں.کبھی ہماری حیثیت ایک عام فرد خاندان کی ہوتی ہے یعنی خاندان میں کوئی اور آدمی بڑا ہوتا ہے اور ہم اس کے ماتحت ایک عام فرد ہونے کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور کبھی ہم خود خاندان کے بڑے فرد ہوتے ہیں اور خاندان کا بڑا فرد ہونے کی حیثیت سے باقی خاندان کی تربیت کا بوجھ اپنے کندھوں پر لئے ہوتے ہیں.گویا ہر انسان کی خاندان میں دو حیثیتیں ہیں.

Page 276

خطبات ناصر جلد دہم ۲۵۲ خطبہ نکاح ۹ فروری ۱۹۶۶ء ایک حیثیت اس کی ایک عام فرد خاندان کی ہے اور دوسری حیثیت اس کی خاندان کے بڑا فرد یعنی لیڈر ہونے کی ہے اور اس دوسری حیثیت میں اس پر دونوں قسم کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں یعنی وہ ذمہ داریاں بھی جو ایک عام فرد خاندان ہونے کی حیثیت سے اس پر عائد ہیں اور وہ ذمہ داریاں بھی جو خاندان کا بڑا فرد ہونے کی حیثیت سے اس پر عائد ہیں.اگر ہر خاندان کا بڑا آدمی اپنی ان ذمہ داریوں کو سنبھال لے جو اس پر دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے عائد ہوتی ہیں تو اس کا خاندان ہی نہیں بلکہ اس کا شہر اس کا علاقہ اور اس کا ملک جنت نظیر بن جائے کیونکہ شہر، علاقے یا ملک بھی خاندانوں سے ہی بنتے ہیں ان کے مجموعہ کا ہی نام ہے.پس خاندان اجتماعی معاشرتی زندگی کا ایک چھوٹا مگر بنیادی حلقہ ہے.اگر اس کی تربیت اس رنگ میں کر لی جائے کہ اس کا ہر فر دخاندان کی یا اپنے شہر اور علاقہ کی ان ذمہ داریوں کو جو اس پر عائد ہوتی ہیں اچھی طرح سنبھال لے تو صرف خاندان ہی نہیں اس کا علاقہ اور ملک بھی جنت نظیر بن جائے.غرض اسلام جو جنت دنیا میں پیدا کرنی چاہتا ہے معاشرتی لحاظ سے خاندان اس کا ایک اہم جزو ہے اور اس کی تربیت کی طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چھوٹی سی لیکن وسیع معنوں پر مشتمل حدیث میں ہمیں توجہ دلائی نے ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت اور جملہ دوسری نصائح پر صحیح عمل کرنے والے ہوں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور حاضرین سمیت اجتماعی دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۳)

Page 277

خطبات ناصر جلد دہم ۲۵۳ خطبہ نکاح ۱۱ فروری ۱۹۶۶ء اسلام دنیا کے رشتے اور تعلقات قائم کرنے سے منع نہیں کرتا خطبہ نکاح فرموده ۱۱ فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل دونکاحوں کا اعلان فرمایا.ا فضل احمد صاحب ایم.اے.ایل ایل.بی ایڈووکیٹ سرگودہا ابن محترم میجر عارف زمان صاح ناظر امور خارجه صدر انجمن احمدیہ کا نکاح شکیلہ کشور صاحبہ بی.اے بنت محترم صوفی عبدالغفور صاحب سابق مبلغ امریکہ کے ہمراہ بعوض مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر.۲.چوہدری محمد شریف صاحب ابن چوہدری جہان خان صاحب سکنہ شیخ پور ضلع گجرات کا نکاح سکنہ بشری بیگم صاحبہ بنت چوہدری میاں خاں صاحب سکنہ شیخ پور ضلع گجرات کے ہمراہ بعوض دو ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام ہمیں دنیا کے رشتے اور تعلقات قائم کرنے سے منع نہیں کرتا.اسی طرح وہ ہمیں دنیا کمانے یا دنیا کی دوسری ذمہ داریاں جو انسان پر انسانی معاشرہ میں عائد ہوتی ہیں پوری کرنے سے نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا ہی فضل اور احسان کرتے ہوئے ہمارے دنیا کے ہر کام کو ثواب کا موجب بنادیا ہے بشرطیکہ ہم اس کے ارشاد اور اس کی ہدایت کے مطابق وہ کام

Page 278

خطبات ناصر جلد دہم ۲۵۴ خطبہ نکاح ۱۱ فروری ۱۹۶۶ء بجالا ئیں.حضرت ابو مسعود انصاری روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.إِذَا انْفَقَ الْمُسْلِمُ نَفَقَةً عَلَى أَهْلِهِ وَهُوَ يَحْتَسِبُهَا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةً یعنی جب کوئی مسلمان اپنی بیوی اور بچوں پر کچھ خرچ کرتا ہے اور دنیا کے اکثر لوگ ایسا کرتے ہی ہیں.ہاں بعض ناسمجھ افراد گھر سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور سسرال سے بھی لڑائی کرتے رہتے ہیں لیکن اکثر لوگ اپنے بیوی بچوں پر خوشی سے خرچ کرتے ہیں ) تو خدا تعالیٰ اس پر احسان کرتے ہوئے اسے ثواب کا موجب بنا دیتا ہے اور اس پر اپنے قرب کی راہیں کھول دیتا ہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس نیت سے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرے گا کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ بطور نگران ان پر خرچ کرے اور ان کی ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھائے اور پھر یہ امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے اس کام کی جزا دے گا تو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اس کے اس نفقہ یعنی خرچ کو صدقہ قرار دے دے گا.اور اسے اپنے قرب کے حصول کا ایک ذریعہ بنادے گا.کیونکہ صدقہ کے معنے ہی یہ ہوتے ہیں کہ وہ خرچ جو خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ذریعہ ہو.پس یہ اور اس قسم کی دوسری تعلیمیں جو دنیوی کاموں کے متعلق دی گئی ہیں.خدا تعالیٰ کا انسان پر ایک بڑا احسان ہے.مفت میں ثواب ملتا رہتا ہے کیونکہ دنیا کے کام تو ہر انسان کرتا ہے لیکن اگر وہ یہ نیت کر لے کہ وہ یہ کام خدا تعالیٰ کے ارشاد اور اس کی ہدایت کے ماتحت کر رہا ہے تو ایسا کرنے پر کوئی پیسہ خرچ نہیں آتا اور نہ کوئی وقت ضائع ہوتا ہے.صرف دل و دماغ میں ایک کیفیت ایک ذہنیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم دنیا کے کام اس لئے کر رہے ہیں کہ ان کے کرنے کی ذمہ داری خدا تعالیٰ نے ہم پر عائد کی ہے اور ہم نے انہیں ان حدود کے اندر رہ کر بجالانا ہے جو اس نے مقرر کی ہوئی ہیں.پھر اس کے ساتھ وہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ان نیات کو پورا کرے گا اور ان پر اپنے قرب کی راہیں کھولے گا.تو اس نیت سے دنیا کے کام کرنے والے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں.اس کے بعد حضور نے ایجاب و قبول کرایا اور پھر حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربو ه ۲۶ فروری ۱۹۶۶ صفحه ۳)

Page 279

خطبات ناصر جلد دہم ۲۵۵ خطبہ نکاح ۱۳ / فروری ۱۹۶۶ء زندگیوں کو رسول کریم کے اسوہ حسنہ کے مطابق گزارنے کی کوشش کرو خطبہ نکاح فرموده ۱۳ / فروری ۱۹۶۶ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرم قریشی محمد رشید صاحب ابن مکرم قریشی محمد نذیر صاحب فاضل احمد نگر متصل ربوہ کا نکاح ہمراہ سیدہ رفیقہ بیگم صاحبہ بنت مکرم سید ولی محمد شاہ صاحب مرحوم رحمان پوره لاہور بعوض مبلغ دو ہزار روپیہ مہر پڑھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جہت اور ہر لحاظ سے ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہیں اور ایک جہت اس دنیوی زندگی کی ایک انسان کا بطور خاوند کے زندگی گزارنا ہے اس لئے ہمارے مرد کو جو شادی کرتا ہے شادی کے وقت سے ہی نیت کر لینی چاہیے کہ میں بطور خاوند اپنی زندگی اس اسوۂ حسنہ کے مطابق گزاروں گا جو اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا ہے اگر ہم میں سے ہر مرد اس بات کی نیت کرے اور پھر اسے اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق مل جائے تو سارے خاندان کی یہ دنیوی زندگی بڑی خوشحالی سے گزرے گی.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور حاضرین سمیت اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۳)

Page 280

Page 281

خطبات ناصر جلد دہم ۲۵۷ خطبہ نکاح ۱۷ فروری ۱۹۶۶ء رشتہ استوار کرنے کے لئے پیش نظر رکھنے والی غرض خطبہ نکاح فرموده ۱۷ فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرم محمد ادریس پسر ٹھیکیدار فضل دین صاحب مرحوم ربوہ کے نکاح ہمراہ نیم اختر صاحبہ بنت رحمت علی صاحب مرید کے ضلع شیخو پورہ بعوض پانچ ہزار روپیہ مہر کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہم سب احمدیوں کو نکاح کے مواقع پرمل کر یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مبارک فرمائے.دنیا مختلف اغراض کے لئے رشتے استوار کرتی ہے لیکن ہمارے سامنے صرف ایک ہی غرض ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ اس رشتہ کے نتیجہ میں دنیا میں ایک ایسی نسل چلائے جو خدا تعالیٰ کی توحید، اس کی عظمت اور اس کا جلال قائم کرنے والی ہو.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور حاضرین سمیت رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ جنوری ۱۹۶۶ ء صفحه ۴)

Page 282

Page 283

خطبات ناصر جلد دہم ۲۵۹ خطبہ نکاح ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء تربیت اولاد بڑا نازک مسئلہ ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضورانور نے بعد نماز عصر مکرمہ رشیدہ اختر صاحبہ بنت چوہدری شریف احمد صاحب انجینئر ربوہ کے نکاح کا اعلان ہمراہ چوہدری منیر احمد صاحب عابدا بن مکرم ماسٹر برکت علی صاحب سندھ یو نیورسٹی جام شور و حیدر آباد بعوض مبلغ چھ ہزار روپیہ فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نکاح کے رشتہ سے انسان پر بعض نئی ذمہ داریوں کا بوجھ پڑتا ہے.جن میں سے سب سے اہم ذمہ داری تربیت اولاد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ مغلوب الغضب ، سبک سر اور طائش العقل انسان تربیت اولاد کا متکفل نہیں ہوسکتا.صحیح تربیت اولاد کے لئے حد درجہ کے تحمل، بردباری ، صبر اور ایثار کی ضرورت ہوتی ہے.اسلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ بچہ کی تربیت کا زمانہ اس کی پیدائش کے پہلے دن سے ہی شروع ہو جاتا ہے.بعض مائیں اپنے بچوں کو چلہ سے ہی ایسی عادتیں ڈال دیتی ہیں کہ وہ اپنے لاشعوری کے زمانہ میں بھی اپنی والدہ اور والد کو تنگ کر رہے ہوتے ہیں پھر ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ بچوں کو زیادہ تر گودی میں اٹھائے رکھتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ماں باہر جاتی ہے تو آٹھ دس

Page 284

خطبات ناصر جلد دہم ۲۶۰ خطبہ نکاح ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء سال کے بچہ کو بھی اس نے گود میں اٹھایا ہوا ہوتا ہے اور اس سے ماں کے کاموں میں بھی حرج واقع ہوتا ہے اور بچہ بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا نہیں سیکھتا.غرض تربیت اولاد کا مسئلہ بڑا نازک ہے اور اس کا راستہ افراط اور تفریط کے درمیان میں سے گزرتا ہے.مگر ہمیں اس تنگ رستہ پر سے بہر حال گذرنا ہے.تاہم اپنے رب کے نزدیک تربیت اولاد کے فرض کو پوری طرح نبھانے والے ثابت ہوں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور حاضرین سمیت رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ فروری ۱۹۶۶ ء صفحه ۴)

Page 285

خطبات ناصر جلد دہم ۲۶۱ خطبہ نکاح ۲۶ فروری ۱۹۶۶ء قرآن کریم نے بیوہ کی شادی کی بڑی تاکید فرمائی ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۶ فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مکرم شیخ مبارک احمد صاحب فاضل سابق رئیس التبليغ مشرقی افریقہ حال نائب ناظر اصلاح وارشاد صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے نکاح کا اعلان محتر مہ صفیہ بیگم صاحبہ بنت مکرم قاضی عبد السلام صاحب بھٹی حال نیرو بی مشرقی افریقہ کے ہمراہ بعوض دو ہزار روپیہ مہر فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیوہ عورت کے متعلق حکم دیا ہے کہ اس کا نکاح کرا دینا چاہیے.اس سے معاشرہ کی بہت سی الجھنیں دور ہو جاتی ہیں اور کئی طرح سے امن اور سکون پیدا ہوجاتا ہے.اگر بیوہ کی شادی کی طرف توجہ نہ کی جائے جیسا کہ ہندوؤں میں رسم ہے کہ بیوہ کی شادی ہو ہی نہیں سکتی اور ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں کے ایک طبقہ میں بھی یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی بیوہ لڑکی یا بیوہ بہن یا کسی اور رشتہ دار عورت ( جو بیوہ ہو گئی ہو ) کا دوبارہ نکاح کرا دیا تو لوگ کہیں گے.یہ شخص اپنی اس رشتہ دار عورت کو روٹی بھی نہیں کھلا سکتا.اس طرح بہت سے خاندان بیوہ کی دوبارہ شادی کرنے سے اجتناب کرنے لگ گئے ہیں حالانکہ یہ

Page 286

خطبات ناصر جلد دہم ۲۶۲ خطبہ نکاح ۲۶ فروری ۱۹۶۶ء قرآن کریم کی ہدایت کے صریح خلاف ہے قرآن کریم نے بیوہ کی شادی کا نہ صرف حکم دیا ہے بلکہ اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے.چنانچہ میں اس وقت اس سلسلہ میں آپ کے ملفوظات میں سے ایک اقتباس پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ نظارت اصلاح و ارشاد اس طرف توجہ دے گی اور اس امر کا خیال رکھے گی کہ اگر ہماری جماعت کی کوئی عورت بد قسمتی سے بیوہ ہو جائے تو اس کی دوبارہ شادی کا انتظام ہو جائے.بیوہ کی شادی کے متعلق یہ امر بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ شادی صرف نسل کے حصول کے لئے ہی نہیں کی جاتی بلکہ اور بھی کئی مقاصد ہوتے ہیں جو شادی کے ذریعہ مردو عورت حاصل کرتے ہیں.یور بین اقوام میں ایسی مثالیں بھی بڑی کثرت سے ملتی ہیں کہ ایک ستر سالہ مرد نے ایک ستر سالہ عورت سے شادی کر لی.اس صورت میں بچہ پیدا کرنے کی عمر سے ہر دو تجاوز کر چکے ہوتے ہیں.اس لئے ظاہر ہے کہ ان کی شادی کا مقصد اولاد پیدا کرنا نہیں ہوتا کیونکہ بیوی کا صرف یہ کام ہی نہیں کہ وہ خاوند کے لئے اولاد پیدا کرے بلکہ اس کے علاوہ بھی اس کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں جن کے پورا کرنے کی اہلیت اس میں آخر عمر تک رہتی ہے.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ نظارت اصلاح وارشاد کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر جماعت کی کوئی عورت بیوہ ہو جائے چاہے اس کی عمر چھوٹی ہو یا وہ ادھیڑ عمر کی ہو.تو اس کی دوبارہ شادی کروانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ اسلام کے اس حکم کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم بیوہ کی شادی کی طرف متوجہ رہیں اور نہ صرف اس کا خیال ہی رکھیں بلکہ اس کا انتظام بھی کریں چنانچہ آپ فرماتے ہیں.اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا بُرا جانتی ہے جیسا کہ کوئی بڑا بھاری گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہوگئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے.عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے.ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے.

Page 287

خطبات ناصر جلد دہم ۲۶۳ خطبہ نکاح ۲۶ فروری ۱۹۶۶ء جو بیوہ ہونے کی حالت میں بڑے ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کرلے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے.ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے.جس عورت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) پیارا ہے.اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایمان دار اور نیک بخت خاوند تلاش کر لے اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے.66 یہ نکاح جس کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں ہماری ایک احمدی بہن کا ہے جو قریباً تین سال کا عرصہ ہوا بیوہ ہو گئی تھیں.ان کا خاوند فوت ہو گیا تھا.دو ماہ کا عرصہ ہوا مجھے اس کا علم ہوا یہ بہن ایک پرانے اور مخلص احمدی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور ہمارے بزرگ محترم قاضی محمد عبداللہ صاحب کے حقیقی بھیجے کی بیٹی ہیں مجھے خیال ہوا کہ ان کا دوبارہ نکاح کر دینا چاہیے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کر دیے کہ جلد ہی ان کے نکاح کا انتظام ہو گیا.خدا کرے کہ وہ احمدیت کے لئے بھی اور اپنے سسرال اور میکہ ہر دوخاندانوں کے لئے ولی ہی ثابت ہوں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب اور قبول کرایا اور اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۸ / مارچ ۱۹۶۶ ، صفحه ۳)

Page 288

Page 289

خطبات ناصر جلد دہم ۲۶۵ خطبہ نکاح ۱۰ / مارچ ۱۹۶۶ء بعض خاندانوں میں بیوہ عورت کی شادی کرنا رسم و رواج کے خلاف ہے خطبه نکاح فرموده ۱۰ / مارچ ۱۹۶۶ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرمہ ریحانہ بنت چوہدری بشیر احمد صاحب باجوہ کارکن دفتر آبادی ربوہ کا نکاح ہمراہ چوہدری محمد اسلم صاحب ابن مکرم ڈاکٹر محمد انور صاحب سکنہ اسلامیہ پارک لاہور بعوض گیارہ ہزار روپیہ مہر کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دنیا میں آدمی کے کئی تعلقات ہوتے ہیں.جن میں سے رشتہ ناطہ کے ذریعہ پیدا ہونے والے تعلقات بھی ہیں.پھر دنیا کے رسم و رواج بھی ہوتے ہیں بعض عادات بھی ہوتی ہیں اور پھر دنیا کے بنائے ہوئے قانون بھی ہوتے ہیں لیکن ان تعلقات ، ان رسم و رواج، ان عادات اور دنیا کے بنائے ہوئے قوانین میں کوئی گہری محبت نظر نہیں آتی ، بلکہ بسا اوقات یہ ہمارے لئے فتنہ کا باعث بنتے ہیں اور ہمیں ان کے نتیجہ میں دکھ اور رنج اٹھانا پڑتا ہے مثلاً بعض علاقوں میں یا بعض خاندانوں میں بیوہ عورت کی شادی کرنا رسم و رواج کے خلاف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی ناک کٹ جاتی ہے لیکن در حقیقت ایسا نہیں بلکہ انسانیت کی ناک کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام میں بیوہ کی شادی پر زور دیا ہے.اسی طرح بعض خاندانوں میں عادتاً یا رواج یہ سمجھا جاتا ہے

Page 290

خطبات ناصر جلد دہم ۲۶۶ خطبہ نکاح ۱۰ / مارچ ۱۹۶۶ء کہ اگر ان کی بچی یا ان کی ہمشیرہ بگڑے ہوئے حالات میں اپنے خاوند سے طلاق یا خلع لے گی تو ان کی ناک کٹ جائے گی.وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے عزیز رشتہ دار اس عادت اور اس رسم کی وجہ سے کس قدر تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں چند روز کا ذکر ہے مجھے ایک بہن نے لکھا کہ آپ نے اپنے ایک خطبہ میں ان بہنوں سے تو ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور ان کی تکلیف کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے جو بیوہ ہو کر بیٹھ جاتی ہیں اور جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ وہ ان کی تکالیف کا خیال رکھے اور ان کی دوبارہ شادی کا انتظام کرے لیکن آپ نے میرے جیسی لڑکیوں کی طرف کیوں توجہ نہیں کی.میں کئی سالوں سے اپنے بھائیوں کےگھر میں بیٹھی ہوئی ہوں.مجھے میرا خاوند اپنے گھر بسا نہیں رہا اور اس کی عادات اور اخلاق بھی اس قدر بُرے ہیں کہ میں خود بھی اس کے گھر بسنا نہیں چاہتی لیکن میرے بھائی مجھے مجبور کر رہے ہیں کہ میں اپنے خاوند سے طلاق نہ لوں کیونکہ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے ان کی ناک کٹ جائے گی.آپ نے میرے اور میرے جیسی لڑکیوں کے متعلق نہیں بتایا کہ اسلام نے کیا حکم دیا ہے اس طرح آپ نے ہماری طرف توجہ نہیں کی.سواسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ اگر کوئی لڑکی اور لڑکا میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی نہ گزار سکیں.تو انہیں ضلع یا طلاق کے ذریعہ (جو بھی شکل ہو ) علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسلمان عورت آئی اور اس نے عرض کیا.یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں اپنے خاوند کے گھر نہیں بس سکتی.آپ میری علیحدگی کا انتظام فرما دیں.آپ نے اس سے اس کی وجہ پوچھی.تو اس نے کہا.میرا دل نہیں مانتا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی علیحدگی کا انتظام فرما دیا اور اسے اس کے خاوند سے خلع دلوادیا.طلاق کے متعلق جو یہ آیا ہے کہ یہ حلال چیزوں میں سے ایسی چیز ہے جسے خدا تعالیٰ عام حالات میں پسند نہیں کرتا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ طلاق فی ذاتہ بُری چیز ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ طلاق دینے والا مرد اور اس کے افعال خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بُرے ہیں.اگر کوئی عورت اپنے خاوند

Page 291

خطبات ناصر جلد دہم ۲۶۷ خطبہ نکاح ۱۰ / مارچ ۱۹۶۶ء کے گھر بس نہیں سکتی.کیونکہ اس کا خاوند اس سے حسن سلوک سے نہیں پیش آتا.وہ اسے اس کے جائز حقوق بھی نہیں دیتا اور وہ اسلام کے احکام کے ماتحت اپنے گھر کا ایسا ماحول نہیں بنا تا کہ جس کے نتیجہ میں اس کی بیوی اس کے گھر میں امن اور سکون سے رہے بلکہ وہ اپنے گھر کا ماحول ایسا بناتا ہے کہ اس کی بیوی اس سے علیحدگی چاہتی ہے.تو اس کے یہ افعال بُرے ہیں ورنہ طلاق اپنی ذات میں بُری نہیں.اسلام نے جو احکام میاں بیوی کے باہمی تعلقات اور دوسرے رشتوں کے متعلق دیئے ہیں.ان پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمارے دل میں اپنے رب کے لئے احسان مندی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے.کہ کتنی اچھی تعلیم ہے جو اس نے ہمارے معاشرہ کے متعلق دی ہے.اور ہر مسلمان (خصوصاً احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ ان تعلقات کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے گھریلو ماحول کو بہترین اور خوشحال بنانے کی کوشش کرتا رہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 292

Page 293

خطبات ناصر جلد دہم ۲۶۹ خطبہ نکاح ۲۰ مارچ ۱۹۶۶ء با ہمی تعلقات خدا کی رضا جوئی کی بنیاد پر قائم کرنے چاہئیں خطبه نکاح فرموده ۲۰ مارچ ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرم چوہدری منور احمد صاحب ابن مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ کے نکاح ہمراہ ثریا نسرین صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبدالمجید صاحب دار الرحمت شرقی ربوہ کا اعلان بعوض چار ہزار روپیہ حق مہر فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نکاح کے موقع پر جو آیات قرآنیہ پڑھی جاتی ہیں ان میں ہمیں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ہم ہر کام کے شروع کرتے وقت یہ سوچ لیا کریں کہ کہیں اس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ ناراض تو نہیں ہو جائے گا.اسی طرح ہر کام کے ترک کرنے سے پہلے یہ سوچ لیا کریں کہ کہیں اس کے ترک کرنے سے خدا تعالیٰ ناراض تو نہیں ہو جائے گا.اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازتا رہے گا.اگر دنیا والے ہر کام سے پہلے اپنے خدا کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ اس کے کرنے سے کوئی خرابی تو پیدا نہیں ہوتی.یہ کوئی ایسا کام تو نہیں کہ جو خدا تعالیٰ کو نا پسند ہو.یا اگر کسی کام کے ترک کرنے کا ارادہ ہے تو اس کے ترک کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہو کہ ہم اس کام کو

Page 294

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۰ مارچ ۱۹۶۶ء کریں گے تو دنیا میں ایک انقلاب عظیم پیدا ہو جائے گا اور اس میں امن کی زندگی گزارنے والے انسان بسنے لگیں.سید ایک بنیادی تعلیم ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے اور جس کا تعلق انسان کی زندگی کے ہر شعبہ سے ہے.خصوصاً اس تعلق کے متعلق جو انسان کا ایک دوسرے انسان سے ہوتا ہے.بعض کام انسان کی ذات کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں اور بعض کام معاشرہ سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں.خصوصاً ایسے کاموں کے متعلق ہمیں یہ سوچنا، سمجھنا اور غور کرنا چاہیے کہ کہیں ان کے کرنے سے اللہ تعالیٰ ناراض تو نہیں ہو جاتا.بیاہ اور شادی کی وجہ سے جو رشتہ قائم ہوتا ہے.اس میں یہ بات نہایت ضروری ہے کہ باہمی تعلقات کو خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کی بنیادوں پر قائم کیا جائے.اگر ہمارے ہر عمل کی بنیاد تقویٰ پر ہو تو نکاح اور رخصتانہ وغیرہ کے متعلق ساری بدرسوم خود بخو دمٹ جاتی ہیں.اس سے با ہمی رنجشیں بھی دور ہو جاتی ہیں.انسان بہر حال کمزور ہے اور وہ بھول چوک میں بہت سی ایسی باتیں کرتا ہے کہ دوسرے تعلق رکھنے والے خصوصاً بڑے گہرے تعلق رکھنے والے انسان مثلاً بیوی یا میاں اس سے خوش نہیں بلکہ ناراض ہو جاتے ہیں اور اگر انسان ہر کام خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کی رضا جوئی کے لئے کرے تو دنیا کے کام بھی چلتے رہتے ہیں اور آپس کے تعلقات بھی بڑے خوشگوار ہو جاتے ہیں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور حاضرین سمیت اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے لمبی دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۹ رمئی ۱۹۶۶ ء صفحه ۳)

Page 295

خطبات ناصر جلد دہم ۲۷۱ خطبہ نکاح ۲۷ مارچ ۱۹۶۶ء تقویٰ اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا ئیں خطبہ نکاح فرموده ۲۷ مارچ ۱۹۶۶ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جب دو پودوں کو آپس میں پیوند کیا جاتا ہے کہ ایک ٹہنی جس کو درخت بنانا مقصود ہوتا ہے اسے ذرا تراش کر اس درخت کی ٹہنی کے ساتھ لگایا جاتا ہے جس کا پھل اس سے چلا نا مقصود ہوتا ہے اور کچھ عرصہ تک انتظار کیا جاتا ہے.اس عرصہ میں اس ٹہنی کے درخت کی جڑیں جس نے اپنے درخت سے رخصت ہو کر ایک نیا درخت بنانا ہوتا ہے اسے غذا پہنچاتی رہتی ہیں.اسی طرح اس درخت کی ٹہنی جسے مستقل درخت کی شکل اختیار کرنا ہوتی ہے.درخت کی جڑیں اسے بھی غذا پہنچاتی ہیں.اس عرصہ میں ہوائیں چلتی ہیں اور باغبان اس کی حفاظت اور ہواؤں سے بچاؤ کے طریقے استعمال کرتا ہے.اس کے لئے پانی کا خاص انتظام کرتا ہے تا اس میں کوئی کمزوری اور نقص پیدا نہ ہو.پھر ہزاروں قسم کی بیماریاں ہیں جن کا درخت کو خطرہ ہوتا ہے.ان سب سے حفاظت کی تدابیر انسان کرتا ہے اور جس کو روحانیت سے حصہ ملا ہے.وہ دعا ئیں بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا! ہم نے تیرے بنائے ہوئے قانون کے مطابق درخت کی افزائش کی کوشش کی ہے تو اس میں برکت ڈال اور اس کو ہر قسم کے آفات سے محفوظ رکھ.

Page 296

خطبات ناصر جلد دہم ۲۷۲ خطبہ نکاح ۲۷ مارچ ۱۹۶۶ء یہی حال ان رشتوں کا ہوتا ہے جو نکاح کے نتیجہ میں قائم ہوتے ہیں.ایک خاندان کی ایک بچی جو اپنے خاص ماحول میں پرورش پائی ہوئی ہوتی ہے اور کچھ عادتیں بھی اس نے سیکھی ہوتی ہیں اس کا رشتہ کسی دوسرے خاندان کے ایک بچہ سے طے ہو جا تا اور قرار پا جاتا ہے.یہ لڑ کا بھی اپنے خاندان کے ماحول کا پروردہ اور اپنے خاندان کی عادات لئے ہوئے ہوتا ہے.جس طرح درخت کے پیوند کی حفاظت کی جاتی ہے اس سے بھی زیادہ اس نئے رشتہ کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس رشتہ کی وجہ سے ہر دوخاندانوں پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے.آپ اگر ان رشتوں کا مطالعہ کریں جو نا کام ہو جاتے ہیں یا ان میں الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں تو معلوم ہوگا کہ نا کامی اور الجھنوں کے پیدا ہونے کا بڑا سبب لڑکے یا لڑکی کے خاندان کا غلط رویہ ہی ہوتا ہے.اس موقع پر لڑکی کے خاندان کو بھی لڑکے کے خاندان کو بھی بڑی ذمہ داری اور سوجھ بوجھ کے ساتھ کام کرنا چاہیے لیکن انسان ہونے کی وجہ سے ان کا تدبر اور فکر بہر حال کمزور ہوتا ہے اس لئے خدائی مدد کے بغیر وہ کامیابی کا منہ نہیں دیکھتے.یہی وجہ ہے کہ نکاح کے موقع پر جو قر آنی آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں فریقین کو بار بار اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو.خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بناؤ اور اس کی حفاظت میں آ جاؤ.تا خدا تعالیٰ ان کمزوریوں سے جو تم سے سرزد ہو جاتی ہیں یا سرزد ہو سکتی ہیں تمہیں محفوظ رکھے اور اس تعلق میں جو تم دنیا کی آبادی کے لئے خادمِ دین پیدا کرنے کے لئے اور معاشرہ کے قیام کی غرض سے کرتے ہو برکت ڈالے اور اس مقصد کو پورا کرے جو تمہارا ہے اور جو اس نے اس رشتہ نکاح کے قائم کرنے میں تمہارے سامنے رکھا ہے.اس مختصر سی تمہید کے بعد میں تین نکاحوں کا اعلان کروں گا.علاوہ اس مضبوط اور قوی رشتہ کے جو ایک احمدی کو دوسرے احمدی کے ساتھ ہے میرے ان خاندانوں سے ذاتی تعلقات بھی ہیں جن کے بچوں اور بچیوں کے نکاح ہورہے ہیں.ان میں سے ایک نکاح تو ایک واقف زندگی کا ہورہا ہے اور ایک واقف زندگی سے زیادہ مجھے کون عزیز ہو سکتا ہے.ان کا نکاح ناصرہ صدیقہ بنت چوہدری فضل احمد صاحب سے دو ہزار مہر پر قرار پایا ہے.چند دن ہوئے مجھے خیال آیا کہ واقفین زندگی کی جن لڑکیوں سے شادیاں ہوتی ہیں اگر انہیں بھی اس طرف متوجہ کیا جائے کہ تم

Page 297

خطبات ناصر جلد دہم ۲۷۳ خطبہ نکاح ۲۷ مارچ ۱۹۶۶ء اپنی زندگیاں وقف کرو.تو اس کے نتیجہ میں اچھی ذہنیت پیدا ہو جائے گی.چنانچہ میں نے ناصرہ صدیقہ کے والد کو بلایا اور اسے اس سلسلہ میں تحریک کی.انہوں نے اپنی بیٹی سے کہا.چنانچہ اس عزیزہ نے بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی وقف کر دی اور وقف زندگی کا با قاعدہ فارم پر کر دیا.دوسرا نکاح نصرت رحمت اللہ صاحبہ بنت مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب آف کراچی کا ہے جو عزیز مکرم ملک منور احمد صاحب ابن مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کے ساتھ دس ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.مکرم ملک غلام فرید صاحب نے اپنی ساری زندگی بطور واقف کے گزاری ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے اور اس کے تفسیری نوٹ تیار کرنے کی توفیق بخشی ہے.منور احمد میرے شاگرد بھی ہیں اور بڑے اچھے شاگرد ہیں.پھر میرا ان سے ذاتی تعلق بھی ہے.مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب بھی مخلص احمدی ہیں اور ان میں بعض باتیں تو ایسی بھی پائی جاتی ہیں جنہیں میں اس وقت ظاہر نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا اچھا نمونہ دکھانے کی توفیق دی ہے جو واقعہ میں قابل قدر اور قابل رشک ہے.تیسرا نکاح عزیزه طلعت باجوہ صاحبہ بنت مکرم چو ہدری شریف احمد صاحب باجوہ کا ہے جو مکرم چوہدری ماجد علی صاحب ابن مکرم چوہدری اعظم علی صاحب ریٹائر ڈسیشن جج سے بعوض مبلغ دس ہزار روپیہ مہر قرار پایا ہے.مکرم چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ سے بھی میرے بڑے پرانے تعلقات ہیں جو مختلف اوقات میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے.۱۹۴۷ء کے فسادات کے دوران اور پھر قیام پاکستان کے بعد فرقان بٹالین میں ہمیں اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا اور اس کے بعد یہ تعلقات دن بدن بڑھتے ہی چلے گئے.اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو بابرکت اور ان دعاؤں کا وارث بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے لئے کی ہیں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور احباب سمیت لمبی دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوه ۹ را پریل ۱۹۶۶ء صفحه ۳) ☐☐☐

Page 298

Page 299

خطبات ناصر جلد دہم ۲۷۵ خطبہ نکاح ۱۷ را پریل ۱۹۶۶ ء خوشی کی یہ تقریب میری ذاتی خوشی بھی ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۷ را پریل ۱۹۶۶ ء بمقام ربوہ مورخہ ۱۷ ۱۷ پریل کو محترم نیک محمد خان صاحب غزنوی کی دختر رضیہ غزنوی صاحبہ ایم.اے بی.ایڈ لیکچر ارگورنمنٹ کالج فار ویمن جہلم کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی جس میں متعدد دیگر احباب و افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ سید نا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی از راہ شفقت شرکت فرمائی.اس تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا جو کہ رفیق احمد جاوید متعلم جامعہ احمد یہ ربوہ نے کی.بعد ازاں حضور انور نے اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے اجتماعی دعا فرمائی.محترم رضیه غزنوی صاحبہ کا نکاح اسی روز بعد از نماز ظہر سید ناخلیفة المسح الثالث ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے مسجد مبارک میں مکرم کیپٹن نصیر احمد صاحب ابن محترم چوہدری غلام حسین صاحب آف ڈنڈ پور تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ سے بعوض مبلغ آٹھ ہزار روپیہ مہر پڑھا تھا.خطبہ نکاح میں حضور نے محترم نیک محمد خان صاحب غزنی کے خاندان سے اپنے ذاتی گہرے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خان صاحب موصوف افغانستان کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.انہوں نے محض احمدیت کی خاطر اپنے وطن سے ہجرت کر کے قادیان میں رہائش اختیار کی اور خدمت دین میں حصہ لیا ان کی اہلیہ صاحبہ کو بھی ایک عرصہ تک حضرت اماں جان کی خدمت

Page 300

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۷ را پریل ۱۹۶۶ء میں رہنے کا شرف حاصل ہوا.لہذا خوشی کی یہ تقریب میری ذاتی خوشی بھی ہے.برات جس میں کئی غیر از جماعت معززین بھی شامل تھے قریباً ساڑھے گیارہ بجے ربوہ پہنچی اور اسی روز شام کو واپسی روانہ ہوگئی.احباب جماعت دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس تعلق کو جانبین کے لئے ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنائے.امین اللهم امین.روزنامه الفضل ربوه ۱/۲۲ پریل ۱۹۶۶ صفحه ۴)

Page 301

خطبات ناصر جلد دہم ۲۷۷ خطبہ نکاح ۱۸ را پریل ۱۹۶۶ء حضرت مسیح موعود کے اوائل زمانہ میں بڑی مخالفت اور دشمنی کے دن تھے خطبہ نکاح فرموده ۱۸ ۱۷ پریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب مکرم چوہدری مبشر احمد صاحب ولد چوہدری بشیر احمد صاحب آف ماڈرن موٹرز راولپنڈی کا نکاح محترمہ منصورہ بیگم بنت میاں شریف احمد صاحب سے پڑھایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں آج ظہر اور عصر کی نمازوں کے لئے مسجد میں نہ آسکا تھا کیونکہ میری ڈاڑھ میں تکلیف تھی علاج سے کچھ فائدہ نہ ہوا تو آج ڈاکٹر صاحب نے میری ۴۵ سالہ ساتھی ڈاڑھ کو باہر نکال پھینکا.اس وقت میں ایک نکاح کا اعلان کروں گا جس کی خاطر میں اپنی علالت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وعدہ کے مطابق یہاں آیا ہوں.یہ نکاح عزیزہ منصورہ بیگم بنت میاں شریف احمد صاحب کا ہے.منصورہ بیگم محترم ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب کی پوتی ہیں جیسا کہ احباب جماعت کو علم ہے.میاں محمد شریف صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے ہیں.ان لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے اوائل زمانہ میں جبکہ بڑی مخالفت اور دشمنی کے دن تھے آپ کو مانا اور پھر آپ کی دعاؤں سے برکت حاصل کی اور دینی اور دنیوی ترقیاں

Page 302

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۸ را پریل ۱۹۶۶ء پائیں.جماعت پر ان کا حق ہے.اس لئے چاہیے کہ احباب جماعت اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں.عزیزه منصورہ بیگم، محترمہ مہر آپا صاحبہ کی بھانجی ( بہن کی بیٹی ) ہیں اور جیسا کہ جماعت کو معلوم ہے.حضرت مہر آپا صاحبہ کا بھی جماعت پر بڑا حق ہے کیونکہ انہوں نے اپنی صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی لمبی بیماری کے ایام میں ان کی خدمت کی.اس لئے دوست خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو مبارک کرے.لڑکے کا نام چوہدری مبشر احمد صاحب ہے اور وہ چوہدری بشیر احمد صاحب آف ماڈرن موٹرز راولپنڈی کے صاحبزادے ہیں.چوہدری بشیر احمد صاحب کو خدا تعالیٰ نے ایک مخلص دل دیا ہے اور مجھے اس کی بہت قدر ہے.وہ اپنی بیماری کے باعث یہاں نہیں آسکے.میری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے بیٹے مبشر احمد کو بھی اپنے والد سا اخلاص عطا کرے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.احباب لڑکی اور لڑ کے دونوں کے لئے دعا فرمائیں.اس کے بعد حضور انور نے بمع حاضرین اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 303

خطبات ناصر جلد دہم ۲۷۹ خطبہ نکاح ۶ رمئی ۱۹۶۶ء افغانستان میں مسیح موعود کے شہید صحابہ کا خون رنگ لائے گا خطبہ نکاح فرموده ۶ رمئی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرم سید تنویر احمد صاحب ابن مکرم سید علی احمد صاحب مرحوم کے نکاح کا ہمراہ کمال بی بی صاحبہ بنت مکرم غلام محمد خان صاحب بعوض مبلغ دو ہزار روپیہ مہر اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں وہ دوا ایسے خاندانوں میں قرار پایا ہے.جن میں سے ایک خاندان کا تعلق افغانستان سے ہے اور دوسرا سید خاندان ہے جو گو ہندوستان میں رہتا چلا آیا ہے.لیکن دراصل عرب کے ملک سے تعلق رکھتا ہے.افغانستان سے تعلق رکھنے والا خاندان احمدیت کے ساتھ تعلق پیدا ہونے کے نتیجہ میں یہاں آیا ہے اور غلام محمد خان صاحب جن کی بچی کا اس وقت نکاح ہو رہا ہے.اپنے بچپن سے ہی قادیان میں رہتے رہے ہیں.گووہ زیادہ ظاہری تعلیم حاصل نہیں کر سکے.لیکن احمدیت کی تعلیم انہوں نے اچھی طرح حاصل کی ہے اور اب تک ان کا تعلق افغانستان سے قائم ہے.بوجہ اس کے کہ ان کے رشتہ داروہاں قیام پذیر ہیں.ان کے علاقہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں احمدیت پھیلی تھی.اگر چہ

Page 304

خطبات ناصر جلد دہم ۲۸۰ خطبہ نکاح ۶ رمئی ۱۹۶۶ء وہاں مخالفت بڑی ہوئی ہے اور بعض احمدی شہید بھی ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ثبات قدم عطا فرمایا ہے اور وہ پوری طرح احمدیت پر قائم ہیں.تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بعض تفصیلی عقائد ٹھیک نہیں.کیونکہ احمدیت کے متعلق انہیں علم بھی زیادہ نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب بھی نہیں پڑھ سکتے.اگر ان میں سے کسی کے پاس کتب ہیں بھی تو وہ ان کے سرورق پھاڑ دیتے ہیں.لیکن باوجود اس کے احمدیت سے انہیں گہرا تعلق ، واسطہ اور لگاؤ ہے اور احمدیت کی محبت ان کے دلوں میں گھر کر چکی ہے.سوجیسا کہ میں نے بتایا ہے.ایک خاندان کا تعلق اس علاقہ سے ہے جو افغانستان کے نام سے موسوم ہے چونکہ اس ملک کو شروع سے ہی اللہ تعالیٰ نے اسلام سے مشرف کیا ہے.اس لئے اس کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہیے.دوسرے اس ملک کے رہنے والے ابھی پوری طرح مہذب نہیں بنے ظاہری تہذیب انہیں حاصل نہیں ہے.ان میں تعصب انتہا کو پہنچا ہوا ہے.گونئی حکومت نے مادی ترقی کے ذریعہ سے ان کے حالات کو ایک حد تک درست کر دیا ہے.لیکن اب بھی ان کے حالات ایسے نہیں.جن حالات میں ہم زندگی گزار رہے ہیں.ان لوگوں میں رہنے والے احمدیوں کی زندگیاں پریشانی میں گذرتی ہیں.وہ انتہائی ناسازگار حالات میں محض خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں.اس لئے جماعت کو ان کے لئے بڑی کثرت سے دعائیں کرتے رہنا چاہیے.افغانستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بزرگ صحابہ کا خون بہایا گیا ہے.ان شہداء کا خون رنگ لائے گالیکن ہمیں جہاں تدبیر سے کام لینا چاہیے وہاں دعاؤں پر بھی زور دینا چاہیے تا اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے.جب اس ملک کے رہنے والے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نور اور اس کی روشنی کی ٹھنڈی شعاعوں سے منور ہوں.اس سے حصہ پائیں اور اس کی تعلیم سے مستفیض ہوں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام کو جلد پہچان لیں اور ان میں احمدیت جلد پھیل جائے.

Page 305

خطبات ناصر جلد دہم ۲۸۱ خطبہ نکاح ۶ رمئی ۱۹۶۶ء اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوه کیم جون ۱۹۶۶ء صفحه ۵)

Page 306

Page 307

خطبات ناصر جلد دہم ۲۸۳ خطبہ نکاح ۲۷ رمئی ۱۹۶۶ء آنحضرت کی ارشاد فرمودہ نہایت پر حکمت اور لطیف نصائح خطبہ نکاح فرموده ۲۷ رمئی ۱۹۶۶ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے مکرم چوہدری شاہ نواز صاحب کی صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ کے نکاح کا محمد نعیم صاحب ابن محترم چوہدری محمد شریف صاحب سے اور نصرت جہاں آرا بیگم صاحبہ بنت مکرم بریگیڈیر ملک عبدالعلی صاحب کے نکاح کا انس داؤ د صاحب ابن چوہدری غلام اللہ صاحب باجوہ لا ہور سے اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میرا معمول تو نہیں کہ میں جمعہ سے پہلے نکاح کا اعلان کروں لیکن ہمارے ایک بے نفس، سلسلہ عالیہ احمدیہ کے فدائی، مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کی جو جماعت ہائے احمد یہ ضلع (ساہیوال) منٹگمری کے امیر ہیں اور بڑے لمبے عرصہ سے بیمار ہیں یہ خواہش تھی کہ میں جمعہ کے روز اس نکاح کا اعلان کروں.اسی طرح دوسرا نکاح بھی ہمارے ایک مخلص دوست سے تعلق رکھتا ہے ان کی بھی یہی خواہش تھی اس لئے میں نے اپنے ایک بیمار بھائی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اور ان کی خوشی کی خاطر اپنے معمول کو چھوڑا ہے اور ان دو نکاحوں کا اعلان کر رہا ہوں.

Page 308

خطبات ناصر جلد دہم ۲۸۴ خطبہ نکاح ۲۷ رمئی ۱۹۶۶ء پھر حضور انور نے فرمایا:.چند دن ہوئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے موقع پر جو خطبے ارشاد فرمائے ہیں وہ بھی پڑھنے چاہئیں ان سے استفادہ کرنا چاہیے اور سبق لینے چاہئیں.اس سلسلہ میں اس وقت تک صرف ایک خطبہ نکاح دستیاب ہوا ہے جو مَوَاهِبُ اللَّدُنْيَه میں درج ہے اور وہ خطبہ نکاح وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر پڑھا.جس وقت میں نے اس مختصر مگر بڑے ہی لطیف معانی پر مشتمل خطبہ کو دیکھا تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ پہلے موقع پر ہی یہ خطبہ دوستوں کو سناؤں گا اور اتفاق کی بات ہے کہ وہ پہلا موقع مجھے آج مل گیا ہے.میری دعا ہے کہ ہر چہار خاندانوں ( یعنی لڑکوں کے خاندان اور لڑکیوں کے خاندان) کے لئے اللہ اس خطبہ کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور جسے میں آج پڑھ کر سناتا ہوں برکت کا موجب بنائے اور ان دونوں خاندانوں سے دنیا کی محبت سرد کر دے اور اپنی محبت کی چنگاری ان کے دلوں میں شعلہ زن کرے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کے الفاظ یہ ہیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ الْمَحْمُودِ بِنِعْمَتِهِ، الْمَعْبُودِ بِقُدْرَتِهِ، الْمُطَاعِ بِسُلْطَانِهِ، الْمَرْهُوْبِ مِنْ عَذَابِهِ وَسَطْوَتِهِ، النَّافِنِ اَمْرُهُ فِي سَمَائِهِ وَاَرْضِهِ الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِهِ وَمَيَّزَهُمْ بِأَحْكَامِه وَاَعَزَهُمْ بِدِينِهِ وَأَكْرَمَهُمْ بِنَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ اسْمُهُ وَتَعَالَتْ عَظْمَتُهُ جَعَلَ الْمُصَاهَرَةَ سَبَبًا لَا حِقًّا وَاَمْرًا مُفْتَرَضًا أَوْ شَجَ بِهِ الْأَرْحَامَ وَالْزَمَ بِهِ الْاَ نَامَ فَقَالَ عَزَّمَنْ قَائِلٌ : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا - فَامْرُ اللهُ يَجْرِى إِلى قَضَائِهِ وَقَضَاؤُهُ يَجْرِى إِلَى قَدَرِهِ، وَلِكُلِّ قَضَاءٍ قَدَرٌ وَلِكُلِّ قَدَرٍ أَجَلَّ، وَلِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَةُ

Page 309

خطبات ناصر جلد دہم ام الْكِتَابِ ۲۸۵ خطبہ نکاح ۲۷ رمئی ۱۹۶۶ء ثُمَّ إِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ آمَرَنِي أَنْ أَزْوَجَ فَاطِمَةً مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِ طَالِبٍ فَأَشْهِدُوْا أَنِّي زَوَجْتُهُ عَلَى أَرْبَعِ مِائَةِ مِثْقَالِ فِضَّةٍ إِنْ رَضِيَ بِذَلِكَ عَلَى آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں جو رب ، رحمن ، رحیم ، مالک یوم الدین کی صفات کی وجہ سے اپنی مخلوق پر بے شمار نعمتیں نازل کرتا ہے اور اس کی مخلوق اس کی نعمتوں کو دیکھ کر اس کی حمد میں مصروف ہے.کامل قدرت اسی کو حاصل ہے.اسی لئے وہی ایک معبود حقیقی ہے.قادرانہ تسلط اسی کو حاصل ہے.اس لئے وہی سچی اور عاجزانہ اطاعت کا مستحق ہے.اس کے قہر اور جبروت کو دیکھ کر مخلوق خوف کے مقام پر کھڑی ہوتی ہے.آسمان اور زمین میں اس کا حکم نافذ ہے.اس نے اپنی قدرت کا ملہ سے مخلوق کو پیدا کیا.پھر اپنے کامل تصرف سے اس نے ان میں مختلف قوتیں اور استعدادیں پیدا کیں اور بعض کو بعض پر فضیلت بخشی پھر اشرف المخلوقات کو ایک کامل شریعت کے ذریعہ انتہائی شرف بخشا اور اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مبعوث فرما کر اس نے انسان کے لئے عزت اور شرف کے سامان مہیا کئے.اللہ تعالیٰ نے ازدواجی تعلقات کو فطرت کا جزو بنایا ہے جس سے پھل کے بعد پھل حاصل ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں انسان کے لئے ہدایت کو نازل کیا اور نکاح کو واجب قرار دیا اور اس کے ذریعہ اس نے خاندانوں کے باہمی تعلقات میں وسعت پیدا کی.عزت و عظمت والا ہے وہ جس نے قرآن کریم میں فرمایا.اور وہ خدا ہی ہے جس نے پانی سے انسان بنایا.پس اس کو کبھی تو کمال قدرت سے شجرہ آباء کے خونی رشتہ میں منسلک کیا اور کبھی کمال ہدایت سے ازدواجی رشتہ میں باندھا اور تیرا رب ہر چیز پر قادر ہے.66 پس یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ کا ہر انفرادی حکم، قوانین قضا اور قوانین قدرت کے ذریعہ ظہور پکڑتا ہے اور قضاء و قدر کے قوانین میں اس کی قدرتوں کے نظارے جلوہ گر ہوتے ہیں اور اس کی یہ

Page 310

خطبات ناصر جلد دہم ۲۸۶ خطبہ نکاح ۲۷ رمئی ۱۹۶۶ء قدرت ایک وسیع پروگرام کے ماتحت ظاہر ہوتی ہے اور اس کے ہر پروگرام کے لئے ایک میعاد مقرر ہے.جس چیز کو اللہ چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم کرتا ہے اور اس کے پاس تمام احکام کی جڑھ اور اصل ہے.پھر آپ نے فرمایا :.اللہ عز وجل کے حکم سے میں فاطمہ کا نکاح علی بن ابی طالب سے پڑھ رہا ہوں.چارسو مثقال چاندی مہر پر بشرطیکہ علی راضی ہو.“ میں نے کوشش کی ہے کہ صحیح اور قابل فہم مطلب اور مفہوم اس خطبہ نکاح کا اپنے بھائیوں کے سامنے پیش کروں.جب میں نے اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اتنے وسیع مضامین اور مطالب ان چند الفاظ میں پائے جاتے ہیں کہ عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے کر دوں.یہ ایک انفرادی حکم ہے اور خدا تعالیٰ کا ہر انفرادی حکم اس کے مقرر کردہ قواعد کلیہ کے ذریعہ ظہور پذیر ہوتا ہے.اس لئے میں دونوں فریق کو بھی اور دیگر تمام سننے والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ازدواجی تعلقات کے متعلق قرآن کریم ، شریعت اسلامیہ، میں ایک نہایت پاکیزہ اور نہایت اعلیٰ درجہ کی حسین تعلیم نازل کی.پس جب تم ازدواجی تعلقات قائم کرو تو یاد رکھو کہ یہ تعلقات دو طرفہ ہیں.اس لحاظ سے کہ دو خاندانوں کے درمیان قائم در ہے ہیں اور اس لحاظ سے بھی کہ ایک طرف تو میاں بیوی کے آپس کے تعلقات ہیں اور دوسری طرف دوخاندانوں کے باہمی تعلقات ہیں.ہور.ان تعلقات کے نباہنے میں کامیابی کا گر اور راز صرف اور صرف یہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت پر غور کرو اور اس کے مطابق جہاں دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں عمل کرنے کی کوشش کرتے ہو وہاں ان معاملات میں بھی ان ہدایات کو اپنے سامنے رکھوتا اللہ تعالیٰ تمہاری کوششوں میں اور تمہارے تعلقات میں برکت ڈالے اور ان تعلقات کو ہر لحاظ سے باہمی برکت اور محبت کا موجب بنائے اور تم خدا کی رضا کو حاصل کرنے والے بنو.پھر تمہیں یہ بھی سمجھ آئے گا

Page 311

خطبات ناصر جلد دہم ۲۸۷ خطبہ نکاح ۲۷ رمئی ۱۹۶۶ء کہ ہمارا کامل تو گل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے اور ہمیں ہر خیر کے حصول کے لئے اور ہر شر سے بچنے کے لئے اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور حق یہی ہے کہ اس کے فضل کے بغیر ہماری کسی بھی کوشش کا انجام اچھا نہیں ہوتا.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو بہت ہی بابرکت بنائے اور ہمارے بھائی چوہدری محمد شریف صاحب کو صحت اور زندگی دے تا وہ اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھیں.اسی طرح دیگر ہرسہ خاندانوں پر بھی وہ اپنا فضل فرمائے اور انہیں اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے اور سلسلہ عالیہ احمد یہ جو غلبہ اسلام کے لئے قائم کیا گیا ہے اس کے لئے ہر لحاظ سے یہ قربانی کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں دین کا شوق پیدا کرے اور ان کے دلوں سے دنیا کی محبت سرد کر دے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کروایا اور دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۳ را گست ۱۹۶۶ ء صفحه ۳، ۴)

Page 312

Page 313

خطبات ناصر جلد دہم ۲۸۹ خطبہ نکاح ۲۸ رمئی ۱۹۶۶ء انگلستان کے احمدیوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے والا نمونہ پیش کرنا چاہیے خطبہ نکاح فرموده ۲۸ رمئی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب مکرمہ عزیزه حامدہ بیگم صاحبہ بنت مکرم شیخ فضل قادر صاحب مرحوم ربوہ کے نکاح ہمراہ مکرم کلیم الدین صاحب امینی ہڈرزفیلڈ، انگلینڈ حال ربوہ کا اعلان بعوض پانچ ہزار روپیہ مہر فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسان اس دنیا میں فکروں سے آزاد نہیں ہوسکتا ایک وقت تھا کہ جماعت احمدیہ کے امام کو یہ فکر رہتی تھی کہ کسی طرح جلد تر انگلستان میں جماعت احمد یہ مضبوطی سے قائم ہو جائے اور اب یہ فکر لاحق ہے کہ انگلستان کی جماعت ( جو اس وقت کافی تعداد میں وہاں موجود ہے پانچ سو کمانے والے احمدی موجود ہیں.پھر ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے بیوی بچے وہیں ان کے ساتھ مقیم ہیں اس طرح میرا خیال ہے کہ عورتوں اور بچوں کو ملا کر کم و بیش آٹھ سو یا ہنرا راحمدی وہاں موجود ہیں ) کے جوان مردوں، جو ان لڑکیوں اور بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کی جائے.خصوصاً احمدی لڑکیوں کے متعلق تو مجھے شدید احساس ہے کہ ان کی تربیت کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں ہونی چاہیے.جو احمدی بھائی انگلستان میں رہتے ہیں.انہیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ لڑکیوں کی

Page 314

خطبات ناصر جلد دہم ۲۹۰ خطبہ نکاح ۲۸ رمئی ۱۹۶۶ء تربیت مناسب طور پر ہو اور نوجوان لڑکیوں کی جتنی جلدی ہو سکے شادی کر دی جایا کرے.کیونکہ وہاں کا ماحول بہت زہریلا ہے.ان باتوں کو مختصراً کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ جس لڑکی کے نکاح کا اعلان کرنے کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں وہ شادی کے بعد اپنے خاوند کے ساتھ انگلستان جارہی ہے.عزیزہ حامدہ کو جو شیخ فضل قادر صاحب مرحوم کی بیٹی اور مکرم شیخ نور احمد صاحب مرحوم مختار عام حضرت مصلح موعودؓ کی (جنہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی بڑی خدمت کی ہے) پوتی ہے.چاہیے کہ وہ نہ صرف جماعت کے لئے ہی بلکہ دوسروں کے لئے بھی جن سے اس کے تعلق قائم ہوں اور اچھا اور نیک نمونہ پیش کرنے کی کوشش کرے اور مکرم کلیم الدین صاحب امینی کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ عزیزہ کو اس کے ماحول سے کاٹ کر اپنے ساتھ انگلستان لے جا رہے ہیں اسے وہاں کوئی تکلیف بھی نہ ہو اور پھر ساتھ ساتھ اس کی تربیت بھی ہوتی رہے.ایک خاوند پر اس کی بیوی کے ہر قسم کے حقوق ہیں اور ان حقوق میں سے ایک بڑا حق یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کی تربیت کا خیال رکھے.اس وقت جو احمدی دوست انگلستان میں ہیں انہیں بھی میں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ پوری کوشش کریں کہ ان کے سلسلہ میں ہماری فکریں کم ہوں ، زیادہ نہ ہوں اور وہ وہاں ایسا ماحول اور ایسی فضا پیدا کریں کہ وہ فضا اور وہ ماحول مادر زاد عیسائیوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے والا ہو.وہ اسلام کی خوبیاں دیکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوں اور جس معاشرہ میں وہ ڈوبے ہوئے ہیں اور جس گند میں وہ لیٹے ہوئے ہیں اس سے نجات حاصل کر کے اسلام کے پاک ماحول میں سانس لینے لگیں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور فرمایا:.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو زیادہ مبارک کرے اور انگلستان میں اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کا ذریعہ بنائے.اس کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوه ۸ جون ۱۹۶۶ صفحه ۴)

Page 315

خطبات ناصر جلد دہم ۲۹۱ خطبہ نکاح ۵ جون ۱۹۶۶ء اللہ تعالیٰ جس شخص کی ڈھال بن جاتا ہے وہ کبھی نا کام نہیں ہوتا خطبہ نکاح فرموده ۵ / جون ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر عزیزہ رضیہ بیگم صاحبہ بنت مکرم و محترم خلیفه علیم الدین صاحب مرحوم کے نکاح ہمراہ چوہدری مسعود احمد صاحب ابن مکرم چوہدری کرامت اللہ صاحب بعوض دس ہزار روپیہ مہر کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جو آیات قرآنیہ نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں.ان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر ہم معصیت و گناہ سے اس نیت سے بچیں اور ان سے پر ہیز کریں کہ اللہ تعالیٰ جو ہمارا رب ہے ہم سے ناراض نہ ہو جائے بلکہ وہ ہماری ڈھال ہو جائے.تو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہم کامیابی حاصل کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ جس شخص کی ڈھال بن جاتا ہے وہ کبھی نا کام نہیں ہوتا.کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کی پناہ میں آ جائے اسے کوئی شیطانی وسوسہ، دنیا کی کوئی مصیبت، کوئی پریشانی، کوئی ابتلا ، کوئی ٹھوکر اور تنگی ناکام نہیں کرسکتی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں ہوتا ہے اور ہرا بتلا کے موقع پر اللہ تعالیٰ اس کا سہارا بن جاتا ہے.جس نکاح کا اعلان کرنے کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں.وہ میری ماموں زاد بہن

Page 316

خطبات ناصر جلد دہم ۲۹۲ خطبہ نکاح ۵ جون ۱۹۶۶ء عزیزہ رضیہ بیگم صاحبہ بنت مکرم و محترم خلیفہ علیم الدین صاحب مرحوم کا ہے جو میرے دوست بھائی مکرم چوہدری کرامت اللہ صاحب کے صاحبزادے عزیز چوہدری مسعود احمد صاحب کے ساتھ قرار پایا ہے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت بابرکت کرے.نہ صرف دونوں میاں بیوی کے لئے ، نہ صرف دونوں خاندانوں کے لئے بلکہ احمدیت کے لئے بھی اس رشتہ کو ہر رنگ میں مبارک کرے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 317

خطبات ناصر جلد دہم ۲۹۳ خطبہ نکاح یکم جولائی ۱۹۶۶ء ہمیشہ اور ہر موقع پر تقویٰ کو ملحوظ رکھو خطبہ نکاح فرمودہ یکم جولائی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.طاہرہ نگہت صاحبہ بنت محترم راجہ علی محمد صاحب ( ریٹائرڈ افسر مال ) سابق ناظر بیت المال ہمراہ مکرم سید حمید احمد صاحب ابن مکرم ڈاکٹر شفیع احمد صاحب دہلوی بعوض چھ ہزار روپیہ مہر.مکرم رفیق احمد صاحب ابن محترم خان صاحب مولوی فرزند علی مرحوم سابق ناظر بیت المال ہمراہ صالحہ وسیم صاحبہ بنت مکرم چوہدری رشید احمد خاں صاحب حال شیخو پورہ بعوض آٹھ ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن کریم ہمیں بار بار تقویٰ کے اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے.اس لئے کہ تقومی ہمارے مذہب میں ایک بنیادی چیز ہے جس کی طرف مومنوں کو ہمیشہ اور ہر موقع پر توجہ دلا نا ضروری ہے.تقویٰ کے معنے ہیں کہ انسان برائیوں ، بدیوں اور نواہی سے اس نیت سے بچے کہ کہیں اس کا رب اور اس کا پیدا کرنے والا اس سے ناراض نہ ہو جائے اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنانے والا ہو.اس میں ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ڈھال بنانے کا جو تصور ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم ، ہمارے اعمال، ہماری نیات اور ہمارے خیالات سارے کے سارے اللہ تعالیٰ

Page 318

خطبات ناصر جلد دہم ۲۹۴ خطبہ نکاح یکم جولائی ۱۹۶۶ء کی ڈھال کے پیچھے پناہ لینے والے ہوں.جس زمانہ میں تیر و تفنگ کی جنگ ہوا کرتی تھی.اس وقت اگر ایک جنگ جو اور بہادر انسان میدان جنگ میں جبکہ ہر طرف تیر چل رہے ہوتے تھے اپنے جسم کے ایک حصہ کو ڈھال کے پیچھے رکھتا اور دوسرے حصہ کو دشمن کے سامنے نگا رکھتا تو وہ اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں ڈال رہا ہوتا.ڈھال کا تصور ہی یہ ہے کہ انسان پورے کا پورا اس کے پیچھے آجائے اور اس کے جسم کا کوئی حصہ ننگا نہ ہو کیونکہ اس کا وہ حصہ جو نگا ہے اس کے لئے ہلاکت اور خطرہ کا موجب بن سکتا ہے.نکاح اور شادی کے موقع پر ہمیں خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنانے کی طرف توجہ دلا کر بتایا جاتا ہے کہ شادی اور شادی کے نتیجہ میں بننے والے رشتہ داروں کے تعلقات کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال میں اور پھرا پنی سنت سے ہمیں بہت سے سبق دیئے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں کیونکہ اگر ہم اس تعلیم پر عمل کریں گے تو ہم فتنوں، فساد، شیطانی وسوسوں اور برائیوں سے بچ جائیں گے اور ہم اپنی زندگی کے ہر لحاظ میں خوش و خرم رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس کی توفیق عطا کرتا ہے تا کہ ہم سارے کے سارے ہر لحظہ اور ہر آن اللہ تعالیٰ کو ڈھال بنانے والے ہوں اور ہمارے جسموں ، ہماری روحوں ، ہمارے ذہنوں اور ہمارے دلوں کا کوئی حصہ شیطان کے سامنے نہ ہو کہ وہ ہم پر وار کر کے ہمیں ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دے.اس وقت میں دو نکاحوں کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں اور ان دونوں نکاحوں کا تعلق ہمارے ایک ایک سابق ناظر صاحب بیت المال سے ہے.ایک نکاح تو عزیزہ طاہرہ نگہت صاحبہ بنت محترم راجہ علی محمد صاحب سابق ناظر بیت المال کا ہے.یہ نکاح مکرم سید حمید احمد صاحب ابن محترم ڈاکٹر شفیع احمد صاحب دہلوی کے ساتھ بعوض چھ ہزار روپیہ مہر قرار پایا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے عزیزہ طاہرہ نگہت محترم راجہ علی محمد صاحب سابق ناظر بیت المال کی صاحبزادی ہیں.راجہ صاحب محترم نے جماعت کی بہت خدمت کی ہے اور ہر احمدی جس نے جماعت کی تاریخ کا علم حاصل کیا ہو اور وہ قربانی کرنے والوں کی زندگی کا مطالعہ کرتا رہا ہوا سے خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے آج موقع عطا فرمایا ہے کہ وہ دعا کے ذریعہ ان بزرگوں کی تھوڑی بہت

Page 319

خطبات ناصر جلد دہم ۲۹۵ خطبہ نکاح یکم جولائی ۱۹۶۶ء خدمت کرنے کے قابل ہو رہا ہے.دوسرا نکاح جس کا اعلان کرنے کے لئے میں آج کھڑا ہوا ہوں شیخ رفیق احمد صاحب ابن خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مرحوم سابق ناظر بیت المال کا ہے جو صالحہ وسیم صاحبہ بنت چوہدری رشید احمد خان صاحب حال شیخو پورہ کے ہمراہ آٹھ ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے جیسا کہ دوست جانتے ہیں.محترم خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مرحوم گورنمنٹ کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمبے عرصہ تک جماعت کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق پانے والے بزرگ ہیں اور عملاً انہوں نے سلسلہ کی خدمت کرتے ہوئے ہی اپنی جان دی ہے.آپ اپنی عمر کے آخری وقت تک سلسلہ کی خدمت کرتے رہے.اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بھی مبارک کرے.آمین اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور فرمایا:.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو مبارک کرے.اس کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوہ ۹ / جولائی ۱۹۶۶ء صفحہ ۳)

Page 320

Page 321

خطبات ناصر جلد دہم ۲۹۷ خطبہ نکاح ۳ جولائی ۱۹۶۶ء سب حقوق کو صحت نیت اور اخلاص کے ساتھ ادا کرنا چاہیے خطبہ نکاح فرموده ۳/ جولائی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز عصر مکرمہ یاسمین ڈار صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ڈار سمن آبا دلا ہور کا نکاح ہمراہ مکرم سید طاہر احمد صاحب بخاری ابن مکرم سید عبداللہ شاہ صاحب بخاری حال کینیڈا بعوض آٹھ ہزار روپیہ مہر پڑھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام نے کچھ حقوق عورتوں کے مردوں پر رکھے ہیں اور کچھ حقوق مردوں کے عورتوں پر رکھے ہیں.اسی طرح اسلام نے کچھ حقوق بیوی کے خاوند پر مقرر کئے ہیں اور کچھ حقوق خاوند کے بیوی پر مقرر کئے ہیں.پھر بعض حقوق ایک عام انسان کے دوسرے انسان پر مقرر کئے ہیں.ان سب حقوق کو صحت نیت اور اخلاص کے ساتھ ادا کرنا چاہیے.اس وقت میں جس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ یاسمین ڈار صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب ڈار سمن آبا دلا ہور کا ہے جو سید طاہر احمد صاحب بخاری ابن مکرم سید عبد اللہ شاہ صاحب بخاری حال کینیڈا کے ہمراہ بعوض آٹھ ہزار روپیہ مہر قرار پایا ہے.دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو مبارک کرے اور اسے اسلام کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ بنائے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۱۴ / اگست ۱۹۶۶ ء صفحه ۳)

Page 322

Page 323

خطبات ناصر جلد دہم ۲۹۹ خطبہ نکاح ۳۱ جولائی ۱۹۶۶ء اللہ اس نکاح کے نتیجہ میں دین کی خدمت کرنے والی نیک نسل چلائے خطبہ نکاح فرموده ۱۳۱ جولائی ۱۹۶۶ ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز ظہر مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ بنت مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب بھامبڑی یچر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے نکاح کا ہمراہ مکرم عبدالستار خاں صاحب ابن مکرم ماسٹر محمد علی خاں صاحب آف ڈیرہ غازی خاں حال ربوہ اعلان بعوض تین ہزار روپیہ مہر فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے سپر د جو کام کیا ہے اس کے لئے ہزاروں ہزار خدام بھی کافی نہیں.اس کے لئے لاکھوں لاکھ خدام بھی کفایت نہیں کرتے.ہاں کروڑوں کروڑ خدام ہوں.تب جا کر کچھ کام بنتا ہے.اس لئے ہر نکاح کے اعلان کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے یہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نکاح کے نتیجہ میں ایسی نسل چلائے جو دین کی خدمت کرنے والی ہوا اور لاکھوں مواقع اور مقامات جن پر خدام دین کا کھڑا ہونا ضروری ہے اور وہ ابھی تک خالی ہیں.ان پر خدام دین کھڑے ہو جا ئیں.پس اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس نکاح کے نتیجہ میں ایسی نیک نسل چلائے جو دین کی خدمت کرنے والی ہو.میں اس نکاح کا اعلان کرتا ہوں.

Page 324

خطبات ناصر جلد دہم ۳۰۰ خطبہ نکاح ۳۱ / جولائی ۱۹۶۶ء اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور حاضرین سمیت رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے لمبی دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۴ /اگست ۱۹۶۶ ء صفحه ۳، ۴)

Page 325

خطبات ناصر جلد دہم ٣٠١ خطبہ نکاح ۴ /اگست ۱۹۶۶ء خدا کا تقویٰ اپنے اعمال کے ذریعہ سے بھی ظاہر کرو خطبه نکاح فرموده ۴ را گست ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بروز جمعرات بعد نماز عصر مندرجہ ذیل چار نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.عائشہ صدیقہ صاحبہ بنت ڈاکٹر کرنل محمد رمضان صاحب کرشن نگر لاہور کا لیفٹیننٹ ملک عبدالمالک صاحب ولد ڈاکٹر عبد الحق صاحب ملک سے پندرہ ہزار روپیہ حق مہر پر.۲.امۃ الکریم میرزا صاحبہ بنت میرزا برکت علی صاحب ابادان (ایران) کا عزیز مکرم میرزا لطف الرحمن صاحب ولد بھائی میرزا برکت علی صاحب سے پانچ ہزار روپیہ حق مہر پر.۳.قمر النساء ڈار صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر طفیل احمد صاحب کا نکاح مکرم داؤ د احمد صاحب والد مکرم محمد یامین صاحب نسیم نیروبی سے پانچ ہزار شلنگ حق مہر پر.۴ مبشرہ شاہینہ صاحبه بنت میرزا عبدالرحمن صاحب ساکن کندھ پور سندھ کا میرزا حمید احمد صاحب ولد میرزاعبد اللطیف صاحب درویش سے تین ہزار روپیہ حق مہر پر.حضور انور نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.اس آیت يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا - يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ (الاحزاب : ۷۲،۷۱) میں يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ کے الفاظ سے ایک لطیف پیرا یہ میں ہمیں دعا

Page 326

خطبات ناصر جلد دہم کی طرف متوجہ کیا گیا ہے.خطبہ نکاح ۴ /اگست ۱۹۶۶ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! خدا کا تقویٰ اپنے اعمال کے ذریعہ سے بھی ظاہر کرو.ہر اس بات سے بچ کر جو تمہارے رب تمہارے اللہ کی نگاہ میں ناپسندیدہ اور معیوب ہے اور ہر وہ عمل بجالا کر جسے وہ پسند کرتا ہے.اس کی ڈھال کے پیچھے اور اس کی پناہ میں سارے عمل بجالا کر.اس کے علاوہ قُولُوا قولاً سَدِيدًا اجو بات کہو وہ صرف سچ ہی نہ ہو بلکہ صاف اور سیدھی ہو.اس میں کوئی پیچ نہ ہو.کوئی رخنہ نہ ہواور کوئی فسادنہ ہو.یہ سب کچھ کر لینے کے بعد یہ نہ سمجھ لینا کہ تمہارے اعمال ، اعمال صالحہ ہیں.کیونکہ عمل صالح وہ عمل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی صالح ہو اور جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان سے صالح بناد یا ہو.کیونکہ اصلاح میں احسان کرنے کا تصور اور تخیل بھی پایا جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ کا جملہ استعمال فرما کر ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ اپنی طرف سے بظاہر نیک عمل بجالا نا.اپنی طرف سے بظا ہر قول سدید پر قائم ہو جانا ہمیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ یہ ساری باتیں اسی وقت اعمال صالحہ شمار ہوسکتی ہیں جب اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل اور احسان سے ان اعمال کو صالح بنا دے.ان کے فساد کو دور کر دے اور جہاں تقویٰ کی باریک راہوں کو چھوڑنے کی وجہ سے کوئی خامی رہ گئی ہو.اس خامی کے بد نتیجہ سے محفوظ رکھتے ہوئے اور جہاں کوئی طبعی کمزوری پائی جاتی ہو اس کمزوری کو دور کرتے ہوئے محض احسان کے طور پر وہ تمہارے اعمال کو اعمال صالحہ قرار دے دے.اس وقت تمہیں ان کا ثواب ملے گا.پس ساری کوششوں کے باوجود ہمارا عمل، عمل صالح نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا احسان اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا احسان ہم کسی عمل سے تو نہیں لے سکتے.اس کا احسان تو محض اس کے فضل اور احسان سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے.چنانچہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تم میرے فضل اور میرے احسان کو دعاؤں کے ذریعہ سے ہی جذب کر سکتے ہو.تو يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ میں بتایا کہ تمہارے اعمال، اعمال صالحہ تبھی ہو سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ

Page 327

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۴ /اگست ۱۹۶۶ء محض اپنے احسان سے انہیں اعمال صالحہ بنا دے.پس اس آیت میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ ہر وقت اپنے رب کے حضور دعاؤں میں مشغول رہا کرو تا اس زندگی میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی اس کی خوشنودی اور رضا حاصل کر سکو.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کروایا اور دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان سب رشتوں کو با برکت بنائے.谢谢谢 روزنامه الفضل ربوه ۱۴ راگست ۱۹۶۶ ء صفحه ۳)

Page 328

Page 329

خطبات ناصر جلد دہم ۳۰۵ خطبہ نکاح ۱۰ راگست ۱۹۶۶ء قرآن کریم نے اپنا ایک فیملی پلاننگ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے خطبه نکاح فرموده ۱۰ / اگست ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بروز بدھ بعد نماز ظہر مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.مکرم چوہدری غلام احمد صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور کے صاحبزادہ کیپٹن ڈاکٹر خالد سعید احمد صاحب کا نکاح رخشیده بانو چوہدری بنت بریگیڈیر ناصر احمد صاحب چوہدری سے دس ہزار روپیہ مہر پر.۲ - مکرم چوہدری غلام احمد صاحب موصوف کی صاحبزادی عطیہ چوہدری کا نکاح مکرم ڈاکٹر ظفر محمود صاحب ولد خاں صاحب قاضی محمد اکرم صاحب مرحوم سے پندرہ ہزار روپیہ مہر پر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مردوں کی بعض اہم اور بنیادی ذمہ داریوں کی طرف ہمیں متوجہ کرتے ہوئے فرماتا ہے.الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ و، أموالهم فالصلحت قنتت حفظت لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللهُ (النِّسَاء : ۳۵) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم نے مرد کو عورت کا نگران اور محافظ مقرر کیا ہے.کس چیز کی نگرانی کرنی ہے؟ اور کس چیز کی حفاظت کرنی ہے؟ اس

Page 330

خطبہ نکاح ۱۰ راگست ۱۹۶۶ء خطبات ناصر جلد دہم کے متعلق اسی آیت میں آگے چل کر ہمیں یہ بتایا کہ عورت کی جسمانی نشوونما اور تربیت اور صحت وغیرہ کی نگرانی کا کام مرد پر ڈالا گیا ہے.اس لئے ڈالا گیا ہے کہ عام طور پر معاشرہ انسانی میں مرد کمانے والا اور خرچ کرنے والا ہے.ہمیں بطور خاوند یا بطور باپ یا بعض اوقات بطور بڑے بھائی یا کسی بڑے رشتہ دار کی حیثیت سے یہ ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں کہ ان مستورات کو جو بیوی کی حیثیت میں یا جو بیٹی کی حیثیت میں یا جو چھوٹی بہن کی حیثیت میں ہمارے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ہماری زیر نگرانی ہیں.ہماری حفاظت میں ہیں ان کی صحت کا ہم خیال رکھیں ان کی جسمانی نشو ونما کا ہم خیال رکھیں کیونکہ ہم خرچ کرنے والے ہیں اور خرچ کی راہ بھی اس میں بتا دی کہ خرچ کرتے وقت فضولیات کی بجائے ضروری چیزوں کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے.اس طرح اسلام ایک صحت مند معاشرہ کی بنیاد رکھتا ہے.اس کے خلاف اس وقت بڑا رجحان ہے بڑی رو پائی جاتی ہے.مغربی تہذیب اخراجات کو ان راستوں سے ہٹا کر جو اسلام نے بتائے ہیں دوسری طرف لے جانا چاہتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم صرف خرچ کی ان راہوں کو اختیار کرو جو ہم نے تمہیں بتائے ہیں اور وہ ضروریات زندگی ہیں اور وہ وہ خرچ ہیں جن کے نتیجہ میں تمہاری اپنی صحتیں قائم رہیں اور ان عورتوں کی صحتیں قائم رہیں جن کا تمہارے ساتھ کوئی رشتہ اور تعلق ایسا ہے جس کی وجہ سے وہ تمہاری زیر نگرانی ہو جاتی ہیں اور ان کی تربیت جسمانی اس رنگ میں ہو کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں.مثلاً قرآن کریم نے اپنا ایک فیملی پلینگ بھی دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم اس فیملی پلینگ کی سکیم پر عمل کرتے جو قرآن کریم نے دنیا کے سامنے رکھی ہے.ہم اس سلسلہ میں بھی غیر قوموں سے بھیک مانگتے ہیں اور ان کے خیالات کو جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں.قرآن کریم کی فیملی پلیٹنگ میں صحت کے لحاظ سے ( یعنی بچہ کی صحت اور ماں کی صحت ہر دو کے لحاظ سے ) یہ حکم دیا ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ دو بچوں کا فاصلہ کم سے کم تیس (۳۰) مہینوں کا ہونا چاہیے اور اگر زیادہ خیال رکھنا ہو یا زیادہ کی ضرورت ہو مثلاً ماں کی صحت اچھی نہ ہو تو قریباً تین سال یا سوا تین سال کا عرصہ بنتا ہے.

Page 331

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۰ راگست ۱۹۶۶ء یہ امرقرآن کریم نے باقاعدہ ایک واضح سکیم کی صورت میں ہمارے سامنے رکھا ہے.اگر اس بات کا خیال رکھا جائے تو جائز فیملی پلینگ بن جاتا ہے.قرآن کریم اس بات کو تو پسند نہیں کرتا کہ انسان خدا کی بجائے دنیا کا رازق بنے کی کوشش کرے اور یہ کہے کہ چونکہ کھانے کو نہیں اس لئے نسل کم ہونی چاہیے لیکن قرآن کریم یہ ضرور کہتا ہے کہ ہم نے معاشرہ کی صحت ،تمہاری صحت اور بچے کی نشو و نما کے لئے کچھ قواعد مقرر فرمائے ہیں ان کو مدنظر رکھو.اس کے نتیجہ میں بھائی بھائی اور بھائی بہن کے درمیان جب تین چار سال کا فاصلہ ہوگا تو بچوں کی تعداد خود بخود ۱/۴ ہو جائے گی جبکہ اس تعلیم پر عمل نہ کرتے ہوئے بہت سے لوگوں کے ہاں ہر سال ایک بچہ ہو جاتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم ہر سال بچے کی اجازت نہیں دیتے کم از کم تیس مہینے کا فاصلہ ہونا چاہیے اور ضرور ہر تین سال یا سوا تین سال کا ہونا چاہیے اور اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے.اگر مثلاً ماں بیمار ہو.اگر بچہ کی صحت ایسی ہے کہ ماں کو اس بچے کی نگہداشت پر زیادہ توجہ اور وقت دینا چاہیے.وہ دو، اگر دو پہلے ہوں تو تین ، اگر تین پہلے ہوں تو چار بچوں کی نگہداشت نہیں کرسکتی.تو زائد بوجھ اس پر نہ ڈالو.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ ہم نے تمہیں ( مردوں کو ) معاشرہ میں کمانے والا حصہ بنایا ہے اور اس وجہ سے کہ تم خرچ کرتے ہونا جائز فائدہ نہ اٹھانا بلکہ یہ یا درکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوّامر بنایا ہے اور قوام کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں تم پر عائد ہوتی ہیں وہ تمہیں نبھانی چاہئیں.قوام کی دوسری شکل (روحانی) یہ بنتی ہے.بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ کہ اللہ تعالیٰ نے مرداور عورت کے رشتہ میں میاں بیوی ہوں ، باپ اور ماں ہوں، یا بھائی اور بہن ہوں ان سب میں مرد کو مؤثر بنایا ہے.یعنی یہ اثر ڈالنے والا ہے اور عورت اثر کو قبول کرنے والی ہے.یہ ایک جزوی فضیلت اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر دی ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک بہت بڑی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں یہ فضیلت دی ہے کہ تم اثر انداز ہوا اور عورت چاہے بیوی ہو.چاہے بیٹی ہو.چاہے ماں ہو تمہارے اثر کو قبول کرتی ہے اور اس کے نتیجہ میں بہت سے ایسے اعمال بجالاتی ہے کہ اگر تمہارا اثر غلط ہو گا تو اس کے وہ اعمال بھی درست نہ ہوں گے.

Page 332

خطبات ناصر جلد دہم ۳۰۸ خطبہ نکاح ۱۰ راگست ۱۹۶۶ء فرمایا:.چونکہ قوام اور مؤثر ہونے کا مقام تمہیں عطا کیا گیا ہے.اس لئے ہم تمہیں کہتے ہیں کہ تم اپنی ذمہ داری کو اسی وقت نبھانے والے ہو گے جب وہ عورتیں جو تمہارے اثر کے نیچے ہیں الصلحت ہوں، قانتات ہوں ، حافظات للغیب ہوں.اگر تمہارے اثر کے نیچے آنے والی عورت صالحہ نہیں.اگر وہ قانتہ نہیں.اگر وہ غیب کی حفاظت کرنے والی نہیں تو اس سے یہ ثابت ہوگا کہ تم پر جو قوام کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی تم نے اسے نبھا یا نہیں اور اس کے لئے تم ہمارے سامنے جواب دہ ہو گے.اس لئے ڈرتے ڈرتے اور بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی زندگی کو گزارو تا اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہو اور اس کی نعمتوں اور اس کے فضلوں اور اس کی برکات کو حاصل کرنے والے ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر کے ان تمام برکات اور نعمتوں کا وارث بنائے جن کا تعلق قرآن کریم کے ساتھ اور اس کی تعلیم کے ساتھ ہے.اس وقت میں دو نکاحوں کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں.ہر دو خاندانوں کا پرانا اور گہرا تعلق ذاتی طور پر بھی میرے ساتھ ہے اور جماعتی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے ان خاندانوں کو قربانیوں اور ایثار کی تو فیق عطا کی ہے جیسے کہ پہلے بھی میں نے کئی بار کہا ہے ( نکاح کے موقعوں پر ) کہ اس کے نتیجہ میں ہم پر پہلی اور آخری ذمہ داری جو عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کرتے رہیں کہ جو نئے نئے رشتے جماعت میں قائم ہورہے ہیں ان کے وہ ثمرات نکلیں جو ثمرات اللہ تعالیٰ اسلام میں ان رشتوں کے نتیجہ میں نکالنا چاہتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق عمل کیا جائے.فرمائی.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کروایا اور رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے دعا روزنامه الفضل ربوه ۲۷ / اگست ۱۹۶۶ صفحه ۳، ۴)

Page 333

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۱ اگست ۱۹۶۶ء خدمت سلسلہ کرنے والے بزرگوں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں خطبہ نکاح فرموده ۱۱ اگست ۱۹۶۶ ء بمقام مسجد مبارک ربوه ۱۱ اگست ۱۹۲۶ء بعد نماز عشاء مسجد مبارک میں سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم و دود احمد صاحب ابن محترم بھائی محمود احمد صاحب سرگودھا کا نکاح عزیزہ رضیہ بیگم صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر محمد الدین صاحب آف وہاڑی کے ساتھ بعوض مبلغ دس ہزار روپیہ مہر پڑھا.اعلان نکاح کے بعد حضور نے فرمایا.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو با برکت فرمائے.محترم بھائی محمود احمد صاحب سلسلہ کے پرانے بزرگ ہیں اور عزیزم مکرم و دود احمد صاحب کے بڑے بھائی مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے خدمت سلسلہ کی بہت توفیق عطا فرمائی ہے اس لئے ان کا ہم سب پر حق ہے جو ہم اس طرح ادا کر سکتے ہیں کہ اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں اور عام طور پر بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا کرے اور زیادہ سے زیادہ خدمت دین کی توفیق عطا فرماتا جائے اور ان کا اور ہم سب کا انجام بخیر کرے.احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو جانبین اور سلسلہ کے لئے مفید اور مثمر ثمرات حسنہ (روز نامه الفضل ربوه ۱۳ اگست ۱۹۶۶ ، صفحه ۱) بنائے.

Page 334

Page 335

خطبات ناصر جلد دہم ۳۱۱ خطبہ نکاح ۱۶ راگست ۱۹۶۶ء قرآن کریم کے بتائے ہوئے راستے پر پوری توجہ اور طاقت کے ساتھ کار بند ہو جاؤ خطبه نکاح فرموده ۱۶ / اگست ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرمہ قیصرہ پروین بنت چوہدری کرامت اللہ صاحب کا نکاح پندرہ ہزار روپیہ حق مہر پر مکرم محمد عمر نصر اللہ صاحب ولد چوہدری نصر اللہ خاں صاحب سے پڑھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں وہ میری ایک عزیز بچی کا ہے جس کے والد کے ساتھ سکول کے زمانہ سے میرے گہرے دوستانہ تعلقات رہے ہیں اور جو دولہا ہیں ان کے نانا صحابی تھے.پھر اس حصہ خاندان کو دنیا نے اپنی طرف کھینچ لیا مگر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور یہ نو جوان امریکہ میں ذاتی تحقیق کے بعد خود احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اس لئے ان کے ساتھ بھی میرے دل میں ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے اس لئے باوجود بیماری کے کہ دو دن سے مجھے پر انفلوئنزا کا شدید حملہ ہے اور گلا جیسا کہ آپ سن رہے ہیں قریباً بند ہے لیکن وعدہ بھی تھا اور خواہش بھی تھی اس لئے میں اس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہو گیا ہوں.میں اپنے عزیز بچوں کو ایک بنیادی نصیحت کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم ایک پڑھی جانے والی کتاب بھی ہے.قرآن کریم ایک ایسی کتاب بھی ہے جس پر ہمیشہ غور ہوتے رہنا چاہیے یا ہوتا رہتا ہے.

Page 336

خطبات ناصر جلد دہم ۳۱۲ خطبہ نکاح ۱۶ راگست ۱۹۶۶ء قرآن کریم ایک سنی جانے والی کتاب بھی ہے اور قرآن کریم ایسی کتاب ہے جو اس لئے نازل ہوئی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور اس کے احکام کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالا جائے.قرآن کریم پڑھی جانے والی کتاب ہے جیسا کہ خود لفظ قرآن کے ایک لغوی معنے ہی یہ ہیں کہ ایسی کتاب جسے بار بار اور کثرت سے پڑھا جائے.اس میں ایک طرف ایک حکم ہے کہ جس امت مسلمہ کے ہاتھ میں یہ کتاب دی گئی ہے اسے اس کتاب کو کثرت سے زیر مطالعہ رکھنا چاہیے.اس میں ایک پیشگوئی بھی تھی کہ امت مسلمہ کے لاکھوں کروڑوں افراد اس کتاب کو بار بار اور کثرت سے پڑھیں گے چنانچہ گزشتہ چودہ سو سال میں کروڑوں آدمی ایسے پیدا ہوئے اور نہیں کہہ سکتے کہ قیامت تک اور کتنے کروڑ ایسے مسلمان پیدا ہوں گے جو قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے اس منشا کے مطابق کثرت سے تلاوت کرنے والے ہوں گے.امت محمدیہ میں ایسے بزرگ بھی گزرے ہیں جو یا تو اپنی عمر کے اس حصہ سے جب انہوں نے اس طرف توجہ کی یا کم از کم رمضان کے مہینے میں ہر تین دن میں قرآن کریم کا دور ختم کر لیتے تھے.پس خدا کے منشا اور اس کی پیشگوئی کے مطابق اس کتاب کو اس کثرت سے پڑھا گیا ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں جس کو اس کثرت سے پڑھا گیا ہو اور اس سے اس کثرت کے ساتھ برکات حاصل کی گئی ہوں.قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس پر ہمیشہ غور ہوتے رہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر بنی نوع انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے مثلاً فرمایا أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ (النساء : ۸۳) کہ وہ کیوں تدبر سے کام نہیں لیتے.ایک جگہ فرمایا کہ یہ کتاب ان لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے جو عقل سے کام لیتے ہیں فکر کرتے ہیں.پھر اس کتاب کو کتاب حکیم قرار دیا ہے یعنی حکمتوں کے نہ ختم ہونے والے خزانے اس کے اندر پائے جاتے ہیں.اس زاویہ نگاہ سے بھی اگر ہم تاریخ قرآن کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس امت میں لاکھوں، کروڑوں انسان ایسے گزر چکے ہیں (اور آئندہ بھی پیدا ہوتے رہیں گے ) جنہوں نے اپنی زندگیوں کو یا تو اس کام کے لئے وقف کر دیا تھا یا اپنے دیگر دنیوی کاموں کے علاوہ انہوں نے خاص طور پر اس بات کو مد نظر رکھا تھا.کہ ہم روزانہ اپنے وقت کا خاصہ حصہ قرآن کریم پر

Page 337

خطبات ناصر جلد دہم ۳۱۳ خطبہ نکاح ۱۶ راگست ۱۹۶۶ء غور کرنے ، فکر اور تدبر کرنے میں خرچ کریں گے تاکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان سے ان علوم کے خزانوں اور معرفت اور حکمت کی باتوں کو ہم حاصل کر سکیں جو قرآن کریم میں کہیں ظاہر اور کہیں باطن طور پر رکھی گئی ہیں.قرآن کریم ایک سنی جانے والی کتاب ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَاَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف: ۲۰۵) کہ جب قرآن کریم پڑھا جائے تو تم غور سے اسے سنا کرو اور خاموشی اختیار کیا کرو شاید کہ تم پر رحمت کے دروازے کھلیں.اس آیت کے ایک تو ظاہری اور موٹے معنی ہیں جو یہ ہیں کہ جس وقت کسی مجلس میں قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہو تو جو لوگ اس مجلس میں بیٹھے ہوں ان کا یہ فرض ہے کہ وہ غور سے قرآن کریم کی طرف متوجہ ہوں اور اسے سنیں اور اپنی باتوں میں مشغول نہ ہوں کہ رحمت کے دروازے اس سے بھی کھلتے ہیں.لیکن اس کے ایک دوسرے معنے بھی ہیں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا چونکہ قرآن کریم کے غیر محدود خزا نے سارے ایک وقت میں بنی نوع انسان پر ظاہر نہیں کر دیئے جائیں گے بلکہ اس کے علوم اور معارف اور حکمتیں ہر زمانہ میں ، زمانہ کی ضرورت کے مطابق اور انسان کی استعداد کے مطابق دنیا پر ظاہر کئے جائیں گے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت تک کے لئے جو یہ کامل اور مکمل کتاب (قرآن) تمہارے ہاتھ میں دی گئی ہے.جب کبھی اللہ تعالیٰ کوئی ایسا شخص پیدا کرے جس کو وہ اپنے فضل اور احسان کے ساتھ علوم قرآنی سکھائے اور اسے کہے کہ تم یہ علوم دنیا کے سامنے پیش کرو تو اس وقت تمہارا یہ فرض ہے کہ اس کی باتوں کی طرف اور اس کی بتائی ہوئی تفسیر کی طرف کان دھرو اور اس کے مقابلہ میں اپنی ذوقی تفسیروں کو بھلا دو اور اس سلسلہ میں خاموشی اختیار کرو.کیونکہ ایک تو وہ ہے جو خدا تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے اور بنی نوع انسان تک پہنچاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں وہ ہیں جو اپنی کوشش سے بعض باتیں استدلالی رنگ میں اور ذوقی رنگ میں قرآن کریم سے حاصل کرتے ہیں.جب ان دو قسم کی تفاسیر کا آپس میں مقابلہ ہو تو امت مسلمہ کا یہ فرض قرار دیا گیا ہے کہ جہاں تک ان کی ذوقی تفسیر کا تعلق ہے وہ خاموشی کو اختیار کریں.انصتوا الخ فرماتا ہے کہ اگر تم

Page 338

خطبات ناصر جلد دہم ۳۱۴ خطبہ نکاح ۱۶ اگست ۱۹۶۶ء خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تفسیر کو سنو گے اور ان علوم سے حصہ وافر لینے کی کوشش کرو گے جو اس زمانہ کا امام خدا تعالیٰ سے حاصل کر کے تم تک پہنچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا کہ رحمتوں کے وہ دروازے جو اس زمانہ کے مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کھولنا چاہتا ہے.وہ دروازے تمہارے لئے بھی کھولے جائیں گے اور تم اس کی رحمتوں سے حصہ لینے والے ہو گے.چوتھی چیز اس تسلسل میں یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس پر عمل ہونا چاہیے.خالی آواز کا سن لینا اور اس کا چسکہ حاصل کر لینا قرآن کریم کی غرض نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے بلکہ یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے کہ انسان وہ اعمال بجالائے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صالحہ ہوں.اس وقت دنیا کے سارے اموال، ساری وجاہتیں اور اثر و رسوخ اور دنیا کی ساری تہذیبیں اور دنیا کی تمام رسوم اور عادات اور خواہشات اکٹھی ہو کر اس کوشش میں ہیں کہ وہ کسی کو بھی اسلام کے بتائے ہوئے راستہ پر ٹھہرانہ رہنے دیں ایک عظیم کشمکش ہے جو ایک طرف بہت بڑی طاقتوں اور دوسری طرف ایک چھوٹی سی جماعت میں جاری ہے.ظاہری سامانوں کو دیکھتے ہوئے.ظاہری حالات کے پیش نظر تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم یہ دعوی کر سکیں کہ یہ چھوٹی سی جماعت سب دنیوی طاقتوں اور دنیا کے دجل اور دنیا کے اقتدار اور دنیا کے اموال کے مقابلہ میں کامیاب ہو جائے گی لیکن خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ جو کہتا ہے ہو کر رہتا ہے اور اس نے یہی کہا ہے کہ اس عظیم کشمکش یا اس عظیم جنگ میں جو دجل اور حقانیت اور صداقت کے درمیان لڑی جارہی ہے.یہ چھوٹی سی جماعت ہی کامیاب ہوگی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدے کئے ہیں اپنے وقت پر پورے ہوں گے اور وہ وقت کوئی زیادہ دور نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ آج کل جو نکاحوں کے رشتے قائم کئے جار ہے ہیں ان سے جو نسل چلے گی وہ ابھی ادھیڑ عمر تک نہ پہنچی ہوگی کہ وہ یہ نظارہ دیکھے گی کہ بظا ہر ساری دنیا کی طاقتیں جس چھوٹی سی طاقت کو مٹانے کے درپے تھیں وہ طاقتیں خود تباہ ہوگئیں اور یہ چھوٹی سی نظر آنے والی طاقت ساری دنیا کی طاقتوں پر غالب آگئی.اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے سامنے دو راستے ہی ہیں جن میں سے ایک کو ہم اختیار کر سکتے ہیں.

Page 339

خطبات ناصر جلد دہم ۳۱۵ خطبہ نکاح ۱۶ اگست ۱۹۶۶ء ایک تو یہ کہ ہم پورے طور پر قرآن مجید کے سامنے نہ جھکیں اور اپنی زندگیوں کو قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق نہ ڈھالیں اور اپنے نفسوں اور اپنی روحوں کو قر آنی نور سے منور نہ کریں بلکہ ایک حد تک تو ہم قرآن کریم کی طرف مائل ہوں اور ایک حد تک دنیا سے اثر لینے والے ہوں.دوسرے یہ کہ ہم کلی طور پر قرآن کریم کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھیں اور دنیا کے ہرا ثر کو ہر طاقت کو اور ہر لالچ کو ٹھکرا کر پرے پھینک دیں.اگر ہم پہلا راستہ اختیار کریں تو وہ وقت دور نہیں جب ہمیں پچھتانا پڑے گا.یہ سوچ کر کہ بہت سے وہ پیدا ہوئے جو بعد میں آئے اور آگے نکل گئے ہم جو استاد بن سکتے تھے آئندہ نسلوں کے استاد نہ بنے اور وہ جو بعد میں پیدا ہوئے.دنیا کی قیادت اور دنیا کی ہدایت اور دنیا کو علم سکھانے کا کام ان کے سپرد ہوا اور ہم موقع پانے کے باوجود فائدہ نہ اٹھا سکے اور استاد بننے کا امکان رکھتے ہوئے شاگر دہی رہے.اگر ہم دوسرا راستہ اختیار کریں اور قرآن کریم کے بتائے ہوئے سیدھے راستے (صراط مستقیم ) پر پوری توجہ پوری ہمت اور پوری طاقت کے ساتھ چلیں اور کسی شیطانی آواز کی طرف دھیان نہ دیں تو خدا تعالیٰ ہمیں آئندہ نسلوں کا استاد اور رہبر بنائے گا.میری یہ خواہش بھی ہے.میرے عزیز بچو! اور میری یہ دعا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو ہادی ، رہبر اور استاد بننے کی توفیق عطا کرے اور آپ کے دل میں وہ حسرتیں پیدا نہ ہوں جو موقع کھو جانے کے بعد انسان کے دل میں پیدا ہوا کرتی ہیں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کروایا اور رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے لمبی دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۸ اگست ۱۹۶۶ء صفحه ۳، ۴)

Page 340

Page 341

خطبات ناصر جلد دہم ۳۱۷ خطبہ نکاح ۱۷ اگست ۱۹۶۶ء جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلامی اخوت اور بین الاقوامی برادری کا احیا ہو رہا ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۷ اگست ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر حنیفہ نیلوفر صاحبہ بنت محترم خلیفہ علیم الدین صاحب مرحوم کے نکاح کا جو مکرم رفیق چانن صاحب (سوس نومسلم ) کے ساتھ بعوض مبلغ دس ہزار روپیہ مہر قرار پایا ہے اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوں وہ عزیزہ حنیفہ نیلوفر کا ہے جو میرے ماموں خلیفہ علیم الدین صاحب مرحوم کی صاحبزادی ہیں ان کا نکاح ہمارے غیر ملکی احمدی بھائی مسٹر رفیق چانن صاحب کے ساتھ دس ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے مسٹر رفیق چانن صاحب سوئٹزر لینڈ کے رہنے والے ہیں.ان کے والد کا نام مسٹر جان چانن ہے.آپ اس وقت مرالہ ضلع سیالکوٹ میں کام کرتے ہیں.اسلام نے انسان انسان کے درمیان ہر قسم کی تفریق اور امتیاز کو مٹا کر تمام بنی نوع انسان کو ایک مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور ایک بین الاقوامی برادری قائم کی ہے.اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ہی اس پر ہر طرف سے حملہ کیا گیا اور اسے مٹانے کے لئے

Page 342

خطبات ناصر جلد دہم ۳۱۸ خطبہ نکاح ۱۷ اگست ۱۹۶۶ء طاقت کے استعمال کو جائز اور ضروری سمجھا گیا.اس وقت اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ معجزہ دکھایا تھا کہ اس تلوار کو جو اسلام کے خلاف نیام سے نکالی گئی تھی تلوار ہی کے ذریعہ توڑ دیا گیا.اسے بے اثر کر دیا گیا اور دشمن اپنے ارادہ میں ناکام و نامراد ہوا.اس وقت کی دنیا میں اسلام نے ایک بین الاقوامی برادری قائم کی.اس وقت بڑی کثرت سے ایک ملک کے رہنے والوں کے رشتے دوسرے ملک کے رہنے والوں سے ہوتے تھے اور یہ نہیں ہوتا تھا کہ ملک عرب کا رہنے والا مرد عرب کی لڑکی سے ہی شادی کرے اور مصر کا رہنے والا مصری لڑکی سے ہی ازدواج کا تعلق قائم کرے.بلکہ اسلام نے مختلف نسلوں کو باہم ملا دیا اور اس طرح ثابت کردیا کہ انسان انسان اور ملک ملک میں جو فرق پایا جاتا ہے.رنگوں اور نسلوں میں جو فرق پایا جاتا ہے اس کی اور ان دوسرے امتیازوں کی جو اسلام سے پہلے دنیا میں موجود تھے کوئی حیثیت نہیں.انسان جہاں بھی ہو انسان ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور اسلامی شریعت اور برادری میں کسی انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے دوسرے انسان پر کوئی امتیاز حاصل نہیں لیکن دنیا نے اس تعلیم کا کامل نمونہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں دیکھنا تھا جس کی اب ابتدا ہوئی ہے اور جماعت احمدیہ کے ذریعے ذاتی جذبات کے نتیجہ میں نہیں.محض اخوت اور اسلامی برادری کی وجہ سے ایک ملک کے رشتے دوسرے ملک میں ہونے لگے ہیں.ویسے تو دنیا میں ہزاروں لاکھوں رشتے ایسے ہوتے ہیں جو ایک ملک کے دوسرے ملک میں ہوتے ہیں مگر ان رشتوں کے پیچھے محض ذاتی جذبات ہوتے ہیں اس لئے وہ مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں ہوتے.ہمارے اس عزیز (رفیق چانن صاحب) کا رشتہ بھی انگلستان میں ہوا تھا لیکن وہ رشتہ محض جذبات کے نتیجہ میں قائم ہوا تھا اس لئے وہ مضبوط بنیاد پر قائم نہیں تھا کیونکہ جذبات عارضی چیزیں ہیں جب وہ تبدیل ہو گئے تو وہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا.اب ان کا دوسرا رشتہ پاکستان میں ہو رہا ہے جو محض ذاتی جذبات کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اسلامی برادری کے تعلق اور اس کے پیچھے کام کرنے والی روح کے نتیجہ میں ہو رہا ہے.ایک طرف جہاں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی تعلیم کا یہ حصہ بھی عملی شکل میں ظاہر ہورہا ہے.

Page 343

خطبات ناصر جلد دہم ۳۱۹ خطبہ نکاح ۱۷ اگست ۱۹۶۶ء وہاں یہ بات بھی ہے کہ یہ رشتہ اور اس قسم کے دوسرے رشتے سابقون اور پانیرز (Pioneers) کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے جن دو خاندانوں اور جن دو افراد کے درمیان یہ رشتہ قائم ہوا ہے ان پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ میں جو محض جذبات کی بناء پر قائم نہیں ہوا بلکہ اسلام کی بناء پر قائم ہوا ہے برکت ڈالے اور اسے کامیاب کرے تا ہمارے ان عزیزوں کو جہاں دنیا کی راحتیں ملیں وہاں کئی قسم کے ثواب بھی انہیں نصیب ہوں.اس کے بعد حضور نے ایجاب و قبول کرایا اور رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوه ۳۰ /اگست ۱۹۶۶ء صفحه ۳)

Page 344

Page 345

خطبات ناصر جلد دہم ۳۲۱ خطبہ نکاح ۲۹ /اکتوبر ۱۹۶۶ء ہر دو کو نئے حالات کے مطابق اپنی پرانی عادتیں اور پرانے خیالات بدلنے پڑتے ہیں خطبہ نکاح فرموده ۲۹/اکتوبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نکاح کے ذریعہ جو رشتے قائم ہوتے ہیں ان کے نتیجہ میں بہت سی ذمہ داریاں ہر دولڑ کے اور لڑکی پر عائد ہو جاتی ہیں.ان میں سے پہلی ذمہ داری جو بہت ہی اہم اور ضروری ہے یہ ہے کہ ہر دو کو نئے حالات کے مطابق اپنی پرانی عادتیں اور پرانے خیالات بدلنے پڑتے ہیں.کچھ باتیں لڑکے کو چھوڑنی پڑتی ہیں اور کچھ لڑکی کو قربانی کرنی پڑتی ہے اور ہر دو کوشش کرتے ہیں کہ ان کی طبیعتیں ، ان کی عادتیں ، ان کے سوچنے کے طریق، ان کے رہنے سہنے کے طریق جہاں تک ہو سکے ایک جیسے ہو جائیں.پھر سسرال کی ذمہ داریاں ہیں.پھر یہ ذمہ داری ہے کہ ان ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے میکے کی ذمہ داریاں نظر انداز نہ ہوں.پھر بچوں کی ذمہ داری ہے جو پہلے دن سے ہی عائد ہو جاتی ہے.بچہ کی پیدائش سے قبل بہت سی ذمہ داریاں آجاتی ہیں مثلاً دعائیں کرنے کی ، خیالات کو صاف رکھنے کی اور ارادوں کو پاک رکھنے کی.بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا یہ حق قرار دیا ہے کہ وہ کم از کم ۲۱ ماہ تک ماں کے دودھ کا مطالبہ کر سکتا

Page 346

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۶ء ہے.اگر چہ بچہ بولتا نہیں لیکن اس کا یہ حق قائم کیا گیا ہے اور معاشرہ اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ اُسے یہ حق دلائیں.سوائے استثنائی حالات کے کہ بعض دفعہ دودھ پلانے کی وجہ سے ماں کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے یا کوئی اور وجہ ہو جاتی ہے.مثلاً ماں کو دودھ ہی نہیں آتا اس قسم کی مجبور یاں استثنائی ہوتی ہیں.پھر بچہ کی جسمانی پرورش اور دوسرے حقوق کی نگہداشت ان کی ذمہ داری ہے.اس کی اخلاقی تربیت کی طرف انہیں توجہ کرنی پڑتی ہے اور روحانی تربیت کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے.غرض بہت سی ذمہ داریاں ہیں جو نکاح کے ذریعہ پیدا ہوتی ہیں اور یہ اتنی سخت قسم کی ذمہ داریاں ہیں کہ یورپ، امریکہ اور افریقہ کے رہنے والے جو اسلام کو مانتے نہیں یا اب اسے سمجھتے نہیں انہیں دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں.لاکھوں انسان یوروپ میں ایسے ہیں جو بے نکاحی زندگی گزار رہے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے آپ کو ان بکھیڑوں میں کیوں ڈالیں.اور بعض ان میں سے جو شادی کرتے ہیں.وہ عمر کے اس حصہ میں کرتے ہیں جب اکثر ذمہ داریاں اس نکاح کے نتیجہ میں ان پر عائد ہی نہیں ہوتیں.مثلاً اگر وہ ۷۰ یا ۸۰ سال کو پہنچ جائیں تو نکاح کر لیتے ہیں.اس عمر میں بچے کی پیدائش کا تو سوال ہی نہیں ہوتا اور میکے اور سسرال کی ذمہ داریاں کا سوال بھی شاید پیدا نہ ہو کیونکہ اکثر دونوں کے ماں باپ فوت ہو چکے ہوتے ہیں.صرف اتنی ذمہ داری باقی رہ جاتی ہیں کہ ایک دوسرے کو خوش کس طرح رکھ سکتے ہیں.اس لئے کہ ان کے مذہب نے یا اگر وہ لا مذہب ہیں یا بد مذہب ہیں تو ان کے خیالات نے یہ ضروری قرار نہیں دیا کہ شادی کریں لیکن ان تمام ذمہ داریوں کے باوجود اور باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ یہ حکم بھی دیا ہے کہ اگر تم ان میں سے کوئی ذمہ داری ادا نہیں کرو گے تو اس کی ناراضگی کومول لے رہے ہو گے.اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ اس قسم کے تعلق کو ضرور قائم کرنا چاہیے.رہبانیت اختیار نہیں کرنی چاہیے.ان حالات میں اور اس حکم کے نتیجہ میں ہمیں بہت سے سبق ملتے ہیں اور بہت سے نتائج ہیں جو ہم ان سے اخذ کرتے ہیں.مثلاً ہم ایک نتیجہ ان سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ یہ حکم دیتا ہے کہ جو ذمہ داری تم پر عائد ہو وہ کسی رنگ کی بھی ہو.اس سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے.وہ

Page 347

خطبات ناصر جلد دہم ۳۲۳ خطبہ نکاح ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۶ء ذمہ داری تم نے بہر حال اٹھانی ہے.اور نیک نیتی سے اس کے اٹھا لینے کی کوشش کرنی ہے.اسلام یہ ذہنیت پیدا کرتا ہے کہ مختلف حالات میں مختلف اوقات میں اور مختلف جہات سے انسان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں یا عائد ہونی چاہئیں انہیں خوشی سے قبول کیا کرو.دعا سے اور تدبیر سے انہیں نبھانے کی کوشش کیا کرو، اس طرح اگر ان ذمہ داریوں کو نہ نبھایا جائے ، اس میں سستی دکھائی جائے ،غفلت ہوتی جائے اور لا پرواہی کی جائے تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے.ذمہ داری خواہ کتنی بڑی ہوا سے بشاشت سے قبول کرنا ہے اور تن دہی سے ادا کرنا ہے.جو شخص ایسا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضلوں کا وارث کرتا ہے.یہ ذمہ داریاں بہت سی ہیں لیکن بے شمار نہیں کیونکہ ان کا شمار کیا جاسکتا ہے اور پھر ان میں سے بعض بعض دوسری ذمہ داریوں کے مقابلہ میں غیر اہم بن جاتی ہیں.مثلاً وہ ذمہ داریاں جن سے انسانی زندگی کا تعلق ہے ان میں سے وہ ذمہ داریاں جو خدا تعالیٰ کے تعلق میں ہیں.ان ذمہ داریوں سے اہم ہیں اور بنیادی ہیں.جو ہمارے آپس کے تعلقات کے سلسلہ میں ہم پر عائد ہوتی ہیں.ان تعلقات کے نتیجہ میں ایک طرف جہاں انسان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہاں دوسری طرف اس کے ساتھ رحمت اور برکت اور نعمت بھی لگی ہوئی ہے.اگر تم ان ذمہ داریوں کو ادا کرو گے تو تم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث ہوتے جاؤ گے.اللہ تعالیٰ نئے رشتے قائم کرنے والوں کو بھی اور ہم کو بھی توفیق عطا کرے کہ ہم ہر ذمہ داری کو اٹھانے کے لئے تیار ہوں.اس سے منہ نہ موڑیں.اور جب تک اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے اسے اس رنگ میں نبھا سکیں کہ وہ ہم سے ناراض نہ ہو.اور جب وہ ہم پر خوش ہو تو صرف ہمارے فعل کا ہی ہمیں نتیجہ نہ ملا ہو بلکہ وہ اپنی طرف سے بہت کچھ اپنا فضل اور رحمت بھی زائد کر دے تا اس کے فضلوں کے ہم زیادہ سے زیادہ وارث بن سکیں.ان نکاحوں میں سے سب سے پہلے میں جس نکاح کا اعلان کروں گا اس کا ہمارے ایک درویش بھائی کے ساتھ تعلق ہے درویشوں کے ہم پر بڑے حقوق ہیں اور ہمیں ان حقوق کو دعاؤں کے ذریعہ ادا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے.اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ

Page 348

خطبات ناصر جلد دہم ۳۲۴ خطبہ نکاح ۲۹ /اکتوبر ۱۹۶۶ء ہم ان کے حقوق ادا کر سکیں.اللہ تعالیٰ بہتر سامان پیدا کرے.یہ نکاح خواجہ عبد الستار صاحب درویش قادیان) کی لڑکی بشری بیگم کا ہے جو خواجہ جمیل احمد صاحب پسر خواجہ عبدالحمید صاحب کارکن نظارت امور عامہ ربوہ کے ہمراہ مبلغ ایک ہزار مہر پر قرار پایا ہے.دوسرا نکاح عزیزه قانتہ شاہدہ بنت قاضی محمد رشید صاحب مرحوم کا ہے جو کرم عطاء المجیب صاحب را شد ایم.اے سے جو مولانا ابوالعطاء صاحب کے فرزند ہیں ایک ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.عزیزہ قانتہ شاہدہ نے ایم.اے کا متحان دیا ہوا ہے اور بہت ہوشیار طالبہ علم ہے.امید ہے کہ وہ اس امتحان میں اچھے نمبروں پہ کامیاب ہو جائے اور شاید یونیورسٹی میں فرسٹ آجائے.اللہ تعالیٰ اسے تعصب کے شر سے محفوظ رکھے.ه ان تیسرا نکاح عزیزہ امتہ الحمید بنت مکرم فتح دین صاحب چیف انسپکٹر بیت المال کا ہے جو نعیم الرحمان صاحب طارق پسر مکرم مولوی عبد الرحمان صاحب انور سے دو ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.مکرم فتح دین صاحب اس وقت وقف عارضی کے سلسلہ میں ربوہ سے باہر ہیں انہوں نے اپنی طرف سے اور عزیزہ امتہ الحمید کی طرف سے مکرم محمد احمد صاحب بھٹی کو وکیل مقر ر کیا ہے نعیم الرحمان صاحب طارق بھی اس وقت موجود نہیں انہوں نے اپنے والد مولوی عبد الرحمان صاحب کو اپنی طرف سے وکیل مقر ر کیا ہے.چوتھا نکاح بشری شاہین صاحبہ بنت چوہدری عبد اللطیف صاحب آف ملتان کا ہے جو شیخ لطیف احمد صاحب پسر شیخ احمد علی صاحب ریٹائر ڈ اسٹیشن ماسٹر حال راولپنڈی سے دس ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.پانچواں نکاح عزیزہ صفیہ لطیف بنت چوہدری عبد اللطیف آف ملتان کا ہے جو منور احمد صاحب سعید ایم اے پسر مکرم میاں روشن دین صاحب زرگر سے پندرہ ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے منور احمد صاحب سعید امریکہ میں ہیں انہوں نے اپنے والد مکرم میاں روشن دین صاحب زرگر کو اپنی طرف سے وکیل مقر ر کیا ہے.چھٹا نکاح سیدہ رشیدہ کشور صاحبہ بنت سید عبدالرشید صاحب آف کوئٹہ کا ہے جو مکرم بشیر احمد صاحب

Page 349

خطبات ناصر جلد دہم ۳۲۵ خطبہ نکاح ۲۹ /اکتوبر ۱۹۶۶ء پسر حکیم محمد اسماعیل صاحب آف ملتان سے چار ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.حضور نے علیحدہ علیحدہ ایجاب وقبول کرانے کے بعد فرمایا.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو بھی اور ان رشتوں کو بھی جو آئندہ ہوں بابرکت کرے.اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 350

Page 351

خطبات ناصر جلد دہم ۳۲۷ خطبہ نکاح ۳۰/اکتوبر ۱۹۶۶ء اُخروی زندگی کی خوشیاں ہی حقیقی خوشیاں ہیں خطبه نکاح فرموده ۳۰ /اکتوبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر محترمہ منصورہ بیگم صاحبہ بنت محترم مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ سابق صوبہ پنجاب کا نکاح ہمراہ مکرم چوہدری سمیع اللہ صاحب پسر محترم چوہدری حاکم علی صاحب چک نمبر ۹ پنیا ضلع سرگودہا بعوض آٹھ ہزار روپیہ مہر پڑھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جسم تو تھکا ہوا بھی ہے اور ٹوٹا ہوا بھی لیکن رُوح بڑی خوشی محسوس کر رہی ہے کہ اس وقت ایک ایسی عزیزہ کے نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوں جس کے والد نے محض خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر خدمت اسلام اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تو فیق حاصل کی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خود اپنی مغفرت اور رحمت کے نتیجہ میں ہر رنگ میں بہتر سے بہتر جزا محترمی و مخدومی مرزا عبد الحق صاحب کو اپنی طرف سے دے.نیز اس رنگ میں بھی جزا دے کہ ان کی اولاد میں بھی وہ جذبہ خدمت اور وہ جذبہ فدائیت جوان بچوں کے والد مخدومی مرزا عبدالحق صاحب سے مختلف وقتوں میں اسلام اور احمدیت کے لئے ظاہر ہوتا رہا ہے، موجزن رہے اور اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسے فدائی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق اور سلسلہ عالیہ احمد یہ

Page 352

خطبات ناصر جلد دہم ۳۲۸ خطبہ نکاح ۳۰/اکتوبر ۱۹۶۶ء کے خادم اور بے نفسی سے خدمت کرنے والے وجود پیدا کرتار ہے اور ہمیشہ ہی اس خاندان پر اپنے فضل اس رنگ میں فرماتا رہے کہ وہ دنیا میں بھی ایک نمونہ بنیں اور اُخروی زندگی میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے خوشیوں کے دن دیکھیں کہ وہاں کی خوشیاں ہی حقیقی خوشیاں ہیں.ایجاب وقبول کرانے کے بعد فرمایا:.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو ہر قسم کی برکتوں سے نوازے.اس کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.谢谢谢 روزنامه الفضل ربو ه۱۹/ نومبر ۱۹۶۶ء صفحه ۳)

Page 353

خطبات ناصر جلد دہم ۳۲۹ خطبہ نکاح ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا خطبہ نکاح فرموده ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب محترمہ صاحبزادی امتہ المجیب صاحبہ بنت مکرم صاحبزاده مرزا حمید احمد صاحب کے نکاح ہمراہ مکرم مصطفی احمد خاں صاحب ابن حضرت نواب عبداللہ خاں مرحوم بعوض پندرہ ہزار روپیہ مہر کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں وہ عزیزہ امتہ المجیب صاحبہ کا ہے جو مکرم صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب کی صاحبزادی ہیں ان کا نکاح عزیزم مکرم مصطفی احمد خاں صاحب سے قرار پایا ہے.جو ہمارے پھوپھا محترم نواب عبداللہ خاں صاحب مرحوم اور ہماری پھوپھی حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے صاحبزادے ہیں اور یہ نکاح پندرہ ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لئے بہت سی دعائیں کی ہیں.ان دعاؤں میں سے بعض کا ہمیں ان دونوں آمین سے پتہ لگتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بچوں کے قرآن کے ختم کرنے پر بطور نظم لکھی ہیں.ان کے علاوہ بعض دوسری جگہوں پر بھی

Page 354

خطبات ناصر جلد دہم ۳۳۰ خطبہ نکاح ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی اولاد کے متعلق دعاؤں کا ہمیں پتہ لگتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی تھی.کہ آپ کی پہلی نسل جسے آپ نے ”پنج تن اور نسل سیدہ کا نام بھی دیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی ان ذمہ داریوں کو سمجھے گی.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ان پر عائد ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق عطا فرمائے گا کہ وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھائیں گی.اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ پاک اور مطھر قرار دی جائیگی.دوسری نسل میں سے بعض کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے الہاموں میں یہ خوشخبری دی ہے کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے عطر سے ممسوح کی جائیگی لیکن یہ کہ دوسری نسل میں پیدا ہونے والی ساری کی ساری اولاد کے متعلق اس قسم کی خوشخبری ہو.میرے علم میں نہیں اور غالباً اس قسم کی خوشخبری نہیں پائی جاتی.تیسری نسل بھی میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام میں مخاطب ہے کہ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهْرَكُمْ تَطْهِيرًا - یعنی اللہ تعالیٰ نے یہی ارادہ کیا ہے کہ وہ اے اہل بیت تم سے ناپاکی کو دور کرے.اور تم کو پاک کرے اور مطھر بنائے یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تین بار ہوا ہے پہلی دفعہ یہ الہام آپ کو ۲۲ جنوری ۱۹۰۷ء کو ہوا دوسری بار ۲ / مارچ ۱۹۰۷ء کو ہوا اور تیسری بار ۱۳ / مارچ ۱۹۰۷ ء کو ہوا.اس کے بعد میں نے تذکرہ میں تلاش کیا ہے ان لفاظ میں چوتھی بار یہ الہام مجھے نظر نہیں آیا.تیسری بارجو یہ الہام ہوا اس کے نیچے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی قلم سے یہ تحریر فرمایا ہے.یہ تیسری مرتبہ الہام ہے.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالضَّوَابِ یہ الفاظ پڑھ کر میری توجہ اس طرف پھری ہے کہ تین بار جو الہام ہوا ہے اس میں

Page 355

خطبات ناصر جلد دہم ۳۳۱ خطبہ نکاح ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تین نسلوں کو مخاطب کیا گیا ہے چنا نچہ پہلی بار جب یہ الہام ۲۲ جنوری ۱۹۰۷ء کو ہوا تو اس کے الفاظ جو میں نے ابھی پڑھے ہیں یہ ہیں.إنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ان الفاظ کے ساتھ کوئی الہامی تشریح نہیں پائی جاتی.جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی پہلی نسل جو اس الہام کی مخاطب ہے اسے اللہ تعالیٰ اس الہام کا مطلب خود سمجھائے گا اور اس الہام کے نتیجہ میں جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں اور جن امتحانوں اور جن قربانیوں میں سے انہیں گزرنا پڑے گا.اللہ تعالیٰ انہیں ان کا علم دے گا اور انہیں ایسی عقل اور فراست دے گا اور ایسی ہمت جرات اور اولوالعزمی عطا کرے گا کہ وہ ان ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھا سکیں گے.دوسری بار یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ۲ مارچ ۱۹۰۷ء کو ہوا تو حضور نے اس کے متعلق تو یہ فرمایا.دو تفہیم یہ ہوئی کہ اے اہل خانہ خدا تمہارا امتحان کرنا چاہتا ہے تا معلوم ہو کہ اس کے ارادوں پر ایمان رکھتے ہو یا نہیں اور تاوہ اے اہل بیت تمہیں پاک کرے جیسا کہ حق ہے پاک کرنے کا “ گویا یہاں اس الہام کا یہ مفہوم بتایا گیا کہ تمہیں جب یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری نا پا کی اور تمہاری گندگی کو دور کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اس کی خاطر بہت سی قربانیاں دینی پڑیں گی.تمہیں بہت سی قربانیوں کے امتحانوں اور ابتلاؤں میں سے گزرنا پڑے گا اور تمہیں ان امتحانوں کو بشاشت کے ساتھ قبول کرنا پڑے گا.جس سے یہ معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا جو ارادہ تمہیں آزمانے اور تمہیں آزمائش میں ڈالنے اور تمہارا امتحان لینے کا تھا اس کو تم سمجھتے ہو اور اس کے مطابق تم اپنی زندگی گزارنے کے لئے تیار ہو.اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ خوشخبری دی ہے.اے اہل بیت کہ وہ تم کو پاک کرے گا جیسا کہ حق ہے پاک کرنے کا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس تاریخ کو اس الہام کی تشریح میں کچھ اور

Page 356

خطبات ناصر جلد دہم ۳۳۲ خطبہ نکاح ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء الہامات بھی ہوئے جن میں سے ایک الہام یہ ہے کہ ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر“ اس میں یہ اشارہ تھا کہ الہام إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا کے ایک سے زیادہ بار ہونے کی وجہ سے الجھنے کی ضرورت نہیں جس امتحان میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دوسری نسل کو گزرنا پڑے گا وہ امتحان حالات کے بدل جانے کی وجہ سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بُعد زمانہ کی وجہ سے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تربیت یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے پہلی نسل کے مقابلہ میں ان کے احساس کے لحاظ سے بھاری ہوگا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اگر تم اپنی تطھیر چاہتے ہو.اگر تم چاہتے ہو کہ تم اللہ تعالیٰ کی نظر میں پاک قرار دیئے جاؤ اور گندگی اور گندگی کے سرچشمہ شیطان کی طرف منسوب نہ کئے جاؤ تو تمہیں اس قربانی کے امتحان کو قبول کرنا پڑے گا.پھر اللہ تعالیٰ نے اس الہام کی مزید تشریح فرماتے ہوئے الہام فرمایا.يايُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ - اس الہام کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں کہ اس میں تفہیم یہ ہوئی کہ اے اہل بیت کسی دوسرے کو تکیہ گاہ مت بناؤ وہی خدا تیرا متکفل اور رازق ہے جس نے تجھے پیدا کیا“ اس الہام میں اہل بیت کو اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ اگر تم رجس سے پاک اور مطھر ہونا چاہتے ہوتو تو حید خالص کے مقام کو مضبوطی سے پکڑنا اور خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور ذات کو تکیہ گاہ نہ بنانا اور یقین کامل رکھنا کہ وہی خدا تمہارا متکفل اور رازق ہے جس نے تمہیں پیدا کیا دنیا کے لحاظ سے بھی تمہیں خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے.اس الہام کے ساتھ ہی اور اسی روز ایک اور الہام ہوا کہ يا يُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ اللهَ خَلَقَكُم - یعنی اے اہل بیت خدا سے ڈرو اس کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام

Page 357

خطبات ناصر جلد دہم ۳۳۳ خطبہ نکاح ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء نہ کرو اور نہ کوئی بات منہ سے نکالو وہی خدا ہے جس نے تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں پیدا کیا ہے.یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دوسری نسل کے سامنے ان ذمہ داریوں کو واضح کیا ہے جو الہام إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ يطهركم تطھیرا کے نتیجہ میں ان پر پڑنے والی تھیں اور وہ یہ کہ نہ دین کے معاملہ میں کسی غیر اللہ کی طرف جھکو اور نہ دنیا کے معاملہ میں غیر اللہ کو تکیہ گاہ اور قابل بھروسہ سمجھو.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دوسری نسل کے متعلق اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے الفاظ میں دعا بھی کی ہے.حضور فرماتے ہیں.اور پھر میری طرف سے بطور حکایت الہام ہوا.اے میرے اہل بیت خدا تمہیں شر سے محفوظ رکھے.“ یعنی زبان کے شر سے بھی جو خدا تعالیٰ کو ناراض کر دیتا ہے اور عمل کے شر سے بھی جو خدا تعالیٰ سے دور لے جاتا ہے.غرض چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دوسری نسل ان ذمہ داریوں کو جو آپ کے الہام إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا کے نتیجہ میں عائد ہونے والی تھیں اپنے طور پر نہیں سمجھ سکتی تھی.اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود ان کی تربیت نہیں کرنی تھی.بلکہ بعد میں آنے والوں نے ان کی تربیت کرنی تھی.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس الہام کے صحیح مفہوم اور تشریح کو وضاحت سے بیان کر دیا.اس الہام کا یہ مطلب نہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ اس نے تمہیں رجس اور گندگی اور ناپاکی سے پاک کرنا ہے اس لئے اب تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے دوسرے اور تیسرے الہام میں جس رجس سے پاکیزگی اور تطھیر کا وعدہ یا وعدے ان لوگوں سے کئے گئے ہیں وہ ان پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد کرتے ہیں اور انہیں قربانی کے عظیم امتحانوں میں سے گزرنا پڑے گا.اگر وہ ان امتحانوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ

Page 358

خطبات ناصر جلد دہم ۳۳۴ خطبہ نکاح ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء ان پر ایسا فضل کرے گا کہ وہ رجس اور گندگی سے پاک ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اس کے مقرب بن جائیں گے.غرض جب دوسری بار یہ الہام ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ہی ان ذمہ داریوں کو بھی کھول کر بیان کر دیا جو اس کے نتیجہ میں پڑنے والی تھیں اور جب تیسری بار یہ الہام ہوا تو چونکہ پہلے یہ سب باتیں بیان کر دی گئی تھیں اس لئے اس الہام کی تشریح میں اس دن یا اس سے اگلے دن کوئی اور الہام نہیں ہوا.صرف اتنا الہام ہی ہوا جو اہل بیت سے تعلق رکھنے والا تھا اور جو یہ ہے اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا ہے کہ یہ تیسری مرتبہ الہام ہے.وَاللهُ اَعْلَمُ بِالضَّوَابِ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس الہام کو پڑھنے کے بعد میری توجہ اس طرف پھری کہ یہ الہام تین بار کر کے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تین نسلوں کو جو یکے بعد دیگرے پیدا ہونے والی تھیں مخاطب کیا ہے پہلی بار الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی نسل کو مخاطب کیا گیا ہے اور اس وقت اس الہام کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس نسل کی تربیت خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کرنی تھی اور آپ کی وہ نسل ان ذمہ داریوں کو جو اس الہام کے نتیجہ میں ان پر پڑنے والی تھیں خوب سمجھتی اور جانتی تھی.اور یقین رکھتی تھی کہ ایسی بشارتیں جب کسی شخص یا کسی نسل کو دی جاتی ہیں تو وہ اس شخص یا اس نسل پر بھاری ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہیں جب تک وہ ان ذمہ داریوں کو نہ نبھائے وہ بشارتیں اس کے حق میں پوری نہیں ہوتیں.غرض چونکہ اس نسل نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تربیت یافتہ ہونا تھا اس لئے ان کے لئے کسی مزید تشریح یا وضاحت کی ضرورت نہیں تھی وہ اپنی ذمہ داریوں کو خوب سمجھتی تھی.دوسری نسل میں سے بعض کے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بشارتیں ہیں لیکن ساری کی ساری نسل کے متعلق بشارتیں نہیں اس لئے ضرورت پڑی کہ اللہ تعالیٰ خود الہام کے ذریعہ آسمان سے ان ذمہ داریوں کی وضاحت کر دے جو ان پر پڑنے والی تھیں.تیسری نسل کو مخاطب کرتے ہوئے اس الہام کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کی تشریح پہلے ہو چکی تھی.

Page 359

خطبات ناصر جلد دہم ۳۳۵ خطبہ نکاح ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں اس میں دلہن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تیسری نسل سے تعلق رکھتی ہے اور دولہا کا تعلق دوسری نسل سے ہے یعنی عزیزہ امتہ المجیب صاحبہ مکرم صاحبزادہ مرزا احمید احمد صاحب کی بیٹی ہیں اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی پوتی ہیں اور عزیز مکرم مصطفی احمد خاں صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ( جو ہماری پھوپھی ہیں) کے لڑکے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دوسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں.میں ان عزیزوں کو اسی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا کمانے والے بہت پیدا ہوئے ہیں بہت سے اس وقت ہیں اور بہت سے آئندہ پیدا ہوں گے.لیکن آپ جس بزرگ ہستی کی طرف آپ منسوب ہوتے ہیں اس کی وجہ سے آپ پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.آپ میں سے ایک کا تعلق اس کی دوسری نسل سے ہے اور ایک کا تعلق اس کی تیسری نسل سے ہے.آپ کو ان ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے جو اس تعلق کی وجہ سے آپ پر عائد ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ وہ آپ پر انعام کرے.کیا آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ اس کے انعام کے مستحق ہو جائیں؟ آپ کسی کو بھی خدا تعالیٰ کے سوا تکیہ گاہ مت بنائیں اور خودخدا تعالیٰ کو ہی متکفل اور رازق سمجھیں.سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی سے نہ ڈریں.صرف خدا تعالیٰ کا تقویٰ اپنے دل میں پیدا کریں اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کریں اس کی رضا کے بغیر کوئی بات اپنی زبان سے نہ نکالیں.کیونکہ زبان کی باتیں اور جوارح کا عمل اگر صحیح نہ ہو تو اللہ تعالیٰ سے دور لے جاتا ہے.دنیا کے میدان میں بھی ایک دنیا دار خدا تعالیٰ کا شرک کرتا ہے جب وہ اپنی تدابیر اور دنیا کے سامانوں اور سفارشوں اور رشوتوں اور لالچ اور جھوٹ پر تکیہ کرتا ہے.اور خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیتا ہے اور دین کے معاملہ میں بھی جو خدا کا نام تو لیتا ہے لیکن تقویٰ اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتا.آسمانی نور سے اس کا سینہ خالی ہوتا ہے اور وہ دنیا کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہوتا ہے وہ نہ تو پاک قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ اسے ان لوگوں کی طرح جو مطھر ہوں.خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.سواے میرے عزیزو! اپنی زبانوں کو بھی سنبھال کر رکھو کہ وہ خدا تعالیٰ کو

Page 360

خطبات ناصر جلد دہم ۳۳۶ خطبہ نکاح ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء ناراض کرنے والی نہ ہوں اور اپنے جوارح پر بھی کنٹرول رکھو اور ان پر نگاہ رکھو کہ کہیں تم سے کوئی ایسا عمل نہ ہو جائے کہ جس سے خدا تعالیٰ ناراض ہو جائے اور وہ اپنے اس ارادہ کو جو تمہارے تقویٰ اور توحید خالص کے ساتھ مشروط ہے آپ کے لئے پورا نہ کرے.بلکہ خدا کرے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا آپ اس کے وعدہ کی اہمیت اور اس کے نتیجہ میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے پیارے اور شفقت بھرے وعدہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے بتایا ہے آپ پر یہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ نہ آپ خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کا شریک بنائیں نہ کسی پر اس کے سوا بھروسہ رکھیں نہ خدا کے سوا کسی کو تکیہ گاہ بنا ئیں اور نہ خدا کے سوا کسی اور سے کوئی دینی یا دنیوی امید رکھیں صرف اور صرف خدا سے ڈریں اور اگر خدا کے مقابلہ میں دنیا کی ساری طاقتیں بھی جمع ہو جائیں.تو وہ تمہارے دل میں خوف پیدا نہ کریں کیونکہ جس کی پشت پر خدا کی طاقت ہو وہ دنیا کی طاقتوں کی پرواہ نہیں کرتا.آپ نہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی کام کریں.اور نہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف منہ سے کوئی بات کریں.یہ بنیادی ذمہ داریاں ہیں جو آپ پر عائد ہوتی ہیں اگر آپ ان ذمہ داریوں کو کماحقہ نبھا ئیں گے تو عظیم اور شاندار وعدے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ سے اور ہم سے کئے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے کہ خدا تعالیٰ نے جو وعدہ ہم سے کیا ہے ہم اپنے آپ کو اپنے عمل سے بھی اور اپنی زبان سے بھی اس کے قابل بنائیں اور حقیقتاً پاک اور مطھر ہو جائیں.اس طرح ہم خدا تعالیٰ کے ان فضلوں اور برکتوں کے وارث بنیں جو وہ آسمان سے اپنے بندوں پر نازل کرتا ہے اور ان دعاؤں کے وارث بنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہیں اور جو خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہیں.اور اسے ان تک پہنچاتی ہیں جن کے لئے وہ دعائیں کی گئی ہیں اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات کی طرف محض منسوب ہونا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اس کے بعد حضور نے ایجاب و قبول کروایا اور فرمایا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں ( دولہا اور دلہن ) کو بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دوسری ساری نسل کو بھی

Page 361

خطبات ناصر جلد دہم ۳۳۷ خطبہ نکاح ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ء ان دعاؤں کا وارث بنائے.جو آپ نے اپنی نسل کے لئے کی ہیں اور آپ کے اس الہام میں جو میں نے خطبہ کے شروع میں بیان کیا ہے جو بشارت دی گئی ہے اس کے مطابق وہ ہم سب کو شیطانی رجس سے محفوظ رکھتے ہوئے اپنی رضا عطا کرتا چلا جائے.اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی اور پرسوز دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 362

Page 363

خطبات ناصر جلد دہم ۳۳۹ خطبہ نکاح ۱۵ / جنوری ۱۹۶۷ء صحیح اسلام جب ایک انسان حاصل کر لیتا ہے تو وہ خیر ہی خیر بن جاتا ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۵ جنوری ۱۹۶۷ ء بعد نماز عصر خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے.وَلَتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (ال عمران : ۱۰۵) کہ اے امت مسلمہ ! اے وہ لوگو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہو.چاہیے کہ تم میں سے ایک گروہ ہمیشہ ایسار ہے جنہوں نے اپنی زندگی خدا اور اس کے دین کے لئے وقف کی ہو.اور وہ خیر کی طرف بلانے والے ہوں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے ہوں اور اس گروہ سے ہمارا یہ وعدہ ہے کہ اگر وہ وقف کی روح کو سمجھیں گے اور اس روح کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزاریں گے.تو بہت بڑی کامیابی ان کے نصیب میں ہوگی.اولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ان کو فلاح ملے گی کہ اس سے بڑی کامیابی اور کوئی متصور نہیں ہو سکتی.یہاں جس گروہ کا ذکر ہے اس کے نتیجہ میں انفرادی طور پر ہر واقف کے لئے جو اپنے وقف میں اخلاص رکھنے والا اور خدا اور رسول کے لئے صدق وصفار رکھنے والا ہو ثبات قدم رکھنے والا ہو.

