Khutbat-eNasir Vol 1

Khutbat-eNasir Vol 1

خطباتِ ناصر (جلد 1 ۔1965ء تا 1967ء)

Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات ناصر خطبات جمعہ از نومبر ۱۹۶۵ء تا دسمبر ۱۹۶۷ء فرموده سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جلد اوّل

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD خطبات ناصر خطبات جمعہ ، خطبات عیدین، خطبات نکاح ارشاد فرمودہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ (جلد اول) Khutbaat-e-Nasir - Volume 1 Friday, Eid and Nikah Sermons delivered by Hazrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul-Masih III, may Allah have mercy on him.(Complete Set Volume 1-10) - First edition published between 2005-2009 Present revised edition published in the UK, 2023 © Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in Turkey at: For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-701-3 (Vol.1-10)

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم عرض حال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ خطبات جمعہ و عیدین اور خطبات نکاح کچھ عرصہ قبل شائع کئے گئے تھے.یہ مجموعہ دس جلدوں پر مشتمل تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن کے دوبارہ شائع کرنے کی درخواست کی گئی اور عرض کیا گیا بعض خطبات ایسے ہیں جو قبل ازیں شامل اشاعت نہیں ہو سکے تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے ایڈیشن کی اجازت فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ جو خطبات پہلے شامل اشاعت نہیں ہو سکے ان کو بھی شائع کر دیا جائے.تعمیل ارشاد میں میٹر ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا چنانچہ ۵۰ خطبات دستیاب ہوئے جو پہلے مجموعہ میں شامل نہیں ہیں.اسی طرح بعض خطبات کا خلاصہ شائع ہوا اور اب ان کا مکمل متن مل گیا ہے ان خطبات کو زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ درج کر دیا گیا.نیز آیات قرآنیہ کے حوالہ جات متن میں دیئے گئے اور خطبات کے مآخذ کا خطبہ کے آخر پر حوالہ درج کر دیا گیا ہے اور خطبات میں درج احادیث اور عربی تفاسیر کے حوالہ جات کو کتاب کے آخر پر درج کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.اس کی تیاری میں جن احباب کو شریک کار ہو کر خدمت کا موقع میسر ہوا اور سعادت پائی.اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف اپریل ۲۰۲۳ء

Page 4

Page 5

III بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ پیش لفظ نظارت اشاعت پہلی مرتبہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے خطبات کتابی صورت میں پیش خلیفۃالمسیح کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.آپ کا دور خلافت نومبر ۱۹۶۵ء سے لے کر جون ۱۹۸۲ء تک کے عرصہ پر محیط رہا، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب دنیا دو بڑی جنگوں کے بعد اب تیسری عالمگیر جنگ کی طرف بڑھ رہی تھی.اس نسلی اور قومی منافرت کے دور میں عالمگیر جماعت احمدیہ کے تیسرے امام نے دنیا میں امن و آشتی کی تعلیم پر مشتمل قرآن کا پیغام دیا جو کہ محبت اور پیار کا پیغام تھا.ایک موقع پر آپ نے فرمایا:.”میں نے اپنی عمر میں سینکڑوں مرتبہ قرآن کریم کا نہایت تدبر سے مطالعہ کیا ہے اس میں ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جو کہ دنیاوی معاملات میں ایک مسلم اور ایک غیر مسلم میں تفریق کی تعلیم دیتی ہو.شریعت اسلامی بنی نوع انسان کے لئے خالصتاً باعث رحمت ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ کرام نے لوگوں کے دلوں کو محبت پیار اور ہمدردی سے جیتا تھا.اگر ہم بھی لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا ہوگا.قرآن کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں“ LOVE FOR ALL HATRED FOR NONE

Page 6

IV یہی طریق ہے دلوں کو جیتنے کا.اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں.“ ( خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ اکتوبر 1980ء بحوالہ دورہ مغرب صفحه ۵۳۴،۵۳۳) ”آپ محبت کا سفیر بن کر ملک ملک اور قوم قوم کو محبت اور پیار کا سبق دیتے رہے.آپ کو اپنی جماعت سے بہت ہی پیار تھا جس کا اظہار بعض اوقات ان الفاظ میں بھی کیا کرتے تھے کہ جماعت اور خلیفہ وقت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.“ آپ کے پیار کا دامن اپنوں سے لے کر غیروں اور دشمنوں تک پھیلا ہوا تھا.آپ معاندین کے دکھوں کے جواب میں مسکرا دیا کرتے تھے اور اپنی جماعت کو نصیحت کے رنگ میں فرماتے تھے.دنیا تیوریاں چڑھا کے اور سرخ آنکھیں کر کے تمہاری طرف دیکھ رہی ہے تم مسکراتے چہروں سے دنیا کو دیکھو.“ آپ نے فرمایا :.ہمیشہ یادرکھو کہ ایک احمدی کسی سے دشمنی نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے کیونکہ اس کے خدا نے اسے پیار کرنے کے لئے اور خدمت کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.“ 66 ( بحوالہ حیات ناصر جلد اول صفحہ ۸ ) ہمارے پیارے امام کے دل میں جماعت کے لئے کتنا درد ہوتا ہے اس کا اظہار ایک مرتبہ حضرت مصلح موعود نے اس طرح فرمایا تھا کہ وو دیکھنے والوں کو تو یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہو گی کہ کئی لاکھ کی جماعت پر حکومت مل گئی.مگر خدا را غور کرو کیا تمہاری آزادی میں پہلے کی نسبت کچھ فرق پڑ گیا ہے.کیا کوئی تم سے غلامی کرواتا ہے یا تم پر حکومت کرتا ہے یا تم سے ماتحتوں ، غلاموں اور قیدیوں کی طرح سلوک کرتا ہے.کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے.کوئی بھی فرق نہیں.لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا در درکھنے والا ، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا ،

Page 7

V تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا ، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے.مگر ان کے لئے نہیں ہے.تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے.کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا.لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہوجس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں.پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ہاں تمہارے لئے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں“ (انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۵۸) یہ نظارہ انفرادی طور پر تو ہر آن جماعت محسوس کرتی ہے اور مشاہدہ بھی کرتی ہے.لیکن ۱۹۷۴ء میں اجتماعی طور پر جب جماعت پر ابتلا کا دور آیا تو ساری جماعت کا در داس ایک دل میں جو جمع ہوا تو اس کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :.د نیوی لحاظ سے وہ تلخیاں جو دوستوں نے انفرادی طور پر محسوس کیں وہ ساری تلخیاں میرے سینے میں جمع ہوئی تھیں.ان دنوں مجھ پر ایسی راتیں بھی آئیں خدا کے فضل اور رحم سے ساری ساری رات ایک منٹ سوئے بغیر دوستوں کے لئے دعائیں کرتا رہا.میرا خیال ہے کہ دو مہینے میں بالکل سو نہیں سکا تھا.کئی مہینے دعاؤں میں گزرے تھے.“.....( بحوالہ حیات ناصر جلد اول صفحه ۴۰۱) آپ کا دور خلافت ایک تاریخی دور تھا، جماعت نے کئی سنگ میل اس میں عبور کئے ، حضرت مصلح موعود کی وہ پیشگوئی آپ کے دور ہی میں پوری ہوئی تھی کہ اگر حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو پاش پاش ہو جائیں گی.جماعت نے یہ نظارہ دیکھا اور بڑی شان سے اس پیشگوئی کو پورے ہوتے ہوئے دیکھا.جماعت کے ہاتھوں میں کشکول تھمانے والے خود اپنے ہاتھوں میں کشکول پکڑ کر اپنی زندگیوں کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے لیکن جماعت اللہ کے فضل سے بڑھتی ہی چلی گئی.کیا تعداد میں اور کیا ایمان میں.ایمان و عرفان کی دولت ہو یا مادی دولت ، جماعت کی اس ترقی کا گراف حیرت انگیز طور پر بڑھتا اور بڑھتا ہی چلا گیا.آپ کو اس ترقی کا یقین تھا اور اعتماد تھا کہ ہماری ساری کوششیں اور سارے منصوبے کامیاب ہوں گے.آپ نے فرمایا تھا:.ہمیں یقین ہے کہ ہماری یہ جدو جہد کا میاب ہوگی اور ساری دنیا اکٹھی ہو کر بھی

Page 8

VI اللہ تعالیٰ کے اس منصوبے کو ناکام کرنے کی کوشش کرے تو خود نا کام ہو جائے گی.خدا تعالیٰ کا منصوبہ ناکام نہیں ہوگا..66 ( بحوالہ حیات ناصر جلد اول صفحہ ۵۷۸) آپ کے دور خلافت پر لکھنا آسان نہیں ،سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے، آپ کے دور پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.پھر خلافت ثالثہ کا دور آیا.حضرت خلیفتہ امی الثانی کی وفات کے بعد پھر اندرونی اور بیرونی دشمن تیز ہوا.لیکن کیا ہوا ؟ کیا جماعت میں کوئی کمی ہوئی ؟ نہیں، بلکہ خدا تعالی نے اپنے وعدوں کے مطابق پہلے سے بڑھ کر ترقیات کے دروازے کھولے.مشنوں میں مزید توسیع ہوئی.افریقہ میں بھی ، یورپ میں بھی اور پھر افریقہ کے دورے کے دوران حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں سکیم کا اجراء فرمایا.اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ، ایک رؤیا کے مطابق.ہسپتال کھولے گئے.سکول کھولے گئے ، ہسپتالوں میں اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں مریض شفا پاچکے ہیں.گورنمنٹ کے بڑے بڑے ہسپتالوں کو چھوڑ کر ہمارے چھوٹے چھوٹے دور دراز کے دیہاتی ہسپتالوں میں لوگ اپنا علاج کرانے آتے ہیں.بلکہ سرکاری افسران بھی اس طرف آتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ ہمارے ہسپتالوں میں جو واقفین زندگی ڈاکٹر ز کام کر رہے ہیں وہ ایک جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ان کے پیچھے خلیفہ وقت کی دعاؤں کا بھی حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے خلیفہ کی لاج رکھنے کے لئے ان دعاؤں کو سنتا ہے اور جہاں بھی کوئی کارکن اس جذبے سے کام کر رہا ہو کہ میں دین کی خدمت کر رہا ہوں اور میرے پیچھے خلیفہ وقت کی دعائیں ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی اس میں بے انتہا برکت ڈالتا ہے.پھر سکولوں میں ہزاروں لاکھوں طلبا ءاب تک پڑھ چکے ہیں.

Page 9

VII احمدیہ بڑی بڑی پوسٹ پر قائم ہیں.ہمارے گھانا کے ڈپٹی منسٹر آف انرجی جو ہیں انہوں نے احمد یہ سکول میں شروع میں کچھ سال تعلیم حاصل کی.پھر ایک سکول سے دوسرے سکول میں چلے گئے وہ بھی احمد یہ سکول ہی تھا اور آج ان کو اللہ تعالیٰ نے بڑا رتبہ دیا ہوا ہے.اسی طرح اور بہت سارے لوگ ہیں.افریقن ملکوں میں جائیں تو دیکھ کر پتہ لگتا ہے.یہ سب جو فیض ہیں اس وجہ سے ہیں کہ ڈاکٹر ہوں یا ٹیچر، ایک جذبے کے تحت کام کر رہے ہیں اور یہ سوچ ان کے پیچھے ہوتی ہے کہ ہم جو بھی کام کر رہے ہیں ایک تو ہم نے دعا کرنی ہے، خود اللہ تعالیٰ سے فضل مانگنا ہے اور پھر خلیفہ مسیح کولکھتے چلے جانا ہے تا کہ ان کی دعاؤں سے بھی ہم حصہ پاتے رہیں اور یہ جو فریقن ممالک میں ہمارے سکول اور کالج ہیں اللہ تعالی کے فضل سے تبلیغ کا بھی ذریعہ بنے ہوئے ہیں.کل ہی سیرالیون کی رہنے والی ایک خاتون بچوں کے ساتھ مجھے ملنے آئیں.وہ کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں تو خاندان میں اسلام کا پتہ ہی کچھ نہیں تھا.احمد یہ سکول میں میں نے تعلیم حاصل کی اور وہیں سے مجھے احمدیت کا پتہ لگا اور بڑے اخلاص اور وفا کا اظہار کر رہی تھیں.وہ بڑی مخلص احمدی خاتون ہیں.اسی طرح اور بہت سے ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہیں جو ہمارے ان سکولوں سے تعلیم حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں شامل ہوئے اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.پھر خلافت ثالثہ میں ہی آپ دیکھ لیں ، ۷۴ء کا فساد ہوا اس وقت ان کا خیال تھا کہ اب تو احمدیت ختم ہوئی کہ ہوئی، ایک قانون پاس کر دیا کہ ہم ان کو غیر مسلم قرار دے دیں گے تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا.کئی شہید کئے گئے ، جانی نقصان کے ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی پہنچایا گیا.کاروبارلوٹے گئے، گھروں کو آگیں لگادی گئیں، دکانوں کو آگئیں لگادی گئیں، کارخانوں کو آگیں لگا دی گئیں.لیکن ہوا کیا ؟ کیا احمدیت ختم ہوگئی؟ پہلے سے بڑھ کر اس کا قدم اور تیز ہو گیا، باپ کو بیٹے کے سامنے قتل

Page 10

VIII کیا گیا، بیٹے کو باپ کے سامنے قتل کیا تو کیا خاندان کے باقی افراد نے احمدیت چھوڑ دی؟ ان میں اور زیادہ ثبات قدم پیدا ہوا، ان میں اور زیادہ اخلاص پیدا ہوا.ان میں اور زیادہ جماعت کے ساتھ تعلق پیدا ہوا.دشمن کی کوئی بھی تدبیر کبھی بھی کارگر نہیں ہوئی اور کبھی کسی کے ایمان میں لغزش نہیں آئی اور پھر اب دیکھیں کہ ان نیکیوں پہ قائم رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو جو جانی نقصان ہوا یا جن خاندانوں کو اپنے پیاروں کا جانی نقصان برداشت کرنا پڑا، اگلے جہان میں تو اللہ تعالیٰ نے جزا دینی ہے، اللہ نے اُن کو اس دنیا میں بھی ان کو بے انتہا نوازا ہے.مالی لحاظ سے بھی اور ایمان کے لحاظ سے بھی.خطبه جمعه فرموده ۲۱ رمئی ۲۰۰۴ ء بحوالہ خطبات مسر در جلد ۲ صفحه ۳۴۸،۳۴۷) آپ کے خطبات جو کہ قرآنی معارف اور علم و عرفان کے خزانے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جماعت کے زریں عہد کی روشن تاریخ کا بنیادی ماخذ بھی ہیں.ان خطبات یعنی خطبات ناصر کی جلد اول احباب جماعت کی خدمت میں پیش ہے، اس جلد میں نومبر ۱۹۶۵ء سے دسمبر ۱۹۶۷ء کے خطبات شامل کئے گئے ہیں.بعض خطبات تو ابھی تک غیر مطبوعہ تھے وہ پہلی مرتبہ اس کتاب میں شامل کئے جارہے ہیں، اس کے لئے مکرم محمد صادق صاحب انچارج خلافت لائبریری شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کام کے لئے ہر ممکن تعاون کیا.اسی طرح اس پہلی جلد کی تیاری میں کام کرنے والے مکرم مقصود احمد قمر صاحب، مکرم فضل کریم تبسم صاحب اور مکرم حبیب الرحمان زیروی صاحب کی خدمات بھی قابل ذکر ہیں نیز دیگر کام کرنے والوں کے لئے بھی دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ تمام کام کرنے والوں کو جزائے خیر سے نوازے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء ۲۰۰۵-۰۸-۱۵ خاکسار ناظر اشاعت

Page 11

خطبات ناصر جلد اوّل IX فہرست خطبات جمعہ نمبر شمار | 1 7 3 فہرست خطبات جمعہ عنوان خطبه فرموده صفحه خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت سے جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع کر دیا ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء جلسہ کے ایام کو نیکی کی باتیں سنے اور دعائیں کرنے میں گزاریں ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء حضور علیہ السلام کی خواہش تھی کہ ہر احمدی نورالدین بن جائے ۳؍دسمبر ۱۹۶۵ء ۴ جماعت احمدیہ کے لئے آئندہ پچیس تیس سال نہایت اہم ہیں ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء ہمیں تاکیدی حکم ہے کہ مسکینوں ، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلایا جائے ۱۷؍دسمبر ۱۹۶۵ء رمضان کے مہینہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بہت سی برکتیں وابستہ ہیں ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء ہماری زندگیاں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہونی چاہئیں ۳۱ دسمبر ۱۹۶۵ء جماعت احمدیہ کے تمام اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی جد و جہد کو منظم کریں ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء و معتکفین کو حقیقی اور انتہائی خلوت میسر آنی چاہیے 1.۱۴ ؍ جنوری ۱۹۶۶ء خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے اعمال پر کبھی بھروسہ نہ کرو ۲۱ / جنوری ۱۹۶۶ء مومن کے دل میں مایوسی پیدا نہیں ہونی چاہیے ۲۸ جنوری ۱۹۶۶ء | 1 " ۲۵ ۳۱ ۴۱ ۴۹ 13 LL ۸۹ ۹۹ ۱۱۳ ۱۲۱ ۱۳۱ ۱۲ قرآن کریم کے لئے ہمیں غیر معمولی توجہ اور جد و جہد کرنی چاہیے ۴ فروری ۱۹۶۶ء بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے اصل ذمہ داران والدین ہیں ۱۱ / فروری ۱۹۶۶ء ۱۴ خدام الاحمدیہ کوشش کریں کہ تمام احمدی نوجوان تحریک جدید میں حصہ لیں ۱۸ فروری ۱۹۶۶ء ۱۴۳ ۱۵ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ہمارے میں بشاشت اور تسکین پیدا کرے گا ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء ۱۵۷ اللہ تعالیٰ کو جو چیزیں پسند ہیں انہیں اختیار کرنے کی کوشش کرو ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء ۱۷ سال میں دو ہفتہ سے لیکر چھ ہفتہ تک کا عرصہ خدمت دین کیلئے وقف کریں ۱۸ مارچ ۱۹۶۶ء 121 ۱۸۱

Page 12

خطبات ناصر جلد اوّل نمبر شمار عنوان ۱۸ کامیابی کے لئے صبر اور تد بیر کو انتہا تک پہنچادیں 19 X فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحہ ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء ۱۸۷ ہماری بقا وترقی اور کامیابی کا انحصار تدابیر پر نہیں بلکہ دعا اور محض دعا پر ہے یکم اپریل ۱۹۶۶ء ۱۹۵ ۲۰ امرائے جماعت انتظام کریں کہ کسی جگہ کوئی احمدی بھوکا نہ رہے ۱/۸ پریل ۱۹۶۶ء ۲۰۳ ہم سب کو خدا تعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے ۱/۱۵ پریل ۱۹۶۶ء ۲۱۳ ۲۲ لازمی چندہ جات کے بجٹ میں تمام احمدیوں کو شامل کیا جائے ۲۲ اپریل ۱۹۶۶ء ۲۲۷ ۲۳ کبر و غرور کو چھوڑ کر عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کی کوشش کرو ۲۹ اپریل ۱۹۶۶ء ۲۳۷ ۲۴ جماعتوں نے میری تحریک پر نہ صرف اپنے بجٹ کو پورا کیا بلکہ زائد آمد ہوئی ۶ مئی ۱۹۶۶ ء شرک سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ کسی قسم کا تکبر ہمارے دل میں پیدانہ ہو ۱۳ رمئی ۱۹۶۶ء ۲۵ ۲۶ اتنی دعائیں کریں کہ بس مجسم دعا بن جائیں ۲۷ کام وہی اچھا ہوتا ہے جس کا انجام اچھا ہو ۲۰ رمئی ۱۹۶۶ء ۲۷ مئی ۱۹۶۶ء سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ اقوامِ عالم حلقہ بگوش اسلام ہوں ۱۳ جون ۱۹۶۶ء حقیقی نیکی وہی ہے جو محض خدا تعالیٰ کی محبت کی خاطر کی جائے ۱۰ جون ۱۹۶۶ء ہر ظلمت جو اٹھتی ہے اس کا پہلا نشانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں ۷ ارجون ۱۹۶۶ء ۳۱ خدا تعالیٰ قرآن کریم کی اتباع کے بغیر ہمیں ہر گز نہیں مل سکتا ۲۴ / جون ۱۹۶۶ء ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم سیکھیں یکم جولائی ۱۹۶۶ء ٣٢ ۳۳ ۲۴۳ ۲۴۹ ۲۵۹ ۲۷۳ ۲۷۵ ۲۷۹ ۲۸۷ ۲۹۳ ۳۰۵ قرآن کریم کو حرز جان بناؤ کہ اس کے بغیر ہم کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۱۵ جولائی ۱۹۶۶ء ۳۰۹ ۲۲ ؍جولائی ۱۹۶۶ء ۳۲۵ ۳۴ قرآن کریم کی دس صفات حسنہ ۳۵ ۳۶ قرآن کریم ایک عظیم الشان کتاب ہے اس سے جتنی بھی محبت کی جائے کم ہے ۲۹؍ جولائی ۱۹۶۶ء ۳۳۹ تعلیم القرآن کی سکیم اور عارضی وقف کی مہم کی برکات ۳۷ انفاق فی سبیل اللہ کی استعداد بڑھانے کے تین قیمتی گر تمام برکات روحانی قرآن کریم میں ہیں ۵ اگست ۱۹۶۶ء ۱۹ اگست ۱۹۶۶ء ۳۵۱ ۳۵۹ ۲۶ / اگست ۱۹۶۶ء ۳۶۷

Page 13

خطبات ناصر جلد اوّل نمبر شمار عنوان XI فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۳۹ جو شخص رسوم و بدعات کو نہیں چھوڑ تا اُس کا ایمان پختہ نہیں ہوسکتا ور ستمبر ۱۹۶۶ء ۴۰ قرآن کریم کی چار عظیم الشان خصوصیات ۴۱ قرآن کریم سیکھیں اور اس کا عرفان حاصل کریں ۴۲ تحریک وقف جدید میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہیے اللہ تعالیٰ ہزاروں اور شمس جماعت کو عطا فرمائے گا ۱۶ ر ستمبر ۱۹۶۶ء ۲۳ ستمبر ۱۹۶۶ء ۳۸۱ ۳۹۳ ۴۰۵ ۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء ۴۱۷ ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۶ء ۴۲۷ ۴۴ دنیا کی سیاست، دنیا کی وجاہتوں اور عزتوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ۲۱ اکتو بر ۱۹۶۶ء ۴۳۷ ۴۵ تحریک جدید کے تمام مطالبات جہاد کی ہی مختلف شقیں ہیں ۲۸/اکتوبر ۱۹۶۶ء ۴۴۱ ۴۶ وقف جدید کا مالی بوجھ ہمارے بچے اور بچیاں اُٹھا ئیں ۴ رنومبر ۱۹۶۶ء ۴۷ زندہ خدا، زندہ رسول اور زندہ کتاب تین بنیادی طاقتیں ہیں ۱۱/ نومبر ۱۹۶۶ء ۴۸ سلسلہ جو نظام بھی قائم کرتا ہے اس کی پابندی کو اپنی خوش قسمتی سمجھو ۱۸/ نومبر ۱۹۶۶ء ہر تنظیم کو اپنے دائرہ کے اندر کام کرنا چاہیے ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء ۵۰ تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان ہر عمل محض رضائے الہی کی خاطر کرے ۱۶ / دسمبر ۱۹۶۶ء ۴۵۷ ۴۶۷ ۴۸۹ ۵۲۳ ۵۱ ہم ہر کام اس کی رضا اور خوشنودی کے لئے کرنے والے ہوں ۲۳؍ دسمبر ۱۹۶۶ء ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء ۶ / جنوری ۱۹۶۷ء ۵۲ سب کچھ کرنے کے بعد بھی یہی سمجھو کہ تم نے کچھ نہیں کیا ۵۳ ہر رات لیلۃ القدر اور ہر دن جمعۃ الوداع کا رنگ رکھتا ہو ۵۲۹ ۵۴۳ ۵۵۳ ۵۴ احباب ربوہ محبت اور خلوص کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کریں ۱۳ جنوری ۱۹۶۷ء ۵۵۹ ۵۵ خدا تعالیٰ کی عطا کو اس کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرو ۲۰ جنوری ۱۹۶۷ء ۵۶۹ دنیا کی اشیاء ثواب کے مقابلہ میں تمنا قليلا کی حیثیت رکھتی ہیں ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء ۵۷۷ ۵۷ جلسہ سالانہ کے ایام میں اللہ تعالیٰ کے بڑے ہی انوار و برکات کا مشاہدہ کیا ۱۰ / فروری ۱۹۶۷ء ۵۸۱ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلتے ہوئے کثرت سے دعائیں کرو ۲۴ فروری ۱۹۶۷ء ۵۸۹ ۵۹ ہماری مستورات عزم کر لیں کہ ہم نے ہر قسم کی رسوم کو ترک کر دینا ہے ۱۳ مارچ ۱۹۶۷ء ۵۸ ۵۹۳

Page 14

خطبات ناصر جلد اوّل نمبر شمار عنوان XII فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه ۶۰ ۶۱ ۶۲ ۶۴ رضائے الہی حاصل کرنے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں ۱۰ مارچ ۱۹۶۷ء ۵۹۹ ۶۱۱ ہم ایسی قوم ہیں جو اپنے اموال خدا تعالٰی کی راہ میں پانی کی طرح بہاتی ہے ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء جماعت احمدیہ کا قیام غلبہ اسلام اور اشاعت اسلام کی تکمیل کے لئے کیا گیا ہے ۲۴ مارچ ۱۹۶۷ء ۶۲۳ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ہر خطہ میں نبی بھیجے بیت اللہ کی از سر نو تعمیر کے تئیس عظیم الشان مقاصد ۳۱ / مارچ ۱۹۶۷ء ۶۲۷ ۷ را پریل ۱۹۶۷ء ۶۳۹ ۶۵ اقوامِ عالم کے فوائد بیت اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیئے گئے ہیں ۲۱ را پریل ۱۹۶۷ء ۶۵۱ ہمیں جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہے ۵ رمئی ۱۹۶۷ء ۶۷ بیت اللہ تائیدات سماوی کا منبع ہے ۶۸ مرکز میں بار بار آنا بھی بیت اللہ کی اغراض میں شامل ہے ۶۹ ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ء ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء بیت اللہ روحانی اور جسمانی پاکیزگی کے حصول اور اُس کی ترویج کا مرکز ہے ۲۶ مئی ۱۹۶۷ ء اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قربانیاں دینے والوں کے اعمال ضائع نہیں جاتے ۲ جون ۱۹۶۷ء اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ امت مسلمہ کا قیام ۷۵ ZA ۹/ جون ۱۹۶۷ء ابراہیمی دعاؤں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ۱۶ / جون ۱۹۶۷ء بد رسم کے خلاف جہاد کا اعلان ۶۷۹ ۶۹۳ ۷۰۷ ۷۲۱ ۷۳۵ ۷۴۵ ۲۳ جون ۱۹۶۷ء ۷۵۷ والدین کو چاہیے کہ وہ چندہ وقف جدید کی اہمیت بچوں پر واضح کریں ۳۰ رجون ۱۹۶۷ء ۷۶۹ ے جولائی ۱۹۶۷ء ۷۷۵ دنیا کی کوئی طاقت غلبہ اسلام کو نہیں روک سکتی قرآن کریم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وابستگی پیدا کریں ۱۴؍ جولائی ۱۹۶۷ء ۷۹۳ ۲۸ جولائی ۱۹۶۷ء ۷۹۵ احمدیت شیطانی حملوں سے بچاؤ کے لئے ایک قلعہ ہے دعا کے ذریعہ ہی مغربی اقوام کو اسلام کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے ۴ را گست ۱۹۶۷ء آ ؤ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سایہ تلے آگ سے محفوظ ہوجائیں ۱۱ را گست ۱۹۶۷ء ۸۰۱ ۸۰۵ ۸۰ میرے سفر کے ذریعہ گھر گھر میں اسلام کا پیغام پہنچ گیا ہے ۲۵ اگست ۱۹۶۷ء ۸۱۳

Page 15

خطبات ناصر جلد اوّل نمبر شمار عنوان XIII فہرست خطبات جمعہ خطبه فرموده صفحه یورپ کے نو مسلم احمدی اپنے ایمان ، اخلاص اور قربانی میں ترقی کر رہے ہیں یکم ستمبر ۱۹۶۷ء ۸۲ یورپ میں ایک خلا پیدا ہو چکا ہے اُسے پر کرنا ہمارا فرض ہے ۸ ستمبر ۱۹۶۷ء ایک عظیم سلسلہ بشارتوں کا اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کو ملا ہے ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ جن کو خلافت کے مقام پر فائز کرتا ہے وہ ان کی مدد کرتا ہے ۲۲ ستمبر ۱۹۶۷ء ۸۴۵ ۸۶۳ ۸۷۱ 9+1 ۹۱۳ ۸۵ ہمارے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی عظیم الشان مہم جاری کی ہے ۲۹ ستمبر ۱۹۶۷ء احباب جماعت فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدہ جات کی ادائیگی پر توجہ دیں ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۷ء ۹۲۵ ۲۰ /اکتوبر ۱۹۶۷ء ۹۳۵ ۸۷ دنیا کی اقوام کے نام امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ اللہ تعالیٰ بیرونی ممالک میں غلبہ اسلام کی نئی نئی راہیں کھول رہا ہے ۲۷ اکتو بر ۱۹۶۷ ء اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں تمہارے نفوس اور اموال میں برکت ڈالوں گا ۳ / نومبر ۱۹۶۷ء ۹۵۱ ۹۶۱ ۹۷۱ ہر احمدی کو تکبر اور خود بینی سے بچنا چاہیے اور استغفار کی طرف بہت توجہ دیں ۱۷ نومبر ۱۹۶۷ء ۹۱ رمضان المبارک غیر متناہی روحانی ، جسمانی، دینی ترقیات کا ذریعہ ہے ۲۴ نومبر ۱۹۶۷ء ۹۷۷ ۹۲ رمضان المبارک میں کثرت سے الہی برکات کا نزول ہوتا ہے یکم دسمبر ۱۹۶۷ء رمضان کے روزوں اور عبادات کا بڑا گہرا تعلق دعا اور قبولیت کے ساتھ ہے ۸/ دسمبر ۱۹۶۷ء ۹۴ ابتلاؤں کے بغیر انسان رضائے الہی کی جنتوں میں داخل نہیں ہوسکتا ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء ۹۵ انسانیت بڑی تباہی کے کنارے کھڑی ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ۲۲ دسمبر ۱۹۶۷ء کم و بیش تیس سال کا عرصہ ہم سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء ۹۸۵ ۹۹۵ 1005 1+12 ۱۰۲۵

Page 16

Page 17

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۱۲ ؍نومبر ۱۹۶۵ء خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت سے جماعت کو ہر طرح متحد اور متفق رکھا اور اسے پھر ایک ہاتھ پر جمع کر دیا خطبه جمعه فرموده ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.میرا ارادہ تو ایک اور مضمون کے متعلق کچھ کہنے کا تھا لیکن گزشتہ رات میں ”الفضل“ کا ایک پرانا فائل ۱۹۱۴ء کا دیکھ رہا تھا تو میری توجہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک تقریر کے اقتباس کی طرف مبذول کی جس میں میں نے ایک زبر دست پیشگوئی کو دیکھا جوان گذشتہ چند دنوں میں پوری ہوئی.تب میں نے ارادہ کیا کہ اس مضمون کو چھوڑ کر میں اس پیشگوئی کے متعلق اپنے دوستوں کے سامنے کچھ بیان کروں.لیکن اس پیشگوئی کو سمجھنے کے لئے اس پس منظر کو جس میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی سمجھنا ضروری ہے.اس لئے مختصر طور پر میں ۱۹۱۴ء کے کچھ حالات بیان کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد بعض احمدیوں کی مرضی یا پسندیدگی کے خلاف جماعت احمدیہ ایک ہاتھ پر متفق اور متحد ہوگئی اور مجبوراً ان لوگوں کو بھی جن کی طرف میرا اشارہ ہے اور آپ بھی سمجھتے ہیں کہ احباب جماعت کی اکثریت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا اور انہوں نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی.

Page 18

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱۲/ نومبر ۱۹۶۵ء یہ پہلی خلافت تھی جو جماعت احمدیہ میں قائم ہوئی.یہ تھوڑا سا زمانہ جو پہلی خلافت کا تھا اس کو کسی نہ کسی طرح اس گروہ نے گزار دیا.لیکن جب حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا تو ان کے نزدیک یہ وہ موقعہ تھا جب وہ اپنی رائے کو جس طرح بھی ہو جماعت میں قائم کرنے کا امکان پاتے تھے.اس وقت اس گروہ نے یکے بعد دیگرے تین موقف اختیار کئے.پہلے تو یہ کہا کہ جماعت احمدیہ میں خلیفہ کا وجود ہی ضروری نہیں.خلافت ہونی ہی نہیں چاہیے.ان کے مقابلہ میں جماعت کی اکثریت کو ایسی اکثریت جس میں یہ ا کا بر کہلانے والے یا اپنے کو ا کا بر سمجھنے والے شامل نہ تھے ) اور حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک بے قراری، ایک بے چینی لاحق تھی اور ایک موت کی سی کیفیت نظر آتی ہے کہ یا اللہ ! یہ کیا ہونے والا ہے.تو نے مسلمانوں کو خلافت کا وعدہ دیا اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب تک قرونِ اولی میں خلافت قائم رہی مسلمان ترقی پر ترقی کرتے چلے گئے اور جب ان کی کمزوریوں اور کوتاہیوں اور غفلتوں کی وجہ سے خلافت کا انعام ان سے چھین لیا گیا تو اس کے بعد جو اسلام کی بادشاہت قائم ہوئی.وہ اس خلافت کے مقابلہ میں کوئی چیز نہ تھی.محض پیچ تھی.اب پھر ہم پر اے خدا! تو نے انعام کیا تھا.تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو منہاج نبوت پر مبعوث فرمایا جس کے متعلق تو نے خود فرمایا تھا کہ ان کے وجود میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ایک کامل مماثلت پائی جاتی ہے اور جو ایسا نہیں سمجھتا خود اس کی سمجھ کا قصور ہے.اس وجود کے بعد سلسلہ احمدیہ میں خلافت قائم ہوئی.لیکن ابھی چھ سال نہیں گزرے کہ ایک گروہ کھڑا ہو گیا ہے اور کہتا ہے کہ خلافت کی ضرورت ہی نہیں.آپ (حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کی خوشامد میں کیں، بہتیرا سمجھایا کہ خدا کے لئے خلافت کی برکت کو مت ٹھکر او تم میں سے کوئی خلیفہ منتخب ہو جائے میں ذمہ لیتا ہوں کہ میں اور میرے دوسرے دوست اور رشتہ دار جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں.وہ سب اس کی بیعت کر لیں گے اور پوری پوری اطاعت کریں گے.اس وقت حضور کے دل میں یہ گن تھی کہ خلافت جماعت احمدیہ کے ہاتھ سے نہیں نکلنی چاہیے.

Page 19

خطبات ناصر جلد اوّل خطبه جمعه ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء کوئی فرق نہیں پڑتا اس سے کہ کون خلیفہ بنتا ہے اور کون نہیں بنتا.لیکن خلافت کو مضبوطی سے پکڑنا چاہیے.کیونکہ اس کے بغیر نہ ہی جماعت ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن سکتی ہے.لیکن کسی طرح بھی یہ لوگ اس طرف نہ آئے.جب آئے تو انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اچھا کوئی شخص خلیفہ مقرر ہو جائے لیکن اس کی بیعت جماعت پر لازمی قرار نہ دی جائے.یہ دوسرا مؤقف تھا جو انہوں نے اختیار کیا.خدائے تعالیٰ کا تصرف ایسا تھا کہ اس قسم کی باتیں یہ لوگ خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زندگی میں بھی کیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ اول کے منہ سے ہی ان کو جواب دے دیا تھا.چنانچہ ایک موقع پر اسی قسم کا اعتراض کیا گیا تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیاوہ اخبار بدر ۱۳ مارچ ۱۹۱۰ء میں چھپ چکا ہے.’ایک صاحب نے حضرت خلیفتہ امسیح کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ کی بیعت لازم اور فرض ہے؟ فرمایا کہ جو حکم اصل بیعت کا ہے وہی فرع کا حکم ہے.کیونکہ صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دفن کرنے سے پہلے اس بات کو مقدم سمجھا اور کیا کہ خلیفہ 66 کے ہاتھ پر بیعت کریں.“ اسی طرح 9 جولائی ۱۹۰۸ ء کے اخبار بدر میں جو ڈائری شائع ہوئی ہے اس میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ آپ نے یہ فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ جب ہم حضرت میرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور مہدی مسعود مانتے ہیں تو اب علا مہ نورالدین کی بیعت کی کیا ضرورت ہے.....ہر شخص اپنی ذات کے لئے خود ذمہ دار ہے...ہر ایک کو بیعت کے لئے خط لکھنا چاہیے تا وہ اس فیض سے حصہ لے جویدُ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ میں مذکور ہیں.“ مطلب واضح ہے کہ اگر تم خلافت کی بیعت نہیں کرو گے اور ویسے ہی اپنی چالا کیوں اور ہشیاریوں میں پڑے رہو گے تو پھر تمہیں وہ فضل حاصل نہیں ہو سکتا.جویدُ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ اپنی رحمت کا ہاتھ ، خدا تعالیٰ اپنی حفاظت کا ہاتھ ، خدا تعالیٰ اپنی امان کا ہاتھ ، خدا تعالیٰ اپنی برکتوں کا ہاتھ تمہارے سر پر سے اُٹھالے گا.اگر تم خدا تعالیٰ کی 66

Page 20

خطبات ناصر جلد اوّل ۴ خطبہ جمعہ ۱۲/ نومبر ۱۹۶۵ء رحمتیں حاصل کرنا چاہتے ہو.اگر تم اس بات کے خواہش مند ہو کہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فضلوں اور اس کی برکتوں اور اس کی حفاظت اور اس کی امان کا ہاتھ تمہارے سروں پر رہے تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم ایک ہاتھ پر بیعت کر کے جمع ہو جاؤ.جب انہوں نے دیکھا کہ اس مسئلہ میں بھی اکثریت ہماری رائے کے خلاف ،صداقت پر مضبوطی سے قائم ہے تو پھر انہوں نے تیسرا مؤقف اختیار کیا.اور وہ یہ کہ بے شک خلیفہ کا انتخاب کرو اور خلیفہ بنالو.بے شک اس کی بیعت کو بھی لازمی قرار دے لو ہم بیعت کر لیں گے لیکن وہ خلیفه صدرانجمن کا حاکم نہیں ہوگا بلکہ اگر تم نے خلیفہ بناناہی ہے تو صدرانجمن احمدیہ کے ماتحت خلیفہ مقرر کرو.یہ اس قدر مضحکہ خیز بات تھی کہ کوئی سمجھدار انسان اس کو اختیار کرنے کے لئے تیار ہی نہ تھا.اس وقت جس تڑپ کے ساتھ ، جس درد کے ساتھ ، جس عاجزی اور انکسار کے ساتھ ،جس علم وفراست کے ساتھ اس محاذ پر حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ جنگ لڑی اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک زبر دست بشارت آپ کو دی اور وہ یہ تھی کہ ہم تمہیں یہ توفیق دیں گے کہ تم خلافت کو جماعت احمد یہ میں اس قدر مستحکم کر دو گے کہ آئندہ اس قسم کا فتنہ جو مارچ ۱۹۱۴ء میں جماعت میں پیدا ہوا پھر کبھی پیدا نہ ہو گا.۱۹۱۴ء میں آپ کو کچھ معلوم نہیں کہ کتنی زندگی ہے.دس سال بیس سال پچاس سال باون سال کتنی دیر خلافت کرنی ہے.اس کے بعد کیا حالات ہوں گے.اپنے حالات کا بھی کوئی پتہ نہیں.اور پھر اس کے بعد جو خلیفہ ہو گا وہ جب مرے گا تو اس کے بعد کیا حالات ہوں گے یہ بھی نہیں جانتے.یہ انسان کا کام نہیں.جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم نہ دیا جائے.اس کے باوجود ۱۹۱۴ ء میں حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ لکھا ذرا غور سے سنیں.اس وقت دشمن خوش ہے کہ احمدیوں میں اب تفرقہ پڑ گیا ہے“.یہ جنگ ہورہی تھی.یہ جھگڑا تھا کہ خلیفہ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے.حضور رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے کہ خلیفہ ہونا چاہیے.اور ان لوگوں نے تو وقت سے پہلے ہی خلافت کے خلاف ٹریکٹ چھپوا

Page 21

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۱۲ ؍نومبر ۱۹۶۵ء کر رکھے ہوئے تھے جن کی اشاعت بعد میں کی.اس چیز کو دیکھ کر کہ یہ شماتت اعداء کا موجب ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی تو یہ تھا کہ میں اسلام کو تمام دنیا پر غالب کروں گا اور یہ غلبہ تین صدیوں کے اندر اندر تمہیں نظر آ جائے گا.لیکن ہو یہ رہا ہے کہ حضور کی وفات کے بعد ابھی چھ سال نہیں گزرتے کہ جماعت میں شدید تفرقہ پڑ گیا ہے.حتی کہ کوئی شخص ظاہری سامانوں کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ جماعت زندہ بچ نکلے گی.تو آپ فرماتے ہیں کہ اس وقت دشمن خوش ہے کہ احمدیوں میں اب تفرقہ پڑ گیا ہے اور یہ جلد تباہ ہو جائیں گے اور اس وقت ہمارے ساتھ زُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (الاحزاب : ۱۲ ) والا معاملہ ہے یہ ایک آخری ابتلا ہے.جیسے کہ احزاب کے موقعہ کے بعد پھر دشمن میں یہ جرأت نہ تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کرے ایسے ہی ہم پر یہ آخری موقعہ اور دشمن کا حملہ ہے.خدا تعالیٰ چاہے ہم کامیاب ہوں تو انشاء اللہ پھر دشمن ہم پر حملہ نہ کرے گا.بلکہ ہم دشمن پر حملہ کریں گے.نبی کریم صلعم نے احزاب پر فرمایا تھا کہ اب ہم ہی دشمن پر حملہ کریں گے اور اسے شکست دیں گے اور دشمن اب ہم پر کبھی حملہ آور نہ ہو گا.یہ آخری ابتلا ہے.اس سے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے.تو دشمن کو پھر کبھی خوشی کا موقعہ نہ ملے گا.“ پہلے آپ نے فرمایا کہ دشمن اس لئے خوش ہے کہ احمدیوں میں تفرقہ پڑ گیا ہے.یہ جلد تباہ ہو جائیں گے.اب آپ فرماتے ہیں.کہ دشمن کو پھر کبھی خوشی کا موقع نہ ملے گا.یعنی دشمن کو کبھی یہ یکھنا نصیب نہ ہو گا.کہ احمدیوں میں تفرقہ پڑ گیا ہے.اور ان کی تباہی کا امکان پیدا ہو گیا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں:.جنگیں تو احزاب کے بعد میں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن پھر دشمن کو یہ حوصلہ نہیں ہوا کہ مسلمانوں پر حملہ آور ہو.اسی طرح یہ آخری فتنہ ہے.پس تم دعا میں لگ جاؤ.یہ فتنہ احزاب والا ہے جس طرح وہاں صحابہ رضوان اللہ علیہم کی حالت تھی وہی اب یہاں ہماری حالت ہے.اور جو اس وقت دشمن کی حالت ہوئی.وہی اب دشمن کے ساتھ ہوگی.تمہیں چاہیے کہ تم آگے بڑھو.دعاؤں میں لگ جاؤ.‘

Page 22

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء آپ نے یہ پیشگوئی ۱۹۱۴ء میں کی تھی.کہ اس وقت ہمیں جماعت میں شدید تفرقہ نظر آتا ہے.اور شماتت اعداء کا باعث بن رہا ہے.اور دشمن خوش ہیں اور خوشی سے بغلیں بجار ہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام دعاوی اور جماعت احمدیہ کی ترقی کی تمام پیشگوئیاں غلط ہوتی نظر آ رہی ہیں.جو جماعت اس طرح متفرق ہو جائے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے.اور آپس میں اختلاف کرنے لگ جائے.اور پراگندہ ہو جائے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی.لیکن حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی وقت یہ بھی فرما دیا تھا، کہ تم دعاؤں میں لگ جاؤ اور میں تمہیں بتا تا ہوں کہ یہ خوشی دشمن صرف ایک دفعہ دیکھ سکتا تھا اور وہ اس نے دیکھ لی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرے گا کہ دشمن تھوڑا بہت حملہ تو کرے گا.شاید تھوڑا بہت نقصان بھی پہنچا دے احمدیوں کو تکلیفیں بھی دے سکتا ہے ان سے ایثار اور قربانی کے مطالبے بھی اس کے مقابلہ میں کئے جاویں گے لیکن یہ تم کبھی نہ دیکھو گے کہ ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء والا تفرقہ اور پراگندگی جماعت میں دشمن کو پھر نظر آئے.اب جب خود آپ کا وصال ہوا.تو ہم اس کے بعد کے دنوں کے حالات کو دیکھتے ہیں.ہر احمدی ایک موت کی سی حالت دیکھتا تھا.اللہ تعالیٰ نے ہر ایک احمدی کے دل میں حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کی اتنی محبت پیدا کی تھی اور پھر آپ کو احباب جماعت پر اس کثرت اور وسعت کے ساتھ احسان کرنے کی ، ان کے غموں میں شریک ہونے کی ، ان کی خوشیوں میں شامل ہونے کی ، ان کی ترقیات کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرنے کی اس قدر توفیق دی تھی کہ ہر شخص سمجھتا تھا کہ گویا آج میری ہی موت کا دن ہے.بعض احمدی حضور کی اس بیماری کے دوران اپنی کم علمی کی وجہ سے بعض نادانی کی وجہ سے بعض کمزوری کی وجہ سے اور شاید بعض شرارت کی وجہ سے بھی اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے جو ہمارے کانوں میں بھی پڑتی تھیں کہ گویا جماعت میں بڑا تفرقہ پیدا ہو چکا ہے لیکن یہ باتیں اس وقت سے پہلے تھیں.جب اس موہومہ تفرقہ نے اپنا چہرہ دنیا کے سامنے دکھانا تھا جب وہ وقت آیا تو وہ لوگ جو یہاں تھے وہ گواہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک شخص شاہد ہے اس بات کا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کی

Page 23

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء فوج بھیجی ہے اور اس نے جماعت احمدیہ پر قبضہ کر لیا ہے اور جس طرح گڈریا بھیٹروں کو گھیر لیتا ہے.اسی طرح اس فوج نے ہم سب کو گھیرے میں لے لیا ہے اور کہا کہ ہمیں اس لئے بھیجا گیا ہے.کہ ہم تمہیں بھٹکنے نہ دیں.اس وقت کسی کے دماغ میں یہ خیال نہ تھا کہ کون خلیفہ منتخب ہوتا ہے یا کون نہیں.لیکن ہر دل یہ جانتا تھا.کہ خلافت قائم رہے گی اور خلیفہ منتخب ہو گا اور خلافت کی برکات ہم میں جاری وساری رہیں گی.چند دن پہلے ہماری ایک احمدی بہن نے خواب دیکھی.غالباً حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات سے دو دن یا تین دن پہلے کی بات ہے.یعنی اس شام سے پہلی رات جب یہاں اجتماعی دعا ہوئی ہے اس بہن نے خواب یہ دیکھی کہ مسجد مبارک میں بہت سے احمدی جمع ہیں اور بڑی گریہ وزاری کے ساتھ دعا کر رہے ہیں.وہ کہتی ہے کہ جب میں نے مغرب کی طرف نگاہ کی تو میں نے دیکھا کہ سینکڑوں، ہزاروں فرشتے سفید لباس میں ملبوس بڑی تیزی کے ساتھ دوڑتے چلے آ رہے ہیں اور وہ دعا کرنے والے انسانوں کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں اور اس طرح اپنے رب کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرنے لگ گئے ہیں.اس دن تو ہم نے یہ خیال کیا کہ اگر خدا چاہے.اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے تو وہ حضور کو صحت عطا کر سکتا ہے.وہ بڑی طاقتوں اور قدرتوں والا ہے.چنانچہ یہاں اجتماعی دعا کا انتظام کیا گیا.اور بڑی گریہ وزاری کے ساتھ دعا کی گئی.لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ جو نظارہ اس دن اس کو دکھایا گیا.وہ اس اجتماعی دعا کے وقت کا نظارہ نہ تھا.بلکہ اس شام کا نظارہ تھا.( مغرب کے بعد کا) جس شام کو مجلس انتخاب کے ممبر مسجد مبارک کے اندر مشورہ کر رہے تھے اور بوجہ ممبر ہونے کے میں اور خاندان کے بعض دوسرے افراد بھی اس میں شامل تھے.لیکن خدا شاہد ہے کہ اس کا رروائی کا بیسواں حصہ بھی میرے کان میں نہیں پڑا.کیونکہ ہم لوگ پیچھے بیٹھے یہ دعا کر رہے تھے کہ اے خدا! جماعت کو مضبوط اور مستحکم بنا اور خلافت کو قائم رکھ! اور دل میں یہ عہد کیا تھا کہ جو بھی خلیفہ منتخب ہو گا.ہم اس سے کامل اتباع اور اطاعت کا حلف اٹھائیں گے اور جماعتی اتحاد اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ دیکھ کر خوشی خوشی ہم

Page 24

خطبات ناصر جلد اوّل خطبه جمعه ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء واپس جائیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں تفرقہ پیدا نہیں ہوا اور ہمارا جو فرض تھا آرام کے ساتھ ہم اس سے سبکدوش ہو گئے.اس مسجد میں جو لوگ بھی اس اجلاس میں شامل تھے.میرا یہی احساس تھا کہ ان میں سے کوئی شخص بھی وہ نہ رہا تھا جو پہلے تھا.یعنی اس کے دماغ پر بھی اللہ تعالیٰ کا تصرف تھا.اس کی زبان پر بھی خدا تعالیٰ کا تصرف تھا نہ کوئی بحث ہوئی اور نہ ہی کوئی جھگڑا.سب ایک نتیجہ پر پہنچ گئے اور اللہ تعالیٰ نے اس طرح پر یہ پیشگوئی پوری کی کہ یہ آخری ابتلا ہے.دشمن اس قسم کی خوشی پھر نہ دیکھے گا.چنانچہ بعض غیر مبائع اکابر کو یہ کہتے بھی سنا گیا ہے کہ سچی بات یہی ہے کہ خلافت کے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی اور اگر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ انتخاب خلافت کے متعلق اس قسم کے قواعد بنا جاتے جو حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے جماعت پر احسان کرتے ہوئے بنائے تو پھر ۱۹۱۴ ء والا تفرقہ پیدا ہی نہ ہوتا.تو حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کوجو اللہ تعالیٰ نے بتایا وہ ایک زبر دست پیشگوئی تھی کہ ہم تجھے تو فیق دیں گے.کہ تم جماعت کی تربیت ایسے رنگ میں کر سکو کہ جب تمہیں ہمارا بلا وا آوے تو تمہیں یہ غم اور فکر نہ ہو کہ جب میں اس گھر میں داخل ہوا تھا.تو اس وقت بھی ایک فتنہ تھا اور جب میں اس گھر سے جارہا ہوں تو اس وقت بھی ایک فتنہ چھوڑ کے جار ہا ہوں.بلکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی تھی.کہ جب تم اس دنیا کو چھوڑو گے تو یہ فتنہ کبھی پیدا نہ ہوگا.جس کو تم نے شروع میں دیکھا تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں نے اپنا کام دکھایا.اور جماعت کو اس طرح متحد اور متفق کر دیا.کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مصرعہ کہا ہے.ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا یہ وہ نظارہ تھا.جو ہمیں اس وقت نظر آرہا تھا.مسجد کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں میں بھی اور باہر بیٹھے لوگوں میں بھی.ہر آدمی کی اپنی طبیعت، اپنا خیال، اپنی سوچ و بچار، اپنا فکر و تد بر ہوتا ہے لیکن

Page 25

خطبات ناصر جلد اوّل ۹ خطبه جمعه ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء وقت انتخاب وہ اپنا وجود کلیۂ کھو بیٹھے تھے اور کسی اور کی گرفت میں تھے اور وہی کچھ کر رہے تھے جو خدا ان سے کروانا چاہتا تھا.تو اس طرح آپ دوستوں نے خدا تعالیٰ کے حضور یہ سفارش کی کہ اس عاجز بندے (خاکسار ناصر احمد ) کو وہ اگر پسند کرے تو آپ کا ایک خادم بنا دے اور خدا تعالیٰ نے آپ کی درخواست کو قبول کیا اور مجھے آپ کا خادم بنا دیا.اس معنی میں خادم کہ جس طرح باپ اپنے بچوں کی خدمت کرتا ہے یا جس طرح ماں اپنے بچوں کی خدمت کرتی ہے.ایک ماں اپنے بچے کے گوہ کے پوتڑے بھی دھوتی ہے لیکن کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ وہ چوہڑی اور حلال خور ہے.ایک باپ اپنے بچے کو کندھے سے لگا کر جب اس کے پیٹ میں تکلیف ہو ساری رات ٹہلتا رہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اسے سکون حاصل ہو اور وہ آرام سے سو جائے لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ ایک مزدور ہے.تو آپ بھی دعا کریں.میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایک باپ سے بڑھ کر مجھے آپ کی خدمت کی توفیق دے.ایک ماں سے بڑھ کر آپ کی خدمت کرنے کی مجھے توفیق دے اور خدا تعالیٰ کی قسم ! میں آپ سے اس کے بدلہ میں کسی چیز کی توقع نہیں رکھتا مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِى إِلَّا عَلَى اللهِ (یونس : ۷۳) میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ جن دینی کاموں میں آپ کا تعاون ضروری ہے ان کاموں میں آپ میرے ساتھ پورا پورا تعاون کریں اور ا اپنی دعاؤں میں ہمیشہ مجھے یاد رکھیں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ یہ دعا کرتے رہیں گے کہ جب میں دنیا کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور جاؤں تو وہ مجھ سے ناراض نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے کہ میں سرخرو ہو کر اس کے حضور پہنچوں اور اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں آپ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکوں اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں آپ کے دکھوں اور غموں کو اپنی دعاؤں سے دور کرسکوں.میں تو انتخاب کے وقت سے ہی خاص طور پر یہ دعا کر رہا ہوں کہ اے خدا میری دعاؤں کو قبول کر ! چونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے ہزاروں ایسے ہوں گے کہ چھوٹی یا بڑی تکالیف میں

Page 26

خطبات ناصر جلد اول 1.خطبه جمعه ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء مجھے لکھیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے لئے دعا کریں.تو میری دعا یہ ہے کہ ایسے موقع پر میرا خدا مجھے شرمندہ نہ کرے.بلکہ اس ذمہ داری کے نبھانے کے لئے قبولیت دعا کی جو ضرورت ہے وہ قبولیت دعا کا نشان مجھے عطا کرے اس لئے نہیں کہ میں اس ذریعہ سے دنیا کے مال و اسباب حاصل کرنا چاہتا ہوں.بلکہ اس لئے کہ میں آپ کے دکھوں اور در دوں اور تکلیفوں کو دور کرسکوں اور آپ کی ترقیات کی جو خواہش میرے دل میں پیدا کی گئی ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے سامان پیدا ہو جائیں اور خدا کرے ہمارا یہ قافلہ اسی اتحاد اور اتفاق کے ساتھ دنیا کے تمام ملکوں میں، دنیا کے تمام شہروں میں اور ان شہروں کے ہر گلی کوچہ میں بڑھتا چلا جائے اور خدا تعالیٰ کا یہ منشا پورا ہو کہ اسلام دنیا پر پھر غالب آجائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اس کی توفیق دیتا ر ہے.آمین روز نامه الفضل ربوه ۱۸ نومبر ۱۹۶۵ صفحه ۱ تا ۴)

Page 27

خطبات ناصر جلد اول 11 خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء جلسہ کے ایام کو نیکی کی باتیں سننے اور اپنے رب کے حضور عجز و انکسار سے دُعائیں کرنے میں گزاریں خطبه جمعه فرموده ۲۶ /نومبر ۱۹۶۵ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج میں احباب جماعت کو جلسہ سالانہ کے فوائد اس کی برکات اور اس کے متعلق ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اس جلسے کا ایک پس منظر ہے آج میں اس پس منظر پر اور جو جلسے اس وقت تک ہو چکے ہیں ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.اس کا پس منظر یہ ہے کہ انیسویں صدی کی دوسری چوتھائی میں ہندوستان میں ایک بچہ پیدا ہوا اور اس نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی.جو ماحول مذہبی اور دینی نہ تھا لیکن اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ایک موجیں مارنے والے سمندر کی طرح جوش مار رہی تھی اور ایک جلا دینے والی آگ کی طرح اس کے دل میں بھڑک رہی تھی.مگر دنیا اس سے واقف نہ تھی.اس کا خاندان ( جو ایک رئیس خاندان تھا) اسے دنیوی لحاظ سے ایک نکما وجود سمجھتا تھا.ان کے نزدیک نہ یہ دنیا کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا تھا اور نہ خاندان کی عزت قائم رکھ سکتا تھا.اس لئے وہ اس سے کلیۂ لا پرواہی برتا کرتے تھے.یہاں تک کہ دستر خوان کے بچے کھچے ٹکڑے اس کے کھانے کے لئے رکھ

Page 28

خطبات ناصر جلد اول ۱۲ خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء دیئے جاتے تھے جیسا کہ خود اس پاک وجود نے فرمایا:.ع لفاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أَكُلِي کہ اس زمانہ میں دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑے مجھے کھانے کے لئے دیئے جاتے تھے.پس گھر والے بھی اس کو نہ پہچانتے تھے.وہ وجود اپنے خاندان سے بھی اوجھل اور پوشیدہ تھا.پھر جب ہم علاقہ کو دیکھتے ہیں تو اس میں اس مقدس وجود کا خاندان ایک رئیس خاندان تھا جور و سااس پاک وجود کے والد کی ملاقات کے لئے آتے اور ان سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ان کا کوئی صاحبزادہ مرزا غلام احمد ( علیہ الصلوۃ والسلام ) کے نام سے بھی موسوم ہے.وہ ان کا متعارف نہیں تھا اور وہ اس سے متعارف نہیں تھے.پھر جس قصبہ میں وہ پاک وجود پیدا ہوا وہ قصبہ بھی غیر معروف تھا.اس قصبہ میں دنیا کو کوئی خوبی نظر نہ آتی تھی.دور کی دنیا تو کیا خود اس ملک کی نگاہ سے بھی قادیان اوجھل اور چھپا ہوا تھا.ع کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر اس پس منظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے ان ہزاروں لاکھوں خدمت گزاروں میں سے جو آستانہء الوہیت پر پڑے رہتے تھے اس پاک وجود کو غلبہء اسلام کے لئے اور اپنی قدرت کی زندہ تجلیات کے لئے چنا اور علاوہ اور بشارتوں کے اسے ایک یہ بشارت بھی دی کہ ہم تجھے کثیر جماعت دیں گے، دنیا تیری مخالفت کرے گی، تجھے مٹانے کے درپے ہو جائے گی.ہرتد بیر اور ہر حربہ اختیار کیا جائے گا کہ تو مغلوب ہو جائے ناکام رہے.لیکن ہم تجھ سے یہ وعدہ کرتے ہیں اور تجھے بشارت دیتے ہیں کہ غلبہ آخر کار تجھ ہی کو حاصل ہو گا اور مخلصین اور فدائیوں کی ایک کثیر جماعت تجھے عطا کی جائے گی.ان بشارتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر پورا تو کل اور بھروسہ رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ کام شروع کیا.جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپر د کیا تھا اور چونکہ خدا تعالیٰ ایک بڑی باوفا ہستی ہے.اس لئے اس نے بھی اُسی طرح آپ سے وفا کی جس طرح آپ اس سے وفا کر رہے تھے.یہ کثیر اور ہر دم بڑھتی ہوئی جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 29

خطبات ناصر جلد اول ۱۳ خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء کو دی گئی.اس کے معلوم کرنے کا ایک پیمانہ ہمارا جلسہ سالانہ ہے.جس کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ ۱۸۹۱ء میں بعض دینی امور کے متعلق مشورہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض احباب جماعت کو قادیان بلایا.اس طرح اس جلسہ مشاورت میں ۷۵ احباب شامل ہوئے.لیکن اس مشاورتی مجلس کے دوران ہی اس جلسہ سالانہ کی بنیا د رکھ دی گئی اور ابتدا کر دی گئی جو جلسہ کہ ہم ہر سال اپنے مرکز میں ہوتا دیکھتے ہیں.چنانچہ اس مجلس مشاورت کے تین دن بعد یعنی ۳۰ دسمبر ۱۸۹۱ء کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اشتہار اطلاع شائع فرمایا ( جوحضور علیہ السلام کی کتاب آسمانی فیصلہ کے آخر میں بھی درج ہے ) اس میں حضور علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کا ان الفاظ میں اشتہار دیا.فرمایا:.تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو.لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے.تا اگر خدا چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو.ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے سو اس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہیے اور دعا کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہیے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہوکر پھر ملاقات کی پرواہ نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہو گی اور چونکہ ہر ایک کے لئے بباعث ضعف فطرت یا کئی مقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے آئے.کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حر جوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں.لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں

Page 30

خطبات ناصر جلد اول ۱۴ خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویه تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں.سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ / دسمبر سے ۲۹؍ دسمبر تک قرار پائے.یعنی آج کے دن کے بعد جو تیس دسمبر ۱۸۹۱ ء ہے.آئندہ اگر ہماری زندگی میں ۲۷ / دسمبر کی تاریخ آ جائے تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آجانا چاہیے اور اس جلسہ میں ایسے حقائق و معارف کے سنانے کا شغل رہے گا اور ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دعا ئیں اور خاص توجہ ہوگی.اور حتی الوسع بدرگاہ رب ارحم الرحمین کوشش کی جائے گی کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی انہیں بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر ایک نئے سال جس قدر نٹے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی اور رشتہ تو ڑ دو تعارف ترقی پذیر ہوتار ہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا.اس جلسہ میں اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جل شانہ کوشش کی جائے گی.اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جوانشاء اللہ القدیر وقتا فوقتا ظاہر ہوتے رہیں گے اور کم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کا فکر رکھیں.اور اگر تد بیر اور قناعت شعاری سے تھوڑا تھوڑا سر مایہ خرچ سفر کے لئے ہر روز یا ماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلا دقت سرمایه سفر میسر آجائے گا.گویا یہ سفر مفت میسر ہو جائے گا اور بہتر ہوگا کہ جو صاحب احباب میں سے اس تجویز کو منظور کریں وہ مجھ کو ابھی بذریعہ اپنی تحریر خاص کے اطلاع دیں تا کہ ایک علیحدہ فہرست میں ان تمام احباب کے نام محفوظ رہیں کہ جو حتی الوسع والطاقت

Page 31

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۵ خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے کے لئے اپنی آئندہ زندگی کے لئے عہد کر لیں اور بدل و جان پختہ عزم سے حاضر ہو جایا کریں بجز ایسی صورت کے کہ ایسے موانع پیش آجائیں.جن میں سفر کرنا اپنی حد اختیار سے باہر ہو جائے اور اب جو ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء کو دینی مشورہ کے لئے جلسہ کیا گیا اس جلسہ پر جس قدر احباب محض اللہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے.خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہر ایک قدم کا ثواب ان کو عطا فرمائے.آمین ثم آمین پھر جب جلسہ کے ایام قریب آئے تو دسمبر ۱۸۹۲ء کے شروع میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے احباب جماعت کو ان الفاظ میں تو جہ دلائی.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.بعد ہذا بخدمت جمیع احباب مخلصین التماس ہے کہ ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۲ء کو مقام قادیان میں اس عاجز کے محبوں اور مخلصوں کا ایک جلسہ منعقد ہو گا اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا موقعہ ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو.پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے.ماسوا اس کے کہ اس جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے تیار ہورہے ہیں اور اسلام کے تفرقہ مذاہب سے بہت لرزاں اور ہراساں ہیں چنانچہ انہی دنوں میں ایک انگریز کی میرے نام چٹھی آئی جس میں لکھا تھا کہ آپ تمام جانداروں پر رحم رکھتے ہیں.اور ہم بھی انسان ہیں ور مستحق رحم ، کیونکہ دین اسلام قبول کر چکے اور اسلام کی سچی اور صحیح تعلیم سے اب تک بے خبر ہیں.سو بھائیو! یقیناً سمجھو کہ یہ ہمارے لئے ہی جماعت تیار ہونے والی ہے.خدا تعالیٰ کسی صادق

Page 32

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۶ خطبہ جمعہ ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء کو بے جماعت نہیں چھوڑتا.انشاء اللہ القدیر سچائی کی برکت ان سب کو اس طرف کھینچ لائے گی.خدا تعالیٰ نے آسمان پر یہی چاہا ہے اور کوئی نہیں کہ اس کو بدل سکے.سولازم ہے کہ اس جلسہ پر جو کئی با برکت مصالح پر مشتمل ہے ہر ایک ایسے صاحب ضرور تشریف لاویں جو زادراہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور اپنا سرمائی بستر لحاف وغیرہ بھی بقدرضرورت ساتھ لاویں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی راہ میں ادنی ادنیٰ حرجوں کی پرواہ نہ کریں.خدا تعالیٰ مخلصوں کو ہر ایک قدم پر ثواب دیتا ہے اور اس کی راہ میں کوئی محنت اور صعوبت ضائع نہیں ہوتی اور مکر رلکھا جاتا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گا اور نہ نیچر کی تفریط پسند اور اوہام پرست مخالفوں کا ، نہ خوارق کے انکار کرنے والے باقی رہیں گے اور نہ ان میں بیہودہ اور بے اصل اور مخالف قرآنی روایتوں کو ملانے والے اور خدا تعالیٰ اس اُمت وسط کے لئے بین بین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا.وہی راہ جس کو قرآن لا یا تھا ، وہی راہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلائی تھی ، وہی ہدایت جو ابتدا سے صدیق اور شہید اور صلحاء پاتے رہے.یہی ہو گا ضرور یہی ہو گا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے.مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے.بالآخر میں دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ہر ایک صاحب جو اس للبی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم وغم دور فرمائے اور ان کو ہر ایک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفران کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا!! اے ذوالحجد والعطاء !!! اور رحیم اور مشکل کشا ! یہ تمام دعائیں قبول کر اور

Page 33

خطبات ناصر جلد اول ۱۷ خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر ایک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے.آمین ثم آمین وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ان مبارک اور دعاؤں بھرے الفاظ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسہ کی ابتدا کی اور خدا تعالیٰ کا فعل یہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے جو کچھ بتایا تھاوہ اپنے وقت پر پورا ہوا اور جب ہم گذشتہ جلسوں کی حاضری پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سوائے ایک ابتلا کے سال کے کوئی جلسہ ایسا نہیں گزرا جس میں، آنے والوں کی تعداد.حضرت مسیح موعود کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی تعداد، ان برکتوں اور رحمتوں اور فضلوں سے حصہ پانے والوں کی تعداد جو فضل اور رحمت اور برکت اللہ تعالیٰ نے جلسہ میں شمولیت کرنے والوں کے لئے مقدر کر رکھی ہے بڑھتی نہ چلی گئی ہو.البتہ میں نے بتایا ہے کہ ایک سال چھوٹے سے ابتلا کا دور جماعت پر ضرور آیا.اس سے بھی آج ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے.دیکھئے پہلے جلسہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مشاورت کے لئے منعقد فرمایا تھا ۷۵ احباب شریک ہوئے اور پھر یہ تعداد ان تمام مخالفتوں کے باوجود اور ان تمام کوششوں کے باوجود جو جماعت احمدیہ کو مٹانے کے لئے مخالف کرتے رہے سال بسال بڑھتی ہی چلی گئی.حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ ۱۹۰۷ ء میں ہوا اس میں بدر ۹ جنوری ۱۹۰۸ ء کے مطابق حاضرین کی تعداد تین ہزار تھی.اب اگلے جلسہ سے ابتلا کا دور شروع ہوا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ۱۹۰۸ ء میں جو پہلا جلسہ ہوا.یا یوں کہیے کہ خلافت اولی کے زمانہ کا پہلا جلسہ اس میں یہ تعداد گر کر دو ہزار پانچ سو (۲۵۰۰) پر آ گئی.کچھ تو شاید اس وجہ سے کمی ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر بہت سے لوگ دیوانہ وار قادیان کی طرف

Page 34

خطبات ناصر جلد اول ۱۸ خطبہ جمعہ ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء دوڑے.ممکن ہے انہوں نے یہ سمجھ لیا ہو کہ ہم نے اس سال قادیان کی زیارت تو کر ہی لی ہے دوبارہ جانے کی ضرورت نہیں.کچھ شاید اس لئے کمی ہوئی ہو کہ بعض لوگ دوبارہ سفر کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ اس کمی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعض لوگوں نے جماعت کے ایک حصہ میں یہ خیال پیدا کر دیا تھا کہ مرکز کے ساتھ وابستگی ( چونکہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زندہ نہیں رہے صرف خلافت ہی ہے ) ضروری نہیں رہی.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اُسی اول رضی اللہ عنہ کو اپنی خلافت کے سارے عرصہ میں استحکام جماعت کی طرف ہی ساری توجہ دینی پڑی کیونکہ جماعت کو سنبھالنا بہت ضروری تھا.جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب میں ارتداد کا ایک سیلاب امڈ آیا تھا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں بھی بعض کمزوریاں ظاہر ہو نے لگی تھیں.پس حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ساری توجہ اور کوشش اور ساری جد و جہد یہی رہی کہ جماعت کو سنبھالا جائے اور جماعت کا استحکام مضبوط کیا جائے اور اس امر کا ثبوت ہمیں جلسوں کی تعداد سے ملتا ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو آخری جلسہ ۱۹۱۳ء میں ہوا اس میں الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۱۳ ء کے مطابق حاضرین کی تعداد پھر تین ہزار تک پہنچ گئی گویا حضور رضی اللہ عنہ نے جو استحکام جماعت کی طرف توجہ دی اس کا نتیجہ ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کے آخری جلسہ میں بھی حاضری ۱۹۰۷ء کے جلسہ کی تعداد تک پہنچ گئی.گویا وہ کمزوریاں اور خامیاں جو اس وقت حضور رضی اللہ عنہ کی دور بین اور بار یک بین نگاہ دیکھ رہی تھی انہیں حضور ( حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ) دور کرنے میں کامیاب ہو گئے اور جماعت کو پھر سے مستحکم بنیا دوں پر کھڑا کر دیا اور پھر جلسہ میں حاضری کی تعداد تین ہزار تک پہنچ گئی.اس کے بعد خدا تعالیٰ کی برکات اور اس کے فضلوں کا ایک دھارا تھا جو ۱۹۱۴ء سے بہنا شروع ہوا اور جماعت کو کہیں سے اٹھا کر کہیں تک لے گیا.چنانچہ ۱۹۱۴ء کا جلسہ جو خلافت ثانیہ کا

Page 35

خطبات ناصر جلد اول ۱۹ خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء پہلا جلسہ تھا اس میں حاضری کی تعداد گری نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھی حالانکہ یہ جلسہ ایسے وقت میں منعقد ہوا جبکہ ایک گروہ جماعت سے علیحدہ ہو گیا تھا، خلافت کا منکر ہو چکا تھا.یہ جلسہ ایسے وقت میں ہوا جبکہ سینکڑوں آدمی خلافت سے منحرف ہو کر خلافت کی تنظیم سے باہر نکل چکے تھے.بظاہر ۱۹۱۴ء کے جلسہ کی حاضری کم ہو جانی چاہیے تھی لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ یہ تعداد گری نہیں بلکہ بڑھی.چنانچہ الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۱۴ء کی رپورٹ کے مطابق اس جلسہ میں ۳۲۵۰ مہمان باہر سے شامل ہوئے.اس طرح اڑھائی سو کی حاضری زیادہ ہوئی.اڑھائی سو کی اس زیادتی کا مطلب یہ ہے کہ ان نامساعد حالات میں بھی 4 فیصدی کا اضافہ ہوا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے آخری جلسہ ۱۹۶۴ء میں حاضری کا اندازہ ۸۰ ہزار اور ایک لاکھ کے درمیان کا ہے.یعنی بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ اس جلسہ پر حاضری ایک لاکھ تھی اور غالباً اخبار میں بھی یہی چھپا ہے لیکن بعض لوگ جو کنزرویٹو خیال کے ہیں یعنی بہت محتاط اندازہ لگانے والے ہیں ، وہ مردوں اور عورتوں کی حاضری کا اندازہ ۸۰ ہزار بتاتے ہیں.پس خلافت ثانیہ کے زمانہ میں جماعت نے جو ترقی کی اس سے وہ بشارتیں پوری ہو ئیں جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی تھیں.ایک سرسری اور طائرانہ نظر آپ تمام گزشتہ جلسوں پر ڈالیں تو آپ کے سامنے گراف کی شکل میں ایک تصویر آجاتی ہے کہ کس طرح یہ جماعت چھوٹی سی بلندی سے تیزی کے ساتھ آسمان کی طرف چڑھتی گئی.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اندازہ کے مطابق حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر ۳۵ ہزار اور ۴۵ ہزار کے درمیان دوست باہر سے ربوہ تشریف لائے تا کہ حضور رضی اللہ عنہ کا دیدار کر سکیں اور جنازے میں شامل ہو سکیں.اس طرح ایک بڑا مالی بار جماعت کے کندھوں پر پڑا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطرہ، مسیح موعود کے مشن کی کامیابی کی خاطر اور الہی برکات کے حصول کی خاطر جن کے ہمیں وعدے دئے گئے ہیں ہمیں اپنے مالوں کو بہر حال قربان کرنا پڑے گا کیونکہ مومن اپنے کو خدا کے فضلوں سے محروم کرنا ہر گز پسند نہیں کرتا.

Page 36

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء اس لئے میں تمام احباب جماعت کو درد بھرے دل کے ساتھ ، نہایت محبت اور پیار کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ آئندہ جلسہ سالانہ پر پہلے کی نسبت زیادہ تعداد میں آئیں تا دنیا بھی یہ دیکھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیش کردہ بشارات کے پورا ہونے میں کوئی وقفہ نہیں ہوا اور یہ جماعت خدا تعالیٰ کے ہاتھ نے کچھ اس طرح تیار کی ہے کہ وہ ہرگز گوارا نہیں کرتی کہ اس کی زندگی کا ایک منٹ بھی ایسا گزرے جس میں اس نے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو جذب نہ کیا ہو اور تا دنیا مشاہدہ کرے کہ ہر قسم کی رحمتیں ، ہر قسم کے فضل اور ہر قسم کی بشارتیں ، دین کے لئے اور دنیا کے لئے اس جماعت کو دی گئی ہیں.پس ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ان میں سے ہر ایک بشارت سے ہم وافر حصہ لینے والے ہوں اور اس میں شک نہیں کہ اس کے لئے آپ کو اس سال زیادہ مالی قربانی دینی پڑے گی لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ مالی قربانی کئے بغیر آپ ان فضلوں کے وارث بھی نہیں بن سکتے جن فضلوں کا وارث آپ کو خدا تعالیٰ بنانا چاہتا ہے.وہ دن قریب ہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو خارق عادت طور پر ترقی بخشے گا اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس میں شامل ہوں گے لیکن ان دنوں کو قریب تر لانے کے لئے ہمیں بھی بہت کچھ قربانیاں دینی ہوں گی.جب قربانی کا لفظ منہ سے نکلتا ہے تو شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ جو کچھ خدا سے ہمیں ملا اس میں سے ایک حصہ کو پھر اسی کی طرف واپس لوٹا دینے کو ہم کس منہ سے قربانی کہہ سکتے ہیں؟ بہر حال جو کچھ اس نے ہمیں دیا ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے کہ اس کے حضور ہم واپس کر دیں اور اس کی رضا کی خاطر اس کی راہ میں خرچ کر دیں.اپنے اوقات عزیزہ کو بھی ، اپنے مالوں کو بھی ، اپنی دلچسپیوں اور خواہشات کو بھی اور اپنے آراموں کو بھی.تاہم اس کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنیں.اول تو تمام جماعت کو جو ا کناف عالم میں پھیلی ہوئی ہے آج میں یہ پیغام دیتا ہوں کہ خدا کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے آپ اپنے سالانہ جلسہ پر ضرور آئیں.جہاں تک ممکن ہو اور جہاں تک اللہ تعالیٰ آپ کو طاقت اور استطاعت بخشے آپ اس میں شمولیت کی کوشش کر یں.دوسرے میں ان احباب جماعت کی خدمت میں جو ربوہ سے باہر رہتے ہیں یہ کہنا چاہتا

Page 37

خطبات ناصر جلد اول ۲۱ خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء ہوں کہ اب جلسہ کے ایام میں مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے کام اتنا بڑھ جاتا ہے کہ صرف ربوہ کے رضا کار اس تمام کام کو خوش اسلوبی سے سرانجام نہیں دے سکتے.اس لئے اے نوجوانانِ احمدیت ! اے خدام الاحمدیہ !! جلسہ کے کام کے لئے اپنی خدمات پیش کرو اور بطور رضا کار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کرو.ان دنوں میں دراصل کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کون میزبان اور کون مہمان ہے.کیونکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ہم سب ہی مہمان ہیں اور ہمارا میزبان خدا کا وہ مسیح ہے جس نے اس لنگر کو جاری کیا جہاں خدا کے فرشتوں کی لائی ہوئی روٹی تقسیم ہوتی ہے.اہالیان ربوہ کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ رہے جو طاقت رکھتے ہوئے بھی اپنی خدمات کو رضا کارانہ طور پر پیش نہ کرے.بے شک بعض مجبوریاں بھی ہوتی ہیں.پس جہاں تک جائز مجبوریوں اور ضرورتوں کا تعلق ہے کوئی قابل اعتراض بات نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کرے اور باوجودیکہ آپ ان مجبوریوں کی وجہ سے اس خدمت سے محروم ہو جائیں پھر بھی وہ اپنے فضلوں میں آپ کو برابر کا شریک ٹھہرا لے.لیکن جن کو کوئی مجبوری نہیں ان میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ جلسہ کے لئے اپنی خدمات کو پیش کرے.اپنی جماعت میں جذبہ خدمت کے ایسے نظارے میں بچپن سے دیکھتا آیا ہوں کہ دنیا میں کم نظر آتے ہیں اور ہر احمدی کے لئے قابل فخر ہیں ان میں سے اس وقت میں ایک بیان کر دیتا ہوں.میں ابھی بچہ ہی تھا اور افسر جلسہ سالانہ کے دفتر میں بطور معاون کام کر رہا تھا.ایک دن عشاء کے بعد حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے جو افسر جلسہ سالانہ تھے مجھے فرمایا کہ مدرسہ احمدیہ کے کمروں میں جہاں جہاں مہمان ٹھہرے ہوئے تھے جا کر دیکھو کہ کوئی مہمان بھوکا تو نہیں رہا.چنانچہ میں نے چکر لگایا اور ایک کمرے کا دروازہ کھولا.ابھی وہ دروازہ تھوڑا سا ہی کھلا تھا کہ میں نے اندر ایک عجیب واقعہ ہوتے دیکھا.بات یہ تھی کہ اس شام کو معاونین جلسہ کے لئے چائے تقسیم کی گئی تھی.اس کمرے کا معاون ایک آبخورے میں چائے لے کر جب اس کمرے میں پہنچا تھا تو اس کمرے میں ایک مہمان بیمار

Page 38

خطبات ناصر جلد اول ۲۲ خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء پڑے تھے اور ان کو سردی لگ رہی تھی.ان کو یہ علم نہ تھا کہ یہ معاون اپنے لئے چائے لایا ہے چونکہ وہ بیمار تھے اور انہیں سردی لگ رہی تھی انہوں نے دیکھتے ہی اس لڑکے کو کہا کہ یہ چائے کیا تم میرے لئے لائے ہو ؟؟ وہ لڑکا چھوٹا ہی تھا شاید مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں پڑھتا تھا لیکن اس لڑکے کے چہرہ پر ذرہ بھر ایسا اثر نہ تھا.جو اس مہمان کو شرمندہ کرنے والا ہو.وہ آگے بڑھا اور اس نے کہا ہاں آپ کو سردی لگ رہی ہے یہ چائے آپ کے لئے ہے.تو اس قسم کا جذ بہ بڑا قابل قدر اور قیمتی ہوتا ہے.چائے کا ایک آبخورہ دے دینا کوئی چیز نہیں.لیکن جس رنگ میں اس نے اس آبخورے کو پیش کیا.مجھے یقین ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو ایسا پیارا لگا اور پسند آیا کہ وہ بچہ خدا تعالیٰ کی محبت کا وارث ٹھہر گیا.حالانکہ اس کا یہ فعل بظاہر ایک معمولی سافعل تھا.لیکن اس نے صرف وہ چائے پیش نہیں کی بلکہ ایسے خوبصورت رنگ میں پیش کی کہ مہمان کو محسوس بھی نہیں ہوا کہ یہ چائے دراصل اس کی ہے اور وہ مجھے دے رہا ہے.ہزاروں ایسے واقعات جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہوتے ہیں اور اس طرح ہزاروں برکتیں ہیں جو ہم اس جلسہ کے دنوں میں حاصل کرتے ہیں اور ہزاروں فضل ہیں جو اللہ تعالیٰ ان ایام میں ہم پر نازل فرماتا ہے.تو ربوہ کے رہنے والوں میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنی خدمات پیش نہ کرے.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مہمانوں کے بکثرت آنے کی بشارت ملی اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک کثیر جماعت عطا کروں گا اور جماعت کو اتنی برکت دوں گا کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے گی اور انسانوں کی بھاری اکثریت احمدیت میں داخل ہو جائے گی اور جو باہر رہیں گے ان کی حالت ویسی ہی ہوگی جیسے کہ ان قوموں کی ہے.جو یونہی پھرتی نظر آتی ہیں اور بنی نوع انسان ان کی کچھ قدر نہیں کرتے ، کوئی عزت نہیں کرتے ، یعنی روئے زمین پر احمدی ہی احمدی ہوں گے اور بہت کم لوگ محروم رہیں گے.ان بشارات میں دو چیزوں کی طرف صاف طور پر اشارہ کیا گیا ہے جو ہمارے ایمان کو ترقی دینے والی ہیں.اول تو یہ فرما یا يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کہ لوگ اتنی کثرت سے آئیں گے

Page 39

خطبات ناصر جلد اول ۲۳ خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء کہ راستوں میں گڑھے پڑ جائیں گے یعنی مرکز احمدیت کے گرد جو سڑکیں ہوں گی وہ ہمیشہ بپی (Bumpy) رہیں گی، جھٹکے دیا کریں گی کثرت ہجوم کی وجہ سے وہ کبھی ایک حالت پر نہ رکھی جاسکیں گی اور دوسری یہ کہ جو لوگ آئیں گے.آخر انہوں نے کہیں ٹھہر نا بھی ہے.تو ایک مستقل حکم یہ بھی دیا سعُ مَعَانَكَ کہ اپنے گھروں میں فراخی پیدا کرو انہیں بڑھاؤ بلکہ زیادہ گھر بناؤ.اور جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ زیادہ کمرے بنوائیں.اب یہ ہماری مرضی پر منحصر ہے کہ اگر ہم چاہیں تو گھر بناتے وقت یہ نیت کر لیں کہ ہم اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے یہ گھر بنارہے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو اپنے رب سے یہ کہیں کہ اے خدا !!! ہماری ضرورتوں کا کیا ہے وہ تو بے گھر رہ کر بھی ہم پوری کر سکتے ہیں.ہم یہ گھر صرف اس نیت سے بنا رہے ہیں کہ تیرے مسیح کے مہمانوں نے یہاں آنا ہے.اور تیرا یہ حکم ہے.وَسِعْ مَكانك اس طرح کہنے سے آپ کا مکان بھی بن جائے گا.اور ساتھ ہی آپ خدا کے فضل کے وارث بھی بن جائیں گے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.وہ گھر بھی برکتوں والے بن جائیں گے.وہ برکت ان میں اسی لئے ڈالی جائے گی کہ وہ وَشِعُ مَكَانَكَ کے حکم کے مطابق بنائے جائیں گے.صرف اپنے دنیوی آرام کی خاطر نہیں بنائے جائیں گے.اگر ہم اس نیت سے مکان بناتے ہیں تو میں اپنے بھائیوں سے کہوں گا کہ اپنی ضروریات اور اپنے ذاتی مہمانوں کی ضروریات سے کچھ حصہ بچا کر جلسہ کے لئے منتظمین کو دید میں کیونکہ اس کے بغیر خدا کے مسیح کے مہمانوں کو تکلیف پہنچے گی.پھر میں یہاں کے رہنے والوں اور باہر سے آنے والوں کی خدمت میں یہ بھی عرض کروں گا کہ ہم جس پاک وجود کی طرف منسوب ہوتے ہیں خدا تعالیٰ نے اسے یہ بھی فرمایا تھا کہ تو وہ ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.سو د یسے تو یہ ہماری زندگی کا شعار ہونا چاہیے لیکن جلسہ کے دنوں میں ہمیں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے اوقات کو ضائع کرنے والے نہ ہوں اور ہمارا ایک لحظہ بھی ضائع نہ ہو.نیکی کی باتیں غور سے سنیں.دعاؤں میں مشغول رہیں اپنے رب کے حضور جھکتے ہوئے عجز و انکساری سے ان ایام کو گزار ہیں.اپنے لئے اپنوں کے لئے

Page 40

خطبات ناصر جلد اول ۲۴ خطبه جمعه ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء دنیا میں بسنے والے احمدیوں کے لئے اور اس انسانیت کے لئے جو احمدیت سے محروم ہے.دعا ئیں کریں کہ اللہ تعالیٰ سب پر رحم فرمائے اور اپنے قرب کی راہیں ہم سب کے لئے کھول دے تا وہ جو ابھی اس نعمت سے محروم ہیں اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانیں اور اس کے میسیج کو شناخت کریں.جو اس زمانہ میں انسانیت کو شیطان اور ابلیس کے حملوں سے بچانے کے لئے بھیجا گیا ہے.تا تمام دنیا آستانہ الہی پر جھکنے والی بن جائے ہر دل سے خدا کی حمد کے ترانے نکلیں اور ہر زبان پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود جاری ہو اور ہر آنکھ سے ہر دیکھنے والے کو مسیح موعود علیہ السلام کی شناخت کی برکت نظر آئے اور ہر چہرہ پر اثرات سجود چمکتے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۸ / دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۱ تا ۵)

Page 41

خطبات ناصر جلد اول ۲۵ خطبہ جمعہ ۳؍دسمبر ۱۹۶۵ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش اور تڑپ تھی کہ ہر احمدی نورالدین بن جائے خطبه جمعه فرموده ۳ دسمبر ۱۹۶۵ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور حکم دیا کہ اُٹھ اور ساری دنیا میں میری توحید کو قائم کر اور دنیا کے تمام ادیان پر اسلام کے غلبہ کو ثابت کرنے کے لئے کوشش میں لگ جا اور دنیا کے ہر ملک اور قوم تک اسلام کا پیغام پہنچا تو اس اہم اور وسیع ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے رب کے حضور جھکے اور بڑے عجز اور گریہ وزاری کے ساتھ آپ نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ اتنا اہم اور اتنا وسیع کام اکیلے مجھ سے تو نہ ہو سکے گا.اس لئے میری درخواست ہے کہ تو اپنی طرف سے مجھے انصار دے تا تیری شریعت اور احکام کو اس دنیا میں قائم رکھا جا سکے.اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو وعدہ دیا.يَنْصُرُكَ رِجَالُ تُوحَى إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ کہ ہم تمہیں ایسے مددگار عطا کریں گے.جنہیں ہم آسمان سے وحی کریں گے کہ اٹھو اور میرے اس بندہ کے مددگار بنو اور انصار کی حیثیت سے اس کے ساتھ شامل ہو جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ میں اپنی اس گریہ وزاری اور دعا کا

Page 42

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۶ خطبہ جمعہ ۳؍دسمبر ۱۹۶۵ء ذکر جن الفاظ میں کیا ہے ان کا ترجمہ یہ ہے:.اور میں رات دن اللہ تعالیٰ کے حضور چلاتا رہا اور کہتا رہا يَا رَبِّ مَنْ أَنْصَارِى يَارَبِّ مَنْ أَنْصارِی کہ اے میرے رب میرے انصار کون ہیں؟ مجھے مددگار دے تا کہ تیرے کام خیر و خوبی کے ساتھ چلائے جاسکیں.پھر حضور فرماتے ہیں کہ میں گریہ وزاری کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکتا رہا.اور دعا کرتا رہا کہ اے میرے رب ! میں تنہا ہوں اور دنیا مجھے نہیں پہچانتی اور مجھے ذلیل اور بے یارو مددگار سمجھتی ہے.پس جب دعا کا ہاتھ پے در پے اٹھا اور آسمانوں کی فضا میری دعا سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو قبول کیا اور رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ کی دعا نے جوش مارا اور مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا جو میرے مددگاروں کی آنکھ اور میرے مخلصین کا خلاصہ اور نچوڑ ہے.اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے.پھر آپ نے حمامة البشری میں فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجہ کا صدیق دیا جو راستباز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے مجاہدہ کرنے والا اور کمال اخلاص سے اس کے لئے اعلیٰ درجہ کی محبت رکھنے والا ہے کہ کوئی مُحِب ایسا نہیں جو اس سے سبقت لے گیا ہو.گویا جیسا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان مخلصین انصار کی جماعت کا سردار بنا کر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ مولوی نورالدین صاحب کو وحی کی کہ جا میرے اس بندہ کی مددکر.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو صفات اپنے اس مخلص ترین مرید کے اندر دیکھیں اور یہاں ان کو بیان کیا ہے وہ یہ ہیں.وہ صدیق ہیں ان کو قدم صدق عطا کیا گیا ہے اور راستبازی اور صداقت کو انہوں نے اس مضبوطی سے پکڑا ہے کہ میرے مریدوں میں سے کوئی ان کا

Page 43

خطبات ناصر جلد اول ۲۷ خطبه جمعه ۳؍دسمبر ۱۹۶۵ء مقابلہ نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ نے اخلاص کے نتیجہ میں ان کو ایک ایسا نور عطا کیا کہ وہ باریک بین اور نکتہ رس بن گئے.وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کے قرب کے حصول کے لئے بڑے مجاہدات کرنے والے ہیں اور ہمیشہ اس کی رضا کے لئے متلاشی رہتے ہیں اور خدا اور اس کے رسول اور اس کے مسیح سے بے انتہا محبت کرنے والے ہیں..لیکن اس کام کے لئے صرف ایک ایسا شخص کافی نہ ہو سکتا تھا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی صفات کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش ہر ایک احمدی نورالدین بن جائے چنانچہ اپنے ایک فارسی کے شعر میں فرماتے ہیں :.چه خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے کہ کاش میری جماعت کا ہر فرد نور دین ہو جائے اور فرماتے ہیں کہ میں تمہیں ایک گر بتاتا ہوں اور تمہیں ایک نسخہ دیتا ہوں.اگر تم اس پر عمل کرو گے.تو تم بھی ایسے ہی بن جاؤ گے اور وہ یہ ہے کہ اپنے دلوں کو نور یقین سے بھر لو.یقین اس بات پر کہ خدا ہے اور هُوَ اللهُ اَحَدُّ وہ ایک ہے.یقین اس بات پر کہ خدائے تعالیٰ کی باتوں کو مان لینا عین سعادت ہے.یقین اس بات پر کہ اس کی باتوں سے انکار کرنا اور اس کی آواز پر لبیک نہ کہنا اس کے قہر کا مورد بنا دیتا ہے.یقین اس بات پر کہ وہ کامل طاقتوں اور قوتوں والا ہے.کوئی اس سے فرار حاصل نہیں کر سکتا.اور کوئی انسان اس کی محبت جیسی محبت اور کہیں نہیں پاسکتا.بشرطیکہ وہ اپنے کو اس کی محبت کا مستحق بنائے.یقین اس بات پر کہ جو اس کے وعدے ہیں وہ بچے ہوتے ہیں.یقین اس بات پر کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے سچے مامور ہیں اور ان پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے.یقین اس بات پر کہ آج وہ تمام فضل اور رحمتیں جو اسلام سے وابستہ ہیں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہی حاصل کی جاسکتی ہیں اور آپ کی جماعت سے باہر رہ کر انسان

Page 44

خطبات ناصر جلد اول ۲۸ خطبہ جمعہ ۳؍دسمبر ۱۹۶۵ء ان کا وارث نہیں ہوسکتا.یقین اس بات پر کہ اس سلسلہ کے لئے قربانیاں دینا اور اوقات عزیزہ کو صرف کرنا اور اموال کو خرچ کرنا ایک ایسی توفیق ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی.یقین اس بات پر کہ احمدیت (حقیقی اسلام) کے غلبہ کے لئے جو بشارتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئی ہیں وہ ضرور پوری ہو کر رہیں گی.جب دل نوریقین سے بھر جائے اور اس کے تمام لوازم بھی متحقق ہو جا ئیں اور جب بندہ اپنے نفس کو کھو کر اور لاشی محض کی حیثیت سے اس کے آستانہ پر گر جائے.تب خدا تعالیٰ اس بندے کو اُٹھا تا اور کہتا ہے کہ ایک نور دین نہیں بلکہ بہت سے نور دین میں اس جماعت کو دوں گا.مگر جو پہلے ہے وہ پہلے ہی ہے.اور جو ذمہ داریاں ان کے وجود کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں وہ قیامت تک ہم پر بھی قائم رہیں گی.ان میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ ہم جماعت احمد یہ کے تمام افراد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام پر درود بھیجنے کے ساتھ ساتھ اپنے اس محبوب آقا ( نورالدین ) کو بھی کبھی نہ بھلا ئیں.اگر چه مامور ایک ہی ہوتا ہے مگر مامور کے ساتھ دنیا میں ایسے وجود بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ثانی اثنین قرار دیا ہے یعنی دو میں سے ایک گویا وہ شخص اس مامور سے اتنا قریب ہوتا ہے کہ کوئی تیسرا ان کے درمیان نہیں ہوتا.یہ وہ مقام تھا جو حضرت خلیفہ اسیج اول رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ملا تھا اور یہ اس محبت اور عشق کا نتیجہ تھا.جو آپ کے دل میں خدا تعالیٰ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے تھی اور یہ اس عزم کا نتیجہ تھا جو آپ کے دل میں گڑا ہوا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک امام اپنی طرف سے عطا کیا ہے.اس کی آواز پر لبیک کہنا ہمارا فرض ہے.آپ کی زندگی میں بے شمار مثالیں ایسی ملتی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ جو اطاعت آپ میں پائی جاتی تھی اس زمانہ میں دنیا میں اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی.آپ کا حال یہ تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کی آواز کان میں پڑی اور آپ ہر کام چھوڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے.ہماری روایات میں ہے کہ

Page 45

خطبات ناصر جلد اول ۲۹ خطبہ جمعہ ۳؍دسمبر ۱۹۶۵ء جب آپ درس دینے کے لئے تشریف لے جاتے تو ایک شخص کو مقرر کر جاتے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر سے باہر تشریف لائیں.تو مجھے فوراً اطلاع دی جائے.کیوں؟ تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معیت سے محروم نہ رہیں.کہنے والے کہتے ہیں کہ جس وقت وہ خادم حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو اطلاع دیتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے لئے باہر تشریف لے آئے ہیں تو جو لفظ منہ میں ہوتا اس کے سوا اگلا لفظ آپ منہ سے نہ نکالتے اس جملہ کو ادھورا ہی چھوڑ دیتے ، اپنے عمامہ کوسنبھالتے اور اپنی جوتیوں کو گھسیٹتے ہوئے پہنتے، گویا اتنا وقت بھی دیر نہ لگاتے کہ آرام سے جوتی ہی پہن لیں.دیوانہ وار حضور علیہ السلام کی طرف دوڑ پڑتے تاکہ حضور علیہ السلام کی معیت ایک لحظہ کے لئے محروم نہ رہیں.یہ ثانِيَ اثْنَيْنِ والا مقام تھا جو آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا.آپ کو مثیل ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) ہونے کا مقام حاصل تھا کیونکہ جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد توحید کا نعرہ لگایا تھا اور کہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے شک خاتم النبیین تھے ، تمام نبیوں کے سردار تھے، انسانوں میں سے بلند تر مقام پر پہنچے ہوئے تھے لیکن آخر انسان ہی تھے اور آخر ایک دن انہیں فوت ہونا ہی تھا سو فوت ہو گئے.اگر آج تم میں سے کسی طرح بھی کوئی کمزوری دکھائے گا تو میں اس کمزوری کو دور کرنے اور اُمت مسلمہ میں استحکام کا ذریعہ بننے کے لئے کھڑا کیا گیا ہوں.پھر خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ امت مسلمہ میں اتنا استحکام اور مضبوطی پیدا کی کہ بعد میں آنے والے خلفاء کے لئے ان کے کام نسبتا آسان ہو گئے.اسی طرح حضرت خلیفہ اُسیح اول رضی اللہ عنہ کا حال ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ نے جماعت احمدیہ میں بعض کمزوریاں دیکھیں اور آپ نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو یہ بھی نہیں سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک مامور ہیں اور ان کی اطاعت در حقیقت خدا کی اطاعت ہے.تو آپ نے حتی الوسع دعاؤں کے ساتھ اور تدبیر کے ساتھ جماعت کے استحکام کے لئے وہ کام کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے زمانہ میں کیا تھا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى خُلَفَائِهِ -

Page 46

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۳؍دسمبر ۱۹۶۵ء پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر سے ظاہر ہوتا ہے آپ کی یہ خواہش تھی کہ جماعت احمدیہ کا ہر فرد اس مقام کو حاصل کرے جو مقام کہ نور دین (خلیفہ المسیح اول) نے حاصل کیا تھا.چونکہ ہمارے زمانہ کے مرسل ہیچ موعود، ہمارے امام علیہ السلام کی یہ شدید خواہش تھی.جسے آپ نے اپنے اس شعر میں بیان فرمایا ہے.اس لئے میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضور علیہ السلام کی اس خواہش کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور دعاؤں کے ساتھ اور مجاہدات کے ساتھ یہ کوشش کرتے رہیں کہ ہم میں سے ہر ایک حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنے والا بن جائے.دراصل اسے پورا کرنا اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنا خدا تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں.پس میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق دے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش اور دیگر خواہشات جو حضور علیہ السلام ہمارے لئے اپنے دل میں رکھتے ہیں پوری کر سکیں تاہم ان انعاموں کے مستحق ٹھہریں جن کی بشارات ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دی ہیں.اللهم آمین.دوسرے خطبہ میں فرمایا :.آج میں بعض جنازے بھی پڑھاؤں گا ان میں سے ایک جناز ہ محمد عباس صاحب کرنال کی والدہ صاحبہ کا ہے وہ یہاں لایا گیا ہے.عبداللطیف صاحب بٹ کی والدہ صاحبہ مسماۃ فاطمہ بی بی، بابو محمد اسماعیل صاحب فوق ، حاجی عبداللہ صاحب چک نمبر ۱۳۳ محترم سید بشارت احمد صاحب وکیل حیدر آباد دکن جو صحابی تھے فوت ہو گئے ہیں ان کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.ان تمام بھائیوں اور بہنوں کو آپ اپنے ذہن میں رکھیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند کرے اور مغفرت کی چادر سے انہیں ڈھانکے اور مسیح موعود علیہ السلام کی معیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں ان کو جگہ دے اور ان تمام فضلوں اور رحمتوں سے ان کو حصہ دے جو ہر آن اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب ، ہمارے آقا محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر کرتارہتا ہے.( روزنامه الفضل ربوہ سالانہ نمبر ۱۹۶۵ء.۱۹؍دسمبر ۱۹۶۵ء صفحہ ۴ تا ۶ )

Page 47

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء جماعت احمدیہ کے لئے آئندہ پچیس تیس سال نہایت اہم ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۰ ردسمبر ۱۹۶۵ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ المدثر کی پہلی یہ آیات تلاوت فرمائیں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - يَاَيُّهَا الْمُدَّثِرُ - قُم فَأَنْذِرُ - وَ رَبَّكَ فَكَبْرُ - وَثِيَابَكَ فَطَهَّرُ - وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ - وَلَا تَمُثْنُ تَسْتَكْثِرُ - وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرُ - (المدثر : ۱ تا ۸) پھر فرمایا :.میرے دل میں بڑے زور کے ساتھ یہ ڈالا گیا ہے کہ جماعت احمد یہ تربیت کے جس مقام پر اس وقت کھڑی ہے.اس مقام کے ساتھ سورۃ المدثر کی جو آیات میں نے پڑھی ہیں ان کا بڑا گہرا تعلق ہے اور اس میں ایک اہم پیغام ہے جماعت کے نام.میں اس وقت اسے دوستوں کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں ان آیات کی عام تفسیر بیان کر دوں گا.تا دوستوں کو خدا تعالیٰ کی اس آواز کو سمجھنے میں آسانی اور سہولت ہو.مدثر کے عربی میں یہ معنی ہیں وہ شخص جس نے وہ کپڑے پہن لئے ہوں جو کام کرنے کے لئے پہنے جاتے ہیں.عام طور پر یہ

Page 48

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۲ خطبہ جمعہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء طریق ہے خصوصاً پڑھی لکھی اور تعلیم یافتہ اقوام کا کہ گھر میں وہ کچھ اور قسم کے کپڑے پہنے ہوتے ہیں.لیکن جب کام کے لئے باہر نکلتے ہیں تو اور کپڑے پہن لیتے ہیں.مثلاً ہمارے ملک میں اور خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے والے افراد خاندان میں یہ طریق جاری ہے کہ باہر نکلتے وقت سر کا لباس اور کوٹ ضرور پہنا جاتا ہے.یا مثلاً کارخانوں میں کام کرنے والے کام کی غرض سے ایک خاص قسم کا لباس پہنتے ہیں.تو مدثر میں اسی قسم کا لباس پہنے کی طرف اشارہ ہے یعنی ایسا شخص جو کام کے لئے تیار ہوتا ہے اور وہ کپڑے زیب تن کرتا ہے جو اس کام کے لئے مناسب حال ہوتے ہیں.مثلاً فوج اپنی ڈیوٹی پر جاتے وقت فوجی وردی میں ہوتی ہے.گھر میں اس وردی میں نہیں ہوتے.پس یہاں فرمایا اے مدثر ! یعنی اے وہ شخص جس نے وہ کپڑے پہن رکھے ہیں جو کام کرنے کے لئے پہنا کرتا ہے.المُدثر کے یہ معنی بھی ہیں کہ وہ شخص جو مستعدی کے ساتھ اپنے گھوڑے کے پاس کھڑا ہے اور حکم کا منتظر ہے.کہ کب حکم ملے اور میں چھلانگ لگا کر گھوڑے پر سوار ہو جاؤں اور اس کام میں مشغول ہو جاؤں جس کا مجھے حکم دیا جائے.قرآن کریم میں تمام احکام کے پہلے مخاطب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں اور پھر اُمت محمدیہ کا ہر فرد اس کا مخاطب ہوتا ہے.اسی طرح اس آیت میں بھی سب سے پہلے مخاطب ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے.اس صورت میں المدیر کا مطلب یہ ہوگا کہ اے وہ شخص جس کو ہم نے پوری طرح تقویٰ کے لباس میں ملبوس کر دیا ہے.لِبَاسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ (الاعراف: ۲۷) اور اندر اور باہر تقویٰ کا لباس زیب تن کئے ہوئے ہے اُٹھ اور ہمارے حکم کے مطابق اس مشن کو پورا کر جو تیرے سپرد کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے قُم فَانْذِرُ کہ تو مستعدی سے کھڑا ہو جا اور دوام اور ثبات کے ساتھ اپنے مشن میں لگ جا اور لوگوں کو پکار کہ خدا تعالیٰ تمہیں اپنی واحدانیت کی طرف بلاتا ہے خدا تمہیں اپنی شریعت کے قیام کا حکم دیتا ہے.خدا کی اس آواز کو غور سے سنو.

Page 49

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۳ خطبہ جمعہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء اور اس پر لبیک کہو.اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کے غضب اور قہر کا مورد بن جاؤ گے.پھر فرمایا وَ رَبَّكَ فَكَبَر کہ اپنے رب کی عظمت اور اس کے جلال کو قائم کر.یہی وہ پیغام ہے جو اسلام دنیا کے لئے لے کر آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی عظمت اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم کیا جائے.پھر فرما يا وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ.اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک ماحول پیدا ہو اور وہ ماحول ہو بھی پاکیزہ.وہ ماحول ان لوگوں کا ہو.جن کے متعلق خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے رِجَالُ يُحِبُّونَ اَنْ يتَطَهَّرُوا (التوبة: ۱۰۸) یعنی جو جسمانی ، اخلاقی اور روحانی گندگی اور نجاست سے بچتے ہیں.پس اس کے لئے ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ پہلے اپنے ماحول کو صاف کرنے کی کوشش کرو.انہیں تبلیغ کرو انہیں اسلام کی طرف بلاؤ.ان کے سامنے خدا تعالیٰ کی صفات کو بیان کرو ان کو خدا تعالیٰ کا جلوہ دکھاؤ ان کو بتاؤ کہ تمہارا رب کتنا پیار کرنے والا ہے لیکن اگر تم اس کی طرف متوجہ نہیں ہو گے تو سنو کہ پھر اس کا غضب بھی بڑا خطرناک ہوا کرتا ہے.تو وَثِيَابَكَ فَطَهَّرُ میں جسمانی ، اخلاقی اور روحانی پاکیزہ ماحول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ - رِجز کے معنی گندگی کے بھی ہیں.رجز کے معنی عذاب کے بھی ہیں.رجز کے معنی شرک کے بھی ہیں.فاهجر میں حکم ہے کہ ان سے دور رہو.گو یا حکم دیا کہ ہر قسم کی گندگی سے دور رہو اور ایسا سامان پیدا کرنے کی کوشش کرو کہ دنیا خدا کے عذاب سے محفوظ ہو جائے.یعنی ان کو اعمال صالحہ کی طرف بلاؤ، انہیں اصلاح نفس کی دعوت دو اور کوشش کرو کہ انسانی بتوں کو سجدہ کرنے کی بجائے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف جھکے اور اسی کی پرستش کرے.پھر فرما یا ولا تمنن تَسْتَكْثِرُ - مَن کے ایک معنی تو ہیں کاٹ دینے کے.دوسرے معنی ہیں احسان کے بوجھ تلے دبا دینے کے.تستکثر کہ تا لوگ اس وجہ سے اسلام میں داخل ہوں اور اسلام کو کثرت تعدا دنصیب ہو جائے.دونوں مذکورہ بالا معنی یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں.ایک تو یہ کہ دنیوی لالچ کے ذریعہ کسی کو اسلام کی طرف مت بلاؤ کیونکہ کسی پر اسلام کا محض لیبل لگ جانا کافی نہیں ہے.اسلام کی طرف

Page 50

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۴ خطبہ جمعہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء محض منسوب ہو جانا کافی نہیں ہے جب تک کہ دلوں کے اندر وہ پاک تبدیلی پیدا نہ ہو جو پاک تبدیلی کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھنا چاہتا ہے.دوسرے من کے معنی قطع کرنے کے ہیں یعنی ان پر مختلف پابندیاں لگا کر یا ظلم سے یا جبر کر کے یا دباؤ ڈال کر ان کے لئے ایسا ماحول پیدا نہ کرو کہ وہ اپنے کو مجبور پا کر ظاہری طور پر اسلام میں داخل ہو جائیں حالانکہ ان کے دلوں میں اسلام داخل نہ ہوا ہو.پھر فرما یا ولريكَ فَاصْبِرُ یعنی اس بات سے مت ڈرو کہ مخالف اپنی مخالفت سے ہمیں ایذا پہنچارہے ہیں کیونکہ تمہیں اپنے رب کی خوشنودی کے لئے ہر حالت میں صبر کرنا پڑے گا.اس میں شروع دن سے ہی مسلمانوں کو ایک بشارت دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ایسے سامان پیدا کرے گا کہ باوجود اس وقت انتہائی کمزور ہونے کے تم فاتح ہو جاؤ گے اور بدلہ لینے پر اور انتقام لینے پر اور اگر تم صراط مستقیم سے ہٹ جاؤ تو ظلم کرنے پر بھی قادر ہو جاؤ گے لیکن ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تمہیں ظلم کرنا کسی صورت میں روانہیں.بلکہ قدرت رکھتے ہوئے بھی مخالف کی ایذا دہی پر تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا.یہ عام معنی ہیں ان آیات کے الیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے میرے دل میں یہ ڈالا گیا ہے کہ میں جماعت کو یہ بتاؤں کہ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں اس مقام کا ان آیات کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.یعنی ان آیات میں ایک نہایت اہم نصیحت ہے جو ہمیں کی گئی ہے اور ہمارے لئے کچھ پیشگوئیاں ہیں جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے.اس لحاظ سے ان آیات میں خدا تعالیٰ ہمیں مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اے جماعت احمد یہ ! جس کی تخم ریزی اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ سے کی تھی جس کے استحکام کے لئے خلافت اُولیٰ کو کھڑا کیا گیا تھا جس کی تربیت کے لئے حضرت مصلح موعود کی زندگی کا ہر لحہ اور آپ کے خون کا ہر قطرہ وقف رہا.اب تم المدثر کی حیثیت اختیار کر چکے ہو.تم اپنی بلوغت کو پہنچ چکے ہو اور تقویٰ کے جن لباسوں کی ضرورت تھی.وہ تمہیں مہیا کر دیئے گئے ہیں.پس تمہیں بالغ نظری اور بالغ عملی سے کام لینا ہوگا.اس حالت میں کہ ہم نے تمہیں اپنی رحمت اور اپنے فضل سے تربیت کے اس مقام

Page 51

خطبات ناصر جلد اول ۳۵ خطبہ جمعہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء تک پہنچا دیا ہے.ہماری اس آواز کو سنو.قُم فَانْذِرُ کہ کھڑے ہو جاؤ.اور ثابت قدمی کے ساتھ قریہ قریہ اور ملک ملک میں پھیل جاؤ اور اقوامِ عالم کو یہ بتاؤ کہ اگر خدا کے مسیح کی آواز پر انہوں نے لبیک نہ کہا تو خدا کا قہران پر نازل ہوگا.دنیا بظاہر امن میں ہے.دنیا والے اس وہم میں مبتلا ہیں کہ ہم اپنی کوششوں سے دنیا میں امن قائم کر دیں گے.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں کوئی ہو.این.او یا کوئی دوسری کا نفرنسز جو امن کے قیام کے لئے بنائی گئی ہیں ہر گز نتیجہ خیز نہیں ہوں گی.کیونکہ آسمان اس سے متفق نہیں.اور خدا تعالیٰ کی نظر سے انسان گر چکا ہے.پس ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم دنیا والوں کو یہ بتائیں کہ اگر تم اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے زندگی ، امن اور سلامتی چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہو اور اس کے مسیح پر ایمان لاؤ.خدا کی شریعت کو ر دمت کرو.محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہنسی اور ٹھٹھا مت کرو.اس کے جوئے کے نیچے اپنی گردنیں رکھ دو تب تم امن سے اپنی زندگیاں گزار سکتے ہو.اور تمہاری نسلیں سلامتی کے ساتھ اس دنیا میں رہ سکتی ہیں ورنہ نہیں.پس قُم فَانْذِرُ میں یہی حکم ہے اور ہم نے اس کی تعمیل کرنی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.اور خدا تعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری سانس تک تبلیغ اسلام کے لئے ہر ممکن جد و جہد اور کوشش کرتے چلے جانا ہے.وَرَبَّكَ فَكَبّر میں فرمایا کہ انذار کی ڈیوٹی تمہارے ذمہ اس لئے لگائی گئی ہے اور یہ حکم تمہیں اس لئے دیا گیا ہے کہ اپنے رب کی عظمت اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم کرو اور اس میں بشارت کا بھی ایک پہلو ہے.کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ جب کبھی کوئی فتح کسی مسلمان کو نصیب ہوتی ہے تو بے ساختہ اس کے منہ سے نکلتا ہے.الله اكبر.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اس وقت تک مسلمان کا یہی شعار اور یہی طریق رہا ہے کہ الہی نفرتوں کو دیکھ کر ان کے دل کی گہرائیوں سے ایک آواز نکلتی ہے جو ان کی زبانوں سے بلند ہوتی ہے اور فضاؤں میں گونجتی ہے اور وہ آواز اللہ اکبر کی ہے.

Page 52

خطبات ناصر جلد اول ۳۶ خطبہ جمعہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ ہمیں یہ بھی بتا دیا کہ ہم نے تمہارے لئے فتوحات کے دروازے کھولنے کا ارادہ کر لیا ہے اور ہم نے ایسے سامان پیدا کر دئے ہیں کہ تم وقتا فوقتا اللہ اکبر کے نعرے لگایا کرو گے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ.فرمایا کہ تمہارے کپڑے پاکیزہ ہیں.کیونکہ لباس تقویٰ تمہیں پہنا دیا گیا ہے لیکن مقام خوف ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطانی وساوس دخل دیں اور ان تقویٰ کے لباسوں پر نا پا کی اور گناہ کے سیاہ نقطے لگنے لگ جائیں جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے.دوسرا گناہ کرتا ہے تو دوسرا نقطہ پڑ جاتا ہے.پھر تیسرا گناہ کرتا ہے تو تیسرا سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے اور اگر وہ استغفار، دعا، عجز و انکساری سے ان سیاہ نقطوں کو مٹانے کی کوشش نہ کرے تو وہ نقطے قائم رہتے ہیں بلکہ بڑھتے چلے جاتے ہیں حتی که سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے.تو اسی کی طرف اشارہ ہے وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرُ میں کہ لباس تقوی کی پاکیزگی کو بچانا تمہارا فرض ہے.یعنی تربیت کے جس مقام پر تم کھڑے ہو اس مقام سے کبھی نہ گرنا بلکہ کوشش کرنا کہ اس سے بھی بلند تر مقام پر پہنچو اور ہمیشہ بلند سے بلند تر ہوتے چلے جاؤ.اس آیت میں ہمیں یہ گر بھی بتایا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ تم اپنے ماحول کا جائزہ لیتے رہو.وہ ماحول جو کپڑے کی طرح تمہارے ساتھ چمٹا ہوا ہے.تم اس کے اندر کسی گندگی کے گھنے کو کبھی برداشت نہ کرو.بلکہ جب کبھی تمہیں کوئی رخنہ نظر آئے تو فوراً اسے بند کر دو.یا کہیں تمہیں کوئی جسمانی، اخلاقی ، روحانی نجاست نظر پڑے تو اسے دور کرنے کی کوشش میں فوراً لگ جاؤ.اگر تم چوکس ہو کر اپنے ماحول کو پاک رکھو گے تو اللہ تعالیٰ بھی تمہیں اپنی برکتوں سے نوازے گا.پھر فرمایا وَالجْزَ فَاهْجُرُ اور گندگی کو دنیا سے بالکل مٹا دو کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے دنیا تباہی کی طرف جا رہی ہے اور امن کا ایک ہی ذریعہ ہے.وہ یہ کہ دنیا امن کے شہزادہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لے آئے.وہ آپ کو مانیں اور آپ کی ہدایات کے مطابق اس اسلام پر عمل کریں جو خالص اسلام ہے اور جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی بہتری اور بہبودی

Page 53

خطبات ناصر جلد اول ۳۷ خطبہ جمعہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء کے لئے لے کر آئے تھے.پس وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ کے معنی یہ ہوئے کہ تو دنیا کی ایسے رنگ میں اصلاح کر.اپنے اخلاق سے اپنے دلائل سے اپنی قبولیت دعا کے نشان سے اور ان نشانات آسمانی سے جو خدا تعالیٰ تمہارے لئے مقدر کرے کہ وہ اپنے رب کو پہچاننے لگیں اور اس عذاب میں مبتلا نہ ہوں جو دوسری صورت میں ان کے لئے مقدر ہو چکا ہے.وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ شرک سے بچو.ایک شرک تو ظاہری ہے وہ یوں کہ بتوں کی پرستش کی جائے.اس شرک میں سوائے نہایت ہی جاہل شخص یا جاہل قوم کے اور کون مبتلا ہوسکتا ہے.لیکن شرک کی بہت باریک راہیں بھی ہیں ان سے بچتے رہنا بھی نہایت ضروری ہے.حقیقت یہی ہے کہ جب تک ہم لائے محض ہو کر کلیۂ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر نہ جھک جائیں اور اس کے حضور نہ گرے رہیں اس وقت تک ہم تو حید کے حقیقی مقام پر کھڑے نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ شرک کی باریک راہوں سے بھی بچو اور اس کے مقابل تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن رہو.تمہارے خیالات ہر قسم کے شرک سے پاک ہوں.تمہارا دل ہر قسم کے شرک کی نجاست سے مطہر ہو.اور تمہاری آنکھوں میں توحید کی چمک.اس کی ضیاء اور اس کا نور ہو اور تمہارے اعمال توحید کی طرف بلانے والے ہوں اور تمہارے اندر سے ایسا نور نکلے کہ جس ماحول میں بھی تم چلے جاؤ اس ماحول کے لوگ تمہاری طرف اس لئے کھچے آئیں کہ تم ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے متعارف کرنے والے ہو.پس ہر حالت میں ہر قسم کے شرک کو چھوٹا ہو یا بڑا باطنی شرک ہو یا ظاہری شرک اسے مٹانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے.کیونکہ اس کے بغیر آج دنیا کی نجات ممکن نہیں.وَلَا تَمنن تستكثر فرمایا کہ ہم ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں.معجزات کے ذریعہ، نشانات کے ذریعہ، دعاؤں کی قبولیت کے ذریعہ اور ملائکہ کے نزول کے ذریعہ جو دنیا میں انتشار روحانی پیدا کر رہے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو خدا تعالیٰ کی طرف ، خدا کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف،

Page 54

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۸ خطبہ جمعہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء مسیح محمدی کی طرف اور جماعت احمدیہ کی طرف پھیر رہے ہیں.پس ایسے حالات پیدا ہور ہے ہیں کہ دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ احمدیت اور اسلام ایک ایسی صداقت ہے کہ جو انہیں اپنی بقا کی خاطر ہر قیمت پر قبول کرنی چاہیے.پھر تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کے ذریعہ اور حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کے ذریعہ ایسے دلائل مل چکے ہیں کہ دنیا کی کوئی عقل انہیں رد نہیں کر سکتی.جب تمہیں ہر قسم کے نشان اور دلائل دے دیئے گئے ہیں تو گویا کامیابی کی کنجی اور فتح کی کلید تمہارے ہاتھ میں پکڑا دی گئی ہے اس لئے تمہیں ہرگز ضرورت نہیں کہ کسی کو خوشامد ، لالچ یا جبر کے ذریعہ مسلمان بناؤ.تو وَلَا تَمنُ تَسْتَكْثِرُ میں آزادی مذہب کو، آزادی فکر کو، اس خوبی اور حسن کے ساتھ تسلیم کیا گیا ہے اور اس کو قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ اس کی مثال کہیں نہیں ملتی.فرمایا.احسان کرنا اس نیت سے کہ کوئی شخص ہمارے احسان کے دباؤ سے لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ پڑھ لے جائز نہیں.اسی طرح جبر کرنا بھی جائز نہیں کہ ایسے حالات پیدا کر دئے جائیں کہ کسی شخص کو سوائے کلمہ پڑھنے کے کوئی جائے فرار نظر نہ آتی ہو جیسا کہ آج کل کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں نے کشمیر میں مسلمانوں کو شدھ کرنے کی مہم بھی شروع کر دی ہے.ہر قسم کے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں.خاوندوں کو قتل کر کے عورتوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے.بچوں کو شہید کر کے والدین کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ ہندو مذہب کو اختیا ر کر لیں.اسلام اسے ہرگز پسند نہیں کرتا بلکہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اسلام اس کی مذمت کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو خدا کے غضب اور قہر کا مورد قرار دیتا ہے.تو فرماتا ہے ولا تمنن کہ کسی پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا.اس غرض سے کہ تمہاری تعداد بڑھ جائے اور تمہیں کثرت حاصل ہو جائے.وَلِرَتِكَ فَاصْبِرُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے جماعت احمد یہ ! ہم ایسے حالات پیدا کرنے والے ہیں کہ تم ظالموں سے انتقام لینے کے قابل ہو جاؤ گے لیکن ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ انتقام بھی نہ لینا اور يرتكَ فَاصْبِرُ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے صبر سے کام لینا.

Page 55

خطبات ناصر جلد اول ۳۹ خطبہ جمعہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء میں جماعت کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ آئندہ پچیس تیس سال جماعت احمدیہ کے لئے نہایت ہی اہم ہیں کیونکہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب عظیم پیدا ہونے والا ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کون سی خوش بخت قومیں ہوں گی جو ساری کی ساری یا ان کی اکثریت احمدیت میں داخل ہوں گی وہ افریقہ میں ہوں گی یا جزائر میں یا دوسرے علاقوں میں لیکن میں پورے وثوق اور یقین کے ساتھ آپ کو کہ سکتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا میں ایسے ممالک اور علاقے پائے جائیں گے جہاں کی اکثریت احمدیت کو قبول کر لے گی اور وہاں کی حکومت احمدیت کے ہاتھ میں ہوگی.وَلِرَتِكَ فَاصْبِرُ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں تمہیں ان نعمتوں سے نوازوں تو تمہارا فرض ہوگا کہ تم بنی نوع انسان سے نرمی اور محبت کا سلوک کرو اور ان کی ایذا دہی کو خدا کی خاطر سہہ لو.اگر ان کے منہ سے سخت کلمات نکلیں.اگر وہ بے ہودہ حرکتیں کریں اگر وہ تمہیں چڑا ئیں تو باوجود اس کے کہ تم انہیں اپنی طاقت سے خاموش کر اسکتے ہو اور انہیں بے ہودہ حرکتوں سے باز رکھ سکتے ہو ہم تمہیں یہی کہتے ہیں کہ ہماری رضا کی خاطر صبر سے کام لینا اور ان پر سختی نہ کرنا.پس اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے اس کی برکات کے حصول کے لئے اس کی رحمتوں کو جذب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم صبر سے کام لو ٹھٹھے کے مقابلہ میں ٹھٹھا اور جنسی کے مقابلہ میں ہنسی اور ظلم کے مقابلہ میں ظلم نہ کرو.وہ زمانہ چونکہ قریب ہے اس لئے میں آپ کو پھر تاکید سے کہتا ہوں کہ جب کسی قوم پر اس قسم کی عظیم نعمتیں نازل ہو رہی ہوں تو اس قوم کو بھی ایک عظیم قربانی دینی پڑتی ہے.پس اپنے نفسوں کو اس قربانی کے لئے تیار کرو.اپنی طبیعتوں کو اس طرف مائل کرو کہ ہم احمدیت کے لئے اسلام کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں گاڑنے کے لئے خدائے قادر و توانا کے جلال اور عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے.ہماری جانیں ، ہمارے مال اور ہماری عزتیں سب خدا کے لئے ہیں اور خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار ہیں.اگر ہماری جماعت ایثار اور فدائیت کا یہ نمونہ دکھائے تو اللہ تعالیٰ اس جماعت کو دین و دنیا

Page 56

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۵ء کی حسنات سے کچھ اس طرح نوازے گا کہ دنیا کے لئے قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ ہو جائے گی.ابھی ابھی مجھے مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا وہ کشف یاد آ گیا جس میں ان کو دو تین سوسال بعد کا نظارہ دکھایا گیا.کشف میں انہوں نے دیکھا کہ بعد میں آنے والے لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کس قدر احمق تھے وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے آپ کو قبول نہ کیا.اتنی بڑی صداقت اتنے روشن اور واضح دلائل خدا کی نصرت کے اتنے نمایاں نمونے دیکھنے کے بعد کیا وجہ ہو سکتی تھی کہ انہوں نے مسیح محمدی کے قبول کرنے سے انکار کر دیا.مطلب یہ کہ آنے والی نسلیں نہ ماننے والوں کو بڑی تعجب کی نگاہ سے دیکھ رہی تھیں.ایسا ہی ہو گا یہ ایک حقیقت ہے جس کو رد نہیں کیا جا سکتا.اور وہ وقت قریب آ رہا ہے جب دنیا انکار مہدی معہود کو حیرت و استعجاب سے دیکھے گی.اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنی فتح ، نصرت اور کامیابی کا انتہائی زمانہ تین سوسال تک بتایا ہے لیکن حضور کے بعض کشوف اور الہامات یہ بتاتے ہیں کہ وہ آخری فتح جس میں اسلام دنیا پر غالب آ جائے گا.شاید کچھ دیر چاہتی ہو لیکن ان آنے والے پچیس تیس سالوں میں بعض ممالک اور علاقوں میں احمدیت کو کثرت حاصل ہو جائے گی (انشاء اللہ ) اور وہاں کے رہنے والے اپنی زندگیاں تعلیم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے مطابق گزار نے والے ہوں گے.مگر اس انقلاب عظیم کے لئے جو دروازہ پر کھڑا ہے کتنی ہی قربانیاں ہیں جو آپ کو دینی ہوں گی.پس آپ کو وہ قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے.خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کی بارش آپ پر کرنا تو چاہتا ہے لیکن پہلے وہ یہ دیکھے گا کہ آپ ان فضلوں کے مستحق بھی ہیں یا نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھ کو بھی ایسا بنا دے کہ ہم اس کی نظر میں ہر قسم کے انعاموں اور فضلوں کے مستحق ٹھہریں اور خدا تعالیٰ کے وعدے جلد ہی ہماری زندگیوں میں پورے ہوں اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہ جو دنیا کی نگاہ میں دھتکارا گیا تھا وہی دنیا میں مقبول ٹھہرا.اللهم آمين روزنامه الفضل ربوه ۹ جنوری ۱۹۶۶ صفحه ۲ تا ۴)

Page 57

خطبات ناصر جلد اول ۴۱ خطبہ جمعہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۶۵ء خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیں تاکیدی حکم ہے کہ مسکینوں ، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلایا جائے خطبہ جمعہ فرموده ۷ اردسمبر ۱۹۶۵ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ الدھر کی مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينَا وَ يَتِيمَا وَ أَسِيرًا - إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُم جَزَاءً وَلَا شُكُورًا - إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَبْطَرِيرًا - فَوَقَهُمُ اللَّهُ شَرِّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَهُمْ نَضْرَةٌ وَسُرُورًا - (الدهر : ۹ (۱۲) پھر فرمایا :.ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے اس حکم کوسن کر ہمارے نیک بندے ہماری رضا کے متلاشی بندے، ہمارے قرب کے خواہاں بندے، اس طرح عمل کرتے ہیں.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّہ کہ وہ ہماری محبت کی خاطر اور ہماری خوشنودی کے حصول کے لئے کھانا کھلاتے ہیں کس کو؟ مسکین کو یتیم کو اسیر کو.عربی زبان میں مسکین کے معنی ہیں ایسا شخص جس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ وہ بخوبی گزارہ کر سکے اور اس کا گھرانہ اس روپے سے پرورش پاسکے.اور یتیم کے معنی ہیں ایسا شخص جس کا والد یا مر بی نہ ہو اور ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا.

Page 58

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۲ خطبہ جمعہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۶۵ء اور اسیر کے لفظی معنی تو قیدی کے ہیں.لیکن اس کے یہ معنی بھی کئے جاسکتے ہیں وہ شخص جو اپنے حالات سے مجبور ہو کر بطور قیدی کے ہو جائے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن لوگوں کو پوری غذا میسر نہیں اور ان کو ضرورت ہے کہ ان کی مدد کی جائے.جس کے بغیر وہ اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے.ان لوگوں کو ہمارے ابرار بندے کھانا کھلاتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہوئے ان کے دل کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں.اِنَّمَا نُطْعِكُمْ لِوَجْهِ اللهِ کہ ہم خدا کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے اور اس کی عنایات کو حاصل کرنے کے لئے تمہیں کھانا کھلا رہے ہیں اور لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَلَا شكورا ہم اس نیت سے تمہیں نہیں کھلا رہے کہ کبھی تم ہمیں اس کا بدلہ دو اور نہ یہ کہ تم ہمارا شکر یہ ادا کرو.ہم تم سے کچھ نہیں چاہتے نہ بدلہ چاہتے ہیں نہ ہی شکریہ کے خواہاں ہیں.ہم محض یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا رب ہم سے خوش ہو جائے إِنَّا نَخَافُ مِنْ ربَّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَنْطَرِيرًا پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں اس دن سے جس میں ڈر کے مارے تیوریاں چڑھی ہوئی ہوں گی اور لوگوں کو گھبراہٹ لاحق ہو گی.( یہ دن قیامت کا ہے اور کبھی ایسا دن اس دنیا میں بھی آجاتا ہے ) کہ کہیں ہم بھی اس دن خدا کے عذاب اور اس کے قہر کے مورد نہ بن جائیں.اسی لئے ہم یہ نیک کام بجالا رہے ہیں.اس دنیا میں“ کے الفاظ میں نے اس لئے کہے ہیں کہ بھوک کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے.جس کی طرف جب قو میں توجہ نہیں دیتیں تو ان قوموں میں بڑے بڑے انقلاب بر پا ہو جاتے ہیں.جیسے کہ روس میں ریوولیوشن (انقلاب ) اور دوسرے بہت سے ممالک میں انقلاب اسی لئے بر پا ہوئے کہ وہاں اکثر لوگوں کی زندگی کی ضروریات خصوصاً کھانے کا خیال نہیں رکھا گیا.اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں اور ان آیات سے مستنبط ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جب بھائی بھائی کا خیال نہیں رکھتا اور ایک قوم کی اکثریت اس مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے.تو اس قوم پر ایک دن انقلاب کا بھی چڑھ آتا ہے.جس میں بہت سے بڑے اور امیر لوگ چھوٹے اور غریب کر دیئے جاتے ہیں.وہ دن ان کے پچھتانے کا ہوتا ہے.جس قوم کے ہر فرد کو اس کی ضروریات میسر آتی رہیں

Page 59

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۳ خطبہ جمعہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۶۵ء اور ان کے دل مطمئن اور تسلی یافتہ ہوں.اس قوم میں اس قسم کا انقلاب بپا نہیں ہوا کرتا.انقلابات اور ریوولیوشنز انہی ملکوں اور قوموں میں ہوتی ہیں.جن کے ایک بڑے حصہ کو دھتکارا جاتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا.دیکھو خدا تعالیٰ نے ایک ضرورت مند کو اور اس کے ساتھ نیکی کرنے کو کتنا بڑا مقام دیا ہے آخرت کے دن خدا تعالیٰ فرمائے گا.میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا یا بعض دوسروں سے کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا.پہلے فریق کو وہ فرمائے گا کہ میں تم سے خوش ہوں اور تمہیں اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کرتا ہوں اور دوسروں کو کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے میرا خیال نہیں کیا.اس لئے میں تمہیں جہنم میں دھکیلتا ہوں.کتنے زور اور تاکید سے ہمیں توجہ دلائی گئی ہے کہ ہم بھوکے کو کھانا کھلائیں اور ضرورت مند کو ضروریات زندگی مہیا کریں.کافروں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَةٌ اِنْ اَنْتُم إِلَّا فِي ضَللٍ مُّبِينٍ - (لیس: ۴۸) کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ اور ان کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرو تو کافر لوگ کہتے ہیں کہ کیا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں.اگر خدا چاہتا تو جیسا اس نے ہمیں دیا تھا انہیں بھی وہ کھانے کو دے دیتا تم تو خدائی فعل کے خلاف ہمیں تعلیم دے رہے ہو اور اس وجہ سے ہم تمہیں کھلی گمراہی میں پاتے ہیں.بجائے اس کے کہ وہ یہ سمجھتے کہ خدا تعالیٰ نے بعض انسانوں کے لئے بعض نیکیوں کے مواقع بہم پہنچانے ہوتے ہیں.اس لئے اس نے انسانی معاشرہ کو اس طرح بنایا ہے کہ ہر ایک شخص نیکیوں سے حصہ وافر لے سکے.انہوں نے اس سے الٹا نتیجہ نکالا حالانکہ بعض نیکیاں ایسی ہیں جن کے کرنے کا موقع زیادہ تر غرباء کو ہی ملتا ہے.مثلاً اپنے حالات پر صبر کرنا، قناعت سے کام لینا وغیرہ وغیرہ.جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے رزق کثیر د یا ہوتا ہے اور انہیں مالی تنگی کا سامنا نہیں ہوتا وہ اس قسم کے صبر کا ثواب حاصل نہیں کر سکتے جو صبر ایک غریب آدمی تنگی ترشی کے زمانہ میں دکھاتا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمارے معاشرہ میں اونچے نیچے ، امیر غریب، عالم، جاہل وغیرہ وغیرہ ہر قسم

Page 60

خطبات ناصر جلد اول ۴۴ خطبہ جمعہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۶۵ء کے طبقات بنادئے ہیں تا کہ ہم اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے ہر قسم کی نیکیاں کرتے چلے جائیں.اگر ہر شخص اتنا امیر ہوتا کہ اس کو دنیا کی کوئی ضرورت پیش ہی نہ آتی.اگر ہر شخص اتنا عالم ہوتا کہ کسی استاد کے پاس جانے کی اسے ضرورت ہی نہ رہتی اور اگر ہر شخص ہر فن میں اتنا کمال رکھتا کہ ڈسٹری بیوشن آف لیبر جس پر ہماری انسانی اقتصادیات کی بنیاد ہے کی ضرورت ہی پیدا نہ ہوتی.وغیرہ.تو ثواب کا کون سا موقع باقی رہ جاتا؟؟؟ اللہ تعالیٰ بے شک اس بات پر قادر ہے کہ ہر انسان کو ایسا بنا دے لیکن اس نے اسے ایسا نہیں بنایا.اس لئے کہ اس نے انسان کے لئے صرف اسی دنیا کی زندگی ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی بھی مقدر کی ہوئی ہے اور اُخروی زندگی کے پیش نظر ایسا معاشرہ انسان کے لئے مقرر فرمایا کہ ہر طبقہ کے لوگ اس معاشرہ کے اندر رہ کر زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرتے چلے جائیں اور اس طرح اس کی خوشنودی کو پوری طرح پاسکیں لیکن کا فرلوگ ان باتوں کو نہیں سمجھتے اس لئے جب ان کو کہا جاتا ہے کہ ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرو اور محتاجوں کے لئے روزمرہ زندگی کی ضروریات مہیا کرو تو وہ کہتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ نے انہیں کھانے کو نہیں دیا تو تم ہم سے کیسے توقع رکھتے ہو کہ ہم خدائی فعل کے خلاف ان کو کھانے کے لئے دیں.ان کا کافرانہ دماغ عجیب بہانہ تراشتا ہے.میرا یہ احساس ہے کہ جماعت کو اس حکم کی طرف پوری طرح توجہ نہیں ہے.کوئی احمدی رات کو بھوکا نہیں سونا چاہیے.سب سے پہلے یہ ذمہ داری افراد پر عائد ہوتی ہے اس کے بعد جماعتی تنظیم اور حکومت کی باری آتی ہے کیونکہ سب سے پہلے یہ ذمہ داری اس ماحول پر پڑتی ہے جس ماحول میں وہ محتاج اپنی زندگی کے دن گزار رہا ہے.پھر ہماری جماعت کی تنظیم کے مطابق بڑے شہروں میں پریذیڈنٹ ہیں ، امراء ہیں پھر شہر مختلف محلوں اور حلقوں میں تقسیم ہوتے ہیں جن میں ہمارے کارکن مقرر ہوتے ہیں.اتنے کارکنان کی موجودگی میں آپ میں سے ہر احمدی رات کو اس اطمینان کے ساتھ سوتا ہے کہ اس کا کوئی بھائی آج بھوکا نہیں سو رہا.یا وہ بغیر سوچے سمجھے یہ تصور کر لیتا ہے کہ اس کے سب بھائیوں نے کھانا کھا لیا ہوگا.

Page 61

خطبات ناصر جلد اول ۴۵ خطبہ جمعہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۶۵ء جہاں تک میرا احساس ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں پوری طرح محاسبہ نہیں کیا جاتا.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور شاید ہی کوئی ایسے محتاج دوست ہوں جن کی غذائی ضروریات پوری نہ کی جاتی ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر ایک احمدی بھی ایسا ہے جس کی غذائی ضروریات پورا کرنے میں ہم غفلت برت رہے ہوں ، تو ہمیں بحیثیت جماعت خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہی پیار کرنے والے وجود تھے.بڑی ہی شفقت کی باتیں آپ کے منہ سے نکلی ہیں.چنانچہ آپ نے ہمیں ایسا گر سکھایا ہے کہ جس کو اگر ہم اپنے سامنے رکھیں اور اس پر عمل کریں.تو ایک دھیلا زائد خرچ کئے بغیر ہم اپنے ضرورت مند بھائیوں کی غذائی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور یہ ارشاد بخاری میں موجود ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامُ الْإِثْنَيْنِ كَافٍ لِثَلَاثَةٍ وَطَعَامُ الثَّلَاثَةِ كَافٍ لِأَرْبَعِ - کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کو پورا ہو جاتا ہے اور تین کا کھانا چار کو پورا ہو جاتا ہے.ایک اور حدیث جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور ترمذی میں درج ہے اس کے الفاظ یہ ہیں.طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الْاِثْنَيْنِ وَطَعَامُ الْاِثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ - کہ ایک کا کھانا دو کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور دو آدمی کا کھانا چار کے لئے اور چار کا کھانا آٹھ آدمی کے لئے کافی ہو جاتا ہے.پس ایک حدیث میں تو یہ ہے کہ ایک کا کھانا دو کے لئے اور دوکا کھانا تین کس کے لئے اور تین کا کھانا چار کے لئے کافی ہو سکتا ہے.لیکن دوسری حدیث میں دگنا کرتے چلے گئے.دراصل بات یہ ہے کہ بعض گھرانے ایسے ہوتے ہیں جو اچھے کھاتے پیتے ہیں وہاں اگر

Page 62

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۶ خطبہ جمعہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۶۵ء ایک کس کا کھانا پکے تو دو کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور اگر چھ کس کا پکے تو بارہ کے لئے کافی ہو جاتا ہے.لیکن ان کے مقابل بعض ایسے گھرانے ہوتے ہیں جہاں دو کے لئے کھانا پکے تو صرف تین کس کے لئے کافی ہو سکے گا اور بعض گھرانے ان کی نسبت بھی زیادہ غریب ہوتے ہیں.اگر وہاں تین آدمیوں کا کھانا پکایا جائے گا تو صرف چار کے لئے کافی ہوگا اور بعض گھرانے ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جن میں آٹھ کا کھانا پکے تو نو کو ہی کافی ہو.ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ کھانا کھلاؤ اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ کوئی زائد خرچ کئے بغیر تم خدا تعالیٰ کے اس حکم کی کس طرح تعمیل کر سکتے ہو.تم جس طبقہ سے تعلق رکھتے ہو.یا تو وہ ایسا ہوگا جس میں ایک کا کھانا دو آدمی کے لئے اور دو آدمی کا کھانا چار کے لئے اور چار آدمی کا کھانا آٹھ آدمی کے لئے کافی ہوگا.یا وہ ایسا طبقہ ہو گا جس میں دو آدمی کا کھانا تین کے لئے اور تین کا چار کے لئے کافی ہوگا.یا جس میں کہ چار آدمی کا کھانا پانچ آدمی کے لئے کافی ہو گا.مثلاً ایک عام مزدور کے گھرانے میں چار افراد ہیں اور ان میں سے ہر شخص تین روٹیاں کھاتا ہے تو گویا اس کے گھر میں بارہ روٹیاں پکیں گی.اگر ان چار میں سے ہر ایک تین کی بجائے اڑھائی روٹیاں کھالے تو دو روٹیاں مستحق کے لئے نکل سکیں گی اس طرح کوئی زائد خرچ نہ ہوا اور ایک ضرورت مند کی ضرورت بھی پوری ہو گئی.تین کی بجائے اڑھائی روٹی کھانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی آدھی روٹی کم کھانے کے نتیجہ میں کوئی عارضہ یا تکلیف یا دکھ لاحق ہو سکتا ہے کیونکہ عادتاً ہم لوگ ضرورت سے زیادہ ہی کھاتے ہیں.اس طرح نہ ہمیں کوئی زائد خرچ کرنا پڑتا ہے اور نہ ہمیں کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے لیکن ایک آدمی کا کھانا بھی ہم نکال لیتے ہیں.لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کون ہے وہ حاجت مند جسے ہم نے کھانا دینا ہے.اس کے لئے آپس میں تعلقات اور آپس میں پیار کے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اپنی تنظیم کو اس طرح اخوت کی بنیادوں پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہ محلہ والوں کو معلوم ہو کہ آج فلاں گھرا نہ کسی

Page 63

خطبات ناصر جلد اول ۴۷ خطبہ جمعہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۶۵ء وجہ سے کھانا نہیں پکا سکا.اکثر گھرانے مزدوروں کے ہوتے ہیں جو روزانہ کماتے ہیں اور جو کماتے ہیں وہی کھاتے ہیں.اتفاقاً کسی گھرانے کا ذمہ دار شخص ایک یا دو دن کے لئے بیمار ہو جاتا ہے تو اگر محلے والے اس سے پوری طرح واقف ہوں.تو ان کو معلوم ہوگا کہ آج فلاں شخص مسجد میں نظر نہیں آیا اس لئے وہ اسے دیکھنے جائیں گے.بیمار ہو گا تو اس کی عیادت کریں گے.اس طرح ان کو ثواب بھی مل جائے گا.پھر ان کو خود ہی خیال ہوگا کہ یہ بیمار ہے اسے اور اس کے گھر والوں کو کھانے کی ضرورت ہے.ان کے لئے کھانا مہیا کرنا چاہیے پریذیڈنٹ محلہ یا سیکرٹری یا جس کی ڈیوٹی لگائی جائے وہ دو تین گھروں میں جا کر کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ توفیق ہے اپنے بھائی کی مدد کے لئے دیدو.اسی طرح وہ گھرانہ بھو کا بھی نہیں رہے گا اور آپ کا بھی کوئی زائد خرچ نہیں ہوگا اور پھر خدا کی نگاہ میں آپ کتنے بڑے ثواب کے مستحق ہو جا ئیں گے.فَوَقَهُمُ اللهُ شَرِّ ذَلِكَ الْيَوْمِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھوں گا اور نجات دوں گا اپنی رحمت سے نوازوں گا اور اپنی مغفرت کی چادر سے ان کو ڈھانپ لوں گا.پس ہمارے خدا نے ایک حکم دیا ہے ہمارے پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید.فرمائی ہے کہ محتاجوں کوکھانا کھلاؤ اور ہم نے اس تاکیدی ارشاد پر عمل کرنا ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہے.احمدیوں میں عام طور پر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کوئی احمدی بھوکا نہ رہے لیکن میرا احساس یہ ہے کہ ابھی اس حکم پر کما حقہ عمل نہیں ہو رہا.اس لئے آج میں ہر ایک کو جو ہماری کسی جماعت کا عہدیدار ہے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ذمہ دار ہے.اس بات کا کہ اس کے علاقہ میں کوئی احمدی بھوکا نہیں سوتا.دیکھو میں یہ کہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ آپ کو خدا کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا.اگر کسی وجہ سے آپ کا محلہ یا جماعت اس محتاج کی مدد کرنے کے قابل نہ ہو تو آپ کا فرض

Page 64

خطبات ناصر جلد اول ۴۸ خطبہ جمعہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۶۵ء ہے کہ مجھے اطلاع دیں میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے توفیق دے گا کہ میں ایسے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کر دوں.انشاء اللہ تعالیٰ.یہ ایک بڑی اہم ذمہ داری ہے آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کو ہر وقت یا درکھیں اور اس کے متعلق ہر وقت سوچتے رہیں کیونکہ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر عمل کرنے سے بڑے خوشکن نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.وہ قوم جس کے ہر فرد کو معلوم ہو کہ میری ذمہ داری ساری قوم نے اپنے سر پر اٹھائی ہوئی ہے.اس کے دل میں کتنا سکون اور کتنا اطمینان ہوگا اور اپنے رب کی حمد کے کتنے گہرے جذبات اس کے دل میں موجزن ہوں گے اور اپنے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کتنی محبت جوش میں آئے گی؟؟؟ ایک پرامن، پرسکون ، اخوت والا ، محبت والا ، پیار والا معاشرہ قائم ہو جائے گا جس پر دنیا رشک کرنے لگے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے روزنامه الفضل ربوه ۱۰ / مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 65

خطبات ناصر جلد اول ۴۹ خطبه جمعه ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء رمضان کے مہینہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بہت سی برکتیں اور حکمتیں وابستہ ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور پرنور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں.شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ بَيِّنَةٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُبُهُ وَ مَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَ لِتَكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتَكَيّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدِيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ ط جيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ - (البقرة : ۱۸۷،۱۸۶) پھر فرمایا :.ان دو آیات میں جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے رکھنے کے فوائد اور جن طریقوں سے وہ فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں ان کے متعلق ہمیں ایک حسین رنگ میں تعلیم دی ہے.

Page 66

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شَهْرُ رَمَضَانَ اس مہینے کا نام اسلام سے قبل ناتق تھا اسلام نے اس مہینے کو رمضان کا نام دیا ہے اور اس نام کے اندر اتنے وسیع معانی ہمیں نظر آتے ہیں کہ دل انہیں معلوم کر کے خدا تعالیٰ کے کمال قدرت کو دیکھ کر اس کی حمد کے جذبہ سے بھر جاتا ہے.رمضان کا لفظ ر مض سے نکلا ہے اور جب ہم رمض کے مختلف معانی پر غور کرتے ہیں تو اس کے بہت سے معنی ایسے ہیں جن کا ماہ رمضان سے تعلق واضح ہو جاتا ہے.چنانچہ جب عربی میں اَرمَضَ الشَّیءَ کہا جائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں اخرقۂ اسے جلا دیا.اس لفظ میں سوزش کا تصور پایا جاتا ہے.اگر کہا جائے اَرمَضَ الرّجُلَ تو اس کے معنی ہوتے ہیں اَوْ جَعَهُ اس کو دکھ پہنچایا.تکلیف دی.جب ہم ان دو معانی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ماہ مضان سے تعلق ہے.اس طرح پر کہ وہ لوگ جو دین اسلام کے منکر ہیں یا اسلام میں تو داخل ہیں لیکن ان کے اندر روحانی کمزوری ہے.وہ اس مہینہ کو محض دکھ اور درد ، بھوک اور پیاس اور بے خوابی کا مہینہ سمجھتے ہیں.انہیں اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس کی برکات سے وہ کوئی حصہ لیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے جو نیک اور مومن بندے ہیں وہ اس مہینہ کی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے.رَمَضَ النَّضَل کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ تیر کے پھل کو ، یا نیزے کے پھل کو یا چھری کے پھل کو پتھر پر رگڑ کر تیز کیا.مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے مومن بندے اس مہینہ کے اندر اپنے سہام اللیل یعنی رات کے تیروں کو جو دعاؤں کی صورت میں آسمان کی طرف چلا رہے ہوتے ہیں تیز کرتے ہیں اس طرح ان تیروں کا اثر اس ماہ میں بڑھ جاتا ہے.اور ان کی کاٹ تیز ہو جاتی ہے اور جن اغراض کے لئے ان تیروں کو استعمال کیا جاتا ہے وہ اغراض اس ماہ میں بطریق احسن حاصل ہو جاتی ہیں.پھر لغت میں تَرَمَضَ الصَّيْدَ کا محاورہ بھی لکھا ہے.یعنی جنونی شکاری شدت گرما کی پرواہ نہ کرتے ہوئے.گرمی کے وقت اپنے شکار کی تلاش میں نکلا.گو یا اللہ تعالیٰ کا مومن بندہ بھوک اور پیاس اور دوسری سختیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے مطلوب کی تلاش میں نکلتا ہے.گرمی کی شدت یا تکلیف، یا بھوک اور پیاس، یا بے خوابی وغیرہ اس کے راستہ میں روک نہیں بن سکتیں.

Page 67

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۱ خطبه جمعه ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء اور وہ جو کچھ تلاش کرتا ہے اس کا مفہوم بھی ہمیں اسی لفظ سے ہی سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اس کا مطلوب ہرن اور تیتر کا شکار نہیں ہوتا چنا نچہ الرفض کے ایک اور معنی عربی میں الْمَطْرُ يَأْتِي قَبْلَ الْخَرِيفِ فَيَجِدُ الْأَرْضُ حَازَةٌ مُخْتَرِقَةً ہیں یعنی وہ بارش جو گرمی کی شدت کے بعد اور موسم خزاں سے پہلے آسمان سے نازل ہوتی ہے اور جب وہ نازل ہوتی ہے تو زمین پوری طرح تپی ہوئی اور جلی ہوئی ہوتی ہے لیکن جب وہ بارش نازل ہوتی ہے تو اس تپش کو دور کر دیتی ہے.اس جلن کو مٹا دیتی ہے اور سکون کے حالات پیدا کر دیتی ہے.تو یہاں سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک مومن بندہ رمضان کے مہینے میں جنونی شکاری کی طرح بھوک اور پیاس اور دوسری تکالیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے جس مطلوب کی تلاش میں نکلتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہے.وہ سمجھتا ہے کہ اس رحمت کی بارش کے بغیر میرے دل کی جلن دور نہیں ہو سکتی میرے اندر جو آگ لگی ہوئی ہے وہ بجھ نہیں سکتی جب تک کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش نازل نہ ہو پس یہ تمام مفہوم لفظ رمضان کے اندر ہی پایا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ میرے بندوں کو چاہیے کہ وہ راتوں کے تیروں ( دعاؤں) کو تیز کریں اور جنونی شکاری کے جنوں سے بھی زیادہ جنوں رکھتے ہوئے میری رحمت کی تلاش میں بل پڑیں تب میری رحمت کی تسکین بخش بارش ان پر نازل ہوگی اور میرے قرب کی راہیں ان پر کھولی جائیں گی.شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ - فرمایا یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو بہت ہی برکتوں والا ہے.کیونکہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا یا جس کے بارے میں قرآن کریم نے تعلیم دی یا جس میں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا.اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ کے اندر تین باتیں بیان کی گئی ہیں:.اول یہ کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نزول قرآن کریم کی ابتداء ہوئی.احادیث اور دوسری کتب ( تاریخ ) سے پتہ چلتا ہے کہ رمضان کے آخری حصہ میں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا.تو مہینے کا انتخاب اور پھر رمضان کے آخری حصہ کا انتخاب جو خدائے تعالیٰ نے کیا وہ بغیر کسی

Page 68

خطبات ناصر جلد اول حکمت اور وجہ کے نہیں ہوسکتا.۵۲ خطبه جمعه ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء دوسرے اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کے یہ معنی بھی ہیں کہ اس کے بارے میں قرآن کریم نے تاکیدی اور تفصیلی احکام نازل کئے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کوئی حکم تاکید کے ساتھ نازل فرماتا ہے تو اس لئے نازل فرماتا ہے کہ اس حکم کو بجالا کر بندہ اپنے رب کی بہت سی برکتوں کو حاصل کر سکے.تیسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں کہ بار بار سارا قرآن کریم نازل ہوتا رہا.کیونکہ احادیث میں یہ امر بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ ہر رمضان کی پہلی رات سے آخری رات تک حضرت جبریل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول فرماتے اور اس وقت تک جتنا قرآن کریم نازل ہو چکا ہوتا.آپؐ سے مل کر اس کا دور کرتے.اس طرح وہ نازل شدہ قرآن آپ پر پھر ایک دفعہ بذریعہ وحی نازل ہوتا اور ہر سال ایسا ہوتا تھا.بخاری میں یہ حدیث یوں درج ہے.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ - یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے.آپ کی جودوسخا کو کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا تھا نہ پہنچا اور نہ ہی آئندہ بھی پہنچے گا.لیکن آپ کی یہ سخاوت رمضان شریف کے مہینہ میں اور بھی بڑھ جاتی اور وہ اس لئے کہ رمضان میں جبریل علیہ السلام نازل ہوتے فَيُدَارِسُهُ الْقُرآن اور آپ سے مل کر قرآن مجید کا دور کرتے.ان دنوں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسمان سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو بارش کی طرح اترتے دیکھتے تو آپ کی سخاوت اور جو دو کرم میں بھی ایک تیزی پیدا ہو جاتی اور آپ ان ہواؤں کی نسبت بھی جو موسلا دھار بارش لاتی ہیں زیادہ سخی نظر آتے.انْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ فرما کر گویا یوں کہا کہ اے میرے بندو! دیکھو یہ رمضان وہ ہے کہ جب

Page 69

خطبات ناصر جلد اول ۵۳ خطبه جمعه ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تو اسی مہینہ میں شروع ہوا.دوسرے گیارہ مہینے بھی تو تھے ان میں بھی نازل کیا جا سکتا تھا مگر خدا تعالیٰ نے اپنی بالغ حکمت اور اپنے کامل علم کی بنا پر نزول قرآن کریم کے لئے اسی مہینہ کو چنا اور اسی میں اس کے نزول کی ابتدا ہوئی.پھر کتنی تاکید کے ساتھ ، کتنی حکمتیں بیان کرنے کے بعد اور کتنے دلائل دے کر اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حکم دیا کہ رمضان کے مہینے میں روزے رکھو اور عبادات پر زور دو تا الہبی فضلوں کے تم وارث بنو.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری نگاہ میں اس مہینے کی اتنی قدر ہے کہ میں ہر سال اس مہینہ میں جبرئیل کو بھیجتا ہوں تا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر قرآن کریم کا دور کرے.پس ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تم خود اندازہ کر سکتے ہو کہ کتنی برکتیں ہیں جن کا تعلق اس مہینہ سے ہے اور تمہیں کس قدر کوشش کرنی چاہیے کہ تم ان برکات سے زیادہ سے زیادہ فیض حاصل کر سکو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن جو رمضان کے مہینہ میں اتر نا شروع ہوا اور پھر بار بار اس میں نازل ہوتا رہا.یہ کوئی معمولی کتاب نہیں جس کے لئے اس مہینہ کو چنا گیا ہے.بلکہ ھدی للناس یہ وہ پہلی کامل شریعت ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے بطور ہدایت بھیجی گئی ہے.ھدایة کے ایک معنی اس الہی شریعت کے ہیں جو انبیاء اللہ اپنے ساتھ لے کر دنیا کی طرف آتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب رمضان کے مہینہ میں اُتری ہے.هُدًى لِلنَّاسِ یہ تمام بنی نوع انسان کو قیامت تک بحیثیت ایک شریعت کا ملہ فائدہ اور برکت پہنچاتی رہے گی.ایک معنی هدایة کے یہ بھی ہیں کہ یہ کتاب بنی نوع انسان پر ٹھونسی نہیں گئی بلکہ اس میں انسانی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق لوگوں کو عبادات اور اعمالِ صالحہ بجالانے کا طریق بتایا گیا ہے.مطلب یہ ہوا کہ یہ شریعت جو انسان کے لئے نازل کی گئی ہے وہ اس کی استعدادوں ،صلاحیتوں اور قابلیتوں کو مد نظر رکھ کر نازل کی گئی ہے اور قیامت تک انسان میں جو جو نئی سے نئی قابلیتیں پیدا ہوتی رہیں گی وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں.کیونکہ ہم عالم الغیب ہیں.

Page 70

خطبات ناصر جلد اول ۵۴ خطبہ جمعہ ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء اس لئے آج کے انسان سے لے کر اس آخری انسان تک جو اس دنیا میں پیدا ہوگا اور ملک عرب سے لے کر تمام ان ملکوں کی اقوام تک جو اکناف عالم میں آج موجود نہیں یا آئندہ پیدا ہوں گی ان سب کی صلاحیتوں اور استعدادوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ عظیم الشان کتاب بنی نوع انسان کے ہاتھ میں دی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ وہ قرآن ہے.اتنا عظیم الشان قرآن کہ جس کا تعلق ہم نے ماہ رمضان کے ساتھ بڑی مضبوطی سے قائم کر دیا ہے.پھر ھدی للناس میں یہ بھی فرمایا کہ قرآن کریم صرف انسانی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق ہی نہیں بلکہ اس میں ایک یہ بھی خوبی پائی جاتی ہے کہ بندے کی ہدایت کو درجہ بدرجہ بڑھاتا چلا جاتا ہے کیونکہ جس طرح ایک طالب علم پہلی جماعت کا نصاب ختم کرنے کے بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ دوسری جماعت میں بیٹھے اور دوسری جماعت کا نصاب ختم کرنے کے بعد وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ تیسری جماعت میں بیٹھے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے جو نیک بندے ہیں جب وہ ہدایت کے ایک درجہ پر پہنچتے ہیں اور الہی احکام کو بجالاتے ہوئے اپنے آپ کو اس قابل بنا لیتے ہیں کہ اس درجہ کی ہدایات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درجہ کو اور بلند کر دیتا ہے اور ہدایت کی نئی راہیں ان پر کھولتا ہے.تو ہدایت کے معنوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مزید ہدایت کی جو خواہش یا استعداد پیدا ہو جاتی ہے اس کے مطابق مزید ہدایت کے سامان بھی اس میں موجود ہیں.پس فرمایا کہ یہ کوئی معمولی کتاب نہیں بلکہ ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ صرف ایک دفعہ ہدایت دے کر پھر پیچھے ہٹ کر کھڑی نہیں ہو جاتی بلکہ ہمیشہ تمہیں اس کی ضرورت رہتی ہے.جتنی جتنی تم ایمان اور عرفان میں ترقی کرتے جاتے ہو.قرآن کریم تمہیں اس سے آگے ہی راستہ دکھاتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری انتہائی منزل ابھی نہیں آئی.آؤ میں تمہیں اس سے بھی آگے لے جاؤں.پھر وہ تمہارا ہاتھ پکڑتا ہے اور اگلی ہدایات کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور اپنے قرب کی نئی راہیں تم پر کھولتا ہے.

Page 71

خطبات ناصر جلد اول ۵۵ خطبہ جمعہ ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء تو فرمایا کہ اتنی عظیم الشان کتاب کو ہم نے رمضان شریف میں نازل فرمایا ہے.ھدی للناس میں ایک بڑا ز بر دست دعویٰ پیش کیا گیا ہے.فرمایا کہ اب یہی ایک کتاب ہے جس پر عمل کر کے تمہارا انجام بخیر ہو سکتا ہے اور تم جنت موعودہ کو پاسکتے ہو.دنیا کی دوسری تعلیمیں فلسفیانہ ہوں یا مذہبی ، ان کے اندر کچھ ایسی باتیں تو ضرور پائی جاتی ہیں کہ جن پر عمل کر کے ہم اس دنیا میں ترقی کر سکتے ہیں لیکن یہاں فرمایا کہ قرآن کریم کے علاوہ دنیا میں ایسی کوئی کتاب موجود نہیں جو انسان کی ضرورتوں کو اس طور پر پورا کر سکے کہ اس کی اخروی زندگی بھی اس کے لئے جنت بن جائے.یہ صرف قرآن کریم ہی ہے جس کے ذریعہ انسان کا انجام بخیر ہوتا ہے اور اس کو جنت نصیب ہوتی ہے.پھر فرمایا وَ بَيِّنَةٍ مِّنَ الْهُدى یعنی جب قیامت تک تمام بنی نوع انسان کے لئے یہ قرآن مجید ہدایت ہے.اور دوسری جگہ ہمیں اسلامی تعلیم میں یہ بھی ملتا ہے کہ انسان اس دنیا میں نسلاً بعد نسل ہر لحاظ سے ترقی کرتا چلا جائے گا.اس کا علم بھی ، اس کی عقل بھی اور اس کا انداز فکر بھی ترقی کی راہ پر چلتا چلا جائے گا.تو آخر ایسا زمانہ آ جائے گا کہ جب انسان یا انسانوں میں سے اکثر حصہ محض دین العجائز پر قانع نہیں رہے گا بلکہ وہ کہے گا کہ ہم نے مان لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور کہ اس پر ہمیں عمل بھی کرنا ہے لیکن ہمیں تسلی نہیں جب تک کہ ہمیں اس حکم کی حکمتیں نہ بتائی جائیں اور دلائل نہ سمجھائے جائیں وغیرہ وغیرہ گو یا اس میں ایک پیشگوئی بھی مضمر تھی.تو فرماتا ہے کہ اس تعلیم میں جہاں جہاں دعویٰ پیش کیا گیا ہے اس کے عقلی دلائل بھی پیش کر دیئے گئے ہیں جہاں کہیں حکم دیا گیا ہے ساتھ ہی اس کی حکمتیں بھی بیان کر دی گئی ہیں.انسانی دماغ خواہ ترقی کی کتنی منازل طے کرتا چلا جائے خواہ کتنے ہی بلند مقام پر پہنچ جائے.بہر حال وہ قرآن کریم کا محتاج رہے گا.وَالْفُرْقَانِ اور اس قرآن میں ایسے نشانات اور دلائل رکھے گئے ہیں جوحق اور باطل کے در میان امتیاز قائم کر دیتے ہیں حتی کہ کوئی اشتباہ باقی نہیں رہتا جیسا کہ خود انہی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کا ذکر کیا ہے یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے سامنے باطل ٹھہر ہی نہیں سکتا.

Page 72

خطبات ناصر جلد اول ۵۶ خطبه جمعه ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء الغرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان میں روزے اس لئے فرض کئے گئے ہیں کہ تم سہام اللیل ( دعاؤں) کے پھلوں کو تیز کرو اور اپنے مطلوب (رضاء الہی ) کی تلاش میں نکلو.پیاس اور بھوک کو برداشت کرو اور بے خوابی کو خدا تعالیٰ کا فضل سمجھو.کیونکہ یہ ایسا برکتوں والا مہینہ ہے کہ جس میں قرآن کریم جیسا کلام الہی نازل کیا گیا ہے.اس لئے فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُهُ تم میں سے جو شخص بھی بلوغت ، صحت اور حضر میں یہ ماہ پائے وہ اس کے روزے رکھے.شھد کے ایک معنی ہیں عَايَنَهُ وَاطَّلَعَ عَلَيْهِ کہ اس کا معائنہ کیا اور اس پر اطلاع پائے.یعنی ہم نے جو اس روزہ کی حکمتیں بیان کی ہیں.اگر تم ان کا اچھی طرح مطالعہ کرو اور ان پر اطلاع پاؤ تو پھر تمہیں اس ماہ کے روزے پوری طرح اور مقرر کردہ شرائط کے مطابق رکھنے چاہئیں بلکہ تم خود بخود اس کے روزے رکھو گے سوائے اس کے کہ کوئی روحانی کمزوری تم میں موجود ہو.آگے فرمایا يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو تنگیاں تمہیں نظر آتی ہیں کہ صبح سے شام تک کھانا پینا چھوڑ نا جس کی وجہ سے بھوک اور پیاس لگتی ہے.پھر سخت گرمی کے موسم میں اور سخت سردی کے موسم میں کچھ اور تکالیف پیش آتی ہیں.فرمایا یہ جو تکالیف تمہیں پیش آتی ہیں یہ محض عارضی اور وقتی ہیں.اتنا پیارا خدا اتنا پیارا رب جس نے قرآن کریم جیسی اعلیٰ تعلیم تم پر نازل کی اور بے شمار دنیوی نعمتوں سے تمہیں محض اپنے فضل سے نوازا، وہ ہرگز پسند نہیں کرے گا کہ وہ تمہیں ان تکالیف میں اس لئے مبتلا کرے کہ تا تمہیں دکھ پہنچائے.نہیں بلکہ وہ تو تمہارے لئے آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے کیونکہ اگر تم ان خفیف سی وقتی تکالیف کو برداشت کر لو گے تو ان کے بدلے میں وہ تمہیں وہ انعام اور اکرام بخشے گا کہ انہیں پا کر تمہیں یہ دکھ، دکھ ہی نظر نہ آئے گا.پھر فرمایا وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ہم نے تم پر روزے فرض کئے تو یہ حکم بھی دیا کہ

Page 73

خطبات ناصر جلد اول ۵۷ خطبه جمعه ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء سارے رمضان کے روزے رکھو تا کہ تم اس کی گفتی کو پورا کرو.اگر صرف یہ حکم ہوتا کہ روزے رکھو تو کوئی بیس دن کے روزے رکھتا.کوئی دس دن کے کوئی رمضان کے مہینے میں رکھتا کوئی دوسرے مہینوں میں.پس ہم نے رمضان میں روزے رکھنے کا اس لئے حکم دیا تا کہ اُمت مسلمہ ساری کی ساری اس سارے مہینے میں روزے رکھے اور ان اجتماعی برکات سے فائدہ اٹھائے جو اجتماعی عبادات سے تعلق رکھتی ہیں.دوسرے اس کے معنی یہ ہیں اور یہ زیادہ لطیف ہیں کہ جو زندگی تمہیں دی گئی ہے اسے تم پورا کرو.اس کا کمال تمہیں حاصل ہو.اس میں اشارہ ہمیں بتایا کہ اگر کسی شخص کے پاس مثلا سو روپیہ ہے.اگر اس میں سے بیس روپے گم ہو جائیں یا چوری ہو جائیں اور باقی وہ خرچ کرے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس نے تمام سو روپیہ خرچ کیا ہے کیونکہ اس کے پاس خرچ کرنے کے لئے تو صرف اسی روپے رہ گئے تھے سو کا سو روپیہ وہی خرچ کرتا ہے جس کے پاس وہ سو کا سور و پیہ موجود بھی ہو.فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو ہم نے ایک پیمانہ کے مطابق عمر دی ہے اور ہم نے تم پر دینی فرائض اس لئے واجب کئے ہیں تا کہ تم اپنی عمر کو پوری طرح گزار سکو اور اس کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہو.ایک شخص کی عمر سو سال ہو اس میں سے ۲۰ سال اس نے دنیا کی لہو ولعب میں ضائع کر دئے ہوں تو حقیقتاً اس نے سو سال کی زندگی نہیں گزاری کیونکہ میں سال اس نے مردہ ہونے کی حالت میں گزارے ہیں.سو سال کی عمر پانے والا سو سال کی زندگی اسی صورت میں صحیح طور پر گزارتا ہے جس صورت میں کہ اس نے ساری زندگی اپنے اللہ کی اطاعت میں گزاری ہو.جس شخص نے اپنی زندگی کے چند لمحات یا زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے پہلو تہی کرتے ہوئے ، اس سے منہ موڑتے ہوئے ، نیک نیتی اور اخلاص کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گزارا ہواس کی عمر کا وہ حصہ ضائع ہو گیا اور نہیں کہہ سکتے کہ اس نے اپنی پوری عمر جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی تھی وہ حقیقتاً اس نے اس دنیا میں گزاری کیونکہ یہاں کی پیدائش کا ایک مقصد ہے اور جو حصہ عمر اس مقصد

Page 74

خطبات ناصر جلد اول ۵۸ خطبه جمعه ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء کے خلاف خرچ ہوتا ہے وہ عمر ضائع جاتی ہے.پس فرما یا کہ اگر تم ماہ رمضان کی برکات سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہتے ہو اور اس کے لئے اپنی عمر کو خرچ کرتے ہو تو دیگر برکات کے علاوہ تمہیں ایک یہ برکت بھی حاصل ہو گی کہ تمہیں اللہ تعالیٰ دوسری نیکیاں کرنے کی بھی توفیق دے گا اور اس مہینہ کے بعد جو گیارہ ماہ اور تمہاری زندگی میں آنے والے ہیں وہ بھی حقیقی معنی میں تم خدا کی راہ پر خرچ کرنے والے ہو گے.تو جو شخص رمضان شریف کو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ گزارتا ہے تو بقیہ سال کے گیارہ مہینوں میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کی توفیق پاتا ہے اور اس طرح اس کی ساری زندگی نیکیوں میں گزرتی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی ساری عمر اس مقصد کے لئے گزاری جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا.وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدُ لَكُمْ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس مہینہ میں میں تم پر اتنی روحانی نعمتیں اور برکتیں نازل کروں گا کہ تم اپنے آپ کو مجبور پاؤ گے کہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کرتے پھرو اور پھر تم قربانی کے ہر موقع کو تکلیف اور دکھ نہیں سمجھو گے بلکہ فضل الہی جانو گے وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اور یہ فضل تم پر اس لئے بھی نازل ہوں گے کہ تمہارے دل اس کے شکر سے بھر جائیں اور جس مومن کا دل اس کے شکر سے بھر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور دور اس کے لئے شروع ہو جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے لہن شكرتم لأزيد تكُم (ابراهیم : ۸) یعنی میرا شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا.پس جب اللہ تعالیٰ کا انعام نازل ہوا اس لئے کہ اس نے ہماری حقیر سی کوشش کو قبول فرما لیا تو اس کے نتیجہ میں ہمارے دل میں شکر کے جذبات پیدا ہوئے فرما یا لازید نکھر کہ میں تمہیں اور نیکیوں کی توفیق بخشوں گا.پھر اس کی وجہ سے اور شکر کے جذبات پیدا ہوں گے.گویا اس طرح ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا.اسی تسلسل اور مخلصانہ نیت کی وجہ سے اُخروی زندگی محدود اعمال کے باوجود ابدی زندگی ہو جائے گی.پھر فرمایا وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ کہ جب میں نے اپنے بندوں کو یہ بتایا

Page 75

خطبات ناصر جلد اول ۵۹ خطبہ جمعہ ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء کہ تم پر بڑے انعامات نازل ہوں گے بڑا فضل نازل ہوگا اور تم خدا کے مقرب بن جاؤ گے تو اس پر میرے بندے کہیں گے کہ ہمارا رب تو محض کبریائی ہے.محض پاکیزگی ہے.رفیع الدرجات ہے.تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے کمال تام اسی کو حاصل ہے اور وہ اتنا ارفع اور اعلیٰ ہے کہ اس کی رفعتوں تک ہمارا تخیل بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی اس کی رفعتوں کی کوئی انتہا ہے.لیکن جب ہم اپنے کو دیکھتے ہیں تو اپنے کو خطا کار، گنہگار اور نہایت ضعیف پاتے ہیں.اس طرح ہمارے درمیان اور ہمارے رب کے درمیان لا متناہی فاصلے پائے جاتے ہیں.کیا ہماری حقیر کوششوں کے نتیجہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے؟ فرمایا.جب میرے بندے تجھ سے اس معاملہ کے متعلق سوال کریں تو تم انہیں کہہ دو کہ بے شک تم کمزور بھی ہو.تم گنہگار بھی ہو.تم خطا کا ر بھی ہو.میں تمام بلندیوں کا مالک اور تمام رفعتیں میری طرف ہی منسوب ہوتی ہیں لیکن میری ایک اور صفت بھی ہے اور وہ یہ کہ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر: ۵۴) کہ اگر میں چاہوں تو ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہونے کی وجہ سے اپنے بندوں کے تمام گناہوں کو بخش بھی دیا کرتا ہوں اور جب گناہ میری مغفرت کی چادر کے نیچے چھپ جائیں تو پھر میرے اور تمہارے درمیان جو گناہوں کے فاصلے ہوں گے وہ مٹ جائیں گے اور میں خود آسمانوں سے اتروں گا اور تمہارے قریب آ جاؤں گا اور تمہیں اپنا مقرب بنالوں گا - أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ اور اس کی علامت یہ ہوگی کہ تم دعا کرو گے تو میں اسے قبول کر لوں گا تا کہ دنیا یہ نہ کہہ سکے کہ تمہارا یہ دعوی کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا جو قرب حاصل ہے وہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی برکت سے حاصل ہوا ہے یہ محض تمہارے منہ کی باتیں ہیں.اس قرب کی دلیل مہیا کرنے کے لئے میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا تا کہ دنیا یقین کر لے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو.واقعی سچا ہے.اگر تم گریہ وزاری اور عجز و انکسار اور تذلیل کے ساتھ میرے سامنے جھکتے رہو گے تو دنیا أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کے نظارے بھی دیکھتی چلی جائے گی.دعا اور قبولیت دعا کے متعلق ہمیں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا رب ہماری دعائیں

Page 76

خطبه جمعه ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۶۵ء خطبات ناصر جلد اوّل ۶۰ قبول تو کرتا ہے لیکن اپنے فضل اور اپنی مرضی سے.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ گو یا خدا تعالیٰ ہمارا غلام ہے ( نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ ) اس کا فرض ہے کہ ہماری دعا کو اس رنگ میں قبول کرے جس رنگ میں کہ ہم چاہتے ہیں.لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ وہ تو تمام طاقتوں کا مالک ہے اور وہ محض اپنے فضل سے نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے ہمارے لئے قرب کی راہیں کھولتا ہے اور ہماری دعاؤں کو قبول کرتا ہے.چونکہ وہ عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے.ہم نہیں جانتے مگر وہ جانتا ہے کہ جو دعا ہم اپنے لئے جس رنگ میں مانگ رہے ہیں وہ ہمارے لئے اچھی بھی ہے یا نہیں.تب بعض دفعہ وہ ہماری دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے ہمارے لئے خیر کی راہیں اس طرح کھول دیتا ہے کہ جو ہم نے مانگا تھا وہ نہیں دیتا اور جو ہم نے نہیں مانگا تھاوہ ہمیں دے دیتا ہے.پھر وہ ہمارے اخلاص اور محبت کے دعوی کی آزمائش بھی کرتا ہے کہ کیا ہم اپنے دعوی میں سچے بھی ہیں یا نہیں.پھر بسا اوقات ہماری دعا اور قبولیت دعا کے درمیان بڑا زمانہ گزرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں اس کے متعلق ایک بڑا لطیف نوٹ دیا ہے.فرما یا:.غرض ایسا ہوتا ہے کہ دعا اور اس کی قبولیت کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلا پر ابتلا آتے ہیں اور ایسے ابتلا بھی آجاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں مگر مستقل مزاج، سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کے بعد نصرت آتی ہے اور ان ابتلاؤں کے آنے میں پھر یہ ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے.پھر فرما یا فَلْيَسْتَجِيبُوانی کہ دعا کا نشان دیکھ کر مومن بندوں کو یقین کر لینا چاہیے کہ میں نے جو احکام بھی ان کے لئے آسمان سے نازل کئے ہیں وہ ان کی بہتری کے لئے ہی ہیں.وَلْيُؤْمِنُوا نی چاہیے کہ وہ میری توحید پر ایمان لائیں اور میری صفات کی معرفت حاصل کریں اور تخلق باخلاق اللہ کی طرف وہ متوجہ ہوں اور اس کی تو فیق انہیں صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے.

Page 77

خطبات ناصر جلد اول ۶۱ خطبه جمعه ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ کہ وہ ہدایت پر استقامت سے قائم ہو جائیں.رشد کے معنی ہیں نیکیوں پر دوام اور یہ بڑی ضروری چیز ہے جوشخص چند روز ہ نیکیوں کے بعد پھر ا پنی زندگی کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی بغاوت میں گزارتا ہے وہ اس کے فضلوں کو کبھی حاصل نہیں کر سکتا.اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے رُشد کی ضرورت ہے اور رُشد کے معنی عربی زبان میں یہ ہیں کہ ہدایت پا گیا اور اس پر قائم رہا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہارے لئے ہدایت کے سامان بھی مہیا فرمائے ہیں اور پھر تم ماہ رمضان میں قبولیت دعا کے نمونے بھی دیکھتے ہو لیکن اگر تم مستقل طور پر میری اطاعت کو اختیار نہیں کرو گے تو میرے فضل بھی تم پر مستقل طور پر نازل نہیں ہوں گے اور نہ ہی تمہارا انجام بخیر ہوگا.انجام بخیر اسی کا ہوتا ہے جو اپنی زندگی کے آخری سانس تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھے.الغرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان دو چھوٹی سی آیات میں جو حکمت اور ہدایت کی باتیں بتائی ہیں اس سے جو نتیجے نکلتے ہیں ان میں سے اول تو یہ ہے کہ رمضان شریف کا قرآن مجید کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اس لئے رمضان شریف میں تلاوت قرآن مجید بڑی کثرت سے کرنی چاہیے.ہمارے بعض بزرگ تو ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی ساری عمریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے جمع کرنے میں گزار دیں.لیکن جب رمضان آتا تو وہ حدیث کا سارا کام بستوں میں لپیٹ دیتے اور کہتے کہ اب یہ قرآن مجید پڑھنے کا مہینہ ہے.حتی کہ ان میں سے کئی ایک تو ایک ایک دن میں قرآن کریم کا دور ختم کرتے یعنی رمضان شریف کے ایک مہینے کے اندر وہ تیس دفعہ قرآن کریم کو پڑھتے.دوسری بات یہ کہ جب قرآن ھدی للناس ہے.اور اس میں بَيِّنَاتِ ہدایت بھی درج ہیں اور پھر وہ الفرقان بھی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم تلاوت کرتے ہوئے قرآن کریم کی آیات پر غور کریں اور فکر اور تدبر سے کام لیں اور ساتھ ہی دعا بھی کریں کہ اے اللہ ! ہمیں علم قرآن عطا کر اور اس کے حقیقی معنی سمجھا.

Page 78

خطبات ناصر جلد اول ۶۲ خطبه جمعه ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء د و دو تیسری بات جو بیان ہوئی ہے.وہ فلیصمہ ہے کہ اس مہینے کے روزے رکھے.یہ ایک حکم ہے.کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے اس پر عمل کرنا ضروری ہے.کیونکہ مسلمان کا اتنا تو ایمان ضرور ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے.اور اس میں روزے رکھنے کا حکم ہے.اس لئے روزے رکھنے چاہئیں.چوتھی بات یہ کہ جو شخص سفر پر ہو یا بیمار ہو تو وہ اتنے دن کے روزے بعد میں رکھے.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ جو سفر پر ہو یا بیمار ہو اور وہ روزے نہ رکھ سکے تب وہ ان روزوں کو پورا کرے.تو ان الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص غلطی سے بیماری میں روزہ رکھ لیتا ہے یا سفر میں روزہ رکھ لیتا ہے تو قرآن کریم کی اس آیت پر تبھی وہ کار بند رہ سکتا ہے کہ ان روزوں کے باوجود کسی اور وقت میں روزے رکھے.کیونکہ قرآن کریم نے تو یہ کہا ہی نہیں کہ روزے چھوٹیں تب اور وقت میں روزے رکھو.قرآن کریم نے تو صرف یہ فرمایا ہے کہ جو دن رمضان کے ایسے آئیں جن میں تم بیمار ہو یا سفر میں ہو تو ان دنوں کے روزے تم نے دوسرے دنوں میں رکھنے ہیں.مگر بہا نہ بجو بھی نہیں بننا چاہیے بات یہ ہے کہ سفر کے متعلق بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ” جی آج کل دے سفردا کی اے.بڑا آرام ہے ریل وچ بیٹھے ایتھوں اوتھے پہنچ گئے، لیکن اگر روزہ رکھنا عبادت ہے.تو عبادت خواہ جونسی بھی ہو.اسے ہم نے اس کی پوری شرائط کے مطابق ادا کرنا ہے.مثلاً قرآن کریم کا پڑھنا، نوافل ادا کرنا، رات کو جاگنا ، دن کو بھو کے اور پیاسے رہنا.پھر بری عادتوں کو چھوڑ نا اور کئی نیکیوں کے کرنے کا اپنے رب سے وعدہ کرنا وغیرہ کئی چیزیں ہیں جن کا تعلق رمضان کے مہینے سے ہے.سو اگر رمضان کی عبادت کما حقہ ہم نے ادا کرنی ہے تو یقینی بات ہے کہ چاہے ریل کا سفر ہو.یا ہوائی جہاز کا ہم اس عبادت کو سفر میں یا بیماری میں کما حقہ ادا نہیں کر سکتے.ایک شخص بیماری کی وجہ سے مثلاً نوافل ادا نہیں کر سکتا اور نہ ہی رات کو دعا کرنے کا موقع پاتا ہے.تو ایک طرح اس نے اس عبادت سے پوری طرح فائدہ نہ اٹھا یا صرف بھوکا پیاسا رہنا ہی تو روزے کا مقصد نہیں کہ صبح صبح کسی کو اس کے گھر والے اٹھا ئیں.یا سوئے سوئے اس کے منہ دودھ کا پیالہ یا بارلکس کا ایک گلاس ڈال دیں اور پھر وہ لیٹ جائے اور سارا دن سوتا رہے اور پھر

Page 79

خطبات ناصر جلد اول ۶۳ خطبه جمعه ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء شام کے وقت اس کو افطاری کے لئے اٹھا دیا جائے.یہ کوئی روزہ نہیں نہ یہ رمضان کی عبادت کہلائے گی بہر حال بہانہ بھی نہیں کرنا چاہیے کہ کسی طرح روزے کو چھوڑ دیا جائے.بیماری کے متعلق تو بہانہ بنانا آسان ہے اس لئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے یہ صرف ڈاکٹر ہی فیصلہ دے سکتا ہے کہ یہ بیماری ایسی ہے کہ جس کی وجہ سے روزہ چھوڑا جائے.بعض بیمار ایسے ہوتے ہیں کہ بظاہر چنگے بھلے معلوم ہوتے ہیں چلتے پھرتے بھی ہیں لیکن ڈاکٹر یہ فیصلہ دے دیتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں.مثلاً ایک شخص بلڈ پریشر کا بیمار ہے.اور ڈاکٹر کے نزدیک اس کا روزہ رکھنا اس کے لئے خطرناک ثابت ہو حالانکہ وہ چلتا پھرتا ہوگا.باتیں بھی کرتا ہوگا.اسی طرح بعض ایسی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں کہ ڈاکٹر یہ فیصلہ دے کہ اس بیماری میں روزہ رکھنا مضر نہیں بلکہ مفید ہوگا.پس ہمیں بہانہ بنا کر روزہ نہ چھوڑنا چاہیے.کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں اور نہ کسی کی حالت چھپی ہوئی ہے.ہم اس کے ساتھ فریب یا چالا کی سے کام نہیں لے سکتے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان سے جو کل شروع ہو گا اور اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی توفیق بخشے اور جب اس کی رحمت جوش میں آئے.تو ہمارے گناہوں کی طرف وہ نہ دیکھے.بلکہ اپنی رحمت کے جوش میں ہم پر رحمت کے بعد رحمت فضل کے بعد فضل اور برکت کے بعد برکت نازل کرتا چلا جائے اور وہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کی عبادت پر استقامت کے ساتھ قائم رہیں اور ہمیں ثبات قدم عطا فرمائے اور ایک دفعہ ہمارے دلوں میں اپنی محبت کی چنگاری جگا کر پھر اسے کبھی نہ بجھنے دے بلکہ یہ آگ بڑھتی ہی چلی جائے.اے اللہ ! ایسا ہی کر ! آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۹ جنوری ۱۹۶۶ ، صفحه ۲ تا ۵)

Page 80

Page 81

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء روزوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہماری زندگیاں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہونی چاہئیں خطبه جمعه فرموده ۳۱ دسمبر ۱۹۶۵ء بمقام بیت مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج میں ماہ رمضان کی عبادات فرائض اور نوافل کے متعلق کچھ بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے.b أحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَابِكُمُ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ ج لَّهُنَّ عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ ص مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا القِيَامَ إِلَى الَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَكِفُونَ فِي الْمَسْجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ ايَتِهِ لِلنَّاسِ لعلهم يتقون - (البقرة : ۱۸۸) اس آیہ کریمہ میں روزہ کے متعلق ایک بڑے حسین پیرا یہ میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں صوم (روزہ) کسے کہتے ہیں.اس آیت کی تفسیر یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں روزہ رکھنے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانے کی اجازت ہے.

Page 82

خطبات ناصر جلد اول ۶۶ خطبہ جمعہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء عرب کے دستور کے مطابق اور ان کے خیال کی رو سے روزے کے دنوں میں ایسا فعل رات کو بھی جائز نہیں خیال کیا جاتا تھا فرمایا وہ تمہارے لئے ایک قسم کا لباس ہیں.یعنی تقویٰ کا ایک پیرہن تم ان کے ذریعہ حاصل کرتے ہو.اسی طرح تم بھی ان کے لئے تقویٰ کا پیرہن ہو.گویا تم ایک دوسرے کے لئے تقویٰ اللہ کے بعض تقاضوں کے پورا کرنے کا ذریعہ بنتے ہو.اس کے بعد فرما یا عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمُ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ اَنْفُسَكُمُ الآية کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے یہ حق تلفی کرنے کے معنی نئے ہیں.کیونکہ پہلی بار غالباً حضرت مصلح موعود (رضی اللہ عنہ ) نے تفسیر صغیر میں یہ معنی بیان فرمائے ہیں.ورنہ پہلے مفسر اس کا کچھ اور ہی ترجمہ وتفسیر کیا کرتے تھے.تو فرمایا مجھے معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے اور جہاں تک تسکین نفس کی تمہیں اجازت دی گئی ہے.تم اس سے بھی پر ہیز کرتے تھے.یہ دیکھ کر اس نے اپنے فضل سے اپنا یہ حکم تمہارے لئے کھول کر بیان کر دیا.اور عفا عنكم اس طرح تمہاری حالت کی اصلاح کر دی اور تمہاری عزت کے سامان کر دیئے.9191 یہاں خدا تعالیٰ نے ایک بنیادی اصول کی طرف بھی متوجہ کیا ہے.اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا کی راہوں کی تعیین اگر بندہ اپنے طور پر کرنے لگے.تو وہ اپنے حقوق بھی تلف کر جاتا ہے اور دوسروں کے حقوق کا تو کہنا ہی کیا.اس لئے دین کے معاملہ میں یہ ضروری تھا کہ قرب کی راہوں اور شریعت کے اصول کی تعیین آسمان سے وحی الہی کے ذریعہ کی جائے.ورنہ انسان غلطیاں کرے گا اور اپنے بھی اور دوسروں کے حقوق بھی تلف کر دے گا.تو فر ما یا فالن بَاشِرُوهُنَّ اسی لئے ہم نے تمہارے حقوق کی حفاظت کے لئے اس شریعت کو نازل کیا ہے اور تمہارے فائدے کے لئے ہی سب احکام اُتارے گئے ہیں.پس اب تم بلا خوف لَوْمَةً وَلا ہم اپنی بیویوں کے پاس جاؤ.وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے.اس کی جستجو کرو.وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ کے دو اور معنی بھی ہیں.اوّل بنی کے معنی طلب کرنے کے

Page 83

خطبات ناصر جلد اول ۶۷ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۶۵ء ہوتے ہیں اور کتاب ان فرائض کے مجموعہ کو کہتے ہیں جو وحی کے ذریعہ بطور شریعت انسان کو دیا جاتا ہے.فرما یا کہ تم روزے اس نیت سے رکھو.یا یہ کہ ہم نے روزوں کو تم پر اس لئے فرض کیا ہے کہ تا تم یہ سبق سیکھو کہ کتاب اللہ ( یعنی آسمانی شریعت) کو اور اس کے تمام احکام کو اپنا مطلوب بنانا ہے.گویا وَ ابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللہ لکھ کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرائض تمہارے لئے مقرر کئے ہیں.ان کو اپنا مطلوب اور مقصود بناؤ.(اس کی قدرے زیادہ تفصیل میں آئندہ جا کر بیان کروں گا.جہاں روزہ کی حکمت بیان کی جائے گی ).تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کے دو حصے ہیں.ان دونوں کے درمیان اس بنیادی اصل کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا.کہ ہم نے روزے کو اس لئے فرض کیا ہے تا تم یہ سمجھ لو اور خوب پہچان جاؤ کہ تمہاری ترقیات کے لئے یہ ضروری ہے کہ تم سب فرائض کو اپنی زندگی کا مقصود اور مطلوب ٹھہراؤ.ابتغاء کا ایک اور مفہوم بھی چسپاں ہو سکتا ہے.وہ مفہوم ہے تجاوز کر جانا.یہ تجاوز کبھی بڑا ہوتا ہے کبھی اچھا یہ دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو یہاں فرمایا وَ ابْتَغُوا ما كتب الله لكم کہ اگر تم مقام محمود کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو فرائض تک ہی نہ ٹھہر جانا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھنا اور نوافل کے ذریعہ مقام محمود کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا.اسی لئے رمضان کے روزوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سے نوافل جیسا کہ میں بعد میں بتاؤں گا بیان فرما دیئے ہیں.تو وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ تم فرائض کے علاوہ نوافل کی طرف بھی متوجہ رہنا.اس کے بغیر تمہیں مقام محمود حاصل نہیں ہوسکتا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے اس کے بعد صبح سے رات تک روزوں کی تکمیل کرو.ماہ رمضان کے ساتھ جو فرض تعلق رکھتا ہے وہ ہے روزہ رکھنا.اب یہاں ہمیں یہ بتایا کہ روزہ صبح سے لے کر شام تک رکھنا ہو گا اور اس روزے کے وقت میں جہاں کھانے پینے سے رکنا ہو گا وہاں جنسی تعلقات سے بھی احتراز ضروری ہوگا.

Page 84

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۸ خطبہ جمعہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء ہر مومن بالغ اور عاقل کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزہ رکھے اگر وہ بغیر جائز عذر شرعی روزہ نہیں رکھے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک گنہگا رٹھہرے گا.یہاں میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سحری کے کھانے کو آخری وقت میں زیادہ پسند فرماتے تھے اور افطاری کو پہلے وقت میں.زید بن ثابت سے روایت ہے کہ تَسَخَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلوةِ قُلْتُ كَمْ كَانَ بَيْنَ الْآذَانِ وَالسَّحُورِ قَالَ قَدْرُ خَمْسِينَ أَيَةً - رمضان کے مہینے میں ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کا کھانا کھایا.اس کے بعد آپ نماز فجر کے لئے باہر تشریف لے گئے.ان سے پوچھا گیا کہ سحری کے کھانے اور نماز صبح کے درمیان کتنا فاصلہ تھا ؟؟ انہوں نے کہا بس اتنا ہی جس میں قرآن کریم کی پچاس آیات پڑھی جا سکتی ہوں ( یہ بھی ایک بڑا پیارا طریق بیان ہے کہ وقت کو منٹوں کی بجائے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کے ساتھ بیان کیا جائے.یہ بات بتاتی ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم کا کتنا عشق تھا ؟ ) اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت بلال محتاط قسم کے آدمی ہیں ابھی پونہیں پھوٹتی کہ اذان دینے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اس لئے جب بلال اذان دے رہا ہو تو کھانا پینا نہ چھوڑا کرو اور انتظار کیا کرو کہ حضرت ابن ام مکتوم ( جو ایک نابینا صحابی تھے ) اذان دیں وہ اسی وقت اذان دیتے تھے جب انہیں چاروں طرف سے آوازیں آتیں کہ فجر ہو گئی ہے.اذان دو.ان کی اذان کی آواز جب کان میں پڑے تو پھر سحری چھوڑ دو.کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ ان دونوں اذانوں میں کتنا فرق تھا اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اتنا ہی فرق تھا کہ بلال اذ ان بند کرتے اور ابن ام مکتوم اذان شروع کرتے.اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ سحری کا کھانا بالکل آخری وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا.

Page 85

خطبات ناصر جلد اول ۶۹ خطبہ جمعہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء افطاری کے متعلق آپ کا یہ ارشاد ہے کہ بالکل پہلے وقت میں کر لینی چاہیے.چنانچہ بخاری شریف میں روایت ہے.عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَلُوا الْفِطْرَ - کہ میری اُمت کے لوگ بھلائی کو اس وقت تک حاصل کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ افطاری پہلے وقت میں کیا کریں گے.اس کے ایک لطیف معنی شارحین حدیث نے یہ کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کا مطلب یہ تھا کہ جب تک لوگ میری سنت پر عمل کرتے رہیں گے ان کا بھلا ہوگا.میں پہلے وقت میں افطاری کرتا ہوں اور جب تک میری امت میری سنت کی تابع رہے گی اور میری سنت پر عمل کرے گی اس وقت اللہ تعالیٰ کی بڑی برکتیں بھی اسے حاصل ہوتی رہیں گی.پس اول وقت میں افطاری اور آخری وقت میں سحری کھانا بڑی برکت کا موجب ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے.ہمیں اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے تا اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی برکات سے نوازتا چلا جائے.پھر روزے کی عبادت کے متعلق جب ہم مزید غور سے کام لیتے ہیں تو ہمیں ایک اور لطیف بات معلوم ہوتی ہے.اس عبادت میں ہمیں کھانے پینے سے روکا گیا ہے اور کھانے پینے پر ایک فرد کی بقا کا انحصار ہے کیونکہ کوئی شخص کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا.پھر ہمیں جنسی تعلقات سے بھی روکا گیا ہے اور جنسی تعلقات پر نسل کی بقا کا انحصار ہے.اس کے بغیر نسل انسانی جاری نہیں رہ سکتی.اگر دنیا کے سارے لوگ وہ کیفیت اپنے پر وارد کر لیں جو روزہ کے وقت ایک روزہ دار کی ہوتی ہے تو یقینا یہ دنیا اسی نسل میں ختم ہو جائے.تو بنیادی چیز جس کا اقرار اللہ تعالیٰ نے روزہ کے ذریعہ ہم سے لیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی اور اپنی نسل کی زندگی.اے خدا! تیرے حوالے کرتے ہیں.کیونکہ ہمیں ان چیزوں سے بھی روکا گیا ہے جن پر ہماری زندگی کی بقا کا انحصار ہے اور اس چیز سے بھی روکا گیا ہے جس پر ہماری نسل کی بقا کا انحصار ہے گویا ہم سے خدا تعالیٰ یہ اقرار کرواتا ہے کہ ہمارا سب کچھ تیرا ہو گیا.

Page 86

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء تو اگر کہے تو ہم بھوکے پیاسے مرنے کے لئے تیار ہیں.اور تو اگر چاہے اور تیری رضا اسی میں ہو تو ہماری نسلیں بھی تجھ پر قربان.پس یہ ایک بنیادی منشا ہے جس کے گرد قر آن کریم اور اسلامی شریعت کے تمام احکام چکر لگاتے ہیں اسی وجہ سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ باقی عبادتوں کا تو اپنا اپنا ثواب ہے.لیکن روزہ میرے لئے ہے اور میں خود روزے دار کی جزاء ہوں.اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے.غرض ماہ رمضان کے روزے جو ہم پر فرض کئے گئے ہیں ان کے ذریعہ دراصل ہم سے عملاً یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ ہماری زندگی بھی تیری راہ میں قربان اور ہماری نسل بھی تیری راہ میں قربان اور اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ جس شخص نے روزہ کی اس روح کو نہیں پایا اسے یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ تمہیں بھوکا پیاسا نہیں رکھنا چاہتا.نہ اسے اس سے کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی غرض.پس اس روزے کے پیچھے جو روح ہے اسے پیدا کرو.آپ نے فرمایا :.مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ النُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَه - کہ جو شخص کذب (جھوٹ ) کو نہیں چھوڑتا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے.زور کے ایک معنی حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف مائل ہو جانا‘‘ کے بھی ہیں.تو اس حدیث کے یہ معنی ہوں گے کہ جو شخص جھوٹ کو نہیں چھوڑتا اور حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف میلان رکھتا ہے اور شریعت حقہ کے تقاضوں کی بجائے باطل کے شیطانی تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے تو اسے روزہ رکھنے سے کیا فائدہ؟ خدا کو تو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے.دراصل ترک طعام اور ترک شہوت کے پیچھے جو روح ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ایک مومن کا فرض ہے.

Page 87

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا الصِّيَامُ جُنَّةٌ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَجْهَلْ (ي چھوٹا سا ٹکڑا ہے ایک لمبی حدیث کا ) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ کو تمہارے لئے ڈھال بنایا ہے اور تمہاری نجات کا راز اور تمہاری نسلوں کی بقا کا سر اس بات میں ہے کہ تم اپنی زندگیوں کو اور اپنی نسلوں کی تربیت کو اپنے مولا کی مرضی کے تابع بناؤ.(فَلَا يَرْفُثْ ) اور اپنے منہ سے جاہلیت کی زبان باہر نکال پھینکو اور اپنے جوارح کو زمانہ جاہلیت کی بداعمالیوں سے پاک کرو.(وَلَا يَجْهَلُ) اور آنے والی نسلوں کے لئے نیک نمونہ قائم کرو.اگر تم روزے کو اپنے لئے ڈھال نہیں بناؤ گے تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے کبھی بچ نہیں سکو گے.پس محض روزہ رکھنا کافی نہیں بلکہ اتنی دعاؤں کے ساتھ ، اتنی نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ اور اتنی بے نفسی اور فنا کی حالت میں روزہ رکھنا چاہیے کہ ہمارا روزہ اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت حاصل کر لے.اگر ہمارا روزہ خدا کے حضور قبولیت حاصل نہ کرے تو پھر یہ درحقیقت وہ روزہ نہیں جس کا حکم خدا تعالیٰ نے دیا تھا بلکہ محض بھوک اور پیاس برداشت کرنا ہے.پس روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی گردن اور اپنی نسل کی گردن خدا کی آخری اور کامل شریعت قرآن کریم کے جوئے کے نیچے رکھ دے.اسی لیئے نفلی عبادت جو رمضان سے خاص طور پر تعلق رکھتی ہے.وہ تلاوت قرآن کریم کی کثرت ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فعل اس پر شاہد ہے کہ اس ماہ میں قرآن کریم کو کثرت سے پڑھنا چاہیے حضرت جبرئیل رمضان کے مہینے میں ہر رات زمین پر نزول فرماتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر قرآن کریم کا دور کرتے اور ہر رمضان میں ایسا ہوتا رہا.تا اُمتِ مسلمہ جان لے کہ رمضان شریف میں قرآن کریم بکثرت پڑھنا چاہیے.پھر چونکہ روزے کی حکمت اور اصل غرض یہ ہے کہ انسان کو یہ تعلیم دی جائے کہ وہ اپنی گردن خدا کی مرضی کے جوئے تلے رکھ دے اور خدا کی مرضی کا علم ہمیں قرآن کریم کے سوا ہو نہیں سکتا تھا.اس لئے ضروری ہوا کہ قرآن کو پڑھا جائے اور پڑھنے سے مراد صرف الفاظ ہی کی تلاوت نہیں بلکہ جسے خدا توفیق بخشے اور علم و فراست عطا فرمائے اس کا فرض ہے کہ وہ اس کے مطالب پر غور کرے اور وہ پڑھے تو اس نیت سے پڑھے کہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے.اگر نیت

Page 88

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۲ خطبہ جمعہ ۳۱ دسمبر ۱۹۶۵ء یہ ہو کہ محض الفاظ کو دہرا دینا ہے عمل ضروری نہیں تو ایسا شخص قرآن کریم سے کوئی برکت حاصل نہیں کر سکتا.حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں میں بعض کمزوریاں دیکھیں تو فرمایا کہ قرآن کریم تو اس لئے نازل ہوا تھا کہ اس پر عمل کیا جائے مگر بعض لوگوں نے اس کی تلاوت کو ہی سارا عمل سمجھ لیا ہے یعنی سمجھتے ہیں کہ صرف یہ کافی ہے کہ قرآن کریم کو پڑھ لیا جائے اور یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ جو احکام قرآن کریم نے ہمیں بطور اوامر یا نوا ہی دیئے ہیں ان پر عمل بھی کیا جائے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ حدیث بھی منسوب ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا تھا أَفْضَلُ عِبَادَةِ أُمَّتِى تِلَاوَةُ الْقُرْآنِ کہ میری اُمت کی سب سے بڑی فضیلت رکھنے والی عبادت تلاوت قرآن ہے.مذکورہ حدیث کے یہی معنی ہیں کہ قرآن کریم کو پڑھا جائے پھر اس کو سمجھا جائے اور پھر سمجھ ، طاقت اور استعداد کے مطابق اس پر عمل بھی کیا جائے.بہر حال یہ ایک نفلی عبادت ہے جس کا رمضان کے ساتھ خاص تعلق ہے.ایک اور نفلی عبادت جس کا رمضان سے تعلق ہے وہ رمضان میں رات کو اٹھنا اور نماز تہجد ادا کرنا ہے.بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:.مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ کہ جو شخص بھی رمضان کی راتوں میں اُٹھتا اور نوافل ادا کرتا ہے اور اپنے رب کے حضور عاجزی کے ساتھ جھکتا اور اخلاص اور تضرع کے ساتھ اس سے یہ دعا مانگتا ہے کہ وہ خدائے غفور و رحیم اس کی خطاؤں کو معاف کرے اور روحانی ترقیات کے دروازے اس پر کھول دے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اس کے سارے پچھلے گناہ جو اس نے اس وقت تک کئے ہوں معاف کر دیئے جائیں گے.یہاں میں مختصراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کے متعلق کچھ بتا دینا چاہتا ہوں.

Page 89

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء کیونکہ بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو ان تفاصیل کا علم نہیں رکھتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً با قاعدگی کے ساتھ گیارہ رکعت بمع وتر پڑھا کرتے تھے پھر احادیث میں اختلاف ہے.بعض میں ہے کہ آپ دو دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر تے اور آخر میں ایک رکعت پڑھ لیتے.لیکن بعض روایات میں ہے کہ چار چار رکعتوں کے بعد سلام پھیر تے.پھر تین رکعتیں پڑھ لیتے (وتر کی) اور بعض روایات میں گیارہ سے کم رکعتیں پڑھنے کا ذکر بھی ہے.تو میں عام طور پر گیارہ رکعتیں ، اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بعض روایات میں جو اختلاف ہے وہ وقت کے تقاضوں کی وجہ سے ہوسکتا ہے لیکن عام روایت یہی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ نوافل رات کے پچھلے حصہ میں پڑھا کرتے تھے.آپ دوست جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش ان حجروں میں تھی جن کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے.ایک دفعہ آپ پچھلی رات نماز تہجد کے لئے مسجد میں تشریف لے آئے کچھ لوگوں نے جو حضور کو دیکھا تو انہوں نے بھی حضور کے پیچھے نماز شروع کر دی.اگلے روز کچھ اور لوگوں کو پتہ چلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز تہجد مسجد میں ادا کرتے ہیں.تو وہ بھی آگئے.تیسری یا چوتھی رات مجمع اور بھی بڑھ گیا.یہاں تک کہ کہتے ہیں کہ مسجد کھچا کھچ بھر گئی.اس رات آپ باہر نہ نکلے اور اپنے حجرے میں نماز ادا کر لی اور صبح فرمایا کہ اگر اس طرح روایت اور سنت بن جاتی کہ تہجد کے وقت نماز باجماعت ادا کی جائے تو میری اُمت کے بہت سے لوگوں کے لئے یہ مصیبت ہو جاتی.کیونکہ فرائض میں سے شمار کی جانے لگتی.( کس قدر ہمارا خیال رکھنے والی تھی وہ مقدس روح ؟؟ اللہ تعالیٰ کے ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں سلام ہوں اس پر !!! ) فرمایا آج میں اس لئے نہیں آیا کیونکہ یہ نوافل ہیں فرائض میں سے نہیں.چنانچہ بعد میں اسی پر عمل ہوتا رہا.حتی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ بھی گزر گیا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ کا بھی ایک حصہ گزر گیا.ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ چکر لگا رہے تھے آپ نے عشاء کے بعد دیکھا کہ کوئی شخص

Page 90

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۴ خطبہ جمعہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء اکیلے نماز نفل ادا کر رہا ہے اور ایک جگہ چار پانچ آدمی اکٹھے ہو کر ایک قاری کے پیچھے نماز ادا کر رہے.کچھ اور لوگ ہیں منٹ آدھ گھنٹہ پیچھے آئے اور انہوں نے علیحدہ نماز شروع کر دی.یہ دیکھ کر آپ نے خیال فرمایا کہ یہ لوگ مختلف ٹولیوں میں پہلے وقت جو نماز ادا کر رہے ہیں تو کیوں نہ میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں؟ چنانچہ آپ نے ایک قاری کو امام مقرر کیا اور فرمایا کہ اگر تم نے اصل وقت چھوڑ کر ہی یہ نوافل ادا کرنے ہیں تو اپنی اجتماعی روح کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قاری کے پیچھے آکر نماز ادا کر لیا کرو اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ بہتر وقت وہی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ نوافل ادا فر ما یا کرتے تھے یعنی رات کا پچھلا پہر.تو پہلے تہجد کی نماز رات کے پچھلے حصہ میں پڑھی جاتی لیکن جائز ہے کہ رات کے پہلے حصہ میں بھی یہ نوافل ادا کر لئے جائیں اور اصل یہی ہے کہ انسان نوافل کو علیحدہ تنہائی میں ادا کرے کیونکہ نوافل کی بہت سی برکات کا تعلق خاموشی تنہائی اور پوشیدگی سے ہے اور جو شخص واقعی اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والا ہو وہ اپنے اس پیار کا اظہارلوگوں کے سامنے نہیں کیا کرتا.اس لئے یہ نماز گھر میں تنہائی میں پڑھنی چاہیے.لیکن اگر کوئی شخص اس میں دقت محسوس کرے تو پورے ثواب سے محروم ہونے کی بجائے یہ بہتر ہے کہ وہ عشاء کے بعد ان نوافل کو ادا کرے اس طرح ایک حد تک اسے بھی ثواب حاصل ہو جائے گا.ایک اور چیز جس کا تعلق ماہ رمضان سے ہے وہ لیلتہ القدر کی تلاش ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں لیلتہ القدر کو تلاش کرو.اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِثْزَرَةً وَاَحْيِي لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ اَهْلَهُ کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آجا تا تو آپ اپنی کمر کس لیتے یعنی معمول سے زیادہ مجاہدات کے لئے مستعد اور تیار ہو جاتے.گودیسے بھی آپ بڑے اہتمام سے رات کو نوافل ادا کیا کرتے لیکن جب رمضان کے آخری دس روز شروع ہو جاتے تو آپ مجاہدات کا اور زیادہ اہتمام فرماتے.

Page 91

خطبات ناصر جلد اول ۷۵ خطبہ جمعہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء وَاحْيِي لَيْلَهُ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رات کو زندہ رکھتے.اس میں ہمیں اشارہ یہ بتایا گیا ہے کہ زندگی کی وہی گھڑیاں زندگی کہلانے کی مستحق ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں گزریں.جو زندگی اس کی اطاعت میں نہ گزرے بلکہ اس سے بغاوت میں گزرے وہ تو موت سے بھی بدتر ہے.لَيْلَةُ الْقَدْرِ کے متعلق یا د رکھنا چاہیے کہ علماء نے اس کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں میں اس وقت تفصیل میں نہیں جا سکتا بہر حال وہ ایک رات ہے جس میں خدائے تعالیٰ نے ایک ایسی گھڑی مقدر کی ہے کہ جس میں اگر کسی کو صحیح رنگ میں دعا کرنے کی توفیق مل جائے اس کی نیت بھی خالص ہوا اور محض خدا تعالیٰ کی رضا مطلوب ہو اور دعا قبول بھی ہو جائے تو وہ گھڑی اتنی عظیم الشان ہے کہ خدائے تعالیٰ کی تقدیروں کو بھی بدل دیتی ہے.تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کی جو آخری دس راتیں ہیں ان میں اس گھڑی کی تلاش کرو.اور اور امور سے توجہ ہٹا کر معمول سے زیادہ خدائے تعالیٰ کی عبادت میں لگ جاؤ تا خدا کے فضل سے تمہیں لیلۃ القدر کی یہ گھڑی نصیب ہو.ایک اور نفلی عبادت جس کا تعلق رمضان سے ہے وہ صدقہ وخیرات ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بخاری میں یہ ذکر ہے کہ آپ بڑے سخی تھے اور بڑی سخاوت سے کام لیتے تھے.دراصل جس وجود کا سارا بھروسہ اور تو کل اپنے اس رب پر ہو جس کے خزانے میں کبھی کوئی کمی نہیں آتی اس کو اس بات کا فکر نہیں ہوتا کہ میرے گھر میں کوئی چیز ہے یا نہیں.کیونکہ اس کی تمام ضروریات کا کفیل تو خود اس کا خدا ہوتا ہے.پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں گان أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ کہ ماہ رمضان میں حضور اپنے معمول سے بھی زیادہ سخاوت برتا کرتے تھے.پس ہمیں بھی رمضان میں صدقہ و خیرات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے.فی الحقیقت یہ سبق ہمیں خودرمضان کے ذریعہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے جو بھائی بھو کے اور پیاسے ہیں ان کا ہم پر حق ہے کہ ان کی مدد کریں اور ان کی طرف توجہ کریں اور زیادہ سے زیادہ صدقہ دیں.

Page 92

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۶ خطبہ جمعہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۶۵ء نیز دعاؤں پر بھی بہت زور دینا چاہیے اور قرآن شریف کی تلاوت کثرت سے کرنی چاہیے اور یہ بھی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمیں رمضان کی آخری دس راتوں میں لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی خاص گھڑی میسر آجائے اور خدا کرے کہ ہم اس گھڑی میں صرف اپنی ذات کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کے دین کے لئے بھی اس سے مانگیں اور اس گھڑی میں ہمارے منہ سے یہ الفاظ نکل رہے ہوں کہ اے خدا! اسلام کا غلبہ تو مقدر ہو چکا ہے لیکن تو ہم پر یہ فضل فرما کہ ہم اپنی زندگیوں میں اپنی آنکھوں سے اسلام کو ساری دنیا پر غالب ہو تادیکھ لیں.آمین.خطبہ ثانیہ کے بعد نماز شروع ہونے سے قبل فرمایا.دوست یہ یادرکھیں کہ پاکستان کے استحکام کا جو تعلق دعاؤں کے ساتھ ہے اس کی ذمہ داری ہم پر ڈالی گئی ہے.اس وقت ایسے آثار ظاہر ہو رہے ہیں کہ خدانخواستہ کہیں ہمارے ملک میں قحط نہ پڑ جائے.کیونکہ بڑی دیر سے بارشیں نہیں ہو رہیں جمعہ میں قبولیت دعا کی ایک گھڑی کی بشارت ہمیں دی گئی ہے.سو دوست کثرت سے نماز میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ، ہمارے ملک پر رحم کرے اور ہمیں قحط کے خطرہ سے محفوظ رکھے اور ہر رنگ میں رحمتوں کی بارش ہم پر نازل کرے اور ہماری زمینوں کو یہ قوت بخشے کہ اس بارش کو قبول کرے.بہترین کھیتیاں ہمارے لئے اُگائے.میں دوسری رکعت کے پہلے سجدہ میں خاص طور پر بارش کے لئے دعا کروں گا.آپ دوست بھی میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہو جائیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ /جنوری ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 93

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء جماعت کے تمام اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی جد و جہد کو منظم کریں خطبہ جمعہ فرموده ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.عزیز و! یہ سالِ نو کا پہلا جمعہ ہے جس میں میں آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں.میری طرف سے سال نو کی مبارک باد قبول کریں.آپ بھی جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں اور وہ تمام احمدی احباب بھی جو اکناف عالم میں پھیلے ہوئے ہیں اور قریہ قریہ میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں.میری یہ مبارک با درسمی طور پر نہیں.یہ تکلیف دہ خیال میرے دل کی گہرائیوں میں یکم جنوری سے ہی موجزن رہا ہے کہ گزشتہ سال جو گزرا ہے.وہ ہم پر بڑا ہی سخت سال تھا.اس نے ہمارے دلوں کو بری طرح زخمی کیا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمارے زخمی دلوں پر تسکین کا پھا یہ رکھا اور اس نے ہمیں محض اپنے فضل سے اس صبر کی تو فیق عطا فرمائی.جس سے وہ راضی اور خوش ہو جایا کرتا ہے.اس لئے میری یہ مبارک باد رسمی طور پر نہیں بلکہ میں یہ مبارک بادا اپنے دل کی گہرائیوں سے پیش کرتا ہوں اور پھر برکت کے ہر معنی کے لحاظ سے پیش کرتا ہوں جب ہم کسی دن.کسی زمانہ یا کسی سال کو مبارک کہتے ہیں تو اس سے ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ان تمام معانی میں جن میں یہ لفظ اچھے طور پر بولا اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے.وہ دن اور وہ

Page 94

خطبات ناصر جلد اول زمانہ اور وہ سال ہم سب کے لئے برکتوں والا ہو.خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء برکت کے ایک معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی کے جو سامان اس کے بندوں کے لئے پیدا ہوئے ہیں.ان کو دوام اور قیام حاصل ہو جائے.پس میری ”مبارک ہو“ کی دعا یوں ہوئی کہ خدا تعالیٰ کرے کہ وہ تمام برکتیں (خیر اور بھلائی کی چیزیں) نعمتیں اور رحمتیں جو اس نے جماعت احمدیہ کے لئے مقدر کر رکھی ہیں.اس سال نو میں ہم ان کے نظارے ہر آن دیکھتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب اللہ تعالیٰ نے ایک مصلح موعود کی بشارت عطا فرمائی تھی تو اس نے اس پیشگوئی کے اندر جماعت احمدیہ کو بھی بہت سی بشارتیں دی تھیں.سو اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں جماعت احمدیہ سے جو وعدے کئے تھے.ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سال کو ان معنوں میں بھی با برکت کرے کہ وہ آپ کے نفوس اور اموال میں برکت ڈالے اور آپ سے ہر آن خوش رہے وہ آپ کو بھولے نہیں.وہ آپ کو فراموش نہ کرے.بلکہ اس کی یاد میں آپ ہمیشہ حاضر رہیں اور جس طرح ایک دوست دوسرے دوست کو محبت کے ساتھ یاد کرتا ہے.اسی طرح ہمارا آقا اور ہمارا مالک محض اپنے فضل سے ہمارے ساتھ دوستانہ معاملات کرتا چلا جائے.برکت کے دوسرے معنوں کی رو سے ہم اس دعا میں یہ زیادتی بھی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ان عنایات میں زیادتی کرتا چلا جائے.کیونکہ برکت کے ایک معنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غیر محسوس طور پر زیادتی کے بھی ہیں.برکت کے تیسرے معنوں کے رو سے یہ دعا یوں بھی ہو گی کہ خدا کرے کہ آپ اور میں ان نیکیوں پر ثابت قدم رہیں جو خدا تعالیٰ کو محبوب اور پیاری ہیں اور روحانی جہاد کے اس میدان میں جس کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے آج ہمارے لئے کھولا ہے اور جس میدان میں اس نے ہمیں لا کھڑا کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرنے اور آپ کی اطاعت کا دعوی کرنے کے بعد ہم پیٹھ نہ دکھا ئیں اور ہمیشہ ثابت قدمی کے ساتھ شیطان کا مقابلہ کرتے چلے جائیں.پس یہ سال نو مبارک ہو آپ کے لئے بھی اور میرے لئے بھی ان معنوں میں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان

Page 95

خطبات ناصر جلد اول ۷۹ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء اعمالِ صالحہ کے بجالانے کی توفیق دیتا چلا جائے کہ جن کے نتیجہ میں (اگر اور جب وہ انہیں قبول کر لیتا ہے تو ) اس کی نعمتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں.یہ اعمالِ صالحہ ( یا خدا تعالیٰ کو محبوب اور مرغوب اعمال ) دو قسم کے ہیں.ایک اعمال صالحہ تو وہ ہیں جو ہم انفرادی طور پر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بجا لاتے ہیں.ہم نمازوں کو ادا کرتے ہیں.ہم رات کی تنہائی اور خاموشی میں اپنے رب کے حضور عجز اور انکسار کے ساتھ جھکتے ہیں اور اس سے اپنے مطالب کے حصول کے لئے دعائیں مانگتے ہیں.اسی طرح سینکڑوں اور اعمال ہیں جن کا ہماری ذات کے ساتھ تعلق ہے ہم تقویٰ کی بار یک راہوں کی تلاش میں بعض کام کرتے ہیں یا بعض کو چھوڑ دیتے ہیں ایسے اعمالِ صالحہ ایک فرد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں لیکن کچھ اعمال صالحہ اجتماعی حیثیت کے ہوتے ہیں.یعنی تمام جماعت کو کچھ کوششیں ایسی کرنی پڑتی ہیں کہ جن کے بغیر الہی جماعتیں اور الہی سلسلے اپنے مطالب اور مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتے.یہ ساری جد و جہد بنیادی طور پر شیطان اس کے وسوسوں اور اس کے پھیلائے ہوئے باطل عقائد کے خلاف ہوتی ہے لیکن اس دنیا میں وہ مختلف شکلیں اختیار کرتی اور مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتی ہے.اسی وقت شیطان دجل کی شکل میں حق کے خلاف نبرد آزما ہے اور جماعت احمد یہ جو روحانی جنگ لڑ رہی ہے وہ شیطان کے مقابلہ میں ہی لڑی جارہی ہے.اس جنگ کو الہی نوشتوں میں حق و باطل کی آخری جنگ قرار دیا گیا ہے اور اس میں فتح حاصل کر لینے کے بعد اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا اور اللہ تعالیٰ کی توحید تمام بنی نوع انسان میں پھیل جائے گی اور دنیا کے تمام ملک اور اقوام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہو جائیں گی.غرض یہ میدان ہے جس میں ہماری جد و جہد جاری ہے لیکن ہمارے وسائل اور اسباب بہت محدود ہیں اور ہمارے مقابلہ میں دنیا کے اسباب اور طاغوتی طاقتیں بہت زیادہ اور دنیوی نقطہ نگاہ سے بہت بھاری ہیں ہاں اللہ تعالیٰ نے ہماری حقیر کوششوں میں جہاں اپنے فضل سے پہلے ہی برکت رکھ دی ہے وہاں اس نے ہمیں یہ گر بھی سکھایا ہے کہ اگر کسی طاقت کو جو کمزور ہے صحیح طور پر کام میں لایا جائے.پھر کوشش میں ایک تنظیم ہو اور جدو جہد منظم رنگ رکھتی ہے اور کسی منصوبہ بندی اور

Page 96

خطبات ناصر جلد اول ۸۰ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء پلان (Plan) کے مطابق ہو رہی ہو تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتائج ان اعمال کے مقابلہ میں بہت اچھے نکلتے ہیں جو غیر منظم طور پر اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے کئے جاتے ہیں.میرے ایک پیارے عزیز نے میری توجہ حضرت مصلح موعود (رضی اللہ عنہ ) کے ۱۹۵۲ء کے پہلے خطبہ جمعہ کی طرف مبذول کرائی ہے جس میں حضور نے جماعت اور جماعتی اداروں کو ایک منظم جد و جہد اور منصوبہ بندی کی طرف متوجہ فرمایا ہے.حقیقت یہی ہے کہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر اور اپنی کوششوں کو منظم کرنے کے بغیر ہم اپنی کامیابیوں کی رفتار کو تیز سے تیز تر نہیں کر سکتے.اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے کاموں کو اس طرح منظم کرنے کی کوشش کریں کہ جماعت کی طاقت کا ایک ذرہ بھی ضائع نہ ہو بلکہ ہمارے سامنے ایک وقتی مقصد اور او بجیکٹ (Object) ہو جسے ہم معین وقت میں حاصل کرنے کی کوشش کریں.لمبے وقت کے لئے تو یہ صحیح ہے کہ ہمارا مقصد حیات اور سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض ہی یہ ہے کہ طاغوتی اور شیطانی طاقتوں پر غلبہ حاصل کیا جائے اس غرض کے لئے ایک لمبے عرصہ تک جدو جہد کی ضرورت ہے.ہوسکتا ہے کہ اس میں ۸۰ سال لگ جائیں.۱۰۰ سال لگ جائیں.۱۵۰ سال لگ جائیں.دوسو سال لگ جائیں یا خدا جانے کتنا عرصہ لگ جائے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی عقل و دماغ اور تصور اس لمبے زمانہ کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے بعض چھوٹے چھوٹے منصوبے بنا لیتے ہیں.یعنی وہ تجویز کر لیتے ہیں کہ مثلاً اس سال میں ہم اپنے مقصد کا اتنا حصہ ضرور حاصل کر لیں گے اور پھر اس کے حصول کے لئے وہ اپنی پوری کوشش صرف کر دیتے ہیں اور پھر اس سال جس حد تک وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی حاصل کر لیں اگلے سال وہ زیادہ تیزی کے ساتھ آگے قدم بڑھانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۲ء میں بھی اور اس کے علاوہ اور مواقع پر بھی جماعت کو بار بار نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اپنے کاموں میں تنظیم پیدا کرے.انہیں منظم شکل دے اور انہیں کسی منصوبہ بندی اور پلاننگ (Planning) کے مطابق کرے ورنہ ہماری رفتار ترقی کبھی تیز نہیں ہوسکتی سوحضور کی اس تاکیدی نصیحت کے ساتھ آج میں اپنے بھائیوں کو سالِ نو کی مبارک باد دیتا ہوں

Page 97

خطبات ناصر جلد اوّل ΔΙ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء اور ان کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ برکت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل ہم پر پہلے سے زیادہ نازل ہوں اور اس میدان مجاہدہ میں اور میدانِ جہاد میں جس میں ہم قدم رکھ چکے ہیں.ہمارے قدم آگے ہی بڑھتے چلے جائیں وہ پیچھے کی طرف کبھی نہ اٹھیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری کوششوں میں تنظیم پائی جائے اور ہم ایک منصوبہ بندی اور پلان (PLAN) کے ماتحت اپنی جدو جہد کو جاری رکھنے والے ہوں.اس اصول کے مطابق میں جماعت کے تمام اداروں سے یہ کہتا ہوں کہ آئندہ چند ہفتوں کے اندر اندر وہ سال نو میں کام کرنے کا ایک منصوبہ تیار کریں اور اسے میرے سامنے رکھیں جسے میں سال کے دوران حسب ضرورت جماعت کے دوستوں کے سامنے پیش کرتا رہوں گا اور اسے پورا کرنے کی طرف ان کی توجہ مبذول کراتا رہوں گا لیکن چونکہ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور حضور کے وصال سے پہلے ایک لمبا عرصہ جماعت پر ایسا بھی گزرا ہے جس میں حضور اپنی بیماری کی وجہ سے ان تفاصیل میں جماعت کی پوری نگرانی نہیں کر سکے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض ہے کہ میں مختلف اداروں کو ان کے بعض کاموں کی طرف مختصراً توجہ دلا دوں.تفاصیل وہ اپنے طور پر طے کرلیں.تحریک جدید کو میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دس پندرہ روز سے یا یوں سمجھ لو کہ جلسہ سالانہ کے آخری دن سے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے اور میں نے اس پر کافی غور کیا ہے اور معلومات بھی حاصل کی ہیں اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس وقت افریقہ میں دو ملک ایسے پائے جاتے ہیں کہ جن کے رہنے والے لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے اسلام اور احمدیت کی قبولیت کے لئے ایک جذبہ اور تڑپ پیدا کر دی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی روحانی پیاس کو بجھانے کے لئے ان میں زیادہ سے زیادہ مبلغ ، ڈاکٹر اور استاد بھجوائیں اور اپنی کتب اور رسالے ان تک پہنچائیں مجھے امید ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی جلدی ان ملکوں میں اسلام اور احمدیت مضبوطی سے قائم ہو جائیں گے انشاء اللہ میں نے ایک دوست کو بلا کر تحریک جدید کو پہلے بھی پیغام بھجوایا ہے اور اب جماعت کے احباب کو آگاہ کرنے کے لئے خطبہ

Page 98

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۲ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء میں بھی بتا رہا ہوں کہ افریقہ میں علاوہ اور سکیموں اور منصوبوں کے کہ جو وہاں اس وقت نافذ کئے جانے ضروری ہیں.ہمیں ان دونوں ملکوں کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ نے چاہا تو ہم بہت جلدی وہاں اچھے نتائج نکلنے کی امید کرتے ہیں.پس جہاں تحریک جدید سال نو کے لئے ایک منصوبہ تیار کرے گی وہاں میں جماعت کو بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ کاغذی منصوبہ بندی کوئی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کیا کرتی.اگر ہم نے غور کرنے کے بعد یہ سمجھا کہ ان دو ملکوں میں ہیں یا تیس مبلغ ، ڈاکٹر اور استاد بھجوانے ضروری ہیں تو آپ کا فرض ہو گا کہ ہمیں اتنی تعداد میں مناسب آدمی مہیا کریں.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر وقف کی ایک عام تحریک کی تھی اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ دوست مختلف رنگوں میں بڑی کثرت سے زندگیاں وقف کر رہے ہیں اور بعض دوستوں نے مجھے اس سلسلہ میں بڑے ضروری اور مفید مشورے بھی دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزاء دے بہر حال ہمیں عنقریب کام کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد کی ضرورت پڑنے والی ہے اور جماعت کے مستعد، مخلص اور خوش قسمت نو جوانوں کو اپنی اپنی جگہ اس پیشکش کے لئے تیار رہنا چاہیے تا جب ہم ضرورت پڑنے پر آواز دیں تو یہ نہ ہو کہ دنیا کی نگاہ میں بھی اور اپنے دلوں میں بھی ہم ایک مضحکہ خیز حرکت کرنے والے ثابت ہوں اور دنیا یہ خیال کر کے کہ ہم کاغذی منصوبے بنا رہے ہیں اور قوم وہ قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں جو ان منصوبہ بندیوں کے نتیجہ میں اسے دینی ضروری ہیں.غرض اس وقت بہت جلد افریقہ میں اسلام کی جڑوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آئندہ زمانہ میں اس نے بین الاقوامی سیاست میں بھی ایک اہم کردار ادا کرنا ہے.اس وقت مسلم ممالک میں یا اسلام کی طرف منسوب ہونے والی مختلف حکومتوں میں بسنے والے لوگوں پر اکثر جگہ جو مظالم ہورہے ہیں ان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں اسلام کی آواز میں اتنی طاقت نہیں رہی جو مسلمانوں کو ان مظالم سے بچانے اور انصاف کے حصول کے لئے ضروری ہے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم کرے.ان کی آنکھیں کھولے اور ان کی ان راستوں کی طرف رہنمائی کرے جن پر چلے بغیر وہ اپنے مستقبل کو روشن نہیں کر سکتے کیونکہ محض اسلام کا لیبل لگا لینا نے ہی کافی نہیں.بلکہ ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی اس آواز پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 99

خطبات ناصر جلد اول ۸۳ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء نے تمام مسلمانوں کو بالخصوص اور تمام بنی نوع انسان کو بالعموم مخاطب کر کے بلند کی تھی.لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ میں داخل ہو جائیں اور وہ قربانیاں پیش کریں جو خدا تعالیٰ ان سے اس وقت لینا چاہتا ہے.صدر انجمن احمدیہ کے مختلف اداروں کو بھی اپنے کاموں کی طرف توجہ کرنی چاہیے مثلاً اصلاح وارشاد کا کام ہے.تربیت کا کام ہے ہم ان کاموں میں ایک حد تک لکیر کے فقیر بن چکے ہیں حالانکہ وہ قو میں جو اپنے انقلابی زمانہ میں سے گزر رہی ہوتی ہیں وہ لکیر کے فقیر نہیں بنا کرتیں اور نہ وہ لکیر کے فقیر بن کر کبھی کامیاب ہوئی ہیں.ہمیں ہر وقت بیدار اور چوکس رہنا چاہیے اور ہر شہر، ہر علاقہ اور ہر جگہ کے متعلق پہلے یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ وہاں کس قسم کے اصلاح وارشاد کے کام کی ضرورت ہے اور پھر وہاں اس کے مطابق کام کرنا چاہیے.اسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں جن کی طرف نظارت اصلاح وارشاد کو توجہ کرنی چاہیے.نظارت تعلیم اور نظارت امور عامہ کو بھی باہم مل کر ایک ضروری کام کرنا ہے اور اس کے متعلق منصو بہ بندی کرنا ہے اور وہ ضروری کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے احمدی بچوں کے دماغوں میں جلاء پیدا کی ہے اور جب مختلف تعلیمی یو نیورسٹیوں کے نتائج نکلتے ہیں تو احمدی نوجوان اپنی نسبت کے مقابل بہت زیادہ تعداد میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والے ہمیں نظر آتے ہیں.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی دین ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جس میں ہماری کوششوں کا کوئی دخل نہیں.اگر ہم اپنی غفلت کے نتیجہ میں اچھے دماغوں کو ضائع کر دیں تو اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم نہیں ہوگا.پس جو طلباء ہونہار اور ذہین ہیں ان کو بچپن سے ہی اپنی نگرانی میں لے لینا اور انہیں کامیاب انجام تک پہنچا نا جماعت کا فرض ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض نہایت ذہین بچے تربیت کے نقص کی وجہ سے سکول کے پرائمری اور مڈل کے حصوں میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں.ان میں آوارگی اور بعض دیگر بری عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف وہ خود بلکہ جماعت بحیثیت جماعت خدا تعالیٰ کے فضلوں اور نعمتوں کا وہ پھل نہیں کھا سکتی جو اچھے دماغ پیدا کر کے خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر کیا ہے کیونکہ ہم ان دماغوں کو بوجہ عدم توجہ سنبھالتے نہیں بلکہ ضائع کر دیتے ہیں اور اس طرح بعد میں نقصان اٹھاتے ہیں اسی طرح

Page 100

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۴ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء بعض اچھے دماغ محض اس وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں کہ وہ غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں ہوتی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں اور جماعت بھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتی.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ناشکری کرتے ہوئے ان قابل ذہنوں کو ضائع کر دیتے ہیں.پس ہراچھا دماغ رکھنے والے طالب علم کو جو جائزہ لینے کے بعد اس قابل معلوم ہو کہ اگر اسے اعلیٰ تعلیم دلائی جائے تو اسلام اور احمدیت کا نام روشن کرنے والا ثابت ہوسکتا ہے سنبھالنا جماعت کا فرض ہے.جماعت کو اس پر نہ صرف روپیہ خرچ کرنا چاہیے بلکہ اس کے لئے دعا ئیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اسے راہ راست پر قائم رکھے اور اس کے دماغ میں پہلے سے بھی زیادہ جلاء پیدا کرتا چلا جائے اور اسے الہام کے ذریعہ نئے نئے مسائل کے حل کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے.پھر بعض اچھے دماغ اس وجہ سے بھی ضائع ہو جاتے ہیں کہ جب وہ اپنی تعلیم ختم کر لیتے ہیں تو انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اپنی آئندہ زندگی میں کس راستہ کو اختیار کریں اس لئے جماعت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کی ان کی آئندہ زندگی کے پروگرام بنانے میں مدد کرے.بہت اچھے دماغ ، اچھے دماغ ، درمیانے دماغ اور نسبتا کمزور دماغ سارے ہی اس بات کے حقدار ہیں کہ جماعت ان کی راہ نمائی کرے اور جہاں جہاں وہ زندگی کے کاموں میں لگ سکتے ہیں وہاں انہیں لگوانے میں مدد کرے کیونکہ ہر وہ نو جوان جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی کام کرے اگر وہ بروقت کام پر نہیں لگتا اور جماعت بھی اسے کسی کام پر لگوانے میں مدد نہیں دیتی تو گویا ہم اسے خود پکڑ کر شیطان کی گود میں لا بٹھاتے ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ برکا ررہنے والے لوگوں پر شیطان حملہ کرتا ہے اور انہیں اپنا آلہ کار بنالیتا ہے.پھر ایسا نو جوان جو تعلیم حاصل کر لینے کے بعد کام پر نہیں لگتا اور بریکاررہتا ہے نہ صرف اپنے خاندان کے لئے ایک مصیبت بن جاتا ہے بلکہ اس کی بریکاری سے جماعت بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکتی.کیونکہ جو نو جوان تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جلد ہی کام پر لگ جاتا ہے وہ کمائی کرنا شروع کر دیتا ہے اور اپنی اس کمائی میں سے غلبہء اسلام کی جدوجہد میں کنٹری بیوٹ (Contribute) کر رہا ہوتا ہے.پھر جب وہ کام پر لگتا ہے تو اس کا ایک ماحول بنتا

Page 101

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۵ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء ہے اور اس کے اس ماحول میں اس کا کردار اور اس کے اخلاق اثر انداز ہور ہے ہوتے ہیں اور اس طرح وہ خاموشی کے ساتھ اپنا نمونہ دکھا کر یا گفتگو کے ذریعہ احمدیت کا اثر اور نفوذ بڑھانے والا ہوتا ہے.غرض وہ بچے جو تعلیم سے فارغ ہو کر کام پر نہیں لگتے اور بریکار پھرتے رہتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ جماعتی کاموں میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتے بلکہ یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ ان کے دماغ میں آوارگی آجائے اور وہ شیطان کا آلہ کار بن جائیں.پس جماعت کے نو جوانوں کی اخلاقی ، اقتصادی اور دینی حالت کی حفاظت کرنا نظارت امور عامہ کا کام ہے.اس کے متعلق اسے پوری اطلاعات رکھنی چاہئیں اور ایسا منصوبہ بنانا چاہیے کہ مختلف دماغ جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں وہ اپنے مخصوص راستوں پر چل کر آئندہ زندگی میں کامیاب ہوں.اگر نظارت کو ان راستوں کا علم نہیں جو ہماری قومی ترقیات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں تو وہ جماعت کے نو جوانوں کی مناسب راہ نمائی نہیں کر سکتی.مثلاً بہت سے دماغ ایسے ہوں گے جو مثال کے طور پر ب.ج.د.شعبوں میں جاسکتے ہیں اور ان شعبوں کے متعلق نظارت کو معلومات حاصل نہیں اس لئے وہ انہیں ا.و.کی شعبوں میں کام کرنے کا مشورہ دیتی ہیں جن شعبوں سے وہ دماغ کوئی مناسبت ہی نہیں رکھتے تو اس کا یہ مشورہ غلط ہو گا.پس نظارت امور عامہ کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق معلومات حاصل کرنی چاہئیں اور اسے اپنے آپ کو علی وجہ البصیرت اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ جماعت کے نوجوانوں کو صحیح مشورہ دے سکے تا وہ اس دنیا میں ہر لحاظ سے کامیاب زندگی گزار سکیں.غرض صدر انجمن احمدیہ کی ساری نظارتوں کو اس سال کے لئے جو شروع ہوا ہے پوری سوچ و بچار کے بعد اور زیادہ وقت لئے بغیر منصوبہ تیار کرنا چاہیے اور یہ کام بہر حال مجلس شوری کے انعقاد سے پہلے ہو جانا چاہیے تا کہ اس کے بعد میں خود مجلس شوری اور ساری جماعت اس بات کا جائزہ لیتے رہیں کہ جماعت کے ذمہ دار ادارے اپنے اپنے منصوبہ کے مطابق پوری جد و جہد اور کوشش کر رہے ہیں یا نہیں.وقف جدید انجمن احمدیہ کا کام بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ علاقہ کے لحاظ سے ان کی معلومات ابھی ناقص ہیں اس لئے انہیں اور زیادہ مطالعہ کی ضرورت ہے.اس

Page 102

خطبات ناصر جلد اول ۸۶ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء وقت میں جیسا کہ میں بتا چکا ہوں صرف کچھ اشارے کر رہا ہوں تفاصیل میں اداروں کو خود جانا چاہیے.مثلاً وقف جدید انجمن احمدیہ نے مختلف جگہوں پر تربیت کی غرض سے اپنے معلم بٹھائے ہوئے ہیں اور وہ کام بھی کر رہے ہیں لیکن بعض رپورٹوں سے جو مجھے ملی ہیں معلوم ہوا ہے کہ ان کے اندر بھی لکیر کے فقیر ہونے کی عادت پیدا ہو رہی ہے اس لئے کہ کام چلانے کے لئے بعض قواعد وضع کرنے پڑتے ہیں اور ان کی وجہ سے کام میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے لیکن بعد میں ان قواعد کو اصل کام سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ قواعد ہمارے ماتحت ہیں ہم قواعد کے ماتحت نہیں.اگر قواعد کے اندر لچک نہ ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں فائدہ پہنچانے کی بجائے بعض جگہ نقصان بھی پہنچا دیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل عطا کی ہے تا ہم اپنے وضع کردہ قواعد سے نقصان نہ اٹھا ئیں.ہمیں فراست سے کام لینا چاہیے اور ضرورت کے مطابق اپنا منصوبہ بنانا چاہیے.پھر منصوبہ صرف آئیڈیل (Ideal) نہیں ہونا چاہیے.یعنی اگر اب ہم ایک ارب کا منصوبہ بنالیں تو اس منصو بہ اور ہماری آمد کے درمیان اتنا تفاوت ہوگا کہ کوئی عقل اسے صحیح تسلیم نہیں کرے گی اور یہ ایک ہنسی کی بات بن جائے گی لیکن اگر ہماری آمد ۵۰ لاکھ روپیہ ہے اور ہم ساٹھ لاکھ روپیہ کا منصوبہ بنا لیتے ہیں تو یہ کوئی اتنا بڑا فرق نہیں جسے عقل تسلیم نہ کرے.ہاں اس کے لئے ہمیں جد و جہد کرنا پڑے گی اور منصوبہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ موجودہ وقت میں جو طاقت اور وسائل ہمیں حاصل ہیں اس سے زیادہ ہم چاہتے ہیں اور اس زیادہ کو مد نظر رکھ کر ہم اپنی عقل سمجھ اور حالات کے مطابق ایک سکیم بناتے ہیں اور اس کے پورا کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں لیکن اگر ہم اگلے سال کے لئے بھی پچاس لاکھ روپیہ کا منصوبہ بناتے ہیں تو گویا ہم رک گئے اور رک جانا قوم کے لئے نہایت مہلک ہے.بہر حال وقف جدید انجمن احمد یہ کوسینکڑوں معلم اور چاہئیں اس لئے ہمیں سینکڑوں نوجوان جو وقف جدید کے معلم ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں ، ملنے چاہئیں اور جلد تر ملنے چاہئیں.یہ صحیح ہے کہ بعض جگہ وقف جدید کے معلمین کا کام تسلی بخش نہیں لیکن بعض جگہوں پر انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے.اس لئے یہ تو کام دیکھ کر ہی بتایا جا سکتا ہے کہ کون سا معلم اہل ہے اور کون سا

Page 103

خطبات ناصر جلد اول ۸۷ خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۶۶ء نااہل ، جو اہل ہوا سے رکھ لیا جائے اور جو نا اہل ثابت ہوا سے فارغ کر دیا جائے اور اس کی جگہ اور رکھ لیا جائے اور ہمیں اس وقت تک ایسا ہی کرنا پڑے گا جب تک کہ ہماری ضرورت پوری نہ ہو جائے.پھر جماعت کی ذیلی تنظیموں انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کو بھی اپنے منصوبے اور پلان (Plan) ریوائز (Revise) کرنے چاہئیں انہیں مزید غور کے بعد ان میں کچھ تبدیلیاں کر لینی چاہئیں اور اس اصول کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ ایسے کاموں کی طرف توجہ نہ دیں.جو ان کے سپردنہیں کئے گئے اور ان کاموں کو نظر انداز نہ کریں جو ان کے سپرد کئے گئے ہیں.کیونکہ فرائض کو چھوڑ کر نوافل کی طرف متوجہ ہونا کوئی نیکی نہیں اور نہ اس کے اچھے نتائج ہی نکلتے ہیں.پس جماعت کی ان ذیلی تنظیموں کو اپنے مفوضہ فرائض احسن طور پر بجالانے کی کوشش کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ ان کے کاموں میں برکت دے کہ وہ جماعت کی مضبوطی کے لئے قائم کی گئی ہیں اور اگر یہ تنظیمیں اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کریں تو یہ جماعت کے لئے بہت برکت کا موجب بن سکتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کر سکتی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ایسا کرنے کی تو فیق عطا فرمائے.آمین آخر میں میں پھر آپ سب دوستوں کو جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتے ہیں.انہیں بھی جو یہاں میرے سامنے بیٹھے ہیں اور انہیں بھی جو دنیا کے مختلف ممالک میں رہتے ہیں اپنے دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اس معنی میں بھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ پر اپنا فضل نازل کرتا رہے اور اس سال جواب شروع ہوا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل ، اس کی رحمتیں اور برکتیں پچھلے سالوں سے زیادہ آپ پر نازل ہوں اور اس معنی میں بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو روحانی میدانِ جنگ میں ثبات قدم عطا فرمائے اور آپ طاغوتی طاقتوں کو دنیا کے کناروں تک دھکیلتے ہوئے جہنم میں جلد تر پھینکنے والے بن جائیں اور پھر میں آپ کو اس معنی میں بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی برکتیں زیادہ سے زیادہ نازل کرے اور آپ کو اور مجھے

Page 104

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۸ خطبہ جمعہ کے جنوری ۱۹۶۶ء اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ جو وسائل اور اسباب اس نے ہمیں دیئے ہیں.ہم ان کا استعمال بہترین طور پر اور کسی منصوبہ بندی کے ماتحت اور منظم طریقہ سے کریں.آمین.وَمَا تَوْفِيْقُنَا إِلَّا بِاللَّهِ روزنامه الفضل ربوه ۱۵ جنوری ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 105

خطبات ناصر جلد اول ۸۹ خطبہ جمعہ ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء معتکفین کو حقیقی اور انتہائی خلوت میسر آنی چاہیے تا کہ وہ اپنا وقت عبادت اور دعاؤں میں گزار سکیں خطبه جمعه فرموده ۱۴ / جنوری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اسلام نے رہبانیت کی اجازت نہیں دی اسلام یہ بات جائز قرار نہیں دیتا کہ کوئی شخص دنیوی تعلقات کو کلید قطع کر کے محض خدا تعالیٰ کی عبادت کی خاطر اپنی ساری زندگی تنہائی میں گزار دے اور ان فرائض کی طرف توجہ نہ دے جو اس پر اللہ تعالیٰ نے بحیثیت ایک انسان ہونے کے عائد کئے ہیں.رہبانیت مختلف شکلوں میں دنیا میں پائی جاتی تھی اور اب بھی پائی جاتی ہے.عیسائیت نے یہ شکل اختیار کی کہ بعض عیسائیوں نے جو راہب بنے ، اپنی زندگیاں چرچ اور عیسائیت کے لئے وقف کر دیں اور اس شکل میں وقف کر دیں کہ ساری زندگی انہوں نے شادی نہیں کی.عورتوں نے اپنے سر بھی منڈوا دیئے اور مختلف عبادت گاہوں میں انہوں نے اپنی زندگی کے دن گزار دیئے.ان کی اپنی بعض مشکلات اور الجھنیں تھیں جن سے دنیا بہت کم واقف ہے لیکن جن کی وضاحت خود عیسائیوں میں سے بعض دلیر مصنفین نے کی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ رہبانیت اختیار کرنے والوں کی زندگیاں بداخلاقیوں سے بھری پڑی تھیں کیونکہ اس قسم کی زندگی انسان کی فطرت کے خلاف ہے پھر بعض مذاہب یا بعض اقوام اور ممالک میں رہبانیت کا خیال یا

Page 106

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء دنیا سے قطع تعلق کر لینے کا خیال اس حد تک آگے پہنچا کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا جسم بھی مادی دنیا سے تعلق رکھتا ہے ہم اسے کلیہ تو فنا نہیں کرتے.ہاں اس کے کچھ حصہ کو ہم نمونةٌ قتل کر دیتے ہیں تا کہ ہمارا رب ( ان کے اپنے زعم میں ) یہ سمجھے کہ ہم نے اس کی راہ میں اپنے جسموں کو بھی قربان کر دیا ہے.جیسے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بعض سا دھوا اپنی ایک یا دونوں بانہوں کو یا اپنی ایک ٹانگ یا دونوں ٹانگوں کو بعض خاص ریاضتوں کے ذریعہ بالکل مفلوج یا مردہ کی طرح کر دیتے ہیں.وہ اپنی بانہوں کو ایک لمبے عرصہ تک اور متواتر آسمان کی طرف بلند کئے رکھتے ہیں اور انہیں حرکت نہیں دیتے.یہاں تک کہ ان میں دورانِ خون بند ہو جاتا ہے اور وہ سوکھ جاتی ہیں.غرض بعض لوگ اپنے جسم کے بعض حصوں کو بعض خاص ریاضتوں کے ذریعہ بالکل مفلوج ناکارہ یا مردہ کی طرح کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے ربّ کو خوش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.بعض انسان اس سے بھی آگے بڑھے اور انہوں نے سمجھا کہ وہ خود کشی کر کے اپنے رب کو راضی کر سکتے ہیں جب کہ چند ماہ پہلے بعض علاقوں سے یہ خبریں آئیں اور اخباروں میں چھپیں کہ بدھ مذہب کے بعض پیروؤں نے اپنے مذہبی حقوق منوانے کے لئے اپنے جسموں کو آگ لگا دی.غرض انسان اپنی اس زندگی کی جو خدا تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے قدر نہ کرتے ہوئے اور بعض غلط خیالات میں الجھنے کی وجہ سے رہبانیت کو مختلف شکلوں میں اختیار کرتا رہا ہے.اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی بلکہ اسلام جس قسم کی زندگی ہمیں گزارنے کو کہتا ہے وہ یہ ہے کہ ظاہری طور پر دنیا کا ایک حصہ ہوتے ہوئے دنیا کی کشمکش میں شریک ہوتے ہوئے اور وہ سارے فرائض ادا کرنے کے باوجود جو خدا تعالیٰ نے ہم پر عائد کئے ہیں ہم ایک طرح کے راہب ہی ہوں.دنیا سے قطع تعلق کرنے والے ہی ہوں.دنیا سے بے رغبتی کرنے والے ہی ہوں.اسلام نے ہر شعبہ زندگی کے متعلق ہمیں کچھ احکام دیئے ہیں اس نے ہمیں بعض باتوں کے کرنے کا حکم دیا ہے اور بعض باتوں سے منع فرمایا ہے اور وہ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ اس دنیا کے ہر شعبہء زندگی میں ایک مسلمان کی حیثیت سے داخل ہوں اور پھر دنیا کو یہ بتائیں کہ اس مادی دنیا

Page 107

خطبات ناصر جلد اول ۹۱ خطبہ جمعہ ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء کا ایک فعال حصہ ہونے کے باوجود ہم صرف خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے ایک قسم کی راہبانہ زندگی گزار رہے ہیں اور در حقیقت اگر سوچا جائے تو دنیا سے قطع تعلق کر لینے کے نتیجہ میں انسان اپنے رب کا کامل مطیع ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ اس طرح اس نے اپنی زندگی کے بعض پہلوؤں میں تو شائد اپنے رب کی اطاعت کی.لیکن بعض پہلووؤں میں اس نے اطاعت سے گریز کیا اور یہ موقعہ آنے ہی نہیں دیا کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کرتا.غرض اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ تم بھر پور زندگی گزارو لیکن جہاں تمہاری زندگیاں دنیوی لحاظ سے بھر پور ہوں وہاں روحانی لحاظ سے بھی بھر پور ہوں.تم راہب نہ ہوتے ہوئے بھی راہبانہ زندگی اختیار کرود نیا کے جائز مشاغل میں حصہ لو، بیاہ شادی بھی کرو تم پر تمہارے والدین کے بھی بعض حقوق ہیں، تمہاری بیوی اور اولاد کے بھی بعض حقوق ہیں ، تمہاے رشتہ داروں کے بھی بعض حقوق ہیں، تمہارے اسلامی بھائیوں اور دوسرے بنی نوع انسان کے بھی بعض حقوق ہیں.خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوق کے بھی بعض حقوق ہیں، ان حقوق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم تم سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے ایک حقیقی عبد اور سچے مطیع کی حیثیت سے اپنی زندگیاں گزارو بالکل اسی طرح جس طرح ایک راہب اپنی زندگی گزارتا ہے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام نے ایک طرف رہبانیت سے منع کیا اور دوسری طرف دنیا کے سب مشاغل کے باوجود کامل انقطاع الی اللہ کی تلقین کی تو ہمیں اس بات کا کیسے علم ہوگا کہ ایک راہب کی زندگی کیسی ہوتی ہے.سو اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ علم دینے کے لئے کہ وہ کس قسم کے انقطاع عن الدنیا اور انابت الی اللہ کو پسند کرتا ہے.ہمارے لئے اعتکاف کی نفلی عبادت مقر ر فرمائی.یہ نفلی عبادت یعنی اعتکاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے پہلے دس دنوں میں بجالائے پھر آپ رمضان کے درمیانی دس دنوں میں بھی اعتکاف بیٹھے اور آپ یہ عبادت رمضان کے آخری عشرہ میں بھی بجالائے ہیں.غرض آپ رمضان کے تینوں عشروں میں اعتکاف بیٹھے ہیں اور اسے آخری شکل آپ نے یہ دی کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی عبادت بجالائی جائے اب رمضان کا آخری عشرہ بڑا ہی محدود زمانہ ہے.دس دن ہی تو ہیں.پھر لوگوں کی تو ایک محدود تعداد اعتکاف بیٹھتی ہے لیکن اس.

Page 108

خطبات ناصر جلد اول ۹۲ خطبہ جمعہ ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء سے ہم سب کو کم سے کم یہ علم ضرور حاصل ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کس قسم کی زندگی گزارنے کی ہم سے امید کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کے لئے خلوت اور تنہائی کو پسند فرماتے تھے.یہاں تک کہ روایات میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کا ارادہ فرمایا اور حضرت عائشہ نے آپ کے لئے مسجد میں کپڑوں کی دیواروں کا ایک حجرہ بنا دیا.اور ساتھ ہی آپ نے یہ بھی عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر آپ اجازت عطا فرمائیں تو میں بھی اعتکاف بیٹھ جاؤں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اجازت دے دی.چنانچہ آپ نے اپنے لئے بھی مسجد میں ایک حجرہ بنالیا.بعض دوسری ازواج مطہرات کو علم ہوا تو انہوں نے سوچا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں.چنانچہ پہلے ان میں سے ایک نے اپنے لئے حجرہ بنا یا.پھر دوسری نے بنا یا.پھر تیسری نے بنایا اور اس طرح بعض دوسری ازواج کے حجرے بھی تیار ہو گئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کے ارادہ سے مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے کئی حجرے دیکھے اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ حجرے کیوں؟ کس لئے؟ اور کس کے لئے بنائے گئے ہیں؟ آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! حضرت عائشہ کو دیکھ کر بعض دوسری ازواج نے بھی اپنے اپنے حجرے بنالئے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا کیا تم اس بات میں نیکی اور تقوی تلاش کرتی ہو کہ تم دوسرے کی نقل کرو اور ایک دوسرے پر فخر ومباہات کرو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ بڑی دور بین تھی.آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی نظر رکھتے تھے آپ نے فرمایا تمہاری اس حرکت کو دیکھ کر دنیا یہ سمجھے گی کہ تم خلوص نیت سے کام کرنے کو نیکی نہیں سمجھتیں بلکہ دکھاوے کی عبادت کو نیکی سمجھتی ہو اور دیکھا دیکھی عبادت بجالانا اور دکھاوے کی عبادت کرنا کوئی نیکی نہیں اس کے بعد آپ مسجد سے باہر تشریف لے گئے اور فرمایا میں بھی اس سال اعتکاف نہیں بیٹھوں گا.غرض اعتکاف بیٹھنے والے کو حقیقی اور انتہائی تنہائی اور خلوت میسر آنی چاہیے تا وہ اپنا زیادہ تر وقت خدا تعالیٰ کی عبادت اور دعاؤں میں گزار سکے.ان چیزوں کو دیکھ کر حضرت امام احمد بن حنبل کی جو بڑے پایہ کے امام ہیں.رائے ہے کہ اعتکاف کی حالت میں قرآن کریم کی تدریس اور اس کا سبقاً پڑھنا پڑھانا بھی جائز نہیں کیونکہ یہ وقت سیکھنے اور

Page 109

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۳ خطبہ جمعہ ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء سکھانے کا نہیں بلکہ خلوت میں اپنے رب کو یاد کرنے کا ہے.لیکن بعض چھوٹی چھوٹی بدعتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے.ہماری اس مسجد میں اور ممکن ہے دوسری مساجد میں بھی ، بعض لوگ معتکفین کی خلوت میں خلل انداز ہونے کی کوشش کرتے ہوں.انہیں یا درکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں کرتا میرے ایک عزیز معتکف نے دو تین سال ہوئے مجھے بتایا کہ ہم لوگ دعاؤں میں مشغول ہوتے ہیں کہ ہمارے حجرہ میں کوئی شخص ہاتھ بڑھا کر مٹھائی کی ایک چھوٹی سی تھیلی رکھ دیتا ہے پھر دوسرا آدمی آ جاتا ہے اور کہتا ہے میرے لئے بھی دعا کرنا وغیرہ وغیرہ.یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے دعا کے لئے تنہائی میسر نہیں آتی یہ درست نہیں معتکف کو دعا کے لئے کہنا ہی ہے تو اعتکاف بیٹھنے سے پہلے کہہ دیں یا اس کے لئے کوئی ایسا طریق اختیار کریں جو معتکلف کی عبادت اور دعا میں خلل نہ ڈالے اس دفعہ ہماری مسجد میں ۸۰ کے قریب افراد اعتکاف بیٹھے ہیں اگر ربوہ کے دس ہزار باشندے باری باری ان کے پاس آنا اور دعا کے لئے کہنا شروع کر دیں تو ان کا سارا وقت تو دعا کی درخواستیں سننے میں لگ جائے گا پھر وہ دعا کب کریں گے.تم اس چیز کو جسے ان کے خدا اور رسول نے اور تمہارے خدا اور رسول نے ان کے لئے پسند کیا ہے یعنی خالص تنہائی اور خلوت ان سے چھین لیتے ہو.یہ کپڑے کی عارضی دیوار میں اس بات کی علامت ہیں کہ ان لوگوں کو خلوت میسر آنی چاہیے اور یہ کہ دنیا کی نظر سے جو انہیں پریشان کرتی ہے اور ان کے وقت کو ضائع کرتی ہے یہ لوگ آزاد اور محفوظ رہنا چاہتے ہیں یہ دیوار میں حدود اللہ کو قائم رکھنے والی چیزیں ہیں اور آنے والے کو خبر دار کرتی ہیں کہ آگے نہ جائیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا ایک بندہ اپنے رب کو یاد کر رہا ہے اور تم جرات کر کے ایک آدھ لڈو یا کچھ مٹھائی اور دعا کے لئے پیغام پہنچانے کے لئے ان کے اوقات کو ضائع کر رہے ہو حقیقت یہ ہے کہ اگر اعتکاف سے بڑی عبادت نہ ہوتی جو بطور فرض کے ہے تو مساجد کے اندر اعتکاف بیٹھنے سے منع کر دیا جاتا.اسلام نے اجتماعی عبادتوں کو انفرادی عبادات پر ترجیح اور اہمیت دی ہے.مثلاً نماز باجماعت ہے جمعہ کی نماز ہے ان عبادات کو انفرادی اور نفلی عبادت پر فوقیت حاصل ہے اگر مسجد سے باہر اعتکاف بیٹھنے کا حکم دیا جاتا تو معتکف اعتکاف کے دنوں میں نہ نماز باجماعت ادا کر سکتا

Page 110

خطبات ناصر جلد اول ۹۴ خطبہ جمعہ ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء اور نہ جمعہ کی نماز میں شریک ہو سکتا اور نماز با جماعت اور نماز جمعہ فرائض میں سے ہیں اور انہیں اعتکاف پر جو ایک نفلی عبادت ہے بڑی فوقیت حاصل ہے.صرف ان عبادات کو بجالا نے کے لئے اعتکاف کے لئے مسجد کو منتخب کیا گیا ہے اور آپ محض دعا کی درخواست کرنے اور تھوڑی سی مٹھائی دینے کی خاطر معتکف بھائیوں کو ناجائز طور پر تنگ کرتے ہیں.معتکفین کی عبادت اور ان کی دعاؤں میں خلل انداز ہونا ثواب کا کام نہیں اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے اگر ضروری طور پر دعا کی درخواست کرنا ہی ہے تو اجتماعی طور پر دعا کی درخواست کر دی جائے یا اعتکاف بیٹھنے سے پہلے دعا کی درخواست کر دی جائے یا اس کام کے لئے کوئی ایسا وقت تلاش کیا جائے جس میں ان کی عبادت اور دعا میں خلل واقع نہ ہو.گو مجھے ان دنوں میں کوئی وقت ایسا نظر نہیں آتا جو دعا اور عبادت سے خالی ہو.دعا کا دروازہ آپ سب کے لئے کھلا ہے جہاں ان دنوں میں معتکف بھائی دعا کرتے ہیں آپ بھی دعا کر سکتے ہیں پھر دعا اور صدقہ خیرات کے اور کئی مواقع ہیں.ان سے فائدہ اُٹھایا جائے.معتکف کو اس کے حال پر چھوڑ دیں بعض چھوٹی چھوٹی باتیں جو ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نظر نہیں آتیں اور جنہیں نہ آپ نے پسند فرمایا ہے اور نہ اصولی طور پر ہماری طبیعت ہی انہیں پسند کرتی ہے ان سے بچنا چاہیے معتکف کو مسجد میں صرف اس لئے بٹھا یا گیا ہے کہ اس کی نماز جمعہ ضائع نہ ہو اور وہ نماز باجماعت ادا کر سکے اس لئے نہیں کہ جو چاہے اور جب چاہے اس کی کوٹھڑی میں چلا جائے اور اس کی عبادت میں مخل ہو مساجد سے اعتکاف کی عبادت کو لازم کرنے سے اجتماعی دعا اور عبادت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے.ایک دفعہ حضرت عباس سے ایک دوست نے سوال کیا کہ ایک شخص سارا دن عبادت اور روزہ میں گزارتا ہے رات کو بھی وہ ذکر الہی اور نوافل پڑھنے میں خرچ کرتا ہے لیکن وہ نماز باجماعت سے غافل ہے اور جمعہ کی نماز میں بھی نہیں آتا اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے حضرت ابن عباس نے نہایت آرام سے جواب دیا هُوَ فِي النَّارِ و شخص آگ میں جائے گا.پس ہمیں فرائض کی طرف بہر حال پہلے متوجہ ہونا چاہیے اور نوافل تو ایک زائد عبادت ہے جس کا بجالا نا بہت سی برکتوں کا موجب تو ضرور ہے اور فرائض کی

Page 111

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء ادا ئیگی میں جو کمزوری اور رخنے باقی رہ جاتے ہیں ان کو دور کرنے کا ذریعہ بھی ہیں لیکن فرائض کے بغیر نوافل کوئی چیز نہیں اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ فرائض کو چھوڑ کر نوافل کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر لے گا وہ غلطی پر ہے.موٹی بات ہے کہ جو سامان مرمت کرنے کے لئے ہے اسے اس مکان میں جو ابھی تعمیر ہی نہیں ہوا کیسے خرچ کیا جا سکتا ہے.جب تک آپ فرائض کی ادائیگی کے نتیجہ میں جنت میں اپنا مکان تعمیر نہیں کر لیتے.اس کے رخنے دور کرنے اور اس کی خوبصورتی اور تزئین کا سامان مہیا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس پہلے آپ فرائض کو کما حقہ ادا کر کے جنت میں اپنا مکان تعمیر کریں.پھر اس کو خوبصورت بنانے ، اسے سجانے اور اس کی زیبائش کے لئے نوافل کی طرف متوجہ ہوں اور جو لوگ نوافل کی طرف متوجہ ہوں آپ ان کے نوافل اور عبادات میں مخل نہ ہوں.رمضان کے ان آخری دنوں میں جن میں ہم اعتکاف بیٹھتے ہیں ایک وہ رات بھی آتی ہے جولیلۃ القدر کے نام سے موسوم ہے.لیلۃ القدر کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ رات جس میں اگر انسان چاہے اور پھر اس کا رب فضل کرے تو وہ اپنی اور اپنی قوم کی تقدیر کو اپنے رب سے بدلوا سکتا ہے یعنی لیلتہ القدر وہ رات ہے جس میں تقدیریں بھی بدل سکتی ہیں لیکن اکثر تقریریں جو متضرعا نہ دعا کے نتیجہ میں بدل دی جاتی ہیں ہمارے علم میں نہیں آسکتیں.مثلاً ایک دفعہ ہماری موٹر کا ایک حادثہ ہو گیا اور وہ حادثہ اس نوعیت کا تھا کہ اگر ایک منٹ پہلے یا ایک منٹ بعد ہماری کار جائے حادثہ پر پہنچتی تو حادثہ پیش نہ آتا اور پھر یہ فضل بھی ہوا کہ جو شخص اس حادثہ کا بُری طرح شکار ہوا تھا اسے خدا تعالیٰ نے معجزانہ طور پر بچالیا اس وقت میرے دل میں اپنے رب کے لئے بہت حمد پیدا ہوئی اور میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ ہزاروں آفتیں اور حوادث ہم سے ٹال رہا ہے لیکن ہمیں ان کا علم بھی نہیں اور مجھے میری زندگی میں اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھا دیا ہے تا مجھے یقین اور وثوق ہو جائے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کس قدر محبت رکھتا ہے.پس جو تقدیر نظر آتی ہے اس پر بھی خدا تعالیٰ کی حمد کرنی چاہیے اور جو تقدیر نظر نہیں آتی اس پر بھی انسان کا دل خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر جانا چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (يوسف: ۲۲) اللہ تعالیٰ

Page 112

خطبات ناصر جلد اول ۹۶ خطبہ جمعہ ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء تقدیر بدل سکتا ہے اور بدلتا ہے ہاں جو تقدیر پردہ غیب میں ہے اور پردہ غیب میں ہی بدل دی جاتی ہے اس کے متعلق اکثر لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری دعا کو قبول فرما کر بہت سی دکھ دینے والی چیزوں کو بدل دیتا ہے اور ہمارے دل اس کی حمد سے بھر جانے چاہئیں.اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ اکثر لوگ غیب کی ان باتوں کی طرف مومنانہ فراست سے متوجہ نہیں ہوتے اور ان کے دل حمد سے خالی رہتے ہیں.پس ان آخری دنوں میں اعتکاف بیٹھنے کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ لیلۃ القدر کی تلاش کی جائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس رات کی تلاش کے لئے ان دنوں میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ جس کو یہ رات دکھا دے اور جس خوش قسمت کو وہ گھڑی نصیب ہو جائے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں بڑی کثرت سے سنتا ہے تو اسے اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہیے اور اس رات کی تلاش سے پہلے اسے یہ سوچ لینا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے قبولیت دعا کی یہ گھڑی نصیب کر دی تو وہ اس میں کون کون سی دعا کرے گا.احادیث میں ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ میں نوافل بھی پڑھوں گی اور دعائیں بھی کروں گی لیکن آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر مجھے لیلۃ القدر کی گھڑی نصیب ہو جائے تو اس میں میں کون سی دعا کروں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس گھڑی میں تم اپنے گناہوں کی مغفرت چاہو.پس استغفار ایک بنیادی دعا ہے اس کے بغیر حقیقتاً ہماری زندگی زندگی ہی نہیں رہتی نہ دنیوی زندگی باقی رہ سکتی ہے اور نہ اُخروی زندگی.نہ مادی زندگی باقی رہ سکتی ہے اور نہ روحانی زندگی.اس دنیا میں جو مختصر زندگی ہمیں ملتی ہے اس میں ہم اس قدر غلطیاں کرتے ہیں اتنی کوتاہیاں ہم سے سرزد ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور عفو نہ ہو اور وہ اس دنیا میں یا اگلی دنیا میں ہمیں پکڑنا چاہے تو ہمارے لئے راہ نجات ممکن ہی نہیں.لیلۃ القدر کی گھڑی میں جو دعائیں مانگنی چاہئیں ان میں سے دو بنیادی اور انفرادی دعائیں استغفار اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرنا ہے.استغفار یعنی اپنے گناہوں کی مغفرت چاہنا اور اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر پردہ پوشی کی درخواست کرنا اور خاتمہ بالخیر ہو جائے تو پھر پچھلی غلطیاں

Page 113

خطبات ناصر جلد اول ۹۷ خطبہ جمعہ ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء شمار نہیں ہوتیں.وہ سب معاف ہو جاتی ہیں.اس لئے دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے اور ا اپنی رضا کی جنت ہمیں نصیب کرے.کوئی شخص اپنی زندگی میں کتنا ہی کام کرتا رہے اگر وہ خدا تعالیٰ کی درگاہ میں قبول نہیں ہوتا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.انسان سینکڑوں نہیں ہزاروں نوافل پڑھے اگر ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو وہ بالکل بے فائدہ ہیں.غرض یہ دونوں دعائیں یعنی استغفار اور خدا تعالیٰ کی رضاء کی جنت کے ملنے اور خاتمہ بالخیر کی دعا بڑی کثرت سے کرنی چاہئیں اور ان دنوں میں ان پر خاص زور دینا چاہیے یعنی خدا تعالیٰ سے اس کا عفو اور مغفرت بھی طلب کرنی چاہیے اور اس کی بارگاہ میں یہ بھی عرض کرنا چاہیے کہ یا الہی ہم کمزور ہیں ہمارے ہر اس فعل میں جسے ہم نے عمل صالح سمجھ کر کیا ہے بہت سی کوتاہیاں اور غفلتیں رہ گئی ہیں تو ہمیں معاف فرما.تو بڑا عفو کر نے والا ہے اور تیرے عفو کے مقابلہ میں ہماری کوتاہیاں اور غفلتیں کوئی چیز نہیں تو ہماری کمزوریوں کی طرف نگاہ نہ فرما بلکہ اپنی صفت عفو کی طرف نگاہ کر.تو بڑا بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے.اپنی اس صفت کے صدقے تو ہماری خطائیں معاف کر.گناہ بخش اور ہمارا انجام بخیر کرتے ہوئے ہمیں اپنی جنت میں داخل فرما.اس کے علاوہ اگر قبولیت دعا کی گھڑی یعنی لیلۃ القدر میسر آ جائے تو اجتماعی دعا یہ کرنی چاہیے کہ اے خدا دنیا تجھ سے دور ہو گئی ہے وہ تجھے پہچانتی نہیں.تیرے احسانوں کی وہ قدر نہیں کرتی.اے خدا! تو ایسے سامان پیدا کر دے کہ تیری عظمت تیری کبریائی ، تیری توحید، تیرا جلال اور تیری محبت سب انسانوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے.اے خدا! دنیا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ اس نے سرکشی کرتے ہوئے آپ کو دھتکار دیا ہے.اے خدا تو ایسے سامان پیدا فرما کہ جن سے اسلام ہماری زندگی میں ہی تمام دنیا پر غالب آجائے اور ہم آپ کے جھنڈے کو ہر ملک کے بلند پولوں (Poles) سے لہراتا ہوا دیکھیں.بہر حال ان دنوں اپنے لئے خدا تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی جنت کے حصول کی دعائیں کرنی چاہئیں اور اجتماعی لحاظ سے خدا تعالیٰ کی عظمت، کبریائی ، تو حید اور جلال کے قیام اور اسلام کے غلبہ کے لئے بڑی کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں.خدا کرے کہ وہ ہمارے اعمال کو قبول فرما لے.کیونکہ کوئی عمل چاہے ظاہر میں کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو.کتنا ہی

Page 114

خطبات ناصر جلد اول ۹۸ خطبہ جمعہ ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء حسین کیوں نہ ہو.کتنا ہی صالح کیوں نہ ہو.کتنا ہی نیک اور عمدہ کیوں نہ ہو.اگر خدا تعالیٰ اسے قبول نہیں کرتا اور نفرت سے اسے دور پھینک دیتا ہے تو وہ بالکل بے فائدہ ہے.پس خدا کرے کہ ہمارے اعمال اس کی نگاہ میں پسندیدہ ہوں اور وہ انہیں نہ صرف قبول فرمالے بلکہ قبولیت کے بعد ہمیں ان سے مزید فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا کرے.پھر وہ ہمیشہ ہمیں اپنی حفاظت اور امان میں رکھے.ہمارے دل میں اس کی توحید کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے خواہش اور تڑپ بڑی شدت سے ہمیشہ موجودر ہے.پھر ہم ان دونوں اغراض کے لئے باقاعدہ جد و جہد بھی کریں اور وہ ہماری اس جد و جہد کو قبول فرما لے اور ہماری زندگیوں میں ہی اسلام کے غلبہ اور اپنی توحید کے قیام کا سامان پیدا کر دے اور ہمیں یقین ہے کہ ایسے سامان ضرور پیدا ہوں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر فیصلہ کر لیا ہے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہماری زندگیوں میں ہی ایسے سامان پیدا کر دے کہ جس ملک میں بھی ہم جائیں اس کے رہنے والوں کی زندگیوں میں اسلام کی حکومت مشاہدہ کریں.پھر ہم یہ دیکھیں کہ وہ لوگ اسلام کے پیرو اور اس کی اطاعت کرنے والے ہیں.وہ اپنے رب کے ممنون ہیں کہ اس نے اسلام کی نعمت سے انہیں نوازا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے ہیں کہ آپ ان کے لئے آسمان سے قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب لے کر آئے.آمین اللهم آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 115

خطبات ناصر جلد اول ۹۹ خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء اگر تم خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے اعمال پر کبھی بھروسہ نہ کرو خطبه جمعه فرموده ۲۱ /جنوری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج کا جمعہ جو ماہِ رمضان کا آخری جمعہ ہے اور جمعۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے، اس کے متعلق مسلمانوں کا ایک گروہ (میں یہاں فرقہ کا لفظ ارادہ استعمال نہیں کر رہا، بلکہ گروہ کا لفظ استعمال کر رہا ہوں، کیونکہ اس کے معنی فرقہ کے معنوں سے مختلف ہیں ) یہ سمجھنے لگ گیا ہے کہ لیلۃ القدر اور جمعۃ الوداع جو رمضان کا آخری جمعہ ہے.اپنے اندر بعض ایسی طلسمی خصوصیات رکھتے ہیں جو دوسرے دنوں میں نہیں پائی جاتیں.وہ سمجھتا ہے کہ جس نے جمعۃ الوداع کی عبادت بجالائی ، یعنی جمعہ کی نماز باجماعت ادا کر لی.اس کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور چونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ہم نے اس جمعہ کے موقعہ پر اپنے سارے گناہ زبر دستی معاف کرواہی لینے ہیں ، اس لئے باقی دنوں میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت بجالانے اور ان فرائض کی طرف متوجہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں.جو اس نے ہم پر عائد کئے ہیں اور یہ ایک نہایت مہلک بڑا ہی باطل اور فاسد خیال ہے اور جیسا کہ میں نے اپنے ابتدائی فقروں میں اس طرف اشارہ کیا ہے.جہاں تک میرا علم ہے اس تخیل کو اسلام کے کسی فرقہ نے بھی نہیں اپنا یا.اس کے باوجود چونکہ انسانی طبیعت

Page 116

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء آرام اور سہولت کی طرف مائل ہونا پسند کرتی ہے، اس لئے شیطان نے مسلمانوں کے ایک گروہ کے دلوں میں یہ وسوسہ پیدا کر دیا ہے، کہ جمعتہ الوداع کی عبادت میں شامل ہو جاؤ تو تم پر خدا تعالیٰ اور اس کے بندوں کے کوئی حقوق باقی نہیں رہتے اور تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے.اس کے برعکس اسلام نے جو ہمیں تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اگر اپنی ساری عمر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتا رہے اور یہ عبادت وہ اپنی طرف سے نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ ہی کیوں نہ بجالائے.اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنی عبادت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو حاصل کر لیا ہے.اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ جہاں تک عبادت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے خزائن پہلے ہی بھرے ہوئے ہیں.انسان ان خزائن میں اپنی عبادتوں میں سے کچھ مزید شامل کرے یا نہ کرے وہاں پہلے ہی اتنی عبادتیں ہیں کہ اس کی عبادتوں سے ان خزائن میں کوئی فرق نہیں پڑتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے.وَ إِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمدِهِ وَ لكِن لاَ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا - (بنی اسراءیل: ۴۵) یعنی دنیا کی ہر چیز اس کی تعریف کرتی ہوئی اس کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان اشیاء کی تسبیح کو نہیں سمجھتے.وہ یقیناً پردہ پوشی کرنے والا اور بہت ہی بخشنے والا ہے.گویا خدا تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہر چیز ہر آن اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح وتحمید میں مشغول ہے آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ صرف ہمارے جسموں میں ہی (مادی ذرات کے علاوہ کروڑوں جاندار چیزیں پائی جاتی ہیں اور وہ ساری جاندار چیز میں جو ہمارے جسموں میں پائی جاتی ہیں، اس آیہ کریمہ کے مطابق ہر وقت یعنی دن اور رات کے ۲۴ گھنٹے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی تسبیح و تحمید میں لگی ہوئی ہیں.اب ان ہمارے جسموں کے اندر رہنے والی کروڑوں جاندار چیزوں کی عبادت کے مقابلہ میں ہمارے اکیلے کی عبادت کیا حیثیت رکھتی ہے.ہماری عبادت ان جاندار اشیاء کی عبادت کے کروڑو میں حصہ تک بھی نہیں پہنچتی.اسی طرح اللہ تعالیٰ متعدد دوسری آیات میں یہ بات ہمارے ذہن نشین کراتا ہے اور ہر چیز جاندار اور بے جان

Page 117

خطبات ناصر جلد اول 1+1 خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء جو میں نے پیدا کی ہے وہ میری عبادت میں لگی ہوئی ہے، وہ میری تسبیح اور تحمید بیان کر رہی ہے.وہ میری کبریائی ، عظمت اور جلال کا اعلان کر رہی ہے اور پھر وہ ہر چیز میرے تصرف میں ہے اور میرے کہنے پر چل رہی ہے، میں جو کہتا ہوں وہ کرتی ہے اور جس چیز سے میں منع کرتا ہوں وہ چھوڑ دیتی ہے.مثلاً آگ کو خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ تم نے پانی کا کام نہیں کرنا.اب تم نے کبھی دیکھا ہے کہ آگ نے پانی کا کام کیا ہو اور پھر یہ بتانے کے لئے کہ آگ خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرتی ہوئی اس کی اطاعت میں جلانے کا یہ فعل کر رہی ہے.وہ بعض اوقات خود ہی اسے حکم دے دیتا ہے کہ تم پانی کا کام بھی کرو، مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دشمنوں نے آگ میں ڈالا تو اس آگ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بردا وسلمًا (الانبیاء : ۷۰) بن جانے کا حکم مل گیا.یعنی آگ میں جلانے کی خاصیت تھی پانی کی خاصیات اس میں نہیں پائی جاتی تھیں، لیکن خدا تعالیٰ دنیا کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ آگ اگر جلانے کا کام کر رہی ہے تو محض میری اطاعت کر رہی ہے ورنہ اس کے اندر جلانے کی کوئی ذاتی قابلیت نہیں پائی جاتی.میں جو کچھ اسے کہتا ہوں وہ وہی کرتی ہے.اسی طرح اس کے علاوہ بھی ہر چیز میر احکم بجالاتی ہے، ورنہ اس میں کوئی ذاتی خاصیت اور قابلیت نہیں پائی جاتی.لیکن ایک فلسفی کہہ سکتا تھا کہ یہ محض ایک دعوئی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ اس قسم کی عملی اور مجزا نہ دلیلیں مہیا کرتا ہے.مثلاً وہ آگ کو جس میں جلانے کی خاصیت پائی جاتی ہے بعض اوقات یہ حکم دے دیتا ہے کہ تم بردا و سلبًا ہو جاؤ یعنی پانی کا کام کرو.اب آگ نے نہ کبھی پہلے پانی کا کام کیا ہوتا ہے اور نہ بعد میں اسے یہ کام کرنا ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ اس سے بعض خاص مواقع پر پانی کا کام لے لیتا ہے اور اس سے اللہ کا یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے اور ہر چیز سے جو چاہے کام لے سکتا ہے کیونکہ ہر چیز اس کے تابع فرمان ہے وہ اس کے خلاف مرضی کوئی حرکت نہیں کرتی.مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے تو اللہ تعالیٰ نے آگ کی جلانے کی خاصیت اس سے چھین لی اور اسے پانی کا کام کرنے کا حکم دے دیا اور اس طرح بتا دیا کہ وہ آگ چوبیس گھنٹے جلانے کا کام کرتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسا کرتی ہے اس میں یہ قابلیت ذاتی طور پر نہیں پائی جاتی.اسی طرح دوسری مخلوق کا

Page 118

خطبات ناصر جلد اول ۱۰۲ خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء حال ہے.پس جہاں تک عبادت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے خزائن بھرے پڑے ہیں.خدا تعالیٰ کو ہماری عبادت کی نہ خواہش ہے اور نہ اسے اس کی کوئی ضرورت پیش آسکتی ہے کیونکہ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ اس نے اربوں ارب مخلوقات کو ہر وقت اپنی عبادت ، تسبیح اور تحمید میں لگایا ہوا ہے.اس کی ہر مخلوق اس کے حکم کے مطابق اس کی عبادت اور اطاعت میں اپنی زندگی کے دن گزار رہی ہے.اس لئے اسے نہ تمہاری عبادت کی پرواہ ہے اور نہ اسے اس کی ضرورت ہے لیکن ہمیں اپنی جسمانی اور روحانی حیات کے لئے اس کی اطاعت اور عبادت کی ضرورت ہے.ہماری کتب میں ایک واقعہ حضرت ابو یزید بسطامی کے متعلق آتا ہے اس سے ہمیں بڑا اچھا سبق ملتا ہے.حضرت ابو یزید بسطامی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے نفس کو ہر تکلیف میں ڈالا اور دن اور رات خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارے اور یہ سلسلہ ۳۰ سال تک چلتا چلا گیا.ان تیس سالوں میں میں نے دن کی گھڑیوں کو بھی خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارا اور رات کو بھی اسی کے لئے قیام کیا.میں نے اس کی خاطر اپنے نفس کو ہر مشقت میں ڈالا.یعنی میں بہت ہی کم سو یا اور بہت ہی کم خوراک استعمال کی اور ہر قسم کی ریاضت کی، لیکن ان تیس سال کی عبادت کے بعد ایک دن ایک وجود میرے سامنے آیا اور اس نے مجھے کہا، اے ابو یزید ! اللہ تعالیٰ کے خزانے عبادت سے بھرے پڑے ہیں.ان میں اگر تمہاری عبادت شامل نہ بھی ہو تب بھی ان میں کوئی فرق نہیں پڑتا، تم محض ان عبادتوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے.فَإِنْ أَرَدْتَ الْوُصُولَ اِلَيْهِ اگر تم اس تک پہنچنا چاہتے ہو تو فَعَلَيْكَ بِاللَّلَّةِ وَالْإِحْتِقَارِ وَالْإِخْلَاصِ فِي الْعَمَلِ تمہیں اپنے اندر عاجزی، ذلت ، تواضع اور اپنے آپ کو حقیر سمجھنے کی ذہنیت پیدا کرنی چاہیے.تمہیں خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کے حصول کے لئے بہر حال یہ رستہ اختیار کرنا پڑے گا اور پھر اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرنا ہو گا اور اسلامی اصطلاح کی رو سے اخلاص کے لفظ کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم عبادت کریں اور سمجھیں کہ اس کے نتیجہ میں بھی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا تو ہم اس کی خوشنودی اور اس کی رضا کی جنت حاصل کریں گے محض اپنی عبادتوں اور کوششوں کے نتیجہ میں ہم نہ اس کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں نہ اس کی رضا کی جنت کو پاسکتے ہیں

Page 119

خطبات ناصر جلد اول ۱۰۳ خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء اور نہ اس کے قرب کی راہیں ہم پر کھل سکتی ہیں.بہر حال حضرت ابو یزید بسطامی فرماتے ہیں کہ ۳۰ سالہ عبادت کے بعد بھی خدا تعالیٰ کے منشا کے مطابق انہیں ایک کہنے والے نے کہا تو یہی کہا کہ تم نے اگر ۳۰ سال دن اور رات عبادت کی ہے تو یہ ایک قابل تعریف فعل ہے لیکن یہ کبھی نہ سمجھنا کہ تم محض اس عبادت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضاء حاصل کر سکتے ہو.بلکہ اگر تم خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے اعمال پر بھروسہ نہ کرو، بلکہ اپنے آپ کو ذلیل اور حقیر سمجھو اور ہمیشہ ڈرتے رہو کہ کہیں تمہارے اعمال خدا تعالیٰ کی نگاہ میں نا پسندیدہ نہ ٹھہریں اور وہ اس کے حضور قبولیت کا شرف حاصل نہ کر سکیں.پس اگر ساری عمر نہایت اخلاص سے عبادت بجالانے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کا ایک مخلص بندہ اپنی نجات کے متعلق مطمئن نہیں ہوسکتا تو ایک دن کی عبادت سے وہ کس طرح خوش ہوسکتا ہے؟ پس میں یہ نہیں کہتا کہ جمعۃ الوداع کی عبادت میں لوگ زیادہ شوق سے حصہ نہ لیں کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے شوق سے ایک دن کے لئے بھی آتا ہے میرا کام نہیں کہ میں اس کے رستہ میں روک بنوں.لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ محض اس طرح پر آپ اللہ تعالیٰ کی رضاء اور اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے ، اگر تم نے ایک دن یعنی جمعتہ الوداع کو خدا تعالیٰ کی عبادت کی ہے تو تم نے اپنی عمر کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت میں گزارا ہے گویا تم نے اپنے فرض کا کچھ حصہ ادا کیا ہے اور یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن یہ کبھی نہ سمجھنا کہ جمعتہ الوداع یارمضان کی آخری راتوں کا قیام تمہیں تمہارے دوسرے فرائض سے جو تم پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارہ میں عائد ہوتے ہیں آزاد کر دیتا ہے، ایسا ہر گز نہیں.بلکہ ساری عمر کی ریاضتوں اور عبادتوں کے بعد بھی تم ہمیشہ یہ دعا کرتے رہو کہ اے خدا! ہم نے اپنی حقیر کوششیں تیرے قدموں میں لا کر رکھ دی ہیں.اگر تو چاہے تو انہیں اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے پرے پھینک دے لیکن تو بڑا افضل کرنے والا اور رحمن ورحیم خدا ہے ہمیں تجھ سے امید ہے کہ تو ایسا ہر گز نہیں کرے گا، بلکہ محض اپنے فضل سے ہماری ان حقیر کوششوں کو قبول کرے گا اور اپنے قرب اور رضا کی راہیں ہم پر کھول دے گا.آخر میں میں ایک وصیت پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ

Page 120

خطبات ناصر جلد اول ۱۰۴ خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء کو کی.دوست اسے غور سے سنیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس وصیت کو سننے کے بعد کوئی انسان مرتے دم تک اپنے کسی عمل سے کسی صورت میں بھی مطمئن نہیں ہوسکتا.یہ وصیت بڑی لمبی ہے اس لئے میں اس کے الفاظ نہیں پڑھوں گا بلکہ ان کا صرف ترجمہ بیان کروں گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن حضرت معاذ سے فرمایا يَا مُعَاذُ إِنِّي مُحَدِّثُكَ بِحَدِيثِ إِنْ أَنْتَ حَفِظْتَهُ نَفَعَكَ اے معاذ! میں تجھے ایک بات بتا تا ہوں ،اگر تو نے اسے یا درکھا تو یہ تمہیں نفع پہنچائے گی اور اگر تم اسے بھول گئے تو اِنْقَطَعَتْ حُجَّتُكَ عِنْدَ اللهِ اللہ تعالیٰ کا فضل تم حاصل نہیں کر سکو گے اور تمہارے پاس نجات حاصل کرنے کے بارہ میں اطمینان کے لئے کوئی دلیل باقی نہیں رہے گی.يَا مُعَاذُ اِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى خَلَقَ سَبْعَةَ أَمْلَاكٍ قَبْلَ أَن يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ اے معاذ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پہلے سات در بان فرشتوں کو پیدا کیا (اور جیسا کہ اس حدیث کے مفہوم سے پتہ لگتا ہے یہاں آسمانوں سے مراد روحانی آسمان ہیں جن میں روحانی لوگ اپنے اپنے درجہ کے مطابق رکھے جاتے ہیں) اور ان فرشتوں میں سے ایک ایک کو ہر آسمان پر بطور بواب یعنی در بان کے مقرر کر دیا.ان کی ڈیوٹی تھی کہ تم اپنی اپنی جگہ پر رہو اور صرف ان لوگوں کے اعمال کو یہاں سے گزرنے دو جن کے گزرنے کی ہم اجازت دیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے جو انسان کے اعمال کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کا روز نامچہ لکھتے ہیں ،خدا کے ایک بندے کے اعمال لے کر جو اس نے صبح سے شام تک کیے تھے آسمان کی طرف بلند ہوئے اور ان اعمال کو ان فرشتوں نے بھی پاکیزہ سمجھا تھا اور انہیں بہت زیادہ خیال کیا تھا.لیکن جب وہ اعمال لے کر پہلے آسمان پر پہنچے تو انہوں نے دربان فرشتے سے کہا کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور ایک بندے کے اعمال پیش کرنے آئے ہیں.یہ اعمال بہت پاکیزہ ہیں ، تو اس فرشتے نے انہیں کہا ٹھہر جاؤ تمہیں آگے جانے کی اجازت نہیں تم واپس لوٹو اور جس شخص کے یہ اعمال ہیں انہیں اس کے منہ پر مارو.خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں یہ ہدایت دے کر کھڑا کیا ہے کہ میں کسی غیبت کرنے والے بندہ کے اعمال کو اس دروازہ میں سے نہ گزرنے دوں اور یہ شخص جس کے اعمال تم خدا تعالیٰ کے حضور پیش

Page 121

خطبات ناصر جلد اول ۱۰۵ خطبہ جمعہ ۲۱؍جنوری ۱۹۶۶ء کرنے آئے ہو ہر وقت غیبت کرتا رہتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اور فرشتے ایک اور بندہ کے اعمال لے کر آسمان کی طرف چڑھے.تُزَکیهِ وَ تُكَثِرُہ وہ فرشتے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ یہ اعمال بڑے پاکیزہ ہیں اور پھر یہ بندہ انہیں بڑی کثرت سے بجالا یا ہے اور چونکہ ان اعمال میں غیبت کا کوئی شائبہ نہیں تھا اس لئے پہلے آسمان کے دربان اور حاجب فرشتے نے انہیں آگے گزرنے دیا.لیکن جب وہ دوسرے آسمان پر پہنچے تو اس کے دربان فرشتے نے انہیں پکارا ، ٹھہر جاؤ، واپس لوٹو اور ان اعمال کو ان کے بجالانے والے کے منہ پر مارو.میں فخر و مباہات کا فرشتہ ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں اس لئے مقرر کیا ہے کہ میں کسی بندے کے ایسے اعمال کو یہاں سے نہ گزرنے دوں جن میں فخر و مباہات کا بھی کوئی حصہ ہو اور وہ اپنی مجالس میں بیٹھ کر بڑے فخر سے اپنی نیکی کو بیان کرنے والا ہو.یہ شخص جس کے اعمال لے کر تم یہاں آئے ہو.لوگوں کی مجالس میں بیٹھ کر اپنے ان اعمال پر فخر و مباہات کا اظہار کیا کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا فرشتوں کا ایک اور گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمان کی طرف بلند ہوا اور وہ ان فرشتوں کی نگاہ میں بھی کامل نور تھے.ان اعمال میں صدقہ و خیرات بھی تھا، روزے بھی تھے ، نمازیں بھی تھیں اور وہ محافظ فرشتے تعجب کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ کا یہ بندہ کس طرح اپنے رب کی رضا کی خاطر محنت کرتا رہا ہے اور چونکہ ان اعمال میں غیبت کا کوئی حصہ نہیں تھا اور ان میں فخر و مباہات کا بھی کوئی حصہ نہیں تھا.اس لئے پہلے اور دوسرے آسمان کے دربان فرشتوں نے انہیں گزرنے دیا، لیکن جب وہ تیسرے آسمان کے دروازہ پر پہنچے تو اس کے دربان فرشتہ نے کہا ٹھہر جاؤ.اِضْرِبُوْا بِهَذَا الْعَمَلِ وَجْهَ صَاحِبِهِ کہ جس شخص کے اعمال تم خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لئے لے جار ہے ہو اس کے پاس واپس جاؤ اور ان اعمال کو اس کے منہ پر مارو.میں تکبر کا فرشتہ ہوں، مجھے تیسرے آسمان کے دروازہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دے کر کھڑا کیا ہے کہ اس دروازہ سے کوئی ایسا عمل آگے نہ گزرے جس کے اندر تکبر کا کوئی حصہ ہو اور یہ شخص جس کے اعمال تم اپنے ساتھ لائے ہو بڑا متکبر تھا، وہ اپنے آپ

Page 122

خطبات ناصر جلد اوّل 1+4 خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا اور دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور ان سے تکبر اور اباء کا سلوک کیا کرتا تھا اور وہ اپنی مجالس میں گردن اونچی کر کے بیٹھنے والا تھا.اس کے اعمال گوتمہاری نظر میں اچھے نظر آ رہے ہیں لیکن وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول نہیں.آپ نے فرمایا فرشتوں کا ایک چوتھا گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمان کی طرف بلند ہوا.يَز هُوَ كَمَا يَزْهُوَ الْكَوْكَبُ الدُّرِيُّ وہ اعمال ان فرشتوں کو کوکب الدری کی طرح خوبصورت معلوم ہوتے تھے.ان میں نمازیں بھی تھیں تسبیح بھی تھی ، حج بھی تھا، عمرہ بھی تھا.وہ فرشتے یہ اعمال لے کر آسمان کے بعد آسمان اور دروازہ کے بعد دروازہ سے گزرتے ہوئے چوتھے آسمان کے دروازہ پر پہنچے تو اس کے دربان فرشتے نے انہیں کہا ٹھہر جاؤ.تم یہ اعمال ان کے بجالانے والے کے پاس واپس لے جاؤ اور اس کے منہ پر دے مارو.میں خود پسندی کا فرشتہ ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس شخص کے اعمال کو جس کے اندر عجب پایا جائے.گویا وہ اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کا شریک سمجھتا ہو اور خود پسندی کا احساس اس کے اندر پایا جائے اور اس میں خدا تعالیٰ کی بندگی کا احساس نہ پایا جاتا ہو.اس چوتھے آسمان کے دروازہ سے نہ گزرنے دوں.میرے رب کا مجھے یہی حکم ہے.اِنَّهُ كَانَ إِذَا عَمِلَ عَمَلًا أَدْخَلَ الْعُجْبَ فيه يه شخص جب کوئی کام کرتا تھا خود پسندی کو اس کا ایک حصہ بنادیتا تھا.اس کے اعمال اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول نہیں ہیں.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، فرشتوں کا ایک پانچواں گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوا.ان اعمال کے متعلق ان فرشتوں کا خیال تھا کہ گانه الْعُرُوسُ الْمَرْفُوفَةِ إِلى أَهْلِهَا.وہ ایک سجی سجائی سولہ سنگھار سے آراستہ خوشبو پھیلاتی دلہن کی طرح ہیں جو رخصتانہ کی رات کو اپنے دولہا کے سامنے پیش کی جاتی ہے لیکن جب وہ چاروں آسمانوں پر سے گزرتے ہوئے پانچویں آسمان پر پہنچے تو اس کے دربان فرشتے نے کہا قِفُوا ٹھہر جاؤ وَاضْرِبُوا لِهَذَا الْعَمَلَ وَجْهَ صَاحِبِهِ ان اعمال کو واپس لے جاؤ اور اس شخص کے منہ پر مارو اور اسے کہہ دو کہ تمہارا خدا ان اعمال کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.آنَا مَلِكُ الْحَسَدِ میں

Page 123

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۰۷ خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء حسد کا فرشتہ ہوں اور میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کو حسد کرنے کی عادت ہو.اس کے اعمال پانچویں آسمان کے دروازہ میں سے نہ گزرنے دوں.یہ شخص ہر علم حاصل کرنے والے اور نیک اعمال بجالانے والے پر حسد کیا کرتا تھا.میں اس کے اعمال کو اس دروازہ میں سے نہیں گزرنے دوں گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِن حَفِظَهٔ فرشتوں کا ایک چھٹا گروہ ایک اور بندہ کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوا اور پہلے پانچ دروازوں میں سے گزرتا ہوا چھٹے آسمان تک پہنچ گیا.یہ اعمال ایسے تھے جن میں روزہ بھی تھا، نماز بھی تھی ، زکوۃ بھی تھی ، حج اور عمرہ بھی تھے اور فرشتوں نے یہ سمجھا کہ یہ سارے اعمال خدا تعالیٰ کے حضور میں بڑے مقبول ہونے والے ہیں.لیکن جب وہ چھٹے آسمان پر پہنچے تو وہاں کے دربان فرشتے نے کہا ٹھہر جاؤ.آگے مت جاؤ.إِنَّهُ كَانَ لَا يَرْحَمُ إِنْسَانَا مِنْ عِبَادِ اللهِ قَط شخص خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی بندہ پر کبھی رحم نہیں کرتا تھا اور خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں اس لئے کھڑا کیا ہے کہ جن اعمال میں بے رحمی کی آمیزش ہو، میں انہیں اس دروازہ سے نہ گزرنے دوں.تم واپس لوٹو اور ان اعمال کو اس شخص کے منہ پر یہ کہہ کر مارو کہ تمہارا اپنی زندگی میں یہ طریق ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے بندوں پر رحم کرنے کی بجائے ظلم کرتے ہو.خدا تعالیٰ تم پر رحم کرتے ہوئے تمہارے یہ اعمال کیسے قبول کرے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کچھ اور فرشتے ایک بندے کے اعمال لے کر آسمان کے بعد آسمان اور دروازہ کے بعد دروازہ سے گزرتے ہوئے ساتویں آسمان پر پہنچ گئے.ان اعمال میں نماز بھی تھی ، روزے بھی تھے ، فقہ اور اجتہاد بھی تھا اور ورع بھی تھا لَهَادَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ وَضَوْءُ كَضَوْءِ الشَّمْسِ ان اعمال سے شہد کی مکھیوں کی آواز ایسی آواز آتی تھی یعنی وہ فرشتے گنگنا رہے تھے کہ ہم بڑی اچھی چیزیں خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کرنے کے لئے لے جارہے ہیں اور وہ اعمال سورج کی روشنی کی طرح چمک رہے تھے ان کے ساتھ تین ہزار فرشتے تھے گویا وہ اعمال اتنے زیادہ اور بھاری تھے کہ تین ہزار فرشتے ان کے خوان کو اُٹھائے ہوئے تھے.جب وہ ساتویں آسمان کے دروازہ پر پہنچے تو دربان فرشتہ نے جو وہاں مقرر تھا کہا ٹھہرو، تم آگے نہیں

Page 124

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۰۱ خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء جاسکتے.تم واپس جاؤ اور ان اعمال کو اس شخص کے منہ پر مارو اور اس کے دل پر تالا لگا دو کیونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس کے حضور ایسے اعمال پیش نہ کروں جن سے خالصتاً خدا تعالیٰ کی رضا مطلوب نہ ہو اور ان میں کوئی آمیزش ہو.اس شخص نے یہ اعمال غیر اللہ کی خاطر کئے ہیں أَرَادَ بِهِ رِفْعَةٌ عِنْدَ الْفُقَهَاءِ شخص فقیہوں کی مجالس میں بیٹھ کر اور فخر سے گردن اونچی کر کے تفقہ اور اجتہاد کی باتیں کرتا ہے تا ان کے اندر سے ایک بلند مرتبہ اور شان حاصل ہو.اس نے یہ اعمال میری رضا کی خاطر نہیں کیے بلکہ محض لاف زنی کے لئے کئے ہیں.وَذِكْرًا عِنْدَ الْعُلَمَاءِ وَصِيَّتًا فِي الْمَدَانِ اس کی غرض یہ تھی کہ وہ دنیا میں ایک بڑے بزرگ کی حیثیت سے مشہور ہو جائے.علماء کی مجالس میں اس کا ذکر ہو.آمَرَنِي رَبِّي أَنْ لَّا أَدَعَ عَمَلَهُ يُجَاوِزُ نِي إِلَى غَيْرِى وَكُلُّ عَمَلٍ لَمْ يَكُنْ لِلَّهِ تَعَالَى خَالِصًا فَهُوَ رِيَآء.وہ کام جو خالصاً خدا تعالیٰ کے لئے نہ ہو اور اس میں ریاء کی ملونی ہو وہ خدا تعالیٰ کے حضور مقبول نہیں اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں ایسے اعمال کو آگے نہ گزرنے دوں.تم واپس جاؤ اور ان اعمال کو اس شخص کے منہ پر دے مارو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کچھ اور فرشتے ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوئے اور ساتوں آسمانوں کے دربان فرشتوں نے انہیں گزرنے دیا.انہیں ان اعمال پر کوئی اعتراض نہیں تھا.ان اعمال میں زکوۃ بھی تھی ، روزے بھی تھے، نماز بھی تھی، حج بھی تھا، عمرہ بھی تھا، اچھے اخلاق بھی تھے.ذکر الہی بھی تھا اور جب وہ فرشتے ان اعمال کو خدا تعالیٰ کے حضور میں لے جانے کے لئے روانہ ہوئے تو آسمانوں کے فرشتے ان کے ساتھ ہو لئے اور وہ تمام دروازوں میں سے گزرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ گئے.وہ فرشتے خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو گئے لِيَشْهَدُوا لَهُ بِالْعَمَلِ الصَّالِحِ الْمُخْلَصِ لِلَّهِ اور کہا اے ہمارے ربّ! تیرا یہ بندہ ہر وقت تیری عبادت میں مصروف رہتا ہے، وہ بڑی نیکیاں کرتا ہے اور اپنے تمام اوقات عزیزہ کو تیری اطاعت میں خرچ کر دیتا ہے.وہ بڑا ہی مخلص بندہ ہے.اس میں کوئی عیب نہیں.غرض انہوں نے اس شخص کی بڑی تعریف کی.خدا تعالیٰ نے فرما یا آنْتُمُ الْحَفَظَةُ عَلَى عَمَلِ عَبْدِینی کہ تمہیں تو میں نے اعمال کی حفاظت اور انہیں تحریر کرنے کے لئے مقرر کیا ہے.تم

Page 125

خطبات ناصر جلد اول 109 خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء صرف انسان کے ظاہری اعمال کو دیکھتے ہو اور انہیں لکھ لیتے ہو.وَأَنَا الرَّقِيبُ عَلَى قَلْبِہ اور میں اپنے بندہ کے دل کو دیکھتا ہوں.إِنَّهُ لَمْ يُرِدْنِي لِهَذَا الْعَمَلِ اس بندہ نے یہ اعمال بجالا کر میری رضا نہیں چاہی تھی، بلکہ اس کی نیت اور ارادہ کچھ اور ہی تھا.آراد به غیرِی وہ میرے علاوہ کسی اور کو خوش کرنا چاہتا تھا فَعَلَيْهِ لَعْنَتی اس پر میری لعنت ہے.فَتَقُولُ الْمَلَئِكَةُ كُلُّهم تو تمام فرشتے پکار اٹھیں گے عَلَيْهِ لَعْنَتُكَ وَلَعْنَتُنَا اے ہمارے رب اس پر تیری بھی لعنت ہے اور ہماری بھی لعنت ہے فَتَلْعَنُهُ السَّمواتُ السَّبْعُ وَ مَنْ فِيْهِنَّ اور اس پر ساتوں آسمان اور ان میں رہنے والی ساری مخلوق اس پر لعنت کرنی شروع کر دے گی.حضرت معاذ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو سنا تو آپ کا دل کانپ اُٹھا آپ نے فرمایا يَا رَسُولَ اللهِ كَيْفَ لِي بِالنَّجَاةِ وَالْخُلُوص یا رسول اللہ ! اگر ہمارے اعمال کا یہ حال ہے تو مجھے نجات کیسے حاصل ہو گی ؟ اور میں اپنے رب کے قہر اور غضب سے کیسے نجات پاؤں گا؟ آپ نے فرما یا اقتد بی تم میری سنت پر عمل کرو.وَعَلَيْكَ بِالْيَقِينِ وَ إِنْ كَانَ فِي عَمَلِكَ تَقْصِير اور اس بات پر یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ کا ایک بندہ خواہ کتنے ہی اچھے عمل کیوں نہ کر رہا ہو اس میں ضرور بعض خامیاں رہ جاتی ہیں اس لئے تم اپنے اعمال پر ناز نہ کرو، بلکہ یہ یقین رکھو کہ ہمارا خدا اور ہمارا مولیٰ ایسا ہے کہ وہ ان خامیوں کے باوجود بھی اپنے بندوں کو معاف کر دیا کرتا ہے.وَحَافِظ عَلى لِسَانِكَ اور دیکھو اپنی زبان کی حفاظت کرو اور اس سے کسی کو دکھ نہ کو پہنچاؤ.کوئی بری بات اس سے نہ نکالو.وَلَا تُزَكِ نَفْسَكَ عَلَيْهِمْ اور اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ متقی اور پرہیز گار نہ سمجھو اور نہ اپنی پر ہیز گاری کا اعلان کرو.وَ لَا تُدْخِلُ عَمَل الدُّنْيَا بِعَمَلِ الْآخِرَةِ اور جو عمل تم خدا تعالیٰ کی رضا اور اُخروی زندگی میں فائدہ حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو اس میں دنیا کی آمیزش نہ کرو.وَلا تُمَزِّقِ النَّاسَ فَيُمَزِّقُكَ كِلَابُ النَّارِ اور لوگوں میں فتنہ وفساد پیدا کرنے اور انہیں پھاڑنے کی کوشش نہ کرو اگر تم ایسا کرو گے تو قیامت کے دن جہنم کے کتے تمہیں پھاڑ دیں گے.وَلَا تُراءِ بِعَمَلِكَ النَّاسَ اور اپنے عمل ریاء کے طور پر دنیا کے سامنے پیش نہ کیا کرو.

Page 126

خطبات ناصر جلد اول 11.خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء یہ ساری باتیں اقتدی کی تشریح اور تفسیر ہیں اور ان کا خلاصہ یہی ہے کہ جس طرح عجز کے ساتھ.دنیا سے کلیہ منہ موڑ کر اور خالصہ اپنے رب کے حضور حاضر رہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی گزاری ہے اور جس طرح آپ بنی نوع انسان کے لئے محض شفقت اور محض رحمت تھے.اسی طرح کی زندگی اگر ہم بھی گزارنے کی کوشش کریں یعنی ایک طرف ہم حقوق اللہ کو ادا کرنے کی طرف کوشش کریں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کا بھی لحاظ رکھنے والے ہوں اور ان پر شفقت اور رحم کرنے والے ہوں.ان سے پیار کرنے والے ہوں، ان کے کام آنے والے ہوں اور اپنی دعا اور تدبیر کے ساتھ ان کے دکھوں کو دور کرنے والے ہوں ، وہ ہمارے بھائیوں سے زیادہ ہمیں عزیز اور ہم بھائیوں سے زیادہ ان پر شفقت کرنے والے ہوں.تب اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل کے ساتھ محض اپنے فضل کے ساتھ محض اپنے فضل کے ساتھ ، ہمیں اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لے گا.کیونکہ اس کے فضل کے بغیر ہماری نجات ممکن نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کون پیارا ہوسکتا ہے.حضرت ابو ہریرۃ روایت فرماتے ہیں کہ صحابہ نے آپ سے عرض کیا، یا رسول اللہ ! کیا آپ کی نجات بھی آپ کے اعمال کے نتیجہ میں نہیں ہوگی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہو گی ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں ! میری نجات بھی محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے.میرے عمل کے نتیجہ میں نہیں ہوگی.غرض جب تک ہم اپنے تمام کاموں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نہ چلیں اور آپ کی اقتداء نہ کریں اس وقت تک ہمیں تسلی نہیں ہو سکتی اور یہ تو خدا تعالیٰ کو ہی علم ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے ہیں یا نہیں ، اس لئے ہمیں اپنی زندگیوں کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے، کہ اے خدا ہم نے کچھ کیا یا نہیں کیا.ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر ہم سب کچھ بھی کر دیں تب بھی ہمارے اعمال میں بہت سی کمزوریاں ہوں گی اور وہ اس قابل نہیں ہوں گے کہ تو انہیں قبول کرے.اس لئے ہم یہ نہیں کہتے کہ تو ہمارے عمل کو قبول کر، بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ تو اپنے فضل سے ہمیں قبول کر لے اور اپنے قرب

Page 127

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء اور رضا کی راہیں ہم پر کھول دے ، تا اس دنیا میں بھی ہم اس تیری جنت کے وارث بنیں اور آنے والی دنیا میں بھی ہم تیری جنت کے وارث بننے والے ہوں.اللهم آمین روزنامه الفضل ربوه ۹ فروری ۱۹۶۶ صفحه ۲ تا ۵)

Page 128

Page 129

خطبات ناصر جلد اول ۱۱۳ خطبه جمعه ۲۸ جنوری ۱۹۶۶ء مومن ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہتا ہے لیکن اس کے دل میں مایوسی پیدا نہیں ہوتی خطبه جمعه فرموده ۲۸ جنوری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.پچھلے دو دن میری طبیعت کچھ خراب رہی ہے مجھے گرمی لگ جانے یعنی ہیٹ سٹروک کی تکلیف ہوگئی تھی پرسوں رات قریباً ساری رات ہی میں نے جاگ کر گزاری ہے اسی تکلیف کے نتیجہ میں ساری رات پلپی ٹیشن (Palpitation) یعنی دل کی دھڑکن کی رفتار ڈیڑھ سو سے اوپر رہی اور ضعف بھی بہت محسوس ہوتا رہا.آج گو پہلے کی نسبت بہت آفاقہ محسوس ہو رہا ہے اور دل کی دھڑکن کی رفتار ۹۰ کے قریب آگئی ہے.( گو یہ رفتار بھی کچھ زیادہ ہے ) لیکن ضعف بہت محسوس ہو رہا تھا.میں نے خیال کیا کہ اگر اس ضعف کی وجہ سے میں خطبہ جمعہ کے لئے مسجد میں حاضر نہ ہوا تو کہیں میرا رب مجھ سے ناراض نہ ہو جائے اور وہ یہ نہ کہے کہ ہم نے جماعت میں تمہاری اتنی محبت اور پیار پیدا کیا ہے اور تم اس کی ملاقات سے بھی محروم ہو رہے ہو.اس خوف کی وجہ سے باوجود ضعف کے میں حاضر ہو گیا ہوں اور اسی مقام خوف کی طرف میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں لوگوں کو متوجہ بھی کیا تھا اور بتایا تھا کہ مومن کا مقام خوف اور رجا کے درمیان ہوتا ہے ایک طرف اللہ تعالیٰ کا بندہ اس سے ڈرتا رہتا ہے اور اسے اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ کہیں اس کے کسی

Page 130

خطبات ناصر جلد اول ۱۱۴ خطبہ جمعہ ۲۸/جنوری ۱۹۶۶ء ظاہری یا باطنی گناہ کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اس سے ناراض نہ ہو جائے.وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان اس قدر بلند ہے کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ میں اسے اپنے اعمال کے نتیجہ میں خوش کر سکتا ہوں.پس خدا کا بندہ اپنے اعمال پر کبھی بھروسہ نہیں کرتا.وہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی سمجھتا ہے کہ اس نے کچھ نہیں کیا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ممکن ہے اس کے اعمال میں کوئی ظاہری یا باطنی نقص رہ گیا ہو اور خدا تعالیٰ انہیں رڈ کر دے اور اس مضمون پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھی جو گزشتہ جمعہ میں نے دوستوں کو سنائی تھی.بڑی وضاحت سے دلالت کرتی ہے لیکن اس خوف کے نتیجہ میں ایک مومن کے دل میں مایوسی نہیں پیدا ہونی چاہیے کیونکہ اس شخص کو جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ڈرتے زندگی گزار دیتا ہے خدا تعالیٰ نے بہت بڑی بشارت دی ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِنِ (الرَّحْمن : ۴۷) یعنی وہ شخص جو اپنے دل میں خدا تعالیٰ کی بلندشان کو مڑ نظر رکھتے ہوئے ہر وقت اس کے خوف کا احساس اپنے دل میں رکھتا ہے.اور سمجھتا ہے کہ میں اپنے عمل کا ایک تحفہ اپنے خدا کے حضور تو پیش کر رہا ہوں.آگے اس کی مرضی ہے کہ وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے.خدا تعالیٰ کہتا ہے ہم ایسے شخص کو یہ بشارت دیتے ہیں کہ ہم اسے دو جنتیں دیں گے.ان میں سے ایک جنت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو اس دنیا میں عطا کرتا ہے اور دوسری جنت وہ ہے جو اُخروی زندگی میں یعنی اس دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مومن کو نصیب ہوتی ہے.غرض اس خوف کی وجہ سے جس کی تلقین خدا تعالیٰ کرتا ہے.ہمارے دلوں میں مایوسی پیدا نہیں ہوتی اور نہ اسے پیدا ہونا چاہیے کیونکہ خوف اپنی جگہ پر قائم ہے اور امید ہے، اپنی جگہ پر قائم ہے.گو ہمیں ڈرتے ڈرتے زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.لیکن اس کے ساتھ ہی زندگی کے کسی لمحہ میں بھی ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مایوسی مومن کی علامت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کا فر کی علامت قرار دیا ہے.جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے.إِنَّهُ لَا يَا يُعَسُ مِنْ رَّوحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ (يوسف: ۸۸)

Page 131

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۱۵ خطبہ جمعہ ۲۸/جنوری ۱۹۶۶ء اصل بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کا فرلوگوں کے سوا کوئی انسان نا امید نہیں ہوتا.غرض خوف اور مایوسی میں بڑا فرق ہے اور ہمیں اس فرق کو ہمیشہ یادرکھنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ کہا ہے کہ وہ شخص یا قوم جو خوف کے مقام کو اختیار کرتی ہے اور اپنے رب سے ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارتی ہے.وہ اسے دو جنتیں دیتا ہے ایک جنت اسے اس ورلی زندگی میں عطا ہوتی ہے اور ایک جنت اُخروی زندگی میں اسے ملتی ہے ورلی زندگی کی جنت کا اس حدیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر آیا ہے جو میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں سنائی تھی.کیونکہ جس معاشرہ میں غیبت نہ ہو.جس معاشرہ میں فخر و مباہات نہ کیا جائے.جس معاشرہ میں کوئی شخص بھی اپنے بھائی سے تکبر کے ساتھ پیش نہ آئے اس میں عجب اور خود پسندی کا مظاہرہ نہ ہو کوئی ایک دوسرے پر حسد نہ کر رہا ہو.بلکہ سارے ہی ایک دوسرے پر رحم کرنے والے ہوں جس معاشرہ میں خدا تعالیٰ کی عبادت ریاء کے طور پر نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ ہو یعنی ہر ایک شخص مخلصانہ دل کے ساتھ اپنے رب کو یاد کر رہا ہو.تمام لوگ اپنے تمام اعمال محض خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر بجا لاتے ہوں.تو ایسا معاشرہ یقیناً جنت کا معاشرہ ہے.جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کو دکھ دینے کا باعث نہیں بنتا.ہر شخص کو جسمانی اور روحانی دونوں قسم کا سکون حاصل ہوتا ہے.خوف کے علاوہ دوسری چیز جس کا ایک مومن بندے کے اندر پایا جانا ضروری ہے.مایوسی کا نہ ہونا ہے ایک مومن بندے کو اپنے رب پر کامل یقین ہونا چاہیے اور اس کا دل اس امید سے بھرا رہنا چاہیے کہ وہ ہماری خطاؤں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ دے گا اور وہ محض احسان کے طور پر اور اپنی رحمانیت کی صفت کے ماتحت ہم سے سلوک کرے گا اور ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل کرے گا یہ مومن بندہ کی دوسری شان ہے اور مومن بندہ ایسا ہی ہوا کرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّه هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ - وَ اَنبُوا إِلى رَبَّكُمْ وَ أَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ.(الزمر: ۵۵،۵۴)

Page 132

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۲۸ جنوری ۱۹۶۶ء اے محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ان تمام بندوں کو جو تجھ پر اور مجھ پر ایمان لائے ہیں.میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور وہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے اعمال میں کچھ تقصیر بھی ہے اور گناہ کی آمیزش بھی ہے اور بعض لغزشیں بھی ان سے سرزد ہوئی ہیں.تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھی مایوس نہ ہونا.کیونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہ بخش دیتا ہے وہ بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے اگر تم سے بار با تقصیر میں اور گناہ سرزد ہوں تب بھی تم مایوس نہ ہو کیونکہ وہ بار بار رحم کرنے والا ہے اور تم سب اپنے رب کی طرف جھکو اور اس کے پورے پورے فرماں بردار بن جاؤ اس کے ارشاد اور ہدایت کے مطابق اچھے اعمال بجالا ؤ اور اس کی رضاء کو حاصل کرنے کی خاطر ان باتوں سے بچو جن سے بچنے کی اس نے تمہیں تلقین کی ہے.اور مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ - پیشتر اس کے کہ ایسا عذاب نازل ہو جس کے نزول کے بعد تمہاری مدد کو کوئی نہ پہنچ سکے.یعنی اپنی زندگی میں اور موت سے پہلے اگر تم فرماں بردار بننے کی کوشش کرتے رہو گے.تو اللہ تعالیٰ یقینا بخشنے والا ہے.وہ تمہارے گناہ بخش دے گا لیکن اگر تم اپنی زندگی میں اور جب تک تمہارے ہوش وحواس قائم رہتے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کرو اور اس کی پرواہ نہ کرو.تم دین و دنیا کے ابتلاؤں کو اپنے لئے ایک مصیبت جانو اور بدعملی ریاء اور استکبار میں اپنی زندگی گزار دو تو موت کے وقت تمہارا پچھتانا تمہیں کوئی کام نہ دے گا بلکہ تمہیں ایسا عذاب ملے گا.اس سے بچنا ممکن نہ ہوگا اور اس وقت تمہارا کوئی مدد گار نہیں ہو گا یعنی اس وقت خدائے رحمان بھی تمہاری مدد کو نہیں پہنچے گا.پس اگر تم اللہ تعالیٰ کی نصرت، اس کی مدد، اس کی مغفرت اور رحمت کے متلاشی ہو تو اسی دنیا میں اپنی نیتوں کو خالص کر کے تمام اعمال محض اللہ بجالا ؤ پھر اگر بشر ہونے اور ایک کمزور مخلوق ہونے کی وجہ سے تمہارے اعمال میں کوئی کوتا ہی رہ جائے تو ہم بڑے ہی بخشنے والے ہیں.ہم تمہیں بخش دیں گے.غرض اللہ تعالیٰ ہمیں مایوسی سے روکتا ہے اور اپنی رحمت کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ہمیں اپنے فضل و کرم کی بڑی امید دلاتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اگر تم میرا قرب ، میرا وصال اور میری رضاء چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ تم میرے کہنے کے مطابق اعمال بجالاتے رہو اور

Page 133

خطبات ناصر جلد اول ۱۱۷ خطبہ جمعہ ۲۸/جنوری ۱۹۶۶ء تمہاری ہمت اور کوشش یہی ہو.تمہاری مخلصانہ نیت یہی ہو کہ تم جو نیک کام بھی کرو گے وہ اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے کرو گے اور اگر بوجہ بشر اور کمزور مخلوق ہونے کے تم سے غلطیاں سرزد ہوئیں.تو میں ان غلطیوں کو معاف کر دوں گا اور معاف کرنے کے یہ معنی ہیں کہ جب خدا تعالیٰ اس پر مہربان ہو گا اور اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مغفرت کی چادر اس کو اوڑھا دے گا.تو وہ ایسا ہی ہو جائے گا جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا.اللہ تعالیٰ نیک انسان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا.قرآن و حدیث میں ایک طریق کا ذکر آتا ہے کہ اس کے گناہوں اور نیکیوں کا مواز نہ ہوگا.مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ اچھے اور برے اعمال کو ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھا جائے گا بُرے اعمال اچھے اعمال کو کینسل (Cancel) کرتے جائیں گے یعنی ان کے اوپر خط تنسیخ کھینچتے چلے جائیں گے.اگر آخر میں نیک عمل رہ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں لے جائے گا.لیکن اگر کسی کی بد اعمالیاں اس کے نیک اعمال سے زیادہ ہوں گی تو وہ اللہ تعالیٰ کے قہر کا مورد بن جائے گا.لیکن جس شخص کے بڑے اعمال تھے تو زیادہ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی مغفرت کی چادران پر ڈال دی اور وہ سب معاف کر دئے.تو اس شخص کے صرف اچھے اعمال ہی باقی رہ گئے.تو جتنا بدلہ ان اعمال کا الہی قانون کے مطابق مل سکتا ہے وہ اسے مل جائے گا.پھر اس سے زائد بھی ملے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی رحمت بے حد و حساب ہے.میں نے عید کے خطبہ میں بتایا تھا کہ رحمت کے لفظ میں مغفرت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں.پس خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو بھی معاف کر دے گا اور پھر اچھے اعمال کا اپنے قانون کے مطابق بدلہ بھی دے گا اور پھر اپنی رحمت کے نتیجہ میں اس کو زائد بھی دے گا.اسی لئے تو اُخروی زندگی میں مومن کو ملنے والی جنت ابدی جنت بن جاتی ہے.کیونکہ اگر انسان کو محض اس کے اعمال کا ہی بدلہ ملتا تو چاہے وہ اعمال کتنے ہی زیادہ ہوتے بہر حال انہوں نے ایک وقت ختم ہو جانا تھا اور ان محدود اعمال کا بدلہ محدود ہی ملنا تھا اور ایک حد پر آکر ختم ہو جانا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے ہم سے رحمت اور احسان کا سلوک کرنا ہے اس لئے اس نے ہمارے لئے ایک ابدی جنت مقدر کر رکھی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم

Page 134

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۱۸ خطبه جمعه ۲۸ جنوری ۱۹۶۶ء میں فرماتا ہے.فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا - (الكهف : ١١١) یعنی جو شخص ہمارا وصال چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نیک اور مناسب حال اور ہمارے احکام کے مطابق اعمال بجالائے اور کوشش کرے کہ ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے شرکوں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو پاک رکھے.اس میں کسی قسم کی آمیزش اور ملاوٹ نہ ہونے دے غرض ایسا شخص جو عبادت کے وقت صرف خدا تعالیٰ کی ہی عبادت کرتا ہے اور کسی اور کے سامنے سر نیاز خم نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کے احکام بجالانے کی ہر وقت کوشش کرتا رہتا ہے.وہی امیدرکھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب اسے حاصل ہو جائے گا اللہ تعالیٰ اسے مل جائے گا اور جس شخص کو خدا تعالیٰ مل جائے اسے نہ اس جہان کی جنت کی ضرورت رہتی ہے اور نہ اگلے جہان کی جنت اسے درکار ہے دونوں جہانوں کی جنتوں کا منبع جو اسے حاصل ہو گیا.غرض خوف اپنی جگہ پر ہے اور امید و رجاء اپنی جگہ پر ہے.اسلام نے ہمیں کسی صورت میں بھی نا امید نہیں کیا ہمیں ڈرا یا ضرور ہے.تنبیہ ضرور کی ہے کہ تم ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزار و اور ان احکام پر عمل کرو جو ہم نے تمہارے لئے نازل کئے ہیں.ان بداخلاقیوں اور بداعمالیوں سے بچتے رہو جن سے بچنے کی ہم تمہیں تلقین کرتے رہتے ہیں اور ہمیں بشارت دی ہے کہ اگر تم ایسا کرو تو میں تمہارے لئے اس دنیا میں بھی جنت کا ماحول پیدا کر دوں گا.لیکن تم اپنے عمل پر کبھی بھروسہ نہ کرو.کیونکہ خدا تعالیٰ کی ذات اتنی ارفع ، اتنی اعلی ، اتنی شان اور اتنی طاقت والی ہے کہ اگر کسی انسان کے دماغ میں معمولی عقل بھی ہے تو وہ ایک لحظہ کے لئے بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ میں اس کی رضا کی جنت کو زور بازو سے حاصل کرلوں گا اور میں اسے اپنے اعمال کے زور پر خوش کرلوں گا.اگر ہمارے اعمال خدا تعالیٰ کے ان احسانات کے مقابلہ میں رکھے جائیں جو اس نے ہم پر ہمارے پیدائش کے وقت سے لے کر موت تک کئے ہیں.تو ہمارے اعمال ان احسانوں کے مقابلہ میں بطور شکر کے بھی کافی نہیں.تو جب انسان نے پہلے قرضے ہی ادا نہیں کئے اور نہ وہ ادا کر سکتا ہے تو اپنے اعمال کی جزا کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.جب تک کہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اس کے شامل حال نہ ہو.

Page 135

خطبات ناصر جلد اول ۱۱۹ خطبہ جمعہ ۲۸/جنوری ۱۹۶۶ء غرض جب تک اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے فضل اور رحمت سے نہ نوازے اس وقت تک نہ تو اسے جنت مل سکتی ہے اور نہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے.پس ایک طرف ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی کے لمحات گزار و اور دوسری طرف یہ کہا گیا ہے کہ کبھی مایوس نہ ہونا کیونکہ مایوسی کفر کی علامت ہے اور وہ اسی دل میں پیدا ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے احکام کا منکر اور اس کے احسانوں کا ناشکر گزار ہو جو شخص خدا تعالیٰ کے ان احسانوں کو جو ہر آن اس پر ہو رہے ہیں.یا د کر نے والا ہو وہ اپنے اس احسان کرنے والے رب سے کس طرح مایوس ہوسکتا ہے.غرض ہم نے زندگی کے یہ دن جو ہمیں عطا ہوئے ہیں ڈرتے ڈرتے گزارنے ہیں لیکن ہم نے خدا تعالیٰ سے کبھی مایوس نہیں ہونا.کیونکہ وہ بڑا فضل کرنے والا بڑا رحم کرنے والا اور بڑا احسان کرنے والا ہے اور پھر ہمیں ہمیشہ اس سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا ہم تو نیستی محض ہیں ہم اور ہمارے اعمال کچھ بھی نہیں لیکن ہم تیری ذات پر کامل اور پوری امید رکھتے ہیں کہ تو ہم سے احسان فضل اور رحمت کا معاملہ کرے گا.ہماری خطاؤں کو معاف کر دے گا ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل کرے گا اور ہمیں توفیق دے گا کہ ہم تیرے شکر گزار اور حمد کرنے والے بندے بنے رہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے بندوں کے اس زمرہ میں شامل کرے جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور اپنی رحمت سے انہیں نوازتا ہے.(روز نامه الفضل ربوه ۱۶ / فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 136

Page 137

خطبات ناصر جلد اول ۱۲۱ خطبہ جمعہ ۴ فروری ۱۹۶۶ء قرآن کے سیکھنے اور سکھانے کے لئے ہمیں غیر معمولی توجہ اور خاص جد و جہد کرنی چاہیے خطبه جمعه فرموده ۴ فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے دنیوی اور روحانی ترقیات حاصل کی تھیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے قرآن کریم کو وہ عظمت دی تھی جس کا اسے حق حاصل تھا.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے ایک کامل کتاب نازل کی تھی اور انہوں نے اس کی قدر کی.انہوں نے اسے پڑھا اور ان میں سے بہتوں نے اسے حفظ کیا اور اسے سمجھنے کی کوشش کی اور نہ صرف کوشش کی بلکہ اس کے سمجھنے کے لئے ہر ممکن تدبیر کے علاوہ دعاؤں کا سہارا اور اس طرح انہوں نے قرآن کریم کے علوم اپنے رب سے سیکھے اور اس نیت سے سیکھے کہ اس کے نتیجہ میں وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں.انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کی یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے کہ وہ اس پر عمل کریں اور انہیں یقین تھا کہ اگر وہ اس پر عمل کریں گے تو اس دنیا میں بھی وہ خدا تعالیٰ کے افضال اور اس کی رحمتیں حاصل کریں گے اور اُخروی زندگی میں بھی وہ ان کے وارث ہوں گے اور جب انہوں نے قرآن کریم کی پاک تعلیم سیکھنے کے بعد اس پر عمل کیا تو قرآن کریم کے طفیل جو بڑی عظمت والی کتاب ہے انہیں اس دنیا میں بھی بڑی عظمت حاصل ہوئی اپنے تو اپنے ہی تھے غیر بھی اس بات کو

Page 138

خطبات ناصر جلد اول ۱۲۲ خطبہ جمعہ ۴ فروری ۱۹۶۶ء تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ فی الواقعہ یہ قوم بڑی عظمت والی ہے انہوں نے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کیا اور اس کے نتیجہ میں قرآن کریم کی رفعتوں کے طفیل اس قوم کو بھی رفعتیں حاصل ہوئیں اور اس قدر رفعتیں انہیں نصیب ہوئیں کہ آسمان کے ستاروں کی رفعتیں بھی ان کے مقابلہ میں بیچ نظر آنے لگیں اور وہ ان بلندیوں پر پہنچ گئی.جن تک دنیوی عقل کو رسائی حاصل نہیں اور انہوں نے وہ کچھ حاصل کر لیا جو انسان اپنی کوشش اپنی جد و جہدا اپنی عقل اور اپنی فراست سے حاصل نہیں کر سکتا تھا.اسلام کی پہلی تین صدیوں میں ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے کہ قرآن کریم پر عمل کرنے والے دنیوی زندگی کے ہر شعبہ میں قائد سمجھے جاتے تھے وہ اسی کی برکت سے دنیا کے لیڈر بنے وہ اسی کے طفیل دنیا کے استاد بنے ، دنیا کے محبوب بنے ، اس لئے کہ قرآن کریم نے ان کی طبائع کو اسی طرح بدل دیا تھا کہ دنیا ان سے پیار اور محبت کرنے پر مجبور ہوگئی.لیکن تین صدیوں کے بعد مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے قرآن کریم سے جو کچھ حاصل کرنا تھا کر لیا ہے.جو کچھ قرآن کریم سے انہوں نے پانا تھا پا لیا ہے اب انہیں نہ قرآن کریم پڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ اسے سمجھنے کی حاجت ہے وہ خام عقل اور دنیوی فراست جو انہیں محض اس لئے دی گئی تھی کہ وہ اس الہی پیغام کو سمجھنے میں ممد اور معاون بنے.الٹا قرآن کریم کو چھوڑ کر انہوں نے صرف اس پر انحصار کر لیا.تب خدا تعالیٰ نے یہ نظارہ بھی دکھایا کہ وہ قوم جو دنیا پر ہر طرح سے چھا گئی تھی اور اس نے اقوامِ عالم سے اپنی برتری کا سکہ منوالیا تھا قعر مذلت میں گر پڑی اور اس نے اس قدر ذلتیں اور رسوائیاں اُٹھا ئیں کہ آلْآمَانِ وَالْحَفِيظ - اب اللہ تعالیٰ نے پھر محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرما کر ہمیں قرآن کریم سے متعارف کرایا ہے.آپ نے ہمیں ان تمام خوبیوں کا علم پہنچایا ہے جو قرآن کریم میں پائی جاتی تھیں اور ہمیں ان کی طرف متوجہ کیا ہے.چنا نچہ آپ فرماتے ہیں.جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے که قرآن کریم کے حسن ، اس کی خوبصورتی اور اس کی دل کو موہ لینے والی تعلیم سے ایک

Page 139

خطبات ناصر جلد اول ۱۲۳ خطبہ جمعہ ۴ فروری ۱۹۶۶ء مسلمان اپنی زندگی کا نور حاصل کرتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جس طرف بھی ہم جائیں گے جب تک قرآن کریم کی مشعل ہمارے ہاتھ میں نہ ہوگی جب تک اس کا نور ہماری راہ نمائی نہ کر رہا ہو گا ہم صداقت اور بلندیوں کی راہوں پر گامزن نہیں ہو سکتے.ہمارے لئے ایک لمبے عرصہ کے بعد قرآن کریم کی کھڑکیاں دوبارہ کھولی گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیش بہا اور قیمتی لعل و جواہر قرآن کریم سے نکال کر ہمارے سامنے پیش کئے ہیں.اگر ہم اب بھی ان کی قدر نہ کریں تو ہم جیسی بد بخت قوم اور کوئی نہیں ہو سکتی.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کے علوم نہ صرف ہم خود دیکھیں بلکہ دوسروں کو بھی سکھائیں ( دوسرے لوگوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو نو احمدی ہیں اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہماری نئی نسل کے طور پر ہم میں شامل ہوئے ہیں ) اگر ہم قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ اس کے علوم کا خزانہ نہ ختم ہونے والا ہے تو جتنا زیادہ فکر اور تدبر ہم اس میں کریں گے اور شرائط کے ساتھ اور صحیح رنگ میں جتنی ہم دعا کریں گے، جتنی عاجزی اور انکسار کے ساتھ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے جھکیں گے اور اس سے مدد چاہیں گے، اتنے ہی زیادہ علوم ہمیں قرآن کریم سے حاصل ہوں گے اور ہوتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.ہمارا یہ فرض ہے کہ اب ہم اس نعمت عظمی کو ضائع نہ ہونے دیں تا وہ اندھیری راتیں جو پچھلے زمانہ میں اسلام پر گزری ہیں وہ آئندہ تا قیامت اسلام پر نہ آئیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ہمیں بار بار اس طرف متوجہ کیا تھا اور بڑے دکھ کے ساتھ آپ نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ہم قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی طرف کما حقہ توجہ نہیں دے رہے.میں بھی آپ لوگوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ قرآن سیکھو اور اس کے علوم حاصل کرو پھر اپنے بچوں کو بھی قرآن پڑھاؤ تا یہ نعمت ہماری ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتی چلی جائے اور وہ بلندیاں جو ہماری ایک نسل حاصل کرے.ہماری آئندہ آنے والی نسلیں ان سے بھی بلند تر ہوتی چلی جائیں اور قرآن کریم کے علوم انہیں زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتے چلے جائیں.قرآن کریم سے اتنا پیار کرو کہ اتنا پیار تمہیں دنیا کی کسی اور چیز سے نہ

Page 140

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۲۴ خطبہ جمعہ ۴ فروری ۱۹۶۶ء ہو.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت اس طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہو رہی.پہلے بھی وہ ستی کی مرتکب ہوتی رہی ہے اور اب بھی وہ ایک حد تک غفلت کا شکار ہو رہی ہے.اس لئے ہمیں اس بارہ میں کوئی عملی قدم اٹھانا چاہیے میں نے سوچا ہے کہ ہم ایک منصوبہ کے ماتحت جماعت کے بچوں اور اس کے نو جوانوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھا ئیں اور پھر اس کا ترجمہ اور اس کے معانی ان کو سکھا دیں.قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کے سلسلہ میں بڑی اور شہری جماعتوں میں غفلت پائی جاتی ہے اور دیہاتی جماعتوں میں بھی شاید اکثر ایسی ہوں جو اس طرف سے بے توجہی برت رہی ہیں.چنانچہ پچھلے دنوں جماعت احمد یہ لاہور کے ایک دوست مجھے ملے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے حلقہ کی جماعت میں بہت سے ایسے احمدی بچے ہیں جو قرآن کریم ناظرہ پڑھنا بھی نہیں جانتے اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے.ہمیں اس کیفیت کو جلد تر بدل دینا چاہیے ایسا کرنا ہمارا اولین فرض ہے.اس سلسلہ میں جو ابتدائی منصوبہ میں جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ لاہور کے تمام بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس خدام الاحمدیہ کرے.اور کراچی کی جماعت کے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام میں مجلس انصاراللہ کے سپرد کرتا ہوں.ضلع سیالکوٹ کی دیہاتی جماعتوں میں یہ کام مجلس خدام الاحمدیہ کرے ، ضلع جھنگ میں جو جماعتیں ہیں ان کے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس انصاراللہ کے سپر د کیا جاتا ہے ان کے علاوہ جو جماعتیں ہیں ان میں اس اہم کام کی طرف نظارت اصلاح وارشاد کو خصوصی توجہ دینی چاہیے.ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ دو تین سال کے اندر ہمارا کوئی بچہ ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہ آتا ہو.اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کو اس طرف بڑی توجہ دینی پڑے گی اور اس کے لئے بڑی کوشش درکار ہو گی ہم بڑی جدو جہد کے بعد ہی اس کام میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس منصو بہ کو کامیاب بنانا نہایت ضروری ہے.اگر ہم نے الہی سلسلہ کے طور پر ان نعمتوں کو اپنے اندر قائم رکھنا ہے.جو اللہ تعالیٰ

Page 141

خطبات ناصر جلد اول ۱۲۵ خطبہ جمعہ ۴ فروری ۱۹۶۶ء نے محض رحمانیت کے ماتحت ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل عطا کی ہیں تو ہمیں اپنے اس منصو بہ کو کا میاب بنانے میں اپنے آپ کو پورے طور پر لگا دینا ہو گا.اس منصوبہ کی تفاصیل متعلقہ محکمے تیار کریں اور ایک ہفتہ کے اندر اندر مجھے پہنچا ئیں.یعنی جو حلقے مجلس خدام الاحمدیہ کو دیئے گئے ہیں اور جو جماعتیں مجلس انصاراللہ کے سپرد کی گئی ہیں اور باقی جماعتیں جو اصلاح وارشاد کے صیغہ کے سپرد کی گئی ہیں ان میں انہوں نے کس کس رنگ میں کام کرنا ہے اس کے متعلق وہ اپنا اپنا منصوبہ تیار کریں اور اس منصوبہ کی تفاصیل ایک ہفتہ کے اندراندر مجھے پہنچا ئیں ان سب محکموں کو یہ بات مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہ پہلے ہی سال اس کام میں سو فیصدی نہیں تو ۹۰ فیصدی کامیابی ضرور حاصل کر لیں.کیونکہ جو ذہین بچے ہیں وہ تو چھ ماہ کے اندر بلکہ بعض بچے اس سے بھی کم عرصہ میں قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیں گے قاعدہ میسر نا القرآن اگر صحیح طور پر پڑھا دیا جائے تو بچہ کے لئے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا مشکل نہیں ہوتا.مجھے یہ سن کر بہت تعجب ہوا ہے کہ ہمارے کالج کے بہت سے طلباء بھی قرآن کریم نہیں پڑھ سکتے اور اگر یہ بات درست ہے کہ ان میں سے ایک تعداد قرآن کریم ناظرہ پڑھنا بھی نہیں جانتی یا ان میں سے بہت سے لڑکے قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے تو انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر انہیں قرآن کریم سے وابستگی نہیں اگر انہیں قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں اور انہیں قرآنی علوم حاصل نہیں تو انہوں نے دنیوی علوم حاصل کر کے کیا لینا ہے.دنیا کے ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں دہر یہ لوگ دنیا کے ان علوم کو حاصل کر رہے ہیں.وہ دیکھیں کہ یہ علوم دنیا کو کس طرف لے جا رہے ہیں.اُخروی زندگی کو تو چھوڑ و وہ دنیا کو بھی تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں وہ دیکھیں کہ آخر دنیا کو ان دنیوی علوم سے کون سی خیر و برکت حاصل ہو رہی ہے.آج دنیا کے ہر طبقہ کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ جس طرح ہم نے دنیوی علوم سیکھے ہیں اور جس طور پر ہم نے انہیں استعمال کیا ہے وہ انسانیت کو بھلائی کی طرف نہیں بلکہ تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں.غرض ہمارے کالج کا طالب علم ہو اور پھر وہ قرآن کریم سے ناواقف ہو یہ بڑی شرم کی بات ہے.بہر حال ہم نے یہ کام کرنا ہے اور واضح بات ہے کہ اتنے بڑے کام کے لئے چند مربی یا

Page 142

خطبات ناصر جلد اوّل ١٢٦ خطبہ جمعہ ۴ فروری ۱۹۶۶ء معلم یا مجالس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے بعض عہدیدار کافی نہیں.یہ تھوڑے سے لوگ اس عظیم کام کو پوری طرح نہیں کر سکتے.اس کے لئے ہمیں اساتذہ درکار ہیں ہمیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے رضا کار چاہئیں جو اپنے اوقات میں سے ایک حصہ قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کے لئے یا جہاں ترجمہ سکھانے کی ضرورت ہو وہاں قرآن کریم کا ترجمہ سکھانے کے لئے دیں تا یہ اہم کام جلدی اور خوش اسلوبی سے کیا جا سکے.میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نعمت جو قرآن کریم کی شکل میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل دوبارہ ملی ہے اگر وہ ورثہ کے طور پر آپ کے بچوں کو نہیں ملتی تو آپ اپنی زندگی کے دن پورے کر کے خوشی سے اس دنیا سے رخصت نہیں ہوں گے.جب آپ کو یہ نظر آرہا ہو گا کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا خزانہ یعنی قرآن کریم جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل حاصل کیا تھا اس سے آپ کے بچے کلیہ نا واقف ہیں تو موت کے وقت آپ کو کیا خوشی حاصل ہوگی.آپ ان جذبات کے ساتھ اس دنیا کو چھوڑ رہے ہوں گے کہ کاش آپ کی آئندہ نسل بھی ان نعمتوں کی وارث ہوتی جن کو آپ نے اپنی زندگی میں حاصل کیا تھا پس تم اپنی جانوں پر رحم کرو.اپنی نسلوں پر رحم کرو.اپنے خاندانوں پر رحم کرو اور پھر ان گھروں پر رحم کرو جن میں تم سکونت پذیر ہو کیونکہ قرآن کریم کے بغیر آپ کے گھر بھی بے برکت رہیں گے.ہر احمدی کا گھر ایسا ہونا چاہیے کہ اس میں رہنے والا ہر فر د جو اس عمر کا ہے کہ وہ قرآن کریم پڑھ سکتا ہو صبح کے وقت اس کی تلاوت کر رہا ہو.لیکن اگر مثال کے طور پر آپ کے گھر میں دس افراد ہیں اور ان میں سے صرف ایک فرد قرآن کریم پڑھنا جانتا ہے باقی نو افراد قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتے تو گویا آپ نے اس نعمت کا ۱/۱۰ حصہ حاصل کیا لیکن دنیوی لحاظ سے آپ ساری کی ساری چیز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں.مثلاً جو تنخواہ آپ کی مقرر کی گئی ہے آپ کبھی پسند نہیں کرتے کہ آپ کو اس کا ۱/۱۰ حصہ ملے اسی طرح دوسری چیز میں ہیں غرض آپ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں اس میں آپ سو فیصدی کامیاب ہونے کی خواہش رکھتے ہیں سوائے مجنون کے آپ کو کوئی انسان ایسا نہیں ملے گا جو کام تو کر رہا ہولیکن اس کے دل میں محض یہ خواہش ہو کہ میں اس میں

Page 143

خطبات ناصر جلد اول ۱۲۷ خطبہ جمعہ ۴ رفروری ۱۹۶۶ء سو فیصدی کامیابی حاصل نہ کروں بلکہ دس فیصدی کامیابی حاصل کروں اور ۹۰ فیصدی مجھے ناکامی ہو اور جب دنیا میں کسی عقلمند انسان کے دل میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی کہ وہ اپنے کام میں محض دس فیصدی کامیاب ہو ۹۰ فیصدی ناکام ہو تو آپ روحانی لحاظ سے یہ بات کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ آپ کے گھر میں قرآن کریم کی برکات میں سے صرف دس فیصد نازل ہو اور نوے فیصدی برکات سے آپ ہمیشہ کے لئے محروم رہیں.پس آپ اپنی جانوں، اپنی نسلوں اور اپنے گھروں پر رحم کرتے ہوئے جلد سے جلد اس طرف متوجہ ہوں اور اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر اس اہم کام کے لئے پیش کریں اور کوشش کریں کہ ہر جماعت چاہے وہ شہری ہو یا دیہاتی ایک سال کے اندر اندر اس کام کا بیشتر حصہ تکمیل تک پہنچا دے اور دو یا تین سال تک ہمیں یہ نظارہ نظر آئے کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم ناظرہ نہ پڑھ سکتا ہو اور کثرت سے ایسے احمدی ہوں جو قرآن کریم کا ترجمہ بھی جانتے ہوں جب تک ہم اس کام میں کامیاب نہیں ہو جاتے اس وقت تک نہ ہمیں کوئی دنیوی ترقی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ روحانی لحاظ سے ہم سرخرو ہو سکتے ہیں کیونکہ فیوض آسمانی کا سرچشمہ ہم نے اپنے لئے بند کر لیا ہے.پھر ہم وہ آب بقا کہاں سے حاصل کریں گے.جو صرف قرآن کریم سے حاصل ہو سکتا ہے پس قرآن کریم کی قدر کریں اور اس کی عظمت کو اپنے دلوں اور اپنے ماحول میں قائم کریں.اس کی بلندیوں تک پہنچنے کا اپنے آپ کو اہل بنا ئیں اگر آپ ایسا کرلیں گے تو آپ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح ستاروں سے بھی بلند تر ہوتے چلے جائیں گے آپ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے والے ہوں گے.خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے آپ کے لئے کھولے جائیں گے اس کی رضا کی جنت آپ کو حاصل ہو گی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم سے پیار کرنے کے نتیجہ میں آپ سے پیار کرنے لگ جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ہم محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم آپ کے پیار کو دوسری تمام چیزوں کے پیار پر ترجیح دیتے ہیں ہم آپ کی لائی ہوئی تعلیم کے ہر حصہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں.اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمارا آپ سے محبت کا دعویٰ محض کھو کھلا دعویٰ ہوگا ہم منہ سے تو آپ کی محبت کا دعویٰ

Page 144

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۲۸ خطبہ جمعہ ۴ فروری ۱۹۶۶ء کریں گے لیکن عملی طور پر آپ کی کسی ہدایت پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں.نہ دنیا ہمارے اس دعوی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوگی اور نہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہمارا دعویٰ مقبول ہوگا کیونکہ آپ سے محبت کے دعوی کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم آپ کے ہر اشارہ پر اپنی جان دینے کے لئے ہر دم تیار رہیں.جہاں بھی آپ کی کوئی خواہش نظر آئے ہم اسے پورا کرنے کے لئے تیار ہوں.ہمیں اس بات کی ضرورت نہ ہو کہ اس کی حکمت ہماری سمجھ میں آجائے یا اس کا فلسفہ ہمارے سامنے رکھا جائے.اس کے منافعے ہمیں بتائے جائیں یا اس کے مضرات سے بچنے کی وجوہات کی طرف ہمیں متوجہ کیا جائے.ہمارے لئے صرف اسی قدر کافی ہو کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہے اور ہم اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں چاہے اس رستہ میں ہمیں جان بھی قربان کرنی پڑے کیونکہ محبت کا تقاضا ہی یہی ہے.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تو کرتا ہے لیکن وہ آپ کی کوئی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تو آپ اُسے پاگل کہیں گے.دنیا اس کی محبت کے دعوی کو تسلیم نہیں کرے گی.کیونکہ آپ سے محبت کے دعویٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم آپ کی ہر خواہش پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.پس جب ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی کرتے ہیں تو ہمیں آپ کی ہر خواہش کو پورا کرنا ہو گا.آپ نے ہم سے کس بات کی خواہش کی ہے؟ آپ نے ہم سے یہ خواہش کی ہے کہ ہم قرآن کریم پر اسی طرح عمل کریں جس طرح آپ نے عمل کر کے دکھایا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب سوال کیا گیا کہ آپ کے اخلاق کیسے تھے.آپ نے فرمایا:.كَانَ خُلُقُهُ الْقُرآن آپ کے اخلاق کو دیکھنا ہو تو قرآن کریم کو پڑھ لو.آپ کی ساری زندگی قرآن کریم کی ہی عملی تصویر ہے جو کچھ قرآن کریم نے کہا وہ آپ نے کر دکھایا گویا آپ نے اپنے الفاظ میں بھی ہدایت دے دی اور اپنے عمل سے بھی ہدایت دے دی.غرض آپ کی ساری زندگی کے سانچہ میں اپنی زندگیوں کو ڈھالنا آپ کی محبت کا تقاضا ہے جس کا ہم آپ کی ذات مبارک کے متعلق دعویٰ

Page 145

خطبات ناصر جلد اول ۱۲۹ خطبہ جمعہ ۴ فروری ۱۹۶۶ء کرتے ہیں.پس اگر آپ اپنے اس دعوئی محبت میں سچے ہیں اور آپ اپنے نفسوں کو اور خدا تعالیٰ کو دھوکا نہیں دے رہے ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کو خود بھی سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور اپنے بچوں اور دوسرے ان لوگوں کو بھی جن کی ذمہ داری آپ پر ہے قرآن کریم پڑھائیں اور ان کو اس قابل بنا دیں کہ وہ قرآن کریم کے معانی سمجھ سکیں اور ان کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ جب بھی قرآن کریم کی آواز ان کے کان میں پڑے تو دنیا کی کوئی طاقت اس پر لبیک کہنے سے انہیں نہ روک سکے.اگر ہم اپنے اس فرض کو پوری طرح اور خوش اسلوبی سے انجام دینے میں کامیاب ہو جائیں گے تو خدا تعالیٰ کے افضال اور اس کی رحمتیں جہاں ہم پر نازل ہوں گی وہاں وہ ہماری آئندہ نسل پر بھی نازل ہوں گی اور اگر ہمارے بعد آنے والی نسل بھی اپنی ذمہ داریوں کو اسی طرح سمجھے جس طرح ہمیں سمجھنا چاہیے اور وہ انہیں اسی طرح نبھائے جس طرح ہمیں نبھانا چاہیے تو پھر اللہ تعالیٰ کے افضال، اس کی رحمتیں اور اس کی نعمتیں نسلاً بعد نسل احمدیت میں جاری اور ساری رہیں گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور خدا کرے کہ ہمارے دلوں میں قرآن کریم کی عظمت قائم ہو جائے اور پھر ایسے رنگ میں قائم ہو جائے کہ ہم خود بھی اس پر عمل کرنے والے ہوں اور اپنی نسلوں کی بھی اس رنگ میں تربیت کرنے والے ہوں کہ وہ بھی قرآن کریم کی عاشق اور فدائی ہوں.اس پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والی ہوں اور اس کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والی ہوں.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۹ / فروری ۱۹۶۶ ، صفحه ۲ تا ۴)

Page 146

Page 147

خطبات ناصر جلد اول ۱۳۱ خطبه جمعه ۱۱ار فروری ۱۹۶۶ء بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے اصل ذمہ دار ان کے والدین ہیں خطبه جمعه فرموده ۱۱ فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا ہے.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ تم میں سے خیر وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے بھی خیر ثابت ہو.خیر کا لفظ عربی زبان میں اسم کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جب یہ لفظ اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے.تو اس کے ایک معنی یہ ہوتے ہیں کہ حُصُولُ الشَّيْءِ بِكَمَا لَاتِہ کسی چیز کا اپنے تمام کمالات کے ساتھ حاصل ہو جانا.امام راغب نے اپنی کتاب مفردات میں لکھا ہے کہ الْخَيْرُ مَا يَرْغَبُ فِيْهِ الْكُلُّ كَالْعَقْلِ مَثَلًا وَالْعَدْلِ وَالْفَضْلِ وَالشَّيْءِ النَّافِعِ وَضِلُّهُ الشَّرُ یعنی خیر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے حصول کا سارے کے سارے لوگ بلا استثناء ارادہ کریں.پھر رغبت کے معنوں میں ارادہ اور محبت ہر دو مفہوم پائے جاتے ہیں اس لئے خیر کے معنی ہوں گے.وہ چیز جو تمام بنی نوع انسان کی محبوب ہو جیسے مثلاً عقل ہے.اب دنیا میں کوئی انسان یہ نہیں کہے گا کہ مجھے عقل نہیں چاہیے میں تو بیوقوف اور احمق بننا چاہتا ہوں پھر انصاف ہے دنیا کا

Page 148

خطبات ناصر جلد اول ۱۳۲ خطبه جمعه ۱۱ فروری ۱۹۶۶ء کوئی انسان یہ نہیں کہے گا کہ میں انصاف کو پسند نہیں کرتا پھر اس کے معنی نفع دینے والی چیز کے ہیں آپ کو کوئی انسان ایسا نہیں ملے گا جو کہے مجھے وہ اشیاء در کار نہیں جو نفع دینے والی ہیں بلکہ مجھے ان اشیاء کی ضرورت ہے جو نقصان دینے والی ہوں.پس خیر ہر اس چیز کو کہیں گے جس میں تمام بنی نوع انسان رغبت اور اس کے حصول کی خواہش رکھتے ہوں اور پھر وہ چیز انہیں محبوب اور پیاری ہو پھر صرف یہ نہیں کہ وہ چیز بنی نوع انسان کو پیاری ہو بلکہ ہر حال میں پیاری ہو.چنانچہ امام راغب نے لکھا ہے کہ وَهُوَ أَنْ يَكُونَ مَرْغُوْبًا فِيْهِ بِكُلِّ حَالٍ وَ عِنْدَ كُلِّ أَمْرٍ یعنی وہ چیز انسان کو ہر حال میں مرغوب ہو اور اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ چیزیں جو ہمیں بطور انسان کے مرغوب اور محبوب ہیں اور ہم ان سے پیار کرتے ہیں وہی ہیں جن کا تقاضا ہماری فطرتِ صحیحہ کی مختلف صفات کر رہی ہوتی ہیں.جو چیزیں ہماری فطرتِ صحیحہ کے خلاف ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے بعض افراد ان سے دلچسپی لے سکتے ہیں اور انہیں اچھا سمجھ سکتے ہیں لیکن سارے کے سارے بنی نوع انسان اس میں رغبت نہیں رکھتے اور نہ ان سے محبت کرتے ہیں.پس ایسی اشیاء جو اس تعریف کے ماتحت آتی ہیں.وہ صرف وہی چیزیں ہوسکتی ہیں.جن کا مطالبہ انسان کی فطرت صحیحہ کی مختلف صفات نے کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کی فطرت میں کچھ صفات رکھیں پھر ہر صفت پر جو اس میں رکھی اپنی صفت کا ایک ٹھپہ لگا دیا اس پر اپنی صفت کی مہر لگا دی.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی وہ تمام صفات عطا کیں جن کا تعلق اس کی دنیوی زندگی سے تھا خدا تعالیٰ کی صفات تو غیر محدود ہیں.لیکن ایک محدود انسانی زندگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جن صفات کا تعلق تھا ان میں سے ہر ایک صفت خدا تعالیٰ نے انسان کو عطا کی اور پھر اس پر اپنی اسی صفت کا ٹھپہ اور مہر لگا دی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک اور چیز بھی عطا کی اور وہ انسان کی طبیعت ثانیہ ہے.اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں کامل اور غیر محدود ہے اور وہ اپنی ان صفات کے غیر محدود مظاہرے ہر آن کرنے والا ہے.لیکن انسان محدود تھا اس لئے ان صفات کے مل جانے کے بعد اختلافی طور پر ایک چیز باقی رہ جاتی تھی اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے.جیسے

Page 149

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۳۳ خطبه جمعه ۱۱ فروری ۱۹۶۶ء فرمایا يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ (ال عمران:۴۱) عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرۃ: ۲۱) یعنی ہر چیز جسے وہ چاہے کرتا ہے وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے.پھر فرمایا خدا تعالیٰ غَالِبٌ عَلَى آمده (یوسف: ۲۲) ہے یعنی کوئی چیز اسے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی اب اگر خدا تعالیٰ انسان کو اپنی صفات عطا کر کے چھوڑ دیتا اور اسے طبیعت ثانیہ عطا نہ کرتا تو اس رنگ میں یہ بنیادی اختلاف پیدا ہو جاتا کہ وہ آزاد نہ رہا بلکہ ان صفات کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہو گیا لیکن ایسا نہیں ہوا.خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی بعض صفات عطا کر کے کہا میں اب تمہیں آزادی بھی دیتا ہوں اور اس آزادی کے لئے ایک متوازی طبیعت ثانیہ کی ضرورت تھی.خدا تعالیٰ نے انسان کو کہا میں نے تمہیں اپنی صفات تو دے دی ہیں لیکن تم ان کے مطابق عمل کرنے پر مجبور نہیں ہو میں تمہیں یہ اجازت بھی دیتا ہوں کہ اگر تم چاہو تو ان صفات کی قدر نہ کرو اور ان وساوس میں مبتلا ہو جاؤ جو شیطان تمہارے دل کے اندر پیدا کرتا ہے.تم میرے حکم کی تعمیل کی بجائے شیطان کی پیروی کرنے لگ جاؤ اور میری صفات کا مظہر بننے کی بجائے شیطانی صفات کے مظہر بن جاؤ تمہیں آزادی ہے تم جو چاہو کرو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرتِ صحیحہ کے ساتھ ساتھ ایک طبیعت ثانیہ بھی عطا کی اور اس کی وجہ سے انسان بعض دفعہ شیطان کی بات مان کر خدا تعالیٰ کے مقابلہ پر کھڑا ہو جاتا ہے حالانکہ انسان کی فطرت صحیحہ اسے ایسا کرنے سے منع کرتی ہے.اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَكَ بِرَيْكَ الْكَرِيمِ - الَّذِى خَلَقَكَ فَسَوكَ فَعَدَ لَكَ - في اي صُورَةٍ ما شَاءَ رَكَبَكَ - (الانفطار : ۷ تا ۹) یعنی اے انسان تجھے کس نے تیرے رب کے بارے میں مغرور بنایا ہے.ماغرّكَ بغلان کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ تجھے اس کے مقابلہ میں دلیری اور جرات کے ساتھ کھڑے ہو جانے پر کس نے آمادہ کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے انسان ہم نے تجھے پیدا کیا پھر تیری فطرت صحیحہ میں اپنی بعض صفات رکھیں اور پھر تجھے اپنی صفات کا مظہر بنایا.فسونك پھر تیری ان صفات کو تیرے مناسب حال درست کیا اور پھر تجھے خالی صفات ہی نہیں دیں بلکہ تجھے ان صفات کے

Page 150

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۳۴ خطبه جمعه ۱ار فروری ۱۹۶۶ء مطابق اعمال بجالانے کی قوت بھی عطا کی خدا تعالیٰ تو خیر قادر مطلق ذات ہے.اس کی صفات اور اس کی قدرتیں پہلو بہ پہلو چل رہی ہوتی ہیں اس کے لئے نہ اس دنیا میں کوئی روک ہے اور نہ اگلی دنیا میں کوئی روک ہے.وہ مُلِكُ كُلِّ شَيْءٍ ہے وہ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ہے وہ قَادِرُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ ہے لیکن انسان ایسا نہیں.اس کو اگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنی بعض صفات دی ہو تیں لیکن ان کے مطابق اعمال بجالانے کی طاقت اسے حاصل نہ ہوتی تو یہ سب صفات اس کے کسی کام کی نہ ہوتیں وہ محض ایک بریکا رشے ہوتیں مثلاً صفت رحم ہے اگر اللہ تعالیٰ انسان کو صفت رحم تو عطا کرتا لیکن رحم کرنے کے لئے جن اسباب اور ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے عطا نہ کئے جاتے تو یہ صفت انسان کے لئے بریکارے بن کر رہ جاتی.پس جہاں تک انسان کا تعلق ہے ضروری ہے کہ ہر صفت کے مطابق اسے اعمال بجالانے کے لئے مناسب ذرائع سامان اور اسباب بھی عطا کئے جائیں ورنہ وہ صفت انسان کے کسی کام کی نہیں رہتی تو فرما یا فسوكَ فَعَد لك ہم نے تجھے تیری صفات کے مطابق ایسی قو تیں دی ہیں اور ایسے اسباب پیدا کر دئے ہیں کہ یہ صفات نا کا رہ نہ بن جائیں بلکہ تو ان کے مطابق اپنی عملی زندگی گزار سکے ہم نے تجھے اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے اور ان کے مطابق عمل بجالانے یا نہ بجالانے میں آزاد رکھا ہے پھر تی آي صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَبَكَ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے جو صورت پسند کی اس میں تجھے ڈھالا اس آیت میں اس طرف بھی لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے مجبور پیدا نہیں کیا بلکہ تجھے تیری فطرت صحیحہ کے ساتھ ساتھ طبیعت ثانیہ بھی عطا کی ہے اور تجھے اجازت دی ہے کہ اگر تو چاہے تو خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی صفات حسنہ کا حقیقی مظہر بنے اور اگر تو چاہے تو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں ابا ء اور استکبار کا رویہ اختیار کرتے ہوئے بغاوت اختیار کرلے اور شیطان کے گروہ میں شامل ہو جائے اور خدا تعالیٰ کا انسان کو یہ آزادی دینا بھی دراصل اسے مظہر صفاتِ باری بنانے کے لئے ضروری تھا.ور نہ اگر جبر کا طریق اختیار کیا جاتا تو اس میں اور خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہ رہتا اور انسان کو دوسری مخلوقات پر کوئی فضلیت حاصل نہ ہوتی کیونکہ خدا تعالیٰ کی ساری مخلوقات ہی اس کی اطاعت میں لگی ہوئی ہے اور وہ اس کے احکام کے بجالانے سے انکار نہیں کر سکتی.دیکھو

Page 151

خطبات ناصر جلد اول ۱۳۵ خطبه جمعه ۱ار فروری ۱۹۶۶ء خدا تعالیٰ بھی محنت کا پھل دیتا ہے اور آم کا درخت بھی خدا تعالیٰ کے اذن کے ساتھ محنت کا پھل دیتا ہے یعنی انسان آم کے درخت پر محنت کرے تو خدا تعالیٰ کے اذن کے ساتھ اسے محنت کا پھل مل جاتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ وہ محنت تو کرے اس لئے کہ اسے اس درخت سے آم ملیں لیکن اسے اس درخت سے کھٹی گلگل حاصل ہو کیونکہ اس درخت نے خدا تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرنی ہے، خدا تعالیٰ کا اسے حکم ہے کہ اگر کوئی انسان اس کی پرورش کرے تو وہ بڑا ہو کر اسے آم ایسا میٹھا پھل دے لیکن اس آم میں خدا تعالیٰ کے صفات کا مظہر بننے کی اہلیت نہیں کیونکہ جہاں جبری اطاعت ہو وہاں کامل مظہریت پیدا نہیں ہوتی جیسے اللہ تعالیٰ پر کسی اور ہستی کا زور نہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی اس کے ایک محدود دائرہ کے اندر آزادی دے دی ( بڑے دائرہ کے اندر تو وہ بھی بہت سی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے ) یعنی اس کو ایسی قو تیں عطا کر دیں کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کی ان صفات کو جو اسے عطا کی گئی ہیں ایک محدود دائرہ کے اندرا اپنی مرضی سے استعمال کر سکے اور اگر چاہے تو وہ راستہ بھی اختیار کر لے جو اس کی فطرت صحیحہ کے مطابق نہیں.غرض خیر کے معنی جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس چیز کے ہیں جسے انسان ہر حالت میں پسند کرتا ہے.وہ اس میں رغبت رکھتا ہے اور اسے حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اگر تدبر اور فکر سے کام لیا جائے تو ایسی اشیاء صرف وہی ہو سکتی ہیں جن کا مطالبہ ہماری فطرت صحیحہ کر رہی ہو کیونکہ جو چیز ہماری فطرت صحیحہ کے مطابق اور مناسب حال نہیں اسے تمام بنی نوع انسان پسند نہیں کر سکتے.اس کو وہ محبوب نہیں رکھ سکتے.وہ ان کی مرغوب نہیں ہوسکتی.انسان کو مرغوب اور محبوب وہی چیز ہو سکتی ہے جس کا اس کی فطرت صحیحہ تقاضا کر رہی ہو.پس جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ تو آپ کی اس سے یہی مراد تھی کہ تم میں سے سب سے زیادہ صاحب خیر یعنی ان چیزوں کو جن کا اس کی فطرت صحیحہ مطالبہ کرتی ہے اور خواہش رکھتی ہے.سارے کمالات کے ساتھ حاصل کرنے والا وہ شخص ہے جو ان سب بھلائیوں کو اپنے اہل کے لئے بھی منتخب کرتا ہے کیونکہ اگر کوئی

Page 152

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۳۶ خطبه جمعه ۱۱ار فروری ۱۹۶۶ء شخص حقیقتا یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن کر میں نے ان تمام خوبیوں کو اپنے نفس کے اندر جمع کرنا ہے اور تمام دنیوی اور روحانی مدارج ارتقاء کو طے کرتے ہوئے فطرت کے سارے تقاضوں کو بہ کمال حاصل کرنا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا بندہ کامل بن جانا ہے.تو وہ یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ تمام بھلائیاں جو اسے حاصل ہیں.اس کے بیوی بچوں اور دوسرے عزیزوں کو حاصل نہ ہوں.مثلاً اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندرا اپنی ایک صفت ربوبیت بھی رکھی ہے.اب انسان ان تمام صفات کا جو خدا تعالیٰ نے اس کے اندر رکھی ہیں اپنے کمالات کے ساتھ مظہر بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ ربوبیت کی صفت کا مظہر نہ ہو یعنی وہ اس خیر کو جو اس کے اندر پائی جاتی ہے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں تک نہ پہنچائے.تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِہ کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہم میں سے ہر اس شخص کے لئے جو خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صفات کو بروئے کار لاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات میں اس کا مظہر کامل بنتا ہے.ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی فکر کرے اور وہ ان کی صحیح رنگ میں تربیت کرنے والا ہو کیونکہ جو شخص اپنی اولا د اپنے رشتہ داروں اور اپنے خاندان (اصل میں یہ سب شامل ہیں ) کی طرف متوجہ نہیں ہوتا.وہ خود اپنے عمل سے اس پر مہر لگا دیتا ہے کہ وہ ان تمام صفات حسنہ کو کام میں نہیں لگا رہا جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی ہیں بلکہ وہ ان میں سے بعض صفات کو نظر انداز کر رہا ہے.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تک تم اپنی اولاد اپنے رشتہ داروں اور اپنے خاندان کی صحیح تربیت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.تم اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے جس کے حصول کے لئے انسان کی پیدائش کی گئی ہے.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان خیر کیسے بن سکتا ہے یا ہم کن راہوں پر چل کر خیر کو حاصل کر سکتے ہیں یا ہمیں خیر کہاں سے مل سکتی ہے اس کا سادہ جواب یہی ہے کہ یہ چیز قرآن کریم سے حاصل ہوتی ہے.قرآن کریم کا ایک لفظی خلاصہ خود قرآن کریم میں "خیر" کہا گیا ہے.قرآن کریم میں ہے مَاذَا انْزَلَ رَبُّكُمُ (النحل: ۳۱) جب مسلمانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ تمہارے ربّ نے کیا اُتارا.قَالُوا خَيْرًا (النحل : ۳۱) وہ کہتے ہیں خیر.گویا ”خیر کے لفظ میں قرآن کریم کا

Page 153

خطبات ناصر جلد اول ۱۳۷ خطبه جمعه ۱۱ار فروری ۱۹۶۶ء خلاصہ ہے قرآن کریم کا ایک اجمالی خلاصہ خدا تعالیٰ نے اس کے شروع میں سورۃ فاتحہ کی شکل میں بیان کر دیا ہے اور اس کی آخری تین سورتیں بھی اس کا خلاصہ ہیں اور پھر اس کا ایک لفظی خلاصہ خیر بھی ہے اب دیکھو کتنی عجیب بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے سارے قرآن کریم کا خلاصہ صرف ایک لفظ میں بیان کر دیا ہے اور وہ لفظ ”خیر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ اگر تم خیر (اس کا مفہوم جیسا کہ میں نے بتایا ہے بڑا وسیع ہے ) کے حصول کا طریق جاننا چاہتے ہو اگر تم اس کے حصول کے ذرائع سمجھنا چاہتے ہو.یا تم سمجھتے ہو کہ اس کے حصول کے سلسلہ میں تمہیں کسی مد اور معاون کی ضرورت ہے تو تمہیں قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کیونکہ الْخَيْرُ كُلُهُ فِي الْقُرْآنِ.خیر سب کی سب قرآن کریم میں ہے.اسی لئے میں نے اپنے پچھلے خطبہ میں جماعت کو اپنے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے اور پھر اس کا ترجمہ پڑھانے کی طرف توجہ دلائی تھی.اس وقت تک اس سلسلہ میں جو رپورٹیں مجھے ملی ہیں.ان میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جماعت کے بعض افراد باوجود اس کے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھا سکتے ہیں اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور باوجود اس کے کہ انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.انہوں نے اس کا خیال نہیں کیا.ایسے احباب کو یا درکھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے خیر کا حصول چاہتے ہیں اور اپنے خدا کی نظر میں خیر بننا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے کی طرف رجوع کریں اور اس سے خیر حاصل کریں اور پھر اپنی اولا د کو بھی اس طرف لگا ئیں کہ ہر قسم کی خیر قرآن کریم سے ہی مل سکتی ہے اور اگر تم یا تمہاری اولا د قرآن کریم کی طرف پیٹھ کر کے آگے بڑھو گے تو یاد رکھو وہ رستہ جس کی طرف تم جار ہے ہو گے جنت کا رستہ نہیں ہو گا بلکہ جہنم کا رستہ ہو گا غرض الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ ہروہ چیز جو ہماری فطرت کو سیٹسفائی (Satisfy) کر سکتی ہے اسے تسلی اور اطمینان دلا سکتی ہے اس کی ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہے اور پھر وہ غرض جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے صرف قرآن کریم

Page 154

خطبات ناصر جلد اول ۱۳۸ خطبه جمعه ۱ار فروری ۱۹۶۶ء کے پڑھنے سمجھنے اس سے فیض حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے.اولاد کی تربیت اور اس کو قرآن کریم پڑھانے کی اصل ذمہ داری والدین پر ہے انہیں اس کے لئے خدا تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا.ان سے سوال کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنی اولا د کو اس نعمت یعنی قرآن کریم سے جو انہیں حاصل تھی کیوں محروم کر دیا.حالانکہ وہ اس نعمت کو اپنی اولاد تک پہنچانے کی اہلیت رکھتے تھے جماعتی نظام کا یہ کام ہے کہ وہ انہیں اس طرف متوجہ کرے جماعتی نظام کا یہ کام ہے کہ وہ اس کام کے لئے بعض سہولتیں مہیا کر دے کیونکہ جب تک جماعتی نظام اس کا ممد و معاون نہ ہو.انسان اپنی ذاتی الجھنوں کو حل نہیں کر سکتا اور جماعتی نظام تمہاری اس مدد کے لئے تیار ہے وہ تمہیں یہ کہے گا کہ تم پریشان نہ ہو اگر تم اپنی اولا د کو اپنے اوقات میں سے صرف نصف گھنٹہ اور دے دیا کرو اور انہیں قرآن کریم پڑھا دیا کرو تو تمہاری یہ پریشانی دور ہو جائے گی کہ تمہاری اولا د قرآن کریم سے بے بہرہ ہے پھر جماعتی نظام کا یہ کام ہے کہ وہ افراد جو فی الواقعہ اور فی الحقیقت اس قابل نہیں کہ اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھا سکیں ان کے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کا مناسب انتظام کرے مثلاً ایک غریب خاندان ہے بدقسمتی سے والدین اپنے بچپن میں قرآن کریم ناظرہ نہیں پڑھ سکے اور بدقسمتی سے ان کے قرب و جوار میں کوئی ایسا احمدی دوست بھی نہیں رہتا جو قرآن کریم پڑھانے کے قابل ہوان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ باتخواہ استاد رکھیں اور بچوں کو قرآن کریم پڑھوائیں لیکن ان کے پاس روپیہ نہیں جو اس انتظام پر خرچ کر سکیں ایسی استثنائی حالتوں میں جماعتی نظام کا فرض ہے کہ وہ ایسے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کا انتظام کرے چاہے اس پر رقم خرچ کرنی پڑے ورنہ اصل ذمہ داری اور فرض والدین کا ہے اگر ماں پڑھی ہوئی ہے یا باپ قرآن کریم ناظرہ جانتا ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھائیں اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم انہیں اس طرف توجہ دلائیں ان پر اخلاقی دباؤ ڈالیں.انہیں غیرت دلائیں اور انہیں سمجھا ئیں کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں قرآن کریم جیسی نعمت عطا کی ہے تم اپنے چند کھوٹے پیسوں کو تو بطور ورثہ اپنی اولاد میں چلانا چاہتے ہو لیکن قرآن کریم ایسی بڑی نعمت کو اپنے پاس مہیار کھتے ہوئے یہ کیسے برداشت کر سکتے ہو

Page 155

خطبات ناصر جلد اول ۱۳۹ خطبه جمعه ۱ار فروری ۱۹۶۶ء کہ وہ تمہاری اولاد تک نہ پہنچے.غرض افراد کو ہر طرح سمجھانا.انہیں تلقین کرنا اور یاد دلانا ہمارا کام ہے اور اگر کوئی شخص مجبور ہے، معذور ہے تو اس کی ہر ممکن مدد کرنا بھی ہمارا کام ہے لیکن اگر جماعت میں کوئی ایسا آدمی موجود ہے کہ وہ خود اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھا سکتا ہے اور وہ باوجود سمجھانے کے اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا یا وہ مالدار ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس قدر توفیق دے رکھی ہے کہ وہ استاد رکھ کر اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھا سکتا ہے لیکن وہ اس طرف توجہ نہیں کرتا.تو ایسا شخص ہمارے لئے انتہائی بے عزتی کا باعث ہے ایسے شخص کو سمجھ لینا چاہیے کہ جماعت اس کی اس حرکت کو کبھی برداشت نہیں کرے گی جماعت کا یہ فرض ہے کہ جب تک ایسا شخص جماعت کے ساتھ منسلک ہے اسے اپنے بچوں کو وقت دے کر یا رقم خرچ کر کے قرآن کریم پڑھوانے کے لئے مجبور کرے.میں نے قرآن کریم کے پڑھانے کی جو سکیم جماعت کے سامنے رکھی تھی اس پر عمل کرنے کے لئے میرے نزدیک کسی بجٹ کی ضرورت نہیں صرف انتظام کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ لوگ جن کے سپرد یہ کام ہے اس کی طرف پوری توجہ کریں تو ہمیں اس کام کے لئے روپیہ کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت کو قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے والے دوست کثرت سے دئے ہیں اور میں کامل یقین رکھتا ہوں.جب جماعت سے اپیل کی جائے گی کہ بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے لئے رضا کاروں کی ضرورت ہے تو جماعت کی عورتیں اور مرد ضرورت سے زیادہ اپنے نام پیش کر دیں گے انشاء اللہ لیکن منتظمین کو بھی اس نہج اور طریق پر سوچنا اور کام کرنا چاہیے کہ پیسہ خرچ کرنے کی طرف ان کو توجہ نہ ہو اور اس یقین کامل کے ساتھ انہیں کام کرنا چاہیے کہ ہم پیسہ بھی خرچ نہیں کریں گے اور ہمارا کام بھی ہو جائے گا.قرآن کریم ایک ایسی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں محض اپنے فضل سے عطا کی ہے.اگر اللہ تعالیٰ ہمیں فطرتِ صحیحہ عطا کر دیتا اور پھر ہمیں اپنی ان صفات کا بھی مظہر بنا دیتا جو اس مادی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں جس میں ہم نے اپنی زندگی گزارنی ہے لیکن ان صفات کے صحیح استعمال کا ہمیں علم نہ دیتا ان صفات سے ہمیں صحیح طریق پر کام لینے کا علم نہ دیتا وہ ان راہوں کی نشان دہی نہ کرتا جن پر چل کر ہم

Page 156

خطبات ناصر جلد اول ۱۴۰ خطبه جمعه ۱۱ار فروری ۱۹۶۶ء مدارج ارتقاء طے کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں تو پھر ان صفات کا ہماری فطرت میں رکھا جانا مفید نہ ہوتا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ہمیں فطرتِ صحیحہ عطا کی ہے اور دوسری طرف قرآن کریم جیسی تعلیم دے کر ، اس فطرت صحیحہ کے صحیح نشو و نما کے سامان کر دئے ہیں کیونکہ قرآن کریم کے بغیر انسان اپنی زندگی کا مقصد حاصل نہیں کر سکتا اس وقت میں دوستوں کو اس سلسلہ میں کہ قرآن کریم سے ہمیں کس قدر پیار کرنا چاہیے ( اور پھر اگر فی الواقع پیار ہو جائے تو انسان ایک لحظہ کے لئے بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اتنی اچھی ،حسین ، خوبصورت ، دل کو موہ لینے والی اور دل و دماغ اور سینہ کو معطر کر دینے والی چیز ہمیں ملی ہو اور ہم اپنی اولاد اور اپنے رشتہ داروں کو اس سے محروم رکھیں) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں سے دو اقتباسات سنانا چاہتا ہوں.آپ فرماتے ہیں :.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے.افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں.تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطه قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی.اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے.پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی یہ نہایت پیاری نعمت ہے یہ بڑی دولت ہے.اگر

Page 157

خطبات ناصر جلد اول ۱۴۱ خطبه جمعه ۱۱ار فروری ۱۹۶۶ء قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مُضغۃ کی طرح تھی.قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدا یتیں بیچ ہیں.اسی طرح حضور علیہ السلام ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں:.بلاشبہ جن لوگوں کو راہ راست سے مناسبت اور ایک قسم کا رشتہ ہے ان کا دل قرآن شریف کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور خدائے کریم نے ان کے دل ہی اس طرح کے بنار کھے ہیں کہ وہ عاشق کی طرح اپنے اس محبوب کی طرف جھکتے ہیں اور بغیر اس کے کسی جگہ قرار نہیں پکڑتے اور اس سے ایک صاف اور صریح بات سن کر پھر کسی دوسرے کی نہیں سنتے اس کی ہر یک صداقت کو خوشی سے اور دوڑ کر قبول کر لیتے ہیں اور آخر وہی ہے جو موجب اشراق اور روشن ضمیری کا ہو جاتا ہے اور عجیب در عجیب انکشافات کا ذریعہ ٹھہرتا ہے اور ہر یک کو ،استعداد معراج ترقی پر پہنچاتا ہے راست بازوں کو قرآن کریم کے انوار کے نیچے چلنے کی ہمیشہ حاجت رہی ہے اور جب کبھی کسی حالتِ جدیدہ زمانہ نے اسلام کو کسی دوسرے مذہب کے ساتھ ٹکرا دیا ہے تو وہ تیز اور کارگر ہتھیار جو فی الفور کام آیا ہے قرآن کریم ہی ہے ایسا ہی جب کہیں فلسفی خیالات مخالفانہ طور پر شائع ہوتے رہے تو اس خبیث پودہ کی بیخ کنی آخر قرآن کریم ہی نے کی اور ایسا اس کو حقیر اور ذلیل کر کے دکھلا دیا کہ ناظرین کے آگے آئینہ رکھ دیا کہ سچا فلسفہ یہ ہے نہ وہ حال کے زمانہ میں بھی جب اوّل عیسائی واعظوں نے سر اُٹھایا اور بد فہم اور نادان لوگوں کو توحید سے کھینچ کر ایک عاجز بندہ کا پرستار بنانا چاہا اور اپنے مغشوش طریق کو سو فسطائی تقریروں سے آراستہ کر کے ان کے آگے رکھ دیا اور ایک طوفان مُلک ہند میں بر پا کر دیا.آخر قر آن کریم ہی تھا جس نے انہیں پسپا کیا کہ اب وہ لوگ کسی با خبر آدمی کو منہ بھی نہیں دکھلا سکتے.اور ان کے لمبے چوڑے عذرات کو یوں الگ کر کے رکھ دیا.جس طرح کوئی کا غذ کا تختہ لپیٹے.غرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمان اور خود ہماری اپنی عقل کے مطالبہ اور تقاضا کے مطابق ہمیں اتنا پیار کر نا چاہیے کہ کسی اور چیز

Page 158

خطبات ناصر جلد اول ۱۴۲ خطبه جمعه ۱۱ار فروری ۱۹۶۶ء سے ہم اتنا پیار نہ کرنے والے ہوں اور وہ ہمیں اتنا محبوب ہونا چاہیے کہ ہم ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہ کریں کہ یہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے اس سے ہماری نسلیں محروم رہ جائیں.پس ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے آپ کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ آپ اپنی اولا دکو پہلے قرآن ناظرہ پڑھا ئیں اور پھر اس کا ترجمہ سکھائیں اور پھر ان کے لئے ایسا ماحول پیدا کریں کہ قرآن کریم کی محبت اور عشق ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے اور وہ قرآن کریم کے نئے نئے معارف حاصل کرنے کے لئے ساری عمر کوشش کرتے چلے جائیں اور وہ اس حقیقی مقصد کو پورا کرنے کے لئے جس کی خاطر انسان کی پیدائش کی گئی ہے صحیح معنوں میں اور حقیقی رنگ میں خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر بننے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کی اس کتاب سے روشنی ، نور اور راہ نمائی حاصل کر کے خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں پر تیزی سے گامزن رہنے والے ہوں اور اس کی رضا کو زیادہ سے زیادہ اور جلد سے جلد تر حاصل کرنے والے ہوں.خدا تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۳ فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 159

خطبات ناصر جلد اول ۱۴۳ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء خدام الاحمدیہ کوشش کریں کہ کوئی احمدی نوجوان ایسا نہ رہے جس نے تحریک جدید میں حصہ نہ لیا ہو خطبه جمعه فرموده ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.وکالت مال تحریک جدید نے مجھے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سالِ رواں کے وعدوں کی رفتار تسلی بخش نہیں اور ان کا تاثر یہ ہے کہ پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سال کے شروع ہی میں اپنے دو ایک خطبوں میں جماعت کے افراد کو اس طرف توجہ دلا دیتے تھے.آپ تحریک جدید کی اہمیت اور اس کی برکات کی وضاحت فرما دیتے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی وجہ سے انسان کو جو دینی اور دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں.وہ دوستوں کے سامنے رکھ دیتے.اس طرح جماعت کے دوست بڑی جلدی اپنے وعدے لکھوا دیتے اور دفاتر کی پریشانی دور ہو جاتی تھی.لیکن اپنی بیماری کے آخری سالوں میں چونکہ حضور اس طرف اپنے خطبات میں جماعت کو تو جہ نہیں دلا سکے اس لئے جماعت میں آہستہ آہستہ یہ ستی پیدا ہو گئی ہے کہ اگر چہ احباب اب بھی پہلے کی نسبت اضافہ کے ساتھ وعدے لکھواتے ہیں اور رقوم جو وصول ہوتی ہیں وہ بھی زیادہ ہوتی ہیں لیکن وہ اس طرف فوری طور پر توجہ نہیں کرتے.اس لئے مرکز کو کئی ماہ تک پریشانی میں رہنا پڑتا ہے انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ گزشتہ سال گو پہلے کی نسبت وعدوں میں

Page 160

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۴۴ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء زیادتی ہوئی ہے لیکن جون کے آخر تک وعدے آتے رہے.حالانکہ وعدوں کی آخری تاریخ اس سے کہیں پہلے ختم ہو چکی تھی.اس سال بھی وعدوں کی وصولی کی تاریخ ۲۸ فروری ہے لیکن بہت سے افراد اور بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جن کی طرف سے ابھی وعدے وصول نہیں ہوئے موٹی موٹی جماعتیں جن کی طرف سے وعدے وصول ہونے میں اس سال تاخیر ہوئی ہے اور غالباً یہ نام بطور مثال کے ہیں.یہ ہیں ان میں پہلی جماعت ربوہ ہے.گزشتہ سال یعنی تحریک جدید دفتر اول کے اکتیسویں اور دفتر دوم کے اکیسویں سال میں جماعت ربوہ کے وعدے اکسٹھ ہزار روپے کے تھے اور سال رواں میں یعنی تحریک جدید دفتر اوّل کے بتیسویں سال اور دفتر دوم کے بائیسویں سال کے وعدے صرف ۴۰ ہزار کے وصول ہوئے ہیں گویا ان میں ابھی اکیس ہزار کی کمی ہے اسی طرح سیالکوٹ ضلع کی جماعتوں کے وعدوں میں دس ہزار کی کمی ہے سرگودہا کی جماعتوں کے وعدوں میں پانچ ہزار کی کمی ہے لائل پور ضلع کی جماعتوں کے وعدوں میں چھ ہزار کی کمی ہے گجرات ضلع کی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک چھ ہزار کے وعدے کم وصول ہوئے ہیں ملتان ضلع کی جماعتوں کے وعدوں میں ابھی پانچ ہزار کی کمی ہے اور حیدر آباد ڈویژن کی جماعتوں کے وعدے بھی ابھی ساڑھے پانچ ہزار کم وصول ہوئے ہیں.اس میں شک نہیں کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت وعدے بھی زیادہ ہوں گے اور وصولی بھی زیادہ ہوگی لیکن جو دوست وعدے لکھوانے میں سستی سے کام لیتے ہیں وہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور وہ اس طرح کہ اسلام نے ہمیں بتایا ہے اللہ تعالیٰ مومن کی نیت پر بھی ثواب دیتا ہے لیکن اس نے ہمیں کہیں نہیں بتایا کہ انسان کی خالی خواہشات پر ثواب ملتا ہے اور جہاں تک تحریک جدید کے وعدوں اور ان کی وصولی کا سوال ہے نیت اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب کوئی شخص اپنا وعدہ لکھوا دیتا ہے اور پھر دل میں پختہ عہد کر لیتا ہے کہ وہ موعودہ رقم تحریک جدید میں دے گا لیکن جو دوست وعدے لکھوانے میں پندرہ دن، ایک ماہ یا دو ماہ ستی سے کام لیتے ہیں وہ اس عرصہ میں اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضل کے ایک حصہ سے محروم کر رہے ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کا جو فضل وہ پندرہ دن ایک ماہ یا دو ماہ بعد میں لینا شروع کرتے ہیں اس فضل

Page 161

خطبات ناصر جلد اول ۱۴۵ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء کے وارث وہ پندرہ دن ایک ماہ یا دو پہلے کیوں نہیں بنتے پس اگر وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے تو وہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں.پھر اپنا دوسرا نقصان وہ یہ کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اسے کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ اس نے کب اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے زندگی اور موت کا مسئلہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے بعض اوقات ایک انسان چنگا بھلا ہوتا ہے وہ ہنستا کھیلتا ہوتا ہے لیکن ایک سیکنڈ کے بعد وفات پا جاتا ہے.اگر آپ تحریک جدید کے وعدے لکھوانے میں ستی سے کام لیتے ہیں تو کتنا خطرہ مول لے رہے ہیں آپ کو کیا معلوم کہ اس عرصہ میں آپ نے زندہ رہنا ہے یا وفات پا جانا ہے اگر آپ اس عرصہ میں وفات پاگئے تو اُخروی زندگی میں جو ثواب اس چندہ کے دینے کی نیت سے حاصل ہوسکتا ہے اس سے محروم ہو گئے.تیسرا نقصان جو وعدے جلد نہ لکھوانے کی وجہ سے آپ کو پہنچتا ہے یہ ہے کہ اگر اس سال مثلاً وعدے لکھوانے کی تاریخ ۲۸ فروری ہو اور اس تاریخ تک جیسا کہ دفتر کا معمول ہے دفتر والے خطوط کے ذریعہ پھر رسالوں اور اخباروں میں مضامین لکھ کر یا گشتی چٹھیوں کے ذریعہ آپ کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود جو دوست اس تاریخ تک اپنے وعدے نہیں لکھواتے انہیں یاد دہانی کرانے پر دفتر جو زائد اخراجات برداشت کرے گا وہ بہر حال ناواجب ہوں گے اور ایسے اخراجات کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہوگی جنہوں نے مقررہ تاریخ تک اپنے وعدے نہیں لکھوائے فرض کرو یہ زائد خرچ کل وعدوں کا دو فیصدی ہے تو اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ سوروپے کے ثواب کی بجائے وعدہ دیر سے لکھوانے والے کو دو کم سوکا ثواب نہ دے کیونکہ دوروپے کا زائد خرچ محض اس کی سستی کی وجہ سے مرکز نے برداشت کیا ہے شاید اللہ تعالیٰ یہ کہے کہ تمہاری وجہ سے سلسلہ کو دو روپے کا نقصان ہوا ہے اس لئے ہم تمہارے ثواب سے اسی قدر کم کر دیتے ہیں غرض دفتر کو جو زائد اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں.وہ محض آپ کی سستی کی وجہ سے برداشت کرنے پڑتے ہیں.اگر آپ وقت مقررہ میں وعدے لکھوا دیں اور پھر جلد رقم ادا کر دیں تو دفتران زائد اخراجات سے بچ جاتا ہے.

Page 162

خطبات ناصر جلد اول ۱۴۶ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء چوتھا نقصان آپ کو اور سلسلہ کو یہ اُٹھانا پڑتا ہے کہ اگر آپ وعد ہ لکھوانے میں ست ہیں تو چاہے بعد میں آپ اپنا وعدہ لکھوا بھی دیں اور اس میں زیادتی بھی کر دیں تب بھی ان مزید اخراجات کی وجہ سے جو دفتر برداشت کرے گا بہت سے ضروری کاموں میں زائد اور نا واجب اخراجات کسی حد تک ہوں کمی کرنی پڑتی ہے کیونکہ آپ نے کل رقم میں سے جس سے یہ کام کئے جانے تھے کچھ روپیہ زبردستی نکال لیا اور ڈاک اور یاددہانی کے دوسرے ذرائع پر ضائع کر دیا.اس نقصان کے آپ ذمہ دار ہیں.اور ” آپ سے مراد میری ان لوگوں سے ہے جو وعدہ بھی لکھواتے ہیں اور رقوم بھی ادا کرتے ہیں اور بڑی بشاشت کے ساتھ ادا کرتے ہیں (اللہ تعالیٰ انہیں اس کا ثواب عطا فرمائے ) لیکن اپنی ستی کی وجہ سے وہ نقصان اُٹھا لیتے ہیں اور میرا فرض ہے کہ میں اس قسم کے لوگوں کو ان کی سستیوں کی طرف توجہ دلاؤں تا ثواب کے سلسلہ میں انہیں ایک دھیلے کا گھاٹا بھی نہ اُٹھانا پڑے.پانچواں نقصان جو جماعت اور سلسلہ کو محض آپ کی سستی کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ وکالت مال کو مثلاً ۲۸ فروری تک وعدے لکھوانے کے لئے کوشش اور جدو جہد کرنی پڑے گی اور جماعتوں کو اس طرف توجہ دلانی پڑے گی.اب اگر ۲۸ فروری تک اس کی تگ و دو اور کوشش کے نتیجہ میں سارے دوست اپنے اپنے وعدے لکھوا دیں تو اس تاریخ کے بعد وکالت مال دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہو سکے گی اور اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی لیکن اگر آپ مقررہ میعاد کے اندر اپنے وعدے نہیں لکھوائیں گے تو آپ کی سستی کے نتیجہ میں کام کرنے والوں کو پریشانی ہوگی اور آپ میں سے کوئی بھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کی وجہ سے ان واقفین زندگی کو جو مرکز میں بیٹھ کر خدمت دین بجالا رہے ہیں کسی قسم کی پریشانی اٹھانا پڑے اور میں نے آپ کو بتایا ہے کہ آپ لوگوں کی سستی کی وجہ سے مرکز میں کام کرنے والوں کو بہر حال پریشانی اٹھانا پڑتی ہے آپ انہیں اس پریشانی سے بچالیں اور اپنے وعدے مقررہ تاریخ کے اندر لکھوا دیں پھر جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ان وعدوں سے دفتر کو جلد اطلاع دیں میرے خیال میں وعدوں کے لکھوانے میں کچھ ستی تو افراد کرتے ہیں لیکن کسی حد تک اس کی ذمہ داری جماعتوں پر بھی ہے ممکن ہے

Page 163

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۴۷ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء بعض ایسی جماعتیں ہوں جہاں افراد نے وعدے تو لکھوا دیئے ہوں لیکن جماعت کے عہد یداروں نے وہ وعدے دفتر کو نہ بھجوائے ہوں.اگر کوئی ایسی جماعت ہے جس کے افراد نے وعدے لکھوا دیئے ہوں لیکن وہ وعدے دفتر کو نہیں بھجوائے گئے تو ایسی جماعت کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے دفتر کو بھجوا دے.مجھے دفتر وکالت مال کی طرف سے یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ میں وعدوں کی وصولی کی تاریخ ۲۸ فروری کی بجائے ۲۵ / مارچ کر دوں لیکن میں اپنے بھائیوں پر بدظنی نہیں کرنا چاہتا اس لئے میں وعدوں کی وصولی کی تاریخ ایک ہفتہ سے زیادہ نہیں بڑھانا چاہتا.جہاں تک ربوہ کا سوال ہے دوست اگر اس طرف توجہ کریں تو وہ مقررہ میعاد کے اندراندر اپنے وعدے لکھوا سکتے ہیں اس لئے جہاں تک ربوہ کا سوال ہے میں وعدوں کی وصولی کی تاریخ ۲۸ فروری سے ایک دن بھی نہیں بڑھاتا وہ بہر حال اپنے وعدے ۲۸ فروری سے پہلے پہلے لکھوا دیں لیکن جہاں تک باہر کی جماعتوں کا سوال ہے ان تک میری آواز پہنچنے میں دیر لگے گی اس لئے میں انہیں ایک ہفتہ اور دیتا ہوں اس عرصہ میں تمام جماعتیں اپنے وعدے مرکز میں ضرور پہنچا دیں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ثواب کے ایک حصہ سے وہ محروم نہ ہو جا ئیں.دوسری بات جس کی طرف میں اس خطبہ میں جماعت کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ایک موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خدام کو تحریک جدید کے سلسلہ میں ایک نصیحت فرمائی تھی اور ارشادفرمایا تھا کہ میں نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ کا بار اسی لئے اٹھایا ہے (ایک زمانہ میں حضور صدر مجلس خدام الاحمدیہ کے فرائض خود انجام دیتے رہے ہیں ) تا جماعت کے نوجوانوں کو دین کی طرف توجہ دلاؤں.سو میں سب سے پہلے ان کے سپرد یہ کام کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے ایمان کا ثبوت دیں گے اور آگے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور کوئی نوجوان ایسا نہیں رہے گا جو دفتر دوم میں شامل نہ ہو اور کوشش کریں کہ ساری کی ساری رقم وصول ہو جائے.‘“

Page 164

خطبات ناصر جلد اول اسی طرح فرمایا:.۱۴۸ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء امید کرتا ہوں کہ دوست اپنے بقائے بھی ادا کریں گے اور پہلے سے زیادہ وعدے بھی لکھوائیں گے اور خدام الاحمدیہ کوشش کریں کہ کوئی نوجوان ایسا نہ رہے جس نے تحریک جدید دفتر دوم میں حصہ نہ لیا ہو اور پھر کوئی رقم ایسی نہ رہے جو وصول نہ ہو.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان جو اپنے آپ کو خدام الاحمدیہ کہتے ہیں حضرت مصلح موعود کے اس ارشاد پر کان دھریں گے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیں گے کہ حضور نے جو ا میدان سے وابستہ کی تھی وہ اسے پورا کرنے والے ہیں.اس سلسلہ میں مجھے دو ہفتہ کے بعد رپورٹ آجانی چاہیے میں انہیں رپورٹ تیار کرنے کے لئے ایک ہفتہ کی مہلت مزید دیتا ہوں لیکن کام کے لئے زیادہ وقت نہیں دے سکتا.تیسری بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو اموال خرچ کئے جاتے ہیں ان پر خرچ کا لفظ بولنا حقیقتا درست اور صحیح نہیں خرچ وہ رقم ہوتی ہے جو آپ کے ہاتھ سے نکل جائے اور ختم ہو جائے لیکن جو اموال اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیئے جاتے ہیں وہ نہ تو کسی کے ہاتھ سے نکلتے ہیں اور نہ ختم ہوتے ہیں بلکہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ بڑھتے چلے جاتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک فارسی شعر میں اس مسئلہ کی طرف نہایت لطیف پیرایہ میں متوجہ کیا ہے.آپ فرماتے ہیں.ز بذل مال در راہش کسے مفلس نے گردد خدا خود مے شود ناصر اگر ہمت شود پیدا یعنی اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو مفلس نہیں رہنے دیتا وہ اسے بھوکا نہیں مارتا اگر وہ اپنے مال کا ایک بڑا حصہ بھی اس کی راہ میں دے دیتا ہے بلکہ اگر وہ سارے کا سارا مال بھی اس کی راہ میں دے دیتا ہے تب بھی وہ اسے بھوکا نہیں رہنے دیتا.کئی مواقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کھانے پینے کے تمام سامان لے لئے جنگوں کے سلسلہ میں بعض دفعہ آپ ہر شخص سے جو کچھ کھانے پینے کے لئے اس کے پاس ہو تا لے لیتے ان مواقع میں سے کسی موقع پر بھی

Page 165

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۴۹ خطبہ جمعہ ۱۸ رفروری ۱۹۶۶ء ہمارے کسی مسلمان بھائی نے ایسا کرنے میں ایک لحظہ بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نے اپنا سارا راشن قو می خزانہ میں جمع کرا دیا ، اور اس کے بعد اسے ذاتی استعمال کے لئے اس میں سے جو کچھ واپس ملا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اور اس کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے لے لیا اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اسے بھوکا نہیں مارا سیری صرف پیٹ میں کھانے کی ایک مقدار کے چلے جانے کا نام نہیں بلکہ سیری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جسم کی ضرورت پوری ہو جائے اور ہماری (احمدی ) تاریخ کا ایک واقعہ ہے کہ ہمارے ایک بزرگ کو جب وہ حضرت خلیفہ اسی اول کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے شدید بھوک لگی اور اس کی وجہ سے انہیں بہت تکلیف ہو رہی تھی لیکن وہ حضور کی مجلس سے اٹھنا بھی نہیں چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں کشف میں ہی کھانا کھلا دیا بھوک کی وجہ سے ان کے جسم میں جو کمزوری اور ضعف محسوس ہو رہا تھا وہ دور ہو گیا اور پیٹ بھی بھر گیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی قدرت کے یہ جلوے اس لئے دکھائے ہیں کہ تاہم یقین کریں کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا سارا مال بھی دے دیتا ہے تو وہ اسے بھوکا نہیں مرنے دیتا وہ اس کی سیری کے غیب سے سامان پیدا کر دیتا ہے اب اگر کسی کی جسمانی کمزوری جو کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ہوتی ہے دور ہو جائے اس کے جسم کو طاقت اور توانائی حاصل ہو جائے اسے بھوک کا احساس نہ رہے اور وہ راحت اور سکون محسوس کرنے لگے تو کھانے کا مقصد حاصل ہو گیا.اب اگر وہ مادی کھانا نہ بھی کھائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ز بذل مال در راہش کسے مفلس نمی گردد یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال دینے والا کبھی مفلس نہیں ہوتا اور آگے جا کر آپ اس کی بڑی عجیب دلیل دیتے ہیں.فرماتے ہیں:.خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا ہمت کا لفظ فارسی زبان میں کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ان میں سے تین معانی (۱) بلند ارادہ (۲) جرأت اور (۳) دعا کے ہیں.پس اس مصرعہ کے یہ معنی ہوئے کہ اگر تم نیک نیتی کے ساتھ

Page 166

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ارادہ کرو گے اور جرات اور بہادری کے ساتھ اپنی اس پاک نیت کو عملی جامہ پہناؤ گے اور ساتھ ہی عاجزی اور تذلل کے ساتھ دعا کرتے رہو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس ہدیہ کو قبول کرے تو خدا تعالیٰ تمہاری مدد کو آئے گا اور اِنْ يَنْصُرُكُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ (ال عمران : ١٦١).جب خدا تعالیٰ تمہاری مدد کو آ جائے گا اور تمہارا ناصر بن جائے گا تو افلاس یا کوئی اور شیطانی حربہ تم پر غالب نہیں آ سکے گا اور تمہیں مغلوب نہیں کر سکے گا کیونکہ تم نیک ارادہ، نیک عمل اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اپنا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرتے ہو اور اس سے یہ امید رکھتے ہو کہ وہ اسے قبول کرے گا اس لئے وہ اسے رد نہیں کرے گا اور جس مال کو خدا تعالیٰ قبولیت کا شرف بخش دیتا ہے وہ مال ضائع نہیں ہوتا اس میں ہمیشہ بڑھوتی ہی ہوتی رہتی ہے.دراصل یہ شعر قرآن کریم کی ایک آیت کے مفہوم کو بیان کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۖ وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْقطُ وَالَيْهِ تُرْجَعُونَ.(البقرة : ۲۴۶) ص کیا کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر بطور قرض دے تا کہ وہ اس مال کو اس کے لئے بہت بڑھائے اور اللہ ہی ہے جو بندہ کے مال میں تنگی یا فراخی پیدا کرتا ہے اور آخر تمہیں اس کی طرف لوٹایا جائے گا.اللہ تعالیٰ کے حضور تم جو مال بھی پیش کرتے ہو وہ اسی کا ہے اسی سے تم نے لیا اور اسی کو پیش کر دیا.اپنے پاس سے تو تم نے کچھ نہیں دیا.نہ تمہارا مال اپنا، نہ تمہاری جان اپنی ، نہ عزت اپنی، نہ وقت اپنا، اور نہ عمر اپنی ، غرض تمہارا اپنا کچھ بھی نہیں.محض خدا تعالیٰ کی دین تھی.اللہ تعالیٰ نے ہی یہ سب کچھ تمہیں دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ فضل کیا جیسا کہ وہ اس آیت میں فرماتا ہے کہ اگر تم میری دین اور میری عطاء میں سے کچھ مجھے دو گے تو میں تمہیں اس کا ثواب دوں گا دراصل غور کے ساتھ دیکھا جائے تو ہماری سب عبادتیں اللہ تعالیٰ کی سابقہ عطاؤں پر بطور شکر کے ہوتی ہیں.یہ محض اس کا فضل ہے کہ وہ ادائے شکر پر مزید احسان کرتا ہے اس طرح شکر اور عطائے الہی کا

Page 167

خطبات ناصر جلد اول ۱۵۱ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء ایک دور اور تسلسل قائم ہوجاتا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اگرتم اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ دیتے ہو تو وہ اسے بطور قرض کے لیتا ہے اور قرض دی ہوئی رقم خرچ نہیں سمجھی جاتی دیکھو اس دنیا میں بھی ایک بھائی دوسرے بھائی کو قرض دیتا ہے مثلاً ایک شخص کے پاس دس ہزار روپیہ ہے اس کا بھائی اسے کہتا ہے بھائی مجھے اس میں سے تین ہزار روپیہ بطور قرض حسنہ دے دو.میں چند ماہ کے بعد اسے واپس کر دوں گا تو اب یہ تین ہزار روپے خرچ تو نہیں ہوئے اس کے پاس دس کا دس ہزا رہی رہا.کیونکہ یہ تین ہزار بھی کچھ عرصہ کے بعد اسے واپس مل جائیں گے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کچھ تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہو وہ خرچ نہیں ہوتا.نہ وہ ضائع ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ نے قرض کے طور پر لیا ہے وہ اسے واپس کرے گا اور پھر اس شان سے واپس کرے گا جو ایک قادر اور رزاق خدا کے شایان شان ہے.وَاللهُ يَقْبِضُ وَيَبْطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ میں اللہ تعالیٰ نے تین بڑے لطیف مضامین بیان کئے ہیں.يَقْبِضُ وَيَبْطُ کے ایک معنی ہیں.يَسْلُبُ قَوْمًا وَيُعْطِي قَوْمًا یعنی جسے چاہے غریب کر دیتا ہے اور اس کا مال لے کر دوسرے کو دیتا اور اسے امیر کر دیتا ہے.دوسرے معنی یہ ہیں.يَسْلُبُ تَارَةً وَيُعْطِي تَارَةً یعنی جب چاہے ایک شخص کا مال چھین لیتا ہے اور جب چاہے پھر اسے اموال عطا کر دیتا ہے.تیسرے معنی قبض کے یہ ہیں.تَنَاوُلُ الشَّيْءِ بِجَمِيعِ الْكَتِ گویا اس آیت میں يَقْبِضُ وَ يَبسُط اللہ تعالیٰ کی ایک صفت بیان کی گئی ہے اور پہلے معنی کی رو سے اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا اظہار ایک بنیادی اقتصادی مسئلہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جسے اقتصادیات میں تقسیم پیداوار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یعنی ملک کی پیداوار آگے مختلف افراد کے ہاتھوں میں کس طرح پہنچے گی اور ملکی پیداوار کی تقسیم کے متعلق آزاد اقتصادیات میں بھی اور ایک حد تک بندھی ہوئی اور مقید اقتصادیات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک وقت تک ایک شخص جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتا ہے سونا بن جاتی ہے لیکن پھر بغیر کسی ظاہری سبب اور وجہ کے اس شخص پر فراخی کی بجائے تنگی آجاتی ہے وہی شخص ہوتا ہے وہی سرمایہ ہوتا ہے.وہی حالات ہوتے ہیں وہی کاروبار ہوتا ہے

Page 168

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۵۲ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء لیکن اللہ تعالیٰ اس سے برکت چھین لیتا ہے وہ جہاں بھی ہاتھ ڈالتا ہے اسے نقصان ہی نقصان ہوتا ہے اس کی مالی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور وہ مفلس و قلاش ہو جاتا ہے ابھی چند دن ہوئے ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آئے.وہ تاجر ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک وقت تھا اللہ تعالیٰ نے میرے اموال اور میرے کاروبار میں برکت ڈال دی تھی اس نے مجھے وافر رزق دیا تھا اور اس قسم کے حالات پیدا کر دیئے تھے کہ میں جو بھی کام کرتا رہا اس کے نتیجہ میں مجھے مال میں فراخی نصیب ہوئی لیکن اب اس قسم کے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ گو کام میں اب بھی وہی کرتا ہوں جو پہلے کرتا تھا لیکن اب مجھے وہ نفع نہیں ہوتا جو پہلے ہوتا تھا.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اصل قادر ذات جو اپنے ارادہ کے ساتھ اس دنیا میں تصرف کر رہی ہے وہ میری ہی ذات ہے اور کوئی نہیں میں ہی ہوں جو تقسیم پیداوار کے سلسلہ میں ایسی تاریں ہلا دیتا ہوں کہ ایک شخص کے پاس وہی کاروبار ہوتا ہے وہی سر ما یہ ہوتا ہے لیکن اس قسم کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ پہلے وہ بہت کما رہا ہوتا ہے اور اب وہ کم کمانے لگ جاتا ہے.اس کی برکت اللہ تعالیٰ کسی دوسرے کو دے دیتا ہے اور اس کو حاصل ہونے والا نفع اب دوسرے کو ملنا شروع ہو جاتا ہے.لاہور میں ہم کچھ عرصہ رہے ہیں وہاں ہم نے دیکھا کہ کبھی کوئی ریسٹورنٹ مقبول ہو جا تا تھا اور کبھی کوئی ایک ریسٹورنٹ کی مینجمنٹ (Management) اور انتظام بھی وہی ہوتا تھا.عمارت بھی وہی ہوتی تھی.فرنیچر بھی وہی ہوتا تھا باقی سہولتیں بھی وہی ہوتی تھیں.اس کے کھانا پکانے والے بھی وہی ہوتے تھے اور ایک عرصہ تک وہ ہوٹل اپنے مالکوں کے لئے بہت زیادہ آمد کا موجب بنا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکدم کوئی ایسی تبدیلی پیدا ہو جاتی جو انسان کے اختیار اور سمجھ سے باہر ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی مقبولیت جاتی رہی.لوگوں نے وہاں جانا چھوڑ دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مالک کو وہ ہوٹل بند کرنا پڑا اگر انسان اپنے ماحول پر گہری نظر ڈالے اور فکر وتدبر سے کام لے تو اسے اس قسم کی سینکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں کوئی ظاہری سبب نظر نہیں آتا لیکن یکدم برکت چھن جاتی ہے.اسی طرح بعض اوقات اموال اور کاروبار میں برکت دے دی جاتی ہے اور اس کا کوئی ظاہری سبب نہیں ہوتا.ایک انسان عرصہ تک ابتلا اور مصائب میں مارا مارا پھرتا ہے

Page 169

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۵۳ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء اور بڑی تکلیف میں زندگی گزارتا ہے ایک دن اللہ تعالیٰ اس پر رحم کر دیتا ہے اور اس کے اموال اور اس کے کاروبار میں برکت ڈال دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس پر فراخی اور کشائش کا دور آجاتا ہے ابھی چند دن ہوئے مجھے اس قسم کی بھی ایک مثال ملی ہے ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آئے انہوں نے مجھے بتایا کہ میں ایک غریب گھرانہ کا فرد ہوں میری آمد بہت کم تھی اور گزارہ مشکل سے ہوتا تھا لیکن ایک دن اللہ تعالیٰ نے کچھ اس قسم کی تبدیلی پیدا کر دی کہ اب میرے کا روبار میں برکت ہی برکت ہے اور خدا تعالیٰ بہت کچھ دے رہا ہے میری غربت اور افلاس کی حالت دور ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے رزق میں فراخی پیدا ہوگئی ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مال کو روک رکھنا کہ وہ کسی خاص فرد کو نہ ملے یا مال کو حکم دینا کہ فلاں کے پاس چلے جاؤ.یہ صرف میرا کام ہے اور کسی کا نہیں اور اگر یہ میرا کام ہے تو جب بھی کوئی شخص میری راہ میں خرچ کرے گا تو اسے امید رکھنی چاہیے کہ میں جس نے اپنی قدرت کی تاریں ساری دنیا میں پھیلا رکھی ہیں اسے مایوس نہیں کروں گا بلکہ اس کے مالوں میں اور اس کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ برکت ڈالتا چلا جاؤں گا.دوسرے معنی يَقْبِضُ وَيَبسُط کے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی ملک یا کسی خاندان یا کسی فرد کے سرمایہ یا جائیداد کی پیداوار میں اضافہ کر دیتا ہے یا کمی کر دیتا ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ مال یہاں سے لیا اور وہاں رکھ دیا اس سے لیا اور اسے دے دیا.پہلے معنوں کی رو سے تو یہ تھا کہ مال کسی سے لیا اور دوسرے کو دے دیا ایک کے کاروبار میں بے برکتی ڈالی اور دوسرے میں برکت ڈال دی.لیکن ان معنوں کی رو سے یہ شکل ہوگی کہ اللہ تعالیٰ بغیر اس کے کہ کسی کے کاروبار اور اموال میں بے برکتی ڈالے.وہ دوسرے کے کاروبار اور اموال میں زیادتی اور افزائش پیدا کر دیتا ہے یا وسرے کے کاروبار اور اموال میں زیادتی کئے بغیر اس کے اموال اور کاروبار کو کم کر دیتا ہے مثلاً ایک زمیندار ہے اس کی زمین بنجر تھی اس میں کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی یا اگر ہوتی تھی تو بہت کم.اللہ تعالیٰ نے سمندروں سے پانی کو بادلوں کے ذریعہ اُٹھایا پھر وہ بادل ایسی جگہ بر سے کہ بعض دریاؤں میں طغیانی آگئی.اللہ تعالیٰ نے اس طغیانی کے پانی کو اس شخص کی بنجر زمین میں پھیل

Page 170

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۵۴ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء جانے کا حکم دیا یہ پانی اپنے ساتھ پہاڑوں سے پیداوار بڑھانے والی مٹی کے اجزا لے آیا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان ذرات ارضی کو حکم دیا کہ اس شخص کی زمین میں ٹھہر جاؤ.تمہارا سفرختم ہو چکا چنا نچہ وہ ذرات ارضی اس کی بنجر زمین میں ٹھہر گئے اور اس طرح جس ایکڑ سے وہ شخص ہمشکل دو تین من گندم سالانہ پیدا کرتا تھا اور ادھی پچدھی کھا کر گزارا کرتا تھا اسی زمین میں اتنی طاقت اور زندگی پیدا ہوگئی کہ اب اس میں پندرہ پندرہ من گندم سالانہ پیدا ہونے لگی.اسی طرح ایک اور زمیندار ہے اس کی زمین بڑی اچھی ہے اس میں بہت زیادہ پیداوار ہوتی ہے اور اس کی زرخیزی مالک کی آمد میں بہت اضافہ کرتی ہے.اللہ تعالیٰ جو آسمان سے حکم بھیج کر غریب اور مفلس لوگوں کو مالدار بنا دیتا ہے اور مالداروں کو مفلس اور قلاش بنا دیتا ہے اس زرخیز زمین میں تھور اور سیم پیدا کر کے اسے بنجر بنا دیتا ہے اور اس طرح اس کی آمد کم ہو جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ کسی مالدار کو مفلس اور قلاش بنادینا یا کسی غریب اور مفلس کو مالدار اور غنی بنا دینا میرے اختیار میں ہے اس لئے اگر تم مجھ سے کوئی سودا کرو گے تو اس میں تمہیں کوئی گھاٹا نہیں ہوگا.کیونکہ میں قادر مطلق اور رزاق ہوں.پھر قبض کے معنی مضبوطی سے پکڑ لینے کے بھی ہوتے ہیں اور مضبوطی سے اس شئے کو پکڑا جاتا ہے جس کے متعلق فیصلہ ہو کہ اسے چھوڑنا نہیں.کیونکہ اگر اسے چھوڑا تو نقصان ہو گا.ان معنوں کے رو سے اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ بیان فرماتا ہے کہ جو مال تم میرے سامنے بطور ہدیہ پیش کرو گے میں اسے مضبوطی سے پکڑلوں گا یعنی اسے ضائع نہیں ہونے دوں گا یہ میرا تمہارے ساتھ وعدہ ہے جسے میں بہر حال پورا کروں گا ان معنوں کی رو سے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کو بڑی امید دلاتا ہے.اس میں شک نہیں کہ وہ غنی ہے اور اسے تمہارے اموال کی حاجت نہیں لیکن تمہاری پاک نیتوں اور محبت اور فنافی الکبی کو دیکھتے ہوئے وہ اپنی رحمت سے تمہیں نوازتا ہے اور شکر اور پیار کے ساتھ تمہاری مالی قربانیوں کو قبول کرتا ہے اور مضبوطی کے ساتھ انہیں پکڑ لیتا ہے اور انہیں ضائع نہیں ہونے دیتا بلکہ وَ يَبسُط اپنی بے پایاں عطا بھی اس میں شامل کرتا ہے اور انہیں بڑھا کر اور وسعت دے کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے اور وہ تمہیں اس دنیا میں بھی اپنی عطائے کثیر کا دو

Page 171

خطبات ناصر جلد اول ܬܙ خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۶۶ء حقدار بنا دیتا ہے اور جب تم لوٹ کر اس کی طرف جاؤ گے تو وہ بڑے پیار سے تمہیں کہے گا یہ لو اپنے مال جو تم نے میری راہ میں خرچ کئے تھے دیکھو میں نے تمہارے لئے انہیں کس قدر بڑھایا اور ان میں کس قدر کثرت اور وسعت بخشی.پس خوش ہو کر اپنے رب کے ساتھ کبھی کوئی گھاٹے کا سود انہیں کرتا.غرض دوستوں کو یہ نکتہ سمجھنا چاہیے اور اسے ہر دم اپنے مد نظر رکھنا چاہیے کہ دین اور سلسلہ کے لئے جب بھی ان کے مالوں کی ضرورت پیش آئے.انہیں وہ اموال بغیر کسی خوف اور بغیر کسی خطرہ کے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دینے چاہئیں کیونکہ وہ جو خدا تعالیٰ سے سودا کرتا ہے ہمیشہ نفع میں ہی رہتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ نفع مند سودوں کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۲۷ فروری ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 172

Page 173

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء اگر ہم قربانیوں میں حصہ لیتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے قلوب میں بشاشت اور تسکین پیدا کرے گا خطبه جمعه فرموده ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَ أَخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَ أَخَرَ سَيْئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ تُطَهَّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَكَ سَكَنَّ لَهُمْ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ - (التوبة : ١٠٢، ١٠٣) یعنی کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا.انہوں نے نیک عملوں کو کچھ اور عملوں سے جو بڑے تھے ملا دیا.انہوں نے اپنے رب سے یہ امید رکھی کہ وہ ان کی توبہ قبول کرے گا.اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اے رسول اور وہ جو اس دنیا میں بطور اس کے اظلال کے پیدا ہوتے رہیں گے.ان کے مالوں میں سے صدقہ لے تاکہ تو انہیں پاک کرے اور ان کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور ان کے لئے دعائیں بھی کرتا رہ.کیونکہ تیری دعا ان کی تسکین کا موجب ہے اور اللہ تعالیٰ تیری دعاؤں کو بہت سننے والا اور حالات کو جاننے والا ہے.ان آیات سے پہلے منافقوں کا ذکر ہے جن سے بظا ہر کچھ نیک کام بھی سرزد

Page 174

خطبات ناصر جلد اول ۱۵۸ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء ہوتے ہیں اور بہت سی منافقانہ حرکتیں بھی ان سے ہوتی رہتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ وہ بدیاں کرنے اور منافقانہ چالیں چلنے کے بعد اپنے دل میں ندامت کا احساس پیدا نہیں کرتے بلکہ مردُوا عَلَى النِّفَاقِ ( التوبة : ۱۰۱) وہ اصرار کے ساتھ اپنے نفاق پر قائم رہتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ کا معاملہ ان سے جدا گانہ ہو گا اور ان کے وہ اعمال جو دنیا کی نگاہ میں بظاہر نیک ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ حاصل نہ کر سکیں گے ان سے ملتے جلتے کچھ اور لوگ بھی ہیں جو حقیقی مومن ہیں وہ بہت سے اچھے نیک اور پاکیزہ اعمال بجالاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ہی ان سے بعض خطائیں بھی سرزد ہوتی ہیں غفلتیں بھی ہوتی ہیں ان سے بھول چوک بھی ہو جاتی ہے اور ان کے اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال بھی شامل رہتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے وَآخَرَ سَینا کے الفاظ سے یاد کیا ہے لیکن چونکہ ان کے دل میں نفاق نہیں ہوتا بلکہ ان کے دلوں میں حقیقی ایمان پایا جاتا ہے.اس لئے بدی کے ارتکاب کے بعد ان کے دلوں میں احساس ندامت پیدا ہوتا ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ اگر وہ تو بہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرے گا اور اسی امید، توقع اور یقین کی بنا پر جب بھی ان سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے اور جب بھی وہ کسی گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں وہ اپنے رب کی طرف لوٹتے ہیں ، اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور تو بہ کے ذریعہ اس رب غفور کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ کو قبول کرتا اور ان کے گناہوں کو معاف کر دیتا اور ان کی خطاؤں کو مغفرت کی چادر کے نیچے چھپا لیتا ہے.یہاں یہ یادرکھنا چاہیے کہ تھوڑے ہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں کامل اور تام تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے.اور یہ بڑے پایہ کے اولیاء قطب اور غوث کہلاتے ہیں.لیکن نیکوں کی اکثریت ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو بشری کمزوری کے سبب اپنے اندر کچھ نہ کچھ خرابی رکھتے ہیں اور ان کے دین میں دنیا کی ملونی بھی ہوتی ہے.اس اکثریت کے متعلق ہی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ بے شک بندہ کمزور ہے بے شک یہ حقیقت ہے کہ ہم نے بندوں کے ساتھ شیطان بھی لگایا ہوا ہے جو انہیں ہر وقت ورغلاتا رہتا ہے اور باوجود ایمان کے وہ بعض دفعہ اس کے

Page 175

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۵۹ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء پھندے میں پھنس جاتے ہیں اور اس کی بات کو مان لیتے ہیں.لیکن جونہی انہیں ہوش آتا ہے ان کے دل میں ندامت کا شدید احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی غلطی کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں وہ اپنے رب کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم تیرے بندے ہیں لیکن شیطان کے بہکانے میں آگئے تھے اور ہم سے کچھ گناہ سرزد ہو گئے ہیں.ہم تجھ سے امید رکھتے ہیں کہ تو ہمارے ان گناہوں کو معاف کر دے گا اور پھر نئے سرے سے ہمیں عبودیت کے اس مقام پر کھڑا کر دے گا جس مقام کے لئے تو نے ہمیں پیدا کیا ہے.گناہ کے متعلق یہ یادرکھنا چاہیے کہ یہ پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب دل کے اندر شیطان کے وسوسہ ڈالنے کی وجہ سے غیر اللہ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور غیر اللہ کی محبت دنیا میں ہزاروں شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے کبھی بچوں کی محبت غلو اختیار کر جاتی ہے، کبھی اموال کی محبت اپنی حدود کے اندر نہیں رہتی ،کبھی رشتہ داری کی بیچ ہوتی ہے، کبھی قومی فخر نیکیوں کے رستہ میں حائل ہو جاتا ہے اور کبھی انسان اپنی بری عادتوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا یہ سب چیزیں ایک ایسی محبت سے تعلق رکھتی ہیں جو خدا تعالیٰ کی محبت نہیں کہلاتی.بلکہ غیر اللہ کی محبت کے نام سے اسے یاد کیا جا سکتا ہے اور یہ غیر اللہ کی محبت آہستہ آہستہ دلوں پر قبضہ کر لیتی ہے.پہلے ایک غلطی ہوتی ہے پھر دوسری پھر تیسری اسی طرح ایک کے بعد دوسری غلطی ان سے ہوتی رہتی ہے اور وہ دل جو خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے بنایا گیا تھا اور وہ دماغ جس میں خدا تعالیٰ کی محبت کے سوا کسی اور کی محبت کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے تھی وہ غیر اللہ کی محبت میں بری طرح پھنس جاتا ہے اس طرح ان لوگوں کے دل و دماغ اور فطرت صحیح استقامت کے مقام سے ہٹ جاتی اور دور ہو جاتی ہے لیکن استقامت اور ثبات قدم، ایمان اور روحانی مدارج کے حصول کے لئے نہایت ضروری ہے.استقامت کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے عین محل اور مقام پر رکھنا گو یا وضعُ الشَّيْءِ في مَحَلَّہ کا نام ہی استقامت ہے یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہیئت طبعی کا نام استقامت ہے یعنی جس شکل اور جس رنگ میں اور پھر جس طور پر اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو پیدا کیا ہے اگر وہ طبعی حالت پر قائم رہے تو کہا جائے گا یہ چیز استقامت رکھتی ہے یا یہ چیز مستقیم ہے لیکن جب وہ چیز اپنی طبیعت اور فطرت کے تقاضوں سے دور چلی جائے یا وہ انہیں پورا نہ کر رہی ہو تو وہ چیز استقامت سے ہٹ

Page 176

خطبات ناصر جلد اول 17.خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء جاتی ہے اور اسے مستقیم نہیں کہا جا سکتا اور جب تک وہ چیز اپنی فطرت پر قائم نہ رہے یا وہ اپنی بناوٹ اور طبعی حالت کو قائم نہ رکھے.وہ اپنے اندر کمالات پیدا نہیں کر سکتی اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک حد تک درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.وہ جب پیدا ہوتی ہے کمال کے حصول کی قوتیں اس کے اندر موجود ہوتی ہیں لیکن اس میں کمال پایا نہیں جاتا.دنیا کی کسی چیز کو لے لو وہ ایک خاص زمانہ گزرنے کے بعد ایک خاص ماحول میں سے گزرنے کے بعد اور پھر ایک خاص تربیت کے بعد اپنے کمال کو پہنچتی ہے.درختوں کو ہی لے لو ایک درخت لگایا جاتا ہے تو اسے لگانے سے پہلے اس کے لئے زمین تیار کی جاتی ہے.اس درخت کے اندر اللہ تعالیٰ نے نشوونما کی قو تیں تو رکھ دی ہیں مگر جب تک ان قوتوں کو بروئے کار نہ لایا جائے وہ اپنے کمال کو نہیں پہنچ سکتا اور ان قوتوں کو بروئے کارلانے کے لئے ہمیں اس کے لئے زمین کو تیار کرنا پڑتا ہے.پھر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کوئی غیر چیز زمین کی اس قوت کو کھینچ کر نہ لے جائے.جسے اس درخت نے حاصل کرنا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ایک اچھا باغبان درخت کی جڑوں کے پاس سے ہمیشہ جڑی بوٹیاں اور گھاس نکالتا رہتا ہے اور ملائی کرتا رہتا ہے پھر اس درخت کے لئے ضروری ہے کہ اسے وقت کے ندر پانی دیا جائے اور اگر کوئی درخت زمین سے نشو و نما حاصل کر چکا ہوتا ہے اور اب اس میں مزید طاقت باقی نہیں رہتی جو وہ اس درخت کو پہنچائے تو باہر سے کھاد ڈالی جاتی ہے تا وہ درخت اپنے کمال کو پہنچ جائے اسی طرح انسانی فطرت اسی وقت کمالات حاصل کرتی ہے اور کر سکتی ہے جب اس کا ماحول اور اس فطرت کا رکھنے والا اپنی توجہ کو اس طرف رکھے کہ جس رنگ میں میرے رب نے میری فطرت صحیحہ کو پیدا کیا ہے اسی رنگ میں میں اسے رکھوں اور جو چیزیں اور جو باتیں اللہ تعالیٰ نے فطرت صحیحہ کی نشو و نما کے لئے ضروری قرار دی ہیں ان کا خیال رکھوں اور استقامت کے مقام سے پرے نہ ہٹوں بلکہ جو چیز ہے وہ اسی طرح رہے جس طرح وہ بنائی گئی ہے یعنی خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے والی فطرت شیطانی وسوسوں کی طرف متوجہ نہ ہو اور وہ خدا تعالیٰ کی ہر آواز پر لبیک کہتی رہے اور اس کے حضور ہمیشہ جھکی رہے.تب وہ فطرت جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا مظہر بنانے اور اسے عبودیت کا بلند مقام عطا کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اپنے کمالات کو

Page 177

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۶۱ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء پہنچ سکتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ اکثر لوگ بعض اوقات نیکی کے رستہ سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ نیک اعمال کے ساتھ ساتھ کچھ بدیوں کے بھی مرتکب ہو جاتے ہیں.پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے مومن کے لئے نجات کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جاتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں.ایسے مومن کے لئے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور رحمانیت سے یہ دروازہ کھولا ہے کہ جب بھی اس سے کوئی غلطی ہو وہ اس کا اقرار کرے اور پھر پختہ نیت کے ساتھ یہ عہد کرے کہ آئندہ وہ اس غلطی کا مرتکب نہیں ہوگا اور پھر پوری کوشش کرے کہ وہ مستقبل میں بھی ایسی غلطیوں سے بچتا ر ہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر اس خلوص نیت کے ساتھ تم تو بہ کر کے میرے سامنے آؤ گے تو چونکہ میں غفور ہوں اس لئے تمہارے تمام گناہ معاف کر دوں گا اور جتنا اور جس قدر تم استقامت کے مقام سے ہٹ گئے تھے.میں تمہیں پھر اسی مقام کی طرف لوٹا کر لے آؤں گا کیونکہ جب گناہ معاف ہو گئے تو گناہ گار پوری طرح نیک بن گیا.گناہ نے اسے استقامت کے مقام سے پرے ہٹایا تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے اسے اٹھا کر پھر صحیح مقام پر کھڑا کر دیا.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات غفور اور تو اب کی وجہ سے اور پھر انسان پر رحم کرتے ہوئے اس کے لئے تو بہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور وہ اپنے بندہ سے کہتا ہے اے میرے بندے ! تم سے جب بھی کوئی غلطی ہو تم اس کا اعتراف کرتے ہوئے تو بہ کرو پھر ندامت کا احساس دل میں پیدا کرو میرے حضور تضرع اور تذلل سے جھکو اور مجھ سے یہ امید رکھو.عَسَى اللهُ اَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ کہ میں تمہاری توبہ قبول کروں گا.جب خدا تعالیٰ کے لئے عسی کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں تم یہ امید رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تو بہ کو قبول کرے گا یعنی یہ لفظ انسان کی امید پر دلالت کرتا ہے.پس عسى الله أَن يَتُوبَ عَلَيْهِم خدا تعالیٰ کہتا ہے اگر تم اس ذہنیت اور اس نیت کے ساتھ میرے سامنے آؤ گے تو میں تمہاری تو بہ کو قبول کرلوں گا اور تمہیں صراط مستقیم پر لا کھڑا کروں گا.تمہاری جو فطری اور طبعی حالت ہے وہ تمہیں حاصل ہو جائے گی اور اس طرح تم ان بلندیوں اور کمالات کو حاصل کر سکو گے جن کےحصول کے لئے میں نے تمہیں پیدا کیا ہے لیکن بلندیوں کا حصول محض ترک گناہ یا گنا ہوں

Page 178

خطبات ناصر جلد اول ۱۶۲ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء کے معاف کر دیئے جانے کی وجہ سے نہیں ہو سکتا.ترک معاصی اور چیز ہے اور اعمال صالحہ بجالانا بالکل اور چیز ہے.پس ترک معاصی یا گناہوں کے معاف کر دیئے جانے کیوجہ سے انسان ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا وہ گنہ گار نہ رہا، عاصی نہ رہا اور یہ پہلا زینہ ہے روحانی ترقیات کا لیکن روحانی ترقیات کے حصول کے لئے عملاً نیک کاموں کا بجالانا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنا ضروری ہے اسی طرح جہاں اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں اپنی صفات غفور ، تو آب اور رحیم کو پیش کر کے انسان کو گناہوں کے بخش دینے کا یقین دلایا.وہاں اس کے ساتھ ہی فرمایا خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تو ان کے اموال میں سے صدقہ لے اور ان دونوں آیات کو آگے پیچھے لانے سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ روحانی ترقیات کے لئے ترک معاصی کافی نہیں.اس لئے کہ مثلاً دنیا میں ہزاروں قسم کے جانور ایسے ہیں جن میں سے کسی کے متعلق بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ گنہ گار ہے.زمیندار اپنے گھروں میں بھیڑ بکریاں بھی رکھتے ہیں، گائے اور بیل بھی رکھتے ہیں، بھینسیں اور بھینسے بھی رکھتے ہیں اونٹ بھی رکھتے ہیں.غرض مختلف قسم کے جانوران کے پاس ہوتے ہیں.مگر کبھی کسی زمیندار نے باوجود اس کے کہ جانور گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے یہ نہیں کہا کہ میرا فلاں جانور ( ان معنوں میں جن میں انسان کو گنہ گار کہا جاتا ہے ) گنہ گار ہے یا فلاں جانور گنہ گار نہیں.اللہ تعالیٰ نے جانوروں کے لئے قانون ہی ایسا بنایا ہے کہ انہیں گناہ کرنے کی آزادی دی ہی نہیں.وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے، کرتے ہیں گناہ نہیں کرتے.پس جہاں تک ترک معاصی کا سوال ہے یہ کمال ہر جانور کے اندر پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہتے اور نہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت بڑا اور بلند روحانی کمال رکھنے والے ہیں.کسی گائے یا بھینس کو یا کسی بکری اور بھیڑ کے لئے یہ نہیں کہا جاتا کہ اس میں بڑی روحانیت ہے کیونکہ اس سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا.پس اگر انسان صرف اسی مقام پر ٹھہر جائے کہ میں نے ساری عمر کوئی گناہ نہیں کیا تو وہ یہ دعوی تو کر سکتا ہے کہ میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں جہاں تک دنیا کے لاکھوں اور کروڑوں اونٹ گدھے بیل گھوڑے بھیڑ اور بکریاں اور دوسرے جانور پہنچے ہوئے ہیں.اس سے زیادہ دعوی کا وہ سزا وار نہیں.غرض روحانی مدارج کے حصول کے لئے گناہوں کو

Page 179

خطبات ناصر جلد اول ۱۶۳ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء ترک کرنے کے علاوہ انسان کو بہت سے نیک کام بھی کرنے پڑتے ہیں اور ان نیک اعمال کو بجا لانے کے بعد ہی انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں کی بخشش کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ اے رسول تو ان مومنوں کے اموال میں سے صدقہ لے اموال مال کی جمع ہے عام طور پر اس کے معنی روپیہ اور پیسہ کے کئے جاتے ہیں.لیکن عربی زبان میں اس کے معنی ملکیت یعنی ہر اس چیز کے ہوتے ہیں جو کسی کے ملک میں ہو.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسلام کو دنیا میں اس لئے قائم کیا ہے کہ انسان اپنے مقصود کو حاصل کر لے اور اپنے محبوب اور مطلوب کے ساتھ اس کا رشتہ پختگی کے ساتھ قائم ہو جائے اور وہ خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا اور حاصل کرنے والا ہو اور اس کے لئے اے رسول ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم مومنوں کے لئے ہمیشہ قربانی کے منصوبے بناتے رہا کرو.خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صدقة صدقہ اس مال کو کہتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اس نیت اور اس امید کے ساتھ خرچ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا اور اس کی وجہ سے قرب کی راہیں اس پر کھول دے گا.پس فرمایا.اے رسول تم ان مومنوں کے اموال میں سے صدقہ لو یعنی ان کی روحانی اور دنیوی ترقیات کے لئے ہمیشہ قربانی کے منصوبے بناتے رہا کرو تزکیھم تا کہ یہ بڑھیں اور ان کے اندر طاقت قوت اور کثرت پیدا ہو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت حسب ضرورت اور ان حالات میں جو اللہ تعالیٰ انسان اور اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کرتا تھا مسلمانوں کے لئے قربانی کی ایک سکیم اور منصوبہ تیار کرتے تھے اور انہیں بتایا کرتے تھے کہ اگر ہم اس کام کو مل کر کریں گے تو اسلام کو قوت اور طاقت حاصل ہو گی اور ہمیں اس کے نتیجہ میں روحانی مدارج ملیں گے.پس جنگوں کے حالات جو پیدا ہوئے یا اس کے علاوہ جو دوسرے حالات خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کئے ہر بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کا ایک منصوبہ بنایا اور مسلمانوں کو کہا.اس وقت اللہ تعالیٰ کو تمہارے اموال کی ضرورت ہے یا اس وقت اللہ تعالیٰ کو تمہارے اوقات کی ضرورت ہے یا اس وقت اللہ تعالیٰ کو تمہاری جانوں کی ضرورت ہے آؤ آگے بڑھو اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال، اپنے اوقات اور اپنی جانیں

Page 180

خطبات ناصر جلد اول ۱۶۴ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء پیش کر و.تا تم اس مقصد کو حاصل کر سکو.جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور جس کے حصول میں مدد دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام جیسے خوبصورت ،حسین ، کامل اور مکمل مذہب کو دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بھیجا ہے.خُذُ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً میں خُذ امر کا صیغہ ہے اور اس کے پہلے مخاطب خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ قیامت تک کے لئے ایک زندہ وجود ہیں اور وہ اس طرح کہ خدا تعالیٰ قیامت تک اپنی حکمت بالغہ سے آپ کے ایسے اظلال پیدا کرتا رہے گا.(جیسا کہ وہ آج تک پیدا کرتا چلا آیا ہے ) جو آپ کی کامل اطاعت ، کامل محبت اور آپ میں کامل فنا ہونے کی وجہ سے گویا ایک طرح آپ کا ہی وجود بن جاتے ہیں.پس اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اظلال کو بھی جو آئندہ پیدا ہونے والے تھے (اور ان میں مجددین، اولیا ءامت اور خلفائے راشدین بھی شامل ہیں اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ اُمت مسلمہ میں ہر وقت ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو آپ کی کامل متابعت اور فنا فی الرسول ہونے کی وجہ سے آپ کا ظل ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی وہ آپ کے ظل ہیں ) مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ تم اُمت مسلمہ کی ترقی کے لئے اور مومنوں کو روحانی بلند یوں تک پہنچانے کے لئے قربانیوں اور ایثار کے منصوبے تیار کرتے رہو اور ان کی ملکیوں میں سے ایک حصہ لے کر خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ہمیشہ انتظام کرتے رہوتا وہ ان روحانی مدارج تک پہنچتے رہیں جن تک وہ اسلام کی اتباع اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے نتیجہ میں پہنچ سکتے ہیں.پھر خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ میں ایک بشارت بھی ہے اور وہ یہ کہ اسلام نے آزادی ضمیر پر بڑا زور دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے اور بار بار ہمیں فرمایا ہے کہ جبر سے حاصل کردہ اموال یا مجبور ہو کر دی جانے والی قربانیاں خدا تعالیٰ کی نظر میں کوئی قدر نہیں رکھتیں.نہ وہ انہیں قبول کرتا ہے، اور نہ ان کے نتیجہ میں روحانی فیوض حاصل ہوتے ہیں.پس اس آیت میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور پھر ایک حد تک آپ کے اظلال

Page 181

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء کو بھی ایسی جماعتیں عطا کرتا رہے گا جو بشاشت اور خوشی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گی اور اس بشارت کو ہم ہر صدی اور ہر زمانہ میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.ہماری جماعت کو ہی دیکھ لو.اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم کیا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ظل تھے.اسی لئے آپ نے فرمایا ہے جوشخص مجھ میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں فرق کرتا ہے اس نے دراصل مجھے پہچانا ہی نہیں.کیونکہ جس طرح ایک شخص کی تصویر لی جاتی ہے یا کسی تصویر کا چربہ اتارا جاتا ہے، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تمام صفات کو اپنے اندر سمیٹ لیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں اور اپنا سارا وجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں کلیتاً فنا کر دیا تھا اور کوئی بینا آنکھ ان دو وجودوں میں فرق نہیں کر سکتی.بالکل اسی طرح جس طرح وہ آگ اور اس لو ہے میں فرق نہیں کر سکتی جو آگ میں پڑ کر خود آگ بن جاتا ہے حالانکہ وہ آگ نہیں ہوتا لو باہی ہوتا ہے لیکن اس میں آگ کی تمام خوبیاں اور صفات پیدا ہو جاتی ہیں اور دیکھنے والی آنکھ اسے آگ کا شعلہ ہی خیال کرتی ہے لیکن حقیقت اس کے سوا ہوتی ہے وہ آگ کا شعلہ نہیں لوہے کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے بالکل اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے نفس پر کامل اور مکمل فنا طاری کی اور اپنے وجود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں مدغم کر دیا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل ظل ہونے کی وجہ سے خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ کے ماتحت آپ نے بھی جماعت کے لئے مالی قربانیوں کے منصوبے تیار کئے.آپ نے بھی جماعت سے قربانیاں لیں اور اس کی ایسے رنگ میں تربیت کی کہ وہ ہر موقع پر بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتی چلی آئی.پھر آپ کے وصال کے بعد جو لوگ مقام خلافت پر فائز ہوئے ان کے زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس بشارت کو نمایاں طور پر پورا کیا.حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ کو دیکھ لو آپ نے مختلف اوقات میں باوجود اس کے کہ جماعت پہلے مالی قربانیاں پیش کر رہی تھی.اس کے سامنے کئی نئی سکیمیں رکھیں اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں پورا کرے اور ہم نے دیکھا کہ جماعت بشاشت اور خوشی کے ساتھ چھلانگیں لگاتی ہوئی آپ کی طرف دوڑی اور ہنستے ہوئے

Page 182

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۶۶ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء اس نے اپنے مزید اموال خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کر دیئے.وصیت کا چندہ دینے والوں نے تحریک جدید کے چندہ میں بھی بشاشت اور خوشی کے ساتھ حصہ لیا.تحریک جدید کا چندہ دینے والوں نے وقف جدید کے چندوں میں بھی خوشی اور بشاشت کے ساتھ حصہ لیا پھر تحریک جدید اور وقف جدید کے سوا دوسرے لازمی چندے دینے والوں نے ان چندوں میں بھی بڑی بشاشت سے حصہ لیا جو محض وقتی نوعیت کے تھے.مثلاً باہر کے ملکوں میں مساجد کی تعمیر ہے.مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں ہماری بہنوں نے ہی دنیا کو بڑا اچھا نمونہ دکھایا ہے اور رہتی دنیا تک ایک مومن کے دل میں ان کا نام بڑے فخر کے ساتھ یادر ہے گا اور مومنوں کی دعائیں انہیں ہمیشہ حاصل ہوتی رہیں گی ابھی پچھلے جمعہ میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ اگر چہ جماعت قربانیوں میں ہر سال پہلے کی نسبت ترقی کرتی ہے لیکن وعدے لکھوانے میں بعض دفعہ سستی کرتی ہے اور اس طرح نہ صرف خود نقصان اٹھاتی ہے بلکہ مرکز کو بھی پریشان کرتی ہے.چنانچہ اس سال بھی اس نے تحریک جدید کے وعدے لکھوانے میں سستی کی ہے جس سے مرکز پریشانی کا شکار ہو رہا ہے.میں نے جماعت سے کہا تھا کہ وہ اس طرف فوری توجہ دے وعدوں کی آخری میعاد جلد ختم ہو رہی تھی لیکن میں نے کہا تھا کہ میں اہل ربوہ کو وعدوں کے لکھوانے کے لئے مزید مہلت نہیں دوں گا.باہر چونکہ میری آواز دیر میں پہنچے گی اس لئے باہر کی جماعتوں کو میں ایک ہفتہ کی مہلت دوں گا.آج جب مجھے یہ رپورٹ ملی کہ اہلِ ربوہ نے ان چند دنوں میں اپنے تحریک جدید کے وعدے پچھلے سال سے کچھ اوپر کر دیئے ہیں اور ابھی وعدے لکھوائے جا رہے ہیں تو میرے دل میں خدا تعالی کی بڑی حمد پیدا ہوئی انشاء اللہ امید ہے کہ اہل ربوہ ابھی وعدوں کے سلسلہ میں اور آگے بڑھ جائیں گے اسی طرح راولپنڈی سے بھی آج صبح ہی رپورٹ ملی ہے کہ وہاں کی جماعت نے پچھلے سال سے زائد رقم کے وعدے بھجوا دیئے ہیں اور ابھی وعدے لئے جارہے ہیں تا پچھلے سال کی نسبت ان کی قربانیاں زیادہ ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے کی نسبت زیادہ حاصل کر سکیں.اس چیز کو دیکھ کر دل میں اللہ تعالیٰ کی بڑی ہی حمد پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہم پر یہ فضل کیا کہ ہم پہلے کی نسبت اس کی راہ میں زیادہ اموال خرچ کرنے کی توفیق پارہے ہیں

Page 183

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۶۷ خطبہ جمعہ ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء بلکہ وہ ان بشارتوں کو جو اس نے چودہ سو سال قبل سے دے رکھی تھیں.انہیں ہماری زندگی میں ہی پورا کر رہا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی حمد کی جائے وہ کم ہے.پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( اور ان کے ان اظلال کو بھی جو آپ کے بعد ہونے والے تھے ) مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ قربانی کرنے والوں کے لئے دعا بھی کر کیونکہ تیری دعا ان کے لئے تسکین کا موجب ہوگی میں سمجھتا ہوں کہ مومنوں کے لئے اس میں بہت بڑی بشارت ہے اور وہ بشارت یہ ہے.کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دو گے.اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی وہ چیزیں پیش کرو گے جن کے تم حقیقی مالک ہو اور خدا تعالیٰ کی عطا میں سے وہ تمہارے لئے ہی مخصوص کی گئی ہیں اور پھر تم انہیں بڑی خوشی اور بشاشت سے پیش کرو گے.تو خدا تعالیٰ تمہاری ان قربانیوں کو قبول کر لے گا اور نہ صرف وہ تمہاری قربانیوں کو قبول کرے گا بلکہ اس نے تمہارے لئے دعاؤں کا ہمیشہ بہنے والا اور کبھی بھی خشک نہ ہونے والا در یا جاری کر دیا ہے کیونکہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے.کہ تم مومنوں کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کا صرف بدلہ ہی نہ دے بلکہ اپنی رحمانیت کی صفت کے ماتحت ان کے ثواب میں ہر آن اور ہر لحظہ زیادتی کرتا چلا جائے اور اپنے قرب کی راہیں ان پر ہر وقت کھولتا رہے اور ان دعاؤں کے نتیجہ میں وہ انہیں بلند سے بلند تر مقام کی طرف لے جاتا چلا جائے.پس یہ کتنی بڑی بشارت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے اس نے خود فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں پیش کرو گے تو وہ نہ صرف انہیں قبول کرے گا بلکہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کریں.اللہ آپ کی دعاؤں کو قبول کر کے اپنی رحمانیت کے تحت ہر وقت ان کے ثواب میں بڑھوتی کرتا چلا جائے گا.پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ قیامت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اظلال نے بھی ہمیشہ اور ہر وقت موجود رہنا ہے اس لئے ان کو بھی یہ حکم ہے.کہ تم جس جماعت پر مقرر کئے گئے ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل ہونے کی وجہ سے ان کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہو.چنانچہ اس حکم کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین مجددین اور

Page 184

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۶۸ خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء اولیائے اُمت اپنے لئے اتنی دعائیں نہ کرتے تھے.جتنی دعا ئیں انہوں نے اُمت مسلمہ کے لئے کیں اور اب جماعت احمدیہ کے خلفاء بھی اپنے لئے اتنی دعائیں نہیں کرتے ( یا نہیں کرتے رہے ) جتنی دعا ئیں وہ احمدی بھائیوں کے لئے کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں اور اس امید اور یقین سے دعا کرتے اور کرتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ان دعاؤں کے نتیجہ میں مومنوں کے دلوں میں تسکین پیدا کرے گا پھر ہمارا دل خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے.جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری حقیر دعاؤں کے نتیجہ میں واقعہ میں مومنوں کے دلوں میں تسکین پیدا ہو جاتی ہے اور جماعت کے افراد کے سینکڑوں خطوط اس بات کی شہادت دے رہے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ إِنَّ صَلوتَكَ سَكَن لھم کو ہر آن پورا کر رہا ہے.کبھی وہ ہماری دعاؤں کو قبول کر کے مومنوں کے دلوں میں تسکین کے سامان پیدا کرتا ہے اور کبھی وہ مومنوں کو قوت برداشت عطا کر کے ان کے لئے تسکین کے سامان مہیا کرتا ہے بہر حال وہ ان کے دلوں میں تسکین کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے.پس ان آیات میں جن باتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے وہ باتیں ہمیں ہر وقت یا درکھنی چاہئیں.پہلی بات جو خدا تعالیٰ نے ہمیں ان آیات میں بتائی ہے یہ ہے کہ مومن اور منافق میں یہ فرق ہے کہ منافق بھی غلطی کرتا ہے اور مومن بھی غلطی کرتا ہے لیکن منافق غلطی کرتا ہے تو اس پر اصرار کرتا ہے.جیسا کہ فرما یا مَردُوا عَلَى النِّفَاقِ وہ نفاق کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس کے لئے ان کے دل میں ندامت کا احساس پیدا نہیں ہوتا.لیکن اس کے مقابلہ میں جب مومن کو ئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں ندامت پیدا ہوتی ہے اور وہ تو بہ کے ذریعہ اپنی غلطی معاف کروانے کی کوشش کرتا ہے.تب اللہ تعالیٰ اس کو اس معصوم بچے کی طرح بنادیتا ہے جو ابھی ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تو بہ کرنے والا تو بہ کرنے کے بعد (اگر اس کی توبہ قبول ہو جائے ) ایسا ہی ہے جیسے اس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہیں.اس سے کوئی غلطی سرزد ہی نہیں ہوئی.پس وہ شخص جو تو بہ کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی تو بہ کو قبول کر لیتا ہے وہ ویسا ہی معصوم بن جاتا ہے جیسا کہ ایک نوزائیدہ بچہ.غرض مومن کو

Page 185

خطبات ناصر جلد اول ۱۶۹ خطبہ جمعہ ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء تو بہ کا دروازہ ہمیشہ کھٹکھٹاتے رہنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مومن کے دل میں رجاء ہوتی ہے وہ یہ امید اور توقع رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تو بہ کو قبول کرے گا.دوسرے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ محض ترک معاصی کافی نہیں اگر تم میری رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہو یا تمہیں میرے قرب کی تلاش ہے.تو تمہیں نیکی کی راہیں اختیار کرنا پڑیں گی اور خلوص نیت کے ساتھ اعمال صالحہ بجالانے پڑیں گے اور یہی ایک طریق ہے جس کے ذریعہ تم میری بلندیوں کی طرف پرواز کرنے کے قابل ہو سکتے ہو.پھر ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت بھی دی ہے.کہ اگر تم نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ ( نفاق کے ساتھ نہیں ) میرے قائم کردہ سلسلہ اور جماعت میں رہتے ہوئے ان تحریکوں میں جو میں جاری کروں، شامل ہو گے تو نہ صرف میری طرف سے تمہارے دلوں میں بشاشت پیدا کی جائے گی اور تمہارے لئے یہ قربانیاں دو بھر محسوس نہیں ہوں گی.بلکہ تم بڑی بشاشت کے ساتھ اور ہنسی خوشی ان قربانیوں کو کرو گے اور اس کے بدلہ میں تمہیں دو چیزیں ملیں گی.ایک تو میں تمہاری قربانیوں کو قبول کر کے اپنی رضا تمہیں دوں گا.دوسرے میں نے اپنے بعض بندوں کو تمہارے لئے دعا کرنے کے لئے مقرر کر چھوڑا ہے میں ان کی دعا کو قبول کر کے اپنی رضا کو تمہارے لئے ہر دم اور ہر لحظہ بڑھاتا چلا جاؤں گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس تعلیم پر عمل کرنے اور اسے یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ان آیات قرآنیہ میں بیان کی گئی ہے اور پھر سارے قرآن کریم پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.اگر وہ لوگ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں جو کلی طور پر تزکیہ نفس حاصل کرتے ہیں اور کلی طور پر اپنے وجود کو فنا کر دیتے ہیں لیکن ہمیں دعا کرتے رہنا چاہیے اور پھر یہ کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان بندوں میں ہمیں بھی شامل کر لے.وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ (روز نامه الفضل ربوه ۳۰ مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 186

Page 187

خطبات ناصر جلد اول 121 خطبہ جمعہ ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء اللہ تعالیٰ کو جو چیزیں پسند ہیں انہیں اختیار کرو اور اُسے جو امور نا پسند ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرو خطبه جمعه فرموده ۱۱ / مارچ ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ سورہ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے.قُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَنَ يَنْزَعُ بَيْنَهُم بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوا مُّبِينًا - (بنی اسراءیل : ۵۴) یعنی ان لوگوں کو جو خدائے واحد کی خلوص اور تذلل کے ساتھ اطاعت کرنے والے اور صفات الہیہ کے مظہر بننے کے خواہشمند ہیں میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ وہی بات کہا کریں جو سب سے زیادہ اچھی ہے اب کسی بات کا اچھا اور بُرا ہونا مختلف پہلوؤں سے ہوسکتا ہے.بعض باتیں بعض لوگوں کے نزدیک اچھی ہوتی ہیں لیکن وہی باتیں بعض دوسروں کے نزدیک بُری ہو سکتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے عِبَادِی میں بندوں کو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور اس طرح اس سوال کا جو یہاں پیدا ہونا تھا خود ہی جواب دے دیا ہے اور وہ جواب یہ ہے جو میری نگاہ میں بھی احسن ہو اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کون سی چیزیں احسن ہیں.اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہی چیزیں احسن ہیں جو اسے اچھی لگتی ہیں جنہیں وہ پسند کرتا ہے.جن کو دیکھتے ہوئے اور اپنے بندوں پر رحم اور فضل

Page 188

خطبات ناصر جلد اول ۱۷۲ خطبہ جمعہ ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء کرتے ہوئے وہ اپنی قرب کی راہیں اور اپنی رضا کے طریق انہیں سمجھاتا ہے اور ثواب کے دروازے ان پر کھولتا ہے.پس یہی وہ چیزیں ہیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پسند یدہ ہیں اور ان کا ذکر ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے اور قرآن کریم میں ہی مل سکتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ تمہاری زبان تمہیں دوزخ کی طرف بھی لے جاسکتی ہے اور تمہاری زبان تمہیں میری رضا کی جنت کی طرف بھی لے جاسکتی ہے.اس لئے تم اپنے قول اپنی باتوں اور اپنی نگاہ پر قابو رکھو اورا اپنی زبان کو آزاد نہ چھوڑ و بلکہ اگر تم میرے بندے بننا چاہتے ہو اگر تم میری اطاعت تذلل کے ساتھ کرنا چاہتے ہو، اگر تم میری وحدانیت کے قیام کی طرف متوجہ ہو، اگر تم میری صفات کے مظہر بننا چاہتے ہو، تو اپنی زبان پر وہی باتیں لاؤ جن کے زبان پر لانے کا قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے.قرآن کریم ایسی باتوں سے جو زبان پر لانی مناسب ہیں، بھرا پڑا ہے میں اس وقت ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.ہاں مثال کے طور پر یہ ضرور بیان کروں گا کہ مثلاً قرآن کریم نے فرمایا ہے يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُونِ (ال عمران : ۱۰۵) یعنی میرے بندے معروف کا حکم دیتے ہیں نیز قرآن کریم فرماتا ہے کہ میرے بندے قولِ صادق پر ہی نہیں قولِ سدید پر کار بند ہوتے ہیں اور اس قسم کی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں باتیں قرآن کریم میں ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ کہتا ہے تم اس طرح کہو اور بہت سی ایسی باتیں بھی ہیں جن کے متعلق وہ کہتا ہے ایسا نہ کہو کیونکہ یہ باتیں شیطان اور اس کی ذریت ہی کہا کرتی ہے اللہ تعالیٰ کے بندے ایسی باتیں نہیں کہا کرتے.یہاں اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کے بعد ایک چھوٹے سے فقرہ میں نفی والے حصہ کو بڑے حسین پیرایہ میں بیان کر دیا ہے.چنانچہ وہ فرماتا ہے.إِنَّ الشَّيْطنَ يَنْزَعُ بَيْنَهُمُ ایک شیطان تو معروف ہستی ہے یعنی ایک نظر نہ آنے والا وجود جو دلوں میں وسوسہ پیدا کر کے انسانوں کو خدا سے دور لے جاتا ہے انہیں غیر اللہ کی طرف بلاتا ہے اور ایک قسم شیطان کی وہ ہے جس کی ذریت انسان کی شکل میں دنیا میں بستی ہے اور شیطان کے

Page 189

خطبات ناصر جلد اول ۱۷۳ خطبہ جمعہ ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء معنی ہیں حسد اور تعصب کی آگ میں جلنے والا اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے سرکشی کرنے والا.اپنی حدود سے آگے بڑھ جانے والا اور اس طرح پر نہ صرف خود حق سے دور ہو جانے والا بلکہ لوگوں کو حق سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا اور یہاں اللہ تعالیٰ إِنَّ الشَّيْطَنَ يَنْزَعُ بَيْنَهُم کہہ کر انسان کو ہدایت کرتا ہے کہ اس بات کا خیال رکھنا کہ ہما را حکم ہے.قول احسن کہا کرو اس حکم کے راستہ میں کچھ وجود روک بننے کی کوشش کریں گے اور وہ اس طرح کہ وہ حسد یا تعصب سے کام لیتے ہوئے سرکشی عدم اطاعت اور بغاوت اختیار کریں گے اور حق سے دور ہو جائیں گے، اور ساتھ ہی یہ کوشش بھی کریں گے کہ تم بھی حق سے دور ہو جاؤ.اس طرح ہمیں بتایا کہ جو قول حسد کی وجہ سے کہا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک احسن نہیں، اسی طرح وہ بات جو تعصب کی پیداوار ہو وہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں احسن نہیں.تعصب کے نتیجہ میں کہی جانے والی باتیں دو قسم کی ہوا کرتی ہیں کیونکہ تعصب بھی دو قسم کا ہوتا ہے ایک وہ تعصب ہوتا ہے جو دوسرے کے خلاف ہوتا ہے اور اس وقت انسان تعصب کے نتیجہ میں دروغ گوئی کر رہا ہوتا ہے.دوسرے پر جھوٹا الزام لگا رہا ہوتا ہے جو حقوق اس شخص کو حاصل ہوتے ہیں ان کا انکار ہوتا ہے.جس مقام پر اسے رکھنا چاہیے.وہ عمل سے بھی اور زبان سے بھی کوشش کر رہا ہوتا ہے وہ مقام اسے حاصل نہ ہو.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان حسد پیدا کرتا ہے وہ تعصب پیدا کر کے بعض ایسی باتیں تمہارے منہ سے نکلوانے کی کوشش کرتا ہے جو میرے نزدیک احسن قول نہیں اس لئے تمہیں شیطان کے پیدا کردہ وساوس سے بچتے رہنا چاہیے.يَنْزَعُ بَيْنَهُمُ - نَزَغَ يَنْزَعُ کے ایک معنی غیبت کرنے کے ہیں.دوسرے معنی بد گوئی کے ہیں اور تیسرے معنی ایسی باتیں کرنے کے ہیں جن کی وجہ سے بھائی بھائی کے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے ، تفرقہ اور بگاڑ پیدا ہو جائے.پھر اس کے معنی ایسی باتیں کرنے کے بھی ہیں جن کی وجہ سے ایک کو دوسرے کے خلاف برانگیختہ کیا جائے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَنْزَعُ بَيْنَهُم شیطان تمہیں میرے اس حکم سے کہ تم قول احسن کہا کرو، پرے ہٹانے کی کوشش کرے گا.وہ شیطان جو

Page 190

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۷۴ خطبہ جمعہ ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء حسد اور تعصب کی آگ میں جلنے والا ہے.وہ شیطان جو سرکشی اور تمرد کی راہ کو اختیار کرنے والا ہے.وہ شیطان جو خود حق سے دور رہنے والا ہے اور جس کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے بھی حق سے دور ہو جائیں وہ غیبت اور بدگوئی کی راہ سے بھائی بھائی کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے گا اور تمہیں اس بات پر اکسائے گا کہ تم بھی غیبت کرو، تم بھی بدگوئی کو اختیار کر لو، تم بھی امن سکون اور آشتی کی باتیں کرنے کی بجائے بعض کو بعض کے خلاف بھڑ کانے اور ایک کو دوسرے کے خلاف بر انگیختہ کرنے کی کوشش کیا کرو اور فساد اور فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرو.شیطان پوری کوشش کرے گا کہ تم جادۂ صداقت سے پرے ہٹ جاؤ اور وہ تمہیں و ورود حق سے دور کر دے لیکن ہم يَنْزَغُ بَيْنَهُم کے مختصر الفاظ میں شیطانی حربوں کا ذکر کھول کر بیان کر دیتے ہیں تا تم ان پر نہ چلو تم حسد نہ کرو اور نہ تم کسی پر یاکسی کے خلاف تعصب کی راہ کو اختیار کر و عدم اطاعت اور بغاوت کے بول نہ بولو سرکشی کی باتیں نہ کرو نہ تم خلاف حق کچھ کہو اور نہ کسی کو خلاف حق کہنے کی ترغیب دوا اگر تم ایسا کرو گے تو تم شیطان کے حملوں سے بچ جاؤ گے اور اگر تم حقیقتاً شیطان کے حملوں سے بچ گئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی تمہارے اقوال اچھے پسندیدہ اور مرغوب ہوں گے اور تم اس کی نگاہ میں بھی اس کے بندے بن جاؤ گے.پھر آگے فرمایا.اِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوا مُّبِینا یعنی شیطان جس کی صفات ہم نے اوپر بیان کی ہیں وہ انسان کے لئے ایسا دشمن ہے جو مبین ہے انسان ایک تو اس مخلوق کو کہتے ہیں جو آدم علیہ السلام کی ذریت ہے لیکن عربی زبان میں اس کے معنی اس ہستی کے ہیں جوا کیلے زندگی بسر نہ کر سکے بلکہ اس کے دل میں دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہو.اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہو کہ وہ ہم جنس لوگوں سے اُنس رکھے اپنے ہم جنس انسانوں کے ساتھ اُلفت اور محبت قائم کرنے والی ہستی اور وہ ہستی جو دوسری طرف اپنے رب کے ساتھ بھی تعلق رکھنے کی خواہش رکھتی ہے اس کے اندر یہ ودیعت کیا گیا ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کے ساتھ تعلق قائم کرے اور اس کی رضا کو حاصل کرے انسان

Page 191

خطبات ناصر جلد اول ۱۷۵ خطبہ جمعہ ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء کہلاتی ہے.پس ان دو قسم کے قرب اور تعلق ایک طرف انسان سے محبت اور دوسری طرف اپنے خالق و مالک سے تعلق رکھنے والی ہستی کو ہم انسان کہتے ہیں اور إِنَّ الشَّيْطَنَ يَنْزَعُ بَيْنَهُم - إِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوّاً مبيناً میں اللہ تعالیٰ نے انسان کا لفظ استعمال فرمایا ہے.حالانکہ یہاں ضمیر بھی استعمال کی جاسکتی تھی اور کہا جا سکتا تھا کہ إِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لَهُمْ عَدُوًّا مبينا.لیکن یہاں ضمیر استعمال نہیں کی گئی نہ عباد کا لفظ دہرایا گیا بلکہ انسان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اس میں یہ حکمت ہے کہ انسان دو طرفہ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے ایک طرف تو وہ اپنے بھائی انسان کے ساتھ تعلق قائم رکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف اپنے خالق ربّ کے ساتھ تعلق جوڑ نا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان کو انسان کہا جاتا ہے.بہر کیف یہاں فرما یا شیطان انسان کا دشمن مبین ہے اور مبین کے لفظ کے معنی اُردو میں کھلے کھلے کے کئے جاتے ہیں جو درست ہیں.چنانچہ کہا جاتا ہے آبَانَ الشَّيْءُ اتَّضَحَ فَهُوَ مُبِين پس اس حصہ آیت کے معنی ہوں گے.شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے لیکن عربی زبان میں اس کے اور معانی بھی ہیں مثلاً کہتے ہیں آبَانَ الشَّيْءَ أَوْضَحَہ یعنی جب کسی شیء کے متعلق آبان “ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے اسے واضح کر دیا اور شیطان جب انسان پر حملہ کرتا ہے تو چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی ہے اس لئے شیطان اس کی عقل کو چکر دینا چاہتا ہے اور اس کے سامنے بعض برائیوں کو وضاحت سے خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے کہ تمہیں ان پر عمل کرنا چاہیے.حالانکہ وہ چیزیں خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہوتی ہیں.حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ بھی اس نے یہی سلوک کیا تھا اور اس نے کہا تھا اگر تم یہ کام کرو گے تو تم کو ابدی جنت مل جائے گی.گویا اس طرح اس نے بظاہر معقول اور روحانی دلیل دے کر آپ کو خدا تعالیٰ کے رستہ سے ہٹانے کی کوشش کی تھی.پس ان معنوں کے لحاظ سے اِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوا مبینا کے یہ معنی ہوں گے کہ شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے اور وہ اپنی ان باتوں کو جو خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں ایسی وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ انسانی عقل انہیں صحیح سمجھنے لگ جاتی ہے اور اس میں وہ

Page 192

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء بعض اوقات کامیاب ہو جاتا ہے کیونکہ انسان عقل کا جہاں صحیح استعمال کرتا ہے وہاں بسا اوقات وہ اس کا غلط استعمال بھی کرتا ہے پھر آبانَ الشَّیءَ کے ایک معنی قَطَعَهُ وَ فَصَلَہ کے بھی ہیں یعنی اسے قطع کر دیا.اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.اس لحاظ سے اِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوا مُبِينًا کے معنی ہوں گے شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے وہ انسان کے دوطرفہ تعلقات ( یعنی ایک طرف اس تعلق کو جو انسان کا انسان سے ہوتا ہے اور دوسری طرف اس تعلق کو جو اس کا خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے ) کو قطع کرنے والا ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ انسانوں کے درمیان با ہم جھگڑا لڑائی فتنہ اور فساد پیدا ہو.کبھی تو وہ مذہب کے نام پر انسانوں کے خون بہا دیتا ہے اور کبھی وہ دہریت کی آواز بلند کر کے انسانی جانیں ضائع کرنے کی کوشش کرتا ہے اور فتنہ وفساد پیدا کرتا ہے اور شیطان اس مخفی وجود کا نام بھی ہے جو انسان کے اندر وساوس پیدا کر کے اسے حق سے دور کر دیتا ہے اور اس سے مراد وہ لوگ اور وہ قومیں بھی ہیں جو شیطان کی ذریت اور اس کے ساتھ ہیں.غرض اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ شیطان کے جن حربوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے.ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمہارے ان تعلقات پر ضرب لگتی ہے جو تمہارے آپس کے ہوں یا خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوں.پس شیطان کا حملہ بنیادی صداقتوں پر ہوتا ہے نہ وہ اس دنیا میں امن چاہتا ہے اور نہ امن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ اخروی زندگی کے متعلق صلاح کا خواہش مند ہے بلکہ وہ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ تمہارے اپنے رب سے بھی تعلقات استوار اور مستحکم نہ ہوں.تمہارا خدا تعالیٰ سے اتنا مضبوط رشتہ نہ ہو جائے کہ تم اُخروی زندگی میں خدا تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر چلتے ہوئے ایک ابدی جنت کے انعام کے وارث بنو وہ تمہارے دونوں تعلقات کو قطع کرتا ہے.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شیطان تمہارا دشمن ہے اور وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان جو تعلقات ہیں انہیں ہمیشہ قطع کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور تمہارے باہمی تعلقات کو بھی بگاڑتا ہے اور اس طرح انسان کو انسان سے علیحدہ کر دیتا ہے.اس آیت کے بعد دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمُ (بنی اسرآءيل:۵۵)

Page 193

خطبات ناصر جلد اوّل 122 خطبہ جمعہ ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء یعنی تم ہمارے ان احکام کی بظاہر پابندی کرنے کے بعد جو ہم نے تمہیں قول احسن کہنے کے متعلق دیئے ہیں یہ نہ سمجھنا کہ تم کوئی چیز بن گئے ہو اور تمہاراحق ہو گیا ہے کہ تم پر خدا تعالیٰ کی رضا کی راہیں کھلیں اس لئے کہ ربِّكُمْ اَعْلَمُ بِکھ تمہاری بہت سی خطائیں ،غفلتیں اور کوتاہیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو خود تم سے بھی پوشیدہ ہوتی ہیں اور ان باطنی خطاؤں ،غفلتوں اور کوتاہیوں کا علم صرف خدا تعالیٰ کو ہوتا ہے اور کسی کو نہیں ہوتا.اس لئے تمہارا رب تمہیں تمہاری نسبت بھی زیادہ جانتا ہے یعنی تم اپنے آپ کو اتنا نہیں جانتے جتنا تمہارا رب جانتا ہے.اس لئے تم میں سے کسی کے لئے فخر و مباہات کا جواز پیدا نہیں ہوتا.إِنْ يَشَأْ يَرْحَكُم (بنی اسر اویل: ۵۵) اگر وہ تم پر رحم کرے گا تو یہ اس کی اپنی مرضی کا نتیجہ ہو گا وہ اگر چاہے گا تو تم پر رحم کرے گا.تم اس کے احکام پر عمل کر کے اس کے رحم کے مستحق نہیں بن جاؤ گے بلکہ اس کے رحم کے وارث ضرور بن جاؤ گے.اَوْ اِنْ يَشَا يُعَذِّ بكُم (بنی اسر آویل: ۵۵) پہلے بیان فرمایا تھا.تم امید قائم رکھو کیونکہ تمہارا خدا بڑا رحمان، رحیم اور غفور ہے.وہ تم سے بڑی محبت کرنے والا اور پیار کرنے والا ہے.تم یہ امید رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم ہی کرے گا.لیکن ساتھ ہی دل میں خوف بھی رکھو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری کسی مخفی خطایا گناہ کے نتیجہ میں تم پر اس کا عذاب وارد ہو یا وہ تمہارے حق میں عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کرے.وَمَا اَرْسَلْنَكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا - (بنی اسرآءيل: ۵۵) اے رسول اگر چہ تو خاتم النبین ہے، افضل المرسلین ہے، مخلوقات کا نچوڑ اور خلاصہ ہے.پھر بھی ہم نے تمہیں ان کا ذمہ دار نہیں بنایا.تمہاری خوشنودی انہیں جنت میں نہیں لے جاسکتی نہ ان کے متعلق تمہاری اچھی رائے انہیں جنت کا وارث بنا سکتی ہے.جیسا کہ احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن یہ نظارہ دکھایا جائے گا کہ آپ کے بعض صحابہ کو دوزخ کی طرف لے جایا جا رہا ہے.آپ یہ نظارہ دیکھ کر خدا تعالیٰ کے حضور عرض کریں گے کہ اے خدا! یہ تو میرے صحابہ ہیں جہاں تک مجھے علم ہے انہوں نے تیری خاطر اخلاص اور فدائیت کے ساتھ قربانیاں دی ہیں میں تو سمجھتا تھا کہ انہوں نے تیری رضا کو حاصل کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے

Page 194

خطبات ناصر جلد اول IZA خطبہ جمعہ ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء جواب میں فرمائے گا اے رسول تو نہیں جانتا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے.ان کے اعمال کا پور اعلم مجھے ہے گویا بعض برگزیدہ انسان بھی بعض لوگوں کے متعلق یہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ اچھے ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لیا ہے لیکن حقیقتاً وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے وارث نہیں ہوں گے.وہ اس کی جنت کے مستحق قرار نہیں دیئے جائیں گے.پس فرما یاوَمَا أَرْسَلْنَكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا - کہ اے رسول تو نہ تو اس بات کا ذمہ دار ہے کہ لوگ ضرور نیکیاں کریں اور نہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اگر لوگ بظاہر نیکیاں کریں تو وہ ضرور جنت کے وارث بن جائیں گے.کیونکہ اس دنیا میں بھی تمہارے سامنے ایک مثال موجود ہے ایک شخص جنگ میں بظاہر بڑے اخلاص سے حصہ لے رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اسلام پر فدا ہونے کو اس کا جی چاہ رہا ہے.وہ مسلمانوں کی طرف سے لڑ رہا تھا اور کافروں پر حملہ آور ہو رہا تھا اور بڑے بڑے صحابہ کی بھی اس کے متعلق یہ رائے تھی کہ وہ بڑا مخلص اور فدائی ہے.لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا.وہ دوزخی ہے.صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سچا ثابت کرنے کے لئے اس شخص کا پیچھا کیا تو انہوں نے دیکھا وہ جنگ میں شدید زخمی ہو گیا ہے اور زخموں کی ، تکلیف کی برداشت نہ کرتے ہوئے اس نے خود کشی کر لی ہے.اس طرح صحابہ کو نظر آ گیا کہ گو اس شخص نے بڑے جوش کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تھا لیکن اس کا ایسا کرنا اخلاص کی پنا پر نہیں تھا بلکہ بعض اور بواعث تھے جن کی وجہ سے وہ کفار کے خلاف بڑے جوش کے ساتھ لڑا.پس یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے رسول ہم نے تجھے ان کا ذمہ دار نہیں بنایا لیکن بد قسمتی اس امت کی یہ ہے کہ اس میں بعض پیر، سجادہ نشین اور علماء ایسے بھی پیدا ہوئے ہیں جو اپنے مریدوں کو کہتے ہیں کہ تم کوئی فکر نہ کرو ہم تمہیں جنت میں پہنچانے کا ذمہ لیتے ہیں.حالانکہ جنت میں پہنچنے کے لئے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور پھر بہت کچھ کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کی ضرورت ہوتی ہے.غرض جنت میں انسان تبھی جائے گا جب وہ نیک اعمال بجالائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان اسے حاصل ہو جائے گا.گویا انسان جنت میں

Page 195

خطبات ناصر جلد اول ۱۷۹ خطبہ جمعہ ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء اس وقت داخل ہوگا جب اللہ تعالیٰ کا ایسا کرنے کا منشا ہو اور وہ ارادہ کر لے کہ اسے جنت میں لے جاتا ہے.قرآن کریم میں جو احسن قول بتائے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان جب کوئی وعدہ کرے تو اسے پورا بھی کرے ہمارے کچھ بنیادی وعدے ہیں جو ہم نے اللہ تعالیٰ کے ایک مامور اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے ہیں مثلاً ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کو یہ قول بھی دیا تھا کہ ہم سب جنہوں نے وصیت کی ہے اپنی آمد اور اپنی جائیداد کا ۱۰ / اخدا تعالیٰ کے دین کی خاطر دیں گے.اور جن لوگوں نے وصیت نہیں کی انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم اپنی آمد کا ۱/۱۶ حصہ دین کی خاطر چندہ میں دیں گے اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں احسن قول وہ ہے کہ جب وہ وعدہ کے رنگ میں کیا جائے تو اسے پورا بھی کیا جائے.قرآنی ارشاد لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ (الصف:۳) کے ایک معنی یہ بھی کئے جاسکتے ہیں کہ تم ایسے وعدے کیوں کرتے ہو جو تم نے پورے نہیں کرنے.اس وقت تک صدر انجمن احمد یہ کے چندے ( چندہ عام چند وصیت اور چندہ جلسہ سالانہ ) ۸۳ فیصدی وصول ہو جانے چاہیے تھے لیکن ابھی تک ان کا سوے فیصدی وصول ہوا ہے اور وقت دوماہ سے کم رہ گیا ہے.خصوصاً موصی صاحبان پر مجھے بڑی حیرت ہے کہ انہوں نے اپنے رب سے ایک وعدہ کیا تھا اور ان کے رب نے انہیں دنیا میں ہی ایک بشارت دی تھی انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ علاوہ تقویٰ کی دیگر راہوں کے ہم اپنے مالوں کی بھی قربانی اس رنگ میں دیں گے کہ ان کا دسواں حصہ تیری راہ میں قربان کریں گے اور کرتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر تم اس عہد کو نبھا لو گے تو تمہیں میں بہشتی مقبرہ میں جگہ دوں گا.اب دیکھو یہ کتنی بڑی بشارت ہے جو موصی صاحبان کو اس دنیا میں ملی ہے لیکن ان میں سے ایک حصہ اپنے عہد کو نبھانے کی کوشش نہیں کرتا اور اگر آپ سوچیں تو جس طرح میں حیرت میں پڑ جاتا ہوں آپ بھی حیران ہوں گے کہ اتنی حقیر قربانیاں اور ان کے بدلہ میں اتنی عظیم بشارت

Page 196

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۸۰ خطبہ جمعہ ۱۱/ مارچ ۱۹۶۶ء اور پھر بھی ہم سے کوتاہی اور غفلت سرزد ہو رہی ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض موصی صاحبان وصیت کا چندہ ادا کرنے میں غفلت برتتے ہیں.پس میں موصی صاحبان کو خصوصاً اور دوسرے احمدی بھائیوں سے عموماً کہوں گا کہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے سال کے صرف دو ماہ باقی ہیں بلکہ ان میں سے بھی ایک حصہ گزر گیا ہے.کوشش کریں کہ اس عرصہ کے اندراندر ا پنی وہ تمام مالی قربانیاں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیں جن کا وعدہ آپ نے اپنے رب سے کیا تھا تا آپ اس کے ان فضلوں کے بھی وارث ہوں جن کے وعدے اس نے آپ سے کئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا کرے.روزنامه الفضل ربوه ۲۹ جون ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 197

خطبات ناصر جلد اول ۱۸۱ خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۶۶ء جنہیں اللہ تعالیٰ توفیق دے سال میں دو ہفتہ سے لے کر چھ ہفتہ تک کا عرصہ خدمت دین کے لئے وقف کریں خطبه جمعه فرموده ۱۸ / مارچ ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.ویسے تو منگل کے روز ہی مجھے پیٹ میں کچھ تکلیف محسوس ہوتی تھی لیکن منگل اور بدھ کی درمیانی رات مجھے اسہال شروع ہو گئے جس کی وجہ سے بہت زیادہ کمزوری اور نقاہت پیدا ہوگئی جسم میں درد کی شکایت بھی تھی اور کمرے میں دو چار قدم چلنا بھی میرے لئے مشکل ہو گیا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور جمعرات کو مجھے کافی افاقہ محسوس ہوا چونکہ بیماری کے دوران کام نہ کرنے کی وجہ سے بھی طبیعت میں پریشانی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے جب میں نے کچھ افاقہ محسوس کیا تو دو تین دن تک جو ڈاک دیکھنے کا مجھے موقعہ نہ ملا تھا.اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دیکھنے کی توفیق عطا فرمائی.چنانچہ گزشتہ رات بارہ ساڑھے بارہ بجے تک مجھے یہ توفیق ملی کہ میں دوستوں کے خطوط پڑھوں اور اس کے ساتھ ساتھ لکھنے والوں کے لئے دعا بھی کروں.پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق بھی عطا کی کہ میں اپنی کمزوری ناتوانی اور بے مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے طاقت مانگوں ، ہمت طلب کروں اور توفیق چاہوں تا اس نے جو ذمہ داریاں مجھ پر ڈالی ہیں.انہیں صحیح رنگ میں اور احسن طریق پر پورا کر سکوں پھر میں نے جماعت کی ترقی اور احباب جماعت

Page 198

خطبات ناصر جلد اول ۱۸۲ خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۶۶ء کے لئے بھی دعا کی بہت توفیق پائی صبح جب میری آنکھ کھلی تو میری زبان پر یہ فقرہ تھا کہ اینا دیواں گا کہ تورج جاویں گا چونکہ گزشتہ رات کے پچھلے حصہ میں میں نے اپنے لئے بھی دعا کی تھی اور جماعت کے لئے دینی اور روحانی حسنات کے لئے ، پھر خلیفہ وقت کی سیری تو اس وقت ہو سکتی ہے جب جماعت بھی سیر ہو.اس لئے میں نے سمجھا کہ اس فقرہ میں جماعت کے لئے بھی بڑی بشارت پائی جاتی ہے.سو میں نے یہ فقرہ دوستوں کو بھی سنا دیا ہے تا وہ اسے سن کر خوش بھی ہوں.ان کے دل حمد سے بھی بھر جائیں اور انہیں یہ بھی احساس ہو جائے ، کہ انہیں اس رب سے جو ان سے اتنا پیار کرتا ہے کتنا پیار کرنا چاہیے.لَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - اس وقت میں دوستوں کی خدمت میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خلیفہ وقت کا سرمایہ اور خزانہ وہ مال ہی نہیں ہوا کرتا جو قو می خزانہ میں موجود ہو بلکہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کے دلوں میں خلیفہ وقت کے لئے جو محبت اور اخلاص کا جذبہ اور تعاون کی روح پیدا کرتا ہے وہی خلیفہ وقت کا خزانہ ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنادیا ہے کہ میں وہ الفاظ نہیں پاتا جن سے میں اس کا شکریہ ادا کرسکوں لیکن جہاں احباب جماعت مالی قربانیوں میں دن بدن آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں وہاں انہیں اپنے اوقات کی قربانی کی طرف بھی زیادہ متوجہ ہونا چاہیے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کا ایک حصہ اس وقت بھی وقت کی قربانی میں قابل رشک مقام پر کھڑا ہے.میں نے خود باہر کی جماعتوں میں دیکھا ہے کہ بعض جماعتوں کے عہدیداران اپنے مختلف دنیوی کاموں سے فارغ ہونے کے بعد دو دو تین تین بلکہ بعض دفعہ پانچ پانچ چھ چھ گھنٹے روزانہ جماعتی کاموں کے لئے دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا کرے.لیکن کسی مقام پر کھڑے ہو جانے سے کسی مذہبی اور روحانی سلسلہ کی تسلی نہیں ہوتی.مومن کا دل ہر وقت یہی چاہتا ہے کہ میں ایک دم کے لئے بھی کھڑا نہ ہوں.بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاؤں پھر جماعت کا ایک حصہ ایسا بھی تو ہے جو وقت کی قربانی کی طرف زیادہ متوجہ نہیں.غرض وقت کی قربانی کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور اس کے لئے میں جماعت میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ دوست جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے سال میں

Page 199

خطبات ناصر جلد اول ۱۸۳ خطبہ جمعہ ۱۸ / مارچ ۱۹۶۶ء دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں، اور انہیں جماعت کے مختلف کاموں کے لئے جس جس جگہ بھجوایا جائے وہاں وہ اپنے خرچ پر جائیں ، اور ان کے وقف شدہ عرصہ میں سے جس قدر عرصہ انہیں وہاں رکھا جائے اپنے خرچ پر رہیں، اور جو کام ان کے سپر د کیا جائے انہیں بجالانے کی پوری کوشش کریں.میں جانتا ہوں کہ بعض دوست مالی لحاظ سے زیادہ لمبا سفر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے جو دوست دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ میری اس تحریک کے نتیجہ میں وقف کریں.وہ ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیں کہ ہم مثلاً سومیل تک اپنے خرچ پر سفر کرنے کے قابل ہیں یا دو سو میل یا چار سو میل یا پانچ سو میل اپنے خرچ پر سفر کر سکتے ہیں بہر حال جس قدر بھی ان کی مالی استطاعت ہو وہ ذکر کر دیں تا انہیں اس کے مطابق مناسب جگہوں پر بھجوایا جاسکے.بڑے بڑے کام جو ان دوستوں کو کرنے پڑیں گے ان میں سے ایک تو قرآن کریم ناظرہ پڑھنے اور قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے کی جو مہم جماعت میں جاری کی گئی ہے اس کی انہیں نگرانی کرنا ہو گی اور اسے منظم کرنا ہو گا دوسرے بہت سی جماعتوں کے متعلق ایسی شکایتیں بھی آتی رہتی ہیں کہ ان میں بعض دوست ایمانی لحاظ سے یا جماعتی کاموں کے لحاظ سے اتنے چست نہیں جتنا ایک احمدی کو ہونا چاہیے ان دوستوں سے ایسے احباب کی اصلاح اور تربیت کا کام بھی لیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ وہ ایسی جماعتوں کے سست اور غافل افراد کو چست کرنے کی کوشش کریں.میں سمجھتا ہوں کہ اچھا احمدی ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اچھا شہری بھی ہولیکن بہت سے دوست چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں جھگڑتے اور لڑتے رہتے ہیں اور یہ بات ایک احمدی کے لئے کسی صورت میں بھی مناسب نہیں جب یہ جھگڑے اور لڑائیاں لمبی ہو جاتی ہیں تو جماعت میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.پس جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ دو ہفتے سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ میری اس تحریک پر وقف کرنے کی توفیق دے انہیں ان باتوں کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی اور جماعت کے دوستوں کے باہمی جھگڑوں کو نپٹانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہو گی باہر سے جب دوست کسی جماعت میں جائیں گے تو طبعی طور پر وہاں کے مقامی احمدی خیال کریں گے کہ ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ہمیں ایک ایسے دوست کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا ہے جو ہماری

Page 200

خطبات ناصر جلد اول ۱۸۴ خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۶۶ء مقامی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ دور کے علاقہ سے ہمارے پاس آیا ہے اور اس طرح ایک فضا صلح کی پیدا ہو جائے گی.پھر بہت سے کام ایسے ہیں جو ایک طرف جماعتی ترقی کا باعث بن سکتے ہیں تو دوسری طرف حکومت وقت کے ساتھ تعاون کا بھی ایک ذریعہ ہوتے ہیں مثلاً آج کل پاکستان کی حکومت زرعی پیداوار بڑھانے کی طرف متوجہ کر رہی ہے تا ہمیں باہر سے غلہ نہ منگوانا پڑے اور ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں.پس ایسے دوست جو زراعت کے ان مسائل کا علم رکھتے ہوں یا وہ ان سے واقفیت حاصل کر لیں اور پھر وہ اپنا وقت بھی وقف کریں.وہ جن جگہوں پر جائیں گے وہاں زمینداروں کو یہ بھی ترغیب دیں گے کہ وہ زیادہ سے زیادہ غلہ پیدا کریں اور انہیں بتا ئیں گے کہ وہ اپنی زمینوں سے زیادہ پیداوار کس طرح حاصل کر سکتے ہیں.اس طرح حکومتِ وقت کے ساتھ تعاون بھی ہو جائے گا اور جماعتی ترقی کے سامان بھی ہو جائیں گے، کیونکہ جتنا مال اللہ تعالیٰ جماعت کو عطا کرے گا اتنا ہی زیادہ وہ بڑھ چڑھ کر مالی قربانیاں کرنے کی توفیق پائے گی.غرض اس قسم کے کام ان دوستوں سے لئے جائیں گے جو میری اس تحریک پر اپنے اوقات وقف کریں گے.دوست جلد اس طرف متوجہ ہوں اور اپنے اوقات وقف کریں.میں چاہتا ہوں کہ آئندہ مئی کے مہینہ سے یہ کام شروع کر دیا جائے جو دوست گورنمنٹ یا کسی اور ادارہ کے ملازم ہیں ان کو سال میں کچھ عرصہ کی رخصتوں کا حق ہوتا ہے وہ اپنی یہ رخصتیں اپنے لئے یا اپنوں کے لئے لینے کی بجائے اپنے رب کے لئے حاصل کریں اور انہیں اس منصوبہ کے ماتحت خرچ کریں.اسی طرح کالجوں کے پروفیسر اور لیکچرار ، سکولوں کے اساتذہ کالجوں کے سمجھدار طلباء بھی اپنی رخصتوں کے ایام اس منصوبہ کے ماتحت کام کرنے کے لئے پیش کریں.سکولوں کے بعض طلباء بھی اس قسم کے بعض کام کر سکتے ہیں، کیونکہ سکولوں کے بعض طلباء ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی صحت اور عمر کے لحاظ سے اس قابل ہوتے ہیں کہ اس قسم کی ذمہ داریاں ادا کرسکیں.ان کو بھی اپنے نام اس تحریک کے سلسلہ میں پیش کر دینے چاہئیں بشرطیکہ وہ اپنا خرچ برداشت کر سکتے ہوں کیونکہ میں اس سکیم کے نتیجہ میں جماعت پر کوئی مالی بار نہیں ڈالنا چاہتا.غرض جو دوست اپنے خرچ پر کام کر سکتے ہوں اور

Page 201

خطبات ناصر جلد اول ۱۸۵ خطبہ جمعہ ۱۸ / مارچ ۱۹۶۶ء جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے خرچ پر کام کرنے کی توفیق عطا کرے.ان کو اس منصو بہ میں رضا کارانہ خدمات کے لئے اپنے نام پیش کر دینے چاہئیں.یہ کام بڑا اہم اور ضروری ہے اور اس کی طرف جلد توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جن میں، یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ ان کے ایک حصہ میں ، ایک حد تک کمزوری پیدا ہو گئی ہے اور اس کمزوری کو دور کرنا اور جلد سے جلد دور کرنا ہمارا پہلا فرض ہے اگر ہم تبلیغ کے ذریعہ نئے احمدی تو پیدا کرتے چلے جائیں لیکن تربیت میں بے توجہی کے نتیجہ میں پہلے احمدیوں یا نئی احمدی نسل کو کمزور ہونے دیں تو ہماری طاقت اتنی نہیں بڑھ سکتی جتنی اس صورت میں بڑھ سکتی ہے کہ پیدائشی احمدی، پرانے اور نو احمدی بھی اپنے اخلاص میں ایک اعلیٰ اور بلند مقام پر فائز ہوں پھر ہماری یہ کوشش ہو کہ وہ لوگ جو صداقت سے محروم ہیں ان تک صداقت پہنچے اور ہم دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اس صداقت کے قبول کرنے کی توفیق عطا کرے.غرض جو منصوبہ میں نے اس وقت جماعت کے سامنے بڑے مختصر الفاظ میں پیش کیا ہے وہ تربیتی میدان کا منصوبہ ہے، ہمیں اس پر عمل کر کے سب جماعتوں اور سارے احمدیوں کو تد بیر اور دعا کے ذریعہ سے چست کرنے کی کوشش کرنا چاہیے.وَمَا التَّوْفِيقُ إِلَّا بِاللهِ - روزنامه الفضل ربوه ۲۳ مارچ ۱۹۶۶ صفحه ۲ تا ۳)

Page 202

Page 203

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء قرآن مجید کی رُو سے ہماری کامیابی کی صرف یہی صورت ہے کہ ہم صبر اور تد بیر کو انتہا تک پہنچا دیں خطبه جمعه فرموده ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس غرض کے لئے مبعوث فرمایا تھا وہ یہ تھی کہ تمام دنیا میں اسلام کو غالب کیا جائے اور تمام اقوامِ عالم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے سو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مامور کر کے دنیا کی طرف مبعوث فرمایا تو آپ نے اعلان فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لئے بھیجا ہے کون ہے جس کے دل میں اسلام کا درد ہے؟ جس کے دل میں اسلام کا درد ہے وہ میری طرف آئے اور اس کام میں میرا ممد اور معاون ہو.تب ہم نے ”نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ “ کا نعرہ لگاتے ہوئے آپ کی طرف دوڑنا شروع کیا اور آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے اور ہم نے عہد کیا کہ جس غرض اور مقصد کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے ہیں.اس غرض اور مقصد کے حصول کے لئے آپ کے ساتھ مل کر ہم کوشش کرتے رہیں گے.غلبہ اسلام کے لئے کوشش کرنے کا دعوی کرنا یا ایسا عہد کرنا بڑا آسان ہے اور اس سے بھی زیادہ آسانی یہ ہے کہ اس کے بعد انسان غفلت کی نیند سو جائے.لیکن اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا ہے کہ

Page 204

خطبات ناصر جلد اول ۱۸۸ خطبہ جمعہ ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء ہم غفلت کی نیند سو جائیں.شیطان ہم پر اس طرح اثر انداز ہو کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو بھلا دیں اور جو عہد ہم نے اپنے رب سے باندھا ہے اسے چھوڑ دیں ہم میں سے تھوڑے ہیں جو اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم نے در حقیقت خدا تعالیٰ سے کیا عہد باندھا ہے.اگر ہم اس عہد کا تجزیہ کریں اور اس پر غور کریں تو ہمارے سامنے یہ نظارہ آتا ہے کہ ایک طرف روس ہے، چین ہے اور دوسرے کمیونسٹ ممالک ہیں دوسری طرف مادہ پرست اقوام ہیں جو دعویٰ تو کرتی ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کو مانتی ہیں لیکن حقیقتاً خدا تعالیٰ پر ان کا کوئی ایمان نہیں ہے.مثلاً امریکہ ہے، انگلستان ہے، فرانس ہے اور دیگر بہت سے ممالک ہیں.اب ان میں سے اگر ہم ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ لیں تو مثلاً روس ہے.اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو دنیوی عقل عطا کی اور اس کو یہ توفیق عطا کی کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کر کے دنیوی ترقیات کے میدان میں بہت بلند مقام حاصل کر لے جو اس نے حاصل کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو بڑی کثرت کے ساتھ مادی اسباب دیئے اور اس وقت وہ دنیا کی دیگر بڑی اقوام میں سے چوٹی کی ایک قوم سمجھی جاتی ہے بلکہ وہ اتنی زبردست ہے کہ جب وہ غرآئے تو تمام بنی نوع انسان کے دل دہل جاتے ہیں اس شخص کے دل سے بھی زیادہ جو جنگل میں جا رہا ہو اور اچانک اسے شیر کے غرانے کی آواز آئے لیکن اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اسے دین کی آنکھ عطا نہیں کی.وہ (نعوذ باللہ ) خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کے نام کا مذاق اُڑاتی ہے بلکہ وہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ تمام دنیا سے خدا تعالیٰ کے نام کو ایک دن مٹا دیں گے.پھر اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی شخص اس کے ملک میں جائے اور خدائے واحد سے انہیں متعارف کرائے.حقیقتاً یہ اجازت نہ دینا بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کا ایک ثبوت ہے.اگر واقعی خدا نہ ہوتا تو انہیں کس بات کا ڈر تھا.وہ ہر ایک کو کہتے یہاں آؤ اور جو دلیلیں تمہارے پاس ہیں وہ ہمیں سناؤ ہمیں ان دلیلوں کے سنے میں کوئی عذر نہیں ہوگا کیونکہ ان کے زعم میں خدا تعالیٰ کے نہ ہونے کے جو دلائل ان کے پاس ہیں وہ ان دلائل سے کہیں زیادہ وزن رکھتے ہیں جو ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے دیئے جاسکتے ہیں.بہر حال وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی شخص وہاں جا کر خدائے واحد و یگانہ کی تبلیغ کرے.اسلام کی اشاعت کے لئے کوشش

Page 205

خطبات ناصر جلد اول ١٨٩ خطبه جمعه ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء کرے.خدا تعالیٰ کی عظمت اس کے جلال اور اس کی کبریائی کو اس ملک کے باشندوں کے دلوں میں بٹھانے کے لئے سعی کرے اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے اس ملک کو بھی حلقہ بگوش اسلام کرنا ہے.پھر چین کولو چین کتنا بڑا ملک ہے.زمین کے پھیلاؤ کے لحاظ سے بھی اور آبادی کے لحاظ سے بھی اس کی آبادی قریباً ستر انٹی کروڑ کی ہے.اس کے رہنے والے بھی کمیونسٹ ہو گئے ہیں وہ خدا تعالیٰ کو بھول گئے ہیں اپنے پیدا کرنے والے کے خلاف ہو گئے ہیں.ابلیس نے تو اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار نہیں کیا تھا اس نے صرف اباء اور استکبار سے کام لیا تھا اس نے خدا تعالیٰ کے وجود کو مانتے ہوئے اس سے یہ درخواست کی تھی کہ مجھے اس بات کی اجازت دی جائے کہ میں تیرے بندوں کو قیامت تک گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہوں مجھے اس بات سے زبردستی نہ روکا جائے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا نظام انسان کے لئے قائم کرنا تھا اس لئے اس نے اسے اجازت دے دی اور کہا ٹھیک ہے ہم چاہتے ہیں کہ انسان آزادانہ طور پر ہمارا عرفان حاصل کرے.ہم سے تعلق پیدا کرے اس لئے تم سے جو ہوسکتا ہے کرو لیکن جو میرے مخلص بندے ہوں گے ان پر تمہارا کوئی اثر نہیں ہوگا.غرض شیطان نے خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار نہیں کیا تھا لیکن یہ قومیں خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی انکار کر رہی ہیں پھر مادی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ ترقی کرتے چلے جائیں اور مادی سامان اس قدر اکٹھے کر لیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہ کر سکے.انہوں نے ان ماڈی سامانوں کے مہیا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے مطابق کوششیں کیں اور اس قانون کے مطابق ان کی یہ کوششیں بار آور ہوئیں.گو اس کا جو نتیجہ انہوں نے نکالا وہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں کیونکہ بجائے اس کے کہ وہ شکر اور حمد کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکتے.انہوں نے اس کے وجود سے بھی انکار کر دیا.پس یہ ملک (یعنی چین) بھی بڑا وسیع ہے.بڑا طاقت ور ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر ہے تو ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس کے رہنے والوں کو مسلمان بنا ئیں گے تا وہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگیں.پھر انگلستان ہے امریکہ ہے ان کے رہنے والوں کی بڑی اکثریت اگر چہ زبان سے خدا تعالیٰ کے وجود کا اقرار کرتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ ایک اور لعنت میں گرفتار ہے.اس

Page 206

خطبات ناصر جلد اوّل 190 خطبه جمعه ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء نے انسان کے ایک بچے کو خدا تسلیم کر لیا ہے اور وہ نہیں سمجھتی کہ وہ ہستی جو ایک عورت کے پیٹ میں 9 ماہ کے قریب نہایت گندے ماحول میں پرورش پاتی رہی ہو اس کو انسانی عقل خدا کیسے تسلیم کر سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دینی لحاظ سے بالکل اندھے ہیں کوئی معقول دلیل ان کے دماغ میں نہیں.بہر حال انہوں نے ایک انسان کی جس کو وہ خدائے یسوع مسیح کہتے ہیں.پرستش شروع کی اور اس سے اتنی محبت اور پیار کیا کہ اپنی تمام دنیوی طاقتیں اس گمراہ عقیدہ کے پھیلانے میں خرچ کر دیں اور وہ جوان کا حقیقی رب تھا اور وہ جو ان کا سچا نجات دہندہ تھا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.ان کی طرف وہ متوجہ نہ ہوئے.انہوں نے اپنی تمام طاقت ، اپنا سارا زور ، اپنے تمام حیلے اور ہر قسم کا دجل خدا تعالیٰ کی اس سچی تعلیم اور صداقت کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا جو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے بھیجی گئی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے قبل بہت حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی فرما یا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو دلائلِ حقہ دیئے، معجزات اور روشن نشانات بھی عطا فرمائے تو اس وقت ان کی ترقی دجل کے میدان میں کافی حد تک رُک گئی لیکن ابھی بہت سا کام کرنے والا باقی ہے.غرض ہمارا دعویٰ ہے اور اپنے رب سے ہمارا عہد ہے کہ ہم ایک دن ان تمام اقوام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار کر کے چھوڑیں گے.پھر افریقہ کے ممالک ہیں اور دوسری کئی اور آبادیاں ہیں جو بد مذہب“ کہلانے کی زیادہ مستحق ہیں کیونکہ ان کے ہاتھ میں کوئی محرف الہی کتاب بھی نہیں.ہاں اُن کے پاس کچھ روایات ہیں جو بڑی پرانی ہیں.کچھ تو ہمات ہیں کچھ ڈھکو سلے ہیں جن کو انہوں نے مذہب کا نام دے رکھا ہے بہر حال وہ ایک قسم کا مذہب رکھتے ہیں اس لئے ہم انہیں لا مذہب نہیں کہہ سکتے اور نہ صیح طور پر ان کے مذہب کو مذہب کہہ سکتے ہیں ان کے مذہب کو بگڑے ہوئے مذہب کا نام بھی نہیں دیا جاسکتا اور بہترین لفظ جو ان کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے وہ بد مذہب ہے یہ لوگ اپنی رسومات میں اور اپنے تو ہمات میں اس قدر مست ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا نام سننے کے لئے بھی تیار نہیں.ان کی ان عادات کو چھڑانا اور بد رسومات سے انہیں بچانا آسان کام نہیں.ہم اپنی جماعت میں بھی

Page 207

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۹۱ خطبه جمعه ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء دیکھتے ہیں کہ بعض خاندان جو احمدیت میں داخل ہوتے ہیں وہ کچھ بدرسوم بھی اپنے ساتھ لے آتے ہیں اور ہمارے لئے ایک مسئلہ بن جاتے ہیں ہمیں انہیں ان بد رسوم سے ہٹانے کے لئے بڑا زور لگا نا پڑتا ہے لیکن ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم ان اقوام میں بھی اسلام کی تبلیغ کر کے اور کامیاب تبلیغ کر کے انہیں اس نور سے متعارف کرائیں گے جو خدا تعالیٰ کا حقیقی نور ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آئینہ میں عکسی رنگ میں چمکا ہے.غرض کتنا بڑا دعویٰ ہے جو ہم کرتے ہیں اور کتنا مشکل کام ہے جو ہم نے اپنے ذمہ لیا ہے اور جب ہم اپنے اس دعویٰ اور کام پر اس تفصیل کے ساتھ غور کرتے ہیں جس کی طرف میں نے مختصراً اشارہ کیا ہے تو دل بیٹھنے لگتا ہے اور عقل حیران ہو جاتی ہے کہ یہ کام ہو گا تو کس طرح ہو گا ؟ اس کے لئے ہمیں پھر اپنے رب کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے ہمیں اس کے کلام کو ہی دیکھنا پڑتا ہے چنانچہ اس معاملہ میں جب میں نے غور کیا تو اس مشکل کا حل مجھے سورہ بقرہ کی اس آیت میں نظر آیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ.(البقرة : ۱۵۴) یعنی اے میرے مومن بندو! جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ میں خدائے قادر وتوا نا ہوں اور اپنی تمام صفاتِ حسنہ کے ساتھ اپنی تمام قدرتوں کے ساتھ اور اپنے جلال کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور زندہ رکھنے والا حی و قیوم خدا ہوں جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی تمام اقوام کے لئے اور قیامت تک ہر زمانہ کے لئے نجات دہندہ کی شکل میں بھیجے گئے ہیں جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ قرآن کریم انسان کے تمام دینی اور دنیوی مسائل کوحل کرتا ہے جو اس بات پر ایمان لاتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ہی مبعوث فرمایا ہے.جو ایمان لاتے ہو کہ جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث کئے گئے ہیں.اس مقصد میں آپ اور آپ کی جماعت ضرور کامیاب ہوگی تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں بے شک مشکل بڑی ہے اور کام اس نوعیت کا ہے کہ عقل انسانی بظاہر یہ فیصلہ نہیں دے سکتی کہ اس میں ضرور کامیابی حاصل ہوگی لیکن خدا تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ پورا ہوگا.اس لئے

Page 208

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۹۲ خطبه جمعه ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء ہم تمہیں ہدایت دیتے ہیں کہ جس وقت یہ دیوار تمہارے سامنے آجائے اور تم کو محسوس ہونے لگے کہ آگے بڑھنے کا راستہ مسدود ہو گیا ہے اور ان اقوام کے دلوں کو فتح کرنا بظا ہر ناممکن ہے یا درکھو کہ اس وقت صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ میری مدد اور نصرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا.صبر کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ انسان استقلال کے ساتھ بُرائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہے.یعنی اُسے اپنے نفس پر اتنا قابو ہو کہ وہ کبھی بے قابو ہوکر گناہ کی طرف مائل نہ ہو دوسرے معنی یہ ہیں کہ انسان نیکی پر ثابت قدم رہے اور دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کا کوئی وسوسہ اور دنیا کا کوئی دجل صدق کے مقام سے مومن کا قدم پرے نہ ہٹا سکے اور صبر کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی نازک وقت اور مشکل پیش آئے اور دل میں شکوہ پیدا ہو تو وہ اسے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرے.إِنَّمَا اشْكُوا بَى وَحُزْنِي إِلَى اللهِ (يوسف : ۸۷) یعنی اگر تم ایسا کرو گے تو وہ تمہاری امداد اور نصرت کے سامان پیدا کرے گا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ ہم نے تمہیں مادی سامان بہت کم دیتے ہیں لیکن جتنا بھی تمہیں ملا ہے مال کے لحاظ سے، طاقت کے لحاظ سے، وقت کے لحاظ سے،عزت کے لحاظ سے ( کروڑوں نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہیں) جو کچھ بھی ہماری نعماء سے تمہیں ملا ہے.اگر تم اس کا صحیح استعمال کرو اور قربانی کے ان تقاضوں کو پورا کر وجوتم پر عائد ہوتے ہیں اور کبھی اپنی نگاہ میری ذات سے ہٹا کر کسی اور کی طرف نہ لے جاؤ بلکہ اپنی کمزوری، ناتوانی ، بے بضاعتی اور بے بسی کا رونا صرف میرے سامنے ہی روؤ اور خوشی کے ساتھ نیکیوں پر قائم ہو جاؤ اور جو تدا بیر بھی تم کر سکتے ہو.ان تدابیر کو اپنے کمال تک پہنچاؤ تو میں تمہاری مدد اور نصرت کے سامان کر دوں گا.پھر صلوۃ ہے اس کے ایک معنی تو اس نماز کے ہیں جو ہم پنج وقتہ ادا کرتے ہیں پھر کچھ سنتیں ہیں کچھ نوافل ہیں ( جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے وہ نوافل بھی ادا کرتے ہیں ) یہ سارے معنی صلوۃ کے لفظ میں آ جاتے ہیں.پس صلوۃ کے ایک معنی اس خاص عبادت کے ہیں جو اسلام میں ایک مسلمان کے لئے لازم کی گئی ہے.

Page 209

خطبات ناصر جلد اول ۱۹۳ خطبه جمعه ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء پھر صلوۃ کے ایک معنی رحمت کے ہیں اور ان معنوں میں یہ لفظ خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے 'صلی اللہ “ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازے.ہمارے کاموں میں برکت ڈالے.ہم پر احسان کرے اور ہمارے گناہوں کو معاف کر دے.( استغفار کے معنی بھی صلوۃ کے اندر آ جاتے ہیں ) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ایک طرف اپنی تد بیر کو اپنے کمال تک پہنچا دو اور جو کچھ تم کر سکتے ہو وہ کر گز رو اور پھر ہمارے پاس آ جاؤ اور کہو اے خدا! جو کچھ تو نے ہمیں دیا تھا وہ ہم نے تیری راہ میں قربان کر دیا ہے مگر وہ اتنا کم ہے کہ دنیا کی طاقتوں کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں.ہم اگر اپنا سارا مال بھی تیری راہ میں قربان کر دیں تو بھی ہم امریکہ کی دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اگر ہم میں سے ہر ایک احمدی فرد لنگوٹا کس لے اور بھوکا رہنے کے لئے تیار ہو جائے اور اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے تب بھی ہم روس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.پس خدا تعالیٰ نصیحت فرماتا ہے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ جتنی دولت روس کے پاس ہے اتنی دولت تم میری راہ میں خرچ کرو اور نہ میرا تم سے یہ مطالبہ ہے کہ جتنی دولت امریکہ اور انگلستان کے پاس ہے یا جتنی دولت دوسرے ممالک کے پاس ہے اتنی ہی تم میری راہ میں خرچ کرو میں تم سے صرف یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ جتنا کچھ میں نے تمہیں دیا ہے اُسے میری راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہو جب امام وقت کی آواز آئے تو تم اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہو اور جب تم یہ سب کچھ کر گز رو تو میرے پاس آؤ اور کہو ہم نے تیرے ارشاد کے ماتحت جو کچھ بھی ہمارے پاس تھا تیری راہ میں قربان کر دیا ہے یا قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن ہماری یہ قربانیاں ان طاقتوں کے ساتھ تو ٹکر نہیں لے سکتیں جن کو تو نے دنیا میں قائم رہنے کی اجازت دی ہے تو اے ہمارے رب! ہم جو کچھ کر سکتے تھے وہ کر دیا ہے.ہم انسان ہیں ہم میں کمزوریاں بھی ہیں.ہم سے خطائیں بھی سرزد ہوتی ہیں اس لئے ہم تیرے پاس آئے ہیں.ہم تیری مغفرت کی چادر کے متلاشی ہیں تو ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے.پھر ہم چاہتے ہیں کہ تو ہم پر احسان کرتے ہوئے ہمیں اپنی رحمت سے نوازے ہمارے کاموں میں برکت دے اور ہمیں محض اپنے فضل سے اس مقصد میں کامیابی عطا کرے جس کے لئے تو نے

Page 210

خطبات ناصر جلد اول جماعت کو قائم کیا ہے.۱۹۴ خطبه جمعه ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم یہ دو باتیں کر لو گے یعنی ایک طرف صبر اور تدبیر کو انتہاء تک پہنچا دو گے اور پھر صرف مجھ پر بھروسہ کرو گے اور اپنے نفس کو کلیہ میری راہ میں فنا کر کے کامل توحید پر قائم ہو جاؤ گے تو یہ یا درکھو کہ اِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ میں تمہاری مدد کے لئے آسمان سے اتروں گا اور جب میں آسمان سے اپنی تمام صفاتِ حسنہ کے ساتھ اپنی عظمت اور کبریائی کے ساتھ اور اپنے حسن اور جلال کے تمام جلوؤں کے ساتھ تمہاری مدد کے لئے نازل ہوں گا تو اس وقت نہ روس کی طاقت تمہارا مقابلہ کر سکے گی اور نہ ہی تمہارے سامنے چین کی کوئی حیثیت رہے گی.امریکہ اور انگلستان کا غرور بھی توڑ دیا جائے گا اور یہ وعدہ پورا ہوگا کہ اسلام دنیا میں غالب آئے گا اور تمام اقوام عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی.لیکن ہمیں بہر حال یہی ارادہ اور نیت رکھنی چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ صبر اور صلوٰۃ کی جو تعلیم دیتا ہے ہمیں اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.آج جمعہ ہے اور شوری بھی شروع ہو رہی ہے اس لئے میں دوستوں سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالی نمائندگان مجلس مشاورت کو صحیح فکر اور تدبر کی توفیق عطا فرمائے تا وہ صحیح نتائج پر پہنچیں اور شوری میں ایسی تجاویز اور ایسے مسئلے پاس ہوں جن سے اسلام کو قوت ملے اور جن کے نتیجہ میں لوگوں میں اللہ تعالیٰ کا عرفان بڑھنے لگے اور ہمارا قدم کامیابی کی راہ پر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے اور ہر قسم کی تو فیق دینا اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے.(روز نامه الفضل ربوه ۱۵ جون ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 211

خطبات ناصر جلد اول ۱۹۵ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۶۶ء ہماری بقا، ترقی اور کامیابی کا انحصار تدابیر پر نہیں بلکہ دعا اور محض دُعا پر ہے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج میں اپنے دوستوں کو پھر اس امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری بقا، ہماری ترقی اور ہماری کامیابی کا انحصار تدابیر پر نہیں بلکہ دعا اور محض دُعا پر ہے عقل بھی اس نتیجہ پر پہنچتی ہے اور قرآن کریم کی تعلیم بھی ہمیں یہی سبق دیتی ہے.عقلاً یہ بات اس طرح ہے کہ اس وقت ساری دنیا کی آبادی قریباً تین ارب کی ہے اس میں بڑے آباد ملک بھی ہیں مثلاً روس ہے چین ہے امریکہ ہے انگلستان ہے اور یورپ کے دوسرے ممالک ہیں اور ان میں بسنے والی اقوام میں بڑی کثرت سے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں اور کچھ ایسی اقوام بھی ہیں جن میں پڑھے لکھے افراد کی نسبت اپنی آبادی کے لحاظ سے کم ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مجموعی طور پر تیس فیصدی آبادی کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ لکھ پڑھ سکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ نوے کروڑ انسان لکھنا پڑھنا جانتے ہیں.اگر ہم ان میں سے ہر ایک انسان کے ہاتھ میں یہ پیغام پہنچانا چاہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق امت محمدیہ میں اپنے مسیح اور مہدی کو مبعوث فرمایا ہے.آؤ اور اس کی طرف سے پیش کردہ تعلیم حاصل کرنے کے

Page 212

خطبات ناصر جلد اول ۱۹۶ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۶۶ء لئے اس کے سامنے جھکو اور اس جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے لئے اس کے ذریعہ آج گاڑا ہے تا تم اپنی اس زندگی میں بھی کامیاب ہو اور اُخروی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں کو پاسکو.تو صرف یہی پیغام پہنچانے کے لئے ہمیں ایک دفعہ ۹۰ کروڑ آدمیوں کے لئے ایک ورقہ اشتہار دینا پڑے گا اور اس مختصر اشتہار پر جس کی تعداد ۹۰ کروڑ ہو گی کتابت و طباعت اور کاغذ کے خرچ کے علاوہ صرف پوسٹیج کے لئے (یعنی اس کی ترسیل کے لئے ) جو ٹکٹ لگیں گے ہمیں ان کے لئے چھ کروڑ تیس لاکھ روپے کی ضرورت ہوگی.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اشتہارات کو ڈاک کے ذریعہ بھیجنے کے لئے چھ کروڑ تیس لاکھ روپیہ ہو تب کہیں جا کر ہم اس بات میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ ہر انسان کے ہاتھ میں صرف یہ پیغام پہنچا دیں کہ خدا تعالیٰ کا ایک مامور مبعوث ہو چکا ہے.تم دین و دنیا کی فلاح اور حسنات کے حصول کے لئے اس کی آواز پر کان دھرو.ظاہر ہے کہ اتنے ذرائع ہمیں میسر نہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کام کے لئے ہمیں صرف اس رقم کی ہی ضرورت نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی دقتیں ہیں جو اس مقصد کے حصول کی راہ میں حائل ہیں مثلاً دنیا کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے جو ہماری بات سننے کے لئے تیار نہیں.بلکہ جب اسے بات سنائی جائے تو وہ ہماری بات سننے کی بجائے ہمیں گالیاں دینے پر اتر آتا ہے پھر دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے کہ جو ظاہری اخلاق کا مظاہرہ کر کے ہماری بات تو سن لیتا ہے لیکن اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی بات سن لیں.انہیں بات کرنے سے منع نہ کریں لیکن ہمیں اس بات کی بھی ضرورت نہیں کہ پوری توجہ سے ان کی بات سنیں پھر جو لوگ ہماری بات کو سنتے ہیں اور توجہ سے بھی سنتے ہیں ان میں سے بھی بڑے حصہ کے دلوں کی کھڑکیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی صداقت کے قبول کرنے کے لئے ان کی شامت اعمال کی وجہ سے کھلتی نہیں.غرض ہماری راہ میں بڑی مشکلات ہیں اگر ہم محض اپنی تدابیر پر بھروسہ کریں تو ہماری ناکامی یقینی ہے.اس لئے ہماری عقل اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ کامیابی کے جو وعدے اللہ تعالیٰ نے ہماری

Page 213

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۹۷ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۶۶ء جماعت کو دیئے ہیں وہ محض ہماری تدبیر کی بنا پر اور محض ہماری کوشش کے نتیجہ میں پورے نہیں ہو سکتے ہمیں اس کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے جس کی طرف ہمیں متوجہ ہونا چاہیے.پس عقل بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ تدبیر پر بھروسہ رکھنا ہر گز درست نہیں.عقل کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں جو تعلیم دی ہے اس میں بھی وہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ فلاح اور کامیابی کے حصول کے لئے محض تدبیر کافی نہیں.الہی سلسلے دعا کے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ فرقان کے آخر میں فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمُهُ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا (الفرقان : ۷۸) اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول تو کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پرواہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا نہ ہو.لَوْلَا دُعَاءكُمْ لغت میں ہے دَعَاهُ نَادَاهُ اس نے اس کو پکارا.رَغِبَ إِلَيْهِ اس کی طرف رغبت کی اِسْتِعَانَہ اس سے مدد چاہی ان معنوں کی رو سے اس حصہ آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب تک تم اللہ تعالیٰ کو اپنا مطلوب اپنا مقصود اور اپنا محبوب اس سے امداد حاصل کرنے کے لئے اور اس کی نصرت چاہنے کے لئے اسے نہیں پکا رو گے تو مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ ربی اسے تمہاری کیا پرواہ ہو گی وہ يَعْبُوا کے مفہوم کے مطابق تم سے سلوک نہیں کرے گا عَباً يَعْبَؤُا کے لغت میں یہ معنی ہیں کہ مَا عَبَأْتُ به أَن لَمْ أَبَالِ به وأَضْلَهُ مِنَ الْعَبْنِ أَي الفَقْلِ قَالَهُ قَالَ مَا أَرَى لَهُ.وَزُنًا وَقَدْرًا قَالَ: (قُلْ مَا يَعْبَؤُ بِكُمْ رَنِ) وَقِيْلَ أَصْلُهُ مِنْ عَبَأْتُ الطَّيِّبَ كَانَّهُ قِيْلَ مَا يُبْقِيكُمْ لَوْلَادُعَاءكُمْ، وَقِيلَ عَبَأْتُ الْجَيْشَ وَعَبَأْتُهُ هَيَّثْتُهُ، وَعَبْأَةُ الْجَاهِلِيَّةِ مَاهِيَ مُدَّخَرَةٌ فِي أَنْفُسِهِمْ مِنْ حَمِيَّتِهِمُ الْمَذْكُورَةِ فِي قَوْلِهِ : (فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّة ) - ان معانی کی رو سے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عباً کے مفہوم والا سلوک تم سے کرے گا سوائے اس کے کہ تمہاری دعا اس کے جلوہ حسن و احسان کو جذب کر لے.اب يَعْبَوا کے چار معنی بنتے ہیں.

Page 214

خطبات ناصر جلد اول ۱۹۸ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۶۶ء اول یہ کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جب تک تم میرے حضور عاجزی اور انکسار کے ساتھ نہیں جھکو گے اور مجھ سے مدد طلب نہیں کرو گے اور میری قوت کاملہ پر بھروسہ نہیں کرو گے اور یہ یقین پیدا نہیں کرو گے کہ تم میرے فضل کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے اس وقت تک میری نظر میں تمہاری کوئی قدر و منزلت نہیں ہوگی اور تمہارے اعمال میری نظر میں کوئی وزن نہیں رکھیں گے.يَعْبَؤُا کے دوسرے معنوں کے مطابق اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ جب تم دعا سے کام نہیں لو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری بقا کے سامان نہیں کرے گا مَا يُبقِيكُمْ لَوْلاَ دُعَاؤُكُمْ یعنی عاجزانہ دعاؤں کے بغیر تمہارے لئے قیومیت باری کے جلوے ظاہر نہیں ہوں گے.تیسرے معنوں کی رو سے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ ربع کی یہ تفسیر ہو گی کہ تمہیں جان لینا چاہیے کہ تمہاری تیاریاں اس وقت تک تمہیں کامیابی کا منہ نہیں دکھا سکیں گی جب تک کہ آسمان سے ملائکہ کی افواج کا نزول نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہیں بتا تا ہوں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ میرے اذن اور حکم سے آسمان سے فرشتے اتریں اور تمہاری مدد کریں تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم دعا کے ذریعہ میری اس نعمت کو حاصل کرو.کیونکہ عَبَاتُ الْجَيْش کے معنی ہیں حیاته یعنی لشکر کو پورے ساز و سامان کے ساتھ تیار کر دیا اور اسے حکم دیا کہ جس مقصد کے لئے اسے تیار کیا گیا ہے.اس کے حصول کے لئے باہر نکلے.چوتھے حمیت کے معنوں کی رو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے غیرت نہیں رکھے گا اور غیرت نہیں دکھائے گا جب تک کہ تم دعاؤں کے ذریعہ سے اس کی غیرت کو تلاش نہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے.اب غیروں سے لڑائی کے معنی ہی کیا ہوئے تم خود ہی غیر بن کے محل سزا ہوئے پس یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس غیریت کے پردہ کو صرف دعا ہی چاک کر سکتی ہے اگر تم دعاؤں کے ذریعہ اور میری محبت کے واسطہ سے میری مدد اور نصرت کے متلاشی ہو گے تو میں

Page 215

خطبات ناصر جلد اول ۱۹۹ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۶۶ء ایسے سامان پیدا کر دوں گا کہ ہمارے درمیان کوئی غیریت باقی نہیں رہے گی.تب میری غیرت تمہارے لئے جوش میں آئے گی اور تم اپنے مقاصد کو حاصل کر سکو گے.غرض اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑے وسیع مضامین بیان کئے ہیں.جن کا اختصار کے ساتھ میں نے ذکر کیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَقَد كَنَّ بتھ یعنی تم لوگ دعا کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس جماعت میں شامل نہیں ہوتے جو صبح و شام دعاؤں میں مشغول رہنے والی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس بات کو جھٹلا رہے ہو کہ دعا کے بغیر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں نہ اعمال کا کوئی وزن ہے اور نہ کسی قوم یا کسی انسان کی کوئی قدر و منزلت ہے تم اس بات سے بھی انکاری ہو کہ تمہاری مدد کے لئے خدائے قیوم کے حکم، منشا اور ارادہ کی ضرورت ہے تم اس بات کو بھی جھٹلا رہے ہو کہ انسان کامیابی صرف اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جب اس کے مقصد کے حصول کے لئے آسمان سے ملائکہ کی افواج نازل ہوں اور وہ بنی نوع انسان کے دلوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کر دیں تم اس بات کو بھی جھٹلا رہے ہو کہ جب تک تم میں اور خدا تعالیٰ میں غیریت قائم رہے گی خدا تعالیٰ کی مدد نازل نہیں ہوگی.فَسَوْفَ يَكُونُ لِزاما چونکہ تم ان صداقتوں کو جھٹلا رہے ہو اس لئے تمہاری اس تکذیب اور انکار کے نتائج تمہارے ساتھ اور تمہاری نسلوں کے ساتھ ثابت اور دائم رہیں گے یعنی تمہیں اور تمہاری نسلوں کو اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا.جب تک کہ تم اپنی اصلاح نہ کر لو.لزام کے ایک معنی موت کے بھی ہیں ان معنوں کی رو سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس بنیادی صداقت کو جھٹلاتے ہو اس لئے یاد رکھو فَسَوفَ يَكُونُ لِزَامًا کہ جلد ہی تمہیں ہلاکت اور موت کا منہ دیکھنا پڑے گا.پھر لزامًا کے معنی اَلْفَضْلُ فِي الْقَضِيَّةِ کے بھی ہیں ان معنوں کی رو سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دنیا میں اس وقت دو گروہ پیدا ہو گئے ہیں ایک گروہ وہ ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ الہی سلسلہ کی طرف منسوب ہونے والا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشا اور ارادہ یہ ہے کہ وہ ساری دنیا پر اسلام کو غالب کرے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے اور اسلام کی اس تعلیم کو جاننے ، اللہ تعالیٰ.

Page 216

خطبات ناصر جلد اول ۲۰۰ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۶۶ء کا عرفان حاصل کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے مامور پر ایمان لایا جاوے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام باوجود تدابیر کی کمی کے باوجود ذرائع اور وسائل کے فقدان کے دنیا پر غالب آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے ماتحت ہی غالب ہوگا.دوسرا گروہ وہ ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پہلے گروہ کے تمام دعاوی جھوٹے اور غلط ہیں اس گروہ کا ایک حصہ تو یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود ہی نہیں اور سارے مذاہب ہی جھوٹے ہیں اور مذہب کے نام پر کئے جانے والے جتنے دعاوی ہیں ہم کسی کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں پھر ایک گروہ اس جماعت کا وہ ہے جو کہتا ہے کہ خدا ہے اور وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ خدا دنیا کی اصلاح کے لئے اپنے انبیاء مبعوث فرما تا رہا ہے لیکن وہ یہ نہیں مانتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور افضل الانبیاء ہیں اور جو شریعت اور ہدایت آپ کے ذریعہ بنی نوع انسان کو دی گئی ہے وہ بنی نوع انسان کی قیامت تک کی تمام الجھنوں کو سلجھانے کے لئے کافی ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے پھر اس گروہ کا ایک حصہ وہ ہے جو اپنی زبان سے تو کہتا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب ہے لیکن اپنی کسی باطنی یا ظاہری غفلت یا گناہ کے نتیجہ میں وہ یہ نہیں سمجھ سکتا یا سمجھ نہیں رہا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اس مقصد اور غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ تمام اکناف عالم اور تمام اقوام عالم میں اسلام کو پھیلایا جائے حتی کہ تمام ادیان باطلہ پر اس کا غلبہ ہو جائے.غرض یہ دو گروہ ہیں ان کے درمیان ایک قضیہ ( جھگڑا) ہے اور یہ قضیہ ظاہر ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَوْفَ يَكُونُ لزاما.اللہ تعالی یہ فیصلہ کرنے والا ہے کہ جماعت احمدیہ کا موقف ہی صحیح اور درست ہے اور یہ کہ یہ چھوٹی سی کمزور اور حقیر سمجھی جانے والی جماعت اموال نہ ہونے کے باوجو د ذ رائع ووسائل مہیانہ ہونے کے باوجود اور دنیا میں کسی اقتدار اور وجاہت کے نہ ہونے کے باوجود صرف اس لئے کامیاب ہوگی کہ وہ اپنے رب کریم کی طرف جھکنے والی ہے اور ہر وقت دعاؤں میں مشغول رہنے والی ہے.(انشاء اللہ تعالیٰ ) غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَوفَ يَكُونُ لِذَا ما میرا یہ فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ عنقریب ہی وقت آنے پر تمہارے سامنے ظاہر ہو جائے گا اور جب یہ حقیقت ہے کہ اگر دنیا

Page 217

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۰۱ خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۶۶ء کی ساری دولت بھی ہمارے پاس ہوتی ، دنیا کے سارے اموال بھی ہمارے پاس ہوتے ، دنیا کے اقتدار کے بھی ہم مالک ہوتے ، دنیا کی ساری عزتیں اور وجاہتیں بھی ہمارے قدموں میں ہوتیں تب بھی ہم کسی تدبیر کے نتیجہ میں فلاح اور کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکتے تھے جب تک کہ ہم عاجزی اور انکسار کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھکنے والے نہ ہوتے اس کو اپنا مطلوب مقصود اور محبوب نہ بناتے اور اس سے مدد اور نصرت کے طالب نہ ہوتے اور اس بات پر پختہ یقین نہ رکھتے کہ کامیابی محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کے نتیجہ میں نصیب ہو سکتی ہے ہماری تدابیر اور ہمارے اعمال کے نتیجہ میں نہیں.پس جب یہ حقیقت ہے تو ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر وقت اور ہر آن اپنے رب کے حضور یہ دعائیں کرتے رہیں کہ اے خدا! تو نے ہمیں تدبیر میسر نہیں کی لیکن تو نے ہمیں گداز دل عطا کئے ہیں.ہم کو منکسر مزاج دیئے ہیں ہم تیرے حضور جھکتے ہیں تو ، ہم پر فضل کر، تو ہم پر رحمت کی نگاہ کر ، اور اس مقصد کے حصول کے سامان جلد پیدا کر دے جس مقصد کے لئے تو نے ہماری جماعت کو قائم کیا ہے.تو ہمیں کامیابی عطا فرما اور پھر اے خدا! تو ہم پر ایسا فضل کر کہ آسمان سے فرشتوں کی افواج نازل ہوں اور بنی نوع انسان کے دلوں پر ان کا تصرف ہو جائے حتی کہ وہ ان دلوں کو تبدیل کر دیں تا تیرا جلال اور کبریائی ، تیری عظمت اور تیری توحید دلوں میں پیدا ہو جائے اور وہ جو آج تیرے خلاف باغیانہ خیالات رکھتے ہیں وہ تیرے مطیع بندے بن جائیں اور اے خدا! جیسا کہ تیرا وعدہ ہے غلبہ اسلام کے دن ہمیں جلد دکھا تا ہم تمام اکناف عالم میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی صدا سنے لگیں اور تمام بنی نوع انسان اپنے محسن حقیقی محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے لگیں.خدا کرے کہ اس کے سامان جلد پیدا ہو جائیں.(روز نامه الفضل ربوه ۱۱ رمئی ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 218

Page 219

خطبات ناصر جلد اول ۲۰۳ خطبہ جمعہ ۸ ا پریل ۱۹۶۶ء امرائے جماعت ہر مقام سے یہ رپورٹ حاصل کریں کہ کسی جگہ کوئی احمدی کبھی بھوکا نہ رہے خطبه جمعه فرموده ۱/۸ پریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الثَّرِيت : ۵۶ ) کہ اے خدا کے رسول ! ( اور پھر وہ جو اس کی قائم مقامی میں ذمہ داری کے عہدے پر کھڑے کئے جاتے ہیں ) تو مومنوں کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتارہ کیونکہ یہ یاد دلا نا مومنوں کو نفع بخشتا ہے.اس آیہ کریمہ میں ایک تو باوجود غفلت کے مومن کی عزت کو یہ کہ کر قائم کیا ہے کہ اگر کبھی وہ اپنی کسی ذمہ داری کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تو اس کے یہ معنی نہیں لئے جانے چاہئیں کہ ایمان میں کمزوری پیدا ہو گئی ہے بلکہ انسانی فطرت میں ہی یہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر بار بار اس کے سامنے اس کی ذمہ داریاں نہ لائی جائیں تو وہ ان چیزوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو بار بار اس کے سامنے آتی ہیں اور اس بشری کمزوری کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ذمہ دار افراد کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ حقیقی مومنین کے سامنے ان کی ذمہ داریاں بار بار لا یا کرو اور انہیں یاد دلاتے رہا کرو تا کہ وہ اس یاد دہانی سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں.

Page 220

خطبات ناصر جلد اول ۲۰۴ خطبہ جمعہ ۱/۸ پریل ۱۹۶۶ء اس حکم کے ماتحت آج میں احباب جماعت کو ان کی بعض ذمہ داریاں یاد دلانا چاہتا ہوں (۱) پہلی یہ کہ دوست جانتے ہیں کہ ہمارے مالی سال کا یہ آخری مہینہ جا رہا ہے تمام احباب جماعت کو عموماً اور تمام عہدیداران نظام کو خصوصاً میں اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی پوری کوشش کریں کہ جماعت کا جو بجٹ ہے جسے ہم حصہ آمد ( یعنی وصیت کے چندے ) یا چندہ عام کہتے ہیں یا جلسہ سالانہ کا چندہ ہے نہ صرف یہ کہ پورا ہو جائے بلکہ جو بجٹ بنایا گیا تھا اس سے زیادہ آمد ہو جائے اور یقیناً آمد زیادہ ہو سکتی ہے.کیونکہ جو بجٹ شوریٰ میں پیش ہوتا ہے اور جس کی سفارش کی جاتی ہے اور بعد میں منظوری دی جاتی ہے.وہ کئی لاکھ روپیہ اس بجٹ سے کم ہوتا ہے جو فی الواقعہ جماعت کے اوپر ان کی استعداد اور ذمہ داریوں کے پیش نظر ڈالا جانا چاہیے اس کی بہت سی وجوہات ہیں اس کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے لیکن اس کی اصلاح میں بعض روکیں بھی ہیں.انشاء اللہ ان کی اصلاح جلد ہی ہو جائے گی.پس جو بجٹ منظور ہو چکا ہے وہ اصل ذمہ داری سے کم درجہ پر ہے اس لئے نہ صرف یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ بجٹ پورا ہو جائے بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کوشش ہونی چاہیے کہ جو حقیقی اور اصلی بجٹ آمد کا ہے.اس کے مطابق ساری جماعتوں کی آمد ہو جائے.امید ہے کہ تمام پریذیڈنٹ صاحبان اور مال کے ساتھ تعلق رکھنے والے عہدہ داران اور امراء صاحبان اور امراء اضلاع اس امر کی طرف خصوصی توجہ دیں گے کہ اس ماہ کے اندر سالِ رواں کا بجٹ نہ صرف یہ کہ پورا ہو جائے بلکہ آمد بجٹ سے بھی زیادہ ہو جائے.(۲) دوسری بات جس کی طرف میں آج جماعت کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں جماعت کے سامنے قرآن کریم کی یہ تعلیم رکھی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ چاہتا اور مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم میں سے کوئی شخص رات کو بھوکا نہ سوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی تعلیم دی ہے کہ ہم کوئی زائد خرچ کئے بغیر خدا تعالیٰ کا یہ حکم پورا کر سکتے ہیں.بہت سے دوستوں اور بہت سی جماعتوں نے اس کے بعد مجھے خطوط لکھے ہیں کہ ہم اس کی

Page 221

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۰۵ خطبہ جمعہ ۱/۸ پریل ۱۹۶۶ء طرف توجہ دے رہے ہیں اور ہمارے گاؤں قصبہ یا جماعت میں کوئی احمدی بھوکا نہیں سوتا لیکن جماعتوں کے ایک حصہ کی طرف سے اس اطلاع کا آجانا میری تسلی کا موجب نہیں ہوسکتا اور یقیناً میری تسلی نہ ہوگی جب تک کہ ہرا میر ضلع یہ رپورٹ نہ دے اور آئندہ بھی متواتر ایسی رپورٹ نہ دیتا چلا جائے کہ انہوں نے ایسا انتظام کر لیا ہے اور اس کی تعمیل بھی ہو رہی ہے کہ کوئی احمدی فرد رات کو بھوکا نہیں سوتا بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اور اسی طریق پر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہم نے یہ انتظام کر دیا ہے کہ اگر پہلے کبھی کوئی شخص نامساعد حالات سے مجبور ہوکر بھوکا رہا ہو تو آئندہ وہ بھوکا نہیں رہے گا.اس سلسلہ میں امراء اضلاع سے اور ان بڑی جماعتوں کے امراء سے جن کو بطور امیر ضلع ہی سمجھا جاتا ہے.میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ ہر دوماہ کے بعد وہ مجھے اس سلسلہ میں اپنی تفصیلی رپورٹ بھجوایا کریں گے تفصیلی اس معنی میں نہیں کہ کوئی لمبی چوڑی رپورٹ مجھے بھجوائیں تفصیلی اس معنی میں کہ وہ مجھے یہ بتائیں کہ انہوں نے اپنے علاقہ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور ہر مقام سے یہ رپورٹ حاصل کر لی ہے کہ کسی مقام پر بھی کوئی احمدی بھوکا نہیں رہتا.(۳) تیسری بات جس کی طرف میں احباب جماعت، عہدیداران جماعت اور خصوصاً امراء اضلاع کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے عارضی وقف کے متعلق جماعت میں تحریک کی تھی اس کے نتیجہ میں بیسیوں افراد نے مجھے براہ راست چٹھیاں لکھیں اور اپنے وقت کے ایک حصہ کو اس سکیم کے مطابق وقف کیا جو دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کے وقف کے لئے میں نے جماعت کے سامنے رکھی تھی انہوں نے اس عرصہ میں اپنے خرچ پر مقررہ علاقہ میں رہ کر اصلاحی اور تربیتی کام کرنے کے لئے رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کیا ہے.چند جماعتوں کی طرف سے بھی مجھے اس کے متعلق رپورٹ ملی ہے لیکن جماعتوں اور اضلاع کی اکثریت ایسی ہے کہ جن کی طرف سے مجھے اس سلسلہ میں ابھی تک کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی امراء اضلاع کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس منصوبہ کے ماتحت میں یکم مئی سے کام شروع کروانا چاہتا ہوں.پس بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اس لئے اس کی طرف فوری

Page 222

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۱/۸ پریل ۱۹۶۶ء توجہ دی جانی چاہیے.امراء اضلاع جماعت کے مستعد اور مخلص احباب کو اپنی ذمہ داری کی طرف متوجہ کریں تا زیادہ سے زیادہ احمدی اس مقصد کے پیش نظر اور خدمتِ اسلام کے لئے اپنے وقت کا ایک تھوڑا اور حقیر ساحصہ پیش کریں.میں امید کرتا ہوں کہ تمام امراء اضلاع یکم مئی سے پہلے پہلے اپنی رپورٹ اس سلسلہ میں مجھے بھجوا دیں گے.(۴) ایک اور منصوبہ جو میں نے جماعت کے سامنے پیش کیا تھا اور وہ بنیادی اہمیت کا حامل اور بہت ضروری ہے وہ یہ تھا کہ ہم میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم ناظرہ نہ پڑھ سکتا ہو اور اس کے بعد اسے ترجمہ سکھایا جائے.حتی کہ ایک وقت ایسا آجائے کہ کوئی احمدی بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتا ہو.اس منصوبہ کے لئے میں نے لاہور کی جماعت اور سیالکوٹ کا ضلع مجلس خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا تھا اور کراچی کی جماعت اور جھنگ کا ضلع مجلس انصار اللہ کے سپرد کیا تھا اور باقی تمام جماعت کا کام نظارت اصلاح وارشاد نے کرنا تھا.اس سلسلہ میں بھی کچھ کام ہوا ہے لیکن میرے نزدیک ابھی وہ کام تسلی بخش نہیں.کوئی جماعت ایسی نہیں رہنی چاہیے کہ جہاں قرآن کریم پڑھانے کا انتظام نہ ہو.اس منصوبہ کے ماتحت ایک خوشی جو مجھے پہنچی وہ تو یہ ہے کہ بعض لوگوں نے انفرادی طور پر اس طرف توجہ دی اور انہوں نے اپنے حلقہ میں قریباً سارا وقت ہی قرآن کریم کے پڑھانے کے لئے پیش کر دیا.وہ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں اور مجھے رپورٹ بھی بھجوا رہے ہیں.لیکن اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے محض چند افراد کی خوشکن رپورٹیں کافی نہیں بلکہ ساری جماعت کو جماعتی لحاظ سے اس طرف توجہ کرنی چاہیے.قرآن کریم ہماری زندگی اور ہماری روح ہے.ہماری روحانی بقا کا انحصار قرآن کریم پر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے ( شاید ایک جگہ سے زیادہ ہی جگہوں پر فرمایا ہو ) کہ قیامت کے دن قرآن کریم تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف گواہی دے گا.اگر قرآن کریم کی گواہی تمہارے حق میں ہوئی تو تم اللہ تعالیٰ کی رضاء کو حاصل کر لو گے اور اگر قرآن کریم کی گواہی تمہارے خلاف ہوئی تو تم خدا تعالیٰ کے

Page 223

خطبات ناصر جلد اول غضب کے مورد ہو گے.۲۰۷ خطبہ جمعہ ۸ ا پریل ۱۹۶۶ء پس قرآن کریم کا ہر ایک حکم واجب العمل ہے.اگر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہو اور قرآن کریم کی ہر نہی ( ہر وہ بات جس سے قرآن کریم روکتا ہے اس سے بچنا ضروری ہے.اگر ہم رضاء الہی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں.پس یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے جس کی طرف میں جماعت کو متوجہ کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یہ تیرے لئے بھی ذکر ہے اور تیری قوم کے لئے بھی ذکر ہے.یعنی یہ ایک ایسی تعلیم ہے جس کے نتیجہ میں تو بھی اور تیری قوم بھی اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی شرف اور عزت حاصل کر لو گے.اس لئے یاد رکھو کہ اگر تم نے اس طرف توجہ نہ کی تو تم سے سوال کیا جائے گا اور تمہارا محاسبہ ہوگا.در اصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرمان اس آیت کی تفسیر میں ہے وَ إِنَّهُ لَذِكُرُ لَكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُستَلُونَ (الزخرف: ۴۵) قرآن کریم کہتا ہے کہ تم سے سوال کیا جائے گا کہ دنیا میں عزت کے حصول کے لئے اور دنیا میں شرف حاصل کرنے کے لئے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک حسین ترین تعلیم ہم نے تمہاری طرف بھیجی تھی.بتاؤ تم نے کہاں تک اس پر عمل کیا.عمل کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمیں اس کا علم ہو اور ہمیں اس سے پوری واقفیت ہو.اگر ہم قرآن کریم کو نہیں پڑھتے اور اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ قرآن کریم قیامت کے روز ہمارے حق میں گواہی دے گا کہ اے میرے رب ! تیرے اس بندے نے تیری اس تعلیم کو پڑھا اور سمجھا اور پھر اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کی.ظاہر ہے کہ ان دو باتوں میں اتنا تضاد اور تناقض ہے.ہم ایک لحظہ کے لئے بھی یہ تصور نہیں کر سکتے کہ نہ ہمیں قرآن کریم ناظرہ پڑھنا آتا ہے اور نہ ہمیں اس کا ترجمہ آتا ہے اور نہ ہم اس کے معانی سمجھنے کی کوشش کریں اور نہ اس پر عمل کریں پھر بھی قیامت کے روز خدا تعالیٰ ایسے سامان اور حالات پیدا کر دے گا کہ خدا تعالیٰ کا یہی قرآن ہمارے حق میں گواہی دے.اس قسم کا تصور

Page 224

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۰۸ خطبہ جمعہ ۸ ا پریل ۱۹۶۶ء انسانی عقل میں قطعاً نہیں آسکتا !!! اس سلسلہ میں میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض جگہ سے یہ شکایت موصول ہوئی ہے کہ گو ہماری یہ جماعت خدام الاحمدیہ کے سپرد نہ کی گئی تھی لیکن انہوں نے جماعتی انتظام سے علیحدہ قرآن کریم سکھانے کا اپنے طور پر انتظام کر دیا ہے اور وہ جماعت سے تعاون نہیں کر رہے.اگر ایک مقام پر بھی ایسا ہوا ہو تو یہ بہت افسوسناک ہے خدام کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو طریق انہوں نے اختیار کیا ہے وہ درست نہیں جن جگہوں میں قرآن کریم کے پڑھانے کا کام خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے مثلاً لا ہور اور ضلع سیالکوٹ کی جماعتیں.وہاں جماعتی نظام سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ مجلس خدام الاحمدیہ سے پورا تعاون کریں گے اور جس جگہ یا علاقہ میں قرآن کریم پڑھانے کا کام مجلس انصاراللہ کے سپر د کیا گیا ہے اس علاقہ کی جماعتوں سے میں امید اور توقع رکھتا ہوں کہ وہ مجلس انصاراللہ سے پورا پورا تعاون کریں گی اور وہ مقامات، جماعتیں یا اضلاع جہاں قرآن کریم کی تعلیم کا کام جماعتی نظام کے سپرد کیا گیا ہے وہاں جہاں تک قرآن کریم پڑھانے کا سوال ہے خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے کیونکہ یہ کام ان کے سپر دکیا ہی نہیں گیا.تمام دوستوں کو انصار میں سے ہوں یا خدام میں سے ، جوان ہوں یا بڑی عمر کے یہ بنیادی بات یا درکھنی چاہیے کہ احمدی ہونے اور انصار یا خدام کے رکن ہونے میں بڑا فرق ہے.ایک احمدی پر اللہ تعالیٰ نے بڑی اہم اور بڑی وسیع ذمہ داری ڈالی ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود یہ السلام کے وقت میں حضور کے منشا اور ارشاد کے ماتحت اور پھر بعد میں حضور کے خلفاء کے منشا اور ارشاد کے ماتحت تمام دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو سکیمیں تیار کی جائیں ہر احمدی اپنا سب کچھ قربان کر کے ان سکیموں کو کامیاب کرنے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ جو آسمان پر ہو چکا ہے کہ وہ اسلام کو اس زمانہ میں جو مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے گا.اس فیصلے کا نفوذ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جسے ہماری کوشش جذب کرے اس دنیا میں بھی ہمیں جلد تر نظر آ جائے.یہ الہی فیصلہ جو آسمان پر ہو چکا ہے زمین پر نافذ ہو کر رہے گا.دنیا کی کوئی طاقت اسے روک

Page 225

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۰۹ خطبہ جمعہ ۱/۸ پریل ۱۹۶۶ء نہیں سکتی !!! لیکن اس راہ میں انتہائی قربانی پیش کرنا ہمارا فرض ہے.یہ کام جو ایک احمدی کے سپرد ہے احمدی نوجوان کے بھی ، احمدی بوڑھے کے بھی ، احمدی مرد کے بھی ، احمدی عورت کے بھی اور احمدی بچے کے بھی !!! اس وسیع کام کا ایک حصہ جو شاید اس کام کا ہزارواں حصہ بھی نہ ہو.مجالس خدام الاحمدیہ، انصار الله، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے تاکہ ان مختلف گروہوں کی تربیت ایسے رنگ میں کی جا سکے.یا ان کی تربیت ایسے طور پر قائم رکھی جاسکے کہ وہ اس ذمہ داری کو کما حقہ ادا کر سکیں جو ایک احمدی کی حیثیت سے ان کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.پس مجلس خدام الاحمدیہ یا مجلس انصار اللہ کا رکن ہونے کی حیثیت سے تم پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ بہت ہی محدود ہے.اس محدود ذمہ داری کو ٹھیک طرح نباہ لینے کے بعد اگر کوئی رکن خوش ہو جاتا ہے کہ جتنی ذمہ داری بھی بحیثیت احمدی ہونے کے اس پر ڈالی گئی تھی وہ اس نے پوری کر دی تو وہ غلطی خوردہ ہے.کیونکہ جو ذمہ داری اس پر ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے ڈالی گئی ہے یہ ذمہ داری اس کے مقابل پر شاید ہزارواں حصہ بھی نہیں.اس پر خوش ہو کے بیٹھ جانا بڑی خطر ناک بات ہے.یہ ہمارے لئے سوچ اور فکر کا مقام ہے اور اس کے لئے خطرہ کا مقام ہے اسی طرح اگر جوانی کے جوش میں یا اپنے تجربہ کے زعم میں وہ اپنے حدود سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو بھی وہ اچھا کام نہیں کرتا.جو جماعتی نظام کی ذمہ داری ہے وہ جماعتی نظام نے ہی ادا کرنی ہے اور تم نے جماعت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے اس میں حصہ لینا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مجالس خدام الاحمد یہ اور مجالس انصار اللہ اتنی زیر الزام نہیں آتیں جتنے کہ جماعتی عہدیدار.حضرت مصلح موعود (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے مجالس خدام الاحمدیہ اور مجالس انصار اللہ کے متعلق یہ ارشا د فر ما یا تھا کہ میں نے ایک محدود کام محدود دائرہ عمل میں ان تنظیموں کے سپر د کیا ہے.جماعتی نظام کو میں یہ حق نہیں دیتا کہ وہ ان کے کاموں میں دخل دے کوئی عہدیدار پریذیڈنٹ ہو یا امیر، امیر ضلع ہو یا امیر علاقائی ، اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خدام الاحمدیہ کے کام میں دخل دے یا انہیں حکم دے لیکن میں اجازت دیتا ہوں

Page 226

خطبات ناصر جلد اول ۲۱۰ خطبہ جمعہ ۱/۸ پریل ۱۹۶۶ء کہ اگر وہ ضرورت محسوس کریں تو وہ ان سے درخواست کر سکتے ہیں کہ بحیثیت مجلس خدام الاحمدیہ تم یہ کام کرو.درخواست کرنے کی اجازت دینا تو دراصل امراء کو غیرت دلانے کے لئے تھا تا وہ اپنی تنظیم کو اس حد تک بہتر بنالیں کہ ان کو کبھی اس قسم کی درخواست نہ کرنی پڑے لیکن انہوں نے اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور جب بھی کوئی جماعتی کام ان کے سامنے آیا تو انہوں نے بجائے اس کے کہ جماعتی نظام سے کام لیتے ، آرام سے مجلس خدام الاحمدیہ کے مقامی قائد کو بلا یا اور ان سے درخواست کی کہ مہربانی کر کے یہ کام آپ کر دیں اور اس طرح وہ جماعتی نظام کو کمزور کرنے کا موجب ہوئے.اس لئے آج سے ان کا یہ حق میں واپس لیتا ہوں جماعت کا کوئی عہد یدار اب اس بات کا مجاز نہیں ہو گا کہ وہ مجالس خدام الاحمد یہ یا مجالس انصار اللہ سے کسی قسم کی کوئی درخواست کرے.حکم وہ دے نہیں سکتا وہ پہلے ہی منع ہے.” درخواست کی اجازت اب واپس لے لی جاتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آئندہ جماعتی کام انہوں نے جماعتی نظام کے ذریعہ سے ہی کروانے ہیں.مجلس خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ سے کبھی اس قسم کی درخواست نہ کرنا ہوگی.فی الحال میں اس اجازت کو صرف ایک سال کے لئے واپس لیتا ہوں پھر حالات دیکھ کر فیصلہ کر سکوں گا اس کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا.جماعتی عہد یداروں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ایک طرف احمدی ہیں اور دوسری طرف احمدی ہونے کی وجہ سے بعض مخصوص و محدود ذمہ داریاں بطور رکن مجلس خدام الاحمدیہ یا بطور رکن مجلس انصار اللہ ان پر عائد ہوتی ہیں.میں بڑی وضاحت سے یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جماعتی کام بہر حال اہم ہیں اگر امیر جماعت یا پریذیڈنٹ بحیثیت احمدی کے انہیں کوئی حکم دے تو ان کا فرض ہے کہ وہ اس حکم کو بجالائیں.خواہ اس حکم کی بجا آوری کے نتیجہ میں انہیں مجلس خدام الاحمدیہ کے کسی افسر کی حکم عدولی ہی کیوں نہ کرنی پڑے.سرکشی تو کسی صورت میں جائز نہیں لیکن انہیں چاہیے کہ اپنی تنظیم کو اطلاع دے دیں کہ پریذیڈنٹ یا امیر نے میرے ذمہ فلاں کام لگایا ہے اس وقت مجھے وہ کام کرنا ہے.اور اس وقت آپ نے ایک دوسرا کام میرے ذمہ لگایا تھا.میں خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کا وہ کام اس وقت

Page 227

خطبات ناصر جلد اول ۲۱۱ خطبہ جمعہ ۱/۸ پریل ۱۹۶۶ء نہیں کر سکتا.کیونکہ اس سے زیادہ اہم کام مجھے بڑی تنظیم کی طرف سے ملا ہے اس لئے میں جماعتی کام کروں گا اس ذیلی تنظیم کا کام نہیں کر سکوں گا اس طرح وہ معذرت کر دیں لیکن جماعتی تنظیم سے معذرت نہ کر بیٹھیں.یہ طریق قطعاً جائز نہیں بہر حال جماعتی کام کو ذیلی تنظیموں کے کام پر مقدم رکھنا ہوگا.اور جہاں جہاں مجالس خدام الاحمدیہ نے قرآن کریم کے پڑھانے کا انتظام جماعتی انتظام سے علیحدہ ہو کر اپنے طور پر شروع کر دیا ہے.وہ میری آواز پہنچتے ہی اس کام کو بند کر دیں اور اپنی خدمات جماعت کے پریذیڈنٹ یا امیر کو پیش کر دیں اور جماعتی انتظام کے ماتحت اس کام کو کریں.قرآن کریم کا سمجھنا، اس کا فہم حاصل کرنا سب سے اہم کام ہے مگر قرآن کریم خود فرماتا ہے کہ جب مجھے سمجھنا ہو تو یاد رکھو کہ اپنے نفس کی اصلاح کے بعد میرے پاس آنا کیونکہ سوائے اس شخص کے جو پاک ہو میں کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا اور اگر تم مطہر ہوئے بغیر مجھے ہاتھ لگانا چاہو گے تو مجھے خدا تعالیٰ نے یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ ہاتھ مجھے چھونے نہیں پائے گا.تمہارا ہاتھ مجھے اس وقت چھو سکے گا جب تم جتنا مجھے جانتے ہو.اس پر عمل کرنے والے بھی ہو اور پھر میرے پاس اس نیت کے ساتھ آؤ کہ جو زائد علم تم مجھ سے حاصل کرو ا پنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالو گے.یہ بڑا ہی اہم کام ہے قرآن کریم کا سمجھنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے.قرآن کریم کی اشاعت کے لئے ہی ہمیں زندہ کیا گیا ہے اور ہمیں منظم کیا گیا ہے اس الہی سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے قائم ہی اسی لئے کیا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا بھر میں اس رنگ میں پھیلائیں کہ دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے کہ اگر ہم اس دنیا اور اخروی زندگی کی فلاح چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا ہو گا.دنیا میں قرآن کریم کی تعلیم آپ پھیلا کیسے سکتے ہیں جبکہ خود آپ کو ہی اس کا علم حاصل نہ ہو.تو جو ہماری پیدائش کی غرض ، ہمارے قیام کی غرض اور ہماری زندگی کا مقصود ہے وہ حاصل ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ ہم خود قرآن کریم کو نہ سمجھیں اور اس کے علوم اچھی طرح ہمارے ذہنوں میں مستحضر نہ ہوں.پس میں تمام امراء اضلاع کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ضلع کی ہر جماعت میں قرآن کریم

Page 228

خطبات ناصر جلد اول ۲۱۲ خطبه جمعه ۱/۸ پریل ۱۹۶۶ء پڑھانے کا با قاعدہ ایک نظام کے ماتحت انتظام کریں اور ہر دو ماہ کے بعد مجھے اس کی رپورٹ بھجوایا کریں.(۵) پھر اس کے علاوہ ایک منصوبہ تربیتی اور اصلاحی دو ورقوں کا کثرت کے ساتھ شائع کرنے کا ہے.اس کی تفاصیل میں میں اس وقت جانا نہیں چاہتا وہ بھی ایک اہم کام ہے.چونکہ بہت سے کام ہیں جن کی طرف قریباً روزانہ ہی توجہ دینی پڑتی ہے اس لئے اس غرض کے لئے کہ نگرانی صحیح طور پر ہو سکے اور کام ٹھیک طرح چلتے رہیں.میں نائب ناظر اصلاح وارشاد کی ایک اسامی قائم کرتا ہوں اور فی الحال اس پر مکرم ابوالعطاء صاحب کو مقرر کرتا ہوں وہ براہ راست میرے سامنے ذمہ دار ہوں گے.میں چاہتا ہوں کہ بجٹ پر بار ڈالے بغیر ان کاموں کو کیا جائے الا ما شاء اللہ.اس لئے ان کا عملہ بھی رضا کاروں پر مشتمل ہونا چاہیے اور ربوہ کی جماعت کو اس کے لئے رضا کار پیش کرنے چاہئیں.اہل ربوہ کو غیرت دلانے کے لئے میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری بیبیوں جماعتیں ایسی ہیں کہ جہاں مستعد اور مخلص احباب جماعت کافی تعداد میں دو دو تین تین چار چار پانچ پانچ گھنٹے روزانہ دیتے ہیں.کوئی وجہ نہیں کہ آپ ان سے پیچھے رہ جائیں.میں امید کرتا ہوں کہ ان کاموں کے لئے ربوہ کی جماعت رضا کار پیش کر دے گی تا وہ اس کام کو خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکیں.اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے محض اپنے احسان سے ہمیں اس بات کی توفیق عطا کرے کہ وہ ذمہ داریاں جو اس نے ہم پر عائد کی ہیں اور وہ کام جن کے بغیر وہ ہم سے راضی نہیں ہوسکتا ہم کما حقہ انہیں سر انجام دے سکیں کہ اس کے فضل کے بغیر ہم اس کے فضل کو بھی حاصل نہیں کر سکتے.روزنامه الفضل ربوه ۱۳ را پریل ۱۹۶۶ ۲۶ تا ۴)

Page 229

خطبات ناصر جلد اول ۲۱۳ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء ہم میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی قربانیوں کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے خطبه جمعه فرموده ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العنکبوت کی مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں.الم - أحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ - وَ لَقَد فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكَذِبِينَ - (العنکبوت : ۲ تا ۴) پھر فرمایا.سورۃ عنکبوت کی ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ کیا اس زمانہ کے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کا یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں کافی ہوگا اور وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا اور فتنہ میں نہ ڈالا جائے گا حالانکہ جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان کو ہم نے آزمایا تھا اور اب بھی اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرے گا اور وہ ظاہر کر دے گا ان کو جنہوں نے سچ بولا اور اپنی قربانیوں سے اپنی سچائی پر مہر لگائی اور ان کو بھی جنہوں نے جھوٹ بولا جن کی زبان پر ایمان تھا لیکن ان کے دل ایمان سے خالی تھے.انہوں نے ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کیا.ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ا

Page 230

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۱۴ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء اس کے مامور ( رسول اور نبی ) پر ایمان لاتی ہے تو اس کا محض زبانی ایمان اللہ تعالیٰ کو مقبول نہیں ہوتا بلکہ اس ایمان کے نتیجہ میں جب تک اسلَمتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرۃ : ۱۳۲) کا مظاہرہ نہ ہو.یعنی اس وقت تک وہ قوم الہی انعامات، فضلوں ، برکتوں اور رحمتوں کی وارث نہیں بن سکتی.جب تک وہ ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں اور آزمائشوں میں پوری نہ اترے اور پوری طرح ثابت قدم نہ رہے.قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے فتنے اور آزمائشیں تین قسم کی ہیں.ان میں سے مومنوں کو گزرنا پڑتا ہے.تین قسم کی آگ ہے.جس میں اپنے رب کی رضا کے لئے انہیں چھلانگ لگا نا پڑتی ہے.اگر وہ خلوص نیت رکھنے والے ہوں اور ان کا ایمان سچا ہو.تو اللہ تعالیٰ ان تینوں قسم کی آگوں کو ان کے لئے بردا وسلما بنا دیتا ہے اور وہ ان آزمائشوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جاتے ہیں.(۱) پہلا امتحان اور آزمائش ( کیونکہ فتنہ کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں ) وہ احکام الہی یا تعلیم الہی ہے.جو ایک نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور جس تعلیم کے نتیجہ میں مومنوں کو کئی قسم کے مجاہدات کرنے پڑتے ہیں.اپنے نفسوں کو مارنا پڑتا ہے بعض دفعہ اپنے مالوں کو قربان کرنے سے اور بعض دفعہ اپنی عزتیں اور وجاہتیں اللہ تعالیٰ کے لئے نچھاور کرنے سے.قرآن کریم چونکہ آخری شریعت ہے اس لئے اس نے ہمارے لئے کامل ہدایت مہیا کی اور ان کامل مجاہدات کے طریق ہمیں سکھائے جن پر عمل پیرا ہو کر ہم انتہائی عظیم الشان نعمتوں کے وارث بن سکتے ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فِتْنَةٌ وَ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ.(الانبیاء : ۳۶) یعنی ہم تمہاری الشّر اور الْخَيْر کے ذریعہ آزمائش کریں گے.اور آخر ہماری طرف ہی تم کو لوٹا کر لایا جائے گا.گویا فرمایا اگر تم اس آزمائش میں پورے اترے جسے ہم الخیر کہہ رہے ہیں.اس سے تم نے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور جسے ہم اکشر کہہ رہے ہیں اس سے تم زیادہ سے زیادہ بچے تو جب تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ گے تو اسی کے مطابق ہماری طرف سے تمہیں اچھا بدلہ ملے گا.

Page 231

خطبات ناصر جلد اول ۲۱۵ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں جن کے مطابق ہم اس کی بہت سی تفاسیر کرتے ہیں.یہاں الخیر کے ایک معنی خود قرآن کریم اور اس کے اوامر و نواہی ہیں جیسا کہ فرمایا.وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَا ذَا انْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوا خَيْرًا لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ - (النحل : ٣١) کہ جب مخالفین اور نہ ماننے والے ( ان لوگوں سے جو تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں اور اوامر کو بجالاتے اور نواہی سے پر ہیز کرتے ہیں) پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے اس قرآن کریم میں کیا اتارا ہے یا تمہارے رب نے کیا تعلیم تمہیں دی ہے تو وہ کہتے ہیں خیرا یعنی خیر کو اتارا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہدایت جو الخیر ( کامل خیر ) ہے جو لوگ الخَیر کی راہ اختیار کرتے ہیں ( لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ) اس کے احکام کو بجالاتے ہیں اور اس کی نواہی سے بچے رہتے ہیں.ان کے لئے اس دنیا میں حَسَنَةٌ ( بھلائی) ظاہر ہوگی.وَ لَدَارُ الْآخِرَةِ خَيرُ.آخری گھر میں تو کہنا ہی کیا ؟؟ اس کی خوبیاں اور اس کے انعامات کی کنہ تو ہمارے تصور میں بھی نہیں آسکتیں.پس اس آیت میں قرآنی تعلیم کو خیر کہا گیا ہے اس لئے میں آیۃ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فتنہ کے یہ معنی کرتا ہوں کہ ”ہم قرآن کریم کے احکام ( اوامر و نواہی ) سے تمہاری آزمائش کریں گے.اور اگر ہم غور سے کام لیں تو ہے بھی یہ ایک آزمائش.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے تم ہماری راہ میں خرچ کرو تو یہ ایک بڑی آزمائش ہے.غور کیجئے کہ ایک شخص دن رات کی محنت کے بعد کچھ مال حاصل کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب مجھے اتنا مال مل گیا ہے کہ جس سے میں اور میری بیوی بچے خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں گے تب خدا تعالیٰ کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی ہے اور اسے متوجہ کرتی ہے کہ جو مال ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس کے خرچ پر جو پابندیاں ہم نے عائد کی ہوئی ہیں انہیں مت بھولنا پھر وہ اس مال کے متعلق انہیں یہ فرماتا ہے کہ اب میرے دین کو یا میرے بندوں کو تمہارے مال کے ایک حصہ کی ضرورت ہے اسے میری راہ میں خرچ کر دو تو یقیناً یہ اس بندے کی آزمائش ہوتی ہے جس میں وہ

Page 232

خطبات ناصر جلد اول ۲۱۶ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء ڈالا جاتا ہے.پس وہ مومن جو تقویٰ پر قائم ہوتا ہے وہ بشاشت سے خدا تعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہتا ہے اور اپنے مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے وہ اس امتحان میں پورا اترتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بہت سی نعمتوں میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں تمہاری زندگی کے لمحات بھی ہیں، عمر بھی ہے، جب ہماری طرف سے اپنی عمر اور وقت کا کچھ حصہ قربانی کرنے کے لئے تمہیں آواز دی جائے تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس آزمائش میں بھی پورے اتر و تا ہمارے فضلوں کے وارث ٹھہرو.اسی طرح عزتیں اور وجاہتیں بھی خدا تعالیٰ کی ہی دی ہوئی ہیں جو ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنی پڑتی ہیں.خدا تعالیٰ کے احکام میں ایک حصہ نواہی کا ہے یعنی بعض باتیں ایسی ہیں جن سے وہ روکتا ہے مثلاً دنیوی رسم و رواج ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ اپنی استطاعت سے زیادہ بچوں کی بیاہ شادی پر خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ وہ اسراف ہے جس سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے رسم و رواج کو پورا کرنے کے لئے خرچ نہ کیا ہمارے رشتہ داروں میں ہماری ناک کٹ جائے گی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری خاطر رسم ورواج کو چھوڑ کر اپنی ناک کٹواؤ تب تمہیں میری طرف سے عزت کی ناک عطا کی جائے گی.تو الخیر جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ مومنوں کو آزماتا ہے.وہ قرآن کریم کے احکام ہیں.اس کے مقابلہ میں السر کا لفظ استعمال فرمایا ہے گویا ہر وہ حکم امر ہو یا نہی جو قرآن کریم کے مخالف اور معارض ہو.اسے اکشر کہا گیا ہے کیونکہ شیطان اور اس کے پیروؤں کا یہ کام ہے کہ وہ لوگوں کے کانوں میں قرآن کریم کے خلاف باتیں ڈالتے رہتے ہیں.کبھی یہ کہتے ہیں کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا کیا فائدہ؟ کبھی یہ کہتے ہیں کہ ان مومنوں کی خاطر جو کمزور اور غریب مہاجر ہیں تم اپنے وقتوں اور عزتوں کو کیوں ضائع کرتے ہو.دیکھ لیں منافقوں کا وطیرہ اور کفار کا یہی طریق ہے کہ وہ قرآنی احکام کے مقابل معارض باتیں مومنوں کے کانوں میں ڈالتے ہیں اور یہ غلط امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کی باتوں پر کان دھریں گے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے مومن بندوں پر

Page 233

خطبات ناصر جلد اول ۲۱۷ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء شیطان کا تسلط نہیں ہوا کرتا.،، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک طرف احکام قرآنی ہیں جو تمہارے سامنے ہیں اور ایک طرف وساوس شیطانی ہیں جو تمہیں ان کی خلاف ورزی پر آمادہ کر رہے ہیں اور ان ہر دو کے ذریعہ سے تمہاری آزمائش کی جارہی ہے.اس آزمائش میں پورا اترنے کے لئے ضروری ہے کہ تم یہ یا درکھو کہ تم ہماری طرف ہی لوٹ کر آنے والے ہو.جو شخص آخرت پر حقیقی ایمان رکھتا ہو اور اسے یہ یقین کامل حاصل ہو کہ اليْنَا تُرْجَعُونَ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا وہ کسی بھی آزمائش کے وقت کس طرح ٹھوکر کھا سکتا ہے؟ پس ایک قسم کی آزمائش خدا تعالیٰ کے احکام اور شیطانی وساوس کے ذریعہ سے ہوتی ہے.(۲) دوسرا فتنہ یا آزمائش جس سے مومن آزمائے جاتے ہیں وہ قضاء وقدر کی آزمائش ہے کبھی کبھی اللہ تعالیٰ مومنوں کو قضاء و قدر کی آزمائش میں ڈال کر ان کا امتحان لیتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ (البقرة : ۱۵۶) کہ ہم اپنی مشیت اور اذن سے تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہارے مالوں میں نقصان کی صورت پیدا کر دیں گے.احمدیت میں بھی جو اللہ تعالیٰ کا سچا سلسلہ ہے ہر روز ایسی مثالیں ملتی رہتی ہیں مجھے کئی خطوط آتے رہتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ ہم احمدی ہوئے تھے مگر بیعت کے بعد ہمیں نقصان ہونا شروع ہو گیا ہے.اگر یہ لوگ قرآن کریم کی ذرا بھی سمجھ رکھتے ہوں تو وہ فوراً جان لیں کہ یہ نقصان احمدیت کی صداقت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے غلط یا جھوٹا ہونے کی کیونکہ قرآن کریم نے پہلے ہی بوضاحت بتا دیا تھا کہ جب تم ایمان لاؤ گے تو کبھی خدا تعالیٰ تمہارے مالوں میں تنگی پیدا کرے گا اور تمہیں آزمائے گا کہ آیا تم مال کو خدا تعالیٰ پر ترجیح دیتے ہو یا خدا تعالیٰ کی مرضی کو مال پر ترجیح دیتے ہو.وَالْأَنْفُس اور کبھی یہ کرے گا کہ ادھر تم ایمان لائے اُدھر تمہارا بچہ مرگیا یا کوئی دوسرا رشتہ دار فوت ہو گیا.اس وقت شیطان آئے گا اور تمہارے دل میں وسوسہ ڈالے گا کہ یہ مذہب جو تم نے

Page 234

خطبات ناصر جلد اول ۲۱۸ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء اختیار کیا بڑا منحوس ہے.دیکھو ابھی تم ایمان لائے اور تمہارا بچہ فوت ہو گیا یا تمہاری ماں کا انتقال ہو گیا یا تمہارا باپ چلتا بنا وغیرہ وغیرہ لیکن اگر تم قرآن کریم کو جانتے اور سمجھتے ہو گے تو تم اس آیت کے ماتحت ایک قسم کی بشاشت محسوس کرو گے کہ کتنا سچا ہے ہمارا خدا اور کتنا مہربان ہے وہ کہ وقت سے پہلے ہی اس نے یہ بتادیا تھا کہ ہم اس قسم کی آزمائش میں تمہیں ڈالے جائیں گے.وَالثَّمرات اور کبھی وہ یہ کرے گا کہ دنیا کے حصول کے لئے جو تمہاری کوششیں ہوں گی دنیوی میدان میں اس کا نتیجہ ٹھیک نہیں نکلے گا اور ہم اس کو تمہارے لئے ایک آزمائش بنا دیں گے.تو اس قسم کی آزمائشوں کو قضاء وقدر کی آزمائش کہا جاتا ہے یہ دوسری قسم کی آزمائش ہے جس میں سے مومن کو گزرنا پڑتا ہے.(۳) تیسرا فتنہ یا آزمائش جس کا ذکر ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے وہ مخالفین کی ایذا رسانی ہے اگر ہم تاریخ انبیاء پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہر نبی اور مامور کے ماننے والوں کوان کے مخالفین نے ہر قسم کی ایذا ئیں پہنچائیں لیکن اس میں سے سب سے زیادہ حصہ اس نبی کے صحابہ کو دیا گیا جوسب انبیاء سے اعلیٰ ، ارفع، سب سے زیادہ مقدس اور امام المطہرین تھے یعنی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے مکی زندگی میں اور پھر اس کے بعد جہاں جہاں بھی اسلام دنیا میں پھیلتا گیا، اسلام میں داخل ہونے والوں کو تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بھی ایک آزمائش ہے جس میں سے تم میں سے ہر مومن کو گزرنا ہے.اگر تمہارے دل میں واقعی میری محبت ہے اور تم واقعی میری رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اس آزمائش سے بھی صدق و وفا کے ساتھ گزرنا پڑے گا.اس امتحان میں پورا اترنے اور ہمیں اپنے عذاب سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور تصور بھی ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے.فرمایا.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ في اللهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللهِ (العنکبوت :۱۱) اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب اعلان ایمان کے بعد ان پر آزمائش آتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس تیسری قسم کے فتنہ سے ان کا امتحان لینا چاہتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کی وجہ سے

Page 235

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۱۹ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء انہیں تکلیف میں ڈالا جاتا ہے.کیونکہ لوگ ان کے مخالف ہو جاتے ہیں کبھی وہ انہیں قتل کرنے کے در پے ہوتے ہیں کبھی ان کی بے عزتی کرتے ہیں اور کبھی ان کا بائیکاٹ کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ہزاروں قسم کے داؤ پیچ ہیں جو مخالف لوگ شیطانی وسوسوں کی وجہ سے اختیار کرتے ہیں.تو فرمایا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ان کو تکلیف میں ڈالا جاتا ہے تو وہ لوگوں کے عذاب کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتے ہیں فرمایا کہ اگر تم کمزوری دکھاؤ گے تو تمہیں وہ عذاب بھگتنا پڑے گا جو میں نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے اور اگر تم مضبوطی دکھاؤ گے اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہو گے تو تمہیں صرف وہ عذاب جھیلنا پڑے گا جو یہ محدود طاقتوں والے انسان پہنچا سکتے ہیں.اب خود اندازہ کر لو کہ ان دو عذابوں میں سے کون سا عذاب زیادہ شدید اور کونسا عذاب زیادہ دیر پا ہے ان دو عذابوں میں سے ایک عذاب تمہیں ضرور ملے گا چاہو تو بندوں کی ایذارسانی کو قبول کر کے میرے عذاب سے بچ جاؤ، چاہو تو اس عارضی عذاب سے بچنے کی خاطر میرا وہ عذاب مول لے لو جس کا زمانہ اتنا لمبا ہے کہ تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.محاورہ میں وہ ابدالآباد کا زمانہ بھی کہا جا سکتا ہے اگر چہ وہ ہمیشہ کے لئے نہیں لیکن اس کا زمانہ اتنا لمبا اور اس کی شدت اتنی ہیبت ناک ہے کہ اگر ہم اسے ہمیشہ کا عذاب بھی کہہ دیں تو غلط نہیں ہوگا تو فرماتا ہے کہ جب لوگ تمہیں میری وجہ سے تکلیف پہنچانے لگیں ، دکھ دینے لگیں اور تمہارے لئے عذاب کے سامان مہیا کر دیں تو تمہیں میرے عذاب کا تصور بھی کر لینا چاہیے.اس تصور سے تم لوگوں کے عذاب پر صبر کرنے کے قابل ہو جاؤ گے اور تمہارے لئے یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ آیا لوگوں کے عذاب کو تم قبول کرو گے یا میرے عذاب کو جو ایک بڑا لمبا اور شدید عذاب ہے.سوکوئی عقلمند انسان جو خدا پر ایمان اور یقین رکھتا ہو کبھی یہ نہیں کہہ سکتا اور نہ یہ پسند کر سکتا ہے کہ لوگوں کے عذاب سے بچ جائے اور خدا کے عذاب میں مبتلا ہو.ہاں بعض بد قسمت لوگ ایسے ہوتے ہیں جولوگوں کے عذاب کو دیکھ کر ٹھو کر کھا جاتے اور ارتداد کی راہ اختیار کرتے ہیں.پس ایک تیسری قسم کا فتنہ جو ایمان کے اعلان کے بعد مومن کے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ

Page 236

خطبات ناصر جلد اول ۲۲۰ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء منکر اور مخالف لوگ اپنا پورا زور لگاتے ہیں کہ وہ مومنوں کو دکھ اور تکلیف پہنچائیں اور اس وقت ظاہر ہوتا ہے کہ کون اپنے ایمان میں صادق ہے اور کون کا ذب ہے.فرمایا کہ یا درکھنا کہ لوگوں کا عذاب تو عارضی ہے وقتی ہے بڑا ہلکا ہے اس کے مقابل پر میرا عذاب بڑا لمبا اور بڑا شدید ہے جو ایک لمحہ کے لئے بھی تمہارے سامنے آ جائے تو تم دس ہزار سال تک لوگوں کے عذاب کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.الغرض یہ تین قسم کے فتنے یا آزمائشیں یا امتحان ہیں جن میں سے خدا تعالیٰ کے مومن اور متقی بندوں کو گزرنا پڑتا ہے.ہم بھی اللہ تعالیٰ کے ایک مامور پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے خدا کی آواز پر لبیک کہا ہے اور ہمارے دلوں میں بھی یہ جذبہ اور تڑپ ہے کہ ہم اس ایمان کے جو تقاضے ہیں وہ پورا کرنے والے ہوں اور اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں جس مقصد کے لئے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے یعنی دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دینا اور قرآن کریم کی تعلیم کو تمام بنی نوع انسان تک پہنچا کر انہیں قائل کرنا که فلاح حقیقی حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے جو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل پیرا ہونا ہے تو ہمارے لئے بھی ان تینوں فتنوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا ضروری ہے.پہلی آزمائش اور امتحان کہ قرآنی احکام پر عمل پیرا ہوں.نماز با جماعت ہی کو لے لو.ہر دو ایک گھنٹہ کے بعد اپنے کام، اپنے آرام یا مجلس کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے گھر آنا.پھر راتوں کو اُٹھ کر خدا تعالیٰ کو یاد کرنے والے جو ہیں وہ اپنے جسم کی آسائش کو خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑتے ہیں.اس کے علاوہ مال ہیں ان کے کمانے پر بھی پابندیاں اور ان کے خرچ پر بھی پابندیاں ہیں جہاں مال حرام کے ہر طریق سے خدا نے روکا وہاں مال حلال کے ہر قسم کے خرچ پر پابندیاں لگا دیں جس کے نتیجہ میں اس کے فضل اور برکتیں حاصل ہو جاتی ہیں اگر سوچا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے.دیکھو بیوی سے محبت کرنا تو بظاہر ایک دنیوی چیز ہے لیکن ہمیں ثواب پہنچانے کی خاطر اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر تم اس نیت کے ساتھ کہ خدا تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اپنے گھروں کے ماحول کو خوشگوار بناؤ اپنی بیوی اور بچوں سے پیار کرو اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی ڈالو گے تو

Page 237

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۲۱ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء خدا تعالیٰ تمہیں اس کا بھی اجر دے گا تو خرچ کے متعلق بھی ہدایات دے دیں تا کہ ہمارا ہر خرچ جو بظاہر دنیا سے تعلق رکھتا ہے وہ بھی دین کا حصہ بن جائے اور اس کے نتیجہ میں ہمیں ثواب حاصل ہو.یہ تو اس کے فضل اور اس کے احسان ہیں ہم نے تو اس کے شکر گزار بندے بنا ہے اور خدا تعالیٰ کا شکر بجالانے کا بہترین بلکہ ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اس کے احکام پر کار بند ہوں.تو ہم جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے ہیں.ہماری پہلی آزمائش یا پہلا امتحان یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کا علم حاصل کریں اور اس نیت کے ساتھ حاصل کریں کہ ہر وہ حکم جو قرآن مجید میں پایا جاتا ہے.ہم اس کو بجالائیں گے اور ہر اس چیز سے بچیں گے جس سے بچنے کی ہمیں تلقین کی گئی ہے.پھر قضاء و قدر کی آزمائش میں بھی ہمیں نہایت اچھا اور نیک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے.اس وقت مسلمان کہلانے والوں میں سے ایسے خاندان بھی آپ کو نظر آئیں گے جو گھر میں فوت وموت ہونے کے وقت یا تو خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں یا پھر اس کا شکوہ شروع کرنے لگتے ہیں.وہ اس بشارت کے مستحق نہیں بن سکتے جس کا ذکر خدا تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے.وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ - الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ - (البقرة : ۱۵۶ ۱۵۷) جس کی چیز بھی اس نے لے لی شکوہ کی گنجائش ہی کہاں ہے لیکن انسان بعض دفعہ بڑی حماقت کی باتیں کرتا ہے اور اپنے رب کا بھی شکوہ شروع کر دیتا ہے.تو قضاء وقدر کی آزمائش اور امتحان جو ہمارے لئے مقدر ہیں ان میں بھی ہم نے ایسا نمونہ دکھانا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بشارتیں ہمیں ملیں اس کا غضب یا ناراضگی ہم پر نہ اترے.پھر تیسری قسم کی آزمائش یا لوگوں کا فتنہ ہے.چونکہ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خدا تعالیٰ کے جمالی جلوؤں کے ذریعہ اسلام کو دنیا پر غالب کرنا ہے بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس زمانہ میں غلبہ اسلام کے لئے جو جلوے ظاہر کرتا رہا ہے یا کر رہا ہے یا آئندہ کرتا رہے گا اس میں اس کے جمالی جلوؤں کی کثرت اور جلالی جلوؤں کی قلت ہے.اس

Page 238

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۲۲ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء نسبت کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی اور اسلام کے غلبہ کو جمالی جلوؤں کے ساتھ وابستہ کیا ہوا ہے.اور جہاں یہ کیفیت ہو وہاں بڑی لمبی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں اور آنے والی نسلوں کا بڑے لمبے عرصہ تک خیال رکھنا پڑتا ہے تا کہ وہ صداقت پر قائم رہیں اور ادھر اُدھر بھٹکیں نہیں.اسی طرح جو ایذا رسانی دشمن کی طرف سے اس وقت ہوتی ہے وہ اس سے کچھ مختلف ہوتی ہے جو خدائے تعالیٰ کے جلالی جلوؤں کے زمانہ میں ہوتی ہے کیونکہ جس وقت اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہو کہ اپنے جلالی اور قہری نشانوں سے دشمن کو مغلوب کرے تو اس وقت وہ دشمن اور مخالف کو بھی چھوڑ دیتا ہے کہ وہ تلوار لے اور اپنے زور بازو سے دین الہی کو مٹانے کی کوشش کرے تب وہ دشمن یہ خیال کرتا ہے کہ خدا نے مجھے طاقت اور غلبہ اور وجاہت اور عزت کے ساتھ ساتھ تلواریں اور نیزے اور تیر اس کثرت سے دیئے ہیں کہ ان مٹھی بھر آدمیوں کو میں بڑی آسانی سے مٹا سکتا ہوں اور جب وہ ان کو مٹانے کی کوشش شروع کرتا ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کا قہری نشان ظاہر ہوتا ہے اور ایک لحظہ میں اسے ملیا میٹ کر کے رکھ دیتا ہے.لیکن جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے جمال کو ظاہر کرنا ہو اور اپنے جمالی جلوؤں سے دین کو مضبوط اور غالب کرنا ہو وہاں وہ عام طور پر دشمن کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ تلوار اٹھائے بلکہ عام طور پر دوسری قسم کی مخالفت اور ایذا رسانی ہوتی ہے.مثلاً گالیاں دینا، بعض دفعہ منہ پر تھوکنا، تھپڑ لگا دینا وغیرہ بہر حال وہ ان بچوں والی حرکتوں سے اپنا غصہ نکال لیتے ہیں اور بڑے لمبے عرصہ تک مومن کو ان کا یہ غصہ سہنا پڑتا ہے.آخر مومن خدا تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کے وارث ہو جاتے ہیں.ایسے زمانہ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مخالفین کو مختلف اطراف سے کھرچ کھرچ کر کمزور کرتا چلا جاؤں گا اور مومنوں کو مضبوط کرتا چلا جاؤں گا اور یہ تکلیفیں اور ایذارسانیاں دور ہو جا ئیں گی.کسی گاؤں میں کوئی شخص احمدی ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دیتا ہے تو سارا گاؤں اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے.ماں باپ تک کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے گھر میں نہ آنا.جب وہ یہ ایذارسانی بشاشت سے قبول کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ وہ حالات بھی بدل دیتا ہے.

Page 239

خطبات ناصر جلد اول ۲۲۳ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء مجھے یاد آیا کہ ایک گاؤں میں ایک نابینا حافظ پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اس نے احمدیت کو قبول کر لیا.اس پر اس کے باپ نے اسے کہا کہ اس گاؤں سے نکل جاؤ.اس نے کہا ، ٹھیک ہے چنانچہ وہ چلا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے کسی اور جگہ سامان پیدا کر دیا.خدا تعالیٰ نے جب دیکھا کہ اس کا یہ بندہ آزمائش میں پورا اترا ہے اور اس نے تمام دکھ بشاشت کے ساتھ برداشت کئے ہیں اور اپنے ماں باپ کی ، رشتہ داروں کی بلکہ تمام گاؤں کی جدائی کو اس نے قبول کر لیا لیکن سچائی سے منہ نہ موڑا تو اس نے خود ہی اپنے جمالی جلوؤں کے ساتھ حالات کو بدل دیا.اس کے باپ نے اس کو لکھا کہ تم میرے بیٹے ہو واپس آ جاؤ اس پر وہ گاؤں میں آ گیا.اللہ تعالیٰ نے اسے بڑا اخلاص دیا ہے.وہاں آکر اس نے جلسہ کروانے کا ارادہ کیا اور ایک قریبی گاؤں کے احمدیوں کو کہا کہ میں یہاں جلسہ کروانا چاہتا ہوں.انہوں نے کہا تم پہلے بھی تکلیف برداشت کر چکے ہو.اب اور برداشت کرو گے اس نے کہا کوئی نہیں مجھے ایسی تکلیف برداشت کرنی چاہیے میں چاہتا ہوں کہ یہاں جلسہ ہو اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کی سچی باتیں سنائی جائیں.چنانچہ وہاں جلسہ ہوا.ساتھ کے گاؤں میں احمدیوں کی بڑی بھاری تعداد ہے وہاں سے بہت سے لوگ بھی پہنچ گئے کچھ علماء بھی وہاں پہنچ گئے.تقاریر ہوئیں ایک چرچا ہو گیا لوگوں نے باتیں سنیں تو کہا کہ قابل غور ہیں.غور کرنا چاہیے خواہ مخواہ آنکھیں بند کر کے اور کانوں میں انگلیاں ڈال کر انکار نہیں کرنا چاہیے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب وہاں مذہبی تبادلۂ خیال شروع ہو گیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ان میں سے بہتوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے گا.سود یکھئے کہ وہاں ایک آدمی احمدی ہوا کچھ عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے اس کی آزمائش کی پھر اس نے دیکھا کہ وہ امتحان میں پورا اترا ہے.اس پر اس نے اس پر انعام کیا کہ وہ گاؤں میں پھر واپس آ گیا اور اس نے تبلیغ شروع کر دی.نسبتاً آرام سے رہنے لگا.تکلیف تو ہر ایک کو پہنچتی ہے ہمیں گھر بیٹھے بھی پہنچتی رہتی ہے دوسرے تیسرے دن نہایت گندی گالیوں پر مشتمل خطوط آ جاتے ہیں خط لکھنے والا اپنی جگہ بڑا خوش ہوتا ہوگا کہ میں نے بڑی گندی گالیاں دی ہیں اور ہم اپنی جگہ خوش ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس قسم کی قربانیوں کے پیش کرنے کی بھی توفیق عطا کر دی

Page 240

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۲۴ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء ور نہ مرکز میں رہتے ہوئے اور پھر اپنے مقام کے لحاظ سے مرکزی نقطہ ہوتے ہوئے بھی مشکل سے ایسے تیر ہم تک پہنچ سکتے ہیں.لیکن الہبی اذن سے پہنچ ہی جاتے ہیں اور پھر ہماری خوشی کا باعث ہوتے ہیں.اس قسم کی تکالیف ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہیں اور جب تک ہمارے عروج کا زمانہ نہیں آجاتا وہ لگی ہی رہیں گی.سو ان آزمائشوں میں ہم نے ضرور گزرنا ہے قضاء و قدر کی آزمائش میں سے بھی اور لوگوں کی ایذا رسانیوں میں سے بھی.بہت سے لوگ اس وقت ہدایت کو سمجھ چکے ہیں لیکن وہ صرف اس ڈر سے ایمان نہیں لاتے کہ لوگ ہمیں دکھ دیں گے اللہ تعالیٰ ان سے کہتا ہے کہ سوچ لو کہ لوگوں کے عذاب میں پڑنا چاہتے ہو یا کہ میرے عذاب میں.خدا تعالیٰ ان کو سمجھ دے تا وہ سمجھیں کہ انسان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہے کیونکہ اس کا عذاب اتنا شدید ہوگا کہ انسان ایک لمحہ کے لئے بھی اس کی تاب نہیں لا سکتا.خلاصہ یہ کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے ایک مامور اور مسیح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرزند جلیل کو قبول کیا ہے آپ کی سچائی پر ایمان لائے ہیں.ہمیں اپنی زندگی کا ہر لحظہ اور ہر دم اس تیاری میں گزارنا چاہیے کہ اول ہم نے خدا تعالیٰ کے احکام کو بجالانا ہے جن باتوں سے اس نے ہمیں روکا ان سے بچے رہنا ہے.راتوں کو اٹھنا اور پانچ وقت مسجد میں پہنچنا وغیرہ وغیرہ سینکڑوں احکام کی بجا آوری میں مجاہدات کرنے ہیں.ان مجاہدات کو خود انسان اپنے پر ڈالتا ہے اور جب وہ اس آزمائش کو خوشی سے، بشاشت سے اور رضا کارانہ طور پر اپنے اوپر گو یا نازل کر لیتا ہے تب اس کو ثواب ملتا ہے اگر کسی شخص کو کان پکڑ کر مسجد میں لایا جائے اور وہ لانے والے کو گالیاں دے رہا ہو تو اس کو مسجد میں آنے کا کیا ثواب ملے گا.دوسرے دو امتحان اور آزمائشیں انسان کے اپنے اختیار میں نہیں.ایک تو خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور ایک قسم کا امتحان اللہ تعالیٰ کے اذن سے مخالفوں کی طرف سے آتا ہے تو ان تینوں ابتلاؤں میں پورا اترنا ہر احمدی کا فرض ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو ہر قسم کی قربانیوں

Page 241

خطبات ناصر جلد اول ۲۲۵ خطبہ جمعہ ۱۵ را پریل ۱۹۶۶ء کے لئے تیار رہنا چاہیے تاکہ ان وعدوں کے پورا ہونے میں دیر نہ ہو جو عظیم تر قی اعلیٰ کا میابی اور کامل غلبہ اسلام کے متعلق اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر امتحان میں ثابت قدم رکھے اور کامیاب فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۲۰ را پریل ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۵) 谢谢您

Page 242

Page 243

خطبات ناصر جلد اول ۲۲۷ خطبہ جمعہ ۱/۲۲ پریل ۱۹۶۶ء لازمی چندہ جات کے بجٹ میں تمام احمد یوں کو شامل کیا جائے خطبه جمعه فرموده ۱/۲۲ پریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.پچھلے دنوں خاکسار کی طبیعت خراب رہی گواب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی افاقہ ہے لیکن کمزوری اور سر درد ابھی باقی ہے باوجود دوائی کھانے کے آج بھی سر میں کافی درد محسوس کرتا ہوں لیکن جمعہ ایک ایسا موقع اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے جس سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے تا کہ جماعت کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا جا سکے اس لئے میں بعض باتیں مختصراً دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ سو ڈیڑھ سو سال سے عیسائیت اپنے سارے دجل ، سارے فریب، اپنے سب اموال اور اپنی ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ اسلام پر حملہ آور رہی ہے اور اب بھی ہر قسم کے حملے کر رہی ہے.اگر اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرزند جلیل اور اسلام کے ایک طاقتور پہلوان کی شکل میں مبعوث نہ فرماتا ، تو عیسائیت اسلام کے خلاف شاید میدان مار چکی ہوتی اور شاید ان بدقسمت مسلمانوں کی خواہش پوری ہو جاتی.

Page 244

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۲۸ خطبہ جمعہ ۱/۲۲ پریل ۱۹۶۶ء جنہوں نے قرآن کریم کی تعلیم سے منہ موڑ کر عیسائیت کی آغوش میں دنیا کی آسائشیں اور دنیا کے آرام ڈھونڈے تھے جیسے کہ مولوی عمادالدین جو مسجد (آگرہ) کے امام اور خطیب تھے مسلمانوں سے نکل کر عیسائیوں میں شامل ہو گئے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ عنقریب ہی وہ وقت آنے والا ہے کہ اگر ہندوستان میں کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گی کہ وہ کسی مسلمان کو دیکھے تو اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکے گی اور ہندوستان میں اسے کوئی مسلمان بھی نظر نہیں آئے گا سب مسلمان عیسائی ہو جا ئیں گے.اس زبر دست حملہ اور ان خواہشات کو دیکھ کر جو عیسائی مناد کے دل میں گدگدی لے رہی تھیں.اپنے دین کی حفاظت کے لئے اور اپنی توحید کی خاطر غیرت دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور عیسائیت کے خلاف آپ کو اس قدر زبر دست دلائل براہین اور نشانات اور معجزات عطا کئے کہ ان کے ذریعہ عیسائیت کا حملہ ہر میدان میں آہستہ آہستہ رکنا شروع ہوا اور جہاں جہاں بھی احمدی پہنچے وہاں نہ صرف یہ کہ عیسائیت کا حملہ رک گیا بلکہ عیسائیت کے خلاف جوابی روحانی حملے شروع ہو گئے کہ عیسائیوں کو مجبوراً آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا پڑا اور اب تک پیچھے ہٹتے جارہے ہیں.اس روحانی مہم کو تمام اکناف عالم میں چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے منشا اور اس کے القا سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نومبر ۱۹۳۴ء سے تحریک جدید کا اجرا کیا تھا.دوست جانتے ہیں کہ اس تحریک کے ذریعہ دنیا کے بہت سے ممالک میں عیسائیت کا زبردست ، خوشکن اور کامیاب مقابلہ کیا جا رہا ہے.پس حضور نے نومبر ۱۹۳۴ء میں یہ تحریک جاری فرما کر مالی قربانیوں کا جماعت سے مطالبہ فرمایا.پہلا مطالبہ ۲۷ ہزار روپے کا تھا لیکن اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی اس جماعت نے وقت کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے قریباً ۹۸ ہزار روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.اس کے بعد حضور نے دفتر دوم کا اجراء فرما یا اس سے پہلے جن لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا ان کو دفتر اول قرار دیا.جواب تک جاری ہے دفتر اول میں حصہ لینے والوں کی تعداد

Page 245

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۲۹ خطبہ جمعہ ۱/۲۲ پریل ۱۹۶۶ء قریباً پانچ ہزار تھی جو اب کم ہوتے ہوتے ۲۴ سوتک رہ گئی ہے.کیونکہ جو پچاس، ساٹھ اور ستر سالہ احمدی اس وقت دفتر اول میں شامل ہوئے تھے.ان میں سے بہت سے اپنے مولیٰ کو پیارے ہو گئے.اس طرح ان کی تعداد گھٹتی رہی.یہ ایک ایسی بات ہے جو واضح تھی اور یہ بھی واضح تھا کہ غلبہ اسلام کی جو مہم تحریک جدید کے ذریعہ جاری کی گئی ہے وہ وقتی نہیں بلکہ قیامت تک جاری رہنے والی ہے اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دفتر دوم کی بنیا د رکھی.جب ۱۹۴۴ء میں دفتر دوم جاری کیا گیا تو پہلے سال اس کی آمد صرف ۷۲۴، ۵۲ روپے تھی اور بیس سال بعد یعنی ۱۹۶۳ء میں اس کی ۹۰،۰۰۰، ۲ روپے ( دولاکھ نوے ہزار روپے ) تک پہنچ گئی.کیونکہ شروع میں بہت سے ایسے نوجوان اس میں شامل ہوئے جنہیں صرف جیب خرچ مل رہا تھا اور معمولی چندہ ادا کر کے ثواب حاصل کرنے کی خاطر وہ اس میں شامل ہوئے تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل فرما یا وہ تعلیم سے فارغ ہو کر کام پر لگ گئے اور ا اپنی دنیوی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک احمدی کی ذمہ داریوں کو بھی نبھانا شروع کیا.اس طرح ترقی کرتے کرتے ۶۳ء میں ان کا چندہ باون ہزار سے دولاکھ نوے ہزار تک پہنچ گیا.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں دفتر اول میں شریک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار تھی اور دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کی تعداد قریباً ہمیں ہزار تک پہنچ چکی ہے.بہر حال دفتر اول کے مقابلہ میں یہ بہت بڑی تعداد ہے.اگر دس سال کے بعد ایک اور دفتر کھولا جاتا تو ۱۹۵۴ء میں دفتر سوم کا اجراء ہونا چاہیے تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی کسی خاص مشیت یا ارادہ کی وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۵۴ء میں دفتر سوم کا اجراء نہیں فرمایا.۱۹۶۴ء میں دفتر دوم کے بیس سال پورے ہو جاتے ہیں اس وقت حضرت مصلح موعودؓ بیمار تھے اور غالباً بیماری کی وجہ سے ہی حضور کو اس طرف توجہ نہیں ہوئی کیونکہ امام کی بیماری کے ساتھ ایک حد تک نظام بھی بیمار ہو جاتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک جدید کی طرف سے بھی حضور کی خدمت میں اس کے متعلق لکھا نہیں گیا.میں چاہتا ہوں کہ اب دفتر سوم کا اجراء کر دیا جائے لیکن اس کا اجراء یکم نومبر ۶۵ ء سے شمار کیا جائے گا.کیونکہ تحریک جدید کا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے

Page 246

خطبات ناصر جلد اول ۲۳۰ خطبہ جمعہ ۱/۲۲ پریل ۱۹۶۶ء اس طرح یکم نومبر ۶۵ ء سے ۳۱ /اکتوبر ۶۶ ء تک ایک سال بنے گا میں اس لئے ایسا کر رہا ہوں تا کہ دفتر سوم بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف منسوب ہو اور چونکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کے اعلان کی توفیق دے رہا ہے اس لئے میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بھی اپنے فضل سے ثواب عطا کرے گا اور اپنی رضا کی راہیں مجھ پر کھولے گا.پس میں چاہتا ہوں کہ دفتر سوم کا اجراء یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے ہو.دورانِ سال نومبر کے بعد جو نئے لوگ تحریک جدید کے دفتر دوم میں شامل ہوئے ہیں ان سب کو دفتر سوم میں منتقل کر دینا چاہیے اور تمام جماعتوں کو ایک باقاعدہ مہم کے ذریعہ نوجوانوں، نئے احمدیوں اور نئے کمانے والوں کو دفتر سوم میں شمولیت کے لئے تیار کرنا چاہیے.دوست جانتے ہیں کہ یہاں ہر سال خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھتی ہے اور نئے احمدی ہوتے ہیں وہاں ہزاروں احمدی بھی ایسے ہوتے ہیں جو نئے نئے کمانا شروع کرتے ہیں یہ ہماری نئی پود ہے اور ان کی تعداد کافی ہے کیونکہ بچے جوان ہوتے ہیں، تعلیم پاتے ہیں اور پھر کما نا شروع کرتے ہیں اور باہر سے بھی ہزاروں کمانے والے احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں.اس طرح ہمیں کافی تعداد میں ایسے احمدی مل سکتے ہیں جو دفتر سوم میں شامل ہوں.ہمارا یہ کام ہے کہ ہم ان کو اس طرف متوجہ کریں تا کہ وہ عملاً دفتر سوم میں شامل ہو جائیں.سویکم نومبر ۱۹۶۵ء سے دفتر سوم کا اجراء کیا جاتا ہے.تحریک جدید کو چاہیے کہ وہ فوراً اس طرف توجہ دے اور اس کو منظم کرنے کی کوشش کرے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چند دن کے بعد یعنی یکم مئی سے ہمارا نیا مالی سال شروع ہو رہا ہے اس کے متعلق جماعتوں کو یا درکھنا چاہیے.کہ تساہل اور خوف سے کام نہ لیں.ان ہر دو وجوہ کی بنا پر ہمارا بجٹ صحیح تشخیص نہیں ہوتا بعض جماعتیں تساہل سے کام لیتی ہیں اس طرح جو نام بجٹ میں آنے چاہئیں وہ نہیں آتے اور بعض جماعتیں اس خوف سے کہ اگر کمزوروں کو بجٹ میں شامل کیا گیا تو ہمارا چندہ اتنے فیصدی وصول نہیں ہو گا جتنے فیصدی چندہ پر گرانٹ ملتی ہے.صحیح حالات مرکز کے سامنے نہیں رکھتیں اور اس خوف کی وجہ سے صحیح بجٹ نہیں بنا تیں.

Page 247

خطبات ناصر جلد اول ۲۳۱ خطبہ جمعہ ۱/۲۲ پریل ۱۹۶۶ء میں تمام جماعتوں کو یقین دلاتا ہوں کہ کمزوروں کی کمزوری کے نتیجہ میں آپ کی گرانٹ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بشرطیکہ آپ کی غفلت کی وجہ سے پہلے مضبوط لوگ کمزور نہ ہو جا ئیں آپ اس خیال سے کہ اگر بجٹ صحیح بنا اور آمد پوری نہ ہوئی تو ہماری گرانٹ پر اثر پڑے گا جو خطرناک غلطی کر رہے ہیں آئندہ ہرگز نہ کریں.پس بجٹ پورا بنا ئیں اور حتی الوسع اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کریں اگر آپ کا چندہ ان دوستوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جنہوں نے سال گزشتہ میں چندے ادا کئے تھے اس سال بھی پورا ہو جائے گا تو کل چندہ کی فیصدی اگر پوری نہ بھی ہو تو بھی آپ کو گرانٹ مل جائے گی اس لئے بغیر کسی خوف وخطر کے آپ صحیح بجٹ بنا ئیں.دراصل اس وجہ سے کہ صحیح بجٹ نہیں بنتا ہمارے نئے احمدیوں کی تربیت میں نقص واقع ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں کو یہ تو فیق بھی حاصل نہ تھی کہ وہ خدا تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دو آنے بھی خرچ کریں.آپ کے ذریعہ ایک حرکت شروع ہوئی اور محبت الہی اور محبت رسول جو بظا ہر مٹ چکی تھی یا غفلت کے پردوں کے نیچے دبی ہوئی تھی اُبھرنا شروع ہوئی.پہلا جلوہ اس روحانی زندگی کا یا روحانی حرکت کا جوان وجودوں میں نظر آیا وہ یہی ہے کہ کسی نے ایک چونی چندہ دے دیا کسی نے اٹھنی چندہ دے دیا کسی نے روپیہ اور کسی نے دوروپے اور اس وقت کے حالات کے زیر نظر دلوں کی یہ اتنی بڑی تبدیلی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان لوگوں کے نام اپنی کتب میں درج کر کے ان کے نام کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ایک فعال اور زندہ جماعت پیدا ہو چکی ہے اس لئے جو لوگ نئے نئے آکر اس میں شامل ہوتے ہیں ان پر پرانے مخلصین کو بعض دفعہ غصہ آتا ہے کہ یہ لوگ چندہ کم کیوں دیتے ہیں.حالانکہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی اپنی حالت یا ان کے باپ اور دادا کی حالت یہ تھی کہ چونی خرچ کر کے قیامت تک کی زندگی حاصل کر لی.ٹھیک ہے کہ ہم آپ علیہ السلام کے فیض اور آپ کے خلفاء کی روحانی برکات کے نتیجہ میں زیادہ چست ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں قربانیوں کے لئے زیادہ ہمت دیتا چلا جاتا ہے لیکن

Page 248

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۳۲ خطبہ جمعہ ۱/۲۲ پریل ۱۹۶۶ء ہماری ابتداء تو دونی اور چونی سے ہوئی تھی نا ؟؟ اسی طرح جو نئے آنے والے ہیں انہیں بھی تو تربیت حاصل کرنے کے لئے کچھ وقت دینا چاہیے اور ان کے متعلق غصہ کے اظہار کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ایسے ماحول سے نکل کر آئے ہیں جس میں خدا کے نام پر ایک دھیلا دینا بھی موت سمجھا جاتا تھا اور ایسے نئے ماحول میں داخل ہوئے ہیں جس میں دنیا کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور خدا اور رسول کے نام پر سب کچھ قربان کیا جاتا ہے.اس لئے ان کو تربیت پاتے ہوئے کچھ وقت لگے گا.آپ ان کا نام بجٹ میں شامل نہ کر کے انہیں تربیت سے محروم کرتے ہیں اگر بجٹ میں ان کا نام آجائے تو ہمیں علم ہے کہ یہ نئے دوست ہیں.اگر وہ اب چونی بھی دے دیں تو ٹھیک ہے.لیکن وہ آئندہ سال بغیر کسی کوشش اور زیادہ دباؤ کے اپنے اندر ایک نیا احساس پائیں گے کیونکہ وہ سال بھر دیکھیں گے کہ مسجد میں جو شخص ان کے دائمیں کھڑا ہوتا ہے وہ موصی ہے اور اپنی آمد کا دس فیصدی ادا کرتا ہے.تحریک جدید اور وقف جدید اور دوسری تحریکوں میں بھی حصہ لیتا ہے اور بائیں بھی ایسے ہی لوگ کھڑے ہیں.آخر خود بخودان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہم ان لوگوں سے کیوں پیچھے رہیں؟؟ اس طرح اللہ تعالیٰ ان پر فضل فرمائے گا اور خود بخود ان کے دل میں قربانی کے لئے جوش پیدا ہوتا جائے گا.پس جب آپ ایسے لوگوں کو بجٹ میں شامل ہی نہیں کرتے تو وہ تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ آپ انہیں چندہ کی تحریک ہی نہیں کرتے.اگر چہ اور بھی بہت سی تربیتی سکیمیں ہیں جن کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہتے ہیں لیکن چندہ بھی ایک اہم سکیم ہے کیونکہ ہر ماہ محصل چندہ کی وصولی کے لئے لوگوں کے پاس جاتا ہے اور تحریک کرتا ہے کہ چندہ دو.جب کسی کا نام بجٹ میں شامل ہی نہ کیا جائے گا تو اسے تحریک کیسے کی جائے گی ؟؟؟ اسی طرح اس نے تو آپ کے ماحول میں جو اس کے لئے اجنبی تھا خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر چھلانگ لگا دی لیکن اگر آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو یقیناً وہ تربیت حاصل نہ کر سکے گا اور آخر پیچھے ہٹ جائے گا تو یہ بڑا ظلم ہوگا ایسے انسان پر !!!

Page 249

خطبات ناصر جلد اول ۲۳۳ خطبہ جمعہ ۲۲ را پریل ۱۹۶۶ء پھر میں سمجھتا ہوں کہ ریسرچ کے لئے بھی یہ ایک بڑا دلچسپ مضمون ہوگا کہ مثلاً زید ۱۹۶۶ء میں احمدی ہوتا ہے اسے قاعدہ کے لحاظ سے پچاس روپے چندہ دینا چاہیے لیکن وہ کہتا ہے کہ میں صرف ایک روپیہ دوں گا ہم اسے کہتے ہیں ٹھیک ہے تم ایک روپیہ ہی دو کیونکہ اس کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی لیکن وہ ہمارے ماحول میں رہتے ہوئے اس ایک روپیہ پر قائم نہیں رہ سکتا.دوسرے سال وہ ایک روپیہ سے بڑھا کر پانچ ، دس پندرہ اور ہمیں روپیہ کر دے گا اور آخر پچاس روپے کی بجائے وہ ساٹھ روپے ادا کرنے لگے گا اور دو تین سال تک جب اس کی تربیت پختہ ہو جائے گی تو وہ کسی صورت میں آپ سے پیچھے رہنے کے لئے تیار نہیں ہو گا.بلکہ اس کی غیرت یہ تقاضا کرے گی کہ وہ دوسرے ساتھیوں سے آگے بڑھ جائے.کیونکہ اسے احساس ہو گا کہ میرے ساتھی تو گزشتہ میں سال سے قربانیاں کر رہے ہیں اور میں وہ بدقسمت انسان ہوں کہ اس میں سال کے عرصہ میں میں ان کی مخالفت کرتا رہا ہوں.اب جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر صداقت کھول دی ہے.مجھے پچھلے دھو نے بھی دھونے ہیں اس طرح وہ آگے بڑھنے والوں سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا.ایسی کئی مثالیں ہماری اسلامی تاریخ میں پائی جاتی ہیں.پس بجٹ پورا بنا ئیں اور اس وہم ، خوف اور خطرہ کی بنا پر کہ اگر آپ نے صحیح بجٹ بنایا تو شاید آپ کی گرانٹ میں کمی ہو جائے اپنے کمزور یا نئے احمدیوں پر ظلم نہ ڈھائیں.اگر آئندہ سال آپ اپنی آمد سے یہ ثابت کر دیں کہ جو پرانے چندہ دینے والے ہیں انہوں نے پہلے سال کی نسبت کم نہیں دیا تو پھر آپ کو پوری گرانٹ ملے گی.مثلاً پچھلے سال ساٹھ ہزار روپیہ کا بجٹ تھا جو آپ نے سارے کمزوروں کو باہر نکال کر بنایا تھا.اب ان کمزوروں کو شامل کر کے ایک لاکھ کا بنتا ہے.تو اگر آپ کے نئے سال کی آمد ساٹھ ہزار روپے سے اوپر ہو گئی ہے اور کمی واقع نہیں ہوئی تو یقیناً آپ کی گرانٹ میں کمی نہیں کی جائے گی.اس لئے سب احمدیوں کو بجٹ میں شامل کریں اس طرح ہم ان کی تربیت کی طرف متوجہ بھی ہوں گے.ہم ان کے لئے دعائیں بھی کریں گے اور تدابیر سے بھی انہیں سمجھانے کی کوشش کریں گے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ہمارا رب آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں ایک نیک تبدیلی پیدا

Page 250

خطبات ناصر جلد اول ۲۳۴ خطبہ جمعہ ۲۲ را پریل ۱۹۶۶ء کرتا چلا جائے گا اور وہ پہلے آنے والوں کی نسبت پیچھے رہنے والے نہیں بنیں گے بلکہ کچھ عرصہ کے بعد شاید وہ ان سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش شروع کر دیں.وہ اس احساس سے آگے بڑھیں گے کہ ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمین پر جو ایک نور نازل ہوا تھا ہم ایک لمبے عرصہ تک اس نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کرتے رہے اور بجائے اس کے کہ ہم اس نور سے اپنے سینہ و دل کو منور کرتے ہم نے اس سے منہ پھیر لیا.پس یہ نہایت ہی ضروری بات ہے کہ بجٹ پورا بنایا جائے.اگر باوجود میری اس تاکید کے ہمارے عہد یداروں نے غفلت برتی تو ان کی غفلت کو دور کرنے کے لئے مجھے مناسب قدم اُٹھانا پڑے گا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے اس روحانی تکلیف میں نہیں ڈالیں گے.تیسری بات جو میں صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ کے متعلق کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ قریباً دو ہفتے ہوئے میں نے جماعت کو متوجہ کیا تھا کہ ہمارا مالی سال قریباً ختم ہو رہا ہے آپ اس ماہ کے اندراندرا اپنا بجٹ پورا کرنے کی کوشش کریں مجھے ایسا کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ آپ میں سے اگر سارے نہیں تو بیشتر ایسے ہیں جو اپنا بجٹ ماہ بہ ماہ پورا نہیں کرتے اور انتظار کرتے ہیں کہ سال کے آخری دوماہ میں بجٹ کو پورا کر دیں گے.اس میں شک نہیں کہ دیہاتی جماعتیں ماہانہ چندہ نہیں دیتیں اور نہ ہی دے سکتی ہیں کیونکہ ان کی آمد کا انحصار فصلوں پر ہوتا ہے اور فصلیں ہر ماہ نہیں کاٹی جاتیں.سال کے دو موسم ہیں جن میں فصلیں کائی جاتی ہیں اور وہی دو موسم ہیں جن میں ہماری دیہاتی جماعتیں اپنے چندے ادا کرتی ہیں.پس دیہاتوں میں دو دفعہ چندہ ادا کرنے کا وقت ہوتا.تا ہے.لیکن وہ جماعتیں یا جماعتوں کا وہ حصہ جن کی آمد ششماہی نہیں بلکہ ماہانہ ہوتی ہے.ان سے چندے ماہوار ہی وصول ہو جانا چاہئیں اس سے نہ صرف یہ فائدہ ہوگا کہ ہمیں آخر سال میں زیادہ کوفت برداشت نہ کرنی پڑے گی بلکہ اس سے بڑھ کر ہمیں یہ فائدہ بھی ہوگا کہ ہماری روحانیت ترقی کرے گی کیونکہ وہ روحانی غذا جو معین وقفہ کے بعد کھائی جائے اس سے روحانیت ترقی کرتی ہے.جسمانی غذا کو لیجئے ! پانچ دن کے بعد پانچ دن کا کھانا کھا لینے سے انسان کی جسمانی قوت

Page 251

خطبات ناصر جلد اول ۲۳۵ خطبہ جمعہ ۲۲ را پریل ۱۹۶۶ء بڑھتی نہیں بلکہ اکٹھے کھانے کھا لینے سے پیٹ خراب ہو جاتا ہے اسہال شروع ہو جاتے ہیں وغیرہ اور بجائے فائدہ کے نقصان ہو جاتا ہے اسی طرح روحانی قوت کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ روح کو روحانی غذا معین اوقات میں پہنچتی رہے ورنہ جسمانی بیماریوں کی طرح روحانی امراض اور عوارض روح کو لاحق ہو جاتے ہیں.مثلاً نماز ہی کو لے لو اگر کوئی شخص صبح کے وقت پانچوں نمازیں اکٹھی ادا کر لے تو وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کو پانچوں نمازیں بروقت ادا کرنے سے جو روحانی غذا حاصل ہو سکتی تھی وہ اسے حاصل ہو جائے گی کیونکہ جہاں تک نماز کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے علم کامل میں یہ ہے کہ روح کو پانچ مختلف اور معین وقتوں میں نماز کی صورت میں غذا ملنا ضروری ہے.ورنہ روح کمزور ہو جائے گی.اگر آپ ان پانچ وقتوں کی بجائے ایک ہی وقت میں پانچ نمازیں ادا کرنا چاہیں تو یہ ایک بیہودہ اور لغو خیال ہوگا.ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ساتویں دن پینتیس نمازیں ادا کرنے سے روح کی قوت قائم رہ سکتی تو یقینا اللہ تعالیٰ ساتویں دن ہم سے پینتیس نمازیں پڑھوا تا اور روزانہ پانچ وقت نماز ادا کرنے کا حکم نہ دیتا.تو اللہ تعالیٰ کے علم میں تو یہ ہے کہ روزانہ معین اوقات میں پانچ دفعہ میرے حضور میں حاضر ہوکر اپنی عاجزی ، تذلل اور نیستی کا اقرار کر کے انسان کو روحانی غذا حاصل کرنی چاہیے ورنہ اس کی روحانی قوت قائم نہ رہ سکے گی اور وہ کمزور ہو جائے گا.اسی طرح حج کرنا ساری عمر میں ایک دفعہ فرض ہے زکوۃ کا ہر سال ادا کرنا ضروری ہے اور مختلف عبادتوں کے لئے مختلف اوقات مقرر ہیں اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں دس سال تک زکوۃ ادا نہیں کرتا دس سال کے بعد یک دفعہ ہی ادا کر دوں گا تو اس کی روحانی طاقت اور قوت یقیناً قائم نہیں رہ سکے گی.پس یہ جو ہمارے چندے ہیں بعض کو ہر ماہ بعد اور بعض کو ہر چھ ماہ بعد ادا کرنے ضروری ہیں اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو خدا تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر قربانیوں کے نتیجہ میں جو برکتیں اور رحمتیں ہمارے لئے مقدر ہیں وہ انہیں نہیں ملیں گی اور ان میں روحانی کمزوری پیدا ہو جائے گی.

Page 252

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۳۶ خطبہ جمعہ ۱/۲۲ پریل ۱۹۶۶ء پس عہد یداران کو چاہیے چندے اپنے وقت پر وصول کریں تا سال کے آخر میں نہ انہیں کوفت ہو نہ ہمیں پریشانی لاحق ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق بخشے.(روز نامه الفضل ربوه ۱/۲۷ پریل ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 253

خطبات ناصر جلد اول ۲۳۷ خطبہ جمعہ ۲۹ را پریل ۱۹۶۶ء کبر و غرور اور خود پسندی و خود نمائی کو چھوڑ کر فروتنی اور ب نفسی کی عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کی کوشش کرو خطبه جمعه فرموده ۱/۲۹ پریل ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ہمیں یہ یا درکھنا چاہیے کہ جب تک ہم کبر و غرور ، خود پسندی، خود نمائی ،تحقیر و استہزاء، نخوت وخودسری کو کلیتاً چھوڑ کر نیستی کا چولہ پہنیں، فروتنی اور بے نفسی کی عاجزانہ راہوں سے اپنے رب کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں اس وقت تک قرب و وصال الہی کی وہ نعمتیں ہم حاصل نہیں کر سکتے جو ایک سچے مسلمان اور حقیقی احمدی کے لئے مقدر ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تکبر سے بچنے پر بہت زور دیا ہے اور بار بار تاکید فرمائی ہے کہ ہمیں تکبر کی بار یک دربار یک قسموں سے بھی بچتے رہنا چاہیے تا ہم جادہ عبودیت سے بھٹک نہ جائیں اور اس توحید حقیقی سے دور نہ جا پڑیں جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور کبریائی کی سچی معرفت سے حاصل ہوتی ہے اور جس کے نتیجہ میں انسان کے نفس پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور پھر اپنے حی و قیوم خدا کے فیضان اور احسان سے ایک نئی زندگی پاتا ہے.پس ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کے تکبر سے بچنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اے کرم خاک چھوڑ دے کبر و غرور کو زیبا ہے کبر حضرت ربّ غیور کو

Page 254

خطبات ناصر جلد اول ۲۳۸ بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں چھوڑو غرور و کبر کہ تقوے اسی میں ہے خطبہ جمعہ ۲۹ را پریل ۱۹۶۶ء ہو جاؤ خاک، مرضی مولا اسی میں ہے پھر ایک دوسری جگہ فرمایا :.میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خدا وند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے مگر تم شائد نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے.پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی روح سے بولتا ہوں ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقل مند یا زیادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ اس کو دیوانہ کر دے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے.اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ وحشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ وحشمت خدا نے ہی اس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے.ایسا ہی وہ شخص جوا اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزا اسے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے.کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اس کے قویٰ میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.ایسا ہی وہ شخص بھی جوا اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں

Page 255

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۳۹ خطبہ جمعہ ۲۹ ۱٫ پریل ۱۹۶۶ء ست ہے وہ متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سر چشمہ کو اس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے.سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یا درکھو ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم و خبر نہ ہوا ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا.اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو ، تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل وعیال سمیت نجات پاؤ خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو.پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر، تا تم پر رحم ہو.“ تکبر کا اظہار بھی کئی طریق سے ہوتا ہے کبھی تکبر آنکھ کی کھڑکی سے سر نکالتا ہے کبھی سر کی جنبش میں اس کا پھریرا لہراتا ہے.کبھی ہاتھ ، پاؤں اور زبان اس کے آلہ کار بنتے ہیں.ان سب سے بچنا ہمارے لئے ضروری ہے تاکہ تکبر کا جن ہمارے نفسوں سے ایسا نکلے کہ پھر دوبارہ داخل ہونے کی سب راہیں اس کے لئے مسدود ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :.تکبر کئی قسم کا ہوتا ہے.کبھی یہ آنکھ سے نکلتا ہے جبکہ یہ دوسرے کو گھور کر دیکھتا ہے تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے کبھی زبان سے نکلتا ہے اور کبھی اس کا اظہار سر سے ہوتا ہے اور کبھی ہاتھ اور پاؤں سے بھی ثابت

Page 256

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۴۰ خطبہ جمعہ ۲۹ را پریل ۱۹۶۶ء ہوتا ہے غرضیکہ تکبر کے کئی چشمے ہیں اور مومن کو چاہیے کہ ان تمام چشموں سے بچتا ر ہے اور اس کا کوئی عضو ایسا نہ ہو جس سے تکبر کی بو آوے اور وہ تکبر ظاہر کرنے والا ہو.صوفی کہتے ہیں کہ انسان کے اندر اخلاق رذیلہ کے بہت سے جن ہیں اور جب یہ نکلنے لگتے ہیں تو نکلتے رہتے ہیں مگر سب سے آخری جن تکبر کا ہوتا ہے جو اس میں رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل اور انسان کے سچے مجاہدہ اور دعاؤں سے نکلتا ہے.بہت سے آدمی اپنے آپ کو خاکسار سمجھتے ہیں لیکن ان میں بھی کسی نہ کسی نوع کا تکبر ہوتا ہے.اس لئے تکبر کی بار یک در بار یک قسموں سے بچنا چاہیے.ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ کوئی متکبر انسان قرآنی فیوض اور برکات کا وارث نہیں بن سکتا صرف اور صرف فروتنی کی چابی سے قرآنی علوم کا دروازہ کھولا جاسکتا ہے صرف اور صرف عجز کی رداء اور چادر پر انوار قرآنی کا رنگ چڑھ سکتا ہے اور صرف اور صرف منکسرانہ مزاج ہی قرآن کریم کے مزاج سے مطابقت کھاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.جب تک انسان پوری فروتنی اور انکسار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ اٹھائے اور اس کے جلال و جبروت سے لرزاں ہو کر نیاز مندی کے ساتھ رجوع نہ کرے.قرآنی علوم کا دروازہ نہیں کھل سکتا اور روح کے ان خواص اور قومی کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا.جس کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے.چونکہ آسمان روحانی کی سب رفعتیں قرآن کریم کے فیوض سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں اور تکبر کے نتیجہ میں قرآن کریم کے فیوض سے انسان محروم ہو جاتا ہے اس لئے متکبر پر آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے.اللہ تعالیٰ سورۃ اعراف میں فرماتا ہے :.إنَّ الَّذِينَ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمُ ابْوَابُ السَّمَاءِ - (الاعراف: ۴۱) کہ وہ لوگ جو ہمارے نشانات کا انکار کرتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے احکام سے منہ

Page 257

خطبات ناصر جلد اول ۲۴۱ خطبہ جمعہ ۲۹ را پریل ۱۹۶۶ء موڑتے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری تعلیم کی طرف پیٹھ کرتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے اوامر و نواہی کی پابندی سے گریز کرتے ہیں اور شریعت کا جوا بشاشت کے ساتھ اپنی گردنوں پر رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اس لئے کہ اسْتَكْبَرُوا عَنْهَا ان کے دلوں میں تکبر پایا جاتا ہے.انہیں یہ یادرکھنا چاہیے لا تُفتَّحُ لَهُمُ ابْوَابُ السَّمَاءِ کہ آسمانِ روحانی کے دروازے ان پر ہر گز نہیں کھولے جائیں گے بلکہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے جائیں گے اور وہ زمین کے کیڑے بن کر رہ جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی لعنت کا مورد بنیں گے اور شیطان میں ہو کر شیطان بن جائیں گے اور آسمان کی بلندیوں کی بجائے جو انسان کے لئے ہی پیدا کی گئی تھیں.اندھیروں کی اتھاہ گہرائیاں ان کے حصہ میں آئیں گی.تکبر کے مقابل پر عربی زبان میں تواضع کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ تکبر کی وجہ سے ہمارے نشانوں کو جھٹلاتے اور ہمارے احکام سے اعراض کرتے ہیں اور ہماری تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوتے روحانی رفعتوں کے دروازے ان پر نہیں کھولے جاتے.یہاں سوال پیدا ہوتا تھا کہ پھر وہ کن پر کھولے جائیں گے؟ اس کے جواب کے لئے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ملتا ہے.حضور نے فرمایا:.إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ - کہ جب اللہ کا ایک بندہ اپنے مقام عبودیت کو پہچانتے ہوئے اور اپنی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اور اپنے لائے محض ہونے کا اقرار کرتے ہوئے.تکبر کا نہیں بلکہ اس کی ضد ( تواضع ) کا مظاہرہ کرتا ہے اور انکسار اور عجز کے ساتھ اپنی زندگی گزارتا ہے اور اس کی زبان اور اس کا دل بلکہ اس کے جسم کا ذرہ ذرہ پکا رہا ہوتا ہے.ہمچو خاکم بلکہ زاں ہم کمترے کہ میں تو خاک ہوں بلکہ خاک پامیں بھی شاید کچھ خوبیاں ہوں.لیکن مجھے اپنا نفس اور اپنا وجود اس خاک سے بھی کمتر نظر آ رہا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فضل فرماتا ہے اور فضل فرماتے ہوئے

Page 258

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۴۲ خطبہ جمعہ ۲۹ را پریل ۱۹۶۶ء اس کو ساتویں آسمان تک اُٹھا کر لے جاتا ہے اور عزت کے نہایت بلند مقام پر اسے فائز کر دیتا ہے.آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات مختلف انبیاء کو ان کے درجات کے مطابق مختلف آسمانوں میں دیکھا.کسی کو پہلے کسی کو دوسرے اور کسی کو تیسرے آسمان پر مذہبی دلائل کی رو سے روحانی آسمان بھی سات ہیں اور سب سے بلند تر ساتواں آسمان ہے پس السَّمَاءِ السَّابِعَةِ کے معنی یہ ہوئے کہ جس قدر بلندی اور رفعت تک پہنچنا کسی انسان کے لئے مقدر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اتنی ہی روحانی رفعتیں تواضع اور فروتنی کے طفیل اسے عطا کر دیتا ہے.پس جو شخص تواضع سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو نہایت ہی حقیر اور عاجز سمجھے گا اور سب قدرتوں اور سب فیوض کا سر چشمہ اور منبع صرف اپنے خدا کو یقین کرے گا اور ایمان رکھے گا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد اس کو سہارا نہ دے تو وہ خاک پا کیا اس سے بھی کم تر ہے.تو یقیناً وہ خدا کے فضلوں کا وارث ہو گا اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کا وارث بننا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں دیئے گئے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے مقام عبودیت کو ہمیشہ پہچانتے رہیں اور عجز و فروتنی کے ساتھ اپنے کو لائے محض جانتے ہوئے اپنے خیالات اور خواہشات کو مٹا کر محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خدمت کرتے چلے جائیں اور اپنے کو اتنا حقیر جانیں کہ کسی اور چیز کو ہم اتنا حقیر نہ سمجھتے ہوں.اگر ہم اپنے اس مقام کو پہچانے لگیں تو پھر ہمارا خدا جو بڑا دیا لو ہے ہمیں اپنے فضل سے بہت کچھ دے گا.انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۸ رمئی ۱۹۶۶ ء صفحه ۲، ۳)

Page 259

خطبات ناصر جلد اول ۲۴۳ خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۶۶ء جماعتوں نے میری تحریک پر نہ صرف اپنے بجٹ کو پورا کیا بلکہ تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ کی زائد آمد ہوئی خطبه جمعه فرموده ۶ رمئی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ سورہ تغابن میں فرماتا ہے.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِانْفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ - (التغابن : ١٧ ) یعنی جتنا ہو سکے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اور اپنے مال اس کی راہ میں خرچ کرتے رہو.وہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہو گا اور جو لوگ اپنے دل کے بخل سے بچائے جاتے ہیں وہی کامیاب ہونے والے ہیں.عربی زبان میں فلاح کا لفظ بڑے وسیع معانی میں استعمال کیا جاتا ہے اور دین اور دنیا کی حسنات کی طرف اشارہ کرتا ہے.دنیا کے متعلق فلاح ان باتوں پر بولا جاتا ہے کہ انسان کو صحت والی زندگی حاصل ہو مال میں فراخی ہو اور عزت و وجاہت اور اقتدار اور ثروت سب کچھ اسے میسر ہو.آخرۃ کے متعلق فلاح کا لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی ہوں گے کہ انسان نے ابدی زندگی پائی جس کے بعد فنا نہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ایسی روحانی دولت دی گئی جس کے ساتھ کوئی تنگی نہیں

Page 260

خطبات ناصر جلد اول ۲۴۴ خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۶۶ء اور خدا تعالیٰ نے اسے عزت کے ایسے مقام تک پہنچادیا کہ اس کے ساتھ کسی ذلت کا تصور بھی ممکن نہیں اور اسے صفات الہیہ کا ایسا عرفان حاصل ہوا کہ جس کے ساتھ کوئی جہالت نہیں ہے.تو اس آیت میں فرمایا کہ آؤ اس فلاح کا ایک نسخہ تمہیں بتاؤں اور وہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے دل کے بخل سے بچایا جاتا ہے.وہی دنیا اور آخرت دونوں میں مفلح ( فلاح پانے والا ) ہوتا ہے.سوال پیدا ہوتا ہے کہ دل کے بخل سے نجات کس طرح ہو.اس کے جواب کے لئے فرمایا.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَ أَنْفِقُوا خَيْرًا لَّا نُفُسِكُمْ کہ جہاں تک ہو سکے اپنی طاقت، قوت اور استعداد کے مطابق تقویٰ کی راہوں پر چلتے رہو اور تقویٰ یہ ہے کہ وَاسْمَعُوا وَ أَطِیعُوا کہ اللہ تعالیٰ کی آواز کو سنو اور لبیک کہتے ہوئے اس کی اطاعت کرو.اگر تم تقویٰ کی راہوں پر چل کر سبعا وَ طَاعَةٌ کا نمونہ پیش کرو گے.تو تمہیں اللہ تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق دے گا کہ تم اپنی جانوں، مالوں اور عزتوں سب کو اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اس طرح تمہیں دل کے بخل سے محفوظ کر لیا جائے گا.یہی کامیابی کا راز ہے.اس نسخہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے خوب سمجھا اور پھر اس پر خوب عمل کیا دیکھو دنیا میں بھی انہیں ایسی کامیابی نصیب ہوئی کہ کسی اور قوم کو ویسی کامیابی نصیب نہیں ہوئی اور اسی زندگی میں ان کو آئندہ کے متعلق ایسی بشارتیں ملیں کہ کسی اور قوم کو ان کا حقدار قرار نہیں دیا گیا یا پھر اس نسخہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت نے سمجھا اور اس کے مطابق عمل کر کے حقیقی کامیابی اور فلاح کے حصول کے لئے جدو جہد کی اور کر رہی ہے اور آئندہ بھی اسی راہ پر گامزن رہے گی.انشاء اللہ آج جس وجہ سے میں نے آیہ مذکورہ پڑھی ہے اور اپنے بھائیوں کو اس کے مضمون کی طرف متوجہ کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ پچھلے ماہ کی ۸ تاریخ کو میں نے ایک خطبہ دیا تھا اور جماعت کو تحریک کی تھی کہ چونکہ ہمارا مالی سال ختم ہو رہا ہے صرف تین ہفتے باقی ہیں.اس لئے اپنے بجٹ کو پورا کرنے کی کوشش کریں.۱۸ پریل کو ہمارے بجٹ کی پوزیشن یہ تھی کہ بجٹ ۲۵٫۲۴,۲۸۰ روپے کا تھا اور اس کے مقابل آمد مبلغ ۲۱٫۵۷,۷۸۷ روپے تھی یعنی بجٹ کے مقابل قریباً ساڑھے تین لاکھ روپیہ

Page 261

خطبات ناصر جلد اول ۲۴۵ خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۶۶ء آمد کم تھی اس کی وجہ سے مجھے بڑی گھبراہٹ اور فکر لاحق تھی.ہمارا حقیقی دشمن شیطان ہے اور وہ بڑا چوکس ہے اور اس کی شرارت اور دجل بھی کمال کا ہے.اس لئے میں ڈرتا تھا کہ اگر ہمارے سال رواں کا بجٹ پورا نہ ہوا تو فوراً بعض دلوں میں شیطان یہ وسوسہ ڈالے گا اور انہیں یہ کہہ کر خوش کرنے کی کوشش کرے گا کہ دیکھو جماعت کا قدم ترقی کی بجائے تنزل کی طرف جانا شروع ہو گیا ہے اور پھر ہمارے مخالف اس سے یہ نتیجہ نکالیں گے کہ جماعت ان رفعتوں کو حاصل نہ کر سکے گی کہ جن کے حصول کا اسے دعوئی ہے اور جن کے حصول کی خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے بشارت بھی مل چکی ہے.شیطان اس بات کو لوگوں سے چھپائے گا کہ تمبر کی جنگ میں ہماری بہت سی جماعتیں جو ضلع سیالکوٹ اور لاہور وغیرہ میں تھیں بُری طرح متاثر ہوئی ہیں اور اپنا سارا مال ومتاع چھوڑ کر انہیں اپنے علاقہ سے ہجرت کرنی پڑی اور اس وجہ سے وہ اپنے چندے پوری طرح ادا نہ کر سکیں.وہ اس امر کو بھی دنیا سے چھپائے گا کہ جنگ کی وجہ سے جماعت کے بہت سے تاجروں پر بھی بُرا اثر پڑا اور ان کی تجارت کی حالت وہ نہ رہی جو جنگ سے پہلے تھی اور چونکہ ان کی آمدنی کم ہو گئی اس لئے لازماً اسی نسبت سے جماعت کے چندے بھی کم ہو گئے.پس مجھے خیال ہوا کہ ان تمام باتوں کو نظر انداز کر کے شیطان بعض لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالے گا کہ دیکھو جماعت تنزل کی طرف جھک گئی ہے اور اب یہ وہ ترقیات حاصل نہ کر سکے گی جن کے متعلق اسے دعوی ہے کہ انہیں خدا تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کر رکھا ہے اور اس کا یہ دعوی پورا نہ ہوگا کہ یہ جماعت تمام اطراف عالم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ نے میں کامیاب ہو گی.اس گھبراہٹ کے نتیجہ میں ایک طرف تو میں نے اپنے رب سے دعا کی اور دوسری طرف اپنے بھائیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا.اللہ تعالیٰ نے میری دعاؤں کو بھی سنا اور اس سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور دیگر مقدس ہستیوں کی دعاؤں کو سنا جو وہ دن رات جماعت کی ترقی کے لئے کرتے رہے اور اس نے ہم پر بڑا ہی فضل کیا.کیونکہ ۵ رمئی ۲۶ ء کی رپورٹ

Page 262

خطبات ناصر جلد اول ۲۴۶ خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۶۶ء کے مطابق ہماری آمدنی تین ہفتوں میں ۲۱,۵۷٫۷۸۷ روپے سے بڑھ کر ۲۵٫۹۱٫۴۷۷ روپے تک پہنچ گئی ہے گویا ان تین ہفتوں میں مبلغ ۴,۳۳,۶۹۰ روپیہ موصول ہوا اور ابھی یہ سال کی پوری آمد نہیں کیونکہ بہت سی رقمیں منی آرڈر کر دی گئی ہیں لیکن وصول ہو کر خزانہ میں داخل نہیں ہوئیں اور بہت سی رقوم ہیں ( مثلاً کراچی کی ) جو بنک میں جمع کرا دی گئی ہیں لیکن ان کی ہمیں اطلاع ابھی نہیں آئی اس لئے وہ رقم آمد میں جمع نہیں کی جاسکی.میرا اندازہ یہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ مزید ساٹھ ستر ہزار روپیہ جو پچھلے سال کی آمد میں محسوب ہے تین چار دن تک یہاں پہنچ جائے گا اس طرح گویا ان تین ہفتوں میں کم و بیش پانچ لاکھ روپے کی آمد ہوئی.جب ہم اس آمد کا ۶۶ - ۶۵ ء کے بجٹ سے مقابلہ کرتے ہیں تو اس کی پوزیشن یہ بنتی ہے ۶۶ - ۵ - ۵ تک جو اصلی آمد ہوئی وہ ۷ ۲۵,۹۱٫۴۷ روپیہ ہے.حالانکہ بجٹ ۲۵,۲۴,۲۸۰ روپیہ ہے.پس مبلغ ۱۹۷, ۶۷ (ستاسٹھ ہزار روپیہ بجٹ سے زیادہ آمد ہوئی اور امید ہے کہ ۶۰ یا ۷۰ ہزار روپیہ کی رقم جو اسی سال میں محسوب ہے جلد ہی وصول ہو جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ.اس طرح ۶۶ - ۶۵ ء کے بجٹ کی نسبت قریباً ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ کی آمدنی زائد ہوگی.جب ہم ۶۶ - ۶۵ء کی آمد کا ۶۵ - ۶۴ء کی آمد سے مقابلہ کرتے ہیں تو پوزیشن یہ بنتی ہے.۶۶ - ۶۵ء کی آمد ۲۵,۹۱,۴۷۷ روپیہ اور ۶۵ - ۶۴ء کی آمد ۲۴٫۶۴,۳۳۳ روپیه ہوئی.اس طرح ۶۵ - ۶۴ء کی آمد کی نسبت اس سال اس وقت تک کی آمد مبلغ ۱٫۲۷٫۱۴۴ روپیہ زیادہ ہوئی ہے اور اگر متوقع آمد ۶۰,۰۰۰ کو اس میں شامل کر لیا جائے تو ۶۶ - ۶۵ء کی آمد قریباً ایک لاکھ نوے ہزار روپیہ زیادہ ہوتی ہے.اگر ہم ۶۶ - ۶۵ء کی آمد کا ۶۵ - ۶۴ء کے بجٹ سے مقابلہ کریں تو یہ زیادتی قریباً اڑھائی لاکھ روپیہ ( ۲۴۶۱۴۷) بنتی ہے.جب یہ اعداد و شمار میرے سامنے آئے تو میرا دل خدا کی حمد سے بھر گیا اور میرے تمام احساسات اور جذبات کو اس نے اپنے گھیرے میں لے لیا.میرے پاس وہ الفا ظ نہیں اور نہ میں

Page 263

خطبات ناصر جلد اول ۲۴۷ خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۶۶ء سمجھتا ہوں کہ آپ میں سے کسی کے پاس وہ الفاظ ہوں گے جن سے ہم کما حقہ اپنے رب کا شکریہ ادا کر سکیں.میں نے یہ بھی سوچا کہ مجھے آپ کے مقابلہ میں کوئی بزرگی یا برتری حاصل نہیں لیکن جس رب عظیم نے اس خاکسار نابکار کو خلافت کی کرسی پر بٹھایا ہے اسی قادر و توانا نے آپ کے دلوں میں میرے لئے محبت پیدا کی میری زبان آپ کے دلوں پر اثر کرتی ہے اور آپ میری آواز کوسن کر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مجنونانہ طور پر اپنے دینی کاموں میں لگ جاتے ہیں جیسا کہ باہر سے آنے والی بہت سی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ جب آپ کا خطبہ یہاں پہنچا تو تمام عہدیدار مجنونانہ طور پر اپنے کام میں لگ گئے اور کوشش کی کہ بجٹ کے پورا ہونے میں کوئی کمی نہ رہ جائے.اسی طرح بعض افراد نے جن کے ذمہ بڑی بڑی رقوم واجب الادا تھیں تنگی برداشت کر کے وہ رقوم ادا کر دیں اس طرح انہوں نے جماعت سے تعاون کیا اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو خصوصاً ان عہدیداروں کو جنہوں نے اس عرصہ میں بہت محنت اور بڑی تگ و دو سے کام لیا اور جماعت میں احساس ذمہ داری کو بیدار کیا ہے.جزاء خیر دے اور اپنی رضا سے نوازے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے سورہ تغابن کی آیات میں بڑی وضاحت سے فرمایا ہے حقیقی اور کامل فلاح انہیں حاصل ہو اور اس دنیا کی حسنات سے بھی انہیں نوازے اور آخرت کی حسنات بھی زیادہ سے زیادہ ان کے حصہ میں آئیں.میں نے پہلے بھی دعا کی ہے اور آئندہ بھی کروں گا آپ بھی ایسے سب دوستوں کے لئے دعا کریں جنہوں نے جماعت کے بوجھ کو اُٹھایا کہ اللہ تعالیٰ انہیں بہتر سے بہتر جزاء خیر دے اور جیسا کہ اس نے جماعت کو ان نامساعد حالات میں بھی یہ توفیق دی ہے کہ مالی قربانی کے میدان میں اس کا قدم پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے ہی بڑھا ہے.آئندہ بھی محض اس کے فضل اور احسان سے دنیا کے ہر ملک اور عمل کے ہر میدان میں ہر چڑھنے والے دن اس کا قدم پہلے کی نسبت آگے ہی

Page 264

خطبات ناصر جلد اول بڑھنے والا ہو.آمین.۲۴۸ سب توفیق اسی سے حاصل ہوتی ہے.وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۶۶ء روزنامه الفضل ربوه ۲۵ رمئی ۱۹۶۶ء صفحه ۲، ۳)

Page 265

خطبات ناصر جلد اول ۲۴۹ خطبہ جمعہ ۱۳ رمئی ۱۹۶۶ء شرک کی تمام راہوں سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ کسی قسم کا تکبر بھی ہمارے دلوں میں پیدا نہ ہو خطبه جمعه فرموده ۱۳ رمئی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قرآن کریم نے کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے دی ہے اور شجرہ طیبہ وہ ہوتا ہے جس کے اندر ایسی استعداد میں ہوں کہ وہ اچھی طرح نشو و نما پا سکے اور اچھے پھل دے سکے اور پھر اسے لگایا بھی اچھی زمین میں گیا ہو اور اس کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ اس زمین میں قائم ہوں اور ہر ممکن غذادہ زمین سے لے رہا ہو.اسی طرح کلمہ طیبہ کی جڑیں بھی فروتنی عاجزی، انکسار اور تواضع کی زمین میں مضبوطی سے قائم ہوتی ہیں.یا درکھنا چاہیے کہ پاک کلام سے پاک اعتقاد پیدا ہوتا ہے اور پاک اعتقاد سے اعمالِ صالحہ جنم لیتے ہیں اور ہر عمل صالح نیستی کے اقرار کو چاہتا ہے اور عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ اس کا رفع إلَى السَّمَاءِ ہوتا ہے اور اپنے بندہ کی عاجزی کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ اس کی بلندی کے سامان پیدا کرتا ہے.اگر عاجزی اور انکسار کی بجائے اباء اور استکبار ہو تو بظاہر اچھے اور نیک اعمال بھی بندہ کے منہ پر مارے جاتے ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول نہیں ہوتے اور ایسے درخت کو اللہ تعالیٰ کے فضل اس کی رحمت اور اس کی برکت کے پھل نہیں لگتے اور نہ ہی اس کی شاخیں صفات باری کی بلندیوں

Page 266

خطبات ناصر جلد اول ۲۵۰ خطبہ جمعہ ۱۳ رمئی ۱۹۶۶ء اور رفعتوں سے کچھ غذا حاصل کر کے بندہ کے لئے اس زندگی میں رضائے الہی کی جنت کے حصول کا ذریعہ بنتی ہیں بلکہ بداعتقادات بد عملیوں کو جنم دیتے ہیں.اور یہ ایک ایسا شجرہ خبیثہ ہوتا ہے.جس کی جڑیں فروتنی کی زمین میں قائم ہونے کی بجائے غرور، خود پسندی، اباء اور استکبار کے فوق الارض میں لٹکی ہوئی اور معلق ہوتی ہیں اور غضب الہی اور قہر خداوندی کے زلازل اسے متزلزل رکھتے ہیں اور اسے کوئی قرار نہیں ہوتا.مَا لَهَا مِنْ قرارٍ (ابراهیم : ۲۷) اور بداعتقاد اور بداعمال انسانوں کے لئے قرب الہی کی راہیں اور آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ابدی جنتوں کے وہ مستحق نہیں ٹھہرتے اسی لئے اسلام نے فروتنی ، تواضع اور عبودیت پر بہت زور دیا ہے اور غرور ، خود پسندی اور تکبر سے بڑی سختی سے روکا ہے اور جیسا کہ میں نے اپنے ایک پہلے خطبہ میں بھی احباب کو اس طرف توجہ دلائی تھی.غرور اور استکبار کے نتیجہ میں جو گمراہیاں ، ضلالتیں ، اندھیرے اور ظلم پیدا ہوتے ہیں.ان کا قرآن کریم میں تفصیل سے ذکر آتا ہے.میں اس وقت ان میں بعض کی طرف احباب جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی تمام راہیں تکبر کے چوراہے سے پھٹتی ہیں اور اس شجرہ خبیثہ کی جڑیں استکبار کے فوق الارض میں معلق ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يَسْتَكْبِرُونَ - وَ يَقُولُونَ أَبِنَّا لَتَارِكُوا الهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونٍ - (الصفت : ۳۷،۳۶) - یعنی جب کبھی ان سے یہ کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں صرف وہی پرستش کے لائق ہے انسان کو صرف اسی کے سامنے عاجزی اور انکسار کے ساتھ جھکنا چاہیے.وہی تمام فیوض کا منبع ہے صرف اسی سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے وہی تمام زندگی اور حیات اور زندگی کے تمام لوازمات کا سر چشمہ ہے کسی قسم کی کوئی زندگی اور حیات اس کے سوا کسی اور جگہ سے حاصل نہیں کی جاسکتی يَسْتَكْبِرُون تو آگے سے وہ اپنے کو صاحب عظمت اور صاحب جبروت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں.ہم میں بڑی عظمت پائی جاتی ہے، ہم بڑے لوگ ہیں ، ہم صاحب جبروت ہیں، ہمیں خدائے واحد کی ضرورت نہیں کیونکہ جو الہ ہم نے بنائے ہیں وہ

Page 267

خطبات ناصر جلد اول ۲۵۱ خطبہ جمعہ ۱۳ رمئی ۱۹۶۶ء ہمارے ہیں اور ہمارے بنائے ہوئے انھوں کے مقابلہ میں جس اللہ کو پیش کیا جاتا ہے چونکہ وہ الهَتِنا میں شامل نہیں وہ ہمارا بنا یا ہوا رب نہیں ہے اس لئے ہم اس کی تو حید کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور پھر ہم اسے قبول کریں بھی تو ایک شاعر اور مجنون کے کہنے پر جو جھوٹی بات کو خوبصورت پیرایہ اور احسن رنگ میں پیش کر رہا ہے اور اسے کوئی سحر ہو گیا ہے کوئی جن چمٹا ہوا ہے یہ بڑا حقیر انسان ہے جو باتیں کر رہا ہے گو وہ بظاہر دل کو موہ لینے والی ہیں لیکن ایسے حقیر انسان کے منہ سے ایسی باتیں نہیں نکل سکتیں اس لئے معلوم ہوا کہ کوئی جن اس کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور وہ اسے اس قسم کی شاعرانہ باتیں سکھا رہا ہے.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے شرک کی حقیقی اور اصلی وجہ کی نشاندہی کی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ توحید کو اس لئے ٹھکراتے ہیں کہ وہ لتارِكُوا الهتنا کے لئے تیار نہیں ہوئے.وہ کہتے ہیں کہ اپنے علم پر ہم اس لئے بھروسہ رکھتے ہیں کہ یہ علم ہمارا ہے ہم دنیوی جاہ و جلال پر اس لئے اتنا بھروسہ رکھتے ہیں ( جتنا کہ ہمیں خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہیے ) کہ یہ جاہ وجلال اور یہ عظمتیں ہماری ہیں اور ہماری طرف منسوب ہونے والی ہیں یہ مادی اسباب اور مال و دولت جس کے بل بوتے پر ہم دنیا میں اپنی خدائی قائم کرنا چاہتے ہیں.یہ کسی غیر کے نہیں بلکہ ہمارے ہیں.ہم الھینا یعنی اپنے خداؤں کو چھوڑ کر خدائے واحد کی پرستش کرنے کے لئے تیار نہیں.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ اباء اور استکبار کے نتیجہ میں شرک جلی بھی پیدا ہوتا ہے اور شرک خفی بھی پیدا ہوتا ہے.بعض لوگ تو کھلم کھلا خدائے واحد کو خدائے واحد قرار نہیں دیتے اور نہ اسے تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ اس کے ساتھ سورج یا چاند یا بعض درختوں ( ہندولوگ بڑ کے درخت کی پوجا کرتے ہیں ) یا بعض جانداروں (جیسے سانپ) کی پرستش کرتے ہیں یا اپنی دنیوی عزت، وقار اور جاہ وجلال یا اس علم کو جو انہوں نے اپنی قوتوں کے نتیجہ میں حاصل کیا ہوتا ہے سب کچھ سمجھتے ہیں.حالانکہ یہ سب کچھ حقیقتا اللہ تعالیٰ کی عطا کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے لیکن وہ اس چیز کو سمجھتے نہیں.وہ اپنے علم کی وجہ سے خدائے واحد ویگانہ سے منہ پھیرتے ہیں جیسے مثلاً کمیونسٹ ہیں.کمیونسٹ ممالک نے علوم اور ایجادات میں بہت ترقی کی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ

Page 268

خطبات ناصر جلد اول ۲۵۲ خطبہ جمعہ ۱۳ رمئی ۱۹۶۶ء کے شکر گزار بندے بنتے ، انہوں نے اپنے ہی خالق و مالک کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ وہ اس کرہ ارض سے خدا تعالیٰ کے نام کو مٹا دیں گے.وہ اس کی طاقت تو نہیں رکھتے لیکن تکبر کی وجہ سے اس دعویٰ کا اعلان ضرور کرتے ہیں یا مثلاً عیسائی اقوام کو الہی منشا کے مطابق اور اسی کے علم سے دنیا میں ایک برتری حاصل ہوئی اور علم کے میدان میں بھی اور دنیا کی ایجادات کے میدان میں بھی انہوں نے بہت ترقی کی.اس ترقی کے بعد بجائے اس کے کہ وہ خدائے واحد و یگانہ کی طرف جھکتے اور حمد کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے.انہوں نے اس کے مقابلہ پر اپنا تمام زور، اپنی تمام طاقت اور اپنے تمام اموال ، یسوع مسیح کی خدائی کو ثابت کرنے میں لگا دیئے.غرض اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تکبر اس قسم کا گھناؤنا گناہ ہے ایسی بدی ہے کہ شرک کے راستے اسی کے چوراہے سے پھٹتے ہیں اور انسان نے جب بھی اللہ تعالیٰ کے مقابل کسی اور کو شریک قرار دیا تو تکبر ہی اس کی وجہ بنی تھی اور انہوں نے ان چیزوں کو جو ان کی طرف منسوب ہوتی تھیں.اس پاک وجود کے مقابلہ میں جو ہر مخلوق کی طرف منسوب ہوتا ہے اور ہر مخلوق اس کی طرف منسوب ہونے والی ہے زیادہ عظمت دے دی.پس تکبر ایسا گناہ کبیرہ اور ایسی بدی ہے جس کے مقابلہ میں کسی اور گناہ اور بدی کو بڑا قرار نہیں دیا جا سکتا اور شرک کی بدی تکبر سے ہی پھوٹتی ہے.دوسری چیز جو تکبر کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے وہ الہی اور آسمانی تعلیم سے محرومی ہے اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے:.افعلمَا جَاءَكُمْ رَسُولُ بِمَا لَا تَهُوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ (البقرة: ۸۸) یعنی جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول اس تعلیم کو لے کر آیا جسے تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تو تم نے تکبر کا مظاہرہ کیا یعنی اپنی بد عادات، گندی روایات، بد رسوم اور جھوٹے اعتقادات کو اپنے تکبر کی وجہ سے آسمانی تعلیم سے بہتر سمجھا اور آسمانی تعلیم کو اپنے تکبر کی وجہ سے تم نے ٹھکرا دیا.اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ جن لوگوں میں تکبر پایا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو صاحب عظمت، صاحب رفعت اور صاحب طاقت و دولت سمجھتے ہیں اور دوسروں کو

Page 269

خطبات ناصر جلد اول ۲۵۳ خطبہ جمعہ ۱۳ رمئی ۱۹۶۶ء اپنے جیسا نہیں سمجھتے ، پھر اس تکبر کے نتیجہ میں ہر وہ رسم ہر وہ عادت ہر وہ خیال اور ہر وہ اعتقادجو وہ بچپن سے سنتے آئے ہیں قبول کر لیتے ہیں اور جب ان گندی چیزوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرماتے ہوئے اور صحیح عقائد ان کے سامنے رکھنے کے لئے اپنے رسول کو بھجواتا ہے اور وہ اس کی لائی ہوئی آسمانی ہدایت کو سنتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہوں اور کہیں کہ ہمارے رب نے ہم پر رحم کیا اور ہمارے لئے ہمارے کسی عمل کے بغیر اور ہمارے کسی استحقاق کے بغیر آسمان سے ہدایت کو نازل کیا تا کہ ہم اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کر سکیں اور خدا تعالیٰ کے قرب کو پاسکیں انہوں نے وَاتَّبَعَ هَواهُ (الاعراف: ۱۷۷) کے ماتحت اپنی ہی پسند، اپنی ہی خواہش اور اپنی ہی عادتوں کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت ، اس کی تعلیم اور آسمانی نور کے مقابلہ میں افضل ، اعلیٰ اور ارفع سمجھا اور اس طرح وہ الہی ہدایت اور آسمانی نور کے قبول کرنے سے محروم ہو گئے.سو یہ بھی ایک نہایت ہی بھیا نک ، بڑا اور مہلک نتیجہ ہے جو تکبر کی وجہ سے نکلتا ہے.اس کے علاوہ یہ آیت اس طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو کافر ہوئے جو منکر ہوئے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے رسول کو نہیں مانا یہ لوگ تو خدا تعالیٰ کی ہدایت اور نور سے محروم تھے ہی لیکن جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ماننے والے ہیں وہ بھی بعض دفعہ اپنے تکبر کی وجہ سے الہی ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں.کیونکہ ان کا نفس مثلاً پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص ان کے پاس آئے اور ان کو یہ بتائے کہ تمہارے اندر فلاں کمزوری پائی جاتی ہے تم اسے دور کر و.وہ کہتے ہیں ہماری بے عزتی ہو گئی یا مثلاً کوئی شخص کسی بڑے مالدار کو یہ کہے کہ دیکھو تم غریبوں پر رحم کیا کرو تو وہ سمجھتا ہے کہ اس شخص نے میری بے عزتی کی ہے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو اسلامی حکم سے بالا سمجھنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو ان فیوض سے محروم کر لیتا ہے جن فیوض کو وہ اسلامی تعلیم کے ذریعہ حاصل کرسکتا ہے.تیسری چیز جس کا ذکر قرآن کریم نے اس ضمن میں کیا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے جو نشانات اور آیات اتارتا ہے ایک متکبر انسان ان کو قبول کرنے کی بجائے ، ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اور ان کے نتیجہ میں اپنے رب کا عرفان حاصل کرنے کی بجائے ، ان کی تکذیب شروع

Page 270

خطبات ناصر جلد اول ۲۵۴ خطبہ جمعہ ۱۳ رمئی ۱۹۶۶ء کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَالَّذِينَ كَذَبُوا بِايْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ - (الاعراف:۳۷) یعنی وہ لوگ جو ہماری آیات کا انکار کرتے ہوئے اور تکبر کرتے ہوئے ان سے اعراض کرتے ہیں وہ دوزخی ہیں.وہ دوزخ میں ایک لمبے عرصے تک پڑے رہیں گے.یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی توجہ اس طرف پھیری ہے کہ ہم اپنی رحمت بے پایاں کے نتیجہ میں تمہاری اصلاح کی خاطر اور تمہارے لئے اپنے قرب اور رضا کی راہیں کھولنے کے لئے آسمانی آیات، نشانات اور معجزات اُتارتے ہیں اور اتارتے رہیں گے.لیکن تم بھی عجیب ہو کہ جب ہم تم پر اپنے قرب کی راہ کھولنا چاہتے ہیں اور آسمان سے نشانات کو اُتارتے ہیں تو تم اپنے غرور، خود پسندی، اباء اور تکبر کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہیں کرتے اور ان راہوں کو اپنے پر مسدود کر لیتے ہو.غرض یہاں اللہ تعالیٰ نے استکبار کا ایک نہایت ہی بد نتیجہ یہ بتایا ہے کہ متکبر انسان اللہ تعالیٰ کے نشانات سے وہ فائدہ نہیں اُٹھاتا یا وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسمان سے ان نشانات کو نازل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ تکبر کی وجہ سے میری آیات کو جھٹلاتے ہیں وہ میرے غضب کی آگ میں پڑنے والے ہیں اور انہیں ایسا درد ناک عذاب پہنچے گا کہ وہ سمجھیں گے کہ یہ عذاب تو ختم ہونے والا نہیں ابد الآباد تک کا ہے.پھر اسی سورۃ ( سورۃ اعراف) میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.سَاصْرِفُ عَنْ ايْتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ إِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا ۚ وَ إِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۚ وَ إِنْ يَدَوا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غُفِلِينَ.(الاعراف: ۱۴۷) یعنی میں جلد ہی ان لوگوں کو جنہوں نے بغیر کسی حق کے دنیا میں تکبر کیا ہے اپنے نشانوں کی شناخت سے محروم کر کے اور اپنے نشانوں سے جو فائدہ انہیں پہنچ سکتا ہے اس فائدہ سے محروم کر کے انہیں اپنے سے دور کر دوں گا اور اگر وہ ہر ممکن نشان بھی دیکھ لیں تو وہ

Page 271

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۵۵ خطبہ جمعہ ۱۳ رمئی ۱۹۶۶ء ان آیات پر ایمان نہیں لائیں گے.اگر وہ سیدھا راستہ دیکھ بھی لیں تو اسے کبھی اپنا ئیں گے نہیں اور اگر وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو اسے وہ اپنا لیں گے یہ اس لئے ہے کہ انہوں 66 نے ہماری آیات کی (بوجہ تکبر کے ) تکذیب کی اور وہ ان سے غفلت برت رہے ہیں.“ اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ تکبر کے نتیجہ میں جولوگ میری آیات کو جھٹلاتے ہیں، میں دین میں بھی اور دنیا میں بھی کامیابی کی راہیں ان پر مسدود کر دیتا ہوں.تکبر ہمیشہ بغیر حق کے ہوتا ہے سوائے بعض شاذ اور استثنائی مظاہروں کے جو گوتکبر نہیں ہوتے لیکن تکبر سے ملتے جلتے ہیں.جیسا کہ جب مسلمان پہلی بار حج کے لئے مکہ گئے تو اس وقت باوجود جسمانی کمزوری کے وہ طواف کے دوران بڑے اکڑا کٹڑ کر چلتے تھے تا مکہ والے یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان مدینہ جا کر کمزور ہو گئے ہیں.ان کی صحتیں خراب ہوگئی ہیں اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل سے جو صحت اور جسمانی مضبوطی کی صورت میں ان پر تھا محروم ہو گئے ہیں اگر صحابہ کے اس مظاہرہ کو تکبر کا نام دیا جائے تو اسے بغیر حق نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کا ایسا کرنا محض خدا تعالیٰ کے لئے تھا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تکبر جو عام طور پر اپنے نفس کی بڑائی کے لئے ہوتا ہے میری کبریائی کے اظہار کے لئے نہیں ہوتا وہ حق کے بغیر ہی ہوتا ہے اور جو لوگ تکبر کی وجہ سے، اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے، اپنے آپ کو کچھ جاننے کی وجہ سے، اپنے آپ کو بڑی عظمت والا ، بڑے جبروت والا ، بڑی طاقت والا ، بڑے مال والا ، بڑی وجاہت والا اور بڑے علم والا سمجھنے کی وجہ سے میری آیات کو جھٹلا دیتے ہیں اور ان کی طرف توجہ نہیں کرتے ختم اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ (البقرة: (۸) ان کے اندر ان بدعملیوں کی وجہ سے ایک ایسی تبدیلی پیدا ہو جائے گی کہ وہ حق کے قبول کرنے سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیئے جائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب بھی رشد و ہدایت اور کامیابی کا کوئی راستہ ان کے سامنے آئے گا وہ اس راستہ پر نہیں چلیں گے یعنی میری آیات کے جھٹلانے کی وجہ سے جو تکبر کے نتیجہ میں ہو گا اللہ تعالیٰ دین میں بھی اور دنیا میں بھی کامیابی کی راہیں ان پر مسدود کر دے گا.متکبر انسان کچھ عرصہ کے لئے تو شاید اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھے اور بڑا کامیاب سمجھے لیکن آخر کا ر اسی دنیا میں انہیں اللہ تعالیٰ

Page 272

خطبات ناصر جلد اول ۲۵۶ خطبہ جمعہ ۱۳ رمئی ۱۹۶۶ء نا کام اور نامراد کرتا ہے وہ کامیابی کا منہ کبھی نہیں دیکھتے اور عاقبت ہمیشہ متقی لوگوں کے لئے ہی ہوتی ہے.آخری کامیابی صرف مومنوں کو ہی نصیب ہوتی ہے آخری فتح صرف ان لوگوں کو ہی ملتی ہے جو نہایت عاجزی اور انکسار کے ساتھ اپنے رب کی چوکھٹ پر پڑے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان متکبر ان کو کامیابی کی راہیں کبھی نہیں ملیں گی اور وہ راستے جوان کے لئے مصیبت بن جائیں گے ان کو وہ خوشی سے قبول کر لیں گے اور نہیں جانیں گے کہ ان کا انجام کیا ہے اور جب وہ اس راستہ پر چل کر اپنے زعم میں خوشی خوشی منزل پر پہنچیں گے تو اس منزل کو نارِ جہنم پائیں گے اور یہ اس لئے ہو گا کہ انہوں نے تکبر کیا ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے غفلت برتی.یہ ایک نہایت ہی بھیانک سزا ہے جو ان لوگوں کے لئے تجویز کی گئی ہے جو تکبر سے کام لیتے ہیں اور جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کے نشانات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.البی سلسلہ میں نشانات اور آیات کا ایک دریا بہہ رہا ہوتا ہے اور جماعت مومنین کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ان آیات اور نشانات کو دیکھے، ان کو سمجھے اور جس غرض کے لئے وہ نشانات ظاہر کئے گئے ہیں اس کو وہ پورا کرے.اسی طرح جو فائدہ ممکن طور پر وہ اس سے اٹھا سکتی ہو اس سے اٹھائے اور یہ صرف کافروں کے لئے ہی نہیں ، مومنوں کے لئے بھی فرض ہے کہ وہ تکبر کی بار یک سے باریک راہوں سے اجتناب کرتے ہوئے آسمانی نشانات اور آیات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کا فیضان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اسلام میں جاری ہوا وہ فیضان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اب پھر سے ہم جیسے کمزور اور ناتوان اور عاجز بندوں کو ملنا شروع ہو گیا ہے اور اللہ تعالیٰ لاکھوں نشانات جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد بھی دکھلا چکا ہے.اور جب بھی کرائسز (Crisis) یعنی خطرناک حالات پیدا ہو جاتے ہیں آسمان سے نشانات بارش کی طرح نازل ہونے لگتے ہیں.۱۹۵۳ء میں ہم نے آسمان سے بارش کی طرح نشانات کا نزول دیکھا.پھر جب فرقان بٹالین محاذ

Page 273

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۵۷ خطبہ جمعہ ۱۳ رمئی ۱۹۶۶ء پر گئی تو اس وقت اس بٹالین کے پانچ چھ سو نو جوانوں نے بارش کی طرح آسمان سے اللہ تعالیٰ کے نشانات اور آیات کو نازل ہوتے دیکھا.پھر جہاں اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے بزرگ افراد کو انفرادی طور پر اپنے نشانات سے نوازتا ہے وہاں وہ جماعت کو بحیثیت جماعت بھی اپنے نشانات، آیات اور معجزات سے نوازتا رہتا ہے اور جماعت کے افراد کا فرض ہے کہ وہ جب خدا تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھیں تو ان کے دل میں رائی کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی تکبر پیدا نہ ہو.وہ نہایت عاجزی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ان احسانوں کا شکر یہ ادا کرنے والے ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی شکر گزاری کے نتیجہ میں جماعت کو پہلے سے زیادہ نشانات اور آیات دکھاتا چلا جائے.اس وقت میں ان تین باتوں کی طرف جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہیں احباب کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ اگر شرک کی باریک راہوں سے بچنا ہو تو کسی قسم کا بھی تکبر ہمارے دلوں میں پیدا نہیں ہونا چاہیے.دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم اور ہدایت کا ہم نے حق ادا کرنا ہو تو پھر بھی ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہمارے دل اور نفس میں کسی قسم کا تکبر پیدا نہ ہو.تیسرے اگر ان آیات سے جو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے آسمان سے نازل فرما رہا ہو.ہم نے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہو اور استفاضہ کرنا ہو تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم تکبر سے اس طرح ڈرنے والے اور بیچنے والے ہوں جس طرح کہ ہم دیکھتی ہوئی آگ میں جان بوجھ کر اپنا ہاتھ ڈالنے سے بچتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوہ یکم جون ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 274

Page 275

خطبات ناصر جلد اول ۲۵۹ خطبہ جمعہ ۲۰ مئی ۱۹۶۶ء اتنی دعائیں کریں کہ بس مجسم دعا بن جائیں اور غلبہ اسلام کی خاطر اپنی قربانیوں کو نقطۂ عروج تک پہنچا دیں خطبه جمعه فرموده ۲۰ رمئی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد پیدرآباد تشہد ، تعوذ اور تلاوت فاتحہ شریف کے بعد فرمایا:.آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک سو سال بعد پوری ہوئی.یا یوں کہنا بجا ہوگا کہ ایک سوسال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے اس رنگ میں پورا کیا کہ اس کی پہلی چمکار دکھا دی کیونکہ اس پیشگوئی کے ساتھ تعلق رکھنے والی اور بھی بہت سی چمکاریں ہیں جو بعد میں ظاہر ہوں گی اور بڑی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوں گی اور دنیا پر ثابت کر دیں گی کہ اللہ تعالیٰ واقعی سب قدرتوں کا مالک اور اپنے وعدوں کا سچا ہے جو کہتا ہے پورا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جس سنہ میں بیعت لی اس سے بھی قریباً ہمیں اکیس سال پہلے ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نئے نئے مولوی بن کر بٹالہ میں آئے.وہاں کے لوگوں نے ان کی بعض باتوں کو قبول نہ کیا بلکہ برا مانا اور ایک صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے خلاف اسلام باتیں بٹالہ میں پھیلا نا شروع کی ہیں اس لئے آپ بٹالہ تشریف لے چلیں اور ان کا

Page 276

خطبات ناصر جلد اول ۲۶۰ خطبہ جمعہ ۲۰ مئی ۱۹۶۶ء مقابلہ کریں.چنانچہ ان کے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بٹالہ تشریف لے گئے اور مولوی محمد حسین صاحب کی مسجد میں جا کر ملے.جہاں کچھ اور آدمی بھی موجود تھے.اور آپس میں کچھ باتیں ہوئیں.اس پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک تقریر کی اس تقریر کوسن کر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ ظاہر ہو گیا کہ جو باتیں مولوی محمد حسین صاحب نے اپنی تقریر میں کیں ہیں وہ خلاف اسلام نہیں تو آپ نے خدا اور رسول کی خاطر بحث کا ارادہ ترک فرما دیا.حالانکہ آپ مولوی صاحب کے مد مقابل کی حیثیت سے وہاں گئے تھے اور جن لوگوں نے آپ کو بلایا تھا انہیں آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک مولوی محمد حسین صاحب کی بیان کردہ باتوں میں سے کوئی ایسی بات نہیں جو خلاف اسلام ہو اس لئے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.آپ نے خدا تعالیٰ کی خاطر کامل تذلل اور انکسار کو اختیار کیا اور تذلل اور انکسار کے ایسے مقام پر آپ کھڑے ہوئے کہ امت محمدیہ میں سے کسی شخص کو انکسار اور تذلل کے اس مقام پر کھڑا ہونے کی توفیق نہ پہلے ملی اور نہ ہی کسی کو یہ توفیق آئندہ ملے گی.تب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس وعدہ کے مطابق جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا.مقام تذلل سے اٹھا کر اس رفعت سماوی تک پہنچا دیا کہ جس تک امت محمدیہ میں سے کوئی شخص نہ اس سے پہلے کبھی پہنچا اور نہ آئندہ کوئی پہنچے گا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.پھر بعد اس کے عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے.جو گھوڑوں پر سوار تھے.“ ( یہ ۱۸۶۸ یا ۱۸۶۹ کا واقعہ ہے.اور بیعت ۱۸۸۹ میں ہوئی) اس کے آگے حضور فرماتے ہیں کہ چونکہ خالصاً خدا اور اس کے رسول کے لئے انکسار و تذلل اختیار کیا گیا.اس لئے اس محسن مطلق نے نہ چاہا کہ اس کو بغیر اجر کے چھوڑے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو یہ الہام کہ میں تجھے برکت دوں گا حتی کہ بادشاہ

Page 277

خطبات ناصر جلد اول ۲۶۱ خطبہ جمعہ ۲۰ مئی ۱۹۶۶ء تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.مختلف مواقع پر مختلف الفاظ میں ہوا ہے.ان میں سے صرف دو تین حوالے یہاں پیش کرتا ہوں.(۱) ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو آپ نے ایک اشتہار دیا.اس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے:.تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید.تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں پر تیری محبت ڈالے گا.یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.1766 (۲) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں برمنار بلند تر محکم افتاد.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا اور تیری برکتیں پھیلاؤں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.(۳) پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے لجبتہ النور میں تحریر فرمایا ہے :.۱۵ " إِنِّي رَبَّيْتُ فِي مُبَشِّرَةٍ أُرِيْتُهَا جَمَاعَةً مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ الْمُخْلَصِينَ وَالْمُلُوكَ الْعَادِلِينَ الصَّالِحِينَ بَعْضُهُم مِّنْ هَذَا الْمُلْكِ وَ بَعْضُهُم مِّنَ الْعَرَبِ وَبَعْضُهُم W مِنْ فَارِسَ وَبَعْضُهُمْ مِنْ بِلَادِ الشَّامِ وَ بَعْضُهُم مِّنْ أَرْضِ الرُّوْمِ وَبَعْضُهُمْ مِنْ بِلادٍ لَا أَعْرِفُهَا مفہوم یہ ہے کہ میں نے ایک خواب میں دیکھا کہ ایک مخلصین کی جماعت ہے اور کچھ صالح اور عادل بادشاہ ہیں جو میرے سامنے پیش کئے گئے ہیں.ان میں سے بعض بادشاہ اس ملک سے تعلق رکھنے والے ہیں.بعض بادشاہ عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے ہیں.بعض بادشاہ ایران سے تعلق رکھنے والے ہیں.بعض بادشاہ شام کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ہیں اور بعض ان میں

Page 278

خطبات ناصر جلد اول ۲۶۲ خطبه جمعه ۲۰ مئی ۱۹۶۶ء سے ارضِ روم سے تعلق رکھنے والے ہیں.وَ بَعْضُهُم مِّنْ بِلَادٍ لَّا أَعْرِفُهَا اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو ان ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جن کو میں نہیں جانتا.“ پھر آپ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بتایا گیا کہ یہ لوگ تجھ پر ایمان لائیں گے اور تیرے لئے دعائیں کریں گے اور میں تجھے بہت سی برکات عطا فرماؤں گا.حتی کہ وہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اس عبارت میں جو یہ فقرہ ہے مِنْ بِلَادٍ لَّا أَعْرِفُهَا اس کے دو معنی کئے جا سکتے ہیں.ایک تو یہ کہ آپ کے زمانہ میں وہ ممالک تو موجود تھے.لیکن اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت آپ کو ان کا علم نہیں دیا گیا اور ایک معنی اس کے یہ بھی کئے جاسکتے ہیں کہ میرے سامنے ایسے بادشاہ لائے گئے جو ان ممالک کے سر براہ مملکت ہیں جو اس وقت موجود ہی نہ تھے.تو مطلب یہ ہوگا کہ میں ان ممالک کو نہیں جانتا کیونکہ جس وقت یہ نظارہ مجھے دکھایا گیا اس وقت نہ وہ ملک موجود تھے اور نہ ہی ان کے سر براہ.(۴) اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب تجلیات الہیہ (۱۹۰۶ء) میں ، اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل تحریر فرمایا کہ ” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا.اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے.مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.