Page 364

خطبات ناصر جلد دہم ۳۴۰ خطبہ نکاح ۱۵ جنوری ۱۹۶۷ء ایثار اور قربانی کے جذبات رکھنے والا ہو.یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ تمہیں حسب استطاعت اجر ملے گا.لیکن واقفین کے اس گروہ کے نتیجہ میں امت محمدیہ کا کوئی مقام متعین نہیں کیا گیا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ اسی سورۃ میں ایک دوسری جگہ یوں فرماتا ہے.کُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ آلِ عمران : ۱۱۱) کہ تمہاری امت جو امت مسلمہ کہلاتی ہے.تمام امتوں سے بہتر ہے.اس لئے کہ تمہیں یہ سبق دیا گیا ہے اور تم اس سبق کو سمجھتے ہو اور جانتے ہو اور اس سبق کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہو تو تمہاری امت کو تمہارے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے.تو خَيْرَ أُمَّةٍ تم اس وجہ سے ہو کہ تم اپنے نفسوں کو بھلا دیتے ہو اور دنیا کی بھلائی کا خیال رکھتے ہو.ان دو آیتوں پر جب ہم مجموعی نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں امت محمدیہ میں واضح طور پر دو جماعتیں نظر آتی ہیں.ایک وہ جماعت جنہوں نے اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کی اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس عہد کو نباہا یہ وہ گروہ ہے جو امت محمدیہ کو خیر کی طرف بلانے والا ہے.يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ جو امت محمدیہ کی تربیت اس رنگ میں کرنے والا ہے کہ یہ امت بحیثیت امت دنیا کی بہترین امت بن جائے اور اس کے بدلے میں ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ پیار کا سلوک کرے گا.دوسری آیت میں یہ بتایا کہ خَيْرَ أُمَّةٍ بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ امت کی اکثریت اس نکتہ کو سمجھنے والی ہو کہ انہوں نے اپنے نفس کو قربان کرنا اور غیر کے نفس کو فائدہ پہنچانا ہے.اپنے نفس کو تکلیف میں ڈالنا اور غیر کے نفس کو نار جہنم سے بچانے کی کوشش کرنا ہے.اپنے نفس پر مجاہدات طاری کرنے ہیں، قربانی اور ایثار کی راہوں کو اختیار کرنا ہے اس لئے کہ قرب کی راہیں پالیں.تو دوسری آیت میں اس گروہ کثیر کا ذکر ہے.جن کی وجہ سے امت محمدیہ خَيْرَ أُمَّةٍ بنتی ہے.ہماری جماعت میں واقفین کا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بڑا گروہ ہے جنہوں نے شروع سے ہی اپنی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کے اس سلسلہ کے لئے وقف کیا ہوا ہے اور اس گروہ کی اکثریت بظاہر ہمیں ایسی ہی نظر آتی ہے کہ وہ اپنے عہدوں کو نباہنے والے ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وہ فلاح کو پائیں گے.

Page 365

خطبات ناصر جلد دہم ۳۴۱ خطبہ نکاح ۱۵ جنوری ۱۹۶۷ء ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسری آیت کے مطابق بھی ایک کثیر حصہ ایسا ہے.جو اپنے اعمال صالحہ سے یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ دوسروں کے لئے قربانی کرنے والے اور نڈر ہوکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے اور اپنوں کی تربیت کرنے والے اور غیروں کی اصلاح کی کوشش کرنے والے ہیں.یہ وہ گروہ ہے (جماعت کا کثیر حصہ ) جس کے اعمال نے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر کے امت مسلمہ کو ( اور آج امت مسلمہ کی نمائندہ جماعت احمدیہ ہی ہے ) خَيْرَ أُمَّةٍ بنا دیا ہے.تو پہلا وہ گروہ تھا جو خیر کی طرف بلانے والا تھا.یہ کثیر حصہ وہ ہے جو امت کو خیر پر قائم کرنے والا ہے.انفرادی طور پر وہ بھی خیر پر قائم ہیں لیکن ان کا کام اس آیت میں کچھ اور بتایا گیا ہے.اس دوسرے گروہ میں جو نمایاں شخصیتیں ہماری تاریخ کے سامنے آئی ہیں.ان میں سے ایک ہمارے محترم بزرگ چوہدری محمد نصر اللہ خان صاحب کی تھی جنہوں نے باوجود اس کے کہ اس طرح وہ واقف زندگی نہیں تھے.دنیا کے کام بھی انہوں نے کئے لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ دنیا میں پڑنے کی وجہ سے وقف کی روح ان کے اندر نہیں پائی جاتی تھی.دنیا میں جتنا وہ پڑے اتنا ہی انہوں نے دنیا کو زیادہ فائدہ پہنچایا اور اتنا ہی انہوں نے دنیا کو خدا کی طرف زیادہ متوجہ کیا اور اتنا ہی انہوں نے اپنے اسوہ کے، اپنے عمل کے نتیجہ میں دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کی کہ صحیح اسلام جب ایک انسان حاصل کر لیتا ہے اور اسلام کا نورا سے مل جاتا ہے تو وہ خیر ہی خیر بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان بزرگ و محترم چوہدری نصر اللہ خان صاحب پر یہ بھی فضل کیا کہ ان کی اولا دساری کی ساری ہی نمایاں طور پر ہمیں اس گروہ میں نظر آتی ہے.ہمارے بزرگ و محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہیں ہمارے محترم چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے اور ہمارے محترم بھائی اسد اللہ خان صاحب ہیں.اگر چہ یہ پہلے گروہ کے واقفین میں شامل نہیں لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ یہ دوسری آیت کے مطابق جو گروہ کثیر ہے جن کے کاموں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ پر یہ فضل کیا ہے کہ وہ خَيْرَ أُمَّةٍ بن گئی.اس گروہ میں یہ شامل نہیں؟

Page 366

خطبات ناصر جلد دہم ۳۴۲ خطبہ نکاح ۱۵ جنوری ۱۹۶۷ء ساری زندگی ان تینوں بھائیوں کی جو تینوں ہمارے بھی بڑے پیارے اور محترم بھائی ہیں دنیا کی بہبودی کے لئے انہیں خیر پہنچانے کے لئے ، نڈر ہوکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے لئے خرچ ہوئی.یہ دو نسلیں تو ہمارے سامنے آگئیں.باپ اور ان کی اولا دساری کی ساری نمایاں اس گروہ میں شامل ہے.ان کو دیکھ کر ایسے موقع پر جو آج پیدا ہوا ہے دل میں شدید خواہش پیدا ہوتی ہے کہ تیسری نسل بھی اسی رنگ میں رنگی جائے.بے شک وہ دنیا میں پڑیں، بے شک وہ دنیا کمائیں، بے شک وہ دنیا کو حاصل کریں، بے شک وہ دنیا کے لئے اپنی زندگی کا ایک حصہ بظاہر خرچ کر رہے ہوں لیکن ان کا ہر عمل اس آیت کے نیچے آرہا ہو.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ کہ تمہیں خَيْرَ أُمة اس لئے خدا کی نگاہ نے قرار دیا ہے کہ تم وہ لوگ ہو کہ خود کو بھول کر دوسروں کے لئے اپنی زندگی کو گزارتے ہو اور تمہارے خیر کا دائرہ بڑا وسیع ہے.اتنا وسیع کہ جب تم سب کے خیر کے دائروں کو اکٹھا کر دیا جائے.تو ساری دنیا پر وہ حاوی ہو جاتا ہے اور تم خَيْرَ أُمَّةٍ بن جاتے ہو.سارے زمانوں پر وہ حاوی ہو جاتا ہے اور قیامت تک کے لئے تم خَيْرَ أُمَّةٍ رہو گے.تو جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں.وہ مکرم و محترم چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے چوہدری ادریس نصر اللہ صاحب کا ہے.جو ایک ہمارے اور بھائی چوہدری عبد الحمید صاحب کی صاحبزادی نعیمہ بیگم کے ساتھ ہونا قرار پایا ہے.تو دوست اسی خواہش کے مطابق جیسا کہ میں نے کہا ہے.دعا کریں اب بھی اور بعد میں بھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی اور دوسرے ایسے خاندانوں کی دوسری نسلوں کو بھی اس گروہ کثیر میں ہی شامل رکھے جن کے متعلق قرآن کریم نے یہ کہا ہے.کُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ - اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کروایا اور رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا بھی فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 367

خطبات ناصر جلد دہم ۳۴۳ خطبہ نکاح ۱۶ جنوری ۱۹۶۷ء ہر دو خاندان اللہ کے فضل سے آسمان سے نازل ہونے والی ہدایت پر قائم ہیں خطبہ نکاح فرمود ه ۱۶ جنوری ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز عصر عزیزہ رشیدہ بیگم صاحبہ بنت مکرم و محترم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائل پوری قائم مقام ناظر اصلاح و ارشاد صدرانجمن احمد یہ کے نکاح ہمراہ مکرم محمد قاسم خاں صاحب کا رکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری بعوض پندرہ صدر و پیر مہر کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں جس نکاح کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ عزیزہ رشیدہ بیگم صاحبہ ( جو کرم و محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری کی صاحبزادی ہیں) کا ہے جو مکرم محمد قاسم خاں صاحب (ابن مکرم و محترم مولوی نذر محمد خاں صاحب) کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ساتھ ڈیڑھ ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.ہر دو خاندان اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ہدایت پر قائم ہیں جو آسمان سے نازل ہوئی ہے اور جس کے حصول کی توفیق بھی آسمان سے ہی نازل ہوتی ہے.یہ دونوں خاندان شروع سے ہی خدمت سلسلہ احمدیہ اور خدمت اسلام میں لگے ہوئے ہیں.مکرم و محترم قاضی محمد نذیر صاحب تو سلسلہ کے بڑے مجاہد ہیں اور مکرم مولوی نذر محمد خاں صاحب بھی شروع سے ہی سلسلہ احمدیہ کی خدمت کر رہے ہیں اور ان کے بعض صاحبزادوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق

Page 368

خطبات ناصر جلد دہم ۳۴۴ خطبہ نکاح ۱۶ ؍ جنوری ۱۹۶۷ء عطا فرمائی ہے کہ وہ خدمت سلسلہ میں اپنی زندگی گزاریں.اس لئے ہر دو خاندانوں کی طرف سے ہم پر یہ حق واجب ہوتا ہے کہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر دوخاندانوں پر اپنے فضل اور رحمتیں نازل فرمائے اور اس رشتہ کو جو ان دونوں خاندانوں میں قائم ہوا ہے بہت ہی مبارک کرے ( آمین ).اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 369

خطبات ناصر جلد دہم ۳۴۵ خطبہ نکاح ۲۰ جنوری ۱۹۶۷ء دعا کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۰ جنوری ۱۹۶۷ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر عزیزہ زاہدہ پروین صاحبہ بنت مکرم حافظ عبد السلام صاحب وکیل المال ثانی تحریک جدید کے نکاح ہمراہ مکرم سردار منیر احمد صاحب ابن حضرت ماسٹر عبد الرحمان صاحب مرحوم کا اعلان بعوض مبلغ دس ہزار روپیہ فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں.وہ عزیزہ زاہدہ پروین صاحبہ بنت مکرم حافظ عبد السلام صاحب وکیل المال ثانی تحریک جدید کا ہے جو عزیزم مکرم سردار منیر احمد صاحب پسر مکرم ماسٹر سردار عبد الرحمان صاحب مرحوم سے مبلغ دس ہزار روپیہ پر قرار پایا ہے.مکرم ماسٹر سردار عبد الرحمان صاحب کو قادیان کے رہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں.ان کی ایک نمایاں خصوصیت جو ہر وقت ہمارے سامنے رہتی ہے یہ تھی کہ آپ دعا سے شغف رکھتے تھے اور یہ یقین رکھتے تھے کہ دعا کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے آپ کے خاندان پر بڑا رحم کیا ہے.آپ کی نسل بھی خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے دعا کرنے والی اور اس دعا کے ذریعہ اس کی رحمت کو جذب کرنے والی ہے.

Page 370

خطبات ناصر جلد دہم ۳۴۶ خطبہ نکاح ۲۰ جنوری ۱۹۶۷ء مکرم حافظ عبد السلام صاحب بھی پرانے خادم سلسلہ ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب الہی منشا کے مطابق تحریک جدید کا اجرا فرمایا تو اس تحریک جدید کا کام چلانے کے لئے جو بہت سے مخلص دوست اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائے ان میں سے ایک مکرم حافظ عبدالسلام صاحب بھی ہیں.ان ہر دو خاندانوں کی طرف سے ہم پر اس حق کی ادائیگی ثابت ہے کہ ہم دعا کریں یہ رشتہ بہت برکت والا ہو اور اس کے نتیجہ میں خادم احمدیت اور خادم اسلام پیدا ہوں.آمین اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور اس کے بعد حاضرین سمیت لمبی اور پرسوز دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 371

خطبات ناصر جلد دہم ۳۴۷ خطبہ نکاح ۲۵ جنوری ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ نے مومن کو فراست اور دُور بین نظر عطا کی ہوتی ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۵ جنوری ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے مومن کو فراست اور دور بین نظر عطا کی ہوتی ہے.وہ آگے دیکھتا ہے اور اس کے مطابق عمل بجالا تا اور اسی کے لئے تیاری کرتا ہے اور اسی میں سب خیر ہے.اس وقت میں تین نکاحوں کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں.ا.شہزادہ نسرین بنت مکرم ڈاکٹر مرزا عبد الرؤوف صاحب کا نکاح عزیز مکرم ظفر اللہ خان صاحب والد مکرم سیف اللہ خان صاحب سے.- امتہ اللہ ناز صاحبہ بنت چوہدری محمود احمد صاحب ناصر کا عزیزم مکرم شمس الدین صاحب ولد مکرم عزیز الدین خان صاحب سے..فرحت النساء بیگم صاحبہ بنت شیخ فضل کریم صاحب کا شیخ مبشر احمد صاحب ولد مکرم شیخ محمد رمضان صاحب سے.ان تین نکاحوں کے اعلان کے بعد دعا فرمائی اور ساتھ ہی فرما یا.

Page 372

خطبات ناصر جلد دہم ۳۴۸ خطبہ نکاح ۲۵ جنوری ۱۹۶۷ء عزیزه رشیدہ بیگم صاحبہ بنت مکرم قاضی محمد نذیر صاحب ( ناظر اصلاح وارشاد) کا آج رخصتا نہ تھا.میں نے قاضی صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ چونکہ بوجہ مصروفیت میں آج ان کی بچی کے رخصتانہ کے وقت ان کے ہاں حاضر نہیں ہو سکوں گا.اس لئے ان نکاحوں کے ساتھ ہی دعا کروا دوں گا.ان کی بچی کے رخصتانہ کے بابرکت ہونے کے لئے.لیکن اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ اس کا اعلان علیحدہ کیا جاتا.میرے ذہن سے نکل گیا تو اب دوبارہ دعا کر دیتا ہوں.دوست بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس عزیزہ رشیدہ کا (جس کا رخصتا نہ ہو رہا ہے ) نکاح بھی اور تعلق بھی اور رخصتانہ بھی اور اگلی زندگی بھی اور آئندہ نسلیں بھی بابرکت بنائے اور ہر دو خاندانوں کے لئے قرۃ العین ہوں ، دعا کرلیں.اس کے بعد حضور نے دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 373

خطبات ناصر جلد دہم ۳۴۹ خطبہ نکاح ۱۹ مارچ ۱۹۶۷ء ہماری اولا دفیض ہی فیض ، برکت ہی برکت رحمت ہی رحمت اور نور ہی نور والی ہو خطبہ نکاح فرموده ۱۹ مارچ ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوہ ۱۹ مارچ ۱۹۶۷ء کو بعد نماز عصر حضور انور نے از راہ شفقت مندرجہ ذیل تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پیدا ہونے والے بچے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو وہ جن کے متعلق موجودہ نسل یہ بجھتی ہے کہ ہمارا کھانا پینا پیدا ہونے والے بچے کھا جائیں گے.ان کو روک دیا جائے یا اگلی نسل فتنہ وفساد پھیلانے والی، قتل و غارت کا ارتکاب کرنے والی، دوسروں کے حقوق غصب کرنے والی اور دوسروں کی آزادیاں چھیننے والی ہوگی اور ہماری تباہی کا موجب ہوگی.ایک تو اس قسم کے بچے ہیں.تو ان کو روک دیا جائے.دوسری قسم کے بچے وہ ہیں کہ جب وہ دنیا میں آتے ہیں تو وہ والدین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ، خاندان کے ہمدرد ، دوسرے لوگوں کے خیر خواہ ، اپنے مال کو اپنوں پر خرچ کرنے والے، ان کا خیال رکھنے والے، ان کو ترقی کی راہوں پر چلانے والے، ان کی رہبری کرنے والے اور دوسروں کے معلم اور استاد بننے والے ہوتے ہیں.جہاں شادی کے اور مقصد بھی ہیں ، وہاں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ نسل کی بقا کا انتظام کیا جائے.

Page 374

خطبات ناصر جلد دہم ۳۵۰ خطبہ نکاح ۱۹ مارچ ۱۹۶۷ء اس لئے دعا بھی یہی ہونی چاہیے اور کوشش بھی یہی ہونی چاہیے کہ ہماری اولاد فیض ہی فیض ، برکت ہی برکت، رحمت ہی رحمت ، اور نور ہی نور والی ہو.خصوصاً ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.ہماری یہ دعا ہونی چاہیے کہ ہماری نسل ایسی ہی ہو.اس کے بعد حضور پرنور نے مکرمہ نصرت یوسف بنت لیفٹیننٹ کرنل چوہدری محمد یوسف صاحب کے نکاح کا چوہدری محمد اشرف صاحب ولد چوہدری محمد خان صاحب سے ایجاب وقبول کروایا.اور ساتھ ہی فرمایا :.لڑکی کا خاندان پر انا احمدیت کا فدائی خاندان ہے.اس لئے خاص طور پر دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو با برکت بنائے.اس کے ساتھ ہی حضور پر نور نے مبارکہ بیگم بنت میاں چراغ دین صاحب کے نکاح کا جو مکرم بشارت احمد صاحب ولد فضل دین صاحب سے ہوا.اور سیدہ صادقہ بخاری صاحبہ بنت سید محمد احمد شاہ صاحب کے نکاح کا جو مکرم عزیز احمد صاحب سے ہوا.اعلان فرمایا اور بعد میں دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 375

خطبات ناصر جلد دہم ۳۵۱ خطبہ نکاح ۳۰ مارچ ۱۹۶۷ء چاہیے کہ عزم کریں ، جد و جہد کریں اور دعائیں کرتے رہیں خطبہ نکاح فرموده ۳۰ مارچ ۱۹۶۷ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر عزیزہ امتہ الرشید صاحبہ بنت مولوی عبداللطیف صاحب ٹھیکیدار بھٹہ ربوہ کے نکاح ہمراہ عزیزی میر رفیق احمد صاحب پسر مکرم عزیز الدین صاحب کالرا کلاں ضلع گجرات کا اعلان فرمایا.یہ نکاح سات ہزار روپیہ مہر پر ہوا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.عزیزہ امۃ الرشید مولوی عبداللطیف صاحب کی دوسری بیٹی ہے.مولوی عبد اللطیف صاحب میرے بچپن سے دوست ہیں میرے ان سے ذاتی تعلقات ہیں مجھے ان کی بچی اپنی بچیوں کی طرح عزیز ہے.عزیزم رفیق احمد صاحب ولائت میں رہتے ہیں اب شادی کے بعد بچی بھی ان کے ہمراہ انگلستان ہی جائے گی.انشاء اللہ.پھر حضور نے فرمایا کہ انگلستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے صد با احمدی دوست رہائش رکھتے ہیں ان کی وہاں پر اچھی آمدنی ہے دنیوی طور پر ان کی حالت اچھی ہے.ان تمام بھائیوں کو یا درکھنا چاہیے کہ اگر چہ وہ اپنے کاروبار کے سلسلہ میں اس ملک میں ہیں لیکن انگلستان والے ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ

Page 376

خطبات ناصر جلد دہم ۳۵۲ خطبہ نکاح ۳۰ مارچ ۱۹۶۷ء وہ وہاں پر احمدیت کا نمونہ نظر آئیں.دوسرے ملکوں والے بھی وہاں کے احمدیوں پر اسی نظر سے نگاہ رکھتے ہیں.ہمارے بھائی چاہیں یا نہ چاہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ لوگ ان سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا عملی نمونہ پیش کریں.اس زندگی کے بعد ایک ابدی زندگی ہے جس کی نعمتیں بھی ابدی ہیں وہ اپنی کمیت اور کیفیت میں بے نظیر اور دائمی ہیں.ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ان لا زوال نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے جد و جہد کریں اور دعا کریں انگلستان میں جیسا میں نے کہا ہے، احباب کی خاصی تعداد ہے.ان سب کو بھی چاہیے کہ عزم کریں، جد و جہد کریں اور دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں خدمت دین کی توفیق عطا فرماتا رہے اور انہیں راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرنے کی سعادت نصیب ہو.اگر وہ اپنے عمل اور دعاؤں سے ایسا کریں گے تو ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں اور ان کے عمل و دعا کے نتیجہ میں انہیں اس دنیا کی نعمتیں بھی دیتا رہے اور اُخروی لا زوال نعمتوں سے بھی متمتع فرمائے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے سب بھائیوں کو یہ توفیق ملتی رہے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۱۵ ۱۷ پریل ۱۹۶۷، صفحه ۳)

Page 377

خطبات ناصر جلد دہم ۳۵۳ خطبہ نکاح ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء دنیوی کاموں میں بھی کامیابی کا گر قول سدید میں مضمر ہے خطبہ نکاح فرمود ه ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.عزیزہ مبارکہ نسیم صاحبہ بنت مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب مرحوم ہمراہ مکرم عبدالسمیع صاحب ساجد ابن مکرم ماسٹر محمد فضل داد صاحب دار الرحمت وسطی ربوہ بعوض ساڑھے تین ہزار روپیہ مہر.۲ - عزیزہ بشری بیگم صاحبہ بنت مکرم حکیم فضل الہی صاحب دارالرحمت غربی ربوہ ہمراہ مکرم اشفاق احمد صاحب ابن مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب مرحوم را ولپنڈی بعوض تین ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم قول سدید پر قائم رہو گے تو تمہارے اعمال میں بھی کوئی فساد باقی نہیں رہے گا.یہاں جن اعمال کا ذکر ہے حقیقتا تو وہ دینی اعمال ہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کئے جاتے ہیں لیکن اسلام نے دنیوی کاموں کو مذہبی اعمال کا رنگ دیا ہے اور دنیا میں انسان جس قدر بھی عمل کرتا ہے اگر وہ چاہے اور احکام الہی کی پابندی کرے تو اپنے ہر عمل سے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی اور اس کے رضا کے حصول کی کوشش کر سکتا ہے.مسلمانوں پر یہ خدا تعالیٰ کا بڑا فضل ہے.

Page 378

خطبات ناصر جلد دہم ۳۵۴ خطبہ نکاح ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء یہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ قول سدید کو لازم پکڑنے والا دنیا کے کاموں میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ جس کی بات میں بیچے نہیں اس کے عمل بھی پسندیدہ ہیں نفاق سے مبرا ہیں.پس اس نکتہ کو یا درکھیں کہ د نیوی کاموں میں بھی کامیابی کا گر اس میں مضمر ہے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور حاضرین سمیت رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے لمبی اور پرسوز دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوہ ۱۱ را پریل ۱۹۶۷، صفحه ۳) 谢谢谢

Page 379

خطبات ناصر جلد دہم ۳۵۵ خطبہ نکاح ۲ را پریل ۱۹۶۷ء بیوی بچوں کی تربیت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے خطبہ نکاح فرموده ۲ ۱۷ پریل ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر عزیزہ امتہ الرفیق شمیم صاحبہ بنت مکرم صو بیدار عبدالمنان صاحب دہلوی افسر حفاظت ربوہ کا نکاح ہمراہ مکرم نفیس احمد صاحب ابن مکرم حافظ شفیق احمد صاحب استاد حافظ کلاس ربوہ بعوض اٹھارہ صد روپیہ مہر پڑھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ذمہ داری مرد پر رکھی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو اس طرح بنائے کہ اس ماحول میں اس کے بچوں کی تربیت اس رنگ میں ہو کہ وہ اسلام کے خادم بنیں اور اپنے مولیٰ کی رضا کی راہوں کی تلاش کرنے اور ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوں.ہماری جماعت میں بعض دفعہ اس قسم کے واقعات بھی پیش آتے ہیں کہ بچوں کی صحیح پرورش نہیں ہوتی اور بسا اوقات خاوند بیوی پر الزام دھر رہا ہوتا ہے حالانکہ اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو نباہتا اور اپنی بیوی کی صحیح تربیت کرتا جو بہر حال بچوں سے پہلے اس کے گھر میں آئی تھی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اس کے بچوں کی صحیح پرورش نہ ہوتی.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 380

خطبات ناصر جلد دہم ۳۵۶ خطبہ نکاح ۲ را پریل ۱۹۶۷ء اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور حاضرین سمیت ایک لمبی اور پرسوز دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 381

خطبات ناصر جلد دہم ۳۵۷ خطبہ نکاح ۶ را پریل ۱۹۶۷ء رب خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ہے وا کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں خطبہ نکاح فرموده ۶ را پریل ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر عزیزہ رضیہ خانم بنت مکرم ملک محمد اسماعیل صاحب ذبیح کا نکاح ہمراہ مکرم عبد الصمد صاحب طاہر ابن مکرم عبدالرحیم صاحب عادل لاہور بعوض چار ہزار روپیہ مہر پڑھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اگر انسان کو اس بات کی حقیقی معرفت اور پہچان اور شناخت ہوجائے کہ اس کا ربّ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر : ۱۹) ہے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں.وہ ہر بات کو ، ہر خیال کو اور ہر چیز کو جاننے والا اور اس سے باخبر ہے تو وہ ہر قسم کے گناہ اور فساد سے محفوظ ہوجاتا ہے خواہ وہ گناہ اپنے رب کے حقوق کے متعلق ہوں خواہ وہ گناہ حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے ہوں اور خواہ وہ ان گناہوں میں سے ہوں جو میاں بیوی کے رشتہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اس معرفت کے بعد اور اس پہچان کے بعد انسان خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ ہو جاتا ہے.خدا کرے کہ ہم سب اس نکتہ کو یادرکھیں اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہیں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور حاضرین سمیت لمبی اور پرسوز دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 382

Page 383

خطبات ناصر جلد دہم ۳۵۹ خطبہ نکاح ۲۷ را پریل ۱۹۶۷ء خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ خطبہ نکاح فرموده ۲۷ ا پریل ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.عزیزہ نعیمہ بیگم صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبد الحمید صاحب درویش قادیان ہمراہ مکرم چوہدری عبدالرحمان صاحب پسر مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کوٹ نیناں ضلع سیالکوٹ بعوض مبلغ تین ہزار روپیہ مہر.۲.عزیزہ منیره کشور صاحبہ بنت مکرم قاضی حسن محمد صاحب دار الرحمت وسطی ربوہ ہمراہ مکرم چوہدری رحمت اللہ خاں صاحب پسر مکرم چوہدری عبدالرحمان خاں صاحب عزیز آباد کراچی بعوض مبلغ تین ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے جہاں خیر امت سے بہت سی نعمتوں کے وعدے کئے ہیں وہاں اسے بہت سی ذمہ داریوں کا اہل قرار دیتے ہوئے دو اہم ذمہ داریاں اس پر ڈالی ہیں ان میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ خَیرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاَهْلِه خاوند پر بہت بھاری ذمہ داری اس بات کی ہے کہ وہ اپنی بیوی سے حسن سلوک کرے اور بیوی سے حسن سلوک کے اندر ہی اس کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک بھی آجاتا ہے.پس فرمایا کہ تم افراد خیر امت اسی صورت میں ہو سکتے ہو جب علاوہ اور بہت سی ذمہ داریوں کے تم اس ذمہ داری کو بھی نباہنے والے بنو کہ تم اپنے اہل کے لئے

Page 384

خطبات ناصر جلد دہم ۳۶۰ خطبہ نکاح ۲۷ ا پریل ۱۹۶۷ء خیر بنو تم اس سے اچھا سلوک کرنے والے اور اس کی بہتری کا خیال رکھنے والے بنو اور تمہارے اس حسن سلوک کے نتیجہ میں بھلائی کی فضا پیدا ہوگی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں نباہنے والا بنائے.روز نامه الفضل ربوه ۲۰ رمئی ۱۹۶۷ء صفحه ۳)

Page 385

خطبات ناصر جلد دہم ۳۶۱ خطبہ نکاح ۳۰/اگست ۱۹۶۷ء وہی رشتہ کامیاب ہوتا ہے جس میں میاں بیوی ایک دوسرے کی خاطر قربانی کریں خطبہ نکاح فرموده ۳۰ را گست ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے از راہ شفقت عائشہ رحمان صاحبہ بنت حاجی عبدالرحمان صاحب باندھی کا نکاح محمد اسمعیل صاحب ابن میاں محمد ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول سے پڑھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور دینی اور دنیوی کامیابی کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی کوشش اور تدبیر میں کوئی بنیادی خامی باقی نہ رہے.اگر انسان کچھ غفلت اور کوتاہیاں کرے تو اللہ کی مغفرت انہیں ڈھانپ دے اور انسان کے اعمال صحیح راستہ پر ہوں.صالح ہوں.وقت اور موقع کے مناسب ہوں.جب کمزوریاں ڈھانپ دی جائیں اور اعمال ، اعمال صالحہ بن جائیں تب ہی انسان کامیاب ہوسکتا ہے.یہ بنیادی اصول انسان کی زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتا ہے.نئے رشتے جو نکاح کے ذریعے جوڑے جاتے ہیں ان میں بھی یہی اصول چلتا ہے.نہ کوئی خاوند ایسا ہوتا ہے.جو ہر کمزوری اور کوتاہی سے پاک ہو اور نہ کوئی بیوی ایسی ہوتی ہے کہ وہ خاوند کی تمام خواہشوں اور پسندوں کے مطابق ہو.میاں کو بھی اپنی کچھ عادات اور کچھ خواہشات کو چھوڑنا پڑتا ہے اور بیوی کو بھی اپنی بعض خواہشات

Page 386

خطبات ناصر جلد دہم ۳۶۲ خطبہ نکاح ۳۰/اگست ۱۹۶۷ء اور عادات کو اپنے میاں کی خاطر چھوڑنا پڑتا ہے.دنیا کے دو افراد کو اللہ تعالیٰ نے برابر نہیں بنایا.ہر ایک میں کچھ نہ کچھ انفرادیت ہوتی ہے لیکن باوجود اس انفرادیت کے پھر بھی خدا تعالیٰ نے افراد انسانی کے حالات میں اتنی لچک رکھی ہے کہ وہ آپس میں مل کر کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کی پسند ایک خواہش ایک اور طبیعت ایک ہے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ہر ایک نے اپنی طبیعت پر جبر کیا ہوتا ہے اور اپنی بعض خواہشات کو د با یا ہوتا ہے اور وہ دونوں اس عزیز رشتہ کو کامیاب کرنے کے لئے ایک نظر آتے ہیں.جہاں بھی آپ اس رشتہ کو کا میاب دیکھیں گے وہاں پس پردہ یہ قربانی بھی نظر آ رہی ہوگی.جہاں یہ قربانی نہیں ہوتی وہاں رشتے کا میاب نہیں ہوتے.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں اس میں ایک خاندان ریاست کشمیر سے تعلق رکھتا ہے اور ایک خاندان سندھی ہے.خدا کرے کہ یہ رشتہ دونوں خاندانوں کے لئے اور اسلام کے لئے مبارک ہو.جب لوگ وسیع اور نیک راہ کو چھوڑ دیتے ہیں تو پھر وہ تنگ را ہیں اختیار کر لیتے ہیں.مثلاً یہ کہ ہم اپنے خاندان میں ہی رشتے کریں گے.اپنی قوم سے ہی تعلق رکھیں گے لیکن جب اللہ تعالیٰ کوئی سلسلہ قائم کرتا ہے تو پھر اس میں ایسی تنگ نظریوں کی گنجائش نہیں ہوتی پھر نہ خاندان کو دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی قومیت کو اور اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو با برکت بنا دیتا ہے.خدا کرے کہ یہ رشتہ بھی ایسا ہی ثابت ہو.روزنامه الفضل ربوه ۳ اکتوبر ۱۹۶۷ ء صفحه ۳)

Page 387

خطبات ناصر جلد دہم ۳۶۳ خطبہ نکاح ۹ را کتوبر ۱۹۶۷ء اسلام کو بڑی کثرت سے فدائی اور جاں نثار خادموں کی ضرورت ہے خطبہ نکاح فرموده ۹ /اکتوبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب مندرجہ دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- بشری صاحبہ بنت مکرم ملک حبیب الرحمان صاحب ربوہ ہمراہ مکرم محمد کریم صاحب ابن محترم مولوی محمد شفیع صاحب مرحوم ننکانہ ضلع شیخو پورہ بعوض مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر.۲.قدسیہ پروین صاحبہ بنت مکرم خان عطاء الرحمن صاحب کرشن نگر لاہور ہمراہ مکرم ملک عبدالرحیم صاحب ابن مکرم ملک حبیب الرحمان صاحب ربوہ بعوض مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مستقبل قریب میں اسلام کو بڑی کثرت کے ساتھ فدائی اور جاں نثار خادموں کی ضرورت پڑنے والی ہے.اگر ہمارے عزیز بچے اور عزیز بچیاں اس نیت اور دعا کے ساتھ اپنے ازدواجی رشتوں کو قائم کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ ایسی نسل پیدا کرے جو وقت کے تقاضہ اور اسلام کی ضرورت کو پورا کرنے والی ہو.تو اللہ تعالیٰ ایسے رشتوں میں بڑی برکت ڈالے گا.اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے.دونوں نکاحوں ( یعنی مکرم ملک حبیب الرحمان صاحب کی صاحبزادی اور صاحبزادہ کے )

Page 388

خطبات ناصر جلد دہم ۳۶۴ خطبہ نکاح ۹ را کتوبر ۱۹۶۷ء جن کا میں اس وقت اعلان کرنا چاہتا ہوں اپنے ہی گھر میں ہورہے ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو مبارک کرے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور پھر حاضرین سمیت ان رشتوں کے با برکت ہونے کے لئے دعا فرمائی.谢谢谢 روزنامه الفضل ربوه ۲۰/اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحه ۳)

Page 389

خطبات ناصر جلد دہم ۳۶۵ خطبہ نکاح ۱/۲۰ کتوبر ۱۹۶۷ء غلبہ اسلام کی ذمہ داریوں کو نباہنے کے لئے دعا اور کوشش کرتے رہیں خطبہ نکاح فرموده ۱/۲۰ کتوبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اختتامی اجلاس میں اپنے اختتامی خطاب سے قبل محترمہ نصرت جہاں احمد صاحبہ بنت مکرم میجر شمیم احمد صاحب کراچی کا نکاح مبلغ دس ہزار روپیہ کے عوض مکرم خالد حسین خاں صاحب ابن محترم حامد حسین خاں صاحب مرحوم میرٹھی حال مقیم کینیڈا کے ساتھ پڑھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں اپنے ان دو عزیزوں کو جن کے نکاح کا میں اس وقت اعلان کروں گا.یہ مختصر سی مگر بنیادی نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے بڑوں نے اپنی بساط اور استعداد اور قوت کے مطابق ان ذمہ داریوں کو نبھا یا جو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے سلسلہ میں ان کے کندھوں پر ڈالی تھیں.آپ یہ دعا کریں اور آپ یہ کوشش کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی یہ توفیق دے کہ آپ اپنے رب کے حضور ہمیشہ سرخرور ہیں.آپ کو کبھی اس کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور اس کے بعد رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 390

Page 391

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۳ اکتوبر ۱۹۶۷ء آنحضرت کے فرمان خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے خطبہ نکاح فرموده ۲۳ / اکتوبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.عزیزہ امتہ احکیم شریف صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد شریف صاحب فاضل سابق مبلغ بلا دعر بیہ حال مبلغ گیمبیا ( مغربی افریقہ) ہمراہ مکرم نعیم احمد صاحب طیب ایم ایس سی ابن مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب ایم اے انچارج خلافت لائبریری ربوہ بعوض مبلغ چار ہزار روپے مہر.۲.عزیزہ امتہ النصیر شریف صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد شریف صاحب فاضل سابق مبلغ بلا دعربیه حال مبلغ گیمبیا ( مغربی افریقہ) ہمراہ مکرم سعید احمد صاحب ابن مکرم مولوی صالح محمد صاحب سابق مبلغ مغربی افریقہ بعوض چار ہزار روپے مہر.۳.عزیزه محموده اختر صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبد العزیز صاحب کھوکھر ربوہ ہمراہ مکرم نصر اللہ خاں صاحب ناصر مربی سلسلہ احمدیہ بعوض مبلغ تین ہزار روپیہ مہر.۴.عزیزہ فہمیدہ لون صاحبہ بنت محمد اصغر صاحب لون آف لنڈن ہمراہ چو ہدری خلیل احمد صاحب ابن چوہدری وزیر محمد صاحب ربوہ بعوض پانچ ہزار روپیہ مہر.۵- عزیزه صفیه لون صاحبہ بنت محمد اصغر صاحب لون آف لنڈن ہمراہ خواجہ عبد الکریم صاحب ابن

Page 392

خطبات ناصر جلد دہم خواجہ عبدالرحمان صاحب آف جہلم بعوض مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا :.خطبہ نکاح ۲۳ /اکتوبر ۱۹۶۷ء جوحسین معاشرہ اسلام اس دنیا میں پیدا کرنا چاہتا ہے اس کی بنیا داس نے میاں بیوی کے با ہمی خوشگوار تعلقات پر رکھی ہے.جس پر وہ بہت زور دیتا ہے جب تک میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے قربانی کا سبق نہ سیکھیں اس وقت تک گھر کا ماحول خوشگوار نہیں ہوسکتا اور جب تک قربانی کے اس طریق کو ہم ساری دنیا میں جاری نہ کریں دنیا کے معاشرہ میں وہ حسن پیدا نہیں ہو سکتا جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے.اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لاهله آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے اور دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس فرمان کو بجالانے کی توفیق دیتا رہے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 393

خطبات ناصر جلد دہم ۳۶۹ خطبہ نکاح ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۷ء مسلمان مردوں کی ذمہ داری ہے کہ عورتوں کے اسلامی حقوق انہیں دلائیں خطبہ نکاح فرموده ۲۶ / اکتوبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عشاء محترمہ سیدہ زاہدہ ضیاء صاحبہ بنت محترم سید ضیاء احمد صاحب منصوری پسر حضرت حافظ سید عبدالوحید صاحب حال کراچی کا نکاح محترم ڈاکٹر طاہر احمد صاحب ولد محترم قریشی محمد اسحاق صاحب آف قادیان حال جنرل مینجر ماڈرن موٹرز ڈھاکہ سے اعلان بعوض دس ہزار روپیہ مہر فر ما یا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ابتدا سے عورتوں کے حقوق دینے اور دلانے کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں ایسے لوگوں کے درمیان جھگڑے بھی ہوئے ہیں کچھ لوگ حقوق دینے کے حق میں تھے اور وہ عورتوں کو حقوق دلانا چاہتے تھے.کچھ لوگ ان کے مخالف تھے مگر صدیوں کی ساری چپقلش کے باوجود لا مذہب اور بے دین حلقوں میں آج عورتوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ ان حقوق سے کچھ نسبت نہیں رکھتے جو اسلام کی شریعت میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو روز اول سے دے رکھے ہیں.اسلامی شریعت نے مردوں کو حقوق بھی دیئے ہیں ان پر پابندیاں بھی عائد کی ہیں.عورتوں کو حقوق بھی دیئے ہیں ان پر پابندیاں بھی عائد کی ہیں.عورتوں کو دیئے گئے حقوق کی حفاظت کرنا اور جہاں وہ حقوق غصب

Page 394

خطبات ناصر جلد دہم ہور - خطبہ نکاح ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۷ء رہے ہوں انہیں دلانا مسلمان مردوں کی ذمہ داری ہے.قرآن کریم کی آیت الرِّجَالُ قَوَمُونَ علَى النِّسَاء (النساء :۳۵) کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ مرد عورتوں کے حقوق کے نگران ہیں پس یہ مسلمان مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کے اسلامی حقوق ان کو دلائیں.آج دنیا نمونے کی محتاج ہے.ہر طرف سے مطالبہ ہورہا ہے کہ وہ لوگ سامنے آئیں جو اسلامی شریعت پر عمل کرنے کا نمونہ ہوں.اعلیٰ تعلیم بھی اچھی چیز ہے مگر تعلیم عمل کے بغیر مؤثر نہیں ہوسکتی.یہی وجہ ہے کہ اس وقت تبلیغ اسلام کے لئے عملی نمونہ کی اشد ضرورت ہے اسلام نے جو حقوق عورتوں کو دیئے ہیں وہ کسی اور جگہ انہیں حاصل نہیں.اگر مسلمان اسلام کے مطابق عورتوں کو حقوق دیں اور عملی نمونہ قائم کریں تو اس کا دنیا پر خاص اثر ہوسکتا ہے اور تبلیغ اسلام میں بہت فائدہ حاصل ہوگا.احمدی جماعت کا فرض ہے کہ اس بارے میں بھی بہترین نمونہ قائم کریں اور عورتیں اور مرد اسلامی شریعت کے مطابق زندگی بسر کریں تو وہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے ہوں گے.دوسری طرف ان کے گھر جنت کا گہوارہ بن جائیں گے اور پھر ان کے نمونہ سے غیر مسلموں میں اسلام کی بہترین تبلیغ ہو گی.حضور انور نے فرمایا کہ یورپ کے سفر میں ایک نو مسلم کی غیر مسلمہ بیوی کے متعلق پتہ لگا کہ وہ بہت متعصب ہے.بات تک نہیں سنتی.میری اس تقریر میں وہ آئی ہوئی تھی جس میں میں نے بتایا تھا کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیئے ہیں وہ کسی اور جگہ موجود نہیں کسی اور مذہب اور سوسائٹی نے وہ حقوق نہیں دیئے.بعد ازاں میں نے اس خاتون سے کہا کہ آپ نے میری تقریر سنی ہے آپ کا خاوند مسلمان ہے آپ کو اس سے وہ حقوق حاصل کرنے کا حق ہے جو اسلام نے بیوی کے لئے مقرر کئے ہیں اگر آپ کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اسلام نے بیوی کو کیا کیا حقوق دیئے ہیں تو آپ کس طرح حاصل کر سکیں گی.اس لئے آپ کو اسلام کے متعلق باتیں سننی چاہئیں.معلوم ہوا تھا کہ بعد ازاں وہ کچھ نرم ہو گئی تھیں اور کچھ باتیں سننے لگ گئی تھیں.حضور انور نے ایجاب و قبول کرنے سے پہلے یہ بھی فرمایا کہ آج جس عزیز کے نکاح کا میں

Page 395

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۶ /اکتوبر ۱۹۶۷ء اعلان کرنے لگا ہوں اس کے والد میرے بچپن کے بے تکلف دوست ہیں ان کے بچے مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز ہیں.پھر دوہری خوشی یہ ہے کہ میرے دوست قریشی محمد اسحاق صاحب گزشتہ سال سخت بیمار ہو گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے ہماری اور ان سب کی دعاؤں کو سنا اور وہ تندرست ہو گئے.پس جس طرح ان کی بیماری سے احساس اور وجدانی لحاظ سے تکلیف ہوئی تھی اسی طرح ان کی خوشی سے مجھے خوشی بھی ہے.احباب دعا فرما ئیں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو طرفین کے لئے با برکت کرے.آمین اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور حاضرین سمیت رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۰ /نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۵)

Page 396

Page 397

خطبات ناصر جلد دہم ۳۷۳ خطبہ نکاح ۴ رنومبر ۱۹۶۷ء اسلام نے بچوں کی صحت اور روحانی تربیت پر بڑا زور دیا ہے خطبہ نکاح فرموده ۴ / نومبر ۱۹۶۷ء بمقام ہال جامعہ احمد یہ ربوہ حضور انور نے بعد نماز عصر عزیزہ امتہ السمیع صاحبہ بنت مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل پروفیسر جامعہ احمدیہ کے نکاح ہمراہ مکرم حمید احمد صاحب بھٹی ابن مکرم میجر ڈاکٹر شاہنواز صاحب ربوہ کا اعلان بعوض مبلغ آٹھ ہزار روپیہ مہر فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر اپنی رحمت کے ہزاروں دروازے کھولے ہیں ان میں سے ایک دروازہ تربیت اولاد کا ہے.اسلام نے بچوں کی صحت اور ان کی روحانی تربیت پر بڑا زور دیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو نہایت پسند یدہ رکھتا ہے اور اس پر خوش ہوتا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ ایک غریب عورت میرے پاس آئی.اس کی دو بچیاں بھی اس کے ساتھ تھیں میں نے تین کھجور میں اس کے ہاتھ پر رکھ دیں.اس نے پہلے ایک ایک کھجورا اپنی دونوں بچیوں کے ہاتھ پر رکھی اور پھر تیسری کھجور اپنے منہ میں ڈالی اس پر اس کی ایک بچی نے کہا یہ کھجور بھی مجھے دے دو.چنانچہ اس عورت نے اس کھجور کے دوٹکڑے کئے اور ان میں سے ایک ایک ٹکڑا اپنی دونوں بچیوں کو دے دیا.

Page 398

خطبات ناصر جلد دہم ۳۷۴ خطبہ نکاح ۴ رنومبر ۱۹۶۷ء آپ فرماتی ہیں کہ میں نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کی تو آپ نے فرمایا.وہ عورت اپنی اس ذہنیت کے ساتھ جنت میں داخل ہوگئی.اس واقعہ میں بچیوں کو کھجوریں دینے کا ہی ذکر نہیں بلکہ اصل بات جو اس میں بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ اس ماں نے اپنے نفس پر اپنی بچیوں کو ترجیح دی اور جو ماں باپ اپنے بچوں کی جسمانی صحت اور ان کی روحانی تربیت کا خیال رکھتے ہوئے ان کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ جنت کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور اگر ایک کھجور اپنے بچہ کو اس رنگ میں اور اس ذہنیت کے ساتھ دینے کے نتیجہ میں جنت ملتی ہے تو جو ماں باپ اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تا وہ اسلام کے رنگ میں رنگے جائیں.قرآن کریم کے احکام پر عمل کرنے والے بہنیں اور دنیا کے سامنے بہترین نمونہ پیش کرنے والے بہنیں وہ کس قدر بلند درجات کے مستحق ہیں.بہر حال جس طرف بھی نگاہ اٹھا ئیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھلے نظر آتے ہیں.خدا تعالیٰ کا یہ ایک عظیم احسان ہے ایک مسلمان پر.خدا کرے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچاننے اور اس کی رضا کی راہوں میں سے ہر راہ پر چلنے کی توفیق ملتی رہے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور پھر رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۴ / نومبر ۱۹۶۷ ، صفحه ۳)

Page 399

خطبات ناصر جلد دہم ۳۷۵ خطبہ نکاح ۲۱ نومبر ۱۹۶۷ء اسلام نے نہایت ہی حسین معاشرہ کے سامان مہیا کر دیئے ہیں خطبہ نکاح فرموده ۲۱ / نومبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دنیا اس وقت نمونہ کی محتاج ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے صداقت اسلام کے لئے اس قدر مضبوط اور بہترین دلائل مہیا کئے ہیں کہ دنیا کا کوئی مذہب اپنی صداقت پر ویسے دلائل مہیا نہیں کر سکا لیکن انسانی دماغ اور دل پر دلائل کا اثر اتنا نہیں ہوتا جتنا کہ نمونہ کا اثر ہوتا ہے.اس لئے اسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.آپ کا نمونہ ہی تھا جس نے عرب کے دل مغلوب کئے اور آپ کے پاک نمونہ کو دیکھ کر ہی عرب نے اسلام کو قبول کیا.اس وقت جب ہم دوسرے ممالک میں تبلیغ کرتے ہیں.تو وہ کہتے ہیں کہ دلائل کا سوال ٹھیک.لیکن ہم نمونہ دیکھنا چاہتے اور ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام نے کون سا معاشرہ قائم کیا ہے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ اسلام نے نہایت ہی حسین معاشرہ کے سامان مہیا کر دیئے ہیں لیکن مسلمان عمل کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا اور احمدیت کو اسی لئے قائم کیا گیا ہے کہ وہ اسلام کے صحیح معاشرہ کا نمونہ قائم کرے.ہم میں سے بہت سے ہیں جو اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کرتے بلکہ

Page 400

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۱ نومبر ۱۹۶۷ء اس طرف توجہ کرتے ہی نہیں حالانکہ ہماری نجات کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اسلام پر عمل کریں اور دنیا کی نجات کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اسلام کی پاک تعلیم پر عمل کرے.ازدواجی تعلق کے متعلق بھی اسلام نے نہایت حسین تعلیم پیش کی ہے.خاوند کے لئے بھی اور بیوی کے لئے بھی.اسلام نے خاوند کو کہا کہ تمہاری بیوی ہوسکتا ہے کہ کئی ایسی باتوں کا اظہار کرے جو تمہیں ناپسند ہوں گی اور کئی ایسی باتوں کا اظہار کرے جو تمہیں پسند ہوں گی.جو تمہارے نزدیک ناپسندیدہ ہوں انہیں نظر انداز کر دینا اور جو پسند ہوں انہیں اپنا نا.اس میں اشارہ فرمایا کہ تمہاری بھی بعض باتیں بیوی کو ناپسند ہوں گی اور بعض باتیں پسند ہوں گی.پس اسے بھی ہدایت کی کہ تم نا پسند کو نظر انداز کر دینا اور جو پسند ہوں انہیں قبول کر لینا.تو ہر دومیاں اور بیوی کو تعلیم دی کہ ہر دو کو ایک دوسرے کے لئے کچھ چھوڑنا پڑے گا.اس میں قربانی اور ایثار کی بڑی حکیمانہ تعلیم دی گئی ہے.جس سے آپس کے تعلقات محبت بڑھتے اور مضبوط ہوتے ہیں.پھر اسلام نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ جن دو گھروں میں رشتہ قائم ہو ان کو آپس میں نہایت اچھا سلوک ایک دوسرے سے کرنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے سسرال سے نہایت اچھا سلوک فرمایا کرتے تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ بھی اپنے سسرال والوں سے نہایت اچھا سلوک فرماتے رہے ہیں حالانکہ ان میں سے بعض ہماری عمر کے بھی تھے.کوئی اگر کسی گھر سے بیٹی بیاہ لائے اور اس گھر کی عزت نہ کرے تو اس کی عزت کیسے قائم ہوگی؟ پھر ہر شخص اپنے گھر میں وہی لڑکی لاتا ہے جس کو وہ عزت اور احترام والی سمجھتا ہے اور اسی گھرانہ سے لاتا ہے جس کو وہ عزت و احترام والا سمجھتا ہے.اگر وہ ایسے گھرانہ سے آئی ہے جہاں پہلے قرابت داری نہ ہو تو اس وقت بھی اسلام کا بنیادی حکم یہ ہے کہ ہر شخص سے محبت اور سلوک سے پیش آنا، ہر شخص کی غم خواری کرنا، اس کے دکھوں میں اس کا شریک ہونا.بے تکلف معاشرہ اسلام نے ہی قائم کیا ہے.فرمایا کہ جو حقیقی مومن ہوں گے وہ تمام رسوم اور رواج کو اپنے گھروں سے باہر نکال پھینکیں گے.قرآن کریم کے نزول کے وقت جتنے رواج

Page 401

خطبات ناصر جلد دہم ۳۷۷ خطبہ نکاح ۲۱ نومبر ۱۹۶۷ء اور قیود تھیں وہ اس تعلیم کی برکت سے توڑ کے پھینک دی گئیں.تو مومن اس دنیا میں آزادی کی زندگی بسر کرتا ہے اور ناجائز رسوم اور قیود کا اپنے کو پابند نہیں ہونے دیتا.پس میں تمام عزیزوں کو جن کا نکاح ہو رہا ہے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلام کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق بے تکلف زندگی گزار نے اور پاک معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں اور تمام ناجائز رسم و رواج کو نکال پھینکنا چاہیے اپنے معاشرہ سے.جس وقت کسی گھر کے بچے جوان ہوتے ہیں تو ان کی شادی کا وقت آ پہنچتا ہے اور ان تعلقات کی ذمہ داری ان پر آپڑتی ہے.جو بوڑھے ہو جاتے ہیں ان پر نوجوانوں کی نگرانی کی ذمہ داری آپڑتی ہے.پس اگر نوجوان اور بوڑھے اسلام کی تعلیم کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو نبھا ئیں اور اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی گزاریں تو اس کے نتیجہ میں ایک پاک معاشرہ قائم ہو جائے گا جس کی برکت سے خود ہماری زندگیاں آرام اور سکون کی زندگیاں ہوں گی اور اس کے ساتھ ساتھ ہم دوسرے لوگوں کے لئے بھی پاک معاشرہ کا نمونہ پیش کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 402

Page 403

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۳؍ دسمبر ۱۹۶۷ء انسان کی کامیابی کا انحصار اعمال صالحہ بجالانے پر ہے خطبہ نکاح فرموده ۳؍ دسمبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضورانور نے بعد نماز مغرب ایک نکاح کا اعلان فرمایا :.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسان کی کامیابی کا انحصار اعمال صالحہ بجالانے پر ہے اور عمل صالح وہ ہوتا ہے جو افراط وتفریط سے پاک ہوا اور جس میں عدل اور انصاف کو مدنظر رکھا جائے.یہ وہ اصل ہے جو ہماری زندگیوں میں کام کرتا نظر آتا ہے.جو شخص اعمال صالحہ بجالاتا ہے اور عدل وانصاف کا ترازو پکڑے رہتا ہے وہ ہر قسم کے فساد اور بدنتائج سے محفوظ رہتا ہے.خدا تعالیٰ ہمیں اپنے احکام بجالانے اور اعمال صالحہ کرنے اور عدل وانصاف پر قائم رہنے کی توفیق دے اور ہر قسم کے بدنتائج سے محفوظ رکھے.پھر حضور انور نے مکرمہ نسرین بنت شیخ عنایت اللہ صاحب لاہور کے نکاح کا اعلان ہمراہ لئیق احمد ولد شیخ دوست محمد صاحب لائل پور فر مایا.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 404

Page 405

خطبات ناصر جلد دہم ۳۸۱ خطبہ نکاح ۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء اللہ اس رشتہ کو ہر دو خاندانوں کے لئے مبارک کرے خطبہ نکاح فرموده ۹ / دسمبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب عزیزہ حلیمہ بشری بنت مکرم مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری مدیر ہفت روزہ بدر قادیان کا نکاح ہمراہ مکرم را نا محمد ارشد صاحب ابن مکرم را نا محمد عبد اللہ صاحب بہاولپور پروفیسر گورنمنٹ پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کراچی بعوض مبلغ پانچ ہزار پانچ صد روپیہ پڑھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس نکاح کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں وہ عزیزہ حلیمه بشری بنت مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری حال ساکن قادیان کا ہے جو عزیز مکرم محمد ارشد صاحب ایم.ایس.سی ابن مکرم را نا محمد عبد اللہ صاحب کے ساتھ ۵۵۰۰ روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.عزیزہ حلیمہ بشری کے والد قادیان میں خدمت دین اور خدمت احمدیت میں چوبیس گھنٹے مصروف ہیں اس لئے ان کا حق ہے کہ ہم ان کے لئے ، ان کے خاندان کے افراد کے لئے اور اگر ان کے خاندان کے افراد کے رشتے ہوں تو ان کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں.سو آپ اب بھی دعا کریں اور بعد میں بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو ہر دو خاندانوں کے لئے مبارک کرے.یہ رشتہ ان کے لئے خوشیاں لانے والا اور ان کے دل اور روح کو سکون پہنچانے والا ہو.

Page 406

خطبات ناصر جلد دہم ۳۸۲ خطبہ نکاح ۹ ردسمبر ۱۹۶۷ء اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۵ /جنوری ۱۹۶۸ ء صفحه ۴)

Page 407

خطبات ناصر جلد دہم ۳۸۳ خطبہ نکاح ۷ /جنوری ۱۹۶۸ء دلوں میں محبت پیدا نہیں ہوسکتی جب تک کوئی پیار اور خلوص سے کام نہ کرے خطبہ نکاح فرموده ۷ جنوری ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرم گزار ولد شہاب الدین صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس بچی کے نکاح کا اعلان میں اس وقت کر رہا ہوں اس عزیزہ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے.جس کے بہت سے افراد کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خدمات بجالانے کا موقع عطا کیا ہے.اس عزیزہ کے بزرگوں میں سے ہی مکرمی و مخدومی مولوی محمد دین صاحب ہیں جو پہلے ہیڈ ماسٹر رہے.پھر ناظر تعلیم کے عہدہ پر کام کرتے رہے اور اب صدرصد رانجمن احمد یہ ہیں.اس کمزوری کی حالت میں اتنی عمر میں بڑی ہمت سے کام کر رہے ہیں.اس وقت بیمار ہیں ان کی صحت کے لئے دعا کرنی چاہیے.اس عزیزہ کے ایک اور بزرگ مولوی رحمت علی صاحب ہیں جو انڈونیشیا میں ایک عرصہ تک تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے رہے اور بڑی محبت اور پیار سے جماعتوں کی خدمت بھی کی تبلیغ بھی کی اور انہیں سنبھالا بھی.جو طلبہ انڈونیشیا سے آتے رہتے ہیں.ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے دلوں میں ان کی خاص محبت ہے اور یہ محبت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک کہ کوئی شخص محبت اور پیار اور خلوص

Page 408

خطبات ناصر جلد دہم ۳۸۴ خطبہ نکاح ۷ /جنوری ۱۹۶۸ء سے کام نہ کرے.عزیزہ کے ایک اور بزرگ چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر بھی ہیں ان کی بھی ساری زندگی سلسلہ کی خدمت میں گزری ہے.جس عزیز سے اس کی شادی ہورہی ہے وہ میرے پیارے شاگر د ر ہے ہیں ان سے میرا خاص تعلق ہے.وہ بڑے مخلص ہیں.گوان کے رشتہ دار غیر احمدی ہیں لیکن انہوں نے ان سے کوئی اثر نہیں لیا.اپنی طبیعت کے لحاظ سے اور اپنے اخلاص کے لحاظ سے.میں بھی دعا کروں گا اور آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو برکت عطا فرمائے اور ان کی آئندہ نسل میں ایسے فدائی پیدا ہوتے رہیں جو اشاعت اسلام اور اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے والے ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخلاص اور محبت رکھنے والے ہوں.اس کے بعد حضور انور نے نکاح کا اعلان فرمایا اور اس کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 409

خطبات ناصر جلد دہم ۳۸۵ خطبہ نکاح ۱۳ / جنوری ۱۹۶۸ء خاندان مسیح موعود پر قربانیاں دینے کی دُہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء بمقام جلسہ سالانہ ربوہ حضور انور نے حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمدیہ کی دو صاحبزادیوں عزیزہ عتیقہ فرزانہ صاحبہ اور عزیزہ در شہوار دردانہ صاحبہ کے علاوہ چھ مزید نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت جن نکاحوں کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں ان میں سے بعض رشتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض دوسرے احباب جماعت سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد پر اللہ کے دین کے لئے قربانیاں دینے کی دُہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ایک اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی شناخت ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کی توفیق عطا کی اور دوسرے اس لئے کہ اس نے محض اپنے فضل سے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان میں پیدا کیا.دوست دعا کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تعلق رکھنے والے بچے اور وہ نسل جو اللہ تعالیٰ ان سے آگے چلائے.

Page 410

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۳ / جنوری ۱۹۶۸ء انہیں اللہ تعالیٰ ان انتہائی قربانیوں کی توفیق عطا کرے جن کی وہ ان سے توقع رکھتا ہے اور انہیں اپنے انعامات کا وارث کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں اور بشارتوں کو ان کے حق میں قبول کرے اور پورا کرے.اسی طرح جو دوست جماعت سے تعلق رکھتے ہیں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے نہیں اور جن کے نکاح کا اعلان میں آج کروں گا یا کل اعلان کروں گا (ان کے لئے آپ آج پہلے ہی دعا کر لیں تو کوئی حرج نہیں ) اللہ تعالیٰ ان سب رشتوں کو جو اس جلسہ کے موقع پر باندھے جارہے ہیں بہت ہی بابرکت کرے اور نیک نسل ان سے چلائے وہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی عاشق اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے فدائی اور دین کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں دینے والی ہو اور پھر ان کی آئندہ نسل بھی جوان سے آئندہ چلے.حضور انور نے ایجاب وقبول کروانے کے بعد حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 411

خطبات ناصر جلد دہم ۳۸۷ خطبہ نکاح ۱۹/جنوری ۱۹۶۸ء نکاح کے موقع پر سب سے زیادہ : ضروری بات دعا ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۹ جنوری ۱۹۶۸ء بمقام کراچی حضور انور نے بروز جمعہ بوقت گیارہ بجے (دن) علالت طبع کے باوجود از راہ نوازش کیپٹن ایا زمحمود احمد خان صاحب ولد مکرم عبدالمجید خان صاحب کا نکاح امتہ المجید صاحبہ بنت کرنل مرز امحمد شفیع صاحب کراچی کے ساتھ پڑھا تھا.آیات مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نکاح کے موقع پر جو سب سے زیادہ ضروری بات ہے وہ دعا ہے ازدواجی معاملہ درخت کے پیوند کی طرح ہوتا ہے جو خطرے کا بھی احتمال رکھتا ہے اور برکت کا بھی باعث ہوسکتا ہے.رشتہ میں ہزاروں برکتیں بھی ساتھ ہو سکتی ہیں.سب دعا کریں کہ ہر شر سے خدا تعالیٰ اس رشتہ کو محفوظ رکھے اور ہر خیر سے اس رشتہ کو برکت دے.بعد ازاں حضور انور نے دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ / فروری ۱۹۶۸ صفحه ۴)

Page 412

Page 413

خطبات ناصر جلد دہم ۳۸۹ خطبہ نکاح ۲۹ جنوری ۱۹۶۸ء خوف خدا پیدا کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ہے خطبه نکاح فرموده ۲۹ جنوری ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب وعشاء مندرجہ ذیل بچیوں کے نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.عشرت نساء صاحبہ ۲ بلقیس اختر صاحبه ۳.رشیدہ سلطانہ صاحبہ ۴ - مبارکه بیگم صاحبہ ۵.نصرت محموده صاحبه خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا :.اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ ہمارا خدا خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر : ۱۹) ہے.اس سے ہر چیز خواہ ہم اسے کتنا ہی پوشیدہ کر یں پوشیدہ نہیں رہ سکتی.اس لئے ہمیں اسے ناراض کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ناراضگی سے بچائے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 414

Page 415

خطبات ناصر جلد دہم ۳۹۱ خطبہ نکاح ۲۴ فروری ۱۹۶۸ء جھوٹی عزتوں کی خاطر خدا کے احکام اور تعلیم کو قربان نہ کریں خطبه نکاح فرموده ۲۴ فروری ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضورانور نے بعد نماز عصر را جا غلام حسین صاحب اور امجد علی صاحب ولد چوہدری فرزند علی صاحب کے نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں اپنی چار صفات کا ذکر فرمایا ہے.اس میں ہمیں بتایا کہ وہ رب ہے.اس نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری پرورش کے لئے سامان مہیا فرمائے.جن کے ذریعہ ہم درجہ بدرجہ پرورش پاتے اور درجہ بدرجہ ترقی کی منازل طے کرتے ہیں.وہ ہ رحمن ہے.ہمارے استحقاق کے بغیر اس نے ہمارے لئے ہماری تمام ضروریات مہیا فرما ئیں.وہ رحیم ہے.جب ہم تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اس کی راہوں پر چلتے ہیں تو وہ ایسا کرتا ہے کہ آئندہ کی تکلیفوں سے ہمیں بچا لیتا ہے.وہ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة : ۴) ہے جب ہم اس کی کامل اطاعت کرتے ہوئے اعمال صالحہ بجالاتے ہیں تو وہ مقام صالح جوابدی سرور اور خوشحالی کا مقام ہے ہمیں عطا کرتا ہے.یہ چار صفات، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ائم الصفات ہیں یعنی اللہ تعالیٰ

Page 416

خطبات ناصر جلد دہم ۳۹۲ خطبہ نکاح ۲۴ فروری ۱۹۶۸ء کی جو سیحی صفات ہیں ان کی بنیادی صفات یہ چار ہیں.جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ چاروں صفات اس کے وجود، کرم اور رحمت پر دلالت کرتی ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس کا منشا بھی ہے کہ وہ ہم سے رحم اور کرم کا سلوک کرے مگر کئی بدقسمت لوگ اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کی وجہ سے اپنے کو صفات الہیہ کے پرتو سے دور کر لیتے ہیں اور پھر دکھ اٹھاتے ہیں.ہمیں ہر وقت خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی راہوں سے بھٹک نہ جائیں اور عاجزانہ راہوں سے چاہئیں کہ ان چار صفات کے پر تو کے نیچے رہیں کیونکہ جو شخص ان چار صفات کے پرتو سے نکل جاتا ہے تو وہ دکھ اٹھاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ازدواجی تعلقات کے متعلق ہماری راہنمائی فرمائی ہے اور اسلام میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ بد رسوم اور بڑے رواجوں سے بچے رہیں.ہمیں خیال رہنا چاہیے کہ ان جھوٹی عزتوں کی خاطر خدا تعالیٰ کے احکام اور اس کی تعلیم کو قربان نہ کریں.کرائی.اس کے بعد حضور پرنور نے نکاحوں کا اعلان فرمایا اور رشتوں کے بابرکت ہونے کی دعا از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 417

خطبات ناصر جلد دہم ۳۹۳ خطبہ نکاح یکم مارچ ۱۹۶۸ء احمدی بچیوں اور بچوں کے درمیان طے پانے والے رشتے خوشی کا باعث ہیں خطبہ نکاح فرموده یکم مارچ ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.عابدہ بنت نیاز محمد صاحب لاہور کا عبد القادر صاحب ولد محمد مقیم صاحب سے.-۲.امۃ الواحد بنت گیانی واحد حسین صاحب کا محمد رشید صاحب جاوید ولد بابو محمد امین صاحب سے.۳- بشری صدیقہ بیگم بنت سید محمد اقبال شاہ صاحب کا امین اللہ خان صاحب سالک ولد عبدالمجید خاں صاحب سے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یوں تو سب رشتے ہی جو احمدی بچیوں اور بچوں کے درمیان طے پائیں وہ ہم سب کے لئے خوشی کا باعث ہوتے ہیں لیکن آج جن تین نکاحوں کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں.وہ تینوں ہی کسی نہ کسی رنگ میں خصوصیت رکھتے ہیں ( کم از کم میرے لئے ).ایک نکاح اس نہایت ہی عزیزہ بچی کا ہے جس کے والد ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے اور اس نے بڑے استقلال کے ساتھ اور کافی مخالفت کے باوجود احمدی رشتہ کو پسند کیا اور اسی پر مصر رہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے احمدی رشتہ ایسا مہیا کر دیا ہے جس رشتے کو ان کے والد

Page 418

خطبات ناصر جلد دہم ۳۹۴ خطبہ نکاح یکم مارچ ۱۹۶۸ء نے بھی منظور کر لیا ہے اور اس عزیزہ کی اور میری بہت سی تشویش اس طرح دور ہو گئی ہے.دوسرا نکاح اس عزیزہ کا ہے جس کے والد ہمارے مبلغ ہیں انھوں نے اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کی ہوئی ہے اور ہر واقف جو دنیا کی تمام کششوں کے باوجود اپنے خدا کا ہو رہتا ہے اور اس کے باوجود خدا کے لئے زندگی گزارتا ہے بہر حال اپنے اندر خصوصیت رکھتا ہے.تیسرا رشتہ اس بچی کا ہے.جس کے والد بڑے لمبے عرصہ سے مشرقی افریقہ میں رہائش پذیر ہیں.بڑے مخلص، تعلیم الاسلام ہائی سکول کے پڑھے ہوئے.دو بھائیوں کے ساتھ تو میں بھی کلاس میں بیٹھا رہا ہوں جب میں نے میٹرک کا امتحان دینا تھا.میں باقاعدہ داخل نہیں ہوا تھا لیکن انگریزی اور حساب کی کلاسز میں لیا کرتا تھا ( ہائی سکول میں ).اس وقت دو بھائی پڑھا کرتے تھے.جن میں سے ایک فوت ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت سے ڈھانکتا رہے.ان عزیز کے والد خود بڑے مخلص ہیں اور بڑا کام کرنے والے ہیں.مشرقی افریقہ میں اور آج کل جیسا کہ وہاں کے حالات ہیں، آپ جانتے ہی ہیں کافی مخدوش ہیں.اس لئے ان کے لئے اور ان کی عزیزہ بچی کے لئے خاص دعاؤں کی ضرورت ہے اور سب سے بڑی خصوصیت اس رشتہ میں یہ ہے کہ وہ جو اتنی دور مرکز سے (پاکستانی سے پہلے ہندوستانی تھے.پھر پاکستان میں تھے ) رہے.دنیا داروں کے اندر رہے.دنیوی ماحول میں ان کے بچوں نے پرورش پائی لیکن اس عزیزہ نے خوشی سے ایک ایسا رشتہ پسند کیا ہے ( بچیاں بولا تو نہیں کرتیں لیکن بہر حال ان کی پسند بھی ضروری ہے اور منظوری کے بغیر نکاح نہیں ہوتا) جو واقف زندگی ہے.واقف زندگی تو ہرلحاظ سے ہماری دعاؤں کا حق رکھتا ہے اور عزیزہ عابدہ اپنے خاص حالات کی وجہ سے ہماری دعاؤں کی حقدار ہے.اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ یہ رشتے سارے خاندانوں کے لئے بہت مبارک ثابت ہوں اور ایسی نسل ان سے چلے کہ جو اپنے ربّ پر فدا ہونے والی اور دنیا کی کوئی پرواہ نہ کرنے والی ہو.( آمین ) از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 419

خطبات ناصر جلد دہم ۳۹۵ خطبہ نکاح ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء ربوبیت کی صحیح اور حقیقی ذمہ داری اللہ نے اپنے پر لی ہے خطبه نکاح فرموده ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرم لال خان صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا جو مکر مہ امتہ اللطیف بنت مرزا برکت علی صاحب مرحوم سے ہوا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن کریم کی تین آیات عام طور پر خطبہ نکاح کے وقت پڑھی جاتی ہیں.پہلی آیت جو پڑھی جاتی ہے وہ یہ ہے.يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ (النِّسَاء :٢) اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ہمارا اللہ ہمارا رب ہے.ربوبیت کی صحیح اور حقیقی ذمہ واری اس نے اپنے پر لی ہے.رب کے معنی ہیں پیدا کرنے والا.پیدائش کے بعد جو قو تیں اور استعداد میں اس نے مخلوق میں رکھی ہوں ان کے مطابق نشو و نما کے سامان پیدا کرنے والا نشو ونما کی توفیق دینے والا تا کہ اس کی مخلوق وہ حاصل کر لے جو اس نے اپنی مخلوق کے لئے مقرر کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت ہی ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے.جسمانی بھی اور روحانی بھی اور اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ میں نے اس ربوبیت کے نظام میں ازدواجی تعلقات بھی رکھے ہیں.ان ازدواجی تعلقات کے

Page 420

خطبات ناصر جلد دہم ۳۹۶ خطبہ نکاح ۲۳ / مارچ ۱۹۶۸ء نتیجہ میں اگر تم خدا کی باتیں مانو د نیا کے رسم و رواج نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں درجہ بدرجہ ترقی دے کر ان مقامات تک تمہیں لے جائے گا.جن مقامات تک وہ تمہیں لے جانا چاہتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاَهْلِلہ.اگر تمہارے اپنے اہل کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں گے اچھا برتاؤ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی تم اچھے بنو گے اور جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم انسان کو ملتا ہے شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ انسان اس حکم پر عمل نہ کرے.اس مقصد کو حاصل نہ کرے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسے حاصل ہو.ان ترقیات تک نہ پہنچے جہاں اللہ تعالیٰ اسے پہنچانا چاہتا ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ ازدواجی تعلقات میں شیطانی رخنوں کا واقع ہو جانا بھی ممکن ہے.اس لئے جب تمہیں اس قسم کی الجھنیں پیدا ہوں تو تم اِتَّقُوا رَبَّكُمُ اسی کو اپنی ڈھال بناؤ جس نے خود کو تمہارا رب بنایا ہے.ربّ ہونے کی ذمہ داری اس پر ہے.اگر تم اپنے خدا کو ، اپنے اللہ کو، اپنے رب کو ، اپنے خالق کو اپنی ڈھال بناؤ گے اور اس کے احکام کو توڑو گے نہیں.اور گناہ سے اور معصیت سے اس لئے بچو گے کہ وہ تم سے راضی ہو جائے تو پھر تم شیطانی وسوسوں اور شیطانی رخنوں اور شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جاؤ گے کیونکہ وہ تمہارا خالق ہے وہ تمہارا رب ہے اور وہی جانتا ہے کہ تم کس قسم کی استعداد میں اور قو تیں رکھتے ہو اور تم کس حد تک بلندیوں کو حاصل کر سکتے ہو.اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک موقع پر کہا اور اس کو قرآن کریم نے نقل کیا تا کہ ہمارے لئے وہ ہدایت کا موجب بنے اور وہ یہ کہ الَّذِي خَلَقَنِی فَهُوَ يَهْدِيْنِ (الشعر آء : ۷۹) اور اس میں یہ مضمون بیان کیا کہ خالق ہی بتا سکتا ہے کہ کتنی طاقت اور قوت کسی چیز میں ہے.موٹی مثال اس کی ہے.لاریاں چلتی ہیں ہر روز اس پر چڑھتے ہیں موٹریں ہیں موٹر بنانے والے نے اس پر لکھا ہوا ہے کہ اس سے زیادہ تیز رفتار سے یہ موٹر نہیں چلے گی اگر لکھا نہ ہو تو پھر نا واقف انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنی تیز رفتار سے یہ موٹر چل سکتی ہے.انسان کو جس نے پیدا کیا وہی بتا سکتا ہے کہ اس میں کیا کچھ رکھا گیا ہے اور کس طرح اس کو ترقی دی جاسکتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ اس رب سے ڈرو اور اس کی پناہ میں آ جاؤ اور اس کی خاطر دنیا کی رسوم و رواج کو چھوڑ دو جو تمہارا رب ہے.تمہیں اپنا قرب عطا کرنا چاہتا ہے اور

Page 421

خطبات ناصر جلد دہم ۳۹۷ خطبہ نکاح ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء صرف وہی تمہیں ہدایت دے سکتا ہے کیونکہ وہ تمہارا خالق ہے اور سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا کہ انسان میں یا اس کی دوسری مخلوقات میں کیا کچھ استعدادیں رکھی گئی ہیں.تو اگر ہم سارے مسلمان قرآن کریم کی بتائی ہوئی ہدایتوں پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ کے بڑے ہی فیوض اور اس کی بڑی ہی برکتوں کو ہم حاصل کر سکتے ہیں لیکن پیدا تو اس نے کیا اور علاج ہم کسی اور کا کروائیں.علاج کا لفظ میں نے اس وقت بول دیا ہے.ممکن ہے کسی کو شبہ پڑ جائے.جتنے علاج ہیں وہ بھی اس نے پیدا کئے ہیں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جوا دو یہ پیدا کی ہیں ان سے اپنی بیماری کا علاج نہیں کریں گے بلکہ دوسرے ستاروں سے دوائیں لے کر آئیں گے.تو جب تک ستاروں تک پہنچیں گے کہنے والے فنا ہو جائیں گے مر جائیں گے، ہلاک ہو جا ئیں گے.تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں پیدا کیا اور ہر جسمانی بیماری کا علاج بھی پیدا کر دیا.بعض ایسی ادویہ ہیں جن کا انسان کو پتہ بھی نہیں لگا.جس طرح آج سے سو سال پہلے بہت ساری ادویہ تھیں جن کا انسان کو پتہ نہیں تھا.اس سو سال میں بہت سی نئی دوائیں اس نے معلوم کر لیں یہ نئی دریافتیں بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ پیدا کیا ہے لیکن ہماری ابھی پہنچ وہاں تک نہیں لیکن اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ ہمیں بتاتا چلا جاتا ہے اور ہمارے علم میں زیادتی کرتا چلا جاتا ہے.جس طرح ہم اس کے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور اس کے کہنے کے مطابق کوشش اور تحقیق میں لگے رہتے ہیں.تو جس طرح ہماری جسمانی بیماریوں اور کمزوریوں کا علاج بھی اس نے خود پیدا کیا.اسی طرح اس نے ہماری اخلاقی اور ہماری روحانی ہدایتوں کا سامان بھی قرآن کریم نے پیدا کیا ہے.قرآن کریم کو اگر ہم اپنے لئے ہدایت تسلیم کریں اور اس پر عمل کریں تو ہمارے ازدواجی تعلقات جو ہیں کبھی بھی ناخوشگوار نہیں ہو سکتے.کیونکہ ہر انسان جو قرآن پر عمل کرتا ہے خوشی اور خوشحالی کی زندگی بسر کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس وقت جس نکاح کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ عزیزہ امتہ اللطیف صاحبہ جو

Page 422

خطبات ناصر جلد دہم ۳۹۸ خطبہ نکاح ۲۳ / مارچ ۱۹۶۸ء مکرم و محترم مرزا برکت علی صاحب مرحوم کی صاحبزادی ہیں ان کا نکاح عزیز مکرم ملک لال خاں صاحب سے جو مکرم و محترم ملک سلطان احمد صاحب کے صاحبزادے ہیں ان کے ساتھ چھ ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.ملک لال خاں صاحب میرے بہت ہی عزیز اور پیارے بچے ہیں آج میں خوش بھی بڑا ہوں اور میری طبیعت ان کے لئے دعا کی طرف بھی بڑی راغب ہے.اسی طرح جس عزیزہ بچی کا نکاح ان کے ساتھ ہو رہا ہے.وہ ہمارے ایک بزرگ مرحوم کی چھوٹی بچی ہے اور یہ سارا خاندان بڑا المبا عرصہ عراق میں رہے.یہ ملک تو کچھ اجنبی سا شاید انھیں معلوم ہورہا ہولیکن نیست اور خلوص ساری اجنبیوں کو مٹا دیتا ہے.دوست بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ رشتہ ہر دو کے لئے بہت ہی بابرکت کرے اور ہر دو خاندان اس کے نتیجہ میں خوش رہیں اور اس ازدواجی رشتہ کے نتیجہ میں ایسی نسل چلے جو اپنے رب پر قربان ہونے والی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی فدائی ہو.( آمین ) اس کے بعد حضور پرنور نے نکاح کا اعلان فرمایا اور اس کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 423

خطبات ناصر جلد دہم ۳۹۹ خطبہ نکاح ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء عمومی رنگ میں ایک مسلمان کا مقصد یہ ہے کہ الہی منشا پورا ہو خطبہ نکاح فرموده ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.عزیزه منصورہ طیبہ صاحبہ بنت عبدالمجید صاحب کے نکاح کا فضل الرحمن صاحب طاہرا بن قاضی عبدالرحمن صاحب سیکرٹری بہشتی مقبرہ سے تین ہزار روپیہ مہر پر.۲.عزیزہ زاہدہ تسنیم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب بدوملہی مرحوم کے نکاح فیض اللہ صاحب ظفر ولد چوہدری رحمت اللہ صاحب کالا گھمناں سے پانچ ہزار روپیہ مہر پر.عزیزہ بشری حکمت بنت مولوی محمد عبد اللہ صاحب کے نکاح کا محمد اقبال صاحب ولد فرمان علی صاحب سے چار ہزار روپیہ مہر پر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ دنیا وسائل و اسباب کی دنیا ہے.اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق انسان تدبیر سے کام لیتا ہے اور زندگی کے ہر مقصد کے لئے ایک ہی سیدھی راہ ہے اور وہ راہ وہ صراط مستقیم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن عظیم میں بیان کیا ہے.یا جس کی تشریح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں فرمائی ہے.ازدواجی رشتوں میں بھی بہت سے مقاصد مد نظر ہوتے ہیں کچھ

Page 424

خطبات ناصر جلد دہم ۴۰۰ خطبہ نکاح ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء عمومی رنگ کے، کچھ خاص طور پر ان خاندانوں سے تعلق رکھنے والے.ایک خصوصی مقصد مثلاً یہ ہوتا ہے کہ جو خاندان قریب ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے پرے ہٹ رہے ہوتے ہیں تو کچھ نو جوان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپس کے ازدواجی رشتے ہو جا ئیں تو پھر یہ خاندان آپس میں قریب ہو جا ئیں گے.عمومی رنگ میں ایک مسلمان کا مقصد یہ ہے کہ الہبی منشا پورا ہو.ایک نیک نسل چلے جو اسلام کی خدمت گزار ہو.تو بہت سے مقاصد ہیں جنہیں اس رشتہ کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے یا حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دعا سکھلا کر اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ہر مقصد کے حصول کی ایک راہ ہے وہ راہ الصّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے.قرآن کریم کی بتائی ہوئی راہ ہے اور اس راہ پر چلنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی توفیق کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ سے توفیق حاصل کرنے کے لئے اس کے حضور عاجزانہ اور متضرعا نہ جھکنے کی اور دعا کی ضرورت ہے.تو ہمیں ہر مقصد کے حصول کے لئے وہ راہ اختیار کرنی چاہیے جو ہمارے رب نے بتائی ہے.اور اپنے رب سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا! ہمیں وہ راستہ دکھا کہ ہم تیری رضا کی ٹھنڈی چھاؤں میں چلتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکیں اور اس راستہ پر چلنے کے لئے ہمیں توفیق عطا کر کہ بہتوں کو بعض دفعہ راہ مل جاتی ہے مگر اس راہ پر چلنے کی وہ توفیق نہیں پاتے.تو دعا اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تدبیر سے کام لے کر اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.اس کے بعد حضور نے نکاحوں کا اعلان فرمایا اور رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 425

خطبات ناصر جلد دہم ۴۰۱ خطبہ نکاح ۲۴ مارچ ۱۹۶۸ء ہر دو خاندان ایک ایک خصوصیت اپنے اندر رکھتے ہیں خطبہ نکاح فرموده ۲۴ مارچ ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور پر نور نے امتہ الخالق صاحبہ بنت غلام احمد صاحب میجر کا شیخ عبد الہادی ولد عبد القادر مرحوم سے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت جس نکاح کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوں اس کے ہر دو خاندان ایک ایک خصوصیت اپنے اندر رکھتے ہیں.عزیزہ بچی کے خاندان پر اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کا بڑا جذبہ رکھا ہے.بچی کے بھائی مشرقی افریقہ میں لئیق احمد ان کا نام ہے.وہ بڑی دعائیں کرنے والے اور خواب بین ہیں اور ان کے بچے بھی جو ابھی چھوٹی عمر کے ہیں متعدد بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں دیکھ چکے ہیں اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی انہوں نے کی ہے.بڑا بچہ ان کا بارہ تیرہ سال کا ہے.چند دن ہوئے اس کا خط افریقہ سے مجھے ملا تھا جس میں اس نے لکھا کہ میں تبلیغ کرتا ہوں اور ہر ہفتہ قریباً ۱۵ شلنگ کی کتب جماعت کی فروخت کر لیتا ہوں اور اپنا ایک واقعہ اس نے یہ لکھا ہے کہ میں کچھ لٹریچر اور اخبار وغیرہ تقسیم کر رہا تھا کہ ایک عیسائی

Page 426

خطبات ناصر جلد دہم ۴۰۲ خطبہ نکاح ۲۴ مارچ ۱۹۶۸ء وہاں سے گزرا اس کو میں نے نائیجیریا سے جو ہمارا اخبار انگریزی میں چھپتا ہے The Truth دیا.اس نے سرسری نگاہ ڈالی اور مجھے واپس لوٹا دیا اور پوچھنے لگا کہ تم احمدی ہو.بچے نے کہا ہاں میں احمدی ہوں تو وہ کہنے لگا کہ میں کیتھولک ہوں اور ہمیں یہ ہدایت ہے کہ احمدیوں کی کتابیں اخبار وغیرہ نہیں پڑھنے اور کسی احمدی سے بات بھی نہیں کرنی.تو اتنا رعب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بچوں کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور شوق اور فدائیت بھی ان میں پیدا کی ہے.خدا کرے کہ عزیز لئیق کے سارے بہن بھائی ( پتہ نہیں کتنے ہیں ) اس قسم کا تبلیغی جوش رکھنے والے اور دعائیں کرنے والے ہوں.بہر حال لیق کے بچوں کو میں جانتا ہوں ذاتی طور پر اور اللہ تعالیٰ نے بڑے ہی فضل کئے ہیں اس خاندان پر.آج جو دولہا ہیں وہ شیخ عبد القار صاحب مرحوم کے بچے ہیں.شیخ صاحب مکرم بھی سلسلہ کے فدائی تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی قلم میں بڑی تاثیر اور بڑی شیرینی رکھی تھی.انہوں نے کچھ کتب جوسلسلہ کی تاریخ کے متعلق لکھی ہیں وہ بہت ہی پیاری ہیں.اچانک ان کی وفات ہوئی.ہم اللہ تعالیٰ کے اس فعل پر راضی ہیں لیکن ہم اپنے اس بھائی کو بھول نہیں سکتے.تو جماعت خاص طور پر دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت ہی بابرکت کرے اور ان میں اور ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو نمایاں خصوصیت اپنے اندر رکھتے ہوں تبلیغی جوش کی ، دعاؤں کی عادت کی ، ذکر الہی کی ، خدا اور اس کے رسول پر فدا ہونے کی.اس کے بعد حضور انور نے امتہ الخالق بنت غلام احمد صاحب میجر کے نکاح کا شیخ عبدالہادی ولد شیخ عبد القادر سے پانچ ہزار روپیہ مہر پر اعلان فرمایا.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 427

خطبات ناصر جلد دہم ۴۰۳ خطبہ نکاح ۳۱ مارچ ۱۹۶۸ء شیطان کا غلبہ ان لوگوں پر نہیں ہوتا جوخدا کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں خطبہ نکاح فرموده ۳۱ / مارچ ۱۹۶۸ء بمقام ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر نواب محمود احمد صاحب ولد نواب محمد احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں عزیزہ امتہ الثانی جو عزیز صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب کی صاحبزادی ہیں.ان کے نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں جو عزیز محمود احمد صاحب سے جو نواب محمد احمد صاحب کے صاحبزادے ہیں قرار پایا ہے.عزیزہ امتہ الشافی کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دوہرا ہے.ننھیال کی طرف سے بھی اور ددھیال کی طرف سے بھی.اسی طرح عزیز محمود احمد صاحب کا تعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دوہرا ہے.ننھیال کی طرف بھی اور ددھیال کی طرف سے بھی.عزیزہ امتہ الشافی ہماری محترمہ چھوٹی پھوپھی صاحبہ کی نواسی ہیں اور محترم چا جان حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی پوتی ہیں.اسی طرح عزیز محمود احمد صاحب

Page 428

خطبات ناصر جلد دہم ۴۰۴ خطبہ نکاح ۳۱ مارچ ۱۹۶۸ء حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ ( ہماری بڑی پھوپھی ) کے پوتے ہیں اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے نواسے ہیں.اس موقع پر میں اپنے عزیزوں کو خواہ ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جسمانی ہے خواہ روحانی، یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اور شکر کا مقام ہے کہ اس نے ایسے اسباب پیدا کئے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق والے بنے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لئے بڑی دعائیں کی ہیں.جو آپ کی دو آمین میں ہیں اور دوسری جگہ بھی پائی جاتی ہیں اور جب ہم ان دعاؤں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر وہ دعا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی وہ ہم پر ایک ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے.میں چند مثالیں بیان کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.حق پر نثار ہوویں مولی کے یار ہو یں پھر آپ نے فرمایا.نہ دیکھیں وہ زمانہ بے کسی کا مصیبت کا، الم کا، بے بسی کا یہ دعا جب آپ نے کی تو ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ تم پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ تم اپنی زندگیاں بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةً أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ حزنون (البقرۃ: ۱۱۳) کے مطابق گزارو.اگر بے کسی اور بے بسی کا زمانہ تم دیکھنا نہیں چاہتے اور مصیبتوں اور تکلیفوں سے بچنے کی خواہش ہے.تو بلی مَنْ أَسْلَم والے گروہ میں داخل ہو جاؤ.اپنے پر ایک موت وارد کر لو اور اپنی ہر چیز خدا پر قربان کر دو اور خدا تعالیٰ سے نئی زندگی کی خواہش کرو اور نئی زندگی پاؤ.اگر تم سب کچھ خدا کے لئے قربان کر دو گے اور اپنے پر ایک موت وارد کر لو گے تو بے کسی اور بے بسی کا زمانہ نہ دیکھو گے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا فرمائی.شیطاں سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو

Page 429

خطبات ناصر جلد دہم ۴۰۵ خطبہ نکاح ۳۱ مارچ ۱۹۶۸ء اس میں ہمیں متوجہ کیا کہ شیطان کا غلبہ ان لوگوں پر نہیں ہوتا جو خدا کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور مجاہدہ کا حق ادا کرتے ہیں.اگر تم ایسا کرو گے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ دعا تمہارے حق میں قبول ہوگی.پھر آپ نے فرمایا.اہل وقار ہوویں فخر دیار ہوویں اس میں آپ نے ہمیں متوجہ کیا اس فرمان کی طرف مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا (فاطر: ۱۱) کہ سب عزتوں کا سر چشمہ خدا ہے.اگر عزت کی تلاش ہو تو اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے.اس شخص کی کیا عزت جسے دس ہیں، تیس چالیس پچاس ساٹھ کی نگاہ میں عزت حاصل ہو لیکن خدا کی نگاہ میں اس کے لئے ذلت اور غضب مقدر ہو.پس فرمایا کہ خدا تعالیٰ سب عزتوں کا سر چشمہ ہے اور جس سے حقیقی عزت ملتی ہے اس سے تعلق قائم کرو تا تمہیں حقیقی عزت ہو.پھر فرمایا.مولی کے یار ہوویں قرآن مجید میں فرمایا وَ اللهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ (الجانية : ۲۰) کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کی خاطر اس کی نواہی سے بچتے ہیں اور گناہ اور معصیت کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تو وہ گا خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آجاتے ہیں.مولی کا یار بنے اور اس کی حفاظت میں ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا کی نگاہ میں متقی بنیں بعض لوگ کچھ لوگوں کی نظر میں متقی ہوتے ہیں لیکن در حقیقت وہ متقی نہیں ہوتے.اصل متقی وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں متقی ہو.اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہوگی کہ ایک انسان خدا تعالیٰ کی نظر میں متقی ٹھہرے.پھر فرمایا.جاں پر ز نور رکھیو دل پر سرور رکھیو اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں توجہ دلاتے ہیں کہ ہمیں اپنے اندر سے ظلمات

Page 430

خطبات ناصر جلد دہم ۴۰۶ خطبہ نکاح ۳۱ مارچ ۱۹۶۸ء دور کر کے نور پیدا کرنا چاہیے اور وہ نور حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.فرمایا.وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُّورِ ( النور : ۴۱) کہ حقیقی نور وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.پھر فرمایا.يَهْدِی بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُلمتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (المآئدة: ۱۷) پس ہماری توجہ کو اس طرف پھیرا گیا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل خدا تعالیٰ کے نور سے منور ہو تو اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلو اور اس کے لئے یہ طریقہ بتایا ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے گا اور آپ کے نمونہ پر چلے گا اس کو نور دیا جائے گا.وہ صراط مستقیم جو اسلام نے ہمارے سامنے رکھا ہے چلتا چلا جائے گا.آخر وہ اس نور کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا.یہ چند مثالیں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی.آپ نے جو دعا بھی فرمائی ہے ہر اس دعا کے مقابلے غور کرنے پر آپ کو ایک ذمہ داری نظر آئے گی جس کی قرآن مجید کی آیات سے تائید ہوتی ہے اور جس کا نبھانا ہمارے لئے ضروری ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہو جانا یا یہ سمجھ لینا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے لئے دعائیں فرمائی ہیں کافی نہیں.اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ نہ ہوں.جو ان دعاؤں کے نتیجہ میں ہم پر آتی ہیں.تو یہ دعا ئیں ہمارے لئے مفید نہیں.یہ دعا ئیں اسی وقت ہمارے لئے مفید ہوسکتی ہیں جب ہم وہ ذمہ واریاں بھی ادا کریں جو ان دعاؤں کے نتیجہ میں ہم پر پڑتی ہیں.پس اے دے لوگو! جو جسمانی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتے ہو اور اے دے لوگو! جو روحانی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتے ہو.ان باتوں پر غور کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس لئے بھیجا گیا تھا کہ تا آپ کے گرد وہ لوگ جمع ہوں جو قرآن کریم پر عمل کرنے والے ہوں اور قرآن کریم کے نور سے منور ہوں.

Page 431

خطبات ناصر جلد دہم ۴۰۷ خطبہ نکاح ۳۱ مارچ ۱۹۶۸ء دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا کرے کہ ہم قرآن کریم پر عمل کریں اور ہمارے دل اس کے نور سے منور ہوں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے ویسے ہی ہم اس کی نظر میں ہوں.اس کے بعد حضور پرنور نے پندرہ ہزا ر حق مہر پر اس نکاح کا اعلان فرمایا اور پُرسوز دعا کرائی.谢谢谢 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 432

Page 433

خطبات ناصر جلد دہم ۴۰۹ خطبہ نکاح ۳۰ جون ۱۹۶۸ء انسانی اعمال کو اللہ کا فضل ہی اعمال صالحہ کی شکل دے سکتا ہے خطبہ نکاح فرموده ۳۰ر جون ۱۹۶۸ء بمقام مری حضور انور نے بروز اتوار پانچ بجے شام مکرم محمد جمیل صاحب چغتائی ابن مکرم محمد بشیر صاحب چغتائی آف گوجرانوالہ کے نکاح کا اعلان ہمراہ عزیزه رفعت سعیدہ صاحبہ بنت مکرم مرزا محمد حسین صاحب شملوی مرحوم آف راولپنڈی مبلغ پانچ ہزار روپیہ حق مہر پر فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کہ قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ (الاحزاب: ۷۲،۷۱) میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ایک طرف اعمال کے بدنتائج سے سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کوئی بچا نہیں سکتا اور دوسرے یہ کہ کوئی شخص اپنی ہمت اور طاقت سے اعمال صالحہ بجانہیں لا سکتا.اللہ تعالیٰ کا ہی فضل ہے کہ انسان کے اعمال کو اعمال صالحہ کی شکل دیتا ہے اور بد نتائج سے بچنے اور اعمال صالحہ کے بجالانے کے لئے یہاں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ اپنا معاملہ اپنے رب سے یا جن سے واسطہ پڑے صاف رکھو کوئی ایچ پیچ نہ ہو.کوئی چھپی ہوئی چیز میں نہ ہوں.جب تک اللہ سے اور ان سے جن سے اللہ تعالی تعلق کو قائم کرتا ہے یا تعلق قائم کرنے کی ہدایت فرماتا ہے معاملہ صاف نہ ہو.اپنے اپنے دائرہ میں اعمال بھی اعمال صالحہ

Page 434

خطبات ناصر جلد دہم ۴۱۰ خطبہ نکاح ۳۰/ جون ۱۹۶۸ نہیں ہوں گے اور اپنے اپنے دائرہ میں جو غلطیاں بشری کمزوری کے نتیجہ میں سرزد ہوں گی ان غلطیوں کے بدنتائج سے انسان بچ نہیں سکے گا اور اسے معافی نہیں ملے گی.اللہ کرے کہ ہم سب ہی قول سدید کی ہدایت پر عمل کرنے والے ہوں اور ہمارے اعمال، خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھنے والے ہوں یا حقوق العباد سے، اعمال صالحہ ہی اللہ کی نگاہ میں بنے رہیں.اگر بشری کمزوری کے نتیجہ میں کوئی غلطی سرزد ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پردہ ڈالے اور بدنتائج سے ہمیں محفوظ رکھے.روزنامه الفضل ربوہ ۷ جولائی ۱۹۶۸ ء صفحہ ۳)

Page 435

خطبات ناصر جلد دہم ۴۱۱ خطبہ نکاح ۴ جولائی ۱۹۶۸ء جو شخص مستقبل کی تیاری کرتا اور اس تیاری کو انتہا تک پہنچاتا ہے وہ نا کام نہیں ہوا کرتا خطبہ نکاح فرموده ۴ جولائی ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضرت اقدس خلیفہ امسح الثالث ایدہ اللہ تعالی نے صاحبزادی سیدہ امتہ البصیر بیگم صاحبہ بنت محترم میاں عبد الرحیم احمد صاحب اور عزیزہ منصورہ خان صاحبه بنت خان عبدالمجید خان صاحب آف ویرووال کے نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں دو نکاحوں کا اعلان کروں گا.ایک تو میری اپنی بچی یعنی میری ہمشیرہ امتہ الرشید کی بچی ہیں جن کے نکاح کے اعلان کے لئے اس وقت میں کھڑا ہوا ہوں اور دوسری بچی بھی اپنی ہی بچی ہے.ہر احمدی بچی میری اس طرح بچی ہے جس طرح اپنے ماں باپ کی بچی اور یہ جس کے نکاح کا میں اعلان کروں گا یہ سلسلہ بھی میری ہی خواہش سے شروع ہوا ہے یہ اس سلسلہ کی دوسری کڑی ہے اور میں بڑا خوش ہوں کہ اپنے ان عزیزوں کے متعلق جو بعض دفعہ مجھے تشویش میں ڈالتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے میری تشویش کو دور کیا اور ان کے حالات بڑے اچھے کر دیے وہ بھی خدا کرے خوش رہیں اور میں بھی خوش ہوں اور خدا کرے کہ خوش ہی رہوں.جہاں تک ہمارے خاندان کے لڑکوں یا لڑکیوں کا تعلق ہے بہترین ورثہ جو ہمیں ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں ہیں

Page 436

خطبات ناصر جلد دہم ۴۱۲ خطبہ نکاح ۴ جولائی ۱۹۶۸ء جوا اپنی اولاد کے لئے حضور نے کیں اور ان دعاؤں کو ایک شرط کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور وعدہ دیا کہ میں تیری دعاؤں کے مطابق تیری نسل سے سلوک کروں گا اور شرط یہ لگا دی کہ جب تک تیری اولا دلڑ کے ہوں یا لڑکیاں اسی طرح تیرے مقام کی اطاعت کرتے رہیں گے اور اس شان کو ظاہر کرنے والے ہوں گے جس طرح تو نے اس مقام کے لئے قربانیاں دیں تو تیری دعائیں ان کے حق میں قبول ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کی برکتوں کے وہ وارث ہوں گے.شرط بڑی کرخت ہے اس میں کوئی شک نہیں.لیکن جن انعاموں کا وعدہ دیا گیا ہے وہ بھی معمولی نہیں.پس اے میری عزیز بچی اگر تم اپنے قول اور اپنے فعل سے ثابت کرو گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کا جو مقصد تھا وہی مقصد تمہاری زندگی کا مقصد ہے تو بے شمار نعمتوں اور فضلوں کی تم اور تمہارے خاوند اور تمہاری نسلیں اور جہاں تمہارا رشتہ ہو رہا ہے وہ خاندان حصہ لے گا اور وارث بنے گا یہ وعدہ ہے جو بہر حال پورا ہو گا لیکن اگر ایسا نہ کر سکیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے بھی ڈرایا ہے کہ جو باز پرس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے ایسے بچوں سے ہوگی وہ عام گرفت سے کم از کم دو گنی ہوگی.بڑے ہی خوف کا مقام ہے ایک طرف.اور بڑی ہی خوشی اور بشاشت کا مقام ہے دوسری طرف.اور خدا کرے کہ یہ دوسری طرف کے مقام کی تم اور تمہاری اولا دوارث بنے اور پہلے مقام کی طرف جو مقام خوف ہے تمہاری بیٹھے ہی رہے.دوسری عزیز بچی عبدالمجید خان صاحب کی صاحبزادی ہیں جن کا رشتہ سندھ کے ایک رئیس خاندان کے بچے سے ہو رہا ہے.دنیا کی ریاستیں تو بے معنی ہیں یہ اس دنیا میں بھی وفا نہیں کرتی اس زندگی میں تو وفا کا تصور ہی ان کے متعلق نہیں.لیکن ایک ریاست وہ بھی ہے کہ جو ہمیشہ وفا کرتی ہے اور ساتھ رہتی ہے اور وہ یہ ریاست ہے کہ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر : ۱۹) مستقبل کے متعلق خدا کی بتائی ہوئی تعلیم کے تحت رہتے ہوئے تیاری کرو اور اسے بھولو نہیں.جو خدا کے اس فرمان کے مطابق مستقبل کی ریاست کی فکر کرتا ہے آج کی ریاست سے وہ آزاد ہو جاتا ہے اور کہیں بہترین ”ریاست“ اس کو

Page 437

خطبات ناصر جلد دہم ۴۱۳ خطبہ نکاح ۴ جولائی ۱۹۶۸ء مل جاتی ہے.دنیا کیا ہے چند روزہ زندگی.بے وفا اس کے سارے تعلقات.خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے جب ان کی قربانیوں کو اور جب ان کے ایثار کو وہ قبول کر لیتا ہے ایسا تعلق ان سے قائم کر لیتا ہے کہ بندے اس تعلق کو توڑیں تو توڑیں ہمارا رب کبھی نہیں تو ڑتا وہ اپنے وعدوں کا سچا اپنے تعلقات میں انسان سے کہیں زیادہ وفادار ہے.پس اس نصیحت میں صرف دوسرے رشتہ کے ساتھ ہی جس کا میں اعلان کروں گا تعلق نہیں ہر احمدی مسلمان سے اس کا تعلق ہے کہ ہمیں آج کی نسبت کل کی زیادہ فکر کرنی چاہیے اور کل کی فکر اس صورت میں دور ہو سکتی ہے کہ جب ہم اپنے نفس پر اعتبار اور بھروسہ کرنے والے نہ ہوں بلکہ اس تعلیم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں جو اس پاک ہستی کی طرف سے ہمیں دی گئی ہے جس نے ہمیں یہ انتباہ کیا کہ آج کی نسبت کل کی زیادہ فکر کرو.انسان کی طرح اس کی عقل بھی کمزور اور ایسی نہیں جس پر ہم بھروسہ کر سکیں لیکن جو نور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ ہمیں دیا ہے اس نور پر ہم یقیناً بھروسہ کر سکتے ہیں.جسے وہ مل جائے دنیا کی کون سی طاقت ہے جو ایسے شخص کے لئے اندھیروں کو پیدا کر سکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعائیہ اشعار میں بھی یہ کہا ہے کہ جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا مگر دین کے معاملات میں ہم واضح حقائق کو بھی بھول جایا کرتے ہیں اور بار بار یاد دلانے کی ضرورت پڑتی ہے.جو شخص مستقبل کی معرفت رکھتا ہوا اس کے لئے تیاری کرتا اور اس تیاری کو انتہا تک پہنچاتا ہے اور اس کے لئے دعائیں کرتا ہے وہ نا کام نہیں ہوا کرتا.اصولی طور پر مستقبل دو ہیں ایک وہ جس کا تعلق صرف اس دنیا سے ہے یعنی آٹھ دس سال کے بعد کیا کریں گے بچے بڑے ہوں گے ان کے رشتے کرنے ہیں ان کی بیاہ شادیاں کرنی ہیں کچھ پس انداز کرنا چاہیے یہ تو دنیا کا مستقبل ہے اس میں انسان کیا کر سکتا ہے.ایک وہ مستقبل ہے جس کا تعلق اخروی زندگی کے ساتھ ہے ایسی زندگی جس کو فنا نہیں ایک ایسی زندگی جس پر ایک سیکنڈ کے لئے اللہ تعالیٰ کے غضب کی اگر نگاہ پڑ جائے تو انسان سب کچھ اس غضب سے بچنے کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے.ایک ایسی زندگی کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں گزرے تو اس دنیا کی تکلیفیں

Page 438

خطبات ناصر جلد دہم ۴۱۴ خطبہ نکاح ۴ جولائی ۱۹۶۸ء اور ابتلا اور امتحان اور بیماریاں اور دکھ اور درد جو اس زندگی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں وہ سب اڑ جائیں تو اس کل کی فکر کرنی چاہیے جس کے بعد پھر اور کل نہیں ہونا اگر مجموعی طور پر اخروی زندگی میں تو وہی ابتدا ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں.وہ کل شروع تو ہوتا ہے لیکن اس کی کوئی انتہا نہیں تو اس کی فکر کریں.بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں نئے رشتے قائم ہوتے وقت.ہر دو خاندانوں پر ہر دو افراد پرلڑ کے پرلڑ کی پر.بڑے دور رس نتائج نکلتے ہیں نکلتے رہتے ہیں تو اچھے نتائج پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اچھے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے جتنی بھی انسان قربانی دے سکے وہ قربانی دے دینی چاہیے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا بندہ بنائے رکھے کہ اس کا بندہ بنا مشکل اور بندہ بنے رہنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے عزیزوں اور پیاروں پر.آپ چاروں کے خاندانوں پر نازل ہوتار ہے اور ہر احمدی پر اللہ تعالیٰ کا فضل اپنی پوری شان کے ساتھ نازل ہوتا رہے اور ہر وہ انسان جو خدا کے فضل کے لئے پیدا کیا گیا تھا مگر اس نے اپنے رب کو بھلا دیا اور اس کے فضل سے محروم ہو گیا اپنی غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں.ایسے لوگوں کی غفلتوں اور کوتاہیوں کو بھی اللہ تعالیٰ دور کرے اور ان کے لئے اپنی رحمت کے سامان پیدا کر دے.وہ اس کی معرفت کو حاصل کریں اس کو پہچاننے لگیں اس قابل ہو جا ئیں کہ ہمارا پیارا محبوب ان پر بھی اپنے پیار کی نگاہ ڈالے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 439

خطبات ناصر جلد دہم ۴۱۵ خطبہ نکاح ۲۸ جولائی ۱۹۶۸ء شادی کے بعد بھی اللہ ہر دو کو خدمت دین کی توفیق عطا کرتا رہے خطبہ نکاح فرموده ۲۸ جولائی ۱۹۶۸ء بمقام ربوہ خطبہ نکاح بعد نماز مغرب محترم سید زمان علی شاہ صاحب بخاری کی صاحبزادی سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کا نکاح مکرم سید منیر احمد صاحب باہری واقف زندگی کے ہمراہ بعوض مبلغ ایک ہزار روپیہ کا اعلان فرمایا.حضور انور نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ رشتہ ہر دو خاندانوں کے لئے با برکت کرے.سیدہ منصورہ ذہنی لحاظ سے ایک واقفہ ہیں اور وقف کا شوق رکھنے والی اور تبلیغ بڑی کرنے والی ہیں.خدا کرے کہ شادی کے بعد بھی ہر دو کو اللہ تعالیٰ خدمت دین کی زیادہ سے زیادہ تو فیق عطا کرتا رہے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کروانے کے بعد دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 440

Page 441

خطبات ناصر جلد دہم ۴۱۷ خطبہ نکاح ۱۲ را گست ۱۹۶۸ء اسلام نے تکلف کی زندگی کی تعلیم نہیں دی اور اسی میں سب برکتیں اور خیر ہے خطبه نکاح فرموده ۱۲ اگست ۱۹۶۸ء بمقام کوٹھی الامتیاز کراچی حضورانور نے مغرب و عشاء کی نمازیں اپنی قیام گاہ کوٹھی ”الا متیاز پر جمع کرائیں اور اس کے بعد ایک نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح امتہ النصیر اقبال صاحبہ بنت کرنل جی ایم اقبال صاحب کا محمد عبد الرشید صاحب ولد چوہدری محمد حسین صاحب کے ساتھ مبلغ پندرہ ہزار روپیہ مہر پر ہونا قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام نے تکلف کی زندگی کی تعلیم نہیں دی اور اس تعلیم میں ہی سب برکتیں اور سب خیر ہے.اللہ تعالیٰ نے بد رسوم اور بُری عادتوں اور گندے رواج سے منع اس لئے کیا ہے کہ انسان کے گھر اس کی برکتوں سے بھر جائیں لیکن بعض خاندانوں میں مجھے نظر آتا ہے کہ رسوم کی طرف کچھ توجہ ہورہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی چھری سے بے شک ناک کٹ جائے لیکن رواج کے چاقو سے ناک نہ کئے.اس سے زیادہ کوئی غیر معقول بات نہیں ہوسکتی.دکھاوے کے لئے بڑے بڑے مہر مقرر کر دیتے ہیں.لاہور میں میں نے ایک رشتہ کرایا تو لڑ کی کی والدہ کہنے لگیں کہ پچاس ہزار روپیہ مہر ہونا چاہیے میں نے کہا کہ کوئی معقول بات کرو یہ کیا کہہ رہی ہو.اس نے کہا یہ رشتہ دار ہیں اور

Page 442

خطبات ناصر جلد دہم ۴۱۸ خطبہ نکاح ۱۲ راگست ۱۹۶۸ء بیچاری بچی کے باپ احمدی نہیں کسی زمانہ میں ان کا رشتہ احمدی سے ہو گیا تھا.اس کی ماں احمدی ہے.میں نے کہا اگر دکھاوا کرنا ہے تو پھر پچاس ہزار نہیں مہر دس لاکھ مقرر کر دیتے ہیں یہ دکھا وا آپ کا بڑا اچھا ہو جائے گا.آپ لکھ دیں کہ سب دکھاوا ہے اور لڑکی پہلے ہی لکھ دے کہ میں نے مہر معاف کیا.دس ہزار معاف نہیں کیا باقی سب معاف کر دیا.تو اس قسم کے گندے خیالات جو ہیں وہ بعض لوگوں کے دماغ میں پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.شادی کے اوپر یہ دیا یہ نہیں دیا یوں کرنا چاہیے تھا.یہ نہیں سوچتے کہ بیٹی والوں نے اپنے گھر کی سب سے قیمتی چیز خاوند کے گھر بھیج دی اور وہ بیٹی ہے.ایک انسان سے زیادہ تو دنیا کی کوئی چیز قیمتی نہیں ہوسکتی.لڑکے والوں نے اپنا لڑکا دے دیا.اس گھر میں اس لڑکے سے زیادہ اور کون سی قیمتی چیز ہو سکتی ہے تو سب سے زیادہ قیمتی چیز لی بھی اور دی بھی اور پھر ان بیہودہ باتوں کی طرف خیال کرنے لگ گئے اس سے برکت نہیں رہتی.اس سے اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل نہیں کیا جا سکتا.اس کے نتیجہ میں ازدواجی زندگی خوش گوار ہر گز نہیں رہ سکتی.بیبیوں گھروں کے تعلقات ان چھوٹی چھوٹی لیکن نہایت بیہودہ بدرسموں پر ہم نے ٹوٹتے دیکھے ہیں ان سے پر ہیز کرنا چاہیے.اس مہم کا میں نے اعلان کیا تھا رسوم اور رواج کے خلاف ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے.مجھے خوشی ہے کہ بہت سے لوگوں نے تھوڑے کو بہت سمجھا اور ان چیزوں سے بچنے کی کوشش کی.بہتوں نے بہت کو تھوڑا سمجھا اور ان کو زیادہ جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے.اپنے وقت پر انشاء اللہ تعالیٰ اس کی توفیق سے یہ بھی ہو جائے گا جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں لڑکے کو دولہا کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں اور پچھلے یورپ کے دورہ میں ان کو زیادہ سمجھنے اور جاننے کا موقع ملا کیونکہ وہ وہیں ہوتے ہیں.ہمارے ڈاکٹر سلام صاحب کے چھوٹے بھائی.بڑے سادہ مزاج ، بڑے اچھے، بڑے مخلص ، احمدیت کے فدائی اور تبلیغ کا انہیں بڑا جوش ہے.ان کے خط آتے رہتے ہیں وہ کسی نہ کسی کو پکڑ کر ضرور تبلیغ کرتے ہیں کتا بیں دیتے ہیں پڑھاتے ہیں اور پھر چھوڑ نہیں دیتے کیونکہ مذہب کو تبدیل کرنا حقیقتاً اس سے زیادہ وسعتوں والا اور زیادہ اثر والا ہے جتنا ایٹم کا پھٹ جانا.یہ معمولی بات نہیں ہے سارے ماحول کو چھوڑ کے، اپنے جہاں پیدا

Page 443

خطبات ناصر جلد دہم ۴۱۹ خطبہ نکاح ۱۲ راگست ۱۹۶۸ء ہوئے ، جہاں پلے بڑھے، جہاں کے ماحول کی عادتیں اچھی یا بری پڑیں اس اپنے سارے ماحول کو کاٹ کے اور ایک دوسرے ماحول کو اچھا سمجھ کے صداقت پر قائم سمجھ کر قبول کر لینا یہ کوئی معمولی بات نہیں.بڑی ذہنی کشمکش میں نو احمدی گذرتے ہیں جو ہمارے پیدائشی احمدی ہیں ان کو اس کشمکش کا پتہ نہیں.ابھی پرسوں ہی ہماری نو احمدی ڈین کا مجھے خط ملا وہ بڑی مخلص ہے ابھی ایک سال نہیں اس کی عمر احمدیت اور اسلام میں لیکن اللہ تعالیٰ نے دل اس کا بدل دیاطیبہ اس کا نام ہے بڑی دعائیں کرنے والی سچی خوا میں دیکھنے والی.اپنے اس خط میں اس نے لکھا ہے کہ میں نے دوڈ مینش عورتوں کو تبلیغ کی اور میں نے انہیں کتابیں بھی پڑھائی ہیں اور اس وقت وہ اس ذہنی کشمکش میں مبتلا ہے جس میں میں بھی مبتلا رہی ہوں اپنے وقت میں اور اس واسطے میں اس کی حالت کو سمجھتی ہوں تو آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت قبول کرنے کی توفیق عطا کر دے بڑا اہم قدم ہے.ایک دنیا سے دوسری دنیا میں جانے کا سوال پیدا ہوتا ہے تو یہ ہمارے دولہا میاں آج کی تقریب کے جو ہیں ان کو تبلیغ کا بڑا شوق ہے اور پیچھے پڑتے ہیں محبت اور پیار سے.یہ نہیں کہ دھکا دے کر ہم نے کسی کو اپنے دائرہ میں لے کر آنا ہے دل کا تعلق ہے دل بدلنا چاہیے لیکن بعض احمدی یہ بھی غلطی کرتے ہیں کہ ایک دوست بنایا اس کو کچھ باتیں بتا ئیں اور پھر مہینے بعد یا چھ مہینے یا سال بعد اکتا گئے کہ یہ تو کچھ تو جہ نہیں کرتا حالانکہ کئی آدمی جو ہمارے نئے احمدی ہوتے ہیں اس پر اگر کوئی تھیسز لکھے ایم ایس سی یا ایم اے کے بعد.تو اس کو پتہ لگے گا کہ ایک آدمی وہ ہے جس نے پندرہ سال تبلیغ سنی اور پھر وہ احمدیت میں داخل ہوا کسی نے دس سال تبلیغ سنی کسی نے پانچ سال سنی.تو ہر ایک اپنی طبیعت اور ماحول کے لحاظ سے یہ انتہائی اہم فیصلہ اپنی زندگی کا کرتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے علیحدہ، اپنے ماحول سے علیحدہ، اپنی عادتوں سے علیحدہ عادتیں بھی چھوڑنی پڑتی ہیں اور جن چیزوں کی مثلاً کھانے کی اس کو بچپن سے عادت پڑی ہے وہ چھوڑنے پڑتے ہیں.اس کے علاوہ عام عادتیں جو سوسائٹی کی ہیں.مثلاً ان لوگوں کو شراب پینے کی عادت ہے ٹھیک ہے بعض لوگ شراب نہیں پیتے یہ ٹھیک ہے کہ بعض لوگ ان میں سے سگریٹ نہیں پیتے یہ ٹھیک ہے کہ بعض لوگ گوشت بھی نہیں کھاتے.

Page 444

خطبات ناصر جلد دہم ۴۲۰ خطبہ نکاح ۱۲ را گست ۱۹۶۸ء اس کے واسطے سور کے گوشت کھانے یا نہ کھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اکثریت ان کی شراب پینے والی، سگریٹ پینے والی ، سور کا گوشت کھانے والی ڈانس کرنے والی اور نیم برہنہ پھرنے والیاں ہیں یہ ان کی عادت ہے وہ اس چیز کو بڑا ہی نہیں سمجھتے.پھر وہ ہمارے ماحول میں آتے ہیں اور وہی عورتیں جو فخر محسوس کرتی ہیں نیم برہنہ ہو کر سڑکوں پر چلنے پر.میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کی نظر نہیں اٹھتی.سر ڈھکے ہوئے رومال باندھے ہوئے.ابھی وقت نہیں آیا اس ماحول میں کہ ہم اس سے زیادہ پردہ کروائیں لیکن کافی پردہ کرتی ہیں.برقعہ ہی تو پردہ نہیں ہے قرآن کریم نے کہا ہے سر اور منہ ڈھانکو تو سرڈھانک لیتی ہیں عینک کالی پہن کر باہر نکلتی ہیں آنکھوں کا پردہ ہو گیا آنکھ اس میں نظر نہیں آتی.نظریں پاؤں سے اٹھتی نہیں ان کی.کجا اس ماحول میں کہ بے باک نظریں.تو یہ ہمارے رشید صاحب اصل میں ان کی بات کر رہا ہوں انہیں کا آج دن ہے تو یہ سمجھ رکھتے ہیں کہ جس کو تبلیغ کی ہے اس سے مایوس نہیں ہونا.کیونکہ مایوس کوئی مومن نہیں ہوا کرتا اس وجہ سے ان کا حق ہے کہ ہم ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو ان کے لئے بھی بہت مبارک کرے اور ان کے بھائی ان کے والد ان کی والدہ دوسرے رشتہ دار بڑے مخلص اور فدائی سارا خاندان ہے اللہ تعالیٰ ان کے لئے بھی خوشیوں کا سامان پیدا کرے.بچی جو ہے ہماری.ان کے والد کو میں بڑی اچھی طرح جانتا ہوں دوسرے رشتہ داروں کو بھی جانتا ہوں اور اس گھر کے بچے میں نے دیکھے ہیں میری طبیعت پر یہی اثر ہے کہ گھر میں دین کی باتیں ہوتی ہیں اور احمدیت کی محبت پیدا کی جاتی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ بچی بھی ایسی ہی ہوگی.ہماری بچیوں کو غیروں کی بچیوں سے اپنے ازدواجی تعلقات کو خوش گوار کرنے کے لئے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے کیونکہ وہ تو بہت کچھ ایک دوسرے کو جان رہے ہوتے ہیں یہ بالکل نہیں جانتے اسی واسطے ہمیں یہ حکم ہے کہ زیادہ نابالغ نہیں لیکن بلوغت کے بعد جلدی شادی کر دینی چاہیے.ایک دفعہ میں لندن آیا ہوا تھا دو ایک روز کے لئے.اپنی مسجد میں ٹہل رہا تھا اپنے طالب علمی کے زمانہ میں.ایک انگریز تھے کہ جرمن ، زیر تبلیغ تھا وہ اس دن وہاں تھا.غالباً اتوار تھی اس نے

Page 445

خطبات ناصر جلد دہم ۴۲۱ خطبہ نکاح ۱۲ راگست ۱۹۶۸ء اعتراض کے رنگ میں کہا کہ آپ لوگ بہت چھوٹی عمر میں شادیاں کر دیتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہم لوگ تو تیس چالیس سال کی عمر میں کرتے ہیں.میں نے اس کو اور تو کوئی جواب اس وقت نہیں دیا ہم ٹہل رہے تھے وہاں پر درخت تھے میں اس کو ایک درخت کے پاس لے گیا میں نے کہا اگر پیوند لگانا ہو تو یہ موٹا تنا جس کی عمر دس سال کی ہے یہاں پیوند لگے گا ایک اور دس سال کے موٹے تنے کے ساتھ یا یہ پتلی شاخ جس کی عمر چند مہینے ہے یہاں پیوند کامیاب ہوگا.کہنے لگا مجھے جواب سمجھ آ گیا ہے اب اور ضرورت نہیں.تو پیوند لگانے والا مسئلہ ہے.چاہے آپس میں رشتہ دار ہوں جن کے درمیان رشتہ ہو رہا ہے پھر بھی ایک تو ہر فرد کی طبیعت مختلف ہوتی ہے پھر آپس کے رشتہ داروں کے گھروں کی عادتیں مختلف ہوتی ہیں ہر دو کو کچھ نہ کچھ قربانی ضرور دینی پڑتی ہے کم یا زیادہ.بات ماحول پر انحصار رکھتی ہے لیکن قربانی دینی پڑتی ہے.چھوٹی عمر میں لچک ہوتی ہے اپنے آپ کو Adopt کر لیتے ہیں بعض ایسی چیزیں ہوتی ہیں جنہیں نہ خاوند ساری عمر چھوڑ سکتا ہے اس کی دلچپسی ایسی ہوتی ہے نه بعض دفعہ بیوی چھوڑ سکتی ہے دلچسپی اس کی قائم رہتی ہے.پھر چھوٹی چھوٹی باتوں میں خاوند بیوی کا خیال رکھ رہا ہوتا ہے بیوی خاوند کا خیال رکھتی ہے.دونوں طرف سے آپس کا تعلق مضبوط ہوتا ہے.وہ کہتا ہے کہ ذرا ذرا چیزوں میں یہ میرا خیال رکھتی ہے تو میں اس کا خیال کیوں نہ رکھوں بیوی کہتی ہے کہ میرا خاوند چھوٹی چھوٹی باتوں میں میرا خیال رکھتا ہے تو میں اس کا خیال کیوں نہ رکھوں.ایک دوسرے کے لئے وہ قربانی دیتے ہیں.شروع میں قربانی سمجھ کے کچھ تکلیف برداشت کر رہے ہوتے ہیں پھر ان کی عادت پڑ جاتی ہے پھر وہ ایک ہی جان بن جاتے ہیں دونوں اور اس کے بغیر اگلی نسل کو ہم سنبھال ہی نہیں سکتے.اگر ماں اور باپ گھر میں لڑ رہے ہوں تو آپ سمجھیں بچوں کے اخلاق خراب ہو گئے.بچوں کے اخلاق تبھی درست رہ سکتے ہیں کہ گھر کی فضا بڑی محبت اور پیار کی فضا ہو اور ہر دومیاں اور بیوی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے اور ان کے ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں.تو دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو مبارک کرے.اسلام نے جو ذمہ داریاں خاوند اور بیوی پر ڈالی ہیں ان کو نباہنے والے ہوں.

Page 446

خطبات ناصر جلد دہم ۴۲۲ خطبہ نکاح ۱۲ راگست ۱۹۶۸ء اپنے لئے اور اپنوں کے لئے خوشگوار ماحول پیدا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ان راہوں پر ان کو بھی اور ہمیں بھی چلائے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ رحمتوں کے ہم وارث ہوں.آمین.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 447

خطبات ناصر جلد دہم ۴۲۳ خطبہ نکاح ۱۶ /اگست ۱۹۶۸ء حقیقی خوشی خدا اور اس کے رسول کی اطاعت میں مضمر ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۶ اگست ۱۹۶۸ء بمقام کراچی حضور انور نے بعد نماز مغرب و عشاء چوہدری جمیل احمد صاحب ابن چوہدری ناصر احمد صاحب کراچی کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ دنیا خواہ کتنی ہی جاذب نظر کیوں نہ ہو سچی بات یہ ہے کہ حقیقی کامیابی جو ہر قسم کی مسرتیں اپنے ساتھ لاتی ہے.وہ ہے جو قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہے کہ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب : ۷۲) اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی اور چونکہ ہر کامیابی مسرت کا ایک سرچشمہ ہوتی ہے.اس لئے کوئی مسرت بھی حاصل نہیں کی جاسکتی.عارضی طور پر جھوٹی خوشیاں تو لوگ حاصل کر لیتے ہیں لیکن مستقل طور پر حقیقی خوشی اسی کو ملتی ہے جو اللہ کی اطاعت کرنے والا ہو اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والا ہو.خدا کرے کہ ہر احمدی گھرانہ اس قسم کی خوشیوں سے ہمیشہ معمور رہے.(روز نامه الفضل ربوه ۶ ستمبر ۱۹۶۸ صفحه ۴)

Page 448

Page 449

خطبات ناصر جلد دہم ۴۲۵ خطبہ نکاح ۲۹ اگست ۱۹۶۸ء اللہ کے بنائے ہوئے طریق پر اپنے دنیاوی تعلقات استوار کریں خطبہ نکاح فرموده ۲۹ راگست ۱۹۶۸ء بمقام کراچی حضور انور نے نماز مغرب وعشاء کے بعد P.E.C.H سوسائٹی میں اپنی قیام گاہ الامتیاز میں سیدہ آنسہ پروین بنت محترم سیدارتضیٰ علی صاحب مرحوم کے نکاح کا اعلان مکرم کرشن احمد ولد مکرم بشیر احمد صاحب ضلع گوجرانوالہ کے ساتھ فرمایا.حضور انور نے نکاح کا فارم ملا حظہ کرتے ہوئے مہر کی رقم دیکھ کر فرمایا کہ مہر بارہ ہزار روپیہ مقرر ہوا ہے.آپ نے کرشن احمد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ سے مہر زیادہ تو نہیں مقرر کروایا گیا.مہر کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ فارمولا بنایا ہوا تھا کہ مہرلڑکے کی ایک سال کی آمد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے.بعد ازاں حضور انور نے نکاح کی آیاتِ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر: ۱۹) میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ اسلام نے ہم پر بڑا فضل اور رحم کر کے ہمارے سارے دنیاوی کاموں کو اگر ہم چاہیں ایسا بنا دیا ہے کہ اس پر اخروی ثواب بھی حاصل ہو جائے.مثلاً ازدواجی محبت کے تعلقات ہیں.اس قسم کا تعلق بہت سے جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے.سارس کے متعلق مشہور ہے کہ اگر جوڑے میں سے

Page 450

خطبات ناصر جلد دہم ۴۲۶ خطبہ نکاح ۲۹ اگست ۱۹۶۸ء شکاری ایک کو مارلے تو دوسراغم میں خود ہی مرجاتا ہے اور بھی بہت سے جانور ہیں جن کا آپس میں اس قسم کا تعلق ہے.تو سارس کی اس قسم کی محبت کے نتیجہ میں اسے اخروی ثواب کوئی نہیں ملتا لیکن اگر ہم اللہ کے بتائے ہوئے طریق پر اپنے دنیاوی تعلقات کی بنیا دوں کو استوار کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی کوشش کریں تو اس دنیا کے کام بھی ہوتے رہتے ہیں اور اس کے ساتھ اس دنیا کا ثواب بھی ہمیں حاصل ہو جاتا ہے.خدا کرے کہ ہماری ہر نسل اس نقطہ کو سمجھتے ہوئے دنیا داروں کی طرح دنیا میں اپنی کوششوں اور توجہ کو ضائع کرنے والی نہ ہو بلکہ دنیا کے کاموں کو ایسے رنگ میں کریں کہ دنیا کے کام بھی ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا بھی حاصل ہو جائے.آمین اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرانے کے بعد نکاح کے بابرکت ہونے کی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 451

خطبات ناصر جلد دہم ۴۲۷ خطبہ نکاح ۲۰ ستمبر ۱۹۶۸ء اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اسلام کی ہدایت کے مطابق ایک دوسرے سے تعلق رکھنے کی توفیق عطا کرے خطبہ نکاح فرموده ۲۰ ستمبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.مسماۃ سعیدہ اختر صاحبہ ایم اے بنت مکرم چوہدری محمد فضل داد صاحب ساکن دار الرحمت وسطی ربوہ کا مکرم چوہدری ناصر احمد صاحب بی اے ابن مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب ساکن تلونڈی چک ۱۰۸ ضلع لائل پور سے بعوض ۳۵۰۰ روپے مہر.۲.مسماة ناصرہ قسم صاحبہ بنت مکرم مولوی غلام مصطفیٰ صاحب مرحوم گوجرانوالہ کا مکرم مختار احمد صاحب پسر مکرم ماسٹر عبدالکریم صاحب کوئٹہ سے بعوض تین ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں دونکاحوں کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو مبارک کرے اور ان میں سے ہر ایک کو اسلام کی ہدایت کے مطابق ایک دوسرے سے تعلق رکھنے کی توفیق عطا کرے اور اسلام پر انہیں بھی ، ان کی نسلوں کو بھی اور ان کے رشتہ داروں کو بھی قائم رکھے اور اس کی خاطر انہیں بڑی سے بڑی قربانیاں دینے کی توفیق عطا کرے.(آمین)

Page 452

خطبات ناصر جلد دہم ۴۲۸ خطبہ نکاح ۲۰ ستمبر ۱۹۶۸ء اس کے بعد حضور نے ایجاب و قبول کرایا.حاضرین سمیت ان رشتوں کے مبارک ہونے کے لئے لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 453

خطبات ناصر جلد دہم ۴۲۹ خطبہ نکاح ۲۱ ستمبر ۱۹۶۸ء رسول کی اطاعت پر ہماری ساری کامیابیوں کا دارو مدار ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۱ ستمبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مسماۃ امینہ خلیل صاحبہ بنت مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل ربوہ کے مکرم احمد بشارت صاحب ابن مکرم حکیم نظام جان صاحب گوجر انوالہ سے نکاح کا بعوض مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر اعلان فرما یا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.عزیزہ امینہ خلیل صاحبہ بنت مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل ساکن ربوہ کا نکاح عزیز مکرم احمد بشارت صاحب پسر مکرم حکیم نظام جان صاحب گوجرانوالہ (حال انگلستان ) سے مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی اور ہمیں بھی اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کی تو فیق عطا کرے کہ اسی پر ہماری ساری کامیابیوں کا دارومدار ہے.پھر دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو دونوں خاندانوں کے لئے اور جماعت کے لئے بھی با برکت کرے اور اسے سکون کا موجب بنائے (آمین ) اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور حاضرین سمیت رشتہ کے مبارک ہونے کے لئے لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 454

Page 455

خطبات ناصر جلد دہم ۴۳۱ خطبہ نکاح ۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء ہمیں اور ہماری نسلوں کو اللہ کے ساتھ زندہ تعلق قائم رکھنا چاہیے خطبه نکاح فرموده ۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.عزیزه خلت ناصرہ بنت مکرم چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر حال امریکہ کا نکاح عزیزم مکرم راشد محمد اللہ دین صاحب ابن مکرم سیٹھ علی محمد صاحب ابن حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب مرحوم آف حیدر آباد دکن حال امریکہ سے بعوض پانچ ہزار ڈالر مہر.۲.عزیزہ صادقہ طاہرہ بنت مکرم قریشی عبد الغنی صاحب لاہور کا نکاح عزیزم مکرم امان اللہ صاحب قریشی ابن مکرم قریشی محمد عبد اللہ صاحب ربوہ سے بعوض تین ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں دو نکاحوں کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں.ایک نکاح حیدرآباد دکن کے دو بزرگ خاندانوں کے پوتے اور نواسی کے درمیان قرار پایا ہے.یعنی لڑکا ہمارے محترم بزرگ سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب مرحوم کا پوتا اور لڑکی سیٹھ محمد غوث صاحب مرحوم کی نواسی ہے اور دونوں اس وقت امریکہ میں ہیں اور امریکہ کے شہری ہیں.دوسرا نکاح قریشی صاحبان کے خاندان کا ہے جو ربوہ کے رہنے والے ہیں.لڑکے کے

Page 456

خطبات ناصر جلد دہم ۴۳۲ خطبہ نکاح ۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء والد صدرانجمن احمدیہ میں کام کرتے ہیں اور صدر انجمن احمد یہ میں کام کرنے والے واقف ہی ہیں چاہے انہوں نے وقف کا فارم پُر کیا ہو یا نہ کیا ہو وہ دین ہی کی خدمت کر رہے ہیں.جواحمدی خاندان پاکستان سے باہر آباد ہیں یا پاکستان سے باہر کسی ملک میں ٹھہرے ہوئے ہیں ان کے بچوں کے رشتوں کے مسائل نہایت الجھے ہوئے ہیں.مکرم چودھری خلیل احمد صاحب ناصر ( جو اس وقت امریکہ میں ہیں ) کی بچی کے رشتہ کا مسئلہ انہیں بھی پریشان کر رہا تھا اور مجھے بھی پریشان کر رہا تھا اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے کہ اس رشتہ کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.یہ لوگ اس ماحول کے رہنے والے ہیں جہاں لوگ اللہ تعالیٰ کا عرفان نہیں رکھتے.ان کی تمام کوششیں اور عمل دنیا میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں اور وہ دنیا ہی کی خاطر کئے جاتے ہیں.ہمارے وہ احمدی خاندان جو پاکستان سے باہر رہتے ہیں ان پر بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خود توحید پر قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.وہ یہ کوشش کرتے رہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ قرب پانے والے ہوں.تمام مذاہب اس دنیا میں اسی غرض سے آئے ہیں اور تمام انبیاء اسی مقصد کے لئے دنیا میں مبعوث ہوتے رہے ہیں کہ وہ انسان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ اور جاودانی تعلق قائم کریں اور جو دنیا اس سے باہر ہے وہ دہریت کی دنیا ہے یا جہالت کی دنیا ہے.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا سوال ہے دنیا کا ایک بڑا حصہ دہر یہ ہو چکا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پہچانتا نہیں.ایک دوسرا حصہ اس رنگ میں تو دہر یہ نہیں ہوا کہ وہ خدا تعالیٰ سے کلی طور پر تعلق منقطع کرے.وہ کسی نہ کسی رنگ میں خدا تعالیٰ کا نام تو لیتا ہے لیکن نہ تو وہ اس کی ذات کی معرفت رکھتا ہے اور نہ اس کی صفات کی معرفت رکھتا ہے اور اس ماحول میں زندگی گزارتے ہوئے خدا تعالیٰ کو نہ بھولنا اور اس کے ساتھ زندہ تعلق قائم رکھنا بڑا مجاہدہ چاہتا ہے کیونکہ اس دنیا کے جتنے راستے ہیں ان سے شیطان انسان کو ورغلانے کے لئے آموجود ہوتا ہے.احمدی جہاں جہاں بھی رہتے ہیں انہیں خود بھی زندہ خدا کو سچے طور پر ماننا چاہیے (اور یہ سچا ایمان بغیر زندہ نشانوں کے حاصل نہیں ہو سکتا ) اور ان کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ان کا زندہ خدا

Page 457

خطبات ناصر جلد دہم ۴۳۳ خطبہ نکاح ۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء کے ساتھ تعلق پیدا ہو جائے اور جو لوگ دہر یہ ہیں یا مذہب کے لحاظ سے وہ جاہل ہیں اور اس جہالت کے نتیجہ میں وہ نیم دہر یہ ہیں ان کے سامنے انہیں زندہ خدا کو پیش کرنا چاہیے.ایک احمدی تو صبح و شام اللہ تعالیٰ کے زندہ نشان اور جلوے دیکھتا ہے.یہ چیزیں پیش کر کے انہیں اپنے رب کی طرف واپس لوٹانے کی کوشش کرنی چاہیے.ہم جو یہاں رہتے ہیں ہمارا بھی یہ فرض ہے ایک عظیم نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے رب کو پہچانتے ہیں اور قرآن کریم (جو ایک عظیم معجزہ ہے ) کی جب غور سے تلاوت کرتے ہیں تو اس میں ایسا حسن پاتے ہیں جو کسی اور انسانی کلام میں نہیں پایا جاتا اور جو تعلیم اس نے ہمیں دی ہے اور جس کے مطابق اس نے ہم سے اپنی زندگی کو ڈھالنے کا مطالبہ کیا ہے اس پر ہم غور کرتے ہیں تو اس کامل اور مکمل شریعت کا ایسا احسان نظر آتا ہے جس کا بدلہ انسان ادا ہی نہیں کر سکتا اور جب اللہ تعالیٰ انسان پر احسان کرتا ہے تو وہ اس کا کیا بدلہ دے سکتا ہے؟ وہ شکر کی عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کی کوشش کر سکتا ہے اور یہ کوشش اسے کرتے رہنا چاہیے.ہم جنہوں نے احمدیت کے ذریعہ اسلام کو پہچانا ہے.اگر ہم میں سے کسی کی اولاد اپنے پیدا کرنے والے رب سے دور ہو جائے تو اس سے زیادہ بد قسمتی اس انسان کی کیا ہوسکتی ہے اور اس سے زیادہ دکھ ہمیں اور کیا ہوسکتا ہے.پس جو غرض اسلام کی ہے اسے پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ بڑا پیار کرنے والا، بڑا احسان کرنے والا اور بڑا انعام کرنے والا ہے.اس کے احسانوں کا شمار نہیں کیا جاسکتا.اس کے غیر محدود احسانوں کی جو ( عقلاً اور شرعاً) غیر محدود شکریہ ادا کرنے کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے وہ ہمارے بس میں نہیں.انسان کی استعداد اس کی قوتیں اور اس کی کوششیں سب محدود ہیں.جو شکر کے کلمات اس کے منہ سے نکلتے ہیں وہ بھی محدود ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کے غیر محدود احسانوں کا شکریہ کیسے ادا کیا جاسکتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بھی احسان کیا ہے کہ اگر انسان کوشش اور مجاہدہ سے اس کا شکر گزار بندہ بننے کی سعی کرے تو شکر کے ان محدود اقوال و افعال کے نتیجہ میں وہ انسان پر غیر محدود احسان کرتا چلا جاتا ہے.اس کا یہ وعدہ ہے اور وہ وعدوں کا سچا ہے.جو شخص اپنے اس احسان کرنے والے رب کو پہچانتا نہیں اور اپنی

Page 458

خطبات ناصر جلد دہم ۴۳۴ خطبہ نکاح ۴ را کتوبر ۱۹۶۸ء اس زندگی اور اخروی زندگی کی جنتوں کے سامان پیدا نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو روشنی عطا کرے اور اسے ظلمات سے نکالے.بہر حال جو بچے پاکستان سے باہر رہتے ہیں اور ان کے والدین کو مستقل طور پر یا ایک لمبے عرصہ کے لئے وہاں رہنا ہوتا ہے ان کے لئے بھی اور میرے لئے بھی بڑی پریشانیاں ہوتی ہیں اور جب ان کے رشتے طے ہو جائیں اور کفورشتے مل جائیں تو مجھے بے انتہا خوشی ہوتی ہے.ان رشتوں کے لئے بھی دعا کی جائے اور اس ملک میں قائم ہونے والے رشتوں کے لئے بھی دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مبارک کرے اور ان کے نتیجہ میں ایسی نسل پیدا کرے جو اسلام کے تقاضوں اور اپنے رب کے احسان کے تقاضوں کو پورا کرنے والی ہو.آمین اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور حاضرین سمیت رشتوں کے مبارک ہونے کے لئے لمبی دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۴،۳)

Page 459

خطبات ناصر جلد دہم ۴۳۵ خطبہ نکاح ۶ /نومبر ۱۹۶۸ء اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت با برکت کرے خطبہ نکاح فرموده ۶ نومبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب عزیزہ طیبہ حمید بنت میاں عبدالحمید صاحب جنجوعہ پی.ڈبلیو.آئی کے نکاح کا اعلان کمال الدین حبیب احمد صاحب ابن مکرم مولوی روشن دین احمد صاحب سابق مبلغ تنزانیہ کے ہمراہ بعوض مبلغ دس ہزار روپیہ مہر فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.عزیزہ طیبہ حمید صاحبہ کا نکاح عزیزم کمال الدین حبیب احمد صاحب کے ساتھ مبلغ دس ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.عزیزم کمال الدین حبیب احمد صاحب کے والد مکرم مولوی روشن دین احمد صاحب واقف زندگی ہیں اور وہ خود اس وقت مغربی افریقہ کے ایک احمد یہ سکول میں کام کر رہے ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت ہی بابرکت کرے دونوں خاندانوں کے لئے بھی جماعت کے لئے بھی اور اسلام کے لئے بھی.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۶/ نومبر ۱۹۶۸ء صفحه ۳)

Page 460

Page 461

خطبات ناصر جلد دہم ۴۳۷ خطبہ نکاح ۹ رفروری ۱۹۶۹ء باہمی تعلقات کی بنیاد حقیقی صداقتوں اور حقائق پر مبنی ہونی چاہیے خطبہ نکاح فرموده ۹ رفروری ۱۹۶۹ ء بمقام ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر عزیزہ سیدہ شاہدہ تنویر صاحبہ بنت مکرم سید عبداللہ شاہ صاحب ربوہ کا اعلان نکاح فرمایا جو مکرم قریشی لطیف احمد صاحب ایم.اسے انکم ٹیکس آفیسر لائل پور پسر مکرم حکیم محمد فیروز الدین صاحب مرحوم ( برادر اصغر مکرم محمد احمد صاحب حامی اسسٹنٹ مینجر گلیکسوز لیبارٹریز رینالہ خورد) سے چھ ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا تھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نکاح کے موقع پر ہمیں یہ بھی یاد دلایا جاتا ہے کہ ولتنظرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر : ١٩) نیا رشته، نیا تعلق قائم ہوتا ہے اس وقت وقتی خوشیوں اور عارضی نمائشوں کی بجائے اس بات کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی باتیں ، ایسے طریق ، ایسی راہیں اختیار کی جائیں جن کا خوشگوار اثر مستقبل پر پڑے.چھوٹی باتیں بھی بعض دفعہ ایسی ہوتی ہیں کہ بظاہر چھوٹی ہونے کے باوجودان کا نتیجہ مستقبل کے لئے اچھا نہیں ہوتا اور بعض بڑی اہم باتیں بھی ہیں جن کو انسان نظر انداز کرتا اور مستقبل کی خوشحالی کو مشتبہ بنادیتا ہے.اسی ضمن میں مہر کا مسئلہ بھی ہے.مہر کے رکھے جانے میں بہت سی حکمتیں ہیں اور ان حکمتوں کو نظر انداز کر کے اگر انسان وقتی طور پر کوئی کاغذی

Page 462

خطبات ناصر جلد دہم ۴۳۸ خطبہ نکاح ۹ رفروری ۱۹۶۹ء کارروائی ایسی کرے جو درست نہ ہو تو مستقبل میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.پھر جہیز کا معاملہ ہے شادی اور رخصتانہ پر کھانے پینے میں غلط طریق کو اختیار کرنا یا اسراف اور نمائش کرنا ہے.یہ ساری چیزیں وقتی اور بے معنی اور کم وزن خوشیاں تو انسان کو پہنچا سکتی ہیں.بعض دفعہ وقتی عارضی خوشیاں بھی نہیں پہنچاتیں.لیکن بہر حال ایسا ممکن ہے لیکن مستقل خوشیوں کے راستہ میں ایسی چیز میں روک بن جاتی ہیں.ہماری جماعت میں عام دستور یہ ہے کہ نہ اتنا کم مہر ہو کہ مہر کی ساری حکمتوں کو اس سے باطل کر دیا جائے.نہ اتنا زیادہ ہو کہ مہر کی سب حکمتوں کو نظر انداز کر دیا جائے.عام طور پر ایک سال کی تنخواہ کے مطابق مہر ہونا چاہیے.کاغذی مہر بھی بعض دفعہ مقرر کر دیئے جاتے ہیں.کوئی سال بھر کا عرصہ ہوا ایک نکاح کے سلسلہ میں لڑکی کی والدہ نے کہا کہ میری بچی کا پچاس ہزار روپے مہر ہونا چاہیے.میں نے ان کو کہا کہ یہ دونوں گھروں کے عام حالات میں مناسب نہیں معلوم ہوتا تو وہ کہنے لگی مہر لینا تھوڑا ہے ذرا عزت ہو جاتی ہے.میں نے انہیں کہا کہ عزت ہی اگر مقصود ہو تو پھر پچاس ہزار کیوں؟ میں پچاس لاکھ روپے مہر پر شادی کا اعلان کر دیتا ہوں لیکن یہ درست نہیں ہے.تو میں نے ان کی رضامندی سے رقم کاٹ کر پچاس ہزار سے پندرہ ہزار مہر کر دیا.خیر وہ بچی اپنے گھر میں بڑی خوش ہے.ممکن ہے پچاس ہزار خاوند کے ذہن میں چیتا تو اتنی خوشی کے سامان پیدا نہ ہوتے.وَاللهُ أَعْلَمُ.جہیز کا معاملہ ہے بعض دفعہ یہ جھگڑے اور اختلاف کی باتیں علم میں آتی اور بہت دکھ پہنچاتی ہیں.شادی ہوگئی رخصتانہ ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے تمہیں یعنی لڑکے والوں کو اور خاوند کو اپنی مخلوق میں سے ایک بہترین چیز دی کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے.تو خدا کا احسان ہے کہ اس نے بہترین مخلوق تمہیں عطا کی بجائے اس کے کہ اس پر شکر ادا کریں یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں تو یہ تھا کہ تم اپنے جہیز میں ہیں ہزار روپے کے زیور لے کر آؤ گی اور لائی ہو تم اپنی حیثیت کے مطابق چار پانچ ہزار کے یا کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو سوچا تھا کہ تمہارے ماں باپ ، ایک کا راور

Page 463

خطبات ناصر جلد دہم ۴۳۹ خطبہ نکاح ۹ رفروری ۱۹۶۹ء ایک ریفریجریٹر (Refrigerator) اور یہ اور وہ دیں گے اور تم تو یہ چیزیں نہیں لائیں.تو اشرف المخلوقات کا ایک فرد تمہیں مل گیا اور جن چیزوں کی کوئی قدر نہیں رب العالمین کی نگاہ میں ان کی طرف تم نے اپنا خیال لگایا ہوا ہے اور اچھی چیز سے توجہ ہٹا کے ایک ناقص اور بے معنی چیز کی طرف اپنی توجہ کو پھیر رہے ہو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.خَيْرُ كُمْ خَيْرُ كُمْ لِأَهْلِهِ یہ نہیں کہا کہ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی کی موٹر کی بڑی اچھی نگہداشت کرتا ہے یا اس کے جہیز کا بڑا خیال رکھتا ہے یا سونے کا جوز یور وہ لاتی ہے اس کی بڑی حفاظت کرتا ہے بلکہ یہ کہا کہ اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی کی حفاظت کرتا اور اس کے لئے خیر بنتا ہے، اس کی دینی ، اس کی دنیوی اور اس کی جسمانی ، اس کی جذباتی ضرورتوں کو وہ پورا کرتا ہے اور بیوی کا خیال رکھتا ہے.جو بیوی کے لئے اچھا ہے وہ خدا کی نگاہ میں اچھا ہے لیکن جو بیوی کے جہیز کے لئے اچھا ہے.جو بیوی کی موٹر کے لئے اچھا ہے.جو بیوی کے ریفریجریٹر (Refrigerator) کے لئے اچھا ہے.جو بیوی کے زیور کے لئے اچھا ہے.یہ نہیں کہا کہ خدا کی نگاہ میں وہ اچھا ہے.فرمایا جو بیوی کے لئے اچھا ہے وہ اچھا ہے.بیوی کو یہ نہیں کہا کہ تو اپنے خاوند کی تنخواہ کی پرستش کیا کریا تنخواہ کے مطابق اس کی عزت یا احترام یا اس کی اطاعت کیا کر کہ جس کی پانچ ہزار روپے تنخواہ ہو اس کی بیوی کو زیادہ اطاعت کرنے کا حکم ہو اور جس بیچارے غریب مزدور کی آمدنی ساٹھ روپیہ ہو اس کی بیوی کو کہا جائے کہ اسی تنخواہ کے مطابق اپنے خاوند کی عزت تو نے کرنی ہے.یہ نہیں کہا بلکہ یہ کہا ہے کہ خاوند کی عزت کرو کیونکہ جس طرح تو اس کے لئے اشرف المخلوقات کا ایک فرد ہونے کی حیثیت میں جوڑا بنائی گئی ہے وہ بھی اشرف المخلوقات کا ایک فرد ہے اور تیرے لئے وہ عمر بھر کا ساتھی ہے اس واسطے اس کی اطاعت فی المعروف، اس کی عزت، اس کا احترام کرو.تو ان تعلقات کی بنا بڑی حسین اور بڑی اچھی ہے جو اسلام نے ہمیں بتائی ہے.جو ان چیزوں کو چھوڑ کے عارضی اور فانی چیزوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ بعض دفعہ نمائشی خوشیاں تو حاصل کر لیتے ہیں.نمائشی خوشی سے میرا مطلب یہ ہے کہ ایک خاوند اپنے دوستوں میں بیٹھا اظہار کر رہا ہوتا ہے کہ دیکھو میں بڑا خوش قسمت ہوں کہ میری بیوی

Page 464

خطبات ناصر جلد دہم ۴۴۰ خطبہ نکاح ۹ رفروری ۱۹۶۹ء لاکھ روپے کا جہیز لے کے آئی ہے اور یہ نہیں بتا رہا ہوتا کہ میری بیوی میرے ان گندے دنیا دارانہ خیالات کی وجہ سے کس نفرت کا اظہار گھر میں مجھ سے کرتی ہے اس کو چھپالیتا ہے.ایک ظاہری نمائش کی چیز جو ہے اس کو ظاہر کر دیتا ہے.تو آپس کے تعلقات کی بنیاد ان فانی چیزوں پر نہیں رکھی جاتی بلکہ ان حقیقی صداقتوں اور حقائق پر رکھی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے فائدہ کے لئے پیدا کئے ہیں اور وہ یہی ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار کا سلوک کرو.ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرو.ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھو.ایک دوسرے کو نیکیوں پر اکساؤ اور یہ سمجھو کہ تمہیں اپنے گھر کی ساری برکتیں اسی وقت مل سکتی ہیں جب بیوی بھی اللہ تعالیٰ کی برکتوں کو اور فضلوں کو جذب کرنے والی ہو.خاوند بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو جذب کر نیوالا ہو.اگر ایک اللہ کی رحمت کو جذب کرے دوسرا نہ کرے تو ظاہر ہے کہ اس گھر میں آدھی برکت نازل ہوگی آدھی سے وہ محروم رہے گا.خدا کرے ہمارے خاندان میں یعنی جماعت احمدیہ میں ( ہم سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی خاندان بنادیا ہے) اللہ تعالیٰ کی ساری برکتیں نازل ہوتی رہیں صرف آدھی برکتیں نہ نازل ہوں کہ بیوی برکتوں کو حاصل کرتی ہے اور خاوند برکتوں کو دھتکار کے گھر سے باہر نکال دیتا ہے یا خاوند برکتوں کو حاصل کرے اور بیوی برکتوں کو دھتکار کے باہر نکال دے.یہ حالت نہ ہو.ساری کی ساری برکتیں، سارے کے سارے فضل اور ساری کی ساری رحمتیں اللہ تعالیٰ کی ہمارے اس خاندان پر جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا روحانی خاندان ہے نازل ہوتی رہیں.ایجاب وقبول اور دعا کرانے کے بعد حضور انور نے فرمایا :.قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ اس زندگی میں انسان کے ساتھ خوشی اور غمی لگی ہوئی ہے.خوشی میں بھی وہ راہ اختیار کرنی چاہیے جو اللہ تک پہنچانے والی ہو اور غم اور تکلیف کے دنیوی اور ظاہری اندھیروں میں بھی اس روشن راہ کو نہیں بھولنا چاہیے جو خدا تک لے جاتی اور جس کے ذریعہ

Page 465

خطبات ناصر جلد دہم ۴۴۱ خطبہ نکاح ۹ رفروری ۱۹۶۹ء سے ہم اس کی رضا کو حاصل کر سکتے ہیں.اس وقت بھی خوشی اور غم دونوں اکٹھے ہو گئے ہیں.جب جماعتیں بڑھتی ہیں.جب خاندان بڑھتے ہیں تو یہ بھی ساتھ لگا ہوتا ہے.ابھی ہم نے ایک خوشی کی تقریب میں حصہ لیا.ایک نکاح کا اعلان ہوا ہے اور اس کے معاً بعد اب میں مسجد سے باہر ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا ( یہ جنازہ محتر مہ اہلیہ صاحبہ مکرم خواجہ محمد شریف صاحب مالک خواجہ ریسٹورنٹ گول بازار ر بوہ کا تھا ).زندگی کے ساتھ غم اور خوشی اور حیات کی مسرت اور ممات کی مسرتیں ( جانے والوں کے لئے انشاء اللہ ) اور غم اور صبر ( زندہ رہنے والوں کے لئے ) سب ساتھ لگے ہوئے ہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت پر بڑا فضل کیا ہے کہ اپنی توحید پر اسے قائم کر دیا ہے.اس واسطے ہم میں سے جو جدا ہوتے ہیں ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ ان سے محبت کا سلوک کرے گا اور رضا کی جنتوں میں داخل کرے گا لیکن جو ہم سے جدا ہونے والے ہیں ان کے لئے طبعاً دل درد محسوس کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر جو یقین ہمیں حاصل ہے اس یقین کی بنا پر ہم خوش بھی ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت کا سلوک ہوگا.وہ ہماری خطاؤں کو معاف کرے گا اور اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کرے گا.اب میں باہر جنازہ پڑھاؤں گا دوست اس میں بھی شامل ہو جا ئیں.(روز نامه الفضل ربوه ۱/۲۴ پریل ۱۹۶۹ء صفحه ۳، ۴)

Page 466

Page 467

خطبات ناصر جلد دہم ۴۴۳ خطبہ نکاح ۱۰ فروری ۱۹۶۹ء اللہ تعالیٰ کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۰ / فروری ۱۹۶۹ء بمقام ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب محترمہ انیسہ شاہدہ صاحبہ بنت مکرم و محترم میاں بشیر احمد صاحب ایم.اے ( ناظم اعلیٰ مجلس انصار اللہ ) کوئٹہ کے نکاح جو مکرم ظہیر احمد صاحب پسر مکرم و محترم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب مرحوم حال ایڈنبرگ انگلینڈ سے چار ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا تھا کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جو لوگ اللہ کو علیم اور خبیر نہیں مانتے وہ دلیر ہو کر ہر قسم کے کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن وہ جو اس حقیقت پر قائم کئے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے وہ اس کی رحمت سے فائدہ اٹھانے کے لئے جس رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اس کی رضا کے کام کرتے اور اس کی ناراضگی کے کاموں سے بچتے رہتے ہیں.ازدواجی زندگی بھی خوشحال ہو جاتی ہے اور یہ دنیا بھی ان کے لئے جنت بن جاتی ہے.جو ابدی خوشحالی اور مسرتوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بھی بہت بابرکت کرے اور ہر دوخاندانوں اور جماعت

Page 468

خطبات ناصر جلد دہم ۴۴۴ خطبہ نکاح ۱۰ فروری ۱۹۶۹ء کے لئے مسرتوں کا موجب بنائے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہر دو خاندان، خاوند اور بیوی اور ان کی نسلیں ہمیشہ وارث ہوتی رہیں.(روز نامه الفضل ربوه ۱/۲۵ پریل ۱۹۶۹ ء صفحه ۴)

Page 469

خطبات ناصر جلد دہم ۴۴۵ خطبہ نکاح ۲۸ فروری ۱۹۶۹ء کسی شعبہ زندگی کے متعلق بھی خدا اور رسول کی تعلیم کو بھلا نا نہیں چاہیے خطبہ نکاح فرموده ۲۸ فروری ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.عزیزہ نازلی سعید صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر سعید احمد صاحب میڈیکل مشنری گیمبیا ( مغربی افریقہ ) کا نکاح ہمراہ عزیزم مکرم عبدالرشید شریف صاحب (اکسٹر اسسٹنٹ کمشنر چنیوٹ ) ابن محترم چوہدری محمد شریف صاحب فاضل انچارج مشن گیمبیا ( مغربی افریقہ ) بعوض مبلغ سات ہزار روپیہ مہر پر.۲.عزیزه زرینہ اختر صاحبہ بنت مکرم قریشی مختار احمد صاحب کارکن وکالت تبشیر ربوہ کا نکاح ہمراہ عزیزم مکرم مرزا نصیر احمد صاحب ابن محترم مرزا محمد حسین صاحب چٹھی مسیح ربوہ بعوض ایک ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ان آیات میں جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں ہمیں ایک پر حکمت اور بنیادی تعلیم یہ بھی دی گئی ہے کہ اگر ہم فلاح و کامیابی اور بامرادی چاہتے ہیں تو اسے ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ہی حاصل کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 470

خطبات ناصر جلد دہم ۴۴۶ خطبہ نکاح ۲۸ فروری ۱۹۶۹ء نے اپنے ارشادات میں اور اپنے اسوہ سے ہر شعبہ زندگی کے متعلق تعلیم دی ہے اس لئے ہمیں کسی شعبہ زندگی کے متعلق بھی خدا اور اس کے رسول کی تعلیم کو بھلا نا نہیں چاہیے کہ اس کے بغیر حقیقی کامیابی انسان کو نصیب نہیں ہوسکتی.اس وقت میں دو نکاحوں کا اعلان کروں گا.ہر دو نکاح واقفین زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.پہلے نکاح میں دلہن عزیزہ نازلی سعید مکرم و محترم ڈاکٹر سعید احمد صاحب کی صاحبزادی ہیں اور دولہا عزیزم مکرم عبدالرشید شریف ہمارے گیمبیا ( مغربی افریقہ) کے مبلغ انچارج مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کے صاحبزادے ہیں اور دوسرے نکاح میں خود دولہا عزیزم مرزا نصیر احمد صاحب واقف زندگی ہیں اور جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.مکرم و محترم ڈاکٹر سعید احمد صاحب دین کی خاطر زندگی وقف کر کے گیمبیا ( مغربی افریقہ ) تشریف لے گئے ہیں اور وہاں پورے اخلاص کے ساتھ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اور خدمت خلق میں مصروف ہیں.مکرم و محترم چوہدری محمد شریف صاحب ایک مخلص، دعا گو اور خدا رسیدہ انسان ہیں.اللہ تعالیٰ اس زندگی میں ہمیشہ ہی انہیں صراط مستقیم پر قائم رکھتے ہوئے اپنے فضلوں کا زیادہ سے زیادہ وارث بنائے نیز ان کی اولاد کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.ان خاندانوں نے اپنی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر کے اس کی رضا کے حصول کے لئے اس دنیا کو قربان کیا ہے.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دین اور دنیا کی حسنات ان خاندانوں کو اور ہمیں بھی عطا کرے.آمین اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور اس کے بعد ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.( روزنامه الفضل ربوه ۲۵ را پریل ۱۹۶۹ء صفحه ۳)

Page 471

خطبات ناصر جلد دہم ۴۴۷ خطبہ نکاح یکم مارچ ۱۹۶۹ء اللہ تعالیٰ ہر دو خاندانوں کے لئے یہ رشتہ مبارک کرے خطبہ نکاح فرموده یکم مارچ ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب عزیزہ شہناز غفور صاحبہ بنت مکرم و محترم مولوی عبدالغفور صاحب مرحوم ( مربی سلسلہ احمدیہ) کے نکاح ہمراہ مکرم نصیر احمد صاحب طارق ابن مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کراچی کا اعلان بعوض چھ ہزار روپیہ مہر فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.عزیزہ شہناز غفور صاحبہ جو مکرم و محترم مولوی عبد الغفور صاحب مرحوم کی صاحبزادی ہیں کا نکاح عزیزم مکرم نصیر احمد صاحب طارق پسر مکرم و محترم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کراچی سے مبلغ چھ ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.مکرم و محترم مولوی عبد الغفور صاحب مرحوم اپنی ساری عمر اللہ تعالیٰ کی خاطر زندگی گزارتے ہوئے ہم سے جدا ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کو بھی اسلام اور احمدیت کا جاں نثار بنائے اور ثبات قدم عطا کرے.ان بزرگوں کا حق ہے کہ ہم ان کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہیں.دوست یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر دو خاندانوں کے لئے یہ رشتہ مبارک کرے اور اس سے ایسی نسل چلے جو اللہ تعالیٰ کی محبت اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ

Page 472

خطبات ناصر جلد دہم ہر وقت اپنے اندر رکھنے والی ہو.۴۴۸ خطبہ نکاح یکم مارچ ۱۹۶۹ء اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور اس کے بعد حاضرین سمیت رشتہ کے با برکت ہونے کے لئے لمبی دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱/۲۵ پریل ۱۹۶۹ ، صفحه ۳)

Page 473

خطبات ناصر جلد دہم ۴۴۹ خطبہ نکاح ۳۰ مارچ ۱۹۶۹ء نکاح کے موقع کے لئے دعا بہترین تحفہ ہے خطبہ نکاح فرموده ۳۰ مارچ ۱۹۶۹ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.مسماۃ عزیزہ نسیم صاحبہ بنت حاجی محمد یوسف سکنہ کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ کا نکاح ہمراہ عزیزم مکرم شیخ نوید احمد صاحب ابن مکرم شیخ عبدالواحد صاحب بعوض بارہ ہزار روپیہ مہر.۲.عزیزہ ضیاء بٹ صاحبہ بنت مکرم خواجہ عبد الرحمن صاحب سیالکوٹ کا نکاح ہمراہ عزیزم مکرم امتیاز احمد صاحب باجوہ پسر مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ مرحوم سیالکوٹ بعوض پانچ ہزار روپیہ مہر.عزیزہ نسرین اختر صاحبہ بنت مکرم عبدالحمید صاحب میانہ پورہ ضلع سیالکوٹ کا نکاح ہمراہ مکرم ڈاکٹر فضل احمد صاحب پسر مکرم مولوی محمد یعقوب صاحب میانہ پورہ سیالکوٹ بعوض پانچ ہزار روپیہ مہر.۴.عزیزہ بشری ناہید صاحبہ بنت مکرم چوہدری احمد دین صاحبہ سکنہ گر الی ضلع گجرات کا نکاح ہمراہ عزیزم مبارک احمد صاحب طاہر پسر مکرم مولوی محمد منور صاحب سابق مبلغ مشرقی افریقہ بعوض تین ہزار روپیہ مہر.

Page 474

خطبات ناصر جلد دہم ۴۵۰ خطبہ نکاح ۳۰ / مارچ ۱۹۶۹ء حضور انور نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.بہترین تحفہ جو ہم کسی کو نکاح کے موقع پر دے سکتے ہیں وہ دعا کا تحفہ ہی ہے.ہم سب دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو ہر طرح سے مبارک کرے اور ان کے ذریعہ ایسی نسل کی بنیاد قائم ہو جو اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والی اور اس کے حقوق کو ادا کرنے والی ہو.نیز وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے والی ہو اور بدامنی اور فساد سے ان حقوق کو غصب کرنے والی نہ ہو.وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کی وارث بنے اور اس کی روشن را ہیں دوسروں کو دکھانے کی توفیق پائے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے مبارک ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.روز نامه الفضل ربوہ ۱۰ را پریل ۱۹۶۹ صفحه ۶)

Page 475

خطبات ناصر جلد دہم ۴۵۱ خطبہ نکاح ۱/۲۰ پریل ۱۹۶۹ء اللہ اس رشتہ کو ہر دو بھائی خاندانوں کے لئے با برکت کرے خطبہ نکاح فرموده ۲۰ را پریل ۱۹۶۹ء بمقام ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرم چوہدری عبد العزیز صاحب بھامبری کی صاحبزادی محترمہ فوزیہ بشریٰ صاحبہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح مکرم چوہدری منیر احمد صاحب ابن مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب بھامبڑی کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ حق مہر پر قرار پایا تھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.وہ ہر دو خاندان جن کے ساتھ دولہا اور دلہن کا تعلق ہے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے پرانے خادموں میں سے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس رشتہ کو ہر دو بھائیوں (علاوہ احمدیت کی اخوت کے ویسے بھی بھائی بھائی ہیں) کے خاندانوں کے لئے اسے بابرکت کرے اور جس طرح ان دو کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تو فیق عطا کی ہے کہ وہ خدمت سلسلہ میں اپنی زندگیاں گزاریں اسی طرح ان کی نسل میں بھی فدائی ، ایثار پیشہ، اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق پیدا ہوتے رہیں تا کہ ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے یہ دو خاندان (سارے ہی احمدی خاندان ) وارث بنتے رہیں.(روز نامه الفضل ربوه ۱۴ مئی ۱۹۶۹ ء صفحه ۴)

Page 476

Page 477

خطبات ناصر جلد دہم ۴۵۳ خطبہ نکاح ۱/۲۷ پریل ۱۹۶۹ء اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کو ادا کرو خطبہ نکاح فرموده ۲۷ را پریل ۱۹۶۹ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بروز اتوار بعد نماز ظہر مندرجہ ذیل چار نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.عزیزہ ناصرہ بیگم صاحبہ بنت مکرم کرنل محمد اسلم خان صاحب مرحوم چار باغ ضلع مردان کا نکاح مکرم کیپٹن محمد یا مین صاحب پسر مکرم کرنل محمد یوسف صاحب حال راولپنڈی سے بعوض مبلغ گیارہ ہزار روپیہ مہر.۲ - عزیزہ نصیرہ صادقہ صاحبہ بنت مکرم مبارک احمد صاحب کارکن لنگر خانہ کا نکاح عزیزم مکرم عظمت اللہ صاحب پسر مکرم عنایت اللہ صاحب مرحوم دار النصر ربوہ سے بعوض مبلغ پندرہ صد روپیہ مہر.۳.عزیزه طیبه نسرین صاحبہ بنت مکرم چوہدری عظمت اللہ صاحب مرحوم اشرف پورہ لائل پور کا نکاح مکرم محمد اسلم صاحب اختر ابن مکرم چوہدری محمد علی صاحب چک نمبر R.B.۱۰۸ ضلع لائل پور سے بعوض مبلغ چار ہزار روپیہ مہر.-۴- عزیزه نسیم اختر صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد علی صاحب چک نمبر R.B-۱۰۸ ضلع لائل پور کا نکاح مکرم کفایت اللہ صاحب پسر مکرم سلطان احمد صاحب سکنہ گھٹیا لیاں ضلع سیالکوٹ سے بعوض مبلغ تین ہزار روپیہ مہر.

Page 478

خطبات ناصر جلد دہم ۴۵۴ خطبہ نکاح ۲۷ را پریل ۱۹۶۹ ء خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج چار خوشیاں اکٹھی ہوگئی ہیں.یعنی آج چار نکاحوں کا اعلان ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ ان چاروں رشتوں کو حقیقی خوشیاں بنائے.اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جس کے یہ معنی بھی ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجالا کر اور ان حقوق کو ادا کرنے کے بعد جو اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں.اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائے کیونکہ جو شخص قانون شکن ہوتا ہے.جو شخص قانون توڑتا ہے وہ قانون کی پناہ میں نہیں ہوتا بلکہ وہ قانون کی گرفت میں ہوتا ہے.اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کو ادا نہیں کرتا وہ انہیں تو ڑتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں نہیں آتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ اگر تم اپنی زندگیوں کو خوشحال بنانا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ تم ان حقوق کو ادا کرو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں.اس طرح تم اپنے آپ کو اللہ تعالی کی پناہ میں لے آؤ گے اور اس کے نتیجہ میں تمہاری زندگی خوشحال زندگی بن جائے گی.بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کرتے.لیکن اپنا حق لینے کے لئے وہ ہر جائز اور ناجائز ذریعہ اور وسیلہ اختیار کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.اگر ہر مسلمان اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ کرے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر شخص کو اس کا حق مل جائے گا اور وہ مطمئن ہو جائے گا اس کا نفس تسلی پا جائے گا اور اس کی زندگی خوشحال ہو جائے گی.نئے ازدواجی رشتے بہت سے حقوق قائم کرتے ہیں.اگر ان حقوق کی ادائیگی کی طرف پوری توجہ کی جائے تو اس قسم کے ازدواجی رشتوں کے نتیجہ میں ان گھروں میں جن میں یہ رشتے قائم ہوتے ہیں بشاشت اور خوشحالی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بہت سی برکتیں انہیں حاصل ہوتی ہیں اور ایسے گھرانے خدا تعالیٰ کی پناہ میں آجاتے ہیں اور جو فرد یا گھرانہ خدا تعالیٰ کی پناہ میں آجائے اسے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی.ہم سب کو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہی ان حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا

Page 479

خطبات ناصر جلد دہم ۴۵۵ خطبہ نکاح ۱/۲۷ پریل ۱۹۶۹ ء فرمائے جو انسان کے مختلف طبقات پر اس نے قائم کئے ہیں اور اس دنیا میں ان حقوق کی ادائیگی کے نتیجہ میں وہ ہمیں خوشحال اور مطمئن بنا دے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور پھر حاضرین سمیت ان سب رشتوں کے با برکت ہونے کے لئے دعا فرمائی.谢谢谢 (روز نامه الفضل ربوه ۳ جون ۱۹۶۹ ء صفحه ۳)

Page 480

Page 481

خطبات ناصر جلد دہم ۴۵۷ خطبہ نکاح ۵ رمئی ۱۹۶۹ء اللہ تعالیٰ کی رضا ہمارا مقصد ہونا چاہیے خطبہ نکاح فرموده ۵ رمئی ۱۹۶۹ ء بمقام ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر محترمہ شاہین قیصر صاحبہ بنت مکرم مرزا اعظم بیگ صاحب ساکن ربوہ کے نکاح کا مکرم مرزا محمود احمد صاحب ابن مکرم مرز امحمد شفیع صاحب حال فرینکفورٹ جرمنی سے بعوض آٹھ ہزار روپے حق مہر اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نکاح کے ذریعے جو رشتے باندھے جاتے ہیں.یہ رشتے بڑے ہی نازک ہوتے ہیں اور ان رشتوں کو پختہ اور مستحکم بنانے کی ذمہ واری صرف خاوند اور بیوی پر نہیں ہوتی بلکہ اس کی ذمہ داری ہر دو خاندانوں اور ان کے عزیز واقارب پر بھی ہوتی ہے.اگر برادری میں رشتہ ہو تو بہت سی پرانی رنجشوں کو بھلانا پڑتا ہے تب رشتہ میں استحکام پیدا ہوتا ہے.اگر برادری نہ ہوتو ایسے دوخاندانوں میں جن کا آپس میں پہلے کوئی قرابت کا تعلق نہیں اجنبیت ایک طبعی چیز ہے.اس اجنبیت کو دور ا پڑتا ہے.وہ جو پہلے بیگانے تھے اب لگانے بن جاتے ہیں.اس کے لئے بہر حال کوشش کرنی پڑتی ہے اور کوشش کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ نے پھر سے احمدیت کی برادری کو اسلامی اخوت کی بنیادوں پر اس طرح قائم کیا ہے کہ ہماری جماعت کی اکثر شادیاں آپس میں نئے ازدواجی رشتوں کرنا :

Page 482

خطبات ناصر جلد دہم ۴۵۸ خطبہ نکاح ۵ رمئی ۱۹۶۹ء کو قائم کرتی ہیں.خاندانوں میں پہلے قرابت داری کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.احمدیت کا رشتہ اگر ہم اسے سمجھیں دنیا کی سب قرابتوں سے بالا اور ارفع اور مضبوط تر ہے.اگر نہ سمجھیں تو یہ ہماری بدقسمتی ہے اور ہمارے لئے دکھ کا باعث بن سکتی ہے.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں.یہ بھی دو ایسے خاندانوں میں رار پایا ہے جن کا آپس میں قرابت داری کا پہلے کوئی تعلق نہیں اور ہر دو خاندانوں کے دل میں طبعاً یہ خیال پیدا ہوتا ہوگا کہ پہلے بیگانگی تھی ، اجنبیت تھی.دیکھیں اب کیا ہوتا ہے.انہیں یا درکھنا چاہیے کہ ہوتا تو وہی ہے جو خدا چاہتا ہے اور خدا یہ چاہتا ہے کہ ہمارے آپس کے ازدواجی تعلقات اس طرح پر قائم ہوں کہ ان کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لے.کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.خَيْرُ كُمْ خَيْرُ كُمْ لِأَهْلِهِ.یہ خَیرُ كُمْ لاَھلِے میں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمہیں اچھا اور نیک مقام حاصل ہوگا اگر تم ازدواجی رشتوں کے حقوق ادا کرو گے.یہ تعلقات تو دنیوی ہیں.غیر مسلم اور دہر یہ بھی اس قسم کے تعلقات کو قائم کرتے ہیں لیکن ہم پر اسلام کی یہ نعمت اور احسان ہے کہ ان دنیوی تعلقات کو اور ان دنیوی رشتوں کو نباہنے کے لئے اگر ہم یہ نیت رکھیں کہ ہم آپس میں اچھے تعلقات قائم کریں گے اور ان حقوق کی پوری طرح حفاظت کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے ان رشتوں کے متعلق قائم کئے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوگا.اگر اس نیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں کو نبا ہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں تعلقات خوشگوار ہو ہی جائیں گے لیکن وہ اصل مقصد بھی حاصل ہو جائے گا.یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول جس کی خاطر اور جس نیت کے ساتھ انسان آپس کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے ، بہتر رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کا خیال رکھتا اور اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کی حفاظت کرتا اور ان کو نباہتا ہے.اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بھی اور ( دعا کرتے وقت وسعت پیدا ہونی چاہیے ) ہر احمدی گھرانے کے رشتوں کو بھی بابرکت بنائے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی یہ بھی ایک راہ ان پر کھلے جس

Page 483

خطبات ناصر جلد دہم ۴۵۹ خطبہ نکاح ۵ رمئی ۱۹۶۹ء طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور احسان سے اپنے قرب کے حصول کی اور سینکڑوں راہیں ہم عاجز بندوں پر کھولی ہیں.روزنامه الفضل ربوه ۳ جون ۱۹۶۹ ، صفحه ۳، ۴)

Page 484

Page 485

خطبات ناصر جلد دہم ۴۶۱ خطبہ نکاح یکم جون ۱۹۶۹ء احمدیت کی اگلی نسلوں پر موجودہ زمانہ میں دنیا اور دنیا داروں کے دباؤ زیادہ پڑیں گے خطبہ نکاح فرموده یکم جون ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ر بوه حضور انور نے بعد نماز عصر مکرم میاں عطاء الرحمن صاحب پروفیسر ٹی آئی کالج ربوہ کے صاحبزادگان مکرم لطف الرحمن صاحب محمود اور مکرم لطف المنان صاحب کے نکاحوں کا اعلان فرمایا.یہ نکاح علی الترتیب محترمہ ضیاء خاور صاحبہ اور محترمہ تنویر قمر صاحبه بنت مکرم رشید احمد خان صاحب سے آٹھ آٹھ ہزار روپے حق مہر پر قرار پائے ہیں.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے جو اسلامی تعلیم نازل کی ہے اس کی کامل اطاعت ہی فلاح اور کامیابی کا باعث بن سکتی ہے.اس وقت مسلمانوں پر دنیا کے مختلف دباؤ پڑتے ہیں اور بعض دفعہ بعض لوگ اسلامی تعلیم سے پرے ہٹ جاتے ہیں.شاید عارضی طور پر بظاہر انہیں کوئی کامیابی نظر بھی آتی ہو لیکن ایسے شخص کو حقیقی اور سچی کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی.احمدیت کی اگلی نسلوں کے متعلق یہ سوچ کر بڑی فکر رہتی ہے کہ موجودہ زمانہ میں دنیا اور دنیا داروں کے دباؤ ان پر زیادہ پڑیں گے.خدا کرے کہ وہ ان تمام کوششوں کا مقابلہ کر سکیں جو انہیں اسلام سے دور لے جانے والی ہوں اور آئندہ نسل بھی حقیقی طور پر احمدیت اور اسلام پر قائم رہے.

Page 486

خطبات ناصر جلد دہم ۴۶۲ خطبہ نکاح یکم جون ۱۹۶۹ ء اس وقت میں دو بھائیوں اور دو بہنوں کے نکاح اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں.بہنیں تو مکرم محترم رشید احمد خان صاحب کی صاحبزادیاں ہیں اور بھائی مکرم و محترم پروفیسر میاں عطاءالرحمن صاحب کے صاحبزادے ہیں.مکرم پروفیسر میاں عطاء الرحمن صاحب واقف زندگی ہیں اور بڑے اخلاص اور محنت کے ساتھ ایک لمبے عرصے ( قادیان کے زمانے سے ) تعلیم الاسلام کا لج میں جماعت کی خدمت کر رہے ہیں ، بڑے بے نفس اور مضبوط انسان ہیں.خدا کرے کہ ان کے لڑکے بھی بے نفس خدمت کرنے میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں اور اس وقت ہماری جن بچیوں سے ان کے رشتے ہو رہے ہیں انہیں بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ وہ بھی احمدیت اور اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے والی ہوں اور اپنے خاوندوں کا ایسے رنگ میں ہاتھ بٹائیں کہ جس کے نتیجہ میں وہ اپنی ذمہ داریاں اکیلے رہنے کی نسبت زیادہ خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکیں اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہر دوا اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کرنے میں کامیاب ہوں.اس کے بعد حضور نے ایجاب و قبول کرایا اور ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لیے لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 487

خطبات ناصر جلد دہم ۴۶۳ خطبہ نکاح ۹ راگست ۱۹۶۹ ء مکرم مولوی صالح محمد صاحب نے اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت میں گزاری ہے اس لئے وہ دعا کے مستحق ہیں خطبه نکاح فرمود ۹۰ /اگست ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر عزیزہ شاہدہ صاحبہ بنت مکرم مولوی صالح محمد صاء فیکٹری ایریا ربوہ کے نکاح ہمراہ مکرم قریشی محمود اقبال صاحب ابن مکرم قریشی عبدالحق صاحب راولپنڈی کا اعلان بعوض پانچ ہزار روپیہ مہر پر فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں عزیزہ شاہدہ صاحبہ بنت مکرم مولوی صالح محمد صاحب فیکٹری ایریار بوہ کے نکاح کا اعلان کروں گا جو قریشی محمود اقبال صاحب ابن مکرم قریشی عبدالحق صاحب راولپنڈی کے ساتھ قرار پایا ہے.مکرم مولوی صالح محمد صاحب نے اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت میں گزاری ہے اس لئے وہ دعا کے مستحق ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ رشتہ ان کے لئے بہتر بنائے اور واقفین دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نتیجہ میں پیدا ہوں جو اپنی عاجزانہ قربانیوں کے ساتھ اشاعتِ اسلام میں کوشاں رہیں اور دین و دنیا کے حسنات انہیں اللہ کے فضل سے ملتی رہیں.اس کے بعد حضور نے ایجاب وقبول کرایا اور رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوه ۲۰ / اگست ۱۹۶۹ صفحه ۶)

Page 488

Page 489

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۴ /اگست ۱۹۶۹ء اپنی زندگیوں میں اسلام کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرو خطبہ نکاح فرموده ۱۴ /اگست ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب وعشاء مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.عزیزہ عائشہ نصیر صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب پروفیسر تعلیم السلام کا لج ربوہ کا نکاح ہمراہ مکرم رائے عنایت اللہ خان صاحب ایم اے پروفیسر پنجاب یو نیورسٹی (اکنامکس ڈیپارٹمنٹ) ابن مکرم رائے غلام محمد خان صاحب منگلا بعوض سے آٹھ ہزار روپے مہر.۲.عزیزه امۃ الوحید صاحبہ بنت مکرم ملک نواب خان صاحب مرحوم ربوہ کا نکاح ہمراہ مکرم چوہدری عبدالمجید صاحب چیمہ ابن مکرم چوہدری عبد الرحیم صاحب چیمہ دار الرحمت شرقی ربوہ بعوض مبلغ پندرہ ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دنیا آج ایک مسلمان سے عمل کا مطالبہ کر رہی ہے.اکثر مقامات بلکہ ساری دنیا سے ہی یہ اطلاع آتی ہے کہ جب غیر مسلم اسلام کے دلائل سے عاجز آجاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم تو بے شک نہایت حسین ہے مگر اس تعلیم پر حسین عمل کرنے والے کہاں ہیں.اس لئے جماعت احمد یہ کے افراد پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اسلام کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں.اسلام نے ہر شعبہ زندگی کے عملی حقوق قائم کئے ہیں اور ایک مسلمان پر بہت سی

Page 490

خطبات ناصر جلد دہم ۴۶۶ خطبہ نکاح ۱۴ راگست ۱۹۶۹ء ذمہ داریاں عائد کی ہیں.رشتوں سے متعلق بھی اسلام نے بہت سے احکام دئے ہیں اور مرد و عورت یعنی میاں و بیوی ہر دو پر بعض ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور ان کے ایک دوسرے پر بعض حقوق مقرر کئے ہیں.ہمارے ان نوجوانوں (جن کے نکاحوں کا اعلان اس وقت ہو رہا ہے ) کا یہ فرض ہے کہ وہ نکاح کے وقت سے ہی یہ نیت کر لیں کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے باہمی تعلقات کو اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ احکام کے مطابق قائم کریں گے تا دنیا ان کے گھروں میں اسلام کا زندہ نمونہ دیکھے.دنیا کے مرد بھی اسلام کا زندہ نمونہ دیکھیں جہاں تک مرد کا سوال ہے اور دنیا کی عورتیں بھی اسلام کا زندہ نمونہ دیکھیں جہاں تک عورت کا سوال ہے.پس اے عزیز و! جن کے اس وقت نکاح ہورہے ہیں انہیں ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے گھروں (اینٹ اور پتھر کے گھر نہیں بلکہ وہ جن میں اسلام کے لئے زندگیاں وقف کرنے والی اور فدائی نسل پیدا ہونی ہے ) کی بنیاد تقویٰ پر رکھو اور دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے.اس وقت میں جن دو نکاحوں کا اعلان کروں گا ان میں سے ایک نکاح تو مکرم ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب کی بچی کا ہے جو چک منگلا کے ایک ذہین ، ہونہار بچہ سے قرار پایا ہے.دونوں خاندانوں میں سوائے احمدیت کے جوڑ کے اور کوئی جوڑ نہیں.ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کے اس جوڑ کو احمدیت اور اسلام کی بنیادوں پر مضبوطی سے قائم رکھے اور یہ رشتہ ہر دو خاندانوں کے لئے برکت کا موجب بنائے اور خوشی اور مسرت کا باعث ٹھہرائے.دوسرا نکاح عزیزہ امتہ الوحید صاحبہ بنت مکرم ملک نواب خان صاحب مرحوم کا ہے جو عزیزم عبدالمجید صاحب جو مکرم چوہدری عبدالرحیم صاحب چیمہ کے بیٹے ہیں قرار پایا ہے.اس کے بعد حضور نے ایجاب و قبول کرایا اور رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ را گست ۱۹۶۹ ء صفحه ۳)

Page 491

خطبات ناصر جلد دہم ۴۶۷ خطبہ نکاح ۲۳ اگست ۱۹۶۹ء انسانی زندگی کے نئے دور کی ابتدا نکاح کے اعلان سے ہوتی ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۳ اگست ۱۹۶۹ء بمقام کراچی حضور انور نے بعد نماز مغرب و عشاء محترم مولوی غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسلہ احمدیہ کے صاحبزادہ محترم کیپٹن منیر احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترمه منصوره رشید ملک بنت ملک رشید احمد خان صاحب کراچی کے ساتھ قرار پایا ہے.خطبہ مسنون کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اگر کسی شخص کو دس روپے کی ضرورت ہو اور یہ دس روپے اس کی جیب میں ہوں تو وہ کسی سے مانگنے نہیں جائے گا.اسی طرح اگر کسی شخص کو ہزار روپے کی ضرورت پیش آجائے اور اتنے ہی روپے اس کے پاس موجود ہوں تو اسے بھی کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی.لیکن اگر کسی کوسو، دوسو روپے کی ضرورت پڑ جائے مثلاً وہ خود بیمار ہو جاتا ہے یا بچے بیمار پڑ جاتے ہیں مگر علاج کے لئے پیسے نہیں تو وہ اپنی ضرورت کے پیش نظر اپنے دوستوں کے پاس بھاگا پھرتا ہے.اور ایک وہ بھی ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا انہیں سب کچھ مانگنا پڑتا ہے اور یہ تعلق اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کا ہے.اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بندے کا اپنا کچھ بھی نہیں.جس طرح وہ خالی ہاتھ اس دنیا میں جنم لیتا ہے.اگر کوئی عقلمند غور کرے تو وہ یقیناً اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ دراصل اللہ تعالیٰ کا

Page 492

خطبات ناصر جلد دہم ۴۶۸ خطبہ نکاح ۲۳ را گست ۱۹۶۹ ء بندہ اپنی ساری عمر اسی طرح خالی ہاتھ گزار دیتا ہے اس کے پاس خدا کے ارادے اور مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا.جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ گھر سے تو کچھ نہ لائے تھے.پس اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں انسان کی حیثیت کچھ بھی نہیں.سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے اور وہی دے تو ملتا ہے اور وہی پاس رہنے دے تو پاس رہتا ہے ورنہ چھن جاتا ہے.اس لئے ہمیں بڑی سختی سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے مقام اور اپنی حیثیت کو سمجھو.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ جوتی کے تسمے کی بھی ضرورت ہو تو وہ بھی اپنے رب سے مانگو اس کے یہی معنے ہیں کہ اس وقت دماغ میں یہ نہیں آنا چاہیے کہ ایک آنے کا تو تسمہ ہے.معمولی سی چیز ہے اس کو میں بازار سے جا کر لے آؤں گا کیونکہ اس ایک آنے اور تسمہ کی خرید میں ہزار حوادث پیش آسکتے ہیں.ہوسکتا ہے بغیر تسمہ کے بوٹ میں اس کی وفات ہو جائے.غرض بوٹ کے تسمہ جیسی معمولی سے معمولی چیز بھی اپنے رب سے مانگنی چاہیے.پس دعا جو ہے وہ دراصل مانگنا ہی ہے.اسی لئے اسلام نے ہر وقت ذکر اور دعا کرنے پر بڑا زور دیا ہے.لیکن چونکہ انسان کمزور ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا رحم کرنے والا ہے.اس لئے وہ اس کی بہت ساری غفلتوں کو معاف کر دیتا ہے.اور جتنی کوئی دعا کر لے وہ اس کے لئے کافی ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: ۷۸) کہہ کہ میں نے اپنے بندے سے دعا کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی تھی.اس نے دعا کرنے میں اپنی عقل استعمال کی کیونکہ میری وضاحت نہیں تھی اس لئے دعا کرنے میں فروگذاشت کو معاف کر دیتا ہوں.دعا کرنے کا تعلق دراصل مال و دولت کے حصول سے نہیں.یہ جو روز ہم دو گھنٹے یا پانچ دس گھنٹے دعا کرتے ہیں یہ اس لئے نہیں کرتے کہ ہمارے پاس ہزار روپیہ نہیں اور یہ ہمیں مل جائے.ایسی دعا کرنا سراسر غیر معقول بات ہے.نماز کی دعا کہ وہ مقررہ اوقات میں پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ کی جاتی ہے.یہ اور بات ہے اس کے علاوہ دعا کرنے کے عموماً وقت بھی خرچ اس معنے

Page 493

خطبات ناصر جلد دہم ۴۶۹ خطبہ نکاح ۲۳ اگست ۱۹۶۹ء میں نہیں ہوتا کہ انسان کو کچھ اور کام چھوڑ کر دعا کرنی پڑے بلکہ انسان اپنا کام کرتے ہوئے بھی اپنے رب کو یا در رکھ سکتا ہے.دنیا میں ہزاروں بزرگ ایسے گزرے ہیں جن کی زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی یاد میں بسر ہوا حتی کہ سونے کا وقت بھی دعا میں گذرا کیونکہ وہ دعا کرتے کرتے سو گئے اور جب اٹھے تو اس وقت بھی ان کی زبان پر ذکر الہی جاری تھا اس واسطے ان کے سونے کا وقت بھی دراصل دعا کرنے میں گذرا.چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کے جو بے شمار انعامات نازل ہوئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ کا سونے کا وقت بھی دعا اور یاد الہی میں گذرتا تھا.اسی لئے آپ نے فرمایا ہے کہ میری آنکھیں سوتی ہیں میرا دل نہیں سوتا.اس کے یہی معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں اور اس کے ذکر میں آپ کا (Unconscious mind) لاشعور نیند میں بھی بیدار رہتا تھا اور ہر دوسرے شخص کے(Unconscious mind)لاشعور سے کہیں زیادہ یا دخدا میں محور ہتا تھا.بہر حال دعا کرنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے.میرے خیال میں یہاں سینکڑوں نہیں تو ایسے بیسیوں دوست ضرور بیٹھے ہوں گے جو اپنے گھر سے موٹر میں اپنے دفتر جاتے ہیں.دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو یہ خود موٹر چلاتے ہیں یا ان کا ڈرائیور چلاتا ہے.اگر ڈرائیور موٹر چلا رہا ہے تو اس وقفہ میں جو انہیں گھر سے دفتر پہنچنے تک میسر آتا ہے اس میں وہ دعا کر سکتے ہیں کیونکہ اس طرح انہیں دماغ کے غیر حاضر ہونے کا خطرہ نہیں رہتا البتہ اگر وہ خود موٹر چلا رہے ہوں تو اس صورت میں اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ کہیں دعا کرنے میں لگ گئے تو دماغ حاضر نہ رہے.لیکن عموماً ہوتا یہ ہے کہ ان کا ڈرائیور موٹر چلا رہا ہوتا ہے اور وہ یا تو ادھر ادھر کی باتیں سوچتے رہتے ہیں یا کچھ بھی نہیں سوچتے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں ان کا دماغ بہکا رہتا ہے لیکن اب اگر مثلاً وہ دوست جن جن تک میری آواز پہنچے وہ ارادہ کر لیں کہ گھر سے دفتر یا کسی اور جگہ جہاں بھی وہ جاتے ہیں اس میں جو وقت لگتا ہے اس میں وہ الْحَمْدُ لِلَّهِ يَا سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ پڑھنا شروع کردیں اور حسب توفیق پاس، سو یا دوسو بار اس کا ورد کریں تو ان کے لئے یہ تھوڑا سا سفر بھی خیر و برکت کا موجب بن

Page 494

خطبات ناصر جلد دہم ۴۷۰ خطبہ نکاح ۲۳ اگست ۱۹۶۹ء جائے.اگر انہیں اس طرح دعا کرنے کی عادت پڑ جائے اور اس کے نیک اثرات سے لطف اندوز ہونے کی سعادت نصیب ہونے لگے تو انہیں اس بات کا بے حد افسوس ہوگا کہ ہم نے کتنا وقت ضائع کیا.ہم زندگی کے کتنے ہی لمحے بغیر کام کا وقت ہرج کئے یا بغیر ایک دھیلا خرچ کئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس کی یاد میں گزار سکتے تھے.جو آدمی خود موٹر چلا رہا ہے اس کو بہر حال حکم ہے کہ دوسرے کی جان نہیں لینی اس لئے چوکس ہو کر موٹر چلا ؤ لیکن بعض ایسے دعائیہ فقرے ہیں کہ اگر آدمی ان کا ورد کرتا رہے تو وہ چوکس بھی رہ سکتا ہے مثلاً خود موٹر چلانے کے وقت کی اور اس قسم کے سفر کی مختلف دعائیں ہیں ان میں ایک تو بِسمِ اللهِ مَجْرِيهَا وَمُرْسَهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (هود: ۴۲) کی دعا ہے.پھر سُبْحْنَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هُذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (الزخرف: ۱۴) بھی سفر کی دعا ہے.اور اس موقع پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا بھی ہے جس کو میں مرکب دعا کہا کرتا ہوں یعنی بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ یہ بھی سفر کی ایک دعا ہے اور بڑی ہی عجیب دعا ہے.میں پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں کہ ایک دفعہ جب کہ فرقان بٹالین ابھی اپنے میں کیمپ Base Camp) ہی میں تھی اور مجھے اس بٹالین کے سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بعض اہم کام سپر د تھے.میں اپنی چھوٹی سی کار ولز لئے، جس نے بڑی وفا کی ہے اور جواب تک میرے پاس پڑی ہے اس میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ وہاں گیا ہوا تھا.وہاں چند دن کے قیام کے دوران میں بارش ہوگئی اور گجرات کے قریب سے سڑک کٹ گئی.مجھے چونکہ لاہور میں بعض ضروری امور کے لئے جلد واپس آنا تھا دوستوں سے مشورہ کیا اور طے پایا کہ ہیڈ رسول سے ہوتے ہوئے نہر کے کنارے کنارے جا کر آگے گنجاہ کے پاس سے گجرات جانے والی سڑک کو اختیار کریں.چنانچہ ہم اس راستے پر چل پڑے.ہیڈ رسول کا پھاٹک بند تھا.وہاں ہمیں لازماً موٹر کھڑی کرنی پڑی.پھاٹک کھلوایا تو کار چلنے سے رک گئی.ساتھیوں نے بڑے دھکے لگائے مگر یہ سٹارٹ نہ ہوئی.اس وقت بھی مجھے اس دعا کے پڑھنے کی تفہیم ہوئی اور میں نے سمجھا

Page 495

خطبات ناصر جلد دہم ۴۷۱ خطبہ نکاح ۲۳ اگست ۱۹۶۹ء کہ یہ کار تو اللہ تعالی کے فضل سے چلے گی پٹرول وغیرہ سے تو یہ چلنے سے رہی.میں نے اس دعا کے پڑھنے کے ارادہ سے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ دھکا لگائیں اور ساتھ ہی انہیں یہ بھی کہہ دیا کہ لاہور تک مجھ سے بات نہیں کرنی.انہوں نے دھکا لگایا تو کار سٹارٹ ہوگئی چنانچہ میں لا ہور تک یہی دعا بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ پڑھتار ہا.راستے میں ہمیں کوئی تکلیف نہ ہوئی.نہ ہی ہم راستے میں کہیں ٹھہرے اور نہ ہی کہیں ٹھہرنے کی ضرورت تھی.ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیدھے لاہور پہنچ گئے.گیراج بند تھا.تالا لگا ہوا تھا.گیراج کے سامنے کھڑی کی اور اس کا دروازہ کھلوایا تو کار سٹارٹ نہ ہو.خیر دھکا دے کراندر کر دی.مستری کو بلا یا.اس نے دیکھا تو کہنے لگا میں تو اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوں کہ یہ کا رسرائے عالمگیر سے چل کر یہاں تک آئی ہے کیونکہ اس کے کاربوریٹر (Carburetter ) میں اتنی مٹی جمع ہوگئی ہوئی ہے کہ پٹرول کے لئے راستہ ہی نہیں چھوڑا.واقعی اس کو کیا پتہ تھا کہ یہ کیسے چل کر آئی ہے.اس وقت میں یہ مثال اس لئے دے رہا ہوں کہ اگر خود ڈرائیو کرنی ہو تب بھی انسان اسی طرح دعا کر سکتا ہے.ڈرائیور کی ذمہ داری در حقیقت بہت بڑی ذمہ داری ہے.اسے ہر وقت یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اس کی وجہ سے کسی اور کو دیکھ نہ پہنچے.حادثہ کی وجہ سے کسی کو چوٹ نہ آجائے.ہم احمدی مسلمان تو کسی دوسرے کو چوٹ لگی ہوئی دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتے.چہ جائیکہ خود ہم ہی سے کسی کو تکلیف پہنچ جائے.پس ڈرائیونگ کی اہم ذمہ واری کو نباہنے کے لئے یہ دعائیں بڑی ہی ضروری ہیں.اگر میرے لئے یہ ممکن ہے تو آپ کے لئے بھی ممکن ہے.ہر ایک کے لئے ممکن ہے چھوٹوں کو بھی اور بڑوں کو بھی ہر ایک کو دعا کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے.ہمیں اپنا فارغ وقت بے کا رنہیں گذار دینا چاہیے.اگر ہماری زندگی دعا سے معمور ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سارے کام بن جائیں گے.پھر اگر ہم پر کوئی ابتلا آئے گا یا کوئی امتحان آ پڑے گا تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کامیاب ہونے کی توفیق عطا کرے گا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے حالات پیدا کر دے گا کہ وہ امتحان ہماری تباہی کا موجب نہ بنے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو اور

Page 496

خطبات ناصر جلد دہم ۴۷۲ خطبہ نکاح ۲۳ را گست ۱۹۶۹ ء بھی زیادہ حاصل کرنے کا موجب بن جائے.اسی لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر کام دعا سے شروع کرنا چاہیے.انسانی زندگی کے ایک نئے دور کی ابتدا نکاح کے اعلان سے ہوتی ہے.دو مختلف خاندانوں کے لڑکے لڑکی کا پیوند لگایا جاتا ہے.جس طرح درختوں کا پیوند لگایا جاتا ہے اور اس پیوند پر اللہ تعالیٰ کا قانون چلتا ہے وہی قانون انسان کے اس قسم کے پیوند پر بھی حاوی ہوتا ہے یعنی ابتدائی تعلقات میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے.آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب دو ٹہنیوں کا آپس میں پیوند لگایا جاتا ہے تو اس کی حفاظت کے لئے لوگ رسی باندھ دیتے ہیں جب اس پیوند کے نتیجہ میں کونپل پھوٹتی ہے تو پھر اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی جانور اس کو کھا نہ جائے یا ناسمجھ بچہ یا بے خیالی میں بعض دفعہ کوئی بڑا آدمی ٹکر لگا کر اس کو توڑ نہ دے اور جس وقت وہ درخت بڑا ہو جاتا ہے اور اس کا تنا مضبوط ہو جاتا ہے تو اسی درخت پر چار چار، پانچ پانچ بچے چڑھ کر اس کا پھل کھا رہے ہوتے ہیں مگر اس درخت کا کوئی نقصان نہیں ہوتا.پس یہی حالت اس ازدواجی تعلق کے ابتدائی دور کی ہے.ازدواجی رشتہ کا ابتدائی دور بھی بڑا نازک ہوتا ہے اس میں بڑی ذمہ داری خاوند کی بھی بیوی کی بھی اور عام طور پر لوگ بھول جاتے ہیں ایک بہت بڑی ذمہ واری دونوں خاندانوں پر بھی عائد ہوتی ہے.میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بہت سے رشتے اس وجہ سے نا کام ہو گئے اور ان کوٹوٹنا پڑا کہ ماں نے یا باپ نے یا ہر دو نے وہ ذمہ داری نہیں نباہی جو انہیں نباہنی چاہیے تھی.یہ جو ایک نئے دور کی ایک نئی زندگی کی ابتدا ہے اسے بھی دعاؤں کے ساتھ شروع کرنا چاہیے اور دعاؤں ہی سے اس کی پختگی کا حصول اور اس پختگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے.اس طرح دعائیں کرتے رہنے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے باہمی زندگی کا سارا زمانہ خوشحالی میں گذر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال اور اس کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور پھر اس کے نتیجہ میں اگلی نسل بھی قرہ عین بنتی ہے اور جیسا کہ ہر مومن کی یہ خواہش ہونی چاہیے اور ہوتی ہے کہ ان کی نسل بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنے

Page 497

خطبات ناصر جلد دہم ۴۷۳ خطبہ نکاح ۲۳ را گست ۱۹۶۹ء اس قسم کی نیک نسل اسے عطا ہوتی ہے اور پھر یہ آگے چلتی چلی جاتی ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 498

Page 499

خطبات ناصر جلد دہم ۴۷۵ خطبہ نکاح ۴ رستمبر ۱۹۶۹ء تقویٰ اختیار کرنے کے لئے اللہ کی توفیق اور رحمت کی ضرورت ہے خطبہ نکاح فرموده ۴ رستمبر ۱۹۶۹ء بمقام قیام گاہ کراچی حضور انور نے بعد نماز مغرب وعشاء مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا :.۱- محترم ممتاز انتظار صاحبه بنت مکرم سید انتظار حسین صاحب کراچی کا نکاح ضیاء الحسن صاحب ابن حکیم انوار حسین صاحب مرحوم خانیوال بعوض اکیس ہزار روپے حق مہر.-۲- محترمہ بشری خانم صاحبہ بنت مکرم ملک منیر احمد صاحب کراچی کا نکاح ملک مظفر احمد ابن ملک خداداد خان صاحب کراچی بعوض دس ہزار روپے حق مہر.محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ بنت مکرم مختار احمد صاحب کراچی کا نکاح میرحسین محمود ابن سفر الدین کراچی بعوض ڈیڑھ ہزار روپے حق مہر.-۴- محترمہ عطیہ فرخندہ صاحبہ بنت چوہدری عبد المنان صاحب کراچی کا نکاح محمد منور ابن چوہدری محمد اسماعیل صاحب بعوض تین ہزار روپے حق مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قرآن کریم نے ہمیں بار بار یہ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.انسان اللہ تعالیٰ کا تقویٰ محض اپنی کوشش اور تدبیر سے اختیار نہیں کر سکتا.تقویٰ اختیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی رحمت کی ضرورت ہے جسے دعا سے حاصل کرنا چاہیے.انسان کے اندر حقیقی

Page 500

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۴ رستمبر ۱۹۶۹ء تقویٰ تب پیدا ہوتا ہے جب انسان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا جلوہ ظاہر ہو.جب انسان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا جلوہ ظاہر ہوتا ہے تو اس کا اپنا کچھ باقی نہیں رہنے دیتا.اس پر ایک کامل فنا طاری ہوتی ہے اور اسے عبودیت کا ملہ کا مقام حاصل ہوتا ہے.جب انسان اپنے نفس پر موت وارد کر لیتا ہے تب اسے اللہ تعالیٰ سے ایک نئی زندگی ملتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت تامہ سے حصہ لیتا ہے.گویا اس طرح انسان ہر جہت سے ہر طرف سے اللہ تعالیٰ کی ر بوبیت کے شرف سے مشرف ہوتا ہے.اس فنا کے مقام سے انسان جو کچھ اپنے رب کو مخاطب کر کے کہہ سکتا ہے.وہ تو یہی ہے کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے عجز وعبودیت کے پیکر مجسم کو جس رنگ میں جہاں تک اس کی استعداد ہو اپنے کمال تک پہنچا دیتا ہے اور ایسے شخص سے بڑے پیار سے کہتا ہے کہ تو نے میری خاطر اپنی آنکھیں کھوئیں اب میں تیری آنکھیں بن جاؤں گا.تو نے میری خاطر اپنی زبان کو کاٹ کر پرے پھینک دیا اب میں تیری زبان بن جاؤں گا.اسی طرح دوسرے حواس ہیں جب انسان اللہ تعالیٰ کی خاطر ان کو کھو بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے بدلے اسے نئے حواس عطا کرتا ہے.وہ وہی دیکھتا ہے جسے خدا تعالیٰ چاہے کہ وہ دیکھے.وہ وہی سنتا ہے جسے خدا تعالیٰ چاہے کہ وہ سنے.اور وہ وہی کچھ کہتا ہے جسے اس کا رب چاہتا ہے کہ وہ کہے.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو جاتا ہے.ہماری یہ دعا ہے کہ جس طرح ان نو جوانوں (جن کے نکاح ہو رہے تھے ) کے بزرگوں میں سے بہتوں نے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے دیکھے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی لذت اور سرور کو حاصل کیا اسی طرح یہ نوجوان اور ان سے جو آئندہ نسل چلنے والی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال اور اس کی محبت اور اس کے پیار کے جلوے دیکھنے والی ہو.آمین.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 501

خطبات ناصر جلد دہم ۴۷۷ خطبہ نکاح ۲۵ ستمبر ۱۹۶۹ء جماعت میں عزت، اخلاص اور خدمت دین کی بنیادوں پر حاصل ہوتی ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۵ ستمبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر عزیزہ صبیحہ خانم صاحبہ بنت ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب قریشی کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح عزیزم سردار مبشر احمد صاحب قیصرانی خلف محترم سردار غلام محمد خان صاحب قیصرانی کے ساتھ مبلغ اکیس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا تھا.حضور انور نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.ان ہر دو خاندانوں کو جماعت میں بھی عزت کا مقام حاصل ہے اور جماعت میں یہ عزت در اصل اخلاص اور خدمت دین کی بنیادوں پر حاصل ہوتی ہے.خاندانی لحاظ سے عزیزہ صبیحہ خانم صاحبہ کا تعلق حضرت خلیفتہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے خاندان سے ہے.عزیزہ موصوفہ حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے بھائی کی پڑپوتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اپنا مال و متاع غرضیکہ سب کچھ دین کی راہ میں قربان کر کے مقام صدیقیت حاصل کیا تھا.یہ مقام روحانی لحاظ سے بڑا ہی قابل قدر اور قابل رشک ہے.عزیزم سردار مبشر احمد صاحب مشہور قیصرانی خاندان کے چشم و چراغ ہیں.ان کے والد

Page 502

خطبات ناصر جلد دہم ۴۷۸ خطبہ نکاح ۲۵ ستمبر ۱۹۶۹ء محترم سردار غلام محمد خان صاحب قیصرانی نہایت مخلص احمدی ہیں.احمدیت کے سچے فدائی اور جاں نثار ہیں.خود عزیزم مبشر احمد صاحب میرے شاگرد رہے ہیں.نیز ان کے بھائی محترم کرنل محمد حیات خان صاحب قیصرانی ایک انتہائی مخلص احمدی ہیں.ان سے میری پہلی ملاقات رتن باغ لاہور میں ہوئی جب کہ وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی حفاظت پر مامور تھے اگر چہ میرا ان سے تعارف نہ تھا لیکن انہیں اپنا فریضہ بڑے خلوص سے ادا کرتے ہوئے دیکھ کر میرا دل خود بخودان کی طرف متوجہ ہو گیا.ان دنوں شاید وہ کیپٹن تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں مزید ترقیوں سے نوازا یہاں تک کہ وہ کرنل کے عہدہ پر سرفراز ہوئے.دعا ہے کہ وہ اللہ کی رحمتوں کے ہمیشہ مستحق بنے رہیں.عزیزہ صبیحہ خانم پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.امید ہے کہ وہ انتہائی کوشش سے اپنے اس نئے گھر کے ماحول کو بھی پاکیزہ اور پرسکون بنائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے انہیں جو اولا دعطا کرے گا اس کی تعلیم و تربیت بھی بطریق احسن کرے گی.میں دعا کرتا ہوں کہ یہ رشتہ ہر دو خاندانوں کے لئے خیر و برکت کا موجب بنے.محترم سردار غلام محمد خان صاحب کی شاخوں میں سے یہ شاخ بھی شمر دار ہو.عزیزم مبشر احمد صاحب اپنی زندگی میں پھلیں پھولیں اور ان کا وجود احمدیت اور اسلام کے لئے ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب ثابت ہو.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور حاضرین سمیت اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے لمبی دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 503

خطبات ناصر جلد دہم ۴۷۹ خطبہ نکاح ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ضروری ارشاد شادی اپنے کفو میں کرنی چاہیے خطبہ نکاح فرموده ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا محترمة البشریٰ صاحبہ بنت محترم بوگنڈا عبدالرزاق صاحب آف انڈونیشیا کا نکاح مکرم عبد الغنی کریم صاحب پسر محترم عبدالکریم صاحب ماریدی آف انڈو نیشیا بعوض ایک ہزار روپے پاکستانی مہر.-۲- محترمہ ممتاز بیگم صاحبہ بنت محترم چوہدری محمد لطیف صاحب نوشہرہ ورکاں کا نکاح محمد عیسی صاحب شاہد پسر محترم چوہدری محمد یوسف صاحب ربوہ بعوض دو ہزار روپے حق مہر.محترمہ الفت النساء بیگم صاحبہ بنت مرزا محمد یعقوب صاحب چک نمبر ۷۱ ۳ ج.ب ضلع لائل پور کا نکاح مرزا محمد اسمعیل صاحب پسر محترم مرزا محمد یعقوب صاحب ربوہ بعوض دو ہزار روپے حق مہر.۴- محتر مہ خالدہ پروین صاحبہ بنت محترم عبد العزیز صاحب قادیان کا نکاح خواجہ محمد رفیق صاحب ابن محترم خواجہ محمد شریف صاحب ایک ہزار روپے مہر.۵- محترمه بشری فردوس صاحبہ بنت محترم محمد شفیع صاحب سیالکوٹ کا نکاح لطیف احمد صاحب پسر محترم بشیر احمد صاحب بعوض ڈیڑھ ہزار روپے حق مہر.۶ - محترمہ ارشاد بیگم صاحبہ بنت محترم چوہدری محمد لطیف صاحب نوشہرہ ورکاں کا نکاح چوہدری محمد انور صاحب

Page 504

خطبات ناصر جلد دہم ۴۸۰ پسرا بن محترم چوہدری اللہ ماہی صاحب سے بعوض دو ہزار روپے حق مہر.خطبہ نکاح ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء ۷.محترمہ شمیم اختر صاحبہ بنت محترم چوہدری دین محمد صاحب ربوہ کا نکاح فضل الہی صاحب پسر محترم فضل دین صاحب ربوہ سے دو ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج ہمارے رب رحیم نے بہت سی خوشیاں ہماری گود میں لا ڈالی ہیں.چھ سات نکاحوں کا میں اس وقت اعلان کروں گا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ ازدواج کے قائم کرنے کے متعلق یا نکاح کا فیصلہ کرنے کے متعلق یا دولہا دلہن کے انتخاب کرنے کے متعلق یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اس انتخاب یا اس فیصلہ کی بنیاد کفو پر ہونی چاہیے.یعنی اپنے کفو میں شادی کرنی چاہیے.جس قسم کے حالات مجموعی طور پر تمہارے خاندان کے ہوں ان سے ملتے جلتے حالات جس خاندان کے ہوں اس میں شادی ہونی چاہیے.پس زندگی کے اس اہم موقع پر ہمیں علاوہ اور بہت سی ہدایتوں کے ایک ہدایت یہ بھی دی گئی ہے کہ جس جگہ رشتہ طے کرنا ہو ان کے حالات سے واقفیت حاصل کی جائے.ان سے قریبی تعلقات قائم کئے جائیں اور اس طرح جب ایک دوسرے کی عادات، خیالات اور ماحول کا بخوبی علم ہو جائے.تب جا کر شادی کا فیصلہ کیا جائے.ہماری جماعت میں بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر جو اخوت قائم فرمائی ہے اور جو حسن ظنی اس میں ہونی چاہیے اس کے غلط استعمال کے نتیجہ میں صرف اتنا سمجھ لینا کافی سمجھا جاتا ہے کہ احمدی گھرانہ ہے اور ہمیں احمدیوں میں رشتے قائم کرنے چاہئیں.چنانچہ کفو معلوم کئے بغیر اور حالات جانے بغیر رشتے طے کر دیئے جاتے ہیں لیکن بعض دفعہ رخصتانہ کے معاً بعد اور بعض دفعہ تو رخصتانہ سے بھی بہت پہلے ہر دو خاندانوں میں اپنی غلطی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے اور بسا اوقات اس احساس کے نتیجہ میں گناہ کی تلافی ایک حد تک تو اس طرح کر دی جاتی ہے کہ اس رشتہ کو قطع کر دیا جاتا ہے لیکن اس کی وجہ سے دلوں میں کدورت پیدا ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں جماعت کی باہمی اخوت اور اس کے تعلقات جن کی بنیاد پر اس رشتہ کی ابتدا ہوتی ہے.انہی تعلقات پر برا اثر پڑتا ہے اور کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے.پھر یہ امر ہمارے لئے بھی

Page 505

خطبات ناصر جلد دہم ۴۸۱ خطبہ نکاح ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء پریشانی کا باعث بنتا ہے.وقت خرچ کرنا پڑتا ہے.توجہ دینی پڑتی ہے اور کوشش کرنی پڑتی ہے کہ آپس کی یہ کدورتیں دور ہو جائیں اور رنجشیں مٹ جائیں اور غلطی کو غلطی سمجھ کر اس سے تو بہ کی جائے.کثرت سے استغفار کی جائے.بہر حال ان حالات میں ہر دو خاندانوں کے لئے بھی.جماعتی تنظیم کے لئے بھی اور خود خلیفہ وقت کے لئے بھی پریشانی پیدا ہوتی ہے.حالانکہ ہمیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اس سلسلہ میں محض اسلامی اخوت کو دیکھنا کافی نہیں ہے بلکہ کفو کو دیکھنا بھی ضروری ہے ویسے عام طور پر کفو کو دیکھا جاتا ہے لیکن بہت سی پر ایسی مثالیں میرے علم میں ہیں کہ بعض دفعہ کفو کا خیال نہیں رکھا گیا.بعض دفعہ اس قسم کے رشتے طے ہو جانے سے قبل مجھے علم ہو جاتا ہے.اگر تنظیم کو مختلف جگہوں پر علم ہو جائے تو وہ خود ہی دخل دے کر ایسے ایسے رشتے قائم نہیں ہونے دیتے لیکن بعض دفعہ یہ علم نہیں ہونے پاتا اور نکاح کا اعلان ہو جاتا ہے.بعد میں پریشانی اٹھانی پڑتی ہے.صرف ان دو خاندانوں ہی کو نہیں بلکہ جماعت کو بھی اور خلیفہ وقت کو بھی پریشانی ہوتی ہے.صلح کرانے میں وقت ضائع ہوتا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جتنے ارشادات فرمائے ہیں اور جو اسوہ حسنہ قائم فرمایا ہے.آپ کے ارشادات کی تعمیل اور آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنا ہمارے لئے بڑا ہی ضروری ہے.اگر ہم بعض باتوں کو چھوٹی یا معمولی سمجھ کر ان پر عمل کرنا چھوڑ دیں تو اس کا نتیجہ ہمیں ہی بھگتنا پڑے گا.حالانکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب ارشادات تو ہماری بھلائی اور خیر خواہی کے لئے ہیں.آپ نے نیکی کو قائم کرنے کے لئے طریق عمل اختیار فرمایا اور ہمارے لئے اسے ایک اسوۂ حسنہ بنادیا لیکن ہم نے اس کے باوجو در شتے کے انتخاب میں غلطی کی اور ا اپنی اس غلطی کے نتیجہ میں اپنے خاندان اور اپنی جماعت کی پریشانی کا باعث بنے.اس سے جماعت کو بچنا چاہیے.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اس قدر بلند ہے کہ نہ اس تک کسی انسان کی رسائی ہوئی اور نہ کبھی ہوگی.پس اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسوہ حسنہ قائم کیا ہے.یعنی جس عمل پر آپ اپنی زندگی میں قائم رہے ہیں اس اسوۂ حسنہ کی

Page 506

خطبات ناصر جلد دہم ۴۸۲ خطبہ نکاح ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء پیروی ہی میں ہماری بہتری اور بھلائی کا راز مضمر ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ چونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بڑی بلند تھی.آپ کا مقام بڑا ارفع تھا.اس لئے ہمارے لئے آپ کے اسوہ کی پیروی کرنا ممکن نہیں.ایسا خیال درست نہیں ہے بلکہ اگر آپ غور کریں تو شاید ان اسباب میں سے جن کے نتیجہ میں امت مسلمہ کو تنزل کے ایک اندھیرے دور میں سے گزرنا پڑا.ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ مسلمانوں نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم کمزور اور ناتواں اور جاہل اور کم طاقت ہیں اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرسکیں یا آپ کے طریق کو جاری کر سکیں.آپ کا بلند مقام تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی روحانی طاقتیں عطا کر رکھی تھیں.اللہ تعالیٰ سے آپ کا تعلق اس قسم کا تھا کہ آپ دنیا میں اپنے اخلاق کے حسین نمونے پیش کرتے چلے گئے اور یہ کہ ہم تو کمزور ہیں.ہمارے لئے آپ کے اس اسوہ کی پیروی کرنا ممکن نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ جس دن اُمت مسلمہ نے اس غلط خیال کو اپنا لیا اور اکثریت اس خیال کی حامل بن گئی کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تو محض ایک فلسفہ ہے اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت نہیں.اس وقت سے امت میں کمزوری پیدا ہونی شروع ہوگئی اور اس وقت سے ہی تباہی اور تنزل کے آثار شروع ہو گئے.پھر جو اس امت کا حال ہوا اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.اسے ہر ایک جانتا ہے.دنیا کی تاریخ نے اسے محفوظ رکھا ہے اور دراصل یہ بعد کی نسلوں کے لئے عبرت کا ایک تازیانہ ہے.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ قائم ہی اس لئے ہوا ہے کہ ہم اس کی پیروی کریں.البتہ یہ صحیح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی ہر شخص نے اپنی قوت اور استعداد کے مطابق کرنی ہوتی ہے اور اپنی اپنی قابلیت کے مطابق آپ کے اخلاق کا رنگ اپنے اوپر چڑھانا ہوتا ہے اور ہر ایک کو اپنی اپنی طاقت کے مطابق آپ کی قائم کردہ راہ پر گامزن ہونا پڑتا ہے پس ہر ایک نے اپنی اپنی قوت، استعداد اور طاقت کے مطابق آپ کے اخلاق کا رنگ اپنے اوپر چڑہا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اپنی زندگی میں قائم کرنا ہے.یہ درست ہے لیکن یہ میچ نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ کہے یا اپنی کو تا منہمی کی وجہ سے یہ سمجھے کہ میری قوت

Page 507

خطبات ناصر جلد دہم ۴۸۳ خطبہ نکاح ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء اور میری قابلیت یا میری طاقت اور میری استعداد تو بہت تھوڑی ہے.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر بھلا کیسے عمل کر سکتا ہوں.ایسا خیال بھی مہلک ہے اور اس عمل کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا اس کو ترک کرنا بھی تباہی اور تنزل اور ذلت کا موجب ہے.عزت اور شرف کا موجب نہیں ہے.اُمت مسلمہ کے ہر فرد کی عزت اور شرف اسی میں ہے کہ وہ خدائی تقدیر کے مطابق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کو اپنے سامنے رکھے اور اپنا پورا زور اس بات کے لئے خرچ کر دے کہ جس حد تک اس کے لئے ممکن ہے وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت میں آپ کی سیرت و اخلاق میں آپ کا ہم شکل بن جائے گا لیکن جو شخص یہ کہتا ہے کہ جی میں چونکہ کمزور ہوں میرے لئے اس اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اس شخص کا یہ خیال دراصل خود اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت اور تباہی کا گڑھا کھود نے کے مترادف ہے.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ہر شعبہ زندگی کے متعلق احکام بھی دیئے اور آپ ہمارے ہر شعبہ زندگی کے لئے ایک اسوۂ حسنہ بھی بنے.انسان مختلف زمانوں میں اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں مصائب سے دو چار رہے یا ان پر ترقی کی راہیں کھلتی رہیں.خوشی اور غم جس طرح ان کے سامنے آتا رہا.قریباً ہر انسان کی زندگی کے ہر دور کا ایک نمونہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اپنے انتہائی نقطہ کمال پر نظر آتا ہے.اس لحاظ سے بھی آپ کی زندگی ایک کامل اور مکمل زندگی ہے.اگر آپ کو کبھی اختیار نہ ملتا تو آپ صاحب اختیار کے لئے نمونہ نہ بنے.اگر کبھی آپ کو غیروں کی حکومت میں رہنا نہ پڑتا.تو رعایا کی ذمہ داریاں نبھانے کے اعتبار سے آپ لوگوں کے لئے نمونہ نہ ٹھہر تے.اگر آپ کا کوئی بچہ فوت نہ ہوتا تو ان لوگوں کے لئے جن کے بچے چھوٹی عمر میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ماتحت فوت ہو جاتے ہیں آپ اسوہ نہ بنتے.اگر آپ کی کوئی اولاد نہ ہوتی تو ایک باپ پر اپنی اولاد کی تربیت کی جو ذمہ داری ہے اس کے لئے آپ نمونہ نہ بنتے.اگر اللہ تعالیٰ آپ کو دولت نہ دیتا.تو ایک دولتمند کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے آپ کی زندگی میں کوئی نمونہ نہ ملتا.اگر آپ پر فاقہ کشی کے حالات نہ آتے تو ایک فقر یا ایک غریب مسکین

Page 508

خطبات ناصر جلد دہم ۴۸۴ خطبہ نکاح ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء کے سامنے کوئی ایسا نمونہ نہ ہوتا.جس پر چل کر وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر سکتا غرض ہر قسم کی زندگی کے حالات میں سے آپ گزرے.پس آپ کی حیات طیبہ ہمارے لئے ایک کامل نمونہ ہے.آپ کے ارشادات عالیہ ہماری بھلائی اور خیر خواہی کے لئے ہیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شادی کے سلسلہ میں کفو تلاش کرو.انسان بعض دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھنے کے باوجو د رشتے کی تلاش کرتے ہوئے غلطی کر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ اس قسم کی غلطیاں ڈھانپ لیتا ہے اور اسے اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے.ہماری دعا ہے کہ آج اس وقت میں جن رشتوں کا اعلان کروں گا.اگر ان کے انتخابات میں کوئی کمی یا نقص رہ گیا ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل کی چادر میں ان کو لپیٹ لے اور یہ رشتے ان سب کے لئے مبارک کرے اور ان کی نسلیں بھی اپنے بڑوں کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی وارث بنیں.آمین اس کے بعد سید نا حضور انور نے ایجاب وقبول کرائے اور پھر حاضرین سمیت ان سبہ رشتوں کے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ ہونے کے لئے لمبی دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۹ء صفحه ۳، ۴)

Page 509

خطبات ناصر جلد دہم ۴۸۵ خطبہ نکاح ۵ /اکتوبر ۱۹۶۹ء صحیح تربیت کے لئے صحیح تعلیم اور عادات کی اصلاح بڑی ضروری ہے خطبه نکاح فرموده ۱٫۵ اکتوبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.عزیزہ امتہ النصیر ملک صاحبہ بنت مکرم ملک مبارک احمد صاحب پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ کا نکاح ہمراہ عزیز مکرم محمد انور صاحب قریشی پسر مکرم قریشی محمد اکمل صاحب گولبازار ر بوه بعوض مبلغ ایک ہزار روپیہ مہر.۲.عزیزہ قمر النساء بنت مکرم قریشی محمد اکمل صاحب گولباز ارر بوہ کا نکاح ہمراہ عزیز مکرم طاہر احمد صاحب قریشی پسر مکرم قریشی محمد افضل صاحب مبلغ مغربی افریقہ ربوہ بعوض مبلغ ایک ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کے ماننے والوں کے نفوس میں کثرت بخشے گا اور کثرت کے وسائل جو ہیں وہ بھی دیکھنے میں آتے ہیں.نکاح بھی کثرت کا ایک وسیلہ ہے.کثرت کے بخشے جانے کا یہ وعدہ ہمیں اس ذمہ داری کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ اس کثرت اولاد کی تربیت صحیح طور پر ہونی چاہیے.

Page 510

خطبات ناصر جلد دہم ۴۸۶ خطبہ نکاح ۵ /اکتوبر ۱۹۶۹ء ہماری اگلی نسل پر اصولی طور پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو آج کی نسل پر عائد ہوتی ہیں اور آج ہم پر وہی ذمہ داریاں عائد ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ پر عائد تھیں ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے اگلی نسل کو صحیح تربیت دینا ضروری ہے اور اس صحیح تربیت کے لئے صحیح تعلیم اور عادات ( جو لگی ہوئی ہوتی ہیں ) کی اصلاح بڑی ضروری ہے.امتوں میں جب کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں تو ان کمزوریوں کی بڑی وجہ غلط عادتوں کا پیدا ہو جانا ہوتا ہے.دعا کریں کہ اس کثرت کے وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ ان دونوں نکاحوں کو جن کا میں اس وقت اعلان کروں گا ظاہری طور پر بھی کثرت کا موجب بنائے اور روحانی طور پر بھی انہیں کثرت کا موجب بنائے کہ ان خاندانوں پر مجموعی طور پر پہلے سے زیادہ فضل اور رحمتیں ہوں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کروایا.اور اس کے بعد دونوں رشتوں کے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 511

خطبات ناصر جلد دہم ۴۸۷ خطبہ نکاح ۲۵/اکتوبر ۱۹۶۹ء ہم حقوق کو جس طور پر اللہ نے قائم کیا ہے سمجھنے اور ادا کرنے والے ہوں خطبه نکاح فرموده ۱/۲۵ کتوبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.مسماۃ صالحہ یاسمین صاحبہ بنت مکرم پروفیسر محمد ابراہیم صاحب ناصر مرحوم ربوہ کا نکاح مکرم ملک مسعود احمد صاحب پسر مکرم ملک نواب خان صاحب لاہور سے مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر پر.۲ - مسماۃ مبارکہ بیگم صاحبہ بنت میاں محمد الدین صاحب دار الرحمت غربی ربوہ کا نکاح مکرم محمد حسین صاحب ولد چوہدری غلام محمد صاحب سکنہ اولہ ضلع جھنگ حال کارکن نظارت اصلاح وارشاد سے مبلغ دو ہزار روپیہ مہر پر.۳.مسماۃ علیمہ نصرت صاحبہ بنت محمد عارف صاحب کا نکاح مکرم محمد خان صاحب طاہر پسر مکرم عبدالرشید صاحب بھٹی لائل پور سے مبلغ دو ہزار پانچ سور و پیر مہر پر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں تین نکاحوں کا اعلان کروں گا.ایک نکاح تو میرے دوست پروفیسر محمد ابراہیم صاحب ناصر مرحوم کی صاحبزادی کا ہے.دوسرا نکاح میاں محمد الدین صاحب کی لڑکی کا ہے جو ہمارے پرانے تعلق رکھنے والے ہیں اور ایک اور نکاح ہے.

Page 512

خطبات ناصر جلد دہم ۴۸۸ خطبہ نکاح ۲۵/اکتوبر ۱۹۶۹ء جن بچوں کا نکاح ہو رہا ہے وہ سب ہی میرے عزیز بچے ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو ہر دو خاندانوں کے لئے احمدیت کے لئے اور انسانیت کے لئے بابرکت بنائے اور ان خاندانوں کو اور ہم کو بھی توفیق دے کہ ہم حقوق کو جس رنگ میں اور جس طور پر انہیں اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے سمجھنے والے ہوں اور ان کو ادا کرنے والے ہوں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور حاضرین سمیت ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کروائی.谢谢谢 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 513

خطبات ناصر جلد دہم ۴۸۹ خطبہ نکاح ۲۶/اکتوبر ۱۹۶۹ء نکاح کے رشتہ میں قول سدید بڑی برکت والی چیز ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا :.ا.مسماۃ نسیم انور صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد انورحسین صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع شیخو پورہ کا نکاح مکرم رفیق احمد خان صاحب پسر مکرم میجر نذیر احمد خان صاحب مرحوم آف ملتان سے بعوض مبلغ دس ہزار روپیہ مہر.۲.مسماة منصورہ جبین صاحبہ ایم اے بنت حضرت خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب ربوہ کا نکاح مکرم ڈاکٹر شریف احمد صاحب پسر مکرم چوہدری احمد جان صاحب راولپنڈی سے بعوض مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر..مسماۃ منصورہ قیوم صاحبہ بنت مکرم میاں عبدالقیوم صاحب کوئٹہ کا نکاح مکرم محمد عیسی صاحب ابن حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد سے بعوض مبلغ دس ہزار روپیہ مہر.۴.مسماۃ مسلمی خاتون صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد حسین صاحب ڈھابان سنگھ ضلع شیخو پورہ کا نکاح مکرم شاہد خلیل صاحب ابن مکرم پروفیسرمحمد طفیل صاحب ناز سے بعوض مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر.۵ - مسماۃ نسیم اختر بیگم صاحبہ مرزا بنت مکرم مرزا محمد یعقوب صاحب کا نکاح مکرم محمد حکیم بیگ صاحب

Page 514

خطبات ناصر جلد دہم ۴۹۰ پسر محمد کریم بیگ صاحب حال انگلستان سے بعوض مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.خطبہ نکاح ۲۶/اکتوبر ۱۹۶۹ء ان آیات میں جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ نکاح کے رشتہ میں بھی قول سدید برکت والی چیز ہے.اگر میاں بیوی اپنے تعلقات میں اور اپنے تعلقات کے اظہار میں کسی قسم کا تکلف اور تصنع نہ کریں اور کوئی ایچ بیچ والی بات نہ ہو.بات سیدھی بھی ہو اور سچی بھی تو اس کے نتیجہ میں ان کے باہمی تعلقات کی اصلاح ہوگی اور وہ اصلاح پذیر رہیں گے.اس کے بعد اگر ان کی کوشش میں کوئی نقص اور خامی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ دے گا.قول سدید ہماری زندگی میں بڑی اہم چیز ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے صرف سچ بولنے کی تعلیم دی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے سچ بولنے کی بھی تعلیم دی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اسلام نے صرف یہی تعلیم نہیں دی کہ بات سچی ہو بلکہ اس نے قول سدید کی تعلیم دی ہے یعنی بات سچی بھی ہو اور سیدھی بھی ہو.بعض لوگ پیچ والی بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اسے بری نگاہ سے نہیں دیکھتے.زندگی میں سب سے زیادہ نازک رشتہ میاں بیوی کا ہے اس لئے اسلام میں اس کی حفاظت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے.اس رشتہ کو بابرکت بنانے کے لئے ، اس کو کامیاب بنانے کے لئے اور اس سلسلہ میں کوششوں کے اچھے ثمرات نکالنے کے لئے بنیادی تعلیم یہ ہے کہ آپس کی بات چیت اور تعلقات قول سدید پر قائم ہوں اگر ایسا ہو تو اللہ تعالیٰ ان میں برکت دے گا اور دونوں خاندانوں کے تعلقات اچھے رہیں گے.خاندان تو ایک جزو ہے معاشرہ کا لیکن ہے بڑی اہم چیز.یہ بڑی اہم حیثیت رکھتا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس حکم پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہم اپنی زندگیوں میں صرف صداقت اور سداد کے قائل ہوں اور پختگی کے ساتھ اس پر قائم ہوں.اس وقت میں پانچ نکاحوں کا اعلان کروں گا انشاء اللہ.جن بچوں کا آج نکاح ہورہا ہے وہ سب ہی میرے عزیز اور بچے ہیں.جماعتی لحاظ سے تو وہ سب برا بر ہیں لیکن بعض خاندانوں کے

Page 515

خطبات ناصر جلد دہم ۴۹۱ خطبہ نکاح ۲۶/اکتوبر ۱۹۶۹ء ساتھ میرے ذاتی تعلقات بھی ہیں.مثلاً مکرم چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع شیخو پورہ کی عزیز بچی کے نکاح کا اعلان کروں گا.مکرم چوہدری صاحب کے ساتھ میرے پرانے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں اور جہاں تک جذبات کا سوال ہے یہ لڑکی مجھے ایسی ہی عزیز ہے جیسے میری اپنی دو بچیاں.اس بچی سے متعلق میرے جذبات میں اور اپنی دونوں بچیوں سے متعلق میرے جذبات میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا.سو اس نکاح کے اعلان پر مجھے دو ہری خوشی ہوئی ہے ایک تو مکرم چوہدری صاحب کی بچی کا نکاح ہو رہا ہے اور ایک اس لئے کہ وہ لڑکی جذباتی لحاظ سے میری اپنی لڑکی ہے گویا میری اپنی لڑکی کا نکاح ہو رہا ہے.غرض مجھے دو ہری خوشی ہوئی ہے.اسی طرح میں اس وقت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مرحوم کی لڑکی عزیزہ منصورہ جبین کے نکاح کا اعلان کروں گا.خان صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ تک خدمت دین کی توفیق دی ہے.آپ بڑے دعا کرنے والے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی خدمت کو قبول کیا.آپ کی کوششوں کے ہم نے اچھے نتائج دیکھے ہیں.میں خان صاحب کی بچی کو بھی اپنی ہی بچی سمجھتا ہوں.اسی طرح میں مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے لڑکے محمد عیسی کے نکاح کا اعلان کروں گا.دردصاحب مرحوم کے تعلقات حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بڑے ہی بے تکلفانہ اور برادرانہ تھے.گھر کی مجالس میں آپ اور حضرت فضل عمر بڑے بے تکلف ماحول میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے.میں نے بسا اوقات آپ کو اور حضرت فضل عمر کو سنجیدہ باتوں پر غور کرتے اور لطائف سناتے دیکھا اس لئے یہ عزیز بھی ذاتی تعلقات کی وجہ سے میرے اپنے ہی عزیز بچوں کی طرح ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب رشتوں کو بہت ہی بابرکت کرے ہر دو افراد کے لئے بھی اور ہر دو خاندانوں کے لئے بھی.اور ہمیں چونکہ بہت دور کی بات بھی سوچنی پڑے گی یعنی مستقبل کے لئے بھی ہمیں سوچنا پڑتا ہے.اس لئے ہمیں اپنی بعد میں آنے والی نسلوں کی بھی فکر ہے.

Page 516

خطبات ناصر جلد دہم ۴۹۲ خطبہ نکاح ۲۶/اکتوبر ۱۹۶۹ء اسلام کے غلبہ کی جو بشارتیں ہمیں ملی ہیں.ان میں صرف ایک نسل ہی حصہ دار نہیں بلکہ آئندہ آنے والی ہماری بہت سی نسلیں بھی اس میں حصہ دار ہیں اس لئے ہمیں فکر ہوتی ہے اور ہمیں دعا کرنی پڑتی ہے کہ ہماری آئندہ نسل اپنے رب کو پہچاننے والی ہو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی قدر کو جاننے والی ہو اور خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہنے والی ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور پھر ان سب رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی اور پرسوز دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 517

خطبات ناصر جلد دہم ۴۹۳ خطبہ نکاح ۵/ دسمبر ۱۹۶۹ء زندگی کے شعبوں میں سے اہم شعبہ ازدواجی رشتہ کا قیام ہے خطبہ نکاح فرموده ۵/ دسمبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.محترمہ عطیہ بشیر صاحبہ بنت محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور ہمراہ محترم شیخ مظفر 1 صاحب ابن محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر لائل پور بعوض دس ہزار روپے حق مہر.۲.محترمہ سیلمه بشری صاحبہ بنت محترم مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری درویش قادیان همراه محترم محمود احمد صاحب فاروقی ابن محترم عبد الغفور صاحب فاروقی لا ہور بعوض چار ہزار روپے حق مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے انسان پر صرف حال ہی کی ذمہ داریاں عائد نہیں کیں بلکہ اس پر مستقبل کی ذمہ واریاں بھی عائد کی گئی ہیں اور کوئی شخص فلاح اور کامیابی کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے کل کا خیال نہ رکھے اس کے لئے کام نہ کرے تیاری نہ کرے اور پھر دعاؤں کے ذریعہ اپنے رب سے نیک نتائج کی امید نہ رکھے.مستقبل کے ساتھ ہماری زندگی کے ہزاروں شعبے متعلق ہیں.ان میں سے بڑا ہی اہم شعبہ ازدواجی رشتے کا قیام ہے.ایک ایسا رشتہ آج قائم کیا جاتا ہے جس کا اثر صرف کل پر ہی نہیں بلکہ

Page 518

خطبات ناصر جلد دہم ۴۹۴ خطبہ نکاح ۵/ دسمبر ۱۹۶۹ء آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی پڑتا ہے.اس لئے اس کی بڑی اہمیت ہے اور اس کے متعلق اسلام نے ہمیں بڑی تفصیلی تعلیم دی ہے کہ اس رشتہ کو کس طرح کامیابی کے ساتھ نباہنا چاہیے.اس تفصیل میں تو میں اس وقت جا نہیں سکتا کیونکہ رمضان کا مہینہ ہے اور افطاری کا وقت قریب ہے اور دوستوں نے باہر کے محلوں میں جانا ہے صرف یہ اشارہ کرنے کے بعد سب بھائیوں سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے بہت دعا کریں.ماں باپ کے کچھ حقوق ایسے ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بھی نظر انداز نہیں کیا کرتا جیسا کہ قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے اس کا ذکر ہے.جو رشتے آج ہو رہے ہیں جن کا میں اعلان کروں گا ان ہر دو دولہا اور دلہنوں کے خاندان ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے سلسلہ کی خدمت کی توفیق عطا کی اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنے.ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اس مرکزی نکتہ کو آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں سمجھیں کہ ہر خیر اور برکت اس میں ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اطاعت کا پختہ تعلق قائم کیا جائے اور آج یہ تعلق پختگی کے ساتھ قائم ہو نہیں سکتا جب تک کہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک پختہ تعلق قائم نہ ہو جائے.انسان اگر اس مرکزی نکتے کو سمجھ لے تو وہ ہزار قسم کی بلاؤں سے اور آفات سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کے وارث بنے کا امکان اس کے لئے پیدا ہوجاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ہر ایک کی استعداد کے مطابق جتنی جتنی توفیق دیتا چلا جائے اس کے مطابق وہ انعامات کا وارث بنتا چلا جاتا ہے.بہر حال ہم پر کچھ حقوق ہیں.اور ان حقوق کی ادائیگی کا بہترین طریق یہ ہے کہ ہم عاجزانہ پر اپنے رب کے حضور یہ دعا کریں کہ وہ ان تعلقات کو اپنی رحمتوں سے نوازے اور یہ نئے خاندان رحمت کے سایہ تلے رہیں.پلیں اور بڑھیں.پھولیں اور پھلیں.اللہ تعالیٰ ہر قسم کی رحمتوں کا انہیں وارث کرے.اس وقت میں دو نکاحوں کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں ایک تو عزیزہ بچی ویسے رشتہ میں

Page 519

خطبات ناصر جلد دہم ۴۹۵ خطبہ نکاح ۵/ دسمبر ۱۹۶۹ء تو میری کزن (Cousin) ہیں یعنی خالہ زاد بہن ہیں لیکن عمر کے لحاظ سے اور بعض دوسرے لحاظوں سے میں عزیزہ بچی ہی کہوں گا عزیزہ بچی عطیہ بشیر صاحبہ جو مکرم و محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کی صاحبزادی ہیں.ان کا نکاح عزیزم مکرم شیخ مظفر احمد صاحب جو مکرم و محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لائل پور کے صاحبزادے ہیں ان سے دس ہزار روپے مہر پر قرار پایا ہے.دوسرا نکاح عزیزہ سلیمہ بشریٰ صاحبہ کا ہے جو ہمارے درویش بھائی محترم مولوی محمد حفیظ بقا پوری کی صاحبزادی ہیں اور محترم مولوی محمد حفیظ صاحب اس وقت قادیان میں رہ رہے ہیں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 520

Page 521

خطبات ناصر جلد دہم ۴۹۷ خطبہ نکاح ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۹ء تعلق محبت و شفقت بھی ایک قرب اور رشتہ کو قائم کرتا ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۵ دسمبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر محترمہ صادقہ بیگم صاحبہ بنت محترم چوہدری محمد یوسف صاحب نائب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح دو ہزار روپے حق مہر پر محترم چوہدری منیر احمد صاحب ابن محترم چوہدری نذیر احمد صاحب ربوہ کے ساتھ قرار پایا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں.ان دونوں لڑکی اور لڑکے کی دادی صاحبہ بچپن سے حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کے پاس رہی ہیں اور حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں گھر کے ایک فرد کی طرح رکھا.اب اللہ تعالیٰ نے انہیں عمر دی اور پوتے اور پوتیوں سے نوازا.جن کی اب شادیاں ہورہی ہیں اور بھی ہوں گی انشاء اللہ.اس نسبت کے ساتھ جو ان کی دادی کو ہے حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے پیار اور خیال رکھنے کی وجہ سے ہماری بہن کی طرح ہیں.اور یہ تعلق محبت اور تعلق شفقت بھی ایک قرب اور رشتہ کو قائم کرتا ہے.اس رشتہ کے نتیجہ میں دل سے دعا نکلتی ہے.آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس قائم ہونے والے رشتہ کو بہت ہی بابرکت کرے اور ایک ایسی نسل اس سے چلے جو

Page 522

خطبات ناصر جلد دہم ۴۹۸ خطبہ نکاح ۱۵/ دسمبر ۱۹۶۹ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی عظیم مہم غلبہ اسلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے جاری کی ہے اس میں سب کام کرنے والے قربانیاں دینے والے اور ایثار دکھانے والے ہوں اگلی نسل بھی اور موجودہ نسل بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی وارث بنے.ایجاب و قبول کروانے کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بننے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 523

خطبات ناصر جلد دہم ۴۹۹ خطبہ نکاح ۲۵ دسمبر ۱۹۶۹ء بیویوں کے حقوق کی نگہداشت کرنا تمہارے ذمہ ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۵ / دسمبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل سات نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.عزیزہ ناصرہ بیگم صاحبہ بنت مکرم مرزا محمد احسن بیگ صاحب پتو کی ضلع لاہور کا نکاح مکرم خلیفہ وسیم الدین صاحب ابن مکرم خلیفہ علیم الدین صاحب مرحوم ربوہ سے بعوض پانچ ہزار روپیہ ہر ۲.عزیزه صفیه درد صاحبه بنت مکرم و محترم مولوی عبدالرحیم صاحب درد ربوہ کا نکاح مکرم عبدالرزاق احمد صاحب ابن چوہدری محمد سلیمان صاحب کمالیہ ضلع لائل پور سے بعوض مبلغ چار ہزار روپیہ مہر.۳.عزیزہ ڈاکٹر رعنا نسرین صاحبہ بنت مکرم صلاح الدین صاحب ( پسر مکرم مولوی فضل دین صاحب) ربوہ کا نکاح مکرم عبدالمتین خاں صاحب ابن مکرم عبد القیوم صاحب گوجرانوالہ سے بعوض مبلغ بارہ ہزار روپیہ مہر.۴ - عزیزه شکیله کشور صاحبه بنت مکرم صوفی عبد الغفور صاحب ربوہ کا نکاح مکرم ابوالبرکات محمود صاحب ابن مکرم مولوی ابوالفضل محمود صاحب مرحوم ربوه حال امریکہ سے بعوض مبلغ دس ہزار روپیہ مہر.۵ - عزیزه فهمیده اختر صاحبہ بنت مکرم عبدالحئی صاحب مرحوم کراچی کا نکاح مکرم منیر احمد صاحب ابن

Page 524

خطبات ناصر جلد دہم مکرم مسعود احمد صاحب خورشید کراچی سے بعوض مبلغ دس ہزار روپیہ مہر.خطبہ نکاح ۲۵ دسمبر ۱۹۶۹ء ۶ - عزیزه رشیدہ آصفه صاحبه بنت مکرم سید محمد احمد صاحب ربوہ کا نکاح مکرم کیپٹن حسین احمد صاحب ملک ابن مکرم لیفٹیننٹ کرنل ستار بخش صاحب ملک ربوہ سے بعوض مبلغ دس ہزار روپیہ مہر.ے.عزیزہ انیسہ نادرہ صاحبہ بنت مکرم میاں محمد یونس صاحب کوئٹہ کا نکاح مکرم محمد دانیال خاں صاحب ابن مکرم محمد عیسی خاں صاحب کوئٹہ بعوض مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری اور بنیادی وصایا امت مسلمہ کو فرمائی تھیں ان میں سے ایک وصیت یہ بھی تھی کہ اے لوگو تم اپنی بیویوں سے نیک سلوک کرو کیونکہ ان کی نگہداشت تمہارے سپرد کی گئی ہے.فرمایا عورت چونکہ کمزور ہے اس لئے تمہارے ذمہ ہے کہ تم اپنی بیویوں کے حقوق کی نگہداشت کرو.ان کے جو حقوق تمہارے ذمہ ہیں وہ بھی تم ادا کرو اور اگر کوئی اور بھائی ہونے کی حیثیت میں یا بہن ہونے کی حیثیت میں یا ماں ہونے کی حیثیت میں یا کسی اور حیثیت میں ان کے حقوق غصب کرے تو تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی بیوی کی طرف سے کھڑے ہو جاؤ اور غاصب سے اس کے حقوق لے کر اسے دو.پھر آپ نے فرمایا ! یہ وصیت جو میں تمہیں اس وقت کر رہا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی ضمانت تمہیں یاد کرارہا ہوں کیونکہ کوئی بیوی اپنے خاوند پر اور کوئی خاوند اپنی بیوی پر اس وقت تک حلال نہیں جب تک اللہ تعالیٰ اجازت نہ دے پس جب تم اللہ تعالیٰ کو ضامن بنا کر عقد نکاح کرتے ہو اور اس قسم کے رشتے جوڑا کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ اس بات کا کہ عورت کو اس کے حقوق ملیں اسی طرح ضامن ہے جس طرح وہ اس بات کا ضامن ہے کہ مرد کو اس کے حقوق ملیں یہاں چونکہ عورت کا ذکر ہے اس لئے فرمایا یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ کی ضمانت میں تم نے یہ رشتہ قائم کیا ہے اگر تم نے اس رشتہ کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کی تو تم اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو گے.خدا کرے کہ وہ ہمیں اس قسم کی ہر جواب دہی سے محفوظ رکھے اور خدا کرے کہ ہم عقل اور فراست سے کام لینے والے ہوں اور ان حقوق کو ادا کرنے والے ہوں جو اس نے مقرر کئے ہیں تا ہمیں اس کی رضا ہمیشہ حاصل رہے.

Page 525

خطبات ناصر جلد دہم ۵۰۱ خطبہ نکاح ۲۵؍ دسمبر ۱۹۶۹ء اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور پھر حاضرین سمیت دعا کرائی کہ اللہ تعالیٰ ان سب رشتوں کو بہت ہی بابرکت کرے.آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 526

Page 527

خطبات ناصر جلد دہم ۵۰۳ خطبہ نکاح ۲۹ / دسمبر ۱۹۶۹ء مہر مناسب ہونا چاہیے نہ بہت زیادہ نہ بہت کم خطبہ نکاح فرمود ه ۲۹ دسمبر ۱۹۶۹ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھانے کے بعد از راہ شفقت اور کمال ذرہ نوازی پچھتر نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے ارشاد فرمایا:.ایمان کی جان اور روح کی تازگی اور آخری اور انتہائی کامیابی کا ذریعہ صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے سَمِعْنَا وَ أَطَعْنَا (البقرة : ۲۸۶) ہم نے سنا اور ہم نے بشاشت کے ساتھ اطاعت کی.ہماری زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہر شعبہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے احکام دیئے ہیں اور ہر شعبہ زندگی کے متعلق جو احکام دیئے گئے ہیں جب وہ ہمارے سامنے آئیں اور ہمیں ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمارے سامنے آتے رہیں.پس جب وہ ہمارے سامنے آئیں تو ہمارے جسم کا رواں رواں اور ہماری روح حال اور قال ہر دو سے پکار رہی ہو ہم نے سنا اور ہم اے ہمارے رب! تیری رضا کے حصول کے لئے تیری فرمانبرداری کرنے میں ہر وقت کوشاں رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرانے کا یہ مبارک مگر ایک لمبا سلسلہ شروع کرنے

Page 528

خطبات ناصر جلد دہم ۵۰۴ خطبہ نکاح ۲۹ دسمبر ۱۹۶۹ء سے پہلے فرمایا :.احباب ذرا زیادہ ہوشیار ہو کر سنیں.میں اپنے دستور کے خلاف آج ایک فقرہ چھوڑ دوں گا.اس وجہ سے کہ میں تو آپ کی خاطر شام تک بھی بھوکا رہ سکتا ہوں.ابھی تک میں نے کھانا نہیں کھایا.مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی بھوکا رہ جاؤں تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن آج اگر میں کھانے پر نہ پہنچا تو اور دس پندرہ آدمیوں کو بھوکا رہنا پڑے گا جن میں سے بعض بیمار ہیں.ایجاب و قبول کے دوران میں حضور انور نے بعض نہایت ہی اہم ارشادات بیان فرمائے.۱- محترمہ آصفه مسعوده صاحبہ بنت چوہدری عبد الرحیم خاں صاحب کا نکاح دو ہزار روپے حق مہر پر محترم عبدالرشید خاں صاحب سے مقرر تھا.اس نکاح کے اعلان پر دولہا میاں کو مخاطب کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:.یہ مہر کیوں اتنا تھوڑا رکھا ہے.زیادہ بھی چیک (Check) کرنا پڑتا ہے تو تھوڑ ابھی چیک (Check) کرنا پڑتا ہے.مہر جو ہے یہ مناسب ہونا چاہیے.نہ بہت زیادہ دکھاوے کا مہر اور نہ بہت کم بے خیالی کا مہر یا غفلت کا مہر.نہ غفلت ہونی چاہیے نہ نمائش ہونی چاہیے.اس واسطے میں نے بطور نگران ولی کے کیونکہ خلیفہ وقت ولی ہوتا ہے ساری جماعت کا اس نکاح کے لئے مہر دو ہزار کی بجائے پانچ ہزار روپے کر دیا ہے.۲.فرمایا:.یہ بڑا مبارک دن ہے.بع غموں کا ایک دن اور چار شادی اب شادیاں بڑھ رہی ہیں.ایک جنازہ پڑھایا ہے تو پچھتر شادیاں ہو رہی ہیں.محترم حاجی عبد الرحمن صاحب رئیس باندھی کی صاحبزادی امتہ اللہ عطیہ صاحبہ کا نکاح محترم الہی بخش صاحب سے پچاس ہزار روپے حق مہر پر مقرر تھا.حضور انور نے اس سلسلہ میں فرمایا :.محترم عبد الرحمن صاحب باندھی کی بچی کا نکاح ہے جس پر پچاس ہزار روپے مہر لکھا ہوا ہے.حضور انور نے حاجی صاحب سے استفسار فرمایا کہ یہ نمائشی مہر ہے یا الہی بخش صاحب ایک ماہ کے

Page 529

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۹ دسمبر ۱۹۶۹ء اندراندرا سے ادا کر دیں گے.حضور انور نے فرمایا:.نمائشی مہر نہیں رکھنا چاہیے.مہر نیت کے مطابق ہونا چاہیے.اگر پچاس ہزار روپے کی نیت ہے تو ٹھیک ہے.( ہر دو فریق سے استفسار فرمانے کے بعد حضور انور نے فرمایا ) میرا یہ خیال ہے آپ اس کو پچیس ہزار روپے کر دیں.(۴) ایک نکاح فارم نامکمل تھا.اس پر حضور انور نے فرمایا:.جس شخص نے مجھ سے نکاح پڑھوانا ہو اس کا یہ مذہبی فرض ہے کہ وہ فارم کو صحیح پر کرے اس واسطے کہ اس وقت قانونِ وقت بھی بیچ میں دخل دیتا ہے اور آپ میں سے کسی شخص کو یہ جرات نہیں کرنی چاہیے کہ خلیفہ وقت کو قانونِ وقت کے سامنے شرمندہ کرے.حضور انور نے فرمایا:.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت خوشیاں دکھائی ہیں.یہ تو ایک بیج ہے جو بویا گیا.خدا کرے کہ یہ درخت جو آج باغ کی شکل میں جماعت احمدیہ میں لگا ہے یہ بڑھے اور پھولے اور پھلے.نظر کو بھی خوشگوار معلوم ہو اور پھل بھی بڑے اچھے اور لذیذ ہوں.ایک دفعہ کا مجھے لطیفہ یاد آ گیا.ایک سر پھرا مچلا جاٹ تھا.وہ احمدی نہیں تھا.ہم گاؤں میں گئے ہوئے تھے.وہ مجھ سے کہنے لگا کہ ساڈا مولوی تے کہندا ہے کہ اسی تدمناں گے کہ مسجد دے مینار تے ( حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی کی بات ہے ) حضرت صاحب آکے تے امب دی گٹھلی لگان اور اسی وقت اوہ درخت بن جائے.پھراوں نوں پھل لگ جان پھر اسی کھائیے پھر اسی احمدی ہو جاواں گے.“ مجھے بڑا سخت غصہ آیا.میں نے کہا تمہارے مولوی کو اگر آم کھانے کا اتنا شوق ہے تو موسم پر آجانا میں اس کو اتنے آم کھلاؤں گا کہ اس کے نتھنوں میں سے آم کا رس نکلنے لگ جائے گا.ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو باغ ہے اس کو پھل آئیں اور تم لوگوں کو اس کی فکر نہیں.پس یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باغ ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ باغ نظر کے لئے بھی اور دوسرے حواس کے لئے بھی اور اپنی تاثیرات میں بھی اور آئندہ خدمت گزاروں کی فوج تیار کرنے کے لحاظ سے بھی ہر طرح با برکت

Page 530

خطبات ناصر جلد دہم ہو.۵۰۶ خطبہ نکاح ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۹ء آج یہ کئی شادیاں میرے لئے بڑی خوشی کا باعث ہیں.آج بعض ادھیڑ عمر والوں کی بھی شادی ہوئی ہے.ان کا میں نام نہیں لوں گا.الحمد للہ ان کی شادی ہوگئی.اللہ تعالیٰ یہ سب شادیاں بہت بہت مبارک کرے.آخر میں حضور انور نے ان سب رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لبی دعا کروائی اور سب کو مبارک باد کہی.谢谢谢 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 531

خطبات ناصر جلد دہم ۵۰۷ خطبہ نکاح ۳۱ دسمبر ۱۹۶۹ء اللہ تعالیٰ بچوں میں اپنا اور رسول کا عشق اور اسلام کی فدائیت پیدا کرے خطبہ نکاح فرموده ۳۱ دسمبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عشاء عزیزہ امتہ الجمیل صاحبہ بنت مکرم ملک عبد الرحمن صاحب خادم مرحوم کا نکاح مکرم محمد نیاز خان صاحب پسر مکرم چوہدری سردار خان صاحب ساکن ہواڈہ ضلع سیالکوٹ سے مبلغ آٹھ ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں اپنے عزیز مرحوم دوست ملک عبد الرحمن صاحب خادم کی بچی کے نکاح کا اعلان کروں گا.ملک عبد الرحمان صاحب خادم مرحوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے عاشق اور اسلام اور احمدیت کے فدائی تھے.میں دعا کرتا ہوں اور آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ یہی عشق اور یہی فدائیت ان کے بچوں میں بھی پیدا کرے.پھر آپ یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت با برکت کرے.آمین اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور اس کے بعد حاضرین سمیت رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۴ جنوری ۱۹۷۰ ء صفحه ۹)

Page 532

Page 533

خطبات ناصر جلد دہم ۵۰۹ خطبہ نکاح یکم جنوری ۱۹۷۰ء دعا کریں انسانی نسل چلانے کا مقصد ان رشتوں سے بھی پورا ہو خطبہ نکاح فرموده یکم جنوری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب مندرجہ ذیل تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱ محترمه راشدہ پروین صاحبہ بنت محترم چوہدری غلام احمد صاحب ربوہ ہمراہ محترم مجید احمد صاحب ابن مکرم منشی محمد صادق صاحب بعوض چار ہزار روپے حق مہر.۲.محترمہ عتیقہ بیگم صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر عبد القادر مرحوم ہمراہ محترم خلیل احمد صاحب ابن مکرم شریف احمد صاحب مرحوم بعوض سات ہزار روپے حق مہر.۳.محترمہ زاہدہ نسرین بنت محترم شیخ غلام احمد صاحب لاہور ہمراہ محترم محمد حنیف قریشی ابن مکرم محمد شفیع قریشی ربوہ بعوض پانچ ہزار روپے حق مہر قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں تین نکاحوں کا اعلان کروں گا.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو بہت بابرکت کرے اور انسانی نسل چلانے کی جو غرض اور مقصد ہے وہ ان رشتوں سے بھی پورا ہو اور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار اور شکر کرنے والے بندوں پر یہ خاندان من ن مشتمل ہوں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرائے اور پھر ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 534

Page 535

خطبات ناصر جلد دہم ۵۱۱ خطبہ نکاح ۲ جنوری ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ اس نکاح کو با برکت کرے اور یہ نیک نسل کا موجب بنے خطبہ نکاح فرموده ۲ /جنوری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے خطبہ جمعہ سے قبل محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مرحوم کی صاحبزادی محترمه سیده قدسیه شاہ صاحبہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں اپنے ماموں سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مرحوم کی صاحبزادی عزیزہ سیدہ قدسیہ شاہ صاحبہ کے نکاح کا اعلان کروں گا.عزیزہ سیدہ قدسیہ شاہ صاحبہ کا نکاح محترم چوہدری خلیل احمد صاحب پسر مکرم چوہدری محمد اکرم خان صاحب حیدر آبا دسندھ سے پندرہ ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.ہمارے محترم بزرگ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ایک جید عالم اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایک مخلص ساتھی تھے.اللہ تعالیٰ نے ان سے خدمتِ سلسلہ کے بہت سے عظیم کام لئے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی اولا دکو لڑکوں کو بھی اور لڑکیوں کو بھی اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور ان کے دل میں خدمتِ سلسلہ کا جذبہ پیدا کرے.اور اللہ تعالیٰ اپنے لئے ان کے دل میں محبت اور اپنے

Page 536

خطبات ناصر جلد دہم ۵۱۲ خطبہ نکاح ۲ /جنوری ۱۹۷۰ء رسول کے لئے عشق پیدا کرے.اللہ تعالیٰ اس نکاح کو بابرکت کرے اور یہ رشتہ نیک نسل کا موجب بنے اور میاں بیوی اور ان کے بچے خوشگوار ماحول میں اپنی زندگی کے دن گزاریں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور پھر اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا فرمائی.谢谢谢 ( از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 537

خطبات ناصر جلد دہم ۵۱۳ خطبہ نکاح ۴ جنوری ۱۹۷۰ء جو زندگی خدا کی پناہ میں نہیں گزری وہ موت سے بدتر ہے خطبہ نکاح فرموده ۴ جنوری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر عزیزہ مغیرہ بیگم صاحبہ بنت مکرم عبدالحمید خان صاحب نیازی ماڈل ٹاؤن لاہور کے نکاح ہمراہ مکرم طاہر احمد خاں صاحب پسر رشید احمد خان صاحب بعوض پندرہ ہزار روپیہ مہر کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے پر بڑا زور دیا ہے اور حقیقی تقوی وہی حاصل کرتا ہے جو کہتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ سے باہر کوئی پناہ نہیں ڈھونڈتا.وہی تمام طاقت اور قوت کا سر چشمہ ہے اور تمام فیوض اور برکتوں کا منبع ہے.جو زندگی اس خدا کی پناہ میں نہیں گذری وہ زندگی نہیں بلکہ موت سے بدتر ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو جس کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں تقویٰ کی پناہ میں زندگی گزارنے والے بیوی خاوند اور بچوں اور ماں باپ کا رشتہ بنائے.عزیزه مغیرہ بیگم صاحبہ ہماری بچی جان بیگم صاحبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے بھائی کی بیٹی ہیں ہم سب چچی جان کے بھائیوں کو ماموں ہی کہتے آئے ہیں اور کہتے ہیں.ویسے تو وہ مرزا مظفر احمد اور ان کے بھائیوں کے ماموں ہیں لیکن اپنے اس تعلق کی وجہ سے جو بچی جان سے

Page 538

خطبات ناصر جلد دہم ۵۱۴ خطبہ نکاح ۴ /جنوری ۱۹۷۰ء ہے اور چچی جان کے پیار کی وجہ سے ہم سب انہیں ماموں ہی کہتے ہیں.پس عزیزہ مغیرہ بیگم ہمارے ماموں کی بیٹی ہیں اور عزیز طاہر احمد خاں ، منصورہ بیگم اور بڑی پھوپھی جان کی وجہ سے مالیر کوٹلہ کے رشتہ داروں میں سے ہیں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو دنیوی لحاظ سے ہی نہیں دینی لحاظ سے بھی اور احمدیت کے لحاظ سے بھی بہت بابرکت بنائے.آمین اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور رشتہ کے بہت بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.谢谢谢 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 539

خطبات ناصر جلد دہم ۵۱۵ خطبہ نکاح ۹ جنوری ۱۹۷۰ء دعا کریں بڑوں کا خدمت دین کا جذبہ آئندہ نسلوں میں بھی قائم رہے خطبہ نکاح فرموده ۹ جنوری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل چار نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.عزیزہ صبیحہ صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبد الحمید خان صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور کا نکاح مکرم ملک سلطان ہارون صاحب پسر مکرم کرنل سلطان محمد خان صاحب مرحوم سے ( جو حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے نواسے اور کوٹ فتح خاں ضلع کیمبل پور کے رہنے والے ہیں ) بعوض مبلغ ہیں ہزار روپیہ مہر.۲.عزیزہ خالدہ سلطانہ صاحبہ بنت مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب باجوہ فورٹ عباس ضلع بہاول نگر کا نکاح مکرم مظہر احمد صاحب پسر مکرم چوہدری محمد یوسف صاحب فورٹ عباس ضلع بہاول نگر سے بعوض مبلغ دو ہزار روپیہ مہر.۳.عزیزه امته الباسط صاحبہ بنت مکرم شیخ بشیر احمد صاحب سکھری.کوئٹہ کا نکاح مکرم رفیق احمد صاحب اختر پسر مکرم کیپٹن ڈاکٹر محمد رمضان صاحب ربوہ سے بعوض مبلغ پندرہ ہزار روپیہ مہر.۴- عزیز محمودہ ایاز صاحبہ بنت مکرم چوہدری مختار احد صاحب ایاز مرحوم ربوہ کا نکاح مکرم نعیم احمد صاحب طاہر پسر مکرم مولوی ظہور حسین صاحب (سابق مبلغ بخارا ) ربوہ سے بعوض مبلغ چھ ہزار روپیہ مہر.

Page 540

خطبات ناصر جلد دہم ۵۱۶ خطبہ نکاح ۹ جنوری ۱۹۷۰ء خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں جن نکاحوں کا اعلان کروں گا ان میں سے دو نکاحوں کا تعلق ان دوستوں اور بزرگوں سے ہے جو ایک لحاظ سے میرے محسن بھی ہیں.جس وقت میں انگلستان سے تعلیم ختم کر کے واپس آیا تو مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے میرے اس احتجاج کے باوجود جو احساس کم مائیگی سے نکلا تھا مجھے مجلس خدام الاحمدیہ کا صدر تجویز کر کے میرا نام صدارت کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بھجوا دیا.مجلس خدام الاحمدیہ میں جو کام کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی اس کے نتیجہ میں میں احمدی نوجوان سے اس طرح واقف ہوا کہ جو واقفیت کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوسکتی تھی اور جو قدر و قیمت ایک احمدی نوجوان کی میں پہچانتا ہوں شاید ہی کوئی اور ہو جو اس قدر و قیمت کو پہچانتا ہو.میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ میری طبیعت کا کوئی پہلو بھی اس وقت صدارت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن جو کام میرے سپرد کیا گیا اس کے نتیجہ میں مجھے انتظامی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی بہت فائدہ حاصل ہوا.اس وقت کی مجلس عاملہ کے اراکین میں سے ایک رکن ( مکرم مولوی ظہور حسین صاحب) کے بیٹے کے نکاح کا اعلان اس وقت ہو رہا ہے.میرے دوسرے محسن محترم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ہیں جب میں انگلستان سے واپس آیا تو عمر کے لحاظ سے میں چھوٹا تھا اور گو تبلیغ کا جوش تو تھا لیکن تجربہ کوئی نہ تھا.محترم چوہدری صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ مقامی تبلیغ کے دوروں پر جب بھی فرصت ہو جایا کرو.چنانچہ میں نے ان کے ساتھ تبلیغی دوروں پر جانا شروع کر دیا.اس سے ایک تجر بہ تو مجھے یہ حاصل ہوا کہ ایک عام دیہاتی مسلمان چاہے وہ کسی فرقہ سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہوطبیعت کا سادہ اور سعادت مندی کی روح اپنے اندر رکھتا ہے.اگر صحیح طریق پر اس کے لیول (Level) اور اس کے مقام پر آکر بات کی جائے تو وہ بہت جلد اسے سمجھ لیتا ہے.دوسرا بڑا فائدہ ان تبلیغی دوروں سے یہ ہوا کہ میری اپنی طبیعت میں فطرتی طور پر دیہات میں رہنے والوں سے جو لگاؤ تھا اس فطری جذبہ کو تجربہ کے ذریعہ ابھرنے کی توفیق ملی اور اپنے

Page 541

خطبات ناصر جلد دہم ۵۱۷ خطبہ نکاح ۹ جنوری ۱۹۷۰ء احمدی بھائیوں کی فراست اور علم نے باوجود ان کے ان پڑھ ہونے کے میری طبیعت پر بڑا گہرا اثر کیا.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سٹھیالی ( نزد قادیان) کے ایک احمدی دوست تھے جو سٹھیالی کے لحاظ سے اچھے زمیندار تھے اور عادتا سفید پوش تھے اب وہ فوت ہو گئے ہیں وہ احمدیت اور اسلام کا اتنا گہرا علم رکھتے تھے کہ ایک جلسہ کے موقع پر بعض نوجوان طالب علم ( یو نیورسٹی اور کالجز کے ) قادیان آئے ہوئے تھے اور وہ اپنے بعض غیر احمدی دوستوں کو بھی ساتھ لائے تھے.طلباء کی آپس میں بحث ہوئی تو ہمارا ایک بی.اے کا طالب علم ایک سوال کا جواب نہ دے سکا اور اس نے کہا میں اپنا کوئی مولوی لاتا ہوں وہ تمہیں اس سوال کا جواب دے گا.چنانچہ وہ ساتھ والے کمرہ میں گیا اور اس نے دیکھا کہ ایک سفید پوش آدمی ہیں.داڑھی انہوں نے رکھی ہوئی ہے اور شخصیت بڑی بارعب ہے.اس نے سمجھا کہ یہ کوئی عالم ہیں اس لئے اس نے انہیں مخاطب کر کے کہا میں بحث کے دوران لا جواب ہو گیا ہوں میں ایک سوال کا جواب نہیں دے سکا آپ تشریف لائیں اور اس سوال کا جواب دیں.چنانچہ وہ دوست اس طالب علم کے ساتھ گئے اور اس غیر احمدی دوست کی اس مسئلہ کے متعلق تسلی کر دی.ہماری پنجابی زبان میں ایک مثل مشہور ہے مچلا جٹ.یہ مثل دنیوی طور پر تو درست ہوسکتی ہے لیکن ایک زمیندار (اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جو دیہات میں رہتا ہے اور کا شتکاری کرتا ہے.چاہے اس کی زمین ہو یا نہ ہو ) کو اللہ تعالیٰ نے ایسی فراست دی ہے کہ بعض دفعہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور پھر آگے ان میں سے بہت سے فدائی نکلے ہیں بیسیوں دفعہ میں نے باہمی نجشیں دور کرنے کے سلسلہ میں کھیت میں جاکر اور زمین پر بیٹھ کر زمینداروں سے باتیں کی ہیں میں نے دیکھا کہ منٹوں میں جھگڑے ختم ہو جاتے تھے.میری ان باتوں کا ان پر خاصہ اثر ہوتا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بڑی غیرت رکھنے والے حساس دل دیئے ہیں اور بڑی پیاری روحیں انہیں ملی ہیں.بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ میرے محترم بزرگ چوہدری فتح محمد صاحب سیال کا مجھ پر بہت احسان تھا کہ انہوں نے مجھے میری اس چھوٹی عمر میں اور نا تجربہ کاری کی عمر میں اپنے ساتھ لے جا

Page 542

خطبات ناصر جلد دہم ۵۱۸ خطبہ نکاح ۹ جنوری ۱۹۷۰ء کر میرے تجربہ میں بڑی وسعت کے مواقع پیدا کئے اور دیہات میں رہنے والوں کے لئے میرے دل میں جو لگا و پوشیدہ تھا اس لگاؤ کو ظاہر ہونے کا موقع ملا.اب بھی میں ایک سادہ دیہاتی سے جب بھی مجھے اس سے ملاقات کا موقع ملتا ہے.بے تکلف بات کرنے میں جو خوشی محسوس کرتا ہوں وہ خوشی میں ایک شہری سے ملاقات کے وقت محسوس نہیں کرتا.کیونکہ شہریوں کو تکلف کی عادت پڑی ہوئی ہوتی ہے اور ان کی اس عادت کی وجہ سے ان سے ملاقات کے وقت بغیر جانے بو مجھے ہم بھی تکلف کرنا شروع کر دیتے ہیں.بہر حال آج میرے اس محسن بزرگ کے نواسہ کی شادی ہے اور اس کے نکاح کا اعلان میں اس وقت کروں گا.دوست دعا کریں کہ جس طرح ہمارے بڑوں نے بے لوث اور بے نفس خدمت خدا کے دین کی کی ہے وہی جذ بہ خدمت کا اور وہی جذبہ ایثار اور قربانی کا ان کی نسلوں میں بھی قائم رہے اور بڑا نمایاں رہے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور اس کے بعد حاضرین سمیت ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے لمبی دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوه ۴ فروری ۱۹۷۰ ء صفحه ۳، ۴)

Page 543

خطبات ناصر جلد دہم ۵۱۹ خطبہ نکاح ۹ جنوری ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ دینی و دنیوی برکات کا ہمیشہ وارث بنائے خطبہ نکاح فرموده ۹ جنوری ۱۹۷۰ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب عزیزہ انوری بیگم بنت محترم چوہدری سلطان محمود صاحب مرحوم ما نا والہ ضلع شیخو پورہ کے نکاح ہمراہ چوہدری عبد القدیر خان صاحب پسر مکرم چوہدری اللہ داد خان صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور کا اعلان بعوض مبلغ پانچ ہزار روپیہ مہر فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج نماز عصر کے بعد جن نکاحوں کا اعلان ہوا تھا.یہ نکاح بھی اس کا تمہ ہے اور یہ تمہ اس لئے بنا ہے کہ موٹر خراب ہو جانے کی وجہ سے یہ دوست وقت پر یہاں نہیں پہنچ سکے تھے.دولہا کے لئے خوش بختی کا یہ دور ذرا دیر سے اور پریشانیوں کے بعد شروع ہوا ہے دعا ہے کہ یہ خوش بختی کا دور ان کے لئے با برکت ہو اور اللہ تعالیٰ انہیں دینی و دنیوی برکات کا ہمیشہ ہی وارث بنائے رکھے.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور اس کے بعد حاضرین سمیت اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے لمبی دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوہ ۷ رفروری ۱۹۷۰ء صفحه ۳)

Page 544

Page 545

خطبات ناصر جلد دہم ۵۲۱ خطبہ نکاح ۸ رفروری ۱۹۷۰ء ازدواجی رشتوں کا قیام بہت سی خوشیاں لاتا اور ذمہ داریاں عائد کرتا ہے خطبہ نکاح فرموده ۸ فروری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل چار نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمه نعیمه در د صاحبہ بنت مکرم محترم مولوی عبد الرحیم صاحب در دمرحوم کا نکاح مکرم ملک رب نواز صاحب پسر مکرم ملک محمد نواز خاں صاحب سکنہ حویلی مجو کہ ضلع سرگودھا حال مقیم امریکہ سے بعوض مبلغ تیس ہزار روپے حق مہر.-۲- محترمه سلمی اختر ملک صاحبہ بنت مکرم محترم لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک صاحب مرحوم کا نکاح مکرم کیپٹن نواز احمد منہاس صاحب سے بعوض دس ہزار روپے حق مہر.۳.محترمہ نزہت سعید صاحبہ بنت مکرم محترم ڈاکٹر محمد سعید صاحب مرحوم لا ہور کا نکاح مکرم کیپٹن بشیر الدین احمد صاحب پسر مکرم قاضی شریف الدین صاحب لاہور سے بعوض دس ہزار روپے حق مہر.محترمہ زکیہ چوہدری صاحبہ بنت مکرم محترم میجر چوہدری غلام احمد صاحب لاہور کا نکاح مکرم محمود احمد جسوال صاحب پسر مکرم حبیب اللہ جسوال حال مقیم لندن سے بعوض پندرہ ہزار روپے حق مہر.

Page 546

خطبات ناصر جلد دہم ۵۲۲ خطبہ نکاح ۸ رفروری ۱۹۷۰ء خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے برکتوں کی چار عطایا کا انتظام کیا ہے.اس وقت میں چار نکاحوں کا اعلان کروں گا.ازدواجی رشتوں کا قیام بہت سی خوشیاں بھی ساتھ لاتا ہے اور ہم پر بہت سی ذمہ واریاں بھی عائد کرتا ہے.یہ ذمہ واریاں صرف میاں بیوی پر ہی عائد نہیں ہوتیں بلکہ ان رشتوں کے استوار ہونے سے یہ ذمہ واری ہر دو خاندانوں پر بھی ہوتی ہے اور ہم جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک الہی جماعت سے منسلک ہیں.ہم پر بحیثیت جماعت بھی بہت سی ذمہ واریاں عائد ہوتی ہیں.نہ صرف یہ دیکھنے کی ذمہ واری کہ ہمارے ماحول میں ہمارے بچوں کی صحیح تربیت ہو بلکہ یہ ذمہ داری بھی اور یہ ذمہ واری بڑی ہی اہم ہے کہ ہم اپنے رب کے حضور دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ جب بھی آئندہ نسلوں کے اجرا کا سامان پیدا کرے اس وقت ایسے حالات بھی پیدا کرے کہ اس کے خادم اس دنیا میں ظاہر ہوں.اس کے فدائی ، اس کے اطاعت گزار، اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور پیار کرنے والے.کثرت سے یہ دعائیں ہونی چاہئیں.اللہ تعالیٰ دین کی حسنات ہمیں بھی اور آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی عطا کرے اور دنیا کی حسنات سے بھی ہمیں متمتع فرمائے.جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے.میں اس وقت چار نکاحوں کا اعلان کروں گا.ہمارے بزرگ مکرم محترم مولوی عبد الرحیم صاحب درد مرحوم کی بچی عزیزہ نعیمہ درد کا نکاح عزیزم مکرم ملک رب نواز صاحب سے قرار پایا ہے.یہ عزیزہ بچی شادی کے بعد امریکہ جائیں گی.کیونکہ جن سے ان کا نکاح ہو رہا ہے وہ آج کل وہاں کام کر رہے ہیں.درد صاحب مرحوم کے جماعت پر خاص طور پر ذمہ واریاں ڈالنے والے کام رہے ہیں.یعنی انہوں نے اپنی زندگی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے وقف کی اور بڑی محنت اور جانفشانی اور خلوص کے ساتھ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر آپ کی ہدایات پر کام کرتے رہے.آپ کے سب بچوں کے لئے ہی دعا کرنی چاہیے کہ جو دل درد صاحب مرحوم کے سینہ میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اور جو ذہن ان کے سر میں پیدا کیا تھا اللہ تعالیٰ ویسا ہی ذہن اور ویسا ہی

Page 547

خطبات ناصر جلد دہم دل ان کے بچوں کو بھی عطا کرے.۵۲۳ خطبہ نکاح ۸ رفروری ۱۹۷۰ء ہمارے بھائی محترم لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک صاحب مرحوم کی صاحبزادی کے نکاح کا اعلان بھی میں کروں گا.آپ غیر ملک میں ایک حادثہ میں شہید ہوئے تھے.آپ کی ایک ہی بچی ہے.ہمارے دل میں اس عزیزہ کے لئے بھی اور ان کے ہونے والے خاوند کے لئے بھی بڑا پیار ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق دے کہ ہم اپنے اس تعلق محبت کا اظہار دعاؤں کے ذریعہ اس رنگ میں کریں کہ وہ دعائیں مقبول بھی ہوں اور ہر دو کے لئے دین و دنیا کی بھلائی کا سامان بھی پیدا کریں.ہمارے میجر چوہدری غلام احمد صاحب ایک وقت میں قادیان میں جماعت کا کام بھی کرتے رہے ہیں.ان کی بچیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے دین کی محبت عطا کی ہے.خدا کرے کہ وہ ہمیشہ ہی اس دنیا کے جھمیلوں سے آزاد رہ کر خدا اور اس کے رسول کی خادمہ کے طور پر اپنی زندگیوں کو گذار نے والی ہوں.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 548

Page 549

خطبات ناصر جلد دہم ۵۲۵ خطبہ نکاح ۲۲ فروری ۱۹۷۰ء دینی کامیابیوں کے نتیجہ میں انسان کو حقیقی خوشی اور حقیقی فلاح ملتی ہے خطبه نکاح فرموده ۲۲ فروری ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.محترمہ صاحبزادی امتہ الصبور صاحبہ بنت مکرم محترم پیر معین الدین صاحب کا نکاح محترم پیر وحید احمد صاحب ابن مکرم محترم پیر صلاح الدین صاحب سے بعوض پچاس ہزار روپے حق مہر.-۲- محترمہ امة الباسط صاحبہ بنت مکرم محترم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمد یہ ربوہ کا نکاح محترم سید منصور احمد شاہ صاحب ( جو آج کل لندن میں ہیں ) پسر مکرم محترم سید محمد اقبال شاہ صاحب (امیر جماعت احمدیہ کینیا مشرقی افریقہ) سے بعوض دس ہزار روپے حق مہر.محترمہ آنگوسلامہ صاحبہ بنت مکرم محترم حاجی اسماعیل صاحب کا نکاح محترم محمد عثمان صاحب چینی مبلغ سلسلہ احمدیہ بعوض ایک ہزار روپے حق مہر.-۴- محترمه فاخرہ بیگم صاحبہ بنت مکرم محترم شیخ نور الحق صاحب کا نکاح محترم خورشید قادر صاحب پسر مکرم محترم محمد سعید خاں صاحب راولپنڈی سے بعوض آٹھ ہزار روپے حق مہر.۵.محترمہ خالدہ ادیب صاحبہ بنت مکرم محترم قاری محمد امین صاحب ربوہ کا نکاح محترم سلیم احمد صاحب پسر مکرم و محترم چوہدری محمد شریف صاحب بٹالوی سرگودھا سے بعوض پانچ ہزار روپے حق مہر.