Page 279

خطبات ناصر جلد اول ۲۶۳ خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۶۶ء سواے سنے والو! ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الہامات اور عبارات سے مندرجہ ذیل باتوں کا پتہ چلتا ہے.اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو وعدہ عطا فرمایا ہے اس کی دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ آپ نے انتہائی عاجزی اور فروتنی اور انکسار اور تذلل کے مقام کو اختیار کیا تھا تا کہ آپ کا رب آپ سے خوش ہو.پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ محسن مطلق ہے اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ بھی فرمایا ہوا تھا کہ اُمت مسلمہ کے افراد جو میری طرف منسوب ہونے والے ہیں اگر تواضع کو اختیار کریں گے تو تواضع کی برکت سے ان کے لئے رفعت کے سامان مہیا کئے جائیں گے.یہاں تک کہ بعض ان میں سے ساتویں آسمان تک پہنچ جائیں گے اور رفعت کا آخری مقام انہیں حاصل ہوگا.دوم اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ یہ وعدہ اس لئے دیا جا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی ساری کوشش اور تمام جہد و جہد اس غرض سے ہے کہ خدا تعالی کی تو حید دنیا میں قائم ہو.گویا یوں فرمایا کہ چونکہ تو اپنی ہر کوشش ، اپنے مال کا ہر پیسہ اور توجہ کا ہر لحظہ اور زندگی کا ہر لمحہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے گزارے گا اور اس مقصد کے حصول کے لئے دنیا کی طرف سے ہزار ہا لعنتیں اور گالیاں لینے کے لئے تیار ہو گا اس لئے تجھ سے یہ وعدہ کیا جاتا ہے کہ تجھے ہم اتنی برکت دیں گے کہ وہ کپڑا جو تیرے بدن سے چھو جائے گا.اس میں بھی برکت رکھی جائے گی اور اس کی حفاظت کی جائے گی.اس وقت تک کہ بادشاہوں کے دلوں میں خواہش پیدا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی برکت کے حصول کے لئے تیرے وہ کپڑے منگوا ئیں اور ان سے برکت حاصل کریں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جیسا کہ میں نے ابھی پڑھ کر سنایا ہے.۱۸۸۶ء کو اشتہار میں تحریر فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے الہام کیا ہے کہ تو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تو مجھ سے

Page 280

خطبات ناصر جلد اول ہے اور میں تجھ سے ہوں“ اور اس کے بعد فرمایا کہ وو ۲۶۴ خطبه جمعه ۲۰ مئی ۱۹۶۶ء وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا تعالیٰ بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا“ تو ایک جگہ کمال تذلل کا ذکر ہے.اور دوسری جگہ اس تذلل کے نتائج پیدا کرنے کا ذکر ہے یعنی یہ کہ حضور علیہ السلام کے ذریعہ توحید قائم ہوگی.یہ ذکر یہاں اس لئے کیا گیا ہے تا کہ خدا تعالیٰ ہمیں یہ بتائے کہ مخالف لوگ یہ اعتراض کریں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا میں ایک دوکانداری جاری کی ہوئی ہے اور یہ دنیا میں حاکم بننا چاہتے ہیں اور یہ سارا سلسلہ انہوں نے اپنے ذاتی وقار اور عزت کے قیام کے لئے قائم کیا ہے.سو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اس اعتراض کا جواب دے دیا ہے.فرماتا ہے کہ یہاں اپنی عزت کا کوئی سوال ہی نہیں.اس وجود نے اپنی ساری عزتیں میرے لئے قربان کر دی ہیں اور نہ اس کے ذاتی وقار کا کوئی سوال ہے.کیونکہ اس کی زندگی کا ہر لحظہ توحید کے قیام کے لئے ہے اسی لئے میں نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے برکت پر برکت دی جائے گی.پس ان الہامات میں بتایا گیا ہے کہ یہ برکتیں ہم کیوں دے رہے ہیں !! اور پھر یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ آئندہ مخالفین کی طرف سے جو اعتراض کیا جائے گا وہ غلط ہوگا.کیونکہ یہ سب کچھ تو حید کے قیام کے لئے کیا گیا ہے.اس میں حضور کی کوئی اپنی ذاتی غرض پوشیدہ نہیں ہے.پھر ان الہامات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ وقت قریب ہے.جب یہ پیشگوئی پوری ہو جائے گی.فرمایا:.وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا

Page 281

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۶۵ خطبہ جمعہ ۲۰ رمئی ۱۹۶۶ء یہ قریب ۱۸۶۸ سے بھی شمار کیا جا سکتا ہے.اور ۱۸۸۹ سے بھی جو بیعت کا سنہ ہے.اس کے ساتھ ہی ایک اور بات بھی ان الہامات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ ان الہامات وو کے پورا ہونے کا وقت قریب نہیں بلکہ دور ہے کیونکہ تجلیات الہیہ میں حضور فرماتے ہیں:.سو تم ان باتوں کو یا درکھوان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کیونکہ بہ خدا کا کلام ہے“ تو صندوقوں میں پیشگوئی کو محفوظ رکھنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ قریب زمانے میں یہ پیشگوئی پوری نہ ہوگی بلکہ لوگ اعتراض کریں گے کہ بڑا لمبا زمانہ گزر گیا ہے اور یہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی.اس لئے تم اس کی تاویل کرنا شروع نہ کرنا بلکہ ان پیشگوئیوں کو محفوظ رکھنا کہ یہ خدا کا کلام ہے اور وہ اپنے وعدوں کا سچا ہے.جیسے کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ برکت تلاش کرنے والے بعض ایسے بادشاہ بھی ہوں گے جو مِن بِلادٍ لَّا أَعْرِفُهَا.ایسے ممالک سے ہوں گے جن کو میں ( مسیح موعود ) نہیں جانتا.تو اگران الہامات کے بعد دنیا میں ایسے نئے ممالک نمودار ہو جائیں جو مملکت کی حیثیت اختیار کرلیں اور ان کا سر براہ بھی احمدی ہو پھر اس کے دل میں یہ خواہش بھی پیدا ہو کہ وہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت حاصل کرے اور پھر وہ خلیفہ وقت سے درخواست کرے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں کا ایک ٹکڑا بھیجا جائے تا کہ میں اس سے برکت حاصل کرسکوں.تو اس کا مطلب یقینا یہ ہوگا کہ یہ پیشگوئی کئی لحاظ سے ایک خاص شان کے ساتھ پوری ہوئی.چنانچہ گیمبیا کے Acting گورنر جرنل الحاج نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑے کا ایک ٹکڑا بھجواؤں تا کہ وہ اس سے برکت حاصل کر سکیں خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پورا کرنے کے لئے اول یہ ملک بنایا اور پھر اسے آزادی دلائی.پھر وہاں ایک احمدی کو اس کا سر براہ بنایا پھر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا کپڑا منگوائے.اور اس سے برکت ڈھونڈے.پہلے الہام کا پہلا حصہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام تذلل اور انکسار کی

Page 282

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۶۶ خطبه جمعه ۲۰ مئی ۱۹۶۶ء طرف توجہ دلا رہا تھا.دوسرے الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جو سلسلہ جاری کیا گیا ہے اس کی ایک ہی غرض ہے اور خود آپ کی زندگی کا بھی ایک ہی مقصد ہے وہ یہ کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہو جائے.اس پیشگوئی کے متعلق جو اعتراضات مخالفین کی طرف سے کئے گے ہیں ان میں سے ایک میں دوستوں کو سنانا چاہتا ہوں.وہ اعتراض اخبار آزاد لا ہور مورخہ ۲۴ نومبر ۱۹۵۰ صفحه ۲ کالم ۱ میں شائع ہوا ہے.مضمون نگار ایک شخص ابو القاسم رفیق صاحب لاہوری ہیں اور اس مضمون کا عنوان ہے:.ربع مسکون پر میرزائی حکومت کا خواب پریشانی“ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ دعویٰ کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے یہ ان کے نزدیک ایک خواب پریشان سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.پھر وہ لکھتے ہیں کہ اس بات کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ حکیم نور دین صاحب کے دل میں قیام سلطنت کا جذ بہ از خود پیدا ہوا تھا یا مرزا صاحب نے اس کے لئے تحریک کی تھی.مرزا صاحب کوٹو ڈی اور سرکاری نبی بنانے والے حضرات شاید مؤخر الذکر خیال کا مضحکہ اڑائیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گومرزا صاحب نے تقدس کی دکان ابتدا محض شکم پروری کے لئے کھولی تھی لیکن ترقی کر کے سلطنت پر فائز ہونے کا لائحہ عمل بھی شروع سے ان کے پیش نظر تھا اور انہیں آغا ز کار سے اس مطلب کے الہام بھی ہوا کرتے تھے.چنانچہ بقول میاں بشیر احمد ایم.اے ابن مرزا غلام احمد قادیانی مرزا صاحب کا پہلا الہام جو ۱۸۶۸ یا ۱۸۶۹ میں ہوا یہ تھا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ (سیرۃ المہدی جلد ۲ ص ۱۵۰) خود مرز ا صاحب نے نہ صرف اس الہام کا بڑے طمطراق سے براہین میں تذکرہ فرمایا بلکہ عالم کشف میں وہ بادشاہ بھی مرزا صاحب کی ” مقدس بارگاہ میں پیش کر دیئے گئے جوان

Page 283

خطبات ناصر جلد اول ۲۶۷ خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۶۶ء کے بیان بموجب ان کے پیرو ہونے والے تھے.چنانچہ براہین میں اپنا ایک الہام لکھتے ہیں.خدا تجھے برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے پھر بعد اس کے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے ( براہین ص ۵۲۱ ) میاں بشیر احمد نے اس الہام پر اتنا اضافہ کیا ہے یہ بادشاہ تعداد میں سات تھے جس میں یہ اشارہ تھا کہ ہفت اقلیم کے فرمانروا تیرے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو کر تجھ سے برکتیں پائیں گے.(سیرۃ المہدی جلد ۲ ص ۹۲ ) گو بادشاہوں کی متابعت کا کشف یا خواب کبھی پورا نہ ہولیکن اس سے کم از کم قادیانی صاحب کی ذہنی کیفیت، ان کے خیالات کی بلند پروازی اور ان کی اولوالعزمی کا ضرور پتہ چلتا ہے“ پس اس مضمون کی ابتداء ہے.”خواب پریشانی اور نتیجہ ہے کہ ” بادشاہوں کی متابعت کا خواب کبھی پورا نہ ہوا اور دعوئی ان کا یہ ہے کہ یہ سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ( نعوذ باللہ ) شکم پروری کے لئے قائم کیا تا یہ سلسلہ ترقی کرتا ہوا سلطنت پر فائز ہو جائے اور دیگر حکومتیں اس میں شامل ہو جائیں اور حضور اس سے ذاتی فائدہ اٹھا ئیں.اللہ تعالیٰ نے مخالفین کے اعتراضوں کا ایک جواب تو یہ دیا تھا کہ یہ کاروبار اور یہ سلسلہ محض توحید باری تعالیٰ کے قیام کے لئے جاری کیا گیا ہے.چنانچہ اس پیشگوئی کی پہلی چمکا ر جو ظاہر ہوئی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے وصال کے پچاس ساٹھ سال بعد ظاہر ہوئی.اس صورت میں حضور کی شکم پروری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پھر میری اور ا آپ کی بھی شکم پروری نہیں ہوتی کیونکہ یہ ملک مرکز سے ہزار ہا میل دور ہے بلکہ اس کے برعکس میں خود اور آپ بھی اپنے مالوں کا ایک حصہ اس جدو جہد میں اس لئے لگا رہے ہیں کہ افریقہ کے ان ممالک کو بت پرستی اور لامذھبی سے آزاد کرا کر انہیں تو حید کے جھنڈے تلے جمع کریں.

Page 284

خطبات ناصر جلد اول ۲۶۸ خطبہ جمعہ ۲۰ مئی ۱۹۶۶ء جس رنگ میں یہ اعتراض کیا گیا اور جس رنگ میں اس الہام کا مضحکہ اڑایا گیا.وہ ہمارے لئے قابل تعجب بات نہیں.اللہ تعالیٰ پر قربان جائیں وہ خود فرماتا ہے يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا اللّ كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (لیس: ۳۱) کہ جب کبھی میرا کوئی بندہ آ کر یہ کہتا ہے کہ مجھے خدا نے بھیجا ہے اور خدا تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا میرا اولین مقصد ہے تو اس کی قوم اس کو پہچانتی نہیں بلکہ استہزاء اور تحقیر سے کام لیتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ زبردست نشانوں کے ساتھ اس کی سچائی کو ثابت کرتا ہے.کتنا ز بر دست نشان ہے کہ ۶۹ - ۱۸۶۸ مین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قادیان میں بھی جاننے والے بہت کم تھے.لیکن حضور کے دل میں فنا فی اللہ کا ایک بیچ تھا جسے علام الغیوب خدا دیکھ رہا تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس شخص نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے مال کا ہر پیسہ میری راہ میں خرچ کرنا ہے.وہ اپنے لئے کچھ نہیں چاہتا کیونکہ اس نے اپنے اوپر کی فنا وارد کر لی ہے اور میری توحید کے لئے پورے طور پر مر چکا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تجھے اٹھاؤں گا اور تجھے برکت دوں گا اور اتنی برکت دوں گا کہ سننے والے اسے تسلیم نہ کریں گے اور نہ ہی اس پر ایمان لائیں گے.ایک شخص جس کو دنیوی وجاہت بھی حاصل نہیں بلکہ اس کے گھر والے بھی اس کی پرواہ نہیں کرتے اور وہ ایسے حالات میں زندگی گزار رہا ہے کہ گویا وہ ان کے بچے کچے ٹکڑوں پر گزارہ کر رہا ہے.اسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تجھے ایسے مقام پر پہنچاؤں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.کیا یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی نہیں ؟؟؟ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس الہام کی پہلی چمکا ر اس وقت ظاہر ہوئی ہے.پہلی چمکا اس لئے کہ اس کے کئی اور جلوے بھی ظاہر ہوں گے.ان شاء اللہ تعالیٰ.اور یہ پہلی چمکار افریقہ کے ایک ایسے ملک میں ظاہر ہوئی کہ جس کا الہام کے وقت کوئی وجود ہی نہ تھا.پہلے خدا تعالیٰ نے وہ ملک بنایا پھر اسے آزادی بخشی پھر ایک احمدی کو اس کا سر براہ بنایا.اور پھر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی تبرک اسے مل جائے.اگر چہ وہ

Page 285

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۶۹ خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۶۶ء Acting گورنر جرنل ہے لیکن بہر حال سر براہ مملکت ہے اور جس طرح برسات کی ابتداء پر بڑی دور سے آپ کو چمک نظر آتی ہے.پھر چمک بڑھنا شروع ہوتی ہے پھر بادل چھا جاتے ہیں اور آخر خدا کی رحمت (بارش) نازل ہوتی ہے.اسی طرح یہ چمکار بھی پہلی چہکار ہے یا یوں کہیے کہ خدائے قادر و توانا کی انگلی مستقبل کے افق کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم خدا کی حمد بھی کریں اور اس کی راہ میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہیں.یہ جو فرمایا کہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے یہ قریب“ کا لفظ نسبتی معنی میں استعمال کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوی مثیل مسیح ہونے کا تھا.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ جو نبی جمالی رنگ میں آتے ہیں ان کو انقلابی رنگ کی ترقیات اور فتوحات نہیں ملتیں بلکہ نسلاً بعد نسل ان کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں تب ان کی جماعتیں ترقیات کے کمال تک پہنچتی ہیں اور یہ بھی آپ نے فرمایا ہے کہ مسیح ناصری علیہ السلام کی قربانیوں کا زمانہ تین سو سال تک کا تھا.اس کے بعد انہیں فتوحات ملنا شروع ہوئیں لیکن یہ بھی فرمایا ہے کہ چونکہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوں اس لئے جو ترقیات اور فتوحات مجھے نصیب ہوں گی گو حضرت عیسی علیہ السلام کے طریق کے مطابق ہوں گی لیکن اس زمانہ سے کم وقت“ میں حاصل ہو جائیں گی.چنانچہ یہی ایک مثال ہے جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس ” کم وقت سے کیا مراد ہے.جب ہم حضرت مسیح علیہ السلام اور عیسائیت کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لانے والا یہ پہلا سر براہ مملکت ۷ ۳۳ء میں عیسائی ہوا.کیونکہ اس سال میں سے قسطنطین نے با قاعدہ بپتسمہ لے لیا گووہ اس سے قبل ہی عیسائیت کی طرف مائل ہو چکا تھا (چنانچہ اس نے ۳۲۵ء میں کلیسیا کی کونسل میں شرکت بھی کی تھی.) پس اگر ہم وہ سن بھی لے لیں جس میں اس نے عیسائیت کو بظاہر قبول کر لیا تھا (یعنی ۶۳۲۵) تب بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تین سو سال بعد ایک سر براہ مملکت حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لایا تھا.اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ، بیعت کے صرف

Page 286

خطبات ناصر جلد اول ۲۷۰ خطبہ جمعہ ۲۰ مئی ۱۹۶۶ء ۷۶ سال بعد ایک سربراہ مملکت کو ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا اور یہ ۷۶ سال کا زمانہ یقیناً تین سوسال کے زمانہ کی نسبت بہت کم ہے.ایک چوتھائی (۱/۴) وقت بنتا ہے.پس یوں تو یہ زمانہ اتنا قریب نہ تھا جیسے کہ پیشگوئی میں واضح کر دیا گیا تھا.لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کی فتوحات کے مقابلہ میں اس فتح کا زمانہ یقیناً بہت قریب کا زمانہ ہے کیونکہ ۷۶ اور ۳۰۰ کی نسبت ۱/۴ کی ہے اور اگر اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ حضور نے جوفر ما یا تھا کہ ان پیش خبریوں کو محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے ضرور پورا ہو کر رہے گا.یہ ۱۹۰۶ء میں فرمایا تھا اس میں بھی یہی اشارہ تھا کہ ” قریب ہے" سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ نسبتی قریب کا زمانہ ہے کیونکہ یہ الفاظ ہی آگاہ کر رہے تھے کہ یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ یہ پیشگوئی فوری طور پر پوری ہو جائے گی اور فوری طور پر ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے بلکہ اس میں واضح کر دیا گیا تھا کہ یہ پیشگوئی اپنے وقت پر جا کر پوری ہو گی حتی کہ استہزاء کرنے والوں کو استہزاء اور ہنسی اور ٹھٹھا کرنے کا موقع مل جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ سب رو کیں دور فرما دے گا اور ابتلا جاتے رہیں گے اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا.مجھے جب یہ خط ملا تو تین دن تک میری یہ کیفیت تھی کہ میں اپنے آپ کو اپنے میں محسوس ہی نہیں کر رہا تھا بلکہ دن رات اللہ تعالیٰ کی مجسم حمد بنا ہوا تھا.خصوصاً اس خیال سے کہ قربانیاں کرنے والے مجھ سے پہلے گزر گئے اور پہلی چمکار میرے وقت میں آکر ظاہر ہوئی اور گو یہ خط مجھے ۱/۱۵ پریل کے قریب مل چکا تھا لیکن شدت جذبات کی وجہ سے مجھ میں ہمت نہ تھی کہ میں اس کے متعلق جماعت کے سامنے فورا ہی کچھ بیان کرسکوں.اس چمکار کو دیکھنے کے لئے مختلف نسلوں نے قربانیاں دیں.پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک نسل نے قربانی دی.پھر حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک نسل تھی جس نے قربانی دی.پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کی ابتداء میں ایک نسل تھی جس نے قربانی دی.پھر ۱۹۳۴ء میں ایک اور نسل نے تحریک جدید کی قربانی دی.اس کے بعد ایک اور نسل آئی جس نے دفتر دوم کی شکل میں قربانی دی.ان تین چار نسلوں کی قربانیوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے خوشی کا یہ دن دکھایا کہ یہ الہام جس نے

Page 287

خطبات ناصر جلد اول ۲۷۱ خطبه جمعه ۲۰ مئی ۱۹۶۶ء بار بار پورا ہونا ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرت کی یہ تجلی جس نے بار بارا اپنی چہکار دکھانی ہے اس کی پہلی چمکا رہم نے ۱۹۶۶ ء میں دیکھی اور یہ اس طرح کے گیمبیا کے سر براہ الحاج نے مجھے ۱/۴ پریل کو خط لکھا کہ یہاں کے مقامی مبلغ نے مجھے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک مملکت کا سر براہ بنایا ہے اور احمدیت ( حقیقی اسلام ) کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.یہ موقع ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں میں سے کوئی کپڑا منگوا لو اور اس سے برکت حاصل کرو.لیکن یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے اس لئے پہلے تمہیں دعا اور مجاہدہ سے کام لینا چاہیے کہ تمہیں جو تبرک ملے اس کی قدر کر سکو.تو انہوں نے مجھے لکھا کہ میں نے چالیس دن تک نوافل ادا کئے ہیں اور اپنی روحانی ترقی کے لئے دعا مانگی ہے اور اپنے رب سے درخواست کی ہے کہ اے اللہ ! میں تیرا عاجز بندہ ہوں.تو نے ہی مجھے توفیق دی کہ میں اسلام اور احمدیت کو قبول کروں اور پھر تو نے مجھے دنیوی وجاہت بھی دی ہے اور اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے.سو تو مجھے توفیق دے کہ میں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت حاصل کروں.انہوں نے یہ حال تحریر کر کے پھر مجھ سے درخواست کی کہ آپ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑے کا ایک ٹکڑا بھجوا دیں تا کہ میں اس سے برکت حاصل کرسکوں.پس یہ پہلی چہکار ہے جو تاریخ احمدیت کے افق پر ہمیں نظر آئی اور اسے دیکھ کر ہر شخص یہ یقین کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں متوجہ کر رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدہ کیا گیا تھا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اس وعدہ کے پورا ہونے کے دن قریب آہے ہیں.اس لئے جتنی بھی توفیق ملے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور جتنی قربانیاں بھی ہم دے سکیں وہ دینی چاہئیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہماری بستیوں اور غفلتوں کے نتیجہ میں پیچھے نہ ڈال دیئے جائیں.عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں سے اور تذلل اور انکسار کے طریق سے جدو جہد جاری رکھیں تا کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ جلد از جلد وہ دن لائے کہ جس میں تمام وہ بادشاہ جن کے مقدر

Page 288

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۷۲ خطبه جمعه ۲۰ مئی ۱۹۶۶ء میں یہ ہے کہ وہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہوں وہ احمدیت کو قبول کریں اور ان کے دل حقیقی طور پر اس بات کے متمنی ہوں کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں میں سے تبرک حاصل کر کے اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے برکت کا باعث بنیں.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم تمام وہ قربانیاں پیش کر سکیں جو خدا تعالیٰ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فدائیوں سے مانگ رہا ہے.تا اسلام جلد ترادیان باطلہ پر غالب ہو جائے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 289

خطبات ناصر جلد اول ۲۷۳ خطبہ جمعہ ۲۷ مئی ۱۹۶۶ء کام وہی اچھا ہوتا ہے جس کا انجام اچھا ہو خطبه جمعه فرموده ۲۷ رمئی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.کام وہی اچھا ہوتا ہے جس کا انجام اچھا ہو طب اور ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والا ایک طالب علم اگر اپنی تعلیم کے زمانہ میں پہلے تین سال اول آتار ہے اور آخری سال فیل ہو جائے تو پہلے تین سالوں میں اول آنے کا اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.ایک شخص جو اپنے بیمار رشتہ دار کو ملنے اپنے گاؤں سے ہیں میل دور جانا چاہتا ہے اگر ۱۸ میل کے بعد اسے کوئی ایسی مجبوری یا معذوری پیش آ جائے کہ وہ آگے نہ جا سکے تو اس کا سارا سفر ہی بے معنی اور بے نتیجہ ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ الصافات میں انسانوں کے دو گروہوں کا ذکر فرماتا ہے.ایک وہ جو اپنی بداعمالیوں اور اپنے تکبر اور اباء اور خدا تعالیٰ کے انبیاء کے خلاف جد و جہد کرنے کے نتیجہ میں جہنم میں ڈالے گئے اور دوسرا وہ گروہ جنہوں نے فروتنی اور عاجزی سے اپنی زندگی کو گزارا اور خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستہ پر چل کر اعمالِ صالحہ بجالائے.وہاں ایک لمبا مضمون بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس گروہ کے متعلق جو جنت میں ہے.فرماتا ہے.إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (الصفت : (۶) کہ یہ مومنوں کی حالت بے شک بڑی کامیابی ہے اور ساتھ ہی فرما یا لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَمِلُونَ (الصفت : ۶۲ ) کہ کام کرنے والوں کو اس قسم کے کام کرنے چاہئیں کہ جن کا آخری انجام ان کے لئے اچھا اور مفید نکلے.

Page 290

خطبات ناصر جلد اول ۲۷۴ خطبہ جمعہ ۲۷ رمئی ۱۹۶۶ء یہ زندگی مختلف کاموں پر مشتمل ہوتی ہے.بعض کام وقتی اور عارضی نتیجہ پیدا کرنے والے ہوتے ہیں ان میں بھی وہی کام اچھا ہے جس کا انجام اچھا ہو.بعض اعمال کا نتیجہ ابدی زندگی سے تعلق رکھتا ہے.ان اعمال کا نتیجہ اس دنیا میں نہیں بلکہ اس دنیا سے گزر جانے کے بعد نکلتا ہے.یہ انسان کے اعمال کا آخری نتیجہ ہے.اگر اس آخری نتیجہ میں ہم کامیاب ہوں اگر اس لحاظ سے ہمارا انجام بخیر ہو تو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضاء کی ٹھنڈی چھاؤں ملتی ہے جس چھاؤں میں بیٹھ کر ہم خدا کی رحمتوں سے ابدی سرور حاصل کرتے ہیں اور یہی وہ کامیابی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَمِلُونَ اللہ تعالیٰ ہمیں اس قسم کے کاموں کی ہمیشہ تو فیق عطا فرما تا رہے تا کہ ہم جب اس دنیا کو چھوڑ کر اس کے حضور حاضر ہوں تو اس کے منہ سے یہ پیارے کلمات ہمارے کان بھی سنیں.إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ - لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَمِلُونَ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے ہی ایسا ہو سکتا ہے اور اسی پر توکل رکھتے ہوئے اس کے فضلوں اور احسانوں کی ہم امید رکھتے ہیں.(روز نامه الفضل ربوه ۲۲ جون ۱۹۶۶ ء صفحه ۴)

Page 291

خطبات ناصر جلد اول ۲۷۵ خطبہ جمعہ ۳/ جون ۱۹۶۶ء سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض اور ہماری زندگی کی غایت یہ ہے کہ تمام اقوامِ عالم حلقہ بگوش اسلام ہوں خطبه جمعه فرموده ۳/ جون ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.آج میں پھر اپنے بھائیوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ دعاؤں پر بہت زور دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ، سلسلہ عالیہ احمد یہ کے قیام کی غرض اور ہماری زندگی اور وجود کی غایت ہی یہ ہے کہ تمام اقوام عالم حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں اور اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب آ کر سب دنیا میں پھیل جائے مگر جنہیں ظاہری اور مادی سامان اور اسباب اور ذرائع میسر نہیں جن سے کام لے کر ایسا ممکن ہو.حق تو یہ ہے کہ مادی وسائل اور مادی اسباب ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی میسر نہ تھے فتح و کامرانی کے جو نظارے دنیا نے آپ کے ہاتھ پر دیکھے وہ ظاہری سامانوں کے مرہون نہ تھے.پھر وہ معجزانہ انقلاب عظیم کیوں اور کیسے پیدا ہوا کہ پہلے عرب اور پھر معروف دنیا کی سب وحشی اقوام، شیطان کی غلام، یکدم اپنی وحشت اور درندگی کو چھوڑ کر شیطان سے منہ موڑ کر عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اپنے ربّ ، اپنے پیدا کرنے والے کے آستانہ پر آگریں اس کیوں کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے

Page 292

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۳/ جون ۱۹۶۶ء دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا ؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں جو اس اُمی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلّمْ وَبَارِک عَلَيْهِ وَالِهِ بِعَدَدِ هَيْهِ وَغَيْهِ وَحُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَاَنْزِلْ عَلَيْهِ أَنْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ اس میں شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی ہرشان ایک بے مثال مقام رکھتی ہے.اور کوئی دوسرا اس تک نہیں پہنچ سکتا آپ کے ایک فرزند جلیل مہدی معہود علیہ السلام آپ کے قریب تک پہنچے مگر آپ کی شان آپ ہی کی شان ہے.لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ باوجود اس کے کہ ہر رنگ اور ہر لحاظ سے آپ بے مثال ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک اسوۂ حسنہ بنا کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے.پس ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ اس میدان میں بھی جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.اس قسم کا سوز و گداز اور باخِعٌ نَفْسَكَ (الكهف : - ) والی کیفیت پیدا کریں کہ جو ہمیں آپ کے ساتھ ملتا جلتا بنادے آپ کا رنگ ہم پر چڑھا ہو.اس لئے میں اپنے بھائیوں سے کہوں گا کہ آپ (بشمولیت خاکسار ) کامل یقین ، کامل امید ، کامل توکل ، کامل محبت ، کامل و فاداری، کامل تذلل اور فروتنی کے ساتھ جھکیں اور نہایت درجہ چوکس اور بیدار ہو کر غفلت ، دوری اور غیریت کے ہر پردہ کو چیرتے ہوئے فنا کے میدانوں میں آگے ہی آگے نکلتے چلے جائیں یہاں تک کہ بارگاہِ الوہیت پر پہنچ کر اپنے دل اور دماغ، اپنے جسم اور اپنی روح اس کے حضور پیش کر کے اس سے ان الفاظ میں ملتجی ہوں کہ ”اے ہمارے قادر و توانا خدا! ہماری عاجزانہ دعائیں سن ! اور تمام اقوام عالم کے کان ، آنکھ اور دل کھول دے کہ وہ تجھے اور تیری تمام صفات کا ملہ کو شناخت کرنے لگیں اور توحید حقیقی پر قائم ہو جائیں.معبودانِ باطلہ کی پرستش دنیا سے اُٹھ جائے اور زمین پر

Page 293

خطبات ناصر جلد اول ۲۷۷ خطبہ جمعہ ۳/ جون ۱۹۶۶ء اخلاص سے صرف تیری پرستش کی جائے اور زمین تیرے راستباز اور موحد بندوں سے اسی طرح بھر جائے جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے اور تیرے رسول کریم محمد مصطفی کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے آمین.“ اے ہمارے خدا! ہمیں ہماری زندگیوں میں اقوام عالم میں یہ تبدیلی دکھا، اے سب طاقت اور قوت کے مالک! ہماری عاجزانہ دعاؤں کوسن ! اور اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کر دے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۸ / جون ۱۹۶۶ ء صفحه ۲)

Page 294

Page 295

خطبات ناصر جلد اول ۲۷۹ خطبہ جمعہ ۱۰ جون ۱۹۶۶ء حقیقی نیکی وہی ہے جو محض خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی خوشنودی کی خاطر کی جائے خطبه جمعه فرمود ه ۱۰ جون ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور پرنور نے آیت لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَ الكتب وَالنَّبِينَ وَ أَتَى الْمَالَ عَلَى حُبّهِ ذَوِى الْقُرْبَى وَالْيَتْلَى وَالْمَسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَ أَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكَوةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِم إذَا عَهَدُوا وَ الصّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِيْنَ الْبَأْسِ أُولَيكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أولبِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ.(البقرة : ۱۷۸) تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا:.سورۃ بقرہ کی اس آیت میں بہت سے وسیع مضامین بیان کئے گئے ہیں.مجھے چونکہ کل گرمی لگ جانے کی وجہ سے ضعف کی شکایت ہے اس لئے میں بڑے اختصار کے ساتھ محض چند باتیں بیان کرنے پر اکتفا کروں گا اور ان کی طرف اپنے دوستوں اور بھائیوں کو تو جہ دلاؤں گا.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آل بد کا لفظ دو دفعہ مختلف معانی میں استعمال کیا ہے.البز کے ایک معنی ہیں اَلطَّاعَةُ ، الصَّلَاحُ الصّدقُ -

Page 296

خطبات ناصر جلد اول ۲۸۰ خطبہ جمعہ ۱۰ جون ۱۹۶۶ء اس لحاظ سے الپر کے معنی یہاں یہ ہوں گے ہر قسم کے فساد سے پاک ہونا اور ہر قسم کے حقوق اور واجبات پوری اطاعت کے ساتھ ادا کریں.پس فرما یا حقیقی نیکی یہ نہیں کہ تم نمازوں کی ادائیگی کے وقت مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرو.یا ان بشارات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں قرآن مجید میں دی ہیں کہ مشرق و مغرب کے تمام ممالک پر تمہارا قبضہ ہوگا اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہو جائیں گے اینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ (البقرۃ : ۱۱۶) کہ جس طرف تم رُخ کرو گے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اور اس کے ملائکہ کی فوج کو اپنی امداد کے لئے پاؤ گے.تو فرمایا ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے تم مشارق اور مغارب کی طرف نکلو یا عبادت کی غرض سے تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرو تو محض یہ بات وہ نیکی نہیں جس کا تمہارا رب تم سے تقاضا کرتا ہے.فرما یا ولكن البر ( اور یہاں البر کا لفظ دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے.) مَنْ آمَنَ باللہ کہ ہر قسم کے مفاد سے پاک اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پوری اطاعت اور فرمانبرداری سے ادا کرنے والا وہ ہے جو ایمان باللہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو.یعنی علی وجہ البصیرۃ خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہو اور اس کی ذات اور صفات میں کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرا تا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ صحیفہ فطرت صحیحہ انسانیہ پر اس کی صفات کا انعکاس ہے اور تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللَّهِ ہی سب نیکی ہے اور اسلمتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة: ۱۳۲) کا نعرہ لگاتے ہوئے فنافی اللہ کے سمندر میں اپنی ذات کو غرق کر دینا ہی سچی اور صحیح اور حقیقی اطاعت ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں نیکی کی اصل صفت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ ہے مَنْ آمَنَ ہاللہ یعنی نیک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے اور کہ وہ واحد یگانہ ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور وہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اس زندگی کے ساتھ تمہاری حیات ختم نہیں ہوگی بلکہ حشر کے روز پھر تمہیں اکٹھا کیا جائے گا ضرور پورا ہوگا اور اس روز ہم اپنے اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور وہ بھی یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو اس کا رخانہ علت و معلول میں آخری مخلوق علت قرار دیا ہے اور اپنے اور مخلوق کے درمیان بطور واسطہ کے قائم کیا ہے اور وہ یہ بھی ایمان لاتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے اور انسان کی

Page 297

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۸۱ خطبہ جمعہ ۱۰ جون ۱۹۶۶ء انفرادی نشوونما اور ارتقاء اور انسان کی اجتماعی نشو و نما اور ارتقاء ایک خاص الہی منصوبہ کے ماتحت ہی ہے.اس لئے اس نے اپنے علم کامل کے مطابق ابتدائے پیدائش سے ہی الکتاب قرآن کریم کو ربانی ہدایت مقررفرمایا ہے بے شک حضرت آدم کے زمانہ سے ہی انبیاء پیدا ہوتے رہے جو انسان کو درجہ بدرجہ پست مقامات سے اُٹھا کر بلند مقامات کی طرف لے جاتے رہے لیکن ان کو جو کچھ بطور شریعت کے ملا وہ کامل اور مکمل شریعت نہ تھی بلکہ نَصِيبًا مِّنَ الْكِتب (النساء:۵۲) اسی کامل کتاب کا ایک حصہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں عطا ہوا تھا.اصل کتاب،اصل شریعت اور ہدایت جو اللہ تعالیٰ کے علم کامل میں ہے وہ قرآن کریم میں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کامل نیک جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو صحیح طور پر بجالاتا ہے اور اپنے رب کی کامل فرمانبرداری اور اطاعت کرتا ہے.وہ ہے جو الکتاب پر ایمان لاتا ہے.یعنی قرآن کریم کو اس کا حق دیتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے جیسے کہ واقعی قدر کرنی چاہیے کیونکہ یہی وہ کامل کتاب ہے جس کے بعض حصوں نے آدم علیہ السلام کی تربیت کی ، بعض حصوں نے نوح علیہ السلام کی تربیت کی ، ان کے بعد موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی تربیت کی اور آخر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی اصلی اور حقیقی اور کامل اور مکمل شکل میں نازل ہوئی.پس کامل تربیت پانے والے صرف حامل قرآن ہی ہیں.وَالنَّبِيِّينَ وہ شخص تمام انبیاء اللہ پر بھی ایمان لاتا ہے.اِيْمَان بِالنُّبُوَّة کے لئے بھی کامل فرمانبرداری کی ضرورت ہے حتی کہ اس کے اپنے نفس کا کچھ بھی باقی نہ رہے اور انسان اپنا سب کچھ اپنے رب کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے اپنی عزت بھی ، اپنی روایات بھی ، اپنے تو ہمات اور خوش اعتقادیاں بھی.انبیاء پر ایمان لانے کا حکم یہودیوں کو بھی تھا.اس لئے ان پر فرض تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائیں آپ کی بعثت کے متعلق بہت سی پیش گوئیاں خود ان کی کتابوں میں پائی

Page 298

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۸۲ خطبہ جمعہ ۱۰ جون ۱۹۶۶ء جاتی تھیں لیکن ان کا یہ خیال کہ آنے والا بنی اسرائیل (یہود) میں سے ہوگا ان کے ایمان میں روک بن گیا اور صرف اسی غلط خیال کے نتیجہ میں یہود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے محروم ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُمتی اور خیلی اور غیر مستقل نبوت کا دعویٰ کیا اور چونکہ بہت سے مسلمانوں میں اسکمت والی کیفیت اور ذہنیت نہیں پائی جاتی تھی بلکہ وہ خدا کی ماننے کی بجائے اپنی منوانا چاہتے تھے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے سے محروم ہو گئے.آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَأَتَى الْمَالَ عَلَى حُبّهِ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتَنى وَالْمَسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَفِي الرقاب (البقرة : ۱۷۸) کہ وہ اپنا مال دیتا ہے.رشتہ داروں کو ، بیتا می مسکینوں اور مسافروں کو اور مانگنے والوں کو اور غلاموں کے آزاد کرانے کے لئے بھی.لیکن یہ نیکی نہیں جب تک ” عَلی حُبه نہ ہو.66 یہ خرچ مومن بھی کرتا ہے اور کا فر بھی کرتا ہے کیونکہ بہت سے دنیا دار آپ کو نظر آئیں گے.جو اپنے رشتہ داروں پر اس لئے خرچ کر رہے ہوں گے کہ اس طرح خاندانی اتحاد اور اتفاق قائم رہے گا اور ان کی عزت اور وجاہت قائم رہے گی وہ اپنے خاندان میں بھی بڑے سمجھے جائیں گے اور دنیا بھی ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھے گی.اسی طرح بہت سے دنیا دار مختلف اغراض کے پیش نظریتا می کی پرورش کے لئے خرچ کرتے ہیں اسی طرح مساکین کی حمایت کا دم بھرنے والے دنیا دار محض دنیا کی خاطر اپنے مال دیتے ہیں.بہت سی پارٹیاں آپ کو انگلستان اور امریکہ میں نظر آئیں گی کہ جنہیں کمزوروں کے ساتھ کوئی محبت اور پیار نہیں ہوتا.لیکن اس خیال سے کہ اگر ہم نے ان کو اپنے سینے سے لگا یا تو ہمیں سیاسی برتری حاصل ہو جائے گی.وہ ان کے لئے دوڑ دھوپ کرتی رہتی ہیں.اسی طرح مسافروں پر بھی اپنا پیسہ خرچ کر کے احسان کیا جاتا ہے تا کہ جب وہ اپنے وطن

Page 299

خطبات ناصر جلد اول ۲۸۳ خطبہ جمعہ ۱۰ جون ۱۹۶۶ء جائیں تو وہ کہیں کہ زید بڑا اچھا، بڑا خرچ کرنے والا اور بڑا پیار کرنے والا ہے اور مسافروں کا بڑا خیال رکھنے والا ہے ہم اس کے ہاں گئے تو اس نے ہماری بڑی خاطر کی یہی حال اس خرچ کا ہے جو غلاموں کے لئے کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نیکی نہیں ، نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے پیسے یا مال کو ( مال کے معنی مملوکہ چیز کے ہیں انسان اپنے نفس کا بھی مالک ہے، اپنی عزت کا بھی مالک ہے.اپنے پیسے کا بھی مالک ہے.وغیرہ ) خرچ کرے تو عَلیٰ حُبّہ صرف خدا تعالیٰ کی محبت میں خرچ کرے.خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی خوشنودی کے سوا کوئی غرض اسے مد نظر نہ ہو.نہ تو اسے عزت کی خواہش ہو.نہ وجاہت کی خواہش ہو نہ دنیوی شہرت کی خواہش اور نہ اس کا ذہن فخر ومباہات کے غبار سے آلود ہو بلکہ جب بھی اور جو کچھ بھی وہ خرچ کرے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے نتیجہ میں اور اس کی خوشنودی کے حصول اور اس کی رضا کے پانے کے لئے خرچ کرے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ نیک شمار نہیں ہوگا اور کسی ثواب کا مستحق نہیں ٹھہرے گا.اسی طرح فرمایا کہ عبادت بجالا نا خواہ وہ نماز ہو.یا مالی فرائض ( مثلاً زکوۃ ) ہوں یہ بھی حقیقی نیکی نہیں بلکہ نماز کو ان شرائط کے ساتھ بجالا نا جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہیں حقیقی نیکی ہے.ان شرائط میں سے بنیادی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے سوائے اس کے اور کوئی غرض نہ ہو کہ اس کی خوشنودی حاصل ہو.تب یہ عبادت صحیح عبادت شمار ہوگی.اگر کسی نے اپنے نفس کو پالا اور اسے موٹا کیا اور قربانی دینے کے لئے تیار نہ ہوا تو اس کے متعلق یقینا نہیں کہا جاسکتا.و آقام الصلوۃ کہ اس نے نماز کو پورے شرائط کے ساتھ ادا کیا.وَابْنَ السَّبِيلِ (مسافر) کے متعلق میں ایک بات بیان کر کے اپنے خطبہ کو بند کر دوں گا.(ورنہ اس آیۃ کے مضامین بہت وسیع ہیں) اللہ تعالیٰ نے مسافر کے ساتھ ہمدردی ، اخوت کا سلوک کرنے اور اسے مالی امداد دینے پر بڑا زور دیا ہے اور مختلف مقامات میں زور دیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم ہر اس شخص سے جو ہمیں اپنے ماحول میں اجنبی نظر آئے واقفیت پیدا کریں دور نہ ہم اس کی خدمت نہیں کر سکیں گے.

Page 300

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۸۴ خطبہ جمعہ ۱۰ جون ۱۹۶۶ء ابھی چند روز ہوئے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ میں باہر کی ایک جماعت میں گیا مسجد میں پہنچ کر میں نے اپنا بیگ رکھا اور نماز ادا کی وہ دوست کہتے ہیں کہ مجھے ان لوگوں کی مہمان نوازی کی ضرورت نہ تھی کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بہت کچھ دیا ہوا ہے، میری جیب میں پیسے تھے اور مجھے خیال بھی نہ تھا کہ میں کسی کے پاس جا کر کھانا کھاؤں.لیکن مجھے یہ احساس ہوا کہ خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مسافر کا خیال رکھو مگر ہمارے ان دوستوں نے میری طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی.ہوسکتا ہے کہ میری طرح کوئی اور مسافر یہاں آئے اور وہ ضرورت مند ہو.اگر اس سے بھی ایسا ہی بے توجہی کا سلوک ہو تو اس کی ضرورت پوری نہ ہوگی اسی احساس کے ماتحت میں یہ رپورٹ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تا کہ آپ دوستوں کو اس طرف متوجہ کریں.تو اللہ تعالیٰ نے ابنُ السَّبِیلِ (مسافر) کے متعلق جو فرائض ہم پر عائد کئے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں.ہر احمدی کا فرض ہے کہ جب کوئی اجنبی اسے نظر آئے تو وہ اس سے تعلق قائم کرے اور اس کا تعارف حاصل کرے اور اسے پوچھے کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں اور کہاں تشریف لے جائیں گے.اگر آپ اس سے ملاپ پیدا کریں گے تو آپ اس کی ضرورت کو بھی پورا کر سکیں گے اس طرح اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور آپ کو ثواب ملے گا.اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور آپ کی اور سلسلہ کی قدر پیدا ہوگی کیونکہ مسافر کے حالات کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ تھوڑی سی بے رخی بھی اس کے دل پر بڑا گہرا اثر چھوڑتی ہے.یہی بھلائی کا حال ہے.میں یورپ میں پھرتا رہا ہوں ایک جگہ صرف اتنا ہوا کہ مجھے راستہ کی واقفیت نہ تھی.میں نے کسی سے پوچھا تو اس نے یہ نہیں کہا کہ ادھر جائیں یا ادھر جائیں.بلکہ کہا کہ آئیے میں آپ کو وہاں تک پہنچا آؤں اس طرح اس نے اپنے وقت سے مجھے صرف چند منٹ ہی دیئے اور گواس واقعہ کو گزرے قریباً تیس سال کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن آج تک وہ واقعہ مجھے یاد ہے کیونکہ جب ایک اجنبی ایک شخص سے ہمدردی، اخوت اور محبت کا سلوک دیکھتا تو اس کے دل پر اس کا بڑا اچھا

Page 301

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۸۵ خطبہ جمعہ ۱۰ جون ۱۹۶۶ء اثر پڑتا ہے.پس ہر احمدی اور ہر جماعت کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی اجنبی اسے نظر آئے تو وہ اس سے تعلق قائم کرے اور اگر اسے کوئی ضرورت ہو تو اس کو پورا کرے اگر اسے کوئی ضرورت نہ ہوگی تو بھی اس کے دل پر اس کا اچھا اثر پڑے گا اور وہ کہے گا کہ یہ لوگ مسافروں کا خیال رکھتے ہیں.مسافر شخص فوراً پہچانا جاتا ہے تو جب احمدی دوست کسی ایسے شخص سے ملیں تو چاہیے کہ وہ احمدی اور اسلامی اخلاق کا نمونہ اس کے سامنے پیش کریں اور ابن السبیل کے لئے اپنے وقت اور اپنے مال کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں.اگر وہ ایسا کریں گے تو خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے وارث ہو جائیں گے.دعا ہے کہ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں ہم پر عائد کی ہیں وہی ہمیں توفیق دے کہ ہم انہیں ایسے طریق سے پورا کرنے والے ہوں کہ وہ ہم سے خوش ہو جائے اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہو.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ جون ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 302

Page 303

خطبات ناصر جلد اول ۲۸۷ خطبہ جمعہ ۱۷ جون ۱۹۶۶ء ہر ظلمت جو اُٹھتی ہے اس کا پہلا نشانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں صلی خطبه جمعه فرموده ۱۷ جون ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت لتبلونَ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ قف وَمِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ - تلاوت فرمائی اور اس کا ترجمہ فرمایا کہ (ال عمران : ۱۸۷) تمہیں تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں کے متعلق ضرور آزمایا جائے گا اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان سے بھی جو مشرک ہیں بہت دکھ دینے والا کلام سنو گے.اگر تم صبر کرو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے.تو یہ یقیناً ہمت کے کاموں میں سے ہے.“ پھر فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس آیت کا ہمارے زمانہ سے بہت گہرا تعلق ہے اور دراصل یہ قرآنی پیشگوئی ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں پوری ہوئی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.اہل علم مسلمان اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف میں آخری زمانہ کے

Page 304

خطبات ناصر جلد اول ۲۸۸ خطبہ جمعہ ۱۷ جون ۱۹۶۶ء بارے میں ایک پیشگوئی ہے اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے وصیت کے طور پر ایک حکم ہے جس کو ترک کرنا سچے مسلمان کا کام نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ کتُبُلُونَ فِي أَمْوَالِكُمْ وَانْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۖ وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (ال عمران : ۱۸۷) ترجمہ یہ ہے کہ خدا تمہارے مالوں اور جانوں پر بلا بھیج کر تمہاری آزمائیش کرے گا اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت سی دکھ دینے والی باتیں سنو گے سو اگر تم صبر کرو گے اور اپنے تئیں ہرا یک ناکردنی امر سے بچاؤ گے تو خدا کے نزدیک اولوالعزم لوگوں میں سے ٹھہرو گے.یہ مدنی سورۃ ہے اور یہ اس زمانہ کے لئے مسلمانوں کو وصیت کی گئی ہے کہ جب ایک مذہبی آزادی کا زمانہ ہوگا اور جو کوئی کچھ سخت گوئی کرنا چاہے تو وہ کر سکے گا جیسا کہ یہ زمانہ ہے.تو کچھ شک نہیں کہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے لئے تھی اور اسی زمانہ میں پوری ہوئی.کون ثابت کر سکتا ہے کہ جو اس آیت میں اڈی کثیرا کا لفظ ایک عظیم الشان ایذا رسانی کو چاہتا ہے وہ کبھی کسی صدی میں اس سے پہلے اسلام نے دیکھی ہے؟ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ جو اپنے دین اور اپنے رسول کے لئے ہم سے زیادہ غیرت رکھتا ہے.وہ ہمیں رد لکھنے کی جابجا ترغیب دے کر بد زبانی کے مقابل پر یہ حکم فرماتا ہے کہ ”جب تم اہل کتاب اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں سنو اور ضرور ہے کہ تم آخری زمانہ میں بہت سے دلآزار کلمات سنو گے.پس اگر تم اس وقت صبر کرو گے تو خدا کے نزدیک اولوالعزم سمجھے جاؤ گے دیکھو یہ کیسی نصیحت ہے اور یہ خاص اسی زمانہ کے لئے ہے کیونکہ ایسا موقعہ اور اس درجہ کی تحقیر اور تو ہین اور گالیاں سننے کا نظارہ اس سے پہلے کبھی مسلمانوں کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا.یہی زمانہ ہے جس میں کروڑ ہا تو ہین اور تحقیر کی کتابیں تالیف ہوئیں ، یہی زمانہ ہے جس میں ہزار ہا الزام محض افترا کے طور پر ہمارے پیارے نبی، ہمارے سید و مولیٰ ہمارے بادی و مقتدا جناب حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی افضل الرسل

Page 305

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۸۹ خطبہ جمعہ ۱۷ جون ۱۹۶۶ء خیر الوریٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگائے گئے.سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ قرآن شریف میں یعنی سورہ آل عمران میں یہ حکم ہمیں فرمایا گیا ہے کہ " تم آخری زمانہ میں نا منصف پادریوں اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں سنو گے اور طرح طرح کے دل آزار کلمات سے ستائے جاؤ گے اور ایسے وقت میں خدا تعالیٰ کے نزدیک صبر کرنا بہتر ہوگا.یہی وجہ ہے کہ ہم بار بارصبر کے لئے تاکید کرتے ہیں.پھر حضور فرماتے ہیں :.1966 ’ہاں خدا نے ہم پر فرض کر دیا ہے کہ جھوٹے الزامات کو حکمت اور موعظت حسنہ کے ساتھ دور کریں اور خدا جانتا ہے کہ کبھی ہم نے جواب کے وقت نرمی اور آہنگی کو ہاتھ سے نہیں دیا اور ہمیشہ نرم اور ملائم الفاظ سے کام لیا ہے.بجز اس صورت کے کہ بعض اوقات مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت اور فتنہ انگیز تحریریں پا کر کسی قدر سختی مصلحت آمیز اس غرض سے ہم نے اختیار کی کہ تا قوم اس طرح سے اپنا معاوضہ پا کر وحشیانہ جوش کو دبائے رکھے اور یہ ختی نہ کسی نفسانی جوش سے اور نہ کسی اشتعال سے بلکہ محض آیت وَجَادِلُهُمْ بِالْحِكْمَةِ * ر عمل کر کے ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال میں لائی گئی اور وہ بھی اس وقت کہ مخالفوں کی تو ہین اور تحقیر اور بد زبانی انتہاء تک پہنچ گئی اور ہمارے سید ومولی ، سرور کائنات، فخر موجودات کی نسبت ایسے گندے اور پر شر الفاظ ان لوگوں نے استعمال کئے کہ قریب تھا کہ ان سے نقض امن پیدا ہو.گندہ دہنی اور دل آزار با تیں تاریک دل اور تاریک زبان سے نکلتی ہیں اور ضرور تھا کہ سب سے زیادہ اس قسم کے حملوں کا نشانہ وہ ذات بنے جو ہر لحاظ سے سب سے زیادہ منور تھی.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ساری دنیا یہ زمین اور یہ آسمان اور یہ ستارے سب کچھ اس لئے پیدا کیا گیا کہ مخلوقات میں سے ایک ہستی ، ایک وجود محمد مصطفی سا ظاہر ہونے والا تھا.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے * یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ النحل کی آیت ۱۲۶ کا حوالہ دے رہے ہیں جو یہ ہے.اُدعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ - (ناشر)

Page 306

خطبات ناصر جلد اول ۲۹۰ خطبہ جمعہ ۱۷ جون ۱۹۶۶ء فناء في نُورِ رَبِّهِ " کا مقام حاصل کیا اور اس نور میں گم ہو کر آپ کامل اور مجسم نور بن گئے اور ان عالمین ( زمین اور آسمان ) میں جہاں بھی جونور نظر آتا ہے وہ آپ کے طفیل ہی ہے.یہ صحیح ہے کہ حقیقی نور اللہ کی ذات ہے اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس دنیا میں اس نور محسن نے اپنے نور کی جو تقسیم کی ہے وہ محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل کی ہے.ہر نور جو ہمیں نظر آتا ہے وہ محد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی نظر آتا ہے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نہ ہوتی تو دنیا میں کسی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ نہ ملتا بلکہ دنیا پیدا ہی نہ ہوتی.اس لئے ہر ظلمت جو اٹھتی ہے اس کا پہلا نشانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ لوگ ان ایذا رسانیوں سے حصہ لیتے ہیں.جنہوں نے طفیلی طور پر اور ظلی اور انعکاسی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے حصہ لیا ہوتا ہے ایسے پاک وجود جو اُمت محمدیہ میں اس نور سے طفیلی طور پر حصہ لینے والے ہیں وہ طفیلی طور پر ایڈ ء رسانی سے بھی حصہ لینے والے ہیں.اسی لئے ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جہان میں سب سے زیادہ گالیاں دی گئیں سب سے زیادہ تحقیر کے ساتھ آپ کا نام لیا گیا، سب سے زیادہ گند آپ کے خلاف اچھالا گیا سب سے زیادہ گندی تحریریں اور بد بودار باتیں اس نور مجسم کے خلاف لکھی گئیں ، وہاں اُمت محمدیہ کے دوسرے پاک وجودوں کے متعلق بھی بہت زیادہ گند اچھالا گیا.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی نہج پر حمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور میں گم ہو گئے اور اس میں فنا ہو کر قرب تام حاصل کر لیا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی نے سب سے زیادہ تحقیر آمیز اور گندی باتیں مخالفین سے سنیں تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود ہے.پھر وہ جنہوں نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق طفیلی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور حاصل کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلفاء کو بھی طفیلی رنگ میں آدمی کثیرا سننا پڑتا ہے

Page 307

خطبات ناصر جلد اول ۲۹۱ خطبہ جمعہ ۱۷ جون ۱۹۶۶ء اور آپ کی جماعت کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو گند اچھالا جاتا ہے برداشت کرنا پڑتا ہے پھر ان پاک وجودوں کے متعلق ( جنہوں نے طفیلی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور حاصل کیا ) جو گندہ دھنی کی جاتی ہے وہ بھی جماعت کو سنا پڑتی ہے اور یہ دکھ انہیں سہنا پڑتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کو خاص طور پر تاکیدی حکم دیا ہے اور وصیت کی ہے کہ جب تم اس قسم کی گالیاں سنو اور تحقیر آمیز باتیں تمہارے کانوں میں پڑیں اس وقت تم اس طرف متوجہ ہی نہ ہو بلکہ صبر اور تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اعمالِ صالحہ میں مشغول رہو.اپنے راستہ پر گامزن رہو.ان تیروں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو بلکہ اپنی نگاہ اپنے مقصود کی طرف لگائے رکھو.تمہارا مقصود صرف خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے اس سے نہ ہٹو اور خدا تعالیٰ کے حکم کو یاد رکھو کہ صبر سے کام لو.صبر کے ایک معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے جو احکام اور اوامر شریعت حقہ میں پائے جاتے ہیں اپنے آپ کو ان اوامر پر مضبوطی سے قائم رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو بجالا کر اس کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.صبر کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ جن نواہی سے اس نے روکا ہے ہم اپنے آپ کو ان کے قریب بھی نہ جانے دیں تا اللہ تعالیٰ کا غضب ہم پر نہ بھر کے.پس اگر اس طرح ہم تقوی اختیار کریں گے، اگر ہم خدا کی پناہ میں آجائیں گے، اگر ہم اس کو اپنی ڈھال بنالیں گے تو پھر دشمن کا کوئی وار ہمیں نقصان نہ پہنچا سکے گا.جیسے کہ مال اور جان کی قربانی ہمیں دینی ہے، جذبات کی قربانی بھی ہمیں دینی ہوگی.یہ خدا تعالیٰ کا امتحان ہے جو وہ لیا کرتا ہے اس سے ہم مومن ہو کر بیچ نہیں سکتے ہمیں اموال کی قربانی دینی پڑے گی اور اگر موقع ہوا تو جانوں کی قربانی بھی دینی پڑے گی اور اگر موقع ہوا تو جذبات کی قربانی بھی دینی پڑے گی.پس اس زمانہ میں خدا تعالیٰ جذبات کی قربانی بھی لینا چاہتا ہے اور لے رہا ہے یہ ہمارے حملہ آور مخالف جو کبھی ہمارے اموال پر حملہ کرتے ہیں کبھی ہماری جانوں پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی ہماری عزتوں پر اور کبھی ہمارے پیاروں کے عزتوں پر حملہ کرتے ہیں.اگر ہم خدا تعالی کی پناہ میں نہ ہوں ، اگر وہ ہماری ڈھال نہ بنے تو بے شک ہمیں ہر قسم کا نقصان پہنچاسکتے ہیں.پس اگر ہم

Page 308

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۹۲ خطبہ جمعہ ۱۷ جون ۱۹۶۶ء اپنے آپ کو خدا کی پناہ میں دے دیں، اگر ہم اسے اپنی ڈھال بنالیں تو خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے کون ہے جو خدا تعالیٰ کی ڈھال پر ضرب لگائے اور چکنا چور نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے ایسے مواقع پر ہمیں صبر اور تقویٰ سے کام لینے کی نصیحت فرمائی ہے اور ہمیں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے اور دعا کرتے رہنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہمیں اس کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے تا ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں اور تا خدا تعالیٰ کی یہ جماعت جو احمد کی طرف منسوب ہونے والی ہے اور جس کا دعوی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فدائی ہے اور اپنے مولیٰ اور اپنے رب اور اپنے پیدا کرنے والے کی عاشق زار ہے.اس کے متعلق جب مستقبل کا تاریخ دان تاریخ کے ورق الٹ رہا ہو تو اسے بڑے واضح ، روشن اور نمایاں طور پر ان اوراق میں لکھا نظر آئے کہ کتے بھونکتے رہے اور پرستاران و جانثاران حضرت احدیت کا یہ قافلہ صراط مستقیم پر رواں دواں اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلا گیا.خدائے قادر وتوانا کی رضا کا سایہ ان کے سروں پر تھا اور ملائکہ کی افواج ان کے دائیں بھی تھیں اور بائیں بھی.یہاں تک کہ وہ قافلہ اپنے مطلوب، اپنے مولیٰ کو حاملا اور آخری کامیابی اسے حاصل ہوئی.(روز نامه الفضل ربوہ ۶ / جولائی ۱۹۶۶ ء صفحہ ۲، ۳)

Page 309

خطبات ناصر جلد اول ۲۹۳ خطبہ جمعہ ۲۴ جون ۱۹۶۶ء وہ خدا جس کی رضا میں دائمی خوشحالی ہے قرآن کریم کی اتباع کے بغیر ہمیں ہر گز نہیں مل سکتا خطبه جمعه فرموده ۲۴ جون ۱۹۶۶ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.آج کل ہمیں ضلالت اور گمراہی کا جو دور دورہ نظر آتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی نظر میں قرآن شریف کی عزت اور عظمت باقی نہیں رہی.دینی اور دنیوی فلسفوں سے مرعوب ہو کر لوگ کمالات قرآنی سے غافل ہو چکے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ خدا جس کے ہاتھ میں نجات اور جس کی رضا میں انسان کی دائمی خوشحالی ہے وہ قرآن کی اتباع کے بغیر ہرگز نہیں مل سکتا.پس آج میں پھر دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کا پڑھنا اور اس کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارے لئے از حد ضروری ہے.اس کے متعلق پہلے بھی میں نے جماعت کو متوجہ کیا تھا اور بہت سی جگہوں پر قرآن کریم کے سیکھنے سکھانے کا انتظام انفرادی طور پر بھی اور خاندانی اور جماعتی طور پر بھی کیا گیا ہے اور بہت سی جگہ بڑے خوشکن نتائج بھی نکلے ہیں لیکن ابھی ہم نے اس اہم مقصد کے حصول کی طرف وہ توجہ نہیں دی جو بحیثیت جماعت ہمیں دینی چاہیے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق سورۃ واقعہ میں فرماتا ہے.اِنَّهُ لَقُرْآن كَرِيمٌ - فِى كِتَبِ مَكْنُونٍ - لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ - تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ

Page 310

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۹۴ خطبہ جمعہ ۲۴ جون ۱۹۶۶ء الْعَلَمِينَ - اَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ اَنْتُم مُّدْهِنُونَ - وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ - (الواقعة: ۷۸ تا ۸۳) ان میں سے پہلی چار آیات إِنَّهُ لَقُرْآنَ كَرِيمٌ - فِي كِتَبِ مَكْنُونٍ لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ - تَنْزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَلَمِینَ.م میں سے ہر ایک آیت کا تعلق ان أُمَّهَاتُ الصفات میں سے ایک ایک صفت کے ساتھ ہے جو سورہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں.اِنَّهُ لَقُران کریم کریم کا تعلق مالکیت یوم الدین سے ہے.فی کتب مكنون کا تعلق رحیمیت کی صفت کے ساتھ ہے اور لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کا تعلق رَحْمَانِيَّة کی صفت کے ساتھ ہے اور تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ العلمین کا تعلق جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے تصریح فرما دی ہے ربوبیت عالم سے ہے.انه لقران کریم فرمایا یہ قرآن ہے.قرآن کے معنی ہیں وہ کتاب جس میں سابقہ کتب کا خلاصہ اور اصولی ہدایتیں جمع ہوں نہ صرف سابقہ کتب سماویہ کا خلاصہ بلکہ تمام علوم حقہ صحیحہ کے اصول اور بنیادی باتیں اور ہدایتیں بھی جس میں جمع کر دی گئی ہوں تو قرآن شریف کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں تمام کتب سابقہ سماویہ کی بنیا دی صداقتیں جمع کر دی گئی ہیں نہ صرف یہ بلکہ تمام علوم صحیحہ حقہ کے متعلق جو بنیادی باتیں خدا کا ایک بندہ ہونے کی حیثیت سے جاننا ضروری ہیں ان کو بھی اس کتاب میں جمع کر دیا گیا ہے.کریم کا لفظ جب کسی کتاب کے متعلق بولا جائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ کتاب جو اپنے معانی اور فوائد کے لحاظ سے اس خصوصیت کی حامل ہے کہ وہ فطرتِ صحیحہ انسانیہ کی تسلی کا موجب ہوحتی کہ اس کے بعد فطرت کسی اور چیز کی طرف احتیاج محسوس نہ کرے.میں نے بتایا ہے کہ اس آیت میں (إِنَّهُ لَقُران کریم ) کا تعلق صفت مالکیت یوم الدین سے ہے ویسے مالکیت یوم الدین کی صفت اپنی وسیع اور کامل تجلی کے لئے عالم معاد کو چاہتی ہے اس لئے اس کی تجلی عظمی دنیا میں اپنی کامل شکل میں ہو ہی نہیں سکتی.اس کے لئے یومِ حشر چاہیے جس دن کہ یہ مادی سامان اور مادی پر دے حائل نہ ہوں اور ہر چیز واضح طور پر انسان کے سامنے آسکے.تاہم اس عالم مادی کے دائرہ کے مطابق اس کی تجلی ظاہر ہوتی رہتی ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا

Page 311

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۹۵ خطبہ جمعہ ۲۴ جون ۱۹۶۶ء ہے کہ ہم نے دو جنتیں بنائی ہیں ایک کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے اور ایک کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے.اسی طرح کافر کے لئے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہے دو جہنم بنائے گئے ہیں.ایک وہ جہنم جس کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے اور ایک وہ جہنم جس کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے اور جنت اور جہنم میں جانے سے پہلے یومِ حساب کا ہونا ضروری ہے کیونکہ جزاوسزا کے فیصلہ کے بغیر جزاء وسزا کا نفاذ کیسے ہوسکتا ہے.اس دنیا میں بھی یوم حساب ہے چونکہ وہ اس مادی دنیا کے اندر آہستہ آہستہ ظاہر ہوتا ہے اس لئے انسان پر اس کی پوری طرح وضاحت نہیں ہو سکتی.اگر انسان اس دنیا میں جنت کی نعماء سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کسی حصہ عمل کے متعلق حساب اور فیصلہ کرے گا اس کو نعمت سے حصہ ملے گا اور اگر اس کو اس دنیا میں جہنم کا مزا چکھایا جانا ہے تو اس کا پہلے حساب ہوگا پھر اسے اس کا مزا چکھایا جائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.وو إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ - إِنَّهُ هُوَ يُبْدِي وَيُعِيدُ - (البروج : ۱۳ ، ۱۴) که مالکیت یوم الدین کے تحت غضب اور قہر کی جو تجلی ہے وہ بڑی سخت ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی گرفت بڑی کڑی ہوتی ہے.وہ دنیا کے عذاب شروع ہونے سے پہلے حساب لیتا ہے اگر کوئی ایک عذاب کی وجہ سے باز نہ آئے تو وہ دنیا پر عذاب کو دُہراتا ہے.یوم معاد میں تو سارے جہانوں کے انسانوں کا حساب شاید سیکنڈ کے کروڑویں حصہ میں ہو جائے بلکہ وہاں وقت کا اطلاق ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ دنیا وقت سے آزاد ہے.لیکن یہ دنیا جو زمان اور مکان کی حدود میں بندھی ہوئی ہے اس میں مختلف اوقات میں مختلف قوموں اور افراد کا حساب ہوتا ہے اور وہ اپنے اعمال کے مطابق اس دنیا کے جہنم یا جنت سے حصہ لیتے رہتے ہیں.پس قران کریم کے معنی ہیں ایسی کتاب کہ جس کے معانی اور فوائد اس قسم کے ہیں کہ اس کے بعد انسانی فطرت کو کسی اور کتاب کی احتیاج اور ضرورت محسوس نہیں ہوتی.اس لئے اس سے اچھی کتاب کا تصور ممکن ہی نہیں.سب سے اچھی کتاب ، سب سے خوبصورت کتاب، سب سے فائدہ مند کتاب اور سب سے زیادہ معانی سے پر یہ کتاب ہے.کیونکہ یہ کتاب کریم ہے اس لئے

Page 312

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۹۶ خطبہ جمعہ ۲۴ جون ۱۹۶۶ء اس کی اتباع کے نتیجہ میں جو بدلہ ہمیں ملے گا وہ بدلہ بھی عقلاً اجر کریم ہونا چاہیے اور خدا تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ہم اس کی اتباع کے نتیجہ میں اجر کریم دیں گے.فرمایا.تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَمُ وَاَعَدَّ لَهُمُ اَجْرًا كَرِيمًا - (الاحزاب : ۴۵) اس آیت سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے.آپ کے خاتم النبیین ہونے کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا ذکر دنیا میں بلند ہو گا اور آپ کو ایسی جماعت دی جائے گی جو اس کی یاد میں صبح و شام مشغول رہنے والی ہوگی اور قرآن کریم کی پیروی کرنے والی ہوگی اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انہیں اجر کریم ملے گا.فرما یا کہ جب یہ لوگ اجر دیئے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ان کا حساب کرے گا اور پھر خدا کا تحفہ سلامتی کی شکل میں انہیں ملے گا.یہ اجر ، اجر کریم ہو گا بڑی عزت والا ہوگا اور ایسا بدلہ ہو گا کہ وہ خود بتا رہا ہو گا کہ خدا ان سے راضی ہے اور ان کے دل اور روح پکار رہی ہو گی کہ وہ اس بدلہ سے راضی ہوئے ہیں.رضی اللہ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ - (المجادلة: ۲۳) پس ان کے لئے قرآن کتاب کریم ہے اس سے بہتر کتاب دنیا میں نہیں ہو سکتی اس لئے اس کی اتباع کے نتیجہ میں جو بدلہ دیا جائے گا وہ بھی اجر کریم ہوگا اور جو بدلہ دینے والی ذات ہوگی وہ آپ کریم ہے.اسی طرح فرما یا :.إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِكرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ فَبَشِّرُهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ - (ليس : ۱۲) الد گر قرآنی محاورہ میں خود قرآن کریم کو کہا گیا ہے.فرمایا جو قرآن کریم کی اتباع کرنے والا ہے اُسے تو اے نبی ! مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دے.مَغْفِرَةٌ کے معنی دراصل کریم کے اندر پائے جاتے ہیں.اس کا جز ولازمی ہے.کیونکہ انعام وہاں شروع ہوتا ہے جہاں مَغْفِرَ ا ختم ہوتی ہے.جب تک گناہوں کی معافی نہ ہو انعامات کے حصول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس واسطے کریم کے لغوی معنوں میں مَغْفِرَةٌ کا مفہوم آ جاتا ہے.کریم کے معنی ہیں صفیع

Page 313

خطبات ناصر جلد اول ۲۹۷ خطبہ جمعہ ۲۴ جون ۱۹۶۶ء اور صفیح کے معنی ہیں گناہوں کو معاف کرنے والا ، درگزر کرنے والا.تو فر ما یا کہ جو شخص اس الذکر یعنی قرآن کریم ایسی کتاب سماوی کی جو اپنے اندر صفت کریم رکھتی ہے اتباع کرتا ہے اس کو میری طرف سے بشارت دے دو مغفرت کی بھی اور ایسے بدلے کی بھی کہ جس کے بعد انہیں کبھی خواہش پیدا نہ ہوگی کہ کاش ہمیں کچھ اور مل جاتا.میں نے بتایا ہے کہ بدلہ دینے والی ذات بھی رَبّ کریم ہے.فرمایا.ايُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ - الَّذِى خَلَقَكَ فَسَونَكَ فَعَدَ لَكَ - في اي صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَبَكَ - كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ.(الانفطار : ۷ تا ۱۰) یعنی اے انسان! تجھے کس نے تیرے رب کے بارہ میں مغرور اور دھو کہ خوردہ بنا دیا.تجھے جرات کیسے ہوئی ؟؟ مَا غَرَكَ بِرَيْكَ الكَرِيمِ کے معنی ہیں کہ تیرے اندر اس کے خلاف کھڑا ہونے اور اس کی ہدایت کے خلاف عمل کرنے کی جرات کیسے پیدا ہوئی حالانکہ تیرا رب کریم ہے.وہ مغفرت کرنے والا بھی ہے اور غیر متناہی انعامات اور احسانات دینے والا بھی ہے سخی ہے اور پھر سنی بھی ایسا کہ جس کی عطا کو حدود کے اندر مقید نہیں کیا جاسکتا.فرمایا.كلا بل تُكَذِبُونَ بِالدِّینِ کہ رب کریم کے خلاف تمہارا مغرور ہونا اور اس کے مقابل جرات کر کے کھڑے ہو جانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ تم یومِ الدِّينِ ، يَوْمِ حِسَابِ اور يَوْمِ حَشْرٍ پر ایمان نہیں لاتے.تو انَّهُ لَقُران کریم کا جیسا کہ میں نے بتایا ہے مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ سے بڑا تريم گہرا تعلق ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ کتاب جو تمہیں دی گئی ہے اس کے بعد تمہیں کسی اور ہدایت نامہ کی ضرورت نہیں اور وعدہ تم سے یہ کیا گیا کہ اگر تم اس کی اتباع کرو گے تو تمہیں ایسا بدلہ ملے گا کہ تمہاری روحیں خوش ہو جائیں گی اور تمہیں کسی اور چیز کی احتیاج محسوس ہی نہ ہوگی اور جو چاہو گے وہ تمہیں دیا جائے گا.پھر انسان کو یقین دلایا کہ دینے والے کی طاقتیں اور ذرائع محدود نہیں بلکہ وہ ربّ ہے جس نے ساری دنیا کو پیدا کیا اور نشو و نما دیا اور سخاوت اس کی صفات کا ایک حصہ ہے.وہ بہت زیادہ دینے والا ہے اور اتنا دینے والا ہے کہ لینے والا راضی ہو جائے.لیکن باوجود اس

Page 314

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۹۸ خطبہ جمعہ ۲۴ جون ۱۹۶۶ء کے تمہارا اس کی ہدایت پر کان نہ دھر نا بتاتا ہے کہ اصل میں تم جزاء وسزا کے دن کے منکر ہو.تم سمجھتے ہو کہ اسی دنیا میں تمہاری زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا اور تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہو گے اور اُخروی زندگی کوئی چیز ہی نہیں.اسی لئے کافروں کے نزدیک اللہ تعالیٰ رب نہیں.اور اگر وہ کچھ مشتبہ ساتخیل رکھتے بھی ہیں تو وہ اسے کریم نہیں مانتے اور اگر وہ عادتاً خدا تعالیٰ کی بعض صفات کو مانتے بھی ہیں تو اس کی بھی وہ یہ تعبیر کرتے ہیں کہ نہ ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور نہ ہی رب کریم کی ہمیں احتیاج ہے.یہی دنیا ہی دنیا ہے.یہاں ہی ہم زندہ رہیں گے.یہیں ہم مریں گے اور مٹی میں مل جائیں گے اور جو کچھ ہم نے کرنا ہے اپنے وسائل سے، اپنی عقلوں سے، اپنے فکروں سے، اپنی تدبیر اور اپنے فریب سے کرنا ہے، آپ کریم کی ہمیں احتیاج نہیں.غرضیکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ تم یوم حشر کے قائل نہیں اس لئے تم ربّ کریم کے مقابلہ میں کھڑا ہونے کی جرات کرتے ہو.ان آیات سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انهُ لَقُران کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ ایک ایسی ہدایت ہے کہ جس میں تمام صداقتیں اور علوم حقہ کے اصول آگئے ہیں اس کے بعد نہ کسی آسمانی ہدایت کی ضرورت ہے اور نہ دنیوی علوم سیکھنے کے لئے کسی اور طرف منہ کرنے کی حاجت.ہر لحاظ سے کامل اور مکمل اور انسانی فطرت کو تسلی دینے والی ہے اور جو اس کی اتباع کرتے ہیں اُن کو اجر کریم ملتا ہے.ایسا اجر جو انسان کو خوش کر دیتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے پالیتا ہے.اسے کسی اور کی طرف جانے کی احتیاج نہیں رہتی اور دینے والا وہ ہے جو رب کریم ہے اور کریمیت کا تعلق مالک یوم الدین سے بڑا گہرا ہے کیونکہ مالک ہونے کے لحاظ سے اس کی دو تجلیاں ظاہر ہوتی ہیں :.ایک غصہ اور قبر کی تجلی اِنَّ بَطْشَ رَبَّكَ لَشَدِيدٌ (البروج : ۱۳) اور ایک رضا اور خوشنودی کی تجلی اور یہ کریم کی صفت سے ظاہر ہوتی ہے اور وہ اتنا دیتا ہے اتنادیتا ہے کہ لینے والے کو سیر کر دیتا ہے.پس یہاں قرآن شریف کی شان کو قرآن کریم کے الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے یعنی

Page 315

خطبات ناصر جلد اوّل ۲۹۹ خطبہ جمعہ ۲۴ جون ۱۹۶۶ء ساری ہدایتوں اور سارے علوم کا جامع ہے اور اس سے بہتر اور احسن اور خوبصورت کتاب کوئی ہو ہی نہیں سکتی.یہ اپنی جنس میں سب سے اکمل کتاب ہے اسی لئے اس کی اتباع کرنے والوں کو اجر کریم ملتا ہے اور ملتا بھی آپ کریم کی طرف سے ہے.باوجود ان خوبیوں کے اَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ اَنْتُم مُّدُھنوں تم اس کلام کے بارے میں منافقانہ رویہ اختیار کرتے ہو اور تم خیال کرتے ہو کہ اگر ہم نے قرآن کریم کو صحیح رنگ میں ان کفار کے سامنے پیش کیا تو ہمیں شرمندہ ہونا پڑے گا ؟؟ مداہنت اور منافقت قریباً برابر ہے.اور جو بات آية يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (البقرة : ١٠) میں بیان ہوئی ہے وہ اِدُهَان اور مُدَاهَنَة ہی ہے.اِدُهَان اور مُدَاهَنَة کے ایک ہی معنی ہیں تو فرمایا کہ کیا تم مداہنت سے کام لیتے ہو ؟ نفاق سے کام لیتے ہو.تمہارے دل میں کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کرتے ہو اور پھر اتنے عظیم الشان کلام کے متعلق؟؟؟ فرمایا.پھر بعض تم میں سے ایسے ہیں وَ تَجْعَلُونَ رِزْقَكُم أَنَّكُمْ تُكَذِبُونَ (الواقعة : ۸۳) کہ تم نے انکار کو اپنا حصہ بنالیا ہے.اللہ تعالیٰ نے تو یہ کتاب اس لئے نازل کی تھی کہ تم اس پر ایمان لاکر ان فوائد اور فیوض کو حاصل کرو جو اس کی اتباع کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے ہیں.مگر تم نے اس کی اتباع سے انکار کیا.اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی رب کریم کا فیصلہ تمہارے حق میں خوشی اور رضا کا نہیں.بلکہ غصہ اور قہر کا فیصلہ ہو گا.اس دنیا میں بھی جہنم تمہارے حصہ میں آئے گی اور اُخروی زندگی میں بھی ایک لمبا عرصہ تک تم جہنم میں رہنے والے ہوگے.غرضیکہ اس آیت کا تعلق ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے ساتھ ہے اور بڑا عظیم الشان مضمون اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق اس آیت میں بیان فرمایا ہے.اس کے بعد سوال ہوتا ہے کہ اتنی عظیم الشان کتاب کا علم ہم کیسے حاصل کریں؟ فرمایا خدائے رحیم کے سامنے جھکو جو انسان کی کوشش اور محنت کو بار آور بناتا ہے.کیونکہ یہ قرآن فی کتاب مکنون پردوں میں چھپی ہوئی محفوظ کتاب کے اندر ہے.اس کی ہدایتیں غطاء ( پردے) کے اندر ہیں مَكْنُونِ کے معنی ہیں وہ چیز جو ایسے پردے

Page 316

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲۴ جون ۱۹۶۶ء یا مکان میں رکھی جائے جس میں اس کی پوری حفاظت ہو سکے.تو فرمایا کہ چونکہ حفاظت کی غرض سے اس کے معنی اور مطالب کو چھپایا گیا ہے.پردہ میں رکھا ہوا ہے ان کو حاصل کرنے کے لئے تمہیں ان پر دوں کو اٹھانا پڑے گا، دل کے پردوں کو بھی اور دیگر قسم کے جو ہزاروں حجابات ہیں ان کو بھی.اگر تم ان پردوں کو اُٹھاؤ گے کوشش کرو گے، محنت کرو گے تو چھپی ہوئی چیز کو نکال لاؤ گے جیسے کہ کانوں میں چھپے ہوئے جواہر بڑی محنت سے نکالے جاتے ہیں یا سمندر کی تہ میں چھپے ہوئے موتی بڑا گہرا غوطہ لگا کر نکالے جاتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو یہ کتاب اور اس کے مطالب اس قابل تھے کہ انہیں ہر لحاظ سے محفوظ رکھا جاتا.اس مطلب کی خاطر ہم نے بہت سے پردے اس کے گرد ڈال دیئے ہوئے ہیں.اگر تم ان مطالب اور معارف تک پہنچنا چاہتے ہو تو تمہیں مجاہدہ سے کام لینا پڑے گا ، کوشش کرنی پڑے گی.تب وہ خدائے رحیم تمہاری محنت اور مجاہدہ کا نتیجہ نکالے گا اور ایک حد تک تم قرآن کے حقائق حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے.ویسے صفت رحیم اور رحمن پہلو بہ پہلو چلتی ہیں ان کو علیحدہ کر کے صحیح تصور ہمارے دماغ میں نہیں آسکتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب مکنون ہے اس لئے میری صفت رحیمیت سے برکت حاصل کرو اور پوری جد و جہد قرآن کریم کے سیکھنے میں لگا دو اور پوری طرح اس کتاب کریم اور مطہر صحیفہ کی طرف متوجہ ہو.اس کے سیکھنے کے بغیر کوئی لحہ نہ گزارو اور نہ ہی کوئی دقیقہ فروگذاشت کرو، ہر وقت اس کے متعلق سوچتے رہو.تب تمہاری کوششوں کا نتیجہ نکلے گا اور رحیمیت اپنے جوش میں آئے گی.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خالی رحمیت کافی نہیں.خالی مجاہدہ اور کوشش سے کچھ نہیں بنے گا.ظاہری کوششوں سے تم صرف چھلکا ہی حاصل کر سکو گے اگر کوئی عیسائی اپنا وقت خرچ کرے اور عربی سیکھنے کی کوشش کرے اور پھر تمام قرآن کریم کی وہ تفاسیر جو عربی زبان میں لکھی گئی ہیں اور وہ تفاسیر جو اردو زبان میں لکھی گئی ہیں پڑھ کر بظاہر ان کے مضامین پر حاوی ہو جائے ، تو اس علم کی وجہ سے وہ خود بھی قرآن کریم کی تفسیر کر سکے گا.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ کی جو تفسیر براہین احمدیہ میں تحریر فرمائی ہے.وہ بھی اسے پڑھ کر بیان کر سکتا ہے.لیکن اس کے لئے یہ

Page 317

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۴ جون ۱۹۶۶ء صرف ظاہری علم ہے جسے وہ حاصل کر سکتا ہے قرآن کریم کے متعلق صرف ظاہری علم کافی نہیں ، قرآن کریم کے علوم، اس کی ہدایات ، اس کے معارف اور اس کی حکمتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ خدائے تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ساتھ صفت رحمانیت بھی جوش میں آئی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے.گر بعلم خشک کارِ دیں بدے ہر لیے راز دار دیں بدے پس فرمایا کہ ہم نے ہر طرح سے قرآن کریم کی حفاظت کی ہے اور کوئی خشک یا ظاہری علم اس کے مغز اور روح کو نہیں پہنچ سکتا.اس لئے ضروری ہے کہ تم خدائے رحمن کا دروازہ کھٹکھٹاؤ کیونکہ جب تک تم اس کی نگاہ میں پاکیزہ نہیں ٹھہرو گے معارف و حقائق قرآنیہ کا بھی تم پر نزول نہیں ہوسکتا.کیونکہ آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعۃ: ۸۰) کا تعلق صفت رحمن سے ہے.پھر فرمایا تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ (الواقعة : ۸۱) قرآن کریم کی تفاسیر بہت سی ہو چکی ہیں.میرے خیال میں کئی سو موٹی موٹی تفسیر میں لکھی گئی ہیں.ان کے علاوہ لاکھوں صفحات تفسیر کے لکھے گئے ہیں.ایک عام سمجھ کا انسان ان تفاسیر کے ڈھیر کو دیکھ کر دل میں خیال کر سکتا ہے.کہ جو کچھ قرآن مجید میں تھا مفسرین نے اسے باہر نکال لیا ہے.اب کوئی شخص کتاب مکنون سے کوئی نیا مطلب نہیں نکال سکتا.اس خیال کی تردید کے لئے فرمایا کہ صحیفہ قدرت کو دیکھو کتنی کثرت سے بڑی بڑی ایجادیں ہوئیں بعض لوگوں نے صرف ایک مسئلہ کے متعلق نئی تحقیق پیش کی تو دنیا نے اسے بہت سراہا اور کہا کہ اس نے علم کی بڑی خدمت کی ہے اس نے ساری عمر میں گو ایک راز ہی سہی معلوم کر لیا ہے باوجود اتنی کوششوں کے پھر بھی نہیں کہا جا سکتا کہ دنیوی علوم ختم ہو گئے اور کہ انسان صحیفہ قدرت پر پوری طرح حاوی ہو گیا ہے اور کوئی نئی چیز یا ایجاد دریافت نہیں کی جاسکتی.تو فرمایا کہ جس طرح صحیفہ قدرت میں اللہ تعالیٰ کے غیر محدود اسرار پوشیدہ ہیں اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی غیر محدود حکمتیں اور معارف پوشیدہ ہیں.تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ

Page 318

خطبات ناصر جلد اول ٣٠٢ خطبہ جمعہ ۲۴ جون ۱۹۶۶ء العلمينَ (الواقعة: (۸۱) اس لئے جس زمانہ میں بھی تم ہو اور جس ملک میں بھی اللہ تعالیٰ تمہیں پیدا کرے اس اصول کو مد نظر رکھنا کہ قرآن کریم کا اتارنے والا رَبُّ الْعَلَمِينَ ہے.جس کی حکمت تجدید، نشوونماء اور ارتقاء کو چاہتی ہے.اس لئے دنیا بھی ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی کہیں کی کہیں پہنچ رہی ہے اور ہر نئی منزل پر اسے نئی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ ایسے بندے پیدا کر دیتا ہے جو قرآن کریم کے نئے مطالب، معانی اور نئے معارف اخذ کر کے اس زمانہ کی نئی الجھنوں کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں.چونکہ قرآن کریم کے علوم ختم ہونے والے نہیں قرآنِ کریم غیر محدود حقائق اور غیر متناہی علوم و حقائق اپنے اندر رکھتا ہے.اس لئے ہر زمانہ کی حاجت کے مطابق وہ کھلتے جاتے ہیں اور ہر زمانہ کے خاص فاسد خیالات کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ علوم ایک مسلح فوج کی طرح کھڑے رہتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے کہ اس کتاب میں ہر وہ سامان موجود ہے جو کسی زمانہ کے لئے درکار ہے اور ہر ایک زمانہ کی ضرورت حقہ کے پورا کرنے کا کامل اور مکمل طور پر متکفل ہے جیسے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس زمانہ میں خود مشاہدہ کیا ہے.غرضیکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کتاب کا تعلق ہماری صفت رَبُّ الْعَلَمِینَ سے بھی ہے.جس طرح عالم ابتدائی دور میں تھے اور پھر ان میں سے ہر ایک آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے اسی طرح قرآن کریم کے علوم بھی منزل بہ منزل نئے سے نئے نکلتے چلے آئیں گے اور دنیا یہ نہ کہہ سکے گی کہ ہمیں ایک مسئلہ پیش آیا لیکن قرآن کریم نے ہمارے سامنے اس کا حل پیش نہیں کیا.اس لئے اگر کسی جگہ تم رکتے ہو یا اسکتے ہو تو اس میں تمہارا قصور ہے تم ربوبیت عالمین کا دروازہ کھٹکھٹاؤ اور اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے دامن کو پکڑو.خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزانہ طور پر جھکو اور کہو کہ اے خدا! تو نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ میں رب العلمین ہوں اور یہ کتاب میری طرف سے نازل ہوئی ہے میری اس صفت کے ماتحت جہاں عالمین ارتقائی دوروں میں سے گزر رہے ہیں وہاں قرآن کریم کے علوم بھی نئے سے نئے دنیا پر کھلتے رہیں گے.آج ضرورت بعض مسائل کے حل

Page 319

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۰۳ خطبہ جمعہ ۲۴ جون ۱۹۶۶ء کرنے کی ہے تو ہماری عقلوں کو منور فرما اور ہمارے لئے ایسے دروازے کھول جو ہمیں تیرے تک پہنچا ئیں اور ان سے ہمیں قرآن کریم کا وہ نور حاصل ہو جس کی آج دنیا کو ضرورت ہے.پس ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت کو بیان کیا ہے اور قرآن کریم کے معارف کے حصول کے لئے جن صفات سے برکات حاصل کرنے کی ضرورت ہے انہیں بھی بیان فرمایا ہے ہمیں چاہیے کہ انفرادی اور جماعتی طور پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے برکات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں.جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش ، اپنی جد و جہد اور مجاہدات کو کمال تک پہنچائیں اور جو منصو بہ قرآن کریم کو سیکھنے سکھانے کا جماعت میں جاری کیا گیا ہے اس سے غفلت نہ برتیں.اس موقع پر میں اُن عزیزوں اور بھائیوں سے بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں جن کا مختلف درسگاہوں سے طالب علم یا استاد کا تعلق ہے کہ اپنی چھٹیوں میں سے اگر آپ دو ہفتے قرآن کریم کو پڑھانے کے لئے وقف کر دیں تو یقینا اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی برکات نازل فرمائے گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس نیک کام کے سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.(روز نامہ الفضل ربوہ ۷ راگست ۱۹۶۶ ء صفحه ۳ تا ۵)

Page 320

Page 321

خطبات ناصر جلد اول ۳۰۵ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۶۶ء ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم سیکھیں ، جانیں اور ہر وقت اس کی اتباع کرنے کی کوشش کریں خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق یہ دعویٰ فرمایا ہے.وَمَا تَسْلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكرَ لِلْعَلَمِينَ - (يوسف : ۱۰۵) کہ اے رسول! تو جو ان کفار کو تبلیغ کر رہا ہے اور خدا تعالیٰ کا پیغام انہیں پہنچا رہا ہے اس پر تو ان سے کوئی اجر نہیں مانگتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن کریم تمام جہانوں کے لئے سراسر شرف کا موجب ہے.اس آیت میں قرآن کریم کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام عالمین کے لئے رحمت ہیں ( رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ ) اسی طرح قرآن کریم تمام عالمین کے لئے ذکر ہے.ذکر عربی زبان میں مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے.اس جگہ ذکر کے چار معنی چسپاں ہوتے ہیں.اس کے پہلے معنی الْكِتَابُ فِيْهِ تَفْصِيلُ الدِّينِ وَوَضْعُ الْمِلَلِ ایسی کتاب جس میں دین کی تفاصیل اور احکام شریعت کامل طور پر بیان کئے گئے ہیں.تو فرما یا کہ قرآن کریم ایک کامل کتاب شریعت ہے.کوئی شرعی حکم ایسا نہیں جو اس میں

Page 322

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۶۶ء بیان ہونے سے رہ گیا ہو اور دین و مذہب کے متعلق جتنی بھی تفصیل انسان کے لئے ضروری ہے.وہ ساری کی ساری اس کتاب میں بیان کر دی گئی ہے.پس اس کی اتباع اللہ تعالیٰ کی انتہائی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے.اس کے دوسرے معنی ہیں الشرف بلند مرتبہ، رفعت اور بزرگی.تو فرمایا کہ جو احکام شریعت قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں.اگر تم ان کو سیکھو گے سمجھو گے اور ان پر عمل کرو گے.تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں بلند مرتبہ اور رفعت اور بزرگی عطا کرے گا اور اتباع قرآن کے ذریعہ آسمانی (روحانی) رفعتوں کے وہ دروازے جو خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو ڈھونڈنے والوں کے لئے کھولے جاتے ہیں.تم پر کھولے جائیں گے.اس کے تیسرے معنی القاء کے ہیں.تعریف اور حمد.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اتباع قرآن کے نتیجہ میں روحانی رفعتوں کو تم حاصل کر لو گے تو تمہیں تعریف اور ثناء بھی حاصل ہو جائے گی.الثناء کا لفظ جس قسم کی تعریف کے متعلق بولا جاتا ہے.اس میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے.وہ یہ کہ کسی دوسرے کامل وجود کا ثانی بننا یعنی اس کے اخلاق کی اتباع کر کے اس کا رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرنا.پس اس میں تو جہ دلائی گئی ہے کہ قرآن کریم نے جو تعلیم تمہارے سامنے رکھی ہے.وہ یہی ہے کہ تم تَخَلُقُ بِأَخْلَاقِ اللہ حاصل کر سکو.اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا مظہر بن سکو.اور جب تم اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا مظہر بن جاؤ گے تو ہر صاحب عقل و بصیرت تمہاری تعریف ، تمہاری شناء اور تمہاری حمد کرنے پر مجبور ہوگا.اس کے چوتھے معنی الصیت یعنی ذکر خیر کے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احکام قرآنی پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جو بزرگی اور رفعت حاصل ہوتی ہے اور بندہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دنیا ایسے لوگوں سے فائدہ حاصل کرتی ہے.صرف ان کی اپنی نسل پر ہی نہیں بلکہ ایسے لوگوں کا احسان آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی ہوتا ہے.اس کی وجہ سے ان کا ذکر خیر باقی رہ جاتا ہے.کیونکہ ذکر خیر صرف اسی شخص ، گروہ یا سلسلہ کا ہی قائم رکھا

Page 323

خطبات ناصر جلد اول ۳۰۷ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۶۶ء جاتا ہے اور رکھا جانا چاہیے ) کہ جس کا احسان آئندہ نسلوں پر ہو اور اس طرح آئندہ نسلیں اس شخص، گروہ یا سلسلہ کو یا د رکھتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ پہلوں نے ہم پر بڑے احسان کئے ہیں اور ہمیں ان احسانوں کو بھولنا نہیں چاہیے.مثلاً ہم احادیث کے جمع کرنے والے بزرگوں کا ادب اور احترام اور دعا کے ساتھ ذکر کرتے ہیں.ان کا ذکر خیر اسی وجہ سے قائم ہے کہ ان لوگوں نے اپنی زندگیاں ہمارے فائدے کے لئے صرف کر ڈالیں.ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو جمع کیا.ان کی چھان بین کی اور انہیں ہم تک پہنچانے کا انتظام کیا.اس احسان کے بدلہ میں ان کا ذکرِ خیر نَسُلًا بَعْدَ نَسْلٍ ہم تک چلا آیا اور آئندہ چلتا چلا جائے گا.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جو ہر لحاظ سے کامل ومکمل ہونے کے علاوہ یہ خوبی بھی اپنے اندر رکھتی ہے کہ جب کوئی اس پر عمل کرتا ہے تو وہ صرف اسی نسل کو زیر بارا احسان نہیں کر رہا ہوتا جس کا وہ ایک فرد ہوتا ہے بلکہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اس سے نیکیوں اور خیر کے وہ کام لیتا ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ نسلیں بھی اس کے احسان کے نیچے دبی ہوتی ہیں.وہ اس کے اس احسان کو پہچانتی ہیں اور اس کی وجہ سے اس کی شکر گزار ہوتی ہیں.اس لحاظ سے یہ قرآن اس کے لئے القیت ذکر خیر کے جاری رہنے کا موجب بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق بہت سی تعریفیں خود اس میں بیان فرمائی ہیں.اس چھوٹی سی آیت میں بھی بہت کچھ بیان کیا گیا ہے جس کی طرف میں نے اس وقت محض اشارے کئے ہیں لیکن ان اشارات سے بھی ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اگر ہم اس دنیا میں عزت اور شرف حاصل کرنا چاہتے ہیں.اگر ہمارے دل میں یہ خواہش ہے کہ ایک طرف ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے اور دوسری طرف آئندہ نسلیں بھی ہمیں نیک نام سے یاد کریں.ہمارے لئے دعا کرنے والی ہوں اور خدا کے حضور گڑ گڑانے والی ہوں کہ اے خدا ان لوگوں پر اپنی زیادہ سے زیادہ رحمتیں نازل کرتا چلا جا.تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کو سیکھیں، جانیں اور اس کی اتباع کریں اور اس کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں.اسی لئے میں نے قرآن کریم سکھنے اور سکھانے کی طرف جماعت کو تو جہ دلائی تھی.

Page 324

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۰۸ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۶۶ء خلیفہ وقت کا سب سے بڑا اور اہم کام یہی ہوتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کرنے والا ہو اور نگرانی کرنے والا ہو کہ وہ لوگ جو سلسلہ حقہ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں کیا وہ قرآن کریم کا جوا ا اپنی گردنوں پر رکھنے والے ہیں؟ اور اس سے منہ پھیر نے والے نہیں بلکہ اس کی پوری پوری اطاعت کرنے والے ہیں.میری اس تحریک پر جماعتوں نے توجہ دی.بہت سی جماعتوں کی طرف سے تو بہت اچھی رپورٹیں مل رہی ہیں لیکن بعض جماعتیں ابھی ایسی بھی ہیں جہاں ابھی تک یہ کام شروع نہیں ہوا اور بعض جماعتوں کے متعلق یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ کام شروع ہونے کے بعد پھر ستی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.میں پھر تمام جماعتوں کو ، تمام عہدیداران خصوصاً امراء اضلاع کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ قرآن کریم کا سیکھنا، جاننا ، اس کے علوم کو حاصل کرنا اور اس کی باریکیوں پر اطلاع پانا اور ان راہوں سے آگاہی حاصل کرنا جو قرب الہی کی خاطر قرآن کریم نے ہمارے لئے کھولی ہیں از بس ضروری ہے.اس کے بغیر ہم وہ کام ہر گز سر انجام نہیں دے سکتے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.پس میں آپ کو ایک دفعہ پھر آگاہ کرتا ہوں اور متنبہ کرتا ہوں کہ آپ اپنے اصل مقصد کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی انتہائی کوشش کریں کہ جماعت کا ایک فرد بھی ایسا نہ رہے نہ بڑا نہ چھوٹا ، نہ مرد نہ عورت ، نه جوان نہ بچہ کہ جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہ آتا ہو جس نے اپنے ظرف کے مطابق قرآن کریم کے معارف حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے کی اور پھر انہیں نبھانے کی توفیق دے اور مجھے بھی توفیق دے کہ جب تک آپ اس بنیادی مقصد کو حاصل نہیں کر لیتے ، اس رنگ میں آپ کی نگرانی کرتا رہوں جس رنگ میں نگرانی کرنے کی ذمہ داری مجھ پر عائد کی گئی ہے.وَمَا تَوْفِيقُنَا الَّا بِاللهِ (روز نامه الفضل ربوہ ۲۷ / جولائی ۱۹۶۶ ء صفحہ ۲، ۳)

Page 325

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱۵ جولائی ۱۹۶۶ء قرآن کریم کو حرز جان بناؤ کہ اس کے بغیر ہم کوئی عزت کوئی بلندی اور کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے خطبہ جمعہ فرموده ۱۵ جولائی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد نور.راولپنڈی تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.مسلمانوں کہ جب تب ادبار آیا تعلیم قرآں کو بھلایا اس شعر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک تاریخی حقیقت بیان فرمائی ہے.جب ہم تاریخ اسلام کی ورق گردانی کرتے ہیں اور مسلم ممالک اور اقوام کے عروج و زوال، ترقی و تنزل اور ان کی تہذیب اور ان کی وحشت کی داستانیں ہمارے سامنے آتی ہیں تو ہم پر یہ بات واضح اور بین ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی عروج و ترقی کی.تہذیب کی رفعتوں تک پہنچے.تو یہ ارفع مقام انہیں اتباع قرآن ہی کے نتیجہ میں ملا اور جب کبھی انہوں نے قرآن اور اس کی اعلیٰ وارفع تعلیم کو پس پشت ڈال دیا.اس سے منہ موڑ لیا.اس سے بے رخی برقی ،اس سے دُوری اور بے تعلقی اختیار کی اور اسے ناقابل عمل سمجھتے ہوئے مہجور قرار دیا تو وہ قعر مذلت میں جا گرے.

Page 326

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۱۰ خطبہ جمعہ ۱۵؍جولائی ۱۹۶۶ء اس کے برعکس جب انہوں نے قرآن کریم کو حرز جان بنایا اور اس کا جوا اپنی گردنوں پر رکھا قرآن کریم کے نور سے منور ہو کر اور اس کے خادم بن کر میدانِ عمل میں اترے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی ترقیات سے نوازا اور ایسی رفعتیں انہیں عطا کیں کہ دنیا کے وہ معلم اور استاد بھی بنے.دنیا کے وہ ہادی اور راہ نما بھی ہوئے.دنیا کے وہ محسن بھی ٹھہرے.خدائے رزاق سے تعلق پیدا کر کے الْحَفیظ اور الْعَلِیمُ کی صفات کا مظہر بنے اور عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ انہیں مقر رکیا گیا اور زمین کی پیداوار کی تقسیم ان کے سپرد کی گئی اور ایک دنیا نے ان سے بھیک مانگی اور ایک جہان کو انہوں نے سیر کیا.مگر ان کے دامن دنیا داروں کے سامنے کبھی نہ پھیلے، نہ وہ دنیوی طاقتوں کے سامنے کبھی جھکے، نہ ان سے مرعوب ہوئے اور نہ وہ کبھی ان کے زیرا حسان آئے.لیکن مسلم اقوام نے جب قرآن کریم اور اس کی تعلیم کو طاق نسیان کی زینت اور قرانا مهُجُورًا بنا دیا اور اپنی ناقص اور غافل عقلوں کو آسمانی نور سے بہتر جانا تو نورعلم ، نور فراست اور نورِ فطرت ان سے چھین لیا گیا.روحانی علوم و انوار کا تو ذکر کیا.دنیوی علوم میں بھی انہیں غیروں سے بھیک مانگنی پڑی اور جب رزاق حقیقی سے انہوں نے اپنا رشتہ توڑ لیا تو حسنات دنیا بھی ان سے چھین لی گئیں اور ہم نے دیکھا کہ لچائی ہوئی نظروں سے وہ دنیا اور دنیا داروں کو تک رہے تھے.پس مسلمانوں کی تاریخ ایسے حقائق سے بھری ہوئی ہے.اس تاریخ کے بہت سے باب جہاں سنہری حروف سے لکھے نظر آتے ہیں.وہاں وہ باب بھی تو ہمارے سامنے آتے ہیں.جنہیں پڑھ کر ہماری گردنیں جھک جاتی ہیں.تاریخ کے ان ابواب سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مسلم اقوام میں سے کس قوم نے کس زمانہ میں قرآن کریم اور اس کی تعلیم کو اس کا حقیقی مقام دیا اور وہ درجہ دیا جوا سے دیا جانا چاہیے تھا اور کس قوم نے کس زمانہ میں قرآن کریم اور اس کی تعلیم کو بھلا دیا اور پھر دنیا میں ان کے لئے عزت اور پناہ کا کوئی مقام بھی باقی نہ رہا.پس جماعت احمدیہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ محض بیعت کر لینا یا محض احمدیت میں داخل ہونا یا محض احمدیت کا لیبل اپنے اوپر لگا لینا کافی نہیں جب تک ہم پورے کے پورے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں داخل نہیں ہو جاتے.جب تک ہم اسلمتُ لِرَبِّ الْعَلَمِینَ کا صحیح نمونہ اپنے خدا اور خدا

Page 327

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۱۵؍جولائی ۱۹۶۶ء کی بنائی ہوئی دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتے.جب تک ہم قرآن کریم کے تمام اوامر و نواہی کی عزت نہیں کرتے.ان کے آگے نہیں جھکتے اور جن باتوں سے ہمیں روکا گیا ہے ان سے باز نہیں آتے اور جن چیزوں کے ہمیں کرنے کی تلقین کی جاتی ہے.وہ ہم بجانہیں لاتے.اس وقت تک ہم اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے وارث نہیں ہو سکتے.جن فضلوں کا وارث وہ انسان ہوتا ہے جو قرآن کریم کے نور سے منور ہوتا ہے اور قرآن کریم کے احکام پر عمل کرنے والا ہوتا ہے اور قرآن کریم کا کامل متبع ہوتا ہے اور قرآن کریم کا سچا خدمت گزار ہوتا ہے.محض احمدی کہلا نا محض احمدیت کی طرف منسوب ہونا ہمارے لئے کافی نہیں اسی لئے میں اپنے متعدد خطبات میں اس سے پہلے بھی جماعت کو اس طرف متوجہ کر چکا ہوں کہ پوری ہمت کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ قرآن کریم کے سیکھنے اور سکھانے اور اس پر عمل کرنے کا انتظام تمام جماعتوں کے اندر کیا جانا چاہیے.بہت سی جماعتیں اس طرف پوری طرح متوجہ ہوئی ہیں لیکن بعض ایسی بھی ہیں جنہوں نے اس طرف پوری توجہ نہیں دی.قرآن کریم کے بغیر ، قرآن کریم کی برکات کو چھوڑ کر ، قرآن کریم کے نور سے پیٹھ پھیرتے ہوئے ، قرآن کریم کو معزز نہ جان کر اپنے دلوں سے باہر نکال پھینکتے ہوئے ، ہم خدا کی نگاہ میں کوئی عزت، کوئی بلندی ،کوئی رفعت، کوئی کامیابی، کوئی کامرانی اور کوئی فتح حاصل نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں متعدد بار اس کی اہمیت کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے.چند آیات کی تفسیر میں نے اس سے پہلے اپنے خطبات میں دوستوں کے سامنے رکھی ہے.آج میں قرآن کریم کی دو اور آیتیں دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ سورہ زمر میں فرماتا ہے.تَنْزِيلُ الكِتب مِنَ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ - إِنَّا اَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ - (الزمر : ٢، ٣) یعنی اس کتاب کا نازل کیا جانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو غالب اور سب کام حکمتوں کے ماتحت کرنے والا ہے.ہم نے تیری طرف یہ کتاب کامل سچائیوں پر مشتمل اتاری ہے.پس تو اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کر.

Page 328

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۱۲ خطبہ جمعہ ۱۵؍جولائی ۱۹۶۶ء یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ت نُزِيلُ الكِتب مِنَ اللهِ کہ اس کتاب کو وحی کے ذریعہ محمد رسول اللہ پر اُتارنے والی وہ ذات ہے جسے اللہ کے نام سے اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.الکتاب کے لغوی معنی یہ ہیں کہ وہ صحیفہ آسمانی جس میں تمام ضروری فرائض اور احکام کامل اور مکمل طور پر بیان ہوئے ہوں اور جو اقوام عالم کی تقدیر اور قسمت کا فیصلہ کرنے والی ہو.اسی لئے سورة حم السجدہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو بشیر بھی کہا ہے اور نذیر بھی کہا ہے.یعنی قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جو تمام بنی نوع انسان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی ہے.قیامت تک تمام جہانوں کی تقدیر قرآن کریم سے وابستہ کر دی گئی ہے اور جولوگ قرآن کریم کی ہدایات کو سمجھنے اور پہچاننے والے، جو لوگ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے اور قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو جن صفات کے ساتھ ہمارے سامنے رکھا ہے.اس کا عرفان رکھنے والے اور اپنی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزارنے والے ہیں.ان کے لئے قرآن کریم بطور بشیر کے پیش کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اللہ تعالیٰ کے فعل نے ہر زمانہ میں اس بات پر مہر لگا دی ہے کہ قرآن کریم کو جو بشیر کا نام دیا گیا ہے وہ بالکل برحق ہے اس میں کوئی غلطی نہیں کیونکہ یقیناً ہر مقام پر اور ہر زمانہ میں قرآن کریم کے کامل متبعین کو وہ روحانی اور جسمانی، دینی اور دنیوی نعماء ملیں جن کی بشارت قرآن کریم نے اپنے ماننے والوں کو مختلف مقامات پر دی تھی.اور وہ لوگ جو قرآن کریم کے مقابل کھڑے ہوئے جنہوں نے اس خدا کو جھٹلایا جسے اس کی کامل صفات کے ساتھ قرآن کریم پیش کرتا ہے.ان لوگوں کے متعلق قرآن کریم کے بتائے ہوئے انذار حرف بحرف پورے ہوئے اور قرآن کریم نے اپنی پیشگوئیوں میں کہیں کوئی غلطی نہیں کی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے تاریخ اسلام یعنی اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اس بات پر گواہ ہے کہ قرآنِ کریم بشیر بھی ہے اور نذیر بھی ہے.اللہ تعالی نے اس آیت میں فرمایا کہ یہ کال اور مکمل کتاب ہے جس میں فطرت انسانی کے لئے ، اس فطرت انسانی کے لئے جو اپنے عروج اور بلوغت کو پہنچ چکی تھی.تمام وہ ہدایات موجود ہیں جن

Page 329

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۱۳ خطبہ جمعہ ۱۵؍جولائی ۱۹۶۶ء کی اسے ضرورت تھی کیونکہ اس کتاب کا اُتارنے والا اللہ ہے.یعنی وہ ذات جسے اس کی بعض مخصوص صفات کے ساتھ قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور اس کی دو صفات کا ذکر اس نے اس آیت میں بھی کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی جگہ پر یہ کامل اور مکمل کتاب ہے اور اس کا اتارنے والا اللہ ہے جس کی کئی صفات ہیں لیکن ہم تمہیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ وہ العزیز بھی ہے اور لغت عربی میں عزیز اس ہستی کو کہتے ہیں جو صاحب قدرت اور صاحب قوت ہوا اور صاحب عزت ہو اور دنیا کی کوئی طاقت اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکتی ہو.وہ اتنا قوت والا ہو کہ دنیا کی کوئی طاقت اور قوت ایسی متصور نہ کی جا سکتی ہو جو اس کی قوت اور طاقت کے مقابلہ میں کامیابی کے ساتھ اس کے برخلاف کوئی مکر اور حیلہ اور فریب کر سکے.وہ غالب ہے مغلوب ہو ہی نہیں سکتا اور کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی اور اپنی ان صفات میں وہ بے مثل بھی ہے.یعنی اس کی قوت اور اس کی قدرت اور اس کا غلبہ اور اس کی عزت ایسی ہے کہ دنیا کی کسی اور ہستی کی نہ وہ قوت، نہ وہ غلبہ، نہ وہ طاقت، نہ وہ شان ، نہ وہ جاہ، نہ وہ جلال ، کچھ بھی نہیں.اس ہستی کو عزیز کہتے ہیں.تو اس آیت میں فرمایا کہ یہ کتاب اس اللہ نے نازل کی ہے جو اس قدر قوت اور طاقت اور عزت والا ہے کہ دنیا کا کوئی مکر اور فریب اس کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا.وہ اس مضبوط اور بلند پہاڑ کی چوٹی پر بنے ہوئے قلعہ کی طرح ہے کہ جس تک چڑھنا کسی اور کے لئے ممکن ہی نہیں.منع ہے.یعنی وہ اتنا محفوظ ہے کہ اس کے خلاف کسی سازش کی کامیابی ممکن ہی نہیں ہوسکتی.تو ہمیں اس کتاب میں صفت عزیز کا ذکر کر کے یہ بتایا کہ اگر تم اس الکتاب پر عمل کرنے والے ہو گے.اگر تم اس کے احکام کی اطاعت کرنے والے ہو گے تو اللہ جو عزیز ہے تمہیں عزت کے ایسے مقام پر کھڑا کرے گا کہ دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہ کر سکے گی.اگر تمہاری ترقی کے سامنے ہمالیہ کے پہاڑ بھی حائل ہوں گے تو وہ پاش پاش کر دیئے جائیں گے.مسلمانوں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بالکل بے کسی اور بے بسی کے زمانہ میں جب ان کے پاس نہ عزت تھی، نہ طاقت تھی ، نہ مال تھا اور نہ کوئی اور ظاہری سامان تھے، صرف قرآن کریم

Page 330

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۱۴ خطبہ جمعہ ۱۵؍جولائی ۱۹۶۶ء ہی تھا جو ان کے ہاتھ میں تھا صرف قرآن کریم ہی تھا جو ان کے دل میں تھا ، صرف قرآن کریم ہی تھا جو ان کے عمل میں نظر آ رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے انہیں غلبہ عطا فرمایا اور ان کے مقابل آنے والی سب طاقتوں کو مٹادیا اور ایک کم مایہ، بے مایہ، کمزور و ناتواں اور غریب کو تمام دنیا کی طاقتوں کے مقابلہ میں کامیاب و کامران کر دیا.اس کی ایک تازہ مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس مثال کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۶۸ ء میں یہ اعلان فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاما بتایا ہے کہ بادشادہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اس وقت آپ کو بھی کوئی نہ جانتا تھا، قادیان کو بھی کوئی نہ جانتا تھا.جماعت احمدیہ کو بھی کوئی نہ جانتا تھا بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی نہ جانتے تھے.کیونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے جماعت کا قیام نہیں کیا گیا تھا اور بیعت بھی شروع نہ ہوئی تھی.اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی کی اور قریباً سو سال تک مخالف کو موقع دیا کہ جتنا چاہو استہزاء کر لو، مذاق کر لو، ٹھٹھا کرلو، طعنے دے لو.یہ کلام ہمارا ( عزیز خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوکر رہے گا.اس سال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ سامان پیدا کر دیئے.( دو کم سو سال کے بعد ) جب اس عرصہ میں ایک نیا ملک بنایا گیا.پھر الہی تدبیر کے ماتحت اس ملک کو آزادی دلائی گئی.پھر الہی منشا کے مطابق جب اس ملک کی اپنی حکومت بنی تو اس کا سر براہ اور اس کا Acting گورنر جنرل اس شخص کو مقرر کیا گیا جو تقرر کے دن سے پہلے جماعت احمد یہ گیمبیا کا پریذیڈنٹ تھا.اس طرح جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ کو گورنر جنرل بنادیا گیا.پھر ان کو ہمارے مبلغ نے توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی ایک بشارت ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تم خوش نصیب انسان ہو کہ دنیا کی تاریخ میں تمہیں پہلی دفعہ یہ موقع مل رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے تم برکت حاصل کر سکو مگر یہ کوئی معمولی چیز نہیں.اس لئے قبل اس کے کہ تم اس کے متعلق خلیفہ وقت کو اپنی درخواست بھجوا ؤ چالیس دن تک چلہ کرو.یعنی خاص طور پر دعائیں کرو.اس قسم کا چلہ نہیں جو صوفیا اور فقراء کیا

Page 331

خطبات ناصر جلد اول ۳۱۵ خطبہ جمعہ ۱۵ / جولائی ۱۹۶۶ء کرتے ہیں.چالیس دن تک خاص طور پر تہجد میں دعا کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں اس بات کا اہل بنائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں میں سے ایک ٹکڑا تمہیں ملے.انہوں نے دعا شروع کی اور پھر مجھے خط لکھا کہ میں دعاؤں میں مشغول ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا رہا ہوں کہ میں ایک بڑی بھاری ذمہ داری لے رہا ہوں ،صرف عزت حاصل نہیں کر رہا ، صرف تبرک حاصل نہیں کر رہا بلکہ بڑی بھاری ذمہ داری بھی لے رہا ہوں.ایک شخص جو ہزار ہا میل دور رہتا ہے نہ کبھی ربوہ آیا ، نہ ہی تاریخ احمدیت سے پوری طرح واقف ، اس کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرک کی اہمیت جب تک پوری طرح بٹھا نہ دی جاتی میرے نزدیک انہیں تبرک بھیجوانا درست نہیں تھا.اس لئے میں نے انہیں ایک لمبا سا خط لکھا اور انہیں یہی نکتہ سمجھایا کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تبرک مانگ رہے ہو.اس میں برکتیں بھی بڑی ہیں مگر یہ بھی نہ بھولو کہ اس کی قیمت اتنی ہے کہ ساری دنیا کے سونے اور ساری دنیا کی چاندی اور ساری دنیا کے ہیرے اور جواہرات بھی اگر اس کے مقابل رکھے جائیں تو ان کی وہ قیمت نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں میں سے ایک ٹکڑا کی قیمت ہے اس لئے تم ایک بڑی ذمہ داری لے رہے ہو.ذہنی طور پر ، روحانی طور پر اور اخلاقی طور پر اپنے آپ کو اس کا اہل بناؤ.یہ مضمون تھا اس خط کا جو میں نے انہیں لکھوایا اور ان سے انتظار کروایا تا کہ جب ان کی یہ روحانی پیاس اور بھڑ کے اور ان کے دل میں ذمہ داری کا پورا احساس بیدار ہو جائے اس وقت وہ تبرک ان کو بھیجا جائے.پندرہ بیس دن ہوئے وہ تبرک ان کو بھجوایا گیا اور مجھے ابھی گھوڑ اگلی میں ان کی تارملی ہے کہ وہ تبرک مجھے مل گیا ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے.پس خدائے عزیز کے ساتھ تعلق رکھنے والے عزت کے ایسے مقام کو حاصل کرتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی.لیکن قرآن کریم کی طرف منسوب ہونا اور پھر عزت کی بجائے ذلت کے مقام پر کھڑا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ دعویٰ جھوٹا ہے.ایسا شخص زبان پر تو

Page 332

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱۵ جولائی ۱۹۶۶ء قرآن کریم کا نام لاتا ہے لیکن دل سے اسے دھتکارنے والا اور پرے کرنے والا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ اس آسمانی کامل اور مکمل صحیفہ کو اُتارنے والا العزیز ہے.وہ ایسی طاقت کا مالک ہے کہ دنیا کی ساری طاقتیں اکٹھی ہو کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.وہ اس کی مخلوق ہیں.وہ اندر اور باہر سے ان کو جاننے والا ہے.وہ ان کی قوتوں اور استعدادوں کو اس لئے جاننے والا ہے کہ وہ خود اس کی پیدا کردہ ہیں.تو وہ اس کے مقابلہ میں کیسے کھڑی ہوسکتی ہیں؟ اور ہمیں یہ بتایا کہ اگرتم اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی اس الکتاب پر پورا عمل کرو گے اور اس کی اطاعت اس طرح کرو گے جیسا کہ اطاعت کا حق ہے تو پھر خدائے عزیز تمہیں عزت کے بلند مقام پر کھڑا کر دے گا.پھر فرما یا کہ جس اللہ نے یہ کتاب تمہیں بھجوائی ہے وہ صرف الْعَزِیزُ ہی نہیں.الْحَكِيْمُ بھی ہے الْحَکیم کے معنی ” صاحب حکمت“ کے ہیں.حِكْمَةٌ عربی زبان میں عدل، علم، حلم، فلسفہ کے لئے استعمال ہوتا ہے.تو الْحَکیم کے ایک معنی یہ ہوئے کہ وہ علم رکھنے والی ہستی ہے.اس سے زیادہ علیم کوئی نہیں.تو اللہ تعالیٰ جس نے یہ قرآن نازل کیا ہے وہ ذات ہے جس کے علم کے مقابلہ میں ساری دنیا کے علوم کی کوئی حیثیت نہیں ہے.کامل علم اس کے پاس ہے.کوئی چیز اس سے مخفی نہیں.دنیا کے ہر ظاہر و باطن پر اس کی نظر ہے.ماضی و حال و مستقبل اس کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے کہ ایک انسان کے لئے ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ جو حقیقتاً اس کے لئے حال بنتا ہے.پس یہ وہ ذات ہے جو زمانہ سے بھی ارفع ہے.جو مکان سے بھی بالا ہے.اس کے علم کے مقابلہ میں کوئی علم ٹھہر نہیں سکتا.اسی علم کے منبع سے یہ کتاب نازل ہوئی ہے.اس لئے اگر تم قرآن کریم کا غور سے مطالعہ کرو گے.اس کو سمجھو گے ، اس کے علوم کے حصول کے لئے اپنے رب سے دعائیں کرتے رہو گے تو تمہیں وہ علوم عطا کئے جائیں گے کہ دنیا کے سارے عالم تمہارے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکیں گے.چنانچہ ابتداء زمانہ اسلام میں جو ترقی کا زمانہ ہے.ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے.مغرب

Page 333

خطبات ناصر جلد اول ۳۱۷ خطبہ جمعہ ۱۵ / جولائی ۱۹۶۶ء کے جتنے بڑے بڑے فلاسفر گزرے ہیں.ان سب نے اپنی فلاسفی یا ان نظریات میں جو انہوں نے پیش کئے مجھے یقین ہے کہ انہوں نے ان میں سے کسی نہ کسی مسلمان محقق سے بھیک مانگی ہے.ایک جرمن فلاسفر کانٹ بہت مشہور فلاسفر ہے جسے صرف جرمنی میں ہی نہیں بلکہ انگلستان اور امریکہ اور دوسری مہذب دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسے بڑے دماغ والا خیال کیا جاتا ہے.اس کی بہت سی تھیوریز اور نظریے جو اس نے دنیا کے سامنے پیش کئے.میں ذاتی علم رکھتا ہوں کہ ان نظریات کو ہمارے مسلمان علماء نے (Kant) کانٹ سے بہتر طریق پرسو دو سو سال پہلے ہی دنیا کے سامنے پیش کیا ہوا ہے.اس وقت تو ان علماء کی کتب بھی دنیا میں موجود تھیں.بعد میں اسلام کے خلاف جو تعصب سے کام لیا گیا.اس کے نتیجہ میں ہماری بہت سی لائبریریاں جلا دی گئیں.اور بہت بڑے پایہ کی کتابیں ایسی ہیں جو یا تو اس وقت دنیا سے کلیتاً مفقود ہیں.یا ان کی ایک آدھ جلد باقی ہے جو مثلاً روس کی لائبریری میں ہے اور ہماری دسترس سے باہر ہے اور ہم اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.یا اگر کہیں چھپی ہوئی ہوں تو کہہ نہیں سکتے.اسی طرح طب ہے اور دیگر جتنی سائینسز ہیں اور جتنے دوسرے علوم ہیں ان کے متعلق یہ لوگ اب مجبور ہو کر تسلیم کر رہے ہیں کہ ہم نے ابتدا انہیں مسلمانوں سے سیکھا ہے.پس جس وقت مسلمان قرآن کریم کی قدر کرنے والا تھا.قرآن کے نور سے حصہ پانے والا تھا.وہ تمام ان اقوام کا استاد تھا.لیکن پھر انہوں نے اپنے غرور اور نخوت میں عملاً یہ اعلان کر دیا کہ ہمیں قرآن کریم کی ضرورت نہیں.ہماری عقل ہی ہمارے لئے کافی ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم نے اپنی ناقص عقل پر ہی بھروسہ کرنا ہے.تو پھر جاؤ اپنی عقل سے کام لے کر دیکھ لو اور آخر یہ ہوا کہ ہمیں علم کے ہر میدان میں بھیک مانگنی پڑ گئی ہے.یہاں تک کہ جو موٹی موٹی باتیں ہیں.جو آسانی سے ایک غیر دیندار مسلمان بھی قرآن کریم سے حاصل کر سکتا تھا.وہ بھی ہمیں حاصل نہ رہیں کیونکہ قرآن کریم کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں.مثلاً ماڈل فارم ہیں آپ میں سے جو سفر کرنے والے ہیں وہ دیکھتے ہوں گے کہ ہر پانچ دس میل کے فاصلہ پر مختلف آدمیوں کے نام پر ماڈل فارم بنائے گئے ہیں.زید کا ماڈل فارم، بکر کا ماڈل فارم وغیرہ یہ جو ماڈل فارمنگ ہو رہی

Page 334

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۱۸ خطبہ جمعہ ۱۵؍جولائی ۱۹۶۶ء ہے یہ سب مانگے کی ہے.کسی مہذب قوم کے سامنے ہم اپنی آنکھیں اور سر اٹھا نہیں سکتے کیونکہ ہم خود منگتے ہیں اور ہمارا دامن ان کے سامنے پھیلا ہوا ہے.ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق بیدِ سفلی رکھنے والے ہیں.ہمارا ہاتھ نیچے ہے اور ان کا ہاتھ اوپر ہے حالانکہ خود قرآن کریم نے ہمیں روحانی باتیں سمجھاتے ہوئے کئی قسم کے ماڈل فارم کی مثالیں ذکر کی ہیں.اور ان میں سے بعض ایسے ماڈل فارم بیان ہوئے ہیں کہ جن کے لئے پاکستان کی سالانہ آمد اگر تیس سال تک بھی خرچ کر دی جائے تب بھی وہ ریسرچ پروگرام اتنے کمال تک نہیں پہنچ سکتا.جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے.اتنی زبر دست تحقیقی باتیں اس میں بیان کی گئی ہیں.بے شک قرآن کریم ہمیں علم زراعت سکھانے نہیں آیا.لیکن زراعت کو پیدا کرنے والا خدا ہمیں زراعت کی زبان میں روحانی باتیں سکھاتا ہے اور ضمناً ہمیں وہ باتیں بھی بتا جاتا ہے.جو ہماری زراعتی ترقی کے لئے ضروری ہیں.میں نے کئی دفعہ اپنے ماہرین زراعت سے کہا ہے کہ تمہیں مانگنے کی عادت ہے، تمہیں شرم کرنی چاہیے.ورنہ تم بجائے روس سے لینے کے، بجائے امریکہ سے لینے کے یا چین سے لینے کے کسی بھی غیر ملک سے مانگنے کی بجائے تم قرآن کریم پر غور کر کے اپنے ماڈل فارم کا پروگرام بناتے.لیکن میری یہ بات سن کر وہ چپ ہو گئے.انہوں نے کبھی خیال بھی نہیں کیا کہ قرآن کریم میں بھی کوئی علم ہے.حالانکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے مِنَ اللہ الْحَكِيمِ کہ یہ حکیم اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اگر تم اس کی پیروی کرو گے ، اس کے نور سے حصہ لو گے تو دنیوی علوم میں بھی کوئی قوم تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گی.کئی سو سال تک کی خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ واقعہ میں خدا تعالیٰ نے یہ سچ فرمایا ہے کیونکہ علم کے میدان میں کئی سو سال تک مسلمانوں کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی قوم کھڑی نہیں ہوسکی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنّا اَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ ہم نے کامل سچائیوں کے ساتھ یہ قرآن تیرے پر نازل کیا ہے.چونکہ یہ کامل صداقتوں اور کامل حقائق پر مشتمل ہے.فَاعْبُدِ الله اس لئے اے مسلمان ! تو اپنے اللہ کی عبادت کر.

Page 335

خطبات ناصر جلد اول ۳۱۹ خطبہ جمعہ ۱۵؍جولائی ۱۹۶۶ء اس میں ہمیں یہ بتایا کہ حقیقی اور سچی عبادت جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی اور کھینچنے والی ہے وہ اسی شخص کی ہو سکتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبادت کے کامل اور مکمل اصول بتائے گئے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی کامل رہبری فرما دی ہو.پھر یہ بھی بیان فرما دیا کہ یہ الکتاب پہلی کتب کی طرح نہیں ، جن میں کچھ صداقتیں تو بیان کی گئی تھیں.لیکن ساری صداقتیں بیان نہیں کی گئی تھیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ کے لوگ تمام صداقتوں اور تمام حقائق کو ذہنی طور پر بھی.جسمانی نشوونما کے لحاظ سے بھی اور اخلاقی ارتقاء کے لحاظ سے بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے.پس ان کی طرف کچھ صداقتیں یا یوں کہیے کہ الکتاب کا ایک حصہ نازل کیا گیا اور اگر یہ سچ ہے اور یقیناً یہی سچ ہے تو پھر ان کی عبادت اور ایک سچے مسلمان کی عبادت میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ ان کی عبادت نتیجہ ہے مثلاً بیس فی صدی ہدایت کا.اگر انہیں کامل ہدایت ملی ہوتی تو ہم کہتے کہ ان کی عبادت سو فیصدی کامل ہدایت کے ماتحت ادا کی گئی.مگر ایسا نہیں.کیونکہ پہلی قوموں میں سے بعض کو کامل ہدایت کا مثلاً بیس فی صدی حصہ دیا گیا.اس کے بعد جو لوگ ترقی کر گئے انہیں تیس فی صدی.پھر ان کے بعد آنے والے لوگوں کو چالیس ، کسی کو پچاس اور کسی کو ساٹھ فی صدی حصہ عطا کیا گیا.سو فیصدی ہدایت صرف اُمت مسلمہ کو عطا کی گئی.تو جس شخص کی ، جس قوم کی ، یا جس نبی کی اُمت کی اللہ تعالیٰ نے صرف ہیں یا صرف تیس یا صرف چالیس یا صرف پچاس یا صرف ساٹھ فی صدی راہنمائی کی ہو اور اس راہنمائی کے نتیجہ میں انہوں نے اپنے رب کی عبادت کی ہو.ان کی یہ عبادت اس عبادت کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سو فیصدی راہنمائی کے بعد ایک مسلمان بجالاتا ہے اور ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان امتوں پر اللہ تعالیٰ کے جو انعام اس دنیا میں نازل ہوئے یا آئندہ اخروی زندگی میں نازل ہوں گے وہ ان انعامات کے مقابلہ میں نہیں رکھے جاسکتے جو ایک حقیقی مسلمان پر اس دنیا میں اور پھر اخروی زندگی میں نازل ہوتے ہیں بلکہ ان انعامات سے ان انعامات کو کوئی نسبت ہی نہیں.

Page 336

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۲۰ خطبہ جمعہ ۱۵ جولائی ۱۹۶۶ء یہاں ہمیں یہ بتایا کہ چونکہ یہ الکتاب نازل کی جا چکی ہے.جس میں کوئی خامی اور نقص نہیں بلکہ اس میں ساری کی ساری خوبیاں جمع کر دی گئی ہیں.فِيْهَا كُتُبُ قَيَّمَةٌ (البينة : ۴) یہ سب کی سب قرآن کریم کا ہی حصہ تھیں جواب پھر قرآن کریم میں اپنی اپنی جگہ پر رکھ دی گئی ہیں بلکہ بہت کچھ زائد بھی اس میں رکھا گیا ہے.اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اگر تم اس ہدایت کے مطابق عمل کرو گے تو تمہاری عبادت کامل اور مکمل ہوگی.دوسری بات اس آیت میں ہمیں یہ بتائی گئی ہے فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّيْنَ کہ عبادت کا مفہوم یہ نہ سمجھناکہ اللہ اللہ کہ دیا یا درود پڑھ لیا یا سبحان اللہ پڑھ لیا یا الحمدللہ کہ لیا.قرآن کریم کے نزدیک صرف اتنا یا محض اتنا کوئی عبادت نہیں.اگر کوئی شخص مثلاً دس ہزار دفعہ درود پڑھتا ہے.لیکن اس میں اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے اُسوہ حسنہ نہیں بنا یا.تو اس درود پڑھنے کا اسے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو گا.جب ہم درود پڑھیں تو ہمیں چاہیے کہ اس نیت سے پڑھیں کہ اے خدا! تو نے دنیا میں ہمارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نہایت ہی اعلیٰ نمونہ بنایا ہے.اور تو نے اسے اس لئے نمونہ بنایا ہے تا کہ ہم اس کی پیروی کریں اس کے نمونہ پر چل کر اس کے اخلاق اپنے اندر پیدا کریں اور اس کے رنگ سے رنگین ہوں تو ایسا درود ہمیں فائدہ دے گا.لیکن اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں درود تو پڑھتا ہوں لیکن میں آپ کے نمونہ کی پیروی کرنا نہیں چاہتا.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ عبادت نہیں.فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ دین کے ایک معنی اطاعت بھی ہیں.فرمایا تمہاری عبادت تب میری حقیقی عبادت کہلائے گی جب تم اس کے ساتھ میرے تمام حکموں پر عمل بھی کرو گے اور پھر عبادت خالص ہو یعنی بغیر کسی ریاء اور بغیر کسی کھوٹ کے ادا کی گئی ہو.اَخْلَص کے مفہوم میں عربی زبان کے مطابق دو باتیں پائی جاتی ہیں ایک ریاء کا نہ ہونا دوم کھوٹ کا نہ ہونا.اَخْلَصَ الطَّاعَةَ کے معنی ہیں اس نے اطاعت میں کوئی ریاء نہیں برتا.مثلاً ظاہر میں اللهُ اللهُ کہا یا ظاہر میں بہت عبادت کی لیکن اس کا باطن اطاعت سے انکار کرتارہا تو یہ اخلاص کے خلاف ہے.تو فر ما یا کہ ہم تمہیں حکم دیتے ہیں.

Page 337

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۲۱ خطبہ جمعہ ۱۵؍جولائی ۱۹۶۶ء فَاعْبُدِ اللہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس نیت سے عبادت کرو کہ جو حکم بھی نازل ہوگا.ہم اس کو بجالائیں گے اور ہر بات جس سے روکا جائے گا ہم اس سے باز رہیں گے.پس اللہ تعالیٰ کی عبادت خالص اطاعت کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے.ورنہ اسلام اسے عبادت قرار ہی نہیں دیتا.اگر لمبی لمبی نمازیں پڑھنے والا فحشاء اور منکر سے باز نہیں آتا تو اس کی نمازیں سچی نمازیں نہ ہوں گی کیونکہ سچی نماز تو فحشا ء اور منکر سے روکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک اور عجیب مضمون بھی بیان فرمایا ہے.الدّین کے معنی تدبیر کے بھی ہیں.تو فرماتا ہے.فَاعْبُدِ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّین کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ تمہاری تمام تدابیر خالصتاً بغیر کسی ریاء اور کھوٹ کے اسی کے لئے ہوں.اس میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ تدابیر سے منع نہیں کرتا.وہ یہ نہیں کہتا کہ مال نہ کماؤ وہ یہ نہیں کہتا کہ تجارتیں نہ کرو.وہ یہ نہیں کہتا کہ زراعت نہ کرو.وہ یہ نہیں کہتا کہ تم وکالت کا پیشہ اختیار نہ کرو اور فیس نہ لو لیکن وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ دنیا کی جو تد بیر بھی تم کر ووہ خدا کے لئے کرو اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں سے نہ اُتارو پھر جب وہ یہ کہتا ہے کہ مال کماؤ تو ساتھ ہی یہ بھی حکم دیتا ہے کہ مال ان طریقوں سے کماؤ جو جائز قرار دئے گئے ہیں اور ان طریقوں سے مال نہ جمع کرو جو حرام قرار دئے گئے ہیں.پھر جب وہ کہتا ہے کہ تم مال خرچ کرو تو ساتھ ہی وہ یہ کہتا ہے کہ اپنا مال ان طریقوں سے خرچ کرو جو جائز قرار دئے گئے ہیں اور جوطریق خدا کے نزدیک ناپسندیدہ یا مکروہ ہیں اور بڑے ہیں ان طریقوں سے خرچ نہ کرو.پس اس چھوٹی سی آیت میں اور چند الفاظ میں بڑے وسیع معانی اور مطالب بیان فرمائے گئے ہیں بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم عبادت کرو تو اس طرح کہ تمام دنیوی تدابیر کو بھی خالصتاً بغیر کسی ریاء، بغیر کسی کھوٹ کے میرے لئے کر رہے ہو.ایک شخص اگر رات کو تہجد کی نماز ادا کرتا ہے اور تہجد کی نماز کے بعد نماز فجر سے پہلے کہیں جا کر ڈاکہ ڈالتا ہے.تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی نماز تہجد قبول ہو جائے گی !! اس کی دعائیں جو اس نے نماز تہجد میں کی تھیں وہ پوری کی جائیں گی؟؟ یہ مثال مجھے اس وجہ سے یاد آئی کہ قادیان کے قریب ایک گاؤں تھا منگل.وہاں ایک

Page 338

خطبات ناصر جلد اول ۳۲۲ خطبہ جمعہ ۱۵؍جولائی ۱۹۶۶ء ڈاکو نمبر ۱۰ رہا کرتا تھا.رات کے ایک بجے پولیس اسے اس کے گھر جا کر دیکھا کرتی.ابھی وہ پولیس کا آدمی واپس قادیان نہ پہنچتا تھا کہ یہ چوری کے لئے نکل کھڑا ہوتا.ایک دن وہ ہماری کوٹھی میں جو حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں بنا کر دی تھی ، عین سحری کے وقت پہنچا اور ایک چیز چرائی.ہمارا ایک نوکر تھا اسے جب معلوم ہوا تو یہ بھاگ گیا.بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ اس شخص کا کام ہے.تو جو شخص ایک یا دو بجے رات تک شریفانہ طور پر گھر میں وقت گزارتا رہا اور اس کے معاً بعد وہ چوری کے لئے نکل گیا تو قانون کی نگاہ میں وہ یقینا چور ہے.وہ شخص جو رات کو تین گھنٹے تک تہجد کی نماز ادا کر تا رہا پھر دن کو اس نے کسی کا مال غصب کر لیا تو خدا کی نگاہ میں وہ حرام خور ہے تہجد گزار نہیں.اسی واسطے ہمیں اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب تک ہماری ساری تدابیر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے نیچے نہیں آجاتیں.اس وقت تک ہماری عبادت خدا کی عبادت کہلانے کی مستحق نہیں ہوسکتی.حقیقی عبادت اسلام کے نزدیک جیسا کہ اس آیت سے پتہ چلتا ہے یہ ہے کہ خالصتاً اس کی اطاعت ہو.اس کی اطاعت میں ریاء نہ ہو.تمام احکام الہی کی پیروی کی جائے.مثبت احکام کی مثبت طریق پر اور منفی احکام کی منفی طریق پر.فرمایا کہ کوئی زمیندار ہے، کوئی ڈاکٹر ہے، کوئی بارایٹ لاء ہے وغیرہ.یہ تمہاری تدبیریں ہیں لیکن یا درکھو کہ جب تک تم اپنی تدابیر کو مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ کے ماتحت رکھو گے تو تمہاری عبادتیں قبول ہوں گی اور جب ان میں اخلاص نہ ہوگا اور اطاعت نہ ہوگی تو یقیناً وہ قبول نہ ہوں گی.اس لئے میں جماعت کے بھائیوں اور بہنوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ صرف احمدی کہلانا یا بیعت کر لینا کافی نہیں بلکہ آپ کا فرض ہے کہ قرآن کریم کی اور اسلام کی دنیا میں عزت قائم کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے والے ہوں.لیکن یہ کام ہرگز نہیں ہو سکے گا جب تک کہ دل میں اس کی محبت نہ ہو.جب تک کہ قرآنِ پاک کا علم آپ کو حاصل نہ ہو.جب تک کہ آپ اس کو کما حقہ سمجھنے والے نہ ہوں اور جب تک کہ ہمیشہ اس کے متعلق غور و فکر کرنے والے نہ ہوں.پس جب تک آپ قرآن کریم کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے.

Page 339

خطبات ناصر جلد اول ۳۲۳ خطبہ جمعہ ۱۵ جولائی ۱۹۶۶ء میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی اور دنیا کی نگاہ میں بھی کبھی عزت حاصل نہیں کر سکتے.اگر آپ نے اپنی زندگی کا مقصد حاصل کرنا ہے اور اگر آپ نے اس غرض کو جس کے لئے یہ جماعت قائم کی گئی ہے حاصل کرنا ہے تو ضروری ہے کہ آپ قرآن کریم سے پیار کرنے والے ہوں.اس طرح کہ اس کے تمام احکام پر عمل کرنے والے ہوں.قرآن کریم کی عزت کرنے والے ہوں.قرآن کریم کے نور سے خود بھی منور ہوں اور پھر اس نور کی دنیا میں اشاعت بھی کریں.خدا تعالیٰ ہمیں صحیح معنی میں حقیقی احمدی بنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۷ / اگست ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۶ ) 谢谢谢

Page 340

Page 341

خطبات ناصر جلد اول ۳۲۵ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء قرآن کریم کی دس صفات حسنہ جن سے اس کی عظمت وشان کا اظہار ہوتا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۲ جولائی ۱۹۶۶ء بمقام گھوڑ اگلی.مری تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ حم السجدۃ کی یہ پہلی تین آیات کی تلاوت فرمائی.حم - تَنْزِيلٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - كِتَب فَصَلَتْ أَيْتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ - بَشِيرًا وَ نَذِيرًا ۚ فَاَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ.( حم السجدة : ۲ تا ۵ ) پھر فرمایا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم ہی میں اس کلام مجید کی عظمت اور اس کی شان اور اس کے فوائد اور اس کی روحانی تا شیروں کو مختلف پیرایوں میں بڑے زور کے ساتھ ، بڑی وضاحت کے ساتھ ، بڑی فصاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے.ان مختصر سی تین آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی دس صفاتِ حسنہ بیان کی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(1) تَنْزِيلٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ پہلی صفت اس کتاب ، اس قرآن کی یہ ہے کہ یہ تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمٰن ہے.الرَّحْمٰنِ خدا کی طرف سے اسے نازل کیا گیا ہے اور رحمن خدا کی رضا

Page 342

خطبات ناصر جلد اول ۳۲۶ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء جن راہوں سے ملتی ہے.ان کا اس میں ذکر ہے.اَلرّحمٰنِ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایک ایسی ہستی ہے کہ جو بغیر استحقاق کے بھی اپنے بندوں کو اپنی رحمتوں سے نوازتا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک تو یہ ارشاد فرمایا کہ ابھی انسان دنیا میں پیدا بھی نہیں کیا گیا تھا.اس وقت اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں قرآن کریم جیسی کامل اور مکمل کتاب موجود تھی جس نے بنی نوع انسان کو روحانی رفعتوں تک پہنچانا تھا.دوسرے تنزِيلٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ کے یہ معنی ہیں کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہدایات، ایسے ذکر ، خدا تعالیٰ کی حمد کے ایسے طریق بتائے گئے ہیں کہ اگر انسان ان پر کار بند ہو تو وہ رحمن خدا کو خوش کرنے والا ہوگا اور عمل محدود ہونے کے باوجود غیر محدود جزا کا اور ثواب کا مستحق ٹھہرایا جائے گا.ہندو مذہب کی اس بگڑی ہوئی شکل میں اللہ تعالیٰ کو نہ رحمن مانا جاتا ہے نہ رحمن سمجھا جاتا ہے.اس لئے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اس مختصر زندگی میں جو اعمال بجالاتا ہے تو اس کا بدلہ بھی رحیم خدا ہی دیتا ہے.رحمن خدا کا ان کے مذہب میں تصور ہی نہیں چونکہ یہ اعمال محدود ہوتے ہیں ان کا بدلہ اور ان کی جزاء بھی محدود ہوتی ہے اور جب محمد ود اعمال کا محدود بدلہ انسان کومل جاتا ہے تو پھر وہ ایک نئی جون میں اس دنیا میں واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ اگر اور انعام حاصل کرنے ہیں تو پھر دنیا میں جاکے اور عمل کرو پھر تمہیں اور انعام ملے گا.لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ قرآن کریم کو نازل کرنے والی پاک اور قادر و توانا ہستی وہ ہے جو رحمانیت کی صفت سے متصف ہے اور قرآن کریم میں وہ ہدایتیں ، وہ احکام ، وہ فرائض، وہ دعائیں ، اللہ تعالیٰ کی حمد کے وہ طریقے بتائے گئے ہیں کہ اگر تم ان پر عمل کرو گے تو رحمن خدا خوش ہوگا اور تمہارے محدود اعمال کا غیر محدود بدلا تمہیں دے گا.(۲) دوسری صفت قرآن کریم کی ان آیات میں یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ تَنْزِيلٌ مِّنَ الرَّحِیمِ ہے اس قادر و توانا ہستی کی طرف سے نازل کی گئی ہے جس کی صفاتِ حسنہ میں سے ایک صفت رحیمیت کی ہے.یہ بتا کر ہمیں اس طرف متوجہ کیا گیا اور ہمیں امید دلائی گئی کہ ہم جو اعمال

Page 343

خطبات ناصر جلد اول ۳۲۷ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء بھی اس کی خوشنودی کے لئے بجالائیں گے.ہم جو قربانیاں اس کی رضا کی خاطر کریں گے.ہم جو ایثار کے نمونے محض اور محض اس کے لئے دنیا کے سامنے پیش کریں گے وہ قادر ہستی اس بات پر قادر ہے کہ ہمارے ان اعمال کا بدلہ دے اور جزاء دے.بہت دفعہ اس دنیا میں انسان انسانوں کی اس رنگ میں خدمت کرتا یا خوشامد کرتا ہے کہ جتنا بدلہ اس خوشامد اور اس خدمت کا خوشامد کرنے والے اور خدمت کرنے والے کو ملنا چاہیے.وہ بدلہ وہ شخص دے ہی نہیں سکتا اور نہ اس کی طاقت میں یہ ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کا بدلہ دے اور جو مشرک لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں اور پوجا کرتے ہیں ان کے لئے قربانیاں دیتے ہیں.مثلاً ہم سے بھی بہت زیادہ قربانیاں دینے والی اس وقت دنیا میں عیسائی قوم ہے.وہ عیسی یسوع مسیح جن کو انہوں نے خدا بنا دیا ہے.ان کی خاطر جانی قربانی بھی دے رہے ہیں اور مالی قربانی بھی دے رہے ہیں.ان کی عورتیں بھی اور ان کے مرد بھی انتہائی قسم کی قربانیاں اپنے باطل مذہب اور شرک کی خاطر وہ اس وقت دے رہے ہیں اور اپنے اس معبود کی خدمت میں جو دراصل مردہ ہے زندہ نہیں (پاک نبی ہونے کے لحاظ سے تو زندہ ہیں لیکن بطور معبود ہونے کے وہ اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ) ان کی خدمت میں وہ ایثار کے نمونے پیش کر رہے ہیں کہ آدمی کو بعض دفعہ ان پر رشک آتا ہے.افریقہ کے جنگلوں میں جا کر ، اربوں ڈالر خرچ کر کے، اتنے پیسے ہونے کے باوجود بھی ہر قسم کی جذباتی اور جسمانی تکلیف گوارا کر کے وہ لوگوں میں عیسائیت پھیلانے میں کوشاں ہیں لیکن جس کے لئے وہ یہ کوششیں کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں اور اموال کو خرچ کر رہے ہیں اس میں یہ طاقت نہیں کہ ان لوگوں کو ان قربانیوں کا بدلہ دے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ ہم کسی ایسی ہستی کے لئے ایثار اور قربانی نہیں مانگ رہے جس میں بدلہ دینے کی طاقت ہی نہ ہو بلکہ قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق تم جو تکالیف بھی برداشت کرو.جو مجاہدات بھی بجالاؤ.جو قربانیاں بھی دورہ اس خدائے رحیم کے لئے ہوں گی کہ جس کی طاقت میں ہے کہ جتنا تم کرو اس سے زیادہ تمہیں بدلہ میں دے کیونکہ رحیمیت کے ساتھ

Page 344

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۲۸ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء اس بات کا بھی تعلق ہے کہ وہ نیک اعمال کو بڑھاتا ہے.اَضْعَافًا مُضْعَفَةً کر دیتا ہے.ایک پیج کی طرح جس طرح بیج مٹی میں ڈالا جاتا ہے اور وہ بڑھتا ہے.پھولتا ہے.اور پھلتا ہے اور ایک دانہ سے سو، پانچ سو، سات سو تک ہو جاتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحیمیت کے ماتحت ایسا انتظام کیا ہے کہ وہ انسان کے اعمال کو بطور پیج کے ایک ایسی جگہ میں رکھتا ہے جہاں وہ اعمال بھی بڑھتے ، پھولتے اور پھلتے ہیں اور اُخروی زندگی میں کئی گنا زیادہ ہمیں اپنے اعمال کا بدلہ مل جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے کہ چونکہ یہ خدائے رحیم کی طرف سے نازل شدہ ہے.تم جو بھی اعمال قرآن کریم کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق بجالا ؤ گے وہ ضائع نہیں جائیں گے.تمہیں ان کا اجر ملے گا اور بڑا ہی اچھا اجر ملے گا.(۳) تیسری صفت اس کی یہ بیان فرمائی ہے کتاب فُصِّلَتْ اینه کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے احکام اور جس کی ہدایتیں مختصر اور مجمل طور پر بیان نہیں کی گئیں.جتنا کسی چیز میں اجمال کو مد نظر رکھا جائے اتنا ہی اس کے سمجھنے کے لئے زیادہ فراست، زیادہ بیدار مغزی اور زیادہ ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے.اگر کوئی الہامی کتاب بہت ہی مختصر ہو تو بہت سے لوگ اپنے ربّ کے حضور یہ عذر پیش کر سکتے تھے کہ اے خدا! تیرا ہدایت نامہ تو آیا مگر وہ اس قدرا جمال کے ساتھ بیان کیا گیا تھا کہ ہم اپنی ناقص سمجھ کے مطابق اس کی حقیقت کو پہنچ نہیں سکتے تھے اس لئے ہم اس کے فیض سے محروم رہے.اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ اس کتاب میں جو احکام بھی بیان کئے گئے ہیں ان کو اچھی طرح کھول کر اور تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے.تفصیل سے کھول کر بیان کرنے کے اللہ تعالیٰ نے دو طریق امت محمدیہ میں جاری کئے ہیں..ایک تو یہ کہ خود قرآن کریم کے الفاظ بڑے تفصیلی مضامین کے حامل ہیں.دوسرے یہ کہ پھر بھی کوئی شخص کہہ سکتا تھا کہ ہم میں اتنی سمجھ نہ تھی کہ قرآن کریم کے عربی الفاظ

Page 345

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۲۹ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء کی تحقیق کرتے اور ہمیں ان کے مطالب کی تفاصیل پر اطلاع ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ سلسلہ جاری کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آپ کے ظل اس امت میں پیدا کئے جو اپنے اپنے وقت میں وقت کی ضرورت کے مطابق قرآن کریم کے مطالب اپنے رب سے حاصل کرتے رہے اور خوب کھول کر قرآن کریم کو بیان کرتے رہے.خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ لاکھوں اقوال جو کتب احادیث میں جمع کئے گئے ہیں وہ حقیقتاً قرآن کریم کی تفسیر ہیں.عام طور پر وہ لوگ جو علم کے لحاظ سے اور تقویٰ اور طہارت کے لحاظ سے ایک بلند مقام پر نہیں ان کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آنحضرت کا کونسا قول قرآن کریم کی کس آیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.کون سی حدیث کس آیت یا آیت کے کس ٹکڑے کی تفسیر ہے.اس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے اشارہ فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے جو باتیں بھی نکلی ہیں وہ حقیقتا قرآن کریم کی ہی تفسیر ہیں.قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت سے ان باتوں کا تعلق ہے.آپ کے بعد آپ کے ماننے والوں میں، آپؐ سے پیار کرنے والوں میں ، آپ سے محبت کرنے والوں میں، آپ کی اتباع کرنے والوں میں ، آپ پر جانیں قربان کرنے والوں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو آپ کی محبت میں اور آپ کے وجود میں ایک حد تک یا بہت حد تک فنا ہوئے اور اپنی اپنی استطاعت کے مطابق انہوں نے قرآنی علوم کو حاصل کیا اور دنیا میں پھیلایا.تو كِتَابٌ فصّلت اینه کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے گا جن کو وہ خود قر آنی علوم سکھائے گا اور وہ لوگ قرآنی آیات کی تفاصیل بنی نوع انسان میں پھیلائیں گے اور ان تک پہنچائیں گے.ہر دو لحاظ سے قرآن کریم کی بڑی عظمت اور بڑی شان ہے.یعنی اس معنی کے لحاظ سے بھی کہ اختصار الفاظ کے باوجود تفصیل کافی حد تک ، تسلی بخش حد تک قرآن کریم میں پائی جاتی ہے.اس قسم کا اجمال نہیں کہ انسان اپنے علم اور اپنی ضرورت کے مطابق جو اس سے حاصل کرنا چاہیے، حاصل نہ کر سکے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے بھی کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات کو

Page 346

خطبات ناصر جلد اول ۳۳۰ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے یعنی اس اُمت میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو قرآن کریم کی آیات کے معانی کھول کھول کر دنیا کو سنانے والے ہوں گے اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قرآن کریم کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے ویسا ہی عملاً وقوع میں آیا ہے.(۴) چوتھی صفت قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ قرانًا ہے.قرآن کے معنی ہیں ایسی آسمانی کتاب جس میں پہلی کتب سماویہ کے بنیادی اصول اور ہدایتیں جمع ہوں.یہی نہیں بلکہ قرآن کے معنی میں یہ بھی ہے کہ جس میں تمام علوم کے اصول بیان ہو گئے ہوں.میں اس وقت تفصیل میں نہیں جا سکتا صرف ایک دنیوی اصول جو دنیا کے علوم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ بتا دیتا ہوں اور قرآن کریم نے بڑے دھڑلے اور بڑے زور کے ساتھ اسے بیان کیا ہے وہ یہ کہ دنیا کا یہ مادی کا رخانہ اللہ تعالیٰ نے ایک قانون کے ساتھ باندھا ہوا ہے.یہ ایک بنیادی اصل ہے جس کا ہر دنیوی علم کے ساتھ تعلق ہے چنانچہ ہمارے علوم نے جتنی بھی ترقی کی ہے خصوصاً اب جو غیر مسلم مغربی اقوام نے اور بعد میں کچھ مشرقی اقوام نے دنیوی اور مادی علوم میں جو ترقی کی ہے ان کے ہر علم کی بنیاد اسی اصل کے اوپر ہے اور یہ اصل انہوں نے در اصل مسلمان سائنٹسٹ اور مسلمان علماء سے لیا ہے.ڈارک ایجز “ جو کہلاتی ہیں یعنی وہ زمانہ جس میں عیسائی ملک اور غیر مسلم اقوام نہایت پستی کی حالت میں زندگی گزار رہی تھیں.مسلمان علماء اور سائنٹسٹ ان ملکوں میں پہنچے اور ان لوگوں کو انہوں نے علم بھی سکھایا اور ساتھ ہی یہ بنیادی اصل بھی سکھا یا کہ دنیا کا ہر لم تبھی علم کہلا سکتا ہے یعنی اسے نظام میں باندھا جا سکتا ہے جب اس اصل کو تسلیم کیا جائے جو قرآن کریم نے بتایا ہے کہ کوئی چیز بھی قانون سے باہر نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے جسے قانونِ قدرت کہتے ہیں ( جب ہم اسے قانونِ قدرت کہتے ہیں تو یہ ایک ناقص اصطلاح ہے.جب ہم اسے سنت اللہ کہتے ہیں تو یہ ایک کامل اصطلاح ہے ) قرآن کریم نے اس کو اللہ کی سنت یا سنت اللہ کی کامل اصطلاح سے بیان کیا ہے کہ تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاتے.جب میں نے یہ کہا کہ ” قانونِ قدرت ناقص اصطلاح ہے تو اس کا

Page 347

خطبات ناصر جلد اول ۳۳۱ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء مطلب یہ ہے کہ سائنس کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس بات کو ایک سائنسدان نے قانونِ قدرت سمجھا اور کہا، کچھ عرصہ کے بعد مزید تحقیق اور تجس کے نتیجہ میں معلوم ہوا کہ دراصل وہ قانون قدرت نہیں تھا بلکہ قانونِ قدرت اور ہی تھا جس کو وہ غلط سمجھ رہے تھے اور اس دوسرے قانونِ قدرت کے ماتحت یہ واقعات رونما ہوئے تھے.کہنے کوتو یہ ایک معمولی سی مثال ہے مگر ہے بڑی واضح اور وہ یہ کہ آگ جلاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا ہے کہ تو جلا.یہ سنت اللہ ہے اور چونکہ وہ ( آگ ) الہی سنت کے ماتحت ہے.اللہ تعالیٰ کبھی اپنی اس قوت اور طاقت کو ثابت کرنے کے لئے کہ آگ میرے حکم سے ہی جلاتی ہے اس کو جلانے سے روک بھی دیتا ہے جیسے کہ ابراہیمؑ کے واقعہ میں خدا تعالیٰ نے فرما یا ینَارُ كُونِی بَرْدًا وَسَلمًا (الانبیاء:۷۰) تیرا نار رہنا میرے حکم سے تھا.اب میرا حکم ہے کہ بردا وسلمًا بن جاؤ.تو ایسے واقعات یہی ثابت کرنے کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں تا ہمیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ جس کے حکم سے کا رخانہ عالم چل رہا ہے.حکم اور سنت اس کی یہی ہے کہ آگ جلاتی ہے.انسان نے اس اصل اور اس حکم کے نتیجہ میں سینکڑوں ہزاروں فائدے حاصل کئے ہیں.اگر یہ ہوتا کہ کبھی آگ جلاتی اور کبھی ٹھنڈا کرتی تو یہ بھی ہوتا کہ جس گاڑی پر بھاپ سے چلنے والا انجن لگا ہوتا کبھی تو وہ گاڑی لاہور سے کراچی پہنچ جاتی اور کبھی ملتان سے لاہور یہ اطلاع آتی کہ ہمیں بڑا افسوس ہے کہ وہ آگ جو جلاتی اور گرم کرتی تھی اب اس نے ٹھنڈا کرنا شروع کر دیا ہے اور جو پانی بوائلر میں ڈالا گیا تھا وہ برف بن گیا ہے.گرمی کے دن تھے اس لئے برف کو ہم نے غریبوں میں تقسیم تو کر دیا ہے لیکن گاڑی آگے نہیں چل سکتی.کیونکہ آگ نے اپنا عمل چھوڑ دیا ہے.لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا.اگر ایسا ہوتا تو انسان کے لئے ایک مصیبت پیدا ہو جاتی.کوئی چیز بھی ہم بنا نہ سکتے.کبھی بجلی روشنی کرتی اور کبھی بجائے روشنی کے اندھیرا کر دیتی پس اگر یہ ہوتا تو انسان کے لئے زندگی گزارنا مصیبت بن جاتا.تو قانونِ قدرت کے مطابق یہ سارا کارخانہ چل رہا ہے.اور یہ ایسے بنیادی اور حقیقی اور

Page 348

خطبات ناصر جلد اول ۳۳۲ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء اصولی قوانین ہیں جو کسی نہ کسی پیرائے میں قرآن کریم میں بیان ہو گئے ہیں.کوئی مثال دیتے ہوئے ، کسی چیز کی وضاحت کرتے ہوئے کبھی اپنی طاقتوں کے اظہار کے لئے، کبھی اپنی صفات کے بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ یہ اصول بھی بیان کر جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے اندر چوتھی صفت یہ پائی جاتی ہے کہ یہ قرآن ہے کہ اس میں تمام پہلی کتب سماویہ کے بنیادی اصول بھی ہیں اور تمام علوم مادی کے بنیادی اصول بھی اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں اس لئے دین اور دنیا کی اگر تم ترقی چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم اس قرآن کی جو قرآن ہے ہر لحاظ سے پیروی کرنے والے اور اس سے فائدہ اُٹھانے والے بنو.(۵) پھر اللہ تعالیٰ نے پانچویں صفت اس کتاب مجید کی یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ قرآن ہی نہیں عربی ہے.عربی کے معنی ایک ایسی کتاب کے ہیں جو حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کرنے والی ہو.اس کے ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ کتاب جو منسوخ کرنے والی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو قرآن ہے.یعنی پہلی تمام کتب سماویہ کی بنیادی حقیقتیں اس کے اندر جمع ہیں.دراصل پہلی کتب سماویہ کی تمام بنیادی حقیقتیں قرآن کریم کا ہی حصہ ہیں اور پہلے لوگوں کو وقتی ضرورت کے مطابق قرآن کریم کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا تھا.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ بعض صداقتیں پہلی کتب میں ایسی تھیں جو پورے طور پرا قرآن میں بیان کی جاسکتی تھیں یعنی قرآن کریم کا ہی ایک حصہ پہلی اُمتوں کو دیا گیا تھا مگر کچھ زائد صداقتیں تھیں جو اس قرآن کا حصہ تھیں مگر پہلے لوگ اس کو سمجھ نہیں سکتے تھے اس لئے وہ ان کو نہیں ملیں.پس قرآن کامل اور مکمل شکل میں اُمتِ مسلمہ کو عطا ہوا.لیکن اس جز وی شکل میں اس کو منسوخ کر دیا گیا.پس یہ قرآن ہر پہلی کتاب کو منسوخ کرنے والا ہے.اب اگر کوئی شخص یہ کہے جیسا کہ بعض دفعہ بعض عیسائی یا بعض ہندو کہا کرتے ہیں کہ ہم بھی

Page 349

خطبات ناصر جلد اول ۳۳۳ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء خدا کی عبادت کرتے ہیں تم بھی خدا کی عبادت کرتے ہو ، تم اپنی عبادات کرتے جاؤ ہم اپنی عبادت کرتے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب سے راضی ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے جو را ہیں مجھ تک پہنچنے کے لئے بنی نوع انسان کے سامنے رکھی گئی تھیں وہ اب سب منسوخ ہو گئیں.اب مجھ تک پہنچنے کا راستہ قرآن کریم کا راستہ ہی ہے.اس کی ایک موٹی مثال یہ ہے.پہاڑ پر سفر کرتے ہوئے کئی جگہ آپ کو نظر آئے گا کہ بعض جگہ پہلے سڑک ہوتی تھی.بارشیں ہوئیں یا پہاڑ گرے یا مرورِ زمانہ کے نتیجہ میں، وہ میٹلڈ روڈ (Metalled Road) جوتھی وہ بالکل اُکھڑ کھڑ گئی اور نا قابل استعمال ہوگئی یا پل گر گیا اور وہ پل دوبارہ بنایا نہیں گیا.لیکن اس کی بجائے ایک نئی فراخ سڑک بنادی گئی.اب کوئی اگر یہ کہے ٹھیک ہے یہ بھی ایک راستہ ہوا کرتا تھا تم اس نئے راستہ پر موٹر لے جاؤ میں اس پرانے راستہ پر لے جاتا ہوں“.تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ کھڑ میں گر پڑے گا اور مارا جائے گا.آخری راستہ زیادہ وسیع ، زیادہ اچھا حکومت وقت نے عوام کے استعمال کے لئے بنایا ہے.جو اس پر چلے گا وہی اس جگہ تک پہنچے گا.جہاں تک یہ راستہ پہنچاتا ہے.یہ ایک موٹی مثال ہے مادی دنیا کی.قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے سب دنیا کی پہلی کتب کو منسوخ کر دیا.اب اُن کی پیروی کے نتیجہ میں تم لوگ مجھ تک نہیں پہنچ سکتے.اگر میری رضاء کی راہوں کی تلاش ہو.اگر تم میرے قرب کو ڈھونڈنے والے ہو تو صرف قرآن کریم کا ہی بتایا ہوا وہ صراط مستقیم ہے جو میرے تک تمہیں پہنچا سکتا ہے.پہلی کتب میں اب یہ طاقت نہیں رہی ہے.کیونکہ انسانی ایراد نے پرانی شریعتوں کو خطرناک اور مہلک بنادیا ہے.چھٹی صفت قرآن کریم کی ان آیات میں یہ بیان فرمائی لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ کہ یہ قرآن كِتَابٌ فصلت ایتہ بھی ہے.یہ رحمن اور رحیم خدا کی طرف سے نازل کردہ ہے.قرآن بھی ہے.عربی بھی ہے اس کے باوجود ہر آدمی کی سمجھ سے بالا بھی ہے.یعنی اس کا یہ نتیجہ نہیں کہ ہر کس و ناکس اس تک پہنچ جائے.کیونکہ یہ کتاب صرف ان لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی ہے جو روحانی علوم رکھتے ہوں.اس میں ایک مختلف پیرایہ میں لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: ۸۰) کا مضمون بیان کیا گیا

Page 350

خطبات ناصر جلد اول ۳۳۴ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء ہے اور بتایا گیا ہے کہ جو لوگ روحانی علوم سے مس رکھنے والے ہیں اور روحانیت کی تڑپ رکھنے والے ہیں اور ان کا میلان طبع ایسا ہے کہ وہ روحانی علوم کے حصول کی خواہش اپنے اندر رکھتے ہیں اور اس نیت سے رکھتے ہیں کہ وہ یہ علوم حاصل کر کے ان سے فائدہ اٹھائیں گے.ان کے لئے ہی یہ کتاب مفید ہوسکتی ہے.اگر کوئی عیسائی مثلاً سارا قرآن کریم پڑھ جائے.یہی نہیں بلکہ عربی میں اس وقت تک جتنی تفاسیر قرآن لکھی گئی ہیں وہ بھی پڑھ جائے.یہی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری کتب جو حقیقتا قرآن کریم کی تفسیر ہی ہیں وہ بھی پڑھ جائے یہی نہیں بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر کبیر کے نام سے بڑی تعظیم کتب تفسیر ( قرآن کریم کے بعض پاروں کی جو مکمل ہو چکی ہے ) شائع کی ہے وہ بھی سب پڑھ جائے تب بھی وہ قرآن کریم کو نہیں سمجھ سکتا.ایک ایسا عجیب نظام اللہ تعالیٰ نے جاری کیا ہے کہ وہ قرآن کریم تک پہنچ ہی نہیں سکتا اور نہ ہی قرآن کریم کے علوم حاصل کر سکتا ہے نہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.بظاہر یہ ایک فلسفیانہ خیال ہے لیکن یہ بات سمجھانے کے لئے مجھے ابھی ایک بڑی اچھی مثال یاد آ گئی ہے اور وہ یہ کہ پہلے زمانہ میں سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے لئے بڑے یا چھوٹے جہاز بیبیوں یا سینکڑوں کی تعداد میں جاتے تھے.ان کا طریق یہ تھا کہ مچھلیوں کے غول کا جو لاکھوں کی تعداد پر مشتمل ہوتا جہاں ان کو پتہ چلتا تھا تو وہ وہاں میل بامیل کے چکر میں جال پھینک دیتے تھے.اور پھر اس جال کی ، پانی کی تہ میں ، ایک دیوار بن جاتی تھی اور مچھلی اس سے باہر نہیں جاسکتی تھی.پھر وہ دوسرے جال کھینچ کھینچ کے مچھلیاں اُٹھاتے تھے.پر ابھی کچھ عرصہ ہو اسائنس دانوں نے ایک شعاع ایجاد کی ہے.اگر وہ شعاع پانی میں پھینک دی جائے تو مچھلیاں اس شعاع کو عبور نہیں کرتیں حالانکہ وہ کوئی مادی چیز نہیں لیکن ایک دیوار ہے اور دیوار بھی روشنی کی.وہ اس روشنی کی دیوار سے پرے نہیں جاسکتیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارا قرآن ہے تو نور مجسم ! لیکن اس میں بعض ایسی شعاعیں بھی ہیں کہ جو پاک نہ ہو، جس میں روحانیت نہ ہو.وہ اس تک پہنچ نہیں سکتا.خود روشنی کی بعض شعاعیں

Page 351

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۳۵ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء اس کو محروم کر دیتی ہیں حقیقی و روحانی علم حاصل کرنے سے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق فرما یا لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :۸۰) غیر مسلم تو اس تخیل کو سمجھ ہی نہیں سکتے.لیکن خود ان کے سائنسدانوں نے ایک مثال ایسی دے دی ہے کہ جس طرح مچھلی اس روشنی کے بیم (ستون) کو عبور نہیں کر سکتی.قرآن کریم نے بھی اپنے گردشعاعوں کا ایک ہالہ بنا دیا ہے کہ جب تک تم مطہر نہیں ہو گے تم اس ہالہ کے اندر داخل نہیں ہوسکو گے.تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی چھٹی صفت ان مختصرسی آیات میں یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ لِقَوْمٍ يعلمون ان لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے جو روحانی علوم رکھتے ہوں.جن کی طبیعت کا میلان روحانیت کی طرف نہ ہو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.(۷) ساتویں صفت اس کتاب کی یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ بشیر ہے.قرآن کریم ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے کہ اگر تم یہ کرو گے تو تمہیں یہ انعام ملے گا.مثلاً فرمایا.وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ (یونس : ۳) یہ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِم بہت بڑی بشارت ہے جو قرآن کریم کے ماننے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو دی گئی ہے.لیکن یہ ایک مثال ہے.حقیقتا سینکڑوں ہزاروں بشارتیں قرآن کریم کے متبعین کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس معنی میں یہ کتاب بشیر ہے.کیونکہ یہ کہتی ہے کہ تم میری پیروی کرو تمہیں نعمتوں پر نعمتیں ملتی جائیں گی.(۸) آٹھویں صفت اس کتاب مجید کی نذیر ہے.یہ کہتی ہے کہ اگر تم پیروی نہ کرو گے.میرے بتائے ہوئے طریق پر نہ چلو گے.جس طرف میں لے جانا چاہتی ہوں.اس طرف منہ نہ کرو گے بلکہ اس طرف پیٹھ کرو گے اور مجھ سے پرے ہو جاؤ گے.تو تمہارے لئے بہت سی مصیبتیں ، ابتلا ، دکھ، درد اور خدا کا غضب اور لعنت مقدر ہے.تو یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی ایک صفت نذیر بیان کی ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.وَ انْذِرُهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( مريم :۴۰) ان کو اچھی طرح متنبہ کر دو کہ اگر تم میری بتائی ہوئی تعلیم اور ہدایت پر عمل نہیں کرو گے تو تمہیں حسرت کا دن دیکھنا نصیب ہوگا.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو ان کو اس دن سے ڈرا جس دن افسوس

Page 352

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۳۶ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء اور مایوسی چھائی ہوئی ہو گی اور سب معاملات کا فیصلہ کیا جائے گا.اب تو یہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ایمان نہیں لاتے.اسی طرح اس دنیا کے عذابوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کے قہری نشانوں کے متعلق یہ کتاب انذار سے بھری پڑی ہے اس لئے ان آیات میں قرآن کریم کا نام بطور صفت نذیر رکھا گیا ہے.(۹) نویں صفت جو ان آیات میں بیان فرمائی گئی ہے.وہ ہے.فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُم ان میں سے اکثر اس طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اس حسین تعلیم سے اعراض کرتے ہیں بظاہر ان الفاظ میں ہمیں کسی صفت کا اظہار معلوم نہیں ہوتا لیکن در حقیقت ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ یہ انتہائی حسین تعلیم ہے، جو اسے دیکھتا ہے مسحور ہو جاتا ہے.یہ تعلیم دل کو موہ لیتی ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کی طرف کوئی حقیقتا منہ کرے، متوجہ ہو، اپنی بصارت اور بصیرت کو استعمال کرے اور پھر اس کے دل پر قرآن کے حسن کا اثر نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا جیسا کہ دوسری جگہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ان کے پاس آنکھیں تو ہیں لیکن وہ ان کو استعمال نہیں کرتے.اگر وہ آنکھوں کا صحیح استعمال کرتے تو اس کتاب کی خوبصورتی سے ضرور مسحور ہوتے.یہ کتاب ان کے دلوں کو موہ لیتی اور یہ اس کے عاشق بن جاتے.لیکن أَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ عجیب بد قسمت ہیں اکثر انسان کہ جب ایسی حسین تعلیم ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو اپنی آنکھوں کو دوسری طرف پھیر لیتے ہیں.پہلو تہی کرتے ہوئے دوسری طرف مائل ہو جاتے ہیں، ان چیزوں کی طرف جو اتنی حسین نہیں بلکہ نہایت ہی بدصورت ہیں.تو فَاعرَضَ اكثرھم میں جہاں اعراض کرنے والوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے وہاں قرآن کریم کے حسن کا اظہار بھی کیا گیا ہے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ اتنی حسین تعلیم ہے کہ اگر آنکھیں رکھنے والے اپنی آنکھوں اور بصیرت سے کام لیں تو کبھی بھی وہ اس کے عاشق ہوئے بغیر نہ رہ سکیں.(۱۰) دسویں صفت قرآن کریم کی یہ بیان کی گئی ہے.فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ کہ وہ اسے سنتے نہیں اس میں قرآن کریم کے متعلق در اصل اس حقیقت اور اس صداقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ جو بھی اسے سنتا ہے وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.

Page 353

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۳۷ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء تو اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرمارہا ہے کہ اگر وہ ان کانوں سے صحیح کام لیتے جو ہم نے انکو عطا کئے تھے اور قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم جن خوبصورت الفاظ میں بیان کی گئی ہے.اس کی طرف یہ متوجہ ہوتے تو یقینا یہ تعلیم ان پر اثر کئے بغیر نہ رہتی.اس کی واضح مثال ہماری تاریخ کے ابتداء اثر میں حضرت عمر کی پہلے اسلام کی مخالفت اور بعد میں ایمان لانے کا واقعہ ہے.وہ پہلے قرآن کریم سننے کے لئے تو تیار نہ تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے تیار تھے (تفصیل میں جائے بغیر ) وہ ایک دن قرآن کریم سننے پر مجبور ہو گئے اور جب ان کے کان میں قرآن کریم کی شیر میں اور میٹھی آواز پہنچی تو بلا ساختہ اسلمتُ لِرَبِّ الْعَلَمِینَ کہنے پر مجبور ہو گئے.تو اللہ تعالیٰ یہاں یہی فرماتا ہے کہ جو سن لے وہ عاشق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ لوگ سننے کے لئے تیار نہیں ہیں.پس یہاں دسویں صفت کے طور پر اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم نہایت حسین الفاظ میں نہایت خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اگر دنیا اس تعلیم کو سننے کے لئے تیار ہو جائے تو وہ اس کو ماننے پر بھی مجبور ہو جائے.یہی حال اس وقت ان لوگوں کا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر کان نہیں دھر تے جو لوگ بھی جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر قرآن سنتے ہیں یا پڑھتے ہیں یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اثر لئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے.لیکن اکثر وہی ہیں جو سننے کو تیار نہیں ہیں جب ان کو سنایا جائے تو وہ گالیاں دیتے ہیں یا بے توجہی ، بے اعتنائی سے کام لیتے ہیں.یا وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم دنیوی دھندوں میں اس قدر پھنسے ہوئے ہیں کہ ہمارے پاس یہ خیالات سننے کے لئے وقت ہی نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کی ایک ایسی آواز بھی آتی ہے کہ جو صاعقہ کے رنگ میں آسمان سے نازل ہوتی ہے اور انسان سننا چاہے یا نہ سننا چاہیے اس کے کان اس آواز سے پھاڑ دیئے جاتے ہیں اور ان کے جسموں کو مردہ کر دیا جاتا ہے اور ایسی قوموں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے.قبل اس کے کہ وہ دن آئے ، خدا کرے کہ ساری دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز کو سننے لگے اور قرآن کریم کے معارف اور حقائق کا عرفان حاصل کرے.

Page 354

خطبات ناصر جلد اول ۳۳۸ خطبہ جمعہ ۲۲؍جولائی ۱۹۶۶ء اور خدا کرے کہ ہم جو اس کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور احمدی کہلاتے ہیں.ہمیں بھی اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے قرآن کریم کے علوم زیادہ سے زیادہ عطا کرتا چلا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی توفیق دیتا چلا جائے کہ ہم قرآنی احکام کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہوں.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۳۱ /اگست ۱۹۶۶ صفحه ۲ تا ۵)

Page 355

خطبات ناصر جلد اول ۳۳۹ خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۶۶ء قرآن کریم سے جتنی بھی محبت کی جائے کم ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ نا کافی ہے خطبہ جمعہ فرموده ۲۹ / جولائی ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.قرآن کریم ایک عظیم اور بڑی شان والی کتاب ہے اس سے جتنی بھی محبت کی جائے کم ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے ناکافی ہے.مگر یہ کتاب ہماری تعریفوں کی محتاج نہیں کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی اس کی عظمت اور اس کی شان کو بیان کیا ہے.جیسا کہ میں اپنے متعد دخطبات میں ان خوبیوں کا اشارہ اور مجملاً ذکر کر چکا ہوں جو مختلف مقامات پر قرآن کریم کی تعریف کرتے ہوئے بیان کی گئی ہیں.آج میں سورہ مومن کی دو آیتیں اس سلسلہ میں احباب جماعت کے سامنے رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تَنْزِيلُ الْكِتَبِ مِنَ اللهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ - غَافِرِ الذَنْبِهِ وَ قَابِلِ التَّوبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ط ذِي القَولِ لَا اِلهَ اِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ - (المؤمن : ۳، ۴) مطلب یہ ہے ان آیات کا کہ اس کتاب کا نزول اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو غالب ہے، کامل غلبہ اور کامل عزت اسی کو حاصل ہے.وہ کامل علم والا ہے.تمام علوم کا سر چشمہ اسی کی ذات ہے.وہ گناہوں کا بخشنے والا ہے.خطا کار انسان کی خطاؤں پر وہی مغفرت کی چادر ڈالتا ہے اور کمزور اور مائل بہ گناہ انسان

Page 356

خطبات ناصر جلد اول ۳۴۰ خطبہ جمعہ ۲۹؍جولائی ۱۹۶۶ء اس سے طاقت حاصل کر کے میلان گناہ کو دبانے اور نفس امارہ کو پوری طرح کچل دینے کی قوت پاتا ہے.وہی رحیم و مہربان ہے.جو محض اپنے فضل و احسان سے تو بہ کو قبول کرتا ہے اور بھٹکے ہوئے راہی کو جب وہ رجوع بمولی ہو معصومیت کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے اور اس سے راضی ہو جاتا ہے.وہی ہے جو اباء اور استکبار کرنے والوں کو اور انہیں جو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور شیطان کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں سخت سزا دیتا ہے اور اپنی قہری بجلی کے ساتھ ان کی اصلاح کے سامان پیدا کرتا ہے.وہی ہے جو بہت ہی احسان کرنے والا ہے اور جس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں.محبت اور پرستش کا وہی ہاں صرف وہی سزا وار ہے.اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اسی سے اپنے کئے کی جزا پانا ہے اور بہتر اور احسن جزا وہی پائیں گے جو اس کی تعلیم پر عمل کریں گے.ان مختصر سی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آٹھ اندرونی خوبیاں بیان فرمائی ہیں.(1) پہلی خوبی اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے.تَنْزِيلُ الْكِتَبِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ کہ یہ کتاب اس اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو العزیز صفت سے متصف ہے.جو غالب ہے اور کوئی اور ہستی اس پر غالب نہیں آسکتی.کیونکہ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں.عزیز کے ایک معنی اس قسم کی عزت اور طاقت اور غلبہ رکھنے والی ہستی کے ہوتے ہیں کہ جس کے مقابلہ میں اس جیسی قوت اور طاقت اور غلبہ رکھنے والی کوئی اور ہستی نہ ہو.اس لحاظ سے وہ بے مثل ہو.تو اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ اس عزیز خدا کی طرف سے جو کتاب نازل کی گئی اس کتاب میں بھی یہ خوبی ہے کہ وہ بے مثل ہے.ایسی خوبیوں کی حامل ، رضا البی کی اس قدر فراخ را ہیں دکھانے والی ہے کہ دنیا میں جس قدر کتب سماوی گزری ہیں وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اور نہ کسی انسان کی طاقت میں یہ ہے کہ اس کا مثل معرض وجود میں لا سکے.اس کتاب میں کامل حسن اور کامل تعلیم اور کامل ہدایت پائی جاتی ہے.اس بے مثل اور یگانہ ذات کے پر تو نے اس کتاب کو بھی بے مثل کر دیا ہے.اگر تم اس کتاب کی تعلیم پر عمل کرو گے تو تم بھی ایک واحد ویگانہ بے مثل قوم بن جاؤ گے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرما یا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ

Page 357

خطبات ناصر جلد اول ۳۴۱ خطبہ جمعہ ۲۹؍جولائی ۱۹۶۶ء أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : ۱۱۱) تم وہ اُمت ہو جس سے بہتر اُمت اس دنیا میں پیدا نہیں کی گئی تم وہ اُمت ہو جس سے زیادہ احسان، انسان پر کسی اُمت نے نہیں کیا.پس پہلی خوبی اس کتاب کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتائی کہ اپنے کمال کے باعث یہ کتاب بے مثل ہے.اور اپنی تعلیم کی وجہ سے یہ کتاب اُمت مسلمہ کو ایک بے مثل و بے مثال اُمت بنانے کی اہلیت رکھتی ہے.(۲) دوسری اندرونی خوبی ہمیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ یہ وہ کتاب ہے تَنْزِيلُ الكتب مِنَ اللهِ الْعَلِيمِ.اس ذات نے اسے اتارا ہے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے.حقائق اشیاء اور مخلوق کے غیر محدود خواص کا علم صرف اسی پاک ذات کو ہے اور صرف وہی خدا اس بات پر قادر تھا کہ فطرت انسانی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والی کتاب اور ہدایت نازل کرتا اور ایک ایسی شریعت انسان کو دیتا جو ہر قوم اور ہر زمانہ کی ضروریات کو پورا کرنے والی ہوتی.پس یہی وہ کتاب ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی اور ہدایت کی انسان کو ضرورت نہیں رہتی.ہر زمانہ کے مسائل کو یہ سلجھا دیتی ہے.روحانی علوم کے نہ ختم ہونے والے چشمے اس سے پھوٹتے ہیں اور مادی علوم کی بنیادی صداقتیں اور اصول اس میں جمع کر دئے گئے ہیں.پس اگر تم روحانیت میں ترقی حاصل کرنا چاہتے ہو، یا دنیوی علوم میں فوقیت اور رفعت کے مقام تک پہنچنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اس کتاب کی پیروی کرنے والے بنو.اگر تم اس کتاب کی آواز کی طرف متوجہ نہ ہو گے.اس کی وہ قدر نہیں کرو گے جو کرنی چاہیے تو نہ روحانی میدان میں تم کوئی ترقی حاصل کر سکو گے اور نہ دنیوی علوم میں دوسروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت اپنے اندر پیدا کرسکو گے.پس مادی اور روحانی ہر دو لحاظ سے علوم میں اگر ترقی کرنی ہے (اور علم کے لغوی معنی ایک یہ بھی ہیں کہ ایسا علم جس کے ساتھ اس کے مطابق عمل بھی ہو ) اور روحانی علوم کو حاصل کر کے میدانِ عمل میں تم نے اترنا ہے تو تمہیں اس کتاب کی ہدایت کی ضرورت ہوگی اور اگر تم اس کے علوم حاصل کر لو گے اور اس کے مطابق عمل کرو گے تو خدائے علیم جو ہر چیز کو جاننے والا ہے اور جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.وہ تمہیں اپنے قرب کے وہ مقامات عطا کرے گا جن سے تم راضی ہو جاؤ

Page 358

خطبات ناصر جلد اول گے جیسا کہ وہ تم سے راضی ہوگا.۳۴۲ خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۶۶ء (۳) تیسری صفت یہاں قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ یہ اس ہستی کی طرف سے اتارا گیا ہے جو غَافِرِ الذُّنب (المؤمن: (۴) ہے.گناہوں کو بخشنے والا ہے.پس یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں ان نیکیوں اور ان حسنات کے کرنے کی تعلیم دی گئی ہے.جو نا سمجھی کے گناہوں اور بداعمالیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتی ہے اور وہ طریق بتائے گئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان نفس امارہ پر قابو پالیتا ہے اور میلان گناہ کو اپنے پاؤں کے نیچے کچل دینے کی قوت پاتا ہے.مَغْفِرَةٌ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ وہ گناہ جو سر زد ہو چکے ہوں اللہ تعالیٰ ان کے بداثرات اور اپنے غضب اور عذاب سے مغفرت چاہنے والے کو محفوظ کرے.تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ اگر تم کبھی اپنے گناہ پر پشیمان ہو اور استغفار کرو اور چاہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے ان گناہوں کو معاف کر کے ان کے بداثرات سے تمہیں محفوظ کرے تو تمہیں ان طریق کو اختیار کرنا ہو گا جو قرآن کریم میں بتائے گئے ہیں.دوسرے معنی مَغْفِرَةٌ کے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسی قوت انسان کو عطا کرے کہ گناہ کی طرف جو میلان اس کی طبیعت میں پایا جاتا ہو یا جو زنگ اس کی فطرتِ صحیحہ پر لگ چکا ہو وہ زنگ دور ہو جائے اور وہ میلان قابو میں آجائے اور انسان کا شیطان مسلمان ہو جائے اور گناہ کی طرف رغبت ہی باقی نہ رہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ غَافِرِ الذَّنْبِ خدا کی طرف سے یہ کتاب نازل ہوئی ہے.پس اگر تم گنہگار ہو تو اسی کی طرف آؤ اور قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریق پر آؤ.قرآن کریم تمہاری رہنمائی کرے گا اگر تم چاہتے ہو کہ تقویٰ کے اعلیٰ مقام کو حاصل کرو.اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تواضع کا وہ مقام تمہیں حاصل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان سے بھی اوپر انسان کو لے جاتا ہے تب بھی تم قرآن کریم کی طرف رجوع کرو.وہ تمہیں ایک ایسی روشنی عطا کرے گا جو ان راہوں کو جو ان نتائج کی پیدا کرنے والی ہیں روشن اور منور کر دے گی

Page 359

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۴۳ خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۶۶ء اور ان راہوں کا علم اور ان پر چلنا تمہارے لئے آسان ہو جائے گا.پس چونکہ یہ غَافِرِ الذَّنْبِ خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے اس کی ہدایت کے مطابق تم ذنب اور اس کے بدنتائج سے خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آکر اور مَغْفِرَةٌ کے ان معانی کے مطابق جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کر سکو گے.(۴) چوتھی صفت اس کتاب عظیم کی ، اس کتاب کریم اور مجید کی اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ اس خدا نے اتاری ہے جو قابلِ الثّوب ہے.یعنی تو بہ قبول کرنے والا ہے.پس اس کتاب میں یہ کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ تو بہ کن لوگوں کی ، کن حالات میں اور کب قبول ہوتی ہے.اگر کوئی شخص تو بہ کرنا چاہے.اس کے دل میں ایک خلش پیدا ہو، ایک خواہش تڑپنے لگے کہ مجھے اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے.تو بہ کرنی چاہیے، تو کیا کرے.کن راہوں سے وہ تو بہ کے دروازوں تک پہنچے اور پھر انہیں کھٹکھٹائے.تو فرما یا کہ قرآن کریم قابلِ الثوب خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے وہ تمہیں ان دروازوں تک لے جائے گی جو تو بہ کے دروازے ہیں.وہ تمہیں بتائے گی کہ ان دروازوں کو تم نے کس طرح کھٹکھٹانا ہے تا کہ وہ تم پر کھولے جائیں.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں یہ بتایا کہ جب تمہارا دل اپنے پیدا کرنے والے کی طرف مائل ہو اور اس کی طرف جھکے لیکن تم سرگردان ہو ، نہ جانتے ہو کہ کن راہوں سے تم اس کی جناب میں پہنچ سکتے ہو تو اس کتاب کی طرف رجوع کرو اور اس سے روشنی اور ہدایت حاصل کرو تا تمہاری مراد بر آئے اور تمہارا رب تم سے راضی ہو جائے اور اس کی نظر میں تم ایسے بن جاؤ کہ کبھی تم سے گناہ سرزد ہی نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَبِكَ b يَتُوبُ اللهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا - (النساء : ١٨) اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تو بہ کس طرح اور کن لوگوں کی اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوتی ہے اور وہ کون لوگ ہیں کہ جن کی تو بہ ان کے منہ پر ماری جاتی ہے.

Page 360

خطبات ناصر جلد اول ۳۴۴ خطبہ جمعہ ۲۹؍جولائی ۱۹۶۶ء یہ تو ایک مثال ہے جو اشارہ میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں.ورنہ قرآن کریم بھرا پڑا ہے ایسی آیات سے جن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ تو بہ کا طریق کیا ہے، وہ کون لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفت قابلِ الثَّوبِ کو اپنے محسن عمل سے خدا تعالیٰ اور قرآن مجید کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق جوش میں لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جو توبہ قبول کرنے والا ہے ان لوگوں کے لئے تو بہ کے دروازے کھول دیتا ہے.بہر حال ہمیں اس جگہ قرآن کریم کی ایک اندرونی خوبی کی طرف جو اس میں پائی جاتی ہے متوجہ کیا گیا ہے کہ یہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ اگر تم تو بہ کرنا چاہو تو صرف یہی تمہیں ہدایت دے سکتی ہے کہ تو بہ کس طرح کی جاتی ہے اور کن راہوں سے اللہ تعالیٰ نے جو تو بہ کے دروازے رکھے ہیں ان کو کھولا جاسکتا ہے.(۵) پانچویں صفت قرآن مجید کی یہاں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن مجید اس خدا نے نازل فرمایا ہے جو شَدِیدُ الْعِقَابِ ہے.کہ جب وہ سزا دینے پر آتا ہے تو بہت سخت سزا دیتا ہے.اس عزیز و قھار کے قہر اور غضب اور لعنت اور سزا اور عذاب سے اگر بچنا چاہو تو اس کا طریق بھی یہی کتاب تمہیں بتلائے گی.کبھی تمہارے دل میں پہلوں کی مثال بیان کر کے خوف اور خشیت پیدا کرے گی تا تم اس کی طرف جھکو اور اس کے رحم کو جذب کرو.سورۃ الحاقۃ میں مثلاً شَدِیدُ الْعِقَابِ کی قدرت کی ایک مثال بیان کی ہے تا کہ دلوں میں خوف پیدا ہو اور انسان خدا کی طرف پیٹھ کرنے اور اس سے پہلو تہی کرنے سے بچے.اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں بیان فرمایا ہے کہ نمود کی قوم ایک ایسے عذاب سے ہلاک کی گئی تھی جو اپنی شدت میں انتہاء کو پہنچا ہوا تھا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَأَمَّا عَادَ فَأَهْلِكُوا بِرِيْجٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ - سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَ ثَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرُعَى كَانَهُمْ أَعْجَازُ نَخْلِ خَاوِيَةٍ - فَهَلْ تَرَى لَهُمْ مِّنْ باقية - (الحاقة : ۷ تا ۹) لا

Page 361

خطبات ناصر جلد اول ۳۴۵ خطبہ جمعہ ۲۹؍جولائی ۱۹۶۶ء ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عاد کی قوم پر جو اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوا تھا اس کا مختصراً مگر بڑے ہی مؤثر طریق پر بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ ایک ایسا عذاب تھا جس میں ساری قوم کو تباہ کر دیا گیا.فَهَلْ تَرى لَهُم مِّنْ بَاقِيَةٍ کیا ان کا کوئی نشان بھی تمہارے سامنے آتا ہے؟ وہ کلیتاً صفحہ ہستی سے مٹادئے گئے.اس لئے کہ انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ وہ رب جو ان کا پیدا کرنے والا تھا، جو اس قدر ان پر رحم کرنے والا تھا ، جو اس قدر ان پر انعام کرنے والا تھا اس کے نتیجہ میں ان پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں لیکن انہوں نے کفر اور ناشکری کو اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی بجائے شیطان کو اپنا دوست بنالیا تب ساری کی ساری قوم کو اللہ تعالیٰ نے صفحہ ہستی سے مٹادیا اور ان کا کوئی نام ونشان بھی باقی نہ رہا.اس قسم کے واقعات کا ذکر کثرت سے قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اور ایک مقصد ان کا یہ ہے کہ تا ان واقعات کو سن کر ہمارے دل خوف سے لرز اٹھیں اور ہم یہ عہد کریں کہ قرآن کریم نے جو تعلیم ہمارے سامنے رکھی ہے جس سے خدا راضی ہوتا ہے اور جس کو چھوڑ کر خدا کی ناراضگی مول لینی پڑتی ہے، ہم کبھی بھی اس تعلیم کو چھوڑیں گے نہیں بلکہ اس تعلیم کو اپنائیں گے.اس تعلیم کو اس طرح اپنے جسموں اور روحوں میں جذب کر لیں گے جس طرح خون ہمارے اندر بہہ رہا ہے.تا کہ خدا کا غضب کسی شکل میں بھی اور اس کی لعنت کسی صورت میں بھی ہمارے اوپر نازل نہ ہو.پھر قرآن کریم وہ کتاب ہے جو کبھی خدا کی لعنت اور اس کے غضب سے بچنے کی دعائیں سکھاتی ہے کیونکہ شَدِیدُ الْعِقَابِ ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کا عذاب بندوں پر نازل ہو.تو پہلی قوموں کی مثالیں دے کر ہمارے دلوں میں اپنا خوف پیدا کیا.پھر ہمیں دعا ئیں سکھائیں کہ یہ دعائیں کرتے رہوتا کہ میر اغضب تم پر نازل نہ ہو.سب سے بہتر اور کامل دعا تو سورۃ الفاتحہ ہی ہے جس میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الصَّالِينَ (الفاتحة: ۷) ہے یعنی جس میں خدا کی لعنت سے پناہ مانگی گئی ہے اور چونکہ خدا کی لعنت کے مورد دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک مغضوب اور ایک ضال.اس لئے دونوں کا ذکر کر کے

Page 362

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۴۶ خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۶۶ء ایک طرح حصر کر دیا گیا ہے کہ کسی طریق سے بھی ہم پر تیری لعنت نازل نہ ہو.قرآن کریم کبھی ایسے اعمالِ صالحہ کی نشان دہی کرتا ہے جس کے نتیجہ میں شیطانی اندھیرے نور میں بدل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آتا ہے اور اس کے عذاب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تسلی دلائی کہ اگر تم قرآنی ہدایت پر عمل کرو گے تو میں فرشتوں کو مقرر کروں گا کہ وہ تمہارے لئے دعا کریں اور وہ یوں دعا کریں گے.رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَ عِلْمًا فَاغْفِرُ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (المؤمن : ۸ ) کہ ایسے لوگوں پر تو اپنا رحم کر کیونکہ تو بڑے حلم والا ہے اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے جو تو بہ کرتے ہیں اور وہ طریق اور شریعت کی جو راہیں تو نے قرآن کریم میں بتائی ہیں ان پر عمل کر رہے ہیں.اسی طرح سورۃ الدھر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے جذبات کے غلام نہیں ہوتے بلکہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں اور صبر کی راہوں پر گامزن ہوتے ہیں.( کافور کی ملاوٹ ) اپنی نذریں ادا کرتے ہیں اور ہمیشہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ کہیں قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے ناراض نہ ہو وہ لوگ جو اس کی رضاء کے لئے مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے.ریا، عجب، خودروی خود رائی اور دکھاوا ان میں نہیں ہوتا.نہ وہ احسان جتاتے ہیں ، اپنے نفسوں اور اپنے نفس کی بدخواہشات اور میلانات سے جدا ہو کر محض اپنے رب کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں.فَوَقْهُمُ اللهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ ( الدّهر : ۱۲ ) کہ اس دن کے عذاب سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بچالے گا.تو جب یہ کہا کہ میرا عذاب بڑا سخت ہے.جب میں پکڑتا ہوں.جب میری گرفت میں کوئی آتا ہے تو اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ پیدا ہی نہ ہوا ہوتا تو اس کے لئے بہتر تھا.فرما یا.اس شَدِیدُ الْعِقَابِ خدا نے قرآن کریم کو اتارا ہے اور ہمیں اس واضح حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اس کتاب میں ہمیں وہ طریق بتائے گئے ہیں جن کے ذریعہ ہم اس کے

Page 363

خطبات ناصر جلد اول ۳۴۷ خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۶۶ء عذاب سے بچ سکتے ہیں.جیسا کہ میں نے ایک دو مثالیں دے کر بیان کیا ہے.(۶) چھٹی صفتِ حسنہ یا اندرونی خوبی قرآن کریم کی جن الفاظ میں بیان کی گئی ہے وہ ذی الطولِ ہے.یعنی اس اللہ نے یہ کتاب اتاری ہے جو بڑا احسان کرنے والا اور بڑا انعام کرنے والا ہے اور اس کتاب کے نزول کی یہ غرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے جذب کرنے کی راہیں تم پر کھولی جائیں.اور اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم یا فرد کو کوئی احسان یا انعام عطا کرتا ہے تو اس پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں.ان ذمہ داریوں کا ذکر بھی قرآن مجید میں پایا جاتا ہے.ان کی طرف بھی ہمیں متوجہ ہونا چاہیے.انعام واکرام کا ذکر ذی الکول میں ہے.اس کی سب سے بڑی مثال تو میرے نزدیک وہ ہے.جو فرمایا اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نعمتى (المائدة : ۴) کہ اسلام اور اسلامی شریعت کے ذریعہ میں نے اپنی شریعت کو نعمت عظمی بنا دیا ہے اور نعمت عظمی کے طور پر میں اسے تمہارے سامنے رکھتا ہوں.اسی طرح اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے وَاسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (القمن: ٢١) کہ تم پر ظاہری اور باطنی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ نے پانی کی طرح بہا دیا.جیسے فلڈ (Flood) آتا ہے ہر ایک چیز کے اوپر چھا جاتا ہے اور ہر چیز کو اپنے نیچے لے لیتا ہے.اسی طرح اللہ کی نعمتوں نے ہمارے نفس نفس اور ہمارے ذرہ ذرہ کو ڈھانپ لیا ہے.لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِتَّبِعُوا مَا انْزَلَ اللهُ (لقمن : ۲۲) کہ اب تم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اس کی تم اتباع کرو.اگر تم ایسا نہیں کرو گے کفرانِ نعمت کرو گے تو اس کی سزا پاؤ گے.مگر قرآن کریم اس لئے نازل نہیں کیا گیا کہ خدا کے غضب کو تم جذب کرو اور اس کے قہر کے تم مورد بنو.قرآن کریم کے نزول کی غرض تو یہ ہے کہ ذی الطولِ خدا کی طرف تمہیں متوجہ کرے اور تم اس کی نعمتوں کو یاد کرتے ہوئے اس کے شکر گزار بندے بنو اور جو ہدایت اور تعلیم اور شریعت اور فرائض اور احکام اس نے نازل کئے ہوئے ہیں ان کی اتباع کرنے والے ہو.

Page 364

خطبات ناصر جلد اول ۳۴۸ خطبہ جمعہ ۲۹؍جولائی ۱۹۶۶ء (۷) ساتویں صفتِ حسنہ قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے لَا إِلَهَ إِلَّا الله کہ جس خدا نے اس قرآن کو نازل کیا ہے وہ اکیلا ہی پرستش کا سزاوار اور حقدار ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں.پس اس کتاب کی بنیادی صفت یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کی کہ یہ کتاب اور اس کی تعلیم اور اس کی شریعت اور اس کی ہدا یتیں اور وہ نور جو اس سے نکلتا ہے اور اس کے ماننے والوں کے جسموں اور ان کی روحوں میں داخل ہوتا اور نفوذ کرتا ہے.اس کے نتیجہ میں انسان خالص تو حید پر کھڑا ہوتا ہے.قرآن نہ ہوتا تو دنیا میں توحید خالص بھی نہ پائی جاتی.پس اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفاتِ حسنہ کے متعلق کامل تفصیلی علم یہی کتاب دیتی ہے جس کے بغیر تو حید، صحیح معنی اور حقیقی رنگ میں قائم نہیں ہوسکتی.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے متعلق بھی علوم کے سمند ر اپنے اندر بند کر دیئے ہیں اور تمہارے فائدہ کے لئے ایسا کیا گیا ہے.پس تم اس خدائے واحد و یگانہ کے قرب کے حصول کے لئے اس کی ذات کی معرفت اور اس کی صفاتِ حسنہ کا عرفان حاصل کرو اور قرآن کریم کی روشنی میں ہی تم ایسا کر سکتے ہو.پس قرآن کریم کو توجہ سے پڑھو اور توجہ سے سنو اور عزم اور استقلال اور صبر کے ساتھ اس پر عمل کرو اور دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ حاصل کرو اور نور قرآن کریم کے ذریعہ سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے تا کہ تم تو حید خالص پر کھڑے ہو جاؤ اور توحید خالص کو پالینے کے بعد دنیا کی ساری کامیابیاں مل جاتی ہیں اور کوئی نا کامی بھی انسان کے حصہ میں نہیں رہتی.(۸) آٹھویں صفتِ حسنہ یا اندرونی خوبی قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمائی ہے وَالَيْهِ البَصِيرُ کہ اس عظیم کتاب کو نازل کرنے والی وہ ذات پاک ہے جس کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے اور اس خدا نے اس قرآن کے ذریعہ انسان کو معاد کا کامل اور مکمل علم دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے زور کے ساتھ اور بڑی وضاحت کے ساتھ اور بڑی تفصیل کے ساتھ اس مضمون کو اپنی کتب میں بیان فرمایا ہے.کہ معاد کا علم اور جنت و دوزخ کی حقیقت جو قرآن کریم بیان کرتا ہے.وہ کسی غیر کے وہم میں بھی نہیں آسکتی اور نہ ہی ان کتب سماویہ میں وہ

Page 365

خطبات ناصر جلد اول ۳۴۹ خطبہ جمعہ ۲۹؍جولائی ۱۹۶۶ء علوم پائے جاتے ہیں جو قرآن کریم سے پہلے نازل ہوئیں پھر محرف و مبدل ہوئیں اور پھر وہ منسوخ ہو گئیں.یہ قرآن، یہ پاک کتاب ہی ہے جو نورِ مجسم ہے اور حقیقی اور خالص توحید پر کھڑا کرتی ہے اور معاد کا علم پوری طرح ہمیں عطا کرتی ہے اور ہمیں ایک حق الیقین عطا کرتی ہے اس بات پر کہ ہم مرنے کے بعد پھر زندہ کئے جائیں گے اور اس یقین کے بعد انسان اس دنیا اور اس کی لذتوں اور اس کی خواہشات سے بکی منہ موڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے.اس کو یہ فکر ہوتی ہے اگر میں اس دنیوی زندگی میں پڑ گیا جو اُخروی زندگی کے مقابلہ میں غیر محدود طور پر کم ہے دیکھو تو عظیم گھاٹا پانے والا ہوں گا.سو کی نسبت ایک کے ساتھ یہ ہے کہ ایک، سو کا سواں حصہ چونکہ اُخروی زندگی غیر محدود ہے.اس لئے اس زندگی کی نسبت اس اُخروی زندگی کے ساتھ یہ ہے کہ یہ زندگی اس زندگی کا غیر محد و دواں حصہ ہے یعنی کوئی نسبت قائم ہی نہیں ہو سکتی.جب یہ حقیقت انسان کے سامنے آ جائے پھر ان تمام بدیوں سے جو صرف اس دنیوی زندگی کی لذات اور آرام میں اور اُخروی زندگی میں عذاب اور قہر کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں.ان سے بچنے کی ہر طرح کوشش کرتا ہے.اگر کبھی پاؤں پھسل جائے تو اپنے خدا کا سہارا لے کر پھر کھڑا ہو جاتا ہے.گناہ کرے تو اس غار کو پکارتا ہے.تو بہ کرنے کے لئے تضرع کی راہوں کو اور تواضع کی راہوں کو اختیار کرتا ہے.قرآن کریم پر غور کرتا رہتا ہے.اس عزم اور نیت کے ساتھ کہ میں نے اپنی اخروی زندگی کو بہر حال سنوارنا ہے خواہ مجھے اس زندگی میں کتنی ہی کوفت اور تکلیف اور مصیبت ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے.جب وہ ایسا کر لیتا ہے تب وہ اپنی زندگی کے مقصد کو پالیتا ہے.خدا تعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے اور وہ اپنے رب سے راضی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس گروہ میں شامل کرے.اللھم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۴ اگست ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 366

Page 367

خطبات ناصر جلد اول ۳۵۱ خطبه جمعه ۵ راگست ۱۹۶۶ء اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہے کہ وہ تعلیم القرآن کی سکیم اور عارضی وقف کی مہم میں بہت برکت ڈالے گا خطبه جمعه فرموده ۵ را گست ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.کوئی پانچ ہفتہ کی بات ہے ابھی میں ربوہ سے باہر گھوڑا گلی کی طرف نہیں گیا تھا.ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو میں بہت دعاؤں میں مصروف تھا.اس وقت عالم بیداری میں میں نے دیکھا کہ جس طرح بجلی چمکتی ہے اور زمین کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشن کر دیتی ہے اسی طرح ایک نور ظاہر ہوا اور اس نے زمین کو ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک ڈھانپ لیا.پھر میں نے دیکھا کہ اس نور کا ایک حصہ جیسے جمع ہورہا ہے.پھر اس نے الفاظ کا جامہ پہنا اور ایک پر شوکت آواز فضا میں گونجی جو اس نور سے ہی بنی ہوئی تھی اور وہ سیتھی.66 بشری لکھ یہ ایک بڑی بشارت تھی لیکن اس کا ظاہر کرنا ضروری نہ تھا.ہاں دل میں ایک خلش تھی اور خواہش تھی کہ جس نور کو میں نے زمین کو ڈھانپتے ہوئے دیکھا ہے.جس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زمین کو منور کر دیا ہے.اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مجھے سمجھائے.چنانچہ وہ ہمارا خدا جو بڑا ہی فضل کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اس نے خود اس کی تعبیر اس طرح سمجھائی کہ گزشتہ پیر کے دن میں ظہر کی نماز پڑ بار ہا تھا اور تیسری رکعت کے قیام

Page 368

خطبات ناصر جلد اول ۳۵۲ خطبہ جمعہ ۵ راگست ۱۹۶۶ء میں تھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے اور اس وقت مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ جو نور میں نے اس دن دیکھا تھا وہ قرآن کا نور ہے جو تعلیم القرآن کی سکیم اور عارضی وقف کی سکیم کے ماتحت دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس مہم میں برکت ڈالے گا.اور انوار قرآن اسی طرح زمین پر محیط ہو جائیں گے جس طرح اس نور کو میں نے زمین پر محیط ہوتے ہوئے دیکھا ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی متعدد بار خود قرآن کو اور قرآنی وحی کو نور کے لفظ سے یاد کیا ہے اور مجھے بتایا گیا کہ وہ نور جو تمہیں دکھایا گیا یہی نور ہے.پھر میں اس طرف بھی متوجہ ہوا کہ عارضی وقف کی تحریک جو قرآن کریم سیکھنے سکھانے کے متعلق جاری کی گئی ہے اس کا تعلق نظام وصیت کے ساتھ بڑا گہرا ہے.چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رسالہ الوصیت کو غور سے پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ واقع میں اس تحریک کا موصی صاحبان کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.اس وقت میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.صرف ایک بات آپ دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسالہ الوصیۃ کے شروع میں ہی ایک عبارت لکھی ہے اور حقیقتا وہ عبارت اس نظام میں منسلک ہونے والے موصی صاحبان ہی کی کیفیت بتا رہی ہے کہ تمہیں وصیت کر کے اس قسم کا انسان بننا پڑے گا.حضور فرماتے ہیں:.”خدا کی رضا کو تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے.جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذات چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر ، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ قتلخی نہ اٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے لیکن اگر تم تلخی اٹھا لو گے ( یعنی اس نظام وصیت میں شامل ہو جاؤ گے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو گے تو حضور فرماتے ہیں ) تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور تم ان راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے لیکن تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں.

Page 369

خطبات ناصر جلد اول ۳۵۳ خطبہ جمعہ ۵ راگست ۱۹۶۶ء ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گئے.دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کا ترجمہ ہی ہے جو بہشتی مقبرہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل کیا تھا.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.چونکہ اس قبرستان کے لئے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اُنْزِلَ فِيْهَا كُلُّ رَحْمَةٍ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اُتاری گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں.تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا اُنْزِلَ فِيهَا كُلُ رَحْمَةٍ “ اس قبرستان میں ہر قسم کی رحمت کو نازل کیا گیا ہے.یعنی اس میں دفن ہونے والے وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کے وارث ہیں.سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان تمام نعمتوں کا کب اور کس طرح وارث بنتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک دوسرے الہام میں بتایا الْخَيْرُ كُلُّةَ في القُرانِ ساری بھلائیاں اور نیکیاں اور سب موجبات رحمت قرآن کریم میں ہیں اور رحمت کے کوئی سامان ایسے نہیں جو قرآن کریم کو چھوڑ کر کسی اور جگہ سے حاصل کئے جاسکیں اور رحمت کے ہر قسم کے سامان صرف قرآن کریم سے ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں.تو فر ما یا اُنْزِلَ فِيهَا كُلُ رَحْمَةٍ کہ اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے وہ لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کی تمام برکتوں کے وارث ہوں گے.کیونکہ کوئی برکت بھی قرآن کریم سے باہر نہیں اور نہ کسی اور جگہ سے حاصل کی جاسکتی ہے.اس لئے ایسے لوگوں پر ہر قسم کی نعمت کے دروازے کھولے جائیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ موصی صاحبان کا ایک بڑا گہرا اور دائمی تعلق قرآن کریم ، قرآن کریم کے سیکھنے ، قرآن کریم کے نور سے منور ہونے ، قرآن کریم کی برکات سے مستفیض ہونے اور قرآن کریم کے فضلوں کا وارث بننے سے ہے.اسی طرح قرآن کریم کے انوار کی اشاعت کی ذمہ داری بھی ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے.کیونکہ قرآن کریم کی بعض برکات ایسی بھی ہیں جن کا تعلق اشاعت قرآن

Page 370

خطبات ناصر جلد اول ۳۵۴ خطبہ جمعہ ۵ راگست ۱۹۶۶ء سے ہے.جیسا کہ خود قرآن متعدد جگہ اسے بیان فرماتا ہے اور جس کی تفصیل میں جانا اس وقت میرے لئے ممکن نہیں.پس اللہ تعالیٰ نے ان دو و حیوں کے ذریعہ ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ موصی حقیقتا وہی ہوتا ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں، اس کے فضل ، اس کی رحمت اور اس کے احسان کی وجہ سے اس لئے نازل ہوتی ہیں کہ اس شخص نے اپنی گردن کلیتاً قرآن کریم کے جوا کے نیچے رکھی ہوتی ہے.اپنے پر وہ ایک موت وارد کرتا ہے اور خدا میں ہو کر ایک نئی زندگی پاتا ہے اور اس وحی کی زندہ تصویر ہوتا ہے کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْانِ.“ پس چونکہ وصیت کا یا نظام وصیت کا یا موصی صاحبان کا، قرآن کریم کی تعلیم ، اس کے سیکھنے اور اس کے سکھانے سے ایک گہرا تعلق ہے.اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تعلیم قرآن اور وقف عارضی کی تحریکوں کو موصی صاحبان کی تنظیم کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور یہ سارے کام ان کے سپرد کئے جائیں.66 اس لئے آج میں موصی صاحبان کی تنظیم کا، خدا کے نام کے ساتھ اور اس کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے اجراء کرتا ہوں.تمام ایسی جماعتوں میں جہاں موصی صاحبان پائے جاتے ہیں ان کی ایک مجلس قائم ہونی چاہیے.یہ مجلس باہمی مشورے کے ساتھ اپنے صدر کا انتخاب کرے.منتخب صدر جماعتی نظام میں سیکرٹری وصایا ہو گا.ممکن ہے بعد میں ہم اس کا نام بھی بدل دیں لیکن فی الحال منتخب صدر ہی سیکرٹری وصایا ہو گا اور اس صدر کے ذمہ علاوہ وصیتیں کرانے کے یہ کام بھی ہوگا کہ وہ گاہے گاہے مرکز کی ہدایت کے مطابق وصیت کرنے والوں کے اجلاس بلائے.اس اجلاس میں وہ ایک دوسرے کو ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں جو ایک موصی کی ذمہ داریاں ہیں.یعنی اس شخص کی ذمہ داریاں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی بشارت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا کے سارے فضلوں اور اس کی ساری رحمتوں اور اس کی ساری نعمتوں کا وہ وارث ہے.اور وہ صدر ان کو یاد دلاتا رہے کہ تمام خیر چونکہ قرآن میں ہی ہے اس لئے وہ قرآن کریم کے نور سے پورا حصہ لینے کی کوشش کریں اور ان کو بتایا جائے کہ قرآن کریم کے انوار کی

Page 371

خطبات ناصر جلد اول ۳۵۵ خطبہ جمعہ ۵ راگست ۱۹۶۶ء اشاعت کرنا ہر موصی کا بحیثیت فرد اور اب موصیوں کی مجلس کا بحیثیت مجلس پہلا اور آخری فرض ہے اور اس بات کی نگرانی کرنا کہ وقف عارضی کی سکیم کے ماتحت زیادہ سے زیادہ موصی اصحاب اور ان کی تحریک پر وہ لوگ حصہ لیں جنہوں نے ابھی تک وصیت نہیں کی اور ان پر یہ فرض ہے کہ پہلے وہ اپنے گھر سے یہ کام شروع کریں حتی کہ ان کے گھر میں کوئی مرد ، کوئی عورت کوئی بچہ یا کوئی دیگر فرد جوان کے اثر کے نیچے ہو یا ان کے پاس رہتا ہو ایسا نہ رہے کہ جسے قرآن نہ آتا ہو.پہلے ناظرہ پڑھنا سکھانا ہے پھر ترجمہ سکھانا ہے.پھر قرآن کریم کے معانی پھر اس کے علوم اور اس کی حکمتوں سے آگاہ کرنا ہے.پھر ان علوم کو ایک سخی کی طرح دوسروں تک پہنچانا ہے تا کہ جس فیض سے، جس برکت سے اور جس نعمت سے ہم نے حصہ لیا ہے.اسی فیض ، برکت اور نعمت سے ہمارے دوسرے بھائی بھی حصہ لینے والے ہوں.وقف عارضی میں مجھے ہر سال کم از کم پانچ ہزار واقف چاہئیں اس کے بغیر ہم صحیح رنگ میں جماعت کی تربیت نہیں کر سکتے.یہ سکیم ماہ مئی ۱۹۶۶ء میں شروع ہوئی ہے.چونکہ اس سال جو سال اول ہے اساتذہ اور طلبہ کی چھٹیوں کا ایک حصہ گزر چکا ہے تاہم اگر وہ کوشش کریں تو اب بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں) اسی طرح بعض ایسے پیشہ والے ہیں جن کو ان دنوں چھٹیاں ہوتی ہیں.مثلاً بعض عدالتیں بند ہو جاتی ہیں.وہاں جو احمدی وکیل وکالت کا کام کرتے ہیں وہ بھی اپنی زندگی کے چند ایام اشاعت علوم قرآنی کے لئے وقف کر سکتے ہیں اس لئے ممکن ہے ہمارے اس پہلے سال میں یہ تعداد پانچ ہزار تک نہ پہنچے لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ تعداد پانچ ہزار تک پہنچ جائے.جب یہ ممکن ہے تو پھر اس کے لئے کوشش کیوں نہ کی جائے.اللہ تعالیٰ کے کسی قانون کے ماتحت ہم اسے ناممکن قرار نہیں دے سکتے اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم سب خصوصاً موصی صاحبان پوری کوشش اور جد و جہد سے کام لیں کہ واقفین عارضی کی تعداد اس سال بھی جو پہلا سال ہے پانچ ہزار تک پہنچ جائے تا تعلیم قرآن کا کام احسن طریق پر کیا جا سکے.ہمارے موصی صاحبان کا پہلا کام یہ ہے کہ اپنے گھروں میں قرآن کریم کی تعلیم کا انتظام کریں.دوسرا یہ کہ واقفین عارضی (جن کے سپرد قرآن کریم پڑھانے کا کام کیا جاتا ہے) کی تعداد کو پانچ ہزار تک پہنچانے کی کوشش کریں.

Page 372

خطبات ناصر جلد اول ۳۵۶ خطبہ جمعہ ۵ راگست ۱۹۶۶ء تیسرے یہ کہ وہ اپنی جماعت کی نگرانی کریں ( عمومی نگرانی، امیر یا پریذیڈنٹ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ) کہ نہ صرف ان کے گھر میں بلکہ ان کی جماعت میں بھی کوئی مرد اور کوئی عورت ایسی نہ رہے جو قرآن کریم نہ جانتی ہو.ہر ایک عورت قرآن کریم پڑھ سکتی ہو، ترجمہ جانتی ہے ہو ، اسی طرح تمام مرد بھی قرآن کریم پڑھ سکتے ہوں، ترجمہ بھی جانتے ہوں اور قرآن کریم کے نور سے حصہ لینے والے ہوں تا کہ قیام احمدیت کا مقصد پورا ہو.اسی طرح وصیت کرنے والی بہنیں بھی ہر جماعت میں اپنی ایک علیحدہ مجلس بنا ئیں اور اپنا ایک صدر منتخب کریں جو نا ئب صدر کہلائے گی اور وہ جماعت سے تعاون کریں اور موصی مردوں کی مجلس سے بھی تعاون کریں اور ان روحانی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں جو مالی قربانیوں کے علاوہ نظام وصیت اُن پر عائد کر رہا ہے.آپ دوست یہ سن کر خوش ہوں گے کہ بہت سے مقامات پر مردوں کی نسبت ہماری احمدی بہنیں قرآن کریم ناظرہ زیادہ جاننے والی ہیں.ایک تو ہمیں شرم اور غیرت آنی چاہیے.دوسرے ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر بھی بجالانا چاہیے کیونکہ جس گھر کی عورت قرآن کریم جانتی ہوگی اس کے متعلق ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ اس گھر کے بچے اچھی تربیت حاصل کر سکیں گے.پس جیسا کہ نور کے اس نظارہ سے جسے میں نے ساری دنیا میں پھیلتے دیکھا ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کامیاب اشاعت اور اسلام کے غلبہ کے متعلق قرآن کریم میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اور ارشادات میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں جو خوشخبریاں اور بشارتیں پائی جاتی ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے.اس لئے میں پھر اپنے دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم پر واجب ہے کہ ہر احمدی مرد اور ہر احمدی عورت ، ہر احمدی بچہ، ہر احمدی جوان اور ہر احمدی بوڑھا پہلے اپنے دل کو نور قرآن سے منور کرے.قرآن سیکھے ، قرآن پڑھے اور قرآن کے معارف سے اپنا سینہ و دل بھر لے اور معمور کر لے.ایک نور مجسم بن جائے.قرآن کریم میں ایسا محو ہو جائے.قرآن کریم میں ایسا گم ہو جائے.قرآن کریم میں ایسا فنا ہو جائے کہ دیکھنے والوں کو اس کے وجود میں قرآن کریم کا ہی نور

Page 373

خطبات ناصر جلد اول ۳۵۷ خطبہ جمعہ ۵ راگست ۱۹۶۶ء نظر آئے.اور پھر ایک معلم اور استاد کی حیثیت سے تمام دنیا کے سینوں کو انوار قرآنی سے منور کرنے میں ہمہ تن مشغول ہو جائے.اے خدا! تو اپنے فضل سے ایسا ہی کر کہ تیرے فضل کے بغیر ایسا ممکن نہیں.اے زمین اور آسمان کے نور! تو ایسے حالات پیدا کر دے کہ دنیا کا مشرق بھی اور دنیا کا مغرب بھی، دنیا کا جنوب بھی اور دنیا کا شمال بھی نور قرآن سے بھر جائے.اور سب شیطانی اندھیرے ہمیشہ کے لئے دور ہو جائیں.میری توجہ اس طرف بھی پھیری گئی ہے کہ فضل عمر فاؤنڈیشن کا بھی ان سکیموں سے گہرا تعلق ہے.پہلے میرا خیال تھا کہ میں آج کے خطبہ میں ہی اس کو ان کے ساتھ منسلک کر کے اپنے خیالات کا اظہار اپنے دوستوں کے سامنے کروں لیکن چونکہ گرمی زیادہ ہے اور لمبے خطبہ سے دوستوں کو تکلیف ہو گی.اس لئے آج میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہتا.اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو انشاء اللہ آئندہ جمعہ کو میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے متعلق دوستوں کے سامنے اپنے ان خیالات کا اظہار کروں گا.بہر حال ہمیں ہمیشہ یہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ واقعتا اور حقیقتاً خدا ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم قرآنی انوار میں ایسے گم ہو جائیں کہ سوائے انوار قرآنی کے ہمارے وجود میں اور کوئی چیز نظر نہ آئے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۰ /اگست ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 374

Page 375

خطبات ناصر جلد اول ۳۵۹ خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۶۶ء انفاق فی سبیل اللہ کی استعداد کو بڑھانے کے تین قیمتی گر خطبه جمعه فرمود ه ۱۹ اگست ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.گزشتہ چند دنوں انفلوائنزا کی وجہ سے میری طبیعت ٹھیک نہیں رہی.ایک وقت میں تو آواز بالکل بیٹھ گئی تھی.کل سے کچھ کھلی ہے.ویسے اب بھی تکلیف محسوس کر رہا ہوں اس لئے میں اختصار کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق دوستوں کے سامنے بعض باتیں رکھنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.”اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کے لئے سب سے اول تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلا ؤ.اس پہلو میں مالی ضرورتوں اور امداد کی حاجت ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلا آیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسی ضرورتیں پیش آئی تھیں اور صحابہ کی یہ حالت تھی کہ ایسے وقتوں پر بعض ان میں سے اپنا سارا ہی مال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتے اور بعض نے آدھا دے دیا اور اسی طرح جہاں تک کسی سے ہوسکتا فرق نہ کرتا.مجھے افسوس سے ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے ہاتھ میں بجز خشک باتوں کے اور کچھ بھی

Page 376

خطبات ناصر جلد اول ۳۶۰ خطبہ جمعہ ۱۹ /اگست ۱۹۶۶ء نہیں رکھتے اور جنہیں نفسانیت اور خود غرضی سے کوئی نجات نہیں ملی اور حقیقی خدا کا چہرہ ان پر ظاہر نہیں ہوا.وہ اپنے مذاہب کی اشاعت کی خاطر ہزاروں لاکھوں روپیہ دے دیتے ہیں اور بعض اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں.عیسائیوں میں دیکھا ہے کہ بعض عورتوں نے دس دس لاکھ کی وصیت کر دی ہے.پھر مسلمانوں کے لئے کس قدر شرم کی بات ہے کہ وہ اسلام کے لئے کچھ بھی کرنا نہیں چاہتے یا نہیں کرتے.مگر خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اسلام کے روشن چہرہ پر سے وہ حجاب جو پڑا ہوا ہے.دور کر دے اور اسی غرض کے لئے اس نے مجھے بھیجا ہے.دوست جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس چھوٹی سی اور غریب جماعت کو ساری دنیا کے مقابلہ پر لا کھڑا کیا ہے اور فرمایا کہ تمام ادیان باطلہ کا مقابلہ کرو اور انہیں شکست دو اور اسلام کی خوبیوں کو ظاہر کر کے اسے ان پر غالب کرو.اس جماعت کے مقابلہ میں ایک طرف ان طاغوتی طاقتوں کو بڑی قوت اور وجاہت اور اقتدار اور مال دیا کہ اربوں ارب روپیہ وہ اسلام کے خلاف خرچ کر رہے ہیں.اور دوسری طرف اپنی اس جماعت کو بڑے ہی وعدے دیئے اور فرمایا کہ تم ان اقوام اور ان مذاہب کی طاقت کو دیکھ کر گھبرانا نہیں اور ان کے اموال پر نظر کر کے تمہیں پریشانی لاحق نہ ہو.کیونکہ میرا تم سے یہ وعدہ ہے کہ اگر تم میری بھیجی ہوئی تعلیم پر عمل کرو گے اور میرے بتائے ہوئے طریق پر چلو گے تو تھوڑے ہونے کے باوجود اور کمزور ہونے کے باوجود اور غریب ہونے کے باوجود آخری فتح اور کامیابی تمہارے ہی نصیب ہوگی.اس چیز کو دیکھتے ہوئے اور اس چیز کو سمجھتے ہوئے ہم پر بڑی ہی قربانیوں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.جن میں سے ایک مالی قربانی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ مطالبہ تو نہیں کیا کہ ہم اپنی طاقت اور استعداد سے بڑھ کر اس کی راہ میں قربانی دیں.کیونکہ ایسا مطالبہ غیر معقول ہوتا اور اللہ تعالیٰ تو عقل اور حکمت اور علم اور نور کا سر چشمہ ہے.وہ تو نور ہی نور ہے.اس کی طرف سے اس قسم کا کوئی مطالبہ ہو ہی نہیں سکتا.لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں یہ ضرور بتاتا ہے کہ میں نے قوتِ استعدا د اور

Page 377

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱۹ /اگست ۱۹۶۶ء اموال کے بڑھانے کے کچھ طریق بھی رکھے ہیں تم اپنی طاقت سے بڑھ کر قربانی نہیں دے سکتے لیکن تم قربانی دینے کی طاقت کو ہر وقت بڑھا سکتے ہو.پس قربانی دینے کی طاقتوں کو تم بڑھاؤ.تین موٹی باتیں میں اس وقت دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.(۱) اوّل.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعی.(النجم :۴۰) ایک تو اس کے معنی یہ ہیں کہ مالی اور اقتصادی لحاظ سے تم جس مقام پر بھی ہو.وہ تمہارا آخری مقام نہیں.مزید ترقیات کے دروازے تمہارے سامنے ہیں.جنہیں تم اپنی سعی سے، اپنی کوشش سے، اپنی جد و جہد سے، اپنی محنت سے کھول سکتے ہو.یعنی اگر تم اپنے پیشہ میں مزید مہارت حاصل کرلو جتنی محنت اور توجہ سے تم اس وقت کام کر رہے ہو.اس سے زیادہ محنت اور توجہ سے کام کرو اور جو ذرائع تمہیں میسر آئے ہوئے ہیں ان کو تم پہلے سے زیادہ بہتر طریق پر استعمال کرو.یعنی تدبیر کو اپنے کمال تک پہنچاؤ اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ئیں بھی کرتے رہو کہ وہ تمہارے اموال میں برکت ڈالے اور تمہاری کوششوں کو بار آور کرے تو اس کے نتیجہ میں تمہارے اموال بڑھ جائیں گے اس کے ساتھ ہی مالی قربانی کی استعداد بھی مثلاً اگر ہم میں سے ہر ایک کی آمد بڑھ جائے لیکن جذبہ ایثا را تنا ہی رہے جتنا پہلے تھا تب بھی کمیت کے لحاظ سے ہماری مالی قربانی میں بڑا نمایاں فرق آجاتا ہے.مثلاً ایک شخص کی آمد ایک سو روپیہ ماہوار ہے اور وہ اپنے جذبہ ایثار سے مجبور ہو کر اور اپنی استعداد کے مطابق اس میں سے ہیں فیصد روپیہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے.اگر وہ محنت کرے، اگر وہ اپنے علم میں زیادتی کرے، اگر وہ اپنے ذرائع کو بہتر طریق پر استعمال کرے اور اگر وہ اپنی دعاؤں کے نتیجہ میں اپنی آمد کوسو سے دوسو ماہانہ کر دے اور اس کی قربانی میں فیصد ہی رہے تو پہلے وہ بیس روپے ماہوار دیتا تھا اب وہ چالیس روپے ماہوار دے گا.تو کمیت کے لحاظ سے مالی قربانی میں دگنا اضافہ ہو جائے گا کیونکہ اس کی آمد پہلے کی نسبت دگنی ہوگئی.(۲) ایک اور طریق اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ تم اپنے خرچ کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ضبط میں لاؤ ، سادہ زندگی گزارو.رسم و رواج جو بیاہ شادیوں کے موقع پر یا موت فوت

Page 378

خطبات ناصر جلد اول ۳۶۲ خطبہ جمعہ ۱۹ /اگست ۱۹۶۶ء کے موقع پر لوگوں میں رائج ہیں ان کے نتیجہ میں اسراف کی راہوں کو اختیار کیا جاتا ہے.تم ان را ہوں کو اختیار نہ کرو اور سادہ زندگی اختیار کر کے اپنے خرچوں کو کم کر دو.تو اس کے نتیجہ میں بھی تمہاری قربانی اور انفاق فی سبیل اللہ کی طاقت اسی نسبت سے بڑھ جائے گی.مثلاً ایک شخص کی سو روپیہ ماہوار آمد ہے اور اس کو اپنی ذات اور اپنے خاندان پرانی روپیہ ماہوار خرچ کرنے کی عادت پڑی ہوئی ہے اور بعض باتوں میں وہ اسراف کرتا ہے اور سادگی کی تعلیم پر عمل پیرا نہیں ہوتا.اگر وہ سادہ زندگی کو اختیار کرے اور اس کا خرچ اتنی روپیہ سے گر کر ستر روپیہ ماہوار پر آ جائے تو اس کو سادگی کے اختیار کرنے کے نتیجہ میں دس روپیہ ماہوار زیادہ قربانی کرنے کی طاقت حاصل ہوگئی.اگر وہ چاہے تو خدا کی راہ میں اسے دے سکتا ہے.اس لئے میں تفصیل میں جائے بغیر ، احباب جماعت کو اور جماعتی نظام کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے مطالبات میں سادہ زندگی کے جو مطالبات رکھے ہیں ان کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے بہت سی جماعتیں اور بہت سے افراد اس چیز کو بھولتے جارہے ہیں.اگر ہم مثلاً بد قسمتی سے سینما دیکھنے کے عادی ہوں اور اب سینما دیکھنا چھوڑ دیں تو وہ دس پندرہ روپے جو ہم سینما دیکھنے پر خرچ کرتے تھے وہ ہمارے پاس بیچ رہیں گے اور اگر ہم چاہیں تو یہ رقم خدا کی راہ میں دے سکتے ہیں.پس میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے وہ مطالبات جو سادہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں.ان کو جماعت میں دہرایا جائے اور افراد جماعت کو پابند کیا جائے کہ وہ ان مطالبات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سادہ بنا ئیں.اسی طرح بہت جگہ سے یہ شکایت آتی رہتی ہے کہ بعض خاندانوں میں رسوم اور بد عادات عود کر رہی ہیں.مثلاً شادی کے موقع پر اسراف کی راہوں کو اختیار کیا جاتا ہے اور بلاضرورت محض نمائش کے طور پر بہت سا خرچ کر دیا جاتا ہے.بعض لوگ تو اس کے نتیجہ میں مقروض ہو جاتے ہیں اور پھر ساری عمر ایک مصیبت میں گزارتے ہیں.یہ تو وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا میں دے دیتا ہے لیکن ایک اور سزا ہے جو بظاہر ان کو نظر نہیں آتی کہ اس کے نتیجہ میں وہ بہت سی ایسی

Page 379

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۶۳ خطبہ جمعہ ۱۹ راگست ۱۹۶۶ء نیکیوں سے محروم ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ سادگی کو اختیار کرتے.اگر وہ رسوم کی پابندی کو چھوڑ دیتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ان نیکیوں کی توفیق عطا کرتا اور ان کو اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی ایسی نعمتیں حاصل ہوتیں کہ دنیا کی لذتیں اور دنیا کے عیش اور ان کی نمائشیں ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہ رکھتیں.پس جماعت کو چاہیے کہ تحریک جدید کے ان مطالبات کو دہراتی رہے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے تا کہ اس طرح وہ اپنے پیسوں کو بچا سکے اور اس کی قربانی کی قوت اور استعداد پہلے کی نسبت بڑھ جائے اور وہ اپنی اس بڑھی ہوئی حیثیت اور طاقت کے مطابق قربانی کرنے والی ہو.اس طرح دوست پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہوں گے.(۳) تیسری بات جس کی طرف قرآن کریم ہمیں متوجہ کرتا ہے وہ جذ بہ ایثار ہے اور شیخ نفس سے بچنا ہے.جب یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو انسان بہت سی جائز ضرورتوں کو بھی کم کر سکتا ہے.صحت کو نقصان پہنچائے بغیر اور اور کسی قسم کا حقیقی نقصان اٹھائے بغیر ! تو جب جذبہ ایثار بڑھ جائے تو قربانی کرنے کی قوت اور استعداد بھی بڑھ جاتی ہے اور اس کا ذریعہ دعا ہے ہمیں ہر وقت یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا! تو نے ایک نورقرآن کریم کی شکل میں نازل کیا اس میں جہاں تو نے ہمیں اور بہت سی حسین ہدایتیں اور احکام دیئے ہیں وہاں انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق بھی بڑی ہی حسین اور وسیع تعلیم تو نے ہمارے سامنے پیش کی ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ اگر ہم تیری راہ میں ان طریقوں پر جو تو نے بتائے ہیں اپنے اموال کو خرچ کرنے والے ہوں گے.تو تو بہت سے انعامات اور فضل ہم پر نازل کرے گا.تو اے خدا تو ہمیں اپنے فضل سے اس بات کی توفیق عطا کر کہ ہم اس ہدایت پر عمل پیرا ہونے والے ہوں تا کہ ہم تیری نعمتوں اور فضلوں کو حاصل کر سکیں.پس ہم ان تین طریق سے اپنی قوت اور استعداد کو بڑھا سکتے ہیں.تو جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ ہم اپنی طاقت سے بڑھ کر اس کی راہ میں قربانی دیں لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ ضرور کرتا ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر طرح یہ کوشش

Page 380

خطبات ناصر جلد اول ۳۶۴ خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۶۶ ء کرتے رہیں کہ اس کی راہ میں ہماری قربانی دینے کی طاقت اور استعداد ہمیشہ بڑھتی چلی جائے تا کہ ہم ہمیشہ پہلے کی نسبت زیادہ سے زیادہ اس کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں.اس کے بعد میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے متعلق کہ وہ بھی انفاق فی سبیل اللہ ہی کی ایک شق ہے کچھ کہنا چاہتا ہوں.فضل عمر فاؤنڈیشن کے قیام کی غرض ہی یہ ہے کہ جماعت احمد یہ سچے مسلمانوں کا نمونہ دکھاتے ہوئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.اسلام کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلانے کی غرض سے اور بھی زیادہ مالی قربانیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرے اور اس مالی قربانی کو اس حد تک پہنچائے کہ دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قول کی صداقت پر گواہ ہو.صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا یعنی اولین و آخرین ہر دو گروہ کی مالی قربانیاں ایک کی شان اور عظمت اور عزت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں رکھنے والی ہوں.گزشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر فضل عمر فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا.اس وقت میں نے اپنے بھائیوں سے یہ خواہش کی تھی کہ اس فنڈ میں پچیس لاکھ روپیہ وہ جمع کریں.سوائے محمد رسول اللہ کے فرزند جلیل مسیح محمدی کی جانثار اور خدائے بزرگ و برتر کی محبوب جماعت ! آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے خلوص نیت اور صمیم قلب کے ساتھ فاؤ نڈیشن کے لئے جو وعدے کئے ہیں ان کی رقم پچیس لاکھ سے بڑھ گئی ہے اور ابھی اور وعدے آ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے اس اخلاص اور ایثار کو قبول فرمائے اور اعلاء کلمہ اسلام کے لئے آپ کی قربانیوں میں برکت ڈالے اور آپ کو اس دنیا میں بھی اتنا دے، اتنا دے کہ آپ سیر ہو جائیں اور اُخروی زندگی میں بھی اپنی تمام نعمتوں سے آپ کو نوازے تا آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں آپ کے صحابہ کی معیت حاصل کر سکیں.اب جبکہ وعدے اپنی مقررہ حد سے آگے بڑھ چکے ہیں ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے اور

Page 381

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۶۵ خطبہ جمعہ ۱۹ /اگست ۱۹۶۶ء یہ کوشش کرنی چاہیے کہ یہ وعدے جو تین سال میں وصول ہونے ہیں ان کا کم از کم ۱٫۳ سالِ رواں یعنی سال اول میں وصول ہو جائے.اس وقت تک جو وعدے ہو چکے ہیں ان کے لحاظ سے قریباً ۹، ۱۰ لاکھ کی وصولی سال اوّل میں ہونی چاہیے چونکہ بہت سے ابتدائی مراحل میں سے اس تنظیم کو گزرنا تھا اور اس کے لئے صحیح معنی میں جو ہماری کوشش ہوئی ہے.وہ مجلس مشاورت کے بعد ہوئی ہے اس لئے میں نے فضل عمر فاؤنڈیشن کا سال یکم مارچ سے تیس ۱٫۳۰ پریل تک مقرر کیا ہے.ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ۱٫۳۰ پریل سے قبل کم از کم ۹ ، ۱۰ لاکھ روپے کی رقم جو ایک تہائی سے زیادہ ہوگی اور اگر وعدے زیادہ آگئے تو پھر اس سے بھی زیادہ رقم وصول ہونی چاہیے ) بہر حال موجودہ صورت میں ۹ ، ۱۰ لاکھ کی رقم ضرور وصول ہو جانی چاہیے.اس وقت تک پاکستان کی جماعتوں اور احباب سے جو رقوم وصول ہوئی ہیں ان کی مقدار چار لاکھ سے اوپر تک پہنچ چکی ہے.مجھے یقین ہے کہ جماعت اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتی ہے اور وہ انشاء اللہ ٫۳۰را پر یل سے پہلے ایک تہائی سے زیادہ اپنے وعدے ادا کر دے گی.میں ایک تہائی (۱/۳) سے زیادہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بعض غریب احمدی دوستوں نے بڑی قربانی دے کر اس میں حصہ لیا ہے اور ساتھ ہی پوری رقم ادا بھی کر دی ہے.ایک تہائی پر انہوں نے کفایت نہیں کی.مثلاً سو روپیہ کا وعدہ لکھوایا تو سور و پیہ ہی دے دیا.کئی مہینہ کی بات ہے گجرات کے ایک دوست یہاں تشریف لائے ( وہ بہت بوڑھے تھے اتنے بوڑھے کہ ان سے چلا نہ جاتا تھا ) اور مجھے پیغام بھجوایا کہ میں ضروری کام کے لئے ملنا چاہتا ہوں.باوجود اس کے کہ وہ بہت کمزور تھے.سیڑھیوں پر بھی نہ چڑھ سکتے تھے.حضرت مصلح موعود کی محبت سے مجبور ہو کر وہ اتنا لمبا سفر کر کے آئے تھے.میں اُتر ا اور ان سے ملا تو انہوں نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنا رو مال کھولا اور غالباً چند سو کی رقم تھی وہ نکال کر مجھے دی اور کہا کہ یہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.خدا کے فضل سے ہماری جماعت بڑی قربانی کرنے والی ہے اور بڑی ہی محبت کرنے والی

Page 382

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۶۶ خطبہ جمعہ ۱۹ راگست ۱۹۶۶ء اور حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ سے والہانہ عقیدت رکھنے والی ہے.میں کامل امید رکھتا ہوں اور اپنے رب سے دعا بھی کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ ہم اس فنڈ میں سال رواں کے اندر ایک تہائی سے کہیں زیادہ رقم ادا کر دیں کیونکہ اس سے جو کام کئے جانے والے ہیں.ان کے متعلق یہ بھی فیصلہ ہے کہ اصل رقم کو محفوظ رکھا جائے اور پھر اس کی آمد سے وہ کام کئے جائیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو محبوب اور پیارے تھے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے اور اس کی توفیق سے ہی سب کچھ ہو سکتا ہے.(روز نامه الفضل ربوه ۸ رستمبر ۱۹۶۶ ، صفحه ۲ تا ۴) 谢谢谢

Page 383

خطبات ناصر جلد اول ۳۶۷ خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۶۶ء قرآن کریم نے تمام برکاتِ روحانی کو اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۶ /اگست ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کی یہ آیت پڑھی.وَهُذَا كِتَب أَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ مُصَدِّقُ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ.(الانعام : ۹۳) اور پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام کی اس آیت میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ یہ عظیم الشان کتاب جسے ہم نے تجھ پر اتارا ہے، برکات کی جامع ہے اور جو کلام اس سے پہلے تھا اس کو پورا کرنے والی ہے اور ہم نے اسے اس لئے اُتارا ہے تاکہ تو اس کے ذریعہ سے اقوامِ عالم کو ہدایت دے اور تا تو ڈرائے مکہ اور عرب کے بسنے والوں کو اور ان آبادیوں کو جو عرب کے چاروں طرف اکناف عالم تک پھیلی ہوئی ہیں اور جولوگ پیچھے آنے والی موعود باتوں اور بشارتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ان عبادتوں پر قائم ہیں جن پر انہیں ان کے رسولوں نے قائم کیا تھا.وہ اپنے تقویٰ اور ایمانی پختگی کے نتیجہ میں قرآن پر بھی ضرور ایمان لے آئیں گے.لیکن اگر وہ ان بشارتوں کو بھول چکے ہوں

Page 384

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۶۸ خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۶۶ء اور ان کا ایمان ان بشارتوں کے متعلق پختہ نہ ہو.اسی طرح وہ شریعت کو قائم کرنے والے نہ ہوں تو ان کو ایمان کی طرف لانے کے لئے اللہ تعالیٰ پھر ا نذاری طریق استعمال فرمائے گا.یہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو مبارک کہا ہے بعض جگہ قرآن کریم کے متعلق یہ بیان ہوا ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو تمام ہدایتوں کا مجموعہ ہے ،لیکن یہاں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ یہ ا ایک ایسی کتاب ہے جو تمام برکات کی جامع ہے.یعنی الہی ہدایتوں پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جو برکات انسان کو حاصل ہوتی ہیں اس آیت میں ان کا بیان ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمایا کہ پہلی امتوں کو کامل ہدایت نہ ملی تھی ناقص ہدایت ملی تھی (بوجہ اس کے کہ وہ اپنی روحانی نشوونما میں ابھی ناقص تھے ) اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ ، پوری جد و جہد ، محنت اور کوشش کے ساتھ اس ہدایت پر عمل کرتے جو ان کو دی گئی تھی تو اس کے نتیجہ میں جو برکت انہیں حاصل ہوتی وہ اس برکت کے نتیجہ میں بہت کم ہوتی جو قرآن کریم کی ہدایت پر عمل کر کے انسان حاصل کر سکتا ہے کیونکہ قرآن کریم تمام برکات کا مجموعہ ہے.اس آیت پر میں نے جب غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر یہ قرآن کتب مبرك ہے اور يقيناً قرآن كتب ممبر ہے اور اس نے تمام برکاتِ روحانی کو اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے تو پھر عقلاً تین نتیجے نکلتے ہیں.اول یہ کہ اس کتاب کی کامل اتباع کی جائے.دوسرے یہ کہ اس کتاب نے تقویٰ کی جو باریک راہیں ہمیں بتائی ہیں ان پر گامزن رہا جائے اور تیسرے یہ کہ اگر اور جب ہم یہ کر لیں تب خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے ہم پر کھل سکتے ہیں.لیکن اگر ہم ایسا نہ کریں تو باوجود اس کے کہ یہ کتاب تمام برکات روحانی کی جامع ہے ہم اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.میں جب سورۃ الانعام کی تلاوت کر رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ میں اس آیت کے متعلق خطبہ دوں گا.میں نے سوچا تو یہ تینوں باتیں میرے ذہن میں آئیں.جب میں سورۃ کے آخر میں پہنچا مجھے یہ دیکھ کر لطف آیا کہ وہ تین باتیں جو اس وقت میرے ذہن میں آئی تھیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام

Page 385

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۶۹ خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۶۶ء کے آخر میں وہی تین نتیجے (مُبَارَک کے ) وضاحت کے ساتھ نکالے ہیں.اس پر میرا خیال اس طرف گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفسیر کے متعلق جو یہ ایک نکتہ بیان کیا ہے کہ قرآن کریم خودا اپنا مفسر ہے.یعنی قرآن کریم کی بعض آیات دوسری آیات کی تفسیر کرتی ہیں اور وہی تفسیر بہتر اور اچھی اور مفید اور سب سے زیادہ صحیح تسلیم کی جاسکتی ہے.جو قرآن کریم نے خود بیان فرمائی ہو.اگر چہ ہر ایک کا دماغ اتنی پہنچ نہیں رکھتا کہ معلوم کر سکے کہ قرآن کریم کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کے خلاف نہیں یا لغت عرب ہی خود اس تفسیر کے خلاف نہیں.لیکن بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ بہترین تفسیر وہ ہے جو قرآن کریم خود بیان کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ بھی کہا یا لکھا وہ قرآن کریم کی ہی تفسیر ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم میں سے بعض بعض چیزوں یا بعض مضامین کے متعلق کچھ پریشان ہوں کہ ہمیں پتہ نہیں چل رہا کہ یہ قرآن کریم کی کس آیت کی تفسیر ہے.لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ ( لاکھوں احادیث جو اُمتِ مسلمہ نے بڑی محنت اور جد و جہد سے محفوظ کیں).سب قرآن مجید ہی کی تفسیر ہیں لیکن کم لوگ ہیں جو یہ بتا سکیں کہ کون سا ارشاد کس آیت کی تفسیر ہے.جو بڑے بڑے عالم ہیں وہ تو جانتے ہیں لیکن ہر کس و ناکس کے بس کی یہ بات نہیں.چونکہ یہ اس نکتہ کی بڑی واضح مثال تھی اس لئے میں نے اس کا یہاں ذکر کر دیا ہے.تو اس خیال سے کہ میں اس آیت پر خطبہ دوں گا.میں نے اس پر غور شروع کیا اور مذکورہ بالا تین باتیں میرے ذہن میں آئیں اور وہی تین باتیں مُبارک کی تفسیر کرتے ہوئے سورۃ انعام میں ہی آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما دیں.اللہ تعالیٰ سورۃ انعام آیت ۱۵۶ میں فرماتا ہے وَهُذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَهُ مُبر یہ کتاب جو میں تم پر نازل کر رہا ہوں.یہ تمام برکات کی جامع ہے فاتبعوہ اس لئے تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اس کی کامل اتباع کرو.وَاتَّقُوا اور تقویٰ کی جو باریک راہیں یہ تمہیں بتاتی ہیں تم ان پر گامزن رہو.لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ تا کہ اس طرح پر اللہ تعالیٰ

Page 386

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۶۶ء کی رحمتوں کے دروازے تم پر کھولے جائیں.پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا کہ قرآن کریم جامع ہے تمام برکات روحانی کا ( لیکن کتب سابقہ کے متعلق مبارك کا لفظ استعمال نہ ہو سکتا تھا ) اور اس طرح ہمیں یہ بتایا کہ پہلی امتیں اپنی پوری جدو جہد ، اپنے پورے مجاہدہ ، اپنی پوری محنت اور اپنی پوری کوشش اور ایثار اور اپنے پورے جذ بہ قربانی کے باوجود اس روحانی مقام رفعت تک نہ پہنچ سکتی تھیں جس مقام رفعت تک تم پہنچ سکتے ہو.کیونکہ تمہیں ایک کامل کتاب دی گئی ہے جس کی اتباع کے نتیجہ میں تم کامل برکات کو حاصل کر سکتے ہو.کامل برکات کے حصول کا امکان تمہارے لئے پیدا ہو گیا ہے.اتنی ارفع اور اتنی اعلیٰ کتاب کے ملنے کے بعد بھی اگر تم کو تا ہی کرو اور اس طرف متوجہ نہ ہو اور خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر اس کی اس نعمت سے فائدہ نہ اٹھاؤ تو تمہارے جیسا بد بخت دنیا میں کوئی نہیں ہوگا.پس فرما یا کہ یہ کتاب تمام برکات کی جامع ہے اور تمام برکات کا حصول تمہارے لئے ممکن بنادیا گیا ہے.اس لئے اٹھو!! اور کوشش کرو اور محنت کرو اور قربانیاں دو اور ایثار دکھاؤ تا کہ تم ان تمام برکات اور فیوض کو حاصل کر سکو.دوسرا امر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق یہاں یہ بیان فرما یا.مُصَدِّقُ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ - دراصل یہ مُبَارَك کی وجہ بتائی ہے کہ یہ کتاب تمام برکات کی جامع کیوں ہے؟ اس لئے کہ پہلی کتب میں جو بھی صداقتیں پائی جاتی تھیں ان سب کو اس نے اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے بلکہ ان سے کچھ زائد بھی ہے.اس لئے یہ مُبارک ہے.ہر وہ برکت جو پہلی کسی کتاب کی ہدایت سے حاصل کی جاسکتی تھی وہ اس کتاب سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ ہدایت اور بنیادی صداقت جو اس کے اندر تھی اس میں بھی پائی جاتی ہے.لیکن جو زائد چیزیں اس میں ہیں وہ پہلی کتب میں نہیں تھیں.اس لئے ان زائد احکام پر عمل کر کے جو برکتیں تم حاصل کر سکتے ہو.وہ لوگ جن پر پہلی کتب نازل کی گئی تھیں انہیں حاصل نہیں کر سکتے تھے.مُصَدِّقُ الذِى بَيْنَ يَدَيْهِ " یہ قرآن پہلی کتب کی تصدیق کرتا ہے.‘ میں جو تصدیق کا ذکر ہے اس کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ تصدیق کا ایک طریق قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے.مَا نَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ

Page 387

خطبات ناصر جلد اوّل خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۶۶ء قدير (البقرۃ: ۱۰۷) کہ ” جب بھی ہم کسی پیغام کو منسوخ کریں یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسا پیغام ہم دنیا میں لے آتے ہیں.اس آیت میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں.ایک یہ کہ پہلی کتب کی بعض باتوں کو بعض ہدایتوں کو قرآن کریم نے منسوخ کر دیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا ہے کہ میں نے پہلے جو کتاب بھیجی تھی اس کی یہ یہ ہدایتیں منسوخ کی جاتی ہیں تو اس اعلان میں اس کتاب کی تصدیق بھی ہو رہی ہوتی ہے یعنی منسوخ کا اعلان خود تصدیق کر رہا ہوتا ہے.اس بات کی کہ وہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل کی گئی تھی جسے اب اللہ تعالیٰ منسوخ کر رہا ہے.دوسرے اس میں یہ بتا یا کہ جو جو بنیادی صداقتیں پہلی کتب میں تھیں وہ تمام کی تمام ہم نے قرآن کریم میں جمع کر دی ہیں.مِثْلِهَا “ میں اسی طرف اشارہ ہے.مغل اس لئے کہا.پہلے مجمل طریق پر یہ صداقتیں بیان ہوئی تھیں اور حکمت بتائے بغیر.لیکن اب وہ کامل اور مکمل شکل میں قرآن کریم میں رکھ دی گئی ہیں بالکل وہی نہیں.کیونکہ بالکل وہی ہوں تو اس سے قرآن کریم وو میں نقص لازم آتا ہے لیکن ہیں ویسی ہی مگر زیادہ اچھی شکل میں اور زیادہ تفصیل کے ساتھ.بخير منھا وہ باتیں جن کی پہلی امتیں حامل نہ ہو سکتی تھیں بیان کر دیں اس لئے اس میں وہ ابدی صداقتیں بھی ہیں جو پہلی ہدایتوں کی جگہ آئیں اور ان سے زیادہ خوبصورت شکل میں.اس میں ضمناً یہ بھی بتا دیا کہ چونکہ پہلی کتب محرف و مبدل ہوگئیں اس لئے مجموعی طور پر ان شریعتوں کو منسوخ کرنا پڑا مجموعی طور پر اس لئے کہ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں اب بھی بعض باتیں اسی شکل میں موجود ہیں جس شکل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں.لیکن مجموعی طور پر وہ شریعت انسانی دخل کی وجہ سے اس قدر محرف ہو چکی ہے کہ اس میں وہ برکت ، وہ حسن اور اللہ تعالیٰ کا وہ جلوہ نظر نہیں آرہا ہے جو برکت، جوحسن اور جو جلو ہ الہی اس میں نزول کے وقت تھا اس لئے قرآن کریم نے اسے منسوخ کر دیا لیکن اس کی بنیادی صداقتوں کو لے لیا.یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک اور بات بھی بتائی ہے وہ یہ کہ ہم انسان کے ذہن سے شریعت کو مٹا کر ( کہ وہ اسے بالکل بھول جائے ) بھی منسوخ کیا کرتے ہیں.

Page 388

خطبات ناصر جلد اول ۳۷۲ خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۶۶ء اگر قرآن کریم ان نامعلوم شریعتوں کا (جو نا معلوم تعداد میں دنیا کی طرف بھیجی گئیں اور جن کا اب نام و نشان نہیں ) نام لیتا تو ہمارے دماغوں میں بڑی الجھن پیدا ہو جاتی.مثلاً اگر کہا جاتا کہ افریقہ میں فلاں نبی پر فلاں شریعت نازل ہوئی.حالانکہ نہ دنیا کی تاریخ نے اس نبی کے نام کو محفوظ رکھا ہوتا ، نہ اس کی شریعت کے نام کو محفوظ رکھا ہوتا.اور نہ اس کی کتاب کے کسی حصے کو محفوظ رکھا ہوتا تو کیسی مشکل پیش آتی ؟ تاریخ انسانی ان چیزوں کو بھلا چکی ہے.فرمایا کہ بعض شریعتوں کو اور بعض کتب سماوی کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزری تھیں ہم نے ذہن انسانی سے بھلا کر انہیں منسوخ کر دیا ہے.خدا تعالیٰ تو علیم ہے وہ تو نام بھی لے سکتا تھا لیکن اگر وہ ایسا کرتا تو ہمارے لئے پریشانی کا باعث بنتا.اس واسطے اس کے رحم نے تقاضا کیا کہ ان کو بھولا رہنے دے اور اس طرح ان کو منسوخ کر دے.سو یہ بھی منسوخ کرنے کا ہی ایک طریق ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ شریعت یا اس کا کوئی حصہ منسوخ کیا جائے ( کسی اعلان کے نتیجہ میں ) یا شریعت کا کوئی حصہ زیادہ اچھی شکل میں قرآن کریم میں نازل کر دیا جائے یا یہ اعلان کر دیا جائے کہ ہم نے نام لئے بغیر بعض شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے.ہر سہ صورتوں میں قرآن کریم مصدق بنتا ہے.ان سب پہلی شریعتوں کا کیونکہ اعلان تنسیخ اور اعلان نسیان خود تصدیق ہے کہ وہ شریعتیں یا ان شریعتوں کے وہ حصے جو بنیادی صداقتیں تھی جن میں انسان کی طرف سے کوئی ملاوٹ نہیں کی گئی وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں.یہ ایک معنی مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ کے ہیں.دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ قرآن کریم ایک ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ اس کے متعلق دنیا کی ہر شریعت نے پیشگوئی کی تھی اور بشارت دی تھی اور انہی پیشگوئیوں کے مطابق قرآن کریم اپنے وقت پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.تو فرما یا کہ یہ ایک عظیم کتاب ہے.اتنی عظیم الشان کہ کوئی ایسی شریعت دنیا کے کسی خطہ میں نازل نہیں کی گئی.جس کے نبی نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ پر نازل ہونے والے قرآن ( کتاب عظیم ) کی بشارت نہ دی ہو.اور کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس نے اپنی قوم کو اس

Page 389

خطبات ناصر جلد اول ۳۷۳ خطبہ جمعہ ۲۶ راگست ۱۹۶۶ء طرف متوجہ نہ کیا ہو کہ جس وقت بھی اور جہاں بھی خدا کا وہ برگزیدہ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ کی شکل میں تمہارے سامنے آئے تو اس کو قبول کر لینا.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کتاب اسے دی جائے گی وہ میری ہر کتاب (شریعت) سے بہتر اور افضل اور اعلیٰ ہوگی.کیونکہ میری ہر پہلی کتاب میں چند برکات ہیں اور جو کتاب اسے دی جائے گی وہ مُبَارَك جامع ہوگی تمام برکات کی.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جیسا کہ خود قرآن مجید نے کہا ہے دعا فرمائی اور بشارت بھی دی کہ ایسا نبی جو الکتاب اور الْحِكْمَة سکھانے والا ہو وہ مبعوث ہوگا.اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے متواتر نبی کے بعد نبی پیدا ہوا اور ان سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئی فرمائی.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس گناہ سوز شریعت کی ان الفاظ میں بشارت دی کہ اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی.اور اس بشارت کو موسیٰ علیہ السلام نے بار بار دہرایا تا کہ ان کی امت گمراہ نہ ہو جائے.پھر یسعیاہ نبی نے حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لوگوں کو بشارت سنائی اور ہشیار بھی کیا.تا کہ جب وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم ) پیدا ہو تو لوگ ایمان سے محروم نہ ہو جائیں.پھر بنی اسرائیل کی شریعت کے علاوہ جو شریعتیں محفوظ ہیں یا ان کا کچھ حصہ محفوظ ہے جب ہم ان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی بشارات موجود ہیں.حضرت زرتشت نے بھی آپ کی بشارت دی.ہندوؤں کی کتب میں بھی یہ بشارت پائی جاتی ہے اور بعض جگہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ایک فرزند جلیل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی بشارت دی ہے.تو قرآن کریم کا چودہ سو سال پہلے یہ دعویٰ کہ وہ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ہے.یعنی پہلی پیشگوئیوں کے مطابق دنیا کی طرف بھیجا گیا ہے.خود ایک عظیم صداقت اور اس کی حقانیت پر ایک زبردست دلیل ہے.کیونکہ نزول قرآن کے وقت بہت سی کتب سماوی ایسی تھیں جن کے متعلق کسی کو کچھ بھی پتہ نہ تھا.لیکن اب وہ باتیں ظاہر ہو رہی ہیں اور چونکہ اب اشاعت کتب کی

Page 390

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۷۴ خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۶۶ء بہت سی سہولتیں ہو گئی ہیں اس لئے بہت سی چھپی ہوئی اور نا معلوم باتیں ہمارے سامنے آ رہی ہیں اور ہر نئی بات جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ قرآن کریم کی ہی تصدیق کر رہی ہوتی ہے کہ قرآن کریم کا بھیجنے والا یقینا اصدقُ الصَّادِقِين ہے.جو بات وہ کہتا ہے بچی ہوتی ہے.اس کے متعلق کسی کو کبھی بھی شبہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی.علم تو بڑھ رہا ہے، اگر کبھی آئندہ کوئی شریعت (جو اس وقت انسان کے سامنے نہیں) انسان کے سامنے آجائے تو یقیناً اس میں بھی ہم پائیں گے کہ ایک عظیم الشان نبی آنے والا ہے.پس فرمایا کہ یہ کتاب جامع ہے تمام برکات کی.اس لئے کہ یہ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ہے.پہلی تمام صداقتوں کی تصدیق کرتی ہے اور پہلی پیشگوئیوں کے مطابق اس کا نزول ہوا ہے.ہر نبی کو یہ فکر تھی کہ جو عظیم الشان نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آنے والا ہے کہیں اس کی امت غلطی سے اس کا انکار کر کے خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر کا مورد نہ بن جائے اور ان سب انبیاء کو اس چیز سے دلچسپی تھی.کیونکہ یہ کتاب (قرآن) ہر قوم کے لئے تھی اس لئے وہ ان سب قوموں کا مشترکہ روحانی مائدہ تھا اور ان سب نبیوں کی قوم نے اس سے فیوض حاصل کرنے تھے اس لئے ان سب کو فکر تھی کہ کہیں ان کی قوم اس ابدی آتشی شریعت سے محروم نہ ہو جائے اور مور د غضب الہی نہ بن جائے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِتُنْذِرَ أَمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَهَا یعنی تیرے اوپر یہ فضل اس لیے کیا گیا ہے اور یہ کتاب مبارک اس لیے اُتاری گئی ہے کہ تاتو نہ صرف مکہ اور اہلِ عرب بلکہ وَمَنْ حَوْلَهَا تمام ان آبادیوں میں رہنے والی اقوام کو ڈرائے جو عرب کے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں..بشارت اور انذار دونوں ہی پہلو بہ پہلو چلتے ہیں کبھی اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو کھول کر بیان کر دیتا ہے اور کبھی ایک کو بیان کر دیتا ہے اور دوسری انڈرسٹڈ (Under Stood ) ہوتی ہے.یعنی سمجھا جاتا ہے کہ یہ بھی یہاں مذکور ہے.اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرما یا کہ یہ کتاب جو مبارک بھی ہے اور مصدق بھی ہے اس لئے تجھ پر نازل کی گئی ہے کہ تو تمام اقوام عالم کو خدائے واحد و یگانہ

Page 391

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۷۵ خطبہ جمعہ ۲۶ /اگست ۱۹۶۶ء اور قادر و توانا کی طرف پکارے اور ان کو دعوت دے کہ اس پاک صحیفہ کو تسلیم کرو جس کے متعلق پیشگوئیاں تمہاری کتاب میں بھی کی گئی تھیں اور اس پر ایمان لاؤ تاکہ تم تمام اُن برکات سے حصہ لو جو اس کی اتباع کے نتیجہ میں تمہیں مل سکتی ہیں لیکن اپنی کتب کی پوری اتباع کے باوجود تمہیں نہیں مل سکتیں.ام القری سے میں نے عرب مراد لی ہے اس لئے کہ ہمارے عام محاورہ میں بھی جب کبھی ملک کے دارالخلافہ کا نام لیتے ہیں تو اس سے مراد وہاں کی قوم ، وہاں کی حکومت اور وہاں کے رہنے والے شہری ہوتے ہیں.لغوی معنی بھی اس کی تائید کرتے ہیں.کیونکہ مفردات راغب میں لکھا ہے کہ مکہ کو ام القری اس لئے کہتے ہیں کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جوز مین کو بچھایا تو اس کا مرکزی نقطہ مکہ تھا اور زمین کا وجود اس نقطۂ مرکزی کے گرد ظہور پذیر ہوا.ہمیں لفظی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں، مجازی طور پر ہم اس کے بڑے اچھے اور صحیح معنی بھی کر سکتے ہیں اور وہی ہمیں کرنے چاہئیں بہر حال یہ تخیل پہلے سے موجود تھا کہ مکہ دنیا کے لیے ایک مرکزی نقطہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اُم القری کے لفظ سے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتانا چاہتا ہے کہ ہم نے مکہ کو دنیا کے لئے مرکزی نقطہ بنا دیا ہے اس لیے کہ اُٹھ کے معنی میں وہ چیز جو دوسری چیز کے لئے بطور اصل کے ہو، اس کے وجود، اس کی ابتداء، اس کی تربیت اور اس کی اصلاح کے لئے.تو فر مایا کہ اُم القری یعنی مکہ کو دنیا کی اصلاح اور تربیت کے لئے ہم مرکزی نقطہ بنار ہے ہیں.اس لئے اے رسول! اُٹھے اور ان لوگوں کو تیار کرتا کہ وہ دنیا میں پھیلیں اور خدائے واحد کی تبلیغ کریں اور اس کے نام کا جھنڈا بلند کریں اور قرآن کریم کے نور سے دنیا کو منور کرنے کی کوشش کریں.لِتُنذِرَ اُمَّ القُرى پہلے عرب کو تیار کرو اور وہاں استاد پیدا کرو.وَمَنْ حَوْلَهَا پھر یہ باہر نکلیں گے اور ایک دنیا کے معلم اور راہبر بنیں گے.تاریخ کے ورق الٹتے چلے جائیں امتِ مسلمہ کی تاریخ لِتُنْذِرَ أَمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ہی کی کھلی تفسیر ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى

Page 392

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۶۶ء صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ.کہ اگر چہ تمام انبیاء سابقین اور کتب سابقہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نزول کی پیشگوئی کی ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ تمام اقوام عالم آسانی کے ساتھ قرآن کریم پر ایمان بھی لے آئیں گی.کیونکہ ان اقوام میں سے وہی لوگ ایمان لائیں گے.يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ جو ان موعودہ پیشگوئیوں پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور پختہ ایمان اس شخص کا ہوتا ہے جو ( اول ) ان پیشگوئیوں کو بھول نہیں جاتا.دیکھو ہماری اُمت مسلمہ کو بھی بہت سی پیشگوئیاں سنائی گئیں لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشگوئیوں کو یا درکھتے ہیں؟ اور کتنے ہیں جن کے ذہنوں میں وہ پیشگوئیاں مستحضر رہتی ہیں؟ بہت ہی کم ہیں !!! فرمایا وہ لوگ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ان پیشگوئیوں پر پختہ ایمان رکھتے ہیں یعنی انہیں بھولے ہوئے نہیں.( دوم ) وہ ان پیشگوئیوں کو سچی پیشگوئیاں سمجھتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں ان کو جھوٹا نہیں قرار دیتے جیسے کہ آج کل بعض لوگ جب تنگ آجاتے ہیں اور ان سے کوئی جواب نہیں بن آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جتنی پیشگوئیاں حدیث وغیرہ میں ہیں وہ سب جھوٹی ہیں.ایسی کوئی پیشگوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی.جس شخص کا ایسا خیال ہو وہ پیشگوئی سے فائدہ بھی نہیں اُٹھا سکتا.( سوم ) ان کی غلط تاویلیں نہیں کرتے.یہ بھی پختہ ایمان کا طبعی اور لازمی نتیجہ ہے بعض لوگ غلط تاویلیں کرنی شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ برکات سے محروم ہو جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ان پیش خبریوں کو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے متعلق پچھلی تمام کتب سماویہ نے دی تھیں.بھلائے ہوئے نہیں.بلکہ ان کو اپنے ذہنوں میں مستحضر رکھتے ہیں.ان کی غلط تاویلیں نہیں کرتے ، ان کو پختہ یقین ہے کہ یہ خدا کی بات ہے اور ضرور پوری ہوکر رہے گی اور اس کے ساتھ ہی وَهُمْ عَلی صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ وہ اپنی شریعت کے مطابق جو ہم نے ان پر نازل کی دعا اور عبادت میں لگے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کسی نیکی اور ثواب کا حصول خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.اس لئے ہر وقت دعا میں لگے ہوئے

Page 393

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲۶ راگست ۱۹۶۶ء ہیں عبادت کر رہے ہیں اور اپنی شریعت کو حتی المقدور قائم کئے ہوئے ہیں.یہی لوگ ہیں يُؤْمِنُونَ به جو قرآن کریم پر ایمان لانے کی توفیق پائیں گے.جو شخص قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتا خدا تعالیٰ اسے موردِ الزام ٹھہراتا ہے.کہ تم وہ لوگ ہو جو خود اپنی شریعت کے مطابق نہ دعا کرتے ہو اور نہ ہی عبادت کرتے ہو اور نہ ہی شریعت کے دوسرے احکام بجالاتے ہو اور نہ ہی اپنی شریعت کی حفاظت کرتے ہو.بلکہ جو پیشگوئیاں اور بشارتیں تمہیں ملی تھیں تم ان کا انکار کر رہے ہو.یا ان کی غلط تاویلیں کر رہے ہو، تو تم خدا تعالیٰ کے فضل کو کیسے کھینچ سکتے ہو؟ تم نے اس شریعت کی قدر نہیں کی جو تم پر نازل کی گئی تو تم اس شریعت پر کیسے ایمان لا سکتے ہو جو تمہاری قوم سے باہر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی یا تمہاری قوم میں سے ایک ایسے شخص پر نازل کی گئی جو تمہارے خیال میں خدا کے نزدیک اس قدر کے قابل نہ تھا.جو قدر اس کی کی گئی.اور تمہارے خیال میں یہ کتاب اس شخص پر نازل ہونی چاہیے تھی جس کے متعلق تم فیصلہ دیتے کہ وہ قوم میں بڑا دیانتدار اور ہر لحاظ سے اس قابل تھا کہ خدا کا کلام اس پر نازل ہوتا.تو تمام اقوامِ عالم پر الزام دھرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارا قرآن کریم سے انکار کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ قرآن کریم میں کوئی نقص ہے یا قرآن کریم ان خوبیوں کا مجموعہ نہیں جن خوبیوں کا مجموعہ خدا تعالیٰ اسے قرار دیتا ہے یا وہ مصدق نہیں اور تمہاری کتب کی پیشگوئیوں کے مطابق نہیں آیا.نہیں ! بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ جو شریعت تم پر نازل کی گئی تھی تم خود اس کے پابند نہیں تھے اور نہ اس پر عمل کرتے تھے.نہ دعا کرو، نہ عبادتیں بجالا ؤ، نہ شریعت کے دوسرے احکام پر عمل کرو، نہ ان پیشگوئیوں کو سچا سمجھو جو اللہ تعالیٰ نے خود تمہاری مسلّمہ کتابوں میں نازل فرمائی ہیں.تو تم کیسے برکات قرآنی سے فائدہ حاصل کر سکتے ہو.پس فرمایا کہ اگر چہ یہ ( قرآن ) مُبَارَكَ اور مصداقی ہے لیکن اس پر ایمان وہی لائے گا جو اپنی کتاب کی پیشگوئیوں پر پختہ ایمان رکھتا ہو اور اپنی شریعت کو قائم کرنے والا ہو، دعا کرنے والا

Page 394

خطبات ناصر جلد اول ۳۷۸ خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۶۶ء اور عبادت گزار ہو اور جو ان تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا ہو جو اس کے لئے کھولی گئی تھیں.مگر اگر وہ اپنے زمانہ کی ذمہ داریاں نہیں نبھا سکا تو وہ ذمہ داریاں جو سارے زمانوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ کیسے نبھا سکے گا؟ ” سارے زمانہ کی ذمہ داریاں اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے ہیں.پس وہ شخص جو اپنی قوم کی ذمہ داریاں نہیں نبھا سکا تو وہ ذمہ داریاں جو ساری اقوام کی ہیں وہ کیسے نبھا سکے گا ؟ اس لئے وہ قرآن کریم کی برکات سے محروم رہ جائے گا.اس میں امت مسلمہ کو اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ پیشگوئیاں جو قرآن کریم یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں پائی جاتی ہیں، بشارتوں کے رنگ میں ہوں یا انذار کے رنگ میں.ان سب کو ماننا ضروری ہے.فرمایا کہ اگر تم لوگ ان پر پختہ یقین نہیں رکھو گے.انہیں بھول جاؤ گے، ان کی تاویلیں کرنے لگ جاؤ گے کہو گے کہ یہ تو احادیث میں غیر ثقہ لوگوں نے ملا دی ہیں اور جب وہ واقع ہو جائیں گی تب بھی تمہیں سمجھ نہ آئے گی کہ غیر ثقہ لوگوں نے زمین و آسمان کی تاریں کیسے ملا دیں اور ان کا وقوعہ کیسے ہو گیا تو یقینا تم بھی قرآنی برکات سے محروم رہو گے.پھر اگر تم قرآن کریم کی بیان کردہ عبادت بجانہ لاؤ گے.قرآن کریم کے طریق کے مطابق دعاؤں میں مشغول نہیں رہوگے، قرآن کریم کی شریعت کو اپنا لائحہ عمل اور دستور قرار نہیں دو گے تو تم کبھی ان برکات سے فائدہ حاصل نہیں کر سکو گے.جن برکات کا تعلق ان لوگوں سے ہے.جو پختہ ایمان رکھتے ہیں، دعا کر نیوالے ہیں عبادت میں مشغول رہنے والے ہیں اور جو شریعت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہیں پس اگر تم کتاب مبارک اور احکام شریعت کوٹھکرا دو گے اور پیٹھوں کے پیچھے پھینک دو گے تو باوجود اس کے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہو گے.خدا کے غضب اور قہر کے مورد بن جاؤ گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق بخشے کہ ہم قرآن کریم کی (جو تمام برکات کا جامع ہے) ساری کی ساری برکات سے فیض پانے والے ہوں اور یہ محض اس کے فضل سے ہی ہوگا نہ کہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جہاں ہم نے محض اس کی توفیق سے مسیح موعود علیہ السلام کو پہچانا ہے قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی دیگر پیشگوئیوں کو بھی ہم اور ہماری

Page 395

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۶ راگست ۱۹۶۶ء نسلیں پہچان سکیں اور ان کی معرفت حاصل کر سکیں اور ان پر ایمان لاسکیں تا کہ نہ ہم اور نہ ہماری نسلوں میں سے کوئی نسل ان برکات سے محروم رہے جن برکات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کی اس آیتہ میں کیا ہے.اللَّهُم امين روزنامه الفضل ربوه ۲۱ رستمبر ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۵) 谢谢您

Page 396

Page 397

خطبات ناصر جلد اول ۳۸۱ خطبہ جمعہ ۹ ستمبر ۱۹۶۶ء جو شخص رسوم و بدعات کو نہیں چھوڑتا اُس کا ایمان کبھی پختہ نہیں ہو سکتا خطبه جمعه فرموده ۹ رستمبر ۱۹۶۶ء بمقام.مری تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور پر نور نے یہ آیت تلاوت فرمائی.الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِي الْأُمِّنَ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّورِيةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَةَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الاعراف: ۱۵۸) پھر فرمایا:.اس آیت میں جو مضمون بیان ہوا ہے میں اس کے ایک حصہ کے متعلق دوستوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.یہ مضمون يَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُم سے شروع ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بہت سے مستقل سلسلہ ہائے شرائع قائم کئے گئے تھے.بہت سی قومیں اس وقت ایسی تھیں جن کا رشتہ اپنی شریعت سے ابھی ٹوٹا نہ تھا.وہ اپنی حالت اور اپنی سمجھ کے مطابق ان شرائع کی پیروی کرنے کی کوشش کرتی تھیں.لیکن بہت سی اقوام ایسی بھی تھیں کہ جن کا رشتہ اپنی شریعت سے ٹوٹ چکا تھا اور اس وقت وہ عملاً اہل کتاب نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی ناقص عقل

Page 398

خطبات ناصر جلد اول ۳۸۲ خطبہ جمعہ ۹ ستمبر ۱۹۶۶ء سے بہت سی رسوم جاری کر رکھی تھیں اور بہت سی بدعتوں میں مبتلا ہو چکے تھے.یہی ان کا مذہب تھا یہی ان کی شریعت تھی.ایسی شریعت جس کا کوئی رشتہ آسمان سے قائم نہ تھا لیکن جو ان کے جاہل دلوں کو تسلی دے دیا کرتا تھا.تو اس آیت کے پہلے حصہ يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ کا تعلق ان اقوام سے ہے.جن کا رشتہ اپنی شریعت سے منقطع نہیں تھا اور ہر نبی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل اپنی اپنی امت سے اللہ تعالیٰ کے نام پر عہد بیعت لیا اور وہ ایک پختہ عہد پر قائم تھے.وہ میثاق اور عہد یہ تھا کہ وہ قو میں اپنی اپنی شریعت کو اپنے اندر قائم کریں گی اور ان میں سے ہر ایک شخص اس پر خود بھی عمل کرے گا اور دوسروں سے بھی عمل کرانے کی کوشش کرے گا.اگر چہ ان کی شریعت بہت حد تک محرف و مبدل ہو چکی تھی اور بہت سی بدعتیں اور رسوم انہوں نے اپنی شریعت میں ملا دی تھیں.لیکن ان میں سے ایک جماعت سمجھتی یہی تھی کہ وہ خدا کی شریعت ہے.اور ہم نے اپنے رب سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس شریعت پر قائم رہیں گے اور اسے قائم کرنے کی کوشش کریں گے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرمایا ہے..امر وَإِذْ اَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ - (ال عمران : ۱۸۸) یعنی اس وقت کو یاد کرو کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی عہد لیا تھا کہ تم ضرور اپنی قوم کے لوگوں کے پاس اس کتاب کو ظاہر کرو گے ( اپنے قول سے بھی اور اپنے عمل سے بھی ) اور اس کی تعلیم کو وضاحت کے ساتھ اور کھول کھول کر بیان کرو گے اور عوام سے اس کو چھپاؤ گے نہیں بلکہ اس کی تعلیم کو عام کرو گے تا علی وجہ البصیرۃ اور حق الیقین کے ساتھ وہ اس پر ایمان لانے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہوں مگر باوجود اس کے انہوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور اسے چھوڑ کر تھوڑی سی قیمت ( جو د نیوی مال و متاع ہیں ) لے لی اور اُخروی نعمتوں کو دنیوی لذات پر قربان کر دیا.اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو وہ لیتے ہیں بہت ہی بُرا ہے.

Page 399

خطبات ناصر جلد اول ۳۸۳ خطبہ جمعہ ۹ ستمبر ۱۹۶۶ء یہ وہ عہد ہے جو ہر نبی کی اُمت اپنے رب سے کرتی رہی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو قو میں اہل کتاب میں شمار ہوتی تھیں یا ہوسکتی تھیں وہ اقوام اظہار بھی کرتی تھیں کہ ہم خدا کی نازل کردہ ایک شریعت پر قائم ہیں اور ہم نے اپنے رب سے یہ عہد کیا ہے کہ آئندہ بھی اس پر قائم رہیں گے بلکہ اس شریعت کو قائم کریں گے اور بنی اسرائیل کا بھی اپنے رب سے یہ عہد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو شریعت تو رات کی شکل میں موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی ہے.وہ اس پر عمل کریں گے اور اس پر قائم رہیں گے.تو اگر چہ یہ شریعتیں ایک حد تک محرف و مبدل ہو چکی تھیں اور انسانی ہاتھوں نے بہت سی بدعتیں ان میں شامل کر دی تھیں.لیکن ان کے پیرو بہر حال انہیں روحانی صداقتیں اور روحانی حقائق بتلاتے تھے اور کہتے تھے کہ اپنے رب سے جو پختہ عہد انہوں نے باندھا ہے اس پر قائم رہنا ان کے لئے ضروری ہے.چونکہ اس وقت دنیا کی یہ حالت تھی اور ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کے لئے ، تمام جہانوں کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے مبعوث فرمایا تھا.اس لئے ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ اعلان کیا جا تا کہ اللہ تعالیٰ نے سب پہلی شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے اور پہلی قوموں نے اپنے اپنے رسول کے ذریعہ جو عہد اپنے اللہ سے باندھا تھا ان کا رب اس عہد کو ساقط کرتا اور ان اُمتوں کو اس عہد سے آزاد کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر نیا عہد باندھنے کی تلقین کرتا ہے.پس اس چھوٹے سے فقرہ (وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمُ ) میں اعلان کیا گیا ہے کہ پہلی شریعتیں منسوخ اور پہلے عہد جو تھے وہ سب ساقط ہو گئے ہیں.کیونکہ اضر کے ایک معنی اس پختہ اور تاکیدی عہد کے ہیں جو عہد شکن کو عہد شکنی کی وجہ سے نیکیوں اور ان کے ثواب سے محروم کر دیتا ہے.چونکہ نیکیوں کی تعلیم آسمان سے آتی ہے اور ثواب اور اجر کا دینا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس لئے اس عہد سے مراد عہد بیعت ہی ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ سے کیا جاتا ہے.پس فرمایا کہ ہمارا یہ رسول، نبی اُمی دنیا میں اعلان کرتا ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے

Page 400

خطبات ناصر جلد اول ۳۸۴ خطبہ جمعہ ۹ر ستمبر ۱۹۶۶ء ماتحت کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے سارے قدیم عہد ساقط کر دئے ہیں اور ان کی پابندی تم سے اٹھا لی ہے.اب اس نبی اُمی خاتم النبیین کے ہاتھ پر اپنے رب سے نئے عہد باندھو، تا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے پہلے سے زیادہ وارث بن سکو.یہ ایک معنی ہیں يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمُ کے!! پھر فرمایا وَ الْأَغْللَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ، بہت سی قومیں ایسی بھی تھیں جن کا رشتہ اپنی شریعتوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے کہیں پہلے ٹوٹ چکا تھا اور شریعت کی بجائے من گھڑت بدرسوم اور بدعات شنیعہ میں وہ جکڑی ہوئی تھیں اور یہی ان کا مذہب تھا.خود ساختہ قیود اور پابندیاں ان کو نیکیوں سے محروم کر رہی تھیں اور ان کی تباہی کا باعث بن رہی تھیں اور انہیں ان کے رب سے دور کر رہی تھیں.تو فر ما یاوَ الْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ اللہ تعالیٰ کے اس رسول نبی امی نے ان تمام رسوم اور بدعات کو یکسر مٹا دیا ہے.اگر تم قرب الہی چاہتے ہو تو رسوم اور بدعات کی بجائے قرآنی راہ ہدایت اور صراط مستقیم تمہیں اختیار کرنا پڑے گا.جب تک رسوم و بدعات کے دروازے تم اپنے پر بند نہیں کر لیتے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے تم پر کھل نہیں سکتے.اس کے بعد فرما یا فَالَّذِينَ آمَنُوا بِه یعنے اب وہی لوگ قرب الہی اور فلاح دارین حاصل کر سکتے ہیں جو قرآن مجید پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں اور دل سے اس نبی کو اور اس پر نازل ہونے والی شریعت کو حق ، نور اور راہ نجات یقین کرتے ہیں اور جرات اور دلیری کے ساتھ اس دلی یقین کا زبان سے اقرار کرتے ہیں اور بر ملا اس کا اظہار کرتے اور اس ہدایت کی اشاعت میں کوشاں رہتے ہیں اور اپنے اعضاء اور جوارح اور اپنے قول اور فعل اور عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کے ایمان کا دعوی حقیقتا سچا ہے تو فَالَّذِينَ آمَنُوا بِہ میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں.(۱) اول دل سے یقین کرنا.کوئی کھوٹ نہ ہو کوئی کمزوری نہ ہو.(۲) پھر زبان سے یہ اقرار کرنا کہ ہمارے دل اس صداقت کو مان چکے ہیں.اظہار کے مفہوم میں ہی یہ بات پائی جاتی ہے کہ پختہ ایمان والا شخص تبلیغ اسلام میں ہر وقت کوشاں رہتا ہے.دلی ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ جرأت اور دلیری کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کرے اور لوگوں کو بتائے کہ جس شریعت پر میں

Page 401

خطبات ناصر جلد اول ۳۸۵ خطبہ جمعہ ۹ ستمبر ۱۹۶۶ء ایمان لایا ہوں.جس خدا کی کتاب کو میں نے مانا ہے اس میں یہ یہ خوبیاں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے دروازے وہ اس اس طرح ہم پر کھولتی ہے اور اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہمیں حاصل ہوتی ہیں.غرض وہ زبان سے تبلیغ اور اشاعت اسلام کرنے والا ہو.(۳) پھر اس کا محض زبانی دعوئی نہ ہو بلکہ اس کی ساری زندگی اسلام کا ایک نمونہ ہو اور وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہا ہو کہ جو دعویٰ اس نے زبان سے کیا ہے اس میں کوئی فریب نہیں.تو فرمایا کہ وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قسم کا ایمان لاتے ہیں وہی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں فلاح دارین کے مستحق ٹھہرتے ہیں.۲۴ پھر فرمایا وَ عَزَرُوهُ - عَزَرَ کے معنی ہیں فَخَمَهُ وَ عَظَمَهُ اور مفردات میں تَعْزِيرُ کے معنی یہ لکھے ہیں.66 9 النُّصْرَةُ مَعَ التَّعْظِيمِ نُصْرَةُ بِقَمْعِ مَا يَضُرُّهُ مِنْهُ.تو فر ما یا کہ آسمانی نصرتوں کے دروازے صرف انہی پر کھولے جائیں گے جو اس نبی امی کی بزرگی اور عظمت اپنے دلوں میں قائم کریں گے اور اس کی عظمت اور جلال کے قیام کے لئے دشمن کے مکروں اور تدبیروں اور ظالمانہ حملوں کے مقابل صدق وصفا کے ساتھ سینہ سپر ہوں گے اور دشمن کے تمام منصوبوں کا اپنے ایثار اور فدائیت کے ساتھ قلع قمع کر کے اس نبی امی کی قوت کا باعث بنیں گے اور قیام شریعت حقہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار بنیں گے.عَزَّر کے مفہوم میں تعظیم بھی شامل ہے اور عذر کے معنی میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ اس کی مضبوطی کا باعث بنا اس کے دشمنوں کا مقابلہ کر کے اور ان تمام ضرر رساں چیزوں کو راستہ سے ہٹا کر جن سے اس کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو.تو مدافعت کے لئے جو جہاد مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ان دشمنانِ اسلام کے خلاف کیا.جو اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار لے کر اٹھے تھے وہ اس تعزیر کے اندر آتا ہے مطلب یہ کہ انہوں نے ہر قسم کی قربانی دے کر اس ضر ر کو دنیا سے مٹانے کی کوشش کی.اب جماعت احمدیہ کے ذریعے جو لسانی اور قلمی جہاد قرآن کریم کی اشاعت و تبلیغ کے لئے

Page 402

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۸۶ خطبہ جمعہ ۹ ستمبر ۱۹۶۶ء کیا جا رہا ہے یہ بھی ” تعزیر" کے معنی کے اندر آتا ہے.کیونکہ ہمارے نوجوان اپنی زندگیوں کو وقف کرتے ہیں، ہر قسم کی تکالیف جھیلتے ہیں.غیر معروف اور دور دراز علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور بہت کم رقوم میں جو انہیں دی جاتی ہیں ، گزارہ کرتے ہیں.وہ ہر قسم کی تکالیف اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ عیسائیت کی جو یلغار اسلام کے خلاف جاری ہے اس کا مقابلہ کیا جائے.جب وہ ایسا کرتے ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے بہت پیار کرتا ہے.پس ابتداء اسلام کے زمانہ میں جہاد بالسیف اور زمانہ حاضرہ میں جہاد بالقرآن دونوں تعزیر “ کے اندر آتے ہیں کیونکہ تعزیر کے معنی میں یہ پایا جاتا ہے کہ کسی کی عظمت دل میں اتنی ہو کہ اس عظمت کی خاطر انسان اپنے نفس کو اور مال کو قربان کر رہا ہو، تا کہ ان منصوبوں کو جو اسے دکھ پہنچانے اور ضر ر دینے کے لئے کئے جارہے ہوں ناکام بنا دیا جائے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ نَصَرُوهُ فلاح دارین کے مستحق وہ لوگ ہیں جو اس کی نصرت اور مدد میں کوشاں رہتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی ذاتی امداد کی ضرورت نہ تھی.نہ آپ کو اس کی خواہش تھی.آپ نے دیگر انبیاء کی طرح على الاعلان کہا مَا اسْتَلَكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرِ کہ جو کام میرے سپر د کیا گیا ہے میں اس پر تم لوگوں سے کوئی اجر نہیں مانگتا.پس ہمیں یہاں نَصر کے معنی وہ کرنے ہوں گے جس معنی میں یہ لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کا مفعول ہو.یعنی جب یہ کہا جائے کہ فلاں شخص نے اللہ تعالیٰ کی مدد کی (نَصَرَ الله ) اور لغت عرب میں اس نُصرة کا مطلب یہ ہے کہ هُوَ نُصْرَتُهُ لِعِبَادِهِ وَالْقِيَامُ بِحِفْظِ حُدُودِهِ وَرِعَايَةِ عُهُودِهِ وَاعْتِنَاقِ أَحْكَامِهِ وَ اجْتِنَابِ نَهْيِهِ تو نَصَرُوهُ فرما کر یہ بیان فرمایا کہ قرب الہی کے عطر سے وہی لوگ ممسوح کئے جائیں گے اور حیات ابدی کے وہی وارث ہوں گے جو اخوت اسلامی کو قائم کرتے ہوئے بھائی بھائی کی طرح ایک دوسرے کے ممدو معاون ثابت ہوں گے اور شریعت حقہ نے جو حدود قائم کی ہیں اس کی بیان کردہ شرائط کے ساتھ

Page 403

خطبات ناصر جلد اول ۳۸۷ خطبہ جمعہ ۹ ستمبر ۱۹۶۶ء وہ لوگ چوکسی اور بیدار مغزی سے ان کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور وہ عہد جو انہوں نے اپنے رب سے اس نبی امی کے ہاتھ پر باندھا ہے مقدور بھر اس کی پابندی کرنے والے ہوں اور جو اوامر اور احکام پر مضبوطی سے قائم رہیں گے اور ان نواہی سے بچیں گے جن سے بچنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.فرمایا کہ یہ لوگ ہیں جو اس کی نصرت کرتے ہیں.ان کا معاشرہ باہمی اخوت کے اصول پر قائم ہے.بھائی بھائی کی طرح رہتے ہیں.کسی کی بے جا مخالفت نہیں کرتے ، کسی کو دکھ نہیں دیتے، کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے کسی کے خلاف زبان نہیں چلاتے وغیرہ وغیرہ بہت سی حدود ہیں جو شریعت اسلامیہ میں قرآن کریم نے بیان کی ہیں.بعض جگہ لفظا کہہ دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا اور بعض جگہ معناً ان حدود کی طرف اشارہ کر دیا.تو نصروہ کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ قرآن کریم کی بتائی ہوئی حدود کی حفاظت کرتے ہیں.ان سے تجاوز نہیں کرتے.ایک اور معنی نَصَرُوہ کے یہ ہیں کہ اُمت مسلمہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اپنے رب سے عہد باندھا ہے اس میں سے وہی لوگ خدا کی نگاہ میں مفلح “ کہلانے کے مستحق ہوں گے جو اپنے عہد کی رعایت اور پابندی کرنے والے ہوں گے.نیز وہ جو قرآن کریم کے احکام یعنی کرنے کی باتوں کا جوسینکڑوں ہیں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جوڑا اپنی گردنوں میں ڈالنے والے ہیں اور نواہی جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان باتوں کو نہ کرو ان باتوں سے وہ اجتناب کرتے ہیں.فرما یا أُولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی لوگ فلاح دارین کے حق دار ہیں.پھر فرمایا وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى أَنْزِلَ مَعَۀ کہ اس نبی اُمی کے ساتھ آسمان سے ایک نور بھی نازل ہوا ہے.اس کے ہر قول میں آسمانی روشنی جھلکتی نظر آتی ہے اور اس کے ہر فعل میں اللہ کا نور جلوہ گر نظر آتا ہے.اتَّبَعَ کے معنی ہیں قَفَا أَثَرَةُ اور اثر کے معنی سنت کے ہیں.تو اتَّبَعُوا کے معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نورانی وجود بنا کر دنیا میں بھیجا تھا مگر یہ اس قسم کا نورانی وجود

Page 404

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۸۸ خطبہ جمعہ ۹ ستمبر ۱۹۶۶ء نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کے نزدیک فرض کیا گیا ہے.بلکہ (انما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ) ( الكهف : ١١١) ہماری طرح کا ایک بشر ہونے کے باوجود بے حد اور بے شمار انوار روحانی آپ کے ساتھ اور آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے.تو اس آیت میں فرمایا کہ یہ رسول نور ہے اس کا ہر فعل نور اور اس کا ہر قول نور ہے.تم اس کی اتباع کرو گے تو اولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ کے مطابق تم مُفْلِحِین میں شامل ہو جاؤ گے.پس فرما یا کہ جو لوگ اس کی اتباع کرتے ہیں اور اس کے اسوۂ حسنہ کے رنگ میں رنگین ہو کر زندگی گزارتے ہیں.اس زندگی میں بھی خدا تعالیٰ کا نور ان کے چہروں پر چمکتا ہے اور اُخروی زندگی میں بھی ان کا یہ نور ( نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِمْ ) ( التحريم : ٩) ان کے آگے بھی چل رہا ہو گا اور ان کے دائیں بھی چل رہا ہو گا.یہ علامت ہو گی اس بات کی کہ یہ خدا تعالیٰ کے ان نیک اور پاک بندوں کا گروہ ہے جو سنت محمدیہ کی اتباع کرنے والے ہیں.غرض فرمایا کہ وہ لوگ جن کا ایمان پختہ ہے.جن کا ایثار اور جن کی فدائیت اعلیٰ ہے اور جنہوں نے احسن طور پر اپنے نفسوں کی اصلاح کی ہے اور دنیا کے سامنے اپنا پاک نمونہ پیش کیا ہے اور اسوہ رسول کی کامل اتباع کی ہے أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اور اس کے حضور فلاح پانے والے ہیں.فلاح کا لفظ عربی زبان میں اس قسم کی انتہائی اعلیٰ اور احسن کا میابی پر بولا جاتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے کوئی اور لفظ عربی لغت میں نہیں پایا جاتا.اس کے معنی دنیوی اور اُخروی کامیابی کے ہیں.دنیوی کامیابی اس معنی میں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے صحت والی زندگی دی ہے.اتنا مال اور قناعت دی ہے کہ سوائے اپنے رب کی احتیاج کے اس کو کسی اور چیز کی احتیاج محسوس نہ ہو اور عزت و جاہ عطا کیا ہے.تو جس شخص کو یہ تینوں چیزیں مل جائیں اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کو فلاح مل گئی اور اُخروی کامیابی اس معنی میں کہ اول ایسے شخص کو ایسی دائمی بقا اور دائی حیات حاصل ہو جو فی الواقع اور فی الحقیقت حیات

Page 405

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۸۹ خطبہ جمعہ ۹ر ستمبر ۱۹۶۶ء ہے.کیونکہ جو لوگ جہنم میں جائیں گے بظاہر وہ بھی زندہ ہوں گے لیکن ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ نہ زندہ ہوں گے اور نہ مردہ لیکن حقیقی اور دائمی حیات وہ ہے جس کے اندرفنا، کمزوری یا بیماری کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے.دوم.جو چاہے اسے ملے.اللہ تعالیٰ جنتیوں کے متعلق یہی کہتا ہے کہ جو وہ چاہیں گے ان کو مل جائے گا.خدا کے نزدیک یہ بڑے پیار کا مقام ہے کہ ان کی کوئی خواہش رڈ نہ کی جائے گی.یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے دل میں کوئی ایسی خواہش پیدا نہ ہوگی جو خدا کی نگاہ میں رد کئے جانے کے قابل ہو.نیک خواہشیں ہی ان کے دل میں پیدا ہوں گی اور انہیں پورا کر دیا جائے گا.سوم.اسے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور اس معاشرہ میں جس کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے.(اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیسا ہے) اور جس قسم کے اجتماعی تعلقات ہوں گے اس میں اسے پوری اور حقیقی عزت حاصل ہوگی اور یہ خطرہ نہ ہو گا کہ اسے کبھی ذلیل بھی کر دیا جائے گا.اور چہارم یہ کہ معرفت میں اسے کمال حاصل ہو.اللہ تعالیٰ کی صفات کی کامل معرفت اور ان کا کامل عرفان اس دنیا میں مادی بندھنوں میں بندھے ہونے کی وجہ سے ہم حاصل نہیں کر سکتے.اس دنیا میں ہمارے لئے جن صفات کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں وہ ہمارے لئے اپنے کمال کو نہیں پہنچتے.اگر کسی فرد واحد کے لئے خدا تعالیٰ کی صفات کا جلوہ اپنے کمال کو پہنچا تو وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی.اس جلوہ کو دیکھنے کے لئے ایک وقت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی بے تاب رہے.مگر وہ ، وہ جلوہ دیکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک وجود کے علاوہ خدائی صفات کا کامل جلوہ کسی اور انسان پر نہیں ہوسکتا اور نہ ہوا.جب یہ چاروں باتیں کسی انسان کو حاصل ہوں تو عربی زبان میں کہتے ہیں کہ وہ مفلح ( کامیاب ) ہو گیا.پس لفظ فلاح بہت بڑی، بہت شاندار، بہت ارفع ، بہت اعلیٰ کامیابی کی طرف اشارہ کرتا ہے.تو فرماتا ہے کہ جو لوگ حقیقی طور پر اور صحیح معنی میں ایمان لاتے ہیں، جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تقویت پہنچانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کرتے ہیں.ایثار اور فدائیت کا نمونہ دکھاتے

Page 406

خطبات ناصر جلد اول ۳۹۰ خطبہ جمعہ ۹ ستمبر ۱۹۶۶ء ہیں اور جو لوگ قرآنی احکام کے مطابق اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالتے ہیں کہ واقع میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند بن جاتے ہیں اور جو لوگ سنت اللہ کو قائم کر کے اللہ تعالیٰ کے اس نور سے دنیا کو منور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو نبی کریم کے وجود کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا.أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہ لوگ ہیں جو دنیا میں بھی فلاح پانے والے ہیں اور آخرت میں بھی فلاح پانے والے ہیں.پس بد رسوم اور ایمان کامل اکٹھے نہیں ہو سکتے.اس وقت مجھے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.اسلام کی اشاعت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے جس قسم کی قربانی اور جس حد تک قربانی دینا ضروری ہے.جوشخص رسوم کے بندھنوں میں بندھا ہوا ہے وہ اس حد تک قربانی نہیں دے سکتا.بعض لوگ ہماری جماعت میں بھی ہیں جو مثلاً اپنی لڑکی کی شادی کرتے وقت خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے سادہ طریق کو چھوڑ کر اپنی خاندانی رسوم کے مطابق اسراف کی راہ اختیار کرتے ہیں.اس کے نتیجہ میں وہ مقروض ہو جاتے ہیں.پھر مجھے لکھتے ہیں کہ میں بہت مقروض ہو گیا ہوں.مہربانی کر کے میرے چندہ کی شرح کم کر دی جائے کیونکہ اب میں مجبوراً ۱/۱۶ کی بجائے ۱/۳۲ یا ۱/۵۰ یا ۱/۶۴ ادا کر سکتا ہوں اس سے زیادہ نہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے انہیں فرمایا تھا کہ تم رسوم کو چھوڑ دو اور بدعات کو ترک کر دو.مگر انہوں نے رسوم کو نہ چھوڑا.خدا تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لی اور قرض میں بھی مبتلا ہو گئے.تو فرماتا ہے کہ وہ لوگ اس گروہ میں شامل نہ ہو سکے.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَعَذَرُوہ کہ وہ قربانیاں دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتا اور شریعت اسلام کے قیام کے لئے کوشاں رہتا ہے میں نظارت اصلاح وارشاد کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ جتنی رسوم اور بدعات ہمارے ملک کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں ان کو اکٹھا کیا جائے اور اس کی نگرانی کی جائے کہ ہمارے احمدی بھائی ان تمام رسوم اور بدعات سے بچتے رہیں.اس وقت میں مختصر ابتا رہا ہوں کہ جو شخص رسوم اور بدعات کو نہیں چھوڑ تا جس طرح اس کا ایمان پختہ نہیں اسی طرح وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور اسلام کی تقویت کے لئے وہ

Page 407

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۹۱ خطبہ جمعہ ۹ ستمبر ۱۹۶۶ء قربانیاں بھی نہیں دے سکتا جن قربانیوں کا اسلام اس سے مطالبہ کرتا ہے.وَنَصَرُوهُ میں نفس کا محاسبہ اور اس کی اصلاح اور اس کو کمال تک پہنچانے کا مفہوم پایا جاتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.اس کے بہت سے معنی ہیں اور وہ مختلف شعبوں پر حاوی ہیں اور ہماری اصلاح کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں.کیونکہ تمام نواہی سے بچنا تمام احکام کی پیروی کرنا، اخوت کی بنیاد قائم کرنا وغیرہ بہت سی باتیں اس کے اندر آتی ہیں لیکن جو لوگ رسوم میں مبتلا ہوں، بدعتوں کو جائز سمجھتے ہوں ، وہ دنیا میں اس قسم کا نمونہ پیش نہیں کر سکتے اور ان کے نفوس کی کامل اصلاح ممکن ہی نہیں ، کیونکہ رسوم کی پابندی کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیم کی پوری پابندی اور اس کی بیان فرمودہ ہدایت پر حقیقی معنی میں گامزن ہونا ناممکن ہے.پس اگر ہم بدعتوں اور رسموں کے پابند رہیں گے اور اندھیرے میں ہی پڑے رہیں گے تو ہرگز اس نور سے فائدہ نہ اٹھا سکیں گے اور نہ ہی اس نور کے ذریعہ سے جو سنت اور جواسوۂ حسنہ دنیا میں قائم کیا گیا ہے ہم اس کی اتباع کر سکیں گے اور اگر ہم ایسا نہ کر سکیں گے تو نہ ہمیں اس دنیا میں فلاح حاصل ہوگی اور نہ ہی اُخروی زندگی میں.پس ہر احمدی پر ، ہر احمدی خاندان اور ہر احمدی تنظیم پر یہ فرض ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو رسوم اور بدعتوں سے بچائے رکھے، محفوظ رکھے اور اس بات کی بھی نگرانی کرے کہ کوئی احمدی بھی رسوم و رواج کی پابندی کرنے والا نہ ہو اور بدعات میں پھنسا ہوا نہ ہو.دنیا میں رسوم و بدعات کا عجیب جال بچھا ہوا ہے.جب آدمی ان پر غور کرتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ خدا نے جس مخلوق (انسان) کو اشرف المخلوقات بنایا اور جس پر آسمانی رفعتوں کے دروازے کھولے وہ کس طرح اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے اور پھر کس طرح نور کی بجائے ظلمات میں آرام و راحت پاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ان رسوم و بدعات سے محفوظ رکھے اور توفیق دے کہ ہم اس کی منشا کے مطابق اس آیہ کریمہ میں جس ایمان اور جس تعزیر اور جس نصرت اور جس اتباع کا حکم دیا گیا ہے اس کی پیروی کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے

Page 408

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۹۲ خطبہ جمعہ ۹ ستمبر ۱۹۶۶ء فضلوں کو جذب کر کے اس دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور اُخروی زندگی میں بھی کامیاب ہوں اور مُفْلِحین کے گروہ میں شامل ہونے والے ہوں.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۸ ستمبر ۱۹۶۶ صفحه ۲ تا ۵) 谢谢您

Page 409

خطبات ناصر جلد اول ۳۹۳ خطبہ جمعہ ۶ارستمبر ۱۹۶۶ء قرآن کریم کی چار عظیم الشان خصوصیات.یہ ہمارے لئے موعظہ، شفا، ہدایت اور رحمت کا موجب ہے خطبه جمعه فرموده ۱۶ رستمبر ۱۹۶۶ء مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور پر نور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات پڑھی.يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى ww وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ - قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَ بِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ.(یونس: ۵۹،۵۸) ( ترجمہ ) اے وے تمام لوگو! جو اس دنیا میں بستے ہو یا مستقبل میں اس دنیا کو بساؤ گے تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے یقیناً ایک ایسی کتاب آگئی ہے جو سراسر نصیحت ہے اور شفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ ہر اس بیماری کے لئے جو شیطان سینوں میں پیدا کر سکتا ہے شفاء دینے والی ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے.تو اُن سے کہہ دے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے وابستہ ہے.پس اس پر انہیں خوشی منانا چاہیے.جو کچھ دنیا کے اموال اور اس کی لذتیں اور اس کی وجاہتیں اور اس کے اقتدار میں سے وہ جمع کر رہے ہیں ان سے یہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہے کہیں زیادہ بہتر ہے“.پھر فرمایا:.اس آیت میں قرآن کریم کے متعلق چار باتیں بیان کی گئی ہیں.ایک یہ کہ قرآن کریم کی

Page 410

خطبات ناصر جلد اول ۳۹۴ خطبہ جمعہ ۶ ار ستمبر ۱۹۶۶ء.تعليم مَوْعِظَةٌ ( نصیحت) ہے اور اللہ تعالیٰ جس رنگ میں جن لوگوں کی گرفت کرتا ہے اور اپنے قہر اور غضب کا انہیں مورد ٹھہراتا ہے اور جس رنگ میں جن لوگوں پر اپنا فضل فرماتا ہے اور انہیں اپنی خوشنودی کے عطر سے ممسوح کرتا ہے.ان کے واقعات ایسے رنگ میں بیان فرماتا ہے جو دلوں پر اثر کرنے والا اور دلوں کو نرم کرنے والا ہوتا ہے.دوسرے یہ فرمایا کہ یہ کتاب شفَاء لِمَا فِي الصُّدُور ہے.جو بیماریاں سینہ و دل سے تعلق رکھتی ہیں اس کتاب میں ان تمام بیماریوں کا علاج پایا جاتا ہے اور جو نسخے یہ کتاب تجویز کرتی ہے ان کے استعمال سے دل اور سینہ کی ہر روحانی بیماری دور ہو جاتی ہے.تیسری بات جو قرآن کریم کے متعلق یہاں بیان فرمائی ہے.وہ ھدی ہے.یعنی اس کی تعلیم ہدایت پر مشتمل ہے.وہ ان راہوں کی نشان دہی کرتا ہے.جو اس کے قرب تک پہنچانے والی ہیں اور منزل بہ منزل بہتر سے بہتر ہدایت ان کی طاقت و استعداد کے مطابق ان کو عطا فرماتا ہے اور ہدایت کرتا چلا جاتا ہے حتی کہ بندہ اپنے اچھے انجام کو پہنچ جاتا ہے.وہ اپنی جنت اور اپنے رب کی رضا کو حاصل کر لیتا ہے.چوتھی بات قرآن کریم کے متعلق یہاں یہ بتائی گئی ہے کہ ایمان والوں کے لئے یہ رحمت کا موجب ہے یعنی جو لوگ بھی قرآن کریم کی بتائی ہوئی ہدایت پر عمل کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ جو بڑا احسان کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیتا ہے.پہلی بات جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے قرآن کریم کے متعلق یہ بتائی گئی ہے کہ یہ مَوْعِظَةٌ ہے.مَوْعِظَةً یا وعظ کے عربی زبان میں معنی ہوتے ہیں.ایسی نصیحت جو جزا و سزا اور ثواب وعقاب کو اس طرح بیان کرنے والی ہو کہ اس سے دل نرم ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور رجوع کریں اور ان میں یہ خواہش پیدا ہو کہ دنیا کی ہر چیز کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی میں لگ جائیں.اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں فرمایا ہے کہ ہم جو وعظ کرتے ہیں اور جس کا ذکر ہم نے قرآن کریم کے متعلق کیا ہے وہ یہ ہے وَ مَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَبِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ ( البقرة: ۲۳۲)

Page 411

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۹۵ خطبہ جمعہ ۱۶ رستمبر ۱۹۶۶ء کہ ہم نے محض الكتب “ ہی نہیں اتاری اور صرف کامل ہدایتیں ہی اس میں ہم بیان نہیں کرتے بلکہ ہم ان کی حکمتیں بھی بیان کرتے ہیں.ہر ہدایت کی وجہ بھی بتاتے ہیں، اس کے نتائج پر بھی روشنی ڈالتے ہیں.ہم تمہارے سامنے ایک تصویر لا رکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو ہماری ہدایات سے منہ موڑتے ہیں ان کے ساتھ ہمارا کیا سلوک ہوتا ہے.وہ مسل کے رکھ دیئے جاتے ہیں اور ہمارا قہر انہیں خاک اور راکھ کر چھوڑتا ہے.اس کے برعکس جو لوگ ہماری ان ہدایات پر عمل کرتے ہیں ہم انہیں ایسا اچھا بدلہ دیتے ہیں اور انہیں اتنا خوشکن ثواب حاصل ہوتا ہے اور اصلاح نفس کے ایسے مواقع انہیں میسر آتے ہیں کہ نفس باقی ہی نہیں رہتا صرف ہماری محبت ہی باقی رہ جاتی ہے.مختلف رنگوں میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو قرآن کریم میں ہدایت کی راہیں بتلاتا ہے.مثلاً وہ لوگ جنہوں نے پہلے رسولوں کا انکار کیا اور ان کی مخالفت کی ، جس قسم کی اور جس طرح انہیں سزائیں دی گئیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا بیان کثرت سے اس کتاب مجید میں پایا جاتا ہے.اسی طرح وہ لوگ جو ایمان لائے اور صدق و وفا سے انہیں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہوا اور خدا تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوئیں ان کی بھی ایک تصویر ، ایک نقشہ قرآن کریم ہمارے سامنے رکھ رہا ہے.پس قرآن نصیحت بھی کرتا ہے.بعض باتوں کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور بعض باتوں سے روکتا ہے اور ساتھ ہی حکمتیں بھی بیان کرتا ہے کہ اس وجہ سے تمہیں ان باتوں سے روکا گیا ہے اور اس غرض کے لئے ان باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے.یہ سب باتیں مَوْعِظَةٌ کے اندر آ جاتی ہیں.فرمایا ہماری یہ کتاب جو ہماری ربوبیت کے مظاہرہ کے لئے نازل کی گئی ہے ہم اس کے ذریعہ تمہاری نشو و نما کرنا چاہتے ہیں اس میں یہ خوبی ہے کہ یہ وعظ ونصیحت ہے.دوسری بات جو قرآن کریم کے متعلق یہاں بیان ہوئی ہے وہ شِفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ ہے.یعنی جو گند اور بیماری سینوں میں ہوتی ہے اس کے لئے یہ کتاب بطور شفاء کے ہے.قرآن کریم میں تمام روحانی بیماریوں کا تعلق صدور یا دلوں سے قرار دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

Page 412

خطبات ناصر جلد اول ۳۹۶ خطبہ جمعہ ۱۶ار تمبر ۱۹۶۶ء مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ - الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ والنَّاسِ.(الناس : ۵ تا ۷ ) اس میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ پناہ مانگو اس وسوسہ ڈالنے والے شیطان سے جو ہر قسم کا وسوسہ ڈال کر شرارت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے.یہاں ایک بنیادی اصول کا ذکر فرمایا کہ تمام گناہ شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور شیطان وسوسہ ڈال کر خود غائب ہو جاتا ہے اور جس کے دل میں وہ وسوسہ ڈالتا ہے اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وسوسہ ڈالنے والی ہستی شیطان تھی یا کوئی نیک ہستی تھی.اگر شیطان خناس نہ ہو اور وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹنے والا نہ ہو تو کوئی عقل مند انسان شیطانی وساوس کا شکار ہو کر روحانی بیماری میں مبتلا نہیں ہوسکتا.پس شیطان صرف وسواس ہی نہیں بلکہ خناس بھی ہے.پہلے وہ وسوسہ ڈالتا ہے اور پھر وسوسہ ڈال کر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے.یعنی شیطان ، شیطان کی حیثیت سے اس شخص کی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے.پہلا گناہ جو انسان نے کیا وہ اسی وسوسہ کا نتیجہ تھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطنُ (الاعراف: ۲۱) کہ آدم اور حوا کے دل میں شیطان نے ایک وسوسہ ڈالا جس کے نتیجہ میں وہ ایک گناہ کے مرتکب ہوئے.اس کے بعد بھی جب کبھی انسان گناہ کا مرتکب ہوا ہے تو اسی شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں ہوا ہے.مثلاً وہ لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ خدا کے جتنے رسول بھی آئے ہیں وہ تمہیں یہ تعلیم دیتے چلے آئے ہیں کہ اپنے پیدا کرنے والے، اپنے رب، اپنے اللہ سے خُوْفًا وَطَمَعًا خوف کی وجہ سے اور طمع کی وجہ سے تعلق قائم کرو.پس ہر وہ چیز جس کا خوف تمہارے دل میں پیدا ہو یا وہ چیز جسے تم سمجھو کہ تمہیں نفع پہنچانے والی ہے.تم اس کی عبادت کرو کیونکہ مذکورہ تعلیم کا یہی نتیجہ نکلتا ہے.تو سانپ کی عبادت خوف کی وجہ سے شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی.بڑ کے درخت کی عبادت بھی جو اس آرام (طبعا ) کی وجہ سے پیدا ہوئی.جو اس کے نیچے بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے تو یہ سب شیطانی وسوسہ کا نتیجہ ہے.