Page 550

خطبات ناصر جلد دہم ۵۲۶ خطبہ نکاح ۲۲ فروری ۱۹۷۰ء محترمہ تارہ نصر اللہ صاحبہ بنت مکرم محترم چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم سمن آباد لا ہور کا نکاح محترم چوہدری داؤ د احمد صاحب پسر مکرم محترم چوہدری محمد اسلم صاحب ربوہ سے بعوض پانچ ہزار روپے حق مہر.۷.محترمہ نرگس با نو صاحبہ بنت مکرم محترم ملک عبد الباسط صاحب لاہور کا نکاح مکرم محترم مبشر احمد صاحب ظفر پسر مکرم محترم عطاء الرحمن صاحب ربوہ سے بعوض تین ہزار روپے حق مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سی خوشیاں دکھائی ہیں.اس وقت میں سات نکاحوں کا اعلان کروں گا.اس موقع پر ہماری دلی خواہش بھی یہی ہوتی ہے اور ہمارے دل سے دعا بھی یہی نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی خوشحالی اور ساری ہی مسرتیں ہر دو کے لئے مقدر کرے.اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے خوشحالی اور مسرت کے حصول کی جو شرط ہمارے کانوں میں ڈالی ہے وہ یہ ہے کہ مَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب: ۷۲) دنیا میں ہر خوشی اور ہر مسرت کا میابی اور کامرانی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.کوئی احمق بھی اس دنیا میں نا کامی پر خوش نہیں ہوا کرتا.خوشی ہوتی ہی اس وقت ہے جب انسان اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا اور اپنی زندگی کی کسی دنیوی یا حقیقی جد و جہد میں کامیاب ہو جاتا ہے.بعض کوششیں محض دنیوی ہوتی ہیں اور ان میں دین کا کوئی حصہ نہیں ہوا کرتا.بعض ایسے کام ہیں کہ جو د نیوی بھی ہو سکتے ہیں.محض دنیوی اور وہی نیت کے بدلنے سے، ماحول کے بدلنے سے اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کئے جائیں تو وہ دینی ہو جاتے ہیں.دنیوی کامیابیوں کے نتیجہ میں دنیوی اور عارضی خوشیاں حاصل ہوتی ہیں.دینی کامیابیوں اور کامرانیوں کے نتیجہ میں انسان کو حقیقی خوشی ، حقیقی فلاح اور حقیقی مسرت ملتی ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے سب عزیزوں کو جن کے نکاح کا آج اعلان ہو رہا ہے اور عام طور پر ہم میں سے ہر ایک کے لئے حقیقی خوشیاں مقدر کرے اور حقیقی کامیابیاں ہمارے نصیب میں ہوں.

Page 551

خطبات ناصر جلد دہم ۵۲۷ خطبہ نکاح ۲۲ فروری ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہی حقیقی خوشی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے کہ مَنْ يطيع اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا حقیقی کامیابی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلصانہ اطاعت کے تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور جب تک حقیقی کامیابی کسی کے نصیب میں نہ ہو حقیقی خوشی اسے مل نہیں سکتی.اس لئے یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی خوشی نصیب کرے.اس موقع پر خصوصاً ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمارے ان عزیزوں کو جن کے نکاح کا یہاں اعلان ہورہا ہے یہ تو فیق عطا کرے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی مطیع بندے اور مخلص خدمت گزار بنیں اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان کی اس اطاعت کو قبول کرتے ہوئے حقیقی کامیابیاں ان کے نصیب میں کرے اور حقیقی خوشحالیاں اور حقیقی مسرتوں کے وہ وارث بنیں.ایک نکاح تو میری اپنی عزیزہ بچی یعنی میری ہمشیرہ کی بچی کا ہے.اور مجھے ویسے تو گھر کے سارے بچے عزیز ہوتے ہیں.یہ بچی بہت ہی عزیز ہے اس کے نکاح کا میں اعلان کروں گا.اللہ تعالیٰ اسے ہر رنگ میں خوش رکھے اور اپنی حفاظت اور امان میں رکھے اور رحمت کے سایہ میں رکھے.عزیزه امۃ الصبور جو مکرم محترم پیر معین الدین صاحب کی صاحبزادی ہیں ان کا نکاح مکرم پیر وحید احمد صاحب جو مکرم محترم پیر صلاح الدین صاحب کے صاحبزادہ ہیں ان کے ساتھ پچاس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.عزیزم مکرم پیر وحید احمد صاحب کینیڈا کی کسی فرم کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور یہ پچاس ہزار روپے کا مہر اس ہدایت کے اندر ہے جو جماعت کو دی گئی ہے کہ چھ ماہ سے بارہ ماہ کی تنخواہ کے اندر مہر مقرر کیا جائے کیونکہ رقم زیادہ ہے ممکن ہے کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہو اس لئے میں نے اس کی وضاحت کر دی ہے.ایک اور بین الاقوامی نکاح کا میں اعلان کروں گا.ایک چینی احمدی کا نکاح ملائیشیا کی ایک احمدی بچی سے ہونا قرار پایا ہے جن کا نام انکو سلامہ صاحبہ بنت مکرم محترم انکو حاجی اسماعیل صاحب ہے.آج کل یہ یہاں آئی ہوئی ہیں ان کا نکاح عزیزم مکرم محمد عثمان صاحب چینی واقف زندگی

Page 552

خطبات ناصر جلد دہم ۵۲۸ خطبہ نکاح ۲۲ فروری ۱۹۷۰ء سے ایک ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.یہ عزیزم مکرم محمد عثمان صاحب چینی چوسوفو کے صاحبزادہ ہیں.عزیزہ انکو سلامہ صاحبہ کے ولی نظارت امور عامہ کی طرف سے مکرم محترم مولوی عبدالقادر صاحب ضیغم کو مقررکیا گیا ہے.ایجاب وقبول کرانے کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 553

خطبات ناصر جلد دہم ۵۲۹ خطبہ نکاح ۲ / مارچ ۱۹۷۰ء اللہ اپنے فضل سے ان رشتوں کے نتیجہ میں نیک آبادی کے سامان پیدا کرے خطبہ نکاح فرموده ۲ / مارچ ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت محترمہ عتیقہ سلطانہ صاحبہ بنت مکرم محترم میر غلام احمد صاحب کشفی کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح مکرم برکات احمد صاحب ابن مکرم مولوی عبدالرزاق صاحب سے پانچ ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں عزیزہ عتیقہ سلطانہ صاحبہ بنت مکرم محترم میر غلام احمد صاحب کشفی کے نکاح کا اعلان کروں گا.ان کے نکاح کی تجویز مکرم برکات احمد صاحب سے پانچ ہزار روپے مہر پر ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے اس رشتہ کو بہت بابرکت کرے.ہمارے ان عزیز بچوں نے ہجرت کی اور اپنی جگہ کو چھوڑنے کی تکلیف اٹھائی اور پھر ( روحانی طور پر ) ایک غیر آبا دجگہ میں ہزار مخالفتوں کے درمیان زندگی کے دن گزار رہے ہیں.اللہ تعالیٰ بڑی قدرتوں والا ہے.وہ اپنے فضل سے اس علاقے میں بھی احمدیت کا نور پھیلائے اور ان رشتوں کے نتیجہ میں ان علاقوں میں نیک آبادی کے سامان پیدا کرے.عزیزم مکرم برکات احمد صاحب محترم مولوی عبد الرزاق صاحب کے صاحبزادہ ہیں.یہ

Page 554

خطبات ناصر جلد دہم ۵۳۰ خطبہ نکاح ۲ / مارچ ۱۹۷۰ء آج کل داریل میں ہیں.یہ چلاس گلگت ایجنسی کا علاقہ ہے.پہلے آسنور کے رہنے والے ہیں.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتے کے بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 555

خطبات ناصر جلد دہم ۵۳۱ خطبہ نکاح ۸ / مارچ ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان رشتوں کو ہر جہت سے بہت با برکت کرے خطبہ نکاح فرمود ه ۸ مارچ ۱۹۷۰ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمہ امۃ السلام صاحبہ بنت مکرم نور محمد صاحب ربوہ کا نکاح محترم بشیر الدین احمد صاحب پسر مکرم محمد امین خان صاحب مرحوم بعوض ایک ہزار روپے حق مہر.۲.محترمہ فرخ جبیں صاحبہ بنت مکرم چوہدری رحمت اللہ صاحب گجرات کا نکاح چوہدری محمود احمد صاحب ورک پسر مکرم چوہدری عبدالحق صاحب ورک بعوض چار ہزار روپے حق مہر.محترمہ نصرت بیگم صاحبہ بنت مکرم غلام احمد صاحب ربوہ کا نکاح محترم منیر احمد صدیقی صاحب پسر مکرم بشیر احمد صدیقی صاحب بعوض ڈیڑھ ہزار روپے حق مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں اس وقت تین نکاحوں کا اعلان کروں گا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ان رشتوں کو ہر جہت سے اور ہر پہلو سے بہت بابرکت کرے.آمین.عزیزہ بچی امتہ السلام صاحبہ کے والد بیمار ہیں.( اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے ) عزیزہ کے حقیقی بھائی محترم محمد سلیم احمد صاحب ولی ہیں.

Page 556

خطبات ناصر جلد دہم ۵۳۲ خطبہ نکاح ۸ / مارچ ۱۹۷۰ء ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 557

خطبات ناصر جلد دہم ۵۳۳ خطبہ نکاح ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء باغ احمد کے ایک درخت کی شاخ دوسرے درخت کی شکل اختیار کرے گی خطبہ نکاح فرموده ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے از راہ شفقت عصر کی نماز کے بعد محترمہ جمیلہ بشری سیفی صاحبہ بنت مکرم محترم نسیم سیفی صاحب وکیل التعلیم تحریک جدید کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح مکرم سلیمان احمد صاحب طاہر پسر مکرم سلطان احمد صاحب طاہر کراچی سے دس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.حضورانور نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.بارغ احمد کے ایک ثمر آور درخت کی شاخ پیوند کی شکل میں ایک اور درخت کی شکل اختیار کرے گی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو درخت بھی اس باغ میں ان شاخوں سے بنیں وہ باغ احمد کے ہی درخت رہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے پانیوں سے سیراب ہو کر اس کے حسن کی تجلیاں دیکھیں اور اس کی رحمت کے نظارے دنیا کو دکھانے والے ہوں.پھر حضور نے فرمایا:.میں اس وقت عزیزہ جمیلہ بشری سیفی صاحبہ جو مکرم محترم نیم سیفی صاحب ربوہ کی صاحبزادی ہیں کے نکاح کا اعلان کروں گا.ان کا نکاح دس ہزار روپے مہر پر عزیزم مکرم سلیمان احمد صاحب طاہر

Page 558

خطبات ناصر جلد دہم ۵۳۴ خطبہ نکاح ۲۰ / مارچ ۱۹۷۰ء ابن مکرم و محترم سلطان احمد صاحب طاہر سے قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بہت بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 559

خطبات ناصر جلد دہم ۵۳۵ خطبہ نکاح ۲۳؍ مارچ ۱۹۷۰ء ہماری ہر بات اللہ تعالیٰ پر ظاہر اور اس کے علم میں ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۳ / مارچ ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے از راہ شفقت ظہر کی نماز کے بعد محترمہ رضیہ فردوس صاحبہ بنت مکرم محترم پروفیسر محمد ابراہیم ناصر صاحب مرحوم کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب ابن مکرم چوہدری عنایت علی صاحب گوجرہ سے دس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.حضور انور نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.اسلام ہمیں جس اللہ رب العالمین پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.نہ وہ چیزیں جو ظاہر میں انسانی آنکھ دیکھتی ہے اور نہ وہ چیزیں جو نیم پوشیدہ صورت میں انسانی فراست کے مشاہدہ میں آتی ہیں اور نہ وہ چیزیں کہ جنہیں انسان کی کوئی طاقت بھی معلوم نہیں کر سکتی.مگر یہ سب چیزیں ہمارے رب کے سامنے اسی طرح کھلی ہوئی ہیں جس طرح کہ انسان جب سورج کے سامنے ہو تو سورج ہر لحاظ سے پورے زور کے ساتھ اپنے وجود کا خود ثبوت دے رہا ہوتا ہے.بیچ میں کوئی پردہ اور حجاب نہیں ہوتا.ہمارے دلوں کی حالت کو جاننے والا ، ہمارے سینے کے خیالات پر نظر رکھنے والا ہمارا رب ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ فرمایا ہے

Page 560

خطبات ناصر جلد دہم ۵۳۶ خطبہ نکاح ۲۳ / مارچ ۱۹۷۰ء کہ اپنے رب کے ساتھ سیدھے ہو کر اپنی زندگی کے دن گزارو.خلوص نیت کے ساتھ اور اس یقین کے ساتھ کہ ہماری ہر بات دنیا کے لئے ظاہر بھی اور دنیا کے لئے پوشیدہ بھی ، غرض ہماری ہر بات اللہ تعالیٰ پر ظاہر ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ساری ہی چیزیں ہیں اس لئے ہر خیر کا منبع اسی کی ذات ہے.ہمیں اسی کی طرف جھکنا چاہیے اور اسی سے ہر بھلائی اور خیر اور نیکی طلب کرنی چاہیے.دنیا سینکڑوں ہزاروں بار انسان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے لیکن ہمارا رب کریم جو انتہائی طور پر پیار کرنے والا رب ہے وہ ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتا اور جولوگ خلوص نیت کے ساتھ اس کے آستانہ پر جھکتے ہیں وہ اس سے اپنی نیک مرادوں کو حاصل کر لیتے ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عزیزہ بچی کے لئے ہر قسم کی خیر اور مسرت اور خوشحالی کے سامان پیدا کرے جو ہمارے ایک واقف زندگی مرحوم کی بچی ہے اور جن کا نام عزیزہ رضیہ فردوس ہے جو مکرم محترم پروفیسر محمد ابراہیم صاحب ناصر مرحوم کی صاحبزادی ہیں ان کا نکاح عزیزم مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب سے دس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.ہماری اس عزیزہ بچی کے والد چونکہ وفات پاچکے ہیں.ان کے بھائی فلائنگ آفیسر محترم محمد ذکر یا داؤ د صاحب حقیقی بھائی ہونے کے لحاظ سے ان کے ولی ہیں.ایجاب و قبول کرانے کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 561

خطبات ناصر جلد دہم ۵۳۷ خطبہ نکاح ۱۴ جون ۱۹۷۰ء بعض خوشیاں زیادہ خوشی پہنچاتی ہیں خطبہ نکاح فرموده ۱۴ / جون ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر چار نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھ گئی ہے.نکاحوں کا اعلان اور جنازہ کی نماز کی ادائیگی ساتھ ہی ساتھ چلتی ہیں.میں نے ابھی ایک نماز جنازہ پڑھائی ہے اور اب چار نکاحوں کا اعلان کروں گا.ایک غم اللہ تعالیٰ پہنچا دیتا ہے چار شادیوں کا انتظام کر دیتا ہے اس کا احسان ہے اور ہمارے دل اس کی حمد سے بھرے ہوئے ہیں.اس وقت دنیا کے جو حالات ہیں ان کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں دیکھ کر ہر وقت یہی دعانکلتی ہے اور اس وقت بھی یہی دعا ہے کہ جو رشتے استوار ہورہے ہیں ان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ احمدیت کے شیر جماعت احمدیہ کو دے اور ایسی نسل قائم ہو جو خدا اور اس کے رسول کے عاشق اور دیوانہ وار اس کی محبت اور اس کے نام کی بلندی کے لئے دنیا میں کام کرنے والی ہو.ویسے تو میں سب کے ساتھ خوشی اور غمی میں شریک ہوں لیکن بعض خوشیاں زیادہ خوشی پہنچاتی ہیں.اس وقت جن نکاحوں کا میں اعلان کروں گا ان میں سے ایک نکاح خاص طور پر میرے لئے

Page 562

خطبات ناصر جلد دہم ۵۳۸ خطبہ نکاح ۱۴ / جون ۱۹۷۰ء خوشی کا باعث ہے اور وہ ہمارے محترم بھائی چوہدری رحمت اللہ صاحب باجوہ کی بچی کا نکاح ہے جس کے متعلق چند مہینوں سے میں کچھ پریشان تھا کہ بچی کی عمر بڑی ہورہی ہے اور اس کا نکاح جلد ہو جانا چاہیے.وہ مشرقی پاکستان میں رہے ہیں اور یہ بھی خیال تھا کہ وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے بھی دور رہے ہیں اب ان کو زیادہ فکر ہوگی اور زیادہ فکر کسی احمدی بھائی یا بہن کو ہو تو میرے فکر میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے.ا.اس بچی عزیزہ شاہدہ باجوہ کا نکاح بھائی میجر شریف احمد صاحب باجوہ کے لڑکے کے ساتھ جو فوج میں کیپٹن ہیں اور ان کا نام کیپٹن لطیف احمد صاحب باجوہ ہے بارہ ہزار پانچ صد روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.۲.عزیز محموده تاج صاحبہ بنت مکرم مولوی تاج الدین صاحب لائل پوری ربوہ کا نکاح آٹھ ہزار روپیہ مہر پر عزیزم مکرم محمد صدیق صاحب پسر چوہدری نور محمد صاحب ساکن چک نمبر ۲۶ ج.ضلع لائل پور سے قرار پایا ہے.۳.عزیزہ مبشرہ صالحہ بنت مکرم مولوی تاج الدین صاحب لائلپوری ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم بشیر احمد صاحب پسر چوہدری نور محمد صاحب سکنہ چک نمبر ۲۶ ج.ب ضلع لائلپور سے قرار پایا ہے.۴ - عزیزہ سیدہ امتہ السلام طاہرہ صاحبہ بنت مکرم سید عبد السلام صاحب مرحوم کا نکاح مکرم منصور احمد صاحب مبشر پسر مکرم چوہدری مظفر الدین صاحب بنگالی حال ربوہ کے ساتھ دو ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.حضور اقدس نے ایجاب وقبول کے بعد دعا کرائی.بعد دعا حضور نے دیکھا کہ چھوہارے مسجد میں ہی تقسیم ہو رہے ہیں حضور نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجد میں چھوہارے ہرگز تقسیم نہ ہوں بلکہ مسجد کے دروازوں سے باہر تقسیم ہوں.روز نامه الفضل ربوہ ۱۹ جولائی ۱۹۷۰ ء صفحہ ۴)

Page 563

خطبات ناصر جلد دہم ۵۳۹ خطبہ نکاح یکم اگست ۱۹۷۰ء حقیقی مستقبل کی حقیقی فکر کرنے والے ہی مومن ہیں خطبہ نکاح فرمودہ یکم اگست ۱۹۷۰ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.محترمہ رقیه بیگم صاحبہ بنت رستم خان صاحب مرحوم سعید آباد پشاور کا نکاح ہمراہ سید جمیل لطیف پسر محترم مکرم سید طیب لطیف صاحب بعوض تین ہزار روپے حق مہر.-۲- محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ بنت محترم شیخ عبد القادر صاحب مرحوم مربی سلسلہ احمد یہ لا ہور کا نکاح ہمراہ محترم صفی الرحمان صاحب خورشید پسر مکرم محترم حکیم حفیظ الرحمن صاحب سنوری ربوه بعوض دو ہزار روپے حق مہر.محترمہ امتة الجمیل صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر خیر الدین صاحب ربوہ کا نکاح ہمراہ محترم عبدالباسط صاحب پسر مکرم چوہدری اللہ بخش صاحب ربوہ بعوض پانچ ہزار روپے حق مہر.محتر م سلمی ثریا ڈار صاحبہ بنت مکرم نذیر احمد صاحب ڈارلندن کا نکاح ہمراہ محترم حامد اقبال پسر مکرم عبدالرؤف صاحب سیالکوٹ بعوض سات ہزار روپے حق مہر.۵ محترم امتہ الجمیل بٹ صاحبہ بنت جمیل احمد صاحب بٹ مرحوم کا نکاح ہمراہ محترم نثار احمد بٹ پسر مکرم فضل الہی بٹ صاحب لندن بعوض ۸۵۰ پونڈ حق مہر پر قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں جن نکاحوں کا اعلان کروں گا دنیا میں تین قسم کے فرد یا اقوام ہوتی ہیں ایک

Page 564

خطبات ناصر جلد دہم ۵۴۰ خطبہ نکاح یکم اگست ۱۹۷۰ء وہ جو محض ماضی میں زندگی گزارتے ہیں انہیں صحیح معنی میں بوڑھے کہا جاتا ہے بڑھاپے کی اصل تعریف یہ ہے کہ انسان ماضی میں کھویا ر ہے.اس تعریف کی رو سے بہت سے ایسے انسان بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں جو مرتے دم تک بوڑھے نہیں ہوتے.دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو حال میں مگن ہیں.نہ ماضی سے نتائج اخذ کرنے والے اور نہ مستقبل کی فکر کرنے والے.بس حال میں محورہ کر زندگی کے دن گزار رہے ہیں لیکن کچھ وہ ہیں جو ماضی اور حال کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہمیشہ مستقبل کے خیال میں رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسی گروہ کی تعریف کی ہے اور اس میں شامل ہونے کے لئے ہمیں متوجہ کیا ہے.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر : ۱۹) میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے.بات یہ ہے کہ ماضی میں کھوئے رہنے والے لوگوں یا حال میں مگن عیاش اور مستقبل کی فکر نہ کرنے والوں کی بجائے حقیقی مستقبل کی حقیقی فکر کرنے والے ہی مومن ہیں وہ نہ صرف اس دنیا کے مستقبل کی فکر کرتے ہیں بلکہ اس حقیقی مستقبل کی جو اس دنیوی زندگی کے بعد نئی زندگی کے حاصل ہونے کے وقت سے شروع ہوتا ہے اور پھر ختم نہیں ہوتا اس کی بھی فکر کرتے ہیں.پس زندہ وہی ہے اور زندہ وہی رہے گا.موت اسی پر نہیں آئے گی جو مستقبل کی فکر کر رہا ہو.جن خوشیوں میں آج ہم شریک ہو رہے ہیں خدا کرے کہ وہ نئے تعلقات جن کا ہر لحاظ سے مستقبل پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے وہ خوشنما مستقبل اور ثمر آور کوشش والے تعلقات ہوں اور ان تعلقات سے تعلق رکھنے والی اللہ تعالیٰ کی رحمتیں آج سے شروع ہو کر ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی رحمتیں ثابت ہوں.ایجاب وقبول کے بعد حضور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 565

خطبات ناصر جلد دہم ۵۴۱ خطبہ نکاح ۴ راگست ۱۹۷۰ء یه رشته نیک، دنیا کی ہمدرد غمخوار اور اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچانے والی نسل کا ذریعہ بنے خطبه نکاح فرموده ۴ را گست ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب ایک نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مشرقی افریقہ کے محترم چوہدری عنایت اللہ صاحب کی صاحبزادی عزیزہ حنیفہ احمدی صاحبہ کا نکاح تین ہزار روپے مہر پر عزیزم مکرم محمد اختر صاحب پسر مکرم مہر علی صاحب مرحوم باٹا پور سے قرار پایا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رشتے کو بہت با برکت کرے ہر دوخاندانوں کے لئے بھی اور جماعت احمد یہ اور بنی نوع انسان کے لئے بھی یہ رشتہ نیک ، دنیا کی ہمدرد،غمخوار اور اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچانے والی نسل کا ذریعہ بنے اور یہ پھولے پھلے اور بڑھے.لڑکی کے والد مشرقی افریقہ میں اس وقت مبلغ کے طور پر کام کر رہے ہیں.آن ڈیوٹی ہیں ان کی بچی کے ولی میری ہدایت پر مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب کو مقرر کیا گیا ہے.اس کے بعد حضور نے ایجاب وقبول کروایا اور پھر اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے لمبی دعا بھی کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 566

Page 567

خطبات ناصر جلد دہم ۵۴۳ خطبہ نکاح ۳ رستمبر ۱۹۷۰ء انسان کی طبعی زندگی یہ ہے کہ وہ اکیلا نہ رہے خطبہ نکاح فرموده ۳ ستمبر ۱۹۷۰ء بمقام ذاتی رہائش گاہ ایبٹ آباد حضور انور نے محترمہ بشری صفدر صاحبہ بنت محترم میجر محمد صفدر صاحب کا کول کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر محترم کیپٹن نذیر احمد صاحب ابن مکرم محمد فریدون خان صاحب آف شیخ البانڈی سے قرار پایا ہے.حضور انور نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.جس طرح درخت کو پیوند لگایا جاتا ہے اور دو درخت ایک جان بن کر ایک ہی درخت کی شکل میں دنیا میں زندگی گزارتے اور اچھے پھل لاتے ہیں.یہی حال ازدواجی رشتوں کا ہے.جب میں انگلستان میں پڑھا کرتا تھا ایک جرمن ہماری انگلستان کی مسجد میں آئے وہ ابھی عیسائی تھے.اتفاقاً میں بھی ایک دن کی چھٹی پر آکسفورڈ سے وہاں آیا ہوا تھا.گرمیوں کے دن تھے موسم اچھا تھا.ہم باہر ٹہل رہے تھے وہ مجھ سے مختلف باتیں پوچھ رہا تھا.باتوں باتوں میں وہ کہنے لگا کہ آپ لوگ بڑی چھوٹی عمر میں لڑکے لڑکیوں کا نکاح کر دیتے ہیں.اس کی ہمیں سمجھ نہیں آتی.کیونکہ ابھی تو وہ میچور (Mature) نہیں ہوئے ہوتے.حالانکہ ان کے ہاں بڑی لمبی کورٹ شپ چلتی ہے اور اکثر ناکام ہوتی ہے.بہر حال اس نے جب مجھ سے یہ سوال کیا تو میں

Page 568

خطبات ناصر جلد دہم ۵۴۴ خطبہ نکاح ۳ ستمبر ۱۹۷۰ء اسے ایک پھلدار درخت کے پاس لے گیا اور میں نے اس سے کہا کہ اگر ہم اس چھوٹی ٹہنی پر پیوند کریں تو زیادہ کامیاب ہوگا یا موٹے تنے پر پیوند کریں تو زیادہ کامیاب ہوگا.وہ بڑا ذہین آدمی تھا.اتنا ہی جب میں نے کہا تو وہ کہنے لگا مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا ہے.یہاں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ بعض حالات سے مجبور ہو کر اور بعض خاندان اپنی نالائقی یا جہالت کے نتیجہ میں لڑکیوں کو بٹھائے رکھتے ہیں جب وہ تیس پینتیس سال کی ہو جاتی ہیں تو کہتے ہیں رشتہ ڈھونڈھ کر دو.موٹی ٹہنی پر بعض دفعہ پیوند کامیاب تو ہوجاتا ہے یہ تو درست ہے لیکن خواہ مخواہ بچی کو ابتلا میں ڈالنا یہ درست نہیں ہے.بڑی مشکل پیش آتی ہے.کئی دفعہ لڑکیاں اسی طرح کنواری کی کنواری رہ جاتی ہیں.یہ سراسر غیر طبعی زندگی ہے.انسان کی طبعی زندگی یہ ہے کہ وہ اکیلا نہ رہے پیوندی درخت کی طرح اس کا تعلق قائم ہو اور خاندان کی صورت میں میاں بیوی مل کر یک جان ہو کر ایک درخت کی طرح زندگی گزار ہیں.اب درخت میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ درخت کے مختلف حصے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قانون اور اس کی خواہش اور منشا کے مطابق مختلف کام کر رہے ہیں.انسان کو تھوڑی سی آزادی دی ہوئی ہے.درخت کی جڑیں ہیں.اس کی ٹہنیاں ہیں اس کے کھانے کا انتظام ہے جس طرح انسان کے لئے کھانے کی ضرورت ہے اسی طرح درختوں کو بھی ضرورت ہے اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے انتظام کیا ہے درخت کو پیاس بھی لگتی ہے.البتہ انسان کی پیاس کے مقابلے میں اس کے پینے کا مختلف شکل میں انتظام کیا ہے لیکن بہر حال اسے پیاس بھی لگتی ہے اور اس کے لئے پینے کا بھی انتظام کیا ہے.بعض حصے ایسے ہیں جن کے اوپر درخت کی بقاء کا انحصار ہے وہ اس کی جڑیں ہیں.میاں بیوی کے رشتے سے جو دو وجود ایک جان بنتے ہیں اس میں خاوند پر یہ ذمہ واری ڈالی گئی ہے جس کا قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ ہے.الرّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء : ۳۵).ویسے تو قرآن کریم کی آیات کے بے شمار معانی ہوتے ہیں لیکن اس آیہ کریمہ میں لفظ قوام کے یہ معنے نہیں ہیں جیسا کہ بعض بیوقوف لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں اختیار دے دیا گیا ہے کہ جس طرح مرضی بیویوں سے سلوک کریں.یہ غلط ہے دراصل اس رشتہ کو قائم رکھنے کی ذمہ واری خاوند

Page 569

خطبات ناصر جلد دہم ۵۴۵ خطبہ نکاح ۳ رستمبر ۱۹۷۰ء پر ڈالی ہے یعنی بیوی کا قیام جسمانی لحاظ سے اس کا قیام ذہنی لحاظ سے اس کا قیام اخلاقی لحاظ سے اس کا قیام روحانی لحاظ سے خاوند کے ذمہ ہے بالفاظ دیگر ایک کنوارہ آدمی غلطی کرتا ہے تو اس اکیلے پر ذمہ داری ہے.ایک کنواری بچی سے غلطی ہو جائے تو اس لڑکی پر ذمہ واری ہے کسی مرد پر ذمہ واری نہیں ہے.لیکن اگر ایک بیاہی ہوئی بچی سے کوئی غلطی ہو جائے تو دو پر اس کی ذمہ واری عائد ہوتی ہے.ایک لڑکی پر اور دوسرے اس کے خاوند پر.اس کا کام تھا کہ دونوں اس طرح یک جان ہو جائیں کہ وہ اس قسم کی غلطی نہ کر سکے.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ بعض لوگ اس آیت کے یہ معنے کرنے لگ جاتے ہیں کہ انہیں عورتوں پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے.اسلام نے کوئی سختی کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِه خدا کی نگاہ میں تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھی طرح پیش آتا ہے اور حسن سلوک کرتا ہے اور اہل کے تعلق میں جو ذمہ واریاں ہیں انہیں ادا کرتا ہے دوسرے بیوی سے کہا کہ تم مرد کا لباس ہو.خاوند سے کہا بیوی تمہاری زینت کا باعث ہے.اسلامی معاشرہ میں بہت ساری چیزیں ہیں جو عورت اگر کرے تو خاوند کی زینت کا بھی باعث ہیں مثلاً پر وہ بھی کرے اور اپنی ذمہ واریاں بھی نبا ہے.ایک مسلمان عورت بزدل اور کم ہمت نہیں ہوا کرتی.منصورہ بیگم دونوں سفروں میں میرے ساتھ گئی ہیں کئی دفعہ بعض امریکن پوچھتے تھے کہ آپ کی تصویر لے لیں میں کہتا تھا کہ ضرور لو.ان کے ملکوں میں جس پر دہ کی حالت میں وہ لوگ naked eye سے دیکھ سکتے تھے وہ اگر کیمرے کی آنکھ نے دیکھ لی تو کوئی حرج نہیں یعنی با قاعدہ پر دے کے اندر اور پورا کام کر رہی تھیں.میری نیت یہ ہوتی تھی کہ ان کے گھروں میں بھی یہ دلیل پہنچ جائے کہ یہ جو تم بعض دفعہ اپنی حماقت کی وجہ سے اعتراض کر دیتے ہو کہ عورت اگر پردہ کرے گی تو وہ عضو معطل ہو کر رہ جائے گی اور اگر کام نہیں کر سکے گی تو اپنی ذمہ واریوں کو نباہ نہیں سکے گی.یہ غلط ہے.منصورہ بیگم نے میرے ساتھ ہزاروں میل کا سفر کیا ہے.میں بتا چکا ہوں

Page 570

خطبات ناصر جلد دہم ۵۴۶ خطبہ نکاح ۳ رستمبر ۱۹۷۰ء کہ قریباً پندرہ ہزار عورتوں سے انہوں نے مصافحے کئے.ان سے باتیں کیں.ان کی دلجوئی کی اور انہیں نصائح کیں ان سے محبت اور پیار کا اظہار کیا اور ان کی تسلی کا باعث بنیں اور برابر پردہ کرتی رہیں.جہاں ہم نے بنیادیں رکھیں وہاں انہوں نے بھی بنیا د رکھی.کئی جگہ جہاں ہمارے جلسے ہوتے تھے وہاں میں انہیں اپنے پاس سٹیج پر بٹھا لیتا تھا اور یہ پردہ کرتے ہوئے میرے ساتھ بیٹھ جاتی تھیں.ہماری ایک عرب شاعرہ نے عربی میں ایک دو بڑے اچھے شعر کہے ہوئے ہیں اور جن کا مفہوم یہ ہے کہ پردہ اور حیا نے مجھے اس بات سے نہیں روکا کہ میں مردوں کا مقابلہ کروں اور ان سے آگے نکل جاؤں.چنانچہ بہت ساری آگے نکل بھی ہیں.میں یہ مثال پہلے بھی کہیں بیان کر چکا ہوں کہ میدانِ جنگ میں ایک ٹھاٹھہ باندھا ہوا سوار حضرت خالد بن ولید کے پاس ان کی طرف توجہ دیئے بغیر گھوڑا دوڑاتے ہوئے گذر گیا اور ایک طرف جا کر رومی کو نیزہ مار کر قتل کر دیتا تھا اور سوار ہو کر دوسری طرف نکل جاتا تھا اور کئی آدمی اس نے اسی طرح مار دیئے اور وہ حیران تھے.جب حضرت خالد بن ولید صفیں درست کر چکے تو انہوں نے پوچھا اے سوار تم کون ہواس نے پرواہ نہیں کی اور پاس سے نکل گیا.پھر دوسری طرف سے آتے ہوئے جب پاس سے گذرا تو انہوں نے پوچھا کہ اے سوار تم کون ہو.میں تمہیں بطور سالار کے حکم دیتا ہوں کہ تم ٹھہر جاؤ.بتاؤ تم کون ہو.تمہارا نام کیا ہے.تم اپنا چہرہ دکھاؤ.اس نے بڑی مشکل سے اپنا گھوڑا روکا اور پلٹ کر کہا کہ میرا یہ نام ہے لیکن تم میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ میں پردہ نشین مسلمان عورت ہوں.پس جنگ کے میدان میں جہاں ضرورت پڑی وہاں مسلمان عورتوں نے کام کیا.سپاہیوں کی تیمار داری کی.ان کو پانی پلا یا وغیرہ.غرض پردہ کسی جائز کام کے راستے میں روک نہیں ہے اور بے پردگی ہزار جائز کاموں کے راستے میں روک ہے اس کی ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں.بے پر دعورتیں اپنی جائز اور ضروری ذمہ واریوں کو نباہ نہیں سکتیں.ہمارے نوجوانوں میں ( ساروں میں تو نہیں ) ایک بڑی اچھی رو پیدا ہوئی ہے بڑے اچھے پڑھے لکھے ولایت سے واپس آنے والے نوجوان مجھے لکھ چکے ہیں کہ ہمیں بہت پڑھی ہوئی آزادلر کی نہیں چاہیے ہمیں میٹرک پاس پردہ نشین لڑکی چاہیے کیونکہ اس قسم کی

Page 571

خطبات ناصر جلد دہم ۵۴۷ خطبہ نکاح ۳ رستمبر ۱۹۷۰ء تیزیاں اگر عور تیں دکھا ئیں تو پھر گھر آباد نہیں ہوتے.اگر چھوٹی عمر میں لڑکی کا نکاح ہو جائے تو وہ ایم اے پاس کی طرح تو نہیں ہوتی ویسے یہ ٹھیک ہے کہ بعض ایسے پروفیشن ہیں جن کے لئے ہمیں لڑکیوں کو پڑھانا پڑتا ہے مثلاً میڈیسن ہے اس میں اگر ہماری لڑکیاں نہیں پڑھیں گی تو ساری عورتیں مجبور ہوں گی مرد ڈاکٹروں سے علاج کروانے کے لئے.مجبوری کی صورت میں یہ جائز تو ہے لیکن پسندیدہ بہر حال نہیں ہے.لیکن بہت کی پابندیاں ہم لگاتے ہیں وہ ہمیں لگانی پڑیں گی.پس مرد کا یہ سمجھنا کہ میں آزاد ہوں جس طرح چاہوں بیوی سے سلوک کروں.یہ غلط ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اور بیوی کا یہ سمجھنا کہ میرا کوئی مقام ہی نہیں ہے اور میں یوں ہی ہوں یہ بھی غلط ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے بھی بڑا مقام عطا کیا ہے اور تمہارے لئے لباس جو ہے اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ مرد کی زینت کا منبع اس کی بیوی ہے ورنہ اس کی عزت اور زینت نہیں رہتی.عورت کو کتنا بڑا مقام عطا فرمایا ہے مگر ساتھ ہی حفاظت کی ذمہ واری بیوی پر ڈالی ہے اب سردی گرمی سے بچنے کے لئے ہم لباس کو استعمال کرتے ہیں.چنانچہ دنیا میں بہت ساری پنچ اونچ ایسی ہوتی ہے کہ ایک سمجھدار عظمند عورت جس نے اپنے خاوند کا پیار حاصل کیا ہو دونوں ایک جان ہو گئے ہوں وہ بیوی خاوند کی حفاظت کی ذمہ دار بنتی ہے.اور بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں.اس وقت میں نہ ہی زیادہ بول سکتا ہوں نہ بولنا چاہتا ہوں.دیر ہو گئی ہے بہر حال اسلام نے اس درخت وجود یا خاندان کے وجود کی ہر دوشاخوں، - ہر دو حصوں کے لئے کچھ ذمہ واریاں بتائی ہیں.کچھ اختیارات دئے ہیں.کچھ نصیحتیں کی ہیں.کچھ آگے بڑھنے کے لئے احکام دیئے ہیں کہ تم دونوں مل کر آگے ترقی کر سکتے ہو.ایک انگریز ناولسٹ کی طرح اسلام نے یہ نہیں کہا.وو ‘A man with a woman is lesser a man.' 66 بلکہ ان کو یہ کہا ہے کہ اگر اچھے خاوند اور بیوی ہوں تو وہ ایک مرد سے زیادہ ہیں کم نہیں ہیں اور دنیا میں بھی یہی ہوتا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حالات کے لحاظ سے اور اسلام کی ضرورت کی وجہ سے بہت سی شادیاں کرنی پڑیں اور اب تک عیسائی پادری یہ اعتراض

Page 572

خطبات ناصر جلد دہم ۵۴۸ خطبہ نکاح ۳ ستمبر ۱۹۷۰ء کر دیتے ہیں کہ آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کر لی جب کہ وہ بہت چھوٹی عمر کی تھیں اور جو فقہاء ہیں انہیں پتا ہے کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی چھوٹی عمر کی شادی نہ ہوتی تو بہت سے فقہی مسائل پر دہ اخفا میں رہ جاتے چنانچہ بعد میں وہ ملتِ اسلامیہ کی استانی بن گئیں اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور آپ کے ارشادات وغیرہ کے متعلق امت کو بہت کچھ سکھایا.پس کسی عورت کا یہ سمجھنا کہ اس کی کوئی پوزیشن یا مقام نہیں ہے.یہ اس کی نالائقی ہے.اسلام نے اسے ایک مقام دیا ہے اور بڑا ہی اہم مقام دیا ہے اور بڑا ہی ضروری مقام دیا ہے اور بڑا ہی حسین مقام دیا ہے.اسے اپنا یہ مقام سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنے گھر کے ماحول کو ڈھالنا چاہیے تا کہ اس کے نتیجہ میں میاں بیوی اور ان کے بچے اپنے خاندان میں خوشی کی زندگی گزار سکیں.میں نے کئی ایسے بچے دیکھے ہیں جو اخلاقی لحاظ سے بالکل تباہ ہو گئے.صرف اس وجہ سے کہ وہ دیکھتے تھے کہ ماں باپ کا آپس میں تعلق نہیں.ہر وقت لڑتے رہتے ہیں جس کا ان کے بچوں کے اخلاق پر بہت برا اثر پڑا.اس قسم کی مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں تو بڑا دکھ ہوتا ہے.پس خلاصہ یہ نکلا کہ ہماری دنیوی خوشحالی کا انحصار بھی اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے پر ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اب میں نکاح کا اعلان کروں گا.یہ ہمارے دونوں بچے ایک لحاظ سے کم عمر ہی ہیں اللہ تعالیٰ اس رشتے کو بہت بابرکت کرے اور جس رنگ میں اسلام ایک میاں کو دیکھنا چاہتا ہے اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور اس کے بندے عزیز کیپٹن نذیر احمد صاحب کو دیکھیں اور جس رنگ میں اسلام ایک بیوی کو دیکھنا چاہتا ہے اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور اس کے بندے عزیزہ بشری صفد ر صاحبہ کو دیکھیں.یہ رشتہ ہر دو خاندانوں کے لئے اور ہر دوا فراد کے لئے خیر و برکت کا موجب ہو اور اصل دعا تو ایک ہی ہے کہ دین کے سپاہی بنیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے ہوں، اللہ تعالیٰ سے عشق رکھنے والے ہوں اور دنیا کی کوئی پرواہ نہ کرنے والے ہوں اور نہ ان کے دلوں میں کسی کا خوف اور نہ کسی کی بے جا محبت ہو.اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے

Page 573

خطبات ناصر جلد دہم ۵۴۹ خطبہ نکاح ۳ ستمبر ۱۹۷۰ء اور اللہ تعالیٰ ہی کی رضا میں اپنی زندگی کی خوشیوں کو پانے والے ہوں.آمین.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب وقبول کرایا اور پھر حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا بھی کی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 574

Page 575

خطبات ناصر جلد دہم ۵۵۱ خطبہ نکاح ۱۹ ستمبر ۱۹۷۰ء میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات سے معاشرہ پر خوشکن اثرات مرتب ہوتے ہیں خطبہ نکاح فرمود ه ۱۹ ر ستمبر ۱۹۷۰ء بمقام اسلام آباد محترم ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب کے صاحبزادہ محترم سید تنویر مجتبی صاحب اور محترمہ سیدہ خالدہ بنت محترم میجر سید مقبول احمد صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی کی شادی تھی.ان کے نکاح کا اعلان گذشتہ جلسہ سالانہ پر حضور انور نے فرمایا تھا.تقریب رخصتانہ محترم میجر صاحب کی کوٹھی بیت السلام پر عمل میں آئی.جس میں از راہ شفقت حضور انور نے بھی شمولیت فرمائی چونکہ ڈاکٹر صاحب موصوف باہر تشریف لے جا رہے تھے اس لئے ان کی خواہش اور درخواست پر حضور انور نے از راہ شفقت اس موقع پر ان کے چھوٹے صاحبزادہ محترم لیفٹینٹ سید تو قیر مجتبی کے نکاح کا اعلان فرمایا ان کا نکاح محترمہ سیدہ نزہت سیدین بنت محترم سید غلام السیدین صاحب راولپنڈی کے ساتھ مبلغ پانچ ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا.حضور انور نے اپنے مختصر خطبہ نکاح میں میاں بیوی کے حقوق اور فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات سے نہ صرف خاندان بلکہ مجموعی طور پر معاشرہ پر بھی خوشکن اثرات مرتب ہوتے ہیں.اس لئے اپنے ازدواجی تعلقات کو انتہائی خوشگوار بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.

Page 576

خطبات ناصر جلد دہم ۵۵۲ خطبہ نکاح ۱۹ ستمبر ۱۹۷۰ء ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے فرمایا.اب ہم آج کے دولہا دولہن کے لئے بھی اور کل کے دولہا دلہن کے لئے بھی دعا کر لیتے ہیں.چنانچہ اس پر حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کروائی.(روز نامه الفضل ربوه کیم اکتوبر ۱۹۷۰ صفحه ۸)

Page 577

خطبات ناصر جلد دہم ۵۵۳ خطبہ نکاح ۱۰ اکتوبر ۱۹۷۰ء اسلام نے ہدایت کا راستہ معین اور واضح کر دیا ہے خطبه نکاح فرموده ۱۰ ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جو انسان ایک گھر بناتا ہے.اس میں داخل ہونے کا راستہ بھی وہ خود ہی تیار کرتا ہے.اگر گھر میں داخل ہونے والی سڑک کو چھوڑ کر کوئی دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہونا چاہے یا کھڑ کی توڑے اور کمرے میں کودنا چاہے تو گھر والوں کے نزدیک بھی اور دنیا کے نزدیک بھی وہ چور سمجھا جاتا ہے.اسی طرح جنت کا گھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے بنایا ہے.اس کی راہ کی تعیین بھی اس نے خود کی ہے اور اسی راہ پر چل کر ہی انسان اپنے رب کی جنتوں میں داخل ہو سکتا ہے خواہ زندگی کا کوئی شعبہ ہی کیوں نہ ہوسا جی تعلقات ہوں یا ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی یا بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات کا قیام ہو غرض یہ کہ ہر شعبہ زندگی میں ایسے کام کرنا جو اللہ کو پسند ہوں اور ایسی راہوں پر چلنا جو اس کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہوں.اس کا فیصلہ انسان اپنی عقل سے نہیں کر سکتا اسے بہر حال اسلَمتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة : ۱۳۲) کہتے ہوئے اپنے رب کی معین کردہ راہوں پر چلنا پڑے گا.اگر وہ کوئی دوسرا راستہ جو اللہ تعالیٰ کا معین کردہ نہیں اختیار کرے تو وہ جہنم کی طرف

Page 578

خطبات ناصر جلد دہم ۵۵۴ خطبہ نکاح ۱۰ اکتوبر ۱۹۷۰ء لے جانے والا ہے.اسے اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والا نہیں.اسلام نے ہر تعلق کے متعلق خواہ وہ بندے کا رب سے تعلق ہو یا بندے کا بندے سے تعلق ہو.ہدایت کا راستہ معین اور واضح کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر کان دھرتے ہوئے اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر ہمیں ان راہوں کو اختیار کرنا چاہیے.خدا کرے کہ جو ازدواجی رشتے ہماری جماعت میں قائم ہوتے ہیں یا ہور ہے.ان سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی بھی اور ان کے خاندان بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں کو اختیار کریں اور ان کو چھوڑ کر کسی اور راہ کو اختیار نہ کریں.اس وقت میں دونکاحوں کا اعلان کروں گا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو بہت بابرکت کرے والدین کے لئے بھی، جماعت کے لئے بھی اور بنی نوع انسان کے لئے بھی.اس کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا :.۱- محترمہ سیدہ مسرت صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر حاجی سید جنود اللہ صاحب مرحوم کا نکاح آٹھ ہزار روپیہ مہر پر سید نصیر شاہ صاحب ابن محترم سید بشیر احمد شاہد صاحب آف ربوہ سے قرار پایا.مکرم سید جنود اللہ صاحب مرحوم کے بیٹے سید محمود شاہ صاحب نے اپنی بہن کی طرف سے بطور ولی ایجاب وقبول کیا.-۲- محترمہ سیدہ آمنہ بیگم صاحبہ بنت مکرم سید موسیٰ رضا صاحب آف چٹا گانگ کا نکاح چار ہزار روپیہ مہر پر مکرم سید طارق محمود بخاری صاحب ابن مکرم سید ریاض احمد صاحب بخاری آف جہلم - قرار پایا.لڑکی کے والد چونکہ چٹا گانگ میں ہیں ان کی طرف سے مکرم سید اعجاز احمد صاحب مربی سلسلہ راولپنڈی نے بطور وکیل ایجاب وقبول کیا.ނ بعد ازاں حضور انور نے حاضرین سمیت نکاحوں کے بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ ہونے کے لئے دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربو ۲۰۰ /نومبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۳)

Page 579

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح یکم نومبر ۱۹۷۰ء اللہ تعالیٰ کی صفت حیّ کے جلووں میں انسان کے لئے سبق خطبہ نکاح فرموده یکم نومبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راه شفقت مندرجہ ذیل چار نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.محترمہ فاخرہ جبیں صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ربوہ ہمراہ مکرم مرز ا سعید احمد صاحب پسر محترم مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ سرگودھا بعوض پندرہ ہزار روپے حق مہر.۲.محترمہ طیبہ کی صاحبہ بنت مکرم گروپ کیپٹن شیخ عبدالحی صاحب ربوہ ہمراہ مکرم شیخ محی الاسلام صاحب پسر مکرم شیخ محمد عبد اللہ صاحب مرحوم حال انگلینڈ بعوض گیارہ ہزار روپے حق مہر.۳.محترمہ نصرت سیٹھی صاحبہ بنت مکرم شیخ محمد یونس صاحب سیٹھی مرحوم پشاور ہمراہ مکرم شیخ عبد الخالق صاحب پسر مکرم شیخ محمد ذاکر صاحب مرحوم ربوہ بعوض دو ہزار روپے حق مہر.محترمہ مسرت سیٹھی صاحبہ بنت مکرم شیخ عبد العزیز صاحب سیٹھی مرحوم پشاور ہمراہ مکرم شیخ عبد الرشید صاحب ظفر پسر مکرم شیخ محمد ذاکر صاحب مرحوم ربوہ بعوض دو ہزار روپے حق مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی حی" کی صفت کے ہم دنیا میں تین قسم کے جلوے دیکھتے ہیں ایک یہ کہ خدائے قادر و توانا کی صفت حتی کے نتیجہ میں مردوں سے زندہ پیدا ہوتے ہیں جسمانی طور پر بھی

Page 580

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح یکم نومبر ۱۹۷۰ء اور روحانی طور پر بھی اور دوسرے یہ کہ اسی کی قدرت کاملہ اور اس اظہار کے لئے کہ زندگی اس کے بغیر مکمل نہیں زندوں سے مردہ بن جاتے ہیں.اس سے انسان یہ سبق لیتا ہے کہ اس کی زندگی اور بقاء اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے.اپنے زور سے تو کچھ ہونہیں سکتا.اللہ تعالیٰ کی صفت حتی کا تیسرا جلوہ یہ ہے کہ زندہ سے زندہ پیدا ہوتا ہے جسمانی طور پر ایک سلسلہ چل نکلتا ہے اور روحانی طور پر بھی باپ اللہ تعالیٰ کا فدائی پھر اس کا بیٹا خدا کا فدائی اور پھر اس کی اگلی نسل بھی اللہ تعالیٰ پر سب کچھ قربان کرنے والی ہوتی ہے اسی طرح زندہ سے ایک زندہ ، زندہ سے ایک اور زندہ پیدا ہوتا چلا جاتا ہے.الہی سلسلوں کی ابتدا میں عام ( طور ) پر یہی حسین جلوہ ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اور خاندان کے ایک فرد کے بعد دوسرا فرد اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے والا ہوتا ہے گوشاذ دوسرا جلوہ بھی نظر آتا ہے کہ باپ تو بڑا مخلص ہوتا ہے مگر اس کی انگلی نسل کے دل میں دنیا.کی محبت ترقی کر جاتی ہے اور ان کے بزرگوں کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کو لگانے کی جو صفت تھی وہ ان میں کم ہو جاتی ہے.ٹھیک ہے یہ بھی ہمیں نظر آتا ہے لیکن اکثر یہ نظر آتا ہے کہ باپ کے بعد اس کا بیٹا اور پھر اس کا بیٹا خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسی خدمات کی توفیق پاتا ہے جو ہماری نگاہ میں نہایت پیاری اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہوتی ہیں.اس لئے ایسے موقعوں پر بہترین دعا یہی کی جاسکتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں جماعت احمدیہ کی پہلی اور پھر بڑی حد تک اب دوسری نسل کو قربانیاں دینے کی توفیق ملی ہے اسی طرح ان رشتوں کے نتیجہ میں جونئی نسلیں پیدا ہونے والی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی ان کے آباء واجداد کی طرح خدا کی راہ کا فقیر اور اسی سے ہر چیز کی احتیاج محسوس کرتے ہوئے اپنی ہر ضرورت کو اس سے پانے والا بنائے.آمین ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۸ /نومبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۳)

Page 581

خطبات ناصر جلد دہم ۵۵۷ خطبہ نکاح ۱۹ نومبر ۱۹۷۰ء آنے والا زمانہ تربیت اولاد کی خاص توجہ کا متقاضی ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۹ نومبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت دونکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمه سلمی صاحبہ بنت مکرم حاجی عبد الرحمن صاحب آف باندھی کا نکاح ہمراہ مکرم اللہ بخش صاحب پسر مکرم حاجی غلام قادر صاحب نواب شاہ سندھ بعوض پچیس ہزار روپے حق مہر.۲.محترمہ صادقہ رمضان صاحبہ بنت مکرم صوفی رمضان علی صاحب ربوہ کا نکاح ہمراہ مکرم چو ہدری ظفر احمد صاحب گھمن پسر مکرم چوہدری فضل حسین صاحب گھمن جہ ضلع سیالکوٹ بعوض پانچ ہزار روپے حق مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نوع انسان میں ٹھہراؤ نہیں ہے ایک ہمہ وقتی حرکت ہمیں انسانی تاریخ میں نظر آتی ہے.ایک دورانسان پر ایسا آتا ہے کہ جس میں انسانیت شر کی طرف حرکت کر رہی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ان کو اس شر کی طرف حرکت سے بچانے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں اور ایک دور انسان پر ایسا آتا ہے کہ جس میں انسان خیر کی طرف چل رہا ہوتا ہے اور وہ بڑی تیزی سے اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں پر گامزن ہوتا ہے لیکن کچھ بد قسمت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نوع انسان

Page 582

خطبات ناصر جلد دہم ۵۵۸ خطبہ نکاح ۱۹ نومبر ۱۹۷۰ء کی اس حرکت میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرتے ہیں ان کا راستہ روک رہے ہوتے ہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ انسان نے خیر کی طرف حرکت کی.مخالفتوں اور مخالفانہ منصوبوں کے باوجود یہ حرکت تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی اور آخر اپنے کمال کو پہنچ گئی.چنانچہ اس وقت کی معلوم دنیا میں ہمیں خیر ہی خیر نظر آتی ہے.شر کی طاقتیں ناکام ہوگئیں اور خیر پوری طرح فتح یاب ہوا.اس کے بعد نوع انسان نے ایک ہزار سالہ دور میں شر کی طرف حرکت کی.اس وقت بھی خدا کے بندے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں اس حرکت کو روکنے کی فکر میں رہے اور اس کوشش میں رہے کہ انسان شر سے محفوظ رہ کر خیر کو پانے والا ہو.لیکن وہ پوری طرح کامیاب نہ ہوئے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ انسانی نوع نے خیر کی طرف حرکت شروع کی ہے اور جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے.أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَلِبُونَ (الانبياء : ۴۵) یعنی معمولی سے اروژان (Erosion) سے شروع ہوتی ہے اور جس وقت یہ اپنی جوانی پر آتی ہے تو تند سیلاب کی طرح شر کو بہا کر لے جاتی ہے اور ہر جگہ خیر کے پانی کو پہنچا دیتی ہے.نوع انسانی کی خیر کی طرف یہ حرکت شروع ہو چکی ہے اور اس میں ہر روز شدت پیدا ہو رہی ہے اور وہ زمانہ جلد آنے والا ہے جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو خیر محض ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ میں تمام بنی نوع انسان جمع ہو جائیں گے.آج کو تاہ بین آنکھ کو یہ حرکت نظر نہیں آتی مگر دیکھنے والے آج بھی اس کو دیکھ رہے ہیں لیکن دیکھنے والے جو آج دیکھ رہے ہیں اس کی وجہ سے ان نوجوانوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جن کے نکاحوں کا ہم آئے دن اعلان کرتے ہیں.اس لئے کہ ان کے بچے پیدا ہوں گے اور وہ جب اپنی بلوغت کو پہنچیں گے تو وہ اس سے بہت ہی مختلف اور بہت ہی حسین دنیا میں داخل ہو چکے ہوں گے.اس وقت ان کے اوپر ایک خاص قسم کی خیر کی ذمہ داریاں پڑیں گی اس کے لئے نو جوان ماں باپ کو آج ہی سے تیاری کرنی چاہیے اور اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنی چاہیے ورنہ وہ اس خیر کی دنیا میں

Page 583

خطبات ناصر جلد دہم ۵۵۹ خطبہ نکاح ۱۹ نومبر ۱۹۷۰ء داخل ہو کر خیر سے تھوڑا حصہ لینے والے ہوں گے اور اگر تربیت درست ہو جائے تو وہ خیر سے زیادہ حصہ لینے والے ہوں گے.اسی لئے قرآن کریم کہتا ہے کہ کل کی فکر کرو.مَا قَدَّمَتْ لغد ( الحشر : ۱۹) کی اس آسمانی تنبیہ کو ہر وقت سامنے رکھو.پس اس خیر کی حرکت کے زمانہ میں اس خیر کی حرکت کے دور میں یہ ذمہ داری بڑی اہم ہو جاتی ہے اور اس طرف متوجہ ہونا بہت ہی ضروری ہے کہ ہم آج پیدا ہونے والے بچے کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ جب وہ اکیس سال کو پہنچے اور بالغ ہو جائے تو اپنی اس بلوغت کے زمانہ میں خیر کی دنیا کی جو ذمہ داریاں ہیں ان کو وہ نباہ سکے.خدا کرے کہ ہمارا ہر نوجوان جو آج جوان اور شادی کے قابل ہوا ہے اس حقیقت کو سمجھے اور شادی کے بعد اپنی اولا د کو اس بات کے لئے تیار کرے کہ جب وہ جوان ہوں اور اپنی بلوغت کو پہنچیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے والے ہوں.اللهم آمین ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ / نومبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۳)

Page 584

Page 585

خطبات ناصر جلد دہم ۵۶۱ خطبہ نکاح ۴ ردسمبر ۱۹۷۰ء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں منافقین کے علاوہ سبھی آدمی واقفین زندگی تھے خطبہ نکاح فرموده ۴ / دسمبر ۱۹۷۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے خطبہ جمعہ سے قبل محترمہ سیدہ نصرت جہاں صاحبہ بنت مکرم محترم نواب مسعود احمد خان صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح سات ہزار روپے حق مہر پر مکرم سید محمود احمد صاحب ابن مکرم ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب لاہور کے ساتھ قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.خطبہ جمعہ سے قبل میں ایک نکاح کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.یہ نکاح ہمارے پھوپھا حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف مالیر کوٹلہ اور ہماری پھوپھی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی کی پوتی کا ہے جو عزیزم سید محمود احمد صاحب ابن محترم ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب سے سات ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.قرونِ اولیٰ میں خصوصاً حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں منافقین کے علاوہ سبھی آدمی واقفین زندگی تھے.وہ اپنا کام بھی کرتے تھے لیکن جب اسلام پر حملہ ہوتا تو وہ بے سروسامانی کے باوجود اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار بھی رہتے تھے.اس لئے اس وقت اس آدمی کے دل کی خواہش جو اپنی بچی کو ایک واقف زندگی سے بیاہنا چاہتا ہو پوری ہو جاتی

Page 586

خطبات ناصر جلد دہم ۵۶۲ خطبہ نکاح ۴ ر د سمبر.* 192 • تھی ، اس میں کوئی تکلیف نہیں تھی.لیکن اب وہ زمانہ بدل گیا.اس وقت جماعت احمدیہ میں ایسے ہزاروں خاندان ہیں جو واقف ہی ہیں.خواہ انہوں نے ظاہری طور پر وقف کیا ہوا ہے یا نہیں.میں ایسے سینکڑوں دوستوں کو جانتا ہوں جو اپنے کاموں کے علاوہ پانچ پانچ، چھ چھ سات سات اور آٹھ آٹھ گھنٹے روزانہ جماعتی کاموں پر خرچ کرتے ہیں.اب جس آدمی نے اپنی زندگی با قاعدہ وقف کی ہوتی ہے.ہو سکتا ہے بعض دفعہ وہ بے تو جہی کے نتیجہ میں روزانہ جتنا کام کرتا ہے میہ اس سے زیادہ کام کر رہے ہوں لیکن جو نوجوان نسل ہے، ان کے متعلق حسن ظن بھی ہوتا ہے اور دل میں خوف بھی پیدا ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے خاندان میں سے اکثر کے دل میں ( سب کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا ) یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ان کی بچیاں اگر خاندان سے باہر جاتی ہیں تو واقف زندگی کے ساتھ بیاہی جائیں انہیں دنیوی دولت اور مال کی طمع نہیں ہوتی.بلکہ دل کے اخلاص کی دولت کی خواہش ہوتی ہے لیکن مشکل یہ ہوتی ہے کہ پوری طرح تسلی نہیں ہو پاتی.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ پریشانی اٹھانی پڑتی ہے.اس لئے اس موقع پر میں دوستوں سے یہ کہوں گا کہ بہترین تحفہ جو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بچی کے نکاح کے موقع پر اس کو پیش کر سکتے ہیں وہ یہ دعا ہے کہ خدا کرے وہ خود بھی اور اس کا ہونے والا خاوند بھی حقیقی وقف کی روح کے ساتھ زندگی گزارنے والا ہو.جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا.یہ شادی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پڑ نواسی اور محترم ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب کے بچے کے درمیان سات ہزار روپے مہر پر قرار پائی ہے.ایجاب و قبول کرانے کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوست دعا کر لیں وہی دعا جو میں نے ابھی بتائی ہے.پھر حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۳ / جنوری ۱۹۷۲ ء صفحه ۳)

Page 587

خطبات ناصر جلد دہم ۵۶۳ خطبہ نکاح ۶ ستمبر ۱۹۷۱ء اللہ نے ہر چیز میں توازن کا اصول جاری فرمایا ہے خطبہ نکاح فرموده ۶ ستمبر ۱۹۷۱ء بمقام اسلام آباد حضور انور نے ایک نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح محترمه را شدہ صاحبہ بنت مکرم و محترم چوہدری نور محمد خاں صاحب سٹیشن ماسٹر ساہیوال کا محترم چوہدری محمد عبدالرشید صاحب لندن ابن مکرم ومحترم چوہدری محمد حسین صاحب مرحوم و مغفور کے ساتھ پندرہ ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا.دولہا صدر پاکستان کے سائنسی مشیر ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں.اس موقع پر حضور انور نے اپنے مختصر خطبہ نکاح میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں توازن کا اصول جاری فرمایا ہے.میاں بیوی کے تعلقات بھی اسی صورت میں خوشگوار رہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگی متوازن ہو.فرمایا ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے رشتہ کو جانبین کے لئے ہر جہت سے خیر و برکت اور ثمرات حسنہ کا موجب بنائے.حضور انور نے از راہ شفقت دلہن کے لئے تفسیر صغیر کی ایک جلد اپنے دستخطوں اور دعائیہ نوٹ کے ساتھ تحفہ مرحمت فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ ستمبر ۱۹۷۱ ء صفحه ۳)

Page 588

Page 589

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۹ رستمبر ۱۹۷۱ء سب سے اچھا تحفہ جو انسان کسی کو دے سکتا ہے، دعا ہے خطبہ نکاح فرموده ۹ رستمبر ۱۹۷۱ء بمقام کراچی حضور انور نے از راہ شفقت اپنی قیام گاہ پر شام کے وقت محترم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کی صاحبزادی محترمہ شاہدہ مختار صاحبہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح محترم و مکرم چوہدری عبدالحق صاحب ورک امیر جماعت احمد یہ اسلام آباد کے صاحبزادے محترم چوہدری محمود احمد صاحب ورک کے ساتھ پانچ ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ایسے خوشی کے مواقع پر ایک دوسرے کو تحفہ دینے کا رواج بھی ہے اور ایک پسندیدہ اور با برکت سنت بھی ہے اور سب سے اچھا تحفہ جو ایک انسان دوسرے کو دے سکتا ہے وہ دعا کا تحفہ ہے.پس ہم سب دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اس رشتے کو بہت با برکت کرے اور جس غرض کے لئے اور جس مقصد کی خاطر یعنی نوع انسانی کو قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آگے اولاد کا سلسلہ جاری کیا ہے.اس رشتے سے بھی ایسی ہی نسل پیدا ہو کہ جو اللہ تعالیٰ کے مقصد کو پورا کرنے والی ہو.اس سے جنگ کرنے والی نہ ہو.

Page 590

خطبات ناصر جلد دہم لئے لمبی دعا کرائی.۵۶۶ خطبہ نکاح ۹ ستمبر ۱۹۷۱ء ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت اس رشتے کے بابرکت ہونے کے (روز نامه الفضل ربوه ۲۵ رستمبر ۱۹۷۱ء صفحه ۲)

Page 591

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۸ ستمبر ۱۹۷۱ء اللہ تعالیٰ اگلی نسل کو صحت اور زندگی اور سعادت اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے بہت لڑکے دے خطبہ نکاح فرموده ۲۸ ستمبر ۱۹۷۱ء بمقام ربوه مورخہ ۲۸ ستمبر ساڑھے چھ بجے شام محترم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ایم اے سلمہ اللہ کی انگلستان روانگی کے سلسلہ میں اجتماعی دعا کے مبارک موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے از راہ شفقت محترم مولانا عبد المالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد کے صاحبزادے محترم انور محمود خان صاحب کے نکاح کا بھی اعلان فرمایا.یہ نکاح محترمہ امتہ الحکیم صاحبہ بنت محترم شیخ محمد یعقوب خان صاحب کراچی کے ساتھ پانچ ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.کرے.اس وقت میں ایک نکاح کا اعلان بھی کروں گا.اللہ تعالیٰ اس رشتے کو بہت بابرکت محترم عبد المالک خان صاحب واقف زندگی ہیں اور ان کے والد صاحب محترم بھی عملاً ساری عمر ہی اور خصوصاً اپنی عمر کے آخری حصے میں ایک اچھے مخلص واقف زندگی کی حیثیت سے سلسلہ احمدیہ کی خدمت کرتے رہے ہیں ان کا پوتا جو ہے یعنی عبدالمالک خاں صاحب کا بچہ ، یہ بھی بڑا سعید ہے.ان کا یہ ایک ہی بچہ سے ، ویسے تو دنیا میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بہر حال

Page 592

خطبات ناصر جلد دہم ۵۶۸ خطبہ نکاح ۲۸ / ستمبر ۱۹۷۱ء جذبات بھی ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ لگائے ہوئے ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آگے اس اگلی نسل کو صحت اور زندگی اور سعادت اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے بہت لڑکے دے اور دونوں گھروں کے لئے یہ رشتہ بہت بابرکت ہو.اللهم امين ایجاب وقبول کے بعد حضور نے حاضرین سمیت اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے لمبی دعا کرائی.谢谢谢 (روز نامه الفضل ربوه ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۴)

Page 593

خطبات ناصر جلد دہم ۵۶۹ خطبہ نکاح ۱۴ /اکتوبر ۱۹۷۱ء سب خیر و برکت اللہ تعالیٰ سے زندہ اور حقیقی تعلق رکھنے میں ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۴ /اکتوبر ۱۹۷۱ء بمقام ربوہ حضور انور نے شام ساڑھے چھ بجے احاطہ دفتر پرائیوٹ سیکرٹری میں ایک نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں جس نکاح کے اعلان کے لئے یہاں آیا ہوں وہ عزیزہ بچی بشری لطیف صاحبہ کا ہے جو مکرم محترم ڈاکٹر عبداللطیف صاحب ساکن لاہور کی صاحبزادی ہیں ان کا نکاح پچیس ہزار روپے حق مہر پر عزیزم سمیع اللہ صاحب ابن مکرم محترم شیخ محم عبد اللہ صاحب جناح کالونی لائلپور سے قرار پایا ہے.اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر پختہ اور حقیقی ایمان لانا جن کا ذکر قرآن کریم میں بیان ہوا ہے ہمارے نفس اور ہمارے معاشرہ کی اصلاح کے لئے ضروری ہے.یہ آیات قرآنیہ جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں ان میں ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو علام الغیوب مانا جائے یعنی کوئی چیز اس کی نظر اور ا سکے علم کے احاطہ سے باہر نہیں تو انسان اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی طرف زیادہ توجہ کرتا ہے.اصل میں غلطی اور غفلت یا جو بد قسمت ہیں وہ گناہ پر دلیر اسی لئے ہوتے ہیں کہ ان کو یہ خیال ہوتا ہے کہ جس طرح انسان کی نگاہ سے اس کے اعمال پوشیدہ بھی رکھے جاسکتے ہیں اسی طرح

Page 594

خطبات ناصر جلد دہم ۵۷۰ خطبہ نکاح ۱۴ را کتوبر ۱۹۷۱ء وہ اپنی نیتیں اللہ تعالیٰ کی نگاہ یعنی اس کے علم سے پوشیدہ رکھ سکتا ہے.اگر یہ ذہنی کیفیت نہ ہو بلکہ انسان اس بات پر پختہ ایمان رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کو باریک سے بار یک ذرے سے لے کر ستاروں کے بڑے سے بڑے خاندان Glaxies ( فلیکسیز یعنی کہکشاں ) تک کے سارے حالات کا علم ہے اور کوئی چیز اس کی نظر سے نہ پوشیدہ رہی اور نہ رہ سکتی ہے تو پھر انسان ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو مختلف شکلوں میں انسان پر اللہ تعالیٰ کی اس کامل اور مکمل شریعت قرآن کریم نے ڈالی ہیں.پس ہمیں ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے.کیونکہ سب خیر اور برکت اسی میں ہے کہ ہم اپنا زندہ اور حقیقی تعلق اللہ تعالیٰ سے رکھیں اور اپنے ایمانوں کو پختہ کریں.پھر یہ دنیا اور دنیا کی خوشیاں اگر چہ مومن کا مقصود نہیں ہوتیں لیکن مومن کو مل ضرور جاتی ہیں.پس اس رشتے کی جو ذمہ داریاں ہیں اللہ تعالیٰ ان کہ نباہنے کی ہر دو افراد یعنی میاں بیوی کو توفیق بخشے اور کیونکہ یہ رشتے جو ہیں وہ خاندانوں پر بھی ذمہ داریاں ڈالتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ہر دو خاندانوں کو بھی یہ ذمہ داریاں نباہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی نیتوں اور ان کے اعمال کو زیادہ سے زیادہ برکات اور رحمتوں کے حصول کا موجب بنائے اور ہر دو خاندانوں کے لئے یہ رشتہ ہر طرح سے بابرکت ہو.ہمارے ان دونوں عزیزوں یعنی لڑکا اور لڑکی کے خاندان پرانے احمدی خاندان ہیں.پس جس طرح پہلوں نے اپنی توفیق اور اپنی قوت اور استعداد کے مطابق خدا کی راہ میں ایثار اور خدمت کے جذبے اور جد و جہد اور کوشش کو پیش کیا ، خدا کرے کہ ان (کے اس رشتہ ) سے چلنے والی نسل بھی اللہ تعالیٰ کو پہچانے والی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار اور آپ کی عزت کو قائم کرنے والی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا وارث بننے والی ہو.ایجاب وقبول کے بعد حضور نے فرما یا آؤ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتے کو بہت بابرکت کرے.اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۴)

Page 595

خطبات ناصر جلد دہم ۵۷۱ خطبہ نکاح ۲۸ نومبر ۱۹۷۱ء اصلاح اعمال کے لئے قول سدید کا ہونا ضروری ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۸ نومبر ۱۹۷۱ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز ظہر چھ نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ان آیات میں جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں ، ایک بات یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ اصلاح اعمال کے لئے قول سدید کا ہونا ضروری ہے.اکثر تکالیف اور پریشانیاں بد اعمالیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اور جہاں تک آپس کے تعلقات کا تعلق ہے بداعمالیوں کی بڑی وجہ قول سدید کا نہ ہونا ہے اگر صاف اور سیدھی مومنانہ بات کی جائے تو کسی غلط فہمی کا امکان نہیں رہتا اور کسی بدمزگی اور پریشانی کا خطرہ نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو اعمال صالحہ بجالانے کی توفیق عطا کرے اور ہم سب کے اعمال کی اصلاح کے سامان پیدا کرے اور ہمیں قول سدید کی ایسی عادت ہو جائے کہ یہ چیز ہمارے لئے ایک طرۂ امتیاز بن جائے.اس وقت میں چھ نکاحوں کا اعلان کروں گا.ایک نکاح تو رشتہ کے لحاظ سے اور پیار کے تعلق کے نتیجہ میں میری اپنی بچی ہی کا ہے.یہ بچی میاں عبدالرحیم صاحب اور میری چھوٹی ہمشیرہ

Page 596

خطبات ناصر جلد دہم ۵۷۲ خطبہ نکاح ۲۸ نومبر ۱۹۷۱ء امۃ الرشید بیگم صاحبہ کی بچی امتہ النور ہے.عزیزہ بچی امتہ النور کا نکاح عزیزم مکرم ڈاکٹر عبدالمالک شمیم احمد صاحب سے جو مکرم مولوی عبدالباقی صاحب کے صاحبزادے ہیں دس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس رشتے کو بھی اور بقیہ پانچ رشتوں کو بھی جن کا میں اعلان کروں گا.اپنی رحمت سے بہت خوشیوں کا وارث بنائے.ہر دو افراد کے لئے بھی اور احمدیت کے لئے بھی.اصل نیست تو اسلام کی بھلائی ہی کی ہونی چاہیے.احمدیت نے ایک لمبے عرصے کی جدو جہد کے بعد غلبہ اسلام کی راہ میں آخری اور انتہائی کامیابی حاصل کرنی ہے.اس لئے ایک کے بعد دوسری نسل کا صحیح تربیت پانا اور ان کا صحیح ذہنیت کا حامل ہونا ضروری ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال نہ ہو تو انسان کی ساری کوششیں ناکارہ اور بے نتیجہ ہیں.پس ہم دعا کرتے ہیں کہ ان رشتوں سے بھی اور جو رشتے جماعت کے اندر ہو چکے ہیں یا آئندہ ہونے والے ہیں.ان رشتوں کے نتیجہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی مضبوطی اور اسلام کے استحکام کے سامان پیدا ہوں.اس کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کا تفصیل ذیل اعلان فرمایا.۱.محترمہ امتہ النور بیگم صاحبہ بنت مکرم میاں عبدالرحیم احمد صاحب کا نکاح مکرم ڈاکٹر عبدالمالک شمیم احمد صاحب کے ساتھ بعوض دس ہزار روپے حق مہر.محترمه منصورہ نازلی صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر احسان علی صاحب کا نکاح مکرم سید مبارک احمد شاہ صاحب ابن مکرم سید طفیل محمد صاحب مرحوم چنیوٹ کے ساتھ بعوض دس ہزار روپے حق مہر.-۳- محترمه فریده بشیر صاحبہ بنت مکرم بشیر احمد صاحب مرحوم ربوہ کا نکاح مکرم محمد اشرف الحق صاحب شاہد کے ساتھ دو ہزار روپے حق مہر پر.محترمہ امۃ النور صاحبہ بنت مکرم مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب ربوہ کا نکاح مکرم لئیق احمد صاحب طاہر سابق مبلغ انگلستان کے ساتھ تین ہزار روپے حق مہر پر.۵- محترمہ سلیمہ شاہنواز بنت مکرم ڈاکٹر شاہنواز خان صاحب ربوہ حال مقیم انگلستان کا نکاح مکرم ڈاکٹر

Page 597

خطبات ناصر جلد دہم ۵۷۳ خطبہ نکاح ۲۸ نومبر ۱۹۷۱ء ناصر احمد خاں صاحب ابن مکرم ڈاکٹر عنایت حسین خاں صاحب مرحوم ربوہ کے ساتھ دس ہزار روپے حق مہر پر.۲ - محترمہ نعیمہ شاہنواز بنت ڈاکٹر شاہنواز خان صاحب ربوہ حال مقیم انگلستان کا نکاح مکرم بشیر احمد صاحب خالد ابن مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب خالد ربوہ کے ساتھ دس ہزار روپے حق مہر پر.ایجاب و قبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.谢谢谢 روزنامه الفضل ربوہ ۱۷ دسمبر ۱۹۷۱ ء صفحہ ۳)

Page 598

Page 599

خطبات ناصر جلد دہم ۵۷۵ خطبہ نکاح ۶ /جنوری ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ اس رشتے کو ہر جہت اور ہر لحاظ سے با برکت کرے خطبہ نکاح فرموده ۶ رجنوری ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر از راہ شفقت ایک نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس رشتے کو جس کا میں ابھی اعلان کروں گا.ہر جہت اور ہر لحاظ سے بابرکت کرے.ہر دو خاندانوں کے لئے بھی ، احمدیت اور بنی نوع انسان کے لئے بھی اور - میاں بیوی کے لئے بھی.جس نکاح کا میں اس وقت اعلان کرنا چاہتا ہوں.وہ عزیزہ نصرت جہاں صاحبہ بنت مکرم و محترم محمد اسرائیل احمد صاحب ساکن اسلام آباد کا ہے جو بارہ ہزار روپے مہر پر عزیزم محترم خواجہ نسیم احمد صاحب ابن خواجہ محمد الدین صاحب مرحوم ساکن کراچی سے قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد اس رشتہ کے بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ جنوری ۱۹۷۲ ء صفحه ۴)

Page 600

Page 601

خطبات ناصر جلد دہم ۵۷۷ خطبہ نکاح ۱/۲ پریل ۱۹۷۲ء مومن کو ہمیشہ اپنے مستقبل کو سنوار نے کی کوشش کرنی چاہیے خطبہ نکاح فرموده ۱/۲ پریل ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر از راہ شفقت بارہ نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں جو میں نے آخر میں پڑھی ہے فرماتا ہے.وَلْتَنْظُرُ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر : ۱۹) یعنی ہر آدمی اس بات پر نظر رکھے کہ اس نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا ہے.زمانہ ماضی کا بھی ہے.حال کا بھی اور مستقبل کا بھی ہے.جہاں تک انسانی زندگی کا سوال ہے حال سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے.ماضی کا ہر لمحہ حال کے سائفن میں سے گزر کر اس کا ٹھپہ قبول کرتا ہے.مثلاً ایک چھوٹا بچہ ہے اس کی عمر کا ہر روز اس کا حال ہے اور اس کی نشوونما پر حال کی ایک مہر لگ رہی ہے اور ایک نشان لگ رہا ہے.جب وہ ایک سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو گویا پہلا سال پیچھے چلا گیا اور دوسرا سال شروع ہو گیا پھر اسی طرح تیسرا سال یہاں تک وہ جوان ہو جاتا ہے.اس پر جوانی کا سال آجاتا ہے اور پھر شادی کا سال آجاتا ہے.جس طرح کہ آج کی یہ تقریب بہتوں کے لئے شادی کے سال کے مترادف ہے.پس حال کے زمانہ کا ٹھپہ ماضی پر لگا ہے اور حال کو مستقبل کی بھی فکر کرنی چاہیے.حال کا وہ

Page 602

خطبات ناصر جلد دہم ۵۷۸ خطبہ نکاح ۲ را پریل ۱۹۷۲ء زمانہ بڑا ہی بد قسمت ہے جس نے مستقبل کی فکر نہیں کی اور حال کا وہ زمانہ بڑا ہی خوش قسمت ہے جس نے خوبصورت بیل بوٹے ڈال کر اپنے زمانہ کو ماضی کی طرف لڑھکا دیا اور حال کے زمانہ میں مستقبل کی خوبصورتیوں کا، مستقبل کے حسن کا مستقبل کے احسان کا ، اور مستقبل کی کوششوں کا، مستقبل کی جدو جہد کا مستقبل میں پائے جانے والے اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا اور مستقبل میں حاصل کی جانے والی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کا خیال رکھا.اسی لئے قرآن کریم نے ، فرمایا.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ.گو اس آیت کو اس موقع پر بھی پڑھا جاتا ہے مگر یہ ہے.ایک مستقل اور بنیادی حکم اس لئے محض حال مست ہو کر رہ جانا انسانی سرشت اور فطرت کے بھی خلاف ہے اور انسان کے وقار اور اس کی فراست کے بھی خلاف ہے.در اصل مستقبل کا خیال حال کے زمانے میں رکھنا چاہیے تا کہ جس وقت مستقبل مرورزمانہ کے ساتھ حال میں داخل ہو تو وہ بڑا خوشحال اور پر مسرت زندگی والا ہو.اس حال کے لئے ہم نے تیاری کرنی ہے لیکن یہ حال وہ حال ہو گا جو آج مستقبل ہے اور سال کے بعد وہ حال کے زمانہ میں تبدیل ہو جائے گا یا دو سال کے بعد حال بن جائے گا یا دس سال کے بعد حال بن جائے گا.تاہم جو مستقبل انفرادی حال نہیں بنتا اس کا مجھ سے یا آپ سے کوئی تعلق نہیں.یعنی اگر دس سال سے پہلے کوئی آدمی فوت ہو جاتا ہے تو اس دنیوی زندگی میں جو سال اس کے بعد آنا ہے اس کا مرنے والے کے حال کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اس کا حال تو وہ نہیں بنے گا.لیکن ایک ایسا مستقبل ہے جو بہر حال میرا تیرا حال بننا ہے ( مگر دنیا کا ہر مستقبل میرا تیرا حال نہیں بنتا.یعنی بیس سال کے بعد ، تیس سال کے بعد یا پچاس سال کے بعد یا سوسال کے بعد کا جو زمانہ ہے وہ حال کی طرف حرکت تو کر رہا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ میرے حال کی طرف حرکت کر رہا ہو یہ کوئی اور آدمی ہو گا جس کے حال کی طرف وہ حرکت کر رہا ہوگا ) لیکن ایک مستقبل ایسا بھی ہے کہ جو بہر حال میرا بھی حال بننا ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اس حال میں سے انسان نے گزرنا ہے اور پھر گزرتے چلے جانا ہے.ایک لمحہ کے بعد دوسر المحہ آئے گا اور جو بعد کالمحہ ہے وہ

Page 603

خطبات ناصر جلد دہم ۵۷۹ خطبہ نکاح ۲ را پریل ۱۹۷۲ء گویا حال کا لمحہ بن گیا اور پھر جو اس کے بعد کا لمحہ ہے وہ حال کا لحہ بن گیا اور یہ وہ مستقبل ہے جو اُخروی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.انسان نے مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے اور پھر اس کے لئے ابدالآباد تک کا مستقبل ہے گویا نہ ختم ہونے) والا زمانہ ہے.بہر حال جو بھی وہ زمانہ ہے.ہم اس کی کنہ میں نہیں جاسکتے.ہم یہی کہتے ہیں کہ وہ زندگی انسانی تخیل میں نہیں آسکتی.لیکن اگر وہ زندگی زندگی ہے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس شکل میں بھی وہ زندگی ہے.اس شکل میں ہی حال اور مستقبل پر محیط ہے اور اخروی زندگی میں بھی جو مستقبل ہے وہ حال بن جائے گا.اس واسطے بعض لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ اس وقت عمل نہیں کرنا پڑے گا.اخروی زندگی میں اعمال نہیں بجالانے پڑیں گے یہ خیال غلط ہے اخروی زندگی میں اعمال تو بجالانے پڑیں گے البتہ وہاں ابتلا اور امتحان نہیں ہوں گے.اگر اخروی زندگی میں اعمال نہیں تھے تو ہمیں یہ دعا کیوں سکھائی گئی.رَبَّنَا اثْمِمُ لَنَا نُورَنَا (التحريم : ۹) اے ہمارے رب! ہمارے نور کو مکمل سے مکمل تر بناتا چلا جا.یہ بھی ایک عمل ہے یعنی دعا بھی ایک عمل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دعا تدبیر ہے.پس دعا بھی اور اللہ تعالیٰ کی حمد بھی ایک عمل ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے نظر آنے پر اس کی حمد کے ترانے گانا بھی ایک عمل ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے جب نظر آتے ہیں تو ان کا انسانی وجود پر ایک رد عمل ہوتا ہے یہ بھی ایک لحاظ سے عمل ہی ہے میں نے جان کر جسم نہیں کہا وجود کا لفظ بولا ہے کیونکہ جسم سے غلط فہمی کا امکان ہے.غرض مرد کے وجود میں جب الہی صفات کے جلوے رونما ہوں گے تو اس میں کوئی نئی تبدیلی ضرور پیدا ہوگی.چنانچہ اخروی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے پیار کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور بھی زیادہ بڑھ جائے گی.انسان اللہ تعالیٰ کی اور بھی زیادہ حمد کرے گا اور یہ تبدیلی خود ایک عمل ہے پھر یہ تبدیلی ایک اور عمل کی طرف لے جانے والی ہے یہ حالت ایک اور خوشکن حسین اور خدا تعالیٰ کے احسانوں سے بھرے ہوئے مستقبل کی طرف لے جا کر ان کو حال میں تبدیل کرنے والی ہے.پس ہم مستقبل کو دونوں طرح سے دیکھتے ہیں.ایک یہ کہ ہمارا حال مستقبل کو اپنی رنگ

Page 604

خطبات ناصر جلد دہم ۵۸۰ خطبہ نکاح ۲ را پریل ۱۹۷۲ء (Ring) یعنی چھلا کے اندر لے کر خود میں سمیٹے آگے ہی آگے بڑھا چلا جا رہا ہے اور دوسرے یہ کہ ہم اپنی جگہ پر کھڑے ہیں اور مستقبل ہماری طرف بڑھ رہا ہے.غرض وہ مستقبل جو بہر حال میرا بھی اور آپ میں سے ہر ایک کا حال بننا ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ.اور پھر دوسرے درجے پر تنزل کے ساتھ اس دنیا میں اس زندگی کا حال ہے.بہر حال ہمیں اپنے مستقبل کی فکر میں مستقبل کو سنوارنے کے لئے، مستقبل کو خوشکن اور خوشحال بنانے کے لئے ، مستقبل کو زیادہ منور بنانے کے لئے مستقبل کو زیادہ مسرتوں اور لذتوں کا موجب بنانے کے لئے اور مستقبل کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو زیادہ مقدار میں زیادہ کثرت کے ساتھ اور زیادہ حسن کے ساتھ حاصل کرنے کے لئے خود کو اہل بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے.ہماری زندگی کا ایک شعبہ ازدواجی تعلقات کا ہے.ویسے ہماری زندگی کے تعلقات تو بے شمار ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہر انسان کا دوسرے انسان پر حق ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک حقیقت ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ کروڑوں اربوں انسانوں کے آپس میں تعلقات بنادیئے گئے ہیں.ان تعلقات میں سے ایک ازدواجی تعلق بھی ہے.اس کے متعلق بھی اسلام نے بڑی واضح ہدایات دی ہیں.کیونکہ یہ ایک بڑا ہی قریب کا تعلق ہے اور بہت گہرا تعلق ہے.اس رشتہ کا تعلق صرف فرد کے ساتھ یعنی میاں کا بیوی کے ساتھ یا بیوی کا میاں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ خاندان کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے.پھر ایک خاندان کا دوسرے خاندان کے ساتھ اس کا تعلق ہے.پھر ایک علاقہ کا دوسرے علاقے کے ساتھ اس کا تعلق ہے.پھر مذہبی خیالات اور اعتقادات کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے.اسی لئے جماعت احمدیہ میں جو شادیاں قرار پائی ہیں ہمیں ان کے متعلق بڑا فکر رہتا ہے اور ہماری ہمیشہ یہ دعا ہوتی ہے کہ خدا کرے ہمارے احمدی نوجوان ( مرد بھی اور عورتیں بھی ) وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ کی اس الہی ہدایت کی روشنی میں نہ صرف خودا اپنے مستقبل کو سنوار میں بلکہ اپنے بچوں کے مستقبل کو بھی سنوارنے کے لئے اپنے حال کو.

Page 605

خطبات ناصر جلد دہم ۵۸۱ خطبہ نکاح ۱/۲ پریل ۱۹۷۲ء قربانیوں سے معمور کر دیں.پس اللہ تعالیٰ نے آیہ کریمہ کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں فرمایا.مومنو! تم اپنے مستقبل کا خیال رکھو.اسی میں تمہاری بھلائی اور بہتری ہے اور یہ حقیقت ہے جیسا کہ میں نے مختصراً بعض تفاصیل بیان کر کے آپ کو بتا دیا ہے.اب آج جن نکاحوں کا اعلان ہونے والا ہے.دوسال پہلے تو یہ مستقبل تھا مگر آج عملاً نکاح ہو جانے پر وہ حال بن گیا ہے کیونکہ ان کا آپس میں ایک تعلق پیدا ہو گیا ہے لیکن ہر وہ شخص جو آج اپنی بیوی کا خاوند بنا ہے اس نے دوسال پہلے بہر حال خاوند بننا تھا چاہے اس کو اپنی ہونے والی بیوی کا علم ہوتا یا نہ ہوتا.غرض آج کے ان رشتوں کے طے پا جانے پر دو سال پہلے کا جو مستقبل تھا وہ جب آج کا حال بنا تو خدا تعالیٰ کی یہ شان دیکھو کہ مجلس مشاورت کے کام کی جو کوفت تھی مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کوفت کو دور کرنے کے لئے اور اس کوفت سے توجہ ہٹانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بے انتہا فضلوں سے اتنی بڑی خوشیاں ہماری جھولیوں میں ڈال دی ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِكَ - بعد ازاں حضور انور نے نکاحوں کا اعلان فرمایا.جن کی تفصیل یہ ہے.۱.محترمہ امۃ الرشید صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبدالرحیم خان صاحب ربوہ کا نکاح محترم عبدالله صاحب جاوید ابن مکرم چوہدری عبد الجلیل خاں صاحب کے ساتھ تین ہزار روپے حق مہر پر.-۲- محترمہ صبیحہ ناصرہ صاحبہ بنت مکرم منظور احمد خاں صاحب ربوہ کا نکاح محترم عبدالغفور صاحب نسیم ابن مکرم عبدالرشید صاحب انور بدوملہی کے ساتھ چار ہزار روپے حق مہر پر.محترمہ آمنہ پروین صاحبہ بنت چوہدری عبدالرحمان صاحب خا کی ربوہ کا نکاح محترم نسیم احمد صاحب اقبال ابن مکرم چوہدری فضل الہی صاحب ربوہ کے ساتھ تین ہزار روپے حق مہر پر.-۴- محترمہ امتہ المتین صاحبہ بنت مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ کا نکاح مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب باجوہ ابن مکرم چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ضلع ساہیوال کے ساتھ پانچ ہزار روپے حق مہر.۵- محتر مہ نیز ظفر صاحبہ بنت مکرم کرنل محمد ظفر اللہ خاں صاحب لا ہور چھاؤنی کا نکاح مکرم کلیم احمد خان

Page 606

خطبات ناصر جلد دہم ۵۸۲ خطبہ نکاح ۱/۲ پریل ۱۹۷۲ء صاحب ابن مکرم رشید احمد خان صاحب ملتان سے آٹھ ہزار روپے حق مہر پر.۶.محترمہ زاہده سعد صاحبہ بنت مکرم چوہدری سعد الدین صاحب مرحوم کھاریاں کا نکاح چوہدری منیر مسعود صاحب ابن مکرم چوہدری نورالدین صاحب مرحوم ساہیوال کے ساتھ آٹھ ہزار روپے حق مہر پر.۷.محترمہ قدسیہ نسرین صاحبہ بنت مکرم ملک نصیر احمد صاحب ساہیوال کا نکاح مکرم ملک لطیف احمد صاحب ابن مکرم ملک صدیق احمد صاحب مرحوم دیپالپور ضلع ساہیوال سے پانچ ہزار روپے حق مہر پر.محترمہ نسیم صاحبہ بنت مکرم عبد الرحیم خان صاحب مرحوم گوجرانوالہ کا نکاح محترم مجیب اللہ خان صاحب ابن مکرم حبیب اللہ خان صاحب ربوہ سے بارہ ہزار روپے حق مہر پر.محترمه مسعوده عزیز صاحبہ بنت چوہدری عزیز احمد صاحب مرحوم ربوہ کا نکاح محترم رفیع اللہ صاحب ابن مکرم چوہدری برکت اللہ صاحب ربوہ سے تین ہزار روپے حق مہر پر.۱۰ محترمہ ساجده با جوهہ صابر بنت مکرم رشید احمد باجوہ دا تا زید کا ، کا نکاح محترم داؤ د احمد صاحب مہار ابن مکرم چوہدری غلام اللہ صاحب پوہلہ مہاراں ضلع سیالکوٹ سے دس ہزار روپے حق مہر پر.۱۱.محترمہ بشری بیگم صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد شریف احمد صاحب ٹیکسلا کا نکاح محترم چوہدری عبد الحئی صاحب ابن مکرم چوہدری عبد الغنی چک نمبر ۲۹۷ ج.ب لائلپور سے پانچ ہزار روپے حق مہر پر.۱۲- محترمه طلعت نسرین صاحبہ بنت چوہدری فضل الدین صاحب ربوہ کا نکاح محترم عبدالہادی صاحب ابن مکرم چوہدری عبدالباری صاحب رحیم یارخاں سے پانچ ہزار روپے حق مہر پر.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت ان رشتوں کے بہت بابرکت اور ہر لحاظ سے خوشیوں اور خوشحالیوں کا باعث بننے کے لئے لمبی دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱/۲۷ پریل ۱۹۷۲ء صفحه ۳، ۴)

Page 607

خطبات ناصر جلد دہم ۵۸۳ خطبہ نکاح ۱۵ را پریل ۱۹۷۲ء قول سدید بہت سی بھلائیوں کا منبع اور سر چشمہ بنتا ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۵ ۱٫ پریل ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام میں عمل صالح اور قول سدید سے بڑھ کر عمل طبیب کی ہدایت کی گئی ہے.قول سدید بہت سی بھلائیوں کا منبع اور سر چشمہ بنتا ہے.بعض لوگ عادتا کج بات کرتے ہیں مگر اسلام ہمیں سچی بات کرنے کا حکم بھی نہیں دیتا بلکہ کہتا ہے کہ صرف سچی بات کہہ دینے پر اکتفا نہیں کرنا بلکہ ایسی سچی بات کرنی ہے جو صاف اور سیدھی ہو یعنی جس کے اندر کوئی کبھی یا رخنہ نہ ہو یا جس کے نتیجہ میں کوئی کبھی یارخنہ پیدا نہ ہوتا ہو یہ گویا قول سدید کا دوسرا پہلو ہے جس کی رو سے ایک بے تکلف ،صاف گو اور کھلی بات کرنے والا شخص اپنے ماحول میں پاکیزگی اور خوشحالی کے سامان پیدا کرتا ہے.اجتماعی زندگی کی ابتدا چونکہ خاندان سے ہوتی ہے اور خاندان کی ابتدا میاں بیوی کے ازدواجی تعلق سے ہوتی ہے اس لئے نکاح کے موقع پر جو آیات تلاوت کی جاتی ہیں.ان میں میاں بیوی کو ایک حکم یہ دیا گیا (ویسے اس کا اطلاق آپس کے دوسرے تعلقات پر بھی ہوتا ہے ) کہ تم سدید قول سے اپنی ازدواجی زندگی کو شروع کرو.اگر تم اس ہدایت پر قائم رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بھی

Page 608

خطبات ناصر جلد دہم ۵۸۴ خطبہ نکاح ۱۵ را پریل ۱۹۷۲ء اور تمہاری نسل کے لئے بھی خوشحالی کے سامان پیدا کرے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھی سادی ، بے تکلف اور بغیر کسی کبھی کے بات کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرے اور ہر قسم کی خوشحالیاں نصیب فرمائے.اس وقت میں دو نکاحوں کا اعلان کروں گا.ایک نکاح تو عزیزہ تسنیم حمید صاحبہ کا ہے جو مکرم و محترم قاضی عبدالحمید صاحب ایڈووکیٹ لاہور کی صاحبزادی ہیں.ان کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم مجیب الرحمن صاحب درد جو مکرم و محترم مولا نا عبد الرحیم صاحب در دمرحوم کے صاحبزادہ ہیں کے ساتھ قرار پایا ہے ہر دو کے خاندان سلسلہ احمدیہ کے پرانے خادم خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے اور ہماری دعاؤں کے حقدار ہیں.خدا کرے کہ پہلوں نے جوفضل حاصل کئے اور جس رنگ میں حاصل کئے ، یہ بھی اور ان سے چلنے والی نسلیں بھی اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کو پانے والی ہوں.دوسرا نکاح عزیزہ رضیہ بشریٰ صاحبہ کا ہے جو مکرم و محترم میاں محمد اسماعیل صاحب مرحوم ربوہ کی صاحبزادی ہیں اور ان کا نکاح ایک ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم غلام مصطفیٰ خاں صاحب کے ساتھ قرار پایا ہے.مکرم غلام مصطفیٰ خاں صاحب مکرم و محترم محمد منشی خاں صاحب مرحوم بیر یا نوالہ ضلع سیالکوٹ کے صاحبزادہ ہیں مکرم و محترم محمد منشی خان صاحب مرحوم بڑے لمبے عرصہ تک معلم اصلاح وارشاد ر ہے ہیں.میں ان کو جانتا ہوں.مرحوم بڑے مخلص فدائی ، بے نفس ، زبان میں اثر رکھنے والے اور کامیاب دیہاتی مبلغ تھے.اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بھی ہمارے دوسرے احمدی رشتوں کی طرح بہت با برکت کرے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے اور ثمرات حسنہ کا موجب بننے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.( روزنامه الفضل ربوه ۲۷ ۱ پریل ۱۹۷۲ ء صفحه ۴)

Page 609

خطبات ناصر جلد دہم ۵۸۵ خطبہ نکاح ۳ رمئی ۱۹۷۲ء انسان اپنے آپ کو معصوم عن الخطا خیال نہ کرے خطبہ نکاح فرموده ۳ رمئی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر درج ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.محترمہ طاہرہ تسنیم صاحبہ بنت مکرم ملک عبد القدیر خان صاحب ساکن لائل پور کا نکاح محترم زرتشت منیر صاحب کے ساتھ بعوض مبلغ پانچ ہزار روپیہ حق مہر.-۲- محترمہ امۃ الرشید ملک صاحبہ بنت مکرم ملک سعد اللہ خان صاحب ربوہ کا نکاح مکرم محمد احمد صاحب باجوہ کے ساتھ بعوض مبلغ چھ ہزار روپیہ حق مہر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسان کے اعمال کبھی بھی مجموعی طور پر غلطی ، گناہ ، کوتاہی اور غفلت سے خالی اور مبرا نہیں ہو سکتے.چھوٹی یا بڑی بشری کمزوریاں یا خواہشات بیچ میں آجاتی ہیں.اور ان کے نتیجہ میں چھوٹی یا بڑی غلطی سرزد ہو جاتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی کہ سیات اعمال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لیا کرو اور استغفار کیا کرو اور اپنے گناہوں کی معافی مانگا کرو اور اپنے آپ کو گناہ اور غفلت اور کوتاہی سے پاک نہ سمجھا کرو.وہ زندگی جو قائم رہنے والی ہے اور جسمانی اور روحانی زندگی کا مجموعہ ہے.اس کا صحیح معنی

Page 610

خطبات ناصر جلد دہم ۵۸۶ خطبہ نکاح ۳ رمئی ۱۹۷۲ء میں قیام اور بقا اور اس کا حسن اور اس زندگی میں احسان کا جذ بہ تبھی قائم رہ سکتا ہے جب انسان اپنے آپ کو پاک نہ سمجھے اور نہ خود کو غلطیوں سے معصوم خیال کرے.حقیقی اور خوبصورت اور خدا کو پیاری زندگی کی بنیاد ہی یہ ہے اور یہی بنیا دمیاں بیوی کے باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے میں ہمیں نظر آتی ہے.ہم نے کئی دفعہ دیکھا اور مشاہدہ کیا ہے کہ خاوند ا اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا اور بیوی اپنی بات پر بضد ہوتی ہے وہ کہتا ہے میں نے غلطی نہیں کی اور وہ اصرار کرتی ہے کہ تو نے غلطی ضرور کی ہے.اس طرح بعض دفعہ چھوٹی سی بات پہ بڑا ہی برا نتیجہ نکل آتا ہے.پس جب کہ ہماری زندگی کی بنیاد ہی یہ ہے کہ ہم کلی طور پر معصوم نہیں ہیں تو بجائے اس کے کہ یہ معصوم نہ ہونا تم کسی دوسرے کے ذمہ لگاؤ اس کو خود اپنے سر لے لو تا کہ اس عاجزی کا تمہیں ثواب مل جائے اور تمہارے گھر میں بدمزگی پیدا نہ ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس حقیقت کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور ہمارے جس قسم کے بھی باہمی تعلقات اس نے قائم کئے ہیں ان کو ہمیشہ خوشگوار رکھے.ایجاب وقبول کے بعد ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۳ جون ۱۹۷۲ ، صفحه ۳)

Page 611

خطبات ناصر جلد دہم ۵۸۷ خطبہ نکاح ۱۴ رمئی ۱۹۷۲ ء انسان کا روحانی حسن حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے ہی پیدا ہوتا ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۴ رمئی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب از راہ شفقت ایک نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام نے ایک طرف حقوق اللہ کی ادائیگی کی تلقین کی ہے اور دوسری طرف حقوق العباد کا خیال رکھنے پر بھی بڑا زور دیا ہے کیونکہ انسان کا روحانی حسن جو اس کے جسم پر بھی نمایاں طور پر اثر انداز ہوتا ہے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہی سے پیدا ہوتا ہے.جس عزیزہ بچی کے نکاح کا اس وقت میں اعلان کرنے والا ہوں.وہ میری ماموں زاد ہمشیرہ ہیں.ان کے والد یعنی ہمارے ماموں مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم کو میں بچپن کے زمانہ سے جانتا ہوں.مرحوم کی اتنی حسین شخصیت تھی ، وہ اتنے بے نفس تھے، خدا تعالیٰ کے بندوں کا اتنا خیال رکھنے والے اور ان سے پیار کرنے والے اور خلافت سے انتہائی وابستگی رکھنے والے تھے کہ اب بھی میں سوچتا ہوں تو مجھے ان کی شخصیت پر رشک آتا ہے انہوں نے (عزیزہ کی والدہ کے بطن سے ) اپنے پیچھے دو بچے ایک لڑکا اور ایک لڑکی اپنی یادگار چھوڑے ہیں اس وقت مجھے ان کا خیال آیا اور میرے ذہن نے وہ ساری چیزیں حاضر کیں.میں نے ایسا محسوس کیا کہ ان کی

Page 612

خطبات ناصر جلد دہم ۵۸۸ خطبہ نکاح ۱۴ رمئی ۱۹۷۲ء شخصیت اس وقت بھی مجھ پر اثر انداز ہے.دوست دعا کریں کہ ان کے یہ ہر دو بچے بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں.عزیزہ بچی مریم حنا شاہ صاحبہ کا رشتہ اس وقت میر خاندان میں ہو رہا ہے.جس کا ایک حصہ بریڈ فورڈ (انگلستان) میں آباد ہے.ہماری بچی کے والد وفات پاچکے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے.عزیزہ کے حقیقی بھائی عزیزم سید مشہود احمد صاحب بطور وکیل یہاں موجود ہیں.عزیزم ڈاکٹر نعیم اللہ میر ابن مکرم میر حمید اللہ صاحب مرحوم جن کے ساتھ یہ رشتہ قرار پایا ہے وہ بریڈ فورڈ میں ہیں اور یہاں تشریف نہیں لا سکے.انہوں نے اپنی طرف سے اپنے چچا مکرم امان اللہ میر صاحب کراچی کو اپنا وکیل مقر ر کیا ہے.ان کے مہر کے متعلق مجھ میں اور ہر دو خاندانوں میں کچھ تھوڑا سا جھگڑا رہا ہے.مہر چونکہ بہت زیادہ ہے.اس لئے میں اس کی وضاحت کر دیتا ہوں.میرا خیال تھا کہ بنتیس ہزار روپے مہر کافی ہے لیکن خود ہمارا بچہ بھی راضی ہو گیا کیونکہ وہ ڈاکٹر ہیں اور وہاں ان کی آمد کافی ہے اور پھر بچی بھی زیادہ مہر پر راضی ہو گئی.اس واسطے باہمی رضامندی سے اکاون ہزار روپے مہر قرار پایا.جس کی میں نے اجازت دے دی.ویسے پہلے میرا خیال تھا کہ بتیس ہزار روپے مہر پر یہ اعلان ہو بہر حال جب ہر دو فریق راضی ہیں اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ راضی رکھے تو میں نے پھر مناسب نہیں سمجھا کہ اس میں ترمیم کر دوں.پس ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ میں اس نکاح کا اعلان کرتا ہوں.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بہت بابرکت اور ثمرات حسنہ کا موجب بننے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۳ جون ۱۹۷۲ء صفحه ۳)

Page 613

خطبات ناصر جلد دہم ۵۸۹ خطبہ نکاح ۲۱ رمئی ۱۹۷۲ء ازدواجی رشتوں کے اندر بھی خدا تعالیٰ کی صفت خلق کا مظاہرہ ہوتا ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۱ رمئی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت مکرم چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے پرنسپل ٹی آئی کالج ربوہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دل تو بہت کچھ کہنے کو چاہتا ہے لیکن گرمی اور سر درد کی وجہ سے میں مختصراً یہ کہوں گا کہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے جس کام کی بڑی دیر سے انتظار تھی یعنی مکرم محترم چوہدری محمد علی صاحب کی شادی کی ، وہ وقت آج آ گیا اور ہم بہت خوش ہیں.اس انتظار کی گھڑیوں میں چوہدری صاحب نے بہت دعائیں کیں اور بہت دعائیں لی ہیں.اس شادی میں ان کے ساتھ دعاؤں کے ڈھیر جارہے ہیں.اب ہم کچھ اور دعائیں کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس رشتہ کو بہت مبارک کرے.ہماری بچی کے والد فوت ہو چکے ہیں عمر تو ان کی جوانی کی ہے لیکن بہر حال باپ باپ ہوتا ہے.اس یتیم بچی کی خوشی اور خوشحالی کے بھی سامان پیدا ہوں اور چوہدری محمد علی صاحب جو آج کے دولہا ہیں ، ان کی خوشی اور خوشحالی کے بھی سامان پیدا ہوں اور ہر دوخاندانوں کے لئے بھی نیکی اور تقویٰ اور قرب الہی اور حقیقی مسرتوں کے سامان پیدا ہوں اور اس رشتے سے نیک نسل چلے.

Page 614

خطبات ناصر جلد دہم ۵۹۰ خطبہ نکاح ۲۱ رمئی ۱۹۷۲ء ہر مرد کے کندھوں پر کچھ نئی ذمہ داریاں پڑتی ہیں اور وہ اسے نباہنی پڑتی ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے چوہدری صاحب کونئی اور پرانی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.رشتہ ازدواج ہے بڑا نازک کیونکہ یہ بھی پیوند کی قسم ہے.جس طرح قدرت کی کئی چیزوں میں ہمیں پیوند نظر آتا ہے اسی طرح ہمیں بنی نوع انسان میں میاں بیوی کا رشتہ نظر آتا ہے دو ہونے کے باوجود یکجان ہونا پڑتا ہے اور انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے انفرادیت کو کھونا پڑتا ہے.اپنا اپنا وجود بھی ہے اور ہے بھی نہیں.غرض اس رشتہ ازدواج میں بھی بڑا فلسفہ ہے یہ کیسے اور کیوں؟ میں اس سلسلہ میں اپنے علماء سے کہوں گا کہ وہ اصولاً تو یہ بات کرتے رہتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے بھی اس کا حکم دیا ہے.اس لئے اللہ تعالی کی مختلف صفات لے کر ان پر بھی وہ غور کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس رنگ میں مظہر بنے کی ہدایت فرمائی ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ خالق ہے.اب یہ دنیا سائنس میں اور بعض دوسری چیزوں میں جو آگے نکلی ہے تو یہ دراصل خلق کی صفت کا مظہر بن کر آگے نکلی ہے.چنانچہ قرآنی محاورہ میں اس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ جو کچھ بھی پیدا کیا گیا ہے، وہ انسان کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے.یعنی لوگ اس پیدائش عالم میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں اور ہدایتوں اور اصولوں کے مطابق بہت کچھ پیدا کر سکتے ہیں اور عملاً بہت کچھ پیدا کرتے ہیں.اسلام سے باہر کی دنیا نے محاورے بنا لئے ہیں.چنانچہ اب یہ کہتے ہیں کہ انسان بڑا کری ایٹو (Creative) ہے مگر یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے کہ جس کو انسان کے کان نے پہلی دفعہ سنا ہے انسان کے کان تو چودہ سو سال سے یہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کا مظہر بھی ہے.غرض لوگوں نے اپنا محاورہ بنالیا ہے کہ انسان بڑا کری ایٹو (Creative) ہے مگر یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اصول کے اندر رہتے ہوئے ہے اس سے باہر نہیں کیونکہ انسان قانون قدرت کے باہر جاہی نہیں سکتا.گوسائنسدان بہت باریکیوں میں گئے ہیں اور انہوں نے ایٹم کی طاقت کو دریافت کیا ہے لیکن وہ خود ایٹم کو بنالیں یا آگے جن اجزا سے وہ بنا ہے ان اجزا کو بنالیں کہ یہ

Page 615

خطبات ناصر جلد دہم انسان کے لئے ناممکن ہے.۵۹۱ خطبہ نکاح ۲۱ رمئی ۱۹۷۲ء پھر جہاں تک سینتھیٹک (Synthtic) ادویہ کا تعلق ہے.لوگ ان چیزوں کو بنا تو لیتے ہیں.مگر ان میں اس چیز کی ساری خصوصیات نہیں ہوتیں.مثلاً کونین کی بجائے ایک سینتھیٹک دوائی بنائی گئی لیکن اس میں کونین کی خصوصیات کا کروڑواں حصہ بھی نہیں آیا.میں کروڑواں حصہ بھی نہیں آیا، اس لئے کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر خلق میں غیر محدود صفات پائی جاتی ہیں لیکن انسان نے جوسینتھیٹک چیز بنائی ہے، اس میں اس کے اپنے علم اور دعوئی کے مطابق بھی بڑی ہی محدود صفات پائی جاتی ہیں.پس جب خودان کے قول کے مطابق کونین کی جگہ سینتھیٹک دوائی میں چند صفات پائی جاتی ہیں تو پھر اس نے اصل کو نین کے ساتھ کیا مقابلہ کرنا ہے.چکر لگا کر میں پھر وہیں چوہدری صاحب کے ذکر پر آجاتا ہوں.یہ جو خلق ہے اس کا ازدواجی رشتوں کے اندر بھی مظاہرہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اس رشتے کو نئی پیدائش کا ذریعہ بھی بناتا ہے اور نئی ذمہ داریاں بھی ڈالتا ہے جس طرح خدا تعالیٰ کی خلق مثلاً گلاب کا پودا ہے پھر اس کی خلق یعنی گلاب کا پھول نکلتا ہے جو آہستہ آہستہ ارتقائی مدارج میں سے گذرتا ہے اس کی شکل بدلتی رہتی ہے.پہلے یہ کی بنتا ہے اور پھر ایک کے بعد دوسری پتی کھلتی ہے.گویا ہر آن اس کی شکل بدل رہی ہے.یہی حال ازدواجی رشتوں کا ہے درحقیقت ان کی بھی ہر آن شکل بدل رہی ہے.کیونکہ ہر دو یعنی میاں کے بھی اور بیوی کے بھی تجربے میں کچھ زیادتی ہورہی ہے اور پھر کا مپرومائز (Compromise) کی ایک نئی شکل پیدا ہورہی ہے.اور نئے تجربات کو نئے طور پر زندگی میں سمویا جا رہا ہے.پس اس صورت میں ہر وقت کی ذمہ داری بھی ہے میاں کی بھی اور بیوی کی بھی.اس لئے یہ جو سموئے جانے کا عمل ہے اسے صحیح طور پر جاری رہنا چاہیے تا کہ ارتقا کی جو منازل طے کرنی ہیں وہ صحیح طور پر طے کی جائیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ایسی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے اور

Page 616

خطبات ناصر جلد دہم ۵۹۲ خطبہ نکاح ۲۱ مئی ۱۹۷۲ء اس رشتہ کو بہت مبارک کرے اور چوہدری صاحب کو ہمت دے اور ان کے اس رشتے میں برکت ڈالے.یہ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی ہوئے تھے.پھر انہوں نے زندگی وقف کی.پھر کالج میں آگئے.اب تو غالباً ان کے خاندان کے سب ہی احمدی ہو چکے ہیں.ایک بہن رہ گئی ہے.جن کی شادی پہلے ہو چکی تھی اور وہ دوسروں میں چلی گئی تھیں.باقی ان کے بھائی بہنیں جو ان کے دائرہ اثر میں رہے ہیں وہ احمدی ہو چکے ہیں.بس سمجھیں کہ سارے ہی احمدی ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ اس سارے خاندان کو اس برکت والے ماحول کے سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے اور مسرتیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس وقت ایک کا نام تو میں نے بار بار لیا ہے اس کو تو آپ جان گئے ہوں گے کہ آج کے دولہا کون ہیں.آج کی دلہن ہماری بچی عزیزہ مبارکہ انجم صاحبہ ہیں جو مکرم و محترم حکیم سراج الدین صاح لاہور کی صاحبزادی ہیں.ان کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر مکرم ومحترم چوہدری محمد علی صاحب سے قرار پایا.عزیزہ بچی مبارکہ انجم صاحبہ کی طرف سے ان کے حقیقی بھائی مکرم حکیم محمود احمد صاحب بھائی گیٹ لاہور بطور وکیل کے یہاں موجود ہیں.آخر میں ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بہت ہی بابرکت اور ثمرات حسنہ کا موجب بننے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۱ جون ۱۹۷۲ ء صفحه ۴) 谢谢谢

Page 617

خطبات ناصر جلد دہم ۵۹۳ خطبہ نکاح ۸/جون ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں سب کامیابیاں اور مسرتیں پائی جاتی ہیں خطبہ نکاح فرموده ۸ / جون ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر علالت طبع کے باوجود از راه شفقت مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب انچارج احمد یہ کلینک گیمبیا کی صاحبزادی محترمہ فائقہ سعید صاحبہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ دنوں پھر گرمی لگ جانے کی وجہ سے میری طبیعت خراب رہی ہے.چند دن تو شدید چکروں کی تکلیف میں گزارے کچھ گرمی کے نتیجہ میں اور کچھ چکروں سے نجات حاصل کرنے کے لئے جوا دو یہ ڈاکٹروں نے دیں وہ بڑا ضعف پیدا کرنے والی ہیں.ان کی وجہ سے ضعف بھی ہے اور یہ تکلیف ابھی تک چل رہی ہے.پھر گرمی کا خوف بھی ہے کیونکہ یہ مجھے بہت تکلیف دیتی ہے.میرا خیال نہیں تھا کہ اپنی شدید خواہش کے باوجود یہ نکاح میں خود پڑھا سکوں گا.لیکن خواہش تکلیف کے خوف پر غالب آگئی ، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی نصف گھنٹہ ہوا مکرم و محترم ڈاکٹر سعید احمد صاحب جن کی بچی کے نکاح کا اعلان اس وقت ہونا ہے، کی طرف سے مجھے تار ملی کہ ان کی یہ شدید خواہش ہے کہ نکاح کا اعلان میں خود کروں.

Page 618

خطبات ناصر جلد دہم ۵۹۴ خطبہ نکاح ۸/جون ۱۹۷۲ء قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بار بار یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی میں سب کامیابیاں، ہر قسم کی فلاح اور ساری مسرتیں پائی جاتی ہیں.ہمارے محترم بھائی ڈاکٹر صاحب اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت میں اپنے ملک، اپنے خاندان، اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں، بچوں اور بچیوں سے ہزاروں میل دور گئے ہوئے ہیں تا کہ وہاں انسانی خدمت کے فرائض انجام دیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے از سر نو قرآن کریم کی مختلف آیات کی بار بار تفسیر کر کے اور قرآن کریم نے جن مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے اس مضمون کو بار بار بیان کیا ہے ان کو ہمارے سامنے لا کر ہمیں یہ بتایا ہے کہ دراصل انسانی خدمت نصف ( بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ) دین ہے.تو گویا حقوق العباد کی ادائیگی نصف دین بن جاتی ہے.پھر جہاں ہم حقوق اللہ کی ادائیگی کہتے ہیں.وہاں بھی ایک رنگ میں حقوق العباد ہی کی ادائیگی مراد ہوتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کو اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اس کی حمد کی جائے یا اس کی تسبیح کی جائے یا اس کا ذکر کیا جائے یا اس کو یاد رکھا جائے یا اس سے التجائیں کی جائیں یا اس کے دامن کو پکڑا جائے اس نیت کے ساتھ کہ پھر کبھی چھوڑیں گے نہیں وہ ان چیزوں سے بے نیاز ہے کیونکہ وہ سب قدرتوں کا مالک اور سب بھلائیوں اور فیوض کا سرچشمہ ہے.وہ کسی کا محتاج نہیں البتہ مخلوق کا ہر فرد اس کا محتاج ہے.پس اللہ تعالیٰ کو ہماری حمد یا تسبیح یا ذکر وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے.اس کی ہمیں ضرورت ہے.جس وقت اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ اس کی حمد میں مشغول ہوتا ہے یا اس کی تسبیح کر رہا ہوتا ہے یا اسے یاد کرتا اور اس کی صفات کا ورد کرتا ہے یا اس کی خلق پر غور کر کے اس کی عظمت اور جلال کو دل میں بٹھانے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ دراصل وہ اپنے نفس کی بھلائی کے لئے کر رہا ہوتا ہے.چنانچہ اس طرح حقوق اللہ کی ادائیگی انسان کے خود اپنے نفس کے حقوق کی ادائیگی بن جاتی ہے.کیونکہ یہ فیض انسانی نفس نے حاصل کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کو تو فیض نہیں پہنچانا.وہ تو کسی فیض کا محتاج نہیں ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ جو دوسروں کے حقوق قائم کئے ہیں یعنی انسان کے حقوق

Page 619

خطبات ناصر جلد دہم ۵۹۵ خطبہ نکاح ۸/جون ۱۹۷۲ء جنہیں حقوق العباد کہا جاتا ہے، ان کے متعلق بھی اسلام نے تفصیل سے بتایا ہے کہ اس میں ہر مخلوق کے حقوق شامل ہیں مثلاً کھانا ہے جسے ہم صبح ، پھر دو پہر اور پھر عصر کے بعد (چائے وغیرہ کے طور پر لیتے ہیں اور یہ بھی دراصل کھانے کا حصہ ہوتا ہے ) اور پھر شام کے وقت کھاتے ہیں.بعض قو میں رات کے گیارہ بجے کھانا کھانے کی عادی ہوتی ہیں.یہ بظاہر ایک دنیا کا کام ہے.انسان اپنی زندگی کی بقا کے حصول کے لئے اور اپنی طاقتوں کو قائم رکھنے کے لئے غذا استعمال کرتا ہے.اس غذا کے بھی اسلام نے بہت سے حقوق رکھے ہیں، جن میں سے ایک حق یہ ہے اور اس کے متعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کھانا ضائع نہ کرو.یہ کھانے کا حق ہے.فرما یا اپنی پلیٹ میں اتنا کھانا ڈالو کہ ایک لقمہ بھی بچا نہ رہ جائے.یہ قرآن کریم کی ہدایت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے جسے آپ نے قرآن کریم کی بعض آیات کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے.غرض اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلام میں مخلوق ہی سے ہر خلق کے حقوق قائم کئے گئے ہیں اور تمام حقوق کی ذمہ داری اس انسان کے سپرد کی گئی ہے جسے طاقتیں بھی عطا کی گئیں اور صراط مستقیم پر چلنے یا بھٹک جانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے یعنی اسے یہ کہا گیا ہے کہ یہ تمہاری مرضی ہے کہ تم راہ راست پر چلو یا راہ راست کو چھوڑ دو.لیکن اگر تم میری ( اللہ ) کی رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں راہ راست یعنی صراط مستقیم پر چلنا پڑے گا.پس دین اسلام اشرف المخلوقات یعنی انسان کی بھلائی کے لئے آیا ہے.اور اسلام میں ایک بڑی بھاری ذمہ داری حقوق العباد یا مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں عاید کی گئی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے محترم ڈاکٹر صاحب حقوق العباد کی ادائیگی کے سلسلہ میں ہزاروں میل دور گئے ہوئے ہیں اور اس طرح انہوں نے اپنا ایک حق ہم پر یہ بھی قائم کیا ہے کہ ہم ان کے لئے ، ان کے خاندان کے لئے ، ان کے عزیزوں اور بیوی بچوں کے لئے دعا کریں اس لئے اس وقت میں بہت سی دعاؤں کے ساتھ (جو اکثر میرے دل میں ہیں اور میں دیر سے کر رہا ہوں ، آپ بھی ان میں شامل ہو جائیں ) اس نکاح کا اعلان کروں گا.اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت

Page 620

خطبات ناصر جلد دہم ۵۹۶ خطبہ نکاح ۸/جون ۱۹۷۲ء مضبوط اور بابرکت اور مفید بنائے اور اس رشتہ کے نتیجہ میں جو آثار پیدا ہوں یعنی ان سے آگے جو نیک نسل چلے اس سے دنیا بھی استفادہ کر سکے.میاں بیوی بھی اور آگے ان کی اولا د بھی نیکی پر قائم رہنے والے، تقویٰ کی چادر میں ملبوس خدا کو پہچاننے اور توحید کے دامن کو مضبوطی سے پکڑنے والے ہوں.پس احباب اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے بہت دعا کریں.محترم ڈاکٹر صاحب اور ان کی اولا د اور ان کے عزیزوں کا یہ حق ہے کہ ہم ان کے لئے دعائیں کریں یہ دعا بھی ہے کہ وہ ہماری خلوص نیت اور دل سے نکلی ہوئی دعاؤں کے اہل ثابت ہوں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ نکاح مکرم و محترم ڈاکٹر سعید احمد صاحب کی صاحبزادی ہماری عزیزہ بچی فائقہ سعید صاحبہ کا ہے جو سات ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم حمید احمد صاحب سیٹھی ابن مکرم کرم الہی صاحب سیٹھی کے ساتھ قرار پایا ہے.عزیزم حمید احمد کے والد عام طور پر سیالکوٹ میں رہتے ہیں اور یہ خود آج کل راولپنڈی میں متعین ہیں.مکرم و محترم ڈاکٹر سعید احمد صاحب اس وقت گیمبیا میں ہمارے ایک کلینک کے انچارج ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑے کامیاب ڈاکٹر ہیں وہ اپنے مریضوں کی دواؤں کی نسبت زیادہ دعاؤں سے خدمت کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کے ہاتھ میں شفا بخشی ہے اور افریقیوں کے دل میں ان کا پیار ڈالا ہے.انہوں نے اپنی جگہ اپنے داماد عزیزم مکرم عبدالرشید شریف صاحب ( ابن مکرم و محترم مولانامحمد شریف صاحب فاضل انچارج مبلغ گیمبیا) کو اپنی طرف سے وکیل مقر ر کیا ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۹ جون ۱۹۷۲ء صفحه ۳)

Page 621

خطبات ناصر جلد دہم ۵۹۷ خطبہ نکاح ۱۰ رجون ۱۹۷۲ء ہر شخص کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ خدا کی نگاہ میں حسین ترین وجود بن جائے خطبہ نکاح فرموده ۱۰ جون ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت مندرجہ ذیل چھ نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمه منصوره مسعودہ صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب سرگودھا کا نکاح محترم ڈاکٹر نصیر احمد صاحب مبشر ابن مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کے ساتھ بعوض ۲۱ / ہزار روپے حق مہر.-۲- محتر مہ امتة السبوح صاحبہ بنت مکرم میجر عبدالرحمن صاحب مغل راولپنڈی کا نکاح محترم ملک کریم احمد صاحب ظفر ابن مکرم مولا نا ظہور حسین صاحب ربوہ کے ساتھ بعوض دس ہزار روپے حق مہر.-۳- محتر مه نگہت نسیم صاحبہ بنت مکرم شیخ نصیر الحق صاحب مرحوم لاہور کا نکاح محترم فلائٹ لیفٹینٹ رشید احمد صاحب ملک ابن مکرم ملک سعید احمد صاحب کراچی کے ساتھ بعوض دس ہزار روپے حق مہر.۴.محترمہ نیم اختر صاحبہ بنت مکرم چوہدری شریف احمد صاحب خانیوال کا نکاح محترم کیپٹن منور احمد مرزا صاحب ابن مکرم مرز اصفدر جنگ ہمایوں کے ساتھ دس ہزار روپے حق مہر پر.۵ محترمه فرحت جبیں زبیری صاحبہ بنت مکرم احتجاج علی صاحب زبیری کیمبلپور کا نکاح محترم نذیر احمد صاحب ایاز ابن مکرم مختار احمد صاحب ایاز لندن سے پندرہ ہزار روپیہ حق مہر پر.۶.محترمہ مسرت جہاں صاحبہ بنت مکرم ماسٹر عبد الحق صاحب ناصر ساہیوال کا نکاح محترم چوہدری

Page 622

خطبات ناصر جلد دہم ۵۹۸ خطبہ نکاح ۱۰ جون ۱۹۷۲ء مبارک احمد صاحب ابن مکرم چوہدری حسین بخش صاحب مرحوم لا ہور سے پانچ ہزار روپے حق مہر پر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ آیات جو عام طور پر اعلان نکاح سے قبل پڑھی جاتی ہیں، ان میں سے پہلی آیت میں ازدواجی رشتوں کی مثال جو دی گئی ہے وہ ایک درخت کی مثال سے ملتی ہے.جس طرح بیج پھوٹتا ہے اور پھر شاخ نکلتی ہے اور پھر کونپلیں نکلتی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آدم کی نسل کو پیدا کیا، اس کی پرورش کی ، اس کو بڑھایا اور اس کو پھیلا یا اور پھر وہ ساری دنیا پر چھا گیا.انسان پر کچھ ذمہ داریاں انفرادی لحاظ سے اور کچھ ذمہ داریاں اجتماعی زندگی کے لحاظ سے عاید ہوتی ہیں.يَآتِهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء الخ (النساء :۲) میں ان ذمہ داریوں کی طرف اشارہ ہے جو نوع انسانی، فرد انسانی پر عاید کرتی ہے.اس آیت میں اگر چہ درخت کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن درخت اور اس کی نشونما کا جوطریق ہے، وہ انسان کی ازدواجی زندگی سے ملتا جلتا ہے اس لئے میں نے اس کی مثال دی ہے.مختلف درختوں اور ان کی نشو ونما کو دیکھنے سے ہر حقیقت واضح ہو جاتی ہے.چنانچہ پچھلے دنوں یہاں ربوہ میں مشاہدہ کا امتحان ہوا تھا.اس میں تیز بین نگاہ اور خوردبین نگاہ اور تفصیل میں جانے والی نگاہ نے مختلف درخت دیکھے ہوں گے.میں نے تو اکثر یہ دیکھا ہے کہ ایک درخت ہوتا ہے.بعض دفعہ اس کی شاخیں پھیل جاتی ہیں لیکن مجموعی طور پر وہ خوبصورت نظر نہیں آتا کیونکہ اس کی کوئی شاخ پھیلی ہوئی ہوتی ہے.کسی شاخ کے پتے زیادہ ہوتے ہیں.کسی شاخ کے سبز پتے زیادہ ہوتے ہیں.بعض شاخوں کے پتے مرجھائے ہوتے ہیں.درختوں پر کون سے مؤثرات اثر کرتے ہیں.کچھ ہم جانتے ہیں اور بہت کچھ ہم نہیں جانتے لیکن جو مؤثرات انسانی درخت پر اثر انداز ہوتے ہیں ان کو ہم یا ہم میں سے بہت سے لوگ تفصیل کے ساتھ بھی جانتے ہیں اور بہت سے خلاصہ کے طور پر بھی جانتے ہیں.کیونکہ ہم

Page 623

خطبات ناصر جلد دہم ۵۹۹ خطبہ نکاح ۱۰ / جون ۱۹۷۲ء قرآن کریم پر ایمان لائے اور قرآن کریم کی ہدایت کو اس معنی میں سمجھا کہ اللہ تعالیٰ انسان کے درخت وجود کی سب شاخوں کی پرورش کرنے والا ہے پس یہ فرق ہے اگر درخت کی مثال ہو تو نہایت خوبصورت درخت بنے گا اور اگر نوع انسانی کے ایک درخت کی شاخ کی مثال ہو تو وہ خوبصورت شاخ بنے گا.جس درخت کی ساری ہی شاخیں خوبصورت ہوں.وہ درخت لازمی طور پر خوبصورت ہوگا.جس درخت کی ساری شاخیں خوبصورت نہ ہوں لیکن جو شاخیں خوبصورت ہوں گی.وہ انسانی نگاہ کو اپنی طرف جذب کریں گی.مگر جن شاخوں کے اندر کجی ہے.پتوں پر مردنی چھائی ہوئی ہے.وہ مرجھائے ہوئے ہیں.ان کے اندر کوئی رونق نہیں ہے.کوئی سبزی نہیں ہے وہ جاذب نظر نہ ہوں گی اسی طرح جہاں تک انسان کا تعلق ہے اس کے اندر اللہ تعالیٰ کے پیار کے نتیجہ میں رونق پیدا ہوتی ہے اگر اس کے اندر یہ حسن اور بشاشت نہیں ہے تو پھر جس طرح درخت اور اس کی ٹہنیاں اپنے طور پر خوبصورت ہونے کے باوجود مجموعی طور پر بدصورت بن جاتی ہیں.انسان بھی خوبصورت نہیں رہتا.درخت تو حکم کا بندہ ہے.حکم کے مطابق کام کرنے والی ایک مخلوق ہے.قانون قدرت کے مطابق اس کی شاخوں اور پتوں کی پرورش ہوتی ہے.لیکن انسان کلی طور پر حکم کا بندہ نہیں.انسانی زندگی کے بعض حصے تو ایسے ہوتے ہیں کہ انسان ان سے بچ نہیں سکتا.مثلاً انسان زمین سے باہر گیا لیکن اسی زمینی ہوا سے وہ آزاد نہیں ہو سکا.یعنی یہ زمینی ہوا جس میں آکسیجن اور دوسری گیسوں کا ایک خاص توازن پایا جاتا ہے، وہ اسے اپنی زندگی کی بقا کے لئے ساتھ لے کر گیا.کیونکہ پچاس ہزارفٹ کی بلندی پر جو ہوا ہے اس میں انسانی پھیپھڑے سانس نہیں لے سکتے.غرض انسان اس زمین میں خاص قسم کا پانی پیتا ہے اور خاص قسم کی ہوا لیتا ہے.پھر خاص قسم کے کھانے کھاتا ہے پھر ان سب چیزوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص توازن کو قائم کیا ہے.توازن کا یہ اصول بہت ضروری ہے.اب اگر ایک شخص یہ کہے کہ میری مرضی ہے میں کچھ کھاؤں نہ کھاؤں اور پھر بھی زندہ رہوں تو یہ ناممکن ہے دراصل انسانی جسم مجھے انسانی وجود کہنا چاہیے کیونکہ میرے سامنے انسان کا مادی جسم اور روح ہر دو ہیں.

Page 624

خطبات ناصر جلد دہم ۶۰۰ خطبہ نکاح ۱۰ / جون ۱۹۷۲ء پس انسانی وجود کا ایک حصہ الہی منشا اور الہی حکم کے اسی طرح تابع ہے جس طرح یہ شجر اور حجر یہ زمین اور آسمان اور یہ ستارے اور سورج تابع ہیں لیکن ایک حصہ پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی بخشی ہے اور فرمایا ہے تیرے سامنے دور ہیں ہیں.ایک وہ راہ ہے جس پر چل کر تو میری رضا کو حاصل کر سکتا ہے اور دوسری وہ راہ ہے جسے اگر تو اختیار کرے گا تو میرے قہر کا مورد بن جائے گا.اب یہ تیری مرضی ہے جس راہ کو تو چاہے اسے اختیار کر لے.تاہم اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے انسان! میں یہ چاہتا ہوں کہ تو اس راہ پر چلے جو تجھے میری رضا اور میری جنتوں کی وارث بنادے.پس تجھے اسی راہ پر چلنا چاہیے جو تجھے میری رضا اور میری جنتوں کا وارث بنادے.یہی اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے لیکن جہاں تک انسان کی مرضی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دیا ہے کہ وہ نیکی اور برائی میں سے جس کو چاہے اختیار کرے وہ چاہے تو نیکی کے راستے کو اختیار کرے اور چاہے تو برائی کے راستے کو اختیا ر کرے.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ تم اپنی مرضی چلا سکتے ہو وہاں پھر یہ بات ہمارے ہاتھ میں آجاتی ہے کہ ہم نوع انسانی کے درخت کو بحیثیت مجموعی خوبصورت بناتے ہیں یا نہیں.ہم بھی ایک نئے پودے کی طرح ہیں جس پرنئی شاخیں اور کونپلیں نکلی ہوتی ہیں.اگر ہم اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت پر جسے قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے عمل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قہر سے ڈرتے ڈرتے اپنی زندگیوں کے دن گزارتے ہیں ، تو ہمارے وجود میں بھی ایک حسن پیدا ہوتا ہے یہ وہ آدھا حسن نہیں ہوتا یعنی جس میں اختیار کچھ نہیں ہوتا بلکہ یہ وہ حسن ہوتا ہے جس میں ہمارا اختیار بھی ہوتا ہے.غرض جیسا کہ میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا نوع انسان کا جو درخت ہے وہ ہم سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ اپنی شاخ کو کج نہ بنانا، اپنی شاخ کو نیم مردہ نہ بنالینا اپنی شاخ میں بہار ہی رکھنا تا کہ میرے درخت وجود یعنی نوع انسان کے وجود پر کوئی دھبہ نہ آجائے ، کوئی اعتراض نہ پیدا ہو کہ دیکھو درخت تو اچھا تھا، اشرف المخلوقات کا درخت تو بہترین تھا لیکن اس کی بعض پتیاں

Page 625

خطبات ناصر جلد دہم ۶۰۱ خطبہ نکاح ۱۰ جون ۱۹۷۲ء کونپلیں اور شاخیں درست نہیں ہیں.پس یہ ایک ذمہ داری ہے جو نوع انسانی کے نقطہ نگاہ سے نوع کی طرف سے فرد پر عائد ہوتی ہے.بعض ذمہ داریاں ہیں جو ایک فرد کی طرف سے دوسرے افراد یا نوع انسان پر عائد ہوتی ہیں.مثلاً تربیت کی ذمہ داری ہے یہ ذمہ داری ہر فرد کی طرف سے اُس کی نوع پر عائد ہوتی ہے.ہر فردا اپنی نوع سے یہ کہتا ہے کہ میری صحیح تربیت کرو.میاں بیوی بھی ایک فرد بن جاتے ہیں.مثلاً آج جن کے نکاح کا اعلان ہو جائے گا وہ ایک وجود بن جائیں گے.چنانچہ انسان کا جو درخت وجود ہے وہ اپنی ہر شاخ سے یہ کہتا ہے کہ دیکھنا بدصورت نہ بن جاناور نہ مجھ پر دھبہ آئے گا مجھے خدائے قادر و توانا کی خوبصورتی کے جلوے حاصل کرنے اور دکھانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس لئے روز آخر میں جب اللہ تعالیٰ کی میری طرف نگاہ اُٹھے گی تو کہیں میرے درخت وجود پر بدصورتی کے نشان نہ ہوں.ورنہ مجھ پر اعتراض آجائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اشرف المخلوقات بنایا ہے.پس بحیثیت نوع ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص ہی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں حسین ترین وجود بن جائے.انسانی نوع کی طرف سے جو ذمہ داریاں افراد پر عائد ہوتی ہیں ان میں سے ایک ازدواجی زندگی کی ذمہ داری ہے یہ بھی گویا ایک پیوند لگتا ہے اس کی مثال آپ نے کئی دفعہ سنی ہوگی پیوند کی دیکھ بھال از بس ضروری ہے اگر پیوند کو سنبھالا نہ جائے.اس کی پرورش نہ کی جائے اور اس کا کماحقہ خیال نہ رکھا جائے تو وہ بڑھ نہیں سکتا.یہی حال انسانی رشتوں کا ہے.اگر ان کا بھی خیال نہ رکھا جائے اگر ان کے حسن کے لئے ایثار نہ دکھایا جائے تو یہ پیوند اور یہ رشتہ کامیاب نہیں ہوتا اور اس طرح نوع بشر پر ایک اعتراض پیدا ہو جاتا ہے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو اشرف المخلوقات بنانا چاہا تھا مگر بحیثیت مجموعی انسانیت یہ کہتی ہے کہ اے فرد! تیری وجہ سے میں داغدار ہو گئی.بعض لوگ شیطان کی گود میں چلے جاتے ہیں ان کی وجہ سے بھی انسانی درخت داغدار اور بدصورت ہو جاتا ہے.اس کے اوپر دھبے پڑ جاتے ہیں.

Page 626

خطبات ناصر جلد دہم ۶۰۲ خطبہ نکاح ۱۰ جون ۱۹۷۲ء خدا کرے کہ ہم جو احمدی ہیں اور ہم میں سے احمدی نوجوان مردوزن جو آج رشته ازدواج میں بندھ رہے ہیں یا کل بندھیں گے یا پرسوں بندھیں گے یہ سلسلہ تو جاری رہے گا اُن کی وجہ سے انسانی نوع کے درخت کا حسن بڑھے کم نہ ہو.اور ان شاخوں کے ذریعہ بھی انسانی نوع اللہ تعالیٰ کے حسن کے جلوے دیکھنے لگ جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اب اس وقت میں چھ نکاحوں کا اعلان کروں گا.الحمد للہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھ خوشیاں اکٹھی آگئی ہیں آج کے جو چھ دولہا ہیں ان میں سے ایک دولہا عزیزم ڈاکٹر نصیر احمد صاحب مبشر امریکہ جا رہے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہاں ان کے مال میں بھی بہت برکت ڈالے گا.اس لئے کہ یہ کوئی نہ سمجھے کہ میں عام طور پر زیادہ حق مہر پر جو اعتراض کر دیا کرتا ہوں.آج ان کے زیادہ مہر پر اعتراض کیوں نہیں کیا ؟ میں سمجھتا ہوں کہ جب انہوں نے خدا تعالیٰ پر بھروسہ کیا ہے تو مجھے بھی خدا تعالیٰ پر حسن ظن رکھنا چاہیے.میری دعا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو پیسے بھی دے اور ان کو یہ مہر ادا کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے تمام رشتوں کے بہت ہی مبارک ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوه مورخہ ۲ / جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۳، ۴) 谢谢谢

Page 627

خطبات ناصر جلد دہم ۶۰۳ خطبہ نکاح ۲۲ جولائی ۱۹۷۲ ء شجرہ نسب دعاؤں کے ساتھ سینچا جانے سے پنپتا ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۲ جولائی ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز مغرب از راہ شفقت دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.شجرہ نسب سے تعلق رکھنے والوں اور باغات میں پلنے والے درختوں کی بہت سی خصوصیات مشترک ہیں.باغ میں داخل ہوتے وقت بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ دعا کیا کرو کہ ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے.کیونکہ وہی سب طاقتوں کا اور قوتوں کا سرچشمہ ہے.انسان تو کمزور اور لاھی محض ہے.اسی طرح شجرہ نسب بھی حسب خواہش اور حسب امید پنپتا نہیں جب تک دعا کے ساتھ اس شجرہ کی جڑوں کو سینچا نہ جائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہ کیا جائے.اس مختصر دعا کے ساتھ میں اس وقت دو نکاحوں کا اعلان کروں گا دوست جانتے ہیں گرمی مجھے تکلیف دیتی ہے.اس وقت بھی گرمی کی وجہ سے مجھے تکلیف ہورہی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ خدا ہی کے منشا اور حکم کے ماتحت احمدیت میں قائم ہونے والے سب رشتوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خیر و برکت کا موجب بنائے.ان سے چلنے والی نسل شیر میں ثمر پیدا کرنے والی ہو.

Page 628

۶۰۴ خطبہ نکاح ۲۲ ؍ جولائی ۱۹۷۲ء خطبات ناصر جلد دہم اس وقت دو رشتوں کا اعلان کیا جائے گا.پہلا نکاح تو عزیزہ بچی امتہ السمیع صاحبہ راشدہ کا ہے.جو مکرم محترم ابوالعطاء صاحب جالندھری کی صاحبزادی ہیں.ان کا نکاح عزیزم مکرم منصور احمد صاحب شاہد ابن مکرم ملک غلام احمد صاحب ارشدر بوہ سے دو ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.دوسرا نکاح عزیزہ بچی ناہید صاحبہ بنت مکرم شیخ عبدالواحد صاحب لا ہور کا ہے جو عزیزم مکرم ڈاکٹر عبدالرؤف غنی صاحب سے پانچ ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.ڈاکٹر رؤف صاحب مکرم بابو عبد الغنی صاحب انبالوی مرحوم کے صاحبزادے اور واقف زندگی ہیں اور اس وقت نائیجیریا (مغربی افریقہ ) میں بطور واقف ڈاکٹر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی طرف سے اسلام کی خدمت کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے.انہوں نے اپنے بھائی مکرم عبدالرشید صاحب غنی پروفیسر ٹی آئی کالج کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے.ایجاب وقبول کے بعد ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوہ یکم اکتو بر ۱۹۷۲ء صفحه ۵)

Page 629

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء خاندان مسیح موعود کے افراد کی ذمہ داری ایک عام احمدی سے زیادہ ہے خطبہ نکاح فرموده ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد اقصی ر بوه حضور انور نے خطبہ جمعہ سے قبل محترمہ صاحبزادی امتہ الحی در ثمین صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح محترم ڈاکٹر حامد اللہ خان صاحب ابن مکرم عبد السلام خان صاحب پشاور کے ساتھ پندرہ ہزار روپیہ حق مہر پر قرار پایا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں اپنی نہایت ہی پیاری بچی یعنی جو میرے لئے اپنی بچیوں کی طرح پیاری ہے اور میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کی صاحبزادی ہے جس کا نام امتہ الھی ہے اس کے نکاح کا اعلان کروں گا.بڑی دعاؤں کے بعد اس نکاح کا اعلان ہورہا ہے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک فرد ہونے کی حیثیت میں آپ کے خاندان کے کسی فرد کی جماعت کے دوسرے افراد کے مقابلہ میں زیادہ عزت نہیں ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہر ایک نے اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے لیکن جو بوجھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں، بڑوں اور چھوٹوں اور مردوں اور عورتوں کے کندھوں پر رکھا گیا ہے وہ ایک عام احمدی مسلمان سے زیادہ ہے.

Page 630

خطبات ناصر جلد دہم ۶۰۶ خطبہ نکاح ۶ را کتوبر ۱۹۷۲ء پس افراد خاندان کی گو ذمہ داری بھی زیادہ ہے ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے امکانات بھی زیادہ ہیں اور استغفار کرنے کی ضرورت بھی زیادہ ہے لیکن جہاں تک عزت اور احترام کا سوال ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کی عزت اور احترام کسی احمدی سے زیادہ نہیں.ہر احمدی صاحب عزت و احترام ہے.جو شخص احمدی نہیں وہ اگر اپنے بھائی کی عزت اور احترام نہیں کرتا تو ہمارے نزدیک وہ خدا کی گرفت میں ہے.مگر ایک احمدی جو اپنے احمدی بھائی کی عزت اور احترام نہیں کرتا یا جو احمدی عورت اپنی بہن کی عزت اور احترام نہیں کرتی یا کوئی احمدی مرد اپنے رشتہ داروں میں سے کسی عزیزہ کی عزت اور احترام نہیں کرتا یا کوئی احمدی عورت اپنے عزیزوں میں سے کسی مرد کی عزت اور احترام نہیں کرتی تو وہ خدا کے نزدیک دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ مجرم ہے خدا تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ آپس میں اخوت اور پیار اور باہمی مودت اور احترام کا ایک ایسا دریا بہا دیا ہے جس کا بہت بڑا پاٹ ہے اور جس میں روز بروز پانی بڑھتا چلا جاتا ہے.پس ذمہ داریاں بڑی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ضروری ہے.اس لئے دوست دعا کریں ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس عزیزہ کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور نباہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے دولہا ( جو پشاور کے ایک احمدی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ) کو بھی اپنی نئی ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں بہتر رنگ میں ادا کرنے کی توفیق بخشے.ان دعاؤں کے ساتھ اور اس عزم کے ساتھ کہ میں انشاء اللہ آئندہ بھی ان کے لئے دعائیں کرتا رہوں گا اور اس توقع کے ساتھ کہ سبھی احباب اپنی دعاؤں میں ان کو نہیں بھولیں گے میں اب اس نکاح کا اعلان کرتا ہوں.ایجاب و قبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بہت ہی بابرکت اور موجب ثمرات حسنہ ہونے کے لئے احباب سمیت لمبی دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ را کتوبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۵)

Page 631

خطبات ناصر جلد دہم ۶۰۷ خطبہ نکاح ۷ /دسمبر ۱۹۷۲ء عقلمند انسان وہ ہے جو حیات و ممات دونوں کی ذمہ داریاں ادا کرنے والا ہو خطبہ نکاح فرموده ۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمہ امۃ العزیز ثریا صاحبہ بنت مکرم میاں گلزار احمد صاحب چنیوٹ کا نکاح محترم عبدالباسط طاہر صاحب ابن مکرم عبدالسمیع صاحب سے تین ہزار روپے حق مہر پر.۲.محترمہ ناصرہ شریا صاحبہ بنت مکرم حاجی شریف احمد صاحب ربوہ کا نکاح محترم عبدالشکور صاحب شاکر ابن مکرم میاں حاجی عبدالرحمان صاحب چنیوٹ سے دو ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.زندگی اور موت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.آگے زندگی اور پیچھے موت ہے.اس لحاظ سے یہ دنیا ایسے ہی ہے جیسے ایک ہی سواری پر ہر دو تیار بیٹھے ہوں.ہر زندگی موت کا امکان پیدا کرتی ہے.کیونکہ سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ہر مخلوق فنا ہونے والی ہے.گو فنا کے لفظ کو ہم مختلف معنوں میں استعمال کرتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر مخلوق فنا ہونے والی ہے اس لئے وقت آنے پر موت کا امکان حقیقت بن جاتا ہے.میاں بیوی کا رشتہ نکاح کے ذریعہ قائم کیا جاتا ہے اور اسی شادی کے نتیجہ میں بہت سے

Page 632

خطبات ناصر جلد دہم ۶۰۸ خطبہ نکاح ۷ /دسمبر ۱۹۷۲ء بچوں کی پیدائش کا امکان پیدا ہو جاتا ہے.پس عقلمند انسان وہ ہے جو زندگی کی حالت میں حیات کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ادا کرنے والا ہو اور اسی طرح وہ بھی عقلمند انسان ہے جو ممات کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان کو ادا کرنے والا ہو مثلاً خاندان کا بڑا آدمی جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کی فوتیدگی کے نتیجہ میں ایک ذمہ داری گھر کے ایک دوسرے فرد پر عائد ہو جاتی ہے.پس جہاں حیات کی ذمہ داریاں ہیں وہاں ممات کی بھی ذمہ داریاں ہیں.اخروی زندگی (ممات) کی اہم ذمہ داریاں بھی حیات پر ہیں البتہ ممات کی بعض ذمہ داریاں کسی کی وفات کے بعد کسی دوسرے فرد پر پڑتی ہیں اس سے پہلے نہیں پڑتیں.جو شخص ان ہر دو ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے وہ گویا کامیاب ہو گیا اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی.پھر ممات کی ایک یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وفات یافتہ کا ذکر خیر کیا جائے اس کے لئے مغفرت کی دعائیں کی جائیں.پھر کسی کی وفات کے نتیجہ میں پسماندگان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں وغیرہ یہ سب ذمہ داریاں وفات سے تعلق رکھتی ہیں.اس لئے مرنے والوں کے پیچھے وہ نسل آنی چاہیے جو مرحومین کی تربیت یافتہ اور ان کے رنگ میں رنگین ہو.ان کی خوبیوں کی مالک اور ان کے نور سے حصہ لینے والی ہو.وہ ان سے اپنے حالات میں زیادہ وسعت نظر رکھنے اور زیادہ قربانیاں دینے والی ہولیکن اگر کوئی شخص زندگی کی ذمہ داری کو تو ایک حد تک سمجھے لیکن وہ ذمہ داری جو کسی اور کی وفات سے تعلق رکھتی ہے اسے نہ سمجھے تو وہ بھی ترقی کی طرف قدم نہیں بڑھا رہا بلکہ تنزل کی طرف قدم بڑھا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انہیں نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.آج دو جنازوں لے کے غم ہمارے لئے اکٹھے کئے گئے تھے.یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان ہے.اس نے ساتھ ہی دو خوشیوں کے سامان بھی پیدا کر دیئے امید ہے جس طرح جانے والوں کے لے یہ دو جنازے حضرت حکیم محمد اسماعیل صاحب سیکھوانی سرگودھا صحابی حضرت مسیح موعود اور محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم خواجہ عبدالحمید صاحب ربوہ کے تھے.حضور انور نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی.

Page 633

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۷ /دسمبر ۱۹۷۲ء لواحقین ان خوشیوں میں آپ کے ساتھ شامل ہوئے ہیں اسی طرح آپ میں سے بھی کچھ دوست جانے والوں کے غم میں شریک ہونے کے لئے ان کے ساتھ بہشتی مقبرہ میں بھی جائیں گے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ / مارچ ۱۹۷۳ صفحه ۳)

Page 634

Page 635

خطبات ناصر جلد دہم ۶۱۱ خطبہ نکاح ۱۷ ردسمبر ۱۹۷۲ء اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو جانبین کے لئے بہت ہی بابرکت کرے خطبہ نکاح فرموده ۱۷ دسمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب دیالگڑھی انچارج شعبہ رشتہ ناطہ کے صاحبزادے محترم چوہدری محمد نفیس احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرما یا ان کا نکاح محترمه جمیلہ بشیر صاحبہ بنت مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب کے ساتھ تین ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو جانبین کے لئے بہت ہی بابرکت کرے اور عزیزہ جمیلہ بشیر صاحبہ اور عزیزم محمد نفیس احمد کے لئے ہر طرح خیر و برکت اور خوشی و خوشحالی کا باعث بنے اور اسی طرح سب لواحقین اور سب جماعت کے لئے بھی.عزیزہ جمیلہ کے والد وفات پاچکے ہیں ان کی جگہ مرحوم کے برادر نسبتی (اور لڑکی کے ماموں ) مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب (صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ولی ہیں.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ / مارچ ۱۹۷۳ ء صفحه ۳)

Page 636

Page 637

خطبات ناصر جلد دہم ۶۱۳ خطبہ نکاح ۲۵ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء کوشش کریں کہ آپ کے گھر اسلام کے نور سے ہمیشہ منور رہیں خطبہ نکاح فرموده ۲۵ / دسمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت علالت طبع کے باوجود مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمہ امتة النصیر صاحبہ بنت مکرم پیر صلاح الدین صاحب اسلام آباد کا نکاح محترم پیر محمد طیب صاحب ابن مکرم پیر محمد اقبال صاحب شجاع آباد (ملتان) سے دس ہزار روپے حق مہر پر.-۲- محترمه منصورہ بیگم صاحبہ بنت مکرم اشرف احمد خان صاحب لاہور کا نکاح محترم چوہدری محمد الیاس صاحب (لہوکون.انگلستان ) ابن مکرم چوہدری محمد یعقوب صاحب سے دس ہزار روپے حق مہر پیگر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ایک وعدہ تھا جسے پورا کرنے کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں.کل مجھ پر انفلوئنزا کا بڑا سخت حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے مجھے یہ اندیشہ تھا کہ بخار شاید ۵، ۱۰۴ تک چلا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا اور شروع میں ہی بیماری بظاہر پکڑی گئی ہے لیکن اس بیماری کی وجہ سے بخار کے علاوہ ناک بہنے کی تکلیف ہے.سر بوجھل ہے.آنکھوں، گلے اور سینے پر بھی اس کا اثر ہے.

Page 638

خطبات ناصر جلد دہم ۶۱۴ خطبہ نکاح ۲۵ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء گو یہ تکلیفیں تو موجود ہیں لیکن پہلے سے کچھ بہتر ہوں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور جلسہ سالانہ کی ذمہ داریاں نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.صرف مجھے ہی نہیں بلکہ سب دوستوں کو جور بوہ میں ہوں یار بوہ آئے ہوں یا باہر ہوں.اللہ تعالیٰ سب کو ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے.نئے گھر بن رہے ہیں.نئے گھر آباد ہورہے ہیں.حضرت مہدی معہود مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے چراغ گھر گھر جلائے ہیں.خدا کرے کہ یہ نئے گھر جو آباد ہور ہے ہیں ان کے مکینوں کو بھی یہ توفیق عطا ہو کہ وہ بھی محمدی چراغ کو زندہ رکھیں، اس کو مردہ نہ ہونے دیں اور اپنے گھروں کو اسلام کے نور سے منور رکھیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان دو رشتوں کو بھی جن کا میں ابھی اعلان کروں گا بہت بابرکت کرے اور ان کے لئے نور ہی نور کے سامان پیدا کر دے.ایجاب وقبول کے بعد ان رشتوں کے ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوه ۱/۱۲ پریل ۱۹۷۳ء صفحه ۳)

Page 639

خطبات ناصر جلد دہم ۶۱۵ خطبہ نکاح ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء ربوہ کی فضائیں اللہ تعالیٰ کی برکتوں سے معمور ہیں خطبه نکاح فرموده ۲۹ / دسمبر ۱۹۷۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے سوا چار بجے شام از راہ شفقت بیالیس نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج جمعہ کا دن ہے اور جلسہ سالانہ کا زمانہ ہے.ربوہ کی فضائیں اللہ تعالیٰ کی برکتوں سے معمور ہیں.خدا کرے کہ جن رشتوں کا میں اس وقت اعلان کرنے والا ہوں وہ خاندان بھی اللہ تعالیٰ کی برکتوں کے وارث بنیں اور ان سے چلنے والی نسلیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کریں.اللہ تعالیٰ نے آج ہمارے لئے بہت سی خوشیاں اکٹھی کر دی ہیں.ان خوشیوں کو جلدی جلدی سمیٹنا ہے اس لئے ان مختصر دعائیہ الفاظ پر اکتفا کرتا ہوں.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اب ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب رشتوں کو بہت بابرکت کرے.ان سے نیک نسل چلے اور وہ خادم دین ہوتا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو باغ از سر نو زندہ کیا گیا ہے اور اس کے درختوں کو پانی دے کر ثمر آور بنایا گیا ہے.یہ سب خاندان جن کے آپس میں رشتے قرار پائے ہیں.اس باغ کے صحیح معنوں میں اچھے اور میٹھے پھل دینے والے شجر ہوں.آؤ دعا کر لیں.

Page 640

خطبات ناصر جلد دہم ۶۱۶ خطبہ نکاح ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء ان نکاحوں کی فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے.۱- محترمہ نسرین انور صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر انور احمد خاں صاحب ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم ظفر احمد خاں صاحب ابن مکرم محمد عبد اللہ خاں صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس لاہور کے ساتھ.۲- محترمه سیده راحت تنویر صاحبہ بنت مکرم سید تفضل حسین صاحب سرگودہا کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر محترم کیپٹن آصف جمیل صاحب ابن مکرم ڈاکٹر محمد جی صاحب احمدی راولپنڈی کے ساتھ.۳ محترمه سعادت مرزا صاحبہ بنت مکرم مبارک بیگ صاحب راولپنڈی کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر محترم قدرت اللہ سعید صاحب ابن مکرم چوہدری حبیب اللہ صاحب میر پور آزاد کشمیر کے ساتھ.-۴- محترمه پروین اختر صاحبه بنت شیخ عبدالرحمن صاحب سرگودھا کا نکاح چھ ہزار روپے حق مہر پر محترم امیر الدین صاحب ابن مکرم صلاح الدین صاحب سرگودھا کے ساتھ.محترمہ امتہ احکیم ناصر صاحبہ بنت مکرم محمد شفیع صاحب سلیم کھاریاں کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم راجہ ناصر احمد صاحب ابن مکرم راجہ اللہ دتہ صاحب نصیرہ ضلع گجرات کے ساتھ.محترمہ امتہ الحق طاہر صاحبہ بنت مکرم محمد شفیع صاحب سلیم کھاریاں کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم راجہ بشارت احمد صاحب ابن مکرم راجہ اللہ دتہ صاحب نصیرہ ضلع گجرات کے ساتھ.۷.محترمہ ہدایت ثروت صاحبہ بنت محترم غلام احمد صاحب گنج مغلپورہ لاہور کا نکاح تین ہزار روپے حق مہر پر نصیر احمد صاحب بٹ ابن مکرم نواب دین صاحب بٹ گلستان کالونی لاہور کے ساتھ.محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری محمد عبد اللہ صاحب کھاریاں کا نکاح تین ہزار روپے حق مہر پر محترم ریاض احمد صاحب ابن مکرم چوہدری محمد مالک صاحب لکھ ضلع گوجرانوالہ کے ساتھ.۹ محترمه زکیه تنویر صاحبہ بنت مکرم عبدالرشید خان صاحب فیکٹری ایریار بوہ کا نکاح دو ہزار روپے حق مہر پر محمد اشرف صاحب طاہر ابن مکرم فضل کریم صاحب منصور آباد لائل پور کے ساتھ.۱۰- محتر مہ خالدہ بیگم صاحبہ بنت مکرم محمد حفیظ صاحب گرمولہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ کا نکاح پندرہ سوروپے حق مہر پر محمد شریف صاحب ابن مکرم سید محمد صاحب گرمولہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ کے ساتھ.۱۱.محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ بنت مکرم چوہدری فضل احمد صاحب چوکنا نوالی ضلع گجرات کا نکاح

Page 641

خطبات ناصر جلد دہم ۶۱۷ خطبہ نکاح ۲۹ / دسمبر ۲ ۱۹۷۲ء ایک ہزار روپے حق مہر پر غلام احمد صاحب خادم ابن مکرم نذیر احمد صاحب چٹھہ ربوہ کے ساتھ.۱۲ - محترمه نادره یاسمین صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر کیپٹن بشیر احمد صاحب ربوہ کا نکاح چھ ہزار روپے حق مہر پر منیر الحق را مه صاحبه ابن مکرم میاں عبد الحق صاحب رامہ دارالرحمت شرقی ربوہ کے ساتھ.۱۳.محترمہ رفعت ڈار صاحبہ بنت چوہدری محمد عبد اللہ صاحب ڈار کوئٹہ کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم عبید الرحمن صاحب جاوید ابن مکرم عبدالرحمن صاحب جنید ہاشمی دارالصدر شرقی ربوہ کے ساتھ.۱۴.محترمہ شاہدہ تنویر صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد رشید صاحب دارالصدر ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم محمد سعید صاحب ابن مکرم محمد سلیم صاحب قریشی راولپنڈی کے ساتھ.۱۵ - امۃ النصیر صاحبہ بنت مکرم محمد اسمعیل صاحب بقا پوری دار الرحمت شرقی ربوہ کا نکاح ایک ہزار روپے حق مہر پر صالح محمد خان صاحب شاہد ابن مکرم فتح محمد خان صاحب دار النصر غربی ربوہ کے ساتھ.۱۶ محترمہ زاہدہ ناہید صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد دین صاحب محلہ دار الیمن کا نکاح اڑھائی ہزار روپے حق مہر پر محترم محمد سمیع اللہ صاحب منہاس ابن مکرم محمد سعید اللہ خاں صاحب دارالرحمت شرقی ربوہ کے ساتھ.۱۷- محتر مہ مبارکہ نسرین صاحبہ بنت لیفٹینٹ محمود احمد صاحب قریشی لاہور چھاؤنی کا نکاح دو ہزار روپے حق مہر پر وسیم احمد صاحب ابن عبداللطیف صاحب کپور تھلوی دار العلوم غربی ربوہ کے ساتھ.۱۸ - محترمہ عطیہ شاہین صاحبہ بنت چوہدری ظہور الحسن صاحب مرحوم کرشن نگر لاہور کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم محمد دین صاحب تنویر ابن مکرم فضل دین صاحب دار الصدر شرقی ربوہ کے ساتھ.۱۹.محترمہ عفت ناہید صاحبہ بنت مبارک احمد صاحب گوجرانوالہ کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر محترم محمد انور صاحب ابن مکرم غلام سرور صاحب کا ہلوں سانگلہ ہل کے ساتھ.۲۰ محترمہ مبارکہ کلثوم صاحبہ بنت چوہدری امام الدین صاحب دارالصدر غربی ربوہ کا نکاح سات ہزار روپے حق مہر پر ڈاکٹر شمیم احمد صاحب ابن مکرم شیخ نور احمد صاحب ایڈووکیٹ مزنگ لاہور کے ساتھ.۲۱- محترمه فهمیده تبسم صاحبہ بنت مکرم عبد القادر صاحب گوجرانوالہ کا نکاح دو ہزار روپے حق مہر پر

Page 642

خطبات ناصر جلد دہم ۶۱۸ خطبہ نکاح ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء عبدالرزاق صاحب ابن مکرم میاں اللہ بخش صاحب ربوہ کے ساتھ.۲۲- محترمه رخشنده ممتاز صاحبہ بنت چوہدری نذر محمد صاحب سعد اللہ پورضلع گجرات کا نکاح ایک ہزار روپیہ حق مہر پر محترم راجہ منصور احمد صاحب تا ثیر ابن مکرم راجہ محمد احمد صاحب نعیم دارالرحمت وسطی ربوہ کے ساتھ.۲۳ محتر مہ رقیہ بیگم صاحبہ بنت مکرم محمد سلیم صاحب گھر وہ ضلع سیالکوٹ کا نکاح دو ہزار روپے حق مہر پر محترم حبیب اللہ صاحب ابن مکرم چوہدری اللہ دتہ صاحب سا ہو وال ضلع سیالکوٹ کے ساتھ.۲۴ محترمہ رفیقہ بیگم صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبد الرحمن صاحب کینیڈا کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم نصیر احمد خاں صاحب ابن مکرم چوہدری مبارک احمد خان صاحب پاکپٹن ضلع ساہیوال کے ساتھ.۲۵.محترمہ حفیظہ صادقہ صاحبہ بنت حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب دارالصدر جنوبی ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم ملک خورشید حیات صاحب ابن مکرم محمد حیات صاحب یو.کے (U.K) کے ساتھ.۲۶.محترمہ شاہدہ نواز صاحبہ بنت مکرم رب نواز صاحب سرگودھا کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم محمد امجد خان صاحب ابن مکرم چوہدری حبیب اللہ خان صاحب فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ کے ساتھ.۲۷.محترمہ شمشاد اختر صاحبہ بنت مکرم نیامت علی صاحب چک نمبر ۲۹۷ ج.ب ضلع لائلپور کا نکاح ایک ہزار روپے حق مہر پر محترم سلطان احمد صاحب ابن مکرم عطا محمد صاحب ربوہ کے ساتھ.۲۸ - محترمه پروین اختر صاحبہ بنت مکرم غلام احمد صاحب چک نمبر ۶۷ ر ب ضلع لائلپور کا نکاح ایک ہزار روپے حق مہر پر محترم فدا محمد صاحب ابن مکرم چو ہدری علی محمد صاحب چک نمبر ۶۷ ر.ب ضلع لائلپور کے ساتھ.۲۹.محترمہ بشری بیگم صاحبہ بنت مکرم چوہدری غلام احمد صاحب مرحوم خوجیا نوالی ضلع گجرات کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم ریاض احمد صاحب ابن مکرم چوہدری نثار احمد صاحب چک نمبر ۱۲۴ جنوبی

Page 643

خطبات ناصر جلد دہم ۶۱۹ خطبہ نکاح ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء ضلع سرگودھا کے ساتھ.۳۰.محترمہ امتہ اللہ باری صاحبہ بنت مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف استاذی الجامعہ ربوہ کا نکاح چھ ہزار روپے حق مہر پر محترم محمد شریف صاحب ابن مکرم علی محمد صاحب ڈگری ضلع تھر پارکر کے ساتھ.۳۱ محترمه خزینه فردوس صاحبہ بنت چوہدری سعید احمد صاحب عالمگیر افسرخزانہ ربوہ کا نکاح پانچ ہزار رو پے حق مہر پر محترم عبد المنان صاحب ابن مکرم عبد الرحمن صاحب ناصر گوجرانوالہ کے ساتھ.۳۲- محترمه فهمیده نسرین صاحبہ بنت چوہدری فیض احمد صاحب چک نمبر ۱۴۶ رب ضلع لائلپور کا نکاح آٹھ ہزار روپے حق مہر پر محترم چوہدری نصیر احمد صاحب ابن مکرم چوہدری سلطان علی صاحب گجو چک ضلع گوجرانوالہ کے ساتھ.۳۳ محتر مہ زبیدہ خانم صاحبه بنت مکرم چوہدری فیض احمد صاحب چک نمبر ۱۴۶ ر.ب ضلع لائلپور کا نکاح پندرہ سوروپے حق مہر پر محترم محمود احمد صاحب ابن مکرم چوہدری غلام رسول صاحب کے ساتھ.۳۴.محترمه زینب بی بی صاحبہ بنت مکرم محمد ابراہیم صاحب چک نمبر ۳۸ جنوبی ضلع سرگودھا کا نکاح ساڑھے سات سو روپے حق مہر پر محترم رحمت اللہ صاحب ابن مکرم نورمحمد صاحب بھا بڑا ضلع سرگودھا کے ساتھ.۳۵.جمیلہ رحمت اللہ صاحبہ بنت مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب کا نکاح ایک ہزار پونڈ سٹرلنگ (۲۶۰۰۰ روپے ) حق مہر پر محترم شیخ غلام رحمانی صاحب ابن مکرم شیخ غلام جیلانی صاحب کے ساتھ.۳۶.محترمہ شکیلہ خاتون صاحبه بنت مکرم طیب علی صاحب خادم چک نمبر ۵۶ / ۴-R ضلع بہاولنگر کا نکاح دو ہزار روپے حق مہر پر محترم ظفر احمد صاحب ملبی ابن مکرم چوہدری غلام حیدر صاحب ملبی چک ۵۶ / ۴-R ضلع بہاولنگر کے ساتھ.۳۷.محترمہ امۃ السلام بشری صاحبہ بنت مکرم ناصر الدین صاحب دار الرحمت شرقی ربوہ کا نکاح چار ہزار روپے حق مہر پر محترم چوہدری اسحاق احمد صاحب ابن مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب

Page 644

خطبات ناصر جلد دہم ۶۲۰ خطبہ نکاح ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء ظہیر دارالرحمت وسطی ربوہ کے ساتھ.۳۸.محترمہ صغری بی بی صاحبہ بنت مکرم عبد اللطیف صاحب چک نمبر ۱۳ / ۴-L ضلع ساہیوال کا نکاح ایک ہزار روپے حق مہر پر محترم مقبول احمد صاحب ابن مکرم علی محمد صاحب چک نمبر ۲۸۹ گ.ب ضلع لائلپور کے ساتھ.۳۹.منیرہ بیگم صاحبہ بنت مکرم حبیب اللہ صاحب بھا بڑا ضلع سرگودھا کا نکاح پانچ سوروپے حق مہر پر محترم محمد حنیف صاحب ابن مکرم محمد ابراہیم صاحب چک نمبر ۳۸ جنوبی ضلع سرگودھا کے ساتھ.۴۰.محترمہ رضیہ رحمان صاحبہ بنت مکرم حاجی عبد الرحمن صاحب مرحوم دار النصر شرقی ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم چوہدری محمود احمد صاحب ابن مکرم عنایت اللہ صاحب وینس بنگے ضلع گجرات کے ساتھ.۴۱.محترمہ رفعت جہاں آرا صاحبہ بنت مکرم محمد رفیق صاحب کھوکھر دار الرحمت غربی ربوہ کا نکاح چھ ہزار روپے حق مہر پر عبدالقدیر صاحب ابن مکرم محمد صدیق صاحب کھو کھر گلگشت کالونی ملتان کے ساتھ.۴۲- محتر مہ امۃ الکریم فرحت صاحبہ بنت مکرم صو بیدار حمید احمد صاحب دار النصر غربی ربوہ کا نکاح تین ہزار روپے حق مہر پر محترم محمد عبدالسمیع صاحب ابن مکرم چوہدری نادرحسین صاحب اوکاڑہ ضلع ساہیوال کے ساتھ.روزنامه الفضل ربوه ۱۲ را پریل ۱۹۷۳ ، صفحه ۳، ۴)

Page 645

خطبات ناصر جلد دہم ۶۲۱ خطبہ نکاح ۲۰ را پریل ۱۹۷۳ء انسانی پیدائش کا مقصد رضائے الہی کا حصول ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۰ / ا پریل ۱۹۷۳ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عشاء از راه شفقت مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمه مسعودہ حیات صاحبہ بنت مکرم ومحترم (ریٹائرڈ) لیفٹینٹ کرنل سردار محمد حیات خان صاحب قیصرانی کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم سردار سیف الرحمان خان صاحب قیصرانی ابن مکرم سردار امیر محمد خان صاحب قیصرانی کے ساتھ قرار پایا ہے.۲- محتر مہ امتہ الکریم صاحبہ بنت مکرم و محترم چوہدری محمد اسماعیل صاحب بقا پوری ساکن کراچی کا نکاح تین ہزار روپے حق مہر پر محترم لیاقت علی خان صاحب ابن مکرم حکیم یوسف علی خان صاحب لاہور کے ساتھ قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسانی پیدائش، زندگی ، موت اور اس کے بعد کی ابدی زندگی ایک ایسا سلسلہ ہے جو ایک خاص مقصد کے تحت قائم کیا گیا ہے.یہ عبث نہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں فرمایا ہے.أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَكُمْ عَبَثًا (المؤمنون : ١١٦) یعنی کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تم کو بغیر کسی مقصد کے پیدا کیا ہے؟

Page 646

خطبات ناصر جلد دہم ۶۲۲ خطبہ نکاح ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء غرض نہ زندگی اپنی ذات میں مقصود ہے اور نہ موت مقصود حیات ہے.جہاں تک اجتماعی زندگی یا اجتماعی حیات کا تعلق ہے، اس دنیا میں زندگی اور موت ، خوشی اور غمی اور صحت اور بیماری ساتھ ساتھ چلتی ہیں.آج ہمارے ایک عزیز بیمار بھی ہیں.ہمیں ان کی بیماری کی وجہ سے تشویش اور فکر بھی ہے.اور ہمارے ایک عزیز کی شادی بھی ہے اور ہماری بچی کی شادی ہو رہی ہے.ہمیں اس شادی کی ( شادی تو دونوں طرف سے ہوتی ہے ) خوشی بھی ہے.گو یا بیماری کی تشویش اور شادی کی خوشی دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں.پچھلے دنوں ایک دفعہ عصر کی نماز کے بعد میں نے دو جنازے پڑھائے اور اسی وقت دونکا ھوں کا اعلان بھی کیا.میں نے دوستوں سے کہا کہ جو دوست اپنے عزیزوں کے جنازوں کے ساتھ آئے ہوئے ہیں وہ یہیں بیٹھیں اور نکاحوں کی خوشی میں شامل ہوں اور جن دوستوں کے لئے خوشی کا موقع پیدا ہوا ہے وہ نکاحوں کے اعلان کے بعد جنازوں کے ساتھ بہشتی مقبرہ میں جائیں اور اپنے وفات پانے والے بھائیوں کے غم میں شریک ہوں.پس نہ موت مقصود حیات ہے اور نہ زندگی مقصود حیات ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا فضل مطلوب و مقصود ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اسلام میں یہ تعلیم دی ہے کہ مخلوقات میں سے انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا کہ وہ اس کا عبد بنے.چنانچہ فرمایا.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (التل ریت:۵۷) چنانچہ عبد بننے کے لئے قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے، بڑی تفصیل کے ساتھ بڑی وسعت سے اور بڑی گہرائیوں پر مشتمل جو تعلیم دی ہے، اس میں بڑی نمایاں چیز یہ ہے کہ اطاعت رسول کرو گے تو اپنی زندگی کے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ گے.جہاں تک اطاعتِ رسول کا تعلق ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ، آپ کے صبح و شام کے عمل ہمارے لئے ایک حسین اسوہ اور ایک عمدہ مثال ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ زندگی سے پیار کیا اور نہ موت پر ضرورت سے زیادہ زور دیا.جب جنگوں کا زمانہ تھا اور

Page 647

خطبات ناصر جلد دہم ۶۲۳ خطبہ نکاح ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء بڑی شدت کی مہم جاری تھی امت مسلمہ کے پاس اتنا بھی وقت نہیں تھا کہ وہ اپنے شہداء کو علیحدہ علیحدہ قبروں میں دفن کر سکیں کیونکہ وہ اس وقت بہت تھوڑے تھے.چنانچہ ایک وقت علیحدہ علیحدہ قبریں بنانے پر بھی وقت خرچ نہیں کیا بلکہ بہت سے شہداء کو ایک قبر میں دفن کر دیا اور دعا کر کے چلے گئے.اس وقت دنیائے اسلام دو حصوں میں منقسم نظر آتی ہے ( میں جس وقت دنیائے اسلام کہتا ہوں تو اس سے میری مراد پاکستان کے مسلمان نہیں بلکہ تمام دنیا میں مختلف ممالک میں بسنے والے مسلمان مراد ہیں ) مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ انتہا ہوگئی ناکامیوں کی.اب تو ہماری اجتماعی حرکت یعنی امت محمدیہ کی حرکت کامیابی کی طرف اور فتح و نصرت کی طرف ہونی چاہیے.جب میں انگلستان میں پڑھا کرتا تھا تو اس وقت مجھے ایک تجربہ ہوا.۱۹۳۸ء کی بات ہے.لمبا عرصہ گذر چکا ہے ہم اپنی پڑھائی ختم کر کے آکسفورڈ سے واپس آرہے تھے.ایک بھائی یہاں سے گئے تھے.ہم دونوں اکٹھے ہو گئے تھے.واپسی پر ہم کچھ عرصہ کے لئے مصر میں ٹھہرے.مصر کے مفتی اور جامعہ ازھر کے شیخ مراغی سے میری ملاقات ہوئی.ان سے مسلمانوں کے تنزل اور خرابیوں کی عام باتیں ہوتی رہیں.ہم دونوں ان باتوں پر متفق تھے کہ اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ مسلمان پھر سے مسلمان بنیں اور اپنے کردار کو، اپنی زندگی کو، اپنے اعمال کو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق بجالائیں اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی میں اپنی زندگی گزاریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے وارث بنیں.یہ گویا میں اپنی ذاتی بات کر رہا ہوں.یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اس وقت بھی اس ضرورت کا احساس موجود تھا اور اب بھی موجود ہے.اختلافی مسائل اپنی جگہ پر ہیں لیکن یہ ایک بنیادی بات ہے کہ اب بھی مسلمان ملتے ہیں.وہ بھی ملتے ہیں جو بظاہر احمدیت کے اشد مخالف ہیں سبھی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے تنزل کی انتہا ہو گئی.خدا تعالیٰ کب ایسے سامان پیدا کرے گا کہ ہماری حرکت پھر ترقی کی طرف ہوگی.غرض امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو پڑھا لکھا اور بڑا سمجھدار ہے اور دنیا کے حالات سے واقف ہے.وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ

Page 648

خطبات ناصر جلد دہم ۶۲۴ خطبہ نکاح ۲۰ را پریل ۱۹۷۳ء پرمشتمل ہے.تنزّل واد بار کی حد ہو گئی ہے.مسلمانوں کا ترقی کی طرف قدم کب اٹھے گا.اُمت مسلمہ میں ایک دوسرا گروہ ہے اور وہ ہمارے نزدیک جماعت احمدیہ پر دوسرے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی ترقی کے لئے کچھ ہونا چاہیے.ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا ہے یعنی غلبہ اسلام کی تحریک کی ابتدا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کر دی ہے.اسلام کی ترقی کا زمانہ شروع ہو چکا ہے.پچھلے اتنی سال میں دنیا میں اسلام کے حق میں بہت کچھ رونما ہو چکا ہے.غلبہ اسلام کے لئے اتنا عظیم کام ہوا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.خود ہم حیران ہوتے ہیں حالانکہ ہم اللہ تعالیٰ کے وہ عاجز بندے ہیں جن کو اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اپنا آلہ کار بنا کر دنیا میں اسلام کے حق میں ایک عظیم انقلاب پیدا کر دیا ہے.یہ انقلاب ہماری ساری کمزوریوں کے باوجود، ہماری ساری غربت کے باوجود اور لوگوں کی ساری مخالفتوں کے باوجود رونما ہوا ہے.صرف اندرونی مخالفتیں ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کے ساتھ اس وقت ہماری زبر دست جنگ ہو رہی ہے.تاہم یہ جنگ توپ و تفنگ کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ دلائل اور براہین کی جنگ ہے.عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کی جنگ ہے.جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے حق میں معجزات رونما ہوتے ہیں.گویا اس بات پر جنگ ہورہی ہے کہ ہم کہتے ہیں عیسائیت اپنا وقت گزار چکی ہے اب اسلام کے غلبہ کے دن آرہے ہیں.عملاً ایک عظیم انقلاب دنیا میں رونما ہو چکا ہے.محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو بنی نوع انسان کے دل میں پیدا کرنے کی مہم بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے.یہ مہم مغربی افریقہ میں چل رہی ہے.مشرقی افریقہ میں چل رہی ہے.جنوبی افریقہ اور پھر شمالی افریقہ میں بھی چل رہی ہے.ان کے علاوہ دنیا کے مختلف گوشوں میں جہاں ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا وہاں بھی احمدیت پہنچ چکی ہے.ہر جگہ لوگوں کو بیدار کرتی ہے.ان کے اندر ایک جذ بہ، ایک ولولہ، ایک جوش ، ایک عزم، ایک امید اور ایک یقین پیدا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے غلبہ کے جو وعدے کئے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے.یہ ایک عظیم انقلاب ہے جو دنیا میں رونما ہو رہا ہے.پس وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی اس عظیم مہم کی حرکت اور اس کی شدت اور اس کی کامیابی اور

Page 649

خطبات ناصر جلد دہم ۶۲۵ خطبہ نکاح ۲۰ را پریل ۱۹۷۳ء اس کے خوشکن نتائج کو دیکھ رہے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہو گیا ہے یعنی اسلام کے عالمگیر ( غلبہ ) کا آغاز ہو گیا ہے لیکن ایک وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں.ایسا ہونا چاہی مگر عملاً ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں.یہی دو بڑے گروہ ہیں.تیسرا گروہ میرے علم میں کوئی نہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے مسلمانوں کا ایک وہ گروہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ ایسا ہونا چاہیے.اسلام کو عالمگیر غلبہ حاصل ہونا چاہیے.آخر کب تک مسلمان ذلت و نکبت برداشت کرتے چلے جائیں گے اور غیروں کے جوتے کھاتے چلے جائیں گے.حالانکہ اسلام تو ایک عظیم مذہب ہے اس کے مقابلہ میں تو کوئی مذہب نہیں ٹھہر سکتا لیکن اس حسین مذہب کی طرف منسوب ہونے والے مصر کو دیکھ لو، سعودی عرب کو دیکھ لو، عراق کو دیکھ لو، اردن کو دیکھ لو.ان کے علاوہ اور کئی اسلامی ملک ہیں جو بڑے امیر ہیں.خدا تعالیٰ نے ان کو زمین کے نیچے سے پٹرول کی شکل میں بے شمار دولت عطا فرمائی.ایک وقت میں یہ سارے اکٹھے بھی ہو گئے مگر ایک چھوٹی سی قوم جسے خدا نے ملعون اور مغضوب قرار دیا ہے اس کے سامنے ان کا بس نہیں چلتا.میں نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایک خلش ہے ، ایک بے چینی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں مسلمانوں کا غلبہ اسلام کی طرف قدم نہیں اٹھ رہا.اسی اضطرابی جذ بہ کے ماتحت جب میں ۱۹۶۷ء میں یورپ کے دورے سے واپس آیا تو کراچی کے ایک صحافی نے مجھ سے پوچھا اس کے سوال کے اندر ایسا جذبہ تھا جس سے میں خوش بھی ہوا.اور ایک ایسی ناامیدی اور گھبراہٹ تھی جس نے مجھے پریشان بھی کیا) وہ کہنے لگا کیا قرآن کریم نے ہمارے زمانہ کے متعلق بشارتیں نہیں دیں کہ ہمارے ساتھ اس کا کیا سلوک ہوگا.میں نے کہا.کیوں نہیں قرآن کریم کہتا ہے انْتُمُ الْأَعْلَوْنَ (ال عمران : ۱۴۰) کہ تم ہی کامیاب ہونے والے ہو.تمہیں ہی رفعتیں اور بلندیاں حاصل ہوں گی لیکن قرآن کریم نے ایک شرط لگائی ہے اور وہ یہ ہے کہ اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِینَ کہ اگر تم ایمان پر قائم رہو گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت تمہارے شاملِ حال ہوگی.پس اگر قرآن کریم سچا ہے اور یقینا قرآن کریم ایک صداقت عظمی ہے.اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا حتی کہ عیسائی بھی اس کی صداقت کا انکار نہیں کر سکتے.کیونکہ یہ اپنی تعلیم اور

Page 650

خطبات ناصر جلد دہم ۶۲۶ خطبہ نکاح ۲۰ را پریل ۱۹۷۳ء صداقت کے لحاظ سے بڑی عظمتوں والی کتاب ہے.غرض قرآن کریم تو لا ریب سچی کتاب ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ اِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ کی جو شرط عائد کی گئی تھی وہ پوری نہیں ہوئی.میں بتا یہ رہا تھا کہ ہم لوگ کہتے ہیں ہمیں بشارتیں ملی ہیں.خدا نے کہا اسلام غالب آئے گا.خدا نے کہا اسلام کو غالب کرنے کے لئے باہر نکلو، جہاد کرو تبلیغ کرو.قرآن کریم کی تعلیم دنیا میں پھیلاؤ.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان جتا کر بنی نوع انسان کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیار پیدا کرو.دنیا کے سامنے خدائے واحد و یگانہ کی صفات کاملہ پیش کرو اور دنیا سے کہو کہ ان بتوں کی طرف، اس دہریت کی طرف اور اس نظام کی طرف جس نے دنیا کو خوف اور بے چینی میں مبتلا کر رکھا ہے.اس قسم کے گمراہ کن نظریات کی طرف کس لئے بھٹکتے پھر رہے ہو.یہ تو مٹ جائیں گے.ان کا نام و نشان باقی نہ رہے گا.یہ تو خدائے واحد و یگانہ کی حکومت ہی ہے جو اسلام کی شکل میں پھر دنیا میں قائم ہوگی.یہ وہ مشن ہے جو ہمارے سپر د کیا گیا ہے.مگر ہم تو خدا کے حقیر اور عاجز بندے ہیں.ہم نے اپنے نفسوں کی طرف دیکھا، اپنی طاقتوں کو دیکھا.ہم دنیا کے دھتکارے ہوئے اور مولویوں کے کفر کے فتویٰ زدہ تھے.بایں ہمہ خدا تعالیٰ نے ہماری حقیر کوششوں میں برکت ڈالی اور غلبہ اسلام کے لئے ہماری حقیر قربانیوں کے شاندار نتائج نکلے.چنانچہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ابھی بیعت لینے کا حکم نہیں ہوا تھا جس کا مطلب ہے کہ آپ کے ( جماعتی ) گھر میں ایک احمدی بھی موجود نہیں تھا کہ ادھر آپ پر چوٹی کے دوسو علماء کے کفر کا فتویٰ لگ چکا تھا.مگر خدا تعالیٰ نے بڑے پیار سے اور بڑے پر شوکت الفاظ میں فرمایا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اب دیکھو وہ اکیلا آدمی جسے اس کے گھر والے بھی نہیں پہچانتے تھے.اس کی قدر نہیں کرتے تھے.وہ جوان کے مال و دولت میں برابر کا شریک تھا اسے کھانا پانی دینا بھول جایا کرتے تھے.رشتہ دار اس کے اتنی بے اعتنائی برتتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کے پیار کی آواز اس کے کان میں پڑی.د میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ یعنی غلبہ اسلام کے لئے تو جو تبلیغی مہم جاری کرے گا وہ ساری دنیا میں پھیل جائے گی.

Page 651

خطبات ناصر جلد دہم ۶۲۷ خطبہ نکاح ۲۰ را پریل ۱۹۷۳ء چنانچہ خدا کا یہ وعدہ پورا ہوا.آج آپ کی جماعت کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ چار دانگ عالم میں بڑے زور وشور کے ساتھ کی جارہی ہے اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کے آثار روز بروز نمایاں ہوتے چلے جارہے ہیں.گو اس عرصہ میں دنیا کی مخالفتیں اور دنیا کے کفر کے فتوے تو بہت بڑھ گئے وہ دوسو سے شاید دو ہزار ہو گئے ہوں گے.ساری دنیا میں علمائے ظاہر نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگا یا مگر ساری دنیا کے علمائے ظاہر کے فتووں کو اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ پر دے مارا.نتیجہ ظاہر ہے کہ جو مہم الہی منشا سے جاری کی گئی ہے اس کے خلاف کفر کے فتوے بھلا کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں.۱۹۶۷ء میں جب میں یورپ کے دورے پر گیا.(اب یہ ایک احمدی کی جذباتی چیز ہے.میں بتا دیتا ہوں ) تو یہ انگریز جو بڑے پھنے خاں بنے پھرتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا کا حاکم سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم پتا نہیں کیا ہیں.اس لئے سیدھے منہ بات نہیں کرتے.چنانچہ میرے دورے کے دوران اگر جماعت کی طرف سے یہ کوشش ہوتی کہ بی بی سی میرا کوئی انٹرویور یکارڈ کرے اور پھر اسے براڈ کاسٹ کرے تو مجھے یقین ہے انہوں نے اس بارہ میں پانچ دس ہزار پاؤنڈ کا مطالبہ کرنا تھا.لیکن ہم اپنے کام میں مصروف تھے کہ ایک دن ان کا آدمی آ گیا اور کہنے لگا میں بی بی سی کا نمائندہ ہوں اور انٹرویو لینے آیا ہوں.چنانچہ اس نے انٹر ویولیا اور اپنے ہفتہ وار پروگرام آؤٹ لک (Out Look) میں اسے یکے بعد دیگرے تین ہفتے تک نشر کیا.جسے مغربی افریقہ میں ہمارے ایک سکول کے استاد اور اس کی بیوی نے سنا تو فرط عقیدت سے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ کجاوہ وقت کہ قادیان کی گمنام بستی سے اکیلی آواز بلند ہوئی تھی جسے ساری دنیا نے دھتکار دیا اور جسے مٹانے کے لئے دنیا نے اپنی طرف سے بہت مخالفت کی مگر وہ خدا جو اپنے وعدوں کا سچا ہے اس نے اپنے وعدوں کو کس طرح پورا کر دکھایا.وہ جوا کیلا تھا اور ساری دنیا کا دھتکارا ہوا تھا آج وہ وقت آ گیا ہے کہ اس کے ایک خلیفہ کی آواز بی بی سی کے ذریعہ ساری دنیا میں نشر ہو رہی ہے.مغربی افریقہ میں سکولوں کا ذکر آ گیا ہے تو میں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ ہم نے وہاں کے مسلمان کی یہ خدمت کی ہے کہ پہلے مسلمانوں کا کوئی سکول نہیں ہوتا تھا.مگر آج اس ضمن میں وہاں

Page 652

خطبات ناصر جلد دہم ۶۲۸ خطبہ نکاح ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء ایک انقلاب آچکا ہے.بہت سارے لوگوں کو اب بھی پتہ نہیں کہ کیا انقلاب رونما ہو چکا ہے.دنیا میں جماعت احمدیہ کو آلہ کار بنا کر اللہ تعالیٰ کیا کر رہا ہے.چنانچہ جب ہم نے وہاں سکول کھولے تو وہاں مسلمانوں کا کوئی سکول نہیں تھا.عیسائیوں کے سکول تھے.مسلمان کوئی تبلیغ نہیں کرتے تھے.ایک بڑے چوٹی کے مسلمان عالم کا لڑکا حصول علم کی خاطر سکول میں داخل ہوتا تھا اس کا نام ہوتا تھا محمد.مگر جب وہ پہلے دن داخل ہوتا تھا تو رجسٹر پر عیسائی سکول اس کا نام لکھتا تھا ایم (محمد کا ) پیٹر.بس یہیں سے وہ گویا عیسائی بن جاتا تھا.دس سال کے بعد جب وہ سکول سے فارغ ہوتا تھا تو باپ علمائے ظاہر میں سے چوٹی کا ایک عالم اور بیٹا پیٹر کہلاتا تھا.نہ اس کو عیسائیت کی تبلیغ کی اور نہ تعلیم دی اور خود بخو د عیسائی بنالیا.اس قسم کا انہوں نے وہاں دجل شروع کر رکھا تھا.پھر جماعت احمدیہ نے عیسائیوں کے مقابلہ میں وہاں سکول کھولے.لاکھوں کی تعداد میں جو مسلمان عیسائی ہو چکے تھے ہم ان کو واپس اسلام کی طرف لا رہے ہیں.یہ ایک عظیم انقلاب ہے جو آہستہ آہستہ رونما ہو رہا ہے.انشاء اللہ اسلام غالب آئے گا.ہم احمدی اپنے رب کے عاجز مزدور اور اسلام کے خدمت گار اس بات پر خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ کے پیار اور اس کے احسان کی ہم پر بارش ہورہی ہے.جب اسلام غالب آئے گا اس وقت دنیا کی آنکھیں کھلیں گی تو امت مسلمہ کو کتنا پچھتاوا ہوگا.وہ لوگ جو اس نظارہ کو آج سے پانچ سال بعد یا دس سال بعد میں دیکھیں گے.کف افسوس ملیں گے کہ کاش ہم پہلے اس خدائی مہم میں شریک کیوں نہ ہو گئے.کچھ لوگ آج بھی اس نظارے کو دیکھ رہے ہیں مگر وہ حقیقت پر ایمان نہیں لاتے.آخر پچھتاتے ہیں ایسے لوگوں کے روزانہ خط آتے ہیں.وہ لکھتے ہیں پتہ نہیں ہمارے دماغوں میں کیا گھسا ہوا تھا.ہم نے اس صداقت کو پہچانا نہیں وہ اب پہچانتے ہیں اور جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں.صرف یہیں نہیں بلکہ افریقہ میں بھی ، امریکہ میں بھی.عرب ممالک میں بھی لوگ احمدیت میں داخل ہورہے ہیں.عرب ممالک میں اکثر حصے وہ ہیں جن میں لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کے ٹھیکیدار ہیں کیونکہ قرآن کریم عربی میں ہے اس لئے ہر عربی بولنے والا ملک گویا قرآن کریم کا ٹھیکیدار ہے.اسلام کی اجارہ داری ان کے پاس ہے.یہ بات غلط ہے.قرآن کریم کو رد کرنے والے بڑی فصیح عربی بولنے والے تھے.کفارِ مکہ

Page 653

خطبات ناصر جلد دہم ۶۲۹ خطبہ نکاح ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء انڈونیشی زبان نہیں بولا کرتے تھے.وہ عربی بولتے تھے.ان کے عربی قصیدے اتنی اعلیٰ پایہ کی عربی پر مشتمل تھے کہ آج تک مسلمانوں کے نصاب تعلیم میں شامل چلے آرہے ہیں.ان عربی دانوں نے قرآن کریم کا انکار کیا.نہ صرف یہ بلکہ آج کا عربی دان قرآن کریم کی تفسیر کا انکار کرتا ہے.اس لئے محض عربی دان ہونا کافی نہیں ہے.تاریخ بتاتی ہے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اس بات کا مشاہدہ کراتی ہے کہ محض عربی دان ہونا کوئی خوبی نہیں ہے اگر محض عربی دانی کافی ہوتی تو ابوجہل ابو جہل نہ بنتا.اسی طرح وہ سارے صنادید کفر جو بڑے لاؤلشکر کے ساتھ بدر کے میدان میں آئے تھے اور ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ تعداد تھوڑی ، ٹوٹی پھوٹی تلواریں ( بعض لکڑی کی بھی تھیں) مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کی گردنیں اڑانے کا انتظام کیا تھا.وہ اپنے سرداروں کی لاشیں میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ نکلے.عربی دانی نے ان کو کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا.چنانچہ اب بھی بعض عربی دان حضرات کہتے ہیں کہ قرآن کریم ہمیں آنا چاہیے.قرآن کریم بندہ بندہ کو نہیں سکھایا کرتا.یہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے جو اپنی مشیت کے ماتحت اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے رموز و اسرار قرآنی سکھایا کرتا ہے.اور اس سے آگے دوسرے بندے قرآن کریم سیکھتے ہیں.اسی طرح جن لوگوں تک ہماری بات نہیں پہنچ پاتی ( یہ میں اصل بات کہنے لگا ہوں) ان کو اللہ تعالیٰ خواب کے ذریعہ بتا دیتا ہے.ابھی ڈیڑھ دو سال کا واقعہ ہے ایک عرب ملک میں رہنے والے شخص نے اپنی وفات کے وقت اپنے بچوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ امام مہدی ظاہر ہو چکا ہے اور مسیح کا نزول ہو چکا ہے.میں بڑا بد قسمت ہوں کہ مجھے ان سے یا ان کی جماعت سے تعارف و ملاپ نہیں ہو سکا.میں اس دنیا کو بڑی حسرت سے چھوڑ رہا ہوں.تاہم میں تمہیں یہ وصیت کرتا ہوں کہ جب بھی امام مہدی یا اس کی جماعت کے متعلق تم سنوفو را امام مہدی کی جماعت میں شامل ہو جانا.اب دیکھو ہم نے تو اس خاندان کو تبلیغ نہیں کی.اللہ تعالیٰ کے فرشتے آئے اور انہوں نے عربی دانوں کے فتووں کے باوجود احمدیت کی صداقت قبول کرنے کے سامان پیدا کر دیئے.ہمیں اس بات کا اس طرح پتہ لگا کہ مرحوم کے ایک بیٹے سے ہمارے ایک احمدی

Page 654

خطبات ناصر جلد دہم ۶۳۰ خطبہ نکاح ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء کی ملاقات ہوئی.باتوں باتوں میں جب احمدیت کا ذکر ہوا تو وہ کہنے لگا کہ میری بیعت لو.ہمارے احمدی دوست نے کہا تم نے نہ کتابیں پڑھیں ، نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کے متعلق کچھ علم ہے تم پہلے مجھ سے کتابیں لے جاؤ ان کو غور سے پڑھو اور دعائیں کرو.جب پوری طرح شرح صدر ہو جائے تو پھر تم بیعت بھی کر لینا.وہ کہنے لگا کہ نہیں میں نے تو ابھی بیعت کرنی ہے.اور اس وجہ سے بیعت کرنی ہے.پھر اس نے سارا قصہ بتایا کہ ہمارے والد مرتے وقت ہمیں وصیت کر گئے تھے.میں ان کی وصیت کے مطابق اسی وقت بیعت کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ وہ بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.اس کے دو اور دوست تھے جو اس وقت وہاں موجود نہیں تھے رات کو جا کر پوری رات ( پتا نہیں سو یا بھی تھا یا نہیں ) ان کو سمجھا تا رہا.اگلے دن صبح ان سے بھی بیعت کر والی.اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس علاقے میں اچھی خاصی جماعت بن چکی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - پس میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرے گا.یہ غلبہ احمدیت کے ذریعہ مقدر ہے.خدا تعالیٰ کے فیصلے کے خلاف دنیا کی کوئی طاقت کھڑی نہیں ہو سکتی.ہوگا وہی جس کا خدا نے فیصلہ کیا ہے اور جس کے ہونے کا اس نے ارادہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے اس منشا کو پورا کرنے کے لئے ظاہری اور دنیوی لحاظ سے ایک تدبیر کی اور امام مہدی کو بھیجا جس نے ایک الہی جماعت قائم کر دی.جو ساری دنیا کی مخالفتوں کے باوجود اکناف عالم میں اسلام کی تبلیغ واشاعت میں سینہ سپر ہے.اب دیکھو وہ شخص اکیلا تھا.اکیلا نہیں تھا.خدا تعالیٰ اس کے ساتھ تھا.جس کے ساتھ خدا کا فضل ہو اس کو ہم اکیلا نہیں کہہ سکتے.پھر وہ ایک سے ہزار ہوا.ہزار سے لاکھ ہوا.پھر اس کے نام لیوا لا کھ سے دس لاکھ تک جا پہنچے.اور اب تو ان کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے.میرا اندازہ ہے کہ ساری دنیا میں اس وقت ساری دنیا کی میں بات کر رہا ہوں.جلسہ سالانہ پر بھی میں نے کہا تھا.بعض نے اعتراض کر دیا تھا کہ پاکستان میں تو اتنے احمدی نہیں ہیں.میں پاکستان کی بات نہیں کر رہا بلکہ ساری دنیا میں ) کم و بیش دو کروڑ احمدی ہیں.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس محبوب مہدی

Page 655

خطبات ناصر جلد دہم ۶۳۱ خطبہ نکاح ۱/۲۰ پریل ۱۹۷۳ء کو مانتے ہیں جس کو اولا گھر والے بھی نہیں پہچانتے تھے.اور اس پر ابھی زمانہ بھی کیا گذرا ہے.تھوڑ اسا زمانہ ہے کیونکہ ہمیں جو بشارت دی گئی ہے.وہ تین صدیوں پر مشتمل ہے.یعنی تین صدیاں نہیں گذریں گی کہ تمام دنیا میں اسلام غالب آ جائے گا تاہم ہمارا اندازہ ہے ( بہت سی پیشگوئیوں اور بشارتوں پر یکجائی نظر ڈالتے ہوئے کہ ) خدا کرے کہ یہ صحیح ہو بہر حال یہ ہماری تعبیر و تشریح ہے کہ ان بشارتوں کے پورا ہونے میں شاید سوسوا سو سال کا عرصہ نہیں گذرے گا کہ اسلام کے حق میں ایک بہت بڑا انقلاب نمایاں ہو کر دنیا کے سامنے آجائے گا.اس لحاظ سے میرے نزدیک اگلے ہیں پچیس سال بڑے اہم ہیں.اس عرصہ میں اسلام کے عالمگیر غلبہ کے ضمن میں ایک انقلاب عظیم بپا ہونے کی توقع ہے.پس جو بات نکاح کے ساتھ تعلق رکھتی ہے (اب میں پھر اصل مضمون کی طرف عود کرتا ہوں ) وہ یہ ہے کہ زندگی اور موت ہر دو مقصود تخلیق عالم نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس عالمین کو پیدا کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان کرایا.لولاك لما خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وجود کو پیدا نہ کرنا ہوتا تو اس کا ئنات کو معرض وجود میں لانے کی ضرورت نہ ہوتی.اور یہ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا وہ مبارک وجود ہے اور آپ ہی وہ افضل الرسل ہیں جنہوں نے اس عالمین کو پھلا نگ کر عرش رب کریم تک پہنچنا تھا.معراج میں آپ کو یہی دکھایا گیا تھا کہ گویا آپ نے ساتواں آسمان بھی پار کیا یعنی تمثیلی زبان میں اس عالمین کو پار کیا اور سدرۃ المنتہیٰ یا عرش رب کریم تک جا پہنچے.یہی وہ اعلیٰ مقام ہے جو آپ کو معراج میں دکھایا گیا تھا.جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عالمین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.کیونکہ آپ اپنی روحانی قوتوں اور استعدادوں کے مطابق ایسی ایسی روحانی رفعتیں حاصل کریں گے کہ گویا سارے عالمین کو پیچھے ، چھوڑ جائیں گے اور عرش رب کریم تک جا پہنچیں گے.آپ کا مقام عرش رب کریم ہو گا.غرض انسان کو اس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنی روحانی قوتوں اور استعدادوں کو بروئے کار لاتے ہوئے روحانی رفعتیں حاصل کرے اور خدا کا مقرب بندہ بنے.اسی غرض

Page 656

خطبات ناصر جلد دہم ۶۳۲ خطبہ نکاح ۲۰ را پریل ۱۹۷۳ء کے لئے اُمت محمدیہ کو قائم کیا گیا ہے اور اسی غرض کے لئے اب امت محمدیہ کے اندر جماعت احمد یہ کو قائم کیا گیا ہے تا کہ وہ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرے.پس صرف زندگی یا موت انسانی پیدائش کا مقصد نہیں ہے انسانی پیدائش کا مقصد رضائے الہی کا حصول ہے.نکاح یعنی رشتہ ازدواج سے نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے.بچے پیدا ہوتے ہیں.اس طرح زندگی اور موت کا چکر چلتا رہتا ہے.انسان نے اس دنیا میں ہمیشہ تو زندہ نہیں رہنا ہوتا پچاس ساٹھ یا سو سال کے بعد بہر حال ہر کسی نے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوجانا ہوتا ہے.پس زندگی اور موت کے مختلف ذریعے ہیں.رشتہ ازدواج ان میں سے ایک ہے.یہ اپنے نفس میں مقصود حیات نہیں.جو چیز تخلیق کائنات کا مقصود و مطلوب ہے اس کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے.اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ نباہنے کی کوشش کرنی چاہیے ذاتی طور پر بھی اور جہاں تک اولا د کا تعلق ہے ان کو بھی سمجھاتے رہنا چاہیے کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے بندے بنیں.ایسے بندے جو خدا تعالیٰ کی صفات حسنہ سے متصف ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نور کی چمکار دنیا کو دکھلانے والے ہوں.تاکہ ان کے ذریعہ آج کا بھٹکا ہوا انسان پھر اپنے رب کریم کی طرف واپس لوٹے.میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو جو احمدی ہیں یا احمدی بننے والے ہیں سب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنے مقصود حیات کو پہچان کر اُس کی ذمہ داریوں کو نباہنے والے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کی ہیں اور جن کا دائرہ ہر رشتہ کے ساتھ اپنے اپنے دائرہ میں مزید وسعت اختیار کرتا چلا جاتا ہے.آمین.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 657

خطبات ناصر جلد دہم ۶۳۳ خطبہ نکاح ۲۴ جون ۱۹۷۳ء نکاح کا اصل مقصود زوجین کی شکل میں پیدائش کے مقصد کو پورا کرنا ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۴ / جون ۱۹۷۳ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب از راہِ شفقت دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور عطا کیا اور اپنی دوسری ہر قسم کی مخلوق کو احساس عطا کیا جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے انسانی عقل و شعور سے مختلف تو ہے لیکن جس غرض کے لئے انسان کو عقل اور شعور دیا گیا ہے، غیر انسانی مخلوق میں احساس اس غرض کو پورا کر رہا ہے.یہ احساس یا انسان کے لحاظ سے عقل وشعور اس بنیادی صداقت کا مظہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی کوئی مخلوق خود اپنے وجود میں اکیلی کوئی کام نہیں کر سکتی.اس کو زوج کی ضرورت ہے.زوج کا جو تخیل اور تصور ہے اس کے پروان چڑھنے کے لئے ایک قوت مؤثرہ کا ہونا اور دوسرے قوتِ متاثرہ کا ہونا ضروری ہے.ایک قوت اثر ڈالتی ہے اور دوسری اثر قبول کرتی ہے.یہ اصول دنیا کی ہر چیز میں کارفرما ہے.عام آدمی کے سمجھنے کے لئے میں درختوں کی مثال لیتا ہوں.درخت بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں لیکن ان میں عقل اور شعور نہیں بلکہ احساس پایا جاتا ہے جسے ہر آدمی سمجھ سکتا ہے.یہ بات کہ درختوں میں احساس پایا جاتا ہے علم زراعت کا ایک بہت ہی

Page 658

خطبات ناصر جلد دہم ۶۳۴ خطبہ نکاح ۲۴ جون ۱۹۷۳ء اہم موضوع ہے جس پر بہت تحقیق ہو چکی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی کیونکہ انسانی عقل اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا احاطہ نہیں کر سکتی.غرض درختوں پر جو تحقیق ہوئی ہے وہ اسی زوجین کے اصول پر مبنی ہے.اس تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ درخت ایک ایسی مخلوق ہے جن میں حقیقت زندگی موجود ہے.گویا درختوں میں زندگی کا احساس پایا جاتا ہے.چنانچہ اس احساس کی بجائے انسان کو عقل اور شعور عطا ہوا.جب ہم اپنے اپنے ماحول پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ بات بڑی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ کوئی فرد بشر اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے وجود پر انحصار کر کے کچھ کر ہی نہیں سکتا.مثلاً بچہ پیدا ہوتا ہے لڑکا ہو یا لڑکی اس وقت اس کی حالت قوت متاثرہ کے حامل کی ہوتی ہے.وہ فطرتاً اثر قبول کرنے لگتا ہے.چنانچہ باپ کی نگہداشت اور ماں کے پیار اور محبت کے بغیر وہ پرورش نہیں پاسکتا.چنانچہ اس قبول کرنے والی قوت کے ساتھ ایک اثر ڈالنے والی قوت کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا یعنی ماں باپ جو ہر قسم کی تکالیف اٹھا کر بچے کو پالتے ہیں.اور اس پر اپنے اخلاق و عادات کا اثر ڈالتے ہیں.پھر جب انسان بڑا ہو جاتا ہے تو اس کو پتہ لگتا ہے کہ حصول علم کے لئے ہر انسان میں (خواہ نر ہو یا مادہ) قوت مؤثرہ پائی جاتی ہے.تاہم اس وقت بھی زیادہ نمایاں اثر قبول کرنے والی یعنی قوت متاثرہ ہی ہوتی ہے مثلاً انسان کو اتالیق یا استاد کی پروفیسر یا لیکچرار کی اور مربی یا معلم کی ضرورت ہوتی ہے.جو اس پر اثر ڈال کر اس کی تمام خدا دا د قوتوں کی نشو و نما کر رہا ہوتا ہے.گو بعض پوری تندہی اور توجہ کے ساتھ کام نہیں کرتے اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں غفلت برتتے ہیں لیکن اس حقیقت سے تو ہم بہر حال انکار نہیں کر سکتے کہ اس زمانہ میں بھی ہر فردا پنی زندگی میں جو چیز نمایاں کر کے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے وہ قوت متاثرہ ہوتی ہے یعنی اثر قبول کرنے والی قوت.پھر جس وقت انسان بلوغت کو پہنچ جاتا ہے تو اس کی قوت مؤثرہ نمایاں ہو جاتی ہے بالخصوص مردوں میں.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

Page 659

خطبات ناصر جلد دہم ۶۳۵ خطبہ نکاح ۲۴ جون ۱۹۷۳ء الرِّجَالُ قَامُونَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء : ۳۵) اس لحاظ سے بھی مردوں پر بہت سی ذمہ داریاں زائد ڈالی گئی ہیں.اس لئے ان میں قوت مؤثرہ زیادہ پیدا کی گئی ہے.گویا ایک رجل ( مرد ) کی حیثیت سے انسان کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے.تاہم اللہ تعالیٰ نے انسان کو بعض ایسی قوتیں عطا کی ہیں کہ وہ ان قوتوں کے لحاظ سے بنیادی طور پر اثر قبول کرنے کا مادہ بھی رکھتا ہے لیکن جہاں تک اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوق کا تعلق ہے ان میں عملی استعداد کے لحاظ سے کسی مخلوق میں ہمیں قوت مؤثرہ نظر نہیں آتی.چنانچہ انسان مجبور ہو جاتا ہے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے کہ ایسے قوائے انسانی جن کی تربیت کے لئے ہمیں قوت مؤثرہ مخلوق میں کہیں نظر نہیں آرہی اور اصول یہ ہے کہ خدا کہتا ہے ہم نے زوجین پیدا کئے ہیں ایک قوت مؤثرہ کے حامل اور ایک قوتِ متاثرہ کے حامل.اس سے مذہب اسلام نے ، قرآن عظیم نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارے اندر ایسے قویٰ جو اثر قبول کرنے والے پائے جاتے ہیں اور اس دنیا میں مخلوقات میں سے کوئی اثر ڈالنے والی کوئی ایجنسی یا کوئی طاقت ہمیں نظر نہیں آرہی.ان قوائے متاثرہ کی نشوونما کے لئے تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ قوت مؤثرہ کا سرچشمہ ہے.اسی لئے سورہ ذاریات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے تمہیں زوجین کی حیثیت میں پیدا کیا ہے اور اس لئے پیدا کیا ہے کہ تا کہ تم نصیحت حاصل کرو.پھر فرمایا.فَفِرُّوا إِلَى اللهِ (النَّارِیت : ۵۱) اپنے قومی کی نشو و نما کے لئے تم اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑو.یعنی اس کی طرف توجہ کرو.یہ صحیح ہے کہ ہر قوت کی نشوونما خواہ وہ ان مخلوقات کے واسطہ سے ہو آخر کار ان کا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے لیکن میں ان قوائے متاثرہ کا ذکر کر رہا ہوں جن پر سوائے اللہ تعالیٰ کی قوت مؤثرہ کے اور کوئی چیز اثر انداز نہیں ہوتی.ایسے موقع پر جو خطبہ نکاح پڑھا جاتا ہے اس میں تین مختلف آیات قرآنیہ پڑھی جاتی ہیں گو یہ آیات یہ کہ کر تو نازل نہیں ہوئیں کہ انہیں نکاح کے موقع پر پڑھا کرو.اگر کوئی ایک آیت پڑھ دے یا دوسری پڑھ دے تب بھی نکاح کا اعلان ہو سکتا ہے.حتی کہ صرف سورہ فاتحہ کی تلاوت کے ساتھ بھی نکاح کا اعلان جائز طور پر ہو سکتا ہے لیکن چونکہ ایک بنیادی حقیقت اُمت مسلمہ کے مطہر

Page 660

خطبات ناصر جلد دہم ۶۳۶ خطبہ نکاح ۲۴ جون ۱۹۷۳ء گروہ کے سامنے آتی رہنی چاہیے تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کے موقع پر بالعموم یہ تین آیات پڑھا کرتے تھے.یہ تین آیات کا مجموعہ اور نکاح کے موقع پر اس کی تلاوت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں زوجین کے طور پر پیدا کیا ہے.مرد کو پیدا کیا.اس سے اس کی زوج کو نکالا.یہی حقیقت ہے زوجین پیدا کرنے کی اور دوسرے یہ کہ تمہیں مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ کی رو سے آئندہ کا خیال رکھنا پڑے گا اس کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ تمہیں اپنی قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما کے لئے قوائے مؤثرہ کی تلاش کرنی پڑے گی ورنہ تم اپنی زندگی کے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکو گے.پس نکاح اور اس قسم کے تعلقات وغیرہ کا اصل مقصود زوجین کی شکل میں پیدائش کے مقصد کو پورا کرنا ہے.دنیا میں ایک بزرگ آتا ہے.وہ مامور ہوتا ہے.وہ نبی ہوتا ہے اس سے وابستہ جماعت کو بھی اسلامی اصطلاح میں اس کا ساتھی اور زوج ہی کہا جاتا ہے.بہر حال یہ مختلف چیزیں یا زندگی کے مختلف پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں (اور اس وقت دو نکاح ہمارے سامنے آئیں گے ) انسان حیران ہوتا ہے لوگوں کی آپس میں شادیاں ہوتی اور رشتے قائم ہوتے ہیں.ان تعلقات کے قیام کی اصل اور حقیقی غرض آگے نسل چلانا نہیں بلکہ حقیقی غرض یہ یاد دلانا ہے کہ تمہیں زوجین اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تمہاری زندگیوں کا جو یہ مقصد ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ اور پختہ اور حقیقی تعلق پیدا ہو، تمہاری نظر سے یہ مقصد کبھی اوجھل نہیں ہونا چاہیے ورنہ تمہارے قویٰ کا ایک حصہ شاید نشو و نما پا جائے تو پا جائے لیکن دوسرا حصہ مفلوج ہو کر رہ جائے گا.غرض خدا تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ ہم سبھی کو یہ بنیادی حقیقت سمجھنے اور یادر رکھنے کی توفیق عطا ہو.جن کے نکاحوں کا اس وقت اعلان ہونے والا ہے ان کے لئے تو خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ رشتہ ازدواج کی حقیقی غرض کو ہمیشہ مد نظر رکھیں.اگر مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ“ کی رو سے آئندہ کا خیال رکھنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان طاقتوں کی نشو ونما کا خیال رکھنا پڑے گا جو اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہمیں عطا کی ہیں.ہمیں اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف رجوع کر کے اس سے ایک پختہ اور حقیقی تعلق پیدا کرنا پڑے گا.یہی وہ حقیقی سبق اور بنیادی اصول ہے جو خطبہ نکاح کی 66

Page 661

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۴ جون ۱۹۷۳ء آیات میں ہمارے سامنے رکھا گیا ہے.جن لوگوں کے نئے رشتے قائم ہوتے ہیں ان کو یاد دہانی ہو جاتی ہے.خدا کرے کہ وہ اس حقیقت کو کبھی بھولیں نہیں.وہ اس حقیقت کے پیش نظر اپنے فرائض کو ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں.دو نکاحوں کا اس وقت میں اعلان کروں گا.دونوں بچیوں کی سائیڈ (Side) یعنی وہ اور ان کے خاندان خصوصاً اس بات کے بڑے ہی حقدار ہیں کہ ہم ان کے لئے بہت ہی دعائیں کریں.اور اسی طرح لڑکوں اور ان کے خاندان کے لئے بھی.لیکن اس وقت میرے سامنے جو چیز آتی ہے وہ بچیوں کی طرف سے ہے.ہمارے مرحوم بھائی چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ سیالکوٹ ہیں ( جن کی صاحبزادی کا نکاح ہے ) چوہدری صاحب مرحوم کالج کے زمانہ سے میرے ذاتی واقف اور دوست تھے.اتنی شرافت تھی اس شخص کی طبیعت میں کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے اور خالی شرافت ہی نہیں تھی بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو جماعتی ذمہ داریوں کے نباہنے کا موقع عطا کیا تو انہوں نے اپنی طرف سے پورے اخلاص اور ایثار کے ساتھ جماعت کے کام کئے اور مقبول کوشش کی توفیق پائی.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.ایک تو ان کی صاحبزادی ہیں جن کے نکاح کا میں اس وقت اعلان کروں گا.دوسرے ہمارے کا ٹھگڑھ کے ایک پرانے احمدی خاندان کی نواسی اور سر وعہ کے ایک مخلص خاندان کی پوتی ہیں.بیچ میں کچھ تھوڑا سا فرق پڑا ہے.ایک نسل میں وہ اخلاص نہیں دکھائی دیا جو بچی کے نانا اور دادا میں پایا جاتا تھا.گویا بچی کے نانا اور دادا جس مقام کو حاصل کرنے والے تھے اس مقام کو بچی کے والد نے قائم نہیں رکھا.بڑا افسوس ہوتا ہے.خدا کرے کہ پھر ایک نسل کے بعد جو دوسری نسل شروع ہوگئی ہے ان کو اسی اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا ہو جس اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق ان کے بزرگوں کو عطا ہوئی تھی.اس لئے میرے لئے خصوصاً اور جماعت کے لئے عموماً دونوں بچیاں پیار کی مستحق ہیں.ہم دل سے دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں رشتوں کو چاروں خاندانوں کے لئے بہت بابر کت کرے.

Page 662

خطبات ناصر جلد دہم ۶۳۸ خطبہ نکاح ۲۴ جون ۱۹۷۳ء غرض پہلا نکاح عزیزہ بچی امتہ الکریم صاحبہ کا ہے جو مکرم و محترم چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ مرحوم سیالکوٹ کی صاحبزادی ہیں.ان کا رشتہ عزیزم مکرم میجر مبشر احمد صاحب باجوہ ابن مکرم و محترم چوہدری شیر محمد صاحب مرحوم چک نمبر ۳۳ جنوبی ضلع سرگودھا کے ساتھ دس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.ہماری عزیزہ بچی امتہ الکریم صاحبہ کے بھائی عزیزم چوہدری افتخار احمد صاحب باجوہ اپنی ہمشیرہ کی طرف سے وکیل ہیں.ہماری دوسری بچی جن کے نکاح کا میں اس وقت اعلان کروں گا وہ عزیزہ ریحانہ یاسمین صاحبہ ہیں جو مکرم و محترم چوہدری بشارت احمد خان صاحب کی صاحبزادی ہیں ان کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم میجر صفی اللہ خان صاحب ابن مکرم و محترم کرنل ظفر اللہ خان صاحب چک نمبر ۶۸ ج.ب ضلع لائلپور سے قرار پایا ہے.مکرم چوہدری بشارت احمد خان صاحب اس وقت لندن میں ہیں.انہوں نے مجھے اختیار دیا تھا کہ میں جس کو چاہوں وکیل بنادوں.تاہم ان کی خواہش یہ تھی کہ میں خود وکیل بن جاؤں لیکن اصولاً چونکہ میں کسی کا وکیل نہیں بنا کرتا اس لئے ان کی طرف سے جو اختیار اخلاقا اور شرعاً مجھے دیا گیا ہے اس کے مطابق میں نے مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ کو ان کی بچی کے نکاح کا وکیل مقر ر کیا ہے.ایجاب وقبول کے بعد ان ہر دورشتوں کے بہت ہی بابرکت اور مثمر بثمرات حسنہ ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 663

خطبات ناصر جلد دہم ۶۳۹ خطبہ نکاح ۹ جولائی ۱۹۷۳ء سلسلہ عالیہ احمدیہ کی روح نظام خلافت ہے خطبہ نکاح فرموده ۹ جولائی ۱۹۷۳ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے از راہ شفقت بعد نماز عصر دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آیا ہے کہ آپ سے فرمایا گیا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو یہ افلاک، یہ عالمین یہ یونیورس (Universe) پیدا نہ کئے جاتے.جب ہم اس حقیقت پر غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس یو نیورس (Universe) کے، اس عالمین یا افلاک کے دونمایاں اور بنیادی پہلو ہیں.ایک مادی پہلو ہے اور دوسرا روحانی.اگر صرف مادی پہلو کو لیا جائے تو یہ دنیا اور اس دنیا کی نعمتوں میں وہ لوگ بھی شریک ہیں جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے اور جن کی زبانیں ہر وقت آپ کے خلاف چلتی رہتی ہیں.روحانی حصہ کو دیکھا جائے تو ہر وہ شخص جس نے روحانی نعمتوں کو حاصل کیا.ہر وقت اس کی زبان پر جہاں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے ہیں وہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ صرف زبان سے بلکہ اس کے جسم اور روح سمیت اس کا سارا وجود درود بھیج رہا ہے.گواس مادی دنیا سے فائدہ اٹھانے کے لئے مومن کو کہا گیا ہے لیکن یہ مادی دنیا اور اس کے

Page 664

خطبات ناصر جلد دہم ۶۴۰ خطبہ نکاح ۹ جولائی ۱۹۷۳ء اسباب اور اس کی نعمتیں اور اس کی لذتیں اور سرور اپنے نفس میں کوئی چیز نہیں جب تک اس کے مقابلہ میں روحانی لذت اور سرور حاصل نہ ہو.کوئی آدمی جتنا جتنا اپنی استعداد کے مطابق اور اپنے مجاہدہ کے نتیجہ میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا تعلق قائم کرے گا اور آپ سے پختہ رشتہ استوار کرے گا اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کا حق دار ٹھہرے گا.پس یہ مادی دنیا اپنے نفس میں کوئی شے نہیں.اسے ایک ایسا نصف کہہ سکتے ہیں جس میں جان نہ ہو.ایک ایسا جسم جو بغیر روح کے ہو یا ایک جسم جو نصف میں سے کاٹ دیا گیا ہو.یا ایسا جسم جس کے نصف حصہ میں کیڑے پڑے ہوئے ہوں.ایک چھوٹی سی مثال میں دوں گا تا کہ سامنے بیٹھے ہوئے بچے بھی سمجھ جائیں.آج کل آموں کا موسم ہے ہر وہ آم جو خراب ہے اور جس کے نصف میں آپ کو کیڑے پھرتے نظر آرہے ہیں (ایسے کیڑے بھی آم میں پڑ جاتے ہیں میں نے خود ایسے کیڑے دیکھے ہیں ).وہ آپ کبھی نہیں کھا ئیں گے اس آم کو کھانے کے لئے آپ کا دل نہیں چاہے گا.یہ دنیا بھی محض ایک ایسا نصف ہے جس کے اندر کیڑے پڑے ہوئے ہیں.اگر عالمین کا وہ دوسرا حصہ جو روحانی حصہ کہلاتا ہے، جس کا تعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کی وجہ بنتا ہے اور جس کے نتیجہ میں یہ دنیا پیدا کی گئی ہے.وہ اگر نہ ہو تو یہ دنیا کچھ بھی نہیں ہے.پس انسان کو اس دنیا میں محض دنیا کے حصول کے لئے اپنی زندگی نہیں گزارنی چاہیے بلکہ دنیا کے ایسے حصول میں زندگی گزارنی چاہیے جس سے خدا کا پیار مل جائے.تاہم دنیا کمانے سے منع نہیں کیا گیا.اس حدیث سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ دنیا اصل میں تو ایک مومن کے لئے پیدا کی گئی ہے.جب وہ اس سے محروم کیا جاتا ہے تو میں یہ کہا کرتا ہوں کہ مومن کو اس کا بھی ثواب ملتا ہے کہ جو چیز اس کے لئے مقدر تھی اس میں اس کو حصہ نہیں دیا گیا.کسی اور ظالم نے اس کا حصہ لے لیا.چنانچہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ دنیا حاصل نہ کرو.اسلام یہ کہتا ہے کہ اس عالمین کا نصف حاصل نہ کرو.یعنی ایک ایسا جسم جس میں روح نہ ہو.ایک ایسی مادی چیز جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب نہیں کر رہی اسے حاصل نہ کرو.جہاں تک قرب و رضائے الہی کے حصول کی خاطر دنیا کمانے کا تعلق ہے ہم دیکھتے ہیں کہ

Page 665

خطبات ناصر جلد دہم ۶۴۱ خطبہ نکاح ۹ جولائی ۱۹۷۳ء ملینٹئیر (Millionair) لکھ پتی تو خلفائے راشدین کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے.وہ لوگ جن کو تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے نہیں ملتے تھے انہی میں سے بعض کو بعد میں ہم نے تاریخ کے آئینہ میں یہ دیکھا کہ انہوں نے ایک ایک وقت میں ایک ایک لاکھ اونٹ کا سودا کیا.اب ایک لاکھ اونٹ بہت بڑی چیز ہے.اگر ایک اونٹ کی قیمت پانچ سو رکھی جائے تو آپ ضرب دے کر دیکھ لیں کیا قیمت بنتی ہے.یہ تو ایک سودا ہے جو صبح کے وقت منڈی میں جا کر کیا اور کئی گناہ زیادہ نفع کمالیا لیکن اس ساری دنیا کے باوجود انہوں نے خدا کے پیار کو حاصل کیا.دنیا جو انہوں نے حاصل کی.اس دنیا کی نعمتیں اور دنیا کے اموال کی وجہ سے ان کا تعلق خدا اور اس کے رسول سے منقطع نہیں ہوا بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں خدا سے ان کا تعلق اور پختہ ہوا اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ان کو اور زیادہ ملا.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وہ وارث ہوئے.پس اسلام نے دنیا کے حصول پر کوئی پابندی نہیں لگائی.لیکن کرم خوردہ دنیا جس میں کیڑے چل رہے ہوں اس کے حصول پر پابندی لگائی ہے.ہماری جماعت میں بھی اللہ تعالیٰ نے دولت کی بڑی فراوانی رکھ دی ہے.آج سے پچیس تیس سال پہلے جو چیز ( میں جماعت کی مجموعی حیثیت لے رہا ہوں خاندانوں یا افراد کو نہیں لے رہا ) جماعت کے تخیل میں بھی نہیں آسکتی تھی.اس سے کہیں آگے بڑھ گئے.آج سے کوئی تیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے جب تحریک جدید کا اجرا ہوا تو بہت بڑی سکیم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس وقت کے لحاظ سے بیان کی کہ ایک لاکھ روپیہ جماعت چندہ دے.جماعت نے اس وقت ایک لاکھ سے کچھ زائد چندہ دیا.اس سے پہلے ہماری تاریخ میں یہ بھی آتا ہے کہ مجلس شوریٰ پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو جماعت کو توجہ اس طرف دلانی پڑی کہ چار مہینے سے صدرانجمن احمدیہ کے کارکنوں کو تنخواہیں نہیں ملیں.جب کہ ان کی تنخواہوں کا ماہانہ بجٹ چند ہزار سے زیادہ نہیں تھا.ہم اس دور سے بھی گذرے ہیں.پھر ایک لاکھ روپے کے دور سے بھی گذرے ہیں اور اب اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ پچھلے سال شوری نے ایک خاص مد قائم کر کے ایک لاکھ روپے اس میں آمد رکھی.( یہ اس سال کی شوری سے پہلے کی بات ہے ) بیت المال والے بڑے گھبرائے ، مجھے کہنے لگے جماعت سے

Page 666

خطبات ناصر جلد دہم ۶۴۲ خطبہ نکاح ۹ جولائی ۱۹۷۳ء مالی تحریک کریں.چنانچہ بعض مصلحتیں تھیں.میں نے کہا تم کچھ نہ کرو.جماعت میں میں نے اس طرح تحریک نہیں کرنی.لیکن جب حالات اچھے ہوں گے میں تحریک کر دوں گا.وہ سال گذر گیا.بعض وجوہات ایسی تھیں کہ میں وہ تحریک نہیں کرنا چاہتا تھا.لیکن جب وقت آیا تو آپ میں سے اکثر جو یہاں بیٹھے ہیں ان کو معلوم ہے کہ کوئی تحریک نہیں کی گئی.نہ اخبار میں آیا نہ میں نے خطبہ دیا.نہ جماعت کو تو جہ دلائی گئی.کوئی اس قسم کی بڑے پیمانے کی تحریک اتنی چھوٹی سی رقم کے لئے کرنے کی مجھے ضرورت ہی نہیں پڑی.میں نے کچھ خطوط افراد کو لکھے اور اس وقت میرا خیال ہے کہ چند ہفتوں کے دوران انجمن کے پاس اس مد میں ستر یا اسی ہزار کے قریب رقم جمع ہوگئی.بحیثیت مجموعی جماعت کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ایک لاکھ روپے جمع کرنے میں کوئی چندہ مانگا گیا یا دیا گیا.بحیثیت مجموعی تو یہی شکل بنی کہ کسی کو پتا ہی نہیں کہ کوئی ایسی اپیل بھی ہوئی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑی دولت دی ہے مگر خالی دولت ہی نہیں دی اگر ہماری صرف دولت میں برکت ہوتی تو ہمارے لئے فکر اور گھبراہٹ کی بات تھی لیکن اس کے مقابلہ پر روحانی لذات کا ایسا سامان پیدا کیا ہے کہ دنیا جماعت احمدیہ کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہو گئی ہے.(ابھی ماننے پر مجبور نہیں ہوئی لیکن گھبرانے پر مجبور ہوگئی ہے ) ساری دنیا میں ، افریقہ میں ، انگلستان میں ، امریکہ میں.خدا تعالیٰ کے پیار کے اتنے جلوے دیکھے اور اس کے نتیجہ میں اتنا پیار پیدا ہوا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کرے کم ہے.خود یہ جو ایک انسٹی ٹیوشن (Institution) یا ایک سلسلہ ہے.جس کو ہم سلسلہ عالیہ احمد یہ کہتے ہیں.ہمارے لئے اس سلسلہ کی روح نظامِ خلافت ہے اور اس لحاظ سے خدا کا پیار حاصل کرنے والا پہلا آدمی تو میں ہوں.گوساری جماعت خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرتی ہے لیکن جب اکیلے میں میں اپنے متعلق سوچتا ہوں تو میری تو گردن اتنی جھک جاتی ہے کہ مزید جھکنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی.یعنی ہم اپنے نفس پر غور کریں ہم ہیں کیا چیز کسی سائنسدان نے ایک دفعہ کہا تھا کہ کسی انسان کا ٹھوس وجود ایک چنے کے برابر ہے.باقی تو پانی ہے.کچھ اللہ تعالیٰ نے ہوا بھر دی اور اس کو انفلیٹ (Inflate) یعنی پھیلا کر انسان بنادیا.پھر اس کو ذہن دیا اور اس پر اپنے جلوے ظاہر کئے.اور پھر وہ انسان یہ سمجھے کہ میں کچھ.

Page 667

خطبات ناصر جلد دہم ۶۴۳ خطبہ نکاح ۹/ جولائی ۱۹۷۳ء ہوں غلط ہے.جماعت کے افراد امیر ہوں یا غریب وہ تو ایسا نہیں سمجھتے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اپنی استعداد کے مطابق خدا اور اس کے رسول سے پیار کی توفیق عطا کی اور پیار کے جلووں کے حاصل کرنے کے سامان بھی دیئے ہیں اور مواقع بھی مہیا کئے ہیں اور اپنے فضل سے عملاً وہ پیار کے جلووں کو ظاہر بھی کرتا ہے.میرے پاس ہزاروں خطوط ایسے آتے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ جماعت کے ہزاروں افراد نے خدا تعالیٰ کے پیار کو دیکھا.بعض لوگ بڑی بیوقوفی کرتے ہیں وہ ایسی جگہوں پر جاتے ہیں.جہاں سے تعویذ گنڈا حاصل کرتے ہیں.یہ چیزیں کیا حیثیت رکھتی ہیں.میرے پاس جب یہ خط آتا ہے کہ دعا کریں کہ میری بھینس بیمار ہے اچھی ہو جائے.تو مجھے بڑا لطف آتا ہے.اس لئے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بوٹ کا تسمہ ٹوٹ جائے اور لینا ہو تو خدا تعالیٰ سے مانگو.اب بھینس کی بیماری کوئی چیز نہیں.کوئی ناسمجھ شاید ہنسے کہ اس کو کوئی اور بات لکھنے کو نہیں ملی کہ اس نے یہ کہ دیا کہ میری بھینس بیمار ہے اس کے لئے دعا کریں مگر مجھے بڑا لطف آتا ہے.کیونکہ جو روح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں پیدا کرنا چاہتے تھے کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کے متعلق یہ خیال نہ کرو کہ ہم اپنے زور بازو اور طاقت سے اس کو حاصل کر سکتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے مانگو.اور بھینس کی صحت بھی خدا سے مانگو خود بھی دعا کرتے ہیں اور پیار سے مجھے بھی دعا کے لئے لکھ دیتے ہیں کہ دعا کریں میری بھینس اچھی ہو جائے.تعویذ نہیں مانگتے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہ انسان بیماری سے شفا حاصل کر سکتا ہے اور نہ بھینس بیماری سے شفا حاصل کر سکتی ہے.یہ سب اس کا پیار ہے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت کے جلوے دیکھے ہیں.نکاح کا جب اعلان کیا جاتا ہے تو ہمارے ایک نو جوان بچے اور نوجوان بچی کے لئے ایک قسم کی نئی زندگی کا دروازہ کھلتا ہے.انسانی زندگی میں یہ ایک بڑا اہم موڑ ہے.اگر مادی دنیا میں سے اس کی مثال دینی پڑے تو میں یہ کہوں گا کہ اتنا اہم موڑ ہے جتنا ریشم کی سنڈی کا.ریشم بنانے والا کیڑا ایک سنڈی کی مانند ہے.جو رینگتی (Crawl) کرتی ہے اور اس کی نہ آنکھیں نظر آتی ہیں اور نہ کوئی اور آثار اس کے چہرے پر دکھائی دیتے ہیں.پھر وہ سکون (Cocoon)

Page 668

خطبات ناصر جلد دہم ۶۴۴ خطبہ نکاح ۹ جولائی ۱۹۷۳ء بناتی ہے یعنی ریشم کا تا گہ اپنے اوپر لپیٹ کر سکون بناتی ہے.اور پھر انسان اس سے ریشم حاصل کرتا ہے.اور سائنس نے جب اس پہ تجربہ کیا تو سائنس دانوں نے خدا کی عجیب نشانی دیکھی کہ جس وقت سکون مکمل ہو جاتا ہے تو اس وقت اگر فوری طور پر اس سنڈی کو سکون کے اندر مار کے ریشم کی حفاظت نہ کی جائے اور اس کو مہلت دی جائے کہ وہ اپنے لکون میں سوراخ کرے اور باہر نکل آئے تو اتنے تھوڑے سے عرصہ میں ( یہ سارا چند گھنٹوں شاید ۲۴ گھنٹوں کا وقفہ ہوتا ہے ) جس میں سنڈی کی شکل والے کیڑے کا گردن کے اوپر کا حصہ جھڑ جاتا ہے اور ایک نیا سرجس کی بڑی لمبی مونچھیں بھی ہوتی ہیں اور جس کے پر نکلے ہوئے ہوتے ہیں اور بڑی خوبصورت موٹی موٹی آنکھیں بھی ہوتی ہیں وہ لکون میں سے سوراخ کر کے باہر نکلتا ہے اور پرواز کر جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اس کا بڑا اہم موڑ ہے.پس یہ ازدواجی تعلق بھی دراصل اسی قسم کا ایک اہم موڑ ہے.ایک نو جوان بچے اور بچی کے لئے چونکہ اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.اس لئے ہمیں کہا گیا ہے کہ دعاؤں کے ساتھ اس کا اعلان کرو.اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ رشتوں کو با برکت کرے اور جونئی ذمہ داریاں دینی اور دنیوی لحاظ سے ان پر عائد ہونے والی ہیں ان کے نباہنے کی وہ اللہ تعالیٰ سے توفیق حاصل کریں.دنیا با جوں اور آتش بازی کے ساتھ شادیاں کرتی ہے اور ہم عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اپنے بچوں اور بچیوں کی شادیاں کرتے ہیں.ہمارے ہاں بعض دفعہ ایک وقت میں نکاح ہوتا ہے اور دوسرے وقت میں رخصتا نہ ہوتا ہے.بہر حال ہم برکت اور رحمت کا بیج بونا چاہتے ہیں.عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے خدا سے اس کا فضل مانگتے ہیں.پس میں آج بھی نکاحوں سے قبل ان الفاظ میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو بھی بہت بابرکت کرے اور ایک مسلمان احمدی نوجوان پر اس موڑ پر پہنچنے کے بعد جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بشاشت کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق عطا کرے.آمین.میں اس وقت دو نکاحوں کا اعلان کروں گا.ایک تو عزیزہ بچی عابدہ باجوہ صاحبہ کا نکاح ہے

Page 669

خطبات ناصر جلد دہم ۶۴۵ خطبہ نکاح ۹/ جولائی ۱۹۷۳ء جو مکرم و محترم چوہدری رحمت اللہ صاحب باجوہ کی صاحبزادی ہیں.چوہدری صاحب آج کل منڈی بہاؤالدین ضلع گجرات میں ہیں.پہلے مشرقی پاکستان میں تھے.بڑے خاموش اور مخلص باپ ہیں اس عزیزہ اور پیاری بچی کے جس کا نکاح عزیزم مکرم چوہدری منیر نواز صاحب جو مکرم و محترم چوہدری شاہ نواز صاحب کراچی کے صاحبزادہ ہیں کے ساتھ پچیس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.دوسرا نکاح عزیزہ بچی سیدہ ذاکرہ صاحبہ کا ہے جو مکرم و محترم میجر سید مقبول احمد صاحب راولپنڈی کی صاحبزادی ہیں.ان کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم سید ناصر احمد ارتضی علی صاحب ابن مکرم و محترم سیدار تضی علی صاحب مرحوم کراچی کے ساتھ قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 670

Page 671

خطبات ناصر جلد دہم ۶۴۷ خطبہ نکاح ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۳ء اسلامی خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت 66 قول سدید کا حکم ہے خطبه نکاح فرموده ۱/۲۹ کتوبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمہ صاحبزادی امتہ الولی صاحبہ بنت مکرم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کا نکاح پندرہ ہزار روپے حق مہر پر محترم مرزا شکیل مبرور احمد صاحب ابن مکرم میاں شریف احمد صاحب اسلام آباد کے ساتھ.۲ - محتر مہ ناصرہ صاحبہ بنت مکرم صو بیدار میجر بشیر احمد صاحب مرحوم ربوہ کا نکاح چھ ہزار روپے حق مہر پر محترم میاں محمد اسحاق صاحب ربوہ ابن مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب مبلغ امریکہ سے.-۳- محترم امۃ الکریم نعیمیہ صاحبہ بنت مکرم کرنل مرزا محمد شفیع صاحب راولپنڈی کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر محترم کیپٹن افضال احمد صاحب ابن مکرم بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) اقبال احمد صاحب شمیم سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ سے.۴.محترمہ نزہت صاحبہ بنت مکرم میجر چوہدری محمد افضل صاحب لاہور کا نکاح ساڑھے سات ہزار روپے حق مہر پرمحترم چوہدری شاہد احمد صاحب ابن مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب سیالکوٹ سے.۵- محترم امۃ النور صاحبہ بنت مکرم مولوی محمد منور صاحب مبلغ سلسلہ احمد یہ ربوہ کا نکاح دو ہزار روپے حق مہر پرمحترم عبدالرزاق صاحب شاہد مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ ابن مکرم مولوی غلام احمد صاحب

Page 672

خطبات ناصر جلد دہم ربوہ سے قرار پایا.۶۴۸ خطبہ نکاح ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۳ء محترمہ بشری شریف صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ کا نکاح محترم خالد سعید صاحب لا ہورا بن مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب گیمبیا سے.۷.محترمہ بشری صدیقہ صاحبہ بنت مکرم پیر فضل الرحمن صاحب سانگھڑ کا نکاح سات ہزار روپے حق مہر پر محترم صفی اللہ خاں صاحب ابن مکرم چوہدری عطاء اللہ خان صاحب ربوہ سے قرار پایا.حضور انور نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.خطبہ نکاح کا ایک حصہ رہ گیا تھا اس لئے میں نے دوبارہ پڑھا.شاید اللہ تعالیٰ کے نزدیک خطبہ نکاح میں پڑھی جانے والی یہ تین آیتیں دو دفعہ پڑھنے کی ضرورت تھی.تاہم جہاں تک مسئلہ کا سوال ہے نکاح سے قبل گو ان آیات کا پڑھنالا زمی اور ضروری نہیں ہے اسلام نے تو یہاں تک روا رکھا ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر جائز طریقے پر نکاح کا اعلان کیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ آیات کی تلاوت کے دوران ہی میں نے یہ محسوس کر لیا کہ عام رواج کے مطابق خطبہ مسنونہ کا ایک حصہ نہیں پڑھ سکا جس سے مجھے اس طرف توجہ ہوئی کہ نئی نسلوں کو تقویٰ کی طرف شاید تین دفعہ کی بجائے چھ دفعہ بلا نا ضروری ہو گیا ہے اس لئے میں نے ان آیات کی تلاوت کرنے کے بعد پھر مسنون اور مروجہ طریق پر دوبارہ خطبہ پڑھا.طبیعت میں ابھی ضعف ہے اس لئے میں نصائح پر مشتمل کوئی لمبا خطبہ تو اس وقت نہیں دے سکتا.میں نے احباب جماعت کو پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلائی ہے.مجھ سے پہلوں نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اسلام کی حسین تعلیم صرف سچ بولنے کا حکم نہیں دیتی کیونکہ بعض اوقات خاموش رہنے کا بھی حکم ہے.اگر محض سچ بولنے کے حکم پر اکتفا کیا جاتا تو پھر ایک فتنہ پیدا کرنے والا شخص سچ اس وقت بولتا جب اسے اسلام نے یہ حکم دیا تھا کہ تو بول نہ اور خاموش رہ.اس لئے اسلامی تعلیم نے قول سدید کا حکم دیا ہے.جہاں تک میرا مطالعہ ہے اور میں نے غور کیا ہے اسلام سے پہلے کسی مذہب اور کسی فلسفہ نے انسان کو اس طرف توجہ نہیں دلائی.یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے اس مسئلہ کو واضح کیا ہے.اس لحاظ سے یہ بھی اسلامی خصوصیات میں سے ایک بہت بڑی

Page 673

خطبات ناصر جلد دہم ۶۴۹ خطبہ نکاح ۷۲۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء خصوصیت ہے کہ وہ اس سلسلہ میں بہت گہرا گیا، بہت وسعتوں میں داخل ہوا اور اسلامی تعلیم نے بہت بلندیوں کی طرف پرواز کی کیونکہ اُس نے انسان کو بہت بلندیوں کی طرف لے کر جانا تھا.قول سدیدان آیات قرآنیہ میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں.علاوہ ازیں ان آیات میں بہت سی نصیحتیں ہیں اُس انسان کے لئے جو غور اور فکر اور تدبر کا عادی ہو اور جس کے دل میں جذبہ ہو کہ اُس نے اپنی زندگی کو اسلامی شریعت کے مطابق اور اسلامی احکام کی روشنی میں ڈھالنا ہے.اسی لئے ہم عام طور پر ان آیات میں سے کوئی ایک نصیحت لے کر کسی ایک خطبہ نکاح میں اور کوئی دوسری کسی اور خطبے میں بیان کر دیتے ہیں.جہاں تک قول سدید کا تعلق ہے قرآن کریم نے صرف سچ بولنے کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اور بہت آگے جا کر قول سدید پر قائم رہنے اور قول سدید کو تعامل بنانے اور قول سدید کو اپنا شعار ٹھہرانے اور قول سدید کو مضبوطی سے پکڑنے اور قول سدید پر اپنے معاشرہ کی بنیا د ر کھنے کی طرف ہمیں بڑے زور سے توجہ دلائی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں قول سدید پر حقیقی معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آج ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے سات خوشیاں مقدر فرمائی ہیں.اس وقت میں سات نکاحوں کا اعلان کروں گا اس دعا کے ساتھ ( اور مجھے یقین ہے آپ کی دلی اور خاموش دعا ئیں بھی میرے ساتھ ہوں گی ) کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر تبلیغ و اشاعت اسلام کی جو ذمہ داری ڈالی ہے اس سے ہم بفضلہ تعالی نسلاً بعد نسل عہدہ برآ ہوتے چلے جائیں کیونکہ حضرت مہدی معہود اور مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی صورت میں ایک عظیم واقعہ دُنیا میں رونما ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دُنیا کی طرف ایک خاص مقصد کے پیش نظر مبعوث فرمایا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.اس جماعت کی صرف ایک نسل پر اس کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ قیامت تک ایک نسل کے بعد دوسری نسل پر یہ ذمہ داری منتقل ہونے والی ہے.اسی طرح ہمیں اس عظمت کا خیال بھی ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیے جس عظمت کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار نے ہمارے سامنے رکھا ہے

Page 674

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۳ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی بڑی اور وسیع اور قیامت تک پھیلی ہوئی امت مسلمہ میں سے صرف ایک شخص کو چنا یعنی مہدی معہود کو اور اس کے متعلق امت کو یہ ہدایت فرمائی کہ جب ہمارا مہدی آئے تو اُسے میرا سلام پہنچا دینا.یہ کوئی معمولی بات نہیں جو اس دُنیا میں وقوع پذیر ہونے والی تھی بلکہ یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کی شکل میں اب دنیا میں رونما ہو چکا ہے دنیا بد قسمت ہے.اس نے ابھی تک اس عظیم واقعہ کو جو نوع انسانی کی بھلائی کے لئے ایک عظیم تحریک چلانے والا تھا ، اس کو پہچانا نہیں.لوگ مہدی معہود علیہ السلام کی طرف جھکے نہیں.آپ کی جماعت میں داخل نہیں ہوئے.اس مہم میں شریک نہیں ہوئے جو حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا میں گاڑنے کے لئے چلائی گئی ہے.پس جماعت احمدیہ جس کا قیام اللہ تعالیٰ کے اپنے ہاتھ سے ،اس کی تقدیر اور منشا کے مطابق عمل میں آیا ہے، یہ کامیاب تو ضرور ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ارادے نا کام نہیں ہوا کرتے اور نہ ہی کوئی اللہ تعالیٰ کو اس کے ارادوں اور مقاصد میں نا کام کر سکتا ہے.لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی قربانیوں اور ایثار کے نتیجہ میں اور اپنے دل میں اللہ کے لئے بے لوث محبت کا جذ بہ رکھنے کے نتیجہ میں اللہ کے پیار میں سے کتنا حصہ حاصل کر رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ سے ہماری یہ دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں بھی اور آنے والی نسلوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور ان کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.خدا کرے ہماری جماعت میں جتنے رشتے بھی قائم ہوں وہ خود ( یعنی میاں بیوی اور ان کے خاندان ) بھی اور اُن سے چلنے والی نسلیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت، اس کے پیار اور محبت اور اس کی رضا اور اس کی خوشنودی کو حاصل کرنے والی ہوں.ان دعاؤں کے ساتھ اب میں ان نکاحوں کا اعلان کروں گا.پھر بعد میں اجتماعی دعا بھی ہوگی.ایجاب وقبول کے دوران حضور انور نے فرما یا ان نکاحوں میں ایک نکاح تو میرے چھوٹے بھائی عزیزم مکرم مرزا حفیظ احمد صاحب کی صاحبزادی عزیزہ امتہ الولی صاحبہ کا ہے جو پندرہ ہزار

Page 675

خطبات ناصر جلد دہم ۶۵۱ خطبہ نکاح ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۳ء روپے حق مہر پر عزیزم مکرم مرزا شکیل مبرور احمد صاحب جو مکرم میاں شریف احمد صاحب ساکن اسلام آباد کے صاحبزادہ ہیں ان کے ساتھ قرار پایا ہے.مکرم میاں شریف احمد صاحب ہمارے بزرگ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں محمد شریف صاحب کے بڑے صاحبزادے ہیں.ہمارا یہ بچہ عزیزم مرزا شکیل مبرور احمد ڈپٹی محمد شریف صاحب کا پوتا اور ہماری مہر آپا صاحبہ کا بھانجا ہے.مرزا حفیظ احمد صاحب کی صاحبزادی عزیزہ امتہ الولی بڑی پیاری بچی ہے اور بڑی سلجھی ہوئی ، باوقار اور اچھی تربیت یافتہ بچی ہے.ایسی بچیاں جب ان (خاندان حضرت مسیح موعود کے باہر کے ) گھروں میں جاتی ہیں تو ان گھروں پر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کیونکہ بعض دفعہ تربیت اور غیر تربیت کا آپس میں ٹکراؤ ہو جاتا ہے.گومرزا شکیل کو تو میں زیادہ نہیں جانتا لیکن ان رشتوں کو تو بڑی اچھی طرح جانتا ہوں جن میں یہ نتھیال اور ددھیال کی طرف سے بندھے ہوئے ہیں خدا کرے کہ ہمارے یہ عزیز بھی تربیت یافتہ ہوں اور ایک مخلص احمدی ماندان سے تعلق رکھنے والے بچوں کی طرح زندگی گزارنے والے اور اپنے بچوں کی تربیت کرنے والے ہوں.عزیزہ امتہ الکریم نعیمہ صاحبہ بنت مکرم کرنل مرزا محمد شفیع صاحب راولپنڈی کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر عزیزم کیپٹن افضال احمد صاحب جو مکرم بر یگیڈ ئیرا اقبال احمد صاحب شمیم (سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن) کے صاحبزادہ ہیں سے قرار پایا ہے.ہمارے بر یگیڈ ئیراقبال احمد شمیم صاحب جب فوج میں بریگیڈئیر کے عہدہ پر فائز تھے اس وقت بھی بڑے اخلاص سے زندگی کے دن گزارتے تھے اور اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے یہاں سلسلہ کے بہت سے کام رضا کارانہ طور پر بڑی محبت اور پیار سے انجام دے رہے ہیں.اسی لئے قریباً سارے ہی نکاح ایسے تھے کہ ان کے لئے خاص طور پر دل سے دعا نکلتی ہے.بعض تو عام دعائیں ہوتی ہیں.جن میں ہم سب ایک دوسرے کو شریک کرتے ہیں.بعض دفعہ خاص دعا کی تحریک ہوتی ہے ان بزرگوں کو دیکھ کر اور توجہ جاتی ہے آئندہ نسل کی اصلاح کی طرف.عزیزہ بشری شریف صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ کا

Page 676

خطبات ناصر جلد دہم ۶۵۲ خطبہ نکاح ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۳ء نکاح عزیزم مکرم خالد سعید احمد صاحب ابن مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب جو گیمبیا میں واقف زندگی ڈاکٹر ہیں سے سات ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے ڈاکٹر سعید احمد صاحب بڑے مخلص واقف زندگی ڈاکٹر ہیں اور بڑی دیر سے گیمبیا میں کام کر رہے ہیں.ابھی نصرت جہاں کی سکیم جاری نہیں ہوئی تھی کہ تحریک جدید کی طرف سے انہیں وہاں بھیجوایا گیا تھا.اللہ تعالیٰ ان کے اور اُن کے خاندان کے اخلاص میں اور بھی زیادہ برکت ڈالے.میرے یہی خیالات، میری یہی توقعات اور میری یہی دعا ئیں بقیہ نکاحوں کے متعلق بھی ہیں.اللہ تعالیٰ سب رشتوں کو بہت ہی مبارک کرے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ر دسمبر ۱۹۷۳ء صفحه ۴،۳) 谢谢谢

Page 677

خطبات ناصر جلد دہم ۶۵۳ خطبہ نکاح یکم نومبر ۱۹۷۳ء ہمیشہ ذمہ داریوں کو پیش نظر رکھ کر زندگی کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے خطبہ نکاح فرموده یکم نومبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راه شفقت مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمه فرحت رشید صاحبہ بنت مکرم ابورشید صاحب کراچی کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر محترم موسیٰ اسماعیل صاحب ابن مکرم میجر محمد اسماعیل صاحب لاہور سے.۲- محترمہ شائسته رفعت صاحبه بنت مکرم صوبیدار میجرمحمد شفیع صاحب ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم چوہدری محمد اکرم صاحب ابن مکرم چوہدری منشی خاں صاحب لائلپور سے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر : ۱۹ ) میں ایک مضمون یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تقویٰ کا تعلق پیدا کرو جہاں تک تقویٰ کا سوال ہے یہ کم بھی ہوتا اور بڑھتا بھی رہتا ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق قائم کرنا چاہیے جو إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ میں بیان ہونے والے تقاضا کو پورا کرنے والا ہو.نیز یہ امر بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ ہم نے آج کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے ایک مضبوط رشتہ اور پختہ تعلق قائم کر رکھا ہے یا نہیں.اگر چہ زمانہ بدلتا رہتا ہے لیکن ہر زمانہ کچھ قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے.غلبہ اسلام کی مہم جو اللہ تعالیٰ نے

Page 678

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح یکم نومبر ۱۹۷۳ء حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ جاری فرمائی ہے.جس دور میں یہ مہم آج داخل ہو رہی ہے وہ دور بڑا ہی اہم، بڑا ہی نازک اور انتہائی قربانیوں کا ہم سے مطالبہ کرتا ہے.اس لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ اس اہم دور میں غلبہ اسلام کی مہم کے اس زمانہ میں ہر فعل اور عمل کے وقت ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو اپنے سامنے رکھ کر اپنی زندگی کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے.ہمارے باہمی رشتوں کا قیام بھی اس اصول سے مستی نہیں.اس لئے جماعت احمدیہ میں جو نئے رشتے قائم ہوئے ہیں اُن پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہم سب کو انہیں سمجھنے اور نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.کرائی.ایجاب و قبول کے بعد حضور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے اجتماعی دعا روزنامه الفضل ربوه ۱۲ / دسمبر ۱۹۷۳ء صفحه ۶)

Page 679

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۸ /دسمبر ۱۹۷۳ء واقف زندگی احمدی کی بچیاں ہماری دعاؤں کی مستحق ہیں خطبہ نکاح فرموده ۸ / دسمبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں اپنی جن دو عزیزہ بچیوں کی شادی کا اعلان کروں گا وہ مکرم کیپٹن ڈاکٹر عمر الدین صاحب سدھو ساکن ملتان کی صاحبزادیاں ہیں.ڈاکٹر صاحب ساڑھے چارسال سے بطور’واقف زندگی ڈاکٹر بڑی کامیابی کے ساتھ اہل نائیجیریا کی خدمت کر رہے ہیں.لیگوس ( نائیجیریا کے دارالخلافہ ) میں ہمارے ہیلتھ سنٹر کے انچارج ہیں بڑے اخلاص اور دعاؤں سے مریضوں کا علاج کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں میں قبولیت اور ان کے ہاتھ میں شفا بخشی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں احسن جزا عطا فرمائے.ڈاکٹر صاحب کی بچیاں بوجہ اس کے کہ وہ واقف زندگی احمدی کی بچیاں ہیں.ہماری دعاؤں کی مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو ان کے لئے راحت اور خوشحالی کا موجب بنائے اور ان دونوں رشتوں کو ہر سہ خاندانوں کے لئے بھی بہت ہی بابرکت کرے.یہ رشتے ڈاکٹر صاحب کے اپنے خاندان میں ایک بھتیجے اور دوسرا بھانجے کے ساتھ ) ہو رہے ہیں.اللہ تعالیٰ بہت ہی مبارک کرے.

Page 680

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۸ /دسمبر ۱۹۷۳ء عزیزہ بچی مقبول بیگم صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر عمر الدین صاحب سدھو کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر عزیزم محمد یونس صاحب ابن مکرم چوہدری محمد یوسف صاحب سدھوسا کن ملتان سے قرار پایا ہے.عزیزہ بچی کلثوم بیگم صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر عمر الدین صاحب سدھو کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر عزیزم عبد الخالق صاحب ابن مکرم چوہدری خوشی محمد صاحب چک نمبر ۱۰ ضلع سانگھڑ.قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۳ دسمبر ۱۹۷۳ ، صفحه ۴)

Page 681

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۳ء اللہ تعالیٰ نے ہر شعبہ زندگی میں تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت مندرجہ ذیل نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں جس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ عزیزہ بچی مجیدہ اختر صاحبہ بنت مکرم محترم چوہدری محمد علی صاحب با جوه ساکن چک نمبر ۳۷ جنوبی سرگودھا کا ہے جو پانچ ہزار رو پے حق مہر پر عزیزم مکرم چوہدری نصیر احمد صاحب شاہد سے قرار پایا ہے.عزیزم مکرم چوہدری نصیر احمد صاحب واقف زندگی اور شاہد ہیں اور کل ہی غانا میں اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے یہاں سے روانہ ہورہے ہیں.میں انہیں بنیادی طور پر یہ نصیحت کروں گا که صرف ازدواجی رشتہ کے سلسلہ ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے.اس لئے تقویٰ کی باریک راہوں کو اختیار کرتے ہوئے وہ اشاعت اسلام کے لئے غانا میں ہر ممکن کوشش کریں اور اسی طرح انہوں نے وقف زندگی کا جو عہد اپنے رب کریم سے باندھا ہے اسے وفا کے ساتھ نباہنے کی بھی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو مبارک کرے اور عزیزم نصیر احمد صاحب کو اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 682

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۳ء ایجاب وقبول کے بعد اس رشتہ کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۳ جنوری ۱۹۷۴ء صفحه ۳)

Page 683

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۳؍ دسمبر ۱۹۷۳ء خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہے کہ اسلام کو آخری فتح نصیب ہو خطبہ نکاح فرموده ۲۳ / دسمبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں تین نکاحوں کا اعلان کروں گا.ایک تو میرے چھوٹے بھائی مرزا حفیظ احمد صاحب کی بچی عزیزہ امتہ الرافع کے نکاح کا اعلان ہوگا.یہ نکاح میری ہمشیرہ امتہ الحکیم صاحبہ کے بڑے بیٹے سے قرار پایا ہے.ہماری یہ ہمشیرہ بھی بڑی خاموش طبع ، ہر وقت دعاؤں میں لگی رہنے والی اور اپنے بچوں کی بڑی اچھی تربیت کرنے والی ہیں.خدا کرے کہ ہر دو ( یعنی میرا بھائی اور میری بہن ) جن خواہشات کے ساتھ اور جن دعاؤں کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں پر جس توقع کے ساتھ یہ رشتہ کر رہے ہیں اس کے مطابق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی نسل سے جو خواہش کی ہے اس کے مطابق بھی یہ رشتہ مبارک ہو اور سب کے لئے خیر و برکت کا باعث بنے.اسی طرح دوسرے دور شتے بھی جن کا اس وقت اعلان ہو گا.خیر و برکت کا موجب بنیں.اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی

Page 684

خطبات ناصر جلد دہم ۶۶۰ خطبہ نکاح ۲۳ / دسمبر ۱۹۷۳ء بیعت میں داخل ہونے اور آپ سے عہد وفا باندھنے کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے افراد بنادیا ہے.اب خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہے کہ اسلام کو آخری فتح نصیب ہو.دنیا میں تمام بنی نوع انسان ایک ہی خاندان کے افراد بن جائیں.پس اس لحاظ سے ہم سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں.اس لئے سب کے لئے ایک ہی قسم کی خواہشات ہیں.اللہ تعالیٰ سے ایک ہی قسم کی دعائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے سب رشتوں کو خیر و برکت کا موجب بنائے.اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات پر ہمارا ایک ہی قسم کا عاجزانہ تو گل ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہماری ان خواہشوں کو پورا کرے گا اور ان دعاؤں کو قبول کرے گا جوان نکاحوں کے اعلان پر کی جارہی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی ان برکات سے نوازے گا جس کی بشارتیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند حضرت مہدی معہود علیہ السلام کو دی گئی ہیں.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے عزیزہ امتہ الرافع صاحبہ جو میرے چھوٹے بھائی مرزا حفیظ احمد صاحب کی بچی ہیں اور بڑی نیک خصلت ہیں، ان کا نکاح عزیزم مکرم سید مولود احمد صاحب جو مکرم محترم سید داؤ دمظفر احمد صاحب کے صاحبزادہ ہیں اور میری ہمشیرہ امتہ الحکیم صاحبہ کے بڑے بیٹے ہیں، کے ساتھ پندرہ ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.مہر کی یہ رقم ہمارے خاندان میں مقرر ہونے والے مہر سے کچھ زیادہ نظر آئے گی لیکن چونکہ عزیزم سید مولود احمد صاحب انجینئر ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ دنیوی لحاظ سے بھی انشاء اللہ دوسروں سے آگے نکلنے والے ہوں گے.اس لئے مہر زیادہ رکھا گیا ہے.دوسرا نکاح عزیزہ بچی سیدہ امتہ العزیز صاحبہ کا ہے جو مکرم محترم سید عبدالقیوم صاحب کی بچی ہیں.ان کا نکاح عزیزم مکرم سید مبشر محمود صاحب ابن مکرم محترم سید عبدالرشید صاحب کے ساتھ تین ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.پر پر تیسرا نکاح عزیزہ بچی مبارکہ نسرین صاحبہ کا ہے جو مکرم محترم چو ہدری مقبول احمد صاحب باجوہ شیخو پورہ کی بچی ہیں اور احمدیت کے فدائی اور جاں نثار مکرم محترم چوہدری فتح محمد صاحب

Page 685

خطبات ناصر جلد دہم ۶۶۱ خطبہ نکاح ۲۳ / دسمبر ۱۹۷۳ء سیال مرحوم کی نواسی ہیں.ان کا نکاح عزیزم مکرم کیپٹن مبارک احمد صاحب باجوہ جو مکرم محترم چوہدری شیر محمد صاحب باجوه مرحوم چک نمبر ۳۳ جنوبی ضلع سرگودھا کے صاحبزادہ ہیں ان کے ساتھ دس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۳ جنوری ۱۹۷۴ء صفحه ۳)

Page 686

Page 687

خطبات ناصر جلد دہم ۶۶۳ خطبہ نکاح ۲۹ / دسمبر ۱۹۷۳ء دعا ہے کہ اللہ ان تمام ازدواجی رشتوں کو بہت با برکت کرے خطبہ نکاح فرموده ۲۹ / دسمبر ۱۹۷۳ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر مسجد مبارک ربوہ میں از راہ شفقت مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان کیا.حضور انور نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے لئے آج بہت سی خوشیوں کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.اس وقت ۶۲ نکاحوں کا اعلان ہوگا.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان تمام ازدواجی رشتوں کو ہر دو میاں بیوی کے لئے ، ان کے خاندانوں کے لئے، جماعت احمدیہ کے لئے ، اس ملک کے لئے اور بنی نوع انسان کے لئے بہت ہی بابرکت کرے.اللهم آمین ۱.عزیزہ نصرت جہاں احمد صاحبہ بنت مکرم مرزا مجید احمد صاحب ربوہ کا نکاح عزیزم مکرم کیپٹین مرزا نصیر احمد صاحب طارق ابن مکرم مرزا امنیر احمد صاحب جہلم کے ساتھ دس ہزار روپے مہر پر.۲.عزیزہ امتہ المصور صاحبہ بنت مکرم کرنل مرزا داؤ د احمد صاحب کا نکاح مکرم کیپٹن ڈاکٹر مسعود الحسن صاحب نوری ابن مکرم میجر منظور الحسن صاحب گجرات کے ساتھ بارہ ہزار روپے مہر پر.۳.عزیزہ نزہت الماس صاحبہ بنت مکرم آغا محمد عبد اللہ صاحب مرحوم ربوہ کا نکاح مکرم وسیم احمد خان صاحب ابن مکرم غلام احمد خان صاحب ربوہ کے ساتھ پندرہ ہزار روپے حق مہر پر.

Page 688

خطبات ناصر جلد دہم ۶۶۴ خطبہ نکاح ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۳ء ۴.عزیزہ حلیمہ رشید صاحبہ بنت مکرم رشید الدین صاحب کراچی کا نکاح مکرم حفیظ الدین صاحب ابن مکرم محمد علیم الدین صاحب اسلام آباد کے ساتھ آٹھ ہزار روپے مہر پر.۵- محترمہ امتہ الرافع صاحبہ بنت مکرم محمدعبداللہ صاحب ربوہ کا نکاح مکرم کیپٹن نسیم احمدسیفی صاحب ابن مکرم مولوی صالح محمد خان صاحب ربوہ کے ساتھ پانچ ہزار روپے مہر پر.-۶- محترمہ بشری پروین صاحبہ بنت مکرم چوہدری مبارک احمد صاحب ربوہ کا نکاح مکرم مبشر احمد صاحب با جوه ابن مکرم چوہدری محمد شفیع صاحب کراچی سے پانچ ہزار حق مہر پر.محترمہ امتہ اعلیم زاہدہ صاحبہ بنت مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی ربوہ کا نکاح مکرم شیخ محمد نعیم صاحب ابن مکرم شیخ محمد اسلم صاحب دنیا پور ضلع ملتان سے پانچ ہزار روپے مہر پر.محترمه مصوره ناہید صاحبه بنت مکرم مولوی نذراحمد خان صاحب ربوہ کا نکاح مکرم محمد وسیم صاحب ابن مکرم شیخ محمد اسلم صاحب دنیا پور ضلع ملتان سے پانچ ہزار روپے مہر پر.محترمہ طاہرہ عطا صاحبہ بنت مکرم چوہدری عطاء اللہ خان صاحب ربوہ کا نکاح مکرم سید محمد افضل ہاشمی صاحب ابن مکرم سید محمد منیر صاحب ہاشمی ایبٹ آباد سے دو ہزار روپے مہر پر.۱۰- محترمه فر است صاحبہ بنت مکرم شیخ محمد اقبال صاحب کوئٹہ کا نکاح مکرم انس فاروق ابن مکرم چوہدری غلام اللہ صاحب لاہور سے بیس ہزار روپے حق مہر پر.۱۱.محترمہ سعیدہ خانم صاحبہ بنت مکرم غلام مصطفیٰ صاحب نصیرہ ضلع گجرات کا نکاح مکرم نصیر محمد خان صاحب ابن مکرم ڈاکٹر میجر محمد خان صاحب عدن سے ۲۲ ہزار حق مہر پر.۱۲.محترمہ ڈاکٹر عارفہ کوثر صاحبہ بنت مکرم میاں بشیر احمد صاحب کوئٹہ کا نکاح مکرم عبد الحفیظ صاحب ابن مکرم عبد اللطیف صاحب لاہور سے دس ہزار روپے مہر پر.۱۳ محترمہ افشاں کرن صاحبہ بنت مکرم عنایت اللہ خاں صاحب کوئٹہ کا نکاح مکرم کیپٹن ڈاکٹر انوار احمد صاحب نوری ابن مکرم میجر ڈاکٹر منیر احمد خالد صاحب سرگودھا سے پندرہ ہزار روپے مہر پر.۱۴.محترمہ ریحانہ باجوہ صاحبہ بنت چوہدری عبد اللہ صاحب باجوہ لاہور کا نکاح مکرم سلیم احمد ناصر صاحب ابن چوہدری عبدالستار صاحب بستی بابا اللہ بخش ضلع رحیم یارخان سے پانچ ہزار روپے مہر پر.

Page 689

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۳ء ۱۵.محترمہ عابدہ ملک صاحبہ بنت مکرم عزیز محمد خان صاحب ڈیرہ غازی خاں کا نکاح مکرم رفعت محمود صاحب ابن مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب راولپنڈی سے پانچ ہزار روپے مہر پر.۱۶ محترمہ مسرت بیگم صاحبہ بنت مکرم را جہ محمد مرزا خان صاحب ربوہ کا نکاح مکرم کنور مطلوب احمد خان صاحب ابن مکرم چوہدری رفیق محمد خاں صاحب ربوہ سے پانچ ہزار روپے مہر پر.۱۷.محترمہ بشری بیگم صاحبہ بنت مکرم رحیم بخش صاحب مرحوم ساکن احمد نگر کا نکاح مکرم محمد ظفر صاحب ابن مکرم محمد سعید صاحب ربوہ سے ایک ہزار روپے مہر پر.۱۸- محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ بنت مکرم محمد انور صاحب نارووال ضلع سیالکوٹ کا نکاح مکرم محمد رشید احمد صاحب ابن مکرم محمد صدیق صاحب ساکن نارووال سے دو ہزار روپے مہر پر.۱۹.محتر مہ روبینہ شاہین صاحبہ بنت مکرم صو بیدار محد عظیم صاحب ساکن چک نمبر ۲۰ ضلع گجرات کا نکاح مکرم محمد صدیق صاحب ابن مکرم محمد لطیف صاحب ساکن چک ۲۰ ضلع گجرات سے دو ہزار روپیہ مہر پر.۲۰.محترمہ کلثوم اختر صاحبہ بنت مکرم شمس الدین صاحب خلیل آباد کالونی ضلع میر پور آزاد کشمیر کا نکاح مکرم کرامت حسین مختار صاحب ابن مکرم مختار احمد صاحب ساکن گوئی بٹائی آزاد کشمیر سے ڈیڑھ ہزار روپے مہر پر.۲۱ - محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ بنت مکرم حکیم بشیر احمد صاحب ساکن دار انصر ربوہ کا نکاح مکرم ارشد اقبال صاحب ابن مکرم خلیل احمد صاحب چک نمبر ۵۰ ج - ب سٹھیالہ ضلع لائلپور سے چار ہزار روپے مہر پر.۲۲ محترمه سلمی منور صاحبہ بنت مکرم چوہدری منور احمد صاحب ربوہ کا نکاح مکرم چوہدری حامد کریم صاحب ابن مکرم چوہدری فضل کریم صاحب لائلپور سے دو ہزار روپے مہر پر.۲۳.محترمہ نصرت سلطانہ صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبدالحمید صاحب ساکن چک نمبر ۳۹۶ج.ب جفاپور لائلپور کا نکاح مکرم بشیر احمد صاحب ابن عنایت اللہ ساکن قلعہ صوبھا سنگھ ضلع سیالکوٹ سے پانچ ہزار روپے مہر پر.۲۴- محتر مہ کشور سلطانہ صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبدالحمید صاحب ساکن چک نمبر ۳۹۶ج.ب

Page 690

خطبات ناصر جلد دہم ۶۶۶ خطبہ نکاح ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۳ء جفا پور لائلپور کا نکاح مکرم رشید احمد صاحب ابن مکرم عنایت اللہ ساکن قلعہ صوبھا سنگھ ضلع سیالکوٹ سے پانچ ہزار روپے مہر پر.۲۵- محترمہ بشری طیبه صاحبه بنت مکرم شیخ محمد شریف صاحب گوجرانوالہ کا نکاح مکرم بشیر احمد صاحب طاہر ابن مکرم میاں محمد مغل مرحوم ساکن چنیوٹ سے پانچ ہزار روپے مہر پر.۲۶ محترمہ نصرت بیگم صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد اسحاق صاحب ساکن TDA / ۱۷۰ ضلع مظفر گڑھ کا نکاح مکرم چوہدری منور احمد صاحب ابن مکرم چوہدری نواب الدین صاحب مرحوم ساکن ۲۱۹ ر.ب ملو یا نوالہ ضلع لائلپور سے چار ہزار روپے مہر پر.۲۷.محترمہ صفیہ میر صاحبہ بنت مکرم خواجہ غلام احمد صاحب سیالکوٹ شہر کا نکاح مکرم ملک محمو دمبارک صاحب ابن مکرم ملک مبارک علی صاحب لاہور سے پانچ ہزار روپے مہر پر.۲۸ محترمہ طاہرہ پروین صاحبہ بنت مکرم عبداللطیف صاحب کراچی کا نکاح مکرم محمد انور عارف صاحب ابن مکرم محمد عامل بدر صاحب سرگودہا سے اڑھائی ہزار روپے مہر پر.۲۹- محتر مہ امتہ الباری صاحبہ بنت مکرم محمد سلیمان صاحب چک نمبر ۲۹۰ گ.ب ضلع لائلپور کا نکاح مکرم محمد یونس صاحب ابن مکرم چوہدری مبارک احمد صاحب ساکن احمد نگر ضلع جھنگ سے تین ہزار روپے مہر پر.۳۰.محترمہ شاہدہ ملک صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب قلعہ صوبھا سنگھ ضلع سیالکوٹ کا نکاح مکرم ملک نسیم احمد صاحب ابن مکرم ملک محمد ابراہیم صاحب ساکن بھیرو چک ضلع سیالکوٹ سے پانچ ہزار روپے مہر پر.۳۱.محترمہ نسیم طاہرہ صاحبہ بنت مکرم ماسٹر محمدابراہیم صاحب شاہ ساکن چک نمبر ۱۷ اچھو ضلع شیخو پوره کا نکاح مکرم عبد الغفور ناصر صاحب ابن مکرم عبدالستار ناصر سے دو ہزار روپے مہر پر.۳۲ محترمہ بشری نعیمہ صاحبہ بنت مکرم غلام رسول صاحب ساکن کالس ضلع گجرات کا نکاح مکرم محمود احمد صاحب ابن مکرم راجہ بہادر خاں صاحب ساکن مونگ ضلع گجرات سے پانچ ہزار روپے مہر پر.۳۳.محترمہ نجمہ احمد صاحبہ بنت مکرم میاں احمد یا ر صاحب ساکن پاکپٹن ضلع ساہیوال کا نکاح

Page 691

خطبات ناصر جلد دہم ۶۶۷ خطبہ نکاح ۲۹ دسمبر ۱۹۷۳ء مکرم میر عبدالمجید صاحب شاہد ابن مکرم میر فقیر محمد صاحب مرحوم سے ڈیڑھ ہزار روپے مہر پر.۳۴.محترمہ شمیم اختر صاحبہ بنت مکرم میاں محمد سلطان خان صاحب ساکن چک نمبر ۱۶۶ مرادضلع بہاول نگر کا نکاح مکرم مبشر احمد صاحب منہاس ابن مکرم میاں غلام نبی خان صاحب ساکن چک نمبر ۱۶۶ مراد ضلع بہاول نگر سے دو ہزار روپے مہر پر.۳۵- محترمہ قدسیہ طاہرہ صاحبہ بنت مکرم قریشی محمد اکمل صاحب ربوہ کا نکاح مکرم ناصر احمد صاحب قریشی ابن مکرم قریشی محمد افضل صاحب ربوہ سے دو ہزار روپے مہر پر.۳۶.محترمہ ناصرہ پروین صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب کاہلوں کا نکاح مکرم داؤ د احمد صاحب ابن مکرم چوہدری محمد اشرف صاحب کا ہلوں ضلع ساہیوال سے پانچ ہزار روپے مہر پر.۳۷.محترمہ بشری پروین صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبد الغفور صاحب نواز آباد فارم ضلع حیدر آباد کا نکاح مکرم عبد الرؤف خاں صاحب ابن مکرم چوہدری عبد الغفور خاں صاحب چک نمبر TDA / ۲ ضلع سرگودہا سے پانچ ہزار روپے مہر پر.۳۸.محترمہ ساجدہ ممتاز صاحبہ بنت مکرم چوہدری ممتاز احمد صاحب ساکن چک EB/ ۲۲ ضلع ساہیوال کا نکاح مکرم محمد بیلی صاحب ابن مکرم چوہدری محمد عبد اللہ صاحب ساکن پٹیالہ ساہیاں ضلع گجرات سے دس ہزار روپے مہر پر.۳۹.محترمہ بشری بیگم صاحبہ بنت مکرم مستری صلاح الدین صاحب چک چٹھہ ضلع گوجرانوالہ کا نکاح مکرم عبد الکریم صاحب قدسی ابن مکرم مستری اللہ دتہ صاحب کر تو ضلع شیخو پورہ سے دو ہزار روپے مہر پر.۴۰- محترمه عصمت ریحانه صاحبہ بنت مکرم بشیر احمد صاحب قریشی سیالکوٹ کا نکاح مکرم ضیاء الدین ظفر صاحب ابن مکرم مستری صلاح الدین صاحب ساکن چک چٹھہ ضلع گوجرانوالہ سے ڈیڑھ ہزار روپے مہر پر.۴۱.محترمہ طاہر تبسم صاحبہ بنت مکرم چوہدری غلام دستگیر صاحب لائل پور کا نکاح مکرم محمد ظفر اللہ صاحب ابن مکرم چوہدری محمد عطار بی ساکن ڈھا کے ضلع شیخو پورہ سے دو ہزار روپے مہر پر.