Page 413

خطبات ناصر جلد اوّل ۳۹۷ خطبہ جمعہ ۶ارستمبر ۱۹۶۶ء پس ہزاروں مثالیں ایسی پائی جاتی ہیں جو شیطان کے وسوسہ کے نتیجہ میں شرک کے پیدا ہونے کو ثابت کرتی ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر گناہ کا تعلق شیطانی وسوسہ سے ہے اور شیطان یہ وسو سے انسان کے دل اور سینہ میں پیدا کرتا ہے.گویا تمام روحانی بیماریوں کا مصدر انسان کا سینہ یا اس کا دل ہے کیونکہ شیطانی حربوں اور حیلوں اور تدبیروں کی آماجگاہ صد را نسانی ہی ہے اور روحانی ترقیات کے لئے پہلے سینہ و دل کی صفائی اور صحت و سلامتی بہت ضروری ہے کیونکہ بیمارسینہ ودل کفر کے لئے کھل جاتا ہے اور ایمان کے لئے مقفل ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے.وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ - (النحل: ۱۰۷) وہ جنہوں نے شیطانی وساوس کو قبول کر کے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا.ان پر اللہ کا بہت بڑا غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے بہت بھاری عذاب مقدر ہے.تو اس آیتہ میں بتایا کہ شیطانی وسوسہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا سینہ کفر کے لئے کھل جاتا ہے.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں شرح کے لفظ کو اس سینہ و دل پر بھی استعمال کیا ہے جو کفر کے لئے بند ہو جاتا ہے اور جس کی کھڑکیاں خدا کی طرف کھل جاتی ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا.فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ - (الحج: ۴۷) کیونکہ اصل بات یہ ہے.(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) کہ حق وصداقت اور نشانات اور آیات کے تعلق میں ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں بوجہ اس کے کہ شیطانی وسوسہ ان کو اپنے اندر لپیٹ لیتا ہے اور روحانی شعائیں دلوں تک پہنچ نہیں سکتیں اور روحانی نور انہیں حاصل نہیں ہو سکتا.اس لئے اس اندھے پن کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے دور چلے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم شفاء لِمَا فِي الصُّدُورِ ہے یعنی سینہ کی تمام روحانی بیماریوں کی شفاء اس میں پائی جاتی ہے.جو وسوسہ بھی شیطان دل میں ڈالے اسے دور کرنے کے لئے

Page 414

خطبات ناصر جلد اول ۳۹۸ خطبہ جمعہ ۱۶ رستمبر ۱۹۶۶ء اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک ہدایت اور ایک تعلیم دی ہوئی ہے.اگر تم غور سے کام لو، اگر تم اس کے مطالب اور معارف تلاش کرنے کی کوشش کرو اور جب شیطان تم پر حملہ آور ہو رہا ہو قرآن کریم ہاتھ میں لے کر تم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.تو وہ تم پر غالب نہیں آ سکتا اور نہ تمہیں بیمار کر سکتا ہے بلکہ قرآنی نور تمہارے سینوں اور دلوں میں اس طرح پھیل جائے گا کہ شیطان جو ظلمت میں دیکھتا ہے اور نور سے ڈرتا ہے تمہارے سینہ و دل کے قریب بھی آنے کی جرات نہیں کر سکے گا.تو فرمایا کہ ہماری یہ تعلیم ( قرآن کریم) ایک شفاء ہے.اور اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ جو بشارتیں یہ دیتا ہے جب وہ پوری ہو جاتی ہیں تو وہ شفاء کا کام دیتی ہیں اور شیطان کے اس وسوسہ کو دور کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جو ترقیات، کامیابیوں اور فتح و نصرت کے وعدے کئے تھے وہ جھوٹے تھے وہ پورے نہیں ہوں گے.اللہ تعالیٰ کی بہت سی بشارتیں ایک لمبا عرصہ گزرنے اور منکرین کوٹھٹھا اور استہزاء کر لینے کا موقعہ دینے کے بعد پوری ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُ إِلَّا غُرُورًا - (الاحزاب : ۱۳) یعنی جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہوتی ہے کہنے لگ گئے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے ایک جھوٹا وعدہ کیا تھا.جب دیر ہو جاتی ہے تو یہ وسوسہ شیطان ان کے دل میں ڈال دیتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ۱۸۶۸ء میں یہ الہام ہوا کہ ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“ اس پر جب ایک لمبا عرصہ گزر گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے پورے ہونے کے سامان پیدا نہ کئے تو دشمن نے ہر طرح سے اس کا مذاق اڑایا اور استہزاء کیا اور ٹھٹھا سے باتیں کیں.تب قریباً ایک سوسال بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دے کہ گیمبیا جو مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے

Page 415

خطبات ناصر جلد اول ۳۹۹ خطبہ جمعہ ۱۶ رستمبر ۱۹۶۶ء اسے آزاد کرایا اور پھر وہاں ایک احمدی مسٹر سنکھیے صاحب کو جوا اپنی جماعت کے پریذیڈنٹ بھی تھے گورنر جنرل بنا دیا.پھر انہوں نے مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کپڑا بطور تبرک طلب کیا اور لکھا کہ میں نے بڑی دعائیں کی ہیں اور بڑے خشوع اور تضرع کے ساتھ اپنے رب کے سامنے جھکا ہوں کہ وہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑے سے برکت حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.پہلے مجھے گھبراہٹ تھی کہ ان کے مطالبہ کے بعد انہیں کپڑا ملنے میں غیر معمولی دیر ہو رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کچھ اور ہی تھی.آخر وہ کپڑا ان کو یہاں سے روانہ کر دیا گیا اور وہ کپڑا ان کو جس دن صبح بذریعہ ڈاک ملا اسی رات کو بی.بی.سی سے یہ اعلان ہوا کہ ان کو ایکٹنگ گورنر جنرل سے گورنر جنرل بنا دیا گیا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دل میں خدائے تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس رسول کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے شدید محبت پیدا ہو گئی جس محبت کا اظہار انہوں نے پہلے ایک تار اور پھر ایک خط کے ذریعہ کیا.پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک اور دنیوی فضل کیا.آج ہی ان کا تار ملا ہے جس میں انہوں نے اطلاع دی ہے کہ مجھے حکومت برطانیہ نے Knight hood ( نائٹ ہڈ ) عطا کیا ہے میری طرف سے جماعت کو مبارکباد پہنچا دیں.جہاں اللہ تعالیٰ ان کے لئے جسمانی اور روحانی برکتوں کے سامان پیدا کر رہا ہے وہاں ان کے ماحول میں بھی ایک تبدیلی پیدا ہو رہی ہے.چنانچہ پچھلے خط میں انہوں نے مجھے یہ اطلاع دی تھی کہ ہمارے ملک میں لوگ احمدیت کی صداقت اور حقانیت کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں.بیرونی ممالک میں جو نئے نئے احمدی ہو رہے ہیں ان کے لئے خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر رہا ہے کہ انہیں روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیوی ترقی بھی حاصل ہو جاتی ہے تا کہ ان کے دل ہر طرح کی نعمتوں کے حصول کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہوں.اس وقت میں یہ مثال دے رہا تھا کہ یہ الہام ۱۸۶۸ ء میں ہوا تھا پھر قریباً سو سال تک یہ الہام پورا نہیں ہوا.مومن کا دل تو یقین سے پر تھا اور وہ جانتا تھا کہ ہر ایک بشارت کے پورا

Page 416

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۰۰ خطبہ جمعہ ۱۶ ر ستمبر ۱۹۶۶ء ہونے کے لئے ایک وقت مقدر ہے.جب وہ وقت آئے گا تو وہ بشارت بھی ضرور پوری ہوگی.دنیا کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی.لیکن اس کے برعکس جو دل کے اندھے تھے انہیں ٹھٹھے اور ہنسی کا موقع ملتا رہا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بڑا فرق ہے.وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلام کی بعض بڑی فتوحات حضور کی ذات سے تعلق رکھتی تھیں اور آپ کی زندگی میں مقدر تھیں لیکن ہماری فتوحات کا زمانہ جیسا کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے تین سو سال تک ممتد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری نسلوں نے یکے بعد دیگرے خدا تعالیٰ ، اس کے رسول اور اسلام کے لئے قربانیاں دینی ہیں اور ہر نسل نے اللہ تعالیٰ کی بعض بشارتوں کو پورا ہوتے دیکھنا ہے.بہر حال الہی جماعتوں کے دلوں میں شیطان وسو سے پیدا کرنے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن منافقوں کے سوا اوروں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرنے کی اہلیت اور قابلیت نہیں رکھتا.اس کو مومنوں پر جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کوئی غلبہ اور کوئی سلطان عطا نہیں کیا جاتا.پس جو بشارتیں ایسے سلسلوں کو دی جاتی ہیں جنہوں نے آخری اور عظیم فتح سے پہلے کئی منزلیں طے کرنا ہوتی ہیں.وہ بشارتیں درجہ بدرجہ اور منزل بمنزل پوری ہوتی رہتی ہیں اور مومنوں کے دلوں کی تقویت کا باعث بنتی رہتی ہیں.چنانچہ دیکھو کہ ہمارے زمانہ میں الہام ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“ کس شاندار طریق سے پورا ہوا کہ اس کے بعد ہمارے دلوں میں ذرہ بھر بھی شک نہیں رہ سکتا کہ وہ دیگر بشارتیں جو ہمیں دی گئی ہیں وہ بھی اپنے اپنے وقت پر پوری ہو کر رہیں گی.فرماتا ہے کہ وہ منافق اور منکر لوگ جن کے دل روحانی طور پر بیمار ہیں اور شیطان ان کے دلوں میں وسوسہ پیدا کر چکا ہے.وہ اعتراض کرنے لگتے ہیں کہ مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا ، ہم سے دھوکا کیا گیا ہے اور جو بشارتیں ہمیں دی گئی ہیں وہ پوری ہونے والی نہیں.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے خیالات کو دور کرنے کا ذکر سورہ تو بہ میں اس رنگ

Page 417

خطبات ناصر جلد اول ۴۰۱ خطبہ جمعہ ۶ارستمبر ۱۹۶۶ء میں کیا ہے قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبُهُمُ اللهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرُكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ - (التوبة : ١٤) کہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں تلواریں لے کر نکلے ہیں.ہماری طرف سے تمہیں یہ بشارت ہے کہ تم کا میاب ہو گے نا کام نہیں ہو گے.ناکامی ان منکروں اور منافقوں کی قسمت اور حصہ میں ہے.تم ان سے لڑو اور جنگ کرو.اگر اللہ چاہتا تو پہلی قوموں کی طرح تمہیں جنگ کی دعوت نہ دیتا بلکہ خود آسمانی عذاب سے ان کو ہلاک کر دیتا لیکن خدا نے تمہیں خوش کرنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دلوائے گا اور ان کو رسوا کرے گا اور آسمانی نصرت تمہیں حاصل ہوگی، تا دنیا دیکھے کہ جو خدا کے ہو جاتے ہیں اور جنہیں خدا کی نصرت حاصل ہوتی ہے وہ تھوڑے، کمزور اور نہتے ہونے کے باوجود اپنے طاقتور، امیر اور ہر طرح ہتھیاروں سے لیس دشمن پر غالب آتے ہیں.وَ يَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ اس طریق پر نشانات کو پورا کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں کو شفا دیتا ہے اور شیطانی وساوس سے ان کی حفاظت کرتا ہے.شفاء کے معنی صرف یہی نہیں کہ پہلے بیمار ہو اور پھر اسے صحت ہو جائے شفاء کے معنی یہ بھی ہیں کہ بیماری سے محفوظ کر لے.جیسا کہ آج کل بھی بعض دوائیں بیماری سے محفوظ کرنے کے لئے دی جاتی ہیں.مثلاً ہیضہ وغیرہ کے ٹیکے لگتے ہیں.اس وقت ہیضہ کا مرض لاحق تو نہیں ہوتا بلکہ وہ ٹیکہ ہیضہ سے محفوظ رکھنے کے لئے لگایا جاتا ہے.اس معنی میں بھی کیشف کا لفظ استعمال ہوتا ہے.تو فرماتا ہے کہ جو بشارتیں ، جو آسمانی نشان اور آیات کے وعدے تمہیں دئے گئے ہیں میں انہیں پورا کرتا ہوں تا کہ تم شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہو.اور ان سے تمہیں ہمیشہ نجات ملتی رہے.قرآن کریم نے شفاء لِمَا فِي الصُّدُورِ کی تفسیر میں مختلف طریقے بیان کئے ہیں.میں نے اس وقت صرف ایک مثال اپنے دوستوں اور بھائیوں کے سامنے بیان کی ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب مَوْعِظَةٌ اور شفاء ہی نہیں بلکہ ھدی بھی ہے.

Page 418

خطبات ناصر جلد اول ۴۰۲ خطبہ جمعہ ۶ ار ستمبر ۱۹۶۶ء جسمانی لحاظ سے اگر آپ غور کریں تو جس شخص نے جسمانی نشو و نما حاصل کرنی ہو.اپنی جسمانی قوتوں اور استعدادوں کو اپنے کمال تک پہنچانا ہو اور اپنی زندگی کو کا میاب بنانا ہواس کے لئے پہلے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی بیماری سے محفوظ ہو.تو فرمایا کہ ہم نے قرآن کریم میں ایسا انتظام کر دیا ہے کہ تمام وہ روحانی بیماریاں جو شیطانی جراثیم سے پیدا ہوتی ہیں، پہلے ان بیماریوں کو دور کر دیا جائے اور مومنوں کے روحانی وجود میں کوئی شیطانی وسوسہ باقی نہ رہنے دیا جائے اور اس طرح ان کا وجود روحانی طور پر صحت مند وجود ہو جائے.لیکن اتنا ہی کافی نہیں.یہاں سے تو اصل کام شروع ہوتا ہے.تو فرمایا کہ چونکہ تم روحانی ترقیات کے حاصل کرنے کے قابل ہو گئے ہو.اس لئے اس مرحلہ پر بھی یہ کتاب تمہاری راہنمائی کرتی ہے.فرمایا ھڈی یہ قرآن تمہارے لئے ھدایہ بھی ہے.عربی زبان کے لحاظ سے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کتاب میں ایسی تعلیم نازل کی گئی ہے جو آج ہی نہیں بلکہ قیامت تک انسان کی صلاحیت اور استعداد کے مطابق اس کی راہنمائی کرتی چلی جائے گی.( کیونکہ اس آیت میں یا يُّهَا النَّاسُ سے خطاب کیا گیا ہے ) وہ قرآنی ہدایت رضاء الہی کی راہوں پر گامزن ہونے کا طریقہ بتلاتی ہے اور بتلاتی چلی جائے گی.وہ روحانی ترقیات کی غیر محدود را ہیں اس پر کھولتی ہے اور کھولتی چلی جائے گی اور ہر منزل پر پہنچ کر اسے ایک اور نئی بلندی اور رفعت عطا کرتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر اخلاص اور وفا اور قربانی کا عملی نمونہ اسے پیش کرنے کی توفیق دیتی چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ مرد مومن ایثار اور محبت کی انتہائی رفعتوں کو اس کی اور محض اس کی برکت سے حاصل کر لیتا ہے اور اس کا انجام بخیر ہو جاتا ہے اور وہ اپنے محبوب ، اپنے مطلوب اور اپنے مقصود اور اپنی جنت اور اپنے رب کی رضا کو پالیتا ہے.اس طرح انسان کے فطری قومی کو صحیح اور احسن راستہ پر چلانے کی طاقت اس کتاب میں رکھی گئی ہے.چوتھی بات اللہ تعالیٰ نے اس کتاب مجید کے متعلق یہ فرمائی ہے کہ یہ رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ہے.رَحْمَةٌ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں.انعام دینے

Page 419

خطبات ناصر جلد اول ۴۰۳ خطبہ جمعہ ۱۶ رستمبر ۱۹۶۶ء والی فضل کرنے والی، احسان کرنے والی اور اپنی مغفرت میں ڈھانپ لینے والی ہستی.تو فرمایا کہ ہم جو رحمن اور رحیم ہیں رحمت کا منبع اور سرچشمہ ہیں.ہم نے قرآن مجید کو رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ( مومنوں کے لئے بطور رحمت ) نازل کیا ہے.تا اس کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر انسان ہماری رحمت اور مغفرت حاصل کرے اور اس کے ذریعہ سے روحانی بیماریوں کو دور کرے پھر اس کی ہدایت کے فیوض کے نتیجہ میں وہ روحانی ترقی کرتا چلا جائے اور اس کا انجام بخیر ہو.لیکن فرماتا ہے کہ یہ بے شک ھدی اور رَحْمَةٌ ہے.مگر هُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ جن لوگوں پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے.اگر وہ اس پر ایمان لانے کا اظہار اور اقرار نہ کریں اور اس کی بتائی ہوئی ہدایتوں کے مطابق اس پر عمل کرنے کی کوشش نہ کریں اور اپنی زندگیوں کو قرآن کریم کے مطابق نمونہ بنانے کی سعی نہ کریں اور اگر وہ خدا کی نگاہ میں حقیقی مومن نہ بنیں تو یہ کتاب ان کے لئے رحمت نہیں زحمت ہوگی.کیونکہ ان کو ایک نور دیا گیا.لیکن انہوں نے اس نور پر ظلمت کو ترجیح دی، ایک روشنی انہیں عطا ہوئی، لیکن وہ اس روشنی سے بھاگ نکلے اور اندھیروں میں جا چھپے.ایک شفاء آسمان سے ان کے لئے نازل ہوئی مگر انہوں نے گند کو اختیار کیا اور بیماری کو صحت پر ترجیح دی.پس جو مومن نہیں ان کے لئے یہ رحمت نہیں ہے، مگر جو مومن ہیں اللہ تعالیٰ کا فضل ان پر نازل ہوگا اور اس کی رحمتوں کے وہ وارث ہوں گے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں یہ فرمایا.قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (یونس: ۵۹) کہ اپنے عقائد، اعمال اور اخلاق حسنہ پر غرور نہ کرنا.تم میں تکبر ، خود پسندی، خود نمائی اور ریا، پیدا نہ ہو.اپنے کو کچھ نہ سمجھنا.کسی خوبی کا مالک خود کو تصور نہ کرنا کہ تمہارا روحانی بیماریوں سے شفاء پا جانا اور رضاء الہی کی راہوں کو اختیار کر کے تمہارا انجام بخیر ہونا تمہاری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے وابستہ ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خوش ہو اور سرور ابدی کے جام پیو کہ تمہارا رب محض اپنے فضل سے تم پر رجوع برحمت ہوا اور اس نے محض احسان کے طور پر تمہیں وہ دیا جو دنیا

Page 420

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۰۴ خطبہ جمعہ ۶ ار ستمبر ۱۹۶۶ء کی تمام عزتوں اور دنیا کی تمام وجاہتوں اور دنیا کی تمام لذتوں اور دنیا کی تمام خوشیوں اور دنیا کے تمام اموال سے بہتر اور احسن ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس گروہ میں شامل ہونے کی توفیق بخشے.اللَّهُم امین روزنامه الفضل ربوه ۵ /اکتوبر ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 421

خطبات ناصر جلد اول ۴۰۵ خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۶۶ء غلبہ اسلام اور اشاعت قرآن کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم سیکھیں اور اس کا عرفان حاصل کریں خطبه جمعه فرموده ۲۳ /ستمبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.میں نے اپنے متعدد خطبات میں قرآن کریم کی بعض ان صفات اور فضائل کے متعلق جماعت کے دوستوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا جو خود قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں اور اس طرف توجہ دلائی تھی کہ قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے جو اس لئے نازل کی گئی ہے کہ ہم جو اس کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اسے پڑھیں ، سیکھیں اور اس پر غور کریں.اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق بنائیں اور اس کے کہنے کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کی کوشش کریں.میرے یہ خطبات ایک جہت سے بڑے ہی مختصر تھے.لیکن قرآن کریم کی جن صفات کے متعلق میں نے کچھ بیان کیا تھا ان میں سے ہر صفت کے متعلق خود قرآن کریم کی بیان کردہ تفسیر کی روشنی میں ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے حقیقت یہی ہے کہ قرآن کریم بے مثل اور بے بہا جواہرات کا ایک ایسا خزانہ ہے کہ جب وہ کسی انسان کو مل جائے تو دین اور دنیا کے تمام خزانوں کی چابیاں اس کے ہاتھ میں آجاتی ہیں.قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھا تھا اور انہیں ہم نے

Page 422

خطبات ناصر جلد اول ۴۰۶ خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۶۶ء دینی لحاظ سے بھی اور دنیوی لحاظ سے بھی مالا مال پایا ہے.انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں جس فراخی ، جس وسعت اور جس رفعت کو پایا اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی اور قوم نہیں کرسکتی.جہاں بھی گئے وہ کامیاب ہوئے.مٹی کو بھی اگر انہوں نے ہاتھ لگایا تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی برکت سے اس مٹی کو بھی سونا بنا دیا.انوار قرآنیہ سے انہوں نے تمام دنیا کو منور کیا اور قیامت تک کے آنے والوں کی دعاؤں کے وہ وارث ہوئے لیکن پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تھا تین صدیاں گزر جانے کے بعد مسلمان اس خزانہ سے غافل ہو گئے اور انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم اپنی عقل اپنے زور، اپنی وجاہت اور اپنے مال سے وہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو قرآن کریم ہمیں عطا نہیں کر سکتا.تب زوال کی وہ کون سی راہ تھی جس پر وہ گامزن نہیں ہوئے اور عسر اور تنگ دستی کا وہ کونسا گوشئہ تاریک تھا جو ان کے حصہ اور نصیب میں نہیں آیا.غرض اسی طرح اللہ تعالیٰ کی منشا پوری ہوتی رہی.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ آ گیا اور ثریا سے انوار قرآنیہ کا نزول شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ مس قرآنی کے سامان پیدا کر دیئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی ایسی لا جواب تفسیر دنیا کے سامنے رکھی اور آج کی دنیا کے مسائل اور اس کی الجھنوں کو اس حسن اور خوبی سے حل فرمایا کہ ایک عقلمند انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے غور کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہو اس احسانِ عظیم سے انکار نہیں کر سکتا.پھر اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے سامان پیدا کرنے کے لئے اشاعت علوم قرآنی کو سہل کر دیا اور ہر قسم کی سہولتیں ہمارے لئے مہیا کر دیں.چنانچہ جماعت احمدیہ نے پھر قرآن کریم کا عرفان حاصل کیا اور اس کی قدر ان کے دلوں میں پیدا ہوئی اور احمدیت کی طرف منسوب ہونے والوں نے یہ عہد کیا کہ ہم اپنے ربّ کے لئے اپنی ساری زندگیوں کو اپنے سارے اموال کو بلکہ اپنا جو کچھ بھی ہے اسے قربان کر دیں گے اور غلبہ اسلام کے لئے اور قرآن کریم کی اشاعت کے لئے جو کچھ بھی ہم سے مانگا جائے گا.ہم دیتے چلے جائیں گے.اشاعت قرآن کی راہ میں اس ایثار اور قربانی سے پہلے کہ جس کا ہر احمدی نے عہد کیا ہے.ضروری ہے کہ وہ خود قرآن کریم پڑھ سکتا ہو قرآن کریم کے معانی جانتا ہو اور پھر ان معانی

Page 423

خطبات ناصر جلد اول ۴۰۷ خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۶۶ء ا پر غور کرنے کی اسے عادت ہو.وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والا ہو کہ برکت کے جو چشمے تیری اس پاک اور مطہر کتاب سے پھوٹ رہے ہیں.اے خدا! تو ہمیں توفیق دے کہ ہم ان چشموں کے پانی سے اپنے جسموں اور اپنی روحوں کو اس طرح دھوڈالیں کہ وہ تیری نگاہ میں اس برف کی طرح صاف اور پاک ہو جائیں جو تازہ تازہ آسمان سے گرتی ہے اور سفید ، صاف اور ہر قسم کی آلائشوں سے منزہ ہوتی ہے.میرے دل میں بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس بھی پیدا ہورہا تھا کہ جماعت کا ایک حصہ اس کام کی طرف کما حقہ متوجہ نہیں ہو رہا اس لئے ضرورت ہے کہ ہر فرد بشر کو جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتا ہے اس طرف متوجہ کیا جائے ، اسے قرآن کریم پڑھایا جائے ، اسے قرآن کریم کے معانی بتائے جائیں ، قرآن کریم کی تعلیم سے اسے متعارف کرایا جائے.اسے ایسا بنادیا جائے کہ قرآن کریم کا عرفان اسے حاصل ہو اور اس کام کے لئے اپنے رب سے دعائیں کی جائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اور اس کے القاء کے ماتحت میں نے قرآن کریم کی اشاعت اور جماعت کی تربیت کی غرض سے جماعت میں وقف عارضی کی تحریک کی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بشارت دی تھی.یہ تحریک محض اس کے فضل سے ہر لحاظ سے بڑی ہی کامیاب ثابت ہوئی اور کامیاب ثابت ہو رہی ہے.اس وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لینے والے نوجوان بھی تھے، بوڑھے بھی تھے ، کم علم طالب علم بھی تھے اور بڑے تجربہ کار ایم.اے، جنہوں نے اپنی ساری عمر علم کے میدان میں گزاری تھی ، وہ بھی تھے.پھر اس تحریک میں حصہ لینے والے زیادہ تر مرد تھے لیکن کچھ عورتیں بھی تھیں جنہوں نے اس میں حصہ لیا.کیونکہ میں نے اپنے لئے یہ طریق وضع کیا تھا کہ میں وقف عارضی کی تحریک میں بیوی کو بھی خاوند کے ساتھ جانے کی اجازت دے دوں گا بشرطیکہ اس نے بھی وقف عارضی میں نام دیا ہوا ہو.اسی طرح باپ کے ساتھ بیٹی کو بھی جانے کی اجازت دے دوں گا اگر اس نے وقف عارضی میں اپنا نام دیا ہوا ہو.اس کے علاوہ میں اور کسی احمدی بہن کو اس میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دوں گا.

Page 424

خطبات ناصر جلد اول ۴۰۸ خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۶۶ء مجھے یاد ہے کہ ایک بہن نے لکھا تھا کہ میری ہی تحریک کے نتیجہ میں میرے بھائی نے وقف عارضی کے سلسلہ میں اپنا نام پیش کیا ہے آپ اجازت دیں کہ میں بھی وقف کے کام کے لئے اس جگہ چلی جاؤں جہاں میرے بھائی کو مقرر کیا جائے.میں نے اپنی اس عزیزہ بچی کو اس کی اجازت نہیں دی تھی.بہر حال کچھ احمدی بہنیں بھی اپنے خاوندوں کے ساتھ جا کر بطور واقفہ کے اس تحریک میں حصہ لے چکی ہیں.اس تحریک میں حصہ لینے والے ان پڑھ تھے یا کم پڑھے ہوئے تھے.یا بڑے عالم تھے.چھوٹی عمر کے تھے یا بڑی عمر کے اللہ تعالیٰ نے ان پر قطع نظر ان کی عمر ، علم اور تجربہ کے ( کہ اس لحاظ سے ان میں بڑا ہی تفاوت تھا ) اپنے فضل کے نزول میں کوئی فرق نہیں کیا.اس عرصہ میں ان سب پر اللہ تعالیٰ کا ایک جیسا فضل ہوتا رہا.اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اور اس کے فضل سے ۹۹ فیصدی واقفین عارضی نے بہت ہی اچھا کام کیا.ان میں سے ہر ایک کا دل اس احساس سے لبریز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں اس پر اتنے فضل نازل کئے ہیں کہ وہ اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا اور اس کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ خدا کرے اسے آئندہ بھی اس وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لینے کی توفیق ملتی رہے اور بعض جماعتوں نے تو یہ محسوس کیا کہ گویا انہوں نے نئے سرے سے ایک احمدی کی زندگی اور اس کی برکات حاصل کی ہیں.ان کی غفلتیں ان سے دور ہو گئی ہیں اور ان میں ایک نئی روح پیدا ہوگئی.ان میں سے بہتوں نے تہجد کی نماز پڑھنی شروع کر دی اور جو بچے تھے انہوں نے اپنی عمر کے مطابق بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ قرآن کریم، نماز یا نماز کا ترجمہ اور دوسرے مسائل سیکھنے شروع کئے.غرض واقفین عارضی کے جانے کی وجہ سے ساری جماعت میں ایک نئی زندگی ایک نئی روح پیدا ہوگئی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے خود واقفین عارضی نے یہ محسوس کیا کہ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑے فضل نازل کئے ، بڑی برکتیں نازل کیں.ان میں سے بعض اپنا عرصہ پورا کر نے کے بعد واپس آکر مجھے ملے تو ہر فقرہ کے بعد ان کی زبان سے یہ نکلتا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے بڑے نمونے دیکھے ہیں.ان کے منہ سے اور ان کی زبان سے خود بخود اس قسم کے

Page 425

خطبات ناصر جلد اول ۴۰۹ خطبه جمعه ۲۳ رستمبر ۱۹۶۶ء فقرے نکل رہے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور برکت سے کیا ہے نہ کہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں.کل رات میں سوچ رہا تھا کہ مجھے جتنے واقفین چاہئیں.اس تعداد میں واقفین مجھے نہیں ملے.مثلاً ربوہ کی ہی جماعت ہے.آج جو دوست میرے سامنے بیٹھے ہیں ان میں کثرت ربوہ والوں کی ہے لیکن ان میں سے بہت کم ہیں جنہوں نے وقف عارضی میں حصہ لیا ہے اور یہ بات قابل فکر ہے کہ کیوں آپ کی توجہ ان فضلوں کے جذب کرنے کی طرف نہیں ہے جو اس وقت اللہ تعالیٰ واقفین عارضی پر کر رہا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں رات سوچ رہا تھا کہ مجھے جتنے واقفین عارضی چاہئیں اتنے نہیں ملے حالانکہ اس کی بہت ضرورت ہے.تو جب میں سویا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک کاغذ آیا ہے اور اس کاغذ پر دو فقرے خاص طور پر ایسے تھے کہ خواب میں میری توجہ ان کی طرف مبذول ہوئی.ان میں سے پہلا فقرہ تو میں بھول گیا لیکن اس میں ضعفاء“ کا لفظ آتا تھا.دوسرا فقرہ ( صبح تک مجھے یاد تھا میں نے غلطی کی کہ اسے لکھا نہیں ) گو اب مجھے پوری طرح یاد نہیں لیکن اس کے بعض الفاظ مجھے یاد ہیں مثلاً اس میں ضُعَفَاءُ گُم تھا یا ضُعَفَاءُ هُمُ ( اب مجھے پوری طرح یاد نہیں ) اور اس کے آگے آسمین تھا اور مجھے خواب ہی میں خیال آیا کہ یہ لفظ غریب الفاظ میں سے ہے.یعنی یہ لفظ روز مرہ کی عربی زبان میں استعمال نہیں ہوتا.وہ ان معنوں میں کم ہی استعمال ہوتا ہے جن معنوں میں وہ اس فقرہ میں استعمال ہوا ہے.اس کے ایک معنی رفعت اور علو حاصل کرنے والے کے ہیں اور ان معنوں کے لحاظ سے اس میں یہ بشارت ہے کہ جماعت میں سے جو لوگ قرآنی علوم سیکھنے کے لحاظ سے ضعیف کہلانے والے ہیں اب اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ وہ بھی علو مرتبت اور قرآن کریم کی ان رفعتوں تک پہنچنے والے ہوں گے.جن رفعتوں تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل کیا ہے.سو الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ بشارت دے رہا ہے لیکن ہر وہ بشارت جو آسمان سے نازل ہوتی ہے.زمین والوں پر ایک ذمہ داری عائد کرتی ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنا ان کا فرض ہوتا ہے.

Page 426

خطبات ناصر جلد اول ۴۱۰ خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۶۶ء جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمیں بہت زیادہ واقفین کی ضرورت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے یہ احساس ہے کہ تربیت قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے اس کے جاننے اور اس کا عرفان حاصل کرنے کے لحاظ سے جماعت میں ضعف اور کمزوری پیدا ہو رہی ہے اور اب جو واقفین عارضی جماعتوں میں گئے جن کا پہلا اور ضروری کام ہی قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور تربیت کے دوسرے امور کی طرف متوجہ کرنا تھا اور یہی کام ان کا آئندہ بھی رہے گا تو ان کی رپورٹوں سے معلوم ہوا کہ بہت سی جماعتوں میں تربیتی نقطہ نگاہ سے کافی کمزوری پیدا ہو گئی ہے.گوان کے دلوں میں ایمان کی چنگاری موجود ہے لیکن وہ شیطانی راکھ کے اندر دبی ہوئی ہے اس کی بہت سی مثالیں ہیں.ان میں سے ایک مثال میں بیان کرتا ہوں میں نے ایک بزرگ کو ایک ایسی جماعت میں بھیجا جو تعداد میں بہت بڑی ہے.انہوں نے وہاں جا کے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور دعائیں کرنے لگ گئے.انہوں نے جماعت کو قرآن کریم پڑھنے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے دیکھا کہ شروع میں جماعت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا.پہلے ہفتہ انہوں نے یہ رپورٹ بھیجی کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جماعت مرچکی ہے اور اس کے زندہ ہونے کی اب کوئی امید نہیں.دوسرے ہفتہ کی رپورٹ بھی اس قسم کی تھی.تیسرے ہفتہ کی رپورٹ میں انہوں نے لکھا کہ میں نے پہلے جو رپورٹیں بھجوائی ہیں وہ سب غلط تھیں جماعت مری نہیں بلکہ زندہ ہے لیکن خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہے.اگر اس کی تربیت کی جائے اور اسے جھنجھوڑا جائے تو اس کی زندگی کے آثار زیادہ نمایاں ہو جائیں گے.وہ زندگی جو جماعت ہائے احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بدولت اسلام اور قرآن کریم کے ذریعہ اپنے رب سے حاصل کی ہے.غرض بہت سی جماعتوں میں بڑی سستی پائی جاتی ہے لیکن یہ لَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْما ( طه: ۱۱۶) والی بات ہے.وہ مردہ نہیں لیکن حالات ہی لوگوں کے کچھ ایسے ہیں کہ ان کے اندر غفلت پیدا ہو گئی ہے اس کی بڑی ذمہ داری تو مرکز پر ہے.یا جماعت بحیثیت مجموعی اس کی ذمہ دار ہے.مثلاً آپ یہ دیکھیں کہ مغربی پاکستان میں ایک ہزار کے قریب ہماری جماعتیں ہیں.ان کے علاوہ بہت سی جگہوں پر احمدی موجود ہیں وہ اتنی تھوڑی تعداد میں ہیں کہ وہاں کوئی جماعت قائم نہیں.گو

Page 427

خطبات ناصر جلد اول ۴۱۱ خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۶۶ء وہاں ایک طرح سے جماعت موجود ہے لیکن تنظیم قائم نہیں ہوئی.صرف ضلع منٹگمری کے متعلق ایک دوست نے مجھے لکھا کہ چالیس ایسے چک ہیں جہاں احمدی افراد موجود ہیں لیکن وہاں تنظیم قائم نہیں ہوئی.منظم جماعتیں ان کے علاوہ ہیں.غرض اگر ڈیڑھ ہزار جماعتیں بھی فرض کر لی جائیں.یعنی منظم جماعتوں کے علاوہ ان جگہوں، مقامات ، دیہات ، قصبات اور شہروں کو بھی شمار کر لیا جائے.جہاں احمدی افراد موجود ہیں تو مغربی پاکستان میں ڈیڑھ ہزار کے قریب جماعتیں ہیں اور ان کی تربیت کے لئے ہمارے پاس ساٹھ ستر مربی ہیں.اب آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ساٹھ ستر مربی ان جماعتوں کی کس طرح تربیت کر سکتے ہیں اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ہمارے یہ مربی سو فیصدی کام کرنے والے ہیں، تب بھی وہ ان جماعتوں کی تربیت نہیں کر سکتے.یہ ان کے بس کی بات نہیں.پھر ہمارے نظام تربیت یعنی مربیوں کے نظام میں بھی بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں اس کے نتیجہ میں جماعت کی تربیت والا پہلو ہمیں بھولا رہا جماعت نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی.تربیت کے سلسلہ میں اس غفلت کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں.قرآن کریم کے انوار کو پھیلانے کی ذمہ داری ہمارے سپر دتھی.ہم نے اس سے غفلت برتی اور اس کے نتیجہ میں ہماری روحانی ترقی بہت پیچھے جا پڑی.آج مغربی پاکستان میں ہماری جماعتیں ایک ہزار نہیں پچاس ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ ہونی چاہیے تھیں لیکن جب ہم قرآن کریم سے غافل ہوئے تو قرآن کریم کی برکتیں بھی ہم سے جاتی رہیں ہم ان سے محروم ہو گئے اور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا.کیونکہ قرآن کریم کی برکتیں تو ہمیں تبھی مل سکتی ہیں.جب ہم قرآن کریم سے غافل نہ ہوں.ہم اسے ہر وقت اپنے سامنے رکھنے والے ہوں.اپنی زندگی میں اسے مشعل راہ بنانے والے ہوں.اگر ایسا ہو تو پھر قرآن کریم کی برکتیں ہمیں حاصل ہوں گی.اگر ہم ایک چشمہ پر بیٹھے ہوں لیکن اس چشمہ کی طرف ہماری پیٹھ ہو اور ہمارا منہ ریگستان کی طرف ہو تو ہم اس چشمہ سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.چشمہ سے پانی پینے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس چشمہ کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے برتن کو گند سے اور ہر اس چیز سے جو پانی کے سوا ہے اور وہ ہمارے لئے مفید نہیں خالی کر لیں تبھی ہم اس برتن کو پانی

Page 428

خطبات ناصر جلد اول ۴۱۲ خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۶۶ء سے بھر سکتے ہیں اور اسے پی سکتے ہیں.لیکن اگر ہمارے دلوں کے برتن غیر اللہ اور انوار قرآنیہ کے سوا دوسری چیزوں سے پُر ہوں تو اللہ تعالیٰ اور انوار قرآنیہ کے لئے ان میں کوئی جگہ نہیں ہوگی.غرض ہم سے ( آپ جماعت کہہ لیں.مرزا ناصر احمد کہہ لیں یا صدر انجمن احمد یہ کہہ لیں ) بہر حال غفلت ہوئی ہے اور جماعت کا ایک حصہ ست ہو گیا ہے اور باقی ساری جماعت کو اس کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے.اس پر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں جماعت میں وقف عارضی کی تحریک کروں اور اس سلسلہ میں جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں مجھے پانچ ہزار واقف چاہئیں اور واقف بھی ایسے جو طوعاً اپنی مرضی اور خوشی سے سال میں دو ہفتے سے چھ ہفتے تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں ورنہ اگر ضرورت اور ضرورت کا احساس اسی طرح شدت اختیار کر گیا تو شاید کوئی وقت ایسا بھی آجائے جب اس تحریک کو طوعی نہ رکھنا پڑے بلکہ اسے جبری تحریک قرار دے دیا جائے اور ہر احمدی کا یہ فرض قرار دے دیا جائے کہ وہ جس طرح اپنی آمد کا سولہواں یا دسواں حصہ دین کے لئے دیتا ہے.اسی طرح اپنی زندگی کے ہر سال میں سے پندرہ دن یا چھ ہفتے وقف عارضی کے لئے بھی دے.تا کہ قرآن کریم کی اشاعت صحیح رنگ میں کی جائے.اسی طرح جماعتوں کی تربیت بھی صحیح طور پر کی جاسکے.زمانہ بدلتا ہے.اسی طرح حالات بھی بدلتے ہیں.ہماری ایک جماعت کسی زمانہ میں بڑی ہی مخلص تھی.اس میں پڑھے لکھے آدمی موجود تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ تھے اور وہ جماعت بڑی مخلص تھی.لیکن اس وقت اس کی یہ حالت ہے کہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو صحابہ تھے وہ فوت ہو گئے.پڑھے لکھے لوگ اس گاؤں کو چھوڑ کر باہر ملازمتوں کے سلسلہ میں چلے گئے.آج وہاں ایک بھی ایسا پڑھا لکھا آدمی موجود نہیں جو آگے کھڑا ہو کر نماز ہی پڑھا سکے.اب ایسی جماعت نے بہر حال کمزور ہونا تھا.بڑی عجیب بات یہ ہے کہ نہ تو مربی نے اور نہ امیر ضلع نے مرکز کو کبھی توجہ دلائی کہ اس جماعت کا یہ حال ہے.اس کی طرف توجہ کی جائے.اگر وقف عارضی کے نتیجہ میں ہمیں اس جماعت کی حالت کا علم نہ ہوتا تو پانچ چھ سال اور گزرنے کے

Page 429

خطبات ناصر جلد اول ۴۱۳ خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۶۶ء بعد ہمارے کاغذوں اور رجسٹروں میں سے بھی اس جماعت کا نام مٹ جا تا اور کسی شخص کو یہ علم نہ ہوتا کہ وہاں کوئی احمدی ہے یا نہیں.چندہ لینا اصل چیز نہیں.گو جماعت کے افراد کے لحاظ سے مالی قربانی بھی اصل چیزوں میں سے ہے.لیکن ہمارے لئے تو اصل چیز یہ ہے کہ دین اور اسلام کی روح ان کے اندر پیدا ہو اور ان کے دلوں میں بڑی شدت سے اس احساس کو جگایا جائے کہ بندہ خدا تعالیٰ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس کی پیدائش کی غرض خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کا حصول ہے.اس لئے تم دنیا کے کیڑے نہ بنو بلکہ اپنے رب کی طرف جھکو.اور اس سے نور حاصل کرو.اس کی رضا کو حاصل کرو.اور اس کی بہشت میں داخل ہو جاؤ.جس جماعت کا میں نے ذکر کیا ہے ممکن ہے کچھ عرصہ اور اس کا نام ہمارے رجسٹروں میں رہتا.کچھ نہ کچھ چندہ وہاں سے آتا رہتا اور ہم سمجھتے کہ وہاں جماعت قائم ہے.لیکن اگر وہ چندہ دینا بند کر دیتے تو کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ایک جماعت مٹ رہی ہے گوا بھی وہ جماعت مری نہیں.کیونکہ وقف عارضی کے نتیجہ میں اس کی بیہوشی اور غفلت دور ہوگئی ہے اور اس میں زندگی کے آثار نمودار ہو گئے ہیں اور انشاء اللہ توقع ہے کہ نہ اس جماعت میں زندگی کے آثار ہی نمودار ہوں گے.بلکہ اس کی ترقی کی صورت بھی نکل آئے گی.جو واقف وہاں گئے ہیں وہ کہتے ہیں.کہ اگر وہاں کوئی مربی رکھا جائے.یا واقفین عارضی کے مختلف گروہ وہاں آتے رہیں.تو وہاں اصلاح وارشاد کا میدان بھی کھلا ہے گویا واقفین عارضی کے جانے سے پہلے اس جماعت کے مرنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا اور اب ان کے جانے کے بعد نہ صرف اس کی زندگی بلکہ اس کی ترقی کے سامان بھی نظر آنے لگ گئے ہیں.پس جماعت یا تو مجھے ایک ہزار مربی دے (یعنی ایک ہزار بچے آج مجھے دے دے.جنہیں تربیت دے کر مربی بنایا جائے ) اور یا ضرورت کے مطابق واقفین عارضی مہیا کرے.اگر آپ مجھے آج ایک ہزار بچے دے دیں گے تو میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں.بلکہ مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ ان ایک ہزار بچوں کی تربیت اور تعلیم کا سامان بھی مجھے دے دے گا.لیکن ان کی تیاری پر بھی وقت لگے گا.یعنی جب تک وہ نو سالہ کورس پورا نہ کر لیں یا اگر وہ میٹرک پاس

Page 430

خطبات ناصر جلد اول ۴۱۴ خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۶۶ء ہوں تو گیارہ سال اور اگر چھوٹے ہیں تو تیرہ سال کا عرصہ ان کی تربیت کا گزر نہ جائے.اس وقت تک عارضی واقفین کی ضرورت رہے گی.کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم اس قسم کی کمزور جماعتوں سے جس کا میں ذکر کر چکا ہوں.غفلت برتیں اور میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ میں چپ ہو کر بیٹھ جاؤں اور ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی کے دن گزاروں کہ کہیں مجھ پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل نہ ہو.اس لئے کہ میں اس قسم کی جماعتوں کو جگانے کا انتظام نہیں کر رہا.اگر آپ مجھے واقفین نہیں دیں گے یا خود وقف کے لئے آگے نہیں آئیں گے تو اللہ تعالیٰ کوئی اور سامان پیدا کر دے گا.لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے کیوں محروم ہور ہے ہیں.پس میں آج پھر جماعت کو بڑے زور کے ساتھ اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے کم از کم پانچ ہزار واقفین کی ضرورت ہے جو ہر سال دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ جو واقفین عارضی وقف کی تحریک کے ماتحت باہر گئے ہیں.ان میں ہر عمر اور علمی معیار کے لوگ شامل تھے اور ان میں سے زیادہ تر کا تاثر یہ ہے کہ بڑی کثرت کے ساتھ انہوں نے اِستغفار اور لاحول پڑھا.یعنی ان کے دل کے اندر یہ احساس اُجاگر ہوا کہ ہم نے غفلت میں دن گزارے ہیں.ہم سے بہت سی کو تا ہیاں ہوئی ہیں.اس لئے ہمیں استغفار کرنا چاہیے.تا اللہ تعالیٰ ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کو معاف کر کے ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے.دوسرے یہ جو ذمہ داری کا کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے.اس کو نباہنے کے ہم قابل نہیں.اس طرف ہم نے کبھی توجہ نہیں کی تھی نہ ہم نے جماعت کا لٹریچر پڑھا تھا اور نہ ہم نے دعائیں کی تھیں.اس لئے ہم سے یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہمیں حاصل نہ ہو.جب تک کہ اللہ تعالیٰ سے ہمیں قوت نہ ملے.اس لئے انہیں اِسْتِغْفَار اور لا حول پڑھنا پڑا اور لا حول یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے ( مغفرت کے بعد ) قوت حاصل کرتا ہے.وہ استغفار کرتا ہے اور کہتا ہے.اے اللہ ! مجھ سے جو گناہ ہو چکے ہیں تو مجھے معاف کر اور مجھے اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے اور آئندہ بھی گناہ سے بچا اور پھر کہتا ہے اب مجھے کچھ کرنے کی توفیق بھی دے.جب گناہ معاف ہو جائیں.تو اگلا قدم انسان کا

Page 431

خطبات ناصر جلد اول ۴۱۵ خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۶۶ء یہی ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ اس کی ترقی کے سامان پیدا کرے وہ دعا کرے کہ اے اللہ ہم بد عمل تھے تو نے ہماری بد اعمالیوں پر اپنی مغفرت کی چادر ڈال دی.ہم لاشے محض ہیں.ہم میں کوئی قوت نہیں تو ہمیں قوت عطا کر کہ ہم تیری راہوں پر دوڑ نے لگ جائیں اور تجھ سے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں.غرض ہر واقف کو اپنے وقف کے عرصہ میں یہ احساس بڑی شدت کے ساتھ ہوا کہ اسے استغفار کرنا چاہیے.کیونکہ اس نے اپنی زندگی کے دن بڑی غفلت میں گزارے ہیں اور پھر اسے خدا تعالیٰ سے طاقت بھی مانگنی چاہیے کہ اس کی دی ہوئی طاقت کے بغیر ہم اس قسم کے دینی کام نہیں کر سکتے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے.انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بہت سے فضلوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا بعض جگہیں ایسی بھی ہیں کہ جب وہاں واقفین عارضی پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ بعض غیر از جماعت دوستوں کو خوابوں میں بڑے زور کے ساتھ تلقین کی گئی اور انہیں متوجہ کیا گیا کہ جماعت احمد یہ ایک سچی جماعت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دعوے میں سچے اور حق پر ہیں تم اس جماعت میں شامل ہو جاؤ.چنانچہ ان خوابوں کے ذریعہ بعض بیعتیں بھی ہوئی ہیں.بہر حال جب آپ قرآن کریم پڑھا ئیں گے تو بہت سارے غیر از جماعت بچے بھی قرآن کریم پڑھنے کے لئے آجائیں گے اس طرح بہت سی غلط باتیں جو ہماری جماعت کے متعلق مشہور ہوگئی ہیں خود بخود ان کے دلوں سے دور ہو جائیں گی.کیونکہ آپ کا عمل ایک زبر دست دلیل ہوگا.وہ لوگ سمجھیں گے کہ کہا تو یہ جاتا تھا کہ یہ لوگ قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے اور عملاً ہم دیکھ رہے ہیں کہ صرف یہی لوگ ہیں جو قرآن کریم پڑھانے اور سکھانے کے لئے اپنے خرچ پر دور دراز سے آئے ہیں اور پھر یہ کام بھی بڑے شوق سے کر رہے ہیں یہ بیگار نہیں کاٹ رہے بلکہ چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں.غرض وقف عارضی کی سکیم کے بہت سے فوائد ہیں جن کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جا سکتا.ہاں میں یہ پھر تاکید سے ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے سال کے دوران کم از کم پانچ ہزار واقفین کی ضرورت ہے.اگر دس ہزار واقفین مل جائیں تو اور بھی اچھا ہے.تاہم جماعت کو قرآن کریم پڑھا سکیں.اس کی ایسی تربیت کر سکیں کہ وہ قرآن کریم پر عمل کرنے

Page 432

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۶۶ء والی ہو اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کو حاصل کرنے والی ہو جو قرآن کریم پڑھنے قرآن کریم سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں آج ہم پر نازل ہو رہے ہیں اور جو جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض ہے اور تا ہم تمام دنیا میں اشاعت قرآن اور غلبہ اسلام کے فریضہ کو جو ہم پر عائد کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کامیاب طور پر پورا کرنے والے ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل کے ساتھ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(روز نامه الفضل ربوه ۲ نومبر ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۶ ) 谢谢谢

Page 433

خطبات ناصر جلد اول ۴۱۷ خطبہ جمعہ ۷ /اکتوبر ۱۹۶۶ء تحریک وقف جدید کی اہمیت کے پیش نظر احباب جماعت کو اس میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہیے خطبه جمعه فرموده ۷ /اکتوبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج میں وقف جدید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.جولائی ۱۹۵۷ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مبارک الہی تحریک کے متعلق بعض ابتدائی باتیں جماعت کے سامنے رکھی تھیں پھر ۱۹۵۷ ء ہی میں جلسہ سالانہ کی ایک تقریر میں حضور نے اس کی بعض تفاصیل بیان فرما ئیں.حضور نے یہ تحریک بیان کرنے کے بعد جماعت کے سامنے ابتداء یہ بات رکھی تھی کہ میں فی الحال دس واقفین لینا چاہتا ہوں اور اسی کے مطابق اندازہ خرچ بھی کم و بیش آٹھ دس ہزار روپے کا تھا لیکن آپ کی یہ خواہش تھی کہ یہ الہی تحریک درجہ بدرجہ ترقی کرتی چلی جائے اور جلد ہی ایک وقت ایسا آجائے جب دس کی بجائے ہزاروں واقفین اس تحریک میں کام کر رہے ہوں.پھر یہ واقفین صرف پاکستان سے ہی نہ ہوں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی افریقہ کے ممالک سے بھی امریکہ کے ممالک سے بھی اور ان کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی.اور پھر جوں جوں واقفین کی تعداد بڑھتی چلی جائے اور خرچ میں اضافہ ہوتا چلا جائے.اسی کے مطابق جماعت اپنی مالی قربانیاں بھی تیز سے تیز تر کرتی چلی جائے تا کہ ہم وہ مقصد جو اس الہی تحریک کا ہے وقت قریب میں حاصل کر لیں.

Page 434

خطبات ناصر جلد اول ۴۱۸ خطبہ جمعہ ۷ /اکتوبر ۱۹۶۶ء جیسا کہ میں نے ابھی مختصر ابتا یا ہے.وقف جدید کی تحریک کی ابتداء دس واقفین سے ہوئی تھی اور اس وقت جبکہ اس تحریک پر قریباً نو سال کا عرصہ گزر چکا ہے.یہ تعداد صرف اکاسی واقفین تک پہنچی ہے.جن میں سے سترہ کے قریب زیر تعلیم ہیں اور صرف چونسٹھ مختلف جماعتوں میں کام کر رہے ہیں.حالانکہ حضور کا منشا یہ تھا کہ دنیا بھر کی جماعتیں ہزاروں کی تعداد میں واقفین ہمیں دیں اور ہم اول تو ہر جماعت میں اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو کم از کم دس دس پندرہ پندرہ میل کے حلقہ میں ایک ایک ایسے واقف ( وقف جدید ) کو مقرر کریں جس نے قربانی کے جذبہ سے، خلوص کے ساتھ اور خدمتِ اسلام کی نیت سے اپنی زندگی وقف کی ہو.اس واقف کو معمولی گزارہ دیا جائے.مثلاً پچاس یا ساٹھ روپے ماہوار اور اس کے باقی اخراجات کے لئے آمد کے بعض اور ذرائع مہیا کئے جائیں.مثلاً یسا انتظام کیا جائے کہ جس جماعت میں اسے مقرر کیا جائے.وہ جماعت یا تو دس ایکڑ زمین اس تحریک کے لئے وقف کرے اور اس زمین کی آمد اس واقف کو دی جائے اور یا پھر اس واقف کے ذریعہ پرائمری تک ایک سکول کھول دیا جائے جہاں وہ احمدی بچوں کو ( اور دوسرے بچوں کو بھی جو وہاں تعلیم حاصل کرنا چاہیں ) قرآن کریم پڑھائے اور دوسری مروجہ تعلیم بھی دے اور یا پھر اسے کمپاؤنڈری یا حکمت کی ابتدائی تعلیم دلائی جائے تا وہ ایسی جگہوں پر جہاں ابتدائی طبی امداد بھی مہیا ہونا مشکل ہے.وہاں کے رہنے والوں کو ابتدائی طبی امداد مہیا کرے اور اس طرح پر جو آمد ہو وہ بھی مرکز وصول نہ کرے بلکہ اس ذریعہ سے جو آمد بھی ہو وہ اس واقف کو دے دی جائے سکول کی صورت میں اگر اساتذہ ایک سے زائد ہوں تو فیس کے ذریعہ جو آمد ہو وہ سب اساتذہ میں تقسیم کر دی جائے.بہر حال اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ نظر آرہا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر جماعت میں کم از کم ایک معلم ضرور بٹھا دیا جائے.لیکن چونکہ حضور ایک لمبا عرصہ علیل رہے اور اس عرصہ میں جماعت حضور کے خطبات سے محروم رہی اور چونکہ جب تک بار بار جگایا نہ جاتا رہے.انسان عادتا کمزوری کی طرف مائل ہو جاتا ہے اس لئے وقف جدید کی اہمیت اور افادیت آہستہ آہستہ جماعت کے افراد کی نظروں سے اوجھل ہوتی چلی گئی اور اس تحریک کا وہ نتیجہ

Page 435

خطبات ناصر جلد اول ۴۱۹ خطبہ جمعہ ۷ /اکتوبر ۱۹۶۶ء نہ نکلا جو میرے نز دیک نو سالوں میں نکلنا چاہیے تھا اور اس کی ذمہ داری ساری جماعت پر بحیثیت جماعت عائد ہوتی ہے.وقف عارضی کے جو وفود مختلف علاقوں میں گئے ہیں ان میں سے کم از کم ساٹھ ستر فیصدی وفود ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنا وقف عارضی کا زمانہ ختم کرنے کے بعد جو آخری رپورٹ ہمیں بھجوائی اس میں بڑی شدت سے یہ مطالبہ کیا کہ اس جماعت کو کوئی مربی یا معلم ضرور دیا جائے اور یہ بھی لکھا کہ جماعت خود بھی یہ احساس رکھتی ہے کہ جب تک اسے کوئی معلم نہ دیا جائے وہ ان ذمہ داریوں کو کما حقہ، ادا نہیں کر سکتی جو تربیت کے لحاظ سے اس پر عائد ہوتی ہیں.لیکن اگر میرے پاس واقفین ہی نہ ہوں تو میں انہیں کہاں سے معلم مہیا کروں.پھر معلمین کو اگر جماعت اپنی ہمت اور جماعتی ضرورت کے مطابق مالی قربانیاں پیش نہ کرے تو ان می گزارہ کہاں سے دیا جائے.پس پہلی بات تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ واقفین اس تحریک میں شمولیت کے لئے اپنے نام پیش کریں.میں نے بتایا ہے کہ اس وقت زیر تعلیم واقفین کو شامل کر کے قریباً ۸۱ واقف ہمارے پاس ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس تحریک کو ابتداء دس کی تعداد سے شروع کیا.اگر ہم ہر سال اس میں دس دس کا اضافہ کرتے تب بھی اس وقت ہمارے پاس ۹۰ واقفین ہونے چاہیے تھے لیکن اگر ہم اس تعداد میں ہر سال صرف دس دس کی زیادتی ہی کریں تو چونکہ ہم نے ہزاروں تک پہنچنا ہے اس لئے جب ہم پہلے ہزار تک پہنچیں گے تو ایک صدی گزر چکی ہوگی اور ہم اتنالمبا عرصہ انتظار نہیں کر سکتے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت اس طرف توجہ دے تو ہر سال پہلے سال کی نسبت دگنی تعداد میں واقف آسکتے ہیں.اگر ایسا ہوتا رہتا تو اس وقت واقفین کی تعداد پانچ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہوتی.یعنی اگر پہلے سال دس واقفین تھے تو دوسرے سال بین واقفین رکھے جاتے.تیسرے سال چالین رکھے جاتے اور چوتھے سال اتنی تک ان کی تعداد پہنچ جاتی اور اس طرح نو سال میں ان کی تعداد ۵۱۱۰ تک جا پہنچتی.اگر ہم پہلے سال کی نسبت واقفین کی تعداد میں ڈیڑھ گنا اضافہ بھی کرتے رہتے تب بھی ہماری ضرورت ایک حد تک پوری ہو جاتی بشر طیکہ ہم اسی تناسب سے

Page 436

خطبات ناصر جلد اول ۴۲۰ خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء اپنے چندوں میں بھی اضافہ کرتے چلے جاتے لیکن اس نسبت یعنی ڈیوڑھی نسبت کے ساتھ بھی واقفین نہیں آئے بلکہ سوائی نسبت کے ساتھ یا ہر سال ۱/۵ یا ۱/۱۰ کی زیادتی کے ساتھ بھی واقفین اس تحریک میں شامل نہیں ہوئے ورنہ وہ فوری ضرورتیں پوری ہو جاتیں جو اس وقت ہمارے سامنے آ رہی ہیں اور جنہیں پورا ہوتے نہ دیکھ کر ہمیں دکھ اور اذیت اور تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے اگر ہماری فوری ضرورتیں پوری ہو جاتیں تو ہم اس دکھ تکلیف اور اذیت سے بچے رہتے جماعتیں پکار رہی ہیں کہ اگر چاہتے ہو کہ ہم میں احمدیت قائم رہے تو ہمیں مستقل واقف دو.وقف عارضی والے آپ سے بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ جماعتوں میں واقفین بھیجے جائیں اور جماعت کو کہہ رہے ہیں کہ ان واقفین کو سنبھالنے کے لئے جس قدر رقم کی ضرورت ہے وہ مہیا کرے لیکن آپ نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی اور یہ بڑا ظلم ہوا ہے اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ سب کو جگاؤں اور بیدار کروں اور اس تحریک کی اہمیت آپ کے ذہن نشین کرانے کے بعد آپ سے یہ مطالبہ کروں کہ آئندہ سال مجھے کم از کم ایک سونے واقفین چاہئیں مجھے بتایا گیا ہے کہ وقف جدید کی تربیتی کلاس جنوری سے شروع ہوتی ہے اور دسمبر تک رہتی ہے.پس میرا مطالبہ یہ ہے کہ جنوری ۶۷ء میں جو نئی تربیتی کلاس شروع ہوگی اس میں کم از کم سو واقفین شامل ہونے چاہئیں.اگر جماعت نے میرا یہ مطالبہ پورا کر دیا تب بھی ہمیں ایک سال تک انتظار کرنا پڑے گا.کیونکہ کلاس کا نصاب ایک سال کا ہے اور نئے واقفین جو آئیں گے وہ ایک سال تک تربیت حاصل کریں گے اور اگر وہ سارے کامیاب بھی ہو جائیں تب بھی ایک سال کے بعد ہی ہم ان سونے واقفین سے جماعت کی تربیت کا کام لے سکیں گے.بہر حال اگر یکصد نئے واقفین آجائیں تو ہمیں یہ تسلی اور اطمینان تو ہو گا کہ ایک سال کے بعد کم از کم سونئی جماعتوں میں واقفین وقف جدید پہنچ جائیں گے اور وہ وہاں مستقل طور پر رہیں گے.ہم ایک سال اور انتظار کر لیں گے.اس عرصہ میں ہم وقف عارضی کے انتظام کے ماتحت خوابیدہ جماعتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور جب واقفین مستقل طور پر جماعتوں میں پہنچ جائیں گے تو وہ قرآن کریم پڑھانے اور جماعت کی تربیت اور دیگر ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہیں گے اور

Page 437

خطبات ناصر جلد اول ۴۲۱ خطبہ جمعہ ۷ /اکتوبر ۱۹۶۶ء اس طرح جماعت سنبھل جائے گی اور بیدار ہو جائے گی اور اس میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہو جائے گی.لیکن اگر آپ حسب سابق ہر سال اس تعداد میں صرف دس کا ہی اضافہ کریں تو یہ ہمارے لئے کافی نہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ اگلے سال واقفین وقف جدید کی کلاس میں جو جنوری ۱۹۶۷ء سے شروع ہوگی.کم از کم ایک سو واقفین ہو جائیں اور جماعت کو چاہیے کہ وہ اس طرف متوجہ ہو.اساتذہ کی ایک تعداد ہر سال ریٹائر ہوتی ہے.اگر وہ خاص طور پر اس طرف توجہ دیں تو وہ بہت مفید ہو سکتے ہیں.اگر پنشن یافتہ اساتذہ اپنی بقیہ عمر وقف جدید میں وقف کریں تو ہمیں زیادہ اچھے اور تجربہ کار واقفین مل سکتے ہیں بشرطیکہ وہ خلوص نیت رکھنے والے ہوں اپنے اندر قربانی کا مادہ رکھنے والے ہوں.دنیا کی محبت ان کے دلوں میں سرد ہو چکی ہو.وہ خدا تعالیٰ کی طرف منہ کر کے اپنی بقیہ زندگی گزارنے کے متمنی اور خواہاں ہوں اور دنیا، شیطان اور دنیوی آرام اور آسائشوں کی طرف پیٹھ کر کے اپنی بقیہ زندگی کے دن گزارنے کے لئے تیار ہوں.وہ باپ کی طرح تربیت کرنے والے ہوں.یعنی محبت، پیار، اخلاص، ہمدردی اور غمخواری کے ساتھ تربیت کرنے والے ہوں.ایسے اساتذہ اگر ہمیں مل جائیں تو ممکن ہے ہم انہیں یہاں ایک سال کی بجائے چند ماہ تعلیم دے کر جماعتوں میں کام کرنے کے لئے بھجواسکیں.اگر ہمیں واقفین زیادہ تعداد میں مل جائیں اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ جماعت کو یہ توفیق عطا کرے گا کہ جس تعداد میں واقفین کا مطالبہ کیا جا رہا ہے.اس تعداد میں واقفین مہیا کر دے.تو پھر ان کے خرچ کا سوال پیدا ہو جاتا ہے.گزشتہ سال مجلس شوری کے موقع پر وقف جدید کا بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے (۱,۷۷۰۰۰ ) کا منظور ہوا تھا.لیکن اس وقت تک دفتر وقف جدید میں جو وعدے وصول ہوئے ہیں وہ صرف ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کے قریب کے ہیں.یعنی وقف جدید کے منظور شدہ بجٹ کے مطابق بھی ابھی وعدے موصول نہیں ہوئے.پھر بعض جائز اور ناجائز وجوہ کی بنا پر سارے وعدے عملاً پورے بھی نہیں ہوا کرتے.یعنی اتنی رقم موصول نہیں ہوتی جتنی رقم کے وعدے ہوتے ہیں.سال کے شروع میں ایک شخص

Page 438

خطبات ناصر جلد اول ۴۲۲ خطبہ جمعہ ۷ /اکتوبر ۱۹۶۶ء خوب کما رہا ہوتا ہے اور اپنی آمد کے مطابق وہ اپنا وعدہ لکھواتا ہے لیکن بعد میں وہ حوادث زمانہ کی لپیٹ میں آجاتا ہے.اس کی آمد کم ہو جاتی ہے اور وہ مجبور ہو جاتا ہے کہ اپنے وعدہ کوملتوی کر دے کیونکہ مومن اپنے وعدہ کو منسوخ نہیں کرتا ہاں جب اسے حالات مجبور کر دیتے ہیں تو وہ اپنے وعدہ کو ملتوی کر دیتا ہے.اس نیت کے ساتھ کہ جب اللہ تعالیٰ اسے توفیق دے گا.تو وہ اپنے وعدہ کو ضرور پورا کر دے گا.ایسے ہی لوگوں کو بعد میں اللہ تعالیٰ توفیق بھی عطا کر دیتا ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کر دیں.لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ایک لاکھ ستر ہزار روپے (۱,۷۷٫۰۰۰) کا بجٹ تھا اور وعدے ابھی تک ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کے وصول ہوئے ہیں اور اس کے مقابلہ میں اس وقت تک صرف پچانوے ہزار روپے کی وصولی ہوئی ہے.حالانکہ سال رواں میں وقف جدید کے لئے ہمیں دو لاکھ یا اس سے زیادہ روپے کی ضرورت ہے.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک لاکھ ستر ہزار روپے میں ہمارا کام نہیں چلے گا.ہمیں کم از کم دولاکھ سوا دولاکھ روپے کی ضرورت ہوگی اور اس قدر رقم ہمیں ملنی چاہیے تا وہ عظیم اور نہایت ہی ضروری اور مفید کام جو وقف جدید کے سپرد کیا گیا ہے.کما حقہ، پورا کیا جا سکے.پس بجٹ جو مجلس شوری نے پاس کیا تھا اگر چہ وہ ایک لاکھ ستر ہزار روپے کا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کم از کم دو لاکھ روپیہ وصول ہونا چاہیے لیکن اس وقت جو وعدے وصول ہوئے ہیں وہ ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ کے ہیں.اس کے لئے ایک تو یہ ہونا چاہیے کہ جو دوست اس تحریک میں حصہ لے رہے ہیں وہ اپنے وعدوں پر دوبارہ غور کریں اور جماعت کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں اضافہ کریں اور پھر دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.دوسرے وہ دوست جنہوں نے ابھی تک وقف جدید کی مالی تحریک میں حصہ نہیں لیا انہیں اس تحریک کی اہمیت ذہن نشین کرنی چاہیے اور انہیں اس میں شامل ہونا چاہیے.تیسرے میں آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور

Page 439

خطبات ناصر جلد اول ۴۲۳ خطبہ جمعہ ۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بچو! اُٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پر کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہوگئی ہے.کل سے میں اس مسئلہ پر سوچ رہا تھا.میرا دل چاہا کہ جس طرح ہماری بہنیں بعض مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرتی ہیں اور سارا ثواب مردوں سے چھین کر اپنی جھولیوں میں بھر لیتی ہیں.وہ اپنے باپوں اپنے بھائیوں اپنے خاندوں اپنے دوسرے رشتہ داروں یا دوسرے احمدی بھائیوں کو اس بات سے محروم کر دیتی ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر میں مالی قربانی کر کے ثواب حاصل کر سکیں.اسی طرح اگر خدا تعالیٰ احمدی بچوں کو توفیق دے تو جماعت احمدیہ کے بچے وقف جدید کا سارا بوجھ اٹھا لیں لیکن چونکہ سال کا بڑا حصہ گزر چکا ہے اور مجھے ابھی اطفال الاحمدیہ کے صحیح اعداد وشمار بھی معلوم نہیں اس لئے میں نے سوچا کہ آج میں اطفال الاحمدیہ سے صرف یہ اپیل کروں کہ اس تحریک میں جتنے روپے کی ضرورت تھی اس میں تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں جو کمی رہ گئی ہے اس کا بار تم اٹھا لو اور پچاس ہزار روپیہ اس تحریک کے لئے جمع کرو.یہ صحیح ہے کہ بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں.جن کے بچوں کو مہینہ میں ایک دو آنے سے زیادہ رقم نہیں ملتی.لیکن یہ بھی صحیح ہے.کہ ہماری جماعت میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں.جن کے بچے کم و بیش آٹھ آنے ماہوار یا شائد اس سے بھی زیادہ رقم ضائع کر دیتے ہیں.چھوٹا بچہ شوق سے پیسے لے لیتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی قیمت کیا ہے.وہ پیسے مانگتا ہے اور اس کی ماں یا اس کا باپ اس کے ہاتھ میں پیسہ آنہ، دونی یا چونی دے دیتا ہے اور پھر وہ بچہ ا سے کہیں پھینک کر ضائع کر دیتا ہے.اگر مائیں ایسے چھوٹے بچوں کو وقتی خوشی کے سامان پہنچانے کے لئے پیسہ، آنہ، دونی، یا چونی دے دیں اور پھر انہیں ثواب پہنچانے کی خاطر تھوڑی دیر کے بعد ان سے وہی پیسہ ، آنہ دونی یا چونی وصول کر کے وقف جدید میں دیں اور اس طرح ان کے لئے ابدی خوشیوں کے حصول کے سامان پیدا کر دیں تو وہ بڑی ہی اچھی مائیں ہوں گی.اپنی اولاد کے حق میں.لیکن یہ تو چھوٹے بچے ہیں.جو اپنی عمر کے لحاظ سے ابھی اطفال الاحمدیہ میں شامل نہیں

Page 440

خطبات ناصر جلد اول ۴۲۴ خطبہ جمعہ ۷ /اکتوبر ۱۹۶۶ء ہوئے وہ بچے جو اپنی عمر کے لحاظ سے اطفال الاحمدیہ یا ناصرات الاحمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں.یعنی ان کی عمریں سات سے پندرہ سال تک کی ہیں.اگر وہ مہینہ میں ایک اٹھنی وقف جدید میں دیں تو جماعت کے سینکڑوں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن پر ان بچوں کی قربانی کے نتیجہ میں کوئی ایسا بار نہیں پڑے گا کہ وہ بھوکے رہنے لگ جائیں.رہے وہ غریب خاندان جن کے دلوں میں نیکی کرنے اور ثواب کمانے کی خواہش پیدا ہو.لیکن ان کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ ان کا ہر بچہ اس تحریک میں ایک اٹھنی ماہوار دے سکے.تو ان لوگوں کی خواہش کے منظر میں ان کے لئے یہ سہولت پیش کر دیتا ہوں کہ ایسے خاندان کے سارے بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں کہ اس طرح اس خاندان کے سارے بھائی اور بہنیں ثواب میں شریک ہو جا ئیں گی.لیکن یہ رعایت صرف ان خاندانوں کے لئے ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں لیکن باطنی اور ایمانی لحاظ سے ان کے دل روشن اور مضبوط ہیں اور ان کے بچوں کے دلوں میں یہ خواہش ہے کہ کاش ہماری مالی حالت ایسی ہوتی کہ ہم میں سے ہر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دے سکتا اور ہم ثواب سے محروم نہ رہتے ان کی ایسی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سہولت دی ہے کہ وہ سب بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں.اب سال کا بہت تھوڑا حصہ باقی رہ گیا ہے اگر احمدی بچے اس موقعہ پر پچاس ہزار روپیہ پیش کر دیں تو وہ دنیا میں ایک بہترین نمونہ قائم کرنے والے ہوں گے اور اس طرح ہماری وہ ضرورت پوری ہو جائے گی جو اس وقت اعلائے کلمتہ اللہ اور جماعت کی مضبوطی اس کی تربیت اور تعلیم کے نظام کو مستحکم کرنے کے لئے ہمارے سامنے ہے اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کے لئے ان کی نماز کی بلوغت سے پہلے نماز پڑھانے کی ہمیں تلقین کی ہے.اسی طرح ان مالی قربانیوں کے لئے جو فرض کے طور پر ایک احمدی پر عائد ہوتی ہیں اس فرض کے عائد ہونے سے پہلے ہمارے بچوں کی تربیت ہو جائے گی اور جب وہ فرض ان پر عائد ہو گا تو وہ خوشی اور بشاشت سے مالی جہاد میں شامل ہوں گے اور اس فرض کے ادا کرنے میں وہ کوئی کمزوری نہ دکھا ئیں گے کیونکہ ان کی طبیعتوں میں بچپن سے ہی یہ بات راسخ ہو چکی ہوگی کہ

Page 441

خطبات ناصر جلد اول ۴۲۵ خطبہ جمعہ ۷ /اکتوبر ۱۹۶۶ء جہاں ہم نے خدا اور رسول کے لئے دوسری قربانیاں کرنی ہیں.وہاں ہم نے خدا اور اس کے رسول کے لئے مالی قربانیاں بھی دینی ہیں.غرض ایک بچہ جب اٹھنی دے رہا ہوگا یا جب بعض خاندانوں کے سب بچے باہم مل کر ایک اٹھنی ماہوار وقف جدید میں دے رہے ہوں گے تو یہ ایک لحاظ سے ان کی تربیت ہوگی اس طرح ہم ان کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ کر رہے ہوں گے کہ جب خدا تعالیٰ کسی کو مال دیتا ہے تو وہ مال جو اس کی عطا ہے بشاشت سے اسی کی طرف لوٹادینا اور اس کے بدلہ میں ثواب اور اس کی رضا حاصل کرنا اس سے زیادہ اچھا سودا دنیا میں اور کوئی نہیں.پس اے احمدیت کے عزیز بچو! اٹھو اور اپنے ماں باپ کے پیچھے پڑ جاؤ اور ان سے کہو کہ ہمیں مفت میں ثواب مل رہا ہے.آپ ہمیں اس سے کیوں محروم کر رہے ہیں.آپ ایک اٹھنی ماہوار ہمیں دیں کہ ہم اس فوج میں شامل ہو جائیں.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور قربانی اور ایثار اور فدائیت اور صدق وصفا کے ذریعہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گی.تم اپنی زندگی میں ثواب لوٹتے رہے ہو اور ہم بچے اس سے محروم رہے ہیں.آج ثواب حاصل کرنے کا ایک دروازہ ہمارے لئے کھولا گیا ہے ہمیں چند پیسے دو کہ ہم اس دروازہ میں سے داخل ہو کر ثواب کو حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کی فوج کے ننھے منے سپاہی بن جائیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا کرے.( آمین ) روزنامه الفضل ربوه ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۶ صفحه ۲ تا ۵)

Page 442

Page 443

خطبات ناصر جلد اول ۴۲۷ خطبه جمعه ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۶ء ہمیں یقین ہے کہ ایک شمس کے بدلے اللہ تعالیٰ ہزاروں اور شمس عطا فر مائے گا خطبه جمعه فرموده ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان - وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ - (الرحمن : ۲۸،۲۷) اس کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو بیماریوں اور امراض کے لئے شفا قرار دیا ہے.یہ کتاب عظیم انسان کی اخلاقی بیماریوں کو بھی دور کرتی ہے اس کی روحانی بیماریوں کو بھی دور کرتی ہے اور ان زخموں کے لئے بھی جو انسان اپنی فطرت اور طبیعت کے تقاضا کے مطابق محسوس کرتا ہے اور اسے تکلیف پہنچاتے ہیں بطور پھا یہ کے کام آتی ہے.ہمیں کل اپنے ایک اچھے دوست پایہ کے عالم، خدا اور اس کے رسول کے عاشق اور احمدیت کے فدائی کی جدائی کا صدمہ پہنچا ہے اور فطرتاً ہمیں اس سے غم اور دکھ محسوس ہوتا ہے..لیکن ہم خدا تعالیٰ کی کتاب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اپنے رب سے تسکین حاصل کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان دو آیات میں جو میں نے ابھی پڑھی ہیں فرماتا ہے کہ كُل مَنْ عَلَيْهَا فَان - وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ

Page 444

خطبات ناصر جلد اول ۴۲۸ خطبه جمعه ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۶ء زمین پر ہر چیز جو پائی جاتی ہے وہ فنا ہونے والی ہے.سوائے ان باتوں اشیاء اور وجودوں کے جنہیں اللہ تعالیٰ باقی رکھنا چاہے وہ خدا ذو الجلال بھی ہے اور ذوالا کرام بھی ہے.ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی وقت میں اعلان فنا بھی کیا ہے اور اعلان بقا بھی کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کو کلیتاً فنا ہونے سے محفوظ رکھا ہے اور اس نے ان چیزوں کو اپنی مشیت کے ماتحت ایک بقا عطا کی ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے اور جو دو آیات میں نے پڑھی ہیں وہ بھی مختصراً اس کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ ایک تو انسان کی روح مرنے کے بعد بقا حاصل کرتی ہے اور دوسرے قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اعمال صالحہ کو بھی باقی رکھتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ ان دونوں آیات میں فرماتا ہے کہ ہر چیز جو اس دنیا میں ہے.آخر یہاں سے چلی جائے گی.نہ انسان یہاں رہے گا کہ وہ بھی فانی ہے اور نہ اس کے اعمال.جہاں تک مرنے والے کی ذات کا تعلق ہے اس دنیا میں باقی رہیں گے بلکہ وہ اعمال مرنے والے کے ساتھ ہی دوسرے جہاں میں لے جائے جائیں گے.كُلٌّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَ يَبْقَى وَجُهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ والاكرام - ہر چیز جو زمین پر پائی جاتی ہے فانی ہے.سوائے ان اشیاء اور وجودوں کے جنہیں خدا تعالی باقی رکھنا چاہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات کے ایک معنی تفسیر صغیر میں یہی کئے ہیں کہ اس سرزمین پر جو کوئی بھی ہے آخر ہلاک ہونے والا ہے اور صرف وہ بچتا ہے.جس کی طرف تیرے جلال اور عزت والے خدا کی توجہ ہو.پس وہ لوگ اپنے ان اعمال کے ساتھ جن کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم رکھنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بقا حاصل کرتے ہیں.یعنی ان کو بقا حاصل ہوتی ہے.جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں (جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے ) صاحب عزت وہی ہوتے ہیں جو صاحب تقویٰ ہوں جیسا کہ فرمایا.اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَنقُكُمُ (الحجرات : (۱۴) یعنی خدا تعالی کی نگاہ میں وہی عزت پاتے ہیں جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصولِ تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن ہوتے ہیں

Page 445

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۲۹ خطبه جمعه ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۶ء اور رضائے الہی کی باعزت جنتوں میں اللہ تعالیٰ ان کا ٹھکانہ بناتا ہے.پس یہاں ایک طرف یہ فرما یا کہ اس دنیا میں نہ کسی شخص نے باقی رہنا ہے اور نہ جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے اس کے اعمال نے باقی رہنا ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ یہاں کی زندگی کے خاتمہ کے ساتھ تم پر کلی فنا وارد نہیں ہوگی بلکہ تمہاری ارواح کو دوسرے اجسام دے کر ایک دوسری دنیا میں زندہ رکھا جائے گا.اس لئے بے فکر نہ ہونا یہ سمجھتے ہوئے کہ مرنے کے ساتھ تمہارا معاملہ خدا تعالیٰ سے کلینڈ کٹ چکا ہے وہ کٹا نہیں بلکہ اے انسانو اور اے آدم زادو! تمہارے ساتھ ہمارا واسطہ ابد تک قائم رہے گا.تمہاری ارواح کو ہم نے زندہ رکھنا ہے.یہ خدائے ذوالجلال اور ذ والا کرام کا فیصلہ ہے.وجه ربك “ کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ اعمال جو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر اور اس کی توجہ اور رضا کو جذب کرنے کے لئے بجالاتا ہے.تو یہاں یہ فرمایا کہ انسان کے تمام اعمال ہلاک کر دئے جاتے ہیں سوائے ان اعمال کے جن کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خواہش رکھتا ہو جو خالصہ خدا تعالیٰ کے لئے کئے گئے ہوں.اس کی رضا جوئی میں بجالائے گئے ہوں ایسے اعمال پر فتاوار نہیں ہوتی.جو اعمال ایسے نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان پر ہمارے منشا اور قانون کے مطابق فنا وارد ہو جاتی ہے ایسے اعمال کی فنا اور ان کے نیست و نابود کئے جانے کے متعلق جو باتیں ہمیں معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ایک تو خدا تعالیٰ ایسے اعمال کے بجالانے والوں کو اس دنیا میں ہی سزادے کر ان کے بعض اعمال کو باطل کر دیتا ہے.یعنی کچھ بد اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کو ان کی سزا اس دنیا میں ہی مل جاتی ہے اور اُخروی زندگی میں ان کی سزا پھر اسے نہیں ملتی.ہاں دوسرے ایسے بد اعمال کی سزا اسے اُخروی زندگی میں ملتی ہے جن کی سزا سے اس دنیا میں نہیں مل چکی ہوتی.دوسرے خدا تعالیٰ ایسے بدا اعمال کو اس طرح بھی ہلاک کرتا ہے کہ ان کا وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو ان کے بجالانے والے نکالنا چاہتے ہیں.مثلاً وہ اعمال جو خدا تعالیٰ کے رسول اور اس کے سلسلوں کو ہلاک کرنے اور انہیں مٹانے کے لئے منکرین بجالاتے ہیں.ان کو اللہ تعالیٰ بے نتیجہ کر دیتا ہے اور اس طرح ان معنوں کی رو سے ان پر ہلاکت اور فنا وارد ہو جاتی ہے.

Page 446

خطبات ناصر جلد اول ۴۳۰ خطبه جمعه ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۶ء تیسرا طریق ان بد اعمال کو فنا کرنے کا خدا تعالیٰ نے یہ رکھا ہے کہ وہ ان اعمال اور ان کے بجالانے والوں کو جہنم میں ڈال کر ان بداعمال کو فنا کر دیتا ہے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ اس میں کوئی انسانی روح نہیں رہے گی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسان چاہے وہ کتنے ہی گنہ گار کیوں نہ ہوں.چاہے وہ کتنے ہی خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والے کیوں نہ ہوں ان کے بد اعمال جہنم میں جا کر ایک وقت میں ہلاک اور فنا ہو جائیں گے.کیونکہ یہ بات تو ماننے کے قابل نہیں کہ بد اعمال فنا بھی نہ ہوں اور ان کے ساتھ ایک شخص کو ایک وقت تک جہنم میں رکھا جائے اور دوسرے وقت میں اسی شخص کو انہی بد اعمال کے ساتھ جنت میں لے جایا جائے.غرض جہنم بھی بد اعمال کی ہلاکت کا ایک ذریعہ ہے.اس کے مقابلہ میں وہ اعمال صالحہ جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جاتی ہے اور جنہیں فنا فی الرسول کے ذریعہ اور تقویٰ کی ان باریک راہوں پر گامزن ہو کر بجالایا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے.ان کی بقا کے بھی مختلف طریق ہیں.ذاتی طور پر اس شخص کے اعمال جو وفات پا جاتا ہے.جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے اس دنیا میں باقی نہیں رہتے اور اس طرح ان اعمال پر بھی اس فرد کے ساتھ ہی ایک فنا وار د ہو جاتی ہے.لیکن جس طرح اس کی روح کو زندہ رکھا جاتا ہے.اسی طرح ان نیک اعمال کو بھی اللہ تعالیٰ اس کے لئے زندہ رکھتا ہے اور صرف زندہ ہی نہیں رکھتا بلکہ انہیں بڑھاتا رہتا ہے.وہ ان سے بیج کا کام لیتا ہے اسی لئے جنت کی نعماء نہ ختم ہونے والی ہیں.جیسا کہ فرمایا.عطَاء غَيْرَ مَجْنُون (هود : ١٠٩) یعنی ان نعماء پر کبھی فناوار نہیں ہوتی وہ باقی رہتی ہیں اور باقی رہیں گی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمان باغوں کی شکل میں اور اعمال صالحہ نہروں کی شکل میں اُخروی زندگی میں باقی رکھے جاتے ہیں.یعنی وہ افراد جن کی روحوں کو خدا تعالیٰ نے اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کیا.ان کی روحوں کے ساتھ ان کے اعمالِ صالحہ بھی باقی رکھے جاتے ہیں جن سے وہ ابد الآباد تک فائدہ حاصل کرتے رہیں گے.

Page 447

خطبات ناصر جلد اول ۴۳۱ خطبه جمعه ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۶ء اعمالِ صالحہ کی بقا کا دوسرا طریق جو ہمیں اسلام میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی الہی سلسلہ کو قائم کرتا ہے اس لئے کہ وہ اس کی عظمت اور اس کے جلال کو قائم کرے تو اس برگزیدہ جماعت کو بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا ہونے کی وجہ سے اس دنیا میں بھی ایک لمبا عرصہ عزت کی زندگی عطا کی جاتی ہے اور صالحین کا بدل پیدا کر کے ان اعمالِ صالحہ کو اس وقت تک کہ اس قوم اور سلسلہ کی ہلاکت کا وقت آ جائے انہیں قومی بقا عطا کرتا ہے.غرض يبقى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالاِکرَامِ وہ اعمال جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر کئے جاتے ہیں جن میں غیر کی ملونی نہیں ہوتی.جنہیں انسان بے نفس ہو کر اپنے اوپر عجز انکسار نیستی اور فنا طاری کر کے خود کو کچھ نہ سمجھ کر بلکہ اپنے رب کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوئے.اس کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش اور مجاہدہ کر کے بجالاتا ہے انہیں اس رنگ میں اس قوم میں باقی رکھا جاتا ہے کہ جب اس کے بعض افراد اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو ان کے بعض قائم مقام کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس قوم میں ان اعمالِ صالحہ کا ایک لمبا سلسلہ قائم کر دیتا ہے.ہمارے جو بھائی کل ہم سے جدا ہوئے ہیں ان کا مقام اسی معنی میں جماعت میں قائم مقام کے طور پر بھی تھا.یعنی جب بعض بزرگ تر ہستیاں جماعت سے جدا ہو ئیں تو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جماعت میں ایسے لوگوں کو کھڑا کر دیا کہ جنہیں گومرنے والوں کی زندگی میں وہ مقام وجاہت ، مرتبہ اور علم حاصل نہ تھا جو مرنے والوں کا تھا.لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے انہیں پہلوں کا سا مقام و جاہت مرتبہ اور علم دے دیا.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں.” حافظ روشن علی صاحب مرحوم.میر محمد اسحاق صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب..ان میں سے ایک کتابوں کے حوالے یا درکھنے کی وجہ سے اور باقی دو اپنے مباحثوں کی وجہ سے جماعت میں اتنے مقبول ہوئے کہ مجھے یاد ہے اس وقت ہمیشہ جماعتیں یہ لکھا کرتی تھیں کہ اگر حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد اسحاق صاحب نہ آئے تو ہمارا کام نہیں چلے گا.حالانکہ چند مہینے پہلے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زندگی میں انہیں کوئی خاص عزت حاصل نہیں تھی.

Page 448

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۳۲ خطبه جمعه ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۶ء میر محمد اسحاق صاحب کو تو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور حافظ روشن علی صاحب گو جماعتوں کے جلسوں پر آنے جانے لگ گئے تھے مگر لوگ زیادہ تر یہی سمجھتے تھے کہ ایک نوجوان ہے جسے دین کا شوق ہے اور وہ تقریروں میں مشق پیدا کرنے کے لئے آجاتا ہے مگر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد چند دنوں میں ہی انہیں خدا تعالیٰ نے وہ عزت اور رعب بخشا کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ ان کے بغیر اب کوئی جلسہ کامیاب ہی نہیں ہوسکتا.پھر کچھ عرصہ کے بعد جب ادھر میر محمد اسحاق صاحب کو نظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہو گئی.اور ادھر حافظ روشن علی صاحب وفات پاگئے تو کیا اس وقت بھی کوئی رخنہ پڑا؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کر دیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں.پس الہی سلسلے اپنے بزرگوں کے وصال کے بعد ان سے جدا ہو کر صدمہ اور غم تو محسوس کرتے ہیں لیکن یہ درست نہیں ( اگر کوئی ناسمجھ خیال کرے ) کہ کسی جانے والے کے بعد اس کی وجہ سے الہی سلسلے کے کام میں کوئی رخنہ پیدا ہو سکتا ہے یا رخنہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ اپنے قائم کردہ سلسلہ کو بقا اور زندگی عطا کرنا چاہتا ہے.اس وقت تک ایک شخص کے اعمال پر فنا وارد کرنے کے بعد وہ دوسرے افراد کھڑے کر دیتا ہے جو اسی قسم کے اعمالِ صالحہ بجالاتے ہیں اور اپنے لئے اور جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوتے ہیں.ہمارے بزرگ ہمارے بھائی ہمارے دوست مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس ہم سے جدا ہوئے.خدا کی رضا کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی کو گزارا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی وفات کے بعد خدا تعالیٰ کی ابدی رضا کو حاصل کیا.ان کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ خود اس سلسلہ میں ایسے آدمی کھڑے کرے گا جو اسی خلوص کے ساتھ اور جو اسی جذ بہ فدائیت کے ساتھ اور جو اسی نور علم کے ساتھ جو اسی روشنی فراست کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کرنے والے ہوں گے جس کے ساتھ مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس نے سلسلہ کی خدمت کی تھی.کیونکہ خدا تعالیٰ کا سلوک ہمارے ساتھ ایسا ہی چلا آیا ہے.اللہ تعالیٰ کی ابھی یہ منشا نہیں اور خدا کرے

Page 449

خطبات ناصر جلد اول ۴۳۳ خطبه جمعه ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۶ء کہ اس کی کبھی یہ منشا نہ ہو کہ وہ اس جماعت کو ہلاک اور تباہ کر دے کیونکہ اس سلسلہ نے جسے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے ابھی وہ کام پورے نہیں کئے جو اس کے سپرد کئے گئے تھے ابھی غیر مذاہب کے ساتھ عظیم جنگ جاری ہے.عیسائیوں، یہودیوں ، ہندوؤں ، لا مذہب اور بد مذہب اقوام کے خلاف روحانی جنگ ہو رہی ہے اور اس جنگ میں ابھی ہمیں آخری فتح حاصل نہیں ہوئی.ہماری جماعت کے پھیلاؤ کے ساتھ اور ہماری بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ پہلے سے زیادہ اہل اور اس کی رضا میں محو ہونے والے اور اس کے نور سے حصہ لینے والے ایسے جرنیل پیدا کرتا چلا جائے گا جو اسلام کی اس فوج کو بہترین قیادت عطا کریں گے.ان کو آخری کامیابی کی طرف درجہ بدرجہ نہایت خاموشی کے ساتھ ( کہ جہاں تک ان کے نفوس کا تعلق ہے ایسے نفوس بے نفس ہوتے ہیں ) اور عظیم شان کے ساتھ ( جو جہاں تک نتائج کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ایسے بندوں کو عطا کرتا ہے.) اس فوج کو اسلام کی آخری فتح کی طرف لے جانے والے ہوں گے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.پس ہمارے دل اپنے ایک دوست کی جدائی کی وجہ سے بے شک دکھی ہیں کیونکہ انسان کی فطرت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ جانے والے کے فراق کے نتیجہ میں دکھ محسوس کرتا ہے لیکن جہاں تک سلسلہ احمدیہ کا تعلق ہے ایک شمس غروب ہوا تو اللہ تعالیٰ ہزاروں شمس اس پر چڑھائے گا.اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس جماعت کو اس وقت تک حاصل ہوتا رہے گا جب تک یہ جماعت اور اس کے افراد اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکتوں اور اس کی رحمتوں کے حصول کے اہل بنائے رکھیں گے.وہ قربانیاں دیتے رہیں گے اور ایثار کا نمونہ دکھاتے رہیں گے جو صحابہ نے خدا تعالیٰ اور اس کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دکھایا تھا.غرض ہم دکھی بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے والے بھی ہیں کہ وہ سلسلہ کے کاموں میں کوئی رخنہ نہیں پڑنے دے گا جس کے نتیجہ میں یہ جماعت کمزور ہو.جیسا کہ سلسلہ کے پہلے جانے والے بزرگوں کے بعد اس نے شمس صاحب جیسے آدمی کھڑے کر دیئے.اسی طرح وہ شمس صاحب کے جانے کے بعد شمس صاحب جیسے آدمی کھڑے کر دے گا.

Page 450

خطبات ناصر جلد اول ۴۳۴ خطبه جمعه ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۶ء مکرم شمس صاحب نے جو خدمات سلسلہ کی کی ہیں ان کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں بڑی قدر تھی.چنانچہ جب شمس صاحب انگلستان سے واپس تشریف لائے تو حضور نے اس پیشگوئی کہ سورج مغرب سے طلوع کرے گا کا ایک بطن آپ کو بھی قرار دیا.آپ نے فرمایا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی مغرب سے طلوع شمس کا ایک بطن اس وقت شمس صاحب کے ذریعہ پورا ہوا جبکہ وہ مغرب سے آئے.کیونکہ صحیح معنی اس پیشگوئی کے یہ تھے کہ مغربی اقوام جو ہیں وہ اسلام کی حقانیت اور ا صداقت کا عرفان حاصل کریں گی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آنا اپنے لئے عزت کا باعث سمجھیں گی.پس اس کوشش میں جو بھی حصہ لیتا ہے وہ اسی شمس کا ایک حصہ ہے.ایک ظل ہے ایک پر تو ہے.جس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مغرب سے چڑھے گا.غرض جب آپ انگلستان سے واپس آئے تو چونکہ وہی کام آپ نے وہاں کیا تھا.جو اس پیشگوئی میں درج ہے.اس لئے حضور نے فرمایا.کہ اس کا ایک بطن شمس صاحب کا مغرب میں قیام اور وہاں سے واپس آنا بھی ہے.پھر شمس صاحب کے سپر د جب تصنیف و اشاعت کا کام کیا گیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے اس پرخوشنودی کا اظہار فرمایا.اور فرمایا پھر تصنیف واشاعت کا محکمہ ہے.یہ کام نیا شروع ہوا ہے.لیکن ایک حد تک اس کی اٹھان بہت مبارک ہے.شمس صاحب نے اس کام میں جان ڈال دی ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے زندہ ہو.وہ ہر اس کام میں زندگی پیدا کر دیتا ہے.جسے وہ خدا تعالیٰ کے نام پر اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے شروع کرتا ہے.پھر شمس صاحب کو حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ” خالد “ کا خطاب بھی دیا.حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ ء کی تقریر میں فرمایا:.’ایک بات میں یہ کہنی چاہتا تھا کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے خلاف جب

Page 451

خطبات ناصر جلد اول ۴۳۵ خطبه جمعه ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۶ء حملے ہوئے تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ مغرور مت ہو.میرے پاس خالد ہیں جو تمہارا سر توڑیں گے.مگر اس وقت سوائے میرے کوئی خالد نہیں تھا.صرف میں ایک شخص تھا.چنانچہ پرانی تاریخ نکال کر دیکھ لو.صرف میں ہی ایک شخص تھا.جس نے آپ کی طرف سے دفاع کیا اور پیغامیوں کا مقابلہ کیا اور ان سے چالیس سال گالیاں سنیں.لیکن باوجود اس کے کہ ایک شخص ان کی طرف سے دفاع کرنے والا تھا.پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان میں برکت دی.اور ہزاروں ہزار آدمی مبائعین میں آکر شامل ہو گئے.جیسا کہ آج کا جلسہ ظاہر کر رہا ہے.مگر یہ نہ سمجھو.کہ اب وہ خالد نہیں ہیں اب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں.چنانچہ شمس صاحب ہیں.مولوی ابو العطاء ہیں عبد الرحمن صاحب خادم ہیں.یہ لوگ ایسے ہیں.کہ جو دشمن کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور دیں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ ان کی قلم میں اور ان کے کلام میں زیادہ سے زیادہ برکت دے گا.“ اب ان تین دوستوں میں سے جنہیں اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خالد قرار دیا تھا.دو اپنے رب کو پیارے ہو چکے ہیں.تیسرے کی زندگی اور عمر میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور لمبا عرصہ انہیں خدمت دین کی توفیق عطا کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے یہ مقدر کرے کہ وہ بے نفس ہو کر اور دنیا کی تمام ملونیوں سے پاک ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے وقت کو اور اپنے علم کو اور اپنی قوتوں کو خرچ کرنے والے ہوں.دوستوں کو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ جماعت میں صرف تین خالد تھے.جن میں سے دو وفات پاچکے ہیں.اب کیا ہو گا خدا تعالیٰ کا ہمارے ساتھ یہی طریق رہا ہے کہ جب ہم میں سے ایک شخص جاتا ہے تو ہمیں اس کی جگہ ایک نہیں ملتا.بلکہ دو، پانچ یا دس آدمی اس کے مقابلہ میں وہ ہمیں عطا کرتا ہے.اس کی نعمتوں کے خزانے غیر محدود ہیں اور ضرورت حقہ کے مطابق وہ اپنی قدرتوں اور اپنی طاقتوں سے اتنے آدمی پیدا کر دیتا ہے.جتنے آدمیوں کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے جماعت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بہت سے نئے خالد پیدا کرنے

Page 452

خطبات ناصر جلد اول ۴۳۶ خطبه جمعه ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۶ء ہیں ہمارے لئے سوچنے اور غور کرنے کا یہ مقام ہے اور ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کر کے ہمیں اس گروہ میں شامل کرے.جو خالد بننے والے ہیں.جو اس کی نگاہ میں خالد قرار دیئے جانے والے ہیں اور جو اس کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے والے ہیں.جن کی تقریروں اور تحریروں میں خدا تعالیٰ اپنے فضل سے برکت دینے والا ہے جن کی تقریروں اور تحریروں سے دنیا فیض حاصل کرنے والی ہے.دنیا سکون حاصل کرنے والی ہے دنیا ان راہوں کا عرفان حاصل کرنے والی ہے.جو راہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہیں جانے والا ہمیں بہت پیارا تھا لیکن جس نے اسے بلا یاوہ ہمیں سب دنیا سے زیادہ پیارا ہے ہم اس کی رضا پر راضی ہیں اور ہم اس پر کامل تو کل اور بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے اس جانے والے بھائی سے پیار اور محبت کا سلوک کرے گا اور اس سے یہ امید رکھتے ہیں کہ جب ہماری باری آئے اور ہمیں اس طرف سے بلاوا آئے.تو وہ ہم سے بھی محبت اور پیار کا سلوک کرے گا.پھر ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت میں ہزاروں مخلص نوجوان پیدا کرتا چلا جائے کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں تو ان کے ساتھ بھی وہی محبت پیار کا سلوک ہو جو محبت اور پیار کا سلوک شمس صاحب کو ملا.جو محبت اور پیار کا سلوک میر محمد اسحاق صاحب کو ملا جو محبت اور پیار کا سلوک حافظ روشن علی صاحب کو ملا اور جو محبت اور پیار کا سلوک مولوی عبدالکریم صاحب کو ملا.رِضْوَانَ اللَّهِ عَلَيْهِمْ - اَللَّهُمَّ آمِيْن - روزنامه الفضل ربوه ۱۹ / اکتوبر ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۵) 谢谢谢

Page 453

خطبات ناصر جلد اول ۴۳۷ خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۶ء دنیا کی سیاست، دنیا کی وجاہتوں اور عزتوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے خطبه جمعه فرموده ۲۱ /اکتوبر ۱۹۶۶ ء مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مجھے چار پانچ روز سے بخار جسم میں درد اور سر درد کی شکایت رہی ہے آج پہلا دن ہے کہ حرارت قریباً نارمل ہے.ورنہ اگر صبح کے وقت حرارت نارمل ہوتی تھی تو دو تین گھنٹہ کے بعد دوبارہ حرارت ہو جاتی.اس وقت بھی میں شدید ضعف محسوس کر رہا ہوں لیکن چونکہ ہمارے نوجوان دوست باہر سے بھی آج یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خواہ چند فقرے ہی میں کیوں نہ کہوں خطبہ جمعہ خود جا کے پڑھاؤں.اللہ تعالیٰ جب اپنے سلسلہ کو قائم کرتا ہے تو اس کی فتح کے لئے ایک طرف اسے دلائل و براہین کے ہتھیار دیتا ہے اور دوسری طرف آسمانی تائیدیں اور نصرتیں معجزانہ رنگ میں اس کے لئے نازل فرماتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے جسموں کو فتح کرنے کے لئے قائم نہیں کئے جاتے بلکہ دلوں اور روحوں کو فتح کرنے کے لئے قائم کئے جاتے ہیں اور دل اور روح دلیل اور معجزہ کے ساتھ ہی فتح کیا جا سکتا ہے نہ کہ کسی مادی ہتھیار سے، لیکن جب منکرین سلسلہ الہیہ ان دلائل کے سامنے لا جواب ہو جاتے ہیں اور ان معجزات اور تائیدات اور نصرتوں کو دیکھ کر ان سے کچھ

Page 454

خطبات ناصر جلد اول ۴۳۸ خطبه جمعه ۲۱/اکتوبر ۱۹۶۶ء بن نہیں آتا تو وہ پھر یہ حربہ استعمال کرتے ہیں کہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ الہی سلسلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت ہے جو دنیوی اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے.اس طرح پر وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ ان دلائل اور ان براہین اور ان تائیدات سماوی اور ان نفرتوں اور معجزات سے دنیا کی توجہ کو ہٹا دیں جو اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کے لئے آسمان سے نازل کرتا ہے.آج کل بھی کچھ لوگ کھڑے ہوئے ہیں جو اپنی تقاریر میں یا بعض اخبارات میں پہلے سے بھی زیادہ یہ شور مچارہے ہیں کہ جماعت احمد یہ ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ دنیا پر یا پاکستان پر اپنا سیاسی اقتدار قائم کرے.ایسے لوگوں کو ہمیں دلیل کے ساتھ بھی اور نمونہ کے ساتھ بھی یہ بتا دینا چاہیے کہ ہم ہرگز کوئی سیاسی جماعت نہیں ہیں.دنیا کی محبت اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں ٹھنڈی کر دی ہے اور دنیا کی وجاہتیں اور دنیا کے اقتدار اور دنیا کی عزتیں ہماری نگاہ میں اتنی بھی قدر اور حیثیت نہیں رکھتیں جتنی کہ ایک ٹوٹی ہوئی جوتی اس آدمی کی نگاہ میں قدر رکھتی ہے جو اسے پھینک دیتا ہے اور اس کی بجائے نئی خرید لیتا ہے.پس دنیا سے، دنیا کی سیاست سے، دنیا کی وجاہتوں اور عزتوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے.ہمیں اگر دلچسپی ہے تو صرف اس بات سے کہ گھر گھر اللہ تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا لہرانے لگے.دل دل میں اسلامی تعلیم گھر کر جائے اور روح ، روح محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں مست رہ کر اپنی زندگی کی گھڑیاں گزارنے لگے.یہ ہے ہمارے قیام کی غرض اور یہ ہے ہماری زندگی کا مقصد ! چونکہ اس راہ میں جو دلائل اور تائیدات ہمیں دیئے گئے ہیں ان کا جواب نہ رکھتے ہوئے ہم سے دنیا کی توجہ کو ہٹانے کی خاطر ہمارا مخالف اور منکر ہم پر الزام لگا تا ہے کہ یہ لوگ دنیا کی وجاہت اور اقتدار کے بھوکے ہیں.دراصل مذہب سے انہیں کوئی سروکار نہیں.اس لئے ان کے مقابلہ کے لئے اور ان کو جواب دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دلیل بھی سکھائی اور معجزہ بھی عطا فرمایا ہے اور وہ معجزہ ہے نمونہ بن کر اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا.اگر ہم اپنی زندگیوں کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے خرچ کر رہے ہوں.اگر ہم

Page 455

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۳۹ خطبه جمعه ۲۱/اکتوبر ۱۹۶۶ء اسلام کی تعلیم کی اشاعت کے لئے اپنے جسموں کی بھی اور اپنے اموال کی بھی قربانی دے رہے ہوں.اگر ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے قیام کی خاطر آپ کے اُسوہ پر عمل کرتے ہوئے ، آپ کی نہایت ہی حسین اور خوبصورت عکسی تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوں.تو یہ لوگ بھی اگر ظاہر میں نہیں تو دل میں ضرور شرمندہ ہوں گے کہ جنہیں ہم دنیا کا بھوکا کہتے تھے وہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام نکلے، جنہیں ہم دنیا کی عزتوں کے پیچھے دوڑنے والے قرار دیتے تھے.وہ تو اسلام کی عزت قائم کرنے کے لئے اپنی ساری عزتیں قربان کر رہے ہیں.تو یہ عملی جواب ہو گا جو ان لوگوں کو دیا جا سکتا ہے اور یہی عملی جواب ہے جس کی طرف میں اپنے بھائیوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اعتراض ہوتے رہے ہیں اعتراض ہو رہے ہیں اور اعتراض ہوتے رہیں گے.لیکن زبانی دعوؤں کے مقابلہ میں جس طرح براہین اور دلائل مضبوط چٹان کی طرح قائم رہتے ہیں اور زبانی دعوے انہیں تو ڑ نہیں سکتے.اسی طرح ان اعتراضوں کے جواب میں اگر تم خدا تعالیٰ کے لئے جاں نثاری اور عاجزی کی راہوں کو اختیار کرو گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر آپ کے اسوہ کو اپناؤ گے اور اپنی زندگیاں انہی نقوش پر ڈھالو گے تو منکر بھی مخالف بھی ، معترض بھی شرمندہ ہو گا اور دنیا بھی حقیقت اور صداقت کو پالے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۶/اکتوبر ۱۹۶۶ ء صفحه ۳،۲)

Page 456

Page 457

خطبات ناصر جلد اول ۴۴۱ خطبه جمعه ۲۸/اکتوبر ۱۹۶۶ء تحریک جدید کے تمام مطالبات قرآن مجید کے پیش کردہ مطالبہ جہاد کی ہی مختلف شقیں ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور پرنور نے یہ دو آیہ کریمہ پڑھیں :.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ - تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كنتم تعلمون - (الصف : ۱۱ ، ۱۲) اور پھر فرمایا:.آج میں تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.مالی قربانیوں کے لحاظ سے تحریک جدید کے اس وقت تین حصے ہیں اور وہ تین دفتر کہلاتے ہیں.دفتر اول، دفتر دوم اور دفتر سوم، دفتر اول کا بتیسواں سال جا رہا ہے.دفتر دوم کا بائیسواں سال جارہا ہے.اور دفتر سوم کا پہلا سال جارہا ہے.تحریک جدید کے بہت سے مطالبات ہیں.جن کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۱۹۳۴ء میں پانچ چھ خطبات دیئے.اگر آپ ان خطبات کا مطالعہ کریں تو آپ جان لیں گے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں ایک نہایت ہی اہم اور دور رس سکیم تھی.جس کی اہمیت بتاتے ہوئے بھی حضور نے غالباً دو یا اس سے زائد خطبات دیئے تھے میں نے

Page 458

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۴۲ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء گزشتہ دنوں ان خطبات کو دوبارہ پڑھا اور ان پر غور کیا تو میری توجہ اس طرف گئی کہ تمام مطالبات جو تحریک جدید کے ضمن میں اس سکیم کے ماتحت آپ نے جماعت احمدیہ سے کئے ہیں.وہ سارے کے سارے قرآن مجید کے پیش کردہ مطالبہ جہاد کی مختلف شقیں ہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اے وہ لوگو! جو دعوے کرتے ہو کہ ہم خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس تعلیم پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف لائے ہیں.ایمان لاتے ہیں.آؤ میں ایسی تجارت کی نشان دہی کروں کہ اگر تم یہ سودا اپنے رب سے کر لو.تو تم اس عذاب الیم سے بیچ جاؤ گے، جو ان لوگوں کے لئے مقدر ہے جو اس قسم کا سودا اور اس قسم کی تجارت اپنے پیدا کرنے والے سے نہیں کرتے فرمایا.تُؤْمِنُونَ بِاللہ ایک تو یہ کہ تم اپنے دل اور زبان اور اپنی کوششوں سے یہ ثابت کرو کہ تم واقعہ میں ایمان لائے ہو.یہ تمہارا محض ایک کھوکھلا اور زبانی دعوئی ہی نہیں ہے.اور اس کے ساتھ یہ کہ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِیلِ اللهِ تم اللہ کے راستہ میں جہاد کرو.اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جہاد اور مجاہدہ کرو.سبیل اس راہ کو کہتے ہیں جو کسی خاص جگہ پر پہنچانے والی ہو.تو سبیل اللہ وہ راستہ ہے.جو خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتا ہے.وہ راہ جو خدا تعالیٰ کا مقرب بنادیتی ہے.وہ راہ جو خدا کی رضا کے حصول میں ممد و معاون ہے وہ راہ جس کے آخر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت انسان کو مل جاتی ہے اور پھر انسان بھی اپنے تمام دل، اپنی تمام روح اور اپنے تمام حواس کے ساتھ اپنے مولے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.بلکہ اس کے روئیں روئیں سے اپنے رب کی محبت پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہوتی ہے.تو اس آیت میں یہ فرمایا کہ جس تجارت کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں اور جس کی طرف تمہاری راہنمائی کرتا ہوں.وہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے اپنی جانوں کو مجاہدہ میں ڈالو اور تمہارا یہ مجاہدہ اور تمہارا یہ جہاد اموال کے ذریعہ سے بھی ہو اور تمہارے نفسوس کے ذریعہ سے بھی ہو ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ اور اگر تمہیں حقیقت کا علم ہو جائے تو تم سمجھ جاؤ کہ دراصل اسی چیز میں تمہاری بھلائی ہے.اس خیر لکم کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت ۲۱۹ میں یوں فرمائی ہے.

Page 459

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۴۳ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ الَّذِيْنَ هَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أُولَبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیم کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے مجاہدہ کیا اس رنگ میں کہ انہوں نے خواہشات نفسانی کو خدا تعالیٰ کی خاطر چھوڑا.اس رنگ میں کہ انہوں نے اپنے پیدا کرنے والے کی خوشنودی کے حصول کے لئے گناہوں سے اجتناب کیا.( هَاجَرُوا ) اور انہوں نے اپنے ماحول، اپنے املاک (اپنی جائدادوں ) اپنے کنبہ اور اپنے شہر اور اپنے علاقہ کو خدا تعالیٰ کی خاطر ترک کیا اور خدا تعالیٰ کی رضاء کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے گئے.وَجهَدُوا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے نیکی کے راستوں پر شوق اور بشاشت کے ساتھ قدم مارا - أوليكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ الله یہی وہ لوگ ہیں جو امید رکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت انہیں حاصل ہو جائے گی.أولبِكَ يَرْجُونَ رَحمت اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھ سکتے ہیں.یہ نہیں فرما یا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت انہیں ضرور مل جائے گی.پھر اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ جو شخص بدیوں کو ترک نہیں کرتا اور نیکیوں کو اختیار نہیں کرتا.وہ یہ امید نہیں رکھ سکتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے رحمت کے ساتھ سلوک کرے گا.یہ امید کہ میرا رب میرے ساتھ رحمت کا سلوک کرے گا وہی رکھ سکتا ہے جو بدیوں کو ترک کرتا اور نیکی کی راہوں کو اختیار کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا کہ جب تم بدیوں کو ترک کر کے اور نیکیوں کو اختیار کر کے میری رحمت کے امیدوار بن جاؤ گے تو پھر میں اپنے فضل کے ساتھ حقیقتا اور واقعتا تمہیں اپنی رحمت عطا کر دوں گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ میں فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ ز يُحِبُّونَةٌ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لايم ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ - (المائدة : ۵۵) فرمایا کہ بعض انسان تو ایمان لانے کے بعد ارتداد اختیار کر جاتے ہیں اور بعض ایمان لاتے اور پھر پختگی اور استقلال اور فدائیت کے ساتھ اس پر قائم ہو جاتے ہیں.

Page 460

خطبات ناصر جلد اول ۴۴۴ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء وہ لوگ جو استقلال کے ساتھ نیکیوں پر مداومت اختیار کرتے ہیں.ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ کہ وہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے اور اس کی رضا پر راضی رہتے ہیں.پھر فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مومنوں پر شفقت کرنے والے ہیں ( ہر مومن تمام دوسرے مومنوں کے آگے بچھتا چلا جاتا ہے) یہ وہ لوگ ہیں آعِزَّةٍ عَلَى الكَفِرِينَ جو کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں.جب کافر اچھے لوہے کی تلوار میں لے کر ان کے مقابلہ پر آتے ہیں تو ان کی ٹوٹی ہوئی خراب اور نا قابل اعتبار لوہے کی بنی ہوئیں تلوار میں بھی ان کافروں کی تلواروں کے مقابلہ میں محض خدا تعالیٰ کے فضل سے عملاً سخت نظر آتی ہیں.کیونکہ ان کی کاٹ زیادہ نظر آتی ہے.اسی طرح جب یہ لوگ دلائل حقہ کے ساتھ کافروں کے باطل عقائد اور ان باطل عقائد کے حق میں باطل دلائل کا مقابلہ کرتے ہیں تو ان کے منہ بند کر دیتے ہیں اور جب کافر لوگ مختلف قسم کی رسوم اور بدعات کے ذریعہ اور مختلف قسم کی لالچ دے کر ان کو راہ صداقت سے ہٹانا چاہتے ہیں تو یہ لوگ ان کا اثر قبول نہیں کرتے (آعِزّة عَلَى الْكَفِرِينَ ) فرما یا کہ ہم جو ایسے گروہ سے محبت کا سلوک کرتے ہیں تو اسی لئے کہ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللہ.یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی پوری طاقت اور پوری قوت اور اپنے پورے وسائل اور تمام تدابیر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں.اس کے راستہ میں مجاہدہ کرنے والے ہوتے ہیں.وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لابھ اور کسی موقع پر بھی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف ان کے دل میں پیدا نہیں ہوتا وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ ہماری برادری کیا کہے گی وہ صرف یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا رب کیا کہے گا.ان کے دلوں میں یہ خوف پیدا نہیں ہوتا کہ جس ماحول میں ہم رہ رہے ہیں اس میں ہم نے خدا کے بتائے ہوئے طریق کے خلاف رسوم کو ادا نہ کیا.تو ہمارا ناک کٹ جائے گا کیونکہ وہ اس یقین پر قائم ہوتے ہیں کہ ناک کا کٹنا یا ناک کا رکھنا محض اللہ تعالیٰ کے

Page 461

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۴۵ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء فضل پر منحصر ہے اور ساری عزتیں اسی کی طرف منسوب ہوتی ہیں.وہی تمام عزتوں کا سرچشمہ ہے تو فرمایا وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَابِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاء پہلے فرمایا تھا کہ تم امید رکھ سکتے ہو کہ پھر تمہارا خدا تم سے محبت کرنے لگے گا.اب یہاں یہ وضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ جو ان سے عملاً محبت کرنے لگ جاتا ہے تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے بظاہر بدیوں کو چھوڑا اور بظاہر نیکیوں کو اختیار کیا بلکہ چونکہ ہر انسان کے اعمال اور خیالات میں کچھ چھپی ہوئی بُرائیاں اور کمزوریاں رہ جاتی ہیں اس لئے کوئی شخص یہ امید نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی اسلامی تعلیم کے مطابق اسے ایسی امید رکھنی چاہیے کہ وہ محض اپنے اعمال یا اچھے خیالات یا اچھی زبان کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو ضرور حاصل کرے گا یہ تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے.يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ اور وہ اپنی محبت کی خلعت سے صرف اسے ہی نوازتا ہے.جو اس کی نگاہ میں پسندیدہ ہوتا ہے.( مَنْ يَشَاءُ ) اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک اور بات بھی بتائی وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ چونکہ اللہ تعالی علم غیب رکھتا ہے اس لئے جب وہ چاہتا ہے.اپنی صفت واسع کا اظہار کرتا ہے.پس یہاں یہ امید دلائی کہ یہ مقام قرب ورضاء جس کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے اس کی کوئی انتہاء نہیں.ہر مقام قرب کے بعد قرب کا ایک اور مقام بھی ہے.کیونکہ انسان کسی شکل میں ہی کیوں نہ ہو.اس مادی دنیا میں مادی جسم کے ساتھ یا اس اُخروی زندگی میں ایک روحانی جسم کے ساتھ اس کے اور اس کے رب کے درمیان غیر محدود فاصلے ہیں.یعنی قرب ایک نسبتی چیز ہے اور اگر انسان قرب کی راہیں ابدی طور پر ہر آن طے کرتا چلا جائے تب بھی وہ خدا کے قرب کا آخری مقام حاصل نہیں کر سکتا جس کے اوپر کوئی اور مقام قرب نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی ذات تو بڑی ہی ارفع ہے.بلندی کے بعد بلندی انسان کو حاصل ہوتی رہتی ہے اور خوش قسمت انسانوں کو حاصل ہوتی رہے گی.لیکن یہ فاصلے غیر محدود ہیں اور قرب کی غیر محدودرا ہیں کھولتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے والله واسع کہ جس پر وہ نگاہ رضا ڈالتا ہے اس کو اس کی محبت حاصل ہو جاتی ہے.یہ مقام رضا ایسا ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں.پھر عاجزانہ دعائیں اس کی محبت میں

Page 462

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۴۶ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء اضافہ کرتی چلی جاتی ہیں اور مزید فضل اور بخشش کا اسے وارث قرار دیتی ہیں.پھر جب وہ مزید فضل اور بخشش کا وارث بنتا ہے.تو اللہ تعالیٰ کا پہلے سے بھی زیادہ شکر گزار بندہ بن جاتا ہے اور جب وہ پہلے سے زیادہ شکر گزار بندہ بنتا ہے تو اللہ تعالیٰ پہلے سے بھی زیادہ اس سے محبت کا سلوک کرنے لگ جاتا ہے.جب وہ دیکھتا ہے کہ خدا مجھ سے پہلے سے بھی زیادہ محبت کا سلوک کر رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اور بھی زیادہ جھک جاتا ہے اور اس طرح ایک تسلسل قائم ہو جاتا ہے اور ہر آن بندہ خدائے واسع کی صفت واسع کا مشاہدہ کرتا چلا جاتا ہے.پس فرمایا کہ مجاہدہ کرو پھر فرمایا کہ تم مجاہدہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اس صورت میں صرف امیدوار ہو سکتے ہو ہاں اگر تم بدیوں کو چھوڑو نہیں اور نیکیوں کو اختیار نہ کرو تو پھر تم کس طرح امید رکھ سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے رحمت کا سلوک کرے گا.لیکن اگر تم ایسا کر لو تو ابھی صرف یہ ایک امید ہے.ابھی واقع نہیں.جب تک اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو اور جب اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو جائے تو یہ امید حقیقت بن جاتی ہے.مجاہدہ کے معنی کو جب ہم قرآن کریم کی دوسری آیات کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل باتوں کو جہاد یا مجاہدہ میں شامل کیا ہے اور یہاں میری مراد مجاہدہ سے’ نیکیوں کا اختیار کرنا ہے.جو مجاہدہ کا ایک پہلو ہے.’بدیوں کو چھوڑ نا “ دوسرا پہلو ہے مگر میں اس وقت پہلے حصہ کے متعلق ہی بیان کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ انفال میں فرماتا ہے:.وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَ الَّذِينَ أُووُا وَ نَصَرُوا أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (الانفال: ۷۵) اس آیت میں مجاہدہ کی مندرجہ ذیل قسمیں بیان کی گئی ہیں :.(۱) ایک مجاہدہ ہے جو ہجرت کے ذریعہ کیا جاتا ہے.ایک تو وہ بڑی ہجرت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے کی اور ایک وقت آنے پر آپ نے فرمایا کہ اب اس قسم کی ہجرت نہیں رہی.

Page 463

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۴۷ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے کوشش کرتے تھے اور خدائے واحد کی صفات کو بلند آواز سے لوگوں تک پہنچاتے تھے.پھر کچھ لوگ آپ کے ساتھ شامل ہوئے اور اہل مکہ نے اور ان لوگوں نے جو مکہ کے گرد رہنے والے تھے اتنے دکھ اور ایذا ئیں اس چھوٹے سے گروہ کو دیں کہ دنیا کے تختہ پر دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا اور گروہ نہیں ہے کہ جس کو اتنا لمبا عرصہ اس قسم کی شدید تکالیف اور ایذاؤں میں سے گزرنا پڑا ہو.پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان ایک اور طرح سے لینا چاہا.وہ یوں کہ حکم دیا ہمیشہ کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ دو اور اپنے رشتہ داروں کو جو مسلمان نہیں ہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دو اور اس ماحول کو بھی جس میں تم رہتے ہو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر دوسری جگہ (مدینہ ) چلے جاؤ.چونکہ کچھ عرصہ بعد تک بھی حالات ویسے ہی رہے اس لئے یہ ہجرت قائم رہی لیکن اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ اس قسم کی ہجرت کا ماحول اب نہیں رہا اس لئے اب اس قسم کی ہجرت بھی نہیں رہی مگر وہ ہجرت کا اطلاق تھا ایک خاص واقعہ ہجرت پر.ورنہ ہجرت اپنے عام معنی کے لحاظ سے قیامت تک کے لئے قائم ہے اس لئے قرآن کریم میں آتا ہے هَاجَرُوا اور قرآن کریم کا کوئی لفظ بھی منسوخ نہیں ہو سکتا.تو فرماتا ہے کہ جو لوگ خدا کی خاطر اپنوں کو اور اپنی املاک کو چھوڑتے ہیں ( مثلاً آج کل کے زمانہ میں واقفین زندگی اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیر ممالک میں چلے جاتے ہیں جہاں کے رواج بھی مختلف ، جہاں کے حالات بھی مختلف جہاں کے کھانے بھی مختلف.پھر بڑی تنگی اور بڑی سختی کے دن وہاں گزارتے ہیں ) یہ بھی مُهَاجِرُ في سَبِيلِ اللهِ يَا مُجَاهِدٌ فِي سَبِيلِ اللهِ ہیں.(۲) دوسرے یہاں یہ فرمایا کہ وہ لوگ بھی مجاہد ہیں الَّذِينَ اوَوُا وَنَصَرُوا جوان بھائیوں کو جو مظلومیت کی حالت میں ان کے پاس جاتے ہیں.اپنے گھروں میں جگہ دیتے ہیں.اور ان کی امداد کرتے ہیں.کیونکہ یہ بھی مجاہدہ میں شامل ہے.پس فرمایا کہ یہ دو قسمیں جو ہیں ایک ہجرت کرنے والوں کی اور دوسرے مہاجروں کو پناہ

Page 464

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۴۸ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء دینے والوں کی.أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا یہ وہ مجاہد ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ اعلان کرتا ہے کہ یہ حقیقی مومن ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے مغفرت اور رزق کریم مہیا کرے گا.واقفین زندگی بھی تحریک جدید کے ایک مطالبہ کے ماتحت مانگے گئے تھے اور یہ مطالبہ بھی ایک شکل ہے مجاہدہ کی.کیونکہ ہر وہ کام (جیسا کہ پہلی آیات سے واضح ہوتا ہے ) جو خدا کی رضاء کی خاطر اور اس کے قرب کے حصول کے لئے کیا جائے اور جس کے کرنے میں انسان اپنی پوری توجہ اور پوری طاقت اور پوری قوت صرف کر رہا ہے اور اس سے جو کچھ بن آئے کر گزرے.اسے خدا تعالیٰ مجاہدہ کے نام سے پکارتا ہے.تو قرآن کریم کی ایک آیت بڑی وضاحت سے بتا رہی ہے کہ وقف زندگی بھی مجاہدہ کی ایک قسم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت ۲۷۴ میں فرمایا کہ ہمارے احکام کے مطابق عمل کر کے اُمت محمدیہ میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جنہیں دین کی خدمت میں لگایا گیا ہو گا اور مشاغل دنیا سے انہیں روک دیا گیا ہوگا.(اُحُصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ) تو بتایا کہ ان کو تمام ان مشاغل سے روک دیا جائے گا کہ جو سبیل اللہ کے مشاغل نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضاء کی راہوں کے علاوہ دنیا کمانے اور دنیا کی عزت حاصل کرنے کے تمام راستے ان پر بند کر دیئے جائیں گے.تو جن لوگوں پر اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللہ کا اطلاق ہوتا ہے وہ بھی مجاہدین ہیں.ایک قسم کا مجاہدہ اور جہاد کر نے والے ہیں.اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ لوگ جن پر دشمن، مخالف ، منکر دنیا کی راہیں بند کر دیتا ہے.آئے دن ہمارے سامنے ایسی مثالیں آتی رہتی ہیں کہ بعض لوگ بعض احمد یوں کو صرف احمدیت کی وجہ سے نوکری نہیں دیتے یا امتحانوں میں اچھے نمبر نہیں دیتے کہ وہ ترقی نہ کر جائیں.یا اگر تاجر ہیں تو ان کی تجارت میں روک ڈالتے ہیں.اگر زمیندار ہیں تو طرح طرح سے ان کو تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.خصوصاً جہاں نئے احمدی ہوں اور تعداد میں بھی تھوڑے ہوں وہاں

Page 465

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۴۹ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء اس قسم کا سلوک اکثر کیا جاتا ہے.ایسے لوگوں پر خدا کے لئے دنیا کی تمام راہیں اگر بند ہو جائیں تو قرآنی محاورہ کے مطابق وہ اُحْصِرُوا فِی سَبِیلِ اللہ کے گروہ میں شامل ہوتے ہیں.دوسری قسم مجاہدہ کی انفاق فی سَبِیلِ اللهِ ہے.جو آیات میں نے پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دنیا میں نے تمہیں دی ہے.چاہو تو دنیا کا ایک حصہ خرچ کر کے مجھے حاصل کرلو میری محبت کو پالو اور اگر چاہو تو دنیا کے کیڑے بن کر میری لعنت، میرے غضب اور میرے قہر کے مورد بن جاؤ.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انفاق پر بڑا زور دیا ہے انفاق فی سبیل اللہ کی کوئی حد بندی نہیں البتہ انفاق کی بعض قسموں کی حد بندیاں ہیں.مثلاً زکوۃ ایک خاص شرح کے مطابق دی جاتی ہے لیکن عام صدقات کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کوئی شرح مقرر نہیں فرمائی.اسی طرح اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کے دین کی تقویت کے لئے حسب ضرورت جو اموال مانگے جائیں ان کے لئے کوئی شرح مقرر نہیں ہر آدمی پر فرض ہے کہ وہ اپنی ہمت کے مطابق اور حالات کی نزاکت کے مطابق خدا کی راہ میں اپنے مال کا جتنا حصہ وہ مناسب سمجھتا ہے خرچ کرے.جیسا کہ ایک وقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ارشاد فرمایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے دین کو تمہارے مالوں کی ضرورت ہے.تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اندازہ لگایا کہ یہ موقع اتنا نازک ہے کہ میرا فرض ہے کہ میں اپنا سارا مال لا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ڈال دوں مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اندازہ لگایا کہ اتنا نازک وقت تو نہیں.لیکن بہر حال اتنا نازک ضرور ہے کہ مجھے نصف مال خدا کی راہ میں دے دینا چاہیے.تو ہر شخص اپنی اپنی استطاعت اور قوت اور استعداد کے مطابق اور اپنے اپنے مقام ایمان کے مطابق اندازہ لگا کر ایسے موقعوں پر خدا کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے.لیکن کوئی خاص حد بندی مقرر نہیں.جیسا کہ تحریک جدید کے چندوں کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کوئی حد بندی مقرر نہیں کی.لیکن اس خواہش کا ضرور اظہار کیا ہے کہ ایک مہینہ کی آمد کا ۱/۵ سالانہ دیا کرو تا کہ سلسلہ کی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں.بعض لوگ اب بھی اس سے زیادہ دیتے ہیں.

Page 466

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۵۰ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء اور بعض ایسے ہیں جو ۱/۵ بھی نہیں دیتے ۱۰ ر ا دیتے ہیں ۱۵ را دیتے ہیں یا ۲۰ /ا دیتے ہیں.مجاہدہ کی ایک شکل جو قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ قتال فی سَبِیلِ اللهِ ہے.یعنی جب دشمن زور بازو سے اسلام کو مٹانا چاہے اور مادی ہتھیار لے کر اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کی کوشش کرے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو باوجود اس کے کہ وہ اپنے دشمن کے مقابلہ میں بہت کمزور ہوتے ہیں، دفاع کی اجازت دیتا ہے اور پھر حکم دیتا ہے کہ ضرور دفاع کرو.اور یہ حکم اس لئے دیتا ہے تا کہ کمزوروں کی کمزوری ظاہر ہو جائے.اگر صرف اجازت ہو تو بعض کہیں گے کہ سب کو لڑائی میں جانا تو ضروری نہیں ہے.اور پھر اس وقت اپنی زندہ طاقتوں اور زندہ قدرتوں کا ایک نمونہ دنیا کو دکھاتا ہے کہ دیکھو مومن تھوڑے بھی تھے، کمزور بھی تھے ، غریب بھی تھے پھر ان کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے باوجود اس کے جب وہ ہمارے حکم پر لبیک کہتے ہوئے ہمارے اور اپنے دشمن کے مقابلہ پر آ گئے.تو انہیں فتح نصیب ہوئی.اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں کا معجزانہ رنگ میں اظہار فرماتا ہے.اس کے علاوہ مجاہدہ کی ایک شکل ہمیں قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے.وَلَبِن قُتِلْتُم في سَبِيلِ اللهِ أَوْ مُثْمُ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللهِ وَرَحْمَةٌ (ال عمران :۱۵۸) یہاں صرف قتل کئے جانے کا ذکر ہے.ضروری نہیں کہ جنگ میں قتل ہو.اگر آپ تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مسلمان صرف میدانِ جنگ میں ہی شہید نہیں کئے گئے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجموعی طور پر ہزاروں لاکھوں مسلمان ایسا ہے جسے میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ امن کی حالت میں کافروں نے بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا.جیسا کہ ہماری تاریخ میں صاحبزادہ صاحب عبد اللطیف شہید کو کابل میں پکڑا گیا.وہ بے گناہ، بے بس اور کمزور تھے.حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.حکومت نے خدا تعالیٰ کے فرمان کے خلاف، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیتے ہوئے ان کو پکڑا اور قتل کر دیا اور بڑی بے دردی سے قتل کیا.تو ایک شکل مجاہدہ یا جہاد فی سبیل اللہ کی یہ ہے کہ انسان ایسے وقت میں اپنی جان قربان کر

Page 467

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۵۱ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء دیتا ہے اور کمزوری نہیں دکھاتا.صداقت سے منہ نہیں موڑتا.دشمن کہتے ہیں کہ تم تو بہ کر لوتو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے وہ کہتا ہے کہ کس چیز سے تو بہ؟؟ تو بہ کر کے حق کو چھوڑ دوں !! صداقت سے منہ پھیروں !!! اور باطل کی طرف آجاؤں ! ایسا مجھ سے نہیں ہوسکتا !! مرنا آج بھی ہے اور کل بھی.تمہارا جی چاہتا ہے تو مار دو.لیکن میں صداقت کو نہیں چھوڑ سکتا.پانچویں شکل مجاہدہ کی جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے وہ ہجرت فی سبیل اللہ ہے.اس کی تفصیل کو میں اس وقت چھوڑتا ہوں.چھٹی شکل اللہ تعالیٰ نے جو مجاہدہ فی سبیل کی بتائی ہے وہ ہے خدا کے دین کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انسان سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرے.سفر میں بہر حال ویسا آرام نہیں مل سکتا جیسا کہ اپنے گھر میں ملتا ہے.بعض لوگ سفر سے گھبراتے ہیں.بعض لوگ بار بار سفر کرنے سے گھبراتے ہیں.تو ہمارے مربی ، معلم اور انسپکٹر صاحبان کو جو سال کے چھ سات ماہ سفر میں رہتے ہیں خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بھی اپنی راہ میں مجاہدہ قرار دیا ہے اور اس کی جو برکات ایک مجاہد پر نازل ہوتی ہیں یہ لوگ بھی اس کے وارث ہیں.جیسا کہ فرمایا يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ الله (النساء : ۹۵) اگر چہ اس آیت میں اپنی کانٹیکسٹ کے لحاظ سے یعنی اس مضمون کے لحاظ سے جو اس آیتہ میں بیان ہوا ہے.یہ سفر جنگ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.لیکن جنگ کرنے کا ثواب علیحدہ ہے اور اِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ کا ثواب علیحدہ یہاں بتایا گیا ہے.اسی طرح اِنْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ (التوبة: ۳۸) ہے.تو بہت دفعہ خدا کی راہ میں سفر کرنا پڑتا ہے.مثلاً وقف عارضی میں وقف کرنے والوں کو میں نے یہی کہا تھا کہ تم بتاؤ کہ تم کتنا سفر کر سکتے ہو؟ اس کے جواب میں بعض دوستوں نے لکھا کہ ہم اپنے خرچ پر پندرہ بیس میل سفر کر سکتے ہیں بعض نے لکھا کہ ہم پچاس ساٹھ میل سفر کر سکتے ہیں.بعض نے لکھا کہ ہم سوڈیڑھ سو میل سفر کر سکتے ہیں.بعض نے لکھا کہ سارے پاکستان میں جہاں آپ کی مرضی ہو بھجوا دیں.ہم سفر کرنے کے لئے تیار ہیں تو ایسے مومن بھی مجاہدین میں شامل ہیں.پس خدا تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے مجاہدہ کی ایک قسم قرار دیا ہے.ساتویں اور مجاھدہ کی سب سے اہم قسم جَاهِدُهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان : ۵۳) میں

Page 468

خطبات ناصر جلد اول ۴۵۲ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء بیان کی گئی ہے.یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے دین کی راہوں میں جہاد کرنا اور اصولی طور پر یہ جہاد دوشکلوں میں کیا جاتا ہے.ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اتنے زبر دست اور اتنی کثرت سے دلائل جمع کر دیئے ہیں کہ دنیا کا کوئی باطل عقیدہ خواہ کسی مذہب سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا.تو عقائد باطلہ کا (خواہ وہ عقائد باطلہ عیسائیوں کے ہوں یا آریوں کے یا سکھوں کے یا دہریوں کے یا دوسرے بد مذاہب کے ہوں ) دلائل حقہ کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی ایک زبر دست جہاد ہے جس کے نتیجہ میں اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو انسان اس کی رحمتوں کا وارث بنتا ہے.اور دوسرے جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: ۵۳) تعلیم قرآن کو عام کرنے سے یہ جہاد کیا جاتا ہے کیونکہ مومنوں کی جماعت میں علوم قرآنیہ کو ترویج دینا.ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت پیدا کرنا اور ان کو اس حق الیقین پر قائم کرنا کہ قرآن کریم بڑی برکتوں والی عظیم کتاب ہے اس سے جتنا پیار ہو سکتا ہے کرو.اس سے جتنی محبت تم کر سکتے ہو کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنو.تو یہ بھی ایک مجاہدہ ہے اور اسی مجاہدہ اور جہاد کی طرف اس وقت میں بار بار جماعت کے دوستوں کو متوجہ کر رہا ہوں.غرض مختلف اقسام جہاد یا مجاہدہ جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے اگر آپ ان کو سامنے رکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تحریک جدید کے تمام مطالبات کا ان میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ ضرور تعلق ہے.یہ بڑا لمبا، گہرا اور وسیع مضمون ہے.اگر ضرورت ہوئی اور خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو شاید میں کسی وقت اس پر بھی روشنی ڈالوں گا.اس وقت میں صرف ایک چیز کو لینا چاہتا ہوں اور وہ ہے انفاق فی سبیل اللہ یعنی مالی قربانی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رضاء کو حاصل کرنے کی کوشش اور اس کی رحمت کے حصول کی امید اس دعا کے ساتھ کہ وہ اپنا فضل ہمارے شامل حال کرے اور حقیقتا اور واقعہ میں ہم اس کی رحمتوں کے وارث بنیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یہ خواہش تھی اور آپ نے اپنے خطبہ میں اس کا اظہار بھی

Page 469

خطبات ناصر جلد اول ۴۵۳ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء کیا ہے کہ دفتر دوم کی وصولی پانچ لاکھ تک پہنچ جانی چاہیے.لیکن اس وقت تک کہ دفتر دوم پر بائیس سال گزر چکے ہیں سال رواں میں اس کے وعدے صرف دولاکھ نوے ہزار تک پہنچے ہیں.یعنی اگر دو لاکھ دس ہزار مزید وعدے ہوں تب ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خواہش کو پورا کرنے والے ہوں گے.سو اس وقت بڑا بوجھ دفتر دوم پر ہے کیونکہ اس میں جب دینے والے لوگ ابھی اتنے بوڑھے نہیں ہوئے.جتنے بوڑھے دفتر اول کے مجاھد ہو چکے ہیں.دفتر اول کے مجاہدین میں سے بہت سے تو اپنے رب کو پیارے ہو گئے.عمر کے ساتھ موت وفوت بھی لگی ہوئی ہے.کسی نے ابدی طور پر اس دنیا میں نہیں رہنا ہے.پس کچھ دوست تو ان میں سے فوت ہو گئے کچھ ریٹائر ہو گئے.کچھ دوسرے پیشہ وروں کی آمدنی میں معمر ہونے کی وجہ سے کمی ہو گئی.مثلاً ڈاکٹر ہیں وکیل ہیں.ان کی عمر جب ایک حد سے گزر جائے تو وہ پورا کام نہیں کر سکتے.ان کا جسم اور دماغ آرام چاہتا ہے.اس سے ان کی آمد میں فرق پڑ جاتا ہے اور کچھ اس لئے بھی کہ اس عمر میں ان کے بچے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی امداد کے قابل ہو جاتے ہیں.ان کو خیال ہوتا ہے.کہ ہماری ضرورتیں تو پوری ہو رہی ہیں.ہم زیادہ کیوں کمائیں اور کمائی کے مطابق ہی انہوں نے چندے ادا کرنے ہیں.تو دفتر اول وہ ہے جو آہستہ آہستہ ہماری نظروں کے سامنے دھندلا ہوتا چلا جا رہا ہے اور ایک وقت میں ہمارے سامنے سے یہ غائب ہو جائے گا.دفتر دوم وہ ہے کہ جو اس وقت مالی بوجھ کا بڑا حصہ اور دوسرے بوجھوں کا بڑا حصہ بھی اٹھا رہا ہے.پس دفتر دوم کے مجاہدین کو بہت چست ہونے کی ضرورت ہے اور اگر ہمارے یہ بھائی اور دوست تھوڑی سی ہمت کریں تھوڑی سی کوشش کریں ذراسی مزید توجہ دیں.تو یہ بعید نہیں کہ وہ اس رقم کو پورا کرسکیں.جس کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے.ہم نے غور کیا ہے اور سوچا ہے کہ تھوڑی سی مزید ہمت اور توجہ سے اس دفتر کے مجاہدین اپنے چندوں کو پانچ لاکھ تک پہنچا سکتے ہیں.مثلاً حضور ( رضی اللہ عنہ ) کی خواہش تھی کہ تحریک جدید

Page 470

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۵۴ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء میں ماہوار آمد کا ۱/۵ دیا جائے.اگر دفتر دوم کے مجاہد حضور کی اس خواہش کو پورا کر دیں تو ہمارا اندازہ ہے کہ رقم پانچ لاکھ تک پہنچ جائے گا.سال رواں میں دفتر سوم کا بھی اجراء ہوا ہے یہ کچھ لیٹ ہو گیا ہے.کیونکہ ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ ہر دس سال کے بعد ایک دفتر کھلتا ر ہے تا کہ آنے والے جانے والوں کی جگہ کو پُر کرتے رہیں.پس دفتر سوم کے اجراء میں تاخیر ہو گئی ہے اور دس سال کی بجائے اکیس سال بعد دفتر سوم کا اجراء ہوا ہے.وہ بھی اس وقت جبکہ سال کا نصف حصہ غالباً گزر چکا تھا.سو اس وقت تک دفتر سوم کے سال اول کے وعدے ۱۸ ہزار روپے کے آئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں جب کہ اعلان بھی دیر کے بعد ہوا اور اس دفتر کے بہت سے لوگ پہلے ہی دفتر دوم میں شامل ہو چکے تھے ۱۸ ہزار دفتر سوم کی پوری رقم نہیں ہے.لیکن اگر وہ احمدی دوست جن کا تعلق دفتر سوم کے ساتھ ہے.اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دیں تو آئندہ سال یعنی اپنی عمر کے دوسرے سال، دفتر سوم کے وعدے کم از کم ایک لاکھ تک ہونے چاہئیں اور یہ کوئی مشکل امر نہیں کیونکہ اس کے لئے بھی ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر ایسے دوست اس طرف متوجہ ہوں جو دفتر سوم میں آتے ہیں.ان کے وعدے آسانی سے ایک لاکھ تک پہنچ سکتے ہیں.ویسے تو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو قربانی کی بڑی توفیق عطا کی ہے اور اس کو وہ قبول بھی فرماتا ہے.اور جب وہ قبول فرماتا ہے.تو هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : ۳) کی روشنی میں مزید ہدایت اور ہدایت کے ارفع تر مقام کی طرف انہیں لے جاتا ہے اور مزید قربانیاں دینے کا جذ بہ اور شوق ان میں پیدا ہوتا ہے.تحریک جدید کے پہلے سال جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی سکیم مختلف خطبات میں دوستوں کے سامنے رکھی.تو آپ نے اس کے لئے چندہ کا اندازہ ا۲۷ ہزار روپیہ جماعت کو بتایا.لیکن اس کے مقابلہ میں اس سکیم کو چلانے کے لئے جماعت نے اٹھانوے ہزار روپیہ ( دو ہزار کم ایک لاکھ ) حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.

Page 471

خطبات ناصر جلد اول ۴۵۵ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء پچھلے سال ہماری مستورات نے تحریک جدید کا چندہ نہیں بلکہ تحریک جدید کی ایک شق کا چندہ ( یعنی مسجد ڈنمارک کا چندہ) تین لاکھ چھ ہزار روپیہ نقد جمع کر دیا.اس طرح یہ چندہ تحریک جدید کے پہلے سال کے چندہ سے تین گنا زیادہ جمع ہوا.حالانکہ یہ چندہ صرف ہماری بہنوں نے جمع کیا.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلى ذلِكَ.گویا تحریک جدید کے پہلے سال میں ساری جماعت مردوں، عورتوں اور بچوں نے مل کر بھی ایک لاکھ کی رقم پوری نہ کی تھی.( دو ہزار کم تھے ) اور گذشتہ سال ڈنمارک کی مسجد کے لئے صرف ہماری بہنوں نے تین لاکھ چھ ہزار کی رقم جمع کر دی تو جب انسان خدا کی راہ میں قربانی دیتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے قبول کر لیتا ہے.تو اسے مزید قربانی کی توفیق بخشتا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ اپنے ایک بندہ کو دس روپیہ انعام دیتا ہے اور وہ اس دس روپیہ میں سے کچھ اس کی راہ میں قربان کر دیتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس کو مزید توفیق بخشتا ہے.تا وہ ہدایت کے راستوں پر اور آگے بڑھے.پھر وہ اور آگے بڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دس روپے کی بجائے ایک ہزار روپے انعام دیتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا بندہ ایک ہزار روپیہ لینے کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا یہ تو ایسے انعام کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ دنیا کی عقل اس کا اندازہ نہیں کر سکتی.کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا، کسی زبان نے نہیں چکھا، کسی کے خیال میں بھی یہ انعامی چیزیں نہیں گزرتیں.اس لئے میں اسے اور آگے بڑھنے کی توفیق دیتا ہوں.پھر وہ بڑی بشاشت سے اور زیادہ قربانی خدا کی راہ میں پیش کرتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک ہزار کی بجائے ایک لاکھ روپیہا سے انعام دیتا ہے.پھر ایک کروڑ پھر ارب.یہ گنتی ختم ہونے والی نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کے انعام ختم ہونے والے نہیں.اس طرح وہ بندہ انعام پر انعام حاصل کئے جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے توفیق پر توفیق پاتا چلا جاتا ہے.مزید مجاہدہ اور مزید قربانی کرنے کی.تب اسے سمجھ آتی ہے کہ دنیا کیا اور دنیا کی لذتیں اور آرام کیا اگر ایسے انعام جو مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہے ہیں ملتے چلے جائیں تو میں اپنی ہر چیز ، اپنے گھر بار، اولا د اور رشتے دار قربان کرنے کے لئے تیار ہوں تا کہ مجھے وہ کچھ

Page 472

خطبات ناصر جلد اول ۴۵۶ خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء ملے جو ان تمام چیزوں اور تعلقات سے کہیں زیادہ احسن اور لذت والا ہے.یہی لذت جو مجھے مل چکی ہے میرے تخیل سے باہر ہے جو اور مزید ملے گا پھر وہ کتنا شاندار ہوگا تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ہر سال جماعت کو پہلے سے زیادہ قربانیوں کی توفیق دیتا چلا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس ا فضل کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو بلکہ خدا تعالیٰ کے شاکر بندے بننے کی کوشش کرو تا اس شکر کے نتیجہ میں مزید قربانیوں کی توفیق پا کر مزید فضلوں کے وارث بنتے چلے جاؤ.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.دوسرے خطبہ میں فرمایا.گو مجھے سخت کمزوری ہے لیکن کام نہ کرنا میرے جیسے آدمی کے لئے عذاب ہے کہ آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.چنانچہ بیماری کے دنوں میں بھی (جب مجھے سخت گھبراہٹ ہوتی تھی اس خیال سے کہ میں کام نہیں کر رہا ) مجھے سات آٹھ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا کیونکہ سات آٹھ گھنٹے کام کرنے سے طبیعت سیر نہیں ہوتی.اگر آدمی خدا تعالیٰ کے لئے چودہ پندرہ گھنٹے کام کرے تو پھر کچھ طبیعت میں سیری محسوس ہوتی ہے لیکن بیماری کی وجہ سے آدمی اتنا کام نہیں کرسکتا تو یہ بھی میرے لئے ایک قسم کا ابتلا ہے اس لئے میں یہ امید کرتا ہوں کہ آپ دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت سے کام کرنے کی توفیق عطا کرے تا کہ اپنی طبیعت بھی سیر ہو جائے اور خدا تعالیٰ بھی خوش ہو جائے کیونکہ خالی اپنی طبیعت کا سیر ہو جانا بے معنی ہے اگر اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی وہ رضا حاصل نہ ہو جس کے حصول کی انسان خواہش رکھتا اور کوشش کرتا ہے ایک جنازہ ہے وہ میں مغرب کے بعد پڑھاؤں گا.میں اس بھائی سے (جو جنازہ لایا ہے) معذرت چاہتا ہوں.کیونکہ اگر اب جنازہ پڑھا گیا تو ہماری بہنوں کا راستہ رک جائے گا اور پھر اجتماع میں بھی دیر ہو جائے گی.تو اس جنازے کو کسی ٹھنڈی جگہ محفوظ کریں.انشاء اللہ مغرب کی نماز کے بعد جنازہ پڑھا دوں گا.روز نامه الفضل ربوہ یکم دسمبر ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۷ )

Page 473

خطبات ناصر جلد اول ۴۵۷ خطبه جمعه ۴/ نومبر ۱۹۶۶ء میں چاہتا ہوں کہ وقف جدید کا مالی بوجھ ے بچے اور بچیاں اُٹھا لیں ( خطبه جمعه فرموده ۴ /نومبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اس میں شک نہیں کہ دینی معاملات میں سب سے پہلاحق انسان پر اس کے اپنے نفس کا ہی ہے اور ہر نفس انسانی کو ہمیشہ اس طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ وہ ایسے اعمال بجالا تا رہے کہ ان کی وجہ سے اس کا رب راضی ہو جائے اور وہ اپنے اللہ کی خوشنودی حاصل کر لے.اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَضُرُّكُم مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ (المائدة: ۱۰۶) کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہدایت یافتہ سمجھے جاؤ تو تمہیں دوسروں کا گمراہ ہو جانا کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا.یعنی اگر با وجودا اپنی دلی تڑپ اور اپنی انتہائی کوشش اور جدوجہد کے وہ لوگ جنہیں تم ہدایت کی طرف بلا ؤ اور اس بات کی تلقین کرو کہ اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قرآن کریم کے جوئے کے نیچے اپنی گردنیں رکھ دیں.پھر بھی وہ ایسا نہ کریں اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیں تو ان کا ایسا کرنا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا.لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اس کے بعد سب سے بڑی ذمہ داری جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اہل و عیال کو نیکی اور تقویٰ پر قائم رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیں اور

Page 474

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۵۸ خطبه جمعه ۴/ نومبر ۱۹۶۶ء ہمیشہ اس طرف متوجہ ہوں کہ جس طرح ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل ہوتے رہیں اور وہ ہم سے خوش ہو جائے.اسی طرح وہ لوگ بھی جو ہمارے اہل میں شمار ہوتے ہیں.ان کے متعلق بھی ہماری یہ خواہش ہونی چاہیے کہ ان پر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم نازل ہو اور اس زندگی میں (جس کے متعلق ہمیں بہت کم علم دیا گیا ہے اور جہاں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک لحظہ کی ناراضگی ایسی ہے کہ اس دنیا کی ہزاروں زندگیوں کی خوشیاں اس ناراضگی سے بچنے کے لئے قربان کی جاسکتی ہیں) وہ لوگ ( بیوی بچے اور دوسرے رشتہ دار ) جو یہاں ہمارے اہل کہلاتے ہیں.وہاں بھی ہمارے ساتھ ہی رہیں اور خاندان روحانی طور پر بکھر نہ جائے اور منتشر نہ ہونے پائے.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحريم : ) که اے وہ لوگو! جو ایمان کا دعوی کرتے ہو جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہا ہے.یا درکھو کہ صرف اپنے نفس کو روحانی رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرنے کی ہی ذمہ داری تم پر عائد نہیں ہوتی.بلکہ تم پر یہ بھی فرض کیا گیا ہے کہ جہاں تم اپنے نفسوں کو خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے قہر اور اس کے غضب کی آگ سے بچاؤ.وہاں اپنے اہل کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو تمہارے رشتہ دار ہیں ( بیوی بچے ہیں ) خدا تعالیٰ کے قہر کی آگ سے بچاؤ.دوسری جگہ فرمایا.قُلْ إِنَّ الْخَسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَ أَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ (الزمر : ۱۶) حقیقی طور پر گھاٹا پانے والے وہی لوگ ہیں جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ اور ان کے اہل گھاٹا پانے والے قرار دیئے جائیں.دیکھو ما ئیں اور بعض دفعہ باپ اور دوسرے رشتہ دار بھی چند دنوں یا چند مہینوں یا چند سالوں کی جدائی اپنے بچوں سے برداشت نہیں کر سکتے.بہت سے بچے غیر ملکوں کی اعلی تعلیم سے اس لئے محروم ہو جاتے ہیں کہ ان کی مائیں یا دوسرے عزیز اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ چند سال کے لئے وہ اپنے اس عزیز سے جدا ہوں.بہت سے بچے اس لئے تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں کہ جہاں وہ پیدا ہوئے اور جہاں وہ پہلے اور بڑھے اور جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی وہاں کوئی کالج نہیں تھا اور ماں باپ نے پسند نہ کیا کہ وہ اپنے بچے کو اپنے سے جدا کر کے کسی ایسے بڑے شہر میں

Page 475

خطبات ناصر جلد اول ۴۵۹ خطبه جمعه ۴/ نومبر ۱۹۶۶ء بھجوا سمیں جہاں کالج موجود ہے.تو اس دنیا میں بعض دفعہ تو ہم غیر معقول رویہ اختیار کر کے بھی اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھتے ہیں اور ان کی جدائی ہم پر بہت شاق گزرتی ہے تو وہ دنیا جس کے عذاب کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اتنا لمبا ہے کہ اس پر ہمیشہ رہنے والے عذاب“ کا فقرہ چسپاں ہوسکتا ہے.اس میں ہم کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ ہمارے بچے ، ہمارے اہل اور ہمارے دوسرے رشتہ دار ہم سے جدا ہوں.اگر چہ پورے طور پر تو یہ درست نہیں بلکہ قرآن کریم کی دوسری آیات کے خلاف ہے کہ جہنم کا عذاب ہمیشہ ہمیش تک چلتا چلا جائے گا لیکن اس کے زمانہ کی لمبائی اور وسعت کو بیان کرنے کے لئے قرآن کریم خُلِدِین کا لفظ استعمال کرتا ہے.تو ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ ایک معنی کے لحاظ سے ہمارے بچے اس دنیا میں ابد الآباد تک ہم سے جدار ہیں جبکہ ہم یہاں چند گھڑیوں یا چند دنوں یا چند مہینوں یا چند سالوں کی جدائی بھی برداشت نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اصل گھاٹا پانے والے تو وہ ہیں جو اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ اپنے خاندان کو جس طرح جسمانی طور پر یہاں اکٹھا کئے ہوئے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان میں انتشار اور تفرقہ پیدا ہو اور وہ بگڑ جائیں.اسی طرح ان کا خاندان دوسری دنیا ( اُخروی زندگی ) میں بھی منتشر نہ ہو جائے.چونکہ وہ ایسی کوشش نہیں کرتے اس لئے حقیقی معنی میں یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ گھاٹا پانے والے ہیں.اسی لئے اسلام نے مختلف پہلوؤں سے اس بات کی تلقین کی ہے کہ اپنے بچوں کی پہلے دن سے ہی تربیت شروع کر دی جائے.دراصل پیدائش سے پہلے بھی جب بچہ ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے.بعض لحاظ سے اور بعض طریقوں سے اس کی تربیت کی جاتی ہے.بچے کی پیدائش پر نیک کلمات اس کے دائیں کان میں بھی اور اس کے بائیں کان میں بھی کہے جاتے ہیں اور اس طرح ہمیں اس راستہ پر لگایا جاتا ہے کہ بچوں کے سامنے ہمیشہ نیکی کی اور ہمیشہ عدل کی اور

Page 476

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۶۰ خطبہ جمعہ ۴ /نومبر ۱۹۶۶ء ہمیشہ احسان کی اور ہمیشہ جذبہ ایتاء ذی القربی کے پیدا کرنے والی باتیں کیا کرو اور انہیں تلقین کیا کرو کہ علمی لحاظ سے بھی اور ذہنی لحاظ سے بھی وہ ایک سچے مسلمان کی سی زندگی گزارنے لگیں.اعمال میں جہاں تک نماز کا تعلق ہے (جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک خطبہ میں کہا تھا ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دس سال کی عمر میں بچے پر نماز واجب ہو جاتی ہے.اگر وہ لڑکا ہے تو مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کرنا اس پر واجب ہوتا ہے لیکن بچہ ایک دن میں تو نماز پڑھنا شروع نہیں کر دے گا اس لئے فرمایا کہ اس فرض کو عمدگی سے ادا کرنے کی تربیت دینے کی خاطر تین سال پہلے کام شروع کرو وہ سات سال کا ہو تو اسے نماز کی طرف مائل کرو اور متوجہ کرو اور اگر وہ لڑکا ہے تو اسے اپنے ساتھ مسجد میں لے جانا شروع کر دو اور مسجد کے آداب بھی سکھاؤ.اس طرح عبادت کے عملی کام جو ہیں ان میں حصہ لینے کی طرف اسے متوجہ کرو اور اس رنگ میں ان کی تربیت کرو کہ عملی روحانی کاموں کے فرض ہوتے وقت اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے وہ پورے طور پر تیار ہوں.نماز کے بعد دوسرا بڑا کام جو ایک مسلمان پر بطور فرض کے عائد ہوتا ہے وہ مال کی قربانی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اتنی شاندار قربانیاں دیں کہ اگر وہ ثقہ راویوں سے بیان نہ ہوتیں تو شاید ہماری عقلیں ان کی صحت کو قبول کرنے کے لئے بھی تیار نہ ہوتیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کے پاس چالیس ہزار اشرفیاں جمع تھیں.آج کل تو اشرفی ملتی ہی نہیں.میرے خیال میں جو دوست یہاں بیٹھے ہیں ان میں سے ایک فی صدی نے بھی سونے کی اشرفی نہ دیکھی ہوگی.اس وقت قوت خرید کو دیکھا جائے تو اس کے مطابق ایک اشرفی کی قیمت سو، سواسو ہے.کیونکہ سوسواسو میں ایک اشرفی ملتی ہے تو چالیس ہزار اشرفی قریباً پچاس لاکھ روپیہ بنتا ہے.جب وہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے اپنے دل میں عہد کیا کہ یہ ساری رقم میں اسلام کے لئے خرچ کروں گا چنانچہ جو کچھ انہوں نے جوڑا ہوا تھا اور ریز رو کے طور پر رکھا ہوا تھا ( تجارت

Page 477

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۶۱ خطبہ جمعہ ۴ /نومبر ۱۹۶۶ء میں جو ان کا مال لگا ہوا تھا وہ اس کے علاوہ تھا) وہ اسلام پر خرچ کرتے رہے اور جب ہجرت کا وقت آیا تو چالیس ہزار اشرفیوں میں سے صرف پانچ سو اشرفی ان کے پاس باقی تھی.انتالیس ہزار پانچ سو اشرفی وہ خرچ کر چکے تھے.یہ پانچ سو اشرفیاں بھی انہوں نے اپنے گھر والوں کے لئے نہیں چھوڑیں بلکہ ہجرت کے وقت وہ بھی ساتھ اُٹھا لیں تا کہ دین کی راہ میں ہی خرچ ہوں.تو انہوں نے بڑی مالی قربانیاں دی ہیں.دوست یہ نہ سمجھیں کہ ہم وصیت میں ۱۰ را دے کر یا بعض دوسرے چندوں کو ملا لیا جائے تو ۱/۸ یا ۷ /ا دے کر ایسی قربانی دے رہے ہیں کہ گویا ہم صحابہ رضی اللہ عنہم سے آگے نکل گئے.یا ان کے برابر کھڑے ہو گئے ہیں کیونکہ صحابہ میں کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے تھے جو بہر حال ۱٫۵ سے زیادہ قربانی دے رہے تھے مثلاً انصار کو ہی دیکھیں انہوں نے آدھے آدھے مال مہاجرین کو پیش کر دئے تھے.یہ علیحدہ بات ہے کہ مہاجرین میں سے بہتوں نے نہیں لئے.جنہوں نے لئے بھی.قرض کے طور پر لئے لیکن انصار کی طرف سے پیش کش ہو گئی تھی کہ تم سب کچھ چھوڑ کر آئے ہو.آؤ یہ مال بانٹ لیں اور آدھا آدھا کر لیں.اللہ تعالیٰ نے ان مہاجرین کو عقل دی تھی.وہ تجارت کے میدان میں بڑا کچھ کماتے تھے.پھر اس نے انہیں ایمان بھی دیا تھا اس لئے وہ دین کی راہ میں خرچ بھی بڑا کرتے تھے.اس حد تک کہ میں نے بتایا ہے کہ اگر ان روایات کے راوی ثقہ نہ ہوں تو ہم شاید ان کو محض قصہ سمجھیں لیکن تاریخ اس کثرت سے ان باتوں کی تائید کر رہی ہے کہ ہماری عقل انہیں جھٹلا نہیں سکتی.تو جہاں تک اموال کی قربانی کا تعلق ہے.صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے مثال قربانیاں دی ہیں اور جہاں تک مالی قربانیوں کا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو بھی تو فیق دی ہے کہ اس لامذہبیت اور دہریت کے زمانہ میں اپنے اموال کو بے دریغ خرچ کرے اور ایک حصہ جماعت کا اور بڑا حصہ صحابۂ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے اپنے وقت میں ایسی روحانی تربیت حاصل کر چکا تھا کہ ان کی جانی اور مالی قربانیاں صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی مشابہ ہوگئی تھیں کہ ان کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی اور گروہ سے تعلق رکھنے والے ہیں.بعد کی جو نسلیں ہیں ان میں بھی بڑی حد تک خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ

Page 478

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۶۲ خطبہ جمعہ ۴/نومبر ۱۹۶۶ء روح قائم ہے.لیکن ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ نئی نسلوں کو بھی قربانیوں کی ان راہوں پر چلنے کی عادت ڈالیں.اسی لئے میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وقف جدید کا مالی بوجھ اگر ہمارے بچے اور بچیاں جن کی عمر پندرہ سال سے کم ہے اُٹھالیں تو جماعت کے ارفع مقام کا مظاہرہ بھی ہوگا کہ جماعت کے بچے بھی اس قسم کی قربانیاں دیتے ہیں کہ اس پوری تحریک ( وقف جدید ) کا مالی بوجھ انہوں نے اٹھا لیا ہے اور خود ان کے لئے بھی بڑے ثواب کا موجب ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو کام انہوں نے آئندہ کرنے ہیں اس کے لئے تربیت کا موقع بھی مل جائے گا.اس کی طرف جماعت نے اتنی توجہ نہیں دی جتنی دینی چاہیے تھی.میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے بچے جن کی عمر ایک دن سے پندرہ سال کے درمیان ہے وہ تین مختلف تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں.سات سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کا تعلق اطفال الاحمدیہ خدام الاحمدیہ سے ہے اور سات سے پندرہ سال کی بچیوں کا تعلق ناصرات الاحمدیہ لجنہ اماءاللہ سے ہے اور سات سال سے کم عمر کے بچوں اور بچیوں کا تعلق نظام جماعت سے ہے.تو بچوں کی یہ ننھی منی فوج تین حصوں میں بٹ گئی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض جماعتوں میں تو ہر تنظیم نے سمجھا کہ شاید دوسرا کام کر رہا ہو اور بعض جگہ ایک دوسرے کے کام میں دخل دینا شروع کر دیا.یعنی خدام الاحمدیہ اطفال الاحمدیہ والے جو تھے انہوں نے کم عمر والے بچوں کی فہرستیں بنانا شروع کر دیں.جماعتی نظام والے جو تھے انہوں نے سات سال سے کم عمر والے بچوں کی ہی فہرستیں نہیں بنائیں بلکہ اطفال کی فہرستیں بھی بنانے لگ گئے.اس طرح انہوں نے ایک دوسرے کے کام میں دخل دینا شروع کر دیا.بہر حال جو سستی ہو چکی ہے اسے اللہ تعالیٰ معاف فرمائے لیکن آئندہ کے لئے میں چاہتا ہوں کہ اس خطبہ کے شائع ہونے کے بعد پندرہ دن کے اندر اندر ہر جماعت مجھے بچوں کی ان تین مختلف قسموں کے لحاظ سے یعنی اطفال الاحمدیہ سے تعلق رکھنے والے بچے، ناصرات الاحمدیہ سے تعلق رکھنے والی بچیاں اور سات سے کم عمر کے بچوں اور بچیوں کی فہرست علیحدہ علیحدہ ( نام کے

Page 479

خطبات ناصر جلد اول ۴۶۳ خطبه جمعه ۴ / نومبر ۱۹۶۶ء لحاظ سے نہیں بلکہ صرف تعداد کے لحاظ سے ) مجھے پہنچ جانی چاہیے.مثلاً لا ہور لکھے کہ ہمارے ہاں اطفال ڈیڑھ ہزار ہیں.ناصرات ڈیڑھ ہزار ہیں اور کم عمر کے بچے تین ہزار ہیں.جو صورت بھی ہو مجھے صرف تعداد چاہیے اور دوسرے یہ لکھا جائے کہ ان میں سے وقف جدید کا اس رنگ میں کس کس نے وعدہ کیا ہے.وعدوں کے متعلق اعلان کرتے ہوئے میں نے بتایا تھا کہ ہمارے ہزاروں بچے ایسے ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے ایسے خاندانوں میں پیدا کیا ہے کہ جنہیں اتنا رزق دیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک بچہ ایک اٹھنی ماہوار یا اس سے بھی زائد دے کر وقف جدید کا مستقل مجاہد بن سکتا ہے.لیکن بعض ایسے مخلص اور قربانی کا جذبہ رکھنے والے احمدی خاندان بھی ہیں جو مالی استطاعت نہیں رکھتے.مثلاً اگر ان میں سے کسی خاندان کے چھ بچے ہوں تو اٹھنی ماہوار کے حساب سے تین روپے ماہوار یا چھتیں روپے سالانہ انہیں ادا کرنے چاہئیں.حالانکہ غربت کی وجہ سے اس خاندان کے بڑوں کے چندے بھی کم و بیش اتنے ہی ہوتے ہیں.پس اگر ایسے خاندان کا ہر بچہ اٹھنی ماہوار ادا نہ کر سکے تو سارے خاندان کے بچے مل کر ایک یونٹ بنالیں اور سب مل کر اٹھنی ماہوار دے دیا کریں.رورو بہر حال اس صورت میں وقف جدید کے چندہ کا جو وعدہ کیا گیا ہو.یا الگ الگ ہر بچہ نے جو وعدہ کیا ہو اس کی اطلاع پندرہ دن کے اندر آجانی چاہیے.واللہ اعلم بچوں کی صحیح تعداد کتنی ہے؟ رپورٹیں آئیں گی تو پتہ چلے گا لیکن یہ مجھے یقین ہے کہ ہمارے وہ بچے جن کی عمر پندرہ سال سے کم ہے ان کی تعداد کم از کم پچاس ہزار ہوگی.اگر پچاس ہزار بچے الگ الگ پوری شرح سے چندہ ادا کریں تو ان کا چندہ چھ روپے سالانہ کے حساب سے تین لاکھ روپیہ بن جاتا ہے.جو وقف جدید کے سال رواں کے وعدوں سے ڈیڑھ گنا ہے.(لیکن بعض دوستوں نے تو اپنے پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے بھی چندہ بھجوا دیا ہے) لیکن چونکہ وقف جدید کے کام کو پوری طرح چلانے کے لئے یہ نا کافی ہے.اس لئے امید ہے کہ (جیسا کہ دوست پہلے بھی کیا کرتے ہیں ).اس میں بچوں کے علاوہ دوسرے

Page 480

خطبات ناصر جلد اول ۴۶۴ خطبہ جمعہ ۴/نومبر ۱۹۶۶ء دوست بھی شامل ہوں گے اور پھر چھ روپے سے زیادہ چندہ دینے والے بھی ہوں گے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ وقف جدید کا چندہ چھ روپے نہیں بلکہ سات سو یا ہزار دیا کرتے تھے (اس وقت مجھے اچھی طرح یاد نہیں) اسی طرح دوسرے بھی بہت سے لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی زیادہ دینے کی توفیق عطا کرتا ہے.وہ چھ روپے تک نہیں رکھتے.یہ زائد دینے والے جو ہیں.ان کی رقمیں تین لاکھ کے علاوہ ہوں گی.اس طرح وقف جدید کے لئے تین لاکھ سے زیادہ رقم ہمیں مل جائے گی.جب ہمیں تین لاکھ سے زیادہ رقمیں وصول ہو جائیں گی تب ہم صحیح طور پر کام کر سکیں گے ورنہ ہمارے سالِ رواں کا کام بھی ٹھیک طرح نہ ہو سکے گا.سو اللہ تعالیٰ آپ میں سے ہر ماں اور آپ میں سے ہر باپ کو یہ کہہ رہا ہے کہ صرف اپنی فکر ہی نہ کرنا.قُوا أَنْفُسَكُمْ ہی نہیں بلکہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ تم پر یہ بھی فرض ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت اس رنگ میں کرو کہ اخروی زندگی میں وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی آگ میں نہ پھینکے جائیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کھول کر آپ کے سامنے بیان کر رہا ہے کہ حقیقی معنی میں گھاٹا پانے والے وہ لوگ ہیں کہ جو قیامت کے روز خود بھی گھاٹا پائیں گے اور اپنے اہل کو بھی گھاٹا پانے والا بنا دیا ہو گا ان کی تربیت صحیح رنگ میں نہ کی ہوگی اور بہت سی آیات بھی ہیں جو اس طرف متوجہ کر رہی ہیں.تو قرآنی تعلیم کے مطابق ہم میں سے ہر ایک کو اپنی نسل کی تربیت اس رنگ میں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو نارِ جہنم سے بچائے اور ان پر اس رنگ میں اپنا فضل کرے کہ اس کی نگاہ میں وہ خاسرین کے گروہ میں شامل نہ ہوں.پس اپنے نفس کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے بڑی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ عائد کی ہے کہ اپنے خاندان کو سمجھا ئیں.اس کو اسلام کا شیدائی بنا ئیں اور اس کے ہر فرد کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کریں حتی کہ ان کے دل اس جذبہ سے معمور ہو جائیں

Page 481

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۶۵ خطبہ جمعہ ۴/نومبر ۱۹۶۶ء کہ اسلام کی راہ میں ہر وقت ہم ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں اور دنیا سے نہ کسی شکریہ کی امید رکھیں گے اور نہ واہ واہ کی توقع رکھیں گے اور محض عاجزانہ طور پر اپنے رب کی راہ میں زندگی گزارنے والے ہوں گے.سو تمام احمدی اپنے اس فرض کو پہچانیں والدین ہوں یا ولی ، وہ بچوں کو اس طرف متوجہ کریں کہ وہ خدا کے دین کے سپاہی ہیں.آج اسلام کے مقابلہ کے لئے دشمنوں کی طرف سے تلواریں میان سے نہیں نکالی جارہی ہیں.اس لئے ہمارے یہ سپاہی بھی تلوار کے سپاہی نہیں.یہ وہ سپاہی ہیں جو اپنے دلوں کو قرآن کریم کے نور سے منور کرنے کے بعد قرآنی نور سے دنیا کو منور کرنے میں پورا پورا مجاہدہ کرتے ہیں.ہر احمدی بچے کو اسلام کا سپاہی اور احمدی سپاہی بنانا والدین اور ولی کا فرض ہے.پس آپ کو چاہیے کہ اس ضروری اور اہم فرض کی طرف متوجہ ہوں اور وقف جدید کے مالی جہاد میں ہر بچے کو شامل کریں تا اللہ تعالیٰ کی رحمتیں آپ پر نازل ہوں اور تا وہ مقصد حاصل ہو.جس کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجلس وقف جدید کو قائم کیا تھا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین روز نامه الفضل ربوه ۹ /نومبر ۱۹۶۶ صفحه ۲ تا ۵)

Page 482

Page 483

خطبات ناصر جلد اول ۴۶۷ خطبہ جمعہ اار نومبر ۱۹۶۶ء زنده خدا، زندہ رسول اور زندہ کتاب سے ہمیں حضرت مسیح موعود نے متعارف کیا خطبه جمعه فرموده ۱۱ نومبر ۱۹۶۶ء بمقام بشیر آباد.سندھ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ہم نے جس ہستی کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی اور سلسلہ احمدیہ کو قبول کیا وہ کوئی معمولی ہستی نہیں تھی بلکہ اس کا مقام وہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے روحانی فرزندوں میں سے صرف اس کو اپنا سلام بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ یہ بات تمام دنیا پر ظاہر کی کہ جو شخص ہمارے اس مرسل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں فرق کرے گا.اس شخص نے اس مقام کو نہیں پہچانا.جس مقام پر کہ اللہ تعالیٰ نے فنافی الرسول ہو جانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں گم ہو جانے کی وجہ سے اس پاک وجود کو کھڑا کیا ہے.پھر یہ صرف اعزازی مقام نہ تھا بلکہ حقیقتاً یہ مقام آپ کو اس وجہ سے ملا ( اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے تو فیق عطا فرمائی کہ آپ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور عشق میں فنا ہو کر اپنے وجود کو کلیتاً غائب کر دیں) کہ اللہ تعالیٰ آپ سے وہ کام لینا چاہتا تھا جو اسلام کی نشاۃ اولی میں اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا تھا.قرآن کریم سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور پیشگوئیوں سے ہمیں یہ

Page 484

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۶۸ خطبہ جمعہ ۱۱ نومبر ۱۹۶۶ء معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو دو ترقیاں حاصل ہوئی تھیں جس کا مطلب یہ تھا کہ اسلام کو تنزل کے ایک دور میں سے بھی گزرنا تھا کیونکہ اگر تنزل کا دور مقدر نہ ہوتا تو دو تر قیوں کا کوئی سوال ہی نہیں تھا.پھر ایک ہی ترقی اسلام کو حاصل ہوتی.ہم اس حقیقت کو اپنے عام محاورہ میں اسلام کی نشاۃ اولیٰ اور نشاۃ ثانیہ کے الفاظ سے بیان کرتے ہیں.پہلی ترقی اس زمانہ کے لحاظ سے اس طرح ظہور پذیر ہوئی کہ دشمن نے جو اس زمانہ میں علم میں اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا بلکہ عام طور پر جہالت کا ہی دور دورہ تھا.خواہ اس زمانہ کے لوگ اہل کتاب ہوں ، مشرکین ہوں ، خواہ بد مذہب ہوں انہیں مذہبی لحاظ سے دیکھا جائے یا دنیوی لحاظ سے عموماً وہ علم سے محروم تھے اس لئے جب اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور قرآن کریم جیسی عظیم کتاب آپؐ پر نازل کی.تو ان اقوام نے جو دنیا کے مختلف مذہبی فرقوں میں بٹی ہوئی تھیں جہاں جہاں اسلام پہنچا یہ سمجھا کہ ہم اپنی طاقت کے بل پر اسلام کو مٹا کر رکھ دیں گے چنانچہ بالکل ابتدائی زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے جو دن مکہ میں گزارے.ان میں آپ کو اور آپ پر ایمان لانے والوں کو انتہائی تکالیف پہنچائی گئیں کفار یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے ان تکالیف کی شدت کو انتہا تک پہنچا دیا.تو یہ بھی بھر لوگ اپنے مذہب سے تو بہ کر لیں گے اور پھر ان بتوں کے آگے سجدہ کرنے لگ جائیں گے جن کو یہ چھوڑ چکے ہیں.لیکن مسلمان کے دل میں جب حقیقتاً بشاشت ایمان پیدا ہو جاتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے ایمان کے اس مقام سے ہٹا نہیں سکتی.سو تکالیف جتنی وہ پہنچا سکتے تھے انہوں نے پہنچائیں.مسلمانوں پر آزمائش کی جتنی گھڑیاں وہ لا سکتے تھے لائے.سخت سے سخت امتحانوں میں سے مسلمانوں کو گزرنا پڑا لیکن ان کے قدم ڈگمگائے نہیں.تب تمام حالات کو مدنظر رکھ کر کفار نے یہ نتیجہ نکالا کہ صرف تکالیف پہنچانا کافی نہیں.بس ایک ہی علاج ہے وہ یہ کہ انہیں قتل کر دیا جائے تو جب انہوں نے اسلام کو مٹانے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے جاؤ.چنانچہ آپ نے گفتی کے چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی.

Page 485

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۶۹ خطبہ جمعہ اار نومبر ۱۹۶۶ء پھر اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے رہنے والوں کے دلوں کو اسلام کے لئے کھولا اور ان کے سینوں کو قرآن کریم کے نور سے منور کیا.جب اسلام مدینہ میں کچھ طاقت پکڑنے لگا تو کفار نے اپنے بد منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا پختہ ارادہ کر لیا.انہوں نے سمجھا کہ مدینہ کے چند سو آدمی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے.ہم تلوار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بآسانی شہید کر دیں گے اور اسلام کو مٹا دیں گے.چنانچہ مکہ والے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور اس وقت اس سلسلہ معجزات کی بنیا درکھی گئی.جس کے نتیجہ میں اسلام تمام دنیا پر غالب آ گیا اور وہ سلسلہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت اور طاقت کے معجزانہ اظہار سے کفار کو بتایا کہ خواہ تمہاری طاقت کتنی ہی کیوں نہ ہو اور مسلمانوں کی کمزوری خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو.تم اپنے دنیوی اموال اور دنیوی طاقت کے باوجود اسلام پر غالب نہیں آسکتے.چنانچہ اس سلسلہ معجزات کا دروازہ بدر کے مقام پر کھولا گیا اور بدر کے مقام پر مستقبل کے واقعات کی ایک تصویر دنیا نے دیکھی کہ اگر خدا کی طاقت کسی قوم اور سلسلہ کے پیچھے ہو تو ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اس کو فنا نہیں کر سکتیں.چنانچہ اسلام کی تاریخ کے پہلے تیس چالیس سال میں (اور پھر یہ سلسلہ کئی سو سال تک آگے بھی چلا ) کفر نے تلوار کے زور پر اسلام کو مٹانا چاہا اور خدا تعالیٰ نے کمزور مسلمانوں کو جو اخلاص کے ساتھ ہر میدان میں کو دے کامیاب کیا اور کفر کی تلوار کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اس طرح دنیا پر ثابت کر دیا کہ اسلام دنیا میں مٹنے کے لئے قائم نہیں کیا گیا.جتنی طاقت تم اس کے خلاف استعمال کر سکتے تھے تم نے کی.جتنی دفعہ تم نے چاہا اور شیطان نے تمہیں ورغلایا تم اسلام کے خلاف صف آرا ہوئے لیکن تمہاری ان صفوں کو اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے الٹ کر رکھ دیا.یہ اسلام کی ابتدائی زمانہ کی تاریخ کی مختصر سی تصویر ہے.جو ہمیں بتاتی ہے کہ جب اسلام دنیا میں آیا تو بجائے اس کے کہ دنیا قرآنی علوم سے فائدہ اٹھاتی دنیوی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی ترقی کرتی ، اس نے طاقت کے زور سے اسلام کے نور اور قرآن کریم کی چمک کو مٹانا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے یہ ثابت کر دیا کہ قرآن کریم ایک نور ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک نور ہے اور کسی الہی نور کو دنیا کی کوئی تلوار، دنیا کی کوئی بندوق، دنیا کا کوئی بم اور دنیا کا کوئی

Page 486

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۷۰ خطبہ جمعہ اا نومبر ۱۹۶۶ء ایٹمی ہتھیا رتباہ نہیں کرسکتا.اس کے بعد مسلمانوں نے بد قسمتی سے اسلام کو بھلا دیا اور قرآن کریم کے نور کو اپنے گھروں اور اپنے سینوں سے نکال باہر پھینکا اور ان کی بجائے اپنے سینوں اور گھروں کو بد خیالات بدرسوم اور شرک کے مختلف اندھیروں سے بھر لیا.تب خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ان دلوں میں میرے لئے تو کوئی جگہ باقی نہیں رہی اور ان مکانوں میں میرے ذکر کو بلند کرنے کا کوئی سامان نہیں.اب یہ مکان وہ بیوت نہیں رہے جن کے متعلق وعدہ کیا گیا تھا اور بشارت دی گئی تھی.في بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ ( النور : ۳۷) کہ ایسے گھر ہوں گے جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے گا اور آسمان سے ان کی بلندی کے سامان پیدا کئے جائیں گے.تو پھر مسلمان تنزل کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے شروع ہوئے اور بعض دفعہ تو ایک انسان کی نیند حرام ہو جاتی ہے.جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ تمام دنیا کے حاکم بھی یہی تھے، تمام دنیا کے استاد بھی یہی تھے، تمام دنیا کو تہذیب سکھانے والے بھی یہی تھے اور تمام دنیا کو دنیوی علوم سکھانے والے بھی یہی تھے اور تمام دنیا کو روحانی علوم سکھانے والے بھی یہی تھے اور اب یہ حال ہے کہ اپنے گھروں سے ، اپنے مدرسوں سے، اپنے کالجوں سے.اور دوسری درسگاہوں سے روحانی علوم کو انہوں نے نکال کے باہر پھینک دیا اور دنیوی علوم کے لئے دوسری قوموں سے بھیک مانگنی شروع کر دی.اندھیرے کا یہ زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق دنیا پر آیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق وہ وقت بھی آیا جب اس اندھیرے کے زمانہ کو نور کے زمانہ سے بدلنا مقدر تھا اور اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بتایا کہ چونکہ آپ نے اپنا وجود کلیتا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں گم کر دیا ہے اور آپ کے سینہ میں اسلام کا درد اور تو حید کو قائم کرنے کی تڑپ ایسی پائی جاتی ہے اور آپ کے یہ جذبات اتنی شدت اختیار کر گئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی محبت اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ جس مقام تک امت محمدیہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )

Page 487

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۷۱ خطبہ جمعہ اار نومبر ۱۹۶۶ء کے روحانی فرزندوں میں سے کسی ایک کی بھی محبت نہیں پہنچی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو ہی میرا وہ عبد محبوب ہے جس کو میں نے پھر اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرنے اور ادیان باطلہ پر فتح پانے کے لئے کھڑا کیا ہے اٹھ ! اور اپنے گوشہ تنہائی کو چھوڑ ! اور اس حجرہ سے باہر نکل جس میں چھپ کر تو میری عبادت کرتا ہے اور میدان مجاہدہ میں اتر اور دنیا کو پکار کر کہ کہ اسلام کے غلبہ کے دن آگئے ہیں.اُٹھو! اور میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے علوم قرآنی کو از سر نو سیکھو اور پھر دنیا کے استاد بن کر دنیا میں پھیلو اور دنیا کو انوار قرآنی سے متعارف کراؤ.پھر خدا نے کہا کہ جب تم دنیا کو میرا یہ پیغام پہنچاؤ گے تو دنیا تمہاری مخالفت کرے گی.تم اکیلے ہو گے مگر دنیا کی مخالفت کی پرواہ نہ کرنا اور میری طاقت اور قدرت پر کامل بھروسہ رکھنا.میں چاروں طرف ایسے آدمی پیدا کرتا چلا جاؤں گا جو تمہاری آواز پر لبیک کہتے ہوئے تمہارے گرد جمع ہو جائیں گے.یہ دیکھ کر دنیا انتہائی مخالفت کے لئے کھڑی ہو جائے گی اور تم سب کے کچلنے اور مثانے کے درپے ہو جائے گی مگر وہ تمہیں ہلاک اور مغلوب نہ کر سکے گی.پھر ہم اس قدر دلائل اور براہین تمہیں عطا کریں گے کہ یہ زمانہ جو علوم کا زمانہ ہے اور جس میں انسان ستاروں تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اس زمانہ کے بڑے بڑے عقل مند اور عالم اور سائنسدان ان دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.پس اُٹھو! اور مجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم کو تمام دنیا میں پھیلاؤ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے رب کی نظر میں یہ مقام ہے اور یہ کام ہے جس کی خاطر آپ کے رب نے آپ کو دنیا میں مبعوث فرمایا.جو دلائل دیئے وہ تو ایک سمندر ہے اس کا چند منٹوں میں، چند دنوں میں یا چند مہینوں میں یا چند سالوں میں یا چند صدیوں میں بھی بیان کرنا ممکن نہیں.کیونکہ سمندر کے قطروں کو گننا آسان ہے لیکن ان دلائل کو اعدادوشمار میں باندھ دینا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سکھائے مشکل ہے.لیکن تین بنیادی چیز میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو سکھائی ہیں اور دراصل وہی تین بنیادی چیزیں ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری طاقت کا انحصار ہے اور جن کے نتیجہ میں ہم دنیا میں کامیاب ہو رہے ہیں.

Page 488

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۷۲ خطبہ جمعہ ۱۱ار نومبر ۱۹۶۶ء پہلی چیز یہ ہے کہ اسلام جس خدا سے ہمارا تعلق پیدا کرنا چاہتا ہے وہ زندہ خدا ہے.آپ نے دلائل کے ساتھ یہ بات واضح کی کہ دوسری سب اقوام اور اسلام کے دوسرے سب فرقے اس وقت خدا تعالیٰ کو زندہ طاقتوں والا اور زندہ قدرتوں والا خدا نہیں سمجھتے.لمبی داستان ہے کن کن کی کون کون سی بات بتائی جائے جس سے یہ واضح ہو کہ سارے لوگ ہی زندہ خدا کو چھوڑ چکے تھے.وہ بوسیدہ ہڈیوں کے گرد جمع ہو گئے تھے.روحانیت جاتی رہی تھی.جو ظاہری علوم تھے ان میں بھی کوئی کمال حاصل نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دلائل کے ساتھ اور قوتِ قدسیہ کے نتیجہ میں ہمارے سامنے زندہ خدا کو پیش کیا اور ہمارے رب نے محض اپنے فضل سے ہزاروں احمدیوں کو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا.وہ معجزات اور وہ قادرانہ امور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے پیش کئے.ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے جیسا کہ خود آپ نے اپنی کتب میں بیان فرمایا ہے لیکن وہ معجزات جو ہمارے پیارے رب نے محض اپنے پیار اور فضل کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو بحیثیت جماعت اور مختلف افراد جماعت کو بحیثیت افراد دیئے.وہ ( معجزات ) بھی لاکھوں سے کم نہیں.ہماری فرقان بٹالین جب کشمیر کے محاذ پر تھی.اللہ تعالیٰ نے جماعتی لحاظ سے وہاں اتنے معجزے دکھائے کہ اگر ان کو اکٹھا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب ان معجزات پر مشتمل لکھی جاسکتی ہے.پھر جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ابتدائی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ چونکہ آپ ہر وقت عبادت اور ذکر میں مشغول رہتے تھے اور آپ کا خاندان چونکہ بڑا ہی دنیا دار تھا.خاندان کے لوگ سمجھتے تھے کہ ہمارا یہ لڑکا ( مسیح موعود علیہ السلام ) کسی کام کا نہیں.نہ اس میں جائیدا دسنبھالنے کی قابلیت ہے اور نہ خاندانوں کی عزت اور ترقی اس کے ساتھ وابستہ ہوگی.وہ دنیا دار تھے اس لئے دنیوی خیالات کے تیر چلا رہے تھے.ان کو کیا پتہ تھا کہ یہ بچہ کہاں تک پہنچنے والا ہے.آپ ہر وقت ذکر الہی ، نمازوں اور دوسرے نیک کاموں میں مشغول رہتے تھے.قادیان میں بھی بہت کم لوگ آپ سے واقف تھے.ضلع گورداسپور میں جو چھوٹا سا ضلع تھا

Page 489

خطبات ناصر جلد اول ۴۷۳ خطبہ جمعہ ۱۱/ نومبر ۱۹۶۶ء اور سارے ملک کے لحاظ سے اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی.اس میں بھی گنتی کے چند آدمیوں کے علاوہ آپ کو کوئی نہ جانتا تھا.باقی دنیا کا تو کہنا ہی کیا؟ اس کو تو قطعاً آپ کے متعلق کوئی واقفیت نہ تھی.یہ حال آج سے سترہ پچھتر سال پہلے کا ہے.اور آج وہ دن ہے کہ دنیا کے قریباً ہر ملک میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کر دیئے ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے انتہائی محبت اور عقیدت رکھتے ہیں جو اسلام کے فدائی ہیں.جو قرآن کریم کے نور سے منور ہیں.جو توحید خالص پر قائم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ وقت سے پہلے آئندہ کی خبریں دیتا ہے اس وقت ایسے ہزار ہا احمدی افریقہ، امریکہ اور یورپ میں موجود ہیں.ابھی چند دن ہوئے مجھے گیمبیا کے مبلغ مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی نے لکھا.(اس ملک کے گورنر جنرل احمدی ہیں) کہ یہاں گیمبیا کا ایک حبشی باشندہ چند سال سے احمدی ہے.بہت مخلص ہے اور وہ تہجد کے نوافل ادا کرنے کے لئے اکثر مسجد میں آتا ہے.اس پر اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ وہ کثرت سے سچی خوا ہیں دیکھتا ہے.وہ خانساماں ہے اور دنیا داروں کی نظر میں اس کی کوئی قدر نہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اور اسلام کی برکات کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے فیضان سے اس کو بھی حصہ ملا ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ کثرت سے اسے سچی خوا ہیں دکھاتا ہے.چنانچہ ہمارے مبلغ نے ایک دو مثالیں بھی لکھی ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ یہ شخص بے روز گار تھا.اس نے خواب دیکھی کہ میں نوکر ہو گیا ہوں سولہ پونڈ ماہوار پر.صرف یہی نہیں دیکھا کہ نوکر ہو گیا ہوں بلکہ خواب میں یہ بھی دیکھا کہ ماہوار تنخواہ سولہ پونڈ ہوگی اور یہ خواب اس نے مجھے بتادی.ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ اسے سولہ پونڈ ماہوار کی نوکری مل گئی.لیکن اس سے بھی ایک عجیب خواب اس نے یہ دیکھی کہ گیمبیا کے پرائم منسٹر نے اپنے گلے میں ایک بڑا سا پتھر باندھ کر سمندر میں چھلانگ لگا دی ہے.یہ خواب ایسی ہے کہ نہ خواب دیکھنے والے کو اس کے متعلق کچھ علم ہے اور نہ ہی مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی کو کوئی پتہ ( کہ ان کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا ) یہ خواب مولوی صاحب نے وہاں کے گورنر کو جو احمدی ہے اور جماعت کا پریذیڈنٹ بھی ہے.بتائے.اس پر گورنر صاحب

Page 490

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ اار نومبر ۱۹۶۶ء نے کہا کہ ہاں پرائم منسٹر کچھ پریشان ہے لیکن پوری بات انہیں نہیں بتائی.البتہ پرائم منسٹر کے مفصل حالات مجھے لکھے اور درخواست کی کہ میں اس کے لئے دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ اس کی پریشانی کو دور کرے.پرائم منسٹر احمدی نہیں لیکن ہمارے گورنر الحاج کی تبلیغ سے ہی وہ مسلمان ہوئے تھے.تو الحاج کو پتہ ہے کہ اس کی پریشانی کیا ہے.خود پرائم منسٹر کو پتہ ہے کہ اس کی پریشانی کیا ہے.ممکن ہے اس کے کسی اور دوست کو بھی پتہ ہولیکن یہ یقینی بات ہے کہ نہ خواب دیکھنے والے کو پتہ ہے کہ وہ پریشانی کیا ہے اور نہ خواب لکھنے والے کو علم ہے کہ کون سی پریشانی ہے اور کون سا پتھر ہے جو اس کے گلے میں لٹکا ہوا ہے اور کون سا سمندر ہے جس میں اس نے چھلانگ لگا دی ہے.تو یہ بات ثابت کرتی ہے کہ یہ خواب اسے اس کے نفس نے نہیں دکھائی بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھیج کر یہ خواب اسے دکھائی.نہ خواب دیکھتے وقت ان حالات کا اسے علم تھا.نہ ہی اب تک کچھ پتہ ہے.حالانکہ خواب دیکھے ہوئے مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہو گیا ہے.سو اس قسم کی مثالیں ایک دو نہیں ہمارے پاکستان میں بھی ہزاروں تک پہنچی ہوئی ہیں.شاید اس سے بھی زیادہ ہوں.پھر اس قسم کی مثالیں صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ امریکہ کے حبشی جن کو اس وقت وہاں تنگ کیا جا رہا ہے.افریقہ کے حبشی جن پر دنیا ظلم کرتی آئی ہے.جن کو دنیا ز بر دستی پکڑ کے منڈیوں میں بیچتی چلی آئی ہے.ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نگاہ میں آزاد کر دیا ہے اور انہیں سچی خوا ہیں ، مکاشفات اور الہامات ہونے شروع ہو گئے ہیں.بہت سارے ملہم ہیں سچی خوا میں دیکھنے والے، کشوف ورڈ یا دیکھنے والے، ان کو اللہ تعالیٰ نے وقت سے پہلے بہت عجیب عجیب نظارے دکھائے پھر نا مساعد حالات میں دکھائے.لیکن اللہ تعالیٰ نے حالات بدل دیئے.اسی کے ہاتھ میں ہر چیز ہے.جو پہلے بتایا تھا ویسا ہی کر دیا اور یہ وہ چیز ہے جس کے نتیجہ میں ان لوگوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بے انتہاء محبت پائی جاتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کے نتیجہ میں وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہوتے جا رہے ہیں اور قرآن کریم کی وہ قدر کرتے ہیں جو واقعہ میں کرنی چاہیے.وہ خدا کے سوا کسی کے آگے نہیں جھکتے

Page 491

خطبات ناصر جلد اول ۴۷۵ خطبہ جمعہ اار نومبر ۱۹۶۶ء کیونکہ زندہ خدا اپنی زندہ طاقتوں اور زندہ قدرتوں کے ساتھ ان پر جلوہ گر ہو رہا ہے اور اس لئے ہو رہا ہے کہ ان کے پاس اسلام کی سچی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے پہنچی.ایک تو یہ بنیادی چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کو دی.دوسری بنیادی چیز جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو دی وہ ” زندہ رسول“ ہے.لوگ یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ نعوذ باللہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ابتر ہیں.آپ کے کوئی نرینہ اولاد نہیں یعنی آپ کے ہاں جتنے بیٹے ہوئے سارے کے سارے چھوٹی عمر میں فوت ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر کو دیکھ کر اور فنا فی اللہ کے مقام پر نظر کرتے ہوئے آپ کو وعده ديا انا اعطينكَ الكوثر کہ بے شک جسمانی نرینہ اولا د نہیں رہی لیکن روحانی اولاد ہم تجھے اس کثرت سے دیں گے کہ دنیا کا کوئی نبی تیرا مقابلہ نہیں کر سکے گا.حتی کہ اگر دنیا کے تمام انبیاء کی روحانی اولاد کو اکٹھا کر دیا جائے تو بھی آپ کی روحانی اولا دزیادہ ہو گی.اسی مقام کی وجہ سے آپ کو خاتم النبیین کا لقب ملا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ جسمانی اولا د تو آپ کی ہے نہیں.آپ کی کوئی روحانی اولا د بھی نہیں جو آپ کے فیوض سے فیض حاصل کر کے ارفع روحانی مقام حاصل کر سکے اور جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہو اور جنہیں قبولیت دعا کا نشان دیا جائے.تو یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دراصل زندہ نبی نہیں مانتے.بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے فیوض آپ کے زمانہ میں ہی تھے آگے جاری نہیں رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ایسا نہیں اور ہر گز نہیں.ہمارا رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ رسول ہے اس کے فیوض ، اس کی روحانیت اور اس کی قوت قدسیہ جس طرح پہلے تھی اب بھی ہے.اور قیامت تک جاری رہے گی.چنانچہ جو برکات آپ کے ذریعہ سے پہلے لوگوں نے حاصل کیں وہ اب بھی حاصل کی جاسکتی ہیں اور میں اس بات کا زندہ گواہ ہوں.میں اپنی زندگی اور دلائل سے ثابت کر سکتا ہوں اور نمونہ سے بتا سکتا

Page 492

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ اار نومبر ۱۹۶۶ء ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایک زندہ وجود ہے.چنانچہ آپ پر کثرت سے درود پڑھنے کی وجہ سے انسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑی برکات نازل ہوتی ہیں.( جماعت کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیے!) میں نے چند سال ہوئے جماعت کو درود پڑھنے کی طرف توجہ دلائی تھی تو میرے پاس بیبیوں خطوط آئے کہ ہم نے جو تین سو دفعہ روزانہ درود پڑھا تو اس کے نتیجہ میں ہم پر ایسی برکات نازل ہوئی ہیں کہ ہم صرف اس مدت معینہ میں ہی نہیں بلکہ آئندہ ساری عمر میں ہی روزانہ تین سو دفعہ در دو پڑھا کریں گے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے رسول کو ایک زندہ رسول کی حیثیت میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور ہمارے دلوں میں یہ بات گاڑ دی کہ یہ رسول ایسا نہیں کہ جس پر روحانی طور پر کبھی موت یا فنا آ سکتی ہے بلکہ اس کو قیامت تک زندہ رکھا جائے گا اور آپ کے روحانی فیوض جاری رہیں گے.تیسری چیز جو بنیادی طور پر آپ نے جماعت کے ہاتھ میں دی وہ زندہ کتاب تھی.مسلمان کہلانے والے قرآن کریم کو زندہ کتاب نہیں سمجھتے تھے کیونکہ وہ کہتے تھے کہ جی! پہلوں نے جو تفسیر لکھ دی بس وہی ٹھیک ہے اب قرآن کریم کے خزانے ختم ہو گئے اور یہ کتاب مردہ ہو گئی جیسے کسی نہر کا سارا پانی نکال لیا جائے تو کوئی اسے ”نہر جاری نہیں کہے گا.جس نہر کا سارا پانی نکل جائے وہ خشک ہو جاتی ہے.پس جب قرآن کریم کے تمام علوم پہلوں نے نکال لئے تو وہ خشک ہو گیا زندہ نہیں رہا، چالو نہیں رہا، گو یا وہ نہر دنیا کو فائدہ پہنچانے والی نہ رہی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے قرآن کریم کے علوم اس کثرت سے دیئے گئے ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا.ایک عیسائی نے اعتراض کیا جب تو حید وغیرہ تورات میں بھی پائی جاتی ہے تو قرآن کریم کی کیا ضرورت تھی؟ حضور علیہ السلام نے اسے جواب دیا کہ قرآن کریم کا تو تم ذکر چھوڑو.یہ تو ایک بڑی کتاب ہے.قرآن کریم کے شروع میں ایک مختصر سی سورۃ ہے جس کی کل سات آیتیں ہیں.اس کا نام سورۃ فاتحہ ہے اور ہم اسے ہر نماز میں پڑھتے ہیں.اس سورۃ فاتحہ

Page 493

خطبات ناصر جلد اول ۴۷۷ خطبہ جمعہ ۱۱ار نومبر ۱۹۶۶ء میں اتنے علوم ہیں کہ تم اپنی تمام الہامی کتب میں سے وہ علوم نہیں نکال سکتے.اگر تم نکال سکو تو میں سمجھوں گا کہ قرآن کریم کی کوئی ضرورت نہیں.باقی قرآن بہت بڑی کتاب ہے اس کے علوم تک تو تمہارا تخیل بھی نہیں پہنچ سکتا.چنانچہ اس چیلنج کو دیئے پچاس ساٹھ سال ہو چکے ہیں اور اس چیلنج کے قبول کرنے والے کو رعلیہ السلام نے پانچ سو روپیہ دینے کا وعدہ بھی کیا لیکن کسی عیسائی کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ اس چیلنج کو قبول کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورۃ فاتحہ کی جو تفسیر فرمائی ہے اُردو میں یا عربی میں چیلنج قبول کرنے سے پہلے پھیلنج قبول کرنے والے کو وہ پڑھنی چاہیے لیکن وہ دوسرے لوگوں سے بعض مطالب سن کر ہی اس فیصلہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ اس طرف نہ آنا چاہیے.اب میں نے پانچ سو روپے سے بڑھا کر انعام کی رقم پچاس ہزار روپیہ کر دی ہے تو سوائے ایک دو د یسی پادریوں کے اور کوئی اس چیلنج کے متعلق کچھ کہنے کی جرات نہیں کر سکا.جو بولے وہ بھی ایسے پادری تھے کہ دنیائے عیسائیت میں ان کو کوئی خاص مقام حاصل نہیں اور انہوں نے جو لکھا وہ بھی طفلانہ بیان ہے.چیلنج یہ تھا کہ جو مطالب اور مضامین سورۃ فاتحہ میں پائے جاتے ہیں.وہ کوئی عیسائی اپنی تمام الہامی کتب سے نکال کر دکھاوے.اگر کوئی ایسا کر دکھائے تو ہم سمجھیں گے اس نے اسلام کا کچھ مقابلہ کر لیا ہے اور ہم اسے انعام دے دیں گے.لیکن بجائے اس کے کہ وہ ہم سے یہ پوچھتے کہ آپ نے مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کو دہرایا ہے اور پانچ سو روپیہ کے انعام کو پچاس ہزار روپیہ میں بدل دیا ہے.دکھاؤ وہ مضامین کون سے ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں تا کہ وہی یا اس سے بہتر مضامین بائیبل سے نکال کر دکھائے جائیں.انہوں نے لکھا ہے کہ ہمیں آپ کا چیلنج منظور ہے.لیجئے جواب یہ ہے.حمد کا لفظ بائیبل کی فلاں کتاب کے فلاں باب کی فلاں آیت میں اور فلاں کتاب کے فلاں باب کی فلاں آیت میں پایا جاتا ہے.پھر لکھا کہ لفظ رب بائیبل کی فلاں کتاب اور فلاں باب اور فلاں آیت میں موجود ہے.

Page 494

خطبات ناصر جلد اول ۴۷۸ خطبہ جمعہ ۱۱/ نومبر ۱۹۶۶ء اور تمام جہاں کا فقرہ فلاں آیت میں پایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ.اور کہا کہ پیسے نکالو کیونکہ ہم 66 نے چیلنج منظور کر کے اس کا جواب دے دیا ہے.حالانکہ ہمارا چیلنج یہ تھاہی نہیں پھر یہ الفاظ پتہ ہے پائے کہاں جاتے ہیں؟ اصلی بائیبل میں نہیں بلکہ بائیبل کے اردو تر جمہ میں اور یہ احمقانہ بات ہوتی اگر کوئی شخص یہ کہتا کہ تم سورۃ فاتحہ کے الفاظ بائیل سے نکال کر دکھاؤ جس کی زبان عربی نہیں جیسے میں کہوں ” نکال دو‘ پنجابی میں کہتے ہیں کڈھ دیو یہ تم اگر عبرانی زبان سے نکال دو.تو تمہیں انعام دیں گے تو یہ پنجابی کا لفظ عبرانی سے کیسے نکل آئے گا.یہ تو ہم نے چیلنج ہی نہیں دیا تھا.پھیلنج یہ تھا کہ جو مضامین اور مطالب سورۃ فاتحہ میں پائے جاتے ہیں وہ ہمیں بائیبل سے نکال کر دکھاؤ.تم خود کہتے ہو کہ پہلے ان کتابوں کا ترجمہ انگریزی میں ہوا اور پھر اُردو میں ہوا اور جب اُردو میں ترجمہ ہوا.تو بہت سے مسلمان عیسائی ہو چکے تھے اور وہ قرآن کریم کی زبان اور اس کے محاوروں سے متاثر تھے.جب ترجمہ ہوا تو انہوں نے انہی الفاظ کو نقل کرنا شروع کر دیا.تو اس نقل کے بعد اب کہتے ہیں کہ یہ لفظ بائیبل میں یعنی بائیل کے اردو تر جمہ میں پائے جاتے ہیں.تو خود ایک پادری کا ایسا جواب دینا بتاتا ہے کہ ان مضامین کا بائیبل میں پایا جانا تو کجا! بائیبل کے پڑھنے والوں کے تخیل سے بھی وہ مضامین باہر ہیں اسی لئے ان کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ کہیں کہ بتائیے وہ کون سے مضامین ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں.مجھے جب پتہ چلا کہ بعض پادری ہمارا یہ چیلنج قبول کرنے کے لئے تیار ہیں تو میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ جہاں جہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورہ فاتحہ کی تفسیر کی ہے پوری سورۃ کی یا اس کی کسی آیت کی.وہ اکٹھی کر لی جائے تا کہ جب وہ ہمارا چیلنج قبول کریں اور ہم سے سورۃ فاتحہ کے ان مضامین اور مطالب کا مطالبہ کریں.جو اس میں بیان ہوئے ہیں تا کہ ان کے مقابل ویسے ہی مضامین بائیبل سے نکال کر دکھائے جائیں.تو وہ اکٹھے ہی ان کے سامنے پیش کر دئے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ تفسیر سورہ فاتحہ کو

Page 495

خطبات ناصر جلد اول ۴۷۹ خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۶۶ء اکٹھا کیا جائے تو وہ تین ہزار صفحہ کی کتاب بنے گی.حالات بدلتے رہتے ہیں.اور نئے نئے مضامین نکلتے رہتے ہیں.تو جونئی باتیں ہمیں سمجھ آئیں وہ بھی ہم اس میں زائد کر دیں گے اور پھر ان سے کہیں گے کہ یہ ہیں سورہ فاتحہ کے مضامین !!! اگر یہ مضامین تم تمام بائیبل سے نکال دو تو ہم سمجھیں گے کہ تم کامیاب ہو گئے اور تمہیں فوراً پیسے دے دیئے جائیں گے.لیکن بجائے اس کے کہ وہ چیلنج کو اپنے صحیح رنگ میں سمجھتے اور پھر اسے قبول کرتے انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ سورۃ فاتحہ کا فلاں لفظ بائیبل کے اردو تر جمہ میں فلاں جگہ پایا جاتا ہے اور فلاں لفظ فلاں جگہ.اس سے ثابت ہو گیا کہ سورۃ فاتحہ بائیبل میں پائی جاتی ہے تو یہ تو ایک طفلا نہ جواب ہے جسے سمجھدار پادری بھی قبول نہ کریں گے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک زندہ کتاب ہمارے سامنے رکھی اور فرمایا کہ قرآن کریم کے علوم پیچھے ہی نہیں رہ گئے بلکہ قیامت تک کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے مواد اس میں موجود ہیں.علمی لحاظ سے کوئی اُلجھن پیش آئے کوئی مشکل مسئلہ ہو، قرآن کریم پر غور کریں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ اس کا یہ مطلب ہے اور باوجود یکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ( جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ) خدا تعالیٰ کی توحید کے ثبوت میں اور قرآن کریم کی صداقت کے ثبوت میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے شمار دلائل اور براہین پیش کئے ہیں پھر بھی آپ نے یہ نہیں کہا کہ قرآنی علوم کا دروازہ بند ہو گیا ہے.بلکہ فرمایا کہ غور کرو، تدبر کرو، بار بار پڑھو اور دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں قرآن کریم کے علوم سے منور کرے وہ نئے سے نئے مضامین تمہیں سکھاتا چلا جائے گا.قرآن ایک ایسا خزانہ ہے جو نہ ختم ہونے والا ہے اور اتنا قیمتی خزانہ ہے کہ اگر انسان کے دل میں واقعی نور ہو اور اس کے دماغ میں فراست ہو تو اس کے ایک ایک موتی کی کوئی قیمت نہیں ڈالی جاسکتی.اس کے مقابلہ میں دنیا کے جواہرات بالکل لاشئی ہیں مثلاً قرآن کریم میں ارشاد ہوا ب ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ کہ تم دعا کرو میں تمہیں دوں گا.اب یہ ایک مضمون ہے نا ! جو بیان ہوا

Page 496

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۸۰ خطبہ جمعہ اا نومبر ۱۹۶۶ء ہے.کونسا ہیرا ہے جو اس سے زیادہ قیمتی ہو؟ جس سے کہ آپ کی ضرورتیں بھی پوری ہوتی رہیں آپ کی اولاد کی بھی پوری ہوتی رہیں.ان کی اولاد کی بھی پوری ہوتی رہیں.آپ اسے خرچ بھی کرتے رہیں اور ختم بھی نہ ہو.بلکہ آگے سے بھی بڑھتا چلا جائے.دنیا کا کوئی ہیرا ایسا نہیں جسے استعمال بھی کیا جائے اور وہ پہلے سے بھی زیادہ ہو جائے.دنیا کا کوئی مال ایسا نہیں ( ہیرے جواہر ہوں یا کسی اور قسم کا مال ہو ) لیکن اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی آیت ایسی ہے کہ ساری دنیا کے مال اس سے کم قیمتی ہیں کیونکہ دعا کے نتیجہ میں جو فضل جسمانی اور روحانی آسمانوں سے نازل ہوتے ہیں سچے دل کی دعا اور عاجزی و تضرع کے ساتھ وہ دنیا داروں کو دنیا کی تمام دولت خرچ کر کے بھی حاصل نہیں ہو سکتے.پس آپ کو اس کتاب کی قدر کرنی چاہیے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے.ہم نے احمدیت کی وجہ سے ساری دنیا کی ناراضگی مول لی ہے اور احمدیت ہمیں سکھاتی ہے کہ قرآن کریم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا ئیں اور اس کی برکات سے مستفیض ہوں ورنہ ہماری مثال اس شخص کی طرح ہوگی کہ کہتے ہیں کہ ایک شخص گھر سے پیسے لے کر بازار جار ہا تھا.کسی نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو وہ کہنے لگا.بازار جا رہا ہوں تا وہاں جا کر گدھا خریدوں.اس نے کہا انشاء اللہ کہو.اس نے جواب دیا کہ پیسے میری جیب میں ہیں اور گدھا بازار میں موجود ہے انشاء اللہ کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں پیسے ادا کر کے گدھا خرید لوں گا.جب وہ بازار پہنچا تو کسی نے اس کے پیسے چرا لئے.بڑا حیران و پریشان ہوا.اس وقت اسے خیال آیا کہ چونکہ میں نے اپنے دوست کے کہنے پر انشاء اللہ نہیں کہا تھا.اس لئے مجھے یہ سزا ملی ہے.اگر میں انشاء اللہ کہتا تو میرے پیسے چوری نہ ہوتے اور مجھے یہ نقصان اور پریشانی لاحق نہ ہوتی.اسی پریشانی میں وہ واپس آرہا تھا.تو کسی نے پوچھا کہاں سے آئے ہو.کہنے لگا بازار سے آیا ہوں انشاء اللہ.بازار میں گیا تھا انشاء اللہ مگر پیسے چوری ہو گئے انشاء اللہ میں گدھا نہیں خرید سکا انشاء اللہ اب خالی ہاتھ واپس لوٹ رہا ہوں.انشاء اللہ.

Page 497

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۸۱ خطبہ جمعہ اا نومبر ۱۹۶۶ء اسی طرح آگ میں پڑ کے اور دنیا کی گرمی اور ناراضگی مول لینے کے بعد بھی ہم نے اس سے فائدہ نہ اُٹھایا تو ہم سا بدقسمت کوئی نہ ہوگا.تو یہ تین چیزیں، یہ تین زندگیاں، یہ تین طاقتیں ہیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں متعارف کیا اور جن کے متعلق ہمارے دل میں پختہ یقین پیدا کیا.وہ یہ کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے.وہ یہ کہ محمد رسول اللہ ایک زندہ رسول ہیں وہ یہ کہ ہمارا خدا جس نے قرآن کریم نازل کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما یا وہ زندہ خدا زندہ طاقتوں والا اور زندہ قدرتوں والا خدا ہے.چاہیے.ان تین زندگیوں سے وابستہ ہو جانے کے بعد کسی احمدی میں کسی قسم کی مردنی نظر نہیں آنی زندہ خدا پر ایمان لانے والے زندہ کتاب کو پڑھنے والے، زندہ رسول سے پیار کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آنے والے کسی فرد میں پژمردگی نہیں پائی جانی چاہیے.نہ دینی لحاظ سے نہ دنیوی لحاظ سے.دینی لحاظ سے جو فرائض عائد ہوتے ہیں.انہیں صرف سن لینے سے تو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.”زندہ قرآن“ کہنے سے تو اس کی زندگی اور نور سے حصہ نہیں مل سکتا.جب تک اسے پڑھیں نہ.جب تک ان راہوں کو اختیار نہ کریں تقویٰ کی جو راہیں قرآن کریم نے بیان کی ہیں.خالی یہ کہہ دینا کہ یہ کتاب زندہ ہے کسی شخص کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اس کے لئے عمل چاہیے ! عمل چاہیے !! عمل چاہیے !!! اسی طرح ایک طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ اور دوسری طرف آپ کے اُسوہ کو چھوڑ دینا.ان دونوں باتوں میں اتنا تضاد ہے کہ کوئی عظمند اس سے متاثر نہیں ہوسکتا.پس یہ کہنا اور دعوی کرنا کہ ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار ہے.لیکن ساتھ ہی آپ کی زندگی کے طریق اور اُسوہ کو اختیار نہ کرنا.جب لوگ یہ دو متضاد باتیں دیکھیں گے.تو احمق یا منافق سمجھیں گے کہ دعویٰ کچھ ہے اور عمل کچھ ہے.یادرکھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ نہ تھا کہ حلال ذرائع سے بھی کمایا نہ جائے.بلکہ یہ تھا کہ حلال کمائی نیکی کی راہ میں خرچ کی جائے.

Page 498

خطبات ناصر جلد اول ۴۸۲ خطبہ جمعہ اار نومبر ۱۹۶۶ء یہی بڑا فرق ہے کہ ایک سچے مسلمان اور ایک دہر یہ کمیونسٹ کے درمیان ! کمیونسٹ ملکوں نے کمانے پر پابندیاں لگا رکھی ہیں اور یہ پابندیاں لگا کر انسان کی بہت سی طاقتوں اور جذبات کو کچل دیا ہے.یہ صحیح ہے کہ اسلام ناجائز کو جائز قرار نہیں دیتا لیکن وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ جائز ذرائع سے جتنا چاہو کماؤ تم پر کوئی پابندی نہیں ہاں کمانے کے بعد جب کو ٹھے“ بھر جائیں اور اس سونے چاندی کے خرچ کرنے کا وقت آئے تو اسلام کہتا ہے کہ فلاں فلاں کاموں پر خرچ نہیں کرنا ورنہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا.شادی بیاہ میں ناچ گانے نہ کروانا کیونکہ یہ تمہارے خدا کو پیارے نہیں.جب کسی رشتہ دار کی وفات ہو جائے تو نا جائز غلط اور غیر مسنون ذریعہ سے اسے ثواب پہنچانے کی کوشش نہ کرنا.ہاں جو جائز اور نیکی کا کام ہے.اس پر بے شک خرچ کرو.تو اللہ تعالیٰ نے خرچ کی راہوں کو متعین اور محدود کر کے بالکل واضح کر دیا ہے اور جو غلط طریقے ہیں ان کی بھی وضاحت کر دی ہے.بعض غلط رسوم اور رواج پھر بعض جماعتوں میں گھس رہے ہیں.گندی رسموں اور گندے رواجوں کے دروازے بند ہونے چاہئیں ورنہ ہمارا یہ دعویٰ غلط ہوگا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں.جو طریق شادی بیاہ، موت وفوت ، دوستوں سے ملنے انہیں دعوتوں پر بلانے کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا تھا.اگر ہمارے دلوں میں آپ کی محبت ہوگی تو وہی طریق ہم بھی اختیار کریں گے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طریق شروع سے لے کر آخر تک یہ اختیار کیا کہ آپ کے ہاتھ سے کسی ایک شخص کو بھی دکھ نہیں پہنچا.یعنی آپ نے کبھی ایسا راستہ اختیار نہیں کیا اور آپ کی زندگی میں اس کی کوئی ایک مثال بھی نہیں مل سکتی کہ کسی شخص کو آپ کے ہاتھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو اور وہ اس کا مستحق نہ ہو.اس کے مقابلہ میں ہزار ہا انسان ایسا ہے جس کا یہ حق بنتا تھا کہ ان کو کوئی تکلیف پہنچائی جائے اور سزا دی جائے.مگر آپ نے ان کو معاف کر دیا.چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر وہ سرداران کفر جن کو اللہ تعالیٰ کی مشیت نے میدانِ جنگ میں قتل ہونے سے بچالیا تھا انہیں سزائے موت نہیں دی گئی.حالانکہ ان میں سے ہر ایک سمجھتا تھا کہ آج میری موت دروازہ پر

Page 499

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۸۳ خطبہ جمعہ ۱۱/ نومبر ۱۹۶۶ء کھڑی ہے.لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ جاؤ تم سب کو معاف کر دیا گیا ہے.اسی وجہ سے ان میں سے اکثر ایسے تھے جنہوں نے سمجھ لیا کہ تیرہ سال دکھ اُٹھانے کے بعد طاقت ملنے پر جو شخص اس فراخ دلی سے معافی دیتا ہے وہ عام انسان نہیں وہ فرشتوں سے بھی بلند ہے اور واقعہ میں اس کا خدا سے تعلق ہے.مال دینے میں یہ مثال قائم کی کہ ایک شخص اکیلا آپ کے پاس آیا اس کا قبیلہ سخاوت میں بہت مشہور تھا.اس نے آپ کو پکارا اور نام لے کر کہا کہ مجھے مال کی ضرورت ہے مال دیجئے.جہاں آپ کھڑے تھے وہاں سامنے وادی تھی اور تمام وادی جانوروں سے بھری تھی.آپ نے اسے فرمایا کہ اس وادی میں جتنے جانور ہیں ہانک کے لے جاؤ تمہیں دیئے.وہ مبہوت سا ہو گیا.اس نے خیال کیا کہ شاید میں نے آپ کی بات ٹھیک سے نہیں سنی.یا میں آپ کی بات کو سمجھا نہیں ہوں اس نے پوچھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں !! آپ نے فرمایا کہ میں کہہ رہا ہوں کہ یہ تمام جانور جو تمہیں وادی میں نظر آ رہے ہیں ہانک کے لے جاؤ اس پر وہ سارے جانور لے گیا اور گھر جا کر اس نے اپنے قبیلے کو اکٹھا کیا اور یہ سارا واقعہ ان کے سامنے بیان کیا.پھر اس نے کہا کہ جو شخص ساری وادی کے جانور میرے کہنے پر دے دیتا ہے وہ دنیا سے تعلق نہیں رکھتا.دنیا دار تو سوچتا ہے کہ میں نے یہ سارے جانور دے دیئے تو اور کہاں سے آئیں گے.پس اس نے اپنے قبیلے کو سمجھایا کہ یہ سخاوت اتنی بڑی سخاوت ہے کہ ان حالات میں ایسی سخاوت صرف وہ شخص کر سکتا ہے، جو خدائے واحد پر پورا بھروسہ اور پورا یقین رکھتا ہو اس لئے تم سب ایمان لا کر مسلمان ہو جاؤ.اس پر وہ سارے ایمان لے آئے.دیکھو! یہ عقلی دلیل پیش کر کے اس نے ان سب کو مسلمان بنالیا.پس مال کے خرچ کرنے پر پابندیاں ہیں اور خرچ کی صحیح راہیں ہمیں بتا دی گئی ہیں.حلال طریق پر مال کمانے پر کوئی پابندی نہیں جس طرح کوئی چاہے کمائے.اس واسطے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہر احمدی فی کلہ (ایکٹر ) اتنے دانے پیدا کرے کہ کوئی غیر اس کا مقابلہ نہ کر سکے.

Page 500

خطبات ناصر جلد اول ۴۸۴ خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۶۶ء اور آپ جو احمدی زمیندار ہیں ایسا کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپ دو چیزوں کا خیال رکھیں نسخہ میں بتا دیتا ہوں عمل کر کے آپ دیکھ لیں.ایک یہ کہ نیت کرلیں کہ آپ کی جو زائد پیداوار ہوگی اس کا معتد بہ حصہ آپ خدا کی راہ میں خرچ کر دیں گے.دوسرے یہ کہ جس وقت آپ اپنی زمین پر کام کر رہے ہوں تو سوائے خدا کے کسی اور کو یاد نہ کریں.سوائے اپنے رب کے کسی پر بھروسہ نہ رکھیں.اور ہل چلاتے ہوئے سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ - الْحَمْدُ لِلَّهِ - الله اكبرُ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمّدٍ وَعَلَى خُلَفَاءِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود وغیرہ دیگر دعائیں کرتے جائیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے ہل میں کوئی فرق نہیں پڑے گا.جس طرح دوسری صورت میں زمین میں ہل چلے گا.اس صورت میں بھی ہل چل جائے گا.لیکن زمین کی روئیدگی بڑھ جائے گی اس کی فصل پہلے کی نسبت زیادہ ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں والا ہے اور میں نے بتایا ہے کہ ہمارا تعلق زندہ خدا سے ہے، وہ تو زمین کو حکم دے دیتا ہے کہ زیادہ اگا تو وہ زیادہ اگانے لگ جاتی ہے.ابھی پچھلے سال میں نے وہاں ربوہ میں میں بائیں ایکٹر میں منجی لگوائی (ہمارے ربوہ کے ارد گرد کی زمینیں بڑی خراب ہیں ) جن لوگوں کے پاس پہلے وہ زمین تھی ان کی آمد فی ایکڑ آٹھ دس من تھی.میں نے زمین بھی بہت دیر کے بعد لی اور وقت بھی بڑا تنگ ہو گیا تھا جسے پنجابی میں پچھیتا کہتے ہیں منجی لگوائی.میں ہفتہ میں وہاں ایک آدھ دفعہ جاتا تھا اور دعا کرتا رہتا تھا کہ خدایا ! میں نے یہ کام شروع کیا ہے.تو ہی اس میں برکت ڈال ! پھر یہ بھی کہ جب اندھیری آتی ، جھکڑ چلتا یا زیادہ بارش ہوتی تو میرے دل میں کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی تھی.میں کہتا تھا کہ جتنا خدا تعالیٰ دینا چاہے وہی ٹھیک ہے اگر وہ کم دینا چاہے تو ہم کوئی شکوہ و شکایت نہیں کر سکتے.ہمارا کام صرف یہ ہے کہ پوری محنت سے کام لیں اور زیادہ سے زیادہ دعا کریں پھر جو نتیجہ نکلے ہم خوش، اچھا نتیجہ نکلے تب بھی ہم خوش.ہماری مرضی کے مطابق نہ نکلے تب بھی خوش کیونکہ

Page 501

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۸۵ خطبہ جمعہ اار نومبر ۱۹۶۶ء ہماری مرضی ہے ہی نہیں.اللہ تعالیٰ کی مرضی ہی پوری ہوتی ہے.میرے اس تو کل اور دعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں سے بجائے آٹھ دس من کے بائیس تئیس من فی ایکڑ اوسطا نکلی بہت سی زمین میں نے خود کاشت کروائی تھی لیکن دو جانگلی مزارع تھے.وہ کہنے لگے کہ پچھلے سال جو ہمارا کل مجموعی حصہ تھا.اس سے زیادہ ہمیں اب ایک ایک ایکڑ سے مل رہا ہے.اس سال بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.یہ صیح ہے اگر اللہ تعالیٰ میرا بھی امتحان لینا چاہتا اور فصل خراب کر دیتا تو اس کی مرضی اور اس کی رضا میں ہی ہماری خوشی ہوتی.کبھی وہ اس طرح امتحان لیتا ہے کہ ژالہ باری ہو جاتی ہے اور ا فصل کھڑی کی کھڑی تباہ ہو جاتی ہے کبھی بیماری لگ جاتی ہے اگر ایسی صورت میں ہم اپنے رب سے ( بیوقوفوں والی یا بچوں والی ) ناراضگی کا اظہار نہ کریں گے بلکہ کہیں گے کہ جو کچھ خدا نے کیا وہ ٹھیک ہے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگلے ایک سال یا دو سال میں خدا تعالیٰ چھینی ہوئی فصل بھی آپ کو واپس کر دے گا اور ہو سکتا ہے کہ اگلے سال وہ اس سے بھی زیادہ دے دے کیونکہ سب کچھ اس کے اختیار میں ہے.تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنی دین اور عطا واپس لے لیتا ہے لیکن پھر جلد ہی واپس لوٹا دیتا ہے تا کہ اس پر بھروسہ کیا جائے اور اس کے علاوہ کسی دوسرے پر بھروسہ نہ کیا جائے اور انسان توحید خالص پر قائم ہو جائے.تو امتحان کے وقتوں میں آپ خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہا کریں جو ایسا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اس فعل سے راضی اور خوش ہوتا ہے اور ان کا جو نقصان ہو.وہ اکثر اسی دنیا میں پورا کر دیتا ہے.لیکن اگر اس دنیا میں پورا نہ بھی ہو اور اس کے عوض میں انسان کو ایک ابدی خوشی حاصل ہو جائے تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں.بڑا سستا سودا ہے.تو ایک طرف ہم نے اسلام کو ساری دنیا میں پھیلانا ہے اور قرآن کریم کی اشاعت کے لئے بڑے بڑے مجاہدات کرنے ہیں مالی قربانیاں دینی ہیں.وقت کی قربانیاں دینی ہیں اور زندگی بھی وقف کرنی ہے.دوسری طرف جماعت کو اس وقت جتنے واقفین کی ضرورت ہے اتنے نہیں آرہے.باہر کا ہر ملک لکھ رہا ہے کہ یہاں لوگ ہماری طرف متوجہ ہو رہے ہیں مبلغ کم ہیں.ہماری طرف مبلغ

Page 502

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۸۶ خطبہ جمعہ ۱۱ار نومبر ۱۹۶۶ء بھجوائیں.خود یہاں پاکستان کی قریباً ہر جماعت لکھ رہی ہے کہ ہمارے پاس واقف عارضی بھیجیں میں نے مٹی یا آٹے کے بت بنا کر تو نہیں بھیجنے جب تک جماعت اپنے بچے وقف نہ کرے گی جب تک وقف عارضی کے لئے لوگ اپنے نام پیش نہ کریں گے اس وقت تک دنیا کی اور جماعت کی ضرورت پوری نہیں ہو سکتی.اس سلسلہ میں ہمیں کسی قسم کی ستی یا غفلت یا مردنی کا ثبوت نہیں دینا چاہیے.کیونکہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل تین زندگیوں“ کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہوا ہے.ایک تو حقیقی اور ازلی ابدی زندگی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی زندہ طاقتیں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی لیکن اس ازلی ابدی زندگی اور حیات سے دو اور زندگیاں نکلیں.ایک قرآنی شریعت کی اور دوسری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں ان دو قائم رہنے والی زندگیوں کے ساتھ باندھ دیا ہے.تو بنیا د تو خالص اور ہمیشہ ہمیش رہنے والی زندگی ہے اور دوسری دو زندگیاں اس سے جو پھوٹیں تو وہ بھی رہتی دنیا تک قائم ہیں.قرآنی تعلیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض.ان کے ساتھ بندھ جانے کے بعد مردہ ہونے کا کیا سوال ! اور ان کے ساتھ تعلق قائم ہو جانے کے بعد ایک دوسرے کو ستانے اور ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے یا کسی کو دکھ پہنچانے یا اپنے بھائی کو سکھ نہ پہنچانے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا ہر احمدی کو احمدی کے ساتھ محبت اور پیار کا سلوک کرنا چاہیے اور ہر دوسرے انسان کے ساتھ جو ابھی احمدی نہیں اس رنگ میں تعلق کا اظہار کرنا چاہیے کہ قرآن کریم کی صحیح تعلیم اس کے سامنے آجائے اور وہ قرآن کریم کی اس تعلیم پر ایمان لانے والے اور اس کی پیروی کرنے والے بن جائیں اور اس سے محروم رہ کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی لعنت اور اس کے قہر کو جذب کرنے والے نہ ہوں.میں نے بتایا ہے کہ اس وقت دنیا میں ہزاروں لاکھوں انسان ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ احمدیت کے طفیل اور اسلام کے صدقے اللہ تعالیٰ اپنے پیار کا اظہار کر رہا ہے مجھے بہت سی احمدی بہنوں کا علم ہے جنہیں اللہ تعالیٰ سچی خوا نہیں رویا اور کشوف دکھا رہا ہے جیسے کہ اُمت کے پہلے بزرگوں کو

Page 503

خطبات ناصر جلد اول ۴۸۷ خطبہ جمعہ اا نومبر ۱۹۶۶ء دکھاتا رہا ہے اور ہزاروں مرد بھی ایسے ہیں.تو ہمیں اس مقام قرب کی قدر کرنی چاہیے.اور ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ دنیا میں بھی ہمیں دعا کے نتیجہ میں نیک نیتی اور خلوص کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل اور رحم سے (نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے) ہمیں اتنا دے کہ دنیا اس کی وجہ سے بھی ہم پر رشک کرنے لگ جائے اور تبلیغ کی بھی ہمیں اتنی توفیق دے کہ وہ دن جلد آئیں کہ جب اسلام تمام دنیا پر غالب آجائے اور اللہ تعالیٰ کی خالص توحید دنیا میں قائم ہو جائے اور بنی نوع انسان خالص توحید پر قائم ہو کر خالص توحید کی برکات سے پوری طرح حصہ لینا شروع کر دیں.آپ کو جو جماعت کی اسٹیٹس پر کام کر رہے ہیں یا درکھنا چاہیے کہ اخباروں میں بڑا شور ہے کہ ہم نے اب ایسے بیچ حاصل کئے ہیں کہ جن سے پچاس ساٹھ یا ستر من گندم فی ایکڑ پیدا ہوگی.حکومت کے فارم اگر دو یا تین یا چار سال کے بعد اتنی پیداوار حاصل کر سکیں تو آپ لوگوں کو اپنی محنت و کوشش اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے ان سے پہلے کامیاب ہو جانا چاہیے.بلکہ ہر ایک احمدی کے ایک کلہ سے اتنا غلہ پیدا ہونا چاہیے پھر وہ لوگ تسلیم کر لیں گے کہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے ورنہ وہ آپ کے دل کو اور کشوف ورڈ یا سے جو خدا تعالیٰ کا پیار ظاہر ہوتا ہے اسے نہیں دیکھتے کیونکہ ان کی نگاہ ظاہر بین ہے.اگر آپ کی کوشش اس رنگ میں ہو کہ آپ بل چلاتے ہوئے بھی دعا کر رہے ہوں اور اس کے نتیجہ میں آپ کی زمین دوسرے لوگوں کی زمین کی نسبت زیادہ غلہ پیدا کر رہی ہو تو وہ حیران ہوں گے اور کہیں گے معلوم نہیں کیا بات ہے ان کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ضرور کوئی گر ہے ترقی کا ، جو ان کو مل گیا ہے.میں آپ کے دل میں دنیا کی محبت پیدا نہیں کرنا چاہتا میں تو یہ چاہتا ہوں کہ آپ دنیا کمائیں اور دین کی راہ میں قربانیاں دیتے چلے جائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک وقت میں اتنی دولت دی تھی کہ آپ اس کا تخیل بھی نہیں کر سکتے.مگران ایثار پیشہ فدائیوں نے یہ سب دولت خدا تعالیٰ کی راہ میں لٹا دی تھی.میری بھی آپ کے حق میں یہی دعا ہے کہ خدا کرے کہ دنیا کی دولت آپ کو اتنی ملے اتنی

Page 504

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۸۸ خطبہ جمعہ اار نومبر ۱۹۶۶ء ملے کہ دنیا حیران ہو جائے اور خدا کرے کہ آپ اس کی ویسی ہی قدر کریں جیسی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کی تھی اور اخروی نعماء کے حصول کی خاطر آپ دنیا کے اموال اس کی راہ میں قربان کر کے دنیا کو ایک دفعہ پھر ورطہ حیرت میں ڈال دیں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی توفیق بخشے.اللهم آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ر دسمبر ۱۹۶۶ ء صفحه ۱ تا ۸)

Page 505

خطبات ناصر جلد اول ۴۸۹ خطبہ جمعہ ۱۸/ نومبر ۱۹۶۶ء سلسلہ جو نظام بھی قائم کرتا ہے اس کی پابندی کو اپنی خوش قسمتی سمجھو کہ تمام برکت اسی میں ہے خطبه جمعه فرموده ۱۸/ نومبر ۱۹۶۶ء بمقام محمد آباد.سندھ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.جس وقت میں نے ارادہ کیا کہ آپ دوستوں سے ملنے اور زمینوں کا انتظام وغیرہ دیکھنے کے لئے سندھ کا دورہ کروں تو منتظمین نے مجھے یہی مشورہ دیا تھا کہ کم از کم بیس پچیس دن اس دورہ کے لئے رکھنے چاہئیں.لیکن چونکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے میں زیادہ وقت نہیں دے سکتا تھا اور یہ بھی خواہش تھی کہ یہ دورہ ملتوی نہ ہو.اس لئے میں نے اس موسم میں سندھ کی زمینوں کو دیکھنے کے لئے مختصر سا دورہ کرنا ہی مناسب سمجھا.یہاں آکر مجھے یہ احساس اور بھی شدت سے ہوا کہ میں نے یہاں کے لئے بہت کم وقت دیا ہے اور اسی وجہ سے میں نے بہت سے لوگوں کو جو اپنی ضرورتوں اور شکایتوں کے لئے مجھ سے ملنا چاہتے تھے اور مفصل گفتگو کر کے اپنے دل کی تسلی کرنا چاہتے تھے اتنا وقت نہیں دیا جتنا دینا چاہیے تھا اس لئے فرداً فرداً تفصیلی گفتگو خدا تعالیٰ نے چاہا تو آئندہ دورہ پر ہی ہو گی.اس وقت میں بعض اصولی باتیں دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.ہماری ان اسٹیٹس کی آبادیاں اور جماعتیں اور یہاں کے احمدی باشندے ان سب کی حیثیت بعض پہلوؤں سے ان جماعتوں سے مختلف ہے جو کہ دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں اور مختلف

Page 506

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۹۰ خطبہ جمعہ ۱۸/ نومبر ۱۹۶۶ء مقامات پر قائم ہیں.مثلاً یہاں جو ہماری زمینیں اور مختلف فارم ہیں.ان کے کاموں کے چلانے کا ایک انتظام ہے اور یہ انتظام نظام جماعت سے مختلف ہے.کچھ مخلص واقفین نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضور اپنی زندگیوں کو پیش کیا اور آپ نے ان کو یہاں کی زمینیں سنبھالنے کے لئے مقرر کر دیا.بعض کو مینجر بنایا ، بعض کو منشی اور بعض کو اکا ؤنٹنٹ اور بعض کے سپر د دوسرے کام کئے.کچھ لوگ بطور مزارع نہ صرف زمین میں ہل چلانے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے یہاں آباد ہوئے بلکہ ان کی نیت یہ بھی تھی کہ اگر ہم جماعت کی زمینوں پر کام کریں گے تو ہمیں دنیوی فائدہ بھی ہو گا اور روحانی فائدہ بھی اور روحانی طور پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہم وارث بنیں گے.ایسے لوگ اپنی اپنی نیت اور اخلاص اور عمل کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے.(اللہ تعالیٰ سب کا انجام بخیر کرے) پھر زمینوں کا جو انتظام ہے اس میں جیسا کہ میں نے کہا ہے کوئی تو میجر ہے، کوئی منشی ہے، کوئی اکا ؤنٹنٹ ہے.کوئی دوسرے کام کر رہا ہے اور پھر کچھ احمدی بحیثیت ہاری اور مزدور کام کر رہے ہیں.جہاں تک منتظمین کا تعلق ہے وہ بھی انسان ہیں اسی طرح جس طرح کہ یہاں بسنے والے ہاری اور مزدور انسان ہیں اور ہر دو کے لئے غلطی کے ارتکاب کا ایک جیسا امکان ہے.جس طرح ہاری غلطی کر سکتا ہے.اسی طرح منتظم اور افسر بھی غلطی کر سکتا ہے.افسرانِ مقامی کی غلطیوں کی اصلاح کے لئے ان کے اوپر مرکزی نظام ہے مگر بوجہ دور ہونے کے پوری تفصیل مرکز کے سامنے نہیں جاسکتی.اس لئے گا ہے گا ہے وہاں سے اعلیٰ افسر یہاں آتے رہتے ہیں اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی دستور تھا کہ آپ سال میں ایک یا دو باران زمینوں کا دورہ کرتے تھے اور تمام حالات کا جائزہ لیتے تھے.جہاں غلطی دیکھتے تھے اس کی اصلاح فرما دیتے تھے.دوست یا درکھیں کہ غلطی کی اصلاح کے لئے ایک مناسب طریق ہے جو اسلام نے ہمیں بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ شکایت کرنے والا اپنا نام چھپائے نہیں.بغیر نام کے جو شکایت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آتی تھی وہ پھاڑ کر پھینک دی جاتی تھی.جو بے نام شکایت میرے پاس -

Page 507

خطبات ناصر جلد اول ۴۹۱ خطبہ جمعہ ۱۸/ نومبر ۱۹۶۶ء آتی ہے میں بھی پھاڑ کر پھینک دیا کرتا ہوں.اس سفر کے دوران بھی بعض شکائتیں بے نام آئی ہیں.میں نے انہیں پھاڑا اور پھینک دیا.کیونکہ جب تک کوئی شخص جرات کے ساتھ اپنا نام نہیں لکھتا بلکہ بز دلی دکھاتے ہوئے اپنے نام کو چھپاتا ہے.اس کی شکایت قابل اعتناء نہیں ہوتی.اسی طرح یہ لکھ دینا کہ ہم تمام مزار عین ناصر آباد یا محمود آباد یا فلاں نگر یہ شکایت کرتے ہیں یہ بھی غلط طریق ہے.یہ ضروری ہے کہ جو آدمی شکایت کرے یا شکایت کریں وہ اپنا نام بھی لکھے یا لکھیں.دوسرے یہ کہ جو کچھ لکھا جائے وہ صیح اور درست ہو.اسی سفر میں ایک دوست نے ناصر آباد میں میرے پاس ایک شکایت کی اور بظاہر دو اور آدمیوں کے بھی دستخط کرائے یا انگوٹھے لگوائے ان میں سے جب ایک دوست کو پوچھا گیا کہ آپ کو کیا شکایت پیدا ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بھی علم نہیں کہ کسی شخص نے کوئی شکایت لکھی ہے اور میری طرف سے خواہ مخواہ انگوٹھا لگا دیا ہے.تو اگر اس قسم کی غلط بات ابتدائی تحقیق میں ہی ہمارے سامنے آ جائے تو ہم شکایت پرغور ہی نہیں کرتے کیونکہ شکایت کنندہ نے خود ہی ایک غلط بات لکھ کر اپنے خلاف فیصلہ کرا دیا.اس کے برعکس میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض لوگ اتنی صفائی اور تفصیل سے بات لکھتے ہیں کہ جو ان کی غلطی ہو اسے بھی سامنے لے آتے ہیں اور ان کے خیال میں جو دوسرے کی غلطی ہو وہ بھی بغیر کسی پیچ ، بغیر کسی مبالغہ اور بغیر کسی خلاف واقع بات بیان کرنے کے سامنے رکھ دیتے ہیں بڑی آسانی رہتی ہے.اس پیش کردہ مفصل معاملہ سے انسان فورا صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے اور اس کی شکایت بھی دور ہو جاتی ہے.اگر واقع میں کوئی شکایت ہو بھی اور تحقیق کرنے والے افسر کو بھی وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا اور نہ ہی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے.لوگ جانتے ہیں کہ قادیان کے زمانہ میں ایک لمبے عرصہ تک میں مجلس خدام الاحمدیہ کا صدر بھی رہا ہوں اور جو اس قسم کے منتظم ہوتے ہیں ان کے خلاف شکایات پیدا ہو جانا عام بات ہے ہزاروں ہزار آدمی سے واسطہ پڑتا ہے.کبھی انسان غلطی کرتا ہے کبھی شکایت کرنے والا غلطی کر رہا

Page 508

خطبات ناصر جلد اول ۴۹۲ خطبہ جمعہ ۱۸/ نومبر ۱۹۶۶ء ہوتا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک دوست خدام میں سے میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ نے جو فیصلہ میرے خلاف کیا ہے درست نہیں ہے اور میں آپ کے فیصلہ کے خلاف حضرت مصلح موعود (رضی اللہ عنہ ) کے پاس اپیل کرنا چاہتا ہوں.میں نے انہیں کہا کہ خدام الاحمدیہ کے قواعد کی رو سے آپ صدر مجلس خدام الاحمدیہ کے فیصلہ کے خلاف خلیفہ وقت کے حضور پیل نہیں کر سکتے.کیونکہ اپیل ایک قانونی حق ہے.جب قانون وہ حق دے تو کسی کو ملتا ہے اور اگر قانون وہ حق نہ دے تو اسے نہیں ملتا.خدام الاحمدیہ کے متعلق جو قواعد حضرت مصلح موعودؓ نے منظور کئے ہوئے ہیں ان میں حضور نے خدام کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ صدر مجلس کے فیصلہ کے خلاف خلیفہ وقت کے پاس اپیل کریں.لیکن میں نے ان کو خود بتایا کہ خلیفہ وقت کا دروازہ شکایت کے لئے ہر وقت کھلا ہے.آپ اپیل تو نہیں کر سکتے کیونکہ قانونی چیز ہے لیکن آپ میرے فیصلہ کے خلاف شکایت کر سکتے ہیں.یہ سن کر انہوں نے کہا میں سوچوں گا لیکن ابھی میرا جی شکایت کرنے کو نہیں چاہتا.ہاں اگر اپیل کرنے کا حق ہوتا تو میں اپیل کر ڈالتا.لیکن بعد میں انہوں نے سوچ کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ شکایت کریں گے.ہزار ہا واقعات گزرے ہیں ان میں سے یہ واقعہ مجھے اس لئے یا درہا ہے کہ اس کا میری طبیعت پر بڑا گہرا اثر ہوا.انہوں نے حضور رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جو شکایت لکھی اس میں انہوں نے کوئی بات نہیں چھپائی.نہ اپنے متعلق نہ ہمارے متعلق.سارے واقعات کی پوری تصویر انہوں نے حضور کی خدمت میں پیش کر دی.اس پر حضرت صاحب (رضی اللہ عنہ ) کا یہ نوٹ انہیں واپس ملا کہ ان حالات میں صدر مجلس تمہارے خلاف یہ فیصلہ نہ کرتا تو اور کیا ہوتا؟“ اس سے ان کو بھی تسلی ہو گئی.اگر وہ حضرت صاحب کو مختصرسی یا مشتبہ ہی یا غلط رپورٹ دیتے تو حضور ( رضی اللہ عنہ ) اس کے متعلق ہم سے رپورٹیں لیتے اس طرح حضور کا وقت بھی ضائع ہوتا.مگر اس نوجوان نے نہایت دیانت داری کے ساتھ سارے کے سارے صحیح حالات بیان کر دئے اور جب اس کی شکایت پر وہ نوٹ آیا تو اس کو تسلی ہو گئی.کیونکہ خلیفہ وقت کے فیصلے سے

Page 509

خطبات ناصر جلد اول ۴۹۳ خطبہ جمعہ ۱۸/نومبر ۱۹۶۶ء ننانوے ہزارنوسوننانوے آدمیوں کو تسلی ہو جاتی ہے.البتہ جس کے اندر ایمان کی کمزوری ہوا سے تسلی نہیں ہوتی.بڑی بھاری اکثریت الہی سلسلوں کی ایسی ہوتی ہے کہ ان کو سمجھ آئے یا نہ آئے خلیفہ وقت کے فیصلہ پر ان کے دل تسلی پا جاتے ہیں.تو شکایت کا راستہ ہمیشہ کھلا ہے آپ اپنا نام لکھیں اور صحیح واقعات لکھیں ، غلط واقعات نہ لکھیں.اگر آپ اس طرح کریں گے تو آپ کی شکایت دور ہو جائے گی.لیکن اگر آپ آدھی بات صحیح لکھیں گے اور آدھی بات غلط لکھیں گے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ جس نے غلطی کی اس کے خلاف بھی تعزیری کا رروائی کی جائے گی اور آپ کے خلاف بھی کی جائے گی کہ کیوں غلط بیانی سے کام لیا اور پھر خلیفہ وقت کے سامنے !!! سو شکایت کا دروازہ کھلا ہے اور جب تک خلافت راشدہ قائم ہے یہ دروازہ کھلا رہے گا.اس سلسلہ میں اگر بعض افسر اس چیز کو برا مناتے ہیں تو میں انہیں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ قطعاً اسے برا نہ منائیں کیونکہ اگر آپ نے یہ دروازہ بند کر دیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے لوگوں کے دلوں کی تسلی اور اطمینان کا دروازہ بند کر دیا.شکایت کے لئے کسی پراپر چینل (Proper Channel) یعنی افسروں کی وساطت سے جانا بھی ضروری نہیں ہے.اپیل کے لئے یہ ضروری ہے کیونکہ وہ قانونی چیز ہے.قانون یہ کہتا ہے کہ اگر افسر کے خلاف اپیل کرنی ہو تو اس افسر کی وساطت سے لکھو تا کہ وہ اپنا نوٹ بھی دے دے.لیکن جس نے شکایت کرنی ہو اس کے لئے ایسا کرنا ضروری نہیں ہے.سیدھا راستہ کھلا ہے وہ شکایت کے لئے ہر وقت خلیفہ وقت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ میری یہ شکایت ہے اسے دور کیا جائے.تو اگر کوئی شخص شکایت کرتا ہے تو افسران اور عہدیداران کو برانہیں منانا چاہیے.بلکہ ایک لحاظ سے خوش ہونا چاہیے کہ بجائے اس کے کہ لوگ اِدھر اُدھر باتیں کریں معاملہ اوپر چلا گیا ہے.اس طرح ان کی اپنی پوزیشن واضح ہو جائے گی.شکایات عموماً غلط بیانی پر مبنی نہیں ہوتیں بلکہ غلط فہمی پر مبنی ہوتی ہیں.

Page 510

خطبات ناصر جلد اول ۴۹۴ خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۶۶ء اس لئے میں عہد یداروں کو کہتا ہوں کہ ایسی شکایتوں کو برا منا کر خفگی کا اظہار نہ کیا کریں.دوسرے میں عہدیداروں اور افسروں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی ہاری یا مزدور کوکسی قسم کی شکایت ہو اور آپ سمجھتے ہوں کہ وہ شکایت غلط ہے تو آپ اسے بلا کر سمجھا ئیں اور بتائیں کہ واقعہ دراصل یہ ہے.تو عام طور پر اس کی تسلی ہو جائے گی.ہمارے زمینداروں میں سے ایک حصہ ان پڑھ ہے وہ لکھ پڑھ نہیں سکتا.وہ کچھ سوچتا ہے، کچھ سنتا ہے اور پھر اس کا غلط نتیجہ نکالتا ہے.ہاریوں کا یہاں حساب کتاب تو رہتا ہے اگر رجسٹر سامنے رکھ کر آرام سے تحمل سے، پیار سے اس کو سمجھایا جائے کہ تم جو خیال کر رہے ہو وہ صحیح نہیں.دراصل حالات یہ ہیں ہم نے اس طرح کیا ہے.تمہاری کوئی حق تلفی نہیں ہوئی تو سو میں سے ننانوے آدمی سمجھ جائیں گے.ممکن ہے بعض بدظنی کریں اور شکایت اوپر لے جائیں لیکن سو میں سے ننانوے آدمی سمجھ جائیں گے.پس ایک تو زمینیں سنبھالنے کا نظام ہے اس کے متعلق میں نے کچھ باتیں مختصر بیان کر دی ہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی دی اور توفیق بخشی تو اگلے دورے کے لئے لمبا وقت رکھیں گے اس طرح زیادہ افراد کی شکایات سنی جاسکیں گی اور ان کی تکالیف کا ازالہ بھی کیا جا سکے گا.اس دورہ میں زیادہ لوگوں سے الگ الگ نہیں مل سکا عموماً میں ہمیں ہمیں تھیں، چالیس چالیس، پچاس پچاس لوگ اکٹھے ملتے رہے جس کی وجہ سے وہ لوگ جن کو کوئی تکلیف یا اُلجھن یا کوئی پریشانی تھی مثلاً بچوں کی پڑھائی کے سلسلہ میں، یا اپنی شادی کے سلسلہ میں یا زمینوں کے سلسلہ میں وہ بیان نہیں کر سکا اور نہ تنہائی میں اپنے نجی معاملہ کے لئے دعا کے لئے کہہ سکا.یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ دعا کے متعلق آپ میں سے کسی شخص کو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی ہر دعا ضرور قبول کرتا ہے وہ تو قادر مطلق ہستی ہے.جب چاہتا ہے اپنی منواتا ہے اور جب اپنا احسان اور فضل کرنا چاہتا ہے تو پھر اپنے ایک عاجز نحیف اور بے بس بندے کی التجا قبول کرتا اور دعا کو سنتا ہے اور اس طرح اپنی قدرت کا اظہار کرتا ہے.کبھی کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ میں یا کوئی اور شخص اپنی ہر ایک بات خدا تعالیٰ سے منوالے گا.نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ ) خدا ہمارا خادم تو نہیں ہے وہ تو ہمارا آتا ہے.ساری قدرتیں اسے ہی

Page 511

خطبات ناصر جلد اول ۴۹۵ خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۶۶ء حاصل ہیں اور اپنے جلال اور قدرتوں کے اظہار کے لئے اس نے یہ طریق رکھا ہے کہ بعض دفعہ تم ساری عمر دعائیں کرتے رہو.آخری وقت تک وہ کہتا ہے کہ میں نہیں سنتا.کون ہے جو ز بر دستی اسے منوا سکے؟ اور جب فضل کرنے پر آتا ہے تو سر کے اشارے کو بھی دعا سمجھ لیتا ہے اور قبول کر لیتا ہے.ہماری زندگی میں بہت سے ایسے واقعات گزرے ہیں کہ منہ سے لفظ نہیں نکلا صرف اشارہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اس وقت اس بندے کی دعا اسی طرح قبول کر لو.۵۴ء کی بات ہے.جب میں کالج بنا رہا تھا تو ہمارا ایک بہت بڑا سیٹل پڑ رہا تھا اور سوڈیڑھ سو سیمنٹ کی بوری ریت اور بجری میں ملی ہوئی ساتھ کی چھت پر پڑی تھی تو کیا دیکھتے ہیں کہ شمال کی طرف سے کالا بادل اُٹھا ہے.اگر وہ برس جائے تو سوڈیڑھ سو بوری جماعت احمدیہ کا نقصان ہوتا ہے اس وقت میرے دل میں تحریک ہوئی (ایسی تحریک بھی دراصل خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے ) کہ اگر بادل بر سے تو میرا ذاتی نقصان تو نہ ہوگا اگر ہو گا تو خدا تعالیٰ کی جماعت کا ہوگا اس لئے اس وقت بادلوں کو کہنا چاہیے کہ یہاں سے چلے جاؤ.چنانچہ میں نے سر اُٹھایا اس وقت بہت سے آدمی موجود تھے اس لئے میں نے منہ سے کوئی بات نہیں نکالی صرف سر سے ہلکا سا اشارہ کیا کہ بادلو! ایک طرف ہٹ جاؤ.“ ساتھ ہی ہم اپنا کام بھی کرتے رہے.ہم سے نصف میل کے فاصلہ پر بڑی تیز بارش ہوئی اور سارا دن بادل منڈلاتے رہے لیکن ہمارے ہاں بارش نہیں ہوئی.تو جب خدا تعالٰی ماننے پر آتا ہے تو اس طرح بھی مان لیتا ہے اور کبھی ساری عمر ایک دعا کرتے رہو وہ نہیں مانتا.اس پر کسی کا زور تو نہیں ہے.جب مانتا ہے تب بھی اپنی قدرت کا اظہار کر رہا ہوتا ہے.جب نہیں مانتا تب بھی اپنے جلال کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے.کبھی دعا سن کر امتحان لیتا ہے.کبھی نہ سن کر آزمائش کرتا ہے.خادم خادم ہی ہے اور آقا آقا ہی ہے.اگر مانے تو اس کا احسان اگر نہ مانے تب بھی ہم خادم اس دروازہ سے بھاگ کر کہاں جائیں گے.میں بتا رہا تھا کہ توجہ کے ساتھ بات سننے سے صرف اس بات کا اظہار کرنے سے کہ ہمارے دلوں میں تمہاری ہمدردی ہے.جہاں تک ہمارے بس میں ہوا، جہاں تک قانون نے ہمیں اجازت دی.جہاں تک یہ سوال ہوا کہ ہمارے سلسلے کو کوئی نقصان پہنچے گا ہم ہر طرح تمہاری

Page 512

خطبات ناصر جلد اول ۴۹۶ خطبہ جمعہ ۱۸؍ نومبر ۱۹۶۶ء خدمت کرنے کے لئے تمہارا خیال رکھنے کے لئے تمہاری تکلیف دور کرنے کے لئے تیار ہیں.ہر ہاری اتنی بشاشت سے رہے گا کہ آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.لیکن جو لوگ مزارع اور کام کرنے والے ہیں میں ان سے بھی کہوں گا کہ اگر تو آپ نے گندم بو کر گندم ہی لینی ہے تو دنیا میں اور بہت سی زمینیں پڑی ہوئی ہیں آپ وہاں جا کر گندم بوئیں اور زمینیں آباد کر لیں.لیکن اگر آپ نے گندم بوکر صرف گندم ہی نہیں کاٹنی ہے بلکہ گندم کے ساتھ ساتھ خدا کے فضلوں کو بھی سمیٹنا ہے اور اپنے کوٹھوں کو گندم کے ساتھ ساتھ خدا کے فضلوں سے بھی بھرنا ہے تو پھر آپ کی ذمہ داریاں عام باریوں سے زیادہ ہیں.آپ کو زیادہ دیانتداری سے، آپ کو زیادہ محبت سے، آپ کو زیادہ شوق سے کام کرتے ہوئے.زیادہ دعاؤں سے کام لینا پڑے گا.اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو احمدی ہاریوں اور دوسرے باریوں میں کیا فرق رہے گا ؟ پھر یہ جو فارم کا نظام ہے اس کے ساتھ دو اور نظام لگے ہوئے ہیں اور بعض دفعہ ان کا آپس میں تصادم ہو جاتا ہے.حالانکہ یہ تصادم نہیں ہونا چاہیے.اس کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے.ایک جماعتی نظام ہے یہاں امیر مقامی ہوتا ہے ( اور بہت جگہ میں نے دیکھا ہے کہ فارم کا مینجر اور ہے اور جماعت کا پریذیڈنٹ یا امیر اور ہے ) پھر ضلع کا امیر ہوتا ہے.پھر علاقہ کا امیر ہوتا ہے.بعض دفعہ ضلع یا علاقہ کا امیر یہ خیال کرتا ہے کہ چونکہ میں ضلع کا امیر ہوں اور یہ احمد یوں یا جماعت کی فار میں ہیں اس لئے میرا حق ہے کہ میں ان میں دخل دوں حالانکہ اس کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ فارم کے انتظام میں دخل دے، تعلق ہی کوئی نہیں ہے، امیر مقامی یا امیر ضلع یا امیر علاقائی کا کہ وہ فارم کے کاموں میں دخل دے.اس کی ساری ذمہ داری مینیجر پر، یا اگر اس کے اوپر ایجنٹ ہے تو ان پر ہے اور مرکز کے سامنے وہی جوابدہ ہیں امیر ضلع یا امیر علاقائی جواب دہ نہیں.دوسری طرف بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ فارم کا مینجر یا ایجنٹ سمجھتا ہے کہ میں واقف زندگی ہوں اور میں نے ساری عمر سلسلہ کے لئے وقف کی ہوئی ہے اس لئے میں جماعتی نظام سے بھی آزاد ہوں.کیونکہ میں خود مرکز کے سامنے جواب دہ ہوں.یہ تو ٹھیک ہے کہ تم مرکز کے سامنے

Page 513

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۹۷ خطبہ جمعہ ۱۸/ نومبر ۱۹۶۶ء جواب دہ ہو لیکن جواب دہ ہو صرف ان کاموں کے متعلق جو فارم کی بہبود کے لئے کرتے ہو.جن چیزوں اور کاموں کا تعلق اسٹیٹ سے نہیں ہے بلکہ جماعتی نظام سے ہے.ان کے متعلق تم مرکز کے سامنے جواب دہ نہیں.جن چیزوں کا تعلق نظام جماعت سے ہے ایک واقف زندگی سے خواہ وہ مینجر ہو یا ایجنٹ ، ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ جماعتی نظام کو دوسروں کی نسبت زیادہ بشاشت کے ساتھ قبول کرے گا اور باقی سب کے لئے نمونہ بنے گا.دونوطرف سے غلطیاں ہو جاتی ہیں امیر ضلع یہ سمجھتا ہے کہ میں یہاں بھی دخل دے سکتا ہوں کیونکہ میں امیر ضلع ہوں اور جو مینجر یا ایجنٹ ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں انچارج ہوں اس سارے علاقے کا ( فارم کا ) اور جواب دہ ہوں مرکز کے سامنے اس لئے امیر ضلع کے سامنے جواب دہ نہیں.حالانکہ جماعتی کاموں کے متعلق اس کو بہر حال جماعتی نظام کے عہدیدار کے سامنے جواب دینا پڑے گا.تیسرا نظام وہ ہے جو اسٹیٹ کے نظام سے بھی مختلف ہے اور جماعتی نظام (جو امراء اور پریذیڈنٹوں والا نظام ہے ) اس سے بھی مختلف ہے اور وہ ہے ہمارا اصلاح وارشاد کا نظام جومر بی کہیں جاتا ہے وہ کسی امیر کے ماتحت نہیں ہوتا ہے نہ کسی ایجنٹ کے ماتحت ہوتا ہے مربی نمائندہ ہے مرکز کا اور خلیفہ وقت کا.بہت سے امراء نے جو اپنے آپ کو دنیوی لحاظ سے زیادہ اثر و رسوخ والا اور مالدار سمجھتے ہیں بعض دفعہ مربیوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا ہے جو نہیں کرنا چاہیے تھا.اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انہیں سختی سے ڈانٹا اور اصلاح کی تم اگر لاکھ روپیہ یا دولاکھ یا پانچ لاکھ روپیہ سالانہ کماتے ہو تو اپنے گھر میں امیر ہو گے.مربی مرکز کا نمائندہ ہے تمہیں بہر حال اس کے سامنے جھکنا پڑے گا خواہ تم بڑی جماعت کے ہی امیر کیوں نہ ہو.مربی امراء سے آزاد ہیں.مربیوں کے متعلق آپ کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ آپ ان کو زردہ یا پلاؤ یا دیگر قسم کے عمدہ کھانے کھلائیں ، قطعاً نہیں.بلکہ میں اپنے مربیوں سے توقع رکھتا ہوں کہ سوائے اس کے کہ وہ مجبور کر دیئے جائیں حتی الوسع اس جیب خرچ یا سفر خرچ سے جو انہیں ملتا ہے اپنے کھانے کا خود

Page 514

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۹۸ خطبہ جمعہ ۱۸/نومبر ۱۹۶۶ء انتظام کریں گے.یہ صحیح ہے کہ بعض جماعتیں کھانے کے لئے مجبور کر دیتی ہیں.وقف عارضی کے متعلق بار بار سمجھایا گیا ہے لیکن پھر بھی واقفین عارضی لکھتے ہیں کہ جماعتیں بہت مجبور کرتی ہیں کہ ہم ان کا پیش کردہ کھانا ضرور کھائیں ورنہ ہمارا ناک کٹ جائے گا.حالانکہ ہمارے واقفین عارضی کو بنیادی ہدایت یہی ہے کہ جہاں جاؤ ان کا کھانا نہ کھانا اپنے کھانے کا خود انتظام کرنا.اگر اس قسم کے حالات مربی کو پیش آئیں اور وہ مجبور ہو جائے تو جب تک ہم جماعت کی ذہنیت کو بدل نہ دیں ایسی مجبوری کے سامنے اسے سر جھکانا پڑے گا.لیکن مربی کے احترام اور عزت کے مقام کا بہر حال آپ کو خیال رکھنا پڑے گا.بعض جگہ مربی جاتا ہے تو وہاں کے دولت مند یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ذلیل آدمی آ گیا ہے حالانکہ جس شخص نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر رکھی ہو.جس شخص نے ایک لمبے عرصہ تک خدا کے دین کو سیکھا ہو، تا بنی نوع انسان کو روحانی فائدہ پہنچا سکے اور جس نے بہت کم گزارے پر دین کے لئے زندگی گزارنے کا اپنے رب سے عہد کیا ہو.وہ شخص جب آپ کے پاس آتا ہے تو گویا رب العزۃ کے در کا غلام آتا ہے.سب عزتیں تو خدا کی ہیں اور جو خدا کے در کا فقیر بن گیا، اس سے زیادہ معزز اور کون ہو سکتا ہے.لیکن بعض پیسے والے دنیا دار، دنیا کی عزت رکھنے والے یا با عزت پیسے والے مثلاً ڈاکٹری ایک ایسا پیشہ ہے کہ بڑوں بڑوں کو اس کی وجہ سے ڈاکٹر کے سامنے جھکنا پڑتا ہے.وزیر اس کے واقف ہوتے ہیں ڈپٹی کمشنر واقف ہوتے ہیں اور اور بہت سے لوگ ان کے واقف ہوتے ہیں وغیرھم اگر یہ سمجھیں کہ ان کی عزت اتنی بڑی ہے کہ انہیں جماعت میں مربی سے زیادہ باعزت سمجھا جانا چاہیے اور انہیں مربی کو وہ عزت دینے اور اس کا احترام کرنے کی ضرورت نہیں جو اس کا حق ہے.تو اس سے زیادہ بیوقوفی کا مظاہرہ اور کیا ہو گا ؟ کیونکہ عزت تو خدا کے در سے ملتی ہے اور جو خدا کا ہو گیا ساری عزتیں اس کی گود میں ہیں.اس سے بڑھ کر اور کون معزز ہوگا ؟ تو یہ تین نظام مستقل طور پر چل رہے ہیں.چوکس رہنا چاہیے کہ کبھی ان میں تصادم نہ ہو.کیونکہ جب تصادم ہوگا تو کوئی نہ کوئی ضرور تکلیف اٹھائے گا.صدرانجمن احمدیہ کے پاس شکایت

Page 515

خطبات ناصر جلد اوّل ۴۹۹ خطبہ جمعہ ۱۸/ نومبر ۱۹۶۶ء جائے گی یا امور عامہ کیس کو اپنے ہاتھ میں لے گا یا میرے پاس شکایت آئے گی تو مجھے تو کسی کا ڈر نہیں ! میں تو خدا کی عظمت اور اس کے جلال کے قیام اور خدا کے قائم کردہ سلسلہ کی عزت کے قیام کے لئے ساری دنیا سے بھی نہیں ڈرتا.ایک یا دو آدمیوں کی تو بات ہی نہیں.میں چونکہ خطبہ کو مختصر کرنا چاہتا ہوں.اس لئے دوستوں سے ایک آخری بات کہ دیتا ہوں.وہ یہ کہ جتنے خلفاء راشدین ہوئے ہیں ( یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے خلافتِ راشدہ شروع ہوئی.پھر اس خلافت کے بعد کچھ اور لوگ آگئے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے پھر خلافت کا مضبوط نظام قائم فرمایا اور یہ نظام اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ جماعت اپنے آپ کو خدا کی نگاہ میں اس انعام کی مستحق ثابت کرتی جائے گی ) ان تمام خلفاء کے حالات کا مطالعہ کرو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ تمام خلفاء تذلل اور فروتنی اور عاجزی کی راہوں کو اختیار کرتے چلے آئے ہیں.میں نے بھی خدا کے حکم کے مطابق اس کی رضا کے لئے اور تمام خلفاء راشدین کی سنت کے مطابق عجز کی راہوں کو اختیار کیا ہے.میں آپ میں سے آپ کی طرح کا ہی ایک انسان ہوں اور آپ میں سے ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اتنا پیار پیدا کیا ہے کہ آپ لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.بعض دفعہ سجدہ میں میں جماعت کے لئے اور جماعت کے افراد کے لئے یوں دعا کرتا ہوں کہ اے خدا! جن لوگوں نے مجھے خطوط لکھے ہیں.ان کی مرادیں پوری کر دے، اے خدا! جو مجھے خط لکھنا چاہتے تھے لیکن کسی ستی کی وجہ سے نہیں لکھ سکے ان کی مرادیں بھی پوری کر دے اور اے خدا! جنہوں نے مجھے خط نہیں لکھا اور نہ انہیں خیال آیا ہے کہ دعا کے لئے خط لکھیں اگر انہیں کوئی تکلیف ہے.یا ان کی کوئی حاجت اور ضرورت ہے تو ان کی تکالیف کو بھی دور کر دے اور حاجتیں بھی پوری کر دے.لیکن بعض دفعہ بعض نادان فنا اور نیستی کے اس مقام کو کمزوری سمجھنے لگ جاتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی عاجزی کی راہ کو اختیار کیا حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد جو خلفاء اور مجدد ہوئے.انہوں نے بھی عجز کے اسی راستے کو اختیار کیا.تو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شخص بڑا کمزور ہے کیونکہ یہ عاجزی اختیار کرتا ہے.وہ

Page 516

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۰۰ خطبہ جمعہ ۱۸/ نومبر ۱۹۶۶ء یہ نہیں سمجھتے کہ ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا کچھ ایسا جلوہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو بھی اور دنیا کی ساری مخلوق کو بھی مردہ سمجھتے ہیں نہ ہی اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں، نہ دنیا کو کچھ سمجھتے ہیں اور اس عجز کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی اعجازی قدرت کا مظہر بن جاتے ہیں گویا ایسے لوگوں کے لئے فنا اور نیستی کے مقام سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک چشمہ پھوٹتا ہے.اس لئے دنیا کی کوئی طاقت انہیں مرعوب نہیں کر سکتی انہیں ساری دنیا کے مال کبھی کوئی لالچ نہیں دے سکتے.جب خدا کا یا اس کے دین کا معاملہ ہو تو کسی دوسرے کے سامنے ان کا سر جھکا نہیں کرتا.ورنہ وہ تو ایک فقیر اور مسکین کے سامنے بھی جھک رہے ہوتے ہیں اور عاجزی دکھا رہے ہوتے ہیں.لیکن جب خدا تعالیٰ کے فعل اور قول کا اور خدا تعالیٰ کے نام اور اس کی عظمت کا دنیا اور دنیا داروں سے تصادم ہو جائے.تو پھر دنیا ان کے پاؤں کی خاک بھی نہیں ہوتی.کیونکہ اللہ تعالیٰ خود ان کا مربی اور معلم ہوتا ہے.آپ اس بات کو اچھی طرح یا درکھیں.پس یا تو ہمارا یہ عقیدہ ہی غلط ہے کہ خلیفہ وقت ساری دنیا کا استاد ہے اور اگر یہ سچ ہے اور یقیناً یہی سچ ہے تو دنیا کے عالم اور دنیا کے فلاسفر شاگرد کی حیثیت سے ہی اس کے سامنے آئیں گے.استاد کی حیثیت سے اس کے سامنے نہیں آئیں گے.تو خلیفہ وقت کا انکسار اس کی عاجزی و فروتنی، اس کا تذلل یہی اس کا مقام ہے اور وہ اس ایمان اور یقین پر قائم ہوتا ہے کہ میں لائے ہوں.کچھ بھی نہیں ہوں.نہ علم ہے مجھ میں نہ فراست ہے مجھ میں ، نہ ہی کوئی طاقت ہے مجھ میں ، اگر کچھ ہے تو وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے.وہ جتنا علم دے جتنی طاقت دے جتنی فراست دے اس کی عطا ہے اور اسی کے جلال اور عظمت کے لئے خرچ کی جاتی ہے.کہیں بھی اس کا اپنا وجود نظر نہیں آتا.مٹی کے ذرات ہوا میں بکھر جائیں تب بھی ان کا کچھ وجود ہوتا ہے.لیکن ایسے شخص کا وجود اتنا بھی باقی نہیں رہتا.تو میں آپ کو وضاحت کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ آپ کا خلیفہ بنائے گا.اس کے دل میں آپ کے لئے بے انتہا محبت پیدا کر دے گا اور اس کو یہ توفیق دے گا کہ وہ آپ کے لئے اتنی دعائیں کرے کہ دعا کرنے والے ماں باپ نے بھی آپ کے لئے اتنی

Page 517

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۰۱ خطبہ جمعہ ۱۸/ نومبر ۱۹۶۶ء دعائیں نہ کی ہوں گی اور اس کو یہ بھی توفیق دے گا کہ آپ کی تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے ہر قسم کی تکلیف وہ خود برداشت کرے اور بشاشت سے کرے اور آپ پر احسان جتائے بغیر کرے کیونکہ وہ خدا کا نوکر ہے آپ کا نوکر نہیں ہے اور خدا کا نوکر خدا کی رضا کے لئے ہی کام کرتا ہے.کسی پر احسان رکھنے کے لئے کام نہیں کرتا لیکن اس کا یہ حال اور اس کا یہ فعل اس بات کی علامت نہیں ہے کہ اس کے اندر کوئی کمزوری ہے اور آپ اس کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں.وہ کمزور نہیں ، خدا کے لئے اس کی گردن اور کمر ضرور جھکی ہوئی ہے.لیکن خدا کی طاقت کے بل بوتے پر وہ کام کرتا ہے.ایک یا دو آدمیوں کا سوال ہی نہیں میں نے بتایا ہے کہ ساری دنیا بھی مقابلہ میں آجائے تو اس کی نظر میں کوئی چیز نہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کے ابتداء میں جب عظیم فتنہ نے سراٹھایا اور اس لشکر کے بھجوانے یا نہ بھیجوانے کا سوال پیدا ہوا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ مدینہ کی گلیوں میں مسلمان بچوں اور عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تو بھی مجھے کوئی پرواہ نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ضرور جاری ہوگا.انہوں نے ایسا اس لئے کہا اور اس لئے کیا کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا ایسا جلوہ ظاہر ہو چکا تھا کہ ساری دنیا ان کے لئے مردہ کی حیثیت رکھتی تھی.اصل زندگی تو اللہ تعالیٰ کی ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی دین اور عطا کے نتیجہ میں اصلی زندگی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آپ کی عزت آپ کی عظمت اور جو آپ نے فیصلے فرمائے ہیں.ان کا قیام اہم ہے اس کے لئے ساری دنیا مر جائے ،سارے مسلمانوں کو قربان ہونا پڑے تو ہو جائیں.لیکن جو کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس کے خلاف نہیں ہوسکتا.غنا کا جذ بہ بھی اللہ تعالیٰ ہی اپنے عاجز بندوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے.وہ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے.جس طرح خدا تعالیٰ غنی ہے.ان کو بھی وہ غنی بنا دیتا ہے نہ پیسے کی پرواہ اور محبت اور نہ ہی دنیا کی کسی وجاہت کی محبت ان کے دل میں باقی رہتی ہے وہ تو اپنے وجود سے ہی ختم ہو جاتے ہیں.تو کہیں غلطی کر کے کوئی شخص نقصان نہ اٹھائے !!! کوئی یہ نہ سمجھے کہ شاید یہ فروتنی اور عاجزی

Page 518

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۰۲ خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۶۶ء کہیں کمزوری کا نتیجہ ہے.کمزوری کہیں نہیں ، کمزوری تو اس شخص میں ہو جس کی اپنی کوئی طاقت بھی ہو.جس کی اپنی کوئی طاقت ہی نہیں اس کی کمزوری کیسی !! اُس نے جو کچھ بھی لیا ہے، اُس نے جو کچھ بھی لینا ہے بہر حال آسمان سے لینا ہے اور آسمانی طاقت کے مقابلہ میں آپ زمین کی کون سی طاقت کو لا کر کھڑا کر دیں گے!!! پس اپنے خدا سے ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی کے دن گزاریں اور سلسلہ عالیہ احمد یہ جو نظام بھی قائم کرتا ہے اس کی پابندی کو اپنی خوش قسمتی سمجھیں کیونکہ اس میں برکت ہے.یہ برکت محض زبانی دعوی نہیں خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت ہمیں بتا رہی ہے کہ اسی میں برکت ہے.۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کے لئے آپ نے کتنے پیسے دیئے تھے؟ ایک لاکھ!!! جتنے روپے آپ نے پہلے سال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دیئے تھے اس سے کہیں زیادہ آدمی اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی گود میں لا ڈالے ہیں.پس جو فرائض ہیں وہ ادا کرتے چلے جائیں جو خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں وہ آپ کے حق میں پورے ہوتے چلے جائیں گے.خدا تعالیٰ کے سامنے اباء و استکبار اور بغاوت اور فسوق کا طریقہ ہر گز اختیار نہ کریں اور نہ ہی اس کے سلسلہ کے سامنے.بڑے بڑے تعلی کرنے والے پیدا ہوئے.خدا تعالیٰ کے قہر نے انہیں مسل کر رکھ دیا اور ان کا نام و نشان مٹادیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ بڑا لمبا تھا.بیرونی فتنے تو تھے ہی وقفہ وقفہ کے بعد اندرونی فتنے بھی سر اٹھاتے رہے لیکن وہ فتنہ پرداز کہاں ہیں؟ اور جماعت کا قدم کہاں تک جا پہنچا ہے کبھی دیکھا تو کرو!!! وہ نا کامی و نامرادی کے اندھیروں میں گم ہو گئے اور جماعت کے قدم آسمان فتح و نصرت کے ستاروں پر پڑنے لگ گئے.تو خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر زندگی کے دن گزاریں اور جو ذمہ داریاں آپ پر بحیثیت ایک احمدی کے عائد ہوتی ہیں.انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں.ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ اے خدا! ہم سے غفلت ہو جائے تو معاف کر دے اور ہمیں خود اپنے فضل سے توفیق دے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھا سکیں.کیونکہ اگر تو اپنے فضل سے ہمیں توفیق نہ دے گا.تو ہم میں

Page 519

خطبات ناصر جلد اول ۵۰۳ خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۶۶ء اتنی طاقت نہیں ہے کہ ان ذمہ داریوں کو نبھا سکیں جو تو نے ہم پر عائد کی ہیں.اللہ تعالیٰ میرے ساتھ بھی ہو اور آپ کے ساتھ بھی ہو.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۱ / دسمبر ۱۹۶۶ ء صفحه ۲ تا ۵ و ۸)

Page 520

Page 521

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء ہر تنظیم کو اپنے دائرہ کے اندر کام کرنا چاہیے اور دوسری تنظیموں سے بہر حال تعاون کرنا چاہیے خطبه جمعه فرموده ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء بمقام احمد یہ ہال.کراچی تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ نے یہ آیت پڑھی.روووو وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ اعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِه اِخْوَانًا ۚ وَ كُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ - اس کے بعد فرمایا:.(آل عمران : ۱۰۴) جو آیت کریمہ میں نے ابھی پڑھی ہے اس میں وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا کے ارشاد میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں تین حکم دیئے ہیں.ا.حَبْلُ اللہ کے ایک معنی عہد کے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ اے مومنو! جنہوں نے خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے رسول کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے رب سے ایک عہد بیعت باندھا ہے تم اس عہد پر مضبوطی سے قائم رہنا کیونکہ جو لوگ خدا سے عہد باندھ کر بعد میں اسے بھول جاتے یا اسے توڑ دیتے ہیں اور اس عہد کی ذمہ واریوں

Page 522

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء کو نبھاتے نہیں.اللہ تعالیٰ ایک دن ان سے اس عہد کے توڑنے یا اس کی ادائیگی میں غفلت برتنے کے متعلق ضرور سوال کرے گا.۲.دوسرا حکم اس میں یہ ہے کہ حبل اللہ کے دوسرے معنی ہیں وہ تمام وسیلے اور ذرائع اور تدابیر جن کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے چنانچہ مفردات راغب میں اس کے یہ معنی دیئے ہیں.الَّذِي مَعَهُ التَّوَضُلُ بِهِ إِلَيْهِ مِنَ الْقُرْآنِ وَالْعَقْلِ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا إِذَا اعْتَصَبْتَ بِهِ أَذَاكَ إِلى جَوَارِہ کہ وہ تمام وسیلے اور تدبیریں جن کو جب مضبوطی سے پکڑا جائے اور ان پر عمل کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے قرب تک پہنچا دیتے ہیں.جس میں سے انہوں نے بطور مثال کے قرآن کریم اور عقل انسانی کا ذکر کیا ہے اور یہ بتانے کے لئے کہ بہت سی باتیں ہیں جو اس میں شامل ہیں وغیر ذلِكَ کے الفاظ رکھ دیئے ہیں.تین بڑی چیزیں ہیں جو قرب الہی کی راہوں کو ہم پر منکشف کرتی ہیں.سب سے پہلے سب سے اہم تو قرآن کریم ہے جس نے شریعت کی تمام باتوں کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے.اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں قرآن کریم کی تصویر کامل اور مکمل طور پر ہمارے سامنے پیش کی اور تیسری جگہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور احادیث ہیں.جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے اس میں ایک تو وہ ابدی صداقتیں اور بنیادی ہدایتیں ہیں جو اس دن سے کہ قرآن کریم دنیا میں نازل ہوا قابل عمل ہیں اور اس وقت تک قابل عمل رہیں گی کہ دنیا پر قیامت آجائے.پھر وقتی اُلجھنوں کو سلجھانے کے لئے قرآن کریم بعض ہدا یتیں دیتا ہے جو جزئیات سے تعلق رکھتی ہیں اور جو وقت کا مطالبہ ہوا سے پورا کرتا ہے.پہلے زمانوں میں بھی پورا کرتا آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی پورا کر رہا ہے اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں بھی پورا کرتا چلا جائے گا اور جیسا کہ پہلے ہوا اگر خدانخواستہ کبھی خلافت کا سلسلہ منقطع ہوا تو اولیاء اللہ پیدا ہوتے رہیں گے جو وقت کے تقاضوں کے مطابق قرآن کریم سے نور لے کر دنیا کے اندھیروں کو دور کرتے رہیں گے.

Page 523

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء تو پہلی چیز تو قرآن کریم ہے جس کے ذریعہ سے جسے پڑھ کے، جسے سمجھ کے، جس کی تفاصیل کا علم حاصل کر کے اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں.پس پہلے تو یہ بتایا کہ تم نے ایک عہد باندھا ہے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھنا اور ساتھ ہی اسی لفظ میں ایک دوسرے معنی کے لحاظ سے ہمیں یہ بتایا کہ اس عہد کو مضبوطی سے کیسے پکڑا جا سکتا ہے.( یعنی قرآنی ہدایت و شریعت پر عمل کر کے اور اسے حرز جان بنا کر ).اور حبل اللہ کے تیسرے معنی ہیں وصل اور وصال کے ، مقام قرب کے حصول کے.تو فر ما یا کہ جب تم اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاؤ اور تمہیں اس کا قرب حاصل ہو جائے تو اس مقام قرب کی حفاظت کرتے رہنا اور صدق و وفا کے ذریعہ شیطانی حملوں سے اسے بچانا.تو پہلے یہ کہا کہ اپنے عہدوں پر مضبوطی سے قائم رہو.پھر یہ فرمایا کہ ان عہدوں پر مضبوطی سے قائم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ راستے وہ طریق جو قرآن کریم نے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ نے اور آپ کے ارشادات نے خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے تمہیں بتائے ہیں ان کو لازم پکڑو.اس طرح تم خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لو گے.تیسرے یہ حکم دیا کہ جب تم مقام قرب کو پا لو تو پھر بھی تم شیطان سے محفوظ نہیں جب تک کہ اسی حالت میں وفات نہ ہو جائے اور انسان کا انجام بخیر نہ ہو جائے.اس سے پہلے شیطان ساری زندگی میں انسان پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے.اپنی پوری کوشش کرتا ہے کہ خدا کا وہ بندہ جس نے اعمالِ صالحہ اور مجاہدات کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر کے اس کے قرب اور اس کی رضا کو حاصل کیا تھا وہ شیطان اس بندۂ خدا کو اس مقام سے پرے ہٹا دے.جیسا کہ مذہب کی تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ خدا کے بعض بندوں نے اس کا قرب حاصل کیا.بعد میں شیطان نے ان پر کامیاب حملہ کیا اور مقام رفعت سے گرا کے انہیں نار جہنم میں دھکیل دیا.جیسا کہ خود حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض صحابہ کے متعلق کہیں گے کہ یہ میرے صحابہ تھے ، جہاں تک میرا علم ہے انہوں نے میری باتوں کو سنا اور مانا اور ان پر عمل بھی کیا ، ان کو جہنم کی طرف کیوں لے جایا جارہا ہے.تو آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کی وفات کے بعد جو بد اعمالیاں ان سے سرزد ہو ئیں ، آپ ان سے واقف نہیں

Page 524

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۰۸ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء اور یہ لوگ اس مقام رفعت کو قائم نہیں رکھ سکے، اس مقام سے گر گئے اور آج اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کی لعنت کا مورد بن گئے ہیں.تو تیسرا حکم ہمیں وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا میں اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ جب تم میری رضا کو اس دنیا میں حاصل کر لو، میرے قرب کو پالو ، تب بھی مطمئن نہ ہو جانا کہ تمہاری قربانیاں اور مجاہدات جو تم کر چکے ہو وہی کافی ہیں اور میری رضا کے مقام پر قائم رہنے اور اس میں مزید ترقی کرنے کے لئے تمہیں کچھ اور نہیں کرنا.اس وقت بھی آگے سے آگے تمہارا قدم جانا چاہیے.تمہاری پہلی قربانیاں بعد میں آنے والی قربانیوں کے مقابلہ میں پیچ نظر آنے لگیں.پوری کوشش تمہیں کرنی پڑے گی کہ شیطان تم پر کامیاب حملہ نہ کر سکے حملہ تو وہ ضرور کرتا ہے اور کرتا رہے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ انسان شیطان کے حملوں سے اپنے آپ کو بچائے اور اس کے دام فریب میں اپنے آپ کو نہ آنے دے.تو یہ تین معنی وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہ کے ہیں اور معانی کی اس ترتیب سے جو میں نے بیان کی ہے اللہ تعالیٰ نے درجہ بدرجہ ہمیں تین سبق دیئے ہیں اور ہوشیار کیا ہے اور متنبہ کیا ہے اور ہمیں ڈرایا ہے اس بات سے کہ اگر تم عہد توڑو گے تب بھی تباہی.عہد کے نباہتے وقت قرآن کریم سے منہ موڑو گے تب بھی ہلاکت.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور آپ کے ارشادات کی عظمت قائم نہیں کرو گے تب بھی شیطان کا کامیاب وارتم پر ہو جائے گا اور پھر جب تم یہ سب کچھ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لو گے تو اس وقت بھی مقام خوف رہے گا.جب تک تم اس دنیا میں زندہ ہو ، جب تک تم اپنے انجام کو نہ پہنچ جاؤ اس وقت تک چوکس اور بیدار رہ کر اپنے مقام رفعت اور مقام روحانیت کی حفاظت کرنا تمہارے لئے ضروری ہے.پس وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا میں اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بتایا کہ اگر تم اس مفہوم کے مطابق جو عربی کے لحاظ سے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا کا ہے.ہمارے حکم بجالا ؤ گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے اندر کوئی ایسا تفرقہ پیدا نہیں ہو گا جو ملت کے شیرازہ کو بکھیر دے اور ترقی کی جو منازل اُمت مسلمہ طے کر رہی ہے اس میں تنزل کا کوئی رخنہ واقع ہو جائے.

Page 525

خطبات ناصر جلد اول ۵۰۹ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہ اِخْوَانًا.یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام لانے سے قبل یا اسلام سے باہر رہتے ہوئے جو لوگ زندگی کے دن گزار رہے ہیں وہ تفرقہ کا شکار ہیں مذہبی اور روحانی لحاظ سے ان میں سے کوئی جماعت یا فرقہ ایسا نہیں ہے کہ جو نیکی کے مقام پر کھڑا ہو یا نیکی کے مقام پرکھڑا رہ سکے.کیونکہ یہاں نفی کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے عربی کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے اس کے مقابلہ میں الفت کا لفظ استعمال کیا ہے اور الفت کے معنی اکٹھے ہو جانے اور محض باہمی مودت اور پیارے کے نہیں بلکہ ایسے اجتماع اور ایسی محبت و پیار کے ہیں جو نیکیوں پر قائم ہو ، جو بدیوں پر قائم ہو کر ایک جتھہ بنتا ہے.اسے عربی زبان الفت کے لفظ سے یاد نہیں کرتی یہاں الفت کے مقابلہ میں تفرقوا کا لفظ استعمال ہوا ہے.جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کے اندر اس طرف بھی اشارہ ہے کہ وہ تمام فرقے جو اسلام سے باہر ہیں یا وہ جو حقیقی اسلام سے باہر ہو جاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جو نیکی اور تقویٰ اور طہارت پر قائم ہو.بلکہ سارے کے سارے بلا استثناء ضلالت پر قائم ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اِعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا پر عمل کرو گے تو فرقہ فرقہ نہ بنو گے اور جب بھی تمہارے اندر فرقے نظر آنے لگیں تو سمجھ لینا کہ قوم نے اِعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا پر عمل نہیں کیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللہ کے نتیجہ میں ایک بڑا انعام جو تمہیں عطا کیا گیا ہے.وہ با ہمی مودت اور اخوت ہے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا کہ ساری دنیا کی دولت بھی اگر خرچ کی جاتی تو اس قسم کی الفت جو نیکی پر قائم ہوتی ہے اور نیکی پر قائم رکھتی ہے اس جماعت میں پیدا نہ ہوسکتی.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے امت مسلمہ میں اس قسم کی محبت اور اخوت اور الفت کو پیدا کیا ہے اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللہ کے نتیجہ میں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ كُنْتُهُ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا.چونکہ کوئی فرقہ بھی ہدایت پر اور صراط مستقیم پر قائم نہیں تھا اس لئے ان کی مثال ایسی تھی جیسے کہ ایک گڑھا ہو،

Page 526

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۱۰ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء اس میں بڑی تیز آگ جل رہی ہو اور اس کے کنارہ پر کوئی کھڑا ہو اور یہ خطرہ ہو کہ کہیں وہ اس کے اندر گر نہ جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اس ہدایت عظمی قرآن کو نازل کیا اور اس کے نتیجہ میں انسانوں میں سے ایک گروہ اس جماعت میں داخل ہو کر ایسا بن گیا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اس جلتی ہوئی آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا اور اپنی محبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں اسے لا بٹھایا اور رضاء کی جنتوں میں اسے داخل کیا.یہ واقعہ صرف اس شخص سے پیش نہیں آتا جو کفر سے اسلام لاتا ہے بلکہ اُمت مسلمہ میں شامل ہونے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ اُمت کو ایسے امتحانوں میں ڈالتا رہتا ہے.جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت جب ابھی کسی امام کا انتخاب نہیں ہوا تھا اس وقت ساری اُمت مسلمہ اسی قسم کے ایک گڑھے کے کنارے پر کھڑی ہو چکی تھی جو خدا تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی آگ سے پر تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور پھر دنیا کو اَنْقَذَكُمْ مِنْهَا کا نظارہ دکھایا اور ان کے لئے اس آگ کے کنارے کی بجائے اپنے قرب کی راہوں کو کھول دیا.تو جب بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی رسول یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ وفات پاتا ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کی حالت وہ ہوتی ہے جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے کہ ایک گڑھا ہے جس میں آگ بھڑک رہی ہے اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں اور نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آگ کے گڑھے میں گر جائیں گے یا اللہ تعالیٰ کا فضل آسمان سے نازل ہوگا اور ان کو اس آگ سے بچالے گا.ایسے موقع پر ( چند گھڑیاں ہوں یا چند گھنٹے ہوں یا چند دن ہوں ) شیطان کی ساری طاقت اس کام میں صرف ہو رہی ہوتی ہے کہ خدا کی مقرب جماعت میں فتنہ پیدا کرے اور ان کو آگ میں دھکیل دے اور خدا کی لعنت کا انہیں مورد بنائے اور خدا کے پیار سے انہیں دور لے جائے.پس اس وقت شیطانی طاقتیں پورا زور لگا رہی ہوتی ہیں اور ہر قسم کے فتنے جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں بدظنی کو ہوا دے کر اور کمزور دل خوف سے بھر جاتے ہیں اور ہر تد بیر جس سے الہی سلسلہ میں کمزوری پیدا کی جاسکتی ہے وہ تد بیر شیطان اور اس کے ساتھی کر

Page 527

خطبات ناصر جلد اول ۵۱۱ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء رہے ہوتے ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے ایک نہایت کمزور بندے پر نگاہ ڈالتا اور اپنے لئے اسے چلتا ہے کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے اگر بندوں پر اس کو چھوڑ ا جا تا تو جو بھی بندوں کی نگاہ میں افضل ہوتا اسے ہی وہ اپنا خلیفہ بنالیتے.لیکن خلیفہ خود اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں.وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چنتا ہے جس کے متعلق دنیا سمجھتی ہے کہ اسے کوئی علم حاصل نہیں، کوئی روحانیت اور بزرگی اور طہارت اور تقویٰ حاصل نہیں.اسے وہ بہت کمزور جانتے ہیں اور بہت حقیر سمجھتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک جلوہ کرتا ہے اور جو کچھ وہ تھا اور جو کچھ اس کا تھا اس میں سے وہ کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے سامنے کلی طور پر فنا اور نیستی کا لبادہ وہ پہن لیتا ہے اور اس کا وجود دنیا سے غائب ہو جاتا ہے اور خدا کی قدرتوں میں وہ چھپ جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور جو اس کے مخالف ہوتے ہیں انہیں کہتا ہے کہ مجھ سے لڑ واگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے.یہ بندہ بے شک نحیف، کم علم، کمزور، کم طاقت اور تمہاری نگاہ میں طہارت اور تقویٰ سے عاری ہے لیکن اب یہ میری پناہ میں آ گیا ہے اب تمہیں بہر حال اس کے سامنے جھکنا پڑے گا.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ انتخاب خلافت کے وقت اسی کی منشا پوری ہوتی ہے اور بندوں کی عقلیں کوئی کام نہیں دیتیں.اس آیتہ کا آیت استخلاف کے ساتھ بھی بڑا گہرا تعلق ہے.وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک اور رنگ میں اسی قسم کا مضمون بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتضى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا يَعْبُدُونَنِى لَا يُشْرِكُونَ فِي شَيْئًا ۖ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ.( النور : ۵۶ ) اس وقت یہاں میں ساری آیت کی تفسیر میں نہیں جاؤں گا.البتہ یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ میں وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا کا مفہوم پایا جاتا

Page 528

خطبات ناصر جلد اول ۵۱۲ خطبہ جمعہ ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء ہے کہ خلافت کے قائم ہونے پر اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللہ کیا تھا پھر اس کی آواز پر اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اپنے عہد کو سمجھنے لگتے ہیں اور یادرکھتے ہیں اور اس کے مطابق خدا تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے والے بن جاتے ہیں اور جب ان کو خدا کا پیارمل جاتا ہے تو اگر دنیا کی ساری دولتیں اس کے عوض میں قربان ہو جائیں تب بھی وہ نہیں چاہتے کہ وہ پیار ان سے کھو جائے اور خدا ان سے ایک سیکنڈ یا لمحہ کے لئے بھی ناراض ہو.پھر وَلَيُبَتِ لَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا مِیں اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے جو وَ كُنتُم عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا مِیں بیان ہوا ہے تو جس خوف کا آیت استخلاف میں ذکر ہے وہ وہی خوف ہے جس کو یہاں یوں بیان کیا کہ ایک گڑھا ہے، آگ اس میں بھڑک رہی ہے اور اس کے کنارے پر وہ کھڑے ہیں.اس سے زیادہ اور خوف کیا ہو سکتا ہے جبکہ وہ آگ خدا تعالیٰ کی لعنت کی آگ ہے، اس کے قہر کی آگ، اس کی ناراضگی کی آگ ہے.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت قوم پر ایک نہایت ہی خوف کا وقت ہوتا ہے کہ کہیں وہ اس آگ کے گڑھے میں نہ گر جائیں.تب خدا تعالیٰ اپنی قدرت کا ایک نظارہ دنیا کو دکھاتا ہے.خدا تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں، وہ غنی ہے، دنیا میں سب سے بڑا متقی ، دنیا میں سب سے بڑا مطہر، دنیا میں سب سے بڑا عالم، دنیا میں سب سے بڑا عاشق قرآن اور عاشق رسول کہلانے والے کا بھی خدا محتاج نہیں ہے بلکہ یہی شخص خدا کا محتاج ہے.پس اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا نظارہ اس طرح دکھا تا ہے کہ بھی وہ اپنی قدرت کے اظہار کے لئے اس شخص کو چن لیتا ہے جو قوم کی نگاہ میں بوڑھا ہوتا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کو بہت دفعہ طعنہ دیا گیا کہ بوڑھا آدمی ہے، سمجھ کوئی نہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ بوڑھا ہے یا نہیں ہے لیکن ہے میری پناہ میں ، میری گود میں ، اس واسطے تم اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتے.کبھی خدا تعالیٰ اپنی قدرت کا اس طرح مظاہرہ کرتا ہے کہ ایک بچے کو چن لیتا ہے.دنیا کہتی ہے کہ بچہ ہے، قوم تباہ ہو جائے گی ، ناسمجھ ہے ، کم علم ہے، کم تجربہ ہے مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ

Page 529

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۱۳ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء بے شک یہ بچہ ہے مگر میں تو بچہ نہیں ہوں.میں اپنی قدرت اس کے ذریعہ سے ظاہر کروں گا.تب وہ قدرت ثانیہ کا مظہر ہو جاتا ہے اور پھر وہی بچہ ان لوگوں کا منہ بند کر دیتا ہے جو اسے بچہ سمجھنے والے اور بچہ کہنے والے ہوتے ہیں.کبھی وہ کسی ایسے ادھیڑ عمر انسان کو چن لیتا ہے جسے دنیا اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق قطعاً نا اہل سمجھتی ہے، کم علم مبجھتی ہے، وہ بجھتی ہے کہ یہ کام اس کے بس کا ہے ہی نہیں اور حقیقت بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ کام اس کے بس کا نہیں ہوتا.لیکن کون سا کام ہے جو خدا تعالیٰ کے بس کا نہ ہو.پس خدا تعالیٰ اسے چنتا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے نفس کو اپنی عظمت اور جلال کے جلوہ ساتھ کلی طور پر فنا کر دیتا ہے.ایسے لوگوں پر کبھی ایسی حالت بھی وارد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار میں کبھی وہ اس طرح بھی محو اور گم ہو جاتے ہیں کہ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ ساری دنیا میں منادی کر دیں کہ مجھے تم میں سے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے اور پھر خدا تعالیٰ ان سے جو اور جس قدر کام لینا چاہتا ہے اسی قدر ان کی مدد اور نصرت بھی کرتا چلا جاتا ہے اور اس طرح وہ دنیا پر ثابت کرتا ہے کہ خدا ہی حقیقتاً سب قدرتوں والا اور سب طاقتوں والا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کام خلیفہ وقت کے سپرد کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک بڑا اہم کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کریں کہ قوم "اعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللهِ “ کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزار رہی ہے کہ نہیں.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ محض اپنی نعمت کے طور پر اور اپنے فضل اور برکت کے نتیجہ میں ان کے درمیان مودت اور اُلفت پیدا کرتا اور انہیں بنیان مرصوص بنا دیتا ہے.اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے خلفاء امت محمدیہ نے مختلف تدابیر اختیار کیں ہمارے زمانہ میں ہمارے سلسلہ میں ایک تدبیر اس کے لئے یہ اختیار کی گئی ہے کہ مختلف نظام قائم کر دئے گئے ہیں.ایک جماعتی نظام ہے جو سلسلہ کے تمام بنیادی کاموں پر حاوی ہے اور ان کو کما حقہ ادا کرنے کی اس پر ذمہ داری ہے.ایک تحریک جدید کا نظام ہے جسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس لئے جاری کیا تھا کہ غیر ممالک میں اسلام کی اشاعت کی جائے اور توحید کا جھنڈا گاڑا جائے.

Page 530

خطبات ناصر جلد اول ۵۱۴ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء ایک وقف جدید کی تنظیم ہے کہ جس کے سپر داشاعت قرآن اور تربیت سلسلہ کا ایک محدود دائرہ کے اندر کچھ کام کیا گیا ہے.ان کے علاوہ ذیلی تنظیمیں ہیں.انصار اللہ ہے.لجنہ اماءاللہ ہے، خدام الاحمدیہ ہے، ناصرات احمد یہ ہے، اطفال احمد یہ ہے اور بعض دفعہ وقتی طور پر ہم کچھ کام کرتے ہیں یا ایسی کوئی تدبیر کرتے ہیں کہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ وقتی ہے یا مستقل شکل اختیار کر جائے گی.مثلاً وقف عارضی کا نظام میں نے جاری کیا ہے اس کے نتائج خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھے نکل رہے ہیں لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تحریک کیا رنگ اختیار کرے گی.جس رنگ میں اور جس طور پر اللہ تعالیٰ کا منشا ہوگا اور اس کی ہدایت ہوگی اس کے مطابق ہی وہ شکل اختیار کر لے گی.لیکن اس وقت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.بہر حال یہ مختلف تدابیر اور ذرائع ہیں تا جماعت کو اعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللہ کے مقام سے ہٹنے نہ دیا جائے اور یہ تمام تنظیمیں خواہ وہ بنیادی ہوں یا ذیلی ہوں خلیفہ وقت کے اعضاء ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی کمزور نہیں کیا جا سکتا نہ عقلاً نہ شرعاً.عقل بھی اس کی اجازت نہیں دیتی اور شریعت بھی اس کو برداشت نہیں کرتی کہ وہ ذرائع جو خلیفہ وقت کی طرف سے جاری کئے گئے ہوں ان میں کسی کو کمزور کر دیا جائے اور ہر تنظیم میں سب سے زیادہ طاقت اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنی حدود کے اندر کام کر رہی ہو اگر آپ ایک گز کپڑالیں اور سوا گز جگہ میں اس کو بچھانا چاہیں اور دو آدمی زور لگا کر اسے پھیلائیں تو وہ تار تار ہو جائے گا اور اپنی افادیت کھو دے گا.تو ہر ذیلی تنظیم کا جہاں اپنے حدود کے اندر ہنا ضروری ہے وہاں دوسری تنظیموں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس میں کسی قسم کی کمزوری نہ پیدا ہونے دیں.دراصل کسی تنظیم کا بھی کسی دوسری تنظیم کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے.سارے تعلق خلافت کے ذریعہ اوپر سے ہو کر نیچے کی طرف آتے ہیں اور جب خلیفہ وقت سارے کاموں کی نگرانی کر رہا ہے تو جماعت کو یہ خطرہ نہیں ہے کہ مثلاً خدام الاحمدیہ والے ان کے کام میں دخل دیں گے اور فتنہ پیدا کریں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو محض اپنے فضل کے ساتھ اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللہ کے مقام پر

Page 531

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۱۵ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء بڑی مضبوطی سے قائم کیا ہوا ہے اور یہ اس کی دین اور فضل ہے کہ خلیفۂ وقت کا فیصلہ بشاشت سے قبول کیا جاتا ہے.مثلاً ایک قصبہ ہے.وہاں جماعت کی کچھ زمین تھی.وہاں ایک مسجد تعمیر ہوئی مگر ایک حصہ زمین تعمیر مسجد سے باہر رہ گیا جو چند مرلوں کا تھا اسے وہاں کی مقامی جماعت نے با قاعدہ ریز و لیوشن کر کے ایک شخص کے پاس ساٹھ ستر روپے میں فروخت کر دیا.اس واقعہ کو دس بارہ سال ہو چکے تھے.چند ماہ ہوئے مجھے اس بات کا علم ہوا.میں نے اس شخص کو جس کے پاس یہ حصہ زمین فروخت کیا گیا تھا کہا کہ نہ بیچنے والے کو بیچنے کا حق اور نہ خریدنے والے کو خریدنے کا حق.جو پیسے تم نے دیئے تھے وہ واپس لے لو اور زمین خالی کر دو کہ یہ تمہاری زمین نہیں ہے.کہنے لگا بارہ سال ہو گئے ہیں.میں نے کہا کہ بارہ صدیاں ہو جائیں، کیا فرق پڑتا ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ غیر حق حق تو نہیں بن جاتا.تو کہنے لگا میں نے وہاں کمرہ بنا یا ہوا ہے جس پر چار سو روپیہ خرچ ہوا ہے.میں نے کہا تم بلا اجازت کسی کی زمین پر مکان بنا لو تو اس کا میں ذمہ دار ہوں؟ تم ملبہ اٹھوا لو.خیر وہ وہاں سے گیا.دو چار روز تک اس کے دل میں انقباض رہا لیکن جب میں نے اسے دوبارہ کہلا کے بھیجا تو اس نے ملبہ اٹھوالیا اور زمین ہمارے حوالے کر کے اپنے پیسے وصول کر لئے میری نیت پہلے ہی تھی کہ اس کا نقصان ذاتی طور پر پورا کر دوں گا.لیکن میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ نظام کی پابندی کرتا ہے یا نہیں.خلیفہ وقت کا کہنا مانتا ہے یا نہیں اور اس کا ایمان کس حد تک مضبوط ہے.پس نیت تو پہلے ہی تھی کہ جو اس کا نقصان ہے وہ میں اس کو دے دوں گا اس لئے میں نے اسے خط لکھا کہ میری نیست تو یہ تھی لیکن میں تمہیں ثواب سے محروم نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لئے میں نے پہلے اس کا اظہار نہ کیا تھا.اب تم مجھے لکھو کہ تمہارا کتنا نقصان ہوا ہے.کچھ تو تم نے ملبہ کی صورت میں اٹھا لیا ہے باقی جو تمہارا روپیہ رہ گیا ہے وہ میں تمہیں بھیج دیتا ہوں.لیکن اس کے اندر ایمان کا جذبہ تھا وہ جوش میں آیا اور اس نے مجھے لکھا کہ میں آپ سے روپیہ کیوں لوں؟ میں نے خدا کی خاطر ملبہ اٹھایا ہے.بے شک بعض منافق بھی ہوتے ہیں اور بعض کمزور ایمان والے بھی ہوتے ہیں.لیکن بحیثیت مجموعی یہ جماعت بڑی عجیب ہے!!! میں ذاتی طور پر اس کا تجربہ رکھتا ہوں.بڑی قربانیاں

Page 532

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۱۶ خطبہ جمعہ ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء دینے والی ، بڑا کام کرنے والی جماعت ہے اور جتنا آپ اے میرے بھائیو! پیار کرتے ہیں اور کہا مانتے ہیں اسے دیکھ کر میرے جیسا انسان تو انتہائی عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھک جاتا ہے دل چاہتا ہے کہ انسان سجدہ میں ہی پڑا رہے.یہی ایک جماعت ہے جس نے دنیا میں انقلاب عظیم بر پا کرنا ہے.پس باہمی تصادم کا کوئی خطرہ نہیں ہے.بعض دفعہ مقامی طور پر بعض عہد یدار کمزوری دکھاتے ہیں.حالانکہ جس قوم کے اوپر اللہ تعالیٰ نے خود اپنے فعل اور فضل کے نتیجہ میں ایک امام اور خلیفہ مقرر کر دیا ہو اس کے عہدیدار کو کمزوری دکھانے کا کوئی مطلب ہی نہیں اور کمزوری دکھانے سے میرا مطلب یہ نہیں کہ وہ سختی نہیں کرتے.میرا مطلب ” کمزوری دکھانے سے یہ ہے کہ بعض دفعہ وہ وقت سے پہلے سختی شروع کر دیتے ہیں.جس شخص کو طاقت حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ اسے ہمت دے تو وہ وقت سے پہلے ایسا کام نہیں کرتا.کوئی چیز اس کو گھبراہٹ میں نہیں ڈالتی اس کو پتہ ہوتا ہے کہ جب کسی نے کوئی غلطی کی تو اس کی اصلاح ہو جائے گی یا مجھ سے ہو جائے گی یا مرکز سے ہو جائے گی.پس ایک تو ہمت اور اعتماد کی ضرورت ہے.دوسرے یہ کہ الہی سلسلوں میں سارے کام بشاشت سے ہونے چاہئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص کے دل میں بشاشت ایمان پیدا ہو جائے.اسے شیطانی حملوں کا خطرہ اور خوف باقی نہیں رہتا اگر اتنی قربانی کرنے والے لوگ بھی بشاش نہ ہوں تو آپ عہدیداروں کا قصور ہے.ان کے ساتھ اس قدر محبت اور پیار کا سلوک کرو کہ ان کے دل بشاشت ایمانی سے بھر جائیں اور خدا اور اس کے رسول اور اس کے مذہب اور دین کے لئے محبت کا ایک سمندر ان کے دلوں میں موجزن ہو جائے.میں ایک آپ جیسا ہی معمولی انسان تھا اور ہوں.بڑا ہی کمزور بڑا ہی بے مایہ !!! لیکن جس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے منتخب کیا تو اس وقت ایک سیکنڈ کے اندر اس نے میرے دل کی حالت بالکل بدل دی.کئی تھے جن سے شکوے بھی تھے.رنجشیں بھی تھیں ، جن سے اپنے خیال میں دکھ بھی اٹھائے ہوئے تھے.لیکن یہ سب چیزیں ایک سیکنڈ کے اندر بلکہ ایک سکینڈ کے ہزارویں حصہ

Page 533

خطبات ناصر جلد اول ۵۱۷ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء کے اندر غائب ہو گئیں اور سوائے محبت کے اور کچھ نہیں رہا.یہی حال ہر عہدیدار کا ہونا چاہیے.اگر آپ خدا کے ان پیارے بندوں کو انتہائی محبت نہیں دے سکتے تو آپ عہدیدار رہنے کے قابل ہی نہیں.کسی شخص کے دل میں یہ وہم بھی پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی عہد یدار اس سے پیار نہیں کرتا، اس سے ہمدردی نہیں رکھتا، اس کی غمخواری نہیں کرتا.وقت پر اس کے کام نہیں آئے گا.ہر عہد یدار کی پہلی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ اپنی تکلیف بھول جائے اور اپنے بھائیوں کی تکلیف کا اسے خیال رہے اگر یہ کیفیت ہو تو پھر وہاں بشاشت کے نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جہاں عہدیدار ڈھونڈ ڈھونڈ کر یہ کام کریں کہ کسی کو دوائی کی ضرورت ہے وہ دوائی پہنچائی جائے.کسی کی بیماری کے نتیجہ میں اس کے بعض کام رکے ہوئے ہیں.وہ کام کر دیئے جائیں کسی کو مالی تکلیف ہے اسے اس تکلیف سے نکالا جائے.یہ صحیح ہے کہ ہم نے بادشاہتیں نہیں دینی ہیں.لیکن ہر احمدی کی کم سے کم ضرورت بہر حال ہم نے پوری کرنی ہے.اس سے وہ اس قدر سیکوریٹی اور اطمینان محسوس کرے گا کہ خود بخوداس کے دل میں بشاشت محسوس ہو گی.انفرادی طور پر ہی نہیں ( گو وہ بھی بہت ضروری ہے) انتظامی لحاظ سے بھی ، ہر نظام کو خواہ وہ بنیادی ہو یا ذیلی ہو یقین ہونا چاہیے کہ دوسرے نظام میرے ساتھ سو فی صدی تعاون کرنے والے اور میرے کاموں کو آگے سے آگے بڑھانے میں میرے ممد اور معاون اور ناصر ہیں.میرے راستے میں روکیں پیدا کرنے والے نہیں ہیں.جب ہر نظام اور ہر نظام کے عہد یداروں کے دماغ میں یہ بات آجائے گی اور یہ ذہنیت سب میں پیدا ہو جائے گی تو ہمارے یہ سارے نظام ایک جست میں ہی کہیں سے کہیں پہنچ جائیں گے.چھوٹی چھوٹی باتوں میں بعض دفعہ بدظنی پیدا ہو جاتی ہے.بدظنی تو کسی کے لئے بھی جائز نہیں لیکن عہد یداروں کے لئے تو بڑی ہی مہلک چیز ہے.جس طرح اگر کوئی کسی کے پیچھے سے السلام علیکم کہے تو آپ کو خود کو اتنا بڑا نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ سلام آپ کو کیا گیا ہے.اسی طرح اگر کوئی کسی کو

Page 534

خطبات ناصر جلد اول ۵۱۸ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء سے گالی دے رہا ہو اور آپ کے کان تک وہ آواز پہنچے تو آپ کو یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ گالی آپ کو دی جا رہی ہے یہ دونوں باتیں غلط ہیں.اگر کوئی برا بھلا کہتا ہے تو غلطی کرتا ہے آپ یہی سمجھیں کہ وہ آپ کو نہیں کہہ رہا بلکہ کسی اور کو کہ رہا ہے.آپ اپنا کام کئے جائیں اور یا درکھیں کہ نظام کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ پورا تعاون اور اتفاق ہونا چاہیے خدام الاحمدیہ کی طاقت، انصار اللہ کی طاقت ، لجنہ اماء اللہ کی طاقت، ناصرات الاحمدیہ اور اطفال کی طاقت اس بات میں ہے کہ جو حدود خلیفہ وقت نے ان کے لئے مقرر کی ہیں وہ ان سے باہر نہ جائیں اور جس وقت دوسری تنظیموں کو ان کے تعاون کی ضرورت ہو بحیثیت تنظیم بھی وہ اتنا تعاون کریں کہ دنیا میں اس کی مثال نہ ملتی ہو.اگر یہ حالات ہوں، یہ صورت ہو، تو ان حالات میں ہر تنظیم بشاشت کے ساتھ اپنے کاموں میں لگی ہوئی ہوگی.اس کو یہ پتہ ہوگا کہ اپنے دائرہ کے اندر رہا تو ہر دوسری تنظیم میری مددکو آئے گی اور اگر میں نے اپنے دائرہ سے باہر قدم رکھا تو اوپر سے تنبیہ ہو جائے گی اور جس کو یہ پتہ ہو وہ اپنے دائرہ عمل سے باہر نہیں جاسکتا.میں نے بڑا لمبا عرصہ خدام الاحمدیہ کی صدارت کی ہے اور اس عرصہ میں میری بیبیوں شکایتیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچیں اور بیسیوں دفعہ مجھ سے جواب طلبی بھی ہوئی.مگر کبھی بھی میرے خلاف فیصلہ نہیں ہوا اور جب میں سوچتا ہوں تو خدام الاحمدیہ کے زمانہ صدارت کی یہی ایک چیز ہے جو مجھے بہت پیاری لگتی ہے.غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی.بعض باتوں میں غفلت کی ہوگی اتنا کام نہ کر سکا ہوں گا جتنا کرنا چاہیے تھا مگر یہ ایک چیز ہے کہ جب میں سوچتا ہوں تو میرا دل اس کی وجہ سے خوشی سے بھر جاتا ہے کہ میرے خلاف کبھی فیصلہ نہیں ہوا.کیونکہ میں نے کبھی کسی کے خلاف جلد بازی سے کام نہیں لیا.جس کے خلاف میں ایکشن لیتا تھا کم از کم تین اور چھ مہینے کے درمیان اس کے متعلق تحقیقات کراتا.پہلے زعیم کو کہتا کہ اس کی اصلاح کرو پھر قائد کو کہتا کہ اس شخص کی اصلاح کی کوشش کرو وغیرہ.اس طرح اس کے فائل بنتے چلے جاتے.دو مہینے بعد ، تین مہینے بعد ، چار مہینے بعد ، پانچ مہینے بعد ، پھر میں اسے بلا تا اور پیار سے سمجھا تا.اگر پھر بھی اس کی اصلاح نہ ہوتی تو اپنی ڈیوٹی اور اپنے فرض کو ادا کرتا.بغیر یہ سوچے کے کہ یہ شخص یا

Page 535

خطبات ناصر جلد اول ۵۱۹ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء اور کوئی شخص مجھے برا سمجھے گا بُرا بھلا کہے گا.اگر کوئی کچھ کہتا تو میں خیال کرتا کہ کہتا ر ہے میں تو اپنا فرض ادا کر رہا ہوں.اور ایسی بھی مثالیں ہیں کہ چار مہینے یا پانچ مہینے یا چھ مہینے فائل بنتا رہا اور جس وقت وہ فائل مکمل ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ اس شخص نے مجھ سے اب ضرور سز ا لینی ہے اور پھر میں نے اسے سمجھانے کے لئے بلایا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ خدام الاحمدیہ کا باغی نہیں ہے بلکہ اپنے باپ کا باغی ہے، نفسیاتی الجھنوں کا بیمار ہے اور پھر سارا فائل دھرا کا دھرا رہ گیا اور مجھے اسے کہنا پڑا کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف ہوا اور ضرورت ہو تو میرے پاس آؤ میں تمہارا باپ ہوں تمہارے کام آؤں گا.خدا کے فضل سے اس طرح ایک آدھ گھنٹے کے اندر بڑا اچھا خادم بن کر میرے پاس سے واپس گیا.اور اس کے بعد اس کی اس قسم کی کوئی شکایت میرے پاس نہیں آئی.پس جب یہ ایک ایسا نظام ہے کہ ذیلی تنظیمیں ہوں یا بنیادی سب کی سب خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں تو تصادم کا کوئی خطرہ نہیں عہدیداروں کو چاہیے کہ وہ پیار سے کام لیں.اس سے اصلاح ہو جاتی ہے.پھر چونکہ ہماری جماعت قرآن کریم کے احکام کی پابند ہے.اس لئے جب خدا یا رسول یا تمہارا امیر کوئی فیصلہ کرے تو کوئی بات اپنے دل میں نہ لایا کرو چاہے تمہیں سمجھ آئے یا نہ آئے.مثلاً ابھی جو زمین کے غلط سودے کے متعلق میں نے مثال دی ہے ہمارے اس بھائی کے دماغ میں یہ بات نہ آئی ہوگی کہ وہ مکان جس پر اس نے چار سو روپیہ خرچ کیا تھا اس سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ مجھے یقین ہے کہ پہلے یہ بات انہیں سمجھ نہیں آئی تھی لیکن یہ بات انہیں ضرور سمجھ آ رہی تھی کہ فیصلہ میری سمجھ میں آئے یا نہ آئے میں اسے ضرور مانوں گا اور یہ ایسی چیز ہے کہ جب کسی جماعت میں پیدا ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اسے مٹا سکے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشاعت قرآن کے سلسلہ میں اور توحید خالص کے قیام کے سلسلہ میں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کو دنیا میں قائم کرنے کے سلسلہ میں خدام الاحمدیہ کو جو یہ فرمایا کہ جو قوم ایک ہاتھ کے اُٹھنے سے اُٹھ کھڑی ہوتی ہے اور ایک ہاتھ کے نیچے اشارہ کرنے سے بیٹھ جاتی ہے وہ اپنے اندر

Page 536

خطبات ناصر جلد اول ۵۲۰ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء بڑی طاقت رکھتی ہے اسے مٹانا آسان کام نہیں ، وہ بالکل حق ہے.وہ ہاتھ صدر مجلس خدام الاحمدیہ کا ہاتھ نہیں ، وہ ہاتھ مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھا ، وہ ہاتھ خلیفہ وقت کا ہاتھ ہے اور یہ اس کا کام ہے.پس جدھر وہ اشاعت اسلام کی مہم میں اور استحکام اسلام کے لئے جماعت کو لے جانا چاہے ہم سب نے آنکھیں بند کر کے (سمجھ آئے یا نہ آئے ) اس کی اطاعت کرنی ہے اور اس کے پیچھے چل پڑتا ہے اس میں بہت برکت ہے کئی آدمی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ جی! بڑے چندے ہو گئے ہیں.تحریک جدید کا، وقف جدید کا، خدام الاحمدیہ کا ، ناصرات کا، مساجد کا لیکن وہ یہ چندے دے بھی رہے ہوتے ہیں.یہ نہیں کہ وہ دے نہیں رہے ہوتے لیکن بعض دفعہ ایسی بات بھی کہہ دیتے ہیں ایک دفعہ حضرت مصلح موعود ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے فرمایا تھا اور بات وہی سچ ہے کہ الہی سلسلوں اور خدا تعالیٰ کی مقرب جماعتوں کی قربانی کے معیار کو بڑہاتے رہنا چاہیے ورنہ اس میں تنزل شروع ہو جاتا ہے اسی واسطے وقفہ وقفہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی نہ کوئی نئی سکیم جاری کرتے رہتے تھے اور وہ لوگ جنہوں نے اس زمانہ میں مثلاً ایک چونی دی تھی انہوں نے ابدی زندگی حاصل کر لی کیونکہ آپ نے ان کا نام اپنی کتب میں لکھ دیا.جب آہستہ آہستہ ان کی تربیت ہو چکی تو وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنی ساری دولت احمدیت اور اسلام کے لئے لٹا دی اور اس پر فخر کیا اس بات پر فخر نہیں کیا کہ انہوں نے مال خدا کی راہ میں دیا بلکہ اس بات پر فخر کیا کہ خدا اور اس کے رسول نے ان کے مال کو قبول کیا.دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے !!! اس فخر سے تکبر پیدا نہیں ہوتا بلکہ عاجزی پیدا ہوتی ہے ہمیں خوف رہتا ہے کہ پتہ نہیں خدا تعالیٰ ہماری قربانیوں کو قبول کرے گا یا نہیں ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ بھی نماز پڑھتے ہیں.کسی کو کیا معلوم کہ وہ نمازیں قبول ہوتی ہیں کہ نہیں پس نماز پڑھنا کافی نہیں.ہماری نجات کے لئے نماز کا قبول ہونا ضروری ہے اور قبولیت کا ہمیں پتہ نہیں ہوتا.اسی لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ڈرتے ڈرتے زندگی کے دن گزار و تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خلیفہ وقت کا ایک اہم فرض یہ ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ جماعت اعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللهِ “ کے مقام سے نیچے نہ گرے اور اسی غرض کے لئے یہ مختلف تنظیمیں قائم کی گئی ہیں اور ہر ایک تنظیم کو

Page 537

خطبات ناصر جلد اول ۵۲۱ خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء اپنے دائرہ کے اندر کام کرنا چاہیے اور دوسری تنظیموں سے بہر حال پورا تعاون کرنا چاہیے تب جماعت کا قدم تیز سے تیز تر ہوتا چلا جائے گا اور جیسا کہ ہماری دلی آرزو ہے اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب ہو جائے گا.ہر گھر میں تلاوت قرآن کریم ہوگی اور وہ گھر ایسے گھر بن جائیں گے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَن تُرفَعَ (النور : ۳۷) جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ انہیں روحانی رفعتیں عطا کی جائیں یہ مطلب نہیں کہ انہیں اٹھا کر پہاڑوں پر رکھا جائے گا.دراصل یہ بات مکینوں کے متعلق ہے کہ ایسے لوگ ان مکانوں اور گھروں میں بسیں گے کہ جو روحانی رفعتوں کو عبور کرتے ہوئے کہیں کے کہیں نکل جائیں گے بلکہ سات آسمانوں کو بھی پھلانگ جائیں گے.خدا کرے کہ تمام بنی نوع اس نور کو پہچانیں اور اس سے حصہ لیں جو خدا تعالیٰ سے نکلا اور بنی نوع انسان کو روحانی ترقی دینے کے لئے اس دنیا میں بھیجا گیا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے لئے توفیق بخشے.آمین.روزنامه الفضل ربوہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ ء صفحہ ۱ تا ۶ )

Page 538

Page 539

خطبات ناصر جلد اول ۵۲۳ خطبہ جمعہ ۱۶ار دسمبر ۱۹۶۶ء تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان ہر عمل محض رضائے الہی کی خاطر کرے خطبه جمعه فرموده ۱۶ / دسمبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ پڑھی.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ - (الانفال : ٣٠) اس کے بعد فرمایا گزشتہ پندرہ سولہ دن سے مجھے گردوں میں انفیکشن (Infection) اور سوزش کی تکلیف رہی ہے.ایک تو خود یہ بیماری ضعف پیدا کرتی ہے.دوسرے آج کل جوا دو یہ اس بیماری میں دی جاتی ہیں ان کے نتیجہ میں ضعف قلب اور ضعف دماغ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے کہ بیماری بہت حد تک دور ہو چکی ہے اور قابو میں ہے.لیکن قارورہ کا جو آخری ٹیسٹ ہوا ہے اس میں بھی پس سیلز (Puss Cells ) اور ریڈ سیلز (Red Cells ) پائے گئے ہیں ( دوائی چھوڑنے کے بعد انفیکشن کچھ زیادہ ہوگئی ہے ) آج بھی میں بہت ضعف محسوس کر رہا ہوں.لیکن اس خیال سے کہ رمضان شروع ہو چکا ہے مجھے اپنے بھائیوں اور دوستوں سے ایک دو باتیں بطور یاد دہانی اور ذکر کے کہنی چاہئیں میں ضعف کے باوجود یہاں اپنے بھائیوں سے ملنے اور کچھ کہنے کے لئے حاضر ہو گیا ہوں.