Page 692

خطبات ناصر جلد دہم ۶۶۸ خطبہ نکاح ۲۹ دسمبر ۱۹۷۳ء ۴۲.محترمہ بشری پروین صاحبہ بنت مکرم چوہدری شاہ محمد صاحب سیالکوٹ کا نکاح مکرم چوہدری منیر الرحمن صاحب ابن مکرم چوہدری عبد الرحمن صاحب ربوہ سے اڑھائی ہزار روپے مہر پر.۴۳ محترمه امتة النصیر ناصرہ صاحبہ بنت مکرم فتح محمد خاں صاحب ربوہ کا نکاح مکرم چوہدری منیر احمد صاحب ابن مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب لائل پور سے اڑھائی ہزار روپے مہر پر.۴۴- محترمه عزیزہ بیگم صاحبہ بنت مکرم راجہ محمد تاج صاحب ساکن چک ۲۰ ڈیری فارم ضلع گجرات کا نکاح مکرم افتخار انور صاحب ابن مکرم صوبیدار محمد شریف صاحب ساکن چک نمبر ۲۰ ڈیری فارم ضلع گجرات سے ۸۵۰ روپے مہر پر.۴۵.محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ بنت مکرم محمد علی خان صاحب راجپوت ساکن چک نمبر ۷ ر.ب ضلع لائل پور کا نکاح مکرم محمد شریف صاحب ابن مکرم اللہ رکھا صاحب ساکن مانگا ضلع سیالکوٹ سے دو ہزار روپے مہر پر.۴۶.محترمہ حیاتاں بی بی صاحبہ بنت مکرم فتح دین صاحب ساکن خوشاب ضلع سرگودھا کا نکاح مکرم غلام سرور صاحب ابن مکرم نور الہی صاحب چک نمبر ۲۶ ج.ب کلاں ضلع لائل پور سے ایک ہزار روپے مہر پر.۴۷.محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ بنت مکرم راجہ محمد مرزا خان صاحب کا نکاح بشارت احمد صاحب ابن مکرم چوہدری نور محمد صاحب ربوہ سے دو ہزار روپے مہر پر.۴۸- محترمہ مسرت بیگم صاحبہ بنت مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب کراچی کا نکاح مکرم خلیل احمد صاحب ناصر ابن مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب ساکن گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ سے دس ہزار روپے حق مہر پر.۴۹.محترمہ فہیمہ بیگم صاحبہ بنت مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب کراچی کا نکاح مکرم محمد اسحاق صاحب ابن مکرم علی محمد صاحب ساکن کراچی سے پانچ ہزار روپے حق مہر پر.۵۰ محتر مہ انیسه مشتاق صاحبہ بنت مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب ربوہ کا نکاح مکرم چوہدری منور احمد صاحب باجوہ ابن مکرم چوہدری محمد حسین صاحب باجوہ مرحوم چک نمبر ۳۱۲ ج.ب کتھو والی

Page 693

خطبات ناصر جلد دہم ۶۶۹ خطبہ نکاح ۲۹؍ دسمبر ۱۹۷۳ء ضلع لائل پور سے دس ہزار روپے مہر پر.۵۱- محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ بنت مکرم محمد ابراہیم صاحب ساکن چک نمبر ۲۹۷ ج.ب ضلع لائل پور کا نکاح مکرم محمود احمد صاحب ابن مکرم صدیق محمد صاحب ساکن موسیٰ والا ضلع سیالکوٹ سے ایک ہزار روپے حق مہر پر.۵۲ - محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ بنت مکرم کریم الدین صاحب ربوہ کا نکاح مکرم محمد عارف صاحب ابن مکرم معراج دین صاحب لاہور سے ڈیڑھ ہزار روپے مہر پر.۵۳ - محترمہ شہباز اختر صاحبہ بنت مکرم سردار محمد اسحاق صاحب لاہور کا نکاح مکرم انور احمد صاحب ابن مکرم مختار احمد صاحب ربوہ سے اڑھائی ہزار روپے حق مہر پر.۵۴ محترمه نسرین اختر صاحبہ بنت مکرم نواب الدین صاحب ٹھیکیدار کا نکاح مکرم محمد یعقوب صاحب ابن مکرم علی محمد صاحب کراچی سے تین ہزار روپے حق مہر پر.۵۵ - محترمہ ساجدہ پروین صاحبہ بنت مکرم ظفر اللہ خان صاحب گھمن مرحوم ساکن پیچ گوجرانوالہ کا نکاح مکرم سلطان احمد صاحب ابن مکرم غلام حیدر صاحب بھڑی شاہ رحمان سے دو ہزار روپے حق مہر پر.۵۶ محترمہ غزالہ قمر صاحبہ بنت مکرم عبدالحئی صاحب صابر ربوہ کا نکاح مکرم مبارک احمد صاحب قمر ابن شیخ عبدالرشید صاحب شر ما ساکن شکار پور سندھ سے پانچ ہزار روپے حق مہر پر.۵۷- محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ بنت مکرم شیخ عبدالرشید صاحب شکار پور سندھ کا نکاح مکرم عبد القیوم صاحب بھٹی ابن مکرم عبد الکریم صاحب بھٹی ساکن جیکب آباد سے دس ہزار روپے حق مہر پر.۵۸ - محتر مہ امتہ المتین صاحبہ بنت مکرم کیپٹن محمد سعید صاحب ساکن ربوہ کا نکاح مکرم کولمبس خان صاحب ابن مکرم حیات محمد خان صاحب ساکن ربوہ سے دو ہزار روپے حق مہر پر.۵۹.محترمہ فرخندہ جبیں اختر صاحبہ بنت مکرم حافظ عبد اللطیف صاحب سرگودہا کا نکاح مکرم منور احمد صاحب ابن مکرم چوہدری حاکم علی صاحب ساکن چک نمبر ۷۸ جنوبی ضلع سرگودہا سے ڈیڑھ ہزار (۱۵۰۰) روپے مہر پر.

Page 694

خطبات ناصر جلد دہم ۶۷۰ خطبہ نکاح ۲۹ دسمبر ۱۹۷۳ء ۶۰.محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ بنت مکرم صو بیدار حبیب الرحمان صاحب ساکن پھلڑی شاہ کریم ضلع حیدر آباد کا نکاح مکرم سلطان احمد صاحب ابن مکرم چوہدری محب الرحمان صاحب ساکن چک نمبر ۸۸ ج.ب لائل پور سے ڈیڑھ ہزار روپے مہر پر.۶۱- محترمه شگفته بی بی صاحبہ بنت مکرم چوہدری محبوب الرحمان صاحب ساکن بھلکڑی شاہ کریم کا نکاح مکرم فضل احمد صاحب ابن مکرم چوہدری محب الرحمان صاحب لائلپور سے ڈیڑھ ہزار روپے مہر پر.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ جنوری ۱۹۷۴ء صفحه ۳، ۴)

Page 695

خطبات ناصر جلد دہم ۶۷۱ خطبہ نکاح ۵ /جنوری ۱۹۷۴ء مجاہدین قربانیاں دیتے ہوئے غلبہ اسلام کی شاہراہ پر چلتے رہتے ہیں خطبہ نکاح فرموده ۵ /جنوری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.محترمہ امتہ الکریم نزہت صاحبہ بنت مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ مبلغ گیمبیا کا نکاح تین ہزار روپے حق مہر پر محترم مفتی احمد صادق صاحب شاہد ابن مکرم حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ ربوہ سے.۲.محترمہ صاحبزادی امتہ الناصر تبسم صاحبہ بنت مکرم کرنل صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب کراچی کا نکاح بارہ ہزار روپے حق مہر پرمحترم سید شاہد حامد صاحب ابن مکرم سید عبدالجلیل صاحب سے..محترمہ صاحبزادی امتہ الواسع رعنا صاحبہ بنت مکرم نواب مسعود احمد خان صاحب ربوہ کا نکاح گیارہ ہزار روپے حق مہر پر محترم ملک خالد احمد صاحب زفر ابن مکرم ملک عمر علی صاحب مرحوم سے.۴.محترمہ صادقہ مرزا صاحبہ بنت مکرم مرزا عطاء الرحمان صاحب ربوہ کا نکاح گیارہ ہزار روپے حق مہر پر محترم لیفٹینٹ عبدالبصیر جی صاحب ابن مکرم گروپ کیپٹن عبد الحئی صاحب ربوہ سے.حضور انور نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.اس وقت میں چار نکاحوں کا اعلان کروں گا.یہ سارے نکاح مختلف وجوہات کی بنا پر

Page 696

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۵ /جنوری ۱۹۷۴ء ہماری بہت سی دعاؤں کا مطالبہ کرتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ سے ہماری یہ دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ان رشتوں کو بہت بابرکت کرے اور اُن کے گھروں کو ان برکتوں سے بھر دے جن کا وعدہ ان مجاہدین سے کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بشاشت سے قربانیاں دیتے ہوئے غلبہ اسلام کی شاہراہ پر چلتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ان خاندانوں پر، جماعت احمدیہ پر اور دنیا پر بھی اس معنی میں کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نشانوں کو دیکھیں.حقیقت کو سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے بندے بن کر دینِ اسلام کے اُن مطالبات کو پورا کرنے والے بنیں جو اس زمانہ میں نفس انسانی سے کئے جار ہے ہیں.ایک نکاح جس کے لئے دل سے بہت دعائیں نکلتی ہیں وہ عزیزہ بچی امتہ الکریم نزہت صاحبہ بنت مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب کا ہے جو عزیزم مکرم مفتی احمد صادق صاحب سے تین ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.عزیزم احمد صادق صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب مرحوم کے بزادہ ہیں.ہمارے بھائی مکرم محترم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب اس وقت گیمبیا میں تبلیغ اسلام کے کام پر لگے ہوئے ہیں اور اشاعت اسلام کی اس ساری مہم کے انچارج ہیں جو گیمبیا میں جاری ہے.مکرم حافظ صاحب کی غیر حاضری میں ان کے لڑکے اور عزیزہ امتہ الکریم نزہت صاحبزاده صاحبہ کے بھائی عزیزم مکرم نصیر الدین عبید اللہ صاحب بطور وکیل نکاح موجود ہیں.ایجاب وقبول کے بعد ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت اور مثمر بثمرات حسنہ بننے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوہ ۷ رفروری ۱۹۷۴ ء صفحه ۴

Page 697

خطبات ناصر جلد دہم ۶۷۳ خطبہ نکاح ۲۷ جنوری ۱۹۷۴ء مرد کو قوام ہونے کی حیثیت سے بیوی کی صلاحیتوں کا خیال رکھنا چاہیے خطبہ نکاح فرموده ۲۷ جنوری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر تین نکاحوں کا اعلان کیا.اس موقع پر خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا.اسلامی شریعت نے مرد کو قوام بنا کر اس بات کا ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی صلاحیتوں کی نشو و نما کا بھی خیال رکھے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے ہر شخص کو استعدادیں بخشی ہیں.اس لئے ہر مرد کا یہ فرض ہے کہ اس کی بیوی اپنے دائرہ استعداد میں جس حد تک ترقی کر سکتی ہے اُس حد تک وہ اُس کے لئے ایسا انتظام کرے کہ وہ یہ تربیت حاصل کر لے.اسی طرح عورت پر بھی یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ جب وہ کسی کی بیوی بنے تو اپنے خاوند کی اس قسم کی نیک تربیت کے اثر کو قبول کرنے کے لئے تیار رہے.وہ اس کی اس تربیت میں مزاحم نہ بنے اور دوسرے اس پر یہ ذمہ داری بھی ڈالی گئی ہے کہ اگر اس کا خاوندا اپنی قوام ہونے کی ذمہ داری کی طرف توجہ نہ کرے یا اگر اس کو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے کی کوشش کرے تو اس کی بیوی کا یہ فرض ہے کہ وہ اس قسم کے اثرات کو قبول نہ کرے.ایسے موقع پر بجائے اس کے کہ اپنے خاوند کی طرف توجہ کرے وہ اُس عہد وفا کو اور زیادہ پختہ بنائے جو اُس نے اپنے رب سے باندھا ہے.

Page 698

خطبات ناصر جلد دہم ۶۷۴ خطبہ نکاح ۲۷ جنوری ۱۹۷۴ء اس وقت میں تین نکاحوں کا اعلان کروں گا اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تینوں ازدواجی رشتوں (تین خاوندوں اور تین بیویوں) کو اسلامی شریعت کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نباہنے کی توفیق ملے.ا.عزیزہ بچی حمیدہ مرزا صاحبہ بنت مکرم محترم مرزا محمد ادریس صاحب ربوہ کا نکاح چار ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم حامد احمد صاحب خالد ابن مکرم محترم شیخ محبوب عالم صاحب خالد ( ناظر بیت المال آمد ) ربوہ سے قرار پایا ہے.ہماری بچی عزیزہ حمیدہ مرزا صاحبہ کے والد مرز امحمد ادریس صاحب اس وقت انڈونیشیا میں بطور مبلغ سلسلہ عالیہ احمد یہ کام کر رہے ہیں.انہوں نے اپنی طرف سے اور عزیزہ بچی حمیدہ مرزا صاحبہ کی طرف سے مکرم محترم شیخ خورشید احمد صاحب ( نائب ایڈیٹر الفضل ) کو بطور وکیل مقر ر کیا ہے.۲.عزیزه تحسین فردوس صاحبہ بنت مکرم محترم قاضی شریف الدین صاحب ربوہ کا نکاح سات ہزار روپے مہر پر عزیزم مکرم ملک طاہر احمد صاحب ابن مکرم محترم ملک حبیب الرحمان صاحب ربوہ سے قرار پایا ہے..عزیزہ امتہ الہادی صاحبہ بنت مکرم محترم شیخ مبارک احمد صاحب لندن کا نکاح سات صد پاؤنڈ ( سکہ برطانیہ ) مهر پر عزیزم مکرم ناصر احمد صاحب ساہی ابن مکرم محترم چوہدری محمد طفیل صاحب ساکن ڈسکہ کلاں ضلع سیالکوٹ سے قرار پایا ہے.لڑکی کے والد شیخ مبارک احمد صاحب خود یہاں حاضر نہیں ہو سکے، انہوں نے اپنی طرف سے اور عزیزہ بچی کی طرف سے مکرم محترم قریشی محمد یوسف صاحب بریلوی ربوہ کو وکیل مقرر کیا ہے.ایجاب و قبول کے بعد ان رشتوں کے بہت بابرکت ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۰ فروری ۱۹۷۴ ء صفحه ۵)

Page 699

خطبات ناصر جلد دہم ۶۷۵ خطبہ نکاح ۱۵ / فروری ۱۹۷۴ء اللہ اپنے فضل سے اس رشتہ کو بہت با برکت کرے خطبہ نکاح فرموده ۱۵ فروری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب از راه شفقت مندرجہ ذیل نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں اپنی ایک عزیزہ واقفہ زندگی کے نکاح کا اعلان کروں گا.ہمارے جس عزیز کے ساتھ ان کی شادی ہورہی ہے وہ بھی ایک واقف زندگی استاد ہیں اور خدمت دین کے لئے افریقہ گئے ہوئے ہیں.یہ عزیزہ بھی وہیں انہی کے ساتھ وقف کا کام کرنے کے لئے جارہی ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے اس رشتہ کو بہت بابر کت کرے اور سب کے لئے خوشیوں کے سامان میسر آئیں.یہ نکاح عزیزہ شمیم نصرت صاحبہ بنت مکرم ملک عبد المالک خاں صاحب ساکن لا ہور کا ہے جو دس ہزار روپے مہر پر عزیزم مکرم مبارک احمد خاں صاحب ایم.ایس.سی ابن مکرم محمد اسماعیل صاحب کا تب ربوہ سے قرار پایا ہے.عزیزم مکرم مبارک احمد صاحب غانا میں ہیں.وہیں سے فارم نکاح پر ہو کر آئے ہیں.ان کے والد مکرم محمد اسماعیل صاحب کا تب ان کی طرف سے وکیل نکاح ہیں.

Page 700

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۵ / فروری ۱۹۷۴ ء ایجاب وقبول کے بعد اس رشتہ کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حضور نے حاضرین سمیت دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 701

خطبات ناصر جلد دہم 722 خطبہ نکاح ۱۷ر فروری ۱۹۷۴ء اللہ ان تمام رشتوں کو بہت بابرکت اور ثمرات حسنہ کا موجب بنائے خطبہ نکاح فرموده ۱۷ فروری ۱۹۷۴ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب از راہ شفقت دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ا.عزیزہ رفعت سلطانہ صاحبہ بنت مکرم میاں رشید احمد صاحب ساکن ربوہ کا نکاح دس ہزار روپے مہر پر عزیزم مکرم میاں عبد البصیر صاحب نون ابن مکرم میاں عبدالسمیع صاحب نون سرگودھا سے قرار پایا ہے.ان دعاؤں کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس رشتہ کو ہر دو خاندانوں کے لئے با برکت کرے، اس رشتہ کو اللہ تعالیٰ جماعت کے لئے بابرکت کرے.اس رشتہ کو اللہ تعالی آنے والی نسلوں کے لئے با برکت کرے اور اس رشتہ کو اللہ تعالیٰ نوع انسانی کے لئے با برکت کرے.میں اس نکاح کا اعلان کروں گا.۲.ایک نکاح اور بھی ہے.عزیزہ مبارکہ بیگم صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد حیات خاں صاحب مانگٹ اونچے ضلع گوجرانوالہ کا نکاح دس ہزار روپے مہر پر عزیزم مکرم میاں محمد ارشد صاحب ابن مکرم میاں رشید احمد صاحب ربوہ سے قرار پایا ہے.

Page 702

خطبات ناصر جلد دہم ۶۷۸ خطبہ نکاح ۱۷ فروری ۱۹۷۴ء ان دونوں رشتوں کے لئے ہماری یہی دعائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو بہت بابرکت اور ثمرات حسنہ کا موجب بنائے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 703

خطبات ناصر جلد دہم ۶۷۹ خطبہ نکاح ۱۱ رمئی ۱۹۷۴ء اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و تقویٰ میں مزید برکت ڈالے خطبہ نکاح فرموده ۱۱ رمئی ۱۹۷۴ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے محترمہ عزیزہ سلام بیگم صاحبہ بنت مکرم و محترم جناب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے نکاح کا اعلان ہمراہ محترم ڈاکٹر حمید الرحمن خان صاحب ابن مکرم ومحترم مولوی خلیل الرحمان خان صاحب بعوض حق مہر مبلغ گیارہ سو پاؤنڈ فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس نکاح کا میں اس وقت اعلان کروں گا ان ہر دو خاندانوں کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عزیزہ بچی عزیزہ بیگم جو ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی صاحبزادی ہیں ان کا تعلق ایک مخلص احمدی خاندان سے ہے.ان کے والد اسلام کے فدائی اور احمدیت سے گہرا اخلاص رکھنے والے ہیں.ان کو اللہ تعالیٰ نے ذہن رسا عطا کیا ہے.وہ جینئس (Genius) ( یعنی فطرتی طور پر لائق ) ہیں.ان کو اللہ تعالیٰ نے جہاں دنیاوی علوم میں فراست عطا کی ہے دین کے معاملہ میں بھی انہیں بصیرت عطا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص میں اور ان کے تقویٰ میں مزید برکت ڈالے.اس وقت وہ ایک نئے مضمون پر تحقیق کر رہے ہیں.جس میں انہیں دعاؤں کی ضرورت ہے.جماعت دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل مضمون کے عقدے ان کے لئے کھول دے اور

Page 704

خطبات ناصر جلد دہم ۶۸۰ خطبہ نکاح ۱۱ رمئی ۱۹۷۴ء مزید ترقیات علوم دنیوی میں بھی ان کے لئے سامان پیدا کرے.یہ بچی جس کے نکاح کا اعلان میں کروں گا یہ بھی اپنی تربیت کے لحاظ سے بڑی ہی اچھی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ والد اور خصوصاً والدہ جس پر بچیوں کی تربیت کا زیادہ بوجھ ہوتا ہے وہ اس معاملہ میں قابل قدر ہیں کہ انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت صحیح نہج پر کی ہے.یہ بچی بڑی سلجھی ہوئی طبیعت کی مالکہ ہے.اسے بھی اللہ تعالیٰ نے باپ کا سا ذہن رسا عطا کیا ہے.لیکن وہ بالکل بے نفس بچی ہے.اللہ تعالیٰ اس رشتے کو اس کے لئے اور اس کے خاندان کے لئے بھی بہت با برکت کرے.جس عزیز بچے سے یہ شادی ہو رہی ہے وہ ہماری اس بچی عزیزہ عزیزہ بیگم کے نھیال کی طرف سے رشتہ دار ہے اور لڑکے کے والد خلیل الرحمان خان صاحب یہاں موجود ہیں.کچھ عرصہ انہوں نے جماعت کے کام بھی کئے ہیں.لڑکے کو میں زیادہ نہیں جانتا.لیکن دنیوی علوم میں بہر حال بہت اچھا ہے اور سلسلہ سے تعلق بھی رکھتا ہے کیونکہ اگر تعلق نہ رکھتا تو یہ رشتہ نہ ہوتا.ویسے میں ذاتی طور پر اسے نہیں جانتا لیکن جہاں تک میری دعاؤں کا تعلق ہے کسی کو میں ذاتی طور پر جانوں یا نہ جانوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور جہاں تک مجھے ڈاکٹر سلام صاحب کے خاندان کے متعلق علم ہے وہ میں جانتا ہوں.اس لحاظ سے بھی کہ بچے کو ایک طرح میں ذاتی طور پر نہیں جانتا اور اس لحاظ سے بھی کہ بچی کو میں بڑی اچھی طرح جانتا ہوں.اس کے خاندان سے میں واقف ہوں میرے دل کی گہرائیوں سے اس عزیز کے لئے بھی دعا ئیں نکلتی ہیں.آپ دوست بھی اس کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر رنگ میں اس رشتہ کو بابرکت کرے.اس وقت ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی بچی عزیزہ بیگم اور ڈاکٹر حمید الرحمان خان صاحب ابن مولوی خلیل الرحمان خان صاحب کے نکاح کا اعلان ہوگا.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب (جو ساری دنیا میں مشہور ہیں ) یہاں موجود نہیں ہیں.انہوں نے اپنی طرف سے مکرم و محترم ملک حبیب الرحمان صاحب کو، جولڑکی کے (رشتہ کے ) نانا ہیں جو بڑا بزرگ رشتہ ہے.ان کو وکیل مقرر کیا گیا ہے بچی کی طرف سے اور ڈاکٹر عبدالسلام کی طرف سے اور عزیز ڈاکٹر حمید الرحمان خان بھی جو نکاح کے

Page 705

خطبات ناصر جلد دہم ۶۸۱ خطبہ نکاح ۱۱ رمئی ۱۹۷۴ء سلسلہ میں یہاں آئے تھے لیکن اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں کیونکہ بعض فارم نامکمل تھے اس لئے قانون کی پابندی کرتے ہوئے انہیں کہا گیا تھا کہ وہاں سے مکمل کر کے بھجوائیں.انہوں نے سفر بھی کیا اور چلے بھی گئے.یہ تو نہیں میں کہتا کہ گھاٹے میں رہے کیونکہ اب ہم ان کے لئے زیادہ دعائیں کریں گے.بہر حال وہ بھی یہاں موجود نہیں.انہوں نے اپنی طرف سے اپنے والد مکرم ومحترم خلیل الرحمان خان صاحب کو بطور وکیل کے مقرر کیا ہے.تو اس نکاح کی یہ شکل بنی ہے کہ فریقین کی طرف سے دو وکیل ہیں اور دولہا بھی غائب ہیں اور دلہن بھی موجود نہیں اور ہر دو میں سے ایک کے والد یہاں موجود ہیں.ویسے ملک حبیب الرحمان صاحب بڑے خوش ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی قائم مقامی کر رہے ہیں.تو عزیزہ عزیزہ سلام بیگم (عزیزہ ان کا نام ہے اور سلام آج کل کے طریق کے مطابق ابا کا نام بچے رکھ لیتے ہیں.تو ان کا نام بن گیا عزیزہ سلام بیگم اور میں یہ کہوں گا عزیزہ عزیزہ سلام بیگم ) بنت مکرم و محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا نکاح گیارہ صد پاؤنڈ حق مہر پر عزیز مکرم ڈاکٹر حمید الرحمان خان صاحب سے قرار پایا ہے.ایجاب و قبول کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اب دوست دعا کر لیں اللہ تعالی اس رشتہ کو با برکت کرے.( آمین ) از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 706

Page 707

خطبات ناصر جلد دہم ۶۸۳ خطبہ نکاح ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۴ء ابتلا اور امتحان انسان کو پاک کرنے کا موجب ہیں خطبہ نکاح فرموده ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مسجد مبارک ربوہ میں از راه شفقت مکرم قریشی محمود الحسن سرگودھا کے صاحبزادہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ان ایام میں جو ہم پر گذر رہے ہیں، قرآن کریم پر محکمہ اور تدبر کرنے اور قرآن کریم کی ہدایات پر عمل کرنے کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ دینا ضروری ہے کیونکہ ابتلا اور امتحان انسان کو پاک کرنے کے لئے آتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے پاک ہونے کے لئے ہمیں جو ہدائتیں دی ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اعمال کو درست کرنا ضروری ہے.اس وقت میں جس نکاح کا اعلان کروں گا وہ ان دو خاندانوں سے تعلق رکھتا ہے جو حالیہ فسادات میں بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں.بچی کے والد گوجرانوالہ کے فسادات میں شہید ہو گئے ہیں اور بچے کے والد کی دکان اور مکان سرگودہا میں ۵ /اکتوبر کے فسادات میں ٹوٹے اور جلا دیئے گئے ہیں انہیں بھی اور ہمیں دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکتوں اور اس کی رحمتوں کو جذب کرنے کی ضرورت ہے.دوست بہت دعائیں کریں کہ جہاں اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کی پریشانیوں کو دور کرے وہاں ان گھرانوں کے لئے بھی خوشی اور خوشحالی اور روشن مستقبل کے سامان پیدا کرے.

Page 708

خطبات ناصر جلد دہم ۶۸۴ خطبہ نکاح ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۴ء یہ نکاح ہماری عزیزہ بچی طیبہ افضل صاحبہ کا ہے جو مکرم محترم محمد افضل کھوکھر مرحوم کی صاحبزادی ہیں.ان کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم سعید احمد قریشی صاحب ابن مکرم محترم محمود الحسن قریشی صاحب ساکن سرگودھا حال مقیم ربوہ سے قرار پایا ہے ہماری اس بچی کے والد چونکہ شہید ہو چکے ہیں.ان کی جگہ عزیزہ کے ماموں مکرم مرزا بشیر احمد صاحب ابن مکرم محترم مرزا افضل کریم صاحب راولپنڈی بطور وکیل نکاح یہاں موجود ہیں.ویسے اس وقت بچی کے.ددھیال کے عزیز بھی موجود ہیں نتھیال کے عزیز بھی موجود ہیں اور ہم بھی موجود ہیں.اس کے بعد حضور نے ایجاب وقبول کرایا اور پھر اس رشتہ ازدواج کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوه ۲ /نومبر ۱۹۷۴ ، صفحه ۶)

Page 709

خطبات ناصر جلد دہم ۶۸۵ خطبہ نکاح ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۴ء دین محمدی کی آبیاری کے لئے احمدیت قائم ہوئی ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۴ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر مندرجہ ذیل سات نکاحوں کا اعلان فرمایا :.۱- محترمہ صاحبزادی سیدہ امته المصور صاحبہ بنت محترم میر سید داؤ د احمد صاحب مرحوم و مغفور کا نکاح محترم ڈاکٹر مرزا مغفور احمد صاحب ابن محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ ربوہ کے ساتھ پانچ ہزار روپے حق مہر پر.۲.محترمہ صاحبزادی نزہت عزیز صاحبہ بنت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب رضی اللہ عنہ ربوہ کا نکاح محترم صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب ابن حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ امسیح الثالث کے ساتھ پانچ ہزار روپے حق مہر پر.۳.محترمہ امۃ المجید شاہدہ صاحبہ بنت مکرم محمد حسن خان صاحب درانی ربوہ کا نکاح محترم صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب ابن حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث کے ساتھ پانچ ہزار روپے حق مہر پر.۴.محترمہ انیسہ شکور صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبد الشکور صاحب ملتان چھاؤنی کا نکاح مکرم صلاح الدین صاحب ایوبی ابن مکرم مصلح الدین صاحب سعدی مرحوم کے ساتھ تین ہزار

Page 710

خطبات ناصر جلد دہم ۶۸۶ خطبہ نکاح ۲۲ دسمبر ۱۹۷۴ء ایک روپے حق مہر پر.۵- محترمہ شاہدہ نگہت صاحبہ بنت مکرم مرزا ارشد بیگ صاحب لاہور کا نکاح مکرم منیر الحق صاحب شاہد ابن مکرم مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب ربوہ کے ساتھ آٹھ ہزار روپے حق مہر پر.- محتر مه نویدہ صاحبہ بنت مکرم چوہدری ناصر احمد صاحب ساکن بہلول پورضلع لائلپور کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر مکرم نعیم الدین احمد صاحب ابن مکرم چوہدری صلاح الدین احمد صاحب ربوہ سے.ے.محترمہ بشری بیگم صاحبہ بنت مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب چک نمبر ۸۸ ج.ب ضلع لائلپور کا نکاح سات ہزار روپے حق مہر پر مکرم شفقت محمود صاحب ابن مکرم چوہدری محمد اعظم صاحب ساکن سمبر یال ضلع سیالکوٹ سے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوست جانتے ہیں کہ پچھلے ماہ کی ۲۶ / تاریخ سے میں بیمار پڑا ہوں بیماری کے یکے بعد دیگرے دو حملے ہوئے.دوسرا حملہ تو پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا.چنانچہ وائٹ سیلز (white cells) جو انفیکشن کی علامت ہوتے ہیں، وہ پہلے حملہ میں گیارہ ہزار اور کچھ سو تک پہنچے تھے لیکن بیماری کے دوسرے حملے میں اٹھارہ ہزار سے بھی اوپر نکل گئے.ڈاکٹر مجھے اینٹی بائیوٹک قسم کی زہریلی دوائیں دیتے رہے ہیں ان دواؤں کے استعمال کے دوران کل پھر وائٹ سیلز بڑھنے شروع ہو گئے جس سے اس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ خدانخواستہ بیماری کا تیسرا حملہ نہ ہورہا ہو.چنانچہ ایک دن کے بعد ہی آج پھر دوبارہ ٹیسٹ کروایا.نیز ڈاکٹروں نے ایک دوسری دوائی استعمال کروائی.اس سے پہلے کی نسبت کچھ فرق پڑا تو ہے لیکن حالت ابھی معمول پر نہیں آئی.ویسے اللہ کا فضل ہے ہم الْحَمْدُ لِلهِ عَلى كُلِّ حَالٍ کہنے والی قوم ہیں.قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ انسان خود مریض بن جاتا ہے صحت سے تعلق رکھنے والا کوئی قانون جان بوجھ کر یا بے خیالی میں ٹوٹتا ہے تو انسان بیمار ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ شفا دیتا ہے اس لئے میں بھی دعا کر رہا ہوں.احباب بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ شافی مطلق ہے وہ اپنے فضل سے شفا عطا فرمائے.

Page 711

خطبات ناصر جلد دہم YAZ خطبہ نکاح ۲۲ ؍دسمبر ۱۹۷۴ء یہ عرصہ جو میں نے بیماری میں کاٹا ہے اس میں خلیفہ وقت ہونے کی حیثیت میں مجھ پر بہت سی موسمی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں مثلاً جلسہ سالانہ کے انتظامات ہیں، ان کی فکر ہوتی ہے.پھر مضامین کی تیاری کا کام ہے.اس کے لئے دعائیں کرنی پڑتی ہیں ویسے یہ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا فضل ہے کہ وہ ہمیشہ خود ہی مضمون سمجھا دیتا ہے تاہم وہ مضمون کے اصول بتاتا ہے اور چابیاں دیتا ہے پھر انسان کو محنت کرنی پڑتی ہے چنانچہ میں کئی سو حوالے خود ہی نکلوا تا ہوں پھر ان میں سے اپنے مضمون کے مطابق منتخب کرتا ہوں پچھلے سال تو احباب کو یاد ہوگا میں نے کہا تھا کہ اتنے حوالے اکٹھے ہو گئے ہیں کہ ان کا پڑھنا مشکل ہو گیا ہے.غرض ہر سال ذہن میں ایک مضمون آجاتا ہے مگر اس سال تیاری کا یہ حال ہے کہ ابھی تک ایک مضمون تو واضح طور پر خدا تعالیٰ نے ذہن میں ڈال دیا ہے اور اس کا تعلق خطبہ عید الاضحی سے ہے.بعد کی تقاریر کا ایک ھیولی سا ہے جو خدا تعالیٰ نے دماغ میں پیدا کیا ہے جسے وہ آہستہ آہستہ ظاہر کر دے گا مگر جو انسان کی کوشش ہے اور جسے ہم تدبیر کہتے ہیں ، وہ حصہ تو بہر حال خالی ہے.خدا تعالیٰ اپنی قدرت سے اس خالی حصے کو بھی بھر دے گا.اصل میں تو وہی دیتا ہے اس لئے دوست دعا کریں.بڑی ذمہ داری ہے.۲۶ نومبر کے بعد آج پہلے دن باہر نکلا ہوں تو میرے سر میں چکر آرہے ہیں بہت کمزوری محسوس کر رہا ہوں طاقت کا سر چشمہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اسی کی توفیق سے سب کچھ ہو سکتا ہے.اس وقت میں سات نکاحوں کا اعلان کروں گا.ان میں سے تین کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السہ کے خاندان کی نوجوان جسمانی اور روحانی نسل سے ہے اور چار کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی نسل سے ہے.احباب جانتے ہیں کہ اس وقت جماعت احمد یہ جسے روحانی جنگ کے لئے قائم کیا گیا تھا ایک انتہائی نازک دور میں داخل ہو چکی ہے.اس وقت تک یا مجھے یوں کہنا چاہیے پچھلے جلسہ سالانہ اور اس جلسے کے درمیان بنیادی طور پر حالات بدل گئے اور بعض بنیادی حقائق ہمارے سامنے آئے.چنانچہ پچھلے جلسہ سالانہ تک یا اس کے بعد کچھ عرصہ تک جو حقیقت ہمیں نظر آ رہی تھی وہ یہ تھی

Page 712

خطبات ناصر جلد دہم ۶۸۸ خطبہ نکاح ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۴ء کہ جہاں جہاں احمدیت پہنچی وہاں ان ملکوں میں ملکی سطح پر جماعت کی مخالفت ہوئی اور جتنی جتنی جماعت بڑھی اتنی اتنی مخالفت بھی بڑھتی چلی گئی.یہ جماعت احمدیہ کی نوے سالہ زندگی کی حقیقت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکیلے تھے.آپ کی مخالفت ایک شخص کی مخالفت تھی.پھر میں نے بڑا غور کیا ہے اس تاریخی نقطہ پر کہ شروع میں تین چار جگہ پر جماعت احمد یہ قائم ہوئی.قادیان اور اس کے ماحول میں ، لدھیانہ، دہلی اور شاید ایک آدھ جگہ اور ہو، ان مقامات پر جماعت احمدیہ کی مخالفت شروع ہوئی.پھر جماعت پنجاب میں پھیلنے لگی اور پنجاب میں اس کی مخالفت بھی شروع ہوگئی پھر ہندوستان میں پھیلی تو سارے ہندوستان میں مخالفت شروع ہوگئی ایک مخالفت ہے کفر کے فتووں کی وہ تو اس وقت شروع ہوئی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا مرید کوئی نہیں تھا مگر میرا گھر کفر کے ان فتووں سے بھرا ہوا تھا جو علماء نے دیئے تھے.میں اس مخالفت کی بات نہیں کر رہا میں اس مخالفت کی بات کر رہا ہوں جس کے ذریعہ غلط باتیں بتا کر لوگوں کو اکسایا جاتا ہے.پھر جماعت باہر کی.دمشق میں پہنچی جہاں سے ہمارے منیر الحصنی صاحب آئے ہوئے ہیں شروع میں بڑا اچھا زمانہ گذرا لیکن پھر جب دیکھا کہ یہ جماعت بڑی مضبوط ہو رہی ہے تو پھر مخالفت بھی بڑی سخت ہو گئی.یہ لوگ جماعت کے ہیر و ہیں جو سالہا سال سے اس مخالفانہ حالات میں سے گزر رہے ہیں اسی طرح فلسطین ( موجودہ اسرائیل ) میں جماعت تھی جب وہ مضبوط ہوئی تو وہاں بھی مخالفت ہوئی مصر میں مخالفت ہوئی اور اسی طرح دوسری جگہوں پر بھی جہاں جہاں جماعت قائم ہوئی مخالفت شروع ہو گئی پھر جب یورپ میں جماعت احمد یہ پھیلی تو وہاں بھی مخالفت ہوئی.شروع میں صرف عیسائیت کی مخالفت تھی مگر بعد میں یہ عجیب بات نظر آئی ہے کہ عیسائیت کی مخالفت کے ساتھ مسلمان کہلانے والوں کا ایک حصہ بھی شامل ہو گیا.چنانچہ عیسائی اور بعض مسلمان سر جوڑ کر ہماری مخالفت کرتے رہے ہیں سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان کا آپس میں کیا جوڑ ہے؟ اسی طرح افریقہ ہے.وہاں بھی جوں جوں جماعتیں بڑھتی چلی گئیں، مخالفت بھی زیادہ ہوتی چلی گئی لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ملک ملک کی مخالفت تھی.پچھلے جلسہ سالانہ کے موقع پر دنیا کی آنکھ نے جو چیز پہلی دفعہ محسوس کی وہ یہ تھی کہ ( گوجماعت

Page 713

خطبات ناصر جلد دہم ۶۸۹ خطبہ نکاح ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۴ء ترقی تو پہلے بھی کر رہی تھی لیکن اس کی بین الاقوامی حیثیت بہت مضبوط ہوگئی ہے اس لئے دنیا نے یہ سوچا کہ بین الاقوامی کوشش سے جماعت کا مقابلہ کرنا چاہیے.چنانچہ جماعت کے خلاف گذشته سال بین الاقوامی طور پر کوششیں اور منصوبے تیار ہوئے اور یہ زمینی مخالفت جب بین الاقوامی سطح پر نمودار ہوئی تو وہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی.اس لئے میں کہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اپنی زندگی کے نہایت نازک دور میں داخل ہو گئی ہے.ہماری اس جد و جہد جو محض اسلام کے غلبہ کے لئے ہے اس میں ہمارا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے اور نہ کوئی جماعتی فائدہ ہے.غلبہ اسلام کے لئے جو علامات اور قرائن پیشگوئیوں سے ہمیں معلوم ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تین سوسال کے اندر اندر غلبہ اسلام کی انتہائی کامیابیوں کے زمانہ میں جماعت داخل ہو جائے گی ہم کیا ہیں بس لاهی محض ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ہم تو کوئی چیز نہیں ہیں.اصل اسلام ہے اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.احباب جماعت کو یاد ہوگا میں نے پچھلے جلسہ سالانہ پر کہا تھا کہ اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے اس کے استقبال کی تیاری کے لئے احباب قربانیاں دیں کیونکہ یہ زمانہ ساری دنیا میں یعنی یورپ میں بھی ، شمالی اور جنوبی امریکہ میں بھی ، جزائر میں بھی، ایشیا میں بھی ، شرق اوسط ہو یا مشرق بعید ہو سب میں اسلام کو غالب کرنے کا زمانہ ہے.گویا ۱۳ ، ۱۴ سال کے بعد جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی شروع ہونے والی ہے جس کے لئے میں نے کہا تھا کہ اس کے استقبال کے لئے احباب قربانیاں دیں مالی بھی اور دوسری بھی.چنانچہ جماعت نے اس تحریک میں بھی حصہ لیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قربانیاں دیں.یہ جماعت بڑی قابل رشک جماعت ہے یہاں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی احباب کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق ملتی ہے اور انتہائی طور پر مالی قربانی دی جاتی ہے.اس کے علاوہ ایک اور قربانی بھی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ خدا کی راہ میں اموال لٹ جاتے ہیں اور غصب کر لئے جاتے ہیں.جماعت کو اس سال یہ قربانی بھی دینی پڑی لیکن جماعت نے کس بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیں ان کو ہم نے بھی دیکھا مگر اصل تو وہ

Page 714

خطبات ناصر جلد دہم ۶۹۰ خطبہ نکاح ۲۲ / دسمبر ۱۹۷۴ء بشاشت ہے جسے خدا نے دیکھا کیونکہ وہ علام الغیوب ہے.اس کی نگاہ جو کچھ دیکھ سکتی ہے، انسان تو وہ نہیں دیکھ سکتا اس لئے جماعت بحیثیت جماعت خوش ہے.میں بھی خوش ہوں اور آپ بھی خوش ہیں اس دنیا کی چیزیں تو عارضی ہیں.دنیا کی لذتیں بھی اور اس کے اموال بھی عارضی ہیں.دنیا کی عزتیں بھی اور اس کے اقتدار بھی عارضی ہیں.یہاں تو کسی چیز کو پائیداری نہیں.پائیداری تو اسی چیز کو حاصل ہے جس کی طرف ازلی و ابدی طاقتیں رکھنے والا خدا متوجہ ہوا اور جن کا وہ فیصلہ کرے.پس خدا نے یہ فرمایا ہے کہ میری توجہ جماعت احمدیہ کی طرف ہے.میں اس کے ذریعہ اسلام کو دنیا میں غالب کروں گا.دنیا کہتی ہے یہ ایک مختصر سی جماعت ہے.میں اور آپ بھی اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہ ایک مختصر سی جماعت ہے.دنیا کہتی ہے یہ ایک غریب جماعت ہے اور ہم اس سے بھی انکار نہیں کرتے.یہ واقعی ایک غریب جماعت ہے دنیا کہتی ہے یہ ایک بے بس اور بے کس جماعت ہے ہم اس سے کب انکار کرتے ہیں.ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم بے کس اور بے بس جماعت ہیں.دنیا کہتی ہے یہ اقتدار سے محروم جماعت ہے ہم کہتے ہیں دنیا درست کہتی ہے کہ جماعت احمد یہ اقتدار سے محروم جماعت ہے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ جس کے پاس دولت کے خزانے ہیں اور جس کا حکم اس دنیا میں چلتا ہے اور حقیقی طور پر صاحب اقتدار ہے وہی ہمارا سب کچھ ہے.اسی لئے ہم یہ کہتے ہیں لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمدُ ہم خدا کے مالک اور صاحب اقتدار ہونے کے جلوے اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہیں.ہمیں دنیوی اقتدار سے کیا واسطہ.ہمیں تو اس قادر مطلق خدا نے یہ فرمایا ہے کہ میں اس زمانہ میں مہدی معہود علیہ السلام کی جماعت کے ذریعہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کروں گا اور یہ کام ان پیشگوئیوں کے مطابق ہو گا جو صدیوں پہلے سے دی گئی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر صلحائے امت نے ہر صدی میں مہدی معہود علیہ السلام کے آنے کی خبر دی ہے.پس ان پیشگوئیوں کے مطابق جماعت احمد یہ بحیثیت جماعت خود کو خدا تعالیٰ کی ذات میں فنا کر کے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے گی.انشاء اللہ العزیز غرض ہم بڑے نازک دور میں داخل ہو چکے ہیں اور یہ اگلے سوسال کے اوپر پھیلا ہوا زمانہ ہے جس کے شروع ہونے میں چودہ ، پندرہ سال باقی رہ گئے ہیں.یہ اگلی صدی غلبہ اسلام کی

Page 715

خطبات ناصر جلد دہم ۶۹۱ خطبہ نکاح ۲۲ دسمبر ۱۹۷۴ء صدی ہے غلبہ احمدیت کی نہیں بلکہ غلبہ اسلام کی صدی ہے کیونکہ بانی احمدیت نے فرمایا ہے.وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے احمدیت تو کسی مذہب کا نام نہیں اور یہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی.اصل چیز اسلام ہی ہے.حقیقت میں دین محمدی ہی ہے جس کی آبیاری کے لئے احمدیت قائم ہوئی ہے.پس جب میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں تو اس سے میرا یہی مقصد ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا غلبہ ہوگا.قرآن کریم کی شریعت کا غلبہ ہو گا اور اس کے لئے اگلی صدی مقرر ہے اگلی صدی ایک نسل کی صدی تو نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے نو جوانوں نے اپنے کندھوں پر اس اگلی صدی کی ذمہ داریوں کے بوجھ کو نسلاً بعد نسل اٹھاتے چلے جانا ہے اور خدا کی راہ میں قربانیاں دیتے چلے جانا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی میں دنیا کو نیک نمونہ دکھاتے چلے جانا ہے تب جا کر ہماری ذمہ داریاں ادا ہوں گی اور ہمارا خدا ہم سے خوش ہوگا.یہی وہ اصل مضمون ہے جس کی طرف میں اس خطبہ نکاح کے ذریعہ جماعت احمد یہ بالخصوص نو جوانوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اس لئے کہ ہر نکاح کے اعلان کے وقت انسان کے ذہن میں دو باتیں آتی ہیں.ایک تو یہ کہ ہماری ایک اور نسل جوان ہوگئی جس کے کندھوں پر بوجھ پڑ رہا ہے.اب آئندہ اس نسل نے ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے اور دوسرے یہ کہ نکاح کے اعلان کے ساتھ ہی ایک اور نسل کی بنیاد رکھی جارہی ہے یعنی نکاح کے نتیجہ میں جو بچے پیدا ہوں گے وہ گویا ایک اورنسل ہوگی.اس لئے ایسے موقع پر بھی بڑی دعا ئیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور آنے والی نسلوں کو بھی آخر وقت تک اور مرتے دم تک خدمت دین کی توفیق عطا کرتا چلا جائے.خدا کرے ہمیں ایسے کام کرنے کی توفیق عطا ہو جو اسلام کو غالب کرنے والے اور ہمارے لئے اس کی رضا کے حصول کا باعث بننے والے ہوں.پس جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے نکاح کے موقع پر ہم یہی اعلان کرتے ہیں کہ ہماری نسل کا ایک حصہ جوان ہو رہا ہے.ہماری جوان نسلوں کو اللہ تعالیٰ خدمت دین اور رضائے الہی کے حصول کی توفیق دے اور ان کے بعد آنے والی جس نئی نسل کی آج بنیا د رکھی جا رہی ہے وہ بھی اس

Page 716

خطبات ناصر جلد دہم ۶۹۲ خطبہ نکاح ۲۲ / دسمبر ۴ ۱۹۷۴ء کی توفیق پائے.آخر نکاح کے بعد ہی بچے پیدا ہوں گے پھر وہ جوان ہوں گے پھر ان کے کندھوں پر بوجھ پڑیں گے ان کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے کہ وہ خدمت دین کی ذمہ داریوں کو بشاشت کے ساتھ ادا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں.پس اس بنیادی دعا کے ساتھ میں اس وقت سات نکاحوں کا اعلان کروں گا.سب سے پہلے میں اپنی ہمشیرہ امتہ الباسط صاحبہ اور اپنے بہنوئی میرسید داؤ د احمد صاحب کی صاحبزادی امۃ المصور کے نکاح کا اعلان کروں گا جو عزیزم مکرم مرزا مغفور احمد صاحب کے ساتھ پانچ ہزار روپے مہر پر قرار پایا ہے عزیزم مرزا مغفور احمد صاحب مکرم مرزا منصور احمد صاحب کے صاحبزادہ ہیں میں بچی اور ان کی والدہ کی خواہش کے مطابق بطور وکیل نکاح عزیزہ امتہ المصور صاحبہ بنت مکرم میرسید داؤ د احمد صاحب مرحوم کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم مرزا مغفور احمد صاحب ابن مکرم مرزا منصور احمد صاحب سے منظوری کا اعلان کرتا ہوں.اس کے بعد میں اعلان کروں گا اپنے دولڑکوں کے نکاحوں کا.میرے یہ دولڑ کے باقی رہ گئے تھے.الحمد للہ آج ہم ان کے نکاحوں کا بھی اعلان کر کے فارغ ہوتے ہیں.ایک تو مرزا فرید احمد کا نکاح ہے اور دوسرے مرزا لقمان احمد کا.ان کے نکاحوں کے حق مہر بڑی سوچ بچار کے بعد اور کچھ لطیفے اور جنسی کے بعد پانچ ، پانچ ہزار روپے مقرر ہوئے ہیں.میرا چھوٹا بیٹا لقمان تو کہتا تھا کہ میں نے حق مہر بتیس روپے سینتیس پیسے رکھنا ہے لیکن ہم نے سوچا کہ حضرت اصلح الموعود رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کا عام طور پر ایک ہزار روپے حق مہر رکھتے رہے ہیں لیکن اب چونکہ بڑی کثرت سے نوٹ شائع ہو گئے ہیں اس لئے اگر اس وقت کے ہزار روپے کے نوٹوں کی قیمت کا آج کے روپے سے مقابلہ کیا جائے تو شاید ہزار ایک لاکھ بن چکے ہوں گے لیکن لاکھ کا عدد انسان کو بہت ڈراتا ہے اس لئے ہم نے کہا کہ اچھا ہم ان دونوں کا پانچ ، پانچ ہزار روپے حق مہر مقرر کر دیتے ہیں.ان سب نکاحوں کے ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے فرمایا.اب ہم ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں گے لیکن اس سے قبل میں یہ کہنا

Page 717

خطبات ناصر جلد دہم ۶۹۳ خطبہ نکاح ۲۲ ؍دسمبر ۱۹۷۴ء چاہتا ہوں اور غالباً پہلے سے یہ ہدایت بھی ہے کہ چھوہارے وہاں تقسیم ہوں جہاں مسجد سے نکلنے کے راستے ہیں.مسجد کے اندر تقسیم نہ ہوں اگر دروازوں میں تقسیم کرنا مشکل ہو تو صحن کے باہر والا حصہ ٹھیک ہے.آؤ دعا کریں.روزنامه الفضل ربو ۹۰ را پریل ۱۹۷۵ صفحه ۲ تا ۵ )

Page 718

Page 719

خطبات ناصر جلد دہم ۶۹۵ خطبہ نکاح ۱۴ / جنوری ۱۹۷۵ء بر اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کریں خطبہ نکاح فرموده ۱۴ جنوری ۱۹۷۵ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مندرجہ ذیل نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں جس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ عزیزہ بشریٰ صاحبہ بنت مکرم اقبال احمد صاحب صابری ربوہ کا ہے جو پچیس ہزار روپے مہر پر عزیزم مکرم مسعود احمد صاحب نیازی ابن مکرم فضل محمد خان صاحب نیازی ربوہ سے قرار پایا ہے.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کے ذریعہ اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں اس رشتہ کو ہر لحاظ سے ہر دو خاندانوں اور جماعت احمدیہ اور نوع انسانی کے لئے بابرکت بنائے.قرآن کریم نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ بڑ اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کریں اور بہترین تعاون دعا سے کیا جاسکتا ہے.اس لئے ایسے موقع پر جماعت کا فرض بھی ہے اور جماعت کی روایت بھی ہے اور جماعت کی عادت بھی ہے کہ وہ بہت دعائیں کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آئندہ نسلوں کو بھی صراط مستقیم پر قائم رکھے اور دین کا خادم بنائے اور ان کے سینوں میں قربانی اور ایثار کا جذبہ پیدا کرے اور اسے ہمیشہ موجزن رکھے.

Page 720

خطبات ناصر جلد دہم ۶۹۶ خطبہ نکاح ۱۴ /جنوری ۱۹۷۵ء عزیزہ بشریٰ صاحبہ کے والد صاحب ابوظہبی میں ہیں.وہ یہاں تشریف نہیں لا سکے.انہوں نے اپنی طرف سے مکرم محمد لطیف صاحب کو وکیل نکاح مقر رکیا ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتے کے بابرکت ہونے کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا کروائی.( از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 721

خطبات ناصر جلد دہم ۶۹۷ خطبہ نکاح ۱۵/ مارچ ۱۹۷۵ء میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے بطور لباس کے ہیں خطبہ نکاح فرموده ۱۵ / مارچ ۱۹۷۵ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمہ سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ بنت محترم سید محمد سلیمان شاہ صاحب ربوہ کا نکاح چار ہزار روپیہ حق مہر پر مکرم انعام الحق صاحب کو ثر مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ سے.۲.محترمہ بشری پروین صاحبہ بنت محترم عبد الغفار خان صاحب ربوہ کا نکاح دس ہزار روپیہ حق مہر پر مکرم مرزا عبد الوحید صاحب ابن مکرم مرزا عبدالحمید صاحب مرحوم ربوہ سے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں دو نکاحوں کا اعلان کروں گا.قرآن عظیم کی تعلیم میں میاں بیوی کے تعلقات کو ایک دوسرے کے لئے لباس کی مثال دے کر بیان کیا گیا ہے.لباس کے تین فائدے علاوہ دوسرے فائدوں کے یہ بھی ہیں کہ یہ سردی گرمی سے بچاتا ہے.دوسرے نگ کو ڈھانپتا ہے اور تیسرے زینت کا باعث بنتا ہے.بازار سے آپ جو بھی کپڑا خریدتے ہیں وہ آپ کو اپنے ناپ کا کٹوا کر اور سلوا کر پہنا پڑتا ہے.اسی طرح ہر دو میاں اور بیوی کو ایک دوسرے کا مزاج سمجھنے اور جہاں تک ہو سکے آپس میں سموئے

Page 722

خطبات ناصر جلد دہم ۶۹۸ خطبہ نکاح ۱۵/ مارچ ۱۹۷۵ء جانے کی کوشش کے نتیجہ میں وہ برکات حاصل ہوتی ہیں جن کی طرف لباس اشارہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ سب احمدی خاندانوں کے تعلقات کو ان برکات کا وارث بنائے.جن کا ذکر قرآن عظیم میں آیا ہے.دوست رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کر لیں.حضور انور نے اجتماعی دعا کرانے کے بعد فرمایا:.مجھے چونکہ سلسلہ کا ایک اور ضروری کام ہے اس واسطے میں تو جارہا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو جلسہ کی برکات سے حصہ لینے کی توفیق عطا کرے.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ رمئی ۱۹۷۵ ء صفحه ۶)

Page 723

خطبات ناصر جلد دہم ۶۹۹ خطبہ نکاح ۲۷ مارچ ۱۹۷۵ء اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آخری شریعت اور اسلام کو دنیا میں غالب کرے گا خطبہ نکاح فرموده ۲۷ مارچ ۱۹۷۵ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.محترمہ عقیلہ شمس صاحبہ بنت حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ عنہ کا نکاح پندرہ ہزار روپے مہر پر محترم لیفٹینٹ نوید سعید صاحب ابن مکرم میجر محمد سعید صاحب لاہور کے ساتھ قرار پایا.-۲- محترمه نور عین فضل صاحبہ بنت مکرم شیخ فضل احمد لاہور کا نکاح پندرہ ہزار روپے حق مہر پر محترم بشیر الدین صاحب شمس ابن حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ عنہ ربوہ کے ساتھ قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں دو عزیز بچے جو محترم شمس صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے بچے ہیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی اور دو دوسرے عزیز بچے جن کے ساتھ ان کی شادی ہوگی کے نکاحوں کا اعلان کروں گا.اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور فضل سے محترم شمس صاحب رضی اللہ عنہ کو اپنے حضور نوازا.

Page 724

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۷ مارچ ۱۹۷۵ء اور ہماری نگاہ میں انسان کی نگاہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بہت خدمت کی توفیق ملی.ہم امید رکھتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں اور ہماری دعائیں ہیں کہ جو ہماری نگاہ نے دیکھا وہی دیکھا ہو جو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا.وہ اپنے گھر میں اور اپنے رشتہ داروں اور بچوں کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ تھے.وہ تو اللہ کو پیارے ہو گئے اور ہم جو اللہ تعالیٰ کے پیار کی توقع پر اور پیار کے جلووں کو مشاہدہ کرتے ہوئے یہاں زندگی گزار رہے ہیں ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے شمس صاحب کے لڑکوں کو بھی اور لڑکیوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اور ایک خادم دین نسل ان بچوں کے رشتے سے دنیا میں پیدا ہو اور وہ بھی مقبول قربانیاں کرنے والی ہو یعنی ایسی قربانیاں جنہیں اللہ تعالیٰ قبول کر لیتا ہے.اسی طرح ہر احمدی لڑکے اور لڑکی کے لئے بھی ہماری یہ دعا ہے اور ہماری یہ توقع بھی ہے کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عظیم ذمہ داری جماعت احمدیہ پر نسلاً بعد نسل ڈالی گئی ہے یعنی یہ کہ پرنہ ہر ایک کو اپنی استعداد کے مطابق انتہائی کوشش کرتے چلے جانا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آخری شریعت اور آپ کے دین کو دنیا میں غالب کرے.دینِ اسلام دنیا میں غالب ہو جائے اور نوع انسانی اپنے رب کریم کو پہچاننے لگے اور اپنے محسن اعظم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.ہمارے اوپر یہ عظیم ذمہ داری ہے.خدا کرے اس کا احساس بھی قائم رہے اور اس کے مطابق عملی جذبہ بھی ہمیشہ پیدا ہوتا رہے.اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے ایسا ہوسکتا ہے.ایجاب وقبول کے بعد ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 725

خطبات ناصر جلد دہم 2+1 خطبہ نکاح ۱۷ نومبر ۱۹۷۵ء اپنی نسل کو آنے والے زمانہ کی ذمہ داریوں کے اٹھانے کا اہل بنائیں خطبہ نکاح فرموده ۱۷ نومبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جماعت احمد یہ اپنی قومی زندگی کے جس زمانہ میں داخل ہو چکی ہے، وہ ہر لحاظ سے بڑا ہی نازک زمانہ ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے اگلے پندرہ سال کا عرصہ جس میں ہم نے غلبہ اسلام کی آئندہ صدی کے استقبال کی تیاریاں کرنی ہیں.یہ زمانہ تیاری کی وجہ سے بڑا اہم ہے.اس عرصہ میں جماعت میں جو شادیاں ہوں گی اور جو بچے پیدا ہوں گے ان کی صحیح تربیت کے نقطۂ نگاہ سے بھی یہ بڑا ہی اہم زمانہ ہے.اس لئے کہ ایک دنیا دار آدمی یا ایک عام انسان اپنے ماحول کے مطابق یا عام سمجھ کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کرتا ہے لیکن جس نسل کا ماحول بنیادی طور پر مختلف ہو یعنی پیدائش کے زمانہ کا ماحول کچھ اور ہو اور جوانی کے زمانہ کا ماحول اسے ایک اور ملنے والا ہو تو ایسی صورت میں بچوں کی تربیت وہی ماں باپ صحیح رنگ میں کر سکتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نور فراست عطا فرمایا ہو اور جو خدا تعالیٰ کی بشارتوں پر ایمان رکھتے ہوں اور اس وقت کے حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے آئندہ پندرہ ہیں یا پچیس سال کے بعد جو حالات پیدا ہونے

Page 726

خطبات ناصر جلد دہم ۷۰۲ خطبہ نکاح ۱۷/ نومبر ۱۹۷۵ء والے ہیں انہیں سامنے رکھ کر اپنی نسل کو تیار کرتے اور انہیں آنے والے زمانہ کی ذمہ داریوں کے اٹھانے کا اہل بنانے کی کوشش کرتے ہوں.پس جس زمانہ میں ہمارے آج کے بچے جوان ہوں گے اور ان کے کندھوں پر وہ ذمہ داریاں پڑیں گی جن کا آج ایک عام آدمی تخیل بھی نہیں کر سکتا لیکن ایک احمدی ایک عام انسان سے مختلف ہے یہ خدا تعالیٰ کی جماعت کا ایک فرد ہے جس نے گذشتہ پچاسی سال سے زائد عرصہ میں خدا تعالیٰ کی باتوں کو اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے دیکھا ہے اور جو اپنے مستقبل کو علی وجہ البصیرت پہچانتا اور اس کے لئے تیاری کرنے والا ہے.اس نقطۂ نگاہ سے شادیوں کے پھلوں کی تربیت ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس نور وفراست پر قائم رکھے اور ہماری نسلوں کو ان ذمہ داریوں کے نباہنے کا اہل بنائے جو آئندہ زمانوں میں نسلاً بعد نسل ان پر پڑنے والی ہیں.اس وقت میں دو نکاحوں کا اعلان کروں گا.مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب ساکن سیالکوٹ جو آج کل ربوہ میں رہائش پذیر ہیں اور ویسے سیالکوٹ میں بھی ان کی سکونت ہے اور جماعت ہائے سیالکوٹ کے امیر بھی ہیں ان کی دو بچیوں کی شادی قرار پائی ہے.ایک بچی طیبہ بیگم صاحبہ ہیں اور دوسری مبار کہ بیگم صاحبہ ، عزیزہ بچی طیبہ بیگم صاحبہ کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر عزیزم زاہد محمود صاحب ابن مکرم چوہدری غلام نبی صاحب ساکن چک نمبر ۱۲۵الدھر ضلع لائلپور سے قرار پایا ہے اور عزیزہ بچی مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم نعیم احمد صاحب ابن مکرم چوہدری منور احمد صاحب ساکن لا ہور چھاؤنی سے قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد اور اجتماعی دعا سے پہلے حضور انور نے فرمایا:.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو مبارک کرے اور ہر دو جوڑے جو اس وقت نکاح کے بندھن میں باندھے گئے ہیں ان کی زندگیاں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں خوشی اور خوشحالی سے گذرنے والی ہوں اور ہر دو خاندانوں اور ساری جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو مبارک کرے.آؤ دعا کر لیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ نومبر ۱۹۷۵ صفحه ۳)

Page 727

خطبات ناصر جلد دہم ۷۰۳ خطبہ نکاح ۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء اسلام نے کہا ہے جب لڑکا اور لڑکی بلوغت کو پہنچ جاتے ہیں تو ان کی شادی ہونی چاہیے خطبہ نکاح فرموده ۶ /دسمبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت ایک نکاح کا اعلان فرمایا.اس موقع پر حضور انور نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت انعام کے مستحق قرار پانے والے دو مقالہ نگاروں کو اپنے دست مبارک سے انعامات دیتے ہوئے فرمایا:.اس وقت ایک تو ان مقالوں کے سلسلے میں میں نے کچھ کہنا ہے اور دوسرے ایک نکاح کا اعلان کرنا ہے.چونکہ ان دونوں میں آپس میں کوئی لڑائی اور جھگڑانہیں ہے اس لئے ایک ہی گفتگو میں دونوں باتیں ہو جائیں گی.خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.بعض خاندانوں کو اپنے لڑکے یا لڑکی کے رشتہ کی تلاش میں دقت محسوس ہوتی ہے اور کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے اور بڑی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے اور فضل عمر فاؤنڈیشن کو مقالہ لکھنے والوں کی تلاش میں بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے اور بڑی پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہیں حالانکہ یہ دونوں باتیں کوئی ایسی پیچیدہ مسئلوں پر مشتمل نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت پر فضل کیا ہے اور ساری جماعت کو ایک خاندان بنادیا ہے اور یہ جو سید اور مغل اور پٹھان اور چوہدری کا فرق تھا اسے مٹا دیا

Page 728

خطبات ناصر جلد دہم ۷۰۴ خطبہ نکاح ۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے احمدی ذہن میں چلا پیدا کی ہے اس لئے نہ تو رشتوں میں کوئی دقت پیش آنی چاہیے اور نہ مقالہ نویسوں کی تلاش میں تگ و دو کی ضرورت پیش آنی چاہیے.جہاں تک مقالوں کا سوال ہے اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ بہت کچھ لکھا جائے اور اس وقت اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ نئی تحقیق کی جائے کیونکہ دنیا علم کے میدان میں آگے نکل رہی ہے اور جو صحیح علمی تحقیق ہورہی ہے وہ اسلام کی صداقت کے سامان پیدا کر رہی ہے اور ا کثر باتیں ہماری نظر سے اس لئے اوجھل رہتی ہیں کہ وہ لوگ جنہیں ان کی طرف توجہ کرنی چاہیے وہ توجہ نہیں کرتے اور اس طرح جن دوستوں کو ان کی توجہ کے نتیجہ میں ان علوم کا علم ہونا چاہیے ان کے علم میں یہ باتیں نہیں آتیں اور اسلام سے باہر جولوگ یہ سمجھنے لگیں کہ یہ باتیں تو خدائے واحد و یگانہ کو ثابت کرتی ہیں ان کی تو اسلام دشمنی کی وجہ سے خواہش ہی یہ ہوتی ہے کہ یہ باتیں جتنے عرصہ تک چھپی رہیں اتنا ہی اچھا ہے.اس وقت صرف اس قسم کے لٹریچر اور کتب و رسائل کی ہی ضرورت نہیں بلکہ مختلف زبانیں جاننے والے گروہ اور جماعتیں اور ملک ہم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ احمدیت یعنی صحیح ، بچے اور حقیقی اسلام کی جو تعلیم ہے اس کے متعلق بھی ہمیں ہماری زبان میں لٹریچر مہیا کیا جائے.آپ کو یہ علم ہے کہ جب میں گوٹن برگ کی مسجد کی بنیا درکھنے کے لئے گیا تو گوئٹن برگ میں ۱۴ یوگوسلاو احمدی ہوئے اور اس کے بعد ایک اور مقام پر پہلے سات اور پھر دو اور پھر چار احمد کی ہوئے یعنی وہاں تیرہ مزید احمدی ہو چکے ہیں اور ایک رو جاری ہے.وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے احمدیت کی صداقت کے چند ایسے وزنی دلائل کو سمجھنے کے بعد احمدیت کو قبول کر لیا ہے جن کے سمجھنے کے بعد احمدیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا یعنی اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ آج مہدی علیہ السلام کے ذریعے اسلام کی صحیح شکل دنیا کے سامنے رکھی جارہی ہے لیکن اسلام کی صحیح شکل کیا ہے؟ وہ کون سی تعلیم ہے جس سے بدعات نکال کر باہر پھینکی جا چکی ہیں ، اسلام کی اور قرآن عظیم کی وہ کون سی حسین تعلیم ہے جو آج کے انسان کے مسائل کو حل کرنے والی ہے.اس کے متعلق ہمیں لٹریچر دو.اس کے متعلق ہمیں قرآن عظیم کی نئی تفسیر ، نئے معانی پر مشتمل تغییر دو چنانچہ جب بیعتیں ہوئیں تو آپ لوگ خوش ہوئے اور خوش ہونا چاہیے تھا لیکن جس وقت یہ مطالبہ ہوا تو وہ لوگ جو اس طرف توجہ کر سکتے

Page 729

خطبات ناصر جلد دہم ۷۰۵ خطبہ نکاح ۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء ہیں وہ جب تو جہ نہیں کرتے تو مجھے ذہنی طور پر بہت کوفت اٹھانی پڑتی ہے.غرض اب اس علاقے سے یہ مطالبہ ہو گیا ہے کہ ہمیں یوگوسلاو زبان میں قرآن عظیم کا ترجمہ تفسیری نوٹوں کے ساتھ ، ہمیں اسلام کی حسین تعلیم کے متعلق کتب اور رسائل دو ہمیں یہ دو ہمیں وہ دو.ان کا مطالبہ درست ہے اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کو یہ چیز دیں جس طرح کہ ہمارا یعنی ہر باپ اور ماں کا یہ فرض ہے کہ جب اس کا لڑکا یا لڑکی جوان ہوتی ہے تو زبان حال سے یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جوانی کے تقاضے میرے ساتھ لگائے ہیں ان کو پورا کرنے کا موقع مہیا کریں.احمدیت کے اندر جو بچے پیدا ہوتے اور بڑھتے ہیں میں ان کی بات کر رہا ہوں وہ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے اوپر یہ تقاضا ہے کہ تربیت یافتہ احمدی پیدا کرو اور گھروں میں نیکی کا ماحول پیدا کرو ہمیں اس کا موقع عطا کریں.بعض نا سمجھ اور ناتجربہ کار ذہن بچیوں کو اس عمر تک پڑھاتے رہتے ہیں کہ اس کے بعد ان کے لئے رشتہ ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے.ایک دفعہ ایک صاحب آئے کہ میری بچی بہت پڑھتی رہی ہے.اس نے ایم اے کیا ہے یہ کیا ہے وہ کیا ہے اب اس کی عمر ۳۲،۳۰ سال ہو گئی ہے.آپ اس کے لئے کوئی رشتہ تلاش کریں.میں نے کہا کوشش تو کروں گا مگر تم یہ سوچ لو کہ ۳۴، ۳۵ سال کا کنوارا مرد ڈھونڈ نا آسان کام نہیں ہے.ہمیں پچیس سال کی عمر میں شادیاں ہو جاتی ہیں.پس جو شادی کی عمر ہے اور جس عمر میں اسلام نے شادی کے لئے کہا ہے.جب لڑکا اور لڑکی اس عمر کو یعنی بلوغت کو پہنچ جاتے ہیں تو ان کی شادی ہونی چاہیے اور جو روشن اور فراست والے ذہن ہیں اور جو علم رکھتے ہیں انہیں اس ملاپ کے لئے سامان پیدا کرنے چاہئیں جس ملاپ کے نتیجہ میں ساری دنیا امت واحدہ بن جائے گی اور تمام انسان ایک خاندان ہو جائیں گے.یہ جو دوسال میں صرف تین انعام ملے اور ان کا اعلان ہوا اس سے بڑا دکھ ہوتا ہے پہلے سال میں غالباً چار پانچ انعام ملے تھے اور پھر یہ کم ہوتے چلے گئے کیا خدا نے ہم سے ہماری عقلیں چھین لیں ؟ ایسا تو نہیں ہوا.ہم ہی سست ہو گئے ہیں.پہلے سال چار انعام ملے تھے پھر تین پھر زیر و، پھر دو، پھر ایک اس طرح یہ چل رہا ہے یہ تو بڑی افسوس ناک بات ہے.

Page 730

خطبات ناصر جلد دہم 2.Y خطبہ نکاح ۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء اگر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنا ہے تو اس وقت ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مختلف زبانیں سیکھیں اور مختلف زبانوں میں اتنی مہارت حاصل کریں کہ ان میں کتابیں لکھ سکیں اور گفتگو کرسکیں.اور پھر ہم خدا تعالیٰ سے یہ توفیق چاہیں اور اس رنگ میں دعا کریں کہ ہماری دعائیں قبول ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رنگ میں کتابیں لکھنے کی توفیق عطا کرے کہ جس سے ان زبانوں کے بولنے والی اقوام کو سیری حاصل ہو اور ان کے سر فخر سے بلند ہوں کہ ہم ایک ایسے مذہب کی طرف منسوب ہونے والے ہیں کہ جو اپنی علمیت کے لحاظ سے اور اپنی صداقت کے لحاظ سے دنیا کے ہر علم اور ہر اس چیز پر جس کو دنیا صداقت سمجھتی ہے بھاری اور وزنی ہے نیز ہمارے بچوں کی شادیاں ایسے وقت میں ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق عطا کرے کہ ان سے ایک نئی نسل بھی ہو اور وہ اس رنگ میں پیدا ہو اور پرورش پائے اور بڑھے اور پھلے اور پھولے کہ جو اسلام کے باغ میں تر و تازگی پیدا کرنے والی ہو.اس وقت جس نکاح کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ عزیزہ بچی طاہرہ مشتاق صاحبہ کا ہے جو مکرم محترم ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب ساکن لاہور کی صاحبزادی ہیں.ان کا نکاح دس ہزار روپیه مهر پر عزیزم کیپٹن سید منصور و قار صاحب ابن مکرم محترم سید مسعود احمد شاہ صاحب بخاری لاہور سے قرار پایا ہے.ایجاب و قبول کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت بابر کت کرے اور اس سے ایسی نسل چلے جو اسلام کی خادم ہو اور خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کو حاصل کرنے والی ہو اور اللہ تعالیٰ جماعت کے پڑھے لکھوں کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ دنیا کی ضرورت کے مطابق دنیا کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے متعلق لٹریچر پہنچا سکیں.دوست دعا کریں.اس کے بعد حضور نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۸ / فروری ۱۹۷۶ ء صفحه ۳، ۴)

Page 731

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۵ء جو شخص نبی اکرم کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کو پاتا ہے خطبه نکاح فرموده ۲۹ دسمبر ۱۹۷۵ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر چھیاسٹھ نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لئے اس کی مغفرت کی ضرورت ہے اور اس کی مغفرت کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو احکام صادر فرمائے ہیں ان میں سے ہر حکم میں آپ کی اطاعت کی ضرورت ہے.جو شخص زندگی کے ہر شعبہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کو پاتا اور اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرتا ہے.رشتہ ازدواج بھی ہماری زندگیوں کا ایک ضروری فعل ہے اور اس کی کامیابی کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ضروری ورنہ بڑے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں خاندانوں کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور اگر احمدیوں میں کوئی خاندانی جھگڑا پیدا ہو تو میرا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور یہ تو معمولی چیزیں ہیں لیکن یہ باتیں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو جاتی ہیں.اس لئے اس فعل میں بھی جو کہ ہمارے لئے ضروری ہے ہمیں اطاعت اللہ اور اطاعت رسول کے بعد استغفار کے ذریعے خدا تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہم

Page 732

خطبات ناصر جلد دہم سب کو اس کی تو فیق عطا کرے.پھر حضور انور نے فرمایا:.۷۰۸ خطبہ نکاح ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۵ء میں اس وقت چھیاسٹھ کے قریب اعلان کروں گا اور ان چھیاسٹھ اعلانوں میں آپ کو خاموش بیٹھنا پڑے گا اور بیٹھنا بھی پڑے گا اٹھ کر مسجد سے باہر نہیں جانا ہوگا.۱- محترمہ سیدہ امتہ الکافی صاحبہ بنت میجر سعید احمد صاحب لاہور کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم مرز اعمر احمد صاحب ابن ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ربوہ سے.۲.محترمہ طاہرہ ملک صاحبہ بنت مکرم ملک عمر علی صاحب کھو کھر مرحوم ملتان کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم فاروق احمد خان صاحب ابن مکرم عباس احمد خان صاحب لاہور سے.۳.محترمہ امۃ الرؤوف صاحبہ بنت سید داؤ د مظفر شاہ صاحب کا نکاح بارہ ہزار روپیہ مہر پر مکرم تاثیر مجتبی صاحب ابن مکرم ڈاکٹر غلام مجتبی صاحب کراچی سے.محترمہ نجمہ نصیر صاحبہ بنت مکرم سید نصیر احمد شاہ صاحب لاہور کا نکاح ستائیس ہزار روپیہ مہر پرمکرم سید منصور احمد صاحب ابن سید مقبول احمد صاحب راولپنڈی سے.۵- محترمہ امۃ النصیر طاہرہ صاحبہ بنت مکرم میاں عطاء الرحمن صاحب ربوہ کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم مظفر احمد صاحب ثاقب ابن چوہدری منظور احمد صاحب مرحوم نارنگ منڈی سے.محترمہ نسرین شریف صاحبه بنت شیخ محمد شریف صاحب مرحوم کا نکاح پچیس ہزار روپیہ مہر پر مکرم نعیم الرحمان در دابن مکرم مولوی عبد الرحیم صاحب در دمرحوم لاہور سے.۷.محترمہ نزہت صاحبہ بنت مرزا عبد الرحمان صاحب کراچی کا نکاح ہیں ہزار روپیہ مہر پر مکرم مرزا یوسف جان صاحب ابن مکرم مرزا عبداللہ جان صاحب ایبٹ آباد سے.محتر مہ امۃ القیوم صاحبہ بنت چوہدری محمد اکرام اللہ صاحب ملتان کا نکاح پندرہ ہزار روپیہ مہر پر مکرم ڈاکٹر محمود احمد صاحب خواجہ ابن مکرم خواجہ محمد شریف صاحب مرحوم پشاور سے.۹ محترمہ راشدہ ناہید صاحبہ بنت مکرم غلام حسین صاحب ٹھیکیدار ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد اسلم صاحب ابن مکرم جھنڈے خان صاحب چک سٹھیالہ ۵۰ ج.ب ضلع لائلپور سے.

Page 733

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۵ء ۱۰.محترمہ فرحت اکبر صاحبہ بنت مکرم اخوند محمد اکبر خان صاحب مرحوم ملتان کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم اور میں احمد صاحب ابن مکرم میاں مہر دین صاحب ربوہ سے.۱۱.محترمہ ڈاکٹر جاویدہ مبارکہ صاحبہ بنت مکرم میاں محمد یونس صاحب جنجوعہ کا نکاح پچیس ہزار روپیہ مہر پر مکرم کیپٹن طاہر احمد صاحب ابن مکرم چوہدری غلام حسین صاحب ربوہ سے.۱۲.محترمہ زاہدہ پروین صاحبہ بنت مکرم کیپٹن نذیر احمد صاحب بھاری والاضلع سیالکوٹ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم عبدالمناف خاں صاحب ابن مکرم چوہدری بوٹے خاں صاحب بھاری والا ضلع سیالکوٹ سے.۱۳.محترمہ شاہدہ قدیر صاحبہ بنت مکرم مرزا عبد القدیر صاحب کراچی کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم لئیق احمد صاحب انصاری ابن مکرم محمد رشید صاحب انصاری ربوہ سے.۱۴ - محتر مہ امتہ الوحید صاحبہ بنت مکرم ملک عبد الرب خان صاحب لاہور کا نکاح آٹھ ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد حمید صاحب ابن مکرم میاں محمد رفیق صاحب لاہور سے.۱۵.محترمہ ممتاز صاحبہ بنت مکرم میاں محمد رفیق صاحب لاہور کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم عبد الحکیم عابد صاحب ابن مکرم مرزا غلام قادر صاحب لاہور سے.۱۶- محترمه نسرین اختر صاحبہ بنت مکرم چوہدری فضل حسین صاحب چونترہ ضلع راولپنڈی کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم نصیر احمد صاحب ابن مکرم چوہدری محمد شریف صاحب راولپنڈی سے.۱۷- محترمہ امتہ انصیر صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد شریف صاحب راولپنڈی کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم بشارت احمد محمود صاحب ابن مکرم چوہدری رحمت اللہ صاحب چک نمبر ۶۹ گھسیٹ پورہ سے.۱۸- محتر مہ سکینہ پروین صاحبہ بنت مکرم چوہدری مولا بخش صاحب ربوہ کا نکاح تین ہزار روپیہ حق مہر پر مکرم چوہدری محمود احمد صاحب مربی سلسلہ ابن مکرم چوہدری نذر محمد صاحب ادرحمہ ضلع سرگودھا سے.۱۹.محترمہ انجم مہ جبیں صاحبہ بنت مکرم میاں غلام حسین صاحب لاہور کا نکاح پندرہ ہزار روپیہ مہر پر مکرم ظفر احمد صاحب ابن مکرم محمد شفیع صاحب لاہور سے.

Page 734

خطبات ناصر جلد دہم 21 • خطبہ نکاح ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۵ء ۲۰- محتر مہ امۃ النور صاحبہ بنت مکرم میر نوراحمد صاحب تالپور.حیدر آباد کا نکاح پچاس ہزار روپیہ حق مہر پر مکرم عبد الحلیم صاحب ابن مکرم عبدالمجید صاحب کراچی سے.۲۱ - محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ بنت مکرم عبد المجید صاحب کراچی کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب ابن مکرم چوہدری عبد الرحمن صاحب ملتان سے.۲۲.محترمہ امۃ القیوم صاحبہ بنت مکرم رشید احمد صاحب ربوہ کا نکاح ایک ہزار پانچ سو روپیہ مہر پر مکرم مرز امحمد صدیق صاحب ابن مکرم مرزا محمد لطیف صاحب گوجرہ سے.۲۳.محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری محمد شریف احمد صاحب ٹیکسلا کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم محفوظ الرحمان صاحب ابن مکرم منشی خان صاحب نارووال سے.-۲۴- محترمه مبارکه سلطانہ صاحبہ بنت مکرم جمال دین صاحب کراچی کا نکاح دو ہزار پانچ سو روپیہ مہر پر مکرم محمد لطیف صاحب تاج ابن مکرم امین الدین صاحب کراچی سے.۲۵.محترمہ امتہ الباسط طاہرہ صاحبہ بنت مکرم عبد الحق صاحب بو بک ربوہ کا نکاح تین ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمود احمد صاحب ابن مکرم لطیف احمد صاحب نبی سر روڈ سے.۲۶ - محترمه فهمیده اختر صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد اقبال صاحب مست پور ضلع سیالکوٹ کا نکاح چار ہزار روپیہ مہر پر مکرم عزیز الرحمان صاحب ابن مکرم چوہدری فضل کریم صاحب محمود آباد سندھ سے.۲۷.محترمہ عابدہ خالد صاحبہ بنت مکرم خالد محمود صاحب بھی لائلپور کا نکاح چار ہزار پانچ سور و پیہ مہر پر مکرم ظہور احمد صاحب ابن مکرم را نا عبدالمجید صاحب کلاسوالہ سے.۲۸- محترمه لطیف بیگم صاحبہ بنت مکرم نور الہی صاحب چک نمبر ۲۲ ج.ب کلاں ضلع لائلپور کا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد اصغر علی صاحب ابن مکرم شرف علی صاحب جہلم سے.۲۹.محترمہ صادقہ بیگم صاحبہ بنت مکرم مستری بشیر احمد صاحب چک نمبر ۴۶ شمالی سرگودھا کا نکاح تین ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد رمضان صاحب ابن مکرم مستری محمد علی صاحب برج اٹاری ضلع شیخو پورہ سے.

Page 735

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۵ء ۳۰.محترمہ صفیہ قمر صاحبہ بنت مکرم چوہدری عمر دین صاحب منڈی ہیرا سنگھ ضلع ساہیوال کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد طفیل صاحب ابن چوہدری باغ علی صاحب چک ۲۷۵ ضلع لائل پور سے.۳۱.محترمہ عابدہ بر جبیں صاحبہ بنت مکرم قریشی عبدالحئی صاحب مرحوم ملتان کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم انعام اشعر صاحب ابن مکرم فضل الہی خان صاحب در ویش لاہور سے.۳۲.محترمہ زرینہ اختر صاحبہ بنت مکرم حکیم فضل محمد صاحب یہی کا نکاح تین ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد محسن صاحب ابن ڈاکٹر محمد اشرف صاحب چوہان گوجرہ سے.۳۳- محترمه میمونہ اختر صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر محمد اشرف صاحب چوہان گوجرہ کا نکاح تین ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمود احمد شکیل صاحب ابن مکرم حکیم فضل محمد صاحب یہی سے.۳۴.محترمہ امۃ الشافی صاحبہ بنت مکرم عبد اللہ صاحب ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم مصلح الدین صاحب ابن مکرم محمد علیم الدین صاحب ربوہ سے.۳۵.محترمہ نعیمه خانم صاحبہ بنت مکرم ملک حنیف خان صاحب چک ۲۲۶ گ.ب خانپور کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم بشیر احمد صاحب ابن مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب رحیم یارخاں سے.۳۶.محترمہ نعیمہ بیگم صاحبہ بنت مکرم برکت اللہ صاحب ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم سعید احمد صاحب ابن مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب رحیم یارخان سے.۳۷.محترمہ ناہید شریف صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد شریف صاحب لاہور کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم ذوالقرنین صاحب ابن مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب صراف ڈسکہ سے.۳۸- محترمه کشور سلطانہ صاحبہ بنت مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب صراف ڈسکہ کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم منیر احمد صاحب ابن مکرم میاں نذیر احمد صاحب ناصر ڈسکہ سے.۳۹.محترمہ ریحانہ بشر کی صاحبہ بنت مکرم چوہدری احمد دین صاحب چیمه چک ۳۵ جنوبی سرگودھا کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم چوہدری منظور احمد صاحب ابن مکرم چوہدری سلطان احمد صاحب وڑائچ چک اے جنوبی ضلع سرگودھا سے.

Page 736

خطبات ناصر جلد دہم ۷۱۲ خطبہ نکاح ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۵ء ۲۰ محترمہ فرزانہ پروین صاحبہ بنت مکرم بشیر احمد صاحب چغتائی مرحوم واہ کینٹ کا نکاح چھ ہزار روپیہ مہر پر مکرم عبدالسمیع احمد صاحب ابن مکرم محمد عبد الخالق صاحب سکھر سے.۴۱.محترمہ مسرت النساء صاحبہ بنت مکرم چوہدری علم دین صاحب مرحوم چک ۲۰۹ اکال گڑھ کا نکاح چھ ہزار روپیہ مہر پر مکرم چوہدری سعید احمد صاحب ابن مکرم چوہدری حسن دین صاحب مرحوم تلونڈی بھنڈراں سے.-۴۲- محترمه مقصوده بیگم صاحبہ بنت مستری ولی محمد صاحب ہڈیارہ کا نکاح سات ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد صادق صاحب ابن مکرم مستری محمد حسین صاحب قصور سے.۴۳ - محترمه فرحت ظفر صاحبہ بنت کرنل محمد ظفر اللہ خان صاحب لاہور کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم سیف اللہ صاحب ابن مکرم چوہدری محمد نواز صاحب کلسیاں ضلع شیخو پورہ سے.۴۴ - محترمہ عشرت ظفر صاحبہ بنت کرنل محمد ظفر اللہ خان صاحب لاہور کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم کیپٹن منور احمد صاحب را نا ابن مکرم میجر انور احمد خان صاحب مرحوم ملتان سے.۴۵.محترمہ شاہدہ شاہین صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبد الرحیم خان صاحب را جپوت چک ۲۸لائلپور کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم کیپٹن را نا عبد الباسط خان صاحب ابن مکرم میجر چوہدری عبدالقادر خان صاحب چک ۶۸ ج.ب لائل پور سے.۴۶ - محترمہ آصفہ چوہدری صاحبہ بنت مکرم چوہدری فیروز احمد خاں صاحب ربوہ کا نکاح آٹھ ہزار روپیہ مہر پر مکرم مظفر احمد صاحب ابن مکرم ناصر احمد صاحب چک نمبر ۷۸ جنوبی ضلع سرگودھا سے.۴۷.محترمہ امتہ الودود صاحبہ بنت چوہدری ہدایت اللہ صاحب چک ۳۵ جنوبی ضلع سرگودھا کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم مبارک احمد صاحب چیمہ ابن مکرم غلام احمد صاحب چیمہ چک نمبر ۷۸ شمالی ضلع سرگودھا سے.۴۸- محتر مه سیدہ نعیمہ صادق صاحبہ بنت مکرم سید عبد الغنی شاہ صاحب ربوہ کا نکاح تین ہزار روپیہ مہر پر مکرم سید منظور احمد زاہد صاحب ابن مکرم سید محمد سلیمان صاحب ربوہ سے.۴۹.محترمہ شہناز کوثر صاحبہ بنت مکرم چوہدری خلیل الرحمن صاحب ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر

Page 737

خطبات ناصر جلد دہم ۷۱۳ خطبہ نکاح ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۵ء مکرم چوہدری عبد الخالق خان صاحب ابن مکرم چوہدری عبد القادر خان صاحب ربوہ سے.۵۰.محترمہ عابدہ شفیقہ صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبد الخالق خان صاحب ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ حق مہر پر مکرم عبد المغنی صاحب زاہد مربی سلسلہ احمدیہ ابن مکرم چوہدری عبد المومن خاں صاحب مرحوم ربوہ سے.۵۱.محترمہ اختر جبیں صاحبہ بنت مکرم غلام رسول صاحب چک ۷۸ جنوبی ضلع سرگودھا کا نکاح دو ہزار روپے مہر پر مکرم مبشر احمد صاحب ابن مکرم سید احمد صاحب پنڈی لالہ ضلع گجرات سے.۵۲.محترمہ طاہرہ کوثر صاحبہ بنت مکرم مرزا اصغر بیگ صاحب مرحوم لائلپور کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم مرزا آصف بیگ صاحب ابن مکرم مرز امنیر اللہ بیگ صاحب پتو کی ضلع لاہور سے.۵۳ - محترمہ ممتاز فاطمہ صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبد اللہ خان صاحب راولپنڈی کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم اعجاز احمد صاحب مہارا ابن مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب مہار چک ۶۴۴ ضلع لائلپور سے.۵۴- محترمہ نصرت پروین صاحبہ بنت مکرم محمد صادق صاحب ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ ہر پر مکرم محمد یونس صاحب بھٹی ابن مکرم رحمت اللہ صاحب بھٹی ربوہ سے.۵۵- محترمہ نصرت النساء صاحبہ بنت مکرم حاجی محمد شفیع صاحب چک ۹ شمالی پنیار کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم مبشر احمد صاحب ابن مکرم چوہدری مختار احمد صاحب چک ۱۲۴ جنوبی سرگودھا سے.۵۶ - محترمہ نجمہ پروین صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد علی صاحب چک ۳۳ دھار والی شیخو پورہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم نصیر احمد صاحب ابن مکرم چوہدری محمدمختار صاحب مرحوم چک نمبر ۱۸ بہوڑ و شیخوپورہ سے.۵۷.محترمہ سکینہ شاہین صاحبہ بنت مکرم چوہدری عالم دین صاحب لاہور کا نکاح دو ہزار روپیہ مہر پر مکرم قریشی مبارک احمد صاحب ابن مکرم قریشی عبد اللطیف صاحب ربوہ سے.۵۸ - محترمہ نگہت پروین صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبد الوحید صاحب گوجرہ کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد حیات صاحب ابن مکرم چوہدری محمد اسماعیل صاحب گھر پر ضلع لاہور سے.

Page 738

خطبات ناصر جلد دہم ۷۱۴ خطبہ نکاح ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۵ء ۵۹.محترمہ امۃ الرحیم صاحبہ بنت مکرم چوہدری نبی بخش صاحب قمر آباد کا نکاح دو ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد لئیق صاحب ابن مکرم چوہدری محمد لطیف صاحب پنگریو ضلع بدین سے.۶۰ محترمه نسرین اختر صاحبہ بنت مکرم عبد الرحمن صاحب جڑانوالہ کا نکاح چار ہزار روپیہ پر مکرم ظفر احمد صاحب ابن مکرم ماسٹر غلام محمد صاحب شہید ربوہ سے.۶۱ - محترمه مبشره پروین صاحبہ بنت مکرم محمد صادق صاحب ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم شوکت حیات صاحب ابن مکرم نورمحمد صاحب مانگٹ اونچے ضلع گوجرانوالہ سے.۶۲ - محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد علی صاحب ناصر آباد سندھ کا نکاح چھ ہزار روپیہ مہر پر مکرم رشید احمد صاحب بھٹی ابن مکرم چوہدری نور محمد صاحب بشیر آباد سے.۶۳.محترمہ شاہین کوثر صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد سعید احمد صاحب ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم منور احمد صاحب ابن مکرم ملک محمد اسلم صاحب سیالکوٹ سے.۶۴.محترمہ شاہدہ پروین صاحبہ بنت مکرم محمد اسلم صاحب کھرولیاں اونچیاں ضلع سیالکوٹ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم مبارک احمد صاحب ابن مکرم فضل داد صاحب رلیو کے ضلع سیالکوٹ سے.۲۵ - محترمہ حمیده اختر صاحبه بنت مکرم ملک فضل دین صاحب ربوہ کا نکاح تین ہزار روپیہ مہر پر مکرم مقصود احمد صاحب ہمایوں ابن مکرم ملک عبد الواحد صاحب روہتاس ضلع جہلم سے.۶۶.محترمہ امۃ اللطیف صاحبہ بنت مکرم چوہدری وزیر محمد صاحب مرحوم ربوہ کا نکاح سات ہزار رو پید ہر پر مکرم شیخ محمد منشاء صاحب ابن مکرم شیخ حمد شفیع صاحب ربوہ سے.ایجاب وقبول کے بعد ان نکاحوں کے بابرکت ہونے کے لئے تمام حاضرین سمیت دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۳۱ /جنوری ۱۹۷۷ء صفحه ۳، ۴)

Page 739

خطبات ناصر جلد دہم ۷۱۵ خطبہ نکاح ۱۱ جنوری ۱۹۷۶ء دنیا کی زندگی خوشی اور غمی کے امتزاج کا نام ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۱ار جنوری ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے مکرم مولا نا شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری حدیقتہ المبشرین کی والدہ ماجدہ اور محترم صوفی محمد شفیع صاحب مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد ایک نکاح کا اعلان فرمایا.اس موقع پر حضور نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.اس دنیا کی زندگی خوشی اور غمی کے امتزاج کا نام ہے.اس وقت ہم نے نماز جنازہ بھی پڑھی اور جانے والوں کے لئے دعائیں کیں اور اب ہم نکاح کا اعلان بھی کریں گے اور آنے والی نسلوں کے لئے دعا ئیں بھی کریں گے.اللہ تعالیٰ جانے والوں کو اخروی زندگی میں وہ نعمتیں عطا فرمائے.جن کا اس نے اپنے مومن بندوں اور بندیوں سے وعدہ کیا ہے اور جن کا ہماری عقل، آنکھ ، کان یا ہمارے دوسرے حواس کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتے اور جو آنے والی نسلیں ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی فضل فرمائے اور وہ لوگ جو ان کے والدین اور مربی اور گارڈین بننے والے ہیں انہیں ان کی تربیت کی توفیق عطا فرمائے اور وہ سب اس دنیا میں بھی ان فضلوں کے وارث ہوں جن کی بشارت اللہ تعالیٰ نے مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے احباب کو دی ہے.

Page 740

خطبات ناصر جلد دہم ۷۱۶ خطبہ نکاح ۱۱ جنوری ۱۹۷۶ء اس وقت جس نکاح کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ عزیزہ بچی راشدہ باجوہ صاحبہ کا ہے جو مکرم چوہدری شریف احمد صاحب با جوه ساکن چک نمبر ۱۰۵ ج.ب لائلپور کی صاحبزادی ہیں.ان کا نکاح دس ہزار روپے مہر پر عزیزم مکرم کیپٹین ڈاکٹر محمد ظفر اقبال صاحب ابن مکرم چوہدری محمد دین و مینس ساکن ربوہ سے قرار پایا ہے.کرائی.ایجاب وقبول کے بعد حضور نے اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا روزنامه الفضل ربوه ۲۲ /جنوری ۱۹۷۶ء صفحه ۳)

Page 741

خطبات ناصر جلد دہم 212 خطبہ نکاح ۳۱ / جنوری ۱۹۷۶ء شہید کی اولا د دنیا میں صداقت کے لقب کو حجت بنائے خطبه نکاح فرموده ۳۱ /جنوری ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضورانور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت ایک نکاح کا اعلان فرمایا.اس موقع پر حضور انور نے جو خطبہ ارشاد فر ما یا.وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت جس نکاح کا میں اعلان کروں گا وہ عزیزم مکرم صاحبزادہ سید امجد لطیف صاحب کا ہے جو مکرم محترم صاحبزادہ سید محمد طیب لطیف صاحب کے بیٹے اور صاحبزادہ عبداللطیف مرحوم شہید رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں.ان کا نکاح تیس ہزار روپے حق مہر پر مکرم با بوشس الدین خاں صاحب مرحوم جو صوبہ سرحد کی جماعت ہائے احمدیہ کے امیر تھے ، کی بچی عزیزہ نصرت جہاں شمس صاحبہ سے قرار پایا ہے.عزیزم امجد لطیف کے دادا بہت بزرگ انسان تھے.انہوں نے صداقت کی راہ میں ایک اعلیٰ نمونہ دکھایا تھا.حضرت مسیح ( موعود ) علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں ان کا ذکر کیا ہے.اس لئے جہاں ہم ان کے درجات کی بلندی کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہتے ہیں.وہاں ان کی اولا دبھی اس بات کی مستحق ہے کہ ہم ان کے لئے بھی دعائیں کرتے رہیں.خصوصاً یہ دعا کہ

Page 742

خطبات ناصر جلد دہم ZIA خطبہ نکاح ۳۱ / جنوری ۱۹۷۶ء اللہ تعالیٰ انہیں اپنے والد اگر وہ شہید محترم کی اولاد ہیں یا اپنے دادا اگر وہ ان کی اولاد کی اولاد ہیں کو اپنے والد یا دادا کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور دنیا میں صداقت کے لئے ان کو حجت بنائے.عزیزہ نصرت جہاں صاحبہ مکرم با بوشمس الدین خاں صاحب مرحوم کی بچی ہیں جنہوں نے بڑے لمبے عرصہ تک سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کی.دوست دعا کریں ہماری اس عزیزہ بچی کو بھی اللہ تعالیٰ دین کی خادمہ بنائے اور ہر دو گھروں کے لئے اس رشتہ کو بہت بابرکت کرے.ایجاب و قبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۸ رفروری ۱۹۷۶ ء صفحه ۴)

Page 743

خطبات ناصر جلد دہم ۷۱۹ خطبہ نکاح ۶ رفروری ۱۹۷۶ ء احمدیت نے ہم سب کو ایک خاندان بنادیا ہے اور اب یہ خاندان آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے خطبہ نکاح فرموده ۶ رفروری ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.احمدیت نے ہم سب کو ایک خاندان بنادیا ہے اور اب یہ خاندان آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک تک اس کا پھیلاؤ بڑھ گیا ہے.اس کے نتیجے میں شادی بیاہ کے تعلقات بھی صرف اندرون ملک کا سوال نہیں رہا بلکہ ایک ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ یہ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں.ایک ملک کی بچی (دلہن ) ہوتی ہے دوسرے ملک کا بچہ ( دولہا ) ہوتا ہے اور اس طرح ملک ملک کے درمیان یہ رشتے طے پاتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے.ہم اس پر جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.اس قسم کی شادیوں میں ایک وہ شادی ہے جس میں مرکز سلسلہ عالیہ احمدیہ میں رہنے والی چی دوسرے ملک میں بیا ہی جاتی ہے.شادی کے بعد جب ایسی بچی باہر جاتی ہے تو اسے اس نظر سے بھی دیکھا جاتا ہے کہ چونکہ اس کا تعلق مرکز سلسلہ سے رہا ہے اس لئے اسے باہر کے ماحول میں ایک اچھا نمونہ بن کر رہنا چاہیے.اسی طرح ہمارے باہر کے جو بچے مرکز سلسلہ کی بچیوں کو بیاہ

Page 744

خطبات ناصر جلد دہم ۷۲۰ خطبہ نکاح ۶ رفروری ۱۹۷۶ ء کر لے جاتے ہیں ، ان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ اگر اور جب ( اور خدا کرے ہمیشہ ہی ) یہ بچیاں نیک نمونہ بننے کی کوشش کریں تو ان کی راہ میں وہ روک نہ بنیں تا نیکی اور خوشحالی کا ماحول پیدا ہوتا چلا جائے.اس وقت میں دو نکاحوں کا اعلان کروں گا.ان میں سے ایک تو میری ماموں زاد ہمشیرہ عزیزہ امتہ البصیر صاحبہ کا ہے.ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ان دونوں رشتوں کو بہت برکتوں والا بنائے اور رحمتوں کا اور خوشحالیوں کا اور مسرتوں کا باعث بنائے.۱.عزیزہ امتہ البصیر صاحبہ جو میرے ماموں خلیفہ صلاح الدین صاحب مرحوم کی بچی ہیں ان کا نکاح ایک ہزار انگلستان کے سکہ یعنی برٹش پونڈ حق مہر پر عزیزم محمد ارشد احمدی ابن مکرم جلنگھ محمد یوسف صاحب احمدی کے ساتھ قرار پایا ہے جو ھم (یو.کے ) کے رہنے والے ہیں اور حاضر ہیں.لڑکی کے ولی ان کے بھائی عزیزم خلیفہ صباح الدین صاحب ہیں جو بطور وکیل نکاح یہاں موجود ہیں.۲.دوسرا نکاح عزیزه سیده را حیله منصور صاحبہ بنت مکرم سید منور حسین صاحب کراچی کا ہے جو دس ہزار روپے حق مہر پر عزیزم سید امجد بشیر صاحب ابن مکرم کرنل سید بشیر احمد صاحب ساکن ربوه سے قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حضور نے حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا کروائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ مارچ ۱۹۷۶ ء صفحه ۵)

Page 745

خطبات ناصر جلد دہم ۷۲۱ خطبہ نکاح ۹ / مارچ ۱۹۷۶ ء اللہ تعالیٰ اس رشتے سے ایک ایسی نسل چلائے جو انسانیت کی خادم ہو خطبہ نکاح فرموده ۹ / مارچ ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر محترمہ صاحبزادی امتہ العلیم عصمت صاحبہ بنت محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب قادیان کے نکاح کا اعلان فرمایا جو دس ہزار روپے حق مہر پر محترم نواب منصور احمد خاں صاحب ابن مکرم نواب زاده مسعود احمد خان صاحب ربوہ کے ساتھ قرار پایا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان بنایا ہے اور اس کی یہ ذمہ داری مقرر کی ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھنے والا بنے.دراصل وہ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة : ۳) کا جو حکم ہے وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے کیونکہ دین اسلام فطرت انسانی کا مذہب ہے.یعنی اسلام کی ساری تعلیم اس غرض سے ہے کہ انسان کی تمام فطری طاقتیں اور صلاحیتیں کامل طور پر نشوونما پاسکیں.اس غرض کے حصول کے لئے اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مطابق مہدی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.جو افراد اس مہدی کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کے اندر محض اس وجہ سے کوئی خصوصیت نہیں پیدا ہوجاتی لیکن ان کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں اور اگر اور جب وہ اپنی ان بڑھی ہوئی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے بنیں تو اسی کے

Page 746

خطبات ناصر جلد دہم ۷۲۲ خطبہ نکاح ۹ / مارچ ۱۹۷۶ء مطابق اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی زیادہ حاصل کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شادی سیدوں میں ہوئی.میری دادی حضرت أم المؤمنین رضی اللہ عنہا جن کی گود میں میں نے بھی پرورش پائی ہے.ان سے تعلق رکھنے والا خاندان یعنی ان کے ایک بھائی کی نواسی اور نواسے کے نکاح کا آج اعلان ہوگا.لیکن دوسری طرف سے دلہن حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی پڑپوتی ہے ایک طرف سے حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے رشتے سے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ کا نواسا دولہا ہے اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے بیٹے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پوتی دلہن ہے.اس طرح گویا سیدوں سے بھی تعلق ہے ہر دو طرف کا اور مہدی علیہ السلام سے بھی تعلق ہے.رشتے میں ہر دوطرف کا.اس لحاظ سے ان پر بڑی ذمہ داریاں ہیں.خوشی تب ہوتی ہے جب ہم ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے ہوں اور خدا کرے کہ ہم ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ نے اس پیاری بچی امتہ العلیم کے والد میرے چھوٹے بھائی مرزا وسیم احمد صاحب کو قادیان میں نوع انسانی کی اس رنگ میں بھی خدمت کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنے باقی بہت سے درویشوں کے ساتھ بیٹھ کر مہدی علیہ السلام کے مرکز کی حفاظت کر رہے ہیں.یعنی جماعت کا جو اصل مرکز ہے اس کو آبادرکھنے کی اور وہاں کے لوگوں کی خدمت کی اللہ تعالیٰ نے ان کو تو فیق عطا فرمائی ہے.جہاں تک خدمت کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی فرد کی خدمت صرف اس وجہ سے کہ آپ علیہ السلام کے ساتھ اس کا تعلق ہے کوئی زیادہ شان دار نہیں ہو جاتی لیکن خدمت خود اپنے اندر ایک حسن رکھتی ہے.کوئی شخص جتنی خدمت کرتا ہے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ اتنا ہی پیارا بن جاتا ہے.ایک سے ایک بڑھ کر فدائی وہاں اکٹھے ہوئے ہیں.انہوں نے بڑی تکالیف اٹھا کر اس مقام کے احترام کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور ان کی نسلوں پر اپنی برکتیں نازل کرے.عزیزہ بچی امتہ العلیم بیگم بھی انہی میں سے ہے.جس کے نکاح کا اس وقت اعلان ہوگا اور اس لحاظ سے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ باقیوں کے ساتھ اس پر بھی رحمت کی نظر رکھے اور حضرت اُم المؤمنین

Page 747

خطبات ناصر جلد دہم ۷۲۳ خطبہ نکاح ۹ / مارچ ۱۹۷۶ء رضی اللہ عنہا کے بھائی کے نواسے کو جو واقف زندگی ہے وقف کی روح کے ساتھ وقف کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ اس رشتے سے ایک ایسی نسل چلائے جو انسانیت کی خادم ہو اور نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں نوع انسانی سے تعاون کر کے ان کے مقام کو بلند کرنے کی کوشش کر نے والی ہو.ایجاب وقبول کے بعد اس رشتے کے بہت ہی بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ ہونے کے لئے حضور نے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوہ ا ارمئی ۱۹۷۶ء صفحہ ۶)

Page 748

Page 749

خطبات ناصر جلد دہم ۷۲۵ خطبہ نکاح یکم اپریل ۱۹۷۶ء ساری دنیا ہماری مخالفت پر تل گئی ہے اور خدا تعالیٰ ہماری استقامت کا امتحان لے رہا ہے خطبہ نکاح فرمودہ یکم اپریل ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز ظہر دونکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں نکاحوں کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں.ایک تو ہمارے محترم جلال الدین صاحب شمس مرحوم رضی اللہ عنہ کے واقف زندگی لڑکے کا نکاح ہے جو ایک واقف زندگی ( مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی مبلغ امریکہ ) کی بہن کے ساتھ قرار پایا ہے.مکرم شمس صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ غلبہ اسلام کے جہاد کے مرد میدان تھے.اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی رحمت سے انہوں نے اس جہاد میں صدق و وفا کا بہت عمدہ مظاہرہ کیا اور بڑی محنت سے اور بڑی جانفشانی کے ساتھ دن اور رات دن خدمت اسلام میں اپنی زندگی گزار دی.ان کے پانچ لڑکے ہیں مگر واقف زندگی ایک یہی ہمارا عزیز بچہ ہے.اس واسطے ایک واقف زندگی کے لئے مخلصین احمدیت کے دل سے جو دعائیں نکلتی ہیں ان کا وارث یہ ایک بچہ ہو گیا ہے.میں بھی ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور جماعت کو بھی ایسے خاندانوں کے واقفین بچوں کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت ڈالے.ان کے اخلاص میں برکت

Page 750

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح یکم اپریل ۱۹۷۶ء ڈالے ان کو ثبات قدم اور استقامت عطا کرے.ان کے وجود کو دنیا کے لئے بابرکت وجود بنائے اور ان کے کام اور ان کے اعمال کو ایسا مقبول بنائے وہ اللہ تعالیٰ سے بھی جزا حاصل کرنے والے ہوں اور اسی کے نتیجہ میں وہ خدا کے بندوں کی دعائیں بھی لینے والے ہوں.اگر چہ جماعت احمدیہ کے سارے ہی احباب دعاؤں کے محتاج ہیں لیکن نئی نسل کے جو رشتے استوار ہوتے ہیں اور جو نئے رشتے جوڑے جاتے ہیں اور آئندہ آنے والی نسل کی تیاری ہوتی ہے ان کے لئے ان حالات میں جب کہ دینی میدان میں ہماری جدو جہد اور ہمارا جہاد ایک نہایت ہی اہم دور میں داخل ہو چکا ہے اور ساری دنیا جمع ہو کر ہماری مخالفت پر تل گئی ہے اور خدا تعالیٰ ہماری وفا کا اور ہماری استقامت کا امتحان لے رہا ہے، خصوصی طور پر دعائیں کرنے کی ضرورت ہے خدا کرے ہم میں سے ہر ایک اس امتحان میں کامیاب ہو اور خدا کے حضور سرخرو ہو.پس جیسا کہ میں نے بتایا کہ جو رشتے خصوصاً ان دنوں ہو رہے ہیں (ویسے تو ہمیشہ ہی یہ حال ہے ) ان کی اہمیت اس جہت سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ جماعت ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے اس لئے جو دولہا ہیں ان پر بھی بڑی ذمہ داریاں ہیں اور جو دلہنیں ہیں ان پر بھی بڑی ذمہ داریاں ہیں خصوصاً واقفین زندگی کی جو بیویاں ہیں وہ بھی واقفات ہی ہیں اگر وہ اپنے میاں کے ساتھ تعاون کرنے والی اور ان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے والی ہوں.اگر ہماری یہ بچیاں اپنے گھروں کو جنت کا نمونہ بنانا چاہتی ہیں تو انہیں ایک ہی چیز کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کبھی بے وفائی نہ کریں بلکہ ایک وفادار امتہ ( خدا کی بندی ) کی شکل میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے نیکی کریں.نیکی کا ماحول پیدا کریں اور نیکیوں میں اپنے خاوندوں کے ساتھ تعاون کرنے والی ہوں خدا کرے ہمارے لئے ہمیشہ ہی ایسے سامان میسر آتے رہیں تا کہ ہم راہ راست، صراط مستقیم پر چلنے والے ہوں.اس سے کبھی بھٹکنے والے نہ بنیں.غرض ایک نکاح ہماری عزیزہ بچی ریحانه با نو صاحبہ بنت مکرم عبد الرحیم صاحب لون جہلم کا ہے جو دس ہزار روپے مہر پر عزیزم منیر الدین شمس صاحب ابن مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس مرحوم سے قرار پایا ہے.

Page 751

خطبات ناصر جلد دہم ۷۲۷ خطبہ نکاح یکم اپریل ۱۹۷۶ء دوسرا نکاح ہماری عزیزہ بچی طاہرہ قدسیہ صاحبہ بنت خان عبد الستار خان صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا کا ہے.جو دس ہزار روپے مہر پر عزیزم ڈاکٹر سید محمود جنود اللہ صاحب ابن مکرم ڈاکٹر حاجی جنود اللہ صاحب سرگودھا سے قرار پایا ہے.ڈاکٹر سید جنود اللہ صاحب مرحوم بڑی دور سے آئے.احمدیت کو قبول کیا اور بڑے اخلاص سے زندگی گزاری.ہماری دعا ہے ان کے سب خاندان پر بھی اللہ تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوں.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے موجب خیر و برکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوہ ۱۳ / جولائی ۱۹۷۶ صفحہ ۶)

Page 752

Page 753

خطبات ناصر جلد دہم ۷۲۹ خطبہ نکاح ۵ را پریل ۱۹۷۶ء ازدواجی ذمہ داریاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی نبا ہی جاتی ہیں خطبہ نکاح فرموده ۵ ۱۷ پریل ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس دنیا میں خوشحالی کے سامان ہمارے اعمال اس صورت میں پیدا کر سکتے ہیں جیسا کہ ہم تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والے ہوں مثلاً بارش ہے.کبھی انسان اپنی غفلتوں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے اس فضل سے دور ہو جاتا ہے لیکن جب انسان خدا تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے اور اس سے اپنا تعلق مضبوط کرتا ہے تو اس وقت یہ بارش رحمت کی شکل اختیار کر لیتی ہے.اسی طرح ازدواجی رشتے قائم ہوتے ہیں اور ان کی جو ذمہ داریاں ہیں یہ بھی سب خدا تعالیٰ کے فضل ہی سے نباہی جاتی ہیں اور رحمت بنتی ہیں.ہماری یہ دعا ہے کہ جو رشتے آج قائم ہورہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والے ہوں اور دین و دنیا میں کامیاب ہوں.اس وقت میں دو نکاحوں کا اعلان کروں گا ایک نکاح تو ہمارے مرحوم ساتھی مولوی محمد یعقوب صاحب کے بیٹے عزیزم داؤ د احمد طاہر صاحب کا ہے جو عزیزہ راشدہ تسنیم صاحبہ بنت

Page 754

خطبات ناصر جلد دہم ۷۳۰ خطبہ نکاح ۵ را پریل ۱۹۷۶ء مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب ساکن لاہور سے اکیس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.مولوی صاحب مرحوم بڑے اخلاص اور بڑے ایثار کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ کام کرتے رہے.زود نویسی وغیرہ بہت سے کاموں میں حصہ لیا ہمارے دل کی گہرائیوں سے ان کے لئے دعا نکلتی ہے.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس رشتے کو مبارک کرے.دوسرا نکاح جس کا میں اعلان کروں گا وہ عزیزہ امتہ النعیم صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد شریف ساکن دیہہ دمبالو (سندھ) کا پانچ ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم چوہدری مبشر احمد صاحب کاہلوں مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ سے قرار پایا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان ہر دو رشتوں کو بہت بابرکت کرے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کروائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ جنوری ۱۹۷۷ء صفحه ۶)

Page 755

خطبات ناصر جلد دہم ۷۳۱ خطبہ نکاح ۱۳ را پریل ۱۹۷۶ء غلب پہ اسلام کی مہم میں اپنی زندگیوں کو وقف کرنے والوں کے لئے بشارتیں ہیں خطبہ نکاح فرموده ۱۳ / ۱ پریل ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز مغرب ایک نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت جس نکاح کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ عزیزہ بچی حمیدہ خاتون صاحبہ بنت مکرم کرم بخش صاحب مرحوم ساکن حسن ابدال کا ہے جو چار ہزار روپے حق مہر پر عزیزم چوہدری لیاقت محمود صاحب ابن مکرم چوہدری نیاز قطب صاحب ساکن کلر کہار سے قرار پایا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس رشتہ کو بہت بابرکت کرے اور ان حسنات کا اسے وارث بنائے جن کی بشارتیں اس وقت ان لوگوں کو دی گئی ہیں جو غلبہ اسلام کی مہم میں اپنی زندگیوں کو وقف کرنے والے ہیں.لڑکی کے ولی ان کے بڑے بھائی مکرم ڈاکٹر رشید احمد صاحب ربوہ داماد مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان ) ہیں.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوہ ۲۰ / جولائی ۱۹۷۶ء صفحہ ۶)

Page 756

Page 757

خطبات ناصر جلد دہم ۷۳۳ خطبہ نکاح ۱۷ را پریل ۱۹۷۶ء اللہ تعالیٰ نے جاپان میں مشن یعنی تبلیغ اسلام کی مہم کا آغاز کیا خطبہ نکاح فرموده ۱۷ را پریل ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب از راہ شفقت دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں دو نکاحوں کا اعلان کروں گا.ایک نکاح تو عزیزہ امتہ الرشید صاحبہ کا ہے جو مکرم میجر عبدالحمید صاحب ساکن ربوہ کی صاحبزادی ہیں.ان کا نکاح عزیزم طارق پرویز احمد صاحب فلائیٹ لیفٹینینٹ ابن مکرم چوہدری علی محمد صاحب بی اے بی ٹی سے دس ہزار روپے مہر پر قرار پایا ہے.مکرم چوہدری علی محمد صاحب ہمارے بزرگ اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بہت پرانے خادم ہیں اور میرے اساتذہ میں سے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں اپنے زمانہ میں سلسلہ کی بڑی خدمت کی توفیق دی ہے اور اب بھی باوجود بڑھاپے کے کوئی نہ کوئی کام کرتے رہتے ہیں اور ہماری عزیزہ امتۃ الرشید صاحبہ ہیں تو میجر عبد الحمید صاحب کی بیٹی لیکن یہ میجر عبد الحمید صاحب واقف زندگی ہیں.انہوں نے بڑا لمبا عرصہ امریکہ میں تبلیغ اسلام میں ایک واقف زندگی کی حیثیت میں اپنی زندگی کے دن گزارے اور پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو توفیق دی کہ ان کے ذریعہ سے جاپان میں مشن یعنی تبلیغ اسلام کی مہم کا آغاز کیا جائے.چنانچہ ان کے ذریعہ

Page 758

خطبات ناصر جلد دہم ۷۳۴ خطبہ نکاح ۱۷ را پریل ۱۹۷۶ء جاپان مشن کھلا اور اب وہاں ہمارے دوسرے مبلغ عطاء المہیب صاحب گئے ہوئے ہیں جو نسبتا نو جوان ہیں وہ خدام الاحمدیہ کے صدر تھے انہوں نے میجر صاحب کی جگہ لی ہے اور اب وہ اپنا کام کر رہے ہیں پھر جس کو خدا توفیق دے گا وہ کام کرتا چلا جائے گا.بہر حال ہر دو باپ لڑکی کے بھی اور لڑکے کے بھی ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم دل کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتے کو ہر دوخاندانوں کے لئے جماعت کے لئے اور ساری دنیا کے لئے بہت ہی بابرکت کرے.دوسرا نکاح جس کا میں اس وقت اعلان کروں گا وہ عزیزہ بچی رفیقہ صداقت صاحبہ کا ہے جو مکرم ملک محمد رفیق صاحب ربوہ کی بیٹی ہیں ان کا نکاح میں ہزار روپے مہر پر عزیزم مہر منیر اختر صاحب کملانہ ایڈووکیٹ جو مکرم مہر محمد نواب خاں صاحب مرحوم ساکن بستی وریام کملا نہ ضلع جھنگ کے رہنے والے ہیں کے ساتھ قرار پایا ہے.میں ذاتی طور پر دولہا کے خاندان سے واقف نہیں لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ اس خاندان کے بعض احباب بڑے پرانے احمدیوں سے ہیں اور محمد رفیق صاحب جو ہماری بچی کے والد ہیں.فرقان کے زمانہ میں رضا کارانہ طور پر کام کرتے رہے ہیں فرقان بٹالین ان نو جوان احمدیوں پر مشتمل تھی جو حکومت کے کہنے پر اور حکومت کے ضرورت بتانے پر رضا کارانہ طور پر قریب نہتے کشمیر کے محاذ پر لڑنے کے لئے گئے تھے.یہ اس زمانہ کے رضا کار ہیں اور بطور افسر وہاں کام کرتے رہے ہیں.مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کی توفیق دی اور بہت عرصہ تک اس کا انچارج رہا.جنگ کے زمانہ میں بھی میں وہاں جاتا رہا ہوں.یہ جنگ ہمارے لئے تو ایک تماشا ہی تھی.میں بھی جنگ کا تماشا دیکھتا رہا ہوں.ایک دفعہ میں بعض دوستوں کو ساتھ لے کر گیا جو عمروں کے لحاظ سے بڑے بزرگ تھے.جس دن ہم محاذ پر پہنچے اس دن شام تک ہندوستانی توپوں نے ہمارے ” بنکرز پر گولے نہیں برسائے.چھوٹے چھوٹے بنکر ز گولہ باری کے دوران پناہ لینے کی جگہیں تھیں جو دو دو، تین تین فٹ اونچی بنائی گئی تھیں اور ہندوستانی توپوں کے گولے انڈے کہلاتے تھے.میں نے کرنل حیات صاحب کو جو وہاں کے انچارج تھے کہا کہ میں مہمان لے کر آیا ہوں.آپ نے انڈوں کا کوئی انتظام نہیں کیا اور مہمان

Page 759

خطبات ناصر جلد دہم ۷۳۵ خطبہ نکاح ۱۷ را پریل ۱۹۷۶ء واپس ہورہے ہیں.چنانچہ دشمن سے چھیڑ چھاڑ کی گئی.بس پھر کیا تھا دشمن نے جواب میں ہم پر خوب گولہ باری کی ہمیں بہت لطف آیا تو یہ ملک محمد رفیق صاحب اس زمانے کے میرے رفیق ہیں.ان کی بچی جو میرے لئے بھی اپنی بچیوں کی طرح ہے.ان کا رشتہ عزیزم مہر منیر احمد ایڈووکیٹ کے ساتھ قرار پایا ہے اور یہ دوسرا نکاح ہے جس کا میں ابھی اعلان کروں گا.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت اور مثمر ثمرات ح ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۶ ء صفحہ ۶)

Page 760

Page 761

خطبات ناصر جلد دہم ۷۳۷ خطبہ نکاح ۲۶ رمئی ۱۹۷۶ء بہترین تحفہ جو نکاح کے موقع پر دیا جاسکتا ہے، دعا ہے خطبه نکاح فرموده ۲۶ رمئی ۱۹۷۶ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب از راه شفقت مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا :.۱- محترمہ زکیہ کلیم صاحبہ بنت مکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب (سیکرٹری مجلس نصرت جہاں) ربوہ کا نکاح مبلغ چھتیں سوروپے حق مہر پر محترم صفی اللہ صاحب ابن مکرم غلام قادر صاحب ساکن ربوہ سے.۲.محترمہ طاہرہ تنویر عارف صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد یار صاحب عارف سرگودھا کا نکاح بعوض دس ہزار روپے مہر پر محترم ظہیر احمد صاحب باجوہ ابن مکرم چوہدری عبد اللہ صاحب باجوہ لاہور سے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نکاح کے بندھن میں بندھنے والے دولہا اور دولہن.ان کے خاندان جماعت احمد یہ اور نوع انسانی کو جو بہترین تحفہ اور بہترین پیار دیا جاسکتا ہے، وہ دعا کا تحفہ ہے اور دعاؤں ہی کے ذریعہ پیار کا اظہار ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے ہماری یہ دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ان رشتوں کو بہت با برکت کرے اور خوشی اور خوشحالی کے سامان پیدا کرنے کا موجب بنائے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوہ ۲۰ / جولائی ۱۹۷۶ ، صفحہ ۶)

Page 762

Page 763

خطبات ناصر جلد دہم ۷۳۹ خطبہ نکاح ۱۴ جون ۱۹۷۶ء اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ اس رشتے کو بہت با برکت کرے خطبہ نکاح فرموده ۱۴ جون ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب از راه شفقت محترم چوہدری سلطان احمد صاحب ابن مکرم چوہدری فتح محمد صاحب ساکن چک ۷۴ ضلع رحیم یارخان کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں اپنے ایک پرانے شاگرد جو تعلیم الاسلام کا لج میں پڑھتے رہے ہیں، کے نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں ان کا نام ہے سلطان احمد.جو ماشاء اللہ بڑے ہنس مکھ اور زندہ دل نوجوان ہیں اور خدا کرے ہمیشہ متقی ، اسلام اور احمدیت کے فدائی بھی رہیں ان کا نکاح عزیزہ مکرمہ بشری محمود صاحبہ جو مکرم لیفٹینٹ کرنل محمود احمد صاحب ساکن ربوہ کی بیٹی ہیں کے ساتھ پانچ ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے اس رشتے کو بہت با برکت کرے.ان کے لئے بھی اور ان سب کے لئے بھی جن کے ساتھ ان کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ہے یا کبھی پیدا ہوگا.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتے کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے روزنامه الفضل ربوه ۲۹ جون ۱۹۷۶ ء صفحه ۵) حاضرین سمیت دعا کروائی.

Page 764

Page 765

خطبات ناصر جلد دہم ۷۴۱ خطبہ نکاح ۲۲ جون ۱۹۷۶ء انسان میں ایک بنیادی فرق ہے کہ انسان کو بیان کی قوت دی گئی ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۲ جون ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب از راه شفقت محترمہ نزہت باجوہ صاحبہ بنت مکرم چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ کے نکاح کا اعلان فرمایا جو دس ہزار روپے حق مہر پر محترم نصیر احمد صاحب باجوہ ابن مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ناظر امور عامہ ربوہ کے ساتھ قرار پایا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسان اور دوسری مخلوقات میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان کو بیان کی قوت دی گئی ہے.اگر ہم انسانی زندگی سے ( میں کسی خاص فرد یا قومی زندگی کے متعلق نہیں کہہ رہا ) بیان کو نکال دیں تو انسانی زندگی ، انسانی زندگی نہیں رہتی.اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ زندگی کے جتنے بھی شعبے ہیں اور ظاہر ہے بے شمار شعبے ہیں، ان کی بنیاد یا ان کا اثر یا ان کا بیج قول سدید میں مضمر ہے جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے جو خطبہ نکاح کے وقت پڑھی جاتی ہیں.پس قول سدید کے نتیجہ میں انسانی زندگی میں کوئی اونچ نیچ ، کوئی گڑھے ، کوئی الجھاؤ اور بدمزگیاں نہ تو پیدا ہوتی ہیں اور نہ باقی رہتی ہیں.اس لئے دوست ہمیشہ یاد رکھیں کہ انسانی تعلقات میں جہاں بھی کوئی خرابی نظر آئے وہاں یقیناً اس بنیادی اور اصل وجہ یعنی قول سدید کا

Page 766

خطبات ناصر جلد دہم ۷۴۲ خطبہ نکاح ۲۲ جون ۱۹۷۶ء فقدان نظر آئے گا فرد فرد کے تعلقات میں بھی، خاندان خاندان کے تعلقات میں بھی ، قوم قوم کے تعلقات میں بھی اور ملک ملک کے تعلقات میں بھی.آج کی دنیا نے قول سدید کے مقابلہ میں ڈپلومیسی (Diplomacy) ( یعنی سیاسی زبان جس میں چالا کی و ہوشیاری زیادہ ہوتی ہے اور سداد کم ) کا لفظ استعمال کیا ہے گویا سیاسی زبان قول سدید کے خلاف بنادی گئی اور اس کا جو نتیجہ انسان نے بھگتا یا بھگت رہا ہے یا آئندہ جس کے بھگتنے کا خطرہ ہے اس کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.یہ تو انسان کے وسیع تعلقات کی باتیں ہیں.اسلامی معاشرہ میں خاندان کی بنیا دلڑ کے اور لڑکی کے رشتہ کے اعلان سے شروع ہوتی ہے اور اس موقع پر ایک نئی اجتماعی زندگی کی ابتدا ہوتی ہے.دو نئے انسانوں میں تعلقات کو پیدا کیا جاتا ہے اور اس میں ایک بنیادی سبق ہمیں یہ دیا گیا ہے کہ قول سدید پر مضبوطی سے قائم رہو گے تو تمھارے ازدواجی تعلقات بھی بڑے خوشگوار رہیں گے.تمہارے خاندان کے تعلقات میں بھی کسی قسم کی الجھنیں اور بدمزگیاں پیدا نہیں ہوں گی.ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو اسلام کے اس بنیادی اصول کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے اور جماعت احمدیہ میں جو بھی نئے رشتے قائم ہوں، اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے حالات پیدا کرے کہ وہ صحیح بنیادوں پر قائم ہوں اور جس رشتے کا آج اعلان ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بھی ہر دو میاں بیوی کے لئے ، ہر دو خاندانوں کے لئے، جماعت احمدیہ اور نوع انسانی کے لئے برکات کا موجب بنائے.اس وقت میں جس نکاح کا اعلان کرنا چاہتا ہوں، وہ عزیزہ بچی نزہت باجوہ صاحبہ بنت مکرم چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ جو چک نمبر ۱۰۵ ج.ب لائلپور کے رہنے والے ہیں.ویسے ربوہ میں بھی قیام پذیر رہے ہیں اور انہوں نے کچھ وقت تک بطور مبلغ غیر ممالک میں بھی کام کیا ہے ان کی بچی کا نکاح دس ہزار روپے حق مہر پر عزیزم نصیر احمد صاحب باجوہ کے ساتھ قرار پایا ہے جو مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ واقف زندگی اور سابق امام مسجد لندن کے بیٹے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کا انجام بخیر کرے.

Page 767

خطبات ناصر جلد دہم ۷۴۳ خطبہ نکاح ۲۲ جون ۱۹۷۶ء ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتے کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 768

Page 769

خطبات ناصر جلد دہم ۷۴۵ خطبہ نکاح ۱۵ جولائی ۱۹۷۶ء ہر احمدی زندگی وقف کر کے رضاء الہی کے حصول کی کوشش کرے خطبہ نکاح فرموده ۱۵ / جولائی ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز مغرب از راه شفقت برادرم مکرم نسیم مہدی صاحب مربی سلسلہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گرمی مجھے تکلیف دیتی ہے اور اب بھی یہاں گرمی کی وجہ سے سر میں چکر آنے لگ گئے ہیں لیکن بعض باتیں گرمی کی بیماری سے زیادہ اہم ہوتی ہیں اور جب وہ کام سامنے ہوں تو گرمی اور اس کی تکلیف کو بھول جانا پڑتا ہے.مثلاً اس وقت جس نکاح کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ ہمارے ایک ایسے عزیز کا ہے جس کے لئے میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ یہ اعلان میں خود کروں.ہمارے پرانے مبلغ ( اور اس وقت اصلاح و ارشاد مقامی کے ناظر بھی ہیں ) مکرم محترم مولوی احمد خان صاحب نسیم کے بچے کا جو مجھے بھی بڑا عزیز ہے کے نکاح کا میں اعلان کروں گا.اس عزیز کے دادا اور ان کے رشتہ دار بھی اپنے اپنے رنگ میں سلسلہ احمدیہ کی خدمت کرتے رہے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا اور ان کو ایک ایسا بچہ دیا جس نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ

Page 770

خطبات ناصر جلد دہم ۷۴۶ خطبہ نکاح ۱۵ جولائی ۱۹۷۶ء کے لئے وقف کی اور سمجھ کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ اور دیانتداری کے ساتھ اور ایثار اور قربانی کے ساتھ ایک لمبا عرصہ خدمت سلسلہ عالیہ احمدیہ کی توفیق اللہ تعالیٰ سے حاصل کی.میرا اشاره مکرم مولوی احمد خان صاحب نسیم کی طرف ہے اور اب ان کا یہ چھوٹا بیٹا جو زیادہ لاڈلا تھا اور جس کی طرف انہوں نے زیادہ توجہ دی اور جسے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے ذہن بھی بڑا اچھا دیا ہے میٹرک میں بڑے اچھے نمبر لئے اور اس وقت پتہ نہیں کس نے ان کے دماغ میں یہ خیال ڈالا کہ بی.اے کر کے یا دوسری اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی وقف ہوسکتا ہے.ہمارے بہت سے بچے ایسا کرتے ہیں.چنانچہ ان کے سامنے بھی دو راستے تھے.اس لائن کو اختیار کیا جائے یا براہ راست جامعہ میں داخلہ لیا جائے.میرے پاس مشورہ کے لئے آئے.میں نے کہا جو کھد اور نالائق بچے ہیں صرف ان کو تو ہم نے جامعہ میں نہیں لینا جو چوٹی کے ہوشیار طالب علم ہیں زیادہ وہ آنے چاہئیں.بعض دوسرے بھی آجاتے ہیں ان کو ہم انکار نہیں کر سکتے لیکن جو چوٹی کے دماغ خدا ہمیں دیتا ہے ان کا ایک حصہ جامعہ میں بھی آنا چاہیے اور دینی تعلیم حاصل کر کے خدا تعالیٰ کی توحید کے لئے جو ایک عظیم جہاد اور مجاہدہ اور جدو جہد شروع ہے اس میں ان کو حصہ لینا چاہیے.چنانچہ انہوں نے میرے اس مشورہ پر عمل کر کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور اب وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شاہد بن گئے ہیں اور یہ گویا تیسری نسل ہوگئی جو اس طور پر سلسلہ کے لئے وقف ہے.ویسے تو ہر احمدی کسی نہ کسی رنگ میں واقف بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہر احمدی کو کہا ہے کہ وہ ایک واقف کی زندگی گزارے اور آپ نے یہ بڑے زور سے کہا ہے اور بڑے پیار سے کہا ہے اور بڑے درد کے ساتھ کہا ہے.آپ نے کہا جب میں نے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کی ہوئی ہے تو جولوگ میرے ساتھ پیار رکھنے والے ہیں ان کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں وقف کریں لیکن اس وقف سے مراد جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے والا وقف نہیں.اس وقت تو جامعہ احمدیہ ہی نہیں تھا.پس ہر احمدی مرد اور عورت ، لڑکے اور لڑکی کا فرض ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کے دن خدا کی رضا کے حصول کی کوشش میں گزارے لیکن ان واقفین

Page 771

خطبات ناصر جلد دہم ۷۴۷ خطبہ نکاح ۱۵ جولائی ۱۹۷۶ء کی جماعت میں ایک طبقہ ایسا ہے جو علم سیکھنے کے لحاظ سے پڑھائی کے لحاظ سے ایک اور رنگ میں زندگی وقف کرتا، جامعہ احمدیہ سے تعلیم حاصل کرتا ، اپنے علم کو بڑھا تا اور پھر فارغ التحصیل ہونے کے بعد معمولی سے گزاروں پر ساری عمر خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت انسان کے دل میں پیدا کرنے کی کوشش میں گزار دیتا ہے.اس فہرست میں ہمارا یہ عزیز بچہ بھی ہے اور بڑا سمجھدار، ذہین اور مخلص ہے لیکن ایک بنیادی چیز جو اسلام نے ہمیں سکھائی ہے وہ یہ ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کبھی تکبر اور غرور نہیں کرنا اور اپنے پر بھروسہ نہیں کرنا.اپنے رب پر بھروسہ کرنا ہے اس لئے ہمیں یہ دعا سکھائی اور کہا خاتمہ بالخیر کی دعا کرو.خاتمہ بالخیر کی دعا صرف کافر کے لئے یا کمزور ایمان والے کے لئے یا منافق کے لئے ہی نہیں کی جاتی کہ خدا تعالیٰ اصلاح کرے بلکہ جو سب سے زیادہ بلند درجہ کسی وقت کو ئی شخص اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں رکھتا ہے وہ زیادہ تعہد کے ساتھ اور زیادہ درد کے ساتھ خدا کے حضور یہ دعا کرتا ہے کہ اے خدا! جہاں تو نے اتنا دیا ہے وہاں یہ انتظام بھی کر کہ میں مرتے دم تک تیرے دامن سے چمٹار ہوں اور اسے کبھی نہ چھوڑوں اور شیطان کا وسوسہ میرے دل میں کوئی خرابی نہ پیدا کرے.اگر چہ ہماری یہ دعا ہے کہ سب کا خاتمہ بالخیر ہولیکن چونکہ شاہدین پر خاص طور پر دنیا کی نگاہیں ہیں اور اگران میں ذراسی بھی کمزوری پیدا ہو تو جماعت کے لئے بڑی شرمندگی کا باعث ہے اس لئے ہم سب کو ان کے لئے بھی یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی خاتمہ بالخیر کرے اور جس طرح ان کے والد کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ وہ اپنے ایک بچے کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ دین کی طرف راغب ہو اور دینی علم سیکھ کر دینی جہاد کے میدان میں نمایاں ہوکر سامنے آئے اسی طرح اس بچہ کو وقف پر استقامت بخشے.ان کے نکاح کا آج اعلان ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ ان کو اولا د بھی دے اور ان کو یہ توفیق بھی دے کہ اگر ان کے والد نے ایک بچہ وقف کیا تو اگلی نسل کو آگے بڑھنا چاہیے.ہماری ضرورت بھی بڑھ رہی ہے اس لئے ان کو خدا توفیق دے کہ یہ ایک سے زائد بچے ان ہی کی طرح وقف کرنے والے پیدا کرنے کی دعا اور تدبیر کے ساتھ کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو بھی کامیاب کرے اور ہماری دعاؤں کو بھی سنے اور جو مقام عزت و احترام کا اللہ تعالیٰ

Page 772

خطبات ناصر جلد دہم ۷۴۸ خطبہ نکاح ۱۵ جولائی ۱۹۷۶ء کی نگاہ میں جماعت احمدیہ کو حاصل ہے ہماری نوجوان نسل اس کو پہچانے اور اس کی قدر کرنے والی ہواور خدا کی حمد میں اپنی زندگی کے دن گزارنے والی ہو اور دنیا کی طرف ذرا بھی میلان طبع ان کے اندر باقی نہ رہے.یہ نکاح عزیزه مکرمه فیضیه عزیز صاحبہ جو مکرم محترم چوہدری عبد العزیز صاحب بھامبری ربوہ کی بچی ہیں آٹھ ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم نسیم مهدی صاحب ابن مکرم و محترم مولوی احمد خان صاحب نسیم ربوہ سے قرار پایا ہے.حق مہر گوز یادہ لگتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کے مال میں برکت ڈالے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کروائی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۵ جنوری ۱۹۷۷ء صفحه ۵)

Page 773

خطبات ناصر جلد دہم ۷۴۹ خطبہ نکاح ۱/۲۴ کتوبر ۱۹۷۶ء مکمل اور حسین مساوات مرد اور عورت میں اسلام نے قائم کی ہے خطبه نکاح فرموده ۱/۲۴ اکتوبر ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب درج ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ بنت مکرم محمد سرور صاحب پی.اے.ایف سرگودہا کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر مکرم نیک محمد صاحب ابن مکرم صالح محمد صاحب ربوہ سے.-۲- محترمہ مبارکہ ایاز صاحبہ بنت مکرم چوہدری مختار احمد صاحب ایاز مرحوم کا نکاح گیارہ ہزار روپے حق مہر پر مکرم ناصر جاوید خان صاحب ابن مکرم ملک صفدر علی خان صاحب آف کراچی سے خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس قدر مکمل اور حسین مساوات مرد اور عورت میں اسلام نے قائم کی ہے وہ ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتی.ہر دو کے حقوق کے ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا.مردوزن کے جو رشتے نکاح کے ذریعہ سے قائم کئے جاتے ہیں اور پختہ کئے جاتے ہیں ان میں خوشحالی کا سامان صرف اس صورت میں پیدا ہوتا ہے اور پیدا ہوسکتا ہے کہ خاوند اس بات کا خیال رکھے کہ اسلام نے بیوی کے جو حقوق قائم کئے ہیں وہ ان کو ادا کر رہا ہو اور بیوی اس بات کا خیال رکھے کہ جو حقوق خاوند کے اسلام نے قائم کئے ہیں وہ انہیں ادا کر رہی ہو.اگر یہ صورت ہو تو گھر کا ماحول نہایت خوشحالی کا

Page 774

خطبات ناصر جلد دہم ۷۵۰ خطبہ نکاح ۲۴/اکتوبر ۱۹۷۶ء ماحول ہو گا ، خوشی اور مسرت کا ماحول ہوگا.خدا کرے کہ ہماری جماعت میں جو بھی رشتے قائم ہوں ان کے نتیجہ میں اسی قسم کا حسین ماحول جو کہ اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے قائم رہے اور وہ ہر دو خاندانوں کے لئے خوشحالی کے سامان پیدا کرتا رہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا فرمائی.☐☐☐ روزنامه الفضل ربوه ۲۸ مارچ ۱۹۷۷ ، صفحه ۲)

Page 775

خطبات ناصر جلد دہم ۷۵۱ خطبہ نکاح ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہر قسم کی فلاح کی ضمانت ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۹/ نومبر ۱۹۷۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر مسجد مبارک ربوہ میں محترمہ فیروزه فائزہ صاحبہ ایم اے بنت مکرم عبد الرحمن جنید ہاشمی مرحوم کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی ہر قسم کی فلاح اور بہبود اور خوشحالی کی ضمانت ہے.دنیا میں دو قسم کے نظریے پائے جاتے ہیں.ایک یہ کہ مستقبل کی دولت حال میں خرچ کی جائے.دوسرا یہ کہ حال کی دولت مستقبل کو سنوارنے پر خرچ کی جائے.اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ حال کو اس طرح پر خرچ کرو ہر لحاظ سے کہ مستقبل سنور جائے.اس لئے میری دعا ہے کہ ہر دو خاندانوں کا مستقبل سنورا رہے.جس نکاح کا میں اعلان کرنے لگا ہوں وہ ہماری عزیزہ بچی جو آج دلہن بن رہی ہے اُن کے والد جنید ہاشمی صاحب میرے بچپن کے ساتھی اور بڑا تعلق رکھنے والے تھے اس حد تک کہ جب ہم کالج میں اکٹھے تھے تو کئی بار صدرانجمن احمدیہ کے ہی دوسرے شعبوں میں ان کی ترقی کا موقع پیدا ہوا لیکن چونکہ کالج چھوڑ کر ان کو باہر جانا پڑتا تھا اس لئے انہوں نے کہا نہیں میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا.دولہا میاں کو تو میں ذاتی طور پر نہیں

Page 776

خطبات ناصر جلد دہم ۷۵۲ خطبہ نکاح ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء جانتا اُن کے بھائی کو جانتا ہوں ان سے زیادہ اُن کے ابا کو جن کے ساتھ کالج کے زمانہ میں لاہور میں ہمارا تعلق قائم ہوا.نوری صاحب ( ڈاکٹر کیپٹن محمد مسعود الحسن صاحب نوری دولہا کے بڑے بھائی میرے سامنے بیٹھے ہیں یہ واقف زندگی ہیں اور بڑا پیارا نوجوان ہے میں امید رکھتا ہوں کہ سارے بھائی ایسے ہی ہوں گے.خدا تعالیٰ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ زندگی گزار نے والے اور یہی میری دعا ہے اور اسی میں ہم سب کے لئے برکت ہے.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں وہ عزیزہ بچی فیروزہ فائزہ صاحبہ کا ہے جو مکرم عبدالرحمن جنید ہاشمی مرحوم کی صاحبزادی ہیں دس ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم کیپٹن محمد مطلوب الحسن نوری جو مکرم میجر ریٹائر ڈ منظور الحسن صاحب کے صاحبزادہ ہیں کے ساتھ قرار پایا ہے.عزیزم مکرم عبید الرحمن صاحب جاوید ہاشمی عزیزه فیروزہ فائزہ کے بڑے بھائی ولی ہیں اور اس وقت یہاں موجود ہیں.ایجاب وقبول کے بعد حضور نے اس رشتے کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کروائی.(روز نامه الفضل ربوه ۹ دسمبر ۱۹۷۶ ء صفحه ۴)

Page 777

خطبات ناصر جلد دہم ۷۵۳ خطبہ نکاح ۲۱ جنوری ۱۹۷۷ء رشتوں میں پیدا ہونے والی اکثر خرابیاں قول سدید کے نتیجہ میں دور ہو جاتی ہیں خطبہ نکاح فرموده ۲۱ جنوری ۱۹۷۷ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز مغرب خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق رکھنے والے دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسان انسان میں تعلق پیدا ہوتا ہے اور اس تعلق کی بنیاد ” بیان پر ہے اگر اللہ تعالیٰ انسان کو بیان نہ سکھاتا تو انسان انسان کا جو تعلق خدا تعالیٰ قائم کرنا چاہتا ہے اور جو بنیادی طور پر دوسری مخلوقات کے ہر تعلق سے مختلف ہے، وہ تعلق بھی قائم نہ ہوتا.پس ہمارا معاشرہ درست ہو تب بھی اس کی بنیاد ” بیان پر ہے اور اگر وہ خراب ہو تب بھی اس کی بنیاد بیان پر ہے.اسی لئے نکاح کے ذریعہ جو تعلق اور رشتہ قائم ہوتا ہے اور جو فی الحقیقت بڑا نازک رشتہ ہے، اس میں بھی ہمیں توجہ دلائی گئی ہے قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الاحزاب: ۷۱) کہ تمہارا جو تعلق ہے وہ بیان پر ہے اس لئے تمہیں یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ قول مستقیم اختیار کرو.سدید کے ایک معنے مستقیم بات کے بھی ہیں یعنی وہ سیدھی بات جو خدا تعالیٰ کی رضا تک پہنچانے والی ہو.اس قول سدید کے نتیجہ میں عمل صالح پیدا ہوتا ہے یعنی وہ عمل جو صراط مستقیم پر گامزن ہو.

Page 778

خطبات ناصر جلد دہم ۷۵۴ خطبہ نکاح ۲۱ جنوری ۱۹۷۷ء عام طور پر رشتوں میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپس کے تعلقات قول سدید پر قائم نہیں ہوتے.میرے پاس ہر سال بیسیوں خط آجاتے ہیں جن میں دوست یہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے اس طرح فلاں فلاں خاندان میں رشتہ قائم کیا لیکن دوسرے فریق نے اپنی لڑکی یا اپنے لڑکے جو بھی معاملہ ہو اس کے متعلق انہیں سیدھے اور صحیح طور پر واقعات نہیں بتائے.وہ ان سے ہیر پھیر سے باتیں کرتے رہے اور پھر بعد میں بڑی خرابی پیدا ہوگئی چنانچہ بعض تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فضل کرے تو بعض دفعہ پریشانیوں کے بعد پھر استوار بھی ہو جاتے ہیں لیکن ایک فتنہ عارضی ہو یا مستقل پیدا ہو جاتا ہے.صرف اس لئے کہ قول سدید کو اختیار نہیں کیا گیا.اس وقت میں دونکاحوں کا اعلان کروں گا.ان دونکاحوں کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تیسری نسل سے ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد.پھر ان کی اولا د اور پھر ان کی اولا د جو ہے اس کے آپس میں رشتے قائم ہورہے ہیں.ایک رشتہ یعنی دولہا اور دولہن جن کے نکاح کا ابھی اعلان ہوگا اور وہ میاں بیوی بن جائیں گے، وہ دونوں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی بھی توفیق عطا کرے جو انسانیت نے ان پر ڈالی ہیں اور خدا تعالیٰ کے پیار کے اس تعلق کے نتیجہ میں کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ان کو پیدا کیا ہمارا تو کوئی استحقاق نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ یہ سلوک کرتا.خدا تعالیٰ کی یہ عنایت ہے اور اس کے نتیجہ میں بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو یہ ذمہ داری نباہنے کی بھی توفیق عطا کرے.یہ پہلا رشتہ جس کا میں ذکر کر رہا ہوں حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے پوتے عزیزم مسرور احمد صاحب کا ہے جو عزیزم مکرم مرزا منصور احمد صاحب اور میری ہمشیرہ کے بیٹے ہیں اور جہاں ان کا رشتہ قرار پایا ہے وہ میری دوسری ہمشیرہ کی بڑی بیٹی ہیں یعنی میری وہ ہمشیرہ جنہیں سید محمود اللہ شاہ صاحب اپنی بہو بنا کر لے گئے تھے.دوسرا رشتہ ایسا ہے جس میں بچی ہمارے خاندان کی ہے اور وہ خاندان سے باہر بیاہی

Page 779

خطبات ناصر جلد دہم ۷۵۵ خطبہ نکاح ۲۱ جنوری ۱۹۷۷ء جا رہی ہے.ان دو یعنی دولہا اور دلہن کی ذمہ داریاں اپنی اپنی جگہ علیحدہ علیحدہ ہیں.بچی پر تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے ہر دو قسم کی ذمہ داریاں ہیں.اللہ تعالیٰ اسے توفیق دے کہ وہ ہر دو ذمہ داریوں کو نباہ سکے اور بچے پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مجبور کر کے اپنی بیوی سے کوئی ایسی بات نہ کروائے جو ہماری خاندانی روایت اور انسانیت کے خلاف ہو.پس ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی توفیق عطا کرے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والا ہو.غرض پہلا نکاح جس کا میں اس وقت اعلان کر رہا ہوں عزیزہ امۃ السبوح صاحبہ بنت مکرم محترم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب ساکن ربوہ کا ہے جو پانچ ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مرزا مسرور احمد صاحب ابن مکرم مرزا منصور احمد صاحب ( ناظر اعلیٰ ) سے قرار پایا ہے اور دوسرا عزیزہ امتہ الود و د صاحبہ بنت مکرم مرز اظفر احمد صاحب کراچی کا نکاح ہے جو پچاس ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مظفر احمد خان صاحب ابن مکرم خواص خان صاحب ساکن پشاور سے قرار پایا ہے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو بہت ہی بابرکت کرے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۱ / فروری ۱۹۷۷ ء صفحه ۳)

Page 780

Page 781

خطبات ناصر جلد دہم ۷۵۷ خطبہ نکاح ۱۴ / مارچ ۱۹۷۷ء موت اور زندگی انسان کے ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں خطبہ نکاح فرموده ۱۴ مارچ ۱۹۷۷ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بعد نماز عصر محترمہ راشدہ منصورہ صاحبہ بنت مکرم مولوی عبد الباقی صاحب مرحوم کا بیس ہزار روپے حق مہر پر مکرم ملک رؤوف احمد صاحب ابن مکرم ملک عبداللطیف صاحب ظہور ساکن لاہور کے ساتھ نکاح کا اعلان فرمایا.اعلان نکاح سے قبل حضور انور نے مکرم الحاج ملک عبد الرحمن صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ دوالمیال جو اسی روز صبح دار الرحمت غربی ربوہ میں وفات پاگئے تھے، کی نماز جنازہ پڑھائی.پھر نکاح سے متعلق خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.موت اور زندگی انسان کے ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں.جنازہ بھی ہوتا ہے نکاح کا اعلان بھی ہوتا ہے.لوگ پیدا بھی ہوتے ہیں پھر اپنے وقت پر ان کی وفات بھی ہوتی ہے.پیدائش کا سلسلہ موت کے سلسلہ کو جنم دیتا ہے اور پیدائش کے سلسلہ کا تعلق نئے رشتوں کے استوار ہونے سے ہے جو نکاح کے ساتھ اسلام میں قائم ہوتے ہیں.میں اس وقت ایک عزیزہ کے نکاح کا اعلان کروں گا.یہ عزیزہ محترم مولوی عبد الباقی صاحب مرحوم کی چھوٹی صاحبزادی ہیں اور غالباً ان کے بچوں میں بھی سب سے چھوٹی ہیں.

Page 782

خطبات ناصر جلد دہم ۷۵۸ خطبہ نکاح ۱۴ / مارچ ۱۹۷۷ء مولوی عبد الباقی صاحب سلسلہ کے مخلص اور فدائی رکن تھے.انہوں نے اپنی زندگی میں سلسلہ کی بڑی خدمت کی.آج اس وقت عزیزہ کے بھائی ڈاکٹر شمیم صاحب ان کے ولی ہیں جو میاں عبدالرحیم احمد اور میری چھوٹی ہمشیرہ عزیزہ امتۃ الرشید بیگم صاحبہ کے داماد ہیں.اس عزیزہ کا رشتہ ملک رؤوف احمد صاحب سے طے پایا ہے.ملک صاحبان کا یہ خاندان بھی پرانا احمدی خاندان ہے.ان کے بزرگ بھی اخلاص سے خدا کی راہ میں قربانیاں دینے والے تھے.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو مبارک کرے اور ہر دوخاندانوں کے لئے ، جماعت کے لئے ، قوم کے لئے اور دنیا کے لئے مفید نتائج پیدا ہوں اور انسانیت کی خدمت کرنے والی اولا داس رشتہ سے آگے چلے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۸ مارچ ۱۹۷۷ ء صفحه ۲)

Page 783

خطبات ناصر جلد دہم ۷۵۹ خطبہ نکاح ۱۸ رمئی ۱۹۷۷ء حقیقی خوشی خدا کے حضور جھکنے سے ملتی ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۸ رمئی ۱۹۷۷ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے بروز بدھ مغرب کی نماز کے بعد درج ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمه حفصه فردوس صاحبہ بنت محترم فضل الہی صاحب انوری واقف زندگی سابق مبلغ جرمنی کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم طاہر عزیز صاحب ابن مکرم قریشی رحمت اللہ صاحب ساکن لائلپور سے.۲- محتر مہ امۃ الباسط صاحبہ بنت محترم چوہدری عبد اللطیف صاحب ساکن ربوہ کا نکاح دو ہزار پانچ صد روپیہ مہر پر مکرم عبد القدیر فیاض صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ ابن محترم غلام محمد صاحب ساکن ربوہ سے.۳.محترمہ نگہت نواز صاحبہ بنت محترم چوہدری محمد نواز صاحب ساکن لاہور کا نکاح پندرہ ہزار روپیہ مہر پر مکرم لئیق احمد صاحب ابن محترم چوہدری عزیز احمد صاحب ساکن ربوہ سے.۴.محترمہ راشدہ نصیر صاحبه بنت محترم نصیر احمد صاحب مرحوم ساکن چک ۸۸ ج - ب ضلع لائلپور کا نکاح پندرہ ہزار روپیہ مہر پر کرم نسیم احمد صاحب ابن محترم چوہدری عزیز احمد صاحب ساکن ربوہ سے.محترمہ نسیم خانم صاحبہ بنت محترم چوہدری محمد شریف صاحب ربوہ کا نکاح چار ہزار روپیہ مہر پر مکرم مظفر احمد خان صاحب ابن محترم چوہدری عبد الرحیم صاحب کا ٹھکر بھی ساکن ربوہ سے.

Page 784

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۸ رمئی ۱۹۷۷ء خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس ور لی زندگی کے ساتھ غم اور خوشی ہر دو لگے ہوئے ہیں.پریشانیاں بھی ہیں اور بشاشتیں بھی ہیں.ابھی ہم نے ایک جنازہ پڑھا.مکرم عبد العزیز صاحب ڈار جو کہ کشمیر کے رہنے والے تھے ( ربوہ والے سارے ان کو جانتے ہوں گے) آج صبح ساڑھے تین بجے وفات پاگئے یہ ان کا جنازہ تھا.ان کے عزیزوں کا انتظار کیا گیا چنانچہ راولپنڈی سے بھی ان کے عزیز آگئے ہیں.اس کے علاوہ آج ہمیں بڑی پریشانی ہے کیونکہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی علالت بڑی تشویشناک صورت اختیار کر گئی ہے لیکن جو مذہب ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا کیا گیا ہے وہ بڑا عظیم مذہب ہے.غم میں اور پریشانیوں میں بھی ایسے سامان پیدا کئے گئے ہیں کہ ایک مومن اطمینان اور سکون حاصل کرتا ہے یا کم از کم حاصل کر سکتا ہے اگر چاہے تو.کیونکہ اسلام میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ الا بذکر الله تَطْمَبِنُ الْقُلُوبُ (الرعد: ۲۹) ذکر الہی سے سکون حاصل ہوتا ہے ، اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے، پریشانیوں کا جو نشتر ہے اس کا احساس نہیں رہتا اور انسان کو اپنا مقام معلوم ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی شان اور اس کے جلال اور اس کی کبریائی کے سامنے انسان کا سر جھکتا ہے اور ہر غیر کو وہ بھول جاتا ہے.اس دنیا میں دنیوی لحاظ سے بھی خوشی کے بہت سے سامان ہیں.ان میں سے ایک وہ سامان ہے جو نکاح کی شکل میں ہماری زندگیوں میں آتا ہے کہ ہمارے عزیز ، ہمارے دوست ، ہمارے رشتہ دار، ہمارے بچے رشتہ ازدواج میں بندھتے ہیں اور یہ بڑی خوشی کا موقع ہے اور یہ صرف خوشی کا ایک موقع نہیں بلکہ خوشی کے بہت سے مواقع کو جنم دیتا ہے بچوں کو جنم دے کر.پس پریشانیاں بھی اپنی جگہ ہیں اور ان کے لئے خدا تعالیٰ نے سکون اور اطمینان کے سامان بھی پیدا کر دیئے ہیں اور خوشیاں بھی اپنی جگہ ہیں اور ہر دو مواقع پر سوائے اس چیز کے کہ ہم اپنے رب کریم کی طرف جھکیں اور اس کے آستانہ پر اپنے سر کو رکھ دیں حقیقی خوشی اور مسرت ہمیں حاصل نہیں ہوسکتی.دعا ہے کہ نکاحوں کے جو پانچ اعلان اس وقت کئے جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کے خاندانوں کے لئے بھی حقیقی خوشی اور راحت کے سامان پیدا کرے اور اس کے نتیجہ میں جس طرح

Page 785

خطبات ناصر جلد دہم ۷۶۱ خطبہ نکاح ۱۸ رمئی ۱۹۷۷ء صوتی لہر اٹھتی ہے اور کہتے ہیں کہ جب سے صوتی لہر اٹھنی شروع ہوئی ہے وہ ابھی تک محفوظ ہے اگر چہ ہمارے کان اسے سن نہیں سکتے اسی طرح خوشی کی لہر اٹھے اور یہ لہر بنی نوع انسان کے لئے خوشی کے سامان اور راحت کے سامان پیدا کرنے والی ہو.فرمائی.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان نکاحوں کے بابرکت ہونے کے لئے اجتماعی دعا روزنامه الفضل ربوه ۹ / جون ۱۹۷۷ ء صفحه ۳)

Page 786

Page 787

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۴ /اگست ۱۹۷۷ ء ازدواجی رشتہ کی مثال درخت کے پیوند کی ہے جس کی ابتدا میں بڑی حفاظت کی جاتی ہے خطبه نکاح فرموده ۴ را گست ۱۹۷۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب کے بعد مسجد مبارک ربوہ میں درج ذیل چار نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.محترمہ وحیده ناصر صاحبہ بنت مکرم محترم مرزا مشتاق احمد صاحب ناصرسا کن لاہور کا نکاح ۲۵ ہزار روپیہ مہر پر مکرم لئیق محمد خان صاحب ناصر ابن مکرم محترم عزیز محمد خان صاحب ساکن لاہور سے.۲.محترمہ روبینہ رحمت صاحبہ بنت مکرم محترم چوہدری رحمت اللہ صاحب ساکن ربوہ کا نکاح ۲۰ ہزار روپیہ مہر پر مکرم نثار احمد صاحب چوہدری ابن مکرم محترم کپٹن نصیر احمد چوہدری ساکن لائلپور سے.محترمہ بشری عطاء صاحبہ بنت مکرم محترم چوہدری عطاء الہی صاحب مرحوم ساکن ربوہ کا نکاح ۲۰ ہزار روپیہ مہر پر مکرم عبد الصمد رفیق صاحب ابن مکرم و محترم چوہدری محمد صدیق صاحب چوہان ساکن ربوہ سے.۴- محترمہ ریحانه فرحت صاحبه بنت مکرم محترم مرزا محمود احمد صاحب ساکن عبد الحکیم کا نکاح ۵ ہزار روپیہ مہر پر مکرم کرامت اللہ صاحب خادم مربی سلسلہ سے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ازدواجی رشتے جو نکاح کے ذریعے قائم کئے جاتے ہیں ان کی مثال درخت کے پیوند کی

Page 788

خطبات ناصر جلد دہم ۷۶۴ خطبہ نکاح ۴ را گست ۱۹۷۷ء ہے اور پیوند کو ابتدا میں بڑی حفاظت سے اور بڑے پیار سے سنبھالا جاتا ہے.پھر جب وہ پیوند پختہ ہو جاتا ہے تو وہ ہر قسم کی آندھی اور طوفان سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیار اور حفاظت سے ان رشتوں کو قائم رکھنے کے لئے جن آٹھ خاندانوں کے چار نکاحوں کا میں اس وقت اعلان کروں گا ان خاندانوں کے لئے بابرکت کرے.اور ہمارے نکاح تو نوع انسانی کے لئے برکتوں کا موجب ہونے چاہئیں ، نوع انسانی کے لئے بھی ان کو بابرکت کرے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے سب کو نوازے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اجتماعی دعا کروائی.(روز نامه الفضل ربوه ۵ ستمبر ۱۹۷۷ صفحه ۶)

Page 789

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۵ ستمبر ۱۹۷۷ء اسلام نے مرد اور عورت دونوں کے الگ الگ حقوق قائم کئے ہیں خطبہ نکاح فرموده ۲۵ ستمبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے نماز مغرب کے بعد حسب ذیل نکاح کا اعلان فرمایا.محترمه منصوره اقبال صاحبہ بنت مکرم نذیر احمد صاحب سولنگی ربوہ کا نکاح پچیس ہزار روپیہ مہر پر مکرم ملک غلام عباس صاحب ابن مکرم ملک شیر محمد صاحب ساکن ڈنگہ ( کا نڈیوال) سے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام کی یہ شان ہے کہ اس نے مرد کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور عورت کے حقوق بھی قائم کئے ہیں.۱۹۶۷ ء میں جب میں جرمنی کے دورہ پر گیا تو وہاں ایک جرمن جو احمدی مسلمان ہو چکا تھا کی بیوی اسلام کی بڑی سخت مخالف تھی.اس حد تک مخالفت اور تعصب تھا کہ وہ بات بھی نہیں سنتی تھی.مجھے جب علم ہوا تو میں نے اس کے خاوند کو کہا کہ کل ریسیپشن ہے بہت سے غیر مسلم عیسائی، بڑے افسر وغیرہ بھی آرہے ہیں اپنی بیوی کو کسی طرح منا کر یہاں لے آؤ تو میں اس کو سمجھاؤں گا کہ وہ بات سن لیا کرے.چنانچہ اگلے دن وہ آئی.جب ریسیپشن ختم ہوئی تو میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ دیکھو اسلام نے خاوند پر بیوی کے بڑے حقوق قائم کئے ہیں.اگر تمہیں پتہ ہی نہیں ہوگا کہ وہ کون سے حقوق ہیں جو اسلام نے قائم کئے ہیں تو اپنے خاوند سے و

Page 790

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۵ رستمبر ۱۹۷۷ء حاصل کیسے کرو گی تم ؟ اس واسطے اپنے خاوند کی بات سن لیا کرو.میں نے اس رنگ میں اس کو سمجھایا.دو چار دن میں وہاں ٹھہرا تو اس کے خاوند نے مجھے بتا یا کہ اب وہ بات سننے لگ گئی ہے.پس یہ بڑا عظیم مذہب ہے.اس نے عورت کے بھی حقوق قائم کئے اور ان کی حفاظت کا سامان کیا اور مرد کے بھی حقوق قائم کئے اور ان حقوق کی حفاظت کا سامان کیا اور جواز دواجی رشتے قائم ہوتے ہیں ان کو کامیاب کرنے کے لئے بنیادی چیز یہی ہے کہ جہاں عورت اپنے حقوق مانگے وہاں وہ اپنے خاوند کے حقوق بھی ادا کرنے والی ہو اور جہاں خاوند بیوی سے اپنے حقوق ا منوائے وہاں وہ اس کے حقوق دینے کے لئے بھی تیار ہو.اگر یہ ماحول ہو تو پھر کبھی آپس میں لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا.ویسے تو میاں بیوی کبھی نہ کبھی لڑتے ہی رہتے ہیں لیکن ایسی رنجش پیدا نہیں ہوتی جو خرابی کا باعث بنے.باقی پیار کی رنجشیں بھی ہوتی ہیں وہ ساتھ لگی ہوئی ہیں.ہماری دعا ہے کہ آج جو نیا ازدواجی رشتہ قائم ہو رہا ہے جس کا میں ابھی اعلان کروں گا ان کے بھی صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق اور اسلامی ہدایت کے ماتحت تعلقات قائم ہوں اور ان کا گھر بھی خوشحالی کا سر چشمہ بنے اور اردگرد بھی بھلائی اور نیکی کے پھیلانے والے ہوں یہ بھی اور ان کی نسلیں بھی.کرائی.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا روزنامه الفضل ربوه ۲۸ / نومبر ۱۹۷۷ ، صفحه ۲)

Page 791

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۵ را کتوبر ۱۹۷۷ء حافظ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بینائی تو نہیں دی لیکن بصیرت عطا کی ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب مکرم حافظ محمد ابراہیم صاحب شاہد کے نکاح کا اعلان فرمایا.حضورانور نے اس موقع پر خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:.اس وقت میں ایک پیارے بچے احمدیت کے خادم شاہد حافظ محمد ابراہیم کے نکاح کا اعلان کروں گا.حافظ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بینائی تو نہیں دی لیکن بصیرت عطا کی ہے اور فدائیت وایثار بخشا ہے.باوجود اس کے کہ ان کے والدین پر ابتلا آیا لیکن یہ اپنے اخلاص پر قائم رہے اور باوجود اس کے کہ یہ پڑھ نہیں سکتے تھے لیکن انہوں نے بڑی محنت کر کے شاہد کا امتحان پاس کیا.قرآن کریم کے حافظ بھی ہیں.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص میں ہمیشہ برکت ڈالتا ر ہے اور اپنی رحمت سے ان کے لئے خوشیوں کے سامان پیدا کرتا رہے اور ان کی اولاد سے بھی دین اسلام کی خادم نیک نسل پیدا ہو اور وہ بھی دنیا کی بھلائی میں مصروف رہیں.حافظ صاحب کا نکاح ان کے عزیزوں ہی میں ہو رہا ہے.عزیزہ نسیم اختر صاحبہ جو

Page 792

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۷ء مکرم میاں احمد صاحب ساکن کوئٹہ کی صاحبزادی ہیں کا نکاح پندرہ صد روپے مہر پر عزیزم مکرم حافظ محمد ابراہیم صاحب سے قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے اجتماعی دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۹ نومبر ۱۹۷۷ صفحه ۲)

Page 793

خطبات ناصر جلد دہم ۷۶۹ خطبہ نکاح ۱۰ نومبر ۱۹۷۷ء اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو ہر چار خاندانوں کے لئے رحمت اور فضل کا باعث بنائے اور خطبہ نکاح فرموده ۱۰ نومبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب درج ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.محترمہ نعیمہ جبیں صاحبہ بنت مکرم محترم عبد المنان صاحب ربوہ کا نکاح تین ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد اجمل صاحب ابن مکرم محترم خیر الدین صاحب ربوہ سے.۲- محتر مہ امتہ الرحمن صاحبہ بنت مکرم محترم محمد اکرم خاں صاحب لاہور کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم افتخار احمد صاحب ابن مکرم محترم فضل کریم صاحب ساکن لاہور سے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں دو نکاحوں کا اعلان کروں گا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو بہت بابرکت کرے اور ہر چار خاندانوں کے لئے رحمت اور فضل کا باعث بنائے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوه ۳۰/نومبر ۱۹۷۷ ء صفحه ۲)

Page 794

Page 795

خطبات ناصر جلد دہم 221 خطبہ نکاح ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء ازدواجی رشتے درخت کے پیوند کی مانند ہوتے ہیں جنہیں شروع میں بڑا سنبھال کر رکھنا پڑتا ہے خطبہ نکاح فرموده ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب اپنی ہمشیرہ محترمہ صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ کے بیٹے سید مولود احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا.اس موقع پر خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ازدواجی رشتے درخت کے پیوند کی مانند ہوتے ہیں جنہیں شروع میں بڑا سنبھال کر رکھنا پڑتا ہے.قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق اس پیوند کو قول سدید کے دھاگوں سے باندھنا پڑتا ہے تب جا کر اس کی حفاظت ہوتی ہے اور اس کی ذمہ داری نہ صرف ہر دو میاں اور بیوی پر بلکہ ان کے خاندانوں پر، ان کے ماحول پر اور ان کے دوستوں پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ بہت سی خرابیاں بدظنیوں کے نتیجہ میں یا چغلیوں کے نتیجہ میں یا بے صبری کے نتیجہ میں یا طیش کے نتیجہ میں پیدا ہو جاتی ہیں اور ان سب کو روکنے کے لئے قول سدید ایک بہت ہی مضبوط دھا گہ ہے.خدا کرے کہ جس نکاح کا میں اس وقت اعلان کر رہا ہوں وہ ہر دوخاندانوں کے لئے بھی بابرکت ہو، جماعت کے لئے بھی بابرکت ہو اور انسانیت کے لئے بھی بابرکت ہو اور خادم دین نسل اس سے چلے.

Page 796

خطبات ناصر جلد دہم 225 خطبہ نکاح ۲۵ نومبر ۱۹۷۷ء یہ رشتہ طے پایا ہے میری چھوٹی ہمشیرہ امتہ الحکیم صاحبہ اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے صاحبزادہ سید مولود احمد صاحب کا مکرم و محترم ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب کی بچی سیدہ لبنی شاہوار صاحبہ سے پندرہ ہزار روپے مہر پر.مکرم ڈاکٹر صاحب ان ابتدائی ڈاکٹروں میں سے ہیں جنہوں نے مغربی افریقہ میں بطور واقف ڈاکٹر کام کیا.اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا اور ان کے ہاتھ میں بہت شفا بخشی اور بڑے کامیاب سرجن کے طور پر وہ پہلے غانا میں کام کرتے رہے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد انہیں نائیجیریا میں بھیجا گیا.وہاں وہ اپنا تین سال کا عرصہ پورا نہیں کر سکے.وہ دل کے عارضہ کی وجہ سے بیمار ہو گئے اس لئے انہیں واپس لوٹنا پڑا.اللہ تعالیٰ انہیں صحت دے اور صحت سے رکھے اور ان کو تو فیق عطا فرمائے کہ وہ پھر افریقہ جا کر خدا تعالیٰ کے دین کی مزید خدمت کر سکیں اور ان کے داماد یعنی عزیزم سید مولود احمد صاحب کو بھی خدا تعالیٰ خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت رشتے کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوه ۲۴؍ دسمبر ۱۹۷۷ ء صفحه ۲)

Page 797

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۵؍ دسمبر ۱۹۷۷ء فرمایا.یقینی کامیابی اور خوشحالی کا ذریعہ اللہ اور رسول کی اطاعت ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۵ ؍ دسمبر ۱۹۷۷ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دو نکاحوں کا اعلان خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ آیات جو اعلان نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں.ان میں ایک بات ہمیں یہ بتائی گئی ہے کہ ایک یقینی اور غیر مشتبہ کامیابی اور خوشحالی کا ذریعہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس وقت جن دو نکاحوں کا میں اعلان کروں گا انہیں یعنی ہر دو میاں بیوی کو ان کی اولا دکو اور سب احمدیوں کو مجھے اور آپ سب کو اور بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کی معرفت عطا ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس معرفت میں ترقی دیتا چلا جائے اور جولوگ خدا تعالیٰ سے دور جاچکے ہیں ان کے لئے خدا کے قرب کی راہیں کھلیں اور وہ بھی اپنے پیدا کرنے والے رب کو پہچانے لگیں اور جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے انسان کو بحیثیت انسان اس کا مقصودیل جائے.

Page 798

خطبات ناصر جلد دہم 225 خطبہ نکاح ۱۵؍ دسمبر ۱۹۷۷ء عزیزہ صبیحہ مرزا صاحبہ بنت مکرم مرزا محمد ادریس صاحب ساکن ربوہ کا نکاح چار ہزار امریکن ڈالر پر عزیزم محمد امجد قریشی ابن مکرم قریشی محمد یوسف صاحب بریلوی کے ساتھ قرار پایا ہے.عزیزہ صبیحہ کے والد واقف زندگی ہیں اور اس وقت سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مبلغ کی حیثیت میں بنی نوع انسان کی خدمت کرنے میں انڈونیشیا کے علاقہ میں مصروف جہاد ہیں.انہوں نے اپنی جگہ اپنے والد محترم مرزا محمد اسماعیل صاحب کو ولی مقرر کیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہماری اس عزیزہ بچی کو جو بوساطت اپنے والد کے واقفہ زندگی ہی ہے.بہت سی برکتوں سے نوازے.دوسرا نکاح عزیزه فرح رحمان صاحبہ بنت مکرم لیفٹینٹ کرنل ڈاکٹر صفی الرحمان صاحب ساکن لا ہور کا ہے.جو چار ہزار امریکن ڈالر پر عزیزم محمد یا مین اظہر قریشی ابن مکرم قریشی محمد یوسف صاحب بریلوی ساکن ربوہ سے قرار پایا ہے.مکرم ڈاکٹر صاحب کو رخصت نہیں مل سکی انھوں نے اپنی اور اپنی بچی کی طرف سے مکرم شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم اے ناظر بیت المال آمد کو وکیل نکاح مقرر کیا ہے.ایجاب و قبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بہت بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۵ جنوری ۱۹۷۸ ء صفحه ۶)

Page 799

خطبات ناصر جلد دہم ۷۷۵ خطبہ نکاح ۱۲ / جنوری ۱۹۷۸ء اللہ کی بہت سی برکتیں عقد نکاح کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں خطبہ نکاح فرموده ۱۲ جنوری ۱۹۷۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب از راه شفقت مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.محترمہ صادقہ پروین صاحبہ بنت مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب سیالکوٹی کا نکاح پانچ ہزار روپے مہر پر برادرم مکرم حبیب اللہ صاحب شاہد ابن مکرم مولانا عنایت اللہ صاحب احمدی مبلغ سلسلہ عالیہ احمد یہ ربوہ کے ساتھ قرار پایا.۲.محترمہ مسرت جبیں صاحبہ بنت مکرم چوہدری حبیب الرحمن صاحب ساکن پیرمحل ضلع فیصل آباد کا نکاح چھ ہزار روپے حق مہر کے عوض مکرم نذیر احمد صاحب نثار ابن مکرم چوہدری عبد الرشید خاں صاحب ساکن لکی نوضلع جھنگ سے قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام نے اعلان نکاح کو مخفی نہیں رکھا.اسلام نے اس بات کو روا نہیں رکھا کہ کسی کو پتا نہ لگے اور چپ کر کے نکاح ہو جائے بلکہ اس خوشی میں ایک جماعت کو شریک کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی برکتیں عقد نکاح کے ساتھ مقدر ہوتی ہیں، ان خاندانوں کے لئے بھی جن کے لڑکے اور لڑکی کے نکاح کا اعلان کیا جاتا ہے اور بہت سی خوشیاں ان لوگوں کے حصہ میں

Page 800

خطبات ناصر جلد دہم 224 خطبہ نکاح ۱۲ / جنوری ۱۹۷۸ء بھی آتی ہیں جن سے یہ رشتہ چھپایا نہیں جاتا بلکہ ان پر ظاہر کر کے انہیں بھی اپنی خوشی میں شریک کیا جاتا ہے.پس ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان نکاحوں کو بہت بابرکت کرے اور ان خوشیوں میں ساری جماعت کو شریک کرے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.روز نامه الفضل ربوه ۴ رفروری ۱۹۷۸ء صفحه ۲)

Page 801

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۸ جنوری ۱۹۷۸ء سب سے بہتر چیز مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ کے زمرہ میں آتی ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۸ / جنوری ۱۹۷۸ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب از راہ شفقت مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر و سابق مبلغ امریکہ کی صاحبزادی کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.سب سے بہتر چیز جو مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر : ۱۹) کے زمرہ میں آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے دین کی خدمت کرنا ہے.جس نکاح کا میں اس وقت اعلان کروں گا وہ ہماری عزیزہ بچی امتہ القیوم صاحبہ کا ہے.اس بچی کے والد محترم میاں محمد ابراہیم صاحب بڑے لمبے عرصہ تک یہاں ہیڈ ماسٹر رہے اور پھر پونے پانچ سال تک امریکہ میں دین اسلام کی خدمت میں بڑے اخلاص سے مشغول رہے اور اب حال ہی میں واپس آئے ہیں.ہمارے دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا کی حسنات بھی عطا کرے اخروی زندگی کی حسنات بھی عطا کرے اور اسی طرح ہم سب کو بھی ایسی ہی حسنات سے نوازے.ہماری یہ بھی دعا ہے کہ میاں صاحب کی جس بچی کے نکاح کا اب اعلان ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے

Page 802

خطبات ناصر جلد دہم 227 خطبہ نکاح ۱۸ جنوری ۱۹۷۸ء فضل سے اس رشتہ میں برکت ڈالے اور ان کی بچی کو اور ان کے داماد کو ہمیشہ خوش رکھے اور ان کے خاندان کے لئے بھی یہ رشتہ خوشیوں اور برکتوں اور رحمتوں کا باعث بنے اور جیسا کہ ہماری دعا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ہر رشتہ سے اسلام کے خادم پیدا ہوں خدا کرے اس رشتہ سے بھی جماعت احمدیہ کے خادم پیدا ہوں.عزیزہ بچی امتہ القیوم صاحبہ کا نکاح پندرہ ہزار روپے حق مہر پر عزیزم مکرم محمدعمر دراز صاحب تنویر ابن مکرم میاں محمد نواز صاحب گوندل مرحوم ساکن ربوہ سے قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور نے اس رشتہ کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوه ۴ رفروری ۱۹۷۸ء صفحه ۲)

Page 803

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۰ مارچ ۱۹۷۸ء زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کا حسن پیدا کریں خطبہ نکاح فرموده ۲۰ مارچ ۱۹۷۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر درج ذیل چھ نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.محترمہ بشری رحمان صاحبہ بنت مکرم محترم حاجی عبد الرحمان صاحب (باندھی والے) حال دارالصدر شمالی ربوہ کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم سلیم احمد شاہ صاحب ابن مکرم محترم سید طفیل محمد شاہ صاحب ربوہ سے.۲- محترم امة الحفیظ صاحبہ بنت مکرم محترم صالح محمد صاحب دارالصدر شرقی ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد سعید احمد صاحب ابن مکرم محترم بشیر احمد صاحب ساکن قاضی پہاڑ نگ سے.محترم امتہ العزیز صاحبہ بنت مکرم محترم ٹھیکیدار لطف الرحمن صاحب ساکن ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر ناصرالدین خالد صاحب ابن مکرم محترم لعل دین صاحب صدیقی ساکن ربوہ سے.محترم امة الحفيظ صاحبہ بنت مکرم محترم ٹھیکید ارلطف الرحمان صاحب ساکن ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم محترم محمد حمد صاحب ابن مکرم محترم فضل الدین صاحب ساکن ربوہ سے.۵- محتر م امتہ السلام ناصرہ صاحبہ بنت مکرم محترم برکات احمد صاحب ساکن ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم محمد صالح زاہد صاحب ابن مکرم محترم چوہدری محمد صادق صاحب کریم نگر فارم

Page 804

خطبات ناصر جلد دہم ۷۸۰ خطبہ نکاح ۲۰ مارچ ۱۹۷۸ء ضلع تھر پارکر سے..محترمہ حفیظہ خانم صاحبہ بنت مکرم محترم امداد خان صاحب ساکن سروکوٹ ضلع سیالکوٹ کا نکاح تین ہزار روپیہ مہر پر مکرم ظہیر الدین ناصر صاحب ابن مکرم محترم چوہدری لاب دین صاحب ساکن چک نمبر ۱۶۶ مراد ضلع بہاولنگر سے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ صرف مرد کے حقوق ہیں اور اس پر کوئی ذمہ واری نہیں یا صرف عورت کے حقوق ہیں اور اس پر کوئی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ تعلیم دی ہے کہ مرد کے بھی حقوق ہیں اور عورت کے بھی حقوق ہیں اور مرد پر بھی خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ذمہ داریاں ہیں اور عورت پر بھی خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ذمہ واریاں ہیں اور خوشحال معاشرہ تبھی قائم ہو سکتا ہے، وہ معاشرہ جس کو ہم ہو اسلامی معاشرہ کہہ سکتے ہیں کہ جب مرد بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور عورت بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور پھر ذمہ واریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے حقوق کی نگہداشت بھی کریں.ازدواجی رشتے کی مثال مادی دنیا میں ایک ایسے پیوند کی ہے جس کے پھولوں میں نر اور مادہ اکٹھے ہوتے ہیں.عورت کی ذمہ واریوں سے مرد کے حقوق کی شاخیں نشو و نما پاتی ہیں اور عورت کے حقوق کی شاخیں مرد کی ذمہ واریوں سے نشو و نما حاصل کرتی ہیں.ازدواجی رشتے کے بعد ایک ہی خاندان بن جاتا ہے اور جیسے کہ میں نے بتایا ہے اس کی مثال درخت کے پیوند کی ہے جس کی ایک ہی ٹہنی کے ایک پھول میں رکھی ہے اور مادہ بھی یعنی مرد بھی ہے اور عورت بھی ہے اور وہ ان ریشوں کے ذریعہ سے جو ٹہنی میں چلتے ہیں اور پیوند میں سے ہوکر جڑوں تک جاتے ہیں اپنی نشوونما کے سامان پیدا کرتے ہیں.ہم مردوزن جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں ہم دنیا میں ایک حسین اور خوشحال اسلامی معاشرہ قائم کرنے کا دعوی کرتے ہیں.پس ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبہ کو اسلامی نور سے منور کرتے ہوئے اس میں اسلام کا حسن پیدا کریں اور دنیا کے لئے ایک نمونہ بنیں اور ہم میں سے ہر مرد اپنی بیوی کے حقوق ادا کرنے والا ہو اور ہم میں سے ہر عورت اپنے خاوند کے حقوق ادا کرنے والی ہو اور باہم مل کر ایک

Page 805

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۲۰ مارچ ۱۹۷۸ء حسین خاندانی معاشرہ قائم کریں اور پھر خاندان مل کر دنیا کے لئے ایک نمونہ بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے اجتماعی دعا کروائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 806

Page 807

خطبات ناصر جلد دہم ۷۸۳ خطبہ نکاح ۲۷ مارچ ۱۹۷۸ء انسان کا کام ہے کہ شریعت اسلامیہ پر عمل پیرا ہو خطبہ نکاح فرموده ۲۷ مارچ ۱۹۷۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راه شفقت مندرجہ ذیل تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.محترمہ زیب النساء عذرا صاحبہ بنت مکرم چوہدری غلام دستگیر صاحب سا کن فیصل آباد کا نکاح پانچ ہزار روپے حق مہر پر محترم منور احمد صاحب عازم ابن مکرم چوہدری عنایت احمد صاحب ساکن ربوہ سے قرار پایا.۲.محترمہ طاہرہ حیات صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد حیات خان صاحب ساکن مانگٹ اونچے ضلع گوجرانوالہ کا نکاح پچیس ہزار روپے حق مہر پر محترم فصیح الملک صاحب ابن مکرم چوہدری فتح محمد صاحب ساکن گکھڑ منڈی ضلع گوجرانوالہ سے قرار پایا.محترمہ رحمان نازلی کو کب صاحبہ بنت مکرم چوہدری فتح محمد صاحب ساکن گکھڑ منڈی کا نکاح تیرہ ہزار روپے حق مہر پر محترم غالب الدین صاحب ابن مکرم چوہدری طالب الدین صاحب سا کن گوٹھ طالب آباد ضلع نواب شاہ سندھ سے قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسانی قافلہ دن بدن آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.کچھ افراد باہر نکل جاتے ہیں کچھ

Page 808

خطبات ناصر جلد دہم ۷۸۴ خطبہ نکاح ۲۷ مارچ ۱۹۷۸ء ازدواجی تعلقات میں بندھتے اور نسل انسانی میں وسعت پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اور اس طرح پر افراد انسانی میں زیادتی ہوتی رہتی ہے.کچھ لوگ پہلی باتوں کو بھول جاتے ہیں کچھ لوگ پہلی باتوں پر زیادتی کرتے ہیں نئی تحقیق کے ذریعہ اور وہ انسان کو عملی میدان میں آگے سے آگے لے جاتے ہیں.کچھ وہ لوگ تھے جن کو نَصِيبًا مِّنَ الکتب کی رُو سے قرآن کریم کے کچھ حصے ملے تھے.انہوں نے ان پر عمل کیا اور خدا کی رضا کو حاصل کیا.کچھ وہ لوگ ہیں جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ سارے کا سارا قرآن ملا.اس سے گوان کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئیں لیکن ان کے انعامات میں بھی اللہ تعالیٰ نے بڑا اضافہ کر دیا.مگر یہ تو انسان کا کام ہے کہ وہ شریعت اسلامیہ پر عمل پیرا ہو.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں اسوہ بنائے اور ان عظیم بشارتوں کا خود کو اور اپنی نسل کو حامل اور وارث بنائے جن کا قرآن کریم میں وعدہ کیا گیا ہے.پس یہ نئے ازدواجی تعلقات جب قائم ہوتے ہیں تو بہت سی اور ذمہ داریوں کے ساتھ میاں اور بیوی پر یہ ذمہ داری بھی ڈالتے ہیں کہ وہ آنے والی نسلوں کو سنبھالیں.ان کی تربیت کریں ان کی اصلاح کا خیال رکھیں.ان کے متعلق یہ خواہش رکھیں کہ وہ پہلی نسل سے پیچھے نہ رہیں اور اسلام کے قافلے کو آگے سے آگے لے جانے والے ہوں.وہ خدا تعالیٰ کے خادم بن کر اس کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں.پس ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا کرے ہماری آئندہ نسلیں خادم دین ہوں.وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کونسلاً بعد نسل حاصل کرتے رہیں یہاں تک کہ اسلام کا قافلہ لوگوں کے دل جیت کر ساری دنیا پر غالب آجائے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت اور ثمراتِ حسنہ کا موجب بننے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 809

خطبات ناصر جلد دہم ۷۸۵ خطبہ نکاح ۱/۳ پریل ۱۹۷۸ء اسلام کے قائم کردہ حقوق کی ادائیگی با ہمی تعلقات میں اطمینان وسکون کا موجب ہے خطبہ نکاح فرموده ۱/۳ پریل ۱۹۷۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر از راہ شفقت مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمہ صاحبزادی امتہ الکریم کو کب صاحبہ بنت مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب قادیان کا نکاح محترم ماجد احمد خان صاحب ابن مکرم و قیع الزمان خان صاحب ساکن لاہور کے ساتھ پچیس ہزار روپے حق مہر پر.۲ - محتر مہ امتہ القدیر طلعت صاحبہ بنت مکرم پیر ضیاء الدین صاحب ساکن اسلام آباد کا نکاح محترم میاں عبد الباسط صاحب ابن مکرم میاں عبد القیوم صاحب ساکن کوئٹہ کے ساتھ دس ہزار روپے حق مہر پر.اس تقریب سعید کے موقع پر خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے جو خطبہ نکاح ارشاد فر ما یاوہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس بات میں تو کوئی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں کہ ازدواجی رشتوں کے نتیجہ میں افراد اور ان کے خاندانوں پر بعض نئی ذمہ داریاں آپڑتی ہیں اور ان کے بعض نئے حقوق قائم ہو جاتے

Page 810

خطبات ناصر جلد دہم ZAY خطبہ نکاح ۱/۳ پریل ۱۹۷۸ء ہیں.یہ ذمہ داریاں اور یہ حقوق ہم اپنی طرف سے بنائیں یا اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے حقوق اور ذمہ داریوں کے مطابق ایک دوسرے سے معاملہ کریں، یہ سوال باقی رہ جاتا ہے.جولوگ قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے وہ اپنے قواعد اور قوانین بنا لیتے ہیں.چنانچہ مختلف ممالک میں مختلف قوانین بن گئے ہیں لیکن انسان کے بنائے ہوئے ان قواعد کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ میں مختلف ممالک میں مختلف الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں لیکن اگر ہم اپنا حق صرف اسی کو جانیں جو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اور اگر ہم اس ذمہ داری کو پوری تندہی اور توجہ کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ نے قائم کی ہے تو اس کے نتیجہ میں ایک حسین اور عالمگیر معاشرہ پیدا ہوتا ہے.اسلامی تعلیم نے نہ صرف مرد و زن یعنی میاں بیوی کے حقوق قائم کئے بلکہ ان کے خاندانوں کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور اسلامی معاشرہ میں یہ ذمہ داری بھی لی ہے کہ وہ حقوق ادا کئے جائیں گے.پس ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں اور یہ نصیحت بھی کی.یہ حکم بھی دیا اور اس کے لئے سامان بھی پیدا کئے کہ ذمہ داریاں ادا کی جائیں.یہ تو صحیح ہے کہ بعض لوگ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ان ذمہ واریوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور ان حقوق کا خیال نہیں رکھتے جو اسلام نے قائم کئے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی صحیح ہے کہ جب تک اسلام کے قائم کردہ حقوق ادا نہیں کئے جاتے اور اسلام کی قائم کردہ ذمہ داریوں کو نباہا نہیں جاتا اس وقت تک خاندان آپس کے تعلقات میں اور میاں بیوی آپس کے تعلقات میں سکون اور اطمینان حاصل نہیں کر سکتے.میں اس وقت دو عزیز بچیوں کے نکاحوں کا اعلان کروں گا.میں دعا کرتا ہوں اور احباب بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ازدواجی زندگی کو ہر لحاظ سے پرسکون اور خوشحال بنائے.وہ اور ان کے خاوند اور ان کے خاندان یعنی سسرال والے ان حقوق کو ادا کرنے والے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں اور ان ذمہ داریوں کو نباہنے والے ہوں جو اسلام نے ہم پر ڈالی ہیں.ایک نکاح تو عزیزہ امتہ الکریم کو کب صاحبہ کا ہے جو عزیزم مکرم مرزا وسیم احمد صاحب کی منجھلی صاحبزادی ہیں.ان کا رشتہ عزیزم مکرم ماجد احمد خان صاحب ابن مکرم وقیع الزمان خان صاحب ساکن لاہور کے ساتھ پچیس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے.عزیزم مکرم ماجد احمد خان صاحب

Page 811

خطبات ناصر جلد دہم 2A2 خطبہ نکاح ۱/۳ پریل ۱۹۷۸ء ہمارے بزرگ چچا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے نواسے ہیں.بعض خاندانوں پر اپنی حیثیت کے لحاظ سے بعض ذمہ داریاں بھی پڑ جاتی ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے عزیزہ امتہ الکریم کو کب تو میری ہی بچی ہے.میرے بھائی کی بیٹی ہے.عزیزہ کی طرف سے بھی اور ان کے والد صاحب کی طرف سے بھی میں بطور وکیل ہوں.اس لئے میں مرزا ناصر احمد عزیزہ امیۃ الکریم کو کب صاحبہ بنت مکرم مرزا وسیم احمد صاحب کے نکاح کی پچیس ہزار روپے حق مہر کے عوض عزیزم ماجد احمد خان صاحب ابن مکرم وقیع الزمان خان صاحب ساکن لاہور سے منظوری دیتا ہوں.دوسر ارشتہ طے پایا ہے ہماری عزیزہ بچی امتہ القدیر طلعت صاحبہ بنت مکرم پیر ضیاء الدین صاحب ساکن اسلام آباد کا عزیزم مکرم میاں عبد الباسط صاحب ابن مکرم میاں عبدالقیوم صاحب ساکن کوئٹہ سے دس ہزار روپے مہر پر.عزیزہ امتہ القدیر طلعت صاحبہ ہمارے بزرگ میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ کی نواسی ہیں.علاوہ اور رشتوں اور تعلقات کے اس وجہ سے بھی وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ہم ان کے اس رشتے کے بابرکت ہونے کے لئے خاص طور پر دعا کریں.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت اور مثمر ثمراتِ حسنہ بننے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.谢谢您 (روز نامه الفضل ربوه ۱۸ ؍جون ۱۹۷۸ ء صفحه ۶)

Page 812

Page 813

خطبات ناصر جلد دہم ۷۸۹ خطبہ نکاح ۱/۲۳ کتوبر ۱۹۷۸ء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے اموال اور نفوس میں بہت برکت ڈالے گا خطبه نکاح فرموده ۲۳ /۱ اکتوبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب درج ذیل تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱- محترمہ فریحہ نورین صاحبہ بنت مکرم خواجہ محمد یوسف صاحب بٹ دار الرحمت غربی ربوہ کا نکاح نہیں ہزار روپیہ مہر پر مکرم انور سعید احمد صاحب ابن مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب دارالصدر جنوبی ربوہ سے.۲- محترمہ نعیمہ نسرین صاحبہ بنت مکرم قریشی منیر احمد صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور کا نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر مکرم قریشی مجید احمد صاحب ابن مکرم قریشی محمود الحسن صاحب راولپنڈی سے.محترمہ نسیم اختر صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب دارالیمن ربوہ کا نکاح پانچ ہزار روپیہ مہر پر مکرم طاہر احمد صاحب ابن مکرم بشیر احمد صاحب میانوالی سے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ اللہ جو سب قدرتوں کا مالک ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے اموال اور نفوس میں بہت برکت ڈالے گا.اس برکت کے بہت سے پہلو ہیں ، اور بہت سے طریق ہیں.جن سے برکت آتی ہے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ازدواجی رشتوں میں برکت ڈالتا

Page 814

خطبات ناصر جلد دہم ۷۹۰ خطبہ نکاح ۱/۲۳ کتوبر ۱۹۷۸ء ہے اور نیک اور صالح اور خادم دین اولاد پیدا ہوتی ہے.ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں میں بھی جن کا آج اعلان ہوگا.اپنے وعدہ کے مطابق بہت برکت ڈالے اور ان کے بچے نیک اور صالح اور خادم دین ہوں اور غلبہ اسلام کے لئے جس قسم کے ذہن اور جس قسم کے دماغ اور جس قسم کے جسم اور وجود چاہیں وہ اللہ تعالیٰ پیدا کرے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۴ فروری ۱۹۷۹ ء صفحه ۴)

Page 815

خطبات ناصر جلد دہم ۷۹۱ خطبہ نکاح ۱۸ نومبر ۱۹۷۸ء اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ باہمی تعلقات سارے کے سارے قول سدید پر قائم ہوں خطبہ نکاح فرموده ۱۸ نومبر ۱۹۷۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز ظہر مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.محترمہ طیبہ مشتاق صاحبہ بنت ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب گلبرگ لاہور کا نکاح محترم محمد بشیر صاحب ابن مکرم چوہدری محمد شریف صاحب ساکن ساہیوال سے پچیس ہزار روپے حق مہر پر.۲- محترمه غزالہ شبلی صاحبہ بنت مکرم ثناء اللہ صاحب شبلی ربوہ کا نکاح محترم وحید رشدی صاحب ابن مکرم عبد الغنی رشدی مرحوم را ولپنڈی سے دس ہزار روپے حق مہر پر.محترمہ آمنہ طاہرہ صاحبہ بنت مکرم مجید احمد صاحب مرحوم درویش ساکن ربوہ کا نکاح محترم بشارت احمد صاحب ابن مکرم ڈاکٹر غلام محمد صاحب ساکن چک نمبر ۱۶۶ مراد ضلع بہاولنگر سے چار ہزار روپے حق مہر پر.محترمہ بدر النساء صاحبه بنت مکرم راجہ ضیاء الدین صاحب ارشد مرحوم ربوہ کا نکاح مکرم لئیق احمد خورشید ابن مکرم شیخ خورشید احمد صاحب نائب مدیر الفضل ربوہ سے بیس ہزار روپے حق مہر پر.۵ محترمہ فریدہ لطیف صاحبہ بنت مکرم محمد لطیف مرزا صاحب ساکن مغلپورہ لاہور کا نکاح محترم عبد السمیع صاحب ابن مکرم عبد الغنی صاحب مرحوم ساکن سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ سے

Page 816

خطبات ناصر جلد دہم پانی ہزار روپے حق مہر پر.۷۹۲ خطبہ نکاح ۱۸/ نومبر ۱۹۷۸ء.محترمہ نصرت شمیم صاحبہ بنت مکرم محمد صادق خان صاحب دارالعلوم شرقی ربوہ کا نکاح محترم را نا مبشر احمد صاحب ابن مکرم محمود احمد خان صاحب ساکن چک نمبر ۸۸ ج.بضلع فیصل آباد سے پانچ ہزار روپے حق مہر پر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ آیات کریمہ جو نکاح کے اعلان کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں.ان میں ایک ضروری ہدایت جس کی طرف ہمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم تقوی اللہ اختیار کرو.قول سدید کے پابند ہوتا کہ تمہارے اعمال ہر قسم کے فسادات سے پاک ہو جائیں اور تم اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے وارث بن جاؤ.انسان اس دنیا میں تمدنی اور معاشرتی زندگی گزارنے والا حیوان ہے.چنانچہ ایک دوسرے کے ساتھ جو تعلقات قائم ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ وہ سارے کے سارے قول سدید پر قائم ہوں گویا ایک دوسرے کے ساتھ Communications(کمیونیکیشنز ) کی بنیاد انسانی قول یا بیان پر ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (الرحمن: ۵) یعنی خدا تعالیٰ نے انسان کو بیان سکھایا ہے جو آپس میں تعلقات قائم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے.پس اصل چیز وہ انسانی آواز یا زبان سے ادا ہونے والا لفظ یا بول ہے جسے بعد میں انسان نے اپنی ضروریات اور سہولت کے لئے حروف اور تحریر میں تبدیل کر لیا ہے.اسی لئے جب ہم ساری دنیا کی مختلف زبانوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسی زبانیں بھی ملتی ہیں جو بولی تو جاتی ہیں مگر ابھی تک لکھی نہیں جاتیں.افریقہ میں جب میں دورے پر گیا تو وہاں بہت سے ایسے قبائل میرے علم میں آئے کہ جو زبان وہ بولتے تھے وہ بولی تو جاتی ہے تحریر میں نہیں آتی لیکن دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جو تحریر میں ہو اور بولی نہ جائے.دنیا میں ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں صرف تحریر سے انسان ایک دوسرے پر اپنا مافی الضمیرا دا کر رہا ہو.پس اصل چیز بیان ہے.آپس میں باتیں کرنا ہے جس کی خدا تعالیٰ نے انسان کو طاقت دی

Page 817

خطبات ناصر جلد دہم ۷۹۳ خطبہ نکاح ۱۸ نومبر ۱۹۷۸ء ہے اور خود ہمارے نزدیک انسان کو ابتدا میں عربی زبان سکھائی گئی تھی.غرض جب انسانی معاشرہ ، تمدن، رہن سہن اور ہر قسم کے باہمی تعلقات کی بنیا د زبان ہے تو قرآن کریم نے یہ حکم دیا.قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا اصرف سچ بولنے پر اکتفا نہیں کرنا بلکہ ایسا سچ بولنا ہے جس میں کوئی ہیر پھیر اور ڈھکی چھپی بات نہ ہو.فرمایا تم آپس میں صاف سیدھی اور کھل کر باتیں کرو گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہاری اجتماعی زندگی میں بھی اور تمہارے انفرادی تعلقات میں بھی کسی قسم کا فساد اور فتنہ اور بدمزگیاں اور ناراضگیاں اور لڑائی جھگڑے باقی نہیں رہیں گے.پس اسلام میں قول سدید پر بڑا زور دیا گیا ہے اور اس میں بڑی برکت ہے اس کی طرف ہمیں ہمیشہ متوجہ رہنا چاہیے اور دعا کرتے رہنا چاہیے.میں اس وقت بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قول سدید کے اصول پر قائم رکھے اور ہماری زندگیوں کو قول سدید کی برکت سے پاک اور مطہر اور خوشحال بنائے اور اطمینان قلب عطا ہو ہمارے درمیان جو بھی رشتے قائم ہوتے ہیں خصوصاً آج کا جو موقع ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے چھ خوشیاں اکٹھی کر دی ہیں.میں اس وقت چھ نکاحوں کا اعلان کروں گا.یہ نکاح اور ازدواجی تعلقات کا جو رشتہ ہے اس میں بھی اللہ تعالی متعلقین کو قول سدید کی توفیق عطا کرے اور خدا کے کلام میں جو برکتیں ہیں ان کا وارث بنائے اور یہ سارے نکاح سب کے لئے خیر و برکت کا موجب ہوں.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۸ /جنوری ۱۹۷۹ء صفحه ۶)

Page 818

Page 819

خطبات ناصر جلد دہم ۷۹۵ خطبہ نکاح ۱۲ فروری ۱۹۷۹ء زندگی کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ خدا کا تقویٰ اختیار کرو خطبہ نکاح فرموده ۱۲ / فروری ۱۹۷۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر درج ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.مکرمہ تسنیم کوثر صاحبہ بنت ملک محمد مقبول صاحب ساکن شیخو پورہ شہر کا نکاح مکرم محمد انعام یوسف صاح ابن مکرم چوہدری محمد یوسف صاحب ساکن ربوہ سے چھ ہزار روپے مہر پر.۲.محترمہ رفیعہ بیگم صاحبہ بنت مکرم چوہدری غلام حیدر صاحب ساکن کرم پورہ ضلع شیخو پورہ کا نکاح مکرم ملک لطیف احمد صاحب سرور ابن مکرم ملک محمد شفیع صاحب مرحوم ساکن شیخو پورہ شہر سے پانچ ہزار روپیہ مہر پر.آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جو آیات قرآنی نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں ان میں انسانی زندگی کی بنیادی حقیقت بتائی گئی ہے جو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو تمہارے اعمال بھی صالح ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے بھی تم وارث ہو گے.یعنی تمہارا معاشرہ بھی اسلامی تعلیم کے نیچے ایک نہایت پاکیزہ اور خوشحال معاشرہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو بھی تم حاصل کرنے والے ہو گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس حقیقت کے سمجھنے ، اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.

Page 820

خطبات ناصر جلد دہم دعا فرمائی.خطبہ نکاح ۱۲ فروری ۱۹۷۹ء ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے ہاتھ اٹھا کر روزنامه الفضل ربوه ۱۹ / مارچ ۱۹۷۹ء صفحه ۲)

Page 821

خطبات ناصر جلد دہم ۷۹۷ خطبہ نکاح ۵ را پریل ۱۹۷۹ ء مقصد حیات کا حصول خدا اور رسول کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں خطبہ نکاح فرموده ۱/۵ پریل ۱۹۷۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے نماز مغرب کے بعد تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.محترمہ غزالہ ناصر صاحبہ بنت محترم پروفیسر ناصر احمد صاحب ساکن پشاور صدر کا نکاح مکرم محمود انور صاحب ابن محترم محمد اسماعیل صاحب ذبیح ساکن بنوں سے دس ہزار روپیہ مہر پر.۲.محترمہ خالدہ نسرین صاحبہ بنت محترم منصور احمد خان صاحب ساکن احمد نگر کا نکاح مکرم رشید احمد صاحب ارشد بن محترم چوہدری فضل احمد صاحب مرحوم ربوہ سے پانچ ہزار روپیہ مہر پر.-۳- محترمہ طاہرہ زکیہ صاحبہ بنت محترم عبدالمنان صاحب ساکن محلہ دار النصر غربی ربوہ کا نکاح مکرم لطیف احمد صاحب طاہر ابن محترم بشیر احمد صاحب مرحوم ساکن محلہ دارالرحمت غربی ربوہ سے تین ہزار پانچ صد رو پیر مہر پر.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جو آیات نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں ان میں بنیادی طور پر ہمیں اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب: ۷۲ ) کہ حقیقی اور پوری کامیابی ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں.عقلاً حقیقی اور

Page 822

خطبات ناصر جلد دہم ۷۹۸ خطبہ نکاح ۵ را پریل ۱۹۷۹ء پوری کامیابی اسے حاصل ہونی چاہیے جو اپنی ساری قابلیتوں اور صلاحیتوں کو صحیح طور پر کام پر لگائے اور پوری توجہ کے ساتھ اپنی ساری استعدادوں سے کام لے رہا ہو.اس سے ہمیں یہ پتہ لگا کہ خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے معنی ہی یہ ہیں کہ انسان اپنی تمام صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال کرے.قرآن کریم کا کوئی حکم ایسا نہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی اسوہ ہمارے سامنے ایسا نہیں جو انسان کی استعداد پر بوجھ ڈال رہا ہو، جو انسان کی استعداد کے مخالف ہو، جو انسان کی استعداد کی صحیح نشوونما کے بعد اس سے صحیح کام لینے والا نہ ہو.تو خدا اور رسول کی اطاعت ہماری اپنی بھلائی ہے اور اس اطاعت کے نتیجہ میں وہ انسان جسے خدا تعالیٰ نے بہت بلندیوں کے لئے پیدا کیا ان بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے.اگر وہ خدا اور رسول کی اطاعت نہ کرے تو اپنے مقصودِ حیات کو حاصل نہیں کرسکتا.یہ ذمہ داریاں ہیں اور طاقتیں جو انسان اپنی خرچ کرتا ہے ان کا ایک حصہ انسان کی ازدواجی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اور اسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے میاں بیوی کے تعلقات کے متعلق وہ اس زندگی میں حسن پیدا کرنے والی ہے.ہر قسم کی لڑائی اور جھگڑوں کو دور کرنے والی ہے.ہر قسم کی رنجشوں سے محفوظ کرنے والی ہے، ہر قسم کی پیار کی فضا کو پیدا کرنے والی ہے، ایسی فضا جس میں بچے پروان چڑھ کر خدا تعالیٰ کے فدائی بنتے اور اپنی کامیابیوں کے سامان پیدا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بنیادی نکتہ کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور عورت اور مرد جب وہ اسلام کی طرف منسوب ہوں اور ازدواجی زندگی میں باندھے جائیں اسلامی تعلیم پر عمل کر کے اپنے گھروں کو بھی خوشحال بنانے والے اور اپنے ماحول میں بھی حسن پیدا کرنے والے اور انسانی زندگی میں بھی نور کو پھیلانے والے بنیں.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۰ جون ۱۹۷۹ ء صفحه ۳، ۴)

Page 823

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۳ را پریل ۱۹۷۹ ء سچی خوشی صرف اسلام میں ہمیں نظر آتی ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۳ ۱۷ پریل ۱۹۷۹ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے نماز عصر کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلی تحریک جدید کے چھوٹے صاحبزادے مکرم مرزا خالد تسلیم احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نکاح کا موقع خوشی کا موقع ہے.دنیا میں مختلف وجوہ سے خوشی منائی جاتی ہے.بچوں کو خوش کرنے کے لئے انہیں کھلونے دیئے جاتے ہیں.دیہات میں بعض دفعہ مٹی کے کھلونے چڑیاں وغیرہ بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی ہنڈیاں، کٹوریاں وغیرہ بھی دی جاتی ہیں یا جب میں بچہ تھا اس وقت دی جاتی تھیں.اب تو میں نے دیر ہوئی بچپن کی عمر چھوڑ دی اور اب کا مجھے علم نہیں کیا رواج ہے.بہر حال یہ بھی ایک رواج تھا.منے منے مٹی کے برتن وغیرہ، اور عام طور پر بچوں کو ایسے کھلونوں سے خوش کیا جاتا تھا.جن میں ان کے لئے نہ علمی لحاظ سے کوئی فائدہ اور نہ کوئی سبق حاصل ہوتا تھا.انجان بچہ ناسمجھ بچہ ناسمجھ کھلونوں سے اپنا دل بہلا لیا کرتا ہے.بعد میں دنیا نے Educational Toys یعنی تعلیم دینے والے کھلونے بھی بنانے شروع کئے کوئی نصف صدی یا ایک صدی سے اب اس میں ترقی ہو گئی ہے جو بچے انجینئر نگ کا ذہن رکھتے ہیں بچپن میں ایسے

Page 824

خطبات ناصر جلد دہم خطبہ نکاح ۱۳ را پریل ۱۹۷۹ء کھلونے ان کو مل جاتے ہیں کہ وہ پرزے یا چھوٹی چھوٹی پتیاں جوڑ کے موٹر کار کی شکل کی ایک چیز بنا دیتے ہیں یا پانی نکالنے والا کنواں یا ہوائی جہاز یا مکان اس قسم کی چیزیں وہ بنا لیتے ہیں.ہمارے ملک میں خصوصاً دیہات میں ان چیزوں کا علم نہیں.یورپ اس میں بڑا آگے نکل گیا ہے.بچوں کے کھلونے بجلی سے چلنے والے بن گئے.بچوں کے کھلونے خود بخود چلنے اور خود بخود ٹھہر کے پھر چلنے والے بن گئے.علم کا حصہ بچوں کے کھلونے میں ہی آ گیا بہر حال اس عمر کے لحاظ سے کوئی ایسی زیادہ خوشی کی بات حقیقی خوشی کی بات نہیں.لیکن حقیقی خوشی کی طرف ایک قدم انسان نے اٹھالیا.پہلے مذہب سے باہر لیکن اب ( اس وقت تو باقی مذاہب کی انسان کو ضرورت نہیں رہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو چکے ہیں اس واسطے میں کہوں گا ) اسلام سے باہر جو خوشیوں کے تہوار انسان بناتا ہے.اس میں جو اہم چیز ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ کہ انسان بھول جانے میں خوشی کا سامان پیدا کرتا ہے نا معقول بات ہے لیکن وہ کر رہا ہے.یعنی ترقی پذیر ممالک جو ہیں اور ترقی یافتہ اقوام جو ہیں وہ ایسے تہواروں میں مثلاً شراب میں مست ہو جا ئیں گے بالکل کوئی ہوش ان کو نہیں رہے گی اور یہ ان کی خوشی کا سامان ہے اپنے آپ کو بھی بھول جانا.اپنے ماحول کو بھی بھول جانا یا ایسی حرکتیں کرنا.جن میں نہ کوئی علمی پہلو ہے نہ اخلاقی.مثلاً ناچنے لگ جانا.ہر ملک نے اپنے اپنے ناچ بنائے ہوئے ہیں ایسے تہواروں پر وہ اس طرح خوشی مناتے ہیں.پس اسلام سے باہر ہر خوشی جو ہے وہ جھوٹی خوشی ہے.سچی خوشی صرف اسلام میں ہمیں نظر آتی ہے کیونکہ اسلام نے کہا کہ خوشی کا وہ موقع ہے جب خدا تعالیٰ کے پیار کا جلوہ تمہارے اوپر ظاہر ہو.اس وقت تم خوش ہو اور اس وقت تم خوشی سے اچھلو اور خوشی کا اظہار کرو اور تمہارے چہرے پر مسکراہٹیں آئیں.تم اچھے کپڑے پہنو.اس دن تم اچھے کھانے کھاؤ جس طرح عید کا دن ہے.جو رمضان کے بعد آتا یا حج کی عید ہے عید الاضحیہ.وہ اگر چہ ایک علامت ہے.کیونکہ اس دن جس کے روزے قبول ہوئے وہ بھی اور جس کے روزے قبول نہ ہوئے وہ بھی عید منا رہا ہے جس کا حج رد کر دیا گیا وہ بھی بڑی عید منارہا ہے یا حج کی خوشی میں دور دراز علاقوں میں جو رہنے والے ہیں وہ قربانی دیتے ہیں.

Page 825

خطبات ناصر جلد دہم ۸۰۱ خطبہ نکاح ۱۳ را پریل ۱۹۷۹ء اس تہوار کی عظمت کے لئے ایک عظیم قربانی خدا کے حضور پیش کی گئی تھی کہ انسان اپنی زندگی کو خدا کی راہ میں وقف کرے.جان تو بہت دے دیتے ہیں.دنیا کے لئے بھی اور دین کے لئے بھی.لیکن ایک ذبح عظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی زندہ رکھ کر اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو خدا اور خدا کی تعلیم کے لئے وقف کر دینے کی شکل میں اور اس کا تعلق ہے حج کے ساتھ اور حج کی عید کے ساتھ یا ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ اگر تو ثابت قدم رہے گا اپنے رب پر ایمان لانے کے بعد اس کی معرفت حاصل کرنے کے بعد ثبات قدم دکھائے گا تو تمہارے اوپر اے انسانو! فرشتے نازل ہوں گے اور تمہیں کہیں گے کہ کوئی خوف اور ڈر تمہارے قریب نہیں آنا چاہیے اور کوئی غم نہیں آنا چاہیے تمہارے پاس جس کا مطلب ہے کہ خوشیوں سے معمور ہو جاؤ.فرشتے آئے یہ کہیں گے کہ تمہارے وجود اور تمہارے دل اور سینے اور دماغ خوشیوں سے معمور ہو جا ئیں اور تمہارا ماحول جو ہے وہ خوشی سے جگمگانے لگے.یہ بشارت سن کے کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری قربانیوں کو قبول کیا اور اپنی جنتوں کے جو وعدے دیئے تھے وہ جنتیں تمہارے لئے پیدا کر دیں اور فرشتے کہیں گے ہم تمہارے ساتھی ہیں.نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ ( حم السجدة : ٣٢) اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں بھی اور جنت ارضی ہو یا جنت اخروی.اس کی علامت یہ ہے کہ کبھی ایسی خواہش تمہارے دل میں پیدا نہیں ہوگی.جو خدا تعالیٰ کی مرضی سے تضا در کھنے والی ، اس کی مخالف ہو.وَ لَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ اَنْفُسُكُمُ ( حم السجدة : ٣٢) تمہارے دل میں جو بھی خواہش پیدا ہوگی وہ ایسی ہوگی جو خدا کو بھی پسند آئے گی اور تمہیں مل جائے گی اور جو تم مانگو گے وہ تمہیں دیا جائے گا یعنی کامل اطاعت خدا کے حضور تم کرنے کے قابل ہو جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کے سچے اور کامل فضلوں اور رحمتوں کے تم وارث ہو گے اور نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ( حم السجدة : ۳۳) خدا تمہارا میزبان بن گیا.اس کی بھیجی ہوئی دعوت تم کھاؤ اور خوشیاں مناؤ.اس آیت میں جو کہا ہے کہ خوشیاں مناؤ اس زمانے میں اس کا اظہار ہوا ہے مہدی علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ.آپ نے فرمایا کہ خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ غلبہ اسلام کا زمانہ آ گیا.تو

Page 826

خطبات ناصر جلد دہم ۸۰۲ خطبہ نکاح ۱۳ را پریل ۱۹۷۹ء ایک احمدی کی خوشی جو ہے.اس کی بنیاد بنتی ہے غلبہ اسلام کا زمانہ.اسی واسطے میں جماعت کو کہتا ہوں کہ ہماری مسکراہٹیں جس وجہ سے ہیں وہ وجہ اصلی اور حقیقی اور دائی ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے وہ پورا ہو کے رہے گا.اس واسطے ہماری مسکراہٹیں دنیا کی کوئی طاقت خواہ وہ کتنی تیوریاں چڑھا کے زور لگا رہی ہو ہم سے چھین نہیں سکتی.ہمارے چہروں پر تو مسکراہٹیں ہی کھلیں گی.یہ ہے ہماری عید نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ اور ساتھ ہی کہہ دیا کوئی فخر نہ کرنا.کیونکہ یہ مہمان نوازی جو ہے وہ مغفرت کرنے والے خدا بار بار رحم کرنے والے خدا کی طرف سے ہے تم نے غلطیاں بھی کیں.تم سے گناہ بھی سرزد ہوئے غفلتیں بھی ہوئیں.تم نے اپنی ذمہ واریوں میں سستیاں بھی دکھا ئیں.لیکن خدا تعالیٰ نے تمہیں معاف کر دیا.تمہاری اجتماعی کوشش قبول ہو گئی.یہ جو عظیم مہم اس عید کے منانے کی ہے کہ غلبہ اسلام کے دن آگئے.اس عظیم مہم میں سب سے بڑی ذمہ واری اس شخص کے خاندان کے افراد پر ہے جو مہدی بن کر دنیا کی طرف بھیجا گیا.اس کے پہلے مخاطب گھر والے ہی تھے نا اور انہی کے دو افرا دلڑکے اور لڑکی کے نکاح کا اس وقت میں اعلان کرنے لگا ہوں.تو یہ خوشی تو ہے ہمارے لئے خوشی کا دن ہے.نکاح بھی خوشی کا دن ہے لیکن یہ بریکٹ ہے یہ جڑا ہوا ہے اس بشارت اور خوشی کے ساتھ.زمانہ گزر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے بعد ہر گھڑی بڑھ رہا ہے.امتداد زمانہ کے ساتھ زمانہ میں بھی پھیلاؤ ہو گیا اور وسعتِ مکانی بھی ہو گئی ان برکات کی.وہ برکات جو ہیں وہ قادیان یا پھر صرف پنجاب اور ہندوستان میں محمد ود تو نہیں رہیں.اب تو ساری دنیا میں اسلام کی برکات ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض سمندروں کی طرح موجیں مار رہے ہیں.میرے یہ دو بھائی یہاں بیٹھے ہیں.لے دو مختلف افریقن ممالک سے تعلق رکھتے ہیں.یہ بھی معجزہ ہے خدا کا.تو ہماری ذمہ واریاں (اس وقت میں پھر اپنے خاندان کو مخاطب کرتا ہوں) بہت بڑھ گئی ہیں.اس واسطے جماعت کی یہ ذمہ داری لے حضور کا اشارہ مکرم عبد الوہاب بن آدم صاحب مبلغ انچارج و امیر جماعت احمد یہ گھانا اور پیراماؤنٹ چیف کالوں صاحب امیر جماعت احمد یہ سیرالیون کی طرف تھا.

Page 827

خطبات ناصر جلد دہم ۸۰۳ خطبہ نکاح ۱۳ را پریل ۱۹۷۹ء ہے کہ وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تعلق رکھنے والوں کو ہمیشہ یہ سمجھ اور عقل عطا کرتا رہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے ہوں اور جو حقیقی خوشیاں خدا تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لئے پیدا کیں اور جو خوشیاں بانٹنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں اولاد پیدا ہوئی.وہ اپنی اس ذمہ واری کو سمجھنے والے ہوں اور ان کی نسل اسلام کی خادم اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کی خادم ہو.ایسی ہی نسل ہمیشہ آگے چلے اور چلتی رہے.تو اس دعا کے ساتھ اور اس نصیحت کے ساتھ میں اس وقت اس نکاح کا اعلان کرتا ہوں.بہ نکاح ہے میرے چھوٹے بھائی مرزا مبارک احمد صاحب کے بیٹے کا میرے چھوٹے بھائی مرزا حنیف احمد صاحب کی بیٹی کے ساتھ.عزیزہ مکر مہ امۃ المومن حنا صاحبہ جو مکرم مرزا حنیف احمد صاحب کی صاحبزادی ہیں.ان کا نکاح عزیزم مکرم مرزا خالد تسنیم احمد صاحب جو مکرم محترم مرز امبارک احمد صاحب کے صاحبزادے ہیں سے پندرہ ہزار روپے مہر پر قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے جملہ حاضرین سمیت دعا فرمائی.(روز نامه الفضل ربوه ۱/۲۶ پریل ۱۹۷۹ء صفحه ۵،۴)

Page 828

Page 829

خطبات ناصر جلد دہم ۸۰۵ خطبہ نکاح ۲ رمئی ۱۹۷۹ء اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت با برکت کرے خطبه نکاح فرموده ۲ رمئی ۱۹۷۹ ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز مغرب از راه شفقت مکرم مولا نا محمد صدیق صاحب شاہد سابق انچارج مبلغ امریکہ وسیرالیون کی بچی کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.عزیزہ مکرمہ عائشہ الہی صاحبہ جو مکرم محترم محمد صدیق صاحب شاہد ساکن ربوہ کی بچی ہیں کا نکاح عزیزم مکرم مقصود احمد صاحب قمر ابن مکرم محترم غلام نبی صاحب ساکن شیخو پورہ سے پانچ ہزار روپے مہر پر قرار پایا ہے.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت بابر کت کرے مکرم محترم محمد صدیق صاحب شاہد واقف زندگی ، خادم سلسلہ عالیہ احمد یہ ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی اولادکو بھی اپنی معرفت عطا کرے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ان کے نصیب میں ہو اور وہ بھی دین کے خادم بنیں اور بنی نوع انسان کی خدمت میں اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں.ایجاب و قبول کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.اب دعا کر لیتے ہیں.اور پھر حضور انور نے حاضرین سمیت اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۴ مئی ۱۹۷۹ ، صفحه ۲)

Page 830

Page 831

خطبات ناصر جلد دہم ۸۰۷ خطبہ نکاح ۱۶ مئی ۱۹۷۹ء نکاح ایک نوجوان کی زندگی کا بہت ہی اہم واقعہ ہے خطبہ نکاح فرمود ه ۶ ارمئی ۱۹۷۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے نماز مغرب کے بعد دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسانی فطرت میں ہے مستقبل کے متعلق سوچنا اور اس کی بہتری کے لئے تد بیر کرنا.مشہور ہے کہ انسان جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ ماضی کی طرف دیکھنے لگتا ہے.یہ اس کے بڑھاپے کی علامت ہے اور انسانی فطرت کو ایسا اس لئے بنایا گیا ہے کہ مستقبل میں ایک ایسا واقعہ اس کی زندگی میں رونما ہونے والا تھا کہ جس نے اس کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم بپا کرنا تھا اور وہ واقعہ یہ ہونا تھا مستقبل میں کہ اس نے اس ورلی زندگی کو چھوڑ کے اخروی زندگی میں داخل ہونا تھا اور اس مختصرسی زندگی کو چھوڑ کے ایک ابدی زندگی میں اس نے داخل ہونا تھا اور ان جھوٹی خوشیوں کو چھوڑ کے اور ان عارضی مسرتوں سے باہر نکل کے ہمیشہ رہنے والی حقیقی خوشیاں اس کے لئے مقدر بن سکتی تھیں اگر وہ اس کے لئے کوشش کرتا.اس لئے انسان کی فطرت کو ہی ایسا بنایا گیا کہ وہ آئندہ کے متعلق سوچے.اور اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ہم ہر سال آئندہ اگلے سال کے متعلق سوچتے ہیں پھر اگلے سال کے متعلق سوچتے اور یہ چھوٹے چھوٹے جو ہم قدم اٹھاتے یا چھلانگیں

Page 832

خطبات ناصر جلد دہم ۸۰۸ خطبہ نکاح ۱۶ مئی ۱۹۷۹ ء لگاتے ہیں اس کے نتیجے میں ہمیں پتہ ہی نہیں لگتا کہ ہماری زندگی کب اور کیسے گزرگئی.سوائے ان لوگوں کے جن کو خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے اور اسی دنیا میں ان کے لئے جنت کے سامان پیدا ہو جائیں.آئندہ کی سوچ کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ جس طرح ہم خدا کے پیار کو حاصل کریں ہماری اگلی نسل بھی خدا کے پیار کو حاصل کرنے والی ہو اور اگلی نسل پیار کو تبھی حاصل کرے گی جب اگلی نسل کا سامان پیدا کیا جائے گا اور ازدواجی رشتوں کا اسلامی تعلیم کے مطابق اعلان کیا جائے گا.یہ موقع بھی جب ایک لڑکی اور لڑکے کو ازدواجی بندھنوں میں باندھا جاتا ہے ایک نوجوان کی زندگی کا بڑا اہم واقعہ ہے بہت ہی اہم.کچھ لوگ ، کچھ خاندان یا افراد، دولہا دلہن تو سوچتے اور غور کرتے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے اور اسلام نے جو حقوق اور جو فرائض خاوند کے مقرر کئے ہیں ان کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں یا جو بیوی کے حقوق اور فرائض مقرر کئے ہیں.لڑکی ان کو پہچاننے کی کوشش کرتی ہے اور عہد کرتی ہے کہ کچھ ہو جائے اسلامی تعلیم پر میں عمل کروں گی.تو زندگی جو ہے ان کی ، ازدواجی زندگی جس کے بندھن میں انہوں نے بندھنا ہے بڑی خوشحال زندگی بن جاتی ہے اور پھر اگلی نسل پیدا ہوتی ہے پھر اس کے لئے تدبیر کرتے ہیں.اسی طرح یہ چکر اس دنیا میں چلتا چلا آیا ، چل رہا ہے اور چلتا چلا جائے گا.دعا ہے کہ جن رشتوں کا اس وقت میں اعلان کروں گا اللہ تعالیٰ ان کو بھی اسلامی روشنی میں روشن اور خوشحال زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے اور ان کی نسلوں کو بھی اور اس دنیا میں بھی ان کے لئے جنتوں کے سامان پیدا ہوں اور مرنے کے بعد بھی.اس وقت میں دونکاحوں کا اعلان کروں گا.حضور انور نے درج ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.۱.عکرمہ بشری صادقہ صاحبہ بنت محترم چوہدری احمد علی خان صاحب مرحوم ساکن شیخو پورہ کا نکاح مکرم محمد افضل صاحب ڈارا ابن محترم محمد اکرم صاحب ڈار ساکن چو ہڑکانہ ضلع شیخو پورہ سے پانچ ہزار روپیہ مہر پر.مکرمہ نصرت بشری صاحبہ بنت محترم مرزا نذیر احمد صاحب ساکن محلہ دارالعلوم غربی ربوہ کا نکاح

Page 833

خطبات ناصر جلد دہم 109 خطبہ نکاح ۱۶ رمئی ۱۹۷۹ ء مکرم نصیر احمد صاحب ابن محترم ڈاکٹر شریف احمد صاحب ساکن محلہ دارالرحمت شرقی ربوہ سے دس ہزار روپیہ مہر پر.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۰ رجون ۱۹۷۹ صفحه ۳)

Page 834

Page 835

خطبات ناصر جلد دہم All خطبہ نکاح کے جون ۱۹۷۹ ء انسانی کوشش اطاعت خداوندی اور اسوۂ نبوی پر چلنے کے نتیجہ میں بابرکت ہوتی ہے خطبہ نکاح فرموده ۷ رجون ۱۹۷۹ء بمقام مسجد مبارک ربوہ حضور انور نے نماز مغرب کے بعد تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں تین نکاحوں کا اعلان کروں گا اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ان رشتوں کو مبارک کرے اور خیر کا موجب بنیں اور جو گر ہمیں اسلام نے کامیابیوں کے لئے بتایا ہے وہ یہ ہے کہ تم خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو.خدا تعالیٰ تمہاری کوششوں میں برکت ڈالے گا.کوششیں جس قسم کی بھی ہوں بابرکت ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ کی اطاعت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس کی سمجھ عطا کرے.اس کے بعد حضور انور نے درج ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.مکرمہ یاسمین صاحبہ بنت محترم رشید احمد صاحب صابر ساکن ربوہ کا نکاح مکرم لطف الرحمن صاحب جاوید ابن محترم عبد السلام صاحب زرگر ربوہ سے دس ہزار روپیہ مہر پر.مکرمہ امۃ الکریم صاحبہ بنت محترم عبد اللہ خان صاحب ساکن ربوہ کا نکاح مکرم لطیف احمد صاحب طاہر ابن محترم چوہدری محمد شفیع صاحب ساکن ربوہ سے پانچ ہزار روپیہ ہر پر.

Page 836

خطبات ناصر جلد دہم ۸۱۲ خطبہ نکاح کے جون ۱۹۷۹ ء مکرمہ شاہدہ بیگم صاحبہ بنت محترم چوہدری خورشید احمد صاحب ساکن مگر ا ضلع سیالکوٹ کا نکاح مکرم منصور احمد صاحب ابن محترم چوہدری نذیر احمد صاحب ساکن مگر ا ضلع سیالکوٹ سے چھ ہزار روپیہ مہر پر.فرمائی.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے اجتماعی دعا روزنامه الفضل ربوه ۲۱ جون ۱۹۷۹ ء صفحه ۴)

Page 837

خطبات ناصر جلد دہم ۸۱۳ خطبہ نکاح ۳۰ دسمبر ۱۹۷۹ء تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے اور اسی سے لی جائے خطبہ نکاح فرموده ۳۰ / دسمبر ۱۹۷۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه مورخہ ۳۰ دسمبر ۱۹۷۹ء بعد نماز ظہر مسجد مبارک ربوہ میں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق رکھنے والے دونکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اسلام میں اللہ تعالیٰ کے تقویٰ پر بہت زور دیا گیا ہے.اپنی زبان میں ہم مختلف الفاظ میں مختلف پہلوؤں سے اس کا ترجمہ کرتے ہیں.ایک ترجمہ اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں بھی فرمایا تھا.غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی“ یہ تقویٰ ہی کا ایک ترجمہ ہے.تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھا جائے اور اسے ہی کافی سمجھا جائے.اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ.تقویٰ ہی ہمیں سکھاتا ہے اور تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کا جو غیر ہے اسے لاھی محض سمجھا جائے.خود اپنے نفس کو بھی کچھ نہ سمجھا جائے اور جو غیر اللہ ہیں ان کا کبھی بھی کوئی اثر قبول نہ کیا جائے.فَلَا تَخْشَوهُمُ (البقرۃ: ۱۵۱) غیر اللہ میں

Page 838

۸۱۴ خطبہ نکاح ۳۰ دسمبر ۱۹۷۹ء خطبات ناصر جلد دہم سے کسی کی خشیت دل میں نہ ہو.وَاخْشَونی صرف اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں پیدا ہو.تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ ہر چیز اللہ سے مانگی جائے اور اسی سے لی جائے.پس تقویٰ کے معنی یہ ہوئے مولا بس.یا ہم پنجابی میں کہتے ہیں میرا اللہ والی.تقویٰ پر زور اس لئے دیا گیا کہ انسان اپنی زندگی کا مقصد تقوی اللہ کے سوا حاصل کر ہی نہیں سکتا اور اگر انسان تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنے کی کوشش کرے.اپنی طرف سے خلوص نیت کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں انسان پر ڈالی ہیں.انہیں پوری کرنے کی پوری طرح کوشش کرے.پوری ہمت کے ساتھ ، عزم کے ساتھ اور سعی کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی قبولیت کو حاصل کرنے والا ہو تو اسے سب کچھ مل جاتا ہے.اسلامی تعلیم انسان سے سب کچھ لے لیتی ہے اس میں کوئی شک نہیں.مگر قرآن کریم نے یہ کہا کہ جو میں نے لیا وہ میں نے ہی تمہیں دیا تھا.یہ درست ہے اپنی جگہ.قرآن کریم نے فرمایا کہ پھر بھی جب میں لیتا ہوں تو کتنا بڑھا چڑھا کر واپس کرتا ہوں.مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً (البقرة : ۲۴۶) تو عجیب شان ہے ہمارے رب کریم کی سب کچھ اسی کا تھا سب کچھ اسی کا ہے.اس نے دیا بندہ نے لیا.پھر اس نے کہا میری عطا میں سے میری راہ میں خرچ کرو.بندہ نے خرچ کیا.پھر خدا نے اپنی چیز جو واپس لی تھی اس کے متعلق کہا یہ میں نے قرض لیا ہے اور قرض واپس نہیں کروں گا.کئی گنا بڑھا کر اسے میں واپس کروں گا.دنیا میں فلسفہ اپنی جگہ پر ہے اور حقیقت زندگی اپنی جگہ.یہ محض فلسفہ نہیں کہ خدا جب لیتا ہے تو اسے قرض کہتا اور بڑھا چڑھا کر واپس کرتا ہے.ہر روز کی ہماری زندگی کا یہ مشاہدہ ہے.خدا تعالیٰ جب لیتا ہے اپنی راہ میں قربانی تو اتنا بڑھا چڑھا کے دیتا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.ایک شخص پر ظلم ہوا.ہمارا احمدی نوجوان تھا.چند سو روپے اس کی تنخواہ تھی.اسے نوکری سے نکال دیا گیا.بڑی پریشان حالت میں وہ میرے پاس آیا.میں نے اسے اسی تعلیم کی روشنی

Page 839

خطبات ناصر جلد دہم ۸۱۵ خطبہ نکاح ۳۰ دسمبر ۱۹۷۹ء میں سمجھا یا تسلی دی.اس کے دل میں بشاشت پیدا کی.پھر اس کے کہنے کے مطابق میرے منہ سے یہ نکلا کہ جتنے سو ( مجھے یاد آ گیا سات سو کے قریب اس وقت اس کی تنخواہ تھی کہ ) سو کی بجائے تمہیں ہزار ملے گا.ابھی دو تین مہینے ہوئے اس کا مجھے خط آیا کہ میں وہ شخص ہوں جس پر ایک ظلم ہوا تھا.میری نوکری جاتی رہی تھی.بڑی پریشانی کی حالت میں میں ملا تھا اور آپ نے مجھے یہ کہا تھا.مجھے تو یاد نہیں رہا تھا.مجھے تو اتنے کام ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کام کرتا جا پچھلی طرف نہ دیکھ آگے ہی آگے دیکھ.بہر حال اس نے مجھے بتایا کہ آپ نے کہا تھا کہ سو کے مقابلے میں ہزار دے دے گا.جتنے سینکڑے تجھے مل رہے ہیں اتنے ہزار ملنے لگ جائیں گے اور آج اس لئے میں خط لکھ رہا ہوں خاص طور پر کہ اس مہینے کی تنخواہ مجھے سو کے مقابلے میں ہزا ر ہی ملی ہے.اللہ دیتا ہے اور ہماری طرح تو نہیں نا کہ جس کے خزانے محمد ود ہوں.کبھی بہت ہی محدود.کبھی اس سے بھی زیادہ محدود کبھی پائی ہوتی ہے جیب میں ، دھیلا بھی نہیں ہوتا بعض دفعہ پائی بھی نہیں ہوتی اور کبھی بڑے خزانے ہوتے ہیں.کسری نے ساری دنیا کی دولت جو تھی وہ سمیٹ لی تھی اور یورپ میں جس وقت مسلمان ان کی فلاح اور بہبود کے لئے داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے او پر بڑے انعام کئے.اتنے ہیرے اور جواہرات ان کے پاس اکٹھے ہو گئے کہ ان کو سمجھ نہ آئے ان سے کیا کریں.خدا تعالیٰ نے پیار سے دنیا کے قیمتی سے قیمتی ہیرے اور جواہرات ان کے قدموں میں لا کے ڈال دیئے.جس طارق نے سپین کے ساحل پر پہنچ کے اپنی کشتیاں خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے جلا دی تھیں اس طارق کے ساتھیوں کو وہی وہاں جو پھر ایک اصلاحی مہم اسلام کے نام پر جاری ہوئی خدا تعالیٰ نے اتنادیا کہ جو گنجائش ان کشتیوں میں ہوگی.سونا اور چاندی اور جواہرات کی اس سے بھی کہیں زیادہ ان کو دے دیا.سوال تھا خرچ کہاں کریں؟ انہوں نے کہا پابندی ہوگئی.خدا تعالیٰ کے لئے کیا تھا.خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف تو نہیں اپنے آپ کو سونے سے ڈھانک سکتے تھے.مرد کے لئے سونا پہننا منع ہے.۱۹۷۰ء میں میں نے افریقہ کا دورہ کیا.تو بعض پیرا ماؤنٹ چیف ملے.ان کے کلائی سے لے کے باز و تک موٹے موٹے سونے کے کڑے پہنے ہوئے.اسی طرح لاتوں میں انہوں نے

Page 840

خطبات ناصر جلد دہم ΔΙ خطبہ نکاح ۳۰ دسمبر ۱۹۷۹ء بڑے بڑے کڑے پہنے ہوئے.مسلمان نے وہاں اس طرح تو نہیں کرنا تھا.انہوں نے کہا خدا کے گھر کو خدا کے سونے اور چاندی ( چاندی اتنی زیادہ استعمال نہیں کی کم قیمتی دھات ہے ) ہیرے اور جواہرات سے اس طرح لپائی کر دو جس طرح اب گارے سے دیواروں کی لپائی کرتے ہیں.پھر جب وہ نسلیں پیدا ہوئیں جنہوں نے خدا کو یاد نہیں رکھا اور وہ خدا پر توکل اور بھروسہ کرنا بھول گئے اور ابتلا کا زمانہ آیا اور انہیں شکست ہوئی بجائے فتح کے تو عیسائیوں نے جو وہاں لوٹا وہ بہت کچھ تو گیا اس وقت کے عیسائی بادشاہوں کے خزانوں میں.کچھ حصہ ملا پادریوں کو بھی ، چرچ کو بھی اور وہ بھی پھر پھیل گیا.اسی دورے میں اتفاقاً ہمارا منصوبہ کوئی نہیں تھا ہم قرطبہ میں اس وقت پہنچے جب قرطبہ کی مسجد سے مسلمانوں سے اس جگہ کے یا اس مسجد سے جو لوٹا ہوا سونا اور ہیرے اور جواہرات تھے، بہت بڑے تابوت کے اندر رکھا ہوا ہے انہوں نے مسجد کے اندر ہی ایک چھوٹا سا گر جا بنا کے وہاں سے باہر نکال رہے تھے.ہر سال ان کا میلہ ہوتا ہے.تو ایک پروفیسر دیکھ کے آگئے.کہتے آپ کو زبان نہیں آتی میں سارا آپ کو بتا تا ہوں میں نے کہا آپ کا بہت شکریہ.مجھے کہنے لگا کہ اس تابوت میں ایک ٹن ہیرے اور جواہرات مسلمانوں سے لوٹے ہوئے ہیں موجود.وہ ایک ٹن ہیرے اور جواہرات مسجد کی دیواروں سے ہی کھرچے تھے انہوں نے.میں اپنی سوچ میں پڑ گیا اور اس سوچ کا خلاصہ یہ تھا میں نے اپنے ساتھی سے کہا.تلوار پکڑ کر مسجد کے اندر داخل ہوئے تھے اور ہیرے اور جواہرات سے لدے ہوئے مسجد سے باہر نکل آئے.تو بڑا د یا مسلمانوں کو.ساری دنیا کی دولتیں ان کے قدموں میں ڈالیں لیکن ان کو یہ سبق یاد تھا کہ ہم نے خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا ہے اسی پر توکل کرنا ہے، غیر اللہ کی طرف توجہ نہیں کرنی ، منہ نہیں پھیر نا.ایک ذرہ ، ایک رتی برابر بھی ہمارے دلوں میں شرک نہیں آئے گا.سپین ہی ایک مثال ہے پہلے بھی کئی دفعہ میں نے دی ہے.ہمارے بہت بڑے مقبول اور امیر بادشاہ وہاں گزرے ہیں عبد الرحمان.( دو تین بادشاہ ہیں عبد الرحمان کے نام سے ) جنہوں نے غرناطہ میں الحمراء بنایا.وہ بڑا ہی خوبصورت اور باغ.خدا تعالیٰ نے ان ساری چیزں کو

Page 841

خطبات ناصر جلد دہم ۸۱۷ خطبہ نکاح ۳۰ دسمبر ۱۹۷۹ء جو آیات کہا ہے قرآن کریم میں.پھول اور درخت اور سبزہ ، عجیب چیز ہے.کئی ہزار صرف سنگ تراش وہاں کام کر رہا تھا اور جس وقت انجینئر نے آکر یہ کہا بادشاہ سلامت محل تیار ہو گیا اب آپ رہائش کے لئے آئیں اپنا وقت مقرر کیا.دن مقرر کیا.چلے گھوڑوں پر سوار.پوری شان کے ساتھ روانہ ہوئے.وہ بہت بڑا علاقہ ہے جس کی فصیل ہے اور اس کے اندر یہ حمل ہے جس کے اندر باغات بھی ہیں اور جنگل بھی ہے.بہت بڑا علاقہ انہوں نے لیا ہوا ہے پہاڑ کی چوٹی پر.عین جب وہ باہر کی فصیل کے دروازے کے قریب پہنچے ، اس وقت شیطان نے ان پر حملہ کیا اس بادشاہ کے دل اور دماغ پر اور انانیت جو تھی وہ جوش میں آئی اور یہ خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے دماغ میں.میں اتنا بڑا بادشاہ ہزار ہا سنگ تراش میرے پاس آئے.دنیا جہان کے جو چوٹی کے ماہر تھے سنگ تراشی میں وہ وہاں پہنچے.انہوں نے یہ پتھر تراشے اس محل کے لئے اور یہ ہوا اور وہ ہوا وہ اپنی انانیت میں اور اتنی دولت خدا نے مجھے دی اور اتنے اچھے انجینئر دیئے اور اس کی خوبصورتی کے لئے اتنا سونا دیا اور ہیرے اور جواہرات دیئے.سارے وہ.آنا.آنا اتنا جوش کہ خدا ہی بھول گئے؟ تب خدا تعالیٰ نے ان کی نیکیوں کی وجہ سے ان کو شیطانی حملہ سے بچانے کے لئے فرشتوں سے کہا سنبھالو میرے بندہ کو اور ان کے دل پر قبضہ کیا فرشتوں نے کہا آنا آنا کیا.سب کچھ تو خدا کا ہے اور ان کے جرنیل اپنی شان و شوکت سے اس محل میں رہنے کے لئے جارہے تھے.انہوں نے دیکھا کہ بادشاہ سلامت نے چھلانگ لگائی گھوڑے سے اور اس نے زمین کے اوپر سجدہ کر دیا اور انجینئر سے کہنے لگے واپس چلو.ابھی یہ حمل ایک مسلمان بادشاہ کے رہنے کے قابل نہیں.اس کی ساری جو خوبصورتی ڈیکوریشن ہوئی ہے اس کو بدلو اور Motive جسے انگریزی میں کہتے ہیں یعنی بنیاد اس کی رکھو.اللہ اور اس کی ذات پر اور فقرہ انہوں نے چنالًا غَالِبَ إِلَّا اللهُ.وہ تو کہتا تھا نا میں ہی میں غالب ہوں.تو لَا غَالِبَ إِلَّا اللهُ یہ ہے کمرے کی ہر دیوار کے اوپر لا غَالِبَ إِلَّا اللهُ لا غَالِبَ إِلَّا الله اس طرح چلا ہے اور لَا غَالِبَ إِلَّا الله کو انہوں نے سونے سے بھر دیا جو حروف تھے.خدا کے حضور وہ سونا پیش کر دیا.جو چھوٹے چھوٹے بنائے قطعے لا غَالِبَ إِلَّا الله کے ان کو ہیرے جواہرات سے بھراد یا اور جس وقت لا غَالِبَ إِلَّا اللهُ

Page 842

خطبات ناصر جلد دہم ΔΙΑ خطبہ نکاح ۳۰/دسمبر ۱۹۷۹ء اور اللہ کا نام ہر جگہ کندہ ہو گیا پھر انجینئر نے آکے کہا اب آپ کے رہنے کا بن گیا.پھر انہوں نے رہائش اختیار کی.تو جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا اور توکل کرتا اور خدا کے سوا کسی اور کو کوئی چیز سمجھتا ہی نہیں.لاشے محض اور اپنے آپ کو بھی ایک مرے ہوئے مچھر کی طرح سمجھتا ہے کیونکہ جو چیز فی نفسم اس کے اپنی وجہ سے نہیں اس کو ملی بلکہ خدا کے فضل اور رحمت سے ملی ہے اس کے اوپر اس کو کیا فخر.جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ ہر ایسے موقع کے اوپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہا کرتے تھے خدا نے یہ مجھے دیا.خدا نے یہ مجھے دیا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا و کس انسان کو دیا.کس ماں نے وہ بچہ جنا ہے جس نے وہ پایا جو محمد نے اپنے خدا سے پایا.صلی اللہ علیہ وسلم.لیکن کہتے تھے لا فَخْر - ہر بات کے بعد لَا فَخْرَ- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو جسم کا ذرہ ذرہ.رونگٹا رونگٹا اور روح کا ہر پہلو جو تھا اس سے یہی آواز نکل رہی تھی خدا کے حضور میرا تو کچھ نہیں سب تیرا ہے.اونچی جولا فخر کہتے تھے یہ مجھے اور تمہیں سمجھانے کے لئے کہتے تھے.سبق دینے کے لئے کہتے تھے کہ میری اتباع اس طرح کرو.آج میں اپنے خاندان کے عزیزوں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل کے بچوں کے دونکاح پڑھانے لگا ہوں.تین کا تو ہمارے ( چار بن گئے دو بہنیں اور دو ان کے میاں ) ان میں سے ایک باہر کے ہیں اور تین ( دو بچیاں اور ایک بچہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل سے.ان کو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تم تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی.دُوری ہے زمانہ کے لحاظ سے کوئی شک نہیں.نسل کے لحاظ سے بھی تیسری نسل آگئی.مگر جو وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسل کے لئے بھی دیئے ، جماعت کے لئے بھی دیئے بڑے وعدے.لیکن بہت سے وعدے نسل کے لئے بھی دیئے.اس میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا کہ تیسری نسل کے حق میں میرے یہ وعدے پورے نہیں ہوں گے.تمہارے حق میں بھی ہیں وہ وعدے اور وہ پورے ہو سکتے ہیں بشرطیکہ تم وہ شرائط پوری کرو جوان وعدوں کا وارث بننے کے لئے اللہ تعالیٰ نے رکھیں.خدا کے بندے بنو.خدا پر کامل تو گل رکھو،

Page 843

خطبات ناصر جلد دہم ۸۱۹ خطبہ نکاح ۳۰ دسمبر ۱۹۷۹ء کسی اور چیز پر بھروسہ نہ رکھو.انسانوں کے لئے نمونہ بنو.جماعت کے ہر فرد کے لئے ایک نمونہ بنو.پھر خدا سے وہ سب کچھ پا لوجس کا وعدہ دیا گیا تھا.اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی توفیق عطا کرے.عزیزہ بچی مکرمه شوکت جہاں صاحبہ بنت مکرم محترم مرزا طاہر احمد صاحب ربوہ کا نکاح دس ہزار روپے مہر پر عزیزم مکرم مرزا اسفیر احمد صاحب ابن مکرم محترم مرزا منیر احمد صاحب ساکن جہلم سے دس ہزار روپے مہر پر قرار پایا ہے.عزیزہ بچی مکرمه امۃ الناصر صاحبہ بنت مکرم محترم نواب مسعود احمد خاں صاحب ربوہ کا نکاح میں ہزار روپے مہر پر عزیزم مکرم ظہیر احمد خاں صاحب ابن مکرم محترم نصیر احمد خاں صاحب ساکن ربوہ سے قرار پایا ہے.سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا کرائی.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بابرکت ہونے کے لئے حاضرین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 844

Page 845

خطبات ناصر جلد دہم ۸۲۱ خطبہ نکاح ۹ / مارچ ۱۹۸۰ء اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جو خوشی کے سامان پیدا کئے ان کی بنیاد اس پر ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو خطبہ نکاح فرموده ۹ / مارچ ۱۹۸۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عشاء محترمہ صاحبزادی امتہ المعز بنت مکرم کرنل (ریٹائرڈ) صاحبزادہ مرزا داؤ داحمد صاحب ربوہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح ساٹھ ہزار روپے حق مہر پر محترم منظور الرحمن صاحب ابن مکرم لطف الرحمن صاحب ساکن لاہور سے قرار پایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَأَنَّهُ هُوَ اضْحَكَ وَابْكَى وَأَنَّهُ هُوَ امَاتَ وَاحْيَا (النجم : ۴۵،۴۴) اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انسان کے لئے مسرت اور خوشی کے سامان پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انسان کو آزمائش میں ڈالتا اور دکھ اور ابتلا میں اس کا امتحان لیتا ہے.فرمایا آمَاتَ وَاحْيَا.اللہ ہی ہے جو موت کے سامان پیدا کرتا ہے اور اللہ ہی ہے جو زندہ رکھتا ہے.انسان کو زندگی بخشتا اور اس کے زندہ رہنے کے سامان پیدا کرتا ہے.یہ سب چیزیں انسانی زندگی کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جو خوشی اور مسرت کے سامان پیدا کئے ان کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو.اس لئے

Page 846

خطبات ناصر جلد دہم ۸۲۲ خطبہ نکاح ۹ / مارچ ۱۹۸۰ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے غلبہ اسلام کے دن آگئے تم خوش ہو کہ تو حید حقیقی دنیا میں قائم ہوگی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سینوں کو معمور کیا جائے گا.غلبہ اسلام کی مہم بڑی عظیم الشان مہم ہے.اس کا تعلق نسلاً بعد نسل بہت سی نسلوں سے ہے اور انسانی نوع میں نسل چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو جائز طریق بتایا ہے وہ نکاح کا ہے اور آج میں اس وقت ایک نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان ہر دو خاندانوں اور جماعت کے ہر فرد کی حقیقی خوشیاں تبھی ہوں گی جب اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ہمیں جو تعلیم دی ہے ہم اس کے مطابق زندگیاں گزارنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے تعلقات کے متعلق جو احکام دیئے ہیں.وہ صرف ان کی بہتری اور خوشحالی کے لئے نہیں دیئے بلکہ ان کے ذریعہ ایک ایسا ماحول پیدا کرنا مقصود ہے جس کے نتیجہ میں اسلامی اخوت پیدا ہو.بچے جو گھروں میں پرورش پانے والے ہوں ان کی تربیت ایسے رنگ میں کی جائے کہ وہ خدا کی وفا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے لئے خوشیاں دیکھیں اور پائیں.جو قو میں یا جو خاندان یا میاں بیوی اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں وہ حقیقی خوشیاں نہیں پا سکتے.خدا کرے کہ ہمارے گھر حقیقی خوشی کی فضا سے معمور ہو جائیں.اس وقت جو نیا خاندان اس نکاح کے اعلان کے ساتھ بننے والا ہے.دو خاندان ایک میاں کا اور ایک بیوی کا ہوتا ہے.ان میں شادی بیاہ کی صورت میں اسلامی تعلیم کے مطابق ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے.دعا ہے اللہ تعالیٰ اسے اپنے ماحول کو خوشگوار بنانے کی توفیق عطا کرے اور انہیں اپنی رحمتوں سے نوازے.آمین ایجاب وقبول کے بعد اس رشتے کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حضور انور نے حاضرین سمیت دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 847

خطبات ناصر جلد دہم ۸۲۳ خطبہ نکاح ۴ / نومبر ۱۹۸۰ء اس صدی ہجری میں غالباً یہ آخری نکاح ہے حضرت مسیح موعود کے خاندان سے تعلق رکھنے والا خطبہ نکاح فرموده ۴ / نومبر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت مکرم دبیر احمد صاحب ابن مکرم محترم پیر ضیاء الدین صاحب ساکن اسلام آباد کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں وہ جس لڑکی اور جس لڑکے کے درمیان طے پایا ہے لڑکی کا تعلق دو طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہے.لڑکی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی ہے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پڑپوتی اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کی نواسی اور اس رشتہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پڑ نواسی ہے اور جو دولہا بننے والے ہیں ان کا تعلق ہمارے بزرگ صحابی ایک بزرگ اور جاں نثار مخلص احمدی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے.ان کے یہ بچے نواسے ہیں.اس یا ان رشتوں کے بیان کے بعد اب میں یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ اس صدی ہجری میں غالباً یہ آخری نکاح ہے جس کا میں اعلان کر رہا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 848

خطبات ناصر جلد دہم ۸۲۴ خطبہ نکاح ۴ /نومبر ۱۹۸۰ء کے خاندان سے تعلق رکھنے والا.جب ہم پچھلے زمانہ کے متعلق سوچتے ہیں تو پہلی صدی میں ، پہلی صدی ہجری میں جو ہمارے بزرگ گزرے ان کی یاد میں بڑے پیار کی یادیں، بڑے سرور کی یادیں ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صدی وہ پہلی صدی ہجری آنے والی نسلیں یہ جو گزرنے والی صدی ہے اس میں رہنے والے احمدیوں کو بھی بڑے پیار سے یاد کریں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد یہ پہلی صدی ہجری ہے جو اب ختم ہو رہی ہے.ہوسکتا ہے پہلی صدی ہجری میں بھی بعض مسلمان کچھ کمزور ہو گئے ہوں لیکن وہ زمانہ، اس زمانہ میں زندگی گزارنے والے امت مسلمہ کے لئے ایک نمونہ بنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر.آنے والی نسلیں آپ کو نمونہ سمجھیں گی.اس لئے آپ کو نمونہ بننا چاہیے.جو اس زمانہ میں رہنے والے ہیں ان پر بڑی ذمے داریاں ہیں.ذمے وار یاں مختلف پہلوؤں سے پڑتی ہیں.آپ پر ذمے واری اپنے نفس کی ہے کہ خدا تعالیٰ کو ناراض کر کے اس کے غضب کی آگ میں نہ جلیں.خدا تعالیٰ کو خوش کرنے میں کامیاب ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہونے والے ہوں.آپ پر ذمے داری آپ کے خاندانوں کی ہے، آپ کے ماحول کی ہے، آپ کے زمانہ کی ہے.بنی نوع انسان جو اس زمانہ میں بسنے والے ہیں ان کی ہے اور جو احمدی کہلاتے ہیں اس صدی کے ان پر ذمے واری اس بات کی بھی ہے کہ اگلی صدی ، اس کے بعد کی صدی صدیوں تک پیچھے دیکھ کر نمونہ تلاش کرنے والے آپ کے نمونہ میں سے گزرنے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صدی کا نمونہ ڈھونڈیں گے اور وہاں تلاش کریں گے.جائیں گے وہیں، وہی آخری ہمارا مقام ہے.اس لئے دوست دعا کریں کہ جو نوجوان رشتہ ازدواج میں منسلک ہو رہے ہیں اس زمانہ میں.جن کے بچے، جن کی اولا د جب ہوش سنبھالے گی تو اگلی صدی کا ایک حصہ گزر چکا ہوگا.وہ اگلی صدی سے تعلق رکھیں گے اور اگلی صدی میں ، اگلی صدی میں جو لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہوں گے اور جماعت احمدیہ کی کوششوں کے نتیجہ میں اسلام کو قبول کریں گے وہ ان خاندانوں میں اپنے لئے نمونہ تلاش کریں گے.اگر آپ ان کی گمراہی کا سبب بن جائیں تو بڑی بد قسمتی ہے آپ کی کہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے

Page 849

خطبات ناصر جلد دہم ۸۲۵ خطبہ نکاح ۴ / نومبر ۱۹۸۰ء حصول کی بجائے خدا تعالیٰ کی ناراضگیاں آپ مول لینے والے بن جائیں.اس واسطے ہم جو بڑے ہیں ہمارا کام ہے کہ ہم تربیت بھی کریں اور دعائیں بھی بہت کریں کہ یہ چھوٹی نسل ، یہ جوان نسل، یہ بچ نسل جو اگلی صدی میں داخل ہو رہی ہے جنہوں نے ایک لمبی عمر اگلی صدی میں بھی پانی ہے.وہ نمونہ بنیں آنے والوں کے لئے اور ہدایت کا موجب بننے والے ہوں آنے والوں کے لئے.اس کے بعد، اس دعا کے بعد جو بنیادی دعا ہے میں اب اس نکاح کا اعلان کرتا ہوں.عزیزہ مکرمہ شاہدہ شیبا بنت عزیزم مکرم مرزا مبشر احمد صاحب کا نکاح عزیزم مکرم دبیر احمد صاحب ابن عزیزم مکرم پیر ضیاء الدین صاحب ساکن اسلام آباد سے دس ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے اجتماعی دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 850

Page 851

خطبات ناصر جلد دہم ۸۲۷ خطبہ نکاح ۹ نومبر ۱۹۸۰ء پندرھویں صدی ہجری کے آغاز پر خاندان حضرت اقدس کے تین نکاحوں کا اعلان خطبہ نکاح فرموده ۹ / نومبر ۱۹۸۰ء بمقام مسجد مبارک ربوه پندرھویں صدی ہجری کے آغاز پر حضور انور نے بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں خاندان حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ میں تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.اس نہایت ہی بابرکت تقریب کے موقع پر حضور انور نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.چودھویں صدی کی تمام برکتوں کو اپنے دامن میں سمیٹے پندرھویں صدی میں داخل ہونا آپ سب کو مبارک ہو.ساری دنیا کے لئے ہی یہ صدی خدا کے فضل سے مبارک ہے.ساری دنیا کے لئے ہی یہ صدی مبارک ہو.آمین.پہلی خوشی فوراً ہی جو ہمیں مل رہی ہے وہ حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خاندان میں تین نکاحوں کا اعلان ہے.اس صدی میں جو تعلقات قائم ہوں ، ہوں گے انشاء اللہ اور جو نسلیں چلیں گی بنیادی طور پر ان کی کیفیت اس سے مختلف ہوگی جو چودھویں صدی کی اسی قسم کے تعلقات اور نسلوں کی کیفیت ہے.چودھویں صدی بنیادوں کے استوار کرنے کی صدی تھی.ایک ایسے قلعہ کی جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں نوع انسانی کی بڑی

Page 852

خطبات ناصر جلد دہم ۸۲۸ خطبہ نکاح ۹ نومبر ۱۹۸۰ء بھاری اکثریت نے پناہ لینی تھی اور اس صدی نے ان بنیادوں پر اس قلعہ کو تعمیر کرنا ہے اللہ کے فضل سے انشاء اللہ.ہم بھی اس قلعہ کی تعمیر میں مزدور کا کام کرتے ہیں اور کریں گے انشاء اللہ.اور خدا آنے والی نسلوں کو بھی یہ توفیق دے کہ وہ اس بات پر فخر کریں کہ خدا تعالیٰ کے قلعہ کے مزدور بنیں.دُنیا کی بادشاہتیں ان کی نظر میں کوئی حیثیت نہ رکھتی ہوں.اس وقت جو نکاح ہیں جن کا میں اعلان کروں گا ان کے لئے آپ دُعا بھی بہت کریں دوشادیاں ایسی ہیں جن کا تعلق ہر دو طرف سے حضرت مصلح موعود کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند کرے اور زمین کی جو خوشیاں روحانی اور دینی اور اخلاقی ہمیں پہنچ رہی ہیں ان میں بہتر رنگ میں اچھے طریق پر اللہ تعالیٰ جانے والوں کو بھی شامل کرے.آمین.ا.عزیزہ مکرمہ امتہ الکبیر کمیٹی صاحبہ بنت مکرم محترم بریگیڈئیر محمد وقیع الزماں خاں صاحب ساکن لاہور چھاؤنی کا نکاح عزیزم مکرم سید قمر سلیمان احمد صاحب ابن مکرم سید میر داؤ د احمد صاحب مرحوم ساکن ربوہ سے ہیں ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.کیٹی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی نواسی ہیں اور سید قمر سلیمان حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا کے بھائی کی اولاد میں سے ہیں.اللہ تعالیٰ اس رشتے کو دیگر رشتوں کی طرح بہت مبارک کرے.لڑکی کے ولی ان کے والد مکرم بر یگیڈ ئیرمحمد وقیع الزماں خاں صاحب یہاں موجود ہیں.سید قمر سلیمان احمد صاحب کی طرف سے ایک لحاظ سے میں ولی بھی ہوں اور ان کا وکیل بھی ہوں.انھوں نے تحریراً مجھے خط لکھا تھا کہ آپ میری طرف سے نکاح کر دیں.قصہ یہ ہے کہ بہت اچھا بچہ ہے.میں نے لنڈن سے ان کو خط لکھا کہ میرے ذہن میں ایک رشتہ ہے آپ کے لئے.یہ نہیں بتایا کہ کون سا تو کیا اس بات پر راضی ہو کہ جس لڑکی سے میں چاہوں تمہارا رشتہ کر دوں؟ ان کا خط آگیا کہ ہاں ! جہاں چاہیں کر دیں.اس کے بعد ہمارا دورہ نائیجیر یا اور غانا کا ہوا.نائیجیریا میں یہ خود کام کر رہے ہیں جماعت کے سکولوں میں اور وہاں اس سے پھر میں نے بات کی.میں نے یہ رشتہ بتایا اور کہا کہ یہ رشتہ ہے میرے ذہن میں.انھوں نے کہا ٹھیک ہے اور پھر میرے ساتھ ہی رہے غانا میں بھی آگئے تھے.پھر میں نے یہاں آ کے اپنی ہمشیرہ

Page 853

خطبات ناصر جلد دہم ۸۲۹ خطبہ نکاح ۹ /نومبر ۱۹۸۰ء امتہ الباسط سے پوچھا انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ نے جو کیا وہ ٹھیک کیا.پھر دونوں سے تحریر لی.ان کی جو پہلی تحریر تھی ان کے نیچے ان کی والدہ کی تحریر لکھوائی میں نے کہ اللہ تعالی اس رشتہ کو مبارک کرے اور اسی خط پر میں نے پیغام بھجوا دیا اپنی طرف سے یعنی ایک ہی خط میں تین خط چلے گئے.یہ اس واسطے بتا رہا ہوں کہ ان معاملوں میں احتیاط بھی برتنی چاہیے.ہر شخص کا ہر حصے دار کا خیال بھی رکھنا چاہیے.تو مجھے بطور ولی اور وکیل ہیں ہزار روپیہ مہر پر عزیز بچے سید قمر سلیمان احمد صاحب کا نکاح ( میں ہزار میں کہہ چکا ہوں ) مکرمہ امۃ الکبیر صاحبہ بنت مکرم بر یگیڈ ئیر محمد وقیع الزماں خاں صاحب سے منظور ہے.آپ گواہ رہیں.۲.دوسرا نکاح ہے عزیزہ مکرمہ امتہ الواسع ندرت صاحبہ بنت مکرم سید میر داؤ د احمد صاحب ساکن ربوہ کا عزیزم مکرم مرزا مظفر احمد صاحب ابن مکرم محترم مرزا منور احمد صاحب ساکن ربوہ سے دس ہزار روپیہ مہر پر لڑ کی کی طرف سے میں وکیل بھی ہوں.اس واسطے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ مجھے اور ندرت کو اور ان کی والدہ امتہ الباسط صاحبہ کو یہ نکاح دس ہزار روپیہ مہر پر عزیزم مکرم مرزا مظفر احمد صاحب سے منظور ہے.۳.عزیزہ مکرمہ فائزہ طاہر صاحبہ بنت مکرم محترم مرزا طاہر احمد صاحب ربوہ کا نکاح عزیزم مکرم مرز القمان احمد صاحب جو میرے بچے ہیں ان سے نو ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوست دُعا کر لیں.اللہ تعالیٰ رشتوں کو مبارک کرے.پھر حضور انور نے حاضرین سمیت ہاتھ اُٹھا کر دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ جنوری ۱۹۸۱ ء صفحه ۲)

Page 854

Page 855

خطبات ناصر جلد دہم ۸۳۱ خطبہ نکاح ۲۹ / مارچ ۱۹۸۱ء پہلے دین کے لئے پھر دُنیا کے لئے دُعائیں کریں خطبه نکاح فرمود ه ۲۹ / مارچ ۱۹۸۱ء بمقام مسجد مبارک ربوه مورخه ۲۹ / مارچ ۱۹۸۱ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں حضور انور نے خاندان حضرت اقدس کے ایک نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس بچی کے نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں وہ حضرت لے کی صاحبزادی کی نواسی اور حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی نواسی ہے.ہمارے خاندان کی ایک ہی درخواست ہوتی ہے جماعت احمدیہ کے دوستوں سے اور وہ یہ کہ ہمارے لئے دُعا کیا کریں.حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنی دُعاؤں میں جو بہت سے بنیادی اشارے کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ پہلے دین کے لئے دُعا کریں پھر دنیا کے لئے دُعا کریں تو میں بھی اور آپ بھی دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دین و دنیا کی خیر اس نئے جوڑے کے لئے بھی میتر کرے اور اپنی رحمتوں سے انہیں نوازے.آمین عزیزہ مکرمہ امتہ المی احمد صاحبہ بنت مکرم محترم میاں عبد الرحیم احمد صاحب ربوہ کا نکاح اے مراد حضرت مولانا نورالدین خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ ہیں.( ناشر )

Page 856

خطبات ناصر جلد دہم ۸۳۲ خطبہ نکاح ۲۹/ مارچ ۱۹۸۱ء عزیزم مکرم ڈاکٹر خالد احمد صاحب عطا ابن مکرم محترم ملک غلام احمد صاحب عطا کے ساتھ اکیس ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے فرمایا :.دوست دُعا کر لیں اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو مبارک کرے.اس کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت دُعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوه ۵ رمئی ۱۹۸۱ ء صفحه ۲)

Page 857

خطبات ناصر جلد دہم ۸۳۳ خطبہ نکاح ۸ راگست ۱۹۸۱ء ازدواجی رشتہ نازک بھی ہے اور اہم بھی ہے اور ضروری بھی ہے خطبہ نکاح فرموده ۸ /اگست ۱۹۸۱ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق رکھنے والے ایک نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ازدواجی رشتہ نازک بھی ہے اور اہم بھی ہے اور ضروری بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بہت ساری نعمتوں کے حصول کا ذریعہ بھی ہے.اس لئے ایسے وقت جس وقت ایسے رشتے کا اعلان ہو بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور جس نکاح کا میں اعلان کر رہا ہوں ، دولہا اور دلہن اور ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے اور اپنی ذمہ داریاں جو دوسروں سے بڑھ کے ہیں وہ نباہنے کی توفیق دے.آمین یہ رشتہ طے پایا ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک نواسی اور ایک نواسے کے درمیان یعنی ہر دو کی مائیں میری ہمشیرہ ہیں.تو بہت سی دعائیں نکل رہی ہیں دل سے.آپ بھی میرے ساتھ شریک ہوں ان دعاؤں میں اور برکتوں کو اپنے رب کریم سے مانگیں ان کے لئے بھی اور اپنے لئے بھی.

Page 858

خطبات ناصر جلد دہم ۸۳۴ خطبہ نکاح ۸ /اگست ۱۹۸۱ء عزیزہ مکرمہ امتہ الغفور صاحبہ جو مکرم محترم پیر معین الدین صاحب ساکن ربوہ کی صاحبزادی ہیں کا نکاح عزیزم مکرم سید قاسم احمد صاحب ابن مکرم محترم سید داؤ دمظفر شاہ صاحب ربوہ کے ساتھ قرار پایا ہے.امتہ الغفور صاحبہ عزیزہ جو ہیں وہ امتہ النصیر میری ایک بہن ہیں ان کی صاحبزادی ہیں اور سید قاسم احمد صاحب ایک میری دوسری ہمشیرہ ہیں امتہ الحکیم، ان کے صاحبزادے ہیں اور یہ رشتہ طے پایا ہے میں ہزار روپیہ مہر پر.سید قاسم احمد اس وقت جو ٹیچر وقف کرتے ہیں عارضی ہی یہ وقف ہے، وقف بھی ہے یعنی تین سال کا یا چھ سال کا، جتنی مدت چاہیں وہ کم از کم تین سال، اس مدت کے لئے وہ بطور واقف ٹیچر ، استاد کے نائیجیریا میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے سکولوں میں خدمت بجالا رہے ہیں اور اس لئے وہ یہاں اس وقت موجود نہیں.انہوں نے ، جو مجھے اطلاع ملی ہے، فارم ان کو بھجوایا گیا تھا اس کے او پر دستخط کر کے بھجوائے ہیں.( حضور نے مکرم محترم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب سے دریافت فرمایا کہ دستخط کر کے بھجوائے ہیں نا؟) تو انہوں نے اپنے دستخطوں کے ذریعے تصدیق کی ہے اس رشتہ کی اور اپنی طرف سے اپنے والد مکرم محترم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب کو بطور وکیل کے مقرر کیا ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 859

خطبات ناصر جلد دہم ۸۳۵ خطبہ نکاح ۵ /اکتوبر ۱۹۸۱ء نکاح کے ساتھ لڑکے اور لڑکی پر بعض نئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں خطبہ نکاح فرموده ۱/۵ کتوبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر محترم نواب عباس احمد خان صاحب کی صاحبزادی محترمہ منصوره باسمه صاحبہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس وقت میں ایک نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں.نکاح کے ساتھ لڑکی اور لڑ کے پر ایسی نئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو اس سے قبل ان پر عائد نہیں تھیں.ہر شخص جو پیدا ہوتا ہے اور سن بلوغ کو پہنچتا ہے وہ بہت سی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہوتا ہے.اس کے تعلقات اپنے گھر کے اندر ماں باپ سے، بھائی بہنوں سے اور خاندان کے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس کے تعلقات خاندان سے باہر اپنے ہمسایوں سے جو اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ ، اپنے بزرگوں کے دوستوں اور تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ذمہ داریاں ہیں جو ادا کرنی پڑتی ہیں لیکن نکاح سے قبل نہ لڑکی پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے خاوند کو سنبھالے.نہ خاوند پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کسی گھر کی بچی کو وہ سنبھالے.یہ نئی ذمہ داریاں پھر آگے دوشاخوں میں بٹ جاتی ہیں.ایک تو میاں بیوی کی باہمی ذمہ داریاں ہیں یعنی خاوند کی بیوی پر

Page 860

خطبات ناصر جلد دہم ۸۳۶ خطبہ نکاح ۱/۵ کتوبر ۱۹۸۱ء اور بیوی کی خاوند پر.اور دوسرے دونوں نے مل کر کچھ ذمہ داریاں نباہنی ہوتی ہیں جن کا تعلق ان کی اولاد سے ہوتا ہے.جہاں تک اولاد سے تعلق ہے کچھ ذمہ داریاں بٹی ہوتی ہیں.ماں بچے کو دودھ پلاتی ہے.باپ نہیں پلاتا.باپ گھر سے باہر بچے کا خیال رکھتا ہے کہ اس میں آوارگی نہ پیدا ہو.عورت کی ذمہ داری گھر کی حدود کے اندر سے تعلق رکھتی ہے.بہر حال بہت سی قسم کی نئی ذمہ داریاں پیدا ہو جاتی ہیں جو آیات ہم اس موقع پر پڑھتے ہیں اس قسم کی نئی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک تو ضروری ہے کہ يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ (النساء: ۲).یہاں آیت میں اِتَّقُوا اللہ بھی ہے اور بہت سے Context میں تقویٰ کا ذکر ہے لیکن اس آیت میں جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے رب کا تقویٰ.اور یہ رب کا تقویٰ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ربوبیت کرنے والا ہے.تم دونوں کی ربوبیت کرنے والا ہے.اسی طرح تم پر بھی ربوبیت کی ذمہ داریاں کچھ نئی پڑنے والی ہیں اور اسی صورت میں تم ادا کر سکو گے جب تم حقیقی رب ، اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو گے.دوسرے یہ کہ یہ رشتہ بڑا نازک ہوتا ہے اور بہت سی غلط فہمیاں، بے احتیاطیوں کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتی ہیں اور اس کے بچاؤ کے لئے ہمیں حکم دیا گیا قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الاحزاب : ۷۱) کہ محض سچ سے یہاں کام نہیں بنے گا بلکہ ایسے بول جن میں کسی قسم کی کبھی نہیں ہوگی ، سیدھے ہوں گے.اس راہ کو اگر تم اختیار کرو گے تو تمہارے درمیان کوئی Misunderstanding کوئی رنجش پیدا نہیں ہوگی.اور تیسرے یہ کہ وَ لتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ( الحشر : ۱۹) تمہارے بڑوں نے مستقبل کا خیال رکھتے ہوئے تمہاری تربیت کی اور تم نے اپنے مستقبل کا خیال رکھتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے.یہ جو مستقبل ہے جس کا تعلق اس تربیت سے ہے جو ماں باپ اپنے بچوں کی کرتے ہیں یہ ہر نسل کا علیحدہ مستقبل ہے.یہ ایک ہی قسم کا مستقبل نہیں.اس واسطے کہ دنیا اور دنیا کا معاشرہ حرکت میں ہے.جو ہمارے بڑوں کی ذمہ داریاں تھیں ہماری تربیت کے لحاظ سے، وہ کچھ اور تھیں.جو ہماری ذمہ داریاں تھیں اپنے بچوں کی تربیت کے لحاظ سے، کہ تا کہ

Page 861

خطبات ناصر جلد دہم ۸۳۷ خطبہ نکاح ۵ /اکتوبر ۱۹۸۱ء مستقبل کی ذمہ داریوں کو وہ نباہ سکیں وہ کچھ اور تھیں اور اب زمانہ بدل کے کچھ کا کچھ بن گیا.وہ انقلاب عظیم جس کی ہمیں بشارت دی گئی تھی اس کے آثار افق پر ہمیں نظر آرہے ہیں.اس لئے آج باپ کی ذمہ داری مختلف ہے.اس ذمہ داری سے جو ہماری ذمہ داری تھی بلکہ زیادہ احتیاط کے ساتھ.زیادہ وسعتوں والی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کی ذمہ داری اٹھانی ہے تا کہ احمدیت کی تربیت کا، وہ تربیت جس کا تعلق ساری دنیا کے ساتھ ہے بوجھ پڑے آنے والی نسل پر، تو ہر آنے والی نسل اس کو اٹھانے کے لئے تیار ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں ان چیزوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.آمین جس نکاح کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں وہ قرار پایا ہے ہماری ایک عزیزہ بچی ہیں.منصورہ باسمہ ان کا نام ہے.ان کے والد کا نام ہے عباس احمد خان.یہ ہمارے چھوٹے پھوپھا جان نواب عبد اللہ خان صاحب کی پوتی ہیں.ہماری پھوپھی نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ (سلمها اللہ تعالیٰ) کی یہ پوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چوتھی نسل شروع ہوگئی عزیزہ منصورہ باسمہ سے اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی یہ نواسی ہیں.اس دوسرے رستے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کا تعلق ہے.ذمہ واریاں دُہری ہیں.انداز بھی دُہرا ہے ہمارے لئے بشارت بھی دُہری خاندان کے بچوں اور بڑوں کو سمجھنا چاہیے.ان کا نکاح پچاس ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب کے صاحبزادے مکرم حمید الدین صاحب کے ساتھ.ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ساہیوال کے رہنے والے ہیں.وہاں کے امیر بھی رہے ہیں کبھی.لیکن جو ایک ہی خوبی مجھے دیکھنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں تک ظاہر کے حالات ہیں ایک مخلص احمدی ہیں.ان کا بچہ بھی پیارا ہے مخلص ہے.یہ کسی زمانے میں امریکہ میں بھی رہے جب میں گیا تھا وہاں تو میرے ساتھ بھی پھرتے رہے.سلجھی ہوئی طبیعت کے ہیں.ہر دو کی ذمہ داریاں ہیں.جو خاوند ہے اس کی رجُل ہونے کے لحاظ سے اپنی ذمہ داریاں نباہنا نمبر ایک.اور قوامُونَ عَلَى النِّسَاء ( النساء: ۳۵) کی حیثیت سے یہ ذمہ واری ہے کہ جو ذمہ واریاں

Page 862

خطبات ناصر جلد دہم ۸۳۸ خطبہ نکاح ۵ اکتوبر ۱۹۸۱ء اللہ تعالیٰ نے اس کی بیوی پر ڈالی ہیں وہ ذمہ دار ہے اس بات کا کہ اس کو مناسب حالات ملیں تا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نباہ سکے اور اس کے رستے میں وہ روک نہ بنیں.اللہ تعالیٰ اسے بھی توفیق دے اور عزیزہ منصورہ باسمہ کو بھی توفیق دے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ یہ رشتہ مبارک کرے اور اب دعا کر لیتے ہیں.سب دوست دعا کریں.میں جب کسی ایسے نکاح کا اعلان کرتا ہوں جس میں بچے اور بچی یا کسی ایک کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہو رشتہ کے لحاظ سے تو میری طبیعت میں فکر بھی پیدا ہوتی ہے اور دعاؤں کی طرف رجحان پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس مقام کو پہچاننے کی توفیق عطا کرے کہ وہ خادم ہونے کے لحاظ سے دوسروں سے مختلف ہیں اور ان کو زیادہ بڑے خادم بن کر دنیا میں اپنی زندگی گزارنی چاہیے.آؤ دعا کر لیں.حضور انور نے حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۱ ، صفحه ۴،۳)

Page 863

خطبات ناصر جلد دہم ۸۳۹ خطبہ نکاح ۲ جنوری ۱۹۸۲ء اسلام کی رو سے انسانی زندگی بے مقصد نہیں ہے خطبہ نکاح فرموده ۲ / جنوری ۱۹۸۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر از راہ شفقت دو نکاحوں کا اعلان فرمایا جن کا تعلق خاندان حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہے.اس موقع پر حضور نے آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد یہ آیات بھی پڑھیں.تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - وَالَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (الملك : ٢ ، ٣) پھر حضور انور نے فرمایا کہ بڑی ہی برکتوں والا ہے وہ وجود جس کے قبضہ قدرت میں حاکمیت ہے.حکومت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.اور اس کی عظیم برکتوں کا مظاہرہ اس صداقت میں بھی ہے کہ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة کہ اس نے ایک نظام موت جاری کیا اس کا ئنات میں اور ایک نظام حیات جاری کیا.یہاں الموت ہے.الموت قرآن کریم کی اصطلاح میں دو معنوں میں ہے.ایک عدم سے وجود میں لانا اور ایک ایسی موت جس کے بعد ابدی زندگی کا حصول مقدر ہے انسان کے لئے.