Page 540

خطبات ناصر جلد اول ۵۲۴ خطبہ جمعہ ۱۶؍دسمبر ۱۹۶۶ء اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں اور پھر اپنے عملی نمونہ سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریروں اور ملفوظات میں اسلام کی جس بنیادی چیز کی طرف ہمیں متوجہ کیا اور بڑے زور اور شدت سے جس کی ہمیں تلقین کی اور جس کے متعلق فرمایا کہ اسلام کی روح اس میں ہے اسے چھوڑ نانہیں.اسے بھول نہ جانا.اسے ترک نہ کر دینا اس کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنا وہ چیز تقوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی نثر میں اور نظم میں اور اپنی تقاریر اور ملفوظات میں اور اپنی کتب میں.غرض ہر موقعہ اور ہر مقام پر اور ہر جگہ اس بات پر بڑا ہی زور دیا ہے کہ اسلام کی روح تقویٰ میں ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں.سنو ہے حاصل اسلام تقویٰ خدا کا عشق ہے اور جام تقویٰ یعنی اسلام کا نچوڑ اور لب لباب اور حاصل اسلام تقویٰ ہے اور تقویٰ کی مثال اسلام میں ایسی ہی ہے.جیسا کہ شراب اور صراحی کی مثال ہو.گویا اللہ تعالیٰ کا عشق تقویٰ کی صراحی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تقویٰ ہی ہے جو خدا کے عشق کو اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو ثابت کرتا ، دکھاتا اور اس کی حفاظت کرتا ہے.کسی کا تقویٰ ہی ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ انسان واقعہ میں اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والا.اس سے تعلق رکھنے والا اور اس سے محبت رکھنے والا ہے.کیونکہ یہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتا ہے.اسلام کی اصطلاح میں تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے نفس کی اس رنگ میں اور اس طور سے حفاظت کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول نہ لینے والا ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہو.اس کا کرنا اور اس کا ترک کرنا ہر دو اس بات پر منحصر ہوں کہ آیا اس چیز کے کرنے سے میرا رب راضی ہو گا.آیا اس چیز کو ترک کر دینے کے نتیجہ میں میں اپنے مولیٰ اور اپنے پیدا کرنے والے کی محبت کو حاصل کرلوں گا.اگر اس کا علم اگر اس کی فراست اس کو یہ کہے کہ اگر تم نے یہ چیز چھوڑ دی تو تمہارا پیدا کرنے والا تم سے خوش ہو جائے گا.اگر تم نے ان باتوں کو

Page 541

خطبات ناصر جلد اول ۵۲۵ خطبہ جمعہ ۱۶ رودسمبر ۱۹۶۶ء اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا تو وہ اسے کرنے لگ جائے گا یا ترک کر دے گا.غرض اس اصول کے مطابق وہ بعض چیزوں کو ترک کرتا ہے اور بعض چیزوں کو اختیار کرتا ہے.پھر تقوی ہی یہ بتاتا ہے کہ نیکی اور بدی کا فیصلہ میرے اختیار میں نہیں بلکہ جو چیز اور جب میرا ربّ کہے کہ کرو، مجھے کرنی چاہیے اور جب اور جس چیز کے متعلق وہ کہے کہ نہ کرو مجھے وہ نہیں کرنی چاہیے اسلام کی روح اور حقیقت یہ ہے اور اگر آپ غور کریں تو آپ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اس مقام کو حاصل کر لینے کے بعد انسان پر کلی فناوارد ہو جاتی ہے.اس کا اپنا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.اس کی ہر حرکت اور اس کا ہر سکون اپنے مولیٰ کے لئے ہو جاتا ہے.وہ کسی چیز سے اس لئے نفرت نہیں کرتا کہ اس کی طبیعت یا اس کی عقل اس چیز کو برا سمجھتی ہے بلکہ وہ صرف اس وقت ان چیزوں اور ان اعمال سے نفرت کرتا اور ان سے پر ہیز کرتا ہے.جب وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرا خدا یہ کہتا ہے یہ چیزیں یہ اعمال قابل نفریں ہیں اور یہ کہ ان کے قریب بھی تمہیں نہیں جانا چاہیے.وہ یہ ایمان رکھتا ہے کہ مجھے اس بات کی سمجھ آئے یا نہ آئے کہ یہ چیزیں کیوں قابل نفرت ہیں لیکن چونکہ وہ میرے رب کو پسند نہیں اس لئے مجھے بھی پسند نہیں.غرض جب وہ کسی چیز کو اچھا سمجھتا اور محبت اور شوق کے ساتھ اسے کرتا اور اس پر عمل پیرا ہو کر ہر قسم کی دنیوی تکالیف اپنے اوپر لیتا ہے تو اس لئے نہیں کہ دنیا اس چیز کو اچھا سمجھتی ہے یا اس کا نفس اس چیز کو اچھا سمجھتا ہے بلکہ صرف اور صرف اس وجہ سے کہ وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ میرے محبوب میرے رب کی نگاہ میں ایسا کرنا محبوب اور پیارا ہے اور اگر میں یہ اعمال بجالاؤں تو میرا خدا مجھ سے خوش ہو جائے گا.کوئی مقصد اس کے سامنے نہیں ہوتا.سوائے اپنے رب کی رضا کے اور اسے کسی چیز کی تلاش نہیں ہوتی سوائے اپنے پیدا کرنے والے کی محبت کے.اللہ تعالیٰ اس مختصر سی آیت میں جو میں نے پڑھی ہے بڑا ہی لطیف مضمون بیان کرتا ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو.جو یہ کہتے ہو کہ ہم نے اپنے رب کو ان پاکیزہ اور مقدس اور کامل اور مکمل صفات کے ساتھ مانا ہے جو اسلام نے اس کی پیش کی ہیں اور جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ اس کی بھیجی ہوئی آخری شریعت پر ہم ایمان لائے.جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہم اس کے

Page 542

خطبات ناصر جلد اول ۵۲۶ خطبہ جمعہ ۱۶/دسمبر ۱۹۶۶ء محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور حقانیت کو تسلیم کرنے والے ہیں اور اس پر پختہ ایمان رکھنے والے ہیں.ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا تمہارے ساتھ یہ سلوک ہوگا کہ وہ تمہیں فرقان عطا کرے گا اِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلُ لَكُمْ فُرْقَانًا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی تقویٰ پر قائم ہونا اور تقویٰ کی راہوں پر چلنا اور تقویٰ کے نور میں لپٹ کر اپنی زندگی کو گزارنا یہ ایک امتیازی اور ایک ممتاز زندگی ہے.اگر تم خدا تعالیٰ کی خاطر دنیا کو چھوڑ کر اس کی رضا کی جستجو میں ایک ممتاز زندگی کو اختیار کرو گے تو تمہیں خوشخبری ہو کہ تمہارے مولیٰ کا تمہارے ساتھ سلوک بھی بڑا ممتاز ہو گا اور اللہ تعالیٰ بڑے امتیاز کے سامان تمہارے لئے پیدا کرے گا تم انسان ہو گے لیکن دوسرے انسانوں سے ممتاز ہو گے.خدا تعالیٰ ہزاروں راہیں تمہارے امتیاز کے اظہار کے لئے دنیا پر کھولے گا.وہ دنیا کو یہ بتائے گا کہ یہ میرا بندہ ہے.اس نے میری خاطر دنیا کو چھوڑ دیا ہے اور یہ ہر قسم کی تکلیف اور ہر قسم کی ایذا رسانی میرے لئے بشاشت کے ساتھ قبول کرنے والا ہے، ساری دنیا اسے ذلیل کرنے کے لئے تیار ہو جائے ،ساری دنیا اسے رسوا کرنے کے درپے ہو جائے ، ساری دنیا اسے ہلاک کرنے پر تلی ہوئی ہو تب بھی یہ دنیا کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ جب میری آنکھ میں پیار دیکھتا ہے تو ساری دنیا کے دُکھڑے بھول جاتا ہے.جب اسے میری رضا کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو دنیا کی کوئی تکلیف اس کے لئے تکلیف نہیں رہتی.یہ میرا بندہ ہے اس نے میرے لئے ایک امتیازی زندگی کو اختیار کیا ہے.میں بھی اس کے ساتھ ایک جدا گانہ سلوک اختیار کروں گا اور اس کے امتیاز کے بڑے سامان پیدا کروں گا.يَجْعَلُ لَكُم فُرقانا کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ تقویٰ کی راہوں پر گامزن ہونے والوں کو میں ایک نور عطا کروں گا اور انہیں اس نور کے ذریعہ یہ توفیق دوں گا کہ وہ حق اور باطل میں فرق کرنے لگیں.سچی بات دنیا پر مشتبہ ہوتو ہولیکن میرے ان بندوں کے لئے حق و باطل سچی اور جھوٹی بات میں اتنا فرق ہو گا کہ کبھی بھی انہیں کوئی دھوکہ نہیں لگے گا.تقویٰ کے نتیجہ میں ان کے لئے ایک نور آسمان سے نازل ہوگا وہ نور ان کے آگے آگے چلے گا اور روشنی اور اندھیرے میں فرق کرتا چلا جائے گا، ان کے عمل بھی نور بن جائیں گے، ان

Page 543

خطبات ناصر جلد اول ۵۲۷ خطبه جمعه ۱۶ رد سمبر ۱۹۶۶ء کے اقوال بھی نور بن جائیں گے، ان کے خیالات بھی نور بن جائیں گے، ان کی زندگی سرا پانور بن جائے گی کیونکہ انہوں نے میرے لئے تقویٰ کی راہوں کو اختیار کیا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی کمزوریاں دور کر دی جائیں گی اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنے کے دن سے اور وقت سے پہلے جو غفلتیں اور کوتاہیاں ان سے سرزد ہوئی ہوں گی اللہ تعالیٰ انہیں معاف کر دے گا.وہ ان کے اوپر اپنی مغفرت کی چادر ڈال دے گا اور ایک معصوم کی سی زندگی انہیں عطا کرے گا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے بندے کو بڑے پیار سے فرمایا کہ یہیں پر بس نہیں بلکہ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظیمِ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اندازہ لگانا بھی تمہارے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے ہم ان فضلوں کو بیان نہیں کرتے.لیکن اصولی طور پر تمہیں یہ بتا دیتے ہیں کہ اللہ بڑا ہی فضل والا ہے وہ تم پر اپنے اتنے فضل کرے گا کہ جب تم ان فضلوں کے وارث بنو گے.صرف اس وقت تمہیں ان کی حقیقت محسوس ہو گی اور تب تمہیں ان کی لذت اور سرور ملے گا تب تمہیں معلوم ہوگا که خدا کس قدر فضل کرنے والا ہے.پھر یہیں پر بس نہیں ہوگی بلکہ فضل کے بعد فضل تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا چلا جائے گا اس لئے کہ تم نے اس کی خاطر تقویٰ کی راہوں کو اختیار کیا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے بھی اور آپ کو بھی تقوی عطا کرے کہ اس کے فضل کے بغیر تقویٰ کا حصول بھی ممکن نہیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۲ تا ۴) 谢谢谢

Page 544

Page 545

خطبات ناصر جلد اول ۵۲۹ خطبه جمعه ۲۳ دسمبر ۱۹۶۶ء ہم ہر کام اس کی رضا اور خوشنودی کے لئے کرنے والے ہوں اور شیطان کا کوئی حصہ بھی ہمارے اعمال میں نہ ہو خطبه جمعه فرموده ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.انسان جب درخت لگاتا ہے.تو اس کے لگائے ہوئے درختوں میں سے بہت سے درخت مرجاتے ہیں.بعض دفعہ باغوں میں سو میں سے نوے درخت مرجاتے ہیں اور باغبان کو پھر نئے سرے سے محنت کرنی پڑتی ہے.لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے کوئی درخت لگا تا ہے.تو وہ درخت مرا نہیں کرتا.بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام صفات اور ان صفات کے جلوے اس کی حفاظت کے لئے آسمان سے اُترتے ہیں اور اسے ہر ایسی بیماری سے محفوظ رکھتے ہیں جو اس قسم کے درختوں کے لئے مہلک ہوتی ہے.جب تک کہ وہ درخت اپنی عمر کو پورا نہیں کر لیتا.جس عمر کا فیصلہ آسمانوں میں خدا تعالیٰ کی اُم الکتاب میں موجود ہوتا ہے جب وہ مقررہ گھڑی آتی ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے درخت مرا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے الہی جماعتوں اور سلسلوں کی شکل میں جو درخت لگائے ہیں اگر چہ وہ اپنی مدت معینہ تک زندگی اور بہار کے جلوے دکھاتے رہتے ہیں.لیکن ان درختوں کی بھی بعض ٹہنیاں خشک ہو جایا کرتی ہیں جیسا کہ قانونِ قدرت ہمیں دکھاتا ہے کہ دنیا میں زندہ درختوں کی

Page 546

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۳۰ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء بعض ٹہنیاں خشک ہو جاتی ہیں اور وہ خشک ٹہنیاں ہی دراصل ان کی زندگی کا ایک بین ثبوت ہوتی ہیں.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے درختوں کی بعض ٹہنیاں اپنی بدقسمتی کے نتیجہ میں خشک ہو جاتی ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کا لگایا ہوا درخت شیطانی طاقتوں اور طاغوتی تدبیروں کے نتیجہ میں مرا نہیں کرتا اس زندگی کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت سے معیار اور پیمانے بتائے ہیں.ایک پیمانہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لگائے ہوئے درخت کی زندگی (جو اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق ایک معینہ وقت تک ہوتی ہے ) اور اس کی بقا کا یہ بتایا ہے کہ انا ناتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَلِبُونَ.(الانبياء : ۴۵) یعنی جو پودے اللہ تعالیٰ کے لگائے ہوئے ہوتے ہیں ان میں تدریجی ارتقا اور تدریجی کامیابی اور تدریجی از یاد مفاد اور تدریجی حسن اور خوبصورتی میں زیادتی پائی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیشہ ایسے درختوں کے متعلق میرا یہ قانون ہے کہ میں دنیا ( مخالف دنیا ) کو بتدریج کم کرتا چلا جاتا ہوں اور اپنے قائم کردہ سلسلہ کو آہستہ آہستہ اور بتدریج بڑھاتا چلا جاتا ہوں.خدا تعالیٰ کی یہ فعلی شہادت اس بات کی بین دلیل ہوتی ہے.کہ یہی سلسلہ اور یہی جماعت غالب آنے والی ہے.عقل بھی اسی نتیجہ پر پہنچتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی یہی ہے اس لئے فرما یا ان حالات میں اگر وہ اپنی عقل سے کام لیں تو کیا وہ اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں.اَفَهُمُ الْغَلِبُونَ کہ وہ غالب آجائیں گے.عقل اس نتیجہ پر نہیں پہنچتی اس کے برعکس اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جس وقت خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے اپنی عمر گزار چکتے ہیں.تو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک اس کے بالکل برعکس ہو جاتا ہے.یعنی ان پر تدریجی ترقی ، تدریجی بڑھاؤ اور تدریجی نشوونما کے مقابلہ میں تدریجی تنزل اور تدریجی ہلاکت کا قانون لاگو ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ فرماتا ہے.فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفَ أَضَاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا - (مریم: ۶۰)

Page 547

خطبات ناصر جلد اول ۵۳۱ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء کہ ایک مدت کے بعد الہی سلسلوں میں ایک ایسی نسل پیدا ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے ذکر کو اس کی یاد کو اور اس کی عبادت کو بھول جاتی ہے اور دنیا کے کیڑے بن جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان حالات میں اس نسل پر ہمارا یہ قانون لگتا ہے.کہ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ( ” کے ایک معنی ہلاکت کے بھی ہیں ) انہیں تدریجی ہلاکت کا منہ دیکھنا پڑتا ہے.آپ دوست اگر اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے بلکہ جو شخص بھی سوچے گا وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہے کہ آنا ناتی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا اَفَهُمُ الْغَلِبُونَ کہ کناروں سے زمین کو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے چھوٹا کرتا چلا جاتا ہے اور اس جماعت کے اندر اس نسبت کے ساتھ وسعت پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور یہ پختہ دلیل ہے اس بات کی کہ یہ جماعت مغلوب ہونے والی نہیں.بلکہ غالب ہونے والی اور فاتح ہونے والی اور خدا تعالیٰ کی نصرتوں کو جذب کر کے خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے والی اور بنی نوع انسان کے دلوں کو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول ( محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے جیتنے والی ہے.اس تدریجی ترقی کا ایک پیمانہ ہمارا جلسہ سالانہ ہے جب میں افسر جلسہ سالانہ کے طور پر کام کر رہا تھا، تو میں نے پہلے جلسہ سے لے کر اس وقت تک کے تمام جلسوں کی حاضری کا ایک چارٹ یعنی گراف بنایا ہے.میں نے دیکھا کہ سوائے اس کے کہ کوئی سال خاص طور پر اس جماعت کو عام رفتار کی نسبت اپنی طرف زیادہ متوجہ کرنے والا ہو اور اس سال جلسہ سالانہ میں آنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہو مثلاً حضرت مصلح موعود کی جو بلی کا جلسہ تھا یہ جو بلی ہم نے دعاؤں کے ساتھ گریہ وزاری کے ساتھ اور مبارک مقامات پر مبارک اجتماع کے ساتھ منائی تھی اس میں آنے والوں کی تعداد خاص طور پر اس سے پہلے سال کی نسبت سے بھی اور اس کے بعد جو سال آیا اس کی نسبت بھی بہت بڑھ گئی.چند استثنائی سالوں کو چھوڑ کر میں نے دیکھا کہ گراف کی لکیر تدریجی طور پر اوپر چڑھتی چلی جاتی ہے اور آج تک ہمارے جلسوں کا یہی حال ہے.غرض جلسہ سالانہ ہماری جماعت کی تدریجی ترقی کا ایک چھوٹا سا پیمانہ ہے اور بھی بہت سے

Page 548

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۳۲ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء پیمانے ہیں لیکن چونکہ اس وقت میں اپنے دوستوں کو جلسہ سالانہ کے متعلق توجہ دلانا چاہتا ہوں ، اس کے لئے میں نے اسی ایک پیمانہ کا ذکر کیا ہے.دوستوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس سال جلسہ سالانہ پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں.اللہ تعالیٰ کے وعدے (جیسا کہ میں نے بتایا ہے) ضرور پورے ہوتے ہیں.لیکن ان وعدوں کا پورا ہونا انسان کو غافل نہیں کیا کرتا.کیونکہ جس طرح اس دنیا کے درختوں کے اندر ہمیں سوکھی ٹہنیاں نظر آتی ہیں.اسی طرح الہی سلسلوں کے اندر بھی ہمیں کچھ خشک ٹہنیاں نظر آتی ہیں.ہمیں ہمیشہ اس بات سے خوف کھاتے رہنا چاہیے اور ڈرتے رہنے چاہیے کہ کہیں اپنی بدقسمتی اور اپنی غفلت اور اپنے گناہ اور اپنی بے پرواہی کے نتیجہ میں ہم ہی وہ خشک ٹہنیاں نہ بن جائیں اس کے لئے ہر فرد بشر کو جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتا ہے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ان مبارک ایام میں اپنے چھوٹے چھوٹے ہر جوں کا خیال نہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم محمدی قرار دیا ہے.جلسہ سالانہ میں زیادہ سے زیادہ شمولیت کریں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح تمام انبیاء کو اپنے وجود میں لئے ہوئے تھے اسی طرح تمام انبیاء کا وجود مختلف وقتوں میں ایک ایک دو دو نبیوں کی شکل میں بطور ظل کے اُمت محمدیہ میں پیدا ہوتا رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ظل تھے.اس لئے آپ کے وجود میں تمام انبیاء کی شکل ہمیں نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کے الہامات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مختلف انبیاء کا نام دیا ہے اور یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت کے طفیل ہے آپ کو ابراہیم بھی کہا گیا ہے اور جس طرح ہم آپ کو مسیح محمدی کہتے ہیں اسی طرح ہم آپ کو ابراہیم محمدی بھی کہہ سکتے ہیں پس اے ابراہیم محمدی کے پرندو! تمہارا وہ زبر دست امام جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر پورے طور پر عمل کرتے ہوئے اور آپ میں کلی طور پر نہاں ہو کر آپ ہی کی چادر اوڑھی اور خدا تعالیٰ کے الہامات میں اسے مختلف انبیاء کے ناموں سے پکارا گیا ہے آپ کو آواز دے رہا ہے کہ اس جلسہ میں جو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق اعلائے کلمہ اسلام کے لئے جاری کیا گیا ہے شمولیت کے لئے اپنا ہر ج کر کے بھی مرکز میں آؤ.جماعت کے دوستوں کو یہ

Page 549

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۳۳ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء کوشش کرنی چاہیے کہ حضور کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں جلسہ میں شمولیت کریں.اس میں شک نہیں کہ رمضان کی وجہ سے ہمیں جلسہ سالانہ کی تاریخیں بدلنی پڑی ہیں اور تاریخوں کی اس تبدیلی کے نتیجہ میں بعض دوستوں کے لئے پہلے کی نسبت رخصت حاصل کرنے میں زیادہ وقتیں ہوں گی یہ صیح ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ہمارے راستہ میں روکیں خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں وہ آواز جو ہمارے کانوں میں اپنے امام اپنے مہدی، اپنے مسیح ، اپنے ابراہیم محمدی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل کی گونج رہی ہے کہ یہ جلسہ سالانہ خدا تعالیٰ نے خود جاری کیا ہے اور تمہیں اس میں اپنے ہر جوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شامل ہونا چاہیے یہ روکیں اس پیاری آواز کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں دنیا اس پیمانہ سے بھی آپ کو دیکھتی ہے اور دیکھتی رہے گی.کئی دفعہ ہم سوچتے ہیں کہ جب جلسہ سالانہ پر ایک لاکھ نہیں ایک کروڑ اور پھر کسی وقت اس سے بھی زیادہ آدمی آئیں گے تو ان کے کھانے کا کیا انتظام ہو گا ان کے رہنے کا انتظام کیا ہوگا.تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہم نہیں کہہ سکتے.وہ انتظام کس شکل میں ظاہر ہو گا لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے انتظام کے کوئی سامان پیدا کر دے گا ہمیں اس کی فکر کرنے اور گبھرانے کی ضرورت نہیں یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور یہ ہوتا رہے گا ہر احمدی کو اس یقین سے پر ہونا چاہیے.ایک دفعہ جب میں افسر جلسہ سالا نہ تھا.ہمارا ایک ٹھیکیدار جو جلسہ سالانہ کے موقع پر نانبائیوں کا ٹھیکہ لیا کرتا تھا.میرے پاس آیا ہم غالباً اُجرت پر متفق نہیں ہو رہے تھے وہ زیادہ اُجرت مانگ رہا تھا اور میں اتنی اجرت دینا نہیں چاہتا تھا.یا شاید وہ سارے لنگروں کا ٹھیکہ مانگ رہا تھا اور میں ٹھیکہ مختلف آدمیوں کو دینا چاہتا تھا بہر حال کوئی اس قسم کی بات تھی.وہ کہنے لگا میاں صاحب! پھر تسیں چاولاں دا انتظام کر چھوڑنا.اس کا مطلب یہ تھا کہ میں ایسا فتنہ پیدا کروں گا کہ کوئی نانبائی جلسہ سالانہ پر ربوہ میں نہیں آئے گا مجھے غصہ بھی آیا لیکن میری توجہ اپنے رب کی طرف مبذول

Page 550

خطبات ناصر جلد اول ۵۳۴ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء ہوئی اور میں نے اسے کہا ٹھیک ہے، تم سے جو ہو سکتا ہے کر واگر جلسہ سالانہ پر کوئی نانبائی نہ آیا تو ہم یہ نظارہ دیکھیں گے کہ آسمان سے فرشتے اُتریں گے اور وہ روٹیاں پکا ئیں گے اس لئے مجھے کوئی فکر نہیں تم یہاں سے چلے جاؤ اور جلسہ سالانہ کے دنوں میں بھی تم ربوہ نہ آنا بلکہ باہر کے نانبائیوں کو روکنے کے لئے جو تد بیر تم کر سکتے ہو کرنا.غرض فرشتے تو بہر حال ہمارے لئے آسمانوں سے نازل ہوتے ہیں لیکن چونکہ یہ تدبیر کی دنیا ہے اس لئے وہ ہمارے لئے تدبیر کرتے ہیں اس ٹھیکہ دار نے غصہ کا اظہار بھی کیا ہوگا اور ممکن ہے اس نے نانبائیوں کو روکنے کی کوشش بھی کی ہو یا ممکن ہے فرشتوں نے آکر اس کے دل کو پکڑ لیا ہو اور اسے کہا ہو کہ اس قسم کی بیہودہ بات تمہارے منہ سے نکلی ہے تم تو بہ واستغفار کرو ورنہ ہم تمہیں پکڑتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے کبھی ہمارے راستہ میں اس قسم کی روک نہیں پیدا کی کہ ہمارا کام نا کام ہو جائے یہ صحیح ہے کہ بعض دفعہ ہمیں تکلیف اٹھانی پڑتی ہے بعض دفعہ ہم اپنے عزیز بھائیوں سے یہ درخواست کیا کرتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں ذرا احتیاط برتو.کھانے کا زیادہ ضیاع نہ ہو یا تم تین روٹیوں کی بجائے اڑھائی روٹیاں کھا لو.وقتی طور پر اس قسم کی تکلیف ہو جاتی ہے کہ روٹیوں میں کچھ کمی ہو جاتی ہے لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ کام بند ہو جائے اور کسی کو کچھ سمجھ نہ آئے کہ مہمان آئے ہوئے ہیں ہمیں کیا کرنا ہے.میں اس وقت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا یہ ایک علیحدہ تفصیل ہے کہ ان چند دنوں میں اتنی روٹی کے پک جانے کا انتظام ہی بڑاز بر دست معجزہ ہے میں اس وقت اپنے دوستوں سے ایک بات تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ تمام روکوں کے باوجود اور تمام تکالیف کے باوجود جلسہ سالانہ کے موقع پر مرکز میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں تاکہ دنیا خدا تعالیٰ کی یہ بات اور یہ بشارت پھر پوری ہوتی دیکھے کہ اَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا افَهُمُ الْغَلِبُونَ یعنی اس سال بھی جماعت کا قدم ترقی اور رفعت کی طرف اُٹھا ہے.تنزل اور پستی کی طرف نہیں اٹھا.دوسری بات جو میں اس وقت دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا تھا.وسغ مكانك اس الہام کی بہت سی تفاصیل اور تشریحیں اور

Page 551

خطبات ناصر جلد اول ۵۳۵ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء معانی ہمارے مختلف دوستوں کے ذہنوں میں آتے رہتے ہیں اور جماعت کے دوستوں کے سامنے بھی بیان ہوتے رہتے ہیں.لیکن جب میں اس سلسلہ میں کل سوچ رہا تھا تو میری توجہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف گئی إذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَحُوا فِي الْمَجْلِسِ فَأَفْسَحُوا يَفْسَح اللهُ لَكُمْ - (المجادلة : ١٢) فسح کے مصدر اور ف س ح کے مادہ کے معنی بھی لغوی لحاظ سے وسعت کے ہیں اور یہاں قران کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تمہیں کہا جائے کہ تم اپنی مجالس میں وسعت پیدا کرو تو تم اپنی مجالس میں وسعت پیدا کر دیا کرو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے رحم اور اپنے فضل سے تمہارے لئے حقیقی وسعتیں پیدا کرتا چلا جائے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام وسعُ مَكَانَكَ میں ایک زبر دست بشارت بھی پائی جاتی ہے اور اس آیہ کریمہ کی روشنی میں اس الہام کے یہ معنی ہوں گے کہ جس وقت خدا تعالیٰ یا خدا تعالیٰ کے سلسلہ کو ضرورت ہو اس وقت اے مرکز کے رہنے والو! اے وہ لوگو! جن کے مکانات مرکز میں ہیں.تم اس قسم کی وسعت اپنے گھروں میں پیدا کر لیا کرو جس قسم کی وسعت مجالس میں پیدا کرنے کا اس آیہ کریمہ میں کہا گیا ہے اب اس آیہ کریمہ میں جس وسعت کا ذکر ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجلس پہلے ۲۰۲۰ فٹ کے ایریا اور جگہ میں ہو رہی تھی اب وہ ۵۰×۵۰ فٹ کے ایریا میں ہوتی ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پہلے ۲۰×۲۰ فٹ کے ایریا میں ۲۰ آدمی بیٹھے ہوئے تھے تو اب اس قدر جگہ میں اس حکم کی تعمیل کے نتیجہ میں مثلاً تیس یا چالیس آدمی بیٹھ گئے پس تفتَحُوا یعنی کھل جاؤ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تنگ ہو کر بیٹھوتا دوسرے لوگ بھی بیٹھ جائیں دوسرے آنے والوں کے لئے جگہ کھول دیں قرآن کریم نے ہمیں یہاں بتایا ہے کہ جگہ دو طرح کھلتی ہے.ایک تو اس طرح کہ جس شخص کے مکان میں تین کمرے ہیں.وہ تین کمرے اور بنالے اور اگر تین کمروں کی بجائے چھ کمرے ہو جائیں تو اس جگہ میں وسعت پیدا ہو جائے گی یعنی پہلے تین کمرے تھے اب چھ کمرے ہو گئے اور ایسے موقع پر مکان میں وسعت اس طرح بھی پیدا ہوتی ہے کہ پہلے اس شخص نے تین کمروں میں سے دو کمرے اپنے گھر کے لئے رکھے تھے اور ایک کمرہ جلسہ سالانہ کے

Page 552

خطبات ناصر جلد اول ۵۳۶ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء مہمانوں کے لئے دیا تھا لیکن اب جس وقت جماعت کو زیادہ ضرورت پڑی تو اس نے تین کمروں میں سے دو کمرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کے لئے جماعت کو دے دیئے اور ایک کمرہ اپنے لئے رکھا تو جہاں تک سلسلہ کی ضرورت کا تعلق ہے وہ مکان وسیع ہو گیا کیونکہ اس شخص نے ایک مزید کمرہ جماعتی اغراض کے لئے پیش کر دیا بالکل اسی طرح جس طرح مجلس میں وہ لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے تین ساڑھے تین یا چارفٹ کی جگہ لی ہوئی تھی لیکن جب کہا گیا کہ جگہ یا زمین تنگ ہو گئی ہے اور بیٹھنے والے خدا تعالیٰ کے فضل سے زائد ہو گئے ہیں اس لئے کھل جاؤ اور ان نئے آنے والوں کے لئے جگہ بناؤ.تو وہ سمٹ گئے.اور اس طرح اس جگہ میں مزید کچھ آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے گنجائش نکل آئی اور اس طرح ایک قسم کی وسعت پیدا ہو گئی.غرض وسغ مَكَانَكَ میں ایک حکم یہ بھی ہے کہ ضرورت کے مطابق تم سمٹ جاؤ اور جماعتی کاموں کے لئے اپنے مکانوں میں وسعت پیدا کرو.پہلے تم جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک کمرہ جماعت کو دیتے تھے اب ایک سے زائد کمرے دو.پس کل جب میں اس الہام کے متعلق سوچ رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے میری توجہ اس طرف پھیری کہ دراصل اسے قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں کہنا چاہیے جو میں نے ابھی پڑھی ہے اور اسی وجہ سے میں نے کہا ہے کہ اس الہام میں بھی ایک بشارت ہے.کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جب تمہیں یہ کہا جائے کہ مجلس میں اور آدمی آگئے ہیں تم ان کے لئے جگہ بناؤ.فَافْسَحُوا تم تنگ ہو کر بیٹھو اور آنے والوں کو جگہ دو يَفسح الله لكم اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے وسعت کے سامان پیدا کر دے گا.اس آیت کا جو مفہوم ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی معین وسعت مراد نہیں.بلکہ وسعت مکان کی بھی ہوتی ہے.وسعت اولاد کی بھی ہوتی ہے، وسعت اولاد سے خوشی میں بھی ہوتی ہے قرآن کریم کہتا ہے تم اپنی اولاد کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ انہیں تمہاری آنکھوں کے لئے قرة آمین ، یعنی ٹھنڈک بنائے اب اگر اس ٹھنڈک میں زیادتی ردو 66 ہو جائے تو یہ بھی ایک وسعت ہے.پھر وسعت دل کے حوصلہ میں بھی ہوتی ہے وسعت نیکیوں کی توفیق میں بھی ہوتی ہے.وسعت خدا تعالیٰ کے فضل میں بھی ہوتی ہے اس کی برکت میں بھی ہوتی

Page 553

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۳۷ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء ہے اس کی رحمت میں بھی ہوتی ہے یہ ہر قسم کی وسعتیں اللہ تعالی پیدا کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور پھر اس رسول کے نائبین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی مجلسوں میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کے مطابق اپنے مکانوں میں وسعت پیدا کرو گے.یعنی خود سمٹ جاؤ گے تا کہ وسیع تر ایر یا جماعتی اغراض کے لئے پیش کیا جا سکے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم پر فضل اور رحم کر کے ہر لحاظ سے وسعت کے سامان پیدا کر دے گا.تمہارے مکانوں میں بھی زیادہ کمرے بن جائیں گے.اب دیکھ لو جماعت احمد یہ ایک چھوٹی سی اور غریب جماعت ہے لیکن جب ربوہ دنیا کے لئے حسد اور حیرت کا نشان چھوڑتا ہوا آباد ہوا.تو لوگ سمجھ نہیں سکتے تھے کہ اس چھوٹی سی جماعت نے اپنے لئے ایک مرکز ، ایک قصبہ کیسے آباد کر لیا.جس میں کئی کالج ہیں کئی سکول ہیں ، ایک بڑا اچھا ہسپتال ہے.ان کے علاوہ ہزار ہا قسم کے خرچ ہیں جو جماعت نے کئے اور ہر قسم کی سہولت یہاں بہم پہنچائی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ اب سینکڑوں خاندان ایسے ہیں کہ کمانے والے یہاں نہیں رہتے ان کے بیوی اور بچے یہاں رہتے ہیں وہ انہیں یہاں چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ جتنی حفاظت ان کی بیویوں اور بچوں کی ان کی اپنی موجودگی میں کی جا سکتی ہے ان سے زیادہ محفوظ وہ اس وقت اس فضا میں ہیں کیونکہ ساری جماعت کی حفاظت انہیں حاصل ہے اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچے تو جماعت کو اس کا دکھ پہنچتا ہے.لیکن لاہور جیسے بڑے شہر میں کسی کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ اس کے ہمسایہ میں کون بس رہا ہے اور اسے کوئی تکلیف یا کوئی ضرورت ہے یا نہیں.لیکن یہاں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے یہاں ہر ایک کی تکلیف اور دکھ کا جماعت کو احساس ہے تو یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ قصبہ آباد ہو گیا اور اس کی آبادی میں ایک حصہ اس چیز کا بھی ہے کہ یہاں کے مکینوں نے ہمیشہ جماعتی ضرورت کے وقت اپنے اوپر سنگی وارد کرتے ہوئے بھی اپنے مکانوں کے بعض حصے پیش کر دیئے خصوصاً جلسہ سالانہ کے موقع پر.جلسہ سالا نہ کے دنوں میں ہم کھانا کے سلسلہ میں افراد کی تعداد کو چیک کرتے ہیں میں اس بات کا خود شاہد ہوں کہ بعض دفعہ ہمیں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ شخص جو پچاس آدمی کا کھانا لے جا رہا

Page 554

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۳۸ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء ہے.اس کے پاس تو ایک کمرہ ہے.پھر پچاس مہمان کہاں ہوں گے کہیں کھانا تو ضائع نہیں ہورہا لیکن جب وہاں جا کے دیکھا تو واقعی پچاس مہمان موجود ہوتے ہیں.اب حیرت انگیز بات ہے کہ اس چھوٹے سے کمرے میں پچاس آدمی رات کیسے بسر کرتے ہیں.شاید رات کو فرشتے آجاتے ہیں اور وہ اس کمرے میں اس قدر لچک پیدا کر دیتے ہیں کہ عارضی طور پر اس میں پچاس آدمی سما جاتے ہیں اور ہمیں تسلی ہو جاتی ہے کہ گواستثناء ہر جگہ ہوتا ہے اور منافق بھی ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں.لیکن ہماری جماعت دیانتداری کے بلند مقام پر قائم ہے چیک کرنے والوں کو شرمند ہونا پڑتا ہے کیونکہ بہر حال شرمندگی کا سامان تو پیدا ہو جاتا ہے کہ ایک شخص پر انہوں نے اعتبار نہ کیا اور خیال کر لیا کہ ممکن ہے اس کے ہاں اتنے مہمان نہ ٹھہرے ہوں لیکن چیک کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ واقعی طور پر اس کے ہاں اتنے مہمان ہیں سمجھ نہیں آتا کہ اتنی چھوٹی سی جگہ میں اتنے مہمان کس طرح گزارہ کر لیتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے علاوہ اس جگہ میں پچاس آدمی تو کیا چالیس آدمی بھی نہیں ٹھہر سکتے لیکن جلسہ سالانہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ ایسا فضل کرتا ہے.کہ ان مکانوں میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے.پس اس سال جلسہ سالانہ پر پہلے کی نسبت زیادہ آدمیوں کو آنا چاہیے اور اگر اس سال پہلے کی نسبت انشاء اللہ زیادہ مہمان یہاں آئیں گے تو اس کے نتیجہ میں ربوہ کے رہنے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پہلے کی نسبت زیادہ کمرے اور زیادہ مکانیت سلسلہ کے نظام کو جو جلسہ سالانہ کے دنوں میں جاری ہوتا ہے پیش کریں تا کہ خدا تعالیٰ اور اس کا رسول اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی رہائش کا انتظام کیا جا سکے.پس میں اہالیانِ ربوہ سے یہ درخواست کروں گا اور اگر آپ ان فضلوں کے وارث بننا چاہتے ہیں جن فضلوں کی طرف قرآنی آیت کا ٹکڑا یفسح اللهُ لَكُمْ اشارہ کرتا ہے اور جن فضلوں کی قرآنی آیت کا یہ ٹکڑا بشارت دے رہا ہے تو پھر تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے دین کی خاطر صعوبتیں اُٹھا کر اور ہر قسم کا ہرج کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپ کے جو بھائی یہاں آئیں ان کی رہائش کے انتظام کے لئے آپ

Page 555

خطبات ناصر جلد اول ۵۳۹ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء زیادہ سے زیادہ مکانیت سلسلہ کو پیش کریں.اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں آپ کے مکانوں میں بڑی برکت ڈالے گا.اگر آپ سوچیں اور دعائیں کریں اور اپنی نیتوں کو خالص رکھیں تو آپ خود اپنی زندگیوں میں ہی دیکھ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مکانوں کی وسعت کے سامان پیدا کر دے گا.اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالٰی تیسری بات جو میں اس وقت کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں جیسا کہ حکومت کی طرف سے بار بار اعلان ہو رہا ہے غذائی بحران پایا جاتا ہے جہاں تک حکومت سمجھتی ہے ( اور جہاں تک میں نے بھی غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ صحیح نتیجہ پرپہنچی ہے ) ہمارے ہاں غذا کی اتنی زیادہ قلت نہیں لیکن ایک تو تقسیم میں بعض روکیں ہیں اور دوسرے بعض اور مسئلے بھی ہیں مثلاً بعض لوگ اپنے بخل کی وجہ سے اپنی حرص کی وجہ سے اور لالچ کی وجہ سے جنسوں کو دبائے رکھتے ہیں.اس کے علاوہ بہت ساری اور بھی چیز میں ہیں جن کے نتیجہ میں ملک کے اندر وقتی طور پر غذائی قلت پیدا ہو گئی ہے.ہم یہ تو نہیں چاہتے کہ بعض دوسرے ملکوں کی طرح جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو یہ کہیں کہ اس سال تھوڑا کھانا بلکہ جہاں تک کھانے کی مقدار اور کھپت کا سوال ہے اور جہاں تک کھانے کی کیفیت کا سوال ہے یعنی یہ کہ وہ اچھا پکا ہوا ہو اس میں کمی نہیں آنی چاہیے بلکہ اگر ممکن ہو تو اس میں ہر سال زیادتی ہونی چاہیے.اس لئے کہ ہمارا قدم ترقی کی طرف ہے اور ہر میدان میں ہمارا قدم ترقی کی طرف جانا چاہیے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس سال خاص طور پر احتیاط برتی جائے کہ کھانا ضائع نہ ہو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس بات پر اتناز ور دیا ہے کہ آپ اس بات کو بھی نا پسند فرماتے تھے.کہ کوئی شخص اپنی پلیٹ میں اتنا سالن ڈال لے کہ ایک لقمہ کے برابر سالن بچ جائے اور اس کا پیٹ بھر جائے.کیونکہ اس طرح وہ لقمہ ضائع ہو جائے گا آپ فرماتے ہیں یہ لقمہ بھی کیوں ضائع ہو گیا کیونکہ یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے اس کی رحمت ہے جو غذا کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ہے اور تم اس کو ضائع کر کے اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے والے بنتے ہو.تم اپنی پلیٹ میں اتنا سالن ہی ڈالو جتنا تم کھا سکو اور پلیٹ میں کچھ بھی نہ بچے.کیونکہ جو سالن پلیٹ میں بچ جاتا ہے وہ ضائع چلا جاتا ہے اسی طرح اپنے گھر میں

Page 556

خطبات ناصر جلد اول ۵۴۰ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء بھی اتنا ہی پکاؤ جتنے کی ضرورت ہو گو ہماری جماعت میں تو بہت کم ہیں لیکن دنیا میں ایسے گھرانے بھی ہیں اور گھرانے کیا دنیا کی بعض قو میں ایسی ہیں.جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر ان کے دستر خوان کے ٹکڑے اکٹھے کئے جائیں تو گاندھی جی کی قوم کا پیٹ بھر جائے اور ان کو کوئی فکر نہ رہے.غرض وہ خوراک کو اس قدر ضائع کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر قوم کو ابتلاؤں سے محفوظ رکھے ہندوستان کی جو حالت اس وقت ہے.ہم اس سے خوش نہیں ہیں ہمیں ان کی یہ حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ہمیں ان پر رحم آتا ہے.ہم انہیں حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے.بلکہ انہیں رحم کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں.مجھے تفصیل کا تو علم نہیں لیکن بعض اخباری خبروں میں یہ تھا.(واللہ اعلم وہ خبریں ٹھیک بھی ہیں.یا نہیں ) کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حالات ایسے کر دیئے ہیں کہ بعض لوگوں نے ہیں سیر چاول کے بدلہ اپنے بچے فروخت کر دیئے ہیں.یعنی ہیں سیر چاول لے گئے اور بچہ فروخت کر دیا.غرض ہندوستان کے بعض حصوں میں اس حد تک غذائی قلت ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرے.کیونکہ وہ رب ہے تمام جہانوں کا.وہ شیطانوں کے چیلوں کو بھی کھلاتا ہے اس نے ابو جہل کی روزی پر بھی کوئی پابندی نہیں لگائی تھی اور دنیا میں جتنے انبیاء بھی گزرے ہیں وہ ان کے اشد ترین مخالفوں کو بھی اس وقت تک روزی دیتا چلا گیا جب تک کہ اس نے ان کی ہلاکت کا فیصلہ نہ کر لیا الا مَا شَاءَ اللهُ بعض دفعہ قحط کی شکل میں بھی دنیا پر عذاب نازل ہوا ہے.لیکن عام طور پر ایسا ہی عذاب نازل ہوا ہے جس کے نتیجہ میں کفار بھو کے نہیں مرے بلکہ جب خدا تعالیٰ نے ان کی ہلاکت کا فیصلہ کر دیا تو اس کی کسی اور قہری تجلی نے انہیں کلیتاً ہلاک کر دیا اور ان کا نام و نشان بھی نہ چھوڑا.اللہ تعالیٰ دنیا کی سب قوموں کو اپنی اس قسم کی قہری تجلی سے محفوظ رکھے.بہر حال اس وقت ہندوستان میں بھی غذائی قلت ہے.ان کے لئے بھی دعائیں کرنا چاہیے اور ہمارے ملک میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے.اس قسم کی غذائی قلت تو نہیں ہے لیکن بہر حال ایک غذائی بحران ضرور ہے.بعض دفعہ کہہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ بجلی نہیں ہے اس لئے ملیں پوری طرح آٹا نہیں ہیں رہیں اور ہم پورا آٹا نہیں دے سکتے یہ

Page 557

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۴۱ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء ٹھیک ہے بہر حال اس قسم کی تنگیاں ہمیں نظر آ رہی ہیں.میں یہاں کے رہنے والوں کو جو مہمانوں کے لئے اپنے گھروں میں کھانا لے کر جاتے ہیں یا جو جماعتی قیام گاہوں میں مہمانوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور جو میرے باہر سے آنے والے بھائی اور دوست ہیں انہیں بھی میں خاص طور پر نصیحت کروں گا کہ اس سال یہ خیال رکھیں کہ کھانا کسی رنگ میں اور کسی شکل میں بھی ضائع نہ ہو.اگر ہم اس سال ضیاع میں سات آٹھ یا دس فیصدی بھی کمی کر لیں تو ہم اس سال زائد آنے والے مہمانوں کی غذائی ضرورتیں اس مقدار اغذیہ میں پوری کر لیں گے جو مقدار اغذیہ پچھلے سال استعمال ہوئی تھی کیونکہ کچھ نہ کچھ کھانا بہر حال بے احتیاطی سے ضائع ہو جاتا ہے مثلاً چھوٹے بچے کھانا لینے آتے ہیں وہ کوئی روٹی زمین پر گرا دیتے ہیں یا وہ کسی روٹی کو اس طرح توڑ دیتے ہیں کہ وہ کھانے والی نہیں رہتی یا کسی گھر والے نے بے احتیاطی کی اور کھانا زیادہ منگوالیا.مہمان آدھا کھانا کھا سکے اور آدھا نہ کھا سکے بہر حال ضیاع کی بہت سی وجوہات ہیں اور بہت سے سوراخ ہیں.جن کے اندر سے ضیاع گھستا ہے اور جماعت کو نقصان پہنچاتا ہے میں کہوں گا کہ ضیاع کا ہر سوراخ بند کر دو اور خدا تعالیٰ کے کھانے میں سے ایک لقمہ بھی ضائع نہ ہور بوہ والے بھی اس بات کا خیال رکھیں اور باہر سے آنے والے دوست بھی اس بات کا خیال رکھیں.اگر ہم اللہ تعالیٰ کا اس رنگ میں شکر ادا کریں گے تو میں سمجھتا ہوں وہ ہمارے گھروں کے کھانوں میں بھی بڑی برکت دے گا اور اس وقت جو غذائی بحران ہے.اس سے بھی ہمیں بہت حد تک محفوظ رکھے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم ہر کام اس کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے کرنے والے ہوں اور شیطان کا کوئی حصہ بھی ہمارے اعمال میں نہ ہو اور اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل اور رحم سے ہماری ان کوششوں کو قبول کرے جو ہم اپنے خیال میں اس کے لئے کر رہے ہیں اگر کوئی رخنہ ، اگر کوئی گناہ، اگر کوئی کمزوری، اگر کوئی نقص اگر کوئی کوتا ہی ان میں رہ جائے تو وہ ان تمام کو تاہیوں کو اپنی مغفرت کی چادر کے نیچے ڈھانپ لے اور ہوں گے تو نہیں معصوم ہم لیکن وہ ہماری زندگیوں کو ایسا بنا دے کہ اس کی نگاہ میں اس کی رحمت کی نگاہ میں اس کی مغفرت کی نگاہ

Page 558

خطبات ناصر جلد اول ۵۴۲ خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء میں ہماری زندگیاں معصومانہ زندگیاں ہی بن جائیں اور ہم ان تمام فضلوں کے وارث بنیں جن فضلوں کے وہ بزرگ انبیاء وارث بنتے رہے ہیں جو حقیقتاً اس کی نگاہ میں اور دنیا کی نگاہ میں اور اپنے نفسوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے معصومانہ زندگی گزارتے رہے ہیں.(آمین ثم آمین ) از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 559

خطبات ناصر جلد اول ۵۴۳ خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء کر و عمل کر وہ عمل کرو مگر سب کچھ کرنے کے بعد بھی یہی سمجھو کہ ہم نے کچھ نہیں کیا خطبه جمعه فرموده ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آیات نى عِبَادِى إِنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ - وَ أَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ - (الحجر: ۵۱،۵۰) پڑھیں.پھر فرمایا.ان دو مختصر آیات قرآنی سے قبل اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ میری طرف آنے کا یہی ایک سیدھا راستہ یہی ایک صراط مستقیم ہے یعنی وہ راستہ جسے اسلامی شریعت دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے.جسے قرآن کریم کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے اور جو شریعت تا قیامت دنیا میں رکھی جائے گی اور اس کی حفاظت کی جائے گی.پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد یہ فرمایا کہ جو لوگ حقیقتاً میرے بندے ہیں.ان پر شیطان کا کسی قسم کا کوئی تسلط نہیں ہوگا.کیونکہ وہ میری پناہ میں ہیں.میں انہیں شیطان سے دور رکھتا ہوں اور نیکیوں کی انہیں تو فیق عطا کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی انسان کو آزادی ضمیر بھی عطا کی گئی ہے.اس لئے وہ جو میری بندگی سے باہر نکلنا چاہیں وہ ایسا کر سکتے ہیں اور ایسے گمراہ لوگوں پر ہی

Page 560

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۴۴ خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء شیطان اپنا تسلط جماتا ہے.فرمایا کہ وہ لوگ جو اپنی مرضی سے صداقت اور ہدایت کی راہوں کو چھوڑ کر گمراہی اور ضلالت کی راہوں کو جو جہنم کی طرف لے جانے والی ہیں اختیار کریں گے تو وہ جہنم میں ہی گریں گے.وہ جہنم جسے خدا کے غضب اور قہر نے بھڑکا یا ہے.اسی جہنم سے قرآن کریم کے ذریعہ لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اول انہیں بتایا جاتا ہے کہ اِنَّ بَطْشَ رَبَّكَ لَشَدِيدٌ ( البروج : ۱۳) جب خدا کسی پر اس کی غفلت ، کوتاہی ، یا گناہ یا ظلم کی وجہ سے گرفت کرتا ہے.تو خدا کی وہ گرفت بڑی ہی سخت ہوا کرتی ہے.اس لئے انہیں خدا سے ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی کے دن گزار نے چاہئیں اور انہیں چاہیے کہ تقویٰ کی سب راہوں کو اختیار کریں تا جہنم کا کوئی دروازہ بھی ان کے لئے کھلا نہ رہے.جہنم کے سب دروازے ان کے لئے بند ہو جائیں.اس لئے کہ تقویٰ کی سب راہوں کو انہوں اختیار کیا تھا.پھر فرمایا کہ جو لوگ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں.انہیں جان لینا چاہیے کہ تقویٰ کی یہ را ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے باغوں اور اس کی رحمت کے چشموں تک لے جاتی ہیں.جہاں وہ بے خوف وخطر سلامتی کی فضا میں سانس لیں گے.ان کے سینوں میں سے سب کینے نکال باہر پھینکے جائیں گے اور ان کو مقامات رفعت اور مقامات قرب، اخوت کا باعث بنیں گے.باہمی جھگڑے اور فساد کا باعث نہیں بنیں گے.ان مقامات رفعت اور ان مقامات قرب میں مزید رفعتوں کے حصول کے لئے ان کی جو بھی جد و جہد ہوگی ( وہ ایک عظیم جدوجہد ہو گی ) انہیں تھکائے گی نہیں بلکہ مزید روحانی سرور کے حصول کا ذریعہ ان کے لئے بنے گی.دو اس مضمون کے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَبِّئُ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.میرے بندوں کو کھول کر یہ بات بتا دو کہ میری صفات میں سے دوصفات یہ بھی ہیں کہ میں غفور بھی ہوں اور میں رحیم بھی ہوں اگر وہ میری طرف رجوع کریں گے اگر وہ میری طرف آئیں گے اگر وہ میری طرف جھکیں گے اگر وہ تو بہ کی راہوں کو اختیار کریں گے اگر وہ استغفار کو اپنا شعار بنائیں گے.اگر وہ مجھ سے مغفرت چاہیں گے تو اپنی تمام کوتاہیوں کے نتیجہ میں اور غفلتوں کے نتیجہ میں اور گناہوں کے نتیجہ میں وہ جس سزا کے مستحق اور سزاوار بنے تھے میں اس سزا سے

Page 561

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۴۵ خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء انہیں محفوظ کرلوں گا اور بچالوں گا اور انہیں اپنی حفاظت میں لے لوں گا کیونکہ میں خدائے غفور ہوں نیز میری رضا کے حصول کے لئے اگر وہ جدو جہد کریں گے.میرے بتائے ہوئے راستوں پر اگر وہ اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ چلیں گے.اگر ان کے دلوں میں اور ان کی روحوں میں مجھے سے ملنے اور میرا قرب حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوگی اور اگر اسی کے لئے وہ اعمالِ صالحہ بجا لائیں گے.اس کے لئے وہ قربانیاں دیں گے.اس کے لئے وہ اخلاص کا نمونہ میرے اور دنیا کے سامنے پیش کریں گے تو انہیں تم یہ بھی بتا دو کہ میں خدائے رحیم ہوں.میں بار بار رحم کرنے والا خدا ہوں اور نیک اعمال کی بہتر اور احسن جزا دینے والا خدا ہوں.لیکن اس کے ساتھ میرے بندوں کو تم یہ بھی بتا دو.اَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ.اگر کوئی عذاب، عذاب کہلانے کا مستحق ہے.اگر کوئی عذاب اس بات کا مستحق ہے کہ کہا جائے کہ یہ بڑا دکھ دینے والا ، بڑا تکلیف دینے والا ، زندگی سے بیزار کر دینے والا ، موت کی خواہش دلوں میں پیدا کر دینے والا یہ عذاب ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے قہر کا ہی عذاب ہے.یہ ایسا عذاب ہے کہ جن پر وارد ہوتا ہے وہ نہ زندوں میں شمار کئے جا سکتے ہیں کیونکہ حقیقی زندگی کی کوئی رمق ان کے اندر باقی نہیں چھوڑتا اور نہ وہ مردوں کے اندر شمار کئے جاسکتے ہیں.کیونکہ اس عذاب کے چکھنے کے لئے خدا کی طرف سے انہیں زندہ رکھا جاتا ہے ورنہ ان کے دل تو یہی چاہتے ہیں کہ اس عذاب سے نجات اور چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ان پر موت وارد ہو جائے مگر خدا کہتا ہے کہ نہیں.مرد نہیں بلکہ میرے عذاب کو چکھو.تو فر ما یا کہ میرے بندوں کو یہ بھی بتا دو اور کھول کر بتا دو کہ میرا عذاب بھی بڑا سخت عذاب بڑا دکھ دینے والا عذاب ہے.اللہ تعالیٰ نے رمضان کے اس مہینہ میں اپنی مغفرت اور اپنی رحمت کے دروازے کھولے ہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ مضمون پایا جاتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں آسمانی رحمتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور آسمانی غضب اور آسمانی ناراضگیوں اور آسمانی لعنتوں کے دروازے پھیڑ دیئے جاتے ہیں.اگر خدا کے

Page 562

خطبات ناصر جلد اول ۵۴۶ خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء بندے خدا کی خاطر خدا کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کریں تو وہ ہنسی خوشی بشاشت کے ساتھ چھلانگیں لگاتے ہوئے خدا کی جنت میں داخل ہو سکتے ہیں لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں اور خود اپنے ہاتھوں سے جہنم کے ان دروازوں کو کھولیں جن کو خدا تعالیٰ نے بھیڑ دیا تھا تو پھر ان کی بدقسمتی ہے کہ وہ مغفرت اور رحمت کی بجائے خدا کی لعنت کو اختیار کرتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ صرف بھوکا رہنے سے خدا خوش نہیں ہوتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ صرف راتوں کو جاگنے سے صرف قیام لیل یا احیاء لیل سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا.بہت سے وہ بھی ہیں جو بھوکے رہتے ہیں مگر روزے کا ثواب حاصل نہیں کر سکتے.بہت سے ایسے بھی ہیں جو راتوں کو جاگتے ہیں مگر ان پر ملائکہ کا نزول نہیں ہوتا.جو نزول ان بندوں پر ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے اخلاص کے ساتھ ، فروتنی اور عاجزی کے ساتھ راتوں کو جاگ کر اس کے حضور جھک کر اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اور سب کچھ کرنے کے بعد بھی اسے وہ یہی کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم تہی دست ہیں کیونکہ جو کچھ ہم تیرے سامنے پیش کر رہے ہیں اس کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کے اندر کوئی ایسا کیڑا تو نہیں جو تیری ناراضگی کا موجب ہو.پس بجائے اس کے ہم یہ کہیں کہ ہم تیرے حضور اپنے اس عمل کا تحفہ پیش کرتے ہیں.ہم آج تجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم جو کچھ پیش کر رہے ہیں اسے نظر انداز کر دے.ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہمیں اپنی مغفرت اور اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے.ہمیں نہ کسی عمل کا دعوی نہ ہم اس کا انعام تجھ سے حاصل کرنا چاہتے ہیں.ہم یہ دعویٰ ضرور کرتے ہیں کہ تو نے اپنی ذات کو غفور بھی کہا ہے اور رحیم بھی کہا ہے.پس تجھے تیرے غفور ہونے کا واسطہ، تجھے تیرے رحیم ہونے کا واسطہ، ہمیں اپنی مغفرت کی چادر کے نیچے چھپالے اور ہمیں اپنی رحمتوں سے نواز کہ اگر تو ہمیں محض اپنے فضل سے اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے، اگر تو اپنی صفت رحیم کو جوش میں لا کر ہم پر اپنی رحمت کا سایہ کر دے تو یہ ناقص عمل ہم نے کیا کرنے ہیں؟ اور ان کا ہمیں کیا فائدہ؟؟ عمل تو ہم نے اس لئے کئے تھے کہ ہم تیری خوشنودگی ، تیری رضا کو حاصل کر لیں.جب تیری مغفرت کے ذریعہ، جب تیری رحمت کے ذریعہ وہ ہمیں مل گئی تو ہم یہ کیوں کہیں؟ کہ

Page 563

خطبات ناصر جلد اول ۵۴۷ خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء اے خدا! ہم نے کچھ نیک کام کئے تھے ان کی جزا ہمیں دے.اس کے ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جو شخص خدا کی راہ میں اعمالِ صالحہ بجالانے سے گریز کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میں بغیر کسی عمل کے اس کی خوشنودی کو حاصل کرلوں گا وہ بھی غلطی پر ہے وہ بھی خدا کو ناراض کرنے والا ہے.تو درمیانہ راستہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ اعمال میں کوتاہی نہ کرو اور نیک اعمال بجالانے میں غفلت نہ برتو جس حد تک ممکن ہو سکے دن اور رات اعمالِ صالحہ بجالاتے ہوئے اپنی زندگی کی گھڑیوں کو گزار ولیکن اس کے ساتھ ہی یہ نہ سمجھو کہ تم اپنے عمل کے نتیجہ میں کچھ بن گئے.یا تمہارے عمل کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ تم سے خوش ہو جائے گا اور راضی ہو جائے گا کیونکہ تم نہیں کہہ سکتے کہ تمہارے اعمال میں ریاء کے، تمہارے اعمال میں تکبر کے ، تمہارے اعمال میں خود نمائی اور خود پسندی کے ، تمہارے اعمال میں دوسروں کے لئے حقارت کے ایسے جراثیم نہیں پائے جاتے جو خدا کو ناراض کر دیتے ہیں.پس عمل کرو عمل کرو اور عمل کرو لیکن سب کچھ کرنے کے بعد یہ سمجھو کہ تم خالی ہاتھ اور تہی دست ہو.جب تک خدا کی مغفرت جب تک خدا کی رحمت تمہیں حاصل نہ ہو تم خدا کے قہر اور اس کے غضب اور اس کی لعنت سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے.تو میں آج اپنے دوستوں سے کہوں گا کہ اے میرے پیارے بھائیو! یہ مہینہ رحمتوں کے لٹانے کا ہے خدا آسمان سے زمین پر اس لئے آیا ہے کہ اس کے بندے اس کے سامنے جھولیاں پھیلائیں اور اس کی رحمت کو اس کی مغفرت کو ، اس کے فضلوں کو ، اس کی برکتوں کو اور اس کی رضا کو پائیں.اس کی خوشنودی حاصل کریں.اس کے نور سے اپنے سینہ و دل کو منور کریں.پس اس مہینہ سے جتنا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہو ا ٹھاؤ.اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کی جتنی رضا تم پاسکتے ہو.اس کے پانے کی کوشش کرو.اپنے دنوں کو بھی اپنی راتوں کو بھی ایسے دن اور ایسی راتیں بناؤ کہ جو دن اور جو راتیں تمہارے خدا کو محبوب بن جائیں.پھر عاجزی کے ساتھ دعائیں کرتے رہو کہ اے خدا ان کاموں کی ہمیں توفیق دے جن کے نتیجہ میں تو خوش ہو جائے اور

Page 564

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۴۸ خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء ان کاموں سے ہمیں بچا جن کاموں کے نتیجہ میں تو ہم سے ناراض ہوتا ہے.شیطان تیرے در کا کتا ہے.تو خود اس کو زنجیر ڈال کہ وہ ہم پر حملہ آور نہ ہو اور ہمیں نقصان نہ پہنچائے کہ اپنی طاقت اور اپنے زور کے ساتھ ہم اس کے حملوں سے اپنے کو محفوظ نہیں رکھ سکتے.خدا تعالیٰ کی رحمت کے بہت سے دروازوں میں سے رحمت کا ایک دروازہ جو ہم پر کھولا گیا ہے.وہ وقف جدید کا دروازہ ہے.اس نظام کے ذریعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ہمارے لئے نیکیاں کرنے اور رحمتیں کمانے کا سامان پیدا کر دیا.وقف جدید کا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے.آج ۳۰ دسمبر ہے کل کا ایک دن بیچ میں رہ گیا ہے اس طرح نیا سال پرسوں شروع ہوگا.ہر نیا سال جو چڑھتا ہے وہ کچھ نئی ذمہ داریاں لے کر آتا ہے اور کچھ نئی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے، یا قربانیوں میں کچھ زیادتی کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کے مقابلہ میں خدا کی نئی رحمتوں کے دروازے بھی وہ کھولتا ہے.ہر تحریک جو اعلائے کلمتہ اللہ اور غلبہ اسلام کے لئے جماعت احمدیہ میں جاری کی گئی ہے وہ اس آیت کے ماتحت جاری کی گئی ہے.نبی عِبَادِی آئی اَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ کہ کسی طرح افراد جماعت اور ہماری آئندہ نسلیں بھی اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رحمت کو حاصل کرنے والی بنیں.پس ہمیں چاہیے کہ اپنی طرف سے زیادہ سے زیادہ جد و جہد یا اجتہا دیا مجاہدہ ہم کریں تا کہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکیں اور پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک مومن بندہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو تہی دست پا تا اور تہی دست سمجھتا اور یقین رکھتا ہے.وقف جدید کی تنظیم جماعت کی تربیت کے لئے بڑی اہم تنظیم ہے.اس کی اہمیت کو پوری طرح ابھی تک جماعت نے نہیں سمجھا کیونکہ اگر وہ سمجھتے تو اس سے وہ بے اعتنائی نہ برتتے جو آج برت رہے ہیں.وقف جدید کو جاری ہوئے ۹۸ سال گذر چکے ہیں اور ابھی تک اس کا چندہ ڈیڑھ لاکھ تک بھی نہیں پہنچا.حالانکہ تربیت کے جو کام اس تنظیم کے سپرد کئے گئے ہیں.وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کاموں کے کرنے کے لئے ڈیڑھ لاکھ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے.پھر اس کے لئے جس تعداد میں واقفین آئے ہیں وہ تعداد بھی (جیسا کہ میں نے پہلے بھی اپنے ایک خطبہ میں بتایا تھا ) نا کافی ہے.میں نے کہا

Page 565

خطبات ناصر جلد اول ۵۴۹ خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء تھا کہ آئندہ سال جماعت کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کم از کم ایک سو واقف وقف جدید کے انتظام میں پیش کرے.مجھے بتایا گیا ہے اور اخبار الفضل میں بھی بعض نوٹ چھپے ہیں کہ ابھی تک بہت کم نوجوانوں نے یا جو ان دل ادھیڑ عمر کے احمدیوں نے اس کلاس کے لئے وقف جدید میں نام پیش کئے ہیں.جو یکم جنوری سے یا جنوری کے پہلے ہفتہ میں شروع ہو رہی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا.میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس طرف متوجہ کرنے کے لئے کہ وقف جدید کی تنظیم بڑی اہم ہے اور اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور جماعت کو بھی متوجہ کرنا چاہیے.میرے دل میں یہ القا کیا کہ میں وقف عارضی کی تحریک جاری کروں کیونکہ وقف عارضی کے جواچھے اور خوشکن نتائج نکل رہے ہیں اور جو فوائد ہم اس سے حاصل کر رہے ہیں.ان میں سے ایک فائدہ جو ہمیں وقف عارضی سے حاصل ہوا.وہ یہ ہے کہ جو رپورٹیں سینکڑوں جماعتوں میں وقف عارضی کے واقفین نے کام کرنے کے بعد ہمیں دیں ان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جماعتوں میں وقف جدید کے معلمین کی اشد ضرورت ہے.تو جو چیز چھپی ہوئی تھی اور وقف جدید کی جو اہمیت ہماری نظروں سے اوجھل تھی وہ وقف عارضی کے واقفین کی رپورٹوں سے ہماری آنکھوں کے سامنے آگئی اور ہم میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم سے ایک بڑا گناہ سرزد ہوا ہے کہ ہم نے اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وقف جدید کے مطالبات پورا کرنے میں اتنی کوشش اور محنت نہیں کی جتنی ہمیں کرنی چاہیے تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو مقصد وقف جدید کے قیام کا تھا وہ پوری طرح حاصل نہیں کیا جا سکا.پس ایک تو آج میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان کرتا ہوں اور دوسرے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس اعلان کا یہ مطلب نہیں کہ بس میں نے ایک آواز اٹھائی اور وہ آواز اخبار میں چھپ گئی.لوگ خاموش ہو گئے اور سو گئے.بلکہ سال نو کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے دل میں یہ احساس پیدا ہو کہ نیا سال آ رہا ہے.مختلف زاویوں اور پہلوؤں سے نئی ذمہ داریوں اور نئی قربانیوں کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے لا سکتے ہیں اور ان میں سے ایک ذمہ داری وقف جدید کی ہے.

Page 566

خطبات ناصر جلد اوّل خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء اس ذمہ داری کو اپنے سامنے رکھیں جتنے روپے کی ہمیں ضرورت ہے وہ مہیا کریں اور بطور معلمین جتنے آدمیوں کی ہمیں ضرورت ہے ہمیں دیں اور مخلص واقف دیں.خدا تعالیٰ کی محبت رکھنے والے اور اس کی خاطر تکالیف برداشت کرنے والے، اس کے عشق میں سرشار ہو کر اس کے نام کو بلند کرنے والے مسیح موعود علیہ السلام پر حقیقی ایمان لانے کے بعد اور آپ کے مقام کو پوری طرح سمجھنے کے بعد جو ایک احمدی کے دل میں ایک تڑپ پیدا ہونی چاہیے کہ تمام احمدی اس روحانی مقام تک پہنچیں جس مقام تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام انہیں لے جانا چاہتے تھے.اس تڑپ والے واقفین ہمیں وقف جدید میں چاہئیں.تو ایک تو وقف جدید کے چندوں کی طرف متوجہ ہوں.دوسرے وقف جدید کے لئے جتنے اور جس قسم کے احمدیوں کی ضرورت ہے.بطور معلم کے وہ آدمی اتنی تعداد میں مہیا کرنے کی کوشش کریں.ہماری جماعت میں سے سو آدمی کا مہیا ہو جانا کوئی مشکل نہیں ہے.بشرطیکہ ہم اس طرف توجہ کریں.بعض جماعتوں کے عہدیداروں نے جیسا کہ رپورٹوں سے پتہ لگتا ہے جماعتوں کو بتایا ہی نہیں کہ مرکز سے کیا آواز اٹھ رہی ہے، کیا مطالبہ ہو رہا ہے اور کیا ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں اور اس کے مقابلہ پر اللہ تعالیٰ کی کس قدر اور کس شان کے ساتھ رحمتیں نازل ہو رہی ہیں.ایسی جماعت کے دوست نیم بیہوشی کی سی حالت میں یہ سمجھتے ہیں (ایمان تو ہے.ایمان کی چنگاری تو سلگ رہی ہے ) کہ ہم اسی طرف چل رہے ہیں جس طرف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام چلانا چاہتے تھے.مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اس رفتار سے نہیں چل رہے جس رفتار سے مسیح موعود علیہ السلام ہمیں چلانا چاہتے تھے.نہ اس بشاشت کے ساتھ ان راہوں پر چل رہے ہیں.نہ اتنے اخلاص کے ساتھ ان راہوں پر چل رہے ہیں.نہ اتنی قربانیوں کے ساتھ ان راہوں پر چل رہے ہیں جس بشاشت جس اخلاص اور جن قربانیوں کا ہمارا بیعت کا عہد ہم سے مطالبہ کرتا ہے.پس چست ہونے کی ضرورت ہے اخلاص میں برتر ہونے کی ضرورت ہے.قربانیوں میں تیز تر ہونے کی ضرورت ہے.جس مقصد کے لئے ہمیں قائم کیا گیا اور زندہ کیا گیا اور منظم کیا گیا ہے اس مقصد کے قریب تر ہونے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اپنی ذمہ داریوں

Page 567

خطبات ناصر جلد اوّل 1♡♡ خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء کو نباہنے کی توفیق عطا کرے.نَنى عِبَادِى إِنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ میں جس بشارت کی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا ہے.وَاَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمُ میں جس شدید عذاب سے بچنے کے لئے ہمیں تلقین کی گئی ہے.اس کے پیش نظر میری توجہ اس طرف بھی پھری کہ یہ سال وہ ہے کہ جو رمضان کے مہینہ میں ختم ہو رہا ہے اور رمضان کے مہینہ سے ہی نیا سال شروع ہو رہا ہے تو اس میں شاید اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ تمہاری قربانیوں کا زمانہ ، خدا کے لئے ، خدا کی خاطر بھوکے رہنے کا زمانہ ، خدا کی رضا کی خاطر راتوں کے آرام کو قربان کرنے کا زمانہ مسلسل چلنے والا ہے کہ ایک سال انہی قربانیوں پر ختم ہورہا ہے اور دوسرا سال انہی قربانیوں سے شروع ہو رہا ہے لیکن اس میں خوشی کی بات یہ ہے کہ جن قربانیوں سے ہمارا سال شروع ہو رہا ہے یہ وہ قربانیاں ہیں جن میں رمضان کا آخری عشرہ بھی ہے جس میں لَیلَةُ الْقَدْرِ پائی جاتی ہے.تو خدا کرے کہ نیا سال جو ہم پہ چڑھ رہا ہے وہ ہمارے لئے لَيْلَةُ الْقَدْرِ لانے کا موجب بھی بنے.یعنی وہ وعدے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہمیں دیئے گئے.( غلبہ اسلام کے وعدے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تمام بنی نوع انسان کے دلوں میں پیدا ہو جانے کے وعدے اور توحید خالص کے قیام کے وعدے) ان وعدوں کے پورا ہونے کا ان وعدوں کے متعلق قضاء و قدر کے نزول کا زمانہ ، خدا کرے، اس نئے سال سے شروع ہو جائے اور خدا کرے کہ اتنی عظیم بشارتوں کے نتیجہ میں جو اہم ذمہ داریاں خدا کے نیک بندوں پر عائد ہوتی ہیں.وہ ہمیں محض اپنے فضل اور رحم سے توفیق دے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو نباہنے والے ہوں اور فرشتے تمام عالمین میں یک زبان ہو کر اس صدا کو بلند کریں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برگزیدہ جماعت ہے جن پر خدا تعالیٰ کی ابدی شریعت کی یہ آیت پوری ہوتی ہے نبی عِبَادِی آئی دو اَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیم اور خدا کی مغفرت اور خدا کی رحمت کے یہ لوگ وارث ہوئے ہیں.خدا کرے کہ خدا کے فضل سے ایسا ہو ورنہ ہم انفرادی طور پر اور جماعتی لحاظ سے بھی بڑے کمزور ہیں.ہم جب اپنے رب کے حضور جھکتے ہیں تو شرمندگی کے آنسوؤں سے ہمارے دامن تر ہوتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی راہ میں جو ہمیں کرنا چاہیے تھا وہ ہم نے نہیں کیا اور تہی دست

Page 568

خطبات ناصر جلد اول ۵۵۲ خطبه جمعه ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء ہی خدا کے سامنے پیش ہو رہے ہیں.دعائیں کرتے ہوئے کہ اے خدا! ہم کمزور ہی سہی مگر تیری صفات تو کمزور نہیں.تو تمام قدرتوں والا تو تمام طاقتوں والا تو ہر قسم کی رحمتوں والا ہے، تمام رحمتوں اور برکات کا سرچشمہ اور منبع تو ہے.ہم بنجر زمین ہی سہی مگر جس بنجر زمین پر تیری رحمتوں کے چشمے ہیں گے وہ یقینا یقیناً جنت کے باغات بن جائیں گے.پس اے خدا! اپنی رحمت کے چشموں سے ہماری بنجر زمین کو سیراب کر.اے خدا! ہمارے ذریعہ سے ان وعدوں کو پورا کر جو تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیئے تھے.اے خدا ہمیں یہ توفیق عطا کر کہ ہم ان قربانیوں کو تیرے حضور پیش کریں جو تو اپنی اس جماعت سے چاہتا ہے اور اے خدا! ہماری زندگیوں میں وہ دن لا جب ہم یہ دیکھیں کہ تیری تو حید دنیا میں قائم ہو چکی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام نے تمام ادیان باطلہ کو شکست دے دی ہے.اے خدا! تیرے نور سے یہ دنیا بھر جائے اور تیری نورانی تجلی سے ہمارے سینے منور ہو جا ئیں.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۴ /جنوری ۱۹۶۷ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 569

خطبات ناصر جلد اول ۵۵۳ خطبہ جمعہ ۶؍ جنوری ۱۹۶۷ء تمہاری ہر رات لیلتہ القدر کی کیفیت رکھتی ہو اور ہر دن جمعۃ الوداع کا رنگ رکھتا ہو خطبہ جمعہ فرموده ۶ /جنوری ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت پڑھی.يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبَّكَ كَدْحًا فَمُلقِيهِ - (الانشقاق:-) پھر فرمایا:.بیماری اور ضعف ابھی جاری ہے.بھائیوں سے درخواست ہے کہ دعا فرماتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ کامل صحت عطا کرے تا پورا کام کرنے کے میں قابل ہوسکوں.اس آیہ کریمہ سے پہلے سورہ انشقاق میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اپنی مادی ترقیات کے لئے انتہائی کوشش کرے گا پانی کی طرح وہ اپنا روپیہ بہائے گا.مادی ترقیات کے لئے وہ جس قدر بھی ضرورت ہو گی جان تلف کرنے میں بھی دریغ نہیں کرے گا.زمین اور آسمان کے راز دریافت کرنے کی انتہائی کوشش بھی کرے گا اور ایک حد تک کامیاب بھی ہوگا اور اس کثرت سے نئی دریافتیں ظاہر ہوں گی کہ انسان یہ سمجھنے لگے گا کہ شائد اس نے خدائی کے سارے ہی راز معلوم کر لئے ہیں اور اب کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہی کہ جس کے دریافت کرنے کی اسے ضرورت ہو زمین کو چھوڑ کے اور زمین کی وسعتوں میں تنگی محسوس کرتے

Page 570

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۶ / جنوری ۱۹۶۷ء ہوئے وہ آسمان کی طرف رجوع کرے گا اور زمین کے ان ٹکڑوں تک پہنچنے کی کوشش کرے گا.جو کسی وقت اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت زمین سے علیحدہ ہوئے اور علیحدہ گرے انہوں نے بنائے.جن کا تعلق نظام شمسی سے ہے اور جس طرح زمین کی مختلف اشیاء سے وہ فائدہ اُٹھا رہا ہے.اسی طرح اس کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ آسمان کے ان ستاروں سے بھی فائدہ اٹھائے اور اس طرح اپنی زمین میں ایک وسعت پیدا کرے اور اس کو پھیلا دے.پس انسان کا دماغ اس وقت اس کام میں لگا ہوا ہوگا کہ وہ زمین کے راز بھی زیادہ سے زیادہ حاصل کرے اور زیادہ سے زیادہ ان رازوں سے فائدہ اُٹھائے اور آسمان کے ستاروں پر بھی وہ کمند ڈالے گا اور ان تک پہنچنے کی کوشش کرے گا اور ان سے اسی طرح فائدہ اٹھانے میں مشغول ہو گا جس طرح کہ زمین کی مختلف چیزوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے.پھر یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرزند جلیل مامور اور مبعوث کئے جائیں گے.اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے اور توحید خالص کے قیام کے لئے آسمان سے بڑی کثرت کے ساتھ نشان ظاہر ہوں گے.اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایک دنیا خدا کو بھول چکی ہوگی.خدا کی منکر ہوگئی ہوگی.دہریت کو انہوں نے اختیار کر لیا ہو گا.چونکہ دلائل کے مقابلہ میں آسمانی نشان دہر یہ قسم کے لوگوں پر زیادہ اثر کرتے ہیں اور جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ وہی آسمان سے نازل کرتا ہے.تو جہاں یہ فرمایا کہ کثرت کے ساتھ آسمان سے نشان ظاہر ہوں گے وہاں اس طرف بھی متوجہ کیا کہ انسان کثرت سے مذہب کو چھوڑ کے دہریت کی طرف مائل ہو جائے گا اور خدا کا منکر ہو جائے گا.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مادی ترقیات کے لئے تو اتنی جستجو ، اتنی قربانیاں مالی بھی اور جانی بھی ، کہ کسی چیز کے خرچ کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا.لاکھوں آدمیوں کی جان بھی قربان کرنی پڑے تو کسی نہ کسی بہانے وہ قربان کر دی جائیں گی تاکہ زیادہ سے زیادہ آسمانی اور زمینی رازوں کو اس زمانہ کے سائنسدان حاصل کر سکیں اور اس زمانہ کی قومیں ان رازوں سے فائدہ اُٹھا

Page 571

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۵۵ خطبہ جمعہ ۶ / جنوری ۱۹۶۷ء سکیں لیکن دوسری طرف جہاں تک دین اور مذہب اور روحانیت کا سوال ہے اس زمانہ کے انسان کی خو بہا نہ جو ہو گی.وہ سعی کرنے کی بجائے ، کوشش کرنے کی بجائے اور اجتہاد اور مجاہدہ کرنے کی بجائے تعویذ گنڈے کی طرف، جمعۃ الوداع کی طرف لیلۃ القدر کے غلط تصور کی طرف متوجہ ہو گا اور سمجھے گا کہ بغیر کسی قربانی کے میں مادی ترقی تو نہیں حاصل کر سکتا.لیکن بغیر کسی قربانی کے میں اپنے ربّ کو اور اس کے فضلوں کو پاسکتا ہوں.یہ ذہنیت اس وقت انسان میں پیدا ہو چکی ہو گی! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.نہیں! یايُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلِقِيهِ اگر تو اپنے رب سے ملاقات کرنا چاہتا ہے اگر تیرے دل میں یہ خواہش کروٹیں لے رہی ہے کہ تو اپنے رب کا دیدار کرے اور اس کی زیارت کرے تو پھر تجھے گذح کرنی پڑے گی.گذح عربی زبان میں ایسی کوشش کے ہوتے ہیں جو انسان کو تھکا دے اور گلادیے گنگا میں انتہائی کوشش کی طرف اشارہ ہے تو فرما یا پوری کوشش، انتہائی سعی کرو گے تب تم اپنے رب کو مل سکو گے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ دنیا کی تلاش ہو تو ہر قسم کی قربانیاں تم پیش کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور اپنے رب کی تلاش ہو تو کسی قسم کی قربانی پیش کرنے کی طرف تمہاری طبائع مائل نہ ہوں تم تعویذ اور گنڈے کی طرف جھکنے لگ جاؤ.تم جمعتہ الوداع کے ساتھ مذاق کرنے لگ جاؤ کہ سارا سال جو مرضی کرتے رہے جمعتہ الوداع آیا جا کے نماز پڑھی سارے گناہ معاف کروائے یا تم لیلۃ القدر کا سہارا ڈھونڈ نے لگ جاؤ کہ بس ایک رات کا قیام جو ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے.باقی جو سال بھر کی راتیں ہیں اس میں غفلت کی نیند اگر ہم سوئے بھی رہے تو ہمارا کوئی نقصان نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ نہیں اگر تمہیں خدا کی تلاش ہے اگر تم اس کا مقرب بننا چاہتے ہو اگر تمہارے دل اور تمہاری روح اس تڑپ میں مبتلا ہیں کہ تمہارے رب کا تمہیں دیدار ہو جائے تو تمہیں انتہائی کوشش سے کام لینا پڑے گا.إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلِقِيهِ اگر تم خدا تعالیٰ کی راہ میں انتہائی کوشش نہ کرو گے اور مجاہدہ کے حقوق ادا نہ کرو گے اور اپنی طاقت کا آخری حصہ تک اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے

Page 572

خطبات ناصر جلد اول ۵۵۶ خطبہ جمعہ ۶ / جنوری ۱۹۶۷ء تیار نہیں ہو جاؤ گے.اگر تم اپنے سارے اموال قربان کر کے، اگر تم اپنی ساری لذات قربان کر کے، اگر تم دنیا کی تمام خواہشات قربان کر کے، اگر تم اپنی اولا د اور رشتہ داروں کو اور ان کی محبتوں کو قربان کر کے اس کی طرف آنے کی کوشش نہیں کرو گے تو وہ تمہیں نہیں ملے گا.وہ تمہیں صرف اس وقت مل سکتا ہے جبکہ تم جتنی کوشش اور جتنی قربانی دنیا کے حصول اور دنیا کی ترقیات اور دنیا کے رازوں کو معلوم کرنے کے لئے دے رہے ہو اس سے زیادہ قربانیاں اپنے خدا کی تلاش میں اس کے حضور پیش کرو.ہاں ! پھر وہ تمہیں مل جائے گا.اگر ہم سوچیں تو یہ جمعتہ الوداع (اگر اس پر صحیح نقطہ نگاہ سے نگاہ ڈالیں ) اور یہ ” لَيْلَةُ الْقَدْرِ “ ہمارے لئے بطور ایک سبق کے ہے بات یہ ہے کہ وہ انسان جو بہانہ تلاش کرتا ہے اور بغیر قربانی کے اپنے ربّ کو پالینے کی امید رکھتا ہے وہ تو ایک رات اور ایک دن کی تلاش میں ہے اور اگر ہم سوچیں تو وہ دن کا گناہ بھی کر رہا ہے اور رات کا گناہ بھی کر رہا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ سارے سال میں ایک دن (جمعتہ الوداع) کی عبادت میرے لئے کافی ہے.وہ سمجھتا ہے کہ سارے سال کی راتوں میں سے ایک رات ( لَيْلَةُ الْقَدْرِ ) کا قیام میرے لئے کافی ہے حالانکہ اگر صحیح نقطۂ نگاہ سے ہم اس دن اور اس رات کو دیکھیں تو ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر وہ دن جو خدا کی یاد میں خرچ ہو وہ تو جمعتہ الوداع کا ہی رنگ رکھتا ہے جس میں انسان سارے دنیوی علائق کو چھوڑ کر اور دنیا کے کاموں کو چھوڑ کر اور پوری تیاری کرنے کے بعد اور کثرت کے ساتھ تلاوت قرآن کرنے کے بعد ( اور پھر جمعہ کے بعد بھی تلاوت قرآن کر کے ) اور تمام آداب جمعہ کو بجالا کر خدا کی رضا کو تلاش کرتا ہے تو ہمیں یہ بتایا کہ تمہارا وہ دن جو خدا کو پیارا ہوسکتا ہے اور جس کے نتیجہ میں خدا کا قرب تم حاصل کر سکتے ہو اور جس کی وجہ سے خدا کا دیدار تمہیں نصیب ہوسکتا ہے.وہ تو وہ دن ہے جو جمعۃ الوداع کی طرح دنیا اور اس کی لذتوں سے بیزار اور کلیہ اپنے رب کے حضور جھکا ہوا ہو.پس سال کے ہر دن کو اس معنی میں جمعۃ الوداع بناؤ اگر تم خدا کو پانا چاہتے ہو.ليْلَةُ الْقَدْرِ “ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا کی تقدیریں تمہارے حق میں اور تمہارے فائدہ کے لئے اس وقت حرکت میں آئیں گی جب تم راتوں کو اپنے رب کے لئے زندہ کرو گے.اگر تم یہ

Page 573

خطبات ناصر جلد اول ۵۵۷ خطبہ جمعہ ۶ / جنوری ۱۹۶۷ء چاہتے ہو کہ ہر روز تمہارا خدا تمہارے لئے اپنی تقدیر کی تاریں ہلائے تو تمہیں ہر رات کو لَيْلَةُ الْقَدْرِ بنانا پڑے گا.اگر تم اپنی ہر رات کو لیلة القدر نہیں بناتے.بلکہ غفلت میں اور سوتے ہوئے سارے سال کی راتوں کو گزار دیتے ہو تو ایک لَیلَةُ الْقَدْرِ سے تمہیں کیا فائدہ؟ پس اگر میرا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو.اگر روحانی ترقیات چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تمہاری ہر رات لیلة القدر کی کیفیت رکھتی ہو اور تمہارا ہر دن جمعتہ الوداع کی کیفیت رکھتا ہو.اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو خدا تعالیٰ کی رضا کو نہیں پاسکو گے.اللہ تعالیٰ ہمیں وہ راہیں دکھائے جن پر چل کر ہم اس کے قرب اور اس کی رضا اور اس کے دیدار کو حاصل کر سکیں.آمین.روزنامه الفضل ربوہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۶۷ء صفحه ۲، ۳) 谢谢谢

Page 574

Page 575

خطبات ناصر جلد اول ۵۵۹ خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۶۷ء احباب ربوہ محبت اور خلوص کے ساتھ مہمانوں کی ہر ممکن خدمت کرنے کی کوشش کریں خطبه جمعه فرموده ۱۳ / جنوری ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج میں دوستوں سے جلسہ سالانہ کے متعلق بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں.باہر کی جماعتوں سے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انہیں ان وعدوں کو یا در کھتے ہوئے اور ان دعاؤں کو ذہن میں حاضر رکھتے ہوئے کہ جو وعدے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس بابرکت جلسہ کے متعلق کئے اور جو دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسہ کو بابرکت بنانے کے لئے اپنے رب کے حضور کیں.زیادہ سے زیادہ اس بابرکت جلسہ میں انہیں شمولیت اختیار کرنی چاہیے ان کو بھی جو عادةً جلسہ میں شامل ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کا ایک ضروری جز جلسہ کی شمولیت بھی بنی ہوئی ہے اور سوائے اشد مجبوری کے وہ جلسہ سے غیر حاضر رہنا کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کر سکتے اور ان لوگوں کو بھی اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے یہاں تشریف لانا چاہیے.جو اس وقت تک اس معاملہ میں سستی دکھاتے آرہے ہیں.اس کے علاوہ بہت سی دیہاتی جماعتیں ہیں.جہاں سے کم دوست جلسہ میں شامل ہونے کے لئے تشریف لاتے ہیں.اگرچہ بہت سی ایسی دیہاتی جماعتیں بھی ہیں کہ جہاں سے بڑی

Page 576

خطبات ناصر جلد اول ۵۶۰ خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۶۷ء کثرت سے دوست آتے ہیں اور جلسہ میں شامل ہوتے ہیں.لیکن اس وقت میں ان دیہاتی جماعتوں کو مخاطب کر رہا ہوں جہاں سے بہت کم احمدی جلسہ میں شامل ہوتے ہیں اور میں ان کی تو جہان کے ضلع کے امیر اور ان کے ضلع کے مربی کی وساطت سے اس طرف پھیرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس غفلت اور سستی کو ترک کر دیں اور جو جلسہ اب آ رہا ہے.اس میں شامل ہونے کی نیت بھی کریں اور تیاری بھی کریں اور دعائیں بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق عطا کرے کہ وہ اس جلسہ میں شامل ہوں اور ان فیوض اور برکات سے حصہ لیں جن فیوض اور برکات کی دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیں.جن فیوض و برکات کے وعدے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیئے.اس کے بعد میں ربوہ کے دوستوں سے بھی کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں.باہر سے آنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں.باہر سے آنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہونے کی وجہ سے ہمارے بڑے ہی باعزت اور قابل صد احترام مہمان ہیں.ان کی عزت کا ان کے احترام کا خیال رکھنا اور ان کے آرام کا خیال رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے.ایک طرف اس کی ذمہ داری جلسہ سالانہ کے انتظام پر ہے کہ وہ جس حد تک ممکن ہو سکے اچھا اور ستھرا کھانا تیار کریں.جس حد تک ممکن ہو سکے نہایت عزت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر کا پکا ہوا کھانا پیش کریں اور کھلائیں اور جس حد تک ممکن ہے ان کی تکالیف کا خیال رکھیں.کسی قسم کی کوئی تکلیف جسمانی یا ذ ہنی انہیں پہنچنے نہ دیں.دوسری طرف تمام اہلِ ربوہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان دنوں میں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھیں کہ ربوہ کا ماحول ظاہری طور پر بھی اور باطنی لحاظ سے بھی ہر طرح پاک صاف اور ستھرا ر ہے.گھروں میں گند نہ ہو، گھروں سے باہر گند نہ پھینکا جائے ،سڑکوں اور گلیوں کو صاف رکھا جائے، باطنی طہارت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کی جائیں کہ وہ اہل ربوہ کو اس بلند اور ارفع مقام پر قائم رکھے.جس بلند اور ارفع مقام پر باہر سے آنے والے دوست انہیں دیکھنا چاہتے ہیں.

Page 577

خطبات ناصر جلد اول ۵۶۱ خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۶۷ء پھر دوکانداروں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اچھی اور ستھری چیز رکھیں اور مناسب نرخوں پر انہیں فروخت کریں اور بیع و شراء میں کسی قسم کا جھگڑا نہ ہونے دیں.قولِ سدید سے کام لیں کوئی بیچ بیچ میں نہ ہو، جو بعد میں کسی قسم کی بدمزگی یا بدظنی کا باعث بنے.یہ بھی یا درکھیں کہ اشیاء دو نقطہ ہائے نگاہ سے ستھری اور عمدہ کہلاتی ہیں، ایک وہ جو ظاہر میں ستھری ہوں اور ایک وہ جو اپنے اثر کے لحاظ سے صحت مند ہوں.ایسی غذائیں کھانے پینے کی چیزیں ) جن کا صحت پر اچھا اثر نہیں پڑتا ، ربوہ کے دوکانداروں کو نہیں لانی چاہئیں نہیں بیچنی چاہئیں.پس صحت مند اغذ یہ ہماری دوکانوں پر بکنی چاہئیں.اہل ربوہ اور کارکنان جلسہ کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ان دنوں میں خاص طور پر یہ دعا ئیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو ہر لحاظ سے با برکت کرے اور جیسا کہ محض اپنے فضل سے وہ پہلے کرتا آیا ہے کہ باوجود اس قدر عظیم اجتماع کو اور باوجود اس کے کہ صحت جسمانی کا عام معیار اتنا بھی نہیں ہوتا جتنا بعض دوسرے میلوں پر ہوتا ہے.باوجود ان ساری چیزوں کے اللہ تعالیٰ نے اس اجتماع کو ہر قسم کی بیماری اور وباء سے محفوظ رکھا ہوا ہے.پس دعا کرنی چاہیے کہ جیسا وہ پہلے محفوظ رکھتا چلا آیا ہے اس جلسہ پر بھی اور آئندہ جلسوں پر بھی وہ احباب جماعت کو خواہ باہر سے آنے والے مہمان ہوں یار بوہ میں بسنے والے ہوں.ہر قسم کی وباء اور بیماری سے محفوظ رکھے اور اس طرح اپنے فضل اور رحمت کو ہم پر نازل کرے کہ دیکھنے والی نگاہ میں یہ بھی ایک معجزہ سے کم نہ ہو جیسا کہ حقیقتاً یہ ایک معجزہ ہے.ایسے بڑے اجتماعات پر جہاں مرد بھی کثرت سے شامل ہوں اور مستورات بھی کثرت سے شامل ہوں اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو احکام اسلام نے غض بصر وغیرہ کے متعلق دیئے ہیں.ان کی طرف خاص توجہ دی جائے.ہمارے اس جلسہ میں جہاں باہر سے بڑی کثرت سے مستورات بھی (احمدی بہنیں بھی ) آتی ہیں اور مرد بھی آتے ہیں ( شہری بھی اور دیہاتی بھی پڑھے ہوئے بھی اور ان پڑھ بھی مختلف عادتوں والے جو مختلف روایات میں سے گزر کر جوان ہونے والے) ہمارے ماحول کی پاکیزگی کے نظارے جب غیر دیکھتے ہیں تو حیران رہ

Page 578

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۶۲ خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۶۷ء جاتے ہیں کہ عورتیں ایک طرف چل رہی ہیں اور مرد ایک طرف چل رہے ہیں.ہر ایک کا منہ اپنے سامنے ہے اور ہر ایک عورت کو بھی شیطان سے امن حاصل ہے اور ہر ایک مرد کو بھی شیطان سے امن حاصل ہے بڑی پاکیزہ فضا ہے.پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ لڑائی اور جھگڑا ہر وقت اور ہر مقام پر برا ہے لیکن جہاں اس قسم کے مقدس دینی اجتماعات ہوں وہاں جھگڑے اور فساد سے بہر حال بچنا چاہیے اور اس طرف عام حالات کی نسبت بھی زیادہ توجہ دینی چاہیے.اس قسم کے عظیم اجتماعات میں جہاں ۹۰،۸۰ ہزار مردوزن دینِ اسلام کی باتیں سننے کے لئے جمع ہوں یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ وہاں شیطان اپنے بعض چیلے بھی بھیجتا ہے.جو بے دینی اور نافرمانی کی باتیں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں.اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جہاں اس قسم کے دینی اجتماع ہوں.وہاں خاص طور پر ہر قسم کی نافرمانی اور فسق و فجور سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر کوئی ایسا شخص نظر آئے جو اس نیت سے اس اجتماع میں شامل ہوا ہے کہ وہ فسق اور اباء کی باتیں پھیلائے.تو فوراً نظام کو مطلع کیا جانا چاہیے تا کہ ایسے لوگوں کے فتنے کو شروع سے ہی دبا دیا جائے اور کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت تقویٰ کے ایک بلند معیار پر قائم ہے.محض اس کے فضل سے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور اس قوت قدسیہ کو حاصل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود سے جو فیضان جاری ہوا اس کے نتیجہ میں.الْحَمدُ لِلَّهِ اور پھر ان دو پاک وجودوں کی سب تعریف ہے کہ جو ایک استاد کی حیثیت سے دنیا میں نازل ہوا اور مبعوث کیا گیا صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک وہ جو بہترین شاگرد کی حیثیت سے دنیا میں پیدا ہوا اور اس مقدس استاد سے شاگرد نے ہر فیض پایا اور ہر فیض پھر آگے جاری کیا.پس جماعت بحیثیت جماعت ایک بلند معیار پر قائم ہے.فسق و فجور کی ایسی باتوں سے ہمیں یہ خطرہ یا اندیشہ نہیں ہوتا کہ کسی شخص کو وہ گمراہ کر دیں گی یا ان کی ٹھوکر کا باعث بنیں گی.ہمارے دل میں جو خطرہ پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ (خدانخواستہ) بعض جو شیلے آدمی شائد اپنے

Page 579

خطبات ناصر جلد اول ۵۶۳ خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۶۷ء جوش کو دبا نہ سکیں اور لڑائی جھگڑے کی کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جو اس قسم کے مقدس اجتماع میں ہم نہیں پسند کرتے.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت بڑے بلند معیار پر قائم ہے.مگر اس میں بھی شک نہیں کہ ہم یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ ایسے مقدس اجتماع میں کسی خناس کی شرارت کے نتیجہ میں کسی ایک آدمی کی بھی دلآزاری ہو اور اس کی توجہ دعاؤں سے اور عاجزانہ خشوع وخضوغ سے بٹ کے ایسی ناواجب باتوں میں اُلجھ جائے.پس اگر باہر سے کوئی ایسے لوگ آجائیں جو یہ سمجھتے ہوں کہ اس اجتماع میں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے جاری کیا ہے اور جو بڑی برکات اور فیوض کا حامل ہے اس میں وہ فاسقانہ اور شر انگیز باتوں کو پھیلا سکتے ہیں اور اسی نیت سے وہ یہاں آئے ہوں، تو آپ کا فرض ہے کہ آرام کے ساتھ ، بغیر کسی قسم کی بدمزگی پیدا کئے ایسے لوگوں کو نظام کے سپر دکر دیں.نظام ان کو سمجھا بجھا کے ایسا انتظام کر دے گا کہ دل آزاری کا باعث نہ بنیں.یہاں چونکہ اب ماحول ربوہ سے بھی بہت سے لوگ آنے لگے ہیں.عام حالات میں بھی آتے ہیں مگر اجتماعات میں تو بڑی کثرت سے آتے ہیں اور اس دفعہ تو چونکہ آٹے وغیرہ کی بہت قلت ہے اس لئے ممکن ہے کہ بعض لوگ جلسہ پر باہر سے صرف کھانا کھانے کے لئے آجائیں.اگر ہمارے پاس توفیق ہوتی تو ہم خود بلا کر ان کوکھانا کھلا دیتے.لیکن جماعت غریب ہے اور اس پر جو ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں وہ بڑی اہم ہیں اس لئے اس قسم کے لوگوں کو کھا نا کھلانے سے ہم معذور ہیں.ہمیں اصولی حکم یہ ملا ہے کہ تمہیں خدا دیتا تو بہت ہے اشاعت اسلام کے لئے اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے لیکن ہمیشہ یہ یاد رکھنا کہ تمہارا ایک دھیلا بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے.ہم دھیلے دھیلے کی حفاظت کر کے ان برکتوں کو جو آسمان سے نازل ہوتی ہیں سمیٹے ہوتے ہیں اور دھیلے دھیلے کی ہمیں حفاظت کرتے رہنا چاہیے.میں نے پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کھانا یا کوئی اور چیز کسی صورت میں بھی ضائع نہیں ہونی چاہیے.ایک ایک روٹی ایک ایک لقمہ کا صحیح استعمال ہونا چاہیے ورنہ وہ برکت جاتی رہے گی جو ہماری روٹی میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے اور میں

Page 580

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۶۴ خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۶۷ء یہاں کے رہنے والوں کو تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے اس طرف توجہ نہ دی.اگر آپ نے اس بات کا خیال نہ رکھا اور غفلت مجرمانہ کے نتیجہ میں یا جان بوجھ کر آپ نے ہماری کوئی روٹی یا سالن کی کوئی بوٹی ضائع کر دی تو آئندہ سارا سال آپ کو غذائی قلت اور تکلیف میں گزارنا پڑے گا.پس خدائی رحمتوں سے اپنے کو اور اپنے خاندانوں کو محروم نہ کریں بلکہ پوری کوشش کریں کہ جماعتی روٹی جو آسمان سے فرشتے لے کر آئے وہ ضائع نہ ہو.بلکہ اس کے لقمہ لقمہ ذرہ ذرہ کی حفاظت کی جائے اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے.کیونکہ اس روٹی کے ہر ذرہ میں آسمان کی ایک برکت ہے اور کون بے وقوف ہے جو آسمانی برکتوں کو ضائع کرنے کے لئے تیار ہو جائے.پس اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں یہ قلت اور مہنگائی کا زمانہ ہے اس زمانہ میں ہم پر بڑا ہی اہم فرض یہ عائد ہوتا ہے کہ ہر قسم کے ضیاع سے بچیں اور جماعتی پیسہ کو بچائیں اور ذرہ ذرہ کی حفاظت کریں اس سلسلہ میں میں اس طرف بھی احباب ربوہ کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہاں چونکہ امن کا ماحول ہے ہم ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور شفقت سے اور بڑی کثرت سے ملتے ہیں.کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے ہیں گویا ایک ہی برادری ہے جو یہاں بس رہی ہے.اس فضا سے غلط فائدہ اٹھا کر بعض چور قسم کی عورتیں اور مرد باہر کے دیہات سے یہاں آ جاتے ہیں اور آرام سے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں اور چوری کر کے چلے جاتے ہیں یا درکھیں مومن حسنِ ظن تو رکھتا ہے لیکن وہ بیوقوف نہیں ہوتا اور کسی بھی شر سے مغلوب نہیں ہوتا.اگر شر ہم پر غالب آجائے تو ہم پر الزام آئے گا کہ خدا نے تمہیں ایمان دیا، تقویٰ دیا، اپنے قرب کی باریک را ہیں تم پر کھولیں، فراست دی، ذہانت اور عقل دی پھر بھی ایک چور جانگلن تمہارے گھر میں آکر چوری کر کے لے جاتی ہے اور تمہیں خبر تک نہیں ہوتی.اس گندے ماحول میں ہمارے بعض بچوں کو بھی اپنی نا سمجھی کی وجہ سے یہ عادت پڑ گئی ہے کہ مسجد میں سے جوتی وغیرہ اُٹھا کر لے گئے.( مردوں والے حصہ میں سے یا عورتوں والے حصہ میں سے) اگرچہ چودہ پندرہ ہزار کی آبادی میں دو یا چار ایسے کا ہونا جماعت پر کوئی الزام ثابت

Page 581

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۶۷ء نہیں کرتا لیکن ہمیں اس قسم کا ایک آدمی بھی برداشت نہیں کرنا چاہیے.بلکہ تدابیر اور دعا سے کامیاب اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے.چند ہفتوں کی بات ہے اس سلسلہ میں مجھے بعض مردوں کی طرف سے بھی اور لجنہ اماءاللہ کی طرف سے بھی یہ تحریک کی گئی کہ سختی کے ساتھ اس چیز کو دبانا چاہیے اور کوئی بڑا ہی سخت اقدام کرنا چاہیے ایسے خاندانوں کے خلاف جنہوں نے اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہیں کی اور انہیں سنبھالا نہیں.اس وقت میرے دل نے یہ فیصلہ کیا مجھے دعا کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اپنے رب سے ہدایت لینی چاہیے کہ وہ کیا چاہتا ہے کہ میں اس معاملے میں کیا کروں؟ تب ایک خواب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ اس جماعت کے بچے بھی اور بڑے بھی مرد بھی اور عورتیں بھی اطاعت کے ایسے مقام پر قائم ہیں کہ ان پر کسی قسم کی سختی کرنے کی ضرورت نہیں پیار سے ان کو سمجھاؤ یہ سمجھ جائیں گے.و اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کی روشنی میں بڑے درد کے ساتھ اور انتہائی پیار کے ساتھ آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ربوہ میں ایک بچہ بھی ایسا ہے جو اس گند میں ملوث ہے.اگر ربوہ میں ہماری ایک بچی بھی ایسی ہے جو ایسی گندی عادت میں مبتلا ہے تو خدا کے لئے آپ اس کی تربیت کی طرف متوجہ ہوں اور اس کو بھی دیانت کے اس بلند مقام پر کھڑا کریں دیانت کے جس بلند مقام پر اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو کھڑا کرنا چاہتا ہے.پھر ان ایام میں اس قسم کے سہو بڑی کثرت سے ہوتے ہیں کسی کا بٹوا کہیں رہ گیا، وضو کرنے لگے گھڑی اُتاری نہیں یا د رہا، کوئی دوست آ گیا با تیں شروع ہو گئیں چلے گئے بعض دفعہ بسترے گاڑی میں رہ جاتے ہیں اور بعض دفعہ جلسہ پر آنے والا ہمارا احمدی بھائی گاڑی میں بسترا رکھ دیتا ہے خود سوار نہیں ہو سکتا.بعض دفعہ خود سوار ہو جاتا ہے اور سامان پیچھے چھوڑ دیتا ہے.عام طور پر ۱۰۰۰/ ۹۹۹ یہی ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کا سامان یا اشیاء بٹوا یا روپیہ جو اس کی جیب سے گر جاتا ہے وہ ضائع نہیں ہوتا بلکہ مل جاتا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے، اس فضل کو اپنی جماعت میں قائم رکھنے کے لئے کوشش کرتے رہنا چاہیے.دعاؤں کے ساتھ بھی اور تدبیر کے ساتھ بھی.

Page 582

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۶۷ء ویسے تو ہر وقت ہی مومن کا یہ فرض ہے کہ اس ماحول کو پیدا کرے.لیکن اس بابرکت اجتماع کے موقع پر خاص توجہ ہمیں اس طرف دینی چاہیے کہ اگر کسی کی جیب سے ایک لاکھ، دس لاکھ کروڑ روپیہ بھی گر جاتا ہے.تو ایک ایک پائی اور ایک ایک پیسہ اسے واپس مل جائے اور کسی شخص کے دل میں شیطان یہ وسوسہ نہ ڈالے کہ شیطان تیرا رزاق ہے خدا تیرا رزاق نہیں موقع ہے شیطان کی بات مان اور اس مال پر قبضہ کر لے ، بلکہ ہر احمدی اس مقام پر کھڑا ہو کہ رزق دینا خدا کا کام ہے اور اگر ہم ناجائز ذرائع سے رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تب بھی اس خدا میں طاقت ہے کہ اس رزق کو بھی ہم سے چھین لے اور اس کے علاوہ جو جائز طور پر ہم نے کمایا ہوا ہے اس کو بھی بطور سزا کے ہم سے واپس لے لے.پس ہم تو خدائے رزاق کو ماننے والے ہیں ہم اس گلی کی پرستش نہیں کرتے جس گلی میں ہمارا کوئی مہمان غلطی سے اپنا بٹوا پھینک جاتا ہے اور اس میں دس یا میں ہزار روپیہ ہوتا ہے.ہم اس دیوار کے پرستار نہیں ہیں جس پر ہمارا ایک بھائی وضو کرتے وقت اپنی گھڑی یا کوئی اور چیز رکھ دیتا ہے.ہم ان مقامات کی پرستش نہیں کرتے جہاں نماز کے وقت جو تیاں اُتار کر رکھی جاتی ہیں.ہم تو اپنے خدا کی پرستش کرنے والے ہیں جو جب چاہتا ہے دیتا ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جتنا چاہتا ہے دیتا ہے اور اس کے بہت سے ایسے بندے بھی ہیں جنہیں وہ اس دنیا میں بھی بغیر حساب کے دیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو بندہ آرام بھی پاتا ہے اور سرور بھی حاصل کرتا ہے اور لذت بھی حاصل کر رہا ہوتا ہے وہ خدا کی شان کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں کس طرح یہ دنیوی سامان ہیں اور کس طرح وہ ان کو تقسیم کرتا ہے اور کس طرح جب وہ رحم کرنے پر آتا ہے تو اتنا رحم کرتا ہے اتتارحم کرتا ہے کہ اس کا بندہ شکر کے جذبات تلے دب جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں تھا دیکھو میرا خدا کتنا رحم کرنے والا ، کتنا رزق دینے والا ، کتنا خیال رکھنے والا اور دنیا کے اموال میں بھی روحانی سرور اور روحانی لذت پیدا کرنے والا ہے.تو اس اجتماع کے موقع پر خاص طور پر اس بات کا خیال رکھیں کہ ہمارے کسی بھائی کی خواہ وہ باہر سے آیا ہو یا یہاں کا رہنے والا ہو کوئی چیز ضائع نہ ہو اس کا کسی قسم کا کوئی نقصان نہ ہو.

Page 583

خطبات ناصر جلد اول ۵۶۷ خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۶۷ء جیسا کہ میں نے بتایا ہے جماعت ایک بلند معیار پر قائم ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ جلسہ کے دنوں میں گمشدہ چیزوں سے جس دفتر کا تعلق ہوتا ہے وہ چوبیس گھنٹے مصروف رہتا ہے اسی لئے کہ جہاں بھی گری پڑی کوئی چیز مل گئی وہ وہاں پہنچا دی گئی.پھر ان کو مالک کی تلاش ہوتی ہے دوسرے اجتماعات میں تو مالک کو چور کی تلاش ہوتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے اس اجتماع میں ہمارے اس دفتر کو مالک کی تلاش ہوتی ہے.چیز اس کے پاس آجاتی ہے پتہ نہیں چلتا کون مالک ہے ایک آدمی کی جیب سے مثلاً بٹوا گر گیا اس کو ضرورت نہیں پیش آئی وہ جلسہ پر جارہا تھا جلسہ سنتا رہا شام کو چار بجے فارغ ہوا پانچ بجے آیا کسی چائے کی دکان پر گیا چائے پی ، جیب میں ہاتھ ڈالا ، بٹوا غائب ! مگر صبح دس بجے سے دفتر والے اس آدمی کی تلاش میں ہیں جس کا بٹوا گر گیا تھا.ان کو پانچ بجے تک انتظار کرنا پڑا تو یہ صحیح ہے کہ بڑا خوشکن نظارہ ہم جلسہ کے مقدس ماحول میں دیکھتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کو اپنے اندر قائم رکھنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہیں تا کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنی یہ برکتیں ہم سے واپس لے لے.یہ بھی یادر رکھیں کہ باہر سے جو مہمان آتے ہیں ان کے لئے میز بان چاہئیں سارار بوہ ہی میزبان ہے اور ربوہ کے مکینوں پر پہلا فرض ہے کہ رضا کارانہ طور پر ان احباب کی خدمت کریں جلسہ کے انتظام کے ماتحت !!! اور پھر اگر بعض کو سہولت کے ساتھ فارغ کیا جاسکتا ہو تو صرف اس صورت میں یہ بھی ان کو حق دیا جاتا ہے کہ اپنے ایک بچہ کو یا بعض رشتہ داروں کو اپنے گھر کے کام کے لئے یا اپنی دکان پر کام کرنے کے لئے فارغ کروا لیں.مگر بغیر اجازت کے کسی شخص کو ذاتی کام نہیں کرنا چاہیے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے رضا کار بہت کثرت سے مل جاتے ہیں تو جو جائز ضرورت ہے وہ افسر صاحب جلسہ سالانہ پوری کر دیں گے.مثلاً اگر کسی کے چار بچے ہیں اگر وہ کہے کہ یہ تین بچے آپ خدمت مہماناں پر لگالیں اور اگر آپ فارغ کر سکتے ہوں تو ایک بچے کو فارغ کر دیں تا کہ یہ میرے ذاتی کاموں میں میرا ہاتھ بٹا سکے یا جو میرے گھر میں مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی خدمت کر سکے.

Page 584

خطبات ناصر جلد اول ۵۶۸ خطبہ جمعہ ۱۳ / جنوری ۱۹۶۷ء دراصل تو یہاں مہمان کون اور میزبان کون.آنے والے بھی مہمان اور ہم بھی مہمان میزبان تو ہمارا رب یا اس کے مسیح موعود علیہ السلام ہیں اور ایک لحاظ سے ہم سارے ہی میزبان ہیں.بطور خادم کے جو لوگ اپنے آپ کو مسیح موعود علیہ السلام کے خادم سمجھتے ہیں وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مہمان ہو اور وہ میزبان نہ ہو اور خادم نہ ہو تو ہم ایک دوسرے کے میزبان اور خادم بھی ہیں اور ایک دوسرے کے مہمان بھی ہیں.پس جس قدر رضا کار چاہئیں اتنے رضا کار نظام کو ملنے چاہئیں اور میں رضا کاروں کو کہوں گا کہ جس محبت اور اخلاص کے ساتھ اور فدائیت کے ساتھ اور قربانی کے ساتھ اور تکلیفیں اُٹھا کر خدا کے مسیح کے ایک خادم کو خدا کے مسیح کے ایک مہمان کی خدمت کرنی چاہیے.اس طرح آپ خدمت کریں تا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی کی تو فیق عطا کرتار ہے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۴ جنوری ۱۹۶۷ء صفحه ۱ تا ۳)

Page 585

خطبات ناصر جلد اول ۵۶۹ خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جنوری ۱۹۶۷ء تمہارا بچاؤ اس چیز میں ہے کہ خدا تعالیٰ کی عطا کو اس کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرو فرمائی.خطبه جمعه فرمود ه ۲۰ /جنوری ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآئینہ کی تلاوت قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلوةَ وَ يُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً مِنْ قَبْلِ أنْ يَأْتِي يَوْمَ لا بَيْعَ فِيْهِ وَلَا خِلل - (ابراهيم : ۳۲) اس کے بعد فرمایا:.یہ آیت قرآنیہ جو میں نے اس وقت پڑھی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ جب تمہارے تکبر ، تمہارے فخر، تمہاری مبابات، تمہاری ریا، تمہارے نفاق ، تمہاری منافقانہ اور فتنہ انداز باتیں، نمازوں میں تمہاری سستیاں ، دیگر اعمال بجا لانے میں تمہاری غفلتیں غرضیکہ تمام کو تا ہیاں اور خطائیں تمہارے بڑے اعمال کے بدنتائج تمہارے سامنے نہایت ہولناک شکل میں کھڑے ہوں گے اور تم میں سے ہر ایک یہ چاہے گا ( جب وہ اپنے اعمال کے بدنتائج کو اپنے سامنے دیکھے گا ) کہ کاش اگر زمین بھر سونا بھی میرے پاس ہوتا ، تو آج میں اپنے رب سے یہ سودا کرتا کہ اے میرے رب ! مجھ سے یہ سونا لے لے اور

Page 586

خطبات ناصر جلد اول ۵۷۰ خطبہ جمعہ ۲۰ جنوری ۱۹۶۷ء مجھے ان اعمال بد کے برے نتائج سے بچالے.تم میں سے بہت سے اپنے اعمال کے برے نتائج دیکھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ اگر تمام دنیا اور اس کی تمام چیزیں میرے پاس ہوتیں تو آج میں اپنے رب سے یہ سودا کرتا کہ ساری دنیا اور اس دنیا کی تمام چیزیں تو مجھ سے لے لے اور مجھے اس سزا سے بچالے جو مجھے اس وقت نظر آ رہی ہے کہ میرے گناہوں اور بدیوں اور برائیوں اور خطاؤں کے نتیجہ میں مجھے ملنے والی ہے.تم میں سے بعض اس سوچ میں ہوں گے کہ اگر دنیا و مافیہا ہی نہیں بلکہ اتنی ہی اور چیزیں بھی ہمارے پاس ہوتیں تو ہم اپنے رب کے حضور اس سودا کی پیشکش کرتے کہ اے خدا یہ ساری دنیا اور اس کی ساری چیزیں اور اتنی ہی اور ہم سے لے لے لیکن ہمیں اپنے اس قہر کی نگاہ سے بچالے.جو تیری آنکھوں میں ہمیں چھلکتا نظر آ رہا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دن کسی بیچ کی اجازت نہیں دی جائے گی اگر تمہارے پاس یہ سب کچھ ہوتا بھی تب بھی تم خدا کے قہر سے اس دن بچ نہیں سکتے.ولا خلل وہ دن ایسا بھی ہے کہ اس دنیا میں غلط راہ پر چلانے والے دوست اپنی دوستیاں چھوڑ جائیں گے شیطان جس کا کام ہی خدا کے بندوں کو گمراہ کرنا ہے وہ ایک کو نہ میں دبکا بیٹھا ہوگا اس کو اپنی فکر پڑی ہوئی ہوگی.اس وقت وہ اپنے چیلوں ( اولیاء الشیطن ) کی طرف توجہ نہیں دے سکے گا اور وہ غلط قسم کے مذہبی راہ نما جو بعض دفعہ اس دنیا میں کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہارے جنت میں جانے کی ذمہ داری لیتے ہیں تم یہ کام کر دو ان کے سر جھکے ہوئے ہوں گے اور وہ اپنے منہ سے شفاعت کا ایک لفظ بھی نکالنے کی جرات نہیں کر رہے ہوں گے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا ایک دن تم نے دیکھنا ہے لا بَيْعٌ فِیهِ وَلَا خلل اس دن نہ تو کوئی سودا ہو سکے گا اور نہ کسی کی دوستی کام آسکے گی وہ دن تو ایسا ہے جب خدا تعالیٰ جو مالک حقیقی ہے جب خدا تعالیٰ جو قا در حقیقی ہے جب خدا تعالیٰ جو رفعتوں اور عظمتوں کا مالک ہے اور جبروت حقیقی طور پر اس کی طرف منسوب ہوتی ہے.اس کی صفات کے جلوے اس میدانِ حشر میں اس طرح جلوہ فگن ہو رہے ہوں گے کہ انسان تو انسان فرشتے بھی لرز رہے ہوں گے.ہر ایک کو نظر آ رہا ہوگا کہ آج ہم اپنے مالک حقیقی رب کے سامنے پیش ہیں.ہماری نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ وہ ہمیں بخش دے وہ ہمیں اپنی رحمت

Page 587

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۷۱ خطبہ جمعہ ۲۰ جنوری ۱۹۶۷ء کی چادر میں لپیٹ لے وہ ہم سے محاسبہ نہ کرے.کیونکہ اگر اس نے ہم سے محاسبہ کیا تو ہم یقیناً ہلاک ہونے والے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے محبوب رسول ! تو ان لوگوں پر جو تجھ پر ایمان لائے ہیں یہ بات کھول کر بیان کر دے کہ ایک دن ایسا بھی تمہیں دیکھنا نصیب ہے تم اس کے لئے تیاری کرو اور چونکہ خدا تعالیٰ رحیم ہے.اس لئے ہم اس دنیا میں انہیں وہ راہ بتاتے ہیں کہ جس راہ پر چل کر (اگر وہ خلوص نیت سے چلیں ) وہ حشر کے دن اس قسم کے عذاب سے بچ سکتے ہیں اور وہ راہ اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ اے میرے رسول تو میرے ان بندوں پر جو تجھ پر ایمان لا کر میرے حقیقی بندے بنے کی خواہش رکھتے ہیں یہ کھول کر بیان کر دو کہ وہ صلوۃ “ کو اپنی پوری شرائط کے ساتھ قائم کریں.عربی زبان میں صلوۃ کے وہ معنی جو ہم سب سے پہلے اس قسم کی آیات میں کرتے ہیں.شریعت کے ہیں اس کے معنی اس نماز کے بھی ہیں کہ جو ہم ہر روز پانچ وقت ادا کرتے ہیں لیکن جہاں اس لفظ کے یہ معنی ہوں.وہاں سیاق و سباق سے اس کا پتہ لگ جاتا ہے لیکن جہاں سیاق و سباق سے اس بات کا پتہ نہ لگے کہ اس لفظ کے معنی اس نماز کے ہیں.جو ہم ہر روز پانچ وقت ادا کرتے ہیں وہاں اس کے پہلے معنی شریعت کے ہوتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ وہ اس شریعت کے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی شکل میں نازل ہوئی ہے تمام احکام کو پوری شرائط کے ساتھ قائم کریں اور پوری شرائط کے ساتھ انہیں ادا کریں.پھر صلوۃ کے ایک معنی (جیسا کہ میں نے بتایا ہے ) اس نماز کے بھی ہیں جو ہم پانچ وقت ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے يُقِيمُوا الصلوۃ وہ اس نماز کو بھی اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کریں.پھر صلوۃ کے تیسرے معنی دعا کے ہیں اور اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ اگر تم شریعت کے قیام اور نماز کو اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کرنے میں محض اپنی طاقت پر توکل رکھتے ہو.تو یہ تمہارے لئے ممکن نہیں اگر تم شریعت کا قیام چاہتے ہو، اگر تم نماز کو اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کرنا چاہتے ہو، تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم دعاؤں کے ذریعہ میری مدد کو حاصل کرو.جب تک

Page 588

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۷۲ خطبہ جمعہ ۲۰ جنوری ۱۹۶۷ء تمہیں اللہ تعالیٰ تو فیق عطا نہ کرے تم اس وقت تک شریعت کو قائم نہیں کر سکتے تم اس وقت تک نماز کو اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا نہیں کر سکتے.اس لئے تم اپنے خدا سے اس کی تو فیق چاہو تم اس سے مدداور نصرت مانگو.’صلوۃ کے چوتھے معنی مغفرت چاہنے کے ہیں.ان معنوں کے رُو سے اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے تم مجھ سے دعا کرو کہ اے ہمارے رب! ہم اپنی بساط کے مطابق تیرے احکام کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے لیکن تو نے شیطان کو کھلا چھوڑ رکھا ہے وہ بعض دفعہ ہمارے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور بعض دفعہ وہ ہمارے غیر کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور اس طرح ہمیں صراط مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے وہ ہمارے اعمال میں رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.ہم اپنے زور سے تو اس سے بچ نہیں سکتے اس لئے تو ہماری مددفرما اور ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم خلوص نیت کے ساتھ محض تیری خاطر تیرے احکام کو بجا لانے والے ہوں اور اس بجا آوری میں ہمیں دنیا، دنیا کی عزت یا دنیا کی کوئی وجاہت مطلوب نہ ہو پھر اے ہمارے خدا اگر ہم تیری توفیق پا کر اعمال صالحہ بجالائیں گے تو بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اندر کوئی رخنہ رہ جائے اور ایسا رخنہ رہ جائے.جس کا ہمیں بھی علم نہ ہو.اس لئے ہماری تجھ سے آخری استدعا یہ ہے کہ تو ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے تو ہماری کمزوری کو ننگا نہ کر تو ہمارے ننگ کو ظاہر نہ کر.غرض اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ اے میرے رسول ! توان لوگوں پر جو میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور تیرے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام میں داخل ہوئے ہیں اور شریعت قرآنیہ پر ایمان لاتے ہیں.یہ کھول کر بیان کر دے کہ وہ صلوۃ“ کو قائم کریں اور صلوۃ کے جو معنی ہیں وہ میں نے اس وقت آپ کے سامنے بیان کر دیئے ہیں.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ يُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ یعنی وہ عطاء الہی کو رضاء الہی کی راہ میں خرچ کریں.اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس کو اس طرح خرچ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا انہیں حاصل ہو.رزق کے معنی میں ایک تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو لینے والا ہے اس کی ضرورت کو پورا کیا گیا ہے اس طرح

Page 589

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۷۳ خطبہ جمعہ ۲۰ جنوری ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ جب ہم تمہیں دینے لگے تھے.تو ہم نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ تمہاری ضرورتیں (جو بھی ہیں ) پوری کرتے چلے جائیں.ہماری عطا اس رنگ کو اختیار کرے ہماری عطا ء اس شکل میں ہو کہ تمہاری طاقت اور استعداد اور قوت کی وجہ سے تمہاری جو ضرورتیں بھی ہوں.( جن کے بغیر تم ترقی نہیں کر سکتے ) ان کا خیال رکھا جائے اس لئے تم اب ان لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھو جنہیں اب تم دے رہے ہو.اس وقت مثلاً سب سے بڑی ضرورت ہمارے بھائیوں کی ”کھانا“ ہے کیونکہ ہمارے.ملک میں غذا کی قلت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور رزق کے ان معنوں کے رو سے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق دیا تھا تو اس نے ہماری ساری ضروریات کا خیال رکھا تھا جب ہم اپنے بھائی کی مدد کو آئیں گے تو ہم اس کی ساری ضرورتوں کا خیال رکھیں گے جس طرح ایک دینے والا کسی کو گرمیوں میں گرم کپڑے اور سردیوں میں مکمل نہیں دیا کرتا کیونکہ گرم کپڑے کی ضرورت سردیوں میں ہوتی ہے اور ململ کی ضرورت گرمیوں میں ہوتی ہے اسی طرح جب ان دنوں میں کوئی اپنے بھائی کی مدد کو آئے گا تو وہ اسے کھانا مہیا کرے گا کیونکہ اس وقت اس چیز کی اسے ضرورت ہے.یہ ایک موٹی مثال ہے.جو میں نے اس وقت دی ہے اور ہر نظمند انسان ایسی باتوں کا خیال رکھتا ہے لیکن بعض باتیں باریک ہوتی ہیں انسان کی توجہ ان کی طرف نہیں ہوتی اس لئے ان کی طرف خلیفہ وقت کو توجہ دلانی پڑتی ہے اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ انفاق فی سبیل اللہ کی بہترین شکل یہ ہے کہ ان اخراجات کے بعد جو ہم اشاعتِ اسلام کے سلسلہ میں کرتے ہیں.ہم اپنے بھائیوں کی بھوک کو دور کریں.چونکہ روح کی حفاظت بہر حال جسمانی حفاظت سے پہلے ہے وہ جسمانی حفاظت سے ارفع اور اعلیٰ ہے اس لئے اس کی طرف سب سے پہلے توجہ دینا ضروری ہے.اشاعتِ اسلام اس معنی میں ضروری ہے کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ بنی نوع انسان خدا تعالیٰ کے غضب کے مورد ہو کر اس کی بھڑکتی ہوئی جہنم کے اندر دھکیل دیئے جائیں.اس کے بعد جہاں تک اس دنیا کی ضرورتوں کا سوال ہے جہاں تک اپنے بھائیوں کی ضرورتوں کو پورا کر کے اللہ تعالیٰ کی رضاء کے حصول کا سوال ہے بھوکوں کو کھانا کھلانا اس وقت سب سے اہم ہے.کیونکہ اغذیہ

Page 590

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۷۴ خطبہ جمعہ ۲۰ جنوری ۱۹۶۷ء اس وقت بہت مہنگی ہوگئی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ایک طرف میری شریعت کو پوری طرح قائم کرو اور دوسری طرف شریعت کے وہ احکام جو فرائض میں شامل نہیں بلکہ نوافل ہیں.ان کی اطاعت کرو تم ایسا انتظام کرو کہ جو طاقتیں ہم نے تمہیں عطا کی ہیں ہم نے جو سامان اور وسائل تمہیں دیئے ہیں.ان کو ہماری رضا کی خاطر اپنے بھائیوں پر خرچ کرو اور یہ کام اس دن سے پہلے کرو جس کا ذکر میں نے اپنے خطبہ کے شروع میں کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم ایسا کرنے میں سستی کرو گے تو یاد رکھو کہ تمہیں ایک دن میرے سامنے پیش ہونا ہے اس دن تمہارے اعمال اپنی نہایت بھیانک شکل میں تمہارے سامنے ہوں گے وہ سزا کی شکل میں تمہارے سامنے ہوں گے.اس دن میں کہوں گا کہ میرے نزدیک ریا کی یہ سزا ہے میرے نزدیک تکبر کی یہ سزا ہے میرے نزدیک نفاق کی یہ سزا ہے میرے نزدیک فتنہ پردازی کی یہ سزا ہے.تم میرے رسول پر ایمان لائے تھے.اس لئے تمہیں ان باتوں سے بچنا چاہیے تھا آج میرے سامنے کوئی سودا نہیں ہوسکتا (روحانی یا مذہبی تجارت جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے.اس کا تعلق اُخروی زندگی سے ہے ) دنیا میں تمہاری جو دوستیاں تھیں وہ بھی آج تمہارے کام نہیں آسکتیں.آج صرف میری دوستی تمہارے کام آسکتی ہے آج صرف میری رحمت اور میری مغفرت کام آسکتی ہے.غرض وہ دن تمہیں پیش آنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس دن سے پہلے تم اپنے بچاؤ کے سامان کر لو کیونکہ اس دن تم سے کچھ نہیں ہو سکے گا اور تمہارا بچاؤ اس چیز میں ہے کہ قرآن کریم کی شریعت کو قائم کرو.تمہارا بچاؤ اس چیز میں ہے کہ خدا تعالیٰ کی عطاء کو اس کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرو اور جب تم اپنے بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک اور بھائیوں والا سلوک کرو تو اس بات کا خیال رکھو کہ جس چیز کی انہیں زیادہ ضرورت ہے وہ چیز انہیں پہلے دی جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں محض اپنے فضل سے صلوۃ کے قائم کرنے کی اُس کے ہر اس معنی کے لحاظ سے جو اس کے علم غیب میں ہیں اور علم کامل میں ہیں، توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تو فیق عطا کرے کہ ہم اس کی منشا کے مطابق اس طور پر اپنی طاقتوں اور اپنے سامانوں کو اس کی راہ

Page 591

خطبات ناصر جلد اول ۵۷۵ خطبہ جمعہ ۲۰ جنوری ۱۹۶۷ء میں خرچ کریں کہ ہم اس کی رضا کو حاصل کر لیں اور ان بندوں میں شامل نہ ہوں.جن کو حشر کے دن سودا بازی کی طرف توجہ ہوگی یا وہ اپنے دوستوں کی تلاش میں ہوں گے بلکہ اس وقت ہمارے دل یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ ہمارا خدا ہمار ا ولی ہے اور آج وہ اپنی تمام عظمت اور جبروت کے ساتھ ہم پر جلوہ گر ہے ہمیں کسی شیطان سے یا کسی شیطانی طاقت سے ایذاء پہنچنے کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ہم اپنے رب کی رضا کی گود میں بیٹھے ہیں.خدا کرے کہ ہم اُس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج میں اور آپ کی اُمت میں شامل ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں کھڑے ہوں اور ہم پر خدا تعالیٰ کا کوئی الزام نہ ہو اور ہر اس کمزوری یا غفلت یا کوتاہی کو جو ہم بطور انسان اس دنیا میں کر چکے ہوں اس وقت اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر ڈھانچے ہوئے ہو.اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمارے لئے جوش میں آ رہی ہو اللہ تعالیٰ کے فضل کے دروازے اس دن ہمارے لئے کھلیں.جنت کے سب دروازے ہمارے لئے کھولے جائیں اور کہا جائے کہ جس دروازے سے بھی تم چاہو داخل ہو سکتے ہو.خدا تعالیٰ اس دن ہم سے کہے میری طرف آؤ اور میری رضا کی جنت میں داخل ہو جاؤ اور خدا کرے کہ ہم اس دن اس گروہ میں نہ ہوں جو دنیا بھر سونا، دنیا کے تمام اموال اور متاع اور اس سے دگنے اموال اور متاع پیش کر کے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی بجائے اس کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ نے آج اس زندگی میں ہمیں جو تنبیہ کی ہے.خدا کرے کہ ہم اس سے فائدہ اُٹھانے والے ہوں خدا کرے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جس پیار کا اظہار اس آیہ کریمہ میں کیا ہے.ہم اس دن اس کی نگاہ میں اس پیار کے مستحق ٹھہریں.اللهم آمین از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 592

Page 593

خطبات ناصر جلد اول ۵۷۷ خطبہ جمعہ ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء دنیا کی اشیاء اس ثواب کے مقابلہ میں جو نیک اعمال کے بدلہ میں ملتا ہے تمنا قليلا کی حیثیت رکھتی ہیں خطبہ جمعہ فرموده ۲۷ / جنوری ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور پرنور نے یہ آیات پڑھیں.وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللهِ ثَمَنًا قَلِيلًا اِنَّمَا عِنْدَ اللهِ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُم تَعْلَمُونَ - مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمُ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.(النحل : ٩٧،٩٦) پھر فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنی جانوں سے محبت رکھتے ہو.تم اپنی بیوی بچوں سے محبت رکھتے ہو تم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے محبت رکھتے ہو.تمہیں دنیا کے مال و اسباب اچھے لگتے ہیں اور تم انہیں اپنے لئے مفید اور بہتر سمجھتے ہو.دنیا کی دولت کی طرف تم جھکتے ہو جو مکان تم تعمیر کرتے ہوان کے لئے تمہارے دلوں میں ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور تم انہیں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.تمہاری تجارتیں تمہیں بڑی محبوب اور پیاری ہیں.اسی طرح تمہاری زرعی زمینیں بھی تمہیں اتنی اچھی لگتی ہیں کہ بعض دفعہ تم ان کے کناروں پر اپنے کسی بھائی کا خون کرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتے ہو.مگر یہ سب چیزیں اس کے مقابلہ میں جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہارے عہد بیعت

Page 594

خطبات ناصر جلد اول ۵۷۸ خطبہ جمعہ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء کے بعد دینے کا وعدہ کیا ہے ثَمَنِ قلیل کی حیثیت رکھتی ہیں.تم نے اپنے رب کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس سے یہ وعدہ کیا تھا کہ تم دین کو دنیا پر مقدم رکھو گے اس لئے جب تم سے تمہارے نفسوں کی قربانی مانگی جائے ، جب تم سے تمہارے بیوی بچوں کی قربانی مانگی جائے ، جب تم سے تمہارے رشتہ داروں اور تمہارے دوستوں کی قربانی مانگی جائے ، جب تم سے تمہارے دنیوی سامان اور مال و اسباب کی قربانی مانگی جائے تو تمہیں چاہیے کہ تم اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے کہ خدا کی جزا اور اس کے ثواب کے مقابلہ میں یہ سب چیزیں ثَمَن قَلیل کی حیثیت رکھتی ہیں.تم اپنے نفسوں کو بھی تم اپنے بیوی اور بچوں کو بھی تم اپنے عزیز واقارب کو بھی تم دنیا کے ہر قسم کے متاع کو بھی قربان کر کے خدا کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کیا کرو اور عہد بیعت کو اپنے ہاتھ سے دے کر ثَمَنِ قليل لینے کی کوشش نہ کیا کرو.اس سارے سلسلۂ اشیاء کو جو اللہ تعالیٰ نے ثَمَنِ قلیل قرار دیا ہے اس کی دو دلیلیں بھی ساتھ ہی بیان کر دیں تا کہ ہم اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ سکیں.پہلے تو یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس چیز کا بھی تم سے اس دنیا میں مطالبہ کیا جاتا ہے وہ فانی ہے اور جس چیز کا بھی اس کے بدلہ میں تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ باقی ہے ہمیشہ رہنے والی ہے تو عقل اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ فانی کے مقابلہ میں جو باقی رہنے والی چیز ہے اور جس پر فنا نہیں وہ بہتر اور اچھی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر وہ چیز جس کی قربانی تم سے چاہی جاتی ہے، فنا پذیر ہے اور ہر وہ چیز جو اس قربانی کے بعد تمہیں ملنے والی ہے وہ باقی رہنے والی ہے.تو فانی چیز کے مقابلہ میں ایک ابدی حیات والی چیز تمہیں دی جاتی ہے.اگر تم ابدی زندگی کو چھوڑ کر چند گھنٹوں، چند دنوں یا چند سالوں کی زندگی اور اس کی خوشیوں کو ترجیح دو گے تو تم دنیا میں بیوقوف سمجھے جاؤ گے.پس جو باقی رہنے والی اشیاء ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے تم ان کی تلاش کرو اور ان کے حصول کی کوشش کرو.دوسری دلیل اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ دی کہ جو تمہارے دنیا کے اموال اور اسباب ہیں ان کے ساتھ تمہارے دلوں میں ایک جیسی محبت نہیں ہوتی اور نہ ایک جیسا لگاؤ ہوتا ہے نہ تم ان میں

Page 595

خطبات ناصر جلد اول ۵۷۹ خطبہ جمعہ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء سے ہر ایک چیز کو ایک جیسی مفید سمجھتے ہو مثلاً تمہیں روپے پیسے سے بڑا پیار ہے.لیکن جب بچہ بیمار ہو جائے یا جب تمہاری بیوی بیمار ہو جائے یا جب تم خود بیمار ہو جاؤ تو ساری دنیا کی دولت قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہو اپنے بچے کی جان کی حفاظت کے لئے یا اپنی بیوی کی جان کی حفاظت کے لئے یا خودا پنی جان کی حفاظت کے لئے.پس اس دنیا کی ہر چیز جو ہے اس کو تم نے ایک ترجیحی سلسلہ کی کڑی میں پرویا ہوا ہے یہ اچھی چیز ہے اس سے بھی اچھی یہ ہے اس سے بھی اچھی یہ ہے اور اس سے بھی اچھی یہ ہے اور ایک انسان اپنی جان سے سب سے زیادہ محبت رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ میں زندہ رہوں اور عام طور پر لوگ دنیا کی اشیاء کو اپنے نفس پر قربان کر دیتے ہیں مگر اپنی جانوں کو دنیوی سامان پر قربان نہیں کرتے یا بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی جانوں کو اپنے بچوں پر قربان کر دیتے ہیں تو ان کے نزدیک ان کے بچے کی قیمت سب سے زیادہ ہے یہاں تک کہ ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ ہے.پس مجموعی طور پر جب ہم دنیا کی تمام اشیاء پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی ہمیں اوسط نکالنی پڑتی ہے.مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک چیز کی قیمت سو یونٹ ہے ایک اور چیز ہے اس کی اتنی ہے ایک اور چیز ہے اس کی پچاس ہے، ایک اور چیز ہے اس کی چالیس ہے، ایک اور چیز ہے اس کی قیمت اس کی نگاہ میں تیس یونٹ ہے ، ایک اور ہے اس کی بیس ہے، ایک اور ہے اس کی دس ہے.تو ساری اشیاء کی مجموعی قیمت اس کی نگاہ میں ان اشیاء کی اوسط قیمت ہو گی.جس طرح اگر آپ بازار میں جائیں اور آپ میں چیزیں خریدیں تو اگر ایک کی قیمت مثلاً سو ہو اور ایک کی پچاس ہو اور ایک کی تیس ہو اور مجموعی طور پر آپ نے ہیں چیزوں پر چار سو روپیہ خرچ کیا ہو تو وہ چیزیں جو ہیں ان کی مجموعی قیمت چار سو روپیہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو جنت میں تمہیں ملے گا اس کے لئے ہمارا یہ قانون ہوگا کہ تمہارے بہترین عمل کا جو بدلہ تمہیں ملنا چاہیے تمہارے کمتر اعمال کا بھی ہم اتنا ہی بدلہ دیں گے.اس اصول کے مطابق ہماری مثال میں جو چیزیں خریدی گئی ہیں ان کی قیمت چار سو نہیں رہتی بلکہ دو ہزار بن جاتی ہے.دنیا میں یہ قانون نہیں چلتا اس دنیا میں دنیا کا قانون چلتا ہے مگر اس

Page 596

خطبات ناصر جلد اول ۵۸۰ خطبہ جمعہ ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ قانون بنایا ہے کہ وہاں تمہارے بہترین عمل کی بہترین جزاہ تمہیں ملے گی اور بہترین عمل کی بہترین جزاء کے مطابق تمہارے باقی اعمال کی جزاء بھی تمہیں دی جائے گی.اس طرح جو کچھ تمہیں وہاں ملے گا اس کے مقابلہ میں دنیا کے تمام اموال اور متاع ، تمہاری اپنی جانیں اور تمہارے اپنوں کی جانیں کوئی قیمت نہیں رکھتیں پس یہ ثَمَن قَلِیل ہے.اللہ تعالیٰ یہاں ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ اس ثَمَنِ قَلیل کو خریدنے کے لئے تم ایسی چیزوں کو قربان نہ کرو جو ابدی مسرتوں اور ابدی سرور والی چیزیں ہیں اور جو بہترین جزا کی شکل میں اور بہترین بدلے کی صورت میں تمہارے سامنے آئیں گی.لَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا - جو عہد تم نے اپنے خدا سے باندھا ہے کہ تم دین کو دنیا پر مقدم رکھو گے اس پر مضبوطی سے قائم رہو اور اپنی کسی غفلت یا کوتاہی کے نتیجہ میں دنیا کو دین پر مقدم نہ کرنے لگ جاؤ کہ دنیا دین کے مقابلہ میں اور دنیا کی یہ اشیاء اس ثواب کے مقابلہ میں جو نیک اعمال کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا میں بھی اور اس جہان میں بھی ملتا ہے.ثَمَن قَلیل کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ خدا کی جزاء جو ہے وہ ابدی ہے اور اس کی قیمت جو ہے وہ اَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ “ کے اصول پر طے کی گئی ہے.66 اللہ تعالیٰ ہم سب کو بہترین جزا کا حقدار قرار دے اور اسی کے مطابق ہم سے معاملہ کرے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۹ / مارچ ۱۹۶۷ ء صفحه ۲، ۳)

Page 597

خطبات ناصر جلد اول ۵۸۱ خطبہ جمعہ ۱۰ / فروری ۱۹۶۷ء جلسہ سالانہ کے ایام میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے بڑے ہی انوار و برکات کا مشاہدہ کیا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۰ / فروری ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.دوست جانتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے بعد مجھے بڑا شدید انفلوائنزا کا حملہ ہوا تھا.پہلے دودن اس تکلیف میں باوجود بخار اور شدید نزلہ اور کھانسی کے میں کام کرتا رہا اور کثرت سے ملاقاتیں اس خیال سے کرتا رہا کہ باہر سے دوست تشریف لائے ہوئے ہیں اگر میں نہ ملا تو ان کو بڑی جذباتی تکلیف اٹھانی پڑے گی لیکن دو دن کے بعد جسم نے جب جواب دے دیا تو مجھے بستر میں لیٹنا پڑا اور اس کے بعد کافی بیماری کی تکلیف رہی.گذشتہ جمعہ بھی دل تو چاہتا تھا کہ میں خود یہاں آ کر حمد کے ان جذبات کا اظہار کرتا جن جذبات نے میرے وجود کو کلیۂ گھیرا ہوا تھا اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو دیکھ کر لیکن بیماری کی وجہ سے میں یہاں نہ آسکا.آج بھی گو کافی تکلیف ابھی باقی ہے لیکن بیماری کی شدت ٹوٹ چکی ہے میں نے مناسب سمجھا کہ میں خود آؤں خواہ چند منٹ کے لئے ہی اپنے جذبات کا اظہار اپنے بھائیوں کے سامنے کروں.جیسا کہ میں نے ایک فقرہ گذشتہ جمعہ لکھ کر بھجوا دیا تھا کہ دل خدا کی حمد سے معمور ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جلسہ سالانہ سے قبل میں نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اس طرف متوجہ کیا تھا

Page 598

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۸۲ خطبہ جمعہ ۱۰ / فروری ۱۹۶۷ء کہ عام طور پر بھی خدا تعالیٰ کے مال کا کوئی پیسہ ضائع نہیں ہونا چاہیے صرف جان بوجھ کر ہی نہیں بلکہ غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں بھی جو ضیاع ہوتے ہیں ان سے بھی بچنا چاہیے لیکن موجودہ حالات میں تو خصوصاً کھانے پینے کی چیزوں کو ضیاع سے بچانا اشد ضروری ہے اور میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ اگر ہم نے اس طرف توجہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ ہمارے رزق سے برکت کو واپس لے لے گا.جس کا میں نے اپنے خطبہ میں اظہار بھی کیا تھا اور اس کے بعد دعا ئیں بھی بڑی ہی کی تھیں کہ ہم میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ ہو کہ جو اپنی غفلت یا کوتا ہی یا سستی یا بے پرواہی کے نتیجہ میں ان برکتوں کو ضائع کر بیٹھے جو اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کے رزق میں رکھی ہیں اللہ تعالیٰ نے بڑا ہی فضل کیا آپ بھائیوں کے ذریعہ سے خصوصاً اور باہر سے آنے والے دوستوں کے ذریعہ سے عموماً خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے بے حد اور بے انتہا مسرت پہنچائی.جب جلسہ سالانہ کے بعد یہ رپورٹ ملی کہ امسال دوستوں نے خوردونوش کو ضیاع سے بچانے کا جو خیال رکھا ہے وہ غیر معمولی ہے اور بڑا نمایاں ہے اس کو دیکھ کر دل خدا کی حمد سے بھر گیا کہ اس کی توفیق کے بغیر نہ کوئی فرد، نہ کوئی جماعت نیکی کے کوئی کام کر سکتی ہے نہ نیکی کی راہوں کو اختیار کر سکتی ہے.اس کے علاوہ بعض اور باتیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل پر ایک نمایاں شہادت پیش کر رہی ہیں مثلاً یہ کہ جلسہ سالانہ رمضان کی وجہ سے اپنی مقررہ تاریخوں پر نہیں ہوا.یعنی ان تاریخوں پر جس کی جماعت کو عادت پڑ چکی تھی رمضان کی وجہ سے ہم نے اس سال جلسہ سالانہ کو ان تاریخوں سے بدل کر پیچھے کیا ( گذشتہ سال پہلے ہوا تھا ) اس سال قریباً ایک ماہ بعد جلسہ ہوا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جلسہ سے معاً پہلے عید کے اخراجات بھی کرنے پڑے کیونکہ عید کی خوشیوں میں ان بچوں کو بھی شامل کرنا پڑتا ہے جو بلوغت کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ حقیقی خوشی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے نازل ہوتی ہے اور دلوں کو سکینت بخشتی ہے لیکن ایک خوشی کا ماحول ان ناسمجھ بچوں کے لئے پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے دماغ عید کے ساتھ خوشیوں کو ہمیشہ دیکھنے کے عادی ہو جائیں یا عادی رہیں.پس عید کی وجہ سے بھی زیادہ خرچ ہوئے.دوسرے یہ کہ غذائی قلت کے نتیجہ میں کھانے پینے کی چیزوں پر معمول سے بہت زیادہ خرچ آج کل کرنا پڑ رہا

Page 599

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۸۳ خطبہ جمعہ ۱۰ / فروری ۱۹۶۷ء ہے تو ہزاروں خاندان ایسے ہوں گے کہ جن کے سامنے یہ مسئلہ در پیش تھا کہ وہ کچھ دن یا ہفتے نیم بھوکا رہ کر گزارنے کے لئے تیار ہیں یا جلسہ چھوڑنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ جلسہ پر بھی جو دوست باہر سے آتے ہیں ان کا بہر حال کچھ نہ کچھ خرچ ہوتا ہے.مجموعی طور پر ( جو میں نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر میں روپے فی کس اوسط رکھی جائے اگر چہ مثلاً کراچی سے آنے والے اور پشاور سے آنے والے دوست اس سے زیادہ خرچ کرتے ہوں گے لیکن اگر اوسط ہیں رو پے بھی رکھی جائے تو جلسہ پر آنے والے احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کم و بیش دس اور پندرہ لاکھ کے درمیان خرچ کیا ہے اگر یہ دوست اور بھائی جلسہ پر نہ آتے تو جماعت کے ان خاندانوں کے پاس کم و بیش دس پندرہ لاکھ روپے کی ایسی رقم ہوتی جس سے وہ مہنگائی کے زمانہ میں گندم آٹا چاول وغیرہ چیزیں خرید سکتے تھے.تو جماعت نے خدا کی خاطر بڑی قربانی پیش کی ہے.جیسا کہ اس جماعت کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہی اس بات کی توفیق دی ہے کہ وہ اس قسم کی قربانیاں اس کے حضور پیش کرتی جائے لیکن یہ کوئی معمولی بات نہیں بڑی بات ہے.ہزار ہا خاندانوں کا یہ فیصلہ کرنا کہ ہمیں نیم بھوکا رہنا منظور لیکن جلسہ سے غیر حاضری منظور نہیں ہے.ایک اور روک یہ تھی کہ ان دنوں سکولوں اور کالجز میں چھٹیاں نہیں تھیں اور بہت سے بچے یا نوجوان یا بہت سے ماں باپ بھی اپنے بچوں کی وجہ سے جلسہ میں شمولیت نہیں کر سکتے تھے سوائے خاص کوشش اور غیر معمولی قربانیوں کے وہ جلسہ پر نہ آسکتے تھے.پس ان تمام روکوں کے باوجود گذشتہ جلسہ کے موقع پر پرچی کے لحاظ سے بھی اور جو گاڑیوں اور بسوں پر سے مسافر اترے اور ان کی گنتی ہوتی ہے ( گو سارے مسافروں کی گنتی نہیں ہوسکتی لیکن بہر حال ہر سال ہوتی ہے اس سے ہمیں پتہ چلتا رہتا ہے کہ اس سال آنے والوں کی تعداد میں زیادتی ہوئی ہے یا کمی ) ہر دولحاظ سے چند ہزار کی زیادتی ہوئی.ان سب چیزوں کو دیکھ کر خدا کی حمد سے دل اتنا معمور ہوا کہ انگریزی میں کہتے ہیں.Over flow کر گیا یعنی حمد اتنی شدت اختیار کر گئی کہ دل اور روح میں سما نہیں سکتی تھی باہر نکل

Page 600

خطبات ناصر جلد اول ۵۸۴ خطبہ جمعہ ۱۰ / فروری ۱۹۶۷ء رہی تھی یہ حمد کے جذبات اور شکر کے خیالات جو ہیں یہ میرے اکیلے کے جذبات نہیں بلکہ میرے ہر بھائی کے جذبات ہیں کہ بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ اس جماعت پر کتنے فضل ، کتنے رحم کرنے والا ہے اور ان کو قربانی کے کس قدر بلند مقام پر پہنچنے کی اس نے توفیق دی ہے اور اس معیار کو قائم رکھنے بلکہ بڑھاتے چلے جانے کی توفیق وہ دیتا چلا جاتا ہے.پچھلے جمعہ تو میری یہ کیفیت تھی کہ میرے روئیں روئیں سے الْحَمْدُ لِلَّهِ ہی نکل رہا تھا اور زبان پر بھی الْحَمدُ للهِ ہی جاری تھا.اور میں چاہتا تھا کہ جماعت کے سامنے بھی یہ باتیں رکھوں تا کہ وہ بھی اپنے رب کے شکر گزار بندے بنیں اور خدا کی حمد کے ترانے گائیں کہ اس نے اپنے فضل کے ساتھ ان کو ان تمام روکوں کے باوجود اس کی رضا کے حصول کے لئے یہ کام کرنے کی توفیق عطا کی ہے اور اس رنگ میں کہ دنیا کی نگاہ میں اس کا جواب اور اس کی مثال نہیں.پھر خشک سالی کی وجہ سے علاوہ اور تکلیفوں کے نزلہ کھانسی وغیرہ کی تکلیف بھی وبائی صورت میں پھیلی ہوئی ہے وہ بھی دوستوں نے برداشت کی اگر چہ اکثر دوستوں کو ان ایام میں جلسہ میں اللہ تعالیٰ نے عام طور پر محفوظ رکھا اور وہ جلسہ کے دنوں میں اپنے رب سے توفیق پاتے رہے کہ نقار یرسُن لیں اور ان سے فائدہ حاصل کریں اور آئندہ بھی فائدہ کے حصول کی نیت کر کے ان کو یا درکھیں اور ان باتوں کو دنیا میں جا کر بتا ئیں.جلسہ کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے بڑے ہی انوار نازل ہوتے رہے ہیں.بڑی ہی برکات کا نزول ہوا ہے.اپنے تو محسوس کرتے ہی ہیں اور اس پر شکر بھی بجالاتے ہیں لیکن دوسروں کے لئے ایسی چیزوں کا پہچاننا اور سمجھنا اور ان کو انوار الہی اور برکات سماوی یقین کرنا مشکل ہوتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے بھی اپنی رحمت کے دروازے کھول دے.مجھے بڑی خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ ہمارے چند غیر مبائع دوست بھی یہاں تشریف لائے تھے اور ان میں سے چند ایک نے تو یہیں بیعت کر لی اور ایک کے منہ سے تو نکلا کہ ہم تو کچھ اور ہی سمجھتے تھے لیکن یہاں آکر کچھ اور دیکھا سمجھتے تو وہ وہی تھے نا !! جو ان کو بتایا جاتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا فضل مبایعین کی جماعت کے ساتھ نہیں ہے بلکہ غیر مبائعین کی جماعت کے ساتھ ہے سنی سنائی باتوں پر وہ یقین رکھتے تھے لیکن

Page 601

خطبات ناصر جلد اول ۵۸۵ خطبہ جمعہ ۱۰ / فروری ۱۹۶۷ء جو آنکھ نے دیکھا اس نے کان کو جھٹلا دیا اور انہوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہزار قسم کے فضل اور اس کی رحمتیں اس جماعت پر نازل ہو رہی ہیں اور خصوصاً جلسہ کے ایام میں تو اللہ تعالیٰ دلوں پر تصرف کر کے ایک خاص کیفیت روحانی پیدا کر دیتا ہے اس سے وہ متاثر ہوئے اور یہیں انہوں نے بیعت کر لی.ایک دوست تھے وہ کسی وجہ سے بیعت تو نہیں کر سکے لیکن ان کا تاثر یہ تھا کہ وہ ایک دوست سے ۲۸ جنوری کی صبح کو کہنے لگے کہ میں قسم کھا کے کہہ سکتا ہوں کہ یہ تقریر (جو غیر مبایعین کے متعلق تھی ۲۷ تاریخ کو ) ساری کی ساری الہامی تھی تقریر الہامی تو نہ تھی اگر چہ اس کے خاص فضل کی حامل تھی مگر اس قسم کا اثر اللہ تعالیٰ نے ان کے دماغ پر ڈالا لیکن اس کے باوجود ابھی انہوں نے بیعت کر کے اپنے اس عہد بیعت کی جو انہوں نے یا ان کے بڑوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تھا اس کی تجدید نہیں کی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں بھی اور ان کے دوسرے بھائیوں کو بھی توفیق عطا کرے کہ وہ ایک ایک کر کے اس جماعت کے ساتھ آ شامل ہوں.جس جماعت کے ذریعہ اب اللہ تعالیٰ تمام دنیا میں غلبہ اسلام کے سامان پیدا کر رہا ہے اور ان فضلوں کے وارث ہوں جو فضل اللہ تعالیٰ اس جماعت کی حقیر کوششوں کے نتیجہ میں آسمان سے نازل کر رہا ہے اور ان کوششوں کے وہ نتائج نکال رہا ہے کہ کوشش اور نتیجہ کے درمیان کوئی نسبت ہی ہم نہیں دیکھتے یہ بھی نہ بھولیں کہ آپ بازار میں جائیں تو آپ کو آج کل کنٹرول پر بھی روپیہ کا دوسیر یا پونے دوسیر آٹا ملے گا.حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ سلوک کیا تھا کہ آئے کا مقررہ کوٹہ بھی ان کو دے دیا تھا اور روپے بھی ان کو واپس دے دیئے تھے تو دیکھنے والا اس بات پر بھی حیران ہوتا ہے حالانکہ یہ چند اونٹ گندم تھی جو عطا کی گئی اور جس کی قیمت بھی واپس کر دی گئی لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے قیمت تو ضرور لیتا ہے اور کہتا ہے قربانیاں کرواؤں گا تم سے لیکن اس کے بعد وہ ہمیں تھوڑ اسا آٹا یا گندم یا چاول یا گھی یا شکر نہیں دیتا بلکہ دنیا جہاں کی نعمتیں ہمیں دیتا ہے اور قربانیوں کی شکل میں جو قیمت اس نے لی ہوتی ہے وہ بھی واپس کر دیتا ہے.

Page 602

خطبات ناصر جلد اول ۵۸۶ خطبہ جمعہ ۱۰ / فروری ۱۹۶۷ء پس ہمارا رب بڑا ہی پیار کرنے والا ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی جماعتوں اور الہی سلسلوں کا اکثر حصہ ایمان کی پختگی رکھنے والا ہوتا ہے.وہ لوگ "عَرَضًا قَرِيبًا‘ سے پیار نہیں کرتے نہ یہ دیکھتے ہیں' سفرا قاصدا کہ ایک سیدھا اور سہل سفر اختیار کیا اور منزل مقصود تک پہنچ گئے بلکہ وہ محبت رکھتے ہیں شقة کے ساتھ اور اس کی راہ میں تکلیف برداشت کرنے کو محبوب سمجھتے ہیں اور اسی میں لذت حاصل کرتے ہیں اور اسی میں وہ اپنی راحت پاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ ان پر اتنا فضل کرتا ہے کہ قربانیوں کی شکل میں جو قیمت انہوں نے دی ہوتی ہے جیسا کہ میں نے ایک مثال کے رنگ میں اسے بیان کیا ہے اس سے کہیں زیادہ سرمایہ بھی واپس کر دیتا ہے جو چیز لینے کی انہوں نے خواہش کی ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ وہ اپنے بندوں کو دے دیتا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی موسلا دھار بارش ہو رہی ہے کہ جس کے قطروں کا گنا انسانی طاقت میں نہیں ہے یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور ہم اس کے عاجز بندے ہمیشہ اس کی حمد سے معمور رہتے ہیں اور ہمیشہ ہمارا سر اس کے آستانہ پر جھکا رہتا ہے اس خیال سے کہ وہ کتنا ہم سے پیار کرتا ہے کتنا ہم سے محبت کا سلوک کرتا ہے کتنی نعمتوں سے ہمیں وہ نوازتا ہے کتنی رضا اور سرور کے سامان اس نے ہمارے لئے مقدر کر رکھے ہیں.دنیا جو چاہے سوچتی رہے جس رنگ میں چاہے ہمیں دکھ پہنچانے کی کوشش کرتی رہے.دنیا کے سارے دکھ ، دنیا داروں کی پہنچائی سب تکالیف اس کی رضا کے ایک سیکنڈ کے سکھ اور چین اور سکینت کے اوپر قربان ساری عمر کے آرام ! یہ عمر ہے کیا ؟ عارضی چیز ہے اور جو یہاں دنیوی آرام اور آسائشیں ہیں وہ بھی عرضا قریبا ہی ہے کہ فانی ہیں جن کا ثواب کوئی نہیں.لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کے لئے انہیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کے بدلے میں اس دنیا میں بھی اور پھر یہاں سے گزرنے کے بعد ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنی رضا کی جنتوں میں اپنے بندوں کو رکھتا ہے یہ دیکھ کر کون وہ بد بخت دل ہو گا جو اس کے سامنے حمد کے ساتھ نہیں جھکے گا ؟ اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق ہے کہ اس نے ہمیں حمد کرنے والے اور شکر کرنے والے، اس کی

Page 603

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۸۷ خطبہ جمعہ ۱۰ / فروری ۱۹۶۷ء نعمتوں کو پہچاننے والے اور اس کی محبت کا جواب محبت سے دینے والی جماعت کے افراد بنایا ہے وہ ہمیشہ ہی ہمیں اپنے شکر گزار بندے بنائے رکھے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ فروری ۱۹۶۷ صفحه ۲ تا ۴) 谢谢您

Page 604

Page 605

خطبات ناصر جلد اول ۵۸۹ خطبہ جمعہ ۲۴ فروری۱۹۶۷ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلتے ہوئے کثرت سے دعائیں کرو خطبه جمعه فرموده ۲۴ فروری ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جلسہ کے بعد جب دوسری دفعہ انفلوئنزا کا حملہ ہوا اور بخار رہنے لگا تو اس کے نتیجہ میں ایک تو جیسا کہ آپ سن رہے ہیں گلا بہت بیٹھ گیا ہے اس کے علاوہ ضعف کی شکایت بھی پیدا ہو گئی ہے اور بلڈ پریشر بھی معمول سے نیچے گرا ہوا ہے لیکن دل نہیں چاہا کہ دوستوں سے ملے بغیر یہ جمعہ بھی گزر جائے اس لئے طبیعت نے یہی فیصلہ کیا کہ خواہ چند فقرے ہی میں اپنے بھائیوں کے سامنے کہوں جمعہ کی ملاقات کا جو اللہ تعالیٰ نے ایک موقع بہم پہنچایا ہے اس سے فائدہ اُٹھالوں بھائیوں کو نہ دیکھنے سے طبیعت ملول ہو جاتی ہے اور دوست بھی خواہش رکھتے ہیں کہ جمعہ کے روز ہی ملاقات ہو جائے اس لئے میں اپنی تکلیف کے باوجود آج یہاں حاضر ہو گیا ہوں.ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا بادی اور رہبر تسلیم کیا ہے اور اپنے رب رحیم کے حکم کے ماتحت اور اس کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے لئے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اپنے محبوب آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے ہمیشہ اسوۂ حسنہ بنائے رکھیں گے اور وہی رنگ اپنی طبیعتوں پر اور اپنی زندگیوں پر چڑھانے کی کوشش کرتے رہیں گے جس رنگ کو اللہ تعالیٰ نے

Page 606

خطبات ناصر جلد اول ۵۹۰ خطبہ جمعہ ۲۴ فروری ۱۹۶۷ء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت صحیحہ پر چڑھایا تھا اور یہ صفات باری کے انوار کا حسین رنگ تھا.ایک بڑی نمایاں خصوصیت جو ہمارے آقا میں پائی جاتی تھی اور جو اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور جس کے نتیجہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مقام کے لئے منتخب کیا تھا اور چنا تھا کہ آپ تمام دنیا کے لئے اور تمام جہانوں کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے ابدی شریعت لے کر آئیں اور قرآن کریم کے حامل ہوں جس کے اندر کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی اور جس کا کوئی لفظ اور کوئی حرف اور کوئی زبر اور زیر بھی کبھی منسوخ نہیں ہوئی وہ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ “ ہونے کی خصوصیت ہے.66 بنی نوع انسان سے کسی انسان نے اس قدر شفقت اور محبت نہیں کی جتنی شفقت اور محبت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بھائی انسانوں سے کی ، نہ صرف ان انسانوں سے جو آپ کے سامنے تھے نہ صرف ان انسانوں سے جو آپ کے ملک میں رہنے والے تھے، نہ صرف ان انسانوں سے جو آپ کی زندگی میں ساری دنیا اور دنیا کے ہر ملک کو آباد ر کھے ہوئے تھے بلکہ تمام ان انسانوں سے بھی جو آپ سے پہلے گزر چکے تھے اور تمام ان بنی نوع انسان سے بھی جنہوں نے آپ کے بعد پیدا ہونا تھا آپ نے سب سے ہی اس محبت کا اس رحمت اور شفقت کا سلوک کیا اور یہ جذ بہ اللہ تعالیٰ نے اس شدت سے آپ کے دل میں پیدا کیا تھا جس کی مثال انسان کو کہیں اور نظر نہیں آتی.یہ ایک بڑی نمایاں صفت تھی جو ہمارے آقا میں پائی جاتی تھی اور یہی وہ صفت ہے جس کی طرف میں بڑے اختصار کے ساتھ اپنے بھائیوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.آج دنیا کو ضرورت ہے اس رَحْمَةٌ لِلعلمین کے جاں نثاروں کی جو دنیا کی بہتری کے لئے اپنی زندگیاں قربان کر رہے ہوں.ہمارا جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں ویسے تو ہر کام ہی ، ہر منصوبہ ہی ، ہر کوشش ہی اور ہر جد و جہد ہی بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہے لیکن ان تمام کوششوں اور ان تمام تدابیر کے علاوہ اس وقت دنیا کو ہماری دعاؤں کی بڑی ہی ضرورت ہے.

Page 607

خطبات ناصر جلد اول ۵۹۱ خطبہ جمعہ ۲۴ فروری ۱۹۶۷ء دور حاضر کا انسان بڑا مغرور ہو گیا ہے اور جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کو عطا کی تھیں اس علم اور فراست کے نتیجہ میں جو آسمان سے ہی آتا ہے اسے وہ اپنی بھلائی کے لئے اور بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے خرچ کرنے کی بجائے اس پر اترانے لگا اور مغرور ہو گیا ہے اس حد تک کہ اسے یہ بھی پسند نہیں کہ اس کے لئے اس کا خدا فیصلہ کرے.وہ چاہتا ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے ہی اپنے فیصلے کرے.اگر وہ اپنے رب کے فیصلے پر راضی ہو جا تا تو آج اس تباہی کی طرف درجہ بدرجہ اس کی حرکت نہ ہوتی جس تباہی کی طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ جا رہا ہے.پس اس انسان کو جسے اللہ تعالیٰ نے طاقت دی اور اپنی عطا سے نوازا اور جس کی آواز اور جس کے فیصلے میں اثر رکھا اور جس کا صحیح فیصلہ بنی نوع انسان کو ترقی کی راہوں پر لے جاسکتا ہے لیکن جس کا غلط فیصلہ تمام بنی نوع انسان کے لئے ہلاکت کا خطرہ بھی پیدا کر سکتا ہے.وہ خود فیصلے کرنا چاہتا ہے اپنے رب کا فیصلہ اسے منظور نہیں کیونکہ اگر اسے اپنے رب کا فیصلہ منظور ہوتا تو آج وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آ جمع ہوتا جو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ کا جھنڈا ہے اور جہاں جمع ہو کر وہ اس فیصلے کی طرف کان دھرتا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات میں دیا تو ہلاکت اس کے سامنے منڈلا نہ رہی ہوتی بلکہ امن کے ساتھ سب مسائل کا حل ہو جاتا.دوسری طرف وہ خود کو بے بس اور لا چار بھی پاتا ہے اور عطاء الہی کو اپنی ہلاکت کے لئے استعمال کرنے پر تلا ہوا ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا کروں اور کس طرح فیصلہ کروں کہ عالمگیر تباہی سے خود بھی بچوں اور بنی نوع انسان کو بھی بچالوں.پس خدائی فیصلے کی طرف کان دھرنے کے لئے تیار نہیں خود کو صحیح فیصلے تک پہنچنے کے وہ قابل نہیں پاتا ہلاکت اس کے سامنے ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل آسمان سے نازل نہ ہو تو اس وقت انسانیت اس قسم کے خطرات.سے گھری ہوئی ہے کہ اس قسم کے خطرات میں آج سے پہلے وہ کبھی نہ گھری تھی.پس ضرورت ہے انسان کو ایک ایسی جماعت اور ایک ایسے الہی سلسلہ کی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو اور آپ کے اعمال کو اور آپ کی زندگی کو اپنے لئے بطور نمونہ کے بنائے اور

Page 608

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۹۲ خطبہ جمعہ ۲۴ فروری ۱۹۶۷ء اس رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہی رنگ اپنے پر چڑھاتے ہوئے، انہی کے اشاروں پر اپنے فیصلے کے دھاروں کو موڑتے ہوئے بنی نوع انسان کے لئے بڑی کثرت کے ساتھ دعائیں کرنے والا ہو.میں آج اپنے بھائیوں اور جماعت کو جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی بھلائی اور خیر کے لئے قائم کیا ہے اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ بڑی کثرت کے ساتھ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان اقوام کو ہدایت عطا کرے کہ جن کے غلط فیصلے آج تمام بنی نوع انسان کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں اور خدا کرے کہ ان میں یہ فراست پیدا ہو جائے کہ خود فیصلے کرنے کی بجائے اپنے رب کے فیصلوں پر راضی ہو جائیں اور اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جا ئیں اور اس طرح وہ بنی نوع انسان کو ہلاکت سے بچانے میں کامیاب ہو جائیں ورنہ سوچ کے بھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں کہ انسان خود اپنے ہی ہاتھ سے خدا کی عطا کو غلط استعمال کرتے ہوئے کس قدر ہلاکتوں کے دروازے اپنے پر کھول رہا ہے.اللہ تعالیٰ تمام بنی نوع انسان کو ہلاکت اور تباہی سے محفوظ رکھے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۳ / مارچ ۱۹۶۷ صفحه ۳، ۴)

Page 609

خطبات ناصر جلد اول ۵۹۳ خطبہ جمعہ ۳ / مارچ ۱۹۶۷ء ہماری مستورات یہ عزم اپنے دلوں میں پیدا کر لیں کہ ہم نے ہر قسم کی رسوم کو ترک کر دینا ہے خطبه جمعه فرموده ۳ / مارچ ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ویسے تو طبیعت پہلے سے بہتر ہے مگر کھانسی ابھی چل رہی ہے اور جو ٹسٹ کروایا گیا تھا اس میں دو قسم کے کیڑے نکلے ہیں اور انہوں نے سنسی ٹویٹی ٹسٹ (Sensitivity Test) کر کے دو تین دوائیں بھی معلوم کی ہیں جو ان کیڑوں کو مارتی ہیں مگر چونکہ نئی دوائیں کمزوری بہت پیدا کر دیتی ہیں اس لئے میں نے ان کا استعمال ابھی مناسب نہیں سمجھا.مجھے خطرہ تھا کہ اس کے نتیجہ میں ضعف پیدا ہوگا اور میں آج جمعہ کے لئے نہیں آسکوں گا اگلے دو ایک روز بھی مشغولیت اسی قسم کی ہے کہ کام چھوڑ کر لیٹا نہیں جا سکتا چار پائی پر.اس لئے خیال ہے کہ دو تین دن کے بعد ان دواؤں میں سے کوئی ایک شروع کی جائے گی.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالی بیماری کو کلیۂ دور کر دے اور کام کی زیادہ سے زیادہ تو فیق اپنے فضل سے عطا کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ تمام اقوامِ عالم پر اسلام کی برتری ثابت کر کے اسلام کو دنیا میں اس معنی میں غالب کیا جائے کہ تمام اقوامِ عالم اسلام کی صداقت کی قائل ہو جائیں اور اس کی برکات اور اس کے انوار سے حصہ لینے والی ہوں.بعثت

Page 610

خطبات ناصر جلد اول ۵۹۴ خطبہ جمعہ ۳/ مارچ ۱۹۶۷ء کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے دو پیشگوئیاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کیں ایک تو یہ کہ غلبہ اسلام فوری طور پر یا چند سالوں میں نہیں ہو گا بلکہ ایک وقت لگے گا دنیا میں اسلام کو غالب کرنے پر اور دوسرے یہ بشارت دی کہ اسلام کا یہ غلبہ بڑے لمبے عرصہ تک دنیا میں قائم رہے گا اور بنی نوع انسان نسلاً بعد نسل اسلام کی برکات اور اس کے فیوض سے حصہ لیتے رہیں گے.اس کے نتیجہ میں ایک طرف غلبہ اسلام کے لئے ہماری قربانیوں میں دوام پایا جانا چاہیے اور دوسری طرف دعاؤں اور جدو جہد کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کچھ اس طرح جذب کرنے کی ضرورت ہے کہ جو جنت اس دنیا میں ہمیں اس کی طرف سے عطا ہو وہ بھی قائم رہنے والی ہو جلدی خزاں نہ آجائے.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بڑے زور سے ایک تحریک پیدا کی ہے اس کے متعلق میں ابھی غور کر رہا ہوں.آج اصل مضمون کے متعلق تو میں کچھ کہنا نہیں چاہتا لیکن تمہید کے طور پر میں آج اپنی بہنوں کو مخاطب کرنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے سورۃ رحمن میں چار جنتوں کے وعدے ایک مسلمان کو دیئے ہیں دو کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے اور دو جنتوں کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے.دراصل تو اُخروی زندگی کی جنت یا اس دنیا کی جنت ایک ہی جنت ہیں لیکن چونکہ ہم دو نقطہ ہائے نگاہ سے، دو زاویوں سے اس کو دیکھ سکتے ہیں اور ان دو نقطہ ہائے نگاہ کو ہی اللہ تعالی نمایاں کرنا چاہتا تھا اس لئے ایک کی بجائے دو جنتوں کا ذکر سورۃ رحمن میں کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ رحمن میں ہماری توجہ اس طرف پھیرتا ہے کہ اگر اس جنت کو تم حاصل کرنا چاہتے ہو جس کو دوام حاصل ہو اور جو ابدی جنت کے نام سے پکاری جا سکے، جس کے متعلق یہ فقرہ صحیح ثابت ہو کہ خُلِدِينَ فِيهَا ایک لمبا عرصہ یہ قوم دنیا کی اس جنت کے اندر رہے گی تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ دوزاویوں سے تم اس جنت پر نگاہ ڈالو اور دوطرفہ کوشش کے ذریعہ اسے حاصل کرو اور یہ کوشش کرو کہ دو چشمے تمہاری قوم اور اُمت میں پھوٹیں کیونکہ صرف ایک چشمہ اسے سیراب کر کے اُسے ابدیت عطا نہیں کر سکتا.اگر اس دنیوی جنت نے کہ جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے

Page 611

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۹۵ خطبہ جمعہ ۳/ مارچ ۱۹۶۷ء دوام حاصل کرنا ہے اور ابدیت کا مقام حاصل کرنا ہے تو ضروری ہے کہ دو چشمے اس کے باغ کو سیراب کر رہے ہوں ایک تو وہ چشمہ محبت الہی کا ، ایک تو وہ چشمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا ، ایک تو وہ چشمہ اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانی اور ایثار کے نمونے ظاہر کرنے کا جو مرد کے دل سے پھوٹتا ہے اس کی ضرورت ہے اور دوسرے اس چشمہ کی ضرورت ہے جو ایک عورت کے دل سے پھوٹے اور اس چشمہ کے پانی سے باغ (اس جنت ) کی نرسری کو سیراب کیا جائے اس لئے مِن دُونِهِمَا جَنَّتن کے آگے دوچشموں کا بھی اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اے مردو! اگر خدا کی رضا کو حاصل کر بھی لو اور اگر تمہاری نیکی اور تقویٰ کے نتیجہ میں اور ان قربانیوں کی وجہ سے جو تم اس کی راہ میں دے رہے ہو اور اس موت کی وجہ سے جو تم نے اپنے خدا کی رضا کے حصول کے لئے اپنے پر وارد کی ہو اور اس اثر کے نتیجہ میں جس سے تمہاری بیویاں ایک حد تک متاثر ہوتی ہیں اس دنیا میں خدا کی رضا کی جنت کو حاصل بھی کر لو تو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ جنت ہمیشہ رہنے والی ہے جب تک کہ مستقل طور پر اُمت مسلمہ کی ہر عورت ان قربانیوں کو بجانہ لائے جن قربانیوں کی توقع مردوں اور عورتوں ہر دو سے کی جاتی ہے اور جب تک عورت اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے والی نہ ہو جیسا کہ اس کے خاوند اور اس کے باپ اور اس کے بھائی اور اس کے دوسرے رشتہ دار اور تعلق رکھنے والے مردا اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے والے ہیں اس وقت تک اس جنت کو دوام حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ عورت کی ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ آئندہ نسل کی صحیح تربیت کرے اور آئندہ نسل میں ان نقوش کو اُبھارے جو نقوش اسلامی انوار سے بنے ہوئے ہوں جو نقوش قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں اُبھرتے ہیں تو جب تک عورت اپنی اس ذمہ داری کو نہیں بنا ہے گی وہ عورت جو ایثار پیشہ مرد کی بیوی اور اس اسلامی جنت کی نرسری کی ماں ہے اس وقت تک اس جنت کو دوام حاصل نہیں ہوسکتا.ایک نسل خدا کی رحمتوں کے سایہ کے نیچے اپنی زندگی کے دن گزار کے اس دنیا سے رخصت ہو جائے گی اور اگر اگلی نسلی کی تربیت صحیح نہ ہوئی تو پہلی نسل کے اس دنیا سے گزر جانے کے ساتھ ہی خدا کی رحمت کا سایہ بھی اس قوم سے اٹھ جائے گا اور خدا کی رحمت کے سایہ کی بجائے شیطانی تمازت کے اندر

Page 612

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۹۶ خطبہ جمعہ ۳ / مارچ ۱۹۶۷ء اگلی نسلیں جھلنے لگیں گی.اللہ تعالیٰ سورت نساء میں اس طرف مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمُ ظِلَّا ظَلِيلا - (النساء : ۵۸) اس آیہ کریمہ میں ایک مضمون یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان پر پختگی سے قائم رہتے ہیں اور ایسے اعمالِ صالحہ بجالاتے ہیں جن میں فساد کی کوئی ملونی نہیں ہوتی اور وہ لوگ جن کے سارے کام اور سارے اعمال اپنے خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہوتے ہیں، جن کا نفس مرجاتا ہے اور اس فانی انسان میں خدائے ذوالجلال کی ایک تجلی کے نتیجہ میں ایک نئی روح پھونکی جاتی ہے اور اس نئی روح کے آرام اور آسائش کے لئے اس دنیا میں ایک جنت کو قائم کیا جاتا اور پیدا کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جنت اس قوم کے لئے اور اس اُمت کے لئے ابدی ہے اس وجہ سے لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ کہ ان کی بیویاں جو ہیں مُطَهَّرَةٌ ہیں.مُطَهَّرَةٌ کے ایک معنی ہیں گناہ سے بچنے والیاں.مُطَهَّرَةٌ کے ایک دوسرے معنی ہیں اعمالِ صالحہ کو بجالانے والیاں یعنی ایسے اعمال جن میں کوئی فساد نہ ہو اور مُطَهَّرَةٌ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ عورتوں کا وہ گروہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قسم کا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے بد رسوم اور مشر کا نہ بدعتوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور ان کا وجود دنیا کے وجود سے بالکل علیحدہ کر دیا گیا ہے بلکہ اس دنیا میں رہتی ہوئی بھی وہ جنت کی حوروں کی مانند بن گئی ہیں یعنی وہ ہر اس گند سے اور شنیع اور قبیح فعل سے پاک ہیں کہ جن میں کا فرات ملوث ہوتی ہیں.یہ وہ عورتیں ہیں کہ جن کے گھروں میں کسی قسم کی بد رسم نظر نہیں آتی یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے گھر اور اپنے ماحول سے مشرکانہ بدعتوں کو دور کرنے والی ہیں چونکہ یہ ازواج مطہرات ان لوگوں کو ملی ہیں اور چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو توحید خالص کے ماحول میں تربیت کر سکیں اور ایک سچا اور پکا اور موحد مسلمان بنا سکیں اور اس لئے اگلی نسل کو شیطان سے محفوظ رکھنے میں یہ عورتیں کامیاب

Page 613

خطبات ناصر جلد اول ۵۹۷ خطبہ جمعہ ۳/ مارچ ۱۹۶۷ء ہو جاتی ہیں اس لئے اس جنت کو دوام مل جاتا ہے اس لئے یہ جنت ایک نسل کے لئے نہیں ہوتی بلکہ اگلی نسل کے لئے اور پھر اس سے اگلی نسل کے لئے بھی یہ دنیا کی جنت قائم رہتی ہے اور جو بشارتیں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں ان بشارتوں کی روشنی میں یہ جنت ہمارے لئے صدیوں تک قائم رہنی چاہیے.اگر ہم اپنی ذمہ داری کو نباہنے والے ہوں ہم مرد بھی اور ہماری مائیں اور ہماری بیویاں اور ہماری بہنیں اور ہماری دوسری رشتہ دار عورتیں بھی تو اللہ تعالیٰ کا ہم سے یہ وعدہ ہے کہ وہ اس جنت کو اس دنیوی جنت کو بھی ہمارے لئے ایک قسم کی ابدی جنت بنادے گا لیکن اس کے لئے شرط یہی ہے کہ عورت اپنے بچوں کی صحیح تربیت کی طرف پوری طرح متوجہ رہے.اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ اس معنی میں مطہرہ ہوں کہ کوئی بدرسم ان کے گھروں میں نہ ہو اور کسی مشرکانہ بدعت کے ساتھ ان کو کوئی تعلق باقی نہ رہے خالص توحید کا ماحول پیدا کرنے والی ہوں اور اس خالص توحید کے ماحول میں اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت کرنے والی ہوں.اگر ہماری مستورات اپنی اس ذمہ داری کو نباہ لیں تو ہمارے لئے وہ بشارت جو ہے وہ قائم رہے گی اور ہماری نسلیں صدیوں تک اس دنیوی جنت میں آسائش اور آرام کی زندگی بسر کرنے والی ہوں گی کسی قسم کا دکھ انہیں نہیں پہنچے گا کوئی تکلیف ان کو نہیں ڈرائے گی تو جس امر کی طرف میرے خدا نے میری توجہ کو پھیرا ہے اس سے پہلے بطور تمہید کے آج میں اپنی بہنوں سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت سے اس لمحہ سے یہ عزم اپنے دلوں میں وہ پیدا کریں کہ ہم نے ہر قسم کی رسوم کو ترک کر دینا ہے اور مشر کا نہ بدعتوں کا قاتل بن جانا ہے اُن سے اثر قبول نہیں کرنا بلکہ انہیں اپنی روحانیت کے اثر کے نتیجہ میں ہلاک کر دینا ہے اور اپنے بچوں کو شیطان کے ہر قسم کے اثر سے محفوظ رکھنا ہے اور انہیں اس قابل بنانا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی اس قائم کردہ، خدا تعالیٰ کی اس پیدا کردہ جنت کے ایسے درخت بنہیں کہ جن سے دنیا شیر یں پھل حاصل کرے.وہ جھاڑیاں نہ بنیں جن کے کانٹوں میں دنیا الجھے اور شیطان کی طرف پھر متوجہ ہو جائے اور ہم میں سے ہر مرد کو اسی لمحہ یہ عزم کر کے یہاں سے اٹھنا چاہیے کہ ہمارے گھر میں وہی بیوی رہ سکے گی

Page 614

خطبات ناصر جلد اوّل ۵۹۸ خطبہ جمعہ ۳ / مارچ ۱۹۶۷ء جو خدا کی مطہر عورت ہوگی رسوم کو پسند کرنے والی، دنیا کی شیخیوں پر اپنے اوقات اور اموال کو قربان کرنے والی، مشرکانہ بدعتوں سے محبت کرنے والی وہ عورت نہیں ہوگی جو ہمارے دلوں میں اپنی محبت پیدا کر سکے گی.ہمیں اپنے گھروں کو اور اپنے ماحول کو اور اپنے علاقہ کو خالص تو حید کے ماحول والا علاقہ اور گھر بنانا ہے تا کہ ہم اس ذمہ داری کو نباہنے میں کامیاب ہو جا ئیں جس ذمہ داری کی طرف مجھے متوجہ کیا گیا ہے اور جس کے متعلق انشاء اللہ اسی کی توفیق سے آئندہ کسی وقت میں اپنے دوستوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کروں گا.روز نامه الفضل ربوه ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 615

خطبات ناصر جلد اول ۵۹۹ خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۶۷ء رضائے الہی حاصل کرنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ پر عمل کرنا ضروری ہے خطبه جمعه فرموده ۱۰ مارچ ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.يَايُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَ تُرِدْنَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعَكُنَ وَأَسَرَّحُكُنَ سَرَاحًا جَمِيلًا - وَ اِنْ كُنْتُنَ تُرِدْنَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَ الدَّارَ الْأَخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ اعَتَ لِلْمُحْسِنَتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا - ينِسَاءَ النَّبِي مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضْعَفُ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرًا - وَمَنْ يَقْنُتُ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَ رَسُولِهِ وَتَعْمَلُ صَالِحًا تُوتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَ اعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا - (الاحزاب : ۲۹ تا ۳۲) پھر فرمایا:.میرا آج کا خطبہ گزشتہ خطبہ کے تسلسل میں ہی ہے.پہلی مخاطب تو میری بہنیں ہیں لیکن میرے بھائیوں کے لئے بھی ان آیات کے مضمون میں بڑے سبق ہیں اور وہ سبق انہیں حاصل کرنے چاہئیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنتے چلے جائیں.فہ جن آیات کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے وہ سورہ احزاب کی ہیں.ان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں

Page 616

خطبات ناصر جلد اول ۶۰۰ خطبہ جمعہ ۱۰ مارچ ۱۹۶۷ء کچھ دنیوی سامان دے دیتا ہوں اور تمہارے حقوق ادا کر کے تم کو نیک طریق سے رخصت کر دیتا ہوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور اُخروی زندگی کے گھر کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم میں سے پوری طرح اسلام پر قائم رہنے والیوں کے لئے بہت بڑا انعام تیار کیا ہے.اے نبی کی بیویو! اگر تم میں سے کوئی اعلیٰ ایمان کے خلاف بات کرے تو اس کا عذاب دگنا کیا جائے گا.اور یہ بات اللہ پر آسان ہے اور تم میں سے جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی اور اس فرمانبرداری کی شان کے مطابق عمل بھی کرے گی.تو ہم اسے انعام بھی دگنا دیں گے اور ہم نے ہرایسی بیوی کے لئے معزز رزق تیار کیا ہوا ہے.“ سورۃ احزاب کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما یا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں.فرمایا اَزْوَاجةَ امهتُهُمْ اور آگے جا کر اسی سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ کو اس طرف بھی متوجہ کیا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام امت کے لئے اور ہر زمانہ کے مسلمانوں کے لئے اُسوہ حسنہ ہیں.تم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل ہی نہیں کر سکتے اس کی محبت اور پیار کو پاہی نہیں سکتے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کر کے ، آپ کو اپنے لئے بطور نیک نمونہ سمجھتے اور یقین کرتے ہوئے آپ کے نمونہ کے مطابق اپنی زندگیاں نہیں ڈھالو گے.جیسا کہ فرما یا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امت محمدیہ کے لئے اسوہ حسنہ قرار دینے کے بعد اور آپ کی ازواج مطہرات کو مومنوں کی مائیں قرار دینے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ بیویاں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہیں نکاح کے وقت ان کے ساتھ کوئی ایسا سمجھوتہ نہیں تھا کہ وہ اُمت محمدیہ کے لئے اُسوہ حسنہ بنیں گی اور اس بھاری ذمہ داری کو اٹھا ئیں گی جیسا کہ مومنوں کی مائیں.بہر حال مومنوں کے لئے اسوۂ حسنہ اور تربیت کا ایک مرکزی نقطہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ) بنتی ہیں اور کوئی کہ سکتا تھا کہ ان کو جبراً اس مقام پر لا کھڑا کیا اور ان کو یہ حکم دیا کہ تمہیں ضرور تنگی ترشی کو اختیار کر کے اور ہر قسم کی قربانی دے کر اور اس دنیا سے منہ موڑ کر اپنے نفس پر فنا طاری کر کے اُمت کے لئے ایک اُسوہ بننا پڑے گا.ورنہ ہم تمہیں سزا دیں گے چونکہ مذہب میں خصوصاً

Page 617

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۰۱ خطبہ جمعہ ۱۰ مارچ ۱۹۶۷ء مذہب اسلام میں جبر جائز نہیں ان کے لئے کوئی راہ نکالنی ضروری تھی اور اگر چہ جیسا کہ عملاً دیکھنے میں آیا ہماری یہ مائیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اُمہات المومنین قرار دیا ہے (سورۃ احزاب میں ) اس قدر تربیت یافتہ تھیں کہ جو اختیار ان کو ان آیات میں دیا گیا.اس کے بعد ان کے فیصلے نے یہ بتا دیا کہ واقعی وہ اُمہات المؤمنین بننے کی اہل تھیں.لیکن بہر حال دنیا کو بھی یہ بتانا تھا کہ جبر سے کام نہیں لیا گیا بلکہ اپنی مرضی سے انہوں نے اس اہم اور مشکل ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا.ان آیتوں کو اختیار دینے کی آیات بھی کہا جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے جب ان کو امہات المؤمنین اور اُمت محمدیہ کی مسلمان عورتوں کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا تو ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی روشنی میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور وحی آپ پر نازل ہوئیں.یہ بات پیش کی جس کا ذکر ان آیات میں ہے.ان آیات کے نزول کے بعد سب سے پہلے آپ حضرت عائشہ کے پاس گئے اور آپ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اے عائشہ ! میں تم سے ایک اہم بات کرنا چاہتا ہوں لیکن قبل اس کے کہ میں وہ بات تمہارے ساتھ کروں تمہیں یہ تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ جواب دینے اور فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لینا بلکہ خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا اور جواب دینا بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم اپنے والدین سے بھی اس کے متعلق مشورہ کر لو اور پھر مجھے جواب دو.اس تمہید کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پر یہ آیات نازل کی ہیں اور ان کو یہ آیات پڑھ کر سنا دیں اور مشورہ دیا کہ تم والدین سے مشورہ کر کے اور خوب سوچ سمجھ کر مجھے بتاؤ کہ تمہیں حیات دنیا اور اس کی زینت چاہیے یا تمہیں خدا اور اس کا رسول چاہیے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے امہات المؤمنین بڑی ہی تربیت یافتہ تھیں انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اس معاملہ میں اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی؟ مجھے خدا اور اس کا رسول چاہیے دنیا اور اس کی زینت نہیں چاہیے.اس کے بعد آپ اپنی دوسری بیویوں کے پاس گئے اور ان میں سے ہر ایک نے یہی جواب دیا کہ ہمیں خدا اور اس کا رسول چاہیے دنیا اور اس کی زینت نہیں چاہیے.مؤرخین اور مفسرین کہتے ہیں کہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں

Page 618

خطبات ناصر جلد اول ۶۰۲ خطبه جمعه ۱۰ / مارچ ۱۹۶۷ء زندہ موجود تھیں جن کو یہ اختیار دیا گیا تھا جن میں سے پانچ تو قریش مکہ کے مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور چار مختلف قبائل اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی تھیں اور ساری کی ساری ایسی تھیں کہ جو اس قدر تربیت یافتہ تھیں کہ ایک سیکنڈ کے لئے انہیں سوچنا نہیں پڑا فیصلہ ان کے دماغوں میں گویا پہلے ہی حاضر تھا.انہوں نے کہا سوچنا کیسا ؟ اور مشورہ لینا کیسا ؟ ہمیں خدا اور اس کا رسول محبوب اور پیارے ہیں ہم اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے تیار ہیں کہ امت محمدیہ کے لئے ہم بطور اسوہ حسنہ اپنی زندگیاں گزاریں تو جس چیز کا ان کو ان آیات میں اختیار دیا گیا تھا وہ یہ نہیں تھا کہ چاہو تو طلاق لے لو چاہو تم بیویاں بن کے رہو.میرے نزدیک اس اختیار کے یہ معنی بھی نہیں تھے کہ چاہو تو دنیا لے لو اور چاہو تو خدا کے راستہ میں فقر کو اختیار کرو بلکہ ان کو اختیار اس بات کا دیا گیا تھا کہ چاہو تو ان ذمہ داریوں کو اپنے کندھوں پر قبول کرو جو امت مسلمہ کے لئے اور اُمت مسلمہ کی مستورات کے لئے اسوۂ حسنہ بننے پر تمہارے کندھوں پر پڑنے والی ہیں اور چاہو تو ایک عام مسلمان عورت کی طرح اپنی زندگیوں کو گزار و اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے یہ عہد کرنے کے بعد وعدہ خلافی کی اور نقض عہد کے فاحشہ مبینہ میں تم پڑگئیں اور مبتلا ہو گئیں اور اپنے وعدے کو نہ نباہیا تو پھر دوسری عورتوں کو ان معاصی پر جس قسم کی سزامل سکتی ہے اس سے دو چند سزا تمہیں بھگتنی پڑے گی اور اگر تم نے اس عہد کو نباہا تو تمہارا اجر بھی دوسری عورتوں سے دگنا ہوگا.یہ جو اجڑ ہے یہ حدود کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا ضِعْفَيْنِ کا اور مزتين کا تعلق حدود کے ساتھ نہیں اور نہ آپس کے جو حقوق ہیں ان کے ساتھ یہ تعلق رکھتا ہے یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر تم واقعہ میں اُسوۂ حسنہ بن گئیں تو اگر تم نے کسی سے پانچ روپے لینے ہوں گے تو تمہیں دس روپے دلوائے جائیں گے اسی طرح اگر بفرض محال تمہارا کوئی گناہ ہو گا جس پر حد لگ سکتی ہو تو یہ مطلب نہیں که حددگنی کر دی جائے گی حدود ایک مخصوص اور محدود دائرہ کے اندر چکر لگاتی ہیں اور جو ثواب ہے وہ بڑے وسیع معنی رکھتا اور اس کا تعلق اس دنیا کی جنت سے بھی ہے اور اُخروی جنت سے بھی ہے اور اس کے مقابل میں جو سزا ہے اس کا تعلق بھی اس دنیا کے جہنم اور اگلے جہان کے جہنم سے ہے.

Page 619

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۰۳ خطبہ جمعہ ۱۰ مارچ ۱۹۶۷ء تو یہاں یہ فرمایا کہ ہم تمہیں اس موقع پر کہ تمہیں امہات المؤمنین قرار دیا گیا ہے اور یہ اعلان کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام اُمت کے لئے اور ہر زمانہ کے لئے بطور اسوۂ حسنہ کے ہیں اور آپ کی پیروی کرنے اور آپ کی اتباع کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے.دنیا نے اب صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی نہیں دیکھنا بلکہ اے ازواج مطہرات! دنیا کی عورتوں نے تمہاری طرف دیکھنا ہے اور تمہاری اُنہوں نے نقل کرنی ہے اگر تم نے صحیح نمونہ پیش کیا تو نیکی کے ایک تسلسل کو تم جاری کرنے والی ہوگی اگر تم نے برانمونہ پیش کیا تو بدی کے ایک تسلسل کو تم جاری کرنے والی ہوگی.تو جیسا کہ حدیث میں آیا ہے جو شخص نیکی کی بنیاد ڈالتا ہے اور اس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ نیکی کرنے لگ جاتے ہیں تو اس کو اپنی نیکی کی بھی جزاء ملے گی اور جن لوگوں نے اس کے کہنے کے مطابق یا اس کی نقل کرتے ہوئے نیکیاں کی ہیں ان کے ثواب میں بھی وہ حصہ دار ہوگا.پس یہ ہے مرتین والی جزاء اور جو شخص بدی کی بنیاد ڈالتا ہے اور بدی کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور بدوں کا سردار بنتا ہے تو اس کو اپنے کئے کی سزا بھی بھگتنی پڑے گی اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے نتیجہ میں بھی اس کو ایک سزادی جائے گی اور یہ ہے (عَذَابِ ضِعْفَيْن) دگنا عذاب جوایسے لوگوں کو ملتا ہے.اگلی دو آیات میں وجہ بیان کی گئی ہے کہ یہ اختیار دیا کیوں گیا تھا ؟ فرمایا کہ چونکہ ہم نے ان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا کہ وہ اُسوہ بنیں اور ایک نیک نمونہ قائم کریں اور جس شخص کو اس مقام پر کھڑا کیا جاتا ہے اور جس کے اعمال کے متعلق یہ امید رکھی جاتی ہے کہ بعد میں آنے والے اس کی نقل کریں ان کو اجر بھی دگنا دیا جاتا ہے اور ان کے اوپر ذمہ داری کے نتیجہ میں عذاب بھی دو چند نازل ہوتا ہے جیسا کہ اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے دوسری آیات میں کئی جگہ کی ہے مثلاً ایک جگہ آتا ہے.رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ اور اس آیت کے شروع میں وجہ بتائی ہے.رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا (الاحزاب : ۶۸) ہم نے اپنے بڑوں کی ان کے کہنے کے مطابق نقل کی.انہوں نے کہا ہم تمہارے لئے بطور نمونہ کے ہیں تم ہمارے پیچھے آؤ ہم تمہارے ذمہ دار ہیں.( کہنے والے تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جنت میں جانے کے لئے ایک سرٹیفکیٹ

Page 620

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۰۴ خطبہ جمعہ ۱۰ مارچ ۱۹۶۷ء دے دیں گے تمہیں کوئی فرشتہ نہیں روکے گا وہاں تک پہنچ جاؤ گے.ہم ذمہ داری لیتے ہیں تم یہ کام کرو تمہیں کوئی گناہ نہیں ہوگا اور کروا ر ہے ہوتے ہیں ان سے گناہ کی بات ) تو ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن کہیں گے کہ اے خدا! أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی ، لیڈروں کی اور قائدوں کی اتباع میں اور بڑے بڑے مجتہدین اور علماء کہلانے والوں کے کہنے کے مطابق یہ اعمال کئے تھے آج ہمیں پتہ لگ رہا ہے کہ یہ اعمال تو تیری نگاہ میں پسندیدہ نہیں ہیں.اس لئے ان کو دگنا عذاب دے اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَيَحْدُنَ اثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمُ (العنکبوت : (۱۴) کہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی جن کو اللہ تعالیٰ نمونہ بناتا ہے اور وہ نیک نمونہ پیش نہیں کرتے.بدی کی راہیں متعلقین پر کھولتے ہیں اور خدا کی طرف بلانے کی بجائے شیطان کی طرف ان کو بلاتے ہیں اور ان کو صراط مستقیم پر قائم کرنے کی بجائے راہ ضلالت کی طرف لے جاتے ہیں اور ان پکڈنڈیوں کی نشان دہی کرتے ہیں جو شیطان کی طرف لے جانے والی ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنے بوجھ بھی اُٹھا ئیں گے اور یقیناً وہ ان لوگوں کے بوجھ بھی اُٹھائیں گے جن کو انہوں نے گمراہ کیا جو گمراہ ہوئے ان کو تو بہر حال سزا ملے گی یہ نہیں کہ ان کی سزا معاف ہو جائے گی لیکن ان آئمہ الکفر کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اسی طرح جو نیک نمونہ بنتا ہے اس شخص کی وجہ سے یا ان اشخاص کی وجہ سے یا اس گروہ اور جماعت کی وجہ سے جو نیکیاں قائم ہوتی ہیں اور بہت سے ان کی نقل کر کے خدا تعالیٰ کی قرب کی راہوں پر چلنے لگتے ہیں تو وہ شخص یا اشخاص جو بطور نمونہ کے دنیا میں زندگی گزارتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دہرے وارث ہوتے ہیں اور ان کو ان کا اجر (مرتين ) دو دفعہ ملتا ہے ایک اپنے اعمالِ صالحہ کے نتیجہ میں ایک اس وجہ سے کہ وہ نمونہ بنے اُسوہ ٹھہرے اور بہتوں کی ہدایت کا موجب بنے.تو ينِسَاء النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ اور وَمَنْ يَقْنُتُ مِنْكُنَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلُ صَالِحًا تُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ میں وجہ بتائی گئی ہے کہ ہم نے ان أُمَّهَاتُ الْمُؤْمِنینَ کو یہ اختیار کیوں دیا!! اس لئے دیا کہ ہم نے ان کو نمونہ بنایا تھا اور دنیا کو ہم بتانا چاہتے تھے کہ یہ

Page 621

خطبات ناصر جلد اوّل خطبه جمعه ۱۰ / مارچ ۱۹۶۷ء اس مقام کے اوپر قائم اور فائز جو کی گئی ہیں.یہ اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر جبر کر کے انہیں اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کی تربیت اس رنگ میں ہوئی ہے کہ واقعہ میں یہ امہات المؤمنین بننے کے قابل ہو گئی ہیں.اس کے ہم یہ معنی بھی کر سکتے ہیں کہ آؤ دیکھو! ہم اپنے نبی کو کہتے ہیں کہ ان ازواج کو جا کے یہ کہو کہ اگر چاہتی ہو حیات دنیا اور اس کی زینت کو تو سراحًا جميلا بغیر کسی ناراضگی کے ، ( نہ رسول کی ناراضگی اور نہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ) میں تمہیں تمہارے دنیوی حقوق ادا کر دیتا ہوں، عام مومنات کی عام مسلمات کی صف میں جا کے کھڑی ہو جاؤ ( یا اگر چاہو تو اسلام کو بھی چھوڑ دو کوئی جبر تو نہیں ہے ) اور اگر چاہو تو اپنی مرضی اور رضا سے اس نہایت ہی اہم ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر لو اور ساری اُمت کے لئے اُسوہ حسنہ بننے کے لئے تیار ہو جاؤ اس وعید کے ساتھ کہ اگر تم سے کوئی غفلت اور سستی سرزد ہوئی اور کہیں تم نے غلطی کی اور اس کے نتیجہ میں دوسرے گمراہ ہوئے تو اس گناہ کی سزا دو چند ہوگی.اور جب ان کے سامنے یہ بات پیش کی گئی تو ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا کہ یہ راہ تنگ ہے مگر یہی راہ ہمیں پیاری ہے ہم اسے چھوڑ کے ادھر ادھر ہونا نہیں چاہتیں ہمیں خدا کی رضا اور رسول کا پیار چاہیے ہمیں دنیا کی زندگی اور اس کی زینت نہیں چاہیے.اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اُمت مسلمہ کے لئے اُسوہ بنانا چاہتا ہے تو خدا کے فضل اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ دنیا کو یہ بھی دکھائے گا کہ ہم دنیا کے لئے اور اُمت محمدیہ کے لئے اسوہ بن جائیں گی.پھر ان کی زندگی کو دیکھو ان میں سے ہر ایک نے اپنے اموال کو اور دنیوی سامانوں کو اور اپنے اوقات کو اور اپنے جذبات کو خدا اور اس کے رسول کے لئے خرچ کیا.کبھی ان کے قدم میں لغزش نہیں آئی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فتوحات کے نتیجہ میں بڑے اموال آنے شروع ہو گئے تھے.حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے بڑے وظائف اُمہات المؤمنین کے مقرر کئے.پس یہاں یہ مراد نہیں کہ دنیا کے اموال لینے نہیں مراد یہ ہے کہ دنیا کے اموال دنیا کے آرام اور دنیا کی زینت پر خرچ نہیں کرنے بلکہ خدا اور اس کے رسول کی راہ میں خرچ کرنے ہیں اگر یہ مفہوم نہ لیا جائے تو پھر تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ آپ

Page 622

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۰۶ خطبه جمعه ۱۰ / مارچ ۱۹۶۷ء نے غلطی کی کہ سب سے بڑے وظائف اُمہات المؤمنین کے لئے مقرر کر دیئے.بعد میں تو یہ وظائف بہت بڑھ گئے تھے لیکن شروع میں بھی دس ہزار درہم ایک ایک بیوی کو ملتا تھا ان کے اپنے رشتہ دار لاکھ لاکھ روپیہ تک ایک وقت میں لا کر ان کو دے دیتے تھے.حضرت عائشہ بیبیوں سینکڑوں غلام خرید کر ایک وقت میں آزاد کر دیا کرتی تھیں.ایک دن جب ان کو ایک لاکھ روپیہ ملا تو بڑی خوش ہوئیں کہ مجھے دوہرا بلکہ چوگنا ثواب ملے گا دوہرے اجر کا انہیں وعدہ تھا وہ نمونہ اور اُسوہ بھی انہوں نے دکھایا پھر یہ سوچ کر بھی خوش ہوئیں کہ ایک تو میں لاکھ روپیہ تقسیم کروں گی دوسرے سارا دن میرا اس تقسیم میں گزرے گا یہ بھی ایک ثواب ہے سارا دن ذرہ بھی آرام نہیں کیا صبح سے جو بیٹھیں تقسیم کرنے کے لئے شام کر دی سارے دن کا ایک ایک منٹ اور اس مال کا ایک ایک روپیہ غرباء میں تقسیم کر دیا یہی حال تمام ازواج مطہرات کا تھا.پس دنیا کو اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ ہم ان پر جبر نہیں کر رہے دنیا کو اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ایک حسین اُسوہ بنایا گیا ہے اس کا اثر سب سے پہلے خود آپ کے گھر میں رہنے والوں پر ہے اور ایک شدید محبت نیکی کے ان کاموں سے پیدا ہوگئی ہے آپ کی ازواج مطہرات کے دلوں میں کہ دنیا کا کوئی لالچ ، یا دنیا کا کوئی طمع یا دنیا کا کوئی آرام یا دنیا کی کوئی آسائش اس صحبت کو ٹھنڈا نہیں کر سکتی.تفسیر روح البیان میں لکھا ہے کہ اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب دنیا کی رغبت اور دنیا سے محبت کے نتیجہ میں ازواج مطہرات کا جسمانی اور مادی تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطع ہو سکتا ہے تو دنیا کی اس رغبت اور محبت کے نتیجہ میں امت محمدیہ کا تعلق بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطع ہو جائے گا یعنی اگر وہ حیات دنیا اور زینت دنیا کو ترجیح دیں گے خدا اور اس کے رسول پر اور اپنے اوقات کو اور اپنی ملکیتوں کو اپنے ذاتی آسائش اور آرام پر خرچ کریں گے اور اس نظام کی مضبوطی اور استحکام کے لئے خرچ نہیں کریں گے جو اسلام نے قائم کیا ہے تو ان کا تعلق بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یقینا قطع ہو جائے گاوہ لکھتے ہیں.فِي إِيجَابِ الْمُفَارَقَةِ عَنْ صُحْبَةِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِأُمَّتِهِ لِأَنَّ أَرْحَامَ قُلُوبِهِمْ مَحَلُّ النُّطْفَةِ الرُّوْحَانِيَّةِ الرَّبَّانِيَّةِ فَيَنْبَغِى أَنْ يَكُونَ أَطْيَبُ وَازْلَى لِاسْتِحْقَاقِ تِلْكَ

Page 623

خطبات ناصر جلد اول ۶۰۷ خطبه جمعه ۱۰/ مارچ ۱۹۶۷ء النُّطْفَةِ الشَّرِيفَةِ فَإِنَّ الطَّيِّبَاتِ لِلطَّيِّبِينَ - یعنی مسلمانوں کے دل رحم کی طرح ہیں روحانی لحاظ سے اور دلوں کے اس رحم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ربانی روحانیت کا نطفہ داخل ہوتا ہے اور وہاں سے ایک روحانی بچہ پیدا ہوتا ہے تب وہ پکے مسلمان بنتے ہیں.تو مردوں کو بھی جیسا کہ میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا ان آیات سے سبق لینا چاہیے اور یا د رکھنا چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب ہرگز ہرگز حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ روحانی طور پر اس اختیار کے ملنے کے بعد جو ان آیات میں دیا گیا ہے آپ کی طرف منسوب ہونے والی حیات دنیا اور اس کی زینت پر خدا اور اس کے رسول کی رضا اور اس کی محبت کو مقدم نہ رکھیں.اگر وہ حیات دنیا اور اس کی زینت میں محو ہو گئے اس میں رغبت انہوں نے کی اور اس سے محبت کی اور اپنے تمام دل اور تمام توجہ اور تمام محبت کے ساتھ وہ دنیا ہی کے ہو گئے اگر انہوں نے اپنے اموال کو ، اگر انہوں نے دنیوی سامانوں کو ، اگر انہوں نے اس دنیوی زندگی کے اوقات کو ، اگر انہوں نے دنیوی محبتوں کو ، اگر انہوں نے دنیوی تعلقات کو خدا اور اس کے رسول پر قربان نہ کیا تو وہ یقیناً خدا اور اس کے رسول کی محبت اور قرب اور صحبت کو حاصل نہیں کر سکیں گے.ان آیات میں جہاں یہ بیان ہوا ہے کہ ازواج مطہرات ایک ایسے مقام پر ہیں کہ دنیا نے ان کی نقل کرنی ہے اگر وہ نیک نمونہ پیش نہیں کریں گی تو ان کو دگنا عذاب دیا جائے گا اگر وہ نیک نمونہ پیش کریں گی تو ان کو مرتين جزا دی جائے گی.وہاں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ دوسری عورتیں جن کا تعلق امت محمدیہ سے ہے اگر وہ حیات دنیا اور اس کی زینت پر دین کو قربان کر دیں گی اور خدا کی رضا کے حصول کی طرف متوجہ نہیں ہوں گی بلکہ دنیا کے عیش اور اس کے آرام میں پڑ جائیں گی تو ان کو بھی سزا دی جائے گی گو وہ سز ا مرنا ہو گی لیکن سزا ان کو ضرور دی جائے گی چھوڑا نہیں جائے گا ان کو پھر ان آیات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے اگر مسلمان عورت اپنے گھر کا ماحول ایسا نہیں بنائے گی کہ اس ماحول میں تربیت پانے والے بچے خدا کی آواز کو سننے کے بعد دنیا کی کسی آواز پر کان نہ دھریں

Page 624

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۰۸ خطبہ جمعہ ۱۰ مارچ ۱۹۶۷ء اور دنیا کی طرف پیٹھ پھیر کر اپنے پورے زور کے ساتھ اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس طرف دوڑ نے نہ لگ جائیں جس طرف سے کہ خدا کی آواز آرہی ہو تو ایسی مائیں بدی کا نمونہ قائم کرنے والی ہیں اور ان کو بھی دو ہرا عذاب ملے گا اور اس طرح اگر وہ اپنے گھروں کے ماحول کو اس قدر حسین بنائیں گی اسلام کی روشنی اور قرآن کریم کے نور کے ذریعہ کہ جو بچے وہاں پرورش پائیں گے ان کے دل کچھ اس طرح خدا اور اس کے رسول کی محبت میں محو ہوں گے کہ دنیا کی طرف ان کی نگاہ بھی نہیں اُٹھے گی تو الہی وعدہ کے مطابق ایسی مسلمان عورت کو دو گنا ثواب ملے گا.تو جیسا کہ میں نے گذشتہ جمعہ میں مختصر بیان کیا تھا کہ ایک اہم مضمون کی طرف اللہ تعالیٰ نے میری توجہ کو پھیرا ہے بطور تمہید کے میں نے یہ دو خطبے دیئے ہیں اور ان خطبوں میں میں نے کوشش کی ہے کہ میں اپنی بہنوں پر اس بات کی اچھی طرح وضاحت کردوں کہ بڑی اہم ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر عائد ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اگر نبی اُمت میں زندہ موجود ہو یا اس کے خلفاء کے ذریعہ اگر نبی کے وصال کے بعد قدرت ثانیہ کا دور شروع ہو چکا ہو.جب کسی ذمہ داری یا ذمہ داریوں کی طرف جماعت کے مردوں اور ان کی عورتوں کو متوجہ کرے تو ان کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے حصول کے لئے اس کے رسول یا اس کے خلیفہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایسی قربانیاں دنیا کے سامنے پیش کریں جو بے نظیر ہوں اور دنیا کو حیرت میں ڈالنے والی ہوں اور دنیا یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائے کہ عام عورتیں تو اور بھی بستی ہیں اس دنیا میں مگر ان کا ان کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں وہ تو ایسی عورتیں ہیں (احمدی مستورات اور احمدی بہنوں کے سوا) کہ جو حیات دنیا میں کھوئی گئی ہیں اور زینت دنیا کو ہی انہوں نے سب کچھ سمجھ لیا ہے اور یہاں وہ ہیں کہ جو خدا اور اس کے رسول کے مقابلہ میں دنیا کے آرام اور دنیا کی آسائشیں اور دنیا کے فاخرانہ لباس اور دنیا کے قیمتی زیورات اور دنیا کے چمکتے ہوئے ہیرے اور جواہرات کی کوئی پرواہ نہیں کرتیں بلکہ خدا اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے نام کو بلند کرنے کے لئے اور اس کی عظمت اور جلال کو قائم کرنے کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دلوں میں گاڑنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں.خصوصاً تربیت اولاد کی

Page 625

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱۰ / مارچ ۱۹۶۷ء جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں ان کو وہ محبت اور اخلاص کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ نباہتی ہیں وہ اس یقین پر قائم کی گئی ہیں کہ اگر ہم نے کوئی بدنمونہ اس دنیا میں چھوڑا تو خدا تعالیٰ جس نے امہات المؤمنین کو بھی یہ کہا تھا کہ اگر نقض عہد کرو گی تو دگنی سزا دوں گا وہ ہمیں کب چھوڑے گا وہ ہماری غلطی کے نتیجہ میں یقیناً ہم پر ایک کے بعد دوسرا قہر نازل کرے گا اور اس قہر کی ہمیں برداشت نہیں ہے اس قہر سے ہم ترساں ولرزاں ہیں اس قہر سے بچنے کے لئے اور اس کی خوشنودی اور رضا کو حاصل کرنے کے لئے ہم اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں ہم اپنے بچوں کی اور اپنی بچیوں کی اس رنگ میں تربیت کریں گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سپاہی بنکر اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کی جو مہم جاری ہے اس مہم کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمارے بھائیوں کو بھی اور ہماری بہنوں کو بھی یہ توفیق عطا کرے کہ ہم سب ان ذمہ داریوں کو پوری توجہ اور بشاشت کے ساتھ نباہنے والے ہوں جو ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے آج ہمارے کندھوں پر ڈالی ہیں.روزنامه الفضل ربوه ۹ را پریل ۱۹۶۷ ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 626

Page 627

خطبات ناصر جلد اول ۶۱۱ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی قوم بنایا ہے جو اپنے اموال خدا تعالیٰ کی راہ میں پانی کی طرح بہاتی ہے فرمائی.خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت إِنَّمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهُوَ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوايُوتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْلُكُمْ أَمْوَالَكُمْ - إِنْ يَسْتَلكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَ يُخْرِجُ أَضْغَانَكُمْ - هَانْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَونَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ وَمَنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهِ ۖ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَ انْتُمُ الْفُقَرَاءِ وَ إِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَ كُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم.(محمد : ۳۷ تا ۳۹) اس کے بعد فرمایا:.کھانسی کو تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت آرام ہے لیکن جو دوائی تجویز کی گئی تھی اور جس کا میں نے استعمال کیا اس کے نتیجہ میں ضعف کافی ہو گیا تھا جو ابھی باقی ہے دوائی تو اب میں نہیں کھا رہا اس کا کورس ختم ہو گیا ہے لیکن اس نے ضعف بہت کر دیا ہے.دعا کریں اور میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ صحت کے ساتھ اور طاقت کے ساتھ اپنے سلسلہ کی اور اپنے بھائیوں کی خدمت

Page 628

خطبات ناصر جلد اوّل کی توفیق عطا کرتا رہے.۶۱۲ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جنہیں آسمان سے نور ملتا ہے اور عرفان عطا کیا جاتا ہے وہ جانتے ہیں کہ إِنَّمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَ لَهُو کہ دنیا اور اس کے اموال اور آرام اور اس کی آسائشیں باطل ہیں.محض کھیل کا سامان ہیں جن کا کوئی اعتبار نہیں اور جن کو کوئی ثبات نہیں.چند دن کی فانی لذات کے سوا کچھ بھی نہیں پھر یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کو اس مقصد حیات سے پرے ہٹا دینے والی ہیں جس کی خاطر اس کے رب نے اسے پیدا کیا تھا.وَاِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا اس کے مقابل اگر تم اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایمان لاؤ اور حقیقت کو سمجھنے لگو اور تم سے جو مطالبے کئے جاتے ہیں تم ان کو پورا کرو اور تقویٰ کی باریک راہوں میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں کو ڈھونڈو تو جو بطور قربانی تم سے لیا جاتا ہے وہ ضائع نہیں ہو گا بلکہ يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ تمہارے اجر اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے (نہ کہ تمہارے کسی استحقاق کے نتیجہ میں ) تمہیں عطا کرے گا اور یہ اجر جو ہے وہ اس شکل میں ہوگا کہ وہ باقی رہے گا اور جو ثواب تمہیں ملے گا وہ بھی باقی اور دائم رہنے والا ہوگا تمہیں باقیات الصالحات دیئے جائیں گے اور تم اللہ تعالیٰ کی حقیقی نعمتوں اور ابدی حیات کے وارث بن جاؤ گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن چیزوں کا تم سے مطالبہ کیا جاتا ہے ان میں تمہارے اوقات بھی ہیں ، ان میں تمہاری عزتیں بھی ہیں، ان میں تمہاری لذتیں اور اور آرام بھی ہیں، ان میں تمہاری وجاہتیں بھی ہیں، ان میں تمہارا وقار بھی ہے اور ان میں تمہارے اموال بھی ہیں اور چونکہ اموال کا مطالبہ کیا جاتا ہے اس لئے شیطان فوراً بیچ میں آکو دتا ہے اور انسان کو بہکانے لگتا ہے لیکن ولا يَسْئَلُكُمْ اَمْوَالَكُم وہ مالک حقیقی جو تمہیں بہترین اجر دینے والا ہے وہ (نعوذ باللہ ) ایک سائل کے طور پر، وہ ایک بھیک منگے اور فقیر کے طور پر تو تمہارے دروازے کے آگے کھڑا نہیں ہوتا انفاق فی سبیل اللہ کے مطالبہ کے وقت تمہارا رب بطور سائل، فقیر اور بھیک منگے کے طور پر تمہارے دروازہ پر نہیں آتا وہ تو ایک غنی اور ایک سخی اور ایک دیا لوہستی کی حیثیت میں تمہارے دروازے پر آتا ہے اور اپنی رحمت کے جوش میں خود چل کر تمہارے پاس آتا ہے وہ اس لئے آتا

Page 629

خطبات ناصر جلد اول ۶۱۳ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں نے ان بندوں کو اپنے قرب اور اپنی رضا کے لئے پیدا کیا تھا اس لئے اب میں ان کو وہ رستے بھی دکھاؤں گا کہ جن پر چل کر وہ میری رضا کو حاصل کر سکیں اور میرے قرب کو پاسکیں اس غرض سے وہ تمہارا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے شیطان کہتا ہے کہ خدا فقیر ہے وہ تمہارے اموال مانگنے آیا ہے لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے میں سخی ہوں، میں فنی ہوں ، میں دیا لوہوں، میں اس لئے آیا ہوں کہ میں تمہیں کچھ دوں میں اس لئے نہیں آیا کہ تم سے تمہارے اموال جس طرح ایک فقیر لیتا ہے اس طرح لے لوں.تو اللہ تعالیٰ جب ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کہتا ہے کہ اپنے مالوں کی قربانیاں میری راہ میں دو تو ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ میں تمہیں واپس لوٹاؤں گا.میں تمہیں اَضْعَافًا مُضْعَفَةً دوں گا.تم دنیا کی فانی چیزیں جو میری ہی عطا ہیں میرے قدموں میں لا رکھو ابدی نعمتیں ان کے بدلہ میں تمہیں دی جائیں گی ، میری رضا تمہیں ملے گی اور میری جنت میں تم داخل ہو گے ، تمہارا ثواب اور تمہارا اجر اپنی کمیت اور کیفیت میں اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو وہ تم سے اموال کی شکل میں لیتا ہے.پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے جو کچھ وہ ہم سے لیتا ہے وہ ہم اپنے گھر سے تو نہیں لاتے بلکہ وہ بھی تو اسی کی عطا ہے.اس نے ہی وہ اپنے فضل سے ہمیں دیا ہوتا ہے اور وہی اپنے فضل سے ہمیں دنیا کے اموال کا مالک اور وارث بناتا ہے اور پھر ہمیں کہتا ہے کہ جو میں نے تمہیں دیا ہے اس میں سے تھوڑا سا مجھے واپس دے دو کیونکہ جو میں نے اس دنیا میں تمہیں دیا تھا وہ فانی ہے اور ضائع ہونے والا ہے اس کے ایک حصہ کا میں مطالبہ کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ مجھے لوٹا دوتا وہ ذریعہ بن جائے ان ابدی اور غیر فانی نعمتوں کا جو تمہیں اُخروی زندگی میں ملنے والی ہیں.إن يَسْتَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا اوہ ایک گدا گر اور بھیک منگے کی حیثیت سے تمہارا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتا، وہ اس فقیر کی طرح مانگنے والا نہیں جس کے متعلق تم حق رکھتے ہو کہ اسے کہو بابا جاؤ ہم تمہارے کشکول میں بھیک نہیں ڈالتے بلکہ وہ تو آقا ہوتے ہوئے بھی ، وہ تو غنی ہوتے ہوئے بھی اپنی رحمت کے جوش میں تمہارے ہی فائدہ کے لئے تمہارے دروازہ پر آتا ہے اور ایک سچا اور سستا سودا تم سے کرنا چاہتا ہے.وہ تو یہ کہ رہا ہے کہ فانی دو اور باقی پاؤ.ورلی زندگی

Page 630

خطبات ناصر جلد اول ۶۱۴ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء کے کھوٹے سکے اور مصنوعی پتھر دے دو اور کھرے سکے اور اصلی لعل و جواہر لے لو وہ تو کہتا ہے بخل چھوڑ و، ہاں بخل چھوڑو کہ وہ تمہارے لئے نقصان دہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُخْرِجُ أَضْغَانَكُمُ اس کے مختلف معانی تفاسیر میں کئے گئے ہیں.ایک معنی تو اس کے یہ ہیں کہ یہاں یہ فرمایا کہ اگر بخل کا طریق تم اس الہی سلسلہ میں اختیار کرو گے تو اس سے تمہارے کچھ اور گند بھی ظاہر ہوں گے کیونکہ تمہارا بخل سے کام لینا بتا رہا ہو گا کہ تمہارے دل میں مخلصین کے لئے کینہ موجود ہے اور تم خدا اور اس کے رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کے ساتھ دشمنی کے جذبات رکھتے ہو تم مال اس لئے نہیں دیتے کہ تمہارے بعض بھائیوں کی ضرورتیں پوری ہوں گی یا اللہ تعالیٰ کے دین کی یہ ضرورت پوری ہوگی کہ تمہارے وہ بھائی جو اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر رہے ہیں وہ جہاد کے میدان میں نکلیں گے اور ان مالوں کو وہ خرچ کریں گے یہ محض بخل ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کینہ، اس کے پیچھے خدا اور اس کے رسول اور مخلصین سلسلہ کے ساتھ مخلصین اُمت مسلمہ کے ساتھ تمہاری دشمنی ہے تو یہ بخل جو ہے یہ ظاہر کرے گا تمہارے اس کینے کو اور تمہاری جو قلبی بیماریاں ہیں ان کے ظاہر کرنے کا یہ ذریعہ بن جائے گا.دوسرے اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ دراصل اللہ تعالیٰ تین زمانہ کے لوگوں کو مخاطب کر رہا ہے ان آیات میں تو یہاں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ جن لوگوں کے دلوں میں تربیت کی کمی کی وجہ سے اور ایمان کی کمزوری کے نتیجہ میں بخل پایا جاتا ہے وہ بخل ان کا دور ہو جائے گا اور اخلاص میں وہ ترقی کریں گے اور ایثار میں وہ اور بھی آگے بڑھ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے بن جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو! جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرنے والے ہو یا اس زمانہ میں رہنے والے ہو یعنی پہلی تین صدیاں جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت سے یہ بیان کیا ہے کہ اس زمانہ میں میرے متبعین میں بڑے مخلص لوگ پیدا ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کی راہیں ان پر کھولی جائیں گی اور اسلام کی روشنی کو وہ دنیا کے کناروں تک پہنچادیں گے تو یہاں ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تربیت کا سامان پیدا کر دیا ہے،

Page 631

خطبات ناصر جلد اول ۶۱۵ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء تمہارے دل کے اندر جو اضغان ہیں اور مختلف قسم کی بیماریاں پائی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ تمہیں صحت عطا کرے گا اور تمہارے دل کی ان بیماریوں کو وہ دور کر دے گا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَونَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ سنو اور ہوشیار رہو تم وہ لوگ ہو جن کو اس بات کی طرف بلایا جاتا ہے کہ تم ان راہوں میں خرچ کرو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جاتی ہیں.تم فی سبیل اللہ خرچ کرو، تم کو اس بات کی طرف بلایا جاتا ہے کہ تم فانی چیزوں کو دے کر ابدی سرور کے وارث بنو تم کو اس لئے بلایا جاتا ہے کہ تم اپنے اموال کا ایک حصہ کاٹ کر اشاعت قرآن کے لئے ، اشاعت اسلام کے لئے ، استحکام اسلام کے لئے اور تعلیم اسلام کو فروغ دینے کے لئے الہی سلسلہ کے خزانہ میں آکر جمع کر دو مگر فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ تم میں وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں لیکن جب دنیا کے کھیل کو د کا معاملہ ہو اور ایسے اخراجات ہوں جن کے نتیجہ میں انسان لازماً خدا تعالیٰ سے غافل ہو جاتا ہے تو اس وقت بخل کا نام ونشان باقی نہیں رہتا بڑی دلیری سے خرچ کرتے ہیں.دنیا کی رسوم ہیں، رواج ہیں ، بیاہ شادی کے اوپر وہ لغویات کی جاتی ہیں اور ان لغویات پر وہ خرچ کیا جاتا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ ان آدمیوں کی عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اپنی بساط اور استطاعت سے آگے نکلتے ہوئے یہ خرچ کر رہے ہیں.اپنے لئے بھی دنیا میں ایک مصیبت پیدا کر رہے ہیں لیکن جب یہ کہا جاتا ہے کہ آؤ غلبہ اسلام کے لئے مالی قربانیاں دیں تو کہتے ہیں کہ بڑی مجبوری ہے، بڑی ذمہ داریاں ہیں، بچوں کو پڑھا رہے ہیں، رشتہ داروں کو پال رہے ہیں اس میں ہمیں رعایت ملنی چاہیے لیکن بچوں کی پڑھائی اور رشتہ داروں کا خیال بد رسوم کی ادائیگی کے وقت ان کے دماغوں میں نہیں آتا تو جب دنیا کے لئے وہ خرچ کرتے ہیں ، دنیا کے کھیل کود اور دنیا کے کھو کے لئے تو بے دریغ خرچ کر جاتے ہیں اور اموال کو ضائع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَمَنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ تم آزاد ہو تم پر کوئی جبر مذہب نے عائد نہیں کیا اس لئے جو چاہو کر ولیکن یہ یاد رکھو کہ مَنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْیسہ کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص بھی انفاق فی سبیل اللہ میں بخل سے کام لیتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے کیونکہ انفاق کا فائدہ اسے ہی

Page 632

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۱۶ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء ملنا تھا.اس کا ثواب اگر زید خرچ کرنے والا ہے تو بکر کونہیں ملتا اگر زید بنخل کرتا ہے تو اس کے نتیجہ میں جو محرومیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں وہ محرومیاں بکر کو حاصل نہیں ہوتیں تو اس بخل کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ثواب سے محروم کرتا ہے.اپنے نفس کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے کسی اور کو نہ فائدہ تھا انفاق سے، نہ ہی اس بخل کے نتیجہ میں کسی کو نقصان پہنچے گا خود اپنے نفس کو ہی ایسا شخص نقصان پہنچانے والا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ غنی ہے اور تم فقراء ہو خدا تعالیٰ کو تو کسی مال کی ضرورت نہیں وہ ہمیشہ سے غنی ہے وہ اس دن سے غنی ہے جب اس نے تم کو سورج کی روشنی سے فائدہ پہنچانے کے لئے اس کو پیدا کیا سورج کی پیدائش سے اس کو کوئی ذاتی نفع نہیں تھا یا اگر وہ اسے پیدا نہ کرتا تو اسے کوئی ذاتی نقصان نہیں تھا.وہ ہمیشہ سے غنی ہے لیکن ہمیشہ سے وہ سنی بھی ہے وہ بڑا دیا لوبھی ہے وہ بڑا رحم کرنے والا بھی ہے وہ بڑا خیال رکھنے والا بھی ہے.وہ بڑا پیار کرنے والا بھی ہے جو مخلوق لاکھ سال کے بعد یا دس لاکھ سال کے بعد یا کروڑ سال کے بعد پیدا ہونی تھی اس کا اس نے کروڑ سال پہلے یا دس لاکھ سال پہلے یا لا کھ سال پہلے سے خیال رکھا با وجود غنی ہونے کے تو جہاں اس کی صفت غناء ازلی ہے وہاں اس کی رحمت بھی ہر وقت جوش میں رہتی ہے تو تمہیں کس نے کہا کہ وہ فقیر بن کر تمہارے دروازہ پر آیا اور اس نے تمہارا دروازہ کھٹکھٹایا فقیر تو تم ہو تم اپنی پیدائش سے پہلے بھی فقیر تھے کہ اگر تمہاری ضرورت کو اس وقت پورا نہ کیا جاتا اور آج سورج کی روشنی تمہارے او پر نہ چمکتی تو تم بہت ساری چیزوں سے محروم رہ جاتے مثلاً آنکھ کی بینائی سے تم محروم رہ جاتے تم اپنی پیدائش سے بھی پہلے فقیر تھے اور تمہارا رب تو ہمیشہ سے ازل سے غنی ہے اور ابد تک غنی رہے گا لیکن کسی زمانہ کوبھی کیوں نہ لو تمہارا فقر، تمہاری احتیاج اپنے رب کی طرف تمہیں لاحق رہتی ہے تو جب تمہاراغنی ، جب تمہارا سخنی ، جب تمہارا دیا لو، جب تمہارا بخشن ہار رب تمہارے دروازہ پر آ کر تمہارے اموال کا مطالبہ کرتا ہے تو اس میں تمہارا ہی فائدہ اسے مد نظر ہوتا ہے اس کا اپنا کوئی فائدہ اس کے اندر نہیں ہوتا اور اگر تم اس آواز پر لبیک نہ کہو اور قربانیوں کو دینے کے لئے اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے تیار نہ

Page 633

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۱۷ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء ہو تو اس میں تمہارا اپنا نقصان ہے اور کسی کا نقصان نہیں ہے اور وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غير كُم یا درکھو اگر تم ایمان اور تقویٰ کو اختیار کرنے سے اعراض کرو اور انفاق فی سبیل اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اسلام کی حمایت تو ضرور کرے گا اور اسلام کی حمایت میں اس دنیا میں جو اسباب کی دنیا ہے بہر حال غلبہ اسلام کے سامان وہ پیدا کرے گا اگر تم بخل سے کام لو گے تو وہ ایسی قوم پیدا کر دے گا جن کے دلوں میں بخل نہیں ہوگا خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لئے وہ اپنے مالوں کی قربانیاں کچھ اس طرح دیں گے کہ دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیں گے.اسلام کی حفاظت کا تو اس نے وعدہ کیا ہے وہ حفاظت تو اسلام کو ملتی رہے گی تم نے اس مہم میں حصہ لے کر خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنا ہے یا نہیں کرنا یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے.اگر اللہ کی آواز پر لبیک کہو گے تو اس کی رضا تمہیں مل جائے گی اور وہ نعمتیں تمہیں میسر آئیں گی کہ آج اس دنیا میں تمہارے تخیل میں بھی وہ نہیں آسکتیں.تمہارا ذ ہن بھی ان اشیاء تک نہیں پہنچ سکتا جن سے تمہاری جھولیاں اُخروی زندگی میں بھر دی جائیں گی تمہیں روحانی سیری نصیب ہو گی تمہارے دل میں جو خواہش پیدا ہوگی وہ نیک ہوگی اور وہ پوری کر دی جائے گی.تمہیں اپنے رب سے کبھی غلط قسم کا گلہ بھی پیدا نہیں ہو گا لیکن اگر تم اعراض کر جاؤ پیٹھ پھیر جاؤ تو ایک اور قوم اللہ تعالیٰ پیدا کر دے گا.ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمُ پھر وہ تمہارے جیسے نہیں ہوں گے.وَإِن تَتَوَلَّوا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم اس حصہ آیت میں ایک پیشگوئی ہوئی ہے جو بڑی شان سے پوری ہوئی اور جیسا کہ میں نے بتایا اس آیت میں تین زمانے مخاطب ہیں پہلی تین صدیاں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عام طور پر اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی جو دین کے معاملہ میں بخیل نہیں ہوں گے دوسرے بیچ کا زمانہ وہ ہنر ارسال کہ جن میں بخل کرنے والے بھی ہوں گے سخاوت کرنے والے بھی ہوں گے، خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے بھی ہوں گے اور خدا سے دور رہنے والے بھی موجود ہوں گے مگر اکثریت جو ہے وہ اس اعلیٰ مقام کو کھو چکی ہوگی اور ایک تنزل کے دور میں سے اسلام گزررہا ہوگا تیسرے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 634

خطبات ناصر جلد اول ۶۱۸ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء کے زمانہ کی پیشگوئی ہے وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمُ اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہزار سالہ دور تنزل کے آخر پر جب مسلمانوں کی اکثریت خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے اعراض کرنے والی ہو گی تتولوا ان پر صادق آ رہا ہوگا ایک اور قوم اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا جو ان جیسی نہیں ہوگی یعنی یہ تو انفاق سے گریز کرنے والے ہوں گے اور وہ (جماعت احمدیہ ) انفاق کرنے کے بعد بھی یہ سمجھنے والے ہوں گے کہ ہم نے تو اپنے رب کے حضور کچھ بھی پیش نہیں کیا بالکل تضاد ہو گا دو قوموں کے کیریکٹر میں اور ان کی ذہنیت میں.تفسیر روح البیان میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو بعض صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہاں وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلُ قَوْمًا غَيْرَكُمْ میں جس قوم کا ذکر ہے یہ کون سی قوم ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں اس وقت سلمان فارسی” کھڑے تھے آپ نے فرما یا یہ اور اس کی قوم اور پھر آگے وہ حدیث آتی ہے کہ اگر ثریا پر بھی ایمان چڑھ گیا ہو گا تو فارسی الاصل مسیح موعود وہاں سے بھی ایمان کو لا کر قرآن کریم کے معانی اور اس کے معارف کو زمین پر قائم کرے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت کے مطابق بڑی وضاحت سے بتا دیا کہ جس قوم کا اس آیت میں ذکر ہے وَإِن تَتَوَلَّوا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وہ جماعت احمدیہ ہے.پس اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی کہ اسلام پر انتہائی تنزل کا زمانہ آئے گا اور مسلمان کہلانے والے دین کی راہ میں خرچ کرنے سے اعراض کرنے لگ جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت اور اس وقت سے اب تک جو زمانہ گذرا ہے اس میں آپ تمام مسلمانوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں خواہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے رہنے والے ہوں خواہ وہ دوسرے ملکوں کے رہنے والے ہوں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اُمت مسلمہ کی انفاق فی سبیل اللہ کے لحاظ سے بالکل وہی حالت تھی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ وہ انفاق فی سبیل اللہ سے اعراض کرنے والے ہوں گے اِلَّا مَا شَاءَ اللہ اس میں شک نہیں کہ بعض بڑے نیک آدمی بھی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل لیکن بڑی بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو شاید انفاق فی سبیل اللہ کے نام سے بھی آشنا نہ تھے دین کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرنے میں

Page 635

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۱۹ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء انہیں موت نظر آتی تھی دوسرے یہ پیشگوئی فرمائی کہ حضرت مسیح موعود کو مبعوث فرما کر وہ ایک اور قوم پیدا کرے گا جو اس کی راہ میں اپنے اموال پانی کی طرح بہا دیں گے.شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو انفاق فی سبیل اللہ کی عادت ڈالنی پڑی تو آنہ آنہ دود و آنہ لے کر یہ عادت ڈالی پھر بعد میں وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا لیکن وہ ان لوگوں میں سے اس جماعت میں داخل ہو رہے تھے جن کے لئے خدا کی راہ میں ایک آنہ خرچ کرنا بھی دوبھر تھا پھر جب انہوں نے ایک آنہ پھر دوآنہ پھر چار آنہ پھر آٹھ آنہ پھر روپیہ پھر دس روپیہ دیا اور آخر وہ انفاق فی سبیل اللہ کے جذبہ سے مست رہنے لگے اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ قوم بنادی يَسْتَبدِلُ قَوْمًا غَيْرَ كُمْ کہ جو انفاق فی سبیل اللہ بشاشت سے کرتے چلے جاتے ہیں.جس قوم نے اپنی یہ روایت بنائی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کی راہ میں ان کا ہر سال پہلے سے آگے ہوگا اور ان کا ہر قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا کبھی ایک جگہ کھڑا نہیں رہے گا پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ وہ قوم ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کہتا ہے.ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے جن کا تتولوا میں ذکر ہے بلکہ یہ ایک کنٹراسٹ (Contrast) ہو گا ایک نمایاں چیز ان کے اندر ایسی پائی جائے گی جو ان کو تم سے علیحدہ کر دے گی.ایک غریب چھوٹی سی جماعت ہے ہماری جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے اور غیر بھی جانتے ہیں پھر یہ توفیق ایک غریب جماعت کو کہاں سے ملی اور کس نے دی کہ وہ اسلام کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کریں اور پھر وہ کونسی ہستی ہے جس نے ان کے اموال میں اتنی برکت ڈالی کہ اگر آج ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کرنے والی کوئی جماعت ہے تو یہی غریب اور چھوٹی سی جماعت ہے.اللہ تعالیٰ اتنی برکت ڈالتا ہے اس جماعت کی مالی قربانیوں میں کہ ہماری عقلیں بھی اسے سمجھنے سے قاصر ہیں لیکن وہ ہمارے اموال میں برکت پر برکت ڈالتا چلا جاتا ہے آپ ایک دھیلہ دیتے ہیں اور ایک پہاڑ اس کا نتیجہ نکل آتا ہے جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر بھی بتایا تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب تحریک جدید کا اجراء کیا تو پہلے سال قریباً ستائیس ہزار روپیہ

Page 636

خطبات ناصر جلد اول ۶۲۰ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء کا مطالبہ کیا تھا اور دس سال کے بعد جو اثر اور نتیجہ پیدا ہوا اس کا دنیا میں وہ یہ تھا کہ دس سالہ اس حقیر کوشش کے نتیجہ میں وہ زمانہ آیا کہ ۴۵ ء سے ۶۶ ء تک قریباً ۲۱ سال میں قریباً تین کروڑ روپیہ غیر ملکوں کی آمد تحریک جدید کو ہوئی یعنی یہ ” قوم" غیر ملکوں میں بھی پیدا ہونی شروع ہوگئی ( يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَير كُم ) تو صرف مرکز میں ہی ایسی قوم پیدا نہیں ہوئی بلکہ ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا ایک نمونہ بنی نوع انسان کو دکھایا کہ دیکھو تم نے بخل سے کام لیا تمہیں کیا ملا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال کو قربان کیا دیکھو یہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے کیا وہ ایک بدلی ہوئی قوم نہیں ہے کیا یہ وہ قوم نہیں ہے جن کے اعمال کو دیکھ کر ، جن کے اعمال کے نتائج کو دیکھ کر انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ قوم ہے اس کی پیدا کردہ جماعت ہے یہ وہ جماعت ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا يَسْتَبْدِلُ قَوْمًا غَيْرَكُمْ کہ وہ تم میں سے ہوں گے وہ تم میں ہوں گے لیکن وہ اپنے ایثار میں تم سے علیحدہ ہوں گے وہ اسلام کی ہی ایک جماعت ہوگی لیکن جہاں تک ان کی قربانیوں کا تعلق ہو گا جہاں تک ان قربانیوں کے پھل اور ثمرہ کا تعلق ہو گا جو آسمانی حکم کے نتیجہ میں پیدا ہو گا تم میں اور ان میں کوئی مماثلت نہیں ہوگی تو اس قوم کو جس نے اپنے لئے یہ روایت قائم کر لی ہے کہ ان کا قدم ہر میدانِ قربانی میں (انفاق فی سبیل اللہ کے میدان میں بھی ) آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اس قوم کے عزیزوں اور بھائیوں کو میں بطور یاد دہانی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سال رواں صدر انجمن احمدیہ کے چندوں کا قریباً ختم ہو رہا ہے اور اس سال میں سے ویسے تو ایک مہینہ اور تیرہ یا چودہ دن باقی رہ گئے ہیں لیکن چونکہ چندے لوگ ماہ بماہ دیتے ہیں ہر ماہ کی آمد وصول ہونے پر انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہیں اس لئے سال گذرنے میں دو ماہ باقی رہ گئے ہیں لیکن جہاں تک وصولی کا سوال ہے وہ اس نسبت سے کم ہے یعنی سارے سال کا بجٹ اگر بارہ مہینوں پر پھیلایا جائے تو دو مہینہ کی جو رقم باقی رہ جانی چاہیے تھی اس سے زیادہ رقم باقی رہ گئی ہے یہ تو مجھے پتہ ہے کہ خدا کے فضل سے محض خدا کے فضل سے ( اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں نہیں ) آپ اپنی ذمہ داریوں کو ضرور نبھائیں گے اور آپ کا قدم سال گذشتہ سے پیچھے نہیں رہے گا لیکن میں نے یہ سوچا کہ میں اپنے بھائیوں کو اس طرف متوجہ کر کے اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھوں کہ

Page 637

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۲۱ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء وہ مجھے اس یاد دہانی کا ثواب عطا کرے گا.جو گوشوارہ میرے سامنے پیش کیا گیا ہے اس کی رو سے جو تدریجی بجٹ اور جو تدریجی آمد ہے اس میں دولاکھ اسی ہزار روپیہ کا فرق ہے اور جو گل بجٹ ہے اس میں غالباً پانچ چھ لاکھ کی کمی ہے لیکن اگلے دو مہینہ میں معمول کے مطابق آمد آنی ہے لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ مثلاً دوسرے تیسرے مہینہ میں انہیں کوئی ضرورت پیش آئی تو وہ کہتے ہیں اب ہم اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں اور سال کے اندر اندر ہم بہر حال خدا کی ضرورت کے پورا کرنے کے لئے جو وعدے ہم نے دیئے ہیں وہ پورا کر دیں گے تو آخری مہینہ میں آمد جو ہے وہ ہر مہینہ کی نسبت سے کہیں بڑھ جاتی ہے اول تو میری طبیعت پر یہ چیز بھی گراں گذرتی ہے کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شروع سال میں ہمیں خواہ وہ اپنی ہی بعض دوسری ریز رو مدوں میں سے رقم لینا پڑے مانگ کر گزارہ کرنا پڑتا ہے.ہمارے لئے تو کوئی تکلیف نہیں لیکن غیرت مجھے ضرور آتی ہے کہ وہ قوم جن کا اللہ تعالیٰ نے اس شان کے ساتھ اپنے کلام مجید میں ذکر کیا ہے وہ اگر اپنے چندے شرح کے ساتھ ماہ بماہ دینا شروع کر دیں تو کسی ماہ بھی کسی مد سے ہمیں مانگنا نہ پڑے إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ بہر حال اب تھوڑا وقت رہ گیا ہے اور ذمہ داری بڑی ہے خصوصاً اس قوم کے لئے کہ جو یہ دیکھ رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں میں کس قدر برکت ڈالتا ہے اور کیسے اعلیٰ اور شاندار اور نتائج اس کے نکالتا ہے اور جہاں تک ذاتی طور پر ہمارا تعلق ہے اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کسی کا قرض اپنے سر پر نہیں رکھتا.بہت سے خاندانوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اٹھنی یا بارہ آنے یا روپیہ ماہوار چندہ دیا اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کو اس دنیا میں بھی اس سے کہیں بڑھ کر واپس کیا ان میں سے ایسے خاندان بھی ہیں جن کی ماہوار آمد بیس پچیس یا تیس ہزار روپیہ ماہوار ہے.پس اللہ تعالیٰ کسی کا قرض اپنے ذمہ نہیں رکھتا اصل نعمت تو وہ ہے جو مرنے کے بعد ہمیں ملنی ہے لیکن اس دنیا میں بھی وہ اپنے فدائی اپنے جاں نثار اپنی راہ میں خرچ کرنے والے جو اُسے غنی اور خود کو فقیر سمجھتے ہیں اور ہر دم اپنے دل میں اس کی احتیاج پاتے ہیں ان کو مایوس نہیں کرتا بلکہ اتنادیتا ہے کہ لینے والا حیران ہو جاتا ہے.

Page 638

خطبات ناصر جلد اول ۶۲۲ خطبہ جمعہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا کرتار ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو اس رنگ میں نبھاتے رہیں جس کے نتیجہ میں وہ ہم سے خوش ہو جائے اور اس کی رضا کو ہم حاصل کر لیں.اللهم آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۶ / مارچ ۱۹۶۷ء صفحه ۲ تا ۶ )

Page 639

خطبات ناصر جلد اول ۶۲۳ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۶۷ء جماعت احمدیہ کا قیام غلبہ اسلام اور اشاعتِ اسلام کی تکمیل کے لئے کیا گیا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۴ مارچ ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میرا ارادہ تو اس مضمون کے تسلسل میں خطبہ دینے کا تھا جسے میں نے دو خطبوں کی تمہید کے بعد عیدالاضحیہ کے خطبہ کے موقعہ پر شروع کیا تھا لیکن چونکہ موسم کی وجہ سے اہل ربوہ جمعہ میں شامل نہیں ہو سکے اور اس کی انہیں اللہ تعالیٰ نے اسلامی شریعت میں اجازت بھی دی ہے اسی لئے یہاں آنے کے بعد میں نے اپنا یہ ارادہ اس خیال سے ترک کر دیا ہے کہ میرے پہلے مخاطب جماعت میں چونکہ اہالیانِ ربوہ ہیں ان میں سے اگر اکثر شامل نہ ہوں جمعہ کے موقعہ پر تو بہتر یہی ہے کہ اس مضمون کو میں آئندہ جمعہ پر ملتوی کر دوں اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھتے ہوئے کہ وہ مجھے بھی توفیق عطا کرے گا اپنے اس مضمون کی تکمیل کے لئے اور اہالیان ربوہ کو بھی زیادہ سے زیادہ ان باتوں کے سننے کی توفیق عطا کرے گا کیونکہ یہ مضمون جماعت کی تربیت کے لئے میرے نزدیک نہایت ہی اہم ہے.اس وقت میں اپنے بھائیوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے متعدد بار یہ فرمایا ہے کہ ہم نے جتنے ظاہری سامان ہمیں ملے ہیں ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنی انتہائی کوشش حقیقی اور صحیح اسلام کو قائم کرنے اور پھیلانے کے لئے صرف کر دی ہے لیکن یہ دنیا

Page 640

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۲۴ خطبه جمعه ۲۴ / مارچ ۱۹۶۷ء اس طرف متوجہ نہیں ہو رہی اس لئے اب ایک ہی حربہ باقی رہ گیا ہے اور وہی کارگر ہے اور انشاء اللہ کارگر ہوگا اور وہ دعا کا حربہ ہے.جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس قدر ز بر دست دلائل اسلام کے حق میں اور ان کے غلط عقائد کے بطلان میں عطا کئے ہیں کہ جو بھی ان میں سے خلوص نیت کے ساتھ اور اس عہد کے ساتھ کہ اگر سچائی اسے مل گئی تو وہ اسے قبول کر لے گا ان دلائل پر غور کرے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ اسلام کی حقانیت کا قائل نہ ہو جائے اور حلقہ بگوش اسلام ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھنے لگے.جہاں تک ہمارے مسلمان بھائیوں کا تعلق ہے انہیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے کہ تم امن کی فضا میں ہر قسم کے تعصبات کو چھوڑتے ہوئے محض خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے میری باتوں کو اور ان دلائل کو سنو جو آسمان سے میرے لئے تیار کئے گئے اور مہیا کئے گئے ہیں تا اللہ تعالیٰ تم پر یہ حق کھول دے کہ جماعت احمدیہ کا قیام غلبہ اسلام کے لئے اور اشاعت اسلام کی تکمیل کے لئے کیا گیا ہے.جب تک سارے مسلمان اکٹھے ہو کر ان راہوں کو اختیار نہ کریں جو راہیں کہ اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لئے مقرر کی ہیں اس وقت تک ہمیں اس میں صحیح معنی میں کامیابی نہیں ہو سکتی لیکن انہوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں دی اور آخر ایک ہی دروازہ رہ گیا جسے کھٹکھٹانا ہمارے لئے ضروری ہو گیا اور وہ دعا کا دروازہ ہے ج حربے ناکام ہو جاتے ہیں ، جب سب تدابیر جو ہیں وہ بے نتیجہ ثابت ہو جاتی ہیں اور کچھ نظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور انکسار کے ساتھ جھکیں اور اس کی ذاتی محبت میں سرشار ہو کر اس کے لئے ایثار کے وہ نمونے بنی نوع انسان کے سامنے پیش کریں کہ جن کی مثال سوائے صحابہ کرام کی زندگیوں کے اور کہیں ہمیں نہ ملتی ہو.اس وقت ان بہت سے ملکوں میں بھی جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کو ترقی اور فروغ اور کامیابی حاصل ہو رہی تھی سیاسی بے چینی اور بدامنی پیدا ہورہی ہے مثلاً انڈونیشیا (جاوا سماٹر اوغیرہ) ہے وہاں کے سیاسی حالات بھی ابھی سٹیبل (Stable) نہیں ہوئے ، اطمینان نہیں لوگوں کو ،

Page 641

خطبات ناصر جلد اول ۶۲۵ خطبه جمعه ۲۴ مارچ ۱۹۶۷ء نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کیا حالات پیدا ہوں گے، کب انہیں امن اور سکون کی زندگی ملے گی.کب وہ اپنی زندگیوں کو معمول کے مطابق گزار نے لگیں گے.مغربی افریقہ میں نائیجیریا میں بھی بدامنی کے سے حالات ہیں.غانا میں بھی پوری طرح ابھی سٹیبلٹی (Stability) قائم نہیں ہوئی.اطمینان نہیں گو حالات بہت حد تک بہتر ہیں نائیجیریا کے مقابل میں اور ابھی پچھلے دو چار روز میں سیرالیون میں بھی سیاسی فساد اور فتنہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ وہاں اسی ماہ کی سترہ تاریخ کو انتخابات ہوئے تھے لیکن جیسا کہ آج کی خبروں سے پتہ چلتا ہے قبل اس کے کہ انتخابات کا نتیجہ نکلتا وہاں کے گورنر جنرل نے حزب مخالف کو دعوت دی کہ وہ حکومت بنا ئیں یعنی ابھی سارے نتائج بھی نہیں نکلے تھے کسی وجہ سے، جس کا ہمیں علم نہیں ہو سکا ، حزب مخالف کو دعوت دی گئی اس پر وہاں کی حکومت نے بغاوت کر دی اور حزب اختلاف کا جو قائد تھا اور جس نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا تھا اور حلف لی تھی اس حلف کے معاً بعد ہی فوج نے اسے حراست میں لے لیا اور اعلان کیا کہ قبل اس کے کہ نتائج نکلیں گورنر جنرل کو یہ حق کہاں سے پہنچتا ہے کہ وہ حزب اختلاف کو حکومت بنانے کی دعوت دے.بہر حال بڑا پر امن ملک تھا اس وقت تک لیکن اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہاں کیا حالات پیدا ہوں اور خصوصاً یہ ملک اور اسی طرح مشرقی افریقہ میں ( پہلے جو ایک ملک تھا اب تین ملک ہو گئے ہیں یعنی ) کینیا ، یوگنڈا اور ٹانگانیکا ( اور اب تنزانیہ کہلاتا ہے کیونکہ زنجبار کے ساتھ ان کی فیڈریشن قائم ہو گئی ہے اور نام انہوں نے ٹانگانیکا سے بدل کر اپنا تنزانیہ رکھ لیا ہے تو ان ملکوں) کے سیاسی حالات بھی اطمینان پیدا کرنے والے نہیں بلکہ تشویش پیدا کرنے والے ہیں اور یہ وہ ممالک ہیں جہاں (افریقہ کے اور ممالک میں بھی اس میں شک نہیں جماعتیں قائم ہیں ) جماعت احمدیہ کو نسبتاً بہت زیادہ اقتدار اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہو چکا ہے دوستوں کو یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس بے اطمینانی میں سے اطمینان کی کوئی ایسی صورت پیدا کر دے کہ وہ اسلام کے لئے مفید ہو اور جس کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ پہلے سے بھی زیادہ مستحکم ہو جائے کہ سب طاقتیں اور قدرتیں اسی کے ہاتھ میں ہیں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 642

Page 643

خطبات ناصر جلد اول ۶۲۷ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ بیت اللہ کی از سر نو تعمیر کے تئیس عظیم الشان مقاصد فرمائی.من خطبه جمعه فرموده ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَةَ مُبْرَكًا وَهُدًى لِلْعَلَمِينَ - فِيْهِ أَيْتَ بَيْنَتُ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ أَمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ.(ال عمران: ۹۸،۹۷) ط وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى ، وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْراهِم وَ اِسْعِيلَ أَن طَهَّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ - وَ إِذْ قَالَ إبراهمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا أمِنَّا وَارْزُقُ اَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَ مَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ اَضْطَرُةٌ إلى عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ - وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَيْنَا ۚ إِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ

Page 644

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۲۸ خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۶۷ء وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - (البقرة : ۱۲۶ تا ۱۳۰ ) اس کے بعد فرمایا:.میں نے اپنے اس مضمون کو عید الاضحیہ کے روز شروع کیا تھا اور بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ بیت اللہ کی از سر نو تعمیر کی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ عہد لیا کہ وہ اور ان کی نسل ایک لمبے عرصہ تک خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگیوں کو وقف کر کے ان ذمہ داریوں کو نباہیں گے جو بیت اللہ کی تعمیر سے تعلق رکھتی ہیں اور تد بیر اور دعا سے یہ کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو تو فیق عطا کرے کہ جب خدا تعالیٰ کا آخری شارع نبی دنیا کی طرف مبعوث ہو تو وہ اسے قبول کریں اور اسلام کے قبول کرنے کے بعد جو انتہائی قربانی اس قوم کو خدا تعالیٰ کے نام کے بلند کرنے کے لئے دینی پڑے وہ قربانی خدا تعالیٰ کی راہ میں دیں.میں نے بتایا تھا کہ بیت اللہ کے ساتھ بہت سی اغراض اور بہت سے مقاصد وابستہ ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہمیں نظر آتا ہے.اور جن کا تعلق حقیقتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہے.یہ آیات جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں جب ان کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں مندرجہ ذیل مقاصد نظر آتے ہیں جن مقاصد کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی از سر نو تعمیر کروائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل سے قریباً اڑھائی ہزار سال تک وہ قربانیاں لیتا چلا گیا.پہلی غرض وضع للناس بیان ہوئی ہے.دوسری مبر کا تیسرے هُدًى لِلْعَلَمین میں ایک مقصد بیان ہوا ہے.چوتھے ایت بيّنت پانچویں مَقَامِ ابراهم چھٹے مَنْ دَخَلَهُ كَانَ أَمِنَّا ساتویں وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ.آٹھویں جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ نویں وَ آمَنَّا دسویں وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْراهِمَ مُصَلَّى گیارہواں مقصد طهرا بَيْتِی میں بیان کیا گیا ہے.بارہواں مقصد للطايفين تیر ہواں عکفین کے لفظ میں بیان ہوا ہے.چودہواں مقصد والركع السُّجُودِ کے اندر بیان کیا گیا ہے.پندرہواں مقصد رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا میں بیان کیا گیا ہے.سولہواں مقصد وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ میں بیان کیا گیا ہے.سترھواں مقصد رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنا میں بیان کیا گیا ہے.اٹھارواں مقصد السمیع کے اندر بیان ہوا ہے.انیسواں مقصد العلیم کے اندر بیان ہوا

Page 645

خطبات ناصر جلد اول ۶۲۹ خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۶۷ء ہے.بیسواں مقصد وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ میں بیان ہوا ہے.اکیسواں مقصد و ارنا مناسكنا میں بیان ہوا ہے بائیسواں مقصد و تب عَلَيْنا میں بیان ہوا ہے اور تئیسواں مقصد ربنا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ میں بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاس وہ پہلا گھر جو للناس وضع کیا گیا ہے بنایا گیا ہے مکہ میں ہے.مختلف روایات اور قرآن کریم کی آیات میں جو مفہوم مختلف جگہوں میں بیان ہوا ہے.اس سے میرے ذہن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جب ہمارے آدم کی پیدائش اور بعثت ہوئی ( میں نے ہمارے آدم کے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ لاکھ کے قریب آدم اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں جو آدم پہلے گذرے تھے.ان کی اولاد میں سے بعض کو اولیائے اُمت نے اپنے کشف میں دیکھا بھی ہے.جس کا انہوں نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے ) اس وقت دنیا ایک مختصر سے خطہ میں آباد تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے سب انسانوں کے لئے اپنی حکمت کا ملہ سے آدم پر یہ وحی فرما کر بیت اللہ کی تعمیر کروائی ایک گھر بنوایا اور اس گھر کو تمام بنی نوع انسان کے ساتھ متعلق کر دیا جو اس آدم کی اولاد میں سے تھے.لیکن بعد میں جب یہ نسل بڑھی اور پھیلی اور دنیا کے مختلف خطوں کو انہوں نے آباد کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحانی اور ذہنی نشو نما کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قوم اور ہر خطہ میں علیحدہ علیحدہ نبی بھیجنے شروع کئے تا ان کو ان راہوں پر چلانے کی کوشش کریں جن راہوں پر چل کر خدا تعالیٰ کا ایک بندہ اپنی استعداد کے مطابق عبودیت کی ذمہ داریوں کو نباہ سکتا ہے اور احادیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اس دنیا میں ایک لاکھ سے اوپر انبیاء گذرے ہیں تو جس آدم کی اولا داس طرح منتشر اور متفرق ہو گئی تھی علیحدہ علیحدہ قوم بن گئی تھی جن کے اپنے اپنے نبی تھے انہوں نے اس گھر کی طرف توجہ دینی چھوڑ دی جو خدا کا گھر اور تمام بنی نوع انسان کے لئے کھڑا کیا گیا تھا اور اس سے اس قدر بے توجہی برتی کہ حوادث زمانہ کے نتیجہ میں اور مرمت اور آبادی نہ ہونے کی وجہ سے اس گھر ( بیت اللہ ) کے نشان تک مٹ گئے لیکن جب اللہ تعالیٰ کا یہ منشا پورا ہونے کا وقت آیا کہ پھر تمام دنیا علی دِینِ وَاحِدٍ جمع کر دی جائے.تو اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو از سر نو تعمیر کرنے اور اس

Page 646

خطبات ناصر جلد اول ۶۳۰ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء گھر کی حفاظت کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل کو وقف کر دینے کا فیصلہ کیا تا ایک قوم اس بیت اللہ سے تعلق رکھنے والی ایسی پیدا ہو جائے جن کے اندروہ تمام استعداد میں پائی جاتی ہوں جو اس قوم میں پائی جانی چاہئیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی پہلی مخاطب ہو.چنانچہ اڑھائی ہزار سال تک دعاؤں کے ذریعہ سے اور وقف کے ذریعہ سے ایک ایسی قوم تیار ہوئی جو اگر خدا تعالیٰ کی بن جائے تو اس کے اندر تمام وہ استعداد یں پائی جاتی تھیں جو روحانی میدانوں میں بنی نوع انسان کی راہ نمائی اور قیادت کر سکے اور چونکہ یہ استعداد میں اور قو تیں اپنے کمال کو پہنچ چکی تھیں ان کے غلط استعمال سے فتنہ عظیمہ بھی پیدا ہوسکتا تھا.اس لئے جب تک وہ گمراہ رہے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدت سے مخالفت کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی ایذا پہنچائی کہ پہلی کسی امت نے اپنے نبی کو اس قسم کی ایذ انہیں پہنچائی غرض ان کے اندر استعدادیں بڑی تھیں ایک وقت تک وہ چھپی رہیں.ایک وقت تک شیطان کا ان پر قبضہ رہا لیکن جب وہ سوئی ہوئی استعدادیں بیدار ہوئیں اور انہوں نے اپنے رب کو پہچانا تو دنیا نے وہ نظارہ دیکھا کہ اس سے قبل کبھی بھی انسان نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اس قسم کی قربانیوں کا نظارہ نہیں دیکھا تھا.غرض یہ وہ قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں اور ان کی دعاؤں اور ان کی نسل کی قربانیوں اور ان کی دعا کے نتیجہ میں پیدا ہوئی.غرض وضع للناس کا مفہوم حقیقی معنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.جیسا کہ تمام اغراض و مقاصد جو بیت اللہ سے متعلق ہیں وہ حقیقی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ میں اس گھر کی جو میرا گھر ہے از سر نو تعمیر ان اغراض کے پیش نظر کروا رہا ہوں اور اس کے لئے تمہیں قربانیاں دینی پڑیں گی.غرض پہلا مقصد جس کا تعلق بیت اللہ سے ہے یہ ہے کہ یہ بیت اللہ وہ سب سے پہلا خدا کا گھر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے دینی اور دنیوی فوائد رکھے ہوئے ہیں.وضع للناس یعنی تمام لوگوں کی بھلائی کے لئے اس کی تعمیر کی گئی ہے.یہاں سے دنیا کی اقوام بلا امتیاز رنگ،

Page 647

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۳۱ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء ددو ددوا ددوا ،، بلا امتیاز نسل اور قطع نظر ان امتیازات کے جو ایک کو دوسرے سے علیحدہ کر دیتے ہیں تمام اقوام عالم اس گھر سے دنیوی فوائد بھی حاصل کریں گی اور دینی فوائد بھی حاصل کریں گی.یہ پہلی غرض ہے اس گھر کی از سرنو تعمیر سے.دوسری غرض بیت اللہ کی تعمیر سے یہ ہے کہ ہم ایک اپنے گھر کو ( بیت اللہ کو ) ”مبر گا “ بنانا چاہتے ہیں اور ”مبر گا “ اس مقام کو کہتے ہیں جو نشیب میں ہو اور اگر بارش ہو تو چاروں طرف کا پانی وہاں آ کر جمع ہو جائے.چونکہ یہاں بارش کے موضوع پر اللہ تعالیٰ بات نہیں کر رہا.بلکہ انسان کی دینی اور دنیوی ترقیات اور بہبود کے متعلق بات ہو رہی ہے اس لئے یہاں ”مبر گا کے معنی دو ہیں.ایک یہ کہ تمام اقوامِ عالم کے نمائندے اس گھر میں جمع ہوتے رہیں گے اور دوسرے یہ کہ ہم نے بیت اللہ کو اس لئے تعمیر کروایا اور اسے معمور رکھنے ( آباد رکھنے ) کا فیصلہ کیا ہے کہ یہاں ایک ایسی شریعت قائم کی جائے گی یہاں ایک ایسا آخری شریعت والا نبی مبعوث کیا جائے گا کہ جس کی شریعت میں تمام ہدایتیں اور صداقتیں (روحانی) جو مختلف اقوام کی شریعتوں میں متفرق طور پر پائی جاتی تھیں پھر اکٹھی کر دی جائیں گی اور کوئی ایسی صداقت نہ ہوگی جو اس شریعت سے باہر رہ گئی ہو.پس فرمایا کہ روحانی لحاظ سے ہم اس بیت اللہ کو ”مبر گا بنا نا چاہتے ہیں اور ہماری یہ غرض ہے کہ یہ مولد ہوگا ایک ایسی شریعت کا کہ تمام انبیاء کی شریعتوں میں جو ہدایتیں متفرق طور پر پائی جاتی ہوں گی وہ اس میں اکٹھی کر دی جائیں گی اور اس کے ساتھ برکت بھی ہوگی یعنی وہ تمام چیزیں جو پہلوں کے لئے ضروری نہیں تھیں اور وہ انہیں برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ صداقتیں بھی اس میں بیان ہوں گی اور ایک کامل اور مکمل شریعت ہو گی جو تمام قوم کے فائدہ کے لئے قائم کی جائے گی اور یہ جو گھر ہے اور یہ جو بیت اللہ ہے یہ اس کامل اور مکمل اور ابدی شریعت کے لئے ددو ،، ام القری ٹھہرے گا.تیسری غرض بیت اللہ کے قیام کی ھدی للعلمین میں بیان کی گئی ہے.آپ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ ان آیات کے شروع میں بیان کیا گیا تھا.وُضِعَ لِلنَّاس کہ تمام دنیا ، تمام اقوام اور

Page 648

خطبات ناصر جلد اول ۶۳۲ خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۶۷ء تمام زبانوں کے لئے ہم اس گھر کو بنارہے ہیں تمام اقوام کے ساتھ اس کا جو تعلق ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بار بار دہرایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیسری غرض اس گھر کی تعمیر سے یہ ہے کہ هُدًى لِلعلمين تمام جہانوں کے لئے ہدایت کا موجب یہ بنے.لفظ ھڈی کے معنوں میں بھی عالمین کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کیونکہ عقل اور فراست اور علم اور معارف جو مشترک طور پر سارے انسانوں کا حصہ ہیں ان کو ہدایت کہتے ہیں.اس کے بغیر آگے روحانی علوم چل ہی نہیں سکتے کیونکہ جس میں مثلاً عقل نہ ہو وہ پاگل ہو جائے اس کو مرفوع القلم کہتے ہیں یعنی اب اس کے او پر شریعت کا حکم نہیں رہا غرض عقل بنیاد ہے شریعت کی اور ان معانی کی جو اس لفظ ہدایت کے اندر پائے جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ ہم اس گھر کے ذریعہ سے ثابت کریں گے که تمام اقوامِ عالم عقل کے لحاظ سے اور فراست کے لحاظ سے اور معارف کے لحاظ سے اور علوم کے لحاظ سے ایک جیسی قابلیت رکھتے ہیں.کسی قوم کو اس لحاظ سے کسی دوسری قوم پر برتری نہیں ہے.اس میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ جس زمانہ میں حقیقتا هُدًى لِلْعَلَمِینَ کا جلوہ دنیا پر ظاہر ہوگا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس وقت بعض قو میں دنیا میں ایسی بھی پیدا ہو جائیں گی جو یہ کہنے لگیں گی کہ ہم زیادہ عقل مند ہیں.ہمارے اندر زیادہ فراست اور علوم حاصل کرنے کی زیادہ قابلیت ہے اور بعض قو میں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہی اس غرض سے ہے کہ وہ ہماری محکوم رہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس گھر کے ذریعہ سے ہم ثابت کریں گے کہ اپنی عقل اور فراست اور بنیادی علوم کے لحاظ سے قوم قوم میں تمیز نہیں کی جاسکتی.اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور اس غرض کو حاصل کرنے کے لئے جس عقل کی ، جس فراست کی، جن معارف کی اور جن علوم کی ضرورت تھی وہ سب اقوام کو برابر دئے ہیں یعنی ان کے اندر برابر کی استعدادیں ہیں.فرد فرد کی استعداد میں تو فرق ہوسکتا ہے لیکن کسی ایک قوم کو دوسری قوم پر برتری حاصل نہیں.دوسرے معنی هدی للعلمین کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بیت اللہ کے مقام سے قرآن کریم کا نزول شروع کرے گا کیونکہ مفردات راغب میں ہے کہ ھدایة کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ

Page 649

خطبات ناصر جلد اول ۶۳۳ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء آسمانی ہدایت کہ جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعہ اور پھر قرآن کریم کے نزول کے ساتھ بنی نوع انسان کو بلایا ہو کہ ادھر آؤ یہ ہدایت کے راستے ہیں ان پر چلو تب مجھ تک پہنچ سکتے ہو.تو ہدایت کے معنی میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلے تمام انبیاء ایک سے شریک ہیں لیکن هُدى للعلمین کے معنی حقیقی طور پر سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی نبی پر چسپاں نہیں ہوتے کیونکہ باقی تمام انبیاء اپنے زمانوں اور اپنی اقوام کی طرف مبعوث کئے گئے تھے.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بیت اللہ قرآن کریم کے نزول کی جگہ ہے یہاں سے قرآن کریم نازل ہونا شروع ہو گا.اس غرض سے ہم اس کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس کی تطہیر وغیرہ کا سامان پیدا کر رہے ہیں.هدى للعلمین کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بیت اللہ ایک ایسا مقام ہے کہ یہاں اس شریعت کی ابتدا ہوگی جو انسان پر غیر متناہی ترقیات کے دروازے کھولے گی کیونکہ ہدایت کے تیسرے معنی امام راغب کے نزدیک یہ ہیں کہ ایک شخص جب ہدایت کی راہوں پر چل کر بعض اعمال صالحہ بجالاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو مزید ہدایت کی توفیق عطا کرتا ہے تو ہر عملِ صالحہ کے نتیجہ میں بہتر اور جو اللہ تعالیٰ کو نسبتا زیادہ محبوب عملِ صالحہ ہے اس کی تو فیق اس کو مل جاتی ہے یعنی تدریجی طور پر انسان کو روحانی ترقیات کے مدارج پر چڑھاتی چلی جائے گی اور اس اُمت پر اس کے ذریعہ سے غیر متناہی ترقیات کے دروازے کھولے جائیں گے اور پھر یہ فرمایا کہ بیت اللہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ ھدی للعلمین (اپنے چوتھے معنی کے لحاظ سے ) ایک ایسی امت مسلمہ پیدا کی جائے گی جس کو اللہ تعالیٰ کے وہ انعامات ملیں گے جو ان سے پہلے کسی اُمت کو نہیں ملے اور قیامت تک بنی نوع انسان کو اس قسم کے کامل اور اکمل اور مکمل ثواب اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتیں ملتی چلی جائیں گی کیونکہ ہدایت کے چوتھے معنی امام راغب نے یہ لکھے ہیں.الْهِدَايَةُ فِي الْآخِرَةِ إِلَى الْجَنَّةِ چونکہ ان کے نزدیک صرف آخرت میں ہی جنت ملتی ہے اس لئے انہوں نے ” في الآخرة “

Page 650

خطبات ناصر جلد اول ۶۳۴ خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۶۷ء کے الفاظ ( میرے نزدیک ) اپنے اس عقیدے کی وجہ سے زائد کر دئے.ورنہ لغوی لحاظ سے اس کے یہی معنی ہیں الْهِدَايَةُ إِلَى الْجَنَّةِ یعنی جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے وہ غرض اسے حاصل ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ یہ جنت صرف اُخروی زندگی میں ہی نہیں بلکہ اس دنیوی زندگی میں بھی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا تھا کہ بیت اللہ کو ہم اس لئے کھڑا کر رہے ہیں اور اس کی حفاظت کے ہم اس لئے سامان پیدا کر رہے ہیں کہ یہاں ایک ایسی امت جنم لے گی جو ثواب اور جزا ان کو ملے گی اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جو جنت ان کے نصیب میں ہو گی وہ پہلی قوموں کے نصیب میں نہیں ہوئی ہوگی یعنی بہترین نتیجہ جو انسانی روحانی عمل کا نکل سکتا ہے وہ اس اُمت کے اعمال کا نکلے گا کیونکہ جو شریعت ان کو دی گئی ہے وہ ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہے.پہلوں کی شریعتیں چونکہ نسبتی طور پر ناقص تھیں.اگر ان پر پورے طور پر عمل بھی کیا جاتا تو ان کا نتیجہ عقلاً بھی وہ نہیں نکل سکتا تھا جو نتیجہ اس عمل کا نکل سکتا ہے جو ایسی شریعت کے مطابق ہو جو پورے طور پر کامل ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ هُدًى لِلْعَلَمِينَ اس گھر سے جس عالمگیر شریعت کا چشمہ پھوٹے گا اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں الْجَنَّة “ ایک کامل جنت انسان کو ملے گی اس دنیا میں بھی اور اُخروی دنیا میں بھی.پس تیسری غرض ( جو آگے بعض ذیلی اغراض میں تقسیم ہو جاتی ہے ) بیت اللہ کے قیام کی هُدًى لِلْعَلَمِینَ ہے.چوتھا مقصد اس گھر کی تعمیر کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایت بینت ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم خاص قسم کی آیات بینات کا وعدہ انسان کو دیتا ہے یا ان کے متعلق پیشگوئیاں بیان کرتا ہے تو یہاں میرے نزدیک آیات بینات کے عام معنی نہیں ہیں بلکہ یہاں وہ آیات بینات مراد ہیں جو اس پہلے گھر سے تعلق رکھتی ہیں جو وُضِعَ لِلنَّاسِ“ ہے، جو 66 مبرگیا ہے اور جو ھدی للعلمین “ ہے.اس مفہوم کے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا فِيهِ ایت ببنت اور اس کے معنی یہاں یہ ہیں کہ اس گھر سے تعلق رکھنے والی ایسی آیات اور بینات ہوں گی اور یہ گھر ایسے نشانات اور تائیدات سماوی کا منبع بنے گا جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں گی.جو آیات اور بینات پہلے انبیاء یا ان کی قوموں کو دیئے گئے وہ اپنے اپنے وقت پر ختم ہو گئیں اور

Page 651

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۳۵ خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۶۷ء پہلی اُمتوں میں سے ہر ایک نے کوئی نہ کوئی منطقی اور غیر تسلی بخش دلیل ڈھونڈ کر یہ دعوی کر دیا کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق قائم نہیں ہو سکتا کہ انسان اس کے قرب کو، اس کی وحی کو، سچے رؤیا اور کشوف کو اور آئندہ کے متعلق پیشگوئیوں کو حاصل کر سکے تو قرب کے ان دروازوں کو پہلی ہر امت نے اپنے پر بند کر لیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک ایسی اُمت مسلمہ کا قیام بیت اللہ کی تعمیر سے مدنظر ہے کہ قیامت تک ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے نشانات ظاہر ہوتے رہیں گے اور اپنے نشانات اور استجابت دعا اور قربانیوں کا دنیا میں پھل پانے کے نتیجہ میں وہ اُمت دنیا پر یہ ثابت کرتی رہے گی کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک زندہ خدا ہے.ایک طاقت ور خدا ہے.وہ بڑا رحم کرنے والا اور پیار کرنے والا خدا ہے وہ ایسے بندوں کو جو اس کے سامنے جھکتے ہیں ضائع نہیں کرتا اور اس سے تعلق کو وہ قائم کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اور دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ یہ میرا محبوب بندہ ہے وہ اس پر وحی کرتا ہے کشوف ورڈ یا اسے دکھاتا ہے وہ اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور ایسے بندے اس اُمت میں پیدا ہوتے رہیں گے جو قیامت تک یہ ثابت کرتے رہیں گے کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے آیات بینات کو حاصل کرتے ہیں.پانچویں غرض اس کا تعلق بیت اللہ سے ہے اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کی ہے کہ یہ مقامِ ابراہیم ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ دیکھو ہمارے بندے ابراہیم (علیہ السلام ) نے اور بہتوں نے اس کی نسل میں سے انقطاع نفس کر کے اور تعشق باللہ اور محبت الہی میں غرق ہو کر بچے عاشق اور محب کی طرح اسلمت لرب العلمین کا نعرہ لگایا اور دنیا کے لئے ایک نمونہ بنایا.ہم نے اس بیت اللہ کی آبادی کا اس لئے انتظام کیا ہے کہ اس کے ذریعہ عشاق الہی کی ایک ایسی جماعت پیدا کی جاتی رہے جو تمام حجابوں کو دور کر کے اور دنیا کے تمام علائق سے منہ موڑ کر خدا تعالیٰ کے لئے اپنی مرضات سے ننگے ہو کر اور تمام خواہشات کو قربان کر کے فنا فی اللہ کے مقام کو حاصل کرنے والے ہوں اور اس عبادت کو احسن طریق پر اور کامل طور پر ادا کرنے والے ہوں جس کا تعلق محبت اور ایثار سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ عبادت دو قسم کی ہوتی ہے

Page 652

خطبات ناصر جلد اول ۶۳۶ خطبہ جمعہ ۳۱ / مارچ ۱۹۶۷ء ایک وہ عبادت ہے جو تذلل اور انکسار کی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے اور ایک وہ عبادت ہے جو محبت اور ایثار کی بنیادوں پر قائم ہے.ہماری نماز جو ہے یہ اس قسم کی عبادت ہے جو تذلل اور انکسار کے مقام پر کھڑی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ نماز دعا ہے اور دعا کے لئے انتہائی تذلل اور انکسار کو اختیار کرنا ضروری ہے.جس شخص کے دماغ میں اپنے رب کے مقابلہ میں ایک ذرہ بھی تکبر ہو اس کی دعا کبھی قبول نہیں ہوسکتی.پس ہماری نماز میں صرف اس صورت میں عبادت بنتی ہیں کہ جب وہ حقیقتا تذلل اور انکسار کے مقام پر کھڑی ہوں.اس کے مقابلہ میں دوسری عبادت وہ ہے جو محبت اور ایثار کی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ عبادت جس کا تعلق تعمیر کعبہ سے ہے.جس کا تعلق حفاظت کعبہ سے ہے اور جس کا تعلق بیت اللہ کے لئے خود کو اور اپنی اولا د کو وقف کر دینے کے ساتھ ہے اور اس کے لئے دعائیں کرنے کا تعلق ہے یہ محبت والی عبادت ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت اور خدا تعالیٰ کے عشق کا جو مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا وہ عدیم المثال تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مقام ابراہیم ہے اس مقام سے ہم ایک ایسی اُمت پیدا کریں گے جو لاکھوں کی تعداد میں ہوگی اور ہر زمانہ میں پائی جاتی ہوگی اور اس اُمت کے کسی فرد کا اگر تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کے ساتھ مقابلہ کرو گے تو اس کو ان سے کم نہیں پاؤ گے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اس قوم نے پیدا ہونا تھا لیکن اس قوت قدسیہ کے جو اثرات ہیں ان کو دنیا میں موثر طریق پر پھیلانے کے لئے قریباً اڑھائی ہزار سال پہلے خانہ کعبہ کی بنیاد از سر نو ر کھی گئی تھی تو یہاں یہ فرمایا کہ ظاہری شکل حج کے ارکان کی ، اس عبادت کی خودہی ایسی ہے جس کا تعلق محبت سے ہے.مثلاً طواف کرنا ہے.اب یہ تخیل قریباً ساری اقوام میں پایا جاتا ہے کہ جب کسی کے لئے جان کی قربانی دینا ہوتی ہے تو اس کے گرد گھومتے ہیں.ہمارے بعض بادشاہوں کے متعلق بھی آتا ہے کہ ان میں سے کسی کا بچہ بیمار تھا.اس نے اس کا طواف کیا اور دعا کی میری زندگی اس کومل جائے.پس جان قربان کرنے کا جو تخیل ہے وہ طواف کے ساتھ گہراتعلق رکھتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ یہاں سے ایک ایسی قوم پیدا کی جائے گی

Page 653

خطبات ناصر جلد اول ۶۳۷ خطبہ جمعہ ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء جو ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی رہے گی اور اس کے آستانہ کا بوسہ لیتی رہے گی.ایک طرف وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد کو تازہ رکھنے والی ہوگی اور دوسری طرف وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کو نہایت شان کے ساتھ ظاہر کرنے والی ہوگی.اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی ایک قوم پیدا کر دی.صرف پہلے زمانہ میں ہی نہیں صرف عرب میں بسنے والوں میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں اور قیامت تک ہر زمانہ میں جو ابراہیمی عشق اور جو ابرا نہیمی محبت اپنے رب کے لئے رکھتے ہوں گے وہ اس کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں دینے والے ہوں گے.باقی انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں.وَبِهِ التَّوْفِيقُ) روز نامه الفضل ربوه ۲۳ را پریل ۱۹۶۷ء صفحه ۱ تا ۴)

Page 654

Page 655

خطبات ناصر جلد اول ۶۳۹ خطبہ جمعہ ۷ را پریل ۱۹۶۷ء بیت اللہ کی تعمیر کے ساتھ تعلق رکھنے والے مقاصد کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے گہراتعلق ہے خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ را پریل ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَةَ مُبْرَكا وَهُدًى لِلْعَلَمِينَ - فِيْهِ ايْتَ بَينت مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ.(ال عمران : ۹۸،۹۷) ط وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَ آمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى ، وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْراهِمَ وَإِسْمَعِيلَ أَن طَهَّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ - وَ إِذْ قَالَ إبراهمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا أمِنَّا وَارْزُقُ اَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَ مَنْ كَفَرَ فَأَمَتَعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ اَضْطَرُةٌ إلى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ - وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَ إِسْعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَا أَمَةً مُّسْلِمَةً لَكَ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبُ عَلَيْنَا ۚ إِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ ط ص

Page 656

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۴۰ خطبہ جمعہ ۷ را پریل ۱۹۶۷ء وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - (البقرة : ۱۲۶ تا ۱۳۰) فرمایا:.ایک اہم موضوع پر میں بعض خطبے پڑھ چکا ہوں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک گھر تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے بنایا مگر انہوں نے اس کی عظمت کو نہ پہچانا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ برباد ہو گیا اور اس کا نام و نشان مٹ گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعہ نشان دہی کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے اسے از سر نو تعمیر کروایا اور اس کی حفاظت کے لئے اور اس کی عظمت کے قیام کے لئے یہ انتظام کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اولا د کو اس خانہ خدا کی خدمت کے لئے وقف کریں.چنانچہ آپ کی اولا د ایک لمبا عرصہ اس خدمت پر لگی رہی اور دو ہزار پانچ صد سالہ خدمت اور دعاؤں کے نتیجہ میں وہ قوم تیار ہوئی جو کامل اور مکمل اور عالمگیر شریعت کی ذمہ داریوں کے بار گراں کو اٹھانے کی قوت اور استعدادا اپنے اندر رکھتی تھی.پھر میں نے بتایا تھا کہ یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں اللہ تعالیٰ نے ان تیئیس اغراض و مقاصد کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق تعمیر بیت اللہ سے ہے اور ان تمام مقاصد کے حصول کا تعلق بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.ان اغراض میں سے پانچ کے متعلق میں نے گذشتہ خطبہ میں آپ دوستوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا اول یہ کہ یہ گھر وُضِعَ لِلنَّاسِ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے تعمیر کروایا جارہا ہے دوسرے یہ کہ مُبر گا اس کے اندر مبارک ہونے کی صفت پائی جاتی ہے.مادی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی تیسرے یہ کہ هُدًى لِلْعَلَمِينَ تمام جہانوں کے لئے اسے ہم موجب ہدایت بنانا چاہتے ہیں اور ہدایت کے لئے ہر چہار معنی کی رو سے اسے اللہ تعالیٰ نے عالمین کے لئے ہدایت کا مرکز بنایا ہے چوتھے یہ کہ فِیهِ ای بینت.یعنی آسمانی نشانات کا ایسا سلسلہ یہاں سے جاری کیا جائے گا جو قیامت تک زندہ رہے گا اور ایک ایسا چشمہ آسمانی تائید کا یہاں سے پھوٹے گا جو کبھی خشک نہیں ہوگا.اور پانچویں مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ کے الفاظ میں یہ بتایا کہ وہ عبادت جو محبت اور ایثار کی بنیادوں پر استوار کی جاتی ہے اس عبادت کا یہ مرکزی نقطہ ہو گا اور ایک قوم جو نمائندہ ہو گی تمام اقوام کی اور نمائندہ ہوگی ہر زمانہ کی، پیدا کی

Page 657

خطبات ناصر جلد اول ۶۴۱ خطبہ جمعہ ۷ را پریل ۱۹۶۷ء جائے گی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ کے گناہ سوز عشق سے سرشار ہو گی اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں اس پر ہمیشہ کھلی رہیں گی.یہ پانچ مقاصد تھے جن کے متعلق میں نے گذشتہ جمعہ میں تفصیل سے بیان کیا تھا کیونکہ مجھے ان مقاصد میں سے ہر ایک کی طرف پھر واپس آنا ہے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ان میں سے ہر ایک کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہے اور یہ کہ وہ کس طرح اور کس شکل میں حاصل ہوا.اس لئے آج میرا ارادہ یہ ہے کہ میں بڑے ہی اختصار کے ساتھ ان مقاصد کو بیان کروں اور کوشش کروں کہ تئیس مقاصد میں سے جو باقی رہ گئے ہیں ان سب کو آج کے خطبہ میں بیان کر دوں آگے جو خدا کو منظور ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ دَخَلَه كَانَ آمِنًا بیت اللہ کی تعمیر کی چھٹی غرض یہ ہے کہ جو بھی اس کے اندر داخل ہوگا یعنی ہر وہ شخص جو ان عبادات کو بجالائے گا جن کا تعلق بیت اللہ سے ہے دنیا اور آخرت کے جہنم سے وہ خدا کی پناہ میں آجائے گا اور اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے.پس چھٹی غرض بیت اللہ کی تعمیر کی یہ ہے کہ اللہ کا ایک ایسا گھر بنایا جائے کہ جس کے ساتھ بعض عبادات تعلق رکھتی ہوں اور جو شخص بھی خلوص نیت کے ساتھ اور کامل اور مکمل طور پر ان عبادات کو بجالائے گا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے.کہ اس کے تمام پچھلے گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا اور نار جہنم سے وہ محفوظ ہو جائے گا.ساتو میں غرض بیت اللہ کی تعمیر کی اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بتائی ہے کہ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِج البيت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد یا اہل عرب پر ہی یہ فرض نہیں کہ وہ بیت اللہ کا حج کریں بلکہ بیت اللہ کی تعمیر کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ اقوام عالم بیت اللہ کے حج کے لئے اس مقام پر جمع ہوں ( میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام اغراض و مقاصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت ہی بتا دیئے گئے تھے جیسا کہ بہت سے قومی قرائن اس کے متعلق قرآن کریم سے ملتے ہیں ) غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ کہا کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک ایسا گھر ہے کہ تمام اقوام عالم پر جو مجھ پر ایمان لائیں گی اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائیں گی اور خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وسلم)

Page 658

خطبات ناصر جلد اول ۶۴۲ خطبہ جمعہ ۷ را پریل ۱۹۶۷ء کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر میری اطاعت کا جو آ اپنی گردنوں پر رکھیں گی ان کے لئے حج بیت اللہ فرض قرار دیا جائے گا اور اس طرح اس جگہ کو مرجع خلائق اور مرجع عالم بنادیا جائے گا.آٹھویں غرض یا آٹھواں مقصد بیت اللہ کی تعمیر کا یہ بتایا کہ یہ مثابةٌ ہے.اس لفظ میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ دنیا کی اقوام فرقہ فرقہ بن گئی ہیں اور جس وقت یہ فرقہ بندی اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی اس وقت ایک ایسا رسول مبعوث کیا جائے گا جو بیت اللہ کی اس غرض کو پورا کرنے والا ہوگا اور ان متفرق اقوام کو ایک مرکز پر لا جمع کرے گا.وہ سب کو عَلی دِینِ وَاحِدٍ لے آئے گا.پس یہاں بتایا کہ باوجود اس کے کہ تفرقہ ایک وقت پر اپنی انتہا کو پہنچ جائے گا اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ اس وقت ایک ایسے رسول کو مبعوث فرمائے جو تمام اقوام کو اُمَّةً وَاحِدَةً بنادے.نواں مقصد یہاں یہ بیان کیا کہ آمنا یعنی یہ گھر جو ہے یہ آمنا للناس ہے.یہاں اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے اپنے اس گھر کو ایسا بنانا چاہا ہے کہ اس کے ذریعہ اور صرف اس کے ذریعہ دنیا کو امن نصیب ہوگا کیونکہ صرف یہ ایک گھر ہو گا جسے بیت اللہ کہا جاسکتا ہے اس کو چھوڑ کر اور ان تعلیموں کو نظر انداز کر کے جن کا تعلق اس گھر سے ہے دنیا کی کوئی تنظیم امن عالم کے لئے کوشش کر کے دیکھ لے وہ کبھی اس میں کامیاب نہیں ہوگی.حقیقی امن دنیا کو صرف اس وقت اور صرف اسی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں مل سکتا ہے جو تعلیم وہ نبی دنیا کے سامنے پیش کرے گا جو خانہ کعبہ سے کھڑا کیا جائے گا.امن کے ایک دوسرے معنی کے لحاظ سے آمنا للناس کے معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا روحانی طور پر اطمینان قلب صرف مکہ معظمہ اور صرف اس آخری شریعت کے ساتھ پختہ تعلق پیدا کرنے کے نتیجہ میں حاصل کر سکے گی جو آخری شریعت مکہ میں ظاہر ہوگی اور تمام اقوام عالم کو پکار رہی ہوگی اپنے رب کی طرف اور چونکہ اطمینانِ قلب ہر انسان کو اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس کے فطری تقاضوں کو وہ تعلیم پورا کرنے والی ہو اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جتنی قوتیں اور استعداد یں پیدا کی ہیں ان سب کی راہ نمائی اور نشو نما کرنے کے قابل ہو پس یہاں یہ فرمایا کہ مکہ گھر ہوگا ایک ایسی تعلیم کا جو حقیقی طور پر دنیا کو اطمینانِ قلب پہنچانے والی ہو گی یعنی ہر دو معنی

Page 659

خطبات ناصر جلد اول ۶۴۳ خطبہ جمعہ ۱٫۷ پریل ۱۹۶۷ء یہاں چسپاں ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ دنیا کو اگر امن نصیب ہوسکتا ہے تو وہ مکہ کی وساطت سے دوسرے یہ کہ دنیا کی ارواح اگر اطمینان قلب حاصل کر سکتی ہیں.دنیا کی عقلمیں اگر تسلی پاسکتی ہیں تو صرف اس تعلیم کے نتیجہ میں جو مکہ میں نازل ہوگی.دسویں غرض اور دسواں مقصد ان آیات میں خانہ کعبہ کا اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ اتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّی اس سے پہلی ایک آیت میں مَقَامِ ابرھم کا ذکر تھا.اس سے مراد یہ تھی کہ یہ مقام ایسا گھر ہے جہاں بنیاد ڈالی گئی ہے اس حقیقی عبادت کی جو محبت اور ایثار اور عشق الہی کے چشمہ سے بہت نکلتی ہے اور اِتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّی میں اس عبادت کا ذکر ہے جو تذلل اور انکسار کے منبع سے پھوٹتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ بیت اللہ کی تعمیر کی ایک غرض یہ ہے کہ ایک ایسی قوم پیدا کی جائے جو تذلل اور انکسار کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرنے والی ہو اور جو تذلل اور انکسار کی عبادت کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام کے ظل ساری دنیا میں قائم کرے اشاعت اسلام کے مراکز کو قائم کرنے والی ہو.گیارھویں غرض تعمیر بیت اللہ کی یہ بیان کی گئی ہے کہ طهرا بنی اور اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو ظاہری صفائی اور باطنی طہارت کا سبق سیکھنے کے لئے ساری دنیا کے لئے بطور ایک جامعہ اور یونیورسٹی اور ایک مرکز کے بنایا جائے.بارھویں غرض تعمیر کعبہ کی یہ بتائی گئی ہے کہ لطایفین یعنی اقوام عالم کے نمائندے بار بار یہاں جمع ہوا کریں گے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قریباً اڑھائی ہزار سال پہلے یہ بتایا تھا کہ تمام اقوام عالم کے نمائندے بار بار یہاں آئیں گے طواف کرنے کے لئے بھی اور دوسری ان اغراض کے پورا کرنے کے لئے بھی جن کا تعلق خانہ کعبہ سے ہے.تیرھواں مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ والعلفین خانہ کعبہ اس غرض سے از سر نو تعمیر کروایا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعہ سے ایک ایسی قوم پیدا کی جائے جو اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے والے ہوں اور اس طرح بیت اللہ کے مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں.

Page 660

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۴۴ خطبہ جمعہ ۷ را پریل ۱۹۶۷ء چودھواں مقصد یہاں یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ والركع السجود ایک ایسی قوم پیدا کی جائے جو توحید باری پر قائم ہو اور جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری سے اپنی زندگیوں کو گزارنے والی ہو.پندرھواں مقصد یہ بیان ہوا ہے کہ بلدا امنا.امن کا لفظ ان آیات میں تین مختلف مقاصد کے بیان کے لئے اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس گھر کو دنیا کے ظالمانہ حملوں سے اپنی پناہ میں رکھیں گے اور کوئی ایسا حملہ جو خانہ کعبہ کو مٹانے کے لئے کیا جائے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا بلکہ حملہ آور تباہ و برباد کر کے رکھ دیئے جائیں گے تا دنیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ وہ نبی جسے ہم یہاں سے مبعوث کرنا چاہتے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کی پناہ میں ہو گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی ذات کو ہلاک یا اس کے مشن کو نا کام نہیں کر سکے گی اور تا دنیا یہ بھی نتیجہ نکالے کہ جو شریعت نبی معصوم کو دی جائے گی وہ ہمیشہ کے لئے ہوگی اور خدا تعالیٰ اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوگا.سولہو میں غرض جو خانہ کعبہ سے وابستہ ہے وہ یہ ہے کہ وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ میں بیت اللہ کو از سر نو تعمیر کروا رہا ہوں اس غرض سے بھی کہ تا بیت اللہ اور اس کی برکات کو دیکھ کر دنیا اس نتیجہ پر پہنچے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے پر موت وارد کرتے ہیں اور اس کے ہو کر اس کی راہ میں قربانی دیتے ہیں اور دنیا سے کٹ کر صرف اسی کے ہی ہو رہتے ہیں ان کے اعمال ضائع نہیں ہوتے بلکہ شیریں پھل انہیں ملتا ہے اور عاجزانہ اور عاشقانہ اعمال کے بہترین نتائج ان کے لئے مقدر کئے جاتے ہیں.سترھویں غرض بیت اللہ کے قیام کی یہ بتائی کہ ربّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا بیت اللہ کی تعمیر کی ایک غرض یہ ہے کہ تا دنیا یہ جانے اور پہچانے کہ روحانی رفعتوں کا حصول دعا کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے.جب دعا میں انسان کا تضرع اور ابتہال انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور موت کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تب فضل الہی آسمان سے نازل ہوتا ہے اور معرفت کی راہیں بندہ پر کھولی جاتی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے یہاں بیت اللہ کے قیام کی غرض بتائی کہ یہاں ایک ایسی قوم پیدا ہوگی

Page 661

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۴۵ خطبہ جمعہ ۱٫۷ پریل ۱۹۶۷ء جو دعا اپنی تمام شرائط کے ساتھ کرے گی اور دعا میں ان پر ایک موت کی سی کیفیت وارد ہوگی اور ان کا وجود کلیۂ فنا ہو جائے گا اور پانی بن کر آستانہ رب پر بہہ نکلے گا اور وہ جانتے ہوں گے کہ ہم اپنے اعمال کے نتیجہ میں ( محض اعمال کے نتیجہ میں ) کچھ حاصل نہیں کر سکتے جب تک ہم دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہ کریں اس لئے انتہائی قربانیاں دینے کے بعد بھی وہ اپنی قربانیوں کو کچھ چیز نہ سمجھیں گے اور ہر وقت اپنے رب سے ترساں اور لرزاں رہیں گے اور انتہائی قربانیوں کے باوجود ان کی دعا یہ ہوگی کہ جو کچھ ہم تیرے حضور پیش کر رہے ہیں وہ ایک حقیر سا تحفہ ہے.تیری شان تو بہت بلند ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ تیرے حضور ہمارا یہ تحفہ قبول ہونے کے لائق نہیں لیکن تو بڑا رحم کرنے والا رب ہے ہمارے اس حقیر تحفہ کوقبول فرما اور ہماری غفلتوں اور ہماری حقیر مساعی کو چشم مغفرت سے دیکھ اور رحمت کے سامان پیدا کرتا کہ ہماری مساعی اور کوششیں تیرے حضور قبول ہو جا ئیں.غرض اس قسم کی قوم پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر سے اٹھارہواں مقصد یہ ہے کہ دنیا یہ جانے کہ جولوگ خدا تعالیٰ کے حضور اس رنگ میں دعائیں کرتے ہیں وہی ہیں جو اپنے رب کی صفت سمیع کا نظارہ دیکھتے ہیں اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ ہمارا رب جو ہے وہ سنے والا ہے.وہ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری دعاؤں کو سنا.پس خانہ کعبہ کے قیام کے نتیجہ میں خدائے سمیع کی معرفت دنیا حاصل کرے گی.انیسواں مقصد یہ ہے کہ دنیا اس کے ذریعہ سے خدائے علیم کی معرفت حاصل کرے گی یہ نہیں ہوگا کہ بندہ نے اپنے علم ناقص کے نتیجہ میں جو دعا کی اسے اللہ تعالیٰ نے اسی رنگ میں قبول کر لیا بلکہ بندہ دعا کرے گا اور دعا کو انتہاء تک پہنچائے گا تو اس کا رب اس کی دعا کو سنے گا اور قبول کرے گا مگر قبول کرے گا اپنے علم غیب کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے یعنی جس رنگ میں وہ دعائیں قبول ہونی چاہئیں اس رنگ میں.بعض دعاؤں کا رد ہو جانا یا بعض دعاؤں کا اس شکل میں پورا نہ ہونا جس رنگ میں کہ وہ کی گئی ہیں یہ ثابت نہیں کرے گا کہ خدا سمیع نہیں ہے یا قادر نہیں

Page 662

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۴۶ خطبہ جمعہ ۱٫۷ پریل ۱۹۶۷ء ہے بلکہ وہ یہ ثابت کرے گا کہ خدا تعالیٰ ہی کی ذات علام الغیوب ہے.تو خانہ کعبہ کی بنیا داس لئے رکھی گئی کہ خدا تعالیٰ کے بندے خدائے علیم سے متعارف ہو جائیں اور اس کو جاننے لگیں اور پہچاننے لگیں.بیسویں غرض یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ وَمِنْ ذُريَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَكَ يعنى امت مسلمہ ہماری ذریت میں سے بنائیو.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بتایا ہے کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ جس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف مبعوث ہوں تو آپ کی قوم أُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ “ بنے کی اہلیت رکھتی ہو اور ابراہیمی دعاؤں کے نتیجہ میں وہ اُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ بن بھی جائے گی اور اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ وہ نبی جس کا وعدہ دیا گیا ہے کہ وہ مکہ میں پیدا ہو گا مگر تم دعا کرتے رہو کہ اے خدا! ہماری اور ہماری نسلوں کی کسی غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرے نزدیک ہم اس قابل نہ رہیں کہ وہ وعدہ ہمارے ساتھ پورا نہ ہو بلکہ کسی اور قوم میں وہ نبی مبعوث ہو جائے تو فرما یا میری اولا دکو ہی اُمت مسلمہ بنانا.پہلے مخاطب وہی ہوں اور سب کے سب قبول کرنے والے بھی وہی ہوں.پس یہاں یہ بتایا ہے کہ وہ اُمت جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہا السلام) کی ذریت سے پیدا ہونے والی ہے وہ اُمت مسلمہ بنے.اس نبی کا انکار نہ کرے.اس نبی پر ایمان لا کر جو ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر پڑیں وہ ان کو نباہنے کی قوت اور استعداد رکھنے والی ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کو ایسی ہی قوم بنانا چاہتے ہیں اور اسی غرض سے ہم نے خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کروائی ہے.اکیسواں مقصد یہاں یہ بیان فرمایا کہ آرنا مناسگنا اس میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ مکہ معظمہ سے ایک ایسا رسول پیدا ہو گا جو دنیا کی طرف اس وقت آئے گا جب وہ اپنی روحانی اور ذہنی نشوونما کے بعد ایسے مقام پر پہنچ چکی ہوگی کہ وہ کامل اور مکمل شریعت کی حامل بن سکے.ایسی شریعت جس میں پہلی شریعتوں کے مقابلہ میں لچک ہے.ایسی شریعت جس میں مناسب حال عمل کرنے کی تعلیم دی گئی ہو اور ایسی شریعت جو ہر قوم اور ہر زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہو.ارنا مناسگنا ہمارے مناسب حال جو کام اور جو عبادتیں ہیں جو ذمہ داریاں ہیں وہ ہمیں دکھا اور

Page 663

خطبات ناصر جلد اول ۶۴۷ خطبہ جمعہ ۷ را پریل ۱۹۶۷ء سکھا.یعنی قرآنی شریعت کو ہم پر نازل فرما.پس آرنا مناسگنا میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ رسول آئے گا اس کا تعلق دنیا کی ساری اقوام سے ہوگا اور ہر زمانہ سے ہوگا.پس دعا کرتے رہو کہ اے ہمارے رب قوم قوم کی ضرورتوں اور طبیعتوں میں فرق اور زمانہ زمانہ کے مسائل میں فرق کے پیش نظر شریعت ایسی کامل اور مکمل بھیجنا کہ جو ہر قوم کے فطرتی تقاضوں کو پورا کرنے والی ہو اور ہر زمانہ کے مسائل کو وہ سلجھانے والی ہو.قیامت تک زندہ رہنے والی ہوتا جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی بنیا درکھی ہے وہ پوری ہو.بائیسویں غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ تُب عَلَيْنَا.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو آخری شریعت یہاں نازل کی جائے گی اس کا بڑا گہرا تعلق ربّ تواب سے ہوگا اور اس شریعت کے پیرو اس حقیقت کو پہچاننے والے ہوں گے کہ تو بہ اور مغفرت کے بغیر معرفت کا حصول ممکن نہیں ہے اس لئے وہ بار بار اس کی راہ میں قربانیاں بھی دینے والے ہوں گے اور بار بار اس کی طرف رجوع بھی کرنے والے ہوں گے اور کہیں گے کہ اے خدا! ہماری خطاؤں کو معاف کر دے.وہ ایسی قوم ہوگی کہ جو نیکی کرنے کے بعد بھی اس بات سے ڈر رہی ہوگی کہ کہیں ہماری نیکی میں کوئی ایسا رخنہ نہ رہ گیا ہو جس سے ہمارا رب ناراض ہو جائے وہ ہر وقت استغفار اور تو بہ میں مشغول رہنے والی قوم ہوگی.تیسواں مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ رَبَّنَا وَابْعَثُ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ کہ ہم محمد (رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مولد اسے بنانا چاہتے ہیں.ہم اسے ایسا مقام بنانا چاہتے ہیں کہ جس کے ماحول میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ ، عاجزی اور انکسار کے ساتھ ، عشق اور محبت کے ساتھ کی گئیں دعاؤں کے نتیجہ میں ہم اپنے ایک عبد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو محمد بیت کے مقام پر کھڑا کریں گے اور اس کے ذریعہ سے ایک ایسی شریعت کا قیام ہوگا اور ایک ایسی اُمت کو جنم دیا جائے گا کہ جو زندہ نشان اپنے ساتھ رکھتی ہوگی يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِكَ اور زندہ خدا کے ساتھ اور زندہ نبی کے ساتھ اور زندہ شریعت کے ساتھ ان کا تعلق ہو گا اور ان کو کامل شریعت کا سبق دیا جائے گا لیکن

Page 664

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۴۸ خطبہ جمعہ ۷ را پریل ۱۹۶۷ء ناسمجھ بچوں کو جس طرح کہا جاتا ہے ان سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ ہم کہتے ہیں اور تم مانو.اللہ تعالیٰ ان کی عقل اور فراست کو تیز کرنے کے لئے اپنے احکام کی حکمت بھی ان کو بتائے گا اس نبی کے ذریعہ اور اس طرح وہ کچھ ایسے پاک کر دئے جائیں گے کہ اس قسم کی پاکیزگی کسی پہلی قوم کو حاصل نہ ہوئی ہوگی اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہماری عقل بھی تسلیم کرتی ہے کیونکہ اگر پہلی امتوں پر ناقص شریعتوں کا نزول ہوا اور اس ناقص راہ نمائی کے نتیجہ میں ان کا تزکیہ ہوتو وہ تزکیہ کامل نہیں وہ ان کی فطرت کے مطابق، ان کی استعداد کے مطابق ، ان کی قوت کے مطابق تو ہے لیکن وہ کامل تزکیہ نہیں ہے کیونکہ جو تعلیم انہیں دی گئی ہے وہ کامل نہیں کیونکہ ان کی استعداد ابھی کامل نہیں.پھر جب وہ قوم پیدا ہوگئی جو کامل شریعت کی حامل ہونے کی استعداد رکھتی تھی تو ان میں سے جن لوگوں نے انتہائی قربانیاں دے کر اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے تمام احکام پر عمل کر کے اور تمام نواہی سے بچتے ہوئے اس کے حضور گریہ وزاری میں اپنی زندگی گزاری ان کو جو تزکیہ نفس حاصل ہو گا ( محض خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ کہ ان کے اعمال کے نتیجہ میں ) وہ ایک ایسا کامل تزکیہ ہوگا.وہ ایک ایسی مکمل طہارت اور پاکیزگی ہوگی.اللہ تعالیٰ کی ایسی خوشنودی اور رضا ہوگی کہ اس قسم کی رضا پہلی قوموں نے حاصل نہیں کی ہوگی.پس اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ تئیسویں غرض بیت اللہ کے قیام کی یہ ہے کہ ایک خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف مبعوث کیا جائے اور پھر انسان کو اس ارفع مقام پر لاکھڑا کیا جائے جس ارفع مقام پر کھڑا کرنے کے لئے ہم نے اسے پیدا کیا تھا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے فضل سے ان بندوں میں شامل کرے کہ ہم تو انتہائی طور پر کمزور اور نالائق اور خطا کار اور گنہگار اور نا سمجھ اور شہوات نفسانیہ میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن اگر وہ چاہے اور اس کا فضل ہم پر نازل ہو تو ہر قسم کے گند سے وہ ہمیں اٹھا کر پاکیزگی کی ان رفعتوں تک پہنچا سکتا ہے جن کا وعدہ اس نے اُمت مسلمہ سے کیا ہے.آئنده خطبات میں انشاء اللہ میں ان تئیس مقاصد اور اغراض کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جس طرح پورا کیا گیا ہے اس کی تفصیل بیان کروں گا.آہستہ آہستہ میں آپ کو اس طرف

Page 665

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۴۹ خطبہ جمعہ ۷ را پریل ۱۹۶۷ء لا رہا ہوں جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ ایک اہم امر کی طرف اللہ تعالیٰ نے میری تو جہ کو پھیرا ہے اور جماعتی تربیت کے لئے وہ پروگرام بڑا ہی اہم ہے.بہر حال میں کوشش کر رہا ہوں آپ کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی مگر میں کیا اور میری زبان میں اثر کیا؟ جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری زبان میں اثر پیدا نہ کرے اور آپ کے دلوں کو اس اثر کے قبول کرنے کی توفیق عطا نہ کرے.اس لئے آپ دعائیں کرتے رہیں میں بھی دعا کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری جماعت سے وہ کام لے جس کام کے لئے اس نے اسے قائم کیا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۱/۳۰ پریل ۱۹۶۷ صفحه ۱ تا ۴)

Page 666

Page 667

خطبات ناصر جلد اول ۶۵۱ خطبہ جمعہ ۱/۲۱ پریل ۱۹۶۷ء تمام اقوام عالم کے دینی اور دُنیوی فوائد بیت اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیئے گئے ہیں فرمائی.خطبه جمعه فرموده ۱/۲۱ پریل ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَةَ مُبْرَكًا وَهُدًى لِلْعَلَمِينَ - فِيْهِ أَيْتَ بَيْنَتُ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ أَمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ.(ال عمران: ۹۸،۹۷) ط وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى ، وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْراهِم وَ اِسْعِيلَ أَن طَهَّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ - وَ إِذْ قَالَ إبراهمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا أمِنَّا وَارْزُقُ اَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَ مَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ اَضْطَرُةٌ إلى عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ - وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَيْنَا ۚ إِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ

Page 668

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۵۲ خطبہ جمعہ ۱/۲۱ پریل ۱۹۶۷ء وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - (البقرة : ۱۲۶ تا ۱۳۰) فرمایا:.میں نے گذشتہ دو خطبات میں بتایا تھا کہ ان آیات میں جو میں نے ان خطبات سے پہلے بھی تلاوت کی تھیں اور آج بھی تلاوت کی ہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے تنیس مقاصد کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق بیت اللہ سے ہے اور جن مقاصد کا حصول بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور اگر چہ یہ سب وعدے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قریباً اڑھائی ہزار سال پہلے دیئے گئے تھے.لیکن یہ باتیں، یہ وعدے اور یہ پیشگوئیاں حقیقی طور پر اس وقت پوری ہوئیں اور یہ سب مقاصد اس وقت حاصل ہوئے جس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف مبعوث ہوئے اور قرآن کریم کی شریعت آسمان سے نازل ہوئی.بیت اللہ کے قیام کی پہلی غرض اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جیسا کہ میں نے اپنے پہلے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا یہ بتائی ہے کہ وضع للناس یہ اللہ کا گھر اس لئے از سر نو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے تعمیر کروایا جا رہا ہے کہ تمام اقوام عالم کے دینی اور دنیوی فوائد اس بیت اللہ سے وابستہ کر دیے جائیں اور ظاہر ہے کہ یہ اڑھائی ہزار سالہ زمانہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے درمیان گزرا اس زمانہ میں یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ بیت اللہ سے تمام اقوام عالم دینی اور دنیوی فوائد حاصل کر رہی ہیں.بہت سی قو میں اس وقت ایسی بھی تھیں جو بیت اللہ یا مکہ کے جغرافیہ سے بھی واقف نہیں تھیں.اکثر اقوام عالم وہ تھیں کہ جن کے دلوں میں بیت اللہ کی کوئی محبت نہیں تھی.وہ اس کی طرف کھنچے ہوئے نہیں آتے تھے.ان کی نگاہ میں اس کی کوئی عزت اور احترام نہیں تھا اور انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ بیت اللہ سے بعض ایسی برکات اور فیوض بھی وابستہ ہیں کہ اگر ہم ان کو جانیں اور پہنچا نہیں تو ہم ان برکات اور فیوض سے حصہ لے سکتے ہیں لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو یہی گھر جسے دنیا بھول چکی تھی دنیا نے اس کو پہچان لیا اور اس کی برکات کو جان لیا اور دنیا کے دل میں، اکناف عالم میں بسنے والی اقوام کے سینہ میں اس کی محبت پیدا ہوگئی اور وہ تمام وعدے پورے ہونے لگے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ربّ

Page 669

خطبات ناصر جلد اول ۶۵۳ خطبہ جمعہ ۲۱ را پریل ۱۹۶۷ء نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے اور ہمارے رب نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کئے تھے.اب میں یہ بتاؤں گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ وعدہ (وُضِعَ لِلنَّاسِ کا ) کس طرح اور کس شکل میں پورا ہوا ظاہر ہے کہ چونکہ وعدہ تمام اقوام کے لئے تھا اور وعدہ یہ تھا کہ تمام بنی نوع انسان مکہ سے برکت حاصل کریں گے اور عقلاً یہ ممکن نہیں کہ شریعت کا ملہ کے نزول کے بغیر ایسا ہو اس لئے قرآن کریم کی کامل شریعت کا نزول اس وعدہ کے پورا ہونے سے قبل ضروری تھا.قرآن کریم کا یہ دعوی ہے کہ ذلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ (البقرة: ۳) یہ قرآن ایک کامل اور مکمل شریعت ہے اور اس دعوئی کے دلائل قرآن کریم نے یہ دیئے کہ لَا رَيْبَ فِيهِ - رَيْبَ کے چار معنی جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں ان کی رو سے یہاں ہمارے سامنے چار دلائل بیان کئے گئے ہیں اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ واقعہ میں یہ قرآن، یہ کتاب ہر لحاظ سے مکمل کامل اور اکمل اور اتم ہے.ریب کے ایک معنی کی رُو سے قرآن کریم کی تعریف یہ نکلتی ہے کہ انسان کی روحانی اور جسمانی اور معاشرتی اور اخلاقی اور اقتصادی اور سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے والی صرف یہی ایک کامل کتاب ہے اور یہی ایک کامل کتاب ہے جو فطرت انسانی کے سب حقیقی تقاضوں کو پورا کرتی ہے.کیونکہ یہ اپنے ذاتی کمالات اور فضائل اور بے نظیر تعلیمات کے ساتھ اپنی ضرورت اور صداقت کو ثابت کرتی ہے.اگر میں اس دلیل کو پھر ایک دعوی قرار دے کر اس کے دلائل بیان کرنے لگوں تو اس ایک دلیل پر ہی بڑا وقت خرچ ہو جاتا ہے قرآن کریم کو ایک حد تک سمجھنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم کے دلائل اور فضائل اور بے نظیر تعلیمات اس قسم کی ہیں کہ جو تمام پہلی کتب پر اس کو افضل ثابت کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب بنی اسرائیل کی الہامی کتب کے متعلق سوال کیا گیا کہ ان کے ہوتے ہوئے قرآن کریم کی کیا ضرورت تھی ؟ تو آپ نے یہ جواب دیا کہ سارے قرآن کریم کا نام نہ لو وہ تو بہت وسیع کتاب ہے بڑے علوم اس کے اندر پائے جاتے

Page 670

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱/۲۱ پریل ۱۹۶۷ء ہیں.اس کے شروع میں سورۃ فاتحہ ہے اور سورۂ فاتحہ میں جو معارف اور حقانی دلائل بیان ہوئے ہیں ان معارف اور دلائل کے مقابلہ پر اپنی تمام روحانی کتب سے اگر تم وہ دلائل اور معارف نکال کر دکھا دو تو ہم سمجھیں گے کہ تمہاری کتابیں قرآن کریم کا مقابلہ کر سکتی ہیں.اس دعوت مقابلہ پر ایک لمبا زمانہ گذر چکا ہے اور کیتھولک ازم میں کئی پوپ یکے بعد دیگرے پیدا ہوئے اور کیتھولک چرچ کی سربراہی انہیں حاصل ہوئی.اسی طرح دوسرے فرقے تھے عیسائیوں کے ان میں سے کسی ایک کے سربراہ کو بھی یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ سورہ فاتحہ کے مقابلہ میں اپنی کتب سماوی سے اس قسم کے دلائل نکال کر پیش کر سکے.جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ تھا کہ ہم اس سورۃ سے نکال کر تمہارے سامنے رکھیں گے.پس لا ریب فیہ کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ کتاب جو اپنے ذاتی کمالات اور فضائل اور بے نظیر تعلیمات کے ساتھ اپنی ضرورت اور صداقت کو ثابت کر سکتی ہے اور جب آپ سے سوال کیا گیا کہ قرآن کریم کی ضرورت کیا ہے تو اس کا جو جواب دیا گیا اور اس جواب میں جس دعوت فیصلہ کی طرف بلایا گیا اس کو آج تک عیسائی فرقوں کے سر براہوں نے قبول نہیں کیا اور اس سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ وہ سورہ فاتحہ کے مضامین کے مقابلہ میں اپنی کتب سماوی کے مضامین کو پیش نہیں کر سکتے.الكتب کامل کتاب ہونے کی دوسری دلیل لا رَيْبَ فِيهِ میں اللہ تعالیٰ نے یہ دی ہے کہ قرآنی تعلیم انسان کو ظن اور گمان کے بے آب و گیاہ ویرانوں سے اٹھا کر دلائل اور آیات بینات کے ساتھ یقین کی رفعتوں تک پہنچاتی ہے اور یہ خوبی ہمیشہ اس میں قائم رہے گی.کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے محفوظ کیا ہوا ہے.رب کے ایک معنی کے لحاظ سے یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہے.شیطانی دجل اس میں راہ نہیں پاسکتا.اس لئے اس کا جواثر انسان کی روح پر آج پڑ رہا ہے وہی اثر اس کا قیامت تک انسان کی روح پر پڑتا چلا جائے گا.اس لئے یہ الکتب ایک کامل کتاب ہے.لَا رَيْبَ فِیهِ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کوئی ایسی ہدایت اور صداقت جو ایک کامل کتاب میں ہونی چاہیے وہ اس سے باہر نہیں رہی اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 671

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱/۲۱ پریل ۱۹۶۷ء نے متعدد مقامات پر غیر ادیان کو فیصلہ کی طرف بلایا ہے.مثلاً آپ نے فرمایا کہ ہستی باری تعالیٰ کے متعلق کوئی ایسی سچی اور حقیقی دلیل تم اپنی کتابوں سے نکال کر دکھا دو جو میں قرآن کریم سے نکال کر نہ دکھا سکوں.پس ہر وہ صداقت جس کا کوئی دوسری کتاب دعوی کر سکتی ہے وہ اس کے اندر پائی جاتی ہے اور بہت سی ایسی صداقتیں بھی اس میں پائی جاتی ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں پائی جاتیں اس لئے یہ الکتب ایک کامل کتاب ہے.لَا رَيْبَ فِیهِ کے چوتھے معنی کی رو سے یہاں یہ دلیل دی گئی ہے کہ اس پر عمل کر کے تو دیکھو تم ہر قسم کے مصائب اور آفات سے محفوظ ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاؤ گے پھر دنیا کا کوئی دجل یا دنیا کی کوئی طاقت یا دنیا کی کوئی سازش تمہارا حقیقی اور واقعی نقصان نہیں کر سکتی.نقصان تو و ہ ہوتا ہے جو حقیقتاً ضائع ہو جائے لیکن اگر کسی کے پانچ روپے گم ہو جائیں اور اس کا والد اس کو کہے کہ پانچ روپے تو تمہارے پانچ روپے کے بدلہ میں میں دیتا ہوں اور یہ دس روپے اس تشویش کے بدلہ میں ہیں جو تم کو اُٹھانی پڑی ہے اور اس طرح اسے پندرہ روپے مل جائیں تو دنیا کا کوئی عقلمند یہ نہیں کہے گا کہ اس کا پانچ روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ اس کے بدلہ میں اس کو پندرہ روپے مل گئے ہوں.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ دعویٰ کیا کہ تم اس پر عمل کر کے کسی نقصان یا مصیبت میں نہیں پڑو گے.یہ نہیں کہا کہ تمہیں کوئی دکھ نہیں دے سکے گا کیونکہ ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں لیکن حقیقی مومن اس چیز کو جسے دنیا تکلیف سمجھتی ہے اپنے لئے راحت سمجھتا ہے اور اس کا خدا اور اس کا رب اور وہ جو اس کا مالک ہے اور جس کی خاطر وہ یہ تکالیف برداشت کر رہا ہوتا ہے اس کے سرور کے، اس کی مسرت کے اور اس کے آرام کے ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ دکھ دینے والے نے مجھے تھوڑا دکھ دیا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اگر وہ اس سے زیادہ دکھ دیتا تو میرے رب کا مجھے اس سے بھی زیادہ پیار حاصل ہو جا تا.تو چونکہ یہ ایسی کتاب ہے جس پر عمل کرنے والا حقیقی مومن کبھی بھی گھاٹے میں نہیں رہتا اور اس کے مقابلہ میں جو دوسری کتب ہیں ان کا یہ حال نہیں اس لئے یہ ثابت ہوا کہ یہی کتاب الکتب ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء

Page 672

خطبات ناصر جلد اول میں فرمایا کہ خطبہ جمعہ ۱/۲۱ پریل ۱۹۶۷ء يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَا مِنُوا خَيْرًا لَكُمْ.(النساء : ۱۷۱) اے تمام بنی نوع انسان سنو کہ ایک کامل رسول کامل صداقت لے کر تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس پہنچ چکا ہے.تمہارا رب جس نے تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا تھا نشوونما اور ارتقاء کے مختلف مدارج میں سے تمہیں گزارتا ہوا وہ اس مقام پر تمہیں لے آیا ہے کہ اپنی کامل جنتوں میں تمہیں داخل کرے.سن لو کہ یہ رسول آگیا فَا مِنُوا جو وہ کہتا ہے اس پر ایمان لا و زبان سے بھی ، دل سے بھی اور اپنے جوارح سے بھی تم اسے مانو اور اس کی تعلیم پر عمل کرو.اگر تم اس کامل رسول پر ایمان لاؤ گے اور جو اکمل شریعت ہے اس کے مطابق تم اپنی زندگیاں گزارو گے تو تم خیر امت بن جاؤ گے اور جب تم خیر امت بنو گے اور صرف اس وقت جب تم خیر امت بنو گے تو تم اس قابل ہو گے کہ تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکو تمہارے ذریعہ سے تمام اقوام اور ہر زمانہ کے لوگ دینی اور دنیوی فوائد حاصل کریں گے جب تک تم اس مقام کو نہیں پاتے ساری دنیا اور دنیا کے ہر حصہ میں بسنے والی اقوام تم سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتیں اور جب تک تم سے ساری اقوام عالم فائدہ نہ اٹھا سکیں اس وقت تک نہیں کہا جاسکے گا کہ تم کو ( أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ) تمام دنیا کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور جب تک تمہارے متعلق یہ نہیں کہا جاسکے گا کہ تمہیں تمام دنیا کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس وقت تک وہ وعدہ نہیں پورا ہوگا کہ اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ اس واسطے امنوا تم اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے قرآنی شریعت پر ایمان لاؤ.اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو.تم خیر امت بن جاؤ گے.پس نزول قرآن کے ذریعہ وُضِعَ لِلنَّاسِ “ کا مقصد حاصل ہوا اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں فرماتا ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَوْ أَمَنَ اَهْلُ الْكِتَب لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ - (ال عمران : ١١١) اس آیت میں دراصل یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ابراہیمی پیشگوئی اور وعدہ کے مطابق امت محمدیہ

Page 673

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲۱ را پریل ۱۹۶۷ء بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کر دی گئی ہے اور ایک اُمت ایسی تیار ہو چکی ہے جو اخْرِجَتْ لِلنَّائی ہے.وہ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے.اور اس کی دلیل یہاں یہ دی ہے کہ یہ خیر امت ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہے تمام دنیا کی بھلائی کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے اور یہ دلیل یوں ہے کہ اگر آپ تمام دنیا کی شریعتوں پر غور کریں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ تمام شریعتیں اس قوم کی استعداد کے مطابق نازل ہوتی رہی ہیں جس قوم کی طرف ان کو نازل کیا جاتا رہا ہے.حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی طرف جو شریعت بھیجی گئی اس شریعت سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی روحانی استعداد میں اور صلاحیتیں کیا تھیں جو شریعت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف نازل ہوئی اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کی روحانی صلاحیتیں اور استعداد میں کیا تھیں.باقی سارے انبیاء کی قوموں کا بھی یہی حال تھا بہر حال اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو شریعت بھی جس قوم کی طرف نازل کی جاتی ہے وہ اس قوم کی روحانی صلاحیتوں اور استعدادوں کو مدنظر رکھ کر نازل کی جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا کسی قوم پر وہ بوجھ نہیں ڈالتا جس کو وہ برداشت نہ کر سکے.دوسری حقیقت جو بڑی واضح ہے وہ یہ ہے کہ قرآنی شریعت پہلی تمام شریعتوں کے مقابلہ میں اکمل اور اتم اور کامل اور مکمل ہے.اگر آپ پہلی شرائع کے احکام ( اوامر ونواہی) کو قرآن کریم کے احکام کے مقابلہ پر رکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم میں چھ سات صد سے زائد احکام اوامر و نواہی) اس اُمت کے لئے نازل کئے گئے ہیں ان کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر معدودے چندا حکام کا نزول ہوا.پھر سینکڑوں ایسے احکام قرآنیہ ہیں جو پہلی کسی شریعت میں بھی ہمیں نظر نہیں آتے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلی شرائع کے احکام ( اوامر ونواہی ) محدود تھے بوجہ اس کے کہ اس قوم کی استعداد یں محدود تھیں جس کی طرف انہیں نازل کیا گیا تھا اور قرآن کریم کا ایک کامل اور مکمل شریعت ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ بنی نوع انسان اس زمانہ میں جب قرآن کریم نازل ہوا کامل روحانی استعدادوں کے حامل تھے ورنہ قرآن کریم ان کی طرف نازل نہ ہوتا.پس قرآنی تعلیمات کے کمالات خاصہ اس اُمت کے استعدادی کمالات پر شاہد ہیں.

Page 674

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۵۸ خطبہ جمعہ ۲۱ را پریل ۱۹۶۷ء قرآن کریم کی تعلیم کے جو کمالات ہیں اور ان کی جو وسعت ہے اور اس کی جوشان ہے اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کریم کے مخاطب اپنی استعدادوں میں پہلی تمام امتوں سے بڑھے ہوئے ہیں ورنہ وہ قرآن کریم کے حامل نہیں ہو سکتے تھے یعنی قرآن کریم کے مخاطب اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں میں پہلی سب اُمتوں سے افضل اور برتر اور بزرگ تر ہیں اور پھر جب یہ استعدادیں اور صلاحیتیں قرآنی تعلیم کی تربیت کے نیچے آئیں تو روح القدس کی معرفت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کی متابعت کی برکت سے ایسے روحانی وجود پیدا ہوئے جو اپنی کمیت اور کیفیت اور صورت اور حالت میں تمام پہلے انبیاء کے روحانی بچوں سے اکمل اور اتم ٹھہرے اور جب تک یہ خیر امت پیدا نہ ہو جاتی کہ کوئی پہلی اُمت اس کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکتی اور یہ سب سے آگے نہ نکل جاتی اور آئندہ کوئی ایسی اُمت پیدا نہ ہو سکتی جو اس سے آگے بڑھ جائے یعنی وہ اپنے عروج اور کمال کو پہنچی ہوئی ہو اس وقت تک وُضِعَ لِلنَّاسِ کا وعدہ پورا نہیں ہوتا تھا کیونکہ ناقص شریعت کے نتیجہ میں اور ناقص تربیت سے یہ امید نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ تمام اکناف عالم کو فائدہ پہنچانے والی ہو.غرض افاضۂ خیر میں نہ کسی اُمت نے آج تک اُمت مسلمہ کا مقابلہ کیا اور نہ کوئی ایسی اُمت قیامت تک پیدا ہوسکتی ہے جو امت مسلمہ کے مقابلہ میں آئے.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اسی ابراهیمی وعده کے مطابق تمہیں لِلنا کس پیدا کیا گیا ہے تمام دنیا تم سے فیوض حاصل کرے گی تم سے برکات پائے گی اور دلیل اس کی یہ ہے کہ تم خیر امت ہو ہر دو لحاظ سےاستعداد کے لحاظ سے بھی اور تربیت کے نتیجہ میں جو رنگ اسوۂ رسول اور اخلاق حسنہ کا تم نے اپنے اوپر چڑھایا ہے اس کے لحاظ سے بھی اور تم ہی وہ ہو سکتے ہو جن سے ساری دنیا فائدہ اُٹھا سکے.پس تمہارا خیر امت ہو جانا تمہاری صلاحیتوں اور استعدادوں کا اپنے کمال تک پہنچ جانا اور پھر ان صلاحیتوں اور استعدادوں کی تربیت کا اپنے کمال تک پہنچ جانا یہ بتاتا ہے کہ وہ وعدہ پورا ہو گیا کہ بیت اللہ کو وُضِعَ لِلنَّاسِ تمام اقوامِ عالم کے فائدہ اور بہبود کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے.یہ بھی یادر ہے کہ انسان تمام بنی نوع انسان کو صرف اسی صورت میں فائدہ پہنچا سکتا ہے

Page 675

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۵۹ خطبہ جمعہ ۱/۲۱ پریل ۱۹۶۷ء جب وہ تمام بنی نوع انسان کو اخوت اور مساوات کے مقام پر لا کھڑا کرے اور کسی امتیاز یا تفریق کو جائز نہ سمجھے.چنانچہ وہ تمام باتیں جو انسانی عزت اور احترام کو قائم کرنے والی تھیں وہ اُمت مسلمہ کی شریعت میں قرآن کریم یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ یا احادیث میں پائی جاتی ہیں.اسلام نے انسان انسان کے درمیان ہر امتیاز اور ہر تفریق کو مٹا کر رکھ دیا ہے اور اس طرح پر انسان کی عزت اور تو قیر کو قائم کیا ہے.حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ دیا اس میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ الا ہوشیار ہو جاؤ اور کان کھول کر سنو کہ تمہارا رب ایک ہے وہ ایک ذات ہے جس کی ربوبیت کے نتیجہ میں تمام اقوام مختلف فاصلے طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ گئی ہیں کہ ان تمام اقوام کی روحانی اور اخلاقی استعداد میں اور صلاحیتیں ایک جیسی ہو گئی ہیں اور اب وہ آخری شریعت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو گئی ہیں.تمہارا پیدا کرنے والا ایک ہے اس نے تمہاری جسمانی اور روحانی استعدادوں کو ایک جیسا پیدا کیا ہے.قوم قوم میں اس نے فرق نہیں کیا.یہ صحیح ہے کہ افراد کا اپنا اپنا ایک ترقی کا دائرہ ہوتا ہے لیکن قوم قوم میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی.یہ نہیں کہ ایک قوم ذلیل یا حقیر ہے یا اس کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ جسمانی یا روحانی یا علمی یا اخلاقی یا معاشرتی یا اقتصادی ترقی نہیں کر سکتی پس فرمایا کہ ہوشیار ہو جاؤ.کان کھول کر سنو کہ تمہارا رب جس نے تمہیں پیدا کیا، جس نے تمہارے قومی کو پیدا کیا، جس نے تمہاری صلاحیتوں کو پیدا کیا ، جس نے تمہاری استعدادوں کو پیدا کیا پھر ان کی ربوبیت کی اور ارتقاء کے مدارج میں سے تم کو گزارا اور تمہاری نشو و نما کو کمال تک پہنچا یا وہ پاک ذات واحد ہے ایک ہے اور تم یہ بھی یاد رکھو کہ تمہارا باپ بھی ایک ہے یعنی تم سب آدم کی نسل سے ہو غرض تمہارا رب پیدا کرنے والا ایک ہے تمہارا باپ آدم ایک ہے.اگر تم مختلف باپوں کی اولاد ہوتے تو تم کہتے ہم نے اپنے اپنے باپوں سے ورثہ حاصل کیا ہے اور ہمارا باپ بزرگ تر اور برتر تھا اس کے ورثہ میں ہمیں از خود یہ برتر رتبہ مل گیا ہے مگر ایسا کہنا درست نہیں کیونکہ باپ ایک ہے.پھر اگر مختلف خدا ہوتے.مختلف رب ہوتے تو کوئی قوم کہہ سکتی تھی کہ جس رب نے ہمیں پیدا کیا ہے وہ زیادہ طاقت ور اور زیادہ عالم اور زیادہ قادر اور زیادہ

Page 676

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۶۰ خطبہ جمعہ ۲۱ را پریل ۱۹۶۷ء شفقت کرنے والا اور زیادہ رحم کرنے والا تھا اس نے ہمیں زیادہ دے دیا.دوسروں کو پیدا کرنے والا رب علم میں زیادہ نہیں تھا اس کی قدرت زیادہ نہ تھی اس میں رحم زیادہ نہ تھا اس کو اپنی مخلوق کے ساتھ وہ محبت نہیں تھی جو ہمارے رب نے ہم سے کی اس لئے ان کو کم چیز میں ملی ہیں اس لئے یہ اس لحاظ سے کم تر ہو گئے ہیں.مگر جب تمہارا رب ایک ، جب تمہارا باپ ایک تو تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے نہ کسی سیاہ کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی سرخ رنگ والے کو سیاہ فام پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور ایک اور جگہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ نہ کسی سرخ رنگ والے کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی سفید فام کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت حاصل ہے فضیلت کا معیار تمہارے رب کی نگاہ میں اور ان استعدادوں کے نتیجہ میں جو تمہارے اندر اس نے پیدا کی ہیں ایک ہی ہے اور وہ ہے تقویٰ.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بزرگ تر وہ ہے جو زیادہ متقی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی نگاہ کا تو تمہیں پتہ نہیں.b لا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى - (النجم : ٣٣) جب بزرگی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی نگاہ پر ہوا اور ہمیں اس نگاہ کا پتہ نہیں کہ وہ پیار کی ہے یا غضب کی ہے تو پھر ایک دوسرے پر بزرگی نہ جتایا کرو.یہ ایک مثال ہے جو میں نے دی ہے ور نہ اسلامی تعلیم ایسے احکام اور تعلیمات سے بھری پڑی ہے مثلاً اقتصادی لحاظ سے اسلام کسی کی برتری کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ امیر کو یہ کہتا ہے کہ جب تک غربت قائم ہے تیرا تیرے مال پر کوئی حق نہیں.جیسے فرما یا :.وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَتَّى لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ - (الثَّرِيت :۲۰) میرے نزدیک اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ جب تک ضروریات زندگی ہر فر د قوم کو نہیں مل جاتیں کسی مالدار کا اپنے مال پر حق باقی نہیں رہتا جب ضروریات زندگی پوری ہو جا ئیں پھر جو باقی بچتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اسے جائز راہوں پر خرچ کرنے سے اسلام نہیں روکتا.لیکن اگر ہمسایہ بھوکا ہو اور تم پانچ یا سات کھانے کھاؤ تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.پس کسی لحاظ سے

Page 677

خطبات ناصر جلد اول ۶۶۱ خطبہ جمعہ ۲۱ را پریل ۱۹۶۷ء بھی کسی قوم کو بحیثیت قوم کسی دوسری قوم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں مثلاً علم کے میدان میں سب دماغ ایک جیسے ہیں، ہر قوم میں بڑے اچھی صلاحیت والے اور جینیس (Genius) قسم کے دماغ بھی ہیں اور ہر قوم میں دماغی لحاظ سے خرد ماغ بھی ہیں.ان کی اپنی اپنی صلاحیتیں ہیں لیکن یہ بات غلط ہے کہ کوئی قوم ساری کی ساری علم کے میدان میں خر دماغ ہو اور ایک دوسری قوم ساری کی ساری علم کے میدان میں جینیس (Genius) ہو.یہ صحیح ہے کہ جو حاکم قومیں ہیں وہ اپنے گدھوں کو بھی رفعت کے مقام پر لے جاتی ہیں.مثلاً میرے ساتھ ایک طالب علم آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا وہاں طریق یہ ہے کہ جو طالب علم پڑھائی میں چل نہ سکے اس کا روپیہ ضائع نہیں کرتے بلکہ ایک ٹرم کے بعد جب وہ اپنے گھر جاتا ہے اور اس ٹرم کا نتیجہ نکلتا ہے تو اسے گھر میں خط بھیج دیتے ہیں کہ تمہیں واپس تشریف لانے کی ضرورت نہیں تم وہیں کام کرو.انگریزی میں اسے کہتے ہیں Sent Home گھر بھیج دیا گیا.اتفاقاً میرے گروپ کا ایک لڑکا دوسری ٹرم میں واپس نہ آیا.مجھے اس وقت ان کے طریق کا علم نہیں تھا اس لئے میں نے دوستوں سے پوچھا کہ فلاں طالب علم کیوں نہیں آیا؟ کیونکہ مجھے یہ خیال بھی پیدا ہوا کہ بعض موتیں بھی ہو جاتی ہیں اور پھر حادثات بھی ہو جاتے ہیں پتہ نہیں کیا بات ہے کہ وہ لڑکا واپس نہیں آیا.تو مجھے ایک دوست نے بتایا کہ He is sent home اس کو انہوں نے فارغ کر دیا ہے.1944ء میں جب میں دہلی گیا تو پلیٹ فارم پر اتفاقاً ایک شخص پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ یہ وہی لڑکا ہے وہ اس وقت انگریزی حکومت کا ایک بڑا افسر تھا اس نے مجھے پہچان لیا اور میں نے اس کو پہچان لیا.ہم ایک دوسرے سے ملے میں نے دل میں کہا کہ چونکہ اس قوم کو دنیوی اقتدار حاصل ہے اس لئے یہ ہمارے ملک کے محاورہ کے مطابق اپنے گدھوں کو بھی افسر بنا دیتے ہیں اور افسر بھی ہمارے او پر.غرض ہر قوم میں اچھے دماغ بھی ہیں اور بڑے دماغ بھی ہیں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں آپ کو یہ چیز نہ ملے.کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے سارے دماغ اچھے ہوں اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے سارے دماغ برے ہوں.اچھے اوسط درجہ کے اور بڑے سب ہی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں غرض اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی امتیاز قائم رکھا جائے.بلکہ وہ مساوات

Page 678

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۶۲ خطبہ جمعہ ۲۱ را پریل ۱۹۶۷ء قائم کرتا ہے مثلاً تعلیم کے میدان میں دیکھو اسلام علم سیکھنے پر بہت زور دے رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جتنا جتنا علم کوئی سیکھ سکے جتنی جتنی کسی کے اندر صلاحیت اور استعداد ہو اس کو علم سکھانا چاہیے اور اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ کوئی تھرڈ کلاس لڑکا جو رعایتی پاس ہونے والا ہو اس کو وظیفہ نہیں دینا چاہیے کیونکہ وہ ضیاع ہے.لیکن جو ہو شیار طالب علم ہے اس کے دماغ کو ضائع کرنا اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور قوم کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے غرض اسلام نے انسان انسان میں مساوات کو اور اس کے بعد اخوت کو قائم کر دیا ہے.اس نے دل کے سارے کینوں اور بغضوں کو نکال کر باہر پھینک دیا ہے اور اس نے کہا ہے تم بھائی بھائی کی طرح ایک دوسرے سے پیار کرو اور پھرا اپنی بنیادی تعلیم کو تین بڑے ستونوں پر قائم کیا ہے اور وہ تین ستون عدل ، احسان اور ایتاء ذی القربی ہیں.ہر وہ قوم جو بین الاقوامی حیثیت کی مالک ہو یا وہ رشتے اور تعلقات جو بین الاقوامی ہوں وہ اگر عدل کے اصول پر قائم ہوں اور اس سے بڑھ کر احسان کے اصول پر قائم ہوں اور پھر اس سے بھی بڑھ کر ایتاء ذی القربی کے اصول پر قائم ہوں تو آج دنیا کے سارے فسادات مٹ جاتے ہیں اور دنیا ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے لگتی ہے بجائے اس کے کہ وہ یہ سوچتی رہے کہ ہم دوسروں کو کس طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے یہ بنیادی حکم دے کر ہمیں بتایا ہے کہ تم میں سے بعض طبائع عدل سے آگے نکل سکیں گی.انہیں ہم کہتے ہیں کہ تم عدل کے مقام کو چھوڑ کر نیچے نہ گر ناور نہ تم مسلمان نہیں رہوں گے.بعض طبائع ایسی ہوں گی جو عدل کے مقام سے او پر پرواز کریں گی اور احسان کے مقام پر پہنچ جائیں گی لیکن اس سے آگے نہیں جاسکیں گی ان کو ہم کہتے ہیں کہ اگر تم نے احسان کے مقام کو چھوڑ دیا اور باوجودا پنی استعداد کے تم گر کر عدل کے مقام پر آگئے تو یادرکھوتم اللہ تعالیٰ کی بہت سی ایسی نعمتوں سے محروم ہو جاؤ گے کہ جنہیں تم اس مقام پر قائم رہتے ہوئے حاصل کر سکتے تھے اور یہ کوئی معمولی خسران نہیں ہے بلکہ یہ بہت بڑا خسارہ ہے.پھر تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جوان ہر دو مقام سے اوپر ہوکر ایتا ء ذی القربی کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں اور پہنچ سکتے ہیں.ان کو ہم کہتے ہیں کہ تم احسان کے مقام پر راضی نہ ہو جانا ورنہ تم خدا تعالیٰ کی بے نظیر اور بے مثال نعمتوں اور فضلوں اور برکتوں سے محروم ہو جاؤ گے.غرض اسلام

Page 679

خطبات ناصر جلد اول ۶۶۳ خطبہ جمعہ ۱/۲۱ پریل ۱۹۶۷ء نے انسان انسان کی مساوات اور اخوت اور پیار کو ان تین ستونوں پر قائم کیا ہے.اس وقت کافی دیر ہوگئی ہے.مگر میں یہ چاہتا تھا کہ اس مقصد پر تفصیل سے بات ہو جائے کیونکہ یہ مقصد تیئیس مقاصد میں سے ایک بنیادی چیز ہے.آخری مقصد بھی ایسا ہی اہم ہے بیچ میں سے ہم جلدی نکل جائیں گے.اس سلسلہ میں ایک دوست نے خواب بھی دیکھی ہے.(انہیں تو اس کی تعبیر سمجھ نہیں آئی تھی) چند دن ہوئے انہوں نے مجھے لکھا کہ میں نے دیکھا کہ میں (اور میرے ساتھ کچھ دوست اور بھی ہیں ) قادیان کے اسی چوک میں ہوں جس میں مسجد مبارک کے اس حصہ کی سیڑھیاں اترتی ہیں جو بعد میں بڑھایا گیا تھا ( یہاں بہت سارے عزیز بچے ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے قادیان دیکھا ہی نہیں اور وہ سمجھ ہی نہیں سکتے لیکن جنہوں نے قادیان دیکھا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ مسجد مبارک کے اس حصہ کو جو نیا بنا تھا سیڑھیاں ایک چوک میں اترتی تھیں.اس دوست نے لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم اس چوک میں کھڑے ہیں ) آپ بڑی تیزی سے آئے ہیں.آپ کے چہرے پر بشاشت اور ر وفق ہے.آپ کچھ سیڑھیاں چڑھتے ہیں اور پھر ہماری طرف دیکھتے ہیں پھر کچھ اور سیڑھیاں چڑھتے ہیں اور ہماری طرف دیکھتے ہیں.دو دفعہ آپ نے ایسا کیا ہے اور پھر آپ ساری سیڑھیاں چڑھ گئے ہیں.پھر آپ نے اذان دی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ عصر کی نماز کا وقت ہے اس لئے آپ نماز عصر پڑھا ئیں گے.لیکن نماز سے پہلے جو اذان آپ نے دی ہے ہم نے محسوس کیا کہ وہ معمول سے زیادہ لمبی ہے اور یہ حصہ مضمون جو میں بیان کر رہا ہوں ایک خاص پروگرام کی طرف بلانے کا ہی رنگ رکھتا ہے.تا کہ جس وقت میں اس پروگرام پر آؤں تو آپ پس منظر سے پوری طرح واقفیت حاصل کرنے کے نتیجہ میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں.(اور اذان کا زیادہ لمبا ہونا اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے) غرض وضعَ لِلنَّاسِ ایک مقصد بیت اللہ کی تعمیر کا تھا اور چونکہ یہ اس لحاظ سے بڑا ہی اہم ہے کہ باقی سارے مقاصد کا اس پہلے مقصد کے ساتھ یا پھر جو آخری مقصد رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ الخ میں بیان ہوا میرا اس کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور میں چاہتا تھا کہ اس مقصد کو تفصیل کے ساتھ بیان کروں تا آپ اچھی طرح سمجھ جائیں کہ وضع للناس کی

Page 680

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۶۴ خطبہ جمعہ ۱/۲۱ پریل ۱۹۶۷ء پیشگوئی پوری نہیں ہو سکتی تھی جب تک ایک ایسی اُمت دنیا میں پیدا نہ ہو جائے جو خیر الام ہو اور وہ اُمت پیدا نہیں ہو سکتی تھی جب تک کہ قرآن کریم کی شریعت جو کامل اور اکمل ہے اس کا نزول نہ ہو جائے اور ہر شریعت کا نزول قوم کی استعداد کے مطابق ہوتا ہے قرآن کریم کی شریعت چونکہ ہر پہلو اور ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہے اس لئے اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں (اور اس کے علاوہ کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے ) کہ وہ اقوام جو اس زمانہ میں اور پھر قیامت تک اس کی مخاطب تھیں اور مخاطب رہیں گی وہ اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے قرآن کریم کی حامل ہو سکتی تھیں اور قرآن کریم کی تربیت کو قبول کرنے کے بعد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکات سے حصہ لینے کے بعد ان کی شکلیں ان کے حلئے کچھ اس طرح بدلے کہ ایک حقیقت بین نگاہ میں وہ نئے انسان بن گئے یعنی ان کی جو پہلی شکل تھی یا جو پہلے نقوش تھے ان کا کوئی حصہ باقی نہ رہا بلکہ نئے نقوش ابھر آئے جس طرح ریشم کا کیڑا جب ریشم بنا چکتا ہے تو اگر انسان اس کو موقع دے اور ریشم کا وہ جال جو اس نے اپنے ارد گرد بنایا ہوا ہوتا ہے اس میں سے باہر نکل آئے تو وہ پہلا کیڑا نہیں رہتا بلکہ اس کا پہلا سر.پہلی آنکھیں اور پہلا حلیہ بالکل بدل جاتا ہے پہلے اس کے پر نہیں ہوتے لیکن ۲۴ یا ۴۸ گھنٹوں کے اندراندر اس کے پر نکل آتے ہیں.نیا سر پیدا ہو جاتا ہے، نئی آنکھیں پیدا ہو جاتی ہیں بالکل یہی مثال ان لوگوں کی ہے کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے پہلے وہ زمین کے کیڑے تھے اور بعد میں ان کو اللہ تعالیٰ نے نئی بصارت دی، نئی آنکھیں دیں، نئے دماغ دیئے.پرواز کی نئی قوت عطا کی پھر وہ آسمان کی وسعتوں میں اڑنے لگے اور جب یہ قوم پیدا ہو گئی تو وضع لِلنَّاس کا وعدہ بھی پورا ہو گیا.اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اس قوم پر جس کو قرآن کریم خیر امت کہہ رہا ہے دنیا کی خدمت کرنے کے سلسلہ میں کس قسم کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین ) روزنامه الفضل ربوہ ۷ رمئی ۱۹۶۷ ء صفحہ ۱ تا ۵)

Page 681

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعہ کعبتہ اللہ کی عالمگیر برکات کا ظہور خطبه جمعه فرموده ۵ رمئی ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور پر نور نے آیت إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَةَ مُبَرَكَا وَهُدًى لِلْعَلَمِينَ (ال عمران: ۹۷) کی تلاوت فرمائی.پھر فرمایا.دوا یک روز سے شدید نزلہ کا حملہ پھر ہو گیا ہے جس کا اثر گلے پر بھی ہے ویسے بھی بڑی تکلیف ہے لیکن مجھ سے رہا نہیں گیا.میں نے سمجھا کہ میں دوستوں سے مل لوں اور جو مضمون میں نے شروع کیا ہوا ہے اس کا کچھ حصہ آج بیان کروں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے.میں بتا رہا ہوں کہ ان آیات کریمہ میں جو تنیس مقاصد تعمیر بیت اللہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.وہ بعثت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کس طرح پورے ہوئے پچھلے ایک خطبہ میں وُضِعَ لِلنَّاسِ کی تفسیر اس پس منظر میں میں نے پیش کی تھی.دوسرا مقصد جوان آیت میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ مبارک ہے میں نے بتایا تھا مُبارک کا لفظ یہاں دو معنوں میں لیا جا سکتا ہے.اول یہ کہ خانہ کعبہ اقوام عالم کے نمائندوں کی قیام گاہ بنے گا اور تمام اقوام سے ایسے لوگ یہاں جمع ہوتے رہیں گے جو روحانی میدانوں کے شیر ہوں گے.بہادری کے ساتھ ثابت قدم رہنے والے ابطال کی یہ قیام گاہ ہوگی تاریخ اس

Page 682

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء بات پر شاہد ہے کہ اس معنی میں بیت اللہ ساری دنیا کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل مبارک کبھی نہیں ہوا یعنی اقوام عالم کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل خانہ کعبہ کی ، اس بیت اللہ کی محبت اس رنگ میں کبھی پیدا نہیں ہوئی کہ یہ اس کی طرف کھچے چلے آتے اور خانہ کعبہ میں کوئی ایسا سامان بھی نہ تھا کہ اگر اقوام عالم کے نمائندے وہاں پہنچتے تو ان کے دلوں کی تسکین کا وہ باعث بنتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس لحاظ سے دنیا کا نقشہ بدل گیا اقوام عالم کے دلوں میں ایک طرف بیت اللہ کی محبت پیدا ہوئی تو دوسری طرف ایسے سامان بھی پیدا ہو گئے کہ لوگ وہاں جائیں اور روحانی یا منقولی یا عقلی یا دینی علوم سیکھیں اور وہ ایسے علوم ہوں جو تمام قوموں کو ہر زمانہ کے رہنے والوں کو دینی اور دنیوی فوائد پہنچا سکیں اس معنی کے لحاظ سے تاریخی ثبوت اتنا واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ اس غرض کو پورا کیا گیا ہے کہ اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.دوسرے معنی مبارگا کے جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں یہ ہیں کہ مکہ کو مولد بنایا جائے گا ایک ایسی شریعت کا جس میں وہ تمام بنیادی صداقتیں اور ہدایتیں جمع کر دی جائیں گی جو انبیاء سابقین کی شریعتوں میں متفرق طور پر پائی جاتی تھیں.صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی شریعت ہے جس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں نے تمام پرانی صداقتوں کو اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے.قرآن کریم سے قبل کسی شریعت نے بھی ایسا دعویٰ نہیں کیا اور نہ وہ ایسا دعویٰ کر سکتے تھے.کیونکہ ان کو نازل کرنے والا خدا جانتا تھا کہ ان شرائع کا نزول خاص قوموں اور ایک خاص زمانہ تک کے لئے ہے.قرآن کریم نے یہ دعویٰ مختلف آیات میں کیا ہے.جن میں سے بعض میں اس وقت اپنے دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ الانعام میں فرماتا ہے.وَهذَا كِتب اَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.(الانعام : ۱۵۶) یعنی یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے اور ایک ایسی شریعت ہے جو مُبارک ہے تمام آسمانی کتابوں کی خوبیاں اور ان کی بنیادی صداقتیں گویا بہہ کر اس کے اندر آ گئی ہیں.اب تم اس

Page 683

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء کتاب مبارک کی کامل پیروی کرو (اتَّبِعُوهُ ) اس سے تمہیں دو فائدے پہنچیں گے.ایک تو یہ کہ تم خدا کی پناہ میں آ جاؤ گے خدا تمہاری ڈھال بن جائے گا اور وہ تمام شیطانی وساوس سے تمہیں بچائے گا کیونکہ اس کتاب مبارک کی اتباع کے بغیر تقویٰ کی صحیح راہوں کا عرفان بھی حاصل نہیں ہوتا اور ان پر چل کر اللہ تعالیٰ کی کامل حفاظت کے اندر بھی انسان نہیں آسکتا اور دوسرا نتیجہ اس کا یہ نکلے گا کہ تُرحَمُونَ اللہ تعالیٰ کے رحم کے تم مستحق ٹھہرو گے اور اس کے انعامات بے پایاں کے نتیجہ میں جسمانی اور روحانی آسودگی تمہیں حاصل ہوگی.اسی طرح دوسری جگہ (سورۃ الانعام کی آیت ۹۳ میں ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَهذَا كِتَب اَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ مُصَدِّقُ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا - یعنی یہ قرآن عظیم الشان کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے پہلی تمام امتوں کی ہر قسم کی برکات کی جامع ہے.(مُبَارَك) اور ان بشارتوں اور پیشگوئیوں کے مطابق نازل ہوئی ہے یہ کتاب ، جو اس کتاب کے متعلق پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں.نیز ان تمام شرائع سابقہ کی بنیادی صداقتوں اور ہدایتوں پر مہر تصدیق ثبت کرنے والی ہے ( اس کے اندر ان کو جمع کر دیا گیا ہے ) اسی طرح ابراهیمی قربانیوں اور دعاؤں کا یہ ثمرہ ہے اس لئے تم اہل مکہ اور اہل عرب کو خبر دار کرو کہ جس اکمل شریعت کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہوا اور موجودہ شریعت تم پر نازل ہوگئی.اگر تم اس سے منہ پھیرو گے تو جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ تمہیں پہلے سے خبر دار کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے غضب کے تم مور د بنو گے اور عَذَابُ النَّارِ کی طرف گھسیٹ کر تمہیں لے جایا جائے گا.اس آیت میں بڑی وضاحت سے یہ مضمون پایا جاتا ہے کہ مُبَارَك کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور ابراہیم کی پیشگوئیوں کے ساتھ ہے لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا میں مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے.تو ہر دو معنی کے لحاظ سے یہ خانہ خدا مبارک اس وقت بنا جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے دنیا کے دل میں مکہ کی محبت پیدا کی گئی اور دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مکہ میں شریعت اسلامی کا نزول ہوا.

Page 684

خطبات ناصر جلد اول ۶۶۸ خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء تیسری غرض تعمیر کعبہ کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ هُدًى تِلْعلمين تمام جہانوں کے لئے اسے ہدایت کا مرکز بنایا جائے گا.یعنی یہاں ایک ایسی شریعت نازل ہو گی جس کا تعلق کسی ایک قوم یا کسی ایک زمانہ کے ساتھ نہ ہوگا بلکہ علمین کے ساتھ ہوگا.تمام اقوام کے ساتھ ہو گا.تمام اکناف عالم کے ساتھ ہو گا تمام جہانوں کے ساتھ ہوگا اور تمام زمانوں کے ساتھ ہوگا.اس سلسلہ میں پہلی بات یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ پہلی کتب سماوی کے نزول کے وقت انسان کی کمزور استعداد یں اس لائق نہ تھیں کہ وہ کامل اور مکمل شریعت کی متحمل ہوسکتیں.اس لئے ان میں سے کسی کا بھی یہ دعوی نہ تھا کہ وہ تمام اقوام عالم اور ہر زمانہ کے لئے ہیں.لِلْعَالَمِينَ ہونے کا دعویٰ قرآن سے پہلے کسی شریعت نے نہیں کیا.صرف قرآن کریم نے ہی یہ دعوی کیا ہے اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دنیا کو پکار کر کہا کہ میں تم سب کی طرف خدا کا رسول ہوں.قرآن کریم میں بہت سی آیات اس مضمون کی پائی جاتی ہیں.میں نمونہ کے طور پر چند ایک یہاں بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَنَزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِنْيَانَا لِكُلِّ شَيْءٍ - (النحل : ٩٠) یعنی ہم نے تیرے پر وہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر ایک چیز اور ہر ایک تعلیم کو بیان کر دیا گیا ہے، جو ہم بنی نوع انسان کی روحانی ترقیات کے لئے بیان کرنا چاہتے تھے یعنی ہمارے علم کامل میں جو تعلیمیں بنی نوع انسان کی اعلیٰ روحانی ترقیات کے لئے ضروری تھیں وہ ہم نے اس کتاب میں بیان کر دی ہیں اور دوسری جگہ فرمایا مَا فَرَّطْنَا فِي الكتب مِنْ شَيْءٍ (الانعام :۳۹) یعنی بنی نوع انسان کی کامل استعدادوں کی صحیح نشو و نما کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت تھی وہ اس میں بیان ہو گئی ہے اور کوئی تعلیم اس کے باہر نہیں رہی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دعویٰ کیا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُم دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.(المائدة : ۴) یعنی قرآن کریم کے ذریعہ دین اپنے کمال کو اور روحانی نعمتیں اپنے انتہا کو پہنچ گئی ہیں.اب صرف اسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں صریح یہ بیان ہے کہ قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطا کی ہے اور

Page 685

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۶۹ خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء قرآن شریف کا ہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی.پس یہ دعوی کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا.یہ اُسی کا حق تھا.اس کے سوا کسی آسمانی کتاب نے ایسا دعویٰ نہیں کیا.جیسا کہ دیکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ توریت اور انجیل دونوں اس دعوے سے دستبردار ہیں.آپ نے تو رات اور انجیل کے متعلق جو دعویٰ کیا اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تورات نے تو یہ کہا کہ تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی مبعوث کیا جائے گا وہ خدا کا کامل کلام تمہیں سنائے گا اور جو اس کی نہیں سنے گا اور اس کی اتباع نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سے مواخذہ ہو گا.اگر تورات کامل ہوتی تو تو رات کے بعد کسی ایسی شریعت کے نزول کا امکان بھی نہ رہتا جس کے نہ ماننے پر اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے انسان آجاتا.اور انجیل نے یہ کہہ کر دستبرداری کا اعلان کیا کہ بہت سی باتیں قابل بیان ہیں مگر تم ان کی ابھی برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ تمہاری استعداد میں ابھی کامل نہیں ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ تعلیم کی رو سے ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہے اور کامل تعلیم کے لحاظ سے کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.“ کیونکہ ہر مذہب کو قرآن کریم اور اسلام فتح کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کیا.وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.(بنی اسراءیل : ۸۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہاں اَلْحَقِّ.مراد اللہ تعالیٰ کی ذات بھی ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بھی ہے اور قرآن کریم بھی ہے تو اس آیت کے معنی یہ بنے کہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا جلالی ظہور ہوا اور اس جلالی ظہور کے نتیجہ میں شیطان مع اپنے تمام لشکروں کے بھاگ گیا اور اس کی تعلیمیں ذلیل اور حقیر ثابت ہوئیں اور اس کی قائم کردہ بد رسوم اور بدعات شنیعہ کا گند ظاہر ہو گیا اور اس کے گروہ کو بڑی بھاری شکست ہوئی.

Page 686

خطبات ناصر جلد اول ۶۷۰ خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء پس قرآن کریم کا یہ دعوی ہے کہ اسی غرض کے لئے قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا چنانچہ سورہ تو بہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ - (التوبة : ٣٣) ضمناً میں یہ بتادوں کہ اس آیت میں عَلَی الدِّینِ محل تک کا جو ٹکڑا ہے قرآن کریم میں تین مختلف جگہوں پر آیا ہے اور ہر سہ جگہ علیحدہ علیحدہ معانی اور مضمون کو بیان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ وہ خدا ہی ہے جو اپنی ذات میں اور اپنی صفات میں کامل ہے اس نے اس رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اور اس بعثت اور اس ظہور کی غرض یہ ہے لِيُظْهِرَة عَلَى الدِّینِ محلہ کہ تمام ادیان پر اس شریعت کی اور اس رسول کی برتری کو وہ ثابت کرے.دین حق کی برتری ثابت ہوگی تو دین لانے والے کی برتری خود بخود ثابت ہو جائے گی.یہاں لِيُظهِرَهُ عَلَى الدِّینِ حلہ کہا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام ادیان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے دنیا میں موجود تھے لیکن ان کے حلئے اور شکلیں بگڑ چکی تھیں.جب بھی وہ اسلام کے مقابلہ پر آئیں گے شکست کھا ئیں گے.قرآن کریم میں ایسے سامان اللہ تعالیٰ نے رکھ دیئے ہیں اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسلامی شریعت کے بعد اگر کوئی جھوٹا دین قائم ہوگا تو اس کے اوپر بھی یہ غالب آجائے گا.کیونکہ یہاں دین کے ساتھ سابقہ ادیان کی کوئی شرط نہیں لگائی گئی مثلاً بہائی ہیں انہوں نے اپنا نیا دین بنا یا قرآن کریم کے مقابلہ میں.قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ ایسے ادیان جو شریعت اسلامیہ کے بعد پیدا ہوں ان کا سر کچلنے کی بھی قرآن میں طاقت ہے.کیونکہ یہ اس خدا کا کلام ہے جو عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے جس کے علم میں ہیں وہ تمام باتیں جو آئندہ پ ظہور میں آنے والی ہیں.تو دین اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کے مقابلہ میں نہ اگلے نہ پچھلے کوئی دین بھی ٹھہر نہیں سکتے وہ ہر ایک پر اپنے عقلی دلائل کے ساتھ اور اپنی روحانی صداقتوں اور ہدایتوں کے ساتھ اپنی آسمانی تائیدات اور نفرتوں کے ساتھ غالب آنے کی طاقت رکھتا ہے تو هُدًى تِلْعلمين تمام جہانوں کے لئے ہدایت ہونے کا دعویٰ صرف قرآن کریم نے کیا اور عملاً اسے ثابت بھی کیا ہے.

Page 687

خطبات ناصر جلد اول ۶۷۱ خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء میں نے بتایا تھا کہ ھدایة کے چار معنی لغت میں بیان ہوئے ہیں.پہلے معنی کے متعلق جو خطبہ چھپا ہے اس میں کچھ تھوڑ اسا ابہام ہے.اس کی میں وضاحت کر دیتا ہوں.ھدایة کے پہلے معنی یہ ہیں کہ عقل اور فراست کو جس راہنمائی کی ضرورت ہے اسے بھی ھدایة کہتے ہیں.یعنی عقل اور فراست میں اور علوم کے حصول میں اور اس کی تحقیق میں بھی انسان میں جو طاقتیں ودیعت کی گئی ہیں محض وہ کافی نہیں بلکہ ان کے لئے بھی آسمان سے کسی ہدایت کی ضرورت ہے.تو یہ قدر مشترک ہے تمام انسانوں میں، اس کا کسی مذہب کے ساتھ تعلق نہیں ہے.اس قدر مشترک کی راہنمائی بھی قرآن کہتا ہے کہ میں کرتا ہوں اور عقل تو خود اندھی ہے اگر نیر الہام اس کے ساتھ نہ ہو اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ بتانے کے لئے کہ جسمانی قابلیتیں اور روحانی استعدادیں کافی نہیں ہوتیں جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو کر آسمان سے اس کی ہدایت کا سامان پیدا نہ کیا جائے.بہت سی مثالیں قرآن کریم میں دی ہیں مثلاً ایک مثال یہ دی ہے کہ شہد کی مکھی کو ہم الہام کرتے ہیں اور قرآن کریم کا محض یہ ایک دعوئی ہی نہیں بلکہ الہی تصرف کے ماتحت انسانی تحقیق نے نہایت لطیف رنگ میں اور بڑی شان کے ساتھ قرآن کریم کے اس دعوی کو ثابت کیا ہے.چنانچہ شہد کی مکھی کے متعلق جو نئی تحقیق ہوئی ہے اس میں ایک یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان مکھیوں کی ملکہ (Queen) جب انڈے دے رہی ہو تو انڈا دیتے وقت اسے یہ الہام ہوتا ہے کہ اس انڈے میں نر بچہ پیدا ہوگا یا مادہ بچی ہوگی.چھتے میں مختلف جگہیں مقرر ہیں.ایک حصہ میں ماں وہ انڈے رکھتی ہے جن میں سے نر بچے پیدا ہونے ہوں اور چھتے کے ایک دوسرے حصہ میں ان انڈوں کو رکھتی ہے جن میں سے مادہ بچے پیدا ہونے ہوں تو سینکڑوں ہزاروں انڈے ایک مکھی جسے ملکہ کہتے ہیں دیتی ہے اور ہر موقعہ پر جب وہ انڈا دے رہی ہو اس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں سے نر نکلے گا یا مادہ نکلے گی.تو اس قسم کی بہت سی مثالوں سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سمجھایا ہے کہ محض اپنی طاقتوں اور قوتوں اور محض اپنی عقل اور فراست اور محض اپنے علم اور محض اپنی تحقیق پر بھروسہ نہ کرنا جب تک آسمان سے تمہارے لئے ہدایت نازل نہ ہو تم کسی میدان میں کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے اور

Page 688

خطبات ناصر جلد اول ۶۷۲ خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء چونکہ عقل تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور وہ جو خدائے تعالیٰ کے بتائے قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو الہام کرتا ہے اور نئے سے نئے مضامین ان کے دماغ میں ڈالتا ہے عقلی میدان میں علم کے میدان میں، خواہ کوئی مسلمان ہو یا عیسائی ہو یا دہر یہ ہو یا کسی مذہب کے ساتھ یا کسی بد مذہبیت کے ساتھ یا لامذہبیت کے ساتھ اس کا تعلق ہو کوئی فرق نہیں پڑتا.کیونکہ خدا تعالیٰ نے عقل کو مشترک ورثہ بنا کر انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے.قرآن یہ کہتا ہے کہ علاوہ بعض دوسری ہدایتوں کے جو آسمان سے نازل ہوتی ہیں ہم عقل کی بھی راہنمائی کرتے ہیں.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بڑے لطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے کہ وحی والہام کے ذریعہ انسانی عقلوں کو اللہ تعالیٰ تیز کرتا ہے اور پھر ذہن رسا سے جو علوم پرورش پاتے ہیں قرآن کریم ان سے خادموں کی طرح خدمت لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی ہستی اور خالقیت اور اس کی توحید اور قدرت اور رحم اور قیومی اور مجازات وغیرہ صفات کی شناخت کے لئے جہاں تک علوم عقلیہ کا تعلق ہے استدلالی طریق کو کامل طور پر استعمال کیا ہے اور اس استدلال کے ضمن میں....تمام علوم کو نہایت لطیف و موزوں طور پر بیان کیا ہے....اور..علوم مذکورہ سے ایک ایسی شائستہ خدمت لی ہے جو کبھی کسی انسان نے نہیں لی.“ اور یہ قرآن کریم کا کمال ہے کہ باقی ادیان تو رائج الوقت علوم کے سامنے دب سکتے ہیں لیکن اسلام ہی ایک ایسا دین ہے اور قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو کسی عقلی علم کے سامنے دیتی نہیں بلکہ اس کو خادم سمجھتی اور اس سے خدمت لیتی ہے.،، ھدایة کے دوسرے معنی شریعت کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو.تو ھدی للعلمین کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ شریعت جو عالمین کے لئے ، تمام جہانوں اور تمام زمانوں کے لئے ہے اور صرف قرآن کریم ہی ھدی للعلمین ہے اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو مخاطب کر کے فرما یا اِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعًا.(الاعراف : ۱۵۹) قرآن کریم بھرا

Page 689

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۷۳ خطبه جمعه ۵ رمئی ۱۹۶۷ء پڑا ہے اس مضمون سے کہ وہ تمام جہانوں اور تمام زمانوں کے لئے ہے.یہ صرف ایک دعوی نہیں بلکہ ایک ناقابل تردید صداقت ہے جس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں سنیے.حضور فرماتے ہیں:.جس قدر معارف عالیہ دین اور اس کی پاک صداقتیں ہیں اور جس قدر نکات و لطائف علم الہی ہیں جن کی اس دنیا میں تکمیل نفس کے لئے ضرورت ہے.ایسا ہی جس قدر نفس اتارہ کی بیماریاں اور اس کے جذبات اور اس کی دوری یا دائمی آفات ہیں یا جو کچھ ان کا علاج اور اصلاح کی تدبیریں ہیں اور جس قدر تزکیہ و تصفیہ نفس کے طریق ہیں اور جس قدر اخلاق فاضلہ کے انتہائی ظہور کی علامات و خواص ولوازم ہیں یہ سب کچھ باستیفا ئے تام فرقان مجید میں بھرا ہوا ہے اور کوئی شخص ایسی صداقت یا ایسا نکتہ الہیہ یا ایسا طریق وصول الی اللہ یا کوئی ایسا نادر یا پاک طور مجاہدہ و پرستش الہی کا نکال نہیں سکتا جو اس پاک کلام میں درج نہ ہو.اس کی تفصیل آگے حضور نے بیان فرمائی ہے.پس قرآن کریم کا ہی یہ دعوی ہے کہ انسانی نفس کو روحانی کمالات تک پہنچانے کے لئے جس جس ہدایت اور صداقت کی ضرورت تھی وہ سب میرے اندر پائی جاتی ہے، اگر تم میری اتباع کرو گے تو روحانی بیماریوں سے محفوظ ہو جاؤ گے اور روحانی ترقیات کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے اور تم اپنے نفس کا کمال حاصل کر لو گے.اور ہر وہ شریعت جس کا یہ دعویٰ ہو عقلاً اس کا یہ دعویٰ بھی ہونا چاہیے کہ غیر متناہی رفعتوں کے دروازے میں تم پر کھول رہا ہوں اور قرآن کریم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کیونکہ قرآن کریم کے شروع میں ہی کہا کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : ۳) کہ کوئی تقوی کے کسی بلند اور ارفع مقام تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے قرآن کریم اس پر تقویٰ کی مزید راہیں کھولتا ہے.پھر وہ آگے جاتا ہے پھر وہ مزید بلندیوں کو حاصل کرتا ہے پھر اس سے بھی بلند تر روحانی رفعتیں اس کے سامنے آتی ہیں.پھر وہاں تک پہنچنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور قرآن کریم اس کی انگلی پکڑتا ہے اور کہتا ہے تم میری اتباع کرو میں تمہیں ان مزید رفعتوں تک بھی لے جاؤں گا اسی طرح یہ سلسلہ چلا جاتا ہے اور اس کی انتہا نہیں.

Page 690

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۷۴ خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو دو طرح بیان فرمایا ہے.ایک یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فیوض ہیں ان فیوض کی حد بندی نہیں کی جاسکتی اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضانِ حضرت احدیت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقد را اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے.اسی ضمن میں آپ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہا نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں.“ تو قرآن کریم یا اسلام کا یہ دعویٰ کہ میں ھدی للعلمین ہوں انسانی نفس کو اس کے کمالات تک پہنچانے والا ہوں، یہ اس طرح پورا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود خدائے تعالیٰ کی نگاہ میں ایک ایسا پاک وجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیر محد و درحمتیں آپ پر نازل ہوتی رہتی ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے غیر محدو د جلوے آپ پر ہر آن ظاہر ہوتے رہتے ہیں تو جو شخص بھی آپ سے محبت کرے گا اور آپ کے لئے برکت اور رحمت اور سلام چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے ذاتی محبت کے بدلے کے طور پر ان تمام فیوض سے اس کو حصہ رسدی دیتا چلا جائے گا اور جب و شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل کچھ حاصل کر لے گا اس عرفان کے ساتھ کہ یہاں سے غیر محدود برکتیں حاصل کی جاسکتی ہیں تو مزید برکتیں آپ سے حاصل کرنے کے لئے اس کے دل میں خواہش پیدا ہوگی اور وہ زیادہ جوش کے ساتھ اور زیادہ قلبی محبت کے ساتھ آپ پر درود بھیجنے لگے گا اور پھر زیادہ برکات کا اس پر نزول شروع ہو جائے گا..اور دوسرے قرآن کریم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ میں غیر محدود انوار کے، میں غیر محدود برکات کے، میں غیر محدود مقامات قرب کے دروازے اپنے ماننے والوں اور قرآن کریم کی اتباع کرنے والوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 691

خطبات ناصر جلد اول ۶۷۵ خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء سے پیار کرنے والوں پر کھولتا ہوں چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - (التحريم : ٩) اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی اتباع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کے نتیجہ میں اس دنیا میں نور عطا ہوتا ہے ، وہ نور جس طرح اس دنیا میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا ہے اور ان کی رہنمائی کرتا ہے اور روحانی راہوں کو ان پر روشن کرتا رہتا ہے اسی طرح دوسری دنیا میں بھی یہ نور مومن سے جدا نہیں ہوگا اور یہ نہ سمجھ لینا کہ قرآن کریم کی کامل اتباع کے نتیجہ میں صرف اس دنیا میں غیر محد و درحمتوں کے دروازے کھلتے ہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی ان رحمتوں پر کوئی حد بندی نہیں لگائی جاسکتی.اس وقت بھی رحمتوں کے یہ دروازے کھلے رہیں گے کیونکہ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ جو اس دنیا میں اندھا ہوگا وہ اس دنیا میں بھی بینائی کے بغیر ہو گا.یہاں اس کے مقابل یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ جو اس دنیا میں روشنی اور نور رکھتا ہو گا وہ نور اس دنیا میں بھی اس کے ساتھ جائے گا اور یہ نہیں کہ اس دنیا میں روحانی ترقی کے دروازے تو ایسے شخص پر کھلے رہیں گے اور وہاں جا کے صرف فصل کٹنے کے بعد جو اس کے پھلوں کے کھانے کا وقت ہوتا ہے.وہی وقت ہوگا پھر اور مزید ترقی اسے نہیں ملے گی.جو پہلے اس نے حاصل کر لی ان نعمتوں سے صرف وہی حظ اور سرور حاصل کرتا رہے گا.یہ بات نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے انسانی روح کے لئے ایسے سامان پیدا کر دئے ہیں کہ جونو ر وہ قرآن کریم کی متابعت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اس دنیا میں حاصل کرتا ہے.وہ اس کے ساتھ جائے گا.اور اللہ تعالیٰ وہاں بھی اس کی ترقیات کے دروازے کھولتا رہے گا اور اس کی راہوں کو روشن کرتا چلا جائے گا اور کہیں بھی اس راہ نے ختم نہیں ہونا.کیونکہ بندے اور خدا کے درمیان جو فاصلے ہیں ان کی انتہاء نہیں.پس بندے اور خدا کے درمیان جو مقامات قرب ہیں ان کی حد بندی اور تعین کیسے کی جاسکتی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے نور کو کمال تک

Page 692

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۷۶ خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء پہنچا یہ ترقیات غیر متناہیہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک کمال نورانیت کا انہیں حاصل ہوگا، پھر دوسرا کمال نظر آئے گا اس کو دیکھ کر پہلے کمال کو ناقص پائیں گے پس کمال ثانی کے حصول کے لئے التجا کریں گے اور جب وہ حاصل ہو گا تو ایک تیسرا مرتبہ کمال کا ان پر ظاہر ہو گا پھر اس کو دیکھ کر پہلے کمالات کو بیچ سمجھیں گے اور اس کی خواہش کریں گے.یہی ترقیات کی خواہش ہے جو آسیہ کے لفظ سے سمجھی جاتی ہے.غرض اسی طرح غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا چلا جائے گا.تنزل کبھی نہیں ہو گا.تو قرآن کریم نے ایسا دعویٰ بھی کیا ، قرآن کریم نے ایسا کر کے بھی دکھایا یعنی ہزاروں لاکھوں مقدس بندے خدا تعالیٰ کے اسلام میں ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام سے نور حاصل کر کے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے روشنی حاصل کر کے ، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے عشق سے ایک چنگاری لے کر ایسا نور حاصل کیا کہ وہ اس دنیا میں غیر متناہی ترقیات کے حامل ہوئے اور جو انہیں اُخروی زندگی میں ملے گا جس کا وعدہ ان سے کیا گیا ہے اس کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے جیسا کہ احادیث میں بیان ہوا ہے کہ وہ ایسی عجیب نعمتیں ہیں کہ ان کا تصور بھی انسان یہاں نہیں کر سکتا.ہدایت کے چوتھے معنی جیسا کہ میں نے بتایا تھا.انجام بخیر ہونے کے ہیں یعنی جنت کے مل جانے کے اور مقصد حیات کے حصول کے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أُولَبِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِم وَ أُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (البقرة: 1 ) کہ وہ لوگ جو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اس پر وہ مضبوطی سے قائم ہیں اور ان کے رب کی ربوبیت کا ملہ نے جس کامل ہدایت کو نازل کیا وہ اس ہدایت کے اوپر قائم ہیں.وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں.فلاح کا لفظ عربی زبان میں کامل کامیابی کو کہتے ہیں کہ جس کے مقابلہ میں کوئی کامیابی کامیابی نہیں رہتی جس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہ ہو جس میں کسی قسم کی کوئی خامی نہ ہو جو بھر پور کامیابی ہو.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ جو لوگ اپنے رب کی (جو انسان کی ربوبیت کرتا ہوا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایک خاص بلند مقام پر ان کو لے آیا اور کامل استعداد میں اور کامل صلاحیتیں ان کو عطا ق

Page 693

خطبات ناصر جلد اول ۶۷۷ خطبہ جمعہ ۵ رمئی ۱۹۶۷ء کیں) ہدایت پر قائم ہیں.وہ ایک حقیقی اور کامل فلاح اور کامیابی کو پاتے ہیں اور پہلی تمام اُمتوں سے آگے نکل جاتے ہیں.تو اس وقت اس خطبہ میں میں نے تعمیر کعبہ سے تعلق رکھنے والے دو مقاصد کے متعلق کچھ بیان کیا ہے.ایک یہ کہ (مُبَارَگا ) اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ کعبہ کو مبارک بنائے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہر دو معنی میں بیت اللہ مبارک بن گیا اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ یہاں ایک ایسی ہدایت بھیجے جو ھدی للعلمین ہو.شریعت کے کمال کی وجہ سے بھی اور اپنے افاضہ کے لحاظ سے بھی اور یہ وعدہ بھی قرآن کریم کے ذریعہ پورا ہوا ہے.ورنہ مکہ میں تو کوئی اور شریعت تھی ہی نہیں لیکن جو دوسری شریعتیں ہیں انہوں نے بھی نہ یہ دعوی کیا.اور نہ وہ یہ دعویٰ کر سکتی تھیں قرآن کریم نے ہی یہ دعوی کیا ہے اور قرآن کریم نے اس دعوی کو عملی میدان میں ثابت بھی کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام میں ہزاروں لاکھوں ایسے مقدس وجود پیدا ہوئے جن کی زندگیاں دلیل ہیں اس بات پر کہ جو بھی قرآن کریم کی اتباع کرتا اور اس ہدایت کے پیچھے چلتا ہے جسے خدا تعالیٰ نے هُدًى لِلعلمین قرار دیا ہے وہ خدا تعالیٰ کی انتہائی برکتوں سے حصہ لیتا اور اس کا انجام بخیر ہوتا ہے اور انسانی نفس کو کمال تک پہنچانے کے لئے اور اس کے تزکیہ کو پورا کرنے کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہے کیونکہ ان لوگوں نے قرآن کریم پر عمل کیا اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ان کا وجود مبارک اور کامل وجود بنا اور اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اس بات پر گواہ ہے کہ فی الواقع یہ لوگ خدا تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں اور روحانی میدانوں میں ہر لحظہ اور ہر آن ان کا قدم آگے ہی آگے کی طرف چلا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس گروہ میں شامل کرے.谢谢谢 روزنامه الفضل ربوه ۱۴ رمئی ۱۹۶۷ ء صفحه ۱ تا ۵)

Page 694

Page 695

خطبات ناصر جلد اول ۶۷۹ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ بیت اللہ ایسی آیات بینات اور تائیدات سماوی کا منبع ہے جو ہمیشہ زندہ رہیں گے خطبہ جمعہ فرموده ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور فاتحہ شریف کی تلاوت کے بعد حضور پرنور نے آیت فِيهِ ايْت بَيِّنَتْ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ : وَمَنْ دَخَلَه كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا - (ال عمران: ۹۸) تلاوت فرمائی.پھر فرمایا:.میں اپنے خطبات میں ان تئیس مقاصد کے متعلق بیان کر رہا ہوں جن کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی بنیادوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اُٹھوایا تھا اور یہ بتا رہا ہوں کہ کس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان اغراض کو پورا کیا گیا.تین مقاصد کے متعلق میں اپنے پچھلے خطبات میں اپنے دوستوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں.چوتھی غرض تعمیر کعبہ سے یہ تھی یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا چوتھا وعدہ یہ تھا کہ فِیهِ ایت بيّنت میں نے بتایا تھا کہ اس فقرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ خدا کا یہ گھر ایسی آیات و بینات اور ایسے نشانات اور تائیدات سماوی کا منبع بنے گا جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں گی یعنی اس تعمیر سے ایسی اُمت مسلمہ کا قیام مدنظر تھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نشان قیامت تک دنیا پر ظاہر ہوتے رہیں.

Page 696

خطبات ناصر جلد اول ۶۸۰ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ صرف اس کی اتباع کے نتیجہ میں قیامت تک کے لئے یہ دروازہ کھولا گیا ہے اور یہ کہ ہر قوم اور ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو اس کی b برکتوں سے حصہ لیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے نشانوں کو ظاہر کرتا رہے گا.آیات بینات پہلے انبیاء کو بھی دیئے گئے تھے لیکن وہ ایسی آیات بینات تھیں جن کا تعلق صرف ان کی قوم اور ان کے زمانہ سے تھا.تمام بنی نوع انسان سے ان کا تعلق نہ تھا اور ہر زمانہ سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا لیکن ان آیات میں تو مضمون ہی یہ بیان ہوا ہے کہ یہ وہ مقاصد ہیں جن کا تعلق تمام بنی نوع انسان کے ساتھ ہے ہر قوم اور ہر زمانہ کے ساتھ ہے اسی لئے اس مضمون کی ابتدا ہی اِنَّ اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ (ال عمران: ۹۷) میں لِلنَّاس کے ساتھ کی گئی ہے تو اگر چہ آیات بینات پہلی امتوں کو بھی دیئے گئے لیکن ایسی آیات بینات جن کا تعلق ہر قوم اور ہر زمانہ سے تھا وہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے بَلْ هُوَ أَيتَ بَيْنَتُ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أوتُوا الْعِلْمَ وَ مَا يَجْحَدُ بِأَيْتِنَا إِلَّا الظَّلِمُونَ (العنكبوت: ۵۰) اس آیہ کریمہ میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ سے ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جنہیں کامل علم اور کامل معرفت عطا ہوتی رہے گی اور اس کامل معرفت کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں اپنے رب کے لئے کامل خوف بھی پایا جائے گا اور اس کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں اپنے رب کے لئے کامل محبت بھی پیدا کی جائے گی اور وہ اپنے رب کی قدر کرنے والے ہوں گے تو ایسے لوگ چونکہ پیدا ہوتے رہیں گے اس لئے وہ آیات بینات جن کا قرآن کریم کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم مجسم ہے آیات بینات سے.وہ ان کے سینوں سے نکلتے رہیں گے.اور اس روشنی سے دنیا ہمیشہ منور ہوتی رہے گی لیکن کچھ لوگ اُمّت مسلمہ میں ایسے بھی پیدا ہوں گے جو ظالم ہوں گے اور قرآن کریم کے فیوض کے ان دروازوں کو اپنے پر بند کرنے والے ہوں گے ایسے لوگوں کے ذریعہ سے بے شک اللہ تعالیٰ کی آیات بینات ظاہر نہیں ہوں گی لیکن اُوتُوا الْعِلم یعنی وہ لوگ جنہیں کامل علم عطا کیا جائے گا وہ ہمیشہ اُمت مسلمہ میں پیدا ہوتے رہیں گے اور آیات بینات کا دروازہ قیامت تک

Page 697

خطبات ناصر جلد اول اُمت مسلمہ پر کھلا رہے گا.ΥΛΙ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ یہ صرف ایک دعوی ہی نہیں ہے بلکہ تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی سچائی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کرنے کے لئے زمین اور آسمان دو اور ہر زمانہ کو نشانوں سے بھر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.دوسری علامت سچے مذہب کی یہ ہے کہ مردہ مذہب نہ ہو بلکہ جن برکتوں اور عظمتوں کی ابتدا میں اس میں تخم ریزی کی گئی تھی وہ تمام برکتیں اور عظمتیں نوع انسان کی بھلائی کے لئے اس میں اخیر دنیا تک موجود ہیں تا موجودہ نشان گزشتہ نشانوں کے لئے مصدق ہو کر اس سچائی کے نور کو قصہ کے رنگ میں نہ ہونے دیں.سو میں ایک مدت دراز سے لکھ رہا ہوں کہ جس نبوت کا ہمارے سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا تھا اور جو دلائل آسمانی نشانوں کے آنجناب نے پیش کئے تھے وہ اب تک موجود ہیں اور پیروی کرنے والوں کو ملتے ہیں تا وہ معرفت کے مقام تک پہنچ جائیں اور زندہ خدا کو براہ راست دیکھ لیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ” تصدیق النبی میں فرماتے ہیں.چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کی روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلی آتی ہیں یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الہی کے مراتب کو پہنچتے ہیں اور مکالمات الہیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں خدائے تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسرار غیبیہ پر نبیوں کی طرح ان کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید اور نصرت کے نشانوں سے دوسری مخلوقات سے انہیں ممتاز کرتا ہے.یہ بھی ایسا نشان ہے جو قیامت تک امت محمدیہ میں قائم رہے گا اور ہمیشہ ظاہر ہوتا چلا آیا ہے اور اب بھی موجود و متحقق الوجود ہے.اسی طرح ”کتاب البریہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.جس قدر اسلام میں اسلام کی تائید میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی گواہی میں آسمانی نشان بذریعہ اس امت کے اولیاء کے ظاہر ہوئے اور ہو رہے ہیں ان

Page 698

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۸۲ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ کی نظیر دوسرے مذاہب میں ہرگز نہیں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی ترقی آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ہوتی رہی ہے اور اس کے بے شمار انوار اور برکات نے خدا تعالیٰ کو قریب کر کے دکھلا دیا ہے.یقیناً سمجھو کہ اسلام اپنے آسمانی نشانوں کی وجہ سے کسی زمانہ کے آگے شرمندہ نہیں.اس کے بعد اسی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا وجود دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لاکھوں کی تعداد میں ان آیات بینات کو ظا ہر فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود آپ کی زندگی کا ہرلمحہ اسلام کی صداقت پر ایک زندہ گواہ تھا.تازہ بتازہ نشان آسمان سے بارش کی طرح اتر رہے تھے اور صرف وہ آنکھ جس پر تعصب کی پٹی بندھی ہوئی تھی ان نشانوں کے دیکھنے سے محروم تھی.ذراسی عقل رکھنے والا سمجھ رکھنے والا ، جو بے تعصب تھا وہ ان نشانوں سے انکار نہیں کر سکتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ان آیات بینات کا خاتمہ نہیں ہو گیا.بلکہ احیاء دین کے نتیجہ میں ایک تازگی اسلام کے اندر پیدا ہوئی اور وہ دروازہ جو بعض لوگوں نے اپنی جہالت کی وجہ سے اپنے پر بند کر دیا تھا ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ثابت کیا کہ وہ کھلا ہے بند نہیں ہے.آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے ذریعہ نشانوں کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زندگی ان لوگوں کی زندگی تھی جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اُوتُوا العِلم آیہ مذکور میں بیان کیا ہے.یہی حال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا تھا.سینکڑوں اور ہزاروں نشان دنیا نے آپ کے ذریعہ دیکھے اور اب بھی یہ دروازہ بند نہیں ہے ابھی چند دن کی بات ہے نماز فجر سے قبل میں استغفار میں مشغول تھا ایک خوف سا مجھ پر طاری تھا اور میں اپنے رب سے اس کی مغفرت کا طالب ہو رہا تھا.اس وقت اچانک میں نے محسوس کیا کہ ایک غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے اور میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے قیام دین“ اور پھر ایک دھکے کے ساتھ جس نے میرے سارے جسم کو ہلا دیا میں پھر بیداری کے عالم میں آگیا.اور اس کی تفہیم مجھے یہ ہوئی کہ موجودہ سلسلہ خطبات کے ذریعہ جو پروگرام میں جماعت کے سامنے رکھنے والا ہوں اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دین اسلام کو قائم کرے گا.اس کے

Page 699

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۸۳ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ استحکام کے سامان پیدا کرے گا انشاء اللہ.تو ہزاروں نشانات ہیں جن کا سلسلہ خلافت مسیح محمدی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے جاری کیا ہے.مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ چونکہ خلیفہ راشد فنا کے اور نیستی کے مقام پر ہوتا ہے اس لئے عام طور پر وہ ایسی باتوں کا اظہار نہیں کیا کرتا.جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت کے اظہار کی باتیں ہوتی ہیں.سوائے ایسی باتوں کے جن کا تعلق سلسلہ کے ساتھ ہو اور جن کا بتایا جانا ضروری ہو.بلکہ اپنے تجربہ کی بناء پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ خلفائے راشدین کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ منع کرتا رہا ہے کہ اپنے مقام قرب کا کھل کر اظہار نہ کیا کریں اور اپنے ذاتی تجربہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک فرمان اور تاریخی گواہیوں کے پیش نظر میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے تاریخ نے خلفاء راشدین سابقین کی صرف چند ای بینت محفوظ کی ہیں.مثلاً میرے 66 خیال میں پانچ دس سے زیادہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نشانات بیان نہیں کئے.یعنی جو پیش خبریاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دی گئیں یا جو بشارتیں آپ کو دی گئیں ان میں سے چند ایک تاریخ میں محفوظ ہیں زیادہ نہیں ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہزار ہا پیش خبریاں اور مکالمے مخاطبے ان بزرگ خلفاء راشدین سے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرمان تو حق اور صداقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن تاریخ خاموش ہے نتیجہ یہ نکالنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ ان باتوں کا پبلک میں اظہار نہیں کیا کرتے تھے.سوائے ضرورت کے وقت کے ،سوائے ان باتوں کے جن کا سلسلہ کے نظام سے ،نظام سے تعلق ہو اور ان کا بتایا جانا ضروری ہو.مثلاً ایک وقت میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جب جماعت کے خلاف بہت فتنہ و فساد تھا فرمایا تھا کہ جن باتوں کا مجھے علم ہے اگر میں تمہیں بتا دوں تو تمہارا زندہ رہنا ہی مشکل ہو جائے گا ( الفاظ مجھے یاد نہیں مفہوم اسی قسم کا تھا).میں بتا یہ رہا ہوں کہ فِیهِ ایت بيّنت کا جو وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وعدے کو پورا کرنے والے ہیں اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دنیا نے اللہ تعالیٰ کے لاکھوں نشانات کا مشاہدہ کیا ہے اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے بھی اور دوسرے جو بزرگ جماعت احمدیہ میں پائے

Page 700

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۸۴ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ جاتے ہیں ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نشان ظاہر کرتا رہتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت کے طفیل آپ کے ماننے والوں پر یہ حقیقت بھی وضاحت کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے کہ اس قسم کی باتیں عام طور پر ظاہر نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ ان کے نتیجہ میں انانیت پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو انسان مول لینے والا نہ ہو جائے.تو قرآن کریم سے نیز جو نمونہ اولیاء امت کا تاریخ میں محفوظ ہے اور جو سلوک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق اور اپنی رضاء کی راہوں میں فدا ہونے والوں سے اللہ تعالیٰ کرتا رہا ہے.اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تمام اقوام میں اور ہر زمانہ میں ایت بینت موجود ہیں اور ان کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے.دوسرے مذاہب نہ ایسا دعویٰ کر سکتے ہیں اور نہ اسے ثابت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.پانچویں غرض تعمیر کعبہ سے یہ بتائی گئی تھی.مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ اور یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس ابراہیمی مقام کے ذریعہ سے عشاق الہی کی ایک ایسی جماعت پیدا کی جاتی رہے گی جو تمام دنیوی علائق سے منہ موڑ کر خدا کی رضاء پر اپنی تمام خواہشات کو قربان کر کے مقام فنا کو حاصل کرنے والی ہوگی.سوچا جائے تو ایٹ بینت کے نتیجہ میں ہی مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ کا حصول ممکن ہوتا ہے ورنہ نہیں.یہ ايت بينت اور مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ “ کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے.تو چونکہ امت محمدیہ میں ایت بيّنت کا ایک سمندر ہمیشہ موجزن رہتا ہے اس لئے امت محمدیہ میں ممکن ہو گیا ہزاروں لاکھوں ایسے بزرگوں کا پایا جانا کہ جو مقامِ ابراہیم کو حاصل کرنے والے ہوں دراصل مقامِ ابراہیم مقام محمد یت کا ظل ہے.عین اس مقام تک پہنچ جانا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے یہ تو ممکن نہیں لیکن اس کے بعد جو دوسرا مقام ہے وہ مقام ابراہیم ہے.ایک ظل کی شکل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان این بینت سے حصہ لیا ہے.قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میرے ماننے والوں میں ایسے لوگ کثرت سے پیدا ہوں گے جو فنا کے اس مقام کو حاصل کرنے والے ہوں گے.یہ مقام فنا کیا چیز ہے؟ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.ایک مقام محبت ذاتی کا ہے جس پر قرآن شریف کے کامل متبعین کو قائم کیا جاتا ہے

Page 701

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۸۵ خطبہ جمعہ ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ اور ان کے رگ وریشہ میں اس قدر محبت الہیہ تاثیر کر جاتی ہے کہ ان کے وجود کی حقیقت بلکہ ان کی جان کی جان ہو جاتی ہے اور محبوب حقیقی سے ایک عجیب طرح کا پیار ان کے دلوں میں جوش مارتا ہے اور ایک خارق عادت انس اور شوق ان کے قلوب صافیہ پر مستولی ہو جاتا ہے کہ جو غیر سے بکی منقطع اور گستہ کر دیتا ہے اور آتشِ عشق الہی ایسی افروختہ ہوتی ہے کہ جو ہم صحبت لوگوں کو اوقات خاصہ میں بدیہی طور پر مشہود اور محسوس ہوتی ہے اور سب سے بزرگ تر ان کے صدق قدم کا نشان یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کو ہر یک چیز پر اختیار کر لیتے ہیں اور اگر آلام اس کی طرف سے پہنچیں تو محبت ذاتی کے غلبہ سے برنگ انعام ان کو مشاہدہ کرتے ہیں اور عذاب کو شربت عذب کی طرح سمجھتے ہیں کسی تلوار کی تیز دھاران میں اور ان کے محبوب میں جدائی نہیں ڈال سکتی اور کوئی بات عظمی ان کو اپنے اس پیارے کی یادداشت سے روک نہیں سکتی اسی کو اپنی جان سمجھتے ہیں اور اسی کی محبت میں لذات پاتے اور اسی کی ہستی کو ہستی خیال کرتے ہیں اور اسی کے ذکر کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیتے ہیں.اگر چاہتے ہیں تو اسی کو ، اگر آرام پاتے ہیں تو اسی سے.تمام عالم میں اسی کو رکھتے ہیں اور اسی کے ہو رہتے ہیں.اسی کے لئے جیتے ہیں، اسی کے لئے مرتے ہیں.عالم میں رہ کر پھر بے عالم ہیں اور با خود ہو کر پھر بے خود ہیں.نہ عزت سے کام رکھتے ہیں نہ نام سے، نہ اپنی جان سے ، نہ اپنے آرام سے، بلکہ سب کچھ ایک کے لئے کھو بیٹھتے ہیں اور ایک کے پانے کے لئے سب کچھ دے ڈالتے ہیں.لائد رک آتش سے جلتے جاتے ہیں اور کچھ بیان نہیں کر سکتے کہ کیوں جلتے ہیں اور تفہیم اور تفہیم سے صُةٌ وَبُكُم ہوتے ہیں اور ہر یک مصیبت اور ہر یک رسوائی کے سہنے کو طیار رہتے ہیں اور اس سے لذت پاتے ہیں.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مقدس جماعت کا نقشہ یوں کھینچا اور بیان فرمایا ہے کہ ابراہیمی وعدہ کے مطابق اور ان بشارتوں کے مطابق جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دی تھیں.

Page 702

خطبات ناصر جلد اول ۶۸۶ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ لاکھوں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے برکاتِ الہی دل پر نازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند مولا کریم سے ہوجاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الہی جولذت وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی دی جاتی ہے اگر ان کے وجودوں کو ہاونِ مصائب میں پیسا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر نچوڑا جائے تو ان کا عرق بجز 66 حت الہی کے اور کچھ نہیں.دنیا ان سے ناواقف اور وہ دنیا سے دور اور بلند تر ہیں.“ یہ وہ مقامِ ابراہیم ہے جس کا وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیا گیا.اس کی بشارت اپنے رب کی طرف سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پائی اور خدا تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے اس نے اپنے اس وعدے کو سچا ثابت کر دکھایا اور امت مسلمہ میں لاکھوں وجود ایسے پیدا کئے جو مقام ابراہیم تک پہنچنے والے تھے.چھٹا وعدہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا وہ ان آیات کے اس ٹکڑے میں بیان ہوا ہے وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا.“ میں نے بتایا تھا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو بیت اللہ میں داخل ہو گا یعنی ان عبادات کو بجالائے گا جن کا تعلق خدا تعالیٰ کے اس گھر سے ہے.دنیا اور آخرت کے جہنم سے خدا کی پناہ میں آجائے گا اور اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیں گے اور نار جہنم سے وہ محفوظ ہو جائے گا وَمَنْ دَخَلَه كَانَ آمِنًا.جو اس گھر میں داخل ہو گا اس آگ سے محفوظ ہو جائے گا ( جو خدا تعالیٰ نے منکروں کے لئے بھڑکائی ہے ) چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ نمل میں فرماتا ہے وَهُمْ مِنْ فَزَع يَوْمَنِ امِنُونَ (النمل: ۹۰) یعنی اسلامی ہدایت کے مطابق اعمالِ صالحہ بجالانے والوں کو اللہ تعالیٰ بہتر اور احسن بدلہ دے گا اور نفخ صور کی گھڑی میں ایسے لوگ خوف جہنم سے محفوظ رہیں گے.اس وقت اللہ تعالیٰ ان کو یہ بشارت دے گا کہ تمہیں نار جہنم کی طرف نہیں لے جایا جائے گا بلکہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا اس واسطے کسی قسم کا خوف نہ کرو.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا.اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنْتٍ وَعُيُونٍ - اُدْخُلُوهَا بِسَلم أمِنينَ.(الحجر : ۴۶ ،۴۷) متقی لوگ یقیناً باغوں اور چشموں والے مقام میں داخل ہوں گے انہیں کہا جائے گا کہ تم

Page 703

خطبات ناصر جلد اول ۶۸۷ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطران میں داخل ہو جاؤ تو یہ امن ہے جو قرآن کریم کے ذریعہ سے 66 اس کے کامل متبعین کو ملتا ہے.فرمایا تھا " مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِناً ، عین یہی الفاظ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمائے اور فرمایا کہ ہم نے تم سے وعدہ کیا تھا.لَتَدخُلُنَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَمِنِيْنَ (الفتح: ۲۸) کہ تم مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہو گے اور وہ وعدہ پورا ہوا.ایک تو اس کی ظاہری تفسیر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے سامان پیدا کئے اور بغیر جنگ کے کفار مکہ نے ( جنہوں نے اپنی ساری عمریں اسلام کو مٹانے کے لئے صرف کر دی تھیں ) ہتھیار ڈال دیئے اور فرشتوں نے جن کا آسمان سے نزول ہوا ان کے دلوں میں اس قدر خوف پیدا کر دیا کہ لڑائی کی ان کو ہمت ہی نہ پڑی.لیکن اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ تم ہی وہ امت ہو جو اس وعدہ کو پورا کر نیوالی ہو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان الفاظ میں کیا گیا تھا کہ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا جو اس میں داخل ہو گا وہ امن میں آجائے گا تمہارے ذریعہ سے وہ وعدہ پورا ہوا میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں کہ یہ تمام وعدے وہ ہیں جن کا تعلق تمام بنی نوع انسان سے ہے.ہر قوم اور ہر زمانہ کے ساتھ کسی خاص قوم یا کسی خاص زمانہ کے ساتھ یہ مخصوص نہیں ہیں تو مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا کے معنی یہ ہوئے کہ خواہ دنیا کی کسی قوم سے ہی تعلق نہ رکھتا ہو یا کسی زمانہ میں ہی رہنے والا کیوں نہ ہو جوشخص بھی مناسک حج خلوص نیت سے ادا کرے گا وہ نار جہنم سے محفوظ ہو جائے گا.چنانچہ حدیث میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفَثْ وَلَمْ يَفْسُقُ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ( یاد رکھیں کہ يَرْفَتْ اور يَرْفت اور يَفْسُقُ اور يَفْسِقُ دونوں طرح عربی زبان میں یہ الفاظ بولے جاتے ہیں ) کہ جوشخص گندی اور مخش باتوں سے پر ہیز کرے یعنی جو شخص حج کرے اور مناسک حج ادا کرتے ہوئے مخش کلامی سے بچتا ر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اندرونہ اس قدر پاکیزہ ہو کہ مخش بات اس کی زبان پر آہی نہ سکتی ہو.یہ مطلب نہیں کہ وہ باقی گیارہ ماہ کچھ دن تو ہر قسم کی فحش کلامی کرتا ر ہے صرف ان دنوں رفٹ سے بچے بلکہ

Page 704

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۸۸ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ مطلب یہ ہے کہ جس کا اندرونہ اتنا پاک ہو چکا ہو اور گندگی اس کے سینہ سے اتنی دور ہو چکی ہو کہ مخش بات، گندی بات اس کے منہ پر آہی نہ سکے اور جو حق اور صلاح کے طریق سے خروج نہ کرے یعنی شرعی حدود سے باہر نہ ہو ان کی پابندی کرنے والا ہو اور اطاعت کا حق ادا کرنے والا ہو.تو جو شخص اس خالص نیت کے ساتھ اور ان خالص اعمال کے ساتھ اور ان پاکیزہ آداب کے ساتھ حج بیت اللہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور جس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہو گئے وہ یقینا نار جہنم سے بچالیا گیا.ایک اور طرح بھی انسان اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی نار جہنم سے بچ جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ "مَنْ دَخَلَه“ جو مقامِ ابراہیم میں داخل ہو كَانَ آمِنًا “اللہ تعالیٰ کی امان میں اور امن میں آجاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.” خدا میں بے انتہاء عجیب قدرتیں ہیں مگر اس کی یہ عجیب قدرتیں ان ہی پر کھلتی ہیں جو اس کے ہی ہو جاتے ہیں اور وہی یہ خوارق دیکھتے ہیں جو اس کے لئے اپنے اندر ایک پاک تبدیلی کرتے ہیں اور اس کے آستانے پر گرتے ہیں اور اس قطرے کی طرح جس سے موتی بنتا ہے صاف ہو جاتے ہیں اور محبت اور صدق اور صفا کی سوزش سے پگھل کر اس کی طرف بہنے لگتے ہیں تب وہ مصیبتوں میں ان کی خبر لیتا ہے اور عجیب طور پر دشمنوں کی سازشوں اور منصوبوں سے انہیں بچالیتا ہے اور ذلت کے مقاموں سے انہیں محفوظ رکھتا ہے.وہ ان کا متولی اور متعہد ہو جاتا ہے.وہ ان مشکلات میں جبکہ کوئی انسان کام نہیں آسکتا ان کی مدد کرتا ہے اور اس کی فوجیں اس کی حمایت کے لئے آتی ہیں.کس قدر شکر کا مقام ہے کہ ہمارا خدا، کریم اور قادر خدا ہے.پس کیا تم ایسے عزیز کو چھوڑو گے؟ کیا اپنے نفس نا پاک کے لئے اس کی حدود کو توڑ دو گے؟ ہمارے لئے اس کی رضامندی میں مرنا نا پاک زندگی سے بہتر ہے.“ یہ وہ امن ہے جو اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے پر ایک موت وارد کر کے نیستی کا لبادہ

Page 705

خطبات ناصر جلد اول ۶۸۹ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ اوڑھتا اور مقام ابراہیم میں داخل ہوتا ہے.تب اللہ تعالیٰ کی فوجیں آسمان سے نزول کرتی ہیں اور اس کو ہر قسم کے عذابوں سے محفوظ کر لیتی ہیں، خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر دو آگوں کو متسلط نہیں کرتا.ایک تو اس کے وہ بندے ہیں جو محبت کی آگ میں جل کر فنا کا مقام حاصل کرتے ہیں تب دوسری آگ کے دروازے ان پر بند کر دیئے جاتے ہیں.ایک وہ اس کے بندے ہیں جو اس کی محبت کا خیال نہیں رکھتے جو اس کے پیار پر شکر کرنے والے نہیں جو اس کی رحمتوں پر کفر کرنے والے ہیں جو اس سے منہ موڑ کر دنیا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس سے پیار کرنے کی بجائے دنیا سے پیار کرتے ہیں وہ اسے محبوب بنانے کی بجائے دنیا کے علائق کو اور دنیا کے رشتوں کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں.ایسے لوگوں پر خدا کی حفاظت نازل نہیں ہوتی اور نہ اس کی فوجیں نازل ہو کر اس کو امن دیتی ہیں.بلکہ دوزخ کے دروازے ان لوگوں پر کھولے جاتے ہیں اور نار جہنم ان کا ٹھکانہ ہوتا ہے.پس خدا کے بندوں پر دو آ گئیں وارد نہیں ہوتیں.اب یہ ان کی مرضی ہے کہ محبت کی آگ کو پسند کریں اور گندگی کو جلا کر خاک کر دیں اپنے نفس کو بھی ، اور اپنی خواہشات کو بھی ، اپنے وجود کو بھی ، اپنی ساری محبتوں کو بھی اپنے سارے رشتوں کو بھی ، اپنے تعلقوں کو بھی اور یا وہ خدا کی محبت پر دنیا کی محبت کو ترجیح دیں اور اپنے لئے خود اپنے ہاتھ سے جہنم کے دروازے کھولیں.ساتواں وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ کہا گیا تھا کہ صرف تیری نسل پر ہی یہ حج فرض نہ رہے گا بلکہ ایک ایسا نبی یہاں مبعوث کیا جائے گا جس کی شریعت عالمگیر ہو گی اور اس شریعت کے نزول کے بعد اقوام عالم پر حج کو فرض کر دیا جائے گا اور اس طرح اس خانہ خدا کو مرجع خلائق اور مرجع عالم بنادیا جائے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے یہ وعدہ پورا نہیں ہوا.جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور قرآنی شریعت آپ پر نازل ہوئی تب اس شریعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان پر حج کو فرض کر دیا.چنانچہ سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلْحَج اَشْهُرُ مَعْلُومَنَّ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَقِّ وَ مَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمُهُ اللهُ (البقرة: ۱۹۸) که اے بنی نوع انسان !تم یا درکھو کہ حج کے مہینے سب کے جانے پہچانے ہیں پس جو شخص حج کو اپنے

Page 706

خطبات ناصر جلد اول ۶۹۰ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ پر فرض سمجھتے ہوئے حج کرنے کا پختہ ارادہ کرے وہ حج کے ایام میں (جیسا کہ دوسرے دنوں میں ) کوئی شہوت کی بات یا کوئی نافرمانی کی بات یا کسی قسم کے جھگڑے کی بات نہ کرے یہ اس کے لئے جائز نہ ہوگا اور پھر فرمایا کہ جو کام بھی تم کرو گے اللہ ضرور اس کی قدر کو پہچان لے گا.وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ تمہارا تعلق سفید نسل سے ہے یا تمہارا تعلق سیاہ نسل سے ہے.بلکہ خواہ تم کسی بھی قوم کے فرد کیوں نہ ہو، کسی بھی خطہ زمین کے رہنے والے کیوں نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حج کو خدا کے کہنے کے مطابق اپنے لئے ضروری عبادت سمجھو گے اور جب وہ شرائط تمہارے حق میں پوری ہو جائیں گی جن کا تعلق حج کرنے کے ساتھ ہے اور اس فریضہ کو فریضہ جانتے ہوئے تم حج کرو گے اور حج کے دوران بھی ان تمام ہدائتوں کا پاس کرو گے جو ہدائتیں اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں تمہیں دی ہیں تو پھر اسے تمام بنی نوع انسان ! یہ سن لو کہ نیکی کا جو کام بھی تم کرو گے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمہاری قدر قائم ہو جائے گی.وہ تمہاری نیکی کو پہچانے گا.کوئی چیز اس کی نظر سے غائب نہیں ہے اور اس قدر کے نتیجہ میں اس کی بے شمار نعمتوں کے تم وارث ہو گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حج بیت اللہ صرف ظاہری مناسک حج کا ہی نام نہیں بلکہ ہر عبادت اسلامی کے پیچھے اس کی ایک روح ہے ظاہری عبادت جسم کا رنگ رکھتی ہے.اس کے پیچھے ایک روح ہے جو شخص روح کا خیال نہ رکھے اور صرف جسم پر فریفتہ ہو وہ ایک مردہ کی پرستش کر نیوالا ہے.اس کو ان عبادات کا جن کی روح کا خیال نہیں رکھا گیا.کوئی ثواب نہیں ملے گا.بلکہ اس کے ساتھ اس کے رب کا وہی سلوک ہوگا جو ایک مردہ پرست کے ساتھ ہونا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حج کے متعلق فرمایا ہے.اصل بات یہ ہے کہ سالک کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ وہ انقطاع نفس کر کے تعشق باللہ اور محبت الہی میں غرق ہو جاوے.عاشق اور محب جو سچا ہوتا ہے وہ اپنی جان اور اپنا دل قربان کر دیتا ہے اور بیت اللہ کا طواف اس قربانی کے واسطے ایک ظاہری نشان ہے.جیسا کہ ایک بیت اللہ نیچے زمین پر ہے ایسا ہی ایک آسمان پر بھی ہے.جب تک آدمی اس کا طواف نہ کرے اس کا طواف بھی نہیں ہوتا.اس کا طواف کرنے والا تو تمام کپڑے اوتار

Page 707

خطبات ناصر جلد اول ۶۹۱ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ کر ایک کپڑا بدن پر رکھ لیتا ہے.لیکن اس کا طواف کرنے والا بالکل نزع ثیاب کر کے خدا کے واسطے نگا ہو جاتا ہے.طواف عشاق الہی کی ایک نشانی ہے عاشق اس کے گردگھومتے ہیں گویا ان کی اپنی مرضی باقی نہیں رہی وہ اس کے گردا گر دقربان ہو رہے ہیں.“ تو یہ آسمانی حج ہے.جب تک کوئی شخص اس بیت اللہ کا حج نہیں کرتا زمین کا حج بھی قبولیت حاصل نہیں کرتا تو حج کرنے والوں حج کی نیت رکھنے والوں کو یہ نکتہ بھولنا نہیں چاہیے.ظاہری عبادتیں جو ہیں وہ ہم نے کر لیں اور جو باطنی عبادت ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوتا ہے اس کے متعلق ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ قبول ہوئے یا نہیں ہوئے تو اس ظاہری عبادت کے بعد کسی قسم کا فخر اور عجب اور خودی اور انانیت کیوں پیدا ہو.اس سے تو اور بھی دوری اپنے رب سے پیدا ہو جاتی ہے شکر کا مقام ہو اور حمد کے گیت گائے جائیں.یہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ بھی اس طرح جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جس وقت خدا کا ایک پیارا بندہ اپنے رب کی عبادت میں مصروف ہوتا ہے اور عاجزی اور انکسار اور گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ ریز ہوتا ہے اگر اس وقت کوئی دوسرا شخص اسے دیکھ لے تو اپنے دل میں اسے اتنی ہی شرمندگی محسوس ہوتی ہے جس طرح اس شخص کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے جو دنیا کے تعلقات میں محو ہو اور کوئی شخص آکے اس کو.پس یہ پیار کی باتیں ظاہر کرنے والی نہیں ہوتیں.محبت کی یہ باتیں تو بندے اور رب کے درمیان ایک راز ہوتا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دنیا ان سے واقف نہیں کیونکہ وہ دنیا سے دور ہیں اور دنیا سے بلند ہیں لیکن جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کے قریب آنا چاہتا ہے اور رفعتوں اور بلندیوں کو چھوڑ کر خُلُود الَی الْأَرْضِ کرتا ہے تا کہ اسے دنیا میں شناخت کیا جائے اور اس کی تعریف کی جائے تو دنیا کے تو وہ قریب آ گیا مگر خدا تعالیٰ سے وہ دور ہو گیا اور بلندیوں اور روحانی رفعتوں سے وہ ہاتھ دھو بیٹھا.اللہ تعالیٰ ہر ایک شخص کو ہم میں سے اس سے محفوظ رکھے اور جیسا کہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے وعدے دیئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے لئے بشارتیں دیں ان بشارتوں کے موافق

Page 708

خطبات ناصر جلد اول ۶۹۲ خطبه جمعه ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ لاکھوں مقدس جو پیدا ہو چکے ہیں اور ہورہے ہیں اور آئندہ ہوں گے ان مقدسوں کے گروہ میں ہمیں شامل کرے اور شامل رکھے ہم دنیا کی تعریف نہیں چاہتے.لیکن خدا ایسے سامان پیدا کر دے کہ وہ ہمارے دل کی کسی نیکی کی خواہ وہ رائی کے دانہ کے برابر ہی کیوں نہ ہو شناخت کرنے لگے اور اس رائی کے دانہ کے برابر نیکی کا بدلہ پیار و محبت سے دے اور ہم سے راضی ہو جائے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.(روز نامه الفضل ربوه ۲۱ رمئی ۱۹۶۷ء صفحه ۱ تا ۵) 谢谢谢

Page 709

خطبات ناصر جلد اول ۶۹۳ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء اقوام عالم کو ایک مرکز تو حید پر جمع کر کے بین الاقوامی وحدت قائم کرنے کا وعدہ الہی خطبہ جمعہ فرمود ه ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے آیہ وَ إِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرهِمَ مُصَلَّى ( البقرة :۱۲۶) تلاوت فرمائی.اور پھر فرمایا.ان تئیس مقاصد میں سے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ان آیات میں کیا ہے جن کا ایک ٹکڑا اس وقت بھی میں نے تلاوت کیا ہے سات کے متعلق میں اس سے قبل اپنے خطبات میں بیان کر چکا ہوں اور بتا چکا ہوں کہ وہ مقاصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے کس طرح حاصل ہوئے.آٹھواں مقصد جس کا ذکر یہاں ہے مثابة کے لفظ میں بیان ہوا ہے.میں نے بتایا تھا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی یہ آٹھویں غرض ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ایک ایسا رسول مبعوث ہو گا جو تمام اقوامِ عالم کو أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ بنادے گا اور ایک ایسی شریعت نازل ہوگی جس کے ذریعہ سے تمام منتشر اور پراگندہ اقوام کو ایک مرکز تو حید اور مرکز پاکیزگی پر لا جمع کیا جائے گا.یہ مقصد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہی حاصل ہوا.مَثَابَةً کے لغوی معنی ایک تو یہ ہیں.مُجْتَمَعُ النَّاسِ بَعْدَ تَفَزُقِهِمْ انتشار اور تفرقہ کے پیدا ہو جانے کے بعد پھر

Page 710

خطبات ناصر جلد اول ۶۹۴ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء دوبارہ جس جگہ وہ اکٹھے ہوں اسے مثابَةً کہتے ہیں.اور ایک دوسرے معنی اس کے یہ ہیں.مَكَانًا يُكْتَبُ فِيْهِ الثَّوَابُ وہ جگہ جہاں لوگوں کے لئے ثواب اور بدلہ اور جزا کے احکام جاری ہوتے اور لکھے جاتے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما یا کہ ہم اس بیت اللہ کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ایک ایسا مرکزی نقطہ بنانے والے ہیں کہ جہاں دنیا کی تمام منتشر اور پراگندہ اقوام پھر سے جمع ہوں گی اور ان کی کوئی اور جگہ باقی نہ رہے گی جہاں سے انہیں اپنے رب کے ثواب کے حصول کی امید اور توقع ہو.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس غرض کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور اسلامی شریعت کو نازل کیا اور جس طرح ابتدا میں خانہ کعبہ انسانیت کا مرکز تھا کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت ایک ہی نبی تھا اور ایک ہی قوم تھی اور ایک ہی شریعت تھی ، ابھی انسان دنیا میں نہیں پھیلا تھا اور قوم قوم میں تقسیم نہیں ہوا تھا تو ابتدا میں خانہ کعبہ ہی انسانیت کا مرکز تھا روحانی طور پر.اس کے بعد آدم علیہ السلام کی نسل دنیا میں پھیلنی شروع ہوئی اور دور دراز کے علاقوں میں آباد ہو گئی.آپس کے تعلقات قائم نہ رہے ان کی روحانی ترقی اور نشوونما کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں علیحدہ علیحدہ نبی اور رسول بھیجنے شروع کئے اور اس طرح روحانی طور پر وہ ایک قوم نہ رہے بلکہ منتشر ہو گئے اور تفرقہ پڑ گیا اور نسل آدم قوم قوم میں بٹ گئی.تو جس طرح ابتدا میں خانہ کعبہ انسانیت کا مرکز تھا.آخری اور اکمل دور میں بھی خدا کا یہ گھر وحدت انسانی کا مرکز بننا مقصود تھا اور انبیاء کے سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے لئے بیت اللہ کو منتخب کیا گیا تا وحدت انسانی کا نبی اور وحدت انسانی کا قبلہ دونوں ایک جگہ جمع ہو جا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے میں اس وقت حضور کے دو اقتباسات جو اس مضمون سے تعلق رکھتے ہیں اپنے دوستوں کو سنا تا ہوں حضور فرماتے ہیں.ابتدائے زمانہ میں انسان تھوڑے تھے اور اس تعداد سے بھی کم تر تھے جو ان کو ایک قوم کہا جائے.اس لئے ان کے لئے صرف ایک کتاب کافی تھی.پھر بعد اس کے

Page 711

خطبات ناصر جلد اول ۶۹۵ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء جب دنیا میں انسان پھیل گئے اور ہر ایک حصہ زمین کے باشندوں کا ایک قوم بن گئی اور باعث دور دراز مسافتوں کے ایک قوم دوسری قوم کے حالات سے بالکل بے خبر ہو گئی ایسے زمانوں میں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نے تقاضا فرمایا کہ ہر ایک قوم کے لئے جدا جدا رسول اور الہامی کتابیں دی جائیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پھر جب نوع انسان نے دنیا کی آبادی میں ترقی کی اور ملاقات کے لئے راہ کھل گئی اور ایک ملک کے لوگوں کو دوسرے ملک کے لوگوں کے ساتھ ملاقات کرنے کے لئے سامان میسر آگئے اور اس بات کا علم ہو گیا کہ فلاں فلاں حصہ زمین پر نوع انسان رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ ان سب کو پھر دوبارہ ایک قوم کی طرح بنا دیا جائے اور بعد تفرقہ کے پھر ان کو جمع کیا جاوے تب خدا نے تمام ملکوں کے لئے ایک کتاب بھیجی اور اس کتاب میں حکم فرمایا کہ جس جس زمانہ میں یہ کتاب مختلف ممالک میں پہنچے ان کا فرض ہوگا کہ ان کو قبول کر لیں اور اس پر ایمان لاویں اور وہ کتاب قرآن شریف ہے جو تمام ملکوں کا باہمی رشتہ قائم کرنے کے لئے آئی ہے.قرآن سے پہلی سب کتابیں مختص القوم کہلاتی تھیں یعنی صرف ایک قوم کے لئے ہی آتی تھیں.مگر سب کے بعد قرآن شریف آیا جو ایک عالمگیر کتاب ہے اور کسی خاص قوم کے لئے نہیں بلکہ تمام قوموں کے لئے ہے ایسا ہی قرآن شریف ایک ایسی امت کے لئے آیا جو آہستہ آہستہ ایک ہی قوم بنا چاہتی تھی.سواب زمانہ کے لئے ایسے سامان میسر آگئے ہیں جو مختلف قوموں کو وحدت کا رنگ بخشتے جاتے ہیں.باہمی ملاقات جو اصل جڑ ایک قوم بنے کی ہے ایسی سہل ہوگئی ہے کہ برسوں کی راہ چند دنوں میں طے ہوسکتی ہے اور پیغام رسانی کے لئے وہ سبیلیں پیدا ہو گئی ہیں کہ جو ایک برس میں بھی کسی دور دراز ملک کی خبر نہیں آسکتی تھی وہ اب ایک ساعت میں آسکتی ہے.زمانہ میں ایک ایسا انقلاب عظیم پیدا ہو رہا ہے اور تمدنی دریا کی دھار نے ایک ایسی طرف رخ کر لیا ہے جس سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ اب خدا تعالیٰ کا یہی ارادہ ہے کہ تمام قوموں کو جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ایک قوم بنادے اور ہزار ہا برسوں کے بچھڑے ہوؤں کو پھر باہم ملا دے.

Page 712

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۹۶ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں.خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں اس لئے خدا نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپ کے زمانہ کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی ، یعنی شبہ گذرتا تھا کہ آپ کا زمانہ وہیں تک ختم ہو گیا کیونکہ جو آخری کام آپ کا تھا وہ اسی زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا اس لئے خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قو میں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں.زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے اور اس تکمیل کے لئے اسی اُمت میں سے ایک نائب مقرر کیا جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اسی کا نام خاتم الخلفاء ہے.پس زمانہ محمدی کے سر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اس کے آخر میں مسیح موعود ہے اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہو لے کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوت کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: ١٠) یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے یعنی ایک عالمگیر غلبہ اس کو عطا کرے اور چونکہ وہ عالمگیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیشگوئی میں کچھ تخلف ہو اس لئے اس آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا کیونکہ اس عالمگیر غلبہ کے لئے تین امرکا پایا جانا ضروری ہے جو کسی پہلے زمانہ میں وہ پائے نہیں گئے.(۱) اول یہ کہ پورے اور کامل طور پر مختلف قوموں کے میل ملاقات کے لئے آسانی اور سہولت کی راہیں کھل جائیں اور سفر کی نا قابل برداشت مشقتیں دور ہو جائیں.

Page 713

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۹۷ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء (۲) دوسرا امر جو اس بات کے سمجھنے کے لئے شرط ہے کہ ایک دین دوسرے تمام دینوں پر اپنی خوبیوں کے رو سے غالب ہے یہ ہے جو دنیا کی تمام قومیں آزادی سے باہم مباحثات کر سکیں اور ہر ایک قوم اپنے مذہب کی خوبیاں دوسری قوم کے سامنے پیش کر سکے اور نیز تالیفات کے ذریعہ سے اپنے مذہب کی خوبی اور دوسرے مذاہب کا نقص بیان کر سکیں اور مذہبی کشتی کے لئے دنیا کی تمام قوموں کو یہ موقعہ مل سکے کہ وہ ایک ہی میدان میں اکٹھے ہو کر ایک دوسرے پر مذہبی بحث کے حملے کریں...اور یہ مذہبی کشتی نہ ایک دوقوم میں بلکہ عالمگیر کشتی ہو...(۳) تیسرا امر جو اس بات کو تمام دنیا پر واضح کرنے کے لئے شرط ہے کہ فلاں دین بمقابل دنیا کے تمام دینوں کے خاص طور پر خدا سے تائید یافتہ ہے...وہ یہ ہے کہ بمقابل دنیا کی تمام قوموں کے ایسے طور سے تائید الہی کے آسمانی نشان اس کے شامل ہوں کہ دوسرے کسی دین کے شامل حال نہ ہوں...اور دنیا کے اس سرے سے اس سرے تک کوئی مذہب نشان آسمانی میں اس کا مقابلہ نہ کر سکے باوجود اس بات کے کہ کوئی حصہ آبادی دنیا کا اس دعوت مقابلہ سے بے خبر نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اب دنیا میں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ تمام دنیا کے مذاہب کی دین اور روحانیت کے میدان میں کشتی ممکن ہوگئی ہے.تمام اقوام اپنے نمائندوں کو ایک جگہ جمع کر کے دوسرے مذاہب سے مقابلہ کر سکتے ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دین کے میدان میں سب دنیا کے مذاہب کو پکارا، یہ مقابلہ آپ کے زمانہ میں شروع ہو گیا گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر مختلف دعوت ہائے فیصلہ میں نے بھی دنیا کے سامنے رکھی تھیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی سفر یورپ کی تو میں ارادہ رکھتا ہوں کہ وہاں کے ملکوں میں جو عیسائی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں ان دعوت ہائے فیصلہ کو دہراؤں اور امن اور صلح کی فضا میں اسلام کے مقابلہ میں انہیں دعوت دوں کہ اپنی حقانیت کو (اگر وہ اپنے مذاہب کو حق سمجھتے ہیں ) ثابت کریں اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ اگر وہ میدان فیصلہ میں آئے تو اللہ تعالیٰ ایسے

Page 714

خطبات ناصر جلد اوّل ۶۹۸ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء سامان پیدا کر دے گا کہ دنیا کے سامنے انہیں اپنی شکست کو تسلیم کرنا پڑے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.تو آٹھواں مقصد ساری دنیا کی اقوام کو وحدت کے سلسلہ میں منسلک کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کام کو پورا کرنے کا وعدہ دیا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ اس مقصد کے حصول کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ پر بڑی ہی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کی طرف مجھے اور آپ سب کو توجہ دینی چاہیے.تو آٹھواں مقصد مثابہ میں بیان ہوا ہے اور ظاہر ہے یہ مقصد سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے کیونکہ کسی اور نبی کو ایسی شریعت نہیں دی گئی جو مختص القوم نہ ہو جس کا تعلق صرف اس کی قوم اور اس کے زمانہ کے ساتھ نہ ہو.صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جن کو ایک ایسی شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی جو انسان کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والی اور جس کا تعلق دنیا کی ہر قوم اور قیامت تک کے ہر زمانہ کے ساتھ ہے.اور وہ وعدے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دئے گئے وہ اپنے وقت پر پورے ہوتے رہے ہیں.یہ وعدہ جو ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس کے پورا ہونے کا وقت مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اس کے پورا کرنے کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو اس کی توفیق عطا فرمائے.نواں مقصد جس کا ان آیات میں ذکر ہے وہ آمنا کے لفظ میں بیان ہوا ہے.مثابةٌ میں بین الاقوامی تعلقات کے مضبوط بنیادوں پر مستحکم ہونے کا ذکر تھا اور بین الاقوامی رشتہ اخوت کے استحکام کے لئے یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی امن کے قیام اور قوموں کے باہمی تعلقات میں تسکین قلب کے سامان پیدا کئے جائیں اور ذرائع مہیا کئے جائیں.وعدہ یہ دیا گیا تھا کہ مثابةً کا وعدہ بھی پورا ہو گا اور اس کے لئے جو ضروری چیز ہے کہ بین الاقوامی امن کا ماحول پیدا کیا جائے وہ وعدہ بھی پورا ہوگا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو جو شریعت دی جائے گی اس میں بین الاقوامی امن کے قیام کی تعلیم دی جائے گی اور وعدہ دیا گیا تھا کہ حقیقی امن دنیا کو صرف اس

Page 715

خطبات ناصر جلد اول ۶۹۹ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء تعلیم پر عمل کرنے سے مل سکتا ہے جو تعلیم کہ مکہ سے مبعوث ہونے والا خاتم النبیین دنیا کے سامنے پیش کرے گا کیونکہ اس آخری شریعت میں تمام فطری قوتوں اور استعدادوں کی صحیح نشوونما کے سامان رکھے جائیں گے اور انسانی عقل ان ہدایات سے تسلی پائے گی اور اس کا دل اطمینان حاصل کرے گا.امنِ عالم کے قیام کے متعلق جو تعلیم قرآن کریم میں پائی جاتی ہے وہ بڑی مفصل ہے اور اس وقت میں اس کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا.اس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب ” احمدیت یعنی حقیقی اسلام “ اور ” نظام نو میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے.ان کتب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ بیان کیا ہے کہ پانچ بنیادی باتیں امن عالم کے قیام کے لئے قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں، جب تک ان اصولوں پر دنیا عمل نہیں کرے گی دنیا کی کوئی بین الاقوامی تنظیم کامیاب نہیں ہوگی.پہلے لیگ آف نیشنز نا کام ہوئی پھر اب جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں یو.این.او نا کامی کی طرف جارہی ہے اور اس کی بڑی وجہ یا یوں کہنا چاہیے کہ ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے بین الا قوامی امن کے قیام کے لئے دنیا کو جو تعلیم دی تھی یہ لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اور اس کو نہیں اپنا یا ان اصولوں کو ٹھکرانے کے نتیجہ میں وہ ناکامیوں کے دیکھتے چلے جارہے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا ہے کہ صرف بین الاقوامی معاہدہ ( قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول پر ) کی بجائے ایک ہی وقت میں دنیا دو قسم کے معاہدے کر لیتی ہے.ایک تو تعلق رکھتے ہیں تمام اقوام کے ساتھ اور ایک وہ معاہدے ہوتے ہیں جو بڑی بڑی قو میں آپس میں کر لیتی ہیں اور چونکہ دو کشتیوں میں ان کا پاؤں ہوتا ہے اس لئے وہ ناکام ہو جاتے ہیں.خود یو.این.او میں جو معاہدہ ہوا اس کے اندر ہی ایک اور معاہدہ مدغم کر دیا گیا.بجائے اس کے کہ یہ خالص بین الاقوامی معاہدہ ہوتا انہوں نے اس کے اندر ویٹو کو اپنا لیا یعنی بعض قوموں کو یو.این.او نے یہ فضیلت عطا کی کہ ان کی رائے کے بغیر بعض معاملات طے نہیں ہو سکیں گے حالانکہ جس طرح وہ قانون جو افراد پر لاگو ہوتا ہے اس میں امیر اور غریب، طاقت ور اور کمزور میں فرق نہیں کیا جا سکتا نہ کیا جانا چاہیے.

Page 716

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء اگر قانونی حکومت کو ملک میں رائج کرنا ہو.اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی معاہدات میں کسی قوم کو کسی دوسری قوم پر ترجیح نہ دی جائے.اگر ترجیح دی جائے گی تو وہ بین الاقوامی قانون لازماً نا کام ہو جائے گا.قرآن کریم نے یہ تعلیم دی تھی کہ کسی قوم کو کسی قوم پر ترجیح نہ دینا.انہوں نے سمجھا کہ ہم بڑے طاقت ور ہیں.اپنے زور سے جو چاہیں کر سکتے ہیں.ویٹو کے حقوق بعض قوموں کو دیدئے یا بعض قوموں نے اپنے لئے یہ حقوق کے لئے اور بڑی وجہ اس وقت یو.این.او کی ناکامی کی یہی ہے کہ انہوں نے معاہدہ کرتے وقت صرف ایک قسم کا معاہدہ نہیں کیا جو صرف بین الاقوامی حیثیت کا ہوتا بلکہ اس کے اندر انفرادی معاہدے بھی شامل کر دئے گئے.جوصرف بعض اقوام سے تعلق رکھتے تھے.دنیا کی سب اقوام سے ان کو تعلق نہیں تھا.قرآن کریم نے دوسری ہدایت یہ دی تھی (بین الاقوامی امن کے قیام کے متعلق ) کہ جس وقت جھگڑا ہو اسی وقت فیصلہ کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے.لیکن آج دنیا کا دستورا اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر یہ بن گیا ہے کہ وہ جھگڑے کو لمبا ہونے دیتے ہیں لمبا کرتے چلے جاتے ہیں تا کہ بعض ذاتی مفاد کو حاصل کر سکیں اس طرح دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا.پھر بین الاقوامی معاہدہ میں علاقائی تعصب مضر ہے بلکہ مہلک ہے لیکن بین الاقوامی معاہدہ جو یو.این.او کی شکل میں دنیا کے سامنا آیا اس کے باوجود ان قوموں نے جو اس کی ممبر بنیں بلکہ بازو بنیں علیحدہ علیحدہ معاہدے کرنے شروع کر دئے اور جن قوموں سے ان کے ذاتی تعلقات تھے ان کے حق میں تعصب اور جنبہ داری کے طریق کو اختیار کرنا شروع کر دیا.پس قرآن کریم نے کہا ہے کہ بین الاقوامی امن صرف اس صورت میں قائم کیا جاسکتا ہے جب قوم قوم کے درمیان جنبہ داری کے سلوک کو اختیار نہ کیا جائے اور کوئی ایک قوم دوسری قوم کی ناجائز حمایت کرنے پر نہ تلے.چوتھی چیز جس کے خلاف ہے قرآن.مگر جس کے حق میں ہوگئی ہے یہ ظالم دنیا وہ یہ ہے کہ جب جھگڑا ہو جائے تو باہمی صلح کروانے کی بجائے بعض قوموں کو تعصب کی بنا پر سزا دینے کی تجویز

Page 717

خطبات ناصر جلد اوّل 2 +1 خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء کرتے ہیں اور جب اور جہاں بھی موقع ملتا ہے قوموں کے حصے بخرے کرنے شروع کر دیتے ہیں.جرمنی کے دو حصے کر دئے گئے کوریا اور ویٹ نام کا بھی یہی حال ہے یو.این.او کی موجودگی میں اور یو.این.او کے تمام دعاوی کے ہوتے ہوئے کہ وہ امن عالم کو قائم کرنے والی تنظیم ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ میرے سایہ تلے چلو گے تو امن کو دنیا میں قائم کرسکو گے میرے سایہ سے باہر نکلو گے تو شیطانی دھوپ کی تمازت تمہیں تنگ کرے گی اور چین نہیں لینے دے گی.اور پانچویں تعلیم قرآن کریم نے یہ دی تھی کہ اگر بین الاقوامی امن کو قائم کرنا ہو تو پھر اس کے لئے ہر قوم کو قربانی دینی پڑے گی لیکن اب یہ حال ہے کہ بعض تو میں قربانی دیتی ہیں اور بعض انکار کر دیتی ہیں.تو صرف قرآن کریم کی ہی ایسی تعلیم ہے جس پر عمل کر کے دنیا میں بین الاقوامی امن قائم کیا جا سکتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی کتاب’احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں نتیجہ اس ساری بحث کا یہ نکالتے ہیں کہ ان پانچوں نقائص کو دور کر دیا جائے تو قرآن کریم کی بتائی ہوئی لیگ آف نیشنز بنتی ہے اور اصل میں ایسی ہی لیگ کوئی فائدہ بھی دے سکتی ہے، نہ وہ لیگ جواپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مہربانی کی نگاہوں کی جستجو میں بیٹھی رہے.66 پھر آپ نے ” نظام نو میں فرما یا:.لیگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.وہی لیگ کامیاب ہو سکتی ہے جو قرآن شریف کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق قائم ہو جیسا کہ میں نے بتایا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ یہ کیا کہ تمام اقوام عالم کو ایک سلسلہ میں پرو دیا جائے گا بین الاقوامی وحدت کو قائم کیا جائے گا.پھر یہ فرمایا کہ بین الاقوامی وحدت کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی امن کی ضمانت دی جائے اور دعویٰ کیا کہ قرآن کریم کی شریعت بین الاقوامی امن کی ضمانت دیتی ہے اس شریعت کے احکام پر عمل کرو تو تمام دنیا کی اقوام میں اگر جھگڑے پیدا ہو بھی جائیں تو یہ انصاف

Page 718

خطبات ناصر جلد اول ۷۰۲ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء اور عدل کے اصول پر طے ہو جائیں گے اور امن کو کسی قسم کا دھکا نہیں لگے گا پس قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے یہ تعلیم دی جس کے نتیجہ میں دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے.چونکہ مقابةٌ کے مقصد کے حصول کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے اس لئے اس کی ذمہ داری بھی جماعت احمد یہ پر ہے کہ وہ دنیا میں کثرت کے ساتھ اس تعلیم کی اشاعت کرے جو قرآن کریم نے دنیا میں قوموں کے درمیان امن قائم کرنے کے لئے ہمیں دی ہے کیونکہ اگر دنیا اندھیرے میں رہے تو قیامت کے روز کہہ سکتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں تو علم نہیں تھا جن کو علم تھا اور جن کے کندھوں پر تو نے یہ ذمہ داری رکھی تھی کہ وہ ہمیں علم دیں انہوں نے ہم تک یہ علم نہیں پہنچایا اس لئے ہمیں بے قصور قرار دے اور جن کا قصور ہے ان پر اپنے غضب کا اظہار کر اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے غضب سے محفوظ رکھے.دسواں مقصد بیت اللہ کی تعمیر کا یہ بیان ہوا تھا.اِتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ملکہ کے ذریعہ بیت اللہ کے ذریعہ اور اس میں مبعوث ہونے والے عظیم الشان نبی کے طفیل اقوام عالم مقام عبودیت کا عرفان حاصل کریں گی اور اس حقیقی عبادت کی بنیاد یہاں ڈالی جائے گی جو تذلل اور فروتنی اور انکسار کے منبع سے پھوٹتی ہے اور اس طرح قوم قوم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل پیدا ہوں گے اور زمین کے خطہ خطہ پر اشاعت اسلام کے لئے مراکز قائم کئے جائیں گے جہاں عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا اقرار کیا جائے گا اور اظہار کیا جائے گا اور اس عاجزی اور تذلل کے نتیجہ میں جو محض خدا کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے لئے اختیار کیا جائے گا وہ اقوام آسمانی برکات حاصل کریں گی اور بخشش کی مستحق ٹھہریں گی.تو فرمایا تھا کہ یہاں مکہ کے ذریعہ اس شریعت کے طفیل جو یہاں نازل ہو گی صلوٰۃ کو اپنے تمام معانی اور تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنے والی اُمت پیدا ہو جائے گی جو مقام عبودیت پر مضبوطی سے قائم ہوگی.در اصل اس کا تعلق بھی پہلے دو مقاصد سے ہے کیونکہ آٹھواں وعدہ یہ تھا کہ تمام اقوام کو ایک امت مسلمہ بنا دیا جائے گا ایک قوم بنا دیا جائے گا یہ ہو نہیں سکتا جب تک امنِ عالم کا قیام نہ ہو تو

Page 719

خطبات ناصر جلد اول ۷۰۳ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء پہلے وعدہ دیا اور پھر اس وعدہ کو قرآن کریم کی شریعت کے رنگ میں پورا کیا کہ وہ کامل تعلیم امن جو اقوامِ عالم کے درمیان امن کو قائم کرنے کے لئے تھی وہ انسان کو دی گئی اور اب دسویں مقصد میں اللہ تعالیٰ یہ بتارہا ہے کہ اس تعلیم پر عمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ امت محمدیہ یا موعودہ اُمت تذلیل اور عاجزی کو اختیار کرنے والی نہ ہو.اس واسطے کہا اِتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ إِبْرهِمَ مُصَلَّى اس کے بغیر تم عالمگیر امن کو دنیا میں قائم نہیں کر سکتے تو یہاں وعدہ دیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک ایسی اُمت پیدا کی جائے گی جو مقام عبودیت پر مضبوطی سے قائم ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے کامل متبعین جو اپنے مقام عبودیت کو پہچانتے ہیں اور مضبوطی سے اس پر قائم ہیں.وہ ہیں جو بشہو دکبریائی حضرت باری تعالیٰ ہمیشہ تذلل اور نیستی اور انکسار میں رہتے ہیں اور اپنی اصل حقیقت ذلت اور مفلسی اور ناداری اور پر تقصیری اور خطاواری سمجھتے ہیں اور ان تمام کمالات کو جو ان کو دئے گئے ہیں اس عارضی روشنی کی مانند سمجھتے ہیں، جو کسی وقت آفتاب کی طرف سے دیوار پر پڑتی ہے جس کو حقیقی طور پر دیوار سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہوتا اور لباس مستعار کی طرح معرض زوال میں ہوتی ہے.پس وہ تمام خیر وخوبی خدا ہی میں محصور رکھتے ہیں اور تمام نیکیوں کا چشمہ اسی کی ذات کامل کو قرار دیتے ہیں اور صفات الہیہ کے کامل شہود سے ان کے دل میں حق الیقین کے طور پر بھر جاتا ہے کہ ہم کچھ چیز نہیں ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے وجود اور ارادہ اور خواہش سے بکلی کھوئے جاتے ہیں اور عظمت الہی کا پُر جوش دریا ان کے دلوں پر ایسا محیط ہو جاتا ہے کہ ہزار ہا طور کی نیستی ان پر وارد ہو جاتی ہے اور شرک خفی کے ہر یک رگ وریشہ سے بکلی پاک اور منزہ ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے.نماز کے اجزاء اپنے اندر ادب، خاکساری اور انکساری کا اظہار رکھتے ہیں قیام میں نمازی دست بستہ کھڑا ہوتا ہے جیسا کہ ایک غلام اپنے آقا اور بادشاہ کے سامنے طریق ادب سے کھڑا ہوتا ہے رکوع میں انسان انکسار کے ساتھ جھک جاتا ہے.سب سے

Page 720

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۰۴ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء بڑا انکسارسجدہ میں ہے جو بہت ہی عاجزی کی حالت کو ظاہر کرتا ہے.16 اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ ہم اپنے فضل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں ایک ایسی جماعت پیدا کرتے رہیں گے جو انکسار اور تذلل اور فروتنی اور تواضع کے مقام کو مضبوطی سے پکڑے اور اس تذلیل اور انکسار کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس امن کے قیام کے امکانات پیدا کرے گا جو آھنا میں بیان ہوئے ہیں اور جس کی تعلیم قرآن کریم نے تفصیل سے ہمیں دی ہے.یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی عبادت (۱) محبت و ایثار اور (۲) تذلّل و انکسار ہر دو کے خمیر سے پرورش پاتی ہے لیکن کبھی محبت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور کبھی تذلل اور فروتنی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے.جب خدا تعالیٰ کا حسن اور اس کا احسان جلوہ فگن ہوتا ہے تو انسان کا دل اپنے رب کی محبت سے بھر جاتا ہے اور ایک عاشق زار کی طرح وہ اس کی ہر آواز پر لبیک کہتا ہے وہ اس کے گرد گھومتا ہے وہ نیستی کا لبادہ پہن کر اسی میں کھو جاتا ہے اور اس کے اپنے وجود پر کلیتہ ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی زندگی اس کے رب کی طرف سے اسے عطا ہوتی ہے.مگر دنیا اسے نہیں پہچانتی اور وہ اس کی کچھ پر واہ بھی نہیں کرتا.لیکن جب خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا جلوہ اس پر ظاہر ہوتا ہے تو اس کا دل خوف ورجاء اور امید و بیم سے لبریز ہو جاتا ہے عظمت الہی اور جلال الہی کے اس جلوہ کے بعد اس کی اپنی کوئی بزرگی اور عظمت باقی نہیں رہتی وہ فروتنی کا جامہ پہن لیتا ہے انکسار کو اپنا شعار بناتا ہے اور تذلیل کی گرد سے غبار آلود اور آغب نظر آتا ہے وہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتا ہے اور عاجزی کے ساتھ اور خوف زدہ دل کے ساتھ لرزاں اور ترساں اپنے رب کے حضور جھکتا ہے اور اس کی عظمت اور جلال کا اقرار کرتا ہے اس کے جسم کا ہر ذرہ اور اس کی روح کا ہر پہلو اپنے ربّ کےخوف سے کانپ رہا ہوتا ہے اور عظمت و جلال کا یہ جلوہ اسے اس حق الیقین پر قائم کر دیتا ہے کہ اس عظمت کے مقابلہ میں سب مخلوق مردہ اور لاشئے محض ہے اور ان سے کسی بھلائی کی امید نہیں رکھی جاسکتی اور نہ وہ بذات خود اس کی طاقت رکھتے ہیں.اگر امید وابستہ کی جاسکتی ہے تو صرف ذوالجلال والاکرام سے.تب خوف کے ساتھ ایک امید و رجاء بھی اس کے سینہ صافی میں پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنی

Page 721

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۰۵ خطبہ جمعہ ۱۹ رمئی ۱۹۶۷ء سب امیدوں کو اپنے رب سے ہی وابستہ کر لیتا ہے اور صرف اس پر توکل رکھتا ہے اور حاجت براری کے لئے صرف اس کے دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے اور اس کا دل اس یقین سے پر ہوتا ہے کہ جو کچھ ملنا ہے صرف اسی در سے ہی ملنا ہے جوتی کا ایک تسمہ ہو.یا دنیا جہان کی عزتیں.جس شخص پر عظمت و جلال کا یہ جلوہ ظاہر ہو وہ یہ نہیں کیا کرتا کہ کشوف ورڈ یا کا ایک کشکول بنائے اور قبولیت دعا کے واقعات سے اسے سجا کر در در پھرے اور دنیا والوں سے دنیا کی عزت اور احترام اور توصیف اور تحسین کی بھیک مانگے اور دنیا کی نگاہوں میں اپنے لئے کسی احترام کا متلاشی ہوا ایک مردہ سے اسے کیا لینا ہے؟ اور ایک لاشہ نے اسے کیا دینا ہے؟ جس کی عظمت اور جلال کے خوف نے اور جس کی بے پایاں رحمت کی امید نے جس در کا فقیر اسے بنادیا وہ اسی در پر دھونی رمائے امید وبیم کے درمیان زندگی کے دن پورے کر دیتا ہے، تب اس کا رب اس سے راضی ہوتا ہے اور محبت سے اپنی گود میں اسے بٹھا لیتا ہے اور دنیا اور آخرت کی جنتیں اسے مل جاتی ہیں.رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ - محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک ایسی اُمت کے معرض وجود میں آنے کی بشارت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی اور خدا کی قسم اس نے اپنے وعدہ کو پورا کر دکھایا.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ (روز نامه الفضل ربوه ۲۸ رمئی ۱۹۶۷ء صفحه ۱ تا ۵)

Page 722

Page 723

خطبات ناصر جلد اول ۷۰۷ خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء بیت اللہ روحانی اور جسمانی پاکیزگی کے حصول اور اُس کی ترویج کا مرکز ہے خطبه جمعه فرموده ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.پچھلے خطبات میں میں نے تعمیر بیت اللہ کے متعلق دس مقاصد کا ذکر کیا تھا اور ان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا.جو آیات میں ان خطبات کے شروع میں پڑھتا رہا ہوں ان میں میں نے بتایا تھا کہ ان میں تیس مقاصد کا ذکر ہے دس کے متعلق میں اس سے پہلے کچھ کہہ چکا ہوں.گیارھواں مقصد یا گیارہویں غرض تعمیر بیت اللہ کی طہرا کے الفاظ میں بیان ہوئی تھی کہ تم اس بیت اللہ کی تطہیر کا انتظام کرو، اس کو پاکیزہ رکھنے کا انتظام کرو، اس کی صفائی کا انتظام کرو اور اس میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ اس گھر کو ظاہری صفائی اور باطنی پاکیزگی اور طہارت کا مرکز بنانا چاہتا ہے یہ غرض بھی خاتم الانبیاء اور افضل الرسل محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پوری ہوئی.آپ کی شریعت میں ظاہری اور جسمانی صفائی اور روحانی پاکیزگی کے حصول کے متعلق ایک اکمل اور مکمل تعلیم ہمیں عطا ہوئی ہے اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ کی آیات ۱۵۱ اور ۱۵۲ میں فرماتا ہے کہ جہاں کہیں بھی تم ہو جو کام بھی اسلامی شریعت کی ہدایات کے مطابق تم کرو اس میں اس بات کا خیال رکھو کہ تمہیں خاص مقاصد اور اغراض کے پیش نظر پیدا کیا گیا ہے اور تم پر یہ

Page 724

خطبات ناصر جلد اول 2.1 خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تم ان مقاصد کو پورا کرو اور تمام دنیا میں ، اقوام عالم میں شریعت اسلامیہ کو قائم کرو اور اسے زندہ رکھو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں جو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ تم بیت اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے مقاصد کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھا کرو.یہ اس لئے ہے کہ میں اپنی نعمت کو پر پورا کرنا چاہتا ہوں وَلاتم نِعْمَتَى عَلَيْكُم - اتمام نعمت کی غرض سے یہ مقاصد میں نے تمہارے سامنے رکھے ہیں اگر تم ہماری بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق ان مقاصد کے حصول کے لئے سعی کرو گے اور خلوص نیت سے ہمارے احکام بجالا ؤ گے تو تم پر ہماری جو نعمتیں ہوں گی وہ اس طور کی ہوں گی اور اس نوعیت اور قسم کی ہوں گی کہ ان کے متعلق اتمام نعمت کا فقرہ بولا جا سکے گا اور لاتم نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ( آیت ۱۵۲) میں کہ ایک رسول تمہاری طرف بھیجا گیا ہے جو پاکیزگی کی تعلیم تمہیں دیتا ہے.چونکہ طبعاً سوال پیدا ہوتا تھا کہ اے خدا ! مقاصد کا تو ہمیں پتہ چل گیا، مگر ہماری کوششوں کی راہوں کی ابھی تعیین نہیں کی گئی ، اگر تعیین ہو جاتی تو ہمارے لئے سہولت ہوتی اس لئے دوسری آیت (۱۵۲) میں بتادیا کہ جو راہ تمہیں میرا پیارا محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) بتائے وہی وہ راہ ہے جو پاکیزگی کی طرف لے جاتی ہے اور جس راہ پر چل کر تم مقاصد تعمیر بیت اللہ کو حاصل کر سکتے ہو فرمایا کہ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ ابْتِنَا وَيُزيكُمْ کہ تمہارے تزکیہ کے سامان اس رسول کے ذریعہ سے ہم نے مہیا کر دیئے ہیں.اس لئے کہ وہ آیات پڑھ کر سناتا ہے کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور اس کی حکمتیں بیان کرتا ہے.پس طھورا میں جو غرض بیان کی گئی تھی اور جس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا، اس کو پورا کرنے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.خود قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ اس غرض کو پورا کرنے والے ہیں، کیونکہ یہاں مسجد حرام، مقاصد کا سامنے رکھنا، اتمام نعمت اور تزکیۂ نفوس اور اس کے طریق یہ تمام باتیں ان دو آیتوں میں اکٹھی کر دی گئی ہیں.سورۃ بقرہ کی آیات میں عام پاکیزگی کا ذکر تو ہے لیکن زیادہ زور روحانی اور دینی پاکیزگی

Page 725

خطبات ناصر جلد اوّل 2.9 خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء پر ہے لیکن سورہ مائدہ کی آیت سات میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اگر تم جنبی ہو تو نہا لیا کر و.اس میں یہ تعلیم دی کہ اسلام میں جسموں کو پاک اور صاف رکھنا ضروری ہے.اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ جسم کی صفائی اور کپڑوں کی صفائی اور گھر کی صفائی اور ماحول کی صفائی اور مساجد کی صفائی اور ان کی پاکیزگی اور طہارت کا خیال رکھنا اور زبان کی صفائی اور کان کی صفائی اور آنکھ کی صفائی اور ناک کی صفائی کے اوپر بڑی شرح کے ساتھ تعلیم بیان کی ہے.اس تعلیم کی تفصیل میں میں اس وقت نہ جانا چاہتا ہوں اور نہ میرے لئے اس کی تفصیل میں جا ناممکن ہے بہر حال قرآن کریم پر غور کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں.(جس سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا ) کہ قرآنی شریعت میں جتنا زور ظاہری اور باطنی صفائی اور پاکیزگی پر دیا گیا ہے اس کا سواں حصہ، شاید ہزارواں حصہ بھی پہلے کسی مذہب نے ان باتوں پر زور نہیں دیا تو جو مقصد طهرا کے اندر بیان ہوا تھا اس کو پورا کرنے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا اور آپ نے اس مقصد کا حصول اُمت مسلمہ کے لئے ممکن بناد یا کیونکہ صفائی کی ہرشاہراہ کی طرف ہمیں ہدایت دی اور ہر تعلیم جو صفائی سے تعلق رکھنے والی اور پاکیزگی اور طہارت سے تعلق رکھنے والی تھی کھول کر ہمارے سامنے بیان کر دی اور ان ہدایات پر عمل کرنے کی راہیں ہم پر آسان کر دیں.اس سے پہلے کسی نبی نے ان میدانوں میں اتنا عظیم کام نہیں کیا.پس مقصد ہے پاکیزگی اور طہارت اور اس کے حصول کا ذریعہ بنے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے حصول کی ذمہ واری پڑتی ہے اُمت مسلمہ پر اور اس زمانہ میں مسلمانوں میں سے اس جماعت پر جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے از سر نو خدا اور اس کے رسول کے لئے زندہ کیا گیا ہے.اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تم پر کسی قسم کی تنگی اور سختی کرنا نہیں چاہتے.تمہیں پاک کرنا اور تم پر اپنے احسان کو پورا کرنا ہمارا مقصد ہے.اگر روحانی پاکیزگی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ جسمانی صفائی اور پاکیزگی کی تعلیم نہ دی جاتی تو اللہ تعالیٰ کا انعام اور احسان اُدھورا رہ جاتا مگر وَلِيتِم نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ.اس نے یہی پسند کیا کہ وہ اپنے احسان کو پورا کرے اور اتمام نعمت کرے.اس نے یہ تعلیم اس لئے دی ہے تا تمہارے اندر کوئی گند باقی نہ چھوڑے اور کامل اور

Page 726

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء مکمل طور پر تمہیں پاک اور مطہر بنادے اسی طرح قرآن کریم نے پانی کے متعلق فرمایا کہ اس کے بہت سے فوائد ہیں ایک یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تم ظاہری صفائی کرتے ہو، کپڑے دھوتے ہو، برتن دھوتے ہو، گلیاں صاف کرتے ہو، مکانوں کو دھوتے ہو، جسموں کو دھوتے ہو.ہزار پاکیز گیاں ہیں جو پانی کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی ہیں مَاء لِيُطَهِّرَكُم بِه (الانفال :۱۲) تو قرآن کریم ظاہری اور باطنی صفائی اور پاکیزگی کی تعلیم سے بھرا پڑا ہے اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ہے جن کے ذریعہ تعمیر بیت اللہ کا یہ مقصد حاصل ہوتا ہے.خانہ خدا کی تعمیر کی بارہویں غرض لظالفین میں بتائی گئی تھی اور اس لفظ میں اس طرف اشارہ تھا کہ اقوام عالم کے نمائندے بار بار یہاں اس لئے جمع ہوں گے کہ وہ پاکیزگی اور طہارت کی تعلیم حاصل کریں اور پھر اپنے اپنے علاقہ میں جا کر اس تعلیم کو پھیلائیں اور اس کی اشاعت کریں.یہ غرض بھی حقیقی طور پر صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پوری ہوئی ہے قرآن کریم نے اسی مقصد کے پیش نظر یہ حکم دیا.وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا في الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ - (التوبة : ١٢٢) یعنی مومنوں کے لئے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ سارے کے سارے مرکز اسلام میں اکٹھے ہو جائیں.کیونکہ اسلام کے مخاطب اقوام عالم ہیں.اقوام عالم مرکز اسلام میں کسی وقت بھی اکٹھی نہیں ہوسکتیں لیکن مرکز کے ساتھ اقوام عالم کا پختہ تعلق قائم رہنا بھی ضروری ہے.تو اس کے لئے اللہ فرماتا ہے کہ ہم تمہیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ چونکہ سب کا اکٹھا ہونا یہاں ممکن نہیں اس لئے کیوں نہ ہوا کہ ان کی جماعت میں سے ایک گروہ نکل پڑتا تا کہ وہ دین کو پوری طرح سیکھتے اور واپس لوٹ کر اپنی قوم کو بے دینی سے بچاتے اور اس طرح گمراہ ہونے سے ان کو بچالیتے.انذار کے ذریعہ اور تخویف کے ذریعہ.تو یہاں قرآن کریم نے امت مسلمہ کو جو اقوام عالم پرمشتمل اور ا کناف عالم میں پھیلی ہوئی

Page 727

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء ہے یہ حکم دیا ہے کہ ہر قوم اور ہر ملک کی ایک نمائندہ جماعت مرکز میں آتی رہنی چاہیے تا کہ وہ دین سیکھے اور ضروریاتِ وقت سے آگاہ ہو اور اس بات کا علم حاصل کرے کہ اسلام کے لئے موجودہ زمانہ میں کس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اور ان کو معلوم ہو کہ ان کا امام وقت کن کاموں کی طرف اور کن منصوبوں کی طرف انہیں بلاتا ہے اور تا کہ وہ ان کی حکمتوں کو سمجھیں تا جب وہ واپس جائیں تو اپنے اپنے علاقہ میں اپنے دوسرے بھائیوں کو یہ بتائیں کہ اس وقت اسلام پر مثلاً فلاں فلاں طرف سے حملہ ہو رہا ہے اس کے جواب کے لئے تم تیار ہو جاؤ.اسلام کے خلاف دجل کے یہ طریق استعمال کئے جا رہے ہیں اور اس وجہ سے اسلام کی حفاظت اور اسلام کی بقا کے لئے اور اسلام کی ترقی اور استحکام کے لئے جماعت کے سامنے یہ منصوبہ رکھا جا رہا ہے.ان قربانیوں اور ایثار کے نمونوں کو پیش کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جاؤ اور عملی طور پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قبیلوں کے نمائندے مدینہ میں آپ کے پاس جمع ہوتے رہتے تھے علم دین سکھتے اور علم قرآن سکھتے قرآن کریم کے بعض حصوں کو یاد کرتے تَفَقُهُ فِي الدِّين حاصل کرتے اور پھر وہ اپنی قوم میں واپس جاتے اور اس طرح احیاء دین اسلام کے سامان پیدا کر تے.جولوگ وہاں مدینہ میں آتے وہ بھی اپنے وقت کی قربانی دیتے علم دین سیکھنے کے لئے بھی اور علم دین سکھانے کے لئے بھی اور ان سے علم دین سیکھنے والے بھی اپنے وقت خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو مدینہ میں آنے کا ان کے نفسوں کو تو فائدہ پہنچ جاتا ان سے دوسروں کو کوئی فائدہ نہ پہنچتا لیکن اس سکیم اور اس منصوبہ کی اصل غرض تو تھی ہی یہ کہ لوگ باہر سے مرکز میں آئیں دین سیکھیں ضروریات اسلام کا علم حاصل کریں پھر واپس جائیں اور یہ باتیں اپنے دوسرے بھائیوں کو بتا ئیں.پس’طواف کا مقصد حاصل نہیں ہوتا جب تک یہ طائفہ و طائفین اور یہ لوگ وقت کی قربانی دینے والے نہ ہوں اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام نے پاکیزگی اور طہارت کی تعلیم دی ہے اور خدا تعالیٰ نے ایسی اُمت پیدا کر دی ہے جو اپنے وقتوں کو قربان کر کے خدا اور اس کے

Page 728

خطبات ناصر جلد اول ۷۱۲ خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء رسول کے لئے مرکز میں جمع ہوتے ہیں اور واپس جا کر خدا اور رسول کی رضا کے لئے اپنے بھائیوں کو علم قرآن سکھاتے علم دین ان کو بتاتے.جو تدابیر اختیار کی جارہی ہیں اسلام کی حفاظت یا اسلام کی اشاعت کے لئے.وہ باتیں ان کے سامنے رکھتے اور ان کے دل میں خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے کے لئے بشاشت پیدا کرتے.اس حکم کو اس وقت کی قوموں اور قبائل نے خوب اچھی طرح سمجھا تھا.چنانچہ ابن عباس کی روایت ہے.L كَانَ يَنْطَلِقُ مِنْ كُلِّ حَيْ مِنَ الْعَرَبِ عِصَابَةٌ فَيَأْتُونَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَسْأَلُوْنَهُ عَمَّا يُرِيدُونَ مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ وَيَتَفَقَّهُونَ فِي دِينِهِمْ - ابن عباس کی روایت ہے کہ عرب کے ہر قبیلہ میں سے ایک جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتی تھی اور جن باتوں کا انہیں پہلے علم نہ ہوتا ان کے متعلق وہ پوچھتے بصیرت حاصل کرتے مسائل کی حکمتیں معلوم کرتے اور پختہ ہو جاتے ، اپنے دین پر.اور تَفَقُهُ في الدّین کو حاصل کرتے ، پھر وہ واپس جاتے اور دوسروں کو جا کر وہ سکھاتے تھے.چنانچہ بہت تفصیل کے ساتھ ان وفود کا ذکر ہماری تاریخ میں پایا جاتا ہے جو اس غرض کے لئے اور اس حکم کو پورا کرنے کے لئے مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور دین سیکھنے کے لئے وہاں ٹھہرتے تھے ایک گروہ کے بعد دوسرا گروہ پھر تیسر ا گر وہ پھر ایک اور گروہ آجا تا تھا.ایک تسلسل جاری تھا اور اس تسلسل میں دین کی بقا کے سامان رکھے گئے تھے مثلاً تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایک وقت میں بحرین سے چودہ نمائندے آئے تھے اور اسی طرح حضرموت ( یمن ) سے اسی نمائندے آئے تھے اور اسی طرح ستراشی افراد پر مشتمل ایک وفد بنو تمیم کا آیا دین سیکھنے کے لئے اور یہ وفود بَقَوْا بِالْمَدِينَةِ مُدَّةً يَتَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ وَالدِّينَ ثُمَّ خَرَجُوا إلى قَوْمِهِمْ دین سیکھا پھر اپنی قوم میں گئے اور انہیں دین سکھلایا.میں نے یہ چند مثالیں صرف اس لئے بیان کی ہیں تا کہ ہماری جماعتوں پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ اب تو وہ شاید ایک نمائندہ بھی نہیں دیتیں ان کلاسز کے لئے جو یہاں جاری کی جاتی ہیں

Page 729

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۱۳ خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء لیکن اس طرح کام نہیں بنے گا بلکہ کافی تعداد میں لوگوں کو یہاں آنا پڑے گا تب ہم دینِ اسلام کی خدمت کما حقہ کر سکتے ہیں.بہر حال اس کی تفصیل تو میں اس وقت بتاؤں گا جب میں ان مقاصد پر بطور وعدہ کے بیان کو ختم کر چکوں گا اور ان وعدوں پر بطور ذمہ داری کے اپنے بیان کو شروع کروں گا کیونکہ یہ ساری ذمہ داریاں ہیں جو مسلمانوں پر اور خصوصاً اس وقت میں ہم احمدیوں پر عائد ہوتی ہیں.تیرھواں مقصد والعین میں بیان ہوا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ سے ایک ایسی قوم پیدا کی جائے گی جو اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے والی ہوگی اور واقفین کے اس گروہ میں قوم قوم اور ملک ملک کے نمائندے شامل ہوں گے یہ غرض بھی صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پوری ہوئی ہے اس سے پہلے اس کے پورا ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا کیونکہ قوم قوم کے نمائندے وہاں آہی نہ سکتے تھے مکہ کا نہ انہیں علم تھا نہ اس کی محبت ان لوگوں کے دلوں میں تھی.میں نے بتایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقاصد کو پورا کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ انْتُمْ عَرِفُونَ فِي الْمَسْجِدِ ( البقرة : ۱۸۸) اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ہم تم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ تم مساجد میں اعتکاف بیٹھا کرو.دنیا کے تمام تعلقات سے منہ موڑ کر خالصہ خدا کے لئے اپنی زندگی کے چوبیس گھنٹے چند ایام کے لئے گزارو تا کہ وقف کی روح کو زندہ کیا جائے اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے لئے ساری زمین کو مسجد بنایا گیا ہے.اس لئے وَ انْتُمْ عَرِفُونَ فِي الْمَسْجِدِ کے معنی یہ ہوئے کہ میری خاطر تمہیں خطہ خطہ زمین میں بطور واقف کچھ وقت گزارنا پڑے گا کیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی اشارہ بتا یا تھا خانہء کعبہ یا بیت اللہ ایک مرکزی نقطہ ہے اور ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تمہیں اس کے اظلال بھی بنانے پڑیں گے یعنی اسی کی نقل میں انہی مقاصد کے حصول کے لئے اسی قسم کی پاکیزگی اور طہارت کو پیدا کرنے کے لئے جگہ جگہ پر ایسے مرا کز کھولنے پڑیں گے جو بیت اللہ کے ظل ہوں گے اور ان کے قیام کی غرض وہی ہوگی جو بیت اللہ کے قیام کی غرض ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بتایا کہ انتُم عَصِفُونَ فِي الْمَسْجِدِ کہ ہر اس جگہ پر جہاں اُمتِ مسلمہ

Page 730

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء تقویٰ کی بنیادوں پر بیت اللہ کا ظل قائم کرے گی.تمہیں بطور واقف کے بیٹھنا پڑے گا ورنہ یہ مقصد پورا نہیں ہو گا اس کے متعلق بھی میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، لیکن مجھے خیال آیا کہ اگر خانہ کعبہ کی تعمیر کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ واقفین اُمہ یعنی ہر مقام اور قبائل کے جو واقف ہیں وہ مرکز یا اس کے ظل میں آکر جمع ہوں اور وہاں بیٹھیں تو وقف اور ہجرت میں بڑی مشابہت پائی جاتی ہے.تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ صرف مکہ سے ہی نہیں بلکہ دوسرے علاقوں سے بھی قبائل کے بعض نمائندے اپنے علاقہ کو چھوڑ کے اور اپنے قبیلے کو چھوڑ کر مدینہ میں آکے دھونی رما کے بیٹھ گئے تھے اور پھر وہیں بیٹھے رہے.ان کی جو ہجرت تھی اپنی قوم یا اپنے ملک سے وہ اس قسم کی نہیں تھی جو مکہ سے ہجرت تھی بلکہ اس قسم کی تھی جو ایک واقف کی ہجرت ہوتی ہے جو اپنا علاقہ چھوڑ کے ،اپنی رشتہ داریاں چھوڑ کے، اپنے گھر بار کو چھوڑ کے، اپنی جائیداد کو چھوڑ کے خدا کے لئے مرکز میں آ جاتا ہے اور پھر مرکز کی ہدایت کے مطابق دنیا کے مختلف حصوں میں کام کرتا ہے.مثلاً یمن میں ایک قبیلہ اشعر بین کا تھا وہاں کے ابو موسیٰ اشعری بڑے مشہور بزرگ صحابی ہیں ان کے ساتھ اتنی نفوس ہجرت کر کے مدینہ میں آگئے اور اسی طرح اور بہت سے قبائل ہیں تاریخ میں جن کا ذکر آتا ہے کہ وہ مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے استفادہ کے لئے وہاں آگئے تھے جن میں سے ایک ابو ہریرہ بھی ہیں رضی اللہ عنہ.چودھواں مقصد والدرع السُّجُودِ میں بیان ہوا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ سے اقوام عالم ذات باری اور صفات باری کا کامل عرفان حاصل کریں گی اور اس کے نتیجہ میں اطاعت، فرماں برداری، ایثار اور فدائیت اور قربانی کے وہ نمونے دکھا ئیں گی کہ جن کی مثال دنیا میں کوئی اور مذہب پیش نہ کر سکے گا اور جنہیں دیکھ کر دنیا حیرت میں ڈوب جائے گی.یہ مقصد بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پورا ہوا اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں نہ صرف آپ کے زمانہ میں بلکہ بعد میں بھی ہر صدی میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جو اس مقصد کو پورا کرنے والے تھے اس کی تفصیل میں بھی میں اس وقت جانا نہیں چاہتا اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی تو جب میں ذمہ داریوں کی طرف دوستوں کو توجہ دلاؤں گا اس وقت میں اس کی

Page 731

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء تفصیل میں جاؤں گا.انشاء اللہ.پندرھواں مقصد بلدًا امنا میں بیان ہوا تھا اور وعدہ دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس گھر کو دنیا کے ظالمانہ حملوں سے اپنی پناہ میں رکھے گا اور اس کے مٹانے کی ہر کوشش نا کام کر دی جائے گی بلکہ حملہ آور تباہ اور برباد ہوں گے اور اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ ہم نے مکہ کی حفاظت ایک خاص غرض کے ماتحت کی ہے اور بتایا تھا مکہ کی حفاظت اس لئے کی جائے گی تا دنیا پر یہ بات واضح کریں کہ جس نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہم اس مقام سے مبعوث کرنا چاہتے ہیں وہ ہماری حفاظت میں ہوگا اور تا دنیا یہ جان لے کہ جو شریعت ہم اس میں نازل کرنا چاہتے ہیں اس کے بھی ہم ہی محافظ ہوں گے.تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا کی پناہ میں ہونا اور اس نبی معصوم پر جو شریعت نازل ہوئی ہے اس کا پوری طرح اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہونا.خانہ کعبہ کی حفاظت میں ان ہر دو کی حفاظت کا وعدہ دیا گیا تھا چنانچہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا کہ جو وعدہ کیا گیا تھا اس وعدہ کے مصداق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور فرما یا اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.اس آیت کی ابتداء یوں ہوتی ہے.ايُّهَا الرَّسُولُ بَلِخَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبَّكَ (المآئدة: ۶۸) کہ جو ہدایت اور جو تعلیم اور جو شریعت تم پر نازل کی گئی ہے تم بلا خوف اور بغیر خطرے کے دلیری کے ساتھ اس کی تبلیغ کرو اور اس آب حیات کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤ ، لیکن ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ اس تبلیغ پر دنیا راضی نہیں ہوگی اور خوش نہیں ہوگی بلکہ وہ ہزار منصوبے بنائے گی تمہیں قتل کرنے کے تمہیں ہلاک کرنے کے ہتمہیں مٹا دینے کے تمہاری تنظیم کو مٹا دینے کے لیکن تم دنیا اور اس کے منصوبوں اور سازشوں کی پرواہ نہ کرو، کیونکہ ہمارا تم سے یہ وعدہ ہے کہ تم ہماری پناہ میں ہو ، ہماری حفاظت میں ہو دنیا جو چاہے کرے، دنیا کی سب طاقتیں بھی اکٹھی ہونا چاہتی ہیں، ہو لیں تمہیں تباہ نہیں کر سکتیں تمہیں ہلاک نہیں کر سکتیں اس لئے تم بغیر کسی خوف اور خطرے کے اپنی تبلیغ میں لگے رہو کیونکہ ہم تمہاری حفاظت کرنے والے ہیں.ہمارے فرشتے آسمان سے نازل ہوں گے اور تمہیں ہلاکت سے بچائیں گے اور محفوظ رکھیں گے.

Page 732

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء اس آیت کو شروع کیا گیا ہے تبلیغ پر زور دینے سے اور پھر تسلی دلائی گئی ہے کہ جب تم تبلیغ کرو گے تو تمہارے خلاف فتنے تو کھڑے ہوں گے مگر تم ہلاک نہیں ہو گے.تکلیفیں تو دنیا میں دنیا والوں سے خدا تعالیٰ کے لئے خدا کے بندوں کو پہنچتی ہی ہیں لیکن تم خدا تعالیٰ کی پناہ میں ہو اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تمہیں کوئی طاقت ہلاک نہیں کر سکتی ، مٹا نہیں سکتی.اگر یہ وعدہ اُمت محمدیہ کو نہ دیا جاتا تو بلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبَّكَ کا جو فریضہ تھا وہ کبھی ادا نہ کر سکتی کیونکہ انہیں یہ فکر ہوتی کہ اگر دشمن نے ہمیں ہلاک کر دیا تو تبلیغ کا راستہ کلیہ منقطع ہو جائے گا خدا تعالیٰ نے کہا تم میں سے بعض مارے جا سکتے ہیں، تم میں سے بعض ہلاک کئے جاسکتے ہیں، تم میں سے بعض قید کئے جا سکتے ہیں.تم میں سے بعض تبلیغ کے لحاظ سے پابند کئے جا سکتے ہیں تم میں سے بعض کی زبان بندی کی جاسکتی ہے.تم میں سے بعض کی قلم بندی کی جاسکتی ہے لیکن بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ اس قسم کے ابتلا اور اس قسم کے مصائب سے خدائے تعالیٰ کی پناہ میں ہے اور اس قسم کی کوئی مصیبت اس پر نہیں آسکتی جو صفحہ ہستی سے ان کو مٹا دے.اگر آپ غور کریں تو ایک وقت وہ بھی تھا کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی حفاظت میں نہ ہوتے تو مکہ کا ایک سر پھرا آپ کو قتل کر دیتا یعنی اسلام کو مٹانے کے لئے صرف ایک آدمی کی ضرورت تھی پھر ایک وقت وہ آیا کہ اگر تین ہزار آدمی مرنے کے لئے تیار ہو جاتے تو بظاہر اسلام کو مٹا دیتے لیکن خدا نے کہا کہ میں اتنے آدمی اور اتنی طاقت اسلام کے مخالف کو نہیں دوں گا کہ وہ اسلام پر کاری ضرب لگا سکے چنانچہ بدر کے میدان میں قریباً تین گنا طاقت کے ساتھ وہ آئے تھے.بعض صحابہ شہید بھی ہوئے لیکن انہیں مٹنے نہیں دیا گیا.پھر جب تک مکہ میں اور عرب میں اسلام مضبوط نہیں ہو گیا، قیصر اور کسریٰ کو خدا نے اجازت نہیں دی کہ وہ اسلام کو مٹانے کی کوشش کر دیکھیں.لیکن جب اسلام ملک عرب میں مضبوط ہو گیا تو قیصر و کسریٰ کو بھی اجازت دی گئی کہ وہ اسلام کے خلاف جس قدر چاہیں زور لگا لیں اور جو کچھ ان سے بن آیا اسلام کی مخالفت میں انہوں نے کیا مگر ہمیشہ نا کامی کا منہ دیکھا اور سب سے بڑا معجزہ جو ہمیں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی وقت بھی مخالفین کو اتنی طاقت نہیں دی گئی کہ وہ اُمت مسلمہ کو کلیہ مٹادیں.ایک حصہ نے قربانی دی ایک

Page 733

خطبات ناصر جلد اول 212 خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء حصہ سے اللہ تعالیٰ نے قربانی لینی چاہی اور بشاشت سے اس کی راہ میں انہوں نے مصائب کے پہاڑ جھیلے لیکن اُمت مسلمہ بحیثیت ایک اُمت کے ہمیشہ خدا کی پناہ میں رہی اب مثلاً ہمارے زمانہ میں دجالی طاقتوں نے اس قدر قوت حاصل کر لی ہے کہ اگر وہ چاہتے یا اگر وہ چاہیں تو دنیا کے سارے مسلمانوں کو قتل کر سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے جہاں پہلے دوسری قسم کے معجزے دکھائے اب یہ معجزہ دکھایا کہ انسان کی عقل پر فرشتوں کا پہرا بٹھا دیا اور ان کو کہا کہ یہ زمانہ تلوار کے ساتھ مذہب کو مٹانے کا نہیں دلائل سے مقابلہ ہونا چاہیے.ان کے پاس طاقت تو ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی توجہ کو اس طرف سے ہٹا دیا کہ وہ طاقت کے ذریعہ مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کریں.پس آج اگر دجال مادی طاقت کو استعمال کر کے ہر مسلمان کو قتل کرنا چاہے تو اس کے اندر یہ طاقت تو ہے لیکن خدا نے کہا کہ طاقت تو دے دی ہے لیکن اس کے استعمال کی اجازت نہیں دوں گا ، اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف.جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وعدہ دیا گیا خصوصی حفاظت کا اسی وجہ سے اور اسی غرض کے پیش نظر امت مسلمہ کو بھی خصوصی حفاظت کا وعدہ دیا گیا ہے اور عملاً دنیا میں کبھی بھی خدا تعالیٰ نے مخالفین کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اُمت مسلمہ کو کلیۂ دنیا سے مٹا دیں.اپنے ہی حالات دیکھ لو ایک وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے ایک آدمی کافی تھا کوئی جماعت آپ کے اردگرد نہیں تھی ایک بار صرف بارہ آدمی آپ کے ساتھ تھے دہلی کے سفر میں بڑا بلوہ ہوا باہر کی دیوار یا دروازہ توڑ کے مخالف صحن میں گھس آئے اور اندر کے دروازے کو توڑ رہے تھے کہ پتہ نہیں کیوں؟ وہ وہاں سے بھاگ اٹھے اور واپس چلے گئے وہ کیوں بھاگے؟ اس سوال کا جواب اس آیت میں ہے جو شخص خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہو یا جو قوم خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہو، دنیا کا کوئی مکر ، دنیا کا کوئی منصوبہ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے یا انہیں مٹا نہیں سکتی اور یہ وعدہ جو ہے یہ دلوں کو مضبوط کرنے والا اور قربانیوں پر اُبھارنے والا ہے.دوسرے اس میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ جو شریعت دی جائے گی اس نبی کو وہ بھی محفوظ ہوگی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر : ۱۰) کہ اس ذکر اور

Page 734

خطبات ناصر جلد اوّل ZIA خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء اس قرآن کریم کو ہم نے اتارا ہے اور اس کی حفاظت کے سامان مہیا کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے جس طرح چاہا اس نے حفاظت کی اور کرتا چلا آ رہا ہے.جب کثرت کے ساتھ کا غذ پر قرآن کریم لکھا جا کر اس کی اشاعت کے ذریعہ اس کی حفاظت نہیں ہوسکتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے لاکھوں ذہنوں کو اس بات کے لئے تیار بھی کیا اور اس کی طاقت بھی دی کہ وہ قرآن کریم کو حفظ کر لیں اور ان میں سے ہزاروں ایسے بھی پیدا ہوئے جن کا حافظہ اتنا اچھا تھا کہ وہ زیر وزبر کی غلطی بھی کبھی نہیں کرتے تھے لیکن سارے مل کے تو ایسا حافظہ رکھنے والے تھے کہ اگر کوئی غلطی کر جا تا تھا تو دوسرا فوراً اس کی تصحیح کرنے والا بھی موجود ہوتا تھا یعنی بحیثیت مجموعی حافظ قرآن غلطی نہیں کر سکتے تھے.پھر یہ بتانے کے لئے کہ حفاظ کی یہ کثرت اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے ماتحت پیدا ہوئی تھی جب قرآن کریم کاغذ کے اوپر شائع ہونا شروع ہو گیا تو حفاظ کی تعداد کم ہونی شروع ہوگئی اور اس سے ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ وہ ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہی پیدا کردہ تھا.انسانی تدبیر کا اس میں دخل نہ تھا معانی کے لحاظ سے ہر صدی میں اللہ تعالیٰ نے ایسے بزرگ اولیاء پیدا کئے صدی کے شروع میں بھی صدی کے وسط میں بھی اور صدی کے آخر میں بھی کہ جو خدا تعالیٰ کی توفیق سے خدا تعالیٰ کا اس قدر قرب حاصل کرنے والے تھے کہ اللہ تعالیٰ خود ان کو علم قرآن سکھا تا تھا خود ان کا معلم تھا اور اپنے وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے اور اپنے وقت کے مسائل کو وہ حل کرنے والے اور اپنے وقت کی الجھنوں کو وہ سلجھانے والے تھے.پھر اب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت ہی زبر دست تحریک دنیا میں جاری کی ہے تمام اکناف عالم میں اسلام کو غالب کرنے کی اور اسلام کے نور کو پھیلانے کی اور ہمیں اس نے محض اپنے فضل سے یہ توفیق عطا کی ہے کہ ہم آپ کی جماعت میں شامل ہوں اور ہمارے لئے یہ موقع مہیا کیا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو وہ قربانیاں دے کر جو خدا تعالیٰ ہم سے لینا چاہتا ہے ہم اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں اور خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اس کی رضا کو حاصل کرنے والا بنے.تو لفظی حفاظت بھی اور معنوی حفاظت بھی قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے کی ایسے حالات میں.

Page 735

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۱۹ خطبہ جمعہ ۲۶ رمئی ۱۹۶۷ء ایسے طریق پر یہ حفاظت کی کہ کوئی عقل مند شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ جو قرآن کریم کی حفاظت کی گئی ہے وہ کسی انسانی تدبیر کا نتیجہ نہیں ہے محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ اور خاص اس کی حفاظت کی وجہ سے ہے جس کا اس نے وعدہ دیا تھا وہ اپنے وعدوں کا سچا ، اپنے قول کا صادق ہے اس نے اپنے وعدے کو پورا کر دکھایا.اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ ہمیں بھی وہ ان بندوں میں شامل کر لے کہ جن کے ذمہ وہ یہ لگائے کہ قرآن کریم کی معنوی حفاظت کر دو یعنی صحیح علم قرآن وہ حاصل کرنے والے ہوں.اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والے نہ ہوں اپنے دنیوی مطلب کے حصول کے لئے قرآن کریم کو استعمال کرنے والے نہ ہوں.بلکہ قرآن کریم کے حقیقی علوم وہ اپنے رب سے سیکھنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کے ان پیاروں میں شامل ہوں جن پر خدا تعالیٰ اپنا فضل کرتا اور ان کے ذریعہ سے اس عظیم کتاب مکنون کے علومِ ضروریہ کے چہرہ سے پردوں کو ہٹا تا ہے اور وہ ہمیں ان لوگوں میں شامل نہ کر لے جن کی زبان پر تو قرآن ہوتا ہے لیکن جن کا دل قرآن کے نور سے خالی ہوتا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۴ جون ۱۹۶۷ ، صفحه ۱ تا ۵)

Page 736

Page 737

خطبات ناصر جلد اول ۷۲۱ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قربانیاں دینے والوں کے اعمال ضائع نہیں جاتے خطبہ جمعہ فرموده ۲ / جون ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.خانہ کعبہ کی تعمیر کا سولہواں مقصد وَارزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمرات میں بیان ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بیت اللہ کے فیوض اور برکات کو دیکھ کر دنیا اس نتیجہ پر پہنچے گی کہ جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے انتہائی قربانیاں دیتے ہیں اور دنیا سے منہ موڑ کر صرف اور صرف اُسی کے ہو رہتے ہیں ان کے اعمال ضائع نہیں جاتے بلکہ انہیں ان اعمال مقبولہ کا بہترین بدلہ اور شیر میں پھل ملتا ہے اور ان کے عاجزانہ اور عاشقانہ اعمال کے بہترین نتائج نکلتے ہیں.قرآن کریم نے خود یہ دعوی کیا ہے کہ یہ مقصد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور قرآنی شریعت سے پورا ہوا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ سورہ قصص میں فرماتا ہے.وَ قَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَى مَعَكَ نَتَخَطَفُ مِنْ اَرْضِنَا ۖ أَوَ لَمْ تُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا أَمِنًا يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَا وَلكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.(القصص: ۵۸) یہاں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ قرآن کریم کے مخاطب جب قرآن کریم کی شریعت قرآن کریم کی ہدایت اور تعلیم ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم اس ہدایت کی جو تو

Page 738

خطبات ناصر جلد اول ۷۲۲ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء لے کے آیا ہے اگر اتباع کریں تو اپنے ملک سے اُچک لئے جائیں گے ، دنیا ہماری دشمن ہو جائے گی اور ہماری مخالف ہو جائے گی ہمیں تباہ و برباد کرنے کے لئے تیار ہو جائے گی ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہم اس ہدایت پر ایمان لا کر اپنی تباہی کے سامان کیوں پیدا کریں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے او لَمْ تُمَكِن لَّهُمْ حَرَمًا اُمِنًا کیا وہ جانتے نہیں کہ ہم نے اس نبی کا اور اس شریعت کا تعلق حرم کے ساتھ رکھا تھا اور بیت اللہ کو ایک علامت بنایا تھا اس بات کی کہ یہ نبی اور اس کے ماننے والے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں گے اور جو شریعت اس پر نازل ہوگی اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی محض اور محض اللہ تعالیٰ کے اوپر ہوگی.دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حرم کعبہ کی حفاظت کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دکھایا حملہ آور ہمیشہ منہ کی کھاتے رہے اور نا کام ہوئے اور دنیا اس بات پر بھی گواہ ہے اور گواہ بنتی رہے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقصد کو دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کا کوئی منصوبہ، دنیا کی کوئی سازش کبھی تباہ نہیں کر سکتی اور نہ کوئی دجل قرآن کریم کی شریعت میں دخل پا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم نے ان کو محفوظ اور امن والے مکان میں جگہ دی ہے.حرم کعبہ میں بھی ، حرم عصمت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اور حرم شریعت اسلامیہ حرم قرآن کریم میں بھی.یہ تمام محفوظ چیزیں ہیں.محفوظ ہستیاں ہیں، محفوظ مقام ہیں، اگر تم اس حرم کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم کرو گے تو جس طرح حرم خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہے، اسی طرح تم بھی اس کی حفاظت میں آجاؤ گے اور یہ بات غلط ہوگی کہ يُتَخَطَفُ مِنْ أَرْضِنَا دنیا کی کوئی طاقت تمہیں برباد کر سکے.اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا.يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرتُ كُلِّ شَيْءٍ کہ اس حرم کے ساتھ ہم نے یہ بات بھی لگا دی ہے کہ ہر قسم کے پھل یہاں لائے جاتے ہیں یعنی اس سے تعلق قائم کر کے ہر قسم کے اعمال صالحہ بجالا ناممکن بھی ہو جاتا ہے.اس کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ سے انسان پاتا ہے اور اس کے بہترین نتائج کا وعدہ بھی دیا گیا ہے پس جو بھی خلوص نیت رکھتا ہو اور اس کے اندر کسی قسم کا

Page 739

خطبات ناصر جلد اول ۷۲۳ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء فساد نہ ہو وہ ان پھلوں کو حاصل کرتا ہے تو یہاں يُجْبَى اِلَيْهِ ثَمَرتُ كُلِّ شَيْءٍ کو حرم کے ساتھ اور حرم کو ان کے موقف وَقَالُوا إِنْ نَتَّبِعِ الْهُدَى مَعَكَ نَتَخَطَّفُ مِنْ أَرْضِنَا.ان کے موقف کی تردید میں ایک دلیل ٹھہرا کر اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ ابراہیمی دعا میں جن پھلوں کا جن جزاؤں کا ذکر تھا، ان کا تعلق حقیقی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور امت محمدیہ کے ساتھ تھا اور ہے اور قائم رہے گا.یہ ثمرات جو ہیں ( مِنَ الثَّمَرتِ ) اس کی تفسیر قرآن کریم میں سورۃ محمد میں بیان فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ج مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ، فِيهَا أَنْهُرُ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ اسِنِ ۚ وَ انْهُمْ مِنْ تَبَن لَّمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ وَ اَنْهرُ مِنْ خَيْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّرِبِينَ وَانْهُرُ مِنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ - (محمد: (١٦) اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ متقی جو اس ہدایت پر عمل کرتے ہیں جس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (سورہ بقرہ کے شروع میں ہی ) ان کا پختہ ایمان اور ان کے صحیح اعتقادات جو ہیں ان کو ایک باغ کی شکل میں درختوں کی شکل میں پیدا کر دیا جاتا ہے اس دنیا میں بطور مجاز کے اور اس دنیا میں حقیقی طور پر وہ درختوں کی شکل کو اختیار کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ ہماری ہدایت پر عمل کر کے جو حقیقی معنی میں متقی بن جاتے ہیں ان کو ایک جنت دی جاتی ہے جس میں ہر قسم کے درخت لگے ہوئے ہوتے ہیں اور فِيهَا أَنْهُرُ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ اسِن ان کو اعمال صالحہ کی تو فیق عطا کی جاتی ہے اور ان کو بشاشت قلبی عطا کی جاتی ہے کہ وہ اس کے مزے کو چکھ کر وہ ان اعمال کو چھوڑنے کے لئے کسی قیمت پر بھی تیار نہیں ہوتے پس فرمایا کہ ان اعمالِ صالحہ کو ایسی نہروں میں تبدیل کر دیا جائے گا، اس زندگی میں بھی اس دنیا میں بھی کہ جس میں ایسا پانی ہو جو خراب ہونے والا نہ ہو یعنی ایک دفعہ اعمال صالحہ کا چسکہ پڑ جانے کے بعد پھر یہ چسکہ کبھی چھوٹے گانہیں پھر جب پختہ ایمان کے نتیجہ میں ان ہدایتوں کے مطابق جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہیں وہ صحیح معنی میں خلوص دل کے ساتھ اعمال صالحہ بجالانے لگیں گے تو مزید روحانی

Page 740

خطبات ناصر جلد اول ۷۲۴ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء ترقیات کے دروازے ان کے اوپر کھولے جائیں گے وہ باتیں جو پہلے بطور اسرار کے تھیں اور جو راز تھا روحانی ، وہ ان پر منکشف اور ظاہر ہو جائے گا اور اس کے نتیجہ میں مومن کی روحانیت ترقی کرے گی اور یہ کیفیت آنهرُ مِنْ لَبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُۀ ایک ایسے دودھ کی شکل اختیار کر جائے گی جس کے خراب ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہو گا پھر ان روحانی علوم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک حقیقی اور گناہ سوز عشق ان میں پیدا ہو جائے گا اپنے وجود پر وہ ایک موت وارد کر لیں گے.خدا تعالیٰ کی محبت میں کھوئے جائیں گے اس کے عشق میں ہمیشہ مست رہیں گے اور ان کیفیات کو انھر مِنْ خَيْرٍ نَزَّةٍ لِلشربین کی شکل دے دی جائے گی یہاں یہ بھی بتایا کہ جو اس کا تجر بہ نہیں رکھتا وہ اس کی لذت کو کیا جانے اور اسی وجہ سے ایسے لوگ عشق الہی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کیونکہ بہت سے ابتلاؤں کے کانٹے بھی اس نہر کے گرد بوئے گئے ہیں لیکن جو ایک دفعہ اس کو چکھ لے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اسے حاصل ہو جائے وہی بتا سکتا ہے کہ وہ لذت جو عشق الہی میں ہے وہ کسی اور چیز میں نہیں اور پھر فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا ہو جائے اور اس کے مقدر میں اَنْهرُ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّی ہیں وہ تمام بیماریوں سے شفا حاصل کر لیتا ہے پھر کوئی بیماری اس کے او پر حملہ آور نہیں ہو سکتی کلی شفاوہ پالیتا ہے تمام شیطانی حملوں سے وہ محفوظ ہو جاتا ہے گویا کہ وہ خدا کی گود میں آ گیا اور کسی قسم کا کوئی خطرہ اس کو نہ رہا.یہ کیفیت ہے جو انھرُ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّی کی شکل میں اس دنیا میں بھی ایک رنگ میں اور اُس دنیا میں بھی اس دنیا کے رنگ میں پیدا ہو جائے گی.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَهُمُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ کہ یہ پھل جو ہیں اسلام سے تم پاؤ گے یعنی ہر قسم کے پھل تمہیں دیئے جائیں گے ہر قسم کے درخت ہوں گے جو صحیح عقائد ہوں گے وہ درخت کی شکل اختیار کریں گے.پھر ایسا ایمان تمہیں دیا جائے گا کہ تم شوق و بشاشت کے ساتھ ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کر کے اعمالِ صالحہ بجالاؤ گے اور ان اعمال صالحہ کو پانی کی نہروں کی شکل میں بنادیا جائے گا جن سے وہ باغ پرورش پائیں گے پانی کے بغیر باغ پرورش نہیں پاسکتا.اعمال صالحہ کے بغیر صحیح اعتقادات پر انسان قائم ہی نہیں رہ سکتا.جب عمل صالحہ نہ رہے تو پھر

Page 741

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۲۵ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء اعتقاد بھی بدلنا پڑتا ہے.وُعِدَ الْمُتَّقُونَ میں اسی طرف اشارہ ہے اس واسطے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قرآنی شریعت سے اور خرابی پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ قرآن کریم کے اندر کوئی خرابی پیدا نہیں ہوسکتی لیکن اس عقیدہ کے نتیجہ میں عمل کرنا ہے انسان نے.تو فرمایا کہ وہ اعمالِ صالحہ کی اللہ تعالیٰ سے توفیق پائے گا.اور ایسی توفیق پائے گا.کہ غیر ایسین پھر اس کو یہ خطرہ نہیں ہوگا کہ کبھی شیطان بہکا کر اسے دوسری طرف لے جائے.پھر اس کے بعد روحانی علوم اور اسرار اس پر کھلیں گے اور دودھ کی شکل اختیار کر لیں گے اور پھر ان روحانی اسرار کے انکشاف سے اس کے دل میں بے انتہا محبت اپنے رب کے لئے پیدا ہو گی اور یہ محبت الى انهرُ مِنْ خَيْرٍ لذَةِ لِلشَّرِبین کی شکل اختیار کر جائے گی.پھر اس کے نتیجہ میں وہ ہر قسم کی روحانی بیماری سے محفوظ ہو جائے گا یعنی اَنْهُرُ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى اسے میسر آجائیں گی.پس یہ پھل ہیں جو اسلام اسے دیتا ہے، یہ وہ پھل ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی وَارزُ في أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَّبِّهِمُ الله تعالى فرماتا ہے کہ یہ پھل صرف تمہارے اعمال کے نتیجہ میں نہیں مل سکتا تھا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں مغفرت حاصل نہ ہوتی پس اس مَغْفِرَةٌ کا وعدہ بھی تمہیں اسلام میں ہی دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کی طرف اشارہ تو نہیں کیا لیکن میں نے غور کیا اور اگر آپ بھی غور کریں تو اسی نتیجہ تک پہنچیں گے.اسی آیت کا مفہوم اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے جو میں آپ کو ابھی پڑھ کر سناؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں:.”اب ہم کسی قدر اس بات کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کے ثمرات کیا ہیں سو واضح ہو کہ جب کوئی اپنے مولیٰ کا سچا طالب کامل طور پر اسلام پر قائم ہو جائے اور نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے بلکہ طبعی طور پر خدا تعالیٰ کی راہوں میں ہر ایک قوت اس کے کام میں لگ جائے تو آخری نتیجہ اس کی اس حالت کا یہ ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی ہدایت کی اعلیٰ تجلیات تمام مُحجب سے مبرا ہو کر اس کی طرف رخ کرتی ہیں اور طرح طرح کی برکات اس پر نازل

Page 742

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء ہوتی ہیں اور وہ احکام اور وہ عقائد جو محض ایمان اور سماع کے طور پر قبول کئے گئے تھے اب بذریعہ مکاشفات صحیحہ اور الہامات یقینیہ قطعیہ مشہود اور محسوس طور پر کھولے جاتے ہیں اور مغلقات شرع اور دین کے اور اسرار سر بستہ ملت حنیفیہ کے اس پر منکشف ہو جاتے ہیں اور ملکوت الہی کا اس کو سیر کرایا جاتا ہے، تا وہ یقین اور معرفت میں مرتبہ کامل حاصل کرے اور اس کی زبان اور اس کے بیان اور تمام افعال اور اقوال اور حرکات سکنات میں ایک برکت رکھی جاتی ہے اور ایک فوق العادت شجاعت اور استقامت اور ہمت اس کو عطا کی جاتی ہے اور شرح صدر کا ایک اعلیٰ مقام اس کو عنایت کیا جاتا ہے اور بشریت کے حجابوں کی تنگ دلی اور خست اور بخل اور بار بار کی لغزش اور تنگ چشمی اور غلامی شہوات اور ردائت اخلاق اور ہر ایک قسم کی نفسانی تاریکی بکلی اس سے دور کر کے اس کی جگہ ربانی اخلاق کا نور بھر دیا جاتا ہے.تب وہ بکلی مبدل ہو کر ایک نئی پیدائش کا پیرا یہ پہن لیتا ہے اور خدائے تعالیٰ سے سنتا اور خدائے تعالیٰ سے دیکھتا اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ حرکت کرتا اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ ٹھہرتا ہے اور اس کا غضب خدائے تعالیٰ کا غضب اور اس کا رحم خدائے تعالیٰ کا رحم ہو جاتا ہے اور اس درجہ میں اس کی دعائیں بطور اصطفاء کے منظور ہوتی ہیں نہ بطور ابتلا کے اور وہ زمین پر مجبت اللہ اور امان اللہ ہوتا ہے اور آسمان پر اس کے وجود سے خوشی کی جاتی ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ عطیہ جو اس کو عطا ہوتا ہے مکالماتِ الہیہ اور مخاطبات حضرت یزدانی ہیں جو بغیر شک اور شبہ اور کسی غبار کے چاند کے نور کی طرح اس کے دل پر نازل ہوتے رہتے ہیں اور ایک شدیدالاثر لذت اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور طمانیت اور تسلی اور سکینت بخشتے ہیں.یہ وہ ثمرات ہیں جن کا وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیا گیا تھا اور یہ وہ ثمرات ہیں جو امت محمدیہ کو کثرت کے ساتھ عطا ہوئے کہ دیکھنے والی آنکھ انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے.سترھویں غرض رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنا میں بیان ہوئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اعمال کوئی شے نہیں جب تک مقبول نہ ہوں اس لئے روحانی رفعتوں کا حصول صرف دعا کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے اور

Page 743

خطبات ناصر جلد اول ۷۲۷ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء اس میں اشارہ تھا کہ ایک عظیم نبی یہاں مبعوث ہو گا اور اس کے فیوض روحانی کے طفیل ایک ایسی اُمت جنم لے گی جو اس حقیقت کو سمجھنے والی ہو گی کہ انتہائی قربانیاں بھی بے سود اور بے نتیجہ ہیں جب تک عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہ کیا جائے پس دعاؤں کے ذریعہ ہی معرفت کے بلند مقام کو وہ حاصل کرے گی اور دعاؤں کے طفیل ہی اپنے اعمال کے بہترین پھل وہ پائے گی.قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ ان تین مقاصد کا ذکر کیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ دعا اور قبولیت دعا پر اسلام نے جو روشنی ڈالی ہے کسی اور مذہب نے نہیں ڈالی کوئی اور مذہب اس کے مقابلہ میں پیش ہی نہیں کیا جا سکتا اللہ تعالیٰ سورہ فرقان کے آخر میں عبادالرحمن کا ذکر کرتا ہے کہ عبادالرحمن وہ ہیں جو یہ اعمال بجالاتے ہیں یا ان اعمال سے پر ہیز کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ.الرحمن کے معنی ہیں وہ پاک ہستی ( اللہ ) جو بغیر کسی عمل کرنے والے کے عمل اور بغیر کسی استحقاق حق کے اپنا احسان اس پر کرتی ہے.تو آگے عِبَادُ الرَّحْمٰن کے سارے اعمال کا ذکر ہے جس کا بظاہر صفت رحیمیہ کے ساتھ تعلق ہے.پس یہاں مضمون یہ بیان ہوا ہے کہ تم نیک اعمال جتنے چاہو بجالا ؤ ، جب تک رحيمية کے ساتھ رحمانیت کا فیض شامل نہیں ہوگا تمہیں کوئی بدلہ نہیں مل سکتا.اسی لئے جب یہ مضون ختم کیا تو آخر میں بڑے پر شوکت الفاظ میں یہ فرما یا قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُم فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا (الفرقان : ۷۸ یعنی یہ تو صحیح ہے کہ اعمال صالحہ بجالا نا بھی ضروری ہے اور بد اعمال سے بچنا بھی انسان کے فائدہ کی چیز ہے لیکن یہ یاد رکھو تمہاری اور تمہاری نیکیوں کی تمہارے خدا کو کیا پرواہ ہے کو لَا دُعا و کمر ہاں اگر تم اس کی پرواہ کرتے ہو تو اپنی دعاؤں سے اس کے فضل کو جذب کرو.جب تم اپنی دعا کے ساتھ اس کے فضل کو جذب کر لو گے تب تمہارے یہ اعمال تمہیں فائدہ پہنچا سکیں گے.پھر دعا بھی بے معنی ہے جب دعا کے ساتھ قبولیت دعا حاصل نہ کی جائے.دعا کی قبولیت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہی چاہیے اور اس کے لئے بھی دعا کرنی پڑتی ہے پس ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا! ہم کچھ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ہم

Page 744

خطبات ناصر جلد اول ۷۲۸ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء اعمالِ صالحہ کی قبولیت کے لئے جو دعائیں کرتے ہیں وہ بھی تیرے تک تبھی پہنچ سکتی ہیں کہ جب تو ہماری دعاؤں کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلے تو قبولیت دعا کے لئے پھر آگے دعا کی جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ خدا کو تمہاری کوئی پرواہ نہیں ، تمہارے اعمال کی کوئی پرواہ نہیں، تمہاری قربانیوں کی کوئی پرواہ نہیں ، جو تم صدقہ و خیرات اس کی راہ میں دیتے ہو اس کو ان کی کیا پرواہ ہے.اس کے خزانے کیا خالی ہیں کہ تمہارے مال کی اس کو پرواہ ہو؟ تم اس کے احکام بجالاتے ہو، انتہائی طور پر مجاہدہ کرتے ہو، کوشش کرتے ہو اس کی راہ میں، پھر بھی اسے تمہاری کوئی پرواہ نہیں تمہیں ان تمام چیزوں کا فائدہ اس وقت پہنچ سکتا ہے جب تم دعا کے ذریعہ اس کے فضل کو جذب کرو.جب رحیمیت کے جلوہ کے ساتھ رحمانیت کا جلوہ بھی شامل ہو جائے تب تمہاری حقیر کوششیں بھی تمہیں ساتویں آسمان تک پہنچا سکتی ہیں.لیکن اگر تم یہ سمجھو کہ اس کے فضل کے بغیر تم پہلے آسمان پر بھی پہنچ سکتے ہو تو تم غلطی خوردہ ہو، اس کے فضل کے بغیر تحت اللی تک تو تم پہنچ سکتے ہو، شیطان کی گود میں تو تم جا سکتے ہو لیکن رحمان خدا کی گود میں اس کے فضل اور رحم کے بغیر کوئی نہیں جاسکتا.فَقَد كَذَّبتم تم اس حقیقت کو جھٹلاتے ہو تم میں سے بعض بظاہر بڑے متقی اور پر ہیز گار ہیں لیکن وہ اپنے اعمال پر اپنی دعاؤں پر اور اپنی شب بیداری پر اور دنیا کے لوگوں کی خدمت جو کرتے ہیں اس پر فخر کرنے والے ہیں.خدا تعالیٰ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے جب تک کہ وہ دعا کو اپنی تمام شرائط کے ساتھ نہ کریں اور اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو قبول کر کے رحمانیت کے جوش میں ان کے اعمال کو قبول نہ کر لے.فَسَوْفَ يَكُونُ لِذا ما اب تمہارے جھٹلانے کے بدنتائج تمہارے ساتھ لگے رہیں گے.اب دیکھو اس وقت مسلمانوں کے بعض فرقوں میں انتہائی مجاہدہ کرنے والے لوگ بھی ہیں لیکن ان کے مجاہدات کا کیا نتیجہ ان کے حق میں نکل رہا ہے.جہاں تک ہم سمجھتے ہیں وہ نتیجہ نہیں نکل رہا جو ایک متقی کے ایسے ہی اعمال بلکہ اس سے ہزارویں حصہ اعمال کا نتیجہ نکلا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ میں فرماتے ہیں :.حقیقت میں انہی دو چیزوں کا تصور دعا کے لئے ضروری ہے.یعنی اول اس بات

Page 745

خطبات ناصر جلد اول ۷۲۹ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء کا تصور کہ خدائے تعالیٰ ہر یک قسم کی ربوبیت اور پرورش اور رحمت اور بدلہ دینے پر قادر ہے اور اس کی یہ صفات کا ملہ ہمیشہ اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں دوسرے اس بات کا تصور کہ انسان بغیر توفیق اور تائید الہی کے کسی چیز کو حاصل نہیں کر سکتا اور بلا شبہ یہ دونوں تصور ایسے ہیں کہ جب دعا کرنے کے وقت دل میں جم جاتے ہیں تو ریکا یک انسان کی حالت کو ایسا تبدیل کر دیتے ہیں کہ ایک متکبران سے متاثر ہو کر روتا ہوا زمین پر گر پڑتا ہے اور ایک گردن کش سخت دل کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.یہی گل ہے جس سے ایک غافل مردہ میں جان پڑ جاتی ہے.انہیں دو باتوں کے تصور سے ہر یک دل دعا کرنے کی طرف کھینچا جاتا ہے غرض یہی وہ روحانی وسیلہ ہے جس سے انسان کی روح رو بخدا ہوتی ہے اور اپنی کمزوری اور امداد ربانی پر نظر پڑتی ہے.اسی کے ذریعہ سے انسان ایک ایسے عالم بے خودی میں پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی مکدر ہستی کا نشان باقی نہیں رہتا اور صرف ایک ذات عظمی کا جلال چمکتا ہوا نظر آتا ہے اور وہی ذات رحمت کل اور ہریک ہستی کا ستون اور ہر یک درد کا چارہ اور ہر یک فیض کا مبدء دکھائی دیتی ہے آخر اس سے ایک صورت فنافی اللہ کی ظہور پذیر ہو جاتی ہے جس کے ظہور سے نہ انسان مخلوق کی طرف مائل رہتا ہے، نہ اپنے نفس کی طرف، نہ اپنے ارادہ کی طرف اور بالکل خدا کی محبت میں کھویا جاتا ہے اور اس ہستی حقیقی کی شہود سے اپنی اور دوسری مخلوق چیزوں کی ہستی کا لعدم معلوم ہوتی ہے.اٹھارہو میں غرض یہ بتائی گئی تھی کہ خانہ کعبہ کے قیام کے نتیجہ میں خدائے سمیع کی معرفت دنیا حاصل کر لے گی ایک ایسی اُمت یہاں پیدا کی جائے گی جو دنیا کو خدائے سمیع سے متعارف کرائے گی اور دنیا اس حقیقت سے انکار نہ کر سکے گی کہ تضرع اور ابتہال سے دعاؤں میں مشغول رہنے والے ہی اللہ تعالیٰ کی صفت سمیع کے جلوے دیکھا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ سورہ مومن میں فرماتا ہے.وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدُ خُلُونَ جَهَنَّمَ ذَخِرِينَ (المؤمن: ۶۱) کہ تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا لیکن وہ لوگ جو تکبر کرتے ہوئے میری حقیقی عبادت سے منہ پھیر لیتے ہیں یعنی ایسی عبادت سے جسے میں ،،

Page 746

خطبات ناصر جلد اول ۷۳۰ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء قبول کیا کرتا ہوں اور جس کے متعلق میں دوسری جگہ قرآن کریم میں کہہ چکا ہوں کہ تمہاری عبادتوں کے ساتھ تمہاری دعاؤں کا ہونا ضروری ہے اور جو لوگ تکبر سے اپنی عبادت کو عبودیت کے اس مقام پر نہیں لائیں گے میں انہیں جہنم کی سزا دوں گا اور وہ ناکامی اور میرے قہر اور غضب کی جہنم میں داخل ہوں گے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: - وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ لا دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : ۱۸۷) اے رسول ! اگر میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا کیا ثبوت ہے؟ اور اس کی صفات کا علم ہم کیسے حاصل کریں تو تو ان کو جواب دے کہ خدا تو تمہارے قریب ہی ہے تم اس کے ڈر کو کھٹکھٹاؤ وہ تمہارے لئے کھولا جائے گا اور تم اس سے دعائیں کرو (اس کی بتائی ہوئی شرائط کے مطابق ) تمہاری دعائیں قبول ہوں گی اور قبولیت دعا کے نتیجہ میں تم ذات باری اور صفات باری کا علم حاصل کرو گے اور اس معرفت اور عرفان کے بعد تمہارے دل اس کی محبت میں گم ہو جائیں گے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کو چاہیے وَلْيُؤْمِنُوا ہی کہ مجھ پر ایمان لائیں میری ذات پر اور میری صفات پر، تا وہ ہدایت پائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے متعلق برکات الدعا میں فرماتے ہیں :.اور دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق مجاذبہ ہے.یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے.سوجس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہوکر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے، پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور

Page 747

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۳۱ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں.انیسواں مقصد یہ بیان ہوا تھا کہ صفت سمیع کے ہی نہیں بلکہ صفت علیم کے جلوے بھی دنیا اس اُمت کے ذریعہ دیکھے گی بعض دعاؤں کا رڈ ہو جانا یا بعض دعاؤں کا اس رنگ میں پورا نہ ہونا جس رنگ میں وہ مانگی گئی تھیں، یہ ثابت نہیں کرے گا کہ ہمارا خدا عز وجل سمیع نہیں ہے یا تمام قدرتوں اور طاقتوں کا مالک نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرے گا کہ جہاں وہ قادر و توانا سمیع ہے وہاں وہ علیم بھی ہے اور قبولیت دعا کا اس کی صفت علیم کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :.اور یہ بھی یادر ہے کہ دعا کرنے میں صرف تضرع کافی نہیں ہے بلکہ تقویٰ اور طہارت اور راست گوئی اور کامل یقین اور کامل محبت اور کامل توجہ اور یہ کہ جو شخص اپنے لئے دعا کرتا ہے یا جس کے لئے دعا کی گئی ہے اس کی دنیا اور آخرت کے لئے اس بات کا حاصل ہونا خلاف مصلحتِ الہی بھی نہ ہو کیونکہ بسا اوقات دعا میں اور شرائط تو سب جمع ہو جاتے ہیں.مگر جس چیز کو مانگا گیا ہے وہ عند اللہ سائل کے لئے خلاف مصلحت الہی ہوتی ہے اور اس کے پورا کرنے میں خیر نہیں ہوتی.یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبولیت دعا کے لئے جن شرائط کا ذکر کیا ہے یعنی تقوی ، طہارت کامل یقین ، کامل محبت وغیرہ یہ اس قبولیت دعا سے متعلق ہیں جو اصطفاء کے رنگ میں ہو لیکن جو قبولیت دعا ابتلا کے رنگ میں ہو اس کا ان شرائط سے تعلق نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ کچنیوں کو بھی اللہ تعالیٰ سچا خواب دکھاتا ہے.تاکہ ان کی ہدایت کے سامان پیدا کرے تا وہ ان کے دل میں یہ خیال پیدا کرے کہ وہ اس گند سے باہر نکلیں اور پاکیزگی کے منبع اور سر چشمہ کی طرف بھاگیں اور اپنے آپ

Page 748

خطبات ناصر جلد اول ۷۳۲ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء کو پاک کرنے کی کوشش کریں.لیکن اگر دعا کرنے والے کا دل تقومی کے نور سے منور نہ ہو یا اس کا سینہ پاکیزگی کی خوشبو سے خالی ہو یا اس کی زبان راست گوئی کا طریق اختیا کرنے والی نہ ہو اور اس کا دل کامل یقین اور کامل محبت سے پر نہ ہو.اس کا ذہن کامل توجہ سے اپنے رب کی طرف جھکنے والا نہ ہو یا جو چیز مانگی گئی ہے وہ عَلامُ الْغُيُوبِ کے نزدیک اس شخص کے لئے جس کے لئے وہ مانگی گئی خیر کا موجب نہ ہو تو تمام حالتوں میں دعا کو ر ڈ کر دیا جاتا ہے مگر آخری صورت میں اللہ تعالیٰ کسی اور رنگ میں ایسی دعا کا انسان کو بدلہ دے دیتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.کیا یہ تسلی بخش ثبوت نہیں ہے کہ قدیم سے خدا تعالیٰ کا ایک روحانی قانون قدرت ہے کہ دعا پر حضرت احدیت کی توجہ جوش مارتی ہے اور سکینت اور اطمینان اور حقیقی خوش حالی ملتی ہے اگر ہم ایک مقصد کی طلب میں غلطی پر نہ ہوں تو وہی مقصد مل جاتا ہے اور اگر ہم اس خطا کار بچہ کی طرح جو اپنی ماں سے سانپ یا آگ کا ٹکڑا مانگتا ہے اپنی دعا اور سوال میں غلطی پر ہوں تو خدا تعالیٰ وہ چیز جو ہمارے لئے بہتر ہو عطا کرتا ہے اور با ایں ہمہ دونوں صورتوں میں ہمارے ایمان کو بھی ترقی دیتا ہے کیونکہ ہم دعا کے ذریعہ سے پیش از وقت خدا تعالیٰ سے علم پاتے ہیں اور ایسا یقین بڑھتا ہے کہ گو یا ہم اپنے خدا کو دیکھ لیتے ہیں اور دعا اور استجابت میں ایک رشتہ ہے کہ ابتدا سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا برابر چلا آتا ہے جب خدا تعالیٰ کا ارادہ کسی بات کے کرنے کے لئے توجہ فرماتا ہے تو سنت اللہ یہ ہے کہ اس کا کوئی مخلص بندہ اضطرار اور کرب اور قلق کے ساتھ دعا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنی تمام ہمت اور تمام توجہ اس امر کے ہو جانے کے لئے مصروف کرتا ہے.تب اس مردفانی کی دعائیں فیوض الہی کو آسمان سے بھینچتی ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے نئے اسباب پیدا کر دیتا ہے.جن سے کام بن جائے.“ ۵۲ تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں دعا کے متعلق تین بنیادی باتیں ہمیں بتاتا ہے.ایک یہ کہ جب تک ہم دعا کے ذریعہ سے مقبول دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو

Page 749

خطبات ناصر جلد اول ۷۳۳ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء جذب نہ کریں اس وقت تک اپنے اعمال پر ہم خوش نہیں ہو سکتے.نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبول کرے گا بھی یا کہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف اور پر شوکت الفاظ میں ہمیں بتا دیا ہے قل مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَو لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : ۷۸) تمہاری کیا پرواہ ہے تمہاری نیکیوں کی کیا پرواہ ہے.تمہارے اعمال کی کیا پرواہ ہے میرے رب کو ، اگر دعا کے ساتھ تم اس کی طرف جھکونہ.لیکن ہمیں تو اس کی پرواہ ہے اور اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی محبت کے جلوے ظاہر کرتا رہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم دعاؤں کے ذریعہ سے، ان دعاؤں کے ذریعہ سے، ان دعاؤں کے ذریعہ سے جن میں تمام شرائط دعا پائی جاتی ہوں ، اس کے فضل کو جذب کرنے والے ہوں اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارے اعمال کی اتنی بھی قیمت نہیں جتنی کیڑی کے ایک پاؤں کی قیمت دنیا کی نگاہ میں ہے.دوسرے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اسلام نے ایسی تعلیم ہمیں عطا کی ہے کہ اگر ہم اس تعلیم کو پیش نظر رکھیں اور اسلام کی ہدایات پر عمل کریں تو ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ ہمارا خدا جو سمیع ہے ہماری دعاؤں کو سنے گا اور قبول فرمائے گا اور ہمارے لئے اپنی رحمت کے سامان پیدا کرے گا.اور تیسری بات ہمیں یہ بتائی کہ خدا تعالیٰ بے شک السَّمِيعُ ہے لیکن وہ علیہ بھی ہے ایک انسان دنیا کو دھوکا دے سکتا ہے وہ ظاہر میں بزرگی کا جبہ پہن سکتا ہے وہ ہزار تکلف کے ساتھ اپنی بزرگی کا اعلان کر سکتا ہے لیکن اپنے رب کو وہ دھوکا نہیں دے سکتا.پس وہی شخص خدا کے نزدیک مقبول ہے اور اسی کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں جس کے دل میں کسی قسم کا فساد اور گند اور ناپاکی نہ ہو کبر، تکبر،نخوت ، خود پسندی خود رائی، اپنے آپ کو کچھ سمجھنا اور دنیا کو حقیر سمجھنا یہ باتیں نہ ہوں، بلکہ خدا تعالیٰ کے حقیقی عشق سے جو گناہ سوز ہے اس کی تمام کمزور یاں اور گناہ خاک ہو گئے ہوں اور وہ ایک پاک دل کے ساتھ اور ایک مطہر سینہ کے ساتھ اور آنسو بہانے والی آنکھ کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکنے والا ہو تب اس کی دعا کو قبول کیا جاتا ہے.لیکن ہمارا خدا ( نعوذ باللہ ) جاہل نہیں ہے کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے وہ جیسا کہ

Page 750

خطبات ناصر جلد اول ۷۳۴ خطبہ جمعہ ۲ جون ۱۹۶۷ء قرآن کریم نے فرمایا ہے.سینوں کی باتوں کو جانتا ہے وہ جیسا کہ قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے.جانتا ہے کہ کون متقی ہے اور کون نہیں.وہ جانتا ہے کہ کون ہمارا دشمن ہے اور کون دوست.وہ جانتا ہے کہ کس چیز میں ہماری بھلائی ہے اور کس چیز میں ہمارا نقصان ہے پس ہماری دعاؤں کو علیم ہونے کی حیثیت سے قبول کرتا ہے.وہ (نعوذ باللہ ) بے وقوف ماں کی طرح نہیں ہے کہ اگر بچہ آگ کا انگارہ اس سے مانگے تو بعض دفعہ چڑ چڑائے پن میں وہ آگ کا انگارہ اس کے سامنے رکھ دیتی ہے اور بچے کے ہاتھ کو جلا دیتی ہے وہ ماں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے وہ باپ سے بھی زیادہ پیار کرنے والا ہے وہ جب دعاؤں کو قبول کرنے پر آتا ہے تو انہی دعاؤں کو اور اسی رنگ میں قبول کرتا ہے جو دعا ئیں جس رنگ میں ہمارے فائدہ کے لئے ہیں.لیکن جب دعا میں جو چیز مانگی گئی ہے وہ ہمارے فائدہ کے لئے نہ ہوتو وہ اسے رڈ کر دیتا ہے اور اس کی بجائے محض اپنے فضل اور رحم سے کسی اور شکل اور کسی اور رنگ میں اپنی رحمت کو ظاہر کرتا ہے وہ بڑا ہی پیار کرنے والا وہ بڑی ہی محبت کرنے والا رب ہے، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کے دن گزاریں اور جماعت کے اندر اتحاد اور اتفاق کو ہمیشہ قائم رکھیں اور اس حقیقت کو کبھی نظر انداز نہ کریں کہ سب بز رگیاں اور ساری ولایت خلافت راشدہ کے پاؤں کے نیچے ہے.جو شخص اس سے باہر اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے اس کی دعا ئیں اگر قبول بھی ہوں تو وہ قبولیت اصطفاء کی نہیں وہ قبولیت ابتلا اور امتحان کی ہے پس اپنے رب سے ڈرتے رہنا چاہیے.( روزنامه الفضل ربوه ۱۱ جون ۱۹۶۷ء صفحه ۱ تا ۵)

Page 751

خطبات ناصر جلد اول ۷۳۵ خطبہ جمعہ ۹ جون ۱۹۶۷ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اُمت مسلمہ کا قیام خطبہ جمعہ فرمود ۹۰ / جون ۱۹۶۷ ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ لَكَ وَ آرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُب عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - (البقرة : ۱۲۹ ،۱۳۰) پھر فرمایا.تعمیر کعبہ سے تعلق رکھنے والے انہیں مقاصد کے متعلق میں پہلے بتا چکا ہوں بیسویں غرض وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَّكَ میں بیان ہوئی تھی اور وعدہ دیا گیا تھا کہ موعود ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تا شیروں اور قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اقوام عالم کی سعید روحیں حقیقتہ اُمت مسلمہ بن جائیں گی اور عرب جو ان کے پہلے مخاطب ہوں گے ان کے سب گند دھو دیئے جائیں گے اور پاک اور صاف ہوکر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے سایہ تلے اپنے خالق حقیقی اور مالک حقیقی کے دربار میں آجمع ہوں گے اور پھر دنیا کے ہادی بنیں گے اور اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری

Page 752

خطبات ناصر جلد اوّل دنیا میں قائم کریں گے.۷۳۶ خطبہ جمعہ ۹ جون ۱۹۶۷ء ابراهیمی دعاؤں اور ان پیشگوئیوں کے مطابق جو پہلی کتب میں پائی جاتی تھیں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک اُمت مسلمہ کو قائم کیا.جیسا کہ قرآن کریم سورہ حج میں فرماتا ہے.وَ جَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَ فِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا b عَلَيْكُمْ وَ تَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَ أَتُوا الزَّكَوةَ وَ اعْتَصِمُوا بِاللهِ ۖ هُوَ موليكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ - (الحج : ٧٩) یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اپنی تمام قوت اور اپنی تمام طاقت اور اپنی تمام استعداد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو اور اس کوشش اور جہاد کو اپنے کمال تک پہنچاؤ (حق جهَادِہ ) اس کے حق کو پورا کرو کیونکہ اس نے تمہیں مجتبی بنایا ہے اور تمہیں بزرگی بخشی ہے اور کامل دین تمہیں دیا ہے.بہترین احکام تمہارے لئے نازل کئے ہیں اور ان احکام کی پیروی کرنے کے لئے جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی وہ بھی ساتھ ہی تمہیں عطا کی گئی ہیں.اس لئے ان حکام کی پیروی کرنے سے تم پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ! اللہ نے تمہیں المُسْلِمِینَ کا نام دیا ہے.امت مسلمہ قرار دیا ہے تمہارے متعلق یہ نام پہلی کتب میں بھی استعمال ہوا تھا اور قرآن کریم بھی تمہیں اُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ - اَلْمُسْلِمِینَ کے نام سے یاد کرتا ہے اور سیہ نام ان دعاؤں کے نتیجہ میں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھیں کہ ایک اُمت مسلمہ دنیا میں قائم کی جائے (اس افضل الرسل کی بعثت کے ساتھ ) اور ان کی اولا د بھی اُمت مسلمہ میں شامل ہو پس خانہ کعبہ کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھنے والی جو آیات ہیں ان میں وَمِنْ ذُرِّيَّتِنا أمَّةٌ مُسْلِمَةً تَک کی جو دعا تھی.قرآن کریم سورہ حج کی اس آیت میں یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ دعا قبول ہوگئی اور جو پیشگوئیاں پہلی کتب میں دی گئی تھیں ان کے پورا ہونے کا وقت آگیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو چکے ہیں اور امت مسلمہ قائم ہوگئی ہے اور اس لئے قائم ہوئی

Page 753

خطبات ناصر جلد اول ۷۳۷ خطبہ جمعہ ۹ جون ۱۹۶۷ء ہے کہ انسان کے اندر جو روحانی اور اخلاقی قوتیں اور استعداد میں اور طاقتیں ودیعت کی گئی تھیں ان کے اظہار کا وقت آ گیا ہے.اب دنیا یہ دیکھے گی کہ انسان اپنے رب کی راہ میں اپنی طاقتوں کو کس طرح خرچ کرتا ہے اور اپنی استعدادوں کو وہ اپنے کمال تک کس طرح پہنچا تا ہے.اسلام کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے، اپنے رب کے سامنے اپنی گردن کو قربان کرنے کے لئے رکھ دینا.اپنے تمام ارادوں کو چھوڑ کر اپنی تمام خواہشوں کو چھوڑ کر خدا کی رضاء پر راضی رہنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا یعنی اپنا کچھ بھی باقی نہ رہے سب کچھ خدا کو دے دیا جائے اور پھر خدا سے ایک نئی زندگی حاصل کر کے ایک خیر امت کی شکل میں اس دنیا میں زندگی کے دن گزارے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کے متعلق فرماتے ہیں.اور اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے.یعنی یہ کہ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ۱۱۳) یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے.یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے.مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے.اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو در حقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصہ اللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجالا وے.مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرماں برداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.اکیسواں مقصد ارنا مناسگنا میں بیان ہوا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اس نبی موعود پر ایک ایسی شریعت

Page 754

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۳۸ خطبہ جمعہ ۹ جون ۱۹۶۷ء نازل ہو گی جو انسانی فطرت کے سب بچے اور حقیقی تقاضوں کو پورا کرنے والی ہوگی.ہر استعداد اس سے فیض یاب ہوگی اور ہر فطرت صحیحہ اپنے ظرف کے مطابق اس سے حصہ لے گی ہر زمانہ کے مناسب حال ، ہر قوم کے مناسب حال، ہر فرد کی استعداد کے مناسب حال اس میں تعلیم موجود ہوگی اور موجودرہے گی.الْمَنَاسِكَ، الْمَنْسَكُ اور الْمُنْسِك کی جمع ہے.اس کے معنی ہیں زہد وعبادت، وہ کام جو حصول قرب الہی کے لئے کئے جاتے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا اَرِنَا الْمَنَاسِكَ عبادت کے کامل طریق ہمیں بتا بلکہ یہ فرمایا ہے ارنا مناسگنا ہمارے مناسب حال جو کامل طریق عبادت کے ہیں وہ ہمیں سکھا اور یاد رہے کہ صرف قرآنی شریعت ہی ایسی ہے جس میں یہ گنجائش موجود ہے پہلی شرائع میں یہ گنجائش موجود نہیں تھی جب اُمتِ مسلمہ کا وجود قائم ہو گیا اور قرآن کریم کی شریعت ان پر نازل ہو چکی.تب آرنا مناسگنا کی دعائے ابراہیمی قبول ہوئی تو ارنا مناسگنا میں یہ دعا کی گئی ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں موقعہ اور محل کے مطابق احسن عمل کے انتخاب کی ہمیں توفیق عطا کر چنانچہ قرآن کریم نے بہت زور دیا ہے اس بات پر کہ قرآنی تعلیم کے مختلف پہلو ہوتے ہیں یعنی ہر حکم کے مختلف پہلو ہوتے ہیں، جو قرآن کریم نے دیا ہے تو جو پہلو موقعہ اور محل اور تمہاری اپنی استعداد کے مطابق ہے اس پہلو سے اس عمل کو اختیار کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ اپنی استعداد سے بڑھ کر عبادتوں میں مجاہدہ کا رنگ اختیار کرتے ہیں ، بہت لمبا عرصہ روزے رکھتے ہیں یا نیند کو بہت کم کر دیتے ہیں.حالانکہ ان کے جسم اس کی برداشت نہیں کر سکتے اور نتیجہ اس کا یہ نہیں نکلتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر لیں بلکہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ پاگل ہو جاتے ہیں یا ان کو بعض اور عوارض لاحق ہو جاتے ہیں کسی کو سل ہو جاتی ہے دق ہو جاتی ہے بعض اور بیماریاں ہیں جو ان کو لگ جاتی ہیں.دعا یہاں یہ سکھائی گئی ہے وَ آرِنَا مَنَا گنا ہر قوم ہر زمانہ کے لحاظ سے اور پھر ہر قوم اور ہر زمانہ کے ہر فرد کے لحاظ سے جو مناسب عبادتیں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے جو

Page 755

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۳۹ خطبہ جمعہ ۹/جون ۱۹۶۷ء مناسب طریق ہیں وہ ہمیں سکھاتا کہ ہم ہر قسم کی بیماری سے اور ضعف سے اور لغزش سے اور بددلی سے محفوظ ہو جا ئیں اور تیرے قرب کو حاصل کر لیں.احسن پر ، یعنی جو بہتر پہلو ہے اس کے اختیار کرنے کی طرف بڑے زور سے اور بڑی کثرت سے قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے مثلاً فرمایا ہے جادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل: ١٢٦) دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتے ہوئے تم مختلف پہلوؤں کو اختیار کر سکتے ہو تو جو اَحْسَنُ پہلو ہے اس کو اختیار کرو ایک شخص ہے جو محبت سے بات سننے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تم اسے ڈراؤ نہیں.ایک موقعہ ایسا آتا ہے کہ مخالف سمجھتا ہے کہ اگر میں نے ان کو فساد کی طرف آمادہ کر لیا تو ان کو نقصان ہوگا ہمیں فائدہ ہوگا اس وقت ایک احمدی کا فرض ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق امن کی فضا کو قائم رکھنے کے لئے انتہائی کوشش کرے اور جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ میں جو احسن طریق اختیار کرنے کا حکم ہے اس پر عمل پیرا ہو، تا امن میں رخنہ نہ پیدا ہو.بہت سے احکام میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کئی طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں ایک حکم کی بجا آوری میں.تو جو احسن طریق ہے اس کو تم اختیار کرو.اصولاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاتَّبِعُوا اَحْسَنَ مَا انْزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمُ (الزمر : ۵۲) قرآن کریم کی کامل اور مکمل شریعت تم پر اُتاری گئی ہے اور تمہیں حکم یہ دیا جاتا ہے کہ وَاتَّبِعُوا اَحْسَنَ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ تمہارے رب نے جو تمہاری ربوبیت کرنا چاہتا ہے اپنی اس صفت کے تقاضا سے ایک ایسی شریعت نازل کی ہے جو مختلف پہلو رکھتی ہے اور ہر آدمی ، ہر فرد، ہر قوم، ہر زمانہ کی ربویت کا تقاضا یہ ہے کہ مختلف پہلوؤں سے اس پر عمل کیا جا سکے تو ہر پہلو اس کے اندر آ گیا ہے اس شریعت کا نزول ربّ کریم کی طرف سے ہے اس لئے قیامت تک محفوظ ہے جو احسن طریق ہے اس کو تم اختیار کرو اور ہر حکم کو اس احسن طریق پر بجالاؤ جو تمہارے مطابق حال ہو، جو زمانہ کے مناسب حال ہو.جس کے نتیجہ میں تمہارے قومی اور تمہاری استعداد میں صحیح نشو ونما اور ربوبیت کو حاصل کرسکیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے فَبَشِّرُ عِبَادِ - الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ اَحْسَنَهُ (الزمر : ۱۸ ، ۱۹ ) کہ میرے ان بندوں کو جو ( الْقَوْل ) اس بہترین شریعت کو

Page 756

خطبات ناصر جلد اول ۷۴۰ خطبہ جمعہ ۹ جون ۱۹۶۷ء سنتے ہیں فَيَتَّبِعُونَ اَحْسَنَہ اس میں جو احکام انہیں سنائے جاتے ہیں ان میں سے وہ احسن کی پیروی کرتے ہیں ان کو تم بشارت دو ، أو لبِكَ الَّذِينَ هَل لهُمُ اللهُ (الزمر : ۱۹ ) کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے سامان کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں یہی لوگ اُولُوا الْأَلْبَابِ (الزمر : ۱۹ ) ہوں گے عقلمند سمجھے جائیں گے اس میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اُولُوا الأَلْبَابِ میں اس لئے شامل کیا ہے اور عقل اس لئے دی ہے کہ وہ اس کو اسلامی شریعت کے احکام کی بجا آوری میں استعمال کرے اور اگر وہ اپنی عقل سے کام لے اور موقع کو پہچانے اور محل کی شناخت رکھتا ہو مثلاً اگر کسی سے تبادلۂ خیال کرے تو اس کی سائیکلوجی کو وہ پہچانے اور اپنی عقل سے وہ فیصلہ کرے کہ اس رنگ میں میں بات کروں گا تو میری بات کا میرے مخاطب پر اثر ہوگا.پس یہاں بڑی وضاحت سے اللہ کے ان بندوں کو بشارت دی گئی ہے جو قرآن کریم کی شریعت کو سنتے اور اَحْسَنُ پر عمل کرتے ہیں.بشارت ان لوگوں کو نہیں دی گئی جو قرآن کریم کو سنتے اپنی عقل کو کام میں نہیں لاتے اور اَحْسَنُ کی بجائے کسی اور پہلو کو اختیا ر کرتے ہیں.پس ایسے بندوں کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں هداية کی بشارت نہیں دیتا، انجام بخیر ہونے کی بشارت نہیں دیتا تو یہاں ایک معنی یہ ہوں گے کہ میرے وہ بندے جو الْقَولُ کو سنتے اور ان میں سے اَحْسَن کی پیروی کرتے ہیں ان کا انجام بخیر ہو گا جو ایسا نہیں کرتے ان کا انجام بخیر نہیں ہوگا.بائیسواں مقصد تب علينا میں بیان ہوا تھا اور اس میں اشارتاً بیان کیا گیا تھا کہ جو آخری شریعت یہاں نازل ہوگی اس کا گہرا تعلق رَبِّ تَواب سے ہوگا اور اس کے پیرو، اس کے متبعین اس بنیادی حقیقت کو پہچانیں گے کہ تو بہ اور استغفار کے بغیر، معرفت الہی اور رضاء الہی کا حصول ممکن نہیں ، پس جہاں وہ بار بار اس کی راہ میں قربانیاں دیں گے وہاں وہ بار بار استغفار کے ساتھ اس سے قوت حاصل کریں گے اور توبہ کے ساتھ اس کی طرف رجوع بھی کرنے والے ہوں گے، اپنی کوشش اور مجاہدہ اور قربانیوں کو رخنہ سے خالی اور خطا سے مبرا نہ سمجھیں گے.تَابَ اللهُ عَلَيْهِ کے معنی ہیں قَبلَ تَوْبَتَهُ مِنْهُ کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے بندہ کی جو توبہ کرنے والا ہے تو بہ کو قبول کر لیا.یہاں یہ دعا ہے وَتُبْ عَلَینا اور بتایا گیا ہے کہ اس حقیقت کو جو

Page 757

خطبات ناصر جلد اول ۷۴۱ خطبہ جمعہ ۹ جون ۱۹۶۷ء تو بہ اور استغفار کے اندر پائی جاتی ہے صحیح طور پر اور حقیقی معنی میں وہ اُمت سمجھنے والی ہوگی اور ان کو ایک ایسی شریعت دی جائے گی جو ان باتوں کو کھول کر بیان کرے گی.شرع میں اور اسلامی اصطلاح میں تو بہ کے معنی میں چار باتیں پائی جاتی ہیں:.(۱) گناہ کو ترک کر دینا.مثلاً جس شخص کو جھوٹ کی عادت ہو وہ ایک گناہ کر رہا ہے تو جھوٹ کو چھوڑ دینے کا نام تو بہ ہے.یہ اس کا ایک پہلو ہے.(۲) یہ کہ گناہ پر ندامت کا احساس پیدا ہو جانا.ہر آدمی ہر وقت تو جھوٹ نہیں بولتا لیکن ایک شخص ایک لمبے عرصہ تک جھوٹ نہیں بولتا مثلاً چھ مہینے اس نے کوئی جھوٹ نہیں بولا تو ترک گناہ تو ہوا (اس چھ ماہ میں) لیکن تو بہ نہیں کیونکہ ترک گناہ کے علاوہ تو بہ میں گناہ پر ندامت کے احساس کا پیدا ہو جانا بھی ضروری ہے.(۳) یہ کہ عزم یہ ہو کہ میں اس گناہ کی طرف لوٹوں گا نہیں، پورے عزم کے ساتھ گناہ کو چھوڑنے والا ہو اور (۴) یہ کہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا تدارک بھی کیا جا سکتا ہے.مثلاً کسی کے سوروپے مارے ہوئے ہیں تو تو بہ کے صرف یہ معنی نہیں ہوں گے کہ آئندہ لوگوں کا مال مارنے سے تو بہ کر لی احساس ندامت کے ساتھ اور اس عزم کے ساتھ کہ میں کبھی بھی ایسے گناہ کی طرف نہیں لوٹوں گا لیکن قوت ہونے کے باوجود وہ سور و پید ادا نہ کرے حالانکہ وہ اتنا غریب نہیں کہ سور و پید ادا نہ کر سکے تو پھر بھی وہ تو بہ نہیں ہے.ان ہر چہار باتوں کے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے سے قوت حاصل کریں کیونکہ گناہ کا چھوڑ نا خدا تعالیٰ سے حاصل کردہ قوت کے بغیر ممکن نہیں.گناہ پر ندامت کے احساس کا پیدا ہونا اس کی توفیق کے بغیر ناممکن ہے باقی رہا عزم ! تو انسان کے اندر کیسے یہ ہمت ہو سکتی ہے کہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طاقت کے بغیر، اللہ تعالیٰ سے طاقت حاصل کئے بغیر یہ عزم کر سکتا ہوں، پختہ ارادہ کر سکتا ہوں کہ آئندہ کوئی گناہ نہیں کروں گا.پس اس کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی توفیق کی ضرورت ہے.اور جس حد تک ممکن ہو تدارک کرنا ، اس کے لئے

Page 758

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۴۲ خطبہ جمعہ ۹ جون ۱۹۶۷ء بھی اللہ تعالیٰ سے قوت اور طاقت حاصل کرنے کی ضرورت ہے.تو یہ طاقتیں اور قوتیں استغفار کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی ہیں.خدا کا بندہ اپنے رب کو تمام طاقتوں اور قوتوں کا سر چشمہ سمجھتا ہے اور اپنے اندر کوئی اپنی طاقت اور قوت نہیں پاتا اور نہ ا دیکھتا ہے اس لئے ہر کام کے کرنے سے پہلے وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتا اور استغفار کرتا ہے اور اپنے رب سے کہتا ہے کہ اے خدا جو تمام طاقتوں کا سر چشمہ ہے اور تمام قوتوں کا منبع ہے مجھے وہ قوتیں اور طاقتیں اور استعدادیں عطا کر کہ میں برائیوں کو کلین چھوڑ دوں اور نیکیوں پر حقیقتاً قائم ہو جاؤں.تو اس معنی میں پہلے استغفار ہے اور بعد میں تو بہ.توبہ استغفار کے بغیر ممکن ہی نہیں.اس مضمون پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی بسط سے روشنی ڈالی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.استغفار اور تو بہ دو چیزیں ہیں ایک وجہ سے استغفار کو تو بہ پر نقدم ہے کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے اور تو بہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے.عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا.اور نیکیوں کو کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی.جس کا نام تُوبُوا الیہ ہے.اس لئے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا سے استمداد چاہے سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا کیا کر سکے گا ؟ توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے اگر استغفار نہ ہو تو یقیناً یا درکھو کہ تو بہ کی قوت مرجاتی ہے.پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر تو بہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہوگا يُمتعكم متَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ (هود: ۴) سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پالو گے ہر ایک شخص کے لئے ایک دائرہ ہے جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے.“ ۵۴ آپ نے فرمایا کہ اپنے اپنے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے جس حد تک تمہارے لئے ممکن

Page 759

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۴۳ خطبہ جمعہ ۹/جون ۱۹۶۷ء ہے روحانی رفعتوں کو حاصل کرو اور استغفار اور تو بہ کے ذریعہ سے ان کو حاصل کرلو.دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.اس تمام تفصیل سے ظاہر ہے کہ استغفار کی درخواست کے اصل معنی یہی ہیں کہ وہ اس لئے نہیں ہوتی کہ کوئی حق فوت ہو گیا ہے بلکہ اس خواہش سے ہوتی ہے کہ کوئی حق فوت نہ ہو اور انسانی فطرت اپنے تئیں کمزور دیکھ کر طبعاً خدا سے طاقت طلب کرتی ہے..اور یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان اعلیٰ درجہ کے مقام عصمت پر اور مرتبہ شفاعت پر تب ہی پہنچ سکتا ہے کہ جب اپنی کمزوری کے روکنے کے لئے اور نیز دوسروں کو گناہ کی زہر سے نجات دینے کے لئے ہر دم اور ہر آن دعا مانگتا رہتا ہے اور تضرعات سے خدا تعالیٰ کی طاقت اپنی طرف کھینچتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس طاقت سے دوسروں کو بھی حصہ ملے جو بوسیلہ ایمان اس سے پیوند پیدا کرتے ہیں معصوم انسان کو خدا سے طاقت طلب کرنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ انسانی فطرت اپنی ذات میں تو کوئی کمال نہیں رکھتی بلکہ ہر دم خدا سے کمال پاتی ہے اور اپنی ذات میں کوئی قوت نہیں رکھتی بلکہ ہر دم خدا سے قوت پاتی ہے اور اپنی ذات میں کوئی کامل روشنی نہیں رکھتی بلکہ خدا سے اُس پر روشنی اُترتی ہے اس میں اصل راز یہ ہے کہ کامل فطرت کو صرف ایک کشش دی جاتی ہے تا کہ وہ طاقت بالا کو اپنی طرف کھینچ سکے.مگر طاقت کا خزانہ محض خدا کی ذات ہے اسی خزانہ سے فرشتے بھی اپنے لئے طاقت کھینچتے ہیں اور ایسا ہی انسان کامل بھی اسی سر چشمہ طاقت سے عبودیت کی نالی کے ذریعہ سے عصمت اور فضل کی طاقت کھینچتا ہے....پس استغفار کیا چیز ہے؟ یہ اس آلہ کی مانند ہے جس کی راہ سے طاقت اُترتی ہے تمام راز توحید اسی اصول سے وابستہ ہے کہ صفت عصمت کو انسان کی ایک مستقل جائداد قرار نہ دیا جائے بلکہ اس کے حصول کے لئے محض خدا کو سر چشمہ سمجھا جائے.جب اللہ تعالیٰ کی حفاظت حاصل ہو جاتی ہے.جب اللہ تعالیٰ سے انسان طاقت حاصل کر لیتا ہے، تب وہ تو بہ کی توفیق پاتا ہے اور تب اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی تو بہ قبول ہوتی ہے.

Page 760

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۴۴ خطبہ جمعہ ۹ جون ۱۹۶۷ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی لئے فرماتے ہیں:.پس اُٹھو! اور تو بہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو اور یاد رکھو کہ اعتقادی غلطیوں کی سزا تو مرنے کے بعد ہے اور ہندو یا عیسائی یا مسلمان ہونے کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہو گا لیکن جو شخص ظلم اور تعدی اور فسق و فجور میں حد سے بڑھتا ہے اس کو اسی جگہ سزا دی جاتی ہے تب وہ خدا کی سزا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتا سواپنے خدا کو جلد راضی کر لو اور قبل اس کے کہ وہ دن آئے تم خدا سے صلح کر لو.وہ نہایت درجہ کریم ہے ایک دم کے گداز کرنے والی تو بہ سے نشتر برس کے گناہ بخش سکتا ہے اور یہ مت کہو کہ تو بہ منظور نہیں ہوتی.یاد رکھو کہ تم اپنے اعمال سے کبھی بچ نہیں سکتے.ہمیشہ فضل بچہ ، بچاتا ہے نہ اعمال.اے خدائے کریم و رحیم ! ہم سب پر فضل کر کہ ہم تیرے بندے اور تیرے آستانہ پر گرے ہیں.آمین.آج مجھے گرمی کی وجہ سے تکلیف رہی ہے اور یہاں مسجد میں بھی بڑی گرمی ہے دوستوں کو بھی لمبے خطبہ سے تکلیف ہو گی اس لئے آج میں صرف اسی پر بس کرتا ہوں اور باقی مضمون اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل سے آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.روزنامه الفضل ربوه ۱۸ جون ۱۹۶۷ صفحه ۱ تا ۴)

Page 761

خطبات ناصر جلد اول ۷۴۵ خطبہ جمعہ ۱۶ جون ۱۹۶۷ء تعمیر بیت اللہ کے تمام مقاصد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعہ پورے ہوں گے خطبہ جمعہ فرمود ه ۱۶ / جون ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.کل قریباً سارا دن شدید دردسر کا دورہ رہا اور اس وقت میں کافی ضعف محسوس کر رہا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ جن تیئیس مقاصد کے متعلق ( جن کا تعلق بیت اللہ سے ہے ) میں نے سلسلہ خطبات شروع کیا ہے اس کو جاری رکھوں اور جو آخری غرض اور مقصد بیان ہو نا رہ گیا تھا اس کے متعلق آج کے خطبہ میں اپنے خیالات کا اظہار کروں.تعمیر بیت اللہ کی تیئیسویں غرض رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ ط وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.(البقرة : ۱۳۰ ) میں بیان ہوئی تھی اور اس آیت میں بتایا گیا تھا کہ ایک ایسا نبی یہاں مبعوث کیا جائے گا جو قیامت تک زندہ رہے گا اور اپنے فیوض کے ذریعہ اور افاضہ روحانی کی وجہ سے اس پر کبھی موت وارد نہ ہوگی ، ہمیشہ کی زندگی اس کو عطا کی جائے گی اور اسے ایک ایسی شریعت دی جائے گی جو ہمیشہ رہنے والی ہوگی ، منسوخ نہیں ہوگی کیونکہ وہ الکتاب (ایک کامل اور مکمل شریعت ) ہوگی اور ایک ایسی امت پیدا کی جائے گی جو بصیرت پر قائم ہوگی.حکمت انہیں سمجھائی جائے گی اور دلائل انہیں عطا کئے جائیں

Page 762

خطبات ناصر جلد اول ۷۴۶ گے اور زندہ خدا اور زندہ نبی اور زندہ شریعت سے ان کا تعلق ہوگا.خطبہ جمعہ ۱۶ جون ۱۹۶۷ء یہ مقصد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پورا ہوا ہے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس کا دعویٰ کیا ہے جس پر میں ابھی روشنی ڈالوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.وو دیکھو! ابراہیم علیہ السلام نے ایک دعا کی تھی کہ اس کی اولاد میں سے عرب میں ایک نبی ہو.پھر کیا وہ اسی وقت قبول ہو گئی ؟ ابراہیم کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اس دعا کا کیا اثر ہوا.لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی صورت میں وہ دعا پوری ہوئی اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی.اس آیہ کریمہ میں پانچ باتوں کا ذکر ہے:.اوّل :.عبد کامل کے ظہور کا.دوسرے :.آیات بینات کے لامتناہی سلسلہ کا 56 تیسرے:.کامل شریعت کے نزول اور قیامت تک اس کے قائم رہنے کا.چوتھے :.احکام شریعت کی حکمت بیان کرنے کا اور پانچویں :.یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں قدوسیوں کی ایک جماعت قیامت تک پیدا ہوتی رہے گی.قرآن کریم کے متعدد مقامات پر یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ان ابراہیمی دعاؤں کے نتیجہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے.اس وقت میں سورۂ نمل کی چند آیات اپنے دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِى حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ ج مِنَ الْمُسْلِمِينَ - وَ اَنْ اَتْلُوا الْقُرْآنَ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ - وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمُ ايْتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا ۖ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا 199196 تَعْمَلُونَ.(النمل: ۹۲ تا ۹۴)

Page 763

خطبات ناصر جلد اول ۷۴۷ خطبہ جمعہ ۱۶ / جون ۱۹۶۷ء جب ہم اس بات کا جو پہلی آیت میں بیان ہوئی ہے ( یعنی رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا منْهُم ) تجزیہ کرتے ہیں اور سیاق و سباق کو سامنے رکھ کر اور ضمیر کو ظاہر کر کے دیکھتے ہیں تو اس کے یہ معنی ہماری سمجھ میں آتے ہیں کہ ابراہیم اور اسمعیل علیھما السلام کی دعا رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا منھم کا یہ مفہوم ہے کہ اے ابراہیم اور اسمعیل کے رب جن کے ذریعہ سے تو نے از سر نو تعمیر کعبہ کروائی ہے اور اپنے معزز گھر کی حرمت کا اعلان کیا ہے تو اس بیت حرام میں رہنے والوں میں سے ایک عظیم روح کو کھڑا کر.اس کو اپنی ربوبیت میں لے.اسے مصطفی اور مجتبی بنا اور اپنے انتہائی قرب سے اس کو نواز اور ایک کامل اور مکمل شریعت دے کر اپنے رسول اور کامل مقتدا کی حیثیت میں اسے دنیا کی طرف بھیج تا وہ بنی نوع انسان کو اللہ رب العالمین کی طرف بلائے اور توحید خالص پر انہیں قائم کرے.اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے دنیا میں یہ منادی کروائی إنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا ابراہیم اور اسمعیل علیہما السلام کی دعا قبول ہوئی اور مجھے رب العالمین نے حکم دیا ہے کہ میں اس بلد حرام ، اس بیت اللہ کے رب کی عبادت کو اپنے کمال تک پہنچا کر ایک عبد کامل کی شکل میں ظاہر ہو کر بنی نوع انسان کو اللہ ، رب کعبہ ، رب بلد حرام کی طرف بلاؤں.اس ہستی کی طرف ( وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ ) جو کامل قدرتوں والی ہے اور تمام اسمائے حسنیٰ سے متصف ہے.جو چاہتی ہے وہ ہستی کرتی ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابل نہیں ٹھہر سکتی اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں الْمُسْلِمُونَ کے گروہ میں شامل ہو کر ایک مسلم کا کامل نمونہ دنیا کے سامنے پیش کروں.غرض وہاں ابراہیم اور ان کی نسل کے منہ سے یہ دعا نکلوائی اور قرآن کریم نے اسے محفوظ کیا اور یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے دنیا میں یہ منادی کروائی کہ اس بلد حرام کے رب کی عبادت کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور ابراہیمی دعاؤں کے نتیجہ میں میں آج دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا ہوں.دوسری اور تیسری اور چوتھی بات جو یہاں بیان ہوئی تھی ، وہ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ میں بیان ہوئی تھی یعنی ایک عبد کامل ظاہر ہوگا اور عبد کامل کے ظہور کے ساتھ دنیا

Page 764

خطبات ناصر جلد اول ۷۴۸ خطبہ جمعہ ۱۶ جون ۱۹۶۷ء آیات بینات کا ایک لامتناہی سلسلہ مشاہدہ کرنے لگے گی.وہ الکتب کی تعلیم دے گا اور جو احکام وہ اس کامل اور مکمل کتاب سے بیان کرے گا ان کی حکمت بھی ساتھ ہی ساتھ انہیں بتائے گا دیکھو وَ اَنْ اتْلُوا الْقُرآن میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی ہیں آیات کا بیان کرنا کتاب کا سکھانا اور حکمت اور وجوہ کے متعلق تفصیلی روشنی ڈالنا.یہ تینوں چیزیں جو اس دعا میں شامل تھیں وہ آن اتلُوا القُرآن میں پائی جاتی ہیں کیونکہ قرآن کریم کے محاورہ میں تلاوت کا لفظ آیات کے بیان کرنے اور ان کے سیکھنے اور سکھانے اور ان سے اثر قبول کرنے اور ان کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کے متعلق بھی بولا جاتا ہے اور کتاب اور اس کی حکمت کو پڑھنے ، سنانے اور اس پر عمل کرنے اور کروانے کے لئے بھی بولا جاتا ہے مفردات راغب میں تلاوت کے لغوی معنی یہ کئے گئے ہیں کہ الصَّلَاوَةُ تَخْتَصُّ بِإِتِبَاعِ كُتُبِ اللهِ الْمُنَزَّلَةِ تَارَةً بِالْقِرَآءَ ةِ وَتَارَةً بِالْارْتِسَامِ لِمَا فِيْهَا مِنْ أَمْرٍ وَنَهْيِ وَتَرْغِيْبٍ وَتَرْهِيْبٍ - کہ تلاوت خاص طور پر مخصوص ہے اس معنی کے ادا کرنے میں کہ ان کتب کی اتباع کی جائے جو آسمان سے نازل ہوتی ہیں اور یہ اتباع دو طریق سے ہوتی ہے، قراءت کے ساتھ اور احکام پر عمل پیرا ہو کر حکم کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے اندر جواوامر ونواہی ہیں ان پر عمل پیرا ہونا بھی تلاوت کے اندر شامل ہے) اور ترغیب و ترہیب کے ذریعہ سے وہ کتاب جو اثر ڈالنا چاہتی ہے اس اثر کو قبول کرے یعنی جو حکمتیں بیان کی گئی ہوں ان حکمتوں سے متاثر ہونا یہ معنی بھی تلاوت کے اندر پائے جاتے ہیں.قرآن کریم میں سورۃ انفال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ايْتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا (الانفال: ٣) یعنی کہ مومن وہ ہیں کہ جب آیات آسمانی ان پر تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کی زیادتی ایمان کا باعث بنتی ہیں.میں یہاں یہ بتا رہا ہوں کہ آیات کے متعلق بھی تلاوت کا لفظ قرآن کے محاورہ میں استعمال ہوا ہے اسی طرح کتاب کے پڑھنے اور جو کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے اس پر عمل کرنے اور دنیا کے لئے اپنا اسوہ پیش کرنے کے متعلق بھی تلاوت کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ

Page 765

خطبات ناصر جلد اول ۷۴۹ خطبہ جمعہ ۱۶ جون ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : - اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتب (العنکبوت : ۴۶) کہ اپنے رب کی کتاب میں سے جو وحی تیرے پر نازل ہو رہی ہے ( وحی کا سلسلہ اس وقت جاری تھا) اس کی تلاوت کر ، یعنی اس پر عمل پیرا ہو اور اسے پڑھ ( آدمی جو کچھ پڑھتا ہے وہ دوسروں کو سنانے کے لئے بھی پڑھتا ہے اور اپنے لئے بھی اور چونکہ پہلے مخاطب اس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اسی لئے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ عمل پیرا ہو کر ان لوگوں کے لئے قابل تقلید نمونہ بن جا) انبیاء علیہم السلام کے متعلق قرآن کریم نے ہمیشہ یہ فرمایا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا دعوئی اور ندا یہی ہوتی ہے کہ میں اول المسلمین ہوں یعنی سب سے پہلے میں ہی ان احکام اور نواہی پر عمل کرنے والا ہوں، میں اپنی گردن خدا کے حکم کے نیچے رکھتا ہوں اور اس رنگ میں تمہارے لئے بطور قائد کے ایک نمونہ پیش کرتا ہوں میں یہ نہیں کہتا کہ یہ راستہ اللہ تک پہنچاتا ہے تم اس پر چلو میں یہ کہتا ہوں کہ یہ راستہ خدا کی طرف پہنچانے والا ہے، میں اس پر چل رہا ہوں میرے پیچھے پیچھے آؤ تا کہ تم بھی خدا تک پہنچ جاؤ.پس لغوی معنی کے لحاظ سے علم وعمل سے اس کی اتباع کرنا مفردات راغب کے نزدیک تلاوت کے معنی میں شامل ہے، علم سے اتباع کرنا حکمت کی باتیں بتا کر اور عمل سے اتباع کرنا ان باتوں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال کر.غرض اللہ تعالیٰ نے یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ کہلوایا کہ وَ اَنْ اَتْلُوا الْقُرآن مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ میں یہ قرآن تمہیں پڑھ کے سناؤں.قرآن کا لفظ خود قرآن کریم نے آیات کے لئے بھی استعمال کیا ہے.فرمایا بَلْ هُوَ ايت بيّنت (العنکبوت :۵۰) کہ یہ آیات بینات ہیں اور اس لئے ان اتلوا القرآن کے معنی یہ ہوں گے کہ میں آیات بینات تمہارے سامنے پڑھ کے سناؤں.اسی طرح قرآن کریم کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ وہ ایک کامل شریعت ہے.اس لئے اَنْ اَتْلُوا الْقُرآن کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ تمہارے سامنے کامل شریعت کتاب کی شکل میں بھی اور اوَلُ الْمُسْلِمِينَ کی شکل میں بھی رکھوں کیونکہ جب آپ کے اخلاق کے متعلق سوال کیا گیا تو حضرت عائشہ نے فرمایا تم قرآن کو پڑھ لو كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ ).پس دعا یہ تھی کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايْتِكَ وہ نبی آیات بینات دنیا کے سامنے پیش کرتا چلا جائے

Page 766

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۵۰ خطبہ جمعہ ۱۶ رجون ۱۹۶۷ء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دعا قبول ہوئی اور خدا کے حکم سے میں اتلُوا الْقُرْآنَ قرآن کریم کی آیات و بینات دنیا کے سامنے رکھ رہا ہوں.پھر دعا یہ تھی کہ يُعَلِّمُهُمُ الكتب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا اتْلُوا الْقُرآن میں کامل شریعت اس دعا کی قبولیت کی وجہ سے دنیا کے سامنے رکھ رہا ہوں.پھر دعا یہ تھی کہ وہ حکمت کی باتیں سکھائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتْلُوا الْقُرْآنَ میں یہ قرآن جو حکمت سے پر اور بھرا ہوا ہے اور حِكْمَةٌ بالِغَةٌ ہے اسے دنیا کے سامنے رکھ رہا ہوں تو ان تینوں دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ایک دولفظی فقرہ کہلوایا اور تینوں باتوں کی طرف اشارہ کر دیا اور ان معنی کی لغت بھی تصدیق کرتی ہے.پانچویں چیز یہ تھی کہ یزکیھم وہ ان کا تزکیہ کرے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے يُزكيهم کے مقابلہ میں ان آیات میں یہ فرمایا کہ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ (يونس: ١٠٩) یعنی (ابراہیمی ) دعا کے مفہوم سے زائد مفہوم دنیا کے سامنے رکھا.فَمَنِ اهْتَدی میں یہ اعلان کیا کہ میں تزکیۂ نفس کے سارے سامان لے کر تمہارے پاس آیا ہوں.اس لئے یزکیھم والی دعا پوری ہوگئی.لیکن میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ تمہارا تزکیۂ نفس کسی جبر کے نتیجہ میں نہیں کیا جائے گا.تزکیہ نفس کے یہ سامان ہیں.میں ان سامانوں کو تمہارے سامنے رکھتا ہوں.فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ اب تمہیں خود مجاہدہ کر کے ، اب تمہیں خود قربانیاں دے کر ، اب تمہیں خود خلوص نیت کا اظہار کرتے ہوئے خدا کی راہ میں اپنی جانوں کو لٹا کر اپنے لئے تزکیہ نفس پیدا کرنا ہو گا سامان میں لے آیا ہوں مگر یہ تزکیۂ نفس جبرا تم پر ٹھونسا نہیں جائے گا بلکہ آزادی ضمیر ہے اور تزکیہ کے سامان ہیں ان کا استعمال کرنا ، ان سے فائدہ اُٹھانا اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنا اور طہارت اور پاکیزگی کامل جانا اس کے لئے تمہیں کوشش کرنی پڑے گی کوئی غیر یا بالا کی طاقت تمہیں مجبور کر کے تمہارا تزکیۂ نفس نہیں کرے گی اور نہ کر سکتی ہے.تو فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِ ہدایت کا سامان آگیا ہے تزکیۂ نفس کا سامان آ گیا ہے جو شخص اس تزکیہ نفس کے

Page 767

خطبات ناصر جلد اول ۷۵۱ خطبہ جمعہ ۱۶ جون ۱۹۶۷ء - سامان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لئے ہدایت کی راہ کو ڈھونڈھ لیتا ہے وہ اپنے نفس کو فائدہ پہنچانے والا ہے.وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا (يونس: ۱۰۹) اور جو تزکیۂ نفس کے سامانوں سے فائدہ نہیں اٹھا تا اور ہدایت کی راہوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ہدایت کی راہوں کی بجائے ضلالت کی راہوں پر چل پڑتا ہے اور اپنے پیدا کرنے والے رب کی بجائے شیطان کی طرف منہ کر کے اس کی پیروی کرنے لگتا ہے.تو میں اسے یہ بتا دیتا ہوں کہ تمہیں اس گمراہی سے روکنے کے لئے بھی جبر سے کام نہیں لیا جائے گا.اِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ (النمل: ۹۳) میں تو ڈرانے والے منذر رسولوں میں سے ایک رسول ہوں یہ صحیح ہے کہ سب سے بڑا ہوں ، سب سے افضل ہوں ، سب سے اعلیٰ ہوں اللہ تعالیٰ سے قریب تر ہوں لیکن میری حیثیت منذر کے علاوہ اور کچھ نہیں میں نے تم پر جبر نہیں کرنا میں نے جبر سے ضلالت کی راہوں سے تمہیں ہٹا نا نہیں اور ہدایت کی راہوں کی طرف تمہیں لانا نہیں.وَقُلِ الْحَمْدُ لِله یہ کہہ دے کہ اللہ ہی کی سب تعریف ہے جس نے اسلام میں آیات بینات اور الْكِتَابُ اور الْحِكْمَةُ اور تزکیہ کے سامان پیدا کر دیئے اور ایک ایسے رسول کو مبعوث فرمایا جس نے کامل نمونہ دنیا کے سامنے رکھا جس کی پیروی اور اتباع کے نتیجہ میں انسان اپنے رب کی محبت کو پالیتا ہے اور اس کے انعامات کا وارث بن جاتا ہے الْحَمْدُ لِلهِ سب تعریفوں کا مستحق ہے وہ خدا سیر نكُمُ التِهِ فَتَعْرِفُونَها جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے وقت پھرا اپنی آیات بینات اور قرآن کریم کے علوم کو ظاہر کرے گا اس کی حکمتوں کو بیان کرے گا اور ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ دنیا کے لئے دین کی راہوں پر چلنا آسان ہو جائے گا اور بشاشت قلب کے ساتھ وہ اپنے رب کے لئے قربانیاں دینے لگیں گے اور تکمیل اشاعت دین کے وقت یعنی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے زمانہ میں ایک عالم کا عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں آپ کی رحمت کے سایہ میں آجائے گا اور اس وقت خدا تعالیٰ کے وہ وعدے بھی پورے ہوں گے جو اس نے ابتدا ہی میں دئے تھے کہ تمام بنی نوع انسان اللہ کی محبوب امت واحدہ بنا دیئے جائیں گے.غرض اس آیہ کریمہ میں یعنی رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ میں پانچ باتیں بیان ہوئی

Page 768

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۵۲ خطبہ جمعہ ۱۶ جون ۱۹۶۷ء تھیں ایک مقصد اور دعا تو یہ تھی کہ ان میں ایک ایسا رسول مبعوث ہو ، جس کی یہ صفات ہوں جو یہاں بیان کی گئی ہیں، جو کامل اسوۂ حسنہ ہو جس کے ذریعہ سے ہمیشہ روحانی فیض جاری رہے اور دوسرے آیات بینات کا لامتناہی سلسلہ دنیا کومل جائے تیسرے ایک ایسی کامل شریعت ہو کہ جس میں قیامت تک کوئی رخنہ اور فساد داخل نہ ہو سکے اور چوتھے انسانی عقل جو اپنے عروج اور کمال کو پہنچ چکی ہوگی اس وقت ان کو حکمت کی باتیں وہ بتائے ، وجہ بتائے اور دلیل دے کہ یہ حکم اس وجہ سے دیا جا رہا ہے اور پانچویں اس کے نتیجہ میں ان کے تزکیہ نفوس کے سامان پیدا کر دے.در اصل تزکیہ نفوس آیات بینات کے بغیر اور شریعت کے احکام جو کھول کر بیان کئے گئے ہوں جن کی حکمتیں بیان کی گئی ہوں، ان کے بغیر ممکن ہی نہیں اور اصل مقصد یہ تھا کہ امت محمدیہ کی پیدائش کی اور قیام کی جو بنیادی غرض ہے وہ پوری ہو اور جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ حسنہ سمجھتا اور اس کی پیروی کرتا ہے، جو شخص آیات بینات سے فائدہ اٹھا تا ہے جو شخص کامل شریعت کے احکام اور نواہی کا علم حاصل کرتا ہے اور اس کی حکمتوں سے واقف ہو جاتا ہے اور ان پر عمل کرتا ہے اور اس طرح پر وہ تزکیہ نفس حاصل کر لیتا ہے، وہ شخص اور وہ قوم وہ ہے جس کے متعلق ان آیات کی ابتدا میں یہ کہا گیا تھا.کہ وُضِعَ لِلنَّاسِ “ اور فرمایا تھا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تو ان آیات کی ابتدا اِنَّ اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ سے ہوئی تھی اور انتہا جو ہے وہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ میں بیان کی گئی ہے دراصل رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں ان کے بغیر وہ بائیں مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے جن کا ذکر ان آیات میں ہے اور جن پر میں کچھ روشنی پہلے ڈال چکا ہوں اور جب تک وہ مقاصد حاصل نہ ہوں اس وقت تک امت مسلمہ خیر امت نہیں بن سکتی.قرآن کریم کے الکتب ہونے کے متعلق اور قرآن کریم کے شریعت کی حکمتوں کے بیان کرنے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو اقتباسات بھی اس وقت میں دوستوں کو سنانا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.آج روئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلام الہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے جس کے عقاید ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو

Page 769

خطبات ناصر جلد اول ۷۵۳ خطبہ جمعہ ۱۶ جون ۱۹۶۷ء برا بین قویہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں...جس میں یہ خوبی ہے کہ کسی اعتقاد کو زبر دستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہر ایک مطلب اور مدعا کو حج اور براہین سے ثابت کرتا ہے اور ہر یک اصول کی حقیت پر دلائل واضح بیان کر کے مرتبہ یقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فسادلوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کا جاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہر یک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے.۵۸ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.” وہی معارف دقیقہ ہیں جن کو فرقان مجید میں حکمت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے.يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا (البقرة ٢٧٠) یعنی خدا جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی ہے یعنی حکمت خیر کثیر پر مشتمل ہے اور جس نے حکمت پائی اس نے خیر کثیر کو پالیا.سو یہ علوم و معارف جو دوسرے لفظوں میں حکمت کے نام سے موسوم ہیں یہ خیر کثیر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بحر محیط کے رنگ میں ہیں جو کلام الہی کے تابعین کو دئے جاتے ہیں اور ان کے فکر اور نظر میں ایک ایسی برکت رکھی جاتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے حقائق حقہ ان کے نفس آئینہ صفت پر منعکس ہوتے رہتے ہیں اور کامل صداقتیں ان پر منکشف ہوتی رہتی ہیں.غرض یہ تیئیس مقاصد ہیں جن کا تعلق بیت اللہ کی ازسر نو تعمیر سے ہے اور اس کے بیان کی ضرورت یہ پڑی کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑے زور کے ساتھ مجھے اس طرف متوجہ کیا کہ موجودہ نسل کا جو تیسری نسل احمدیت کی کہلا سکتی ہے.صحیح تربیت پانا غلبہ اسلام کے لئے اشد ضروری ہے

Page 770

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۵۴ خطبہ جمعہ ۱۶ جون ۱۹۶۷ء یعنی احمدیوں میں سے وہ جو ۲۵ سال کی عمر کے اندر اندر ہیں یا جن کو احمدیت میں داخل ہوئے ابھی پندرہ سال نہیں گزرے، اس گروہ کی اگر صحیح تربیت نہ کی گئی تو ان مقاصد کے حصول میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی جن مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جرى اللهِ فِي حُلّلِ الْأَنْبِيَاء کی شکل میں دنیا کی طرف مبعوث فرمایا اور جن مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے.پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری توجہ اس طرف پھیری کہ اس گروہ کی تربیت کے لئے جو طریق اختیار کرنے چاہئیں ان کا بیان ان آیات میں ہے جن کے اوپر میں خطبات دیتا رہا ہوں اور اگر ان مقاصد کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے اور ان کے حصول کی کوشش کی جائے تو خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہماری یہ پود صحیح رنگ میں تربیت حاصل کر کے وہ ذمہ داریاں نباہ سکے گی جو ذمہ داریاں عنقریب ان کے کندھوں پر پڑنے والی ہیں.کیونکہ میری توجہ کو اس طرف پھیرا گیا تھا کہ آئندہ بیس پچیس سال اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے بڑے ہی اہم اور انقلابی ہیں اور اسلام کے غلبہ کے بڑے سامان اسی زمانہ میں پیدا کئے جائیں گے اور دنیا کثرت سے اسلام میں داخل ہوگی یا اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہو گی.اس وقت اسی کثرت کے ساتھ ان میں مربی اور معلم چاہئیں ہوں گے وہ معلم اور مربی جماعت کہاں سے لائے گی اگر آج اس کی فکر نہ کی گئی اس لئے اس کی فکر کرو اور ان مقاصد کو سامنے رکھو جوان آیات میں بیان ہوئے ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لئے جس رنگ کی تربیت کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ کے کلام پاک کی روشنی میں اسی قسم کی تربیت اپنے نو جوانوں کو دو.تاجب وقت آئے تو بڑی کثرت سے ان میں سے اسلام کے لئے بطور مربی اور معلم کے زندگیاں وقف کرنے والے موجود ہوں تا وہ مقصد پورا ہو جائے کہ تمام بنی نوع انسان کو عَلی دِینِ وَاحِدٍ جمع کر دیا جائے گا.ان خطبات کے دوران ایک بزرگ نے مجھے لکھا کہ آپ کے جو خطبات ہو رہے ہیں ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام سے بھی ہے جو تذکر ہ “ کے صفحہ ۸۰۱ پر درج ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں :."جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت الہی کا مسئلہ سمجھتا ہے، وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو

Page 771

خطبات ناصر جلد اول ۷۵۵ خطبہ جمعہ ۱۶ جون ۱۹۶۷ء اسرار ملکوتی سے حصہ ہے.“ پس میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو میری توجہ کو اس طرف پھیرا خدا یہ چاہتا ہے کہ قوم کے بزرگ بھی اور قوم کے نوجوان بھی قوم کے مرد بھی اور قوم کی عورتیں بھی اس حکمت الہی کو سمجھنے لگیں جس حکمت الہی کا تعلق خانہ کعبہ کی بنیاد سے ہے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُولُوا الالباب ٹھہریں اور اس کی آواز کو اور اس کے احکام کو اور احکام کی حکمتوں کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں اور ان قدوسیوں کے گروہ میں شامل ہوں کہ جن پر اللہ تعالیٰ کے ہر آن فضل ہوتے رہتے ہیں.اگر چہ جو منصو بہ یا سکیم میں جماعت کے سامنے رکھوں گا اس کا اصل مقصد ان نوجوانوں کی تربیت ہے جن کی عمر اگر وہ احمدیت میں پیدا ہوئے ہیں تو ابھی ۲۵ سال تک کی ہے یا ان کی عمر اگر وہ جماعت میں نئے داخل ہونے والے ہیں تو ۱۵ سال کی ہے لیکن اس تربیت کے لئے جو ان بچوں کی ہم نے کرنی ہے ان کے بڑوں کی تربیت کرنا ضروری ہے تا کہ وہ اس نسل کی تربیت کر سکیں.پس دوسرے نمبر پر مخاطب جماعت کے سب مرد اور جماعت کی سب بہنیں ہیں جن کی عمر اس وقت ۲۵ سال سے اوپر ہے کیونکہ ان لاکھوں نوجوانوں کی تربیت جو ۲۵ سال سے کم عمر یا دوسرے لحاظ سے پندرہ سال سے کم عمر کے ہیں صرف میں اکیلا یا میرے چند ساتھی نہیں کر سکتے ہمیں ہر گھر کی تطہیر کرنی پڑے گی تا کہ ہر گھر میں پرورش پانے والا ، خدا کا سپاہی بنے اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والا ہو.ہمیں ہر محلہ ، ہمیں ہر قصبہ ، ہمیں ہر شہر کی پاکیزگی کے سامان پیدا کرنے پڑیں گے تاکہ اسی ماحول میں وہ نسل پیدا ہو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس پرا اپنی جانیں اور اپنے اوقات اور اپنی عزتیں اور اپنے اموال خرچ کرنے والے ہوں اور قربان کرنے والے ہوں.شاید مجھے یوں کہنا چاہیے کہ پہلے بڑوں کی تربیت کرنا ضروری ہے تا ان کے ذریعہ سے ان چھوٹوں کی تربیت کی جاسکے جن پر بڑی ہی اہم ذمہ داریاں عنقریب پڑنے والی ہیں.یا درکھیں اگر ہم نے اس میں غفلت برتی تو ہم پر تو خدا کا غضب نازل ہوگا اور ایک اور قوم پیدا کی جائے گی جو خدا کے وعدوں کی وارث بنے گی پس اپنی جانوں کی فکر کرو اور ان ذمہ داریوں کے نباہنے کے لئے

Page 772

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۵۶ خطبہ جمعہ ۱۶ جون ۱۹۶۷ء تیار ہو جاؤ جو الہی منشا کے مطابق ایک سکیم کے ماتحت میں آپ پر ڈالنے والا ہوں اور جن کے متعلق انشاء اللہ تعالیٰ اور اسی کی توفیق سے آئندہ خطبات میں میں اپنے خیالات کا اظہار کروں گا.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ جون ۱۹۶۷ء صفحه ۱ تا ۵)

Page 773

خطبات ناصر جلد اول ۷۵۷ خطبہ جمعہ ۲۳ / جون ۱۹۶۷ء میں بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اُمید کرتا ہوں کہ ہر احمدی گھرانہ میرے ساتھ اس میں شریک ہوگا خطبه جمعه فرموده ۲۳ جون ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.پچھلے چند دن سے دوران سر اور بلڈ پریشر کی زیادتی اور گرمی اور ڈیپریشن کی وجہ سے مجھے تکلیف رہی ہے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے اور بہت سا افاقہ ہو چکا ہے لیکن ابھی تکلیف کا ایک حصہ باقی ہے.آج گرمی بھی بڑی ہے.میں کوشش کروں گا کہ جس حد تک ممکن ہو آج کے خطبہ کو مختصر کروں.قبل اس کے کہ میں اپنے اصل مضمون کی طرف آؤں.میں احباب سے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں.دوست جانتے ہیں کہ یورپ میں انگلستان کے علاوہ ہماری پانچویں مسجد پایہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے اور ۲۲ / جولائی کا دن اس کے افتتاح کے لئے مقرر ہوا ہے.وہاں کے دوستوں کی یہ خواہش تھی کہ میں خود اس مسجد کا افتتاح کروں اور جب ہم اس تجویز پر غور کر رہے تھے.تو دوسرے ممالک جو یورپ میں ہیں جہاں ہمارے مبلغ ہیں اور مساجد ہیں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر افتتاح کے لئے آپ نے آنا ہے تو اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام مشنز کا دورہ بھی کریں ، حالات کو دیکھیں ، ضرورتوں کا پتہ لیں اور اس کے مطابق سکیم اور منصوبہ تیار کریں.

Page 774

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۵۸ خطبہ جمعہ ۲۳ / جون ۱۹۶۷ء پھر انگلستان والوں کا یہ مطالبہ ہوا کہ اگر یورپ میں آنا ہے تو انگلستان کو بھی جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بڑی جماعت پیدا ہو گئی ہے اپنے دورہ میں شامل کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے صرف لنڈن میں قریباً پانچ سواحمدی موجود ہیں بڑی جماعت تو لنڈن میں پائی جاتی ہے لیکن بعض دوسرے مقامات پر خاصی بڑی جماعتیں پائی جاتی ہیں.اس سلسلہ میں بعض دوستوں کو دعا کے لئے اور استخارہ کے لئے میں نے لکھا تھا بہت سی خوا میں تو بڑی مبشر آئی ہیں بعض خوا ہیں ایسی بھی (جن میں سے بعض تو میں نے دیکھی ہیں ) جن سے معلوم ہوتا ہے کہ واپسی پر راستہ میں شائد کچھ تکلیف بھی ہولیکن وہ قادر تو انا جو وقت سے پہلے اس تکلیف کے متعلق اطلاع دے سکتا ہے وہ اگر چاہے تو ان تکالیف کو دور بھی کر سکتا ہے اور اسی سے نفرت اور امداد کے ہم طالب ہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ تمام دوست اس سفر کے متعلق دعائیں کریں اور خدا تعالیٰ سے خیر کے طالب ہوں اگر یہ سفر مقدر ہو تو اسلام کی اشاعت اور غلبہ کے لئے خیر و برکت کے سامان پیدا ہوں.خدا جانتا ہے کہ سیر و سیاحت کی کوئی خواہش دل میں نہیں نہ کوئی اور ذاتی غرض اس سے متعلق ہے.دل میں صرف ایک ہی تڑپ ہے اور وہ یہ کہ میرے رب کی عظمت اور جلال کو یہ تو میں بھی پہچانے لگیں جو سینکڑوں سال سے کفر اور شرک کے اندھیروں میں بھٹکتی پھر رہی ہیں اور انسانیت کے محسن اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دلوں میں قائم ہو جائے تاکہ وہ ابدی زندگی اور ابدی حیات کے وارث ہونے والے گروہ میں شامل ہو جائیں ، تا ان کی بدبختی دور ہو جائے تا شیطان کی لعنت سے وہ چھٹکارا پالیں تا شرک کی نحوست سے وہ آزاد ہو جائیں تا بد رسوم کی قیود سے وہ باہر نکالے جائیں اور خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی محبت اور اس کے حسن اور اس کے احسان اور اس کے نور کے جلوے وہ دیکھنے لگیں ، تا وہ وعدہ پورا ہو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے دیا تھا کہ میں تیرے فرزند جلیل کے ذریعہ سے تمام قوموں کو تیرے پاؤں کے پاس لا جمع کروں گا ، تا وہ دل جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے نا آشنا ہیں اور وہ زبانیں جو آج آپ پر طعن کر رہی ہیں وہ دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے بھر جائیں اور ان

Page 775

خطبات ناصر جلد اول ۷۵۹ خطبہ جمعہ ۲۳ / جون ۱۹۶۷ء زبانوں پر درود جاری ہو جائے اور تمام ملکوں کی فضا نعرہ ہائے تکبیر اور درود سے گونجنے لگے اور وہ فیصلے جو آسمان پر ہو چکے ہیں زمین پر جاری ہو جائیں.پس میری درخواست ہے تمام احباب جماعت سے اپنے بھائیوں سے بھی اور بہنوں سے بھی، بڑوں سے بھی اور چھوٹے بچوں سے بھی کہ وہ ان دنوں خاص طور پر دعا کریں کہ اگر یہ سفر مقدر ہو تو اللہ تعالیٰ پوری طرح اسے بابرکت کر دے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اسلام کو اس سفر کے ذریعہ سے ہو اور اس عاجز اور کم مایہ انسان کی زبان میں ایسی برکت اور تاثیر رکھے کہ خدا کی توحید کے جو بول میں وہاں بولوں وہ لوگوں کے دلوں پر اثر کرنے والے ہوں اور میری ہر حرکت اور سکون کا اثر ان کے اوپر ہو اور ان کے دل اپنے رب کی طرف اور قرآن کریم کی طرف اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور اسلام کی طرف متوجہ ہونے لگیں اور غفلت کے جو پر دے ان کی آنکھوں اور ان کے دلوں اور ان کی عقلوں پر پڑے ہوئے ہیں خدا ان پردوں کو اُٹھا دے اور خدا کا حسن اور اس کا جلال نمایاں ہو کر ان کی آنکھوں کے سامنے ، بصارت اور بصیرت کے سامنے چمکنے لگے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسین چہرہ ان کے سامنے کچھ اس شان کے ساتھ ظاہر ہو جائے کہ وہ تمام دوسرے حسنوں کو بھول جائیں اور اسی کے ہوکر رہ جائیں.پس بہت دعائیں کریں بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس سفر کو مبارک کرے اور اللہ تعالیٰ میری غیر حاضری میں بھی جماعت کو ہر فتنہ سے محفوظ رکھے وہی سب کام بنانے والا ہے.لیکن دل جہاں آپ کی جدائی سے غم محسوس کرتا ہے وہاں یہ خیال بھی آتا ہے کہ ایسے موقعہ پر بعض منافق فتنے بھی پیدا کیا کرتے ہیں تو جماعت کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے منافقوں کو فو را د بادے.میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر بعض منافق طبع فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر شروع میں ہی ان کو اس رنگ میں سمجھایا جائے کہ یہ جماعت خدا کے فضل سے اتنی مضبوط ہے کہ تمہارے فتنوں سے متاثر نہیں ہوگی، اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں سزا دینے والے بھی یہاں موجود ہیں تو پھر یہاں تک نوبت نہیں پہنچتی کہ ضرور ایسے لوگوں کو سزا دی جائے ان کو سمجھ آجاتی ہے کہ ہماری دال اس قوم میں گلتی نہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے چوکس جماعت ہے قربانی

Page 776

خطبات ناصر جلد اول 24.خطبہ جمعہ ۲۳ / جون ۱۹۶۷ء کرنے والی جماعت ہے حالات کو سمجھنے والی جماعت ہے شیطان جن راہوں سے دل کے اندر گھس کے وسوسے پیدا کرتا ہے ان راہوں کو پہچانتی ہے اور شیطان کی جو دھیمی آواز ہے اس سے اچھی طرح واقف ہے کیونکہ وہ اس پر شوکت آواز سے واقف ہے جو خدا کی طرف سے آتی ہے تو جس آواز میں وہ شوکت نہ ہو، وہ عظمت نہ ہو، وہ سرور اور لذت نہ ہو، اس کو یہ جانتے ہیں کہ یہ ہمارے خدا کی آواز نہیں ہے، یہ صرف شیطان کی آواز ہے.اگر یہ چیز میں ایسے لوگوں پر ظاہر ہو جا ئیں تو پھر بہت سے فتنوں سے جماعت بچ جاتی ہے.تو اس خیال سے بھی تشویش پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہیے، یہ طبعی چیز ہے.لیکن جو علم میں ذاتی مشاہدہ اور اللہ تعالیٰ کے سمجھانے پر اس جماعت کے متعلق رکھتا ہوں.اس سے مجھے یہ تسلی ہے کہ خواہ کتنا ہی بڑا فتنہ ہو انشاء اللہ اس کے فضل کے ساتھ یہ جماعت اس قسم کی باتوں سے متاثر ہونے والی نہیں لیکن بہر حال چوکس اور ہوشیار رہنا چاہیے.تو یہ سوچ کے کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا اور اس سفر میں اس نے برکت مقدر کی اور اس کے سامان پیدا کر دیئے کم و بیش ایک ماہ کے لئے آپ سے دور رہنا پڑے گا.طبیعت میں ایک اداسی بھی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک تشویش کا رنگ بھی ہے گو اس کے ساتھ امید بھی ہے کہ جماعت اس قسم کی باتوں کو کبھی پنپنے نہیں دے گی جو فتنے کی ہوں.بہر حال میں درخواست کرتا ہوں آپ سب سے بھائیوں سے بھی ، بہنوں سے بھی ، بڑوں سے بھی اور چھوٹوں سے بھی ، کہ ان ایام میں خاص طور پر بہت دعائیں کریں، ایک یہ کہ اگر یہ سفر خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے اظہار کا موجب بننا ہو اور اسلام کی شوکت اس سے ظاہر ہونی ہو تبھی مجھے اس سفر پر جانے کی توفیق ملے اور جب میں جاؤں تو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ وہ پیغام جو حقیقتاً خدا کا پیغام ہے جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف لے کے آئے جسے دنیا اب بھول چکی تھی اور اب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل کی حیثیت سے دنیا پر ظاہر ہوئے وہ پیغام دنیا کو پہنچایا اسی غرض سے آپ کی بعثت ہوئی تو یہ پیغام صحیح طور پر اور ایسے رنگ میں کہ وہ تو میں اس پیغام کو سمجھنے لگیں

Page 777

خطبات ناصر جلد اول ۷۶۱ خطبہ جمعہ ۲۳ / جون ۱۹۶۷ء ان تک پہنچانا اس سفر کی غرض ہے اور یہی ایک مقصد ہے تو اللہ تعالیٰ اگر توفیق دے تو ایسے رنگ میں ان کو پیغام پہنچادیا جائے کہ ان پر اتمام حجت ہو جائے کیونکہ جب تک کسی قوم پر اتمام حجت نہ ہو وہ انذاری پیشگوئیاں پوری نہیں ہوا کرتیں جو ان کے انکار کی وجہ سے ان کے حق میں خدا تعالیٰ نے قبل از وقت اپنے رسول کو دی ہوں.تو خدا کرے کہ وہ انذار وہ تنبیہ وہ جھنجھوڑ نا میرے لئے ممکن ہو جائے یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کا پہنچانا صحیح رنگ میں اور موثر طریق پر ممکن ہو جائے تا کہ یا تو وہ اسلام کی طرف مائل ہوں ایک خدا کو ماننے لگیں ، تو حید کو پہچاننے لگیں ، اللہ تعالیٰ کو ایک اپنی ذات میں اور ایک اپنی صفات میں سمجھنے لگیں ، جس رنگ میں کہ اسلام نے اللہ تعالیٰ کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور یا پھر ایسے رنگ میں ان پر اتمام حجت ہو جائے کہ وہ انداری پیشگوئیاں جن کو پڑھ کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور جن کا تعلق تمام منکرین اسلام سے ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی ہیں، وہ اتمام حجت کے بعد ان کے حق میں پوری ہوں تا اسلام اور مذاہب عالم کے درمیان جو فیصلہ ہونا مقدر ہے وہ جلد ہو جائے اور دنیا یا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت کے سائے میں آ کر بچ جائے یا خدائی قہر کی تپش میں جا کر ہلاک ہو جائے اور اس قضیہ کا فیصلہ ہماری زندگی میں ہی ہو جائے کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے.پھر میں تاکیداً کہتا ہوں کہ ان دنوں میں دوست دعائیں کریں اس سفر کے بابرکت ہونے کے لئے اور اسلام کے غلبہ کے لئے اور توحید باری کے قیام کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے ان قوموں پر ظاہر ہونے کے لئے اور اس بات کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اصلاح کا موقع دے اور ان پر فضل کرتے ہوئے انہیں اس بات کی توفیق دے کہ وہ اسے اور اس کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانے لگیں.اب میں اختصار کے ساتھ اصل مضمون کی طرف آتا ہوں میں نے اس سلسلہ خطبات کے پہلے دو خطبے اپنی بہنوں کو مخاطب کر کے دیئے تھے اب میں اپنی سکیم میں بھی پہلے انہیں ہی مخاطب کرتا ہوں پچھلے خطبوں میں میں نے بتایا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی نسل میں اس عظیم عبد کو پیدا کرے جو کامل عبد کی شکل میں دنیا پر

Page 778

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۶۲ خطبہ جمعہ ۲۳ / جون ۱۹۶۷ء ظاہر ہوا اور جس کی تعلیم کے نتیجہ میں دنیا میں خالص تو حید قائم ہو.بات یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَريكَ لَهُ کی شہادت ہم صرف اس صورت میں ہی دے سکتے ہیں جب ہمیں مُحَمَّدٌ عَبْدُهُ وَرَسُولُه کی پوری معرفت اور عرفان حاصل ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عبد کامل کی صورت میں دنیا میں ظہور پذیر ہوئے تا توحید خالص دنیا میں قائم ہو.ہماری جماعت کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ توحید خالص کو اپنے نفسوں میں بھی اور اپنے ماحول میں بھی قائم کریں اور شرک کی سب کھڑکیوں کو بند کر دیں ہمارے گھروں میں صرف توحید کے دروازے ہی کھلے رہیں اور شرک کی سب راہوں کو ہم کلیۂ چھوڑ دیں اور توحید کی راہوں پر بشاشت کے ساتھ چلنے لگیں ہم بھی اور ہمارے بھائی بھی اور نوع انسان کے رشتہ سے جو ہمارے بھائی ہیں وہ بھی اس توحید خالص کی تعلیم پر قائم ہو جائیں.توحید کے قیام میں ایک بڑی روک بدعت اور رسم ہے یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر بدعت اور ہر بدرسم شرک کی ایک راہ ہے اور کوئی شخص جو توحید خالص پر قائم ہونا چاہے وہ تو حید خالص پر قائم نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمام بدعتوں اور تمام بد رسوم کو مٹانہ دے..ہمارے معاشرے میں خاص طور پر اور دنیا کے مسلمانوں میں عام طور پر بیبیوں سینکڑوں شاید ہزاروں بدر سمیں داخل ہو چکی ہیں.احمدی گھرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام بد رسوم کو جڑ سے اکھیڑ کے اپنے گھروں سے باہر پھینک دیں چونکہ بد رسوم کا مسلم معاشرہ میں داخلہ زیادہ تر عورتوں کی راہ سے ہوتا ہے اس لئے آج میری پہلی مخاطب میری بہنیں ہی ہیں گو عام طور پر تمام احباب جماعت اور افراد جماعت مرد ہوں یا عورتیں وہ میرے مخاطب ہیں.میں نے بتایا ہے کہ سینکڑوں ہزاروں بدرسوم ہمارے معاشرہ میں ہماری زندگی میں داخل ہو چکی ہیں کچھ پنجاب میں ہوں گی، کچھ دوسری سرحد میں ہوں گی ، کچھ سندھ میں ہوں گی.کچھ مصر میں کچھ انڈونیشین احمدیوں میں آگئی ہوں گی ہم نے ہر گھر اور ہر مقام اور ہر شہر اور ہر ملک کے احمدی گھرانوں سے ان بدرسوم کو باہر نکال کے پھینکنا ہے یہ ہمارا مقصد ہے اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاسکتا کیونکہ مجھے تکلیف

Page 779

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۶۳ خطبہ جمعہ ۲۳ / جون ۱۹۶۷ء بھی ہے اور گرمی بھی بہت ہے.لیکن میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کو اے میری محترم بہنو! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اشتہار پڑھ کر سناؤں ایک ایسا اشتہار جو حضور نے ۱۸۸۵ء میں دیا تھا اس کے بعض حصے میں سنانا چاہتا ہوں آپ غور سے سنیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اشتہار بغرض تبلیغ و انذار چونکہ قرآن شریف و احادیث صحیحہ نبویہ سے ظاہر وثابت ہے کہ ہر یک شخص اپنے کنبہ کی عورتوں وغیرہ کی نسبت جن پر کسی قدر اختیار رکھتا ہے سوال کیا جائے گا کہ آیا بے راہ چلنے کی حالت میں اس نے ان کو سمجھایا اور راہ راست کی ہدایت کی یا نہیں.اس لئے میں نے قیامت کی باز پرس سے ڈر کر مناسب سمجھا کہ ان مستورات و دیگر متعلقین کو ( جو ہمارے رشتہ داروا قارب و واسطہ دار ہیں) ان کی بے راہیوں و بدعتوں پر بذریعہ اشتہار کے انہیں خبر دار کروں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے، گلے کا ہار ہو رہی ہیں اور اُن بری رسموں اور خلاف شرع کاموں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے.ہر چند سمجھایا گیا، کچھ سنتے نہیں ہر چند ڈرایا گیا، کچھ ڈرتے نہیں اب چونکہ موت کا کچھ اعتبار نہیں اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے بڑھ کر اور کوئی عذاب نہیں اس لئے ہم نے ان لوگوں کے بُرا ماننے اور بُرا کہنے اور ستانے اور دکھ دینے سے بالکل لا پروا ہو کر محض ہمدردی کی راہ سے حق نصیحت پورا کرنے کے لئے بذریعہ اس اشتہار کے ان سب کو اور دوسری مسلمان بہنوں اور بھائیوں کو خبر دار کرنا چاہا تا ہماری گردن پر کوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے اور قیامت کو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم کو کسی نے نہیں سمجھایا اور سیدھا راہ نہیں بتایا.سو آج ہم کھول کر بآواز بلند کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین اسلام کی راہ اختیار کی جائے

Page 780

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۶۴ خطبہ جمعہ ۲۳ / جون ۱۹۶۷ء اور جو کچھ اللہ جلشانہ، نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی ہے اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیر میں نہ دائیں اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں اور اس کے برخلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں.لیکن ہمارے گھروں میں جو بدر سمیں پڑ گئی ہیں اگر چہ وہ بہت ہیں مگر چند موٹی موٹی رسمیں بیان کی جاتی ہیں تانیک بخت عورتیں خدا تعالیٰ سے ڈر کر ان کو چھوڑ دیں اور وہ یہ ہیں :.(1) ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیا پا کرنا اور چیخیں مار کر رونا اور بے صبری کے کلمات منہ پر لانا یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوؤں سے لی گئی ہیں.جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوؤں کی رسمیں پکڑ لیں کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ صرف إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ کہیں یعنی ہم خدا کا مال اور ملک ہیں اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہوتو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ ہے وہ شیطان سے ہے.(۲) دوم برابر ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیا پا کرنا اور با ہم عورتوں کا سر ٹکرا کر چلا کر رونا اور کچھ کچھ منہ سے بھی بکواس کرنا اور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر میں یا ہماری برادری میں ماتم ہو گیا ہے یہ سب نا پاک رسمیں اور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پر ہیز کرنا چاہیے.(۳) سوم سیا پا کرنے کے دنوں میں بے جا خرچ بھی بہت ہوتے ہیں حرام خور عورتیں شیطان کی بہنیں جو دُور دُور سے سیا پا کرنے کے لئے آتی ہیں اور مکر اور فریب سے منہ کو ڈھانک کر اور بھینسوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا کر چیچنیں مار کر روتی ہیں ان کو اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے ہیں اور اگر مقدور ہو تو اپنی شیخی اور بڑائی جتانے کے لئے صد اروپیہ کا پلاؤ اور زردہ پکا کر برادری وغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے اس غرض سے کہ تالوگ

Page 781

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۳ /جون ۱۹۶۷ء واہ واہ کریں کہ فلاں شخص نے مرنے پر اچھی کرتوت دکھلائی اچھا نام پیدا کیا.سو یہ سب شیطانی طریق ہیں جن سے تو بہ کر نا لا زم ہے.(۴) اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیسا کوئی بڑا بھارا گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور را نڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہوگئی ہوں.حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے.ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے جس عورت کو اللہ، رسول پیارا ہے اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے.(۸) ہماری قوم میں یہ بھی ایک نہایت بد رسم ہے کہ دوسری قوم کولڑ کی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے یہ سراسر تکبر اور نخوت کا طریق ہے جو سراسر احکام شریعت کے برخلاف ہے بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں رشتہ ناطہ میں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا نہیں جو موجب فتنہ ہو اور یا درکھنا چاہیے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں.صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ انْقَكُم یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پرہیز گار ہے.(۹) ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ شادیوں میں صد ہاروپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے سو یا درکھنا چاہیے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھا جی تقسیم کرنا اور اس کا دینا

Page 782

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۳ /جون ۱۹۶۷ء اور کھانا یہ دونوں باتیں عند الشرع حرام ہیں اور آتش بازی چلوانا اور کنجروں اور ڈوموں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے گناہ سر پر چڑھتا ہے صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے.(۱۰) ہمارے گھروں میں شریعت کی پابندی کی بہت سستی ہے ( یہ ایک بنیادی چیز ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے ) بعض عورتیں زکوۃ دینے کے لائق اور بہت ساز یوران کے پاس ہے وہ زکوۃ نہیں دیتیں.بعض عورتیں نماز روزہ کے ادا کرنے میں بہت کو تا ہی رکھتی ہیں بعض عورتیں شرک کی رسمیں بجالاتی ہیں جیسے چیچک کی پوجا بعض فرضی بیویوں کی پوجا کرتی ہیں بعض ایسی نیازیں دیتی ہیں جن میں یہ شرط لگا دیتی ہیں کہ عورتیں کھاویں کوئی مرد نہ کھاوے یا کوئی حقہ نوش نہ کھاوے بعض جمعرات کی چوکی بھرتی ہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب شیطانی طریق ہیں ہم صرف خالص اللہ کے لئے ان لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ آؤ خدا تعالیٰ سے ڈرو ورنہ مرنے کے بعد ذلت اور رسوائی سے سخت عذاب میں پڑو گے اور اس غضب الہی میں مبتلا ہو جاؤ گے جس کا انتہا نہیں.وَالسَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدی.خاکسار غلام احمد از قادیان بعض حصے اس میں سے میں نے چھوڑ دیئے ہیں بہر حال اس وقت جیسا کہ میں نے بتایا ہے رسوم تو بہت سی دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان میں سے بعض احمدی گھرانوں میں بھی یا گھس گئی ہیں یا گھس رہی ہیں اور اس تفصیل میں جانا میرے لئے ممکن نہیں میں نے چند مہینے ہوئے مختلف علاقوں سے مربیوں کے ذریعہ بدعات کے متعلق اور بد رسوم کے متعلق معلومات حاصل کی تھیں اور کسی وقت اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی تو بعض رسوم کے متعلق تفصیل سے بھی بیان کروں گا لیکن اس وقت اصولی طور پر ہر گھرانے کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں.اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی

Page 783

خطبات ناصر جلد اول 272 خطبہ جمعہ ۲۳ / جون ۱۹۶۷ء طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے وہ اس طرح جماعت سے نکال کے باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے مکھی.پس قبل اس کے کہ خدا کا عذاب کسی قہری رنگ میں آپ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہوا اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمریں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ مہنگا سودا نہیں سستا سودا ہے.پس آج میں اس مختصر سے خطبہ میں ہر احمدی کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق اور جماعت احمدیہ میں اس پاکیزگی کو قائم کرنے کے لئے جس پاکیزگی کے قیام کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے ہر بدعت اور بدرسم کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے اور اپنے گھروں کو پاک کرنے کے لئے شیطانی وسوسوں کی سب را ہوں کو اپنے گھروں پر بند کر دیں گے دعاؤں کے ذریعہ اور کوشش کے ذریعہ اور جد و جہد کے ذریعہ اور حقیقتاً جو جہاد کے معنی ہیں اس جہاد کے ذریعہ اور صرف اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کی تو حید دنیا میں قائم ہو، ہمارے گھروں میں قائم ہو، ہمارے دلوں میں قائم ہو ، ہماری عورتوں اور بچوں کے دلوں میں قائم ہو اور اس غرض سے کہ شیطان کے لئے ہمارے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے جائیں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی ہر قسم کی نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے.(روز نامه الفضل ربوہ ۲ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۱ تا ۵)

Page 784

Page 785

خطبات ناصر جلد اول ۷۶۹ خطبہ جمعہ ۳۰ جون ۱۹۶۷ء والدین کو چاہیے کہ وہ چندہ وقف جدید کی اہمیت بچوں پر واضح کریں تا کہ ہر احمدی بچہ شوق سے اس میں حصہ لے خطبه جمعه فرموده ۳۰ / جون ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.وہ مسکیم جس کی طرف میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا تھا اور جو جماعت میں جاری کرنا چاہتا ہوں وہ قریباً ساٹھ ستر حصوں پر منقسم ہے.اگر میں اس مضمون کو آج کے خطبہ میں شروع کروں تو پہلے حصے اور بعد کے حصوں میں کئی ہفتوں کا فرق پڑ جائے گا اس لئے میں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یورپ کے سفر سے واپسی پر جماعت کے سامنے میں اپنی سکیم کو رکھوں گا وَ بِاللهِ التَّوْفِيقُ اس وقت میں بعض دیگر نہایت ضروری امور کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہیں.میں نے جماعت کی توجہ اس طرف پھیری تھی اور تلقین کی تھی کہ وہ قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے کی طرف بہت توجہ کریں جماعت کو یہ یادرکھنا چاہیے کہ احمدیت کی ترقی اور اسلام کا غلبہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم خود کو بھی اور اپنے ماحول کو بھی قرآن کریم کے انوار سے منور کریں اور منور رکھیں.اگر ہم ایسا نہ کریں تو ایک طرف ہم اپنے نفسوں پر اور اپنی نسلوں پر ظلم کر رہے ہوں گے اور دوسری طرف ہم عملاً اس بات میں شیطان کے محمد بن رہے ہوں گے کہ اسلام کے غلبہ میں التوا پڑ جائے.پس یہ ایک نہایت ہی اہم فریضہ ہے جسے ہم میں سے ہر ایک نے ادا کرنا ہے.

Page 786

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۳۰ جون ۱۹۶۷ء باہر سے جو اطلاعات آرہی ہیں ان سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ بعض جماعتیں اور بہت سی جماعتوں کے بعض افراد قرآن کریم کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور قرآن کریم کی عملاً وہ قدر کر رہے ہیں جو قرآن کریم کا حق ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی بعض جماعتوں کے متعلق یہ رپورٹ ہے کہ وہ اس اہم فریضہ کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے اور قریباً ہر جماعت کے بعض افراد کے متعلق یہ اطلاع ہے کہ وہ اس فریضہ کی اہمیت کو ابھی تک سمجھ نہیں رہے اس لئے میں آج مختصر الفاظ میں پھر اپنے بھائیوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اس بات کی طرف کہ یہ کوئی معمولی چیز نہیں یہ کوئی معمولی کام نہیں، یہ کوئی معمولی فریضہ نہیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے اور جس کی طرف آپ کو میں نے توجہ دلائی ہے بلکہ فرائض میں سے ایک بنیادی فریضہ ہے.اگر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی شریعت آخری شریعت ہے ایک کامل اور مکمل شریعت ہے جس کے بعد کسی دوسری شریعت کی ضرورت ہمارے لئے باقی نہیں رہتی تو پھر ہم کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں جو ہمیں اپنے رب کی طرف سے ملنا تھا وہ مل چکا.اگر ہم خدا کے اس عطیہ کی قدر نہ کریں تو ہم بڑے ہی ظالم ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر وارد کرنے والے ہوں گے.پس اپنی ذمہ واری کو سمجھتے ہوئے خود بھی قرآن پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی قرآن پڑھا ئیں.خود بھی قرآن کریم کے معنی سیکھیں اور آئندہ نسل کو بھی قرآن کریم کے معنی سکھائیں.خود بھی قرآن کریم کی تفسیر سیکھنے کی کوشش کریں اور بہترین تفسیر اس وقت ہمارے ہاتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی تفسیر ہے تو خود بھی قرآن شریف کی تفسیر سیکھنے کی کوشش کریں اور اپنے بچوں کے دل میں بھی یہ محبت پیدا کریں کہ وہ قرآن کے علوم اور اس کے معارف اور اس کے دلائل اور اس کی برکات سے آگاہ ہوں اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اس سلسلہ میں میں سمجھتا ہوں کہ احمدی مستورات پر بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے کیونکہ چھوٹے بچوں کی نگرانی کا کام ان کے ذمہ ہے پھر وہ ماں جو قرآن کریم پڑھنا جانتی ہے مگر اپنے بچے کو پڑھاتی نہیں وہ ایک ظالم ماں ہے اور ہر وہ ماں جو قرآن کریم کے معنی جانتی ہے مگر اپنے بچوں کو وہ معانی نہیں سکھاتی وہ قرآن کریم کی قدر نہیں کر رہی قرآن کی قدر کو پہچانتی نہیں اور

Page 787

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۳۰ جون ۱۹۶۷ء ان روحانی نعمتوں اور برکات سے خود کو بھی محروم کر رہی ہے اور اپنی نسل کو بھی آگے محروم کر رہی ہے اور ہر وہ ماں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے قرآن کریم کے اسرار روحانی سمجھنے کی توفیق عطا کی ہے.اگر وہ ان اسرار روحانی کو اپنی نسل میں آگے نہیں چلاتی اس سے بڑھ کر ظلم کرنے والی کوئی ماں نہیں ہے.دوسری اور تیسری چیز جس کی طرف آج میں دوستوں کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں وہ تحریک جدید کا دفتر سوم اور وقف جدید میں جو بچوں میں تحریک کی گئی تھی یہ دو باتیں ہیں.دفتر سوم کی طرف بھی جماعت نے ابھی پوری توجہ نہیں دی ہزاروں احمدی ایسے ہیں جو تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہے اور ان میں سے بڑی بھاری اکثریت ہماری احمدی مستورات کی ہے جیسا کہ دفتر کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ جماعت میں ہزاروں احمدی بہنیں ایسی ہیں اور ہزاروں احمدی بچے اور نوجوان ایسے ہیں اور ہزاروں احمدی بالغ مرد ایسے ہیں جنہوں نے ابھی تک تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں اور اس کی برکات سے وہ واقف ہی نہیں اسلام کی ضرورتوں سے وہ آگاہ ہی نہیں ان ضرورتوں کے پیش نظر ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اس سے غافل ہیں.پس تحریک جدید کے دفتر سوم کی طرف خصوصاً احمدی مستورات اور عموماً وہ تمام احمدی مرد اور بچے اور نوجوان جنہوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی وہ اس طرف متوجہ ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں.میں نے یہ کہا تھا کہ وقف جدید میں اگر ہمارے بچے دلچسپی لینے لگیں اور صحیح معنی میں دلچسپی لینے لگیں تو میں سمجھتا ہوں کہ وقف جدید کا سارا مالی بار ہمارے بچے بڑی آسانی سے اپنے کندھوں پر اُٹھا سکتے ہیں لیکن بچے اپنی نا کبھی کی وجہ سے کیونکہ ان میں سے بہتوں کی عمر ہی ایسی ہے جو اس ذمہ داری کو سمجھ ہی نہیں سکتی لیکن بہت سی مائیں اپنی جہالت کی وجہ سے بچوں کو اس طرف متوجہ نہیں کر رہیں.لجنہ کی یہ رپورٹ ہے کہ بہت سی مائیں ربوہ میں بھی ایسی پائی جاتی ہیں جن کو احساس ہی نہیں ہے کہ ان کے بچوں کو وقف جدید کے مالی بار کے اٹھانے کی طرف متوجہ ہونا

Page 788

خطبات ناصر جلد اول ۷۲ خطبہ جمعہ ۳۰/ جون ۱۹۶۷ء چاہیے.جو بچہ روپیہ یا ڈیڑھ روپیہ یا اٹھنی یا چونی گندی چیزوں کے کھانے پر صرف کرتا اور صحت کو خطرہ میں ڈالتا ہے اگر اس کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ یہ چند آنے تم وقف جدید میں دو اور اس طرح اپنی روحانی صحت کے بنانے کی کوشش کرو اور وقف جدید کی اہمیت ان پر واضح کی جائے اور احمدی بچے کی جو شان ہے اور اللہ تعالیٰ اسے جس مقام پر دیکھنا چاہتا ہے وہ شان اور وہ مقام اسے اچھی طرح سمجھایا جائے اس زبان میں جس زبان میں کہ بچہ سمجھ سکتا ہے.چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی اگر اس کی زبان میں بات کی جائے تو بڑی گہری باتوں کو بھی سمجھنے کے قابل ہوتا ہے.شرط صرف یہ ہے کہ اس کی زبان میں بات کی جائے سادہ طریقہ سے اس کو سمجھایا جائے تو وہ سمجھ سکتا ہے بلکہ بعض بوڑھوں سے بعض دفعہ بعض بچے زیادہ جلدی سمجھ جاتے ہیں اور زیادہ شوق سے اپنی ذمہ داری کو نباہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نہ مائیں اس طرف متوجہ ہیں اور نہ باپوں کو کچھ خیال ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو نبا ہیں..اس وقت تک میں سمجھتا ہوں کہ جو ذمہ داری میں نے وقف جدید کے سلسلہ میں احمدی بچوں پر ڈالی تھی جماعت کے احمدی بچوں میں سے ابھی ۲۰ فیصدی بمشکل ایسے ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا ہے اور اس کی ادائیگی کی کوشش کر رہے ہیں باقی اسی فیصدی بچے جماعت کے ایسے ہیں کہ جو اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھ رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں اس کی ادائیگی کی طرف بھی متوجہ نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کے اسی فیصدی باپ اور جماعت کی اسی فیصدی مائیں ایسی ہیں جنہیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کے لئے خدا کی رضا کی جنت کو کس طرح پیدا کرنا ہے کیا آپ اس بات کو پسند کریں گی اے احمدی بہنو! اور کیا آپ اس بات کو پسند کریں گے اے احمدی بھائیو!! کہ آپ کو تو خدا کی رضا کی جنت نصیب ہو جائے لیکن آپ کے بچے اس جنت کے دروازے سے دھتکارے جائیں اور دوزخ کی طرف ان کو بھیج دیا جائے یقیناً آپ میں سے کوئی بھی اس بات کو پسند نہیں کرے گا جب آپ ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تو پھر آپ ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور بچوں کے دلوں میں دین کی راہ میں قربانیاں دینے کا شوق پیدا کریں.

Page 789

خطبات ناصر جلد اول ۷۷۳ خطبہ جمعہ ۳۰ جون ۱۹۶۷ء ہماری جماعت میں امیر بھی ہیں اور غریب بھی ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ ہر بچہ اٹھنی دے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہر بچہ جتنا دے سکتا ہے ضرور دے اگر وہ دھیلا دے سکتا ہے، اگر وہ ایک پیسہ دے سکتا ہے، اگر وہ ایک آنہ دے سکتا ہے دونی دے سکتا ہے، چونی دے سکتا ہے تو اتنا اس کو ضرور دینا چاہیے ورنہ آج اس کے دل میں اسلام کی محبت کا وہ بیچ نہیں بویا جائے گا جو بڑے ہو کر درخت بنتا اور شیریں پھل لاتا ہے.پس اپنی نسلوں پر رحم کرو اور اپنے بچوں سے اس محبت کا اظہار کرو جو ایک مسلمان ماں اپنے بچے سے کرتی ہے اور اس پیار کا اس سے سلوک کرو جو ایک مسلمان باپ اپنے بچے سے کرتا ہے اور ان بچوں کے دل میں سلسلہ کے لئے قربانیوں کا شوق پیدا کرو اور ان کے دل میں یہ احساس پیدا کرو کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انسان کو بہر حال جد و جہد اور کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے بغیر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوتی.اگر انسان خدا کی راہ میں قربانیاں نہ دے تو اس کے نتیجہ میں شیطان تو خوش ہو سکتا ہے مگر خدا خوش نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور ان کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوہ 9 جولائی ۱۹۶۷ ء صفحہ ۲، ۳)

Page 790

Page 791

خطبات ناصر جلد اول ۷۷۵ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء غلبہ اسلام خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق اس دنیا میں ضرور ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.اُس کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں مٹا سکتی خطبه جمعه فرمودہ ۷ / جولائی ۱۹۶۷ ء بمقام کراچی تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دوست جانتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ کل صبح اُداس مگر پر امید اور پریقین دل کے ساتھ یورپ کے سفر پر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہورہا ہوں.اس سفر کی وجہ تو یہ بنی کہ کوپن ہیگن میں ہماری احمدی بہنوں کے چندہ سے ایک مسجد تیار ہو رہی ہے جو قریباً مکمل ہو گئی ہے.اس مسجد کے افتتاح کے لئے بعض دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ مجھے وہاں جانا چاہیے مسجد کے افتتاح کا تو ایک بہانہ ہے.کیونکہ خدا کے گھر کا انسان نے کیا افتتاح کرنا ہے.لیکن اس خیال سے کہ یہ ایک تقریب باہر سفر کی پیدا ہوگئی ہے.اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے.وہاں جانے کا پروگرام بنایا ، ایسے وقت میں بنایا کہ جب مشرق وسطی کے حالات ابھی پوری طرح خراب نہ ہوئے تھے.لیکن آثار سے یہ ظاہر ہورہاتھا کہ وہاں جنگ غالباً شروع ہو جائے گی.اس لئے ہم نے راستہ لیا ہے.طہران، ماسکو، فرینکفورٹ کا.اس وقت بھی میں نے ہدایت دی تھی کہ یہ راستہ اختیار کیا جائے مشرق وسطی کے بعض ملکوں میں جو فلائٹس اُترتی ہیں وہ راستہ نہ لیا جائے اب تو بعض ایروڈ رام اسلامی ملکوں کے پھر کھل گئے ہیں (ہوائی جہازوں کے لئے ) لیکن

Page 792

خطبات ناصر جلد اول 22Y خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء ایک عرصہ بند بھی رہے ہیں.اب بھی بعض ملک ایسے ہیں کہ وہاں کی فلائٹس ابھی جاری نہیں ہوئیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بھی شاید اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت ہے.اس لئے کہ جب یہ سفر سامنے آیا اور پھر ہم نے غور کیا اور پھر فیصلہ کیا کہ ہم روانہ ہونگے.تو اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعدد الہامات کے متعلق غور کرنے کا موقع ملا اور بعض ایسی باتیں توجہ کے سامنے آئیں.پڑھتے تو ہم پہلے بھی تھے.لیکن تو جہ خاص طور پر ان کی طرف مبذول ہوئی جو اس طرح نمایاں طور پر نظر کے سامنے نہیں تھیں.مثلاً ایک بڑی نمایاں چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جن پانچ عالمگیر تباہیوں کے متعلق خبر دی ہے جن میں سے دو جو ہیں وہ پہلی عالمگیر جنگ اور دوسری عالمگیر جنگ کی شکل میں ظاہر ہو چکی ہیں بڑی تباہی ان کی وجہ سے دنیا میں ہوئی اور لاکھوں اموات انسانوں کی ہوئیں ایک تیسری عالمگیر تباہی ( پانچ میں سے تیسری ) قریب ہمیں نظر آ رہی ہے.تو جب ان تینوں کے متعلق اور ان الہامات پر سوچا گیا اور غور کیا گیا تو بعض نئی باتیں سامنے آئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں ان عالمگیر تباہیوں کا ذکر فرمایا ہے وہاں بڑی تفصیل کے ساتھ ان کی علامات بھی بتائی ہیں جو چیز سامنے آئی اور بڑی دلچسپ تھی وہ یہ کہ بعض ایسی علامتیں بتائی گئیں ہیں جو پہلی جنگ پر تو چسپاں ہوتی ہیں لیکن دوسری بعد میں ہونے والی کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے.بعض ایسی علامتیں ہیں جو پہلی اور دوسری عالمگیر جنگ اور عالمگیر تباہی جو دنیا پر آئیں ان پر تو چسپاں ہی نہیں ہوتیں نہ ہوسکتی تھیں.اس وقت ایسے حالات ہی نہیں تھے کہ وہ واقعہ جس کا تعلق موجودہ تباہی کے ساتھ ہے وہ واقعہ ان عالمگیر تباہیوں کے حالات میں ہو ہی نہیں سکتا تھا ناممکنات میں سے تھا.مثلاً ایک بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی ایک عالمگیر تباہی کے متعلق یہ بیان فرمائی ہے کہ اس موقع پر علاقے کے علاقے ایسے ہوں گے جہاں سے زندگی ختم ہو جائے گی یہ نہیں کہ انسان مر جائیں گے یا بعض چرند اور پرند جو ہیں اس کی لپیٹ میں آجائیں گے بلکہ وہاں لائف نہیں رہے گی.لائف ایگزیسٹ نہیں کرے گی.(اس علاقہ میں ) بڑی وضاحت کے ساتھ واضح الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کو بیان کیا ہے.پہلی عالمگیر تباہی اور دوسری عالمگیر تباہی

Page 793

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء کے موقع پر کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا.جہاں زندگی ختم ہوگئی ہونہ ایسا ہونا ممکن تھا سوائے ایک نمونہ کے جو دوسری عالمگیر تباہی کے آخر میں دنیا کو دکھایا گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں دنیا کو یہ سبق لینا چاہیے جو انہوں نے نہیں لیا کہ جو تیسری عالمگیر تباہی ہے.اس تباہی کے موقع پر اس قسم کے حالات پیدا ہو نگے یعنی جو ایٹم بم امریکہ نے جاپان پر پھینکا وہ ایک چھوٹا سا علاقہ تھا.جس میں زندگی ختم ہو گئی انسان کی زندگی نہیں، پرند کی زندگی نہیں، چوپایوں کی زندگی نہیں بلکہ کوئی کیڑا مکوڑا بھی وہاں زندہ نہیں رہا.صحیح طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس جگہ سے زندگی ختم ہوگئی ہے.تو اس قسم کی تباہی جو ہے اس کی خبر دی گئی ہے دنیا کو.جس وقت یہ خبر دی گئی تھی.اس وقت کسی انسان کو بھی وضاحت کے ساتھ یہ علم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایٹم کے اندر اس قدر توانائی رکھی ہے.ایک انہونی بات تھی.اس واسطے ہم پڑھتے تھے اور گزر جاتے تھے.کوئی کچھ خیال کرتا ہوگا کوئی کچھ !!! سمجھ میں نہ آسکتی تھی یہ چیز لیکن اب ہماری سمجھ میں آنے لگ گئی ہے ایک اور ایسی چیز جو بالکل ناممکن ہے اس وقت.اس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خبر دی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کہا کہ رشیا میں میں جماعت کے آدمیوں کو دیکھ کر......ایسی زبر دست پیشگوئی ہے کہ انہونی بات ہے عقل کے نزدیک، خدا کے نزدیک تو ہونی بات ہے ہو کر رہے گی.لیکن عقل کے نزدیک یہ انہونی بات ہے اس قوم کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.وہ قوم یہ دعوی لے کر کھڑی ہوئی ہے کہ ہم زمین سے خدا تعالیٰ کے نام کو اور آسمان سے اس کے وجود کو مٹادیں گے اور اس قوم کے متعلق یہ پیشگوئی کی جارہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے اس دعوی میں نا کام ہوگی بلکہ بتایا یہ جارہا ہے کہ یہ قوم جو دنیا میں اس دعویٰ کے ساتھ کھڑی ہوئی کہ مذہب ہے ہی سارا دھوکا بازی اور نہ خدا اور نہ اس قسم کی ہستی ممکن ہوسکتی ہے نہ یہ مذاہب خدا کی طرف سے ہیں.عام طور پر یہ مشہور ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار یا چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں آیا.ان لوگوں کے نزدیک یہ ایک لاکھ چوبیس ہزار مقدس وجود جنہوں نے نہ صرف دلائل کے میں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں.

Page 794

خطبات ناصر جلد اوّل 227 خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء ساتھ بلکہ آسمانی نشانوں کے ساتھ اپنی صداقت دنیا کے سامنے پیش کی تھی سارے فراڈ تھے.تو اس قوم کے متعلق دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بظاہر وہ دونوں ہی انہونی باتیں معلوم ہوتی ہیں.ایک یہ کہ اگر یہ ایٹامک ورلڈ میں ہو گئی ایٹم کی جنگ کے اندر یہ ملوث ہوئے اور لڑ پڑے دوسرے گروہوں کے ساتھ ، تو جہاں بڑی کثرت سے تباہی آئے گی اور اس کے ملک میں بھی بعض علاقے ایسے ہوں گے کہ جہاں زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا وہاں ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ اس ملک میں بسنے والوں کی کافی تعداد بچ جائے گی مرے گی نہیں اور پھر وہ اپنے ملک میں پھیلے گی اور اسے آباد کرے گی اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کے آسمانی نشان ظاہر کرے گا کہ وہ خدا کی طرف رجوع کریں گے اور تیسرے یہ کہ جب وہ خدا کی طرف رجوع کریں گے تو سوائے احمدیت کی گود کے اور کہیں ان کو پناہ نہیں ملے گی.وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ سے حقیقی اور سچا تعلق قائم کرنا ہے تو احمدیت ہی اس کا ذریعہ ہے.جس کے نتیجہ میں ہم اپنے پیدا کر نیوالے اپنے رب سے حقیقی اور سچا تعلق قائم کر سکتے ہیں.یہ ساری باتیں آج ناممکن نظر آتی ہیں.یا کم از کم ایسا دعویٰ کر دینا بڑا ہی عجیب معلوم ہوتا ہے.ہمیں یہ تو نظر آرہا ہے کہ شاید ایٹم کی جنگ ہو جائے لیکن یہ دعوی کرنا کہ اگر ایٹم کی جنگ ہو جائے تو امریکہ کے متعلق جہاں تک مجھے علم ہے یہ نہیں بتایا گیا کہ سارے مر جائیں گے تباہ ہو جائیں گے یا بچیں گے نہیں بچیں گے.لیکن روس کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اگر چہ اس کے بعض علاقے تباہ ہو جائیں گے لیکن اس قوم کی اکثریت زندہ رہے گی وہ اسلام کو قبول کرے گی اور اپنے رب سے تعلق قائم کرے گی.اتنا ز بر دست دعوئی اور اتنی انہونی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے رکھی.دنیا اس وقت تک بھی اس بات کو ہنسی اور ٹھٹھے میں اڑاتی رہی ہے لیکن یہ واقعہ تو ہو کر رہنے والا ہے اور جب میں کہتا ہوں کہ یہ واقعہ ہو کر رہنے والا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک یا دو باتیں دنیا کے سامنے ایسی نہیں رکھی ہیں جو انہونی نظر آتی تھیں دنیا کو بلکہ ایک سلسلہ ایسی باتوں کا آپ نے رکھا.اس میں سے پہلی بات تو ہو چکی.آپ نے فرمایا تھا ۱۹۰۲ء میں کہ اس وقت مغربی طاقتیں صرف مغربی طاقتوں

Page 795

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء کو طاقت سمجھتی ہیں یعنی دنیا میں صرف ان کا اقتدار ہے اور جو وہ چاہیں باقی اقوام سے منواتی ہیں.اور دوسرے کسی ملک یا قوم کو یہ طاقت ہی نہیں کہ ان کے مقابل پر کھڑا ہو جائے لیکن آپ نے فرمایا کہ مشرقی طاقتیں اُفق سیاست اور اُفق انسانیت پر اُبھرنے والی ہیں.۱۹۰۲ء میں آپ نے یہ فرمایا اور یہ بتانے کے لئے کہ یہ میری پیشگوئی کے مطابق اُبھرنے والی ہیں.آپ نے ساتھ ہی یہ فرمایا کہ جو مشرقی طاقتیں اُبھرنے والی ہیں ان کے صاحب اقتدار ہونے کے بعد اور ان کی وجہ سے کوریا کی حالت نازک ہو جائے گی.تو ان مشرقی طاقتوں کے ابھر نے کوکوریا کی نازک حالت کے ساتھ وابستہ کر دیا اس وقت یہ کسی کے وہم میں بھی نہ آ سکتا تھا.پہلے جاپان ایک مشرقی طاقت کی حیثیت میں اُفق انسانیت پر اُبھرا، پھر چین اُبھرا اور ہر دو طاقتیں جو ہیں وہ ایسی ہیں کہ ان کی وجہ سے کوریا بیچارے کو مصیبت اُٹھانی پڑی.اس کی حالت زار رہی ، اور نازک رہی اور لمبا عرصہ رہی.وہ بڑی عبرت ناک داستان ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے پڑھے لکھے احمدی بچوں اور دوستوں کو چاہیے کہ انسائیکلو پیڈیا اور دوسری ایسی کتابیں جن میں آرٹیکلز ہوں ، اس کے متعلق ، یا جوکوریا کی نازک حالت کی تفصیل بیان کرتی ہوں ان کا مطالعہ کریں.آدمی حیران ہوتا ہے کہ جس کو دنیا نہیں جانتی تھی.وہ دنیا کی خبریں دے رہا ہے اور خبریں بھی ایسی جنہوں نے تاریخ انسانی کا رخ بدل دیا ہے اور وہ پیشگوئیاں جنہوں نے آگے جا کر تاریخ انسانیت کا رخ بدلنا تھا.پہلی یہ بات بتائی اس سلسلہ میں ، اس رنگ میں میں نے سوچا ہے.بڑا لمبا سلسلہ ہے لیکن بڑے اہم واقعات ہیں یہ.دو مشرقی طاقتوں کا اُبھر آنا اور مغرب کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جانا کہ یہ طاقت ہیں اور ہمارے مقابلہ کی طاقت ہیں.انسان حیران ہوتا ہے کہ وہ چین جو کسی شمار میں نہیں تھا ۱۹۰۲ء میں، جس کی وجہ سے کوریا کی نازک حالت ہوئی اب جو اس وقت جو سیاست دنیا کی چل رہی ہے.امریکہ (یونائیٹڈ سٹیٹس آف امیریکا ) اور روس کو آپس میں قریب لانے کی وجہ ہی یہ چین ہے.تو یہ دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ اگر ہم لڑ پڑے تو پھر دنیا پر چین کی حکومت ہوگی.اس واسطے بہتر یہ ہے کہ ہم نہ لڑیں آسمان سے کیا مصیبت آئے گی یہ تو وقت آنے پر پتہ چلے گا تو بہر حال عجیب واقعہ رونما ہونا ہے اور بالکل ان ہونا ناممکن کوئی کھڑے ہو کر بڑے سے بڑا فلاسفر بھی اگر یہ بات کہتا اور کہتا

Page 796

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۸۰ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء کہ میں ان باتوں سے نتیجہ نکالتا ہوں تو جو اس کے ماننے والے، اس کی قدر کرنیوالے اور اس کو بڑا اچھا دماغ والا سمجھنے والے لوگ بھی سمجھتے کہ اس بچارے کا دماغ خراب ہو گیا ہے.لیکن ایک مذہبی انسان دنیا کا جس کو پتہ ہی نہیں ظاہری حالات میں.جو کچھ اس نے علم حاصل کیا وہ منبع ہے علم غیب کا لیکن ظاہری حالات میں وہ دنیا کو نہیں جانتا اور دنیا اس کو نہیں جانتی اور وہ خبریں دے رہا ہے چین اور جاپان کے متعلق اور پھر وہ پوری بھی ہو رہی ہیں.پھر شاہی نظام کا روس کے اندر تباہ ہو جانا، اس کی خبر وقت سے پہلے دی بڑی زبر دست پیشگوئی ہے.یہ ایک بادشاہت کی تباہی کی خبر نہیں بلکہ ایک ایسی بادشاہت کی تباہی کی خبر ہے جس کے بعد وہ چیز پیدا ہونی تھی جس نے دنیا کا رنگ بدل دینا تھا اور وہ کمیونزم ہے.دنیا میں بادشاہتیں قائم بھی ہوتی ہیں دنیا میں بادشاہتیں جو ہیں وہ مٹتی بھی ہیں.یہ نہیں کہا کہ مصر کا بادشاہ فاروق تباہ ہو جائے گا اس کی بجائے جمہوریت آجائیگی اگر چہ وہ ایک واقعہ ہونا تھا اگر چہ وہ ایک غیب کا واقعہ تھا.یعنی وقت سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بتاتے تو یہ علم غیب کی بات تھی جو آپ بتاتے.لیکن اس قدر اہمیت کی وہ حامل نہیں تھی جتنا کہ زار روس کا تباہ ہونا تھا اور نہ مصر کے بادشاہ کی تباہی ایسی تھی کہ انسان کی تاریخ کا دھارا اس نے بدل دینا تھا.تو جو بادشاہتیں تباہ ہوتی ہیں.ان میں سے اس بادشاہت کا انتخاب کیا جس کے نتیجہ میں دنیا کی تاریخ نے رنگ ہی اور پکڑنا تھا پھر کمیونزم کے برسراقتدار آنے کی پیشگوئیاں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا اس لنک میں.پھر پانچ زلزلوں کی پیشگوئی ہے اور ان کی تفصیل بتائی گئی ہے، جیسا کہ میں نے بتایا ہے.اس تفصیل پر آپ غور کریں تو اس وقت تک دو واقعات اور ایک کی بعض باتیں ہمارے سامنے آگئی ہیں.یہ شکل جو اختیار کر سکتی ہے اس کے متعلق تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ان کو ہم نکال کے جنگ نمبر ایک کے ساتھ ، جنگ نمبر دو کے ساتھ پھر تیسری ہونے والی کے ساتھ ملا کے دیکھ سکتے ہیں.جیسا کہ ایک بڑی نمایاں چیز میں نے آپ کے سامنے یہ رکھی ہے کہ علاقہ میں زندگی کا خاتمہ یہ ابھی تک نہیں ہوا ناممکن تھا.لیکن اب ممکن ہو گیا ہے ہمیں نظر آ رہا ہے جہاں ایک ہزار بم گر جائے ایٹم ، وہاں زندگی ختم ہو جائے گی.کوئی

Page 797

خطبات ناصر جلد اول ۷۸۱ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء سارا ملک ہوانگلستان جیسا، یا کسی ملک کا پچاس فیصد یا تیس فیصد یادس فیصد لیکن جس جگہ وہ حملہ ہو گا وہاں زندگی باقی نہ رہے گی.پہلی دو جنگوں میں ایسا نہیں ہوا تیسری عالمگیر تباہی جو ہمارے سامنے آرہی ہے.اس میں ایسا ہونا ممکن بن گیا ہے.یہ نہیں ہم کہہ سکتے کہ ایسا ہو جائے گا اس کی ایک وجہ ہے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا میں مبعوث ہو کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں بڑی بشارتیں لیکر آیا ہوں ان لوگوں کے لئے جو مجھ پر ایمان لاتے ہیں اور مجھے ڈرانے کا اور انذار کا حکم دیا گیا ہے ان لوگوں کے لئے جو میری طرف منہ نہیں کرتے ، اور اسلام پر ایمان نہیں لاتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو نہیں سمجھتے.اپنے رب قدیر کے ساتھ پیار کا اور محبت کا تعلق قائم نہیں کرتے.کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم یہ باتیں دنیا کو بتائیں اور بغیر کسی مزاحمت کے بتائیں بغیر کسی خوف کے بتائیں ، بغیر اس ڈر کے بتا ئیں ، کہ اگر ہم نے یہ باتیں کیں تو یہ لوگ ہم سے ناراض ہو جائیں گے یا ہمیں گالیاں دینے لگ جائیں گے یا بُرا بھلا کہنے لگ جائیں گے یا ہمیں تکلیف دینے کی کوشش کریں گے، کیونکہ ہمیں اس لئے پیدا نہیں کیا گیا کہ ہم اپنے نفسوں کو تکالیف دنیوی سے بچائیں ہمیں تو پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ ہم دنیا کو تکالیف سے بچانے کی کوشش کریں.تو یہ باتیں میں چاہتا تھا کہ ان اقوام کے سامنے پیش کروں اب وہاں مجھے خوشی ہے اس لحاظ سے کہ حالات اس لحاظ سے بہتر ہو گئے ہیں کہ وہ چھپا ہوا تعصب جوان لوگوں کے دلوں میں اسلام کے خلاف تھا وہ مشرق وسطی کی جنگ سے ابھر آیا ہے.اب کل یا صبح راستہ میں بعض حصے ڈاک کے میں نے پڑھے ہیں.اس میں یورپ سے یہ خط آیا ہے کہ وہ افسران حکومت سوئٹزر لینڈ جنہوں نے پہلے یورپ کی ریسپشن میں آنا قبول کر لیا تھا ، وعدہ کیا تھا ، ہم آئیں گے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ اس جنگ کے بعد اب ہم اس میں شامل نہیں ہو سکتے.کیونکہ مسلمانوں نے جہاد کا اعلان کر دیا ہے مسلمانوں نے تو زبان سے جہاد کا اعلان کیا ہے.دوسری طرف سے تو ہر قسم کے ہتھیار لیکر انہوں نے عملاً جا کر اعلان کیا اور بڑی تباہی مچائی اور بڑا مظلوم ہے اس وقت وہاں کا مسلمان.کئی ملکوں سے تعلق رکھنے والا ، گھروں سے بے گھر ، زخمی ، بالکل جیب میں ایک پیسہ

Page 798

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۸۲ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء نہیں لنگڑے لولے، وہ اپنے علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور دوسری جگہ پناہ لے رہے ہیں.سوچ کے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.تو وہ تو بھول گئے سارا کچھ لیکن لفظ جہاد سے چڑ گئے ہیں.تو ٹھیک ہے تمہارے چڑنے سے کیا حاصل ہو گا.تم آج چند ہزار یا کم و بیش سمجھیں کہ زخمی اور جو وہاں مارے گئے میدان جنگ میں یا پھر جو شہری زخمی ہوئے ، یا مارے گئے ایک لاکھ کے لگ بھگ ہوں گے.تو ایک لاکھ تو کوئی چیز ہی نہیں اس تباہی کے مقابلہ میں جو تمہاری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے تمہارے سامنے کھڑی ہے.جس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ تم جو مرضی ہے کر لو اپنی طرف سے اس کو ٹال نہیں سکتے کوئی مصنوعی خدا تمہاری مددکو نہیں آئے گا کوئی ماں جایا جو ہے ، اس کو یہ ہمت نہیں پڑے گی کہ وہ آکے تمہیں اس تباہی سے بچالے اور تمہاری یہ تعلی کہ خدا نہیں ہے ، اور سب کچھ ہم ہی ہیں اور ہمیں سب کچھ طاقت ہے یہ تعلی بھی تمہارے کام نہیں آئے گی خداز در آور حملوں کے ساتھ اپنے وجود اور توحید کو آج منوانا چاہتا ہے اور وہ منوا کے رہے گا.صرف ایک صورت ہے بچنے کی انبیاء کی اصل غرض تبشیر ہے بشارتیں دینا ہے ، ان کو جوڑنے کے لئے ان کو راہ راست پر لانے کے لئے انداری پیشگوئیاں کی جاتی ہیں.ایک صورت ہے صرف بچنے کی اور وہ یہ ہے کہ وہ اصلاح کو قبول کریں اسلامی تعلیم کی حقانیت کو ان کے دل تسلیم کرنے لگیں اور آسمان کا نور جو ہے وہ ان کے سینوں کو اور انکی آنکھوں کو منور کر دے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنے کی بجائے آپ پر درود بھیجنے لگیں.اس لئے کہ وہ حقیقت محسن اعظم ہے دنیا کا.تو پھر وہ محسن اعظم اپنی شفاعت کے نتیجہ میں تمہیں بچا سکتا ہے.(مغربی اقوام کو ) اس کے علاوہ حفاظت کا کوئی ذریعہ ان کے پاس نہیں ہے.احمق ہیں وہ لوگ اگر وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں.ان باتوں کا انکے کانوں میں ڈالا جانا ضروری ہے اور یہی میں بتا رہا ہوں کہ یہی مقصد ہے میرے سفر کا میں کھل کر ان سے بات کرنا چاہتا ہوں ایک دونوٹ تو میں نے تیار کئے ان میں یہ ہوگا کہ بعد میں بعض ایسے قلبی سامان پیدا ہو گئے کہ دل ہی نہیں کچھ اور نوٹ تیار کرنے کا.میں نے سمجھا وہی ہو گا جو کچھ ہوگا گھبرانے کی بات نہیں تسکین ہو گئی لیکن کھول کے انہیں بتانا چاہیے کہ کیا

Page 799

خطبات ناصر جلد اول ۷۸۳ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء کر رہے ہو تم.اپنے نفسوں پر ظلم، اپنی نسلوں پر ظلم.یہ پیشگوئیاں ہیں جو پوری ہوچکی ہیں اور یہ وہ واقعات ہیں جن کے پورا ہونے کا تصور بھی انسان نہیں کر سکتا تھا اس وقت جس دن یہ اعلان کیا گیا تھا کہ یوں واقع ہوگا اور یہ ایک سلسلہ ہے یوں ہوگا یوں ہوگا یوں ہوگا یوں ہوگا اور اس کے آخر پر یہ ہے کہ غلبہ اسلام ہوگا وہ غلبہ اسلام خدا کے فیصلہ کے مطابق اس دنیا میں ضرور ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ اس کو دنیا کی کوئی طاقت جو ہے مٹا نہیں سکتی.غلبہ اسلام دو طرح ہو سکتا ہے یا یہ قومیں مسلمان ہو جا ئیں یا یہ قومیں تباہ ہو جائیں کیونکہ اسلام کے دشمن ہیں.تو ان کو یہ بتانا ہے انشاء اللہ جا کے کہ تم تباہ ہونے کا جو راستہ ہے.اس کی بجائے بچنے کا.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کے راستے کو اختیار کرو.یہاں بھی میری طبیعت پر اثر ہے کہ ہم لوگ انذاری حصے کو نمایاں نہیں کرتے.تھوڑی سی مزاحمت پیدا ہوگئی ہے ہمارے میں اور یہ ظلم ہے.یعنی اگر حقیقت سچا جذ بہ ہمدردی اور غمخواری کا ہے اور آپ کو نظر آ رہا ہے کہ آپ کا ایک بھائی تنور کے کنارے پر کھڑا ہے اگر یہ گر گیا تو جل جائے گا ، راکھ ہو جائے گا.اس کے وجود کا نام و نشان مٹ جائے گا.اس وقت آپ کہیں جناب عالی ! ذرا ! دھر متوجہ ہوئیے اور قبل اس کے کہ آپ اپنا فقرہ ختم کریں وہ اندر جا پڑے اس وقت تو ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو پکڑ کر بازو سے اسے جھٹکا دے کے پیچھے کریں.کہاں جارہے ہو تمہیں نظر نہیں آرہا آگے کیا ہے تمہاری ہمدردی کا یوں جذبہ ہونا چاہیے !!! ۱۹۴۷ ء کی بات ہے مسجد اقصیٰ ( قادیان) کے غربی دروازہ پر بعض ہمارے بھائی اور بہنیں تھیں جو احمدی نہیں تھے.وہاں وہ پھنس گئے تھے ان کو نکالنے کے لئے میں سامان کر رہا تھا میں اور میرے ساتھی.تو اوپر سے ایک سکھ بندوق لئے ہوئے آیا سامنے جو مکان تھا اس کی چھت پر ، وہ رائفل اپنی یوں اُٹھا رہا تھا میری طرف نشانہ باندھنے کے لئے تو میرا ایک ساتھی جو میرے پاس کھڑا تھا اس کی اس پر نظر پڑ گئی.میری نظر اس طرف نہیں گئی کیونکہ میں دوسرا کام کر رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کرنی تھی اس کے دماغ کو صحیح راستہ پر ڈال دیا اگر وہ مجھے کہتا کہ میاں صاحب ! جناب! آپ کی جان بڑے خطرہ میں ہے مہربانی فرما کر آپ اندر ہو جائیں تو

Page 800

خطبات ناصر جلد اول ۷۸۴ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء اتنے عرصہ میں اس کی رائفل چل پڑتی.اس نے ایک لفظ مجھ سے نہیں کہا اس نے اتنے زور سے مجھے دھکا دیا کہ میں پلٹیاں کھاتا ہوا مسجد کے اندر چلا گیا اور میں حیران کہ کہیں پاگل تو نہیں ہو گیا میرا یہ ساتھی !!! اس کے بعد ایک قدم لیا اور وہ اندر آ گیا تو مجھے کہنے لگا کہ رائفل کا نشانہ آپ کی طرف ہو رہا تھا اور کوئی صورت نہ تھی.ایسے وقت میں اپنے بھائی کو یا کوئی بزرگ بھی ہو اس کو دھکا دینا یہ محبت کی علامت ہے.یہ ہمدردی اور غمخواری کی علامت ہے.یہ بغض اور حسد اور کینہ کی علامت نہیں ہے.تو ان لوگوں کو آپ کو سمجھانا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ جو انذاری پیشگوئیاں ہیں ان کے متعلق ایک یہ وعدہ بھی دیا ہے یا اطلاع دی ہے کہ کبھی میں خاموشی اختیار کروں گا اور کبھی میں اپنے قہر کے جلوے دکھانا شروع کروں گا، کبھی میں روزہ رکھوں گا کبھی میں افطار کروں گا.بیچ میں ایسا زمانہ آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے کہ شاید دلائل کے ساتھ اور محبت کے جو آسمانی نشان ہیں ان کے ساتھ دنیا سمجھ جائے.کبھی اللہ تعالیٰ اپنے غضب میں ہوتا ہے مجھ پر نا معلوم وجہ سے بھی اور بعض قرائن سے بھی یہ اثر ہے.میں کہہ سکتا ہوں کہ آج خدا غضب میں ہے.پس خدا کے اس غضب سے اپنے بھائیوں کو بچانے کے لئے آپ سے ہر ممکن کوشش جو ہو سکتی ہے وہ کریں.دنیا کے ہر ملک میں جہاں بھی احمدی ہیں ان کا فرض ہے.اگر آپ پچھلے دو سال کے سارے اس قسم کے واقعات جن سے انسانی جانیں تلف ہوئیں ہیں وہ نکالیں اور ان کا مقابلہ کریں آج کل سے دس سال پہلے کے حالات سے یا سات سال پہلے کے حالات سے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ واقعی خدا غضب میں ہے.زلزلے ہیں، طوفان ہیں ، قحط ہیں ، آسمان کا پانی خشک ہو رہا ہے زمین کا پانی خشک ہو رہا ہے.ابھی راستہ میں ہی میں نے ایک خط پڑھا دیہات کے ایک احمدی دوست کا کہ اب تاریخ کے لحاظ سے مون سون کا موسم ہو گیا ہے مگر بارش کوئی نہیں ہوئی.خبریں یہ آئی تھیں کہ بعض گاؤں والے پینے کے لئے پانی پندرہ پندرہ میل سے لا رہے ہیں.پندرہ میل کے اندر اور کوئی کنواں نہیں جس کا پانی خشک نہ ہو چکا ہوں بعض جگہوں کے متعلق یہ خبر بھی تھی کہ حکومت نے وہاں گہری کھدائی کے لئے سامان بھیجے تو نیچے سے پانی ہی نہیں ملا.