Page 864

خطبات ناصر جلد دہم ۸۴۰ خطبہ نکاح ۲ / جنوری ۱۹۸۲ء تو عظیم ہے اللہ جس کی عظیم برکتیں یہ ہیں کہ اس نے ایک ایسی موت کا سلسلہ جاری کیا جس کے بعد ابدی حیات، انسان کو میسر آتی ہے.اور والحیوۃ اور ایک ایسی زندگی کا سلسلہ جاری کیا جس پر موت وارد نہیں ہوتی.موت کو پہلے رکھا اور حیات کو بعد میں.پہلے جو موت رکھی اس میں موت سے پہلے کی حیات خود ہمارے سامنے آجاتی ہے کیونکہ جو زندہ نہیں وہ مر نہیں سکتا.تو خَلَقَ الْمَوت جب کہا.تو اس کے معنی یہی تھے کہ اس نے زندگی دی اور پھر موت وارد ہوئی.اور نظام حیات قائم کیا ایک ایسا نظام حیات جو ابدی ہے جس پر کوئی موت وارد نہیں ہوتی.اس واسطے اس حیات کے بعد کسی موت کا ذکر نہیں کیا گیا اور عظمتیں خدا تعالیٰ کی اس صداقت میں یہ ہیں لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (الملك: ۳،۲) انسانی زندگی بے مقصد نہیں ہے اور مقصد انسانی زندگی کا یہ ہے کہ انسان ایک ایسی حیات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے جو ابدی ہے.ایک ایسی زندگی پانے میں وہ کامیاب ہو جس زندگی میں خدا تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں نازل ہوتی ہیں اور جس زندگی میں یہ نعمتیں جو ہیں یہ زندہ نعمتیں درجہ بدرجہ بڑھتی چلی جاتی ہیں.یہ الحیوۃ ایک خاص قسم کی حیات.آن جو ہے وہ مخصوص کرتا ہے حیوۃ کو یعنی وہ حیات جس کا ذکر بڑی تفصیل سے قرآن کریم نے متعدد جگہ کیا ہے.ایک ایسی حیات جس کی ہر صبح پہلی شام سے زیادہ روشن اور جس کی ہر شام صبح سے زیادہ حسین ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے پہلے سے زیادہ (انسان کی نسبت ) منور ہو کر اور زیادہ پیار والے بن کر اس پر ظاہر ہوتے ہیں.دو حیات کا یہاں ذکر ہے.ایک وہ کہ نام لئے بغیر جس کی طرف اشارہ کیا ”لفظ موت“ نے اور ایک وہ کہ نام لے کر جس کی طرف اشارہ کیا گیا جس کے بعد پھر موت اور فنا نہیں.اس کی ابتدایوں کہ انسانی زندگی میں جائز بچے پیدا کرنے کے لئے مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو یعنی نکاح کا اعلان کیا جائے با قاعدہ اور تب اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے جنسی تعلقات کے قائم کرنے کی اور سامان پیدا کیا ہے.بچوں کے پیدا ہونے کا اور اس لحاظ سے بڑی ذمہ واریاں ڈال دیں.ایسے ماں باپ پر جنہوں نے اپنے بچوں کی اس رنگ میں

Page 865

خطبات ناصر جلد دہم ۸۴۱ خطبہ نکاح ۲ / جنوری ۱۹۸۲ء تربیت کرنی ہے کہ جب ابدی حیات کے دروازے کھلیں تو خدا تعالیٰ کے پیار کو وہ نسل حاصل کرنے والی ہو، خدا تعالیٰ کے قہر اور غضب کو پانے والی نہ ہو.اللہ تعالیٰ تمام احمدی نکاحوں کو ( جن سے ) جماعت احمدیہ میں رشتے قائم کئے جاتے ہیں ان کو ایسا ہی بنائے اور پیچھے جو ماں باپ بن چکے اور آگے جو ماں باپ بہنیں گے اور آج جن دو نکاحوں کا میں اعلان کروں گا اللہ تعالیٰ ان کو اس نکتہ کے سمجھنے اور جن قربانیوں کا یہ نکتہ مطالبہ کرتا ہے اس کے مطابق قربانیاں دینے اور عمل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے.اس وقت میں دو ایسے نکاحوں کا اعلان کروں گا جن کا تعلق حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام سے ہے.جن کی ذمہ داریاں ہر دوسرے خاندان سے کہیں زیادہ ہیں.ان ہمارے بچوں کو اس حقیقت کو سمجھنے کی بھی خدا توفیق دے کہ وہ عام میاں بیوی بننے والے نہیں بلکہ ایسے میاں بیوی بننے والے ہیں جن کا اچھا نمونہ دوسروں کے دلوں میں پیار پیدا کرے گا جن کا بُرا نمونہ دوسروں کے دلوں میں ، احمدیوں کے دلوں میں ، نفرت پیدا کرے گا کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہورہے ہیں اور اپنا ایسا نمونہ نہیں دکھا رہے جو اسلام کا حسن ظاہر کرنے والا ہو.عزیزہ امتہ الوکیل صاحبہ بنت مکرم و محترم مرزا انور احمد صاحب کا نکاح عزیزم مکرم مرزا محمود احمد صاحب ابن مکرم و محترم مرزا مجید احمد صاحب ربوہ سے ہیں ہزار روپے مہر پر قرار پایا ہے.عزیزہ امتہ النور معین صاحبہ بنت مکرم و محترم پیر معین الدین صاحب کا نکاح عزیزم مکرم مرزا طیب احمد صاحب ابن مکرم و محترم مرزا رفیع احمد صاحب ربوہ سے گیارہ ہزار روپے مہر پر قرار پایا ہے.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور نے ان رشتوں کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے احباب سمیت دعا کرائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ فروری ۱۹۸۲، صفحه ۲، ۳)

Page 866

Page 867

خطبات ناصر جلد دہم ۸۴۳ خطبہ نکاح ۱۱ را پریل ۱۹۸۲ء خلیفہ وقت کی بیوی کی حیثیت خلافت اور جماعت کی مستورات کے درمیان ایک رابطہ کی ہوتی ہے خطبہ نکاح فرموده ۱۱ را پریل ۱۹۸۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضورانور نے بروز اتوار بعد نماز عصر اپنے نکاح ثانی کا اعلان فرمایا.آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.جس طرح دنیا میں تمام انسانوں کے چہرے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح کم و بیش تمام انسانوں کی ذمہ داریاں بھی مختلف ہوتی ہیں اور اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا ہے کہ جو دعاؤں کے ساتھ اپنے جیون ساتھی کی تلاش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسا ساتھی عطا کر دیتا ہے جو ذمہ داریوں کے نباہنے میں اس کی پوری طرح مدد کرنے والا ہو.جہاں تک میرا تعلق ہے میں علی وجہ البصیرت اس حقیقت کی شہادت دے سکتا ہوں.۴۷ سال تک منصورہ بیگم نے میرا ساتھ دیا بیوی کی حیثیت میں اور ۴۷ سال میں جو بدلتی ہوئی ذمہ داریاں میرے کندھوں پر پڑیں، ان بدلتی ہوئی ذمہ داریوں میں پوری طرح میری مد اور معاون بنیں اور ہر لحاظ سے مجھے بے فکر کر دیا تا کہ میں اور وہ مل کر اس ذمہ داری کو نباہ سکیں جو اللہ تعالیٰ بدلی ہوئی شکل میں وقتا فوقتا ہم پر ڈالتا رہا لیکن ہر انسان نے جو اس جہان میں پیدا ہوتا ہے ایک دن اس جہان کو چھوڑ بھی دینا ہے.کبھی خاوند پہلے چلا جاتا ہے بیوی پیچھے رہ جاتی ہے کبھی

Page 868

خطبات ناصر جلد دہم ۸۴۴ خطبہ نکاح ۱۱ را پریل ۱۹۸۲ء بیوی پہلے چلی جاتی ہے اور خاوند پیچھے رہ جاتا ہے.جولوگ خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں ان کی اس اجتماعی زندگی یعنی میاں بیوی کی ، زوجین کی زندگی پر اگر نظر ڈالیں تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور شناخت کرتے ہیں کہ رہنے والی نے اس مشن کو اکیلا رہتے ہوئے بھی پوری طرح ادا کیا جو ہر دو پہلے پورا کر رہے تھے اور اگر خاوند رہ جائے اکیلا ، تو چونکہ ذمہ داری کا بعض لحاظ سے خاوند پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے.اس لئے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ایک ساتھی ہو جو ہاتھ بٹائے اور فکروں کو دور کرنے والا اور تسکین پیدا کرنے والا اور طمانیت پیدا کرنے والا ہو.منصورہ بیگم کی وفات کے بعد دو جہات سے مجھے بڑا کرب رہا.ایک ان کی جدائی کا اور ایک اس حقیقت کے احساس کی وجہ سے کہ ان کی جدائی کے نتیجہ میں میں اس سکون کے ساتھ اور بے فکری کے ساتھ اپنی اس اہم ذمہ داری کو ادا کرنے میں کوتاہی یا غفلت تو نہیں برت رہا ہوں.میری دو حیثیتیں ہیں ایک مرزا ناصر احمد کی حیثیت ہے.مرزا ناصر احمد ہی اگر ہوتا دنیا میں تو کسی نئی شادی کی ضرورت نہیں تھی لیکن دوسری حیثیت ہے جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہونے کی جس پر جماعت احمدیہ کے مردوں اور جماعت احمدیہ کی عورتوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی ڈالی گئی ہے.چنانچہ اس احساس کی آگ جہاں میرے اندر سلگتی رہی اور بڑی مشکل تھی میرے لئے وہاں امریکہ سے لے کے دنیا کے دوسرے کنارے تک جماعت احمدیہ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ دوسری شادی کرنی چاہیے.مردوں نے بھی خط لکھے.عورتوں کی طرف سے بھی مطالبہ آیا کہ خلیفہ وقت کی بیوی، خلافت اور جماعت احمدیہ کی مستورات کے درمیان ایک قسم کا گشن (Cushion) ہوتی ہے وہ تعلق پیدا کرتی ہے.جب اور جن حالات میں اور بسا اوقات یہی حالات ہوتے ہیں کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے ہر دو اکٹھے مستورات سے ملاقات نہ کر سکتے ہوں تو جماعت کی دوا مستورات خلیفہ وقت کی بیوی سے ملاقات کرتیں اور اس سے مشورہ لیتیں.اس کو اپنا دکھ درد بتا تیں.دعا کے لئے کہتیں اور وہ آگے پہنچا دیتی.خود بھی دعا کرنے والی اور دعائیں لے کر آگے تقسیم کرنے والی بھی بن جاتی لیکن اس میں جو مشکل پیش آسکتی ہے اور میرے سامنے بھی آئی ، وہ

Page 869

خطبات ناصر جلد دہم ۸۴۵ خطبہ نکاح ۱۱ را پریل ۱۹۸۲ء ی تھی کہ اگر مجھے ذاتی حیثیت میں مرزا ناصر احمد کو شادی کرنی ہوتی تو کسی اور رنگ میں سوچنا پڑتا کہ بیوی کیسی ہے.جس نے بوجھ ہلکا کرنے کے لئے آنا ہے کسی گھر میں ، وہ بوجھ کی پنڈ باندھ کر تو اس گھر میں داخل نہیں ہو سکتی ورنہ تو مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے.پرانی عادتیں.لچک کی بجائے Rigidity پیدا ہو چکی ہے وغیرہ وغیرہ.تربیت قبول کرنے کا اتنا مادہ نہیں رہا.بہت سارے، بیسیوں پہلو تھے جن پر غور کیا اور دعائیں کیں اور ایک وقت آیا کہ میں نے جب دعا ئیں شروع کیں تو تین دوستوں کو دعا کے لئے لکھا.یہ دعا کے لئے میں نے جو لکھا اس میں یہ نہیں تھا کہ یہ استخارہ کریں کہ فلاں جو عورت ہے اس کے ساتھ شادی کر نا با برکت ہوگا یا نہیں کیونکہ فلاں عورت میرے دماغ میں Exist ہی نہیں کر رہی تھی تھی ہی نہیں.دعا کے لئے میں نے جو لکھا وہ یہ تھا :.بسم اللہ الرحمن الرحیم مکرمی.....اپنے رب کریم کا یہ عاجز بندہ اپنی وفادار ایثار پیشہ، سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے ہر آن وقف رہنے والی منصورہ کو مرتے دم تک بھول نہیں سکتا لیکن جماعتی ذمہ داریاں ایک ایسی ہی ساتھی کا تقاضا کرتی ہیں.اس احساس نے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ دعا عطا کی رَبِّ إِنِّي لِمَا انْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير (القصص: ۲۵).آپ سات روز تک الله الرّحمن، الرَّحِیم سے انتہائی عاجزانہ دعا کریں کہ وہ اپنے فضل سے صحیح انتخاب کی تو فیق عطا کرے.اگر کوئی خواب دیکھیں تو لکھ بھیجیں.پھر میں نے چالیس روزہ دعائیہ زمانہ بسر کیا جو اس مہینے کی پانچ تاریخ کو رات کے بارہ بجے ختم ہوا.اس سارے عرصہ میں میں نے بالکل خالی الذہن ہو کر اور انتخاب کو کلیتہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ کر یہ دعائیں کیں کہ یہ مسئلہ ہے اسے تو ہی حل کر سکتا ہے ، حل کر.تا کہ جو جماعت میں ایک بے چینی پیدا ہو رہی ہے، وہ سکون میں بدل جائے اور تیرا فضل ہو ان پر اور تیری رحمتیں نازل ہوں ان پر اور اپنی مشکلات کے لئے جو برکتیں خلافت سے لی جاسکتی ہیں، خلیفہ وقت کی بیوی کے ذریعہ سے ، وہ دروازہ پھر کھل جائے لیکن خدا تعالیٰ کے حضور میں نے یہ دعا کی کہ ہوسکتا ہے کہ میرے دماغ میں کوئی رشتہ آجائے.اگر ایسا رشتہ آ جائے کہ جو تیرے نزدیک اس ضرورت کو پورا

Page 870

خطبات ناصر جلد دہم ۸۴۶ خطبہ نکاح ۱۱ را پریل ۱۹۸۲ ء کرنے والا نہ ہو جو مجھے درپیش ہے تو اس لڑکی کے دل میں میری نفرت پیدا کر دے.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی.میں نے چالیس دن تک بڑی ہی دعائیں کیں.یہ چالیس دن ایک لمبی کتاب بن جاتی ہے اپنے حقائق کے لحاظ سے مختصراً یہ کہ اپنے بچوں کو اعتماد میں لیا.ان سے بھی مشورے کئے.ان سے بھی دعائیں کروائیں.ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ مجھے ( سات دن کے لئے میں نے کہا تھا.میں تو چالیس دن دعائیں کر رہا تھا ) بتایا گیا ہے کہ آپ کی یہ دعا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 1 ) کہ جو میرا فیصلہ ہو وہ درست ہو.صراط مستقیم مجھے دکھا وہ قبول کی جائے گی اور چونکہ نام تو بتایا ہی نہیں تھا.نہ مجھے پتہ تھانہ میں دعا کرنے والا جانتا تھا نہ جن تین کو میں نے لکھا تھاوہ جانتے تھے.صوفی غلام محمد صاحب کو میں نے لکھا.عبدالمالک خان صاحب کو لکھا اور شیخ محمد احمد صاحب مظہر کو لکھا اور نام بیچ میں تھا ہی نہیں اور نہ نام ان کو اللہ تعالیٰ نے کوئی بتا یا.صفات بتادیں.صوفی غلام محمد صاحب کو یہ بتایا گیا کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا قبول کی جائے گی اور ایک ایسی لڑکی سے رشتہ ہو گا جو نہ بچی ہے نہ بوڑھی اور جو وحدانیت کے قیام کے لئے موجودہ مہم، مہدی علیہ السلام کے ذریعہ جو چلائی گئی ، اس میں، اس مہم کے لئے وہ اپنی زندگی کو وقف کرے گی اور اپنی خواہشات کو قربان کرے گی اور بڑا نور پھیلا ہوا ہے اور بشارت.مولوی عبدالمالک خان صاحب نے خواب دیکھی.تعطیر الا نام میں (جو تعبیر نامہ ہے ) اس میں انہوں نے دیکھا تو بہت سی تعبیریں ہیں.ساری ہی اچھی اور ساتھ یہ بھی کہ زوجہ ملے گی.ان کا دماغ اس طرف گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اجازت دی ہے شادی کرنے کی.شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے خواب دیکھی یا نہیں دیکھی.مجھے یہ لکھا ۲ ۳:۴:۸ کو."عاجز نے مسلسل دعا کی ہے.عاجز کو پورا انشراح اور اطمینان ہے کہ زیر نظر تجویز (لڑکی نہیں یعنی تجویز.شادی کرنا) نہایت ضروری اور کاموں میں سہولت پیدا کرنے والی ہے اور جماعت کے لئے مفید تفصیل بیان کرنا ضروری نہیں.اللہ تعالیٰ اس کی تکمیل اپنے خاص فضل و کرم سے فرمائے.وَاللهُ الْمُوَفِّق

Page 871

خطبات ناصر جلد دہم ۸۴۷ خطبہ نکاح ۱۱ را پریل ۱۹۸۲ء بہت سے رشتے زیر غور آتے رہے.بچوں سے بھی میں مشورہ لیتا رہا.دعا بھی کرتا رہا.بہتوں کو ردبھی کرتا رہا.آخر تین چار رشتے رہ گئے ، ان چالیس دنوں کے آخری دنوں میں میرا چھوٹا لڑکا لقمان ، سارے ہی پریشان ہیں.انسان اپنے اپنے رنگ میں اپنی اپنی طبیعتوں کے مطابق پریشانیاں اور درد اور کرب اور دکھ محسوس کرتا ہے.لقمان نے مجھے ایک دن کہا کہ میں نے بڑا سو چا ہے.میں پچاس فیصدی طاہرہ خان ، عبدالمجید خان صاحب کی بیٹی ہے اس رشتہ کی تائید میں اپنا میلان پاتا ہوں.خیر.میں نے مذاق سے پوچھا کہ وہ جو دوسرا پچاس فیصدی ہے وہ کس لڑکی کے حق میں ہے تو وہ کہنے لگا نہیں کوئی اور لڑکی نہیں.لیکن خدا کی شان یہ کہ دوسری ہی رات اس نے خواب میں اپنی والدہ منصورہ بیگم کو دیکھا جنہوں نے بڑی دیر تک اس کے کہنے کے مطابق جس کا اکثر حصہ اسے یاد نہیں رہا بڑی تسلیاں دیں.کچھ تنقید بھی کی مختلف رشتوں پر اور جو حصہ اس کو یاد رہ گیا وہ یہ تھا کہ منصورہ بیگم نے اسے کہا کہ زیر تجویز رشتوں میں طاہرہ ہی اچھی ہے.ان کا انتخاب ہو گیا اور کسی طرف نہیں گیا.میں نے پانچ تاریخ بارہ بجے جب یہ چالیس روزہ دعا کا زمانہ ختم ہوا.اس وقت میں نے عبدالمجید خان صاحب کو تجویز بھیجی لیکن ان کو ساتھ یہ بھی کہا کہ میری دو شرطیں ہیں ایک یہ ہے کہ بچی پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا جائے گا.اگر ا اپنی خوشی اور رضامندی سے وہ تیار ہو تب میں اور صرف اس وقت یہ رشتہ منظور کروں گا اور دوسرے یہ کہ اس کی والدہ بھی اس کے حق میں ہوں.کیونکہ میں تمہارے گھر میں فتنہ نہیں پیدا کرنا چاہتا.جب ان کی والدہ کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی کہ اس طرح تجویز آئی ہے بیٹی کے لئے.وہ کہنے لگیں کہ دو ایک ہفتے ہوئے مجھے ایک خواب آئی اور خواب میں میں نے دیکھا کہ طاہرہ کے لئے بہت اونچا ایک رشتہ آگیا اور میں خواب میں حیران ہوتی ہوں کہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے لئے اتنا اونچا رشتہ آ سکتا ہے لیکن وہ آ گیا.لیکن اس وقت نام نہ بتانے کا زمانہ تھا نا! اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نہیں بتایا نام، کہ کہاں سے آیا رشتہ؟ پھر میں پریشان ہوئی خواب میں یا جاگنے کے بعد سوچا اور موازنہ کیا کہ جتنے رشتے آئے ہیں نمبر ایک یہ تو اتنا اونچا نہیں.نمبر دو یہ تو اتنا

Page 872

خطبات ناصر جلد دہم ΔΙΑ خطبہ نکاح ۱۱ را پریل ۱۹۸۲ء اونچا نہیں.اسی طرح سب کو رد کر دیا اور جب یہ رشتہ ان کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا کہ اتنا اونچا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا اس کے مطابق تو یہی رشتہ ہوسکتا ہے.پس اس طرح دوسری شرط بھی پوری ہو گئی.اور والد نے میں سمجھتا ہوں تاریخ احمدیت کے لئے یہ نیک کام کیا کہ زبانی پوچھنے کی بجائے اپنی بچی کو ایک فقرہ لکھا کہ اس طرح تمہارا رشتہ آیا ہے اپنی رائے سے مجھے بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے.تو اس نے اچھا خاصا بڑا جواب دیا جس کا مفہوم کچھ اس طرح بنتا ہے کہ مجھے کوئی بشارت دی جاتی تھی پھر چند دن خاموشی کے بعد بڑا اضطراب پیدا ہوتا تھا کہ قبول ہونے کے بعد میں کہیں رڈ نہ کر دی جاؤں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بشارت مل جاتی تھی اور اس طرح دو ایک دفعہ ہوا.اس واسطے مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں.مجھے تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی تیار کیا ہوا ہے.پس یہ بتانا اس لئے ضروری ہے کہ شیطان دماغ میں وسوسے بھی ڈالتا ہے.تو عمر کا فرق اپنی جگہ ہے لیکن جس دل نے خدا اور اس کے دین کے لئے قربانی دینی ہو، وہ جذ بہ قربانی تو عمر کی طرف نہیں دیکھتا اور نہ اللہ تعالیٰ عمروں کی طرف دیکھتا ہے.اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ اس بچی نے ،جس نے اس تفاوت عمر کے باوجود اس رشتہ کو قبول کیا ، بڑی ہمت اور عزم اور اخلاص اور خدا اور اس کے دین کے لئے محبت کا ایک اظہار کیا ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو آج کی طاقت سے بھی زیادہ طاقت اور استعداددے کہ وہ اپنے اس عزم پر قائم رہے اور جس غرض اور مقصد کے لئے آج کے نکاح کا اعلان ہوگا کہ جو میری ذمہ داریاں ہیں ان کی ادائیگی میں سہولت پیدا ہو اور وہ مدد دینے والی ہو اور میری ساتھی بن کر جہاں تک ممکن ہو انسانی طاقت میں وہ اس دنیا کے مردوں اور عورتوں کے لئے روشنی کے پھیلانے کا ذریعہ بنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر کے اپنی عاقبت بھی سنوار نے والی ہو اور دنیا کو راہنمائی دے کر ان کے لئے بھی جنت کے دروازے کھولنے والی ہو.(آمین ) جس نکاح کا میں آج اعلان کرنے لگا ہوں وہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ تیسرا نکاح ہو رہا ہے کہ جو خود اس رشتہ کا دولہا بننے والا ہے وہ آپ ہی خطبہ نکاح

Page 873

خطبات ناصر جلد دہم ۸۴۹ خطبہ نکاح ۱۱ را پریل ۱۹۸۲ء بھی پڑھنے والا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے دو نکاح خود پڑھے.محترمہ آپا سارہ بیگم صاحبہ کا اور محترمہ آپا، مہر آپا، جو کہلاتی ہیں ان کا.تو طاہرہ خان جو عبدالمجید خان صاحب کی صاحبزادی ہیں ان کا نکاح ایک ہزار روپے مہر پر مرزا ناصر احمد جو اس وقت بول رہا ہوں، سے قرار پایا ہے.مکرم محترم عبد المجید خان صاحب! کیا آپ کو ایک ہزار روپے مہر پر اپنی بچی محتر مہ طاہرہ خان کا نکاح مجھ سے، مرزا ناصر احمد سے منظور ہے.(اس موقع پر مکرم عبدالمجید خان صاحب نے کھڑے ہو کر کہا.منظور ہے) اس ہزار کا قصہ یہ ہے کہ جب انہوں نے رشتہ منظور کر لیا تو میں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ منصورہ بیگم کا مہر ایک ہزار روپے تھا.اس لئے اس سے زیادہ تو میں نے ایک پیسہ بھی نہیں کرنا انہوں نے کہا ٹھیک ہے پھر مجھے خیال آیا کہ جو نکاح فارم پر ان کا ایک ہزار تھا لیکن جب میں نے ادائیگی کی عملاً نو ہزار میں نے دے دیا.تو کسی وقت شیطان وسوسہ ڈالے کہ آپ نے ایک ہزار کہا تھا تو ان کوتو نو ہزار دیا تھا.تو پھر میں نے ان کے گھر کہلا کے بھیجا کہ یہ واقعہ ہوا ہے تو میں نو ہزا رلکھ دوں گا او پر تولڑکی والوں کی طرف سے مجھے جواب ملا کہ نہیں نو ہزار آپ نہیں لکھیں گے.ایک ہزا ر ہی ہمیں چاہیے.تو یہ ایک ہزا ر ہی رہا.پھر آپ جانتے ہیں میرے اپنے جذبات اس وقت جانے والی کے لئے بھی بڑے تیز ہیں اور آنے والی کے لئے بھی.خدا کرے جو اس کا حق ہے اس کا خاوند اسے ادا کر نے والا ہو.تو میری ہمشیرہ امتہ الباسط انہی دنوں میں مجھے کہنے لگیں کہ میری امی کو تو حضرت صاحب بس جا کے رخصت کر والائے تھے اور اخبار میں چھپا ہوا ہے.میں نے وہ اخبار کا Quotation ( کوٹیشن ) نکلوایا تو زیادہ روشنی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے اس کے اوپر ڈالی کہ تانگے پر بیٹھ کے ( قادیان کی بات ہے ) ۷ رفروری ۱۹۲۱ء کو دو ہی گئے حضرت صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب.اور یہ کچھ تاریخ نے پورا واضح نہیں کیا کہ حضرت اماں جان ) رضی اللہ عنہا ایک دومستورات کے ساتھ ، ساتھ گئیں یا علیحدہ گئیں.بہر حال گئے وہاں، باتیں کیں.واپس آگئے اور حضرت (اماں جان ) رضی اللہ عنہا انہیں رخصت کروا کے شام کے وقت گھر لے آئیں اور باسط نے یہ بھی بتایا کہ ایک جوڑا

Page 874

خطبات ناصر جلد دہم ۸۵۰ خطبہ نکاح ۱۱ را پریل ۱۹۸۲ء بری کا گیا تھا.یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ جو آپ بدعتیں بیچ میں شامل کر رہے ہیں خدا کے لئے ان کو چھوڑیں.تو میں نے لڑکی والوں سے کہا میں تو ایک جوڑا بری میں دوں گا اور اسی طرح آؤں گا.نہ آپ ہمیں پانی کا پوچھیں.نہ مجھے پسند آئیں گے بجلی کے چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے بلب، نہ جھنڈیاں.سادگی کے ساتھ میں آؤں گا.چند ہوں گے ساتھی میرے ساتھ اور وہاں بیٹھیں گے.باتیں کریں گے اور دعا کریں گے اور دلہن کو لے آئیں گے.تو آپس میں مشورہ کر کے انہوں نے کہا ٹھیک ہے.پھر وہ میری ایک اور ہمشیرہ ناصرہ بیگم یہی ایک جوڑا لینے گئی تھیں لاہور.تو وہ تین لے آئیں یعنی ۱ + ۲ پھر میں نے ان کو کہا تین آگئے ہیں وہ بھیج دوں.انہوں نے کہا نہیں.ایک بھیجیں آپ.تو ہم اس رسم کی تجدید کر رہے ہیں.رسم نہیں حقیقت اور جو سادگی ہے اس کی تجدید کر رہے ہیں کہ بالکل سادگی کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مہر اور ویسے ایک ہزار روپیہ مہر کا واقعہ بھی بتا دوں.چند سال پہلے ۱۹۷۶ ء کی بات ہے مجھے خیال آیا میں نے منصورہ بیگم سے کہا کہ ہمارا مہر کیا ہے.مجھے یاد ہی نہیں تھا اور انہوں نے کبھی ذکر نہیں کیا تھا.وہ ہنس کر کہنے لگیں مہر کیا تھا؟ ایک ہزار روپے تھا.تو پھر میں نے کہا ٹھیک ہے.پھر اس وقت مجھے خیال آیا ورثے میں ہمیں ملے ہوئے تھے حضرت صاحب کی طرف سے حصص آٹھ ہزار روپے کے.میں نے کہا پھر یہ دے دیتے ہیں plus جھو نگے میں.پس اس سادگی کے ساتھ ( حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ) وہاں گئے ، لے آئے.نہ کوئی شور نہ کچھ.نہ ڈھول نہ ڈھمکا.اور یہ وقت ہے ایک عظیم مہم کا.اتنی بڑی لڑائی انسانی زندگی میں تلوار سے نہیں دلائل کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ نوع انسانی کی تاریخ میں کبھی نہیں لڑی گئی ، جتنی آج لڑی جارہی ہے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بشارتیں ملی تھیں ، ان کے عروج کا زمانہ آ گیا.اس وقت سب کچھ بھول کے ہمیں بس ہنستے مسکراتے خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نتیجہ میں خوشیاں ہمارے چہروں سے یوں بہہ کے آ رہی ہوں جس طرح پہاڑ سے برفانی پانی کے نالے بہہ کے آرہے ہوتے ہیں اور آگے بڑھتے چلے جاؤ اور اتنا جہیز کم کیوں دیا.میرے پاس

Page 875

خطبات ناصر جلد دہم ۸۵۱ خطبہ نکاح ۱۱ را پریل ۱۹۸۲ء آتے ہیں ، میں آپ کا امام اور خلیفہ بھی ہوں نا تو بڑی کوفت ہوتی ہے، جہیز کے اوپر اختلاف ہو گیا.پھر ضلع لینے کے لئے.پھر یہ کہ اس نے ہمیں پیسے زیادہ نہیں دیئے.رشتہ داروں کو جوڑے کوئی نہیں دیئے.یہ نہیں دیا وہ نہیں دیا.تمہیں اس وقت سوائے خدا تعالیٰ کے پیار کے اور کچھ نہیں چاہیے.اس کے پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.اس دنیا میں بھی کامیاب ہو جاؤ گے.اخروی زندگی میں بھی کامیاب ہو جاؤ گے.تو یہ تو جملہ معترضہ تھا.دوست بھول گئے ہوں گے عبدالمجید خان صاحب ہاں کہہ چکے ہیں اور اب میں اپنی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ مجھے ایک ہزار روپے مہر پر اپنا نکاح محترمہ طاہرہ صدیقہ سے منظور ہے.یہ صدیقہ میں نے نام دیا ہے ابھی (حاضرین نے مبارک ہو.مبارک ہو.مبارک ہو کہہ کر اپنی عقیدت و محبت اور خوشی کا اظہار کیا ) دوست دعا کر لیں.اللہ تعالیٰ یہ رشتہ بہت بابرکت کرے.آمین.پھر اجتماعی دعا ہوئی اور اس کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے یہ رشتہ مبارک کرے.آمین اللهم آمین! روزنامه الفضل ربوه حضرت خلیفتہ المسح الثالث نمبر ۱۲؍ مارچ ۱۹۸۳ صفحه ۱۳ تا ۱۶)

Page 876

Page 877

خطبات ناصر جلد دہم ۸۵۳ خطبہ نکاح ۱۰ رمئی ۱۹۸۲ء رشتوں سے خاندانوں کی روایات اور روحانی استعداد میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی ہیں خطبہ نکاح فرموده ۱۰ رمئی ۱۹۸۲ء بمقام مسجد مبارک ربوه حضور انور نے بعد نماز عصر محترم سید شعیب احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ابن مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب سابق مبلغ امریکہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.نسلاً بعد نسل جو بچیوں اور بچوں کو ازدواجی رشتوں میں باندھنے کا حکم ہے، اس کے نتیجہ میں ایک تو خاندانوں کی نسل آگے چلتی ہے اور دوسرے خاندانوں میں جو روایات ہیں اور جو اخلاقی ورثہ ہے اور جو روحانی استعدادیں ہیں ، وہ بھی ایک نسل کے بعد دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں اگر آنے والی نسل ایسا چاہے.جس بچہ کے نکاح کا اعلان میں اس وقت کرنا چاہتا ہوں اس کا تعلق ہمارے ماموں حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے.میں نے ہمارے ماموں دووجہ سے کہا.ایک اس لئے کہ ہمارے خاندان میں ہماری نسل انہیں ماموں ہی کہتی تھی.ویسے وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ، حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت مرزا ا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ اور ان کی بہنوں کے ماموں تھے لیکن ہم بھی انہیں ماموں کہتے تھے.اس لئے بھی میں نے

Page 878

خطبات ناصر جلد دہم ۸۵۴ خطبہ نکاح ۱۰ رمئی ۱۹۸۲ء انہیں اس وقت ماموں کہا اور اس لئے بھی کہ مجھے حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیٹا بنایا ہوا تھا اور انہی کی گود میں میں نے پرورش پائی اور انہی کی تربیت جہاں تک مجھ سے ہو سکا میں نے حاصل کی.اس لحاظ سے اور اس نسبت سے بھی وہ میرے ماموں تھے.اس نکاح کے اعلان کے لئے جب میں گھر سے چلا تو میرے ذہن میں پرانی یادیں ابھریں اور ہمارے یہ ماموں اور ان کے اخلاق اور ان کا طرز زندگی اور رہن سہن اور ان کی عادتیں اور دوسروں کے ساتھ ان کا تعلق وغیرہ ایک تیز سلسلہ، بڑی تیزی سے حرکت کرنے والا میرے ذہن میں سے گزرا.سلسلہ عالیہ احمدیہ میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو اپنا ایک منفرد کیریکٹر اور نمونہ رکھتے تھے.ماموں جان رضی اللہ عنہ کا اپنا ایک نمونہ تھا.جو چیز سینکڑوں میں سے اس وقت بیان کرنے کے لئے میں نے منتخب کی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ زمانہ جو میرے بچپن کا زمانہ تھا ، جماعت احمدیہ کی اجتماعی زندگی میں غربت کا زمانہ تھا ، تعداد کم تھی.اجتماعی زندگی میں جماعت کے پاس جو دولت یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا تھی، وہ اتنی زیادہ نہیں تھی.میرے ذہن میں یہ یاد بھی تازہ ہے کہ مجلس مشاورت میں یہ بحث ہوتی تھی کہ تین تین، چار چار، پانچ پانچ مہینے سے کارکنوں کو تنخواہ نہیں ملی کیونکہ چندے اتنے نہیں آ رہے تھے کہ ان کو تنخواہیں دی جاسکیں اور اس وقت کے جماعت احمدیہ کے کارکن آج کے کارکنوں سے مختلف مقام رکھتے تھے.وہ واقف نہیں کہلاتے تھے لیکن وقف کی روح کے ساتھ خدا اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین کی خدمت میں مشغول رہنے والے تھے.سارے کے سارے مطمئن ہوں گے کیونکہ میں نے اس زندگی میں شور اور ہنگامہ کبھی نہیں دیکھا لیکن جو بھی خدا نے دیا اس پر خوشی اور بشاشت کے ساتھ زندگی گزارنا، یہ میں نے کم لوگوں میں دیکھا اور ان میں سے ایک ہمارے ماموں میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ تھے.انہوں نے بھر پور زندگی گزاری.چھوٹی چھوٹی باتوں سے وہ اس طرح خوش ہوتے تھے کہ جس طرح دنیا و جہان کی دولت مل گئی ہو مثلاً برسات کے دنوں میں بارشیں بہت ہوتی تھیں.قادیان کی جغرافیائی حالت کچھ اور تھی.یہاں کچھ اور ہے.یہاں تو بارش ہوتی ہے تو پھسلن ہو جاتی ہے پاؤں مٹی میں پھنستا ہے لیکن وہ کیفیت نہیں پیدا ہوتی

Page 879

خطبات ناصر جلد دہم ۸۵۵ خطبہ نکاح ۱۰ رمئی ۱۹۸۲ء جو قادیان میں پیدا ہوتی تھی.کچھ بارشیں بھی میرے خیال میں وہاں زیادہ ہوتی تھیں.ڈھاب پڑ جاتی تھی اور ریتی چھلا جہاں اب بہت سے مکانات بن گئے ہیں اور وہ علاقہ بڑا آباد ہوگیا ہے.ایک با قاعدہ بہت بڑا تالاب یا جھیل بن جاتی تھی.اڑھائی، تین ، ساڑھے تین فٹ پانی اس میں ہوتا تھا.چنانچہ اس جھیل میں برسات کے دنوں میں حضرت ماموں جان رضی اللہ عنہ کی ایک آپ بنائی ہوئی کشتی ہمیں چلتی نظر آتی تھی.گیلیاں لے کر کرایہ پر یا ویسے لے کر یہ تو میں نے اس وقت کبھی غور نہیں کیا اس زندگی میں بہر حال گیلیوں کو آپس میں باندھ کر اور اس کے اوپر چار پائیاں رکھ کر اور اس میں بچوں کو بٹھا کر ( اور ہمیں بھی بہت دفعہ بٹھایا ) ڈھاب کے اندر پھر رہے ہیں.جس طرح بہت بڑی جھیل میں آدمی سیر کر کے اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں پر خوشی منا رہا ہوتا ہے اسی طرح آموں کا زمانہ ہوتا تو وہاں آم کھائے جارہے ہیں یا خربوزے ہیں پکنک گھر کے ساتھ لگی ہوئی.رہائش کے ساتھ ہی وہ تھا.پس جو غیر کی نگاہ میں ایک معمولی سی چیز تھی وہ اس بندہِ خدا کی نگاہ میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عطا تھی.ان سے وہ پوری لذت اور سرور اور خوشی اور میلے کا سماں پیدا کر کے مزہ حاصل کر رہے ہوتے تھے.واقف زندگی بھی تھے اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں پر پوری طرح حقیقی معنی میں شکر گزار بھی تھے.صرف یہ نہیں کہ قربانی دینے کا احساس ہو.جو شخص حقیقی قربانی کرنے والا ہوتا ہے اس کو قربانی کا احساس نہیں ہوتا.اس کو تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا احساس ہوتا ہے.کسی کا اظہار کم ہوتا ہے کسی کا زیادہ ہوتا ہے.اس Piont پر ہمیں یہ اظہار بہت زیادہ نظر آتا تھا.بچپن کی یہ بہت ساری یادیں ہیں.جن میں یہ یاد اس وقت بہت شدت سے ابھری اور میرے سامنے آئی اور وہ ہے ان کی سادہ زندگی ، خوشحال زندگی اور وہ اپنے رب سے راضی زندگی.ا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا اور اپنے ساتھ ان کے پیار کو دیکھ کر ان کے تینوں بچوں کو وقف کرنے کی توفیق عطا کی.تینوں کی طبیعت ایک دوسرے سے مختلف ہے جیسا کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے لیکن اس چیز میں جہاں تک میں نے غور کیا تینوں میں ایک ہی چیز پائی جاتی تھی یعنی جو کچھ خدا نے دیا، جتنا دے دیا اس پر انسان کو راضی رہنا ہی نہیں

Page 880

خطبات ناصر جلد دہم ۸۵۶ خطبہ نکاح ۱۰ رمئی ۱۹۸۲ء بلکہ خوش رہنا چاہیے.ان دو میں بڑا فرق ہے.سید میر داؤد صاحب اپنے رنگ کے تھے لیکن یہ چیز ان میں پائی جاتی تھی.میر مسعود آج کل کافی عرصہ سے ڈنمارک میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں.وہ اپنے رنگ کے ہیں لیکن یہ چیز ان میں بھی پائی جاتی ہے اور ان کے چھوٹے بھائی میر محمود احمد جن کے بچے کے نکاح کا میں ابھی اعلان کروں گا وہ اپنے رنگ کے واقف ہیں لیکن یہ چیز ان میں کامن ( Common) ہے.ان کے باپ کا یہ ورثہ پوری نسل میں آگے چلا.خدا تعالیٰ نے حضرت ماموں جان رضی اللہ عنہ کی اولاد پر بڑا فضل کیا.اس واسطے جماعت کے لئے جو یہ نمونہ بھی قائم ہوا.اور جماعت کے سامنے یہ ہر حالت میں ہنستے اور بشاش چہرے بھی آئے جو ہر وقت خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اس کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اپنی زندگی کے دن گزارنے والے ہیں جماعت کے اوپر یہ فرض ہے کہ ان کی اگلی نسل کے لئے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحیح معنی میں اپنے آباؤ اجداد کا وارث بنائے اور وقف کی حقیقی روح ان میں پیدا کرے.اس دعا کے ساتھ اب میں نکاح کا اعلان کرتا ہوں.عزیز ہ مکرمہ در ثمین احمد صاحبہ جو مکرم محترم مرزا مجید احمد صاحب ربوہ کی صاحبزادی ہیں کا نکاح عزیزم مکرم سید شعیب احمد صاحب ابن مکرم محترم سید محمود احمد صاحب ناصر حال ساکن امریکہ سے پچیس ہزار روپے مہر پر قرار پایا ہے.لڑکی کے ولی اس کے والد یہاں موجود ہیں.لڑکا عزیزم سید شعیب احمد آج کل امریکہ میں ہے.اس لئے اس کی طرف سے ان کے والد مکرم محترم سیدمحموداحمد ناصر اس نکاح میں بطور وکیل یہاں موجود ہیں.اس کے بعد حضور انور نے ایجاب و قبول کرایا اور پھر اس رشتہ کے بہت ہی بابرکت ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 881

۸۵۷ خطبات ناصر جلد دہم نمبر شمار حوالہ جات جلد دہم حوالہ جات اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۲۰ ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۴ ،۱۰۵ براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۰۸ براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۱۱، ۱۱۲ صحیح البخاری کتاب الایمان باب حلاوة الایمان سنن الترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِي فَضْلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صحیح البخاری کتاب النفقات بَابُ فَضْلِ النَّفَقَةِ عَلَى الأَهْلِ بدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۲۶ جولائی ۱۹۰۶ ، صفحہ ۱۲ صفحہ نمبر ۳۷ ۶۴ ۲۳۰ ۲۳۰ ۲۴۰ ۲۵۱ ۲۵۴ ۲۶۳ 1 م ۶ ง

Page 882

Page 883

خطبات ناصر جلد دہم | فہرست فریقین نکاح 1 نام زوج فہرست فریقین نکاح نام زوجه ملک نسیم احمد بی.اے ایل.ایل.بی نعیمہ اختر بنت ڈاکٹر مرزا عبدالقیوم چوہدری رشید احمد خلیل احمد ولد ناظر دین ناصرہ بشیر بنت کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد امة الحفیظ نصرت دار الرحمت شرقی ربوہ نصرت اختر بنت نصیر احمد گوجرانوالہ صفحہ ۲۳۳ ۲۳۵ ۲۳۹ ۲۴۳ ۲۴۷ ۲۴۹ ۲۴۹ ۲۴۹ ۲۵۱ محمد شریف اختر ولد محمد دین مرحوم ۵ را جہ محمد اسلم شاد امتہ الرحیم مسرت بنت صو بیدار عبدالمنان دہلوی | ۲۴۵ چوہدری محمداحمدمنیر ولد چوہدری عبدالرحمن بہلو پوری نسیم اختر بنت چوہدری خورشیداحم گوجرانواله حبیب الرحمن در دولد مولانا عبد الرحیم صاحب درد امته الباسط بنت خلیفہ عبدالمنان آف جموں ڈاکٹر کریم اللہ یروی ولد صوفی خدا بخش عبد زیر وی امته اللطیف شوکت بنت ملک سیف الرحمن ڈاکٹر رشید احمد ولد چوہدری غلام مرتضیٰ شفقت عصمت بنت چوہدری عصمت اللہ لاہور ۲۴۹ فتح شیر ولد نور محمد چک ۱۵۲ شمالی سرگودها زینب پروین بنت دوست محمد ٹھٹھہ جوئیہ شیخ کرامت فاروق ولد شیخ نعمت الله ر بوه شمیم خانم بنت انتصار حسین خاں ربوہ ۱۲ فضل احمد ولد میجر عارف زمان سرگودھا شکیله کشور بنت صوفی عبد الغفور سابق مبلغ امریکہ ۲۵۳ چوہدری محمد شریف ولد چوہدری جہان خان گجرات بشری بیگم بنت چو ہدری میاں خان شیخ پور گجرات ۱۴ قریشی محمد رشید ولد قریشی محمد نذیر احمد نگر ربوہ سیدہ رفیقہ بیگم بنت سید ولی محمد شاہ لاہور ۱۵ محمد ادریس ولد ٹھیکیدار فضل دین ربوه نسیم اختر بنت چوہدری رحمت علی مرید کے چوہدری منیر احمد عابد ولد ماسٹر برکت علی حیدر آباد رشیدہ اختر بنت چوہدری شریف احمد انجینئر ر بوه ۲۵۹ ۱۷ شیخ مبارک احمد نائب ناظر اصلاح و ارشاد صفیہ بیگم بنت قاضی عبد السلام بھٹی نیروبی کینیا ۱۸ چوہدری محمد اسلم ولد ڈاکٹر محمد انور لاہور ریحانہ بنت چوہدری بشیر احمد باجوہ ربوہ ۱۹ چوہدری منور احمد ولد چوہدری ظہور احمد ربوہ ثریا نسرین بنت چوہدری عبدالمجید ر بوه ناصرہ صدیقہ بنت چوہدری فضل احمد ۲۰ ایک واقف زندگی ۲۱ ملک منور احمد ولد ملک غلام فرید ایم.اے نصرت رحمت اللہ بنت شیخ رحمت اللہ کراچی ۲۵۳ ۲۵۵ ۲۵۷ ۲۶۱ ۲۶۵ ۲۶۹ ۲۷۱ ۲۷۱

Page 884

خطبات ناصر جلد دہم ۲۲ نام زوج || نام زوجه فہرست فریقین نکاح صفحہ چوہدری ماجد علی ولد چوہدری اعظم علی سیشن جج طلعت باجوہ بنت چوہدری شریف احمد باجوہ ۲۳ کیپٹن نصیر احمد ولد چوہدری غلام حسین رضیه غزنوی بنت نیک محمد خان چوہدری مبشر احمد ولد چوہدری بشیر احمد راولپنڈی منصورہ بیگم بنت میاں شریف احمد ۲۴ ۲۵ سید تنویر احمد ولد سید علی احمد ۲۶ محمد نعیم ولد چوہدری محمد شریف کمال بی بی بنت غلام محمد خان امہ الباری بنت چوہدری شاہ نواز ۲۷۱ ۲۷۳ ۲۷۵ ۲۷۹ ۲۸۳ ۲۷ انس داؤ دولد چوہدری غلام اللہ باجوہ لاہور نصرت جہاں آرا بیگم بنت ملک عبدالعلی صاحب ۲۸۳ کلیم الدین امینی ہڈز فیلڈ انگلینڈ حامدہ بیگم بنت شیخ فضل قادرر بوه ۲۸ ۳۱ ۲۸۹ ۲۹۱ ۲۹۷ ۲۹ چوہدری مسعود احمد ولد چوہدری کرامت الله رضیہ بیگم بنت خلیفه علیم الدین ۳۰ سید حمید احمد ولد ڈاکٹر شفیع احمد دہلوی طاہرہ نگہت بنت راجہ علی محمد سابق ناظر بیت المال ۲۹۳ رفیق احمد ابن مولوی فرزند علی خان صالحہ وسیم بنت چوہدری رشید احمد خان شیخو پوره ۲۹۳ ۳۲ سید طاہر احمد بخاری ولد سید عبداللہ شاہ بخاری کینیڈا یاسمین ڈار بنت ڈاکٹر عطاء الرحمن ڈارلاہور ۳۳ عبدالستار خاں ولد ماسٹر محمد علی خاں ڈیرہ غازی خان آمنہ بیگم بنت مولوی محمد ابراہیم بھامبری ربوہ ۲۹۹ ۳۴ لیفٹینٹ ملک عبدالمالک ولد ڈاکٹر عبد الحق ملک عائشہ صدیقہ بنت ڈاکٹر کرنل محمد رمضان لاہور ۳۰۱ ۳۵ مرز ا لطف الرحمن ولد بھائی میرزا برکت علی امتہ الکریم میرزا بنت حضرت میرزا برکت علی ایران ۳۰۱ ۳۶ داؤد احمد ولد محمد یا مین نسیم نیروبی قمر النساء ڈار بنت ڈاکٹر طفیل احمد ڈار ۳۷ میرزا حمید احمد ولد میرزا عبداللطیف درویش مبشرہ شاہینہ بنت میرزا عبدالرحمن کندھ پور سندھ ۳۸ ڈاکٹر خالد سعید احمد ولد چوہدری غلام احمد لاہور رخشیده بانو بنت بریگیڈیر ناصر احمد چوہدری ۳۹ ڈاکٹر ظفر محمود صاحب ولد قاضی محمد اکرم خاں عطیہ چوہدری بنت چوہدری غلام احمد ۴۰ و دو داحمد صاحب ولد بھائی محمود احمد صاحب رضیہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر محمد الدین آف وہاڑی ۳۰۹ ۴۱ محمد عمر نصر اللہ ولد چوہدری نصر اللہ خاں قیصرہ پروین بنت چوہدری کرامت اللہ ۴۲ رفیق چانن ۴۳ خواجہ جمیل احمد ولد خواجہ عبد الحمید حنیفہ نیلوفر بنت خلیفہ علیم الدین بشری بیگم بنت خواجہ عبدالستار ۴۴ عطاءالمجیب راشد ولد مولانا ابوالعطاء قانتہ شاہدہ بنت قاضی محمد رشید ٣٠١ ۳۰۵ ۳۰۵ ٣١١ ۳۱۷ ۳۲۱

Page 885

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج ۴۵ نعیم الرحمن طارق ولد مولوی عبد الرحمن عبدالرحمن III نام زوجه امتہ الحمید بنت فتح دین سمیع اللہ ولد حضرت چوہدری حاکم علی سرگودھا منصورہ بیگم بنت حضرت مرزا عبد الحق فہرست فریقین نکاح صفحہ ٣٢١ ۳۲۷ ۴۷ مصطفی احمد خاں ولد حضرت نواب عبد اللہ خاں صاحبزادی امتہ المجيب بنت صاحبزادہ مرزا حمید احمد ۳۲۹ اور میں نصر اللہ خان ولد چوہدری محمد عبد اللہ خان نعیمہ بیگم بنت چوہدری عبد الحمید ۴۹ محمد قاسم خان ولد مولوی نذرمحمد خان رشیدہ بیگم بنت قاضی محمد نذیر لائلپوری ۵۰ سردار منیر احمد ولد ماسٹر عبدالرحمن ۵۱ ظفر اللہ خان ولد سیف اللہ خان ۳۲۹ ۳۴۳ زاہدہ پروین بنت حافظ عبد السلام وکیل المال ثانی (۱۳۴۵ شہزادہ نسرین بنت ڈاکٹر مرزا عبدالرؤف ۵۲ ستمس الدین ولد عزیز الدین خان امۃ اللہ ناز بنت چوہدری محمود احمد ۵۳ شیخ مبشر احمد ولد شیخ محمد رمضان ۵۴ چوہدری محمد اشرف ولد محمد خان ۵۵ بشارت احمد ولد فضل دین ۵۶ | عزیز احمد ۵۷ میر رفیق احمد ولد عزیز الدین فرحت النساء بیگم بنت شیخ فضل کریم ۳۴۷ ۳۴۷ ۳۴۷ نصرت یوسف بنت لیفٹیننٹ کرنل محمد یوسف ۳۴۹ مبار کہ بیگم بنت میاں چراغ دین سیدہ صادقہ بخاری بنت سید محمد احمد شاہ امۃ الرشید بنت عبد اللطیف ٹھیکیدار بھٹہ ۵۸ عبد السميع ساجد ولد ماسٹرمحمد فضل داد دار الرحمت وسطی مبارکہ نیم بنت چوہدری عنایت اللہ ۶۰ ۳۴۹ ۳۴۹ ۳۵۱ ۳۵۳ ۳۵۳ ۳۵۷ ۵۹ اشفاق احمد ولد چوہدری عنایت اللہ راولپنڈی بشری بیگم بنت حکیم فضل الہی ربوہ نفیس احمد ولد حافظ شفیق احمد استاد حافظ کلاس ربوہ امته الرفیق شمیم بنت صو بیدار عبد المنان دہلوی ۳۵۵ عبد الصمد طاہر ولد عبد الرحیم عادل لاہور رضیه خانم بنت ملک محمد اسماعیل ذبیح ۶۲ عبد الرحمن ولد چوہدری محمد شریف سیالکوٹ نعیمہ بیگم بنت چوہدری عبد الحمید درویش قادیان (۳۵۹ چوہدری رحمت اللہ خاں ولد چوہدری عبد الرحمن خاں منیره کشور بنت قاضی حسن محمد ۶۴ محمد اسماعیل ولد میاں محمد ابراہیم ربوہ شفقت عائشہ رحمان بنت حاجی عبدالرحمن نوابشاه ۳۶۱ محمد کریم ولد مولوی محمد شفیع ننکانه ضلع شیخو پوره بشری بنت ملک حبیب الرحمن ربوه ملک عبد الرحیم ولد ملک حبیب الرحمن ربوہ قدسیہ پروین بنت خان عطاء الرحمن لاہور عبدالرحیم عطاءالرحمن ۶۷ خالد حسین خان ولد حامد حسین خان میرٹھی کینیڈا نصرت جہاں احمد بنت میجر شمیم احمد کراچی ۳۵۹ ۳۶۳ ۳۶۳ ۳۶۵

Page 886

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج IV نام زوجه فہرست فریقین نکاح صفحہ ۶۸ نعیم احمد طیب ولد چوہدری محمد صدیق ایم.اے امتہ الحکیم شریف بنت چوہدری محمد شریف سابق مبلغ ۳۶۷ سعید احمد ولد مولوی صالح محمد سابق مبلغ مغربی افریقہ امتہ انصیر شریف بنت چوہدری محمد شریف مبلغ ۳۶۷ محمودہ اختر بنت چوہدری عبدالعزیز کھو کھر ربوہ ۳۶۷ نصر اللہ خاں ناصر مربی سلسلہ ا چوہدری خلیل احمد ولد چوہدری وزیر محمد بوه فهمیده لون بنت محمد اصغرلون آف لندن خواجہ عبد الکریم ولد خواجہ عبد الرحمن آف جہلم صفیه لون بنت محمد اصغرلون آف لندن ۷۳ ڈاکٹر طاہر احمد ولد قریشی محمد اسحق قادیان ڈھا کہ سیدہ زاہدہ ضیاء بنت سید ضیاء احمد منصوری کراچی ۳۶۹ ۷۲ ۷۴ حمید احمد بھٹی ولد ڈاکٹر میجر شاہنواز ربوہ امہ السمیع بنت مولوی محمد احمد جلیل ان کے اسماء ریکارڈ سے نہیں مل سکے ۷۵ لئیق احمد ولد شیخ دوست محمد لائلپور نسرین بنت شیخ عنایت اللہ لا ہور ۳۷۳ ۳۷۵ ۳۷۹ ۷۷ رانا محمد ارشد ایم ایس سی ولد را نا محمد عبد اللہ حلیمه بشری بنت مولوی محمد حفیظ بقا پوری قادیان ۱۳۸۱ ۷۸ گلزار احمد ولد شہاب الدین ۳۸۳ ۳۸۵ ۷۹ صاحبزادہ مرزا ادریس احمد ولد صا حبزادہ مرزا منصور احمد عتیقہ فرزانہ بنت حضرت مرزا عزیز احمد ربوہ ملک فاروق احمد ولد ملک عمر علی کھو کھر رئیس ملتان در شہوار در دانه بنت حضرت مرزا عزیز احمد ر بوه ۳۸۵ ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۵ ۸۶ کیپٹن ایاز محمود احمد خان ولد خان عبدالمجید خان امتہ المجید بنت کرنل مرزا محمد شفیع کراچی عشرت النساء بلقیس اختر رشیدہ سلطانہ مبارکه بیگم نصرت محمودہ ۸۷ را جا غلام حسین ۸۸ | امجد علی ولد چوہدری فرزند علی ۸۹ عبد القادر ولد محمد مقیم ۹۰ محمد رشید جاوید ولد بابو محمد امین طاہرہ بیگم عابدہ بنت نیاز محمد لاہور امۃ الواحد بنت گیانی واحد حسین ۱ امین اللہ خان سالک ولد خان عبد المجید خان بشری صدیقہ بیگم بنت سید محمد اقبال شاہ ۳۸۷ ۳۸۹ ۳۸۹ ۳۸۹ ۳۸۹ ۳۹۱ ۳۹۱ ۳۹۱ ۳۹۳ ۳۹۳ ۳۹۳

Page 887

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج V نام زوجه ۹۲ ملک لال خان ولد ملک سلطان احمد امة اللطیف بنت مرزا برکت علی مرحوم ۹۳ | فضل الرحمن طاہر ولد قاضی عبد الرحمن منصورہ طیبہ بنت عبدالمجید ۹۴ | فیض اللہ ظفر ولد چوہدری رحمت اللہ زاہدہ تسنیم بنت ڈاکٹر عبدالرحمن بدوملہی ۹۵ محمد اقبال ولد فرمان علی ۹۶ شیخ عبدالہادی ولد عبد القادر ۹۷ | نواب محمود احمد ولد نواب محمد احمد بشری حکمت بنت مولوی محمد عبد اللہ امة الخالق بنت غلام احمد فہرست فریقین نکاح صفحہ ۳۹۵ ۳۹۹ ۳۹۹ ۳۹۹ ۴۰۱ صاحبزادی امۃ الشافی بنت صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد ۴۰۳ ۹۸ محمد جمیل چغتائی ولد محمد بشیر چغتائی گوجرانوالہ رفعت سعیدہ بنت مرزا محمد حسین شملوی راولپنڈی ۴۰۹ ۹۹ میر داؤ د احمد ابن میر مشتاق احمد ۱۰۰ محمد عبد اللہ ڈاہری ۱۰۱ سید منیر احمد باہری واقف زندگی صاحبزادی امتہ البصیر بیگم بنت میاں عبدالرحیم احمد ۴۱۱ منصورہ خان بنت خان عبدالمجید خان ۴۱۱ سیده منصورہ بیگم بنت سید زمان علی شاہ بخاری ۴۱۵ ۱۰۲ محمد عبدالرشید ولد چوہدری محمد حسین امتہ النصیر اقبال بنت کرنل جی ایم اقبال چوہدری جمیل احمد ولد چوہدری ناصر احمد کراچی ۱۰۴ کرشن احمد ولد بشیر احمد ضلع گوجرانوالہ سیده آنسه پروین بنت سیدار تضی علی مرحوم ۱۰۵ چوہدری ناصر احمد ولد چوہدری بشیر احمد سعیدہ اختر بنت چوہدری محمد فضل داد ۱۰۶ مختار احمد ولد ماسٹر عبدالکریم کوئٹہ ناصرہ قسم بنت مولوی غلام مصطفیٰ احمد بشارت ابن حکیم نظام جان گوجرانوالہ امینہ خلیل بنت مولوی محمد ابراہیم خلیل ربوه ۴۱۷ ۴۲۳ ۴۲۵ ۴۲۷ ۴۲۷ ۴۲۹ ۴۳۱ ۱۰۸ را شد محمد اللہ دین ولد سیٹھ علی محمد حیدر آباد دکن خلت ناصرہ بنت چوہدری خلیل احمد ناصر امریکہ ۴۳۱ ۱۰۹ امان اللہ قریشی ولد قریشی محمد عبد اللہ ربوہ صادقہ طاہرہ بنت قریشی عبد الغنی لاہور ۱۱۰ کمال الدین حبیب احمد ولد مولوی روشن دین احمد طبیبه حمید بنت میاں عبدالحمید جنجوعہ پی.ڈبلیو آئی ۴۳۵ | قریشی لطیف احمد ولد حکیم محمد فیروز الدین سیدہ شاہدہ تنویر بنت سید عبداللہ شاہ ربوہ ظہیر احمد ولد ڈاکٹر نذیراحمدایڈنبرگ انگلینڈ انیسہ شاہدہ بنت میاں بشیر احمد ایم اے کوئٹہ ۱۱۲ ۱۱۳ عبدالرشید شریف ولد مولوی محمد شریف نازلی سعید بنت ڈاکٹر سعید احمد گیمبیا ۱۱۴ مرزا انصیر احمد ولد مرزا محمد حسین چٹھی مسیح ربوہ زرینہ اختر بنت قریشی مختار احمد ر بوه ۱۱۵ نصیر احمد طارق ولد ڈاکٹر نذیر احمد کراچی شہناز غفور بنت مولوی عبدالغفور مرحوم ۴۳۷ ۴۴۳ ۴۴۵ ۴۴۵ ۴۴۷

Page 888

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج ۱۱۶ شیخ نوید احمد ولد شیخ عبدالواحد 117 VI نام زوجه فہرست فریقین نکاح صفحہ عزیزه نیم صاحبہ بنت حاجی محمد یوسف سیالکوٹ ۴۴۹ ۴۴۹ ۱۱۷ امتیاز احمد باجوہ ولد چوہدری نذیر احمد باجوہ سیالکوٹ ضیاء بٹ بنت خواجہ عبدالرحمن سیالکوٹ ۱۱۸ ڈاکٹر فضل احمد ولد مولوی محمد یعقوب سیالکوٹ نسرین اختر بنت عبد الحمید میانہ پورہ سیالکوٹ ۴۴۹ ۱۲۳ ۴۵۳ ۴۵۷ ۴۶۱ ۴۶۱ ۱۱۹ مبارک احمد طاہر ولد مولوی محمد منور مبلغ بشری ناہید بنت چوہدری احمد دین سیالکوٹ ۴۴۹ چوہدری منیر احمد ولد مولوی محمد ابراہیم بھا مبردی فوزیہ بشری بنت چوہدری عبد العزیز بھا مبری ۴۵۱ کیپٹن محمد یا مین ولد کرنل محمد یوسف را ولپنڈی ناصرہ بیگم بنت کرنل محمد اسلم مرحوم چار باغ ضلع مردان ۴۵۳ عظمت اللہ ولد عنایت اللہ مرحوم دار النصر غربی ربوہ نصیرہ صادقہ بنت مبارک احمد کا رکن لنگر خانه ۴۵۳ محمد اسلم اختر ولد چوہدری محمد علی صاحب لائل پور طیبہ نسرین بنت چوہدری عظمت اللہ لائل پور ۴۵۳ ۱۲۴ کفایت اللہ ولد سلطان احمد سیالکوٹ نسیم اختر بنت چوہدری محمد علی لائلپور ۱۲۵ مرزا محمود احمد ولد مرزا محمد شفیع فرینکفرٹ جرمنی شاہین قیصر بنت مرزا اعظم بیگ ربوه ١٢٦ لطف الرحمن محمود ولد میاں عطا الرحمن ضیاء خاور بنت رشید احمد خان ۱۲۷ لطف المنان ولد میاں عطا الرحمن پروفیسر ٹی آئی کالج تنویر قمر بنت رشید احمد خان ۱۲۸ | قریشی محمود اقبال ولد قریشی عبد الحق شاہدہ بنت مولوی صالح محمد ۱۲۹ رائے عنایت اللہ خان ولد رائے غلام محمد خان عائشہ نصیر بنت ڈاکٹر نصیر احمد خان ۳۰ چوہدری عبدالمجید ولد چوہدری عبدالرحیم چیمہ امتۃ الوحید بنت ملک نواب خان ۱۳۱ کیپٹین منیر احمد ولد مولوی غلام احمد فرخ مربی سلسله منصوره رشید ملک بنت ملک رشید احمد خان کراچی ۴۶۷ ۱۳۲ ضیاء الحسن ولد حکیم انور حسین خانیوال ممتاز انتظار صاحبہ بنت سید ا نتظار حسین کراچی ۴۷۵ ۱۳۳ ملک مظفر احمد ولد ملک خداداد کراچی بشری خانم بنت ملک منیر احمد کراچی ۱۳۴ میر حسین محمود ولد سفیر الدین کراچی آمنہ بیگم بنت مختار احمد کراچی ۱۳۵ محمد منور ولد چوہدری محمد اسماعیل عطیه فرخندہ بنت چوہدری عبدالمنان کراچی ۱۳۹ سردار مبشر احمد قیصرانی ولد سردار غلام محمد خان قیصرانی صبیحہ خانم بنت ڈاکٹر محمد عبد اللہ قریشی ۱۳۷ عبد الغنی کریم ولد عبد الکریم ماریدی انڈونیشیا البشرکی صاحبہ بنت بو گنڈ ا عبدالرزاق انڈونیشیا ۴۶۳ ۴۶۵ ۴۶۵ ۴۷۵ ۴۷۵ ۴۷۵ M22 ۱۳۸ محمد عیسی شاہد ولد چوہدری محمد یوسف ربوہ ممتاز بیگم بنت چوہدری محمد لطیف نوشہرہ ورکاں ۴۷۹

Page 889

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج VII فہرست فریقین نکاح نام زوجه صفحہ ۱۳۹ مرز امحمد اسماعیل ولد مرزا محمد یعقوب ربوہ الفت النساء بیگم بنت مرزا محمد یعقوب لائلپور ۴۷۹ ۱۴۰ | خواجہ محمد رفیق ولد خواجہ محمد شریف ۱۴۱ | لطیف احمد ولد بشیر احمد خالدہ پروین بنت عبدالعزیز قادیان بشری فردوس بنت محمد شفیع سیالکوٹ ۴۷۹ ۴۷۹ ۱۴۲ چوہدری محمد انور ولد چوہدری اللہ ماہی ارشاد بیگم بنت چوہدری محمد لطیف نوشہرہ ورکاں ۴۷۹ شمیم اختر بنت چوہدری دین محمد ۴۷۹ ۱۴۳ | فضل الہی ولد فضل دین ربوه ۱۴۴ محمد انور قریشی ولد قریشی محمد اکمل گولبازار ربوہ امتہ انصیر ملک بنت ملک مبارک احمد پروفیسر ۴۸۵ ۱۴۵ طاہر احمد قریشی ولد قریشی محمد افضل مبلغ مغربی افریقہ قمر النساء بنت قریشی محمد اکمل گولباز ار ر بوه ۱۴۶ ملک مسعود احمد ولد ملک نواب خان لاہور صالحہ یاسمین بنت پر وفیسر محمد ابراہیم ناصر ربوہ ۴۸۷ محمد حسین ولد چوہدری غلام محمد لوله ضلع جھنگ مبارکہ بیگم بنت میاں محمد الدین ربوہ ۱۴۸ محمد خان طاہر ولد عبدالرشید بھٹی لائل پور علیمہ نصرت بنت محمد عارف ۱۴۹ رفیق احمد خان ولد میجر نذیر احمد خان مرحوم ملتان نسیم انور بنت چوہدری محمد انور حسین شیخوپورہ ۱۵۰ ڈاکٹر شریف احمد ولد چوہدری احمد جان را ولپنڈی منصورہ جبین ایم اے بنت مولوی فرزند علی خان ۴۸۷ ۴۸۷ ۴۸۷ ۴۸۹ ۴۸۹ ۴۸۹ ۴۸۹ ۴۸۹ ۴۹۳ ۴۹۳ ۴۹۷ ۱۵۱ محمد عیسی درد ولد مولوی عبد الرحیم صاحب درد منصوره قیوم بنت میاں عبد القیوم کوئٹہ ۱۵۲ | شاہد خلیل ولد پروفیسر محمد طفیل ناز سلمی خاتون بنت چوہدری محمدحسین شیخو پوره ۱۵۳ محمد حکیم بیگ ولد محمد کریم بیگ انگلستان نسیم اختر بیگم مرزا بنت مرزا محمد یعقوب شیخ مظفر احمد ولد حضرت شیخ محمداحمد مظہر لائلپور عطیہ بشیر بنت شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ لاہور ۱۵۵ | محمود احمد فاروقی ولد عبدالغفور فاروقی لاہور سلیمه بشری بنت مولوی محمد حفیظ بقا پوری ۱۵۶ چوہدری منیر احمد ولد چوہدری نذیر احمد ربوہ صادقہ بیگم بنت چوہدری محمد یوسف ۱۵۷ خلیفہ وسیم الدین ولد خلیفہ علیم الدین مرحوم ربوہ ناصرہ بیگم بنت مرزا محمد حسن بیگ پتو کی ضلع لاہور ( ۴۹۹ ۱۵۸ عبد الرزاق احمد ولد چوہدری محمد سلیمان لائل پور صفیہ درد بنت مولوی عبدالرحیم در در بوہ ۱۵۹ عبد المتین خاں ولد عبد القیوم گوجرانوالہ ڈاکٹر رعنا نسرین بنت صلاح الدین ربوہ ۱۶۰ ابوالبرکات محمود ولد مولوی ابوالفضل محمود امریکہ شکیلہ کشور بنت صوفی عبد الغفور ر بوه ۱۶۱ | منیر احمد ولد مسعود احمد خورشید کراچی فہمیدہ اختر بنت عبدالحی مرحوم کراچی ۱۶۲ حسین احمد ملک ولد لیفٹیننٹ کرنل ستار بخش ملک رشیدہ آصفہ بنت سید محمد احمد ر بوه ۱۶۳ محمد دانیال خان ولد محمد عیسی خان کوئٹہ انیسہ نادرہ بنت میاں محمد یونس کوئٹہ ۴۹۹ ۴۹۹ ۴۹۹ ۴۹۹ ۴۹۹ ۴۹۹

Page 890

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج ۱۶۴ عبدالرشید خاں ۱۶۵ الہی بخش VIII نام زوجه فہرست فریقین نکاح صفحہ آصفه مسعودہ بنت چوہدری عبدالرحیم خاں امۃ اللہ عطیہ بنت حاجی عبدالرحمن با ندھی ۵۰۳ ۵۰۳ ۵۰۷ ۱۶۶ محمد نیاز خان ولد چوہدری سردار خان سیالکوٹ امتہ المجمیل بنت ملک عبدالرحمن خادم مرحوم ۱۹۷ مجید احمد ولد منشی محمد صادق ۱۶۸ خلیل احمد ولد شریف احمد مرحوم را شده پروین بنت چوہدری غلام احمد ربوہ عقیقہ بیگم بنت ڈاکٹر عبدالقادر مرحوم ۱۶۹ محمد حنیف قریشی ولد محمد شفیع قریشی ربوه زاہدہ نسرین بنت شیخ غلام احمد لا ہور ۵۰۹ ۱۷۰ چوہدری خلیل احمد ولد چوہدری محمد اکرم خان سیدہ قدسیہ شاہ بنت سید زین العابدین ولی الله شاه ۵۱۱ مغیرہ بیگم بنت عبدالحمید خان نیازی لاہور ۵۱۳ ۵۱۵ طاہر احمد خان ولد رشید احمد خان ۱۷۲ ملک سلطان بارون ولد کرنل سلطان محمد خان صبیحہ بنت چوہدری عبد الحمید خان لاہور ۱۷۳ مظہر احمد ولد چوہدری محمد یوسف ضلع بہاولنگر خالدہ سلطانہ بنت چوہدری بشیر احمد باجوہ بہاولنگر ۵۱۵ ۱۷۴ رفیق احمد اختر ولد کیپٹن ڈاکٹر محمد رمضان ربوہ امتہ الباسط بنت شیخ بشیر احمد سکھری کو ئٹہ ۱۷۵ نعیم احمد طاہر ولد مولوی ظہور حسین سابق مبلغ بخارا محموده ایاز بنت چوہدری مختار احمد ایاز مرحوم ربوه ۵۱۵ ۱۷۶ چوہدری عبد القدیر خان ولد چوہدری اللہ داد خان انوری بیگم بنت چوہدری سلطان محمود شیخو پوره ۱۷۷ ملک رب نواز ولد ملک محمد نواز خان حویلی مجوسی ضلع سرگودہا نعیمه درد بنت مولوی عبد الرحیم درد ۱۷۸ کیپٹن نواز احمد منہاس رض ۵۱۵ ۵۲۱ سلمی اختر ملک بنت لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک | ۵۲۱ ۵۲۱ ۱۷۹ کیپٹن بشیر الدین احمد ولد قاضی شریف الدین لاہور نزہت سعید بنت ڈاکٹر محمد سعید لاہور ۱۸۰ محمود احمد جسوال ولد حبیب اللہ جسوال لندن زکیہ چوہدری بنت میجر چوہدری غلام احمد لاہور ۵۲۱ ۱۸۱ پیر وحید احمد ولد پیر صلاح الدین اسلام آباد صاحبزادی امتہ الصبور بنت پیر معین الدین ربوہ ۵۲۵ ۱۸۲ سید منصور احمد شاہ ولد سید محمد اقبال شاہ کینیا امۃ الباسط بنت ملک سیف الرحمن ربوه ۱۸۳ محمد عثمان چینی مبلغ سلسلہ احمدیہ انکو سلامه بنت حاجی اسماعیل ۱۸۴ خورشید قادر ولد محمد سعید خان راولپنڈی فاخرہ بیگم بنت شیخ نورالحق ۱۸۵ سلیم احمد ولد چوہدری محمد شریف بٹالوی سرگودھا خالدہ ادیب بنت قاری محمد امین ربوه ۵۲۵ ۵۲۵ ۵۲۵ ۵۲۵ ۱۸۶ چوہدری داؤ واحمد ولد چوہدری محمد اسلم ربوہ تارہ نصر الله بنت چوہدری نصر اللہ خان لاہور ۵۲۵ ۱۸۷ مبشر احمد ظفر ولد عطاء الرحمن ربوه نرگس بانو بنت ملک عبدالباسط لاہور ۱۸۸ خواجہ برکات احمد ابن مولوی عبد الرزاق عتیقہ سلطانہ بنت میر غلام احمد کشفی | ۵۲۵ ۵۲۹

Page 891

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج ۱۸۹ بشیر الدین احمد ولد محمد امین خان IX نام زوجه امۃ السلام بنت نور محمد ربوہ فہرست فریقین نکاح صفحہ ۱۹۰ چوہدری محمود احمد ورک ولد چوہدری عبد الحق ورک فرخ جبیں بنت چوہدری رحمت اللہ گجرات ۱۹۳ ۵۳۱ ۵۳۱ ۵۳۱ ۵۳۳ ۵۳۸ ۵۳۸ ۱۹۱ | منیر احمد صدیقی ولد بشیر احمد صدیقی نصرت بیگم بنت غلام احمدر بوہ ۱۹۲ سلیمان احمد طاہر ولد سلطان احمد طاہر کراچی جمیلہ بشری سیفی بنت مولا نانسیم سیفی ربوہ چوہدری مشتاق احمد ولد چوہدری عنایت علی گوجرہ رضیه فردوس بنت پروفیسر محمد ابراہیم ناصر مرحوم ۵۳۵ ۱۹۴ کیپٹن لطیف احمد باجوہ ولد بھائی میجر شریف احمد باجوہ شاہدہ باجوہ بنت چوہدری رحمت اللہ باجوہ ۱۹۵ محمد صدیق ولد چوہدری نور محمد ضلع لائلپور محمودہ تاج بنت مولوی تاج الدین لائلپوری ۱۹۶ بشیر احمد ولد چوہدری نور محمد ضلع لائلپور مبشرہ صالحہ بنت مولوی تاج الدین لائلپوری ۵۳۸ ۱۹۷ منصور احمد مبشر ولد چوہدری مظفر الدین بنگالی ربوہ سیدہ امتہ السلام طاہرہ بنت سیدہ عبد السلام مرحوم ۵۳۸ ۱۹۸ سید جمیل لطیف ولد سید طیب لطیف رقیه بیگم بنت رستم خان مرحوم سعید آباد پشاور ۱۹۹ صفی الرحمن خورشید ولد حکیم حفیظ الرحمن سنوری ربوہ مریم صدیقہ بنت شیخ عبد القادر مرحوم مربی سلسله ۲۰۰ عبد الباسط ولد چوہدری اللہ بخش ربوہ امتۃ الجمیل بنت ڈاکٹر خیر الدین ربوہ ۲۰۱ حامد اقبال ولد عبدالرؤف سیالکوٹ سلمی نثریا ڈار بنت نذیر احمد ڈارلندن ۲۰۲ نثار احمد بٹ ولد فضل الہی بٹ لندن امتہ الجمیل بٹ بنت جمیل احمد بٹ مرحوم حنیفہ احمد کی بنت چوہدری عنایت اللہ ۲۰۳ | محمد اختر ولد مہر علی مرحوم باٹا پور کیپٹن نذیراحمد ولدمحمد فریدون خان آف شیخ البانڈی بشری صفدر بنت میجر محمد صفدر کا کول ۲۰۵ سید تنویر مجتبی ولد ڈاکٹر سید غلام مجتبی سیدہ خالدہ بنت میجر سید مقبول احمد راولپنڈی ۲۰۶ لیفٹیننٹ سید تو قیر مجتبی ولد ڈاکٹر سید غلام مجتبی سیدہ نزہت سیدین بنت سید غلام السیدین ۵۳۹ ۵۳۹ ۵۳۹ ۵۳۹ ۵۴۱ ۵۴۳ ۵۵۱ ۵۵۱ ۲۰۷ سید نصیر شاہ ولد سید بشیر احمد شاہدر بوہ سیدہ مسرت بنت ڈاکٹر حاجی سید جنود اللہ مرحوم | ۵۵۳ ۲۰۸ سید طارق محمود بخاری ولد سید ریاض احمد بخاری سیدہ آمنہ بیگم بنت سید موسی رضا آف چٹا گانگ ۵۵۳ ۲۰۹ مرزا سعید احمد ولد حضرت مرزا عبد الحق سرگودها فاخرہ جبیں بنت ڈاکٹر بشیر احمد ر بوہ ۲۱۰ شیخ محی الاسلام ولد شیخ محمدعبداللہ انگلینڈ طيبه جي بنت کیپٹن عبدالي ربوہ شیخ عبد الخالق ولد شیخ محمد ذاکر ر بوه نصرت سیٹھی بن شیخ مد یونس سیٹھی مرحوم.پیشاور ۲۱۲ شیخ عبدالرشید ظفر ولد شیخ محمد ذاکر مرحوم ربوہ مسرت سیٹھی بنت شیخ عبد العزیز سیٹھی پشاور ♡♡♡ ۵۵۵

Page 892

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج X نام زوجه فہرست فریقین نکاح صفحہ ۲۱۳ اللہ بخش ولد حاجی غلام قادر نواب شاہ سندھ سلمی صاحبہ بنت حاجی عبد الرحمن آف باندھی ۵۵۷ ظفر احمد گھمن ولد فضل حسین گھمن مجہ سیالکوٹ صادقہ رمضان بنت صوفی رمضان علی ربوہ ۵۵۷ ۵۶۱ ۲۱۵ سید محمود احمد ولد ڈاکٹر میر مشتاق احمد لاہور سیدہ نصرت جہاں بنت نواب مسعود احمد خان ۲۱۶ چوہدری محمد عبد الرشید لندن ولد چوہدری محمدحسین را شده بنت چوہدری نورمحمد خاں سٹیشن ماسٹر ساہیوال ۵۶۳ ۲۱۷ چوہدری محمود احمد ورک ولد چوہدری عبد الحق ورک شاہدہ مختار بنت چوہدری احمد مختار کراچی ۲۱۸ انور محمود خان ولد مولا نا عبد المالک خان امتہ احکیم بنت شیخ محمد یعقوب خان کراچی ۵۶۵ ۵۶۷ ۵۶۹ ۲۱۹ سمیع اللہ ولد شیخ محمد عبد اللہ لائلپور بشرى لطیف بنت ڈاکٹر عبد اللطیف لاہور صاحبزادی امتہ النور بیگم بنت میاں عبدالرحیم احمد ۵۷۱ ۲۲۰ ڈاکٹر عبدالمالک شمیم احمد سید مبارک احمد شاہ ولد سید طفیل محمد مرحوم چنیوٹ منصورہ نازلی بنت ڈاکٹر احسان علی ۲۲۲ | محمد اشرف الحق شاہد ۲۲۳ لئیق احمد طاہر مبلغ انگلستان فریده بشیر بنت بشیر احمد مرحوم ربوه امتہ النور بنت مولانا ابوالمنیر نورالحق ربوہ ۵۷۱ ۵۷۱ ۵۷۱ ۲۲۴ ڈاکٹر ناصر احمد خان ولد ڈاکٹر عنایت حسین خان ربوہ سلیمہ شاہنواز بنت ڈاکٹر میجر شاہنواز خان ربوہ ۵۷۱ ۲۲۵ بشیر احمد خالد ولد چوہدری عبد الرحمن خالد ربوہ نعیمہ شاہنواز بنت ڈاکٹر میجر شاہنواز خان ربوہ ۵۷۱ ۲۲۶ خواجہ نسیم احمد ولد خواجہ محمد الدین مرحوم کراچی نصرت جہاں بنت محمد اسرائیل احمد اسلام آباد عبدالشکور جاوید ولد چوہدری عبدالجلیل خاں ربوہ امتہ الرشید بنت چوہدری عبد الرحیم خان ۲۲۷ ۲۲۸ عبدالغفورنیم ولد عبدالرشید انور بدو ملبی صبیحہ ناصر بنت منظور احمد خاں ربوہ ۲۲۹ ۵۷۷ ۵۷۷ نسیم احمد اقبال ولد چوہدری فضل الہی ربوہ آمنہ پروین بنت چوہدری عبدالرحمن خا کی ربوہ ۵۷۷ ۲۳۰ چوہدری حمید اللہ باجوہ ولد چوہدری نصر اللہ خاں امتہ المتین بنت چوہدری نذیر احمد باجوہ ۲۳۱ کلیم احمد خان ولد رشید احمد خان ملتان نیز ظفر صاحبہ بنت مکرم کرنل محمد ظفر اللہ خاں لاہور ۵۷۷ ۵۷۷ ۲۳۲ چوہدری منیر مسعود ولد چوہدری نورالدین ساہیوال زاہدہ سعد بنت چوہدری سعد الدین کھاریاں ۵۷۷ ۲۳۳ ملک لطیف احمد ولد ملک صدیق احمد ساہیوال قدسیہ نسرین بنت ملک نصیر احمد ساہیوال ۲۳۴ مجیب اللہ خاں ولد حبیب اللہ خاں ربوہ نسیم صاحبہ بنت عبد الرحیم خان مرحوم گوجرانوالہ ۵۷۷ عبدالرحیم ۵۷۷

Page 893

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج XI نام زوجه فہرست فریقین نکاح صفحہ ۵۷۷ ۵۷۷ ۲۳۵ رفیع اللہ ولد چوہدری برکت اللہ ربوہ مسعوده عزیز بنت چوہدری عزیز احمد ربوہ داؤداحمد مهارولد چوہدری غلام اللہ سیا لکوٹ ساجدہ باجوہ بنت رشید احمد باجوہ سیالکوٹ ۵۷۷ چوہدری عبدالحي ولد چوہدری عبد الغنی لائلپور بشری بیگم بنت چوہدری محمد شریف احمد ٹیکسلا ۲۳۸ عبدالہادی ولد چوہدری عبدالباری رحیم یار خاں طلعت نسرین بنت چوہدری فضل الدین ربوہ ۵۷۷ ۲۳۹ مجیب الرحمن در دولد مولانا عبد الرحیم درد تسنیم حمید بنت قاضی عبدالحمید ایڈووکیٹ لاہور ۵۸۳ ۲۴۰ غلام مصطفیٰ خاں ولد محم منشی خاں سیالکوٹ رضیہ بشر کی بنت میاں محمد اسماعیل مرحوم ربوه ۵۸۳ طاہرہ تسنیم بنت ملک عبد القدیر خان لائلپور ۵۸۵ ۲۴۱ | زرتشت منیر احمد ۲۴۲ محمد احمد باجوہ امۃ الرشید ملک بنت ملک سعد اللہ خان ربوہ ۵۸۵ ۵۸۷ ۲۴۳ ڈاکٹر نعیم اللہ میر ولد میر حمید اللہ مرحوم مریم حنا شاہ بنت سید محمود اللہ شاہ مرحوم چوہدری محمدعلی ایم اے پر نسپل ٹی آئی کالج ربوہ مبارکہ انجم بنت حکیم سراج الدین مرحوم لاہور | ۵۸۹ ۲۴۴ ۲۴۵ حمید احمد سیٹھی ولد کرم الہی سیٹھی فائقہ سعید بنت ڈاکٹر سعید احمد گیمبیا ۵۹۳ ۵۹۷ ۵۹۷ ۲۴۶ ڈاکٹر نصیر احمد مبشر ولد مولانا نذیر احمد مبشر منصورہ مسعودہ بنت ڈاکٹر حافظ مسعوداحمد سرگودھا ۵۹۷ ۲۴۷ ملک کریم احمد ظفر ولد مولانا ظہور حسین ربوہ امة السبوع بنت میجر عبدالرحمن مغل راولپنڈی ۵۹۷ ۲۴۸ فلائٹ لیفٹینٹ رشید احمد ملک ولد ملک سعید احمد نگہت نسیم بنت شیخ نصیر الحق مرحوم لاہور ۲۴۹ کیپٹن منور احمد مرز اولد مرز اصفدر جنگ ہمایوں نسیم اختر بنت چوہدری شریف احمد خانیوال ۲۵۰ نذیر احمد ایاز ولد مختار احمد ایاز لندن فرحت جبیں زبیری بنت احتجاج علی زبیری ۵۹۷ ۲۵۱ چوہدری مبارک احمد ولد چوہدری حسین بخش لاہور مسرت جہاں بنت ماسٹر عبدالحق ناصر ساہیوال ۵۹۷ ۲۵۲ ملک منصور احمد عمر شاہد ولد ملک غلام احمد ارشد ر بوه امته السمیع را شده بنت مولانا ابوالعطاء جالندھری ۶۰۳ ڈاکٹر عبدالرؤف غنی ولد با بوعبد الغنی انبالوی ناہید صاحبہ بنت شیخ عبدالواحد لا ہور ۲۵۴ ڈاکٹر حامد اللہ خان ولد عبد السلام خان پشاور امته الحي در ثمین بنت صاحبزادہ مرزا منور احمد ۲۵۵ عبدالباسط طاہر ولد عبدالسمیع امة العزیز ثریا بنت میاں گلزار احمد چنیوٹ ۲۵۳ ۲۵۶ عبدالشکور شاکر ولد میاں حاجی عبدالرحمن چنیوٹ ناصرہ ثریا بنت حاجی شریف احمد ربوہ ۲۵۷ چوہدری محمد نفیس احمد ولد مولوی محمد اسماعیل دیا لگڑھی جمیلہ بشیر بنت چوہدری بشیر احمد ۶۰۳ ۶۰۷ ۶۰۷ ۶۱۱

Page 894

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج XII فہرست فریقین نکاح نام زوجه صفحہ ۶۱۳ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۲۵۸ پیر محمد طیب ولد پیر محمد اقبال شجاع آباد ملتان امة النصير بنت پیر صلاح الدین اسلام آباد ۶۱۳ ۲۵۹ | محمد الیاس انگلستان ابن چوہدری محمد یعقوب منصورہ بیگم بنت اشرف احمد خان لاہور ۲۶۰ ظفر احمد خاں ولد محمد عبداللہ خاں لاہور نسرین انور بنت ڈاکٹر انو راحمد خاں ربوہ ۲۶۱ کیپٹن آصف جمیل ولد ڈاکٹر محمد جی احمدی راحت تنویر بنت سید تفضل حسین سرگودها ۲۶۲ قدرت اللہ سعید ولد چوہدری حبیب اللہ سعادت مرز ا بنت مرزا مبارک بیگ راولپنڈی | ۶۱۵ ۲۶۳ امیرالدین ولد صلاح الدین سرگودھا پروین اختر بنت شیخ عبدالرحمن سرگودها ۲۶۴ را جه ناصر احمد ولد راجہ اللہ دتہ نصیر ضلع گجرات امتہ الحکیم ناصر بنت محمد شفیع سلیم کھاریاں ۲۶۵ راجہ بشارت احمد ولد راجہ اللہ دین نصیرہ ضلع گجرات امتہ الحق طاہر بنت محمد شفیع سلیم کھاریاں ۲۶۶ نصیر احمد بٹ ولد نواب دین بٹ لاہور ہدایت ثروت بنت غلام احمد گنج پورہ لاہور ۲۶۷ ریاض احمد ولد چوہدری محمد مالک گوجرانوالہ صفیہ بیگم بنت چوہدری محمد عبد اللہ کھاریاں ۶۱۵ عبداللہ ۲۶۸ محمد اشرف طاہر ولد فضل کریم منصور آبا دلائل پور از کیه تنویر بنت عبدالرشید خان فیکٹری ایریار بوه ۶۱۵ ۲۶۹ محمد شریف ولد سید محمد گر مولہ ورکاں گوجرانوالہ خالدہ بیگم بنت محمد حفیظ گر مولہ ورکاں گوجرانوالہ ۶۱۵ ۲۷۰ غلام احمد خادم ولد نذیر احمد چٹھہ ربوہ امتہ الحفیظ بنت چوہدری فضل احمد گجرات ۲۷۱ منیر الحق را مه ولد میاں عبد الحق را مه ر بوه نادرہ یاسمین بنت کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد ر بوہ عبید الرحمن جاوید ولد عبد الرحمن جنید ہاشمی ربوہ رفعت ڈار بنت چوہدری محمد عبد اللہ ڈار کوئٹہ محمد سعید ولد محمد سلیم قریشی را ولپنڈی شاہدہ تنویر بنت چوہدری محمد رشید دار الصدرر بوه ۶۱۵ ۲۷۴ صالح محمد خان شاہد ولد فتح محمد خان ربوہ امۃ النصیر بنت محمد اسماعیل بقا پوری ربوہ ۲۷۵ محمد سمیع اللہ منہاس ولد محمد سعید اللہ خان ربوہ زاہدہ ناہید بنت چوہدری محمد دین دار الیمن ربوه ۶۱۵ ۲۷۶ وسیم احمد بن عبد اللطیف کپور تھلوی ربوه مبارکہ نسرین بنت لیفٹیننٹ محمود احمد قریشی لاہور ۶۱۵ ۲۷۷ محمد دین تنویر ولد فضل دین دار الصدر شرقی ربوہ عطیہ شاہین بنت چوہدری ظہور الحسن لاہور ۲۷۸ محمد انور ولد غلام سرور کاہلوں سانگلہ ہل عفت ناہید بنت مبارک احمد گوجرانوالہ ۲۷۹ ڈاکٹر شمیم احمد ولد شیخ نور احمد ایڈ ووکیٹ مبارکہ کلثوم بنت چوہدری امام الدین ربوہ ۲۸۰ عبدالرزاق ولد میاں اللہ بخش ربوہ فہمیدہ قسم بنت عبدالقادر گوجرانوالہ ۲۸۱ راجه منصور احمد تاثیر ولد راج محمد حمد نعیم ربوده رخشنده ممتاز بنت چوہدری نذرمحمد گجرات ۲۷۲ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵

Page 895

خطبات ناصر جلد دہم XIII فہرست فریقین نکاح صفحہ نام زوج نام زوجه ۲۸۲ | حبیب اللہ ولد چوہدری اللہ دتہ ضلع سیالکوٹ رقیه بیگم بنت محمد سلیم گھر ضلع سیالکوٹ ۲۸۳ نصیر احمد خاں ولد چوہدری مبارک احمد خاں رفیقہ بیگم بنت چوہدری عبد الرحمن کینیڈا ۶۱۵ ۶۱۵ ۲۸۴ ملک خورشید حیات ولد محمد حیات انگلینڈ حفیظہ صادقہ بنت حافظ بشیر الدین عبید اللہ ربوہ ۶۱۵ ۲۸۵ محمد امجد خان ولد چوہدری حبیب اللہ خان شاہدہ نواز بنت رب نواز سرگودھا ۲۸۶ | سلطان احمد ولد عطا محمد ر بوه شمشاد اختر بنت نیامت علی ضلع لائلپور ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۲۸۷ فدا محمد ولد چوہدری علی محمد ضلع لائلپور پروین اختر بنت غلام احمد ضلع لائلپور ۲۸۸ ریاض احمد ولد چوہدری نثار احمد ضلع سرگودھا بشری بیگم بنت چوہدری غلام احمد ضلع گجرات ۲۸۹ محمد شریف ولد علی محمد ڈگری ضلع تھر پارکر امتہ اللہ باری بنت مولوی غلام باری سیف ربوه ۶۱۵ ۲۹۰ | عبدالمنان ولد عبدالرحمن ناصر گوجرانوالہ خزینہ فردوس بنت چوہدری سعید احمد عالمگیر ۲۹۱ چوہدری نصیر احمد ولد چوہدری سلطان علی گوجرانوالہ فہمیدہ نسرین بنت چوہدری فیض احمد لائلپور | ۶۱۵ ۲۹۲ محمود احمد ولد چوہدری غلام رسول زبیدہ خانم بنت چوہدری فیض احمد ضلع لائلپور | ۶۱۵ ۲۹۴ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۵ ۲۹۳ رحمت اللہ ولد نورمحمد بھا بڑا ضلع سرگودھا زینب بی بی بنت محمد ابراہیم ضلع سرگودھا شیخ غلام رحمانی ولد شیخ غلام جیلانی جمیلہ رحمت اللہ بنت شیخ رحمت اللہ ۲۹۵ ظفر احمد ملی ولد چوہدری غلام حیدر ملہی بہاولنگر شکیلہ خاتون بنت طیب علی خادم ضلع بہاولنگر ۲۹۶ چوہدری اسحق احمد ولد چوہدری مشتاق احمد ظہیر ربوہ امتہ السلام بشر کی بنت ناصر الدین ربوہ ۲۹۷ مقبول احمد ولد علی محمد ضلع لائلپور صغری بی بی بنت عبد اللطیف ضلع ساہیوال ۲۹۸ محمد حنیف ولد محمد ابراہیم ضلع سرگودھا منیره بیگم بنت حبیب اللہ بھا بڑا ضلع سرگودھا ۲۹۹ چوہدری محمود احمد ولد عنایت اللہ و بیس ضلع گجرات رضیہ رحمن بنت حاجی عبد الرحمن ربوہ ۳۰۰ عبد القدیر ولد محمد صدیق کھوکھر ملتان رفعت جہاں آرا بنت محمد رفیق کھوکھر ربوہ ۳۰۱ محمد عبد السمیع ولد چوہدری نادر حسین اوکاڑہ امتہ الکریم فرحت بنت صو بیدار حمید احمد سیف الرحمن خان قیصرانی ولدا میر محمد خان قیصرانی مسعودہ حیات بنت سردار محمد حیات خان قیصرانی ۶۲۱ لیاقت علی خان ولد حکیم یوسف علی خان لاہور امتہ الکریم بنت چوہدری محمد اسماعیل بقا پوری کراچی ۶۲۱ ۳۰۴ میجر مبشر احمد باجوہ ولد چوہدری شیر محمد سرگودھا امتہ الکریم بنت چوہدری نذیر احمد باجوہ سیالکوٹ ۶۳۳ ۳۰۵ میجر صفی اللہ خان ولد کرنل ظفر اللہ خان لائلپور ریحانہ یا کمین بنت چوہدری بشارت احمد خان | ۶۳۳ ٣٠٢ ٣٠٣ ۶۱۵ ۶۱۵ ۶۱۳

Page 896

خطبات ناصر جلد دہم ٣٠٨ نام زوج XIV فہرست فریقین نکاح صفحہ نام زوجه چوہدری منیر نواز ولد چوہدری شاہنواز کراچی عابدہ باجوہ بنت چوہدری رحمت اللہ باجوہ گجرات | ۶۳۹ ۶۳۹ ۶۴۷ ۳۰۷ سید ناصر حمدا تقضی علی ولد سیدارتضی علی مرحوم کراچی سیدہ ذاکرہ بنت میجر سید مقبول احمد راولپنڈی مرزا شکیل مبر و احمد ولد میاں شریف احمد اسلام آباد صاحبزادی امتہ الولی بنت صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد ۶۴۷ ۳۰۹ میاں محمد سحق ربوه ولد میاں محمد ابراہیم مبلغ امریکہ ناصرہ صاحبہ بنت صوبیدار میجر بشیر احمد بوه ۳۱۰ افضال احمد ولد ا قبال احمد شمیم امۃ الکریم نعیمہ بنت کرنل مرزا محمد شفیع راولپنڈی ۶۴۷ ۳۱۱ چوہدری شاہد احمد ولد چوہدری محمد اسلم سیالکوٹ نزہت صاحبہ بنت میجر چوہدری محمد افضل لاہور ۶۴۷ ۳۱۲ عبد الرزاق شاہد ولد مولوی غلام احمد ربوہ امت النور بنت مولوی محمد منور مبلغ سلسلہ احمد یہ ربوہ ۶۴۷ ۳۱۳ خالد سعید لاہور ولد ڈاکٹر سعید احمد گیمبیا بشری شریف بنت چوہدری محمد شریف مبلغ ۳۱۴ صفی اللہ خاں ولد چوہدری عطاء اللہ خاں ربوہ بشریٰ صدیقہ بنت پیر فضل الرحمن سانگھڑ ۳۱۶ ۶۴۷ ۶۴۷ ۶۵۳ ۶۵۳ ۳۱۵ موسی اسماعیل ولد میجر محمد اسماعیل لاہور فرحت رشید بنت ابورشید کراچی چوہدری محمد اکرم ولد چوہدری منشی خاں لائلپور شائسته رفعت بنت صوبیدار میجر محمد شفیع ربوه ۳۱۷ محمد یونس ولد چوہدری محمد یوسف سدھو ملتان مقبول بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عمر الدین سدھو | ۳۱۸ عبد الخالق ولد چوہدری خوشی محمد ضلع سانگھڑ کلثوم بیگم بنت ڈاکٹر عمر الدین سدھو | ۳۱۹ چوہدری نصیر احمد شاہد مربی سلسلہ مجیدہ اختر بنت چوہدری محمد علی باجوہ ضلع سرگودھا ۶۵۷ ۳۲۰ سید مولود احمد ولد سید داؤد مظفر احمد شاہ صاحبزادی امتہ الرافع بنت صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد | ۶۵۹ ۳۲۱ سید مبشر محمود ولد سید عبد الرشید مبارک احمد باجوہ ولد چوہدری شیر محمد باجوہ سرگودھا مبارکه نسرین بنت چوہدری مقبول احمد باجوہ ۳۲۳ مرز انصیر احمد طارق ولد صاحبزادہ مرزا منیر احمد نصرت جہاں احمد بنت صاحبزادہ مرزا مجید احمد ۶۶۳ ۳۲۴) ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب ولد میجر منظور الحسن امته المصور بنت صاحبزادہ کرنل مرز اداؤ داحمد | ۶۶۳ نزہت الماس بنت آغا محمد عبد اللہ مرحوم ربوہ ۶۶۳ ۳۲۷ سیدہ امۃ العزیز بنت سید عبدالقیوم ۳۲۵ وسیم احمد خان ولد غلام احمد خان ربوه ۳۲۶ حفیظ الدین ولد محمد علیم الدین اسلام آباد حلیمہ رشید بنت رشید الدین کراچی کیپٹن نیم احمدسیفی ولد مولوی صالح محمد خان ربوہ امتہ الرافع بنت محمد عبد اللہ ربوہ ۳۲۸ مبشر احمد باجوہ ولد چوہدری محمد شفیع کراچی بشری پروین بنت چوہدری مبارک احمدر بوہ شیخ محمد نعیم ولد شیخ محمداسلم دنیا پور ضلع ملتان المتہ الحلیم زاہدہ بنت مکرم مولوی رشید احمد چغتائی ربوه ۶۵۹ ۶۵۹ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳

Page 897

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج ۳۳۰ ۳۳۱ XV نام زوجه فہرست فریقین نکاح صفحہ محمد وسیم ولد شیخ محمد اسلم دنیا پور ضلع ملتان مصوره ناہید بنت مولوی نذراحمد خان ربوه سید محمد افضل ہاشمی ولد سید محمدمنیر ہاشمی ایبٹ آباد طاہرہ عطا بنت چوہدری عطاء اللہ خان ربوہ ۳۳۲ انس فاروق ولد چوہدری غلام اللہ لاہور فراست صاحبہ بنت شیخ محمد اقبال کوئٹہ ۳۳۳ نصیر محمد خان ولد ڈاکٹر میجر محمد خان عدن سیده خانم بنت غلام مصطفی نصیر مضلع گجرات ۳۳۴ عبد الحفيظ ولد عبداللطیف لاہور ڈاکٹر عارفہ کوثر بنت مکرم میاں بشیر احمد کوئٹہ ۳۳۷ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۳۳۵ ڈاکٹر انوار احمد نوری ولد میجر ڈاکٹر منیر احمد خالد افشاں کرنی بنت مکرم عنایت اللہ خاں کوئٹہ ۳۳۶ سلیم احمد ناصر ولد چوہدری عبدالستار رحیم یارخان ریحانه باجوہ بنت چوہدری عبد اللہ باجوہ لاہور ۶۶۳ رفعت محمود ولد ڈاکٹر اعجاز الحق راولپنڈی عاہدہ ملک بنت عزیز محمد خان ڈیرہ غازی خان ۶۶۳ ۳۳۸ کنور مطلوب احمد خان ولد چوہدری رفیق حمد خان ربوہ مسرت بیگم بنت را جه محمد مرزاخان ۳۳۹ | محمد ظفر ولد محمد سعیدر بوه بشری بیگم بنت رحیم بخش مرحوم احمد نگر ۳۴۰ محمد رشید احمد ولد محمد صدیق نارووال نصرت جہاں بیگم بنت محمد انور نارووال ضلع سیالکوٹ ۳۴۱ محمد صدیق ولد محمد لطیف چک ۲۰ ضلع گجرات روبینہ شاہین بنت صوبیدارمحمد عظیم ضلع گجرات ۳۴۲ کرامت حسین مختار ولد مختار احمد آزاد کشمیر کلثوم اختر بنت شمس الدین آزاد کشمیر ۳۴۳ ارشد اقبال ولد خلیل احمد ضلع لائلپور صفیہ بیگم بنت حکیم بشیر احمد دار النصر ر بوه ۳۴۴ چوہدری حامد کریم ولد چوہدری فضل کریم لائلپور سلمی منور بنت چوہدری منور احمد ربوہ ۳۴۵ بشیر احمد ولد عنایت اللہ ضلع سیالکوٹ نصرت سلطانہ بنت چوہدری عبدالحمید لائلپور ۶۶۳ ۳۴۶ رشید احمد ولد عنایت اللہ قلعہ صوبھا سنگھ سیالکوٹ کشور سلطانہ بنت چوہدری عبدالحمید لائلپور ۳۴۷ بشیر احمد طاہر ولد میاں محمد مغل مرحوم چنیوٹ بشری طبیبہ بنت شیخ محمد شریف گوجرانوالہ ۳۴۸ چوہدری منور احمد ولد چوہدری نواب الدین نصرت بیگم صاحبہ بنت چوہدری محمد اسحق ۳۴۹ ملک محمود مبارک ولد ملک مبارک علی لاہور صفیہ میر بنت خواجہ غلام احمد سیالکوٹ شہر ۳۵۰ محمد انور عارف ولد محمد عامل بدر سر گودها طاہرہ پروین بنت عبداللطیف کراچی ۳۵۱ محمد یونس ولد چوہدری مبارک احمد ضلع جھنگ امتہ الباری بنت محمد سلیمان ضلع لائلپور ملک نیم احد ولد ملک محمد ابراہیم ضلع سیالکوٹ شاہدہ ملک بنت ڈاکٹر رحمت اللہ ضلع سیالکوٹ ۳۵۲ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳

Page 898

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج XVI فہرست فریقین نکاح نام زوجه صفحہ ۶۶۳ ۳۵۳ عبد الغفور ناصر ولد عبد الستار ناصر نسیم طاہرہ بنت ماسٹر محمد ابراہیم شاد ضلع شیخو پوره | ۶۶۳ ۳۵۴ محمود احمد ولد راجہ بہادر خاں مونگ ضلع گجرات بشری نعیمہ بنت غلام رسول کالس ضلع گجرات ۳۵۵ میر عبدالمجید شاہد ولد میر فقیر محمد نجمہ احمد بنت میاں احمد یار پاکپٹن ضلع ساہیوال | ۶۶۳ ۳۵۶ | مبشر احمد منہاس ولد میاں غلام نبی خان بہاولنگر شمیم اختر بنت میاں محمد سلطان خان بہاولنگر ۳۵۷ ناصر احمد قریشی ولد قریشی محمد افضل ربوه قدسیہ طاہرہ بنت قریشی محمد المکمل ربوہ ۳۵۸ داؤ د احمد ولد چوہدری محمد اشرف کاہلوں ساہیوال ناصرہ پروین بنت چوہدری محمد اسلم کاہلوں ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۳۵۹ | عبدالرؤف خاں ولد چوہدری عبد الغفور خاں بشری پروین بنت چوہدری عبدالغفور خاں محمد يحي ولد چوہدری محمد عبداللہ ضلع گجرات ساجدہ ممتاز بنت چوہدری ممتاز احمد ساہیوال | ۶۶۳ ۳۶۱ عبد الکریم قدسی ولد مستری اللہ دی ضلع شیخو پوره بشری بیگم بنت مستری صلاح الدین گوجرانوالہ ۳۶۲ ضیاء الدین ظفر ولد مستری صلاح الدین گوجرانوالہ عصمت ریحانہ بنت بشیر احمد قریشی سیالکوٹ ۶۶۳ محمد ظفر اللہ ولد چوہدری محمد عطار بی شیخو پوره طاہرہ قسم بنت چوہدری غلام دستگیر لائلپور چوہدری منیر الرحمن ولد چوہدری عبدالرحمن ربوہ بشری پروین بنت چوہدری شاہ محمد سیالکوٹ ۳۶۳ ۳۶۴ ۳۶۵ چوہدری منیر احمد ولد چوہدری نذیر احمد لائلپور امتة النصیر ناصرہ بنت فتح محمد خاں ربوہ ۳۶۶ افتخار انور ولد صو بیدار محمد شریف ضلع گجرات عزیزہ بیگم بنت راجہ محمد تاج ضلع گجرات ۳۶۷ محمد شریف ولد اللہ رکھاما نگا ضلع سیالکوٹ ناصرہ بیگم بنت محمد علی خان راجپوت ضلع لائلپور غلام سرور ولد نور الہی ضلع لائلپور حیاتاں بی بی بنت فتح دین خوشاب ضلع سرگودھا ۳۶۹ بشارت احمد ولد چوہدری نور محمد ر بوه نصرت جہاں بیگم بنت را جد محمد مرزا خان خلیل احمد ناصر ولد چوہدری عنایت اللہ سیا لکوٹ مسرت بیگم بنت چوہدری نذیر احمد کراچی فہیمہ بیگم بنت چوہدری بشیر احمد کراچی ů ۳۷۱ محمد اسحق ولد علی محمد کراچی ۳۷۲ چوہدری منور احمد باجوہ ولد چوہدری محمد حسین باجوہ انیسہ مشتاق بنت چوہدری مشتاق احمد ربوہ ۳۷۳ محمود احمد ولد صدیق محمد موسیٰ والا ضلع سیالکوٹ صفیہ بیگم بنت محمد ابراہیم ضلع لائلپور ۳۷۴ محمد عارف ولد معراج دین لاہور ۳۷۵ انور احمد ولد مختار احمد ربوه صفیہ بیگم بنت کریم الدین ربوہ شہباز اختر بنت سردار محمد الحق لاہور ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۳۷۶ محمد یعقوب ولد علی محمد کراچی نسرین اختر بنت نواب الدین ٹھیکیدار ۶۶۳

Page 899

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج XVII فہرست فریقین نکاح نام زوجه صفحہ ۳۸۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۳۷۷ سلطان احمد ولد غلام حیدر گوجرانوالہ ساجدہ پروین بنت ظفر اللہ خان گھمن گوجرانوالہ ۶۶۳ ۳۷۸ مبارک احمد قمر ولد شیخ عبدالرشید شر ما.شکار پور غزالہ قمر بنت عبد الحي صابر ربوہ ۳۷۹ عبد القیوم بھٹی ولد عبدالکریم بھٹی جیکب آباد مبارکہ بیگم بنت شیخ عبدالرشید شکار پور سندھ ۳۸۰ کولمبس خان ولد حیات محمد خان ربوہ امتہ المتین بنت کیپٹن محمد سعید ر بوه ۳۸۱ | منور احمد ولد چوہدری حاکم علی سرگودھا فرخندہ جبیں اختر بنت حافظ عبد اللطیف سرگودھا | ۶۶۳ ۳۸۲ سلطان احمد ولد چوہدری محب الرحمن لائلپور نصرت جہاں بیگم بنت صو بیدار حبیب الرحمن فضل احمد ولد چوہدری محب الرحمن لائلپور شگفته بی بی بنت چوہدری محبوب الرحمن ۳۸۴ مفتی احمد صادق شاہد ولد حضرت مفتی محمد صادق امتہ الکریم نزہت بنت حافظ بشیر الدین عبیداللہ ۶۷۱ ۳۸۵ | سید شاہد حامد ولد سید عبدالجلیل امتہ الناصر قسم بنت کرنل صاحبزادہ مرزا داؤ داحمد ۶۷۱ ۳۸۶ ملک خالد احمد زفر ولد ملک عمر علی کھوکھر ملتان امۃ الواسع رعنا بنت نواب مسعود احمد خان ربوہ ۶۷۱ لیفٹینٹ عبدالبصير حي ولد گروپ کیپٹن عبدائي ربوه صادقه مرز بنت مرزا عطاء الرحمن ربوه ۳۸۸ | حامد احمد خالد ولد شیخ محبوب عالم خالد حمیدہ مرزا بنت مرزا محمد ادریس ربوہ ۳۸۹ ملک طاہر احمد ولد ملک حبیب الرحمن ربوہ تحسین فردوس بنت قاضی شریف الدین ربوہ ۶۷۳ ۳۹۰ ناصر احمد سا ہی ولد چوہدری محمد طفیل سیالکوٹ امتہ الہادی بنت شیخ مبارک احمد لندن ۹۱ مبارک احمد خاں ولد محمد اسماعیل کا تب ربوہ شمیم نصرت بنت ملک عبد المالک خاں لاہور ۶۷۵ میاں عبدالبصیر نون ولد میاں عبدالسمیع نون رفعت سلطانہ بنت میاں رشید احمد ربوہ ۳۹۳ میاں محمد ارشد ولد میاں رشید احمد ربوہ مبارکہ بیگم بنت چوہدری محمد حیات خاں گوجرانوالہ ۶۷۷ ۳۹۴ ڈاکٹر حمید الرحمن خان ولد مولوی خلیل الرحمن خان عزیزہ سلام بیگم بنت ڈاکٹر عبد السلام ۳۸۷ ۳۹۲ ۶۷۱ ۶۷۳ ۶۷۳ 722 ۶۷۹ ۶۸۳ ۶۸۵ ۶۸۵ ۳۹۵ سعید احمد قریشی ولد محمود الحسن قریشی ربوه طیہ افضل بنت محمد افضل کھوکھر ۳۹۶ مرزا مغفور احمد ولد صا حبزادہ مرزا منصور احمد سیدہ امتہ المصور بنت سید میر داؤ داحمد مرحوم ۳۹۷ مرزا فرید احمد ولد حضرت مرزا ناصر احمد نزہت عزیز بنت حضرت مرزا عزیز احمد ربوہ ۳۹۸ | مرز القمان احمد ولد حضرت مرزا ناصر احمد امتہ المجید شاہدہ بنت محمد حسن خان درانی ربوه | ۶۸۵ ۳۹۹ صلاح الدین ایوبی ولد مصلح الدین سعدی مرحوم انیسہ شکور بنت چوہدری عبدالشکور ملتان چھاؤنی | ۶۸۵ ۴۰۰ منیر الحق شاہد ولد مولوی ابوالمنیر نور الحق ربوہ شاہدہ نگہت بنت مرزا ارشد بیگ لاہور منیرالحق ۴۰۱ نعیم الدین احمد ولد چوہدری صلاح الدین احمد ر بوه نویدہ بنت چوہدری ناصر احمد بہلول پور ضلع لائلپور | ۶۸۵ ۶۸۵

Page 900

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج XVIII نام زوجه فہرست فریقین نکاح صفحہ ۲۴۰۲۰ اشفقت محمود ولد چوہدری محمد اعظم ضلع سیالکوٹ بشری بیگم بنت چوہدری عنایت اللہ ضلع لائلپور ی ۶۸۵ ۴۰۳ مسعود احمد نیازی ولد فضل محمد خان نیازی ربوہ بشری صاحبہ بنت اقبال احمد صاحب ربوہ ۴۰۴ انعام الحق کوثر مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ سیده امۃ الحفیظ بنت سید محمد سلیمان شاہ ربوہ ۶۹۵ ۶۹۷ ۶۹۷ ۶۹۹ 2 +1 2 +1 ۷۰۳ 2.2 ۴۰۵ مرزا عبدالوحید ولد مرز اعبد الحمید ربوہ بشری پروین بنت عبد الغفار خان ربوه ۴٠۶ لیفٹیننٹ نوید سعید ولد میجر محمد سعید لاہور عقیلہ شمس بنت حضرت مولانا جلال الدین شمس | ۶۹۹ ۴۰۷ بشیر الدین شمس ولد مولانا جلال الدین شمس نور عین فضل بنت شیخ فضل احمد لاہور ۴۰۸ زاہد محمود ولد چوہدری غلام نبی ضلع لائلپور طیبہ بیگم بنت چوہدری محمد اسلم سیالکوٹ ۴۰۹ نعیم احمد ولد چوہدری منور احمد لاہور مبارکہ بیگم بنت چوہدری محمد اسلم سیالکوٹ ۴۱۰ لیپٹین سید منصور وقار ولد سید مسعود احمد شاہ بخاری لاہور طاہرہ مشتاق بنت ڈاکٹر میر مشتاق احمد لاہور ۲۱۱ مرزا عمر احمد ولد ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد سیدہ امتہ الکافی بنت میجر سعید احمد لاہور ۴۱۲ | فاروق احمد خان ولد عباس احمد خان لاہور طاہرہ ملک بنت ملک عمر علی کھوکھر ملتان ۴۱۳ ڈاکٹر تاثیر مجتبی ولد ڈاکٹر غلام مجتبی کراچی صاحبزادی امتہ الرؤف بنت سید داؤ د مظفر شاہ ۷۰۷ ۴۱۴ سید منصور احمد ولد سید مقبول احمد راولپنڈی نجمہ نصیر بنت سید نصیر احمد شاہ لاہور ۴۱۵ مظفر احمد ثاقب ولد چوہدری منظور احمد نارنگ منڈی امتہ النصیر طاہرہ بنت میاں عطاء الرحمن ربوہ ۷۰۷ ۷۰۷ ۷۰۷ 2.2 ۷۰۷ ۷۰۷ ۷۰۷ ۴۱۶ نعیم الرحمن در د ولد مولوی عبد الرحیم در د لاهور نسرین شریف بنت شیخ محمد شریف ۴۱۷ مرزا یوسف جان ولد مرزاعبدالله جان ایبٹ آباد نزہت صاحبہ بنت مرزا عبدالرحمن کراچی ۴۱۸ ڈاکٹر محمود احمد خواجہ ولد خواجہ محمد شریف مرحوم پشاور امتہ القیوم بنت چوہدری محمد اکرام اللہ ملتان ۴۱۹ محمد اسلم ولد جھنڈے خان ضلع لائلپور راشدہ ناہید بنت غلام حسین ٹھیکیدارر بوه ۴۲۰ اور میں احمد ولد میاں مہر دین ربوہ فرحت اکبر بنت اخوند محمد اکبر خان مرحوم ملتان ۷۰۷ ۴۲۱ کیپٹن طاہر احمد ولد چوہدری غلام حسین ربوہ ڈاکٹر جاویدہ مبارکہ بنت میاں محمد یونس جنجوعہ ۴۲۲ عبدالمناف خاں ولد چوہدری بوٹے خاں زاہدہ پروین بنت کیپٹن نذیر احمد ضلع سیالکوٹ ۴۲۳ ڈاکٹر لئیق احمد انصاری ولد قاضی محمد رشید انصاری ربوہ شاہدہ قدیر بنت مرزا عبدالقدیر کراچی ۴۲۲ محمد حمید ولد میاں محمد رفیق لاہور امۃ الوحید بنت ملک عبدالرب خان لاہور ۴۲۵ عبد الحکیم عابد ولد مرزا غلام قادر لاہور ممتاز صاحبہ بنت میاں محمد رفیق لاہور ۷۰۷ ۷۰۷ ۷۰۷ 2.2

Page 901

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج XIX نام زوجه فہرست فریقین نکاح صفحہ ۴۲۶ نصیر احمد ولد چوہدری محمد شریف راولپنڈی نسرین اختر بنت چوہدری فضل حسین راولپنڈی ۴۲۷ بشارت احمد محمود ولد چوہدری رحمت اللہ امتة النصیر بنت چوہدری محمد شریف راولپنڈی ۴۲۸ چوہدری محمود احمد مربی سلسلہ ولد چوہدری نذرمحمد سکینہ پروین بنت چوہدری مولا بخش ربوه انجم ماہ جبیں بنت میاں غلام حسین لاہور ۴۲۹ | ظفر احمد ولد محمد شفیع لاہور ۴۳۰ | عبد الحلیم ولد عبدالمجید کراچی امة النور بنت میر نور احمد تالپور حیدر آباد 2.2 2.2 ۷۰۷ ۷۰۷ 2.2 ۷۰۷ ۷۰۷ 2.2 ۴۳۱ ڈاکٹر عبدالسمیع ولد چوہدری عبدالرحمن ملتان ناصرہ بیگم بنت عبدالمجید کراچی ۴۳۲ مرز امحمد صدیق ولد مرزا محمد لطیف گوجره امۃ القیوم بنت رشید احمد ر بوه ۴۳۳ | محفوظ الرحمن ولد منشی خان نارووال صفیہ بیگم بنت چوہدری محمد شریف احمد ٹیکسلا ۴۳۴ محمد لطیف تاج ولد امین الدین کراچی مبارکہ سلطانہ بنت جمال دین کراچی ۴۳۵ محمود احمد ولد لطیف احمد نبی سر روڈ امہ الباسط طاہرہ بنت عبد الحق بو بک ربوہ عزیز الرحمن ولد چوہدری فضل کریم سندھ فہمیدہ اختر بنت چوہدری محمد اقبال ضلع سیالکوٹ ۷۰۷ ۴۳۷ ظہوراحمد ولد را نا عبدالمجید کلاس والا عابدہ خالد بنت خالد محمود بھٹی لائلپور ۴۳۶ ۴۳۸ ۴۳۹ محمد اصغر علی ولد شرف علی جہلم لطیف بیگم بنت نورالہی ضلع لائلپور ۷۰۷ 2.2 ۷۰۷ ۷۰۷ 2.2 ۷۰۷ ۷۰۷ 2.2 محمد رمضان ولد مستری محمدعلی ضلع شیخوپوره صادقه بیگم بنت مستری بشیر احمدسرگودها ۴۴۰ محمد طفیل ولد چوہدری باغ علی ضلع لائلپور صفیه قمر بنت چوہدری عمر دین ضلع ساہیوال ۴۴۱ انعام اشعر ولد فضل الہی خان درویش لاہور عابدہ بر جبیں بنت قریشی عبدالحي ملتان ۴۴۲ محمدمحسن ولد ڈاکٹر محمد اشرف چوہان گوجرہ زرینه اختر بنت حکیم فضل محمد ہی ۴۴۳ محمود احمد شکیل ولد حکیم فضل محمد یہی میمونه اختر بنت ڈاکٹر محمد اشرف چوہان گوجرہ مصلح الدین ولد محمد علیم الدین ربوہ امۃ الشافی بنت عبد اللہ ربوہ بشیر احمد ولد چوہدری نذیر احمد رحیم یار خان نعیمه خانم بنت ملک حنیف خان.خان پور ۴۴۶ | سعید احمد ولد چوہدری نذیر احمد رحیم یار خان نعیمہ بیگم بنت برکت اللہ ربوہ ۴۴۷ ذوالقرنین ولد چوہدری بشیر احمد صراف ڈسکہ ناہید شریف بنت چوہدری محمد شریف لاہور ۴۴۸ منیر احمد ولد میاں نذیر احمد ناصر ڈسکہ کشور سلطانہ بنت چوہدری بشیر احمد صراف ڈسکہ ۷۰۷ ۴۴۹ چوہدری منظور احمد ولد چوہدری سلطان احمد وڑائچ ریحانہ بشری بنت چوہدری احمد دین چیمہ ۴۴۵ 2.2 2.2 2.2 ۷۰۷ ۷۰۷ 2.2

Page 902

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج XX نام زوجه فہرست فریقین نکاح صفحہ ۴۵۰ عبد السمیع احمد ولد محمد عبد الخالق سکھر فرزانه پروین بنت بشیر احمد چغتائی مرحوم واہ کینٹ ۴۵۱ چوہدری سعید احمد ولد چوہدری حسن دین مرحوم مسرت النساء بنت چوہدری علم دین مرحوم ۴۵۲ | محمد صادق ولد مستری محمد حسین قصور مقصودہ بیگم بنت مستری ولی محمد ہڈیارہ ۴۵۳ سیف اللہ ولد چوہدری محمد نواز ضلع شیخو پوره فرحت ظفر بنت کرنل محمد ظفر اللہ خان لاہور ۴۵۴ کیپٹین منور احمد را نا ولد میجر انور احمد خان ملتان عشرت ظفر بنت کرنل محمد ظفر اللہ خان لاہور ۷۰۷ 2.2 ۷۰۷ ۷۰۷ 2.2 ۷۰۷ 2.2 2.2 2.2 ۴۵۵ را نا عبد الباسط خان ولد میجر عبد القادر خان شاہدہ شاہین بنت چوہدری عبد الرحیم خان ۴۵۶ مظفر احمد ولد ناصر احمد چک ۷۸ جنوبی ضلع سرگودھا آصفہ چوہدری بنت چوہدری فیروز احمد خاں ربوہ ۴۵۷ مبارک احمد چیمہ ولد غلام احمد چیمہ امة الودود بنت چوہدری ہدایت اللہ ۴۵۸ سید منظور احمد زاہد ولد سید محمد سلیمان ربوه سیدہ نعیمہ صادق بنت سید عبدالغنی شاہ ربوہ ۴۵۹ عبد الخالق خان ولد چوہدری عبد القادر خان ربوہ شہناز کوثر بنت چوہدری خلیل الرحمن ربوه ۴۶۰ عبد المغنی زاہد ولد چوہدری عبد المومن خاں ربوہ عابدہ شفیقہ بنت چوہدری عبد الخالق خان ربوہ ۷۰۷ ۴۶۱ مبشر احمد ولد سید احمد پنڈی لالہ ضلع گجرات اختر جبیں بنت غلام رسول ضلع سرگودھا ۴۶۲ مرزا آصف بیگ ولد مرزا منیر اللہ بیگ ضلع لاہور طاہرہ کوثر بنت مرزا اصغر بیگ مرحوم لائلپور ۴۶۳ اعجاز احمد مہار ولد چوہدری بشیر احمد مہار ضلع لائلپور ممتاز فاطمہ بنت چوہدری عبد اللہ خان راولپنڈی ۷۰۷ ۴۶۴ محمد یونس بھٹی ولد رحمت اللہ بھٹی ربوہ نصرت پروین بنت محمد صادق ربوہ نصرت النساء بنت حاجی محمد شفیع پنیار ۴۶۵ مبشر احمد ولد چوہدری مختار احمد سرگودھا ۴۶۶ نصیر احمد ولد چوہدری محمد مختار شیخو پوره نجمه پروین بنت چوہدری محمدعلی شیخو پوره قریشی مبارک احمد ولد قریشی عبد اللطیف ربوہ سکینہ شاہین بنت چوہدری عالم دین لاہور ۴۶۸ محمد حیات ولد چوہدری محمد اسماعیل کھر پر ضلع لاہور نگہت پروین بنت چو ہدری عبدالوحید گوجرہ ۴۹ محمد لئیق ولد چوہدری محمد طیف پنگریو ضلع بدین امتہ الرحیم بنت چوہدری نبی بخش قمر آباد ۴۷۰ ظفر احمد ولد ماسٹر غلام محمد شہیدر بوہ نسرین اختر بنت عبد الرحمن جڑانوالہ ۴۷۱ شوکت حیات ولد نور محمد ضلع گوجرانوالہ مبشرہ پروین بنت محمد صادق ربوه ۴۷۲ رشید احمد بھٹی ولد چوہدری نور محمد بشیر آباد نصرت جہاں بیگم بنت چوہدری محمد علی سندھ ۴۷۳ منور احمد ولد ملک محمد اسلم سیالکوٹ شاہین کوثر بنت چوہدری محمد سعید احمد ربوہ ۷۰۷ ۷۰۷ 2.2 ۷۰۷ 2.2 2.2 2.2 2.2 ۷۰۷ ۷۰۷ 2.2 2.2

Page 903

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج XXI نام زوجه ۴۷۴ | مبارک احمد ولد فضل داد ضلع سیالکوٹ شاہدہ پروین بنت محمد اسلم مضلع سیالکوٹ ۴۷۵ | مقصود احمد ہمایوں ولد ملک عبدالواحد ضلع جہلم حمیدہ اختر بنت ملک فضل دین ربوه ۴۷۶ شیخ محمد منشاولد شیخ محمد شفیع ربوه فہرست فریقین نکاح صفحہ 2.2 2.2 امتة اللطیف بنت چوہدری وزیر محمد مرحوم ربوہ ۷۰۷ ۴۷۷ کیپٹن ڈاکٹر محمد ظفر اقبال ولد چوہدری محمد دین وینس را شده با جوه بنت چوہدری شریف احمد باجوہ ۷۱۵ ۴۷۸ سید امجد لطیف ولد صا حبزادہ سید محمد طیب لطیف نصرت جہاں شمس بنت بابو شمس الدین مرحوم ۷۱۷ ۴۷۹ محمد ارشد احمدی ولد محمد یوسف احمدی انگلینڈ امة البصير بنت خلیفہ صلاح الدین مرحوم ۷۱۹ ۷۱۹ ۷۲۵ ۴۸۰ سید امجد بشیر ولد کرنل سید بشیر احمد ر بوه سیدہ راحیلہ منصور بنت سید منور حسین کراچی ۴۸۱ نواب منصور احمد خان ولد نواب مسعود احمد خان ربوہ اللہ العلیم عصمت بنت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد قادیان ۷۲۱ ۴۸۲ منیر الدین شمس ولد مولانا جلال الدین شمس ریحانه با نو بنت عبد الرحیم لون جہلم عبدالرحیم ۴۸۳ سید محمود جنود اللہ ولد ڈاکٹر حاجی جنود اللہ سرگودھا طاہرہ قدسیه بنت خان عبد الستار خان ایڈووکیٹ ۷۲۵ ۴۸۴ داؤ د احمد طاہر ولد مولوی محمد یعقوب را شده تسنیم بنت چوہدری بشیر احمد لاہور ۴۸۵ چوہدری مبشر احمد کاہلوں مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ امتہ النعیم بنت چوہدری محمد شریف دیہہ دمبالوسندھ ۷۲۹ چوہدری لیاقت محمود ولد چوہدری نیاز قطب کلر کہار حمیدہ خاتون بنت کرم بخش حسن ابدال ۷۲۵ ۷۳۱ ۷۳۳ ۷۳۳ ۷۳۷ ۷۳۹ ۴۸۷ فلائٹ لیفٹینٹ طارق پرویز ولد چوہدری علی محمد امۃ الرشید بنت میجر عبدالحمید ر بوه ۲۸۸ مهر منیر اختر کملانہ ولد مہر محمد نواب خاں رفیقه صداقت بنت ملک محمد رفیق ربوه ۴۸۹ صفی اللہ ولد غلام قادر ر بوه زکیہ کلیم بنت مولا نا عطاء اللہ کلیم ۴۹۰ ظہیر احمد باجوہ ولد چوہدری عبد اللہ باجوہ ربوہ طاہرہ تنویر عارف بنت چوہدری محمد یا ر عارف ۷۳۷ ۴۹۱ چوہدری سلطان احمد ولد چوہدری فتح محمد بشری محمود بنت لیفٹیننٹ کرنل محمود احمد ربوہ ۴۹۲ نصیر احمد باجوہ ولد چوہدری ظہور احمد باجوہ نزہت باجوہ بنت چوہدری شریف احمد باجوہ ۷۴۱ نسیم مهدی ولد مولوی احمد خان نسیم فیضیه عزیز بنت چوہدری عبد العزیز بھا مبری ۷۴۵ ۴۹۴ نیک محمد ولد صالح محمد ر بوه ناصرہ بیگم بنت محمد سرور پی.اے.ایف سرگودھا ۷۴۹ ۴۹۵ | ناصر جاوید خان ولد ملک صفدر علی خان کراچی مبارکہ ایاز بنت چوہدی مختار احمد ایاز مرحوم ۴۹۶ کیپٹن محمد مطلوب الحسن نوری ولد میجر (ر) منظور الحسن فیروزه فائزہ بنت عبدالرحمن جنید ہاشمی ربوہ ۴۹۳ ۴۹۷ حضرت مرزا مسرور احمد ولد حضرت مرزا منصور احمد سیدہ امۃ السبوح بنت سید داؤ د مظفر شاہ ۷۴۹ ۷۵۱ ۷۵۳

Page 904

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج XXII فہرست فریقین نکاح نام زوجه صفحہ ۷۵۷ ۷۵۹ ۷۵۹ ۴۹۸ مظفر احمد خان ولد خواص خان پشاور امۃ الودود بنت صاحبزادہ مرزا ظفر احمد کراچی ۷۵۳ ۴۹۹ ملک رؤف احمد ولد ملک عبد اللطیف ظہور لاہور را شده منصوره بنت مولوی عبدالباقی مرحوم ۵۰۰ | طاہر عزیز ولد قریشی رحمت اللہ لائلپور حفصہ فردوس بنت فضل الہی انوری واقف زندگی ۷۵۹ ۵۰۱ عبد القدیر فیاض ولد غلام محمد ربوه امة الباسط بنت چوہدری عبد اللطیف ربوہ ۵۰۲ لئیق احمد ولد چوہدری عزیز احمد ربوہ نگہت نواز بنت چوہدری محمد نواز لاہور ۵۰۳ سیم احمد ولد چوہدری عزیز احمد ربوہ را شده نصیر بنت نصیر احمد مرحوم ضلع لائلپور ۵۰۴ مظفر احمد خان ولد چوہدری عبدالرحیم کا ٹھگر بھی ربوہ نسیم خانم بنت چوہدری محمد شریف ربوہ ۵۰۵ لیق محمد خان ناصر ولد عزیز محمد خان لاہور وحیدہ ناصر بنت مرزا مشتاق ناصر لاہور ۵۰۶ نثار احمد چوہدری ولد کیپٹن نصیر احمد چوہدری لائلپور رو بینہ رحمت بنت چوہدری رحمت اللہ ربوہ ۵۰۷ عبد الصمد رفیق ولد چوہدری محمد صدیق چوہان ربوہ بشر کی عطاء بنت چوہدری عطاء الہی مرحوم ربوہ ۷۶۳ ۵۰۸ کرامت اللہ خادم مربی سلسلہ ریحانه فرحت بنت مرزا محمود احمد عبدالحکیم ۵۰۹ | ملک غلام عباس ولد ملک شیر محمد ڈنگہ کا نڈیوال منصوره اقبال بنت نذیر احمد سولنگی ربوه ۵۱۰ | حافظ محمد ابراہیم شاہد ۵۱۱ | محمد اجمل ولد خیر الدین ربوہ ۵۱۲ افتخار احمد ولد فضل کریم لاہور سیم اختر بنت میاں احمد کوئٹہ نعیمہ جبیں بنت عبد المنان ربوہ امۃ الرحمن بنت محمد اکرم خاں لاہور ۷۵۹ ۷۵۹ ۷۶۳ ۷۶۳ ۷۶۳ ۷۶۹ ۷۶۹ 221 ۷۷۳ ۵۱۳ | سید مولود احمد ولد سید داؤ د مظفر شاہ ربوہ سیدہ لبینی شاہوار بنت ڈاکٹر سید غلام مجتبی ۵۱۴ محمد امجد قریشی ولد قریشی محمد یوسف بریلوی صبیحہ مرزا بنت مرزا محمد ادریس مبلغ انڈونیشیا ۵۱۵ محمد یا مین اظہر قریشی ولد قریشی محمد یوسف بریلوی فرح رحمان بنت لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر صفی الرحمان ۷۷۳ ۵۱۶ حبیب اللہ شاہد ولد مولانا عنایت الله احمدی صادقہ پروین بنت چوہدری نذیر احمد سیالکوٹی ۷۷۵ ۵۱۷ نذیر احمد شار ولد چوہدری عبدالرشید خاں مسرت جبیں بنت چوہدری حبیب الرحمن پیر محل ۷۷۵ ۵۱۸ محمد عمر در از تنویر ولد میاں محمد نواز گوندل ربوه امتہ القیوم بنت میاں محمد ابراہیم (ر) ہیڈ ماسٹر ۵۱۹ سلیم احمد شاہ ولد سید طفیل محمد شاہ ربوہ بشری رحمان بنت حاجی عبد الرحمن ( باندھی والے) ۷۷۹ ۵۲۰ محمد سعید احمد ولد بشیر احمد آف قاضی پہاڑنگ امتہ الحفیظ بنت صالح محمد دار الصدر شرقی ربوہ ۷۷۹ ۵۲۱ ناصر الدین خالد ولد عمل دین صدیقی ربوه امتہ العزیز بنت ٹھیکیدار لطف الرحمن ربوه ناصرالدین 229

Page 905

خطبات ناصر جلد دہم نام زوج ۵۲۲ محمد احمد ولد فضل الدین ربوه XXIII نام زوجه فہرست فریقین نکاح صفحہ امة الحفیظ بنت ٹھیکیدار لطف الرحمان ربوہ ۷۷۹ ۷۷۹ ۵۲۳ | محمد صالح زاہد ولد چوہدری محمد صادق امة السلام ناصره بنت برکات احمد ربوہ ۵۲۴ ظہیر الدین ناصر ولد چوہدری لاب دین حفیظہ خانم بنت امداد خان ضلع سیالکوٹ ۵۲۵ منور احمد عازم ولد چوہدری عنایت احمد ربوہ زیب النساء عذرا بنت چوہدری غلام دستگیر فصیح الملک ولد چوہدری فتح محد ضلع گوجرانوالہ طاہرہ حیات بنت چوہدری محمد حیات خان ۵۲۷ غالب الدین ولد چوہدری طالب الدین رحمان نازلی کو کب بنت چوہدری فتح محمد ۵۲۸ ما جداحمد خان ولد بریگیڈیر وقیع الزمان خان لاہور امتہ الکریم کو کب بنت صاحبزادہ مرزا وسیم احمدقادیان | ۷۸۵ ۵۲۶ ۷۷۹ ۷۸۳ ۷۸۳ ۷۸۳ ۵۲۹ میاں عبد الباسط ولد میاں عبد القیوم کوئٹہ امة القدير طلعت بنت پیر ضیاء الدین اسلام آباد ۷۸۵ فریحہ نورین بنت خواجہ محمد یوسف بٹ ربوہ ۷۸۹ ۵۳۰ انور سعید احمد ولد ڈاکٹر سعید احمد ربوہ ڈاکٹرسعیداحمدر ۵۳۱ | قریشی مجید احمد ولد قریشی محمود الحسن راولپنڈی نعیمه نسرین بنت قریشی منیر احمد ماڈل ٹاؤن لاہور (۷۸۹ ۵۳۶ نسیم اختر بنت چوہدری محمد صدیق دارالیمن ربوہ ۷۹۱ ۷۹۱ ۷۹۱ ۷۹۱ ۷۹۱ ۷۹۵ ۵۳۲ طاہر احمد ولد بشیر احمد میانوالی ۵۳۳ | محمد بشیر ولد چوہدری محمد شریف ساہیوال طیبہ مشتاق بنت ڈاکٹر مشتاق احمد گلبرگ لاہور ۷۹۱ ۵۳۴ وحید رشدی ولد عبدالغنی رشدی مرحوم را ولپنڈی غزالہ شبلی بنت ثناء اللہ شبلی ربوہ ۵۳۵ بشارت احمد ولد ڈاکٹر غلام محمد ضلع بہاولنگر آمنہ طاہرہ بنت مجید احمد مرحوم درویش ربوه لئیق احمد خورشید ولد شیخ خورشید احمد بدر النساء بنت راجہ ضیاء الدین ارشد مرحوم ربوہ ۷۹۱ ۵۳۷ عبدالسمیع ولد عبد الغنی سٹیلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ فریدہ لطیف بنت محمد لطیف مرزا مغلپورہ لاہور ۵۳۸ رانا مبشر احمد ولد محمود احمد خان ضلع فیصل آباد نصرت شمیم بنت محمد صادق خان ربوہ ۵۳۹ | محمد انعام یوسف ولد چوہدری محمد یوسف ر بوه تسنیم کوثر بنت ملک محمد مقبول شیخو پوره ۵۴۰ ملک لطیف احمد سرور ولد ملک محمد شفیع شیخو پوره رفیعہ بیگم بنت چوہدری غلام حید ر ضلع شیخو پوره ۷۹۵ ۵۴۱ محمود انور ولد محمد اسماعیل ذبیج بنوں غزالہ ناصر بنت پروفیسر ناصر احمد پشاور صدر ۷۹۷ رشید احمد ارشد ولد چوہدری فضل احمد مرحوم ربوه خالده نسرین بنت منصور احمد خان احمد نگر لطیف احمد طاہر ولد بشیر احمد مرحوم دارالرحمت غربی ربوہ طاہرہ زکیہ بنت عبدالمنان دار النصر ر بوه ۵۴۴ مرزا خالد تسلیم احمد ولد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد امتہ المومن حنا بنت صاحبزادہ مرزا حنیف احمد ۷۹۹ ۵۴۵ | مقصود احمد قمر ولد غلام نبی شیخو پوره عائشہ الہی بنت مولوی محمد صدیق شاہدر بوہ ۵۴۶ محمد افضل ڈار ولد محمد اکرم ڈار ضلع شیخوپورہ بشری صادقہ بنت چوہدری احمد علی خان شیخو پوره ۸۰۷ ۷۹۷ ۷۹۷ ۸۰۵

Page 906

خطبات ناصر جلد دہم XXIV فہرست فریقین نکاح صفحہ نام زوج نام زوجه ۸۰۷ ۵۴۷ نصیر احمد ولد ڈاکٹر شریف احمد دار الرحمت شرقی ربوہ نصرت بشری بنت مرزا نذیر احمد ربوہ ۵۴۸ لطف الرحمان جاوید ولد عبد السلام زرگر ر بوه یاسمین بنت رشید احمد صابر ربوہ ۵۴۹ لطیف احمد طاہر ولد چوہدری محمد شفیع ربوہ امتہ الکریم بنت عبداللہ خان ربوہ ۵۵۰ منصور احمد ولد چوہدری نذیر احمد ضلع سیالکوٹ شاہدہ بیگم بنت چوہدری خورشید احمد ضلع سیالکوٹ خورشیداحمدضلع ۵۵۱ مرز اسفیر احمد ولد صاحبزادہ مرزا منیر احمد جہلم شوکت جہاں بنت حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ۸۱۳ All All All ۵۵۲ ظہیر احمد خاں ولد نصیر احمد خان ربوہ سیده امۃ الناصر بنت نواب مسعود احمد خان ربوه ۸۱۳ ۸۲۱ ۸۲۷ ۵۵۳ منظور الرحمان ولد لطف الرحمان لاہور امة المعز بنت صاحبزادہ مرزا داؤ داحمد ربوہ ۵۵۴ دبیر احمد ولد پیر ضیاء الدین اسلام آباد شاہدہ شیبا بنت صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد ۸۲۳ ۵۵۵ سید میر قمر سلیمان احمد ولد سید میر داؤ داحمد المتة الكبير لبنیٰ بنت بریگیڈیئر محمد وقیع الزمان خاں ۵۵۶ مرزا مظفر احمد ولد صاحبزادہ مرزا منور احمد ربوہ سیدہ امتہ الواسع ندرت بنت سید میر داؤ د احمد | ۸۲۷ ۵۵۷ | مرز القمان احمد ولد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب فائزہ طاہر بنت حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ۸۲۷ ۵۵۸ ڈاکٹر خالد احمد عطاولد ملک غلام احمد عطا صاحبزادی امتہ الحی احمد بنت میاں عبدالرحیم احمد ۸۳۱ ۵۵۹ سید قاسم احمد ولد سید داؤ د مظفر شاہ صاحبزادی امتہ الغفور بنت پیر معین الدین ۸۳۳ حمیدالدین ولد ڈاکٹر عطاء الرحمن ساہیوال منصوره باسمه بنت نواب عباس احمد خان ۵۶۱ صاحبزادہ مرزا محمود احمد ولد صاحبزادہ مرزا مجید احمد امتہ الوکیل بنت صاحبزادہ مرزا انور احمد مرزا طبیب احمد ولد صاحبزادہ مرزا رفیع احمد امتہ النور عین بنت پیر معین الدین ۵۶۳ | حضرت مرزا ناصر احمد خلیفتہ المسیح الثالث سیدہ طاہرہ صدیقہ بنت خان عبدالمجید خان ۵۶۲ ۵۶۴ سید شعیب احمد ولد سید میر محمود احمد ناصر در ثمین احمد بنت صاحبزادہ مرزا مجید احمد ر بوه ۸۳۵ ۸۳۹ ۸۳۹ ۸۴۳ ۸۵۳

Page 906