Page 801

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۸۵ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء جب آسمان کا پانی خشک ہو جاتا ہے تو زمین کا پانی بھی ساتھ ہی خشک ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ یہ بھی سبق دینا چاہتا ہے کہ تم اپنی عقلوں سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے.خدا کے قرب کے حصول کے لئے تمہیں آسمانی پانی کی ضرورت ہے اور یہ آسمانی پانی آج محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کی طرف بھیجا ہے.یہ کہنا کہ ہم آسمانی پانی کے محتاج نہیں کیونکہ ہماری عقلمیں ہی ہماری سب بھلائی کا سب سامان پیدا کرسکتی ہیں اس سے زیادہ حماقت کی کوئی بات نہیں اور یہ دیہات کے واقعات بھی ثابت کر رہے ہیں آسمانی پانی خشک ہوا ساتھ ہی زمین کا پانی بھی خشک ہو گیا.زلزلے ہیں ، آتش فشاں پہاڑ ہیں ، بیماریاں ہیں، قحط ہیں، ہزار قسم کی بلائیں ہیں جودنیا پر نازل ہو رہی ہیں اور تباہی کا جو مرکزی نقطہ ہے اس کی طرف جارہی ہے.یہ ایک قانون قدرت ہے آہستہ آہستہ مینٹل ٹینشن کرتا ہے ہر چیز.تو یہ تباہی کے واقعات جو ہیں ان کے اندر شدت پیدا ہوتی چلی جارہی ہے اور تباہی کے ان واقعات کا رُخ اس مرکزی نقطہ کی طرف ہے جو تیسری عالمگیر تباہی کی شکل میں دنیا پر ظاہر ہونی ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی ہے.اگر ہم انسان سے اور انسانیت سے محبت رکھتے ہیں ان کے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اور بغیر کسی خوف کے بغیر کسی مزاحمت کے ان باتوں کو ان کے سامنے رکھیں ورنہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ہوں گے.تو ارادہ ہے کہ ان حالات میں جو پیدا ہو گئے ہیں یعنی تعصب اور بھی بڑھ گیا ہے.اس قسم کی صاف صاف باتیں ان لوگوں کو بتائی جائیں تا کہ ان پر اتمام حجت ہو جائے.میں نے بعض دفعہ سوچا ہے کہ شاید ایسی عالمگیر تباہی اس وجہ سے رکی ہوئی ہو کہ ہم نے ابھی تک ان قوموں پر اتمام حجت نہیں کی اور خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ قبل اس کے کہ اتمام حجت ہو ان کو اپنی گرفت میں لے لے تو بڑی کثرت کے ساتھ اور بڑی تضرع کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ اور انتہائی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبہ میں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور ان کو سمجھ عطا کرے اور عقل دے ان کو اور وہ صداقت کو پہنچانے لگیں اور خدا تعالیٰ کے غضب سے بچ جائیں کیونکہ آج خدا تعالیٰ کے غضب سے بچانے کے لئے اور کوئی کشتی نہیں ہے.سوا اس کشتی

Page 802

خطبات ناصر جلد اوّل ZAY خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائی ہے اس سے باہر تباہی ہی تباہی ہے.پس اس سفر کے متعلق نئی اور پرانی بہت سی خوا ہیں دوستوں نے دیکھیں اور مجھے لکھیں.انجام کے لحاظ سے تو ساری مبشر ہیں ویسے بڑی مبشر خوا میں ہیں بعض لیکن بہت سی خوابوں میں بعض پریشانیوں کی طرف بھی اشارہ ہے سفر کی پریشانیاں.اللہ تعالیٰ جو اس بات پر قادر ہے کہ وقت سے پہلے ان پریشانیوں کی خبر دے دے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ہماری دعاؤں کے نتیجہ میں اور اپنی رحمت کو جوش میں لا کے ان پریشانیوں کو دور کر دے تو دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پریشانیوں سے تو بچائے اور جو بشارت کی باتیں ہیں جو خوشخبریاں ہیں ان کو پورا کرے.ایسا نہ ہو کہ ہماری کسی غفلت یا کوتاہی کے نتیجہ میں ان میں کوئی روک پیدا ہو جائے.میں نے خود ایک بڑی تفصیلی خواب دیکھی ہے وہ چند روز کی بات ہے بڑی مبشر خواب ہے مختصراً بتا دیتا ہوں.ورنہ بہت دیر ہو جائے گی.پہلے ہی دیر ہو چکی ہے میں نے دیکھا کہ ہم قادیان میں ہیں اور مجھے اور منصورہ بیگم ( جو میری بیگم ہیں ) ان کو عرفانی صاحب کے گھر کسی تقریب پر بلایا گیا ہے اور جب ہم وہاں پہنچے ہیں تو وہی گلی جو ہماری آنکھوں کے سامنے گلیاں پھرتی رہتی ہیں قادیان کی اسی گلی میں سے گزرے ہیں جو ماتھا ہے گلی کی طرف عرفانی صاحب کے گھر کا وہ بھی وہی ہے جو ہم نے دیکھا تھا لیکن جس وقت ہم اندر داخل ہوئے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑا حلقہ ہے جس کا دروازہ جو ہے اندر داخل ہونے کے لئے وہ بھی قریباً اتنا بڑا ہے جتنی یہ مسجد اور دومنزلہ او پر تک گیا ہوا ہے.دونوں طرف اس کے کمروں کی قطار ہے اور جہاں وہ ختم ہوتے ہیں وہاں ہماری حویلیاں، چاروں طرف کمرے ہوتے ہیں.تو جو مجھے نظارہ نظر آیا اس سے ایک کمرہ پھر دونوطرف ایک ایک کمرہ وہاں بھی ہے اور سامنے ایک اونچی جگہ ہے سبز گھاس سے ڈھکی ہوئی اور ساری اس تقریب کا انتظام وہاں ہے اور ہمیں وہ لے گئے ہیں اور سب سے اونچی جگہ جو اس قلعہ کے اندر کی دیوار کی طرف منہ کر کے ایک کا وچ بچھا ہوا ہے اس کے اوپر جا کے بٹھا دیا ہم دونوں کو اور اس وقت میں نے دیکھا کہ سامنے کی دیوار جو اندازے کے مطابق شاید دوسو یا تین سوفٹ ہو گی جس کا ہال ہی اتنا بڑا تھا دا خلے کا اندازہ کر سکتے ہیں آپ.اتنی خوبصورتی کے ساتھ سجائی ہوئی ہے کہ

Page 803

خطبات ناصر جلد اوّل ZAZ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء انسان اس زندگی میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.مختلف رنگ ہیں جو نکل رہے ہیں دیوار میں سے پھوٹ پھوٹ کر ، نہ کوئی بلب ہے وہاں اور نہ کوئی ٹیوب ہے اور اس خوبصورتی میں میں محو ہو جاتا ہوں اتنی خوبصورتی ہے.میں تفصیل میں نہیں جاتا.یعنی جب پہلی نظر اس پر پڑی ہے تو میں محو ہو گیا ہوں خوبصورتی میں.کچھ عرصہ کے بعد پھر میں نے اس کی تفصیل میں جانا شروع کیا تو پہلی چیز جو میرے سامنے نمایاں ہوئی وہ یہ تھی کہ سامنے بالکل اس بلندی پر جو دوسری منزل کی چھت کے قریب ہے بہت خوبصورت پھول جو پہلے نظر آ رہے تھے وہ اُبھرے ہوئے تھے تو پہلے ہی لیکن توجہ نے انہیں اور اُبھار دیا اور میں نے دیکھا کہ وہاں پورے اس کی چوڑائی میں جو قریباً اتنی تھی جتنی یہ سامنے کی دیوار ہے.اس کے اوپر لکھا ہوا ہے الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَی اور مختلف رنگ ہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے بیچ سے پھوٹ رہے ہیں.اس کے بعد میں نے زیادہ غور کرنا شروع کیا خوبصورتی کی تفصیل پر ، تو میں نے دیکھا (ویسے میں مختصر کر رہا ہوں کیونکہ دیر ہوگئی ہے بعض حصہ عام آپ کو بتانے کے لئے تا کہ آپ کو دعا کی طرف زیادہ توجہ ہو ) کہ وہ سارے خوبصورت پھول سے جو ہیں ، وہ سارے شعر ہیں جن کو لکھا اس طرح گیا ہے.سبز رنگ کی روشنی ان میں سے نکل رہی ہے کہ وہ پھول نظر آتے ہیں پہلی نظر میں ، لیکن ہیں وہ شعر.جب میں نے غور کیا.مجھے یاد نہیں رہا کوئی شعر لیکن مجھے یہ یاد ہے کہ میں نے دو چار شعر پڑھے ہیں جب میں نے پڑھے تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہ تو میرا سہرا ہے.شادی کے موقع پر جو سہرا کہا جاتا ہے.وہ ساری دیوار کے اوپر کئی سو شعر لکھا ہوا ہے اور سارا سہرا ہے اور میں دل میں حیران ہوتا ہوں اور اس کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیر متوقع حالات میں خوشخبریوں کے سامان پیدا کرے گا.میں دل میں سوچتا ہوں کہ یہ عجیب لوگ ہیں انہوں نے مجھے بتایا ہی نہیں اور میرا یہ انتظام کر دیا ہے یہاں اور سہرا بھی وہاں لکھ دیا اور سارے پہ سجاد یا اور فنکشن کر دیا.یہ کیا انہوں نے کیا ہے؟ یہ عجیب بات ہے کہ نہ کوئی مشورہ نہ کچھ اور یہ ہو گیا ہے کیا.تو اس کے بعد میں نے اور غور کیا ہے تو میں نے دیکھا کہ دائیں طرف کا برج اوپر سے نیچے تک نہایت خوبصورتی کے ساتھ سجا ہوا تھا اور جس کے ہر ابھار اور پھول کی شکل میں سے روشنی

Page 804

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۸۸ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء مختلف رنگوں کی نکل رہی تھی وہ سب کیلے کا ہے یعنی کیلے ہیں اس طرح ترتیب سے رکھے ہوئے کہ انہی سے الفاظ بنتے ہیں اور ان کے اندر سے ہی روشنی نکل رہی ہے.کیلا اپنی تاثیر کے لحاظ سے بہت اچھا ہے اور درمیان میں ساری دیوار کے اوپر جو سجاوٹ ہے وہ خشک پھل کی ہے.بادام اور پستہ اور اس قسم کی دوسری جو چیزیں ہیں ان کے ہی سارے پھول بنائے گئے ہیں اور ان سے ہی وہ شعر لکھے گئے ہیں اور حروف بنائے گئے ہیں اور ہر ٹکڑا جو ہے یعنی ایک بادام جو ہے اس کے اندر سے روشنی نکل رہی ہے.کسی میں سے سرخ کسی میں سے سبز، کسی میں سے کچھ اور قسم کی مختلف روشنیاں ہیں اور وہ اندر سے پھوٹ پھوٹ کر جس طرح پانی بہہ رہا ہوتا ہے چشمہ سے نکل کے اسی طرح روشنیاں نکل رہی ہیں ان سے.پھر میں نے دیکھا تو دائیں طرف ایک کمرہ جوا کیلا ہی ہے اس حصہ کا اور اس بازو کا اس پر میری جب نظر پڑی یعنی مجھے خیال نہیں آتا خواب میں کہ اس وقت اُبھری ہے لیکن میری نظر پڑی تو ہیں فٹ اونچائی اور بارہ پندرہ فٹ چوڑائی کی دیوار کے اوپر ایک عورت کی تصویر ہے اور جب میں نے اس کو غور سے دیکھا تو مجھے یہ نظر آیا کہ وہ عورت قیام میں ہے.اس طرح اس نے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں ، آنکھیں اس کی نیچی ہیں سجدہ گاہ کی طرف اور سر ڈھکا ہوا ہے تو میرے دیکھتے دیکھتے یعنی پہلے تو میں سمجھا تھا کہ تصویر ہے دیوار کے او پر بن گئی لیکن میرے دیکھتے دیکھتے اس میں زندگی پیدا ہوئی اور اس کے ہونٹ ہلنے لگے اور ہے وہ کافی فاصلے پر مجھ سے کیونکہ میں اس کے مقابلہ پر کاؤچ کے اوپر بیٹھا ہوا ہوں لیکن وہ بڑی نمایاں مجھے نظر آ رہی ہے اور اس کے ہونٹ اس طرح ہل رہے ہیں جس طرح وہ سورۃ فاتحہ پڑھ رہی ہو یا قرآن کریم کی کوئی اور سورۃ پڑھ رہی ہو اور پھر اس کے بعد میں نے دیکھا کہ دائیں طرف مجھے وہ لے گئے ہیں دکھانے کے لئے تو جو دائیں طرف کمرہ تھا جب میں وہاں پہنچا ہوں میں اور جو میرے ساتھی ہیں تو جو سب کا مالک اور ان کا کرتا دھرتا ہے اس نے مجھے کہا یہ دیکھیں دائیں طرف !!! اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا جب میں نے اس طرف دیکھا تو وہاں پانچ آٹھ گز کی کارڈ بورڈ پر جس طرح کارڈ پر آدمیوں کی شکلیں بنائی گئی ہوں اس طرح پہلو بہ پہلو وہ کھڑی ہیں وہ پانچ شکلیں جن میں سے یا دو عورتیں تھیں یا تین لڑکیاں دو مرد یا دولڑ کیاں اور تین مرداب مجھے یاد

Page 805

خطبات ناصر جلد اول ۷۸۹ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء نہیں رہا اور جب میں نے یوں دیکھا تو ان کے اندر بھی زندگی پیدا ہوئی اور انہوں نے ہونٹ ہلانے شروع کئے.لیکن میں یہ نہیں سمجھا کہ یہ ہونٹ قرآن کریم کی تلاوت یا خدا تعالیٰ کی حمد کر رہے ہیں لیکن ہونٹوں کو ملتے ہوئے میں نے دیکھا اور کہنے والے نے اس وقت یہ کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں ہمارے جو مر چکے ہیں تو میں نے اس کو جواب دیا جو تمہارے لوگ مر چکے ہیں مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہیں اور یہ کہہ کر کہ مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہیں میں اپنی بائیں طرف گھوم گیا اور وہاں کچھ قرآن مجید رکھے ہوئے تھے میں نے انہیں غور سے دیکھنا شروع کر دیا.ویسے تو بڑی مبشر خواب ہے اس کے دو حصے یہ بھی ہیں کہ ان اقوام کا ایک حصہ اسلام کی طرف مائل ہو جائے گا اور کچھ حصے جو ہیں انہوں نے اپنے لئے ہلاکت اور موت کو اختیار کرنا ہے.ہمیں جس چیز میں دلچسپی ہے وہ یہ ہے کہ جتنوں کو ہم موت اور ہلاکت سے بچاسکیں ہم انہیں بچالیں.حافظ مبارک احمد صاحب نے جو آج کل سندھ میں ہیں مجھے لکھا ہے ( خط جو مجھے ابھی ابھی دراز سے ملا ہے ) کہ انہوں نے دو تین خواہیں دیکھی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ حضرت مسیح موعود السلام تشریف لائے ہیں.حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا پھر مصافحہ کیا اور پھر سامنے کھڑا ہو گیا اتنی دیر میں ایک سانپ اُڑتا ہوا آیا اور ہم دونوں کے درمیان میں آکر گرا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے اوپر پاؤں رکھا اس کا سر کچلا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.کہتے ہیں تب میں نے دیکھا کہ یہ اصل سانپ بھی نہیں تھا بلکہ بچوں کا کھلونا تھا تو لکھتے ہیں کہ تعبیر میرے ذہن میں یہ آئی کہ مخالفت ضرور ہوگی کسی نہ کسی رنگ میں لیکن اس کی حیثیت بچوں کے کھلونے سے زیادہ نہ ہوگی.دوسرا انہوں نے لکھا کہ میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک بزرگ سفید کپڑوں میں ملبوس میرے پاس آیا ( یعنی حافظ صاحب کے پاس جنہوں نے خواب دیکھا ) اور اس نے مجھ سے عربی میں باتیں شروع کیں تو حافظ صاحب سے وہ پوچھتا ہے کہ تمہیں پتہ ہے حضرت امیر المومنین یورپ کے سفر پر جارہے ہیں؟؟؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں مجھے علم ہے.اس پر وہ مجھے کہنے لگا

Page 806

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۹۰ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء پوچھنے لگا کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لے لی ہے؟؟ کہتے ہیں کہ جب اس نے یہ سوال کیا تو میں نے دیکھا کہ آپ آئے ہیں.ایک مسجد ہے اس کی محراب میں کھڑے ہو گئے ہیں تو میں بھاگ کے آپ کے پاس پہنچا ہوں، یعنی یہ سارا کشفی نظارہ ہے اور میں پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لے لی ہے؟؟ تو میں نے حافظ صاحب کو جواب دیا کہ ہاں!!! میں نے اجازت لے لی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑی مبارک بشارت اور بڑی اعلیٰ درجے کی کامیابی کی خبر دی ہے تو اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ میں آپ کے پاس سے ہٹ کے پھر اسی بزرگ کے پاس (جو سفید کپڑوں میں ملبوس تھے ) آ گیا اور کافی لمبا عرصہ وہ مجھ سے عربی میں گفتگو کرتے رہے.تو بیسیوں خوا ہمیں ایسی ہیں اس خواب میں بھی ،سانپ کا ایک ذکر ہے.خود میں نے خوا ہیں دیکھی تھیں کہ راستے میں کچھ پریشانی ہے جہاں تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں پریشانی اور دکھ کا سوال ہے وہ تو خدا تعالیٰ کے بندے کے لئے دکھ نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کسی نے سوال کیا کہ خدا کے بندوں کو دکھ کیوں پہنچتا ہے.آپ نے فرمایا کہ ان سے جا کر پوچھو کہ وہ دکھ سمجھتے بھی ہیں کہ نہیں.تو جب وہ دکھ سمجھتے ہی نہیں تو تمہارے اعتراض کے کیا معنی؟؟؟ تو وہ تو کوئی چیز ہی نہیں لیکن اگر اصل مقصد حاصل ہو جائے اگر ہم اسلام کی فتح کے دن جلد لانے میں کا میاب ہو جا ئیں اتمامِ حجت کے بعد ان اقوام کی تباہی کی وجہ سے یا اتمام حجت کے بعد ان اقوام کو حلقہ بگوش اسلام بنانے کی وجہ سے جس طرح بھی ہو ہمارے لئے خوشی کا باعث ہے.اصل خوشی ہماری غلبہ اسلام میں ہے.اصل خوشی ہماری اس چیز میں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ شیطان اور رحمن کی آخری جنگ ہے اور اس میں مقدر ہے کہ شیطان کا سر کچلا جائے تو ہم اپنے رب سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! جو فیصلہ تو آسمانوں پر کر چکا ہے زمین پر ہماری زندگیوں میں اسے جاری کر دے.جاری تو وہ ضرور ہوگا بعد میں آنے والی نسلیں اس غلبہ کو دیکھیں گی اس دنیا میں بھی.اُس دنیا میں جا کے تو خوشی ہی خوشی ہے مومن کو.اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کی چادر میں ہم میں سے ہر ایک کو لپیٹے ) تو جس کو مغفرت مل گئی وہاں تو کوئی رنج نہیں ہے.لیکن انسان کی طبیعت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کے حق میں جو فیصلے ہیں ہماری زندگیوں میں

Page 807

خطبات ناصر جلد اول ۷۹۱ خطبہ جمعہ ۷ جولائی ۱۹۶۷ء جاری ہو جائیں اور وہ باتیں جو ہیں وہ پوری ہو جائیں.وہ بشارتیں جو ہیں ان کو ہماری آنکھیں اسی کے مطابق ہوتا دیکھ لیں جو ہمیں بتایا گیا ہے تو ہماری یہ خواہش ہے اور ہم میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ ایسا ہو.شاید کچھ زیادہ تفصیل ہوگئی ہے تفصیل میں صرف اس لئے جارہا ہوں کہ شاید اس کے نتیجہ میں آپ پہلے سے بھی زیادہ دعائیں کرنے لگیں کہ اس وقت دعاؤں کی بڑی ضرورت ہے، دعاؤں کی ضرورت ہے.اس سفر کو کامیاب کرنے کے لئے بھی کہ بغیر دعا کے ہمارا کوئی سہارا نہیں ہے.دعاؤں کی ضرورت ہے غلبہ اسلام کے لئے بھی کہ آج سب سے زبر دست ہتھیا را سلام کو اللہ تعالیٰ نے دعا کا ہی دیا ہے اور دعا کی ضرورت ہے آج انسان کو کہ اگر آج کی دعا ئیں اس کے حق میں قبول نہ ہوئیں تو خدا تعالیٰ کے قہر کا فیصلہ ان کے حق میں جاری ہو جائے گا.پس ہر نقطہ نگاہ سے دعائیں کریں دعائیں کریں پھر دعا میں کریں کہ اللہ تعالیٰ کا عرش جنبش میں آجائے اور وہ یہ سمجھے کہ میرے بندوں نے اپنی زاری کو انتہا ء تک پہنچایا اس لئے میں بھی اب اپنے رحم کو اپنی انتہا ء تک پہنچاؤں گا.谢谢谢 از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 808

Page 809

خطبات ناصر جلد اول ۷۹۳ خطبہ جمعہ ۱۴ / جولائی ۱۹۶۷ء احباب قرآن کریم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وابستگی پیدا کرنے کی کوشش کریں خطبه جمعه فرموده ۱۴ جولائی ۱۹۶۷ء بمقام ہیگ.ہالینڈ حضور اقدس نے انگریزی زبان میں ایک مختصر مگر ایمان افروز خطبہ ارشاد فر ما یا جس کا ملخص یہ ہے کہ احباب قرآن کریم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وابستگی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کی برکات حاصل کرنے کے لئے جن وسائل اور طریقہ کار کی ضرورت ہے اس کو صحیح طور پر بروئے کار لا ئیں.اس ضمن میں حضور نے عربی زبان سیکھنے کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی.حضور نے فرمایا کہ انسان جب اس محنت اور کوشش کے نتیجہ میں ظاہری طور پر قرآن کریم تک پہنچنے کے قابل ہو جائے گا تو اس کے بعد اس کے لئے بطن قرآن اور اس کی دیگر گہرائیوں تک پہنچنے کی منزل بھی آسان اور قریب تر ہو جائے گی جو کہ اصل مقصود ہے.یہ پاک اور اہم مقصد خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل ہو نا ممکن نہیں.مگر اس کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے خلوص نیت کے ساتھ عملاً سچی محنت کی ضرورت بھی ہے جس کی طرف توجہ دینا ہمارا اولین فرض ہے.روز نامه الفضل ربوه ۱۳ اگست ۱۹۶۷ ، صفحه ۳)

Page 810

Page 811

خطبات ناصر جلد اول ۷۹۵ خطبہ جمعہ ۲۸ / جولائی ۱۹۶۷ء اسلام میں احمدیت ایک ایسا قلعہ ہے جس میں داخل ہو کر انسان سب شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے خطبہ جمعہ فرموده ۲۸ / جولائی ۱۹۶۷ء.بمقام مسجد فضل.لنڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.انشاء اللہ تعالیٰ میں اپنے بھائیوں سے لمبی گفتگو تو جلسہ سالانہ کی تقریب پر جو یہاں ہوگی کروں گا.آج میں آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ زمانہ جس میں ہم رہ رہے ہیں نہایت تاریک زمانہ ہے.یہ براعظم اور اس کا یہ جزیرہ جس میں آپ اور دیگر پاکستانی رہائش پذیر ہیں روحانی طور پر تاریک براعظم ہے.اگر خدا تعالیٰ کا ایک فرستادہ دنیا کو یہ نہ بتا تا کہ اس زمانہ کا حصن حصین میں ہی ہوں.“ اور جس کی آمد سے دنیا کا یہ مضبوط قلعہ شیطان کے وساوس سے بچنے کی وجہ سے قہر الہی سے محفوظ رہا ) تو یہ دنیا آج مر چکی ہوتی.خدا تعالیٰ نے جو بندوں سے پیار کرنے والا ہے اس دنیا کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے ایک بندے کو اس کی طرف مبعوث فرما یا اور اس دنیا کو ایک حصن حصین، ایک قلعہ بنادیا جس میں تمام دنیا کو پنا مل سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام جس کا کچھ حصہ یوں ہے.(الفاظ مجھے پوری طرح یاد نہیں ) ” محمد رسول اللہ پناہ گزیں ہوئے قلعہ ہند میں.“

Page 812

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۹۶ خطبہ جمعہ ۲۸ / جولائی ۱۹۶۷ء اس کا بھی یہ مطلب ہے کہ اسلام میں احمدیت ایک ایسا قلعہ ہے جس میں داخل ہو کر انسان سب شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے.ایک ایسا قلعہ جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان اس کے غضب سے محفوظ رہنے کے بعد خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کر لیتا ہے.جب ہم ان اندھیروں میں بسنے والی اقوام کے ان لوگوں کو جو ایسے قلعوں میں داخل ہوئے یعنی ان اقوام کے احمدی افراد کے شاندار نمونہ ، اخلاص، اسلام کے ساتھ تعلق ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے دلوں میں عشق اللہ ، ایک اللہ کی توحید پر ایمان اور اس کی صفات سے ان کے دلی لگاؤ اور ان کی فطرت میں خدا تعالیٰ کی صفات کے پر تو کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ یہ الہام سچ اور برحق ہے کہ اس زمانہ کا حصن حصین میں ہی ہوں“.بڑی قربانیاں دینے والے لوگ اپنے اموال ، اپنے اوقات، اپنے جذبات، اپنی عزتوں کو قربان کرنے والے لوگ ان میں پیدا ہو چکے ہیں.کوپن ہیگن میں وہاں کی جماعت نے یہ انتظام کیا تھا کہ احمدی بہنیں اور بھائی خود ہی کھانا پکاتے ، برتن دھوتے اور دیگر امور رضا کارانہ طور پر سرانجام دیتے تھے.وہاں پر میں نے دیکھا کہ صبح سے رات کے بارہ بجے، ایک بجے تک ہمارے احمدی نو مسلم بھائی اور بہنیں کام کرتی تھیں اور ہنستے ہوئے چہروں اور دلی بشاشت کے ساتھ رات کے بارہ بجے ، ایک بجے واپس جاتی تھیں.ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو وصیت کا چندہ دینے کے علاوہ سینکڑوں روپیہ احمدیت اور اسلام پر خرچ کرتے ہیں.ڈنمارک کے ایک دوست جن کی ماہانہ آمد ۳۰۰۰ کرون ہے جن میں سے وہ ۱۰۰۰ کرون ٹیکس میں دیتے ہیں اس آمد سے وصیت کا چندہ دیتے ہیں اور خطوط کے ذریعہ اگر کوئی اسلام سے متعلق سوال کرے یا اعتراض کرے تو اس کا تفصیلی جواب دیتے ہیں.اگر کوئی فون پر اسلام کے متعلق کوئی بات پوچھے یا اعتراض کرے تو اسے بھی تفصیلی تسلی بخش جواب دیتے ہیں ایک دفعہ ایک مہینہ میں محض فون کا بل ۲۰۰۰ کرون ہو گیا.انہوں نے دعا کی اور خدا تعالیٰ نے بل ادا کرنے کا سامان پیدا فرما دیا تو اس قسم کا جذبہ محبت و عشق ان کے دلوں میں موجزن ہے.جہاں یہ نقشہ، یہ حالت، یہ عشق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے لئے یہاں کے

Page 813

خطبات ناصر جلد اول ۷۹۷ خطبہ جمعہ ۲۸ / جولائی ۱۹۶۷ء لوگوں میں نظر آتا ہے وہاں یہ سوچ کر دل کچھ گھبراتا ہے کہ ہمارے سینکڑوں ہزاروں پاکستانی آدمی جو یہاں بستے ہیں، کیا ہم جو پاکستان کی طرف منسوب ہوتے ہیں ان ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں یا نہیں.کیا ہم نمونہ کی زندگی بسر کر رہے ہیں یا نہیں پاکستان میں اس وقت جماعت احمدیہ کا مرکز ہے.وہ ملک جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ تمام دنیا میں اسلام کو پھیلائے اور اس عالمی مہم کے لئے بنیاد کا کام کرے وہ ملک جس کے باشندے خدا تعالیٰ کی آواز کے پہلے مخاطب ہیں.وہ کندھے جن پر سب سے پہلے اسلام کی ذمہ داریاں عائد ہوئیں کیا یہ لوگ نئے آنے والوں کے استاد بنیں گے یا بطور شاگردان کے سامنے بیٹھیں گے.مجھے انتہائی شرم محسوس ہوئی جب زیورک میں ایک ہمارے احمدی نومسلم نے مجھے یہ بات بتائی ( یہ احمدی دوست زیورک میں تین ہزار مزدور ترکوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں ) کہ میں ان مسلمان ترکوں کو اسلام سکھاتا ہوں یہ مسلمان کس قدر گر گئے ہیں یہ لوگ یورپ میں آئے جہاں کی زندگی انتہائی گندی ہے جس کا تصور کر کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.یہ قومیں تباہی کے گڑھے پر کھڑی نظر آتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی ہے کہ اگر یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کریں گے تو دنیا سے مٹا دئے جائیں گے.یہاں پر ایک شخص اسلام لا تا اور احمدیت قبول کرتا ہے وہ ان لوگوں کو جو نسلاً بعد نسل اسلام میں پیدا ہوئے اسلام سکھاتا ہے وجہ یہ ہے کہ یہ اقوام اسلام سے کلیہ غافل ہو گئی ہیں اور انہیں چھوٹے چھوٹے مسائل کا بھی علم نہیں.ان کے علماء انہیں اس کی طرف توجہ نہیں دلاتے یہ لوگ رسم و رواج کی پابندی کرتے ہیں مگر احکام الہی کی طرف توجہ نہیں کرتے.اگر آپ ان رسوم کا مطالعہ کریں جو مسلمانوں میں رائج ہو ئیں عام رسوم کو چھوڑتے ہوئے اگر وہ رسوم دیکھی جائیں جو اسلام سے ٹکراتی ہیں اور جنہوں نے مسلمانوں میں رواج پکڑ لیا ہے اس کی وجہ سے ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کے احکام کو طاق نسیان میں رکھ دیا ہے.ہمارے اسی احمدی نو مسلم نے ایک مسئلہ کا ذکر کیا کہ ایک ترک رمضان میں بیمار ہو گیا اسے دوائی دی گئی تو اس نے انکار کر دیا اور روزہ رکھنے پر بہت اصرار کیا میں نے جب اسے قرآن مجید

Page 814

خطبات ناصر جلد اول ۷۹۸ خطبہ جمعہ ۲۸ / جولائی ۱۹۶۷ء سے دکھایا کہ بیمار روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس نے روزہ افطار کیا.انہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی علم نہیں یہ تو عام مسئلہ کی بات ہے لیکن دلائل و براہین تو ایک طرف ہیں دنیا آپ کو اس نگاہ سے نہیں دیکھ سکتی کہ اس شخص کو وہ دلائل و براہین آتے ہیں یا نہیں جو مسیح موعود کے ذریعہ ان کو سکھائے گئے وہ تو آپ کا نمونہ دیکھے گی ! وہ آپ کے دل میں گھس کر آپ کے اخلاص کا پتہ نہ لگائے گی! آپ کے دماغ میں گھس کر آپ کے نیک خیالات کا پتہ نہ لگائے گی ! وہ تو آپ کا ظاہری نمونہ دیکھے گی.اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایک احمدی ، احمدی کی زندگی نہیں گزار رہا تو وہ کہے گی کہ اگر دلائل کا نتیجہ، آسمانی نشانوں کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا تو آپ کے دلائل و براہین کا ہمیں کچھ بھی فائدہ نہیں.اگر وہ دیکھے کہ احمدی اپنی زندگی میں اسلام کا سچا اور کامل نمونہ ہیں ، اگر وہ دیکھے کہ ایک احمدی جہاں اپنے رب سے سچا اور زندہ تعلق رکھتا ہے وہاں وہ اپنے رب کے حکم کی وجہ سے بنی نوع انسان کا سچا غم خوار اور ہمدرد بھی ہے اور ان کے چہروں پر روحانی اثر ہے.تو یہ چیزان لوگوں پر دلائل و براہین سے زیادہ اثر کرے گی اگر وہ محض یہ دیکھیں کہ ایک دعویٰ تو ہے مگر اس کا ان پر اثر نہیں چھلکا تو ہے مگر مغز نہیں.دعویٰ تو ہے مگر نتیجہ نہیں اگر وہ یہ دیکھنا چاہیں کہ خدا سے جو زندہ تعلق ہوتا ہے کہاں ہے مگر وہ نظر نہ آئے تو خالی دعوؤں سے ہم یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق رکھنا چاہیے خواہ ہم کتنے ہی خیالی پلاؤ پکاتے رہیں اس کا اثر نہ ہوگا.اگر کسی جگہ کوئی انسان نورانی شمع جلتی ہوئی دیکھے گا تو وہ اس سے منور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.جو لوگ ان اقوام میں سے مسلمان ہوئے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی برکتوں کو اپنے اوپر نازل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں.اسی طرح افریقہ ہے میری نگاہ میں تاریک براعظم (Dark Continent) تو یہی مغرب کی سرزمین ہے مگر دنیوی لحاظ سے افریقہ مغربی اقوام کی نظر میں Dark Continent ہے وہاں اسلام واحمدیت ترقی پذیر ہے.ایک وقت تھا کہ عیسائی پادری علی الاعلان کہتے تھے کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب پورے کا پورا Dark Continent عیسائیت کی گود میں ہوگالیکن یہ بات خدا تعالیٰ کو منظور نہ تھی.سیدنا حضرت مسیح موعود کی بعثت کے بعد یہ لوگ احمدی ہوئے اور اسلام کے بچے فدائی ثابت ہوئے اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید انہیں حاصل ہوئی انہیں کچی خوا میں آنے

Page 815

خطبات ناصر جلد اوّل ۷۹۹ خطبہ جمعہ ۲۸ / جولائی ۱۹۶۷ء لگیں اس وقت وہی پادری کہتے ہیں کہ اب افریقہ میں اگر ایک شخص عیسائی ہوتا ہے تو دس مسلمان ہوتے ہیں.یہ عجیب اور انہونی بات کیسے معرض وجود میں آئی؟ صرف ایک ہی چیز نظر آتی ہے کہ جب یہ لوگ احمدی ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس تاریک علاقہ کے لوگوں کو ایسے سامان دیئے کہ ان کی روحانی ترقی بہت جلد ہونے لگی.ایسی ترقی جو وہ ۳۰-۴۰ سال بعد حاصل کر سکتے انہوں نے بہت جلد حاصل کر لی.انہیں سچی خوا ہیں آنی شروع ہوئیں اپنے اور غیروں کے متعلق جو بعد میں سچی بھی ثابت ہوئیں دنیوی طور پر بھی انہیں جلد جلد ترقی ملنے لگی ان چیزوں کی وجہ سے اور ان روحانی ترقیوں کی وجہ سے ان کے دلوں میں عجیب عشق پیدا ہو گیا جب یہ لوگ دوسروں کو تبلیغ کرتے ہیں تو وہ اسلام کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں.یہ روحانی دولت ایسی دولت ہے جو دنیا سے نہیں ملتی.مالدار انسان اپنی ساری دولت دے کر بھی اللہ تعالیٰ کی دولت حاصل نہیں کر سکتا.اس دولت کو لینے کے لئے سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے اور جب خدا تعالیٰ مل جاتا ہے تو ساری دولتیں مل جاتی ہیں.آپ کو میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اگلے زمانوں کی تعلیم بے شک کتاب مکنون ہے لیکن ہر زمانہ کی تعلیم اپنے زمانہ میں کتاب مبین کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود نے اس زمانہ میں اسلامی تعلیم کو اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ ایک زندہ دل اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا.مگر محض قرآنی تعلیم کسی کو فائدہ نہیں دے سکتی جب تک اعمال صالحہ نہ ہوں یعنی موقع کے مطابق ہوں.بعض احکام تو مستقل ہیں مثلاً نماز روزہ وغیرہ لیکن بعض احکام کی شکلیں ہر زمانہ میں بدلتی رہتی ہیں مثلاً غریب کا خیال رکھنا.پہلی صدی ، دوسری صدی، تیسری صدی اور چودھویں صدی میں بھی یہ تعلیم قائم رہی اور کس طرح غرباء کا خیال رکھنا چاہیے ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کا ایک بندہ کھڑا ہو کر راہنمائی کرتا رہا لیکن جہاں تک اسلام کے اعتقاد کا ذکر ہے حضرت مسیح موعود کی بعثت سے قبل سب درخت خشک ہو چکے تھے کیونکہ ظاہری اعتقاد کچھ نہیں جب تک ایمان نہ ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمان کا درخت اس وقت تک سرسبز نہیں ہوتا جب تک اعمالِ صالحہ کے پانی سے سیراب نہ کیا جائے نیک اعتقاد کا درخت مرجاتا ہے اگر اعمالِ صالحہ

Page 816

خطبات ناصر جلد اول ۸۰۰ خطبہ جمعہ ۲۸ / جولائی ۱۹۶۷ء نہ ہوں ، وہ درخت بچ جاتے ہیں جنہیں موزوں وقت پر اعمال صالحہ کا پانی دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسے براہین عیسائیت کے مقابلہ میں پیش کئے ہیں کہ ہمارے بچہ کے مقابلہ میں عیسائی پادری نہیں ٹھہر سکتا لیکن ظاہری لحاظ سے اس کا کچھ فائدہ نہیں جب تک وہ عیسائی یہ نہ سمجھ لے کہ روحانی انعام جو اسلام میں ملتا ہے وہ اس کی اپنی تعلیم میں نہیں.اسلام کے عقائد کا علم ہونے کے بعد اگر عمل کے وقت پیچھے ہٹ جائیں عمل صالحہ کی بجائے فساد والا عمل کریں اور اس کی بو سے سارا علاقہ بد بودار ہو جائے تو ان عقائد کے علم کا کوئی فائدہ نہیں.اسلام کے مطابق زندگی گزار ہیں.اگلے ۳۰،۲۰ سال دنیا کے لئے انتہائی نازک اور انتہائی خطرناک ہیں جس کا آپ کو تصور بھی نہیں آپ بھی اس عذاب سے بچ نہیں سکتے جب تک اپنے اموال اپنی جان اور عزت کی قربانی نہ دیں ورنہ اس کے قہر کا تازیانہ آپ پر بھی پڑے گا.خدا تعالیٰ کسی کا ذمہ دار نہیں ہے اپنے اعمال کی اصلاح کریں آپ نے صداقت قبول کر لی ہے اب اعمال صالحہ بجالانا آپ کے لئے مشکل نہیں یہ چیزیں غیروں کے پاس نہیں آپ روحانی کامیابی کے قریب ہیں جو زبان سے دعوی کرے عمل سے ثابت نہ کرے جس کے منہ سے براہین کے پھول جھڑ رہے ہوں مگر عمل سے اس کی خوشبو نہ آرہی ہو ایسا شخص خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتا.ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے اس کے بغیر آپ خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے.عمل صالح کی توفیق بھی خدا ہی دیتا ہے اس سے اس کی توفیق مانگنی چاہیے اللہ تعالیٰ آپ کو ایک احمدی کی سی زندگی گزارنے کی توفیق دے جہاں یہ زمانہ بڑا نازک ہے وہاں خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے بھی دروازے کھلے ہیں بڑا بد بخت ہے وہ شخص جس کو دونوں دروازوں کا علم ہومگر وہ اچھے دروازہ کومنتخب نہ کرے.آپ دنیا کے استاد بنائے گئے ہیں دعا کریں کہ اپنی غفلت کے نتیجہ میں دنیا کے شاگرد نہ بن جائیں.روزنامه الفضل ربوه ۶ را گست ۱۹۶۷ ء صفحه ۳ تا ۵)

Page 817

خطبات ناصر جلد اول ۸۰۱ خطبه جمعه ۴ /اگست ۱۹۶۷ء دُعا کے ذریعہ ہی مغربی اقوام کو اسلام کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے خطبه جمعه فرموده ۴ را گست ۱۹۶۷ء بمقام ونڈر میئر لیک ڈسٹرکٹ.برطانیہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ میری ایک رؤیا کا تعلق اسلام کی ترقی سے ہے میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھڑے ہیں ایک شخص جس کا نام خالد ہے کہتا ہے کہ آپ نام رکھ دیں لیکن یہ یاد نہیں رہا کہ وہ کسی بچے کا نام رکھوانا چاہتا ہے یا کسی بڑے کا یا اپنا نام بدلوانا چاہتا ہے.میں نے کہا کہ میں ”طارق“ نام رکھتا ہوں.پھر میں نے کہا کہ طارق نام ہی نہیں دعا بھی ہے اور یہ دعا بہت کرنی چاہیے.اس خواب کی مجھے یہ تفہیم ہوئی ہے کہ طارق رات کے وقت آنے والے کو کہتے ہیں.رات کے وقت ملائکہ کا نزول بھی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کو صبح صادق کے ظہور سے تعبیر کیا ہے اور طارق کے معنی روشن اور صبح کے وقت طلوع ہونے والے ستارے کے بھی ہیں اور یہ ستارہ اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ رات گزر گئی ہے اور دن چڑھنے والا ہے.پس اس خواب کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی اقوام جو بظاہر مہذب کہلاتی ہیں لیکن در حقیقت انتہائی غیر مہذب اور گندی زندگی بسر کر رہی ہیں اور بظاہر اسلام کی طرف ان کی توجہ ممکن نظر نہیں آرہی دعا کے ذریعہ ممکن ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ

Page 818

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۰۲ خطبه جمعه ۴ را گست ۱۹۶۷ء کی طرف متوجہ ہو جائیں.عقلی دلائل یہ سننے کو تیار نہیں ان کو تو دعا ہی خدا تعالیٰ کی طرف لاسکتی ہے.دلائل کے علاوہ دوصورتیں رہ جاتی ہیں.ایک یہ کہ اگر یہ اپنے خالق حقیقی کی طرف متوجہ نہ ہوں تو عذاب الہی ان پر نازل ہو جائے گا.جس کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی.دوسرے ملائکہ کا نزول ہو جو ان کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیریں.لیکن اس کے لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے خصوصاً رات کے وقت کی دعاؤں کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے فرشتوں کے نزول کے ذریعہ انقلاب عظیم پیدا فرمائے گا اور خواہ میرا ذ کر کہیں پہنچے یا نہ پہنچے.خدا تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ لوگوں کے دلوں میں تغیر پیدا کریں گے اور ان کو حق کے قبول کرنے اور اسلام پر عمل کرنے کی طرف لائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یسوع مسیح کی محبت یورپ میں بسنے والوں کے دلوں میں بہت زیادہ رچی ہوئی تھی اور یہ لوگ عیسائیت پر ایمان لائے بغیر نجات کو ناممکن سمجھتے تھے لیکن آج خدا تعالیٰ نے ملائکہ کے نزول کے ذریعہ سے ان کے دلوں سے عیسائیت کے بت سے نفرت پیدا کر دی ہے.یہاں تک کہ خود عیسائی پادری بھی یسوع مسیح پر الزام لگانے میں پیش پیش ہیں.نیز ایک عظیم بنیادی گناہ شرک دنیا سے مٹ رہا ہے اور اس سے کمتر گناہ یعنی دہریت نے اس کی جگہ لے لی ہے اس میں شک نہیں کہ شرک اور دہریت ہر دو ہی بڑے گناہ ہیں لیکن دہریت شرک سے کم ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو نہ ماننا اتنا بڑا گناہ نہیں جتنا شرک کرنا کیونکہ دہریہ تو روحانیت سے بالکل بے بہرہ ہے لیکن مشرک خدا تعالیٰ کو پہچان کر اس کے ساتھ شریک پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ گناہ یقیناً دہریت سے زیادہ ہے اسی لئے قرآن کریم نے بار بار یہ فرمایا ہے کہ شرک کا گناہ معاف نہیں ہوسکتا.غرض ایک بڑے گناہ سے ہٹ کر یہ اقوام ایک نسبتاً چھوٹے گناہ کی طرف آ رہی ہیں اور ایک بڑی روک جو جذباتی تھی یعنی مسیح سے پیار اس کو فرشتوں نے مٹا دیا ہے.اب ایک خلاء پیدا ہوتا جا رہا ہے.اس خلاء کو اللہ تعالیٰ احمدیت اور اسلام کے ذریعہ ہی پُر کرے گا.انشاء اللہ.

Page 819

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۰۳ خطبه جمعه ۴ را گست ۱۹۶۷ء لیکن اس خلاء کو پر کرنے کے لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے اور جو خواب میں نے شروع میں بیان کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میرے ذریعہ جماعت کو یہ توجہ دلائی ہے کہ اگر چہ کام بہت بڑا ہے اور ہم کمزور ہیں لیکن اگر ہم اپنے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جا ئیں تو خدا تعالیٰ معجزے دکھا کر اور ملائکہ کو نازل کر کے اور انذاری نشانات دکھا کر اسلام کی طرف ان اقوام کو متوجہ کر دے گا اور جو ہمارے دل کی خواہش ہے کہ یہ لوگ اسلام میں داخل ہوں پوری ہو جائے گی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ دیا تھا کہ اسلام کے غلبہ کے ایسے سامان پیدا کر دیئے جائیں گے کہ دنیا کا کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہ کر سکے گا وہ سامان پیدا ہو جائیں گے.یہی ہم پر پہلی اور آخری ذمہ داری دعا کی ہے.ہمارا ہتھیار دعا ہی ہے جس سے کامیابی ہو گی.ہماری تمام تدبیریں تبھی کامیابی کا منہ دیکھ سکیں گی اگر ہم اس کے ساتھ دعاؤں کو شامل کر لیں.دعا ہی ہمیں دنیا میں فتح دے سکتی ہے.ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ اگست ۱۹۶۷ ، صفحه ۲، ۳)

Page 820

Page 821

خطبات ناصر جلد اول ۸۰۵ خطبه جمعه ۱۱ اگست ۱۹۶۷ء تیسری عالمگیر جنگ کے ساتھ غلبہ اسلام کا زمانہ وابستہ ہے خطبه جمعه فرموده ۱۱ اگست ۱۹۶۷ء بمقام مسجد فضل.لنڈن لنڈن ۱۱ را گست ۱۹۶۷ء : آج اڑھائی بجے بعد دو پہر حضور نے مسجد فضل لنڈن میں تشریف لا کر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور نماز جمعہ پڑھائی حضور کے خطبہ کا خلاصہ اپنے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے.حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.امریکہ سے بھی ہماری جماعت کے چند مبر یہاں آئے ہوئے ہیں جو صرف انگریزی زبان ہی سمجھتے ہیں.اس لئے میں نے ارادہ کیا ہے کہ آج کا خطبہ اُردو کی بجائے انگریزی زبان میں ہی دوں.ہم احمدی مسلمان ہیں اور اللہ تعالیٰ، قرآن مجید اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ پر ہمارا اعتقاد درسمی نہیں ہے بلکہ ہم اسے زندہ خدا سمجھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم اس کے ساتھ زندہ تعلق قائم کر سکتے ہیں.ہم میں سے سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں اس کا ذاتی تجربہ رکھتے ہیں.ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر روحانی فرزند تھے اور آپ دنیا میں مسیح موعود بنا کر بھیجے گئے تھے تا کہ آپ روحانی و جسمانی بیماریاں دور فرماویں.یہ میرا ذاتی تجربہ

Page 822

خطبات ناصر جلد اوّل 1+4 خطبہ جمعہ ۱۱ اگست ۱۹۶۷ء ہے کہ اسلام ایک عظیم الشان مذہب ہے اسلام نے صلح و آشتی کی جو تعلیم دی ہے اس کے مطابق تمام انبیاء سچے نبی تھے اور منجانب اللہ تھے اسی طرح جن مذاہب کی ان انبیاء نے تعلیم دی اور دنیا کے مختلف حصوں میں اپنی تعلیم رائج کی اور وہ مقبول ہوئی وہ اپنے محدود زمانہ تک قابل عمل رہی.ان انبیاء میں سے کوئی ایک نبی بھی جھوٹا نہیں تھا.خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ کوئی جھوٹا نبی دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کا قہر جھوٹے مدعی نبوت پر نازل ہوتا ہے وہ اسے تباہ و برباد کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ اس کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیتا ہے اور اس کے متبعین کو منتشر کر دیتا ہے اور جو انبیاء اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے دنیا میں شہرت حاصل کی اور ایک عالم نے انہیں قبول کر لیا.یقیناً وہ خدا تعالیٰ کے برحق فرستادہ تھے.اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم تمام انبیاء پر ایمان لائیں اور ان کا احترام کریں خواہ وہ بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے ہوں یا دنیا کی کسی اور قوم کی طرف.یہی وجہ ہے کہ آج ہم جب کسی مذہب کا انکار کرتے ہیں تو صرف اس کی موجودہ مسخ شدہ شکل اور محرف و مبدل تعلیم کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں.آج سوائے اسلام کے اور کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو کہ اپنی صحیح تعلیم پیش کر سکتا ہو.انسانی ہاتھوں کی دست برد سے یہ مذاہب محفوظ نہیں رہے اور پہلے مذاہب اپنے مذہبی نقطۂ نظر کے لحاظ سے صرف محدو دلوگوں کے لئے ہی تھے.ان کا مقصد محدود وقت کے لئے سماجی و اخلاقی و روحانی ضروریات پوری کرنا تھا.اس میں کوئی کلام نہیں کہ سابقہ انبیاء جنہیں ابتدا میں لاکھوں لوگوں نے صدیوں تک برحق نبی کے طور پر تسلیم کئے رکھا.مسلمانوں کا دل ان سب کے لئے جذبۂ احترام و محبت سے معمور ہے.کیونکہ ایک سچا مسلمان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ جو مذہبی تعلیم ان انبیاء نے دی تھی وہ اپنی اصل شکل میں ہرگز ہرگز غلط نہ تھی مگر آج محض اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی حقیقی تعلیم بالکل محفوظ ہے اور خدا تعالیٰ نے ان الفاظ میں ابتدا سے ہی اس کا وعدہ فرمایا کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ.( الحجر :١٠) کہ یہ شریعت ہم نے ہی نازل کی ہے اور ہم ہی اس کی یقیناً حفاظت کریں گے.قرآن مجید کے لاکھوں نسخے دنیا میں پائے جاتے ہیں اور

Page 823

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۰۷ خطبہ جمعہ ۱۱ اگست ۱۹۶۷ء لاکھوں حفاظ قرآن مجید دنیا میں موجود ہیں جو کہ اس کی حفاظت کا ایک بین ثبوت ہیں.لاکھوں مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کر کے اسلامی تعلیمات دنیا میں قائم رکھیں.خدا تعالیٰ نے انہیں اپنی جناب سے اسرار غیبیہ اور قرآنی نکات معرفت سے بہرہ اندوز کیا ان مسلمانوں نے اخلاقی و روحانی مسائل کو اپنے اپنے زمانہ میں حل کیا.ہمارے زمانہ میں حضرت سید و مولا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے طفیل ہماری اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے.آپ نے اپنی تحریروں اور کلمات طیبات سے یہ ثابت فرمایا کہ تعلیم اسلام کامل و اکمل ہے اور اس کا مقابلہ دنیا کے کسی دوسرے مذہب کی تعلیم نہیں کر سکتی.زندہ نشانات اور آسمانی بشارات جو آپ پر ہر روز تائید اسلام میں نازل ہوتے رہے ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ہی ایک زندہ مذہب ہے.باقی تمام مذاہب ان زندہ نشانوں سے عاری ہیں.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مردہ مذاہب ہیں ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر خدا تعالیٰ کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں اور تجلیات الہیہ کا ذاتی طور پر مشاہدہ کر سکتے ہیں.ایک زندہ مذہب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ کامل و اکمل ہو جس میں انسان اپنے طور پر کوئی اصلاح نہ کر سکے.اسلام نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ وہی درحقیقت ایک کامل مذہب ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا:.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا - (المائدة : ۴) اس قسم کا دعویٰ کسی اور مذہب نے نہیں کیا.نہ ہی تو رات نے اور نہ ہی انجیل نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے.عہد نامہ قدیم میں یہ الہی وعدہ ہے :.میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پاکروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا اور

Page 824

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۰۸ خطبه جمعه ۱۱ اگست ۱۹۶۷ء جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے 66 لوں گا.“ اگر عہد نامہ قدیم کی تعلیم پر عمل کرنے سے مستقبل کے مسائل کا حل ممکن ہوتا تو کسی نئے نبی کی بعثت کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا اور خدا تعالیٰ کے قہر اور اس کی تباہیاں اس نبی کے منکرین پر نازل نہ ہوتیں.عہد نامہ جدید نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس کی تعلیم مکمل ہے جیسا کہ لکھا ہے :.” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا.“ پس موسیٰ علیہ السلام نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ تو رات نامکمل کتاب ہے اور ایک موعود نبی کی کامل شریعت کی بشارت دی ہے.مسیح نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ان کی تعلیم بھی مکمل نہیں ہے کیونکہ وہ وقت کامل و اکمل شریعت کے لئے ساز گار نہ تھا.انسانی دماغ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ کامل شریعت کا مخاطب ہو.یہ کوئی بے بنیاد دعویٰ نہیں ہے بلکہ حضرت مسیح موعود نے اسلام کے مخالفین کو چیلنج کیا کہ وہ اسلام کی کامل تعلیم کے مقابلہ میں اپنی تعلیم پیش کریں اور یہ ثابت کریں کہ ان کی تعلیم اسلامی تعلیم سے افضل ہے مگر کسی مذہب کا کوئی نمائندہ بھی میدان مقابلہ میں نہ آیا.مثال کے طور پر ایک دفعہ آپ سے ایک عیسائی نے یہ سوال کیا کہ قرآن مجید کے نزول کی کیا ضرورت تھی جبکہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت موسی بچے نبی ہیں اور تورات ایک الہامی کتاب ہے.حضرت مسیح موعود نے اس کے جواب میں فرمایا کہ یہ سچ ہے کہ موسیٰ خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور یہ بھی درست ہے کہ تو رات اپنی اصل شکل میں ایک الہامی کتاب تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت موسیٰ کی تعلیمات کا دور ختم ہو چکا ہے اور آپ کی تعلیمات کا چشمہ خشک ہو چکا ہے.لہذا انسان کی روحانی پیاس اس سے نہیں بجھ سکتی.آج اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کا روحانی سمندر

Page 825

خطبات ناصر جلد اول 1+9 خطبہ جمعہ ۱۱ اگست ۱۹۶۷ء دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ سے ٹھاٹھیں مار رہا ہے.قرآنی علوم کے مقابلہ میں بائبل کی کچھ بھی حیثیت نہیں ہے.صرف سورۂ فاتحہ کی سات آیات ہی کو لے لیجئے ان کا مقابلہ بھی پوری تورات وانجیل نہیں کر سکتے چہ جائیکہ تو رات اور انجیل مکمل قرآن کے مقابلے میں ٹھہر سکیں.آپ نے عیسائی مبلغین کوللکارا کہ وہ تو رات اور انجیل کی تعلیمات کو قرآن کے مقابلے میں پیش کریں.صرف سورۂ فاتحہ ہی ایک ایسی جامع اور مکمل تعلیم پیش کرتی ہے جس کے مقابلے میں ان کی کئی کتب کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ پینج آج بھی قائم ہے اور میں اس بات کا آج بھی اعادہ کرتا ہوں کہ رومن کیتھولک اور عیسائیوں کے دوسرے فرقوں کے سر براہ اس چیلنج کو قبول کریں اور اسلام اور عیسائیت کی سچائی کا فیصلہ کرلیں.اسلام کی دوسری خصوصیت جو کہ دنیا کے کسی اور مذہب کو حاصل نہیں ہے یہ ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ زندہ تعلق اور تازہ معجزات پر مبنی ہے.جب یہ دو خصوصیات ایک مذہب میں جمع ہو جا ئیں اس وقت اس کی روحانی روشنی سے سارا عالم جگمگا اٹھتا ہے اور اس کی ضیاء پاشی سے سارے شک وشبہات دور ہو جاتے ہیں.اور دلوں کو اس کی روشنی یقین اور ایمان کی دولت سے مالا مال کر دیتی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اسلام کی صداقت کے ثبوت کے طور پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں نشانات دنیا کے سامنے پیش کئے جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر پانچ عظیم تباہیوں کے بارے میں پیشگوئی فرمائی.دو، پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی صورت میں عظیم الشان طور سے پوری ہوئیں.تیسری ہولناک تباہی کے مہیب آثار آسمان پر ہویدا ہیں جس کے اثرات نہایت ہی خوفناک اور تباہ کن ہوں گے.اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر بھی دی کہ اس تیسری تباہی کے ساتھ غلبہ اسلام کا زمانہ بھی وابستہ ہے.اس تباہی سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان سچے راستے کو اختیار کرے اور وہ راستہ اسلام ہے.اللہ تعالیٰ کا قہر عنقریب اس دنیا پر نازل ہونے والا ہے.تباہی

Page 826

خطبات ناصر جلد اول ۸۱۰ خطبه جمعه ۱۱ اگست ۱۹۶۷ء کی آگ بھڑک اٹھی ہے آؤ اور استغفار کے آنسوؤں سے اس آگ کے لپکتے ہوئے شعلوں کو سرد کرو.آؤ! اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم و کرم کے ٹھنڈے سائے تلے پناہ حاصل کرلو.اُٹھو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کرو.آؤ! اگر تم اس بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس سے محفوظ رکھے.آمین حضور نے خطبہ ثانیہ کے دوران اردو میں انگلستان کے احمدی احباب جماعت سے مخاطب ہوکر فرمایا:.میں آپ کو فضل عمر فاؤنڈیشن کی طرف توجہ دلاتا ہوں.مکرم ومحترم مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود اس ضمن میں بڑی محنت سے کام کیا ہے اور بہت سے دوستوں نے فضل عمر فاؤنڈیشن کی طرف توجہ کی ہے.اگر احمدی مستورات ڈنمارک کی مسجد کا تمام خرچ برداشت کر سکتی ہیں تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ انگلستان کے احمدی بھائی فضل عمر فاؤنڈیشن میں کیوں اس رقم سے کم چندہ پیش کریں.جو احمدی بہنوں نے ڈنمارک کی مسجد کے لئے دی ہے.میں محبت و پیار کی ایک مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایک دن دفتر نے ( ملاقات کے پروگرام کے دوران ) مجھے اطلاع دی کہ ایک بزرگ دوست گجرات سے آئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں.وہ اتنے ضعیف اور بوڑھے ہیں کہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے.میں نے پیغام بھجوایا کہ اگر وہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے تو میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے نیچے اتر سکتا ہوں.میں سیڑھیاں اتر کے ان کے پاس گیا.وہ کھڑے ہو گئے اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے انہوں نے اپنی جیب یا دھوتی کی گرہ سے ایک رومال نکالا اور اسے کھول کر مجھے./ ۱۴۰ روپے دیئے کہ یہ فضل عمر فاؤنڈیشن کا چندہ ہے میں گجرات سے چل کر صرف یہی چندہ دینے آیا تھا.ایک غریب آدمی جس کی ساری پونچھی شاید وہی تھی وہ حضرت فضل عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت میں گجرات سے چل کر ربوہ آکر وہ رقم پیش کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جہاں دعویٰ محبت ہو وہاں اس کے مطابق عمل بھی ہونا چاہیے.اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو.مولوی قدرت اللہ صاحب

Page 827

خطبات ناصر جلد اوّل خطبه جمعه ۱۱ اگست ۱۹۶۷ء ۲۰ ستمبر تک ابھی یہاں ٹھہریں گے.آپ فاؤنڈیشن کی طرف توجہ کریں.میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے مستقبل قریب میں اس سے بھی بڑی قربانیوں کا مطالبہ کرنا چاہتا ہے.اس وقت جماعت ایک نازک دور میں داخل ہے.اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ بشارتیں جن کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا تھا ہماری زندگی میں ہی پوری ہوں تو ہمیں عظیم الشان قربانیاں دینی ہوں گی.اتنا اشارہ ہی کافی ہے.خدا تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی توفیق دے.آمین.“ روزنامه الفضل ربوه ۲۲ اگست ۱۹۶۷ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 828

Page 829

خطبات ناصر جلد اول ۸۱۳ خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۶۷ء صرف اسلام ہی دنیا کو ہولناک تباہی سے بچا سکتا ہے خطبه جمعه فرموده ۲۵/اگست ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.احباب جماعت اور اس عاجز بندے پر اللہ تعالی کے فضل کی بارش اور اس کی رحمت کے نشانات اُترتے دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے سارے سمندر محبت اور حمد اور تعریف کا پیراہن پہن کر اس چھوٹے سے دل میں سما گئے ہیں اور خدا کی حمد چاروں طرف بڑی موجوں کی شکل میں ابھر رہی اور موجزن ہے.اللہ تعالیٰ نے (جیسا کہ اس نے اس سفر سے قبل خود بتایا تھا ) اس سفر کو محض اپنے فضل سے اسلام کے لئے بہت ہی بابرکت ثابت کیا ہے.قبل اس کے کہ میں اپنی وہ رو یا بیان کروں جو میں نے جانے سے قبل دیکھی تھی میں ایک اور دوست کی رؤیا بیان کرنا چاہتا ہوں.ایک دوست نے مجھے لکھا ( مجھے یاد نہیں رہا کہ روانگی سے چند روز قبل یا روانہ ہونے کے بعد چند روز کے اندر اندر مجھے یہ خط ملا تھا ) کہ میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ کچھ مخالفت ہو رہی ہے بیرونی بھی اور اندرونی بھی.اور بعض معترض یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ رویا اور خواب بہت سنانے لگ گیا ہے.اس خواب کی دو تعبیر میں میرے ذہن میں آئیں جن میں سے ایک کا ذکر میں اپنی کراچی والی تقریر میں کر چکا ہوں اور ہر دو کا ذکر اس وقت یہاں کرنا چاہتا ہوں.جب میں نے اپنے اس

Page 830

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۱۴ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء دوست کی خواب پڑھی تو میری توجہ اللہ تعالیٰ نے اس طرف پھیری کہ اس سفر کے دوران بہت سی بشارتیں ملیں گی اور دوسرے یہ کہ مجھے ان بشارتوں کا ذکر جماعت کے سامنے کر دینا چاہیے.کیونکہ جب تک بشارتیں نہ ملیں اور ان کا ذکر بھی جماعت کے سامنے نہ کیا جائے.معترض اعتراض نہیں کر سکتا.یعنی اگر بشارت ہی کوئی نہ ملے تو اس قسم کا اعتراض کرنے والا ذہن سوچ ہی نہیں سکتا.اگر بشارتیں ملیں اور انکا ذکر نہ کیا جائے.تب بھی یہی حال ہے.پس اس دوست کی اس خواب سے میں ایک طرف بہت خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ بہت سی بشارتوں کے سامان پیدا کرے گا اور حاسد کے لئے حسد کے سامان بھی بہت سے پیدا کرے گا اور دوسری طرف میں نے خیال کیا کہ مجھے خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ جماعت کے سامنے ان باتوں کا ذکر کر دینا چاہیے.اس رؤیا کے بتانے کے بعد اب میں اپنی وہ رو یا بتا تا ہوں جو روانگی سے چند روز قبل میں نے دیکھا.جس وقت تحریک جدید کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ کوپن ہیگن کی مسجد کا افتتاح میں خود وہاں جا کر کروں اور دراصل یہ وہاں کی جماعت کی خواہش تھی جو انہوں نے مجھ تک پہنچائی تھی اور جب یورپ کے دوسرے مشنوں کو معلوم ہوا کہ میں مسجد کے افتتاح کے لئے کو پن ہیگن آرہا ہوں تو وہاں سے مطالبے آنے شروع ہوئے کہ اگر آپ ڈنمارک آئیں تو ہمارے مشن میں بھی آئیں چنانچہ یہ پروگرام بنا کہ اگر جائیں تو یورپ کے سارے مشنوں کا دورہ بھی کریں.لیکن میرے دل میں پورہ انشراح پیدا نہیں ہوا تھا اور تحریک مطالبہ کر رہی تھی کہ کافی وقت پہلے ان کو اطلاع دینی چاہیے تا وہاں انتظامات ہوسکیں.اس پر میں نے انہیں کہا کہ ان سے یہ کہہ دیا جائے کہ وہ اپنی طرف سے پوری تیاری کر لیں.تا کہ اگر جانے کا پروگرام بنے تو ان کو کوئی دقت پیش نہ آئے لیکن اپنے ذہن میں یہ بھی رکھیں کہ ضروری نہیں کہ میں اس سفر کو اختیار کروں تا کہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مایوس نہ ہوں.غرض یہ مشروط پروگرام ان کو دیا گیا اور یہاں میں نے جماعت میں دعا کے لئے تحریک کی.بعض دوستوں کو خاص طور پر خطوط لکھوائے اور بعض کو کہلوا کے بھیجا.دوستوں نے بھی بڑی دعائیں کیں اور میں بھی اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق دعائیں کرتا رہا.اللہ تعالیٰ نے بہت دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائی.لیکن پورا انشراح

Page 831

خطبات ناصر جلد اول ۸۱۵ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء نہیں ہو رہا تھا.بہت سے دوستوں نے مبشر خوا میں بھی دیکھیں بعض نے بشارتوں کیساتھ بعض منذر حصے بھی دیکھے.خود میں نے دو تین خوا ہیں ایسی دیکھیں جن میں مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ واپسی پر کچھ بدمزگی وغیرہ پیدا ہوگی یا کوئی خطرہ پیش آئے گا.لیکن وہ سارے نظارے واپسی کے تھے جس میں یہ اشارہ پایا جاتا تھا کہ سفر کے لئے روانگی ہوگی کیونکہ روانگی کے بغیر واپسی نہیں ہوا کرتی.لیکن پھر بھی طبیعت میں پورا انشراح نہیں تھا.تب قریباً آٹھ دس روز پہلے میں نے اپنے رب کے عظیم نور کا ایک حسین نظارہ دیکھا.میں نے رویا میں دیکھا کہ ہم قادیان میں ہیں اور عرفانی صاحب کے مکان میں کوئی تقریب ہے جس میں مجھے اور منصورہ بیگم کو بھی بلایا گیا ہے اور وہ تقریب عصر کے بعد ہے چنانچہ اس کے لئے ہم روانہ ہوئے.ہم حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے مکانوں میں سے گزر کر اس گلی میں سے گزرے جو اس چوک میں داخل ہوتی ہے جہاں ڈاکٹر احسان علی صاحب کی دوکان تھی اور وہیں سے بائیں طرف الحکم سٹریٹ میں داخل ہو جاتی ہے.ہم بھی اس چوک سے ہو کر الحکم سٹریٹ میں داخل ہوئے.ہمارے ساتھ کچھ اور آدمی بھی ہیں (وہی قادیان کا نظارہ ہے.جس کی اینٹ اینٹ ہمیں یاد ہے اور ہم اسے کبھی نہیں بھول سکتے ) بہر حال ہم عرفانی صاحب کے مکان پر آئے.اس مکان کا فرنٹ بالکل وہی تھا جو پہلے تھا وہی چھوٹا سا دروازہ جو اس کا ہوا کرتا تھا ہم اس دروازے میں سے داخل ہوتے ہیں.لیکن جب میں اس گھر میں داخل ہوتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عرفانی صاحب کا مکان نہیں بلکہ وہ ایک بہت بڑے قلعے کا دروازہ ہے.جس میں سے ایک وقت میں پانچ سات کارمیں گزر سکتی ہیں غرض وہ اتنا بڑا دروازہ ہے.اس دروازے میں سے گزر کر ہم صحن میں آئے.پرانے قلعوں کے دروازے خالی دروازے نہیں ہوتے تھے.بلکہ قلعہ کا دروازہ ایک کمرہ کے اندر کھلتا تھا.اور پھر اس کمرہ کا دروازہ آگے صحن میں کھلتا تھا.بہر حال اس قلعہ کا بہت بڑا انٹرنس ہال ہے جس میں ہم داخل ہوئے ہیں اور جو صحن ہے وہ اس طرح کا ہے جیسے کوئی ٹیلہ ہو اور نہایت خوبصورت سبزہ اس پر اُگا ہوا ہے اور پھول بھی ہیں.پھر خوب سجایا گیا ہے.اور وہ قلعہ کا باغیچہ جو ایک ٹیلہ پر ہے اس طرح ہے کہ سامنے کی طرف اور ہر دو پہلوؤں کی طرف کچھ سلوپ اور ڈھلوان ہے مجھے یاد نہیں اور نہ ہی خواب میں مجھے پتہ لگا کہ

Page 832

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۱۶ خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۶۷ء کون ہمیں اس طرف لے جا رہا ہے بہر حال کوئی ہمیں اس طرف لیجانے والا تھا اور وہ ہمیں اس ٹیلہ کے اوپر لے گیا جہاں ایک کا وچ بچھا ہوا ہے.اور اس نے مجھے اور منصورہ بیگم کو کہا کہ آپ یہاں بیٹھیں.وہاں کئی سو آدمی موجود ہیں جو ان کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جو گھاس کے تختوں پر بچھی ہوئی ہیں.اس وقت تک کہ ہم اس کا وچ یعنی صوفہ سیٹ کے اوپر بیٹھیں.ہمیں پیچھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا.سامنے ہی نظر آرہا تھا.لیکن جب ہم وہاں بیٹھے ( بائیں طرف منصورہ بیگم ہیں اور دائیں طرف میں ہوں ) اور منہ اوپر کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس قلعے کی دیوار کے اندر کا حصہ جو ہمارے سامنے تھا.ایسی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا کہ کوئی انسانی ہاتھ ایسی خوبصورتی پیدا نہیں کر سکتا اور نہ کسی انسان کے تصور میں وہ چیز آسکتی ہے.جب تک اللہ تعالیٰ اپنی کسی خاص مشیت کے ماتحت اسے وہ خوبصورتی نہ دکھائے اور جتنا بڑا دروازہ اور ڈیوڑھی اس قلعہ کی تھی.اسی نسبت سے وہ دیوار تھی.یعنی کئی سو گز ، نصف اس کے دائیں طرف اور نصف بائیں طرف ہمارے آگے اور جہاں وہ دیوار ختم ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی ( قلعے مستطیل ہوتے ہیں ) ایک ایک کمرہ دونوں طرف کا مجھے نظر آیا تھا.اس کے علاوہ میں نے اسکا کچھ نہیں دیکھا اور ان کمروں کی دیوار میں بھی اسی خوبصورتی سے سجائی گئی ہیں اور یہ قلعہ دو منزلہ تھا جس ڈیوڑھی میں سے ہم گزر کے آئے ہیں وہ دومنزلہ عمارت سے او پر نکل جاتی تھی اور جیسا کہ قلعوں کے اندر عام طور پر گنبد ہوتے ہیں.اس کے دونوں کناروں پر گنبد تھے اور وہ سارا حصہ جس پر ہماری نظر پڑتی تھی نہایت خوبصورتی سے سجا یا گیا تھا.کوئی بلب یا ٹیوب ہمیں نظر نہیں آتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قلعے کی دیوار کے ہر ذرہ سے روشنی چھن کے باہر آرہی ہے اور وہ روشنی مختلف رنگوں کی تھی یعنی سرخ زرد.سبز اور گلابی وغیرہ.میں ان رنگوں کو گن نہیں سکا.بہر حال وہ مختلف رنگ تھے اور ان کے ملنے سے نہایت ہی خوبصورت منظر بنتا تھا اتنا خوبصورت کہ میں اپنی پوری توجہ کیسا تھ اس حسن میں کھویا گیا اور ایک لمبا عرصہ میں خود فراموشی کے عالم میں الہی حسن کے اس حسین منظر میں گم رہا.پھر کچھ عرصہ بعد میں نے اس حسن کی تفصیل پر غور کرنا شروع کیا.جس جگہ یہ کا وچ تھا وہ دوسری منزل کی چھت کے عین سامنے اس سے ذرا نیچے تھا.یعنی ہمارے سامنے دوسری منزل کی چھت کے نیچے وہ جگہ آتی

Page 833

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۱۷ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء تھی.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ڈیوڑھی کی چھت دو منزلوں سے بھی اوپر تیسری منزل تک چلی گئی تھی.جب میں نے تفصیلی غور کرنا شروع کیا تو میری پہلی تفصیلی توجہ ڈیوڑھی کے اس حصہ پر پڑی جو دوسری منزل کی چھت کے اوپر نکلا ہوا تھا اور کافی غور کرنے کے بعد میں نے یہ دیکھا کہ قریباً ۵۵ - ۶۰ فٹ چوڑی ڈیوڑھی کے اوپر نہایت خوبصورت رنگوں سے لکھا ہوا یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا میرے سامنے نمودار ہوا الیس اللهُ بِكَافٍ عبده اسے دیکھ کر میرے اندر عَبْدَهُ ایک عجیب روحانی کیفیت پیدا ہوئی.پھر میں نے اس حسین اور منور دیوار پر اور زیادہ تفصیلی غور کرنا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ جو سبز رنگ کے قطعے دیوار کے اوپر مجھے چار لائنوں میں نظر آتے ہیں اور نظر کو وہ ایک چوکھٹہ سا معلوم ہوتا ہے.وہ محض خوبصورتی کے لئے ہی نہیں بلکہ وہ اشعار ہیں اور ساری دیوار کے اوپر سبز رنگ میں لکھے ہوئے ہیں.کہیں وہ شعر (پورا قطعہ ) مربع بناتے ہیں اور کہیں ایک شعر ( دو مصرعے ) ایک مستطیل بنارہے ہیں اور ان کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ ساری دیوار کے اوپر سجایا گیا ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ میرا سہرا ہے اور مجھے خیال آتا ہے کہ مجھے ان لوگوں نے بتایا ہی نہیں تھا اور میری شادی کا انتظام کر دیا ہے.اور میرا سہرا یہاں اس خوبصورتی کیساتھ لکھ دیا ہے.پھر میں نے اس سجاوٹ پر اور غور کیا تو میں نے یہ دیکھا کہ ساری دیوار کے اوپر وہ سارے پھول اور اشعار اور الیس اللهُ بِكَافٍ عَبدہ جو نظر آتے تھے وہ خشک میووں بادام اور پستہ وغیرہ سے بنائے گئے ہیں.اور ان کو اس طرح سجایا گیا ہے کہ شکلیں الفاظ کی نظر آرہی ہیں اور ان کے نیچے سے روشنی چھن کے آرہی ہے.سوائے ہر دو برج کی دیواروں کے جن کی سجاوٹ کیلوں (پھل) سے کی گئی تھی.پھر میں نے ان اشعار میں سے ایک شعر پڑھا لیکن بیدار ہونے کے بعد وہ مجھے یاد نہیں رہا.پھر میں نے دائیں طرف دیکھا.وہ دو منزلہ کمرہ جو ایک ہی کمرہ دائیں بازو کا مجھے نظر آرہا تھا اور سجا ہوا تھا اس کی دوسری منزل اتنی بڑی تھی جتنی یہ ہماری چھت ہے.اس کی پوری دیوار پر ایک کم عمر لڑکی کی تصویر ہے اور جب میں نے اس کو غور سے دیکھنا شروع کیا تو وہ مجھے ایک شبیہ نظر آئی جس کے سر پر دوپٹہ تھا اور سر آگے جھکا ہوا تھا.جیسا کہ وہ کوئی مسلمان لڑکی ہو

Page 834

خطبات ناصر جلد اوّل ΔΙΑ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء پھر میں نے دیکھا کہ وہ نماز کی (قیام کی ) حالت میں ہے.یعنی اس نے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں.پھر جب میں نے غور کیا.تو میں نے اس کے ہونٹوں کو ہلتے پایا اور میری طبیعت پر یہ اثر ہوا کہ یہ سورۃ حمد پڑھ رہی ہے اور ہونٹ اس کے ہل رہے تھے.اس کے بعد وہ شخص جو ہمیں وہاں لے گیا تھا اس وقت ذہن میں نہیں تھا کہ وہ کون ہے اور نہ بعد میں ہی ذہن میں آیا ، اس نے کہا آئیں ، آپ کو عجائب گھر اس قلعہ کا دکھا ئیں.چنانچہ میں اور منصورہ بیگم اُٹھے اور اس کے ساتھ گئے.وہ ہمیں بائیں طرف لے گیا.اس کمرے کی طرف جو سامنے کی دیوار کے پہلو میں ( دوسرے بازو کا ایک ہی کمرہ نظر آتا تھا.جب ہم اس کے اندر داخل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ داہنی طرف نو جوانوں کی پانچ تصویریں ہیں جوگنتہ کو کاٹ کر بنائی گئیں ہیں اور ان کے قد ساڑھے پانچ فٹ یا چھ فٹ نہیں بلکہ وہ تصویر میں بڑے سائز میں بنائی گئیں ہیں اور قریبا دس فٹ قد ہیں ان کے.یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ ان میں سے تین نوجوان مرد اور دو نو جوان لڑکیاں تھیں یا دو مرد اور تین نوجوان لڑکیاں تھیں لیکن وہ شکلیں کارڈ بورڈ کاٹ کر بنائی گئیں ہیں اور وہ پہلو بہ پہلو کھڑی کی ہوئی ہیں.جس وقت میں نے اس طرف منہ کیا تو ان کے ہونٹ ہلنے شروع ہوئے جس طرح وہ اپنا تعارف کروانا چاہتی ہیں اور اس شخص نے جو ہمیں لے جا رہا تھا کہا کہ یہ ہم میں سے وہ لوگ ہیں جو مر چکے ہیں.اس پر میں نے اُس کو جواب دیا کہ تم میں سے جو لوگ مر چکے ہیں ان میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور یہ کہہ کر میں بائیں طرف گھوما اور اس عجائب گھر کی طرف چلا گیا جو وہ مجھے دکھانا چاہتا تھا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس رؤیا کے بعد میری طبیعت میں بڑی بشاشت پیدا ہوئی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اس سفر پر مجھے ضرور جانا چاہیے اللہ تعالیٰ برکت کےسامان پیدا کرے گا.یہ رویا اس قسم کی ہے کہ الفاظ اس کو بیان نہیں کر سکتے.اس وقت تک بھی میری روح اور میرا دماغ اور میرا دل اور میرا جسم اس کا سرور محسوس کر رہے ہیں.چونکہ یہ بڑی اہم رؤ یا تھی اور انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے میں نے اپنے گھر میں محترمہ ام متین صاحبہ کو بڑی پھوپھی جان نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو اور کراچی میں چھوٹی پھوپھی جان نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو اور بعض دوسرے عزیزوں کو یہ رو یا سنادی.

Page 835

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۱۹ خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۶۷ء خیر ہم یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے.وہاں جس رنگ میں برکتوں کا نزول ہوا ہے اس کے بیان سے قلم قاصر ہے.لنڈن میں ہی مجھے ایک احمدی بہن کی رؤیا کا علم ہوا جوان کے ایک عزیز نے مجھے لکھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا تعلق دراصل اس رؤیا سے ہے جس کو میں نے ابھی آپ کے سامنے بیان کیا ہے وہ دوست لکھتے ہیں (خواب دیکھنے والی ان کی ایک عزیزہ ہے ) کہ پندرہ اور سولہ جولائی کی درمیانی شب بوقت چار بجے صبح خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑ اوسیع میدان ہے جو ایک بڑے شہر جتنی جگہ میں سمایا ہوا ہے اور سبزہ زار ہے اس میدان کے درمیان ایک گلدستہ پڑا ہوا ہے جس میں نہایت ہی خوبصورت پھول لگے ہوئے ہیں جو د یکھنے سے تعلق رکھتے ہیں.دیکھتے ہی دیکھتے وہ گلدستہ ایک درخت کی شکل میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے اور بالآخر ایک تناور درخت بن کر اس تمام میدان میں سایہ فگن ہو جاتا ہے.اتنے میں ایک بزرگ رونما ہوتے ہیں جو سفید لباس میں ملبوس ہیں اور ان کا حلیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملتا ہے.وہ بزرگ فرمارہے ہیں کہ جو شخص اس تناور درخت کے نیچے پناہ نہیں لے گا وہ تباہ ہو جائے گا اس پر حمیدہ بیگم (خواب دیکھنے والی) نے پوچھا کہ یا حضرت کون سے درخت کے نیچے.جس پر اس بزرگ نے فرمایا حضرت ناصر کے درخت کے نیچے.گویا وہ گلدستہ جس نے ایک تناور درخت کی صورت اختیار کی وہ جس شخص کا ہے اس سے مراد اس خاکسار کا وجود ہی ہے.پھر اس کے بعد دیکھا کہ اس میدان کے ایک کو نہ میں ایک بہت بڑی دعوت کا انتظام ہو رہا ہے جس میں بہت عمدہ عمدہ کھانے بہت بڑی تعداد میں لگے ہوئے ہیں اور جس میں شمولیت کے لئے جماعت کے دوست جمع ہورہے ہیں.اس میں دہی کے کونڈے بھی ہیں اور دو سیاہی مائل کتے ان دہی کے کونڈوں کی طرف لپکتے ہیں جس پر حمیدہ بیگم نے شی شی کر کے ان کتوں کو ڈرانے کی کوشش کی تو ان بزرگ صاحب نے فرمایا.نہ.آپ ان کو رہنے دیں یہ خود بخودہٹ جائیں گے.اس پر آنکھ کھل گئی.تو گویا یہ خواب بھی میری رؤیا سے ملتی جلتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ مومن کو رویا دکھائی بھی جاتی ہے اور اس کے لئے دوسروں کو بھی رؤیا دکھائی جاتی ہے.ویسے توسینکڑوں کی تعداد میں دوستوں نے مبشر خوا ہیں دیکھیں لیکن میں نے ان میں سے آج کے خطبہ میں سنانے کے لئے

Page 836

خطبات ناصر جلد اوّل صرف دو کا انتخاب کیا.۸۲۰ خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۶۷ء اب ایک دوسری خواب ہے جو ان واقعات کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو وہاں ہونے تھے.یعنی اس سفر کے نتیجہ کے متعلق ہے جو کسی کے خیال میں بھی نہیں آسکتا اور وہ یہ ہے کہ ایک دوست لکھتے ہیں کہ خاکسار نے ۶۷.۸.۶ کو خواب میں دیکھا کہ حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم کے ہاتھ میں اسلام کی فتح کا جھنڈا ہے.اس کے نچلے حصہ میں (جو پکڑنے کی جگہ ہے ) انگریزی ہندسوں میں 1412 لکھا ہے اور آپ کو ( یعنی مجھے ) فرماتی ہیں کہ ان دوستوں کے نام شکریہ کی چھٹیاں لکھ دیں جنہوں نے فتح کے نزدیک لانے میں مدددی ہے.غرض ہمارے سارے سفر کا جو انجام ہے وہ اس رویا میں دکھایا گیا ہے اور وقت کی تعیین ۲۵ سال کی گئی ہے اور میں نے بھی یورپین اقوام کو یہی کہا تھا کہ تیس سال کے اندراندر ایک عظیم روحانی انقلاب رونما ہونے والا ہے.گو یہ بات الفضل میں بھی غلط چھپ گئی ہے اور وہاں کے بعض اخباروں نے بھی میری اس بات کو غلط طور پر شائع کر دیا تھا.میں نے جو انہیں تنبیہ کی تھی اس میں جس زمانہ کی تعیین کی تھی وہ ۳۰ سال نہیں تھا یعنی میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ جس عظیم تباہی کے متعلق میں کہہ رہا ہوں وہ تیس سال کے بعد آئے گی بلکہ میں نے یہ کہا تھا نہیں تیس سال کے اندر اندر تم لوگ مجبور ہو جاؤ گے کہ اسلام کی طرف جھکو اور اسے قبول کر دیا پھر تباہ کر دئے جاؤ.تمہارے لئے اب ان دو راستوں کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے.یا تو تمہارے لئے تباہی کا راستہ ہے یا پھر اسلام کا صراط مستقیم ہے ان کے سوا اور کوئی تیسرا راستہ تمہارے لئے ممکن ہی نہیں ہے اور آگے اپنے وقت پر جا کر میں آپ کو بتاؤں گا کہ میں نے کس رنگ میں اور کس تمہید کے بعد کسی وضاحت کے ساتھ اور کس زور کے ساتھ یہ باتیں ان کے ذہن نشین کروائیں اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اخباروں نے ان باتوں کو لیا اور سارے ملک میں پھیلا دیا.براڈ کاسٹ ٹیلی ویژن پر بھی آگیا اور یہ اپنی جگہ ایک علیحدہ مضمون ہے جب میں اس حصہ میں داخل ہوں گا تو اس کے متعلق بتاؤں گا.بہر حال دوستوں نے سینکڑوں نہیں تو بیبیوں کی تعداد میں ( یقینا سو سے اوپر ہی ہیں ) مبشر خواہیں دیکھیں جن میں سے بعض میں کچھ منذر حصے بھی ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے میری اپنی خوابوں

Page 837

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۲۱ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء میں بھی بعض منذر حصے تھے لیکن بہر حال تمام خواب انجام بخیر بھی بتا رہے تھے.ہاں ان سے یہ ضرور ظاہر ہوتا تھا کہ واپسی پر کچھ تکالیف اور پریشانیاں بھی ہونگی.چنانچہ کراچی میں میری ایک بچی رہتی ہے.بعض کاموں کی وجہ سے وہ ایروڈ رام پر نہیں آسکتی تھی.جس دن ہم نے کراچی میں لینڈ کرنا تھا اس دن اسکی طبیعت بہت گھبرائی ہوئی تھی.وہ بے چین تھی کہ جلدی آئیں اور ملیں.ایروڈرام والوں نے انہیں کہا کہ آج اتنی تیز بارش ہو رہی ہے کہ اگر یہی حالت رہی تو ہم ہوائی جہاز کو یہاں اُترنے کی اجازت نہیں دیں گے.بلکہ وہ سیدھا لا ہور چلا جائے گا.وہاں جن لوگوں کو اس بات کا پتہ لگا ان کو بھی پریشانی ہوئی.عملاً جہاز والوں نے ہمیں یہ اطلاع دی کہ بیلٹ کس لیں دو ایک منٹ میں جہاز اُترنے والا ہے.اس کے بعد نہیں منٹ تک وہ جہاز او پر اُڑ تا رہا اور کراچی شہر بھی پیچھے رہ گیا.میرے اندازہ کے مطابق ہم تیس چالیس میل کے قریب کراچی سے آگے نکل گئے.پھر اس نے چکر لگایا اور واپس کراچی آکر وہ اُترا.یہ بھی ایک قسم کی پریشانی ہی تھی.پھر سامان وغیرہ کی وجہ سے کچھ پریشانی ہوئی.بہر حال انجام بخیر ہوا اور ہم خوش تھے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر یہ پریشانیاں ٹل گئیں.اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے.دعا ئیں بھی جماعت نے بہت کیں اور ہم کو بھی اللہ تعالیٰ نے بہت دعائیں کرنے کی توفیق دی اور وہ بڑی قدرتوں والی ہستی ہے جب وہ اس قسم کی چیز انسان کے علم میں لاتا ہے تو اس کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ دعا ئیں کرو میری قدرت کوا پیل کرو اور عرش تک اپنے نالوں کو پہنچاؤ.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.جس وقت ہم یورپ گئے اس وقت ہمارا یہ راستہ تھا.پہلے فرینکفورٹ پھر زیورک پھر ہیگ پھر ہیمبرگ.پھر کوپن ہیگن اور پھر لنڈن اور گلاسگو.زیورک میں ایک دن صبح میری آنکھ کھلی تو میری زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام تھا.مُبَارِكَ وَ مُبَارَكَ وَكُلُّ أَمْرِ مُبَارَكِ يُجْعَلُ فِيْهِ - یہ الہام اخبار الفضل میں بھی چھپ چکا ہے.اس سے دوسرے دن تین بجے کے قریب میری آنکھ کھلی اور میری زبان پر قرآن کریم کی ایک آیت تھی اور ساتھ ہی مجھے اس کی ایک ایسی تعبیر بھی بتائی گئی جو بظاہر انسان ان الفاظ سے نہیں نکال سکتا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تعبیر مجھے اللہ تعالیٰ

Page 838

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۲۲ خطبہ جمعہ ۲۵ /اگست ۱۹۶۷ء نے ہی سکھلائی تھی.میں خوش بھی ہوا لیکن مجھے حیرت بھی ہوئی کہ بعض دفعہ کیا کیا تعبیریں نکل آتیں ہیں.اگر میرے ذہن پر چھوڑا جاتا یا آپ میں سے کوئی ماہر تعبیر بتانے والا بھی ہوتا تو اس کی وہ تعبیر نہ کرتا جو اس وقت میرے ذہن میں آئی اور ابھی اس خواب کو دیکھے چار پانچ گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ وہ پوری ہو گئی چونکہ طبیعت پر اثر تھا کہ یہ خواب جلد پوری ہونے والی ہے اس لئے جس وقت منصورہ بیگم کی آنکھ کھلی میں نے انہیں بتا دیا کہ میری زبان پر یہ آیت جاری ہوئی ہے اور مجھے اس کی یہ تعبیر بتائی گئی ہے اس کو یا درکھ لو.پھر چار پانچ گھنٹوں کے بعد ہمیں پتہ لگ گیا کہ اس تعبیر کے لحاظ سے وہ خواب پوری ہو گئی جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مجھے دلی اطمینان کے لئے اس کی ضرورت ہے.باقی ایمان تو مجھے ہے.اسی طرح ہمیں ایمان تو تھا لیکن دلی اطمینان کے لئے اللہ تعالیٰ نے دوسرے ہی روز ایک ایسی بات بتادی کہ جو چند گھنٹوں میں پوری ہونے والی تھی اور شاید اس وقت دنیا کے اس حصہ میں پوری ہو رہی تھی جس کے متعلق وہ خبر دی گئی تھی.اسی طرح وہ میرے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی تقویت ایمان اور تسکین قلب کا موجب ہوئی.وہ خواب کیا تھی اور وہ تعبیر کیا تھی جو مجھے بتائی گئی.وہ ایک خاص مصلحت کے ماتحت میں اس وقت نہیں بتا رہا.ویسے وہاں بھی اور یہاں بھی میں نے بعض دوستوں کو وہ خواب اور تعبیر بتادی ہے.اسی طرح کو پن ہیگن میں صبح کی نماز سے پہلے جاگتے ہوئے ( گو آنکھیں میری بند تھیں ) میں نے ایک نظارہ دیکھا.وہ نظارہ اپنی ذات میں غیر معمولی نہیں لیکن اس کا جواثر تھا وہ بڑا عجیب اور غیر معمولی تھا کہ دل و دماغ اور جسم کی روئیں روئیں سے سرور اور حمد کے چشمے پھوٹنے لگ گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ کر جو کیفیت ایک مومن کی ہوتی ہے ( وہ عجیب رنگ میں کچھ جذباتی بھی ہوتی ہے اور کچھ مجذوبانہ بھی.وہاں عقل کو کوئی دخل نہیں ہوتا محبت اور پیار کو دخل ہوتا ہے ) پیدا ہوگئی.نظارہ تو میں نے صرف یہ دیکھا کہ میں ایک مسجد میں ہوں اور محراب میں تین صفیں پیچھے کھڑا ہوں یعنی تیسری صف میں اور گویا میں انتظار کر رہا ہوں کہ نمازی آئیں تو میں نماز پڑھاؤں.میں نے دیکھا کہ دائیں طرف سے دیوار کیساتھ ساتھ ایک دوست جن کا نام عبدالرحمن

Page 839

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۲۳ خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۶۷ء ہے مسجد میں داخل ہوئے ہیں.چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کرتے ہی سیدھے چلے آرہے ہیں اور دیوار کے ساتھ ساتھ پہلی صف کی طرف خراماں خراماں چل رہے ہیں ( پہلی صف میں اس وقت صرف دو تین آدمی ہیں ) میرے سامنے ان کے چہرہ کا بایاں حصہ آیا ہے اور عجیب بشاشت اور مسکراہٹ ان کے چہرہ پر پھیل رہی ہے اور اس کو دیکھ کر میرے دل میں بھی عجیب سرور پیدا ہوا میرے پیچھے ایک شخص کھڑا ہے جس کا نام بشیر ہے.لیکن میں نے اسے نہیں دیکھا.میں نے یہ خواب اس وقت کسی کو بتائی نہیں تھی لیکن اس روز مبلغین کی کانفرنس تھی شام کو چار بجے کے قریب تبادلہ خیالات اور رپورٹوں کے بعد بعض تجاویز زیر غور آئیں.آخر میں میں نے کچھ نصائح کرنی تھیں.اس وقت میں نے انہیں بتایا کہ آج صبح میرے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پیار کا یہ سلوک کیا ہے اور سرور کی یہ روحانی کیفیت میرے اندر اب بھی موجود ہے اس پر چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کہنے لگے کہ میں نے اور بشیر احمد صاحب آرچرڈ نے گیارہ بجے یہ باتیں کی تھیں کہ کوئی بات ضرور ہے حضور وہ نہیں جو روز ہوا کرتے تھے.تو گویا اس وقت وہ بھی ایک روحانی کیفیت محسوس کر رہے تھے اور میں اس وقت بھی سرور محسوس کر رہا تھا.گیارہ بجے کے قریب پندرہ منٹ کے لئے ہم نے کا نفرنس کو بند کر دیا تھا کہ مبلغین ایک ایک پیالی چائے پی لیں کیونکہ وہاں لوگوں کو اس وقت ایک پیالی چائے پینے کی عادت ہے اور بشیر احمد آرچرڈ انگریز ہیں اور سکاٹ لینڈ میں ہمارے مبلغ ہیں.پس رحمن کی رحمانیت نے ایک بشارت دی اور کوپن ہیگن میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے پیارے نظارے دیکھے اور لوگوں میں اس قدر رجوع تھا کہ وہاں بڑی تعداد میں آرہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان لوگوں کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور فرشتے انکو دھکے دے کر لا رہے ہیں مثلا عیسائی بچے جو دس سال اور پندرہ سولہ سال کے درمیان عمر کے تھے مسجد میں آجاتے تھے اور ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہوتے تھے.ان کی تعداد کو ئی چالیس پچاس ہوگی جو مختلف وقتوں میں آئے.پھر وہ بچے صرف فرائض میں ہی شامل نہیں ہوتے تھے کہ ہم سمجھیں کہ وہ مجو بہ سمجھ کر ایسا کرتے تھے بلکہ مغرب و عشاء کی نمازیں جمع ہوتیں تھیں اور بعد میں ہم وتر ادا کرتے تھے تو دس دس بارہ بارہ سال کی بعض لڑکیاں ہماری احمدی مستورات کے ساتھ وتر بھی

Page 840

خطبات ناصر جلد اول ۸۲۴ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء پڑھ کے جایا کرتی تھیں ایک دن ہم میں سے کسی نے انہیں کہا کہ تمہارے ماں باپ کو پتہ لگ گیا تو وہ تمہیں ماریں گے تو وہ کہنے لگیں نہیں ، ان کو پتہ ہے کہ ہم یہاں آتی ہیں.غرض صبح سے لے کر شام تک ایک تانتا سا بندھا رہتا تھا.لوگ آرہے ہیں مسجد دیکھنے کے لئے اور واپس جارہے ہیں ایک دن چوہدری محمد علی صاحب کی آنکھ رات کے ڈیڑھ بجے کھلی اور وہ اپنے کمرہ سے باہر نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد کی تصویر لے رہا ہے.رات کے ڈیڑھ بجے وہ مسجد کی تصویر لے رہا تھا.پھر آج کل ڈنمارک میں باہر کے سیاح بہت بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے یہی موسم ہے سیر کا.وہاں سال میں صرف ایک دو ماہ ایسے ہوتے ہیں جن میں لوگ سیاحت کے لئے نکلتے ہیں.پھر موسم خراب ہو جاتا ہے.جھکڑ اور سرد ہوائیں چلتی ہیں.سیر و سیاحت کے ان مہینوں میں وہاں بعض کا رخانے بند ہو جاتے ہیں.یہ نہیں ہوتا کہ بعض کو چھٹی دے دی اور بعض کو نہ دی بلکہ کچھ عرصہ کے لئے کارخانہ ہی بند کر دیا جاتا ہے اور ملازموں سے کہا جاتا ہے کہ جاؤ سیر کرو ہماری طرف سے تمہیں چھٹی ہے اور چونکہ ان ملکوں میں سیر و سیاحت کا زمانہ زیادہ لمبا نہیں ہوتا اس لئے لوگ ان دنوں میں بڑی کثرت سے سیر و سیاحت کے لئے باہر نکلتے ہیں.غرض جولوگ سیاحت کی غرض سے وہاں آئے ہوئے تھے وہ بھی بڑی کثرت سے مسجد دیکھنے آئے ہمارا جو مشن ہاؤس ہے.یعنی مبلغ کے رہنے کا جو گھر ہے اس کے دروازے اور مسجد کے دروازے میں تیں چالیس فٹ کا فاصلہ ہے.وہاں دراصل ایک میٹنگ روم بنانے کے لئے نقشہ دیا گیا ہے لیکن ابھی اس پر چھت ڈالنے کے لئے کارپوریشن کی طرف سے اجازت نہیں ملی.اس وقت وہ جگہ ایک صحن کی شکل میں ہے.جمعہ کے روز افتتاح کے وقت لوگ اتنی کثرت سے آئے کہ جب میں گھر سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ لوگ کثرت سے آئے ہوئے ہیں اور کندھا سے کندھا ملا ہوا ہے اور میں مسجد کے دروازہ تک نہیں پہنچ سکتا بعد میں تین چار رضا کار آئے.انہوں نے بڑی مشکل سے رستہ بنایا تب میں مسجد میں پہنچا.آنے والوں میں بڑے بڑے لوگ بھی تھے جن کی طرف اس وقت ہماری توجہ بھی نہ ہوئی.خود ہی وہ افتتاح کی تقریب میں شامل ہوئے اور پھر واپس چلے گئے.ان لوگوں میں ہمارے علاقہ کا لارڈ میئر بھی تھا جو بڑا شریف انسان ہے اور جماعت کے

Page 841

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۲۵ خطبہ جمعہ ۲۵ /اگست ۱۹۶۷ء دوستوں کے ساتھ تعلق بھی رکھتا ہے.ہمارے ملک میں تو رواج نہیں وہاں یہ رواج ہے کہ اگر کوئی آدمی جس کو وہ بڑا سمجھیں ان کے ملک میں آجائے تو وہ اسے ریسیو کرتے ہیں.Reception دیتے ہیں اور یہ ایک فارمل سی چیز ہے پندرہ منٹ کے قریب عرصہ کے لئے یہ تقریب منائی جاتی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ہم اس شخص کو اپنے میں شامل کر رہے ہیں اور یہ اس شخص کے لئے احترام اور عزت کا ایک مظاہرہ ہوتا ہے.چنانچہ افتتاح سے دوسرے روز انہوں نے میرے اعزاز میں ری سپشن دی تو وہاں انہوں نے مجھے بتایا کہ میں بھی افتتاح کے موقعہ پر موجود تھا حالانکہ ہم میں سے کسی نے بھی انہیں نہیں دیکھا.چنانچہ معذرت کی گئی کہ لوگ چونکہ بڑی تعداد میں جمع تھے اس لئے ہم نے آپ کو دیکھا نہیں.افتتاح کے روز قریباً سوا سو آدمیوں کے لئے کھانا کا انتظام بھی کیا گیا تھا.چائے اور پیسٹری کا انتظام تھا لیکن یہ کھانا ان لوگوں کو بھی کھلایا گیا جو اس موقع پر بلائے نہیں گئے تھے ہمارے آدمی باہر جاتے اور بعض لوگوں کو پکڑ کر اندر لے کر آتے اور انہیں کھانا کھلاتے.کھانا میں خدا تعالیٰ نے ایسی برکت دی کہ وہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا.کوئی تین سو کے قریب آدمیوں نے کھانا کھایا.ہمارے مقامی احمدی دوست بڑے حیران تھے کہ چھوٹے پیمانہ پر انتظام تھا جو ختم ہونے میں نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر کے کھانے کو بھلا کون ختم کر سکتا ہے.وہاں کے پریس نے پہلے اسلام کے خلاف بعض غلط باتیں شائع کر دیں لیکن بعد میں خود ہی ان باتوں کی تردید بھی کر دی.السٹریٹڈ ویکلی اور دوسرے کئی اخباروں نے ایک ایک صفحہ مسجد کے افتتاح کے لئے دیا جو ان ملکوں کے لئے تو کیا دوسرے ملکوں کے لئے بھی ممکن نہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے ہر رنگ میں اس سرور کے سامان کر دیئے جو مجھے رؤیا میں دکھایا گیا تھا اور ابھی اس کے بہت سارے حصے باقی ہیں جب میں ان تک پہنچوں گا تو ان کے متعلق کسی قدر تفصیل سے بیان کروں گا.میں آج خطبہ لمبا کرنا چاہتا ہوں.نمازیں (جمعہ وعصر ) جمع کراؤں گا.آج شام تک اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو دوستوں کے لئے پروگرام بنایا ہوا ہے سوائے اس کے کہ آپ تھک جائیں.اگر آپ تھک جائیں تو مجھے بتا دیں.

Page 842

خطبات ناصر جلد اول ۸۲۶ خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۶۷ء پھر ڈاک میں روزانہ کوئی نہ کوئی خط ایسا ہوتا جس میں کوئی مبشر خواب ہوتی اور میں اسے پڑھ کر بڑا خوش ہوتا.کیونکہ اعتراض والی خواب سے جو دو نتیجے میں نے نکالے تھے انہیں پورا ہوتے دیکھتا بشارتیں مل رہی تھیں اور ان کا اعلان ہو رہا تھا اور ہم اس بات سے خوش ہورہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے سرور کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.اگر کوئی دماغ اعتراض کرتا ہے تو ہمیں اس سے کیا.ہمیں ایسے دماغ پر رحم آتا ہے غصہ نہیں آتا کیونکہ وہ قابل رحم ہوتا ہے.ایک طرف اللہ تعالیٰ اپنی بشارتوں کی بارش برسا رہا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جس کے دماغ کو اعتراض سوجھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ انسانی وساوس سے ہر ایک کو ہی محفوظ رکھے.غرض ہر بات میں ہمیں سرور مل رہا تھا اور ہم خوش ہو رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے سرور کے سامان کر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے یہ فرمایا ہے کہ سچی اور جھوٹی خواب میں ایک فرق ہے.جھوٹا خواب جو انسان کا نفس بنائے یاوہ شیطان کا القا ہو اس کے پیچھے طاقت نہیں ہوتی.ایسا خواب پورا نہیں ہوتا.لیکن خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا انسان احاطہ نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ جو بشارتیں دیتا ہے ان کو پورا کرنے کے بھی وہ سامان پیدا کرتا ہے.ان کو پورا کرنے کی ذمہ داری خدا تعالیٰ پر ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس ذمہ داری کو اٹھا رہا ہوتا ہے.وہ کہتا ہے کہ میں تمہیں یہ بتا رہا ہوں اور میں اسکو پورا بھی کروں گا.انسانی غفلت کے نتیجہ میں کوئی نسل ان بشارتوں سے محروم رہ جائے تو یہ ان کی بد بختی ہے ورنہ خدا تعالیٰ کی کوئی بشارت ایسی نہیں ہوتی جو پوری نہ ہو.غرض خدا تعالیٰ اپنی بشارتوں کو بہر حال پورا کرتا ہے.اگر کوئی ابتلا آ جائے اور کوئی حصہ قوم کا ان سے محروم رہ جائے تو یہ اور بات ہے.میں نے بتایا ہے کہ بشارتیں مل رہی تھیں اور ہمارے لئے خوشی کے سامان ہورہے تھے.اب میں ان سامانوں کو لیتا ہوں جو اس سفر کے دوران اللہ تعالیٰ نے مختلف رنگوں میں کئے.میرے دورے کی دو اغراض تھیں ایک اپنے بھائیوں بہنوں اور بچوں بچیوں کو ملنا ان سے واقفیت حاصل کرنا اور معلوم کرنا کہ کس قوم میں کس قسم کی کمزوری ہے تا ہم کسی نہ کسی رنگ میں

Page 843

خطبات ناصر جلد اول ۸۲۷ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء تربیت کر کے ان کمزوریوں کو دور کر دیں.ان کے لئے خاص طور پر دعائیں کرنے کا بھی موقع ملتا تھا اور باہمی مشورہ اور تبادلۂ خیالات کے بعد زیادہ اچھا پروگرام بھی بنایا جا سکتا تھا اور دوسری غرض میرے اس سفر کی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بڑے زور کیسا تھ یہ ڈالا تھا کہ ان قوموں کی تباہی کا وقت قریب آ گیا ہے اس لئے ان پر اتمام حجت ہونی چاہیے.چنانچہ ہر پریس کا نفرنس میں میں ان کو یہی کہتا تھا کہ جو بات میں آپ کو آج بتانے والا ہوں اس وقت آپ اس کو انہونی خیال کریں گے اور تم مجھے پاگل سمجھو گے.لیکن اگر تم نے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع نہ کیا تو یہ تباہی تم پر ضرور آئے گی.پھر جو آپ میں سے بچیں گے وہ میرے گواہ ہوں گے.وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ آج میں تمہارے ساتھ سچی باتیں کر رہا ہوں.پس یہ دو اغراض تھیں جن کے لئے یہ سفر کیا گیا تھا.اب میں پہلے پریس کو لیتا ہوں جیسے اخباروں کے ایڈیٹر آزاد ہوتے ہیں کہ جو مرضی ہولکھ دیں اور غلط بات کی تردید بھی شائع نہ کریں اسی طرح پریس بھی آزاد ہوتا ہے وہ بھی انہی کا ایک حصہ ہوتا ہے.جو بیان وہ چاہیں لکھ دیں.ایک بات میں نہ کہوں اور وہ میری طرف منسوب کر دیں تو انہیں کون پوچھ سکتا ہے یا میں ایک بات کہوں تو وہ آدھی شائع کریں اور آدھی شائع نہ کریں.وہ اس بات کا وہ حصہ دیں کہ اگر اس کا دوسرا حصہ لوگوں کے سامنے نہ آئے تو بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جا ئیں تو انہیں کون روک سکتا ہے اس لئے ہمارے مبلغ پر یس کا نفرنسز سے خائف تھے خصوصاً اس لئے بھی کہ آج کل یورپ میں اسلام کے خلاف تعصب اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے آپ اس تعصب کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.مجھے ذاتی مشاہدہ سے یہ علم حاصل ہوا ہے کہ وہ قو میں جواب تک یہ ظاہر کرتیں رہی ہیں کہ ہم میں بڑی رواداری پائی جاتی ہے.ہم میں بڑی (Tolerance) ہے در اصل ان کے اندر اسلام کے خلاف بڑا تعصب پایا جاتا ہے.اور کبھی اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ وہ تعصب ننگا ہو کر نمایاں ہو جاتا ہے اور وہ اسے چھپا نہیں سکتے.آج کل سارا یورپ (انگلستان سمیت ) اس قسم کے تعصب کی مرض میں مبتلا ہے.یہاں تک کہ پچھلے دو چار مہینوں میں بعض عرب باشندوں پر چاقو اور چھری سے حملے بھی کئے گئے ہیں جو ان ملکوں کے لئے بالکل

Page 844

خطبات ناصر جلد اول ۸۲۸ خطبه جمعه ۲۵ اگست ۱۹۶۷ء نئی بات ہے.غرض ان کے اندر اسلام کے تعصب کو بھڑ کا یا گیا ہے.ہمارے اپنے مبلغ پر یس کا نفرنس سے اتنے خائف تھے کہ آپ ان کے خوف کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے اور مجھے کہنا پڑا تم کیوں ڈرتے ہو.تم تسلی رکھو سوال مجھ سے ہونا ہے اور جواب بھی میں نے دینا ہے.میں انہیں خود ہی سنبھال لوں گا اور میں نے انہیں کیا سنبھالنا تھا میں اللہ تعالیٰ سے صرف دعا ہی کر سکتا تھا اور میں دعائیں کرتا تھا.چنانچہ کسی جگہ بھی پریس کے کسی نمائندہ نے ادب اور احترام کو نہیں چھوڑا.میرا ان پر کیا حق تھا مجھے وہ کیا جانتے تھے.میرے عاجزی اور تواضع کے مقام کو تو میرا رب ہی جانتا تھا.غرض میرے رب نے ایسا انتظام کر دیا تھا کہ اس عاجز اور لاشئی محض سے سب ادب و احترام کے ساتھ پیش آئے میرے سامنے کسی نے شوخی نہیں دکھائی.کسی نے میری طرف غلط بات منسوب نہیں کی.کسی نے میری آدھی بات رپورٹ نہیں کی.جب میری بات رپورٹ کی ہے تو پوری کی ہے اور یہ عام نقشہ ہے ساری پریس رپورٹ اور نقشہ یہ اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل کا آئینہ دار ہے.سب سے پہلے ہم فرینکفورٹ پہنچے تھے.وہاں ہمارا سب سے کم قیام تھا یعنی صرف ایک دن گوہم وہاں دو راتیں سوئے لیکن دن ایک ہی ٹھہرے.ہفتہ کی شام کو مغرب کے قریب وہاں پہنچے اور پیر کی صبح کو ہم زیورک کے لئے روانہ ہو گئے.ہمیں کچھ پروگرام بدلنا پڑا.پہلے زیورک کا پروگرام تھا پھر بعض حالات کی وجہ سے ہم نے وہ جہاز لیا جو ماسکو کے راستہ جانا تھا جہاز تو وہ بھی پی.آئی.اے کا تھا لیکن اس کے ذریعہ جانے میں پہلے فرنیکفورٹ آتا تھا.پہلا جہاز بھی پی.آئی.اے کا تھا لیکن اس پر جانے میں پہلے زیورک آتا تھا.پہلے انہوں نے ہفتہ کی شام کو ری سپشن (Reception) رکھ دی تھی.دعوت نامے بھجوائے جاچکے تھے.ان ملکوں میں یہ بڑی مشکل ہے کہ ایک آدمی کو مثلاً ہفتہ کے لئے دعوت نامے ملے اور عین وقت پر اسے یہ کہا جائے کہ تم ہفتہ کی بجائے اتوار کو آؤ اس طرح ان کا کسی دعوت میں آنا بہت مشکل ہے لیکن بعض حالات ہی ایسے پیش آگئے تھے کہ ہمیں وہ پروگرام بدلنا پڑا اور ری سپشن (Reception) ہفتہ کی بجائے اتوار کو رکھی گئی اور میرا خیال تھا کہ یہاں اخبار والوں نے ہمارا کوئی نوٹس نہیں لینا.

Page 845

خطبات ناصر جلد اول ۸۲۹ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء اخباروں میں ہمارے متعلق کوئی خبر نہیں آئے گی اور پریس کا نفرنس بھی کوئی نہیں تھی.صرف ایک ری سپشن تھا جس میں پریس کے نمائندے بھی مدعو تھے اور انکے علاوہ کوئی پادری تھا، کوئی سکالر تھا، کوئی وزیر تھا، کوئی ہائی کورٹ کا جج تھا.غرض اس قسم کے تیس چالیس آدمی تھے جو مدعو تھے.مختصری پارٹی تھی اس موقع پر کچھ باتیں ہوئیں مختصری تقریر ہوئی جس کا جرمن میں ترجمہ ہوا یہاں الفضل میں وہ تقریر چھپی ہے بڑی مختصر وہ تقریر تھی لیکن اس قسم کی تقریر کو بھی وہاں اڑ ہائی گنے وقت لگ جاتا ہے( میں نے وہاں انگریزی اور اردو دونوں زبانیں استعمال کی ہیں ) پہلے میں ایک فقرہ کہتا پھر ترجمہ کرنے والا اس کا جرمن میں ترجمہ کرتا پھر میں اگلا فقرہ کہتا.اگر تقریر لکھی ہوئی نہ ہو تو بڑی مشکل پیش آتی ہے میرا وہ مضمون لکھا ہوا تھا لیکن بعض جگہ میں نے بغیر لکھے بھی تقریر کی ہے.بہر حال اگر تقریر لکھی ہوئی نہ ہو تو بڑی مشکل پیش آتی ہے یعنی ایک فقرہ کے بعد انتظار کرنا اور پھر اس کا اگلے فقرے کے ساتھ جوڑ لگانا اور یہ بھی دیکھنا کہ ترجمہ صحیح ہوا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ مجھے سمجھ دے دیتا تھا گو میں جرمن نہیں جانتا تھا لیکن مجھے اس بات کا پتہ لگ جاتا تھا کہ ترجمہ کرنے والے نے فلاں حصے کا ترجمہ نہیں کیا اور میں کہہ دیتا تھا کہ تم فلاں حصہ کا ترجمہ چھوڑ گئے ہو تم اس کا ترجمہ کرو اس سے وہ لوگ سمجھتے تھے کہ میں بڑی اچھی زبان جانتا ہوں لیکن یہ بات نہیں تھی اللہ تعالیٰ ہی مدد کر دیتا تھا ویسے میں تھوڑی سی جرمن زبان جانتا بھی ہوں.بہر حال وہاں تقریر میں بہت دیر لگتی ہے.وہاں ہمارے ایک بڑے ہی مخلص نوجوان محمود اسماعیل زولش ہیں وہ میری تقریر کا جرمن میں ترجمہ کرتے تھے.جب میں وہاں کے احمدیوں کے حالات بتاؤں گا تو میں بتاؤں گا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کس قسم کی جماعت تیار کر رہا ہے اور اس جماعت سے مل کر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نہایت خوشی کے سامان پیدا کئے اور آپ کے لئے بھی یہ بات غور طلب ہے کہ وہ اب آپ کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہو گئے ہیں اب یا تو آپ آگے نکلیں گے اور یا پھر وہ آگے نکل جائیں گے اور خدا تعالیٰ کسی کا رشتہ دار نہیں اگر وہ آگے نکل گئے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ میں انتظام دے دے گا کیونکہ وہ جس کو اہل دیکھتا ہے اسکو خدمت کا موقع دے دیتا ہے.خیر وہاں ایک مختصرسی ریسپشن ہوئی اور اگلے دن ہم نے دیکھا کہ وہاں کے ہر اخبار نے رپورٹ شائع کی ہوئی ہے بڑے اچھے نوٹ

Page 846

خطبات ناصر جلد اول ۸۳۰ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء دیئے تھے اور تصویریں بھی دی تھیں مجھے قطعاً امید نہیں تھی کہ کوئی ایک اخبار بھی تصویر کیساتھ خبر شائع کرے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ وہاں بھی ہمارے متعلق خبریں شائع ہوگئیں اور اسلام کا پیغام قریباً ہر شخص کے کان تک پہنچ گیا.یہاں میں ایک اور واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں وہاں سے یہ مطالبہ آرہا تھا کہ آپ پہلے مضمون لکھیں اور ہمیں بھیج دیں ہم اس کا ترجمہ کر دیں گے میں بڑا مصروف آدمی ہوں میرے لئے مضمون لکھنا بھی بڑا مشکل تھا اور پھر وقت پر مضمون لکھنا تو اور بھی مشکل تھا لیکن جب مجھ پر زیادہ دباؤ پڑا تو میں نے لکھنا شروع کر دیا.پہلا مضمون میں نے فرینکفورٹ کے لئے لکھا لیکن مجھے اپنا لکھا ہوا مضمون بھی پسند نہ آیا میں نے اسے ایک طرف رکھ دیا پھر میں نے ایک دوست کو کہا کہ میں ڈکٹیٹ کراتا ہوں تم لکھتے جاؤ چنانچہ میں نے ایک مضمون ڈکٹیٹ کرایا.لیکن مجھے وہ بھی پسند نہ آیا میں نے اسے بھی چھوڑ دیا یہ مضامین تو میں نے کوشش کر کے لکھے تھے.لیکن دوسری صبح کو میں بیٹھا تو آمد شروع ہو گئی فقرہ پر فقرہ آتا چلا گیا لیکن بجائے اس کے کہ وہ پندرہ منٹ کا مضمون بنتا وه ۴۵ منٹ کا مضمون بن گیا اس میں بڑا زور تھا، دلائل تھے اور وہ بڑا اثر رکھنے والا مضمون تھا.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی اچھی تقریر تیار ہوگئی یہاں میں نے اس کا ترجمہ کروایا جب چیک کیا تو بعض نے کہا یہ مضمون لمبا ہے میں نے کہا اس کو چھوٹا کر دو لیکن مجھے کہا گیا کہ یہ چھوٹا نہیں ہوسکتا اگر اسے چھوٹا کیا گیا تو اس کا زور ختم ہو جائے گا میں نے کہا اچھا رہنے دو وہاں جا کے دیکھیں گے کیا ہوتا ہے وہاں جا کے وہ مضمون جب مبلغین کو دکھایا تو وہ کہنے لگے کہ ان ملکوں کے حالات ایسے ہیں کہ ان میں یہ مضمون نہیں پڑھا جانا چاہیے کیونکہ یہ بڑا تیز ہے میں نے کہا ٹھیک ہے چنانچہ میں نے اسے رکھ لیا اور کہا اللہ تعالیٰ جو سمجھائے گا وہ کہتے چلے جائیں گے.زیورک پہنچے تو وہاں پہلی پریس کانفرس ہوئی وہاں ایک اخبار بہت پائے کا ہے اس کے متعلق ہمارے مبلغ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی رپورٹ ہے کہ یہ ہمیشہ اسلام کے خلاف لکھتا ہے لیکن جب میں اس کی تردید کرتا ہوں تو یہ اُسے شائع نہیں کرتا.ہمارے خلاف لکھتا چلا جاتا ہے لیکن تردید میں ایک لفظ بھی شائع نہیں کرتا اور پتہ نہیں کہ اس کا نمائندہ پر یس کا نفرنس میں

Page 847

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲۵ /اگست ۱۹۶۷ء آتا ہے یا نہیں.پہلی کا نفرنس تھی اور وہ بڑے ڈرے ہوئے تھے کہ پتہ نہیں پریس والے کیا کرتے ہیں وہ میری وجہ سے بھی زیادہ ڈرے ہوئے تھے وہ سمجھتے تھے کہ اگر انہوں نے کوئی نامناسب بات کہہ دی تو ہمیں غصہ آئے گا اور ہمیں تکلیف ہوگی غرض میری محبت اور پیار کی وجہ سے بھی انہیں خوف تھا اور یہ بھی ڈر تھا کہ ہمارے مشن کو کامیابی ہوتی ہے یا نہیں.لیکن ہوا یہ کہ سب اخباروں کے نمائندے آئے اور نہایت آرام کے ساتھ سوا گھنٹہ کے قریب پریس کانفرنس جاری رہی.وہ لوگ سوال کرتے رہے اور میں ان کو جواب دیتا رہا.بعض دفعہ وہ سیاسی سوال بھی کر دیتے تھے اور میں انہیں کہہ دیتا تھا کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں آپ مجھ سے مذہب کی باتیں کریں.اس اخبار کا نمائندہ جو اسلام کے خلاف لکھتا رہتا تھا اور اس کے حق میں اس نے کبھی کوئی لفظ نہیں لکھا تھا ایک نوجوان تھا اس کو مجھ سے دلچسپی پیدا ہوئی.اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے اس کے دل کی تاروں کو ہلا یا پر یس کا نفرنس ختم ہو گئی لیکن وہ نوجوان اس کے بعد بھی پندرہ منٹ کے قریب مجھ سے باتیں کرتا رہا آخر میں اس نے کہا میں آپ سے ایک آخری سوال پوچھنا چاہتا ہوں آپ مجھے بتائیں کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بانی کی بعثت کا مقصد کیا ہے (اب دیکھو اللہ تعالیٰ ہی ہمارے لئے خوشی کے سامان پیدا کرتا ہے اس کی بشارتیں اور رحمتیں ہم نے دیکھیں چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کی رحمت کا ہاتھ نظر آتا تھا.) جب اس نوجوان نے سوال کیا تو اسی وقت اس کا جواب بھی میرے ذہن میں آ گیا.میں نے اس سے کہا میں آپ کی بعثت کا مقصد تمہیں اپنے الفاظ میں کیوں بتاؤں میں بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے الفاظ میں ہی تمہیں بتاتا ہوں کہ ان کی بعثت کا مقصد کیا تھا.آپ نے لکھا ہے کہ میں دلائل کے ساتھ اس صلیب کو توڑنے کے لئے آیا ہوں جس نے مسیح کی ہڈیوں کو تو ڑا اور اس کے جسم کو زخمی کیا.وہ نوجوان اچھل پڑا اور کہنے لگا کہ مجھے حوالہ چاہیے.اب وہ شخص تو احمدی نہیں تھا اسے کیا غرض تھی کہ وہ اس حوالہ کو شائع کرتا لیکن اس نے کہا مجھے اصل حوالہ چاہیے.اب دیکھو خدائے عَلامُ الْغُيُوبِ کو تو پتہ تھا کہ اس حوالہ کا مطالبہ ہونا ہے میں نے یہاں مضمون لکھنے شروع کئے تو میں نے بعض حوالے نکلوائے تھے بعد میں میں نے مضمون تو تیار نہ کئے اور نہ میں تیار کر سکا کیونکہ میری طبیعت میں انقباض پیدا ہو گیا تھا لیکن میں نے چوہدری محمد علی صاحب

Page 848

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۳۲ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء سے کہا یہ حوالے ساتھ رکھ لیں شاید وہاں کام آئیں ان حوالوں میں وہ حوالہ بھی تھا اور پھر وہ اُردو میں نہیں تھا بلکہ اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہوا تھا میں نے وہ حوالہ منگوایا اور اس نوجوان کے ہاتھ میں دے دیا اور کہا یہ ہے حوالہ اس نے اسے پڑھا تو کہا میں نے اسے نقل کرنا ہے میں نے کہا بڑی خوشی سے نقل کرو اور اگلے دن اس اخبار میں جس میں اسلام کے حق میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں چھپا تھا ایک لمبا نوٹ چھپا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ ساری عبارت بھی نقل کر دی گئی اس نے لکھا کہ آپ کا دعوی تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ میں اس غرض کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں کہ اس صلیب کو دلائل کے ساتھ توڑ دوں جس نے مسیح کی ہڈیوں کو تو ڑا تھا اور آپ کے جسم کو زخمی کیا تھا.میں نے جب اسے وہ حوالہ دیا تھا تو اسے یہ بھی کہا تھا کہ دیکھنا یہ غلطی نہ کرنا کہیں دلائل سے“ کے الفاظ چھوڑ دو اس سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے چنانچہ اس نے پورا حوالہ شائع کیا سارے حیران تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں تو کوئی توقع نہیں تھی کہ اس قسم کی پریس کانفرنس ہوسکتی ہے سارے اخباروں میں خبریں شائع ہوئیں اُن میں سے کسی نے مسجد کی فوٹو دی اور کسی نے نہ دی لیکن ہمارے فوٹو کے ساتھ نوٹ شائع کئے غالباً مسجد کی فوٹو اس لئے شائع نہ کی گئی کہ اس کے فوٹو اخبارات میں آچکے ہیں اور وہ پرانی مسجد ہے.اس کے بعد ہم ہیگ پہنچے.( میں اس وقت صرف پریس کانفرنسوں کو لے رہا ہوں ) وہاں حافظ قدرت اللہ صاحب مجھے کہنے لگے کہ یورپ کے دوسروں ملکوں کی نسبت یہاں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تعصب بہت زیادہ ہے اور میں ڈر رہا ہوں پتہ نہیں پر یس کا نفرنس میں کیا ہوگا اور غالباً میں نے ان سے ہی کہا تھا کہ آپ فکر نہ کریں سوال مجھ سے ہونے ہیں اور میں نے ہی ان کے جواب دینے ہیں وہاں بھی پریس والوں نے بڑے ادب اور احترام کے ساتھ مجھ سے باتیں کیں ایک نوجوان جو بڑا لمبا اور صحت والا تھا اور غالباً کسی کیتھولک اخبار کے ساتھ تعلق رکھتا تھا اس نے ایک سوال کیا سوال تو اس نے بڑے ادب سے کیا لیکن اس کی آنکھوں میں شوخی تھی وہ نوجوان کہنے لگا آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے ہمارے ملک میں کتنے مسلمان کئے ہیں غالباً اسے علم تھا کہ یہاں احمدی تھوڑی تعداد میں ہیں میں نے اس کو کہا کہ تمہارے نزدیک مسیح علیہ السلام کی

Page 849

خطبات ناصر جلد اول ۸۳۳ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء جتنی زندگی تھی گو اس مسئلے میں ہمارا اور تمہارا اختلاف ہے لیکن میں اس وقت اس اختلاف کو چھوڑتا ہوں تمہارے خیال میں جتنے سال مسیح علیہ السلام اس دنیا میں زندہ رہے اس ساری عمر میں انہوں نے جتنے عیسائی بنائے تھے ان سے زیادہ اس ملک میں ہم نے مسلمان بنائے ہیں اس پر ایسا رُعب طاری ہوا کہ دوسرے نمائندے تو سوال کرتے رہے لیکن وہ خاموش رہا تیس چالیس منٹ کے بعد میں نے اس کی طرف توجہ کی اور کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم نے مجھ میں دلچسپی لینی چھوڑ دی ہے لیکن میری تم میں دلچسپی ابھی تک قائم ہے تم سوال کرو میں اس کا جواب دوں گا خیر اس کے بعد اس نے بعض سوال کئے اور میں نے ان کا جواب دیا.زیورک میں تو میں پریس کا نفرنس کے بعد وہیں ٹھہرا رہا لیکن ہیگ میں میں پریس کانفرنس کے معا بعد اس جگہ کو چھوڑ کر اپنے کمرہ میں چلا گیا تھا اور وہ نوجوان قریباً ایک گھنٹہ تک دوستوں سے گفتگو کرتا رہا اس نے قیمتاً ہمارا لٹریچر بھی خریدا اور کہنے لگا میں اسے ضرور پڑھوں گا.غرض اس پر اتنا اثر تھا وہاں کے سارے اخباروں نے صرف یہ خبر ہی شائع نہیں کی تھی کہ ہم اس ملک میں آئے ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ اسلام لا ؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے اور دراصل یہی بات ان دوغرضوں میں سے ایک تھی جن کے لئے میں وہاں گیا تھا مجھ سے وہ باتیں کرتے ان کو بھی شائع کرتے اور ساتھ ہی ہماری تصویریں بھی شائع کرتے لیکن اگر وہ صرف میری تصویر شائع کرتے تو اس میں میری کوئی عزت افزائی نہیں تھی جس کو خدا تعالیٰ نے عزت دی ہو وہ دنیا کی عزتوں کی کیا پرواہ کرتا ہے میرے وہاں جانے کی جو اصل غرض تھی وہ پوری ہونی چاہیے تھی میں نے ان کو جو انتباہ دینا تھاوہ ہر ایک کے پاس پہنچنا چاہیے تھا اور مجھے خوشی اس بات سے ہوئی تھی کہ انہوں نے صاف طور پر لکھ دیا تھا کہ میرا پیغام یہ ہے کہ دور استے تمہارے لئے کھلے ہیں یا تو تم اسلام لاؤ یا تباہ ہونے کے لئے تیار ہو جاؤ.میں ویسے وہاں یہ فقرہ بولتا تھا کہ اپنے رب کی طرف رجوع کرو Come back to your Creator اور اس کا مفہوم وہ سارے سمجھتے تھے چنانچہ ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا مطلب تو اسلام سے ہے نا.میں نے کہا ہاں اللہ وہی تو ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے وہ لوگ ذاتِ باری اور صفات باری کے متعلق تو کچھ جانتے نہیں تھے لیکن وہ مفہوم کے لحاظ میرے فقرہ کا ترجمہ کر لیتے

Page 850

خطبات ناصر جلد اول ۸۳۴ خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۶۷ء تھے اور انہوں نے یہ شائع کیا کہ یہ کہتے ہیں کہ تم اسلام کو قبول کرو ورنہ تباہ ہو جاؤ گے.اس کے بعد ہم ہمبرگ پہنچے ہیمبرگ میں چار روزانہ اخبار ہیں جرمنی میں صرف دو اخبار ایسے ہیں جو سارے جرمنی میں پڑھے جاتے ہیں بلکہ ساری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں اور لندن ٹائمز کے ہم پلہ ہیں باقی سارے اخبار مقامی ہیں.بہر حال ہیمبرگ میں چاروزانہ اخبار ہیں جن میں سے تین صبح کو چھپتے ہیں اور ایک شام کو چھپتا ہے جو اخبار صبح کو چھپتے ہیں ان میں سے ایک ان دو اخبارات میں سے ہے جوصرف جرمنی میں ہی نہیں پڑھے جاتے بلکہ ساری دنیا میں جہاں جرمن زبان بولی جاتی ہے پڑھے جاتے ہیں اور یہ اطلاع مجھے کراچی میں پریس میں کام کرنے والے ایک غیر احمدی دوست نے دی جب میں نے اخبار کا نام لیا ، ڈی ویلٹ ، تو اس نے کہا اچھا یہ اخبار ہے یہ تو ساری دنیا میں جاتا ہے اور جرمنی کے دو بڑے اخباروں میں سے ایک ہے اس کے علاوہ تین اور اخبار ہیں اور وہ اپنے علاقہ میں پڑھے جاتے ہیں.گویا صرف چار اخبار ہیں باقی نیوز ایجنسیز جیسے ہمارے ہاں اے پی پی وغیرہ ہے پھر ریڈیو ہے وغیرہ وغیرہ ، ہمارے مبلغوں کا اثر ورسوخ ہے حکومت سے بھی ان کے تعلقات ہیں محکمہ اطلاعات و انفارمیشن کو جب پر یس کا نفرنس کے متعلق علم ہوا تو انہیں خیال آیا کہ کہیں یہ مایوس نہ ہو جائیں چنانچہ انہوں نے فون کر کے بتایا کہ حکومت کی طرف سے ہم پر یس کا نفرنس بلاتے ہیں ، بڑا زور لگاتے ہیں ، روپیہ خرچ کرتے ہیں ، تب جا کر کہیں سات آٹھ یا نو نمائندے آتے ہیں اگر آپ کی پریس کانفرنس میں تھوڑے نمائندے ہوں تو آپ مایوس نہ ہوں ہمارے ملک کا یہی طریق ہے.خیر انہوں نے وارننگ دی اور وارنگ بھی اپنی محبت اور تعلق کی وجہ سے دی تا کہ ہم مایوس نہ ہو جائیں وہاں ایک اٹلانٹک ہوٹل ہے جس میں یہ پریس کانفرنس ہوئی میں جب وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں ۳۵ نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں ان چاروں اخباروں کے نمائندے تھے ہفتہ وار اخباروں کے نمائندے تھے دو نمائندے ریڈیو کے تھے.(وہاں دو مختلف ریڈیو پروگرام ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے علیحدہ علیحدہ اپنی انڈی پینڈنٹ ٹیم بھیجی ہوئی تھی ) نیوز ایجنسیز کے نمائندے تھے پھر وہاں رواج ہے کہ فوٹوگراف مہیا کرنے والی بھی انڈی پینڈنٹ ایجنسیاں ہیں وہ فوٹو لے لیتی ہیں اور ہر اخبار کو بھیج دیتی ہیں اور

Page 851

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۳۵ خطبہ جمعہ ۲۵ /اگست ۱۹۶۷ء کہلا بھیجتی ہیں اگر تم نے اس واقعہ کے متعلق کوئی نوٹ دینا ہو تو یہ تصویر میں ہیں تم ان میں سے کوئی ایک یا دو منتخب کر لو اور اس کے وہ پیسے لے لیتی ہیں یہ ان کے کمانے کا ایک ذریعہ ہے اخبار کو اپنے علیحدہ فوٹوگرافر رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی.بہر حال وہاں یہ سسٹم ہے اور ان فوٹو لینے والی ایجنسیوں کے نمائندے بھی وہاں موجود ہوتے تھے کل نمائندے ۳۵ تھے اور ایک گھنٹہ پچیس منٹ تک ہم باتیں کرتے رہے وہ اُٹھنے کا نام ہی نہ لیتے تھے میں خود کھڑا ہو گیا اور کہا اب ہم اس پریس کا نفرنس کو ختم کرتے ہیں.اس پر یس کا نفرنس میں دو عورتیں بھی تھیں میں نے ان سے ہاتھ نہیں ملا یا تھا اور اس پر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا آپ نے ہم سے ہینڈ شیک یعنی مصافحہ کر کے ہماری عزت افزائی تو کی ہے لیکن ان عورتوں کی عزت افزائی نہیں کی یہ کیا بات ہے.میں نے اسے کہا کہ میں تمہارا بڑا ممنون ہوں کہ تم نے یہ سوال کر کے بات کی وضاحت کر والی ہے ورنہ تم یہاں سے اُٹھ جاتے تو غلط نہی قائم رہتی.اسلام کا یہ مسئلہ ہے اور یہ ایک عورت کی بے عزتی کے خیال سے نہیں بلکہ اس کی عزت اور احترام کو قائم کرنے کے لئے ہے.تم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ ہمارا نظریہ درست نہیں مگر ہم پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ ہم عورت کی عزت اور احترام نہیں کرتے خیر بات ان کی سمجھ میں آگئی اور ان کی تسلی ہو گئی بڑی لمبی چوڑی گفتگو ہوئی ان سے.اس موقعہ پر ایک بڑی اچھی تصویر بھی لی گئی جو مجھے بہت پسند آئی میں نے ایک وارننگ دیتے ہوئے جوش میں اپنی انگلی ایک خاص انداز سے ) ہلائی جو نہی میں نے انگلی ہلائی ایک فوٹو گرافر نے چھلانگ لگائی میرا خیال تھا کہ وہ تصویر نہیں لے سکے گا لیکن وہ اپنے فن میں بڑے ماہر ہوتے ہیں پتہ نہیں کس طرح اس نے تصویر لے لی دوسرے دن وہ تصویر اخبار میں آگئی.ہیمبرگ کے ٹیلی ویژن کو ایک کروڑ سے زیادہ آدمی دیکھتے ہیں جرمنی کے چھوٹے چھوٹے کئی صوبے ہیں اور ہیمبرگ کا ٹیلی ویژن تین چارصو بوں میں دیکھا جاتا ہے ہیمبرگ کا ٹیلی ویژن جس علاقہ میں دیکھا جا سکتا ہے اس کے متعلق اندازہ ہے کہ اس میں اسے ایک کروڑ سے زیادہ آدمی دیکھتے ہیں ہم نے اس میں چالیس فیصدی کاٹ دیا کہ بہت سے لوگ باہر گئے ہوئے ہوتے ہیں بعض لوگ سیر و سیاحت کے لئے گھروں

Page 852

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۳۶ خطبہ جمعہ ۲۵ /اگست ۱۹۶۷ء سے نکلے ہوئے ہوتے ہیں پھر بھی ۶۰، ۷۰ لاکھ کے درمیان لوگوں نے ہمیں ٹیلی ویژن پر دیکھ لیا اور جو باتیں وہاں ہوئی وہ یہی تھیں کہ اسلام لاؤ اور اپنے اللہ کی معرفت حاصل کرو.یہ پیغام براڈ کاسٹ بھی ہو گیا اور پھر سارے اخباروں میں بھی آگیا اخباروں کی وجہ سے شہر میں ہمارا اس طرح چرچہ ہوا کہ ہمارے لئے باہر نکلنا مشکل ہو گیا دو ایک بار ہم بازار میں گئے تو جہاں تک نظر جاتی تھی مرد عورتیں اور بچے اپنا کام کاج چھوڑ کر ہماری طرف دیکھنے لگ جاتے تھے اور سینکڑوں کیمرے نکل آتے تھے.جس دوکان میں بھی جاؤ سودے کے متعلق بات بعد میں ہوتی پہلے اخبار ہمارے سامنے کر دیا جاتا تھا اور اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ ہمیں جانتے ہیں اور اس بات کا اظہار وہ بڑی خوشی اور بشاشت سے کرتے تھے.میرا بتانے کا یہ مطلب ہے کہ ہر گھر میں ہمارا یہ پیغام پہنچ گیا کہ اسلام لا و یا تباہ ہو جاؤ کیونکہ میری باتوں کا خلاصہ یہی تھا کہ اپنے ربّ سے تعلق پیدا کرو ورنہ تباہی تمہارے سامنے ہے.اس کے بعد ہم کو پن ہیگن گئے پہلے اس کے کہ میں کچھ کوپن ہیگن کے متعلق بتاؤں میں ایک واقعہ بتانا چاہتا ہوں زیورک میں جو ٹیم ٹیلی ویژن کے لئے انٹرویو لینے آئی تھی وہ تین اشخاص پر مشتمل تھی ان میں سے دو مرد اور ایک عورت تھی جو عورت تھی اس نے کہا میں ریکارڈ کرنے سے پہلے آپ سے بعض سوال کر کے جواب لینا چاہتی ہوں کیونکہ پروگرام چھوٹا ہے اور سوال زیادہ ہیں میں جو جواب اچھے سمجھوں گی انہیں ٹیلی ویژن کے لئے ریکارڈ کرلوں گی میں نے کہا ٹھیک ہے اس نے ایک سوال یہ کیا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کس طرح پھیلائیں گے.میں نے اسے فوری طور پر یہ جواب دیا کہ دلوں کو فتح کر کے اس کو یہ جواب اتنا اچھا لگا کہ وہ کہنے لگی میں یہ فقرہ ضرور ٹیلی ویژن پر لانا چاہتی ہوں میں نے کہا ٹھیک ہے اس کے بعد انہوں نے ٹیلی ویژن کے لئے ریل (فلم) تیار کی منظر یہ تھا کہ پیچھے مسجد تھی اور سامنے میں تھا.میں جو کچھ بول رہا تھا وہ اس فلم پر آ گیا اور نشر ہوا.کوپن ہیگن کی پریس کانفرنس میں بھی ایک نمائندہ نے یہ سوال کر دیا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کیسے پھیلائیں گے میں نے اسے کہا کہ بالکل یہی سوال زیورک میں ایک عورت نے کیا

Page 853

خطبات ناصر جلد اول وو ۸۳۷ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء تھا اور میں نے اسے یہ جواب دیا تھا کہ دلوں کو فتح کر کے.اس جواب پر ایک عورت نمائندہ بڑے وقار سے کہنے لگی کہ ان دلوں کو لے کر آپ کریں گے کیا ؟ میں نے اسے جواب دیا کہ پیدا کرنے والے رب کے قدموں میں جا رکھیں گے اس جواب کا اس پر اس قدراثر ہوا کہ وہ پریس کانفرنس کے بعد بھی کافی دیر وہاں ٹھہری رہی.اس نے ہمیں نماز پڑھتے دیکھا.اس نے کہا میں واپس جا کر ایک مضمون لکھوں گی.خیر وہاں بھی پریس انٹرویو ہوا اور بڑا اچھا ہوا اور تمام اخبارات میں وہ چھپا.پریس کانفرنس سے پہلے مسجد کے افتتاح کی جو تصویر میں چھپیں ان میں ایک اخبار نے یہ کیا کہ نماز کی تصویر دے کر اس کے نیچے یہ نوٹ دے دیا کہ یہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عبادت کر رہے ہیں اگلے دن پادریوں کے ایک گروپ نے مجھ سے انٹرویو کا وقت لیا ہوا تھا اس دن صبح ہی وہ اخبار آ گیا میں نے دوستوں کو یہ ہدایت دی کہ جب پادری آئیں تو یہ اخبار میرے ہاتھ میں دے دیں چنانچہ میٹنگ سے پہلے وہ اخبار میرے ہاتھ میں دے دیا گیا اس گروپ کا جو لیڈر تھا میں نے اس سے کہا کہ اس فقرہ کا ترجمہ کر کے مجھے بتاؤ مجھے اس کے مفہوم کا علم تو تھا لیکن میں اس کے منہ سے کہلوانا چاہتا تھا شرمندگی سے اس کا منہ سرخ ہو گیا اور اس نے کہا ہم یہ نوٹ پہلے دیکھ چکے ہیں اور بڑے شرمندہ ہیں میں نے کہا اب دوصورتیں ہیں یا تو میں اس کی تردید کروں اور یا تم اس کی تردید کرو اگر میں اس کی تردید کروں گا تو اس سے بدمزگی پیدا ہوگی کیونکہ میں تو اپنے رنگ میں اس کی تردید کروں گا.چنانچہ اس پادری نے اس کی تردید شائع کرائی ایک لمبا نوٹ لکھا گیا جو اس اخبار میں شائع ہو گیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقعہ ہمارے نظریہ کو پھیلانے اور اسلام سے تعارف کرانے کا پیدا کر دیا بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہاں کی ہر اخبار نے ہمارے متعلق لکھا اور بعض اخبارات نے ایک ایک صفحہ اس کے لئے دیا.پھر جیسا کہ میں نے اشارہ بتایا ہے کہ ہمارے ملکوں میں تو رواج نہیں لیکن اس ملک میں یہ رواج ہے کہ باہر سے آنے والے ایسے آدمیوں کو جن کو وہ بڑا سمجھتے ہیں لارڈ میئر ریسپشن دیتا ہے اور اس کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ وہ اسے اپنے شہر میں خوش آمدید کہہ رہے ہوتے ہیں.کوپن ہیگن میں دوسرے ملکوں کے رواج کی طرح صرف ایک کارپوریشن نہیں جس کے آگے مختلف یونٹ

Page 854

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۳۸ خطبہ جمعہ ۲۵ /اگست ۱۹۶۷ء ہوں وہاں مختلف کارپوریشنز ہیں جن میں سے ہر ایک انڈی پینڈنٹ ہے.آپس میں ان کا کوئی تعلق نہیں.ان میں سے اُس کارپوریشن کا جس کے علاقہ میں ہماری مسجد ہے الگ لارڈ میئر ہے اس کے علاوہ ایک اور کارپوریشن ہے جس میں کوپن ہیگن کا پرانا شہر واقع ہے.اس کی میئرس ایک عورت ہے ان دونوں کارپوریشنوں نے ہمیں ری سپشن دی ہوئی تھی.ہمارے علاقہ کی کارپوریشن کا لارڈ میئر مشن سے اتنا تعلق رکھتا ہے کہ وہ چھٹیوں پر گیا ہوا تھا اور وہاں سے وہ صرف مسجد کے افتتاح میں شامل ہونے اور مجھے ری سپشن دینے کے لئے واپس آیا اور بڑے پیار سے اس نے مجھ سے گفتگو کی میں نے اسے بتلایا کہ ہمارے احمدی مسلمان تمہاری کارپوریشن کے بہترین شہریوں میں سے ہوں گے کیونکہ ہمارا یہ مذہبی عقیدہ ہے کہ ہم ملکی قانون کی پابندی کریں اسلام نے ہمیں یہی سکھایا ہے.لارڈ میئر نے ہمیں اپنی کارپوریشن کا جھنڈا دیا اور ہم نے اسے قرآن کریم دیا.پھر ہم دوسری کارپوریشن کی طرف سے دی ہوئی ریسپشن میں شریک ہوئے اس میں لارڈ میئرس نے ہمیں اپنی کارپوریشن سے متعلق ایک معلوماتی کتاب دی اور ہم نے اس کو قرآن کریم پیش کیا باتیں بھی ہوتی رہیں.اس موقعہ پر پریس کے نمائندے بھی موجود تھے اگلے دن اس ری سپشن کی تصویر بھی اخباروں میں آگئی.جس میں لارڈ میئرس کو قرآن کریم وصول کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا ایک اخبار نویس نے شرارتا اسے کہا کہ انہوں نے تم کو اپنا ہاتھ نہیں دیا.یعنی مصافحہ نہیں کیا وہ عورت پڑھی لکھی تھی اور بڑی ہوشیار تھی اس نے فوراً یہ جواب دیا کہ انہوں نے مجھے اپنا ہاتھ تو نہیں دیا لیکن مجھے قرآن کریم دیا ہے اور اگلے دن اس کا یہ فقرہ بھی اخباروں میں چھپ گیا.اس کے بعد ہم یورپ کو چھوڑ کر لنڈن پہنچے لنڈن کے پریس نے ہمارے ساتھ پہلے تو کوئی تعاون نہیں کیا یعنی انہوں نے ہمارے متعلق کوئی خبر نہیں دی.صرف ایک اخبار نے خبر دی جس کا نمائندہ ائیر پورٹ پر آیا ہوا تھا اور اس سے گفتگو بھی ہوئی تھی لیکن عام طور پر پریس نے ہمیں نظر انداز کیا تین دن ہم وہاں رہے پھر ہم سکاٹ لینڈ چلے گئے وہاں بھی پر یس کا نفرنس ہوئی اور وہاں کی اخباروں نے خبریں بھی دیں اس کے بعد ہم چند روز ”ونڈ رمیر“ ٹھہرے اس دوران

Page 855

خطبات ناصر جلد اول ۸۳۹ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء ایک مقامی اخبار نے امام رفیق ( مسجد لنڈن کے امام ) کو فون کیا اور کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہمارے علاقہ میں ٹھہرے ہوئے ہیں یہاں تو ایک ہنگامہ بپا ہے کہ مقامی اخبار نے کچھ لکھا نہیں اور لوگ حیران ہیں آخر انہیں پتہ لگنا چاہیے کہ یہ کون ہیں چنانچہ امام رفیق نے اسے بتایا اور اس نے اگلے روز ایک خبر شائع کر دی.ابھی ہم ونڈ ر مئیر میں ہی تھے کہ ہمیں وہاں ایک پیغام ملا کہ ٹائمز لنڈن پیشل انٹرویو لینا چاہتا ہے میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن وقت ہم وہاں مقرر کریں گے.ٹائمز لنڈن چوٹی کے اخباروں میں سے ہے دوست یہ نہ سمجھیں کہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا ذکر کر رہا ہوں میرے نزدیک یہ باتیں بڑی اہم ہیں کیونکہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ نظر آتا ہے ٹائمز لنڈن کا جو نو جوان نمائندہ انٹرویو لینے آیا اس نے مجھے بتایا کہ وہ آسٹریلیا کا رہنے والا ہے لندن کا رہنے والا نہیں اور وہ صرف چھ ماہ سے یہاں کام کر رہا ہے میں جب آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا اسوقت میرے بعض گہرے دوست آسٹریلیا کے طالب علم تھے میں نے کہا مجھے تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے ویسے تو مجھے ہر ایک سے مل کر خوشی ہوتی ہے لیکن تمہارے ساتھ مل کر اس لئے بھی خوشی ہوئی کہ آسٹریلیا کے بعض طالب علموں سے میری بڑی گہری دوستی تھی اور بڑے لمبے زمانہ کے بعد آج میں ایک آسٹریلین سے مل رہا ہوں.بہر حال ایک بے تکلفی کا ماحول پیدا ہو گیا وہ نوجوان بڑا عقلمند تھا اور زیرک تھا وہ مجھ سے مختلف باتیں کرتا رہا وہاں پریس کے نمائندے مجھے سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے تھے لیکن یورپ کا پریس بڑا سمجھ دار ہے جب میں نے ان سے کہہ دیا کہ مجھ سے صرف مذہبی باتیں کرو تو وہ اس پر زور نہیں دیتے تھے میں نے اس سے بھی کہا کہ مجھ سے سیاست کی باتیں نہ کرو تو وہ رک گیا میں نے اس کو یہ بھی بتایا کہ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے نیز مذہب کا تعلق دل سے ہے اور دل کو طاقت کے ذریعہ بدلا نہیں جاسکتا.مذہب کے نام پر خواہ مخواہ جھگڑنا ہی غیر معقول ہے اب ہم دونوں یہاں بیٹھے ہیں میں ایک مسلمان ہوں اور ایک مذہبی فرقہ کا سر براہ ہوں اور تم ایک عیسائی نوجوان ہو میرے دل میں تمہارے متعلق دشمنی ، نفرت کا یا حقارت کا کوئی جذ بہ نہیں اور مجھے یقین ہے کہ تمہارے دل میں میرے خلاف دشمنی ،نفرت یا

Page 856

خطبات ناصر جلد اول ۸۴۰ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء حقارت کا کوئی جذبہ نہیں اور اگر ہم یہاں اس کمرہ میں اس قسم کی فضا پیدا کر سکتے ہیں تو ساری دنیا میں بھی پیدا کر سکتے ہیں.دوسرے دن اس نے اخبار میں بڑا اچھا نوٹ دے دیا ہمیں یہ خیال بھی نہیں تھا کہ اس قسم کا نوٹ اخبار میں آجائے گا ٹائمز کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ اگر اس میں کوئی چیز چھپ جائے تو اس کے متعلق یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ انگلستان کے سارے پریس میں وہ چیز آگئی بہر حال وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اعلاء کلمۃ اللہ کے سامان پیدا کر دیئے.پھر کراچی میں انٹرویو ہوا یہ لوگ اپنے رنگ کے ہیں یہ لوگ بار بار مجھ سے سیاسی سوال کر دیتے تھے اور بار بار مجھے یہ کہنا پڑتا تھا کہ میں کسی سیاسی سوال کا جواب نہیں دوں گا ویسے سب ہی اچھے تھے انہیں یہی اچھا معلوم ہوتا تھا کہ میں ان سے سیاسی گفتگو کروں ہر ایک کا اپنا اپنا خیال ہوتا ہے لیکن یہاں بھی اخبارات میں اچھے نوٹ آگئے تھے.ان پریس کانفرنسز سے میری کوئی ذاتی غرض وابستہ نہ تھی میں نے صرف یہی مقصد اپنے سامنے رکھا تھا کہ ان لوگوں کو جھنجھوڑا جائے اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کا آسمانوں پر جو فیصلہ ہو چکا ہے اس حقیقت کی طرف انہیں متوجہ کیا جائے اور یہ غرض اخباروں کے تعاون سے پوری ہوگئی اور یہ مقصد ہمیں حاصل ہو گیا.ساری قوم کو انتباہ کر دیا گیا اس لحاظ سے کہ اکثریت کے کانوں میں یہ آواز پہنچ گئی اور یہ بات ان کے ذہن نشین کر دی گئی کہ ہمیں ایک انتباہ دیا گیا ہے اور ایک وارننگ دینے والے نے ہمیں وارننگ دے دی ہے.جس تیز مضمون کے متعلق میں نے پہلے بیان کیا ہے اس کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم لندن گئے تو ہمیں ایک ریسپشن دی گئی جس میں تین سو آدمیوں نے شامل ہو نا تھا.گو یدری سپشن جماعت کی طرف سے تھی لیکن اس میں اس علاقہ کے مئیر بھی مدعو تھے جس میں ہماری مسجد ہے ایک ایم پی تھے، پاکستان ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ تھے اور بعض دوسرے انگریز بھی تھے اور یہ سب کوئی تیس چالیس آدمی تھے میں نے سوچا کہ میں نے اپنی محنت سے تو یہ مضمون تیار نہیں کیا بلکہ یہ آمد تھی اور میرے رب کی عطا.اس لئے اس کا جو مقصد تھا وہ پورا ہونا چاہیے اور یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں یہ مقصد پورا ہو سکتا ہے اس کے بعد مجھے اور کوئی موقعہ نہیں ملے گا.چنانچہ

Page 857

خطبات ناصر جلد اول خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۶۷ء میں نے محترمی مخدومی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے کہا کہ آپ اسے پڑھیں اور مجھے مشورہ دیں کہ آیاری سپشن کے بعد میں یہ تقریر کروں یا نہ کروں میں نے انہیں اس کا پس منظر بھی بتایا.اگلے دن صبح ان کا پیغام مجھے آیا کہ آپ یہ تقریر ضرور کریں تقریر کے انگریزی ترجمہ کے فقرات میں بعض جگہ انہوں نے لفظی اصلاح بھی کی انگریزوں کا یہ طریق تھا کہ وہ ڈنر کے بعد ہلکی پھلکی تقریریں کرتے ہیں اور وہ تین تین چار چار منٹ کی ہوتی ہیں یہی کہ ایک دو لطیفے سنا دیئے اور بیچ میں کوئی کام کی بات کہہ دی میں اس بات کی وجہ سے بڑا پریشان تھا.کیونکہ مجھ سے پہلے چار تقریریں تھیں سب سے پہلے مئیر کھڑا ہوا اور اس نے پاکستان کی بھی اور جماعت کی بھی بڑی تعریف کی اور تین چارمنٹ کے بعد وہ بیٹھ گیا اس کے بعد ایم پی کھڑا ہوا ان کی طبیعت میں مزاح تھا انہوں نے ایک دو لطیفے سنائے اور خوب ہنسایا پھر پاکستان ایسوسی ایشن کا پریذیڈنٹ کھڑا ہوا اور اس نے اپنے لحاظ سے کچھ سنجیدہ اور کچھ ہلکی پھلکی تقریر کی.آخر میں ( مجھ سے پہلے ) چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب تھے وہ کھڑے ہوئے انہوں نے ایک دو فقروں کے بعد میرے متعلق کہا کہ انہوں نے اس وقت بعض بڑی اہم باتیں کرنی ہیں اس لئے میں زیادہ وقت نہیں لیتا گویا انہوں نے میرے پیغام کا تعارف بھی کرادیا اور وہ سارے اس بات کے لئے تیار ہو گئے کہ کوئی اہم پیغام آنے والا ہے میرے ذہن سے بوجھ اُتر گیا اور میں نے مضمون پڑھنا شروع کیا ۴۵ منٹ میں وہ مضمون ختم ہوا اس سارے عرصہ میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سامعین مسحور ہیں کوئی آواز وہاں پیدا نہ ہوئی بعد میں احمدیوں نے مجھے بتایا کہ ہمیں پسینے آرہے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑا تیز مضمون تھا لیکن وہ مضمون میر انہیں تھا یہ نہیں تھا کہ میں نے سوچ کر اور عقل پر زور دے کر اسے بنایا ہو بلکہ جب میں لکھنے لگا تو مضمون ذہن میں آتا گیا اور میں لکھتا گیا.ایک احمدی کہنے لگا کہ میرے ساتھ ایک انگریز بیٹھا ہوا تھا جب آپ نے مضمون پڑھنا شروع کیا تو اس نے حیرانی سے منہ کھولا اور پھر ۴۵ منٹ تک اس کا منہ کھلا ہی رہا جس وقت میں نے مضمون ختم کیا اور سلام کیا اس وقت شاید کوئی چیونٹی بھی چلتی تو مجھے آواز آجاتی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا سارے سٹنڈ (Stunned ) ہو گئے ہیں اپنے بھی اور پرائے بھی.اس خاموشی کی حالت میں میں نے سلام کیا اور باہر نکل گیا جب تک

Page 858

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۴۲ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء میں ہال سے باہر نہیں نکلا میرے کان میں کوئی آواز نہیں پڑی علاقہ کے میئر میرے ساتھ تھے وہ بڑے عقل مند آدمی تھے ہمارے احمدیوں کو یہ خیال نہ آیا کہ میں اکیلا باہر نکل گیا ہوں وہ سارے وہیں بیٹھے رہے تھے انہیں یہ بھی خیال نہ آیا کہ یہ اکیلے موٹر میں کیسے چلے جائیں گے وہاں موٹر ڈرائیور بھی نہیں تھا میئر مجھے کہنے لگا آپ تھکے ہوئے ہوں گے ادھر آئیں ہم ذرا یہاں بیٹھتے ہیں میں نے کہا.ٹھیک ہے ہال او پر تھا ہم سیڑھیوں سے نیچے اتر کے نیچے کے کمرے میں چلے گئے اور وہاں کھڑے کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے وہاں وہ ایم پی بھی آگئے وہ کہنے لگے مجھے امید ہے کہ جس تباہی کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی پیش گوئی ہمارے حق میں پوری نہیں ہوگی.قبل اس کے کہ میں اس کا کوئی جواب دیتا میئر نے کہا کہ ان کی تقریر کا خلاصہ تو یہ ہے کہ ایک تو دنیا میں امن ہونا چاہیے اور دوسرے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنا چاہیے جب اس نے اس رنگ میں جواب دیا تو وہ خاموش اور سنجیدہ ہو گئے ویسے تو وہ بڑا اچھا آدمی تھا لیکن بعض آدمیوں کی طبیعت ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہنسی مذاق کرتے رہتے ہیں اور جس وقت میئر نے دیکھا کہ لوگ نیچے اُتر آئے ہیں (سامنے کا دروازہ کھلا ہوا تھا ) تو کہنے لگے اچھا اب چلئے تب مجھے پتہ لگا کہ اس کے دماغ میں یہ نہیں تھا کہ میں تھکا ہوا ہوں اور آرام کروں بلکہ یہ تھا کہ میں اکیلا ہوں سارے ساتھی وہاں بیٹھے ہیں اور موٹر چلانے والا بھی وہاں بیٹھا ہے کیونکہ وہاں ڈرائیور استعمال نہیں ہوتا سارے لوگ کارمیں آپ ہی چلاتے ہیں.پھر میں نے جماعت کو ہدایت دی کہ میرا یہ مضمون بہت تھوڑے آدمیوں نے سنا ہے اب اسے گھر گھر پہنچاؤ اور خرچ کا اندازہ لگاؤ انہوں نے کہا پچاس ہزار کا پیوں پر کوئی ڈیڑھ سو پونڈ خرچ آئے گا یعنی پچاس ہزار کا پیوں پر دو ہزار روپے میں نے کہا ٹھیک ہے اگر پیسے نہیں ہیں تو میں انتظام کر دیتا ہوں وہ کہنے لگے رقم کا انتظام ہم کر چکے ہیں.اللہ تعالیٰ نے وہاں رہنے والے احمدیوں کو قربانی کی بڑی توفیق دی ہے چنانچہ چند دوستوں نے باہم مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہم اسے شائع کریں گے چنانچہ پچاس ہزار کا پیاں اس مضمون کی وہاں چھپ چکی ہیں.اب میں نے ہدایت دی ہے کہ اس کا جرمن ، ڈینش اور ڈچ زبانوں میں ترجمہ ہو جائے اور پھر اگر موقعہ ملا

Page 859

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۴۳ خطبه جمعه ۲۵ را گست ۱۹۶۷ء تو سپینش اور اٹالین میں بھی اس ترجمہ کو کروایا جائے گا اور سارے یورپ میں اسے پہنچادیا جائے گا.میں نے انہیں کہا کہ وقف عارضی کو جاری کرو اور واقفین سے یہ کام لو اسے ہر گھر میں پہنچاؤ اس کی تعداد کم ہے اور گھر زیادہ ہیں اس لئے پڑھے لکھے اور صاحب رسوخ لوگوں کی فہرست بناؤ اور ان تک اسے پہنچاؤ شہروں اور دیہات دونوں میں اسے تقسیم کرو یہ نہیں کہ شہروں میں اسے تقسیم کرو اور دیہات میں نہ کرو.دیہات میں ابھی تک عیسائیت سے کچھ نہ کچھ پیار ضرور پایا جاتا ہے شہروں میں نہیں پایا جاتا.اگر خدا تعالیٰ نے چاہا اور اس نے توفیق دی تو دو ایک خطبات میں وہاں کے واقعات اپنے رنگ میں بیان کر دوں گا.اس نیت کے ساتھ کہ ان چیزوں کا جو نتیجہ میرے دماغ نے نکالا ہے جب اس نتیجہ تک میں پہنچوں تو آپ میرے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے.روزنامه الفضل ربوه ۲۷ ستمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۲ تا ۱۱)

Page 860

Page 861

خطبات ناصر جلد اول ۸۴۵ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء یورپ کے نو مسلم احمدی اپنے ایمان اخلاص اور قربانی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ترقی کر رہے ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.گذشته خطبہ جمعہ میں میں نے بتایا تھا کہ ایک خواب کی بنا پر میں چند رو یا احباب کی خدمت میں رکھنا چاہتا ہوں.آج بھی میں اپنے اس خطبہ کو چند خوابوں اور رویا سے شروع کرنا چاہتا ہوں ویسے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیسیوں مبشر خوا ہیں میرے سفر یورپ کے دوران اور واپسی کے بعد بھی دوستوں نے مجھے لکھی ہیں مردوں نے بھی خواہیں دیکھی ہیں اور ہماری احمدی بہنوں نے بھی خوا میں دیکھی ہیں.بڑوں نے بھی دیکھی ہیں اور بچوں نے بھی دیکھی ہیں کہا گیا تھا کہ اس زمانہ میں بچے بھی نبوت کریں گے یعنی خبریں اللہ تعالیٰ سے حاصل کریں گے جو سچی ہوں گی اور جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اور طاقت کا اظہار ہوگا.آج کے لئے میں نے تین خوابوں کا انتخاب کیا ہے اور یہ تینوں خوا ہیں عورتوں کی ہیں.ایک خواب میری بزرگ کی ہے، ایک میری بیوی کی ، ایک میری بچی کی ہے.اصل غرض اس سفر کی کوپن ہیگن کی مسجد کا افتتاح تھا اور اس افتتاح سے میں یہ فائدہ اٹھانا چاہتا تھا کہ ان اقوام کے سامنے اللہ تعالیٰ کی اس مشیت کو کھول کر اور وضاحت سے رکھ دیا جائے کہ اسلام کے غلبہ کے

Page 862

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۴۶ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء سامان آسمانوں پر مقدر ہو چکے ہیں اور زمین پر ظاہر ہونے والے ہیں اور اگر ان اقوام نے اللہ تعالیٰ کے اس منشا کو نہ سمجھا تو پھر ایک ایسی ہلاکت ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے کہ جو انسانی تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی.لیکن چونکہ وجہ اس سفر کی کو پن ہیگن کی مسجد کا افتتاح بن گیا تھا اور اس مسجد کو احمدی مستورات کی مالی قربانیوں نے بنایا تھا اس لئے آج کے لئے میں نے مستورات کی خوابوں میں سے تین کا انتخاب کیا ہے.مجھے افسوس ہے کہ مکرمہ مخدومہ محترمہ آپا مریم صدیقہ صاحبہ آج کل یہاں نہیں ہیں انہوں نے ایک بڑی مبشر خواب دیکھی تھی لیکن زبانی مجھے سنائی تھی ہو سکتا ہے کہ بعض حصے چھوڑ جاؤں اس لئے میں نے ان کی اس خواب کا آج کے خطبہ کے لئے انتخاب نہیں کیا.لیکن قبل اس کے کہ میں یہ تین رؤیا آپ دوستوں کو سناؤں.میں یہ بھی آج بیان کرنا چاہتا ہوں کہ سفر پر روانگی سے چند روز قبل ایک دن صبح کے وقت جب میں اٹھا تو میری زبان پر یہ مصرع جاری ہوا.تشنہ روحوں کو پلا دو شربتِ وصل و بقا یہ مصرع بطور طرح مصرع کے میں نے محترمہ مخدومہ پھوپھی جان صاحبہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو دیا تھا اور انہوں نے ایک آدھ شعر بھی کہا ہے نظم تو مکمل نہیں کر سکیں ( یہ نظم اب الفضل کے ایک شمارہ میں شائع ہو چکی ہے ) لیکن بعض اور احمدی شاعروں نے اس مصرع کو سامنے رکھ کر بعض نظمیں بھی لکھی ہیں بعض چھپ گئی ہیں بعض شائد آئندہ الفضل میں چھپ جائیں.اس میں بھی در اصل اجازت دی گئی تھی اس سفر پر روانہ ہونے کی اور اس ضرورت کا احساس پیدا کیا گیا تھا کہ اقوام یورپ روحانی طور پر پیاسی ہیں اور انہیں قرآن کریم کے چشمہ سے سیراب ہونے کی ضرورت ہے اس وقت اس کے بغیر نہ وہ اقوام اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کر سکتی ہیں اور نہ اس دنیا میں باقی رہ سکتی ہیں اور جو غرض اس سفر سے تھی اس کی تفصیل کی طرف اشارہ اس چھوٹے سے مصرع میں کیا گیا تھا.سفر پر روانہ ہونے سے قبل ہماری بڑی پھوپھی جان نے لاہور میں یہ خواب دیکھی جو انہی دنوں انہوں نے اپنے خط میں لکھ کر بھجوائی تھی میں وہ آج سنانا چاہتا ہوں.

Page 863

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۴۷ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء حضرت پھوپھی جان صاحبہ نے عزیزم مکرم مرزا مظفر احمد صاحب کے متعلق بھی ایک منذر سی خواب دیکھی تھی اور ان کے لئے مجھے بھی لکھا تھا دعا کے لئے اور خود بہت دعا کر رہی تھیں.آپ لکھتی ہیں کہ آج صبح نماز کے بعد (جس میں خصوصی دعا ز یادہ تر ہمیشہ کی طرح آپ کے لئے اور سفر کے لیے تھی اور مظفر احمد یا جو بلا ہو کسی کی بھی ہو اس کے رفع ہونے کے لئے ہی زیادہ تر کی ) سو گئی تو آنکھ کھلنے کے قریب عربی میں آواز کسی کی آرہی ہے جیسے کوئی خوش الحان قرآن شریف پڑھتا ہے مگر اثر یہ ہے کہ جیسے کسی کو مخاطب کر کے کوئی بات کرتا ہے بہت صاف آواز ہے.صرف زبان عربی میں کلمات ادا ہور ہے ہیں یعنی کسی سورت قرآن مجید کا خیال نہیں تھا مجھے وہ الفاظ جو یاد رہ گئے تھے وہ یہ تھے الَّذِينَ يَدْعُونَ إِلى رَحْمَةِ اللَّهِ - الَّذِينَ سے پہلے کیا تھا یہ مجھے کچھ یاد نہیں.اس کے بعد کے الفاظ کا بھی بہت مبارک اور مبشر ہونے کا اثر تھا مگر یاد نہیں رہا صرف وہی جو میں اپنی زبان سے ساتھ ساتھ کہہ رہی تھی ، یاد ہے بس یہی الفاظ زبان پر جاری تھے کہ آنکھ کھل گئی مگر ساتھ ساتھ اور کلمات بھی گویا کہے جارہے تھے جاگتے جاگتے ان کا پختہ احساس تھا مگر یا دصرف مجھے اتنا رہ گیا.دل پر اچھا خوشکن اثر تھا تو الَّذِينَ يَدْعُونَ إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ “ الہی سلسلہ جنہیں بھی مخاطب کرتا ہے اور اسلام نے ساری دنیا کو اور تمام اقوام کو مخاطب کیا ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف ہی بلا رہا ہوتا ہے سب انذاری پیشگوئیاں انسانوں کو جھنجھوڑتی ہیں تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم نہ ہو جائیں.یہ بھی بڑی مبشر خواب ہے.66 سفر کے دوران انگلستان میں منصورہ بیگم نے دو دفعہ خواب میں الفاظ سنے جو انہوں نے لکھ کر دئے میں پڑھ دیتا ہوں وہ لکھتی ہیں کہ گلاسکو جاتے ہوئے راستہ میں سکاچ کارنر ہوٹل میں ٹھہرے ہیں کہ جیسے کسی بات کا کوئی جواب دے رہا ہو.جواب جو دے رہا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں.”اسلام کا ہی جھنڈا بلند رہے گا “.خواب پوری یاد نہیں صرف ذہن میں یہ ہے کہ روس اور انگلستان کی کسی مخالفانہ کوشش یا بات کا جواب ہے اور یہ الفاظ تمام رات سوتے جاگتے کیفیت میں زبان دہراتی رہی.کوپن ہیگن میں سوتے میں ایک آواز سنائی دی ”اللہ تعالیٰ کی رحمت کے فرشتے اتر نے

Page 864

خطبات ناصر جلد اول ΔΙΑ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء لگے ہیں.آنکھ کھلی تو یہی الفاظ زبان پر جاری تھے.رات کے بقایا حصہ میں صبح تک یہی الفاظ بار بار سنائی دیتے رہے اور ساتھ آنکھ کھلتی رہی اور اسی طرح زبان تکرار کے ساتھ یہی الفاظ دہراتی رہی بغیر ارادہ کے.تیسری رؤیا میں اپنی بچی امتہ الشکور کی سنانا چاہتا ہوں.یہ بڑی دعا گو بچی ہے اور بڑی صابرہ.وہی بچی ہے جس کا پہلا بچہ ولادت کے وقت فوت ہوا اور اسی وقت آدھے گھنٹے کے بعد جب ڈاکٹر نے فارغ کیا میں اسے ملنے گیا تو مسکراتے ہوئے چہرہ کے ساتھ وہ مجھے ملی.بچی نے نو مہینے کی تکلیف اٹھائی ہو لیکن پیدائش کے وقت بچہ فوت ہو جائے کچھ تو گھبرا ہٹ ہونی چاہیے تھی چہرہ پر ؟؟ لیکن اس قدر خوش میں نے اس کا چہرہ دیکھا کہ میں خود حیران ہو گیا اور میرے دل نے اس وقت کہا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد ہی اس کا اجر بھی دے گا.اتنا صبر کا اس نے مظاہرہ کیا ہے.چنانچہ اپنے وقت پر جب دوسرا بچہ پیدا ہوا تو وہ بھی لڑکا تھا.( اور پہلے جو بچہ پیدا ہوا وہ بھی لڑکا تھا ) اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحت مند ہے وہ.تو اس صابرہ ذہنیت کی بچی ہے یہ ! جب میں ابھی سفر پر روانہ نہیں ہوا تھا تو اس نے ایک خواب دیکھی جو بظاہر بڑی مندر تھی اور اس کا دل دہلا دینے والی تھی.اس نے مجھے کہا کہ میں نے یہ خواب دیکھی ہے.اس کے چار پانچ اجزاء تھے جن میں ہر جزو کی تعبیر نہایت ہی مبشر تھی.میں نے اس کو تسلی کا خط لکھا کہ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں بڑی مبشر خواب ہے یہ تو.دوسری خواب اس نے ہمارے یہاں سے روانہ ہونے کے بعد دیکھی.وہ لکھتی ہے آپ کے یورپ تشریف لے جانے کے چند دن بعد خواب میں آپ کی یورپ کو روانگی کا نظارہ دیکھا کہ ایک بہت بڑا گھر ہے اور وہاں پر سب خاندان اور دوسرے احباب بھی آئے ہوئے ہیں میں دوسری منزل کی کھڑکی سے کھڑی نیچے جھانک رہی ہوں جہاں کاریں تیار کھڑی ہیں اور ابا حضور ( یعنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) آپ کو رخصت کرنے کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں.آپ لوگ سب سے پچھلی کار کے پاس کھڑے ہیں آپ نے اور ابا حضور نے تیز نیلے رنگ کی اچکنیں اور سفید پگڑیاں پہنی ہوئی ہیں.( ہمارے بچے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو

Page 865

خطبات ناصر جلد اول ۸۴۹ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء ابا حضور کہتے ہیں ) ابا حضور کا جسم دبلا پتلا اور چہرہ بھی ویسا ہے جیسا کہ جوانی کی تصاویر میں دکھائی دیتا ہے اور آپ کا قدا با حضور سے کافی لمبا ہے اتنا کہ ابا حضور آپ کے شانوں تک آرہے ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ آپ تو ابا حضور کے برابر ہوا کرتے تھے اب اتنے لمبے کس طرح ہو گئے؟ ابا حضور آپ کو کچھ ہدایات دے رہے ہیں اور آپ کے پاس کھڑے لوگوں سے آپ کی تعریف کرتے جارہے ہیں اور وہ جملے جو آنکھ کھلنے تک یاد تھے اب یاد نہیں رہے پھر دور سے کوئی آواز دیتا ہے ( شاید کوئی ڈرائیور ہے ) کہ گاڑی کا وقت ہو گیا ہے.میں سوچتی ہوں کہ آپ نے تو گاڑی پر جانا ہی نہ تھا کاروں سے کراچی جانا تھا.وہ آواز سن کر آپ چلنے کی تیاری کرتے ہیں تو ابا حضور آپ کا ہاتھ پکڑ کر بڑی تیزی اور بیتابی کے ساتھ جھٹکے سے آپ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”گلے تو مل لو اور آپ فوراً اس طرح ابا حضور کے سینے کے ساتھ لگ جاتے ہیں جیسے کہ وہ مقناطیس ہوں.اور ابا حضور بڑی بے تابی اور پیار کے ساتھ آپ کا چہرہ ، پیشانی اور گردن چوم رہے ہیں.آنکھوں میں آنسو ہیں شاید بہہ بھی رہے ہیں یہ اچھی طرح یاد نہیں.آپ کے ایک طرف ہوکر امی کالا برقعہ پہن کر کھڑی ہیں.میں انہیں آواز دے کر کہتی ہوں.امی ! مجھے مل لیں امی اس کھڑکی کے نیچے آتی ہیں جہاں میں کھڑی ہوں اور امی کا قد بھی اتنا لمبا ہے کہ دوسری منزل کی کھڑکی تک پہنچ رہا ہے وہیں سے وہ مجھے گلے لگ کر پیار کرتی ہیں پھر سب کا روں میں بیٹھ کر چل پڑتے ہیں اس وقت میری آنکھ کھل گئی.یہ تینوں خوا ہیں (ایک تو قریباً کشفی نظارہ ہے ) بہت ہی مبارک ہیں اور ان کے مطابق ہی ہم نے اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک کو پایا.اس دورہ میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے تینوں جرمن مشنز کے پاکستانی احمدی اور جرمن احمدی مرد اور عورتیں مجھ سے ملے.پھر سوئٹزر لینڈ میں ہمارا تبلیغی مرکز ہے وہاں بھی خاصی جماعت ہے مقامیوں کی ہمبرگ کا بھی یہی حال ہے پھر کوپن ہیگن میں سویڈن، ناروے اور ڈنمارک کے لوگ جمع ہوئے ہوئے تھے اور ہمارے مبلغ بھی تھے تیس اور چالیس کے درمیان تو کھانے پر ہی ہوتے.

Page 866

خطبات ناصر جلد اول ۸۵۰ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء پھر انگلستان میں دوستوں سے ملنے کا موقع ملا جہاں اُردو بولنے والی ہندوستان اور پاکستان کے بعد سب سے بڑی جماعت ہے کئی ہزار احمدی اس وقت انگلستان میں موجود ہیں وہاں کے مقامی احمدی مسلمان اقلیت میں ہیں ہمارے زیادہ احمدی پاکستانی ہی ہیں اور میں نے ان کو توجہ بھی دلائی کہ آپ کوشش کریں کہ درجنوں کی بجائے ہزاروں لاکھوں مقامی باشندے مسلمان ہو جائیں.وہاں کی قلبمی حالت جماعت کی بہت کچھ یہاں کی جماعتوں کی قلبی حالت سے ملتی جلتی ہے.وہاں بھی بعض انگریز نواحمدی ایثار اور اخلاص کا ایک عجیب نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں جیسا کہ یورپ میں بسنے والے نو احمدی مسلمان پیش کر رہے ہیں.جب میں انگلستان میں پڑھا کرتا تھا اس وقت انگلستان میں چند ایک احمدی پائے جاتے تھے ان میں سے بعض فوت ہو چکے ہیں ان میں سے اکثر ایسے تھے جن کی عقل کو اسلام نے اپیل کی یعنی اسلام کے دلائل اور براہین کے وہ قائل ہوئے اور اپنے مذہب یا لامذہبیت کو انہوں نے چھوڑا اور اسلام کو انہوں نے قبول کیا لیکن اس عقلی ایمان کے علاوہ ان کے دلوں میں اسلام کی محبت ( بشاشت ایمانی جسے کہا جاتا ہے ) وہ نہیں پائی جاتی تھی عقلا وہ تسلیم کرتے تھے کہ اسلام ایک سچا مذہب ہے کیونکہ اس کے دلائل اس قدر مضبوط ہیں کہ اس کے دلائل کا مقابلہ کوئی دوسرا مذہب نہیں کر سکتا لیکن حسن اور احسان کے جلوے جو ایک سچے مسلمان کو اسلام میں نظر آتے ہیں وہ ان پر ابھی جلوہ گر نہیں ہوئے تھے.اس دفعہ جو میں وہاں گیا ہوں تو میں نے وہاں کی جماعتوں میں یہ حالت نہیں پائی.ہر جگہ میں نے یہ محسوس کیا کہ اسلام کے دلائل نے ان کی عقلوں کو گھائل کیا اسلام کے حسن نے ان کی بصیرت اور بصارت کو خیرہ کیا اور ان کے دلوں میں اس قدر محبت اپنی پیدا کر دی ہے کہ اس سے زیادہ محبت تصور میں بھی نہیں آسکتی اور یہ احساس ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات دنیا کے لئے ایک محسن اعظم کی حیثیت رکھتی ہے اسلام کے حسن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کے وہ شکار ہیں اور اس کے نتیجہ میں آج وہ اتنی قربانی دینے والے ہیں کہ ( میں بعض مثالیں بیان کروں گا ) اس کی وجہ سے تم میں سے بعض کو شرم آجائے.اتنی دور بیٹھے

Page 867

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۵۱ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء ہوئے کہ مرکز میں آنا جانا ان کے لئے قریباً ناممکن ہے کبھی ساری عمر میں ایک دفعہ آجائیں مرکز میں تو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے فرشتوں کو نازل کر کے ان کے دلوں میں اس قدر اور کچھ اس قسم کی تبدیلی پیدا کر دی ہے کہ یہ لوگ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے نقش قدم پر چلنے والے ہمیں نظر آتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ان کے دلوں میں محبت کا بڑا مقام ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل کی حیثیت میں مبعوث ہوئے اس لئے ان کے دل میں محبت کا شدید جذبہ پایا جاتا ہے.میں ایک رات کھانے اور نمازوں سے فارغ ہونے کے بعد ہمبرگ کی مسجد میں بیٹھ گیا دو چار وہاں ہمارے پاکستانی احمدی تھے اور میرا خیال ہے کہ سات آٹھ وہاں کے جرمن احمدی مرد بیٹھے ہوئے تھے ( جرمن احمدی بہنیں بھی تھیں لیکن وہ ہماری مستورات کے پاس بیٹھی تھیں ) گویا مسجد میں قریباً دس بارہ کچھ پاکستانی اور زیادہ تر جرمن احمدی بیٹھے ہوئے تھے مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ایک آیت ۱۸۶۸ میں الہام کی یعنی اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَه “ اور اسی وقت آپ نے ایک انگوٹھی بنائی تھی جس میں پتھر کا نگینہ ہے اور جس پر یہی الہام کندہ ہے اپنا ہاتھ اونچا کر کے حضور نے فرمایا کہ یہ وہ انگوٹھی ہے ) یہ بڑی برکت والی چیز ہے الہام بھی بڑا برکت والا ہے ہمارے پاکستانی احمدی تو الیسَ اللهُ بِكَافٍ عبده والی انگوٹھیاں کثرت سے پہنتے ہیں مجھے خیال آیا کہ اس کی برکتوں کا میں ان کے سامنے بھی ذکر کروں تا کہ ان کے ایمانوں میں تازگی پیدا ہو اس انگوٹھی کا نگینہ کچھ ہلتا ہے اس لئے میں اس کے اوپر کپڑا لپیٹے رکھتا ہوں تا کہ اس کی حفاظت رہے میں نے قیچی منگوائی اس کپڑے کو اُتارا اور میں نے ان کو بتایا کہ اس پتھر پر یہ الہام کندہ ہے پھر تذکرہ منگوایا اور اس میں سے وہ الہام ان کو دکھایا کہ اس سن میں یہ الہام ہوا تھا اس سال یہ انگوٹھی بنائی گئی تھی جو بڑی برکت والی ہے ہم اس سے برکتیں حاصل کرتے ہیں تم بھی اس سے برکت حاصل کرو اور میں نے وہ انگوٹھی اُتاری ان کو کہا کہ ہر ایک اس کو بوسہ دے.اخیر انہوں نے جو پیار کیا وہ تو میرے کہنے سے کیا جو کپڑا کئی ماہ اس انگوٹھی پر رہا تھا اور جو اس کی برکت سے با برکت بن چکا تھا کپڑے کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا میں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا میرے سامنے

Page 868

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۵۲ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء پاکستانی احمدی بھی بیٹھے ہوئے تھے اور جرمن احمدی بھی بیٹھے ہوئے تھے میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کوئی جرمن اس کپڑے کو بطور تبرک مجھ سے مانگے مجھے خطرہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی پاکستانی پہل کر جائے اور یہ لوگ اس سے محروم رہ جائیں میرے دل میں یہ خواہش تو تھی لیکن میں اس کا اظہار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ کسی جرمن احمدی کے دل میں خود یہ جذ بہ ، شوق اور محبت پیدا ہو اور وہ اسے حاصل کرے.پہلا ہاتھ جو آگے بڑھا کہ میں لینا چاہتا ہوں وہ ایک جرمن احمدی کا تھا میرا دل خوشی سے بھر گیا یہ دیکھ کر کہ محبت کامل دل میں موجزن ہے جس نے فوراً اس کے ہاتھ کو کہا ہے کہ آگے بڑھو.پھر ایک پاکستانی نے اسے کہا کہ اس کا آدھا مجھے دے دو اس نے کہا میں نے بالکل نہیں دینا اگر تم نے لینا ہی ہے تو ایک دھا گا نکلا ہوا تھا وہ اس نے نکالا اور کہا کہ یہ لے لو.کھانے پر باتوں باتوں میں میں نے دوستوں کو بتایا کہ میری تاریخ پیدائش ۱۶ / نومبر ۱۹۰۹ء ہے اس پر ایک بوڑھا جرمن جو کھانے میں شریک تھا اور میرا خیال تھا وہ احمدی ہے (لیکن وہ ابھی احمدی نہیں ہوا صرف تعلق رکھتا ہے ) وہ اپنی کرسی سے کھڑا ہوا اور جیب میں سے اپنا آئیڈ نیٹی کارڈ نکال کے اس نے میرے سامنے رکھ دیا.اس کی تاریخ پیدائش بھی ۱۶ / نومبر (۱۸۸۶ء) تھی.سن مختلف تھا لیکن ۱۶/ نومبر کی تاریخ پیدائش ہماری دونو کی ایک ہی تھی کھانے کے بعد جب ہم بیٹھے تو مجھے خیال آیا کہ تاریخ پیدائش سے انسان کا ایک لگاؤ ہوتا ہے ان ملکوں میں تو خاص طور پر زیادہ لگاؤ ہے ہمارے ہاں تو یہ رسمیں نہیں ہیں لیکن ان ملکوں میں برتھ ڈے پارٹیز کی جاتی ہیں برتھ ڈے کو وہ لوگ یا درکھتے ہیں اور انہیں ایک گونہ تعلق اس خاص دن سے ہوتا ہے اگر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان تاریخوں کے الہام ان کو نکال کے دوں تو ان کی برتھ ڈے اور وہ الہام بریکٹ ہو جائیں گے اس طرح کم از کم ایک الہام یہ یادرکھیں گے کہ اس تاریخ کو یہ الہام ہوا.میں نے تذکرہ منگوا کر (۱۶/ نومبر ۱۸۸۶ء کا جہاں تک مجھے یاد ہے کوئی الہام نہیں ملا ) اس میں سے نومبر ۱۸۸۶ء کا ایک الہام نکال کر لکھا اور اس کا جرمن ترجمہ کروایا اور اس بوڑھے کو دے دیا بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ احمدی نہیں ہے لیکن اس نے بڑی محبت اور پیار

Page 869

خطبات ناصر جلد اول ۸۵۳ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء سے وہ مجھ سے لیا اور تہ کر کے اپنے بٹوے میں رکھا اس کے بعد تو پھر سارے میرے پیچھے پڑ گئے اور جتنے وہاں کے جرمن احمدی تھے کہنے لگے کہ ہمیں بھی الہام نکال کے دیں میں بھی یہی چاہتا تھا ہر ایک کے لئے اس کی تاریخ اور سنہ کا الہام تو نہ مل سکا ( سوائے ایک کے جس کی تاریخ کا الہام غالباً مل گیا تھا ) کیونکہ ان میں سے اکثر وہ تھے جن کی پیدائش ۱۹۰۸ء کے بعد ہوئی سال تو بہر حال نہیں مل سکتا تھا لیکن مہینے اور تاریخیں مل جاتی تھیں وہ الہام میں نے ان کو نکال کے اور ترجمہ کروا کے دئے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ایک الہام ان کو یادر ہے اور اس سے ان کا تعلق قائم ہو جائے ہر ایک نے پیچھے پڑ کے وہ الہامات مجھ سے نکلوائے اور کافی دیر تک وہاں بیٹھے رہے کیونکہ ترجمہ بھی کروانا تھا اور پھر ٹائپ بھی کرنا تھا ہر ایک نے بڑی محبت سے ان الہامات کو لیا اور سنبھال کے رکھا.ایک کی والدہ بھی آئی تھیں اس نے کہا مجھے الہام نکال کے دیا ہے تو میری والدہ کے لئے بھی نکال دیں وہ بڑی خوش ہو گی وہ بڑا ہی مخلص جرمن نوجوان ہے چنانچہ اس کی والدہ کے لئے بھی میں نے الہام نکال کے دیا اور اتفاق کی بات ہے کہ وہ بیوہ ہے بچاری جو تنگی کی حالت میں دن گزار رہی تھی اس کے لئے الہام یہ نکلا ( اس وقت مجھے الفاظ یاد نہیں ) کہ بعد کے جو دن ہیں وہ پہلے دنوں کی نسبت زیادہ خوشحالی کے ہیں ، کچھ اس قسم کا ذکر ہے الہام میں ویسے بھی مطلب کے لحاظ سے یہ الہام اس کو خوش کرنے والا تھا.برکت کے لحاظ سے تو بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں برکت ہے.یہ ان لوگوں کے جذبات ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے ظاہر ہو رہے تھے اصل میں یہ باتیں چھوٹی نہیں ہیں محبت کا اظہار جس رنگ میں بھی ہو اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا نہ چھوٹا کہا جا سکتا ہے دنیا دار کی نگاہ میں وہ چھوٹی باتیں ہیں مگر پھوٹ پھوٹ کر ان کے دلوں سے محبت بہتی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی یہ نو مسلم قربانی کرنے والے ہیں مالی لحاظ سے بھی اور وقت کے لحاظ سے بھی اس وقت زیادہ تر دو ہی قربانیاں ہیں نا؟؟؟ جن کا جماعت یا ہمارا اللہ مطالبہ کرتا ہے ایک مال کی قربانی ایک وقت کی قربانی.وقت کی قربانی میں ہی آرام کی قربانی بھی آجاتی ہے اور ہمارے یہ بھائی دونو قسم کی قربانی دینے والے ہیں.وہاں موصی پائے جاتے ہیں اور بشاشت کے ساتھ خود وصیت کا چندہ ادا

Page 870

خطبات ناصر جلد اول ۸۵۴ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء کرتے ہیں علاوہ دوسرے چندوں کے.اس کے علاوہ اپنے طور پر خرچ کرتے ہیں ، اسلام کی اشاعت پر ان میں بڑی عمر کے بھی ہیں اور نو جوان بھی ہیں اخلاص اور محبت ان میں کوٹ کوٹ کے بھری ہے ان سے مل کے طبیعت میں خوشی پیدا ہوتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس کے دل میں ایمان کی بشاشت ایک دفعہ پیدا ہو جائے شیطانی حملوں کا خطرہ اس کے لئے باقی نہیں رہتا.یہ بشاشت ایمانی اس گروہ کے دلوں میں اس نے پیدا کر دی ہے اپنے فضل سے ڈنمارک میں ایک شخص ہے عبد السلام میڈیسن وہ احمدی ہوا اس نے اسلام کو سیکھا قرآن کریم کے ترجمے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شائع کروائے ان میں سے ہر ایک کو لے کر اس نے بڑے غور سے پڑھا پھر ڈینش زبان میں اس نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا، ان تراجم کی روشنی میں اور وہ بڑا مقبول ہوا ایک کمپنی نے اس سے معاہدہ کیا اور دس ہزار شائع کیا جس میں سے غالباً تین چار ہزار چند مہینوں کے اندر فروخت بھی ہو چکا ہے.کچھ رقم بطور معاوضہ کے (اس کو رائلٹی کہتے ہیں ) اس کمپنی نے اس کو دی وہ ساری کی ساری رقم اشاعت اسلام کے لئے اس نے وقف کر دی ایک پیسہ نہیں لیا.وہ دونوں میاں بیوی سکول میں کام کرتے ہیں ہر ایک کی قریباً ہزار ہزار روپیہ تنخواہ ہے اور ٹیکس لگ جاتا ہے ان پر قریباً ایک ہزار.تو ایک ہزار بچتا ہے ہر دو کی تنخواہ سے.اب جس شخص کی ایک ہزار روپیہ ماہوار آمد ہے اور اسے ٹیلی فون کا دو ہزار کا بل آ جائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس قدر اسلام کا درد رکھتا ہے وہ شخص.اگر کوئی شخص اس کو خط لکھے اسلام پر اعتراض کرے یا اسلام کے متعلق کوئی بات پوچھے اور اس کے خط میں ٹیلی فون نمبر ہے تو وہ ٹیلی فون اٹھا کے اس کو ٹیلی فون کرتا ہے وہاں ٹیلی فون کا انتظام کچھ مختلف ہے جتنی دیر مرضی ہو کوئی بات کرتا ہے یہ نہیں کہ تین منٹ کے بعد کہیں کہ تمہارا وقت ختم ہو گیا صرف بل آ جائے گا ایک گھنٹہ بھی کوئی بات کرے ایک گھنٹہ کا بل دے دیں گے وہ ویسے سستا بھی ہے کافی سستا ہے ہم ہمبرگ سے لندن فون کرتے تھے تو پتہ چلا کہ اس کے اوپر پانچ چھ روپے خرچ ہوتے ہیں تو کوئی اعتراض کر دے تو یہ شخص ٹیلی فون کے او پر تبلیغ شروع کر دیتا ہے اعتراض دور کرتا ہے مسئلے اس کو بتانے لگتا ہے.ایک مہینہ میں دو ہزار روپے کا

Page 871

خطبات ناصر جلد اول ۸۵۵ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء بل اس شخص کے نام آ گیا جس کی ایک ہزار روپیہ آمد تھی.تو بے دریغ اور بے دھڑک اسلام کی اشاعت پر اپنے اموال خرچ کرنے والے ہیں یہ دوست.جب امام کمال یوسف صاحب کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ یہ تمہارا ذاتی خرچ تو ہے نہیں (انہوں نے سوچا کہ ایک مہینہ میں دو مہینے کی آمد کے برابر بل وہ کیسے ادا کرے گا ).تم کو اشاعت قرآن سے جو آمد آ رہی ہے وہ ہمارے پاس جمع ہو رہی ہے میں اس میں سے یہ بل ادا کر دوں گا سو دوسو کا بل ہو تو وہ خود ہی ادا کر دیتا ہے ایک ماہ میں دو ہزار روپے کے بل کا مطلب یہ ہے کہ دو ہزار روپیہ کا بل جتنا وقت خرچ کرنے پر آتا ہے اتنا وقت بھی تو اس نے خرچ کیا ہے نا ؟؟؟ میرا اندازہ ہے کہ کئی گھنٹے روزانہ اوسط بنے گی پس بڑی ہی قربانی ہے اس شخص کی جو پورے چندے بھی دیتا ہے اور دین کے کاموں پر بہت سا وقت بھی خرچ کرتا ہے اور اس کے علاوہ گھنٹوں ٹیلیفون پر تبلیغ اسلام کرتا ہے اور ٹیلی فون کا بل بھی اپنی گرہ سے دیتا ہے.یہ دوست بڑی غیرت رکھنے والے ہیں اسلام کے لئے بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں اسلام کے لئے بڑی محبت رکھنے والے ہیں اللہ سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور آپ کے غلاموں سے اور اللہ تعالیٰ کی محبت پانے والے بھی ہیں کیونکہ جو خدا کی راہ میں دیتا ہے وہ خدا سے اس سے زیادہ حاصل بھی کرتا ہے ورنہ بشاشت قائم نہیں رہ سکتی جب تک اللہ تعالیٰ کے پیار کا سلوک اس کا ایک بندہ اس دنیا میں نہیں دیکھتا بشاشت ایمانی نہ پیدا ہوتی ہے نہ قائم رہتی ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا وہ ان سے اس دنیا میں ہی اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے.ادبار رکھنا نہیں چاہتا وہ غیر محدود جلووں کا مالک ہے بے شمار رنگ ہیں ہمارے تصور میں بھی وہ رنگ نہیں آتے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے.یہ لوگ اپنے رب سے اس محبت کو پاتے ہیں اور جو ایثار اور قربانی اور فدائیت کے نمونے یہ دکھاتے ہیں اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر ان پر انعام کرتا ہے اور رحمتیں نازل کرتا ہے سو اس طرح یہ ایک چکر ہے جو چلا ہوا ہے یہ چکر جیسے یہاں چلا ہوا ہے وہاں بھی چل پڑا ہے اور درجنوں ایسے آدمی ہیں مرد بھی اور عور تیں بھی جنہوں نے خدا کی راہ میں فدائیت اور ایثار کا نمونہ دکھایا اور اللہ تعالیٰ نے انتہائی محبت اور پیار کا

Page 872

خطبات ناصر جلد اول ۸۵۶ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء سلوک ان سے کیا اور ان کے سینوں کو اپنے نور سے اور اپنی محبت سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے فرزند جلیل کی محبت سے بھر دیا اور یہ ایک نمونہ بن گئے ہیں اس دنیا کے لئے.میں تو ان سے کہتا تھا کہ تمہیں دیکھ کے کچھ امید بندھتی ہے ورنہ جن قوموں سے تم نکلے ہو اگر ان کے کردار اور گزری زیست پر نگاہ کریں تو وہ اس قابل ہیں کہ ہلاک کر دیئے جائیں لیکن جس قوم سے تمہارے جیسے خدا کے پیارے پیدا ہو سکتے ہیں اس قوم میں سے جہاں بارہ نکلیں بارہ لاکھ بھی نکل سکتے ہیں اس لئے ہمیں امید بندھتی ہے کہ شاید تمہاری قو میں بچ جائیں اللہ تعالیٰ کے قہر سے اور قہر کی بجائے رحمت اور پیار کے جلوے جو ہیں وہ ان کو ملا حظہ کریں.دیکھو میں ہوں ایک ذرہ ناچیز مجھ سے اگر کوئی احمدی پیار کرتا ہے تو صرف اس لئے کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا پیار ہے اس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ہے اس کے دل میں مسیح موعود کا پیار ہے.وہ یہ دیکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس شخص کو ایک مقام پر فائز کیا ہے اور اس کے وعدے ہیں کہ وہ اس کے ساتھ ہے.اس لئے اور صرف اس لئے وہ مجھ سے پیار کرتا ہے ور نہ مجھ میں ذاتی کوئی خوبی نہیں اور اسی قسم کا پیار میں نے وہاں دیکھا کہ دل چاہتا تھا کہ جسم کا ذرہ ذرہ اپنے رب پر قربان ہو جائے اور ان بھائیوں پر بھی جن کے دل کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح سراپا محبت بنا دیا.کوپن ہیگن کی مسجد کے افتتاح کے موقعہ پر ہمارا یہ غیور اور محبت کرنے والا بھائی میڈیسن میری حفاظت اور پہرے کا بھی خیال رکھتا رہا پھر افتتاح کے موقع پر کم و بیش تین منٹ اس نے بولنا تھا.ایک ایک لفظ اس کے گلے میں اٹکتا اس قسم کا جذباتی وہ ہو گیا تھا حالانکہ سکنڈے نیویا کے لوگ اپنے جذبات کا لوگوں کے سامنے اظہار اتنا برا سمجھتے ہیں کہ آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے.ایک دفعہ ہمارا ایک آنریری مبلغ وہاں آیا ہوا تھا اس کو اطلاع ملی کہ اس کا باپ فوت ہو گیا ہے لیکن امام کمال کو پتہ بھی نہیں لگا نہ اس کی زبان نے ظاہر کیا نہ اس کے چہرے نے ظاہر کیا نہ اس کی طرف سے یہ ظاہر ہوا کہ اس کو کوئی تکلیف پہنچی ہے اس قدر ضبط ہے ان کو اپنے نفسوں پر.اس کے با وجود پانچ چھ دن جو ہم ٹھہرے معلوم نہیں کتنی دفعہ آبدیدہ ہوئے جذباتی ہو گئے وہ دوست.ایک ہمارے بہت ہی مخلص آنریری مبلغ ناروے کے ہیں.ان کا نام ہے نور احمد.اس

Page 873

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۵۷ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء نے اپنی بیوی کو تبلیغ کر کے احمدی کیا وہ اس کا نام رکھوانا چاہتے تھے کیونکہ اسے احمدیت قبول کئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا.انہوں نے کہا کہ ہم اکیلا ملنا چاہتے ہیں.ان کی بیوی اور ایک چھوٹی بچی ہے دو اڑھائی سال کی بڑی پیاری.سب ملنا چاہتے ہیں.میں نے ان کو وقت دے دیا.اتفاقاً ان کی بیوی تو بیمار ہوگئی تو وہ خودا کیلئے آئے میرے سامنے جب آکر بیٹھے تو میں نے دیکھا کہ وہ کانپ رہے ہیں اور خاموش ہیں بات کرتے ہیں تو ایک فقرہ بھی ان کے منہ سے پورا نہیں نکل سکتا.اس قدر جذباتی ہو گئے تھے.میں نے ان سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں پانچ سات منٹ تک میں باتیں کرتا رہا ان کے حالات وغیرہ کے متعلق.جب باتوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ اب ی شخص اپنے نفس پر قابو پاچکا ہے اور جذبات بے قابونہیں ہیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کام ہے تو کہنے لگے کہ میں نے اپنی بیوی کا نام رکھوانا ہے اور بچی کا.بیوی کا نام میں نے ”محمودہ “ رکھا اور بچی کا نام رکھا ” نصرت جہاں کیونکہ نصرت جہاں ہمیں مسجد بھی ملی اور ایک بچی بھی اللہ تعالیٰ نے دی.بچی کا نام نصرت جہاں سن کر تو اس کی باچھیں کھل گئی میرا خیال ہے کہ اس کی اپنی خواہش ی تھی کہ یہی نام رکھا جائے لیکن اس نے اپنی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا.خیر نام رکھا گیا.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کا جسم پھر کانپنا شروع ہو گیا اور اس کے ہونٹ پھڑ پھڑانے لگے اور بڑی مشکل سے اس نے یہ فقرہ ادا کیا کہ دل میں جو جذبات ہیں وہ زبان پر نہیں آسکتے.“ یہ کہہ کر وہ کھڑا ہو گیا.میں نے اسے گلے سے لگالیا.اس نے السلام علیکم کہا اور چلا گیا.آنکھیں اس کی آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں بات ہی نہیں کر سکتا تھا اس قسم کا جذباتی ہو رہا تھاوہ ، اور تھا وہ اس قوم میں سے کہ اگر اس کا باپ بھی مرجا تا تو وہ نہ بتا تا کہ اس کا باپ مر گیا ہے اور نہ چہرے پر غم کے آثار ظاہر ہوتے لیکن اب ان کے دل اللہ تعالیٰ نے بدل دئے ہیں اب وہ ایسی قوم بن گئے ہیں کہ اپنے اخلاص اور تقویٰ اور اس فضل کی وجہ سے اور اس رحمت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ ان پر نازل کر رہا ہے اس پیار کی وجہ سے جس کے وہ نمونے دیکھتے ہیں.یہاں کے مخلص بزرگوں کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں اب ان کی حیثیت ایک شاگرد کی نہیں رہی وہ شاگرد کی

Page 874

خطبات ناصر جلد اول ۸۵۸ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء حیثیت سے آگے بڑھ گئے ہیں اور جس طرح یہاں کے مخلصین دنیا کے استاد ہیں اور استاد ثابت ہو رہے ہیں اسی طرح وہ بھی دنیا کے استاد ثابت ہو رہے ہیں اور اگر ہم نے سستی سے کام لیا اور وہ قربانیاں نہ دیں جو ہمیں دینی چاہئیں ایسے احمدی کی حیثیت سے جن کا مرکز کے ساتھ تعلق ہے اور جو پاکستان میں رہنے والے ہیں.نیز اگر ہم نے اپنی نسلوں کی اعلیٰ تربیت نہ کی تو پھر اللہ تعالیٰ تحریک غلبہ اسلام کا مرکز ایسی قوم میں منتقل کر دے گا جو اس کی راہ میں سب سے زیادہ قربانی دینے والی ہو گی.بے شک ہمیں ایک عظیم بشارت دی گئی ہے مگر یہ بشارت ہم پر ایک عظیم ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے جس کی طرف ہر وقت متوجہ رہنا از بس ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کی تو کسی سے رشتہ داری نہیں ہے اس لئے اس عظیم ذمہ داری کے پیش نظر ہمیں ہر وقت ڈرتے ڈرتے زندگی کے دن گزارنے چاہئیں کہ ہماری غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں کہیں اللہ تعالیٰ سلسلہ کے مرکز کو ہم سے چھین کر یا ہماری نسلوں سے چھین کر کسی اور کے سپرد نہ کر دے بوجہ اس کے کہ وہ ہماری یا ہماری نسلوں کی نسبت زیادہ قربانیاں دینے والے اور اللہ سے زیادہ محبت کرنے والے اللہ کی راہ میں فدائیت اور ایثار کے بہتر نمونہ دکھانے والے بن جائیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی توفیق دے بہتر سے بہتر خدمت دین اسلام کی.لیکن اللہ تعالیٰ ہم میں کوئی خامی اور نقص اور کمزوری پیدا نہ ہونے دے ہمیں دعا ئیں بھی کرنی چاہئیں اور کوشش بھی کرنی چاہیے کہ اس کی توفیق سے ہم ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طور پر نبھاتے رہیں.اس وقت انسانیت جس دور میں سے گذر رہی ہے وہ انسانیت کے لئے بڑا ہی نازک دور ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ جب میں موجودہ انسان کے حالات پر غور کرتا ہوں تو میرا چین چھن جاتا ہے اور مجھے بڑی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کیونکہ اس دور میں اگر کسی انسان پر باقی سب انسانوں کو ہلاکت اور تباہی سے بچانے کی ذمہ داری پڑتی ہے تو وہ ہم ہیں اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا نہ کریں تو ایک طرف اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے ہوں گے اور دوسری طرف ہم ذمہ دار بن جائیں گے ان قوموں کی ہلاکت کے.کیونکہ جو ان سے تعلق رکھنے والی ہماری ذمہ داریاں تھیں وہ ہم نے پوری نہیں کیں حقیقت یہ ہے (اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو

Page 875

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۵۹ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء میں اس حقیقت کو دہراتا چلا جاؤں گا.جب تک کہ میں اپنے مقصد کو حاصل نہ کرلوں یا اس دنیا سے گذر نہ جاؤں) کہ ہر احمدی کو دنیا کا رہبر اور قائد اور استاد بننے کی اپنے اندر اہلیت پیدا کرنی پڑے گی اور پیدا کرنی چاہیے کیونکہ آج بھی دنیا کو ان سے کہیں زیادہ تعداد میں استادوں اور مبلغین کی ضرورت ہے جو آج ہمارے پاس ہیں لیکن وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جب اس ضرورت کی ہماری موجودہ اہلیت کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہ ہو گی بلکہ دنیا لاکھوں آدمی مانگے گی دنیا جماعت احمدیہ سے یہ کہے گی کہ ہم سیکھنے کے لئے تیار ہیں تم ہمیں آ کر سکھاتے کیوں نہیں؟ کیا جواب ہوگا آپ کے پاس اگر آپ ان کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے؟ میں نے غور بھی کیا میں نے دعائیں بھی کیں اس کے متعلق اور اللہ تعالیٰ نے بڑے زور سے میرے دل میں ڈالا ہے کہ اگلے ہمیں تیس سال دنیا پر.انسانیت پر اور جماعت پر بڑے نازک ہیں.ایک نہایت ہی خطرناک عالمگیر تباہی کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً دی ہے جس کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ اگر وہ تباہی دنیا پر آگئی تو دنیا میں علاقے کے بعد علاقہ ایسا ہو گا کہ جہاں سے زندگی ختم ہو جائے گی.پہلی دو عالمگیر جنگوں میں، نہ ایسا ہوا نہ ایسا ہونا ممکن تھا کچھ آدمی مارے گئے کچھ پرندے بھی مارے گئے ہوں گے کچھ چرندے بھی مارے گئے ہوں گے کچھ کیڑے مکوڑے بھی مارے گئے ہوں گے لیکن کوئی ایک علاقہ ایسا نہیں ہو سکتا تھا جہاں سے زندگی ختم ہو گئی ہو (سوائے دو استثناء کے جو جاپان پر دو ایٹم بم گرانے کے ہیں ).لیکن تیسری عالمگیر تباہی کے متعلق یہ پیشگوئی واضح الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں موجود ہے کہ ایسے علاقے ہوں گے کہ جن میں زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا پھر یہ بھی پیشگوئی ہے کہ اس عظیم ہلاکت کے بعد (اگر اس ہلاکت سے قبل یہ اقوام اسلام کی طرف اور اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی طرف نہ آ گئیں ) اسلام بڑی کثرت سے دنیا میں پھیل جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ نظارہ دکھایا گیا آپ نے دیکھا کہ روس میں اس قدر احمدی ہیں جس قدر کہ ریت کے ذرے ہوتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ ریت کے ذروں کی طرح میں نے وہاں احمدیوں کو دیکھا ہے.

Page 876

خطبات ناصر جلد اول ۸۶۰ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء میں نے اپنے سفر میں یورپ والوں کو کہا کہ جہاں تک روس کا تعلق ہے پیشگوئی بڑی واضح ہے لیکن یورپ کی طاقت کے تباہ ہونے اور ان اقوام کے کثرت سے بچ جانے کے متعلق کوئی واضح الہام میرے علم میں نہیں ہے اور اس لئے مجھے تمہارے متعلق زیادہ فکر ہے اس لئے ہوشیار ہو جاؤ اور اپنے بچاؤ کی فکر کرو تمہیں سوائے اللہ کے آج اور کوئی بچا نہیں سکتا اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو تا کہ تمہیں بچایا جائے.اگر آج وہ میری نصیحت کو مانیں اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کریں تو کل وہ ہم سے مطالبہ کریں گے کہ ہمیں دس ہزار (یا شاید اس سے بھی زیادہ) مبلغ اور استاد چاہئیں جو ہمیں دین اسلام سکھا ئیں تو میں انہیں کیا جواب دوں گا ؟ کیا میں یہ کہوں گا کہ میں نے تمہیں اس ابدی صداقت کی طرف بلایا تو تھا لیکن تمہارے دلوں میں صداقت کو قائم کرنے کے لئے میرے پاس کوئی انسان نہیں ہے اسی لئے میں پریشان رہتا ہوں اور اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ ہر احمدی مرد اور احمدی عورت دنیا کا رہبر بننے کی اہلیت پیدا کر لے تا کہ جب انسان ہمیں یہ کہہ کر پکارے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی طرف بلایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو پکار کے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ.ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ہم اس جھنڈے تلے جمع تو ہو رہے ہیں لیکن اس جھنڈے کا سایہ جو اسلام سیکھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہی ہمیں حاصل ہوسکتا تھا ( ٹھنڈا رحمت کا سایہ ) وہ ہم پر نہیں پڑا.معلم اور استاد بھیجو تا وہ ہمیں دین اسلام سکھا ئیں اور تا وہ ان باتوں کو واضح کریں.وہ تعلیم وہ ہدایتیں ہمیں دیں جو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں اور اس کے جواب میں میں یا کوئی اور جو میرے بعد آنے والا ہے.وہ یہ کہے کہ میرے پاس تو آدمی نہیں میں تمہاری مدد کیسے کروں؟ کیا خلیفہ وقت کا یہ جواب جو آپ کی طرف سے دیا جائے ہمارے خدا کو پیارا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اپنے بچوں کے ذہنوں میں، ان کے دلوں میں یہ چیز گاڑ دو کہ ہر چیز کو قربان کر کے بھی دین اسلام سیکھنے انوار قرآن حاصل کرنے کی طرف توجہ دو نہ پہلوں نے دنیا کمانے سے آپ کو روکا نہ میں روکتا ہوں دنیا کمائیں دین کی مضبوطی کے لئے دنیا

Page 877

خطبات ناصر جلد اول ۸۶۱ خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء کے عیش کے لئے نہیں اور دنیا کماتے ہوئے بھی اتنا دین سیکھ لیں کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کی آواز آپ کے کان میں پہنچے کہ اعلائے کلمہ اسلام کے لئے اور دین اسلام کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اور ان اقوام کو جو اسلام کی طرف جھک رہی ہیں اور رجوع کر رہی ہیں ان کو اسلام کی تعلیم سکھانے کے لئے آدمی چاہئیں تو آپ میں سے ہر ایک اس قابل ہو کہ انہیں اسلام سکھا سکے اور اس بات کا عزم اپنے دل میں رکھتا ہو کہ وہ دنیا کے ہر کام کو چھوڑ دے گا اور اسلام کے سکھانے کے لئے جہاں ضرورت ہو گی چلا جائے گا.تو یہ تڑپ ہے جو میرے دل میں ہے یہ پریشانی ہے جو لاحق ہے جو بعض دفعہ میری نیند کو بھی حرام کر دیتی ہے.میں ہمیشہ دعائیں کرتا رہتا ہوں آپ کے لئے بھی اور اپنے لئے بھی اور ساری دنیا کے لئے بھی اور میں اپنے رب سے کہتا ہوں کہ اے میرے پیارے ربّ! تو نے آج تک ہمیشہ پیار کی نگاہ مجھ پر رکھی ہے آئندہ بھی ہمیشہ پیار ہی کی نگاہ رکھنا اور مجھے یہ توفیق دینا کہ جماعت کی رہبری اور قیادت کے لئے جو ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے وہ میں اچھی طرح نبھا سکوں.تاکہ یہ تیری پیاری جماعت اور میری پیاری جماعت تیرے سامنے شرمندہ نہ ہو خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۴/اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحه ۲ تا ۷)

Page 878

Page 879

خطبات ناصر جلد اول ۸۶۳ خطبہ جمعہ ۱۸ ستمبر ۱۹۶۷ء یورپ میں ایک خلا پیدا ہو چکا ہے اُسے پر کرنا اور غلبہ اسلام کے لئے کوشش کرنا ہمارا فرض ہے خطبه جمعه فرموده ۸ رستمبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے دوستوں کو بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یورپ کے مختلف ممالک میں نہایت ہی اخلاص رکھنے والی ، خدا اور اس کے رسول سے محبت رکھنے والی دین اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دینے والی جماعتیں پیدا ہو چکی ہیں.یورپ میں بسنے والے ان دوستوں سے ملاقات کے علاوہ باہر کے بعض ملکوں سے بھی احمدی وہاں آئے ہوئے تھے اور ان سے ملنے اور ان سے باتیں کرنے اور ان کو سمجھنے کا بھی موقعہ ملا.امریکہ سے قریباً نو احمدی مرد اور عورتیں کوپن ہیگن یا لنڈن آئے اسی طرح ماریشس سے بعض احمدی لنڈن پہنچے ہوئے تھے محض ملنے کی خاطر اور وہاں کی تقریبات میں شمولیت کے لئے.اسی طرح نائیجیریا سے بھی مقامی دوست وہاں پہنچے ہوئے تھے اور بعض دوسرے ملکوں کے احمدی بھی وہاں آئے ہوئے تھے ان کومل کے بھی طبیعت نے بڑی خوشی محسوس کی اور اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ادا کیا کہ ان ملکوں کے رہنے والوں کے دلوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے اور اپنے دین کے لئے اور اپنے رسول کے لئے بڑی ہی محبت پیدا کر دی ہے.امریکہ سے جو دوست کو پن ہیگن پہنچے تھے ان میں سے ایک کے تاثرات تو وہاں کے بلیٹن

Page 880

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۶۴ خطبہ جمعہ ۱۸ ستمبر ۱۹۶۷ء میں شائع ہو گئے ہیں اس نے بہت کچھ وہاں کے حالات سے متاثر ہو کر لکھا ہے.تحریک جدید میں بھی وہ بلیٹن پہنچ گئی ہے ان کو چاہیے کہ وہ الفضل کے ذریعہ بھی اس قسم کے تاثرات کو جماعت کے دوستوں کے سامنے رکھیں وہاں کی لجنہ کی پریذیڈنٹ بھی آئی ہوئی تھیں وہ لنڈن پہنچی تھیں بعد میں کوپن ہیگن جا کر انہوں نے مسجد دیکھی مجھے ان کا خط ملا ہے کہ مسجد دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نہایت ہی خوبصورت گھر اللہ تعالیٰ کا ڈنمارک میں بن گیا ہے.چونکہ لنڈن یا انگلستان کی جماعتیں زیادہ تر پاکستانیوں یا اردو بولنے والوں پر مشتمل ہیں اس لئے میں ان سے زیادہ تر اُردو میں مخاطب ہوتا رہا جو تقریر رات کے کھانے کے موقعہ پر انگریزی میں میں نے کی اس میں صرف مرد شامل تھے مستورات مدعو نہ تھیں اس لئے صد ر لجنہ اماءاللہ امریکہ اس میں شامل نہ ہو سکتی تھیں.ایک دن جمعرات کو مجھے کہنے لگیں کہ کئی دن سے ہم آئے ہوئے ہیں تقاریر میں شامل ہوتے ہیں لیکن ہم نے انگریزی زبان میں کوئی چیز نہیں سنی کہ ہم کچھ تو اپنے ملک میں لے کر جائیں کل کے خطبہ میں آپ کچھ انگریزی میں بھی کہیں.چنانچہ ان کی اس خواہش اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے اور یہ سوچ کر کہ بہت سے اور دوست بھی ہوں گے یہاں جو باہر سے آئے ہیں اور بڑی محبت اور پیار سے آئے ہیں.ایسی زبان میں بھی بات کرنی چاہیے کہ وہ سمجھ سکیں اور ان کے دلوں کو تسلی ہو سکے.میں نے وہ خطبہ سارا انگریزی میں دیا تھا اور بتانے والوں نے مجھے بتایا کہ سارے خطبہ کے دوران اس بہن کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے اس کے بعد وہ مجھے ملیں گھنٹہ سوا گھنٹہ میں نے ان دو بہنوں کو وقت دیا جو امریکہ سے آئی ہوئی تھیں مختلف مسائل ان کو سمجھائے بعض انتظامی معاملات کے متعلق انہوں نے بعض باتیں مجھے بتا ئیں اور ان کا حل میں نے انہیں بتایا اس وقت بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے جسم کا ذرہ ذرہ اپنے اللہ پر فدا ہونے کے لئے تیار ہے اس قسم کا اخلاص ان لوگوں میں پیدا ہو چکا ہے اسی طرح جو ماریشس سے آئے ہوئے تھے ان کی بھی یہی حالت تھی نائیجیریا کے مقامی دوست جو وہاں پہنچے تھے ان میں سے ایک وہ ہیں جو طلباء کی فیڈ ریشن کے وائس پریذیڈنٹ یعنی نائب صدر ہیں ان کے صدر بھی احمدی ہیں لیکن ایک چھوٹا سا حصہ کسی وقت آج سے کافی عرصہ پہلے ( حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کی بات ہے )

Page 881

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۶۷ء علیحدہ ہو گیا تھا لیکن علیحدہ ہونے کے باوجود اپنے عقائد میں وہ پختہ ہیں انتظام میں وہ علیحدہ ہو گیا.ان کے ساتھ یہ نوجوان جا شامل ہوا میں نے اس کو کہا ( نائب صدر کو ) کہ تم اپنے صدر کو اپنی طرف کھینچو اس کو سمجھا ؤ مسائل.کہنے لگا میں نے ان سے بہت باتیں کی ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ بس مجھے پتہ نہیں کیا ہوا ، عدم علم کی بنا پر میں ان کے ساتھ شامل ہو گیا ہوں اب حقیقت مجھ پر ظاہر ہوگئی ہے اب آہستہ آہستہ انہیں چھوڑ کے جو چیز حقیقی احمدیت اور اسلام ہے اس کی طرف واپس لوٹ آؤں گا.تو ان نوجوانوں کے دل میں بھی محبت ہے اسلام اور احمدیت کی اور ان کے ذہنوں میں نور ہے.اسلام کے دلائل اور براہین عقل میں جو نور پیدا کرتے ہیں وہ نوران کی عقلوں میں ہے اور خدا اور رسول کے لئے محبت کے جو جذبات ایک مسلمان کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں وہ جذبات ان لوگوں کے دلوں میں ہیں.بڑی ہی مخلص جماعتیں وہاں پیدا ہو چکی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس وقت آسمان سے کچھ ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ جن ملکوں کو میں نے دیکھا ہے اور امریکہ وغیرہ جن کے متعلق میں نے باتیں سنیں اس سے میں اس یقین پر قائم ہو گیا ہوں کہ ان ملکوں میں عیسائیت ختم ہو چکی ہے.وہ چیزیں جو میں نے دیکھیں یا وہ باتیں جو آج خود پادری کہتے ہیں اور اخباروں میں شائع کرتے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ عیسائیت یقینی طور پر مٹ چکی ہے ان کا ذکر تفصیل کے ساتھ تو انشاء اللہ کسی اور موقع پر بیان کروں گا یا رسالے یا دو ورقوں کی شکل میں احمدیوں کے سامنے بھی اور دیگر مسلمان بھائیوں کے سامنے بھی آجائیں گی اور عیسائیوں کے سامنے بھی آجائیں گی ان کے اپنے مونہوں سے نکلی ہوئی باتیں جو ثابت کرتی ہیں کہ عیسائیت ختم ہو چکی ہے اُس دنیا کے سامنے تو آ چکی ہیں اور اس دنیا کے سامنے یعنی ہمارے ملکوں میں اپنے وقت پر پیش کر دی جائیں گی.اس وقت میں یہ حقیقت بیان کرنا چاہتا ہوں کہ عیسائیت ان ملکوں میں مرچکی ہے اور ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے اس خلا کو پر کرنا ، اسلام کے غلبہ کے لئے وہاں کوشش کرنا یہ ہمارا کام ہے کیونکہ اس خلاء کو سوائے اسلام کے اور کوئی مذہب پر نہیں کر سکتا اور اگر ایک ظلمت دور ہو اور اس کی جگہ ایک دوسری ظلمت

Page 882

خطبات ناصر جلد اول ۸۶۶ خطبہ جمعہ ۸؍ستمبر ۱۹۶۷ء لے لے تو اس سے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ اگر انسان نے ابدی صداقتوں سے استفادہ کرنا ہے تو یہ ضروری ہے کہ جھوٹ کی جگہ سیچ لے.یہ ضروری ہے کہ اندھیرے کی جگہ روشنی لے، یہ ضروری ہے کہ ظلمت کی جگہ نورلے، یہ ضروری ہے کہ بتوں کی محبت کی جگہ خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور یہ سوائے اسلام کے نہیں ہو سکتا اور یہ جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جماعت کے قیام کی غرض ہی یہ ہے کہ گمشدہ معرفت کو دنیا میں پھر سے قائم کیا جائے.تو ہم پر بڑی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان ممالک میں جو خلا پیدا ہورہا ہے اس خلا کو اسلام کے نور سے، اس خلا کو قرآن کریم کے دلائل و براہین سے ، اس خلا کو اللہ تعالیٰ کی محبت سے پر کر دیں تا شیطان پھر کبھی ان فضاؤں میں داخل ہونے کی جرات نہ کر سکے.اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم خود تو حید کے ایک اعلیٰ اور ارفع مقام پر قائم ہوں.ضروری ہے کہ ہم خود معرفت اور عرفان کے یقینی مقام پر قائم ہوں یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے نفسوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرنے والے ہوں یہ ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کے علوم سے اچھی طرح واقف ہوں کہ اس کے بغیر ہم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نباہ نہیں سکتے.ان ذمہ داریوں کو نباہنے کے قابل بننا ہمارے لئے ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالی محض زبان کے دعووں کو پسند نہیں کرتا.قرآن کریم نے منافقوں کے متعلق یہ بیان کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف زبان سے دعوی کرتے ہیں اور اس دعویٰ کے بعد جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَةُ والهُ عُدَّةٌ (التوبة: ٤٦) یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی مخلص مومنوں کے ساتھ جہاد پر جانے کے لئے ہر وقت تیار ہیں.اگر وہ اپنے دعوی میں سچے ہوتے تو ایک اخلاص رکھنے والے ایک ایثار رکھنے والے مسلمان نے جو جہاد کے لئے تیاری کی تھی یہ لوگ بھی اسی طرح اس کے لئے تیاری کرتے مگر یہاں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ دعویٰ تو ہے لیکن اس کے لئے تیاری نہیں.جب تلوار سے دشمن اسلام، اسلام پر حملہ آور ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مومن سے کہا کہ جتنی طاقت تمہیں ہے جتنے مادی سامان تم اکٹھے کر سکتے ہو کرو اور میرے اس دشمن کا مقابلہ کرو میں تمہیں

Page 883

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۶۷ خطبہ جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۶۷ء کامیابی عطا کروں گا اور خدا نے جو کہا وہ پورا کیا.آج اسلام کے مقابلہ میں جھوٹے دلائل ، غلط باتیں، ہر قسم کا افتراء، بودے اعتراضات، نفرت کے جذبات کو ابھارنا، دجل کے تمام طریقوں کو استعمال کرنا، یہ وہ ہتھیار ہیں جو اسلام کے خلاف استعمال کئے جار ہے ہیں.ان کا آج ہم نے مقابلہ کرنا ہے ان کا مقابلہ تلوار سے یا مادی سامانوں سے نہیں ہو سکتا غلط دلائل کا مقابلہ سچے دلائل سے کیا جا سکتا ہے.دجل کے اندھیروں کا مقابلہ اللہ کی رضا کے نتیجہ میں جونور حاصل ہوتا ہے اس نور سے کیا جا سکتا ہے تو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے ایثار اور فدائیت کا دعوی کرنا یا عزم کا اظہار زبان سے کرنا یہ کافی نہیں ہے اس کے ساتھ ہی (باستثناء منافقین کہ جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے کہ دعوی ہے مگر تیاری نہیں ہے.ان منافقین کے گروہ کے علاوہ) ساری جماعت کو تیار ہونا پڑے گا ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے اور ہم جو ذمہ دار ہیں ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم جماعت کو تیار کریں.یہ ایک عظیم موقع اشاعت اسلام اور دین حق کے غلبہ کا اللہ تعالیٰ نے آسمانی فیصلوں کے ذریعہ اور فرشتوں کے نزول کے ساتھ پیدا کر دیا ہے.ہمارے سامنے میدان خالی پڑا ہے ہم نے آگے بڑھنا ہے دلائل کے ہتھیار لے کر.ہم نے آگے بڑھنا ہے نور کی شمعیں ہاتھ میں لئے ہوئے.ہم نے آگے بڑھنا ہے توحید خالص کی جو کر نہیں جسموں سے پھوٹتی ہیں جب تو حید خالص ایک دل میں قائم ہو جاتی ہے ان کرنوں کے سہارے اور اس کے لئے ہمیں خود کو اور جماعت کو تیار کرنا ہے.اس کی تیاری کے لئے تفصیلی منصوبہ تو انشاء اللہ تعالیٰ اور اس کی توفیق سے میں اپنے وقت پر بیان کروں گا (ممکن ہے کئی خطبات دینے پڑیں) لیکن اصولاً میں اس وقت یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو اپنی عادتیں بدلنی پڑیں گی آپ کو بہت سی بدعات جو آہستہ آہستہ ہم میں نفوذ کر گئی ہیں ان کو چھوڑنا پڑے گا آپ کو ذہنی طور پر اس بات کے لئے تیار ہونا پڑے گا کہ اگر اسلام کی ضرورت ہمیں پکارے کہ اپنا سب کچھ چھوڑ دو ادھر آؤ اور اس ضرورت کو پورا کرو تو جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اسلام کی آوازسُن کر سب کچھ چھوڑ کر میدان جہاد کی راہ لی تھی اسی طرح ہم بھی اس آواز پر اپنا سب کچھ چھوڑ کر اسلام کی خاطر اور اسلام کی

Page 884

خطبات ناصر جلد اول ۸۶۸ خطبہ جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۶۷ء اشاعت کے لئے اور توحید کے قیام کے لئے وہاں پہنچ جائیں جہاں ہماری ضرورت محسوس کی جائے.یہ ذہنیت ہمیں پیدا کرنی پڑے گی اور ہمیں اس وقت بڑا چوکس بھی رہنا پڑے گا.کیونکہ جیسا کہ کہا گیا ہے ظلمت کے ساتھ نور کی یہ آخری جنگ ہے اور ظلمت خاموش نہیں رہے گی وہ ہم پر باہر سے بھی حملہ آور ہوگی اور اندر سے بھی ہم پر حملہ آور ہوگی وہ (منافقوں کے ذریعہ ) جماعت کے اتحاد کو پاش پاش کرنے کی کوشش کرے گی.جور پورٹیں میرے تک پہنچ رہی ہیں ان میں سے بعض اس طرف بھی اشارہ کر رہی ہیں کہ بعض لوگ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ اب تو کوئی چارہ نہیں رہا یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ان کا اتحاد قائم نہ رہے بلکہ جس طرح دوسرے لوگ منتشر ہیں اور پراگندہ ہیں اسی طرح یہ جماعت بھی منتشر اور پراگندہ ہو جائے.اسلام دوستی تو اس سے ظاہر ہوتی ہے ان کی.لیکن انہوں نے اپنی نہج پر سوچنا ہے اور ہم نے ان طریقوں پر کام کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ ہمیں بتائے.اس وقت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جماعت نے اتحاد کا اتنا حسین مظاہرہ کیا ہے کہ بہر حال مخالف اس کو پسند نہیں کرتا نہ کر سکتا ہے وہ رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گا اندرونی فتنوں کے ذریعہ سے.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے ظلمت جو ہے وہ بیرونی حملوں کو بھی تیز کرے گی لیکن آسمان سے فرشتوں کا نزول ہو چکا ہے اور عیسائیت دنیا سے ختم ہو چکی ہے عیسائیت اب اس بات کے ماننے پر مجبور ہوگئی ہے کہ اگر ایک شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ مسیح خدا نہیں تھا تب بھی وہ عیسائی ہی رہتا ہے.اگر اُس کا عقیدہ یہ ہے کہ بائیبل الہامی کتاب نہیں تب بھی وہ عیسائی ہی رہتا ہے اگر اس کا عقیدہ یہ ہو کہ حضرت مریم کنواری نہیں تھیں اور مسیح بن باپ نہیں تھے تب بھی وہ عیسائی ہی رہتا ہے اگر جتنے عقائد ہیں عیسائیت کے کوئی شخص ایک ایک کر کے چھوڑتا چلا جائے تب بھی وہ عیسائی رہتا ہے اگر مسیح کو کوئی عیسائی (نعوذ باللہ ) با اخلاق انسان نہ سمجھے تب بھی وہ عیسائی ہی رہتا ہے لیکن صرف یہ فقرہ ابھی منہ سے نہیں نکالتے کہ عیسائیت دنیا میں باقی نہیں رہی اس دنیا میں جس کا میں ذکر کر رہا ہوں یعنی یورپ اور امریکہ میں.پس آسمان سے فرشتے نازل ہو چکے اور انہوں نے عیسائیت کو ان ملکوں سے مٹا دیا اب

Page 885

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۶۹ خطبہ جمعہ ۸ ستمبر ۱۹۶۷ء ہمارا کام ہے کہ ہم اپنی انتہائی کوشش کر کے خدائے واحد کے جھنڈے ان ملکوں میں گاڑ دیں یہ ہے ہماری ذمہ داری !!! اور اس ذمہ داری کے نباہنے کے لئے جس حد تک ہمیں استطاعت ہواس حد تک تیاری کرنا ہمارا فرض ہے اور ان فرائض کی طرف مختصراً میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور خصوصاً دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم کوئی طاقت اور کوئی استطاعت اور کوئی اثر ورسوخ نہیں رکھتے اور نہ ہمارے پاس وسائل ذرائع اور تدبیر کے مادی سامان اتنے ہیں جتنے وسائل کی آج ہمیں اپنی عقل کے مطابق ضرورت محسوس ہو رہی ہے لیکن ہمارا رب تمام طاقتوں کا منبع اور سرچشمہ ہے.تمام علوم کے خزانے اس کے پاس ہیں کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے کوئی طاقت اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی اگر ہم دعا کے ذریعہ اس کے فضل کو جذب کرنے میں کامیاب ہو جا ئیں تو صرف اسی صورت میں ہم کامیاب ہو سکتے ہیں ورنہ نہیں.پس بہت دعائیں کرو، بہت دعائیں کریں، دعائیں کرتے ہوئے تھکیں نہ ماندہ نہ ہوں کہ صرف دعا کے ذریعہ سے ہمیں وہ چیز مل سکتی ہے جو آج ہمیں اپنے فرائض پورا کرنے کی توفیق دے سکتی ہے اور اپنے مقصد کے حصول کی توفیق دے سکتی ہے اور ہمیں کامیاب کر سکتی ہے اور اس کے بغیر ہمارا کوئی چارہ ہی نہیں.پس دعائیں کریں.دعائیں کریں.دعا ئیں کریں کہ اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے کہ آخری فیصلہ جو مقدر ہو چکا ہے آسمانوں پر ظلمت اور نور کے درمیان وہ فیصلہ ہماری زندگیوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے نافذ ہو جائے اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خدمت کی کچھ تو فیق عطا کرے اور اپنی رضا کے عطر سے ہمارے اندر اس قدر خوشبو پیدا کر دے کہ یہ زمین اور وہ آسمان اس خوشبو سے بھر جائیں اور فرشتے ہم پر درود بھیجنے لگیں.وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ.روزنامه الفضل ربوه ۱۱ اکتوبر ۱۹۶۷ ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 886

Page 887

خطبات ناصر جلد اول ۸۷۱ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء ایک عظیم سلسلہ بشارتوں کا اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کو ملا اور وہ خدا اپنے وعدہ کا سچا ہے خطبه جمعه فرموده ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء بمقام راولپنڈی تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے اپنی اس جماعت کو دنیا میں اسلام کی اشاعت اور دوسرے ادیان پر اسلام کے غلبہ کے لئے پیدا کیا ہے اور بے شمار، ان گنت اس کے احسان ہمیشہ اس جماعت پر رہے ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں اور دعا بھی کرتے ہیں کہ جب تک یہ مقصد ہمیں حاصل نہ ہو جائے کہ تمام دنیا اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لے اور اپنے محسن اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے لگے ، اس کی رحمت اور اس کا فضل اور اس کی برکت ہمیشہ ہی ہمارے شامل حال رہے.بعض موقعوں پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے زیادہ سامان پیدا کر دیتا ہے اور اپنے احسان معمول سے زیادہ ہم پہ کر رہا ہوتا ہے.میرا یورپ کا سفر کچھ اس قسم کا تھا ایک چھوٹے سے عرصہ میں (چھ ہفتہ میں ) اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جس قدر فضلوں اور رحمتوں سے نوازا ہے اور جس قدر احسان اس نے ہم پر کئے ہیں، ان کا شمار نہیں ہو سکتا اور دل اس کی حمد سے معمور اور جسم اور روح اس کے حضور شکر کے سجدوں میں لگے ہوئے ہیں.آج میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے دل میں بھی اس احساس میں شدت پیدا کروں اور ان کو

Page 888

خطبات ناصر جلد اول ۸۷۲ خطبہ جمعہ ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء ابھاروں کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے عظیم احسان ہم پہ کئے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ عظیم احسان اپنے بندوں پر کرتا ہے تو بہت سی ذمہ داریاں بھی ان پر عائد کرتا ہے پس اس عظیم احسان کو بھی پہچانو اور ان عظیم ذمہ داریوں کو بھی نبھانے کی کوشش کرو.احسان جیسا کہ میں نے بتایا ہے گنے نہیں جا سکتے.لیکن بعض مثالیں اس کے احسانوں کی میں اس وقت دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں.جب یہ انتظام ہو رہا تھا کہ میں سفر پہ جاؤں مختلف یورپین ممالک کی جماعتوں کی یہ خواہش تھی کہ میں اس سفر کو اختیار کروں ،تحریک جدید والے کہتے تھے کہ کوپن ہیگن کی مسجد کا خود جا کے افتتاح کریں لیکن دل میں ابھی پورا انشراح پیدا نہیں ہوا تھا، کیونکہ خدا کا ایک بندہ خدا کی منشا کے بغیر اور اس کے اذن کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا ، تب میں نے خود بھی دعائیں کیں اور جماعت کے دوستوں کو بھی اس طرف متوجہ کیا کہ وہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر یہ اہم سفر بابرکت ہو تبھی یہ سفر اختیار کیا جائے اگر یہ مقدر نہ ہو تو روک پیدا ہو جائے.ان دعاؤں کے بعد اور ان دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم نشان میں نے دیکھا اس کے نور کا حسین ترین جلوہ مجھے دکھایا گیا، جس کی تفصیل میں ربوہ والے خطبہ میں بیان کر چکا ہوں اور کسی وقت الفضل کے ذریعہ آپ تک پہنچ جائے گی.اس لئے اس کی تفصیل میں میں اس وقت جانانہیں چاہتا اور مجھے یہ تسلی دی گئی تھی کہ بے شک تم ایک عاجز انسان ہو، ایک کم مایہ وجود ہو لیکن خدا تمہارے ساتھ ہے اور رہے گا اور جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ ہو جائے تو کسی اور چیز کی ، کسی اور وجود کی کسی اور منبع اور سرچشمہ کی اسے ضرورت نہیں رہتی.اسی حسین نظارہ میں جس کی تفصیل انشاء اللہ آپ پڑھ لیں گے میں نے ایک یہ نظارہ بھی دیکھا تھا کہ ایک عجیب نور جو مختلف رنگوں سے بنا ہوا ہے وہ ایک دیوار سے پھوٹ پھوٹ کے باہر نکل رہا ہے اور بہت موٹے حروف میں جو قریباً کم و بیش ( پہلے خطبہ میں جو اندازہ کیا تھا وہ میں غلط کر گیا تھا ) نظر کا اندازہ یہ ہے کہ اتنا پھیلاؤ تھا جتنار بوہ میں قصر خلافت کا ہے.وہاں الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدہ کے حروف اُبھرے ہیں اور اس کے پیچھے سے ٹور چھن چھن کے باہر آرہا ہے اس دن جب میں نے نظارہ دیکھا تو میری

Page 889

خطبات ناصر جلد اول ۸۷۳ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء طبیعت میں بشاشت پیدا ہوئی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اس سفر پہ میں ضرور جاؤں گا.اس زمانہ میں سندھ کے ایک احمدی دوست کو یہ کشف ہوا ، لکھتے ہیں کہ میں نے بیداری کی حالت میں دیکھا کہ ایک بزرگ سفید کپڑوں میں ملبوس آئے ہیں اورعربی زبان میں مجھ سے گفتگو شروع کر دی ہے اور پوچھتے ہیں کہ تمہیں علم ہے کہ خلیفتہ اُسیح یورپ کے سفر پر جا رہے ہیں.میں نے انہیں کہا کہ ہاں مجھے علم ہے اس پر وہ بزرگ کہنے لگے کہ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لے لی ہے اس سفر پر جانے کی؟ تب وہ کہتے ہیں کہ میرے سامنے یہ نظارہ آیا کہ مسجد مبارک میں ( غالباً انہوں نے لکھا ہے کہ قادیان کی مسجد مبارک میں ) آپ آئے ہیں اور محراب کے قریب آپ کھڑے ہو گئے ہیں، میں آپ کے پاس پہنچا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ سے اس سفر پر جانے کی اللہ اجازت لے لی ہے آپ نے جواب دیا کہ ہاں! میں نے اپنے اللہ سے اجازت لی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اجازت دی ہے اور بڑی بشارت اور نہایت اعلی کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ پھر میں واپس گیا اور اس بزرگ سے جو عربی میں باتیں کر رہے تھے مزید باتیں کرتا رہا اور یہ سارا نظارہ بیداری کے عالم میں میں نے دیکھا.تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے اور اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ پر کہ وہ خود مد دکرے گا اور اس رنگ میں مدد کرے گا کہ کسی اور کی حاجت محسوس نہ ہوگی.میں نے اس سفر کو اختیار کیا تھا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اللہ تعالیٰ نے اس سفر کے دوران بڑے بڑے عظیم احسان مجھ پر اور آپ پر کئے ہیں پہلا سلسلہ احسانوں کا تو وہ بشارتیں ہیں جو بیبیوں کی تعداد میں جماعت کو ملیں ، بڑوں نے بھی ، چھوٹوں نے بھی ، مردوں نے بھی اور عورتوں نے بھی اللہ تعالیٰ سے بشارتیں پائیں.ان بشارتوں کا تعلق صرف میری ذات سے نہیں، ان بشارتوں کا تعلق صرف آپ میں سے بعض کی ذات سے نہیں بلکہ ان بشارتوں کا تعلق ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ ہے جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.تو یہ بشارتیں اللہ تعالیٰ کے احسان ہیں جو جماعت پر بڑی کثرت سے ان دنوں میں ہوئے.وہاں بھی ہوئے ، یہاں بھی ہوئے ، افریقہ اور دوسرے ملکوں کے رہنے والوں

Page 890

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۷۴ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء نے بھی مجھے اپنے رویا اور کشوف لکھے.شروع میں ہی ایک دوست نے لکھا کہ میں نے یہ خواب دیکھی ہے کہ ایک فتنہ سا ہے بیرونی بھی اور اندرونی بھی اور اندرونی فتنہ جو ان کو خواب میں دکھایا گیا تھا یہ تھا کہ بعض لوگ آپ پر یعنی مجھ خاکسار پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ رویا اور کشوف بہت سنانے لگ گیا ہے.جب انہوں نے اپنی یہ خواب لکھی تو میں نے اس سے دو نتیجے اخذ کئے اور میرے ذہن میں اس کی دو تعبیر میں آئیں ، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ بہت بشارتیں دے گا اور دوسرا یہ کہ مجھے اس کا اظہار کر دینا چاہیے، کیونکہ جب تک یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں.معترض اعتراض نہیں کر سکتا.اگر بشارتیں ہی نہ ہوتیں تو ان کو بتائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اعتراض کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا.اور اگر بشارتیں ہوں اور خاموشی اختیار کی جائے تو کوئی شخص اعتراض نہیں کرسکتا، نہ کسی کے علم میں بات آئے گی اور نہ وہ اعتراض کرے گا.تو یہ دو باتیں میری سمجھ میں آئیں اور اسی وجہ سے میں نے اپنی عام عادت کے خلاف واپسی پر بہت سے کشوف اور رویا ، اپنے بھی اور اپنے بھائیوں اور بہنوں کے بھی مختلف خطبوں اور تقاریر میں بیان کر دیئے اور یہ کہ کر بیان کئے کہ ان کو ہم تحدیث نعمت کے طور پر بیان کرتے ہیں اور ان حاسد معترضین کو بھی موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی معترض طبیعت کو بہلا لیں اس میں ہمارا تو کوئی حرج نہیں.تو ایک عظیم سلسلہ بشارتوں کا اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کو ملا اور خدا جو اپنے وعدہ کا سچا ہے، جیسا کہ اس نے کہا تھا.اکیس اللهُ بِكَافٍ عَبدہ اس نے اپنے وعدہ کو پورا کیا اور اس قسم کے سامان پیدا کر دیئے کہ کسی اور کی مدد اور نصرت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی اور آسمان سے (ایسا معلوم ہوتا تھا ) فرشتوں کا نزول ہو رہا ہے اور اس علاقہ اور فضا کو اپنے تصرف میں لے لیتا ہے جہاں ہم سفر کر رہے ہوتے ہیں.ایک موقعہ پر ( ہے تو یہ چھوٹی سی بات لیکن لطف بڑا دیتی ہے.ہمیں سفر کے انتظامات کے سلسلہ میں کچھ فکر تھی اس کے لئے ہم انتظام کر رہے تھے اور نا کام ہو رہے تھے، یہاں تک کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جیسے مشہور انسان جن کی لوگ

Page 891

خطبات ناصر جلد اول ۸۷۵ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء بات سنتے ہیں ، انہوں نے کوشش کی اور ان سے انکار کر دیا گیا کہ ہم یہ انتظام نہیں کریں گے، تب اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ تمہارے تو سارے انتظام نا کام ہو جائیں گے لیکن میں انتظام کر دوں گا.چنانچہ جن باتوں سے ہمیں ڈرایا گیا تھا ان سے اُلٹ ہم نے وہاں دیکھا پتہ نہیں کیا ہوا.ہمیں اسباب کا علم نہیں ہوا لیکن ہر وہ چیز جو ہم چاہتے تھے کہ ہو جائے.اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے انتظام کر دیا تھا اس کے بعد حالانکہ (جیسا کہ میں نے بتایا ہے ) کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے انکار کر دیا گیا ، کہہ دیا گیا تھا کہ ہم انتظام نہیں کر سکتے.یہ تو ایک چھوٹی سی ظاہری مثال ہے جس سے ظاہر بین آنکھ بھی اندازہ لگا سکتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہمیں دراصل اپنے احسانوں کے نیچے دبا دینا چاہتا تھا وہ ہمیں ایک نئی قوم بنانا چاہتا تھا تا کہ ہم اپنی نئی ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل ہو سکیں.تو پہلا سلسلہ احسانوں کا ، بشارتوں کا سلسلہ ہے جو بڑی کثرت سے جماعت پر کئے گئے اور ہم الفاظ میں اس کا شکر بجا نہیں لا سکتے ( جو شکر کرنے کے طریق ہیں میں ان کے متعلق بعد میں کچھ کہوں گا ) دوسرا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا یوں شروع ہوا کہ آج کل بعض وجوہات کی بنا پر تمام یورپ کے ممالک میں اسلام کے خلاف تعصب اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا ہے وہ مسلمان کی شکل تک دیکھنا برداشت نہیں کرتے اور کئی بیچارے مسلمانوں پر ان ملکوں میں جہاں یہ بات بظاہر ناممکن نظر آتی ہے چھرے سے حملے بھی ہوئے.تعصب اس حد تک پہنچا ہوا ہے کہ ہمارے بہت سے مبلغین نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ بہتر یہ ہے کہ پریس کا نفرنس نہ بلائی جائے کیونکہ پتہ نہیں کس قسم کے تمسخر اور استہزا کے ساتھ وہ سوال کریں گے اور کیا اپنے اخباروں میں لکھ دیں گے کیونکہ اس وقت اس قسم کا تعصب ہے کہ وہ ہر قسم کا جھوٹ اسلام کے خلاف بولنے کے لئے تیار ہیں.ان میں سے ہمارے ایک مبلغ بہت ہی زیادہ گھبرائے ہوئے تھے مجھے انہیں کہنا پڑا کہ تم فکر نہ کرو مجھ سے سوال ہوں گے میں نے جواب دینے ہیں تم خواہ مخواہ پریشان ہورہے ہوا نتظار کرو لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا ان لوگوں کے دماغوں پر کہ جو لوگ کا نفرنس میں آتے تھے انہوں نے اس قسم کا کوئی سوال ہی نہیں کیا جن سے یہ لوگ ڈرتے تھے پھر طریق اتنا ادب اور احترام کا کہ جیسے کوئی احمدی

Page 892

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء مجھ سے بات کر رہا ہو میں نے صرف ایک شخص کی آنکھوں پر شوخی دیکھی ساری پریس کا نفرنسز میں جوان ملکوں میں بلائی گئیں اگر ان کے وقت کو جمع کیا جائے، تو مجموعہ قریباً آٹھ گھنٹے بنتا ہے آٹھ گھنٹے کے قریب مختلف ملکوں میں پریس کانفرنسز ہوئیں اور صرف ایک مقام پر ایک شخص کی آنکھوں میں شوخی تھی زبان ادب اور احترام لئے ہوئے تھی بڑے پیار سے اس نے وہ فقرہ کہا مگر اس کی آنکھوں سے مجھے نظر آ رہا تھا کہ شرارت اور شوخی ہے اس نے مجھے پوچھا کہ ہمارے ملک میں آپ نے اب تک کتنے مسلمان بنائے ہیں اور چونکہ تعداد ہماری وہاں اس وقت تک کم ہے اس کی آنکھوں میں یہ شوخی تھی کہ بڑے سال سے تم کام کر رہے ہو اور بڑے تھوڑے احمدی ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے اسی وقت جواب سمجھایا میں نے اسے کہا کہ تمہارے نزدیک مسیح علیہ السلام نے اس دنیا میں جتنی زندگی گزاری ( اور اس مسئلہ میں ہمارا تمہارا اختلاف ہے لیکن میں اس اختلاف میں پڑنا نہیں چاہتا ) بہر حال جتنا تم سمجھتے ہو کہ اتنے برس وہ یہاں رہے اپنی ساری زندگی میں انہوں نے جتنے عیسائی بنائے تھے تمہارے ملک میں اس سے زیادہ احمدی ہیں.وہ ایسا خاموش ہوا کہ مجھے معلوم ہوا....میں نے تو اس وقت دراصل اس کی آنکھ کی شوخی کا جواب دیا تھا، ہے تو یہ حقیقت مگر ایسے رنگ میں دیا تھا کہ اس کو سمجھ آگئی کہ یہاں شوخی چلے گی نہیں اور وہ خاموش ہو گیا پھر اس نے سوال کر نے چھوڑ دیئے چالیس پینتالیس منٹ کے بعد میں نے اسے کہا تم مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تمہارا جہاں تک تعلق ہے میں تم میں دلچسپی رکھتا ہوں اور سوال کرو میرے کہنے پر اس نے ایک دو اور سوال کئے پھر بعد میں ایک گھنٹہ ہمارے دوستوں سے گفتگو کی ، کتابیں خرید کے لے گیا اور کہا کہ مجھے بڑی دلچسپی پیدا ہوئی ہے میں ان کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں.تو اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا ان لوگوں پر جو نمائندہ بن کے آئے تھے کہ وہ سارے خطرات جو ہمارے مبلغوں کے دلوں میں تھے ہوا میں اڑ گئے اور ہر شخص نے نہایت ادب اور احترام کے ساتھ اور دوستانہ رنگ میں وہ سوال کئے اور میں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایسے جواب ان کو دیئے کہ ان کی تسلی ہو گئی یہاں تک تصرف الہی تھا کہ مثلاً ٹیلی ویژن میں چھوٹا سا پروگرام ہوتا ہے، ہمارے اس پروگرام میں بھی وہ خود جو چیز سمجھتے تھے کہ اثر انداز ہونے والی ہے اس کا وہ انتخاب

Page 893

خطبات ناصر جلد اول ALL خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء کرتے تھے ( باتیں کرنے کے بعد ) حالانکہ چاہیے تو ان کو یہ تھا کہ وہ ایسی باتوں کا انتخاب کرتے جوان کے نزدیک T.V دیکھنے والوں پر اثر انداز نہ ہو سکتیں اس کی تفصیل میں T.V کے ذکر میں بیان کروں گا.انشاء اللہ پریس، جو وہاں بڑا آزاد پریس ہے وہ بادشاہوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا ،لکھ دیتے ہیں جو دل میں آئے تعصب کا یہ عالم کہ ہمارے مبلغ ڈررہے ہیں کہ پتہ نہیں کیا ہوگا پر یس کا نفرنس ہی نہ بلائی جائے وہ آتے ہیں سوال کرتے ہیں ایک آدھ دفعہ تقریباً ہر جگہ سیاست کے متعلق وہ ضرور سوال کرتے میں ان کو آرام سے کہہ دیتا تھا کہ میں تو سیاسی آدمی نہیں ہوں میں مذہبی آدمی ہوں مجھ سے مذہب کے متعلق جو چاہو سوال کرو پھر ہماری مذہبی گفتگو ہوتی رہتی تھی جو باتیں میں کہہ رہا تھا وہ ان کے عقیدہ کے خلاف اور جو ان کی کمزور اور ظلمت کی زندگی گزارنے والی عقلیں ہیں وہ ان عقلوں کے خلاف اور جو بات میں کہتا تھا باوجود اس کے کہ ان کے عقائد یا ان کی سمجھ کے خلاف ہوتی تھی وہ اخبار میں شائع کر دیتے ایسا تصرف الہی تھا.سویٹزر لینڈ میں ہمارے باجوہ صاحب نے بتایا کہ ایک اخبار ہے وہ تعلیم یافتہ لوگوں کا اخبار سمجھا جاتا ہے، اشاعت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے، لیکن تمام تعلیم یافتہ لوگ اس کو لیتے ہیں مزدور اس کو نہیں پڑھتے بڑے پایہ کا اخبار ہے اور بڑا متعصب، ہمیشہ اسلام کے خلاف لکھتا ہے جب میں تردیدی خط لکھوں تو انکار کر دیتا ہے ایک لفظ نہیں لکھتا نہ تر دید میں اور نہ اسلام کے حق میں تو پتہ نہیں اس کا نمائندہ آئے یا نہ آئے ، اگر آئے تو پتہ نہیں وہ کچھ لکھتا بھی ہے، یا نہیں پھر اس کا جو نمائندہ آیا اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر تصرف کیا اور اس نے خاص دلچسپی لی پہلے سے ہی اس کے دل میں ڈالا گیا تھا کہ تم نے اس میں دلچسپی لینی ہے.چنانچہ وہ اکیلا نہیں آیا بلکہ اپنی سٹینو کو ساتھ لے کے آیا یوں تو مجھے پتہ نہیں چلا لیکن بعد میں جو تصویریں آئی ہیں ان سے پتہ چلا کہ وہ سٹینو جو تصویر میں آگئی ہے وہ ساتھ ساتھ شارٹ ہینڈ میں بڑی تیزی سے لکھتی رہی ہے.گفتگو کے وقت وہ نمائندہ ہی میرے سامنے تھا اور میری ساری توجہ اس کی طرف تھی اور اس کے سوالوں کی طرف تھی جو وہ پہلے تیار کر کے لایا تھا.چنانچہ جب کا نفرنس ختم ہوگئی تو بعد میں وہ میرے پاس آگیا

Page 894

خطبات ناصر جلد اول ALA خطبہ جمعہ ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء اور باتیں کرتا رہا اس وقت بھی وہ سٹینو اس کے ساتھ تھی اور نوٹ لے رہی تھی آخر میں اس نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد کیا تھا ؟ ؟ میں نے کہا میں اپنے الفاظ میں تمہیں نہیں بتلاتا.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کے الفاظ میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ آپ نے کیا دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیوں مبعوث کیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث کیا ہے کہ میں دلائل کے ساتھ اس صلیب کو توڑ دوں جس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ہڈیوں کو تو ڑا اور آپ کے جسم کو زخمی کیا.وہ یہ جواب سن کر کھڑے کھڑے گویا اچھلنے لگ گیا ،معلوم ہوا کہ اس پر اس جواب کا اتنا اثر ہوا ہے کہ وہ برداشت نہیں کر سکا اور کہنے لگا مجھے حوالہ دکھا ئیں.یہ ان لوگوں کی عادت ہے کہ اگر کسی اور کی طرف کوئی بات منسوب کی جائے تو اس کا حوالہ دکھانے کے لئے تیار رہنا چاہیے.مجھے قطعا علم نہ تھا کہ اس قسم کا کوئی سوال ہوگا اور میرے منہ سے یہ جواب دلوا دیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ پتہ تھا میں یہاں سے چند ایک حوالے جو میرے یہاں کام نہیں آئے تھے اپنے ساتھ لے گیا تھا.میں نے کہا تھا رکھ لو بھی کام آ جاتے ہیں ان میں یہ حوالہ اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی تھا، یوں ہو گیا تھا جانے سے پہلے.لیکن میرے ذہن میں پختہ نہیں تھا کہ وہ ہے بھی یا نہیں؟؟؟ میں نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو کہا مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان حوالوں میں یہ حوالہ بھی ہے جا کے سارے حوالے لے آئیں.جب وہ لائے تو ان میں یہ حوالہ بھی موجود تھا، میں نے اسے دکھایا اس نے کہا کہ میں اسے نقل کرنا چاہتا ہوں میں نے کہا ضرور نقل کرو اس نے وہ نقل کیا اور اگلے دن اس اخبار میں جو ایک لفظ نہیں لکھا کرتا تھا، پورا ایک کالم بلکہ اس سے بھی کچھ سطریں زیادہ اس کا مضمون شائع ہوا.جس میں ہماری باتیں جو اس سے ہوئیں وہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حوالہ درج تھا.دوسرے جو نوٹ شائع ہوئے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.لیکن جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی نوٹ وہ شائع کر دیں تو میری طبیعت میں اس سے بہت بڑی خوشی اور بشاشت پیدا ہوتی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک مرسل کو دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے جو اثر آپ

Page 895

خطبات ناصر جلد اول 129 خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء کے الفاظ میں ہے وہ کسی اور کے الفاظ میں نہیں ہوسکتا.تو جب اس نے وہ حوالہ نقل کر دیا میں بہت خوش ہوا اور یہاں بھی ہمارے بعض واقف اور دوسرے لوگ بھی ملے ہیں جب ان کو پتہ چلتا ہے کہ اس اخبار نے اتنا بڑا نوٹ دیا ہے تو وہ بڑے حیران ہوتے ہیں.زیورک میں سارے اخباروں نے ہمارے متعلق نوٹ دیئے ، کوئی ایک اخبار نہیں تھا جو پیچھے رہ گیا ہوا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دوڑ لگی ہوئی ہے.ہر ایک چاہتا تھا کہ میں دوسروں سے آگے نکلوں اور باتیں وہ بیان کروں جو وہاں کے مذہب کے، وہاں کے معاشرے کے اور وہاں کے اخلاق کے خلاف ہوں.ہر وہ آدمی جس کے ہاتھ میں کوئی اخبار جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچ گیا کہ میری طرف رجوع کرو اور میرے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آؤ ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے.میں نے زیورک سے شروع کیا اور کوئی گھر ایسا نہیں جس میں کوئی اخبار پہنچتا ہو اور پھر اسے یہ پیغام نہ پہنچا ہو کیونکہ زیورک کا کوئی اخبار ایسا نہیں جس نے ہمارا یہ پیغام شائع نہ کیا ہو.اسی طرح ہم ہمبرگ پہنچے وہاں چار اخبار چھپتے ہیں ایک ساری دنیا میں جاتا ہے تین وہاں کے مقامی ہیں.جو اخبار ساری دنیا میں جاتا ہے وہ ٹائم لنڈن کے پایہ کا اخبار ہے اور ہمیں تو اس کی اتنی اہمیت کا پتہ نہیں تھا کراچی میں ہمارے ایک غیر احمدی عزیز ہیں وہ مجھے ملے وہاں کسی نے کہا تو ضرور ہو گا، لیکن حافظہ نے اسے یاد نہیں رکھا اور کچھ ہیں بھی وہ متعصب ، تو میں نے جب ان کے سامنے De Welt کا نام لیا اور کہا کہ یہ سارے جرمنی میں پڑھا جاتا ہے تو کہنے لگے سارے جرمنی میں نہیں ساری دنیا میں پڑھا جاتا ہے اور بہت بڑا فوٹو اور نیچے اچھا لمبا نوٹ اس میں ہمارے متعلق شائع ہوا اور جو دوسرے اخبار تھے انہوں نے بھی نوٹ دیئے.پھر کوپن ہیگن میں گئے کوپن ہیگن میں ( جو ہمارے بعد کی اطلاع ہے ) تیس پینتیس اخبار اور بھی لکھ چکے ہیں.افتتاح کے متعلق بھی اور اس پیغام کے متعلق بھی جو ان کے نام میں نے دیا تھا اور اس کے متعلق نوٹ بھی.سویڈن کے ایمبیسڈر یہاں ہیں ان کو شوق پیدا ہوا کہ وہ مجھے ملیں، کہنے لگے کہ میں ان دنوں چھٹی پر تھا.(وہاں سویڈن میں ) افتتاح ہمارا ہوا تھا ڈنمارک میں.

Page 896

خطبات ناصر جلد اول ۸۸۰ خطبہ جمعہ ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء کہنے لگے کہ میں نے وہاں تین آرٹیکل اخباروں میں پڑھے.پھر مجھے دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے پاکستان کے ایمبیسیڈر سے فون کر کے کچھ اور معلومات حاصل کیں اور اب مجھ کو ملنے کا شوق تھا.میں نے جب ان کو ڈنمارک کے اخباروں کے کٹنگز دکھائے.تو بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا کہ بڑی پبلسٹی ہوئی ہے اور ایک ویکلی ہے اور با تصویر ہے ہمیں علم تھا کہ ڈنمارک میں کوئی ایسا گھر نہیں جہاں وہ اخبار نہ پہنچتا ہو اس نے پورا ایک صفحہ ہماری تصاویر اور نوٹوں کے لئے دیا.انگلستان پہنچے.پہلے لنڈن کے اخبارات نے خاموشی اختیار کی ہم گلاسگو چلے گئے دو تین دن بڑی مصروفیت کے تھے.گلاسکو کے اخباروں نے انٹرویو لئے ، پریس کانفرنس ہوئی، تو اخباروں نے لکھا پھر راستے کے جو اخبار تھے ، انہوں نے لکھا.پھر ان کو خیال آیا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے ہمیں صبر کرنا چاہیے تھا.ٹائم لنڈن جس پر یہاں بھی بعض لوگوں کے دل میں حسد پیدا ہوا ہے.مش نے بھی ایک لا یعنی نوٹ ” نوائے وقت میں شائع کروا دیا ہے اور وضاحت کو سننے کے لئے اب تیار نہیں خیر بہر حال یہ تو ضمنی بات ہوئی.دنیا کے دو چار اخبار ہوں گے جنہیں ساری دنیا تو قیر کی نظر سے دیکھتی ہے، ان کی عزت اور احترام کرتی ہے ان کو وقعت دیتی ہے ان میں سے ایک اخبار ہے ”ٹائم لنڈن ہم ابھی واپس لنڈن نہیں پہنچے تھے کہ ہمارے پاس ان کا فون آیا کہ ہم آپ سے ایک خصوصی انٹرویو لینا چاہتے ہیں میں نے کہا بڑی اچھی بات ہے، میں لنڈن آ کے بتاؤں گا کہ کس دن اور کس وقت ؟؟ چنانچہ ان کا نمائندہ آیا.اس کو میں نے خود ہی کہہ دیا کہ آج شام کو چائے ہمارے ساتھ پینا.گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے تک باتیں کرتا رہا اور پھر اس نے ٹائم لنڈن میں بڑا اچھا نوٹ دیا اور بجائے اس کے کہ ساری اسلامی دنیا خوش ہوتی.ساری دنیا ویسے بڑی خوش ہوئی کہ یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ اسلامی دنیا خوش نہیں ہوئی لیکن اسلامی دنیا میں م ش جیسے دو چار آدمی ایسے بھی ہیں جو خوش نہیں ہوتے اس سے اسلامی دنیا پر کوئی فرق نہیں پڑتا میں اتنی وضاحت کر دوں کہ بعض دفعہ ہمارے احمدی بھی کہہ دیتے ہیں اسراف کے رنگ میں کہ خوش نہیں ہوئے ، یہ غلط بات ہے.میں آگے بتاؤں گا.خوش ہوئے اور ہوتے ہیں، لیکن اس قسم کے آدمی ہمیشہ رہے اور ہمیشہ رہیں گے ان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل

Page 897

خطبات ناصر جلد اول ΑΔΙ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء اخباروں کے ذریعہ نازل ہوتا ہوا ہمیں نظر آیا ، ہمارا اندازہ تھا کہ اگر لاکھوں روپیہ بھی ہم خرچ کرتے تو اس قسم کی تبلیغ اور اشاعت اسلام ہمارے لئے ممکن نہ ہوتی جتنی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مفت میں ہو گئی.تیسر افضل یا تیسر اسلسلہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا یہ ہے اسے سمجھنے کی کوشش کریں.آپ کے لئے ہے تو مشکل اس کا سمجھنا کیونکہ یہ واردات مجھ پر گزری ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہوتی تھی وہی مجھے وہ سمجھا دیتا تھا.اللہ تعالیٰ کی ایسی عجیب شان میں نے دیکھی ہے کہ میں اندھیرے میں ہوتا تھا اور سوال کرنے والا روشنی میں ہوتا تھا اس نے اپنی ایک سکیم بنائی ہوئی ہوتی تھی کہ یہ یہ سوال کرنے ہیں اور میں اندھیرے میں ہوتے ہوئے بھی اس کو ایسا جواب دیتا تھا.کہ وہ حیران رہ جا تا تھا.اور جو اس کا مقصد ہوتا وہ ظاہر ہی نہ ہوتا تھا اس کا قصہ یوں ہے، ہے لمبا اگر آپ اکتائیں نہ میں بولتا جاتا ہوں ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں ہوا.وہاں سے مطالبہ آیا کہ آپ لکھی ہوئی تقریریں کریں عام طور پر مجھے لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کی عادت نہیں اور اس وجہ سے کچھ گھبراہٹ بھی ہوتی ہے لکھ کر پڑھنے سے زبانی بولنے سے اتنی گھبراہٹ نہیں ہوتی اور دعا کے بغیر تو نہ میں کبھی بولتا ہوں اور نہ اس پر یقین رکھتا ہوں کہ بغیر دعا کے بولا جائے لیکن بہر حال عادت ہوتی ہے وہ زور دے رہے تھے کہ لکھی ہوئی تقریر پڑھیں.جب بہت زور دیا تو میں نے کہا اچھا لکھنا شروع کرتے ہیں پہلے میں نے فرینکفرٹ میں تقریر کرنے کی نیت سے نوٹ لکھنا شروع کیا جب لکھ چکا اور اسے پڑھا تو مجھے پسند نہ آیا اسے ایک طرف رکھ دیا.پھر میں نے ایک دوست کو کہا کہ میں ڈکٹیٹ کراتا ہوں تم لکھتے جاؤ جب میں ڈکٹیٹ کروا چکا اور انہوں نے پڑھا تو وہ بھی مجھے پسند نہ آیا اسے بھی میں نے ایک طرف رکھ دیا.اگلے دن صبح جب پھر میں لکھنے بیٹھا تو وہ میں نہیں تھا جو لکھ رہا تھا پیچھے سے مضمون آ رہے تھے اور میری قلم ان کو لکھتی جارہی تھی.عملاً یہ ہوا کہ جب ایک فقرہ ختم ہوا تو اگلا جملہ خودقلم لکھ گئی تو ایک محبت اور علم کا چشمہ تھا جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایک نمونہ اس طرح ظاہر کیا.وہ پنتالیس منٹ کا مضمون بن گیا بڑا ز ور والا ، بڑے مضبوط دلائل پر مشتمل اور بڑی وضاحت سے جھنجھوڑ کے انتباہ کرنے والا اور

Page 898

خطبات ناصر جلد اول ۸۸۲ خطبه جمعه ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء وارننگ دینے والا میں نے جب اندازہ لگوایا تو منتظمین نے کہا کہ یہ پندرہ ہیں منٹ میں تو ختم نہیں ہو گا جو مطالبہ تھا ان ملکوں کا کہ آپ کا کوئی مضمون پندرہ بیس منٹ سے زیادہ کا نہ ہو.انہوں نے کہا کہ یہ تو پینتالیس منٹ کا ہے تو میں نے اپنی طبیعت کے مطابق کہا کہ جو مرضی ہے کاٹ دو کوئی فرق نہیں پڑتا.اس کو پندرہ بیس منٹ کے اندر لے آؤ.تو ہمارے دوست جو کام کر رہے تھے.انہوں نے کہا کہ ایک فقرہ بھی نہیں کٹے گا کیونکہ کوئی فقرہ ہمیں نظر نہیں آیا جو کٹنے کے قابل ہو تو میں نے کہا کہ پھر رہنے دو دیکھیں گے وہاں کیا ہوتا ہے.جب ہم فرینکفرٹ پہنچے تو تین ہمارے مبلغ تھے ان کو میں نے ایک کمرے میں بٹھا یا اور کہا کہ یہ مضمون پڑھو اور مجھے رائے دو کہ آیا تمہارے ملک کے حالات ایسے ہیں کہ میں یہ پڑھ دوں یہ سارا انہوں نے پڑھا، مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ بالکل نہیں پڑھنا چاہیے.ہمارے ملک کے حالات ایسے ہیں کہ یہ یہاں نہ پڑھا جائے میں نے وہ بند کر دیا اور اپنی عادت کے مطابق پھر اکثر سوائے ایک آدھ جگہ کے جہاں نوٹ لئے زبان پہ جو آتا تھا وہ میں کہہ دیتا تھا.آدھ گھنٹہ کی پریس کانفرنس، ہر قسم کے انہوں نے سوال پیش کئے.پریس کانفرنس کے علاوہ ڈیرھ گھنٹہ کا عیسائی سوسائٹیز کے نمائندوں کے ساتھ ایک انٹرویو تھا ( کوپن ہیگن میں ) وہ تین سوسائیٹیوں کے نمائندے تھے اور بارہ افراد پر مشتمل تھے.جن میں سے اکثر پادری اور جو باقی تھے وہ سکالر تھے اور انہوں نے اس انٹرویو کو اتنی اہمیت دی کہ انہوں نے مجھ سے اس وقت ، وقت لیا جب میں کوپن ہیگن آنے سے پہلے جرمنی میں پھر رہا تھا.پھر انہوں نے (جیسا کہ ان کے لیڈر نے مجھے بتا یا کہ ہم نے ) کئی دن میٹنگیں کی تھیں اور اب آپ کے پاس آنے سے پہلے بھی تین گھنٹے سر جوڑا اور مشورہ کیا ہے اور ایک سوال نامہ تیار کیا ہے کاپی کھول کر کہنے لگا کہ یہ ہم نے سوال لکھے ہیں اس سے آپ سمجھ لیں کہ کتنی اہمیت انہوں دی کئی گھنٹے وہ یہ غور کرتے رہے تھے کہ ہم کیا سوال کریں کیا نہ کریں، کس مقصد کے پیش نظر ہم سوال کریں.مجھے تو کچھ پتہ نہیں تھا کہ انہوں نے کیا مشورے کئے اور وہ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے ایک سوال سے پتہ لگا کہ ان کے سوالوں کا جو ایک سلسلہ تھا اس کا مقصد یہ تھا کہ میرے منہ سے یہ کہلوائیں کہ جماعت کا امام ہونے کی حیثیت

Page 899

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۸۳ خطبہ جمعہ ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء سے میرا اور پوپ کا مقام ایک جیسا ہی ہے یا ملتا جلتا ہے کیونکہ ڈنمارک کے شہری ڈین جو ہیں وہ مذہب میں بھی ایک انسان کی قیادت کو پسند نہیں کرتے بلکہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.وہاں لوتھرن چرچ ہے جو سٹیٹ چرچ ہے ، سٹیٹ چرچ کا مطلب ہے کہ ہر آدمی جو پیدا ہوتا ہے تو وہ اس چرچ کامبر سمجھا جاتا ہے گو بعد میں وہ دہر یہ ہو جو مرضی ہو.وہ کہتے ہیں تم ہمارے ملک میں پیدا ہو گئے تو لوتھرن چرچ کے ممبر ہو گئے اس چرچ کو گورن ایک آدمی نہیں کرتا بلکہ مجلس کرتی ہے اور مجلس منتظمہ کا نام انہوں نے رکھا ہوا ہے.کمیٹی آف ایکوال اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک انسان کی قیادت کے خلاف ان کے دلوں میں کس قدر زہر بھرا ہوا ہے اور انہوں نے بڑی ہشیاری سے سوالوں کا یہ سلسلہ بنایا کہ یہ جواب دیوے.اس کو تو کچھ پتہ نہیں کہ ہمارے دماغ میں کیا بات ہے.اگر کہیں یہ پکڑا جائے تو ہم کہیں گے کہ ان کے نزدیک ان کا مقام پوپ جیسا ہی ہے اور پوپ سے قوم نفرت کرتی ہے اس لئے قوم احمدیت کی طرف متوجہ نہیں ہوگی بلکہ احمدیت سے نفرت کرنے لگ جائے گی.اسی طرح جس طرح وہ پوپ سے اور ایک فرد سے نفرت کرتی ہے.ان کو سب کچھ پتا تھا مجھے تو کچھ پتہ نہیں تھا پہلا سوال انہوں نے اسی سلسلہ سے شروع کیا اور کہنے لگے کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا مقام کیا ہے؟ ؟ میں نے انہیں کہا کہ تمہارا سوال میرے نزدیک غلط ہے کیونکہ میرے نزدیک جماعت احمدیہ اور میں ایک ہی وجود ہیں اس واسطے یہ پوچھنا کہ جماعت میں آپ کا کیا مقام ہے یہ سوال درست نہیں.وہ بڑے گھبرائے کہ ہمیں یہ کیا جواب مل گیا ہے اور یہ جواب اسی وقت اللہ تعالیٰ نے سکھایا تھا جیسا کہ اس کی بڑی واضح ایک مثال ہے (اسی انٹرویو میں ایک واقعہ ہوا ) آپ کو بتاؤں گا اللہ تعالیٰ کے احسان جتانے کے لئے.دوسرا سوال اس نے یہ کیا پھر کیا یہ درست نہیں ہے کہ جماعت پر فرض ہے کہ آپ کے سب احکام کی تعمیل کرے میں نے کہا ہرگز درست نہیں صرف ان احکام کی تعمیل ضروری ہے جو معروف ہیں.یہ ہم عہد لیتے ہیں جو معروف حکم آپ دیں گے اس کی ہم اطاعت کریں گے تو ہر حکم کی اطاعت ضروری نہیں معروف حکم کی اطاعت ضروری ہے وہ پھر سٹ پٹایا کہ یہ کیا ہو گیا ؟ اور پھر بے جوڑ سوال کر دیا اگلا جس نے ایکسپوز کیا ان کو یعنی ظاہر کر دیا کہ ان کے دل میں کیا تھا.کہنے لگا کہ اس

Page 900

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا مقام اور پوپ کا مقام ایک جیسا ہے.حالانکہ پہلے دو جوابوں کے نتیجہ میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا تھا میں نے کہا ہر گز نہیں.میں قرآن کریم کے احکام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کا پابند ہوں پوپ کے اوپر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں ہوتی اس لئے بنیادی طور پر ہم دونوں کا مقام مختلف ہے پھر وہ سمجھے کہ یہ چال کامیاب نہیں ہوئی نہیں چلی.پھر اور سوال تھے جو بڑے سوچے سمجھے اور فتنہ پیدا کرنے والے تھے.لیکن وہاں اللہ تعالیٰ جواب ایسا سکھا دیتا تھا کہ بعد میں پھر وہ دفاع پر آگئے تھے بجائے اس کے کہ وہ حملہ آور ہوں جیسا کہ انہوں نے سوچا تھا.تو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت سمجھایا کہ ان سے ایک بات کرو وہ بات میں اس خطبہ میں بیان نہیں کرتا.میں نے ان کو کہا کہ تمہاری عیسائیت کی حالت قابل رحم ہو چکی ہے ہمیں تم پر رحم آتا ہے.تو حیران ہو کے اس نے میری طرف دیکھا جب میں نے اس کو بتایا کہ کیوں قابل رحم ہے تو ان لوگوں کا جو لیڈر تھا ( ویسے وہ بڑا شریف آدمی تھا اور بڑی سلجھی ہوئی طبیعت کا ) اس کا منہ سرخ ہو گیا اور ہونٹ پھڑ پھڑانے لگے ، بات نہیں کر سکتا تھا.حتی کہ ایک لفظ اس کے منہ سے نہیں نکل رہا تھا میں نے کہا اس وجہ سے تمہاری حالت قابل رحم ہے.تو یہ سلسلہ ہے اللہ تعالیٰ کے احسان کا.میں وہاں مرزا ناصر احمد کی حیثیت سے تو نہیں گیا تھا، نہ کوئی میری ذاتی غرض تھی اس سفر کے اختیار کرنے کی.میں تو خدا تعالیٰ کے ایک ادنی بندہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عاجز اور کم مایہ خادم کی حیثیت سے وہاں گیا تھا، میں ان کی نمائندگی کر رہا تھا اور جب اللہ تعالیٰ مجھ پر احسان کر رہا تھا تو وہ میرزا ناصر احمد یہ نہیں تھا، میرزا ناصر احمد پر بھی اس کے بڑے احسان ہیں، وہ جماعت کے اوپر احسان تھے اور اللہ تعالیٰ آپ بتا رہا تھا کہ تم میدانِ عمل میں نکلو میں تمہارے ساتھ ہوں.الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَا تمہیں خوف کس چیز کا ہے، آگے بڑھو اور کام کرو اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے شامل حال ہے.تو شروع سے لے کر آخر تک سوال کا مجھے پتہ نہیں ہوتا تھا، ادھر فوری جواب !!! یہاں تک کہ ”بی بی سی کا نمائندہ آیا اور انہوں نے تین ہفتے آؤٹ لک میں میرے انٹرویو کونشر کیا.وہ ویکلی پروگرام ہے.ہفتہ میں ایک دفعہ آتا ہے تو تین دفعہ تین ہفتوں میں اسے نشر کیا اس طرح

Page 901

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۸۵ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء انہوں نے اسے بڑی اہمیت دی ہے اور جب وہ آیا ( اور بغیر وقت مقرر کرنے کے آیا کہ آدمی ویسے ہی سوچ لیتا ہے کہ جو اس قسم کے سوال کرے گا ، تو میں ذہنی طور پر تیار ہو جاؤں ) میں نے اس کو بلا لیا.میں نے کہا کہ پہلے بات کر لو کہ کون سے سوال کرنے ہیں، براڈ کاسٹنگ کی ریل پر کون سے آئیں کون سے نہ آئیں.کہنے لگا نہیں جی، اسی طرح ٹھیک ہے میں سوال کرتا جاتا ہوں آپ جواب دیتے جائیں.ایک سیکنڈ کے لئے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوئی پھر میرے دل نے کہا کہ پہلے تم نے کون سا جواب دیا تھا کہ اب تم گھبرا رہے ہو جو پہلے جواب سکھاتا تھا اب بھی وہی سکھائے گا، کوئی گھبرانے کی بات نہیں.وہ سوال کرتا تھا اور میں اس کو جواب دیتا تھا مجھے اب یاد نہیں کہ میں نے اس کو کیا جواب دیئے تھے.بہر حال وہ ایسا اچھا پروگرام یقیناً بن گیا جو ایک ہفتہ نہیں، دو ہفتے نہیں، بلکہ تین ہفتے اس میں آیا.کیونکہ آخری دفعہ جو آیا ہے وہ ۲۳ تاریخ کو آیا ہے پہلی دفعہ دس کو ہوا تھا اور سیرالیون میں ہمارے ایک احمدی ٹیچر جو یہاں سے گئے ہوئے ہیں.لکھتے ہیں کہ اچانک میں نے (ریڈیو ) لگا یا تو اعلان ہو رہا تھا کہ آپ کا انٹرویو آ رہا ہے، ہم نے سنا اور بڑے خوش ہوئے اور ہماری آنکھوں کے سامنے یہ الہام آ گیا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.تو میں یہ بات کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ سلسلہ تھا احسانوں کا، فضل کا اور رحمت کا کہ جس چیز کی ضرورت ہوتی تھی وہ خود مہیا کر دیتا تھا، ورنہ جیسا کہ میں نے کہا ہے، میں نے بڑی دعائیں کیں مجھے بڑی گھبراہٹ تھی جب میں اپنے نفس کو دیکھتا تھا تو پریشان ہو جا تا تھا کہ میں کیسے اپنی ذمہ داری کو نبھا سکوں گا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر دیا تو نفس بیچ میں سے غائب ہو گیا صرف خدا اور اس کا وعدہ سامنے تھا، تو دلیری کے ساتھ ہم گئے اور اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر ہر جگہ اپنے وعدہ کو پورا کیا.چوتھا سلسلہ اس کے فضل کا یہ ریڈیو ہے اور ریڈیو والے بھی بڑے متکبر ہوتے ہیں وہاں وہ آزاد ہیں یہ نہیں کہ حکومت کی پالیسی کے ساتھ چلیں، پالیسی ان کی اپنی ہوتی ہے.مجھے ایک دفعہ خیال آیا کہ میں ساری دنیا کے احمدی بھائیوں اور بہنوں کے کان تک اپنی آواز پہنچا دوں.کیونکہ

Page 902

خطبات ناصر جلد اوّل ΑΛΥ خطبہ جمعہ ۱۵ ر ستمبر ۱۹۶۷ء محبت کا یہ تقاضا ہے وہ چاہتے ہیں کہ میری آواز بھی سنیں.تو میں نے سیلون کے وائس آف امریکہ کو لکھوایا جو ویزیلین کے اشتہار بھی ریڈیو پر براڈ کاسٹ کرتا ہے بلکہ دو دو چار چار آنے کی چیزیں براڈ کاسٹ کرتا ہے میں نے ان کو تحریک جدید کے ذریعہ لکھوایا کہ ہم اتنا وقت لینا چاہتے ہیں اور جو تمہارے ریٹ ہیں ان کے مطابق تمہیں پیسے دیں گے.تو انہوں نے انکار کر دیا، کہا کہ ہم مذہبی پروگرام شائع نہیں کرتے اور مجھے بڑا صدمہ پہنچا کہ اس وقت میری یہ خواہش پوری نہیں ہوئی.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں ایسا انتظام کیا کہ ”بی بی سی کے ذریعہ ساری دنیا میں اور ”بی بی سی کے علاوہ بھی ( کیونکہ کوپن ہیگن میں جو افتتاح کی ریل تیار کی گئی تھی وہاں ریڈیو والوں کے مدنظریہ بھی تھا کہ وہ دنیا کے مختلف ریڈیو اسٹیشنوں سے سنائی جائے گی ) چنانچہ آج انہوں نے اطلاع دی ہے کہ مرا کو میں تین دفعہ وہ ریل براڈ کاسٹ ہوئی ہے اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ دوسرے ملکوں میں بھی سنائی جائے گی.ادھر ہم پیسے خرچ کرنے کے لئے تیار تھے اور وہ ہمارے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تمہارا انتظام کروں گا تم اپنا کام کرو.تو پھر ہر ملک میں مثلاً فرینکفرٹ میں گئے وہاں ریڈیو پر آ گیا.زیورک میں ریڈیو پر آگیا.جرمنی میں آیا، ہالینڈ میں آیا کوپن ہیگن میں آ گیا.انگلستان میں آیا.تو جہاں جہاں یہ آواز پہنچتی تھی ریڈیو والوں نے ان کے کانوں تک پہنچا دی.پھر نئی نئی چیز نکلی ہے ٹیلی ویژن، کم ہے نسبتاً ریڈیو سے، صرف ٹیلی ویژن پر اندازہ ہے کہ ایک کروڑ اور دو کروڑ کے درمیان لوگوں نے وہ پروگرام دیکھا ہے.ویسے ٹیلی ویژن کے پروگرام مختلف جگہ تھے ، زیورک میں تھا وہ تو ہم نے بھی دیکھا شام کو ، پھر ہمبرگ میں بھی تھا، اس کے متعلق اخبار میں بھی آچکا ہے کہ ساٹھ ستر لاکھ آدمیوں نے وہ ٹیلی ویژن دیکھی.پھر کوپن ہیگن میں تھا ، پھر کوپن ہیگن کی پہلی ٹیلی ویژن کی ریل تمام جرمن ٹیلی ویژن اسٹیشنوں نے براڈ کاسٹ کی اور دکھائی.پھر جس سے مجھے بے انتہاء خوشی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں، وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے کہ کوپن ہیگن میں افتتاح کی ٹیلی ویژن کی تصویر سعودی عرب میں دو دفعہ دکھائی جا چکی ہے، اس اعلان کے ساتھ کہ سکنڈے نیویا میں مسلمانوں کی یہ پہلی مسجد ہے

Page 903

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۸۷ خطبہ جمعہ ۱۵ ر ستمبر ۱۹۶۷ء اور وہ اچھی خاصی تین چار منٹ کی ٹیلی ویژن ہے، اس کو دو دفعہ دکھانے سے نتیجہ ہم یہ نکالتے ہیں کہ ان کو دلچسپی تھی تبھی تو دوسری دفعہ دکھائی گئی ورنہ کبھی ایسا پروگرام دوبارہ نہ دکھاتے جس پر کچھ اعتراض ہو اور ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ اور بہت سے ملکوں میں بھی ٹیلی ویژن کی یہ ریل دکھائی جائے گی تو کتنا بڑا فضل اور احسان ہے اللہ کا کہ اخبار کے ذریعہ اور براڈ کاسٹنگ کے ذریعہ، ٹیلی ویژن کے ذریعہ کروڑوں آدمیوں کے کان تک یہ آواز پہنچ گئی کہ خدائے واحد پر ایمان لاؤ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سایہ تلے آکر جمع ہو جاؤ ورنہ ہلاکت تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے اور اس عاجز بندہ کی شکل انہوں نے دیکھی اور اس کی زبان سے نکلتے ہوئے الفاظ انہوں نے سن لئے خدا تعالیٰ کے ایک نمائندہ کی حیثیت سے.تو کروڑوں آدمیوں تک چند ہفتوں کے اندر یہ پیغام پہنچا دینا یہ آسان کام نہیں ہے، الہی تصرف کے بغیر یہ ممکن ہی نہ تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے تصرف کیا ان کے دلوں پر بھی ، ان کی قلموں پر بھی اور ان کی فضا پر بھی اور وہ مجبور ہو جاتے تھے.وہ دشمن ہیں اور ان کی دشمنی بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ٹیلی ویژن کے لئے ان کو سوال تو ایسا منتخب کرنا چاہیے تھا کہ جو طبیعت پر اثر نہ کرے لیکن ہوتا اس سے الٹ ہے.پہلا ٹیلی ویژن آیاز یورک میں، یہ پہلا موقع تھا تین آدمیوں کے سامنے جن میں سے دومرد تھے ایک عورت تھی.وہ عورت مجھے کہنے لگی کہ میں پہلے سوال و جواب کر لیتی ہوں تا کہ ہم انتخاب کر لیں کہ کون سے سوال و جواب ہم ٹیلی ویژن پر لائیں گے پروگرام چھوٹا ہے میں سوال زیادہ لکھ کے لائی ہوں تین منٹ کا پروگرام تھا میں نے کہا ٹھیک ہے اس نے جہاں اور سوال کئے ایک سوال یہ بھی کیا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کو پھیلائیں گے کیسے؟؟؟ فوراً میں نے جواب دیا ”دلوں کو فتح کر کے“.اتنی خوش ہوئی وہ کہ کہنے لگی میں یہ فقرہ ضرور ٹیلی ویژن پر لانا چاہتی ہوں میں یہ سوال کروں ! میں نے کہا ٹھیک ہے.تم سوال کرنا میں جواب دوں گا.آگے لطیفہ یہ ہوا کہ کوپن ہیگن کی پریس کا نفرنس میں کسی نے پھر یہی سوال کیا ، میں نے کہا ز یورک میں بھی یہ سوال کیا گیا تھا، جو جواب میں نے وہاں دیا ، وہی جواب میں یہاں دیتا ہوں کہ دلوں کو فتح کر کے.اس کا نفرنس میں ایک دو عورتیں بھی تھیں نمائندہ

Page 904

خطبات ناصر جلد اول ۸۸۸ خطبہ جمعہ ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء اور ایک بڑی باوقار عورت، وقار سے بیٹھی ہوئی جب میں نے کہا ”دلوں کو فتح کر کے، تو اسی طرح وقار سے بیٹھے بیٹھے آرام سے کہنے لگی ، آپ ان دلوں کو کریں گے کیا ؟؟ ایک عورت کے منہ سے جب یہ فقرہ نکلا تو ایک سیکنڈ کے لئے میں بڑا پریشان ہوا لیکن اللہ تعالیٰ ، حسب وعدہ کہ میں تیری مدد کروں گا میری مدد کو آیا.میں نے اسے کہا " پیدا کرنے والے کے قدموں پہ جا رکھیں گئے اس جواب سے تو سارے ہی صحافی جو تھے ان پر خاموشی طاری ہو گئی ایک آدھا منٹ کے بعد ان کو ہوش آئی.پھر انہوں نے آگے سوال کئے.ہر ایک پر اس کا اثر تھا مگر اس عورت پر تو اتنا اثر تھا کہ وہ پچاس میل دور سے آئی ہوئی تھی وہ وہاں ٹھہری رہی.مغرب اور عشاء کی نماز میں ہمیں پڑھتے دیکھا پھر دوستوں سے گفتگو کرتی رہی اور وعدہ کر کے گئی تھی کہ لکھوں گی اور اس نے اس کے متعلق لکھا بھی.وہ کسی ویکلی (ہفتہ وار ) کی نمائندہ تھی.تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جو چیز ہمارے حق میں تھی اور ان کے خلاف ، ان کے نزدیک طبائع پر ا ثر کرنے والی ، اس کو وہ انتخاب کرتے تھے اخبار میں شائع کرنے کے لئے.ٹیلی ویژن میں دکھانے کے لئے اور ریڈیو پر بولنے کے لئے.تو یہ عظیم احسان اللہ تعالیٰ نے وہاں کئے جن کے کئی سلسلے میں گنا چکا ہوں، شاید پانچواں آئے گا.ہاں ابھی ایک قصہ رہ گیا ہے کہ وہ مضمون جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق اور اس کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت میں نے یہاں تیار کیا تھا اور یورپ میں کہا گیا تھا کہ نہ سنایا جائے.میں نے ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے وہاں نہیں سنایا تھا.لنڈن میں مجھے وہ مضمون سنانے کا موقع ملا پینتالیس منٹ After dinner speech ( رات کے کھانے کے بعد ) جو انگریز کی عادت کے مطابق نہایت ہی ہلکی پھلکی تقریر ہونی چاہیے کوئی لطیفے یا اور لطائف کے اندر کوئی کام کی بات کر دی اور مختصر لیکن چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے میں نے مشورہ کیا میں نے کہا کہ یہ ایک موقع ہے جو پھر ہاتھ نہیں آئے گا اور اس مضمون کو میں پڑھنا ضرور چاہتا ہوں، یہ میری اپنی کوشش کا نتیجہ نہیں ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیار ہوا ہے ، ان کو یہ مضمون میں نے رات کو دے دیا، اگلے دن انہوں نے کہا میں نے پڑھا ہے آپ اسے ضرور پڑھیں.خیر وہ مضمون جب میں نے پڑھا ہے

Page 905

خطبات ناصر جلد اول ۸۸۹ خطبہ جمعہ ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کیا اثر سننے والوں پر وہ مضمون کر رہا تھا ہمارے ایک احمدی ہیں ان کی ساری عمر ولایت میں ہی گزری ہے ( پارک کارنر میں جہاں بہت ٹف آدمی تقریر کر سکتا ہے، لفنگے آدمی بھی وہاں جمع ہوتے ہیں اور تمسخر اور استہزاء اور اعتراض عجیب عجیب وہاں ہوتے رہتے ہیں.وہاں کھڑے ہو کے دلیری کے ساتھ تقریر کرنے والے ہیں) کہنے لگے کہ آپ تقریر کر رہے تھے اور مجھے پسینہ آ رہا تھا اور کہنے لگے کہ ایک انگریز میرے پاس بیٹھا تھا شروع میں حیرت سے اس کا منہ کھلا اور پھر پینتالیس منٹ تک کھلا ہی رہا ایک فقرہ کے بعد دوسر افقرہ اسی قسم کا آجاتا تھا.اب وہ یہاں چھپ گیا ہے وہاں انگلستان والوں نے ایک دن میں رقم اکٹھی کر کے پچاس ہزار کا انتظام کر لیا تھا اس کی اشاعت کا.اور وہ پچاس ہزار وہاں شائع ہو چکا ہے میں نے انہیں کہا تھا کہ کچھ باہر کے لئے بھیج دیں سارے ہیڈ ماسٹرز کو ، سارےM.P.S کو، بڑے بڑے بشپز کو اور بڑے بڑے کلا رجز کو، سارے لارڈ ز کو اور اس طرح انہوں نے ساڑھے سات ہزار پتے منتخب کر کے ان پتوں پر وہ بھجوا دیئے ہیں.اور باقی وہ انتظام کر رہے ہیں.پھر اس کا جرمن میں ترجمہ ہو چکا ہے پہلے تو وہ راضی نہیں تھے اور پہلے اس وقت سارا تو اخباروں نے شائع نہیں کرنا تھا اب پورا مکمل شائع ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ کی شاید یہی حکمت ہو.جرمنی کے گھر گھر میں پہنچانے کا میں نے ان کو پروگرام بتایا ہے اسی طرح سوئیٹزرلینڈ ،ہالینڈ سارے ملکوں میں ساری زبانوں میں ترجمہ ہو کے وہ وہاں تقسیم کیا جائے گا اور ایک دفعہ پوری طرح اتمامِ حجت کرنے والا.بات یہ ہے کہ جس وقت میں یہاں سے گیا تو سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے جب دنیا کی طرف مبعوث ہوتے ہیں تو ان کے دو کام ہوتے ہیں ایک بشیر کی حیثیت سے، ایک نذیر کی حیثیت سے، بہت سی انداری پیشگوئیاں دی جاتی ہیں اور جماعت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ علی الاعلان اور بغیر ڈرے دنیا میں وہ پھیلا ئیں اور تمام دنیا پر اتمام حجت کریں کہ اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی تو اللہ تعالیٰ کے یہ انذاری وعید ہیں تمہارے متعلق تم تباہ ہو جاؤ گے.اور اگر تم ان سے بچنا چاہتے ہو تو تو بہ کرو.فقرہ تو میں یہی بولتا تھا.رجوع Come back to your Creator جس نے تمہیں پیدا کیا ہے.اس کی طرف تم رجوع کرو.اسلام ایک حسین ترین تعلیم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 906

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۹۰ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء دنیا کے ایک محسن عظیم ہیں ان کو پہچا نو اور اس تعلیم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرو تو یہ سب کچھ تقریر میں ساری تفصیل سے تو آنا نہ تھا.اگر میں وہاں تقریر کر دیتا انہوں نے اسے ترجمہ کرنا تھا کیونکہ وہ انگریزی زبان بولنے والے نہیں تھے.(انگلستان کے اخباروں میں ابھی نہیں آیا ) تو اب ساری زبانوں میں انشاء اللہ ترجمہ ہو کے اللہ کا یہ پیغام گھر گھر پہنچ جائے گا اسی کی توفیق سے.بڑا احسان کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ،سارے دلوں کو اس طرف پھیر دیا.پانچواں سلسلہ احسانوں کا جماعت کی تربیت ہے میرے جانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا.وہاں دو قسم کے احمدی ہیں ایک مقامی اور ایک اردو بولنے والے یہاں سے گئے ہوئے اور بعض ہندوستان سے آئے ہوئے ہیں.لیکن اکثریت پاکستانیوں کی ہے.ان میں سے ننانوے فی صدی وہ ہیں جن کو کچھ علم نہیں تھا اس قیامت کا جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت جماعت پرگزری کیونکہ وہ یہاں نہیں تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے جماعت کو سنبھالا اور ایک ہاتھ پر متحد کر دیا وہ ہاتھ بے زور اور کم طاقت کا تھا لیکن خدا نے کہا کہ جتنا بوجھ مرضی ہے پڑے، گھبرانا نہیں کیونکہ اس ہاتھ کے نیچے میرا ہاتھ ہے اور جو کہا اس وقت وہ کر دکھایا.میں چاہتا تھا کہ یہ لوگ مجھ سے ملیں باتیں سنیں اور بہت سی غلط فہمیاں یا غلط خیال جو عدم علم کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں وہ دور ہو جائیں.اگر خدا چاہے تو پھر یہ کہ میں ان کو جانوں کہ وہ کس قسم کے احمدی ہیں ،خصوصاً جوان ملکوں کے باشندے ہیں.تو جہاں تک ان لوگوں کو دیکھنے کا مجھے موقع ملا، میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا اتنا عظیم احسان ہے کہ صرف ایک احسان کا بھی ہم شکر ادا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ بے شمار احسانوں میں سے ایک احسان ہے.وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی مخلص جماعتیں پیدا ہو چکی ہیں.جن کے ذہن ہی مسلمان اور احمدی نہیں بلکہ ان کے دل اور ان کی روح اور ان کے جسم کا ذرہ ذرہ احمدیت میں یوں رچ گیا ہے.انگریزی میں کہتے ہیں سیچوریشن پوائنٹ اس پوائنٹ تک احمدیت ان کے اندر پہنچ چکی ہے گو روحانی دنیا میں سچو ریشن پوائنٹ کبھی نہیں آتا مطلب یہ ہے کہ اس وقت وہ اعلیٰ اور ارفع مقام پر ہیں جیسے اعلی ترقیات کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہیں اس کے لئے کوئی انتہا نہیں اتنی

Page 907

خطبات ناصر جلد اول ۸۹۱ خطبہ جمعہ ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء عظیم محبت کرنے والے اپنے اللہ سے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے، سلسلہ سے، خلیفہ وقت سے کہ آدمی دیکھ کے حیران ہو جاتا ہے.اتنی دور بیٹھے ہوئے یہ لوگ ذاتی طور پر کوئی واقفیت نہیں رکھتے اور ان کے دل ہیں کہ ایک محبت کا سمندر ہے جو ان میں موجیں مار رہا ہے، کیا یہ الہی تصرف کے بغیر ممکن ہے؟؟ ہر گز نہیں !!! ایک آدمی کے دل میں آپ اپنا پیار اور محبت پیدا نہیں کر سکتے.بعض دفعہ ایک شخص ایک آدمی کے دل میں بھی محبت اور پیار پیدا نہیں کرسکتا.کتنے خاندان ہیں کہ جو خاوند ہیں اپنی بیوی کے دل میں اپنا پیار پیدا نہیں کر سکتے اور اس طرح اپنی زندگی کو بگاڑ لیتے ہیں.لیکن یہاں یہ نظارہ ہے کہ لاکھوں آدمی ہیں کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت کے ساتھ امامِ وقت کی محبت بھی پیدا ہوگئی اور وہ ایک دل ہے جس میں پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پیار اور محبت کے کتنے سمند رسما دیئے ہیں.ہر ایک کے لئے ویسا ہی پیار وہاں پیدا کر دیا.یہ ایک عظیم معجزہ ہے اور ایسا عظیم احسان ہے کہ اس احسان کو دوسروں کے لئے پہچاننا بھی ممکن نہیں ہے.آج ہمیں یہ سمجھ آتی ہے کہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دلوں میں وہ محبت کیسے پیدا ہوئی.اللہ تعالیٰ نے خود پیدا کر دی تھی (اور دوسرے اس کو سمجھ نہیں سکتے ) ان کی فدائیت اور ایثار کے کارنامے جب ہم پڑھتے ہیں تو عقل کے نزدیک ان کی کوئی ایکسپلینیشن نہیں.عقل نہیں بتا سکتی کہ ایسا کیوں ہوا؟؟؟ جب کئی لاکھ کی فوج کے مقابلہ پر گنتی کے چند درجن، وہ جو آخری فتح ہوئی ہے قیصر کے خلاف.خالد بن الولید کی فوج ، کسی نے پچیس ہزار کسی نے تیں ہزار، کسی نے چالیس ہزار کسی نے ہمیں ہزار لکھی ہے.تاریخ دانوں میں اختلاف ہے میں اس اختلاف میں نہیں جانتا.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ فوج سے حملہ کروانے سے پہلے انہوں نے کچھ نو جوانوں کو اکٹھا کیا تھا جن میں عکرمہ بھی شامل تھے اور ان کو کہا تھا کہ ساری عمر تم اسلام کی مخالفت کرتے رہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچاتے رہے آج موقع ہے اپنے سارے دھبے جو ہیں وہ دھولو اور ان گنتی کے چند آدمیوں نے لاکھوں کی فوج پر حملہ کیا تھا اور دراصل ان لوگوں کے حملہ کی وجہ سے ہی ان لوگوں کے دلوں پر یہ رعب پیدا ہوا تھا.جس کی وجہ سے انہوں نے

Page 908

خطبات ناصر جلد اول ۸۹۲ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء شکست کھائی اور جتنی مسلمان فوج تھی اس سے کہیں زیادہ مقتول اور لاشیں میدان میں چھوڑ کر وہاں سے بھاگے.تو محبت کے یہ عظیم کارنامے صفحہ تاریخ پر کیسے ابھرے ہعقل اس کا جواب نہ دے سکتی تھی آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہم اپنے دلوں میں جو محبت محسوس کرتے ہیں اس نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ معجزانہ عمل جو ہیں، وہ کس طرح اور کیوں ظہور پذیر ہوتے ہیں؟؟ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے.خداوند کریم نے واضح الفاظ میں یہی کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اس طرح کی محبت دلوں میں پیدا کر سکتی ہو.میں ان کو انتباہ تو بڑا سخت کرتا تھا ان کو یہی کہتا تھا کہ دیکھو کہ انسان نے ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم بنا لئے.ساری دنیا میں جتنے بھی ایٹم اور ہائیڈروجن بم ہیں وہ سارے مل کر بھی ایک دل کو بدل نہیں سکتے.لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مذہب دنیا میں بھیجا جاتا ہے وہ لاکھوں اور کروڑوں دلوں کو بدلتا چلا جاتا ہے.اس واسطے مذہب کے میدان میں لڑائی جھگڑے کا نہ کوئی فائدہ ہے نہ کوئی معقولیت ہے.امن اور صلح کی فضا میں ہم سے یہ فیصلہ کرو کہ عیسائیت سچی ہے یا اسلام سچا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو مختلف دعوت ہائے فیصلہ دنیا کو دیئے ان میں سے تین میں نے اس سفر میں ان کے سامنے رکھے.دوان پادریوں کو دیئے اور ان کو کہا کہ جہاں تم نے مجھے ملنے سے قبل دنوں مشورہ کیا.اب تم دن اور ہفتے لگاؤ اور سوچو اور کمیٹی آف ایکوال کو اس بات پر راضی کرو کہ وہ ہمارے ساتھ ان طریقوں پر فیصلہ کرے کہ اسلام سچا ہے یا عیسائیت سچی ہے مجھے امید نہیں کہ وہ اس بات کو مانیں گے کیونکہ وہ اپنی کمزوریوں کو سمجھتے ہیں زبان سے تسلیم کریں یا نہ کریں.تو یہ ایک عظیم احسان مجھے نظر آیا کہ وہ چھپی ہوئی محبت یعنی جس کا بہت سا حصہ چھپا ہوا تھا.وہ میرے جانے سے ظاہر ہوا اور عجیب رنگ میں ظاہر ہوا.گو پہلے بھی میں نے ایک دو جگہ بتایا ہے کہ سکنڈے نیویا کے باشندے جو ہیں وہ پبلک میں لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کے اظہار کو اتنا معیوب سمجھتے ہیں کہ موت کو اس سے بہتر سمجھتے ہیں.ہمارے ایک آنریری مبلغ ہیں ہمارے امام صاحب کہتے ہیں کہ وہ ہمارے پاس تھے کہ ان کے والد کی وفات کی خبر آئی تو ا

Page 909

خطبات ناصر جلد اول ۸۹۳ خطبہ جمعہ ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء انہوں نے امام صاحب کو بھی نہیں بتایا.چہرہ پر بھی کوئی آثار ظاہر نہیں ہوئے تھے کہ والد فوت ہو گیا ہے.لیکن اب ان کا یہ حال تھا کہ دن میں دو تین مرتبہ ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتیں.ہمارے ناروے کے ایک مبلغ ہیں وہ مجھے ملنے آئے.ان سے بات نہ کی جائے.ان کے جسم پر رعشہ طاری تھا اور وہ کانپ رہے تھے.زبان ان کی چل نہ رہی تھی میں نے انہیں اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگا کے یہ کوشش کی کہ وہ اپنے نفس پر قابو پالیں.وہ اپنی بیوی اور بچی کا نام رکھوانا چاہتے تھے.بیوی کا نام میں نے محمودہ رکھا اور بچی کا نام میں نے نصرت جہاں “ رکھا.جس سے وہ بہت خوش ہوئے اور میں نے سمجھا کہ اب یہ اپنے قابو میں آگئے ہیں.لیکن اس کے بعد پھر ہونٹ ہلنا شروع ہوئے اور صرف اتنا کہا کہ جو دل میں ہے وہ زبان پر نہیں آسکتا اور بڑی مشکل سے اپنا رونا روکا.پھر وہ کھڑے ہوئے میں نے انہیں گلے لگالیا.اس کے بعد وہ چلے گئے.یہ ان کی حالت تھی !!! تو ان کے بعض ایسے روحانی اور اخلاقی اور قوت کے ساتھ تعلق رکھنے والے حسن تھے جو دنیا کو نظر نہیں آئے تھے.میرے اس سفر سے ان کی وہ چیزیں ابھر آئیں.عجیب قوم پیدا ہوگئی ہے.آپ کے لئے قابل رشک ہے.یہاں بھی جو قابل رشک ہیں ہمارے لئے ہمارے بزرگ، ان کے پہلو بہ پہلو وہ کھڑے ہوئے ہیں ہر قسم کی قربانی کرتے ہیں ، ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں.پھر انگلستان میں کئی ہزار ہمارا احمدی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے، بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے.جو اُردو بولنے والی ہے.میرا یہ مضمون تو انگریزی میں تھا ریسپشن پر.لیکن جلسہ سالانہ میں میں ان سے اُردو میں بات کرنا چاہتا تھا کیونکہ ان میں سے عام طبقہ مزدور پیشہ ہے.تو علمی زبان میں ان کے لئے سمجھنا مشکل ہے ان میں عورتیں بھی تھیں.بہر حال میرا یہ فیصلہ تھا کہ میں اردو میں بات کروں گا اور ۸ رنومبر ۶۵ ء کے واقعات سے شروع کروں گا.چنانچہ میں بھی جذباتی ہوا ہوا تھا وہ بھی جذباتی ہوئے ہوئے تھے.ان کو سارے حالات بتائے گئے.ایک نوجوان ایسا تھا جس نے ابھی تک بیعت نہ کی تھی اور پتہ نہیں کیوں ؟ واللہ اعلم.جب جلسے کے اوپر وہاں اجتماعی بیعت

Page 910

خطبات ناصر جلد اول ۸۹۴ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء ہوئی تو اس نے بیعت کر لی.اگلے دن وہ مجھے ملنے آیا کسی نے کہہ دیا کہ اس نے کل پہلی دفعہ بیعت کی ہے.اس نے رونا شروع کر دیا اس کا رونا بند ہی نہ ہوا.میں نے اسے گلے سے لگا یا کئی منٹ تک اس کو تھپکی دیتا رہا.تب اس نے تھوڑ اسا اپنے نفس پر قابو پایا.تو اندر کوئی چیز چھپی ہوئی تھی جس کو کسی شیطانی و ہم نے دبایا ہوا تھا میرے جانے سے وہ شیطان بھاگ گیا اور اندرونی حسن جو تھا وہ ظاہر ہو گیا.اتنا پیار انہوں نے مجھے دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھ سے بھی لیا ہے.میں تو سمجھتا ہوں کہ میری یہ ڈیوٹی ہے اور آپ لوگوں کا احسان ہے.میں اپنے فرض کو پورا کرتا ہوں آپ مجھ پر احسان کرتے چلے جاتے ہیں.پہلے بھی میں نے کئی دفعہ بتایا ہے وہ تصویر میں مرتے دم تک نہیں بھول سکتا.ایک چھوٹا بچہ تھا جو میرے پہلو میں کھڑا تھا جب ہم آ رہے تھے.تو دعا ہوئی.بہت عاجزی اور تضرع سے ہوئی اس کے بعد میں چند منٹ تک سر نیچا کر کے کھڑا رہا اپنی طبیعت پر قابو پانا چاہتا تھا اس کے بعد سر اٹھایا، سلام کیا.بعض جولوگ قریب تھے وہ مجھ سے تحفہ چاہتے تھے.انہیں تحفے بھی دیئے.جو میری جیب میں تھا نکال کے دیتا چلا گیا.کئی منٹ کے بعد اچانک میری نظر پڑی تو ایک بچہ معصوم بارہ تیرہ سال کا رو ر ہا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے.تو یہ محبت میں نہیں پیدا کر سکتا تھا ، نہ آپ پیدا کر سکتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے تصرف سے پیدا ہوتی ہے یہ اس کا بڑا عظیم احسان ہے.اللہ تعالٰی نے اس جماعت کو اپنے فضلوں سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفۃ امسیح الاول ( جن کو معترضین نے بڑے دکھ پہنچائے تھے ) اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں اتحاد کا ایک ایسا مظاہرہ کرنے کی توفیق دی ہے جو دشمن کو حیرت میں ڈالنے والا اور اس کے حسد کو اور شدید کرنے والا ہے وہ پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ہو گیا ہم تو سمجھتے تھے کہ کچھ نہ کچھ فتنہ ضرور پیدا ہو گا.لیکن صفر.سوائے نفاق کے فتنہ کے جو ہمارے ساتھ ہمیشہ لگا رہے گا.جس چیز نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اسلام کو نہیں چھوڑ اوہ آج ہمیں کیسے چھوڑ دے گی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کے تو کوئی شخص قوت قدسی کا مالک اور حامل نہیں ہو سکتا.آپ کے ساتھ بھی منافق لگے ہوئے تھے.

Page 911

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۹۵ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء ہمارے ساتھ بھی لگے ہوئے ہیں لیکن اس استثناء کے علاوہ ساری جماعت متحد ہوگئی ہے ایک معجزہ ہے، جو ہماری تاریخ میں لکھا جائے گا اور دنیا قیامت تک اس پہ رشک کرے گی ، یہی میں نے بتایا تھا.ان دنوں ہزارہا کی تعداد میں خطوط آتے تھے اور دنیا کے ہر ملک اور ہر گوشہ اور قریباً ہر قوم کے لوگوں کی طرف سے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ خطوط و یا ایک کلاس میں ڈیکٹیٹ کرائے گئے ہیں.تین جذ بات ہر خط میں پائے جاتے تھے.انتہائی صدمہ نمبر ایک.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات پر گویا ایک قیامت آگئی.انتہائی فکر نمبر دو کہ معلوم نہیں جماعت کیا کرے گی کوئی غلطی نہ کر بیٹھے.انتہائی شکر کے جذ بات اللہ تعالیٰ کے لئے نمبر تین کہ جماعت ایک ہاتھ پر پھر متحد ہوگئی.یہ تین جذبات ہر ایک خط میں پائے جاتے تھے.خواہ وہ نجی سے لکھا ہوا ہو جنوبی امریکہ سے آنے والا ہو.کسی کی زبان انگریزی، کسی کی انڈونیشین، کسی کی جرمن اور کسی کی سویس اور کسی کی سواحیلی.بیسیوں زبانوں میں وہ خط تھے اور تین باتیں ہر خط میں پائی جاتی تھیں جس سے یہ نتیجہ نکلا کہ وہ جو ساری دنیا کا استاد ہے.اس نے سب کو ڈیکٹیٹ کرایا تھا.اللہ ! تو یہ معجزہ بھی ہم نے دیکھا اور وہاں بھی نئے سرے سے ان نئے نئے لوگوں میں گئے اور ان جماعتوں سے میرے پاس خط آتے ہیں پیار کے، شکریہ کے، کہ آپ نے بڑا احسان کیا کہ یہاں آگئے ہیں.جماعت کے اندر ایک بیداری اور ایک روح پیدا ہو گئی ہے.جو پیچھے ہٹے ہوئے تھے ذاتی رنجشوں کی بنا پر یعنی یوں مخلص تھے سب کچھ تھا.پیچھے ہٹے ہوئے تھے.بعض کے دلوں میں یہ تھا ( اور ایک دو آدمی ہی ایسے تھے جو سمجھتے تھے ) کہ میں ان سے ناراض ہوں اور ان کو یہ پتہ نہیں تھا یہ علم نہیں تھا کہ میرے دل کی تختی تو ۸ / نومبر کو اللہ تعالیٰ نے صاف کر دی تھی.اب ان کو پتہ چلا تو وہ ان کے لئے حیرت کا باعث بھی تھا اور خوشی کا باعث بھی.جو کبھی مسجد میں نہیں آتے تھے امام رفیق سے لڑے ہوئے تھے میرے ساتھ گلہ وشکوہ، رات کے دو دو بجے تک مسجد میں بیٹھے رہتے تھے.ایک شخص نے خوب لکھا ہے اپنے متعلق ( میں اس کا نام بیان کرنا نہیں چاہتا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس میں بھی ایک انقلاب عظیم پیدا ہو گیا ہے.وہ چھ مہینہ سے خود گیا نہیں تھا.ان کے ساتھ بھی تھا ان کو پتہ بھی تھا ان کے ساتھ بیٹھتا بھی تھا رات کو ، بچوں کو ساتھ

Page 912

خطبات ناصر جلد اول لے کے آتا تھا.۸۹۶ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء تو تربیت کے میدان میں بھی اللہ تعالیٰ نے انتہائی احسان کیا ہے اب اس احسان عظیم (اگر مفرد کا لفظ ہی بولا جائے ) یا کئی ایک جن میں سے بعض سلسلوں کا نام میں نے لیا ہے اور چند مثالیں دی ہیں بے شمار قسم کے بے شمار گنتی میں احسان اللہ تعالیٰ نے ہم پر کئے ہیں اور کیا کرتا ہے.ان دنوں میں تو بہت زیادہ کئے ہیں.ہم پر اس کے نتیجہ میں بہت سے فرائض عائد ہوتے ہیں.پہلا فرض تو یہ ہے.کہ ہم اپنے اللہ کے حقیقی معنی میں شکر گزار بندے بنیں.دوسرا فرض یہ ہے کہ ہم اپنے اللہ پر سچے دل سے توکل رکھنے والے ہوں اور سوائے خدا کے کسی اور کی طرف ہماری نگاہ نہ اٹھے.چند مثالیں میں نے دی ہیں سوائے اللہ کے وہاں کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی تو جس نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ میں ہی تمہارے لئے کافی ہوں کسی اور طرف جانے کی ضرورت نہیں.اب سارا کچھ دیکھنے کے بعد ہم کس طرف جائیں گے.ہماری بڑی بدقسمتی ہوگی اگر ہم اللہ کو چھوڑ کے یا اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کر کے اس پر یا ان پر تو کل شروع کر دیں تو سوائے خدا کے کسی اور کے لئے حمد کے جذبات ہمارے دلوں میں نہیں ہیں اور نہ ہونے چاہئیں اور سوائے خدا کے کسی ہستی پر کسی وجود پر تو کل نہیں کر سکتے نہ کسی شے پر ہم تو کل کرتے ہیں دنیا جانتی ہے (اور ہم سے بھی یہ حقیقت چھپی ہوئی نہیں ) کہ ہم ایک کمزور جماعت ہیں ہم ایک غریب جماعت ہیں ہم ایک کم علم جماعت ہیں ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کے پاس کوئی سیاسی اقتدار نہیں نہ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں ہم وہ جماعت ہیں جس کے پاس بادشاہتیں نہیں اور نہ یہ جماعت بادشاہتوں کو حاصل کر کے کوئی خوشی حاصل کر سکتی ہے کیونکہ وہ ہمیں مل گیا ہے اس کے فضل سے اور جب وہ ( اللہ ) مل جائے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فارسی کے شعر میں فرمایا ہے.کہ جو تجھ سے پیار کرے اور جسے تو پیار کرے اسے تو دو جہاں دے دیتا ہے.لیکن جو تیرا ہو جائے وہ ان دونوں جہانوں کو کیا کرے اس کے نزدیک یہ بے معنی چیز ہیں.تو اصل چیز یہ ہے کہ رضاء الہی فضل الہی کے نتیجہ میں ہمیں حاصل ہوئی ہے.ہمیں ہر چیز قربان کر کے اس رضاء الہی کو ہاتھ سے

Page 913

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۹۷ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء کھو نہ دینا چاہیے.اس لئے جو قربانی بھی ہم سے مانگی جائے بشاشت سے ہمیں دینی چاہیے کیونکہ جو ہمیں ملا ہے یہ دنیا اس کی قیمت لگا ہی نہیں سکتی اندازہ بھی نہیں کر سکتی اور جو ہم سے مانگا جا رہا ہے وہ چند ٹکے ہیں پھر ہم پر تیسرا یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اس اتحاد کو جماعت کے اندر قائم رکھیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک معجزہ سے یہ اتحاد ہم میں پیدا کیا ہے اور قائم رکھا ہے.وہ ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم منافق کے نفاق کو کامیاب نہ ہونے دیں منافق جو ہے وہ ادھر کی اُدھر بات نکالتا ہے وہ جھوٹی باتیں کرتا ہے اور منافق کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے اور جس راہ سے بھی فتنہ پیدا کر سکے وہ کرتا ہے.ایک ہاتھ پر اللہ تعالی نے آپ کو جمع کیا ہے جہاں تک اس دل کا تعلق ہے.جس کے ساتھ اس ہاتھ کا تعلق ہے.دل سمجھتا ہے کہ مجھ میں کوئی طاقت ، کوئی علم، کوئی بزرگی ، کوئی خوبی ، کوئی حسن نہیں لیکن اس کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ جس چیز کی بھی تمہیں ضرورت ہوگی وہ میں مہیا کروں گا.کسی کے لینے دینے کی ضرورت نہیں خواہ وہ بادشاہ وقت ہی کیوں نہ ہو اور کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں خواہ وہ ساری دنیا کے انسان ہی کیوں نہ ہوں اور کسی ہستی کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں خواہ وہ عظیم ترین رفعتوں کی مالک ہی کیوں نہ ہو.جب تم میرے ہو گئے تو پھر تمہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.لیکن منافق آتا ہے اور اس اتحاد ( مرکزی نقطہ ) پر ضرب لگا کے اسے کمزور کرنا چاہتا ہے وہ ہمیشہ ناکام ہوتا ہے پھر بھی ہمیں ہمیشہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے یہ ہماری ذمہ داری ہے ہم نے اس اتحاد کو جماعت میں قائم رکھنا ہے ہر قربانی دے کر اور منافق تو اللہ تعالیٰ نے بڑی حکمتوں کے ساتھ ہمارے ساتھ لگایا ہوا ہے.اس کو ہم نے کامیاب نہیں ہونے دینا.منافق کی مثال وہ وین ہے جس کی ایک نوک ہے اس کی ایک نوک آپ کو چبھ سکتی ہے، وہ پین آپ کے اندر داخل نہیں ہوسکتی.اگر کوئی شخص اپنے اس بچے کے بستر پر جس نے رات کو امتحان کی تیاری کے لئے پڑھنا ہو ایک پین اس طرح لگا دے کہ چھن ہو مگر زخم بھی نہ پڑے کہ اگر یہ کرسی چھوڑ کے لیٹے تو پن اس کو چبھ جائے سونے نہ دے تو اس باپ کو ظالم نہیں کہیں گے بڑا پیار کرنے والا کہیں گے.کیونکہ اس نے ہلکی سی تکلیف سے جاگتے رہنے کے سامان بھی پیدا کر دیئے اور جو تکلیف واقع میں پہنچ سکتی تھی

Page 914

خطبات ناصر جلد اول ۸۹۸ خطبه جمعه ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء اس سے محفوظ بھی کر لیا.کیونکہ پن پرک“ سے زیادہ اور کوئی سامان نہیں کیا گیا.یہ پین کی وہ نوک ہے.جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے پہلو میں رکھی ہوئی ہے چھتی تو ہے لیکن ہمارے جسم پر زخم نہیں پیدا کرتی نہ کر سکتی ہے جب تک ہم زندہ ہیں.جب مر جائیں اور ساری ٹہنیاں خشک ہو جا ئیں.تو ایک خشک دوسرے خشک میں فرق نہیں رہتا نہ اس درخت کو کوئی پرواہ ہوتی ہے سارے جومر گئے.ابھی تو ہم نے زندہ رہنا ہے بڑا عرصہ اور ہم نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے اور ساری دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فتح کرنا ہے اور ہر دل میں توحید خالص کو قائم کرنا ہے.ہم نے بڑے کام کرنے ہیں ابھی.بڑی ذمہ داریاں ہیں، بڑی قربانیاں اللہ تعالیٰ ہم سے لے گا.تو اس وقت تک کہ ہم خدا کی نگاہ میں زندہ رہیں یہ پین کی نوک جو ہے.ہمارے جسموں کے ساتھ لگی رہے گی اگر کوئی فرد ( جماعت کو نقصان تو نہیں پہنچا سکتا ) بیوقوفی سے پن کا زائد حصہ بھی باہر نکال لے اور پھر اپنے جسم کے اندر خود ہی چھولے.تو یہ اس کی بڑی حماقت ہوگی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس قسم کی حماقت سے محفوظ رکھے.تو ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم چوکس اور بیدار ہیں اور اس اتحاد کو کمزور نہ ہونے دیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے ہم میں پیدا کیا ہے یہ اتحاد اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے ایک چھوٹی سی جماعت ! کس شمار میں ہیں آپ اس دنیا میں !!! اندازہ کر لیں ! میرا یہی اندازہ ہے Just Three Million بس تیس لاکھ سے کچھ زائد ساری دنیا میں اور دنیا کی آبادی کے لحاظ سے تیس لاکھ حقیقت ہی کیا رکھتے ہیں دنیا آپ کی کیا پرواہ کر سکتی ہے؟؟؟ ایک ایک ملک تیس لاکھ سے زیادہ آدمی اپنی مصلحتوں کی بنا پر اور بعض دنیوی مقاصد کے حصول کے لئے قربان کر دیتے ہیں، اگر دنیا مل کے آپ کو قربان کر دینا چاہے تو آپ کے وجود کی قربانی کا احساس بھی ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوسکتا.اسی طرح ہی انسان دنیا میں چلتے پھرتے نظر آئیں گے لیکن خدا نے کہا کہ میں تمہارا خیال رکھتا ہوں اور میں نے تمہیں اپنے لئے چنا ہے تم میرے بنے رہو پھر دیکھو کہ دنیا کس طرح میری قدرتوں کے نظارے کس رنگ میں اور کس طور پر اور کس طریق سے دیکھتی ہے.اتنا بڑا فضل

Page 915

خطبات ناصر جلد اوّل ۸۹۹ خطبہ جمعہ ۱۵ رستمبر ۱۹۶۷ء اس جماعت پر ہوا اور پھر وہ سستیاں دکھائے ؟؟؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ سستیاں دکھاتے ہیں لیکن میں یہ ضرور کہوں گا اور اصل میرے مخاطب وہی ہیں کہ جو نسبتاً کمزور ہیں.اب نسبتاً کمزور کا برداشت کرنا بھی کم از کم میرے لئے مشکل ہے، جو کچھ مجھے نظر آ رہا ہے، دنیا جس جہت کی طرف حرکت کر رہی ہے ، جن مصیبتوں میں انسان گرفتار ہونے والا ہے، جس دوا کی اسے ضرورت پڑنے والی ہے، اس دوا کو مہیا کرنے والے سوائے آپ کے اور کوئی نہیں.ساری دنیا کا آپ کو خدا تعالیٰ نے استاد اور امیر بنایا ہے جو فیصلہ ہو چکا ہے اور آپ استاد اور امیر بننے کے لئے تیاری نہ کریں اس بات سے تکلیف ہوتی ہے ہمارا تو ہر بچہ، ہماری تو ہر عورت ، ہماری ہر لڑ کی ، ہمارا ہر مرد، ہمارا ہر نو جوان، ہمارا ہر بوڑھا تیار رہنا چاہیے پتہ نہیں کون زندہ ہو گا جب آواز آئے گی کہ ہر شخص جماعت احمدیہ کا میدان میں آئے اور دنیا کو استادوں کی ضرورت ہے وہ دنیا کے استاد بنیں اس کے لئے آپ کو تیاری کرنی پڑے گی ور نہ قرآن کریم کی زبان میں آپ منافق کہلائیں گے.قرآن کریم کہتا ہے.” کو ارادوا الخروج لاعَدُّ واله عُدَّةٌ ( التوبة : ۴۲) کہ اگر انہوں نے میدانِ عمل میں عملی طور پر جہاد کرنا ہوتا تو وہ اس کے لئے ضرور تیاری کرتے.آپ نے جہاد کرنا ہے علمی میدان میں ! آپ نے جہاد کرنا ہے مذہب کے میدان میں ! آپ نے جہاد کرنا ہے.آسمانی تائیدات کے میدان میں ! آپ کو علم سیکھنا پڑے گا.آپ کو دعاؤں کی مضبوط بنیاد پر اپنی زندگیوں کو کھڑا کرنا پڑے گا تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی نیستی کو دیکھ کر ، آپ کے دلوں میں اپنی محبت کو دیکھ کر آپ کے لئے اپنی معجزانہ قدرت کو ظاہر کرے کہ اس کے بغیر نہ آپ دنیا کے رہبر بن سکتے ہیں نہ اس کے معلم بن سکتے ہیں.تو اور بھی ذمہ واریاں ہیں لیکن دیر کافی ہو گئی ہے میں بس کرتا ہوں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ ان ذمہ واریوں کو سمجھ لے جو اس پر پڑنے والی ہیں خواہ وہ براہ راست اپنے رب سے علم حاصل کریں اور میرے معاون بنیں یا جب میں

Page 916

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۰۰ خطبہ جمعہ ۱۵ ستمبر ۱۹۶۷ء ان کو کسی منصوبہ کی طرف کسی امر کی طرف دعوت دوں خدا تعالیٰ کے منشا کے مطابق تو وہ سو فی صدی میرے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں تا کہ ہمارا وہ مقصد ہماری زندگیوں میں حاصل ہو جائے ، کہ ہم اسلام کو تمام عالم میں غالب دیکھ لیں اپنی ان آنکھوں سے.ہمارے دل یہ محسوس کر لیں کہ جس طرح ہمارے دل کی دھڑکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے.اسی طرح ہر دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں کو قبول فرمائے اور اللہ تعالیٰ جب تک مجھے زندگی دے، تو توفیق بھی عطا کرے کہ جس قسم کی رہبری کی اور قیادت کی آپ کو ضرورت ہے میں آپ کے لئے اس کے فضل سے اس کے سکھانے پر اس کی منشا کے مطابق وہ قیادت میں آپ کو دیتا چلا جاؤں.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ )

Page 917

خطبات ناصر جلد اول ۹۰۱ خطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو نبوت یا خلافت کے مقام پر فائز کرتا ہے وہ ان سے وعدہ کرتا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں گا خطبه جمعه فرموده ۲۲ رستمبر ۱۹۶۷ء بمقام مری تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.سفر یورپ میں اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھ کر ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور یہ دیکھتے ہوئے کہ وہاں غلبہ اسلام کے لئے امکانات واضح ہیں ہماری ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کا یہ اہم کام ہمارے سپر د کیا ہے لیکن ہم ہر لحاظ سے کمزور ہیں جہاں تک مادی طاقت کا سوال ہے ہمیں مادی طاقت نہیں دی گئی سیاسی اقتدار بھی ہمارے پاس نہیں نہ ہمیں ضروری سامانوں کی فراوانی حاصل ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس اہم مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک ہتھیار ہمارے ہاتھ میں دیا ہے اور وہ ہتھیار دعا ہے اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو جن سے وہ پیار کرتا ہے اور جنہیں وہ اپنا قرب بخشتا ہے اور ان کمزوروں کو بھی جن پر اللہ تعالیٰ محبت کی نگاہ رکھے قبولیت دعا کا نشان دیتا ہے بعض دفعہ ایک انسان دعا کرتا ہے اور دوسروں سے بھی دعا کراتا ہے مگر وہ نا کامی کا منہ دیکھتا ہے اور آخر وہ خدا کے ایک بندے کے پاس پہنچتا ہے جس کی دعا قبول ہوتی ہے اور پھر وہ اس کے لئے دعا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے قبول فرما لیتا ہے.

Page 918

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۰۲ خطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۶۷ء جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نبوت یا خلافت کے مقام پر فائز کرتا ہے وہ ان سے وعدہ کرتا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں گا اور اپنے وعدے کے مطابق جو وہ سامان اس کی کامیابی اور تمکنت دین کے لئے دیتا ہے ان میں سے ایک قبولیت دعا کا بھی ہوتا ہے.افریقہ سے مقامی احمدیوں کے قریباً روزانہ ہی خطوط آتے ہیں جو اپنے مقاصد کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہیں بڑی بڑی ضروریات کے لئے بھی اور معمولی معمولی تکالیف کے سلسلہ میں بھی.افریقہ میں یہ جو لکھنے والے ہیں میں ان کو تو جہ دلاتا رہتا ہوں کہ تم خود بھی دعا کرو اور خود اپنی ضروریات کو خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرو، ساتھ ہی میں بھی تمہارے لئے دعا کروں گا.قبولیت دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں اپنی محبت ،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، اسلام کی محبت ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ، احمدیت کی محبت اور خلافت کی محبت پیدا کرتا ہے حال میں ایک افریقن نوجوان کا خط مجھے ملا ہے کہ قریباً چار ماہ ہوئے میں نے آپ کی خدمت میں لکھا تھا کہ میرے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا ، دعا فرما ئیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولا د عطا فرمائیں، اب آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اور میرے ہاں بچہ پیدا ہونے والا ہے، دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے زندگی دے اور عمر والا ہو.لیکن با وجود اس کے کہ بعض بندوں کی دعائیں عام طور پر (اگر وہ سنی جانے کے قابل ہوتی ) قبول ہو جاتی ہیں.یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مقرب بندہ، بندوں کو خدا سے دور نہیں لے جاتا ، وہ تو خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں ان پر کھولتا ہے اور ہر دم اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا ہر بھائی خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق محبت کو قائم کر لے اور اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں بھی سنے اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہ روک بن کے کھڑا نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ سے لوگوں کو بے نیاز نہیں کرتا ، وہ ایک بت نہیں بن جاتا ، جو یہ کہے کہ خدا تک جانے کی ضرورت نہیں میرے پاس آؤ میں تمہارے لے دعا کروں گا وہ قبول ہو جائے گی اس کے بالکل برعکس وہ ان کے ذہن میں یہ بات پورے زور کے ساتھ ڈالتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے وہ اس سے بولتا ہے اور اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے لیکن بندہ خود اس سے دور ہو جاتا ہے اور اس سے منہ پھیر لیتا ہے اور اس کی

Page 919

خطبات ناصر جلد اوّل طرف نہیں جھکتا.۹۰۳ خطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۶۷ء تو خدا تعالیٰ کے بندے لوگوں کو کہتے ہیں کہ تم خدا کو پہچا نو اس کی معرفت کو حاصل کرو، اس کی صفات کو اپنے اندر منعکس کرو اور اس کا قرب حاصل کر کے اس سے محبت کا تعلق قائم کرو وہ انہیں خدا سے پھیر کر اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ خود ہر ایک بندہ کی دعا کو سن سکتا ہے اور اس کی دعا کو قبول کر سکتا ہے.دنیا نہیں جانتی اور احمدی بھی جو اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں وقتی طور پر بھول جاتے ہیں ابھی چند روز کی بات ہے راولپنڈی میں ایک ایسے نوجوان سے ملاقات کروائی ایک احمدی دوست نے جوابھی احمدیت میں شامل نہیں انہوں نے جب مجھے دعا کے لئے کہا تو میں نے انہیں یہی مسئلہ سمجھانے کی کوشش کی کہ تم خود دعائیں کرو اپنے رب سے مانگو ، میں بھی دعا کروں گا ، اللہ تعالیٰ تمہاری تکلیف کو دور کرے اس وقت بعض دوست بیچ میں بول پڑے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ مسئلہ پھر وہ ٹھیک طرح سمجھ نہیں سکے اس شخص کو جو علم ہی نہیں رکھتا کہ ہمارا رب کتنی قدرتوں والا ، ہمارا رب کتنا پیار کرنے والا اور کتنی دعائیں سننے والا ہے.پہلے یہ سمجھانے کی ضرورت تھی اور ویسے تو ساری دنیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جن کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ تم اپنے ربّ کو پہچانو اور یہ نہ سمجھ لو کہ ہمیں خدا کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہمیں خدا سے مانگنے کی ضرورت نہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے ہیں ان پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں.ہمیں ایک بت کی تلاش کی ضرورت ہے جو ہمارے اور خدا کے درمیان واسطہ بن جائے ، ہمارے لئے وہ مانگے اور اللہ تعالیٰ سے ، اگر اس راہ کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق کس طرح پیدا ہوگا.تو اللہ تعالیٰ کے جو بندے ہوتے ہیں اور جو عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہیں اور عاجزانہ راہوں کا سبق دیتے ہیں وہ بت نہیں بنا کرتے ، وہ دوسروں کو خدا کا چہرہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں.تو دعا کے متعلق یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ خود دعا کرنے کی ضرورت نہیں ، خود ملک بننے کی ضرورت نہیں، خود قرآن کریم کے نور سے منور ہونے کی ضرورت نہیں.خلیفہ وقت کو جا کے کہو اور دعا قبول کروالو، ایسے شخص کے لئے خلیفہ وقت کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی رد کر دی جائے گی.

Page 920

خطبات ناصر جلد اول ۹۰۴ خطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۶۷ء کیونکہ یہ راہ تو خدا سے دور لے جانے کی راہ ہے خدا کے قرب کی راہ نہیں.لیکن خلیفہ وقت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق یہ مقام ضرور دیا ہے کہ اگر کسی اور کی دعا رڈ ہو جائے اور خدافضل کرنا چاہے اور پیار کا مظاہرہ کرنا چاہے تو خلیفہ وقت کی دعا قبول ہو جائے گی باوجود اس کے کہ دوسروں کی وہی دعارہ ہو چکی ہے اور اگر خلیفہ وقت کی دعا اللہ تعالیٰ کسی مصلحت کی بنا پر ردکر دے اور اپنی منوانا چاہے تو پھر دنیا میں کوئی ایسا شخص آپ کو نہیں ملے گا کہ جو اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ سے اپنی بات منوا لے.لیکن اصولاً دعا کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے مقابلہ پر وہ حیثیت بھی نہیں رکھتا جتنی ہمالیہ کے مقابلہ پر ایک چیونٹی.اللہ تعالیٰ بہت دفعہ اپنی منوانا چاہتا ہے اور منواتا ہے.کوئی ہے دنیا میں جس کا زور اس پر ہو اور کہے کہ میں نے زبر دستی منوانا ہے سوائے کسی پاگل کے، کوئی ایسا دعویٰ نہیں کرسکتا، کوئی مجنون شاید اپنے جنون میں یہ دعویٰ کر دے.ذراسی سمجھ والا انسان جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو نہیں کہہ سکتا کہ دنیا میں کوئی وجود ایسا ہے جو اپنے زور سے اللہ تعالیٰ سے بھی بات منوا لے.کئی مذہبی پاگل ہوتے ہیں، کئی دنیوی پاگل ہوتے ہیں ایسے پاگل دنیا میں پائے جاتے ہیں لیکن جنون حقیقت میں قابل عمل تو نہیں ٹھہر سکتا حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز زبردستی نہیں لی جاسکتی جب وہ دیتا ہے تو یہ اس کا احسان ہوتا ہے جب وہ سنتا ہے تو یہ اس کا احسان ہوتا ہے.جب وہ مانتا ہے اور دوستانہ تعلق کا اظہار کرتا ہے تو یہ اس کا احسان ہوتا ہے بندے میں کوئی خوبی نہیں ہوتی اور کبھی اپنی منواتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نہیں مانتا.ہماری اسلامی تاریخ میں کئی ایسے بزرگ جنہوں نے اپنی زندگیاں اپنے رب کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں گزرے ہیں کہ سالہا سال تک انہوں نے بعض دعائیں کیں اور ان کو جواب ملتا رہا کہ تمہاری نہیں سنی جائے گی لیکن وہ اپنے مقام کو پہچانتے تھے انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ جب ہماری سنی نہیں جاتی تو ہم جا کے دنیا کمائیں.انہوں نے کہا کہ سنی جاتی ہے یا نہیں سنی جاتی ہمارا مقام یہی ہے کہ ہم اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں اور اس کی حمد کے ترانے گاتے رہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا ( جیسا کہ ایک مشہور قصہ ہے اس کی تفصیل میں میں نہیں جاتا کہ اللہ تعالیٰ

Page 921

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۶۷ء نے کہا کہ جتنی دعائیں تم نے آج تک کی ہیں سب قبول کی جاتی ہیں.جب رڈ کرنے پر آیا تو سالہا سال تک رڈ کرتا چلا گیا اور جب ماننے پہ آیا تو ایک منٹ میں سب مان لیں.یہ اللہ تعالیٰ کے احسان، اس کے فضل اور اس کے پیار کا سلوک ہے ورنہ بندے کی اس میں کوئی خوبی، نہ بندے کو اس پر کوئی فخر زیبا ہے تو وہ بھی اپنے قادر ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور دعا کورڈ کر دیتا ہے، کبھی وہ اپنے علام الغیوب ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور وہ بندے کو کہتا ہے کہ جو تم مانگ رہے ہو وہ تمہارے حق میں مفید نہیں ، اس لئے میں تمہاری نہیں مانتا اور دل میں سکون پیدا ہو جاتا ہے اور بندہ سمجھتا ہے کہ میرے رب نے مجھ پر بڑا ہی احسان کیا ہے کہ اس نے میری بات نہیں مانی کیونکہ اگر وہ میری بات مان لیتا تو مجھے نقصان پہنچ جاتا.آپ میں سے جو قبولیت دعا کا تجربہ رکھنے والے ہوں وہ میرے ساتھ اس بات کی گواہی دیں گے کہ بعض دفعہ ایک آدمی دعا کرتا ہے اور وہ قبول ہو جاتی ہے اور بعد میں انسان پچھتاتا ہے کہ یہ دعا کیوں کی عام دعا کرنی چاہیے تھی، خود کوئی مخصوص چیز نہیں مانگنی چاہیے تھی.کیونکہ تھوڑالو، اگر عام دعا کی جاتی تو زیادہ مل جاتا تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ دعار دکر دیتا ہے اپنے پیار کے اظہار کے لئے ، بعض دفعہ اللہ تعالیٰ دعا قبول کر لیتا ہے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ تمہیں تو غیب کا علم ہی نہیں ہے غلط باتیں تم مجھ سے مانگ لیتے ہو اور اگر میں مان لوں تو تھوڑا سا فائدہ تمہیں پہنچتا ہے اگر تم مجھ پر چھوڑتے تو پھر تمہیں اس سے زیادہ فائدہ پہنچتا.اپنے بندوں سے اللہ تعالیٰ مختلف رنگ میں پیار کا سلوک کرتا ہے اور انہیں سبق دیتا ہے اپنے حسن کے جلوے بھی ان پر ظاہر کرتا ہے اور اپنے احسان کے جلوے بھی ان پر ظاہر کرتا ہے.تو بنیادی چیز دعا کے متعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے بندہ زبردستی کوئی چیز اس سے لے نہیں سکتا ، بہت دفعہ وہ اپنی منوانا چاہتا ہے اور منواتا ہے کیونکہ وہ قادر ہے بہت دفعہ وہ احسان کرتے ہوئے اپنے بندے کی مانتا اور اپنے پیار کا اس سے سلوک کرتا ہے کوئی شخص خود کو اس کے مقربین میں سے بت بنا کے اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتا اس کے بندے کارے یک...باشد کا سلوک بھی مشاہدہ کرتے ہیں.(اپنی زندگیوں میں ) اور اس کے بندے دعاؤں کے رد ہو

Page 922

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲۲ ستمبر ۱۹۶۷ء جانے کے بعد بھی اپنے دلوں کو اس کی محبت سے لبریز اور سکون سے پر پاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جو بھی اس نے ہم سے سلوک کیا ہے پیارا سلوک کیا ہے.ہم سے غصے کا، یا نفرت کا، یا حقارت کا یا قہر کا سلوک نہیں کیا کیونکہ ان کی زندگیوں میں یہی نظر آتا ہے.ساری عمر میں ان کا مشاہدہ یہی ہوتا ہے.کچھ اور ہیں جو یا تو اپنے رب کو پہچانتے نہیں یا اگر پہچانتے ہیں تو اس کی محبت کے جلووں سے بالکل غافل ہیں اور اپنی زندگیوں میں انہوں نے اس محبت کے جلوے کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا.ان کو اپنے رب کی طرف اپنے پیدا کرنے والے کی طرف ،اپنے محسن کی طرف، اس کی طرف جس سے انسان سب کچھ پاتا اور جس کو چھوڑ کے ہر چیز ضائع کر دیتا ہے لانا ضروری ہے اور اس کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کا فضل حاصل کرنا چاہتے ہوتو تمہیں مجاہدہ کرنا پڑے گا.خود مجاہدہ نہ کرو، خود قربانیاں نہ دو خود ایثار کے نمونے نہ دکھاؤ خود احکام الہی کے کار بند نہ بنو اور یہ سمجھ بیٹھو کہ کوئی پیر یا مرشد اور شخص جو ہے فقیر یا مجذوب تمہارے لئے خدا کے پاس جائے گا اور تمہارے لئے اس کی دعا قبول ہو جائے گی ، یہ غیر معقول بات ہے اور غیر اسلامی ، نہ عقل اسے تسلیم کرتی ہے نہ اسلام نے اس کی تعلیم دی ہے.نبی کی دعا اسی کے لئے قبول ہوتی ہے کہ جو خود اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنے والا ہو اور نبی کے ساتھ یکجائی ہو جائے ، اس کا اپنا فکر اور تدبر کوئی نہ رہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مثلاً صحابہ نے یہ رنگ اختیار کیا وہ چلتے پھرتے ،حسب استعدادا ایک نمونہ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا.بالکل وہی رنگ ، اسی نہج پر سوچنا، اسی راستہ پر خدا کی راہ میں قدم مارنا ، کوئی فرق نہیں تھا.کیونکہ انہوں نے ” فنافی الرسول کا مقام حاصل کر لیا تھا.تب خدا تعالیٰ طفیلی طور پر ان کی دعائیں قبول کر لیتا تھا اور بعض دفعہ اللہ تعالیٰ یہ بتانے کے لئے کہ تمہاری دعا ئیں جب قبول ہوتی ہیں تو طفیلی طور پر قبول ہوتی ہیں ان کی دعا ئیں تو رد کر دیتا تھا، لیکن وہی دعا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے مانگتے تھے تو وہ قبول کر لیتا تھا تا کہ ان لوگوں کو پتہ لگے کہ اس پاک اور مقدس وجود کے مقابلہ پر کھڑا نہیں ہونا، کیونکہ تمہیں روحانیت میں جو کچھ ملا ہے وہ طفیلی طور پر ملا ہے.ایک حد تک چھوٹے پیمانے پر خلفاء وقت کا بھی یہی حال ہوتا ہے کیونکہ جو کچھ انہوں نے لیا ہوتا ہے وہ اپنے رسول متبوع سے لیا

Page 923

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۰۷ خطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۶۷ء ہوتا ہے جس کے وہ نائب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی طفیلی طور پر ان پر اپنا فضل کر رہا ہوتا ہے.ہمیں امت مسلمہ میں جو کچھ ملتا ہے حقیقت ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملتا ہے.کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آزاد ہو کر کوئی روحانی رتبہ یا مقام حاصل کرے یہ ناممکن ہے.ہماری پہلی تاریخ میں ایسا نہ کبھی ہوا نہ آئندہ کبھی ہو سکتا ہے جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی کسی برکت کی امید رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنے آپ کو طفیلی بنائے.كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَمَ وَتَعَلَّمَ.کہ برکت کا منبع انسان کے لئے اس دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے آپ کو چھوڑ کے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا خواہ کوئی ایک عام مسلمان ہو خواہ کوئی ولی اللہ ہو خواہ وہ مجد د ہو خواہ کوئی ظلی نبی ہو خواہ کوئی اس نبی کا خلیفہ ہو، خلیفہ وقت کو بھی جو کچھ ملتا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل میں ، آپ کے ظل کی حیثیت سے آپ کے سلسلہ کے ایک نائب کی حیثیت سے ملتا ہے، آزادانہ طور پر کچھ بھی نہیں ملتا.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دنیا کو خدا کی طرف بلا یا تھا اور کوئی ایسی بات نہ کی تھی ، نہ دعا کے میدان میں نہ کسی اور میدان میں جود نیا کو خدا سے دور لے جانے والی ہو تو جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ کے ظل کی حیثیت سے مل رہا ہے وہ کس طرح اس مقام کو حاصل کر سکتے ہیں یا اس مقام کو اپنا سکتے ہیں کہ وہ بندے اور خدا کے درمیان حائل ہو جا ئیں.تو یہ نکتہ میں در اصل اس نو جوان کو سمجھا نا چاہتا تھا جو ابھی احمدیت میں داخل نہیں ہوا کہ یہ نہ سمجھو کہ میں بڑا آدمی یا انسان ہوں یا کوئی اور بندہ دنیا میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تم تو خدا سے دور بھا گو اور تمہارے لئے وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور نعمتوں کی جھولیاں بھر کے لائے اور تمہاری گود میں ڈال دے، پھر لوگوں کو خدا کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی، پھر تو وہ دنیا کی عیش میں یا دنیا کے دھندوں میں مبتلا رہیں گے اور مطمئن بھی ہوں گے کہ جب ضرورت پڑی فلاں واسطہ ہے ہم اپنا مطلب اس کے ذریعہ حاصل کر لیں گے.یہ واسطے اسلام نے ہمیں نہیں بتائے نہ اسلام انہیں صحیح اور درست سمجھتا ہے ہر ایک کو

Page 924

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۰۸ خطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۶۷ء اپنی اپنی استعداد کے مطابق مجاہدہ اور تدبیر کو اپنی انتہا تک پہنچا نا لا زمی ہے اور بہت دفعہ جب ایک انسان اپنی استطاعت کے مطابق اپنے مجاہدہ کو انتہاء تک پہنچا دیتا ہے تب بھی وہ نا کامی کا منہ دیکھتا ہے تب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ذریعہ احسان کرتے ہوئے ، دعا کو قبول کرتا اور کامیابی کا راستہ اسے دکھا دیتا ہے تا یہ بندہ اپنے رب کو پہچانے.یہ خیال کرنا کہ تد بیر اور مجاہد ہ اور قربانیاں اور ایثار تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں دکھایا نہ جائے لیکن کسی کے ذریعہ سے جو چاہا حاصل کر لیا یہ بھی درست نہیں ہے.ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے ناچیز بندے کو ( جیسا میں ہوں ) جب ایک مقام پر فائز کرتا ہے تو اسے سمجھ بھی دیتا ہے کہ بات کرنے والے کی سمجھ کے مطابق اور عقل کے مطابق اس کو مسئلہ سمجھائے ایسے موقع پر کسی اور کا بیچ میں بول پڑنا اس بیچارے کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے ایسے موقع پر آرام سے بات سننی چاہیے اور بیچ میں بولنا نہیں چاہیے.باقی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.دعا کا مسئلہ میرے لئے کوئی چھپا ہوا تو نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے بیان کیا ، قرآن کریم نے بڑا کھول کر اس کو بیان کیا.مثلاً ایک دوست نے بیچ میں کہہ دیا وَمَا دُعَاءُ الْكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَلل (المؤمن: ۵۱) اور بالکل بے موقع اس آیت کو پڑھ دیا.ان کو میں نے کہا کہ اس آیت کے ایک معنی یہ ہیں کہ کافر کی دعا جو اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کے خلاف کی گئی ہے وہ رد کر دی جاتی ہے اور رائیگاں جاتی ہے اور اس کے ایک اور معنی بھی ہیں کہ جس وقت کا فر کو سزادی جا رہی ہوگی اس وقت اس سزا سے نجات حاصل کرنے کے لئے جو دعا وہ کرتا ہے وہ رائیگاں جاتی ہے، کیونکہ تو بہ کا جو وقت تھا وہ اس نے کھود یا اور تو بہ کا وقت کھو چکنے کے بعد جزا کے میدان میں جو کچھ اس نے کیا تھا ، وہ ساری چیز اس کے سامنے آ گئی.اس وقت ایمان بالغیب کا تو کوئی پہلو رہتا نہیں اور ایسے موقع پر تو بہ قبول نہیں ہوا کرتی (اسے قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے.) اس وقت وہ چاہے کتنی دعائیں کرے رد کر دی جائیں گی کیونکہ یہ بے وقت دعائیں ہیں اس نے یہ ہنر سمجھا ہوتا کہ اپنے وقت اور موقع پر اس کے مطابق شرائط کو پورا کرتے ہوئے جو دعا کی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے ایسے کافر کا حال تو یہی ہے نا !! جیسے ایک لڑکا جس نے ایف.اے کا

Page 925

خطبات ناصر جلد اول ۹۰۹ خطبہ جمعہ ۲۲ ستمبر ۱۹۶۷ء امتحان دیا تھا اور وہ فیل ہو گیا جب نتیجہ نکل آیا تو پھر اس نے دعا کرنی شروع کی کہ اے اللہ ! مجھے اس امتحان میں پاس کر دے جس میں فیل ہو چکا ہوں ، تو ایسی دعا کیسے قبول ہوگی؟ ؟ ؟ بے وقت کی دعا ہے یعنی وہ تو اس کی سزا کا وقت شروع ہو گیا ہے نا !!! شرمندگی کی سزا، ایک سال اور ضائع کرنے کی سزا ، اگر اس نے پڑھنا ہے.تو ساتھ اس کے ماں باپ کو سزا کہ اس پر خرچ کرو تو ایسے موقع پر دعا نہیں قبول ہوا کرتی نہ ہوسکتی ہے.نہ اس دنیا میں ہماری عقل کہتی ہے مضحکہ خیز بات ہے ایسی دعا قبول نہ ہوگی اور اس دنیا کے متعلق بالکل بے معنی چیز ہے.چونکہ وہ دنیا ہماری نظروں کے سامنے نہیں.بعض دفعہ ہماری عقل میں وہ بات آتی بھی نہیں.لیکن بات وہی ہے کہ جب ایک واقعہ ہو گیا اور اس کے جو بدنتائج تھے ان کے بھگتنے کا زمانہ آ گیا، اس وقت اگر دعا کی جائے کہ اے اللہ مجھے پاس کر دے اور بدنتائج نہ بھگتوں تو یہ غیر معقول دعا، رد کی جانے کے قابل دعا اور رد ہو جانے والی دعا ہے، ایسی دعا نہیں قبول ہوتی.وَمَا دُعَاءُ الْكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَلٍ پھر ایک کافر کی یہ دعا کہ ایک مومن بندے کے مجاہدہ کا اچھا نتیجہ نہ نکلے وَ مَا دُعَاءُ الْكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَالِ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے ایک سلسلہ کو قائم کرے اور ایک تحریک کو جاری کرے اور پھر جو اس پر ایمان نہ لائیں اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور عرفان نہ رکھتے ہوں ، وہ یہ تدبیر بھی کریں اور دعا بھی کریں کہ وہ سلسلہ کامیاب نہ ہو اور مومنوں کے مجاہدات اور قربانیوں کے وہ اچھے نتائج نہ نکلیں جو عام طور پر اللہ تعالیٰ نکالا کرتا ہے ایسی دعا کو وہ نہیں سنتا بلکہ ایسی دعا کے متعلق فرماتا ہے کہ پرے رکھو، یہ میرے بندے ہیں اور میری راہ میں کوشاں ہیں میں ان کی کوششوں اور مجاہدات کا بہترین نتیجہ نکالوں گا اور ان کو بہترین جزا دوں گا.تم اگر دعائیں کرتے ہوئے اپنی ناک بھی رگڑ لو تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا یہ ہے مطلب وَ مَا دُعَاء الكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَال لیکن وہ شخص جو اپنے خدا کو پہچانتا نہیں جب ان کو کہا جاتا ہے کہ اپنے رب کو پہچانو، خود مجاہدہ کرو خود دعا کرو جس حد تک تم دعا کے فلسفہ کو سمجھ سکتے ہو.جس حد تک تم دعا کی شرائط کو سمجھ سکتے ہو ان کے مطابق تم دعائیں کرو میں بھی تمہارے ساتھ دعا کروں گا.خدا کرے کہ تمہارے اس ادھورے مجاہدہ اور کوشش کے ساتھ جب میری دعا شامل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے اپنے فضل سے نہ اس لئے کہ اس پر

Page 926

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۱۰ خطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۶۷ء ہمارا کوئی حق ہے انسان کا کوئی حق اپنے رب پر نہیں اور ہمارے رب کے سب حقوق ہم پر ہیں ان کو پہچاننا چاہیے اور دعا اپنی شرائط کے ساتھ کرنی چاہیے اور دعا جو ہے اس کے فلسفہ کو سمجھنا چاہیے اور دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قادر سمجھنا چاہیے.جو شخص خدا کو قادر نہیں سمجھتا اس کی دعا کیسے قبول ہوگی، کیونکہ وہ اپنی دعا میں اس ہستی کو مخاطب نہیں کر رہا جس کو ہم اللہ کہتے ہیں، جس کو اسلام نے پیش کیا ہے اس میں نہ کوئی کمزوری ہے اور نہ کوئی نقص ہے.میں نے ایک واقعہ پہلے بھی بتایا ہے ہمارے ایک یا دو احمدی تھے وہ غلط طور پر قتل کے کیس میں ملوث ہو گئے میں نے تسلی کر لی تھی کہ وہ قاتل نہیں لیکن ہماری دنیا میں گواہوں پر فیصلے ہوتے ہیں ان کا نام مخالفوں نے رکھ دیا اور سیشن جج نے انہیں پھانسی کی سزا بھی دے دی ، پھر ہائی کورٹ میں پھانسی کی سزا، پھر سپریم کورٹ میں پھانسی کی سزا قائم رہی.ان کے رشتہ داروں نے اس موقع پر کہ سپریم کورٹ نے بھی پھانسی کی سزا کو قائم رکھا تھا اور انہوں نے رحم کی اپیل کی تھی.مجھے خط لکھا اور اس میں لکھا کہ اس مقدمہ کا یہ پس منظر ہے اور بڑا ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ ان حالات میں رحم کی اپیل منظور ہو جائے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آپ دعا کریں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو قبول ہو جائے ، انہوں نے اس کے اس طرح خطر ناک حالات لکھے کہ قریب تھا کہ میری قلم یہ فقرہ لکھ جائے کہ اللہ کی جو رضا ہو اس پر راضی رہنا.یکدم پیچھے سے ایک غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا اور میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ کیا میں ایک احمدی کو یہ سبق دوں کہ اس قسم کے مایوسی اور ناامیدی کے حالات میں ہمارے رب کے پاس طاقت اور قدرت باقی نہیں رہتی اور میرے قلم سے جو فقرہ نکلنے لگا تھا اس کی بجائے میں نے یوں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی بات انہونی نہیں ہے اس واسطے مایوس نہیں ہونا چاہیے، چند روز کے بعد ان کی اپیل منظور کر لی گئی اور وہ بری کر دیئے گئے.اس کا اس دوست پر اتنا اثر تھا کہ انہوں نے مجھے خط لکھا کہ میں اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کو آپ کا وہ خط دکھاتا رہتا ہوں کہ یہ دیکھو اس طرح دعائیں قبول ہوتی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.پس اللہ تعالیٰ کو قادر جانا چاہیے کن آخری سانس تک ،مثلاً اس میں طاقت ہے کہ سارے ڈاکٹر کہہ دیں کہ یہ مریض مر جائے گا اور اس کا حکم آ جائے تو وہ شخص زندہ رہے گا.میں نے اپنی خلافت

Page 927

خطبات ناصر جلد اول ۹۱۱ خطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۶۷ء کے چھوٹے سے زمانہ میں کئی ایسی مثالیں دیکھی ہیں کہ ڈاکٹروں کی متفقہ رائے تھی کہ فلاں مریض مرجائے گا مگر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ بچ گیا.سات سات بچیاں ہوئی ہیں بچہ نہیں ہو رہا اب عام حالات میں کہیں گے کہ شاید میاں بیوی کے جسمانی اعضاء ہی کچھ اس قسم کے ہیں کہ لڑکی ہوگی اور وہ مایوسی کے عالم میں ہیں اور چھ سات بچے تو ویسے ہی ماں کے لئے پیدا کرنا اور ان کو پالنا بڑی کوفت کا کام ہے بڑی قربانی کا کام ہے لیکن پھر بھی ان کی خواہش ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی جاتی ہے تو لڑکا پیدا ہو جاتا ہے، یہاں بھی اور افریقہ میں بھی بعض ایسی مثالیں ہیں کہ دعا کروائی اور لڑکا ہو گیا، اس لئے نہیں کہ دعا کرنے والے میں کو ئی خوبی تھی بلکہ اس لئے کہ جس سے مانگا گیا تھا اس میں ساری قدرت اور طاقت تھی.تو اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق سمجھنا چاہیے کسی وقت بھی یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ کوئی چیز اس کی طاقت سے پرے ہے کونسی چیز ہے جو خدا کی طاقت میں نہیں ہے؟ ؟ ؟ تو دعا کرتے وقت اس کی طاقت کو پہچانا چاہیے اور ہر چھوٹی اور بڑی چیز میں اپنے کو اس کا محتاج سمجھنا چاہیے دعا کے لئے بڑی ضروری شرط ہے یہ !!! اسی واسطے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بوٹ کا ایک تسمہ اگر چاہیے تو یہ نہ سمجھنا کہ بوٹ کا تسمہ ایک چھوٹی سی چیز ہے ہم خود لے لیں گے بلکہ اس کے لئے بھی تم دعا کرو، کیونکہ اگر خدا تعالیٰ اپنا فضل نہ کرے تو تم بوٹ کا تسمہ بھی حاصل نہیں کر سکتے اپنی طاقت اور زور اور کوشش سے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کو تسمہ چاہیے بازار جائے تو راستہ میں کسی موٹر کے نیچے آ کر مر جائے ختم ہونے والی چیز ہے.تو ہر وقت خود کو اللہ تعالیٰ کا محتاج سمجھنا چاہیے چھوٹی سے چھوٹی چیز کے لئے بھی ہمیں اس کی مدد کی ضرورت ہے اور بڑی سے بڑی چیز کے لئے بھی ہمیں مدد کی ضرورت ہے.ہمارے لئے کوئی چیز بڑی ہے کوئی چھوٹی ہے مگر اس کے لئے ہر چیز ہی آسان ہے اس کے لئے تو چھوٹی بڑی کوئی چیز نہیں نہ !!! جب وہ دینے پر آئے تو ہمالیہ جیسی نعمتیں دے دے اس کے خزانہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا جب وہ نہ ماننے پر آئے تو کہہ دے کہ جوتی کا تسمہ بھی نہیں دوں گا اس کی شان ہے جو چاہے کرے.تو اس کی قدرتوں پر یقین کامل اور اپنی احتیاج کا احساس کامل ہونا چاہیے اور یہ یقین ہونا

Page 928

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۱۲ خطبہ جمعہ ۲۲ ستمبر ۱۹۶۷ء چاہیے کہ یہ ضروری نہیں کہ اگر دعا رد ہو جائے تو اس سے ہمیں نقصان پہنچے گا، کیونکہ بہت سی دعائیں غلط طور پر مانگی جاتی ہیں ان کا قبول ہو جانا تکلیف دہ ثابت ہوسکتا ہے اور ان کا رد کیا جانا کوئی تکلیف نہیں دیتا، بلکہ اس شخص کے لئے مفید ہوگا.تو ان ساری باتوں کو دعا کے متعلق ذہن نشین رکھنا چاہیے اور ہر احمدی کو اس بات پر یقین کامل رکھنا چاہیے کہ ہم بڑے کمزور ہیں ہم بڑے غریب ہیں ، ہمیں کوئی اثر و رسوخ اور سیاسی اقتدار حاصل نہیں اور دنیا میں غلبہ اسلام کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے باوجود که لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرۃ: ۲۸۷) وہ کون سی وسعت ہے جو اس نے ہمیں دی ہے؟؟ وہ دعا کی وسعت ہے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو روک لیا کہا کہ ہم تمہیں نہیں دیں گے اور کہا کہ یہ کام تمہارے سپرد کرتے ہیں، نکلو دنیا میں اور یہ کام پورا کرو، دنیا اس کام کو ان ہونا مجھتی ہے اور ان ہونا یقین کرتی ہے (اپنی حماقت کے نتیجہ میں ) لیکن اللہ تعالیٰ نے جس کا یہ وعدہ ہے کہ میں تمہارے ذمہ کوئی چیز نہیں لگاؤں گا جو تمہاری طاقت میں نہ ہو ، یہ کام ہمارے ذمہ لگا دیا تو ہمیں سوچنا چاہیے کیونکہ اس نے ہمیں عقل دی ہے کہ اس نے ہمیں کیا چیز دی ہے، کون سا ہتھیار ہے، جس کے ذریعہ ہم غالب آ سکتے ہیں؟؟ وہ ہتھیار دعا کا ہے.اس نے مادی طاقتیں ہم سے لے لیں اور اپنا پیار اور دعا ہمارے ہاتھ میں پکڑا دی اور کہا کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں تمہاری دعاؤں کو سنوں گا، کسی اور چیز کی تمہیں ضرورت نہیں ہے جاؤ اور دنیا پر اسلام کو غالب کرو، میں تمہارے ساتھ ہوں ،گھبراؤ نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں سچا اور حقیقی احمدی بنے کی توفیق عطا کرے اور جو علوم ہمیں سکھائے گئے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ وہ ہمارے ذہن میں ہمیشہ حاضر ر ہیں اور ہماری نسلوں میں وہ ہمیشہ محفوظ رہتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں پر مغفرت کی چادر ڈالے اور محبت اور پیار کا سلوک جو وہ آج تک ہم سے کرتا چلا آیا ہے آئندہ بھی اس کا اسی محبت اور پیار کا سلوک ہمارے ساتھ رہے.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 谢谢谢

Page 929

خطبات ناصر جلد اول ۹۱۳ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۶۷ء یہ احساس ہمیشہ زندہ اور بیدار رکھو کہ ہمارے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی عظیم الشان مہم جاری کی ہے خطبه جمعه فرموده ۲۹ رستمبر ۱۹۶۷ء بمقام گلڈ نہ.مری تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جماعت میں یہ احساس زندہ اور بیدار رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرما کے اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قیام سے تو حید خالص کے قیام اور غلبہ اسلام کی ایک عظیم مہم جاری کی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اس زمانہ میں اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوئے تلے دنیا کی ہر قوم کی گردن کو لے آئے گا.اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہے کہ مخالف کی تدبیر میں اگر اس حد تک بھی پہنچ جائیں کہ ان کے نتیجہ میں پہاڑ اپنی جگہوں سے ہلا دیئے جائیں تب بھی وہ کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ ناکام ہی رہیں گے.کامیابی اللہ تعالیٰ کی اس خادم اسلام جماعت کو ہی نصیب ہوگی.اس مہم کے اجرا سے جماعت پر بڑی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اس احساس کو زندہ اور بیدار رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی اور ایثار کا نمونہ ہمیں دکھانا پڑتا ہے اور آئندہ نسلوں میں بھی اس احساس کو بیدار رکھنا ضروری ہے کیونکہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ

Page 930

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۱۴ خطبہ جمعہ ۲۹؍ستمبر ۱۹۶۷ء ایک نسل کا کام نہیں.اس وقت بھی ہماری اکثریت تابعین کی ہے یعنی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا نہیں.دیکھنے والے تو بہت تھوڑے رہ گئے ہیں لیکن صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنے والے کثرت کے ساتھ اس وقت جماعت احمدیہ میں ہیں تو احمدیت کے لحاظ سے آئندہ نسل احمدیت کی تیسری نسل ہے اور ابھی ہم کامیابی کی راہوں پر چل رہے ہیں.اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچے اور نہیں کہا جا سکتا کہ کب ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچیں گے.میں نے بڑا غور کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہم پر جو دوسری نسل احمدیت کی اس وقت ہے اور ہماری اگلی نسل پر جو اس وقت بچے ہیں.ان دونسلوں پر قربانیاں دینے کی انتہائی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ہم ایک ایسے زمانہ میں داخل ہو چکے ہیں جس میں ترقی اسلام کے لئے جو مہم جاری کی گئی ہے وہ اپنے انتہائی نازک دور میں داخل ہو چکی ہے اور ہمیں اور آنے والی نسل کو انتہائی قربانیاں دینی پڑیں گی تب ہمیں اللہ تعالیٰ وہ عظیم فتوحات عطا کرے گا جس کا اس نے ہم سے وعدہ کیا ہے.پس ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کے دلوں میں بھی اس احساس کو زندہ کریں اور زندہ رکھیں کہ عظیم فتوحات کے دروازے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے کھول رکھے ہیں اوران دروازوں میں داخل ہونے کے لئے عظیم قربانیاں انہیں دینی پڑیں گی اور ان سے ہم ایسے کام کرواتے رہیں کہ ان کو ہر آن اور ہر وقت یہ احساس رہے کہ غلبہ اسلام کی جو مہم اللہ تعالیٰ نے جاری کی ہے اس میں ہمارا بھی حصہ ہے ہم نے بھی کچھ کنٹری بیوٹ کیا ہے ہم نے بھی اس کے لئے کچھ قربانیاں دی ہیں.ہم بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ویسے ہی امیدوار ہیں جیسا کہ ہمارے بڑے ہیں اس کے لئے میں نے علاوہ اور تدابیر کے جو ذہن میں آتی رہیں یا جو پہلے سے ہماری جماعت میں جاری ہیں یہ تحریک کی تھی کہ ہمارے بچے وقف جدید کا مالی بوجھ اٹھا ئیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت کے سارے بچے اور وہ ماں باپ جن کا ان بچوں سے تعلق ہے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس بات کو اچھی طرح جاننے لگیں کہ جب تک بچے کو عملی تربیت نہیں دی جائے گی اللہ تعالیٰ کی فوج کا وہ سپاہی نہیں بن سکے گا اگر وہ دین کے لئے ابھی سے ان سے قربانیاں لیں تو یہ نسل اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری طرح تربیت یافتہ ہوگی اور جب ان کے کندھوں پر جماعت کے کاموں کا

Page 931

خطبات ناصر جلد اول ۹۱۵ خطبہ جمعہ ۲۹؍ستمبر ۱۹۶۷ء بوجھ پڑے گا تو وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور ان کو نباہنے کے لئے کوشاں رہیں گے.میرے دل میں یہ احساس ہے کہ جماعت نے بحیثیت مجموعی اس کی طرف وہ تو جہ نہیں دی جو اس کو دینی چاہیے.بڑے نیک نمونے بھی ہیں ہماری جماعت میں.ایسے بچے جن کو تحریک نہیں کی گئی اور پھر بھی ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہمارے بڑوں پہ ہی نہیں ہم پر بھی قربانیوں کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور وہ قربانیاں دیتے ہیں.افریقہ کے ایک بچے کی مثال میں اس وقت دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.افریقہ میں ہمارے ایک احمدی بھائی ہیں لئیق احمد ان کا نام ہے بڑے مخلص دعا گو ہیں اور ہر وقت ان کو یہ احساس رہتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہم پر فضل کر رہا ہے ہمیں اپنی راہ میں قربانیاں دینے کی توفیق عطا کرتا ہے.ہمارے بچے بھی اس کے فضلوں کے وارث بنیں اور اس کی راہ میں قربانیاں دیں.چند دن ہوئے انہوں نے مجھے خط لکھا جو کل ہی مجھے ملا ہے.انہوں نے اپنے بچوں سے کہا (ایک بچہ بہت چھوٹا ہے) بڑے بچے جو ہیں ان کو انہوں نے کہا کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ قصیدہ تم حفظ کر لو ( جو نعتیہ قصیدہ ہے يا عَيْنَ فَيُضِ اللَّهِ وَالْعِرْفَانِ يَسْعَى إِلَيْكَ الْخَلْقُ كَالظَّمْان) تو میں تمہیں پچاس شلنگ انعام دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص اس قصیدہ کو زبانی یاد کرے اور دہراتا رہے اللہ تعالیٰ اس کا حافظہ تیز کر دیتا ہے تو بچوں کو یہ قصیدہ حفظ کروانے میں ان کا دنیوی فائدہ بھی ہے کیونکہ بچپن کی عمر حافظہ سے فائدہ اُٹھانے کی عمر ہے.جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو پھر ذہن سے فائدہ اٹھانے کی عمر میں وہ داخل ہو جاتے ہیں بہر حال انہوں نے اپنے بچوں کو ۵۰ شلنگ انعام کا وعدہ دے کر انہیں اس طرف متوجہ کیا اور شوق ان میں پیدا کیا اور انہوں نے یاد کرنا شروع کر دیا.بڑے بچے نے سارا قصیدہ حفظ کر لیا تو انہوں نے اسے ۵۰ روپے انعام دیا.وہ لکھتے ہیں کہ میری اور میری بیوی کی یہ خواہش تھی کہ ہم اسے ترغیب دیں کہ جب اسے یہ انعام ملے تو اس کا ایک حصہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے اور

Page 932

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۱۶ خطبہ جمعہ ۲۹؍ستمبر ۱۹۶۷ء ایک حصہ وہ اپنے بھائیوں کو دے تاکہ وہ اس کی خوشی میں شریک ہوں اور ایک حصہ وہ اپنے پر خرچ کرے.چنانچہ ان کے والد صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں :.یہ قصیدہ حفظ کرنے کے دوران میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے عزیز کو خوابوں میں سید الانبیاء حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور 66 حضور پرنور اید کم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیارت کا شرف بخشا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ.“ پھر وہ لکھتے ہیں :.عزیز فرید احمد کی امی کا اور میرا خیال تھا کہ انعام دینے سے قبل بچے کو تربیت کے طور پر کسی رنگ میں کبھی ترغیب دلائیں گے کہ اس رقم میں سے کچھ چندہ دے دے اور کچھ حصہ اپنے بھائیوں اور بہن کو دے اور بقیہ رقم اپنے استعمال میں لے آئے لیکن قصیدہ حفظ کرنے سے پہلے ہی ایک دفعہ عزیز نے ہماری تحریک کے بغیر خود اپنا عندیہ یہ ظاہر کر دیا کہ وہ انعام کی ساری رقم حضور انور کی خدمت اقدس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ تحر یک وقف جدید کے چندہ کے طور پر پیش کر دے گا کیونکہ حضور اقدس اید کم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس عظیم الشان تحریک کی مالی مضبوطی کا کام اپنے بچوں کے سپر د کیا ہے.پس عزیز کے منشا کے مطابق میں پچاس شلنگ کا چیک حضور پر نور کو بھجوا رہا ہوں.“ اور عزیز فرید احمد اپنے خط میں لکھتا ہے :."Waleed, Amatul-Naseer and I were Promised by our father gifts of sh 50/- each for memorising the Qasida, and I am first to have recieved this gift, Al-Hamdulillah!!! On my part, I have undertaken to present the whole of this amount to your holiness for the purpose of Waqf-e-Jadid.This is because you have kindly made the children of Ahmadiyyat responsible for the finance of the

Page 933

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۱۷ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۶۷ء Waqf-e-Jadid, and I fully realize that your needs for the spreading of Islam must have priority over my personal needs.Please, therefore, accept the enclosed cheque for Rs.50/- and grant me the opportunity of earning swab.I may assure your holiness that your children, as willing to serve Islam as the though young, are grown-ups." یہ اس بچے کا خط ہے تو اس قسم کی نہایت حسین مثالیں بھی ہیں جو ہمارے بچوں میں پائی جاتی ہیں لیکن بچے کا ذہن اس قسم کے خیالات کا اظہار صرف اس وقت کر سکتا ہے جب وہ یہ دیکھے کہ اس کے ماحول میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں اگر اس کے ماں باپ کو اسلام کی ضرورت کا خیال ہی نہ ہوا گر اس کے ماں باپ اسلام کی ضرورتوں کے متعلق اپنے گھر میں باتیں ہی نہ کرتے ہوں اگر اس کے ماں باپ اس کا تذکرہ گھر میں نہ کرتے ہوں کہ ہمیں اپنی ضرورتیں چھوڑ دینی چاہئیں اور آج اسلام کی ضرورت کو مقدم رکھنا چاہیے اگر یہ نہ ہو گھر کا ماحول تو گھر کے بچوں کی تربیت ایسی ہو ہی نہیں سکتی.جیسا کہ آپ نے ابھی سنا کہ کس قسم کی تربیت اس بچے کی ہے.چھوٹا بچہ ہے اور وہ اس قسم کا خط نہیں لکھ سکتا دلی جذبات سے، جب تک ایک پاک ماحول میں اس کی تربیت نہ ہوئی یہ احساس کہ میری ضرورتیں اسلام کی ضرورتوں پر قربان ہو جانی چاہئیں اگر ہر بچے کے دل میں پیدا ہو جائے تو ہمیں کل کی فکر نہ رہے.ہم اس یقین سے پر ہو جا ئیں کہ جب آئندہ کسی وقت ہمارے بچوں کے کندھوں پر جماعت احمدیہ کا بوجھ پڑے گا وہ اسے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اور اس بوجھ کا حق ادا کر تے ہوئے اس کو ادا کریں گے.ہو.اس خطبہ کے ذریعہ میں اپنے تمام بچوں کو جو احمدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والدین اور گارڈینز ( سر پرستوں) کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ یہ پسند کرتے

Page 934

خطبات ناصر جلد اول ۹۱۸ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۶۷ء ہوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمتیں آپ پر نازل ہو رہی ہیں اسی طرح آپ کی اولا داور نسل پر بھی نازل ہوں تو آپ اپنے بچوں کی تربیت کچھ اس رنگ میں کریں کہ ہر ایک کے دل میں یہ احساس زندہ ہو جائے اور ہمیشہ بیدار رہے کہ ایک عظیم مہم اللہ تعالیٰ نے توحید کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے جاری کی ہے احمدیت کی شکل میں اور اب ہمیں اپنا سب کچھ قربان کر کے اس مہم میں حصہ لینا اور اسے کامیاب کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ان انتہائی فضلوں اور رحمتوں کا وارث بننا ہے جن کا وعدہ اس نے ہم سے کیا ہے.دوسرا امر جس کی طرف میں آج جماعت کو تو جہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.والكم مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَ إِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا - (ابراهیم : ۳۵) اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان کیا ہے کہ چاند اور سورج اور عالمین کی دوسری چیزیں ہم نے پیدا کیں اور ان کو تمہاری خدمت میں ہم نے لگادیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ تم نے اس سے جو کچھ بھی مانگا وہ اس نے تمہیں عطا کیا اور اس سے زیادہ بھی دیا کیونکہ تم نے جو کچھ مانگا وہ محدود تھا لیکن اس نے جو کچھ تمہیں دیا اس کا شمار نہیں.حد بندی اس کی نہیں ہوسکتی.قیمت اس کی نہیں لگائی جاسکتی اس کی ایک تفسیر تو یہ کی جاتی ہے جو اپنی جگہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری پیدائش سے قبل ہماری ضرورتوں کو پورا کر کے ہم پر بے شمار احسان کئے ہیں اور ان احسانوں کا بھی ہم اپنی زندگی میں شکر ادا نہیں کر سکتے اور وہ شمار نہیں ہو سکتے اور جو تم نے مانگا کے معنی یہ ہوں گے کہ جو تم نے زبان حال سے مانگا یعنی جس مقصد کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا تھا اس مقصد کے حصول کے لئے جس چیز کی بھی تمہیں ضرورت تھی اس کا سامان بغیر تمہارے علم کے اور بغیر تمہارے مانگے کے ہم نے تمہیں عطا کر دیا تھا لیکن اس کے ایک دوسرے معنی یہ بھی صحیح طور پر کئے جا سکتے ہیں کہ جو تم مانگتے ہو وہ بھی ہم دیتے ہیں.مگر تمہیں صرف اتنا ہی نہیں دیتے جتنا تم مانگتے ہو بلکہ اس سے کہیں زیادہ دیتے ہیں اور ہمارے فضلوں کا تم شمار نہیں کر سکتے اتنی کثرت سے ہم دیتے ہیں.اب دیکھیں میں یورپ کے سفر پر جارہا تھا میں نے بھی بڑی دعائیں کیں.جماعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ بہت دعائیں کریں.پس ساری

Page 935

خطبات ناصر جلد اول ۹۱۹ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۶۷ء جماعت نے اس سفر سے متعلق اللہ تعالیٰ سے بہت کچھ مانگا.یہ مانگا کہ جس غرض کے لئے سفر اختیار کیا جارہا ہے اللہ تعالیٰ اس غرض کو پورا کرے، یہ مانگا کہ ان قوموں پر اتمام حجت ہو جائے اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق دے کہ ان کے جو ذرائع ان تک بات کو پہنچانے والے ہیں وہ مجھ سے تعاون کریں.اخبار ہیں، ریڈیو ہے، ٹیلی ویژن ہے.آپس کی گفتگو ہے.مجھ سے ملنے کے بعد مثلاً ایک شخص دوسری جگہ جا کے باتیں کرتا ہے وہ بھی ایک ذریعہ ہے میری بات کو بعض اور دوسروں تک پہنچانے کا.تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ مانگا کہ جس غرض کے لئے میں گیا ہوں جو اتمام حجت کرنا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ ان قوموں کو اور ان کے نمائندوں کو یہ توفیق عطا کرے کہ جو باتیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات سے تعلق رکھنے والی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانِ عظیم سے تعلق رکھنے والی اور قرآن کریم کے نور اور اس کے حسن اور اس کی خوبی سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کے کانوں تک پہنچانا چاہتا ہوں یہ لوگ میری باتیں ان کے کانوں تک پہنچا دیو ہیں.آپ نے یہ بھی مانگا جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء کہ اللہ تعالیٰ مجھے خیریت سے رکھے اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی توفیق عطا کرے اور پھر خیریت سے واپس لے کے آئے.ہر آن ہمیں اس کے فضل کی ضرورت ہے اس کے سہارا کے بغیر تو ہم ایک سانس بھی نہیں لے سکتے تو میں آپ کے لئے دعائیں کرتا ہوں آپ میرے لئے دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صحت کے ساتھ زندگی عطا کرے اور توفیق دے کہ اس خدمت کو احسن طور پر بجالاؤں جو میرے سپرد کی گئی ہے اور آپ وہ کام بجا لا ئیں جو آپ کے سپر د کیا گیا ہے.تو بہت کچھ مانگا جماعت نے اور میں نے.گویا ہم سب نے مل کے.کیونکہ ہمارا ایک ہی وجود ہے لیکن ہم نے جو مانگا وہ غیر محدود نہیں تھا معدودے چند نیک خواہشات تھیں جن کے پورا ہونے کے لئے دعا کی گئی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ اس آیت میں وعدہ کیا ہے آپ کی دعاؤں کو قبول کر کے وہ بھی دیا جو آپ نے اس سے مانگا تھا.واسکم مِنْ كُلِّ مَا سَالَتُمُوهُ جو بھی آپ نے مانگا وہ بھی اس نے دیا اور اس سے بڑھ کر دیا.وَإِن تَعدُّوا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا اتنا دیا کہ ہم اس کا شمار نہیں کر سکتے.بارش کے قطروں کا گن لینا ممکن ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا شمار بالکل ممکن نہیں قطعاً ناممکن ہے اور ان دنوں میں تو

Page 936

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۲۰ خطبہ جمعہ ۲۹؍ستمبر ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ کے بے حد فضل اور رحمتیں آسمان سے نازل ہو رہی تھیں اتنی کہ ان کا کوئی شمار نہیں.ان بے شمار فضلوں کے نتیجے میں ایک تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ خدا تعالیٰ کا وہ بندہ جو اپنے رب کے ارفع اور اعلیٰ مقام نیز اپنے مقام کو جو عاجزی اور نیستی کا مقام ہے پہچانتا ہے وہ ہر وقت اس کے شکر میں محو رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی میں نے یہ بھی سوچا کہ اب جماعت کو اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کی بارش اپنے پر پڑتے دیکھ لینے کے بعد یہ خواہش پیدا ہوگئی ہے کہ اسی کثرت سے اللہ تعالیٰ کے فضل اس پر نازل ہوتے رہیں جس طرح بعض لوگ اپنے جسم کی بناوٹ اور عادت کے نتیجہ میں بہت زیادہ کھاتے ہیں اور بعض ہیں جو اپنے جسم کی بناوٹ اور عادت کے نتیجہ میں بہت کم کھانے والے ہیں تو جو کم کھانے والے ہیں ان کو کم ملے تو انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی.لیکن جس کے جسم کی بناوٹ اور اس کی عادت یہ ہو جائے کہ وہ زیادہ کھائے اس کو اگر آپ پانچ روٹیاں بھی دیں گے تو وہ کہے گا کہ میں تو ابھی بھوکا ہی ہوں میری تو سیری نہیں ہوئی.اسی طرح جماعت اب اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی متواتر اور کثرت سے برسنے والی بارش سے ہی سیر ہو سکتی ہے اور اس روحانی سیری کے حصول کے لئے تمہیں شکر“ کو انتہا تک پہنچا دینا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق کہ لین شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهيم : ۸) تمہارے انتہائی شکر کو دیکھ کے اپنی رحمتوں اور فضلوں کو پہلے کی نسبت بھی زیادہ کثرت کے ساتھ تم پر نازل فرمائے اور رحمتوں کے نزول کے اس نے جو ذرائع ہمیں بتائے ہیں یا ہم پر جو دروازے کھولے ہیں.ہم ان کو پہچانیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں.رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا ایک دروازہ جو اس نے ہم پر کھولا ہے وہ جلسہ سالانہ ہے ہمارا.جلسہ سالانہ پر اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے شمار برکتیں نازل ہوتی ہیں خدا تعالیٰ کی اور بہت سارے گناہ اور غفلتیں اور کوتاہیاں اور کمزوریاں اور نقائص مغفرت کی چادر میں ڈھانپ دیئے جاتے ہیں.احمدیوں کا کثرت سے جلسہ پر آنا بھی ایک معجزہ ہے خدا کے مسیح کا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 937

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۲۱ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۶۷ء کے عظیم روحانی فرزند کا اور بڑی قربانی ہے جماعت کی ، جو اس موقع پر بھی وہ پیش کرتی ہے یہ تو درست ہے کہ ہماری جماعت میں بعض امیر بھی ہیں جن پر جلسہ میں شمولیت کی وجہ سے کوئی مالی بار نہیں پڑتا نہ وہ کوئی تنگی محسوس کرتے ہیں جس طرح وہ گھروں میں خرچ کر رہے ہوتے ہیں اس موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں ان کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم پہ کوئی بار پڑا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بھی اپنی برکتوں اور رحمتوں سے نوازتا ہے.لیکن اکثریت ایسے لوگوں کی ہے کہ جو سال بھر جلسہ میں شمولیت کی تیاری کرتے رہتے ہیں پیسہ پیسہ جوڑتے ہیں بعض کھانے کے خرچ میں سے ایک حصہ بچاتے ہیں کپڑے نہیں بناتے بچوں کو ننگے پاؤں پھرنے دیتے ہیں تا کہ ان کے پاس اتنے پیسے جمع ہو جائیں کہ وہ جلسہ میں شریک ہو سکیں اگر آپ اس تفصیل میں جائیں اور آنے والوں کا تفصیلی جائزہ لیں تو حیران ہو جا ئیں آپ ان کے ایثار اور قربانی کو دیکھ کر.کسی اور کے سامنے یہ با تیں رکھیں تو وہ مانے گا نہیں.وہ کہے گا یونہی گپیں مار رہے ہو تم.ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ پچاس ساٹھ ہزار آدمی جلسہ میں شامل ہونے کی غرض سے اس قسم کی تکالیف سارا سال برداشت کرتا رہا ہو.پس جماعت جلسہ میں شمولیت کے لئے بڑی قربانیاں دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ جو بڑا ہی فضل کرنے والا اور بڑی رحمت کرنے والا ہے جماعت پر ان دنوں میں بھی اور بعد میں بھی ان قربانیوں کو دیکھ کے لیکن خصوصاً ان دنوں میں بڑی برکت نازل کرتا ہے.ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے.مغفرت کی چادر میں ان کو چھپا لیتا ہے.اپنے نور کی چادر میں انہیں لپیٹ لیتا ہے جب وہ آتے ہیں تب بھی وہ مخلص احمدی ہوتے ہیں لیکن جب وہ واپس لوٹتے ہیں تو اپنے اخلاص میں پہلے سے بھی کہیں بڑھ کے ہوتے ہیں.جلسہ کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نظارے دیکھتے ہیں.ایک دوسرے کے لئے دعائیں کرتے ہیں.ایک لاکھ آدمی اجتماعی دعا کر رہا ہو اللہ تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوا گر خلوص نیت ہوا گر کبر نہ ہو، اگر نخوت نہ ہو، اگر یہ خیال نہ ہو کہ ہمارا کوئی حق ہے جو ہم نے اپنے رب سے لینا ہے بلکہ نہایت عاجزی اور تواضع اور انکسار کے ساتھ دعائیں کی جائیں.تو اتنا بڑا مجمع جب دعا

Page 938

خطبات ناصر جلد اول ۹۲۲ خطبہ جمعہ ۲۹ ستمبر ۱۹۶۷ء کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے زندہ نشان جلسہ کے ایام میں ہزاروں احمدی دیکھتے ہیں چونکہ یورپ کے سفر کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بے انتہا رحمت سے بڑا با برکت کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانوں کو ہم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے.اس لئے ہمارا احساس فقر تیز ہو گیا ہے ہماری احتیاج زیادہ ہوگئی ہے.پس ہم تبھی خوش ہو سکتے ہیں کہ ہم سے ایسے کام اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سرزد ہوں کہ جن کے نتیجہ میں وہ پہلے سے بھی زیادہ ہم پر رحمتیں کرنے لگے اور وہ جیسا کہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے صحیح شکر کے نتیجہ میں ہی ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے حضور شکر کے طور پر مزید قربانی دیں جو پہلے نہیں آسکتے تھے وہ اس سال جلسہ پر آئیں اور زیادہ سے زیادہ دوست جلسہ سالانہ پر جمع ہوں اس کے لئے ابھی سے تیاری کر لیں.اگر پہلے تیاری نہیں کی کسی نے رخصتیں لینی ہوتی ہیں گھر کوسنبھالنے کے لئے انتظام کرنا ہوتا ہے پانچ دس دن کے لئے گھر اکیلا چھوڑنا ہوتا ہے.خصوصاً جب اس محلہ کی اکثریت احمدیوں کی ہو اور وہ جا رہے ہوں تو کئی دوست اپنے گھروں کو بظاہر عورۃ“ چھوڑ کر جلسہ میں شمولیت کے لئے آجاتے ہیں اور اپنے گھروں کو ننگا چھوڑ آتے ہیں.منافقوں نے تو کہا تھا کہ ہمارے گھر عورة ہیں ہم جہاد میں شامل نہیں ہو سکتے احمدی کہتا ہے کہ منافق کو میرا گھر بھی عورۃ نظر آئے گا کیونکہ ان گھروں پر خدا تعالیٰ کی رحمت اور حفاظت کا نزول اسے نظر نہیں آرہا اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کو نظر نہیں آ رہے تو تم منافق عورۃ اس کو سمجھو میں اس کو تمہاری زبان میں عورۃ ہی چھوڑ جاتا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے گھر کی حفاظت کرنے والا ہے اور اکثر اللہ تعالیٰ حفاظت بھی کرتا ہے اور بعض دفعہ امتحان بھی لیتا ہے لیکن مومن کہتا ہے کہ اے خدا! میں اپنے گھر کو اکیلا چھوڑ آیا تیری رضا کے حصول کے لئے اگر تیری رضا کا حصول جلسہ میں شمولیت کی عاجزانہ قربانی اور گھر کے لوٹے جانے کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے تو میں اس پر بھی خوش ہوں میرا گھر ہزار بارلوٹا جائے تیری رضا ایک لحظہ کے لئے مجھ سے جدا نہ ہو وہ مجھے ہمیشہ حاصل رہے.پس میں دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلسہ میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوں اس نیت سے بھی اس دفعہ شامل ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں اور رحمتوں کا شکر بجالانا

Page 939

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۲۳ خطبہ جمعہ ۲۹؍ستمبر ۱۹۶۷ء چاہتے ہیں جن کا مشاہدہ ساری جماعت نے میرے سفر یورپ کے دوران کیا اور اس امید اور یقین اور وثوق کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے شکر کو پیش کریں کہ جو حقیقی معنی میں خدا تعالیٰ کے حضور شکر کے سجدے بجالاتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے لئے زیادتی کے سامان پیدا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتوں کو ہم نے اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھا ہے اور اب ہمیں کثرت بارانِ رحمت کا چسکہ پڑ چکا ہے جس کے بغیر ہمارے لئے سیر ہو نا ممکن نہیں اس غرض سے کہ بارانِ رحمت کثرت سے ہم پر نازل ہوتی رہے ایثار اور قربانی کی ہر راہ کو ہمیں اختیار کرنا چاہیے.ایک راہ بطور شکر کے جلسہ سالانہ میں کثرت سے شمولیت ہے.پس احباب جماعت کو چاہیے کہ پہلے سالوں کی نسبت زیادہ تعداد میں وہ جلسہ پر آئیں.یہ دعائیں کرتے آئیں کہ پہلے سالوں کی نسبت زیادہ دعاؤں کی اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق عطا کرے اس امید اور توقع سے آئیں کہ پہلے سالوں کی نسبت اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو زیادہ قبول کرے گا اور وہ اپنے رب کی رحمتوں کے پہلے سے زیادہ نشان دیکھیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں واقعی ایسا بنادے.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ روزنامه الفضل ربوه ۱۷ نومبر ۱۹۶۷ صفحه ۲ تا ۶)

Page 940

Page 941

خطبات ناصر جلد اول ۹۲۵ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۶۷ء بشاشت قلبی کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر فضل عمر فاؤنڈیشن میں دل کھول کر حصہ لیں خطبه جمعه فرموده ۱۳ را کتوبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.گذشتہ جمعہ سے قبل بدھ یا جمعرات کو مجھے فلو کا حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے سر در داور طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہوئی اور گذشتہ جمعہ میں یہاں حاضر تو ہوا ثواب کی خاطر لیکن جمعہ پڑھا نہیں سکا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیماری بہت حد تک دور ہو چکی ہے لیکن ابھی تک میرے گلے پر کچھ اثر نزلہ کا ہے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کامل صحت عطا کرے اور بہترین خدمت دین کی توفیق عطا کرتا چلا جائے.اس کے علاوہ بعض دوستوں نے مندر خوا ہمیں دیکھی ہیں ہماری پھوپھی جان حضرت نواب امة الحفیظ صاحبہ نے کراچی میں کوئی خواب دیکھی وہاں سے انہوں نے مجھے ایک خط لکھا جو بعض وجو ہات کی بنا پر یہاں دیر سے ملاصبح ہی میں نے وہ خط پڑھا میں وہ خط دوستوں کو سنا دیتا ہوں تا دعا کی تحریک پیدا ہو حضرت پھوپھی جان صاحب لکھتی ہیں کہ وو مجھے صبح سے سخت پریشانی ہے آپ دو بکرے ربوہ جاتے ہی اپنا صدقہ کر دیں اور کچھ کھانا بھی غرباء کو کھلوا دیں.نیز اپنی جان کی خاص حفاظت بھی کریں اور بزرگان

Page 942

خطبات ناصر جلد اول ۹۲۶ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۶۷ء سلسلہ کو دعا کی تحریک کردیں اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو ہمیشہ اور ہمیں کوئی تکلیف نہ دکھائے“.( یہ خط پچھلے ماہ کی ۲۹ تاریخ کا لکھا ہوا ہے ) اَلا تَتَّخِذُوا مِن دُونِي وَكِيلاً (بنی اسراءیل : ۳) اللہ تعالیٰ ہی ہمارا کارساز پروردگار ہمارا محافظ اور ہمیں اپنی امان میں رکھنے والا ہے تدبیر تو کی ہی جاتی ہے صدقہ میں نے دے دیا ہے اور آئندہ بھی دیتا رہوں گا.جماعت خاص طور پر دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور جماعت کو بھی ہر شر اور ہر بلا سے محفوظ رکھے.حضرت محتر مہ پھوپھی جان کا ایک نواسہ بھی جوعزیزم مرزانیم احمد صاحب کا چھوٹا بچہ ہے چند دن سے بیمار ہے کوئی انفیکشن ایسا پیدا ہوا ہے کہ ابھی تک آرام نہیں آرہا کسی دوائی کا اثر نہیں ہو رہا اس عزیز بچہ کو دو چار روز سے ۱۰۵ تک بخار ہو جاتا ہے تمام دوائیوں کے باوجود.دوست اس عزیز کے لئے بھی دعا کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا ایک چھوٹا سا عزیز ہے.اللہ تعالیٰ اس کو بھی شفادے صحت دے اور خادم دین بنائے.اب میں دوستوں کو فضل عمر فاؤنڈیشن کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.فضل عمر فاؤنڈیشن کا اعلان ۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ میں ہوا تھا اس جلسہ کی ایک تقریر میں میں نے یہ کہا تھا کہ اس لئے میں دوستوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی پہلی تمام مالی قربانیوں پر قائم رہتے ہوئے اور ان میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر بشاشت قلبی کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر اس فنڈ میں بھی دل کھول کر حصہ لیں اور دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی اس فنڈ کو با برکت کرے اس وقت میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ۲۵ لاکھ روپیہ سے کہیں زیادہ رقم جمع ہو جائے گی.شروع میں ابتدائی انتظامات پر کافی وقت خرچ ہوا اس کے نتیجہ میں میں نے بعد میں کسی موقعہ پر (غالباً گذشتہ مجلس مشاورت کے موقعہ پر ) یہ اعلان کیا تھا کر فضل عمر فاؤنڈیشن کا سال جون کے آخر میں ختم ہوگا اور یکم جولائی سے نیا سال شروع ہوگا.پس اس سال کی یکم جولائی سے فضل عمر فاؤنڈیشن کا دوسرا سال شروع ہو چکا ہے.جون کے آخر تک عملاً اور انتظاماً پہلا سال ہی جاری رہا تھا.اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہے کہ اس نے جو خواہش

Page 943

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۲۷ خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۶۷ء ہمارے دل میں پیدا کی تھی کہ اس فنڈ کی رقم ۲۵ لاکھ روپے سے کہیں زیادہ ہو جائے گی اس خواہش کو اس نے محض اپنی رحمت سے پورا کر دیا اس وقت تک فضل عمر فاؤنڈیشن کے اندرون پاکستان کے وعدے ۲۷ لاکھ ستر ہزار روپیہ تک پہنچ چکے ہیں اس کے علاوہ بیرون پاکستان کے وعدے ۸ لاکھ ۸۰ ہزار روپے کے ہیں.اس طرح کل وعدہ جات ۳۶ لاکھ ۵۰ ہزار روپے تک پہنچ چکے ہیں.یعنی ۲۵ لاکھ سے گیارہ لاکھ ۵۰ ہزار روپے زائد.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِكَ - بعض دوستوں کے مشورہ سے اور دعا اور فکر کرنے کے بعد میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ان وعدوں کی وصولی تین سال پر پھیلی ہوئی ہوگی دوست ہر سال ایک تہائی اپنے وعدوں کا ادا کریں اس لحاظ سے جون کے آخر تک بارہ لاکھ اور میں ہزار کچھ سو کی رقم وصول ہونی چاہیے تھی لیکن اس کے مقابلہ میں جو رقم وصول ہوئی ہے وہ تیرہ لاکھ اٹھا سٹھ ہزار کی ہے.یعنی ایک تہائی سے زیادہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.میں نے بعض نقار یر میں یہ بھی کہا تھا کہ بعض دوست جو دنیا کی نگاہ میں غریب ہیں لیکن ان کے دلوں میں بڑا جذ بہ ہے.وہ غربت کے باوجود کچھ رقمیں فضل عمر فاؤنڈیشن میں لکھوائیں گے اور تین سال کا انتظار نہیں کریں گے بلکہ کسی نے دس روپے کی رقم لکھوائی کسی نے پچاس اور کسی نے سوا اور وہ یہ کہے گا کہ میں رقم فوری طور پر ادا کر دوں تاکہ میرے دماغ میں سے یہ بوجھ اتر جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کا مقروض ہوں اور مجھے اپنے وعدہ کو پورا کرنا چاہیے.اس لئے پہلے سال میں جیسا کہ میرا اندازہ تھا ایک تہائی سے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے زائد جمع ہو گئے ہیں ان میں بہت سی ایسی رقوم بھی شامل ہیں کہ بعض مخلص جذبہ رکھنے والے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت میں سرشار دل وعدہ لکھوانے پر اپنی غربت کے باوجود مجبور ہوئے اور پھر ادا ئیگی بھی انہوں نے جلدی کر دی.اس کے علاوہ کچھ اور دوست بھی ہو سکتے ہیں کہ باوجود نسبتاً زیادہ مالدار ہونے کے ان کے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ وہ ایک تہائی سے زیادہ رقم ادا کر دیں.جہاں تک وعدوں کا تعلق ہے ہمارا کام قریباً ختم ہو گیا ہے قریباً میں اس لئے کہتا ہوں کہ تھوڑے بہت لوگ تو اندرون ملک میں بھی نئے وعدے لکھوائیں گے مثلاً جو احمدی دوست

Page 944

خطبات ناصر جلد اول ۹۲۸ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۶۷ء پچھلے سال برسر روزگار نہیں ہوئے تھے.وہ اگر اس سال برسر روزگار ہو گئے ہیں.تو ان کے دل میں خواہش پیدا ہوگی کہ ہمیں بھی اس فنڈ میں حصہ لینا چاہیے تو اس قسم کی رقمیں تو وعدوں کی شکل میں بھی ادائیگی کی صورت میں بھی آتی رہیں گی لیکن جہاں تک بحیثیت مجموعی جماعت کا تعلق ہے اندرون پاکستان کے وعدوں کی جو کوشش ہے وہ اب ختم ہو گئی ہے اور اب وصولی کی طرف ہمیں زیادہ توجہ دینی پڑے گی.بیرون پاکستان میں بھی ہماری مخلص جماعتیں ہیں اور باوجود اس کے کہ وہ پھیلی ہوئی ہیں اور بعض جگہ چندوں کی وصولی کا طریق بھی ہم سے مختلف ہے مثلاً افریقہ کے بعض ممالک میں جلسہ سالانہ کے موقعہ پر مختلف قبائل کے احمدی مختلف گروہوں میں بیٹھتے ہیں اور مالی قربانی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں.مثلاً اگر ایک قبیلہ نے ۵۰۰ پونڈ کی رقم کا وعد ہ لکھوایا یا ادائیگی کی اور دوسرے نے ۶۰۰ پونڈ کا وعدہ لکھوایا، ادا ئیگی کر دی.تو پہلے قبیلہ کا سردار کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم پیچھے نہیں رہنا چاہتے.ہماری طرف سے یہ سات سو پاؤنڈ کی رقم وصول کر لیں.یہ ان کا طریق ہے.اسی طرح وہ اپنے اپنے چندوں کی رقوم کو شائد شرح سے بھی زیادہ ادا کر دیتے ہیں لیکن اس وقت تک ایک حد تک ( سارے تو نہیں بعض با شرح چندہ دینے والے بھی ہیں) ان پڑھ قبائل جو نئے نئے اسلام لائے یا اسلام کی تعلیم کو انہوں نے حاصل کیا.وہ اس طرح بھی ایک قربانی کی روح کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو غیرت دلاتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ان لوگوں کو وعدہ لکھوانے کی اتنی عادت نہیں جتنی نقد ادائیگیوں کی ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ بیرون پاکستان میں وعدے اتنے نہیں ہوئے جتنا میرا اندازہ تھا لیکن خدا اگر چاہے ( ہمیں دعا کرنی چاہیے ) اور ہم اللہ تعالیٰ سے امید بھی رکھتے ہیں تو تین سال گذرنے پر بیرون پاکستان کی آمد پندرہ لاکھ سے زائد ہو جائے گی.اس وقت تک بیرون پاکستان کے جو وعدے ہیں وہ آٹھ لاکھ اسی ہزار کے ہیں (جیسا کہ میں نے بتایا ہے ) اور جو ان کی وصولی ہے وہ دو لاکھ باسٹھ ہزار کی ہے یعنی ایک تہائی سے کچھ کم ان کی وصولی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بعض ممالک ( مثلاً مغربی افریقہ کے بعض ممالک )

Page 945

خطبات ناصر جلد اول ۹۲۹ خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۶۷ء.میں کچھ سیاسی پریشانیاں پائی جاتی ہیں ممکن ہے اس کا اثر ہو یا ہمارے مبلغوں نے اس کی طرف پوری توجہ نہ دی ہو والله اعلم لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ ذمہ دار کارکن اس طرف توجہ دیں گے اور عملاً دو سال جو باقی رہ گئے ہیں تین سال میں سے ان دو سالوں میں وہ اتنی وصولی کر دیں گے کہ بیرون پاکستان کی وصولی پندرہ لاکھ روپیہ سے کم نہ رہے بلکہ اس سے زیادہ ہو جائے.اس طرح پر چالیس لاکھ کے قریب یا چالیس لاکھ سے اوپر یہ فنڈ بن جائے گا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے وعدوں کے لئے جدو جہد اور کوشش کا زمانہ ختم ہو گیا.وصولی کی طرف ہمیں متوجہ ہونا چاہیے اور کوشش یہ کرنی چاہیے کہ دوسرے سال میں ایک تہائی نہیں بلکہ جو بقیہ رقم ہے اس کا ۳/۵ جس کو پنجابی زبان میں پینچ دو نجی کہتے ہیں وہ رقم وصول ہو جائے اور تیسرے سال صرف ۲/۵ کی وصولی کی کوشش کی ضرورت باقی رہے.ہمارا تعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عارضی تعلق نہیں کہ زمانہ اس کو بھلا دے یا آپ کی یاد کو دھند لا کر دے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جماعت پر بحیثیت جماعت اور لاکھوں افراد جماعت پر بحیثیت افراد اپنے زمانہ خلافت میں احسان کی بڑی توفیق ملتی رہی ہے ان احسانوں کو جماعت کے دلوں سے زمانہ فراموش نہیں کر سکتا تو جس محبت کے تقاضا سے مجبور ہو کر ہم نے اس فنڈ کو کھولا تھا.اس کے لئے وعدے لکھوائے تھے اور یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم کم از کم ایک تہائی ہر سال ضرور ادا کرتے چلے جائیں گے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اس وعدہ میں کوئی کمزوری واقع نہیں ہوگی اس لئے فضل عمر فاؤنڈیشن کے جو کارکن ہیں انہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ محبت کے سرچشمہ سے فضل عمر فاؤنڈیشن کی نہر نکلی ہے اور وہ محبت جس وجہ سے پیدا ہوئی وہ عارضی وجہ نہیں تھی بلکہ اس احسان کی وجہ سے جس کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اللہ سے توفیق پائی ایک احمدی کے دل کو آپ کی یاد سے ایک مستقل تعلق پیدا ہو چکا ہے پس وہ گھبرائیں تو نہ لیکن کوشش ضرور جاری رکھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی سکھایا ہے ذکر فان الذكرى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ - (الدريت : ۵۶) اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اگر مومنوں کو یاد دہانی کرائی جانے کی ضرورت

Page 946

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۳۰ خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۶۷ء محسوس ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ مومن نہیں ہیں بلکہ جو مومن ہوتا ہے اسی کو ذکر فائدہ پہنچا تا ہے جو مومن نہیں ہوتا اس کو ذکر اور یاد دہانی فائدہ نہیں پہنچاتی.غرض ایک طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ذکر یاد دہانی کراتے چلے جایا کرو دوسری طرف ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا ذکر کہنا مومنوں کے ایمان کی کمزوری کا اعلان نہیں ہے بلکہ ان کے ایمان کی پختگی کا اعلان ہے کیونکہ مومن ہی یاد دہانی سے فائدہ اُٹھاتے ہیں جو ایمان کے کمزور اور منافق ہیں ان کو جتنی مرضی ہو آپ یاد دہانیاں کراتے چلے جائیں ان کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا.غرض فضل عمر فاؤنڈیشن کے نظام کو ، اس کے کارکنوں کو ذکر کے حکم کے ماتحت وصولی کی طرف پوری توجہ دینی چاہیے اور میں جماعت سے یہ توقع اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانتے ہیں اور وہ دنیا کو یہ کہنے کا موقع نہیں دیں گے کہ دعویٰ محبت کا تھا مگر عمل اس کے مطابق نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ توفیق دی ہے کہ اول تو ہمارے زبانی دعوے ہوتے ہی نہیں لیکن اگر ہمیں کوئی دعویٰ کرنا بھی پڑے تو عمل کے مقابلہ میں بڑے چھوٹے دعوے ہوتے ہیں کیونکہ ہم اپنے مقام انکسار اور تواضع کو پہچانتے ہیں اور یہ یقین ہر احمدی کے دل میں ہے کہ جو کچھ تو فیق اسے ملتی ہے وہ اس کے رب کی طرف سے ہی ملتی ہے اور وہ جب کوئی قربانی دے رہا ہو تو دو ہرے شکر کے جذبات اس کے دل میں ہوتے ہیں ایک اس لئے کہ اس نے مالی یا جانی یا وقتی یا جذباتی قربانی یا عزت کی قربانی خدا کی راہ میں دی اور دوسرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اوپر بڑا ہی احسان کیا ہے که قربانی دینے کی اسے تو فیق عطا کی.پس جس طرح میرے دل میں کوئی گھبراہٹ نہیں ہے کہ دوسرے سال کی معینہ رقوم وصول ہوں گی یا نہ ہوں گی بلکہ مجھے یقین ہے کہ جو معینہ رقم ہے دوسرے سال کی.اس سے زیادہ انشاء اللہ ہمیں وصول ہوگا.فضل عمر فاؤنڈیشن کے کارکنوں کو بھی کوئی گھبراہٹ تو نہ ہونی چاہیے لیکن میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے نظام کو یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اب وعدوں کے حاصل کرنے کی بجائے رقوم کی وصولی کی طرف زیادہ توجہ دیں کیونکہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس فنڈ کی رقم یعنی جو سر مایہ ہے اس کو خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ جن مقاصد کے پیش نظر فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام کیا گیا ہے ان کو پورا کرنے کے لئے جس روپیہ کی ہمیں ضرورت

Page 947

خطبات ناصر جلد اول ۹۳۱ خطبه جمعه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۶۷ء پڑے گی وہ اس فنڈ کی آمد سے حاصل کیا جائے گا.پس جتنا جلد ہمارے پاس سرمایہ جمع ہو گا اتنا ہی زیادہ ہم اس سے نفع حاصل کر سکتے ہیں.پچھلے چند مہینوں میں جو تھوڑی سی رقوم کمپنیوں کے حصے لینے پر خرچ کی گئی تھیں اس سے چودہ پندرہ ہزار روپیہ کا نفع خدا تعالیٰ کے فضل سے ہو گیا ہے اور امید ہے کہ اگلے دو چار مہینہ میں اور نفع ہوگا.فنڈ کے سرمایہ کو آگے کام پر لگانے کے لئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے اور جو محتاط خرچ ہوں ان کا نفع زیادہ نہیں ہوتا.یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا کہ پندرہ میں فیصدی نفع کی امید پر سرمایہ کو خطرہ میں ڈال دیا جائے اس لئے نہایت محتاط طریق سے سرمایہ لگا یا جاتا ہے لیکن اس طرح جو نفع ہوتا ہے وہ تین چار فیصدی سے زیادہ نہیں ہوتا.پس اس طرح کچھ آمد ہو گئی ہے لیکن کام تو بہت سے کرنے والے ہیں اور ان کاموں پر خرچ کرنا ہے نفع سے اور نفع ہونا ہے سرمایہ سے اور سرمایہ کا ۱/۳ حصہ آپ نے پہلے سال میں دیا ہے.آئندہ سال ختم ہونے سے کہیں پہلے اگر سرمایہ زیادہ آجائے تو انشاء اللہ اور اس کے فضل سے زیادہ آمد ہوگی اور جن کاموں کے لئے اس فاؤنڈیشن کو جاری کیا گیا ہے ان پر جلد سے جلد توجہ کی جاسکے گی اور ان کے اچھے نتائج نکلنے شروع ہو جا ئیں گے.آخر میں دوستوں کو پھر دعاؤں کی تحریک کرتا ہوں میں تو اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ وہ ساری جماعت کو دشمن اور حاسد کے ہر شر سے محفوظ رکھے اور اپنے فرشتوں کی پناہ میں رکھے کیونکہ انسان بڑا ہی کمزور ہے پل بھر کا پتہ نہیں ہوتا جب تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت نہ ہو جب تک وہ اپنی امان میں کسی کو نہ لے لے اس وقت تک دشمن کا ہر وار کامیاب ہوسکتا ہے لیکن اگر اور جب اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہے تو معجزانہ طور پر اس وجود کی یا اس جماعت کی حفاظت کی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بشارتیں دی ہیں کہ اس جماعت کو غلبہ اسلام کے لئے قائم کیا گیا ہے جس کے یہ معنی بھی ہیں کہ جب تک یہ جماعت اپنے مقصد کو حاصل نہ کر لے اور تمام دنیا میں اسلام کو غالب نہ کر لے اور تمام ادیانِ باطلہ کو اسلام کے دلائل

Page 948

خطبات ناصر جلد اول ۹۳۲ خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۶۷ء سے شکست نہ دے لے اس وقت تک یہ جماعت اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور پناہ میں ہے دنیا کی کوئی طاقت یا دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی جماعت احمدیہ کو مٹا نہیں سکتیں.اسلام تو غالب ہو کر رہے گا اور ہم دعا کرتے ہیں اور ہماری انتہائی خواہش ہے کہ جب اسلام دنیا میں غالب آ جائے پھر بھی یہ جماعت اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہے اور قیامت تک شیطان کے حملوں سے یہ محفوظ رہے یہاں تک کہ وہ زمانہ آجائے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انسان پھر اپنے رب کو بھول جائے گا اور یر زمین اور اس پر بسنے والے مٹادئے جائیں گے اور قیامت آجائے گی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت نے ہی دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے.اب اسلام کا کوئی ایسا سپہ سالار دنیا میں پیدا نہیں ہو گا جو یہ کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ختم ہو گیا ہے اور اس کا زمانہ اب شروع ہوا ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور آپ کی تحریرات اس مسئلہ کے متعلق بڑی واضح ہیں.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جماعت نے ہی اسلام کی وہ انتہائی خدمت کرنی ہے اور اسلام کے لئے ان انتہائی قربانیوں کو دینا ہے اور اسلام کی خاطر اس انتہائی جاں نثاری کا نمونہ پیش کرنا ہے جس کے نتیجہ میں اسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں غالب آنا ہے تو یہ جماعت بحیثیت جماعت یقیناً اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی امان میں ہے لیکن ہم میں سے ہر ایک کو اپنے لئے بھی اور جماعت کے لئے بھی یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری کسی کمزوری یا غفلت یا خود پسندی کی وجہ سے یا کسی حصہ جماعت کو ان کی کسی کمزوری یا غفلت کی وجہ سے اپنی حفاظت اور امان سے باہر نہ نکال دے.پس مومن کا کام ہے کہ وہ ہر وقت اپنے رب سے ڈرتا بھی رہے اور اس کی رحمت پر پوری امید بھی رکھے اور اس کی ذات پر کامل تو کل بھی رکھے.پس میں بھی دعا کرتا ہوں آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفاظت اور اپنی امان میں رکھے اور جو شر اور ابتلا یا بلا مقدر ہو تو جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے کہ انذار کی باتیں صدقہ و خیرات اور دعا سے مل جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس حد تک صدقہ و خیرات اور اس حد تک

Page 949

خطبات ناصر جلد اول ۹۳۳ خطبه جمعه ۱۳/اکتوبر ۱۹۶۷ء دعا کی توفیق عطا کرے کہ اس کے نتیجہ میں وہ شر اور بلا ٹل جائے اور ہمیشہ ٹلتا ر ہے اور ہم اس کی امان میں اس کی رحمت کے سایہ تلے اسلام کا جھنڈا ہاتھ میں لئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں اور وہ دن نزدیک تر آجائے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دنیا کی تمام قومیں درود بھیجنے لگیں.روزنامه الفضل ربوه ۱۸ /اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحه ۱ تا ۴)

Page 950

Page 951

خطبات ناصر جلد اول ۹۳۵ خطبہ جمعہ ۲۰/اکتوبر۱۹۶۷ء انگلستان، یورپ اور دنیا کی دیگر اقوام کے نام امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ خطبه جمعه فرموده ۲۰/اکتوبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.دوست جانتے ہیں کہ سفر یورپ پر جب میں گیا تھا تو لنڈن میں وانڈ زورتھ ہال میں میں نے انگریزی میں ایک مضمون پڑھا تھا جس میں انگلستان اور یورپ کے رہنے والوں بلکہ ساری دنیا کی اقوام کو مخاطب کر کے انہیں اس طرف دعوت دی تھی کہ اگر وہ اپنے رب ، اپنے خالق کی طرف رجوع نہیں کریں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سایہ تلے جمع نہ ہوں گے تو ایک نہایت ہی عظیم تباہی ان کے لئے مقدر ہو چکی ہے جو قیامت کا نمونہ ہوگی.میرا یہ یہ مضمون تبلیغ کے لحاظ سے بڑا ہی مفید ثابت ہو رہا ہے جو محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے جب ہمارے گورنر جنرل گیمبیا نے یہ مضمون ریویو آف ریلیجنز میں پڑھا تو انہوں نے مزید کا پیوں کی خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنے دوستوں کو بھی یہ مضمون پڑھانا چاہتے ہیں.کل ہی امام کمال یوسف کا ڈنمارک سے خط آیا ہے کہ افسوس ہے کہ ابھی تک اس مضمون کا ترجمہ ڈینش زبان میں نہیں ہو سکا لیکن ہر اس شخص نے جس کو ہم نے یہ مضمون پڑھایا ہے احمدی تھے یا غیر احمدی یا زیر تبلیغ عیسائی ہر ایک نے یہ مضمون پڑھنے کے بعد اس بات پر زور دیا ہے کہ اس مضمون کا جلد ترجمہ ہونا چاہیے ڈینش زبان میں اور وسیع اشاعت ہونی چاہیے.

Page 952

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۳۶ خطبه جمعه ۲۰ را کتوبر ۱۹۶۷ء میرے اس پیغام کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ پر بھی جس کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے اسلام کے خدا کی حقیقی شناخت کی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانوں کی معرفت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو پہچاننے کی اس پر بھی اس دعوت کے نتیجہ میں ذمہ داریاں پہلے سے بڑھ گئی ہیں کیونکہ جب ہم ان اقوام کو جو د نیوی علوم میں بہت بلند یاں حاصل کر چکی ہیں اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں اور انہیں جھنجھوڑتے ہیں اور انہیں یہ بتاتے ہیں کہ اسلام لے آؤ اسلام کے اللہ کی شناخت کرو اس کی طرف رجوع کرو اس کی محبت اپنے دل میں پیدا کرو تو اگر وہ ہماری بات مان لیں اور کہیں کہ اچھا ہم اسلام کو سمجھنے کے لئے تیار ہیں آؤ اور ہمیں اسلام سمجھاؤ تو اس وقت ہمارے پاس اتنے آدمی مرد و عورت جوان بوڑھے ہونے چاہئیں کہ اس مطالبہ کو پورا کر سکیں.اب جب ہم نے جھنجھوڑ کے ان اقوام کو اسلام کی طرف بلایا ہے یہ ذمہ داری ہم پر اور بھی بڑھ گئی.تو ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لئے آج میں وہی مضمون اُردو میں اپنے دوستوں کو یہاں سنانا چاہتا ہوں کیونکہ مجھ پر اثر یہ ہے کہ بہت سے لکھے پڑھے احمدی بھی باقاعدگی کے ساتھ ہماری جماعت کے رسالوں اور اخبارات کو نہیں پڑھتے جب تک جماعت کے ہر فرد کو یہ علم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے کس قدر احسان اور کس رنگ میں جماعت پر ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ کا شکر دل میں پیدا نہیں ہوسکتا اور جب تک جماعت کے ہر فرد کو یہ پتہ نہ ہو کہ جماعت کو اللہ تعالیٰ کس طرف لے جا رہا ہے اور جماعت سے کیا کام لینا چاہتا ہے اس وقت تک اس کام کی ادائیگی کی ذمہ داری کا احساس ان کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتا.اس لئے یہ احساس پیدا کرنے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ میں نے کس رنگ میں اور کن الفاظ میں ان اقوام کو مخاطب کیا ہے.اس مضمون کو آپ کے سامنے پڑھنا چاہتا ہوں اس کے مخاطب جیسا کہ میں نے کہا ہے وہ اقوام ہیں جو د ہر یہ ہیں یا عیسائی ہیں یا لا مذہب ہیں میں نے ان اقوام کو مندرجہ ذیل الفاظ میں مخاطب کیا تھا :.امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.احمد یہ جماعت کے امام کی حیثیت میں مجھے ایک روحانی مقام پر فائز ہونے کی عزت

Page 953

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۳۷ خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۶۷ء حاصل ہے.اس حیثیت میں مجھ پر بعض ایسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کو میں آخری سانس تک نظر انداز نہیں کر سکتا میری ان ذمہ داریوں کا دائرہ تمام بنی نوع انسان تک وسیع ہے اور اس عقد اخوت کے اعتبار سے مجھے ہر انسان سے پیار ہے.احباب کرام! انسانیت اس وقت ایک خطر ناک تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے اس سلسلہ میں میں آپ کے لئے اور اپنے تمام بھائیوں کے لئے ایک اہم پیغام لایا ہوں موقعہ کی مناسبت کے پیش نظر میں اسے مختصر بیان کرنے کی کوشش کروں گا.میرا یہ پیغام امن صلح اور انسانیت کے لئے امید کا پیغام ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ پورے غور کے ساتھ میری ان مختصر باتوں کو سنیں گے اور پھر ایک غیر متعصب دل اور روشن دماغ کے ساتھ ان پر غور کریں گے.میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ۱۸۳۵ء انسانی تاریخ میں ایک نہایت ہی اہم سال تھا کیونکہ اس سال شمالی ہند کے ایک غیر معروف اور گمنام گاؤں قادیان کے ایک ایسے گھرانہ میں جو ایک وقت تک اس علاقہ کا شاہی گھرانہ رہنے کے باوجود شہزادگی کی سب شان وشوکت کھو بیٹھا تھا ایک ایسے بچے کی پیدائش ہوئی جس کے لئے مقدر تھا کہ وہ نہ صرف روحانی دنیا میں بلکہ مادی دنیا میں بھی ایک انقلاب عظیم پیدا کرے اس بچے کا نام اس کے والدین نے مرزا غلام احمد رکھا اور بعد میں وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے اور مسیح اور مہدی کے خدائی القاب سے مشہور ہوا عَلَيْهِ السَّلَامُ.مگر قبل اس کے کہ میں اس روحانی اور مادی انقلاب عظیم پر روشنی ڈالوں میں آپ کی سوانح حیات نہایت مختصر الفاظ میں پیش کرنا چاہتا ہوں.تاریخی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی پیدائش ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء میں ہوئی اور جس زمانہ میں آپ پیدا ہوئے وہ زمانہ نہایت جہالت کا زمانہ تھا اور لوگوں کی تعلیم کی طرف بہت کم توجہ تھی یہاں تک کہ اگر کسی کے نام کوئی خط آتا تو اسے پڑھوانے کے لئے اسے بہت محنت اور مشقت برداشت کرنی پڑتی اور بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا کہ ایک لمبا عرصہ خط پڑھنے والا کوئی نہ ملتا.

Page 954

خطبات ناصر جلد اول ۹۳۸ خطبه جمعه ۲۰ ا کتوبر ۱۹۶۷ء جہالت کے اس زمانہ میں آپ کے والد نے بعض معمولی پڑھے لکھے اساتذہ آپ کی تعلیم پر مقرر کئے.جنہوں نے آپ کو قرآن کریم پڑھنا سکھایا مگر وہ اس قابل نہ تھے کہ معارف قرآنی اور اسرار روحانی کی ابتدائی تعلیم بھی آپ کو دے سکتے اس کے علاوہ ان اساتذہ نے عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم آپ کو دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو عربی اور فارسی پڑھنی آگئی اس سے زیادہ آپ نے اساتذہ سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی سوائے طب کی بعض کتب کے جو آپ نے اپنے والد سے پڑھیں جو اس زمانہ میں ایک مشہور طبیب تھے.ی تھی وہ کل تعلیم جو آپ نے درسی طور پر حاصل کی اس میں شک نہیں کہ آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اور آپ اپنے والد صاحب کے کتب خانہ کے مطالعہ میں بہت مشغول رہتے تھے لیکن چونکہ اس زمانہ میں علم کی خاص قدر نہ تھی اور آپ کے والد کی خواہش تھی کہ وہ دنیوی کاموں میں اپنے والد کا ہاتھ بٹائیں اور دنیا کمانے اور دنیا میں عزت کے ساتھ رہنے کا ڈھنگ سیکھیں اس لئے آپ کے والد آپ کو کتب کے مطالعہ سے ہمیشہ روکتے رہتے تھے اور فرماتے تھے کہ زیادہ پڑھنے سے تمہاری صحت پر برا اثر پڑے گا.ظاہر ہے کہ اس قدر معمولی تعلیم کا مالک وہ عظیم کام ہر گز نہیں کر سکتا تھا جو اللہ تعالیٰ آپ سے لینا چاہتا تھا اس لئے خدا خود آپ کا معلم اور استاد بنا اور خود اس نے آپ کو معارف قرآنی اور اسرار روحانی اور دنیوی علوم کے بنیادی اصول سکھائے اور اس کے ذہن کو اپنے نور سے منور کیا اور اسے قلم کی بادشاہت اور بیان کا حسن اور شیرینی عطا کی اور اس کے ہاتھ سے بیسیوں بے مثل کتب لکھوائیں اور بیبیوں شیر میں تقاریر کروائیں جو علم اور معرفت کے خزانوں سے بھری ہوئی ہیں.۱۸۳۵ء کا سال اس قدر اہم اور اس سال پیدا ہونے والا بچہ اس قدر عظیم تھا کہ پہلے نوشتوں میں اس کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی اس ضمن میں میں صرف ایک پیشگوئی بتانا چاہتا ہوں اور وہ پیشگوئی حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جو آپ نے اس مولود کے متعلق قریباً تیره صد سال قبل دی تھی اور وہ یہ ہے آپ نے فرمایا :.إِنَّ لِمَهْدِينَا أَيَتَيْنِ لَمْ تَكُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْارْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ

Page 955

خطبات ناصر جلد اول ۹۳۹ خطبه جمعه ۲۰ ا کتوبر ۱۹۶۷ء لاولِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقٍ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ.۶۳ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ امت مسلمہ میں بہت سے جھوٹے دعویدار کھڑے ہوں گے جو یہ دعوی کریں گے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مہدی ہیں حالانکہ وہ مہدی نہ ہوں گے مہدویت کا سچا دعویدار وہ ہوگا جس کی صداقت کے ثبوت کے لئے آسمان دو نشان ظاہر کرے گا یعنی چاند اور سورج اس کی سچائی پر گواہ ٹھہریں گے اس طرح کہ رمضان کے مہینے میں چاند گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات یعنی ۱۳ / ماہ رمضان کو چاند گرہن ہوگا اور اسی رمضان میں سورج گرہن ہونے کے درمیانے دن یعنی ۲۸ / رمضان کو سورج گرہن ہوگا مہینوں میں سے ماہ رمضان کی تعیین اور چاند کے لئے پہلی رات کی تعیین اور سورج کے لئے درمیانے دن کی تعیین غیر معمولی تعیین ہے جو انسانی طاقت اور علم اور فہم سے بالا ہے.چنانچہ جب وقت آیا تو ایک مدعی نے واقعی ظہور کیا اور دعویٰ کیا کہ میں مہدی ہوں اور اس کے دعوئی کے ثبوت کے طور پر دونوں نشان یعنی چاند اور سورج گرہن جس طرح کہ پیشگوئی میں بتائے گئے تھے ظہور میں آئے.پس یہ ایک غیر معمولی اور معجزانہ پیشگوئی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مہدی کے لئے کی تھی اور جیسا کہ واقعات نے ثابت کیا یہ پیشگوئی اپنے وقوعہ سے قریباً تیرہ صد سال قبل کی گئی تھی یہ پیشگوئی انسانی عقل اور قیافہ اور علم سے بالا ہے.پھر یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ وہ عظیم بچہ جو ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوا تھا اس نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر ۱۸۹۱ء میں دنیا میں یہ اعلان کیا کہ وہی موعود مہدی ہے اور اپنے دعوی کی صداقت کے ثبوت کے لئے ہزاروں عقلی اور نقلی دلائل اور آسمانی تائیدات اور اپنی پیشگوئیاں جن میں سے بہت سی اس کے زمانہ میں پوری ہو چکی تھیں اور بہت تھیں جن کے پورا ہونے کا وقت ابھی بعد میں آنے والا تھا دنیا کے سامنے پیش کیں مگر وقت کے علماء نے اس کے دعوئی کو جھٹلایا اور انکار کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی کہ مہدی کے لئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی معینہ تاریخوں میں چاند اور سورج کا گرہن بطور علامت کے بیان کیا تھا چونکہ اس پیشگوئی کے مطابق چاند اور

Page 956

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۴۰ خطبه جمعه ۲۰ /اکتوبر ۱۹۶۷ء سورج کو گرہن نہیں لگا اس سے ثابت ہوا کہ آپ اپنے دعوئی میں سچے نہیں.لیکن وہ قادر و توانا خدا جو اپنے وعدہ کا سچا اور اپنے مخلص عباد کے ساتھ وفا اور پیار کا سلوک کرنے والا ہے اس نے عین اپنے وعدہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ۱۸۹۴ء کے ماہ رمضان میں معینہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن کی حالت میں کر دیا اور دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا اور ہر دو جہاں کا رب بڑی عظمت اور جلال اور قدرت کا مالک ہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ یہی نشان رمضان ہی کے مہینہ میں اور عین معینہ تاریخوں پر ۱۸۹۵ء میں دوسری دنیا کو دکھایا تا مشرق اور مغرب اور پرانی اور نئی دنیا کے بسنے والے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے روحانی فرزند حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی صداقت کے گواہ ٹھہریں.پس عظیم ہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جس نے اپنے خدا سے علم پا کر یہ معجزانہ پیشگوئی فرمائی اور عظیم ہے آپ کا وہ روحانی فرزند جس کے حق میں وہ پوری ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے زمانہ تک اگر چہ کئی پیدا ہوئے جنہوں نے مہدی ہونے کا دعوی کیا مگر ان میں سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے علاوہ کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کی مہدویت کی صداقت پر چاند اور سورج گواہ بنے ہوں یہ ایک بات ہی اس امر کے لئے کافی ہے کہ آپ ٹھنڈے دل اور گہرے فکر سے اس مدعی کے دعوئی پر غور کریں جس کا پیغام میں آج آپ تک پہنچا رہا ہوں اور جس کی عظمت اور صداقت پر چاند اور سورج بطور گواہ کھڑے ہیں.سورج اور چاند کی شہادت تو میں بیان کر چکا اب آئیے زمین کی آواز سنیں وہ کیا کہتی ہے.حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کی وجہ سے اور آپ کی صداقت کے ثبوت میں زمین پر ایک حیرت انگیز اور محیر العقول مادی اور روحانی انقلاب ہونا مقدر تھا.در حقیقت تمام انقلابات اور تمام تاریخی تغیرات اسی ایک انقلاب کے سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہیں جو آپ کے دنیا میں مبعوث ہونے کے ساتھ شروع ہوا تھا اور جو آپ کی صداقت کے ثبوت کے طور پر بطور گواہ کے ہے مزید برآں یہ سب انقلابات اور انسانی تاریخ کے سب اہم موڑ

Page 957

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۴۱ خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۶۷ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے مطابق ہیں.چند مثالیں میں پیش کرتا ہوں.آپ کے دعوئی کے وقت مہذب اور فاتح مغربی طاقتوں کے مقابلہ میں کسی مشرقی طاقت کا کوئی وجود نہ تھا لیکن ۱۹۰۴ء میں آپ نے دنیا کو یہ بتایا کہ عنقریب مہذب اور فاتح مغربی طاقتوں کے رقیب کی حیثیت میں دنیا کے افق پر ایسی مشرقی طاقتیں اُبھرنے والی ہیں جن کی طاقت کا لوہا مغربی طاقتوں کو بھی ماننا پڑے گا چنانچہ جلد ہی اس کے بعد جنگ روس و جاپان میں جاپان نے فتح پائی اور وہ ایک مشرقی طاقت کے طور پر افق دنیا پر نمودار ہوا.پھر دوسری جنگ عظیم میں جب جاپان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو چین ایک مشرقی طاقت کی حیثیت میں اُفق دنیا پر اپنی پوری مشرقیت اور طاقت کے ساتھ نمودار ہوا اور انسانی تاریخ میں ان ہر دو طاقتوں کے عروج کے ساتھ ایک نیا موڑ آیا جن کے اثرات انسانی تاریخ میں اتنے وسیع اور اہم ہیں کہ کوئی شخص ان سے انکار نہیں کر سکتا اور یہ جو کچھ ہوا الہی منشا اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہوا.ہمارے زمانے کا دوسرا اہم واقعہ جس سے قریباً ساری دنیا کسی نہ کسی رنگ میں متاثر ہوئی ہے زار روس اور شاہی نظام کی کامل تباہی اور بربادی اور کمیونزم کا برسر اقتدار آنا ہے.روسی انقلاب کا عظیم سانحہ جس نے دنیا کی تاریخ کا رخ ایک خاص سمت موڑ دیا ہے بھی آپ کی پیشگوئی کے عین مطابق منصہ ظہور میں آیا آپ نے ۱۹۰۵ء میں زار روس اور شاہی خاندان اور شہنشاہیت کی کامل تباہی اور زبوں حالی کی خبر دی تھی اور یہ حیرت انگیز اتفاق ہے کہ اسی سال اس پیشگوئی کے چند ماہ بعد ہی وہ سیاسی پارٹی معرض وجود میں آئی جو قریب بارہ تیرہ سال بعد شاہی خاندان اور شاہی نظام حکومت کی تباہی کا باعث بنی اور اس کے بعد کمیونزم پہلے روس میں اور پھر دنیا کے دیگر مقامات میں برسر اقتدار آیا یہ ایک ایسی کھلی ہوئی بات ہے جس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.زار روس کی تباہی اور کمیونزم کا غلبہ اور اقتدار تاریخ انسانیت کا نہایت دکھ دوہ المیہ اور اہم ترین واقعہ ہے جس کے پڑھنے سے گو دل میں درد تو پیدا ہوتا ہے لیکن اسے نظر انداز کرناممکن نہیں دنیا کا کوئی ملک بھی بشمول آپ کے ملک کے اس کے اثر سے بچ نہیں سکا لیکن ہمارے لئے ان

Page 958

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۴۲ خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۶۷ء تبدیلیوں پر حیران ہونے یا تشویش کرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ ان تغیرات کی سمت رفتار اور شدت کے بارے میں ہمیں مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے ہی خبریں دے دی تھیں اور آئندہ اپنے وقت پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ کس طرح یہ تغیرات خدائی ارادے کی تکمیل میں ممد ہوئے.ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ میں دو طاقتیں ایسی ابھریں گی کہ دنیا ان میں بٹ جائے گی اور کوئی اور طاقت ان کا مقابلہ نہ کر سکے گی پھر وہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ کر کے اپنی تباہی کا سامان پیدا کریں گی لیکن صرف اس ایک جنگ کے بارے میں ہی پیشگوئی نہیں تھی بلکہ بانی سلسلہ احمدیہ نے پانچ عالمگیر تباہیوں کی خبر دی ہے.پہلی جنگ عظیم کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ دنیا سخت گھبرا جائے گی مسافروں کے لئے وہ وقت سخت تکلیف کا ہو گا ندیاں خون سے سرخ ہو جائیں گی یہ آفت یک دم اور اچانک آئے گی اس صدمہ سے جوان بوڑھے ہو جائیں گے پہاڑ اپنی جگہوں سے اُڑا دیئے جائیں گے بہت سے لوگ اس تباہی کی ہولناکیوں سے دیوانے ہو جائیں گے یہی زمانہ زار روس کی تباہی کا ہوگا اس زمانے میں کمیونزم کا بیچ دنیا میں بویا جائے گا جنگی بیڑے تیار رکھے جائیں گے اور خطرناک سمندری لڑائیاں لڑی جائیں گی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جائے گا شہر قبرستان بن جائیں گے.اس تباہی کے بعد ایک اور عالمگیر تباہی آئے گی جو اس سے وسیع پیمانے پر ہوگی اور زیادہ خوفناک نتائج کی حامل ہوگی وہ دنیا کا نقشہ ایک دفعہ پھر بدل دے گی اور قوموں کے مقدر کونئی شکل دے دے گی کمیونزم بہت زیادہ قوت حاصل کر لے گی اور اپنی مرضی منوانے کی طاقت اس میں پیدا ہو جائے گی اور وہ وسیع وعریض رقبہ پر چھا جائیگی.چنانچہ ایسا ہی ہوا مشرقی یورپ کے بہت سے حصے کمیونسٹ ہو گئے اور چین کے ستر کروڑ باشندے بھی اسی راستے پر چل پڑے اور ایشیا اور افریقہ کی ابھرتی ہوئی قوموں میں کمیونزم کا اثر ونفوذ بہت بڑھ گیا ہے دنیا دو متحارب گروہوں میں منقسم ہو گئی ہے جن میں سے ہر ایک جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس اور اس بات کے لئے تیار ہے کہ انسانیت کو موت وتباہی کی بھڑکتی ہوئی جہنم میں دھکیل دے.

Page 959

خطبات ناصر جلد اول ۹۴۳ خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۶۷ء پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تیسری جنگ کی بھی خبر دی ہے جو پہلی دونوں جنگوں سے زیادہ تباہ کن ہوگی دونوں مخالف گروہ ایسے اچانک طور پر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کہ ہر شخص دم بخودرہ جائے گا آسمان سے موت اور تباہی کی بارش ہوگی اور خوفناک شعلے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے نئی تہذیب کا قصر عظیم زمین پر آرہے گا دونوں متحارب گروہ یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اس کے دوست ہر دو تباہ ہو جا ئیں گے ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی ان کی تہذیب و ثقافت بر باد اور ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا.بیچ رہنے والے حیرت اور استعجاب سے دم بخو د اور ششدر رہ جائیں گے.روس کے باشندے نسبتاً جلد اس تباہی سے نجات پائیں گے اور بڑی وضاحت سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اس ملک کی آبادی پھر جلد ہی بڑھ جائے گی اور وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کریں گے اور ان میں کثرت سے اسلام پھیلے گا اور وہ قوم جو زمین سے خدا کا نام اور آسمان سے اس کا وجود مٹانے کی شیخیاں بھگار رہی ہے وہی قوم اپنی گمراہی کو جان لے گی اور حلقہ بگوش اسلام ہو کر اللہ تعالیٰ کی توحید پر پختگی سے قائم ہو جائے گی.شاید آپ اسے ایک افسانہ سمجھیں مگر وہ جو اس تیسری عالمگیر تباہی سے بچ نکلیں گے اور زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں اور اس قادر و توانا کی باتیں ہمیشہ پوری ہی ہوتی ہیں کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی.پس تیسری عالمگیر تباہی کی انتہاء اسلام کے عالمگیر غلبہ اور اقتدار کی ابتداء ہوگی اور اس کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ اسلام ساری دنیا میں پھیلنا شروع ہو گا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیں گے اور یہ جان لیں گے کہ صرف اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے اور یہ کہ انسان کی نجات صرف محمد رسول اللہ کے پیغام کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے.اب ظاہر ہے کہ پہلے جاپان اور چین کا پیشگوئی کے مطابق مشرقی طاقت کے رنگ میں افق پر اُبھر نا روس کے شاہی خاندان اور شاہی نظام کی تباہی اس کی بجائے کمیونزم کا قیام اور سیاسی اقتدار اور پھر دنیا میں اس کا نفوذ بڑھنا.پہلی عالمگیر جنگ جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور پھر

Page 960

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۴۴ خطبه جمعه ۲۰ ا کتوبر ۱۹۶۷ء دوسری عالمگیر جنگ جس نے دوبارہ دنیا کا نقشہ بدل دیا ایسے اہم واقعات ہیں جو تاریخ انسانیت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں.یہ سب واقعات اسی طرح ظہور میں آئے جس طرح کہ ان کی پہلے سے خبر دی گئی تھی.یا درکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مقصد کو پورا کر کے ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء کو اپنے خدا کے حضور حاضر ہو گئے ان تمام پیشگوئیوں کی اس سے قبل ہی وسیع پیمانے پر اشاعت ہو چکی تھی اس لئے یہ بات یقینی ہے کہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کے متعلق جو پیش خبریاں دی گئیں اور نبوت کی گئی ہے وہ بھی ضرور اپنے وقت پر پوری ہوں گی کیونکہ یہ پیش خبر یاں ایک ہی سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہیں.یہ بھی یادر ہے کہ اسلام کے غلبہ اور اسلامی صبح صادق کے طلوع کے آثار ظاہر ہورہے ہیں گو ابھی دھندلے ہیں لیکن اب بھی ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے.اسلام کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوگا اور دنیا کو منور کرے گا لیکن پہلے اس سے کہ یہ واقع ہوضروری ہے کہ دنیا ایک اور عالمگیر تباہی میں سے گذرے ایک ایسی خونی تباہی جو بنی نوع انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی ہے اور انذاری پیشگوئیاں تو بہ اور استغفار سے التواء میں ڈالی جاسکتی ہیں بلکہ ٹل بھی سکتی ہیں اگر انسان اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور تو بہ کرے اور اپنے اطوار درست کر لے.وہ اب بھی خدائی غضب سے بچ سکتا ہے اگر وہ دولت اور طاقت اور عظمت کے جھوٹے خداؤں کی پرستش چھوڑ دے اور اپنے رب سے حقیقی تعلق قائم کرے فسق و فجور سے باز آ جائے.حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے لگے اور بنی نوع انسان کی سچی خیر خواہی اختیار کر لے مگر اس کا انحصار تو ان قوموں پر ہے جو اس وقت طاقت اور دولت اور قومی عظمت کے نشہ میں مست ہیں کہ آیا وہ اس مستی کو چھوڑ کر روحانی لذت اور سرور کے خواہاں ہیں یا نہیں؟ اگر دنیا نے دنیا کی مستیاں اور خرمستیاں نہ چھوڑیں تو پھر یہ انذاری پیشگوئیاں ضرور پوری ہوں گی اور دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی مصنوعی خدا دنیا کو موعودہ ہولناک تباہیوں سے بچا نہ سکے گا.پس اپنے پر اور

Page 961

خطبات ناصر جلد اول ۹۴۵ خطبه جمعه ۲۰ ا کتوبر ۱۹۶۷ء اپنی نسلوں پر رحم کریں اور خدائے رحیم و کریم کی آواز کو سنیں اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور صداقت کو قبول کرنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا کرے.اب میں مختصراً اس روحانی انقلاب کا ذکر کرتا ہوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ دنیا میں رونما ہونا تھا مگر یہ نہ بھولنا چاہیے کہ آپ کی بعثت کے زمانہ میں اسلام انتہائی کسمپرسی اور تنزل کی حالت میں تھا علم مسلمان کے پاس نہ تھا دولت سے وہ محروم تھے صنعت وحرفت میں ان کا کوئی مقام نہ تھا تجارت ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی سیاسی اقتدار وہ کھو چکے تھے اور حقیقی معنی میں تو دنیا کے کسی حصہ میں وہ صاحب اختیار حاکم نہ رہے تھے.اخلاقی حالت بھی ابتر تھی اور شکست خوردہ ذہنیت ان میں پیدا ہو چکی تھی اور پھر اُبھر نے اور زندہ قوموں کی صف میں کھڑے ہونے کی کوئی امنگ باقی نہ رہی تھی.اسلام کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ دنیا کی سب طاقتیں اسلام پر حملہ آور ہو رہی تھیں اور اسلام کو سر چھپانے کے لئے کہیں جگہ نہ مل رہی تھی عیسائیت سب میں پیش پیش تھی اور اسلام کی سب سے بڑی دشمن عیسائی ، مناد کثرت سے دنیا میں پھیل گئے تھے عیسائی دنیا کی دولت اور سیاسی اقتدار ان مناد کی مدد کو ہر وقت تیار تھا اور ان کا پہلا اور بھر پوروا را سلام کے خلاف تھا اسے اپنی فتح کا اتنا یقین تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دنیا میں اعلان کیا گیا کہ ا.براعظم افریقہ عیسائیت کی جیب میں ہے.۲.ہندوستان میں دیکھنے کو بھی مسلمان نہ ملے گا اور وقت آگیا ہے کہ مکہ معظمہ پر عیسائیت کا جھنڈا لہرائے گا.حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کی اپنی حالت یہ تھی کہ ابھی گنتی کے چند غریب مسلمان آپ کے گرد جمع ہوئے تھے کوئی جتھہ کوئی دولت کو ئی سیاسی اقتدار آپ کے پاس نہ تھا مگر وہ جس کے قبضہ قدرت میں ہر شے ہے آپ کے ساتھ تھا اور اسی خدا نے آپ سے یہ کہا کہ دنیا میں یہ منادی کر دو کہ اسلام کی تازگی کے دن آگئے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب اسلام تمام ادیانِ عالم پر اپنے دلائل اور اپنی روحانی تا شیروں کی رو سے غالب آئے گا.

Page 962

خطبات ناصر جلد اول ۹۴۶ خطبه جمعه ۲۰ ا کتوبر ۱۹۶۷ء آگے چلنے سے قبل ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے اور ہم تمام مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح ناصری علیہ السلام خدا کے ایک برگزیدہ نبی تھے اور ان کی والدہ بھی نیکی میں ایک پاک نمونہ تھیں قرآن کریم نے ان دونوں کا ذکر عزت سے کیا ہے مریم علیہا السلام کو تو قرآن کریم نے پاکیزگی کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے اور قرآن کریم میں آپ کا ذکر انجیل کی نسبت زیادہ عزت کے ساتھ کیا گیا ہے لیکن قرآن کریم ان دونوں کو معبود ماننے کے کلیسیائی عقیدے کی سختی سے تردید فرماتا ہے.یہ بات اور عیسائی کلیسیا کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت سے انکار دو ایسے امور ہیں جو اسلام اور عیسائیت کے بنیادی اور اصولی اختلاف ہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے اس سے بڑھ کر اور کون سادلی درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مشت خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر توانا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا خدا قادر فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں.سو اب اس نے چاہا ہے کہ ان دونو کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو موت کا مزہ چکھا وے سواب دو نو مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہو گا اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے تو بہ کا دروازہ بند ہوگا.کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں

Page 963

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۴۷ خطبه جمعه ۲۰ ا کتوبر ۱۹۶۷ء قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نورا تارنے سے تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی“.۶۴ ان زبر دست پیشگوئیوں کے بعد تو دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا افریقہ کا وسیع براعظم عیسائیت کے جھنڈے تلے جمع ہونے کی بجائے اسلام کے خنک اور سرور بخش سایہ تلے جمع ہو رہا ہے ہندوستان میں یہ حالت ہے کہ احمدی نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے بھی بڑے بڑے پادری گھبراتے ہیں اور مکہ پر عیسائیت کا جھنڈا لہرانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا اور نہ کبھی ہوگا (انشاء اللہ ).غلبہ اسلام کے متعلق جو بشارتیں دی گئی تھیں ان کے پورا ہونے کے آثار ظاہر ہورہے ہیں مگر جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ایک تیسری عالمگیر تباہی کی بھی خبر دی گئی ہے جس کے بعد اسلام پوری شان کے ساتھ دنیا پر غالب ہو گا مگر یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ تو بہ اور اسلام کی بتائی ہوئی را ہیں اختیار کرنے سے یہ تباہی مل بھی سکتی ہے اب یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ اپنے خدا کی معرفت حاصل کر کے اور اس کے ساتھ سچا تعلق پیدا کر کے خود کواورا اپنی نسلوں کو اس تباہی سے بچا لیں یا اس سے دوری کی راہیں اختیار کر کے خود کو اور اپنی نسلوں کو ہلاکت میں ڈالیں.ڈرانے والے عظیم انسان نے خدا اور محمدؐ کے نام پر (مندرجہ ذیل الفاظ میں ) آپ کو ڈرایا ہے اور اپنا فرض پورا کر دیا ہے.میری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو اپنا فرض پورا کرنے کی توفیق دے میں اپنی تقریر اس عظیم شخص کے اپنے الفاظ پر ختم کرتا ہوں.,, یادر ہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقینا سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے

Page 964

خطبات ناصر جلد اول ۹۴۸ خطبه جمعه ۲۰ ا کتوبر ۱۹۶۷ء مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدرموت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تبا ہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیروز بر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین و آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں ان کا پتہ نہیں ملے گا تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہو گا کہ یہ کیا ہونے والا ہے اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے.یہ اس لئے که نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں.اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا.(بنی اسراءیل : ۱۶) اور تو بہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں ان پر رحم کیا جائے گا کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں.انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہو گا.یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ

Page 965

خطبات ناصر جلد اول ۹۴۹ خطبه جمعه ۲۰/اکتوبر ۱۹۶۷ء ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آ جائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - یہ پیغام ختم ہونے کے بعد حضور نے فرمایا:.پس ان الفاظ میں میں نے دنیا کی اقوام کو مخاطب کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ ان الفاظ پر غور کریں اور پیشگوئیوں کو مد نظر رکھیں تو آپ کے دل میں احساس پیدا ہوگا کہ اب آپ کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ کر ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں انہیں سمجھنے اور نباہنے کی توفیق بخشے.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۲۶ /اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحه ۲ تا ۸) 谢谢谢

Page 966

Page 967

خطبات ناصر جلد اول ۹۵۱ خطبہ جمعہ ۲۷/اکتوبر ۱۹۶۷ء اللہ تعالی محض اپنے فضل سے بیرونی ممالک میں غلبہ اسلام کی نئی نئی راہیں کھول رہا ہے خطبه جمعه فرموده ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرنا چاہتا ہوں یہ آنے والا سال تحریک جدید کا چونتیسواں سال ہوگا.دفتر اول کے لحاظ سے اور چوبیسواں سال ہوگا دفتر دوم کے لحاظ سے اور تیسرا سال ہوگا دفتر سوم کے لحاظ سے.میں نے اپنے سفر کے دوران جہاں یہ مشاہدہ کیا کہ یورپ میں بسنے والی اقوام عیسائیت سے، مذہب سے بے تعلق ہورہی ہیں وہاں میں نے اس ضرورت کا بھی بڑی شدت کے ساتھ احساس کیا کہ یہ وقت انتہائی قربانیاں دے کر اپنے کام میں وسعت پیدا کرنے اور اپنی کوششوں میں تیزی پیدا کرنے کا ہے.عیسائیت سے ان کی بے تعلقی اس بات سے عیاں ہے کہ گلاسگو میں جب ایک صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے ہمارے ملک میں بسنے والوں کو مذہبی لحاظ سے کیسے پایا تو میں نے اسے جواب دیا کہ یہاں کے باشندے عیسائیت میں اب دلچسپی نہیں لے رہے اس پر اس نے سوال کیا کہ آپ نے کس چیز سے یہ استدلال کیا ہے میں اس کے بہت سے جواب دے سکتا تھا لیکن میں وہاں مختصراً جواب دینا چاہتا تھا میں نے انہیں کہا کہ میں نے جس چیز سے استدلال کیا ہے وہ یہ ہے کہ لنڈن میں بہت سے گر جاؤں کے سامنے

Page 968

خطبات ناصر جلد اول ۹۵۲ خطبہ جمعہ ۲۷/اکتوبر ۱۹۶۷ء برائے فروخت کے چوکھٹے لگے ہوئے ہیں اور بہت سے گر جا وہاں بک چکے ہیں جہاں شراب خانے بنا دیئے گئے ہیں بہت سے گر جا وہاں بک چکے ہیں جہاں چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں قائم ہوگئی ہیں یا کوئی اور کاروبار شروع ہو گیا ہے.گر جاؤں کی فروخت اور گر جاؤں کا قابل فروخت ہونا بتاتا ہے کہ آپ کے ملک میں رہنے والے مذہب کی طرف پہلے کی نسبت بہت کم توجہ دے رہے ہیں اس پر اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر گر جا کو مسجد بنا لیا جائے تو اس میں کوئی ہرج تو نہ ہوگا میں نے اسے جواب دیا کہ جہاں تک مسئلے کا سوال ہے میں اس میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا کہ کسی گرجا کو مسجد بنالیا جائے لیکن میں اپنی جماعت کے لئے اسے پسند نہیں کرتا اس لئے کہ ایسا کرنے کے نتیجہ میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں پیسے دے گا اور ہم آپ کے ملک میں مساجد خود تعمیر کریں گے ستے گرجے خرید کے انہیں مسجدوں میں تعمیر نہیں کریں گے اور بھی بہت سی باتیں مشاہدہ میں آئیں جن سے میں نے نتیجہ نکالا کہ یورپ کی عیسائی دنیا عیسائیت سے نہ صرف بے تعلق ہو چکی ہے بلکہ متنفر بھی ہو چکی ہے اور اس حد تک وہ گندگی میں مبتلا ہو چکی ہے کہ خود حضرت مسیح ناصری علیہ السلام پر بڑی جرات اور دلیری کے ساتھ اس قسم کے ظالمانہ الزام لگا رہی ہے کہ جن کا زبان پر لانا بھی ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ ہم ان کو خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ نبی مانتے ہیں لیکن اب وہ جس گندگی میں مبتلا ہیں انہوں نے یہاں تک کہ ان کے پادریوں نے بھی علی الاعلان یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی (نعوذ باللہ ) اسی گندگی میں مبتلا تھے اور گندے اخلاق ان میں پائے جاتے تھے.پس وہ تختی محبت کی جو ان کے دلوں میں صدیوں سے قائم کی گئی اور قائم رکھی گئی تھی اور اس محبت کو اس انتہاء تک پہنچا دیا گیا تھا کہ ان کے ماننے والے انہیں خدا، خدا کا بیٹا ماننے لگ گئے تھے وہ تختی تو اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے صاف کر دی اور یہ تو میں عیسائیت کو عملاً بھی اور عقید تا کبھی چھوڑ چکی ہیں صرف ایک نام باقی رہ گیا ہے اب تو شاید وہ نام سے بھی انکار کرنا شروع کر دیں.ان حالات میں میں نے سوچا کہ جماعت احمدیہ پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے

Page 969

خطبات ناصر جلد اول ۹۵۳ خطبہ جمعہ ۲۷/اکتوبر ۱۹۶۷ء کہ وہ قو میں جنہیں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے شیطانی خیالات سے ہمارے لئے آزاد کیا ہے.کیا ہم ان تک پہنچ کر اسلام کی حسین تعلیم ان کے دلوں میں بٹھانے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں اور اس کوشش اور جدو جہد کے لئے ان ذمہ داریوں کو ہم نبھاتے ہیں یا نہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کی ہیں اور وہ قربانیاں ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کے لئے تیار ہیں یا نہیں جو آج کی اسلامی ضرورت کا تقاضا ہے.تو جیسا کہ میں نے ان قوموں کو ان الفاظ میں انذار کیا تھا کہ پیشگوئیوں کے مطابق اگلے پچیس تیس سال تمہارے لئے بہت نازک ہیں اگر تم اپنے اللہ کی طرف ، اپنے رب کی طرف رجوع نہیں کرو گے تو جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے تمہاری قو میں تباہ ہو جائیں گی اور اس دنیا سے مٹادی جائیں گی ویسا ہی ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم آج کی ضرورت کو سمجھنے لگیں یہ پچیس تیس سال ہمارے لئے بھی بڑے اہم ہیں کیونکہ ایک موقع اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے ان ممالک میں اسلام کو پھیلانے اور اسلام کو غالب کرنے کا اگر ہم اپنی سستیوں کے نتیجہ میں اس موقع کو گنوا دیں گے تو ایک تو شاید ( خدا نہ کرے ) غلبہ اسلام میں التواء ہو جائے غالب تو ہو گا اسلام کیونکہ خدا کا وعدہ ہے یہ ضرور پورا ہوگا لیکن ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کے نتیجہ میں التواء کا خطرہ ضرور موجود ہے.تو ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے اور اپنے کاموں میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہمیں بین الاقوامی بلند سطح پر سوچنا چاہیے اسلام کے لئے اپنے اللہ کے لئے کہ اس کی محبت اور توحید کو ہم کس طرح دنیا میں قائم کر سکتے ہیں.یہ کام حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کے ذریعہ لینا شروع کیا تھا.تحریک جدید جب شروع ہوئی تو اس کا ایک ہی دفتر تھا جماعت کو اس وقت اللہ تعالیٰ نے بڑی توفیق دی جتنی مالی قربانی کا مطالبہ تھا اس سے قریباً چار گنا زیادہ مال پہلے سال خدا تعالیٰ کے ان بندوں نے اپنے امام کو پیش کر دیا تھا دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے پھر ضرورتیں بڑھتی چلی گئیں نئی نئی جگہوں پر مبلغ بھیجنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اس کے لئے آدمی تیار کرنے ہوتے تھے خرچ برداشت کرنا پڑتا تھا تب وہاں جا کر تبلیغ کا کام شروع کر سکتے تھے اور جماعت کے مخلصین نے ضرورت کے مطابق مالی قربانیاں دیں اور بہت حد تک شروع میں تو شاید جتنی

Page 970

خطبات ناصر جلد اول ۹۵۴ خطبہ جمعہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۷ء ضرورت تھی اس حد تک مالی قربانی دی اور تحریک جدید کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے ملکوں میں تبلیغی مشن قائم کر دیئے لیکن جوں جوں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہم پر نازل ہوتی رہی ہماری ضرورتیں بڑھتی چلی گئیں.نئے سے نئے میدان کامیابیوں کے ہمارے سامنے کھلتے رہے اور ان میدانوں کو فتح کرنا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا شکر ادا کرنا جو ہمارا فرض تھا وہ ہم نے اس زمانہ میں ادا کیا.اس وقت جماعت نے جو قربانیاں دیں اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرے بہت سے ہیں جنہوں نے قربانیاں دیں وہ اس جہاں سے رخصت ہو چکے ہیں جیسا کہ میں ابھی آگے بتاؤں گا اللہ تعالیٰ مغفرت کی چادر میں لپیٹ کے رضا کی جنت میں انہیں ہر طرح خوش رکھے اور اپنی ان رحمتوں میں انہیں شریک کرے جو بے شمار رنگ میں ہر آن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کر رہا ہے کیونکہ یہ لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے غلاموں میں سے ہیں.لیکن ہماری مالی قربانیوں کی رفتار اتنی نہیں رہی جتنی کہ ہماری ضرورتوں کے بڑھنے کی رفتار تھی اس وقت جو نقشہ میں آپ کے سامنے تحریک جدید کی مالی قربانیوں کا رکھوں گا اس سے آپ کو یہ بات عیاں ہو جائے گی میں نے سات سات سال کے بعد کے اعداد وشمار دفتر سے حاصل کئے ہیں یعنی جو سال رواں ہے اس سے سات سال پہلے کیا حالات تھے کیا نقشہ تھا چندوں کا، کیا کیفیت تھی پھر اس سے سات سال پہلے کیا کیفیت تھی یعنی اس نقشہ میں دفتر دوم کے چودہ سال ہیں جو ان کی قربانیوں کے سالوں کا قریباً ۲/۳ ہے اور دفتر اول کے چودہ سال ہیں جو ان کے تینتیس سالوں میں سے چودہ سال یعنی ۲٫۵ کے قریب ہے.بہرحال ۵۴.۱۹۵۳ء، ۶۱.۱۹۶۰ ء اور ۶۸.۱۹۶۷ ء کے اعداد و شمار سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کس جہت میں ہماری حرکت ہے اور کیا اگر ہمارا قدم ترقی کی طرف ہے تو اس میں اتنی تیزی پائی جاتی ہے کہ ہماری ضرورتوں کو ہماری رفتار پورا کرنے والی ہو.۱۹۵۳ء میں دفتر اول کا چندہ ۲,۴۶,۰۰۰ تھا اور دفتر دوم کا ۱۰,۰۰۰ ,۱.میزان تھی.۳,۵۶,۰۰۰ ( میں سینکڑوں کو چھوڑتا ہوں ).۱۹۶۰ ء میں دفتر اول کی آمد ۵۳ ء سے گر گئی اور ۲,۴۶,۰۰۰ سے گر کے ٫۸۳,۰۰۰ا پر پہنچ گئی اور پہنچنی چاہیے تھی کیونکہ اس عرصہ میں ہمارے بہت سے بھائی ہم سے جدا ہو گئے.

Page 971

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۵۵ خطبہ جمعہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۷ء دفتر دوم کی آمد ۱۹۶۰ ء میں (۱۹۵۳ء کے مقابلہ میں ) بڑھی اور اسے بڑھنا چاہیے تھا اور ۱۰،۰۰۰ ، ا سے بڑھ کے ۷۲،۰۰۰، ۱ تک پہنچ گئی.۶۸.۱۹۶۷ء میں دفتر اول کی آمد (۱۹۵۳ء کی ۲,۴۶,۰۰۰ کی آمد کے مقابلہ میں اور ۱۹۶۰ ء کی ۱,۸۳,۰۰۰ کی آمد کے مقابلہ میں ) صرف ٫۲۰,۰۰۰ا رہ گئی.اور دفتر دوم کی آمد ۱۹۶۷ء میں (۱۹۵۳ء کی آمد سے جو ۱۰,۰۰۰ را تھی بڑھ کے ) ۲,۳۸,۰۰۰ ہوگئی اور ۱۹۶۰ء کی ۱,۷۳,۰۰۰ کی آمد سے بڑھ کے ۲,۳۸,۰۰۰ ہوگئی.۵۴ - ۱۹۵۳ء میں دفتر اول کی آمد دفتر دوم کے مقابلہ میں ۱,۳۶,۰۰۰ روپیہ زیادہ تھی ۶۱.۱۹۶۰ء میں دفتر اول کی آمد دفتر دوم کی آمد سے صرف ۱۱,۰۰۰ روپیہ زائد تھی اور ۶۸ - ۱۹۶۷ ء میں دفتر اول کی آمد دفتر دوم کی آمد سے ۱,۱۸,۰۰۰ روپیہ کم تھی.جبکہ ۱۹۵۳ء کے بجٹ میں اصل آمد دفتر اول کی دفتر دوم کے مقابلہ میں ۱,۳۶,۰۰۰ روپیہ زیادہ تھی ان اعداد و شمار سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ جوں جوں ہمارے دوست اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے اللہ کے حضور پہنچتے رہے.دوسری نسل اس خلاء کو پر کرتی رہی اور آمد میں انہوں نے کوئی کمی نہیں آنے دی.لیکن ایک اور چیز جو ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ۱۹۵۳ء اور ۱۹۶۰ ء کی کل آمد کا جب ہم مقابلہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی ترقی نہیں ہوئی کیونکہ ۱۹۵۳ء میں دفتر اول اور دفتر دوم کی کل آمد ۳,۵۶,۰۰۰ تھی اور ۱۹۶۰ء میں دفتر اول اور دفتر دوم کی کل آمد ۳,۵۵,۰۰۰.میں نے سینکڑے چھوڑ دیئے ہیں یعنی ۱۹۶۰ء میں ایک ہزار سات سو روپیہ کم آمد تھی (۱۹۵۳ء کے مقابلہ میں.لیکن ایک ہزار کا کوئی ایسا فرق نہیں.ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا قدم نہ آگے بڑھا ان سالوں میں نہ پیچھے ہٹا.۱۹۶۷ ء کے جو اعداد وشمار میں نے بتائے ہیں وہ وعدوں کے نہیں بلکہ اصل آمد کے ہیں یعنی جو آمد اس وقت تک ہو چکی ہے اور ابھی اس سال کی وصولی کا بہت سا حصہ باقی ہے لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی ہے جو اصل آمد اس وقت تک ہو چکی ہے ( مارچ، اپریل تک آمد رہتی ہے ) اس کے لحاظ سے بھی ۱۹۶۷ء میں ہماری آمد ہرسہ دفاتر کی ۳,۵۶,۰۰۰ کے

Page 972

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲۷/اکتوبر ۱۹۶۷ء مقابلہ پر ۳,۷۰,۰۰۰ ہو چکی ہے اور ابھی قریباً ایک لاکھ ساٹھ یا ستر ہزار کے وعدے ایسے ہیں جو قابل وصول ہیں اگر ان میں سے ایک بڑی رقم وصول ہو جائے ہوئی تو سو فیصدی چاہیے لیکن بعض دفعہ کوئی صاحب فوت ہو جاتے ہیں یا نوکری ان کی چھوٹ جاتی ہے یا کوئی ایسی جائز روک پیدا ہو جاتی ہے اور وہ چندہ ادا نہیں کر سکتے تو اگر اس کو مد نظر بھی رکھا جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ رقم جو ہے وہ اصل آمد ۳,۵۵,۰۰۰ سے بڑھ کے جو ۱۹۶۰ء کی آمد ہے قریباً ۵٫۰۰,۰۰۰ روپے تک چلی جائے گی یا اس سے بھی بڑھ جائے گی ( ۵٫۳۵,۰۰۰ کے وعدے ہیں غالباً) جس کا یہ مطلب ہوگا کہ ڈیڑھ لاکھ روپے زیادتی ہوئی لیکن جو عملاً ہمیں ضرورتیں پیش آئی ہیں وہ ڈیڑھ لاکھ روپے سے زیادہ کی تھیں اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا نہ کرتا کہ آپ کی غفلت اور ستی پر پردہ ڈال دے تو ہمارے سارے کام رک جاتے اس لئے کہ اس عرصہ میں بیرون پاکستان میں اتنی مضبوط جماعتیں پیدا ہو گئیں کہ ان میں بہت سی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئیں اور بہت سی ایسی تھیں جنہوں نے بیرون پاکستان مشنز کو امداد دینی شروع کر دی اور اس کے نتیجہ میں ہمارے کام میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ترقی کی طرف ہمارا قدم بڑھتا چلا گیا لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ خوش ہو جائیں کہ ہمیں اب زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں.اس کے معنی تو یہ ہیں کہ جیسے فکر پیدا ہوئی ہے کہ ہم نے غفلت اور سستی دکھائی اور وہ انعامات جو ہمیں ملنے چاہئیں تھے وہ ہمیں نہیں ملے اور دوسروں نے ہمارے ہاتھ سے چھین لئے.اگر ہمیں وہ مل جاتے اور بیرون پاکستان کے بھائی بھی اللہ تعالیٰ کے ان انعامات میں شریک ہوتے تو ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات تھی لیکن ہوا یہ کہ ان کو تو اللہ تعالیٰ نے بڑے انعامات سے نواز الیکن اس کے مقابلہ میں جو انعامات ہمیں ملنے چاہئیں تھے ہمیں نہیں ملے بیرونی ممالک کے اعداد و شمار صحیح تصویر پیش نہیں کرتے کیونکہ اس میں وہ امداد بھی شامل ہے جو حکومتوں کی طرف سے ہمارے سکولوں کو ملتی ہے اور وہ کافی بڑی رقمیں ہیں.مغربی افریقہ میں ہمارے بہت سے سکول ہیں جو امداد لے رہے ہیں یہاں بھی ہمارے کالج اور سکول کو ایڈ ملتی ہے اور وہ ہمارے بجٹ میں شامل ہوتی ہے وہاں چونکہ کثرت سے سکول ہیں حکومت کی طرف سے جو

Page 973

خطبات ناصر جلد اول ۹۵۷ خطبہ جمعہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۷ء امداد ملتی ہے وہ ہمارے بجٹ میں شامل ہو جاتی ہے کل چونکہ دفاتر میں چھٹی تھی تفصیل میں حاصل نہیں کر سکا اس چیز کو بے شک مد نظر رکھیں لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ بیرونِ پاکستان کی آمد ہمارے دلوں میں تشویش پیدا کرنے والی ہے اس لئے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا قدم اس تیزی سے آگے نہیں بڑھا جس تیزی سے ہمارا قدم آگے بڑھنا چاہیے تھا اور اس کے نتیجہ میں ہم اللہ تعالیٰ کے بہت سے ان انعامات سے محروم ہو گئے جو اللہ تعالیٰ ہمیں دینا چاہتا تھا.بیرونی ممالک کا نقشہ یہ ہے ۱۹۵۳ء میں تحریک جدید کی آمد ۴,۲۰,۰۰۰ تھی اس میں سکولوں کو جو امدا دملی شامل ہے.۱۹۶۰ء میں بیرونی ممالک کی آمد ۶۳,۰۰۰, ۱۳ ہے یعنی چار سال میں ۴,۲۰,۰۰۰ سے بڑھ کر ۱۳,۶۳,۰۰۰ روپیہ ہوگئی اور ۶۸.۱۹۶۷ء میں جو سال رواں ہے اس میں بیرونی ممالک کی اصل آمد دفتر بند ہونے کی وجہ سے مل نہیں سکی لیکن جو بجٹ ہے وہ تیس لاکھ بہتر ہزار روپے کا ( ۳۰,۷۲,۰۰۰ روپیہ ( یعنی ۱۳,۶۳,۰۰۰ ۱۹۶۰ء کے بجٹ اور آمد کے مقابلہ میں ۱۹۶۷ ء میں بیرونی ممالک کا بجٹ ۳۰,۰۰,۰۰۰ ( تیس لاکھ ) ہو گیا ہے اور ۱۹۵۳ء میں جو بجٹ صرف ۴,۲۰,۰۰۰ کا تھا.۱۹۶۷ ء میں وہ بجٹ ۳۰,۰۰,۰۰۰ روپیہ کا ہو گیا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان چودہ سالوں میں قریباً ساڑھے سات گنا یعنی قریباً ساڑھے سات سو فی صد ترقی انہوں نے کی ہے.اس کے مقابلہ میں اگر سال رواں کا بجٹ ہم سامنے رکھیں تو ہماری ترقی صرف چالیس فی صدی ہے.ہماری یہ ترقی دگنی بھی نہیں ہے اس کے مقابلہ میں بیرونی ممالک کے بجٹ سے جو اندازہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا فضل کیا ہے کہ ان کی قربانیوں کا مجموعی طور پر جو نقشہ ہمارے سامنے آتا ہے وہ ۱۹۵۳ء اور ۱۹۶۷ ء کے درمیانی چودہ سال میں ساڑھے سات گنا زیادہ ،ساڑھے سات سو فیصدی بڑھ گیا ہے تو جس رفتار سے وہ آگے نکل رہے ہیں اور جس سست رفتار سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں جب ان کا ہم مقابلہ کرتے ہیں تو میرے دل میں تشویش پیدا ہوتی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر مخلص دل میں تشویش پیدا ہوگی.ہماری مالی قربانیاں اپنی جگہ پر کھڑی ہیں جو قربانیاں ہم اس وقت تک دے چکے ہیں اگر

Page 974

خطبات ناصر جلد اول ۹۵۸ خطبہ جمعہ ۱٫۲۷ اکتوبر ۱۹۶۷ء اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک تغیر اور ایک تبدیلی پیدا کرے کہ وہ ہمیں کہنے لگیں کہ آؤ ہمیں اسلام سکھاؤ اور ہم کہیں کہ ہمارے پاس تو آدمی نہیں ہمارے پاس تو پیسہ نہیں ہمارے پاس تو ذرائع نہیں کہ ہم تم تک پہنچیں اور تمہیں اسلام سکھائیں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ساری عمر کام کرتے رہے اور جب پھل لگنے کا وقت آیا تو تھک کے بیٹھ گئے کہ ہم میں اب سکت نہیں کہ اپنی محبت کا پھل جو محض اللہ کے فضل سے ہمیں ملنے والا ہے ہم اسے توڑیں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں.میں نے ابھی بتایا ہے کہ پچیس تیس سال جہاں ان اقوام کے لئے بڑے نازک ہیں ہمارے لئے بھی یہ سال بڑے نازک ہیں.یہ زمانہ ہمارے لئے انتہائی نازک ہے اس لئے کہ اس زمانہ میں ہماری ترقی کے بہت سے دروازے کھل رہے ہیں اور کھلیں گے انشاء اللہ.اگر ہم اپنی غفلت اور سستی کے نتیجہ میں ان دروازوں میں داخل نہ ہوں تو بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو ہم حاصل کریں اللہ تعالیٰ کے غضب کے مورد ہم بن سکتے ہیں.پس خوف کا مقام ہے ہمیں سوچنا چاہیے ہمیں ڈرنا چاہیے بدنتائج سے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے ہمیں ان فضلوں کو دیکھنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ ہم پر کر رہا ہے اور اس فضل کے نتیجہ میں ہماری ترقیات کے نئے سے نئے دروازے اور نئی سے نئی راہیں ہم پر کھول رہا ہے اور اگر ہم یہ کہیں کہ اب ہم سے آگے نہیں بڑھا جا تا تو یا درکھو کہ اسلام کے فدائی آگے تو ضرور بڑھیں گے مگر وہ کوئی اور قوم ہوگی جسے اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا اور وہ ان راہوں پر ان کو چلائے گا مگر میں پوچھتا ہوں آپ کیوں نہیں ؟؟؟ آپ نے جن میں سے بعض نے بس سال تک ان میدانوں میں قربانیاں دیں.جن میں سے بعض نے تئیس سال تک ان میدانوں میں قربانیاں دی ہیں.اب جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کی قربانیوں کو قبول کر کے غیر ممالک میں غلبہ اسلام کے سامان پیدا کر دیئے ہیں اور اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو یہ آواز دیتے ہیں کہ آؤ آگے بڑھو غلبہ اسلام کے سامان پیدا کر دئے گئے ہیں مزید قربانیاں دو تا کہ اسلام کی فتح تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو اور آپ یہ کہیں کہ ہم تھک گئے ہیں اب یہ فتوحات ہماری اگلی نسلیں دیکھ لیں ہم نہیں دیکھنا چاہتے کیا یہ جذبہ

Page 975

خطبات ناصر جلد اول ۹۵۹ خطبہ جمعہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۷ء درست اور معقول ہو گا؟ کیا آپ اسے پسند کریں گے؟ میں نہیں سمجھتا کہ آپ کسی صورت میں بھی اس چیز کو پسند کریں.پس میں اپنے بھائیوں کی خدمت میں بڑے درد کے ساتھ اور بڑے زور کے ساتھ یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں ہم پہ اس رنگ میں نازل کیں کہ ہماری قربانیوں کو قبول کیا آسمان سے فرشتوں کو نازل کیا دلوں سے عیسائیت کو مٹادیا اور ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ اگر ہم اپنی کوششوں کو اور اپنے عملوں کو اور اپنی محنتوں کو اور اپنی تدابیر کو اور اپنی جد و جہد کو اور مجاہدہ کو تیز سے تیز تر کر دیں تو خدا ایسا کر سکتا ہے اور ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہے کہ خدا ایسا کرے کہ ہم زندگیوں میں اسلام کو ساری دنیا میں غالب ہوتا دیکھ لیں.پس قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس دن خرید و فروخت بھی فائدہ نہیں دیتی کسی دوست کی دوستی فائدہ نہیں پہنچاتی کوئی شفاعت کرنے والا پاس نہیں آتا.ایسے آدمی کے پاس نہیں آتا جس نے اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس سے یہ وعدہ کیا ہو کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے لیکن جب دین کی آواز اُٹھے تو وہ کہے کہ دنیا کے دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں دین کی ضرورتوں کو کیسے پورا کریں.ایسے لوگوں کو اس دن نہ کوئی سودا نفع دے سکتا ہے نہ کوئی دوستی نفع پہنچا سکتی ہے نہ کوئی شفاعت کرنے والا انہیں میسر آ سکتا ہے.جیسا کہ بڑی وضاحت سے اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے.اس دن سے قبل اپنے رب کی رضاء کو ڈھونڈتے ہوئے اور اس کو پانے کے لئے ان قربانیوں کو اس کے قدموں پہ جا کر لا رکھو کہ جن کا وہ آج مطالبہ کر رہا ہے.جن کا مطالبہ آج وقت کی ضرورت کر رہی ہے.جن کا مطالبہ آج یورپین اور دوسری دنیا کی اقوام کے حالات کر رہے ہیں اگلے پچیس تیس سال کے اندر ہمیں انتہائی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ان دلوں کو جن میں مسیح علیہ السلام کی محبت ختم ہو چکی ہے اپنے رب کے لئے جیت لیں اور پھر خدا کرے کہ ہمارے سکھانے سےاور بتانے سے انہیں اللہ تعالیٰ کا عرفان اور معرفت حاصل ہو اور ان دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے.تب خدا ہمیں بڑے پیار سے یہ کہے کہ یہ میرے پیارے بندے ہیں جنہوں نے دنیا

Page 976

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۶۰ خطبہ جمعہ ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۶۷ء کی ہر مصیبت اُٹھا کر ہر قربانی دے کر ان اقوام کے دلوں میں میری محبت کو پیدا کیا تھا میں سب سے زیادہ ان سے محبت کروں گا.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۳ /نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۲ تا ۵)

Page 977

خطبات ناصر جلد اول ۹۶۱ خطبہ جمعہ ۳/نومبر ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں اس کے نفوس اور اموال میں برکت ڈالوں گا خطبه جمعه فرموده ۳ / نومبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت اسلام کسمپرسی کی حالت میں تھا اور دنیائے اسلام، اسلام کی ضرورت، اسلام کے نام پر اور غلبہ اسلام کے لئے اپنے اموال قربان کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی تھی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نشاۃ ثانیہ کے سامان پیدا کئے اور آپ کو مخلصین کی ایک جماعت دی گئی جو اپنے نفوس اور اپنے مال کی قربانی خدا کی راہ میں دینے والی تھی اللہ تعالیٰ جب اپنے بندوں سے قربانیاں لیتا ہے تو اس دنیا میں بھی اپنے فضلوں کا انہیں وارث بناتا ہے چنانچہ جب اس زمانہ میں نشاۃ ثانیہ کی ابتدا میں مخلصین کی ایک جماعت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے وقتوں اور اپنی زندگیوں اور اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک وعدہ کیا اور وہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ( جماعت کے متعلق ) کہ میں ان کے نفوس اور ان کے اموال میں برکت ڈالوں گا.آؤ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کس رنگ اور کس شان کے ساتھ پورا ہوا میں اس وقت جماعت احمدیہ کی تاریخ کے پچھتر سالوں پر طائرانہ نگاہ ڈالوں گا.یہ ۱۹۶۷ ء ہے اس میں سے چھتر ہم نکال دیں تو

Page 978

خطبات ناصر جلد اول ۹۶۲ خطبہ جمعہ ۳/نومبر ۱۹۶۷ء ۱۸۹۲ء کا سال بنتا ہے اور جب ہم ۱۸۹۲ ء اور ۱۹۶۷ء کے درمیانہ پچھتر سالہ عرصہ پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور مجموعی ترقی نفوس میں اور اموال میں مشاہدہ کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو قدرت کاملہ کا مالک ہے اپنے بندوں پر کس طرح فضل کرتا ہے.۱۸۹۲ء میں نفوس کے لحاظ سے (۱۸۹۲ء کے صحیح اعداد و شمار تو غالباً ہمارے ریکارڈ میں نہیں کیونکہ ہماری سینسیز مردم شماری) کبھی نہیں ہوئی لیکن ایک عام اندازہ کیا جا سکتا ہے جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء ( میں حاضری جلسه ۳۲۷ تھی) کی حاضری دیکھ کر وغیرہ وغیرہ) کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ یا اگر بہت ہی کھلا اندازہ کیا جائے تو ایک ہزار سے تین ہزار کے درمیان تھی عام اندازے کے مطابق ۱۹۶۷ء کی یہ تعداد اس چھوٹی سی تعداد سے بڑھ کے کم و بیش تیس لاکھ کے قریب ہوگئی ہے.میرے اندازے کے مطابق تیس لاکھ سے کچھ اوپر ہے.اس زیادتی میں دو چیزیں اثر انداز ہوئیں ایک پیدائش دوسرے تبلیغ ہر دو راہوں سے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے نفوس میں برکت ڈالی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا تو یہ فرمائی تھی کہ اک سے ہزار ہو دیں لیکن جب اس تعداد کا جو ۱۹۶۷ء کی ہے.۱۸۹۲ء کی تعداد سے ہم مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے نتیجہ میں عملاً یہ کیا کہ تم اک سے ہزار مانگتے ہو میں ایک سے تین ہزار کرتا ہوں.چنانچہ جب ہم ان دو اعداد و شمار کا آپس میں مقابلہ کرتے ہیں گو (اگر اس وقت ایک ہزار احمدی سمجھے جائیں ) ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو تین ہزار کر دیا ہے اک کو ہزار نہیں اک کو تین ہزار بنا دیا ہے.کیونکہ ۳ ہزار کو ہزار کے ساتھ ضرب دیں، تب یہ موجودہ شکل ہمارے سامنے آتی ہے اور اگر ۱۸۹۲ء میں جماعت کی تعداد تین ہزار سمجھی جائے جو میرے نزدیک بہت زیادہ اندازہ ہے تو پھر بھی اس سے اک سے ہزار ہوویں والی دعا اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی اور پچھتر سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کے نفوس کو ایک ہزار گنا زیادہ کر دیا یہ معمولی زیادتی نہیں حیرت انگیز زیادتی ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرت کا جہاں اظہار ہوتا ہے وہاں عقل کی رسائی نہیں اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت اپنے بندوں پر جلوہ گر

Page 979

خطبہ جمعہ ۳/نومبر ۱۹۶۷ء خطبات ناصر جلد اول ۹۶۳ ہوتی ہے اور تمام اندازوں کو غلط کر کے رکھ دیتی ہے.اگر یہ امید رکھیں اور یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں بھی اس جماعت کو اسی رنگ میں اور اسی حد تک قربانیاں دینے کی توفیق دے گا جس طرح گذشتہ پچھتر سال وہ دیتا رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی اسی رنگ میں ہوتے رہیں گے یہ تعداد اگر اسی نسبت سے بڑھتی رہے تو آج سے پچھتر سال کے بعد تین ارب اور نو ارب کے درمیان ہو جائے گی جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اپنی دعاؤں سے اور اپنی تدبیر سے اور اپنی قربانیوں سے اور اپنی فدائیت اور جاں نثاری سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح جذب کرتے رہیں جس طرح گذشتہ پچھتر سال میں ہم نے جذب کیا تھا تو اگلے پچھتر سال میں اسلام دنیا پر غالب آجائے گا اور نشاۃ ثانیہ کی جو مہم ہے وہ پوری کامیابی کے ساتھ دنیا میں ظاہر تمام ہو جائے گی خدا کرے کہ جماعت کو اسی طرح قربانیاں دینے کی توفیق ملتی رہے.یہ بھی کہا گیا تھا کہ میں ان کے اموال میں برکت ڈالوں گا اب اموال کو ہم دیکھتے ہیں ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں ۱۸۹۳ء کے لئے چندوں کے وعدے دیئے گئے (وہ انتظام اس وقت قائم نہیں تھا جو آج قائم ہے ) اور وہ وعدے ساری جماعت کے سمجھے جانے چاہئیں کیونکہ ام مخلصین جلسه سالانہ پر جمع ہو جاتے تھے تو ۱۸۹۳ء کے لئے ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ پر جماعت نے جو وعدے دئے ان کی رقم سات سو کچھ روپے تھی اور آج پچھتر سال گذرنے کے بعد عملاً جماعت جو مالی قربانیاں خدا کی راہ میں پیش کر رہی ہے اس کی رقم ایک کروڑ سے اوپر نکل گئی ہے.ہم سات سو کی بجائے اگر ایک ہزار لے لیں ( کیونکہ ان وعدوں کے علاوہ وہ دوست جو بعض مجبوریوں کی وجہ سے رہ جاتے ہیں انہوں نے بعد میں وعدے کئے ہوں گے اور رقمیں بھجوائی ہوں گی تو اگر ۱۸۹۲ء کی آمد ایک ہزار روپیہ سمجھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں ۱۹۶۷ء کی آمد ایک کروڑ سے اوپر نکل گئی.تحریک جدید کے چندے، صدر انجمن کے چندے، وقف جدید کے چندے، وقف عارضی کا جو خرچ ہوتا ہے (اگر چہ وہ ہمارے رجسٹروں میں درج نہیں ہوتا لیکن وہ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہے جو ایک احمدی کر رہا ہے اپنے خرچ پر باہر جاتا ہے کرایہ خرچ کرتا ہے.وہاں اپنے گھر سے زائد ا سے خرچ کرنا پڑتا ہے ) ان سب کو اگر اکٹھا کیا

Page 980

خطبات ناصر جلد اول ۹۶۴ خطبہ جمعہ ۳/نومبر ۱۹۶۷ء جائے تو یہ رقم ایک کروڑ سے کہیں او پر نکل جاتی ہے میں ایک کروڑ کی رقم اس وقت لے لیتا ہوں.تو ایک ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ تک ہماری مالی قربانیاں پہنچ گئیں.یہ بھی دس ہزار گنا رقم بن جاتی ہے گویا ایک روپے کے مقابلہ میں دس ہزار روپے کے چندے بنتے ہیں.یعنی ۱۸۹۲ء میں اگر جماعت نے ایک روپیہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق اپنے رب سے حاصل کی تو اسی برگزیدہ جماعت نے ۱۹۶۷ء میں دس ہزار روپیہ (اس ایک روپیہ کے مقابلہ میں ) خرچ کرنے کی اپنے رب سے توفیق پائی یہ تو چندوں کی نسبت ہے.مگر وعدہ کیا گیا ہے کہ اموال میں برکت دی جائے گی.اب جس نسبت سے جماعت کے اموال بڑھے ہیں وہ دس ہزار گنا سے زیادہ ہے کیونکہ ۱۸۹۲ء میں قریباً سو فیصدی مخلص تھے اور پوری قربانی دے رہے تھے خدا کی راہ میں لیکن ۱۹۶۷ء میں تعداد چونکہ بڑھ گئی ہے.بہت سے ہم میں سے ایسے ہیں جو تربیت کے محتاج ہیں ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ آج سے ایک سال یا دو سال یا چار سال یا پانچ سال کے بعد اس ارفع مقام پر پہنچ جائیں گے جس پر اللہ تعالیٰ انہیں دیکھنا چاہتا ہے اور ان کے چندوں کی شرح اس شرح کے مطابق ہو جائے گی جو ۱۸۹۲ء میں مخلصین دیا کرتے تھے.اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جو اموال منقولہ اور غیر منقولہ ۱۸۹۲ء کے احمدیوں کے پاس تھے آج اس کے مقابلہ میں جماعت کے مجموعی اموال منقولہ یا غیر منقولہ کی قیمت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ دس ہزار گنا سے زیادہ برکت ڈال دی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل ہم پر نازل ہورہے ہیں جس نقطۂ نگاہ سے بھی ہم دیکھتے ہیں عقلیں حیران رہ جاتی ہیں.اب پچھتر سالہ عرصہ قوموں اور جماعتوں کی زندگی میں کوئی لمبا عرصہ نہیں ہے اس چھوٹے سے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت پر اپنے ایسے فضل کئے کہ ان کی تعداد اک سے ہزار ہو دیں والی دعا سے بھی بڑھ گئی اور ان کے اموال میں جو برکت اللہ تعالیٰ نے ڈالی وہ اک سے دس ہزار کی نسبت سے بڑھ گئی اس سے ہم اس صداقت تک پہنچتے ہیں کہ جماعت احمد یہ خدا کی راہ میں جو مالی قربانیاں دیتی ہے وہ ضائع نہیں جاتیں.اس دنیا میں بھی خدا کی راہ میں دی گئی رقم تمہیں واپس مل جاتی ہے اور صرف اتنی ہی نہیں ملتی ، دگنی ہی نہیں ملتی ، دس گنے یا سو گنے ہی زیادہ

Page 981

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۶۵ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۶۷ء نہیں ملتی جیسا کہ ابھی میں نے اعداد و شمار سے بتایا ہے بلکہ دس ہزار گنے زیادہ ملتی ہے ایسے خاندان بھی ہیں جماعت کے کہ ان کے والد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جتنی قربانی دی، ان کے بچوں میں سے ایک ایک کی ماہوار آمدنی ان کی ساری زندگی کی مالی قربانی سے زیادہ تھی.تو اللہ تعالیٰ بڑے فضلوں کا مالک ہے اور بڑے فضل کر رہا ہے اور کرنا چاہتا ہے اور اس لحاظ سے اگر ہم اندازہ لگائیں کہ اگلے پچھتر سال میں ہمارے مالوں میں کس قدر برکت پیدا ہو جائے گی ( مجموعی طور پر جماعت کے مالوں میں ) تو بے شمار رقم بن جاتی ہے.اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو دنیا میں ایک فوقیت عطا کرے گا اور یہ ڈیڑھ سو سال کا عرصہ کوئی لمبا عرصہ نہیں ہے.ایک آواز جوا کیلی اور تنہا آواز اور ایک غریب انسان کی آواز ، ایک ایسے انسان کی آواز تھی جو د نیوی لحاظ سے کوئی وجاہت یا اقتدار نہیں رکھتا تھا لیکن اپنے رب سے انتہائی پیار کرنے والا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اس طرح وہ محو تھا کہ اُمت مسلمہ میں ولیسی محبت اور عشق کسی امتی نے اپنے امام، اپنے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی نہیں کی اس کو اللہ تعالیٰ نے کھڑا کیا اور کہا کہ میں دنیا میں تیرے ذریعہ سے اسلام کو پھر غالب کرنا چاہتا ہوں اور ایک ایسی جماعت تمہیں دوں گا ( يَنْصُرُكَ رِجَالُ نُوحِيَ إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ ) کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے اور انہیں وحی کریں گے کہ وہ اٹھیں اور تیری خدمت میں لگ جائیں.پھر یہ ایک چھوٹی سی جماعت تھی ۱۸۹۲ء میں مگر وہ بڑھتی چلی گئی.اپنی تعداد میں جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے ایک ہزار گنا زیادہ نہیں تین ہزار گنا زیادہ وہ ہوگئی.اور کہا گیا تھا کہ ان کے اموال میں برکت دی جائے گی چونکہ انہوں نے خدا کی راہ میں ایسے وقت میں قربانیاں دیں جب مسلمان کہلانے والے اسلام کی خاطر مالی قربانیاں دینے میں بڑی ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے اور عملاً کوئی قربانی نہیں دے رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ ان کی حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں جو ایک روپیہ انہوں نے دیا اس کے بدلہ میں ان کو اور ان کے خاندانوں کو دس ہزار روپیہ سے بھی زائد خدا نے دیا.اللہ تعالیٰ نے دس ہزار گنا سے بھی زیادہ

Page 982

خطبات ناصر جلد اول ۹۶۶ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۶۷ء ان کے اموال کر دیئے.پس جو کچھ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اموال ضائع ہو گئے ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اتنا ہی ہمیں مل جاتا ہے پھر تمہیں ڈرکس بات کا ہے جتنا تم نے دیا تھا وہ تمہیں واپس مل گیا بلکہ اللہ تعالیٰ کا فعل بڑی وضاحت سے یہ شہادت دے رہا ہے کہ تم ایک روپیہ میری راہ میں خرچ کرو میں دس ہزار روپیہ تمہیں لوٹا دوں گا اس دنیا میں اور جو بدلہ اس کی محبت کا اور اس کی رضا کا اور اس کی جنت کا اُخروی زندگی میں ملنا ہے وہ اس کے علاوہ ہے.پس بڑا سستا سودا ہے اور اس پس منظر میں میں آج آپ دوستوں کو یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ وقف جدید کی طرف آپ توجہ کریں میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا اور یہ امید ظاہر کی تھی کہ اگر ہمارے اطفال اور ناصرات اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کے والدین اپنے بچوں کی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کی برکت کا سامان پیدا کرنا چاہیں تو جو چھوٹے بچے ابھی ناسمجھ ہیں ان کی طرف سے بھی وقف جدید کے چھ روپے دیں تو اللہ تعالیٰ بڑی برکت ڈالے گا اور جن کو تھوڑا بہت شعور حاصل ہو گیا ہے ان کے سامنے والدین یہ بات رکھیں کہ خدا تعالیٰ ایک فقیر اور بھکاری کے رنگ میں تمہارے سامنے نہیں آتا (نعوذ باللہ ) بلکہ ایک دیالو، ایک محسن ،فضل کرنے والی ہستی کےطور پر تمہارے سامنے آتا ہے اور تمہیں کہتا ہے کہ میری راہ میں اموال خرچ کرو اگر تم اس دنیا میں بھی دس بیس ہزار گنا زیادہ اموال کو حاصل کرنا چاہتے ہو.تو اگر سارے کے سارے اطفال و ناصرات اس طرف توجہ کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ سارا بوجھ قریباً ہمارے اطفال اور ناصرات اٹھا سکتی ہیں یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ جماعت کے وہ بچے جن کی عمر ابھی پندرہ سال کی نہیں ہوئی ایک منٹ کی عمر سے لے کر پندرہ سال کی عمر تک جتنے بچے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو دیئے ہیں اگر ان کی طرف سے یا وہ خودا گر وہ کچھ شعور رکھتے ہیں وقف جدید کے لئے کم از کم چھ روپے سالانہ دیں جو کوئی ایسی بڑی رقم نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے بچپن سے ہی برکات کے سامان پیدا کرنے شروع کر دے گا.بعض خاندان بچوں کی طرف سے بینک میں رقم جمع کرنی شروع کر دیتے ہیں پہلے مہینے سے ہی بعض دوسرے تیسرے سال سے کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو ان کے یہ کام آئے گی تو

Page 983

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۶۷ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۶۷ء بینکوں کی رقموں نے کیا بڑھنا ہے ضائع ہونے کا تو اندیشہ ہے لیکن اس قدر بڑھاؤتی کا وہاں کوئی سامان نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے خزانہ میں تو ضائع ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں اور بڑھاؤتی کے اتنے سامان ہیں کہ ایک روپیہ آپ کی طرف سے خدا تعالیٰ کے بینک میں جمع کرائیں گے ریزرو کے طور پر تو جس وقت وہ بڑے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کو ایک کی بجائے دس ہزار یا شاید اس سے بھی زیادہ دے گا.بچوں کی طرف سے چونتیس ہزار آٹھ سو کے وعدے سال رواں کے ہوئے تھے جس کا یہ مطلب ہے کہ تمام احمدی بچوں کو اس طرف تو جہ نہیں دلائی گئی اور تمام احمدی ماں باپ نے اپنے بچوں کی بہبود کی طرف توجہ نہیں دی لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں اطفال و ناصرات اور چھوٹے بچے ایسے تھے جنہوں نے اس مد میں حصہ لیا.لیکن اس وقت تک کہ دس مہینے سال کے گذر چکے ہیں وعدوں کے مقابل آمد بڑی کم ہے اور یہ بڑی فکر کی بات ہے.آپ نے بچپن میں بچے کو یہ عادت نہیں ڈالنی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ تو کرے مگر پورا نہ کرے آپ نے تو اس کو یہ عادت ڈالنی ہے کہ جب وہ خدا سے وعدہ کرے تو زمین و آسمان ٹل جائیں اس کا وعدہ پورا ہو اور آپ نے اس کے دل میں یہ احساس بیدا ر رکھنا ہے کہ خدا کی راہ میں جو مال دیا جاتا ہے وہ ضائع نہیں جاتا بلکہ جیسا کہ ہماری تاریخ اس پر شاہد ہے ایک سے دس ہزار گنا زیادہ ہو کر وہ واپس ملتا ہے ( اس دنیا میں ).اب سال کے دو مہینے باقی رہ گئے ہیں میں یہ درخواست کرتا ہوں اور میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ جماعت اس کی طرف فوری توجہ دے گی اور پندرہ دسمبر سے پہلے پہلے تمام وعدے پورے ہو جائیں گے اطفال کے بھی اور جو بڑوں کے وعدے ہیں وہ بھی.اس میں بھی کافی کمی ہے ہمارا بجٹ تھا دولاکھ سترہ ہزار کے قریب.ہمارے وعدے تھے ایک لاکھ پچانوے ہزار نو سو کے قریب.ہماری آمد دس مہینے کی ہے ایک لاکھ سینتیس ہزار.اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم از کم ساٹھ ہزار کے قریب ان دو مہینوں میں آمد ہونی چاہیے اور بچوں کی طرف سے کم از کم بائیس ہزار آٹھ سوروپیہ آمد ہونی چاہیے.یہ بائیس ہزار اس ساٹھ ہزار میں شامل ہیں لیکن اس سے بھی وقف جدید کی ضرورت پوری

Page 984

خطبات ناصر جلد اول ۹۶۸ خطبہ جمعہ ۳/ نومبر ۱۹۶۷ء نہیں ہوتی کیونکہ مشاورت کے موقع پر دوستوں نے اس چیز کومحسوس کیا کہ ہمارے پاس زیادہ سے زیادہ مربی ہونے چاہئیں اور جو دوست وقف عارضی کے سلسلہ میں باہر جماعتوں میں جاتے ہیں ان میں سے بیسیوں نے مجھے خطوط لکھے کہ اس جماعت کو ضرورت ہے آپ کسی معلم کو یہاں بھجوائیں اور ہر خط کے اوپر میں فکر مند ہو جاتا ہوں کہ ضرورت ہے مگر معلم نہیں میں آدمی کہاں سے لاؤں؟؟؟ اور میں نے پہلے بھی متعدد بار تحریک کی ہے اور اب بھی تحریک کرتا ہوں کہ وقف جدید کو معلم بھی دیں ایسے معلم جو واقع میں اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کرنا چاہیں.ایسے معلم نہیں جو یہ سمجھیں کہ دنیا میں کسی اور جگہ ان کا ٹھکانا نہیں ، چلو وقف جدید میں جا کے معلم بن جائیں.سمجھدار، دعا کرنے والے، خدا اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تفسیر قرآن بیان کی ہے اس سے دلی لگاؤ رکھنے والے، اسے پڑھنے والے یا درکھنے والے اور خدمت کا بے انتہا جذبہ رکھنے والے جس کے دل میں خدمت خلق کا جذ بہ نہیں وہ معلم نہیں بن سکتا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ دنیوی لحاظ سے یا دینی لحاظ سے ہم اپنے بھائی کو جو کچھ بھی دیتے ہیں وہ خدمت کے جذبہ کے نتیجہ میں دیتے ہیں اس کے بغیر ہم دے ہی نہیں سکتے اپنا وقت اس کو دیں، اپنا مال اس کو دیں، اپنی زندگی اس کو دیں.دنیا کی کسی بہبود کے لئے یا آخرت کی بہبود کے لئے جب ہم قرآن کریم اس کو سکھا رہے ہوتے ہیں جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداس کے سامنے رکھ رہے ہوتے ہیں یا ہم اس کی خاطر اس کا کوئی دنیوی کام کرانے کے لئے اس کے ساتھ باہر نکلتے ہیں ہر دو صورتیں جو ہیں وہ اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ ہمارے دل میں خدمت خلق کا جذبہ ہے.اگر خدمت خلق کا جذبہ نہ ہو.نہ دینی لحاظ سے نہ دنیوی لحاظ سے تو ہم اس کی خدمت کے لئے باہر نہیں نکل سکتے.پس ہمیں ایسے بے نفس خدمت گذار معلم چاہئیں.منصوبہ یہ ہے کہ آئندہ جنوری میں پہلے سال کی نسبت زیادہ تعداد میں آدمی لئے جائیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سالوں کی نسبت ان پر زیادہ خرچ کیا جائے اور جو منصوبہ تھا اس کے مطابق ان کو دو لاکھ سترہ ہزار روپیہ چاہیے وعدے اس سے قریباً بائیس ہزار کے کم آئے ہیں.

Page 985

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۶۹ خطبہ جمعہ ۳/نومبر ۱۹۶۷ء پس میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور اپنے وعدوں کی حدود کو پھلانگتے ہوئے اس مقام تک پہنچ جائیں جو جماعت کی ضرورت کا مقام ہے اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی اس کی توفیق عطا فرمائے.(روز نامه الفضل ربوه ۱۰ نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 986

Page 987

خطبات ناصر جلد اول ۹۷۱ خطبہ جمعہ ۱۷؍نومبر ۱۹۶۷ء ہر احمدی کو تکبر اور خود بینی سے بچنا چاہیے اور استغفار کی طرف بہت ہی متوجہ رہنا چاہیے خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ نومبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.کوئی دس دن ہوئے مجھے پیچش کا شدید حملہ ہوا تھا.دورانِ سر تکلیف بھی رہی اور ضعف بھی بہت پیدا ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.میری اور آپ کی دعاؤں کو سنا اور بیماری سے شفا عطا کی الْحَمْدُ لِلهِ عَلى ذلِكَ ابھی کچھ تھوڑی سی نقاہت باقی ہے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بھی دور ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ کام کی توفیق دیتا چلا آرہا ہے اور آئندہ بھی اسی پر بھروسہ اور توکل ہے.اس وقت میں اپنے دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہرفر دوا حد کو جواحمدیت کی طرف منسوب ہوتا ہے پوری توجہ کے ساتھ اور پوری کوشش کے ساتھ اور پوری ہمت کے ساتھ تکبر اور خود بینی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور استغفار کی طرف بہت ہی متوجہ رہنا چاہیے.ایک متکبر اور خود بین انسان وہ ہے جو اپنی ذات میں کچھ کمال سمجھتا ہے اور کسی طاقت بالا سے کمال کے حصول کی احتیاج محسوس نہیں کرتا خود کو صاحب علم جانتا ہے اور وہ جو علوم کا منبع اور سر چشمہ ہے اس سے غافل رہتا ہے اس وہم میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں منور ہے اور وہ جو زمین و آسمان کا نور ہے اس سے روشنی کے حصول کا خیال اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتا اور خود کو

Page 988

خطبات ناصر جلد اول ۹۷۲ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۶۷ء طاقتور سمجھتا ہے اور وہ جو قا در و توانا ہے اس سے طاقت حاصل کرنے کے لئے اسلام نے جو ذ رائع بتائے ہیں ان ذرائع کو استعمال نہیں کرتا یہ متکبر انسان اپنے لئے اپنے خیالات اور اپنے جذبات اور اپنے اعمال کے نتیجہ میں ایک جہنم پیدا کر رہا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی ان آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے کہ اذلِكَ خَيْرٌ نُزُلاً أَم شَجَرَةُ الزَّقُومِ - إِنَّا جَعَلْنَهَا فِتْنَةً لِلظَّلِمِينَ - إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي اَصْلِ الْجَحِيمِ - طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشيطين - الصفت : ۶۳ تا ۶۶) یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تم بتلاؤ بہشت کے باغ اچھے ہیں یا زقوم کا درخت جو ظالموں کے لئے ایک بلا ہے وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے یعنی تکبر اور خود بینی سے پیدا ہوتا ہے یہی دوزخ کی جڑ ہے اس کا شگوفہ ایسا ہے جیسا کہ شیطان کا سر ، شیطان کے معنی ہیں ہلاک ہونے والا یہ لفظ شیط سے نکلا ہے پس حاصل کلام یہ ہے کہ اس کا کھانا بلاک کن ہے تو جہنم کی جڑ تکبر اور خود بینی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تفسیر کے مطابق اللہ نے قرآن کریم کی ان آیات میں اس بات کی وضاحت کی ہے تو کوئی شخص ایک ہی وقت میں متکبر اور جنتی نہیں بن سکتا.کیونکہ جس کے دل سے زقوم کا درخت نکلے جس کے دل اور جس کی روح میں دوزخ اور جہنم پرورش پا رہی ہے اس کے لئے جنت کے دروازے کیسے کھولے جاسکتے ہیں.اس کے مقابلے میں وہ انسان ہوتے ہیں جو اپنے نفس کو پہچانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انسان ایک بشر ہے اور ساری بشری کمزوریاں اس کے ساتھ لگی ہوئی ہیں انسان کی فطرت بدی کی طرف مائل ہوتی ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم محض اپنی کوشش اور اپنے زور سے اپنے نفس کی اس رنگ میں اصلاح نہیں کر سکتے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دور ہونے سے بچ جائے اور اپنے رب کی طرف متوجہ ہو.فی ذاتنا ہمارے اندر کوئی طاقت نہیں اس لئے ایسا شخص اپنی فطرت کو کمزور پائے ہوئے اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ میرے اندر کوئی کمال نہیں میں نے ہر کمال اللہ تعالیٰ کی کامل ذات سے حاصل کرنا ہے.میرے اندر کوئی قدرت اور طاقت نہیں میں نے سب طاقتیں ، طاقتوں کے منبع سے حاصل

Page 989

خطبات ناصر جلد اول ۹۷۳ خطبہ جمعہ ۱۷ نومبر ۱۹۶۷ء کرنی ہیں میرے اندر کوئی علم نہیں وہ جس کے علم نے ذرہ ذرہ کا احاطہ کیا ہوا ہے اسی سے میں نے علم کو حاصل کرنا ہے اور میرے اندر کوئی نور نہیں جب تک میرا آسمانی باپ میرے لئے نور اور روشنی کے سامان پیدا نہ کرے تب وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور استغفار کرتا ہے.استغفار کے صحیح معنی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان کئے ہیں یہ ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کرے کہ اس کی بشری اور فطری کمزوریوں کو اللہ تعالیٰ ڈھانک دے اور دبا دے اور وہ اُبھریں نہ !!! اور ظاہر نہ ہوں.تو ایسا شخص جو اپنی فطرت کو اور اپنے نفس کو پہچانتا ہے اور اس کی فطری کمزوریوں کی معرفت رکھتا ہے وہ شخص تکبر کو جہنم کی جڑ سمجھتا ہے اور جنت اور خدا کی رضاء کے حصول کے لئے بے نفسی کی زندگی گزارتا ہے وہ ہر وقت اپنے رب کے حضور جھکا رہتا ہے اور ہر آن اس سے یہ درخواست کرتا ہے کہ اے میرے رب ! میرے اندر کوئی کمال نہیں تو میری استعداد کے مطابق مجھے کمال دے.میرے اندر کوئی روشنی نہیں لیکن میں روشنی سے محبت رکھتا ہوں تو نور کے سامان میرے لئے پیدا کر دے میں جاہل ہوں علم کا کوئی دعوی نہیں رکھتا لیکن اس یقین پر قائم ہوں کہ تو ہر علم کا سرچشمہ ہے اس چشمہ سے مجھے سیراب کر اور جو شخص جتنا جتنا استغفار کو اپنا شعار بناتا چلا جائے اتنا ہی وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آجاتا ہے اور شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہی پیارا فقرہ فرمایا ہے کہ خواہش استغفار فخر انسان ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ ”جو شخص کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا اور پھر ہمیشہ کے لئے استغفارا اپنی عادت نہیں پکڑتا وہ کیڑا ہے نہ انسان اور اندھا ہے نہ سوجا کھا اور نا پاک ہے نہ طیب.پھر آپ فرماتے ہیں کہ اسلامی عقیدہ کے موافق بهشت و دوزخ انہی اعمال کے انعکا سات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے یعنی تکبر اور خود بینی وہاں دوزخ کی آگ کا روپ لے لیتی ہے اور انکسار اور بے نفسی جس کے نتیجہ میں انسان بے اختیار ہو کر بڑی کثرت کے ساتھ ہر وقت اور ہر آن خدا تعالیٰ سے استغفار کرتارہتا ہے اس کا یہ فعل اور یہ احساس اور اس کے یہ اعمال جنت کے باغات اور جنت کی نہروں اور جنت کے میووں میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو جس طرح دوزخ کی جڑ انسان کے نفس میں ہے اسی طرح جنت کا منبع بھی خود انسان کے اندر ہے

Page 990

خطبات ناصر جلد اول ۹۷۴ خطبہ جمعہ ۱۷؍نومبر ۱۹۶۷ء اور یہ منبع جو فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے بیج کے طور پر ہوتا ہے اور انسانی فطرت کو صرف یہ طاقت عطا کی گئی ہے کہ وہ بے طاقت ہو کر اور اپنے نفس میں کوئی ذاتی خوبی اور کمال نہ پاکر اپنے رب کے حضور جھک جائے اور بالائی طاقت کو اپنی طرف کھینچے اور اس طرح پر اس کی جنت حسین نشو و نما کو حاصل کرے.استغفار تو ہر وقت ہی کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ جن کو توفیق دیتا ہے اور سمجھ عطا کرتا ہے وہ کوئی وقت بھی بغیر استغفار کے نہیں رہتے.بہت سی چیزوں کا انحصار عادت پر بھی ہوتا ہے اب ہم میں سے بہت سے گھروں سے نکلتے ہیں سودا لینے کے لئے بازار جاتے ہیں ہم اِدھر اُدھر کے پراگندہ خیالات ذہن میں رکھ کر بھی یہ فاصلہ طے کر سکتے ہیں اور ہم استغفار کرتے ہوئے بھی وہی فاصلہ طے کر سکتے ہیں ایک سیکنڈ بھی زیادہ وقت نہیں لگے گا لیکن ایک صورت میں ہم نے اپنا وقت ضائع کر دیا اور دوسری صورت میں ہم نے اپنے وقت کا صحیح استعمال کیا تو یہ عادت ڈالنی چاہیے ہم میں سے ہر ایک کو کہ استغفار کو اپنا شعار بنائے خالی لفظ نہ ہوں جو اس کے منہ سے نکل رہے ہوں بلکہ اسْتَغْفِرُ الله کے ساتھ اس کا یہ احساس بھی پوری شدت کے ساتھ بیدار ہو کہ میں کچھ نہیں ہر طاقت ، ہر علم، ہر روشنی ، ہر بھلائی ، ہر خیر میں نے اپنے رب سے حاصل کرنی ہے میرے اندراپنا ذاتی کوئی کمال نہیں ہے میرے اندر اگر کوئی خوبی میرے خدا نے رکھی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ میں اس بات کا اقرار کروں کہ میرے اندر کوئی ذاتی کمال نہیں اور اپنے رب کے ساتھ تعلق کو استوار اور پختہ کرنے کی کوشش کروں اور پھر ہمارا رب جو بڑا ہی مہربان ہے اور غفور ہے وہ ہماری حالت کو دیکھ کے اور ہماری التجا کوسن کر اپنے فضلوں کو ہم پر نازل کرے اور ہمیں طاقت بھی دے ہمیں علم بھی دے ہمیں روحانی روشنی بھی دے جو اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی یسعی نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ (الحدید : ۱۳) کے مطابق ہمارے کام آنے والی ہو اور ترقی کی راہیں ہم پر کھلتی رہیں اور ترقی کے ہر مقام اور ہر مرحلہ پر ہمارے اندر یہ احساس رہے کہ یہاں تک بھی ہم خدا کے فضل سے ہی پہنچے اپنی طاقت سے نہیں پہنچے.لیکن جو اگلی منزل ہے اس کے مقابلہ میں یہ بھی ایک ناقص مقام ہے.

Page 991

خطبات ناصر جلد اول ۹۷۵ خطبہ جمعہ ۱۷؍نومبر ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اس نقص کو بھی وہ اپنے فضل سے دور کر دے اور اس ناقص مقام سے نکال کے ہمیں نسبتاً بہتر مقام تک پہنچا دے اور جو شخص ایسا نہیں کرتا اسے یا درکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی وضاحت سے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر تم استغفار کی بجائے تکبر اور خود بینی میں مبتلا ہو گے تو اپنے سینہ میں اپنے دل میں اپنی روح میں ایک جہنم کی پیدائش کے سامان پیدا کر رہے ہو گے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے.استغفار تو جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہر وقت ہی کرنی چاہیے ہر آن ہمیں اس طرف متوجہ رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان کا ذہن زیادہ صاف ہوتا ہے بعض دوسرے اوقات کی نسبت.تو ہم میں سے جو دوست وقف عارضی پر گئے ہیں انہوں نے یہ مشاہدہ کیا ہے اور ان کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ چونکہ ہمارے بھائی اخلاص کے ساتھ وقف عارضی کے لئے باہر جاتے ہیں اس وقت وہ دنیوی علائق سے آزاد ہوتے ہیں گھر کا کوئی فکر نہیں ہوتا پوری توجہ کے ساتھ اور پورے انہماک کے ساتھ وہ استغفار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو بڑی کثرت کے ساتھ اپنے پہ نازل ہوتا دیکھتے ہیں تو یہ بھی ایک بہت اچھا موقع ہے استغفار توجہ کے ساتھ کرنے کا تو اس ضمن میں میں اشارۂ جماعت کو اس طرف بھی متوجہ کر دیتا ہوں کہ وقف عارضی کے لئے بڑی کثرت کے ساتھ اپنے نام پیش کریں اور بار بار پیش کریں میں تو سمجھتا ہوں کہ جو شخص ایسا کر سکتا ہو اور اس کے رستہ میں کوئی خاص دشواری نہ ہو کہ جس کو دور کرنا اس کے لئے ممکن ہی نہ ہو تو اسے سال میں ایک سے زائد دفعہ بھی اپنے آپ کو وقف عارضی کے لئے پیش کرنا چاہیے لیکن ہر سال ایک دفعہ تو ضرور اس وقف میں حصہ لینا چاہیے تا کہ ایک قسم کی ٹریننگ اور استغفار کرنے کی تربیت بھی اسے مل جائے اور پھر اللہ تعالیٰ فضل کرے تو جس طرح اس زمانہ میں بہت سے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو نازل ہوتے دیکھا ہے.کثرت سے استغفار کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور زیادہ کثرت سے ان پر نازل ہوتے رہیں.سارا سال ہی نازل ہوتے رہیں.تواستغفار کے معنی یہ ہیں کہ انسان ہر وقت اپنے رب سے یہ درخواست کرتا رہے کہ مجھ

Page 992

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۱۷؍نومبر ۱۹۶۷ء میں بشری اور فطرتی کمزوریاں ہیں اور میں اپنی ان بشری اور فطری کمزوریوں سے واقف ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اپنی ذات میں میرے اندر کوئی خوبی اور کمال نہیں.لیکن اے میرے ربّ! تو نے میرے دل میں یہ خواہش پیدا کی ہے کہ میں تیرے قرب کو حاصل کروں اور تیری مدد کے بغیر میں تیرا قرب حاصل نہیں کر سکتا.تیرے قرب کے حصول کے لئے جس طاقت کی مجھے ضرورت ہے جس نور کی مجھے ضرورت ہے جس علم کی مجھے ضرورت ہے جس کمال کی مجھے ضرورت ہے وہ تو ہی دے تو مجھے مل سکتا ہے ورنہ نہیں مل سکتا.پس اے میرے رب ! میں تیرے حضور عاجزی اور تضرع سے جھکتا ہوں اور تجھ سے مدد طلب کرتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ تو میری بشری اور فطری کمزوریوں کو ڈھانک دے اور آسمانی نور سے مجھے منور کر دے اور قرآن کریم کی برکات سے مجھے حصہ دے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کے نتیجہ میں تیری جو محبت ایک انسان کو حاصل ہوسکتی ہے وہ محبت تو ہمیں عطا کر.پس ہر وقت استغفار کی طرف ہر احمدی کو متوجہ رہنا چاہیے اور ہمیشہ اس کوشش میں رہنا چاہیے کہ تکبر اور خود بینی کا کوئی شائبہ بھی ہمارے نفسوں میں باقی نہ رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ر بوه ۲۴ نومبر ۱۹۶۷ ، صفحه ۲ تا ۴) 谢谢您

Page 993

خطبات ناصر جلد اول ۹۷۷ خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۶۷ء رمضان المبارک کے ذریعہ انسان غیر متناہی روحانی اور جسمانی دینی ترقیات حاصل کر سکتا ہے فرمائی:.خطبه جمعه فرموده ۲۴ نومبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَةٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُبُهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ - يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتَكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدِيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرة : ١٨٦) اس کے بعد فرمایا:.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے یہ ھدی ہے یعنی احکام شریعت پر مشتمل نازل کی گئی ہے.ہدایت کے معنی اس آسمانی شریعت کے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی محبوب نبی اور رسول کے ذریعہ دنیا میں نازل کرتا ہے تا کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق اس کی طرف رجوع کر سکیں اور اس کے انعامات کو حاصل کر سکیں اور اس کا قرب پاسکیں.ج

Page 994

خطبات ناصر جلد اول ۹۷۸ خطبہ جمعہ ۲۴ نومبر ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمایا ہے یہ ایک ایسی شریعت آسمانی ہے کہ للناس جس کا تعلق کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک یا کسی ایک زمانہ کے ساتھ نہیں ہر زمان و مکان میں بسنے والے انسانوں سے اس کا تعلق ہے یہ ان کے لئے ایک کامل اور مکمل شریعت ہے اور ہدایت کے دوسرے معانی کی رو سے اللہ تعالیٰ یہاں یہ بھی بیان فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسی شریعت ہے کہ جو شخص ابتدا میں بعض باتوں کو سمجھتے ہوئے اس پر ایمان لاتا ہے اور اپنی سمجھ کے مطابق اس پر عمل کرتا ہے یہ کتاب اس کے دل پر مزید روحانی ترقی کا شوق پیدا کرتی ہے اور مزید روحانی ترقی کی تڑپ کو پورا کرنے کے سامان بھی اس میں پائے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر وقت ایسے انسان کے ساتھ رہتا ہے اور اس کی روحانی راہ نمائی کرتے ہوئے بلند سے بلند مقام تک اسے پہنچا تا چلا جاتا ہے اور ایسے انسان کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے انجام بخیر ہو جاتا ہے اور وہ اس کی رضا کی جنت میں داخل ہو جاتا ہے.پھر فرمایا کہ یہ صرف ھدی للناس ہی نہیں بلکہ بَيِّنَتِ مِنَ الْهُدی بھی ہے.واضح دلائل اور حکمتیں بتا کر اپنی شریعت (اپنے احکام کو ) منوانے والی کتاب ہے دنیا میں بہت سے لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو دین العجائز کو اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ وافر پاتے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور فراست دی ہوتی ہے فکر اور تدبر کے وہ عادی ہوتے ہیں اگر ان لوگوں کی تسلی کا سامان بھی اس کتاب میں نہ ہوتا تو وہ ٹھوکر کھا جاتے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ایسے ذہنوں کی ترقی کا سامان بھی اس میں کر دیا ہے یہ کتاب حکمت اور دلائل کے ساتھ اپنے احکام کو منواتی ہے اور یہ کتاب ایسی ہے جو فرقان ہے یعنی حق اور باطل میں تمیز کرنے والی ہے (جہاں تک اعتقادات کا سوال ہے ) اور عمل صالح اور ایسے عمل کے مابین جو فساد سے پر ہو امتیاز کرنے والی ہے.اس کی تعلیم ہمیں بتا دیتی ہے کہ یہ اعمال ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کو محبوب ہیں اور یہ ایسے ہیں جن میں فساد پایا جاتا ہے اور فساد کو پسند کرنے والا اور فساد سے پیار کرنے والا شیطان ہی انہیں پسند کر سکتا ہے.اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس قسم کے فساد والے اعمال سے تمہیں پر ہیز کرنا ہوگا یہ کتاب عمل صالح.

Page 995

خطبات ناصر جلد اول ۹۷۹ خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۶۷ء اور عمل غیر صالح ( جسے عربی زبان میں طالح بھی کہا جاتا ہے ) کے درمیان فرق کر کے دکھا دیتی ہے.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قدر عظیم کتاب کو ہم نے رمضان کے مہینے میں نازل کرنا شروع کیا تھا شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ اور اسے (سارے کے سارے کو ) اپنے اپنے وقت پر رمضان کے مہینے میں نازل کرتے رہے ہیں جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل علیہ السلام نزول فرماتے اور میرے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے.اس رمضان میں جتنا حصہ قرآن کریم کا نازل ہو چکا ہوتا اس کا دور نزول کے ذریعے جبرائیل علیہ السلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ایک دفعہ پھر دوسری دفعہ پھر تیسری دفعہ نزول ہوتا رہتا تھا اور آخری سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل علیہ السلام نے میرے ساتھ دو دفعہ قرآن کریم کا دور کیا ہے.غرض اتنی عظیم کتاب کا اس مہینے میں بار بارنزول ہونا اور پھر اسی مہینہ میں نزول ہونا بتا تا ہے کہ یہ ماہ بھی بہت سی برکتیں اپنے اندر رکھتا ہے پس فرمایا کہ یہ مہینہ وہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم کے احکام بھی پائے جاتے ہیں اس کے علاوہ اس کا قرآن کریم کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اور جو قرآنی برکتیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کی ہیں جن کا اختصار کے ساتھ ابھی میں نے ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم ان برکتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو رمضان کی عبادتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاؤ.رمضان میں انسان رمضان کی عبادات یعنی روزہ ، وہ نوافل جو کثرت سے پڑھے جاتے ہیں اور وہ دینی مشاغل جن میں انسان مصروف رہتا ہے مثلاً سخاوت ہے کمزور بھائیوں کا خیال رکھنا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں اس طرف خاص توجہ فرماتے تھے.غرض وہ تمام عبادات جن کا تعلق رمضان سے ہے اگر تم بجالاؤ گے تو تین باتیں تمہیں حاصل ہو جائیں گی تین برکتوں کے تم وارث ہو گے اور وہ تین برکتیں یہ ہیں کہ تمہیں ہدایت ملے گی.ہدایت تمہارے دلوں میں بشاشت پیدا کرے گی اور یہ شوق پیدا کرے گی کہ ہدایت کے اس مقام پر ٹھہر نا تو ٹھیک نہیں جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ استعداد دی ہے کہ ہم ہدایت کی سیڑھیوں پر درجہ بدرجہ بلند سے بلند تر ہوتے چلے جائیں تو پھر ہمیں آگے چلنا چاہیے اور مزید رفعتوں کو حاصل کرنا چاہیے.

Page 996

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۸۰ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۶۷ء پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے احکام اور اس شریعت کی برکت اور اس پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں تم اپنی ہدایت میں ترقی کرتے چلے جاؤ گے.رمضان میں یہ دروازے زیادہ فراخی کے ساتھ تمہارے اوپر کھولے جائیں گے پھر تم میں سے جو زیادہ سمجھ دار اور فراست رکھتے ہیں اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے مانا کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے کامل اور مکمل شریعت ہے اور ہم آنکھیں بند کر کے بھی اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اے خدا جب تو نے ہمیں عقل اور فراست اور فکر اور تدبر کا مادہ عطا کیا ہے تو ہماری ان قوتوں اور استعدادوں کو بھی تو تسلی دے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر بھی رمضان کے مہینہ میں بینت حکمتیں جو قرآن کریم کے احکام کی ہیں.وہ بھی کھولتا ہے علم قرآن اس رنگ میں بھی عطا کیا جاتا ہے اور رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر عطا کیا جاتا ہے.پھر چونکہ یہ فرقان ہے ایسے شخص کو جو خلوص نیت کے ساتھ رمضان کی عبادات بجالاتا ہے اور اس کی عبادات مقبول ہو جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرقان عطا کرتا ہے فرقان کا لفظ جب ہم انسان کے متعلق استعمال کرتے ہیں تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک نور عطا کرتا ہے اور اس نور کے استعمال کی توفیق عطا کرتا ہے اور وہ نور اسے قرب الہی کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ نور ہی نور کی طرف جا سکتا ہے.اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ زمینوں اور آسمانوں کا نور اللہ ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو رمضان کے مہینہ میں بہتر نور اور کثرت سے نور عطا کرتا ہے اور قرب کی راہیں اس پر کھولتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اتنی برکتوں والا مہینہ ہے جو تمہاری روحانی اور جسمانی ترقیات کے سامان اپنے اندر رکھتا ہے اس لئے ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُهُ جسے اللہ تعالیٰ زندگی اور صحت میں رمضان دکھائے اس کا فرض ہے کہ وہ رمضان سے فائدہ اُٹھائے اس لئے جو شخص بھی رمضان میں زندہ ہو اور صحت مند ہو وہ رمضان کے روزے رکھے اور دیگر عبادات بجالائے کیونکہ رمضان کی عبادت محض یہ نہیں کہ انسان بھوکا رہے بھوکا رہنے سے خدا کو یا خدا کے بندوں کو کیا فائدہ ، اگر یہ شخص اس بھوکا رہنے کی حکمت کو نہیں سمجھتا اور

Page 997

خطبات ناصر جلد اوّل اس کے لوازم کو ادا نہیں کرتا.۹۸۱ خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۶۷ء رمضان کے مہینہ میں ہم خاص طور پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور نوافل کی ادائیگی کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص صحت میں رمضان کا مہینہ پائے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے روزے بھی رکھے.نوافل بھی ادا کرے غرباء کا خیال بھی رکھے خدا تعالیٰ کی راہ میں سخاوت کا مظاہرہ بھی کرے اپنے بھائیوں کی غم خواری اور ان سے ہمدردی بھی کرے تمام بنی نوع انسان سے محبت کا سلوک کرے اور اپنی زبان کو اور دوسرے جوارح کو ان اعمال سے بچائے رکھے جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کثرت تلاوت اور کثرت نوافل اور روزے رکھنے کے نتیجہ میں ہدایت کے ، بینت کے اور نُورٌ مِّنَ اللہ کے سامان پیدا کرے گا.اللہ تعالیٰ یہاں بیان فرماتا ہے کہ جو شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو وہ کسی اور وقت رمضان کے روزوں کی گفتی کو پورا کرے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا ارادہ ہے کہ اس طرح میں اپنے بندوں کے لئے سہولت کے سامان پیدا کروں مومن وہی ہوتا ہے جو اپنے ارادہ اور خواہش کو چھوڑ دیتا ہے اور خدا کے ارادہ کو قبول کرتا ہے پس یہ مومن کی علامت ہے کہ وہ سفر میں اور بیماری میں اپنی شدید خواہش کے باوجود اپنی اس تڑپ کے باوجود کہ کاش میں بیمار نہ ہوتا یا سفر میں نہ ہوتا روزہ نہیں رکھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نیکی اس بات میں نہیں کہ میں بھوکا رہوں بلکہ نیکی یہ ہے کہ میں اپنے ارادہ کو خدا تعالیٰ کے ارادہ کے لئے چھوڑ دوں.يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ العسر میں ایک تو اس ارادہ کا اظہار کیا گیا ہے دوسرے اس ارادہ کا اظہار کیا گیا ہے کہ میں نے رمضان کی عبادتیں تم پر اس لئے واجب کی ہیں اور قرآن کریم کی شریعت تم پر اس لئے نازل کی ہے کہ تم پر میرے قرب کی وہ راہیں کھلیں جو تمہاری روحانی خوشحالی کا باعث ہوں اور جو مشکلات تمہاری روحانی تشنگی کے نتیجہ میں پیدا ہوسکتی ہیں ان سے تم محفوظ ہو جاؤ.پس تمہیں اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے.وَلِتَمِلُوا الْعِدَّةَ اس کے کئی معانی ہو سکتے ہیں لیکن ایک معنی یہ بھی ہیں کہ تا تمہاری زندگی دوور

Page 998

خطبات ناصر جلد اول ۹۸۲ خطبه جمعه ۲۴ / نومبر ۱۹۶۷ء پیدا کے یہ چند روز جو تم اس دنیا میں گزارتے ہو اپنے کمال کو پہنچ جائیں.کمال کے معنی عربی میں یہ ہوتے ہیں کہ جس غرض کے لئے کوئی چیز پیدا کی گئی ہے وہ غرض پوری ہو جائے اور انسان کو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے خدا تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سارا انتظام میں نے اس لئے کیا ہے کہ تا تم اس غرض کو پورا کر لو اور اپنے اس مقصد کو حاصل کر لوجس غرض کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے اور جو مقصد تمہارے سامنے رکھا گیا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اگر تم واقعہ میں خلوص نیت سے یہ عبادتیں بجالا ؤ گے تو میری طرف سے ہدایت اور بینات اور نور کو حاصل کر لو گے لیکن شیطان خاموش نہیں رہے گا وہ کوشش کرے گا کہ تمہیں اس مقام سے گرا دے.پس اپنی ہدایت کو قائم رکھنے کے لئے اور ان نعماء کوز وال سے بچانے کے لئے جو اللہ تعالیٰ رمضان کے مہینہ میں تمہیں عطا کرے ایک گرہم بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ و لتكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَد لکم کہ ہدایت اور روشنی اور حکمت سیکھنے کے بعد تمہارے دل میں کبر نہیں را ہونا چاہیے.تمہیں یہ خیال نہیں ہونا چاہیے کہ تم نے اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں اس مقام کو حاصل کیا ہے بلکہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت تم پر نازل ہو تُكَبِّرُوا اللہ تم اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اس کی عظمت کو بیان کرو اور اپنے نفس کو بھول جاؤ اس طرح وہ نعمتیں جو تمہیں عطا کی جائیں گی انجام تک تمہارے ساتھ رہیں گی تمہارا انجام بخیر ہوگا اور یہ طریق ہے شکر ادا کرنے کا.لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اس کے بغیر تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر سکتے.اگر اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے فضل سے کوئی ہدایت یا بینہ یا کوئی نور عطا کرتا ہے اور تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ تمہاری کسی خوبی کے نتیجہ میں تمہیں ملا ہے تو تم شکر کس کا ادا کرو گے تم اپنے نفس کا ہی شکر ادا کرو گے نا لیکن اگر تم اس یقین پر قائم ہو کہ جو ہدایت بھی ہمیں ملتی ہے صراط مستقیم کی شناخت کے رنگ میں یا حکمتوں کے نزول کے رنگ میں یا اُس نور کے رنگ میں جو آسمان سے نازل ہوتا ہے اور انسان کے دل کو منور کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو کھولتا ہے یہ سب کچھ تمہاری کسی خوبی کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں ہے اور اس سے اس کی عظمت اور اس کی کبریائی ثابت ہوتی ہے پس اگر تم ہدایت پانے کے بعد خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی کبریائی کا اعلان کرو گے اور خدا تعالیٰ کی

Page 999

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۸۳ خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۶۷ء عظمت اور اس کی کبریائی کو اپنے دلوں میں محسوس کرو گے اور اپنے نفس کو اس کی راہ میں مٹا دو گے تب تم شکر کرنے کے قابل ہو گے ورنہ تم شکر کے قابل نہیں ہو گے تمہارا شکر زبانوں پر تو ہو گا لیکن تمہارے دل اور تمہارے اعمال اور تمہاری روح اور تمہارے جوارح خدا تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر رہے ہوں گے.پس اگر تم خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنا چاہتے ہو تو جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں کوئی نعمت ملے تُكبّرُوا اللہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا اعلان کرو اور اپنے دل اور سینہ میں اس عظمت کے احساس کو زندہ اور اجاگر اور شدت کے ساتھ قائم کرو اور تم شکر گزار بندے بن جاؤ اور جب تم خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن جاؤ گے تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے وہ تمہیں مزید نعمتیں عطا کرے گا مزید ترقیات کے دروازے تم پر کھولے گا مزید حکمتیں اور علوم قرآنی تمہیں عطا کرے گا اور تمہارے نور میں اور زیادہ نورانیت پیدا کرے گا اور پھر ایک حسین اور مفید چکر اور دائرہ قائم ہو جائے گا.تم خدا تعالیٰ سے نعماء حاصل کرتے رہو گے اور اپنی ہدایت اور اپنی فراست اور اپنی روحانیت کے نتیجہ میں ہر موقع پر اپنے نفس کو قربان کر کے اللہ ہی کی عظمت اور کبریائی کا اعلان کرو گے اور اس طرح اس کا شکر ادا کرو گے تو پھر وہ اور نعمتیں تمہیں دے گا پھر تم اور شکر ادا کرو گے تو وہ اور نعمتیں تمہیں عطا کرے گا.غرض رمضان کے مہینہ میں ایک ایسا دائرہ شروع ہو جاتا ہے جو غیر متناہی روحانی اور جسمانی، دینی اور دنیوی ترقیات کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے اور انسان کسی مقام پر ٹھہرتا نہیں اور انسان کا دشمن شیطان جو کبھی نفس امارہ کی سرنگ سے اور کبھی بیرونی حملوں کے ذریعہ انسان کو خدا سے دور کرنا چاہتا ہے وہ اپنے تمام حملوں میں نا کام ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ہی شیطانی حملوں سے بچائے رکھے اور محفوظ رکھے.روزنامه الفضل ربوه ۲ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۲ تا ۴)

Page 1000

Page 1001

خطبات ناصر جلد اول ۹۸۵ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۶۷ء رمضان المبارک میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور کثرت سے الہی برکات کا نزول ہوتا ہے خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي أَنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ - (البقرة: ١٨٦) پچھلے دنوں میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ہماری توجہ اس طرف پھیری ہے کہ قرآن کریم کامل ہدایت ہے اور حکمتوں اور دلائل کے ساتھ اپنی بات منوانے والی کتاب ہے اور اس پر عمل پیرا ہو کر نور اور فرقان انسان کو حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک کامل اور مکمل نور ہے.جو اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کے سر چشمہ سے نکلا ہے اور رمضان کا مہینہ اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی ہدایت اور اس کی حکمتوں اور اس کے فرقان سے زیادہ سے زیادہ حصہ لیا جا سکے.آج میں رمضان کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات اپنے دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.امام بخاری لکھتے ہیں کہ ابو ہریرہ سے یہ روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ النُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ -

Page 1002

خطبات ناصر جلد اول ۹۸۶ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۶۷ء یعنی اگر کوئی شخص بظاہر رمضان کے روزے تو رکھتا ہے.لیکن قول زور اور قول زور پر عمل چھوڑتا نہیں تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا کھانا پینا یا بعض اور باتوں کو دن کے وقت چھوڑ نا مقبول نہیں ہوگا.زور کے معنی اَلْعَيْلُ عَنِ الْحَقِّ حق اور صداقت سے پرے ہٹ جانے کے ہیں.اسی طرح مفردات راغب نے زور کے ایک معنی بت کے بھی کئے ہیں (وَيُسَةُ الصَّنَمُ زُورًا ) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص غلط اعتقادات کو چھوڑ تا نہیں اور ان کا اپنی زبان سے اور اپنے عمل سے اظہار کرتا ہے اور غلط اعتقادات کے نتیجہ میں عمل غیر صالح بجالاتا ہے.ایسے شخص کا روزہ رکھنا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کھانا اور پینا چھوڑ دینا کوئی ایسی نیکی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو مقبول ہو اور اس کے نتیجہ میں وہ اس کی طرف متوجہ اور ملتفت ہو.اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ رمضان کا مہینہ نفس امارہ کو کچلنے کے لئے قائم کیا گیا ہے.یعنی رمضان کے روزے اور اس کی دیگر عبادات اس لئے فرض کی گئی ہیں اور اس میں بجالانے والے نوافل اس لئے قائم کئے گئے ہیں کہ انسان نفس اتارہ کے حملوں سے نجات پائے اور انسان کا نفس اتارہ نفسِ مطمئنہ کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھ لے لیکن اگر رمضان کا مہینہ نفس اتارہ کے مارنے پر منتج نہیں ہوتا اس کے نتیجہ میں نفسِ اتارہ مرتا نہیں.بدی کی رغبت اسی طرح قائم رہتی ہے انسان کی زبان اور اس کا دل اور اس کے جوارح پاک نہیں ہوتے تو اسے بھوکا رہنے اور پیاسا رہنے سے کیا فائدہ.اگر اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی قبولیت انسان کو حاصل نہ ہو اور خدا تعالیٰ محبت اور پیار کے ساتھ اس کی طرف ملتفت اور متوجہ نہ ہو.یہاں جیسا کہ پہلے بزرگوں نے بھی یہی معنی کئے ہیں حَاجَةٌ کے معنی وہ نہیں جو اس وقت ہوتے ہیں جب یہ لفظ انسان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ حَاجَةٌ کے معنی یہاں یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے روزوں کو قبول نہیں کرے گا اور انسان کی طرف ملتفت نہیں ہو گا.پس روزے اس معنی میں کہ یہ نفس کے کچلنے کے لئے قائم کئے گئے ہیں اور شیطان کے حملوں سے انسان کو بچاتے ہیں ہمارے لئے بطور ڈھال کے ہیں جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :.الصِّيَامُ جُنَّةٌ فَلا يَرْفُثْ وَلَا يَجْهَلَ - فَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْشَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ إِنِّي

Page 1003

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۸۷ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۶۷ء صَائِمٌ مَرَّتَيْنِ - وَالَّذِى نَفْسِي بِيَدِهِ لَخَلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى مِنْ ريحِ الْمِسْكِ يَتْرُكُ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجَلِي وَالصِّيَامُ لِي وَأَنَا أَجْزِئُ بِهِ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا - ی بھی بخاری کی حدیث ہے.اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماہ رمضان اور اس کے روزے بطور ڈھال کے تمہارے لئے بنائے گئے ہیں اور اگر تم روزے کی روح اور اس کی حقیقت کو سمجھو تو شیطانی حملوں سے تم خود کو محفوظ کر سکتے ہو اس لئے ضروری ہے کہ تمہاری زبان پر کسی قسم کا مخش نہ آئے شہوت کو ابھارنے والی باتیں نہ آئیں اور لَا يَجْهَل یہ بھی ضروری ہے کہ انسان جھل سے کام نہ لے.جھل کے تین معنی ہیں اور تینوں یہاں چسپاں ہوتے ہیں.ایک معنی تو اس کے یہ ہیں کہ انسان علم سے خالی ہو یعنی اس کے معنی عدم علم کے ہیں.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم کا سمندر قرآن کریم میں ہے رمضان میں کثرت تلاوت کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں جیسا کہ دوسری جگہ آتا ہے اور یہی میری سنت اور یہی حضرت جبرئیل علیہ السلام کی سنت ہے کیونکہ ہر رمضان میں وہ پورے قرآن کریم کا دور آپ سے کیا کرتے تھے.تو علم کے سمندر کا تمہیں پتہ دیا گیا اور اس سمندر میں غوطہ لگانے کے سامان تمہارے لئے مہیا کئے گئے اس لئے تم چوکس اور ہوشیار رہنا کہ کہیں اس موقع کو کھو نہ دو اس لئے روزہ دار کے لئے ضروری ہے لا يَجْهَلُ کہ اپنے اندر جہالت باقی نہ رہنے دے کیونکہ علم کے دروازے اس کے لئے کھولے گئے ہیں اور علم کے نور سے منور ہونے کی راہیں اسے بتائی گئی ہیں.دوسرے جھل کے معنی غلط اعتقاد کے ہیں.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کریم چونکہ کامل اور مکمل کتاب ہے جو شخص اسے سمجھتا اور اس کی حکمتوں کو جاننے کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ تمام اعتقادات صحیحہ پر عبور حاصل کر سکتا ہے.تو یہ موقع جب تمہیں دیا جاتا ہے کہ تم ہر قسم کے غلط اعتقاد کو اپنے ذہنوں اور دلوں سے نکال کر باہر پھینک دو تو اس موقع سے فائدہ اٹھاوَلا يَجْهَل ایک مومن روزہ دار کو چاہیے کہ صحیح اعتقادات کے حصول کے لئے پوری پوری کوشش کرے اور قرآن کریم سے پورا پورا فائدہ اٹھائے اس سے بے اعتنائی نہ برتے.

Page 1004

خطبات ناصر جلد اول ۹۸۸ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۶۷ء تیسرے جَھل کے معنی ہیں فِعْلُ الشَّيْءِ بِخِلَافِ مَا حَقُهُ أَنْ يُفْعَلَ جو کام جس طور پر کرنا چاہیے اس طرح نہ کرنا تو لا يَجْعَل کے معنی ہیں کہ رمضان میں حسنِ عمل کی طرف خاص طور پر متوجہ ہونا چاہیے یعنی جو اعمالِ صالحہ کا حق ہے وہ ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.اسی لئے رمضان کے ساتھ صرف بھوکا رہنے یا پیاسا رہنے یا بعض دیگر پابندیوں کو بجالانے کا ہی حکم نہیں بلکہ سارے نیک اعمال کرنے کی طرف انسان کو توجہ دلائی گئی ہے اور یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ تمہاری زندگی اور تمہاری بقا کے لئے جو ضرور تیں ہو سکتی تھیں ان کو پورا کرنے کے سامان کر دئے گئے ہیں اب تمہارا کام ہے کہ تم ان سے فائدہ اُٹھاؤ اور ایک صراط مستقیم پر تمہیں چلا دیا گیا ہے.یہ صراط مستقیم اعمال صالحہ کا ہے تم اس صراط مستقیم پر چلتے رہو جہالت سے کام نہ لینا.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہیں مشک وغیرہ کی خوشبو بہت پسند ہے اسی لئے ہم نے یہ حکم دیا ہے کہ جمعہ کے موقع پر یا عید کے موقع پر یا دوسرے اجتماعوں میں مشک اور دوسری خوشبوئیں لگا کر آیا کرو تا کہ تمہارے ساتھی ایک قسم کی لذت محسوس کریں تو جتنی مشک کی خوشبو تمہیں اچھی لگتی ہے اس سے زیادہ ہمیں وہ بو محبوب ہے جو محض ہماری رضا کے لئے کھانا چھوڑ نے کے نتیجہ میں بعض دفعہ منہ میں پیدا ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ تو خوشبو اور بد بو ہر دو سے بے نیاز ہے.نور محض کو جسمانی حواس یا ان حواس سے حاصل ہونے والی لذتوں سے کیا سرو کارلیکن جو شخص اس کی خاطر محض اس کی رضا کے لئے بھوک کو برداشت کرتا ہے اور کھانے پینے کو چھوڑتا ہے اگر اس کے نتیجہ میں بعض ایسی باتیں پیدا ہوتی ہیں جو انسان کو پسند نہیں تو نہ ہوا کریں ہم تو اس کے دل کی کیفیت کو دیکھ کر اس قسم کی بو کو بھی بڑا ہی محبوب سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارے لئے اس شخص نے ایسا کام کیا کہ جس کے نتیجہ میں اس کے منہ میں وقتی طور پر بو پیدا ہوگئی اور ہمیں یہ خُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ (روزہ دار کے منہ کی بو ) اس لئے محبوب ہے کہ يَتْرُكُ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَشَهُوَتَهُ مِنْ أَجْلِيْ اس نے محض ہماری خاطر کھانے کو چھوڑا اور پینا چھوڑا اور اپنی شہوت کو چھوڑا الصّيام لي روزہ میرے لئے ہ وانا اجزی بہ اس فقرہ کے معنی بعض بزرگوں نے یہ بھی کئے ہیں کہ دنیا نے غیر اللہ کے لئے کبھی روزے نہیں رکھے.دنیا نے غیر اللہ کو سجدہ بھی کیا ان کے لئے مالی قربانیاں بھی دیں

Page 1005

خطبات ناصر جلد اول ۹۸۹ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۶۷ء چڑھاوے بھی چڑھائے اور بھی بہت سی بدعتیں کیں لیکن غیر اللہ کے لئے اپنے پر بھوکا رہنے کی پابندی کسی مشرک نے عائد نہیں کی.یہ معنی بھی لطیف ہیں اگر تاریخ اس کی گواہی دیتی ہولیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے روزہ کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے الصِّيَامُ لی کا فقرہ بولا ہے یعنی روزے دار کا روزہ میرے نزدیک ایسا ہے کہ یہ خالصتاً میرے لئے ہے وانا اجزی بہ اور میں ہی اس کی جزا دوں گا وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ امْثَالِهَا اور یہ جو کہا گیا ہے کہ ہر نیکی کے بدلہ میں دس گنا یا اس سے زیادہ ثواب ہوگا.یعنی حساب سے بتایا گیا ہے کہ دس گنا یا سو گنا یا بعض جگہ اس سے بھی زیادہ ثواب کا ذکر آتا ہے یہ دوسری نیکیوں کے متعلق آتا ہے روزہ اس سے مستثنیٰ ہے روزہ کا ثواب اور اس کی جزا بغیر حساب کے ہے الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ امْثَالِهَا کے مطابق نہیں.اس کی جزا بے حساب ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اگر روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے تو اس قرب کو کسی حساب میں تو محدود نہیں کیا جا سکتا.دنیا کے سارے حساب ختم ہو جاتے ہیں اس ثواب کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا جب اللہ تعالیٰ کا قرب انسان حاصل کر لے اور اس کی رؤیت یا اس سے ہم کلامی یا اس کی رحمتوں (زندہ رحمتوں) کو انسان اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھ لے یعنی اسے روزہ کی یہ جزامل جائے تو اسے کسی حساب میں محدود نہیں کیا جا سکتا.اس سے ملتے جلتے الفاظ میں ایک دوسری حدیث بھی ہے جس کے آخر پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ روزه دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ایک خوشی تو اسے یہ حاصل ہوتی ہے إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ کہ وہ روزہ کھولتا ہے اور کھاتا اور پیتا ہے اس یقین اور ایمان کے ساتھ کہ میں نے خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کے حکم سے کھانا پینا چھوڑا تھا اور اب میں خدا تعالیٰ کی اجازت سے اسی کے حکم سے کھانے لگا ہوں کیونکہ افطار محض کھانا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھانا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے اس بات سے منع کیا ہے کہ سورج غروب ہو جانے پر کھانے میں تاخیر کی جائے بلکہ آپ اتنی جلدی کیا کرتے تھے کہ بعض دفعہ صحابہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ ابھی تو روشنی ہے.آپ فرماتے نہیں سورج غروب ہو گیا ہے تم روشنی کی طرف نہ دیکھو اور میرے لئے افطاری

Page 1006

خطبات ناصر جلد اول ۹۹۰ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۶۷ء تیار کرو تو افطر میں اس طرف اشارہ کیا گیا کہ انسان روزہ رکھنے کے بعد جب روزہ کھولتا اور کچھ کھاتا ہے تو یہ سمجھتے ہوئے کھاتا ہے کہ میرا یہ کھا نا صرف اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کھانے کی اجازت دی ہے.جس طرح میرا کھانے سے پر ہیز کرنا اس لئے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے منع کر دیا تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو یہ سبق مل جاتا ہے اور وہ اس کو اچھی طرح سمجھنے لگ جاتا ہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں کھائی جس کی اللہ تعالیٰ اجازت نہ دے.مثلاً چڑھاوے کے کھانے ہیں ان سے اسلام نے منع کیا ہے پھر بہت سارے اور کھانے ہیں جن سے اسلام نے منع کیا ہے.پھر مال حرام ہے اس سے بھی خدا تعالیٰ نے منع کیا ہے میں اس تفصیل میں اس وقت نہیں جانا چاہتا غرض جس وقت انسان روزہ کھولتا ہے تو وہ صرف کھانا ہی نہیں کھا تا بلکہ وہ اس لئے کھا رہا ہوتا ہے کہ خدا نے اسے کہا کہ کھا تو جو شخص اس حقیقت کو پالے کہ میرا کھانا اور نہ کھانا ہر دوخدا کے لئے ہیں اس کی اجازت اور اس کے حکم سے ہیں اس سے زیادہ خوشی اور کیا اسے پہنچ سکتی ہے اذا افطَرَ فَرِح کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کھانے پینے میں تمہارے لئے بڑی لذتیں ہیں.کیونکہ ایک مسلمان کی لذت کھانے میں نہیں ہے.ایک مسلمان کی لذت اس کھانے میں ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ کھاؤ.پس جس وقت روزہ دار افطار کرتا ہے اس کو بڑی خوشی پہنچتی ہے کہ میرے رب نے مجھے کہا کہ اے میرے بندے ! میرے کہنے پر تو نے کھانا چھوڑا تھا اب میرا حکم ہے کہ تو کھا.تو وہ کھاتا ہے اور اپنے رب کے اس حکم کی وجہ سے اور اس حقیقت کو پالینے کے نتیجہ میں اس کے لئے بڑی ہی خوشی کا سامان پیدا ہو جاتا ہے اور دوسری خوشی اس کی یہ ہے کہ اذا لقی رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِہ جب اپنے رب کی ملاقات اور اس کا قرب اسے حاصل ہو جاتا ہے اور رویا یا کشوف یا الہام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ اسے مل جاتا ہے تو اس سے بڑھ کر اس کے لئے اور کیا خوشی ہو سکتی ہے.پس اس دنیا میں بھی دو خوشیوں کے سامان ایک مخلص روزہ دار کے لئے پیدا ہو جاتے ہیں.اس ماحول میں اور اس رمضان میں جس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی حقیقت ہمیں سمجھ آتی ہے ( یہ بھی بخاری کی حدیث ہے اور

Page 1007

خطبات ناصر جلد اول ۹۹۱ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۶۷ء ابوہریرہ کی روایت ہے ) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.إِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَخُلِقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَ سُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ - آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جب آسمان کے دروازے کھلتے ہیں تو دو نتیجے پیدا ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ آسمانی رحمتوں کا نزول ہونے لگتا ہے دوسرے یہ کہ انسان کے اعمالِ صالحہ جو خلوص نیت سے کئے جائیں وہ آسمانوں میں داخل ہو سکتے ہیں ( یہ ایک تمثیلی زبان ہے ) یعنی قبولیت کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.دروازہ کھلنے کے دو ہی نتیجے ہو سکتے ہیں اور دونوں پیدا ہوتے ہیں.پس جو شخص نیک نیتی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے لئے روزہ بھی رکھتا ہے اور اس کے لوازمات بھی بجالاتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ آسمانوں کے دروازے کھول دیتا ہے.بڑی کثرت سے نزول رحمت باری شروع ہو جاتا ہے اور ایسا بندہ اللہ تعالیٰ سے اس کے حکم کی بجا آوری کی توفیق بھی پاتا ہے اور جو عاجزانہ طور پر اپنے خدا کے حضور پیش کرتا ہے اس کی قبولیت کے سامان بھی پیدا کئے جاتے ہیں.ان دروازوں سے اعمالِ صالحہ داخل ہو جاتے ہیں خُلِقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ روزے دار کے لئے ایسے سامان پیدا کر دئے جاتے ہیں کہ وہ معاصی سے بچنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جن باتوں سے روکا ہے ان سے وہ رک جاتا ہے اور یہی چیزیں ہیں جن کے نتیجہ میں جہنم کے دروازے کھلتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ کی توفیق سے وہ معاصی سے بچتا ہے اور نواہی سے پر ہیز کرتا ہے اور جس وقت رحمت کے دروازے کھلے ہوں جہنم کے دروازے بند ہوں تو پھر اس میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ صُفْدَتِ الشَّيَاطِينُ کہ شیطان زنجیروں میں جکڑ دئے گئے.شیطانی حملہ اندرونی ہو ( نفس اتارہ کے ذریعہ ) یا بیرونی ہو وہ کارگر نہیں ہوسکتا.غرض یہ رمضان جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے اور یہ رمضان ہے جس کی طرف ہمیں پورے نفس اور پوری روح کے ساتھ متوجہ ہونا چاہیے تا ہم خدا کے فضل اور اس کی توفیق سے ایسے اعمال بجالائیں کہ ہمارے لئے جنتوں کے دروازے تو ہمیشہ کھلے رہیں لیکن جہنم کے

Page 1008

خطبات ناصر جلد اول ۹۹۲ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۶۷ء دروازے مقفل رہیں اور شیاطین ( جو وجود بھی ہمارے لئے شیطان بن سکتے ہیں ان ) کو پابہ زنجیر کر دیا جائے اور ہم ان کے حملہ سے محفوظ رہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی اس بشارت کے مستحق ہوں کہ جو شخص رمضان کے روزے رکھتا ہے ایمانا اس ایمان اور یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اپنے فضل کے دروازے کو کھولنے کے لئے رمضان کا روزہ فرض اور واجب کیا ہے اور ہمارے لئے رحمت کا موجب ہے تکلیف اور زحمت کا موجب نہیں اور اِحْتِسَابًا أَى طَلَبًا لِلْآخِرِ فِي الْآخِرَةِ اس کے نتیجہ میں اپنے ربّ کے اجر کا طالب ہو اور یہ عزم اور یہ رغبت اس کے اندر پائی جاتی ہو کہ میں نے ہر قربانی دے کر اپنے رب سے اس کا ثواب حاصل کرنا ہے اور بشاشت قلب کے ساتھ وہ یہ قربانی دے اسے بوجھ نہ سمجھے یہ معنی ہیں احتساب کے.غرض جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں کو بوجھ نہیں سمجھتا طیب خاطر اور بشاشت قلب کے ساتھ وہ انہیں بجالاتا ہے اور اس کے دل میں ایک جوش ہوتا ہے کہ میں ہر قربانی دے کر اپنے رب کی خوشنودی کوضرور حاصل کروں گا اور اس ایمان پر قائم ہوتا ہے کہ اگر میں نے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ اور قرآن کریم میں اس رضا کے حصول کی جو راہیں ہم پر کھولی ہیں ان پر میں چلوں گا تو پھر غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ جو اس کی شرعی کمزوریاں ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مغفرت کی چادر کے نیچے ڈھانپ لے گا اور اپنے نور سے اسے منور کرے گا اور اپنی رضا کی جنت میں اسے داخل کرے گا.اللہ تعالیٰ ہم سب سے خوش ہو اور ہم سے راضی رہے اور ہمیں ایسے اعمال بجالانے کی توفیق دے جو اس کی نگاہ میں مقبول ہوں اور شیطان کو انتہائی طور پر ناپسندیدہ ہوں اور وہ ہمیں اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرے اور ہم سے خوش ہو جائے اور ہمیں اپنا محبوب بنالے (اپنا محبوب کہتے ہوئے روح کانپ اُٹھی کہ ایک بندہ ناچیز خدا کا محبوب کیسے بن سکتا ہے.بندہ بڑا ہی عاجز ہے اور کوئی خوبی اس میں نہیں لیکن ہمارا رب بڑا ہی پیار کرنے والا ہے وہ کہتا ہے کہ میری طرف آؤ

Page 1009

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۹۳ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۱۹۶۷ء میں تمہیں اپنا محبوب بنالوں گا) پس وہ اپنے فضلوں کی بارش کچھ اس طرح ہم پر برسائے کہ ہم واقعہ میں اور حقیقتاً اس کے محبوب بن جائیں اور اس کی رضا کی جنتوں میں رہنے والے ہوں.روزنامه الفضل ربوه ۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ صفحه ۲ تا ۵)

Page 1010

Page 1011

خطبات ناصر جلد اول ۹۹۵ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۶۷ء رمضان کے روزوں اور عبادات کا بڑا گہرا تعلق دُعا اور قبولیت کے ساتھ ہے خطبہ جمعہ فرموده ۸ / دسمبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور پرنور نے b وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.(البقرة : ۱۸۷) وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَ الَّذِينَ أُووُا وَ نَصَرُوا أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ - (الانفال: ۷۵) کی بھی تلاوت فرمائی پھر فرمایا.رمضان کے مہینے کا اور رمضان کے روزوں اور عبادات کا بڑا گہرا تعلق دعا اور قبولیت دعا کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے اسی لئے یہ فرمایا ہے کہ روزہ میرے لئے رکھا جاتا ہے اور میں خود اس کی جزا ہوں گا اور وہ خود ہی اس کی جزا بن جاتا ہے.اسے اپنا قرب عطا کرتا ہے اور اپنے پیار اور محبت کا سلوک اس سے کرتا ہے اور پیار اور محبت کے سلوک میں بڑا ہی پیارا سلوک قبولیتِ دعا کا ہے.اللہ تعالیٰ نے وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيب سے پہلے یہ فرمایا تھا کہ قرآن میں

Page 1012

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۹۶ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۶۷ء ہدایت بھی ہے حکمت بھی ہے نور بھی ہے.ہر زمانہ میں ہر مہینہ میں ان قرآنی برکات کے حصول کی کوشش کرتے رہا کرو لیکن رمضان میں آسمان سے رحمتوں کا نزول دوسرے مہینوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے اور قبولیت جو انسان کو حاصل ہو سکتی ہے وہ بھی اس مہینہ میں زیادہ حاصل ہوسکتی ہے اور اس کے آخر میں فرمایا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو کثرت سے بیان کرو اور اس کے شکر کی طرف متوجہ ہو اور شکر میں اور کبریائی میں دعا اور قبولیت دعا کی طرف اشارہ تھا جسے اس آیت میں کھول کر بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ اگر میرے بندے یہ سوال کریں کہ اللہ کا قرب کیسے حاصل ہوسکتا ہے تو انہیں میری طرف سے کہو کہ میں تو قریب ہوں اُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ رمضان کے روزوں اور دوسری عبادتوں کے نتیجہ میں میں اور بھی قریب ہو گیا ہوں اور میرے قرب پر یہ بات شاہد ہے کہ دعا کرنے والے کی دعا کو میں قبول کرتا ہوں لیکن دعا کو اپنی شرائط کے ساتھ کرنا چاہیے اور دعا کی جو شرائط اسلام نے بتائی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جن پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے وہ ساری کی ساری ان دو لفظوں میں آجاتی ہیں کہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي اللَّہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا لیکن بنیادی طور پر دو شرطیں ہیں.ایک تو یہ کہ تم میرا حکم ماننے والے ہو کوئی ایسی دعا نہ ہو جو میرے اوامر اور نواہی کے خلاف ہو.مثلاً اللہ تعالیٰ حکم یہ دے کہ ہمسائے سے حسنِ سلوک کرو اور ہمسایہ بغض اور حسد سے یہ دعا کر رہا ہو کہ خدا اس کو تباہ کرے اس کے بچوں کو مار دے اس کے رزق میں بے برکتی ڈال.تو ایسی دعا اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہو گی اور رڈ کر دی جائے گی اور قبول نہیں کی جائے گی.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا اگر تم دعا کی شرط کو مدنظر رکھو اور پہلی شرط یہ ہے کہ فَلْيَسْتَجِيبُوائی کہ میرے حکم کو وہ ما نہیں جو بھی احکام اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دیئے ہیں اور جن کی وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں اور پھر آپ کے ارشادات میں پائی جاتی ہے اور جس پر بڑی سیر کن بحث حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب اور اپنی تحریروں اور تقریروں میں کی ہے ان احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے جو دعا قبول کی

Page 1013

خطبات ناصر جلد اوّل ۹۹۷ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۶۷ء جائے گی وہ دعا کی ایک شرط کو پورا کر رہی ہوگی اور اگر باقی شرائط بھی پوری ہوں تو پھر وہ دعا قبول ہو جائے گی.دوسری اصولی شرط یہ ہے کہ وَلْيُؤْمِنُوا پی میری ذات اور میری صفات پر کامل ایمان رکھتے ہوں اگر کسی شخص کے دل میں یہ خیال ہو مثلاً کہ میرا بچہ اس قدر بیمار ہو چکا ہے کہ اللہ بھی اس کو شفا نہیں دے سکتا تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی اس صورت میں اس کی دعا توسطحی اور محض زبان کے الفاظ ہوں گے جن کے اندر کوئی حقیقت جن کے اندر کوئی روح نہیں پائی جاتی.جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا محبوب اور پیارا رب اس کی دعا کو قبول کرے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس حکم کو سامنے رکھے کہ وَلْيُؤْمِنُوا ئی کہ میری ذات اور میری صفات پر کامل ایمان رکھنے کے بعد جود عاتم کرو گے وہ میں قبول کروں گا مثلاً مجھے قادر مطلق سمجھو گے صرف میری طرف جھک رہے ہو گے اگر ایک شخص اللہ تعالیٰ کو رزاق نہیں سمجھتا اور رشوت پر توکل رکھتا ہے تو اس کی یہ دعا کہ اے خدا میرے مال میں برکت ڈال قبول نہیں ہو سکتی.کیونکہ وَلْيُؤْمِنُوا پی کے خلاف ہے.ہر دو اصولی شرائط کے خلاف ہے.خدا تعالیٰ کی حکم عدولی بھی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو حقیقی معنی میں رزاق بھی نہیں سمجھا گیا.جس شخص پر اللہ تعالیٰ کی صفت الرزاق “ کا جلوہ ہو جاتا ہے وہ ہر قسم کے مال حرام سے پر ہیز کرنے کی انتہائی کوشش کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ میری ساری ضرورتوں کو پورا کرنے والا میرا رب ہے.تو یہ دو بنیادی شرائط ہیں جو دو حکموں میں یہاں اللہ تعالیٰ نے بڑے لطیف پیرا یہ میں بیان کر دی ہیں کہ اگر ان شرائط کے ساتھ دعا کی جائے گی تو قبول کی جائے گی اور اس سے دو باتیں ثابت ہوں گی.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ بندے کے قریب ہے.رات کی تنہائی اور خاموشی میں ہم دعا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور مہربانی سے ان دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے.دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو اسلام پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کے طفیل اپنا قرب عطا کیا ہے.کیونکہ قرب دونوں طرف

Page 1014

خطبات ناصر جلد اول ۹۹۸ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۶۷ء کا ہوتا ہے نا؟ تو جس چیز سے جس علامت سے یہ ظاہر ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کے قریب ہے.وہی بات یہ بھی بتارہی ہوگی کہ وہ بندہ بھی خدا کے فضل سے اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گیا ہے.یہاں جو لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ( تاکہ تم ہدایت کے صحیح مقام پر قائم ہو جاؤ ) اور فَلْيَسْتَجِيبُوانی وَلْيُؤْمِنُوا بی“ فرما یا ان کی تشریح اور تفسیر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال کی پچھتر ویں آیت میں کی ہے جو میں نے ابھی دوستوں کو سنائی ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ اووا وَ نَصَرُوا أُولبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا وہاں یعنی " فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِی“ میں یہ بتایا تھا کہ مجھ پر ایمان لائیں.یہاں اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ حقیقی ایمان لانے والے کون ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی علامتوں میں سے ایک علامت تو امنوا عام ایمان کی بیان کی ہے ایمان کے اصل معنی زبان اور دل کے اقرار اور تصدیق کے ہیں نیز جوارح کی تصدیق یعنی عمل بھی اس دعویٰ کے مطابق ہوں.تب حقیقی ایمان بنتا ہے.ایک منہ کا ایمان ہے لوگ عام طور پر کہہ دیتے ہیں کہ جی ہم ایمان لائے.صرف زبانی دعوی ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں وَهَاجَرُوا اور ان تمام باتوں سے رکے رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ اور وہ تمام کام کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ کرو.وَالَّذِينَ اوو او نَصَرُوا اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر اسلامی معاشرہ کو وہ قائم کرتے ہیں اور وہ جو خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں اپنے گھروں کو چھوڑتے ہیں.یہ لوگ ان کو اپنے گھروں میں جگہ دیتے ہیں وَنَصَرُوا اور ہر طرح ان کی مدد کرتے ہیں تو یہ سچے مومن ہیں.هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا.تو سچے مومن کی پانچ نشانیاں یہاں بیان کی گئی ہیں.ایمان کے معنی یہاں یہ ہیں کہ وہ لوگ جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کا تمام وجود ایک ایسی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے.یہ ایمان ہے جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے یعنی ہم اس اعتقاد اور یقین پر قائم ہوں کہ حقیقی وجود اللہ تعالیٰ

Page 1015

خطبات ناصر جلد اول ٩٩٩ خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۶۷ء کا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور مجھے بطور انسان کے اس لئے بنایا ہے کہ میں اپنا وجود اس کی راہ میں کھودوں اور اپنے ارادوں کو چھوڑ کر اس کے ارادوں اور اس کی رضا کو قبول کرلوں اور اس کی معرفت حاصل کر کے اس کے قرب کی راہوں پر چلنے کی کوشش کروں اور میرے دل میں سوائے اس پاک ذات کی محبت کے کسی اور کی محبت باقی نہ رہے.یہ کامل ایمان ہے جس کی طرف وَالَّذِينَ آمَنُوا میں امَنُوا کا لفظ اشارہ کر رہا ہے.اور دراصل اس کی دو کیفیتوں کو زیادہ وضاحت کے ساتھ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا میں بیان کیا گیا ہے هَاجَرُوا میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ انسان کی نفسانیت پر موت وارد ہو جائے اور اس کی اپنی کوئی خواہش یا اپنا کوئی ارادہ باقی نہ رہے اور وہ کلی طور پر ہر اس چیز سے پر ہیز کرنے والا ہو جس سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے.پس نفس امارہ کے تمام حکموں کوٹھکرا دینے والا اور اللہ تعالیٰ کے سب حکموں کی پابندی کرنے والا اور تمام حکموں کو ماننے والا ہی پکا مومن ہوتا ہے اور پکے مومنوں کی علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہ لوگ لگا دیتے ہیں اور اپنی ہر ایک قوت اور خدا داد توفیق سے وہ حقیقی نیکیوں کو بجالاتے ہیں اور باطنی اور ظاہری قومی سارے کے سارے خدا کے لئے اور اس کی راہ میں وقف کر دیتے ہیں.تو غیر اللہ کی ہر بات ماننے سے انکار اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر اپنا سب کچھ قربان کر دینا اس طرف هَاجَرُوا اور جَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللہ میں اشارہ کیا گیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن کی علامت یہ ہے کہ الَّذِینَ اووا وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہیں اور اپنے گھروں کے دروازے اپنے بھائیوں کے لئے کھولنے والے ہیں.ایک تو وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے سب کچھ اپنے شہروں میں چھوڑ دیا ( زیادہ تر مکہ میں ) اور مدینہ کی طرف وہ ہجرت کر گئے ان مومنوں کو مدینہ میں رہنے والے انصار نے پناہ دی اور اپنے گھر میں ان کو ٹھہرایا اور وہ یہاں تک تیار تھے کہ اگر خدا کا یہی منشا ہو کہ ہم اپنا سب کچھ نصف نصف کر کے نصف اپنے مہاجر بھائیوں کو دے دیں تو ہم اس کے لئے بھی

Page 1016

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۶۷ء تیار ہیں.یہاں تک کہ اگر اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہو کہ اگر ہماری دو بیویاں ہیں تو ہم ایک کو طلاق دے دیں اور اپنے بھائی سے یہ خواہش رکھیں کہ وہ اس بیوی سے عدت گزرنے پر شادی کر لے تو یہ بات بھی ہم کرنے کے لئے تیار ہیں.لیکن صرف اس حد تک اس لفظ کے معنی کو محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ جب بھی ایک مسلمان بھائی کو ضرورت پڑے تو ہمارا یہ فرض ہے کہ وَالَّذِينَ اوَوُا وَ نَصَرُوا پر عمل کرنے والے ہوں.یعنی جب بھی ایک مسلمان خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے گھر سے نکلے اور کسی دوسرے مقام تک پہنچے تو اس دوسرے مقام پر رہنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کو اپنے مکانوں میں رہائش کے لئے جگہ دیں.جیسا کہ اب جلسہ سالانہ آرہا ہے جلسہ سالانہ پر باہر سے آنے والے سردی کی شدت برداشت کرتے ہوئے اور اپنے بچوں کو اور بیویوں کو انتہائی جسمانی تکلیف میں ڈالتے ہوئے ربوہ میں پہنچتے ہیں.ربوہ میں آنے کی غرض یا مرکز سلسلہ میں پہنچنے کا مقصد یہ تو نہیں ہے کہ یہاں وہ دنیا کمانا چاہتے ہیں وہ محض خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور قرآن کریم کے احکام کو سننے کے لئے اور اپنے بھائیوں سے ملنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے جو فضل سال کے دوران جماعت پر ہوتے رہے ہیں ان کو دیکھنے اور ان کا حال سننے کے لئے آتے ہیں وہ صرف اس لئے آتے ہیں اور صرف اس لئے یہ تکالیف برداشت کرتے ہیں کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو جلسہ پر بلایا تو وہ آواز آپ کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی وہ آواز تھی.اسی لئے دوست بڑی کثرت سے آتے ہیں.ظاہری طور پر بڑا دکھ اٹھا کے اور بڑی قربانی دے کر آتے ہیں اور ہر قسم کی کوفت اور تکلیف یہاں برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں جو سہولت اور آرام پہنچا سکیں وہ تو ہمیں پہنچانا چاہیے ( ربوہ کے رہنے والوں کو ) اودا و نَصَرُوا کے ماتحت !!! میں کئی سال افسر جلسہ سالانہ کی خدمت بھی بجالاتا رہا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ لکھ پتی جن کی اپنے شہروں میں بڑی بڑی کوٹھیاں خدا کے فضل سے بنی ہوئی ہیں یہاں ان کو سارے خاندان کے لئے میاں بیوی اور بچوں کے لئے ایک چھوٹا سا کمرہ یا ایک غسل خانہ ہی جس میں پرالی پڑی

Page 1017

خطبات ناصر جلد اول 1++1 خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۶۷ء ا ہوئی ہو مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر بجالاتے ہیں.پس ربوہ والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ان مہمانوں کے لئے اپنے گھروں کے کچھ حصے وقف کریں اور جلسہ سالانہ کے انتظام میں انہیں دے دیں.یہ بھی ان کا فرض ہے کہ جب وہ اپنے مکان کا ایک کمرہ یا دو کمرے وقف کر چکیں تو پھر وقت پر دینے سے انکار نہ کریں کیونکہ اس سے بہت زیادہ تکلیف اور پریشانی ہوتی ہے ہمارے مہمان کو بھی اور منتظمین جلسہ کو بھی.منتظم مطمئن ہوتے ہیں کہ ہم نے فلاں بھائی کے خاندان کے لئے انتظام کر دیا ہے وہ مطمئن ہوتا ہے کہ میرے لئے جگہ کا انتظام ہے لیکن جب وہ ربوہ پہنچتے ہیں تو گھر والے کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے فلاں واقف آگئے تھے جن کا پہلے پتہ نہیں تھا وہ کمرہ یا کمرے جو آپ کو دیئے ہوئے تھے وہ تو ہم نے اپنے رشتہ دار یا دوست کو دے دئے یا واقف کو دے دیئے.بچارے کو انتہائی کوفت اور پریشانی اٹھانی پڑتی ہے اور آپ گنہ گار ہوتے ہیں وعدہ کرتے ہیں اور پورانہیں کرتے اور اپنے بھائیوں کی پریشانی کا باعث بنتے ہیں ایک حقیقی مومن کی جو علامت اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں جگہ دیتے ہیں اپنے ضرورت مند بھائیوں کو ) اس کی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے اس فعل سے اس بات پر مہر لگا رہے ہوتے ہیں کہ آپ اس حد تک حقیقی مومن نہیں (اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے آپ ہمیشہ محفوظ رہیں.ہر دم دعا بھی اور کوشش بھی ہونی چاہیے کہ ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے والے ہوں).جلسہ قریب آ رہا ہے اور اس کے انتظام شروع ہو چکے ہیں میں اپنے دوستوں سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے ان بھائیوں کے لئے جو خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے محض دین کی خاطر اور خدا تعالیٰ کی باتیں سننے کے لئے یہاں آتے ہیں اپنے مکانوں کا ایک حصہ وقف کریں اور انتظام جلسہ کے سپر د کریں تاکہ وہ انتظام کے ماتحت استعمال کئے جاسکیں اس سے آپ اپنے گھروں کو دراصل مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر کا ایک حصہ بنالیں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ وسغ مكانك تو اس میں صرف آپ ہی مخاطب نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو آپ کی سنت پر عمل کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کے منشا کو سمجھنے والا اور اس منشا

Page 1018

خطبات ناصر جلد اول 1005 خطبہ جمعہ ۸/دسمبر ۱۹۶۷ء کے مطابق اپنے گھر میں وسعت پیدا کرنے والا ہے وہ بھی اس کا مخاطب ہے.تو اگر آپ جلسہ کے موقع پر یا دوسرے موقعوں پر جب جماعت کو مکانوں کی ضرورت پڑتی ہے اپنے مکان وقتی طور پر سلسلہ کے لئے دیں تو مالی لحاظ سے تو آپ کو کوئی نقصان نہیں لیکن بے انتہاء ثواب آپ کما رہے ہوتے ہیں اور ان تمام برکتوں کے وارث بن رہے ہوتے ہیں جن برکتوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا نے کہا کہ میں تیرے گھر پر نازل کروں گا کیونکہ اس طرح آپ کا گھر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر کا ایک حصہ بن جاتا ہے تو زیادہ سے زیادہ مکان یا ان کے حصے جلسہ سالانہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے لئے پیش کریں.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتی عمارتیں بھی ہر سال کچھ نہ کچھ بڑھتی ہی رہتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ ہر سال ہی مکانیت میں زیادتی اور وسعت پیدا ہو جانے کے باوجود مکان تنگ ہو جاتا ہے اور مہمان زیادہ ہوتے ہیں.یہ تو ہوتا ہی رہے گا تا کہ یہاں کے رہنے والے بھی اور آنے والے بھی مکان کی تنگی کے نتیجہ میں ہمیشہ ثواب حاصل کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ اپنی پوری شان کے ساتھ پورا ہوتا رہے.روزنامه الفضل ربو ه ۱۶؍ دسمبر ۱۹۶۷ صفحه ۲ تا ۴)

Page 1019

خطبات ناصر جلد اول 1005 خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء قسم با قسم کے ابتلاؤں میں کامیاب ہوئے بغیر انسان رضائے الہی کی جنتوں میں داخل نہیں ہو سکتا فرمائی.خطبه جمعه فرموده ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت ام حَسِبْتُمْ أَن تَدخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسْتُهُمُ ط الْبَاسَاءِ وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيب - (البقرة : ۲۱۵) اس کے بعد فرمایا:.اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کو تم اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک ایک مضبوط اور زندہ ایمان پر تم قائم نہ ہو جاؤ ایسا ایمان جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی معجزانہ نصرتوں کو اس کا عاجز بندہ مشاہدہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معجزانہ نصرت اس وقت اور صرف ان لوگوں کو ملا کرتی ہے جو اپنے رب کے ساتھ ایک زندہ تعلق پیدا کر لیتے ہیں اور اس کی محبت میں اور اس کے عشق میں اپنے رات دن گزارتے ہیں اس محبت کو پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو راستہ بتایا ہے وہ عاجزانہ دعاؤں اور التجاؤں کا راستہ

Page 1020

خطبات ناصر جلد اوّل 1005 خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء ہے ان عاشقانہ التجاؤں کے ساتھ ایک بندہ اپنی محبت کا اظہار کرتا اور اپنے رب کی محبت کو جذب کرتا ہے اور دعا کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس پر ایک موت وارد ہو رہی ہے پس وہ موت کی سی کیفیت پیدا کر کے اپنے رب کے حضور جھکتا ہے اپنا سب کچھ بھول جاتا ہے اور صرف اسی کی یا داس کے دل اور اس کے دماغ کو معطر کر رہی ہوتی ہے.عاجزانہ دعاؤں کے وقت موت کی سی کیفیت صرف اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب اس کے سامان پیدا کئے جائیں اور وہ سامان بَأْسَاءُ اور ضَرَآءُ اور زُلْزِلَ ہیں.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان کیا ہے کہ تمہیں تکالیف میں ڈالنا ہمارا مقصد نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مخالفوں کے ابتلا اور قضا و قدر کے ابتلا اور احکام و اوامر کے امتحان بندہ کے لئے اسی لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں کہ تا اللہ کا ایک بندہ اپنے رب کی طرف جھکے اور بار بار جھکے اور ان عاشقانہ التجاؤں اور عاجزانہ دعاؤں کے نتیجہ میں اسے قرب الہی حاصل ہو اور اس کے اندر حقیقی روحانیت پیدا ہو جائے اور ایک زندہ تعلق اس کا اپنے رب کے ساتھ قائم ہو جائے جس کے نتیجہ میں مصائب و شدائد اور ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے معجزانہ نصرت اور تائید کے نشانات اسے دکھائے اور اس طرح پر اس کے ایمان کو زندہ اور مضبوط کرے.اس آیت کے معنی جو تفسیر کبیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بیان کئے ہیں یہ ہیں کہ " کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ باوجود اس کے کہ ابھی تم پر ان لوگوں کی سی تکلیف کی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے گزرے ہیں تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے انہیں تنگی ( بھی ) پہنچی اور تکلیف ( بھی ) اور انہیں خوف دلایا گیا تا کہ (اس وقت کا ) رسول اور اس کے ساتھ (کے) ایمان والے کہہ اٹھیں کہ اللہ کی مدد کب آئے گی یا درکھو اللہ کی مدد یقیناً قریب ہے.“ یعنی وہ کہہ اٹھیں کہ ہمارے پیارے رب ہم تیری مدد کے، تیری نصرت اور تائید کے اور محبت کے سلوک کے منتظر ہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فعل سے یہ شہادت دے گا کہ ایسے لوگوں

Page 1021

خطبات ناصر جلد اول ۱۰۰۵ خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء کے قریب ہی اس کی مدد ہے یعنی انہیں اس کی مدد فوراً پہنچ جاتی ہے.بأْسَاءُ ، ضَرَّاء اور زُلْزِلُوا تین الفاظ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان تکالیف اور مصائب کے متعلق استعمال کئے ہیں.بأساء کے معنی (مفردات) میں اَلشَّدَةُ وَالْمَكْرُوہ یعنی مصائب اور شدائد کے آئے ہیں.پھر وہ چیز جسے انسان کا نفس پسند نہیں کرتا اور وہ چیز جو اس امر پر گراں ہوتی ہے اس کو بھی بأساء کہتے ہیں اور تنگ دستی کو بھی باسَاءُ کہتے ہیں.الضراء کے معنی سُوءُ الْحَالِ یعنی بُرے حال کے ہیں یہ لفظ عربی زبان میں اس وقت بھی بولا جاتا ہے جب کسی کو کہنا ہو کہ اس کا تو براحال ہے نہ اس کے پاس علم ہے نہ فضل ہے اور نہ وہ اخلاق فاضلہ رکھتا ہے پس دشمن ان کو ایسا سمجھتے اور ایسا مشہور کرتے ہیں.دوسری جگہ فرمایا وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذُلُونَ پھر انسان کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے بھی ضراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں کہ اس کے پاس مال کی کمی ہے دنیوی عزت اور دنیوی وجاہت کی کمی ہے ( مفرادت ) منجد میں اَلضَّرَّاءُ کے معنى النَّقْصُ فِي الْأَنْفُسِ وَالْأَمْوَالِ یعنی جانی اور مالی نقصان کے بھی کئے گئے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص ضراء میں مبتلا ہو وہ بے کسی اور کسمپرسی کی حالت میں ہوتا ہے.وَزُلْزِلُوا.زُلْزِلَ کا لفظ اگر زمین کے متعلق استعمال ہو تو اس کے معنی ہیں جھٹکے لگے اور بعض دفعہ زلزلہ میں زمین کو تہ و بالا بھی کر دیا جاتا ہے.جب انسان کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں خُوفَ وَحُذِرَ یا زُغْزِعَ مِنَ الرغب.یعنی بڑا خوف اس کے دل میں پیدا کیا گیا اور اس کو ڈرایا گیا.اس آیت میں یہ تین الفاظ صرف مخالفین کی مخالفت طرف اشارہ نہیں کر رہے بلکہ ہرسہ تکالیف کی طرف اشارہ کر رہے ہیں یعنی وہ تکلیف (بأسَاءُ، ضَر او اور زُلْزِلَ ) جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے مخالف انہیں پہنچاتے ہیں اور دوسرے وہ تکلیف جو اللہ تعالیٰ اپنی قضا و قدر کے نتیجہ میں انہیں پہنچاتا ہے تاکہ ان کا امتحان لے.تیسرے وہ تکالیف اور تنگیاں جو

Page 1022

خطبات ناصر جلد اوّل 10+9 خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء انسان خود اپنے نفس پر ڈالتا ہے یہ تینوں قسم کی تکالیف ان تینوں لفظوں کے اندر پائی جاتی ہیں.مثلاً اللہ تعالیٰ نے (جب جہاد کی شرائط پوری ہوں ) تلوار کے جہاد کا حکم دیا ہے کہ تم اپنی جانوں کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور میدان مقابلہ اور میدان جنگ میں جا اُتر و اور وہ ایسا موقعہ ہے کہ جب انسان خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے نَقُصُّ فِي الْأَنْفُسِ یعنی جانوں کا نقصان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور بہت سے ان میں خدا کی راہ میں شہید بھی ہو جاتے ہیں اور شہید ہوتے رہے ہیں وہ خود بھی فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وارث ہوتے رہے ہیں اور دنیا کے لئے بھی ان کا وجود ایک نعمت بنتا رہا ہے تو یہ دنیوی لحاظ سے ایک تکلیف ہے جو انسان اپنے نفس پر ڈالتا ہے جسے انسان اپنے رب کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے اپنے نفس کو پہنچاتا ہے یا مثلاً بھوکا رہنا ہے بھوک تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے انسان کا جسم اپنے نفس کو یہ کہتا ہے کہ مجھے کھانے کو کچھ دو تا میری کمزوری دور ہو جائے اور جوا جزاء جسم سے خارج ہو گئے ہیں یا مر گئے ہیں ان کی جگہ زندہ اجزاء لے لیں غرض بھوک ایک ایسی تکلیف ہے جو یہ بتا رہی ہوتی ہے کہ ہمارے جسموں میں ایک کمزوری واقع ہو رہی ہے اور اس کی طرف ہمیں متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ اگر انسان اپنی اس کمزوری اور ضرورت کی طرف ایک لمبا عرصہ متوجہ نہ ہو تو اس کی موت واقع ہو جائے گی.لوگ دنیا کو ڈرانے کے لئے بھی تو بھوک ہڑتال کرتے ہیں اور بعض دفعہ اپنی بیچ کی وجہ سے اپنی جان بھی دے دیتے ہیں اس میں ان کی جان اسی لئے ضائع ہوتی ہے کہ جسم کی ضرورت کو پورا نہیں کیا جاتا جسم ان کو کہتا ہے میری ضرورت کو پورا کر ومگر وہ کہتے ہیں ہم بڑے ضدی آدمی ہیں ہم تمہاری ضرورت کو پورا نہیں کریں گے اس طرح وہ ہلاکت میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں.لیکن ایک تکلیف بھوک کی وہ ہے جو انسان خدا کے لئے برداشت کرتا ہے اور اس کے بہت سے مواقع ہیں صرف رمضان ہی اس کا موقعہ نہیں مثلاً ایک دفعہ جہاد کے موقع پر راشن کم ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر شخص کے پاس جو کھانے کی اشیاء تھیں وہ ایک جگہ جمع کر لیں اور پھر وہ تھوڑی تھوڑی کر کے فوج میں تقسیم کرنا شروع کیں تا ہر ایک کو حصہ رسدی کچھ نہ کچھ پہنچ جائے کیونکہ آپ نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ مسلمانوں کے معاشرہ

Page 1023

خطبات ناصر جلد اول 10+2 خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء میں دنیا یہ نظارہ دیکھے کہ ایسے ابتلا کے وقت بعض لوگوں نے تو اپنے پیٹ بھر لئے اور بعض کو کچھ بھی نہ ملا اور وہ بھوکے مر گئے گویا ان مواقع پر راشن کو کم کر دیا گیا.یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ وہ انہیں اتنا بھی دے دیتا تھا اور پھر جو دیتا تھا اس میں اتنی برکت ڈال دیتا تھا اس تھوڑی سی غذا کی وجہ سے ان پر موت وارد نہیں ہوئی یا انہیں کوئی مستقل جسمانی نقصان نہیں پہنچا لیکن خدا کے لئے بھوک کی تکلیف انہوں نے برداشت کی.یہ تو اجتماعی رنگ تھا بعض دفعہ انفرادی طور پر بھی انسان اپنے کھانے کا ایک حصہ دوسرے کو دے دیتا ہے.مثلاً ایسے وقت میں کوئی مہمان آجاتا ہے کہ اس کے لئے زائد کھانا پکا نا مشکل ہوتا ہے یا ایسا کرنا تکلف میں شامل ہوتا ہے تو گھر والے نصف کھانا کھا لیتے ہیں اور نصف اپنے مہمان کو دے دیتے ہیں پس یہ بھی بھوک کو برداشت کرنے کی ایک شکل ہے یا پھر رمضان ہے جو بھو کے رہنے کی قربانی کے اصول قائم کرنے کی بنیاد ہے.رمضان کے مہینہ میں اللہ تعالیٰ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ پو پھٹنے سے لے کر سورج غروب ہونے تک بھوکے رہو پیاسے رہو اور نفس کی بعض دوسری خواہشات کو بھی چھوڑ دو پس رمضان میں انسان اس تکلیف کو برداشت کرتا ہے.بعض دفعہ انسان اپنی مرضی سے اپنے رب کی خوشنودی کے حصول کے لئے دوسری تکالیف بھی برداشت کرتا ہے.مثلاً وہ سردی کی تکلیف برداشت کرتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ مجھ سے بڑی عمر کا ایک شخص ہے اس کے پاس کپڑے کافی نہیں ہیں اور شدت سردی کی وجہ سے اسے تکلیف ہو رہی ہے وہ سوچتا ہے کہ اس بوڑھے کی تکلیف میری تکلیف سے زیادہ ہے اگر میں اپنے کپڑے اس کو دے دوں تو جو تکلیف مجھے پہنچے گی وہ اس کی تکلیف سے کم ہوگی چنانچہ اس کا دل جو اپنے رب کا عاشق ہوتا ہے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اللہ کے دو بندوں میں سے جس کو کم تکلیف پہنچے اس کو وہ تکلیف برداشت کر لینی چاہیے اور جس کو زیادہ تکلیف پہنچ رہی ہو اس کی تکلیف دور کر دینی چاہیے پس وہ اپنے کپڑے اپنے اس بھائی کو دے دیتا ہے اور خود سردی کی تکلیف برداشت کرتا ہے.اسی طرح اسلام کے سینکڑوں حکم ہیں اور ان میں سے ہر حکم ہم سے ایک قربانی چاہتا ہے تبھی تو اس کا بدلہ اور جز املتی ہے.پس جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے قربانی چاہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ

Page 1024

خطبات ناصر جلد اوّل 1++A خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء ہمیں اس کے نتیجہ میں تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے وہ تکلیف جسمانی ہو جذباتی ہو یا کسی عادت کو چھوڑنے کی وجہ سے ہو وغیرہ وغیرہ.تکالیف کی بھی سینکڑوں قسمیں ہیں اور احکام نواہی بھی سینکڑوں ہیں اور ہر حکم اور ہر نہی جو قرآنِ عظیم میں بیان ہوئی ہے جب ہم اس پر عمل کرتے ہیں تو ہم ایک قربانی دے رہے ہوتے ہیں ہم ایک تکلیف اپنے نفس پر ڈال رہے ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ خدا کے لئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ہوتا ہے.غرض یہاں اللہ تعالیٰ نے ہر سہ قسم کے مصائب اور شدائد اور تکالیف کا ذکر کیا ہے پھر آگے ہر ایک کی تین تین قسمیں ہیں یعنی وہ با ساء جو مخالف کی طرف سے آتی ہے یا قضا و قدر کے نتیجہ میں آتی ہے یا وہ تنگدستی جس میں انسان اپنے آپ کو خود ڈال لیتا ہے اور اس طرح اپنے آپ کو غریب کر لیتا ہے یعنی ایک تو وہ ہے جس کی فصل ماری گئی ہے اور غریب ہو گیا ہے اور ایک وہ تھا جو اپنے گھر کا سارا اثاثہ لے آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالا.ابوبکر بھی تو بظاہر فقیر ہو گئے تھے تنگ دستی ان پر بھی آگئی تھی لیکن وہ تنگ دستی رضا کارانہ تھی اور اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے تھی پس ایک تنگ دستی وہ ہے جو مخالف کے فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے جیسا کہ مثلاً مکہ سے ہجرت کرتے ہوئے مسلمانوں نے قریباً اپنے سارے اموال وہاں چھوڑ دئے اس کے نتیجہ میں وہ تنگ دست ہو گئے اور وہ جو بہت مال دار تھے وہ بھی ہجرت کی وجہ سے غریب ہو گئے ان کو اللہ تعالیٰ نے غیرت بھی عطا کی تھی مدینہ میں آئے تو انہوں نے کہا ہم نے خدا کے لئے مال چھوڑا ہے پھر کسی آدمی کے آگے ہاتھ پھیلانے کا کیا مطلب ان میں سے بعض نے کلہاڑا لیا جنگل کی طرف نکل گئے اور لکڑیاں کاٹ لائے اور اس طرح انہوں نے اپنا پیٹ پالنا شروع کیا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے رزق میں بڑی برکت دی بہر حال وہ رضا کارانہ طور پر اپنے تمام اموال خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑنے کے لئے تیار تھے اور عملاً انہوں نے چھوڑ بھی دئے.یہ ایک تنگ دستی ہے جو دشمن کے عناد کے نتیجہ میں ان پر آئی.اگر مکہ والے ان کے لئے ایسے حالات پیدا نہ کر دیتے تو ان کو اپنے اموال نہ چھوڑنے پڑتے پھر قضا و قدر کے

Page 1025

خطبات ناصر جلد اوّل 10+9 خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انسان کا امتحان لینا چاہتا ہے اور تنگ دستی پیدا کرتا ہے وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ احتیاج کے وقت تم اپنے رب کی طرف جھکتے ہو یا انسان کی طرف جھکتے ہو.نا جائز طریق سے مال حاصل کرنا چاہتے ہو یا مانگتے ہو جو نا پسندیدہ ہے یا اپنے رب پر توکل رکھتے ہو اور مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ تم یہ امید رکھتے ہو کہ وہ تمہارے رزق میں ان راہوں سے برکت پہنچائے گا کہ جن کا وہم و گمان بھی تم نہیں کر سکتے تمہارے ذہن میں وہ بات آ ہی نہیں سکتی.غرض یہاں ہر سہ قسم کی تکالیف اور مصائب اور شدائد کا بیان ہے یعنی ان تکالیف ، مصائب اور شدائد کا بھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے امتحان کے لئے نازل کی جاتی ہیں اور ان کا بھی جو مخالفوں کی مخالفت کے نتیجہ میں انسان پر آتی ہیں اور ان کا بھی جو انسان اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لاتے ہوئے خود اپنے لئے پیدا کر لیتا ہے اور جن کی بعض مثالیں میں نے اس وقت دی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ ہر سہ قسم کے شدائد اور مصائب اور تنگ دستیوں میں اور با ساء میں تمہیں مبتلا کیا جائے گا اور پھر فرمایا کہ ہم تمہاری ظاہری حالت ایسی کر دیں گے کہ تمہیں غریب پاکر اور تمہیں دنیوی عزتوں سے ننگا پا کر دنیا تمہاری بے عزتی کے لئے تیار ہو جائے گی اور تمہیں ضراء میں مبتلا کر دیا جائے گا اور ہر سہ قسم کی ضراء تمہیں پہنچیں گی یعنی تمہارا مخالف تمہیں مالی نقصان پہنچائے گا اور تمہاری بے عزتی کرے گا.اللہ تعالیٰ تمہاری آزمائش کے لئے ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ تمہاری عزت میں فرق آ جائے اور تم خود اپنے نفس کو پہچانتے ہوئے اسے عاجزی اور کم مائیگی کے مقام پر لا کھڑا کر دو گے.تمہیں ضَرّاء پہنچے گی یعنی تم خود یہ جاننے اور پہچاننے لگو گے کہ تمہاری کوئی عزت نہیں.ساری عزتیں خدا کی ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں عزت نہ ملے تم حقیقی معنی میں معزز کہلانے کے مستحق نہیں ہو تو ہر سہ قسم کے ابتلا ضراء کے میدان میں بھی تمہیں دیکھنے پڑیں گے اور پھر خوف کی حالت طاری ہوگی کبھی دشمنوں کی دشمنی کے نتیجہ میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا ہے.هنالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا - (الاحزاب : ١٢)

Page 1026

خطبات ناصر جلد اول 1+1+ خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء یہ زلزلہ جس کا اس آیت میں ذکر ہے دشمنوں کا پیدا کردہ تھا یعنی جنگ احزاب کے موقع پر عرب کے سارے قبائل اکٹھے ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے اور مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ ظاہری سامانوں کو دیکھتے ہوئے ان کا بیچ جانا اور ہلاکت سے محفوظ رہنا بظاہر ناممکن تھا اور ان حالات کو دیکھتے ہوئے ان کی طبیعتوں میں طبعاً خوف کی حالت پیدا ہوئی لیکن ان کی روحانی تربیت کے نتیجہ میں اس خوف کی حالت میں وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے دعائیں کرنی شروع کر دیں ان کو نظر آ رہا تھا کہ حالات ایسے ہیں کہ دنیا ہمیں بچا نہیں سکتی لیکن ہم اپنے ربّ کو پہچانتے ہیں اور اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمارا رب صرف ہمارا رب ہمیں بچا سکتا ہے اس لئے وہ اس کی طرف جھکے اور انہوں نے دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول کیا اور اس قبولیتِ دعا کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے کچھ پہلے بطور نعمت ذکر کیا یہ آیت هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلزالاً شَدِیدا.سورہ احزاب کی بارہویں آیت ہے اور دسویں آیت اس طرح شروع ہوتی ہے.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودُ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّهُ تَرَوُهَا - (الاحزاب :١٠) جب مومنوں نے دعائیں کیں تو اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول کیا اور اس طرح پران کے لئے اپنی نعمت اور فضل کے سامان پیدا کر دیئے اور ان کو محفوظ کر لیا ایسے حالات میں جب دنیا کا کوئی سہارا ان مسلمانوں کے لئے باقی نہیں رہا تھا وہ خوف زدہ کئے گئے تھے پھر انہوں نے اپنے رب کے حضور بڑی ہی عاجزی کے ساتھ جھک کر دعائیں کیں اور اس نعمت کو حاصل کیا.پس یہ خوف دشمنوں کا پیدا کردہ تھا.پھر بعض دفعہ قضا و قدر کا خوف ہوتا ہے ایک شخص کا سب سے پیارا بچہ بیمار ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ مرجائے گا اس کے بچنے کی امید نہیں یا ایک ماں ولادت کے وقت نو مہینے کی تکالیف برداشت کرنے کے بعد خوش ہو رہی ہوتی ہے کہ آج اللہ تعالیٰ مجھے میری تکالیف کا بدلہ دینے والا ہے اور ایک اچھے خوبصورت اور صحت مند بچے کی شکل میں دینے والا ہے.لیکن اس وقت کوئی پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے اور ڈاکٹر کہتا ہے کہ ہر دو کی جان خطرے میں

Page 1027

خطبات ناصر جلد اول 1+11 خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء ہے اس لئے بچہ کو قربان کر کے ماں کی جان بچالینی چاہیے اس وقت خود ماں بھی خدا کے حضور جھکتی ہے اور وہ جن کا تعلق اس کے ساتھ پیار اور محبت کا ہوتا ہے اور جن کے ساتھ اس کا اخوت کا تعلق ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسلام میں پیدا کی ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو قبول کر لیتا ہے اور خوف کی حالت کو بدل دیتا ہے.ابھی چند ہفتے ہوئے لاہور سے ایک دوست کا خط آیا کہ میری بیوی کے کیس میں بڑی سخت پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے سخت تکلیف ہے اور ڈاکٹر امید نہیں دلا ر ہے آپ دعا کریں.چنانچہ انہوں نے بھی دعائیں کیں اور میں نے بھی ان کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ عین ولادت کے وقت اللہ تعالیٰ نے اس پیچیدگی کو دور کر دیا.چنانچہ اس دوست کی بیوی نے اسے بتایا کہ باوجود اس کے کہ پہلے اتنی سخت تکلیف تھی کہ ڈاکٹر نا امید تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے جو عین وقت پر نازل ہوا مجھے معمولی درد بھی محسوس نہیں ہوئی اور میں ہائے ہائے صرف اس لئے کر رہی تھی کہ کہیں مجھے ان حاملہ عورتوں کی نظر نہ لگ جائے جو میرے ارد گرد بچوں کی پیدائش کا انتظار کر رہی ہیں.تو دیکھو ایک وقت میں خوف اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا تھا اور یہ قضا و قدر کا خوف ہے کہ ماں نے نو مہینے تک تکلیف اُٹھائی باپ نے بھی تکلیف اُٹھائی گھر کے سارے افراد ہی کچھ نہ کچھ تکلیف ایسے حالات میں اُٹھاتے ہی ہیں.لیکن جس وقت ولادت کا وقت آیا اور بچہ کی آمد آمد پر سب خوش تھے کہ اچانک قضاء الہی سے خوف کی حالت پیدا ہو گئی.پس اس قسم کے حالات میں اللہ تعالیٰ دعا کو قبول کرتا ہے اور اس خوف کو دور کر دیتا ہے اور اپنی قدرت کا ملہ پر محکم یقین پیدا کرتا ہے.بعض دفعہ انسان خود خدا تعالیٰ کی خاطر رضا کارانہ طور پر خوف کے سے حالات پیدا کر لیتا ہے.ابھی میں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مثال دی ہے جب آپ نے اپنے گھر کا سارا اثاثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالا تو دنیوی لحاظ سے یقیناً آپ نے اپنے لئے خوف کے سے حالات پیدا کر لئے کہ میں نے اپنے مال کا دھیلہ دھیلہ خدا کی راہ میں قربان کر دیا ہے ساتھ ہی آپ نے دعا کی کہ اے خدا تجھ پر ہی تو کل رکھتے ہوئے اور تجھ پر کامل یقین رکھتے ہوئے میں نے ایسا کیا ہے میرے حالات تیرے ہاتھ میں ہیں تو انہیں درست کر دے تو اللہ تعالیٰ نے اس خوف کو دور کر

Page 1028

خطبات ناصر جلد اول ۱۰۱۲ خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء دیا.پس بعض دفعہ انسان خوف سے ایسے حالات رضا کارانہ طور پر اپنے لئے پیدا کر لیتا ہے یا مثلاً مسلمان جنگ میں جاتے تھے اور میدان جنگ بہر حال مقام خوف و خطر ہے تو اس میں بھی ہر سہ تکالیف شامل ہیں یعنی دشمن کی پیدا کردہ تکالیف.قضا و قدر کی پیدا کردہ تکالیف اور رضا کارانہ طور پر اپنے اوپر عائد کی جانے والی تکالیف.پس اس آیت میں جو میں نے شروع میں تلاوت کی ہے صرف دشمنوں کی پیدا کردہ تکالیف کا ہی ذکر نہیں بلکہ ہر سہ تکالیف کا ذکر ہے پھر آگے وہ تکالیف تین قسم کی بتائی گئی ہیں.ایک وہ تکالیف ہیں جو باساء کی شکل میں آتی ہیں.ایک وہ تکالیف ہیں جو ضراء کی شکل میں آتی ہیں اور ایک وہ تکالیف ہیں جو ایک زلزلہ کی شکل میں آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں یہ تکالیف تم پر اس لئے نازل کرتا ہوں تا کہ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ (البقرة : ۲۱۵) رسول اور مومن لوگ پکار اُٹھیں کہ اللہ کی مدد کب آئے گی حتی “ کے ایک معنی جیسا کہ تفسیر صغیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بیان کئے ہیں تاکہ“ کے ہیں یعنی یہ حالات اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ تا تم اپنے رب کی طرف متوجہ ہو اور دعائیں کرو اور خدا سے کہو کہ ہمارے سارے سہارے ٹوٹ گئے صرف ایک تیرا سہارا باقی ہے مَتی نَصدُ اللہ اب تو ہم پر رحم کر اور اپنی مدد اور اپنی نصرت ہمارے لئے آسمان سے نازل کر تب اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول کرتا اور کہتا ہے اِنَّ نَصُرَ الله قريب فکر نہ کرو جس طرح میں تمہارے قریب ہوں اسی طرح میری مددبھی تمہارے قریب ہے ساری طاقتوں اور ساری قدرتوں کا مالک جب ہمارے قریب ہے اور وہ اپنے قرب کا اپنے فعل کے ساتھ اظہار کرنا چاہتا ہے اور ہمیں مشاہدہ کروانا چاہتا ہے تو پھر یہ یقینی ہے کہ ہماری تکلیف دور ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے لئے پہنچ جائے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے باساء اور ضراء اور زلزلہ میں تمہیں مبتلا کرنے کا انتظام اس لئے کیا کہ تاتم دعاؤں کے ذریعہ میری طرف جھکو اور جب تم دعاؤں کے ذریعہ میری طرف جھکو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان عاشقانہ التجاؤں کے نتیجہ میں تم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو گے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کے حسن اور اس کے احسان کی شناخت تمہارے دل میں اس کی محبت پیدا کرے گی پہلے تم عام مومن تھے

Page 1029

خطبات ناصر جلد اول ۱۰۱۳ خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء اور اب تم خدا کے عاشق بن جاؤ گے اور تمہارا زندہ تعلق اپنے رب کے ساتھ قائم ہو جائے گا اور جب تمہارا زندہ تعلق اپنے رب کے ساتھ قائم ہو جائے گا تو پھر ہر خوف اور باساء اور ضراء کی حالت میں اللہ تعالیٰ اپنی معجزانہ نصرتوں سے تمہاری مدد کرے گا معجزانہ تائیدات اور نشانات سے تمہاری مدد کرے گا اور جب تم اس طرح اپنے زندہ خدا کی زندہ قدرتوں کو اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کرو گے تو تمہارے ایمان میں زندگی پیدا ہوگی اور مضبوطی پیدا ہوگی اور جب تمہارے ایمان اس شکل اور اس رنگ میں مضبوط اور زندہ ہو جائیں گے اس وقت تم اس بات کے مستحق ہو گے کہ ان تدخُلُوا الجَنَّةَ کہ تم خدا تعالیٰ کی رضا کی جنت میں داخل ہو جاؤ.یہ نہ سمجھنا کہ اس زندہ اور مضبوط ایمان کے بغیر جو عشق الہی اور دعاؤں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے بعد انسان کو حاصل ہوتا ہے کوئی شخص جنت میں جا سکتا ہے اَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ کیا اس کے بغیر تم جنت میں جا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں پس اپنے اندر ایک زندہ ، ایک مضبوط ایمان پیدا کرو اور ان راہوں کو اختیار کرو جن پر چل کر انسان اپنے ایمان کو مضبوط کرتا اور اس میں زندگی پیدا کرتا ہے اگر تم اس طرح صراط مستقیم کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کرنے میں کامیاب ہو گئے تو تم اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں بھی داخل ہو جاؤ گے.رمضان کا مہینہ بھی ظاہری حالات میں سختی کا مہینہ ہے یہ ایک رضا کارانہ سختی ہے جسے ہم برداشت کرنے کے لئے (اپنے رب کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ہم دن کو بھوکے رہتے ہیں راتوں کو جاگتے ہیں سردی میں اٹھتے ہیں کوئی دو بجے اٹھتا ہے کوئی تین بجے اور کوئی چار بجے جتنی جتنی توفیق کسی کو خدا تعالیٰ دیتا ہے وہ عبادت کرتا ہے.بعض لوگ جو دن کے وقت محنت مزدوری کا کام کرتے ہیں وہ رات کے پہلے وقت میں نوافل ادا کرتے ہیں بہر حال رات کی سختی بھی ہے اور دن کی سختی بھی جو محنت مزدوری کرنے والے ہیں شاید آج کل انہیں کچھ بھوک بھی لگتی ہو اور اس لحاظ سے انہیں جسمانی کمزوری بھی محسوس ہوتی ہوگی اور ان کے دل میں یہ خوف بھی پیدا ہوتا ہوگا کہ کہیں ہم کسی دن مزدوری نہ کر سکیں ہم روز کماتے ہیں اور جو کماتے ہیں وہ روز کھاتے ہیں اس روز ہمارے بچے کیا کریں گے اور جو دماغی محنت کرنے والے ہیں وہ بھی روزہ میں دماغی ضعف

Page 1030

خطبات ناصر جلد اول ۱۰۱۴ خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء محسوس کرتے ہوں گے کیونکہ دماغ کو پوری غذا نہیں مل رہی ہوتی اور بہت سارے دماغی کام ہیں جن میں روزہ کی وجہ سے بظاہر ہرج واقع ہورہا ہوتا ہے لیکن انسان کہتا ہے کہ میرا دماغ بھی خدا نے مجھے دیا ہے اور جن کاموں میں میں لگا ہوا ہوں ان میں کامیابی بھی اس کے فضل کے بغیر نہیں ہوسکتی.اس کے فضل کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے اس لئے میں اس تنگی کو برداشت کرتا ہوں میں خدا تعالیٰ کے لئے روزے بھی رکھوں گا اس کے لئے راتوں کو بھی جاگوں گا.اس کے لئے اپنے مال میں سے خرچ بھی کروں گا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ رمضان کے مہینہ میں انتہائی سخاوت کیا کرتے تھے.پس جو آپ کے اسوہ پر چلنے والا ہے وہ اس مہینہ میں خاموشی کے ساتھ اپنے بھائی کی عزت اور وقار کا خیال رکھتے ہوئے اپنے مال میں سے حسب توفیق اپنے بھائیوں کی جیبوں میں ڈالتا چلا جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے بدلہ میں میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا اور جب میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا تو تمہارے اندر اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی معرفت اور ایمان کی مضبوطی پیدا ہوگی اور جنت کے دروازے تمہارے لئے کھولے جائیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رمضان کے مہینے میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں عبادت قبول ہوتی اور فضل نازل ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہنا چاہیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے ہمیں بتایا ہے کہ دعاؤں کے بغیر کوئی زندگی نہیں کیونکہ دعاؤں کے بغیر انسان اپنے رب سے زندہ تعلق قائم نہیں کر سکتا اور جب تک اپنے رب سے زندہ تعلق قائم نہ ہو جائے اس وقت تک یہ زندگی کوئی رہنے کے قابل ہے؟ اگر کتوں کی طرح، اگر سوروں کی طرح، اگر بندروں کی طرح ہم نے زندگی گزارنی ہے تو بہتر یہی ہے کہ ہم یہ زندگی نہ گزاریں اور اگر ہم نے انسان کی طرح زندہ رہنا ہے تو پھر ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنا چاہیے جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور اپنے رب سے زندہ تعلق پیدا کرنا چاہیے اور جو تکالیف اور جو مصائب اور شدائد ہم پر ہمارے رب کی طرف سے اس لئے آتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہمارا تعلق بڑھے ان ابتلاؤں اور امتحانوں کے وقت میں ہمیں ثبات قدم دکھاتے ہوئے کامیاب ہونا چاہیے اور اس بات کے لئے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم واقعہ میں

Page 1031

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۰۱۵ خطبہ جمعہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۷ء خدا کی نگاہ میں اس کے محبوب بندے بن جائیں اور وہ ہم پر اپنی نعمتوں اور فضلوں کو ہمیشہ نازل کرتار ہے (اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے فضل ہم پر نازل کرے).روزنامه الفضل ربوه ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۱ تا ۵)

Page 1032

Page 1033

خطبات ناصر جلد اول 1+12 خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۶۷ء اس وقت انسانیت اتنی بڑی تباہی کے کنارے کھڑی ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی خطبه جمعه فرموده ۲۲ دسمبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج جمعہ ہے اور جمعہ کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اجابت دعا کی خاص گھڑیاں بھی ہوتی ہیں جسے وہ گھڑیاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میسر آجائیں اور اسے خلوص نیت اور عاجزی سے دعا کرنے کی توفیق ملے تو اللہ تعالیٰ دوسرے وقتوں کی نسبت دعا زیادہ قبول کرتا ہے.اسی طرح رمضان کا آخری عشرہ بھی آ رہا ہے بلکہ سمجھیں کہ آہی گیا ہے ان آخری دنوں کے متعلق بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ اس عشرہ میں مسلمان کو اس رات کی تلاش کرنی چاہیے ، تقدیر کی ، جس رات میں اس کی دعا ئیں قبول ہوں اور اسلام کے حق میں دنیا کی تقدیریں بدل دی جائیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی تھی جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا.شَدَّ مِثْزَرَهُ وَاَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ یعنی آپ پورے طور پر مستعد ہو جاتے اور دعاؤں اور عبادت کے بجالانے کے لئے اَحْيَالَیلَہ.اس کے متعلق شرح کرمانی میں ہے.

Page 1034

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۰۱۸ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۶۷ء فِيْهِ وَجْهَانِ اَحَدُهُمَا أَنَّهُ رَاجِعٌ إِلَى الْعَابِدِ لِأَنَّهُ إِذَا تَرَكَ النَّوْمَ الَّذِي هُوَ أَخُو الْمَوْتِ لِلْعِبَادَةِ فَكَانَهُ أَحْيَا نَفْسَهُ وَثَانِيْهِمَا أَنَّهُ عَائِدٌ إِلَى اللَّيْلِ فَإِنَّ لَيْلَهُ لَمَّا قَامَ فِيْهِ فَكَانَّمَا أَحْيَاهُ بِالطَّاعَةِ - یعنی احیا لیلہ کے دو معنی ہو سکتے ہیں.ایک یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی سنت کی اتباع میں وہ جو آپ سے محبت رکھتے ہیں رمضان کے آخری عشرہ میں رات کو زندہ کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رات کے اوقات خرچ کرنے کے نتیجہ میں وہ رات کو زندہ کرتے ہیں اور دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ رات کی عبادتوں کے نتیجہ میں انسان کا نفس حقیقی زندگی اور حیات کو حاصل کرتا ہے ظاہری طور پر جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے نیند جو کہ موت کی سی کیفیت اپنے اندر رکھتی ہے جب اسے انسان چھوڑتا ہے اور بیدار رہ کر عبادت میں وقت گزارتا ہے تو گویا اس نے اپنے نفس کو زندہ کیا لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ سے آخیالیکہ وہ اپنے نفس کو زندہ کرتا ہے یعنی ایک عبادت کرنے والا عبادت اور دعا کے ذریعہ سے اپنے نفس کو زندہ کرتا اور اس کی حیات اور بقا کے سامان پیدا کرتا ہے یہ نہیں کہ اس نے نیند ترک کی.اور اپنی زندگی کے چند لمحات سونے کی بجائے جاگنے میں خرچ کر دیئے اس کے حقیقی معنی یہی ہیں کہ انسان کی زندگی اور اس کی بقا کا انحصار اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید پر ہے جسے انسان دعاؤں کے نتیجہ میں حاصل کرتا ہے غرض یہ دعاؤں کے دن اور دعاؤں کی راتیں ہیں جن میں ہم داخل ہونے والے ہیں.اسی طرح آج جمعہ کا دن بھی خصوصاً دعا کا دن ہے میں یہ تو نہیں کہتا کہ آپ اپنے لئے یا اپنوں کے لئے دعانہ کریں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اور یہ اسوہ ہمیں پہنچا ہے کہ زندگی کا ہرلمحہ خدا تعالیٰ کی رحمت پر منحصر ہے اس کی رحمت کے بغیر ہم ایک سیکنڈ کے لئے بھی زندہ نہیں رہ سکتے اور ہماری کوئی ضرورت بڑی ہو یا چھوٹی اس کے فضل کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی.بڑی چیزوں کو تو چھوڑ و جوتی کا ایک تسمہ بھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ہم حاصل نہیں کر سکتے.پس اپنے لئے بھی ضرور دعائیں کرتے رہنا چاہیے اس کے بغیر دراصل زندگی کوئی زندگی نہیں.نیز جماعت کے لئے بھی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ

Page 1035

خطبات ناصر جلد اول 1+19 خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۶۷ء احباب جماعت کو خواہ وہ دنیا کے کسی حصہ میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں اپنی حفاظت اور اپنی امان میں رکھے اور ان پر اپنا خاص فضل کرے اور پیار کی نگاہ ہمیشہ ان پر رکھے اور وہ ہر احمدی کو (وہ جہاں بھی ہو ) یہ توفیق دیتا چلا جائے کہ وہ ایسے اعمال بجالائے جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں محبوب ہوں اور اندرونی اور بیرونی فتنوں سے وہ بچائے جائیں اور دشمن کا ہر وار اسی پر الٹا دیا جائے وہ خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی حفاظت میں اور اس کی پناہ میں اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں اور ہمیں اللہ تعالی یہ توفیق عطا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اس مقصد کو حاصل کرنے والا ہو جس مقصد کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے یہ دعا تو ضرور کرنی چاہیے اور ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے.لیکن ایک خاص دعا کی طرف میں اپنے دوستوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس وقت بنی نوع انسان اپنے پیدا کرنے والے مہربان رب کو بھول چکے ہیں اور ہر قسم کا فساد انہوں نے دنیا میں پیدا کر دیا ہے.وہ اپنے رب کو شناخت ہی نہیں کرتے یا دہر یہ ہو چکے ہیں اور کسی رب کو مانتے ہی نہیں یا گنہگار حوا کے پیٹ سے پیدا ہونے والے کو خدا سمجھنے لگ گئے ہیں یا شرک کی اور راہوں کو وہ اختیار کرنے لگے ہیں خدائے واحد و یگانہ اور قادر و توانا کی طرف وہ متوجہ نہیں ہور ہے اور اس سے سارے رشتے اور تعلق انہوں نے قطع کر لئے ہیں.غرض اس وقت انسانیت ایک نہایت ہی نازک دور سے گزر رہی ہے.اس قدر فساد دنیا میں پیدا ہو چکا ہے کہ انسانی تاریخ میں ایسا فساد اس دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا اور اتنی بڑی تباہی انسان کے سامنے کھڑی ہے کہ اس سے پہلے اتنی بڑی تباہی کا اس نے کبھی سامنا نہیں کیا.یہ بات تو اپنی جگہ صحیح ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ جو نیک فطرت رکھتے ہیں انہیں اس تباہی سے بچائے اور اسلام کی زندگی سے انہیں زندہ کرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ تلے انہیں لا کر اکٹھا کر دے.غرض ایک طرف ایک نہایت خطرناک تباہی انسان کے سامنے کھڑی ہے اور ہم پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ ہم ان کے بچانے کی فکر کریں اور دوسری طرف ہمیں یہ وعدہ دیا گیا ہے اگر ہم خلوص نیت کے ساتھ انسان کو اس انتہائی طور پر خطر ناک تباہی سے بچانے کی کوشش کریں گے تو

Page 1036

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۰۲۰ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۶۷ء اللہ تعالیٰ ہماری کوشش میں برکت ڈالے گا اور اپنے فضل اور اپنی رحمت سے اسلام کی حیات سے بہتوں کو زندہ کرے گا ہم پر یہ ذمہ داری ( جو میں نے ابھی بیان کی ہے ) ڈالی تو گئی ہے لیکن ظاہری اور مادی سامان ہمیں نہیں دیئے گئے.ساری دنیا کو زندہ کرنے کی کوشش کوئی معمولی بات نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض ہی یہ تھی آپ کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد ہی یہ تھا اس زندہ مذہب سے ایک دنیا کو زندہ کیا جائے.جیسا کہ فرمایا إذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کی حیثیت سے بھیجا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاعاً بتا یا کہ آپ مَظْهَرُ الْحَقِّ “ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفت حتی کے مظہر اور ہم نے خود کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کیا.پس ہمارے لئے دو باتیں بڑی ضروری ہیں ایک یہ کہ ہم خود حقیقی زندگی کو حاصل کرنے والے ہوں اور دوسرے یہ کہ ہم دنیا کو زندہ کرنے والے ہوں کیونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ وہ اپنی صفت حتی کے جلوے دنیا کو دکھائے اور ایک نئی زندگی انہیں عطا کرے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ظاہری سامان ہمارے پاس نہیں ایک ہی چیز ہمارے پاس ہے ایک ہی ہتھیار ہے جو ہمیں دیا گیا ہے اور وہ ہتھیار بڑا زبردست ہے.دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہ دعا کا ہتھیار ہے.پس یہ ہتھیار ہے جو ہمیں دیا گیا اور اس کی کیفیت اور ماہیت ہمیں بتائی گئی اور دعا پر ایک یقین ہمیں عطا کیا گیا ہے اور خدا نے کہا ہے کہ کام گومشکل ہے لیکن ہو نا ضرور ہے.کیونکہ انسانیت اس وقت ایک نازک دور میں سے گزر رہی ہے اور تمہارے سپرد یہ کام کیا جاتا ہے لیکن سامان تمہیں نہیں دوں گا ہاں دعا کا ہتھیار تمہیں دیتا ہوں.پس تم دعا کے ذریعہ سے دنیا کو کھینچ کر زندگی کے چشمہ تک لاؤ.دعا کے لئے دو باتوں کا پایا جانا ضروری ہے ایک یہ کہ انسان اس یقین پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام قدرتوں کی مالک ہے اور کوئی بات اس کے لئے انہونی نہیں اور دوسرے یہ کہ اس کی توفیق اور تائید کے بغیر ہماری کوئی ہستی نہیں ہم لاشئی محض ہیں ہم کچھ نہیں کر

Page 1037

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۰۲۱ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۶۷ء سکتے.اگر ہمارے دل میں بنی نوع انسان کی وہ حقیقی محبت پیدا ہو جائے اور ان سے وہ تعلق مودت واخوت پیدا ہو جائے، جو پیدا ہونا چاہیے اور اگر ہم یہ محسوس کرنے لگیں کہ بنی نوع انسان آج تباہی کے گڑھے پر کھڑے ہیں اور اگر ہمیں اس بات پر کامل یقین ہو کہ ہمارے پاس ایسے سامان نہیں ہیں کہ ہم ان کو اس تباہی سے بچا سکیں اور اگر ہمیں یہ احساس ہو کہ بنی نوع انسان کو اس تباہی سے بچانا آج ہماری اور صرف ہماری ذمہ واری ہے تو ہم ہر دوسری چیز کو بھول کر اس ہتھیار کو ہاتھ میں لیں جو دعا کا ہتھیار ہے اور اپنے رب کے حضور انتہائی عاجزی اور تضرع کے ساتھ جھکیں اور اس سے کہیں.اے ہمارے پیارے خدا! تو نے اس مخلوق کو جو انسان کہلاتی ہے اس لئے پیدا کیا تھا کہ وہ تیری عبادت میں اپنی زندگی کے دن گزاریں اور تیری صفات کے وہ مظہر بنیں لیکن وہ تجھے بھول گئے انہوں نے تیرے احکام کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے ڈال دیا انہوں نے ہر رشتہ جو تجھ سے قائم ہونا چاہیے تھا اس کی طرف توجہ نہیں کی یا قطع کر دیا تیرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں رہا اس لئے تو اپنے غضب اور قہر کی تجلی سے انہیں ہلاک کرنا چاہتا ہے.لیکن اس کے ساتھ تیری رحمانیت بھی جوش میں ہے اور تو نے ہمارے کندھوں پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ہم انہیں اسلام کی حیات بخش تعلیم سے نئی زندگی دیں اور نئی روح ان کے اندر پیدا کریں ہمارے پاس سامان نہیں صرف تیری ذات پر ہمارا بھروسہ اور ہمارا توکل ہے.پس ہماری دعاؤں کوسن اور ہماری عاجزانہ تضرعات کی طرف متوجہ ہو اور بنی نوع انسان کو قہر کی نگاہ کی بجائے رحمت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر اور ان کے دلوں میں ایک تبدیلی پیدا کر کہ وہ تجھے اور تیرے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانے لگیں.پس ان دنوں میں خاص طور پر بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں، جب میں سوچتا ہوں کہ انسان آج کس تباہی کے کنارے کھڑا ہے تو مجھے انتہائی دکھ اور کرب محسوس ہوتا ہے.کل بھی جب مجھے یہ خیال آیا کہ میں آپ سے یہ اپیل کروں کہ آپ ان دنوں کو خاص بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے وقف کریں میری طبیعت میں بڑی بے چینی تھی میں سوچتا رہا کہ اتنا پیار کرنے والا ہمارا رب ہے اتنا محبت کرنے والا ہمارا خالق ہے اور پھر بھی ہم میں سے وہ بھی ہیں جو اسے بھول

Page 1038

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۶۷ء جاتے ہیں ہم میں سے وہ بھی ہیں جو اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ہم میں سے وہ بھی ہیں جو اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ اس کو ناراض کر رہے ہیں وہ دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی خاطر وہ دنیا کی معمولی معمولی عزتوں کے لئے بے حقیقت آراموں کے لئے اس پیارے کے پیار کی طرف سے غفلت برتتے ہیں اور اس وقت اس قسم کا فساد انسان نے اس دنیا میں پیدا کر دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ مغضوب بن گیا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی رحمت میں وہ وسعت نہ ہوتی جس کا ذکر قرآن کریم میں بیان ہوا ہے تو آج سے کہیں قبل اللہ تعالیٰ کی قہری تجلی انہیں جلا کر خاک کر دیتی مگر خدا تعالیٰ کی رحمت نے یہ چاہا کہ وہ انہیں زندگی کی طرف بلائے.خدا تعالیٰ نے یہ پسند کیا کہ وہ ہلاکت کی بجائے نجات کی راہوں پر چلنے والے ہوں.اس لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند ہیں اس دنیا میں اس غرض کے لئے بھیجا کہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کر دیں اور جب ہم یہ فقرہ کہتے ہیں کہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سارے انسانوں کے دلوں میں اسلام کی روحانی نہر کا حیات بخش پانی چلا دے اور وہ ”اسلام“ سے زندہ ہو جائیں.جہاں تک تعلیم کا فی نفسہ تعلق ہے وہ تو ہمیشہ زندہ ہے یعنی وہ مستقل طور پر حقانیت پر قائم اور حق کامل اور مکمل ہے کوئی اس پر عمل کرے یا نہ کرے اس سے اسلامی تعلیم میں کوئی فرق نہیں پڑتا اسلام کو زندہ کرنا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے ذریعہ دنیا کو زندہ کیا جائے آج دنیا مردہ ہو چکی ہے اور دنیا کو زندگی سوائے اسلام کے اور کوئی دے نہیں سکتا اور یہ ذمہ داری سوائے ہمارے اور کسی پر نہیں.پس آرام سے نہ بیٹھو خصوصاً ان دنوں میں.اپنے دنوں کو بھی اور اپنی راتوں کو بھی اس دعا میں خرچ کرو.اے ہمارے رب! اے ہمارے پیار کرنے والے ربّ! تو نے جو بوجھ ہمارے کندھوں پر ڈالا ہے ہمیں اپنے فضل سے توفیق دے کہ وہ ہم تیری مرضی کے مطابق نباہنے والے ہوں اور بنی نوع انسان تک تیرا حیات بخش پیغام پہنچانے والے ہوں اور اے خدا! ہمارے بھائیوں کو ہلاک نہ کرنا بلکہ انہیں توفیق دینا کہ وہ تجھے پہچانے لگیں اور اس تعلیم کی طرف لوٹ آئیں جس کی طرف تو انہیں بلا رہا ہے اور اس نور سے

Page 1039

خطبات ناصر جلد اول ۱۰۲۳ خطبہ جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۶۷ء وہ منور ہوں جس نور سے تو انہیں منور کرنا چاہتا ہے اور اس عطر سے وہ ممسوح ہوں جو عطر اور جو خوشبو تو آج دنیا میں اسلام کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے پھیلانا چاہتا ہے.پس اپنے لئے اور اپنوں کے لئے دعائیں ضرور کریں.لیکن خاص طور پر بہت زیادہ دعا ئیں بنی نوع انسان کے لئے کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے سامان پیدا کر دے اور اس ہلاکت سے وہ بچائے جائیں جس کے متعلق ہمیں خبر دی گئی ہے کہ وہ قیامت کا نمونہ ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے.روزنامه الفضل ربوه ۳۰؍ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۱ تا ۳)

Page 1040

Page 1041

خطبات ناصر جلد اول ۱۰۲۵ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء کم و بیش تیس سال کا عرصہ بڑا ہی اہم ہے اور ہم سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے خطبه جمعه فرمود ه ۲۹ دسمبر ۱۹۶۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ تشہد، تعوذ ، سورۃ فاتحہ اور سورۃ القدر کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس سورۃ ( سورۃ القدر ) کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بڑی لطیف تفسیر بڑی تفصیل کے ساتھ تفسیر کبیر میں بیان فرمائی ہے میں اس وقت احباب کو دو ایک باتوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو اس سورۃ کے مضامین سے تعلق رکھتی ہیں.لَيْلَةُ الْقَدْرِ کے معنی بہت سے کئے جاسکتے ہیں اور بہت سے کئے گئے ہیں خلاصہ ان سب معانی کا یہ بنتا ہے کہ لَیلَةُ الْقَدْرِ وہ اندھیری رات یا وہ اندھیرا زمانہ ہے.جس میں اللہ کی طرف سے اندھیروں کے دور کرنے اور روشنی کے ظہور کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور لَيْلَةُ الْقَدْرِ انفرادی بھی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی ہوتی ہے.احادیث میں جہاں یہ ذکر ہے کہ سارے سال میں کسی وقت لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہوسکتی ہے.وہ ذکر انفرادی لَیلَةُ الْقَدْرِ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اجتماعی لَيْلَةُ الْقَدْرِ ایک تو ( جیسا کہ احادیث اس طرف اشارہ کر رہی ہیں ) رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک رات ہوتی ہے یا اجتماعی لیلة القدر انبیاء کا وہ اندھیرا زمانہ ہوتا ہے جن میں وہ نازل ہوتے اور جس کے اندھیروں کو ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ دور کرتا ہے.انفرادی لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا مطلب

Page 1042

خطبات ناصر جلد اول ١٠٢٦ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر فرد بشر پر بہت سی پابندیاں عائد کی ہیں بہت سے احکام ہیں جو اسے دیئے گئے ہیں بہت سے اوامر ہیں جو اسے کرنے ہوتے ہیں اور جنہیں اسے کرنا چاہیے یا بہت سی نواہی ہیں جن سے اسے بچنا چاہیے.انسان جس طرح جسمانی لحاظ سے نشو ونما حاصل کرتا ہے پہلے ارتقا کے کئی دوروں میں سے وہ رحم مادر میں گزرتا ہے اور پھر بہت سے ارتقائی دوروں میں سے وہ پیدائش کے بعد وہ اس دنیا میں گزرتا ہے پھر وہ اپنی بلوغت کو پہنچتا ہے جسمانی طور پر اگر وہ لمبی عمر پائے تو وہ انحطاط کے زمانہ کو پاتا ہے.اس کے مشابہ مگر (ایک فرق کے ساتھ ) روحانی ارتقا اور روحانی نشونما بھی وہ حاصل کرتا ہے پہلے وہ تقویٰ کی موٹی موٹی راہوں پر چلتا ہے پھر وہ اس کتاب عظیم سے جو ھدی للعلمین ہے تقویٰ کی مزید باریک راہوں کا علم حاصل کرتا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزارتا ہے اسی طرح وہ روحانی ترقی کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اپنی روحانی بلوغت کو پہنچتا ہے جس کے بعد کوئی انحطاط نہیں اور یہ فرق ہے روحانی اور جسمانی بلوغتوں میں کہ جسمانی بلوغت کے بعد اس دنیا میں ایک انحطاط کا زمانہ بھی بہت سے لوگوں پر آتا ہے لیکن روحانی بلوغت کے بعد پھر انحطاط کا کوئی زمانہ روحانی بالغ پر نہیں آتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے لطیف رنگ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے.فرمایا جسے بشاشت ایمانی حاصل ہو جائے اس کو پھر شیطان کے حملوں کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا الفاظ مجھے یاد نہیں اسی قسم کا مفہوم ہے یعنی جس کے اعمالِ صالحہ فطرت کا ایک حصہ بن جائیں اور ان کی بجا آوری میں وہ کوئی تکلیف یا کوفت محسوس نہ کرے اسے کسی قسم کی کوشش اور جدو جہد نہ کرنی پڑے بلکہ جس طرح وہ سانس لیتا ہے اور زندگی کو قائم رکھتا ہے اسی طرح ایسا شخص بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احکام کو بجالاتا ہے اور جس شخص کے دل میں اس قدر بشاشت اعمالِ صالحہ کے بجالانے میں پیدا ہو اور خدا تعالیٰ کے لئے ہر دکھ جو وہ سہے دنیا اسے دکھ سمجھے تو سمجھے وہ اس میں لذت محسوس کرے اس بلوغت کے بعد کسی قسم کے روحانی انحطاط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہی وہ کیفیت ہے بلوغت کی جس کی طرف قرآن کریم نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے.يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِى إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً - فَادْخُلِي فِي عِبْدِى -

Page 1043

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۰۲۷ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر : ۲۸ تا ۳۱) تو اس دنیا میں دنیا کی اس زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فیصلہ ہر فرد بشر کے متعلق کیا جاتا ہے ہر اس فرد بشر کے متعلق جو اپنی قربانیوں کو انتہاء تک پہنچاتا اور اپنے رب کی محبت میں اپنے نفس کو کلی طور پر مٹادیتا اور اس پر ایک موت وارد کر دیتا ہے اس پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے یہ بشارت دیتا ہے کہ اب تو ایسے مقام تک پہنچ گیا ہے کہ جنت کا یقینی طور پر ہمیشہ کے لئے تو وارث رہے گا اور شیطان تجھے بہکانے میں کامیاب نہیں ہوگا.یہ فیصلہ کی گھڑی اس شخص کے لئے لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہے کیونکہ اس میں وہ عظیم فیصلہ اس کی ابدی زندگی کے متعلق کیا جاتا ہے جو اس دنیا سے شروع ہوتی اور اُس دنیا میں جا کے بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے وہ اس کے لئے خوشیاں اور سرور پیدا کرتی رہتی ہے.اتنا اہم فیصلہ جس گھڑی کیا جائے.جب انسان کے تمام انفرادی اندھیرے یک قلم دور کر کے ان کی بجائے اللہ تعالیٰ کا نور اس کی روح اور اس کے جسم پر قبضہ کر لے.اتنا عظیم فیصلہ جو ہے وہ اس فرد واحد کے لئے لَیلَةُ الْقَدْرِ کا حکم رکھتا ہے یہ انفرادی لَيْلَةُ الْقَدرِ ہے اور یہ لَیلَةُ الْقَدرِ جو انفرادی ہے سال کے کسی حصہ میں آسکتی ہے اس کے لئے رمضان کی کوئی شرط نہیں رمضان کے دس دنوں یا دس راتوں کی کوئی شرط نہیں اور دراصل اسی لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا ذکر عبداللہ بن مسعود اور بعض دوسرے صحابہؓ کی روایتوں میں ہے کہ وہ سال کے کسی حصہ میں آسکتی ہے.دوسری وہ لَیلَةُ الْقَدْرِ ہے جس کا تعلق رمضان سے اور رمضان کی آخری دس راتوں سے ہے اس کی حکمت جیسا کہ تفسیر کبیر میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے ذریعہ ان کی اُمتوں سے ایک عہد لیا کرتا ہے اور اس کے مقابلہ میں ان سے بھی ایک عہد کرتا ہے اور حکم اور بشارت دیتا ہے کہ تم اپنے عہد کو پورا کرو میں اپنے عہد کو پورا کروں گا اور اس کے لئے ایک ظاہری علامت اللہ تعالیٰ کی رضا کے اظہار کی رکھی جاتی ہے.پہلے انبیاء نے بھی اپنی امتوں سے عہد لیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بنی نوع انسان سے یہ کہا کہ اُمت مسلمہ میں شامل ہو جاؤ اور میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے رب سے یہ عہد باندھو کہ اسلام کے مطابق تم اپنی زندگیوں کو گزارو گے.یہ عہد ہے اسلام کا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 1044

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۰۲۸ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء کے ذریعہ اُمتِ مسلمہ سے لیا گیا ہے.اسلام کے (اسکمت کے ) معنی یہ ہیں کہ انسان اپنا سب کچھ اپنے رب کے حضور پیش کر دے اور اس کی راہ میں قربان کر دے پھر جس چیز کی جس وقت ہمارا رب اجازت دے اس چیز سے اس وقت تک ہم فائدہ اٹھائیں اور ہر وقت اس بات کے لئے تیار ہوں کہ اپنی ہر چیز خواہ وہ مادی ہو یا جذباتی ہو یا کسی اور طرح ہم سے تعلق رکھنے والی ہوا سے اپنے رب کی رضا کے لئے ہم ہر وقت قربان کرنے کے لئے تیار رہیں گے.یہ عبد اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اُمتِ مسلمہ سے لیا اور اس کی ظاہری علامت رمضان کو قرار دیا اس مہینہ میں ہم رات اور دن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے ہیں.رمضان کی عبادت ہر قسم کی عبادتوں کا مجموعہ ہے اس میں نفس کشی بھی شامل ہے اس میں جفا کشی بھی شامل ہے اس میں لذت کی قربانی بھی شامل ہے اس میں مال کی قربانی بھی شامل ہے اس میں وقت کی قربانی بھی شامل ہے اس میں جان کی قربانی بھی شامل ہے ہر قسم کی قربانیوں کا نمونہ ، ہر قسم کی قربانیوں کے پھولوں کا گلدستہ ہے یہ ماہ رمضان !!! تو ظاہری علامت اس روح کی جو اسلام کے ذریعہ اللہ تعالی پیدا کرنا چاہتا تھار مضان کی عبادتوں میں رکھی گئی اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اگر تم اسلام کی روح کو اپنے اندر قائم رکھو گے اور ایک حقیقی مسلمان کی زندگی گزارو گے جس کی ظاہری علامت رمضان کی عبادتیں ہیں.تو میں تمہاری نیتوں اور خلوص کو دیکھتے ہوئے اور خالص تقویٰ کی بنیادوں پر جو اعمال صالحہ تم بجالا ؤ ان کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہارے ساتھ اس مہینہ میں ایک نمایاں اور خصوصی تکلیف کروں گا اور وہ یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں ایک وقت ایسا مقرر کروں گا تمہارے لئے اے اُمتِ مسلمہ ! کہ جب تمہاری دعاؤں کو میں قبول کروں گا جب میں تمہارے قریب آؤں گا اور اپنے قرب سے تمہیں نوازوں گا.تو اسلام کی جو پابندیاں ہیں اور اسلام کی جو اتباع اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اس کی ظاہری علامت کے طور پر رمضان رکھا گیا ہے جس میں ایک چھوٹے سے وقت میں تمام قربانیوں اور تمام اعمال صالحہ کو اکٹھا کر دیا گیا ہے.زبان سے کسی کو ضر نہیں پہنچانا، ہاتھ سے ضر ر نہیں

Page 1045

خطبات ناصر جلد اول ۱۰۲۹ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء پہنچانا.مال سے خیر پہنچانی ہے.اپنے وقت قربان کر کے خیر پہنچانی ہے وغیرہ وغیرہ.ایک چھوٹا سا نقشہ ہے تمام اسلامی عبادات کا جو رمضان میں ہمیں نظر آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل فدائیت کی اس ظاہری علامت کے مقابلہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کی ایک ظاہری علامت رکھی اور وہ رمضان کی آخری دس راتوں میں لیلۃ القدر ہے یہ اجتماعی لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہے یعنی ایک ایسی رات آتی ہے جب اُمّتِ مسلمہ کی دعائیں سنی جاتی ہیں اجتماعی طور پر کیونکہ اُمت کے نمائندے وہ ہوتے ہیں جو خدا کے نزدیک ان کی نمائندگی کر رہے ہوں یعنی جو حقیقی معنی میں اسلام کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہوں.جن کے مال اس کی راہ میں خرچ ہورہے ہوں جن کے جذبات اس کے لئے قربان ہو رہے ہوں اور جن کی عزتیں اس کی راہ میں فدا ہورہی ہوں ان کی دعاؤں کو ایسے رنگ میں سنتا ہے کہ ان میں سے بہتوں کو بتا بھی دیتا ہے کہ آج اُمت کی اجتماعی لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہے لیکن ان کے علاوہ بھی جو امت مسلمہ کے افراد ہوں اگر چہ ان کو علم نہیں دیا جا تا کہ وہ رات دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے پھر بھی ان کی ایسی دعاؤں کو جو خدائے عظیم اور کبیر کے ارادہ اور منشا کے مطابق ہوں قبول کیا جاتا ہے اور اس طرح اُمتِ مسلمہ کی بقا اور اس کی ترقی کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں اور جس وقت اُمت بحیثیت امت اسلام پر قائم نہ رہے اور لَيْلَةُ الْقَدْرِ کی برکتوں سے محروم ہو جائے اس وقت اُمت پر تنزل کا زمانہ آجاتا ہے یہ دور ہمیں اسلامی تاریخ میں نظر آتے ہیں اور اگر ہم اس کی چھان بین کریں تو یقیناً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ تنزل کا زمانہ وہ ہوتا رہا ہے جب اُمتِ مسلمہ نے اسلامی احکام کو پس پشت ڈال دیا اور قرآن کریم کو کتاب مہجور سمجھ لیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینی چھوڑ دیں اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو گئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رمضان کی ایک رات ایسی ہے جو ایک ہزار مہینے سے بھی زیادہ اچھی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں ہزار کا لفظ ان گنت اور بے شمار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک رات ایسی ہے جو بے شمار اور ان گنت مہینوں سے زیادہ برکت والی ہے اور جو شخص اس رات کی برکات سے محروم رہے وہ بڑا ہی محروم آدمی ہے اس سے زیادہ اور کون محروم

Page 1046

خطبات ناصر جلد اول خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء ہو سکتا ہے؟ اور جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اگر اُمت کے وہ افراد اور جب تک اُمت کے وہ افراد جو روحانی طور پر زیادہ قوتیں اور استعدادیں رکھنے والے ہوتے ہیں اور جو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی رحمتوں کے زیادہ وارث ہوتے ہیں وہ اُمت کے لئے اُمت کی دنیوی بہبود اور روحانی ترقیات کے لئے دعائیں کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کے سب احکام بجالاتے رہیں اور اسلام کے ہر حکم کے نیچے اپنی گردن کو رکھنے والے ہوں اور انتہائی قربانیاں اس کے لئے دینے والے ہوں ان کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ رمضان کی اس لیلَةُ الْقَدْرِ میں قبول کرتا ہے اور اس طرح اُمت مسلمہ ترقی کے دنیوی اور روحانی مدارج طے کرتی چلی جاتی ہے لیکن پھر ایک ایسا دور آتا ہے کہ جب اُمت بحیثیت مجموعی ایسی نہیں رہتی تب لَیلَةُ الْقَدْرِ سے وہ محروم ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں تنزل کا دور اسلام پر آنا شروع ہو جاتا ہے.اجتماعی طور پر لَيْلَةُ الْقَدْرِ وہ زمانہ بھی ہے جو ایک نبی کا زمانہ ہوتا ہے جو انتہائی فساد اور اندھیرے اور ظلمت کا زمانہ ہوتا ہے لیکن ظلمت کے اس زمانہ میں اندھیرے کی ان گھڑیوں میں اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں اپنے بندوں کے لئے نور کا سامان پیدا کروں گا.سب سے زیادہ ظلمت شیطان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پھیلائی اس سے زیادہ اندھیرے دنیا کی تاریخ میں ہمیں کہیں نظر نہیں آئیں گے اور سب سے روشن نورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں اور آپ کے طفیل ان اندھیروں میں سے ہی طلوع ہوا اور یہ رات ( جس میں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اندھیروں کو دور کر دیا جائے گا) جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی اندھیری رات تھی ایسی اندھیری رات کہ اس سے بڑھ کر اندھیرا تصور میں بھی نہیں آسکتا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ روشنی کے سامان پیدا کئے گئے اس قدر روشنی اور نور کہ انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے قیامت تک کے لئے وہ احکام دے دئے گئے وہ صراط مستقیم بتا دیا گیا جن پر چل کر انسان اپنے رب جو نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ ہے کے نور سے نور حاصل کر کے اپنے ظاہر و باطن کو منور کر سکتا ہے.تو یہ زمانہ بھی لیلۃ القدر کا زمانہ ہے یعنی فساد کا یعنی شیطانی حکومت کا یعنی اللہ تعالیٰ کے

Page 1047

خطبات ناصر جلد اوّل خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء بعد کے اندھیروں کا وہ زمانہ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ روشنی پیدا کی گئی اور ان اندھیروں کو دور کیا گیا اندھیروں کا یہ زمانہ وہ تھا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں نے انتہائی دکھ اٹھائے ان لوگوں کے لئے دنیا اندھیر تھی دنیوی لحاظ سے روشنی کی کونسی کرن تھی جو وہاں تک پہنچ سکتی تھی ہر طرف سے کفر نے ان کو گھیرا ہوا تھا ہر قسم کی قربانیاں تھیں جو ان سے لی جا رہی تھیں مردوں سے بھی اور عورتوں سے بھی وہ کون سی بے عزتی تھی جوان مسلمان عورتوں کو نہ دیکھنی پڑی ہو ہر قسم کے اندھیروں کی دیوار میں شیطان مسلمانوں کے گرد کھڑی کر رہا تھا اور اللہ تعالیٰ ان سے انتہائی قربانیاں لے رہا تھا اس وعدہ کے ساتھ کہ میں تمہارے لئے اپنی تقدیر کی تاریں ہلاؤں گا اور اتنے انعامات دوں گا اتنے فضل تم پر نازل کروں گا آسمان سے تم پر نور کی کچھ اس طرح بارش برسے گی کہ یہ سب اندھیرے کا فور ہو جائیں گے اور مٹ جائیں گے اور شیطان اپنے تمام اندھیروں اور ظلمتوں کے ساتھ بھاگ جائے گا اور حق اپنے تمام نوروں کے ساتھ دنیا میں قائم ہو جائے گا.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ لَيْلَةُ الْقَدر کا زمانہ تھا اس معنی میں کہ اگر چہ شیطان انسانی روح پر پوری طرح غالب آ گیا ہوا تھا اور مسلمانوں کو انتہائی قربانیاں اس وقت دینی پڑی تھیں لیکن لَیلَةُ الْقَدْرِ کے اس زمانہ میں ہمارے رب نے یہ فیصلہ کیا کہ ان تمام اندھیروں کو دنیا سے مٹا دیا جائے گا اور وہ جو اپنے فیصلوں پر قادر اور وہ جو اپنے وعدوں کو وفا کرنے والا ہے اس نے وہ تمام اندھیرے دنیا سے مٹا دئے اور اس طرح اسلام کا نور تمام دنیا پر چھا گیا کہ معلوم دنیا میں سے کوئی علاقہ ایسا نہ رہا جو اسلام کے نور سے محروم ہو اس کے بعد پھر تنزل کا ایک زمانہ آیا کیونکہ اسلام کی روح کو مسلمان بھول چکا تھا لیکن اب پھر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ پیدا کیا اور اس زمانہ میں ہمیں بھی پیدا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ بھی لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہی کا زمانہ ہے جس زمانہ کے متعلق الہی تقدیر ہے کہ اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کیا جائے گا اور دنیا کی تمام اقوام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کی جائیں گی.پس ہمارا یہ زمانہ بھی شیطانی ظلمتوں، اسلامی قربانیوں اور بہترین انعامات کے لحاظ سے لَيْلَةُ الْقَدرِ ہے اور

Page 1048

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۰۳۲ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء اس زمانہ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ انتہائی قربانیاں لی جائیں گی اور عظیم انعامات کا وارث کیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب اللہ تعالیٰ کی وہ پیشگوئیاں اور وہ آیات بینات اور وہ نشانات ابھی ظاہر نہیں ہوئے تھے جو بعد میں ہوئے اس وقت بھی آپ پر کچھ لوگ ایمان لائے ان لوگوں کی زندگیوں کو جب ہم دیکھتے ہیں اور اس زمانہ کے حالات پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان لوگوں نے انتہائی قربانیاں دیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نشانات ابھی پوری طرح واضح نہیں تھے.وہ غیب پر ایمان لائے ان کے بعد میں آنے والوں نے تو ہزاروں نشان دیکھے بعض نے ان سے فائدہ اٹھایا بعض نے فائدہ نہیں اُٹھایا لیکن نشان ہر ایک نے ہی دیکھے.بہر حال ان نشانوں کے دیکھنے کے بعد جو لوگ ایمان لائے وہ انتہائی اندھیروں کے اوقات میں ایمان لانے والوں میں شمار نہیں ہو سکتے اور اس وجہ سے ان کی قربانیوں کی وہ شان نہیں جو سابقون کی قربانیوں کی ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ابتدائی زمانہ میں ایمان لائے تھے اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک نور دنیا کے لئے پیدا کیا.جماعت نے ترقی کی.اللہ تعالیٰ کے فضل اس طرح نازل ہوئے کہ وہ جس کی آواز اپنے گاؤں کی گلیوں میں بھی نہیں گونجی تھی آج اس کی آواز ساری دنیا کی فضا میں گونج رہی ہے اور یہ تو ایک مثال ہے جس زاویہ سے بھی آپ دیکھیں گے آپ کو یہی نظر آئے گا یہ نتیجہ ہے ان قربانیوں کی قبولیت کا جوابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والوں نے ان اندھیری راتوں میں دیں اور انہیں اللہ تعالیٰ نے قبول کیا لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت میں بڑی وسعت ہے وہ زمانہ کے بدلے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ قربانیوں کو بھی بڑھاتا چلا جاتا ہے.اب اس زمانہ میں قربانیاں اور قسم کی ہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئے آپ کے لئے کہ آپ کو قربانیوں کے اس مقام پر کھڑا نہیں رہنے دیا بلکہ اپنے بندوں کو جنہیں اس نے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا بہت سے منصو بے سکھائے اور اس نے آپ کو قربانیوں کے میدان میں آگے سے آگے پہنچا دیا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زندگی کے حالات کو دیکھیں کس طرح آپ نے جماعت کے استحکام اور ترقی کی تدابیر کیں اور جماعت سے قربانیاں لیں پھر ایک لمبا زمانہ خلافت ثانیہ کا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت

Page 1049

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۰۳۳ خطبہ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۷ء کا.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ خلافت میں بھی آپ کو قربانی کے ایک مقام پر کھڑا نہیں رہنے دیا بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ذہن میں نئے سے نئے منصوبے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اسی کے ارادہ سے اور اسی کے سکھانے سے آئے اور حضور نے جماعت کو قربانی کے میدان میں آگے سے آگے دھکیلا تا کہ اس زمانہ کے احمدیوں کی قربانیوں کی مشابہت صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ حضرت مسیح موعود کی قربانیوں سے ایک حد تک ہو جائے تا اسی قسم کے انعامات کے یہ بھی وارث ہوں اب یہ خلافت ثالثہ کا زمانہ ہے اور یہ تو اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے کہ کتنا لمبا عرصہ یہ رہے گا.لیکن آج میں ایک بات آپ کو بتا دیتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرنے کی جو آسمانی مہم شروع کی گئی تھی آج وہ ایک نہایت ہی اہم اور نازک دور میں داخل ہو چکی ہے اور جماعت احمدیہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ آئندہ کم و بیش تیس سال تک اپنی قربانیوں کو انتہاء تک پہنچائے.نیز اپنی دعاؤں کو انتہاء تک پہنچائے تا اللہ تعالیٰ ان قربانیوں اور ان دعاؤں کو قبول کرے اور وہ مقاصد حاصل ہوں جن مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو کھڑا کیا ہے.پس کم و بیش تیس سال کا عرصہ بڑا ہی اہم ہے بڑا ہی اہم ہے اور ہم سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے اور اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہے کہ اگر تم میری راہ میں انتہائی قربانیاں دو گے اور اسلام کے ہر حکم کے سامنے اپنے سروں کو جھکا دو گے.خالص مسلمان ہو جاؤ گے اپنے نفسوں پر ایک موت وارد کر لو گے تو میں تمہیں انتہائی اور عظیم انعام بھی دوں گا.پس ہم میں سے ہر ایک شخص کا (انفرادی حیثیت میں بھی اور جماعت کا بحیثیت جماعت ) فرض ہے کہ وہ آگے بڑھے اور اس نازک اور اہم وقت میں انتہائی قربانیوں کو اپنے رب کے قدموں میں جار کھے تاکہ اپنے رب کی پیار بھری نگاہ کا وہ مستحق اور وارث قرار دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہماری مدد کے لئے آسمانوں سے اتریں اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہماری زندگیوں میں پورا ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر دل میں گاڑ دی جائے گی“.روزنامه الفضل ربوه ۹ /جنوری ۱۹۶۸ ء صفحه ۲ تا ۵) 谢谢谢

Page 1050

Page 1051

صفحہ نمبر ۵۱ 1+9 11 + ۱۲۸ ۱۳۷ ۱۴۱ ۱۴۱ ۱۴۸ ۲۳۹ ۲۴۰ ۲۶۰ ۲۶۱ ۲۶۱ ۱۰۳۵ خطبات ناصر جلد اول حوالہ جات جلد اوّل حوالہ جات خطبه جمعه فرموده ۲۰ / مارچ ۱۹۱۴ء الفضل مورخه ۲۵ / مارچ ۱۹۱۴، صفحه ۱۶ اقرب الموارد زیر مادہ رمض“ روح البیان جلد اول زیر سورة البقرة آیت نمبر ۲۳ صحيح البخاری کتاب المرضى باب تمنى المريض الموت مسند احمد بن حنبل مسند عائشة رضى الله عنها سنن الترمذى ابواب المناقب باب في فضل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم تذکره مطبوعه ۲۰۰۴ء صفحه ۴۰۹ کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۷،۲۶ ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸۲،۳۸۱ الفضل ربوه ۲ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحه ۵ نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۲، ۴۰۳ ملفوظات جلد ششم صفحہ ۱۱۸ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۲۲ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۸ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۶۲ نمبر شمار ۴ ۶ ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵

Page 1052

خطبات ناصر جلد اول نمبر شمار ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ٣١ ٣٢ ۳۳ ۳۴ ۳۵ حوالہ جات لجنة النور، روحانی جلد ۱۶ صفحه ۳۴۰،۳۳۹ تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۰،۴۰۹ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۳۱،۴۳۰ فریاد درد، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۸۴ فریاد درد، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۸۵ الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۳۰۷ الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۳۱۸ ملفوظات جلد ہشتم صفحہ ۱۵۷ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن المنجد زیر ماده ع زر “ المفردات فی غریب القرآن زیر ماده ن صر“ روزنامه الفضل قادیان ۱۹ نومبر ۱۹۴۰ء صفحه ۵،۴ روزنامه الفضل قادیان ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۶ ء صفحه ۱ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ صفحه ۳۱،۳۰ روزنامه الفضل ربوه ۱۵ مارچ ۱۹۵۷ء صفحه ۴ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴ سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۷۳،۷۲ سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۷۴ الحکم ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۷ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۲، ۴۱۳ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۱۸۸ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ نمبر ۲۶۱ ۲۶۳ ۲۸۸ ۲۸۹ ۲۸۹ ۳۵۲ ۳۵۳ ۳۶۰ ۳۸۵ ۳۸۶ ۴۳۲ ۴۳۴ ۴۳۴ ۴۳۵ ۶۶۹ ۶۷۲ ۶۷۳ ۶۷۴ ۶۸۱

Page 1053

۱۰۳۷ خطبات ناصر جلد اول نمبر شمار حوالہ جات ایک عیسائی کے تین سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۱۷۳ کتاب البریه ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۹۲ براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۴۰،۵۳۹ ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۴۱، ۳۴۲ مرأة الحقائق مجموعہ فتاوی احمد یہ جلد ۳ صفحه ۲۶ مرتبه محمد فضل چنگوی القاموس المحيط باب الباء فصل الجيم چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۷۴ تا ۷۶ چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۰ تا ۹۴ احمدیت یعنی حقیقی اسلام انوار العلوم جلد ۸ صفحه ۳۱۶ براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۴۳،۵۴۲ مرأة الحقائق مجموعہ فتاوی احمد یہ جلد ۳ صفحه ۱۵ مرتبه محمد فضل چنگوی تفسیر ابن کثیر زیر سورة التوبة آية ١٢٣ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶ ۲ تا ۲۳۱ براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۷۲ تا ۵۷۴ بركات الدعاء، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۰،۹ بركات الدعاء، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۳ ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۹،۲۳۸ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۸ ملفوظات جلدا صفحہ ۴۷۵ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن ریویو آف ریلیجنزار دوجلد ا نمبر ۵ صفحه ۱۹۰،۱۸۹ صفحہ نمبر ۶۸۱ ۶۸۲ ۶۸۵ ۶۸۸ ۶۹۱ ۶۹۳ ۶۹۵ ۶۹۷ 2 +1 ۷۰۳ ۷۰۴ ۷۱۲ ۷۲۶ ۷۲۹ ۷۳۱ ۷۳۱ ۷۳۲ ۷۳۷ ۷۴۲ ۷۴۳ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۱ ۴۲ ۴۳ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴

Page 1054

خطبات ناصر جلد اول نمبر شمار ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۱۰۳۸ حوالہ جات لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷۴ ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۷۸ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۸۲،۸۱ براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۳۳ الحکم جلد ۶ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ صفحه ۶ تا ۸ صفحہ نمبر ۷۴۴ ۷۴۶ ۷۵۳ ۷۵۳ ۸۰۸ ۸۰۸ ۹۳۹ ۹۴۷ ۹۴۹ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ تا ۲۰ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲، ۱۳ سنن الدار القطنى كتاب العيدين بَابُ صِفَةِ صَلَاةِ الْخُسُونِ وَالْكُسُوفِ وَهَيْئَتِهِمَا مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۱۸۲، ۱۸۳ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۹،۲۶۸ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴

Page 1055

خطبات ناصر جلد اوّل ۱۰۳۹ خطبات جمعہ فہرست خطبات جمعہ جو حضور انور نے ارشاد نہیں فرمائے.یا ارشاد فرمائے لیکن متن دستیاب نہیں ہوا.یا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا یا نہیں.نمبر شمار وہ خطبات جو جلد میں شامل نہیں اس کی وجہ تاریخ خطبہ حوالہ ا حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۹/ نومبر ۱۹۶۵ء الفضل ربوه ۸ / دسمبر ۱۹۶۵ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۴ مارچ ۱۹۶۶ ء الفضل ربوه ۶ / مارچ ۱۹۶۶ ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ٨ / جولائی ۱۹۶۶ ء الفضل ربوہ ۱۰ جولائی ۱۹۶۶ ء صفحہ ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۲ اگست ۱۹۶۶ ء الفضل ربوه ۱۴ / اگست ۱۹۶۶ صفحه ۱ شعبہ ز و دنویسی کے ریکارڈ کے مطابق حضور انور نے خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲ ستمبر ۱۹۶۶ء ۶ v شعبه ز ودنویسی کے ریکارڈ کے مطابق حضور انور نے خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۳۰ ستمبر ۱۹۶۶ء حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۲ دسمبر ۱۹۶۶ء الفضل ربوه ۴ / دسمبر ۱۹۶۶ ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۹ / دسمبر ۱۹۶۶ ء الفضل ربوہ ۱ ار دسمبر ۱۹۶۶ء صفحه ا و حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا فروری ۱۹۶۷ء الفضل ربوه ۵ فروری ۱۹۶۷ء صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۷ ار فروری ۱۹۶۷ء الفضل ربوه ۲۱ فروری ۱۹۶۷ صفحه ۱ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۴ را پریل ۱۹۶۷ء الفضل ربوہ ۱۶ ارا پریل ۱۹۶۷ صفحہ ۱ شعبہ زود نویسی کے ریکارڈ کے مطابق حضور انور نے خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱/۲۸ پریل ۱۹۶۷ء ۱۰ ۱۲ 1 ۱۳ ۱۴ حضور انور نے خطبہ ارشادفرمایا لیکن تاحال متن نہیں مل سکا ۱۲۱ جولائی ۱۹۶۷ء الفضل ربوہ ۲۴ جولائی ۱۹۶۷ صفحہ۱ حضور انورلندن مقیم تھے لیکن خطبہ کی تفصیل معلوم نہیں ۱۸ / اگست ۱۹۶۷ء ۱۵ حضور انور نے بوجہ نا سازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۶ اکتوبر ۱۹۶۷ء الفضل ربوه ۸/اکتوبر ۱۹۶۷ صفحه ۱ ۱۶ حضور انور نے بوجہ ناسازی طبع خطبہ ارشاد نہیں فرمایا ۱۰ نومبر ۱۹۶۷ء الفضل ربوہ ۱۲ نومبر ۱۹۶۷ ، صفحہ ۱

Page 1056

Page 1056